FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

سر،ساز، وجد اور رقص

 

 

                مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

 

 

 

 

 

اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر اللہ والوں کے عشق و محبت کی باتیں سن کر کچھ لوگوں پر حال طاری ہو جاتا ہے۔۔۔ جذب کی کیفیت آ جاتی ہے۔۔۔ یہ کیفیت انسانوں پر ہی نہیں بلکہ حیوانوں اور جمادات و نباتات پربھی ہے۔ اس کیفیت کے طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کائنات کے ذرہ ذرہ میں موجزن ہے۔ یہ محبت جب پورے شباب پر ہو تو جذب و کیف کی کیفیت طاری ہونا انہونی بات نہیں اور شریعت میں کسی بھی جگہ پر جذب و مستی اور کیفیت و حال کے طاری ہونے کی ممانعت نہیں آئی۔ آیئے قرآن و سنت کے حوالے سے سُر، ساز، موسیقی اور وجد و رقص کے بارے احکامات جانتے ہیں۔

 

قرآن کریم کی روشنی میں

 

٭ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ وَكُنَّا فَاعِلِینَ.

(الانبیاء، 21 : 79)

’’اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد (علیہ السلام) کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے‘‘۔

1۔ قاضی بیضاوی اور امام آلوسی فرماتے ہیں کہ پہاڑ، پتھر، پرندے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ آپ کی موافقت و پیروی میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بولتے، تسبیح و تحمید کرتے۔ (قاضی بیضاوی م791ھ، انوار التنزیل واسرار التاویل، 2۔ 37، طبع مصر) (ابوالفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی م 1270ھ۔ روح المعانی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی طبع ملتان17/76)

2۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

1۔ داؤد علیہ السلام اپنے پروردگار کا ذکر کرتے تو آپ کے ساتھ پہاڑ اور پرندے اپنے رب کا ذکر کرتے۔

2۔ داؤد علیہ السلام تسبیح کرتے تو پہاڑ اور پرندے جواب دیتے۔

3۔ داؤد علیہ السلام جب ذکر کے بعد خاموش ہوتے تو اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو تسبیح کا حکم دیتے، وہ تسبیح پڑھتے تو آپ کا ذوق و شوق بڑھ جاتا۔

(امام فخرالدین رازی، تفسیر کبیر، 22۔ 199 ) طبع

فرمان باری تعالیٰ ہے :

إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہُ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْإِشْرَاقِo

’’بے شک ہم نے پہاڑوں کو اُن کے زیرِ فرمان کر دیا تھا، جو (اُن کے ساتھ مل کر) شام کو اور صبح کو تسبیح کیا کرتے تھے‘‘۔ (ص، 38 : 18)

1۔ اس آیت مبارکہ کے حوالے سے امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلی صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کے حجم میں زندگی، عقل، قدرۃ اور قوت گویائی پیدا فرما دی۔ لہذا پہاڑ اور پرندے آپ کے ساتھ تسبیح کرتے۔ اس کی نظیر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبَّہ لِلْجَبَل. جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ میں عقل و فہم پیدا فرما دیا پھر اس میں اللہ تعالیٰ نے دیدار رکھ دیا، یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔

دوسری صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو اتنی اونچی اور خوبصورت آواز دی تھی کہ تمام پہاڑوں کے ساتھ وہ سریلی بلند آواز گونجتی تھی۔ اس سریلی آواز پر چرند پرند بھی جمع ہو جاتے اور نغمات لاہوتی کا رنگ ہر چیز پر جم جاتا اور ساری کائنات آپ کی ہمنوا ہو جاتی۔

تیسری صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں کم ہی کسی کو اتنی خوبصورت سریلی آواز دی ہو گی۔ جب زبور پڑھتے تو وحشی جانور بلا جھجک آپ کے پاس جمع ہو جاتے یہاں تک کہ آپ ان کو گردنوں سے پکڑ لیتے۔

چوتھی صورت یہ کہ اللہ پاک نے پہاڑ آپ کے ساتھ مسخر کر دیئے اور داؤد علیہ السلام جہاں جانا چاہتے پہاڑ آپ کے ہمراہ چلتے۔

(الامام الرازی، تفسیر کبیر ج26۔ 185 )

2۔ امام قرطبی، الجامع لاحکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ

کان داؤد یمر بالجبال مسجا والجبال تجاور بالتسبیح وکذلک الطیر وقیل کان داؤد اذا وجد فترة امرالجبال فسبحت حتی یشتاق ولہذا قال (وسخرنا) ای جعلنا ہا بحیث تطیعہ اذا امرہا بالتسبیح وقیل ان سیرہا معہ تسبحیہا….. وکل محتمل.

’’داؤد علیہ السلام پہاڑوں سے تسبیح و تقدیس کرتے گذرتے تو پہاڑ جواب میں تسبیح کرتے، یونہی (پرندے) اور کہا گیا ہے جب داؤد علیہ السلام اُدھر سے رابطہ میں انقطاع محسوس کرتے، پہاڑوں کو تسبیح و تقدیس (ذکر محبوب) کا حکم دیتے۔ وہ تسبیح کرتے یہاں تک ذوق و شوق کی لذت سے بہرہ ور ہوتے، اسی لئے فرمایا ہم نے پہاڑوں کو اس کے لئے مسخر کر دیا یوں کہ وہ آپ کی اطاعت کرتے جب بھی آپ ان کو تسبیح کا حکم کرتے اور کہا گیا ہے کہ پہاڑوں، پرندوں اور درندوں کا آپ کے ساتھ چلنا ہی ان کی تسبیح تھی اور یہ سب احتمالات ممکن ہیں‘‘۔

(ابوعبداللہ محمد بن احمد انصاری القرطبی. الجامع لاحکام القرآن ج 11. ص 212)

 

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

 

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور علیہ السلام ایک غزوہ سے لوٹے، ایک سانولے رنگ کی لڑکی حاضر خدمت ہوئی۔ عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ پاک آپ کو بحفاظت واپس لایا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے دف بجاؤں گی۔ فرمایا :

ان کنت نذرت فافعلی والا فلا قالت انی کنت نذرت.

’’اگر تو نے نذر مانی تھی تو پوری کر، ورنہ رہنے دے۔ اس نے عرض کی میں نے نذر مانی تھی‘‘۔

فعقد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیٹھ گئے اور اس لڑکی نے دف بجایا۔

(امام احمد بن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج 5، ص 356 طبع بیروت)

علامہ ابنِ منظور افریقی، لسان العرب میں غناء (گانا) کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

کل من رفع صوتہ و والاہ فصوتہ عندالعرب غناء…

’’اونچی اور اچھی آواز سے مسلسل گانا عربوں کے ہاں غناء یعنی گانا ہے‘‘۔

(علامہ ابن منظور افریقی ’’لسان العرب‘‘ ج 10/135 طبع بیروت)

٭ امام بخاری ’’باب الشعر فی المسجد‘‘ میں مشہور حدیث لائے ہیں۔

یا حسان اجب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم. اللہم ایدہ بروح القدس.

’’حسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے گستاخ، شعراء کو جواب دو۔ اے اللہ اس (حسان) کی مدد فرما روح القدس (جبریل علیہ السلام) کے ذریعہ‘‘۔

شارح بخاری علامہ بدارلدین عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کی شرح میں فرماتے ہیں :

ان الشعرا المشتمل علی الحق مقبول بدلیل دعاء النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لحسان علی شعرہ فاذا کان کذلک لا یمنع فی المسجد کسائر الکلام المقبول.

(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج 4۔ 217 طبع کوئٹہ)

’’وہ شعر جو حق پر مشتمل ہو مقبول ہے۔ اس دلیل سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حسان کو ان کی شاعری پر دعا فرمائی۔ جب حقیقت یہ ہے کہ جس طرح باقی کلام مقبول مسجد میں منع نہیں شعر بھی منع نہیں‘‘۔

علامہ عینی مزید فرماتے ہیں : ’’اس میں دلیل ہے کہ سچا شعر مسجد میں سننا، سنانا حرام نہیں، حرام وہ ہے جس میں بیہودگی اور جھوٹ ہو اور وہ اخلاق سے گرا ہوا ہو۔ اس کی دلیل سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جس کو امام ترمذی نے اپنی تائید و تصحیح کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر بچھایا کرتے جس پر کھڑے ہو کر وہ کفار کی ہجو کرتے تھے‘‘۔

ابو نعیم اصبہانی نے کتاب المساجد میں لکھا ہے کہ دور جاہلیت کے گندے اور باطل اشعار مساجد (یا کسی بھی جگہ) ممنوع ہیں۔ رہے اسلامی اور حقیقت پر مبنی اشعار ان کی اجازت ہے، وہ ممنوع نہیں۔ امام شعبی، عامر بن سعد، محمد بن سیرین، سعید بن المسیب، القاسم، الثوری، الاوزاعی، ابوحنیفہ، مالک، شافعی، احمد، ابو یوسف، محمد، اسحق، ابو ثور، ابو عبید رضی اللہ عنہم نے کہا، اس شعر کے پڑھنے گانے میں کوئی حرج نہیں جس میں کسی کی ناحق ہجو نہ ہو۔ کسی مسلمان کی عزت کو پامال نہ کیا جائے۔ جس میں فحاشی نہ ہو۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری للعینی ج 4۔ 219)

٭ سیدہ ربیع بنت معوذ بن عضراء سے روایت ہے میری شادی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے گھر تشریف لائے۔۔۔ لڑکیوں نے دف بجانا شروع کر دیا اور غزوہ بدر میں شہید ہونے والے میرے بزرگوں کے محاسن بیان کرنے لگے۔ ایک لڑکی نے یہ مصرع گایا۔

وفینا نبی یعلم ما فی غد.

’’ہم میں وہ نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں۔ فرمایا اسے چھوڑ اور جو گا رہی تھی وہی گاؤ‘‘۔ (بخاری)

اس سے دف بجانا اور گانا گانا مسنون معلوم ہوا۔

٭ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک عورت کی ایک انصاری سے شادی ہو رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

ماکان معکم لہو فان الانصار یعجبہم اللہو.

’’تمہارے ہمراہ کوئی کھیل تماشا نہیں، انصار کو کھیل تماشا پسند ہے‘‘۔ (بخاری)

٭ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

اعلنوا ہذا النکاح واجعلوہ فی المساجد واضربوا علیہ بالدفوف.

’’اس نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجد میں کرو اور اس پر (مسجد کے باہر) ڈھول دف بجاؤ‘‘۔ (ترمذی)

٭ حضرت محمد بن حاطب الجمعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

فصل مابین الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح.

’’حلال اور حرام (نکاح و زناء) کے درمیان فرق آواز (گانا) اور دف بجانا ہے‘‘۔ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

نکاح میں گانے بھی ہوتے ہیں، دف بھی بجتے ہیں تاکہ خوشی کا اظہار بھی ہو اور ہر ایک کو شادی و نکاح کا پتہ بھی چل جائے جبکہ بدکاری چھپ چھپا کر ہوتی ہے تاکہ کسی کو پتہ نہ چل جائے۔ ان چیزوں کو نادانی سے حرام سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ پیارے آقا علیہ السلام کی سنتیں اور شرعی احکام ہیں۔ علماء کہلانے والوں کو کبھی غور کرنا چاہئے اور کتب حدیث میں کتاب النکاح ضرور پڑھنی چاہئے۔

شب کو روز و روز کو شب تار جو چاہے کرے

تو نے جو چاہا کیا اے یار! جو چاہے کرے

 

فحاشی پھیلانے والے اسباب

 

جو چیز بھی انسان کو نماز، روزہ، والدین کی خدمت، بیوی بچوں کی ضروریات، رزق حلال کمانے سے غافل کریں۔ آدمی اپنے فرائض بجا لانے میں سست ہو، اُن اعمال سے پرہیز ضروری ہے۔ بوڑھے والدین کو ہمہ وقت کھانے پینے میں، دوا و غذا میں، صحت و تفریح میں اولاد کی ضرورت ہے، اسی طرح بعض اوقات دنیاوی مصروفیات یا ذوق و شوق کی بہتات کی وجہ سے بیوی، خاوند کا منہ اور بچے باپ کا منہ دیکھنے کو ترستے ہیں، کاروبار تباہ ہو رہا ہے، بے عملی و بد عملی کا غلبہ ہو رہا ہے، جوڑنے والے رشتے منقطع ہو رہے ہیں، قوم و ملک پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ خداداد صلاحیتیں زنگ آلود ہو رہی ہیں، قیمتی زندگی ضائع ہو رہی ہے۔ ان تمام خرابیوں کی بنیاد نام نہاد رہبانیت و ریاضت ہو، سیاست و تصوف ہو، یا کثرت عبادت ہو، گانا بجانا ہو یا قوالی ہو، واجب الترک ہے۔ اس سے پرہیز ضروری ہے۔ کھاؤ، پیو مگر حد سے نہ بڑھو، کام کرو اور آرام بھی۔ مسجد میں بھی جاؤ کھیت و کھلیان میں بھی۔ منڈی و بازار میں بھی، مکتب و جامعہ میں بھی اور دفتر و کچہری میں بھی مگر توازن نہ ٹوٹے۔ حد اعتدال پر رہو۔

٭ ابن جریح کہتے ہیں میں نے عطاء سے کہا سُر سے قرآن پڑھنا کیسا ہے؟ انہوں نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام یاخذ المعزفة فیعزف بہا علیہ یردد علیہ صوتہ.

’’ساز لے کر بجاتے اور ان پر آواز دہراتے۔

(الحافظ الکبیر ابوبکر عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی ولادت 126ھ/ م 211ھ المصنف ج 2، ص 481)

٭ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

مااذن اللہ لنبی ما اذن لنبی ان یتغنی بالقرآن.

’’کسی نبی کو اللہ تعالیٰ اتنی اجازت نہیں جتنی اپنے نبی کو ترنم سے قرآن پڑھنے کی اجازت دی ہے‘‘۔

(ایضاً ص 483)

٭ حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بالقرآن.

’’وہ ہم میں سے نہیں جس نے قرآن کریم سُر سے نہ پڑھا‘‘۔ (ایضاً)

٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رات کے وقت سورہ بقرہ پڑھ رہے تھے :

وفرسہ مربوطة عندہ اذ جالت الفرس فسکت فسکنت فقرا فجالت فسکت فکسنت ثم قرا فجالت الفرس فانصرف وکان ابنہ یحییٰ قریبا منہا فاشفق ان تصیبہ ولما اخرہ رفع رأسہ الی السمآء فاذا مثلہ انطلہ فیہا مثل المصابیح فلما اصبح حدث النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فقال اقرا یا ابن حضیر اقرا یا ابن حضیر قال فاشفقت یارسول اللہ ان تطأ یحییٰ وکان منہا قریبا فانصرفت الیہ ورفعت راسی الی السمآء فاذا مثل انظلّہ فیہا امثال المصابیح فخرجت حتی لا اراہا قال وتدری ماذاک قال لا قال تلک الملئکة دنت لصوتک ولو قرات لاصبحت ینظر الناس الیہا لا تتواری منہم.

’’ان کا گھوڑا پاس ہی بندھا ہوا تھا، اچانک گھوڑا رقص کرنے لگا آپ نے تلاوت بند کر دی، گھوڑا پرسکون ہو گیا۔ پھر تلاوت شروع ہوئی، گھوڑا وجد کرنے لگا اور یہ چپ ہو گئے پھر قرآن پڑھنے لگے، گھوڑا وجد میں آگیا، یہ چپ ہو گئے، ان کے بیٹے یحییٰ گھوڑے کے قریب تھے یہ گھبرائے کہ گھوڑا اسے تکلیف نہ پہنچائے۔ تلاوت مکمل کر کے آسمان کی طرف دیکھا تو جیسے بادل کا سائبان ہو جس میں چراغ روشن ہوں۔ صبح تمام بات سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سنادی۔ فرمایا حضیر پڑھا کرو، حضیر پڑھا کرو۔ عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں گھبرا گیا کہیں یحییٰ کو لتاڑ نہ دے۔ جو گھوڑے کے قریب تھا میں اس کی طرف لوٹ گیا اور میں سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو جیسے بادل کا سائبان ہو جس میں چراغ ہوں، سو میں باہر نکل گیا کہ وہ نظر نہ آئے۔ فرمایا جانتے ہو وہ کیا تھا؟ بولے نہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! فرمایا تیری آواز سن کر فرشتے آ گئے تھے۔ اگر تم پڑھتے رہتے تو صبح لوگ اسے دیکھتے اور کوئی چیز ان سے چھپی نہ رہتی‘‘۔ (متفق علیہ)

٭ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب سورہ کہف کی تلاوت کر رہے تھے، ان کے پاس ایک عمدہ گھوڑا دو مضبوط رسوں سے بندھا ہوا تھا، بادل اس پر چھا گیا اور اس سے قریب اور مزید قریب ہونے لگا۔ ان کا گھوڑا اچھلنے کودنے لگا۔ صبح سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں سب معاملہ بیان کر دیا سرکار نے فرمایا :

تلک سکینة تنزلت بالقرآن.

’’یہ قرآن پاک کے سبب رحمت و تسکین نازل ہو رہی تھی‘‘۔ (متفق علیہ)

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

ما اذن اللہ لشئی مااذن لنبی حسن الصوت بالقرآن یجہر بہ.

’’اللہ تعالیٰ اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اچھی آواز کے ساتھ اونچی آواز سے جیسے قرآن پڑھنے کا حکم دیا کسی اور چیز کو اچھے لہجہ میں بآواز بلند اس طرح پڑھنے کا حکم نہیں دیا‘‘۔ (متفق علیہ)

٭ انہی سے یہ روایت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

لیس منا من لم یتغن بالقرآن.

’’جس نے قرآن کریم لے اور سُر سے نہیں پڑھا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ (عبدالرزاق المصنف2/483)

٭ حضرت براّ بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

زینوا القرآن باصواتکم.

’’قرآن کریم کو اپنی آواز سے مزین و خوبصورت کرو‘‘۔ (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی)

٭ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے :

حسنوا القرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزید القرآن حسنا.

’’اپنی آوازوں سے قرآن کو حسین بناؤ کہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کرتی ہے‘‘۔ (دارمی)

 

مز مار / سُر، ساز

 

عن ابی موسی ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قال لہ یا ابا موسیٰ لقد اعطیت مز مارا من مزامیر ال داؤد.

 

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ابو موسیٰ! تجھے داؤد علیہ السلام کا ساز و آواز دیئے گئے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)

 

شعر و شاعری

 

1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے سمت مشرق سے دو مرد آئے۔ دونوں نے خطاب (گفتگو) کیا۔ لوگوں نے ان کا بیان پسند کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ مِنَ الْبِیَانِ لَسِحْرًا. (بخاری)

’’بلاشبہ کچھ بیان جادو کے سے ہوتے ہیں‘‘۔

2۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

ان من الشعرحکمة.(بخاری)

’’بے شک کچھ اشعار حکمت سے پُر ہوتے ہیں‘‘۔

 

لبید کی شاعری کی تعریف

 

1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

اَصْدَقُ کَلِمَةٍ قَالَہَا اَلشَّاعِرْ کَلِمَة لَبِیْد.

’’سب سے بڑھ کر سچھی بات جو کسی شاعر نے کہی لبید کا یہ کلام ہے :

اَلاَ کُل شَئٍی مَاخَلاَ اللّٰہُ بَاطِل.

’’سنو اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے‘‘۔ (متفق علیہ)

پورا کلام یوں ہے :

اَلاَ کُل شَئٍی مَاخَلاَ اللّٰہُ بَاطِل

وَکُلُّ نَعِیْم لَا مُحَالَہَ زَائِل

نَعِیْمُکَ فِی الدُّنْیَا غَرُوْرٌ وَ حَسَرَةٌ

وَعَیْشُکَ فِی الدُّنْیَا مَحَال وَبَاطِل.

’’سن لو اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز فانی ہے اور ہر نعمت کو لازمی طور پر ختم ہونا ہے۔ دنیا میں تیری نعمت غرور و حسرت ہے اور دنیا میں تیری دائمی زندگی ناممکن و باطل ہے‘‘۔ (متفق علیہ / باضافہ یسیرۃ)

2۔ عمرو بن الشرید اپنے والد (شرید) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھا تھا۔ فرمایا :

ہل معک من شعر امیة بن ابی الصلت شئی قلت نعم قال ہیہ.

’’تیرے پاس امیہ بن ابی لصلت کا کوئی شعر ہے؟ میں نے عرض کی جی حضور! فرمایا سناؤ میں نے ایک شعر سنا دیا۔ فرمایا : اور سناؤ، میں نے ایک اور شعر سنا دیا فرمایا : اور سناؤ یہاں تک کہ میں نے آپ کو 100 اشعار سنا دیئے‘‘۔ (مسلم)

3۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

غزوہ خندق کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مٹی اٹھا کر خندق سے باہر لائے یہاں تک کہ پیٹ مبارک غبار سے اٹ گیا۔ ساتھ ہی یہ اشعار پڑھتے۔

وَاللّٰہِ لَوْلَا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا

وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا

’’خدا کی قسم اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز ادا کرتے‘‘۔

فَاَنْزِلْنَ سَکِیْنَةً عَلَیْنَا

وَثَبِّتِ الْاَقْدَامَ اِنْ لَاقیْنَا

’’سو ہم پر سکون نازل فرما اور دشمن سے آمنا سامنا ہو تو ہمارے قدم جما دے‘‘۔

اِنَّ الْاُوْلیٰ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا

اِذَا اَرَادُوْا فِتْنَةً اَبیْنَا

’’ان لوگوں نے ہم پر حملہ کیا ہے۔ جب انہوں نے فتنہ کا ارادہ کیا ہم نے انکار کیا۔

ابینا۔ ابینا کا لفظ بلند آواز سے فرماتے‘‘۔ (متفق علیہ)

4۔ حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ (غزوہ احد) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی انگلی مبارک زخمی ہو گئی سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ شعر پڑھا۔

ہَلْ اَنْتَ اِلَّا اِصْبَعٌ دَمِیْت

وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہ مَا لَقِیْت

’’تیری ایک انگلی ہی تو زخمی ہوئی ہے اور یہ صدمہ اللہ کی راہ میں تجھے پہنچا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)

5۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے بنی قریظہ سے جنگ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا : مشرکین کے خلاف شعر کہو۔ جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔ اور یونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا کرتے۔

اَللّٰہُمَّ اَیِّدْہ بِرُوْحِ الْقُدُس.

’’اے اللہ روح القدس (جبریل علیہ السلام) سے اس کی مدد فرما‘‘۔ (متفق علیہ)

6۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، سیدنا حسان بن ثابت سے فرمایا کرتے :

اُہْجُوْا قَرَیْشًا فَاِنَّہ اَشَدُّ عَلَیْہِمْ مِنْ رَشْقِ الْنَبل.

’’قریش کی ہجو کرو! یہ ان پر تیر اندازی سے زیادہ سخت ہے‘‘۔ (مسلم)

7۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سنا حسان ثابت رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے :

لاَ یَزَالُ یُؤَ یِّدُکَ مَانَا فحت عَنِ اللّٰہِ وَرَسُوْلہ.

’’جب تک تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دفاع کرتے ہو، روح القدس (جبریل علیہ السلام) تمہاری مدد و تائید میں رہتے ہیں اور یہ بھی فرمایا :

ہَجَاہُمْ حَسَّان فَشَفٰی وَاشْتَفٰی.

’’حسان (رضی اللہ عنہ) نے دشمنوں کی ہجو کر کے مسلمانوں اور خود اپنے دل کو ٹھنڈا کیا‘‘۔ (مسلم)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے مہاجرین و انصار (صحابہ کرام) خندق کھودتے اور مٹی باہر منتقل کرتے اور یہ اشعار پڑھتے۔

نَحْنُ اَلَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا

عَلَی الْجَہَادِ مَابَقِیْنَا اَبَدًا

’’ہم لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی بھر جہاد کرنے کی بیعت کی ہے‘‘۔

جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے :

اَللّٰہُمَّ لَا عَیْشَ اِلَّا عَیْشَ الْاٰخِرَة

فَاغْفِرِ الْاَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرة

’’اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے، سو انصار و مہاجرین کو بخش دے‘‘۔ (متفق علیہ)

8۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں شعر کی مذمت ان الفاظ میں کی ہے :

وَالشُّعَرَاءُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوُونَO أَلَمْ تَرَ أَنَّہُمْ فِی كُلِّ وَادٍ یَہِیمُونَO وَأَنَّہُمْ یَقُولُونَ مَا لَا یَفْعَلُونَO إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّہَ كَثِیرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنقَلَبٍ یَنقَلِبُونَO (الشعراء : 24 تا 27)

’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیںo کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ (شعراء) ہر وادئ (خیال) میں (یونہی) سرگرداں پھرتے رہتے ہیں (انہیں حق میں سچی دلچسپی اور سنجیدگی نہیں ہوتی بلکہ فقط لفظی و فکری جولانیوں میں مست اور خوش رہتے ہیں)o اور یہ کہ وہ (ایسی باتیں) کہتے ہیں جنہیں (خود) کرتے نہیں ہیںo سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہے (یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدح خواں بن گئے) اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعے اسلام اور مظلوموں کا دفاع کیا بلکہ ان کا جوش بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)، اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا عنقریب جان لیں گے کہ وہ (مرنے کے بعد) کونسی پلٹنے کی جگہ پلٹ کر جاتے ہیںo‘‘۔

معلوم ہوا کہ شیطان صفت، شعراء کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر وہ شعراء جو ایماندار اور نیک صالح کردار ہیں، نہ وہ گمراہ نہ ان کے پیروکار گمراہ، نہ ان کی شاعری گمراہ۔ لہذا ہر گانا نہ معیوب ہے نہ منع۔

سیدنا کعب بن مالک انصاری خزرجی دربار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معروف شاعر تھے۔ ان کے درج بالا سوال کے جواب میں رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ الْمُوْمِنَ یُجَاہِدُ بِسَیْفِہِ وَلِسَانِہ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَکَاَنَّمَا ترمونہم بہ نضح النبل.

’’مومن اپنی تلوار (اسلحہ) اور زبان دونوں سے جہاد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم (اپنے اشعار سے) گویا ان (دشمنوں) پر تیر برسا رہے ہو‘‘۔ (شرح السنہ / استیعاب لابن البر۔ مشکوۃ ص 410)

9۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :

اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ سِحْرًا وَاِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جہْلًا وَاِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمًا وَاِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عَیَالًا.

’’بعض بیان جادو کے سے ہوتے ہیں، کچھ علم جہالت کے سے ہیں (جو دنیا کے کام کے نہ آخرت کے) اور بعض اشعار حکمت کا خزانہ ہوتے اور بعض گفتگو و بال جان ہوتی ہے‘‘۔ (ابوداؤد)

بقول سعدی

علمی کہ راہ حق نہ نماید جہالت است

 

شاعر اسلام۔ منبر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر

 

1۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یَضَعُ لِحَسَّانٍ مِنْبَرًا فِی الْمَسْجِدِ یَقُوْمُ عَلَیْہِ قَائِمًا یُفَاخِرُ عَنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اَوْیُنَا فِحُ وَیَقُوْلُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اَنَّ اللّٰہَ یُؤَیِّدُ حَسَّان بِرُوْحِ الْقُدس مانا فح اَوْ فَاخَرَ عَنْ رَسُوْلُ اللّٰہَ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر رکھتے جس پر کھڑے ہو کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توصیف و تعریف یا مخالفین کی ہجو کا جواب دیتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے اللہ تعالیٰ روح القدس (جبریل) علیہ السلام کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک یہ حضور کا دفاع یا آپ کی تعریف و توصیف کرتے ہیں‘‘۔ (بخاری)

 

گانے میں احتیاط

 

1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک (حدی خوان دوران سفر سریلی آواز میں ایسا گانا گانے والا جس سے اونٹ مست ہو جاتے تھے) جن کا نام تھا انجشہ (خوبصورت سریلی آواز والے) تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : انجشہ ذرا ٹھہر جاؤ! آبگینے (شیشے) توڑ نہ دینا۔ (کمزور دل والی جذباتی ہمراہی مستورات کے جذبات کا خیال رکھنا)‘‘۔ (متفق علیہ)

2۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور شعر و شاعری کا ذکر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

ہُوَ کَلَامٌ حَسَنُہ حَسَنٌ وَقَبِیْحُہ قَبِیْحٌ.

’’شعر (حمد، نعت، غزل، نظم، مرثیہ، مدح، گیت، گانا وغیرہ) کلام ہے، اچھا ہے تو اچھا، برا ہے تو برا‘‘۔

(دار قطنی، شافعی، بحوالہ مشکوۃ ص 411)

 

گھٹیا اور فحش شعر و شاعری کی مذمت

 

گھٹیا، باطل، فحش، جھوٹ پر مشتمل شعر و شاعری ہو یا نثر، کلامِ مذموم ہے۔ قرآن و سنت میں اسی کی مذمت کی گئی ہے۔

1۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں :

ہم لوگ مدینہ منورہ سے باہر عَرج نامی بستی سے دوران سفر گزر رہے تھے اچانک سامنے سے ایک شاعر صاحب اشعار گنگناتے تشریف لا رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

خُذُوْا اَلشَّیْطَان. ’’اس شیطان کو پکڑو‘‘!۔ یا یہ فرمایا اِمْسِکُوْا اَلشَّیْطَان.’’اس شیطان کو روکو‘‘!۔

لان یمتلی جوف رجل قیحا خیر من ان یمتلی شعرا.

’’آدمی کا پیٹ پیپ سے بھرنا اس سے بہتر ہے کہ شعر سے بھرے‘‘۔ (مسلم)

2۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

اَلْغِنَاءُ یَنْبِتُ النِّفَاق فِی الْقَلْبِ کَمَا یَنْبِتُ الْمَآءُ اَلزَّرْعَ.

’’گانا دل میں نفاق ایسے اگاتا ہے جیسے پانی فصل / کھیتی‘‘۔ (بیہقی، شعب الایمان)

3۔ نافع کہتے ہیں میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ سفر میں تھا۔

فَسَمِعَ مِزْمَارًا فَوَضَعَ اِصْبَعِیْہِ فِی اُذُنَیْہِ وَنَاَعَنِ الطَّرِیْقِ اِلَی الْجَانِبِ الْاٰخر.

’’انہوں نے ساز بجنے کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور راستے سے ایک طرف ہو گئے‘‘۔

دور جا کر مجھے فرمایا : نافع! آواز آ رہی ہے؟ میں نے عرض کی نہیں۔ تو اپنے کانوں سے انگلیاں اٹھائیں۔ فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھا فسمع صوت یراع فصنع مثل ماصنعت. آپ نے ساز کی آواز سنی اور ویسا ہی کیا جیسا میں نے کیا۔ (احمد ابوداؤد)

 

توجیہہ و تطبیق

 

اسلامی ہدایات و تعلیمات کا طرہ امتیاز توازن و اعتدال ہے، نماز حکم شرعی ہے فرض ہے مگر ایک حد تک یہاں تک کہ طلوع، غروب و استواء کے وقت نماز ادا کرنا گناہ و حرام ہے۔ ۔ ۔ زکوٰۃ و خیرات فرض ہے، نیکی ہے، حکم شرعی ہے مگر ایک حد تک۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَالَّذِینَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَكَانَ بَیْنَ ذَلِكَ قَوَامًاO (الفرقان : 67)

’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہےo‘‘۔

دوسروں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے مال خرچ کرو! مگر یہاں بھی حد اعتدال سے نہ بڑھو! ارشاد ہوا :

وَلاَ تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْہَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًاO (بنی اسرائیل 17 : 29)

’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑےo‘‘۔

اسی طرح ارشاد فرمایا :

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نُودِیَ لِلصَّلَاةِ مِن یَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذَلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَO (الجمعة : 62 : 9)

’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہوo‘‘۔

ساتھ ہی فرما دیا :

فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِی الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّہِ وَاذْكُرُوا اللَّہَ كَثِیرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَہْوًا انفَضُّوا إِلَیْہَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِندَ اللَّہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّہُ خَیْرُ الرَّازِقِینَO (الجمعة 62 : 10، 11)

’’ پھر جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤo اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو (اپنی حاجت مندی اور معاشی تنگی کے باعث) اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کو (خطبہ میں) کھڑے چھوڑ گئے، فرما دیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہےo‘‘۔

آپ نے دیکھا کبھی کاروبار چھوڑنا عبادت اور کبھی مسجد سے نماز ادا کر کے باہر آنا اور کاروبار کرنا عبادت کہ دونوں خالق و مالک کے حکم ہیں، جن کی تعمیل عبادت ہے۔ اس کی سینکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر سمجھدار کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

 

وجد و رقص

 

اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر اللہ والوں کے عشق و محبت کی باتیں سن کر دوسروں پر حال طاری ہو جاتا ہے۔ جذب کی کیفیت آ جاتی ہے۔ یہ کیفیت انسانوں پر ہی نہیں حیوانوں اور جمادات و نباتات پر بھی طاری ہو جاتی ہے۔ جو شخص اس حال کے طاری ہونے اور اللہ کے عشق و محبت میں وجد و رقص کرنے کا انکار کرے یا شرعاً ناجائز کہے، وہ ناجائز ہونے کے شرعی دلیل پیش کرے۔ جائز ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ شریعت میں ممانعت نہیں۔

اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کائنات کے ذرہ ذرہ میں موجزن ہے۔ یہ محبت جب پورے شباب پر ہو تو جذب و کیف کی کیفیت طاری ہونا انہونی بات نہیں۔ پہاڑ پتھر اور خشک لکڑیاں، اونٹ، بکرے اور دیگر جانور وجد میں آتے اور آسکتے ہیں۔

 

جانوروں پر حال و وجد کی کیفیت

 

1۔ حضرت عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ

قرب لرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدنات خمس اوست فطفقن یزدلفن الیہ بایتہن یبدا. . . الخ

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پانچ یا چھ اونٹ پیش کئے گئے، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب ہونا شروع کر دیا کہ دیکھیں آپ کس کو پہلے ذبح کرتے ہیں‘‘۔ (سنن ابو داؤد، بحوالہ مشکوۃ ص 232)

سر بوقت ذبح اپنا اس کے زیر پائے ہے

کیا نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے

دیکھا جانور بھی آقا علیہ السلام کی محبت سے سرشار رقص کرتے، وجد کرتے اور محبوب کے ہاتھوں ذبح ہونے کی آرزو کر رہے ہیں۔

2۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

کان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اذا خطب استند الی جذع نخلة من سواری المسجد.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خطبہ دیتے وقت کھجور کے ستون سے ٹیک لگا لیتے‘‘۔

فلما صنع لہ المنبر فاستوی علیہ صاحت النخلة التی کان یخطب عندہا حتی کادت ان تنشق.

’’جب آپ کے لئے منبر بنایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس پر چڑھ گئے، وہ کھجور کا ستون دھاڑیں مار مار کر رویا جس سے ٹیک لگا کر آپ خطبہ دیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لگتا تھا پھٹ جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر سے اتر کر اس کے پاس تشریف لائے اور اسے سینے سے لگایا‘‘۔

فجعلت تان انین الصبی الذی یسکت حتی استقرت.

’’وہ اس بچے کی طرح رو رہا تھا جسے چپ کرایا جائے یہاں تک کہ اسے سکون آگیا‘‘۔ جابر فرماتے ہیں وہ اس ذکر کی وجہ سے رویا جو سنتا تھا‘‘۔ (بخاری)

علامہ فرماتے ہیں :

من چہ گویم از تولایش کہ چیست

خشک چوبے در فراق او گریست

’’میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کی کیا بات کروں کہ وہ کیا ہے؟ سرکار کی جدائی میں تو خشک لکڑی بھی روئی ہے‘‘۔

جمادات و حیوانات پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کا یہ اثر ہوتا ہے تو انسان پر بھلا کیوں نہ ہو گا۔ لہذا جذب و کیف کا غلبہ ہو، سرکار کا تصور قلب و نظر میں ہی نہیں بلکہ انسان کے تمام بدن پر غالب ہو اور آدمی بیخودی میں وجد کرنے لگے تو اس میں اچنبھے کی کونسی بات ہے اور کس دلیل شرعی سے اسے حرام و نا جائز کہا جا سکتا ہے؟ بقول اعلیٰ حضرت قدس سرہ

بیخودی میں سجدۂ در یا طواف

جو کیا اچھا کیا پھر تجھ کو کیا؟

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے لعبت الحبشہ بحرابہم فرحا لقدومہ تو حبشیوں نے سرکار کی آمد کی خوشی میں نیزہ بازی کا کھیل کھیلا‘‘۔ (ابوداؤد)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

ان ابا بکر دخل علیہا وعندہا جاریتان فی ایام منی تغنیان تدفغان وتضربان والنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم متغش بثوبہ فانتہرہما ابو بکر فکشف النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عن وجہہ فقال دعہما یا ابا بکر فانہا ایام عید وتلک الایام ایام منی.

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے پاس ایام منی میں تشریف لائے، اُس وقت میرے پاس دو بچیاں بیٹھی تھیں جو کچھ گارہی تھیں اور د ف بجا رہی تھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے چہرہ پر کپڑا ڈالے آرام فرما تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان دونوں بچیوں کو گانے اور دف بجانے سے منع فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کو چھوڑ دو یہ عید کے ایام ہیں۔

وقالت عائشة رایت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یسترنی وانا انظر الی الحبشة وہم یلعبون فی المسجد فزجرہم عمر فقال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دعہم امنا بنی ارفدة.

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے اپنی چادر میں چھپایا اور میں نے حبشیوں کو دیکھا جو مسجد میں نیزہ بازی کا کھیل کھیل رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں روکا تو آپ نے فرمایا : ان کو چھوڑ دے یہ بنی ارفدہ ہے۔

علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن العینی رحمۃ اللہ علیہ (م 855 ھ) شرح میں لکھتے ہیں کہ ان احادیث مبارکہ سے ایک بات یہ ثابت ہوئی کہ شارع علیہ السلام کے سامنے خوشی کے موقع پر دف بجایا، گانا گایا اور کھیل کھیلا گیا۔ یعنی جو حلال و حرام کو بیان فرمانے والے ہیں اُن کے سامنے یہ امور بجا لائے گئے مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منع نہ فرمایا۔ اسی طرح دف بجا کر اور جائز و مباح گانا گا کر اعلان نکاح کیا گیا تاکہ نکاح اور چھپ چھپا کر بدکاری کرنے میں فرق ہو جائے۔

٭ امام ترمذی نے سیدنا محمد بن حاطب الجمعی رضی اللہ عنہ کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے :

فصل مابین الحلال والحرام الدف والصوت.

’’حلال اور حرام میں فرق دف بجانا اور گانا ہے‘‘۔

ترمذی نے اسے حدیث حسن، ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔

٭ ترمذی نے ہی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے :

اعلنوا ہذا النکاح واجلعوہ فی المساجد وقال واضربوا علیہ بالغربال.

’’اس نکاح کا اعلان کیا کرو اور یہ مسجدوں میں کیا کرو اور اس پر دف بجایا کرو‘‘۔

٭ نسائی نے سیدنا قرظۃ بن کعب اور سیدنا ابو مسعود کی یہ روایت نقل کی ہے، دونوں فرماتے ہیں :

رخص لنا فی اللہو عندالعرس.

’’شادی کے موقع پر ہمیں کھیل کود کی رخصت دی گئی‘‘۔

٭ طبرانی نے حضرت السائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لڑکیوں سے ملے جو کچھ اس طرح سے گا رہی تھیں۔

حَیُّوْنَا نحَیّکُمْ.

’’تم ہمیں زندہ کرو! ہم تمہیں زندہ کریں گی‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا یوں نہ کہو، بلکہ یوں کہو حَیَّانَا وَحَیَّاکُمْ ’’اللہ ہمیں سلامت رکھے اور تمہیں سلامت رکھے۔ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! آپ ہمیں اس کی اجازت دیتے ہیں؟ فرمایا ہاں اِنَّہ نِکَاحٌ لَا سَفَاحٌ. ’’یہ نکاح ہے بدکاری نہیں‘‘۔

٭ ابن ماجہ نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ

انہا انکحت ذات قرابة لہا من الانصار.

’’انہوں نے اپنی ایک انصاری عزیزہ کا نکاح کیا‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تم نے لڑکی دلہن بنا دی؟ عرض کی جی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، فرمایا : ارسلتم معہا من یغنی ’’اس کے ساتھ کوئی گانے والا بھیجا؟، میں نے عرض کی : نہیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : انصار کے لوگوں میں گانے پسند کئے جاتے ہیں۔ اگر تم اس کے ہمراہ کوئی ایسا بھیجتے جو کہتا اَتیْنَاکُمْ اتینَاکُمْ فَحَیّانَا وَحَیَّاکُمْ ’’ہم تمہارے پاس آئے، تمہارے پاس آئے، اللہ پاک، ہمیں بھی سلامت رکھے تمہیں بھی سلامت رکھے‘‘۔

(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج 20، ص 136 )

 

حبشیوں کا طرزِ عمل

 

ان الحبشة تذفن بین یدی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ویتکلمون بکلام لہم، فقال مایقولون؟ قال یقولون مَحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِح.

’’حبشی، رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے وجد و رقص (بھنگڑا) کرتے تھے اور اپنی زبان میں کچھ کہتے تھے۔ پوچھا کیا کہتے تھے؟ کہا : یہ کہتے تھے محمد (اللہ) کے نیک بندہ ہیں‘‘۔

(علامہ عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج 6۔ ص 270 طبع کوئٹہ)

  1. علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :

ولا شک ان یوم قدومہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کان عندہم اعظم من یوم العید.

’’بے شک سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی (مدینہ منورہ میں) تشریف آوری ان کے نزدیک عید کے دن سے بڑھ کر خوشی تھی‘‘۔ (ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، شرح صحیح بخاری ج 2، ص 443)

  1. فقام النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاذا حبشیة تزفن ای ترقص والصبیان حولہا فقال یا عائشة تعالی فانظری.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آواز سن کر، کھڑے ہوئے، دیکھا ایک حبشیہ رقص کر رہی ہے اور اس کے آس پاس بچے جمع ہیں۔ فرمایا عائشہ! آ کر دیکھیں۔ ۔ ۔ ان کی زبان پر اس دن یہ بول تھے۔ اباالقاسم طیبا۔

  1. امام احمد، السراج اور ابن حبان نے حضرت انس کی روایت بیان کی۔

ان الحبشة کانت تزفن بین یدی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و یتکلمون بکلام لہم فقال مایقولون؟

حبشی لوگ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے رقص کرتے تھے اور اپنی زبان میں کچھ کہتے تھے پوچھا کیا کہہ رہے تھے؟ کہا اس دن ان کے کلام میں یہ شعر بھی تھا :

محمد عبد صالح. محمد بہت اچھے بندے ہیں۔

اَبَاالْقَاسِم طَیِّبًا ’’اے ابوالقاسم آپ بہت ستھرے ہیں‘‘۔ (ابن حجر عسقلانی ج 2، ص 444)

 

ساز اور آواز فقہائے کرام کے نزدیک

 

ردالمختار میں ہے کہ

عرفنا من ہذا ان التغنی المحرم ما کان فی اللفظ مالا یحل کصفة الذکور والمراة المعینة الحیة ووصف الخمرالمہیج الیہا والحانات والہجاء لمسلم او ذمی اذا ارادالمتکلم ہجاہ لا اذا ارادانشادہ الاشہاد بہ اولیعلم فصاحتہ وبلاغتہ وکان فیہ وصف امراة لیست کذلک اوالزہریات المتضمنہ وصف الریاحین والازہار والمیاہ فلا وجہ لمنعہ علی ہذا.

’’اس سے ہم کو معلوم ہوا کہ حرام وہ گانا ہے جس کے الفاظ حرام ہوں جیسے کسی معین زندہ مرد یا عورت کی صفت بیان کرنا یا اس کی طرف جوش دلانے والے شراب کا ذکر کرنا یا بے ڈھنگی سریں ہو۔ کسی مسلمان یا ذمی کی دانستہ برائی بیان کی جائے۔ وہ شعر حرام نہیں جس سے مقصد کسی مفہوم کی وضاحت ہو یا فصاحت و بلاغت کی مثال۔ کسی غیر معینہ عورت کی تعریف کی جائے یا کلیاں جن سے پھول پتیاں بنتی ہیں یا پانی (دریا، چشمے، ندی نالے وغیرہ) شعر و شاعری میں ان چیزوں کا بیان منع نہیں۔ ۔ ۔ اور جن صوفیاء نے گانے قوالی وغیرہ کو جائز قرار دیا ہے وہ ان لوگوں کے لئے ہے جو کھیل کود سے خالی اور تقویٰ کے زیور سے مزین ہوں نیز جنہیں گانے قوالی کی ایسی مجبوری ہو جیسے مریض کو دواء کی‘‘۔

 

گانے کے جواز کے لئے چھ شرائط

 

1۔ محفل میں کوئی بے ریش نہ ہو، تمام مجمع ایک جنس سے ہو۔

2۔ قوال کی نیت اخلاص ہو، کھانا اور پیسے بٹورنا نہ ہو۔

3۔ محض کھانے اور نذرانوں کے لئے اجتماع نہ ہو۔

5۔ صرف شدید وجد کی حالت میں کھڑے ہوں۔

6۔ وجد و رقص کے اظہار میں سچے ہوں۔

فتاویٰ تاثیر خانہ میں ہے کہ اشعار میں اگر فسق و فجور کا ذکر نہ ہو، نوجوان لڑکوں، لڑکیوں کا ذکر نہ ہو، وغیرہ تو گانا مکروہ نہیں۔

فتاویٰ ظہیریہ میں ہے کہ شعر و شاعری اور گانے میں مکروہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ذکر اور قرآن پڑھنے سے غافل ہو جائے اگر یہ وجہ نہ ہو تو شعر گانے میں کوئی حرج نہیں۔

’’تبیین المحارم‘‘ کتاب میں ہے کہ ’’جان لیجئے کہ حرام وہ شعر ہے جس میں فحش یا مسلمان کی برائی بیان کی جائے یا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹ باندھا جائے یا اپنے پاک صاف ہونے کے دعوے ہوں، یا جھوٹ ہو یا مذموم تفاخر ہو۔ یا کسی کے نسب کی برائی ہو یا کسی معین عورت یا بے ریش لڑکے کی تعریف کی جائے جبکہ وہ دونوں زندہ ہوں، یہ سب ناجائز ہے۔ ہاں اگر عورت فوت شدہ ہے یا غیر معین ہے تو اس کی تعریف کرنا درست ہے۔

بے شک آلہ لہو (ڈھول، باجا، بینڈ، بانسری وغیرہ) اپنی ذات میں حرام نہیں۔ ۔ تم دیکھتے نہیں کہ وہی آلہ موسیقی کبھی بجانا جائز و حلال اور دوسرے موقع پر حرام ہو جاتا ہے۔ نیت و مقاصد بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔ یہی صورت سماع کی ہے۔ اس میں ہمارے سادات صوفیہ کے لئے دلیل ہے۔ ان کے پیش نظر بڑے پاکیزہ مقاصد ہوتے ہیں جن کو وہی بہتر جانتے ہیں۔ لہذا معترض انکار کی جلد بازی نہ کرے تاکہ ان کی برکت سے محروم نہ ہو۔ یہ اولیاء اللہ ہمارے بزرگوار، نیکو کار ہیں۔ اللہ پاک ہم کو ان کی مدد نصیب فرمائے اور ان کی مقبول دعائیں، برکتیں ہم پر بار بار فرماتا رہے۔

(علامہ امین اشہیر ابن عابدین م 1252ھ شامی ردالمختار ج 6 ص 350 طبع کراچی)

  1. ولا بائس ان یکون لیلة العرس دف یضرب بہ لیعلن بہ النکاح. . وان کان للغزواة والقافلة یحوز.

’’شادی کی رات دف بجانے میں حرج نہیں تاکہ اس کے ذریعے نکاح کا اعلان ہو اور اگر جہاد کے لئے ہو یا قافلہ کے لئے تو جائز ہے‘‘۔ (شامی ج 6۔ 55 طبع کراچی)

  1. محدث ابو عوانہ رحمۃ اللہ نے اپنی صحیح میں یہ اضافہ کیا ہے کہ حبشی بنی ارفدہ کہلاتے ہیں، مطلب یہ کہ یہ ان کا حال اور طریقہ ہے۔ وہو من الامور المباحة فلا انکار علیہم. یہ جائز امور میں سے ہے پس ان پر انکار نہ کیا جائے۔
  2. امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ بیاہ شادی کے علاوہ آپ دف بجانے کو مکروہ سمجھتے ہیں؟ مثلاً عورت یا بچہ گھر میں دف بجائے، انہوں نے کہا کوئی کراہت نہیں۔
  3. فوائد الحدیث میں تیسرا فائدہ کے ضمن میں علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

فیہ جواز نظر النسآء والی فعل الرجال الاجانب لانہ انما یکرہ لہن النظر الی المحاسن والاستلذاذ بذلک ونظرالمراة الی وجہ الرجل الاجنبی ان کان بشہوة فحرام اتفاقا.

’’اس حدیث سے عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھنے کا جواز ملتا ہے اس لئے کہ عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھنا صرف اس صورت میں مکروہ ہے جب وہ ان کے حسن و جمال پر نظر رکھیں اور اس سے لذت اندوز ہوں۔ عورت کا اجنبی مرد کے چہرے کو شہوت کی نیت سے دیکھنا ہو تو بالاتفاق حرام ہے۔ وان کان بغیر شہوۃ فالاصح عدم التحریم اور اگر یہ دیکھنا شہوت کے بغیر ہو تو صحیح تر یہی ہے کہ یہ حرام نہیں۔

(علامہ عینی عمدۃ القادری شرح بخاری ج 6 طبع کوئٹہ)

(کتاب میں کتابت کی غلطی سے عدم التحریم کی جگہ التحریم لکھا گیا ہے جو سیاق و سباق کی رو سے درست نہیں۔ ہزاروی)

 

تسامحات

 

بعض حضرات نے کہا یہ واقعات قُلْ لِلْمُوْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ. مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں۔ (النور 24، 31) کے نزول سے پہلے کے ہیں یا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بالغ ہونے سے پہلے کے ہیں۔ یہ بات درست نہیں کیونکہ ابن حبان کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ وفد حبشہ کی مدینہ منورہ میں آمد کے وقت ہوا اور وفد حبشہ 7ھ میں مدینہ منورہ آیا تھا اور اس وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک پندرہ سال تھی۔ ۔ ۔

  1. پانچویں فائدہ میں لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا عیدوں کے مواقع پر خوشی کا اظہار شعائر دین میں سے ہے۔
  2. نویں فائدہ کے ضمن میں لکھتے ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکو کاروں کے ڈیرے کھیل کود سے پاک ہوتے ہیں، اگرچہ اس میں گناہ نہ ہو، ہاں ان کی اجازت سے کھیل کود کی اجازت ہے۔ ۔ ۔
  3. بارہویں فائدہ کے ضمن میں لکھتے ہیں اس میں لڑکی کی گانے کی آواز سننا جائز ثابت ہوتا ہے اگرچہ باندی مملوکہ نہ ہو کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گانا سننے پر انکار نہیں فرمایا بلکہ ان کے انکار پر انکار فرمایا اور لڑکیاں برابر گاتی رہیں تاآنکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نکلنے کا اشارہ فرمایا۔
  4. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک اعرابی کو گانے کی اجازت دی تھی جسے حداء (حدی) کہا جاتا ہے۔ ابن حزم نے کہا گانا، کھیل کود اور وجد و رقص مسجد وغیرہ میں عیدین کے موقع پر اچھی بات ہے۔

(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج 6 ص 272 طبع کوئٹہ)

  1. خطابی نے کہا کہ ایک دو شعر ترنم سے گانا اور سُر لگانا جس میں فحش یا ممنوع باتوں کا ذکر نہ ہو، جائز ہے اور تھوڑے کا حکم زیادہ کے خلاف ہے۔ (ص 274 ایضاً)
  2. حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ہم رسول اللہ کی خدمت اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے۔

فکانوا یتناشدون الاشعار ویتذاکرون اشیاء من امر الجاہلیة ورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ساکت فربما تبسم. (مسند احمد ج 5 ص 105 طبع بیروت)

’’صحابہ کرام شعر و شاعری پر مذاکرہ کرتے (گانا گاتے) اور دور جاہلیت کی باتیں سنتے سناتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاموشی سے سنتے اور بسا اوقات مسکراتے‘‘۔

اہل تصوف نے کچھ پہلے بزرگوں کے احوال و اعمال کو دیکھتے ہوئے گانا اور رقص و وجد جائز قرار دیا ہے۔ ۔ ۔ ان بزرگوں کے زمانہ میں کوئی ایک شعر پڑھتا جو ان کے موافق حال ہوتا تو یہ اس سے موافقت کرتے اور نرم دل آدمی جب اپنے حسب حال کلمہ سنتا ہے تو بسا اوقات اس کے عقل پر مدہوشی غالب آ جاتی ہے اور غیر اختیاری طور پر کھڑا ہو جاتا ہے اور اس سے غیر اختیاری طور پر حرکات صادر ہوتی ہیں۔ یہ جائز ہے اس میں مواخذہ نہیں اور یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ مشائخ کا عمل ہمارے زمانہ کے اہل فسق و فجور کے عمل جیسا ہو گیا۔ جنہیں احکام شرع کا کوئی علم نہیں۔ دلیل جواز تو دیندار لوگوں سے پکڑی جاتی ہے۔ ۔

امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ بیاہ شادی کے سواء دف بجانا مکروہ ہے؟ مثلاً عورت بچے کی خاطر، بغیر فسق دف بجائے، انہوں نے فرمایا : نہیں، ہاں جس سے بیہودہ اچھل کود ہو میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں۔

(فتاوی عالمگیری ج 5 ص 352 طبع کوئٹہ)

والمختاران ضرب الدف والاغانی التی لیس فیہا ماینافی الاداب جائز بلا کراہة مالم یشتمل کل ذلک مفاسد کتبرج النسآء الاجنبیات فی العرس وتہتکہن امام الرجال والعریس ونحو ذلک. والاحرام.

’’مذہب مختار یہ ہے کہ دف اور ساز بجانا جس میں آداب کے خلاف کوئی بات نہ ہو، بلا کراہت جائز ہے جب تک یہ خرابیوں اور بیہودگیوں پر مشتمل نہ ہو (مثلاً بیاہ شادی کے مواقع پر اجنبی عورتوں کا بن ٹھن کا باہر نکلنا، مردوں اور باراتیوں کے سامنے پھُدکنا، مٹکنا وغیرہ) ورنہ حرام۔

(عبدالرحمن الجزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ ج 4 ص 8 طبع بیروت)

احناف کے نزدیک

ہر عمل جس پر برائی لازم آئے حرام ہے اگرچہ اپنی ذات میں اچھی ہو۔ گانا اس حیثیت سے کہ اس میں لہجے بدل بدل کر اچھی آواز نکالنا ہے تو یہ جائز ہے۔ اس میں ناجائز کوئی چیز نہیں۔ ہاں کبھی ا سکے ساتھ دوسری باتیں لگ کر مکروہ و حرام کر دیتی ہیں۔ مثلاً ایسا گانا جس کے نتیجہ میں کسی غیر محرم عورت یا بے ریش لڑکے کا فتنہ پیدا ہو یا مثلاً جو بول شراب پینے پر ابھاریں یا وقت ضائع ہو، فرائض و واجبات کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جائے تو حرام ورنہ جائز ہے۔ لہذا گانے میں ایسے الفاظ نہ ہوں جن میں کسی زندہ معینہ عورت کی توصیف ہو کہ یہ شہوت پیدا کرتی اور فتنہ کا باعث بنتی ہے۔ اگر عورت مر گئی ہے تو اس کی تعریف نقصان دہ نہیں کہ اس کی ملاقات کی آس نہیں، بے ریش لڑکے کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اسی طرح گانے میں ایسے الفاظ نہ ہوں جو شراب پینے، وقت ضائع کرنے اور ادائے واجبات میں رکاوٹ کا باعث ہوں۔ اگر یہ خرابیاں نہ ہوں تو گانا جائز ہے۔

(علامہ عبدالرحمن الجزیری، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ ج 2 ص 42 طبع بیروت)

 

فرق ہے

 

ہمارے یہاں ہی نہیں تمام اسلامی و غیر اسلامی ممالک میں خوشی کی تقریبات میں عورتیں، عورتوں کی محفل میں اور مرد سر عام بھنگڑا لڈی، خٹک ناچ اور دیگر علاقائی کھیل کھیلتے اور جذباتِ مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض لوگ بزرگوں کے عرسوں پر بھی اور میلوں ٹھیلوں، ثقافتی پروگراموں میں، تعلیمی و تربیتی اداروں میں بھی، پریڈ ورزش، ایکسر سائز کی صورت میں بھی، وجد و رقص کرتے ہیں یا ہو جاتا ہے، یہ سب کچھ اگر شرعی لباس میں ہو، عورتیں غیر محرم مردوں کے سامنے نہ کریں، گانے کے بول غیر شرعی و غیر اخلاقی نہ ہوں درج بالا عیبوں سے پاک ہوں، یہ پروگرام دیگر فرائض و احکام کی ادائیگی میں حائل نہ ہوں تو قرآن و سنت اور تصریحات ائمہ و فقہاء اور عقل سلیم کے نزدیک درست ہے، گانا بھی اور سننا سنانا بھی۔

٭٭٭

ماخذ: ماہنامہ منہاج القرآن  مئی جون جولائی ۲۰۰۹،

http://minhaj.info

تدوین ور ی بک کی تشکیل: اعجاز عبید