فہرست مضامین
- انتخاب یاسؔ یگانہ چنگیزی
- انتخاب: سعدیہ آصف
- آپ سے آپ عیاں شاہد معنی ہو گا
- ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا
- اگر اپنی چشم نم پر مجھے اختیار ہوتا
- بیٹھا ہوں پاؤں توڑ کے تدبیر دیکھنا
- جب حسن بے مثال پر اتنا غرور تھا
- چلتا نہیں فریب کسی عذر خواہ کا
- چلے چلو جہاں لے جائے ولولہ دل کا
- خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
- دنیا کا چلن ترک کیا بھی نہیں جاتا
- روشن تمام کعبہ و بت خانہ ہو گیا
- سایہ اگر نصیب ہو دیوار یار کا
- قصہ کتاب عمر کا کیا مختصر ہوا
- قیامت ہے شب وعدہ کا اتنا مختصر ہونا
- ہنوز زندگی تلخ کا مزہ نہ ملا
- واں نقاب اٹھی کہ صبح حشر کا منظر کھلا
- وحشت تھی ہم تھے سایہ دیوار یار تھا
- آپ میں کیونکر رہے کوئی یہ ساماں دیکھ کر
- دل لگانے کی جگہ عالم ایجاد نہیں
- یکساں کبھی کسی کی نہ گزری زمانے میں
- انتخاب: سعدیہ آصف
انتخاب یاسؔ یگانہ چنگیزی
انتخاب: سعدیہ آصف
آپ سے آپ عیاں شاہد معنی ہو گا
ایک دن گردش افلاک سے یہ بھی ہو گا
آنکھیں بنوایئے پہلے ذرا اے حضرت قیس
کیا انہیں آنکھوں سے نظارہ لیلیٰ ہو گا
شوق میں دامن یوسف کے اڑیں گے ٹکڑے
دست گستاخ سے کیا دور ہے یہ بھی ہو گا
لاکھوں اس حسن پہ مر جائیں گے دیکھا دیکھی
کوئی غش ہو گا کوئی محو تجلی ہو گا
حسن ذاتی بھی چھپائے سے کہیں چھپتا ہے
سات پردوں سے عیاں شاہد معنی ہو گا
ہوش اڑیں گے جو زمانے کی ہوا بگڑے گی
چار ہی دن میں خزاں گلشن ہستی ہو گا
اور امڈے گا دل زار جہاں تک چھیڑو
یہ بھی کیا کوئی خزانہ ہے کہ خالی ہو گا
یہ تو فرمایئے کیا ہم میں رہے گا باقی
دل اگر درد محبت سے بھی خالی ہو گا
اک چلو سے بھی کیا یاسؔ رہو گے محروم
بزم مے ہے تو کوئی صاحب دل بھی ہو گا
٭٭٭
ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا
نہ جانے سہو قلم ہے کہ شاہکار قلم
بلائے حسن نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا
نگاہ ڈال دی جس پر وہ ہو گیا اندھا
نظر نے رنگ تصرف دکھائے ہیں کیا کیا
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمیں میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
گزر کے آپ سے ہم آپ تک پہنچ تو گئے
مگر خبر بھی ہے کچھ پھیر کھائے ہیں کیا کیا
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
خوشی میں اپنے قدم چوم لوں تو زیبا ہے
وہ لغزشوں پہ مری مسکرائے ہیں کیا کیا
خدا ہی جانے یگانہ ؔ میں کون ہوں کیا ہوں
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا
٭٭٭
اگر اپنی چشم نم پر مجھے اختیار ہوتا
تو بھلا یہ راز الفت کبھی آشکار ہوتا
ہے تنک مزاج صیاد کچھ اپنا بس نہیں ہے
میں قفس کو لے کے اڑتا اگر اختیار ہوتا
یہ ذرا سی اک جھلک نے دل و جاں کو یوں جلایا
تری برق حسن سے پھر کوئی کیا دوچار ہوتا
اجی توبہ اس گریباں کی بھلا بساط کیا تھی
یہ کہو کہ ہاتھ الجھا نہیں تار تار ہوتا
وہ نہ آتے فاتحہ کو ذرا مڑ کے دیکھ لیتے
تو ہجوم یاسؔ اتنا نہ سر مزار ہوتا
٭٭٭
بیٹھا ہوں پاؤں توڑ کے تدبیر دیکھنا
منزل قدم سے لپٹی ہے تقدیر دیکھنا
آوازے مجھ پہ کستے ہیں پھر بندگان عشق
پڑ جائے پھر نہ پاؤں میں زنجیر دیکھنا
مردوں سے شرط باندھ کے سوئی ہے اپنی موت
ہاں دیکھنا فلک پیر دیکھنا
ہوش اڑ نہ جائیں صنعت بہزاد دیکھ کر
آئینہ رکھ کے سامنے تصویر دیکھنا
پروانے کر چکے تھے سرانجام خودکشی
فانوس آڑے آ گیا تقدیر دیکھنا
شاید خدانخواستہ آنکھیں دغا کریں
اچھا نہیں نوشتہ تقدیر دیکھنا
باد مراد چل چکی لنگر اٹھاؤ یاسؔ
پھر آگے بڑھ کے خوبی تقدیر دیکھنا
٭٭٭
جب حسن بے مثال پر اتنا غرور تھا
آئینہ دیکھنا تمہیں پھر کیا ضرور تھا
چھپ چھپ کے غیر تک تمہیں جانا ضرور تھا
تھا پیچھے پیچھے میں بھی مگر دور دور تھا
ملک عدم کی راہ تھی مشکل سے طے ہوئی
منزل تک آتے آتے بدن چور چور تھا
دو گھونٹ بھی نہ پی سکے اور آنکھ کھل گئی
پھر بزم عیش تھی نہ وہ جام سرور تھا
واعظ کی آنکھیں کھل گئیں پیتے ہی ساقیا
یہ جام مے تھا یا کوئی دریائے نور تھا
کیوں بیٹھے ہاتھ ملتے ہو اب یاسؔ کیا ہوا
اس بے وفا شباب پر اتنا غرور تھا
٭٭٭
چلتا نہیں فریب کسی عذر خواہ کا
دل ہے بغل میں یا کوئی دفتر گناہ کا
اب کیا لگے گا دل چمن روزگار میں
مارا ہوا ہے دیدہ عبرت نگاہ کا
دنیا مقام ہو نظر آئے گی ناگہاں
ٹوٹے گا جب طلسم فریب نگاہ کا
دل کائنات عشق میں شاہوں کا شاہ ہے
مختار کل تمام سفید و سیاہ کا
ثابت ہوا کسی پہ نہ جرم وفا کبھی
پردہ کھلا نہ عشق سراپا گناہ کا
٭٭٭
چلے چلو جہاں لے جائے ولولہ دل کا
دلیل راہ محبت ہے فیصلہ دل کا
ہوائے کوچہ قاتل سے بس نہیں چلتا
کشاں کشاں لیے جاتا ہے ولولہ دل کا
گلہ کسے ہے کہ قاتل نے نیم جاں چھوڑا
تڑپ تڑپ کے نکالوں گا حوصلہ دل کا
خدا بچائے کہ نازک ہے ان میں ایک سے ایک
تنک مزاجوں سے ٹھہرا معاملہ دل کا
دکھا رہا ہے یہ دونوں جہاں کی کیفیت
کرے گا ساغر جم کیا مقابلہ دل کا
ہوا سے وادی وحشت میں باتیں کرتے ہو
بھلا یہاں کوئی سنتا بھی ہے گلہ دل کا
قیامت آئی کھلا راز عشق کا دفتر
بڑا غضب ہوا پھوٹا ہے آبلہ دل کا
کسی کے ہو رہو اچھی نہیں یہ آزادی
کہ یاسؔ کچھ تو نکل جائے حوصلہ دل کا
٭٭٭
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
پیام زیر لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی رہا نہ گیا
ہنسی میں وعدہ فردا کو ٹالنے والو
لو دیکھ لو وہی کل آج بن کے آ نہ گیا
گناہ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لیے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا
پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا
خدا تھے اتنے مگر کوئی آڑے آ نہ گیا
سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانہ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا
کروں تو کس سے کروں درد نارسا کا گلہ
کہ مجھ کو لے کے دل دوست میں سما نہ گیا
بتوں کو دیکھ کے سب نے خدا کو پہچانا
خدا کے گھر تو کوئی بندہ خدا نہ گیا
کرشن کا ہوں پجاری علی کا بندہ ہوں
یگانہؔ شان خدا دیکھ کر رہا نہ گیا
٭٭٭
دنیا کا چلن ترک کیا بھی نہیں جاتا
اس جادہ باطل سے پھرا بھی نہیں جاتا
زندان مصیبت سے کوئی نکلے تو کیونکر
رسوا سر بازار ہوا بھی نہیں جاتا
دل بعد فنا بھی ہے گراں بار امانت
دنیا سے سبک دوش اٹھا بھی نہیں جاتا
کیوں آنے لگے شاہد عصمت سر بازار
کیا خاک کے پردے میں چھپا بھی نہیں جاتا
اک معنی بے لفظ ہے اندیشہ فردا
جیسے خط قسمت کہ پڑھا بھی نہیں جاتا
٭٭٭
روشن تمام کعبہ و بت خانہ ہو گیا
گھر گھر جمال یار کا فسانہ ہو گیا
صورت پرست کب ہوئے معنی سے آشنا
عالم فریب طور کا افسانہ ہو گیا
چشم ہوس ہے شیفتۂ حسن ظاہری
دل آشنائے معنی بیگانہ ہو گیا
آساں نہیں ہے آگ میں دانستہ کودنا
دیوانہ شوق وصل میں پروانہ ہو گیا
کیفیت حیات تھی دم بھر کی میہماں
لبریز پیتے ہی مرا پیمانہ ہو گیا
اشکوں سے جام بھر گئے ساقی کی یاد میں
کچھ تو مآل مجلس رندانہ ہو گیا
دیر و حرم بھی ڈھ گئے جب دل نہیں رہا
سب دیکھتے ہی دیکھتے ویرانہ ہو گیا
کل کی ہے بات جوش پہ تھا عالم شباب
یادش بخیر آج اک افسانہ ہو گیا
آئینہ دیکھتا ہے گریباں کو پھاڑ کر
وحشی اب اپنا آپ ہی دیوانہ ہو گیا
کیا جانے آج خواب میں کیا دیکھا یاسؔ نے
کیوں چونکتے ہی آپ سے بیگانہ ہو گیا
٭٭٭
سایہ اگر نصیب ہو دیوار یار کا
کیا مرتبہ بلند ہو اپنے مزار کا
وہ دشت ہولناک وہ حب وطن کا جوش
پھر پھر کے دیکھنا وہ کسی بے دیار کا
لو دے رہی ہے شام سے آج آہ آتشیں
شعلہ بھڑک رہا ہے دل داغ دار کا
تصویر نزع دیکھنا چاہو تو دیکھ لو
رہ رہ کے جھلملانا چراغ مزار کا
پر تولنے لگے پھر اسیران بدنصیب
شاید قریب آ گیا موسم بہار کا
موئے سفید کانپتے ہاتھ اور جام مے
دکھلا رہے ہیں رنگ خزاں میں بہار کا
انگڑائیوں کے ساتھ کہیں دم نکل نہ جائے
آساں نہیں ہے رنج اٹھانا خمار کا
ساقی گرا نہ دیجیو یہ جام آخری
دل ٹوٹ جائے گا کسی امیدوار کا
مستوں کی روحیں بھٹکیں گی اچھا نہیں ہے اب
گھر گھر کے آنا قبروں پر ابر بہار کا
دیکھو تو اپنے وحشیوں کی جامہ زیبیاں
اللہ رے حسن پیرہن تار تار کا
جرم گزشتہ عفو کن و ماجرا مپرس
مارا ہوا ہوں اس دل بے اختیار کا
دنیا سے یاسؔ جانے کو جی چاہتا نہیں
اللہ رے حسن گلشن نا پائیدار کا
٭٭٭
قصہ کتاب عمر کا کیا مختصر ہوا
رخ داستان غم کا ادھر سے ادھر ہوا
ماتم سرائے دہر میں کس کس کو روئیے
اے وائے درد دل نہ ہوا درد سر ہوا
تسکین دل کو راز خودی پوچھتا ہے کیا
کہنے کو کہہ دوں اور اگر الٹا اثر ہوا
آزاد ہو سکا نہ گرفتار شش جہت
دل مفت بندہ ہوس بال و پر ہوا
دنیا کے ساتھ دین کی بیگار الاماں
انسان آدمی نہ ہوا جانور ہوا
فردا کا دھیان باندھ کے کہتا ہے مجھ سے دل
تو میری طرح کیوں نہ وسیع النظر ہوا
فردا کو دور ہی سے ہمارا سلام ہے
دل اپنا شام ہی سے چراغ سحر ہوا
٭٭٭
قیامت ہے شب وعدہ کا اتنا مختصر ہونا
فلک کا شام سے دست و گریبان سحر ہونا
شب تاریک نے پہلو دبایا روز روشن کا
زہے قسمت مرے بالیں پہ تیرا جلوہ گر ہونا
ہوائے تند سے کب تک لڑے گا شعلہ سرکش
عبث ہے خود نمائی کی ہوس میں جلوہ گر ہونا
دیار بے خودی ہے اپنے حق میں گوشہ راحت
غنیمت ہے گھڑی بھر خواب غفلت میں بسر ہونا
وہی ساقی وہی ساغر وہی شیشہ وہی بادہ
مگر لازم نہیں ہر ایک پر یکساں اثر ہونا
سنا کرتے تھے آج آنکھوں سے دیکھیں دیکھنے والے
نگاہ یاسؔ کا سنگین دلوں پر کارگر ہونا
٭٭٭
مجھے دل کی خطا پر یاسؔ شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے
بہانہ کر کے تنہا پار اتر جانا نہیں آتا
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
دل بے حوصلہ سے اک ذرا سے ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پئے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں میں کیا بتاؤں کون ہوں کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا
٭٭٭
ہنوز زندگی تلخ کا مزہ نہ ملا
کمال صبر ملا صبر آزما نہ ملا
مری بہار خزاں جس کے اختیار میں ہے
مزاج اس دل بے اختیار کا نہ ملا
جواب کیا وہی آواز بازگشت آئی
قفس میں نالہ جاں کا مجھے مزہ نہ ملا
امیدوار رہائی قفس بدوش چلے
جہاں اشارہ توفیق غائبانہ ملا
ہوا کے دوش پہ جاتا ہے کاروان نفس
عدم کی راہ میں کوئی پیادہ پا نہ ملا
ہزار ہاتھ اسی جانب ہے منزل مقصود
دلیل راہ کا غم کیا ملا ملا نہ ملا
بس اک نقطہ فرضی کا نام ہے کعبہ
کسی کو مرکز تحقیق کا پتا نہ ملا
امید و بیم نے مارا مجھے دورا ہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا
خوشا جسے نصیب فیض عشق شور انگیز
بقدر ظرف ملا ظرف سے سوا نہ ملا
سمجھ میں آ گیا جب عذر فطرت مجبور
گناہ گار ازل کو نیا بہانہ ملا
بجز ارادہ پرستی خدا کو کیا جانے
وہ بدنصیب جسے بخت نارسا نہ ملا
نگاہ یاسؔ سے ثابت ہے سعی لاحاصل
خدا کا ذکر تو کیا بندہ خدا نہ ملا
٭٭٭
واں نقاب اٹھی کہ صبح حشر کا منظر کھلا
یا کسی کے حسن عالم تاب کا دفتر کھلا
غیب سے پچھلے پہر آتی ہے کانوں میں صدا
اٹھو اٹھو رحمت رب علا کا در کھلا
آنکھ جھپکی تھی تصور بندھ چکا تھا یار کا
چونکتے ہی حسرت دیدار کا دفتر کھلا
کوئے جاناں کا سماں آنکھوں کے آگے پھر گیا
صبح جنت کا جو اپنے سامنے منظر کھلا
رنگ بدلا پھر ہوا کا مے کشوں کے دن پھرے
پھر چلی باد صبا پھر مے کدے کا در کھلا
آ تہی ہے صاف بوئے سنبل باغ جناں
گیسوئے محبوب شاید مری میت پر کھلا
چار دیوار عناصر پھاند کر پہنچے کہاں
آج اپنا زور عرش اعظم پر کھلا
چپ لگی مجھ کو گناہ عشق ثابت ہو گیا
رنگ چہرے کا اڑا راز دل مضطر کھلا
اشک خون سے زرد چہرے پر ہے کیا طرفہ بہار
دیکھیے رنگ جنوں کیسا مرے منہ پر کھلا
خنجر قاتل سے جنت کی ہوا آنے لگی
اور بہار زخم سے فردوس کا منظر کھلا
نیم جاں چھوڑا تری تلوار نے اچھا کیا
ایڑیاں بسمل نے رگڑیں صبر کا جوہر کھلا
صحبت واعظ میں بھی انگڑائیاں آنے لگیں
راز اپنی مے کشی کا کیا کہیں کیونکر کھلا
ہاتھ الجھا ہے گریباں میں تو گھبراؤ نہ یاسؔ
بیڑیاں کیونکر کٹیں زنداں کا در کیونکر کھلا
٭٭٭
وحشت تھی ہم تھے سایہ دیوار یار تھا
یا یہ کہو کہ سر پہ کوئی جن سوار تھا
بگڑا چمن میں کل ترے وحشی کا جب مزاج
جھونکا نسیم کا بھی اسے ناگوار تھا
لالے کا داغ دیکھ کے چتون بدل گئی
تیور سے صاف راز جنوں آشکار تھا
پہلے تو آنکھیں پھاڑ کے دیکھا ادھر ادھر
دامن پھر اک اشارے میں بس تار تار تھا
اللہ رے توڑ نیچی نگاہوں کے تیر کا
اف بھی نہ کرنے پائے تھے اور دل کے پار تھا
نیرنگ حسن و عشق کی وہ آخری بہار
تربت تھی میری اور کوئی اشک بار تھا
جھک جھک کے دیکھتا ہے فلک آج تک اسے
جس سرزمیں پہ میرا نشان مزار تھا
ساحل کے پاس یاسؔ نے ہمت بھی ہار دی
کچھ ہاتھ پاؤں مارتا ظالم تو پار تھا
٭٭٭
آپ میں کیونکر رہے کوئی یہ ساماں دیکھ کر
شمع عصمت کو بھری محفل میں عریاں دیکھ کر
دل کو بہلاتے ہو کیا کیا آرزوئے خام سے
امر ناممکن میں گویا رنگ امکاں دیکھ کر
کیا عجب ہے بھول جائیں اہل دل اپنا بھی درد
حسن مستانہ کو آخر میں پشیماں دیکھ کر
ڈھونڈتے پھرت ہو اب ٹوٹے ہوئے دل میں پناہ
درد سے خالی دل گبرو مسلماں دیکھ کر
دل جلا کر وادی غربت کو روشن کر چلے
خوب سوجھی جلوہ شام غریباں دیکھ کر
امتیاز صورت و معنی سے بیگانہ ہوا
آئینے کو آئینہ حیراں کو حیراں دیکھ کر
پیرہن میں کیا سما سکتا حباب جاں بلب
ہستی موہوم کا خواب پریشاں دیکھ کر
صبر کرنا سخت مشکل ہے تڑپا سہل ہے
اپنے بس کا کام کر لیتا ہوں آساں دیکھ کر
اور کیا ہوتی یگانہؔ درد عصیاں کی دوا
کیا غزل یاد آئی واللہ فرد عصیاں دیکھ کر
٭٭٭
دل لگانے کی جگہ عالم ایجاد نہیں
خواب آنکھوں نے بہت دیکھے مگر یاد نہیں
آج اسیروں میں وہ ہنگامہ فریاد نہیں
شاید اب کوئی گلستاں کا سبق یاد نہیں
سر شوریدہ سلامت ہے مگر کیا کہئے
دست فرہاد نہیں تیشہ فرہاد نہیں
توبہ بھی بھول گئے عشق میں وہ مار پڑی
ایسے اوسان گئے ہیں کہ خدا یاد نہیں
دشمن و دوست سے آباد ہیں دونوں پہلو
دل سلامت ہے تو گھر عشق کا برباد نہیں
فکر امروز نہ اندیشہ فردا کی خلش
زندگی اس کی جسے موت کا دن یاد نہیں
نکہت گل کی ہے رفتار ہوا کی پابند
روح قالب سے نکلنے پہ بھی آزاد نہیں
زندہ ہیں مردہ پرستوں میں ابھی تک غالبؔ
مگر استاد یگانہؔ سا اب استاد نہیں
٭٭٭
یکساں کبھی کسی کی نہ گزری زمانے میں
یادش بخیر بیٹھے تھے کل آشیانے میں
صدمے دیے تو صبر کی دولت بھی دے گا وہ
کس چیز کی کمی ہے سخی کے خزانے میں
غربت کی موت بھی سبب ذکر خیر ہے
گر ہم نہیں تو نام رہے گا زمانے میں
دم بھر میں اب مریض کا قصہ تمام ہے
کیونکر کہوں یہ رات کٹے گی فسانے میں
ساقی میں دیکھتا ہوں زمیں آسماں کا فرق
عرش بریں میں اور ترے آستا نے میں
دیواریں پھاند پھاند کے دیوانے چل بسے
خاک اڑ رہی ہے چار طرف قید خانے میں
صیاد اس اسیری پہ سو جاں سے میں فدا
دل بستگی قفس کی کہاں آشیانے میں
ہم ایسے بدنصیب کہ اب تک نہ مر گئے
آنکھوں کے آگے آگ لگی آشیانے میں
دیوانے بن کے ان کے گلے سے لپٹ بھی جاؤ
کام اپنا کر لو یاسؔ بہانے بہانے میں
٭٭٭
ماخذ:تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید