FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

رنگ شکلیں بدلتے ہیں

 

 

                خالد شریف

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

میرے مولا

 

میرے مولا

میرے مولا

میں اس قابل نہیں پھر بھی

تیرے دامانِ  رحمت سے

اگر بادل کا اک ٹکڑا

میری جانب بھی آ جائے

تو دھُل کر صاف ہو جاؤں

معافی کے نہیں لائق

مگر خواہش کا کیا کہنا

میرے مولا

میرے مولا

میں اِس قابل نہیں پھر بھی

میرے بچّوں پہ شفقت کر

کہ میری سب خطاؤں میں

نہیں ان کا کوئی حصّہ

میرے مولا

میرے مولا

تیرے دربار میں آؤں

تو کیا منہ لے کے میں آؤں

نہیں زادِ  سفر کچھ بھی

میں عاصی ہوں سگِ  دُنیا

میرے مولا

میرے مولا

٭٭٭

 

 

 

 

سوال

 

میں تو بس یہ جانتا ہوں

وہ اگر میرا ہے

وہ آنکھیں وہ بانہیں وہ نگاہیں

گیسوؤں کی وہ پناہیں

گر میری ہیں

وہ بدن کا لوچ وہ باتوں کا افسوں

وہ مدھر پاکیزگی، شوخی، حیا

فطرت کا وہ اُجلا سجیلا پن

وہ لب لعلِ  بدخشاں

اور ماتھے پر اُبھرتے وہ سویرے

گر میرے ہیں

گفتگو کا فن کہ لفظوں کا مقدر جاگتا ہو

خامشی کا وہ تقدس کہ تکلّم سرنگوں ہو

مسکراہٹ، کھلتی کلیوں کا تحیر

گنگناہٹ زندگی کی لہر

چاہت خواب دیسوں میں کھِلے خود رو گلابوں کی طرح

خود سر بھی اور حساّس بھی

نازک بھی اور پُر خار بھی

گر یہ کبھی کچھ یہ کبھی کچھ میرا اپنا ہے

وہ میرا ہے

تو پھر میں کس لیے آوارہ پتوّں کی طرح صحرا بہ صحرا

کُو بہ کُو قریہ بہ قریہ پھر رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک خط

 

 

چمن زادوں سے کہنا

دل نے ایسے زخم کھائے ہیں

وہ صدمے آزمائے ہیں

کہ اب لحنِ  ہوَا میں وحشتِ  افتادگی ہے

اور نہ اندھی آنکھ خوابوں کو ترستی ہے

چمن زادوں سے کہنا

تم نے وہ باتیں بھُلا دی تھیں

تو اب کیوں دل کو خانوں میں مقید کر رہے ہو

جانتے ہو

ہم تو ذوقِ  قیدِ  ہستی کے پرانے خوشہ چیں ہیں

جانتے ہو

ہم نے صدیوں کی گراں خوابی کو خود اپنا مقدّر کر لیا تھا

جانتے ہو

وحشتِ  افتادگی لذّت ہے

اور لذّت تو زخموں کے عقب سے آنے والی

اُس حرارت کو کہا کرتے ہیں

جو صدموں کو کندن کر دیا کرتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمدمِ  دیرینہ

 

ہمدمِ  دیرینہ ملتے ہیں تو دنیا کے دُکھوں میں عافیت کا اک دریچہ

جگمگاتا ہے

خراب آباد کے تپتے ہوئے صحرا میں اِک ٹھنڈی ہوَا کی لہر چلتی ہے

سنہری اور روپہلی خواہشوں کے جال پس منظر میں رہ جاتے ہیں

اور معصوم سا کومل سا بچّہ دھیان کی سرگوشیوں میں کھِلکھلاتا ہے

ہمدمِ  دیرینہ ملتے ہیں تو کتنی بھُولی بسری داستانیں یاد آ جاتی ہیں

کچھ ہنسنے کو کچھ رونے کو

اور کچھ یونہی بس خاموش بیٹھے سوچنے کو

کل کے پودے اب تناور پیڑ ہیں

اور وہ تناور پیڑ جن کے نیچے ہم ساحرؔ کی نظمیں اونچی اُونچی پڑھ کر

لذّت ڈھونڈتے تھے کٹ چکے ہیں

پر رفاقت کا گُلِ  تازہ تو میری اور تمھاری سانس کی ٹہنی پر اب بھی مسکراتا ہے

ہمدم دیرینہ ملتے ہیں تو دُنیا کے دُکھوں میں عافیت کا اک دریچہ

جگمگاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دوست

 

چند جملے تمھارے لیے بھی

تم کہ باد صبا کی طرح نرم و نازک ہو اور بادلوں کی طرح اَن چھوئی ہو

چند جملے تمھارے لیے بھی

یہ جو حرفوں کا لفظوں کا جُملوں کا سارا طلسمِ  خفی ہے

یہ جو مصرعوں کی بازیگری ہے

یہ جو مانگے کی سوچیں ہیں

اور یہ جو غزلوں میں جذبوں کے اظہار کا عجز ہے

یہ تو صدیوں کی لمبی مسافت کے سنگِ  سفر ہیں

اِس مسافت کے سنگِ  سفر جس کی کٹھنائیوں میں کوئی چاند چہرہ

نظر آئے تو قربِ  منزل کی جیسے بشارت ملے

پر یہ سب لفظ ہیں

اور تم جسم و جاں ہو حقیقت ہو زندہ حقیقت

تمہی نے کہا تھا

کہ چھٹّی کے دن نرم بستر میں چھُپ کر حسیں خواب بُننا میری زندگی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تم نے بھی کون سا چاہا تھا مجھے

 

تم نے بھی کون سا چاہا تھا مجھے

میری باتیں بھی غلط میرے ارادے بھی غلط۔

بے وفائی کا یہ خود ساختہ بہتان بھی تسلیم مجھے

یہ بھی مانا کہ غمِ  دہر جواں تھا تو غمِ  جاں

کو میری آنکھ کے آنسو نہ ملے

جب زمانوں کی یہ بے مہر ہوائیں میری سوچوں کو جِلا دیتی ہیں

میں سوچتا ہوں

جب غمِ  دہر کی پلکیں تیری جانب میری شِدّت کو گھٹا دیتی ہیں

میں سوچتا ہوں

جب کبھی اپنی جفائیں مجھے خود اپنی نگاہوں میں گرا دیتی ہیں

میں سوچتا ہوں

تم نے بھی کون سا چاہا تھا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے شب ہجر تیری خیر کہ ہم

 

اے شب ہجر تیری خیر کہ ہم

کچھ تو دامن کو سجا لائے ہیں

اب اُنھیں چاہو

کہ جن کے واسطے تم نے میری چاہت کو اندھا غار سمجھا تھا

اب اُنھیں دیکھو

کہ جن کے واسطے تم نے میری آنکھیں میں بجھتے دائروں کو

دیکھ کر سوچا تھا

’’ یہ سپنے ادھورے ہیں ‘‘

اب اُنھیں پُوجو

کہ جن کے سبز چہروں پر تمھارے ذہن کی پرچھائیاں ہیں

اب انھیں چاہو، اُنھیں دیکھو، اُنھیں پُوجو

کہ جن کے زرد ہاتھوں پر میرے جیتے لہو کے

سرخ دھبّے ہیں مگر ہونٹوں پہ میرے فن کی اور

تیری مدھر رعنائیوں کی داستانیں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

تجدیدِ  ملاقات

 

 

تم بچھڑ کر بھی میری آنکھ کی پتلی میں رہے

اس جدائی سے تو اچھی تھیں ملاقاتیں ہی

اور یہ وقفۂ فرقت، غمِ  فرقت کے سوا

لے کے آیا ہے نئے درد کی سوغاتیں بھی

 

اب اسی درد کے پہلو میں بسر رات کریں

آؤ تجدیدِ  ملاقات کریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

تہمتیں یاد آ رہی ہیں

 

 

رفاقتیں یاد آ رہی ہیں

میں غم کے بارِ  گراں کو اپنے نحیف کاندھوں پہ تھامتا ہوں

کہ حسرتیں یاد آ رہی ہیں

تمام چہرے میری نگاہوں کے ذائقوں کو پکارتے ہیں

تمام آنکھیں سوال بن کر کھلی ہوئی ہیں

کہ ظلمتیں یاد آ رہی ہیں

میں اپنے چہرے پر آنے والی رُتوں کا نوحہ ابھی سے پڑھ لوں

میں تیرے ماتھے کی سلوٹوں میں حکایتوں کی تلاش کر لوں

کہ تہمتیں یاد آ رہی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

خود رَو گلابوں کی خوشبو

 

 

پُتلیوں نے کہا

ہم کہ آہُوئے رم خوردۂ زیست ہیں

تم نے دھاگوں کے سارے سرے اپنے ہاتھوں میں رکھّے ہیں

اور غم کا بارِ  گراں ہم نے بے جان چہروں پہ ایسے سجایا ہے

جیسے کہ بکھری چٹانوں پہ خود رَو گلابوں کی خوشبو عبث پھیلتی ہے

نہ ہم شہر یارِ  زماں ہیں کہ زنجیر کھینچے کوئی

اور ہم داد رس بن کے اُونچے جھروکے سے اپنی انائے حکومت

نہ ہم آرزوؤں کے کوہِ  گراں ہیں

کہ جن تک رسائی تمھارے خیالوں کا

’’ عنقا ‘‘ و ملجا و ماویٰ ہے اور

اندھی آنکھوں کے خوابوں کی تعبیر ہے

( ایسے خوابوں کی تعبیر کب سچ بنی ہے )

نہ اپنے بدن میں لہو کے سمندر رواں ہیں

کہ جن کی شفق رنگ لہریں، دھنک رنگ لہریں تمھارے خیالوں میں

اُڑتے پرندوں کے پر کھولتی ہیں

کہ ہم پتلیاں ہیں

جنھیں صبحِ  تخلیق سے وقت کی خشک لکڑی نے بے جان چہرے

ودیعت کیے ہیں

کہ ہم تو تمھارے بدن کے بھرے شہر میں صرف ان انگلیوں کے

نشاں ہیں

کہ جن کے اشاروں پہ ہم ناچتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

میرے تنہائی کے دن تُم مجھے واپس کر دو

 

میری یادوں کے اثاثے بھی مبارک ہوں تمھیں

میرے خوابوں میں جو زندہ تھے

وہ لمحے بھی تمھیں راس آئیں

میرے حصے کی جو خوشیاں ہیں وہ مجھ سے لے لو

میرے تنہائی کے دن تم مجھے واپس کر دو

چاندنی، پھول، ستارے، خوشبو

روشنی، رنگ، نظارے، جگنو

جو بھی میرا تھا تمھارے لیے سب چھوڑتا ہوں

میرے تنہائی کے دن تم مجھے واپس کر دو

ٹوٹ بِکھرا ہے شجر سے کوئی سُوکھا پتّا

اس کو لے جائے کہاں جانے ہَوا کا جھونکا

کچھ تو دامن پہ دکھانے کے لیے باقی ہو

زخم کی چھاپ نہیں ہے کوئی دھبہّ ہی سہی

میرے تنہائی کے دن تم مجھ واپس کر دو

٭٭٭

 

 

 

 

عہدِ  مرگ آثار

 

 

عہدِ  مرگ آثار

کرمکِ شب تاب

جیسے آنکھ کی پُتلی کا زخم

(اُف یہ نادیدہ الم)

سرسراتی گھاس زہریلے درخت

مِل کی چمنی سے اُبھرتا یہ دھواں

( ڈاکٹر صاحب بھی کہتے تھے بہت مَسمُوم ہے )

کس نے رکھاّ ہے یہاں پانی کا جگ

اور یہ بلّوریں گلاس

( بے وقوفوں نے اِسے ڈھانپا نہیں )

کس نے کھولا ہے دریچے کا یہ پٹ

ان گنت لوگوں کی سانسوں سے مغلّظ یہ ہوا

( الاماں میرے خدا )

لاکھوں جرثوموں کے جسم

منتظر ہوں گے کہ میرے جسم میں تحلیل ہوں

میں یونہی مر جاؤں گا

٭٭٭

 

 

 

 

گم شُدہ نظم

 

رات اک نظم کے مصرعے ہوئے نازل مجھ پر

میں نے سوچا

کہ اُٹھوں اور انھیں تحریر کروں

پھر یہ سوچا کہ نہیں صبح سہی

اس سمے کون اُٹھے

جانے کہاں ہو گا قلم اور کاغذ

اور پھر ساتھ جو سوئی ہے وہ ڈسٹرب نہ ہو

صبح سہی

صبح اُٹھا تو نہ وہ نظم رہی اور نہ خیال

ناشتہ کرتے ہوئے میں نے بہت کوشش کی

گم شدہ نظم کے مصرعے نہ مگر یاد آئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پُتلی گھر

 

وفا کی پتلیو

میں نارسائی کے کڑے رستوں میں ہوں

جن پر روپہلی اور چمکتی دھوپ بھی تلوار لگتی ہے

کبھی تم اُن ستاروں کی طرح آنکھوں میں چُبھتی ہو

کہ جن کی روشنی میرے لیے اُس نارسائی کی عبادت ہے

جسے شامِ  ازل کی سرمئی کرنوں نے پہلی بار میرے

زرد ماتھے پر لکھا تھا

( اور میں آئینے میں اس نوحے کو اب تک پڑھ رہا ہوں )

کہ میں یہ جانتا ہوں

جو ستارے رات بھر میرے تصور کی سنہری وادیوں کو جگمگاتے ہیں

وہ ہاتھوں میں اُتر آئیں تو آب و تاب کھو دیتے ہیں

یا پھر ہاتھ ان کی نیلگوں حِدّت سے جل اُٹھتے ہیں

اور میں جانتا ہوں

اپنے ہاتھوں میں ابھی وہ انجذابی کیفیت مفقود ہے

جس کو ستارے ڈھونڈتے ہیں

وفا کی پُتلیو

کبھی تم خار زاروں کی طرح دامن پکڑ لیتی ہو

اور ہم سنگدل

بیگانۂ مہر و وفا آوارگی کے آشنا

روشن سرابوں کے گدا

دل کے خدا بن کے تمہیں پامال کرتے ہیں

کہ جب دامن میں کلیاں ہوں

تو خوشبوؤں کی مقناطیسیت فطرت سے بے بہرہ بنانے کی

سعی کرتی ہے

اور کہتی ہے

کلیاں بے ثباتی کی علامت ہیں

جہانِ  رنگ و بو میں رنگ فانی ہے

فقط خوشبو ہے اور تم ہو

وفا کی پتلیو

کبھی تم ادھ کھِلے جُوہی کے پھولوں کی طرح آنکھوں میں

رنگِ  رخ سمیٹے کانپتی ڈرتی لرزتی دل کے ایوانوں میں

خوابوں کے مدھر رستوں سے در آتی ہو

ہم درد آشنا ( شاید وفا نا آشنا )

اپنے سبھی جذبوں سبھی خوابوں کو اس اِک دھیمی دھیمی

مسکراہٹ پر نچھاور کر دیا کرتے ہیں

جو شاید تمھارے رنگِ  رُخ کا ایک حصّہ ہو

مگر اپنے لیے روشن سرابوں کا اُجالا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ بُت کب گِریں گے

 

شبیہوں کی نگری میں اک شخص

بے نام صورت کو تھامے ہُوئے پھر رہا ہے

کئی ٹھوکریں

راستوں پر ٹَکے طاقچوں میں نہاں

اس کے کمزور قدموں کی ہر چاپ کی منتظر ہیں

کئی ضربتیں

جسم کے نیلگوں راستوں پر مزّین رہیں گی

کئی اُنگلیاں

اُس کی نا کردگی کی سزا مانگنے کو اُٹھیں گی

سفیدے سے لِکھّے ہُوئے نام جب تختیوں سے مِٹیں گے

یہ بُت جب گِریں گے

تو پھر صُورتوں کے خُدا کی سُنی جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

لمحہ

 

جو ایک لمحہ میری

نگاہوں کے شاخچوں

کو گلاب کے پھُول

دے گیا تھا اُسی نے

اَب دَرد کے خُداؤں

کی خون آشام

پتلیوں کو میرے

لہو کا پَتہ دیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نام

 

وہ یہ کہہ رہی تھی

کہ تم نام میرا نہ لو

مگر میرا وجدان

اُس سے پلٹ کر یہ کہہ نہ سکا

میرے ہر سانس میں

بس تیرا نام ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تحریک

 

مجھے

قدرتی آبشاروں

مدھر پانیوں روح پرور نظاروں

سرو ں چہچہوں گنگناتی بہاروں کی اَب ایک پل بھی ضرورت نہیں ہے

مجھے یادِ  ماضی کے پُر ہول کتبے

گزرتے زمانوں کے قدموں کی آہٹ

غم و فکرِ  فردا

کبھی ایک مصرعہ بھی کہنے پہ اُکسا سکے ہیں نہ اُکسا سکیں گے

میرے دوستوں کے لگائے ہوئے زخم

تازہ بتازہ

معطّر معطّر

میرے واسطے وجہِ تخلیق ہیں

میری تحریک ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ایک جمع ایک = صفر

 

 

زمانہ آہٹوں کی گونج ہے

لمبے کوریڈور میں قدموں کی چاپیں چاہنے والوں کے دل دہلا رہی ہیں

اور اُوطاقِ  راہ افتادہ کی واحد چٹخنی مصلوب ہے

زمیں پیوست ہے خود اپنے قالب میں

کھنک ہے کانچ کی کمرے میں رقصاں

اُلجھتے سانس لمحوں کی صدا میں گھل گئے ہیں

بہاؤ تیز ہے اور پتّھروں کی ناتواں جانیں سمٹتی جا رہی ہیں

زمانہ آہٹوں کی گونج ہے

( کوئی کم بخت پھر ان پاک روحوں کو ستانے آ گیا تھا )

بہاؤ تیز تر

بس ایک لمحہ

( حاصلِ  جاں )

الجھتے سانس مدّھم

صدائے عمر گزراں اور مدّھم اور مدّھم

رشیدہ

ہاں فریدہ

بدن میں میٹھا میٹھا درد سا ہے

میرے بھی جوڑ ٹوٹے پڑ رہے ہیں

میں اب گھر جاؤں گی

اچھا

خدا حافظ

خدا حافظ

٭٭٭

 

 

 

 

نئی رُتوں کا نوحہ

 

چلو زمانوں کی دھُول پھانکیں

پرانے قِصّوں کے خالقوں کی اُداس رُوحوں سے داد مانگیں

کہ ہم نے ان کے ہر ایک چہرے کو نقش بخشے

کہ ہم نے اپنے جواں لہو کو سپید قرطاس پر اُنڈیلا

کہ ہم نے بوسیدہ مرقدوں پر نئے چراغوں سے روشنی کی

نئے چراغوں کی لَو میں اُن کے اُداس پنجر دمک رہے ہیں

نئے چراغوں کی تہ میں اپنے لہُو کی بوندیں جمی پڑی ہیں

گئی رتوں کا ہر ایک لمحہ نئی رُتوں کا پیامبر ہے

چلو زمانوں کی دھُول پھانکیں

پرانے قصّوں کے خالقوں کی اُداس رُوحوں سے داد مانگیں

کہ آج اُن کی کہانیوں میں

ہمارے ہمزاد رو رہے ہیں

ہمارے ہمزاد ہنس رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

حسینو گلعذارو یاد رکھنا

 

حسینو گلعذارو یاد رکھنا

تمھارے لب مجھے جاں بخشتے ہیں

تمھاری مست آنکھیں روزنِ  دیوار ہستی ہیں کہ جن میں

میرے ساری زندگی کے راز پنہاں ہیں

تمھارے گیسوئے شب تاب میری الجھنیں سُلجھا بھی سکتے ہیں

مجھے اُلجھا بھی سکتے ہیں

تمھارے ابروؤں کی ساری محرابیں میرے جذبوں کی قوسیں ہیں

تمھاری نرم پلکوں پر جو روشن ہیں وہ میرے ہی مقدر کے ستارے ہیں

تمھاری ہر ادا میری صدا ہے

تمھاری مسکراہٹ نے دلِ  ویران کے تیرہ دریچوں کو اُجالا ہے

یہ سب باتیں کہ پتّھر کی لکیریں ہیں مجھے تسلیم ہیں لیکن

حسینو گلعذار و یاد رکھنا

کہ میں اپنی اَنا کے سنگِ  خار اسے مزّین معبدوں کا جانشیں ہوں

کہ میری ذات میں کتنی صدائیں کتنی قوسیں کتنی محرابیں ہیں

جن کے نقش انمٹ ہیں

کہ میرے زندگی کا راز گو تُم ہو

مگر میں خود بھی اِک زندہ حقیقت ہوں مگر میں خود بھی اِک زندہ حقیقت ہوں

حسینو ، گلعذارو یاد رکھنا

٭٭٭

 

 

 

لڑکیو

 

اے زمانے بھر کی اچھی لڑکیو جیتی رہو

اپنے اپنے بستروں میں نرم تکیوں کو دَبائے

عہدِ  گزراں کے فسانوں کو تہی آنکھوں کے روزن میں بسائے

دھول پر چلتی رہو

شہر میں کہتے ہیں اچھی لڑکیوں کا کال ہے

جنس مہنگی ہو تو کھلیانوں میں آ جاتے ہیں لوگ

اور اگر نایاب ہوں تو بوتلوں کی بند مہریں زیست کا

عنوان ہیں

ہو سکے تو چُپ رہو

سنگریزے پاؤں میں چبھنے لگیں تو مخملیں جسموں

کی آوازیں سنو اور تمھارے پتّھروں میں کونپلیں جب سر اُٹھائیں تو سمجھنا

شہر کی گلیاں بڑی سنسان ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

عاشورہ

 

 

جا میں نے تُجھے دودھ کی دھاریں بخشیں

جا میں نے کلیجے میں سسکتے ہُوئے اوہام پہ پتّھر رکھّے

جا میں تجھے بے نُور نگاہوں کی قسم دیتی ہُوں

زرد صندوق کے کونے میں سیہ آنچل ہے

وہ جو ایّامِ  عزا میں ہی پہنتی ہوں میں

تعزیے آج ہر اک راہ پہ آ نکلے ہیں

چوبِ  پرچم تیرا بازو میرا آنچل پرچم

سلسلۂ ہائے ستم

شہر درد شہر ہیں نیزوں کی اَنی پر رقصاں

میری پتھرائی ہُوئی آنکھ میں بھی آنسو ہیں

میرے بالوں میں چمکتی ہوئی تاریں بھی تنی جاتی ہیں

میری پیشانی پہ ابھری ہوئی محراب دمک اُٹھی ہے

تم بھی تھامے رہو پرچم اس بار

ہاتھ کٹنے کا نہ ہو غم اس بار

مرثیے پڑھتے رہو بڑھتے رہو

کچھ زیادہ کرو ماتم اس بار

کچھ زیادہ کرو ماتم اس بار

٭٭٭

 

 

 

 

آؤ روئیں

 

آؤ روئیں

جو زبانیں کٹ گئی ہیں کہہ رہی ہیں آؤ روئیں

خوف و دہشت سے جو آنکھیں پھٹ گئی ہیں کہہ رہی ہیں آؤ روئیں

مُو قلم ٹوٹے ہُوئے بکھرے پڑے ہیں آؤ روئیں

علم و فن کے سینے میں خنجر گڑے ہیں آؤ روئیں

انگلیاں اپنی ہتھیلی سے جُدا ہیں آؤ روئیں

شہر نا پرساں کی خوں بستہ ہواؤ آؤ روئیں

غم زدہ بہنو یتیمی کا مقدر بیٹیو مجبور ماؤ آؤ روئیں

ایک بھی آنسو اگر تاریک آنکھوں میں بچا ہے آؤ روئیں

دل لہو ہونے میں اب کیا رہ گیا ہے آؤ روئیں

٭٭٭

 

 

 

 

پھر یادیں رہ جاتی ہیں

 

 

میری پلکوں پہ جب کوئی حسیں سایہ لرزتا ہَے

میری آنکھوں پہ جب دھیرے سے کوئی ہاتھ رکھتا ہے

میرے ہونٹوں پہ جب کوئی مدھر نغمہ مچلتا ہے

کسی جانب سے جب خُوشبو کی کوئی لہر آتی ہَے

کِسی کیاری میں جب خوش رنگ کوئی پھُول کھلتا ہے

کِسی رستے سے سَج بن کر کوئی جب بھی گزرتا ہے

کوئی دیوانگی کی حد تلک جب پیار کرتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

قدرِ  مُشترک

 

وفا اور بے وفائی میں جو قدرِ  مشترک ہے

اَب اسے معلوم کرنا ہے

اگر ’’ لا ‘‘ کے مساوی تُم ہو

اور مَیں کیفِ  بیش و کم کی منزل میں معلّق ہُوں

تو ایسا ہے

کہ اَب کچھ نسبتیں تبدیل ہونی ہیں

ذرا سی کسر باقی ہے

ہمیں اِک دُوسرے کو بھُول جانے میں

ذرا سی دیر باقی ہے

ہمیں اِک دُوسرے کو بے وفا کہہ کر

کہیں تازہ وفا کے خار و خَس دریافت کرنے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

چوری

 

 

ذرا چند لمحے چُرا لیں

چلو ہم زمانے سے بچ کر

اس آزارِ  روز و شب زندگی سے

غمِ  آگہی سے

نہ ہونے کے ڈر سے

ذرا دُور نکلیں

کِسی کنج غم آشنا میں

ذرا دیر بیٹھیں

کِسی مہرباں سے شجر کے تلے

چند لمحے کو ٹھہریں

کِسی خُوب صورت جزیرے پہ

کُچھ ثانیے رُک کے دیکھیں

کہ یہ زندگی کیا ہے

ہم کون ہیں

اور کِس کے لیے ہیں

س آزارِ  روز و شب زندگی سے

چلو ہم زمانے سے بچ کر

ذرا چند لمحے چُرا لیں

٭٭٭

 

 

 

 

کِس قدر

 

 

کِس قدر آسان لگتا ہے تمھیں

ایک پَل میں سارے رشتے توڑ دینا

سب تعلّق چھوڑ دینا

زندگانی کو نیا اِک موڑ دینا

کِس قدر آسان لگتا ہے تمھیں

یہ کہہ دینا کہ تم ہی میری بربادی کے ذمّہ دار ہو

مکّار ہو عیاّر ہو

بے حِس ہو دُنیا دار ہو

اور چند گھنٹے بعد

سب کچھ بھُول جانا

اور پھر اصرار کرنا

تم ہی میرا پیار ہو

تم ہی میری زندگی ہو

تم ہی میرا پیار ہو

کِس قدر آسان لگتا ہے تمھیں

٭٭٭

 

 

 

 

ڈیپارچر لاؤنج

 

 

تمھاری ساری اَدائیں ہیں میرے دلبر سی

اُسی طرح کے کھُلے بال ہیں وہی چہرہ

وہ بات بات پہ ہنسنا وہی کھلکھِلا اُٹھنا

وہ ہاتھ ٹھوڑی پہ رکھ کر خموش ہو جانا

وہ دیر تک کسی اَن دیکھے خواب میں رہنا

وہ رُوٹھنے کی اَدا مان جانے والوں سی

وہ حیرتوں میں حیا اَن کہے سوالوں سی

میں اپنے دھیان میں گُم دیکھتا رہا اُس کو

کِسی کی یاد میں گُم وہ خموش بیٹھی رہی

بس ایک ساعتِ  گزراں کے فاصلے پہ کوئی

اسی طرح سے ہو شاید میرے خیالوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

گیت

 

گوری تیرے نینوں میں دو دیپ جلے ہیں

جو سُندرتا بِکھرائیں

گوری تیرے کانوں میں دو پھول کھلے ہیں

جو سُونے بَن مہکائیں

گوری تیرے کاندھوں پر دو سانپ پڑے ہیں

جو اپنوں کو ڈَس جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

سَفر

 

تمھیں کیا خبر ہے

کہ یہ زندگی کِس قدر مختصر ہے

تُم اپنے شب و روز کی خوبصورت پناہوں میں ہو

تم نے دُکھ ذائقے کو ابھی تک چھُوا بھی نہیں ہے

تمھیں کیا خبر ہے

سیانوں نے سچ ہی کہا ہے

کہ یہ عُمرِ  گریزاں

حقیقت میں بس اِک مسلسل سفر ہے

تمھیں کیا خبر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

میڈیاکر MEDIOCRE

 

 

میں اُس وقت اُڑا پھرتا تھا

وقت میری بانہوں میں تھا

اور خواب ہی خواب تھے چاروں اور

جس جانب اُٹھتی تھیں نگاہیں

دھنک کے رنگ نظر آتے تھے

تم سا حسیں کوئی اور نہیں تھا

ایسے میں اک شام تم اسٹیشن پر اُتریں

(میں تم کو لینے پہنچا تھا )

دفتر کا اک ساتھی

مُجھ کو دیکھ کے اِک اسمائل دے کر پاس سے گُزرا

اگلے روز بڑا اترا کر

میں نے پُوچھا

کیسی تھی وہ

بولا بس میڈیاکر سی تھی

میں جا کر ڈکشنری پر سر دے پٹخا

مَیں نمبر ون کا متلاشی

عرش سے اِک دَم

فرش پر پہنچا

آج تلک اُٹھنے نہیں پایا

٭٭٭

 

 

 

 

سردیوں کی دھُوپ

 

ابھی کچھ روز پہلے

سردیوں کی دھُوپ میں

بیٹھے ہوئے اُس نے کہا تھا

زندگی کتنی حسیں ہے

پھُول کتنے خُوبصُورت ہیں

پرندوں کی اُڑانیں کتنی سندر ہیں

اور ساتھی من کو بھا جائے

تو جینے کا بہانہ مل ہی جاتا ہے

آج بھی ویسی سُنہری دھُوپ ہے

لیکن پرندے سر بہ زانوں

زندگی خاموش ہے

اور پھُول مُرجھائے ہُوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کزن

 

آج احساس ہُوا ہے مُجھ کو

تم نے سر پاؤں پہ رکھ کر میرے

بھیک مانگی تھی رفاقت کی جب

مَیں نے کُچھ بننے کی دھُن میں اُس وقت

اور کوئی حُور کوئی اپسرا پانے کے لیے

یا کسی اپنے سے مضبوط گھرانے کے لیے

تم کو تڑپایا تھا ٹھکرایا تھا

آخری اپنی ملاقات تھی وہ

حُور تو مِل گئی مجھ کو لیکن

اُس نے قدموں پہ کئی بار جھُکایا مُجھ کو

ایسے لمحوں میں خُدا جانتا ہے

تم کئی بار مجھے ٹوٹ کے یاد آئی ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

    رابن    ROBIN

 

 

میں تم سے بیس برس پیچھے تھا رابن

ورنہ ہم دونوں مِل جاتے

سمجھ نہ پایا میں تم کیا ہو

سُندر سُندر پنکھوں والی

نِیلی چڑیا

آنکھوں میں اِک حیرت

کہ یہ شخص مجھے کیوں سمجھ نہ پایا

سمجھ نہ پائیں تُم میں کیا ہُوں

اِک دیہات کا باسی

جس نے پہلی بار قدم رکھا تھا

ایسے شہر میں جو اُس شخص سے بیس برس آگے چلتا تھا

جِس نے پہلی بار ’’ لبرٹی ‘‘ کا رستہ دریافت کیا تھا

صرف تمھارے گھر جانے کو

(اِس رستے سے روز نجانے کتنی بار گزرتا ہوں اَب)

کچھ دن حیرت کے عالم میں

دیکھا اِک دُوجے کو ہم نے

پھر میں نے سوچا مَیں مَیں ہُوں

پھر تُم نے سوچا تم تم ہو

حالانکہ دونوں ہی غلط تھے

ورنہ ہم دونوں مِل جاتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

۱۹۷۶ کی ایک شام

 

 

یہیں اب روک دیتے ہیں محبت کی نرالی داستاں کو

وفا ہم کر نہ پائیں گے

جفا سہنے کا اَب یارا نہیں ہَے

( یہ سچ ہے اس قدر دُنیا میں کوئی بھی مجھے پیارا نہیں ہے )

بڑی مشکل سے ہم نے فیصلہ جو کر لیا ہے

اب چلو قائم رہیں اُس پر

میری زخمی اَنا

اب اور صدمے سہہ نہ پائے گی

کِسی سے ایک بھی حرفِ  شکایت کہہ نہ پائے گی

یہیں اَب روک دیتے ہیں محبت کی نرالی داستاں کو

٭٭٭

 

 

 

 

دلِ  زار

 

اے دلِ  زار ذرا غم کے سمندر سے نکل

سسکیاں لیتی ہُوئی سوچ

کہاں تک تجھے جینے کا سہارا دے گی

زندگی اپنے عز اداروں سے جینے کا ہُنر مانگتی ہے

آ میرے ساتھ ذرا کوئے ستم کیش میں چل

اے دلِ  زار سنبھل

٭٭٭

 

 

 

 

انٹیوشن ( INTITUTION )

 

یہ کیسی آزمائش ہے

مِرے مولا یہ کیسی آزمائش ہے

کئی دِن سے مِری آنکھیں ستاروں پر لگی ہیں

کئی دن سے زمیں کے باسیوں نے اپنی جانب کھُلنے والے

دَر مقفّل کر لیے ہیں

کہیں کُچھ ہونے والا ہے

کھُلی آنکھیں ہر اِک لمحے کی آہٹ پر دَھڑکتی ہیں

پھڑکتی ہیں

کہیں کُچھ ہونے والا ہے

مِرے مولا یہ کیسی آزمائش ہے

یہ کیسی آزمائش ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ماورا

 

چلو جسم و جان سے

ذرا ماورا ہو کے سوچیں

یہ سب کھیل کیا ہے

نہ ہم آئینہ میں

نہ سنگِ  گراں ہیں

تو کون و مکاں اپنے منظر میں کیوں

خار و خَس کی طرح اُگ رہے ہیں

چلو جسم و جاں سے ذرا

ماورا ہو کے سوچیں

٭٭٭

 

 

 

 

سروے     ( SURVEY )

 

سکوں کِس منطقے میں ہے

کوئی بتلائے مُجھ کو چَین کِس خِطّے میں ہَے

زمیں کا کون سا حِصّہ ہے جِس میں نیند آتی ہے

سُہانے خواب آتے ہیں

پرندے چہچہاتے پھُول کھِلتے اور جَھر نے گنگناتے ہیں

ستارے مسکراتے ہیں

سکوں کِس منطقے میں ہے ؟؟؟

٭٭٭

 

 

 

ٹیک اِٹ اِیزی ( TAKE IT EASY )

 

تُم نے مِلنا ہے ملو

ورنہ بچھڑ جاؤ اَب

یہ جو تلوار سی سر پر ہے ہٹا دو اس کو

دُکھ تو مُجھ کو بھی بہت ہو گا کہ یک جان تھے ہم

اور کُچھ روز ذرا تم بھی افسردہ ہو گی

پر یہ تلوار سی سر پر جو ہے ہٹ جائے گی

زندگی پھر کسی پہلو سے پلٹ آئے گی

جیتے جی ایسے تو مرنے کا نہ سامان کرو

ایسی باتیں نہ مِری جان کرو

زیست آسان کرو

٭٭٭

 

 

 

 

 

راستے تبدیل کر لیں

 

 

چلو اب اپنے اپنے راستے تبدیل کر لیں

مُجھے ہر شام کوئی کام یاد آنے لگا ہے

تمھارے دن مہینے مُجھ پہ ضائع ہو رہے ہیں

اَنا کا زخم خوردہ سانپ میرے اور تمھارے درمیاں

سرگوشیاں کرنے لگا ہے

بہت اچھے گزر جاتے ہیں دو دِن

اور باقی پانچ دن روتے کِلستے جلتے کڑھتے

سسکیاں لیتے گُزرتے ہیں

یہ کوئی زندگی ہے

تمھارے دِن مہینے بھی بہت اچھے گزرنے چاہئیں

اور مری شامیں بھی ذرا رنگین ہوں

چلو اب اپنے اپنے راستے تبدیل کر لیں

٭٭٭

 

 

 

 

    فلیش بیک     ( FLASH BACK )

 

 

چلو اِک بار پھر سوچیں

ہمارا میل ایسا بھی نہیں تھا

جس پہ پچھتاتے رہیں ہم تُم

چلو مُجھ میں وفا کم تھی

مگر تُم سے زیادہ با وفا

( تم جانتی ہو

اور میں بھی جانتا ہوں )

کوئی کیا ہو گا

تو پھر جو بھی ہُوا

کتنے سہانے دن ہمارے درمیاں گُزرے

تمھاری زُلفِ  پیچاں میرے شانوں پر

تمھارے احمریں لَب میری آنکھوں پر

بہت دن مہرباں ہوتے رہے ہیں

وہ دِن جو حاصلِ  عُمرِ  رواں تھے

وہ دن جو حاصلِ  عُمرِ  رواں ہیں

چلو اِک بار پھر سوچیں

٭٭٭

 

 

 

 

اشارہ

 

 

جب ملگجی شام ہو

اور دھندلی دھندلی بوندوں کی چادر

چاروں اور محیط ہو

اور تم گاڑی کی اگلی سیٹ پر

اپنے ساتھی کے قرب کی مہک

اور شام کے دلکش منظر سے اس درجہ مسرور ہو

کہ تمھارے پاس اظہار کے لیے لفظ باقی نہ رہیں

جب زیرِ لب کوئی اچھا سا خُوب صورت سا شعر پڑھنا

اور خالی نگاہوں سے

اپنے ساتھی کی طرف دیکھ کر

مسکرا دینا

فطرت کا یہ معصوم اشارہ

خود بخود مجھ تک پہنچ جائیگا

اور نہ پہنچے بھی تو کیا

٭٭٭

 

 

 

 

گنجائش

 

 

ہمارے درمیاں کیا رہ گیا ہے

نہ وہ میں ہوں

نہ وہ تم ہو

گلے شکووں کی بیساکھی سنبھالے

ہم منافق روز و شب جینے کی کوشش کر رہے ہیں

نئے الزام مُنہ کھولے کھڑے ہیں

پرانی ساری باتیں مِٹ چکی ہیں

بس اِک دُوجے کی لغزش ڈھونڈنی ہے

کوئی مضبوط سا تازہ بہانہ

جس میں یہ کہنے کی گنجائش نکل آئے

کہ میں اپنی وفا پر آج بھی قائم ہوں

پر تم بے وفا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

رنگ پریدہ

 

 

میل کے پتّھر دیکھ رہے ہیں

قرنوں کا گم گشتہ پیکر آیا تھا اور رُکنے کو تھا

لیکن دھُول کے اِک ذرّے نے

اس کے بالوں کی آوارہ لٹ سے اُلجھ کر

سرگوشی کی

ہم گم گشتہ

رنگ پریدہ

لہروں لہروں پانی پانی رستوں رستوں ساتھ چلے ہیں

صدیاں گہری سوچ میں تھیں خوابیدہ تھیں

ہم نے اُن کے کان میں موسیقی کے تار بچھا کر

اپنا رستہ ڈھونڈ لیا تھا

وقت نے پیچھے مُڑ کر دیکھا

ہمرکاب تھے

لہروں لہروں پانی پانی رستوں بکھر گئے تھے

پھر لمحوں کے سُندر بن میں

ہم دونوں چُپ چاپ خموش تھے گنگ کھڑے تھے

باتیں ہاتھوں پہ لکھّی تھیں

آنکھیں پوروں پر رکھّی تھیں

جسم کہاں تھے ؟

تب تم نے پوروں سے باتیں کی تھیں

اور لکھا تھا

رُکنا پتّھر ہو جانا ہے

ہم جو آج سفر میں ہیں

اس آج کو ختم نہ ہونے دیں گے

میں ذرّہ اور تو پیکر

پر اپنے عہد سے اِک پتّے کے وزن برابر ہٹنا اپنا کام نہیں ہے ‘‘

میل کے پتّھر دیکھ رہے ہیں

قرنوں کا گُم گشتہ پیکر آیا تھا اور رُکنے کو تھا

میل کے پتّھر دیکھ رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جُدائی کی گھڑی

 

 

تو جاناں

اب جُدائی کی گھڑی نزدیک آتی ہے

چلو آنکھیں پہ بوسہ دو

کہ اب بچھڑے تو شاید پھر کبھی ملنے نہ پائیں ہم

زمانہ درمیاں یوں آ گیا ہے

کہ اب دُوری یقینی ہو گئی ہے

ہم اپنے آپ میں گُم بڑھتے جاتے تھے

بلا سوچے بلا سمجھے

مگر اب کے

زمانہ درمیاں یوں آ گیا ہے

کہ خوابوں کی کوئی تعبیر ممکن ہی نہیں ہے

اور کچھ اس میں ہماری اور تمھاری نیتّوں کا دوش بھی ہے

تو جاناں

اَب جُدائی کی گھڑی نزدیک آتی ہے

چلو آنکھوں پہ بوسہ دو

کہ اب بچھڑے تو شاید پھر کبھی ملنے نہ پائیں ہم

٭٭٭

 

 

 

 

قفس آشنا

 

 

پرندہ جب قفس کی تیلیوں سے

پیار کرنا سیکھ لیتا ہے

تو باہر کی فضائیں

اجنبی بن کر اُسے ڈسنے کی آتی ہیں

وہ اپنے دانے دُنکے

اپنے صیّادوں کے چہروں

اور اپنی قید کے ماحول سے

کچھ اِس قدر مانوس ہوتا ہے

کہ اب آزاد بھی کر دو

تو واپس لَوٹ آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پریپریشن

 

 

ہمیں تیّار کرنا ہے

اب آنے والی ساعت کے لیے

خود کو

ہمیں تیّار کرنا ہے

نہ میں الزام دُوں تم کو

نہ تم الزام دو مُجھ کو

وفا اور بے وفائی میں جو اِک بار یک سا پردہ ہے

اُس کو کیوں اٹھائیں ہم

جہاں تک آ چکے ہیں

اُس سے آگے بڑھ نہیں سکتے

تو واپس لوٹ جائیں ہم

نہ میں الزام دوں تم کو

نہ تم الزام دو مُجھ کو

کہ اس سے آگے کی منزل

بڑی ہی سخت ہے جاناں

کہ اس سے آگے کے لمحے

بڑے ہی جان لیوا ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ماہئے

 

تیرے قدموں کی دھُول سجن

جہاں جہاں بِکھری ہے

کھِلتے گئے پھُول سجن

…..٭…..

 

محلوں میں نہیں رہنا

تیرے بِن میرے سجنا

مجھے سانپ لگے گہنا

…..٭…..

 

کوئی بات تو کر سجنی

دونوں چُپ بیٹھے ہیں

کیسے کٹے گا سفر سجنی

…..٭…..

 

تارے تیرے قدموں میں

زہرہ، قمر، سورج

سارے تیرے قدموں میں

…..٭…..

 

سوہنا رب میرا خیر کرے

کِسی کی نہیں پرواہ

کوئی کِتنا ہی وَیر کرے

…..٭…..

 

سب لوگ نہیں ملتے

کلیوں سے شاخوں پر

سب پھول نہیں کھِلتے

…..٭…..

 

اظہار نہ ہم کرتے

اپنا جو بس چلتا

کبھی پیار نہ ہم کرتے

…..٭…..

 

کجرے کی دھار سجن

تجھے تو خبر بھی نہیں

گئی کتنوں کو مار سجن

٭٭٭

 

 

 

 

ذرا سا زیادہ

 

 

سات برس بعد ایک دن مجھے محسوس ہُوا کہ

ہماری محبت مر چکی ہے

اور ہم اس کی لاش کو چار پہیوں والی گاڑی پر رکھے

اِدھر اُدھر گھسیٹتے پھر رہے ہیں

روزانہ صبح ایک چائے کی پیالی پر ہم چند پھیکے بے رنگ

جملے بول کر سمجھتے ہیں کہ یہ لاش جی اُٹھے گی

لیکن اعتبار نام کی چڑیا جب منڈیر سے ایک بار

پھُر سے اُڑ جائے

تو واپس وہاں کبھی نہیں آتی

اس لاش کی بوٹیاں نوچتے نوچتے ہم خود بھی تھک چکے ہیں

لیکن عادت بھی تو کوئی چیز ہے

سو ہمیں ایک دُوسرے کی عادت سی ہو گئی ہے

ہم اچھی طرح جانتے ہیں

کہ اب ہمارے درمیاں کچھ باقی نہیں رہا

لیکن پھر بھی نہ ملنے کا کرب ملنے کی تکلیف سے ذرا سا بہتر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تنہا تنہا

 

دیکھو جان

ہم دونوں اِس دُنیا میں کتنے تنہا ہیں

تمھاری اَمّی سوشل ورکر ہیں

تمھارے اَبّو سیاست دان

تمھارا بھائی اپنی آئی ٹی میں دن رات مگن ہے

تمھیں کیمپس میں داخل کرا کے ان سب سے بڑا تیر مارا ہے

کسی کو تمھارے انفرادی مسائل سے کوئی دلچسپی ہے ؟

کیسے ہو گی

میں تم سے بھی زیادہ اکیلا ہُوں

میرے ابّو اور بھائی تو لوہے کا کاروبار کرتے کرتے

ٹھنڈا لوہا بن کر رہ گئے ہیں

اَمّی اِتنی موٹی ہیں

اور ان کی سوچ گوالے سبزی والے اور دھوبی سے

آگے کبھی گئی ہی نہیں

بہنیں کھاتی ناول پڑھتی اور سوتی ہیں

دیکھو جان

ہم دونوں اِس دُنیا میں کتنے تنہا ہیں

آؤ نہر کے پار

درختوں کے اُس جھُنڈ میں سب سے چھُپ کر بیٹھیں

٭٭٭

 

 

 

 

قُرب کا قِصّہ

 

محبت قُرب کا قِصّہ ہے

ایک لمحاتی تقاضہ ہے

جو بعض اوقات بارش کے ایک تنہا قطرے کی طرح

خشک دھرتی جیسے وجود پر چَھن سے گِرتا اور

اپنے مرکز کی طرف واپس لَوٹ جاتا ہَے

اور کبھی چند دِن

چند ہفتے چند ماہ

ہماری دو پہریں اور شامیں

کسی ایسے ساتھی کے ساتھ گزرتی ہیں

جسے ہم دریافت کرتے ہیں

اور جو ہمیں دریافت کرتا ہے

تب ایسے چند مہینے گزر جانے کے بعد

ہمارا پارے جیسا علم کا متلاشی وجود

کسی نئے چین کی جستجو کرتا ہے

ہمارے آئیڈیلز بڑے مقدّس ہیں

مگر یہ وہ ’’ عنقا ‘‘ ہیں جن کی تلاش کے بہانے

ہم ان لوگوں کو بڑی آسانی سے

بھُول جاتے ہیں جنھیں ہم بھُولنا چاہتے ہیں

اور ان کے باعث ہی

ہم سب کچھ حاصل ہوتے ہوئے بھی

اپنے آپ پر وہ مظلومیت طاری کر لیتے ہیں جس میں

کچھ حاصل نہ ہونے کے لُطف کی لذت ہوتی ہے

ہمارے آئیڈیلز بڑے مقدّس ہیں

ہم نے اپنی اپسراؤں کے گلاب چہروں کو حریری

نقابوں میں چھُپا رکھّا ہے

اور ہمارا تصور محملوں جدائیوں اور فاصلوں کے بغیر مکمل نہیں

مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے

کہ محبت قرب کا قصّہ ہے

ایک لمحاتی تقاضہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سالِ  نو

 

سالِ  نو کی پہلی سحر کو چڑھتے سُورج کی کِرنوں کے سائے میں

آؤ ہم اِک عہد کریں

وہ بازی پھر جیتیں جو ہم نے تخلیق کے دن ہاری تھی

اپنی کالی چونچ سے دھرتی کو کھودیں اوہام کی لاشیں دفن کریں

پھر صدیوں کے یخ بستہ تابوت کی تہ سے ایک ہیولیٰ اُٹھے

جو لمحوں ، گھڑیوں، دن اور راتوں کو جینے اور دھڑکنے

کے اسلوب سکھائے

سالِ  نو کی پہلی سحر کو

ہم ذرّوں کے قالب میں پھر ایک نئی رعنائی بھر دیں

بیتے دنوں کا اِک لمحہ

روزِ  ازل سے آنے والے لمحوں کی بُنیاد بنا ہے

آؤ ہم ان بنیادوں پر ہونے والی تعمیروں کو اپنے لہو سے زینت بخشیں

٭٭٭

 

 

 

 

دو راہا

 

 

میں کئی دن سے

تیرے گھر کے دوراہے پہ کھڑا سوچ رہا ہوں

تیری معصوم ہنسی سُرخ لبوں کی جنبش

چشم و ابرو کے اشاروں میں سمٹتا پیکر

یہ دھنک رنگ شباب

کتنی بے باک نگاہوں کے فسانوں میں ڈھلا

تجھ کو اجداد سے نچڑی ہوئی تہذیب مِلی

تجھے جس نے جنم دینا ضرورت کا تقاضا سمجھا

اس تقاضے کے عوض

اپنی تخلیق کی رعنائی کے نیلام میں مصروف رہی

تیری معصوم ہنسی سرخ لبوں کی جنبش

یہ دھنک رنگ شباب

کاش بے باک نگاہوں سے نہ اُبھرا ہوتا

کاش اس کوکھ کی قربت نے تجھے زہرِ  مجسّم نہ بنایا ہوتا

میں کئی دِن سے

تیرے گھر کے دوراہے پہ کھڑا سوچ رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

قریب آؤ

 

 

قریب آؤ

اور اپنی سانسیں میرے بدن کے ترازوؤں کو اُدھار دے دو

میرے بدن کے اُداس گوشے

( ترازوؤں کے قدیم مسکن )

یہ سوچتے ہیں کہ کب پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ سکوت کے کان میں بجے گی

بہشتِ  موعود

اپنے سیبوں کی قاشچیں

میرے بنجر قدیم ہونٹوں پہ کب دھرے گی

طلوع ہستی کا دائرہ کب میرے بدن محیط ہو گا

میں سَرد خانوں سے آ رہا ہوں

قریب آؤ

اور اپنی سانسیں مرے بدن کے ترازوؤں کو اُدھار دے دو

٭٭٭

 

 

 

 

تہمتیں یاد آ رہی ہیں

 

 

رفاقتیں یاد آ رہی ہیں

میں غم کے بارِ  گراں کو اپنے نحیف کاندھوں پہ تھامتا ہوں

کہ حسرتیں یاد آ رہی ہیں

تمام چہرے میری نگاہوں کے ذائقوں کو پکارتے ہیں

تمام آنکھیں سوال بن کر کھلی ہُوئی ہیں

کہ ظلمتیں یاد آ رہی ہیں

میں اپنے چہرے پہ آنے والی رُتوں کا نوحہ ابھی سے پڑھ لوں

میں تیرے ماتھے کی سلوٹوں میں حکایتوں کی تلاش کر لوں

٭٭٭

 

 

 

فضا کہتی ہے

 

جب بچھڑتے ہیں

تو یوں لگتا ہے جیسے جسم کا حصہ کوئی کٹ کر

صدا کرتا ہے

اور جیسے ہوا کی سسکیاں کہتی ہیں

ہاں تم میرے اپنے تھے

جب بچھڑتے ہیں

تو گزری ساعتوں کی روشنی ہم کو بلاتی ہے

فضا کہتی ہے

ہاں تم وہ پرندے تھے جو مجھ میں سانس لیتے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

برسوں پہلے

 

برسوں پہلے کسی نے

طویل عمر کی دُعا دی تھی

اور ساتھ یہ بھی کہا تھا

کہ تُم ہنستے اچھے لگتے ہو

شاید اسی لیئے ہی

زندہ بھی ہوں اور خوش بھی

کہ جینے کا تو شوق نہیں

مگر یہ حوصلہ بھی نہیں

کہ اُس کی بات ٹال سکوں

٭٭٭

 

 

 

رنگ شکلیں بدلتے ہیں

 

 

اور مجھ سے پہلے کے لوگوں نے اِک زندگی رات دن

لفظ اور رنگ کا حُسن دریافت کرنے میں تج دی ہے

مجھ بے ہُنر کا کوئی لفظ یا رنگ کی کوئی جنبش

بس اِک ثانیے کو

کسی چاند ماتھے پہ چمکے ، کِسی آنکھ میں مسکرائے

وہ ساعت پلٹ کر پھر آئے نہ آئے

٭٭٭

 

غزلیں

 

 

جب لگیں زخم تو قاتل کو دعا دی جائے

ہے یہی رسم کہ یہ رسم اٹھا دی جائے

 

انہی گلرنگ دریچوں سے سحر جھانکے گی

کیوں نہ کھلتے ہوئے زخموں کو دعا دی جائے

 

ہم نے انسانوں کے دکھ درد کا حل ڈھونڈ لیا

کیا برا ہے جو یہ افواہ اُڑا دی جائے

 

کم نہیں نشے میں جاڑے کی گلابی راتیں

اور اگر تیری جوانی بھی ملا دی جائے

 

ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے غزل کا فن کیا

چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے

٭٭٭

 

 

 

 

اگرچہ خوف کے عالم میں خواب ختم ہوا

لگا کہ روح پہ طاری عذاب ختم ہوا

 

یہ ملنا اور بچھڑنا ہے پانیوں کی طرح

کہ ایک لہر اٹھی نقش آب ختم ہوا

 

کسی کو پڑھ لیا اک ہی نشست میں ہم نے

کوئی ضخیم تھا اور باب باب ختم ہوا

 

اگرچہ مرگ وفا ایک سانحہ تھا مگر

میں خوش ہوا کہ چلو یہ سراب ختم ہوا

 

مہک کے ساتھ ہی رنگت بھی اڑ گئی خالد

بچھڑ کے شاخ سے خود بھی گلاب ختم ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بس اب تو خواب کی صورت ہے آرزوئے طرف

وہ یاس ہے کہ تمنّا محال ہے اب کے

 

مثالِ  سنگِ  سرِ  راہ ہم ہیں مہر بہ لب

ستم کشانِ  وفا کا یہ حال ہے اب کے

 

کسے بتائیں کہ ہم ہیں ہُوئے جو کشتۂ شب

کہاں نظر کو بھی اذنِ  سوال ہے اب کے

 

شکستِ  ذات کے انمول ذائقوں کے سبب

خیال ہے نہ ہجومِ  خیال ہے اب کے

 

نہ زخمِ  جاں کی ضرورت نہ سیلِ  غم کی طلب

کہ میرے پاس جُدائی کا سال ہے اب کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ بتّے پھول پھل سب نُطق و لَب کے استعارے ہیں

زمیں خاموش لگتی مگر کہتی وہ سب کچھ ہے

 

سنا ہے نَے سے بھی آواز آتی ہے جدائی کی

سُنا ہے سسکیاں لے لے کر کہہ دیتی وہ سب کچھ ہے

 

عجب رشتہ ہے میرے اور اس کے درمیاں خالدؔ

کہ میں اس کا نہیں کچھ بھی مگر میری وہ سب کچھ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آہٹ تو ہو بہو دلِ درد آشنا کی تھی

یہ گریۂ فضا تھا کہ سسکی ہوا کی تھی

 

چہرے پہ اس کے آج ہے سرسوں کھلی ہوئی

وہ جس کی بات بات میں خوشبو حنا کی تھی

 

سینے میں جو اتر گئی تلوار کی طرح

وہ بات تو مرے کسی درد آشنا کی تھی

 

ہم رہروانِ منزلِ امید کیا کہیں

تحریر یہ لکھی ہوئی دستِ قضا کی تھی

 

وہ چشم و لب وہی تھے جنہیں ڈھونڈتا ہوں میں

گو اس کی بات بات میں تلخی بلا کی تھی

 

ہر سنگِ راہ تھا، مرا مونس، مرا حبیب

کس کس جگہ پہ چھاپ ترے نقشِ پا کی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ جس کا ذکر بہت اپنی شاعری میں ہے

اک اور شخص بھی اب اس کی زندگی میں ہے

 

وہ ربط رکھے گا مجھ سے بڑے خلوص کے ساتھ

مگر وہ ربط جو گردن میں اور چُھری میں ہے

 

بڑے خلوص سے دیتا ہے وہ فریب مجھے

میں سب سمجھتا ہوں پر لطف تو اسی میں ہے

 

نشانہ باندھ کے مارا مجھے اندھیرے سے

وہ جانتا تھا کہ یہ شخص روشنی میں ہے

 

وہ نازکی جو کسی کے لبوں سے ہے مخصوص

جنابِ میؔر کہاں گل کی پنکھڑی میں ہے

 

ہزار جلوہ نمائی ہو راہ میں خاؔلد

مگر وہ لطف کہاں ہے جو سادگی میں ہے

٭٭٭

ماخذ:

اردو محفل اور اردو ورلڈ

http://forum.urduworld.com/f2737/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید