فہرست مضامین
- ستارو تم تو سو جاؤ
- قتیلؔ شفائی
- مجموعے ’گجر‘ سے غزلوں کا انتخاب اور ٹائپنگ: عباس آزر
- پریشاں رات ساری ہے ، ستارو تم تو سو جاؤ
- اک جام کھنکتا جام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
- غنچوں کا رس، کلیوں کا مَس ایک زمانے کوللچائے
- تمہاری انجمن سے اُٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
- آنکھوں میں سوال ہو گئی ہے
- نگاہوں میں چمک، دل میں خوشی محسوس کرتا ہوں
- انگڑائی پہ انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
- صدمے جھیلوں، جان پہ کھیلوں اس سے مجھے انکار نہیں ہے
- نگاہوں میں خمار آتا ہوا محسوس ہوتا ہے
- دل کو غم حیات گوارا ہے ان دِنوں
- احترام لب و رخسار تک آ پہنچے ہیں
- ذکر مرا اور تیرے لب پر، یاد مری اور تیرے دل میں
- سکونِ دل تو کہاں، راحتِ نظر بھی نہیں
- جب بھی کوئی ادا تری بھا گئی مجھے
- حالات کی اس دو رنگی میں کیا ساتھ ہمارا ان کا
- اے دیدۂ گریاں کیا کہیے اس پیار بھرے افسانے کو
- زندگی کا ایک ایک داغ مل سکے
- وہی گیسوؤں کی اڑان ہے ، وہی عارضوں کا نکھار ہے
- برسات کی بھیگی رات بھی ہے جذبات کا تیز الاؤ بھی
- چراغ ٹمٹما رہا ہے ظلمتوں کی چھاؤں میں
- گریباں در گریباں نکتہ آرائی بھی ہوتی ہے
- ہم سوختہ جانوں کی خاطر آرائشِ عارض و لب ہی سہی
- ذکر ہے اپنا محفل محفل اے غمِ جاناں اے غمِ دوراں
- کچھ محبت کے غم، کچھ زمانے کے غم
- برس رہی ہیں فضا میں حسین تنویریں
- بے خودی میں پہلوئے اقرار پہلے تو نہ تھا
- کچھ غنچہ لبوں کی یاد آئی، کچھ گل بدنوں کی یاد آئی
- افق کے اس پار زندگی کے اداس لمحے گزار آؤں
- طرب خانوں کے نغمے غم کدوں کو بھا نہیں سکتے
- ہم کو انتظار سحر بھی قبول ہے
- مجموعے ’گجر‘ سے غزلوں کا انتخاب اور ٹائپنگ: عباس آزر
- قتیلؔ شفائی
ستارو تم تو سو جاؤ
قتیلؔ شفائی
مجموعے ’گجر‘ سے غزلوں کا انتخاب اور ٹائپنگ: عباس آزر
پریشاں رات ساری ہے ، ستارو تم تو سو جاؤ
سکوتِ مرگ طاری ہے ، ستارو تم تو سو جاؤ
ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ خلاؤں میں
ہمیں پہ رات بھاری ہے ، ستارو تم تو سو جاؤ
ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہو گا
یہی قسمت ہماری ہے ، ستارو تم تو سو جاؤ
تمہیں کیا؟آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
یہ بازی ہم نے ہاری ہے ، ستارو تم تو سو جاؤ
کہے جاتے ہو رو رو کر ہمارا حال دنیا سے
یہ کیسی راز داری ہے ، ستارو تم تو سو جاؤ
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ، ستارو تم تو سو جاؤ
٭٭٭
اک جام کھنکتا جام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
اک ہوش رہا انعام، کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
وہ دیکھ ستاروں کے موتی ہر آن بکھرتے جاتے ہیں
افلاک پہ ہے کہرام، کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
گو دیکھ چکا ہوں پہلے بھی نظارہ دریا نوشی کا!
اک اور صلائے عام، کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
یہ وقت نہیں ہے باتوں کا پلکوں کے سایے کام میں لا
الہام کوئی الہام، کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
مدہوشی میں احساس کے اونچے زینے سے گر جانے دے
اس وقت نہ مجھ کو تھام، کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
٭٭٭
غنچوں کا رس، کلیوں کا مَس ایک زمانے کوللچائے
ہائے مگر وہ پُھول کہ جس پر کانٹوں کو بھی رونا آئے
آنسو ایک سلگتا آنسو، ضبط کہاں تک ہاتھ بڑھائے
یہ بس حلق سے کیسے اُترے ، یہ انگارہ کون چبائے
چاند کی مشعل ہاتھ میں لے کر وقت کہاں تک گھوم سکے گا!
رات کا یہ خونیں سنّاٹا جانے کیا کیا رنگ دکھائے
یوں تیرے ماحول میں ڈھل کر اپنا آپ بُھلا بیٹھا ہوں
جیسے ٹوٹے تارے کی ضو جیسے ڈھلتے چاند کے سائے
٭٭٭
تمہاری انجمن سے اُٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے
نکل کر دیرو کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ!
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے !
تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی
تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی!!
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
قتیلؔ اپنا مقدر غم سے بیگانہ اگر ہوتا !
تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے
٭٭٭
آنکھوں میں سوال ہو گئی ہے
اب زیست وبال ہو گئی ہے
وہ چوٹ جو دل سے بھی چھپائی
اب تیرا خیال ہو گئی ہے
نظروں پہ پھسلتی رُکتی صورت
رقصِ خد و خال ہو گئی ہے
وہ ایک نگاہ سرسری سی
ہر شے کا مآل ہو گئی ہے
آتی نہیں راہ پر طبیعت
شاید کہ بحال ہو گئی ہے !
٭٭٭
نگاہوں میں چمک، دل میں خوشی محسوس کرتا ہوں
کہ تیرے بس میں اپنی زندگی محسوس کرتا ہوں
تھکا دیتی ہیں جب کونین کی پنہائیاں مجھ کو!
ترے در پر پہنچ کر تازگی محسوس کرتا ہوں
یہ مجبوری مقدر کے افق سے جھانکنے والے
تری آنکھوں میں اک شرمندگی محسوس کرتا ہوں
جوانی کو سزائے لذتِ احساس دے دینا
میں اس حد پر خُدا کو آدمی محسوس کرتا ہوں
شبِ آخر فلک پر ٹمٹما کر ڈوبتے تارے
میں اپنے ساتھ تیرا درد بھی محسوس کرتا ہوں
٭٭٭
انگڑائی پہ انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو، تم کیا جانو بات مری تنہائی کی
کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں
میں نے آنکھ جھپکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی
ٹوٹ گئے سیال نگینے ،پھوٹ بہے رخساروں پر
دیکھو! میرا ساتھ نہ دینا بات ہے یہ رسوائی کی
وصل کی رات نہ جانے کیوں اصرار تھا ان کو جانے پر
وقت سے پہلے ڈوب گئے تاروں نے بڑی دانائی کی
اُڑتے اُڑتے آس کا پنچھی دور اُفق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی!
٭٭٭
صدمے جھیلوں، جان پہ کھیلوں اس سے مجھے انکار نہیں ہے
لیکن تیرے پاس وفا کا کوئی بھی معیار نہیں ہے !
یہ بھی کوئی بات ہے آخر دور ہی دور رہیں متوالے
ہرجائی ہے چاند کا جوبن، یا پنچھی کو پیار نہیں ہے
اک ذرا سا دل ہے جس کو توڑ کے بھی تم جا سکتے ہو!
یہ سونے کا طوق نہیں، یہ چاندی کی دیوار نہیں ہے !
ملاحوں نے ساحل ساحل موجوں کی توہین تو کر دی!
لیکن پھر بھی کوئی بھنور تک جانے کو تیار نہیں ہے !
پھر سے وہی سیلابَ حوادث جانے دو اے ساحل والو!
یا اس بار سفینہ ڈوبا، یا اب کے منجدھار نہیں ہے
قیدِ قفس کے بعد کرے گا قیدگلستاں کون گوارا
اب بھی وہی زنجیریں ہیں گو پہلی سی جھنکار نہیں ہے !
٭٭٭
نگاہوں میں خمار آتا ہوا محسوس ہوتا ہے
تصور جام چھلکاتا ہوا محسوس ہوتا ہے
خرام ناز ۔ اور ان کا خرام ناز؟ کیا کہنا
زمانہ ٹھوکریں کھاتا ہوا محسوس ہوتا ہے
تصور ایک ذہنی جستجو کا نام ہے شاید
دل ان کو ڈھونڈھ لاتا ہوا محسوس ہوتا ہے
کسی کی نقرئی پازیب کی جھنکار کے صدقے
مجھے سارا جہاں گاتا ہوا محسوس ہوتا ہے
قتیلؔ اب دل کی دھڑکن بن گئی ہے چاپ قدموں کی
کوئی میری طرف آتا ہوا محسوس ہوتا ہے
٭٭٭
دل کو غم حیات گوارا ہے ان دِنوں
پہلے جو درد تھا وہی چارہ ہے ان دِنوں
ہر سیل اشک ساحل تسکیں ہے آج کل
دریا کی موج موجَ کنارہ ہے ان دِنوں
یہ دل ذرا سا دل تری یادوں میں کھو گیا
ذرہ کو آندھیوں کا سہارا ہے اِن دِنوں
شمعوں میں اب نہیں ہے وہ پہلی سی روشنی
کیا واقعی وہ انجمن آرا ہے ان دِنوں!
تم آ سکو تو شب کو بڑھا دوں کچھ اور بھی
اپنے کہے میں صبح کا تارا ہے ان دِنوں
٭٭٭
احترام لب و رخسار تک آ پہنچے ہیں
بو الہوس بھی مرے معیار تک آ پہنچے ہیں
جو حقائق تھے وہ اشکوں سے ہم آغوش ہوئے
جو فسانے تھے وہ سرکار تک آ پہنچے ہیں
کیا وہ نظروں کو جھروکے میں معلق کر دیں
جو ترے سایۂ دیوار تک آ پہنچے ہیں!
اپنی تقدیر کو روتے ہیں ساحل والے
جن کو آنا تھا وہ منجدھار تک آ پہنچے ہیں
اب تو کھل جائے گا شاید تری الفت کا بھرم
اہل دل جرات اظہار تک آ پہنچے ہیں
ایک تم ہو کہ خدا بن کے چھپے بیٹھے ہو
ایک ہم ہیں کہ لب دار تک آ پہنچے ہیں
٭٭٭
ذکر مرا اور تیرے لب پر، یاد مری اور تیرے دل میں
جھوٹی آس دلانے والے ، آگ نہ بھڑکا میرے دل میں
مجھ سے آنکھیں پھیر کے تو نے یہ مشکل بھی آساں کر دی
ورنہ تیرے غم کے بدلے لیتا کون بسیرے دل میں
پیار بھری امیدوں پر، اغیار کی وہ زر پوش نگاہیں!
کانٹوں کے پیوند لگا کر تو نے پھول بکھیرے دل میں
پوچھ رہی ہے دنیا مجھ سے وہ ہرجائی چاند کہاں ہے ؟
دل کہتا ہے غیر کے بس میں، میں کہتا ہوں میرے دل میں
کاش کبھی سفاک زمانہ، میرا سینہ چیر کے دیکھے !
چین کے بدلے درد نے اب تو ڈال دیئے ہیں ڈیرے دل میں
ڈرتے ڈرتے سوچ رہا ہوں وہ میرے ہیں اب بھی شاید
ورنہ کون کیا کرتا ہے یوں پھیروں پر پھیرے دل میں
پیار کی پہلی منزل پر انجان مسافر دیکھ رہا ہے
آنکھوں میں سنگین اجالے ، اور سیال اندھیرے دل میں
اجڑی یادو، ٹوٹے سپنوں، شاید کچھ معلوم ہو تم کو
کون اٹھاتا ہے رہ رہ کر ٹیسیں شام سویرے دل میں
٭٭٭
سکونِ دل تو کہاں، راحتِ نظر بھی نہیں
یہ کیسی بزم ہے جس میں ترا گزر بھی نہیں
بھٹک رہا ہے زمانہ گھنے اندھیرے میں
وہ رات ہے جسے اندیشہ سحر بھی نہیں
نہ جانے کون سی منزل کو لے چلے ہم کو
وہ ہم سفر جو حقیقت میں ہم سفر بھی نہیں
تری نگاہ کا دل کو یقین سا ہے ورنہ
سنی ہے بات کچھ ایسی کہ معتبر بھی نہیں
٭٭٭
جب بھی کوئی ادا تری بھا گئی مجھے
اپنی تباہیوں پہ ہنسی آ گئی مجھے
وہ آرزو کہ جس کی مروت کا زعم تھا
دل سے نکل کے اور بھی تڑپا گئی مجھے
ممکن ہے اس سے موت بھی گوش آشنا نہ ہو
جو بات بے رخی تری سمجھا گئی مجھے
اپنی نظر بھی اب مجھے پہچانتی نہیں!
شاید تری نگاہِ کرم کھا گئی مجھے
٭٭٭
حالات کی اس دو رنگی میں کیا ساتھ ہمارا ان کا
گرداب ہماری قسمت میں شاداب کنارا ان کا
ہم ان کی آنکھوں سے دنیا دیکھ رہے ہیں، ورنہ
ایک ایک جھروکہ ان کا ہے ، ایک ایک نظارا ان کا
ہر ٹیس کے بعد کلیجے میں یہ ٹھنڈک ہلکی ہلکی!
احساس میں گھل مل جاتا ہے دُکھ پیارا پیارا ان کا
جو داغ جگر پر ابھرے تھے وہ آنسو بن کر ٹپکے
یوں بھیگی پلکوں نے ایک ایک احسان اُتارا ان کا
یہ بات جُدا ہے آنکھوں کی خاموشی چیخ اُٹھے گی
اس دل کو ورنہ آج بھی ہے ہر ظلم گوارا ان کا
٭٭٭
اے دیدۂ گریاں کیا کہیے اس پیار بھرے افسانے کو
اک شمع جلی بجھنے کے لئے ، اک پھول کھلا مرجھانے کو
میں اپنے پیار کا دیپ لئے آفاق میں ہر سو گھوم گیا
تم دور کہیں جا پہنچے تھے آکاش پہ جی بہلانے کو
وہ پھول سے لمحے بھاری ہیں اب یاد کے نازک شانوں پر
جو پیارے تم نے سونپے تھے آغاز میں اک دیوانے کو
اک ساتھ فنا ہو جانے سے اک جشن تو برپا ہوتا ہے
یوں تنہا جلنا ٹھیک نہیں سمجھائے کوئی پروانے کو
میں رات کا بھید تو کھولوں گا جب نیند نہ مجھ کو آئے گی
کیوں چاند ستارے آتے ہیں ہر رات مجھے سمجھانے کو
٭٭٭
زندگی کا ایک ایک داغ مل سکے
یوں ہنسو کہ درد کا سراغ مل سکے
حسرتوں کی تشنگی کسے دکھائیے !
کاش بے طلب کوئی ایاغ مل سکے
تمتما اٹھی ہیں رات کی سیاہیاں
شاید اب کوئی ہمیں چراغ مل سکے
خار سے الجھ کے بھی قریب ہی رہیں
کاش پھول سا ہمیں دماغ مِل سکے
دردِ عشق بھی مزے کی چیز ہے قتیلؔ
گر غمِ حیات سے فراغ مل سکے
٭٭٭
وہی گیسوؤں کی اڑان ہے ، وہی عارضوں کا نکھار ہے
یہ کسی کی شان درود ہے ، کہ مری نظر کا وقار ہے
تری خود پسند نوازشیں، مرا جی لبھا کے گذر گئیں!
مگر اُف یہ دیدۂ مطمئن جو گدائے رہ گزار ہے
ابھی کونپلوں میں وہ رس کہاں جو گلوں کا روپ بدل سکے
ابھی گل فروش کے ہاتھ سے ، ہمیں احتجاجِ بہار ہے
مری سادگی کے خلوص نے ، تجھے بخش دی وہ برہنگی
جو نفس نفس کی ہے تشنگی، جو نظر نظر کی پکار ہے
یہی دل فریب تجلیاں مجھے دوجہاں سے عزیز ہوں
مگر اے جمالِ سحر نما، مرا گھر جو تیرہ و تار ہے !
غمِ ذات سے مری زندگی، غمِ کائنات میں ڈھل گئی
کسی بزم ناز میں کھو کے بھی مجھے کائنات سے پیار ہے
٭٭٭
برسات کی بھیگی رات بھی ہے جذبات کا تیز الاؤ بھی
میں کون سی آگ میں جل جاؤں اسے نکتہ درد سمجھاؤ بھی
ہر چند نظر نے جھیلے ہیں ہر بار سنہرے گھاؤ بھی!
ہم آج بھی دھوکہ کھالیں گے تم بھیس بدل کر آؤ بھی
گرداب کے خونیں حلقوں سے جب کھیل چکی ہے ناؤ بھی
پتوار بدلنا کیا معنی؟ ملاحوں کو سمجھاؤ بھی
بے کیف جھکولے کانٹوں کو شاداب تو کیا کر پائیں گے
جو پھول پڑے ہیں راہوں میں ان پھولوں کو مہکاؤ بھی
ہم سے تو جفاؤں کے شکوے تم ہنس کر چھین بھی سکتے ہو
ہم دل کو پشیماں کر لیں گے تم پیار سے آنکھ جھُکاؤ بھی
گل رنگ چراغوں کے لو سے تاریک اجالے پھوٹ بہے
ہر طاق میں گھور اندھیرا ہے اس رنگ محل کو ڈھاؤ بھی
٭٭٭
چراغ ٹمٹما رہا ہے ظلمتوں کی چھاؤں میں
کہ جیسے طائرِ قفس گھٹی گھٹی فضاؤں میں
دماغ و دل کے درمیاں رکے ہوئے سے ولولے
کہ جیسے بیڑیاں پڑی ہوں غازیوں کے پاؤں میں
نوید موسم بہار، گل بہ گل، چمن چمن!
کہ جیسے عاشقوں کا ذکر وہ بھی گاؤں گاؤں میں
ترس ترس کے مر رہی ہیں دل ہی دل میں حسرتیں
کہ جیسے بیگماتِ سیم تن حرم سراؤں میں
ہوا میں کونپلوں کی بھینی بھینی سرسراہٹیں
کہ جیسے نوک جھونک ہو رہی ہو اپسراؤں میں
مٹھاس بن گئی ہیں یوں بھی زندگی کی تلخیاں
کہ جیسے کیف سرمدی شباب کی خطاؤں میں
٭٭٭
گریباں در گریباں نکتہ آرائی بھی ہوتی ہے
بہار آئے تو دیوانوں کی رسوائی بھی ہوتی ہے
ہم ان کی بزم تک جا ہی پہنچتے ہیں کسی صورت
اگرچہ راہ میں دیوارِ تنہائی بھی ہوتی ہے
بکھرتی ہے وہی اکثر خزاں پر در بہاروں میں!
چمن میں جو کلی پہلے سے مرجھائی بھی ہوتی ہے !
بنام کفر و ایماں بے مروت ہیں جہاں دونوں
وہاں شیخ و برہن کی کی شناسائی بھی ہوتی ہے
چمکتی ہے کوئی بجلی، تو شمع رہ گذر بن کر!
نگاہِ برہم ان کی کچھ تو شرماتی بھی ہوتی ہے
قتیلؔ اس دم بھی رہتا ہے یہی احساس محرومی
جب ان شانوں پہ زلفوں کی گھٹا چھائی بھی ہوتی ہے
٭٭٭
ہم سوختہ جانوں کی خاطر آرائشِ عارض و لب ہی سہی
جو برسوں تم کر نہ سکے وہ قتل کے ساماں اب ہی سہی
اے بادۂ ناب کے رکھوالے دو گھونٹ ادھر بھی پہنچا دے
معیارِ کرم اس محفل کا پیمانۂ نام و نسب ہی سہی
جو کچھ بھی کوئی کہتا ہے کہے ، اظہارِ تمنا تو ہو گا
ہم اہلِ جنوں کی باتوں میں کچھ پہلوئے سوئے ادب ہی سہی
موجود ہیں پنچھی گلشن میں پھر کیوں ہے سکوت مرگ یہاں
پر شور ترانوں کے بدلے اک نغمہ زیر لب ہی سہی!
اپنے پہ بھروسہ ہے جن کو نغماتِ سحر بھی سن لیں گے
کرنوں کی دمکتی آہٹ تک نقارۂ آخر شب ہی سہی
آلودہ زباں ہو جائے گی، انصاف کی میٹھی بولی ہے
تم اپنی روش کو مت بدلو ہم مورد قہر و غضب ہی سہی
دیکھا ہے قتیل آخر سب نے اس شوخ کو بھی مائل بہ کرم
اس کارِ نمایاں کے پیچھے گستاخیِ دستِ طلب ہی سہی
٭٭٭
ذکر ہے اپنا محفل محفل اے غمِ جاناں اے غمِ دوراں
راز نہیں اب حادثۂ دل اے غمِ جاناں اے غمِ دوراں
کون سے نغمات خراماں، کس پہ چلے رفتار کا جادو
عشق تو ہے پابند سلاسل اے غمِ جاناں اے غمِ دوراں
سوچ سمجھ کر دھوکا کھانا پچھتانا پھر پیار نبھانا
پیار کی ہے یہ کون سی منزل اے غمِ جاناں اے غمِ دوراں
سسک سسک کر صحن چمن میں ہر نغمہ دم توڑ رہا ہے
خوب ہوئی توقیر عنادل اے غمِ جاناں اے غمِ دوراں
دور بھنور کی گود میں جا کر موت کی لوری دینے والے
سر بہ گریباں ہیں لبِ ساحل اے غمِ جاناں اے غمِ دوراں
دھوم تو ہے لیلائے جنوں کی لیکن اذن دید نہیں ہے
تو ہی اٹھا اب پردۂ محمل اے غمِ جاناں اے غمِ دوراں
کچھ محبت کے غم، کچھ زمانے کے غم
یوں بھی ناشاد ہم، یوں بھی ناشاد ہم
زندگی کا سفر ہے کہ وعدہ ترا
جس جگہ سے اٹھے تھے وہیں ہیں قدم
کون جانے ملاقات پھر ہو نہ ہو
آج ہی کیوں نہ کھالیں فریبِ کرم
دل کی دوری تو ہے کھیل تقدیر کا
فاصلے کیا نظر کے بھی ہوں گے نہ کم
مجھ کو اب تک خدا سے ہے شرمندگی
اے صنم خانۂ دل کے پہلے صنم
کچھ تو ہوں گی محبت کی مجبوریاں
کون سہتا ہے ورنہ کسی کے ستم
ہم قتیل اپنی دھن میں نہ کچھ سن سکے
روکتے رہ گئے ہم کو دیر و حرم!
٭٭٭
برس رہی ہیں فضا میں حسین تنویریں
چلو کہ ہم بھی کسی طور کا جگر چیریں
کسی میں تیرے خدوخال کا جمال نہ تھا
بنا بنا کے مٹاتا رہا ہوں تصویریں
دکھا گیا کوئی ہاتھوں پہ رات رنگ حنا
اس ایک خواب میں کیا کیا چھپی ہیں تعبیریں
جدھر ہے شور عنادل ادھر بھی کان دھرو
سر قفس تو چھنکتی رہیں گی زنجیریں
چمن چمن یہ ہوائے سموم کے جھونکے
بجھی ہوں زہر میں جیسے برہنہ شمشیریں
غمِ زمانہ، غمِ عاشقی، غمِ فردا
ہم اہلِ دل کے لئے ہیں ہزار تعزیریں
قتیل جن میں نہیں تھا غمِ حیات کا رنگ
مٹی مٹی نظر آتی ہیں اب وہ تحریریں!
٭٭٭
بے خودی میں پہلوئے اقرار پہلے تو نہ تھا
اتنا غافل وہ بتِ عیار پہلے تو نہ تھا
اہل دل جاتے ہیں اب دار ورسن کی راہ سے
اس قدر مشکل وصال یار پہلے تو نہ تھا
مصر کی گلیاں اتر آئی ہیں اپنے شہر میں
حسن والوں کا یہ حالِ راز پہلے تو نہ تھا
آ رہی ہے خود بخود شاید کوئی منزل قریب
مہرباں یوں قافلہ سالار پہلے تو نہ تھا
اس میں بھی کچھ راز ہے ورنہ دیارِ حسن میں
درد مندوں کا کوئی غم خوار پہلے تو نہ تھا
ہوش میں آنے لگے ہیں ان بہاروں کے طفیل
ورنہ دیوانوں کا یہ کردار پہلے تو نہ تھا
روز و شب اپنے لئے ہیں قتیل کے فتوے قتیلؔ
مفتی شہر اس قدر دیں دار پہلے تو نہ تھا
٭٭٭
کچھ غنچہ لبوں کی یاد آئی، کچھ گل بدنوں کی یاد آئی
جو آنکھ جھپکتے بیت گئیں ان انجمنوں کی یاد آئی
مجروح گلوں کے دامن میں پیوند لگے ہیں خوشبو کے
دیکھا جو بہاروں کا یہ چلن سنسان بتوں کی یاد آئی
تھی ہوش خرد سے کس کو غرض ارباب جنوں کے حلقے میں
جب فصل بہاراں چیخ اٹھی تب پیرہنوں کی یاد آئی
کیا کم ہے کرم یہ اپنوں کا پہچاننے والا کوئی نہیں!
جو دیس میں بھی پردیسی ہیں ان ہم وطنوں کی یاد آئی
شیریں کی اداؤں پر مائل، پرویز کی سطوت سے خائف
جو بن نہ سکے فرہاد کبھی، ان تیشہ زنوں کی یاد آئی
چھایا ہے قتیل اکثر دل پر نادیدہ نظاروں کا جادو
ہم باد یہ پیما تھے لیکن پھر بھی چمنوں کی یاد آئی
٭٭٭
افق کے اس پار زندگی کے اداس لمحے گزار آؤں
اگر مرا ساتھ دے سکو تم تو موت کو بھی پکار آؤں
کچھ اس طرح جی رہا ہوں جیسے اٹھائے پھرتا ہوں لاش اپنی
جو تم ذرا بھی دو سہارا تو بار ہستی اتار آؤں
بدل گئے زندگی کے محور ،طواف دیر و حرم کہاں کا
تمہاری محفل اگر ہو باقی تو میں بھی پروانہ وار آؤں
کوئی تو ایسا مقام ہو گا، جہاں مجھے بھی سکوں ملے گا
زمیں کے تیور بدل رہے ہیں تو آسماں کو سنوار آؤں
اگر چہ اصرار بیخودی ہے تجھے بھی زر پوش محفلوں میں
مجھے بھی ضد ہے کہ تیرے دل میں نقوش ماضی ابھار آؤں
سنا ہے ایک اجنبی سی منزل کو اٹھ رہے ہیں قدم تمہارے
برا نہ مانو تو رہنمائی کو میں سرِ رہگزار آؤں
٭٭٭
طرب خانوں کے نغمے غم کدوں کو بھا نہیں سکتے
ہم اپنے جام میں اپنا لہو چھلکا نہیں سکتے
چمن والے خزاں کے نام سے گھبرا نہیں سکتے
کچھ ایسے پھول بھی کھلتے ہیں جو مرجھا نہیں سکتے
نگاہیں ساتھ دیتی ہیں تو سنتے ہیں وہ افسانے
جو پلکوں سے جھلکتے ہیں زباں پر آ نہیں سکتے
اب آ کر لاج بھی رکھ لے خزاں دیدہ بہاروں کی
یہ دیوانے فسانوں سے تو جی بہلا نہیں سکتے
کچھ ایسی دکھ بھری باتیں بھی ہوتی ہیں محبت میں
جنہیں محسوس کرتے ہیں مگر سمجھا نہیں سکتے
چلو پابندیِ فریاد بھی ہم کو گوارا ہے !
مگر وہ گیت جو ہم مسکرا کر گا نہیں سکتے ؟
ہمیں پتوار اپنے ہاتھ میں لینے پڑیں شاید!
یہ کیسے ناخدا ہیں جو بھنور تک جا نہیں سکتے !
٭٭٭
ہم کو انتظار سحر بھی قبول ہے
لیکن شب فراق ترا کیا اصول ہے
اے ماہِ نیم شب تری رفتار کے نثار
یہ چاندنی نہیں ترے قدموں کی دھول ہے
کانٹا ہے وہ کہ جس نے چمن کو لہو دیا
خون بہار جس نے پیا ہے وہ پھول ہے
دیکھا تھا اہل دل نے کوئی سر ونو بہار
دامن الجھ گیا تو پکارے ببول ہے
باقی ہے پو پھٹے بھی ستاروں کی روشنی
شاید مریض شب کی طبیعت ملول ہے
جب معتبر نہیں تھا مرا عشق بدگماں
اب حسن خود فروش کا رونا فضول ہے
لٹ کر سمجھ رہے ہیں کہ نادم ہے راہزن
کتنی حسین اہلِ مروت کی بھول ہے
٭٭٭
٭٭٭
پروف ریڈنگ : ماروا ضیاء ، اعجاز عبید
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید