فہرست مضامین
- کلیاتِ ولیؔ دکنی
- دو لفظ
- ردیف ’ن‘ جاری
- ردیف ’و‘
- ردیف ’ہ‘
- ردیف ’ی‘
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382
- 383
- 384
- 385
- 386
- 387
- 388
- 389
- 390
- 391
- 392
- 393
- 394
- 395
- 396
- 397
- 398
- 399
- 400
- 401
- 402
- 403
- 404
کلیاتِ ولیؔ دکنی
حصّہ دوم
پیشکش: تصنیف حیدر
دو لفظ
ولی دکنی کے نام سے کون واقف نہیں۔ وہ اردو کے پہلے ایسے شاعر ہیں، جن کی زبان اور اسلوب نے اردو غزل کے ابتدائی نقوش پر زبردست اثر ڈالا۔ولی کی غزلیں، جب ان کے دیوان کے ساتھ دہلی پہنچیں تو لوگ گلیوں میں اسے گاتے پھرے، شاعروں نے اس کے طرز میں طبع آزمائی کی اور اس طرح تتبع کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا، جس کو اس وقت کے مشہور شاعر اور پیشے سے داروغہ مطبخ شیخ ظہور الدین حاتم نے بھی اپنایا اور ایک پورا دیوان، اسی طرز میں لکھا۔ دیوان ولی میں موجود ولی دکنی کی ان غزلیات کے بارے میں کہا جاتا ر ہا ہے کہ انہیں یہ مضامین ان کے ایک بزرگ یا پیر سعدا اللہ گلشن نے سجھائے تھے، لیکن میں نے اپنے ایک مضمون ‘دکنی غزل کا جائزہ(ولی اور اس سے پیشتر دکنی شاعری کے حوالے سے)میں اس پر تحقیقی نقطہ نظر سے بات کرنے کی کوشش کی ہے، میرے خیال میں یہ بات نہ صرف نادرست ہے بلکہ گمراہ کن ہے۔بہرحال یہ ایک طویل اور بحث طلب موضوع ہے۔ہم آج آپ کے لیے یہاں ‘کلیات غزلیات ولی’ لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ دہلی کی غزل پر جتنا اثر فائز نے نہیں ڈالا، اتنا ولی نے ثبت کیا ہے۔اب ولی کی تمام غزلیات یونی کوڈ میں موجود ہیں اور آپ انہیں کہیں سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔
شکریہ
تصنیف حیدر
ردیف ’ن‘ جاری
199
بھڑکے ہے دل کی آتش تجھ نیہ کی ہوا سوں
شعلہ نمط جلا دل تجھ حسن شعلہ زا سوں
گل کے چراغ گل ہو یک بار جھڑ پڑیں سب
مجھ آہ کی حکایت بولیں اگر صبا سوں
نکلی ہے جست کر کر ہر سنگ دل سوں آتش
چقماق جب پلک کی جھاڑا ہے توں ادا سوں
سجدہ بدل رکھے سر، سر تا قدم عرق ہو
تجھ با حیا کے پگ پر آ کر حنا حیا سوں
یھاں درد ہے پرم کا بے ہودہ سر کہے مت
یہ بات سن ولیؔ کی جا کر کہو دوا سوں
٭٭٭
200
میری طرف سوں جا کے کہو اس حبیب سوں
گر مجھ کوں چاہتا ہے تو مت مل رقیب سوں
مت خوف کر تو مجھ سوں اے دلدار مہرباں
آزار نئیں ہے گل کوں کبھو عندلیب سوں
مت راہ دے رقیب سیہ رو کوں اے صنم
واجب ہے احتراز بلائے مہیب سوں
پوچھو نکو طبیب کوں مجھ درد کا علاج
بیمار کوں برہ کے غرض نئیں طبیب سوں
اُس بے وفا کی طرز سوں شکوہ نہیں ولیؔ
ہے جنگ رات دیس مجھے مجھ نصیب سوں
٭٭٭
201
تجھ مکھ کی جھلک دیکھ گئی جوت چندر سوں
تجھ مکھ پہ عرق دیکھ گئی آب گہر سوں
شرمندہ ہو تجھ مکھ کے دکھے بعد سکندر
بالفرض بناوے اگر آئینہ قمر سوں
تجھ زلف میں جو دل کہ گیا اس کوں خلاصی
نئیں صبح قیامت تلک اس شب کے سفر سوں
ہرچند کہ وحشت ہے تجھ انکھیاں ستی ظاہر
صد شکر کہ تجھ داغ کوں الفت ہے جگر سوں
اشرفؔ کا یو مصراع ولیؔ مجکوں ہے دل چسپ
الفت ہے دل و جاں کوں مرے پیم نگر سوں
٭٭٭
202
باندھا ہے جو دل جگ منیں اس نور نظر سوں
دیکھا ہے وو دریا کوں اپس دیدۂ تر سوں
خوں ریزیِ عشاق ہے موقوف اسی پر
شمشیر کوں باندھا جو کوئی موئے کمر سوں
پتلی و نگہ سوں یو ترا غمزۂ خوں خوار
آیا دل عشاق طرف تیغ و سپر سوں
یک تل نہیں آرام مرے دل کو ترے باج
اے نور نظر دور نہ ہو میری نظر سوں
اُس لب کی حلاوت ہے ولیؔ طبع میں میری
یو شعر مرا جگ منیں میٹھا ہے شکر سوں
٭٭٭
203
باندھا ہوں اپس جیو ترے موئے کمر سوں
دیکھا ہوں اُسے جب ستی دقّت کی نظر سوں
پہنچی ہے مری فکر بلندی سوں فلک پر
تجھ قد کی جو تعریف کیا اس کے اثر سوں
ہے بسکہ ترے رنگ میں صافی و لطافت
لکھتا ہوں ترے وصف کوں میں آب گہر سوں
انکھیاں سوں ہوا پیو جدا جب ستی میری
جاتے ہیں مرے اشک گیا پیو جدھر سوں
تجھ ہجر میں دامان و گریبان و رُمالاں
شاکی ہیں ہر اک رات مرے دیدۂ تر سوں
ہیں مغز میں پستے کی نمن تل کے سبب یوں
گویا یہ لباں لے کے گئے گوئے شکر سوں
پڑھتے ہیں ولیؔ شعر ترا عرش پہ قدسی
باہر ہے تری فکر رسا حدّ بشر سوں
٭٭٭
204
جب سوں دل باندھا ہے ظالم تجھ نگہ کے تیر سوں
تب سوں رم نے رم کیا رمنے کے ہر نخچیر سوں
بے حقیقت گرم جوشی دل میں نئیں کرتی اثر
شمع روشن کیوں کے ہووے شعلۂ تصویر سوں
جگ میں اے خورشید و وو چرخ زن ہے ذرہ دار
جن نے دل باندھا ہے تیرے حسن عالم گیر سوں
اے پری تجھ قد کا دیوانہ ہوا ہے جب سوں سرو
پائے بند اس کوں کیے ہیں موج کی زنجیر سوں
خواب میں دیکھا جو تیرے سبزۂ خط کوں صنم
سبز بختوں میں ہوا اس خواب کی تعبیر سوں
جگ میں نئیں اہل ہنر اپنے ہنر سوں بہرہ یاب
کوہ کن کوں فیض کب پہنچا ہے جوئے شیر سوں
اے ولیؔ پی کا دہن ہے غنچۂ گلزار حسن
بوئے گل آتی ہے اس کی شوخیِ تقریر سوں
٭٭٭
205
اے نور چشم تجھ پر نامہ لکھا پلک سوں
کیتا ہوں مہر اس پر انکھیا کی مردمک سوں
اے رشک مہر انور ٹک مہر سوں خبر لے
گزری ہے آہ میری تجھ غم میں نُہ فلک سوں
اہل چمن کے دل میں بے قدر ہے صنوبر
باندھے ہیں جب ستی جیو تجھ سرو کی لٹک سوں
اُس وقت ہوش عاشق ثابت قدم رہے کیوں
سلطان حسن آوے جب ناز کی کٹک سوں
اے آفتاب طلعت مانند مہ ولیؔ کا
روشن ہوا ہے سینہ تجھ حسن کی جھلک سوں
٭٭٭
206
ہوا ہے دنگ بنگالہ تری نرگس کے جادو سوں
معطر ہے سواد ہند تیری زلف کی بو سوں
قسم تیرے تغافل کی کہ نرگس کی قلم لے کر
تری انکھیاں کے جادو کوں لکھا ہوں خون آہو سوں
کیا ہے مصرع برجستۂ قوس قزح موزوں
فلک مضمون رنگیں لے گیا تجھ بیت ابرو سوں
سخن میرا ہوا ہے تب سوں بالا ہر سخن اوپر
لگا ہے دھیان میرا جب ستی اس سرو دل جو سوں
ہوا تجھ حسن پر دو جگ دوانہ گر تعجب نئیں
اگر مجھ سے دوانے کا بندھا دل تجھ پری رو سوں
مجھے گلشن طرف جانا بجا ہے اے مہِ انور
کہ میں پاتا ہوں تجھ زلفاں کی بو ہر رات شبّو سوں
ولیؔ ہر شعر سوں میرے نزاکت جلوہ پیرا ہے
بجا ہے گر لکھوں اس مو کمر کوں خامۂ مُو سوں
٭٭٭
207
آتا ہے جب چمن میں توں زریں کلاہ سوں
اُٹھتی ہے فوج حسن تری جلوہ گاہ سوں
بزم ادا و نازکوں وہ شوخ نازنیں
خوش بو کیا ہے عنبر موج نگاہ سوں
بے جا نہیں ہے رخ پہ مرے رنگ اضطراب
باندھا ہوں دل کوں آہوئے وحشت پناہ سوں
پروانہ وار عشق میں تیرے جو جیو دیا
اس کا کفن ہے رشتۂ شمع نگاہ سوں
حاجت نہیں چراغ کی تجھ گھر میں اے ولیؔ
روشن ہے بزم عشق تری شمع آہ سوں
٭٭٭
208
کیتا ہوں بند دل کوں اس غیرت پری سوں
جن نے کیا ہے مجنوں عالم کوں دلبری سوں
رکھتا ہے عاشقاں سوں بازار حسن گرمی
ہر چیز کی جہاں میں ہے قدر مشتری سوں
عاشق سوں جا کے پوچھو معشوق کی حقیقت
مخفی نہیں ہے خوبی جوہر کی جوہری سوں
جن نے رقم کیا ہے تعریف تجھ نیَن کی
معنی میں کیوں نہ ہووے ہم چشم عبہری سوں
دل دار کی گلی سوں کیوں جا سکوں ولیؔ میں
لیتا لپیٹ دل کوں جب چیرۂ زری سوں
٭٭٭
209
جا لیا تمام نس مجھ اس طبع آتشی سوں
اب صبح دم ہے دم لے اے شمع سرکشی سوں
دل داشت کرسکے تو یہ دل لجا اپس سنگ
گر دل کُشی پہ دل ہے تو کیا ہے دل کشی سوں
عاشق کے دیکھنے سوں لاتا ہے چیں جبیں پر
اے خوش ادا میں خوش ہوں تیری یہ ناخوشی سوں
اے پستہ لب ترے لب ہیں کان سب نمک کے
کر بہرہ مند مجکوں اس کی نمک چشی سوں
دنیا کے غل و غش سوں فارغ رہوں ولیؔ میں
یک جام گر ملے مجھ صہبائے بے غشی سوں
٭٭٭
210
سیہ روئی نہ لیجا حشر میں دنیائے فانی سوں
سہ نامے کوں دھو اے بے خر انجھواں کے پانی سوں
شب غم روز عشرت سوں بدل ہووے اگر دیکھے
تری جانب وو مہر ذرہ پرور مہربانی سوں
نزک جاناں کے گر تحفہ لجانا ہے تو اے ناداں
لجا گل دستۂ اعمال باغِ زندگانی سوں
نہیں ہے سیر یک ساعت اگر ملک جوانی میں
کہو کیا خضر کوں حاصل ہے ملک جاودانی سوں
اپس کے سر پہ مارا کوہ کن نے تیشۂ غیرت
ہوا جب خسروِ عالم ولیؔ شیریں زبانی سوں
٭٭٭
211
میری طرف سوں جا کہو اُس ماہ عالم تاب کوں
یک رات فرش خواب کر مجھ دیدۂ کم خواب کوں
اپنے دل پُر خوں کوں میں لایا ہوں تیرے پیش کش
خرچ گر درکار ہے اطلس تجھے سنجاب کوں
گر عشق میں آیا ہے تو اے دل، گریباں پارہ کر
لیتے ہیں اس بازار میں بے تابیِ سیماب کوں
میرے دل گم نام کی کیا قدر بوجھے بے خبر
ہے دلبراں کَن اعتبار اس گوہر نایاب کوں
مجھ دل کوں سرگرداں کیا ساغر نمن اس شوخ نے
جس کی زلف کے پیچ نے چکر دیا گرداب کوں
صافی دلاں کَن بیٹھنا ہے کسب عزت کا سبب
دریا کا ہو کر ہم نشیں پہنچا ہے موتی آب کوں
تجھ یاد میں انجھواں ستی لبریز ہیں چشم ولیؔ
یک بار دیکھ اے سبز خط اس چشمۂ سیراب کوں
٭٭٭
212
تشنگی اپنی نہیں کہتا کسی بے آب کوں
جیوں گہر رکھتا ہے دائم جو گرہ میں آب کوں
اضطراب دل گیا ہے اس کے مکھ کوں دیکھ کر
بے قراری سوں نکالے آرسی سیماب کوں
اشک ریزاں مثل انجم صبح محشر لگ رہا
جن نے دیکھا یک نظر اس ماہ عالم تاب کوں
تجھ بھواں کے خم کوں دیکھا جب ستی اے قبلہ رو
رات دن رکھتا ہے زاہد مکھ اَگے محراب کوں
اے ولیؔ پی کی محبت سوں زمیں کے فرش پر
آنکھ بھر دیکھا نہیں کُئی غیر مخمل خواب کوں
٭٭٭
213
کہ میرا کہے درد بے درد کوں
کرے غم سوں صد برگ صد پارہ دل
دکھاؤں اگر چہرۂ زرد کوں
ہٹا بوالہوس تجھ بھواں دیکھ کر
کہاں تاب شمشیر نامرد کوں
اگر جل میں جل کر کنول خاک ہو
نہ پہنچے ترے پانوں کی گرد کوں
لکھا تجھ دہن کی صفت میں ولیؔ
ہر ایک فرد میں جوہر فرد کوں
٭٭٭
214
دیکھا ہے جن نے اے صنم تجھ طرّۂ طرار کوں
رکھتا ہے سینہ بر منیں جیوں شمع سوز نار کوں
جیوں زخم اُس کی چشم سوں جاری ہے خوں ہر دم منیں
دیکھا ہے جو کُئی یک نگہ تجھ ناز کی تلوار کوں
تیری پرت کے پنتھ میں اے دراوے در ماندگاں
بخشے ہیں عاصاہ کا تجھ چشم کے بیمار کوں
اے سرگروہ سرکشاں لایا ہے نسّاجِ فلک
خط شعاعی سوں بُنا تجھ چیرۂ زر تار کوں
ہر استخواں سینے کا ہے مانند نَے فریاد میں
رکھتا ہوں دائم بر منیں تجھ غم کے موسیقار کوں
دیکھا ہے جب سوں آنکھ بھر تجھ مکھ کوں اے رشک چمن
چھوڑاں ہیں تب سوں بلبلاں عشق گلِ گل زار کوں
جیوں معنیِ رنگیں ولیؔ ہو مہرباں مجھ حال پر
وو صاحب معنی سُنے میرے اگر اشعار کوں
٭٭٭
215
دیتا نہیں ہے بار رقیب شریر کوں
شاید کہ بوجھتا ہے ہمارے ضمیر کوں
اس نازنیں کی طبع گر آوے خیال میں
بوجھوں صدائے صور قلم کی صریر کوں
برجا ہے اس کوں عشق کے گوشے منیں قرار
جو پیچ و تابِ دل سوں بچھاوے حصیر کوں
اس کے قدم کی خاک میں ہے حشر کی نجات
عشاق کے کفن میں رکھو اس عبیر کوں
مجھ کوں ولیؔ کی طبع کی صافی کی ہے قسم
دیکھا نہیں ہوں جگ میں سجن تجھ نظیر کوں
٭٭٭
216
میں دل کو دیا بند کر اس سحر بچن کوں
عشاق جسے دیکھ بسارے ہیں وطن کوں
عنقا ہے سخن اس کا سخن فہم کے نزدیک
رکھتا ہے جو کوئی یاد میں اس غنچہ دہن کوں
و اللہ کہ صادق ہے وہ عشاق کی صف میں
جو صبح نمن سرسوں لپیٹا ہے کفن کوں
اس شوخ نے دکھلا کے اپس رنگ کی خوبی
لوہو میں کیا غرق جو انانِ چمن کوں
ثابت رہے کیوں رنگ ولیؔ اس کا جہاں میں
دیکھا ہے جو دلدار کی زلفاں کی شکن کوں
٭٭٭
217
نئیں معلوم ہوتا، داغ دینے کس بچارے کوں
چلا ہے آج یو لالہ ہزارے کے نظارے کوں
لیا ہے گھیر تجھ زلفاں نے تیرے کان کا موتی
مگر یہ ہند کا لشکر لگا ہے آ ستارے کوں
ہر اک احوال میں دلبر نظر میں خوب آتا ہے
لباس خوب کی حاجت نہیں حق کے سنوارے کوں
یہی ہے آرزو دل میں کہ صاحب درد کُئی جا کر
ہمارے درد کی باتاں کہے اس پی پیارے کوں
کمر سوں نئیں جدا ہوتی نظر اس شوخ چنچل کی
ولیؔ آخر کیا ہے صید چیتے نے چکارے کوں
٭٭٭
218
دیکھوں گا شتابی ستی اس رشک پری کوں
گر کچھ بھی اثر ہے مری آہ سحری کوں
اے شوخ ترے ملنے کوں انکھیاں کے اُپر رکھ
لایا ہوں تری نذر عقیق جگری کوں
انجن کوں لگا سحر کے غائب ہووے ساحر
دیکھے جو تری نین کی جادو نظری کوں
اے حیلۂ گر رندی تری حیلہ گری دیکھ
سب حیلہ گراں ترک کیے حیلہ گری کوں
یک بارگی ہوتا ہے ولیؔ زر کے نمن زرد
جب باندھ کے آتا ہے تو دستار زری کوں
٭٭٭
219
دیکھے گا ہر اک آن تری جلوہ گری کوں
پایا ہے تری مہر سوں جو دیدہ وری کوں
بخشا ہے تری نین نے کیفیت مستی
تجھ مکھ نے خبردار کیا بے خبری کوں
جاری ہوا تجھ غم ستی مجھ اشک کا مطلب
ہم دانہ وہم آب ملا اس سفری کوں
مجھ عاشق دیوانہ کوں گر حکم ہو تیرا
تجھ حور اَگے فرش کروں آج پری کوں
ہر گل کا سِنَہ چاک ہو سن درد کوں میرے
گلشن کی طرف بھیجوں گر آہ سحری کوں
کھا پیچ ڈُبے شرم سوں مغرب منیں سورج
گر دیکھے ترے سیس پہ دستار زری کوں
کرتا ہے ولیؔ سحر سدا شعر کے فن میں
تجھ نین سوں سیکھا ہے مگر جادوگری کوں
٭٭٭
220
ہرگز تو نہ لے ساتھ رقیب دغلی کوں
مت راہ دے خلوت منیں ایسے خللی کوں
تیرے لب یاقوت اُپر خطِّ خفی دیکھ
خطاّط جہاں نسخ کیے خطِّ جلی کوں
اے زہرہ جبیں کِشن ترے مکھ کی کلی دیکھ
گاتا ہے ہر اک صبح میں اُٹھ رام کلی کوں
یاقوت کوں ہے قوت ترے خط کی محبت
ہے دل میں غبار اس کے سبب میرعلی کوں
اے ماہِ جبیں مہر لقا تیری جبیں پر
کرتا ہوں ہر اک دم منیں دم نادِ علی کوں
میں دل کوں ترے ہاتھ دیا روزِ ازل سوں
مت دل سوں بسار اپنے محب ازَلی کوں
نئیں منصب و جاگیر نہیں روز وظیفہ
ہر روز ترا نام وظیفہ ہے ولیؔ کوں
٭٭٭
221
نظر کر تجھ قبائے صندلی کوں
کرے فردوس استقبال اس کا
تصوّر جو کیا تیری گلی کوں
دلِ بے تاب نے تجھ غم کی خاطر
کیا ہے فرش خواب مخملی کوں
ہماری آہ آتش رنگ سن کر
ہوئی ہے بے قراری بیجلی کوں
ترے غم میں دل سوراخ سوراخ
کیا پیدا صدائے بانسلی کوں
دل پُر خوں نے میرے باغ میں جا
دیا تعلیم خوں خواری کلی کوں
کیا ہوں آب خجلت سوں سراپا
ہر اک مصرع سوں مصری کی ڈلی کوں
پڑے سن کر اُچھل جیوں مصرعِ برق
اگر مصرع لکھوں ناصر علی کوں
ترے اشعار ایسے نئیں فراقیؔ
کہ جس پر رشک آوے گا ولیؔ کوں
٭٭٭
222
جو کوئی سمجھا نہیں اُس مکھ پہ آنچل کے معانی کوں
وو کیوں بوجھے کہو اس شوخ چنچل کے معانی کوں
کریں کے بحث اس انکھیاں کے جادو کے سحر سازاں
نہ پہنچے کوئی باریکی میں کاجل کے معانی کوں
وو یوسف کوں کہے ثانی سو اس بے مثل کا کیوں کر
وو بیں کر جو کہ سمجھا چشم احول کے معانی کوں
نہ نکلے بحر حیرت سوں جو ہو اس مکھ کا ہم زانو
یہ بوجھے وو جو پہنچا ہے سجنجل کے معانی کوں
صفائی دیکھ اُس کے مکھ کی ہے بے ہوش سر تا پا
یہی تحقیق سمجھو خواب مخمل کے معانی کوں
بیاں زلف بدیعی کا ہے سعد الدین کا مطلب
اَجھوں لگ تم نہیں سمجھے مطوّل کے معانی کوں
ولیؔ اس ماہ کامل کی حقیقت جو نہیں سمجھا
وو ہرگز نئیں بُجھا عالم میں اکمل کے معانی کوں
٭٭٭
223
شہید شاہد گل گوں قبا ہوں
ہر اک مہ رو کے ملنے کا نئیں ذوق
سخن کے آشنا کا آشنا ہوں
کیا ہوں ترک نرگس کا تماشا
طلب گار نگاہ باحیا ہوں
نہ کر شمشاد کی تعریف مجھ پاس
کہ میں اس سرو قد کا مبتلا ہوں
کیا میں عرض اس خورشید رو سوں
تو شاہ حسن میں تیرا گدا ہوں
قدم پر اس کے رکھتا ہوں سدا سر
ولیؔ ہم مشرب رنگ حنا ہوں
٭٭٭
224
میں سورۂ اخلاص ترے رو سوں لکھا ہوں
بسم اللہ دیوان تجھ ابرو سوں لکھا ہوں
تجھ چشم کی تعریف کوں آہو کے نَین پر
اکثر قلمِ نرگسِ جادو سوں لکھا ہوں
اے موئے میاں وصف ترے موئے میاں کے
چیتے کی کمر پر قلمِ مو سوں لکھا ہوں
تجھ طرّۂ طراّر کی تعریف کوں اے شوخ
سنبل کے چمن میں گل شبّو سوں لکھا ہوں
اس مردمک چشم طرف حال ولیؔ کا
پلکاں کی قلم کر اَپس انجھو سوں لکھا ہوں
٭٭٭
225
تصویر تری جان مصفّا پہ لکھا ہوں
یہ نقش پری پردۂ مینا پہ لکھا ہوں
مجھ عاشق یک رنگ سوں دو رنگ ہوا توں
تیری یہ دو رنگی گل رعنا پہ لکھا ہوں
تجھ سنبل پر پیچ کی خوبی میں کتک سطر
موجاں کی نمن صفحۂ دریا پہ لکھا ہوں
یک تل نہیں آرام ترے تل کے سبب مجھ
یو صورت تل دل کے سویدا پہ لکھا ہوں
فرہاد لکھا صورت معشوق حجر پر
میں صورت دلبر دل شیدا پہ لکھا ہوں
ہرگز نہ کیا نرم صنم دل کوں اپس کے
یہ سنگ دلی تختۂ خارا پہ لکھا ہوں
اے مردمک چشم تجھ انکھیاں کی یہ لالی
نرگس کے قلم سوں گل لالہ پہ لکھا ہوں
اعجاز ترے اس خط روشن کا سری جن
جیوں خط شعاعی ید بیضا پہ لکھا ہوں
پیتم نے قدم رنجہ کیا میری طرف آج
یہ نقش قدم صفحۂ سیما پہ لکھا ہوں
تجھ عشق میں دیکھا ہے یہ دل وسعتِ منزل
یہ حالتِ دل دامن صحرا پہ لکھا ہوں
اے آہ بلندی تجھے اُس قد کے سبب ہے
تنخواہ تری عالمِ بالا پہ لکھا ہوں
تجھ نرگس مخمور کی کیفیّت مستی
اکثر خط ساغر ستی صہبا پہ لکھا ہوں
اس کے دہن تنگ کی تعریف کا نکتہ
صنعت سوں ولیؔ دیدۂ عنقا پہ لکھا ہوں
٭٭٭
226
میں عاشقی میں تب سوں افسانہ ہو رہا ہوں
تیری نگہ کا جب سوں دیوانہ ہو رہا ہوں
اے آشنا کرم سوں یک بار آ درس دے
تجھ باج سب جہاں سوں بیگانہ ہو رہا ہوں
باتاں لگن کی مت پوچھ اے شمع بزم خوبی
مدّت سے تجھ جھلک کا پروانہ ہو رہا ہوں
شاید وو گنج خوبی آوے کسی طرف سوں
اس واسطے سراپا ویرانہ ہو رہا ہوں
سودائے زلف خوباں رکھتا ہوں دل میں دائم
زنجیر عاشقی کا دیوانہ ہو رہا ہوں
برجا ہے گر سنوں نئیں ناصح تری نصیحت
میں جام عشق پی کر مستانہ ہو رہا ہوں
کس سوں ولیؔ اپس کا احوال جا کہوں میں
سر تا قدم میں غم سوں غم خانہ ہو رہا ہوں
٭٭٭
227
باطن کی گر مدد ہو اسے یار کر رکھوں
اپنے سخن کا اس کوں خریدار کر رکھوں
اس کی ادا و نازکی خوبی کوں کر بیاں
ہر خوب رو کوں صورت دیوار کر رکھوں
لائق ہے گر وو شوخ کہے اپنے فخر میں
آوے اگر پری تو پرستار کر رکھوں
برجا ہے گر چمن میں کہے وو نگاہ کر
نرگس کوں اپنی چشم کا بیمار کر رکھوں
تسبیح تیری زلف کوں کہتی ہے اے صنم
یک تار دے کہ رشتۂ زنار کر رکھوں
تیرے خیال آنے کی پاؤں اگر خبر
سینے کوں داغِ عشق سوں گلزار کر رکھوں
ایسے نصیب میرے کہاں ہیں ولیؔ کہ آج
اُس گل بدن کوں اپنے گلے ہار کر رکھوں
٭٭٭
228
پاک بازی ہے شمع راہ یقیں
خوشہ چینِ جمال جاناں ہیں
خرمن ماہ و خوشۂ پرویں
ہے ترے لب سوں اے شکر گفتار
بات کہنا نبات سوں شیریں
قد سوں تیرے عیاں ہے اے جاناں
صورت ناز و معنی تمکیں
بسکہ رویا ہوں یاد کر کے تجھے
چشم میری ہے دامن گل چیں
زلف تیری ہے اے وفا دشمن
دشمنِ دین و دشمنِ آئیں
اے ولیؔ تب نہاں ہو لیلِ فراق
جب عیاں ہو وو آفتاب جبیں
٭٭٭
229
آوے اگر وو شوخ ستم گر عتاب میں
جرأت جواب کی نہ رہے آفتاب میں
یک جام میں وو جگ کو کرے مست و بے خبر
تیری نین کا عکس پڑے گر شراب میں
رخسار دل ربا کا صفا کیا بیاں کروں
مخمل نے اس صفا کوں نہ دیکھا ہے خواب میں
تجھ حسن شعلہ زار کی تعریف رشک سوں
سننے کی تاب آج نہیں آفتاب میں
طاقت نہیں کہ تیری ادا کا بیاں لکھے
ہے گرچہ بے نظیر عطارد حساب میں
تجھ زلف حلقہ دار سوں مانند عاشقاں
گرداب و موج مل کے پڑے پیچ و تاب میں
تجھ حسن آبدار کی تعریف کیا کہوں
موتی ہوا ہے غرق تجھے دیکھ آب میں
تیری نگاہ مست، کہ ہے جام بے خودی
رکھتی ہے کیفیّت کہ نہیں وو شراب میں
تیری بھواں کے رتبۂ عالی کوں کر نظر
برجا ہے گر ہلال چلے تجھ رکاب میں
رکھتے ہیں اس سوں گلبدناں رغبتِ تمام
شاید کہ تجھ عرق کا اثر ہے گلاب میں
اے دل شتاب چل کہ تماشے کی بات ہے
بیٹھا ہے آفتاب نکل ماہتاب میں
ملنا بجا نہیں ہے مخالف سوں ایک آن
اس تان کو بجاوے ربابی رباب میں
میرے دل برشتہ میں محشر کا شور ہے
ہے تجھ نمک کا شاید اثر اس کباب میں
آوے وو نو بہار اگر بر سرِ سخن
طوطی کوں لاجواب کرے یک جواب میں
ہرگز نہیں ہے خشت سوں فرق اس کوں اے ولیؔ
خوش طلعتاں کی بات نہیں جس کتاب میں
٭٭٭
230
ہے بس کہ آب و رنگ حیا کھیم داس میں
آتا نہیں کسی کے خیال و قیاس میں
ہے اُس کے مکھ سوں جلوہ نما موج آب و تاب
موتی کے مثل گرچہ ہے سادہ لباس میں
ق
بیراگیوں کے پنتھ میں آ کر وو مہ جبیں
بیراگ کوں اُٹھا کے چڑھایا اَکاس میں
لگتا ہے اُس گروہ میں وو سرو نازنیں
گویا گلِ گلاب کیا جلوہ گھاس میں
اس کی بھواں کوں بوجھ کے شمشیر آبدار
اہل ہوس کی عقل ہے دائم ہراس میں
آوے فلک سوں زہرہ اُتر گر وو مہ جبیں
یک تان گاوے رام کلی یا بھباس میں
جاتا ہوں باغ یاد میں اس چشم کے ولیؔ
شاید کہ بوئے اُس کی ہو نرگس کی باس میں
٭٭٭
231
دیکھا ہے جن بنودؔ کوں ا کرمؔ کے باغ میں
پہنچی ہے بوئے عشق کی اس کے دماغ میں
کھویا ہے تجھ نگاہ نے عالم کے ہوش کوں
گردش عجب ہے تیری انکھیاں کے ایاغ میں
تجھ لب کا آب و رنگ جو کچھ خط سوں ہے عیاں
ہرگز وو آب و رنگ نہیں شب چراغ میں
تجھ شوق کی اگن سوں سِنہ جل گیا تمام
فی الجملہ اس کا رنگ ہے لالے کے داغ میں
تجھ وصل کے خیال سوں غافل نئیں ولیؔ
رہتا ہے رات دیس اسی کے سراغ میں
رکھتا ہوں شمع آہ سجن کے فراق میں
حاجت نہیں چراغ کی میرے رواق میں
آب حیات وصل سوں سینے کو سرد کر
جلتا ہوں رات دیس پیا تجھ فراق میں
سن کر خبر صبا سوں گریباں کوں چاک کر
نکلے ہیں گل چمن سوں ترے اشتیاق میں
اے دل عقیق لب کے یہ آئے ہیں مشتری
موتی نہ بوجھ زہرہ جبیں کے بُلاق میں
تیرے سخن کے نغمۂ رنگیں کوں سن ولیؔ
ڈوبا عرق کے بیچ عراقیؔ عراق میں
٭٭٭
233
جب تک نہ دیکھا تھا تجھے دل بند تھا اوراق میں
تیری بھواں کوں دیکھ کر جزدان چھوڑا طاق میں
مشرق سوں مغرب لگ سدا پھرتا ہے ہر ہر گھر ولے
اب لگ سُرج دیکھا نہیں ثانی ترا آفاق میں
دل مستِ جام بے خودی اُس انجمن میں کیوں نہ ہو
جیوں موج مَے ہے ہر ادا ساقیِ سیمیں ساق میں
تیرے دہن کوں دیکھ کر اے نو بہار عاشقاں
جیوں غنچۂ گل ہر سحر جاتا ہوں استغراق میں
اے صبح تجھ کوں نئیں خبر اس مطلع انوار کی
ہرچند عالم گیر ہے تو حکمت اشراق میں
آیا ہے جب سوں دید میں وو نور چشم عاشقاں
جیوں نور بستا ہے سَدا مجھ دیدۂ مشتاق میں
تیری تواضع دیکھ کر بر جا ہے اے جانِ ولیؔ
گر بو علی سینا لکھے دفتر ترے اخلاق میں
٭٭٭
234
تجھ عشق کی اگن سوں سجن جل گیا ہوں میں
تیری گلی کی خاک میں جا رَل گیا ہوں میں
تجھ سوز میں جلا ہے جو دل شمع کی نمن
پروانہ ہو کے اس کے اُپر بَل گیا ہوں میں
اے آفتاب دیکھ ترے مکھ کی روشنی
بے تاب ہو کے مہ کے نمن گل گیا ہوں میں
یہ پھر کے دیکھنا ترا مجھ دل پہ گھات ہے
تیری نگہ کے رمز کوں اٹکل گیا ہوں میں
تجھ دل کا دیکھ سوز اَدِھک اے ولیؔ مدام
بولا پتنگ ہاتھ کوں یاں مل گیا ہوں میں
٭٭٭
235
ہوا تو خسرو عالم سجن! شیریں مقالی میں
عیاں ہیں بدر کے معنی تری صاحب کمالی میں
جو کیفیت سیہ مستی کی تجھ انکھیاں میں ہے ظالم
نہیں وو رنگ وو مستی شراب پرتگالی میں
تری زلفاں کے حلقے میں اَہے یوں نقش رخ روشن
کہ جیسے ہند کے بھیتر لگیں دیوے دِوالی میں
اگرچہ ہر سخن تیرا ہے آب خضر سوں شیریں
ولے لذت نرالی ہے پیا تجھ لب کی گالی میں
کہو اس نور چشم و پستہ لب کوں آشنائی سوں
کہ جیوں بادام کے وو مغز ہوویں یک نہالی میں
نظر میں نئیں ہے مردوں کی صلابت اہل زینت کی
نئیں دیکھا کوئی رنگ شجاعت شیرقالی میں
ولیؔ کے ہر سخن کا وو ہوا ہے مو بہ مو خواہاں
جو کُئی پایا ہے لذت تجھ بھواں کے شعر حالی میں
٭٭٭
236
کہ تا جاؤں پری رو کی گلی میں
نہ تھی طاقت مجھے آنے کی لیکن
بزور آہ پہنچا تجھ گلی میں
عیاں ہے رنگ کی شوخی سوں اے شوخ
بدن تیرا قباے صندلی میں
جو ہے تیرے دہن میں رنگ و خوبی
کہاں یہ رنگ، یہ خوبی کلی میں
کیا جیوں لفظ میں معنی، سری جن
مقام اپنا دل و جان ولیؔ میں
٭٭٭
237
دل نے تسخیر کیا شوخ کوں حیرانی میں
آرسی شہرۂ عالم ہے پری خوانی میں
خط کے آنے نے خبردار کیا گل رو کوں
نشۂ ہوش ہے اِس بادۂ ریحانی میں
جوہر آئینہ تجھ خط کی سُنا جب سوں خبر
موجِ گوہر کی نمن غرق ہوا پانی میں
خط کا آخر کوں ہوا رخ پہ پری رو کے گزر
مور کوں راہ ملی ملک سلیمانی میں
دل بے تاب کہ اک آن نہیں اس کوں قرار
زلف دلدار سوں ہمسر ہے پریشانی میں
گل رخاں بات اَپس دل کی مجھے کہتے ہیں
بسکہ ہوں شہرۂ آفاق سخن دانی میں
جُر ولی بات اپس دل کی کسی پاس نہ کہہ
راہ ہر دل کو نہیں مطلب پنہانی میں
٭٭٭
238
ہوش دشمن ہیں خوش ادا کے نین
اے دل اس کے آگے سنبھل کے جا
تیغ بر کف ہیں میرزا کے نین
دل ہوا آج مجھ سوں بے گانہ
دیکھ اس رمز آشنا کے نین
جگ میں اپنا نظیر رکھتے نہیں
دلبری میں وو دل ربا کے نین
نرگسستاں کوں دیکھنے مت جا
دیکھ اس نرگسی قبا کے نین
وو ہے گل زار آبرو کا گل
حق نے جس کو دیئے حیا کے نین
اے ولی کس اَگے کروں فریاد
ظلم کرتے ہیں بے وفا کے نین
٭٭٭
239
فرش گر عاشق کریں تجھ راہ میں اپنے نَین
تو نزاکت سوں رکھے نا اُس اُپر اپنے چرن
تجھ لباں کے لعل کی خوبی کا کیا بولوں بیاں
چشم عاشق جس سوں ہیں کان بدخشاں و یمن
خط کے تئیں رحل زمرد مکھ کوں تیرے اہل فضل
مصحف گل بول کر کرسی پہ بٹھلایا سخن
شمع لے انگشت حیرت منھ میں سرتا پا جلی
جب اَپس کے مکھ سوں تو روشن کیا ہے انجمن
پھول کی پکھری پہ جیوں مارا ہے چنگل رنگ نے
دل نے تیوں پکڑا ہے تیرا دامن اے گل پیرہن
منھ پہ شیریں، دل میں سنگیں، حال معشوقاں کا دیکھ
کیوں نہ مارے غم سوں تیشہ سر پر اپنے کوہ کن
اے ولیؔ اس کی گلی دل یاد کرتا ہے مُدام
کیوں کرے نئیں یاد، ہے ایمان الحب الوطن
٭٭٭
240
باندھا ہے جب سوں شوخ بے خنجر کمر منیں
سب گل رخاں کے جیو پڑے ہیں خطر منیں
جو آب و رنگ تیرے سخن میں ہے اے سجن
ہرگز وو آب و رنگ نہیں ہے گہر منیں
ہر وقت طبع راغب شربت ہے اے صنم
شاید ترے لباں کا اثر ہے شکر منیں
جمعیت آسماں سوں، توقع بجا نہیں
ہیں آفتاب و ماہ ہمیشہ سفر منیں
قوسِ قزح کا مصرع ثانی ہو اے ولیؔ
تعریف اُس بھواں کی لکھوں جس سطر منیں
٭٭٭
241
ق
نام اپنا بلند کرتے ہیں
اپنے شیریں سخن کوں دے کے رواج
سرد بازار قند کرتے ہیں
جس کوں بے تاب دیکھتے ہیں اُسے
اپنے اوپر سپند کرتے ہیں
بند کرنے کوں عاشقاں کے سدا
زلف اپنی کمند کرتے ہیں
اے ولیؔ جو کہ ہیں بلند خیال
شعر میرا پسند کرتے ہیں
٭٭٭
242
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
دیکھ خوباں کوں وقت ملنے کے
کس ادا سوں سلام کرتے ہیں
کیا وفادار ہیں کہ ملنے میں
دل سوں سب رام رام کرتے ہیں
کم نگاہی سوں دیکھتے ہیں ولے
کام اپنا تمام کرتے ہیں
کھولتے ہیں جب اپنی زلفاں کوں
صبح عاشق کوں شام کرتے ہیں
صاحب لفظ اس کوں کہہ سکیے
جس سوں خوباں کلام کرتے ہیں
دل لجاتے ہیں اے ولیؔ میرا
سرو قد جب خرام کرتے ہیں
٭٭٭
243
نقد ہستی جو ہار ڈالے ہیں
کیوں نہ ہو راہ عشق نشتر زار
تیری پلکاں نے خار ڈالے ہیں
دیکھ اُس کے نین کے خنجر کوں
چشم آہوں کوں وار ڈالے ہیں
کیوں کے نکلے برہ کے کوچے سوں
زلف تیری نے مار ڈالے ہیں
اے ولیؔ شہر حسن کے اطراف
خط سوں اس کے حصار ڈالے ہیں
٭٭٭
244
وو اپس کی خودی بسر تا نئیں
کیوں کے ہو میری حُسن سوں تیرے
دھوپ کھانے سوں پیٹ بھرتا نئیں
پی کے لب سوں پیا جو آب حیات
دور آخر تلک وو مرتا نئیں
غیر تیرے خیال کے اے شوخ
دل میں میرے دوجا اُترتا نئیں
اے ولیؔ اس کے نقش عالی کوں
غیر مانی دوجا چتر تا نئیں
٭٭٭
245
جو پی کے نام پاک پہ جی سوں فدا نئیں
راضی کسی طرح ستی اس پر خدا نئیں
اے نور جان و دیدہ ترے انتظار میں
مدت ہوئی پلک سوں پلک آشنا نئیں
عشاق مستحق ترحم ہیں اے عزیز
اُن کے غریب حال پہ سختی روا نئیں
ترشی اپس جبیں سوں نکال اے شکر بچن
عشاق پر غضب ہے یہ ناز و ادا نئیں
اے نور بہار حسن و گل باغ جان و دل
افسوس ہے کہ تجھ منیں رنگ وفا نئیں
ترک لباس بس کہ کیا ہوں جہاں منیں
تیری گلی کی خاک درا مجھ قبا نئیں
ڈالے اُکھاڑ کوہ کوں جیوں کاہ اے ولیؔ
عاشق کی آہ سرد کہ جس میں صدا نئیں
٭٭٭
246
اگر گلشن میں وو رنگیں ادا نئیں
بغیر از نقد جانِ پاک بازاں
متاع حسن کا دوجا بہا نئیں
کیا ہے عاشقاں کے خوں سوں رنگیں
کفِ خوں ریز پر رنگِ حنا نئیں
سنا ہوں تجھ نگاہ باحیا سوں
کہ ہرگز چشم نرگس میں حیا نئیں
تری زلفاں کے سنبل کا محرک
ہوائے عشق بازاں ہے صبا نئیں
ترا قد دیکھ کر کہتی ہے قمری
کہ ہرگز سرو میں ایسی ادا نئیں
ترا مکھ دیکھنا ہے واجب العین
ادائے فرض میں خوف و ریا نئیں
عجب ہے اے دُرِ دریاے خوبی
کہ دل تیرا مروت آشنا نئیں
ولیؔ گل رو کی دانش پر نظر کر
بہارِ حسن کوں چنداں بقا نئیں
٭٭٭
247
مرا غم دفع کرنے کا وو عالی جاہ قاصد نئیں
تو آوے کیوں مرے نزدیک کچھ گمراہ قاصد نئیں
ہوا ہے مجھ کوں یو معلوم اس بے دست گاہی میں
کہ مجھ احوال پہنچانے کوں غیر از آہ قاصدنئیں
دوجے کو مطلع کرنا نہیں غیرت روا رکھتی
ہمن سے بے سروماں نزک اس راہ قاصد نئیں
جو میرے جان و دل کا حال ہے تجھ ہجر میں ساجن
تجھے وو حال پہنچانے کروں کیا آہ قاصد نئیں
بجز وجدانِ دلبر کُئی نہ پاوے حال عاشق کا
تو میرے راز کے نامے ستی آگاہ قاصد نئیں
نہ پاوے شاہد معنی اپس کوں جو کیا خالی
خبر یوسف کی پہنچانے کوں غیر از چاہ قاصد نئیں
ولیؔ کیوں کر لکھوں اس بے خبر کوں درد دل اپنا
لِجانے درد کے نامے کوں کُئی دل خواہ قاصد نئیں
٭٭٭
248
ہمن میں ہے ولے ہم کو خبر نئیں
عجب ہمّت ہے اس کی جس کوں جگ میں
بغیر از یار دوجے پر نظر نئیں
نہ پاوے صندلِ راز الٰہی
جسے گرمی سوں دل کی درد سر نئیں
ہوا نئیں جب تلک خالی اپس سوں
گرفتاراں میں ہرگز معتبر نئیں
نہ دیویں راہ تجکو ملک دل میں
وفا کا جب تلک تجھ میں اثر نئیں
اپس کے مدعا کے آشیاں کوں
نہ پہنچے جب تلک ہمت کے پر نئیں
نہ پوچھو درد کی بے درد سوں بات
کہے کیا بے خبر جس کوں خبر نئیں
ہوا ہوں جیوں کماں خم زور غم سوں
سِنے میں تیر ہے آہ جگر نئیں
ولیؔ اس کی حقیقت کیوں کے بوجھوں
کہ جس کا بوجھنا حدِّ بشر نئیں
٭٭٭
249
دیکھا ہے جن نے باغ میں اس سرو قد کے تئیں
طوبیٰ کی خوش قدی پہ سٹا دست رو کے تئیں
دل جا پڑا ہے جاہ زنخداں میں یک بیک
اے زلف یار پہنچ تو میری مدد کے تئیں
اے سرو تیرے قد سوں ہے نت عید عاشقاں
قرباں کیا ہوں تجھ پہ میں عمرِ ابد کے تئیں
ہیں دنگ آسماں پہ ملک جب کیا شکار
آہو نے تجھ نین کے فلک کے اسد کے تئیں
یاجوج ہو رقیب جب آیا سجن کے پاس
پیدا کیا حجاب سکندر کی سد کے تئیں
درکار نئیں ہے صافیِ دل کوں لباس زر
جیوں آرسی پسند کیا ہوں نمد کے تئیں
پی کے مشابہت کا دِسا نئیں مجھے ولیؔ
دیکھا ہوں آفتاب نمط چار حد کے تئیں
٭٭٭
250
اے سامری تو دیکھ مری ساحری کے تئیں
شیشے میں دل کے بند کیا ہوں پری کے تئیں
اس زلف کے طلسم کوں دیکھا ہوں جب ستی
پایا ہوں تب سوں رشتۂ جادوگری کے تئیں
اُس گُن بھری چنچل نے لیا مکھ پہ جب اَنچل
قرباں کیا اپس پہ شہ خاوری کے تئیں
خورشید لے کے مکھ پر شفق شرم سوں چھپا
نکلا ہے جب وو پہن لباس زری کے تئیں
پیدا ہوا ہے جگ میں ولیؔ صاحب سخن
میری طرف سوں جا کے کہو انوریؔ کے تئیں
٭٭٭
251
تجھ حسن نے دیا ہے بہار آرسی کے تئیں
بخشا ہے خال و خط نے نگار آرسی کے تئیں
روشن ہے بات یہ کہ اَول سادہ لوح تھی
بخشے ہیں اس کے منھ سوں سنگھار آرسی کے تئیں
خوبی منیں اَوَل سوں ہوئی ہے دو چند تر
جب سوں کیا صنم نے دو چار آرسی کے تئیں
حیرت کی انجمن میں وو حیرت فزا نے جا
ایک دید میں کیا ہے شکار آرسی کے تئیں
کس خط کے پیچ و تاب کوں دل میں رکھے کہ آج
جیوں آبجو نہیں ہے قرار آرسی کے تئیں
حیرت سوں آنکھ اپس کی نہ موندے حشر تلک
یک پل ہو اس نزک جو گزار آرسی کے تئیں
گر اس کے دیکھنے کی ولیؔ آرزو ہے تجھ
بیگی اپس کے دل کی سنوار آرسی کے تئیں
٭٭٭
ردیف ’و‘
252
ہر رات اپس کے لطف و کرم سوں ملا کرو
ہر دن کوں عید بوجھ گلے سوں لگا کرو
وعدہ کیے تھے رات کہ آؤں گا صبح میں
اے مہربان وعدے کوں اپنے وفا کرو
حق تجھ سوں ہم کلام رکھے مجکوں رات دن
اس بات سوں مدام رقیباں جلا کرو
کب لگ رکھو گے طرز تغافل کوں دل منیں
ٹک کان دھر کے حال کسی کا سنا کرو
جب لگ ہے آسمان و زمیں جگ میں برقرار
جیوں پھول اس جہاں کے چمن میں ہنسا کرو
آیا ہوں احتیاج لے تم پاس اے صنم
اپنے لباں کے خضر سوں حاجت روا کرو
یک بات ہے ولیؔ کی سنو کان دھر سجن
میری انکھاں کے باغ میں دائم رہا کرو
٭٭٭
253
چاہو کہ ہوش سرسوں اپس کے بدر کرو
یک بار اُس پری کی گلی میں گزر کرو
ہے قصّۂ دراز کے سننے کی آرزو
اُس زُلف تابدار کی تعریف سر کرو
بوجھو ہلال چرخ کوں ابروئے پیر زال
اس کی بھواں کے خم پہ اگر ٹک نظر کرو
اس گل کے گر وصال کی ہے دل میں آرزو
شبنم نمن تمام انکھیاں اپنی تر کرو
اے دوستاں بہ تنگ ہوا ہوں میں ہوش سوں
پیتم کا نانوں لے کے مجھے بے خبر کرو
پہنچا ہے جس کے ہجر کی سختی سوں حال نزع
اُس بے خبر کوں حال سوں میرے خبر کرو
ہر شعر سوں ولیؔ کے عزیزاں بیاض میں
مسطر کے خط کوں رشتۂ سلک گہر کرو
٭٭٭
254
وحشیِ ملک عدم کوں تمھیں تسخیر کرو
خون عنقا کے اگر رنگ سوں تصویر کرو
دل دیوانۂ عاشق کوں دوجے قید نہیں
زلف کی موج سوں اس پگ منیں زنجیر کرو
گرد خجلت کوں ندامت کے انجھو ساتھ ملاؤ
موردِ رحمت حق اس ستی تعمیر کرو
صفحۂ نین پہ پتلی کی سیاہی لے کر
نقطۂ خال کی تعریف کوں تحریر کرو
عشق کہتا ہے ولیؔ آ کے بآواز بلند
اے جواناں تمھیں سب درد کوں مل پیر کرو
٭٭٭
255
چاہو کہ پی کے پگ تلے اپنا وطن کرو
اوّل اپس کوں عجز میں نقشِ چرن کرو
ہے گل رخاں کو ذوقِ تماشائے عاشقاں
داغاں ستی دلاں کوں اپس کے چمن کرو
ثابت ہو عاشقی میں جلا جو پتنگ وار
تارِ نگاہ شمع سوں اس کا کفن کرو
گر آرزو ہے دل میں ہم آغوشیِ صنم
انجھواں سوں اپنے سیج پہ فرش سمن کرو
چاہو کہ ہو ولیؔ کی نمن جگ میں دُور بیں
انکھیاں میں سرمہ پیو کی خاک چرن کرو
٭٭٭
256
عالم کوں تیغ ناز سوں بے جاں نکو کرو
غمزے سوں اپنے غارت ایماں نکو کرو
جمعیت آرزو ہے فلاطوں کوں خم منیں
زلفاں دکھا کے اس کوں پریشاں نکو کرو
آئینۂ جمال منور کوں کر عیاں
خوبانِ خود پرست کوں حیراں نکو کرو
زاہد چلا ہے صورت محراب دیکھ کر
ابرو دکھا کے اس کوں پریشاں نکو کرو
ہے روز حشر، روز مکافات ہر عمل
ہر اک کوں قتل خنجر مژگاں نکو کرو
درکار ہے نثار کوں گوہر اے عاشقاں
انجھواں کو صرف گوشۂ داماں نکو کرو
مدّت سوں تجھ نگاہ کا مشتاق ہے ولیؔ
کن نے کہا غریب پر احسان نکو کرو
٭٭٭
257
ماہ رو کوں چراغ راہ کرو
سفر عشق کا اگر ہے خیال
ہمّت دل کوں زاد راہ کرو
مکھ دکھا وے گا یوسفِ معنی
دل سوں گر دیکھنے کی چاہ کرو
عاشقاں! عاشقی کے دعوے پر
آہ و زاری کوں دو گواہ کرو
گل و بلبل کا گرم ہے بازار
اس چمن میں جدھر نگاہ کرو
سرخ روئی ہے عاشقاں کی مدام
گر رقیباں کا رو سیاہ کرو
حال دل پر ولیؔ کے اے جاناں
نظرِ لطف گاہ گاہ کرو
٭٭٭
258
درد منداں کوں کڑھایا نہ کرو
حق پرستی کا اگر دعویٰ ہے
بے گناہاں کوں ستایا نہ کرو
اپنی خوبی کے اگر طالب ہو
اپنے طالب کوں جلایا نہ کرو
ہے اگر خاطر عشاق عزیز
غیر کوں درس دکھایا نہ کرو
مجکوں ترشی کا ہے پرہیز صنم
چینِ ابرو کوں دکھایا نہ کرو
دل کوں ہوتی ہے سجن، بے تابی
زلف کوں ہاتھ لگایا نہ کرو
نگہِ تلخ سوں اپنی ظالم
زہر کا جام پلایا نہ کرو
ہم کوں برداشت نہیں غصّے کی
بے سبب غصّے میں آیا نہ کرو
پاک بازاں میں ہے مشہور ولیؔ
اس سوں چہرے کوں چھپایا نہ کرو
٭٭٭
259
شوخی و ناز سوں عشاق کوں حیراں نہ کرو
گردش چشم کوں غارت گرِ ایماں نہ کرو
فکر جمعیت اپس دل میں کیے ہیں زہاد
زلف کوں کھول غریباں کوں پریشاں نہ کرو
عشق کا داغ ہے محتاج نمک کا دائم
لب دلدار بِنا اس کا نمک داں نہ کرو
تب تلک بوئے محبت کی نہ پاؤ ہرگز
جب تلک گل کی نمن چاک گریباں نہ کرو
لب تمھارے ہیں شفا بخش ولیؔ ہے بیمار
حیف صد حیف کہ اس وقت میں درماں نہ کرو
٭٭٭
260
غفلت میں وقت اپنا نہ کھو ہشیار ہو ہشیار ہو
کب لگ رہے گا خواب میں بیدار ہو بیدار ہو
گر دیکھنا ہے مدعا اس شاہد معنی کارٗو
ظاہر پرستاں سوں سدا بیزار ہو بیزار ہو
جیوں چتر داغ عشق کوں رکھ سر پر اپنے اولاً
تب فوج اہل درد کا سردار ہو سردار ہو
وو نور چشم عاشقاں ہے جیوں سحر جگ میں عیاں
اے دیدہ وقتِ خواب نئیں بیدار ہو بیدار ہو
مطلع کا مصرع اے ولیؔ دردِ زباں کر رات دن
غفلت میں وقت اپنا نہ کھو ہشیار ہو ہشیار ہو
٭٭٭
261
اے دل سدا اُس شمع پر پروانہ ہو پروانہ ہو
اس نو بہار حسن کا دیوانہ ہو دیوانہ ہو
اے یار گر منظور ہے تجھ آشنائی عشق کی
ہر آشنائے عقل سوں بے گانہ ہو بے گانہ ہو
میری طرف ساغر بکف آتا ہے وہ مستِ حیا
اے دل تکلف برطرف مستانہ ہو مستانہ ہو
اُس آشنائے گوش سوں ہونا ہے مجکو آشنا
دریاے دل میں اے سخن دُردانہ ہو دُردانہ ہو
میرے سخن کوں مہر سوں سنتا ہے وو رنگیں ادا
اے سرگزشت حال دل افسانہ ہو افسانہ ہو
چاہے کہ شاہ حُسن کوں لادے اپس کے حکم میں
ٹک عشق کے میدان میں مردانہ ہو مردانہ ہو
جاری رکھے گا کب تلک رسم جفا و جور کوں
اے معنیِ ہر جان و دل جانا نہ ہو جانا نہ ہو
مجکوں خمار ہجر سوں پیدا ہوا ہے دردِ سر
اے گردش چشم پری، پیمانہ ہو پیمانہ ہو
اس وقت پیتم کی نگہ کرتی ہے مشقِ دلبری
یہ آن غفلت کی نئیں فرزانہ ہو فرزانہ ہو
اے عقل کب لگ وہم سوں یک جا کرے گی خار و خس
آتا ہے سیلِ عاشقی ویرانہ ہو ویرانہ ہو
عالم میں تجکوں اے ولیؔ ہے فکرِ جمعیت اگر
ہر دم خیال یار سوں ہم خانہ ہو ہم خانہ ہو
٭٭٭
262
نہ دیو آزار میرے دل کوں اے آرام جاں سمجھو
یہ خوبی کچھ سدا رہتی نئیں اے مہرباں سمجھو
کیا ہے پیچ و تاب عشق نے بے تاب مجھ دل کوں
ہوا ہوں موئے سوں باریک اے نازک میاں سمجھو
تمھارے نین نے زخمی کیا تیر تغافل سوں
کرو گے کب تلک یہ ظلم اے ابرو کماں سمجھو
تمھاری خیر خواہی کا بیاں ہے مجھ زباں اوپر
یقیں ہے مہرباں ہو مجھ پہ گر میرا بیاں سمجھو
سخن کے آشنا سوں لطف رکھتا ہے سخن کہنا
ولیؔ سوں بات کرتا ہے بجا اے دوستاں سمجھو
٭٭٭
ردیف ’ہ‘
263
سجن ٹک ناز سوں مجھ پاس آ آہستہ آہستہ
چھپی باتیں اپس دل کی سنا آہستہ آہستہ
غرض گویاں کی باتاں کوں نہ لا خاطر منیں ہرگز
سجن اس بات کوں خاطر میں لا آہستہ آہستہ
ہر اک بات سننے پر توجہ مت کر اے ظالم
رقیباں اس سیں ہوئیں گے جدا آہستہ آہستہ
مبادا محتسب بدمست سن کر تان میں آوے
طنبورہ آہ کا اے دل بجا آہستہ آہستہ
ولیؔ ہرگز اپس کے دل کوں سینے میں نہ رکھ غمگیں
کہ بر لاوے گا مطلب کوں خدا آہستہ آہستہ
٭٭٭
264
کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ
وفاداری نے دلبر کی بجھایا آتش غم کوں
کہ گرمی دفع کرتا ہے گلاب آہستہ آہستہ
عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب خلوت میں گل رو سوں
خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
مرے دل کوں کیا بے خود تری انکھیاں نے آخر کوں
کہ جیوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ
ہوا تجھ عشق سوں اے آتشیں رو دل مرا پانی
کہ جیوں گلتا ہے آتش سوں گلاب آہستہ آہستہ
ادا و ناز سوں آتا ہے وو روشن جبیں گھر سوں
کہ جیوں مشرق سوں نکلے آفتاب آہستہ آہستہ
ولیؔ مجھ دل میں آتا ہے خیال یار بے پروا
کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ
٭٭٭
265
ہوا ظاہر خط روئے نگار آہستہ آہستہ
کہ جیوں گلشن میں آتی ہے بہار آہستہ آہستہ
کیا ہوں رفتہ رفتہ رام اس کی چشم وحشی کوں
کہ جیوں آہو کوں کرتے ہیں شکار آہستہ آہستہ
جو اپنے تن کوں مثل جوئبار اول کیا پانی
ہوا اس سرو قد سوں ہم کنار آہستہ آہستہ
برنگ قطرۂ سیماب میرے دل کی جنبش سوں
ہوا ہے دل صنم کا بے قرار آہستہ آہستہ
اسے کہنا بجا ہے عشق کے گل زار کا بلبل
جو گل رویاں میں پایا اعتبار آہستہ آہستہ
مرا دل اشک ہو پہنچا ہے کوچے میں سریجن کے
گیا کعبے میں یہ کشتی سوار آہستہ آہستہ
ولیؔ مت حاسداں کی بات سوں دل کوں مکدر کر
کہ آخر دل سوں جاوے گا غبار آہستہ آہستہ
٭٭٭
266
ہوئے ہیں رام پیتم کے نَین آہستہ آہستہ
کہ جیوں پھاندے میں آتے ہیں ہرن آہستہ آہستہ
مرا دل مثل پروانے کے تھا مشتاق جلنے کا
لگی اس شمع سوں آخر لگن آہستہ آہستہ
گریباں صبر کا مت چاک کر اے خاطر مسکیں
سنے گا بات وو شیریں بچن آہستہ آہستہ
گل و بلبل کا گلشن میں خلل ہووے تو برجا ہے
چمن میں جب چلے وو گل بدن آہستہ آہستہ
ولیؔ سینے میں میرے پنجۂ عشق ستم گر نے
کیا ہے چاک دل کا پیرہن آہستہ آہستہ
٭٭٭
267
ترے غم میں مرے نیناں سوں گر جاری ہوں جیحوں اُٹھ
کریں تعظیم اس سیلِ انجھو کی کوہ و ہاموں اُٹھ
ترے قامت کی بالائی میں گر مصرع کروں موزوں
سرو قد سوں کرے تعظیم میری سر و موزوں اُٹھ
شکست فوج دل آساں ہے گر نیناں ترے ظالم
نگہ کی تیغ قاتل لے کریں شب کو سو شبخوں اُٹھ
اگر تجھ حسن کی شہرت سُنے اے غیرت لیلیٰ
عجب نئیں قبر میں سیں گر چلے رسوا ہو مجنوں اُٹھ
تری بیمار چشماں کی حقیقت کس پہ ظاہر نئیں
گیا ہے سُدھ بسر عالم کی عرصے سوں فلاطوں اُٹھ
ولیؔ تیری نگاہ مست کی تعریف گر بولے
تو استقبال کوں آویں ہزاراں چشم میگوں اُٹھ
٭٭٭
268
کیوں نہ گزرے خیال کچھ کا کچھ
دل بے دل کوں آج کرتی ہے
شوخ چنچل کی چال کچھ کا کچھ
مجکوں لگتا ہے اے پری پیکر
آج تیرا جمال کچھ کا کچھ
اثر بادۂ جوانی ہے
کر گیا ہوں سوال کچھ کا کچھ
اے ولیؔ دل کوں آج کرتی ہے
بوئے باغ وصال کچھ کا کچھ
٭٭٭
269
تجھ مکھ پہ جو اس خط کا اندازہ ہوا تازہ
اب حسن کے دیواں کا شیرازہ ہوا تازہ
پھولاں نے اپس کا رنگ ایثار کیا تجھ پر
تجھ مکھ پہ جب اے موہن یو غازہ ہوا تازہ
اس حسن کے عالم میں تو شہرۂ عالم ہے
ہر مکھ سوں ترا جگ میں آوازہ ہوا تازہ
سینے سوں لگانے کی ہوئی دل کو امنگ تازی
آلس ستی جب تجھ میں خمیازہ ہوا تازہ
جو شعر لباسی تھے جیوں پھول ہوئے باسی
جب شعر ولیؔ تیرا یو تازہ ہوا تازہ
٭٭٭
270
گریاں ہے ابر چشم مری اشک بار دیکھ
ہے برق بے قرار مجھے بے قرار دیکھ
فردوس دیکھنے کی اگر آرزو ہے تجھ
اے جیو پی کے مکھ کے چمن کی بہار دیکھ
حیرت کا رنگ لے کے لکھے شکلِ بے خودی
تیرے ادا و ناز کوں مانی نگار دیکھ
وہ دل کہ تجھ دَتَن کے خیالاں سوں چاک تھا
لایا ہوں تیری نذر بجائے انار دیکھ
اے شہسوار تو جو چلا ہے رقیب پاس
سینے میں عاشقاں کے اُٹھا ہے غبار دیکھ
تیری نگاہ خاطر نازک پہ بار ہے
اے بوالہوس نہ پی کی طرف بار بار دیکھ
تجھ عشق میں ہوا ہے جگر خون و داغ دار
دل میں ولیؔ کے بیٹھ کے یو لالہ زار دیکھ
٭٭٭
271
جی چل بچل ہوا ہے چنچل تیری چال دیکھ
دل جا پڑا خلل میں ترے مکھ کا خال دیکھ
ہر شب ہوں پیچ و تاب میں تجھ زلف کے سبب
گل کر ہوا ہوں بال نمط تیرے بال دیکھ
خوباں جو تجھ پہ رشک لجاویں توکیا عجب
جلتا ہے آفتاب یو جاہ و جلال دیکھ
اے نو بہار حسن تو گلشن میں جب چلا
گّل کر ہوئے گلاب گُلاں تیرے گال دیکھ
مت کہہ اپس کے حال کوں رمّال کے اَگے
مصحف میں اس جمال کے اَے جیو فال دیکھ
دونو جہاں کی عید کی ہے آرزو اگر
پیتم کے ابرواں میں دو شکلِ ہلال دیکھ
دل پیچ و تاب میں ہے ولیؔ کا مثال موج
تجھ زلف تابدار کا پُر پیچ حال دیکھ
٭٭٭
272
تیرے نَین کا دیکھ کے مے خانہ آئنہ
ہے تجھ نگاہ مست کا دیوانہ آئنہ
اے شمع سر بلند ترا نور دیکھ کر
سب جوہراں کیے ہیں سو پروانہ آئنہ
صافی اپس کی لے کے سنوارا ہے شوق سوں
رکھنے کوں تجھ خیال کے کاشانہ آئنہ
جب سوں پڑا ہے عکس ترا آئنے بِھتر
تب سوں لیا ہے شکل پری خانہ آئنہ
تجھ صاف مکھ پہ دیکھ کے یو خطِّ جوہراں
زنجیر پگ میں ڈال ہے دیوانہ آئنہ
تیرے نین کی دیکھ کے پتلی کوں اے صنم
سر تا قدم ہے صورت بت خانہ آئنہ
مانند اس ولیؔ کے ہوا مست و بے خبر
تجھ نین سوں پیا ہے جو پیمانہ آئنہ
٭٭٭
ردیف ’ی‘
273
منگا کے پی کوں لکھوں میں اپس کی بے تابی
لیا نَین کی سفیدی سوں کاغذ آبی
لکھا پلک کے قلم سوں میں اے کماں ابرو
جگر کے خون سوں تجھ تیغ کی سیہ تابی
ہوا ہے جب سوں وو نور نظر انکھاں سوں جدا
نہیں نظر میں مری تب سوں غیر بے خوابی
نگہ کے جھاڑ کا پھل تو ہے اے بہار کرم
ترے جمال کے گلشن میں نِت ہے سیرابی
ولیؔ خیال میں اس مہ کوں جو کوئی کہ رکھے
تو خواب میں نہ دسے اس کوں غیر مہتابی
٭٭٭
274
آیا وو شوخ باندھ کے خنجر کمر ستی
عالم کوں قتل عام کیا اک نظر ستی
طاقت رہے نہ بات کی پھر انفعال سوں
تشبیہہ تجھ لباں کوں اگر دوں شکر ستی
غم نے لیا ہے تب سوں مجھے پیچ و تاب میں
باندھا ہے جب سوں جیو کوں اس مو کمر ستی
غم کے چمن کوں باد خزاں کا نہیں ہے خوف
پہنچا ہے اس کوں آب مری چشم تر ستی
یک بار جا کے دیکھ ولیؔ اس دسَن کے تئیں
لکھتا ہوں جس کے وصف کوں آب گہر ستی
٭٭٭
275
جس کے چہرے پر ہے خال دوستی
خشک لب وو کیوں رہے عالم منیں
جس کوں حاصل ہے زلال دوستی
شمع بزم اہل معنی کیوں نہ ہوئے
جس اُپر روشن ہے حال دوستی
اس سخن سوں آشنا ہے دردمند
دردِ دوری ہے وبال دوستی
اے سجن تجھ مکھ کے مصحف میں مجھے
دیکھنا بر جا ہے فال دوستی
فیض سوں تجھ قد کے اے رنگیں بہار
تازہ و تر ہے نہال دوستی
اے ولیؔ ہر آن کر مشق وفا
ہے وفاداری کمال دوستی
٭٭٭
276
جو کُئی ہر رنگ میں اپنے کو شامل کر نئیں گنتے
ہمن سب عاقلاں میں اس کوں عاقل کر نئیں گنتے
مدرس مدرسے میں گر نہ بولے درس درشن کا
تو اس کوں عاشقاں اُستاد کامل کر نئیں گنتے
خیالِ خام کوں جو کئی کہ دھووے صفحۂ دل سوں
تصوف کے مطالب کوں وو مشکل کر نئیں گنتے
جو بسمل نئیں ہوا تیری نین کی تیغ سوں بسمل
شہیداں جگ کے اُس بسمل کوں بسمل کر نئیں گنتے
پرت کے پنتھ میں جو کُئی سفر کرتے ہیں رات ہور دن
وو دنیا کوں بغیر از چاہ بابل کر نئیں گنتے
نہیں جس دل میں پی کی یاد کی گرمی کی بے تابی
تو ویسے دل کوں سارے دلبراں دل کر نئیں گنتے
رہے محروم تیری زلف کے مہرے سوں وو دائم
جو کُئی تیری نَین کوں زہر قاتل کر نئیں گنتے
نہ پاوے وو دنیا میں لذت دیوانگی ہرگز
جو تجھ زلفاں کے حلقے کوں سلاسل کر نئیں گنتے
بغیر از معرفت سب بات میں گر کُئی اچھے کامل
ولیؔ سب اہل عرفاں اس کوں کامل کر نئیں گنتے
٭٭٭
277
بزرگاں کَن جو کُئی آپس کوں ناداں کر نئیں گنتے
سخن کے آشنا اُن کوں سخن داں کر نئیں گنتے
طریقہ عشق بازاں کا عجب نادر طریقہ ہے
جو کُئی عاشق نئیں اُس کوں مسلماں کر نئیں گنتے
گریباں جو ہوا نئیں چاک بے تابی کے ہاتھوں سوں
گلے کا دام ہے اس کوں گریباں کر نئیں گنتے
عجب کچھ بوجھ رکھتے ہیں سر آمد بزم معنی کے
تواضع نئیں ہے جس میں اس کوں انساں کر نئیں گنتے
ولیؔ راہِ محبت میں وفاداری مقدّم ہیوفا نئیں جس
میں اس کوں اہل ایماں کر نئیں گنتے
٭٭٭
278
سجن! تجھ بِن ہمن گلشن کوں گلشن کر نئیں گنتے
بجز تیرے مہ روشن کوں روشن کر نئیں گنتے
سکندر کیوں نہ جاوے بحر حیرت میں کہ مشتاقاں
تمھارے مکھ اَگے درپن کوں درپن کر نئیں گنتے
نئیں تیرے رقیباں سوں عداوت دل میں ہمنا کے
مروت دوستاں دشمن کوں دشمن کر نئیں گنتے
اگر انجھواں کے گوہر سوں مکلّل نئیں ہوا دامن
محبت مشرب اس دامن کوں دامن کر نئیں گنتے
ولیؔ دل میں ہمارے حاسداں کا خوف نئیں ہرگز
مجرد رَو کسی رہ زن کوں رہ زن کر نئیں گنتے
٭٭٭
279
تجھ گوش میں کیا ہے جب سوں مکان موتی
اُس روز سوں ہوا ہے صافی کی کان موتی
بالی نئیں عزیزاں! عاشق کے مارنے کوں
تا گوش کھینچتا ہے زریں کمان موتی
بے جا نئیں ہے لرزاں تجھ گوش میں سریجن
منگتا ہے تجھ نگہ سوں دائم اَمان موتی
اے شوخ جب کیا ہوں تعریف تجھ دَتن کی
میرے سخن کوں سُن کر پکڑا ہے کان موتی
بالی میں نازنیں کی رہتا ہے رات ہور دن
مدّت ستی ولیؔ کا ہو کر پران موتی
٭٭٭
280
کاں لگ بیاں کروں میں بالاں کے کھَب کی شوخی
جس کن ہے موئے سوں کم دار الحرب کی شوخی
حیرت سوں گئی پری سوں پر مارنے کی طاقت
دیکھی جو یک نظر بھر تجھ ناز و چھب کی شوخی
گستاخ ہو کے مہندی تیرے قدم لگی ہے
کس رنگ سوں کہوں میں اس بے ادب کی شوخی
ہیرے کا تجھ دسن سوں روشن ہوا ہے ہردا
یاقوت سوں ادھک ہے تجھ رنگ لب کی شوخی
تجھ لب اَگے سٹی ہے پستے کوں پست کر کر
اور شرم سوں لہو میں ڈوبی عنَب کی شوخی
دل کر کے جیوں کھلونا تیرے نذر کیا ہے
منظور ہے جسے تجھ لہو و لعب کی شوخی
طفل طلب نے ہٹ سوں تجھ لب پہ دل بندھا ہے
معذور رکھ ولیؔ کے طفل طلب کی شوخی
٭٭٭
281
ترے قد کی نزاکت سوں دسے مجھ سرو جیوں لکڑی
ترے گل برگ لب آگے خجل ہے پھول کی پکھڑی
کلاہ آبرو اس کی اُتاری باغباں بھوئیں پر
چمن میں پھول کی ڈالی تجھے جو دیکھ کر اکڑی
ستم پرور سوں دکھ کہنا کٹے پر لَون لانا ہے
نہ کہیو سر اُسے جو کُئی نہ بوجھے سر ہے یا ککڑی
غریبی سوں نہ سمجھو سادہ دل بقّال پُرفن کوں
کہ جو کھا اُن ہر عاشق کوں بھواں کی ہاتھ لے تکڑی
نہ ہو وے اے ولیؔ حل ہرگز اس کا عقدۂ مشکل
تماشے سوں کہ جن نے دل منیں اپنے گرہ پکڑی
٭٭٭
282
مجھ دل میں بے دل کے سدا وو دلبر جاناں بسے
جیوں روح قالب کے بھتر یوں مجھ منیں پنہاں بسے
پتلی میں میرے نین کے بستا ہے دلبر عین یوں
پردے منیں ظلمات کے جیوں چشمۂ حیواں بسے
اس دل ربا دل دار کا ہے ٹھار میرے دل منیں
یوں دل بھِتر رہتا ہے وو جیوں دل منیں ایماں بسے
ہے دل مراد دریائے غم اور نقش اس لب سرخ کا
رہتا ہے میرے دل میں یوں دریا میں جیوں مرجاں بسے
یوں دل میں میرے اے ولیؔ بستا ہے وو اہل شفا
سینے منیں جیوں بید کے ہر درد کا درماں بسے
٭٭٭
283
آپ بَس نئیں پَر بسی ہے پَر بسی
کُلِّ عالم میں کرم، میرے اُپر
جُز رسی ہے جز رسی ہے جز رسی
رات دن جگ میں رفیق بے کساں
بے کسی ہے بے کسی ہے بے کسی
مست ہونا عشق میں تیرے صنم
ناکسی ہے ناکسی ہے ناکسی
باعثِ رسوائیِ عالم ولیؔ
مفلسی ہے مفلسی ہے مفلسی
٭٭٭
284
زبان یار ہے از بسکہ یار خاموشی
بہار خط میں ہے برجا بہار خاموشی
سیاہیِ خط شب رنگ سوں مصور ناز
لکھا نگار کے لب پر نگار خاموشی
اُٹھا ہے لشکر اہل سخن میں حیرت سوں
خبار خط سوں صنم کے غبار خاموشی
ظہور خط میں کیا ہے حیا نے بس کہ ظہور
یو دل شکار ہوا ہے شکار خاموشی
ہمیشہ لشکر آفات سوں رہے محفوظ
نصیب جس کوں ہوا ہے حصار خاموشی
غرور زر سوں بجا ہے سکوت بے معنی
کہ بے صدا ہے سدا کوہسار خاموشی
ولیؔ نگاہ کر اس خط سبز رنگ کوں آج
کہ طور نور میں ہے سبزہ زار خاموشی
٭٭٭
285
کیوں نہ آوے نشۂ غم سوں دماغ عاشقی
بادۂ حیرت سوں ہے لب ریز ایاغ عاشقی
اشک خوں آلود ہے سامان طغرائے نیاز
مُہر فرمان وفاداری ہے داغ عاشقی
آب سوں دریا کے ہرگز کام نئیں عشاق کوں
گریۂ حسرت سوں ہے سرسبز باغ عاشقی
گر طلب ہے تجکوں راز خانۂ دل ہو عیاں
آہ کی آتش سوں روشن کر چراغ عاشقی
درد منداں باغ میں ہرگز نہ جاویں اے ولیؔ
گر نہ دیوے نالۂ بلبل سراغ عاشقی
٭٭٭
286
مشتاق ہیں عشاق تری بانکی ادا کے
زخمی ہیں محبّاں تری شمشیر جفا کے
ہر پیچ میں چیرے کے ترے لپٹے ہیں عاشق
عالم کے دلاں بند ہیں تجھ بند قبا کے
لرزاں ہے ترے دست اَگے پنجۂ خورشید
تجھ حسن اَگے مات ملائک ہیں سما کے
تجھ زلف کے حلقے میں ہے دل بے سرو بے پا
ٹک مہر کرو حال اُپر بے سر و پا کے
تنہا نہ ولیؔ جگ منیں لکھتا ہے ترے وصف
دفتر لکھے عالم نے تری مدح و ثنا کے
٭٭٭
287
تجھ مکھ کی آب دیکھ گئی آب آب کی
یہ تاب دیکھ عقل گئی آفتاب کی
تجھ حسن کے دریا کا سُنا جوش جب ستی
پُرنم ہیں اشتیاق سوں انکھیاں حباب کی
جگ، تجھ لباں کے دیکھ تبسم کوں سُدھ سٹا
زنجیر پائے عقل ہے موج اس شراب کی
دیکھا ہوں جب سوں خواب میں وو چشم نیم خواب
صورت خیال و خواب ہوئی مجکو خواب کی
میرے سخن میں فکر سوں کر اے ولیؔ نگاہ
ہر بیت مجھ غزل منیں ہے انتخاب کی
٭٭٭
288
اس کوں خوشی وقتی ہے روز عید کی
دل مرا موتی ہو تجھ بالی میں جا
کان میں کہتا ہے باتاں بھید کی
زلف نئیں تجھ مکھ پر اے دریاے حسن
موج ہے یہ چشمۂ خورشید کی
اُس کے خط و خال سوں پوچھو خبر
بوجھتا ہندو ہے باتاں بید کی
تجھ دہن کو دیکھ کر بولا ولیؔ
یہ کلی ہے گلشن اُمید کی
٭٭٭
289
پریشاں عاشقاں کے دل فدا ہیں تجھ ستم گر کے
بلاگرداں ہیں جیو جوہر نمن تجھ تیغ و خنجر کے
دیا ہے حق نے اس دنیا میں جنت کے قصور اُن کو
بجان و دل جو کئی مشتاق ہیں تجھ حور پیکر کے
ترے اس حسن عالم گیر کوں کھینچے اپس بَر میں
مگر رکھتی ہے کیا یہ آرسی طالع سکندر کے
اگر چاہوں لکھوں تجھ لعل کے اوصاف رنگیں کوں
رگ یاقوت سے اول بناؤں تار مُسطر کے
ولیؔ تیرے سخن یاقوت سوں رنگیں ہوئے لیکن
خریداراں جہاں بھیتر کہاں ہیں آج گوہر کے
٭٭٭
290
نرگس قلم ہوئی ہے سجن تجھ نین اَگے
شکر ڈبی ہے آب میں تیرے بچن اَگے
غنچے کوں گل کے حال میں آنا محال ہے
تیرے دہن کی بات کہوں گر چمن اَگے
ڈالا ہے تیرے چیرے نے غنچے کوں بیچ میں
ہر گل ہے سینہ چاک ترے پیرہن اَگے
ہے تجھ نیَن کے پاس مرا عجز بے اثر
زاری نہ جاوے پیش کدھی راہزن اَگے
کر حال پر ولیؔ کے پیا لطف سوں نظر
لایا ہے سر نیاز سوں تیرے چرن اَگے
٭٭٭
291
تجھ لب کی شیرنی سوں ہوئی دل کوں بستگی
تجھ زلف کی شکن نے دیا مجھ شکستگی
تیرے نین کے دام میں بادام بند ہے
چھوڑیا ترے لباں ستی پستے نے بستگی
تجھ قد کی راستی نے کیا بند سرو کوں
آزادگی سوں آج ہوئی اس کوں رُستگی
تجھ زلف سحر ساز کے جلوے کے فیص سوں
بے طاقتی میں ہوش نے پایا ہے جستگی
مجلس سوں جو ولیؔ کی وو شیریں ادا اُٹھا
عشرت کے تار ساز نے پائی گسستگی
٭٭٭
292
اس کوں حاصل کیوں کے ہوئے جگ میں فراغ زندگی
گردش افلاک ہے جس کوں ایاغ زندگی
اے عزیزاں سیر گلشن ہے گل داغ الم
صحبت احباب ہے معنی میں باغ زندگی
لب ہیں تیرے فی الحقیقت چشمۂ آب حیات
خضر خط نے اس سوں پایا ہے سراغ زندگی
جب سوں دیکھا نئیں نظر بھر کاکل مشکیں یار
تب سوں جیوں سنبل پریشاں ہے دماغ زندگی
آسماں میری نظر میں کُلبۂ تاریک ہے
گر نہ دیکھوں تجکوں اے چشم و چراغ زندگی
لالۂ خونیں کفن کے حال سوں ظاہر ہوا
بستگی ہے خال سوں خوباں کے داغ زندگی
کیوں نہ ہووے اے ولیؔ روشن شب قدر حیات
ہے نگاہ گرم گل رویاں چراغ زندگی
٭٭٭
293
اُسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
نہ چھوڑے محبت دم مرگ لگ
جسے یار جانی سوں یاری لگے
نہ ہووے اُسے جگ میں ہرگز قرار
جسے عشق کی بے قراری لگے
ہر اک وقت مجھ عاشق پاک کوں
پیاری تری بات پیاری لگے
ولیؔ کوں کہے تو اگر یک بچن
رقیباں کے دل میں کٹاری لگے
٭٭٭
294
تعریف اس پری کی جسے تم سناؤ گے
تا حشر اس کے ہوش کوں اس میں نہ پاؤ گے
جس وقت سر کرو گے بیاں اس کی زلف کا
سودا زدوں پہ غم کے سیہ روز لاؤ گے
جس وقت اُس کے حسن کو دیکھو گے بے حجاب
حیراں ہوں کیونکے جامے میں اپنے سماؤ گے
طوبیٰ طرف نہ دیکھو گے ہرگز نگاہ کر
گر اس کے قد سوں جیو کو اپنے لگاؤ گے
دو گے اگر ولیؔ کوں خبر اُس کے لطف سوں
آتش نمن رقیب کا سینہ جلاؤ گے
٭٭٭
295
سخن فہماں کی ہوئی ہے فکر عالی
ترے پانواں کی خوبی پر نظر کر
ہوئے ہیں گل رخاں جیوں نقش قالی
شفق لوہو میں ڈوبا سر سوں یک لگ
تو باندھا سر پہ جب چیرا گلالی
ہوا تیرے خیالاں سوں سرا پا
مرا دل مثل فانوس خیالی
تری انکھیاں دسیں مجھ یوں سیہ مست
پیا گویا شراب پرتگالی
گیا ہے خوف سوں اُڑ لعل کا رنگ
ترے یاقوت لب کی دیکھ لالی
خیال اس خال کا از بس ہے دلچسپ
نہیں دنیا میں یک دل اس سوں خالی
ترے لب ہور ترے ابرو کے دیکھے
پڑھوں شعر زُلالیؔ اور ہلالیؔ
تری انکھیاں میں ڈورے دیکھ کر سرخ
بنائی خلق نے ریشم کی جالی
کرے تا استراحت مجھ انکھیاں میں
کیا ہوں وو پلک تو شک نہالی
اگر پوچھے وو بے پروا مرا نانوں
کہوں مشتاق رند لا اُبالی
ہوئے معزول خوباں جگ کے جب سوں
ہوا تو حسن کے کشور کا والی
ولیؔ تب سوں ہوا ہم کار فرہاد
سنا جب سوں تری شیریں مقالی
٭٭٭
296
کرتی ہے دل کوں بے خود اس دل ربا کی گالی
گویا ہے جام حیرت اس خوش ادا کی گالی
کس ناز و کس ادا سوں آتا ہے اے عزیزاں
ہے میرزا ادا میں اُس میرزا کی گالی
مدت کے بعد گرمی دل کی فرو ہوئی ہے
شربت ہے حق میں میرے اس بے وفا کی گالی
گل زار سوں وفا کے کیوں جا سکوں میں باہر
کرتی ہے بندوں کوں گلگوں قبا کی گالی
جیوں گل شگفتگی سوں جامے میں نئیں سماتا
جب سوں سنا ولیؔ نے رنگین ادا کی گالی
٭٭٭
297
اقلیم دلبری کا وو دل ربا ہے والی
آتا ہے جس پہ صادق مفہوم بے مثالی
وحشی نگہ کوں ہرگز مسند نشیں نہ پاوے
محروم صید سوں ہے ہر آن شیر قالی
جُز رمزداں نہ پہنچے معنی کوں اس کے ہرگز
مدِّ نگاہ عاشق ہے مصرع خیالی
ابیات صاف و رنگیں رکھتا ہے مثنوی میں
تیرے لباں کا گویا شاگرد ہے زلالیؔ
جب لگ مری حقیقت تفصیل سوں نہ بوجھے
ہرگز نہ ہو مسخر وو رند لا اُبالی
غیرت کوں کام فرما، نا محرموں سوں مت مل
اے نوجواں نئیں ہے ہنگام خُرد سالی
آزردکی سوں اس کی مت خوف کر ولیؔ توں
ہے عین مہربانی اس مہرباں کی گالی
٭٭٭
298
اگر گلشن طرف وو نوخط رنگیں ادا نکلے
گل و ریحاں سوں رنگ و بو شتابی پیشوا نکلے
کھلے ہر غنچۂ دل جیوں گل شاداب شادی سوں
اگر ٹک گھر سوں باہر وو بہار دل کشا نکلے
غنیم غم کیا ہے فوج بندی عشق بازاں پر
بجا ہے آج وو راجہ اگر نوبت بجا نکلے
نثار اس کے قدم اوپر کروں انجھواں کے گوہر سب
اگر کرنے کوں دل جوئی وو سروِ خوش ادا نکلے
صنم آے کروں گا نالۂ جاں سوز کوں ظاہر
مگر اس سنگ دل سوں مہربانی کی صدا نکلے
رہے مانند لعل بے بہا شاہاں کے تاج اوپر
محبت میں جو کُئی اسباب ظاہر کوں بہا نکلے
بخیلی درس کی ہرگز نہ کیجیو اے پری پیکر
ولیؔ تیری گلی میں جب کہ مانندِ گدا نکلے
٭٭٭
299
اگر باہر اپس کے گھر سوں موہن یک قدم نکلے
تماشا دیکھنے اس کا ہر اک سینے سوں غم نکلے
ترے مکھ کے گلستاں کی اگر حوراں میں شہرت ہو
تو ہر اک مست ہو کر چھوڑ گل زار ارم نکلے
اگر اے رشک چیں جاوے تو کرنے سیر ملک چیں
تو ہر دیول سوں استقبال کوں تیرے صنم نکلے
ترے اس حسن پر مائل ہیں جگ کے عابد و زاہد
یو شہرت سن عجب نئیں بھوئیں سوں ابراہیم ادہم نکلے
اگر ملک عرب میں تو دکھاوے آنکھ کا جلوہ
تو اس کی دید کوں بے خود ہو آہوئے حرم نکلے
فجر کے وقت گر دلبر چلے حماّم کی جانب
تو جیوں سورج ہر اک کے دل سوں یک چشمہ گرم نکلے
ولیؔ سودا زدہ دل کی حقیقت گر سکوں لکھنا
تو دیوانہ نہ ہو سا نکل پگ میں باہر یک رقم نکلے
٭٭٭
300
اگر ٹک گھر سوں وو گل گوں قبا شیریں بچن نکلے
مرے سینے سوں بے تابانہ آہِ کوہ کن نکلے
ہر اک نقش قدم سوں دستۂ گُل جلوہ پیرا ہوئے
اگر سیر گلستاں کوں وو رشک صد چمن نکلے
خُتن میں ہور خطا میں بوئے آہو کی نہ پاوے کُئی
نگہ کی تیغ قاتل لے اگر وو من ہرن نکلے
بندھا ہے اے صنم جو دل ترے ماتھے کے صندل پر
عجب نئیں ہے اگر سائے سوں اس کے برہمن نکلے
چراغاں کی نہ ہووے گرمیِ بازار کیوں آخر
ولیؔ جب جانب مجلس وو زیبِ انجمن نکلے
٭٭٭
301
مت ہو ہر دیدہ باز کا دامی
تجھ لب و زلف کے تماشے کوں
چل کے آئے ہیں مصری و شامی
زلف تیری ہوئی ہے چرب زباں
حفظ کر کر قصیدۂ لامی
باغ میں تجھ انکھاں سوں پایا ہے
گل نرگس تخلّصِ جامیؔ
نامۂ حسن پر نگہ کر دیکھ
پی کی انکھیاں ہیں مُہر بادامی
اے نگیں لب کیا ہے حق نے تجھے
نونہالانِ حسن میں نامی
چشم رکھتا ہوں اے سجن کہ پڑھوں
تجھ نگہ سوں قصیدۂ جامی
پستہ لب تجھ انکھاں کوں کر کر یاد
پہنتا ہوں قبائے بادامی
اے ولیؔ غیر عشق حرف دگر
پختہ مغزاں کے نزد ہے خامی
٭٭٭
302
تری انکھیاں کوں دیکھے دل ہے آہوئے بیابانی
تری زلفاں سوں جی ہے بستۂ دامِ پریشانی
ہوا ہے دل ہر اک عاشق کا نالاں مثل بلبل کے
ترے مکھ نے کیا ہے جب سوں جگ بھیتر گلستانی
ہوا یاقوت رنگیں دیکھ تیرے لعل رنگیں کوں
ہوا سرسبز جو تجھ خط میں دیکھا رنگ ریحانی
سجن تیری غلامی میں کیا ہوں سلطنت حاصل
مجھے تیری گلی کی خاک ہے تخت سلیمانی
ولیؔ کوں گر ترے نزدیک کُئی دیکھے تو یوں بوجھے
لگی ہے صفحۂ ہستی اُپر تصویر حیرانی
٭٭٭
303
چیتے کوں نہیں دی ہے یہ باریک میانی
پائی ہے کہاں غنچے نے یہ تنگ دہانی
آغوش میں آنے کی کہاں تاب ہے اس کوں
کرتی ہے نگہ جس قد نازک پہ گرانی
دریا سوں مری طبع کے جوشاں ہے ہر اک شب
تجھ زلف کی تعریف میں امواج معانی
کیا تاب مرے دل کوں، کہ آئینۂ فولاد
تجھ حسن کی ہیبت سوں ہوا صورت پانی
ہو شمۂ مجھ حال سوں واقف، کہ دیا ہے
تجھ زہدۂ آفاق کوں حق نے ہمہ دانی
دریا ستی نسبت ہے بجا طبع کوں میری
اس مرتبہ امواج سخن کی ہے روانی
معشوق کی مت گرمیِ ظاہر پہ نظر کر
پروانے کوں جیوں شمع سوں اخلاص زبانی
مت دور ہو یک آن ولیؔ پاس سوں ہرگز
اے باعث جمعیّتِ ایاّم جوانی
٭٭٭
304
ترا مکھ دیکھ کنعاں یاد آوے
ترے دو نین جب دیکھوں نظر بھر
مجھے تب نرگسستاں یاد آوے
تری زلفاں کی طولانی کوں دیکھے
مجھے لیل زمستاں یاد آوے
ترے خط کا زمرد رنگ دیکھے
بہار سنبلستاں یاد آوے
ترے مکھ کے چمن کے دیکھنے سوں
مجھے فردوس رضواں یاد آوے
تری زلفاں میں یو مکھ جو کہ دیکھے
اُسے شمع شبستاں یاد آوے
جو کُئی دیکھے مری انکھیاں کو روتے
اُسے ابر بہاراں یاد آوے
جو میرے حال کی گردش کوں دیکھے
اُسے گرداب گرداں یاد آوے
ولیؔ میرا جنوں جو کُئی کہ دیکھے
اُسے کوہ و بیاباں یاد آوے
٭٭٭
305
اُس وقت مرے جیو کا مقصود بر آوے
جس وقت مرے بر منیں وو سیم بر آوے
انکھیاں کی کروں مسند و پُتلیاں کروں بالش
وو نور نظر آج اگر میرے گھر آوے
اس وقت مرے بخت کی ظاہر ہو بلندی
جس وقت وو خوش قامت عالی نظر آوے
جامے منیں غنچے کی نمن رہ نہ سکوں میں
گر پی کی خبر لے کے نسیمِ سحر آوے
گر اس مہ دل جوٗ کا گزر میری طرف ہو
دل کے شجر خشک کوں پھر برگ و بر آوے
اس وقت مجھے دعویِ تسخیر بجا ہے
جس وقت مرے حکم میں وو عشوہ گر آوے
تجھ چشم سیہ مست کے دیکھے ستی زاہد
تجھ زلف کے کوچے منیں ایماں بِسر آوے
تجھ لب کی اگر یاد میں تصنیف کروں شعر
ہر شعر منیں لذت شہد و شکر آوے
جس آن ولیؔ وصف کروں پی کے دتن کا
ہر شعر مرا غیرت سِلک گہر آوے
٭٭٭
306
سرود عیش کاویں ہم، اگر وو عشوہ ساز آوے
بجاویں طبل شادی کے اگر وو دل نواز آوے
خمار ہجر نے جس کے دیا ہے درد سر مجکوں
رکھوں نشہّ نمن انکھیاں میں گر وو مست ناز آوے
جنونِ عشق میں مجکوں نہیں زنجیر کی حاجت
اگر میری خبر لینے کوں وو زلف دراز آوے
ادب کے اہتمام آگے نہ پاوے بار واں ہرگز
ترے سائے کی پا بوسی کوں گر رنگ ایاز آوے
عجب نئیں گر گلاں دوڑیں پکڑ کر صورت قمری
ادا سوں جب چمن بھیتر وو سرو سرفراز آوے
پرستش اُس کی میرے سر پہ ہوئے سر ستی لازم
صنم میرا رقیباں کے اگر ملنے سوں باز آوے
ولیؔ اس گوہر کانِ حیا کی کیا کہوں خوبی
مرے گھر اس طرح آتا ہے جیوں سینے میں راز آوے
٭٭٭
307
جس وقت تبسم میں وو رنگیں دہن آوے
گل زار میں غنچے کے دہن پر سخن آوے
تاحشر اُٹھے بوئے گلاب اس کے عرق سوں
جس بَر منیں یک بار وو گل پیرہن آوے
سایہ ہو مرا سبز برنگ پرِ طوطی
گر خواب میں وو نو خطِ شیریں بچن آوے
مجھ حال اُپر ہالۂ مہ رشک لجا وے
جس وقت مجھ آغوش میں وو سیم تن آوے
گر حال میں رقت کے ترے لب کوں کروں یاد
ہر اشک مرا رشک عقیق یمن آوے
کھینچیں اپس انکھیاں منیں جیوں کحل جواہر
عشاق کے گر ہاتھ وو خاکِ چرن آوے
یک گل کوں اپس حال میں اس وقت نہ پاوے
جس وقت چمن بیچ وو رشک چمن آوے
عالم میں ترے ہوش کی تعریف کیا ہوں
ایسا تو نہ کر کام کہ مجھ پر سخن آوے
گر ہند میں تجھ زلف کی، کافر کوں خبر ہو
لینے کوں سبق کفر کا ہر برہمن آوے
ہرگز سخن سخت کوں لاوے نہ زباں پر
جس ذہن میں یک بار وو نازک بدن آوے
تجھ بر کی اگر وصف کوں تحریر کروں میں
ہر لفظ کے غنچے ستی بوئے سمن آوے
تا حشر کرے سیر خیاباں کے چمن میں
گر گور پہ عاشق کے وہ امرت بچن آوے
برجا ہے اگر جگ میں ولیؔ پھر کے دُجے بار
رکھ شوق مرے شعر کا شوق حسنؔ آوے
٭٭٭
308
کسی کی گر خطا اوپر ترے ابرو پہ چیں آوے
نہ سمجھا کر سکے تجھ کوں اگر فغفور چیں آوے
بجز تیرے دہن ہرگز نہ چاہوں دولت عنقا
اگر خورشید کے مانند فلک زیرنگیں آوے
نہ جاوے کچھ چراغاں سوں شب فرقت کی تاریکی
اُجالا تب ہو مجھ گھر میں کہ جب وو مہ جبیں آوے
کہیں مجھ دل کوں سب مل خاتم مہر سلیمانی
خیال لعل دلبر اس میں کر ہو کر نگیں آوے
ولیؔ مصرع فراقیؔ کا پڑھوں تب، جبکہ وو ظالم
کمر سوں کھینچتا خنجر، چڑھاتا آستیں آوے
٭٭٭
309
اگر بازار میں خوبی کے وو رشک پری آوے
عجب نئیں گر فلک سیتی سُرج ہو مشتری آوے
قلم نرگس کی جب لے کر لکھوں تجھ چشم کی خوبی
ہزاراں آفریں کر تا مرے گھر عبہری آوے
کبھی خاطر منیں خطرہ نہ آوے حور جنت کا
اگر یک بار مجھ خلوت میں وو رشک پری آوے
سجن! میں خواب میں دیکھا ہوں تیرے مکھ کا آئینہ
عجب نئیں گر مرے گھر دولت اسکندری آوے
ولیؔ رکھتا ہوں سینے میں ہزاراں گوہر معنی
دکھاؤں اپنے جوہر کوں اگر کُئی جوہری آوے
٭٭٭
310
فلاطوں ہوں زمانے کا سجن جب مجھ گلی آوے
نہ بوجھوں طفل مکتب کر اگر وہاں بوعلی آوے
سرود عشق مجھ دل میں لبالب ہے، عجب مت کر
اگر مجھ آہ کی نَے سوں صدائے بانسلی آوے
تماشا دیکھنے تیرے دہن کا اے گلستاں رو
برنگ گل نکل کر ہر چمن سوں ہر کلی آوے
کروں کیا اے سجن تجھ پر مرا افسوں نئیں چلتا
وگر نہ اک اشارت میں پری مجھ گھر چلی آوے
غرور حسن نے تجکوں کیا ہے اس قدر سرکش
کہ خاطر میں نہ لاوے تو اگر تجھ گھر ولیؔ آوے
٭٭٭
311
یک بار گر چمن میں وو نو بہار جاوے
بلبل کے دل سوں گل کا سب اعتبار جاوے
آوے اگر کرم سوں مانند ابر رحمت
دیکھے سوں آب اس کی دل کا غبار جاوے
چنچل کی بات لاوے طوطی اگر زباں پر
البتہ آرسی کے دل سوں غبار جاوے
جاتی ہے حاسداں کے یوں دل میں بیت میری
سینے میں دشمناں کے جیوں ذوالفقار جاوے
مستی نے تجھ نَین کی بے خود کیا ولیؔ کوں
آوے جو بزم مَے میں کیوں ہوشیار جاوے
٭٭٭
312
اگر وو رشک گل زار ارم گلشن طرف جاوے
عجب نئیں باغ میں مالی کیے پر اپنے پچھتاوے
کہاں ہے تاب مانی کوں کہاں بہزاد کوں طاقت
کہ تیری ناز کی تصویر تجکوں لکھ کے دکھلاوے
رکھے جیوں دانۂ تسبیح عنبر طبلۂ دل میں
خیال خال دلبر عاشق بے دل اگر پاوے
کہاں ہے آج یا رب جلوۂ مستانۂ ساقی
کہ دل سوں تاب، جی سوں صبر، سر سوں ہوش لے جاوے
کیا ہے جس کی زلفاں نے ہمارے دل کوں سرگرداں
نئیں کُئی اس ہٹیلے کوں وہ نازنیں ٹک کام فرماوے
ولیؔ ارباب معنی میں اسے ہے عرش کا رُتبہ
پری زاد معانی کوں جو کُئی کرسی پہ بٹھلاوے
٭٭٭
313
تو اس زلفاں کے حلقے سوں اگر دریا پہ چل جاوے
عجب نئیں اے پری پیکر اگر گرداب بل جاوے
کہاں طاقت ہے ہر اک کوں کہ دیکھے تجھ طرف ظالم
ترے ابرو کی یہ شمشیر رستم دیکھ ٹل جاوے
لگے برسات انجھواں کی ہر اک کے دیدۂ تر سوں
جہاں مانند بجلی کے مرا چنچل چپل جاوے
تو جب نہانے کوں جاوے روز روشن جانب دریا
تری زلفاں کے ہندو کی سیاہی تار جل جاوے
ترے فدوی ترے دربار آسکتے نہیں ہرگز
رقیب رو سیہ جاوے تو اس گھر سوں خلل جاوے
چمن میں گر خبر جاوے ہمارے دل کی سوزش کی
دل بلبل کے مانند ہر گل خوش رنگ جل جاوے
کروں جب آہ و نالہ کا علم برپا ترے غم میں
مرے انجھواں کی فوجاں سوں ندی کا پل کھسل جاوے
تری انکھیاں کی ہے تعریف ہر ہر بیت میں میری
غزالاں صید ہو آویں جہاں میری غزل جاوے
ولیؔ ہے اس قدر صافی صنم کے صاف چہرے پر
کہ اس کے وصف لکھنے میں قلم کا پگ پھسل جاوے
٭٭٭
314
زخمی ہے شکار کیوں کے جاوے
جب لگ نہ ملے نہ شراب دیدار
انکھیاں کا خمار کیوں کے جاوے
ہے حسن ترا ہمیشہ یکساں
جنت سوں بہار کیوں کے جاوے
انجھواں کی اگر مدد نہ ہووے
مجھ دل کا غبار کیوں کے جاوے
ممکن نہیں اب ولیؔ کا جانا
ہے عاشق زار کیوں کے جاوے
٭٭٭
315
چمن میں جلوہ گر جب وو گل رنگیں ادا ہووے
خزانِ خاطر عاشق بہار مدعا ہووے
ہوا ہوں زرد و لاغر کاہ کے مانند تجھ غم میں
بجا ہے گر کشش تیری بھواں کی کہربا ہووے
برنگ گرد باد اس کوں کرے عالم میں سرگرداں
جسے عشق بلا انگیز خوباں رہنما ہووے
نہ چھوڑیں راستی روشن دلاں صبح قیامت لگ
اگر جیوں شمع ہر ہر آن تن سوں سر جدا ہووے
اَپس کے کعبۂ مقصد کوں بے سعی سفر پہنچوں
خیال اُس کا اگر کشتی میں دل کی ناخدا ہووے
چمن میں دل کے جب گزرے خیال اس سرو قامت کا
سراپا آہ سردِ سینہ سروِ خوش ادا ہووے
پڑھے گر فاتحہ ظالم لب جاں بخش سوں اپنے
شہادت گاہ عاشق چشمۂ آب بقا ہووے
نہ ہوے یک صبح نانِ گرم سورج سوں اسے سیری
تمھارے درس کی نعمت کی جس کوں اشتہا ہووے
جُدا اُس گوہرِ یکتا سوں ہونا سخت مشکل ہے
اگر یک آن ہم دریا دلاں سوں آشنا ہووے
ولیؔ مشکل نہیں ہرگز پہنچنا آب حیواں کوں
اگر خضرِ خط خوباں ہمارا رہنما ہووے
٭٭٭
316
اگر موہن کرم سوں مجھ طرف آوے تو کیا ہووے
ادا سوں اس قد نازک کوں دکھلاوے تو کیا ہووے
مجھے اس شوخ کے ملنے کا دائم شوق ہے دل میں
اگر یک بار مجھ سوں آ کے مل جاوے تو کیا ہووے
رقیباں کے نہ ملنے میں نہایت اس کی خوبی ہے
اگر دانش کوں اپنی کام فرماوے تو کیا ہووے
پیا کے قند لب اوپر کیا ہے ہٹ مرے دل نے
محبت سوں اگر ٹک اس کوں سمجھاوے تو کیا ہووے
ولیؔ کہتا ہوں اس موہن سوں ہر اک بات پردے میں
اگر میرے سخن کے مغز کوں پاوے تو کیا ہووے
٭٭٭
317
اگر مجھ کَن، تو اے رشک چمن ہووے تو کیا ہووے
نگہ میری کا تیرا مکھ وطن ہووے تو کیا ہووے
سیہ روزاں کے ماتم کی سیاہی دفع کرنے کوں
اگر یک نس تو شمع انجمن ہووے تو کیا ہووے
تری باتاں کے سننے کا ہمیشہ شوق ہے دل میں
اگر یک دم تو مجھ سوں ہم سخن ہووے تو کیا ہووے
مُوا جو شوق میں تجھ دیکھنے کے اے ہلال ابرو
اسے انکھیاں کے پردے کا کفن ہووے تو کیا ہووے
اگر غنچہ نمن یک رات اِس ہستی کے گلشن میں
ولیؔ مجھ بر میں وو گل پیرہن ہووے تو کیا ہووے
٭٭٭
318
گرمی سوں وو پری رو جب شعلہ تاب ہووے
برجا ہے دل جلوں کا سینہ کباب ہووے
جو تجھ سوں ہو مقابل وو شرم سوں عجب نئیں
جیوں عکس آرسی میں گر غرق آب ہووے
تصویر تجھ پری کی دیکھا ہے جن نے اُس کا
برجا ہے گر تخلص حیرت مآب ہووے
آلودہ کیوں نہ ہووے دامان پاک زاہد
جب دست نازنیں میں جام شراب ہووے
شبنم میں غرق ہووے شرمندگی سوں ہر گل
وو گل بدن چمن میں جب بے حجاب ہووے
تیرے لباں کے آگے برجا ہے اے پری رو
گر آب زندگانی موج سراب ہووے
کیوں بے خودی نہ آوے اس وقت پر ولیؔ کوں
وو سرو ناز پیکر جب نیم خواب ہووے
٭٭٭
319
تجھ رخ سوں جب کنارے صبح نقاب ہووے
عالم تمام روشن جیوں آفتاب ہووے
آوے تو کیا عجب ہے شیشے پہ دل کے آفت
جس وقت وو ستم گر مست شراب ہووے
برجا ہے انجمن میں اس دل رُبا کی اَے دل
گر تار سوں نگہ کے تار رباب ہووے
کیوں کر رہے عزیزاں تاریکیِ شب غم
وو رشک ماہ انور جب بے حجاب ہووے
گرمی سوں دیکھتا ہوں تیری طرف اے گل رو
تا وو رقیب بد خو جَل بَل کباب ہووے
ہے ماہ نو کے دل میں یہ آرزو ہمیشہ
اے شہسوار آ کر تیری رکاب ہووے
ہرہر نگہ سوں اپنی بے خود کرے ولیؔ کوں
وو چشم مست سر خوش جب نیم خواب ہووے
٭٭٭
320
روز و شب جو محو حیرانی ہوئے
دیکھ تجھ ابرو کی جوہر دار تیغ
جوہراں تلوار کے پانی ہوئے
تجھ نَین کے خنجراں پر کر نظر
دیدہ بازاں چشم قربانی ہوئے
اے سجن تیری پرت کے دوست کے
دوستاں کئی دشمن جانی ہوئے
جب سوں تو کھایا ہے پان اے آفتاب
تیرے لعلِ لب بدخشانی ہوئے
تجھ دہان کالعدم کی یاد سوں
بات میں عشاق کئی فانی ہوئے
تجھ دتن کی دیکھ خوبی گوہراں
غرق دریائے پشیمانی ہوئے
تجھ کو جو دیکھے یہاں اے صبح رو
جیوں سُرج دل اُن کے نورانی ہوئے
عشق میں اُس رشک لیلیٰ کے ولیؔ
مثل مجنوں کئی بیابانی ہوئے
٭٭٭
321
جب کیا رات کوں تجھ زلف نے بے تاب مجھے
تب پریشانی میں جیوں کال دِسے خواب مجھے
تیرے غبغب کے خیالاں میں پھنسا جب ستی دل
عشق نے بحر میں غم کے کیا گرداب مجھے
مضطرب عشق سوں ہوں مجکوں ملامت نہ کرو
تپش دل نے دیا رعشۂ سیماب مجھے
جب کیا چاہ ترے چاہ زنخداں کی یو دل
چرخ گرداں نے دیا گردش دولاب مجھے
خم ہوئی قوسِ قزح اس کا خمِ ابرو دیکھ
جس نے دیوار میں غم کے کیا محراب مجھے
چمن اُمید کا گرمی سوں گنہ کی جو سُکھا
ابر رحمت نے کیا فیض سوں سیراب مجھے
جم کے رتبے سوں ولیؔ مرتبہ اوپر ہے اگر
جام میں دل کے میسّر ہو مئے ناب مجھے
٭٭٭
322
سرخوشی حاصل ہوئی ہے آج گوناگوں مجھے
سبزۂ خط نے دیا ہے نشۂ افیوں مجھے
کشتۂ منت، نئیں مینائے نرگس کا کبھی
ہے خیال چشم خوباں بادۂ گل گوں مجھے
لالہ و گل مجھ سوں لے جاتے ہیں رنگ و بوئے درد
گل رخاں کے عشق نے جب سوں کیا خوں مجھے
ہوش کھونا عاشق بے دل کا کچھ مشکل نہیں
نام لے اُس رشک لیلیٰ کا کرو مجنوں مجھے
کیوں نہ ہووے آہ میری ہمسر سرو بلند
یاد آتا ہے عزیزاں وو قد موزوں مجھے
کثرت اسباب دل لینے کوں کچھ درکار نئیں
یک نگاہ لطف سوں کر اے صنم مفتوں مجھے
آبرو کی کس سوں راکھوں جگ منیں چشم امید
ہر گھڑی کرتے ہیں رسوا دیدۂ پُر خوں مجھے
کیا ہوا گر عقل دور اندیش کی سنتا ہوں بات
ہوش سوں کھووے گا آخر وو لب میگوں مجھے
اے ولیؔ رکھ دل میں آوے وو صنم آہنگ شوق
نغمۂ عشاق کا آوے اگر قانوں مجھے
٭٭٭
323
اُس کی انکھیاں نے کیا جادو مجھے
رات آنے کہہ کے پھر آیا نئیں
پیچ دیتا ہے وو مشکیں مو مجھے
اے عزیزاں کیا کروں اخلاص کی
پہنچتی نئیں گل بدن سوں بو مجھے
کیوں کے بیٹھوں گوشۂ آرام میں
کھینچتا ہے وو کماں ابرو مجھے
بلبل نالاں ہوا ہوں درد سوں
جب نظر آیا ہے وو گل رو مجھے
شوخیِ چشم پری کا دنگ ہوں
حیرت افزا ہے رم آہو مجھے
ذہن میں بستا ہے وو خورشید رو
گرمیِ غم سوں ہوئی ہے خو مجھے
بسکہ ہوں تیری جدائی سوں ضعیف
آرسی دیتی نئیں ہے رو مجھے
اے ولیؔ ہے جگ میں محراب دعا
قبلہ رو کا ہر خم ابرو مجھے
٭٭٭
324
تجھ نگاہ مست سوں حاصل ہے مدہوشی مجھے
تجھ لبِ خاموش نے بخشی ہے خاموشی مجھے
غیر سوں خالی کیا ہوں دل کوں اپنے جیوں حباب
تجھ نگہ نے جب سوں بخشی خانہ بردوشی مجھے
جام میں روشن ہے جم کی سلطنت کا سب حساب
عیش سلطانی کا ہے فیضِ قدح نوشی مجھے
تجھ کمر کی تاب پر طاقت ربائی ختم ہے
اس نزاکت نے دیا میل ہم آغوشی مجھے
اے ولیؔ از بسکہ اس کی یاد میں ہے محو دل
غیر کے خطرے سوں نس دن ہے فراموشی مجھے
٭٭٭
325
حافظے کا حسن دکھلایا ہے نسیانی مجھے
ہے کلید قفل دانش طرز نادانی مجھے
موجزن ہے دل میں میرے ہر رین میں پیچ و تاب
جب سوں تیری زلف نے دی ہے پریشانی مجھے
کیوں پری رویاں نہ آویں حکم میں میرے تمام
تجھ دہن کی یاد ہے مُہر سلیمانی مجھے
یک پلک دوجے پلک سوں نئیں ہوئی ہے آشنا
جب سوں تیرے حسن نے بخشی ہے حیرانی مجھے
اے ولیؔ حق رفاقت کے ادا کرتے کیا
مستحق مغفرت آلودہ دامانی مجھے
٭٭٭
326
مدت ہوئی سجن نے کتابت نئیں لکھی
آنے کی اپنے رمز و کنایت نئیں لکھی
میں اپنے دل کی تجکوں حکایت نئیں لکھی
تیری مفارقت کی شکایت نئیں لکھی
کرتا ہوں اپنے دل کی نمن چاک چاک اسے
جو آہ کے قلم سوں کتابت نئیں لکھی
تصویر تیرے قد کی مصوّر نہ لکھ سکے
ہرگز کسی نے ناز کی صورت نئیں لکھی
مارا ہے انتظار نے مجکوں ولے ہنوز
اُس بے وفا کوں دل کی حقیقت نئیں لکھی
وو دل ہے نور حق ستی فارغ کہ جس منیں
مصحف سوں تجھ جمال کے آیت نئیں لکھی
کیوں سنگ دل تمام مسخر ہوئے، اگر
طالع میں میرے کشف و کرامت نئیں لکھی
ڈرتا ہوں سادگی ستی موہن کی اے ولیؔ
اس خوف سوں رقیب کی غیبت نئیں لکھی
٭٭٭
327
پڑا حیرت میں دل اُس حسن عالم گیر کے دیکھے
مصوّر دنگ ہے جس جلوۂ تصویر کے دیکھے
ہوا جی محو یوں اُس زلف خم در خم کے دیکھے سوں
کہ جیوں ہوتی ہے طالب کی حقیقت پیر کے دیکھے
تری زلفاں کے پیچاں سوں مرے دل کوں اندیشہ نئیں
کہ دیوانے کو جیوں پروا نئیں زنجیر کے دیکھے
مرا دل دیکھ کر غمزے کوں تیرے ہوئی ہے خوش وقتی
کہ جیوں ہوتی ہے شادی شیر کوں نخچیر کے دیکھے
کھلا یوں دل مرا تیری نگہ کے تیر کی خاطر
کماں آغوش جیوں کر کھولتی ہے تیر کے دیکھے
ترے مکھ کے صفحے پر خط لکھا قدرت کے کاتب نے
تعجب میں ہیں سب خطاّط اس تحریر کے دیکھے
ولیؔ کے دل کوں یوں ہوتی ہے راحت تجھ گلی بھیتر
کہ جیوں ہوتی ہے خاطر منشرح کشمیر کے دیکھے
٭٭٭
328
مست تیرے جام لب کا باغ میں لالا اَہے
بے خودی کا ہاتھ میں اُس کے سدا پیالا اَہے
شوق سوں تجھ سرو قد کے سرکشی پایا ہے سرو
سب نہالاں میں سخن اس کا سدا بالا اَہے
تجھ لٹک چلنے کی کیفیت صنوبر نے سُنا
تو گلاں کی انجمن میں مست و متوالا اَہے
بے نشاں ہے جس کے دل میں نئیں محبت کی شراب
شیشۂ خالی نمن مجلس سوں نر والا اَہے
اس انکھاں ہور زلف کا از بسکہ دیکھا ہے طلسم
شعر تیرا اے ولیؔ یو سحر بنگالا اَہے
٭٭٭
329
نگہ اُس خوش ادا کی خوش ادا ہے
سجن کے حسن کوں ٹک فکر سوں دیکھ
کہ یہ آئینۂ معنی نما ہے
یہ خط ہے جوہر آئینہ راز
اسے مشک ختن کہنا بجا ہے
ہوا معلوم تجھ زلفاں سوں اے شوخ
کہ شاہ حسن پر ظلّ ہُما ہے
نہ ہووے کو کن کیوں آ کے عاشق
جو وو شیریں ادا گل گوں قبا ہے
نہ پوچھو آہ و زاری کی حقیقت
عزیزاں عاشقی کا مقتضا ہے
ولیؔ کوں مت ملامت کر اے واعظ
ملامت عاشقوں پر کب روا ہے
٭٭٭
330
نگہ کی تیغ لے وو ظالم خوں خوار آتا ہے
جگت کے خوب رویاں کا سپہ سالار آتا ہے
ہر اک دیدے کوں حکم آرسی ہے اس کے جلوے سوں
جدھاں وو حیرت افزا جانب بازار آتا ہے
سُرج کو بوجھتا ہوں صبح کے تاراں سوں بھی کمتر
نظر میں میری جب وو یار مہ رخسار آتا ہے
صنوبر کے دل اوپر کیوں نہ ہو قائم قیامت تب
ادا سوں جب چمن بھیتر وو خوش رفتار آتا ہے
مثال شمع کرتا ہے سِنے کی انجمن روشن
ولیؔ جس شب کوں مجھ دل میں خیال بار آتا ہے
٭٭٭
331
ترے خورشید مُکھ اوپر عجب جھلکار دستا ہے
ترے رخسار پر تل نقطۂ پرکار دستا ہے
اگرچہ جام جم میں راز عالم تھا عیاں لیکن
ترے مکھ کے سجنجل میں دوجا اسرار دستا ہے
انکھیاں نرگس، زُلَف دہن غنچہ عذاراں گل
ترے مُکھ کے گلستاں میں یو سب گلزار دستا ہے
حقیقت زلف تیری کی جگت پر کچھ نہیں ظاہر
یو بے شک مجھ گناہاں کا سیہ طومار دستا ہے
نگہبانی کوں تجھ مکھ کی بندھے ہے زلف نے حلقہ
خزینے حسن کے اوپر یو بے شک مار دستا ہے
تری چنچل انکھیاں کی جگ منیں تمثیل ظاہر نئیں
مگر پُتلی نیَن کی یو کشن اوتار دستا ہے
تری انکھیاں کے پردے میں خدا کے راز ہیں مخفی
سیاہی نَین کی یو نقطۂ اسرار دستا ہے
ترے گل زار مُکھ اوپر پسینے کا یو شبنم نئیں
کہ ہر یک بوند رخ اوپر دُرِ شہوار دستا ہے
ولیؔ مشتاق درسن کا اگر نئیں تو سبب کیا یو
جو تجھ دربار پر دایم ہزاراں بار دستا ہے
٭٭٭
332
گل بدن کے جو پاس ہوتا ہے
آشتابی، نئیں تو جاتا ہوں
کیا کروں جی اداس ہوتا ہے
کیوں کے کپڑے رنگوں میں تجھ غم میں
عاشقی میں لباس ہوتا ہے؟
تجھ جدائی میں نئیں اکیلا میں
درد و غم آس پاس ہوتا ہے
اے ولیؔ دل ربا کے ملنے کوں
جی میں میرے ہلاس ہوتا ہے
٭٭٭
333
ہر طرف سیر ہے تماشا ہے
چہرۂ یار و قامت زیبا
گل رنگین و سرو رعنا ہے
معنیِ حسن و معنیِ خوبی
صورتِ یار سوں ہویدا ہے
دم جاں بخش نو خطاں مجکوں
چشمۂ خضر ہے مسیحا ہے
کمر نازک و دہان صنم
فکر باریک ہے معما ہے
مو بہ مو اس کوں ہے پریشانی
زلف مشکیں کا جس کوں سودا ہے
کیا حقیقت ہے تجھ تواضع کی
یو تلطف ہے یا مدارا ہے
سببِ دل ربائیِ عاشق
مہر ہے لطف ہے دلاسا ہے
جوں ولیؔ رات دن ہے محو خیال
جس کوں تجھ وصل کی تمناّ ہے
٭٭٭
334
عشاق کی تسخیر کوں بالا یہ بلا ہے
یا ناز مجسّم ہے یا تصویر ادا ہے
از بسکہ دل اس رشک پری پر جو بندھا ہوں
ہر موسوں مرے رنگ جنوں جلوہ نما ہے
یا لفظ ہے رنگین ہم آغوش معانی
یا بر میں گل اندام کے گل رنگ قبا ہے
جاتا نہیں گلشن کی طرف صبح وو گل رو
بوجھا ہے کہ واں آہ مری باد صبا ہے
بیماریِ عاشق ہے تجھ انکھیاں ستی لیکن
صد شکر کہ تجھ لب منیں ہر دکھ کی دوا ہے
مجھ حال پر اے بو علی وقت نظر کر
تجھ چشم میں بوجھا ہوں کہ قانون شفا ہے
گر حکم میں میرے ہو سعادت تو عجب نئیں
سایہ ترا مجھ سر کے اُپر ظل ہما ہے
یک دید کا وعدہ دیا توں اپنی رضا سوں
راضی ہوں میں اس پر کہ تری جس میں رضا ہے
پایا ہوں ولیؔ سلطنت ملک قناعت
اب تخت و چتر حق میں مرے ارض و سما ہے
٭٭٭
335
بلائے عاشقاں ناز و ادا ہے
تغافل شوخ کا عاشق کے حق میں
ستم ہے ظلم ہے جور و جفا ہے
کہا مژگاں نے اس کی سو زباں سوں
کہ عاشق پر ستم کرنا روا ہے
نہ جاوے تجھ کوں چھوڑ اے گلشن ناز
مرا دل بلبل باغ وفا ہے
زہے دولت کہ دائم سایۂ یار
ہمارے سر پہ جیوں ظل ہما ہے
مرا دل کیوں نہ جاوے اس گلی میں
گلی اس دل ربا کی دل کشا ہے
ہمیشہ عندلیب عاشقی کوں
گل مقصود تیرا نقش پا ہے
ولیؔ آتے ہیں راہ عشق میں وو
کہ جن کوں استقامت کا عصا ہے
٭٭٭
336
خوباں کی نگاہ نئیں بلا ہے
گر تجھ کوں ہے عزم سیر گلشن
دروازۂ آرسی کھلا ہے
صیقل سوں تیری بھواں کی اے شوخ
آئینۂ عشق کوں جلا ہے
تجھ باج نظر میں بلبلاں کی
گلشن نئیں دشت کربلا ہے
خوباں کا ہوا جو سرد بازار
تجھ حسن کا جب سوں غلغلا ہے
جیوں شمع ہوا جو تجھ پہ عاشق
وہ سر سوں قدم تلک جلا ہے
اے اہل ہوس نگاہ مت کر
بالائے سہی قداں بلا ہے
یک دل نئیں آرزو سوں خالی
برجا ہے محال اگر خلا ہے
تسخیر کیا ہے گوش گل کوں
بلبل کا ولیؔ عجب گلا ہے
٭٭٭
337
صنم میرا سخن سوں آشنا ہے
مجھے فکر سخن کرنا بجا ہے
چمن منیں وصل کے ہر جلوۂ یار
گل رنگیں بہار مدّعا ہے
نہ بخشے کیوں ترا خط زندگانی
کہ موج چشمۂ آب بقا ہے
تغافل نے ترے زخمی کیا مجھ
تری یہ کم نگاہی نیمچا ہے
نئیں واں آب، غیر از آب خنجر
شہادت گاہ عاشق کر بلا ہے
غنیمت بوجھ ملنے کوں ولیؔ کے
نگاہ پاک بازاں کیمیا ہے
٭٭٭
338
گلستانِ لطافت میں ترا قد سرو رعنا ہے
ہمیشہ نازکی کے آبجو میں جلوہ پیرا ہے
عدم ہے تجھ دہن کا جگ میں ثانی اے پری پیکر
اگر بالفرض و التقدیر ثانی ہے تو عنقا ہے
ہوا ہے دل نشیں وو سرو قامت بسکہ مجھ دل میں
صنوبر گر مرے سائے سوں پیدا ہو تو بَرجا ہے
پریشانی کے مکتب کا معلم اس کوں کہہ سکیے
تری زلف پریشاں کا صنم جس سر میں سودا ہے
ولیؔ میری تواضع سوں رقیب سنگ دل دائم
پشیماں ہے خجل ہے منفعل ہے سخت رسوا ہے
٭٭٭
339
معنیِ نازکی سراپا ہے
تجھ بھواں کی میں کیا کروں تعریف
مطلعِ شوخ و رمز و ایما ہے
ساقی و مطرب آج ہیں ہم رنگ
نشۂ بے خودی دو بالا ہے
کیوں نہ ہر ذرہ رقص میں آوے
جلوہ گر آفتاب سیما ہے
نہ رہے اس کے قد کوں دیکھ بجا
سرو ہر چند پائے برجا ہے
چمن حسن میں نگہ کر دیکھ
زلف معشوق عشق پیچا ہے
نہ کرے کیوں نثار نقد نیاز
جس کوں تجھ ناز کی تمنا ہے
کیوں نہ مجھ دل کوں زندگی بخشے
بات تیری دم مسیحا ہے
سنبل اس کی نظر میں جا نہ کرے
جس کوں تجھ گیسواں کا سودا ہے
اس کے پیچاں کا کچھ شمار نہیں
زلف ہے یا یہ موج دریا ہے
ترک کر اے رقیب فرعونی
آہ میری عصائے موسا ہے
آج تجھ غم سوں ہے ولیؔ گریاں
دیکھ جَل پور کا تماشا ہے
٭٭٭
340
کماں ابرو پہ جیو قرباں ہوا ہے
دل اس کے تیر کا پیکاں ہوا ہے
بھواں تیغ و پلک، خنجر، نگہ، تیر
یو کس کے قتل کا ساماں ہوا ہے
مرا دل مجھ سوں کر کر بے وفائی
پسندِ خاطر خوباں ہوا ہے
پیا ہے جام دل سوں بادۂ خوں
جو بزم عشق میں مہماں ہوا ہے
عزیزاں کیا ہے پروانے کے دل میں
کہ جی دینا اُسے آساں ہوا ہے
طبیباں کا نئیں محتاج ہرگز
جسے درد بتاں درماں ہوا ہے
برنگ گل فراق گل رخاں میں
گریباں چاک تا داماں ہوا ہے
سواد خطِّ خوباں دل کشی میں
بہار گلشن ریحاں ہوا ہے
ولیؔ تصویر اس کی جن نے دیکھا
مثال آرسی حیراں ہوا ہے
٭٭٭
341
دشمن ہوش و صبر آیا ہے
دیکھ اُس کی کلاہ بارانی
چاند پر آج ابر آیا ہے
مجھ سوں وحشی ہیں خوش نین، گویا
فوج آہو میں ببر آیا ہے
یا صنم کا ہے غمزۂ بے دیں
یا ولایت سوں گبر آیا ہے
اے ولیؔ کیا سبب کہ آج صنم
بر سر جور و جبر آیا ہے
٭٭٭
342
سُرج ہے شعلہ تری اگن کا جو جا فلک پر جھلک لیا ہے
نمک نے اپنے نمک کوں کھوکر ترے نمک سوں نمک لیا ہے
یہ درسوں تیرے جو نور چمکا سو اس سوں تارے ہوئے منور
یو چاند تجھ حسن کا جو نکلا فلک نے تجھ سوں اُچک لیا ہے
ترے درس کا یہ نور انور جدھاں سوں روشن ہوا ہے جگ میں
تدھاں سوں بجلی نے اس چمک سوں اپس چمک میں چمک لیا ہے
ترے شکر لب کی کیا ثنا کہوں کہ لعل جگ میں جو ہے معزز
ترے لباں کی یہ دیکھ سرخی سو اُس نے رنگ و دمک لیا ہے
جو کھول لٹ کوں چلا لٹک کر جھلک جھلک کر جو مکھ دکھایا
سوں لٹ کو دیکھے ولیؔ اٹک کر سجن نین میں اٹک لیا ہے
٭٭٭
343
مکتب میں جس کے ہاتھ ادا کی کتاب ہے
خوبی میں آج ہم سبق آفتاب ہے
ظاہر ہوا ہے مجھ پہ ترے ناز سوں صنم
رنگیں بہار حسن بہار عتاب ہے
مانند مو ضعیف کیا اس کے شوق نے
جس مو کمر کا ناؤں نزاکت مآب ہے
کیفیت بہار ادا تب سوں ہے عیاں
وو مست ناز جب ستی مست شراب ہے
تیرے نَین کے دور میں بے وقر ہے شراب
مے خانہ تجھ نگاہ سوں دائم خراب ہے
دیوان میں ازل کے ملے جب سوں حسن و عشق
تب سوں نیاز و ناز میں باہم حساب ہے
پوشیدہ حال عشق رہے کیوں کے اے ولیؔ
غماز یادِ زلفِ صنم پیچ و تاب ہے
٭٭٭
344
مشرب مجنوں طرف منسوب ہے
عاشق بے تاب سوں طرز وفا
جیوں ادا محبوب کی محبوب ہے
عشق کے مفتی نے یوں فتویٰ دیا
دیکھنا، خوباں کا درس خوب ہے
لخت دل پر خط لکھا ہوں یار کوں
داغ دل مہر سر مکتوب ہے
غمزہ و ناز و ادائے نازنیں
ظلم ہے طوفان ہے آشوب ہے
لکھ دیا یوسف غلامی خط تجھے
گرچہ نورِ دیدۂ یعقوب ہے
ہر گھڑی پڑھتا ہے اشعار ولیؔ
جس کوں حرف عاشقی مرغوب ہے
٭٭٭
345
جسے اقلیم تنہائی میں انداز اقامت ہے
جبین حال پر اُس کی سدا رنگ سلامت ہے
گزر اس سرو قامت کا ہوا ہے جب سوں مسجد میں
موذن کی زباں اوپر ہمیشہ لفظ قامت ہے
مجھے روز قیامت کا رہا نئیں خوف اے واعظ
خیال قامتِ رعنا مرے حق میں قیامت ہے
ہوا ہے صورت دیوار زاہد کنج عزلت میں
یہی اس حسن حیرت بخش کی ظاہر کرامت ہے
ہوا ہے جو جبیں فرسا تری محراب ابرو میں
صف عشاق میں اس کوں بحکم عشق امامت ہے
سیہ بختی ہوئی جگ میں نصیب عاشق بے دل
یہ تجھ زلف پریشاں کی پریشانی کا شامت ہے
نہ ہو ناصح کی سختی سوں مکدر اے دل شیدا
سَدا نقد محبت کا محک سنگ ملامت ہے
شرف ذاتی ہے تجھ کوں اے گل گل زار معشوقی
تجلی مکھ اُپر تیرے سیادت کی علامت ہے
ولیؔ جو عشق بازی کی حقیقت سوں نئیں واقف
سخن اس کا قیامت میں گل باغ ندامت ہے
٭٭٭
346
جس دل رُبا سوں دل کوں مرے اتحاد ہے
دیدار اُس کا میری انکھاں کی مراد ہے
رکھتا ہے بر میں دلبر رنگیں خیال کوں
مانند آرسی کے جو صاف اعتقاد ہے
شاید کہ دام عشق میں تازہ ہوا ہے بند
وعدے پہ گل رخاں کے جسے اعتماد ہے
باقی رہے گا جور و ستم روز حشر لگ
تجھ زلف کی جفا میں نپٹ امتداد ہے
مقصود دل ہے اُس کا خیال اے ولیؔ مجھے
جیوں مجھ زباں پہ نام محمدؐ مراد ہے
٭٭٭
347
شوخ ہے بے درد ہے صیاد ہے
ہاتھ سوں اُس غمزۂ خوں ریز کے
داد ہے بے داد ہے فریاد ہے
آب ہووے کیوں کے دل اس سرو کا
سخت ہے بے رحم ہے فولاد ہے
عشق میں شیریں بچن کے رات دن
آہ دل پر تیشۂ فرہاد ہے
غم نئیں مجنوں کوں ہرگز اے ولیؔ
خانۂ زنجیر اگر آباد ہے
٭٭٭
348
ہے بجا عشاق کی خاطر اگر ناشاد ہے
غمزۂ خوں خوار ظالم بر سر بے داد ہے
کیوں نہ ہو فوارۂ خوں جوش زن رگ رگ ستی
ہر نگاہ تیز خوباں نشتر فصاد ہے
یک گھڑی تجھ ہجر میں اے دل رُبا تنہا نہیں
مونس دم ساز میرا آہ ہے، فریاد ہے
تل بناتے دیکھ اس کوں مجھ پہ یوں ظاہر ہوا
صید کرنے کوں ہمارے رغبت صیاد ہے
آسماں اوپر نہ بوجھو چادر ابر سفید
جا نمازِ زاہد عزلت نشیں برباد ہے
حرف شیریں اُس ستی ہوتے ہیں ہر دم جلوہ گر
اہل معنی کی زباں کیا تیشۂ فرہاد ہے
سرو کی دارستگی اوپر نظر کر اے ولیؔ
باوجود خود نمائی کس قدر آزاد ہے
٭٭٭
349
گل رخاں میں جس کے سر پر طرۂ زرتار ہے
زیب گلزار ادا وو سرو خوش رفتار ہے
چہرۂ گل رنگ و زلف موج زن خوبی منیں
آیت جنات تجری تحتہا الانہار ہے
بسکہ بے درداں ہوئے ہیں مجتمع چاروں طرف
بستۂ زلف پری رویاں پہ مارا مار ہے
زخم دل تھا گرچہ کاری لیکن اس سوں غم نئیں
سبزۂ خطِّ دل آرا مرہمِ زنگار ہے
کیوں کے جاوے بوالہوس اس کی گلی میں ہو دلیر
ہر نگاہ تیز اس کی تیر ہے تروار ہے
کیوں نہ لیویں زاہد تجھ دیکھ طرز برہمن
رشتۂ اخلاص تیرا رشتۂ زنار ہے
مت نصیحت کر ولیؔ کوں اے سخن نا آشنا
ترک کرنا عشق کوں دشوار ہے دشوار ہے
٭٭٭
350
فکر اسباب وفا درکار ہے
چاک کرنے جامۂ صبر و قرار
دل برِ رنگیں قبا درکار ہے
ہر صنم تسخیر دل کیوں کر سکے
دل رُبائی کوں ادا درکار ہے
زلف کوں وا کر کہ شاہ عشق کوں
سایۂ بال ہما درکار ہے
رکھ قدم مجھ دیدۂ خوں بار پر
گر تجھے رنگ حنا درکار ہے
دیکھ اس کی چشم شہلا کوں اگر
نرگس باغ حیا درکار ہے
عزم اس کے وصل کا ہے اے ولیؔ
لیکن امداد خدا درکار ہے
٭٭٭
351
بیاباں عاشقاں کوں ملک اسکندر برابر ہے
ہر اک گوہر انجھو کا تخت کے اختر برابر ہے
جنوں کے ملک کے سلطاں کوں کیا کیا حاجت ہے ، افسرکی
بگولا سر اُپر مجنوں کے سو افسر برابر ہے
جو کُئی حاصل کیا ہے دولت عالی کوں سوزش کی
پھپھولا اس دل دریا بھتر گوہر برابر ہے
فنا کر کر جو کُئی دنیا کی سمجھا زندگانی کوں
اسے گزران کرنے کوں جنگل ہور گھر برابر ہے
ولیؔ دیواں میں میرے تودۂ دفتر کی حاجت نئیں
کہ مجھ دیواں میں ہر اک شعر سو دفتر برابر ہے
٭٭٭
352
نہ سمجھو خود بخود دل بے خبر ہے
نگہ میں اُس پری رُو کی اثر ہے
اجھوں لگ مکھ دکھایا نئیں اپس کا
سجن مجھ حال سوں کیا بے خبر ہے
مروت ترک مت کر اے پری رو
محبت میں مروت معتبر ہے
ترے قد کے تماشے کا ہوں طالب
کہ راہ راست بازی بے خطر ہے
تری تعریف کرتے ہیں ملائک
ثنا تیری کہاں حد بشر ہے
بیانِ اہل معنی ہے مطوّل
اگرچہ حسب ظاہر مختصر ہے
ولیؔ مجھ رنگ کوں دیکھے نظر بھر
اگر وو دل ربا مشتاق زر ہے
٭٭٭
353
نہ جانوں خط میں تیرے کیا اثر ہے
کہ اُس دیکھے سوں دل زیر و زبر ہے
اُسے باریک بیں کہتے ہیں عاشق
نظر میں جس کو وو نازک کمر ہے
نہ ہووے کیوں ہجوم راست بازاں
جہاں اس سرو قامت کا گزر ہے
ہر اک سوں آشنا ہو نا ہنر نئیں
پری رخسار سوں ملنا ہنر ہے
نہ پاؤں تجھ سوں گر سیب زنخداں
نہال عشق بازی بے ثمر ہے
رہیں گے خاک ہو تیری گلی میں
وفاداری ہماری اس قدر ہے
ولیؔ مجھ دل کی آتش پر نظر کر
جہنم کی زباں پر الحذر ہے
٭٭٭
354
شور اس کا جہاں میں گھر گھر ہے
رگ جاں سوں ہوا ہے خون جاری
یاد تیری پلک کی نشتر ہے
پہنچتا ہے دلوں کوں ہر جاگہ
غم ترا روزیِ مقدّر ہے
مکھ ترا بحر حسن ہے جاناں
زلف پُرپیچ موج عنبر ہے
بات میٹھی ترے لباں کی صنم
حسد انگیز شیر و شکّر ہے
قد سوں تیرے کدھیں نہ پایا پھل
حق میں میرے درخت بے بر ہے
تجھ بن اے نور بخش محفل دل
حالِ مجلس تمام ابتر ہے
آگ ہُئی ہے بقدر نیزہ بلند
شمع نئیں آفتاب محشر ہے
دود آتش کیا ہے سرمۂ چشم
داغِ دل دیدۂ سمندر ہے
صفحۂ دل پہ درد کوں لکھنے
رشتۂ آہ تار مسطر ہے
آج جیوں آرسی ہوے ہیں عزیز
خود نمائی جِنوں کا جوہر ہے
سادہ رو ہیں ہمیشہ با عزت
آب نِس دن محیط گوہر ہے
مجکوں پہنچی ہے آرسی سوں یہ بات
صاف دل وقت کا سکندر ہے
سیر دریائے معرفت کوں سنوار
کشتیِ دل اگر قلندر ہے
اے ولیؔ کیا ہے حاجت قاصد
نامہ میرا پرِ کبوتر ہے
٭٭٭
355
ہادیِ مشکل کشا شمشیر ہے
غازیاں اہل سعادت کیوں نہ ہو
سایۂ بال ہُما شمشیر ہے
بوالہوس اس کے اَگے کیوں آسکے
صورت دست قضا شمشیر ہے
کیوں نہ دشمن کے کرے سینے میں جا
ناخنِ شیر خدا شمشیر ہے
اولاً ریحان و آخر لالہ رنگ
ظاہرا برگِ حنا شمشیر ہے
زندۂ جاوید شہدا کیوں نہ ہوں
موجۂ آب بقا شمشیر ہے
سالک راہ فنا کوں دم بدم
آخرت کی رہنما شمشیر ہے
صاحب ہمت کوں نت ہے دست گیر
مرشد حاجت روا شمشیر ہے
راہ غربت میں کہ مشکل ہے تمام
ناتوانوں کا عصا شمشیر ہے
دشمناں کیوں کر سکیں مکرو فریب
صیقل زنگ دغا شمشیر ہے
کیوں نہ ہووے آب سر سوں تا قدم
جوہر کانِ حیا شمشیر ہے
کیوں نہ ہووے قتل عاشق دم بدم
شوخ کی بانکی ادا شمشیر ہے
جن نے پکڑا گوشۂ آزادگی
اُس کوں موج بوریا شمشیر ہے
کعبۂ فتح و ظفر میں اے ولیؔ
شکل محراب دعا شمشیر ہے
٭٭٭
356
عاشقاں کی قید تیرا حسن عالم گیر ہے
بلبلاں کے واسطے ہر موج گل زنجیر ہے
تجھ نَین کی ہے نگاہ راست تیر بے خطا
کج ادائی تجھ بھواں کی جوہر شمشیر ہے
حسن تیرا عالم علوی سوں دیتا ہے خبر
یہ دم عیسیٰ کی تیرے دم منیں تاثیر ہے
کیا کہ حیراں تری تعریف اے آئینہ رو
مو بہ مو تیرا سرا پا ناز کی تصویر ہے
اے ولیؔ کہتی ہے بلبل اس کا سن رنگیں سخن
غنچہ لب کے لب اُپر جیوں بوئے گل تقریر ہے
٭٭٭
357
تشنہ لب کوں تشنگی مَے کی نئیں ناسور ہے
پنبۂ مینا اسے جیوں مرہم کافور ہے
یاد سوں ساقی کے نس دن ہر پلک ہے شاخ تاک
اشک حسرت اس اُپر جیوں خوشۂ انگور ہے
اُس کا دل ہرگز نہ ہو ویراں ازل سوں تا ابد
یاد سوں دلدار کی جس کا سِنہ معمور ہے
نفس سرکش پر جو کُئی پایا ہے یاں فتح و ظفر
دارِ عقبیٰ کے بھتر الحق و ہی منصور ہے
تجھ تجلی کے صحیفے کا سُرج ہے یک ورق
عکس تیری زلف کا جگ میں شبِ دیجور ہے
جو سیاہی ہور سفیدی سوں ہوا ہے آشنا
اہل بینش کی نظر میں وو سدا منظور ہے
جلد رو ہو عشق کی رہ میں کہ تا پہنچے نزیک
کاہلی کوں سٹ دے اے سالک کہ منزل دور ہے
خاکساری جس کوں سلطانی ہے اس عالم منیں
کاسۂ خالی اُسے جیوں چینیِ فغفور ہے
یار کے دیدار کا طالب ہے موسیٰ ہر زماں
اے ولیؔ دربار اُس کا اس کوں کوہ طور ہے
٭٭٭
358
نہ بوجھو خود بخود موہن میں اَڑ ہے
رقیب رو سیہ فتنہ کی جڑ ہے
ہر اک زلفاں کے دیکھے نئیں اٹکتا
اٹکتا ہوں جہاں دل کی پکڑ ہے
کروں کیوں سنگ دل کے دل کوں تسخیر
زبردستی میں بیجاپُر کا گَڑ ہے
نئیں بل دار چیرا سر پر اس کے
عزیزاں! یو جوانی کی اکڑ ہے
برستا ہے سجن کے مکھ اُپر نور
نگاہوں کی ہر ایک جانب سوں جھڑ ہے
عجب تیزی ہے تجھ پلکاں میں اے شوخ
دو عالم اس دُودھاری سوں دو دھڑ ہے
ولیؔ تو بحر معنی کا ہے غواّص
ہر اک مصرع ترا موتیاں کی لڑ ہے
٭٭٭
359
اُس کے نین میں غمزۂ آہو پچھاڑ ہے
اے دل سنبھال چل کہ اَگے مار دھاڑ ہے
تجھ نین کے چمن منیں کیوں آسکوں کہ یاں
خاراں کی ٹھار خنجر مژگاں کی باڑ ہے
جس کوں نئیں ہے بوٗجھ ترے حسن پاک کی
تنکا نزیک اُس کے مثال پہاڑ ہے
نرگس کے پھولنے کی کرے سیر دم بہ دم
جو تجھ نگاہ مست کا کیفی کراڑ ہے
دل میں رکھا جدھاں سوں ولیؔ پنجتن کی یاد
داڑِم نمن تدھاں سوں سِنے میں دڑاڑ ہے
٭٭٭
360
حُسن کا مسند نشیں وو دلبر ممتاز ہے
دلبراں کا حسن جس مسند کا پا انداز ہے
غیرت حیرت ہے خبر اُس آئنہ رو کی کسے
راز کے پردے میں جس کی خامشی آواز ہے
اُس نزاکت آفریں پر ناز ہے کیا ناز کا
سر ستی پاؤں تلک سب ناز ہے سب ناز ہے
دل منیں آ کر ہوا خلوت نشیں تیرا خیال
غم ترا سینے میں میرے راز کا ہمراز ہے
وو اپس کے وقت کا منصور ہے عالم منیں
صدق سوں تجھ باٹ میں جو عاشق سرباز ہے
سوکھ کر تجھ غم منیں یہ تن ہوا ہے جیوں رباب
دل مرا سینے میں میرے جیوں کہ تار ساز ہے
یاد سوں اُس رشک گلزار ارم کی اے ولیؔ
رنگ کوں میرے سدا جیوں بوئے گل پرداز ہے
٭٭٭
361
لہریا چیرا صنم کا بسکہ خوش انداز ہے
دل ربائی میں برنگ موج گل ممتاز ہے
موسم خط میں نہ کر فکر اے گل رنگیں ادا
سبزۂ گلزار خوبی کا ابھی آغاز ہے
روبرو آنے میں اس کے حال دل ظاہر ہوا
جلوۂ آئینہ رویاں کاشف ہر راز ہے
غیر سوں الفت پکڑنا ہجر میں درکار نئیں
دم بدم آہ دل بے تاب گر دم ساز ہے
زندگی میں طائروں کوں خلاصی کیوں کے ہو
پنجۂ ظلم ستم گر چنگل شہباز ہے
دردمنداں کی نظر سوں اس کا گرنا ہے بجا
جو برنگ طفل اشک عاشقاں غماز ہے
زندہ کرنا استخواں کوں گرچہ تھا کارِ مسیح
زندہ کرنا شوق کوں تجھ ناز کا اعجاز ہے
درد منداں کو سدا ہے قول مطرب دل نواز
گرمیِ افسردہ طبعاں شعلۂ آواز ہے
بزم کوں رونق دیا ہے جب سوں وو عالی مقام
رشتۂ آہ دل بے تاب تار ساز ہے
دیکھنا آئینہ رو کا امر مشکل نئیں ولے
سدِّ راہ سینہ صافاں طالع ناساز ہے
اے ولیؔ یہ مصرع موزوں ہے ہر دل کا عزیز
قامت رعنا صنم کا سرو باغ ناز ہے
٭٭٭
362
مجھ حکم میں وو راست قد دل نواز ہے
جس کے ہر ایک بول میں عشرت کا ساز ہے
دم ساز زہرہ رو ہے جو خالی ہے آپ سوں
نے کی صدائے خاص سوں واضح یہ راز ہے
کہتے ہیں کھول پردہ شناسانِ مدعا
جو اوج میں ہوا کے اُڑے شاہ باز ہے
جب سوں رکھا ہوں عشق کی آتش اُپر قدم
تب سوں مثال عود مرا جیو گداز ہے
اے بوالہوس نہ دل میں رکھ آہنگ عاشقی
جاں باز عاشقاں پہ یہ دروازہ باز ہے
کرنے کوں سیر راہ حجاز و عراق عشق
عشاق پاس ساز و نوا سب نیاز ہے
تو اصل کے دائرے میں ہے جگ دُجے ہیں فرع
اوج حضیض ہیچ تو ہی یکّہ تاز ہے
تیرے خیال میں جو ہوا خشک جیوں رباب
مضراب غم کا ہاتھ اُس اوپر دراز ہے
محراب تجھ بھواں کی عجب ہے مقام خاص
ہر پنج گاہ جس میں دلوں کی نماز ہے
سن حرف راست باز کا مت مل رقیب سوں
ہرچند تیری طبع مخال نواز ہے
خاراں دلاں کے چشم کی نسبت کے فیض سوں
سرمے کوں اصفہاں کے عجب امتیاز ہے
بولی تجھے صبا نے سرِ زلف یہ سخن
نوروز عاشقاں کا ترا حسن و ناز ہے
بانگ بلند بات یہ کہتا ہوں اے ولیؔ
اس شعر پر بجا ہے اگر مجکوں ناز ہے
٭٭٭
363
حسن کے دعوے کی دست آویز ہے
ہے گل رعنا بہار حسن کا
ناز تیرا، جو نیاز آمیز ہے
شوق کے مرکب کوں راہ عشق میں
اے سجن تیری نگہ مہمیز ہے
ہر پلک تیری کہ ہے تیغ فرنگ
عاشقاں کے مارنے کوں تیز ہے
ہاتھ میں میرے نہ سمجھو تم بیاض
شوخ کے ملنے کی دست آویز ہے
چاہتا ہوں دل ستی اے نازنیں
جنگ تیری وو کہ صلح آمیز ہے
تجھ سخن کے وصف لکھنے میں قلم
ابرنیساں کے نمن دُر ریز ہے
تجھ تغافل سوں ہوا ہے رونما
گریۂ عاشق کہ خوں آمیز ہے
دل مرا اے دلبر شیریں بچن
تجھ لباں کے شوق سوں لبریز ہے
اے ولیؔ لگتا ہے ہر دل کوں عزیز
شعر تیرا بسکہ شوق انگیز ہے
٭٭٭
364
ہر نگاہ شوخ و سرکش دشنۂ خوں ریز ہے
تیغ اس ابرو کی ہر دم مارنے کوں تیز ہے
عشق کے دعوے میں اُس کی بات رکھتی ہے اساس
سنبل زلف پری سوں جس کوں دست آویز ہے
آج گل گشتِ چمن کا وقت ہے اے نوبہار
بادۂ گل رنگ سوں ہر جام گل لبریز ہے
جب سوں تیری زلف کا سایہ پڑا گلشن منیں
تب ستی صحن چمن ہر ٹھار سنبل خیز ہے
سادہ رویاں کوں کیا مشتاق اپنے حسن کا
شعر تیرا اے ولیؔ از بسکہ شوق انگیز ہے
٭٭٭
365
تحصیل دل کے ہونے یہ مکھ کتاب بس ہے
دانائے منتخب کوں یہ انتخاب بس ہے
مجھ حال کا کرے گر آ کر سوال دلبر
تو لاجواب ہونا مجکوں جواب بس ہے
تاب کمر سوں تیری بے تاب بسکہ ہوں میں
مانند زلف خوباں مجھ پیچ و تاب بس ہے
جو عشق کے نگر کا ہے صوبہ دار جگ ہے
مجنونِ لیلائے حسن اس کا خطاب بس ہے
جو کُئی ولیؔ کے مانند پیتا ہے عشق کی مَے
اس برہا کے جلے کوں دل کا کباب بس ہے
٭٭٭
366
عاشق کوں تجھ درس کا دائم خیال بس ہے
خاموش ہو کے رہنا اتنا چہ قال بس ہے
گر خلق عید خاطر منگتی ہے ماہ نو کوں
مجھ دل کی عید ہونے ابرو ہلال بس ہے
گر کانورومیں لوگاں عالم کوں موہتے ہیں
مجھ دل کوں موہ لینے یہ خط و خال بس ہے
ہر دل رُبا کوں ہرگز دیتا نہیں ہوں دل مَیں
دل بستگی کوں میری وو بے مثال بس ہے
ہرچند اے ولیؔ ہوں میں غرقِ بحر عصیاں
مجکوں شفیعِ محشر حضرت کی آل بس ہے
٭٭٭
367
ہم کو شفیع محشر وو دیں پناہ بس ہے
شرمندگی ہماری عذر گناہ بس ہے
خاطر سوں گئی ہے خواہش اسباب دُنیوی کی
ہمت برہ کی رہ میں مجھ زاد راہ بس ہے
جو صاف دل ہیں اُن کوں درکار نئیں ہے زینت
جیوں آرسی، نمد کی سر پر کلاہ بس ہے
اسباب جنگ رکھنا درکار نئیں ہمن کوں
دشمن کو مارنے کوں اک تیر آہ بس ہے
نئیں آرزو کہ بیٹھوں مسند پہ سلطنت کی
تیری گلی میں آنا یہ دست گاہ بس ہے
درکار نئیں ہے مسجد سجدے کوں عاشقاں کے
محراب تجھ بھواں کی اے قبلہ گاہ بس ہے
مت تیر ہور کماں کی کر فکر اے خوش ابرو
عاشق کے مارنے کوں سیدھی نگاہ بس ہے
تجھ عشق کے جلے کوں کیا کام چاندنی سوں
تجھ حسن کا تماشا اے رشک ماہ بس ہے
بے جا ہے بادشاہی ہر خوب رو کوں دینا
خوبی کے تخت اوپر اک بادشاہ بس ہے
دل لے گیا ہمارا جادو سوں وو پری رُو
دیوانگی ہماری اس پر گواہ بس ہے
درکار نئیں کہ دیکھوں ہر اک ادا کوں تیری
تجھ چال کا تماشا اے کج کلاہ بس ہے
غم نئیں اگر رقیباں آئے ہیں چڑھ ولیؔ پر
اے دوست تجھ کرم کی اس کوں پناہ بس ہے
٭٭٭
368
کوہ و صحرا صورتِ طاؤس ہے
گر نہ نکلے سیر کوں وو نوبہار
ظلم ہے، فریاد ہے، افسوس ہے
اے صنم تیرے دہن کے شوق سوں
ہر کلی میں نغمۂ ناقوس ہے
نور سوں تجھ یاد کی اے شمع رو
پردۂ دل پردۂ فانوس ہے
دیکھ کر اُس کی ادا و ناز کوں
ہر پری کوں خواہش پا بوس ہے
دل نہ دے دوجے کوں غافل بوجھ اسے
کم نگاہی شوخ کی جاسوس ہے
دیکھنے سوں سیر نئیں ہوتا ولیؔ
مدّعا اُس کا کنار و بوس ہے
٭٭٭
369
ہر طرف سوں بلبلاں کا جوش ہے
اے سجن یک بات ہے لیکن اُسے
بوجھتا ہے وو کہ جس کوں ہوش ہے
گول پگڑی کے نہ پھر ہرگز تو گرد
گول پگڑی حسن کا سرپوش ہے
دیکھنا تجھ قد کا اے نازک بدن
باعثِ خمیازۂ آغوش ہے
اب خلاصی عشق سوں ممکن نہیں
دام دل، زلف دو دامی پوش ہے
کیوں نہ ہو امید کا روشن چراغ
شمع مجلس ساقیِ مے نوش ہے
ہر سخن تیرا الطافت سوں ولیؔ
مثل گوہر زینت ہرگوش ہے
٭٭٭
370
لطف اس کا اگرچہ دل کش ہے
مجھ سوں کیوں کر ملے گا حیراں ہوں
شوخ ہے، بے وفا ہے سرکش ہے
کیا تری زلف کیا ترے ابرو
ہر طرف سوں مجھے کشاکش ہے
تجھ بن اے داغ بخش سینہ و دل
چمنِ لالہ دشت آتش ہے
اے ولیؔ تجربے سوں پایا ہوں
شعلۂ آہ شوق بے غش ہے
٭٭٭
371
مت کسو سوں مل اگر اشراف ہے
ہر سحر تجھ نعمت دیدار کی
آرسی کوں اشتہائے صاف ہے
نئیں شفق ہر شام تیرے خواب کوں
پنجۂ خورشید مخمل باف ہے
نقد دل دوجے کوں دینا تجھ بغیر
حق شناسوں کے نزک اسراف ہے
کیا کروں تفسیر غم، ہر اشک چشم
راز کے قرآن کا کشاف ہے
مست جام عشق کوں کچھ غم نہیں
خاطر ناصح اگر نا صاف ہے
وسوسے سوں دل کو مت کر زر قلب
سینہ صافوں کی نظر صراف ہے
جب سوں وو آتا ہے ہمراہ رقیب
درد منداں کا مکاں اعراف ہے
رحم کرتا نئیں ہمارے حال پر
شوخ ہے سرکش ہے بے انصاف ہے
اے ولیؔ تعریف اس کی کیا کروں
ہر طرح مستغنی الاوصاف ہے
٭٭٭
372
ہرچند کہ اس آہوئے وحشی میں بھڑک ہے
بے تاب کے دل لینے کوں لیکن ندھڑک ہے
عشاق پہ تجھ چشم ستم گار کا پھرنا
تروار کی اوجھڑ ہے کَتّے کی سُڑک ہے
گرمی سوں تری طبع کی ڈرتے ہیں سیہ بخت
غصے سوں کڑکنا ترا بجلی کی کڑک ہے
تیری طرف انکھیاں کوں کہاں تاب کہ دیکھیں
سورج سوں زیادہ ترے جامے کی بھڑک ہے
کرنے کوں ولیؔ عاشق بے تاب کوں زخمی
وو ظالم بے رحم نپٹ ہی ندھڑک ہے
٭٭٭
373
اے دوست تیری یاد میں دل کوں کمال ہے
نقش مراد آئینہ تیرا خیال ہے
ہے راستی سوں قد کوں ترے مرتبہ بلند
جنّت میں اس کے عشق سوں طوبیٰ نہال ہے
حاجت نہیں شمع کی اس انجمن منیں
جس انجمن میں شمع سجن کا جمال ہے
آ اے مہِ دو ہفتہ مرے پاس ایک روز
ہر آن تجھ فراق کی سینہ پہ سال ہے
ہم سایۂ بُتاں نے کیا قد مرا دوتا
اس مدعا پہ طرۂ خمدار دال ہے
زاہد کوں مثل دانۂ تسبیح ایک آن
کوچے ستی ریا کے نکلنا محال ہے
لازم ہے درس یار کی تحصیل رات دن
ہر مدرسے کے بیچ یہی قیل و قال ہے
جب سوں ترے خیال نے دل میں کیا گزر
بے تاب جیو مرے پر غضب وجد و حال ہے
اے عاشقاں کی عید تامل سوں کر نظر
تیری بھواں کی یاد میں تن جیوں ہلال ہے
صد برگ سو زبان ستی کہتا ہے یو بچن
غنچے کوں تجھ دہن سوں سدا انفعال ہے
روئے زمیں کا خال ہے زینت میں اے صنم
تیرا جو مثل نقش قدم پائمال ہے
تیری نَین کی یاد میں جن نے سفر کیا
اس کے سفر کی راہ نگاہ غزال ہے
بانگ بلند بات یہ کہتا ہوں اے سجن
کعبے میں تجھ جمال کے تل جیوں بلال ہے
خاموش گر رہا ہے ولیؔ تو عجب نہیں
غواّص کا ہمیشہ خموشی کمال ہے
٭٭٭
374
مکھ ترا رشک بدر کامل ہے
حسن کے درس میں لیا جو سبق
مجھ نزک فاضل و مکمل ہے
رات دن تجھ جمال روشن سوں
فضل پروردگار شامل ہے
جس کوں تجھ حسن کی نئیں ہے خبر
بے گماں وو جہاں میں غافل ہے
زاد رہ دل سوں جو بغل میں لیا
عشق کے پنتھ میں وو عاقل ہے
عشق کے راہ کے مسافر کوں
ہر قدم تجھ گلی میں منزل ہے
اے ولیؔ طرز عشق آسان نئیں
آزمایا ہوں میں کہ مشکل ہے
٭٭٭
375
نشّہ بخش عاشقاں وو ساقیِ گل فام ہے
جس کی انکھیاں کا تصوّر بے خودی کا جام ہے
کھولنا زلفاں کا کچھ درکار نئیں اے خوش نَین
یک نگاہ ناز تیری دوجہاں کا دام ہے
آفتاب آتا ہے محرم ہو کے تجھ کوچے طرف
صبح صادق اس کے بَر میں جامۂ احرام ہے
دل کوں جمعیت ہے جب جاتا ہوں دنبال صنم
آرسی کے ساتھ میں سیماب کوں آرام ہے
مت قدم رکھ اس طرف اے زاہد خلوت نشیں
غمزۂ خوں خوار ظالم دشمنِ اسلام ہے
جس صنم کی سرکشی کا جگ میں ہے صیت بلند
شکر حق وو کافر بدکیش میرا رام ہے
اے ولیؔ کیوں خشک مغزی کا نہیں کرتا علاج
یاد اُن انکھیاں کی تجھ کوں روغنِ بادام ہے
٭٭٭
376
اس سرو خوش ادا کوں ہمارا سلام ہے
اُس یار بے وفا کوں ہمارا سلام ہے
لیتا نئیں سلام ہمارا حجاب سوں
اُس صاحب حیا کوں ہمارا سلام ہے
اُس باج دل میں میرے دوجا نئیں ہے مدّعا
اُس دل کے مدعا کوں ہمارا سلام ہے
ناز و ادا سوں دل کوں مرے مبتلا کیا
اُس نازنین پیا کوں ہمارا سلام ہے
آرام جان و دل ہے ولیؔ جس کا دیکھنا
اُس جان دل رُبا کو ہمارا سلام ہے
٭٭٭
377
اس شاہ نو خطاں کو ہمارا سلام ہے
جس کے نگینِ لب کا دوعالم میں نام ہے
سرشار انبساط ہے اُس انجمن منیں
جس کوں خیال تیری انکھیاں کا مدام ہے
جس سرزمیں میں تیری بھواں کا بیاں کروں
خوبی ہلال چرخ کی وہاں ناتمام ہے
جب لگ ہے تجھ گلی میں رقیب سیاہ رو
تب لگ ہمارے حق میں ہر اک صبح شام ہے
تنہا نہ سبد عشق میں تھیر ہوا ولیؔ
یہ زلف حلقہ دار دوعالم کا دام ہے
٭٭٭
378
طلب میں ہوں تمنا کی قسم ہے
سراپا ناز ہے تو اے پری رو
مجھے تیرے سراپا کی قسم ہے
دیا حق حسن بالا دست تجکوں
مجھے تجھ سرو بالا کی قسم ہے
کیا تجھ زلف نے جگ کوں دِوانا
تری زلفاں کے سودا کی قسم ہے
دو رنگی ترک کر ہر اک سے مت مل
تجھے تجھ قدِّ رعنا کی قسم ہے
کیا تجھ عشق نے عالم کوں مجنوں
مجھے تجھ رشک لیلیٰ کی قسم ہے
ولیؔ مشتاق ہے تیری نگہ کا
مجھے تجھ چشم شہلا کی قسم ہے
٭٭٭
379
برنگ شعلہ سر تا پا زباں ہے
نظر کرنے میں دل اس کا لیا ہوں
کمندِ گل، نگاہ بلبلاں ہے
بجا ہے گر وو سرو گلشنِ ناز
ہماری راستی پر مہرباں ہے
وفا کر حسن پر مغرور مت ہو
وفاداری بہار بے خزاں ہے
صنم مجھ دیدہ و دل میں گزر کر
ہوا ہے، باغ ہے، آب رواں ہے
ہوا تیر ملامت کا نشانہ
نظر میں جس کی وو ابرو کماں ہے
ولیؔ اس کی جفا سوں خوف مت کر
جفا کرنا وفا کا امتحاں ہے
٭٭٭
380
سخن مصری و لب کان یمن ہے
مجھ اوپر کھینچتے ہیں تیغ ہندی
ترے ابرو کہ چیں جن کا وطن ہے
ہوئی ہے دنگ تصویر فرنگ دیکھ
تری صورت کہ یہ رشک دمن ہے
دسے تیرے نَین میں کا نور ودیس
تری باتاں میں بنگالے کا فن ہے
ترے لب میں دِسے لعلِ بدخشاں
سخن تیرا ہر اک دُرِّ عدن ہے
تری یہ زلف ہے شام غریباں
جبیں تیری مجھے صبح وطن ہے
ولیؔ ایران و توراں میں ہے مشہور
اگرچہ شاعر ملک دکن ہے
٭٭٭
381
کہ فن عاشقی عجب فن ہے
کیوں نہ ہو مظہر تجلی یار
کہ دل صاف مثل درپن ہے
عشق بازاں ہیں تجھ گلی میں مقیم
بلبلاں کا مقام گلشن ہے
سفر عشق کیوں نہ ہو مشکل
غمزۂ چشم یار رہ زن ہے
بار مت دے رقیب کوں اے یار
دوستاں کا رقیب چشم سوزن ہے
مجکوں روشن دلاں نے دی ہے خبر
کہ سخن کا چراغ روشن ہے
گھیر رکھتا ہے دل کوں جامۂ تنگ
جگ منیں دور دور دامن ہے
عشق میں شمع رو کے جلتا ہوں
حال میرا سبھوں پہ روشن ہے
اے ولیؔ تیغ غم سوں خوف نہیں
خاکساری بدن پہ جوشن ہے
٭٭٭
382
راہزن کا چراغ رہزن ہے
ترش روئی ہے حسن اہلِ لباس
چین دامن کا زیب دامن ہے
پاک بازی میں دل کوں ہے عزّت
صافی درپن آب درپن ہے
باغ گل راستی کا ہے سرسبز
سرو گلشن میں حسن گلشن ہے
اے ولیؔ صاحب سخن کی زباں
بزم معنی میں شمع روشن ہے
٭٭٭
383
لقب جس شوخ کا جادو نَین ہے
ہوا ہے جو شہید لالہ رُویاں
برنگ داغ دل خونیں کفن ہے
نئیں درکار گل گشت چمن زار
بہار عاشقاں وو گل بدن ہے
کرے گی سنگ دل کے دل میں جا نقش
صدائے بے دلاں فرہاد فن ہے
بجا ہے اس کوں کہنا خسروِ وقت
نظر میں جس کو وو شیریں بچن ہے
ترا قد اے بہار گلشن ناز
مثال سرو زیب انجمن ہے
خودی سوں اولاً خالی ہو اے دل
ق
اگر اس شمع روشن کی لگن ہے
غلام و فدویِ درگاہ احمد
صدا اس کی زباں پر یو بچن ہے
ہوا جو خادم شاہ ولایت
ولیؔ ہے والی ملک سخن ہے
٭٭٭
384
خط یاقوت سوں نقش نگیں ہے
چمن آرائے باغ خوش ادائی
نہال قد سرو گل جبیں ہے
کہو زاہد کوں جاوے اس گلی میں
اگر مشتاق فردوس بریں ہے
نہ آوے گی کدھی لکھنے میں ہرگز
مصوّر یو ادائے نازنیں ہے
ہمیشہ دیکھتی ہے تجھ کمر کوں
نگہ میری سدا باریک بیں ہے
مرے حق میں عنایت نامۂ یار
مثال شہپر روح الامیں ہے
کرے اک آن میں جگ کوں دِوانہ
نگہ تیری کہ جادو آفریں ہے
نہیں گل برگ گلشن میں اے لالن
ترے گل گوں کا یو دامان زیں ہے
سویدا کی نمط جاوے نہ ہرگز
خیال اس خال کا جو دل نشیں ہے
ولیؔ جن نے سنا میرے سخن کوں
زباں پر اس کی ذکر آفریں ہے
٭٭٭
385
ہر اک سوں مل متواضع ہو سروری یہ ہے
سنبھال کشتیِ دل کوں قلندری یہ ہے
نکال خاطر فاتر سوں جام کا غم
صفا کر آئینۂ دل سکندری یہ ہے
تو جان بوجھ، آ جانا ہوا سو میں بوجھا
کہ زندگی منیں مقصود زر گری یہ ہے
خیال یار کوں رکھ اپنے دل میں محکم کر
کہ عاشقاں کے نزک شیشہ و پری یہ ہے
بسا عزیز ہیں تجھ مکھ کے آفتاب پرست
تو جلوہ گر ہو کہ اب ذرہ پروری یہ ہے
ٹک اک نقاب اُچا کر اپس کا مکھ دکھلا
کہ دلبراں کے نزک حق دل بری یہ ہے
بسار دل سوں اپس کے تو یاد خاقانیؔ
ولیؔ کوں دیکھ کہ اب رشک انوریؔ یہ ہے
٭٭٭
386
نکل اے دل رُبا گھر سوں کہ وقت بے حجابی ہے
چمن میں چل بہار نسترن ہے ماہتابی ہے
کسی کی بات سنتا نئیں کسی پر رحم کرتا نئیں
ہٹیلا ہے، ستمگر ہے، جفا جو ہے، شرابی ہے
گیا ہے جب سوں وو گل رو چمن میں مے کشی کرنے
ہر اک گل صورت ساغر ہر اک غنچہ گلابی ہے
گلی میں اُس ستم گر کی نہ جا اے دل، نہ جا اے دل
کہ جاں بازی میں آفت ہے، قیامت ہے، خرابی ہے
کسے طاقت ہے انکھیاں کھول کر دیکھے تری جانب
جھلک تجھ حسن روشن کی شعاع آفتابی ہے
تمھارے اُس سجن مدت سوں فدوی ہیں دعا گو ہیں
ہمن سوں بے حسابی بات کرنا بے حسابی ہے
وفاداری بہار گلشن خوبی ہے اے گل رو
نہ بوجھو سرسری ہرگز سخن میرا کتابی ہے
بہار عاشقی کوں تازہ کرنا اے گل رعنا
تلطّف ہے، مدارا ہے کرم ہے، بے عتابی ہے
ولیؔ پایا رباعی چار ابرو کے تصوّر میں
تخلّص چشم گریاں کا بجا ہے گر سحابیؔ ہے
٭٭٭
387
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
کیوں کے حاصل ہو مجکو جمعیت
زلف تیری قرار کھوتی ہے
ہر سحر شوخ کی نگہ کی شراب
مجھ انکھاں کا خمار کھوتی ہے
کیوں کے ملنا صنم کا ترک کروں
دلبری اختیار کھوتی ہے
اے ولیؔ آب اُس پری رو کی
مجھ سِنے کا غبار کھوتی ہے
٭٭٭
388
چشم کا کام اشک باری ہے
شب فرقت میں مونس و ہمدم
بے قراروں کوں آہ و زاری ہے
اے عزیزاں مجھے نہیں برداشت
سنگ دل کا فراق بھاری ہے
فیض سوں تجھ فراق کے ساجن
چشم گریاں کا کام جاری ہے
فوقیت لے گیا ہوں بلبل سوں
گرچہ منصب میں وو ہزاری ہے
عشق بازوں کے حق میں قاتل کی
ہر نگہ خنجر و کٹاری ہے
آتش ہجر لالہ رو سوں ولیؔ
داغ سینے میں یادگاری ہے
٭٭٭
389
حسن مشتاق دل نوازی ہے
اشک خونیں سوں جو کیا ہے وضو
مذہب عشق میں نمازی ہے
جو ہوا راز عشق سوں آگاہ
وو زمانے کا فخر رازی ہے
پاک بازاں سوں یوں ہوا مفہوم
عشق مضمون پاک بازی ہے
جا کے پہنچی ہے حد ظلمت کوں
بسکہ تجھ زلف میں درازی ہے
تجربے سوں ہوا مجھے ظاہر
ناز مفہوم بے نیازی ہے
اے ولیؔ عیش ظاہری کا سبب
جلوۂ شاہد مجازی ہے
٭٭٭
390
جوگیِ دل وہاں کا باسی ہے
پی کے بیراگ کی اداسی سوں
دل پہ میرے سدا اُداسی ہے
اے صنم تجھ جبیں اُپر یہ خال
ہندوئے ہردوار باسی ہے
زلف تیری ہے موج جمنا کی
تل نزک اس کے جیوں سناسی ہے
گھر ترا ہے یہ رشک دیولِ چیں
اس میں مدت سوں دل اُپاسی ہے
یہ سیہ زلف تجھ زنخداں پر
ناگنی جیوں کُنوے پہ پیاسی ہے
طاس خورشید غرق ہے جب سوں
بر میں تیرے لباس طاسی ہے
جس کی گفتار میں نئیں ہے مزا
سخن اس کا طعام باسی ہے
اے ولیؔ جو لباس تن پہ رکھا
عاشقاں کے نزک لباسی ہے
٭٭٭
391
ترا مکھ مشرقی، حسن انوری، جلوہ جمالی ہے
نَین جامی، جبیں فردوسی، و ابرو ہلالی ہے
ریاضی فہم و گلشن طبع و دانا دل، علی فطرت
زباں تیری فصیحی و سخن تیرا زُلالی ہے
نگہ میں فیضی و قدسی سرشتِ طالب و شیدا
کمالِ بدر دل اہلی و انکھیاں سوں غزالی ہے
تو ہی ہے خسرو روشن ضمیر و صائب و شوکت
ترے ابرو یہ مجھ بیدل کوں طغرائے وصالی ہے
ولیؔ تجھ قد و ابرو کا ہوا ہے شوقی و مائل
تو ہر اک بیت عالی ہور ہر اک مصرع خیالی ہے
٭٭٭
392
نہ پوچھو خود بخود اس شوخ میں صاحب کمالی ہے
نگاہ پاک بازاں حسن کے گلشن کا مالی ہے
نہ جانوں کیا بلا لاوے گی اُس کے کان سوں لگ کر
بلائے جان مشتاقاں کہ جس کا نانون بالی ہے
سدا اس مو کمر کا وصف آتا ہے زباں اوپر
عزیزاں طبع میں میری عجب نازک خیالی ہے
زباں پر قمریاں کی یہ سخن جاری ہے گلشن میں
کہ عشقِ سرو قد رکھتا ہے جس کی فکر عالی ہے
ہمیشہ جیوں صنوبر، راست بازاں وجد کرتے ہیں
مگر قدِ پری رو مصرع برجستہ حالی ہے
عیاں ہے شاہ بیتِ عبہری تجھ چشم جادو سوں
کرشمہ تجھ بھواں میں معنیِ بیت ہلالی ہے
کہا اس شکریں گفتار نے میرے سخن سن کر
کہ طوطی کی زباں اوپر عجب شیریں مقالی ہے
نہ جانوں کس پری رو کا گزر ہے آج مجلس میں
کہ حیرت سوں ہر اک گل رو مثال نقش قالی ہے
ولیؔ وو سرو قامت ہے بہار گلشن خوبی
نہ رہنا اس کی صحبت میں نپٹ بے اعتدالی ہے
٭٭٭
393
باغِ ارم سوں بہتر موہن تری گلی ہے
ساکن تری گلی کا ہر آن میں ولیؔ ہے
تجھ عشق کی صدا سوں لبریز ہوں سراپا
ہر استخواں میں میری آواز بانسلی ہے
بولے ہیں اہل دل نے یہ بات تہہ دلی سوں
عارف کا دل بغل میں قرآن ہیکلی ہے
تجھ مکھ کے گرد یو خط باریک ہے ولیکن
انکھیاں کوں نور دینے جیوں قطعۂ جلی ہے
امید ہے کہ ہووے مجھ درد سر کا درماں
جامے کا رنگ تیرے اے شوخ صندلی ہے
یک بار دل جلے کوں ٹھہرا کدھی نہ دیکھا
تیری نگاہ ظالم مانند بیجلی ہے
آتا نہیں ہے تجھ بن اک آن خواب راحت
تکیہ مرے سرہانے ہر چند مخملی ہے
ہرگز ترے دہن میں نئیں رنگ و بو سخن کا
گویا دہن یہ تیرا تصویر کی کلی ہے
مجکوں کہا سجن نے لاؤں گا بندگی میں
زمرے میں شاعراں کے ہر چند تو ولیؔ ہے
٭٭٭
394
جس سوں تجھ ناز کی تمامی ہے
گرچہ سب خوب رو ہیں خوب دلے
سرو میرا سبھوں میں نامی ہے
ہر پلک تیری اے نگۂ بدمست
نشّہ بخشی میں شعر جامی ہے
آتش شوق زلف سوں تیری
دل عاشق کباب شامی ہے
سرو کوں باوجود آزادی
تجھ ستی دعوئ غلامی ہے
جو بندھا تجھ نگین لب سوں جانا
عشق بازاں کے حق میں خامی ہے
تب کا مشتاق جی ہے لکھمن سوں
کِشن سوں جب کہ رام رامی ہے
اے ولیؔ اس کے بیت ابرو ہیں
معنیِ نسخۂ حسامی ہے
٭٭٭
395
مایۂ عیش جاودانی ہے
یاد کرتی ہے خط کوں زلف صنم
کام ہندو کا بید خوانی ہے
تجھ سوں ہرگز جدا نہ ہوں اے جاں
جب تلک مجھ میں زندگانی ہے
آشنا نونہال سوں ہونا
ثمرۂ گلشنِ جوانی ہے
دل میں آیا ہے جب سوں سرو رواں
تب سوں مجھ شعر میں روانی ہے
اے سکندر نہ ڈھونڈ آب حیات
چشمۂ خضر خوش بیانی ہے
وقت مرنے کے بولتا ہے پتنگ
کہ محبت رفیق جانی ہے
گرچہ پابند لفظ ہوں لیکن
دل مرا عاشقِ معانی ہے
اے ولیؔ تیغ غم سوں خوف نئیں
خاکساری بدن پہ جوشن ہے
٭٭٭
396
سدا ہم کوں خیال رنگ روئے یار جانی ہے
ہمارے شیشۂ دل میں شرابِ ارغوانی ہے
زبانِ حال سوں کہتا ہے خضرِ سبزۂ نو خط
بیاں کرنا صنم کے لب کا آب زندگانی ہے
گیا ہے حسن کی شادی میں از بس بے تکلف ہو
سراپا عشق کے بر میں لباس زعفرانی ہے
تواضع کی توقع نونہالاں سوں نہ رکھ اے دل
کہ بے باکی و شوخی لازم وقت جوانی ہے
ہوا ہے شوق زلف مو کمر سوں جو سخن سرزد
ولیؔ وو شعر نازک موج دریائے معانی ہے
٭٭٭
397
مو بہ مو میں تجھ غم سوں ضعف و ناتوانی ہے
ٹک کرم کرو ساجن، وقت مہربانی ہے
دیکھنے سوں خوباں کے منع مت کر اے زاہد
موسم بزرگی نئیں عالم جوانی ہے
جیو یاد کرتا ہے نو بہار کے خط کوں
رات دن برہمن کا کام بید خوانی ہے
کنج غم میں تنہا نئیں عاشق بلا انگیز
گر شب جدائی میں آہ یار جانی ہے
یک سخن ترے لب سوں اے مسیح روح افزا
حق میں جاں نثاروں کے آب زندگانی ہے
تجھ سوں ہم نشیں ہونا، اے گل بہار دل
وجہ شادمانی ہے، عیش جاودانی ہے
نام اس دو رنگے کا، کیوں نہ ہو گل رعنا
چیرہ ارغوانی ہے، جامہ زعفرانی ہے
جب سوں نو خط گل رو، جلوہ گر ہے گلشن میں
سبزہ کہربائی ہے، رنگ گل خزانی ہے
سادہ رو جہاں کے سب گوش رکھ کے سنتے ہیں
اے ولیؔ سخن تیرا، گوہر معانی ہے
٭٭٭
398
سَر اُپر سایۂ الٰہی ہے
باعثِ دل رُبائیِ عاشق
خوش نگاہوں میں خوش نگاہی ہے
کم نکلنے میں اس پری رو کے
عشق بازاں کی خیرخواہی ہے
جگ میں تیری بھواں کی شہرت سوں
کشتیِ عاشقاں تباہی ہے
قتل عشاق پر بندھیا ہے کمر
غمزۂ تیغ زن سپاہی ہے
شاہ خوباں کے رخ پہ سبزۂ خط
حسن کی فوج کی سیاہی ہے
کیوں نہ ہو عشق باز خسرو وقت
عشق کا داغ چتر شاہی ہے
نو خطاں کی طرف نہ جا زاہد
زہد و تقویٰ کا واں مناہی ہے
عشق بازاں میں ہے ولیؔ ثابت
طالبِ گل رخاں کماہی ہے
٭٭٭
399
مت تصور کرو مجھ دل کوں کہ ہرجائی ہے
چمن حسن پری رو کا تماشائی ہے
گل رخا کیوں نہ کہیں تجکوں سکندر طالع
جلوہ گر بر میں ترے جامۂ دارائی ہے
یاد کرتا ہے سدا مصرع زنجیر جنوں
دل بے تاب کہ تجھ زلف کا سودائی ہے
چشم خونبار کوں رونے سوں نئیں ہرگز غم
خط شب رنگ ترا سرمۂ بینائی ہے
دیکھ کر اس کوں ہوئے سرو و صنوبر پابند
اس قدر قد میں ترے جلوۂ رعنائی ہے
شیخ مت گھر سوں نکل آج توں خوباں کے حضور
گول دستار تری باعث رسوائی ہے
اے ولیؔ رہنے کوں دنیا میں مقام عیش
کوچۂ یار ہے یا گوشۂ تنہائی ہے
٭٭٭
400
عیش کی آن گئی پھر آئی
تیرے آنے ستی اے راحت جاں
شہر کی جان گئی پھر آئی
پھر کے آنا ترا ہے باعث شوق
جس طرح تان گئی پھر آئی
تیرے آنے ستی اے مایۂ حسن
عشق کی شان گئی پھر آئی
اے ولیؔ قند مکرر ہے یو بات
شکر، وو جاں گئی پھر آئی
٭٭٭
401
عیاں ہے اس میں نور آشنائی
لکھا ہے تجھ قد اوپر کاتب صنع
سراپا معنیِ نازک ادائی
تو ہے سر پاؤں لگ از بسکہ نازک
نگہ کرتی ہے تجھ پگ کوں حنائی
ہوا تیری نگہ کی بسکہ ہے مجھ
ہوا ہے دل مِرا تیر ہوائی
ثنا تیری کیا ہوں ورد از بس
بجا ہے گر کہیں مجھ کوں ثنائی
محبت میں تری اے گوہر پاک
ہوا ہے رنگ میرا کہربائی
تری انکھیاں کی مستی دیکھنے میں
گئی ہے پارسا کی پارسائی
ولیؔ ہنستی ہے ہر شب بزم میں شمع
پتنگ میں دیکھ کر عشقِ ریائی
٭٭٭
402
نہ ہو کیوں دل شکار آشنائی
صنم تیری مروت پر نظر کر
ہوا ہوں بے قرار آشنائی
نپٹ دشوار تھا مجھ دل میں اے جاں
زمانِ انتظار آشنائی
ہوا معلوم تجھ ملنے سوں لالن
کہ رنگیں ہے بہار آشنائی
حیا کے آب سوں باغ وفا میں
رواں ہے جوئبار آشنائی
وفا دشمن نہ ہو اے آشناور
وفا پر ہے مدار آشنائی
مروت کے ہمیشہ ہاتھ میں ہے
عنان اختیار آشنائی
مدارا ترک مت کر اے حیا دوست
مدارا ہے حصار آشنائی
ولیؔ اس واسطے گریاں ہوں ہر آن
کہ تر ہو سبزۂ زار آشنائی
٭٭٭
403
تجھ مکھ کا رنگ دیکھ کنول جل میں جل گئے
تیری نگاہِ گرم سوں گَل گَل پگھل گئے
ہر اک کوں کاں ہے تاب جو دیکھے تری طرف
شیراں تری نگاہ کی دہشت سوں ٹل گئے
صافی ترے جمال کی کاں لگ بیاں کروں
جس پر قدم نگاہ کے اکثر پھسل گئے
مرنے ستی جو آگئے مُوئے اس جگت منیں
تصویر کی نمط وو خودی سوں نکل گئے
پائے ہیں جو کہ لذت دیں جگ میں اے ولیؔ
وو ہات اس دنیا منیں حسرت سوں مل گئے
٭٭٭
404
اندوہ و غم کی بات ترے باج بن گئی
آواز میری آہ کی پھر تا گگن گئی
تا حشر اس کا ہوش میں آنا محال ہے
جس کی طرف صنم کی نگاہِ نین گئی
سُرمے کا منھ سیاہ کیا اُن نے جگ منیں
جس کی نیَن میں پیو کی خاک چرن گئی
تنہا سواد ہند میں شہرت نئیں صنم
تجھ زلف مشک بو کی خبر تا خُتن گئی
اب لگ ولیؔ پیا نے دکھایا نئیں درس
جیوں شمع انتظار میں ساری رَیَن گئی
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیدکلیاتِ