زین العابدین
راجندر سنگھ بیدی
اونگھ،جانے کے عرصہ بعد تک، سگریٹ کا وہ ٹکڑا، میری انگلیوں میں بے ارادہ تھما، جلا کیا … جلا کیا …
اونگھنے کے عمل میں جو نجات کا پہلو ہوتا ہے، میں اُس سے پوری طرح لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔ بیداری کی تلخ حقیقتوں کو کس طرح انسان خواب کے حسین بطلان میں کھوئے چلا جاتا ہے … ایک دم سگرٹ کے بچھّو نے مجھے دو انگلیوں کے درمیان کاٹا۔ میں اپنی جگہ سے اچھل پڑا۔ سگریٹ نے ایک لمبی جست لی اور چٹائی پر گِر کر سلگنے لگا۔ اُسے پانو سے خاموش کرتے ہوئے میں نے میز پر پڑی ہوئی پیالی کو ہاتھ سے چھوا۔ چائے شربت ہو چکی تھی اور نیو جہانگیر ریسٹوران کا خوبصورت ایرانی نژاد چھوکرا اور دہکتے ہوئے کوئلے، پاس پاس پڑے، ایک دوسرے سے ہمدردی کرتے ہوتے، سوتے سوتے، سو ہی گئے تھے۔
سرد خون والے جانور، مثلاً سکھوں کے عہدِ حکومت کی بنی ہوئی ہماری کوٹھڑی کی ٹوٹی پھوٹی چھت کے پیچھے بسنے والے اسفنجی کیڑے، ہزار پا، چھپکلیاں اور ان کے رینگنے والے بھائی منجمد ہو چکے تھے۔ خون کا دورہ ان کی رگوں میں سست پڑ گیا تھا، یہاں تک کہ انھوں نے خوراک کے لیے بھی جدوجہد چھوڑ دی تھی۔ وہ عیار چھپکلی جو ہر روز دبے پانو روشنی کے گرد طواف کرنے والے پروانوں کا شکار کرنے آیا کرتی تھی ،اس روز نہ آئی اور جھینگروں نے بھی تو سرِ شام ہی شور مچایا تھا، جب کہ سورج کی آخری شعاعوں کی گلابی گرمی کو سردی تسخیر کر رہی تھی۔ سردیوں کے شروع میں میدان میں اتر آنے والی ابابیل، جس نے ریسٹوران کے کلاک کے پیچھے اپنا گھونسلا بنا رکھا رکھا تھا، پر پھڑپھڑا کر، اپنے بچوں کو اُن میں لپیٹتے ہوئے، اُن کی حرارت کو صَرف ہونے سے بچا رہی تھی۔
اُس وقت میں بہت سے نرم و گرم کپڑوں میں لپٹا ہوا تھا اور میری تلخ یاد داشت پر فراموشی کا عمل تبخیر شروع تھا۔ اچانک سگریٹ نے مجھے جگا دیا اور آنکھیں کھلتے ہی میری نظر چھت پر ایک بے قاعدہ دائرہ بناتی ہوئی چارپائی کے نیچے دو سمٹے ہوئے پیروں پر جا پڑی۔ کچھ دیر گو مگو کی حالت میں ، میں اُن پیروں کو گھورتا رہا۔ پھر یکایک کسی خیال کے آنے سے میں نے اِن پیروں کو چھو دیا۔ چھوا ہی نہیں بلکہ زور سے کھینچا اور چلاّیا۔
’’زینو کے بچّے ——‘‘
زینو، ان پیروں کا مالک ایک تیس سالہ ننگ پیری نوجوان، اسفنجی کیڑے کی طرح سکڑ گیا۔ لیکن یہ جانتے ہوئے کہ اب وہ چھُپ نہ سکے گا اپنی کہنیوں کی مدد سے پیچھے کو سرکا، اَکڑوں بیٹھا، بالوں کو جھٹکے سے سیدھا کیا اور بے حیاؤں کی طرح سیدھا کھڑا ہو گیا۔ مجھ سے نظریں چرانے کی بجائے اُس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ میں نے اُسے کان سے پکڑا اور کھینچتا ہوا لیمپ کے پاس لے گیا ،بالکل اسی طرح جیسے وہ عیّار چھپکلی کسی بڑے سے پروانے کو پکڑ کر روشنی کی طرف بڑھتی تھی۔
زینو کی آنکھیں آج معمول سے زیادہ خونی ہو رہی تھیں۔ بال بھی پہلے سے زیادہ منتشر تھے اور نچلا ہونٹ لٹک کر پان خوردہ دانتوں کی سیاہی کو نمایاں طور پر دکھا رہا تھا۔ اُس کے زرد، دُبلے، آمدنی کم خرچ زیادہ چہرے کی لکیریں گہری ہو رہی تھیں اور اُس کے چوری کے ہر روز بڑھتے ہوئے تجربے کو عیاں کر رہی تھیں۔ شاید زینو چوری کے ذریعے اپنی آمدنی کو خرچ کے برابر کرنا چاہتا تھا۔ چوری کے روپے آمدنی کو خرچ کے مساوی ہی نہیں کرتے، بڑھا بھی دیتے ہیں۔ مگر وہ آمدنی کم خرچ زیادہ چہرے کے خد و خال کو نہیں بھرتے اور شاید اِسی لیے چوری کا سا نیک اور پُر منفعت پیشہ بُرا ہے۔
میں نے قدرے سختی سے کالر کھینچا اور مجھے یاد آیا کہ زینو کی پہنی ہوئی قمیص میری اپنی ہے، وہی جو میں نے چند دنوں کے لیے اُسے پہننے کو دی تھی۔ گرفت کو ڈھیلا کرتے ہوئے میں نے پوچھا۔
’’کیوں بے، سالے، بدمعاش، بولتا کیوں نہیں؟ کیا ہو رہا تھا یہاں؟‘‘
میں یونہی پڑا تھا، میں سوتے سوتے چارپائی پر سے گِر پڑا تھا، میں چارپائی کے نیچے آپ کے لال املی کمبل کو ڈھونڈ رہا تھا —— وہی پھٹا ہوا کمبل، جو آپ نے نجس سمجھ کر پھینک دیا ہے۔ وہی جس میں جوئیں چل گئی تھیں، یاد نہیں آپ کو؟ ہاں ہاں وہی —— اور اس قسم کی یاوہ گوئی کی بجائے اس نے اپنے سر کو جھنجوڑا اور دو ٹوک جواب دیا۔
’’چوری‘‘!
اِس مختصر ، جامع، نفسیات آزما جواب نے مجھے چند لمحوں کے لیے خاموش کر دیا اور میں ایک ایسی دنیا میں اڑنے لگا، جہاں ایمان، شرافت ایک اضافی بات ہو جاتی ہے اور تھوڑے سے تجزیے سے دیانتداری اور چوری میں، کانوں کو ہاتھ لگانے اور تفاوت رہ ست کجا تا بہ کجا والی بات نہیں رہ جاتی۔ اس پُر نجات خاموشی کے عالم میں میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ ’’سالا‘‘ اپنی مذموم عادت سے باز نہ آئے گا؟ کئی مرتبہ اُسے چوری کے الزام میں قرار واقعی سزا دی جا چکی ہے… جس طرح نیلے رنگ کا شیشہ سفید روشنی کے باقی چھ رنگوں کو جذب کرتے ہوئے نیلے رنگ ہی کو گزرنے کی اجازت دیتا ہے، اسی طرح اس کی ذہنیت بھی سب اچھی باتوں کو جذب کرتے ہوئے چوری کی طرف آزادانہ رجوع کرتی ہے۔
’’تم نے خان کا سوٹ کیس کھولا ہے؟‘‘ میں نے اُسے آستین سے پکڑتے ہوئے کہا۔
’’ہاں‘‘
’’اگر خان دیکھ لے تو؟‘‘
زینو کانپ رہا تھا، خوف سے نہیں، سردی سے، اور بولا۔ ’’دیکھ لے تو پکڑ لے، اسی طرح آستین سے یا گریبان سے، جیسے آپ نے مجھے پکڑ رکھا ہے اور نہیں چھوڑتے، وہ بھی نہ چھوڑتا تو کیا بگاڑ لیتا میرا ——؟‘‘
میری بات کے جواب میں زینو یہ بھی کہہ سکتا تھا، آپ ہی کی قمیص پھٹ جاتی نا —— میرا کیا بگڑ جاتا؟ اور یوں دریدہ دہنی کے علاوہ ایک لطیفہ ہو جاتا۔ لیکن اب جو کچھ ہو رہا تھا وہ کیا کسی لطیفے سے کم تھا؟ میں نے مرعوب ہوتے ہوئے اُس کی آستین کو چھوڑ دیا، چسٹر کو اپنے گرد لپیٹا، بٹن بند کیے اور اس کے کندھے کو تھپکتے، لبوں سے ایک بوسے کی آواز پیدا کرتے ہوئے کہا۔
’’شاباش! اللہ تمھارے نیک ارادوں میں برکت دے، بیٹا!‘‘
اور پھر پلٹتے ہوئے میں نے غصے سے کہا۔ ’’جیل خانے کی ہوا راس آئے گی تمھیں، اُلّو کے پٹھے!‘‘
اسی وقت زینو نے انگلیوں کی کنگھی بنائی، اپنے منتشر بال درست کیے اور اپنے گھٹنوں سے مٹی جھاڑی۔ میری بات کے جواب میں وہ قدرے دلیری سے بولا۔
’’آپ کے خیال میں جیل کی زندگی اس زندگی سے بُری ہے؟ وہاں بھی اللہ روٹی دے گا، اللہ سب کا رازق ہے۔ واللّٰہ خیر الرازقین…‘‘
میں نے دل میں سوچا۔ عجب ہے اللہ!اور پھر میں نے کہنا چاہا، اللہ میرا بھی تو رازق ہے۔ واللہ خیر الرازقین مجھ پر بھی تو عائد ہوتا ہے اور بہتر طور پر، اِس خان پر جس کا سوٹ کیس تم نے ابھی ابھی ناپاک ارادے سے کھولا ہے۔
—— اور پھر زینو خود ہی چپ چاپ ڈیٹ مار کی خالی پیٹی پر بیٹھ گیا۔ شاید وہ اندھیرے میں بیٹھ کر اپنی ندامت کو چھپانا چاہتا تھا۔ میں چسٹر اور جوتوں سمیت بستر میں جا گھسا اور ایک کونے سے اُسے دیکھنے لگا۔ زینو نہایت بے پروائی سے بیٹھا اپنے دانتوں کی میل کرید رہا تھا۔ پھر اُس نے احتیاط سے قمیص اتاری۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا اور سوچا ، زینو کو کچھ بھی کہنا بے فائدہ ہے۔ لاحاصل۔ میں نے اُسے اسٹوو گرم کرنے کو کہا اور خود اُٹھ کر خان کا سوٹ کیس بند کرنے لگا۔ اُس وقت خان نے چارپائی پر پہلو بدلا، چارپائی چیخی اور میں نے کانپ کر سوٹ کیس پر سے ہاتھ اٹھا لیا۔ خان اپنے پتلے سے لحاف میں سکڑ گیا۔ شاید خون کا دورہ اُس کی رگوں میں بھی سست ہو چکا تھا۔
زینو کا پورا نام زین العابدین تھا … عابدوں کی زینت ۔ لیکن چوری عجب قسم کی عبادت ہے، جس کی تلقین ہماری مذہبی کتابوں میں شاید غلطی سے رہ گئی ہے۔ اگر ہمارا معبود حق تلفی اور زبردستی کو دیکھ کر بھی جامد رہتا ہے، اپنی تعریف سے بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا ، یا وہ کوئی بڑا چور ہے تو زینو اسم با مسمٰی تھا۔
حقیقت میں زینو کا کوئی خاص نام نہ تھا ، محض اس لیے کہ سب اُس سے وافر محبت کرتے تھے … محبت جو نفرت کے بعد پیدا ہوتی ہے جس میں جذبات کو دخل ہوتا ہے، اِدراک کو نہیں۔ زینو کا نام وقت اور جگہ کی مناسبت سے رکھ لیا جاتا تھا۔ اس مستقل نام کے نہ ہونے کا زینو کو گِلہ تھا۔ لیکن شدید نہیں۔ زینو میں شدت کسی چیز کی نہ تھی۔ وہ کھلکھلاکر ہنستا اور نہ گِڑ گڑا کر روتا۔ اس کے رونے اور ہنسنے میں تمیز مشکل سے ہوتی تھی —— والدین شاید زینو کو ہلالِ عید اور اس قسم کے مشکل ناموں سے پکارتے ہوں گے، بجائے اس کے کہ حرامی یا ایسے ہی کسی آسان نام سے پکارتے۔ کوٹھڑی میں بسنے والے یارانِ طریقت سب کے سب زینو کے گرویدہ تھے۔ اِس لیے وہ اُسے ہر دفعہ اپنے من مانے نام سے پکارتے، خان اور وحید اُسے ’’بیٹا‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ شریف کاتب اُسے ’’سالا‘‘ کہا کرتا تھا اور زینو جب سالے کے نام پر لبیک کہتا، تو شریف کو ایک خاص قسم کی خوشی ہوتی۔ وہ خوشی جو گُدگدی یا میٹھی میٹھی خارش کے مشابہ ہوتی ہے اور عموماً ایسے رشتوں سے ہی حصّے میں آتی ہے ——کوئی بزعم خود باپ تھا اور کوئی بہنوئی اور اس طرح بغیر کسی عورت کے وہاں ایک بڑا سا کنبہ بس رہا تھا۔
ہماری کوٹھڑی میں ایک نو مسلم راجپوت رہتا تھا۔ خان اُسے تکلف سے مہدیِ اسلام کے لقب سے یاد کرتا تھا۔ مہدیِ اسلام نومسلم ہونے کی وجہ سے بہت پارسا اور نمازی تھا اور چونکہ خود تجرد پسند تھا، اس لیے زینو کو سالے کی بجائے ماموں کہہ دیا کرتا تھا۔
زینو کی مجھ سے پہلی ملاقات ایک حادثے کی نوعیت رکھتی تھی۔ پُل پختہ کے تاریخی بلوے میں مَیں مجروح ہو کر ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ وہاں میرے ساتھ زینو کی چارپائی تھی۔ اُسے غالباً چوری کے الزام میں پیٹا گیا تھا۔ اُس کا چہرہ خاک اور دھول میں اَٹا پڑا تھا۔ اُن میں سے دو آنکھیں باہر گھور رہی تھیں۔ منھ سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کی جیب میں دو دانت تھے جو اس نے نہایت احتیاط سے سنبھال کر رکھے تھے ۔غالباً انہی دانتوں کے سلسلے میں اُس نے مجھے بلایا اور پوچھا۔
’’آپ کیا کام کرتے ہیں؟‘‘
’’دار الترجمہ میں نوکر ہوں‘‘ میں نے کہا۔
’’کیا نوکری ہے؟‘‘
’’دبیر اوّل‘‘
’’دبیر اوّل کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’ہیڈ کلرک —— بڑا کلرک، منشی بڑا منشی، بڑا بابو‘‘ میں نے ذرا وضاحت سے کہا۔
زینو جو اس وقت بیٹھا ہوا تھا مایوس سا ہو کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ اُس وقت دونو دانت اُس کے ہاتھوں میں تھمے ہوئے تھے جنھیں وہ مجھے دکھانا چاہتا تھا۔ وہ جمائی لیتے ہوئے بولا۔
’’میں نے سمجھا آپ ضلع کچہری میں چپراسی ہیں۔‘‘
میں نے اپنی شرمندگی کو چھپاتے ہوئے کہا۔ ’’آپ نے یہ اندازہ کیسے لگایا؟‘‘
’’آپ کی شکل سے‘‘ اُس نے بلا تامل کہا۔
میں نے خجل ہو کر سر گرا لیا۔ دانت برآمد کرتے ہوئے زینو ایک رازدارانہ لہجے میں بولا۔ ’’اُن حرام زادوں نے میرے دو دانت توڑ دیے ہیں۔ اب بھلا یہ دودھ کے دانت تھوڑے ہیں جنھیں سورج کی طرف پھینک دیا جائے گا اور وہ پھر سے پیدا ہو جائیں گے۔ کیا آپ کا کوئی بخیل (وکیل) واقف ہے جو لاٹ کی کچہری (ہائی کورٹ) تک پہنچتا ہو۔ میں نے سنا ہے دانت توڑنا سرکار میں بڑا جرم ہے۔ دانت توڑنے والے سے پچاس روپئے جریمانہ (جرمانہ) وصول کر کے دانت کے مالک کو دیا جاتا ہے۔ اب میرے پاس مقدمے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ آپ مقدمہ کر کے اِن دو دانتوں کا سو روپیہ لیں اور بیس مجھے دیدیں۔ مجھے بڑی ضرورت ہے۔‘‘
بھلا اس سے زیادہ نفع بخش سودا اور کیا ہو گا۔ میں نے سوچا اور پھر زینو سے بھی زیادہ گہرے رازدارانہ لہجے میں مَیں نے کہا۔ ’’سو؟ ——شاید تمھیں دو سو مل جائیں۔ ان دانتوں کو نیلام گھر میں پہنچا دو۔‘‘
اس وقت زینو تقریباً ادھ مُوا ہو رہا تھا۔ میں نے اُسے پیسوں، چٹکلوں، شعروں سے اور خوبصورت عورتوں کی تصویریں دکھا کر اُس کے زندگی میں مٹتے ہوئے یقین کو جلا دی۔ میری رفاقت میں وہ بہت جلد تندرست ہو گیا۔ میں نے اُس سے بھی ایک قدم آگے اٹھایا۔ زینو جو کہ بالکل بے یار و مددگار تھا، اُس کی بے کسی کا احساس کرتے ہوئے، یا دوسرے لفظوں میں اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر میں نے اُسے اپنے پاس بلا لیا۔ لیکن اُس نے آتے ہی گوناگوں مصیبتوں میں مجھے مبتلا کر دیا۔ بارہا میں سوچتا ہوں، میں نے کیا بُرا کیا جو ایک بازاری کتّے کی طرح ارزاں، ایک کیڑے کی طرح بے قیمت انسان کو قعرمذلت سے اٹھایا اور اپنی کوٹھڑی میں بسنے والے شریف زادوں کا نزدیکی بنا دیا … پھر میرا ذہن خود ہی جواب دیتا ہے، تمھارا ہی تو سب قصور ہے کہ تم نے ایک کیڑے کو آستین میں رکھا، کیڑے کی صحیح جگہ گندگی ہے۔
پھر خیال پیدا ہوا اُس نیک کام کے کرنے میں جذبات نے تمھیں کتنا حظ دیا ہو گا، جسے تم روحانی حظ کہتے ہو۔ اس تھوڑے سے حظ کی تمھیں قیمت دینا ہو گی۔ جذبات! … جذبات ہمیشہ آدمی کو خرد سے مہنگے پڑتے ہیں، لیکن اگر کوئی میرے بہت ہی قریب ہو کر پوچھے ،کیا تم دیر پا خرد کو پسند کرو گے یا وقتی جذبات کو، تو میں بلا تامل کہوں گا … جذبات کو۔
عادت !…… میں سگرٹ پیتے پیتے اونگھ جاتا ہوں اور جب انگلی جلتی ہے تو چونک اُٹھتا ہوں۔ ایک دن کسی مترجم کی وفات پر دار الترجمہ میں چھٹی تھی اور میں دوپہر ہی کو اپنی کوٹھڑی کی چھت پر دھوپ میں پڑا اونگھ رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں بدستور سگریٹ تھا، جب کہ نیو جہانگیر ریسٹوران کے ایرانی نژاد چھوکرے نے پیکدان لا کر میرے پانو میں رکھا۔ ابھی سگریٹ نے میرا ہاتھ بھی نہ جلایا تھا کہ سیڑھیوں بر دھمادھم کی آوازیں سنائی دیں۔ میں جاگ اُٹھا۔
خان، وحید، مہدیِ اسلام، ریسٹوران کا منیجر سب کے سب میرے سامنے کھڑے تھے اور چیخ چیخ کر میرے دماغ میں گھسا چاہتے تھے۔
’’میری گھڑی لے گیا ہے سالا‘‘ شریف نے کہا۔
’’اور میری مشہدی لنگی‘‘ خان آنکھیں دکھاتے ہوئے بولا۔
ریسٹوران کا منیجر کہنے لگا۔ ’’تین روپے سات آنے کا بل دو ماہ سے واجب الادا ہے۔‘‘
سب سے آخر میں مہدیِ اسلام بولا۔
’’میرے پانچ اڑا لیے ہیں، ماں کے خاوند نے ……۔‘‘
مہدی نے وہ گالی ذرا وضاحت سے نہ دی تھی۔ میں نے سوچا ۔ شاید مہدی نے ماموں بھانجے کا رشتہ بدل دیا ہے اور اُسے ماں کا خاوند بنا لیا ہے۔ یہ نیا رشتہ عجیب ہے۔ آخر یہ پارسا اور نمازی لوگ گالی دینے کے لطیف فن میں ماہر کیوں نہیں ہوتے۔ معمولی سی وضاحت ، لفظ ’’اپنی‘‘ کے اضافے سے ایک جامع گالی ہو جاتی۔ خیر! میں نے سب کو فرداً فرداً سمجھایا۔ وہ احمق اپنے نقصان کی تلافی مجھ سے چاہتے تھے، کیونکہ میں نے ہی اُنھیں وہاں لا کر رکھا تھا اور زینو کی سب حرکتوں کے لیے میں ہی ذمے دار تھا۔ یہ کیا کم رعایت تھی کہ زینو سے کرایہ نہیں لیا جاتا تھا اور اُسے دار الامان (ہماری کوٹھڑی کا نام)میں پناہ دی جاتی تھی؟ شاید وہ سب لوگ مجھ سے بہت نامناسب سلوک کرتے اور لڑائی کی صورت میں تو شاید ایک ایک، دو دو ہڈیاں ہی اِن کے حصّے آتیں، لیکن میں نے ضامن بنتے ہوئے کہا کہ اگر زینو شام تک نہ لوٹا تو میں یکم کو سب کا نقصان چکا دوں گا۔ ان سب کو یکم کی بندش پر اعتراض تھا۔ میں نے دراصل سوچ رکھا تھا کہ بالفرض زینو شام تک نہ آئے تو بھی یکم میں جمعہ جمعہ آٹھ —— پورے آٹھ دن پڑے ہیں، اور میرے رفیق مجھے کم از کم اتنی رعایت تو دے سکتے ہیں کہ زینو کے یکم سے پہلے پہلے آ جانے پر مجھے چھوڑ دیں۔
اس کے بعد میں ’’ٹوٹا ہوا دل‘‘ دیکھنے کے لیے سینما چلا گیا۔ جب رات کے دس بجے لوٹا تو میں نے دیکھا کہ خان کی لنگی کھونٹی پر ٹنگی تھی اور شیشم کی تپائی پر شریف کی گھڑی رات کے سناٹے میں ٹِک ٹِک کر رہی تھی۔ کونے میں میرے سویڈ کے بوٹ رکھے تھے جو میں نے چند دن ہوئے بالکل نئے خریدے تھے۔ اور انھیں ابھی تک گِھس جانے کے خوف سے نہیں پہنا تھا اور اپنے پرانے جُوتوں کو ہی لگاتار استعمال کرتا رہا تھا۔ اب وہ وہاں کیچڑ میں لت پت پڑے تھے اور اژدھے کی طرح منھ پھاڑے ہوئے تھے۔ غالباً زینو انھیں بھی پہن گیا تھا، جس کا مجھے علم ابھی تک نہ ہوا تھا۔ اپنے بوٹوں کے یوں خراب ہو جانے پر میں بہت خشمگیں ہوا۔ میں نے وحید سے کہا، وحید! اس کا مطلب ہے زینو آچکا ہے واپس۔ وحید نے ایک پرانی سی جنتری، جس کی وہ ورق گردانی کر رہا تھا، نیچے پٹخ دی اور کونے میں پیٹی کی طرف اشارہ کیا۔
کونے میں زینو بیٹھا تھا۔ اُس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ چہرہ مٹی سے اَٹا پڑا تھا اور اُس کا نیچے کا لب بُری طرح لٹک رہا تھا۔ میں نے اس وقت بھانپ لیا کہ ’’تعلقداروں‘‘ نے مل کر اسے بُری طرح سے پیٹا ہے۔ آج میں بھی اس بوہیمین کو پیٹنا چاہتا تھا۔آخر اس نے میرے سویڈ کے بوٹوں کا ستیاناس کر دیا تھا۔ میں نے اُسے گردن سے پکڑا اور ہمیشہ کی طرح لیمپ کے نزدیک لاتے ہوئے پوچھا۔
’’ابے تُو میرا بوٹ پہن گیا تھا، کس نے اجازت دی تھی تجھے؟‘‘
لیکن زینو نے میری طبیعت کے کمزور مقام کو پا لیا تھا۔ جیسے خطرے کے وقت جانور عقلِ حیوانی سے اپنے بل کو پالیتے ہیں، وہ اپنے سیدھے سادے لفظوں سے مجھ میں ایسے جذبے بیدار کر دیتا کہ میرے ہاتھ اُٹھتے اُٹھتے رُک جاتے۔ وہ بولا۔
’’آپ لوگوں کو خیال ہی نہیں آتا۔ جب آپ بوٹ پہنے وے پھریں اور میں اتنی سردی میں ننگے پانوں پھروں تو یہ کیا انسانی و انسانیت ہے، دیکھو کیسے سُوج رہے ہیں۔‘‘
اور زینو اپنے ننگے پانو دکھانے لگا۔ پانو برف کی طرح ٹھنڈے اور سُوجے ہوئے تھے۔ ایڑیوں اور تلووں پر آوارگی اور مصائب کے ایک لمبے چوڑے نقشے کے کنٹور تھے،جس میں زمانے کے ترقی پسند مصوّر نے خون کے دریا بنائے تھے۔ میں نے زینو کی گردن چھوڑ دی اور بُوٹوں کو پانوں میں پہن کر دیکھا…… میرے سویڈ کے بوٹ دو انگشت کے قریب کھل چکے تھے اور کیچڑ میں بھیگ کر ایک گدھ کی نعش کی طرح دکھائی دیتے تھے۔
بالکل ایک ہی کمرے میں کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک انسان چسٹر میں لپٹا رہے اور دوسرا اُس کے سامنے سردی سے اکڑا کرے؟ ایک انسان کے پانو سردی سے پھٹ جائیں اور دوسرا نرم و گرم موزے زیب تن کرے۔ ایک انسان گرم گرم چائے، کافی یا برانڈی پی کر وقت، مقام اور اضافیت کے جدید نظریوں پر بحث کرے اور دوسرا ان باتوں سے بے بہرہ ایک کونے میں دُبکا ہوا شدت کی تنہائی اور اجنبیت محسوس کرتا رہے؟ ایک شخص کے پاس ہوس رانی کے لیے وافر روپیہ پیسہ ہو اور دوسرے کو ان سے محروم رکھ کر اس میں جنسی عیوب پیدا کیے جائیں۔
ان دنوں میرے ہاتھ نفسیات کی ایک کتاب آئی۔ اسے پڑھ کر میں نے زینو کی اس قبیح عادت کے ہر پہلو پر غور کیا۔ میں اس نتیجے پر پہنچ سکا کہ زینو کی اس فطرت کا باعث محرومی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ بچپن ہی سے اُسے ہر چیز، ہر نعمتِ زندگی سے محروم رکھا گیا ہے۔ علم، تہذیب، مذہب، شرافت اور قانون کی آڑ میں اُس کے قدرتی حقوق غصب کیے گئے ہیں، اسی لیے وہ چوری کرتا ہے۔ دوسروں کے بوٹ ،لنگیاں، گھڑی اور سویڈ کے بوٹ پہن کر عورتوں کو پھانسنے کی کوشش کرتا ہے اور اب چوری ایک دیرینہ بیماری کی طرح جڑیں پکڑ چکی ہے۔ اس کے انسداد کے لیے کتنی اکسیر کی ضرورت ہو گی۔ کتنا کام زیرِ زمین کرنا پڑے گا۔ کتنا وقت درکار ہو گا ،اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے …
میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہ بوٹ میں زینو کو دے دوں گا، دو انگشت تو وہ پہلے ہی کھل چکے ہیں۔ اِن کا مجھے فائدہ ہی کیا۔ اس کے علاوہ میں نے سو ا پانچ روپئے میں کھردرا سا خاکی پٹی کا کوٹ زینو کے لیے خریدا تاکہ وہ سردی سے نہ کانپے بلکہ تن کر میری باتوں کا ترکی بہ ترکی جواب دے اور میں چپکے سے سہ جاؤں … جذبات ہی تو ہیں!
میں خراماں خراماں گھر کو لوٹ رہا تھا اور سوچتا تھا کہ آج زینو کتنا خوش ہو گا، وہ مجھے کیسا فرشتہ سیرت سمجھے گا۔ اِس خوشی میں وہ کتنی چھلانگیں لگائے گا۔ مجھ سے لپٹے گا۔ کہے گا۔ اللہ تمھیں ایک خوبصورت بیوی دے۔ اللہ سب کا رازق ہے۔ واللّٰہ خیر الرازقین ——
میں نے ’’دارالامان‘‘ میں قدم رکھا۔ زینو اُسی طرح ایک اسفنجی کیڑے کی مانند سکڑ کر ایک کونے میں پڑا تھا۔ میں نے سوچا آج شاید پھر اس غریب الدیار کو کسی نے مارا ہے۔ میں اِن جذبات سے کورے، عقلمند وحشیوں کو اِس کی اچھی طرح سزا دوں گا۔ میں ان لوگوں کو اب بھی خریدسکتا ہوں۔ زینو کے ان سے تمام رشتے ناطے توڑ سکتا ہوں۔ لیکن نہیں۔ زینو کو کسی نے نہیں پیٹا تھا۔
میں نے کونے میں پڑے ہوئے زینو کو کان سے پکڑ کر اٹھایا۔ یہ حرکت میں نے اس وجہ سے کی کہ زینو سمجھے گا کہ آج پھر مجھے کسی جرم کی پاداش میں سزا دی جا رہی ہے اور اس شک و بیم کے درمیان جب اُسے پتہ چلے گا کہ اُسے کوٹ اور بوٹ بخشش میں دیے جا رہے ہیں تو اس ڈر کے مقابلے میں خوشی کتنی ہولناک طور پر خوبصورت ہو گی۔
میں نے زینو کے کانوں کو اچھی طرح سے مروڑا۔ درد کے ایک احساس سے وہ آہستہ سے کراہ اُٹھا۔ لیکن اُس نے مطلق نہ پوچھا کہ وہ سزا اُسے کیوں دی جا رہی ہے۔ کچھ دیر کے بعد میں نے اُسے چھوڑ دیا۔ وہ اب کانپ رہا تھا ، سردی سے نہیں، خوف سے، کیونکہ اُس نے کوئی جرم نہ کیا تھا …
میں نے کہا ۔ ’’دیکھ بیٹا، تیرے لیے کوٹ لایا ہوں۔‘‘
ایک لمحہ میں زینو کا خوف دور ہو گیا۔ وہ میرے قریب سرک آیا اور کھوکھے کی پیٹی کے سہارے کھڑا ہو گیا۔ میں سنبھل کر بیٹھ گیا، جیسے کوئی فرشتہ بیٹھتے وقت اپنے پر سنوارتا ہے۔ اپنی آنکھوں میں چمک پیدا کرتے ہوئے میں نے کہا:۔
’’وہ بوٹ بھی اب تمھارے ہیں۔‘‘
زینو مسکرایا۔ بالکل خفیف طور پر، اُس نے چسٹر مجھ سے لے لیا اور اسی وقت اُسے کندھوں پر ڈال لیا اور بولا۔
’’میں جانتا تھا! تم میرے لیے کوٹ لاؤ گے … تم مجھے بوٹ دے دو گے، یہ بھی جانتا تھا۔‘‘
اور اس کے بعد وہ کوٹ کے بٹن احتیاط سے بند کرتے ہوئے اپنی چٹائی پر جا لیٹا۔ مجھے اُس کی ناشکر گذاری پر سخت غصّہ آیا۔ میں نے دل میں کہا، آئندہ میں زینو پر ایک پیسہ بھی ضائع نہیں کروں گا۔ اس کا فائدہ ہی کیا؟ اس نے میرا شکریہ تک ادا نہیں کیا۔ اس کے بعد جب میں خان کے ساتھ چارپائی پر لیٹا تو مجھے غصے کی وجہ سے نیند نہ آئی۔ پھر آہستہ آہستہ ایک خیال رینگتا ہوا میرے دماغ میں آیا۔ کیا اس کے بعد شکر گذاری کی ضرورت ہے؟ گویا کیڑے کو گندگی میں سے اٹھانے اور ڈنک سہنے کی ضرورت تھی۔ اس کے بعد مجھے ایک خاص قسم کا حظ محسوس ہوا، جیسے کوئی مجھے کوٹ اور بوٹ کی قیمت ادا کر رہا ہو۔
ایک دن میرا ایک مترجم دوست میرے پاس آیا۔ میں نے اُس سے زینو کا تذکرہ کیا اور خاص طور پر زینو کو کوٹ اور بوٹ مہیا کرنے کا واقعہ سُنایا۔ اُس نے میرے جذبات کو سراہا۔ مجھے ایک گونہ مسرت ہوئی اور میرا رواں رواں شدتِ احساس سے جاگ اٹھا۔ میرے دوست نے بتایا،زینو کی چور ذہنیت کی وجہ یہ ہے کہ بچپن ہی سے اُس کے ہاتھ میں پیسہ نہیں دیا گیا۔ جسے وہ آزادانہ خرچ کرسکے۔ ایک کوٹ یا چسٹر کی بجائے اُس کے ہاتھ میں کچھ نقدی دینا بہتر ہو گا، ایسی نقدی جسے وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرے۔‘‘
اس کے بعد وہ مترجم رخصت ہوا اور میں نصف شب تک اس بات پر غور کرتا رہا۔ اگلی صبح میں نے زینو کو پاس بلایا اور ایک روپیہ اُس کی مٹھی میں دیتے ہوئے کہا۔
’’زینو ، بیٹا … لو یہ خرچ کر لینا۔ لیکن ذرا احتیاط سے … جب ختم ہو جائے تو میں تمھیں اور دوں گا۔‘‘
اُس دن میری طبیعت نہایت پُرسکون رہی۔ شام کو آیا تو میں نے باتوں باتوں میں روپے کا ذکر چھیڑ دیا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ زینو روپیہ کتنی احتیاط سے خرچ کرتا ہے۔ لیکن شام سے پہلے پہلے زینو نے روپیہ ختم کر ڈالا تھا اور دو روپے کی درخواست پیش کر دی تھی۔ جب میں نے جیب میں سے دوسرا روپیہ نکالنے کے لیے ہاتھ ڈالا تو میں ٹھٹھک گیا۔ اگر اس حساب سے روپے خرچ ہونے لگے تو دیوالے کی درخواست دینی پڑے گی۔ میں کچھ دیر سوچتا رہا ،گویا خرد بہ بانگِ دہل کہہ رہی تھی ۔ ’’اب کہو؟‘‘
لیکن میں نے خرد کو جذبات پر غالب نہ آنے دیا۔ میں نے جوشِ عمل کے جذبے سے ایک روپیہ نکالا اور کہا۔
’’زینو … لو ایک روپیہ اور … بس میں ایک ہی دے سکتا ہوں۔ لیکن یوں گزارہ نہ ہو گا۔ احتیاط سے خرچ کرنا۔‘‘
اس کے بعد جب میں شام کو دفتر سے لوٹا تو زینو پہلے سے موجود تھا۔ میرے اندر داخل ہوتے ہی اُس نے روپیہ میرے سامنے پھینک دیا۔
’’مجھے اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ بولا۔
’’کیوں زینو؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جب تک پیسہ میری جیب میں رہتا ہے ۔‘‘ زینو بولا۔ ’’مجھے سکون میسر نہیں ہوتا۔ گویا وہ میری جیب سے اچھلا پڑتا ہے۔ جب تک اُسے خرچ نہ کر ڈالوں، مجھے بہت کوفت ہوتی ہے…‘‘
میں نے سخت تذبذب میں روپے کو ہاتھ میں تھامے رکھا اور لیمپ کے گرد طواف کرنے والے ایک پروانے کو دیکھنے لگا۔ عجیب بات تھی۔ زینو میں ایک روپے کو خرچ کرنے کی بھی اہلیت نہ تھی۔ ایک روپیہ جیب میں ڈال کر اُسے خیال پیدا ہوتا تھا کہ وہ لذیذ ترین مٹھائیاں، خوبصورت ساڑیوں میں ملبوس عورتیں اور کیا کچھ نہیں خرید سکتا۔ گویا وہ ایک چھوٹا برتن ہے جس میں زیادہ چیز نہیں سما سکتی۔ وہ ایک روپیہ بھی جیب میں نہیں رکھ سکتا اور جب اُس کی جیب خالی ہو گی تو وہ چوری کرے گا ،اس پر ایک جمود طاری ہو چکا تھا… لیکن کیا مجھ سے زیادہ جذباتی آدمی بھی کوئی ہو گا جو اُسے ہر روز ایک روپیہ دے سکے … جذبات ! … جذبات، جو کہ چوری سے بھی زیادہ جمود انگیز ہیں۔
چوری سے زینو کو روکنا بے سود سمجھ کر میں نے اس ضمن میں اُسے کچھ کہنا سننا ہی چھوڑ دیا۔
اسی شہر کے محلہ قاضی عبد الغفار میں میری ہمشیرہ رہتی ہے۔ میرے بہنوئی محکمۂ ڈاک میں ایک اچھی، گزارے کے لائق آسامی پر متعین ہیں۔ میری ہمشیرہ کے تین بچے اور دو مکان ہیں۔ شہر میں میرے بہنوئی کا کافی رسوخ ہے۔ کچھ دنوں سے میں شادی کی ضرورت کو شدت سے محسوس کرنے لگا تھا۔ اب میں تیس برس کا ہو چکا تھا۔ ہندستان کے سے گرم ملک کا باشندہ تھا اور کثرت سے چاٹ کھانے کا عادی۔ شروع جوانی میں پھوپھی اور خالہ کے ہاں سے رشتے آئے تھے۔ مگر مجھے ان دونوں لڑکیوں سے کچھ چڑ تھی۔ وہ دونوں لڑکیاں خوبصورت اور بے وقوف تھیں۔ اس کے بعد ہمشیرہ کہنے لگی۔ وقت گزر چکا ہے اور اب تو میرے سر میں کہیں کہیں سفید بال دکھائی دینے لگے تھے۔ ہندستان کی اوسط عمر سے زیادہ ہو چکا تھا اور یہی کیا کم غنیمت تھا؟ لیکن میں ایک عورت کی شکل دیکھے بغیر ہی مر جاتا تو کیا جنت کے دروازے مجھ پر کھلے رہتے؟ میں نے ارادہ کیا کہ کسی معتبر آدمی کے ذریعے شادی کے متعلق کہلوا بھیجوں اور جب ہمشیرہ تھوڑا سا بھی اصرار کرے تو مان جاؤں۔ آخر کھانا پکانے کے لیے بھی تو ایک عورت چاہیے۔ گویا میں سارا دن مردانے میں بیٹھا رہوں گا اور بیوی باورچی خانے میں!اور دل کہہ رہا تھا، دارالامان کی جگہ المنظر کی ضرورت ہے، زینب خالہ کی لڑکی خوبصورت ہے، تو خوبصورت ہی سہی۔ بے وقوف ہے ، تو بے وقوف ہی سہی۔ باورچن تو اچھی ثابت ہو گی۔
اس کام کے لیے میں نے جس معتبر شخص کو ڈھونڈا، وہ زینو کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ زینو کافی عرصے سے میری ہمشیرہ کے ہاں متعارف تھا۔ دیر سے حاجی بگوئم پاجی بگوئم کا سلسلہ شروع تھا۔ میں نے زینو کو رضامند کیا کہ وہ وہاں پہنچ کر میرے لیے زمین تیار کر دے۔ میری شادی کا تذکرہ چھیڑے۔ ہمشیرہ جو مدت سے میرا گھر آباد دیکھنے کی خواہش مند ہے، مجھ سے خود ہی اصرار کرے گی اور پھر میں زینب کا قصّہ چھیڑ دوں گا۔
ایک نیک ساعت دیکھ کر میں اور زینو گھر پہنچے۔ ہمشیرہ قریب آ کر بیٹھی تو میں عمداً کسی بہانے سے وہاں سے چلا گیا۔ دراصل میں بغل کے دروازے کے پاس کھڑا سب کچھ سنتا رہا۔ زینو کہہ رہا تھا۔
’’ان کی شادی کیوں نہیں کر دیتے آپا؟‘‘
’’مانے بھی‘‘ آپا بولیں۔
’’اصرار بھی تو نہیں کیا آپ نے کبھی۔‘‘
’’اصرار کی خوب کہی تم نے۔‘‘ ہمشیرہ غالباً ہاتھ پھیلا کر بولی۔‘‘ اس ڈھیٹ آدمی نے پھوپھی اور خالہ کے سامنے مجھے منھ دکھانے کے قابل نہیں رکھا۔ اب تو میں اسے کبھی نہیں کہنے کی۔‘‘
میں تلملا کر رہ گیا۔ لیکن میرا ہونہار وکیل کہنے لگا۔
’’بچپن تھا نہ آپا، اُس وقت تو …‘‘
ہمشیرہ غالباً ایک چائے کی پیالی اُس کے سامنے رکھتی ہوئی بولی۔
’’میں تو کبھی نہ کہوں گی، تم منا لو اُسے … ‘‘
میں موقع مناسب دیکھ کر کمرے میں داخل ہوا اور اِدھر اُدھر تصویروں پر نگاہیں ڈالتے ہوئے بیٹھ گیا۔ ہمشیرہ چائے کی پیالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئی بولی۔
’’پی لو ایک پیالی‘‘ اور پھر بولی ’’شادی کے متعلق کیا خیال ہے تمھارا؟‘‘
ضروری تھا کہ ہمشیرہ کے سامنے میں جھوٹا سچا انکار کرتا۔ میں نے کانوں کو چھوتے ہوئے کہا ’’شادی؟ توبہ! توبہ! میں اس راہ میں بھٹکنا نہیں چاہتا میرا مطمح نظر شادی سے کہیں بلند ہے۔‘‘
زینو نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔ ’’اور باورچن؟‘‘
میں نے چلاّتے ہوئے کہا۔ ’’بکواس بند کرو، زینو کے بچّے، جہانگیر ریسٹوران میں بُرا کھانا ملتا ہے کیا؟‘‘
اب جو کچھ زینو نے کہا وہ بیان سے باہر ہے۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھ بیٹھا اور مجھ سے مانگ کر پہنی ہوئی پتلون کے گیلس کو کھینچتے ہوئے بولا۔ایسے بے ڈھب انسان مجھے بالکل پسند نہیں۔ خود ہی مجھے تیار کیا کہ میں جا کر شادی کے لیے زمین تیار کروں اور اب مجھے ہی خجل کرنا چاہتے ہو گیا؟‘‘
زینو جتنا خجل ہو سکتا تھا ہو چکا تھا، اب میری باری تھی۔ پسینے کے قطرے اتنی سردی کے باوجود میری پیشانی پر پیدا ہو گئے۔ میں ہمشیرہ کے سامنے برابر انکار کرتا رہا۔ مگر اس سے کیا ہوتا ہے؟ میں اُس کی آنکھوں میں آنکھیں نہ ڈال سکا۔ زیادہ سے زیادہ میں نے یہ کیا کہ ننھے بھانجے کو گودی میں اٹھا لیا اور بہنوئی کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
’’یہ کس کے ابا ہیں؟ تمھارے؟ ارے تھوکتے ہو؟ اے یُو! کتنے گندے ہو تم؟‘‘
اور پھر ہمشیرہ کو مخاطب ہوتے ہوئے میں نے کہا۔
’’یہ بھی کہتا ہو گا، اچھا ماموں ہے میرا۔ بالکل خالی ہاتھ چلا آیا۔‘‘
اور اپنے بھانجے کے گالوں کی چٹکی لیتے ہوئے میں نے کہا۔
’’اب کی دفعہ میں تمھارے لیے چیری لاؤں گا۔ چیری اور ٹافی… کیا تم نے کبھی ٹافی بھی کھائی ہے؟ …… ٹافی چیری سے بھی زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔‘‘
میری ہمشیرہ مسکراتی رہی۔ اس کے بعد ہم نے رخصت لی۔ راستے میں میری زینو سے خوب لے دے ہوئی۔ میں نے کہا ’’تمھیں دارالامان میں چل کر پیٹوں گا سالے۔‘‘گویا پیٹنے کے لیے دارالامان سے زیادہ موزوں اور کون سی جگہ ہو سکتی ہے۔ میں پراگندہ دل کے ساتھ اپنی کوٹھڑی میں داخل ہوا اور اپنی بید کی چھڑی کو تلاش کرنے لگا۔ وہاں مہدیِ اسلام ہمارا انتظار کر رہا تھا، اور وہ بید کی چھڑی اُس کے ہاتھ میں تھی۔ پتہ چلا کہ زینو نے مہدی کا پین چُرا کر اُس کی نب صراف کے ہاتھ بیچ ڈالی ہے۔یہی چار آٹھ آنے لے لیے ہوں گے۔ مقتول قلم کا جسم نالی میں سے ملا۔ بیچارے کے سر سے نیلا نیلا خون بہ رہا تھا۔زینو کی قمیص کی جیب میں سیاہی کا ایک بڑا سا دھبّہ چوری کا شاہد تھا۔
اس دن میں نے دونوں باتوں کے لیے زینو کو پیٹا اور کہا ’’نکل جاؤ سؤر کے بچے … شہدے، حرام زادے، نکل جاؤ فوراً یہاں سے۔‘‘
اُسی وقت میں نے زینو کو سیڑھیوں میں سے دھکا دیا۔ وہ دو چار سیڑھیوں پر سے لڑھکتا ہوا آخری سیڑھی پر جا رُکا۔ اُس کے منھ سے خون بہنے لگا۔ یوں دکھائی دیتا تھا جیسے اُس کا کوئی دانت ٹوٹ گیا ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد زینو اُٹھا اور پیچھے کی طرف دیکھنے لگا۔ گویا اُسے کسی بات پر یقین نہ آتا ہو۔ جب وہ کچھ دور جا کر میری جانب دیکھنے کے لیے رُکا ، تو اس خوف سے کہ کہیں وہ اپنی عقلِ حیوانی سے مجھ پر فتح یاب نہ ہو جائے، میں نے دیوار کے قریب سے ایک اینٹ اُٹھائی اور زینو کی ٹانگ پر دے ماری۔ زینو کی چیخ ریسٹوران تک سنائی دی اور وہ بلبلاتا ہوا بیٹھ گیا۔ میں نے ایک اور اینٹ پھینکی، زینو لنگڑاتا ہوا اُٹھا اور اسی حالت میں رینگتا ہوا آہستہ آہستہ شام کے بے مہر، منجمد اندھیرے میں کہیں غائب ہو گیا۔
اس سخت سردی کی رات میں جب کہ جھینگر بھی سرِ شام ہی سے شور مچانا چھوڑ دیتے ہیں، میں اپنے بستر میں لیٹا، اُس کی نرمی گرمی محسوس کرتا ہوا سوچتا ہوں۔ میرے سینے میں دل حرکت کرتا ہے۔ میری قوتِ متخیّلہ بڑی بلندبیں ہے۔ جب وہ ریل کی لائنوں یا دریا کی گہرائیوں کو ماپتی ہے، تو یہ دل شدّت سے دھڑکنے لگتا ہے۔ جب شریف کاتب جغرافیے کے ایک کورس کی کتابت کرتا ہے، تو مجھے وہ لفظ دکھائی دیتے ہیں۔ ’’زمین اپنے محور کے گرد حرکت کرتی ہے۔‘‘ میں سوچتا ہوں، کیا عجب جو وہ ساکن ہو جائے اور جب کتاب کے ساتھ نقشہ دکھائی دیتا ہے، تو میں حیرت سے پوچھتا ہوں، یہ کس زمین کے کنٹور ہیں؟ یہ ہلکے ہلکے، پتلے پتلے دریا جو نیلے رنگ میں دکھائے گئے ہیں، اِن کا قدرتی رنگ تو سرخ ہے۔
یہ مصنف کتنی سنجیدگی کے ساتھ وقت ، مقام اور اضافیت کے متعلق باتیں کرتے ہیں، حالاں کہ جانتے ہیں کہ یہ لوگ سخت سردی میں منجمد ہو جائیں گے، اور جب یہ دیکھتا ہوں کہ ہمارا معبود ہے، جو سب کچھ دیکھتا ہے لیکن خاموش رہتا ہے، تو اُس وقت مجھ پر جنون کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ میں دارالامان کے اندر بڑی تیزی سے اِدھر اُدھر گھومتا ہوں اور کہتا ہوں۔ میں کیوں ابھی تک فیصلہ نہیں کرسکا کہ مجھے باورچن کی زیادہ ضرورت ہے یا زینو کی۔
خان کی مشہدی لنگی شب و روز کھونٹی پر لٹکی رہتی ہے اور شریف کی گھڑی صبح و شام تپائی پر پڑی ٹِک ٹِک کرتی ہے۔ جہانگیر ریسٹوران کا بل ادا کیا جا چکا ہے۔ فونٹین پین کے پیسے بھی چکا دیے گئے ہیں، لیکن اب بھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مجھے کسی کا کچھ ادا کرنا ہے۔ لیکن میرا قرض خواہ کوئی بڑا بے نیاز آدمی ہے۔ جسے اپنے پیسے کی رتّی بھر بھی پروا نہیں۔
بھولے سے اپنا سوٹ کیس کھولتا ہوں تو مجھے فوراً ہی اُسے بند کر دینا ہوتا ہے۔ اس کے کونے میں دو دانت پڑے ہیں اور ایک کونے میں سفیدے سے لکھا ہے۔ زین العابدین یعنی عابدوں کی زینت!
کل ہی میں نے فلیکس کا ایک نیا بوٹ خریدا ہے۔ جب میں اُسے پہنتا ہوں، تو وہ چیختا ہے، چلاّتا ہے۔ بھلا اُسے کِس بات کا رونا ہے …؟ نئے چمڑے کا ہے نا، اور وہ کم بخت چسٹر بھی تو میرے بھاری جسم پر پورا نہیں آتا۔
جب ہم شام کو سوٹ پہن کر دارالامان سے نکلتے ہیں، تو ہم کتنے بہتر انسان دکھائی دیتے ہیں۔ ہم ہنستے ہیں، لیکن تہذیب کے دامن کو ہاتھ سے نہیں دیتے آخر والدین نے ہمیں تربیت دی ہے۔ ہم مفلر کو گلے میں اور موزوں کو پانو میں خوب کھینچتے ہیں تاکہ سردی لگ جانے کا خدشہ نہ رہے اور جب کوئی سڑک پر جاتی ہوئی لڑکی ہماری طرف دیکھتی ہے، تو ہم فوراً اپنی ٹائی کی گرہ کو درست کرنے لگتے ہیں۔
کبھی کبھی باتوں باتوں میں شریف ،وحید کو سالا کہہ دیتا ہے۔ وحید پورے زور سے ایک چپت اس کے منھ پر جما دیتا ہے اور ایک ہفتہ تک وحید مستری کی ہتھوڑے پکڑنے والی انگلیوں کے نشان شریف کے گالوں پر دکھائی دیتے ہیں اور جب ہم اپنے اردگرد غور سے دیکھتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں،نہ کوئی کسی کا باپ ہے نہ بیٹا، بہنوئی ہے نہ سالا، ماموں ہے نہ بھانجا، گویا سب رشتے ناطے ٹوٹ چکے ہیں۔
اللہ! تمام دنیا یکسر شریفوں کی دنیا میں بدل چکی ہے۔ گویا ہم ایک دار القرار، بلکہ اس سے بھی اوپر ایک خلد بریں میں رہتے ہیں۔
٭٭٭
ماخذ:
http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید