فہرست مضامین
- بچوں کی منتخب کہانیاں
- بارش کا پہلا قطرہ
- فیصلہ خود کیجیے
- ونکا چاکلیٹ فیکٹری
- دو موچی
- تعلیم بڑی چیز ہے
- اعتماد کی دولت
- رانی کی گڑیا
- فیصلہ
- حادثہ
- مبارک دن
- محنت میں عظمت
- عقل مند غلام
- بدتمیز شہزادہ
- ضد کی سزا
- تم بہت اچھے ہو!
- تین سہیلیاں
- فیصلہ
- گائے کی دستک
- سونے کی چونچ
- زندگی کی واپسی
- سیانا اجو اور چار مختلف پہیے
- بیوقوفی
- میں بڑا نہ تو چھوٹا
- بڑا آدمی
- ٹائم مشین
- شرارتی مرغا
- روشنی
- رحم
- پھول
- پڑوسی کی کہانی
- کوے کی چوہے کو نصیحت
بچوں کی منتخب کہانیاں
مختلف ادباء
قومی انعام یافتہ
بارش کا پہلا قطرہ
لاریب فاطمہ ملک
شدید گرمیو ں کے دن تھے۔ ابھی سکول میں چھٹیاں ہونے میں کچھ دن باقی تھے۔ بیلا اپنا سکول کا بستہ اٹھائے ہوئے تھکے ہوئے قدموں سے گھر کی طرف جانے والی راہ پر سر جھکائے جا رہی تھی۔ سر پر رکھی ہوئی ٹوپی اسے دھوپ سے بچانے کو ناکافی تھی۔ لیکن اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا اور اسی شوق میں وہ گھر سے اتنی دور واقع سکول پیدل چل کر آتی جاتی تھی۔ پانی کی بوتل میں تھوڑا سا پانی باقی تھا۔ بیلا سخت پیاس محسوس کر رہی تھی۔ لیکن اس نے سوچا کہ چند قدموں پر واقع جو برگد کا بوڑھا درخت ہے وہ اس کے نیچے تھوڑی دیر رک کر پانی بھی پی لے گی اور درخت کی چھاؤں میں تھوڑی دیر آرام بھی کر لے گی۔ وہ درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گئی اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا اورجیسے ہی پانی پینے لگی اسے ایک آواز سنائی دی۔
اچھی لڑکی تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دو۔ میں صدیوں سے پیاسا ہوں بیلا نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا اردگرد کوئی بھی نہ تھا مگر وہ ڈری نہیں۔ کیونکہ امی نے اسے بتایا ہو ا تھا کہ بچوں کو ہمیشہ بہادر بن کر رہنا چاہیے۔ اس نے کہا کون ہے؟ کس نے پانی پینا ہے؟ جواب میں آواز آئی میں پیاسا ہوں مجھے پانی دو۔ درخت بول رہا تھا۔ بیلا کو بہت پیاس لگی ہوئی تھی۔ ابھی گھر دور تھا۔ اور دھوپ بھی سخت تھی۔ مگر بیلا بہت ہمدرد بچی تھی اس نے اپنی پرواہ نہ کی اوردرخت کے تنے میں بوتل میں پڑا پانی الٹادیا۔ تھوڑا ساپانی مٹی میں جذب ہوتے ہی غائب ہو گیا۔ بیلا شرمندہ ہو کر بولی۔ پیارے درخت۔ معاف کرنا آج تھوڑا سا پانی تھا میں کل تمہارے لیے زیادہ پانی لے کر آؤں گی۔ یہ کہہ کر بیلا نے بستہ اٹھایا۔ درخت کو خدا حافظ کہا۔ اور گھر کو چل دی۔
اگلی صبح اس نے چپکے سے ایک پانی کی بوتل اپنے بستے میں ڈال لی۔ بستہ بوتل کے وزن سے کافی بھاری ہو گیا تھا۔ مگر بیلا نے اسے خوشی خوشی اٹھائے رکھا۔ وہ چھٹی کا انتظار کرتی رہی جیسے ہی ٹن ٹن کی آواز آئی وہ تیزی سے سکول سے نکلی اور اس درخت کی طرف چل پڑی۔ وہاں پہنچ کر اس نے انتظار کیے بغیر سارا پانی درخت کے تنے کو پلا دیا۔ پانی زمین میں جذب ہوتے ہی ایک دم سے خوشبو پھیل گئی۔ اور اس جگہ سے ایک سفید خوبصورت اور چمکتے ہوئے پروں والی ننھی سی پری بیلا کے سامنے آ گئی۔ بیلا اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس نے دادی اماں سے آج تک جو پریوں کی کہانیاں سنی تھیں ۔ آج وہ پری واقعی اس کی نظروں کے سامنے آ گئی تھی۔ بیلا نے اپنی آنکھوں کو ملتے ہوئے یہ یقین کرنا چاہا کہ کہیں وہ کوئی خوبصورت خواب تو نہیں دیکھ رہی۔ پری بیلا کی اس معصوم حرکت پر زور سے ہنس پڑی۔ تو بہت سے سفید خوبصورت پھول ادھر ادھر بکھر کر گر پڑے۔ بیلا جلدی سے انہیں چننے لگی۔
پری بولی ننھی بچی تم کون ہو۔ بیلا نے اپنا نام بتایا۔ اور پوچھا پری آپ پرستان سے اس دنیا میں کیوں آ گئی ہیں ؟ پری بولی۔ مجھے انسانوں کی دنیا دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جس طرح آپ لوگوں نے پرستان کے قصے سن رکھے ہیں اسی طرح ہمیں بھی اس دنیا کے کئی قصے سنائے گئے ہیں بس پھر میں اس دنیا میں آ گئی۔ لیکن پیاری گڑیا مجھے بہت افسوس ہے کہ میں جو قصے سن کراس دنیا میں آئی تھی وہ سب جھوٹے نکلے۔ چند ہی دنوں میں یہاں سے بیزار ہو چکی ہوں ۔ اور اب اپنے پرستان واپس لوٹ جاؤں گی۔ پری کے خوبصورت چہرے پر اداسی سی اتر آئی تھی۔ بیلا سے پری کی اداسی دیکھی نہ گئی۔ وہ بولی آپ نے ایسا کیا دیکھ لیا ہے۔ جو آپ اداس ہو گئی ہیں۔ پری بولی۔ کاش میں تمہیں پرستان لے جاتی۔ وہاں جا کر تمہیں میری اداسی کا سبب معلوم ہو جاتا کیا تم میرے ساتھ پرستان چلو گی؟ بیلا پری کی دعوت پر غور کرنے لگی۔ پرستان جانے کا خیال ہی اتنا خوبصورت تھا کہ بیلا انکار نہ کر سکی۔ دونوں میں یہ طے پا گیا کہ پری بیلا کو ایک رات کے لیے پرستان کی سیر کروائے گی۔ صبح ہوتے ہی وہ بیلا کو چپکے سے واپس چھوڑ جائے گی بیلا پری سے ساتھ چلنے کا وعدہ کر کے خوشی خوشی گھر چلی گئی۔
رات کو بیلا اپنی امی کو خدا حافظ کہہ کر جلدی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ آج اس سے پری کا انتظا ر مشکل ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ہی اسے اپنے کمرے کی کھڑکی کھلتی ہوئی محسوس ہوئی خوشبو کے جھونکے کے ساتھ ہی پری کمرے میں آ گئی۔ اس نے بیلا کی طرف ایک خوبصورت سفید پریوں والا فراک بڑھایا۔ پھر اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی جادو کی چھڑی کو گھما کر بیلا کی طرف کیا تو بیلا پریوں والے لباس میں ملبوس ہو گئی۔ پری نے بیلا کے سر پر خوبصورت سا تاج پہنایا۔ اس کے ہاتھ میں ستارے والی چھڑی تھمائی۔ بیلا نے آئینے میں خود کو دیکھا تو حیران رہ گئی وہ سچ مچ کی ایک ننھی سی خوبصورت پری معلوم ہوتی تھی۔ پری نے بیلا کو خوشبو لگائی اور اس کا ہاتھ تھام کر اسے آنکھیں بند کرنے کو کہا۔ تھوڑی دیر بعد بیلا کو احساس ہونے لگا کہ جیسے وہ ہواؤں میں اڑ رہی ہو۔ اس نے چپکے سے آنکھیں کھولیں اور ڈر گئی۔ وہ واقعی ہوا میں محو پرواز تھی۔ ستاروں کے پاس سے گزرتی ہوئی پرستان کی طرف جا رہی تھی۔ بیلا نے خوف کے مارے پری کا ہاتھ اور بھی مضبوطی سے پکڑ لیا۔ پری بیلا کی اس حرکت پر مسکرا دی بہت سے پھول دوبارہ ادھر ادھر بکھر کر گرنے لگے۔ بیلا اب آنکھیں کھو ل لو۔ تھوڑی دیر بعد ہی ہم پرستان میں پہنچنے والے ہیں۔ تم نے سب کو یہی بتانا ہے کہ تم بھی ایک پری ہو۔ بیلا نے غور سے پری کی بات سنی۔
پرستان شروع ہوتے ہی ہر طرف سے خوشبوئیں آنی شروع ہو گئیں۔ بیلا کو وہ خوشبوئیں بہت بھلی معلوم ہو رہی تھیں ۔ پرستان کی ساری زمین پھولوں کی پتیوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ سرسبز خوبصورت لمبے لمبے درخت اتنے خوبصورت تھے کہ انسانوں کی دنیا میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پری یہ کیسے درخت ہیں ؟ یہ اتنے خوبصورت کیسے ہیں ؟ بیلا سے پوچھے بنا نہ رہا گیا۔ پیاری بیلا۔ یہ وہی درخت ہیں جو تمہاری دنیا میں بھ موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اور انسانوں کو ایک ہی جیسی چیزیں دی ہیں۔ یہاں سے میں تمہیں اپنی وہ اداسی کی وجہ سمجھانا شروع کرتی ہوں۔ جو انسانوں کی دنیا میں جا کر مجھے مایوس کر گئی ہیں۔ درخت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں لیکن میں نے دیکھا کہ انسان ان کی بالکل حفاظت نہیں کرتے۔ سرسبز درختوں کو بیدردی سے کاٹ کر جلا دیتے ہیں۔ جس برگد کے درخت کے نیچے ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ نجانے کب سے پیاسا تھا۔ لیکن کبھی کسی نے یہ خیال نہیں کیا کہ انہیں بھی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بھی ہماری طرح جاندار مخلوق ہیں۔ بچوں کو میں نے پھول توڑتے اور پھر پاؤں کے نیچے مسلتے ہوئے دیکھا ہے ٹہنی پر لگے ہوئے خوش رنگ خوشبودار پھول کتنے خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ مگر جب ان کو نوچ کر پھینک دیا جاتا ہے تو ان کو کس قدر تکلیف ہوتی ہے۔ یہ کبھی کسی نے نہیں سوچا۔ بیلا کو پری کی اداسی سچ معلوم ہونے لگی۔ آؤ بیلا۔ باغ میں چلیں۔ بیلا پری کے ساتھ آگے بڑھی۔ تمام راستے بڑی خاموشی تھی۔ کچھ دیر بعد ایک بوڑھا جن نظر آیا۔ پری نے اسے سلام کیا اوراس کا حال پوچھا۔ بیلا نے پوچھا؟ پری یہ آپ کے کیا لگتے ہیں ؟ پری ہنس پڑی اور بولی بیلا میرا ن سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ مگر وہ اس پرستان کے رہنے والے ہیں۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے ساتھ رہنے والیسب لوگوں کا خیال رکھیں۔ بیلا کو یاد آ گیا کہ ان کے گھر کے ساتھ ہی ایک بوڑھے بابا جی رہتے ہیں۔ ساری رات اکیلے کھانستے رہتے ہیں۔ بیلا کے گھر میں ان کی کھانسی کی آواز تو آ جاتی ہے۔ یقیناً کئی لوگوں کو اس بیمار بابا جی کی بیماری کے متعلق علم ہو گا۔ لیکن کبھی کسی نے ان کا حال تک معلوم نہیں کیا بیلا کو اندر ہی اندر شرم محسوس ہونے لگی۔
جوں جوں بیلا پری کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی اس کی حیرانی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ پرستان اس کے تصور سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔ خوبصورت چمکتے ہوئے پروں کے ساتھ ان کے اردگرد بے خطر و خوف گھوم رہے تھے۔ پرینے ہاتھ بڑھا کر ایک خوبصورت سا طوطا جو ٹہنی پر بیٹھا ہوا تھا پکڑ لیا۔ طوطا بالکل نہ ڈرا۔ پری یہ پرندے ڈرتے نہیں ہیں ؟ کس بے فکری سے ٹہلتے پھر رہے ہیں۔ نہیں بیلا۔ یہ بالکل نہیں ڈرتے۔ کیونکہ نہ ہم انہیں پنجروں میں قید کرتے ہیں نہ ان معصوموں کا شکار کرتے ہیں اور نہ ہمارے پاس ان کو شکار کرنے کے لیے بندوقیں جال اور غلیلیں ہیں پری پیار سے مٹھو کے پروں پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔
کچھ آگے جا کر پری نے بیلا سے پوچھا۔ بیلا تمہیں پیاس تو نہیں لگی؟ بیلا نے ہاں میں سر ہلایا۔ سامنے ہی ندی تھی۔ جس کا پانی اس قدر شفاف تھا کہ یوں لگتا تھا کہ پانی نہیں ہیرے موتی بہہ رہے ہوں۔ پری نے سونے کے کٹورے میں بیلا کو پانی پیش کیا۔ پانی بہت میٹھا تھا بیلا پھر پوچھے بنا نہ رہ سکی پیاری پری یہ کیسا مشروب ہے؟ اتنا میٹھا اور صاف ہے؟ پیاری بیلا یہ ساد ہ پانی ہے۔ بالکل ویساہی جیسا کہ تمہاری دنیا کا پانی لیکن یہ آلودہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی کوڑ ا کرکٹ نہیں پھینکتا۔ اور نہ ہی اس میں کارخانوں کا فاضل مواد شامل ہے۔ بیلا حسرت سے پانی کو دیکھتے ہوئے پری کے ساتھ چل دی۔ سامنے ہی چند پریاں کھیل رہی تھیں۔ پری کو دیکھ کر وہ بھاگتی ہوئی آئیں۔ اور بڑی خوش دلی سے پری اور بیلا کو خوش آمدید کہا۔ بیلا ان کا حسن اخلاق دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں وہ پریاں بیلا کی مختلف قسم کے پھل اور مشروبات سے تواضع کرنے لگیں۔ بیلا ان سے یوں گھل مل گئی جیسے وہ اسی دیس کی رہنے والی ہو۔ وہ کھیلنے لگیں ۔ تو تمام پریوں نے جوتے اتار دیے بیلا نے کہا خیال کرنا کہیں پاؤں میں کچھ چبھ نہ جائے۔ ایک پری بولی بے فکر ہو کر کھیلو۔ ہم زمین پر کوئی کوڑا کرکٹ پھلوں کے چھلکے یا گندگی نہیں پھینکتے۔ بلکہ اسے یوں صاف رکھتے ہیں جیسے کوئی مخمل کا قالین۔ بیلا کھیلنے لگی۔ تو اسے واقعی زمین کی نرمی اور خوبصورتی کا احساس ہو گیا۔ نہ کوئی مچھر تھا نہ ہی مکھیاں اور نہ ہی گندگی۔ ہاں نرم کونپلوں جیسے پروں والی تتلیاں اور چمکتے ہوئے جگنو ادھر سے ادھر رقص کر تے پھر رہے تھے۔ بیلا کے پاؤں صاف شفاف تھے۔ اور اس کا چہرہ چمک رہا تھا۔ صاف ماحول اور پریوں کے حسن سلوک نے اسے وہ خوشی بخشی تھی کہ جو آج تک اسے اپنی دنیا سے نہ مل سکی تھی۔ کھیلتے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی مگر بیلا نے محسوس کیا کہ پریاں آپس میں بالکل نہیں لڑتیں اور ایک ہم ہیں جو اپنی دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے سو دفعہ ناراض ہوتی ہیں اور بات بات پر جھگڑا کرتی ہیں۔
وہ پریوں کو خدا حافظ کہہ کر پری کے ساتھ آگے بڑھی۔ تمام پریاں اسے ہاتھ ہلا ہلا کرخدا حافظ کہہ رہی تھیں۔ پری اسیاپنے گھر لے گئی سفید جالی دار پردوں سے بنا ہوا پری کا گھر بہت خوبصورت تھا۔ اس نے بیلا کو اپنے تمام گھر والوں سے ملوایا۔ سب ہی بیلا کو بہت پیار کر رہے تھے۔ بیلا سوچنے لگی کہ یہ لوگ مجھ سے کتنا پیار کر رہے ہیں۔ سب میرے ارد گر د جمع ہیں مگر میں پری کا تعارف اگر اپنے گھر میں یا اپنی دوستوں سے کروا دوں تو وہ ڈر ہی جائیں۔ نہ ہی اس طرح کا شاندار استقبال ہو اور نہ ہی مہمان نوازی۔ الٹا پری کو نکال دینے کی تدبیریں کی جائیں گی۔ بیلا کہاں کھوئی ہو؟ پری نے آ کر پوچھا؟ پری آپ کہاں غائب ہو گئی تھیں ؟ بیلا نے سوال کیا؟میں اپنی دادی پری کو سلام کرنے گئی تھی۔ پھر میں نے ان کے پاؤں دبانے لگی۔ ان کی آنکھوں میں دوا ڈالی۔ اس لیے دیر ہو گئی۔ معاف کرنا۔ بیلا کو اپنی دادی اماں یاد آ گئیں۔ اس نے کبھی ان کے پاؤں دبائے یا ان کی آنکھوں میں دوا ڈالی یا پھر ان سے باتیں کیں۔ بیلا تم بالکل اچھی نہیں ہو۔ بیلا خود سے کہنے لگی۔ باتوں باتوں میں وقت کا احساس ہی نہ ہوا۔ پرستان میں خوبصورت کجلی آنکھوں والے مرغ اذانیں دینے لگے تھے۔ تمام پرندے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں مصروف تھے۔ بیلا بہت اداس اداس سی پری کے ساتھ محو پرواز تھی۔ سب ہی اسے رخصت کرتے ہوئے اداس تھے۔ اسے کئی خوبصورت تحفے دیے گئے تھے۔ جو اس نے اور پری نے پروں پر اٹھائے ہوئے تھے۔
صبح اپنے تمام اجالوں کے ساتھ نمودار ہو رہی تھی۔ اپنی دنیا میں قدم رکھتے ہی بیلا نے آنکھیں کھول لیں۔ اس نے دیکھا کہ ہر طرف کوڑا کرکٹ اور گندگی کا ڈھیر تھے۔ ناگوار سی بو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ تمام درخت مرجھائے ہوئے تھے۔ بیلا کو آج ان کی اداسی کا سبب معلوم تھا۔ ننھی چڑیاں خوراک کی تلاش میں ادھر ادھر ماری ماری پھر رہ تھیں۔ ایک طرف سے بہت سا دھواں نکل کر ساری فضا کو دھندلا کر رہا تھا۔ پری کو اس کالے دھوئیں سے کھانسی آنے لگی۔ بیلا کو بہت شرمندگی ہوئی۔ تھوڑا ہی آگے ایک چشمہ ہے۔ پری وہاں سے پانی پی لو۔ لیکن چشمے پر پہنچتے ہ جب بیلا اور پری کو اس چشمے میں نہاتی کالی بھینسیں نظر آئیں تو انہوں نے رکنے سے توبہ کر لی ویسے بھی ان بھینسوں کے ساتھ کئی بچے صبح کا غسل کر رہے تھے۔
آج اتوار تھا اور بیلا کی چھٹی تھی۔ ورنہ تو سکول سے لیٹ ہو جاتی۔ کمرے کی کھڑکی سے دونوں اندر آئیں پیاری پری آج میرے پاس رکو نا بیلا اصرار کرنے لگی۔ نہیں بیلا میں نہیں رک سکتی۔ تم ناراض نہ ہونا ہاں میں وعدہ کرتی ہوں۔
دوبارہ تمہارے پاس ضرور آؤں گی۔ دوبارہ کب؟ بیلا نے سوال کیا جب تمہاری دنیا بالکل صاف ستھری ہو جائے گی۔ صاف پانی صاف ستھرے لوگ اور ستھرے دل تو میں تمام پریوں کو لے کر تمہارے پاس آؤں گی۔ پری بیلا کو بہت سا پیار کر کے اور دعا دے کر چلی گئی۔ بیلا پری کو کھڑکی سے جاتے ہوئے دیکھتی ہوئی سوچنے لگی۔ پیاری پری نجانے وہ وقت کب آئے گا ؟ جب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ شاید بہت دیر لگ جائے بیلا اداس ہو گئی۔ او رپھر اٹھ کر دادی اماں کے کمرے میں چلی گئی۔ ان کا حال پوچھا۔ اور کافی دیر ان کے پاس بیٹھی پاؤں دباتی رہی۔ دادی اماں نے خوش ہو کر بیلا کو ڈھیروں دعائیں دیں۔ پھر بیلا آ کر ابو سے کہنے لگی ابو جان آج آپ کی چھٹی ہے۔ کیوں نہ جا کر ساتھ والے بابا جی کا حال پوچھ آئیں۔ وہ کافی عرصہ سے بیمار ہیں۔ ہمیں ان کی عیادت کرنی چاہیے۔ ابو نے بیلا کی بات سے اتفاق کیا۔
ماسی رحماں گھر کے سامنے کوڑا کرکٹ مت پھینکو بلکہ گلی کے کونے میں لگے کوڑا دان میں پھینک کر آؤ۔ بیلاماسی کو ہدایت دیتی ہوئی پانی کا پائپ اٹھائے اپنے ننھے منے لان میں چلی گئی۔ تمام پھول اور پودے مرجھائے ہوئے تھے۔ وہ کافی دیر تک انہیں پانی ڈالتی رہی اورسنوارتی رہی اور ان سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی رہی۔ بیلا آج تو تم نے کمال کر دیا تمہارے پودے ہی نکھر گئے ہیں ابو جان نے بیلا کی تعریف کرتے ہوئے کہا ابو جان کسی کو تو بارش کا پہلا قطرہ بننا ہی تھا۔ وہ میں ہی سہی۔ بیلا نے پنجرے میں بند چھوٹی سی بلبل کو آزاد کیا۔ بلبل پھر سے اڑ کر دیوار پر جا بیٹھی اور اپنی زبان میں بیلا کو شکریہ کہنے لگی۔ بیلا مسکرا دی۔ تو یوں لگا کہ جیسے اس کے مسکرانے سے بہت سے پھول ادھر ادھر بکھر گئے ہوں۔
٭٭٭
فیصلہ خود کیجیے
عارفہ سعید
وہ دفتر میں داخل ہوا تو ٹھٹھک کر رہ گیا۔ دروازے کے عین سامنے بیٹھے کلرک پر اس کی نظریں جم کر رہ گئیں تھیں۔ وہ کبھی کلرک کے چہرے کی طرف دیکھتا تھا تو کبھی اس کی میز پر رکھی اس کے نام کی تحتی کو جس پر مبشر رضا لکھا تھا۔ کلرک اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اور وہ بھی نظریں ہٹائے بغیر اسے دیکھے جا رہا تھا۔ ان دونوں کی نگاہوں میں پہلے تو شک اور بے یقینی کے اثرات تیر رہے تھے۔ مگر اب ان کی جگہ شناسائی نے لے لی تھی۔ اور کلرک کا سر آہستہ آہستہ جھکنے لگا تھا۔ پھر اس کی نگاہیں زمین پر گڑھ کر رہ گئیں۔ دفتر میں موجود باقی کلرک بھی اپنی جگہوں سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کا ایک کلرک کو اس طرح گھورنا نہ صرف انہیں حیرت زدہ کر گیا تھا بلکہ اس کے ساتھ آئے دیگر محکمہ تعلیم کے عہدے دار بھی آنکھوں میں سوال سمیٹے ہوئے تھے۔ یہ ڈسٹرکٹ ایجوکشن آفیسر نیا نیا تعینات ہوا تھا۔ اس کے آتے ہی محکمے میں ہلچل سی مچ گئی تھی۔ تعلیمی دفاتر کی کڑی نگرانی ہونے لگ تھی۔ وہ خود دفاتر کی پڑتال کے لیے چھاپے مار رہا تھ ا۔ ضلع کے محکمہ تعلیم کی کارکردگی اچانک ہی بہت بہتر ہو گئی تھی۔ آج بھی وہ نظریں ا س دفتر میں اس غرض سے آیا تھا کہ اور اب مبشر رضا کے چہرے پر نظریں جمائے کھڑا تھا۔ یہ چہرہ… اسے بہت کچھ یاد دلا رہا تھا۔ یہ وہ چہرہ تھا جسے وہ ہزاروں میں سے بھی پہچان سکتا تھا۔ اور کبھی بھی اپنی یادوں سے اسے کھرچ نہیں سکتا تھا۔ وہ ماضی کی بھول بھلیوں میں کھونے لگا گزری یادیں اچانک ہی اس پر یلغار کرنے لگی تھیں اور وہ ان میں گھرتا جا رہا تھا ڈوبتا جا رہا تھا۔
تفریح کی گھنٹی بجتے ہی ساری کلاسوں میں ہلچل سی مچ گئی تھی۔ مسلم ہائی سکول کے طلباء اچھلتے کودتے کلاسوں سے باہر آنے لگے تھے۔ ہر لڑکا پہلے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایسی افراتفری میں کسی کو گرنا کیا مشکل ہے۔ دسویں جماعت کے لیے ایک لڑکے نے دروازے میں دوسرے کو ٹانگ سے اڑنگا لگایا تو وہ زمین پر گر کر دو لڑھکنیاں کھا گیا۔ اس کا یونیفارم مٹی سے بھر گیا پیچھے سے ایک قہقہہ پڑا۔
واہ بھئی کتنا پیار ہے تنویر کو اپنے وطن سے۔ اس کی مٹی کو چوم رہا ہے۔
ہاں جی لائق طالب علم تو ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ وطن کی محبت تو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ایک اور طنزیہ جملہ سنائی دیا اورساتھ ہی بے ہودہ قہقہہ بھی پڑا۔ زمین پر گرے تنویر نے مڑ کر دیکھا تو دانت پیس کر رہ گیا۔ یہ مبشر اوراس کے ساتھی تھے۔ ان کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔ تنویر کا دماغ گھوم رہا تھا مارے غصے کے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ مگر اسے اپنے جذبات پر قابو پانا آتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ان کی شرارت کا جواب لڑائی نہیں۔
دیکھ لوں گا میں تمہیں۔ اس نے نفرت سیکہا اور کپڑے جھاڑتا ہوا آگے بڑ ھ گیا۔
ارے ارے ابھی دیکھ لو ن۔ آج تو ہم تمہارے لیے بن سنور کر آئے ہیں۔
مبشر نے زور سیکہا مگر تنویر نے سنی ان سنی کر دی۔
یہ اس طرح کا پہلا واقع نہیں تھا۔ مبشر تو اس وقت سے تنویر کا دشمن بنا ہوا تھا۔ جب وہ دسویں جماعت میں داخل ہو ا تھا۔ مبشر اکھڑا اور نالائق طالب علم کے طور پر مشہور تھا۔ اس کے گرو پ کے باعث سارے لڑکے اس سے کنی کتراتے تھے۔ ادھر کسی لڑکے نے اس کا منہ لگایا اور ادھر اس بیچارے کی پٹائی ہوئی کئی مرتبہ پرنسپل کے سامنے اس کی حاضری ہوئی۔ سزا ملی اور سکول سے نکالے جانے کی دھمکی دی گئی۔ مگر اس پر ذرہ برابر اثر نہ ہوا۔ ایسے معاملات میں مبشر کے والد کو ایک فون ہی کافی ہوتا تھا۔ وہ اثر و رسوخ اور دولت والا تھا۔ اور اپنی اس طاقت کو بیٹے کو بگاڑنے کے لیے صرف کر رہا تھا۔ وہ بے خبر تھا کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے قیمتی سرمایہ کو تباہ کر رہا ہے۔
تنویر وہ واحد لڑکا تھا جو مبشر کی کسی دھونس میں نہ آتا تھا۔ وہ اپنے کام سیکام رکھنے والا محنتی لڑکا تھا۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ اور اپنے والدین کا واحد چشم و چراغ تھا۔ جس کے مستقبل کے لیے وہ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اسے اعلیٰ سکول میں تعلیم دلوا رہے تھے۔ وہ اساتذہ کی دل سے عزت کرتا تھا۔ شروع شروع میں مبشر نے اس پر رعب جمانے کی کوشش کی تو اس نے اپنے طرز عمل سے بتا دیا کہ وہ جھوٹے رعب میں آنے والا نہیں جب مبشر کو اپنی ہر حرکت کا منہ توڑ جواب ملا۔ تو وہ جھنجھلا گیا اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا۔ وہ ہر لمحہ اسے نقصان پہنچانے کے درپے ہو گیا۔ تنویر کی دیکھا دیکھی باقی لڑکے بھی اسے آنکھیں دکھانے گے تو اسے احساس ہوا کہ اس کی داد ا گیری تنویر کے ہوتے ہوئے نہیں چل سکتی۔
ایک ماہ بعد سکول میں کھیلوں کے سالانہ مقابلے شروع ہو رہے تھے۔ مبشر اگرچہ اچھا طالب علم نہ تھا۔ مگر وہ فٹ بال کا عمدہ کھلاڑی ضرور تھا۔ اس خاصیت کی بنا پر اسے فٹ بال ٹیم کا کپتان مقرر کر دیا گیا تھا۔ اس کی سرکردگی میں سکول ٹیم بہت سے ٹورنامنٹ جیت چکی تھی۔ جب ٹیم کے انتخاب کے لیے لڑکوں کے ٹرائلز شروع ہوئے تو تنویر نے بھی ان میں حصہ لیا۔ تب یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ اچھا طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین کھلاڑی بھی ہے۔ اس کے کھیل کے سامنے دوسرے کی چمک ماند پڑ گئی ہے۔ کپتان ہونے کے ناطے مبشر لڑکوں کے ٹرائلز لے رہا تھا۔ جب تنویر نے اس پر بھی گول کیے تو مبشر کو خطرے کی گھنٹی بجتی ہوئی محسوس ہوئی۔ آج تک سکول میں اس کا کوئی بھی مقابل پیدا نہ ہوا تھا۔ تنویر کے کھیل نے اس کی آنکھیں کھول دی تھیں ۔ فٹ بال ٹیم کے انچارج سر ریاض کو فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ مبشر کو کپتان رکھا جائے یا تنویر کو ٹیم کی سربراہی دی جائے۔ تنویر نے اگرچہ مبشر سے عمدہ کارکردگی دکھائی تھی۔ مگر مبشر کو بھی یوں فوراً نظر انداز کر دینا غلط ہوتا۔ کیونکہ گزشتہ سالوں میں ٹیم کی کامیابیوں کا سبب وہی تھا۔ تاہم یہ تو قانون قدرت ہے کہ برتر مقام کا بہتر کا ہونا ہے۔ چنانچہ سر ریاض کو بھی فیصلہ کرنا تھا اور جلد کرنا تھا۔
آخر سر ریاض کو ایک ترکیب سوجھی۔ انہوں نے تنویر اور مبشر کو اجازت دی کہ وہ لڑکوں میں سے اپنی اپنی ٹیم کا انتخاب کریں۔ دو روز بعد دونوں ٹیموں کا مقابلہ ہو گا۔ اور جیتنے والی ٹیم کا کپتان سکول ٹیم کا کپتان ہو گا۔ اس اعلان سے سکول میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ تنویر اور مبشر مقابلے کے لیے ہمہ تن مصروف ہو گئے۔
مبشر نے اپنی ٹیم میں اپنے گروپ کے لڑکے شامل کر لیے تھے۔ گویا اب یہ میچ نیکی بدی کے مقابلے کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔
آخر مقابلے کا دن آن پہنچا۔ دونوں ٹیمیں میدان میں آمنے سامنے ہوئیں اور ایک جاندار کھیل کا آغاز ہو گیا دونوں ٹیموں کے حامیوں کے نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔ آخر مبشر کی ٹیم پہلا گول کر نے میں کامیاب ہو گئی س کے ساتھیوں نے ایسا غل مچایا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ پہلے ہاف کے اختتام پر مبشر کی ٹیم کی یہ برتری قائم رہی مبشر کی گردن اکڑی ہوئی تھی۔ اس نے تنویر کے قریب سے گزرتے ہوئے جملہ کسا۔
منے میاں ! ٹرائلز والے دن تو میں تیار نہیں تھا۔ آج تمہاری مہارت کا پول کھولتا ہوں۔
لیکن تنویر مایوس نہیں تھا۔ ابھی میچ باقی تھا۔ اس نے اپنی ٹیم کو نئی ہدایات دیں اور مبشر کی ٹیم کے کھیل کو دیکھتے ہوئے نئی حکمت عملی بنائی۔
کھیل دوبارہ شروع ہوا تو تنویر کی ٹیم شروع ہی سے حاوی رہی۔ جب وہ یکے بعد دیگرے دو گول کرنے میں کامیاب ہوئے تو میدان کا نقشہ ہ تبدیل ہو گیا۔ مبشر کے حامیوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا اب میدان تنویر کے ساتھیوں کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ مبشر کی ٹیم نے برتری ختم کرنے کی پوری کوشش کی مگر تنویر کی ٹیم حاوی رہی۔ کھیل کے آخری لمحات میں مبشر گیند کو لے کر آگے بڑھ رہا تھا کہ تنویر اس سے گیند چھیننے کے لیے آگے بڑھا۔ دونوں کے پاؤں الجھے اور مبشر زمین پر لڑھکنیاں کھاتا ہوا کئی فٹ دور جا گرا۔ تنویر جلدی سیاس کی جانب بڑھا۔ مبشر نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو تنویر کا دماغ گھوم گیا۔ اس کا منہ خون سے بھرا ہوا تھا۔ گرتے وقت اس کا منہ زمین سے ٹکرایا تھا۔ اس کا اوپری ہونٹ پھٹ گی تھا اور بھل بھل نکلتا ہوا خون اس کے چہرے کو تر کر رہا تھا۔ مبشر نے اپنا ہاتھ منہ پر لگا کر دیکھا تو وہ خون سے لتھڑ گیا۔ مبشر کا دماغ غصے سے پھٹنے لگا۔ ایک تو وہ شکست کی جھنجھلاہٹ اوپر سے چوٹ اور وہ بھی تنویر کے ہاتھ سے… وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے تنویر کا گریبان پکڑ کر جھٹکا دیا۔
تمہاری یہ ہمت کہ مجھ پر ہاتھ اٹھاؤ۔ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ ریفری اور دوسرے لڑکوں نے بڑی مشکل سے ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا۔ اس نے مبشر کی جارحیت کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ کیونکہ وہ اس کے غصے کی اصل وجہ جانتا تھا۔ مبشر کو چند لڑکوں نے قابو کر رکھا تھا وہ بار بار خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں سے خون اور منہ سے انتقام کے شعلے نکل رہے تھے۔
مزا ضرور چکھاؤں گا تمہیں۔ چھوڑوں گا نہیں۔ تم نے جان بوجھ کر مجھے گرایا ہے۔ دیکھنا میں تمہارا کیا حشر کرتا ہوں۔
تاہم تنویر کی ٹیم جیت چکی تھی اور اس تلخ واقعے کے باوجود وہ خوش تھا کہ بالآخر اپنی محنت سے اس نے اپنی صلاحیت منو ا لی تھی۔
میچ ختم ہو چکا تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کھیل کو کھیل رہنے دیا جاتا اوراس دوران ہونے والے کسی بات کا دوبارہ ذکر نہ کیا جاتا۔ مگر مبشر … وہ تو چوٹ کی آڑ میں اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا اس نے اپنے گروپ کو بھی اس کام پر آمادہ کیا تھا وہ سب میچ کے بعد اپنا لباس تبدیل کر کے سکول کے باہر آ گئے اور سکول سے چند قدم کے فاصلے پر ایک گلی میں چھپ کر کھڑے ہو گئے جہاں سے تنویر گزرا کرتا تھا۔ تنویر جس وقت سکول سے باہر نکلا اس وقت تک تقریباً تمام لڑکے گھروں کو جا چکے تھے۔ میچ کے بعد اس نے سر ریاض سے ٹیم کی پریکٹس کے متعلق گفتگو کی تھی۔ اور اب فارغ ہونے کے بعد گھر جا رہا تھا۔ آسمان پر اچانک ہی بادل امڈ آئے تھے سورج نے اپنا منہ چھپا لیا تھا۔ اور اندھیرا سا چھا گیا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے اس کا موڈ خوشگوار بنا دیا تھا۔ اور وہ گنگنا تا ہوا گلی کا موڑ مڑا تو چند قدم چلنے کے بعد رک گیا اس کی چھٹی حس نے کسی خطرے کا واضح اعلان کر دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتااسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کی گردن کسی شکنجے میں جکڑی گئی ہو۔ حملہ آور نے پوری قوت سے اس کی گردن کو بازوؤں میں کس لیا تھا۔ تنویر نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کوشش کر کے اپنے آپ کو چھڑا لیا اوراس کے ساتھ ہی اس نے پیچھے گھومتے ہوئے اپنی ٹانگ سے حملہ آور کو کک لگائی اس کا شکار مبشر بنا۔ اس کے حلق سے نکلنے والی چیخ نہایت ہی بھیانک تھی۔ تنویر کا سپورٹس بوٹ اس کے اسی ہونٹ پر لگا تھا جو پہلے سے زخمی تھا۔ پہلے ہی خدا خدا کر کے خون رکا تھا۔ اب زخم پہلے سے بھی گہرا ہو گیا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے اس کا جبڑا ہی پھاڑ دیا ہو۔ خون فوارے کی طرح ابل رہا تھا۔ وہ چیختے ہوئے ہوئے منہ تھام کر زمین پر لوٹ پوٹ ہو گیا۔ کم از کم اب وہ لڑائی کے قابل نہیں رہا تھا یہ حال دیکھ کر اس کے ساتھی اپنی جگہوں پر جم کر رہ گئی۔
مم …مارو ہڈیاں توڑ دو اس کمینے کی
مبشر پوری قوت سے چلایا تو جیسے انہیں ہوش آ گیا وہ تعداد میں چار تھے۔ وہ تنویر پر پل پڑے۔ جب تک بازوؤں میں دم تھا۔ اس نے انہیں روکے رکھا۔ مگر وہ تعداد میں زیادہ تھے اور تھکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ انہوں نے اسے مار مار کر نیم بے ہوش کر دیا جانے کتنی دیر وہ یوں ہی زمین پر پڑا رہا۔ بارش بھی شروع ہو گئی تھی۔ بادل زور زور سے گرج رہے تھے۔ اس کے ماتھے کی کھال پھٹ گئی تھی۔ اور خون نکل نکل کر زمین پر جمع ہو گیا تھا۔ مبشر اور اس کے بدمعاش ساتھی جا چکے تھے۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور جیسے تیسے کر کے گھر پہنچا اس کی حالت دیکھ کر گھر میں کھلبلی مچ گئی۔ مگراس نے چھوٹے موٹے حادثے کا بہانہ بنا لیا۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ مبشر نے آج تمام حدیں پھلانگ لی تھیں۔ تنویر کے دل میں لاوا ابل رہا تھا تنویر نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس زیادتی کا انتقام ضرور لے گا۔ مبشر کو بھی یوں ہی سسکنے پر مجبور کرے گا۔ جیسے وہ اس وقت در د سے سسک رہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ پہلے سکول کے پرنسپل صاحب کے سامنے مبشر کی شکایت کرے گا گر انہوں نے ایکشن نہ لیا تو پھر وہ اپنا بدلہ خود لے گا۔ وہ ابھی پورے ہفتے تک سکول جانے کے قابل نہ تھا۔ مگر تیسرے روز ہی ایک لڑکا اس کے گھر پہنچا اور سے پیغام دیا کہ پرنسپل صاحب اسے بل رہے ہیں۔ تنویر نے سوچا کہ چلو اچھا ہوا پرنسپل صاحب کو خود ہی واقعہ کی اطلاع مل گئی یقیناً اس کی حالت دیکھنے کے بعد وہ مبشر کو آڑے ہاتھوں لیں گے۔ وہ پرنسپل کے دفتر میں داخل ہوا تو اندر کا منظر دیکھ کر اسے کسی گڑبڑ کا احساس ہو گیا۔
پرنسپل کی کرسی کے سامنے مبشر اپنے والد کے ساتھ بیٹھا تھا۔ مبشر کا منہ پٹیوں سے جکڑا ہوا تھا۔ ایک طرف صوفوں پر مبشر کے چاروں ساتھی بھی بیٹھے تھے۔
تنویر! مجھے تم جیسے لڑکے سے اس حرکت کی توقع نہ تھی۔ پرنسل صاحب نے گرج کر بات کی ابتدا کی اور ان کی آواز میں غصہ تھا۔ تنویر سمجھ چکا تھا کہ مبشر کا باپ اپنا کام کر چکا ہے۔
مبشر شرارتی سہی مگر اس پر اس طرح کے مجرمانہ حملے کا تمہیں کوئی حق نہیں تھا اگر تمہارا مارا ہوا پتھر اس کے سر پر لگتا تو کچھ اور بھی ہو سکتا تھا پرنسپل صاحب کا غصہ انتہا کو چھو رہا تھا۔
مم …مگر سر میری بات تو سنیں تنویر نے التجا کی۔
میں تمہاری کوئی بات سننے کا روادار نہیں۔ یہ تو شکر کرو کہ مبشر کے والد ایک شریف آدمی ہیں۔ اگر تمہیں پولیس کے حوالے کر دیتے تو سزابھگتتے رہتے۔
سر یقین جانیں میں بے قصور ہوں۔ تنویر کا لہجہ رو دینے والا تھا کھلی آنکھوں پر پٹی نہ باندھو۔ تمہارا قصور سامنے نظر آ رہا ہے تم نے مبشر کو پتھر مارا ہے۔ جس سے اس کے منہ پر شدید چوٹ آئی ہے۔ اور باقاعدہ ٹانکے لگے ہیں۔ تمہارے قصور کی گواہی ان چاروں نے بھی دی ہے۔ اب می تمہارے ساتھ یہی رعایت کر سکتا ہوں کہ تمہیں سزا دیے بغیر سکول سے نکال دوں۔ یہ رہا تمہارا سرٹیفکیٹ پرنسپل صاحب کا آخری جملہ سن کر تنویر کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے ملتجی نظروں سے مبشر کے باپ کو دیکھا مگر اس نے منہ پھیر لیا۔ تنویر نے اپنا سرٹیفکیٹ اٹھایا اور بوجھل قدموں سے چل دیا۔ مبشر کے ہونٹوں پر طنزیہ اور فاتحانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ تنویر اس کے قریب سے گزرا تووہ سرگوشی میں بولا۔
کیوں منے آج تو تمہیں پتا چل گیا نا کہ تم واقعہ جھوٹے ہو۔ یہ الفاظ سیسے کی طرح تنویر کے کانوں میں اتر گئے۔ نفرت اور انتقام کی ایک لہر اٹھی اور اس کے پورے وجود میں سرایت کر گئی۔
یاد رکھنا وقت ضرور پلٹے گا۔ اور پھر تم اپنا حشر دیکھنا۔ تنویر نے زہر خند لہجے میں کہا اور دفتر سے نکل گیا مبشر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی مزید گہری ہو گئی تھی۔
اور آج وہی مبشر رجا سر جھکائے کھڑا تھا۔ وقت واقعی پلٹ گیا تھا۔ تنویر اس کا حاکم بنا اس کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے باپ کا اثر و رسوخ اور اس کی دولت کچھ بھی تو اس کے کام نہ آیا تھا۔ جیت تو محنت کی ہوئی تھی۔
مسلم ہائی سکول سے نکلنے کے بعد اس نے ایک اور سکول میں داخلہ لے لیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ا س کے ماں باپ کی واحد آس وہ ہے اس نے محنت جاری رکھی اور آخر کار اپنی منزل پانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے والدین کی آنکھوں میں سجے خواب تعبیر بن کر چمکنے لگے تھے۔ اور دوسری طرف قدرت نے مبشر رضا کو بتا دیا تھا کہ برائی کا بدلہ تباہی ہے۔
اس کی زندگی میں اس وقت بھونچال آیا جب اس کے باپ کو بدعنوانی کے جرم میں حکومت نے دھر لیا۔ اس سے وہ سب کچھ چھین لیا جو وہ اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہو کر لوٹتا رہا تھا مبشر کی اڑانیں دم توڑ گئیں سب آوارگی دھری کی دھری رہ گئی کام چوری کرنے کی عادت نے سا کا مستقبل تاریک کر دیا اور وہ بمشکل کلرک کی نوکری حاصل کر سکا۔ اس نے زندگی کو مذاق سمجھا تھا مگر زندگی نے اسے مذاق بنا دیا تھا۔ آج وہ بری طرح پھنس گیا تھا۔ اس کے ظلم کا نشانہ بننے والا آج اس کے سامن تھا اور با اختیار تھا۔ اس ے منہ سے نکلنے والے چند الفاظ مبشر کی بقیہ زندگی میں کانٹے بچھا سکتے تھے۔ مبشر نے تنویر کے دل میں انتقام کا جو شعلہ روشن کیا تھا آج برسوں بعد ایک بار پھر پوری شدت سے روشن ہو گیا تھا۔ اب وقت نے لاٹھی تنویر کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ وہ مبشر سے ایک ایک زیادتی کا بدلہ لے سکتا تھا۔
تنویر آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور کھڑا ہو گیا۔ وہ چند لمحے زمین پر نظریں ٹکائے کھڑا رہا۔ جیسے کچھ سوچ رہا ہو پھراس نے یکدم سر اٹھایا تو مبشر کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا وہ سمجھ گیا کہ فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے تنویر کا چہرہ یہی بتا رہا تھا۔
قارئین ایک منٹ ذرا ٹھہریے۔ ایک لمحے کے لیے آپ تنویر کی جگہ لے لیجے۔ اب فیصلے کا قلم آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اپنے ضمیر کے مطابق مبشر کے متعلق فیصلہ کیجیے۔ وہ آپ کا مجرم ہے۔ اس سے جو چاہے سلوک کریں۔ مگر اپنے فیصلے سے ہمیں ضرور آگاہ کریں۔ ہم آپ کو بتائیں گے کہ آپ کتنے اچھے ہیں۔
٭٭٭
ونکا چاکلیٹ فیکٹری
عاطف پیٹر
بہت سال پہلے کی بات ہے کہ کسی شہر میں چارلی نامی ایک لڑکا رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے والدین کے علاوہ دادا دادی نانا نانی بھی رہتے تھے۔ یہ سات لوگوں پر مشتمل گھرانہ بہت غریب تھا۔ ان سب کو کما کر کھلانے والے چارلی کے والد تھے۔ اور ان کی تنخواہ ان سات لوگوں کے لیے کافی نہ تھی۔ چارلی کے والد ایک فیکٹری میں معمولی سے ملازم تھے لیکن ان تمام حالات کے باوجود ان کی خواہش تھی کہ چارلی بھی تعلیم حاصل کرے۔ وہ چاہتے تھے کہ چارلی کا مستقبل بہت روشن ہے۔ اس لیے انہوں نے چارلی کو ایک مناسب سکول میں داخل کرا دیا تھا۔ اپنے والدین کے ساتھ ساتھ چار بزرگ والدین کا بھی بہت لاڈلا تھا۔ چارلی بہت ہی نیک اور سمجھدار لڑکا تھا۔ وہ اپنے سکول کے تمام بچوں سے الگ الگ سا رہتا تھا۔ کیونکہ باقی زیادہ تر بچے یا تو امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے یا پھر درمیانے درجے سے لیکن تمام بچے کسی نہ کسی طرح سے اپنے والدین کی دولت کا دکھاوا کرتے تھے جبکہ چارلی کے گھرانے میں غریبی کا یہ عالم تھا کہ اکثر ایک ایک یا دو دو دن تک انہیں کھانے کے بغیر ہی سونا پڑتا تھا۔ ان فاقوں کا سب سے برا اثر چارلی کی صحت پر ہو رہا تھا کیونکہ اسے مناسب اور متوازن خوراک کی ضرورت تھی۔ ان تمام حالات کے باوجود یہ لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔ اور ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اپن طریقے سے مناتے تھے۔ چارلی کی زندگی میں اس کے والدین بزرگ اور والدین سے محبت کے علاوہ ایک اور چیز بھی تھی جو چارلی کو بہت پسند تھی۔
وہ چیز چاکلیٹ تھی یہ چاکلیٹ چارلی کو سال میں صرف ایک بار ملتی تھی اور وہ بھی اس کی سالگرہ کے دن۔ چارلی سارا سال اس چاکلیٹ کا انتظار کرتا تھا وہ ایک بہت خاص اور مہنگی چاکلیٹ تھی۔ ہر کسی کی پسندیدہ چاکلیٹ وہی تھی۔ اس جیسی چاکلیٹ کسی دوسری فیکٹری نے نہیں بنائی تھی۔ اس فیکٹری کا مالک بھی اپنی نیک دلی اور بلند شخصیت کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہ ہمیشہ نئے نئے طریقوں سے چاکلیٹ کی نئی نئی قسمیں بناتا تھا اور پوری دنیا میں ہر ملک میں بھجوایا کرتا تھا۔
لوگ اس فیکٹری کے مالک کے بارے میں یہ بھی سوچتے تھے کہ وہ کوئی جادوگر ہے اور جادوگر سے اتنی مزے دار چاکلیٹ بناتا ہے۔ فیکٹری پوری دنیا میں ونکا چاکلیٹ فیکٹری کے نام سے مشہور تھی۔ فیکٹری کے مالک کا نام ونکا تھا۔ چارلی نے ونکا کو کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن اپنے دادا سے اس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ چارلی کے خیال میں وہ کوئی عام انسان نہیں تھے۔ چارلی کے سکول کے راستے میں ونکا چاکلیٹ فیکٹری آتی تھی۔ چارلی ہمیشہ سکول جاتے اور آتے وقت فیکٹری کے سامنے کچھ دیر کھڑا ہو کر چاکلیٹ پگھلنے کی خوشبو ہوا میں پھیلی ہوتی تھی اور اسے محسوس ہوتا اور خوش ہو جاتا۔
دن اسی طرح گزرتے گئے چارلی کی سالگرہ کا دن آ گیا اسے سالگرہ کے موقع پر وہی چاکلیٹ تحفے کے طور پر ملی چارلی کچھ دیر تک اس چاکلیٹ کو ہاتھ میں پکڑ کر خوش رہا۔ چارلی نے وہ چاکلیٹ تھوڑی سی کھا کر ختم کی اس کا بس چلتا تو وہ چاکلیٹ کبھی ختم نہ ہوتی۔ لیکن اب اسے اگلے سال کا انتظار تھا۔ پھر سردیاں شروع ہو گئی اور آخر برف باری شروع ہو گئی۔ چارلی کو سردیاں بہت پسند تھیں۔ خاص طور پر برف باری۔ ایک دن کسی مشہور اخبار میں یہ خبر چھپ کہ ونکا چاکلیٹ فیکٹری کے مالک نے چار ایسے گولڈن ٹکٹ بنائے ہیں جو کسی بھی ونکا چاکلیٹ کے اندر موجود ہیں۔ وہ چار چاکلیٹ دنیا میں کہیں بھی ہو سکتی ہیں۔ جس کے اندر وہ گولڈن ٹکٹ چھپے ہوئے ہیں۔ اور جن چار بچوں کو وہ گولڈن ٹکٹ مل جائیں گے۔ وہ ونکا فیکٹری کا دورہ کرسکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ سا تھ بچے کے والدین کو بھی ونکا چاکلیٹ فیکٹری آنے کی دعوت تھی۔ یہ ہی نہیں ہر بچے کو جن کے پا س وہ گولڈن ٹکٹ ہوں گے انہیں ان کی ساری زندگی کے لیے ونکا چاکلیٹ بھیجی جائیں گی
اس خبر کے چھپتے ہی سارے بچے اور بڑے اسی کوشش میں لگ گئے کہ وہ گولڈن ٹکٹ انہیں مل جائے۔ ادھر جب یہ خبر چارلی کو ملی تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی ٹکٹ اسے بھی مل سکتا ہے۔ کیونکہ اس کے لیے تو بہت زیادہ تعداد میں چاکلیٹ چاہیے تھی۔ جبکہ چارلی تو ایک ہی چاکلیٹ سال میں حاصل کرتا تھا۔
ونکا فیکٹری کو اندر سے دیکھنے کی خواہش تقریباً سبھی لوگوں کو تھی دن گزرتے گئے ایک دن اخبار میں ایک گولڈن ٹکٹ حاصل کرنے والے بچے کی تصویر چھپی۔ اس کے بارے میں لکھا ہوا تھا کہ اس نے بڑی تعداد میں چاکلیٹ کھائی ہیں اور گولڈن ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ لڑکا بہت ہی زیادہ موٹا تھا۔ انہی دنوں ایک اور بچی کی تصویر اخبار میں چھپی اس کے بارے میں یہ لکھا ہوا تھا کہ اس نے دوسرا گولڈن ٹکٹ حاصل کر لیا ہے۔ یہ بچی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اور ضدی بھی بہت تھی۔ اسی ضد کی وجہ سے دوسرا گولڈن ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی چارلی سوچتا رہا کہ کاش کوئی معجزہ ہو جائے اوراسے بھی گولڈن ٹکٹ مل جائے چار پانچ ہفتوں بعدتیسرے بچے کی تصویر اخبار میں چھپی اور اس کے بارے میں لکھا ہوا تھا کہ اس بچے کو دو ہی شوق ہیں ایک بندوق کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا اوردوسرا ونکا چاکلیٹ کھانا۔ اس نے تیسرا گولڈن ٹکٹ حاصل کیا تھا۔ اب ایک ہی ٹکٹ رہ گیا تھا اور ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ آخری ٹکٹ اسے مل جائے۔ اس کوشش میں پورا سال گزر گیا کسی کو آخری ٹکٹ نہ مل سکا۔ پھر وہ دن آیا کہ جب چارلی کو وہ پسندیدہ چاکلیٹ ملنی تھی چارلی بہت خوش تھا۔ اس نے بہت سی امیدوں کے ساتھ چاکلیٹ کا کاغذ کھولا کہ شاید اس کی قسمت میں وہ آخری ٹکٹ ہو۔ لیکن اس کی قسمت میں مزے دار چاکلیٹ کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ وہ پھر بھی خوش تھا کیونکہ اسے اس کی پسندیدہ چاکلیٹ جو مل گئی تھی۔ آخر چارلی سب کچھ بھول گیا اور اسی طرح ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ تمام لوگ ٹکٹ کو حاصل کرنے کا خواب بھولنے لگے لیکن کہیں نہ کہیں آخری گولڈن ٹکٹ تو تھا ضرور۔
سردیاں شروع ہو چکی تھیں اورسرد ہوائیں سردی بڑھا دیتی تھیں۔ ایک دن چارلی سکول سے واپس آ رہا تھا سرد ہوا چارلی کے چہرے پر سوئیوں کی طرح چبھ رہی تھیں۔ اچانک اس کی نظر برف میں کسی چیز پر پڑی۔ اس نے غور کیا تو وہ ایک سکہ تھا۔ چارلی نے سکہ برف سے نکالا سکہ ہاتھ میں پکڑے وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا۔ اس نے اس سکے سے چاکلیٹ خریدنے کا سوچااور دکان پہنچ گیا۔ اس نے پہلے ایک ہی چاکلیٹ خریدی اور وہیں کھڑے کھڑے کاغذ اتارنے لگا لیکن اس میں کچھ نہ پایا۔ آخر وہ مایوس ہو گیا اور گھر جانے ہی لگا تھا کہ اس نے دوسری چاکلیٹ خریدنے کا فیصلہ کیا۔
جب اس نے دوسری چاکلیٹ خرید لی تو بہت امیدوں کے ساتھ اس کا کاغذ کھولا لیکن اس کے اندر کچھ نہ پایا اور کاغذ مایوسی کے عالم میں نیچے پھینک دیا۔ جیسے ہی اس نے کاغذ نیچے پھینکا۔ کوئی چیز الگ سے گری۔ غور کرنے پر پتا چلا کہ چارلی آخری گولڈن ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے چارلی کو اپنی قسمت پر یقین نہیں ا ٓ رہا تھا۔ اگلے دن چارلی اور اس کے گھر والوں کی تصویر اخبار میں چھپی اوراس کی ساری کہانی بھی کہ کس طرح چارلی نے آخری ٹکٹ حاصل کیا۔ آخر چاروں بچوں اور اس کے والدین مشہور فیکٹری کا دورہ کر سکتے تھے۔ چارلی کے والدین کااس کے ساتھ جانا بہت مشکل تھا۔ کیونکہ اس کے والد ملازمت پر تھے اور چھٹی نہیں لے سکتے تھے۔ چارلی کی والدہ چار بزرگ والدین کا خیال رکھتی تھیں ۔ آخر میں چارلی کے دادا نے اس کے ساتھ چلنے پر رضامندی ظاہر کی۔ کیونکہ اس کے دادا کو بھی فیکٹری دیکھنے کا بہت شوق تھا۔
اس دن فیکٹری کے سامنے تقریباً سارا شہر جمع تھا۔ تمام خوش قسمت بچوں اور ان کے والدین کو اندر جاتے دیکھنے کے لیے۔ اس دن تمام جیتنے والے بچوں کو ان کے والدین کو ملا کر کل گیارہ لوگ فیکٹری کے اندر جانے والے تھے۔ فیکٹری کا دروازہ کھلتے ہی سامنے ایک مہذب اور بری عمر کا شخص کھڑا نظر آیا۔ یہ فیکٹری کے مالک جناب ونکا تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنا تعارف کرایا اور ساتھ ساتھ بچوں سے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ انہیں ونکا انکل کہ سکتے ہیں۔ یہ سب کرنے کے بعد انہوں نے کچھ نصیحتیں بچوں اور ان کے والدین کو کیں کہ وہ خود سے کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں ورنہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ جب سب کچھ سمجھا چکے تو انہوں نے پہلے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کمرے کی طرف چلتے ہیں۔
پہلے کمرے میں چاکلیٹ کے لیے بڑے بڑے شیشے کے مضبوط پائپ تھے مشینیں چل رہی تھیں۔ لیکن کوئی ملازم نظر نہیں آ رہا تھا۔ اچانک موٹے بچے کی نظر ننھے ننھے بونوں پر پڑی جن کے بال سنہرے تھے۔ یہ راز ونکا فیکٹری کا سب سے بڑا راز تھا جو تقریباً کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ فیکٹری کو چلانے کے لیے ونکا انکل کو کچھ خاص قسم کے لوگوں کی ضرورت تھی جو ہر وقت فیکٹری میں ہی رہیں۔ اور وہی کام کریں۔ وہ انسان نہیں ہو سکتے تھے۔ کیونکہ انسان ضرورت پڑنے پر فیکٹری چھوڑ دیتے ہیں یا بیمار ہو جاتے ہیں یا کسی اور وجہ سے تو اس مسئلے کے حل کے لیے ونکا انکل نے بہت کچھ آزمایا۔ ایک دن یوں ہی جنگل میں سے گزرتے ہوئے انہیں کچھ آوازیں سنائی دیں۔ ونکا انکل نے کہا کہ میں نے قریب جا کر دیکھا تو درخت کے تنوں پر بہت ہی خوبصورت اور چھوٹے چھوٹے گھر بنے ہوئے تھے۔ میں نے ایک گھرکا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے اس ننھی مخلوق کا سردار نکلا۔ ہم دونو ں نے ایک دوسرے کے طرز زندگی معلوم کی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی خوراک کوکو بیج ہیں۔ یہ سنتے ہی میں حیران ہو گیا کیونکہ یہ وہی بیج ہیں جن کی مدد سے چاکلیٹ بنتی ہے۔ پھر سارا معاملہ طے کرنے کے بعد یہ ننھے بونے میری فیکٹری میں کام کرنے پر راضی ہو گئے اوراس کے بدلے میں ان کو ان کی خوراک یعنی کوکو بیج اور زندگی کی تمام سہولتیں حاصل ہیں۔ سارا کام بہت خوشی سے کرتے ہیں اور اس کا ثبوت ان کا ہر وقت خوشی سے گاتے رہنا ہے سارا دن فیکٹری میں ان کے گانوں سے میں خوش رہتا ہوں۔
جب یہ ساری باتیں ہو رہی تھیں تو اس موٹے بچے نے ایک شیشے کے پائپ کے اندر ہاتھ ڈالا اور جیسے ہی اس نے ہاتھ اندر ڈالا وہ خود بھی اس کے اندر چلا گیا۔ پائپ کے اندر تیز ہوا نے اسے اندر کھینچ لیا تھا چونکہ وہ کافی موٹا تھا اس لیے نہ تو وہ آگے جا سکتا تھا اور نہ ہی واپس مڑسکتا تھا۔ اس کے والد اس کے نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے لگے۔ ونکا انکل نے اس کے والدین سے کہا کہ آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔ آپ کا بیٹا پائپ سے نکل آئے گا۔ آپ لو گ میرے ساتھ دوسرے کمرے میں چلیں تو انہوں نے انکار کر تے ہوئے کہا کہ ہم اپنے بیٹے کے ساتھ ہی آئیں گے۔
ونکا انکل نے کہا آپ کے بیٹے نے غلطی کی ہے۔ میں نے منع کیا تھا کہ کسی چیز کو ہاتھ مت لگانا لیکن کوئی بات نہیں میرے بونے اسے باہر نکال دیں گے اور یہ کہہ کر وہ آٹھ لوگوں کے ساتھ دوسرے کمرے میں داخل ہو گئے کیونکہ ایک ہی دن تھا۔ دوسرے کمرے میں داخل ہوتے ہی سب لوگوں کو گانے کی آوازیں سنائی دیں۔ غور کرنے پر پتہ چلا کہ یہ سریلی آوازیں ان بونوں کی ہیں ننھے بونوں کو گاتے دیکھ کر اس ضدی بچی نے ضد کرنا شروع کر دی کہ اسے بھی وہ ننھے بونے اپنے کمرے کے لیے چاہئیں۔ اس نے کہا کہ میں ان کے ساتھ کھیلا کروں گی۔ وقتی طور پر اس کے والدین نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کی ضد کو پورا کرنا ناممکن تھا۔ اس کمرے میں چاکلیٹ کے بڑ ے بڑے ٹب پڑے ہوئے تھے۔ جن میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ اور ساری چاکلیٹ پگھلی ہوئی تھی۔ وہ ننھے بونے چاکلیٹ کو پگھلا رہے تھے۔ ان بونوں کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر وہ بچی زیادہ ضد کرنے لگی۔ کہ دو یا تین بونے اس کے ہاتھ میں رکھ دیے جائیں اورؤاس کے بعد ہی وہ باقی فیکٹری کا دورہ کرے گی۔ لیکن ونکا انکل نے انکار کر دیا۔ کیونکہ اس ضدی اور بدتمیز لڑکی کے ساتھ خود ہی نہیں جانا چاہتے تھے۔
لڑکی نے بدتمیزی کی اور زبردستی دو بونوں کو پکڑ لیا۔ لیکن بونوں نے اس کے ہاتھ پر دانت کاٹا اور لڑکی نے درد کی وجہ سے ہاتھ کھولا اور بونے گر گئے۔ لیکن بونوں کو کوئی نقصان نہ ہوا۔ درد کی وجہ سے لڑکی نے رونا شروع کر دیا اور سارے کمرے کو سر پراٹھا لیا۔ ونکا انکل نے اس بچی کو بہت محبت اور شفقت سے سمجھایا لیکن وہ اپنی ضد پر اڑی تھی کہ اسے وہ بونے چاہئیں۔ ونکا انکل نے اس کے والدین سے کہا کہ آپ اپنی بیٹی کو خود سنبھالیں لیکن اس کے والدین نے کہا کہ ہماری بیٹی بہت ضدی ہے آج تک ہر بات ضد سے پوری کی ہے۔ اسے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ونکا انکل نے اس کے والدین سے کہا کہ یہ تو بچی ہے۔ تھوڑی دیر ضد کرے گی اور پھر مان جائے گی آپ لوگ میرے ساتھ تیسرے کمرے میں چلیں تو اس کے والدین نے کہا کہ آپ لوگ جائیں ہم لوگ اپنی بچی کو سمجھا کر آپ لوگوں کے پیچھے آتے ہیں۔
ونکا انکل چونکہ ایسا نہیں چاہتے تھے لیکن وہ دوسرے بچوں کا وقت ضائع بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے بچی کے والدین کی بات مان لی اور انہیں چھوڑ کر تیسرے کمرے میں داخل ہو گئے۔ اب کے پانچ لوگ باقی رہ گئے تھے۔ ونکا انک نے سب کو سمجھایا کہ اس کمرے میں بہت احتیاط سے چلنا پڑے گا۔ کیونکہ اس کمرے میں ہر طرف رسیاں لگی ہوئی تھیں اور انہیں رسیوں کی مدد سے سب کو آگے جانا ہے۔ جیسے ہی تیسرے کمرے کا دروازہ کھولا تو ہر طرف رسیاں لٹک رہی تھیں اور نیچے ہر طرف چاکلیٹ کے بیج پڑے ہوئے تھے۔ ہر کوئی پہلی رسی سے دوسری اور تیسری اسی طرح آخری رسی پر پہنچ کر کمرے کی دوسری طرف پہنچ رہے تھے سب لوگوں کو تھوڑی بہت مشکل ہوئی۔ کیونکہ رسیوں سے گزر کر آنا جانا عام اور معمول زندگی سے مختلف تھا۔ چارلی اور اس کے دادا کو یہ عمل بہت اچھا لگا کیونکہ ان کو سب کچھ خواب سا لگ رہا تھا۔ اور وہ بہت خوش تھے۔ ونکا انکل سب کی مدد کر رہے تھے۔ اور سب کو سمجھاتے جا رہے تھے سبھی لوگ کمرے کی دوسری طرف پہنچ چکے تھے۔ سوائے اس لڑکی کے جس کو ہر وقت بندوقوں کے ساتھ کھیلنے کا شو ق تھا۔ اس نے پتہ نہیں کیا سوچا اور جیب سے بندو ق نکال کر آگے کی تمام رسیاں گرا دیں اب کوئی راستہ نہیں تھا جس کی مدد سے وہ آگے بڑھ سکے یا واپس پیچھے جا سکے۔ وہ ایک رسی کو پکڑ کر لٹکا رہا۔
اس کے والدین نے کہا کہ وہ چھلانگ لگا دے۔ لیکن اس بچے کو گولی چلانے کی بہت اچھی جگہ مل چکی تھی۔ وہ بغیر کسی کی سنے سب چیزوں پر گولی چلاتا رہا۔ اسے یہ سب کچھ کرنے میں بہت مزہ آ رہا تھا۔ ونکا انکل نے اسے کافی دیر سمجھایا۔ کافی دیر سمجھانے کے بعد ونکا انکل نے اس کے بھی والدین کو کہا کہ آپ کا بیٹا مان جائے تو آپ سب اگلے کمرے میں تشریف لے آنا۔ اس کے والدین مان گئے۔
اب ونکا انکل چوتھے کمرے میں دوہی لوگوں کے ساتھ داخل ہو گئے۔ ونکا انکل نے تمام فیکٹری کا دورہ چارلی اوراس کے دادا کو کرایا اور آخر میں وہ اس کمرے میں پہنچ گئے جہاں پر چاکلیٹ تیار ہونے کے بعد بڑے بڑے ڈبوں میں بند کر کے ٹرکوں کے ذریعے باہر بھیجی جاتی تھی۔ اس جگہ پہنچ کر ونکا ان نے جو بات چارلی اور اس کے دادا سے کہی تو ان دونوں کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ وہ دونوں حیرانی کے عالم میں کھڑے ہوئے تھے ونکا انکل نے کہا۔ گولڈن ٹکٹ کے ذریعے انہوں نے نیا مالک جو مستقبل میں فیکٹری کو دیانتداری ، ایمانداری اور خوش اسلوبی سے چلا سکتا ہے منتخب کر لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گولڈن ٹکٹ تو ایک بہانہ تھا۔ وہ تو بس ایک وارث کو ڈھونڈنے رہے تھے۔ جسے وہ فیکٹری کا مالک بنا سکیں۔ لیکن صرف تمہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ تم اس فیکٹری کے اور اس کے ننھے بونوں کا اسی طرح خیال رکھو گے جیسے میں رکھتا ہوں۔ اور اسی طرح ا س کا نام روشن کرو گے۔ جیسے میں نے ساری دنیا میں اس فیکٹری کا نام روشن رکھا۔
چارلی کو ایسا لگا کہ شاید وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ لیکن وہ کوئی خواب نہیں تھا بلکہ والدین اور بزرگ والدین کی اچھی تربیت کا نتیجہ تھا۔ وہ بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا تھا۔ ونکا انکل نے چارلی سے کہا کہ آج سے یہ فیکٹری تمہارے نام اس کے دادا کے لیے اس سے خوبصورت دن اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا کہ جس دن اس کے پوتے کی سب سے پسندیدہ چیز جسے پوری دنیا پسند کرتی ہے۔ اس کے نام ہو چکی تھی۔ ونکا انکل نے کہا تم اپنی تعلیم پر توجہ دو۔ اور ہاں آج سے اپنے گھر کے تمام افراد کو فیکٹری کے اس بڑے گھر میں لے آؤ۔ جو بہت عرصہ سے ویران پڑا ہوا ہے۔ اور تم اور تمہارے سب گھر والے اس گھر میں آرام سیرہ سکتے ہیں۔
اسی طرح دن گزرتے گئے۔ اور چارلی بڑا ہو گیا۔ ونکا انکل بھی کافی بوڑھے ہو چکے تھے۔ اب چارلی نے سب کی دعاؤں سے چاکلیٹ فیکٹری سنبھالی تھی۔ اس کی رحم دلی اور نیک دلی کے باعث تمام بونے بھی اس سے خوش تھے اور تقریباً ہر سال بہترین چاکلیٹ بنانے والی فیکٹری کا انعام اسی فیکٹری کو ملتا رہا۔ فیکٹری ویسی ہی رہی لیکن چارلی کی زندگی بدل چکی تھی۔ اب وہ دنیا کا امیر ترین شخص بن چکا تھا۔ فیکٹری کی بدولت اس کی قسمت بدل چکی تھی۔ اب اس کی سب سے پسندیدہ چاکلیٹ اب اس کے سامنے بنتی تھی۔ اور یہ سب اس کی اچھی شخصیت کی وجہ سے ممکن ہو پایا۔ فیکٹری میں ویسے تو کوئی خاص تبدیلیاں نہیں آئی تھیں۔ لیکن اگر کوئی تبدیلی تھی تو وہ یہ تھی کہ ونکا چاکلیٹ فیکٹری کے بجائے چارلی چاکلیٹ فیکٹری کے نام سے مشہور ہو چکی تھی۔ کیونکہ یہ ونکا انکل کی خواہش تھی کہ ان کی فیکٹری چارلی کے نام سے ترقی کرے۔ اور اب چارلی چاکلیٹ فیکٹری دنیا کی سب سے بہترین چاکلیٹ بناتی تھی۔
٭٭٭
دو موچی
امامہ ساکریہ
ترکی کے ایک گاؤں میں دو بے حد غریب موچی رہتے تھے۔ وہ دونوں گزر بسر کے لیے بہت محنت سے کام لیتے تھے۔ ان کے پاس تھوڑی سی زمین بھی تھی۔ جس کی پیداوار ان کے لیے ناکافی ہو جاتی۔ اتفاق سے ایک نیا موچی گاؤں میں آ گیا۔ گاؤں کے سب لوگ اس سے جوتے مرمت کروانے لگے۔ اس سال سردی اور بارش کی وجہ سے جو کی فصل خراب ہو گئی دونوں بھائیوں کو گزارا کرنا مشکل ہو گیا۔
ان کی جھونپڑی گاؤں کے باہر واقع تھی۔ اس سے آگے جنگل تھا۔ سخت برف باری سے جنگل کے درختوں پر برف جم گئی تھی ان کی جھونپڑی کے باہر ایک درخت گرا پڑا تھا۔
شاکر نے کہا بھائی ہم اس درخت کو کاٹ کر آگ جلائیں گے۔ پھر درخت کے کھوکھلے تنے میں سے کوئل کے کوکنے کی آوازیں سنائی دیں۔
اس کے ساتھ ہی کوئل ایک سوراخ سے باہر نکلی اور ان کے سامنے رکھی ہوئی میز پر جا کر بیٹھ گئی۔ دونوں بھائی اس پرندے کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ لیکن انہیں اس وقت اور زیادہ حیرانی ہوئی جب کوئل نے انسانی آواز میں کہا یہ کون سا موسم ہے؟
شاکر نے کہا یہ سردی کا موسم ہے اور بارہ برف باری ہو رہی ہے۔
کوئل بولی اوہو آگ کی گرمی سے میں سمجھی موسم گرما آ گیا ہے۔ تم نے تو میرا گھونسلا خراب اور برباد کر دیا ہے۔ اس لیے گرمیوں کے آنے تک مجھے تم اپنے ساتھ رہنے دو۔ میرے لیے ایک سوراخ ہی کافی ہے۔ جب گرمیوں کا موسم آئے گا تو میں اپنے سفر پر روانہ ہو جاؤں گی۔ واپسی پر میں تمہارے لیے کوئی تحفہ لاؤں گی۔ جس سے تمہاری مصیبت کم ہو جائے گی۔
شاکر تم بہت شوق سے ہمارے ساتھ رہ سکتی ہو۔ میں تمہارے لیے ایک گھونسلا بنا دیتا ہوں۔ تم گرمیوں کے آنے تک اس میں آرام کرو۔ تمہیں بھوک لگ رہی ہو گی۔ اس لیے میں تمہیں اپنے حصے کی آدھی روٹی دے رہا ہوں۔ کوئل نے روٹی کھائی اور جگ سے پانی پیا۔ پھر وہ شاکر کے بنائے ہوئے گھونسلے میں بند ہو گئی۔
ایک دن صبح سویرے کوئل کی کوکو سے وہ بیدار ہو گئے۔ ان کے سامنے والی کھڑکی میں کوئل بیٹھی تھی۔ اور کوک کوک کر بہار کی آمد کا اعلان کر رہی تھی۔ اس نے کہا کہ میں اب دنیا کے سفر پر جا رہی ہوں تاکہ ہر جگہ بہار کی آمد کا پیغام دوں اب مجھے تم بتاؤ کہ واپس آتے وقت میں تمہارے لیے کیا تحفہ لاؤں ؟
لالچ سے فضلو کی آنکھیں چمکنے لگیں وہ بولا تم نے دنیا کا کونا کونا دیکھا ہوا ہے۔ تم میرے لیے کوئی بڑا سا ہیرا یا موتی لے آؤ تاکہ ہماری مصیبتوں کا دور ختم ہو جائے۔
کوئل بولی! مجھے ہیرے جواہرات کا علم تو نہیں ہے یہ چٹانوں کے اندر چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ موتی دریاؤں کی تہہ میں ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا نکالنا میرے بس میں نہیں ہے۔ یہاں سے بہت دور ایک کنواں ہے جس کے کنارے پر دو درخت اگے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک سنہری درخت کہلاتا ہے۔ اس کے پتے سونے کے بنے ہوئے ہیں۔ دوسرا درخت زیتون کا ہے یہ ہمیشہ ہرا بھر ا رہتا ہے۔ اس کے متعلق مشہور ہے کہ جو کوئی ا پتوں کو اپنے پاس رکھے گااس کا دل مطمئن رہے گا۔ اگر وہ کسی جھونپڑی میں رہتا ہے تو اپنے آپ کو محل میں رہنے والوں سے زیادہ خوش و خرم سمجھے گا۔ شاکر بولا پیاری کوئل تم میرے لے زیتون کا پتہ لے کر آنا۔
کوئل نے انہیں اللہ حافظ کہا اور کھلی ہوئی کھڑکی میں سے اڑ کر باہر نکل گئی وہ میدانوں اور چراگاہوں پر سے اڑتی ہوئی چلی جا رہی تھی۔
اس سال دونوں بھائیوں نے بہت تنگی ترشی میں وقت گزارا۔ لوگوں نے ان سے جوتے مرمت کروانے بند کر دیے۔ ان کی کھیتی سے باجرے کی فصل بھی کم ہوئی۔ سال ختم ہوتے ہوتے ان کی حالت بہت خراب ہو گئی اور فاقہ کشی تک نوبت جا پہنچی۔
بہار کا موسم شروع ہوا تو کسی نے ان کے دروازے پر دستک دی اور پھر کوئل کی آواز سنائی دی۔
کوکو میرے دوستو دروازہ کھولو۔ میں تمہارے لیے تحفہ لائی ہوں۔
شاکر نے جلدی جلدی سے دروازہ کھولا۔ کوئل جھونپڑی میں داخل ہوئی۔ اس کی چونچ میں دو پتے تھے۔ ایک بہت بڑا سا سونے کا پتا اور دوسرا زیتون کا پتا کوئل نے سونے کا پتہ فضلو کو دیا اور بولی دنیا کے آخری سرے سے تمہارے لیے یہ پتے لے کر آئی ہوں۔ تم مجھے کھانے کو کچھ دو۔ مجھے ابھی شمالی ملکوں میں جانا ہے تاکہ میں وہاں بھی بہار آنے کی خوش خبری سنا دوں۔
شاکر نے اپنے حصے کی روٹی کوئل کے آگے ڈال دی۔ کوئل روٹی کھانے لگی۔ فضلو سونے کا پتا دیکھ کر شاکر سے بولا تم نے میری عقل مندی دیکھی ا ب تم بھی اپنے لیے ایسا ہی پتہ منگوانا۔ کوئل شاکر سے بولی اگر تم بھی اپنے لیے سونے کا پتہ منگوانا چاہو تو مجھے بتا دو۔ اگلے سال میں تمہارے لیے ایسا ہ پتا لا کر دے دوں گی۔ شاکر نے جواب دیا کہ تم میرے لیے زیتون کا پتا ہی لانا۔ فضلو بولا تم میرے لیے سونے کا پتا لانا۔
یہ سن کر کوئل دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہو گئی۔
فضلو دانت پیس کر بولا۔ تم نے دولت مند ہونے کا سنہری موقع کھو دیا ہے۔ زیتون کے پتوں سے کیا فائدہ پہنچے گا؟ آخر تم رہے بدھو کے بدھو۔ فضلو اسے جلی کٹی سناتا رہا۔ لیکن جواب میں شاکر ہنس کر کہتا کہ بھئی قناعت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔ یہ مال و دولت سب آنی جانی چیزیں ہیں فضلو بہت زیادہ غصے ہو کر بولا۔ تم مجھ جیسے شریف آدمی اور معزز شخص کے ساتھ رہنے ے قابل نہیں ہو۔ آج سے میرے اور تمہارے راستے جدا جدا ہیں۔
یہ کہہ کر اس نے سنہری پتا اٹھایا اور جھونپڑی سے باہر چلا گیا۔ گاؤں میں جس جس نے شاکر کی بے وقوفی سنی وہ ہنسے بغیر نہ رہ سکا۔ سب لوگوں نے فضلو کی عقل مندی کی داد دی۔ ا ب وہ فضلو نہیں رہا تھا۔ بلکہ فضل خان کہلانے لگا تھا۔ سچ ہے مایا تیرے تین نام پرسا پرسوں پرس رام۔ اب گاؤں کے لوگ عزت و احترام سے اس کانام لینے لگے تھے۔ معزز اور مال دار لوگ اپنے جوتے مرمت کروانے کے لیے اس کے پاس بھیجتے تھے۔ کچھ ہی دنوں میں فضل خاں نے شادی بھی کر لی۔ شادی کی دعوت میں گاؤں کے سب لوگ تھے صرف شاکر نہیں تھا۔ کیونکہ فضل خا ن کے مطابق وہ غریب اور بیوقوف تھا اور خاندان کے نام پر دھبہ تھا۔ اب فضل خان امیرانہ شان و شوکت سے زندگی بسر کر رہا تھا۔ لیکن کوئی بات تھی کہ وہاس کی بیوی ناخوش اور پریشان ہی رہے۔
اخراجات پورے کرنے کے لیے فضل خان سونے کے پتے کو توڑ تو ڑ کر فروخت کرتا رہا۔ آخر ایک دن پتے کا آخری ٹکڑا بھی بک گیا۔ اب فضل خان پہلے کی طرح مفلس ہو چکا تھا ابھی کوئل کے آنے میں بہت دن باقی تھے۔
جب موسم بہار شروع ہوئی تو کوئل پھر آئی۔ فضل خان اور اس کی بیوی نے اس کی بہت خاطر مدارت کی۔ وہ اس کے لیے مٹھائی پھل شربت لے کر آئے۔ لیکن کوئل نے ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور بولی میں غریب شاکر کے گھر روکھی سوکھی روٹی کھانا زیادہ پسند کرتی ہوں۔
اس طرح نہ جانے کتنے ہی سال گزر گئے۔ فضل خان سونے کے پتے لیتا رہا اور شاکر زیتون کے پتوں پر شکریہ ادا کرتا رہا۔ ایک دن اس ملک کا بادشاہ شکار کھیلتا ہوا ادھر آ نکلا۔ وہ بہت فکر مند اور پریشان رہتا تھا۔ اس کا بیٹا شہزادہ نور الدین نافرمان تھا۔ وزیر ساز باز میں لگے ہوئے تھے۔ ان باتوں نے بادشاہ کا دل کا چین و سکون غارت کر دیا تھا۔ اچانک بادشاہ کی نظر شاکر پر پڑی وہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اس کے چہرے سے لگتا تھا کہ وہ کئی وقت کا بھوکا ہے لیکن پھر بھی وہ بے حد مطمئن اور خوش نظر آتا تھا۔ بادشاہ کو یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی شاکر نے بتایا عالی جاہ! قناعت سب سے بڑی نعمت ہے۔ جسے قناعت کی دولت میسر ہو اسے نہ تو کوئی پریشانی ہے اور نہ کوئی غم ہے۔ بادشاہ کو شاکر کی یہ بات پسند آئی۔ وہ بہت دنوں سے شاکر کے پاس رہا۔ اس وقت اس کے ذہن سے ساری پریشانی جاتی رہی۔ شاکر کے پاس بادشاہ کے آنے اور اس کی پریشانی دور ہونے کی بات ہر جگہ پھیل گئی لوگ اس کے پاس اپنی پریشانیاں لے کر آنے لگے اور شاکر ان کی فکر اور پریشانی کا حل بتایا وہ خوش خوش اپنے گھروں کو لوٹتے۔ امیر لوگ اسے انعام دیتے اور غریب لوگ ڈھیروں دعائیں دیتے۔ اب شاکر بھی اچھی اور خوش حال زندگی گزارنے لگا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے شاکر کو بلانے کے لیے اپنا خادم بھیجا۔ خادم نے بادشاہ کا حکم نامہ دکھا کر کہا!
جناب عالی سلطان معظم نے تمہیں فوراً دربار میں طلب کیا ہے۔
شاکر نے کہا کل موسم بہار کا پہلا دن ہے میں سورج نکلنے سے پہلے کہیں نہیں جا سکتا۔
خادم شاکر کی جھوپڑی کے باہر ٹھہرا رہا۔ دن نکلتے ہی کوئل آئی اور اس نے زیتون کا پتا شاکر کو دیا۔ شاکر نے کہا پیاری کوئل! بادشاہ نے مجھے اپنے دربار میں طلب کیا ہے۔ کیا تم مجھ سے ملنے کے لیے محل میں آیا کرو گی؟ کوئل بولی اونچے اونچے محل میں قید خانے ہوتے ہیں یہاں نفرت عداوت اور حسد آپس کے جھگڑے ہیں ایسی جگہ میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ میں تم سے ملے کے لیے وہاں نہ آ سکوں گی۔ تم زیتون کے پتوں کی حفاظت کرنا اور ان سے کبھی جدا نہ ہونا۔
کوئل نے روٹی کا ٹکرا کھایا اور بولی۔ اب تم مجھے رخصت دو اللہ حافظ شاکر کو کوئل کی جدائی پر بڑا رنج ہوا۔ اس نے زیتون کے پتے چمڑے کی کرتی کے اندر سی لیے۔ پھر وہ یہ کرتی پہن کر بادشاہ کے خادم کے ساتھ دربار میں حاضر ہوا۔ جب بادشاہ کے وزیروں نے موچی سے گفتگو کی تو اس کے جوہر کھلنے لگے شہزادے وزیر امیر اور درباری جس جس نے بھی شاکر سے گفتگو کی اس کے دل کا بوجھ کم ہو گیا۔ دربا رمیں ایسی تبدیلی آئی جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ لوگ آپس کی رنجش بھول گئے۔ ان کے دلوں سے حسد رقابت اور نفرت کے جذبات دور ہو گئے۔
بادشاہ نے شاکر کے لیے ایک کمرا مخصوص کر دیا۔ بادشاہ کے تحت کے برابر کرسی رکھ دی گئی۔ درباریوں نے اس کی خدمت میں بہت سے تحفے پیش کیے۔ لیکن موچی نے اپنے چمڑے کی کرتی پہننی نہ چھوڑی۔ محل کے سب لوگوں نے اس بات کو سخت ناپسند کیا۔
بادشاہ نے کہا! تم یہ کرتی کسی فقیر کو کیوں نہیں دے دیتے؟
شاکر نے کہا عالی جاہ! محل میں داخل ہونے سے پہلے یہی میرا لباس تھا۔ یہ لباس پہن کر میرے دل میں غرور تکبر اور بڑائی پیدا نہیں ہوتی۔
بادشاہ کو شاکر کا یہ جواب بہت پسند آیا۔ اس نے حکم دیا کہ آئندہ کوئی بھی شخص شاکر سے اس کی کرتی کے متعلق سوال نہیں کہے گا۔ اگلے سال کوئل پھر آئی۔ اس بار وہ فضل خان کے لیے سونے کے دو پتے لائی۔ اب شاکر کے لیے زیتون کا پتہ لانے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ فضل خان نے ایک سونے کا پتا فضول خرچیوں میں ختم کر ڈالا اور اس کی بیوی نے کہا کہ آخر ہم کب تک تنگی ترشی سے زندگی بسر کر تے رہے ہیں۔
فضل خان نے اپنا سامان باندھا اور سونے کا پتا ای رومال میں باندھا اور پھر دونوں سفر پر روانہ ہو گئے وہ بہت دیر تک چلتے رہے۔ دوپہر کے وقت وہ ایک جنگل میں پہنچے۔ وہ بری طرح تھک چکے تھے۔
فضل خان کی بیوی بولی ! ارے تم تو عقل سے بالکل پیدل ہو۔ تم نے سفر کے لیے کسی سواری کا انتظام کیوں نہ کیا؟ آخر یہ سونا کس دن کام آئے گا؟
فضل خان نے رومال کھول کر سونے کا پتا دیکھا۔ ایک چالاک بڑھیا بہت دیرسے ا ن کا پیچھا کر رہی تھی وہ درخت کے پیچھے چھپی ہوئی تھی اس نے ا ن سب کی باتیں سن لی تھیں۔ اور سونے کے پتے کی جھلک دیکھ لی۔ وہ درخت کے پیچھے سے نکلی اور ان کے پاس پہنچی اور چاپلوسی سے بولی عالی قدر نواب صاحب اور محترمہ بانو صاحبہ کنیز کا سلام قبول فرمائیے۔
فضل خان کی بیوی نے پوچھا! تم نے کیسے جانا کہ ہم نواب ہیں بڑھیا بولی عالی قدر بانو! آپ کی شکل و صورت سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ خاندانی نواب ہیں۔ سرکار! کیا آپ مجھے اپن میزبانی کی عزت بخشیں گے؟
بڑھیا نے ایسی خوشامد کی کہ دونو ں اس کے جال میں آ گئے۔ وہ دونوں بھوکے پیاسے تو تھے ہی انہوں نے بڑھا کی دعوت قبول کر لی۔ بڑھیا نے اپنا تھیلا کھو لا اور بولی حضور آپ نے ہمیشہ مزے مزے کے کھانے کھائے آج اس غریب بڑھیا کے پکے ہوئے پھیکے اور سادہ کھانے بھی کھائیے۔ سرکار مکھن لگی ہوئی روٹی کباب کوفتے اور آم کا اچار حاضر ہے۔
فضل خان اور اس کی بیوی ے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ پھر بڑھیا نے انہیں گلاس کا شربت پیش کیا۔ ا س میں کوئی نشہ آور چیز ملی ہوئی تھی۔ اسے پیتے ہی ان کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ جلد ہی وہ خوابوں کی دنیا میں پہنچ گئے بڑھیا کے دو بیٹے ٹوٹو اور گو لی تھے۔ جب فضل خان اور اس کی بیوی سو گئے تو بڑھیا نے چیختی ہوئی آواز میں کہا اے مردارو! کہاں مر گئے ہو؟ وہ دونوں لپک کر بڑھیا کے پاس پہنچے۔ بڑھیا چیخ کر بولی نا مرادو! میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو جلدی سے مال سمیٹو اور بھاگ لو۔
پھر وہ ٹوٹو سے بولی ! آج تمہاری کیا کارگزاری رہی؟ تم نے چوری چکاری کی یا یوں ہی خالی ہاتھ چلے آئے؟
ٹوٹو نے کہا اماں ! آج جب میں محل سرائے کے پاس سے گزر رہا تھا تو کسی نوکر نے یہ چمڑے کی کرتی اوپر سے پھینکی۔ یہ کرتی تو ہے بیکار ہی لیکن میں اسے آپ کے حکم کی تعمیل میں لیتا آیا۔ یہ کہہ کر اس نے ایک گٹھڑی بڑھیا کی طرف پھنکی بڑھیا تیوری چڑھا کر بولی ارے کم بخت یہ گدڑی میرے کس کام کی ہے۔ یہ کہ کر بڑھیا نے وہ کرتی فضل خان پر ڈال دی بڑھیا نے جب سامان سمیٹا پھر وہ تینوں ہنستے ہوئے وہاں سے چل دیے۔ بہت دیر بعد فضل خان اور اس کی بیوی کی آنکھ کھلی اور معلوم ہوا کہ ان کی چیزیں اور سونے کا پتا سب چوری ہو چکا ہے یہ دیکھ کر فضل کی بیوی چیخیں مار ما ر کر رونے لگے۔
شام کے وقت خاصی سردی ہو گئی۔ فضل خان نے چمڑے کی وہ کرتی پہن لی جو اس کے نزدیک ہی پڑی تھی۔ جیسے ہی اس کرتی کے بٹن لگائے اس کی دلی کیفیت میں عجیب تبدیلی واقع ہو گئی۔ وہ رونے دھونے کی بجائے مسکرانے لگا۔ اس کی بیوی کے دل سے بھی رنج و ملال جاتا رہا انہوں نے جنگل میں ایک گھر بنایا فضل خان ایک گھونسلے سے انڈے نکال لایا۔ اس کی بیوی نے انہیں بھونا اور پھر دونوں کھا کر گھاس کے ڈھیر پر لیٹ گئے اور سو گئے۔ وہ جنگل میں رہتے رہے۔ انہوں نے اپنی جھونپڑی کو کافی بڑا بنا لیا تھا۔ وہ پرندوں کے انڈے اور جنگل پھلوں پر گزارا کرنے لگے ان کے دل سے دربار جانے کا خیال جاتا رہا۔ ادھر شاکر کا حال سنیے۔ جب وہ صبح کے وقت جاگا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی کرتی گم ہو چک ہے۔ ا س نے نوکروں سے دریافت کیا مگر کسی نے جواب نہ دیا۔ محل کا کونا کونا چھان مارا لیکن کرتی نہ ملی۔ اس روز سے محل کے حالات اپنی پرانی ڈگر پر آ گئے۔ لڑائی جھگڑے ہونے لگے۔ وزیر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگے۔ بادشاہ کی فکر اور پریشانی بڑھ گئی۔
شاکر کی سب صلاحیتیں اس کرتی کی وجہ سے تھیں۔ جب وہ نہ رہی تو صلاحیتیں بھی جاتی رہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے کہ اس کا ذہن بالکل ناکارہ ہو چکا ہے درباریوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ اس موچی کا یہاں پر کیا کا م بادشاہ نے تحقیقات کا حکم دیا کہ یہ موچی یہاں کیوں آیا اوراس درجے تک کس طرح پہنچا۔ تحقیقات کے نتیجے میں یہ با ت سامنے آئی کہ موچی خواہ مخواہ محل میں ٹھہرا ہوا ہے۔ بادشاہ نے حکم دے دیاکہ موچی کو محل سے باہر نکال دیا جائے۔ اور اس کی ایک ایک چیز ضبط کر دی جائے۔ فرمان جاری ہوا اور ایک نوکر ضبطی کا حکم لے کر کمرے میں داخل ہوا اور قیمتی چیزوں پر قبضہ کرنے لگا۔ شاکر کھڑکی کی راہ سے بھاگ نکلا۔ اس کو بھاگتا دیکھ کر ایک راہ گیر بولا۔ کچھ دن پہلے اس کھڑکی سے ایک کرتی باہر گری اب کرتی کا مالک کھڑکی سے باہر کود رہا ہے۔
شاکر نے راہ گیر کا ہاتھ پکڑ لیا اور منت بھرے لہجے میں بولا کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہ کرتی کس کے پاس ہے؟
راہ گیر بولا ایک شخص اس کرتی کو اٹھا کر جنگل کی طرف بھاگ گیا ہے شاکر بولا اگر تم مجھے اس شخص کے پاس لے چلو تو میں تمہیں بہت انعام دوں گا۔
راہ گیر بولا تم اس راستے پر چلتے رہو۔ جہاں یہ ختم ہو جائے وہیں اس کا گھر ہے۔ شاکر نے اپنا بٹوہ اس کو انعام میں دیا اور راہ گیر کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے لگا۔ وہ جنگل میں داخل ہوا رات ہو گئی تھی۔ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائئ نہ دیتا تھا۔ دور کسی جگہ آگ جل رہی تھی اور اسی سمت میں وہ آگے بڑھتا رہا آخر وہ ایک مکان کے پاس پہنچا۔ مکان کا دروازہ آدھا کھلا تھا اس نے اندر جھانک کر دیکھا۔ وہاں اس کا بھائی فضل خان سو رہا تھا۔ اس کے سرہانے کرتی رکھی ہوئی تھی۔ ا س کے قریب ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ شاکر سمجھ گیا کہ یہ فضلو کی بیوی ہے۔ وہ مکان میں داخل ہوا اورآہستہ سے سلام کیا۔ فضلو کی بیوی نے اسے نہیں پہچانا۔ اس نے بہت اخلاق سے اسے خوش آمدید کہا اور بولی ذرا آہستہ گفتگو کیجیے۔ میر ے شوہر ابھی سوئے ہیں شاکر نے کہا بی بی راستے سے بھٹک کر ادھر آ نکلا ہوں میں دراصل بادشاہ کے دربار میں ملازم ہوں۔
عورت نے پوچھا اچھا تو بتائیے کہ دربار کا کیا حال ہے؟ بہت دن پہلے میں بھی وہاں جانے کے خواب دیکھتی تھی۔ لیکن اب میں اپنے اس احمقانہ خیال پر ہنستی ہوں۔
شاکر نے پوچھا آپ وہاں کیوں جانا چاہتی تھیں ؟
عورت نے کہا وہاں میرے شوہر کا بھائی دربار میں ملازم ہے ہم بھی اپنی قسمت آزمانے نکلے تھے۔ لیکن ایک بڑھیا نے ہمیں نشہ آور شربت پلا کر بے ہوش کر دیا اور ہمارا سب کچھ چھین کر لے گئی اور جاتے وقت وہ یہ پرانی سی کرتی یہاں پھینک گئی ہے۔
شاکر نے اپنا قیمتی کوٹ اتار کر رکھ دیا اور بولا بی بی میرا خیال ہے کہ تمہارا شوہر اس پرانی کرتی کی جگہ اس قیمتی کوٹ کو ضرور پسند کرے گا۔ فضل خان نے آنکھیں کھول کر دیکھا اس کے سامنے اس کا بھائی شاکر کھڑا مسکرا رہا تھا۔ فضل نے آگے بڑھ کر بھائی کو گلے لگایا اور کہا!
بھائی ! تم ٹھیک تو ہو؟ تم نے دربار میں کیا کچھ دیکھا۔ وہاں کتنی ترقی پائی۔
شاکر بولا بھائی دربار کا عروج بھی دیکھا اور دربار کا زوال بھی سچ پوچھو تو ان ہنگاموں سے میرا دل بھر چکا ہے۔ اب تو دل چاہتا ہے کہ اپنی جھونپڑی میں سکون سے رہوں۔
فضل خان اوراس کی بیوی بھی گاؤں جانے پر رضامند ہو گئے۔ دونوں بھائیوں نے ایک بار پھر اپنا پرانا کام سنبھال لیا۔ کوئل اب ہر سال موسم بہار میں ان سے ملنے کے لیے آتی اور دونوں کے لیے زیتون کے پتے لاتی۔
٭٭٭
تعلیم بڑی چیز ہے
اقراء تبسم
میرا گھرانہ خانہ بدوشی کی زندگی بسر کیا کرتا تھا۔ میری ماں اور باپ دونوں بھیک مانگا کرتے تھے۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو مجھے بھی بھیک مانگنے کے کام پر لگا دیا گیا۔
ایک روز میں ایک سکول کے قریب سے بھیک مانگتا ہوا گزر رہا تھا کہ بالکل اسی وقت اس سکول میں چھٹی ہو گئی۔ تو بچوں نے میرا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ دیکھو یہ لڑکا بالکل ٹھیک ٹھاک ہے اور ہاتھ پیر بھی بالکل صحیح ہیں پھر بھی بھیک مانگ رہا ہے۔ اس سے اتنا نہیں ہوتا کہ سکول میں آ جایا کرے۔
چھوٹے اور معصوم بچوں کی باتیں میرے دل میں اترتی چلی گئیں۔ اور میں ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر سوچنے لگا کہ واقعی یہ بچے سچ کہتے ہیں۔ مجھے بھیک نہیں مانگنی چاہیے۔ جب یہ ہی بات میں اپنے ماں باپ سے کہتا تو وہ مار …مار… کر میرا برا حال کر دیتے۔ خیموں میں رہنے والے اور بھکاری برادری کے لوگ بھی جمع ہو جاتے اور مجھے برا بھلا کہتے۔ میں سر جھکائے ٹپ ٹپ آنسو بہاتا اور اللہ سے التجا کرتا کہ اے اللہ تو ہی میری مدد فرما دے اور میرے ماں باپ کو بھی سیدھی راہ دکھا دے کہ وہ بھی بھیک نہ مانگیں اور محنت سے روزی کمائیں۔ اور مجھے سکول میں داخل کرا دیں تاکہ میں تعلیم حاصل کر سکو ں۔
لیکن شاید اللہ میاں کے ہاں دیر تو تھی اندھیر نہ تھی۔ جون جولائی کی سخت گرمیاں تھیں۔ اس دن جمعہ تھا اور میں بھیک مانگ رہا تھا۔ قریب ہی ایک مسجد تھی جس کے باہر ٹالی کے بڑے بڑے درخت تھے۔ میں کچھ دیر سائے میں بیٹھنے کی غرض سے مسجد کے سامنے والے درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ اور پیسے گننے لگا۔ کیوں کہ ماں باپ کا کہنا تھا کہ جب تک پچاس روپے جمع نہ ہو جائیں بھیک مانگتے رہنا۔ اگر میں کسی دن پچاس روپے سے کم پیسے لے کر منزل کو پہنچتا تو مجھے برا بھلا سننے کو ملتا اور مار الگ کھانی پڑتی۔ جب میں نے پیسے گنے تو ابھی پینتیس روپے جمع ہوئے تھے۔ میں نے سوچا کہ آج مسجد کے دروازے پر بیٹھ جاتا ہوں … جب نمازی نماز پڑ ھ کر نکلیں تو بھیک مانگنے سے اچھے خاصے پیسے جمع ہو جائیں گے۔ آج میں بہت خوش تھا کہ مجھے زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا۔ ممکن ہے کہ میرا کام آج مسجد سے نکلنے والے نمازی ہی پورا کر دیں میں درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد مسجد کے مولوی صاحب نے اپنی تقریر شروع کی تو ایک ایک کر کے نمازی مسجد میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ عجیب اتفاق تھا کہ مولوی صاحب کی تقریر کا موضوع بھی آج گداگری کے خلاف تھا۔ وہ فرما رہے تھے کہ ہمارے مذہب اسلام میں اللہ کے نزدیک بھیک مانگنا انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اور قیامت کے دن بھیک مانگنے والوں کے جسم پر گوشت نام کو بھی نہیں ہو گا۔ ایسے لوگ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوں گے۔ اور ایسے لوگوں کو اللہ کے ہاں بڑی پکڑ ہو گی۔ اگر بڑی سے بڑی مصیبت ہی کیوں نہ آ جائے … انسان کو صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور اللہ سے مدد مانگنی چاہیے وہ کسی نہ کسی بہانے رزق ضرور دیتا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم محنت مزدوری کر کے حق حلال کی روزی کمائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے شکر گزار بندوں کو قیامت کے دن جنت میں داخل کرے گا۔
مولوی صاحب کی باتیں میری رگ رگ میں خون کی طرح سرائیت کر گئیں۔ ایک بھکاری ہونے کے ناطے مجھے ندامت کا احساس زمین میں گاڑے دے رہا تھا۔ خوف سے میرے اس قدر آنسو بہہ نکلے کہ میری قمیص کا دامن تر ہو گیا۔
میں نے چاہا کہ آج ہی سے توبہ کر لوں اور مسجد میں جا کر اللہ میاں کے حضور اپنے سر کو جھکا لوں۔ مگر اپنے پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑوں پر نظر ڈالی تو گندگی کا ایک ڈھیر ہونے کی وجہ سے مسجد میں داخل نہ ہو سکا پھر میں سوچنے گا کہ اگر مسجد میں چلا بھی گیا تو مجھ جیسے گندے اور پلید لڑکے کو صف میں اپنے برابر میں کون کھڑا ہون دے گا ہر کوئی مجھے گند ا سمجھ کر صف سے نکال دے گا۔
میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور اللہ سے درخواست کی کہ اے اللہ میری مدد فرما تیرے علاوہ کوئی بھی مددگار نہیں ہو سکتا۔ میں نے مزید بھیک مانگنے کی بجائے سیدھا جھونپڑی کا راستہ لیا جب ماں کو پینتیس روپے پکڑائے تو ماں مجھ پر لال پیلی ہو گئی اور جی بھر کے میری پٹائی کی اور میں کچھ نہ کہہ سکا۔
آنے والی صبح نے پھر میرے لیے مسئلہ کھڑا کر دیا۔ جاؤ بھیک مانگنے… میں گھر سے پھر سوچ کر نکلا کہ آج مین بھیک ہرگز نہیں مانگوں گا۔ کوئی محنت مزدوری کروں گا۔ میں شہر کے ایک بڑے ہوٹل کے پاس کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ آج اس ہوٹل کے مالک سے مزدوری کی بات کی جائے تو شاید مجھے کا مل جائے… لیکن پھر جب میں نے اپنے پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑوں پر نظر ڈالی تو میری ہمت نہ ہوئی کہ ہوٹل کے مالک سے مزدوری کی بات کی جائے۔ ابھی می سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کروں کیا نا کروں ۔ میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا ایک لمبی سی لکڑی پر ہوا بھرے ہوئے غبارے بیچ رہا ہے اور جسے بچے بڑی خوشی خوشی خرید بھی رہے ہیں ۔ … بس اسی وقت میں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ مجھے بھی غبارے بیچنا ہوں گے اس طرح توکسی سے مزدوری طے کرنی پڑے گی اور نہ ہ کسی کی لعن طعن سننے کو ملے گی۔
مگر ایک مسئلے میں الجھ گیا کہ غبارے کہاں سے خریدوں تو پیسے میرے پاس بالکل بھی نہیں ہیں … ادھار مجھے کوئی دے گا نہیں … بہرحال میں نے قسمت آزمانے کی کوشش کی اور ایک کھلونوں کی دکان پر پہنچ گیا۔ میں نے دوکان دار کو صا ف صاف بتا دیا کہ میں بھکاری ہوں لیکن آج سے بھیک مانگنے کا ارادہ ترک کرنا چاہتا ہوں آپ سے گزارش ہے کہ مجھے غباروں کی ایک تھیلی ادھار دے دو میں بیچ کر تمہارے پیسے واپس کر دوں گا۔ …مگر دوکاندار نے مجھے غبارے دینے کی بجائے جھڑک دیا چل …بھاگ… یہاں سے بھکاری کہیں کا… ابے تو اور میرے پیسے واپس کرنے آئے گا چل راستہ ناپ… میں اپنا سا منہ لٹکائے چل دیا تو پیچھے سے ایک بزرگ نے آواز لگائی جو دکان سے سودا خرید رہے تھے۔ اے بیٹا ادھر آؤ۔ تمہارا جذبہ قابل قدر ہے۔ ادھر آؤ میں تمہیں ایک تھلی لے دیتا ہوں۔ تب انہوں نے مجھے ایک تھیلی سات روپے کی خرید کر دی۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور آگے بڑھ گیا۔ پھر خیال آیا کہ انہیں پھلا کر باندھنے کے لیے دھاگا بھی تو چاہیے میں ں ے فوراً ہی اس بزرگ سے سوال کیا کہ چاچا جی آپ نے اتنی مہربانی کی ہے تو ایک دھاگے کی نلکی بھی دلوا دی اوب میں نے غبارے پھلا پھلا کر انگلی سے باندھ کر بیچنے شروع کر دیے۔ شاید اللہ کو میرا یہ عمل پسند آیا۔ اور میں نے دو گھنٹے کے اندر اندر پوری تھیلی بیچ دی پوری تھیلی میں تقریباً بہتر غبارے تھے۔ پھر میں نے پیسوں سے ایک تھیلی خریدی اور شام تک وہ بھی بیچ کر واپس ہو لیا اس طرح دو تھیلیاں بیچ کر میں نے تھیلی کے پیسے نکال کر انسٹھ روپے کمائے۔ پچاس ماں کو دیے اور نو روپے حفاظت سے ایک ڈبے میں رکھ دیے۔
اب میں نے بھیک مانگنا بالکل چھوڑ دی تھ۔ ماں باپ یہی سمجھتے تھے۔ کہ میں گھر سے باہر نکل کر بھیک مانگتا ہوں۔ اللہ کی نظر مجھ پر مہربان تھی میں کبھی تین اور کبھی چار تھیلیاں غبارے کی بیچتا تھا۔
گھر پر کبھی پچاس روپے کبھی ساٹھ روپے اور بھی پچپن روپے دیتا تو اماں اور ابا دونوں خوش ہو جاتے اور باقی پیسے میں بچا لیتا۔ اس طرح میں نے سات ماہ میں تین ہزار روپے جمع کر لے تھے۔
میں نے ان پیسوں میں سے تین نئے جوڑے سلوائے۔ جب شہر کی طرف آتا تو ریلوے سٹیشن کے قریب مال گودام میں کھڑی مال گاڑی کے ڈبے میں گھس کر نیا جوڑا پہن لیتا۔ اور صاف ستھرا بچہ بن کر بڑے اطمینان اور سکون سے غبارے بیچتا۔ پھر انہی دنوں میں نے ایک مسجد کے پیش امام صاحب سے درخواست کی کہ وہ مجھے نماز پڑھنا سکھائیں اور دینی تعلیم بھی دیں تو انہوں نے مجھے نماز پڑھنا سکھایا اور دینی تعلیم کا کورس بھی دینا شروع کر دیا جب میں مولوی صاحب سے دی تعلیم حاصل کر کے مسجد سے باہر آتا تو مجھے کچھ ایسا لگتا تھا کہ جیسے میں کبھی پریشان تھا ہ نہیں مجھے دلی سکون ملتا۔ پھر مجھے احساس ہوتا کہ صفائی اور تعلیم انسان کے لیے دونوں ہی بہت لازمی ہیں۔
ایک روز میں نے غباروں کی تھیلی خریدی اور تمام غبارے پھلا کر ایک لکڑی میں باندھ کر اسی سکول کے سامنے آ گیا جہاں کبھی سکول کے بچوں نے میرا مذاق اڑایا تھا۔
جب سکول کی چھٹی ہو گئی تو وہ ہی بچے جنہوں ں ے مجھے بھکاری کے طعنے دیے تھے میرے قریب آ کر کہنے لگے کہ بھائی تم نے بھیک مانگنا چھوڑ دیا ہے کیا…؟ ہاں بچو میں نے بھیک مانگنا چھوڑ دیا ہے اب میں بھی تمہاری طرح اچھا انسان بننا چاہتا ہوں۔ میں نے بچوں کو خوشی خوشی جواب دیا بھائی غبارے والے تم تو پاگل ہو گئے ہو۔ کوئی غبارے بیچنے والے بھی اچھا انسان بن سکتا ہے ایک بچے نے فٹ سے جواب دیا۔ اگر تمہیں اچھا انسان بننا ہے تو تعلیم حاصل کرو۔ اور تمہیں کیا پتا کہ تعلیم دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے اور دولت بھی ایسی کہ جسے کوئی چور بھی نہیں چرا سکتا۔ یہ بات ہمارے سر نے ہمیں بتائی ہے… دوسرے بچے نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی…
اگر تمہیں اچھا انسان بننا ہے تو تم غبارے بھی بیچو۔ مگر اچھا ہو گا کہ تم ہمارے سکول میں داخل ہو جاؤ۔ میری عمر تقریباً سولہ سال کے قریب تھی اور بچوں کی عمریں نو سے گیارہ سال کے اندر اندر ہوں گی جو مجھے بھلائی کی طر ف آنے کی دعوت دے رہے تھے۔ ابے یار تو مجھے بھ یسکول میں داخل کرا دو۔ میں بھی پڑھنا چاہتا ہوں … میں نے ایک بچے کو پیار کرتے ہوئے کہا…ہم کیوں داخل کرائیں سر ہماری بات تھوڑی ہی مانیں گے تم اپنے ابو کو ساتھ لے کر آؤ وہ تمہیں داخل کرائیں گے۔
ارے بھئی میرے بچو میرے امی ابو نہیں ہیں میں نے مصلحتاً جھوٹ بولا… کیوں مر گئے ہیں …؟ ایک بچے نے سوال کیا… بچے کی یہ بات میرے دماغ میں گولی کی طرح لگی… کیونکہ میرے ماں باپ تو زندہ ہیں۔
یار تم اپنے ابو سے کہہ کر مجھے داخل کرا دو۔ میں نے بات ٹالنے کی کوشش کی… چلو ٹھیک ہے میں اپنے ابو سے کہوں گا وہ تمہیں داخل کرائیں گے۔
آج میں بہت خوش تھا اب میرا سکول پڑھن کا شوق بھی پورا ہوتا نظر آ رہا تھا۔ میں اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر لوٹ گیا اور بغیر کچھ کھائے پیے خوابوں کی دنیا میں کھو گیا۔
خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پری نے آ کر مجھے جھنجھوڑا تو میں گھبرا کر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ پری نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا گھبراؤ مت میں علم کی پری ہوں اور میرا نام علم پری ہے میں کوہ کاف کے پہاڑوں سے یہاں آئی ہوں اور ہماری ایک بستی ہے جس میں رہنے والی تمام پریاں کو اللہ نے یہ خوبی دی ہے کہ ہم نیک اور اچھے بچوں کے دل و دماغ کے معاملات کو اچھی طرح پڑھ لیتے ہیں۔ اور انہیں اچھی خوش خبری سناتے ہیں۔ تمہارا علم حاصل کرنے کا ارادہ بہت اچھا ہے اور میں تمہیں خوش خبری سناتی ہوں کہ ایک دن تم پڑھ لکھ کر اس معاشرے کے اچھے انسانوں میں اپنا نام پیدا کرو گے اور لوگ تمہاری مثالیں دیں گے۔ شاید تم نے سنا ہو گا کہ ما ں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرنا چاہیے۔ چاہے تعلیم حاصل کرنے کے لیے تمہیں چین کیوں نہ جانا پڑے۔ میں تمہیں خوشخبری سنانے آئی ہو ں کہ کل کی طرح آج بھی سکول کے باہر تم ضرور کھڑے ہونا اللہ تمہاری مدد فرمائے گا۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گئی اور میں ایک دم نیند سے جاگ گیا۔ مجھے شدید پاس لگ رہی تھی۔ میں نے ایک گلاس پانی پیا اور دوبارہ لیٹ گیا مگر نیند آنے کا نام نہ لیتی تھی بس صبح ہونے کا انتظار تھا۔
آخر وہ گھڑی بھی آ ہی گئی کہ میں دوسرے غبارے ایک چھڑی سے باندھے سکول کے سامنے کھڑا تھا۔ کہ عین چھٹی کے وقت ایک صاحب نے موٹر سائکل میرے قریب لا کر روکی۔ ہاں بیٹا تم پڑھنا چاہتے ہو؟ اس شخص نے مجھ سے سوال کیا… جی صاحب میں پڑھنا چاہتا ہوں آپ میری مدد کر سکتے ہیں …؟ ہاں … بیٹا میں تمہاری مدد کر سکتاہوں … مجھے کل اقبال نے تمہارے متعلق بتایا تھا۔ اسی لیے میں تم سے ملنے آیا ہوں … دیکھو بیٹا سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تمہاری عمر زیادہ ہو چکی ہے دوسری بات یہ ہے کہ مجھے اپنے ابو سے ملواؤ… اس سوال نے ایک بار مجھے پھر ہلا کر رکھ دیا۔ تب میں نے تمام روئیداد سنا دی…سوری بیٹا… چلو کوئی بات نہیں۔ بہرحال میں تمہاری ہمت کی داد دیتا ہوں کہ تم نے ایک اچھے اور نیک ارادے کی ٹھان لی ہے۔ یقیناً اللہ تمہیں کامیاب فرمائے گا۔
تم ایسا کرو کل اتوار ہے چھٹی کا دن ہے میں گھر پر ہی ملوں گا۔ تمہیں پڑھانے کے سلسلے میں ایک ماسٹر صاحب سے بات کروں گا۔ اللہ نے چاہا تو وہ تمہیں بغیر کوئی فیس کے لیے پڑھائیں گے۔ جب تم تھوڑا بہت سمجھنے لگو گے تو تمہیں کسی پرائیویٹ کوچنگ سنٹر میں داخل کرا دیں گے۔ تو تم وہاں سے بھی تعلیم حاصل کرتے رہو گے اور امتحان بھی دیتے رہو گے۔ اس طرح تم تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتے چلے جاؤ گے۔
بچے کے والد صاحب کی حوصلہ افزائی نے میرا ڈھیروں خون بڑھا دیا … میں اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر لوٹا… ماں کو حساب دیا اور میلی سی گدڑی پر ڈھیر ہو گیا۔
نیت صا ف منزل آسان… پھر کیا تھا میرا مسئلہ حل ہو گیا میں اسی طرح تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتا چا گیا کچھ سمجھنے لگا تو میں نے خود ہی پرائیویٹ طور پر ایک سنٹر میں داخلہ لے لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مزدوری کی روزی میں اتنی برکت دی تھی کہ میں بہ آسانی گھر پر خرچہ دینے کے بعد فیس بھی ادا کر دیتا تھا۔ مگر ماں باپ ابھی تک سمجھ رہے تھے کہ میں بھیک مانگتا ہوں۔ ہاں البتہ کچھ صاف سھتر ا لگنے لگا تھا اور اس کی وجہ سے وہ پوچھتے تھے کہ آج کل تو بھیک کیسے مانگ رہا ہے تون ے تو حلیہ اچھا بنا رکھا ہے ایسی حالت میں بھیک مانگنا آسان نہیں ہے۔ لیکن میں کوئی جواب نہیں دیتا اور خاموش رہتا۔ مجھے اپنے کام سے کام تھا۔
پھر مجھے میرے خدا نے میری محنت کا صلہ یوں دیا کہ مجھ پرائیویٹ سنٹر میں استقبالیہ پر دو ہزار روپے کی نوکری بھی دے دی گئی اسی طرح مجھے دو ہزار روپے تنخواہ مل جاتی دوپہر کو فارغ ہو کر شام آٹھ بجے تک غبارے بیچتا یوں مجھے گھر لوٹنے تک روزانہ غبارو ں کا خرچ نکال کر ستر اور کبھی اسی روپے مل جایا کرتے۔ اب میری زندگی میں ایک نیا انقلاب آ چکا تھا۔ میں ایک روز صاف ستھرے کپڑے پہن کر ہی گھر گیا تو ماں باپ دونوں مجھے دیکھ کر حیران تھے۔ ارے بھولے یہ تو نے کپڑے کہاں سے لیے ہیں … اور یہ تیرے ہاتھ میں کتابیں کیس ہیں ماں نے چولہا پھونکتے ہوئے مجھ سے سوال کیا ماں اگر میں نے تجھ کو سب کچھ بتا دیا تو خوشی کے مارے تیری بھوک اور نیند دونوں اڑ جائیں گی۔ ماں ذرا باپ کو بھی اپنے پاس بلا میں آج سب کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ بابا نے سنا تو وہ بھی میرے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ چل بے جلدی بتا… کیا بتانا چاہتا ہے۔ بابا فوراً بول اٹھے… بابا بات صرف اتنی ہے کہ تمہارا بھولا اب بھکاری نہیں …بلکہ ایک پڑھا لکھا لڑکا ہے۔ میں سکول میں پڑھتا ہوں … مسجد میں نماز بھی پڑھتا ہوں … مجھے نما ز پڑھنا بھی آتی ہے اور میں نوکری بھی کرتا ہوں اب میں تقریباً چار سے پانچ ہزار روپے عزت سیکمالیتا ہوں۔ بھیک مانگنا سخت گناہ ہے ا س لیے کافی عرصہ سے میں نے بھیک مانگنا چھوڑ دی ہے اور اب تم میرے ساتھ یہاں سے چلے چلو یہ خانہ بدوشی کی زندگی چھوڑ دو… شہر میں کوئی جھونپڑی کرائے پر لے لیں گے میں محنت سے کماؤں اور تم دونوں کو کھلاؤں گا۔ اس طرح ذلت کی زندگی کے بجائے عزت کی زندگی جئیں گے۔ میں پڑھ لکھ کر ضرور ایک نہ ایک دن بابو بھی بن جاؤں گا کیوں کہ تعلیم ایک بڑی دولت ہے اور جس کے پاس بھی یہ دولت ہوتی ہے وہ دنیا میں کبھی خسارے میں نہیں رہتا…
اور پھر یوں بھولا اپنے ماں باپ کو لے کر شہر آ گیا اور عزت کی زندگی گزارنے لگا اور پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
٭٭٭
اعتماد کی دولت
بدر الرحمن
آئے رو ز کے شور شرابے سے میں تنگ آ گیا ہوں بیگم! شیخ راشد نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔ تمہارے وعدوں نے مجھے مار دیا ہے۔ کب سے کہہ رہی ہو کہ کوئی نوکر رکھ کر مجھ سے اب گھر کا کام کاج نہیں ہوتا۔ بیگم نے تحکمانہ انداز میں جواب دیا۔ بس بس! سن لیا کون سا وعدہ؟ شیخ راشد بولے۔
وہ نوکر رکھنے کا وعدہ اور کیا؟ بیگم نے تنک کر کہا۔
اگلے روز شیخ راشد گھر میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ کوئی اجنبی لڑکا تھا۔ ان کی بیگم نے اس لڑکے کی طرف حیران ہو کر دیکھا اور کہا کہ یہ آپ کسے لے آئے ہیں ؟ خود ہی تو بیس پچیس دن سے کہہ رہی تھیں کہ گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ملازم ہونا چاہیے۔ سو لے آیا ہوں۔ اب گھر کا سارا سامان اس سے منگوا لیا کریں۔
شیخ راشد نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔
لیکن یہ آپ کو ملا کہاں سے ؟ آج کل بھلا اس طرح کسی کو ملازم رکھا جا سکتا ہے؟ کل کلاں اگر یہ کوئی قیمتی چیز اڑا لے تو؟ بیگم نے برا سا منہ بنا تے ہوئے کہا۔
ایسا نہیں ہو گا بیگم! یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔ شیخ راشد مسکرا دیے۔ کون سے بازو؟ بیگم صاحبہ نے چونک کر پوچھا۔ میرا مطلب ہے میرا جبہ ہے میں کھرے کھوٹے میں فرق کر سکتا ہوں شیخ راشد نے نہایت تسلی سے جواب دیا۔
تو آپ تمیز کر چکے ہیں۔ بیگم کے لہجے میں حیرت تھی ہاں بالکل یہ شریف لڑکا ہے بازار میں خربوزے بیچ رہا تھا۔
میں نے سوچا ہمیں ضرورت تو ہے ہی یہ بھی خربوزے بیچنے کی مصیبت سے بچ جائے گا۔ اس سے بات کی تو یہ مان گیا سواسے گھر لے آیا۔
لیکن یہ خربوزے کیوں بیچ رہا تھا؟ بیگم نے پوچھا۔
حد ہو گئی! یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ حالات انسان سے کیا کچھ نہیں کراتے۔ شیخ اکرم نے کہا آخر تم کیا چاہتی ہو بیگم یہ اور کیا بیچتا۔ میں اطمینان چاہتی ہوں یا پھر میرا اطمینان کرا دیں۔ بیگم نے جواب دیا۔
آپ مجھے اطمینان کرا دیں گے کہ اگر یہ میرے زیورات لے اڑا تو ذمہ دار آ پ ہوں گے اور وہ چیز نئی خرید کر دیں گے۔
ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ یہ کہہ کر وہ اس کی جانب مڑے دیکھو زاہد تم یہ بات چیت سن ہی چکے ہو۔ اب یار مجھے بیگم کی نظروں میں شرمندہ نہ کرانا۔
جی اچھا… آپ فکر نہ کریں ۔ زاہد نے فورا ً کہا۔ فکر تو اب میں کروں گی بیگم صاحبہ نے منہ بنایا۔
میرا خیال ہے صاحب! میں ان حالات میں نہیں رہ سکتا۔ میرے لیے خربوزے ہی ٹھیک رہیں گے۔ زاہد نے قدرے پریشان ہو کر کہا غلط سمجھے شیخ راشد بولے۔ بیگم صاحبہ بس ظاہر میں سخت مزاج ہیں لیکن دل کی بہت اچھی ہیں۔ شیخ راشد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
نہیں شیخ صاحب! بیگم صاحبہ مجھ پر اعتبار نہیں کر رہی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا اچھا نہیں ہوتا۔ انسان میں عزت اور غیرت نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ زاہد رکے بغیر بولے جا رہا تھا۔
تم تو برا مان گئے۔ شیخ راشد نے مسکراتے ہوئے مشفقانہ لہجے میں کہا میں نے آپ کو بتایا کہ بیگم صاحبہ دل کی بری نہیں ہیں۔ بس تھوڑی سی سخت گیر ضرور ہیں۔ شیخ راشد نے زاہد کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
یہاں میرے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی! شیخ راشد نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
آخر زاہد مان گیا اوراس نے گھر کا کام کاج سنبھال لیا۔ اب اسے شیخ راشد کے گھر رہتے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا تھا۔ اس نے اس دوران اپنا اعتماد اچھی طرح جما لیا تھا۔ اب وہ لوگ اس پر اندھا اعتماد کرنے لگے تھے۔ کبھی کسی تقریب میں جانا ہوتا تو سارا گھر اس پر چھوڑ جاتے تھے۔
اور پھر ایسے میں ان کے گھر چوری کی واردات ہو گئی۔ ساتھ ہی زاہد بھی غائب تھا۔ اب تو شیخ راشد کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
بیگم صاحبہ طنزیہ انداز میں بولیں۔ اب آپ کیا کہتے ہیں ؟ ک ک … کچھ نہیں۔ اب میں کیا کہوں گا۔ اس نے ٹھیک کہا تھا۔ میرے لیے خربوزے ہ ٹھیک رہیں گے۔ لیکن اب کیا ہو گا۔
شیخ راشد بولے۔
ہو گاکیا…پولیس کو تو بلانا ہی ہو گا۔ تمام زیورات غائب ہیں اور قیمتی چیزیں بھی جا چکی ہیں۔
آخر پولیس کو فون کیا گیا ایک گھنٹے کے بعد پولیس پارٹی وہاں پہنچ گئی۔ پولیس آفیسر نے بہت سے سوالات کے۔ شیخ راشد نے زاہد کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ خربوزے کے ذکر پر وہ چونکا آپ کا مطلب ہے وہ پہلے خربوزے بیچا کرتا تھا۔ ہاں جناب! شیخ راشد نے جواب دیا۔
اچھی بات ہے آپ فکر نہ کریں ہمیں چوروں کو پکڑنا آتا ہے۔ پولیس پارٹی چلی گئی۔ تین دن بعد پولیس آفیسر زاہد کو لیے ہوئے ان کے گھر آ پہنچا وہ زاہد کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ وہ بری طرح زخمی تھا۔ سارے جسم پر زخم ہی زخم تھے۔ گومڑ ہی گومڑ جسم پر کئی جگہ نظر آ رہے تھے۔ اوراس کے علاوہ بڑے بڑے نیل واضح تھے۔
یہ آپ نے اس کی کیا حالت بنا دی ہے اوراس قدر مار نے کی کیا ضرورت تھی۔ شیخ راشد نے پولیس انسپکٹر سے کہا۔
آپ کا خیال غلط ہے۔ یہ ہمیں اسی حالت میں شہر سے باہر سڑک کے کنارے پڑا ہوا ملا تھا۔ اس بے چارے نے چوری نہیں کی۔ بلکہ چوروں کا تعاقب کیا تھا۔ چور پیدل تھے۔ جب یہ ان کے پیچھے بھاگا تو وہ بھی بھاگنے لگے۔
آپ کی کوٹھی ہے بھی شہر کے کنارے پر۔ آس پاس کوئی پولیس چیک پوسٹ نہیں ہے۔ جہاں پولیس رات کے وقت نگرانی کرتی ہے لہٰذا یہ بھاگتے بھاگتے شہر سے باہر نکل گئے۔ بس وہاں رک کر چوروں نے زاہد کو خوب مارا اور چلتے بنے۔ ایک آدمی اسے بے ہوشی کے عالم میں اٹھا کر ہسپتال لے گیا۔ تین دن تک یہ بے ہوش رہا۔ ہوش آنے پر زاہد نے آپ کے بارے میں بتایا۔ پولیس کے ایک سپاہی نے مجھے اطلاع دی۔ اس طرح میں نے آپ کے پاس لے آیا ہوں پولیس آفیسر نے وضاحت ک۔
اور چور… وہ کہاں گئے؟ شیخ راشد نے پوچھا۔ زاہد نے چوروں کے حلیے بتا دیے تھے۔ ہم ان حلیوں کے جرائم پیشہ لوگوں کو پہلے ہی سے جانتے تھے۔ بس پکڑے گئے سب کے سب اور میں آپ کا مال بھی لے آیا ہوں پولیس آفیسر نے کہا۔
ارے ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ پھر ان کے سر شرم کے مارے جھک گئے شیخ راشد نے کہا زاہد ہمیں معاف کر دو ہم نے تم پر شک کیا۔ زاہد نے کہا شیخ صاحب! منہ سے نکلی ہوئی بات کمان سے نکلا ہو ا تیر اور گزار وقت کبھی واپس نہیں آ سکتے۔ آپ نے مجھے غلط سمجھا۔ بیگم صاحبہ کی نظروں میں تو میں پہلے ہی مشکوک تھا۔ اب میرے اور آپ کے راستے جدا جدا ہیں۔ آپ کو تو اپنی دولت واپس مل گئی ہے لیکن میرے اعتماد کی دولت تو لٹ چکی ہے۔ اب میں آپ کے پاس کیس رہ سکتا ہوں ؟
شیخ راشد اور ان کی بیگم صاحبہ نے زاہد کی بہت منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانا اور واپس جا کر خربوزے بیچنے لگا۔
نتیجہ ’’گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
٭٭٭
رانی کی گڑیا
انیلا اخمت
روما کو گڑیاں جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے ایک گڑیا گھر بنا رکھا تھا۔ جس میں ہر قسم کی گڑیاں تھیں کوئی چھوٹی تو کوئی بڑی۔ کوئی گانا سنانے والی تو کوئی ناچنے والی۔ کوئی انگریزی پڑھنے والی تو کوئی نظمیں سنانے والی، کوئی کالی تو کوئی گوری تو کوئی لمبے بالوں والی۔ روما اپنی گڑیوں سے بہت پیار کرتی تھی۔ گھنٹوں ان سے بیٹھ کر باتیں کرتی رہتی تھی۔ کبھی ان کے بال سنوارتی تو کبھی ان کو رنگ برنگے لباس پہناتی۔ وہ اپنی گڑیوں کی بہت حفاظت کرتی تھی۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں روما کی دادی اماں نے روما کو گاؤں کی سیر کو بلوایا۔ ابو مصروف تھے اور امی کو گھر کے کاموں سے فرصت نہ تھی۔ روما کو دادی اماں آ کر لے گئیں روما گاؤ جاتے ہوئے صرف دو گڑیاں ہی ساتھ لے جا سکی۔ کیونکہ تمام گریاں ساتھ نہیں جا سکتی تھیں ۔ روما گڑیوں سے بچھڑتے ہوئے بہت اداس تھی۔ گاؤں جا کر روما کا کچھ دن دل نہ لگا پھر اس کو ایک دوست رانی مل گئی۔ رانی اسی گاؤں کی رہنے والی تھی۔ اور وہیں پڑھتی بھی تھی۔ رانی کو بھی چھٹیاں تھیں۔ دونوں مل کر خوب کھیلتیں ۔ شرارتیں کرتیں۔ رانی بہت اچھی بچی تھی۔
روما نے رانی کو اپنی گڑیوں کے بارے میں بتایا۔ تو رانی بولی روما! میرے پاس تو صرف ایک گڑیا ہے۔ جو مجھے کسی نے تحفہ دی تھی۔ میں اسے بہت سنبھال کر رکھتی ہوں ۔ روما نے سوچا کہ کوئی عام سی پلاسٹک کی گڑیا ہو گی ٹانگ ٹوٹی ہوئی اورآنکھ پھوٹی ہوئی۔ اگے دن ہی روما رانی کے ساتھ اس کی گڑیا دیکھنے کو چل دی۔ رانی نے بڑے صندوق میں سیجب اپنی گڑیا نکال کر روما کو دکھائی تو روما حیران رہ گئی۔ بڑی سی گڑیا سنہرے بال، نیلی آنکھیں ۔ کبھی بند کر تی کبھی کھولتی کبھی ہنستی کبھی روتی۔ روما سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ رانی کے پاس اتنی خوبصورت اور قیمتی گڑیا ہو گی۔ روما کے پاس اس جیسی کوئی گڑیا نہ تھی۔ گھر واپس آ کر بھی روما رانی کی گڑیا کے خیالوں میں کھوئی رہی۔ وہ کسی نہ کسی طرح رانی سے وہ گڑیا لینا چاہتی تھی۔ اگر وہ گڑیا میرے گڑیا گھر میں پہنچ جائے تو کیا ہی بات ہے۔ میرا گڑیا گھر سج جائے گا۔ روما رات ٹھیک طرح سو بھی نہ سکی۔ اگلے دن باتوں ہی باتوں میں روما نے رانی سے کہا کہ رانی اگر تم میری سچی دوست ہو تو اپنی گڑیا مجھے تحفے میں دے دو۔ رانی بولی روما میں بے شک تمہیں اپنی گڑیا دے دیتی مگر وہ گڑیا خود مجھے تحفے می ملی ہے۔ میں تمہیں وہ کیسے دے سکتی ہوں روما چپ ہو گئی۔
امی جان کا خط آیا تھا چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں۔ روما واپس آ کر جاؤ۔ دادی اماں نے روما کو چھوڑنے شہر جانا تھا۔ اگلی صبح ان کی روانگی تھی۔ شام کو روما رانی کے گھر گئی اور رانی سے بولی رانی اپنی گڑیا آج کی رات مجھے دے دو۔ صبح میں تمہیں گڑیا واپس لوٹا دوں گی۔ آج میں اس سے کھیلنا چاہتی ہوں۔ روما نے رانی سے اپنے جانے کی بات نہ کی۔ رانی نے روما کو اپنی گڑیا دے دی اور روما صبح گڑیا لوٹانے کا وعدہ کر کے خوشی خوشی گڑیا لے کر گھر آ گئی اور اپنے بیگ میں چھپا لی۔ صبح منہ اندھیرے ہی دادی اماں اور روما شہر جانے والی بس پر سوار ہو کر گاؤں سے چل پڑیں۔ روما بہت خوش تھی کہ اس نے چالاکی سے رانی سے گڑیا لے لی ہے۔ سارا سفر اسی خوشی میں کٹ گیا۔ گھر آ کر روما جلدی سے اپنے گڑیا گھر میں گئی اور تمام گڑیوں کو پیارکیا اور نئی گڑیا کو بھی سجا کر رکھ دیا۔ امی نے گڑیا کو دیکھا تو روما نے پوچھا۔ روما بیٹی یہ نئی گڑیا کہاں سے آئی ہی۔ روما جھٹ سے بولی گاؤں میں میری سہیلی نے تحفے میں مجھے یہ گڑیا دی ہے۔ ادھر اگلی صبح جب رانی روما کی دادی کے گھر پہنچی تو اسے پتا چلا کہ روما تو پہلے ہی اپنی دادی کے ساتھ شہر جا چکی ہے۔ تو اسے بہت افسوس ہوا۔ اسے روما سے اس دھو کے کی امید نہ تھی وہ اپنی گڑیا چھن جانے کے خیال سے بہت پریشان ہوئی اور بہت روئی۔
اگلے روز جب روما جا گی اور گڑیا گھر میں گئی۔ گڑیوں کے ارد گرد پھرتے ہوئے اس نے دیکھا کہ اس کی ایرانی گڑیا کے لمبے لمبے بال کا ٹ کر کسی نے نیچے فرش پر پھینک دیے ہیں یہ کیا؟ اس کی تو ایک آنکھ بھی غائب ہے۔ روما کو بہت افسوس ہوا کہ یہ کس کی حرکت ہے امی نے کہا روما بیٹا۔ گھر میں تمہارے سوا کوئی بچہ نہیں۔ تمہارے ابو یا میں تو تمہاری گڑیا خراب نہیں کر سکتے۔ روما کو صبر کرنا پڑا۔ لیکن جب اگلی صبح دوبارہ دیکھا کہ اس کی ٹھمک ٹھمک کر چلنے والی جاپانی گڑیا کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے تو روما سچ مچ پریشان ہو گئی۔ اس کی پریشانی بڑھتی ہی گئی روزانہ ایک نہ ایک گڑیا کا کباڑہ ہو جاتا۔ گڑیا گھر میں سجی خوبصورت گڑیا کوئی آنکھ سے کانی تو کسی کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی کوئی گنجی تو کسی کا ناک کٹا ہوا۔ روما کا صدمے سے برا حال تھا۔ ابو جان تک جب یہ خبر پہنچی تو وہ بھی پریشان ہو گئے وہ کافی دیر تک سوچتے رہے کہ آخر کیا ماجرا ہے؟ ایک دن جب رات کو روما سو گئی تو ابو اور امی چپکے سے آ کر گڑیا گھر کی کھڑکی کے پاس چھپ کر کھڑ ے ہو گئے تاکہ گڑیوں کا حشر نشر کرنے والوں کو دیکھا جا سکے۔
گڑیا گھر میں ایک چھوٹا سا بلب روشن تھا۔ اور وہاں مکمل خاموشی تھی۔ کافی دیر تک امی ابو خاموشی سے کھڑے رہے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک کونے میں پڑی ہوئی گڑیا نے ایک دم سے حرکت کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بدصورت شکل اختیار کر گئی۔ پھر وہ روما کی ایک خوبصورت گڑیا کی طرف بڑھی۔ بے دردی سے اس کے بال نوچے اور آنکھیں نوچیں اور اس کا خوبصورت لباس پھاڑ کر دو پھینکا۔ اور دوبارہ جا کر خوبصورت گڑیا کا روپ دھار لیا۔ امی ابو خوف سے سہمے کھڑے تھے۔ وہ جلدی سے اپنے کمرے میں پہنچے اور اس واقعے کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ یہ گڑیا جس ے بدصورت شکل اختیار کی تھی روما کے پاس آخر آئی کہاں سے؟ روما کے ابو نے روما کی امی سے سوال کرتے ہوئے کہا۔ یہ گڑیا روما کو گاؤں کی کسی سہیلی نے دی تھی۔ روما کی امی نے جواب دیا۔ اگلی صبح روما کے ابو نے روما کو اپنے کمرے میں بلوایا۔ روما اپنی گڑیا کا حشر دیکھ ر روتی ہوئی ابو کے پاس آئی ابو بولے روما بیٹا میر ساتھ گڑیا گھر میں چلو۔ وہاں جا کر ابو رانی کی گڑیا کے پاس کھڑے ہو گئے اور روما سے پوچھا یہ گڑیا تمہیں گاؤں کی کس سہیلی نے دی تھی؟ روما نے کہا رانی نے دی تھی۔ ابو بولے اگر تم بہادر بچی ہو اور ڈرتی نہیں ہو تو میں تمہیں ایک بات بتاؤں روما نے کہا جی ابو بتائیے۔
تو سنو تمہاری تمام گڑیوں کی قاتل یہ گڑیا ہے۔ آدھی رات کو اپنی شکل بدل کر تمہاری گڑیوں کو یہی توڑتی پھوڑتی ہے۔ اور پھر دوبارہسے خوبصورت گڑیا بن جاتی ہے۔ تمہاری دوست نے شاید اپنی اتنی پیاری گڑیا تمہیں دے کر اپن جان چھڑوا لی تھی۔ روما ابو کی بات سن کر حیران پریشان رہ گئی۔ اسے یاد آیا کہ کیسے دھوکے سے اس نے رانی سے یہ گڑیا حاصل کی تھی۔ جبکہ رانی کے پاس ایک ہی یہی گڑیا تھی۔ اب تو روما کے گڑیا گھر میں گنی چنی گڑیاں رہ گئیں تھیں۔
ابو جان! یہ گڑیا مجھے تحفے میں نہیں ملی۔ بلکہ میں نے رانی سے دھوکے سے حاصل کی تھی۔ روما نے گھبرا کر ابو کو ساری بات کہہ سنائی۔ ابو بھی روما کی حرکت سے سخت ناخوش ہوئے۔ چونکہ دادی اماں تو واپس گاؤ ں جا کر چکی تھیں ۔ آج چھٹی کا دن تھا ابو نے اسے ضائع نہ کیا ابو نے روما امی اور رانی کی گڑیا کو ساتھ لیا اور گاؤں کی طرف چل دیے۔ گاؤں پہنچتے ہی وہ پہلے رانی کے گھر گئے۔ رانی روما کو دیک کر حیران بھی ہوئی اور ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔ ابو بولے۔ رانی بیٹی۔ روما کو معاف کر دو۔ اسے اپنے کیے کی سزا مل چکی ہے۔ تمہاری گڑیا نے روما کا سجا ہوا گڑیا گھر ویران کر دیا ہے ہم تمہاری گڑیا لوٹانے آئے ہیں اور روما تم سے معافی مانگنے آئی ہے۔ رانی نے روما کو معاف کر دیا۔ اور اپنی گڑیا کو پیار کرنے لگی۔ ابو جان کو تجسس تھا کہ ایسی عجیب و غریب گڑیا رانی کے پاس کہاں سے آئی۔ انہوں نے رانی سے پوچھا تو رانی نے جواب دیا۔
ایک دن میں گاؤں کے پہاڑ پر لکڑیاں لینے گئی۔ جب میں واپس لوٹنے لگی تو میں نے دیکھا کہ ایک درخت کے نیچے کسی کے کراہنے کی آواز آ رہی تی۔ میں فوراً پاس گئی تو دیکھا کہ ایک خوبصورت تتلی کانٹوں کی جھاڑی میں پھنسی ہوئی ہے اور ایک کانٹا اس کے خوبصورت پر کے آر پار گزر کر اسے اڑنے نہیں دے رہا۔ میں نے بڑی نرمی سے کانٹے ہٹائے ننھی تتلی کو کانٹوں سے چھٹکارا دلایا۔ جنگلی درخت سے شہد اتار کر اس کے زخم پر لگایا۔ ب میں نے اسے پھول پر بٹھا کر گھر چلنے کا ارادہ کیا تو پیچھے سے کسی نے مجھے پکارا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک خوبصورت پری کھڑی تھی۔ میں نے پوچھا تم کون ہو؟ پری بولی۔ میں ہ وہ تتلی ہوں جسے تم نے کانٹوں سے نکالا اور اس کے زخموں پر شہد لگایا۔ پیاری گڑی اتم بہت ہمدرد اور اچھی بچی ہو۔ میں تمہیں یہ گڑیا تحفے میں دیتی ہوں۔
انکل اس پری نے یہ گڑیا مجھے تحفے میں دی تھی۔ رانی نے گڑیا کو پیار کرتے ہوئے کہا۔ روما کے ابو سارا قصہ سمجھ گئے۔ انہوں نے رانی کو شہر آنے کی اور شہر کی سیر کروانے کی دعوت دی روما نے رانی سے اپنے کیے کی معافی مانگی۔ رانی نے روما کی غلطی معاف کر دی۔ اور روما کو گلے لگا لیا۔
جب روما اور اس کے گھر والے واپس شہر آنے لگے تو رانی نے کہا پیاری روما۔ اب میں اپنی خوشی سے یہ گڑیا تمہیں تحفے میں دینا چاہتی ہوں نہیں نہیں نہیں … رانی اسے اپنے پاس رکھو۔ ابو اور روما جلدی سے بولے۔ اس سے پہلے کہ رانی کی یہ گڑیا دوبارہ سے بدصورت گڑیا بنتی ابو اور روما نے شکریہ ادا کرتے ہوئے رانی سے اجازت چاہی ابھی گھر جا کر روما نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اور زخمی گڑیوں کی مرہم پٹی بھی کرنی تھی۔
٭٭٭
فیصلہ
ماریہ نورین
وہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ اس نے اسی معاشرے میں آنکھ کھولی تھی۔ جس میں رہنے والوں کی خواہشات کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ اس کی بھی چند معصوم سی خواہشات تھیں۔ سکول کا اچھا سا بستہ کتابیں ٹافیاں کھلونے اور اسی طرح کی چند دوسری چیزیں جو وہ اپنے ہم عمر بچوں کے ہاتھوں میں دیکھتا تھا۔
وہ کون تھا؟ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ خود بھی نہیں۔ اس کا کیا نام تھا؟ معاشرے میں اسے لوگ ننھا کہہ کر پکارتے تھے ننھے کی ایک چھوٹی سی دنیا تھی جس میں وہ اٹھتا بیٹھتا تھا۔ کام کرتا اور سو جاتا تھا۔ یہ دنیا ایک چھوٹی سی دکان اور دو کمروں پر مشتمل تھی۔ جس میں وہ کام کرتا اور سوتا تھا یہ دکان اور گھر اس کے استاد کا تھا۔ ا سے ارد گرد کے ماحول سے کوئی سروکار نہ تھا۔ لیکن پھر ایک د ن ایسا بھی آیا کہ جب اس کی دنیا میں انقلاب آ گا۔
ادھر بیٹھ ذرا یہ ادھر سے کھول۔ استاد کے احکامات پر وہ اس طرح عمل کرتا جیسے وہ کوئی مشین ہو۔ استاد ہی تھا جو اس کا سب کچھ تھا۔ وہ اسے باپ کی طرح سمجھتا تھا۔ اور استاد نے بھی اسے بیٹوں کی طرح پالا تھا۔ لیکن کام کے معاملے میں وہ ذرا رعایت نہیں کرتا تھا۔
یہ کیا کر رہے ہو؟ ادھر سے کھولو۔ استاد کی آواز پر وہ چونکا ورنہ وہ تو کسی اور ہی دنیا میں پہنچا ہو ا تھا۔ وہ جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگا۔ لیکن پھر بھی اس کا ہاتھ ٹھیک طرح نہیں چل رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے ذہن میں ایک کار کے مالک کے الفاظ گونج رہے تھے۔
استاد تمہیں شرم نہیں آتی اتنے معصوم بچے سے کام لیتے ہو۔ یہ تو اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں جناب لیکن ا س مہنگائی کے دور میں ہم غریب لو گ کیا کریں ؟ تعلیم اس قدر مہنگی ہے کہ اس کی کتابوں یونیفارم اور سکول کی فیس کا خرچ کون نکالے۔ ویسے بھی اس نے ایک دن پڑھ لکھ کر مکینک ہی بننا ہے۔
یہ تمہارا بچہ نہیں ہے نا اس لے تم اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہو۔ اس کے بعد کیا باتیں ہوئیں اسے کچھ یاد نہیں تھا۔ بس یہ آخری جملہ تیر کی طرح اس کے ذہن میں چبھ گیا تھا اور بار بار یہی جملہ گونج رہا تھا۔
لگتا ہے آج کام میں دل نہیں لگ رہا ہے تمہارا استاد کا لہجہ سخت تھا۔
نہیں تو… نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں۔ بس صبح سے سر میں درد ہے۔ اس نے بہانہ کیا۔
اچھا! پہلے کیوں نہیں بتایا۔ جا اندر جا کا دراز میں رکھی شیشی سے ای گولی کھا لے اور ہاں … گولی کھ اکر آرام کرنا استاد کا لہجہ نرم ہو گیا تھا۔
لگتا ہے بیچارا رات بھر کام کرنے کی وجہ سے تھک گیا ہے رات دیر سے جو سویا تھا۔ استادنے بڑبڑاتے ہوئے خود سے کہا لیکن ننھے نے جاتے جاتے بھی یہ الفاظ سن لیے۔
استاد میرا خیال کرتا ہے لیکن میں اس کا کیا لگتا ہوں ؟ وہ میرا کیوں خیال کرنے لگا۔ اسے تو بس اپنے کام سے غرض ہے ڈرتا ہے میں بیمار پڑ گیا تو اس کا اتنا کام کون کرے گا؟ اس نے دل میں سوچتے ہوئے اپنے آپ سے خود کلامی کی پھر یہی باتیں سوچتے سوچتے وہ سو گیا۔ جب بیدار ہوا تو اس کے کا ن میں وہ مانوس آواز سن رہے تھے جو کل اس نے سنے تھے اگر تم کہو تو میں اس کی تعلیم کا خرچ اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ میرا اپنا سکول ہے اسے کسی قسم کا مسئلہ نہیں رہے گا۔
وہ تو ٹھیک ہے… استاد کی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی۔
لیکن ویکن چھوڑو۔ میری بات مان لو۔ میں تمہیں سوچنے کا موقع دیتا ہوں۔ اگر تمہیں ننھے سے ذرا بھی محبت ہے تو اس سے یہ کام مت لو۔ یہ بچوں کے حقوق کے منافی ہے۔ اس کے بعد آوازیں آنا بند ہو گئیں۔ شاید وہ چال گیا تھا۔
ننھا فوراً اٹھا اور پھر کام میں جٹ گیا لیکن اب وہ دیکھ رہا تھا کہ استاد کچھ کچھ پریشان ہے اور کن اکھیوں سے بار بار اس کی طرف دیکھتا۔ آخر کار جب رات ہوئی اور دونوں کھانا کھانے بیٹھے تو استاد نے ننھے کی طرف دیکھ کر کہا
ننھے تمہیں پتا ہے کہ آج وہی لال گاڑی والے سیٹھ آئے تھے جنہوں نے تمہیں پڑھنے کے لیے کتاب دی تھی۔
ہاں ہاں وہی جو مجھے پڑھنے کا کہ رہے تھے۔ ننھا دل ہی دل میں خوش ہو کر بولا۔ آج کیا کہہ رہے تھے وہ؟ اس نے انجان بن کر پوچھا۔
کہتے تھے کہ تمہیں ان کے سکول میں داخل کرا دوں وہ تمہاری تعلیم کا خرچ اٹھانے کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی ایک شرط ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تم سے ورکشاپ میں کام نہ لوں وہ تمہیں اپنے پاس رکھ لیں گے سکول کے کام کاج وہ تم سے لیں گے۔
استاد تم نے کیا کہا؟ ننھا جھٹ بول پڑا۔
میں تو بس تمہارے جواب کا منتظر ہوں۔ یہ فیصلہ تمہیں خود کرنا ہے کہ اپنے استاد کے پاس رہنا ہے یا ماسٹر صاحب کے پاس۔ وہ یہ سن کر بہت خوش ہو ا لیکن جب استاد کو چھوڑنے کی بات آئی تو اس کے دل میں عجب سی کشمکش شروع ہو گئی۔ وہ کچھ نہ بول سکا۔ لیکن استاد یہ کہہ کر کھانا چھوڑ کر اٹھ گیا کہ اس نے صاف محسوس کیا کہ استاد آنکھوں میں آنے والے آنسوؤں کو چھپانا چاہتا ہے۔
ایک طرف اس کا استاد تھا اور دوسری طرف ماسٹر صاحب اب اس کی آرزوئیں اور خواہشات پوری ہونے کا وقت آ گیا تھا۔ لیکن اس کے دل میں عجیب سی کسک تھی۔ آخر مجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے سوچا مجھے کیا پڑی ہے محنت مشقت کرنے کی۔ ان تمام تسلی دینے والی باتوں کے باوجود وہ اپنے دل کو تسلی نہ دے سکا۔ اب اسے انداز ہو رہا تھا کہ اس کے استاد کا اس سے کیا رشتہ ہے؟
استاد اس نے بھرائی ہوئی آواز میں استاد کو مخاطب کیا میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ مجھے ایسی تعلیم نہیں چاہیے جو مجھے اپنوں سے بیگانہ کر دے۔ مجھے وہ تعلیم چاہے جو تم مجھے دیتے ہو یہ کہہ کر وہ بے اختیار استاد کے گلے لگ گیا۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
نہیں ننھے ایسا نہیں ہو گا۔ تم سکول میں پڑھو گے۔ میں نے سوچ لیا ہے۔ میں نے یہ فیصلہ بہت پہلے ہی کر لیا تھا لیکن میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم کس کا ساتھ دیتے ہو؟ استادنے ننھے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
لیکن استاد… اس نے خوش ہو کر کہا۔ لیکن اب میری ایک شرط ہے؟ اس نے کہا۔
وہ کیا؟ استاد نے حیران ہو کر پوچھا۔
استاد میں شام کو تمہارے ساتھ کام کروں گا۔ ننھے نے معصومیت سے کہا تو استاد نے خوشی سے اسے پھر گلے سے لگا لیا ہاں ہاں !! کیوں نہیں ننھے؟
٭٭٭
حادثہ
بشریٰ خانم
عید کا دن تھا۔ یہ دن بچوں کے لیے خوشیوں کا دن ہوتا ہے۔ رنگ برنگے کپڑے عیدیاں کھلونے مزے مزے کی سویاں ، مٹھائی دہی بڑے سب کچھ ایک ساتھ کھانے کو مل جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ بڑوں کو تو یہی فکر رہتی ہے کہ سب بچوں کی ضروریات پوری ہو جائیں اور اگر اس خوشی میں کسی غیر نادار کو بھی شامل کر لیا جائے تو خوشی دوبالا ہو جاتی ہے ہاں تو عید کا دن تھا بریگیڈئیر رفیع اپنی والدہ کے گھر میں اپنے بیٹے کیپٹن وجاہت بیگم اور بہو اور ننھے سے پوتے کے ساتھ موجود تھے۔ پوتے صاحب دنیا میں نئے نئے تشریف لائے تھے اور مزے سے آنکھیں بند کیے سو رہے تھے۔ بریگیدئیر رفیع کی والدہ کے گھر میں ان کی بہنیں اور بھائی بھی ماں سے عید ملنے آئے ہوئے تھے۔ سب نے مل کر شام کی چائے پی موسم بہت خوشگوار تھا۔ ہلکی ہلکی سردی تھی مگر ننھے میاں کو خوب گرم کپڑوں میں لپیٹا گیا تھا۔
باتوں باتوں میں رات ہو گئی۔ سب اکٹھے ہوں تو پھر باتوں میں وقت کا پتہ نہیں چلتا۔ رات کے کھانے کے بعد لطیفوں کا دور شروع ہوا۔ سب نے کوئی نہ کوئی لطیفہ سنایا۔ نئے لطیفے ختم ہو گئے تو پرانے شروع ہو گئے لطیفوں کی عجیب بات ہے بار بار سننے پر بھی ہنسی آ جاتی ہے۔ سننے کے بعد سب سوچ رہے تھے کہ کون لطیفہ سنائے گا کہ کیپٹن وجاہت نے سب کو خاموش کراتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔ کہ میں آپ کو بالکل نیا اور سچا واقعہ سناتا ہوں۔ سب ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ کیپٹن وجاہت تھے بھی بڑے گپی۔ اکثر بڑی سنجیدگی سے قصہ سناکر کہتے یہ تو گپ تھی۔ اس لیے پھوپھو نے کہا کہ گپ ہو گئی پوری۔ نہیں پھوپھو یہ گپ نہیں اچھا چلو دیکھتے ہیں پھوپھو نے کہا۔
کیپٹن وجاہت نے سنانا شروع کیا کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ اور سرف ان کی آواز آ رہی تھی۔ ایک صبح اپنے یونٹ میں (یونٹ فوج میں آرمی کا ایک دستہہوتاہے) پی ٹی یعنی ورزش کا وقت تھا۔ سارے فوجی جوان میدان میں صبح کی نرم نرم دھوپ میں اپنے جسم کو گرمانے کے لیے پی ٹی شروع ہونے سے پہلے اچھل کود کر رہے تھے۔ کچھ جوان ابھی آ رہے تے اس لیے باقاعدہ پی ٹی شروع نہیں ہوئی تھی۔ د
کیپٹن وجاہت کو دور سے ایک موٹر سائیکل نظر آئی قریب آنے پر انہوں نے اسے پہچانا کہ یہ تو ان کا دوست ہاشم ہے کیپٹن نے ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے سلام کیا موٹر سائیکل سوار نے بھی ہاتھ ہلایا مر یہ کیا ہوا اچانک موٹر سائیکل ہوا میں اچھلا اور سوارکئی گز دور جا گرا۔ کیپٹن سمیت سارے جوان بھاگے ہاشم کو اٹھایا اور ہسپتا ل لے گئے۔ اسے کافی چوٹیں آئیں تھیں۔ اس نے بولنا چہا مگر ڈاکٹر نے اس کی حالت دیکھ کر کہا کہ آپ لوگ اس وقت جائیں اور شام کے وقت آئیں ہم سب واپس آ گئے مگر حیرت سے سوچتے رہے کہ آخر یہ کیسے ہوا پورا ان بڑی بے چینی سے گزرا شام ہوئی تو می اور ہاشم کے دوست اس کی خیریت دریافت کرنے ہسپتال پہنچے۔ اس وقت وہ اپنے وارڈ میں بسترپر لیٹا ہوا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ بہت گہری چوٹیں نہیں آئی تھیں۔
ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ صبح میں جوگنگ کے بعد موٹر سائیکل پر واپس آ رہا تھا کہ مجھے احسا س ہوا کہ سردی ہے اور میں نے گرم کپڑے نہیں پہنے ہوئے بس ایک قمیص اور نیکر پہنے ہوئے تھا۔ میں نے ایک ہاتھ میں نیکر کی جیب میں گھسا دیا اور دوسرے سے بائیک کا ہینڈل تھامے تھا جب گراؤنڈ کے پاس پہنچا تو مجھے آپ نے اشارہ کیا۔ میں نے ہینڈل والا ہاتھ اٹھا کر آپ کو جواب دیا۔ سامنے سپیڈ بریکر تھا جو میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ میرا دوسرا ہاتھ جیب میں تھا۔ بائیک سپڈ بریکر سے ٹکرا کر اچھلی تو می بھی دور جا پڑا۔ مجھے یاد ہیں نہ رہا تھا کہ سردی کی وجہ سے میں نے ایک ہاتھ جیب میں گھسا رکھا ہے۔
اس کے بعد اس نے ہنسنا شروع کر دیا۔ ہم بھی ہنس دیے کیونکہ اس کی حالے بہتر تھی اور خطرے کی کوئی بات نہیں تھی۔ ہاشم بہت ملنسار اور ہنس مکھ نوجوان ہے۔ اس لیے اس کے موٹر سائیکل سے گرنے کی خبر سن کر اس کے دو درجن سے بھی زیادہ دوست اور ملنے والے اکٹھے ہو گئے۔ اس کے والد کو خبر ملی تو وہ بھی پہنچ گئے۔ ہاشم نے جو بھی اس سے ملنے آیا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا۔ اس نے پورا واقعہ من و عن اسے سنا دیا۔ اس دوران وارڈ بوائے کے ساتھ والے بیڈ پر ایک بزرگ جن کا آپریشن ہوا تھا لٹا گئے اور کہا کہ یہ ابھی بے ہوش ہیں ان پر انستھیسیا کا اثر ہے تھوڑی دیر میں ہوش آ جائے گا۔ مریض کی بیٹی ان کے بستر کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی اور ڈرپ میں سے ایک ایک قطرہ گرتے دیکھنے لگی۔ ہمیں احساس ہی نہ ہوا کہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے سے بھی زیادہ گزر چکا ہے اور ہاسپٹل جو بھی اس کی تیمار داری کے لیے آیا اور کہتا کہ کیا ہوا تھا تو پورا واقعہ سنا دیتا۔ اس دوران بزرگ مریض کے کراہنے کی آواز آئی۔ ان کی بیٹی فوراً اپنی کرسی سے اٹھی اور بولی اباجی کیا ہوا۔ ابا جی نے جواب دیا کہ بیٹی میں صبح صبح موٹر سائیکل پر آ رہا تھا مجھے سردی محسوس ہوئی… بزرگ نے مریض کو پور ا واقعہ سنا دیا تو بیٹی نے ایک چیخ ماری اور بولی ابا جی کو کیا ہو گیا ہے نرس بھاگی بھاگی آئی اور پوچھا کہ کیا ہوا تو آپریشن شدہ مریض نے کہا کہ میں صبح آ رہا تھا… نرس بولی آپ کا تو آپریشن ہوا ہے۔ آپ کو تو ایمبولینس میں لے کر آئے ہیں ۔ اس پر مریض نے غصے سے کہا کہ میں جو کہہ رہا ہوں کہ میں موٹر سائیکل سے گر پڑا… نرس بھاگی ہوئی ڈاکٹر کو بلا لائی ڈاکٹر نے بھی پوچھا کہ کیا ہوا مریض بولا ڈاکٹر صاحب میں صبح صبح موٹر سائیکل پر آ رہا تھا کہ مجھے سردی محسوس ہوئی… ڈاکٹر یہ سن کر پہلے تو پریشان ہوا۔ پھر اس نے ہاشم کے بیڈ کی طرف دیکھا اور ساری بات اس کی سمجھ میں آ گئی… ہاشم نے چپ سادھ رکھی تھی اور آنکھیں بند کر لی تھیں۔ ہم لوگ بھی ادھر ادھر کھسک گئے… ڈاکٹر نے اسی میں خیریت سمجھی کہ آپریشن والے مریض کو دوسرے وارڈ میں شفٹ کر دیا جائے کیونکہ اس کی بیٹی بہت پریشان ہو گئی تھی اور دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔ کہ ابا جی کو کیا ہو گیا ہے۔ کیپٹن وجاہت خاموش ہو گئے تو سب پر ہنسی کا دورہ پڑا۔ خوب ہنسنے کے بعد جب ذرا خاموشی ہوئی تو کیپٹن وجاہت بولے کہ پھوپھو یہ بتائیں کہ کیا یہ گپ ہو سکتی ہے۔ ہاں میرے خیال میں نہیں کیونکہ میں تمہارے دوست ہاشم کو جانتی ہوں اور ہاشم سچی بات بتا دے گا۔ پھوپھو نے اپنے لاڈلے بھتیجے کو چھیڑتے ہوئے کہا مگر ماموں جان کوئی بے ہوشی میں کیسے سن سکتا ہے حامد نے اونگھتے اونگھتے اچانک سوال کیا۔
لو یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ چھوٹی پھوپھو نے فوراً کہا پوچھنے دو بھئی۔ سوا ل اس نے بالکل درست پوچھا تھا۔
بریگیڈئیر صاحب نے جواب دیا۔ ارے اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے۔ اللہ میاں اپنے فرشتے بھیج کر انسانوں کو سب سمجھا دیتے ہیں۔ دادی اماں فوراً بولیں۔ یہ معاملہ تو کافی سنگین ہو گیا کیپٹن وجاہت شرارت سے بولے اصل یں بات یہ ہے کہ حامد میاں کہ انسان کا دماغ ایک حیرت انگیز اور میرے خیال میں دنیا کا طاقت ور ترین تحفہ ہے۔ جو اللہ میاں نے انسان کو دیا ہے اور جس کا صحیح استعمال ہم بھول گئے ہیں۔ نہ سوچتے ہیں نہ غور کرتے ہیں بس سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ چھوٹی خالہ بھی بحث میں کود پڑیں۔ انہیں تاریخ پڑھنے کا بہت شوق تھا اور انہوں نے کتابوں میں یہ پڑھا تھا کہ فاتح سندھ محمد بن قاسم کو اس کے کارناموں کا کیا صلہ ملا۔ وہ چاہتی تھیں کہ بچوں کو پوری تاریخ پڑھاؤ۔
اچھا بہن جی اب جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ تاریخ میں اور بھی بہت کچھ ہوا ہے۔ اب چھوٹے ماموں بھی گفتگو میں شامل ہو گئے۔ بھئی مجھے حامد میاں کی بات کا جواب دے دینے دو بریگیڈئیر صاحب نے سب کو خاموش کرایا اور بولے سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ ہمیں ہر شے کا اور ہر خیال کا اچھی طرح جائزہ لینا چاہیے کہ یہ شے ایسی کیوں اور کسی اور طرح کیوں نہیں۔
بیٹا آپ کو یاد ہے جب اماں جان کا آپریشن ہوا تھا تو آپریشن روم سے باہر راہداری میں ڈاکٹر نے اماں سے ان کا نام پوچھا تو انہوں نے اپنا نام بتا دیا تھا لیکن وہ ہوش میں نہیں تھیں اور پھر بھی خوب بڑبڑاتی رہی تھیں۔ حامد نے یاد کر کے بتایا اور جب ہم باتیں کرتے تھے ان کا جواب بھی دیتی تھیں مگر بعد میں انہیں کچھ یاد نہ تھا۔ چھوٹی خالہ نے بھی لقمہ دیا۔ انستھیسیا بے ہوش کرنے کی دوا ہے جو بے حد اہم اور حیرت انگیز ایجاد ہے۔ آپریشن کے مریض کو ضرورت کے مطابق انجکشن کے ذریعے دی جاتی ہے کہ ایک مقررہ وقت کے بعد ہوش آنا شروع کر دیتا ہے۔ اسے سنائی بھی دیتا ہے پرانی باتیں بھی یاد کرتا ہے اور آواز دینے پر بھی جواب دیتا ہے۔ آپریشن کے بعد مریض کا ہوش میں آنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ایک مقررہ وقت کے بعد مریض ہوش میں نہ آئے تو پھر ڈاکٹر اسے ہوش میں لانے کے لیے ضروری اقدامات کرتے ہیں۔ وہ بزرگ آپریشن کے بعد ہوش میں آنے کے مرحلے میں تھے۔ اس دوران جب کیپٹن ہاشم نے بار بار اپنے دوستوں اور عیادت کے لیے آنے والوں کو ایک ہی حادثے کی تفصیل ایک ہی طرح بار بار سنائی تو دوائی کے اثر کی وجہ سے انہیں وہ یاد ہو گیا۔ اس لیے جب ان کی بیٹی نے پوچھا کہ اباجی کیا ہوا تو انہوں نے جواب دیا صبح صبح… سب پر دوبارہ ہنسی کا دورہ پڑا۔ بس بہت ہو گئی۔ اب چلتے ہیں بریگیڈئیر صاحب نے کہا۔ پھر چھوٹی خالہ سے مخاطب ہو کر بولے کہ تاریخ کا معاملہ اگلی بار ہو گا۔ یعنی اگلی عید پر حامد میاں نے کہا نہیں بھئی خالہ آپ کو بتاتی ہیں۔ کہ مسلمانوں نے بارھویں صدی کے بعد اپنے نصاب میں سے سائنس فلسفہ اور دوسرے مضامین جن کا تعلق ان کے خیال میں مذہب سے نہیں تھا کال کر کتنی بڑی غلطی کی۔ اس کی وجہ سے ہم سائنسی میدان میں دنیا سے کتنے پیچھے رہ گئے ہیں۔
کوئی بات نہیں میں سائنسدان بنوں گا۔ حامد میاں نے بڑے خوشی سے کہا۔
شاباش بریگیڈئیر صاحب نے کہا اور چلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
٭٭٭
مبارک دن
راجہ ریحان ساجد
گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ زاہد کلیم اور جاوید اور میں نے پکنک منانے کا پروگرام بنایا پہلے یہ طے پایا کہ چاروں پچاس پچاس روپے اکٹھے کریں گے اور پکنک پر جاتے ہوئے راستے میں سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے لیں گے۔ لیکن کلیم نے اس منصوبے کی مخالفت کی اس کا کہنا تھا کہ بازاری چیزیں کھانے کی غیر معیاری ہوتی ہیں اور پھر مہنگی ہیں ۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم چاروں اپنے اپنے گھروں سے اپنی اپن پسند کی چیزیں پکوا کے لیے آئیں اور وہاں اکٹھے بیٹھ کر کھائیں گے۔ اس طرح ایک تو معیاری اور صاف ستھری چیز یں کھانے کو ملیں گی اور دوسرے بچت بھی ہو جائے گی کلیم کی یہ تجویز سب کو پسند آئی۔
اب بات آ گئی کہ کون کیا لائے گا۔ جاوید نے کہا کہ میں آم لے کر آؤں گا۔ زاہد نے کہا کہ وہ روٹیاں لائے گا۔ میں نے پلاؤ پکوا کر لانے کا وعدہ کیا جبکہ کلیم نے حامی بھری کہ وہ مرغ پکوا کر لائے گا۔ پھر یہ طے پایا کہ کل صبح نو بجے سب اپنے اپنے حصے کی چیزیں لے کر قریبی بس سٹاپ پر پہنچ جائیں گے۔ اور وہاں سے اکٹھے پکنک پوائٹ پر بذریعہ بس روانہ ہو جائیں گے۔ ہم سب نے پکنک کی خوشی میں رات بھر بے قراری سے کاٹی۔
صبح ہوئی تو نماز پڑھنے کے فوراً بد میں نے اپنی امی سے پلاؤ پکانے کی فرمائش کی اور انہیں پکنک پروگرام سے آ گیاہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد ٹیلی فون کی گھنٹی بجی میں نے فو ن اٹھایا تو دوسری جانب زاہد بول رہا تھا۔ اس نے خوش خبری سنائی کہ وہ اپنی امی سے دیسی گھی کے پراٹھے پکوا رہا ہے۔ دیسی گھی کے پراٹھوں کا نام سن کر میرے منہ میں پانی بھر آیا۔ آہا مرغ کے ساتھ پراٹھے کھانے میں کتنا مزہ آئے گا۔
میں نے فون پر زاہد کو وقت پر بس سٹاپ پر پہنچنے کی ہدایت کی اور فون بند کر دیا۔ آٹھ بجنے والے تھے میں بالکل تیار تھا اور سوچ رہا تھا کہ ابھی کلیم کا فون آئے گا کہ وہ بھی اپنی امی سے مرغ پکوا رہا ہے لیکن ساڑے آٹھ بج گئے کلیم کا فون ابھی تک نہیں آیا۔ میں نے اپنی امی کو چھوٹی پتیلی میں پلاؤ ڈالنے کو کہا اور خو د کلیم کو فون کرنے لگا۔ جوں ہی فون کی گھنٹی بجی تو دوسری طرف سے کلیم نے خود ہی فون اٹھایا جییس وہ میرے ہی فون کا انتظار کر رہا تھا۔
ہیلو میں نے ذرا رعب سے کہا۔
جی!کلیم بول رہا ہوں کلیم نے میری آواز کونہ پہچانتے ہوئے کہا۔
جناب کلیم کیا کر رہے ہو۔ میں نے اس کی تیاری کے بارے میں پوچھنے کی کوشش ک۔
او یار میں ابھی تمہیں فون کرنے ہی والا تھا۔ کلیم نے میری آواز پہچانتے ہوئے کہا۔
فون تو میں نے کر ہی دیا تھا۔ تم بتاؤ مرغ گلا ہے یا نہیں۔
میں نے طنزاً کہا۔
یار مجھے افسوس ہے کہ میں آج آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا اس لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ کلیم نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا ذرا پھر کہو میں نے کلیم کی بات پر یقین نہ کرتے ہوئے کہا۔
ہاں یار! میں آپ کے ساتھ آج پکنک پر نہیں جا سکتا۔ کیونکہ کراچی سے کل رات سے میری خالہ آ گئیں ہیں مجھے ان کے ساتھ ماموں کے گھر جانا ہے۔ کلیم نے انکار کی وضاحت کی۔
اچھا پھر خدا حافظ میں نے غصے میں ٹیلی فون پٹخ دیا۔
میں سوچنے لگا کہ سالن کے بغیر کھانے کا مزہ خاک آئے گا۔ لہٰذا اب ہمیں بازاری سالن پر ہ گزارہ کرنا پڑے گا۔ ٹھیک نو بجے ہم تینوں دوست بس سٹاپ پر موجود تھے۔ جاوید نے آموں کی ٹوکری اٹھا رکھی تھی۔ جبکہ میرے پاس گرم گرم خوشبودار پلاؤ کی دیگچی تھی۔ اور زاہد کپڑے میں بندھے دیسی گھی کے پراٹھے اٹھائے ہوئے تھا۔ بس سٹاپ پر کھڑے ہوئے دوسرے تمام لوگوں کی نظریں ہم پر جمی ہوئی تھیں۔ کیوں کہ آموں پلاؤ اور پراٹھوں کی خوشبو نے ماحول کو معطر بنا رکھا تھا۔
تھوڑی دیر بعد بس آ گئی ہم تینوں بس میں سوا ر ہو گئے۔ ٹھیک ایک گھنٹہ کے بد ہم ایک جھیل کے کنارے چھوٹے سے باغیچے میں موجو د تھے۔ وہاں اور لوگ بھی اپنے بچوں سمیت آئے ہوئے تھے۔ ہم نے اپنا سامان باغیچے کو بوڑھے مالی کے حوالے کیا اور خود جھیل کی سیر کو نکل گئے موسم بڑا خوشگوار تھا۔ ہم بہت خوش تھے۔ مگر کلیم کی کمی بری طرح محسوس کر رہے تھے۔ میں رہ رہ کر مرغ کا سالن نہ ہونے کی وجہ سے کلیم کو کوس رہا تھا۔ ہم جھیل کے کنارے کھیلتے کھیلتے دور نکل گئے اب دوپہر ہو گئی تھی۔ سب کو بھوک لگی تو زاہد نے کہا کہ یار اس سے پہلے کہ ہم بھوک سے نڈھال ہو کر یہاں گر پڑیں بہتر یہی ہے کہ ہم واپس چلے جائیں۔ جاوید نے زاہد کی اس تجویز کو پسند کیا چنانچہ ہم تینوں جلدی جلدی واپس باغیچے کی طرف چل پڑے۔ باغیچے میں پہنچ کر ہم نے ادھر ادھر مالی کو دیکھا۔ وہ ایک کونے میں درخت کے نیچے بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ مالی نے جونہی ہمیں دیکھا تو اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا آؤ بچو پانی پی لو۔ میں نے بے صبری سے کام لیتے ہوئے کہا بابا ہم پانی بعد میں پیتے رہیں گے پہلے ہمارا پلاؤ اور آم ہمیں دے دیں۔
مالی نے کہا کہ بیٹے یہ آ پ لوگوں کی امانت ہے اور امانت میں خیانت کرنا گناہ ہے۔ یہ کہہ کر بابا کوٹھڑی کی جانب چل گیا اور اندر سے ہمارا لایا ہوا کھانا ہمارے سامنے رکھ دیا۔ میں نے آموں اور پراٹھوں کو گن گن کر دیکھا تو تمام کھانا اپنی صحیح تعداد میں تھا۔ میں نے بابا کا شکریہ ادا کیا ہم سب مل کر کھانا کھانے لگے تو ہم نے بابا کو بھی کھانے کی دعوت دے دی کیونکہ ہم ویسے ہی کھانا کلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے فالتو ہو رہا تھا۔ کھانا کھانے گے تو ہمیں سالن کی کمی محسوس ہوئی کیونکہ جلدی سے بازار سے سالن نہ خرید سکے تھے۔
میں پھر بول پڑا کہ سالن کے بغیر کھانے کا مزہ نہیں آ رہا۔ یہ سنتے ہی بابا اٹھ کھڑا ہوا اور کوٹھڑی کے اندر سے مزیدار بھنی ہوئی بھنڈیاں لے آیا۔ کھانا کھاتے ہوئے زاہد بول اٹھا۔ یار کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر کلیم بھی آ جاتا۔ کم از کم مرغ تو کھا لیتے۔
مجھے پہلے پتا تھا کہ وہ ضرور کوئی بہانہ بنائے گا۔ وہ بڑا کنجوس مکھی چوس ہے میں نے بات بڑھاتے ہوئے کہا۔
ہاں یار وہ بڑھکیں بہت مارتا ہے۔ حالانکہ گھر میں اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ ہر قت اس کے ابو اسے ڈانٹتے رہتے ہی۔ امی الگ پٹائی کرتی ہیں۔ جاوید نے کلیم کی گھریلو حیثیت بتاتے ہوئے کہا۔
میں نے کئی بار تم لوگوں کو بتایا ہے کہ وہ مطلب پرست ار مفت خورہ ہے۔ ذرا سا خرچ کرنا پڑے تو ا سکے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔ سب نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔
بیٹے آپ لوگوں کو گوشت بہت پسند ہے۔ بابا نے ہماری باتیں سنتے ہوئے کہا۔
ہاں گوشت کسے اچھا نہیں لگتا۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔
وہ تو تم اب بھی کھا رہے ہو بابا نے طنزاً کہا۔
بابا کیا ہم گوشت کھا رہے ہیں ؟ میں نے حیرت سے سوال کیا۔ ہاں بیٹے تم لوگ گوشت کھا رہے ہو۔ اور وہ بھی اپنے مردہ بھائی کا بابا نے سنجیدگی سے کہا۔
بابا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ زاہد نے قدرے غصے سے کہا بیٹا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ شاید آپ کو معلوم نہیں کہ کسی کی غیبت کرنا اللہ کی نظر میں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے بابا نے ہمیں مردہ بھائی کا گوشت کھانے کا مطلب بتاتے ہوئے کہا۔
بابا ہم کوئی جھوٹ نہیں بول رہے ہیں بلکہ سچ کہہ رہے ہیں۔ کلیم ہمارا دوست ہے اور اس میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔ میں نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا۔
بیٹا یہی تو غیبت ہے۔ ہر وہ بات غیبت کہلاتی ہے جو بطور خامی یا عیب کسی شخص میں موجود ہو اور وہ اس کی غیر موجودگی میں بیان کی جائے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا کوئی دوست لنگڑا ہے تو ظاہر ہے کہ آپ اس کے منہ پر تو اسے لنگڑا نہیں کہہ سکتے لیکن اس کی غیر موجودگی میں آپس میں باتیں کرتے ہوئے آپ یہ کہیں گے کہ لنگڑے نے فلاں بات کی ہے تو غیبت ہے۔
بابا آپ تو اچھے خاصے مولوی ہیں۔ زاہد نے بابا کی باتیں سنتے ہوئے کہا۔
نہیں بیٹا! میں ہرگز مولوی نہیں ہوں یہ سب باتیں ہمارے مذہب اسلام کی بنیاد ہیں۔ ہم سب کو یہ باتیں معلوم ہونی چاہئیں تاکہ ہم اچھے انسان بن سکیں۔
چھوڑیں بابا اس کی باتوں میں نہ آئیں۔ یہ بتائیں کہ غیبت اور چغل خوری میں کیا فرق ہے۔ میں نے بابا کی باتوں میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
بیٹے غیبت کے بارے میں تو میں نے بتا دیا ہے اب رہی بات چغل خوری کی۔ تو چغل خوری یہ ہوت ہے کہ جیسے آپ لو گ کلیم کی غیر موجودگی مین اسے کنجوس کہہ رہے ہیں میں کلیم کو جا کر بتاؤں کہ فلاں لڑکا تمہیں کنجوس کہہ رہا تھا۔ جواب میں ظاہر ے کہ وہ بھی آپ کو برا بھلا کہے گا۔ میں وہ باتیں جو وہ آپ کے بارے میں کرے آپ کو بتاؤں تو یہ چغل خوری ہو گی یعنی ادھر کی باتیں ادھر اور ادھر کی باتیں ادھر کرنا چغل خوری کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ دونوں باتیں سخت ناپسند ہیں۔
یہ باتیں سن کر ہم تینوں قدرے غمگین ہو گئے۔ بابا نے ہمیں خاموش اوراداس دیکھا تو کہا بیٹے فکر نہ کرو اللہ تعالیٰ بڑے بڑے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے بشرطیکہ سچے دل سے معافی مانگی جائے۔ ہا گھر جا کر کلیم سے بھی اپنی باتوں کی معافی مانگ لینا اور ایک بات اور یاد رکھنا کہ ظالم کے ظلم اور کافر کے ظلم کا ذکر کرنا غیبت نہیں کہلاتا۔ جاوید جو کافی دیر سے چپ چاپ مسلسل بابا کی طرف غور سے دیکھے جا رہا تھا بولا۔
بابا اسلام نے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے اتنی بڑی بڑی سزائیں کیوں رکھی ہیں۔
بابا نے اس کی معصومیت پر ہنستے ہوئے کہا کہ نہیں بیٹا یہ باتیں چھوٹی نہیں ہیں۔ بہت ہی خطرناک ہیں اسلام امن سلامتی اور بھائی چارے کا مذہب ہے۔
چغل خوری سے آپس میں لڑائی جھگڑا ور نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ آدمی ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ جبکہ غیبت سے ایک مسلمان بھائی کے عیب دوسروں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے کیونکہ وہ خود ستار العیوب یعنی عیبوں کو ڈھانپنے والا ہے چونکہ غیبت اور چغل خوری اسلام کے ضابطہ حیات کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے خطرناک انجام سے ہم کو ڈرایا ہے تاکہ ہم لوگ نصیحت حاصل کریں لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم پھر بھی ان کی پرواہ نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آئے دن لڑائی جھگڑے اور فساد برپا رہتے ہیں۔
یار واپس گھر چلتے ہیں بابا جی کی باتیں سن کر پکنک منانے کو دل نہیں کر رہا۔ جاوید نے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
بیتے میں جانتا ہوں کہ تم میری باتوں سے کچھ کچھ ناراض لگتے ہو لیکن یہ سب باتیں بتانا میرا فرض بنتا ہے۔ بابا نے جاوید سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
نہیں بابا ایسی کوئی بات نہیں۔ میں آپ کی پیاری پیاری باتیں بڑے غور سے سنتا رہا ہوں۔ اورسچی بات یہ ہے کہ جتنا مزہ آپ کی باتیں سن کر آیا ہے اتنا مزہ یقیناً مرغا کھا کر نہ آتا۔ بلکہ ہم تو شرمندہ ہیں کہ ہم نے آپ سے بدتمیزی کی ہے جاوید نے بابا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
نہیں بیٹے آپ بڑے پیارے بچے ہیں۔ اللہ آپ سب کو سلامت رکھے آپ اب گھر جائیں گے آپ کے والدین آپ کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ اور گھر پہنچتے ہی آپ کلیم سے اس کی غیبت کرنے پر معافی مانگیں اور یہ عہد کریں کہ آئندہ آپ خدا اور ا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے۔ بابا کا کہنا تھا کہ سب اٹھ کھڑے ہوئے اور سب نے مل کر بابا کو الوداعی سلام کیا اور باری باری ہاتھ ملایا۔ واپسی پر ہم سب سوچ رہے تھے کہ آج کتنا مبارک دن ہے کہ ہم نے زندگی کے بہترین اصولوں سے واقفیت حاصل کی ہے۔
٭٭٭
محنت میں عظمت
فاطمہ افتخار
صبا بیٹا جلدی کرو۔ مجھے آفس سے دیر ہو رہی ہے۔ صبا کے والد نے گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھتے ہوئے اسے آواز دی۔ صبا امی کا سہارا لیتی ہوئی گاڑی کی طرف بڑھی۔ عام حالت میں تو آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے وہ مطلوبہ جگہ پر پہنچ جاتی تھی لیکن اگر کسی جگہ جلد پہنچنا ہو تو اسے کسی کیسہارے کی ضرورت ہوتی تھی۔ یا وہ وہیل چئیر استعمال کرتی تھی۔ امی نے اس کا بیگ گاڑی میں رکھا اور اسے بیٹھنے میں مدد دی۔ صبا کی امی نے دونوں کو خدا حافظ کہا اور گاڑی گیٹ سے کل کر صبا کے سکول کی طرف رواں دواں ہو گئی۔
صبا ایک سپیشل سکول میں زیر تعلیم تھی۔ اور یہاں دوسرے بچوں کی طرح یہ بچے سکول سے باہر گاڑیوں سے نہیں اترتے تھے بلکہ سکول کے پورچ میں گاڑی کھڑی کی جاتی تھی۔ صبا کے والد نے بھی گاڑی عین اس جگہ روکی جہاں ایک وہیل چئیر پڑی تھی۔ عموماً وہیل چئیر کے ساتھ آیا ہوتی تھی لیکن اگر آیا کسی کام سے ادھر ادھر ہو تو اس کے والد اسے کلاس روم میں بٹھا کر آتے تھے۔
صبا بچپن میں پولیو جیسے موذی مرض کا شکار ہو چکی تھی۔ ساری احتیاطی تدابیر کے سامنے تقدیر سر اٹھائے کھڑی تھی اور تقدیر سے فرار کس کو ہے۔
صبا نے اپنے گھر میں صبر و شکر اور اللہ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر نے کا جذبہ محسوس کیا اور سیکھا تھا۔ وہ ایک ذہین لڑکی تھی۔ والدین نے بھی اس کی تربیت اور دل بہلانے میں کوئی کمی نہ چھوڑی تھی۔ جونہی اس نے بولنا سیکھا ماں باپ نے اسے اچھی اچھی باتیں سکھانی شرو ع کیں۔ تین چار سال کی عمر میں نورانی قاعدہ پڑھانا شروع کیا اورساتھ ساتھ اردو انگریزی اور حساب سکھانے کو بھی اہمیت دی۔ صبا کے دل میں یہ خواہش براجمان رہتی کہ وہ بھی اپنے دونوں بھائیوں کی طرح یونیفارم پہن کر اور بستہ اٹھا کر سکول جائے۔ اس کی آرزو نے گفتار کا سہارا لیا تو لیکن ا س کے ماں باپ نے اس کی آنکھوں سے سب کچھ پڑھ لیا تھا۔ جونہی اس کے والد نے سنا کہ شہر میں سپیشل بچوں کے سکو ل کا آغاز ہوا ہے تو فوراً اسے یہاں داخل کرا دیا گیا۔ اس دن صبا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کی جماعت میں تین لڑکوں کے علاوہ دو لڑکیاں بھی تھیں۔ جو اس کی سہیلیاں بن گئیں۔ وہ ساارے بچے صبا جیسی کسی نہ کسی جسمانی کمزوری سے دوچار تھے۔ صبا آمنہ اور صائقہ کے ساتھ بہت خوش تھی۔ کلاس ٹیچر بھی بہت اچھے مزاج اور اچھی طبیعت کی تھی جو انہیں محبت اور توجہ سے پڑھاتی تھی کیونکہ ان بچوں کو لکھانا پڑھانا بہت صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ صبا اپنی جماعت کے گنے چنے بچوں میں بہت نمایاں تھی۔ اب اسے زندگی بہت اچھی لگتی تھی۔ اپنی ہم جماعت ہونے والی مختلف تقریبات تو اس کی خوشی کو دو چند کر دیتی تھیں۔ اس کے علاوہ اپنے ہم جماعتوں کیساتھ اپنی اور ان کی سالگرہ منانا تو انوکھی مسرت کا بھرپور احسا س تھا۔
وقت کا کام گزرنا ہے چاہے کوئی خوشیاں سمیٹ رہا ہو یا غم کے پہاڑ تلے دبا ہو۔ صبا کے پانچویں جماعت پا س کر لینے کے بعد یہ مسئلہ آن پڑا کہ وہ مزید تعلیم کس طرح حاصل کرے کیونکہ یہ سکول پرائمری تھا اور شہر میں جسمانی معذور بچوں کے لیے کوئی ہائی سکول نہ تھا اس لیے اس کے اجرا کے راستے میں کئی دشواریاں تھیں۔
ا س کے والدین نے اسے چھٹی ساتویں کی کتابیں گھر میں پڑھوا دیں اور اب وہ آٹھویں جماعت کا کورس پڑ ھ رہی تھی۔ اس کے علاوہ وہ دوسرے مشاغل میں بھی دلچسپی لیتی تھ۔ کمپیوٹر پر کام کر کے اور بچوں کے اچھے اچھے رسائل اور کتب کا مطالعہ کر کے وقت گزارتی تھی۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ایک دن اس کے والد کے ایک دوست زبیر انک بہت عرصہ بعد ان کے گھر آئے اور بات چیت کے دوران جب انہیں پتا چلا کہ وہ گھر میں ہی آٹھویں جماعت کا کورس پڑھ رہی ہے تو انہوں نے اس کے والد کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ صبا عام بچوں کے سکول میں داخل ہو جائے۔ کیونکہ اس قدر ذہین بچی ہے کہ آرام سے ان کے ساتھ پڑھ لے گی لیکن صبا کے والدین کو خدشہ تھا کہ یہ عام بچوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ اور کسی ناسمجھ بچی کے مذاق سے دکھ کا شکار ہو جائے گی اور انہوں نے جو اتنی محنت کی ہے وہ یونہی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ جب علیحدگی میں انہوں نے اس خدسے کا اظہار زبیر انکل سے کیا تو انہوں نے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا کہ دکھ اور خوشی تو زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ کیوں نہ بچوں کو اتنا مضبوط بنایا جائے کہ وہاں مسائل کا سامنا ہنس کر کریں۔
دونوں ایک دو دن تو ممکنہ مسائل پر غور کرتے رہے لیکن اپنی بچی کی خوشی انہیں اتنی عزیز تھی کہ ایک دن اسے قریبی گورنمنٹ سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ پہلے تو صبا سکول میں ذرا گھبرائی ہوئی سی رہی کیونکہ یہاں بچوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ صرف اس کی جماعت میں تقریباً پچاس لڑکیاں تھیں۔ لیکن جلد ہی وہ لڑکیوں کے اچھے رویے اور اپنے اعتماد کی بدولت پر سکون نظر آنے گی۔ خصوصاً جماعت میں سبق کے دوران اس کے بہتر رویے اور امتحانوں میں حاصل کردہ اچھے نمبروں سے سب ہی لڑکیاں ا س کی ذہانت کی قائل ہو گئیں اور اساتذہ بھی اس کی ہمت و محنت سے متاثر تھیں پہلے پہل ان سب کی آنکھوں میں ترحم کے آثار ہوتے تھے وہ محبت اور عزت میں تبدیل ہو گئے۔
دسمبر ٹیسٹ ہوئے تو صبا نے جماعت میں اول پوزیشن حاصل کی اور ہمیشہ اس درجے پر رہنے والی عطیہ دوسرے نمبر پر رہی۔ عطیہ جو صبا کی دوست بن چکی تھی اب اس کے دل میں رقابت کے احساس نے جنم لیا کیونکہ وہ ابتدا ہی سے اسی سکول میں پڑھتی آ رہی تھی اور ہر جماعت میں اول آئی تھی۔ صبا نے بھی عطیہ کے رویے میں تبدیلی کو بھانپ لیا تھا وہ اس کا سبب تو نہ جان سکی لیکن اپنے برتاؤ میں کوئی تبدیلی نہ آنے دی۔ سالانہ امتحان ہوئے تو صبا اول آئی۔ اب عطیہ کا رویہ بالکل تبدیل ہو چکا تھا۔ پہلے وہ صبا کے ساتھ ہی بیٹھتی تھی۔ لیکن جب نویں جماعت کی پڑھائی کا آغاز ہوا تو اس نے اپنی نشست بدل لی۔ اب وہ سکول صبح آمد کے بعد سلام دعا کے تبادلے کی بجائے ہونہہ کر کر منہ دوسری طرف پھیر لیتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد وہ صبا کے قریب سے گزرتے ہوئے جملہ بازی بھی کرنے لگی صبا خاموش رہنے کو ترجیح دیتی تھی۔ کیونکہ وہ ہر معاملے میں زبان کی بجائے عمل کو فوقیت دیتی تھی۔ اس نے محنت ہی کو اپنا شعار بنائے رکھا اس دن تو عطیہ کی بدتمیزی کی کوئی حد نہ رہی جب اس نے صبا کو لنگڑی بطخ کہہ کر پکارا۔ جماعت کی لڑکیوں نے اسے برا بھلا کہا اور اس کی قریبی سہیلیوں کے چہرے پر بھی ناگواری کے واضح اثرات تھے لیکن عطیہ کو تو جیسے کسی کی پرواہ ہی نہ تھی۔ اس نے محنت سے صبا کا مقابلہ کرنے کے بجائے غلط راستے کا انتخاب کیا جو اتنی بڑی لائق لڑکی کو کسی طرح زیب نہیں دیتا تھا۔ حسد اور جلن نے تو جیسے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی اور وہ ہر روز صبا کے لیے نئے نئے القاب تجویز کرتی تھی۔
صبا نے دکھ کے چہرے احساس کے باوجود گھر میں والدین سیکسی بات کا تذکرہ نہیں کیا کہ کہیں وہ دکھی نہ ہو جائیں اور اسے سکول داخل کرنے کے فیصلے پر پچھتائیں۔ وہ پڑھ لکھ کر ایسا انسان بننا چاہتی تھی کہ جو اگر کسی کے کام بھی نہ آ سکے تو کسی کے لیے بوجھ بھی نہ بنے۔ اس نے مختلف کتابوں میں پڑھا تھا کہ کس طرح مختلف معذور افراد نے ایسی صحت مند زندگی جو دوسروں کے لیے مشعل راہ تھی بسر کی۔ وہ بھی ہیلن کیلر جیسی زندگی کی آرزو مند تھی جس نے نابینا ہوتے ہوئے دیدہ بینا کا استعمال کیا اور پوری دنیا کے نابیناؤں کیلیے انتھک کام کیا۔ رات ہی تو ٹی وی دیکھتے ہوئے اس کی والدہ نے اسے بتایا کہ یہ ڈرامہ ڈاکٹر طارق عزیز کا لکھا ہوا ہے۔ جو بچپن میں صبا کی طرح پولیو جیسی نامراد بیماری کا شکار ہوئے تھے لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور پی ایچ ڈی تک اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ٹی وی ڈرامے کے ذریعے معاشرے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کے جذبے کو پروان چڑھایا۔
وہ بھی تو ایسی ہی زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ اور اپنی تمام تر توجہ اپنی طے کردہ منزل کی رسائی پر مرکوز کر دینا چاہتی تھی۔ رہے عطیہ جیسے لوگ تو ان کی تلخ باتیں تو نیک ارادوں اور صحت مند جذبوں کے حصول کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ دوسری طرف عطیہ کو بھی جلد ہی اپنے رویے میں نظر ثانی کرنا پڑی۔
ہوا یوں کہ ایک دن جب اس کی امی اور پھوپھو حسب معمول درس قرآن سننے کے لیے جانے لگیں تو یہ بھی ہمراہ ہو گئی۔ مقررہ حبیبہ کا موضوع اخلاق کے مختلف پہلو تھے۔ اس کی خوبصورت باتوں اور دھیمے پر سوز لہجے نے عطیہ کو بے حد متاثر کیا۔ آخر میں مقررہ نے کہا کہ ہمارے آپس کے تعلقات میں حسد موذی ناگ کی طرح حملہ آور ہوتا ہے اور رشتوں کو ختم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ دوسروں کے اچھے کام اور خوشحالی کو تحسین سے دیکھیں اور خود بھی ان جیسا بننے کی کوشش کریں۔ اس طرح ہم میں عمل و محنت کا عنصر پروان چڑھے گا جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا اور وہ ہمیشہ حسد سے بچنے کی تلقین کرتے تھے۔
عطیہ کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اور اس نے صبا سے معافی مانگ لی۔
٭٭٭
عقل مند غلام
عبداللہ عبدالعزیز
یک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک کے بادشاہ کا ایک غلام موقع پا کر بھگ گیا بادشاہ کو اس کے فرار ہونے پر بہت غصہ آیا۔ اسنے اس کی تلاش کا حک دے دیا۔ بادشاہ کے ہرکاروں نے بہت جلد پتا لگا لایا کہ وہ کہاں ہے اوراسے گرفتار کر کے بادشاہ کے پاس لے آئے۔ اسی بادشاہ کا ایک وزیر بھاگے ہوئے غلام سے بہت ناراض تھا۔ جب اسے غلام کے بھاگنے اور گرفتار ہونے کے متعلق معلوم ہوا تو غلام کو سزا دلوانے اور سبق سکھانے کا موقع مل گیا۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ بادشاہ سلامت اس غلام نے یہاں سے بھاگ کر سنگین جرم کیا ہے اگر اس گستاخ غلام کو سزا نہیں دی گئی تو دوسرے غلاموں کے بھی حوصلے بڑھیں گے اور وہ بھی بھاگنے لگیں گے۔ بادشاہ کو اس بات کی سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ اوراسے سوچتا ہوا دیکھ کر غلام پریشان ہو گیا۔ غلام نے جب وزیر کی یہ بات سنی تو وہ اسی وقت سمجھ گیا کہ وزیر یہ بات دشمنی کی وجہ سے کہہ رہا ہے۔ غلام نے بادشاہ سے کہا کہ جہاں پناہ یہ سوال سچ ہے کہ میں بھاگ گیا مگر میرا بھاگنا آپ کے کسی ظلم کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ میں تو دنیا دیکھنے کی چاہت میں یہاں سے بھاگا تھا۔
اگرچہ میں اس محل میں نہیں تھا۔ میں آپ سے دور تھا اس کے باوجود میرے دل میں آپ کی محبت اور خیر خواہی کم نہ ہوئی۔ اور اگر آپ مجھے قتل ہی کرانا چاہتے ہیں تو پہلے اس کا جواز پیدا کر لیں کہ بلاوجہ میرا خون اپنے سر نہ لیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آپ سے میرے بارے میں پوچھے گا اور آپ جواب نہ دے سکیں گے۔ بادشاہ نے کہا کہ میں جواز کیسے پیدا کروں۔ غلام نے فوراً کہا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس وزیر کو قتل کر دوں پھر آپ مجھے اس کے قتل کے بدلے قتل کر دیں یوں کوئی بھی آپ کو الزام نہیں دے سکے گا۔
بادشاہ جو ان دونوں کی آپس کی دشمنی کے بارے میں جانتا تھا یہ بات سن کر اس کی چالاکی بھانپ گیا اور زور سے ہنسا۔ کافی دیر تک ہنستے رہنے کے بعد اس نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ کہو اب تمہارا کیا خیال ہے اس کو سزا دی جائے یا نہیں۔ وزیر نے خوف سے کانپتے ہوئے کہا کہ اس کو بزرگوں کے صدقے میں آزاد ہی کر دیں تو اچھا ہے کہیں یہ میرے لیے مسئلہ نہ بن جائے۔
بادشاہ غلام کی عقل مندی پر بہت خوش ہوا اور اسے اپنے خاص مصاحبوں میں شامل کر لیا۔ اس نے وزیر کو سو کوڑے لگانے کی سزا سنائی ہمیں بھی چاہیے کہ ہم کسی سے بے جاہ دشمنی نہ کریں اور کبھی کسی سے حسد نہ کریں اس کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔
٭٭٭
بدتمیز شہزادہ
شاہنواز سرمد
نوعمر شہزادہ جہانزیب انتہائی بدتمیز اور اکھڑ مزاج اور شرارتی تھا وہ ہر وقت محل میں بھگدڑ مچائے رکھتا پورے ملک میں شاید ہ کوئی اس جیسا بدتمیز بچہ ہو۔
منظر: شہزادہ کھانے کی میز پر بیٹھا ہوا ہے اوراس کے قریب دو کنیزیں کھڑی ہیں شہزادے کے سامنے سو پ کا پیالہ پڑا ہے۔
شہزادہ: (چلاتے ہوئے) مریے سوپ میں سبز پتا ہے یہ مجھے نہیں چاہیے۔
کنیز: لیکن شہزادہ محترم یہ پالک کا سوپ ہے اور ا س میں سبز پتا پالک کا ہے۔
شہزادہ: مجھے گلابی پالک والا سوپ چاہے۔ لے جاؤ اسے(شہزادہ سوپ کا پیالہ اٹھا کر آگے بڑھا اور پیالہ زمین پر دے مارا)
بادشاہ اور ملکہ دوسرے کمرے میں سب آوازیں سن رہے تھے۔ ملکہ شہزادے کے رویے سے پریشان تھی جب کہ بادشاہ سخت غصے میں تھا۔
بادشاہ: (سخت غصے سے) اس کا علاج پٹائی ہے۔
ملکہ: (سرگوشی میں ) آہستہ بولیے کہیں اس نے سن لیا تو پھر چھت پر چڑھ کر کودنے کی دھمکی دے گا۔
(شہزادے کو چھیڑنے کی کسی کو ہمت نہیں ہوتی تھی کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں شہزادہ چھت پر چڑھ جاتا اور کودنے کی دھمکی دیتا اور یہ دھمکی صرف دھمکی نہیں ہوتی)
منظر : شہزادہ وزیر کی کمر پر سوا ر ہے جبکہ وزیر نڈھال ہو رہا ہے۔
وزیر: شہزادہ محترم آدھی رات کا وقت ہے مہربانی کر کے سوجائیں اور مجھے بھی سونے دیں۔
شہزادہ: (وزیر کا کان پکڑے ہوئے) مجھے نہیں سونا تم میرے ساتھ گھوڑا گھوڑا کھیلو۔
ایک دن بادشاہ اور ملکہ شہزادے کی حرکتوں پر نہایت پریشان بیٹھے کوئی حل سوچ رہے تھے کہ اچانک ایک پری نمودار ہوئی۔
پری: اسلام علیکم بادشاہ سلامت آپ پریشان کیوں ہیں ؟
بادشاہ اور ملکہ پری کو شہزادے کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہیں۔
پری: میں آپ کا مسئلہ حل کر دوں گی لیکن اس کے لیے شہزادے کو چند دن کے لیے میرے ساتھ چلنا ہو گا۔ کیا آپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں ؟
بادشاہ : اگر اس طرح شہزادہ ٹھیک ہو سکتا ہے تو مجھے کیا اعتراض ہے۔
پری نے شہزادے کو سوتے میں اٹھایا اور غائب ہو گئی۔ شہزادے کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو پری کے ساتھ ہوا میں اڑتے دیکھا۔
شہزادہ: ہم کہاں جا رہے ہیں ؟
پری: ایک بہت خوبصورت جگہ پر جہاں جا کر تم بہت خوش ہو گے۔ کچھ دیر بعد وہ ایک زرعی فارم پر اتر گئے جہاں باڑے میں بھیڑیں اور دوسریھ جانور نظر آ رہے تھے۔
شہزادہ: یہ جگہ تو بالکل بھی خوبصورت نہیں ہے۔
لیکن اتنے میں پری غائب ہو چکی تھی اور شہزادہ بھیڑوں کے درمیان باڑے میں اکیلا رہ گیا تھا۔
شہزادہ: (چلاتے ہوئے) پری واپس آ جاؤ تمہیں جرات کیسے ہوئی مجھے اس گندے فارم میں چھوڑ جانے ک۔
شہزادے کی آواز سن کر فارم کا مالک کسان اور اس کی بیوی کھڑکی سے جھانکتے ہیں۔
کسان: یہ کون اتنی زور سے چیخ رہا ہے؟
کسان کی بیوی: یہ تو باڑے میں کام کرنے والا گندا سا لڑکا دکھائی دیتا ہے۔
لڑکے اندر آؤ(کسان کی بیوی شہزادے کو آواز دیتی ہے)
شہزادہ ان دونوں کی باتیں سن کر برہم ہو تا ہے اور دانت پیستے ہوئے کھڑکی کے قریب آ جاتا ہے۔
شہزادہ: میں باڑے میں کام کرنے والا لڑکا نہیں ہوں میں شہزادہ ہوں۔
کسان: (طنزیہ لہجے میں ) ہاں …ہاں یقیناً تم شہزادے ہو اور میں ٹمبکٹو کا بادشاہ(غصے سے) باتیں کرنا بند کرو اور اندر آؤ۔
شہزادہ: (پاؤں پٹختے ہوئے) اسے جرات کیسے ہوئی میں اسے دیکھ لوں گا (یہ کہتے ہوئے شہزادہ اندر داخل ہوتا ہے)
کسان: (شہزادے کے گال چھوتے ہوئے) پیارے لڑکے کیا تم خود ہی باڑے میں کام شروع کرتے ہو یا میں شاہی چابک سے تمہیں کام کراؤں۔
شہزادہ : خود کو بہت بے بس محسوس کر رہا تھا۔
کسان نے شہزادے کو بازو سے پکڑا اور باڑے میں دھکیل دیا۔
کسان: باڑے کی صفائی کرو اور جانوروں کے لیے چارہ اٹھا کر لاؤ۔
شہزادہ: (ناک سکیڑتے ہوئے) یہاں کتنی گندی بو ہے۔
کسان: باڑے میں کام کرنے والوں کو گلاب کی خوشبو سونگھنے کو نہیں ملتی بلکہ انہیں اسی بو کا عادی ہونا پڑتا ہے۔
شہزادہ کام کرنے کی بجائے چھت پر چڑھ جاتا ہے۔
شہزادہ: میں کام نہیں کروں گا۔ میں چھت سے کود جاؤں گا۔
کسان: (شہزادے کی بات سن کر اپنی بیوی اور بچوں کو یہ آواز دیتا ہے)
جلدی آؤ! یہ لڑکا ہمیں کرتب دکھانے لگا ہے۔
سب بھاگ کر آتے ہیں اور شہزادہ چھلانگ لگا دیتا ہے۔ لیکن گھاس پر گرنے کی وجہ سے اسے چوٹ نہیں آتی۔ کسان اس کی بیوی اور بچے تالیاں بجاتے ہیں اور قہقہے لگاتے ہیں۔
بیچارے شہزادے کی زندگی میں پہلی بار کوئی اس پر ہنسا تھا۔
کسان: (شہزادے کو بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے غصے سے چلاتا ہے)
کھیلنا بند کرو اور کام شروع کرو۔
شہزادہ سارا دن کسان کی نگرانی میں کام کرتا ہے اور وہ بارے کی صفائی کرتا ہے اور جانوروں کے لیے چارہ لاتا ہے اتنا کام کر کے شہزادہ تھک جاتا ہے۔ لیکن کسان اسے مزید کام بتا دیتا ہے۔
شہزادہ: (تھکے ہوئے لہجے میں ) کیا میں کچھ دیر آرام کر سکتاہوں ؟
کسان: (سخت لہجے میں ) نہیں ابھی بہت کام باقی ہے۔
اتنے میں کھانے کا وقت ہو جاتا ہے اور کسان کی بیوی کھڑکی سے آواز دیتی ہے۔
کسان کی بیوی: ہاتھ دھو لو اور اندر آ جاؤ
منظر: کھانے کی میز کے گرد کسان اس کی بیوی بچے اور شہزادہ بیٹھا کھانا کھا رہے ہیں۔
شہزادہ سخت بھوکا ہونے کی وجہ سے ندیدوں کی طرح کھاتا ہے۔
کسان کی بیوی: (شہزادے سے مخاطب ہو کر حیرت سے کہتی ہے) کیا تم نے پہلے کبھی پالک کا سوپ نہیں پیا جو اب ندیدوں کی طرح پی رہے ہو۔
شہزادہ: (پالک کے سوپ کا سن کر حیران ہوتا ہے کیونکہ محل میں اس نے پالک کا سوپ ٹھکرا دیا تھا) یہ پالک کا سوپ ہے؟ یہ تو بہت مزے کا ہے۔
کھانے کے بعد کسان شہزادے کو ٹوکری پکڑاتا ہے۔
کسان: جاؤ شلجم کے کھیت سے شلجم لے کر آؤ۔
مزید کام کا سن کر شہزادے کی آہ نکل جاتی ہے۔
سارا دن سی طرح کام کرتے گزر گیا اور تھکا ہارا شہزادہ باڑے میں سکون سے سویا۔ اگلا دن بھی اسی طرح کام کرتے گزرا اور پھر تو یہ معمول بن گیا۔
منظر: شہزادہ تالاب کے کنارے بیٹھا تالاب میں پتھر پھینک رہا ہے اورسوچ رہا ہے کہ وہ اب شاید کبھی اپنے ماں باپ کے پاس واپس نہ جا سکے گا یہ یقیناً اس کے برے رویے کی سزا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے گھر پہنچا دیں۔ اسی رات پری دوبارہ ظاہر ہوتی ہے
شہزادہ: پری تم کہاں چلی گئی تھیں مجھے یہاں سے لے جاؤ۔
پری: شہزادے تم بدلے بدلے لگ رہے ہو تمہارے چہرے پر جو برہمی رہت تھی وہ ختم ہو چکی ہے۔
شہزادہ: (شرمندہ اور روتے ہوئے) ہاں میں بدل چکا ہوں تم مجھے گھر لے چلو۔
پری شہزادے کو اس کے گھر واپس لے آتی ہے۔
منظر :شہزادہ ایک بار کھانے کی میز پر موجود ہے اور قریب ہی بادشاہ ملکہ اور وزیر کھڑے ہیں حیرت سے شہزادے کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ اب وہ اطمینان سے کھانا کھا رہا ہے۔
ملکہ: (بادشاہ کے کان میں سرگوشی کرتی ہے) ہمارا بیٹا بہت بدل گیا ہے۔
بادشاہ: ہاں اللہ کا شکر ہے۔
وزیر: اللہ کا شکر ہے اب مجھے آدھی رات کو گھوڑا نہیں بننا پڑے گا۔
سب لوگ قہقہہ لگاتے ہیں۔
٭٭٭
ضد کی سزا
انعم اسلم
پیارے بچو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بستی میں ایک امیر آدمی جس کا نام یوسف تھا رہتا تھا۔ اس کا اکلوتا بیٹا تھا جس کا نام احمد تھا۔ احمد سے اس کے والدین بہت پیار کرتے تھے۔ احمد کو بچپن ہی سے کیلے بہت پسند تھے اور وہ روزانہ کیلے کھاتا تھا اس کے ابو بلا ناغہ اس کے لیے کیلے لے کر آتے تھے۔ ایک دن شہر سے سبزی فروٹ لانے والے کیلے نہ لے کر آئے۔ احمد کے ابو بہت پریشان تھے کہ آج شام کو اگر کیلے نہ لے کر گیا تو وہ ناراض ہو کر کچھ بھی نہیں کھائے گا۔ مجبوراً وہ شام کو بہت سارے آم سیب انگور کیکر گھر گئے۔ احمد نے فوراً سارے پھلوں میں سے کیلے تلاش کیے تو کیلے نہ ملے۔ احمد کے ابو نے کہا کہ آج کیلے دکان سے نہیں ملے میں تمہارے لیے دوسرے پھل لے آیا ہوں تم وہ پھل کھالو۔ مگر احمد نے کسی پھل کو ہاتھ تک نہ لگایا اور ناراض ہو گیا۔ رات کے کھانے پر اس کی ماں نے کھانا کھلانے اور دودھ پلانے کی بہت کوشش کی مگر احمد نہ مانا اور ضد کرتا ہوا سو گیا۔ صبح بھی احمد ناشتہ کیے بغیر سکو چلا گیا۔ اس کے ابو صبح سویرے ہی اپنے تمام کام چھوڑ کر کیلے خریدنے شہر روانہ ہو گئے۔ مگر انہیں مایوسی ہوئی کیونکہ انہیں کہیں سے بھی کیلے نہ مل سکے احمد کے سامنے کھانے پینے کی تمام چیزوں کے ڈھیر لگا دیے گئے مگر وہ بضد رہا۔ اس رات کو بھی ماں کی بہت کوشش کے باوجود بغیر کچھ کھائے پیے سو گیا بھوک کی وجہ سے اس کی حالت بہت بری تھی۔ رات کو اس کی آنکھ کھلی تو وہ بستر پر کروٹیں بدلنے لگا تھوڑی دیر بعد اچانک اس کے کمرے میں بہت زیادہ دھواں بھرنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ دھواں کہاں سے آ رہا ہے۔ آناً فاناً اس کا کمرہ دھوئیں سے بھر گیا۔ احمد سے سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ اس دھوئیں میں ایک خوفناک شکل ابھری اور جو احمد کے سامنے تھی۔ اور احمد اسے دیکھتے ہی ڈر گیا۔ احمد بولا تم کون ہو۔ جواب آیا میں دھوئیں والا جن ہوں۔ احمد نے پوچھا تم یہاں میرے کمرے میں کیوں آئے ہو۔ میں تمہیں لینے آیا ہوں۔ جن نے جواب دیا مگر کہاں احمد نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔ جن بولا۔ تم نے کیلے کھانے ہیں نا۔ تم نے اپنی ضد کی وجہ سے اپنے والد کو پریشان کر رکھا ہے اب میں تمہیں کیلے کھلانے لے جاؤں گا۔ دھوئیں والے جن نے احمد کو پکڑ کر اپنے ہاتھ پر بٹھایا اور غائب ہو گیا۔
کچھ دیر احمد نے خود کو ایک باغ میں پایا جس میں ہر طرف کیلے کے درخت تھے۔ لمبے لمبے اونچے دیو ہیکل درخت تازہ کیلوں سے بھرے ہوئے تھے احمد نے کیلے دیکھے تو حیران رہ گیا۔ ایک ایک کیلا ایک ایک آدمی کے برابر تھا۔ دھوئیں والا جن بولا تمہیں شوق ہے کیلے کھانے کا اب اپنا شوق پورا کرو۔ اور کیل جی بھر کے کھاؤ۔ احمد نے مجبوراً ایک کیلے کو درخت سے کھینچا۔ کیلا کھینچتے ہوئے وہ خود بھی گر ا اور کیلا بھی احمد کے اوپر آ گرا احمد بڑی مشکل سے اس کے نیچے سے کا۔ دھوئیں والا جن دھواں پھیلائے کھڑا ہنس رہا تھا۔
احمد نے ایک طرف سے کیلا چھیلنے کی کوشش کی چھال سخت تھی۔ اس کوشش میں احمد پسینے سے شرابور ہو گیا۔ آخر کار احمد نے کیلا کھانا شروع کیا کیلا میٹھا تو تھا ہی مگر اتنے بڑے کیلے کا تھوڑا سا حصہ کھا کر احمد کا پیٹ بھر گیا مگر دھوئیں والا جن چیخا اور کھاؤ ابھی تو تمہیں اس باغ کے سارے کلے کھانے ہیں۔ احمد بڑی مشکل سے کیلا پیٹ میں ٹھونس رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یا اللہ میں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ کاش میں اپنی امی اور ابو کو تنگ نہ کرتا۔ کاش میں ضد نہ کرتا تو آج مجھے یہ سزا نہ ملتی۔
احمد نے بڑی مشکل سے آدھا کیلا ختم کیا اور باغ میں ڈھیر لگے ہوئے کیلے دیکھ کر احمد کا سر چکرا گیا۔ دھوئیں والے جن نے احمد کو اٹھایا اور چھلکے میں لٹا کر بند کر دیا اور کہا اب تم ہمیشہ اس چھکے می بند رہو گے۔ اور چھلکا اٹھا کر درخت کے ساتھ لٹکا دیا۔ احمد اپنے آپ کو چھلکے کے اندر بہت بے چین محسوس کر رہا تھا۔ احمد نے چھلکے سے نکلنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا چھلکے میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا احمد اپنے امی ابو کو پکار رہا تھا۔ اچانک اسے اپنی امی کی میٹھی آواز سنائی دی۔
احمد بیٹا۔ احمد بیٹا۔
کیوں شور مچا رہے ہو۔ اٹھو دیکھو تمہارے ابو کیلے لائے ہیں۔ احمد نے آنکھ کھولی تو وہ اپنے کمرے میں تھا۔ نہ بڑے بڑے کیلوں والا باغ تھا اور نہ ہی کوئی دھوئیں والا جن۔
احمد کی امی کیلے اٹھائے کھڑی تھیں ۔ احمد اٹھا اور بولا امی مجھے معاف کر دیں میں آئندہ کبھی بھی آپ کو تنگ نہیں کروں گا۔ امی ابو حیران تھے کہ احمد کو اک رات میں کیا ہو گیا ہے اور احمد سوچ رہا تھا کہ یا خدایا شکر ہے وہ ایک خواب تھا۔ اگر ساری عمر کیلے کے چھلکے میں رہنا پڑتا تو کیا حال ہوتا۔
تو پیارے بچو ہمیں اپنے والدین کی بات ماننی چاہیے اور بے جا ضد نہیں کرنی چاہیے اور زندگی میں کسی چیز کو اپنی مجبوری یا کمزوری نہیں بنانا چاہیے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سب نعمتوں کو شکر ادا کر کے کھانا چاہیے۔
٭٭٭
تم بہت اچھے ہو!
یاسر رشید
کھٹ کھٹ…کھٹ!
اوہو۔ تم تو صبح دیکھتے ہو نہ شام… بس کھٹ کھٹ شور مچاتے رہتے ہو۔ کاہل کوے نے چڑ کر کٹھ بڑھئی سے کہا۔
بھئی میں تو کام کرتا ہوں۔ میرا کام یہی ہے کہ ورنہ لو گ مجھے کٹھ بڑھئی کیوں کہیں۔ کٹھ کاٹھ س نکلا ہے جس کا مطلب ہے لکڑی اور بڑھئی۔ تم تو جانتے ہو یہ میری چونچ اللہ میاں نے دی ہے نا ہ بڑی مضبوط ہے۔ اس کی مدد سے میں سخت سے سخت درختوں کے تنوں میں سوراخ کر لیتا ہوں۔
کٹھ بڑھئی بولا۔
مگر خواہ مخواہ سوراخ کرنے سے کیا فائدہ؟
میں بلا وجہ سوراخ نہیں کرتا یہ دیکھو میں نے اس چوڑے تنے میں کتنے سارے سوراخ کر دیے ہیں۔
مگر کیوں ؟
اس لیے کہ ان میں خوراک رکھی جا سکے۔ یہ ہماری الماری ہے سمجھے؟
اونہہ کون اتنی محنت کرے۔ ہم تو تازہ پھل کھاتے ہیں تازہ پھل سمجھے! کوے نے منہ بنا کر کہا۔
کھٹ کھٹ کھٹ کٹھ بڑھئی نے سوراخ کرنے شروع کر دیے۔ سوراخ تیار ہو گئے تو کٹھ بڑھئی نے بہت سارے پھل لا لا کر ان سوراخوں میں رکھ دیے۔ وہ روزانہ انہیں اپنی چو نچ سے الٹتا پلٹتا رہتا کہ پھل ایک ہی طرح رکھے خراب نہ ہو جائیں اور انہیں ہوا ملتی رہے۔
کاہل کوا کٹھ بڑھئی کو دیکھ دیکھ کر ہنستا رہتا۔ کچھ دنوں بعد موسم بدل گیا برف پڑنے لگی۔ ہر طرف بر ف ہی برف نظر آنے لگ۔ درختوں پر بھی برف جم گئی تمام پھل درختوں سے غائب ہو گئے
ایک دن کٹھ بڑھئی گھر سے نکلا تو دیکھا کہ کوے صاحب برف پر سر جھکائے بیٹھے ہیں۔
ارے تمہیں کیا ہوا؟
ہونا کیا تھا بھوک کے مارے دم نکل رہا ہے۔
کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ کوے نے کمزور سی آواز میں رونی صورت بنا کر کہا۔
ار ے تم تو مجھ سے کہتے آؤ تم ہمارے مہمان ہو۔
کٹھ بڑھئی نے کوے کو سہارا دیا اور اپنے گھر لے گیا۔ پھر الماری کے ایک سوراخ میں چونچ ڈال کر پھل نکالے اور کوے کو کھلائے۔
کوے نے پھل کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا اور بولا۔
واقعی تم بہت اچھے ہو تم نے محنت کی اور آج تمہیں کوئی پریشانی نہیں۔ اگر میں بھی تمہاری طرح محنتی ہوتا اور آنے والے دنوں کے لیے پہلے سے تیاری کر لیتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
٭٭٭
تین سہیلیاں
فوزیہ رفیق
ایک جنگل میں ایک برگد کے بہت بڑے درخت پر تین گھونسلے تھے۔ ان گھونسلوں میں ایک ننھی سی مینا ایک مہربان سی فاختہ اور ایک شرارتی سی بلبل رہتی تھی۔ تینوں کی آپس میں بہت دوستی تھی۔ مل جل کر رہتیں ایک دوسرے کی مدد کرتیں دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے کام آتیں۔ برگد کے اس درخت پر تینوں کی وجہ سے بہت رونق رہتی۔ وہ تینوں آپس میں بالکل نہ لڑتیں اور سکون سے رہتیں۔
ایک دن انہوں نے درخت پر ہلچل دیکھی تو وہ گھونسلوں سے باہر آ کر دیکھنے لگیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک کالی چڑیا بھی اس درخت پر اپنا گھونسلہ بنا رہی ہے۔ وہ بھی خوش ہو گئیں کہ چلو ایک نئی ہمسائی کے آنے
سے رونق بڑھ جائے گی۔ کالی چڑیا سارا دن گھونسلہ بناتی رہی اور تھک گئی۔ فاختہ نے سوچا کہ بے چاری کالی چڑیا کے بچے بھوکے ہونگے اور اسے دانا چگنے کا وقت نہیں ملا ہو گا۔ آج مجھے کالی چڑیا کو کھانا بھجوانا چاہیے۔ اس نے مونگ کی کھچڑی پکائی اور اسے کالی چڑیا کے گھر دینے چلی گئی۔ فاختہ کے پکارنے پر کالی چڑیا اپنے بال بکھیرے تھکی ہاری باہر آئی۔ فاختہ نے بہت پیار سے سلام کیا۔ مگر کالی چڑیا نے صرف سر ہلا کر سلام کا جواب دیا۔
میں آپ کے لئے کھانا لائی تھی۔ آپ تھک گئی ہونگی۔ فاختہ نے خوش دلی سے کہا۔ تو کالی چڑیا بولی اس کی کیا ضرورت تھی۔ نہ تو اس نے فاختہ کو اندر آنے کو کہا اور نہ ہی اس کا شکریہ ادا کیا۔ فاختہ شرمندہ سی لوٹ آئی۔ مگر اپنی سہیلیوں بلبل اور مینا سے کالی چڑیا کے رویے کا ذکر نہ کیا۔ ا گلے دن مینا اور بلبل نے کام سے فارغ ہو کر کالی چڑیا کو ملنے اور خوش آمدید کہنے کا فیصلہ کیا۔ گو فاختہ گزری رات کے واقعے کے بعد کالی چڑیا کے ہاں نہیں جانا چاہتی تھی مگر اپنی سہیلیوں کے سامنے انکار نہ کر سکی اور ساتھ چل پڑی۔ اس وقت کالی چڑیا سوئی پڑی تھی۔ جب انہوں نے دو تین دفعہ گھونسلے کے دروازے پر دستک دی تو کالی چڑیا کی آنکھ کھل گئی۔ نیند خراب ہونے پر وہ غصے کی حالت میں باہر آئی۔ کیا مصیبت ہے؟ وہ بلبل اور مینا کے مسکراتے چہرے دیکھ کر چیخی۔ وہ تینوں اس کے چیخنے سے سہم گئیں۔
ہم آپ سے ملنے آئی تھیں۔ بلبل نے ہمت کر کے کہا اور جنگلی پھولوں کا گل دستہ کالی چڑیا کی طرف بڑھایا۔ مینا نے بھی جنگلی پھلوں کی ٹوکری بڑھائی۔ کالی چڑیا نے پھولوں کا گل دستہ اٹھا کر دور پھینکا اور ٹوکری کو ٹانگ ماری۔ انگور اور جامن ادھر ادھر بکھر گئے۔ اور دھڑام سے دروازے بند کر کے گھونسلے میں چلی گئی۔ تینوں اس برتاؤ پر گھبرا گئیں اور شرمندہ ہو کر لوٹ آئیں۔ دن گزرتے گئے مگر کالی چڑیا کا غرور کم نہ ہوا۔ مینا، فاختہ اور بلبل نے بھی اس دن کے بعد دوبارہ کالی چڑیا سے کوئی رابطہ نہ کیا۔ کالی چڑیا جب دیکھتی کہ تینوں اتنی خوشی سے مل جل کر رہ رہی ہیں تو اسے بہت جلن ہوتی۔ وہ ان تینوں کو یوں ہنستا بستا دیکھ کر ان سے حسد کرنے لگی۔ وہ سوچتی کہ کسی طرح ان تینوں کی دوستی ختم کرا دی جائے۔ اس وقت بھی اسے ان تینوں کے قہقہے سنائی دے رہے تھے اور وہ اندر ہی اندر جل کڑھ رہی تھی۔
موسم بدل رہا تھا سردیوں کی آمد آمد تھی۔ ٹھنڈی ہوائیں برگد کے درخت کی ٹہنیوں سے ٹکرا ٹکرا کر گزر رہی تھیں۔ اسی خیال سے تمام پرندے خوراک اکٹھی کرنے میں مصروف تھے۔ تاکہ سرد موسم میں پریشانی نہ ہو۔ فاختہ کو کہیں سے تھوڑی سے نرم گرم کپاس مل گئی۔ وہ اس خیال سے کہ چلو بچوں کو سردی نہ لگے۔ وہ کپاس گھر لے آئی اور گھونسلے کے ایک کونے میں رکھ دی۔ کالی چڑیا اپنے گھونسلے کے سوراخ سے فاختہ کو کپاس لاتے دیکھ چکی تھی۔ اسے ایک سازش سوجھی۔ صبح جب تینوں سہیلیاں حسب معمول خوراک کی تلاش میں ادھر ادھر نکل گئیں تو کالی چڑیا چپکے سے فاختہ کے گھونسلے میں آ گھسی۔ اس نے وہاں سے کپاس اٹھائی اور جا کر بلبل کے گھونسلے میں چھپا دی اور اوپر سوکھے تنکے ڈال دیئے تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے۔ فاختہ شام کو لوٹی تو گھونسلے میں سے کپاس غائب تھی۔ وہ بڑی پریشان ہوئی کہ میری کپاس کہاں گئی۔ اس نے باہر آ کر مینا اور بلبل کو آواز دی۔
اے مینا بہن۔ اے بلبل میری بات سنو۔ نجانے میری کپاس کہاں گئی؟ وہ دونوں بھی فاختہ کی کپاس کی گمشدگی پر پریشان ہو گئیں اور ادھر ادھر ڈھونڈنے لگیں۔ کالی چڑیا سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ جب کپاس کہیں سے نہ ملی اور تینوں تھک ہار گئیں تو کالی چڑیا چپکے سے فاختہ کے پاس آئی اور مکارانہ مسکراہٹ سے بولی۔ فاختہ آپا کیوں شور مچا رہی تھی؟ کیا ہو گیا؟ فاختہ نے ساری بات بتائی تو وہ بولی۔ آپا برا نہ مناؤ تو کچھ کہوں مگر ڈرتی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ فاختہ بولی۔ نہیں نہیں ڈر کیسا۔ کیا بات ہے؟ آج جب تم چلی گئی تھی تو میں اپنے ننھے چڑے کو کھانا کھلا رہی تھی باہر سے کھٹ پٹ کی آوازیں آئیں تو میں نے چپکے سے گھونسلے کے سوراخ سے دیکھا کہ تمہاری سہیلی بلبل دبے قدموں تمہارے گھونسلے میں گھسی اور وہاں سے کپاس اٹھا اٹھا کر اپنے گھونسلے میں لے گئی۔ میں چھپ کر سارا ماجرا دیکھتی رہی۔ اس نے گھونسلے کے پچھلے کونے میں وہ کپاس چھپا رکھی ہے۔ فاختہ حیران ہو کر کالی چڑیا کو دیکھنے لگی۔ کالی چڑیا بولی اے بھلا میں جھوٹ کیوں بولوں۔ اگر یقین نہ آئے تو جا کر دیکھ لینا۔ کالی چڑیا فاختہ کو پریشان کر کے چلی گئی۔ رات کو جب مینا فاختہ کے گھر آئی تو فاختہ نے کالی چڑیا کی بتائی ہوئی بات مینا کو بتائی۔ مینا بھی یہ سن کر پریشان ہو گئی۔ انہیں بلبل سے یہ امید نہ تھی۔ دونوں نے سوچا کہ پہلے بلبل کے گھر جا کر اس بات کی تصدیق کر لی جائے۔ اتفاق سے اس وقت بلبل ندی سے پانی لینے گئی ہوئی تھی۔ دونوں بلبل کے گھونسلے میں گئیں۔ کالی چڑیا کی بتائی ہوئی جگہ پر جا کر دیکھا تو تنکوں کے نیچے واقعی کپاس چھپی رکھی تھی۔ دونوں کو بلبل کی اس حرکت سے بہت افسوس ہوا۔ بلبل لوٹی تو فاختہ نے اس سے لڑنا شروع کر دیا۔ بلبل بیچاری حیران پریشان ہو کر فاختہ کو دیکھنے لگی اور معلوم کرنے لگی کہ معاملہ کیا ہے۔ جب اسے ساری بات پتہ چلی تو وہ رونے لگی اور قسمیں اٹھا اٹھا کر مینا اور فاختہ کو یقین دلانے لگی مگر چونکہ کپاس بلبل کے گھونسلے سے برآمد ہو چکی تھی۔ اس لئے مینا اور فاختہ کو بلبل کی ہر بات جھوٹی لگ رہی تھی۔ فاختہ اور مینا نے بلبل سے دوستی ختم کر لی۔ بلبل بیچاری تنہا رہ گئی۔ وہ ہر وقت اداس اداس پھرتی رہتی۔ جب بہت دل گھبراتا تو اپنے گھونسلے میں جا بیٹھتی۔
دن گزرتے گئے کالی چڑیا، فاختہ اور مینا سے بلبل کو جدا کر کے بہت خوش تھی لیکن اب اسے مینا اور فاختہ کا ساتھ کھٹکنے لگا تھا۔ وہ اس کوشش میں تھی کہ کسی طرح اب ان دونوں کو بھی جدا کر دے۔ آخر ایک دن اسے موقع مل ہی گیا۔ بارشوں کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ مینا نے بڑی مشکل سے چاول اکٹھے کئے تھے کہ بارش میں اگر خوراک کے لئے باہر نہ جایا جا سکے تو گھونسلے میں بچوں کے لئے خوراک موجود ہو۔ آج خوب دھوپ نکلی تھی۔ مینا نے چاول دھوپ میں سوکھنے کے لئے رکھے تھے کیونکہ اس کے بچوں کو خشک چاول بہت پسند تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد کوا بھائی آیا تو اس نے مینا کو پیغام دیا کہ تمہاری نانی بہت سخت بیمار ہیں اور تمہیں بلایا ہے۔ مینا پریشان ہو گئی فاختہ نے کہا جا کر نانی کو دیکھ آؤ۔ مینا بولی میرا بھی کئی دنوں سے دل چاہ رہا تھا لیکن آج تو میں نے چاول باہر سوکھنے کے لئے ڈالے ہیں اور موسم کا بھی کوئی اعتبار نہیں اگر بارش ہو گئی تو چاول پھر سے گیلے ہو جائیں گے اور میں بچوں کو کھانے کو کیا دوں گی۔ فاختہ مینا کی بات سن کر بولی۔ پیاری مینا فکر کیوں کرتی ہو۔ میں ہوں نا۔ دھوپ ختم ہوتے ہی میں سارے چاول سمیٹ کر تمہارے گھونسلے میں رکھ دوں گی۔ تم بے فکر ہو کر نانی کا حال پوچھنے جاؤ۔ مینا نے بچوں کو ساتھ لیا اور نانی کے گھر چل دی۔
کہیں سے اڑتے ہوئے چند شرارتی بادل برگد کے پیڑ پر آ کھڑے ہوئے اور سورج کو اپنے اندر چھپا لیا۔ بادلوں کی آواز سن کر فاختہ کو مینا کے چاولوں کی فکر ہوئی۔ اس نے بھاگم بھاگ سارے چاول سمیٹے اور بارش برسنے سے پہلے ہی انہیں مینا کے گھونسلے میں پہنچا دیا۔ مینا موسم کی خرابی کی وجہ سے رات کو بھی نہ لوٹ سکی۔ کالی چڑیا نے اس موقع کو غنیمت جانا اور تمام چاول مینا کے گھونسلے سے نکال کر برستی بارش اور تیز ہوا میں لا ڈالے۔ چاول ادھر ادھر بکھر کر خراب ہو گئے اور بیچاری فاختہ کو خبر بھی نہ ہوئی۔ مینا صبح سویرے ہی لوٹ آئی۔ مگر جب ہر طرف اپنے چاول بکھرے دیکھے تو غصے سے پاگل ہو گئی اور فاختہ کے گھونسلے کا دروازہ پیٹنے لگی۔ فاختہ نے مینا کو یوں پریشان دیکھا تو بولی۔ مینا بہن کیا ہوا ہے؟ خیریت تو ہے نا؟ نانی کا حال سناؤ؟ مینا بڑے ہی غصے سے بولی۔ نانی کو چھوڑو۔ تم نے جو میرے ساتھ کیا ہے۔ مجھے اس کی تم سے ہرگز امید نہ تھی۔ اگر تم چاول سمیٹ نہیں سکتی تھیں تو مجھے اس وقت بتا دیتیں۔ میں اپنا کام نبٹا کر چلی جاتی۔ فاختہ نے مینا کو لاکھ یقین دلانے کی کوشش کی کہ تمہارے چاول سنبھال دیئے تھے مگر مینا نے اس کی کسی بات کا یقین نہ کیا۔ اور اس سے بولنا اور ملنا ملانا چھوڑ دیا۔ فاختہ بیچاری سوچتہ رہتی کہ آخر وہ چاول بارش کی نذر کیسے ہو گئے؟ اب تینوں کی دوستی ختم ہو چکی تھی۔ سب الگ الگ، اداس اداس پھرتی رہتیں۔ جب ساتھ تھیں تو ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹ لیتیں، ایک دوسرے کی مدد کر دیتیں مگر اب کچھ بھی ٹھیک نہ تھا۔
کالی چڑیا چاہنے کے باوجود مینا اور فاختہ کی لڑائی پر خوشی نہ منا سکی۔ کیونکہ اس برستی بارش میں مینا کے گھونسلے سے چاول نکال کر صحن میں پھینکتے ہوئے اسے سردی لگ گئی تھی۔ اسے شدید بخار تھا۔ اس کے پر گیلے ہو کر اڑنے کے قابل نہ رہے تھے۔ اور اس کے بچے بھوک سے نڈھال چلا رہے تھے۔ مگر کالی چڑیا میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ اڑ کر ان کے لئے کھانے کا بندوبست کر سکے۔ بچے بھوک سے روتے ہوئے سو گئے۔ کالی چڑیا کو اپنی بے بسی پر رونا آ رہا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ کہیں میرے بچے بھوک پیاس سے مر ہی نہ جائیں۔ میں نے کبھی کسی سے دوستی نہ کی۔ میرا کوئی ہمدرد نہیں۔ میں کتنی تنہا ہوں۔ میں نے جو کچھ بلبل، مینا اور فاختہ کے ساتھ کیا مجھے اس کی سزا مل رہی ہے۔ اس کا دل گھبرانے لگا۔ وہ باہر نکل آئی کئی دنوں بعد آج پھر سورج نکلا تھا۔ سنہری گم گرم دھوپ برگد کے پیڑ پر پڑ رہی تھی۔ کالی چڑیا کو یاد آیا کہ جب دھوپ نکلتی تھی۔ تو مینا، بلبل اور فاختہ بچوں کو لے کر دھوپ میں آ بیٹھتیں۔ بچے خوب کھیلتے، شرارتیں کرتے اور ان تینوں کی آپس میں باتیں ہی ختم نہ ہوتیں اور اب ہر طرف ویرانی ہی ویرانی تھی۔ اسے اس خاموشی سے وحشت ہونے لگی۔ اسے احساس ہونے لگا کہ اس نے اس برگد کے درخت کی رونق ختم کر کے اچھا نہیں کیا۔ وہ زور زور سے چلانے لگی۔
اے مینا، اے بلبل، آپا فاختہ کہاں ہو سب ذرا باہر تو نکلو۔ دیکھو کتنی اچھی دھوپ ہے۔ سورج بھی تمہیں ڈھونڈ رہا ہے۔ جب تینوں کے کانوں میں کالی چڑیا کی آواز پڑی تو وہ گھونسلوں سے باہر نکلیں اور کالی چڑیا کو دیکھنے لگیں۔ کالی چڑیا بولی مجھے معاف کر دو۔ میں ہی تمہاری مجرم ہوں میں نے ہی تم لوگوں کو آپس میں جدا کیا ہے تینوں حیران ہو کر کالی چڑیا کو دیکھنے لگیں۔ کالی چڑیا نے کہا ہاں فاختہ آپا آپ کی کپاس بلبل نے نہیں چرائی تھی بلکہ میں نے خود جا کر اس کے گھونسلے میں چھپا دی تھی اور بلبل پر چوری کا الزام لگ گیا اور اس دن مینا بہن کے چاول بھی میں نے ہی برستی بارش اور تیز ہوا میں گھونسلے سے نکال کر رکھے تھے۔ جس سے چاول ضائع ہو گئے لیکن مجھے اس کی سزا مل گئی۔ میں بارش میں بھیگ کر سخت بیمار ہو گئی ہوں بیماری کی وجہ سے میرے پروں میں اڑنے کی طاقت ہی نہیں رہی اور میرے بچے آج کئی دنوں سے بھوکے ہیں۔ مجھے معاف کر دو۔ ۔ ۔ ۔ مجھے معاف کر دو۔ ۔ ۔ ۔ کالی چڑیا رو رہی تھی۔ وہ بہت بیمار اور کمزور بھی لگ رہی تھی۔
ہمیشہ کی مہربان فاختہ بولی کالی چڑیا فکر کیوں کرتی ہو جا کر گھونسلے میں آرام کرو۔ میں تمہارے بچوں کے لئے کھانے کا بندوبست کرتی ہوں۔ مینا نے کہا بلبل تم کالی چڑیا کو اس کے گھونسلے تک لے جاؤ۔ میں ذرا جا کر ڈاکٹر الو سے کالی چڑیا کے لیے دوا لے آؤں۔ یہ کہہ کر مینا اڑ گئی۔
کالی چڑیا، مینا بلبل اور فاختہ کی دیکھ بھال سے کچھ دنوں ہی میں ٹھیک ہو گئی۔ بچوں کو بھی خوراک ملتی رہی۔ مینا بلبل اور فاختہ کی دوستی دوبارہ سے شروع ہو چکی تھی۔
آج جب سورج نکلا تو اس نے دیکھا کہ پہلے کی طرح مینا، بلبل اور فاختہ دھوپ میں آ بیٹھی ہیں۔ بچے بھی پہلے کی طرح ہنس کھیل رہے ہیں۔ مگر یہ آج ان تینوں کے ساتھ چوتھا کون ہے؟ سورج آنکھیں کھول کھول کر دیکھنے لگا۔ جی ہاں آج کالی چڑیا بھی ان تینوں میں بیٹھی اپنا سارا غرور بھول کر قہقہے لگا رہی تھی۔ وہ جان چکی تھی کہ مل جل کر رہنے میں ہی سب کا فائدہ ہے۔ بلبل، مینا اور فاختہ بھی نئی دوست کے ملنے پر بہت خوش ہیں۔
٭٭٭
فیصلہ
مریم کوثر
خبر خاصی پریشان کن اور افسوس ناک تھی جو مجھے اپنے دوست نوید کے ذریعے ملی تھی۔ ۔ ۔ ۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ایسا ہو چکا تھا!۔ ۔ ۔ ۔ میں اطلاع کے متعلق سوچتا ہوا جمال چچا کے گھر کی طرف بڑھا۔ ۔ ۔ ۔ وہی جمال چچا۔ ۔ ۔ ۔ جو ہمارے محلے کی گلی کے نکڑ پر اپنے بال بچوں کے ساتھ کرائے کے ایک مکان میں رہتے تھے۔ مٹی کے برتن ریڑھی پر رکھ کر گلی گلی بیچنا ان کا کام تھا۔ ۔ ۔ ۔ یہ رنگ برنگے اور خوبصورت نقش و نگار والے برتن وہ اپنے گھر ہی میں تیار کرتے تھے۔
’’ ٹھک ٹھک ٹھک‘‘ میں جمال چچا کے دروازے پر دستک دینے کے بعد انتظار کرنے لگا۔
’’ جی انکل‘‘ جمال چچا کے دس سالہ بیٹے منور نے دروازہ کھولا۔
’’ ابا ہیں ؟‘‘ میں نے پوچھا
’’ جی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو بازار گئے ہوئے ہیں۔ ‘‘
’’ کب تک واپسی ہو گی؟‘‘
’’ بتا کر نہیں گئے۔ ۔ ۔ ۔ اندازاً بارہ ایک بجے تک آ جائیں گے۔ ‘‘
’’ کوئی پیغام ہو تو دے جائیں میں انہیں بتا دوں گا‘‘
’’ انہیں بتا دینا کہ میں آیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے۔ ‘‘
’’ تم آج اسکول نہیں گئے۔ ۔ ۔ خیر تو ہے؟‘‘ اچانک مجھے خیال آ گیا۔
’’ جی بس ایسے ہی نہیں گیا۔ ‘‘ منور نے گول مول سا جواب دیا لیکن میں نے محسوس کر لیا تھا کہ وہ مجھ سے کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔
’’ اچھا۔ ۔ ۔ اب میں چلتا ہوں۔ ۔ ۔ ابا کو یاد سے میرا بتا دینا۔ ‘‘
’’ آپ فکر نہ کریں۔ ۔ ۔ ۔ ان کے گھر آتے ہی میں انہیں آپ کے متعلق بتاؤں گا۔ ‘‘
منور نے کہا اور میں سوچوں میں گم اپنے گھر لوٹ آیا۔
مجھے دوبارہ جمال چچا کے گھر جانے کی ضرورت نہ پڑی وہ مجھے مسجد میں مل گئے۔ نماز سے فارغ ہو کر ہم دونوں اکٹھے ہی باہر نکلے۔ ’’ چچا! میں نے جو سنا ہے کیا وہ واقعی سچ ہے؟‘‘ میں نے بات شروع کرتے ہوئے کہا۔
’’ کیا سنا تم نے؟‘‘ جمال چچا نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کر دیا۔ ’’ یہی کہ آپ نے منور، انور اور سعید کو اسکول سے اٹھا لیا ہے۔ ‘‘ میں نے اپنے سوال کی وضاحت کی۔
’’ ہاں۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم نے یہ بات سنی ہے تو بالکل صحیح سنی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ ایسا آپ نے کیوں کیا؟ انہیں ساتھ لے کر مسجد کے قریب واقع پارک میں آ گیا۔ ‘‘
’’ مجھے ایسا کرنا تو نہیں چاہیے تھا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ جو کیا ہے مجبوراً کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
جمال چچا کے لہجے میں دکھ جھلک رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ قدرے توقف کے بعد بولے ’’ تمہیں تو پتہ ہے نا کہ میں نے اپنے بڑے بیٹے علیم کو کتنی مشکلوں سے پڑھایا لکھایا چودہ جماعتیں اس نے پاس کیں۔ ۔ ۔ ۔ تین سال ہونے کو آ رہے ہیں اسے نوکری کے لئے دھکے کھاتے ہوئے۔ ۔ ۔ میں نے سوچا تھا کہ اسے کام مل جائے گا تو ہمارے مسائل کافی حد تک حل ہو جائیں گے۔ ۔ ۔ میرا بوجھ بھی کچھ کم ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا وہ چند لمبے لمبے سانس لے کر دوبارہ گویا ہوئے ’’ وہ جہاں جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اسے تاریخ دے دی جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ دوبارہ ملنے پر پھر نئی تاریخ دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ نوکری کے لئے سفارش چلتی ہے وہ مجھ جیسے غریب آدمی کے پاس کہاں۔ ۔ ۔ ۔ موٹی رقم مانگی جاتی ہے وہ میں دے نہیں سکتا۔ ۔ ۔ ۔ یہ دونوں چیزیں تو ہم جیسے لوگوں کے پاس ہوتی ہی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ اسی لئے ہمیں ہر جگہ سے مایوس کر دیا جاتا ہے۔ ۔ ۔ جبکہ ہمارے ایک کھاتے پیتے رشتہ دار کے دونوں میٹرک پاس بیٹے پیسہ کھلا کر سرکاری نوکر ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔ ایک اور رشتہ دار کا بیٹا ایف اے کی جعلی سند حاصل کرنے کے بعد سفارش کے ذریعے ملازم ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ جمال چچا کی ایک ایک بات سے سچائی ٹپک رہی تھی۔ ‘‘
’’ احمد بھائی کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود گزشتہ دو سال سے بے روزگار پھر رہا ہے۔ ۔ ۔ اس بے چارے نے ہر محکمے میں درخواست جمع کرائی لیکن کہیں بھی اس کی قدر نہیں کی گئی اس کے والدین بوڑھے ہیں جبکہ دونوں بہنوں کی شادی کا مسئلہ اس کی نوکری کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ ثاقب صاحب کے چار بیٹے ایک انگلش میں ایم اے، دوسرا بی اے، تیسرا ایف ایس سی ہے اور چوتھے نے میٹرک کے بعد ٹیچر کا کورس کیا لیکن چاروں بیکار بیٹھے ہیں بہت کوششیں کیں لیکن ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ دیکھ سن کر میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً تینوں کو سکول سے اٹھا لیا ہے اب انہیں بھی اپنا کام سکھاؤں گا‘‘ جمال چچا نے میرے سوال کا دلائل سے بھرپور جواب دیتے ہوئے آئندہ کا منصوبہ بھی بتا دیا۔
’’ چچا کیا آپ اپنا فیصلہ بدل نہیں سکتے؟‘‘
’’ انہوں نے جواباً، نفی میں سر ہلایا کیوں ؟‘‘
’’ بیٹے تمہیں ہمارے اندرونی حالات کا پتہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ تم شاید دو ماہ بعد گاؤں سے لوٹے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ؟ انہوں نے میری طرف دیکھا۔ ‘‘
’’ جی۔ ۔ ۔ ۔ اندازاً اتنا ہی عرصہ ہوا ہے۔ ‘‘
تمہارے گاؤں جانے کے تین چار دن بعد علیم بیمار ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔ پے در پے ناکامیوں۔ ۔ ۔ اور طرح طرح کی سوچوں نے اسے ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ ایک دو بار تو اس نے بڑے افسردہ انداز میں کہا ابا اگر ہمارے مذہب میں خود کشی حرام نہ ہوتی تو میں یہ کام کر گزرتا کیونکہ اب روز جینے روز مرنے سے تنگ آ چکا ہوں ابھی چند دن ہوئے میں گھر پر نہیں تھا تو اس نے اپنی ڈگری اور سارے تعلیمی کاغذات کو جلا کر راکھ کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ مجھے یہ خبر سن کر دکھ تو بہت ہوا لیکن میں کیا کر سکتا تھا۔ کہتے کہتے جمال چچا کی آواز بھرا گئی۔ ۔ ۔ ۔ وہ رو رہے تھے میری آنکھیں بھی بھیگنے لگیں۔ ۔ ۔ ان کے دل کا دکھ میرے دل میں بھی اتر آیا تھا میں اندر سے ہل گیا تھا۔ ۔ ۔ اور پھر اسی لمحے میں نے بھی ایک فیصلہ کر لیا۔ ۔ ۔ ۔ جب میں نے اس کے متعلق جمال چچا کو بتایا تو ان کے چہرے پر خوشی اور اطمینان کے کئی رنگ بکھر گئے!۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ ۔ ۔ اور پھر۔ ۔ ۔ ۔ جب اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو جمال چچا اپنے تینوں بچوں کو ساتھ لیے سکول جا رہے تھے!۔ ۔ ۔ ۔
ان کے تینوں بچوں کی تعلیم کے اخراجات ہماری تنظیم نے اپنے ذمے لے لیے تھے۔ ۔ ۔ غریب و نادار طالب علموں کی فلاح و بہبود اور ان کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنرمند بنانا اس کے بنیادی مقاصد ہیں۔ ۔ ۔ اب منور، انور اور سعید دن کو سکول جاتے ہیں شام کو ہماری تنظیم کے تحت قائم ٹیوشن سینٹر میں انہیں فری کوچنگ دی جاتی ہے اس کے بعد ایک فنی ماہر ان کو دوسرے بچوں کے ساتھ فنی تربیت دیتا ہے۔ علیم کا مسئلہ بھی ہماری تنظیم کے ایک رکن نے حل کر دیا ہے!
ہم سب بہت خوش ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں جو بھی کام خالص اللہ کی رضا کے لئے کیا جائے اللہ نہ صرف اس میں کامیابی دیتا ہے بلکہ حقیقی سکون بھی دیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
گائے کی دستک
ارحم قمر عبدالہادی
اگر کبھی آپ کی آنکھ صبح سویرے کسی دستک کی آواز سے کھلے اور دروازہ کھولنے پر کوئی گائے کھڑی نظر آئے تو آپ کیا محسوس کریں گے؟ ہو سکتا ہے آپ سوچیں کہ یہ کسی گوالے کی شرارت ہے خود دروازہ کھٹکھٹا کر چھپ گیا ہو گا اور گائے کو آگے کر دیا ہو گا۔ ذرا سوچیں کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ دستک خود گائے نے دی ہو؟ آپ یقین کریں ایسا ہو چکا ہے۔
دستک پر اکثر میں نے دروازہ کھولا ہے اور باہر ایک صحت مند مضبوط سینگوں والی گائے کو کھڑے پایا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ سرمئی رنگت کی ایک گائے عموماً صبح ساڑھے چھ بجے سے آٹھ بجے کے درمیان اور پھر شام عصر اور مغرب کے درمیان، کبھی اکیلی اور کبھی دوسری گایوں کے ساتھ ہمارے گھر پر آیا کرتی تھی اور دستک دیا کرتی تھی تاکہ کچھ کھانے کو مل سکے۔
اس کے کھٹکھٹانے کا تو مجھے یقین ہی نہیں آیا اور میں نے یہی سوچاکہ یہ کام اس کا رکھوالا کرتا ہو گا۔ پھر یہ دیکھنے میں آیا کہ وہ پہلے دستک کے بعد کچھ دیر انتظار کرتی کہ شاید کوئی دروازہ کھولے، اگرکسی وجہ سے دروازہ نہ کھلتا اور ہمیں اس کے سینگ نظر آتے تو ہم گھر والوں میں سے کوئی روٹی یا ڈبل روٹی کے ٹکڑے ڈال دیتا، وہ کھا لیتی، پیٹ بھر جاتا تو چلی جاتی۔ ورنہ آدھا آدھا گھنٹہ سینگ دروازے کی کنڈی سے اڑائے کھڑی رہتی، کبھی کھٹکھٹاتی اور کبھی آواز بھی نکالتی تھی۔
سراغ لگانے پر معلوم ہوا کہ صبح کے وقت یہ گائے اور اس کی ساتھی گائیں رکھوالے کے ہمراہ نہیں ہوتیں۔ باڑہ قریب ہے، اس لئے عموماً وہ خود ہی چل پڑتی ہیں اور دستک دینے کا کام سینگ سے انجام دیتی ہیں۔
ہماری حیرت کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب اس گائے نے دروازہ کھلنے میں تاخیر یا روٹی نہ ملنے اور دھتکاری جانے کی صورت میں کنڈی باہر سے لگانی شروع کر دی۔
اسے ایسا کرتے ہوئے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ عجیب و غریب گائے اپنی سج دھج کے اعتبار سے دیگر مویشیوں کی قائد نظر آتی تھی، دوسری گائیں اس کی دیکھا دیکھی روٹیوں پر جھپٹتی تھیں پھر رفتہ رفتہ ’’ ہماری‘‘ گائے کمزور ہونے لگی تو اس چھینا جھپٹی میں پیچھے رہ گئی۔ ہم سے پہلے وہ ہمارے پڑوسی کے گھر میں دستک دیا کرتی تھی۔
پھر ان کے مار بھگانے کے بعد اس نے ہمارا گھر چنا۔
اس نے ہماری گلی میں دو تین گھر اور دیکھ لئے۔ مگر وہاں وہ دستک کم ہی دیا کرتی تھی۔ بس جا کر رستہ بند کر دیتی تھی، پھر اس نے آنا چھوڑ دیا۔ دوسری گایوں نے اس کی جگہ لینے کی کوشش کی، مگر معمول نہیں بنایا۔ ایک دن اس کے رکھوالے نے بتایا کہ وہ انوکھی گائے بچھڑوں کو سوگوار چھوڑ کر مر گئی، ہم سب کو بہت صدمہ ہوا۔
میں کبھی کبھی سوچا کرتا تھا کہ شاید یہ گائے دراصل کوئی جن ہو جس نے کسی خاص مقصد کے لیے بہروپ بھرا ہو، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حقیقت کیا تھی۔
ایک اور بات۔ ۔ ۔ ۔ اگر یہ گائے یورپ یا امریکہ میں ہوتی تو اس کی بڑی شہرت ہوتی اور ’’گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز‘‘ میں اس کا نام بھی شامل ہو جاتا۔
٭٭٭
سونے کی چونچ
سامعہ اسلم
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک جنگل میں ایک مینا اور ایک چڑیا رہتی تھیں۔ دونوں کی آپس میں بہت دوستی تھی۔ وہ مل کر کھیلتیں اور مل کر کام کرتیں۔ ایک دفعہ چڑیا اڑتے اڑتے دور جا نکلی۔ اسے پیاس لگی تو وہ ایک پہاڑ میں سے بہتے ہوئے چشمے سے ٹھنڈا پانی پینے لگی۔ اس پہاڑ میں سے چند قطرے اس کی چونچ پر آن پڑے۔ اسے اپنی چونچ بھاری بھاری محسوس ہونے لگی اس نے ادھر ادھر سر جھٹکا مگر چونچ پر پڑا وزن کم نہ ہو سکا۔ اس نے پہاڑ سے سوال کیا۔ ا ے پہاڑ میری چونچ پر آخر اتنا وزن کیوں ؟ پہاڑ بولا، ننھی چڑیا۔ میں سال میں ایک دفعہ روتا ہوں۔ میرے آنسو سونے کے ہوتے ہیں۔ جب تم نے پانی پیا۔ اتفاق سے میرے آنسوؤں کے چند قطرے تمہاری چونچ پر پڑے اور تمہاری چونچ کے اوپر سونے کا خول چڑھ گیا ہے۔ چڑیا گھر واپس لوٹ آئی۔
اگلے دن سب پرندے چڑیا کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ سونے کی چونچ کی چمک دمک ہی نرالی تھی۔ چڑیا سے سب سونے کی اس چونچ کا راز پوچھتے۔ چڑیا بھولی بھالی ساری کہانی سنا دیتی۔ جنگل میں چڑیا سونے کی چونچ والی مشہور ہو گئی۔ سب اس کی خوبصورتی کی تعریف کرنے لگے۔ باقی تمام چھوٹے پرندے بھی چڑیا سے دوستی کے خواہش مند ہو گئے
مینا کو یہ بات پسند نہ آئی۔ اسے چڑیا کی شہرت سے حسد ہونے لگا۔ اسے اپنی کالی چونچ سخت بری لگتی۔ وہ چپکے چپکے کئی بار اس پہاڑ کے نیچے گئی۔ سارا دن گزر جاتا مگر نہ پہاڑ آنسو بہاتا اور نہ ہی مینا کی چونچ سونے کی بنی۔ وہ ہر وقت اسی فکر میں رہتی کہ یا تو میری چونچ سونے کی ہو جائے یا چڑیا کی سونے کی چونچ کھو جائے۔ چڑیا مینا کی حسد بھری نظروں سے بے خبر تھی۔
ایک دن مینا چڑیا کے گھر آئی اور بولی۔ چڑیا بہن کسی زمانے میں ہم دونوں میں کس قدر پیار تھا۔ مگر جب سے تمہاری چونچ سونے کی بنی ہے تم نے مجھے بھلا ہی ڈالا۔ چڑیا بولی۔ مینا کیسی باتیں کرتی ہو میری چونچ ضرور سونے کی بن گئی ہے مگر میں نہیں بدلی ہوں۔ تم دل برا مت کرو۔ مینا بولی اگر یہ بات ہے تو کل رات کا کھانا تم میرے ساتھ کھاؤ۔ مل کر خوب باتیں کریں گے، کھیلیں گے اور پیڑ کی شاخوں پر جھولا جھولیں گے چڑیا نے کہا ضرور کل میں شام کو ہی تمہارے ہاں آ جاؤں گی۔ رات کو واپسی پر جگنو خالو مجھے میرے گھونسلے تک چھوڑ دیں گے۔ مینا چڑیا سے وعدہ لے کر پھر سے اڑ گئی اور سیدھی ڈاکٹر لومڑی کے پاس جا پہنچی۔ ڈاکٹر لومڑی نے مینا کو دیکھ کر کہا آؤ مینا کیسے آنا ہوا؟ کہیں بیمار تو نہیں ہو مینا بولی ڈاکٹر صاحبہ کئی دنوں سے سو نہیں سکی نجانے میری نیند کہاں کھو گئی ہے۔ مہربانی فرما کر مجھے نیند کی دوا دے دیں۔ تاکہ ایک دو دن خوب سو سکوں۔ مینا ڈاکٹر لومڑی سے نیند کی دوا لے کر گھر پہنچی۔ دوائی کو گھونسلے کے ایک کونے میں رکھا اور خود گہری نیند سو گئی۔
اگلے دن چڑیا کے آنے سے پہلے ہی مینا نے دو تین قسم کے اچھے کھانے چڑیا کے لئے تیار کیے۔ انہیں شیشے کی پلیٹوں میں سجایا۔ کھانے میں ڈاکٹر لومڑی کی دی ہوئی نیند کی دوائی شامل کر دی اور کام ختم کر کے چڑیا کا انتظار کرنے لگی۔ بیچاری چڑیا ندی پر جا کر خوب نہائی، پروں میں کنگھی کی، آنکھوں میں سرمہ لگایا اور اپنی سونے کی چمکتی ہوئی چونچ کو خوب چمکایاا ور مینا کی طرف چل پڑی۔
راستے میں بی بکری سے پھول لئے تو بی بکری بولی واہ چڑیا آج تو پوری ہی سونے کی لگ رہی ہو۔ کیا کسی شادی میں جا رہی ہو۔ چڑیا نے مینا کی دعوت کے بارے میں بتایا اور پھول لے کر چل دی۔ راستے میں ایک درخت پر جگنو خالو نیند کے مزے لے رہے تھے چڑیا نے ان کے کان کے پاس جا کر زور سے چوں چوں کی۔ تو وہ ایک دم سے ڈر کر جاگ گئے۔ چڑیا ہنس دی اور جگنو خالو کو تاکید کرنے لگی کہ رات کو واپسی پر مینا کے گھر سے مجھے میرے گھر تک پہنچا دینا۔ کیونکہ راستے میں اندھیرا ہو جائے گا۔ جگنو خالو نے چڑیا سے وعدہ کر لیا اور چڑیا خوشی خوشی مینا کے گھر جا پہنچی۔
دونوں سہیلیاں بہت پیار سے ملیں۔ کافی دیر بیٹھ کر باتیں کرتی رہیں۔ پھر مینا نے چڑیا کو کھانا پیش کیا۔ چڑیا کو چاول کے دانوں کی کھیر بہت پسند آئی اور اس نے خوب جی بھر کر کھایا۔ مینا پاس بیٹھی چڑیا کو اصرار کر کر کے اور کھلاتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد چڑیا کو اپنا سر بھاری محسوس ہونے لگا۔ آنکھیں نیند سے بھرنے لگیں۔ چڑیا نے پر ہلا کر اڑنا چاہا مگر نیند کی دوائی اثر کر چکی تھی اور چڑیا بے ہوش ہو گئی۔ چڑیا کے بے ہوش ہوتے ہی مینا نے جلدی سے چڑیا کی سونے کی چونچ والا خول اتارا اپنی کالی چونچ کاٹی اور اپنے منہ پر سونے کی چونچ سجا لی اور جلدی سے جنگل کی سمت اڑ گئی۔ خالو جگنو مینا کے گھونسلے کے باہر کافی دیر تک چڑیا کا انتظار کرتے رہے۔ مگر چڑیا گھونسلے سے باہر نہ آئی۔ چونکہ جگنو چڑیا سے گھر چھوڑنے کا وعدہ کر چکا تھا۔ اب وہ کسی صورت اپنا وعدہ نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ کیونکہ کسی سے بھی وعدہ کرو تو ہمیشہ پورا کرو۔
اسی لئے وہ مینا کے گھونسلے کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ گھونسلے کے اندر کی خاموشی سے جگنو کو کسی خطرے کی بو محسوس ہونے لگی۔ جگنو خالو گھونسلے کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا چڑیا بے ہوش پڑی ہے۔ انہوں نے جلدی سے چڑیا کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ چڑیا نے تھوڑی سی حرکت کی اور آنکھیں کھول دیں۔ خالو جگنو نے پوچھا چڑیا تم کون ہو؟ چڑیا بولی۔ خالو جان آپ نے مجھے پہچانا نہیں میں سونے کی چونچ والی آپ کی بھانجی چڑیا ہوں۔
جگنو خالو بولے۔ مگر تمہاری چونچ تو سونے کی نہیں ہے۔ چڑیا نے گھبرا کر چونچ پر پنجہ مارا تو اسے اپنے ناک کے پاس باریک سی چونچ محسوس ہوئی۔ وہ بھاری بھر کم سونے کا خول غائب تھا۔ اسے ساری بات یاد آ گئی کہ کس طرح مینا نے اسے دھوکہ دیا۔ اس نے مینا کو ادھر ادھر ڈھونڈا۔ مینا وہاں ہوتی تو نظر آتی۔ مینا کو نہ پا کر چڑیا رونے لگی۔ رات کی تاریکی میں چڑیا کے شور نے جنگل میں سوئے تمام پرندوں کو جگانا شروع کر دیا۔ سب چڑیا کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ چیڑ یا زار و قطار رو رہی تھی اور خالو جگنو سب کو بار بار مینا کے دھوکے اور چڑیا کی سونے کی چونچ کا قصہ سنانے میں مصروف تھے۔ سب پرندوں کو مینا پر شدید غصہ تھا کہ آخر مینا نے اپنی دوست چڑیا کے ساتھ ایسا دھوکہ کیوں کیا۔ مینا کو جنگل میں ہر طرف تلاش کیا گیا مگر مینا نہ ملی ہر پرندہ اور جنگل کا جانور چڑیا کو انصاف اور مینا کو سزا دلوانا چاہتا تھا۔ اسی لئے زور شور سے مینا کی تلاش جاری تھی۔
کافی دنوں کے بعد جنگل کے آخری حصے سے مسٹر بندر کے کچھ دوست اسے ملنے آئے۔ رات کو بیٹھے تمام بندر گپ شپ لگا رہے تھے۔ طرح طرح کے قصے سنا کر ایک دوسرے کو حیران کرنے کی کوشش میں تھے ایک مہمان چھوٹے بندر نے کہا۔ میں نے جنگل میں ایک عجیب سی مینا دیکھی ہے ہے تو وہ عام مینا ہی جیسی مگر اس کی چونچ سونے کی ہے۔ اس قدر چمکتی ہے کہ اندھیرے میں بھی روشنی ہو جاتی ہے۔ اسی درخت کی شاخ پر جگنو خالو بھی بیٹھے سوتے جاگتے بندروں کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب جگنو خالو کے کان میں سونے کی چونچ والی مینا کی کبر پڑی تو وہ چونک اٹھے اور غور سے بندر کی بات سننے لگے۔ صبح ہوتے ہی وہ چڑیا کے گھر جا پہنچے اور چڑیا کو سارا قصہ کہہ سنایا۔ چڑیا نے اپنے تمام خاندان کو اکٹھا کیا اور ماموں الو اور پھوپھو گلہری کو ساتھ لیا اور بندروں کے پاس جا پہنچے۔ بندر بے چارے سوئے پڑے تھے۔ پرندوں کی شور کی آواز نے انہیں جگا دیا۔
ان سے سونے کی چونچ والی مینا کا قصہ پوچھا۔ جگہ درخت کے بارے میں معلومات لے کر پرندوں اور چھوٹے جانوروں کی دو فوجیں تیار کی گئیں۔ مہمان بندروں کی رہنمائی میں رات کی تاریکی میں جنگل کے آخری حصے میں دونوں پہنچیں۔ خالو جگنو اپنے سارے خاندان کے ساتھ روشنی کی سہولت پہنچاتے رہے۔ رات کو ہی اچانک حملہ کر کے سوئی ہوئی مینا کو گرفتار کر لیا گیا۔
اگلی صبح جنگل میں بہت رونق تھی، جنگل کا بادشاہ شیر بڑی شان سے دربار سجائے بیٹھا تھا۔ الو، بندر، ریچھ، ہاتھی، زرافہ، مینا، طوطے، مور اور رنگ برنگی چڑیاں سب جمع تھے۔ تتلیاں اور جگنو بھی ادھر ادھر اڑتے پھر رہے تھے۔ شیر کے سامنے دھوکے باز مینا کو پیش کیا گیا۔ الو نے تمام قصہ سنایا۔ ڈاکٹر لومڑی نے گواہی دی کہ مینا نے اس دن اس کے کلینک سے نیند کی دوائی لی تھی اور جگنو خالو نے گواہی دی کہ مینا کے گھونسلے میں اس نے چڑیا کو بے ہوش پڑے دیکھا اور سب سے بڑا ثبوت تو مینا کی سونے کی چونچ تھی جو چمک رہی تھی۔ مینا شرمندگی سے سر جھکائے کھڑی تھی۔ تمام پرندے شیر بادشاہ سے چڑیا کو انصاف دلانے کی درخواست کر رہے تھے۔
شیر نے تمام گواہیاں سن کر چیتے اور ہاتھی سے مشورہ کیا اور ڈاکٹر لومڑی سے کہا کہ مینا کی سونے کی چونچ اتار کر ابھی چڑیا کو واپس لگا دو۔ ڈاکٹر لومڑی نے حکم کی تعمیل کی اور مینا کی چونچ اتار کر چڑیا کو واپس لگا دی اور مینا کو چھوڑ دیا گیا کیونکہ اس نے اپنی سزا کا بندوبست خود کر لیا تھا۔ جب اس نے اپنی کالی چونچ کاٹ کر سونے کی یہ چونچ لگائی تھی اب مینا پورے جنگل میں شرمندہ شرمندہ سی بغیر چونچ کے پھرتی ہے۔ نہ ٹھیک طرح سے دانہ چگ سکتی ہے اور نہ کیڑے مکوڑوں کا شکار۔ اب اسے اپنی حرکت پر بہت افسوس ہے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔
ساتھیو! کسی کی اچھی چیز دیکھ کر اپنی چیز کو برا مت سمجھو اور کسی سے حسد مت کرو۔
٭٭٭
زندگی کی واپسی
محمد بلال ضیاء ورک
خلائی سٹیشن پر بے پناہ رش تھا۔ ہر طرف سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ خلائی سٹیشن کے بیچوں بیچ ایک راکٹ اڑنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ جلد ہی قریبی عمارت کا دروازہ کھلا اور چار خلا باز نمودار ہوئے۔ ا نہیں دیکھ کر لوگوں نے پرجوش انداز میں تالیاں بجائیں۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر راکٹ میں داخل ہو گئے اور دروازہ بند ہو گیا اور ڈاؤن کاؤنٹنگ شروع ہوئی۔ صفر کے ساتھ ہی گونج دار آواز کے ساتھ راکٹ تیر کی طرح فضا میں داخل ہوا۔ لوگوں کی نظریں راکٹ پر جمی ہوئی تھیں جو ایک طرف مڑ کر تیزی سے خلا کی بے کراں وسعتوں میں گم ہو گیا۔ ’’ کیا یہ لوگ کامیاب ہو جائیں گے؟‘‘ خلائی سٹیشن پر کھڑے ایک نوجوان نے کہا۔ خدا جانے مجھے تو یہ سب خواب لگ رہا ہے دوسرے نوجوان نے کندھے اچکائے۔ ادھر راکٹ میں چاروں خلا باز ادھر ادھر اڑتے پھر رہے تھے۔
دو خلا باز آلات میں الجھے ہوئے تھے اور دو کی نظریں سکرین پر لگی ہوئی تھیں جس پر ایک روشن چمکدار سیارہ نظر آ رہا تھا۔
کس قدر چمکدار ہے۔ یہ اب تک تو ہم اسے دور سے دیکھتے رہے ہیں یقین نہیں آ رہا کہ ہم سب اس پر اترنے والے ہیں۔ کیا ہمارے سائنس دان کا اندازہ درست نکلے گا؟ کیا ہم وہ سب کچھ دیکھ سکیں گے؟ جو ہم نے تصویروں میں دیکھا ہے؟
دوسرا بولا۔ امید تو یہ ہی ہے کہ ہم سب بے کیف زندگی سے نجات پا لیں گے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہو گا۔ پہلے نے پر جوش لہجے میں کہا۔
کیا خیال ہے کتنا لمبا سفر ہو گا؟ آلات سے الجھے خلا باز نے کہا۔ صرف دو دن کا پھر ہمارے تصورات کی دنیا ہمارے سامنے ہو گی۔
دو دن اسی طرح باتیں کرتے کرتے گزر گئے۔ دو دن کے بعد وہ سیارے کے مدار میں پہنچ گئے اور ان کا خلائی جہاز سیارے کے گرد چکر لگانے لگا جہاز میں لگے کیمرے دھڑا دھڑ تصویریں اتارنے لگے وہ چاروں تصویریں دیکھ رہے تھے یہ کیا؟ اچانک ایک خلا باز چلایا اس کے ہاتھ میں ایک تصویر تھی۔ تینوں خلا باز اس کی طرف مڑے اور تصور اس کے ہاتھ سے لے لی۔ ’’ ناقابل یقین‘‘ یہ تو ایک کیڑے کی تصویر ہے دوسرا خلا باز بڑبڑایا۔ اس کا مطلب ہے یہاں زندگی نمودار ہو چکی ہے۔ فوراً دوسری تصویروں کا جائزہ لو۔ چاروں اب پر جوش انداز میں تصویریں دیکھنے لگے کسی میں چٹیل میدان تھا کہیں گہری گہری گھاٹیاں اور کہیں اونچے اونچے ٹیلے تھے۔
’’ یہ دیکھو پودا‘‘ خلا باز چلا اٹھا۔ پودا۔ اف میرے خدایا یہ تو واقعی پودا ہے اب تو ہمیں فوراً سیارے پر اترنا چاہیے میں یہ سب کچھ آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ تیسرا خلا باز بولا۔ انہوں نے سیارے کا جائزہ لیا اور اترنے کی جگہ مخصوص کر کے خلائی جہاز کو زمین پر اتار دیا اور نیچے اتر آئے۔
آکسیجن تو وافر مقدار میں موجود ہے۔ خلا باز نے لمبا سانس لیا۔ ظاہر ہے یہاں پودے اور کیڑے مکوڑے ہیں۔ تو آکسیجن بھی تو ہو گی نا۔ دوسرا بولا۔ آؤ آگے چلتے ہیں۔ یہاں کی ویرانی دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے میں سوچ رہا ہوں انسان اتنا بے وقوف بھی ہو سکتا ہے کہ اپنی جنت کو آپ آگ لگا دے۔ یہ رہا وہ پودا جو تصویر میں ہے ایک خلا باز چلایا۔ واقعی زمین پر دو تین ننھے ننھے پودے سر ابھار رہے تھے۔ ان میں سے ایک کو اکھیڑ لیتے ہیں ہمارے لوگوں کے لیے یہ انمول تحفہ ہو گا۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ دوسرے خلا باز نے کہا اور ایک پودا جڑ سمیت اکھیڑ کر تھیلی میں ڈال لیا۔ جبکہ دوسرا خلا باز بیگ سے آلات نکال کر فضا کو چیک کرنے لگا۔
فضا میں چند زہریلی گیسیں بھی موجود ہیں۔ پہلے خلا باز نے کہا۔ ظاہر ہے وہ تو ہوں گی۔ امید ہے ہم یہاں کی فضا صاف کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے دوسرے نے جواب دیا۔ ہاں ہم اتنے کٹھن حالات میں زندگی گزارتے آ رہے ہیں یہ جگہ تو ہمارے لیے آئیڈیل ہو گی۔
میرے خیال میں اب ہمیں واپس چلنا چاہیے تاکہ لوگوں کو یہ عظیم خوشخبری سنا سکیں اور پھر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ خلا بازوں نے پہلے سے ہی خلائی سٹیشن میں اپنی کامیابی کی خبر دے دی تھی اس دفعہ خلائی سٹیشن پر پہلے سے زیادہ رش تھا۔ راکٹ کو خلائی سٹیشن پر اترے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ لوگ سر اٹھائے اس سیارے کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں ان کے خلا باز قدم رکھ کر آئے تھے۔ اور جس پر جانے کی آرزو لیے ان کے آباؤ اجداد مر کھپ گئے تھے۔ خلائی جہاز جب سٹیشن پر اترا تالیوں اور سیٹیوں کا شور گونج اٹھا اور چاروں خلا باز نکل کر خلائی عمارت میں داخل ہو گئے، مبارک ہو سر آپ لوگوں کے اندازے درست نکلے وہاں زندگی نمودار ہو چکی ہے اور یہ وہاں کی زندگی، خلا باز نے تھیلی سے پودا نکال کر سائنس دان کو دکھایا۔ آؤ باہر چلتے ہیں لوگ بے چینی سے منتظر ہیں۔ وہ سب خلائی عمارت سے باہر نکل آئے۔ میدان کے بیچوں بیچ ایک اسٹیج بنا ہوا تھا۔ خلا باز اور سائنس دان سٹیج پر چڑھ گئے ایک بوڑھا سائنس دان مائیک کے سامنے آیا تو فوراً خاموشی چھا گئی۔ آخر کار اس نے کہنا شروع کیا۔
’’ چاند پر بسنے والو‘‘ تمہارے لیے خوشخبری ہے کہ ہمارے پرانے سیارے زمین پر دوبارہ زندگی کا آغاز ہو گیا ہے۔ جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ آج سے سینکڑوں برس پہلے ہمارے آباؤ اجداد اسی زمین پر رہا کرتے تھے ان دنوں زمین ایک خوبصورت اور زندگی سے بھرپور سیارہ تھی۔ وہاں درخت، پرندے، پھول، دریا، سمندر، پہاڑ اور زندگی کی تمام رعنائیاں موجود تھیں مگر افسوس کہ ہمارے آباء و اجداد نے اس کی قدر نہ کی۔ انہوں نے سائنسی ترقی کی دوڑ میں ان نعمتوں کو برباد کر دیا۔ وہ لوگ پودے اور درخت اگانے کے بجائے ایٹم بم اور ایٹمی ری ایکٹر اگانے لگے درخت کم ہو گئے اور ایٹم بم زیادہ۔ نفرت اور ہوس بڑھتی گئی اور پھر جنگ کا آغاز ہوا۔ جس سے سارے ایٹم بم پھٹ گئے دنیا تباہ ہو گئی اور زندگی ختم ہو گئی۔ جنگ کے دوران جن کے بس میں تھا وہ تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے چاند پر آ گئے باقی ساری دنیا تباہ ہو گئی۔
جب کچھ لوگ چاند پر جان بچا کر آئے تو یہاں کچھ بھی نہ تھا۔ ہوا پانی اور آکسیجن، آخر بڑی مشکلوں سے یہاں آکسیجن پلانٹ لگائے گئے اور ایک حصے پر اوزون گیس کی تہہ بچھائی گئی تاکہ آکسیجن یہاں گردش کرتی رہے یہاں پودے اگانے کے لیے بڑی کوشش کی گئی مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ جگہ جگہ آکسیجن پیدا کرنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے پلانٹ لگانے پڑے۔ عرض یہاں زندگی بے حد کٹھن تھی۔ اور ہم نے یہاں مشکل اور بے حد بے کیف زندگی گزاری ہے نا۔ یہاں پودے نہ پرندے نہ جانور بس زندہ رہنا ہی واحد مقصد رہا ہے۔ ہمارے سائنس دان عرصہ دراز سے زمین کا جائزہ لیتے رہے ہیں کہ وہاں واپس جانا ممکن ہے مگر کئی سو سالوں تک وہاں گرد کے بادل بم پھٹنے کی وجہ سے چھائے رہے نتیجتاً وہاں سخت سردی پڑی اور ہر طرح کی زندگی ختم ہو گئی۔ جراثیم اور بیکٹیریا تک ہلاک ہو گئے۔ جب گرد کے بادل چھٹے تو تابکاری اثرات اتنے تھے کہ وہاں کوئی سانس تک نہیں لے سکتا تھا۔ ہم انتظار کرتے رہے اور اس انتظار میں صدیاں بیت گئیں۔
بالآخر ہمیں آج خوشی کا دن دیکھنا نصیب ہوا ہے کہ زمین پر تابکاری اثرات تقریباً ختم ہو گئے ہیں اور وہاں پھر سے زندگی کا آغاز ہو چکا ہے۔ سائنس دان نے پودا لوگوں کو دکھایا تو لوگوں نے بے اختیار تالیاں بجا کر زمینی زندگی کا استقبال کیا۔ لوگو!’’ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم چاند کو الوداع کہیں اور زمین پر چلیں مگر وہاں جانے سے پہلے عہد کرنا ہو گا کہ اب زمین پر کوئی ایٹمی تجربہ نہیں ہو گا کوئی ایٹم بم نہیں بنے گا، نہ کوئی بڑی طاقت نیو کلیئر ہتھیار بنائے گی، نہ کوئی چھوٹی طاقت۔ اب ہمیں اس کو مزید تباہی سے بچانا ہے اب زمین پر ہتھیار نہیں درخت لگیں گے!‘‘
’’ ہم عہد کرتے ہیں کہ زمین کو بچائیں گے اور زندگی کی قدر کریں گے‘‘ سب لوگ چلائے۔ صدیوں بعد انسان دوبارہ زمین پر آباد ہو چکا تھا زمین پر درخت اور پھول جھوم رہے تھے۔ سب لوگ آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے تھے دوسری طرف زمین کے سب سے بڑے ملک کا سربراہ اپنے کمرے میں بیٹھا سوچ رہا تھا۔
’’ مجھے سپر پاور بننا ہے اس کے لیے مجھے طاقت کی ضرورت ہے میرے پاس لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے ایٹم بم اور ہتھیار ہونے چاہئیں ‘‘ اور پھر وہ اپنے ملک کے سب سے بڑے سائنس دان کو فون کرنے لگا!
٭٭٭
سیانا اجو اور چار مختلف پہیے
اریبہ عظیم
آج اجمل دیر سے کچرا کنڈی پر پہنچا تھا۔ پھر بھی وہاں اس جیسے کئی لڑکے موجود تھے۔ کچھ تو ان میں بہت ہی خستہ حالی کا شکار تھے نہ پاؤں میں جوتی نہ جسم پر ڈھنگ کے کپڑے۔ بال مٹی اور گندگی سے اٹے ہوئے تھے۔
اجو (اجمل) ان سب میں تھوڑا بہت مختلف نظر آتا تھا وہ ایک اچھا اور تمیزدار بچہ تھا۔ کچرا کنڈی سے ٹوٹی پھوٹی شیشے کی بوتلیں پلاسٹک اور ٹین کے بے کار ڈبے اٹھانا اس کا روز کا کام تھا۔ وہ دوسرے بچوں کی طرح کچرے پر پڑی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے دوسرے لڑکوں سے لڑتا بھی نہیں تھا۔ اس کو صرف اپنے کام سے کام تھا۔ آج بھی اس نے آتے ہی جلدی جلدی اپنے مطلب کی چیزیں کچرے پر سے اٹھانا شروع کر دیں تھیں۔ ایک بڑی سی لکڑی کی ڈنڈی سے کچرا کھودتے ہوئے ایک لکڑی کی بڑی سی گاڑی نما چیز اس کے سامنے آ گئی۔ اس کے چار پہیے دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ گاڑی بنانے کی کوشش کی گئی ہے مگر یہ کیسی گاڑی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ گاڑی ہاتھ میں لیے دیکھ رہا تھا۔ چار پہیے۔ مگر چاروں ایک دوسرے سے مختلف۔ ایک پہیہ گاڑی کے ٹائر کے برابر۔ ایک پہیہ بچوں کی سائیکل کے پہیے کے برابر، ایک پہیہ کھانے کی رکابی کے برابر اور ایک پہیہ سلائی مشین کے پہیے کے برابر مگر سب بڑی موٹی لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔
شاید کسی پاگل کا کام ہے! بھلا کہیں مختلف جسامت کے پہیوں سے بھی گاڑی بنتی ہے۔ اجو گاڑی دیکھ کر سوچ رہا تھا۔ پھر اس نے وہ گاڑی اپنے تھیلے میں ڈالی کہ ماں اس کی لکڑی سے چولھا جلا کر روٹی پکائے گی۔ گھر آ کر اس نے بابا کو بھی وہ گاڑی دکھائی اور بولا بابا بھلا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ان پہیوں سے کوئی کام لے سکیں۔
مگر بیٹا ان سے بھلا کیا کام ہو سکتا ہے۔ بابا نے الٹا اس سے پوچھ لیا وہ چپ ہو گیا۔
دوپہر کو مولوی صاحب کے پاس سپارہ پڑھنے گیا تو اس عجیب و غریب گاڑی کو ساتھ لیتا تھا۔ مولوی صاحب کو بھی گاڑی دکھائی اور بولا۔ مولوی صاحب اس کے پہیوں سے کچھ بنایا نہ جائے؟ ساتھ پڑھنے والے لڑکے ہنس پڑے۔ اور بولے اجو تو تو بڑا انجینئر ہے نا۔ بھلا ان سے کیا بنے گا۔ مولوی صاحب اجو کی دلچسپی دیکھتے ہوئے بولے اجو اگر تم نے ان پہیوں کو کام میں لا کر کچھ بنا کر دکھایا تو جو تم کہو گے میں وہ انعام دوں گا۔ اب خوش چلو بھئی اب پڑھائی شروع کرو۔ سپارے کھولو۔ ۔ ۔ ۔
گھر واپس آ کر اجو سوچتا رہا۔ مگر اسے گھر کے لیے کنوئیں سے پانی بھی بھرنا تھا۔ کنستر بالٹی لے کر کنوئیں کی طرف چل دیا۔ راستے میں سکول پڑتا تھا۔ چھٹی ہو چکی تھی۔ بچے جا چکے تھے۔ سامنے زمین پر پڑی کتاب پر اس کی نظر پڑی بہت خوبصورت کتاب تھی۔ شاید کسی بچے کی گر گئی تھی۔ سڑک کے کنارے بیٹھ کر وہ کتاب کی تصویریں دیکھنے لگا۔ اور پھر ایک تصویر پر اس کی نظر ٹک گئی۔
اس کے سامنے تصویر ایک کنوئیں کی تھی۔ مگر یہ کنواں اس کے گاؤں جیسا تو نہیں تھا۔ وہ چونک گیا جلدی سے کتاب اس نے اپنی بغل میں دبائی اور واپس گھر کی طرف بھاگ لیا۔ ایک خیال تیزی سے اس کے دماغ میں آ گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ بڑھئی چاچا۔ ۔ ۔ ۔ بڑھئی چاچا
وہ کرمو بڑھئی کے پاس اپنی گاڑی لیے کھڑا تھا۔
کیا بات ہے اجو، کراموں اس کو حیرانی سے دیکھ کر بولا۔
چچا۔ ۔ ۔ ۔ یہ بڑا والا پہیہ نکال کر کنوئیں کی ڈول والی بلی میں لگا دیں اور اس پر لکڑی کے ہتھے لگا دیں کنوئیں سے پانی کھینچنا آسان ہو جائے گا نا۔ ۔ ۔ ۔
کرموں نے حیرانی سے اجو کو دیکھا اور بولا۔
ارے واہ اجو تو تو بڑا عقلمند ہے۔ چل میں چلتا ہوں اور تھوڑی ہی دیر کے بعد کرموں بڑھئی کی مدد سے اجو نے ایک پہیہ کار آمد بنا لیا۔ اجو بے حد خوش تھا کرموں چاچا بھی اس کی سوچ کی تعریف کر رہا تھا۔ کرمو چاچا۔ اب آپ میری ایک بات اور مان لیں میں آپ کا بہت شکریہ ادا کروں گا۔ اجو نے بڑی خوشامد سے کرمو بڑھئی سے کہا۔
ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ہاں بیٹا بولا میں سن رہا ہوں۔
ان تین پہیوں کو بھی کام میں لانا ضروری ہے۔ میں جب کہوں تم میرا کام کر دینا۔ ٹھیک چاچا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اجو کنوئیں کی طرف چل دیا۔ اسے دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی گاؤں کے لوگ بڑے آرام سے اور جلدی جلدی پانی بھر رہے تھے۔ اجو مسکرا دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سامنے سے اپنے بابا کو آتے دیکھ کر وہ چونک گیا۔ بڑا سا وزنی بورا انہوں نے اپنے سر پر رکھا ہوا تھا۔ اور شہر کی طرف جا رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ اجو کے بابا مزدوری کرتے تھے ان کے گاؤں کے اختتام پر ایک نیا شہر بن رہا تھا وہاں تعمیر کا کام ہو رہا تھا۔ مزدوروں کے کھانے کے لیے آٹے کی بوری گاؤں سے جاتی تھی۔ یہ کام اجو کے بابا کرتے تھے۔
لاؤ بابا میں پہنچا دوں تم تھک جاؤ گے۔ اجو نے آگے بڑھ کر اپنے بابا سے کہا اور ان کے ساتھ چلنے لگا۔
نہیں بیٹا تو ابھی چھوٹا ہے میں لے جاتا ہوں۔ باتیں کرتے کرتے وہ گاؤں کے آخر تک پہنچ گئے جہاں کام ہو رہا تھا اجو ایک مٹی کے تودے پر بیٹھ کر ان کا کام دیکھنے لگا۔
ایک مزدور سیمنٹ کی کئی بوریاں ہتھ گاڑی میں ڈال کر دوسری جگہ لے جا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ارے واہ۔ ۔ ۔ ۔
اجو چونک گیا۔ جلدی سے اٹھا۔ ۔ ۔ ۔ بابا۔ ۔ ۔ ۔ با میں گھر جا رہا ہوں۔ وہ گاؤں کی طرف دوڑ لیا۔ ۔ ۔ ۔
کرموں چاچا۔ ۔ ۔ ۔ کرموں چاچا۔ ۔ ۔ ۔
یہ اس والے بڑے پہیے سے آپ میرے بابا کے لیے ہتھ گاڑی بنا دیں۔ بابا کو بوری اتنی دور کندھے پر لاد کر لے جانا پڑتی ہے۔ اجو بڑھئی کے پاس دوسرا پہیہ لئے کھڑا تھا۔ اور دو دن میں کرمو چاچا نے اس کے بابا کے لیے اجو کے دیئے ہوئے پہیہ سے ہتھ گاڑی بنا دی۔ کرمو سے زیادہ اجو خوش تھا اور اجو سے زیادہ بابا خوش تھا۔ ۔ ۔ ۔
اس کا بیٹا کتنا سیانا ہو گیا ہے۔ اجو اب گاؤں میں بہت مشہور ہو گیا تھا۔ مولوی صاحب نے بھی اس کو خوب شاباش دی تھی۔
پر مولوی صاحب آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے نا وہ مجھے انعام دینے کا۔ ۔ ۔ ۔ اجو نے مولوی صاحب کو یاد دلایا۔ ۔ ۔ ۔
مگر ابھی تو دو پہیے باقی ہیں۔ مولوی صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔ پر مجھے وعدہ یا دہے۔
آج اجو بڑے جوش و خروش کے ساتھ سبق یاد کر رہا تھا۔ اب تو ساتھ کے لڑکے بھی بڑے احترام کی نظروں سے اجو کو دیکھتے تھے۔ چھٹی ہونے پر اجو جلدی جلدی گھر کی طرف چل دیا۔ ابھی اسے کنوئیں سے پانی بھرنا تھا۔ اب اسے پانی بھرنے میں بڑا مزا آتا تھا۔ شر۔ شر۔ شر۔ شڑاپ! تیزی سے ڈول نیچے جاتا تھا اور اجو کمر پر ہاتھ رکھ کر بڑے ذوق و شوق سے گھومتے ہوئے تیز پہیے کو دیکھتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اور خوشی سے اس کا چہرہ لال ہو جاتا تھا۔ آج اسے حویلی کے چوکیدار کے گھر بھی جانا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اس کا نیا ٹیلی ویژن دیکھنے۔ اس کی چھوٹی بہن رانو گھر پر اکیلی تھی۔ جلدی جلدی پانی لے کر گھر پہنچا۔ رانو گڑیوں سے کھیلنے میں مصروف تھی۔ رانو چلے گی۔ ۔ ۔ ۔ میں حویلی کے چوکیدار کے گھر جا رہا ہوں۔ اس کے گھر ٹی وی آیا ہے چل دیکھتے ہیں۔ راموں کہہ رہا تھا دور دیس کے بچے دکھائی دیتے ہیں بڑے خوبصورت ہوتے ہیں۔ تشنگی اس کے لہجے سے ٹپک رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہاں بھائی چل میں بھی چلوں گی۔ جلدی جلدی گھر کا دروازہ لگا کر دونوں بھاگ لیے۔ ۔ ۔ ۔
واقعی۔ ٹی وی بڑا اچھا تھا۔ بچے بھی بہت اچھے تھے۔ اور ایک بچے کی گاڑی تو۔ ۔ ۔ ۔ بس اجو کا دل آ گیا۔
کرموں چاچا۔ ۔ ۔ ۔ کرموں چاچا۔ ۔ ۔ وہ کرموں کی دوکان پر کھڑا اپنے مطلب کی چیز بتا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ دونوں چھوٹے پہیے اس کے ہاتھ میں تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور پھر کرموں نے دو دن کی سخت محنت کے بعد اجو کو ویسی ہی گاڑی بنا دی جیسی ٹی وی میں بچہ چلا رہا تھا۔ ایک پیر والی دوڑ کر چلنے والی گاڑی۔
مولوی صاحب نے اجو کی خواہش کے مطابق اسے انعام میں سامنے والے بڑے سکول میں داخلہ دلوا دیا اور سارا خرچہ اپنے ذمہ رکھا۔ اجو کی پہیہ گاڑی سارے گاؤں کے بچوں کے لیے نمونہ تھی۔ کوئی بھی چیز بیکار نہیں ہوتی صرف استعمال کا طریقہ آنا چاہیے۔
٭٭٭
بیوقوفی
ردا ستار
کسی گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی۔ اس کا نام ریشم تھا۔ ریشم کو کہیں گرے ہوئے سو روپے ملے۔ اس نے سو کا نوٹ نہیں دیکھا تھا۔ روپے پا کر وہ پہلے تو بہت خوش ہوئی پھر یہ خیال ستانے لگا کہ اس دولت کو رکھوں گی کہاں۔ کسی ایسی جگہ چھپانا چاہیے جہاں کسی کی نظر نہ پڑے۔ نہیں تو کوئی چرا لے گا۔ سوچ سوچ کر ریشم کا برا حال ہو گیا اسے اپنی جھونپڑی میں کوئی محفوظ جگہ نظر نہ آئی۔
آخر اسے ایک ترکیب سوجھی، کیوں نہ جھونپڑی کی دیوار میں سوراخ کر کے اس میں روپے رکھ دوں اور پھر اوپر سے مٹی لگا کر بند کر دوں، ترکیب اسے پسند آئی۔
اس نے جھونپڑی کا دروازہ بند کر لیا اور دیوار کو کھودنے لگی۔ خوشی اور خوف کے مارے کانپ رہی تھی کئی بار کام بند کر کے اس نے باہر جھانکا کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ کوئی سن تو نہیں رہا کہ ریشم روپے چھپا رہی ہے۔ جب کچی دیوار میں سوراخ ہو گیا تو ریشم نے اس میں سو روپے کا نوٹ ٹھونس کر اوپر سے گیلی مٹی لگا کر سوراخ بند کر دیا۔ اس کے بعد وہ جھونپڑی کے باہر بیٹھ کر پہرا دینے لگی تاکہ کوئی اندر نہ آ جائے وہ سوچ رہی تھی جو کوئی بھی اندر آئے گا مجھ سے پوچھے گا۔ ریشم یہ دیوار گیلی کیوں ہے ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ کوئی شے چھپا رکھی ہے اس میں کچھ تو ہے اور پھر وہ روپے چرا لے گا۔ اس ڈر سے ریشم جھونپڑی کے باہر اس وقت تک بیٹھی رہی جب تک دیوار پر لگی مٹی اچھی طرح سوکھ نہیں گئی۔ اتنا کچھ کر لینے کے بعد بھی اس کو تسلی نہیں ہوئی اب اسے ایک اور وہم ستانے لگا۔ فرض کرو چور اس کے سو روپے چرانے کے لئے اندر آ جاتے ہیں وہ کہاں ڈھونڈیں گے۔ دیواروں کے سو اور کون سی جگہ ہو سکتی ہے۔ جہاں وہ تلاش کریں گے کیونکہ اس کے گھر میں صرف چند برتن ہی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ گاؤں کے سبھی لوگ عام طور پر دیواروں میں یا پھر زمین میں گڑھا کھود کر اس میں روپے یا دولت چھپاتے ہیں۔ بس سیدھی سی بات ہے کہ چور دیوار کھودیں گے اور میرے روپے نکال لیں گے۔ یہ خیال آتے ہی ریشم کے پسینے چھوٹ گئے اب کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
ریشم نے بہت سوچا بہت دماغ مارا اب جو ترکیب ذہن میں آئی تو وہ خوشی سے اچھل پڑی۔ بھاگی بھاگی پڑوسی کے گھر گئی اور بولی مجھے ایک کاغذ پر بڑا سا لکھ دو یہاں کوئی دولت نہیں ہے۔
پڑوسی نے ایک کاغذ پر یہ جملہ لکھ کر اسے دے دیا۔ وہ جلدی سے گھر آئی اور اس نے کاغذ کو عین اسی جگہ دیوار پر جہاں اس نے سو روپے کا نوٹ چھپایا تھا۔ چپکا دیا، کاغذ پر لکھا تھا یہاں کوئی دولت نہیں ہے۔ اسی گاؤں میں ایک اور بیوقوف عورت رہتی تھی۔ بے وقوف ہونے کے ساتھ ساتھ وہ لالچی بھی تھی اس کا نام بانو تھا ایک روز وہ ریشم سے ملنے آئی۔ ریشم گھر پر موجود نہ تھی۔ اس نے جھونپڑی میں جھانکا اور ادھر ادھر دیکھا۔ ا چانک اس کی نظر دیوار پر چپکے کاغذ پر پڑی جس پر لکھا تھا یہاں کوئی دولت نہیں ہے۔ وہ تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا جانتی تھی۔ یہ جملہ پڑھ کر وہ حیران اور پریشان ہوئی۔ سوچنے لگی بھلا ریشم نے یہ بیوقوفی کی بات کیوں لکھی اس کے پاس دولت کہاں سے آئی جو دیوار میں چھپائے گی مگر نہیں اس نے یہ لکھا کیوں ؟ ضرور کوئی بات ہے۔ اس نے دیوار کی عین وہی جگہ جہاں کاغذ چپکا تھا کھود ڈالی اسے وہاں سے سو کا نوٹ ملا وہ سو کا نوٹ لے کر فوراً وہاں سے بھاگ گئی۔ سو روپے کا نوٹ چرا کر بانو بہت خوش تھی۔ مارے خوشی کے اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ سو روپے کو خرچ کرنے کی ترکیبیں سوچ رہی تھی کہ اچانک اس کو ڈر محسوس ہونے لگا کہ اگر کسی کو پتا چل گیا تو وہ مجھے پولیس کے حوالے کر دے گا مجھ سے چکی پسوائی جائے گی اور بہت سے کام کروائیں گے میں تھک کر بیمار ہو جاؤں گی اور پھر مر جاؤں گی۔ ڈر کے مارے بانو کو گھر میں چین نہیں آ رہا تھا۔ سو کا نوٹ اس نے رومال میں باندھ کر چھپا دیا۔ اور خود کوئی ترکیب سوچنے لگی۔ پھر اس کو ایک خیال آیا وہ جلدی سے گاؤں کی طرف آنے والے راستے پر جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہاں سے ایک شخص گزر رہا تھا۔ بانو نے اسے کہا مجھے ایک مشورہ کرنا ہے راہگیر نے جواب دیا ٹھیک ہے۔ آپ ساری بات بتائیں پھر میرا مشورہ حاضر ہے۔ بانو نے سارا قصہ سنا ڈالا اور بولی اب بتاؤ میں کیا کروں۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ عورت چور ہونے کے ساتھ ساتھ بیوقوف بھی ہے۔ اس لئے بولا تم ایسا کرو کہ اپنے دروازے پر لکھ دو کہ میں ایک ایماندار عورت ہوں میں نے ریشم کے سو روپے نہیں چرائے۔ اس طرح تم بچ جاؤ گی۔ بانو نے گھر جا کر اپنے دروازے پر ایسا ہی لکھ دیا کیونکہ وہ بیوقوف بھی تھی بس پھر کیا تھا۔ ریشم کو بلکہ پورے گاؤں کو پتا چل گیا کہ روپے بانو نے چرائے ہیں۔
٭٭٭
میں بڑا نہ تو چھوٹا
رابعہ حسن
السلام علیکم آنٹی! احمر کی امی نے دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے اسود نے انہیں نہایت ہی ادب سے سلام کیا۔
وعلیکم السلام! ارے اسود بیٹے آؤ تم!!احمر کی امی نے اس کے ننھے سے ہاتھ کو گرم جوشی سے اپنے مضبوط ہاتھوں میں دبایا۔
آنٹی۔ ۔ ۔ ۔ وہ احمر کہاں ہے؟ اسود نے دروازہ سے اندر جھانکتے ہوئے پوچھا۔
وہ اپنے کمرے میں ہے! احمر کی امی نے راستے میں سے ہٹتے ہوئے کہا۔ پہلے اندر آ جاؤ باہر کتنی دھوپ ہے!
اسود خاموشی سے گھر کے اندر آ گیا۔
احمر۔ ۔ ۔ ۔ احمر۔ ۔ ۔ ۔ بیٹے۔ ۔ ۔ دیکھو کون آیا ہے؟ احمر کی امی اسے آوازیں دینے لگیں۔ کون آیا ہے امی؟ احمر تھوڑی دیر کے بعد کمرے سے آنکھیں ملتے ملتے نکلا۔
شاید وہ سوتے سے جاگا تھا۔
ارے اسود تم۔ ۔ ۔ ۔ ! اسود کو دیکھتے ہی وہ دوڑ پڑا اور پھر اچانک اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ کر یوں کھڑا ہو گیا۔ جیسے اسے یاد آ گیا ہو کہ وہ تو اسود سے خفا ہے۔
اب آئے ہو تم؟ کتنی دیر سے۔ ۔ ۔ تمہارا انتظار کر رہا تھا اور نہ جانے کب تمہارا انتظار کرتے کرتے آنکھ لگ گئی۔
ارے احمر کیا کروں ؟ ماما۔ ۔ ۔ ۔ گھر سے نکلنے ہی نہیں دے رہی تھیں۔ کہہ رہی تھیں شام میں جانا۔ ابھی دھوپ میں جل کر مرنا ہے کیا؟ اب بھی عائشہ باجی کی منت سماجت کر کے چپکے سے نکلا ہوں۔
جب اسود نے دیکھا کہ اس پر اس کی توجیحات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا بلکہ وہ یوں ہی منہ پھلائے بیٹھا ہے تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
تم مجھ سے راضی تو ہوتے نہیں۔ ۔ ۔ میں چلتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ماما سے مفت کی ڈانٹ کھانے کا فائدہ؟ جب احمر نے دیکھا کہ اسود تو جا رہا ہے تو اس نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
یار۔ ۔ ۔ ۔ میں تو مذاق کر رہا تھا اور تم سچ مچ جا رہے ہو۔ آؤ۔ ۔ ۔ کمرے میں چلتے ہیں۔ ماما! ہماری چائے کمرے میں ہی لے آئیے گا۔
احمر اور اسود کی عمریں تیرہ سال تھیں۔ وہ نہ صرف ہم جماعت تھے بلکہ ایک دوسرے کے پکے دوست بھی تھے۔ احمر کچھ عرصہ پہلے تک اپنی جماعت کا سب سے لائق لڑکا تصور کیا جاتا تھا۔
چند ہی دن ہوئے تھے کہ اس کی کلاس میں عمر احمد نامی ایک نیا لڑکا آیا۔ جس نے آتے ہی اپنی ذہانت، قابلیت اور اخلاق سے نہ صرف سب اساتذہ بلکہ کلاس کے تمام بچوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اگرچہ عمر احمد ظاہری طور پر کسی غریب خاندان کا چشم و چراغ لگتا تھا اور اس کی ہر ادا سے سادگی ٹپکتی تھی۔ مگر پھر بھی احمر کو وہ کسی ظالم دیو سے کم نہیں لگتا تھا۔ احمر اور اسود کی آج کی خفیہ کانفرنس بھی اسی ’’ مسئلے‘‘ کو حل کرنے کے لیے بلائی گئی تھی۔
احمر نے ٹیڈی بیئر کو گود میں رکھتے ہوئے اسود کی طرف دیکھا۔ ہاں مس اور سر بھی اسی کی باتیں مانتے ہیں۔ دیکھو تو سہی سارے بچے کیسے ایک ایک کر کے اس کے دوست بنتے جا رہے ہیں۔ اسود نے اپنے بائیں بازو کو خم دے کر ٹھوڑی کے نیچے ستون کی طرح رکھتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا۔ اچھا! ہمیں کیا؟ جیب میں پیسے نہ ہوں تو کون کسی کا دوست زیادہ دن رہتا ہے؟ احمر نے نفرت اور طنز سے تھوک نگلا۔
اتنی دیر میں احمر کی امی چائے لے کر آ گئیں۔
بھئی کیا کھسر پھسر ہو رہی ہے؟ میں ذرا پڑوس تک جا رہی ہوں تم لوگ کوئی کمپیوٹر گیم لگا لو۔ امی چائے میز پر رکھ کر چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد دیر تک ایک دوسرے سے اس مسئلے کے بارے میں بات کرتے رہے۔
کچھ دن کے بعد ان کے امتحانات شروع ہونے والے تھے لہٰذا احمر نے سوچا کہ وہ اس دفعہ پہلے سے بھی زیادہ محنت کرے گا تو عمر احمد کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ مگر وہ جب بھی کتاب اٹھاتا اس کی نظروں کے سامنے عمر کا چہرہ گھومنے لگتا اور اس کے دل میں اس کے خلاف طرح طرح کے انتقامی اور حاسدانہ جذبات ابھرنے لگتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ اس کا ذہن اس طرح الجھ جاتا کہ وہ پڑھ نہ پاتا۔ جو پڑھتا وہ سمجھ میں نہ آتا۔ اور نتیجہ امتحانات میں ناکامی کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ وہ اپنی کلاس کا بہترین طالب علم سمجھا جاتا تھا اس کی ناکامی پر سب کو تعجب ہوا۔
آج جب مس افشاں کلاس میں آئیں تو انہوں نے بچوں سے پوچھا کہ کلاس میں کون کون سے بچے ہیں جو کہانیاں لکھ سکتے ہیں ؟ جن بچوں نے جواب میں ہاتھ کھڑا کیا ان میں عمر احمد بھی شامل تھا۔
عمر یہاں بھی پیچھے نہیں رہا تو میں اس سے کیوں پیچھے رہوں ؟ جب احمر نے دیکھا کہ عمر نے بھی ہاتھ کھڑا کیا ہے تو اس نے اسے غیرت کا مسئلہ بناتے ہوئے بغیر سوچے سمجھے ہاتھ کھڑا کر دیا۔
بچو! میں یہ بات آپ لوگوں سے اس لیے پوچھ رہی تھی کہ جو بچے کہانیاں لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ہم ان کے درمیان کہانی نویسی کا ایک مقابلہ کروانا چاہتے ہیں۔
اس کے لیے شرط یہ ہے کہ کہانی تعمیری موضوع پر اور خالصتاً اپنی محنت سے لکھی گئی ہو جو بچے اس مقابلے میں حصہ لے رہے ہیں وہ اپنے نام لکھوا دیں اور کل اپنی کہانیاں مجھے دے دیں۔
مس افشاں تو یہ کہہ کر کلاس سے چلی گئیں مگر احمر کے پسینے چھوٹ گئے۔ بلا سوچے سمجھے اس نے جو مصیبت سر لے لی تھی۔ اب اسے اس کی ہولناکی کا اندازہ ہو رہا تھا۔
سکول سے گھر آتے ہی اس نے اپنا بستہ اتارا اور کمرے میں گھس کر کاپی اور پنسل سنبھال کر بیٹھ گیا۔
شام ہو گئی۔ مگر وہ ایک سطر تک نہ لکھ پایا اسے سمجھ میں ہی نہ آیا کہ کیا لکھے؟ کس طرح لکھے؟ کہانی میں لکھا کیا جاتا ہے؟
احمر! احمر کاپی سامنے رکھے اور قلم دانتوں میں دابے سوچوں میں مگن تھا کہ اسود کی آواز نے اسے بری طرح چونکا دیا۔
اسود۔ ۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔ ۔ کب آئے؟ آؤ بیٹھو! اس نے اس کی طرف دیکھ کر نظریں جھکا لیں۔
کیا بات ہے احمر؟ آنٹی کہہ رہی تھیں کہ تم نے کھانا بھی نہیں کھایا۔ پریشان ہو؟
نہیں۔ ۔ ۔ ۔ کچھ بھی نہیں تمہیں تو پتہ ہے کہ میں نے سوچے سمجھے بغیر کہانی نویسی کے مقابلے میں حصہ لے لیا ہے اور صبح مس کو کہانی دینی ہے۔ میں ابھی ایک حرف تک نہیں لکھ پایا۔ کچھ لکھنا آتا ہو تو لکھوں۔
پریشان تو نہ ہو یار! اسود نے جب دیکھا کہ احمر بہت زیادہ پریشان ہے تو اس نے اسے تسلی دی۔ کوئی حل سوچتے ہیں !
وہ کچھ لمحوں کے لیے یوں خاموش ہو گیا جیسے کسی گہری سوچ میں غرق ہو۔
لو بھئی حل ہو گیا تمہارا۔ ۔ ۔ ۔ مسئلہ۔ ۔ ۔ ۔ اتنی سی بات تھی جس پہ تم اتنے اداس تھے وہ بیٹھے بیٹھے اچانک یوں اچھلا جیسے سارا مسئلہ حل ہو گیا ہو۔
مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے!!! احمر کی آنکھوں میں حیرت کے سائے لہرانے لگے۔
بھئی وہ ایسے کہ۔ ۔ ۔ ۔ میرے پاس عائشہ باجی کا پرانا سا رسالہ ہے اس میں سے لکھ لیتے ہیں۔ مس کو کیا پتہ چلے گا کہ کہانی تم نے خود لکھی ہے یا چوری کی ہے۔
سچ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے ممکن ہے! یہ سنتے ہی احمر کے چہرے کی اداسی اور پریشانی ہوا ہو گئی اور اس کی جگہ تازگی کی لہر دوڑ گئی۔
آج جب مس کلاس میں آئیں تو ان کے ہاتھ میں بڑی خوبصورت کلر شیٹس کے پیکٹ تھے۔
بچو! آج میں اس دن والے کہانی نویسی کے مقابلہ کے نتائج کا اعلان کروں گی۔ مگر اس سے قبل اک بات کہنا چاہوں گی کہ اس طرح کے مقابلوں کا انعقاد اس لیے کرایا جاتا ہے کہ بچے اپنی صلاحیتوں سے آ گیاہ ہوں اور ان سے پوری طرح استفادہ کریں۔ اب لگتا ہے آپ سب کو نتائج کا بے تابی سے انتظار ہے۔ سبھی نے اچھا لکھا تھا، مگر کسی نہ کسی کو تو جیتنا ہوتا ہے۔ ہار جیت زندگی کا حصہ ہوتی ہے اور اسے سپورٹس مین سپرٹ کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ ہمارے آج کے ونر ہیں :
عمر احمد۔ ۔ ۔ ۔ میں ان سے کہوں گی کہ وہ آئیں اور اپنا انعام وصول کریں۔ دوسرے نمبر پر ابوبکر عثمان اور تیسرے نمبر پر ہیں علی سفیان۔
تینوں بچوں نے اپنے اپنے انعام تالیوں کی گونج میں لیے جبکہ احمر بجھ کر رہ گیا۔
’’ بچو! ایک اعلان اور ہے۔ ۔ ۔ ۔ جب تالیوں کی آواز کم ہوئی تو مس نے بلند آواز میں کہا۔ پچھلی جمعرات کو کہانی نویسی کا مقابلہ تھا اور اگلی جمعرات کو تقریر کا مقابلہ ہے، جس میں جو حصہ لینا چاہے لے سکتا ہے۔ ‘‘
مس اعلان کر کے کلاس سے چلی گئی مگر احمر کی بجھتی آنکھوں میں امید کا ایک دیا سا روشن ہو گیا۔
اب میں اس تقریری مقابلے میں عمر احمد کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دیتی ہوں۔
مس افشاں نے عمر کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی تو عمر اسٹیج کی طرف چل پڑا ابھی وہ اسٹیج تک پہنچا ہی تھا کہ طرح طرح کی آوازوں نے اس کو مبہوت کر کے رکھ دیا۔
ارے موچی کے بیٹے کی باری آ گئی۔ ۔ ۔ ۔ پچھلی قطار سے آواز سنائی دی کیا زمانہ آ گیا! یعنی کہ اب موچیوں کی باتیں ہم سنیں گے!
ارے۔ ۔ ۔ ۔ اپنے باپ والا کام کیوں نہیں سنبھال لیتے عمر صاحب! نہیں یار جتنا بھی پڑھ لے رہے گا تو موچی کا بیٹا ہی!
لڑکے ابھی نہ جانے کیا کیا کہتے کہ پرنسپل صاحب نے ڈائس بجا کر انہیں خاموش ہونے کا حکم دے دیا۔
’’ کیا سیکھنے آتے ہو تم؟ یہی کہ کون اعلیٰ ذات کا ہے اور کون ادنیٰ ذات کا! نہایت افسوس کی بات ہے جانتے ہو کہ سب انسان حضرت آدمؑ اور حضرت حوا کی اولاد ہیں رنگ، نسل تو صرف پہچان کے لیے ہیں تم لوگ سکول میں علم کی روشنی حاصل کرنے آتے ہو یا جاہلوں کی طرح گروہ بندیاں ! کتاب تمہیں محبت کا درس دیتی ہے اور تم اپنے بیچ نفرتوں کے بیج بوتے ہو۔ کتاب تم کو مساوات کا درس دیتی ہے اور تم طبقاتی اونچ نیچ کی بنیادیں رکھ رہے ہو! کتاب تمہیں ہر انسان کی عزت کا درس دیتی ہے۔ ارے نالائقو‘‘ !
دنیا میں محنت میں عظمت ہے تو خدا کا دوست بھی محنت کش ہی ہے اس دنیا میں ہر جائز و حلال پیشہ محترم اور معزز ہے۔
وہ لوگ تو زیادہ عزت کے قابل ہوتے ہیں جو دن رات محنت کر کے روزی کماتے ہیں۔
کسی انسان کے ماتھے پہ نہیں لکھا ہوتا کہ وہ نجیب الطرفین اعلیٰ نسل سے بلکہ یہ اس کی چال ڈھال، بات چیت اور قابلیت ہوتی ہے جو اسے محترم بناتی ہے۔ عمر ہمارے سکول کا فخر ہے اور ہمارے سکول کے لئے عزت کا نشان بھی۔
احمر کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس نے اپنے چہرے پہ خود تھوک دیا ہو۔
سر! میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں۔ واقعی میں نے بہت کم ظرفی کا مظاہرہ کیا اور وہ بالآخر بول پڑا۔
عمر کلاس میں آیا تو اس نے ا پنی قابلیت اور خوش مزاجی کی بناء پر مجھے پیچھے چھوڑ دیا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس نے میرے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے اور اسے یا کسی اور کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔ میں اپنے دل میں اس سے جلن محسوس کرنے لگا۔ اسی حسد اور جلن نے مجھے امتحان میں فیل کرایا۔ کہانیاں لکھنا نہ جانتا تھا مگر اس کو پیچھے چھوڑنے کی غر ض سے کہانی نویسی کے مقابلہ میں حصہ لیا اور چوری کی تحریر مس کو دے دی۔ مگر وہ یہاں بھی سبقت لے گیا، تو میں نے ایک اور گٹھیا ہتھکنڈا اپنایا میں اس کے والد کو جانتا تھا، اور ان کے پیشے کا علم بھی رکھتا تھا۔ سو میں نے اپنے دوستوں سمیت یہ منصوبہ بنایا۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔
اگر عمر چاہے تو وہ مجھے معاف کر دے۔ میں شرمندہ ہوں۔ نہیں احمر۔ ۔ ۔ ۔ اس میں شرمندگی کی کیا بات ہے؟ عمر نے آگے بڑھ کر احمر سے ہاتھ ملایا اور وہ دونوں بغل گیر ہو گئے۔ انسان سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور شرمندگی تو بڑے بڑے گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ میں آپ کو کیوں معاف نہیں کروں گا۔ آج سے ہم دونوں پکے دوست ہیں۔
ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ مس افشاں اور پرنسپل صاحب ان دونوں کو مسکرا کر دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے کہ ان کے چند بولوں نے نہ صرف بچوں کو ایک کر دیا بلکہ انہیں اچھی سوچ اور نیک ہدایت کی طرف راغب کر دیا۔
٭٭٭
بڑا آدمی
محمد طہٰ خان
ایاز بڑا آدمی بننا چاہتا تھا۔ بڑا، بہت بڑا جیسے قائد اعظم جنہوں نے پاکستان بنایا تھا۔ لیاقت علی خان، جنہوں نے پاکستان کے لئے اپنی جان قربان کر دی تھی۔ اسی طرح اور بھی بڑے لوگ تھے اور جن کے بڑے بڑے کارنامے تھے، ایاز ان ہی لوگوں کی طرح بننا چاہتا تھا۔
اپنا نام تاریخ میں درج کرانے کے لئے وہ خوب دل لگا کر پڑھتا۔ بڑی محنت سے اپنا سبق یاد کرتا۔ ہوم ورک بڑی پابندی سے کرتا۔ سوتے جاگتے کوئی نہ کوئی کتاب اس کے ہاتھ میں دبی ہوتی۔ اس کی امی کہتیں بیٹا کھانا کھا لو۔ وہ جواب دیتا بھوک نہیں ہے، پڑھنے کے بعد کھا لوں گا۔ آپا کہتیں گڈے بھائی بازار سے سودا تو لا دو۔
ایاز برا سا منہ بنا کر کہتا آپا! آپ دیکھ نہیں رہیں میں پڑھ رہا ہوں۔ کل میرا ٹیسٹ ہے۔ آپ کسی اور سے سودا منگوائیں۔ مجھے تو پڑھنے دیں۔ مجھے بڑا آدمی بننا ہے۔
محلے میں بھی کوئی اس سے کام کا کہتا تو وہ صاف منع کر دیتا۔
اس کے امی ابو دیکھتے کہ ایاز راتوں کو اٹھ کر پڑھتا رہتا ہے اس کے ابو کبھی اس کو رات رات بھر جاگ کر پڑھنے سے منع کرتے تو وہ اپنے ابو سے کہتا’’ ابو جی بڑا آدمی بننے کے لئے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔ قائد اعظم بھی راتوں کو جاگ جاگ کر پڑھتے تھے۔ ان کے گھر والے بھی انہیں زیادہ پڑھنے سے ٹوکتے تھے لیکن وہ گھر والوں کی باتوں کا برا نہیں مانتے تھے۔ ‘‘
ایاز کا یہ جواب سن کر اس کے ابو جان خاموش ہو جاتے سوچتے کہ یہ لڑکا تو ہاتھ سے گیا۔
بڑے بھیا جب شام چار بجے کرکٹ کھیلنے جاتے تو اسے پکارتے، ’’ اے کتابی کیڑے، کچھ وقت کھیل کود کے لئے بھی نکال لیا کرو۔ پڑھائی کے ساتھ کھیل کود بھی ضروری ہے۔ ‘‘ آپ کا شوق آپ ہی کو مبارک ہو۔ مجھے تو پڑھنے ہی دیں۔ ‘‘
بڑے بھیا اپنے کاندھے پر بلا رکھ کر ایاز سے کہتے’’ منے میاں کام کے وقت کام پڑھائی کے وقت پڑھائی تازہ ہوا میں سانس لو۔ پڑھ پڑھ کے کیا حالت بنا لی تم نے اپنی؟
بڑے بھیا کی یہ بات سن کر ایاز کہتا’’ بڑا آدمی بننے کے لئے وقت کی قدر کرنا پڑتی ہے اور جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے، اپنا وقت کھیل کود میں برباد کر دیتے ہیں وہ کبھی بڑے آدمی نہیں بن سکتے۔ ‘‘
بڑے بھیا بھی بڑے بھیا تھے، چین سے بیٹھنا ان کو آتا ہی نہ تھا، بھلا کس طرح ایاز کی بات مان لیتے، اپنا بلا ایک طرف پھینکتے اور پاؤں پسار کر اس کے پاس جا بیٹھتے اور کہتے دیکھو منے میاں، ہم وقت کی ناقدری نہیں کرتے نہ ہی کھیل کود میں اسے برباد کرتے ہیں۔ ہمارے ہر کام میں اعتدال ہوتا ہے بڑے بھیا ایک لمحے کو خاموش ہوتے پھر دوسرے ہی لمحے کہتے ’’ منے میاں ایک صحت مند جسم ہی میں ایک صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ جسم تندرست ہو گا تو دماغ توانا ہو گا اور اگر جسم ہی کمزور ہو گا تو دماغ بھلا کس طرح توانا رہ سکے گا؟‘‘
’’ بھیا، آپ کو معلوم ہے میں روزانہ پیدل اسکول جاتا ہوں میری اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے، پھر مجھے کھیلنے کودنے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘
ایاز بڑے بھیا کو لاجواب کر دیتا ہے۔
’’ لگتا ہے منے میاں تم نہیں سدھرو گے۔ ‘‘ بڑے بھیا بلا اٹھاتے اور ایاز کے سر کے بال بگاڑ کر کرکٹ کھیلنے چلے جاتے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا ایاز کا پڑھائی اور بڑا آدمی بننے کا شوق انتہا کو پہنچتا جا رہا تھا۔ گھر والے اس کی ہر وقت کی پڑھائی سے جھنجھلا گئے تھے۔ پڑھائی کے چکر میں ایاز گھر والوں کا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ بازار سے سودا سلف اور سبزی وغیرہ کے لئے بھی گھر والوں کو جانا پڑتا سوئی گیس اور بجلی کا بل بھی گھر والے ہی جمع کراتے، مہمان آ جاتے تو ان کی خاطر تواضع کیلئے سامان وغیرہ بھی گھر والے ہی لاتے۔ غرضیکہ وہ گھر والوں کے کسی کام کا نہیں تھا۔
امی جان ایاز کے آگے پیچھے کھانا لے کر پھرا کرتیں ’’ چاند، سہ پہر کے تین بج گئے ہیں اب تو کھانا کھا لو۔ ‘‘ ’’ کھا لوں گا امی جان ابھی بھوک نہیں ہے ابھی تو مجھے پڑھنے دیں۔ ‘‘
وقت پر نہ کھانے اور راتوں کو جاگ کر پڑھنے کی وجہ سے ایاز کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی وہ کمزور ہو گیا۔
امتحانات قریب آ گئے تھے اور ایاز پڑھائی میں پوری طرح مصروف تھا۔ اپنا کمرہ بند کیے وہ پڑھائی میں مصروف رہتا، اس بات کا بھی ہوش نہیں تھا کہ چھوٹے ماموں لندن سے واپس وطن لوٹ رہے ہیں اور انہیں لینے ائیر پورٹ جانا ہے۔ ایاز پڑھائی میں مصروف رہا اور ماموں گھر والوں کے ساتھ ائیر پورٹ سے گھر آ گئے۔ گھر میں سب خوش تھے۔ کئی سالوں بعد چھوٹے ماموں لندن سے واپس آئے تھے۔ ایاز کی امی جان تو بے حد خوش تھیں کئی سالوں کی دوری کے بعد وہ اپنے بھائی سے ملی تھیں۔
چھوٹے ماموں گھر والوں کی شفقت و محبت سے بے حد متاثر ہوئے کہنے لگے۔ ’’ لندن میں تو محبت و شفقت کو ترس گیا تھا۔ پھر وطن کی یاد دل کو بے چین رکھتی تھی اور پھر مجھے اپنے بھانجے اور بھانجیوں سے ملاقات کا ہر وقت خیال رہتا تھا سو میں نے اپنا بستر بوریا گول کیا اور سیدھا یہاں چلا آیا۔ آپ لوگوں کے درمیان۔ ‘‘
’’ ایاز نظر نہیں آ رہا ہے، کیا کہیں گیا ہوا ہے؟‘‘ چھوٹے ماموں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ گھر میں ہی ہے۔ اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھائی کر رہا ہے۔ ‘‘ امی جان نے اطلاع دی۔ ’’پڑھائی کر رہا ہے کیا اسے میرے آنے کی اطلاع نہیں ؟‘‘ ماموں نے پوچھا۔
’’ جب وہ پڑھنے بیٹھتا ہے تو اسے کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا۔ آپ کو بھلا وہ کس طرح یاد رکھے گا۔ ‘‘ بڑی آپا نے کہا’’ اوہ تو مسٹر پڑھا کو ہو گئے ہیں !‘‘
’’ موا ہر وقت پڑھتا رہتا ہے، کہتا ہے بڑا آدمی بنوں گا۔ ‘‘ دادی جان نے جل کر کہا۔
’’ میاں تم ہی اسے کچھ سمجھاؤ۔ ہماری تو کوئی بات مانتا ہی نہیں !!‘‘ ابا جان نے ماموں جان سے کہا۔
’’ یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی کہ بڑا آدمی بننے کے چکر میں وہ اپنے ماموں جان کو بھی بھول گئے ہیں !‘‘ ماموں جان مسکرا کر بولے۔ انہوں نے جیسے ہی اپنی بات مکمل کی۔ عین اسی وقت ایاز کمرے میں داخل ہوا اور دوڑ کر ماموں کے گلے لگ گیا’’ میں اپنے ماموں جان کو کیسے بھول سکتا ہوں ‘‘ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کے لہجے میں ہلکا سا جوش تھا۔
چھوٹے ماموں اپنے بھانجے سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے۔ ’’ منے میاں، ماشاء اللہ تم نے اچھا خاصا قد نکال لیا ہے۔ مجھ سے بھی بڑے لگ رہے ہو۔ ‘‘
’’ بڑا آدمی جو بننے چلے ہیں !!‘‘ باجی نے جل کر کہا’’ ہاں بھئی، یہ بڑا آدمی بننے کا کیا چکر ہے۔ کیا یہ سچ ہے کہ تم ہر وقت پڑھتے رہتے ہو۔ گھر والوں کا کوئی کام نہیں کرتے اور کسی کھیل کود میں بھی حصہ نہیں لیتے؟‘‘
ایاز نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا’’ سب لوگ میری پڑھائی سے جلتے ہیں۔ ‘‘
’’ یہ سب لوگ تمہاری پڑھائی سے نہیں جلتے بلکہ اس بات سے نالاں ہیں کہ تمہارے اندر اعتدال ختم ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے تمہاری گھر والے تم سے بیزار ہو گئے ہیں اور آج تو مجھے بھی اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ سب ائیر پورٹ پر مجھے لینے آئے لیکن تم نہیں آئے۔ ‘‘
چھوٹے ماموں جان کی یہ بات سن کر شرمندگی کے احساس سے ایاز کا سر جھک گیا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ ماموں جان نے اس کی کمی کو شدت سے محسوس کیا ہے۔
ماموں جان نے دیکھا کہ ایاز شرمندہ ہے تو انہوں نے اس سے کہا’’ یہ بتاؤ جب ہم کہیں چلنے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا کرتے ہیں ؟‘‘
’’ چلتے ہیں !‘‘
’’ ٹھیک ہے، چلتے ہیں، لیکن کس طرح!‘‘
’’ پہلے ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں اور پھر دوسرا۔ ‘‘
’’ بالکل ٹھیک، منزل تک پہنچنے کے لئے دونوں قدموں کا اٹھانا ضروری ہے اور یہ بھی کہ ہم صرف ایک قدم اٹھا لیں اور دوسرا قدم نہ اٹھائیں تو پھر کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکتے، تو منے میاں، بڑا آدمی بننے کے لئے آپ نے صرف اپنا ایک قدم اٹھایا ہے۔ یعنی صرف پڑھائی، دوسرا قدم آپ نے آگے نہیں بڑھایا اور آپ کو معلوم ہے دوسرا قدم کیا ہے!‘‘
’’ نہیں معلوم؟‘‘ ایاز ماموں جان کی باتوں سے الجھ سا گیا۔
’’ وہ دوسرا قدم ہے لوگوں کی دعائیں لینا، ان کے کام آنا، بندوں کی خدمت کرنا‘‘ چھوٹے ماموں ایک لمحے کو خاموش ہوئے پھر دوسرے ہی لمحے انہوں نے ایاز سے کہا’’ کیا آپ نے لوگوں کی دعائیں لیں ہیں ؟ گھر محلے سے باہر کبھی کسی کی کوئی خدمت کی ہے؟ کیا کبھی کسی نابینا شخص کو سڑک پار کروائی ہے؟ کیا کبھی کسی غریب شخص کی اخلاقی یا مالی مدد کی ہے؟ چلیں ان باتوں کو بھی چھوڑ دیں۔ آپ مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ آپ کبھی کسی کے لئے مسکرائے ہیں ؟‘‘
ماموں کی اتنی ساری باتیں سن کر ایاز سوچوں میں پڑ گیا، ’’ میں نے تو واقعی کبھی کسی کی کوئی خدمت ہی نہیں کی۔ نہ گھر والوں کے کسی کام آیا اور نہ ہی محلے والوں کے اور نہ ہی کبھی کسی سے مسکرا کر بات کی۔ ‘‘
گھر کے تمام افراد کی نگاہیں ایاز پر لگی ہوئی تھیں ماموں جان نے اسے خاموش پایا تو بولے ’’ہاں منے میاں، کچھ یاد آیا، کوئی ایسا چھوٹا موٹا کام جسے کر کے آپ نے لوگوں سے دعائیں لی ہوں۔ ‘‘
ایاز اب بھی خاموش رہا تو ماموں جان بولے’’ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کبھی کسی کے کام نہیں آئے۔ آپ نے کبھی کسی کی کوئی خدمت نہیں کی اور ظاہر ہے جب آپ نے کسی کی کوئی خدمت ہی نہیں کی تو پھر دعائیں آپ کو کس طرح مل سکی ہوں گی۔ ‘‘
کچھ لمحوں تک ماموں جان خاموش رہے پھر انہوں نے ایاز سے پوچھا’’ آپ نے مشہور بادشاہ محمود غزنوی کا نام سنا ہے؟‘‘
’’ جی جی‘‘ وہی محمود غزنوی جس نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے تھے۔ سومنات کا مندر توڑا تھا اور تاریخ میں اپنا نام ’’ بت شکن‘‘ کی حیثیت سے درج کرایا تھا۔ ایاز نے بڑے جوش سے بتایا
’’ کیا آپ ان کے والد کا نام جانتے ہیں ؟‘‘
’’ سبکتگین‘‘ بڑے جوش سے ایاز نے بتایا
’’ آپ کی معلومات تو بہت اچھی ہے اچھا یہ بتائیے کہ جب سبکتگین ایک معمولی سپہ سالار تھے تو ان کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ ہرنی والا واقعہ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ یاد آیا؟‘‘
’’ جی جی ماموں جان، وہ واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے سناؤں میں آپ کو؟‘‘
’’ ہاں ہاں بالکل‘‘ محمود غزنوی کے والد سبکتگین کو شکار کا بے حد شوق تھا۔ ایک دن وہ گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کرنے نکلے۔ جنگل میں پہنچے تو انہیں ہرنی اور اس کا بچہ نظر آیا۔ انہوں نے اپنا گھوڑا ہرنی کے پیچھے ڈال دیا۔ شکاری کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ہرنی ایک طرف بھاگ گئی۔ بچے سے بھاگا نہ گیا اور بچے کو سبکتگین نے گھوڑے کی پیٹھ پر بٹھا لیا۔ وہ بچے کو لے کر کچھ ہی دور چلے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ہرنی اپنے بچے کی محبت میں بے تاب ہو کر گھوڑے کے پیچھے چلی آ رہی ہے۔ اس کو اپنی جان کا بھی کوئی خوف نہیں تھا۔
سبکتگین ماں کی محبت دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے۔ انہوں نے فوراً ہرنی کے بچے کو چھوڑ دیا۔ ہرنی کا بچہ رہائی پاتے ہی قلانچیں بھرتا ہوا ماں کے قریب جا پہنچا۔
سبکتگین نے دیکھا کہ ہرنی نے محبت میں آ کر اپنے بچے کو چومنا شروع کر دیا۔ وہ اپنے بچے کو زبان سے چاٹتی جاتی اور سبکتگین کی طرف تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھتی جاتی جیسے شکریہ ادا کر رہی ہو اور دعا دے رہی ہو۔
ہرنی کی دعا کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے بعد سبکتگین معمولی سپہ سالار کے عہدے سے ترقی پا کر غزنی کے حکمران بن گئے۔
’’ بہت اچھے بھئی، آپ کو تو یہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے!‘‘ ماموں جان نے خوش ہو کر کہا۔
’’ جی ماموں جان، مجھے تو ابراہم لنکن والا واقعہ بھی اچھی طرح یاد ہے! جب انہوں نے اسکول کے زمانے میں پتھروں کے ڈھیر میں پھنسی ہوئی ایک ننھی گلہری کو آزاد کرایا اور اس کی دعا لی تھی اور ننھی گلہری کی دعا کا اثر ہی تھا کہ وہ ایک دن امریکا کے صدر بنے‘‘ واہ بھئی واہ، آپ کی معلومات تو بے حد شاندار ہے۔ اچھا یہ بتائیے کہ ان واقعات سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟’’ یہی کہ بڑا آدمی بننے کے لئے دعاؤں کا حاصل کرنا نہایت ضروری ہے‘‘ سر جھکا کر بڑے شرمندہ لہجے میں ایاز نے کہا۔
’’ اور آپ کو معلوم ہے دعائیں کس طرح حاصل کی جاتی ہیں ؟‘‘ ماموں جان نے پوچھا۔ ایاز سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ شرمندگی کے احساس نے اس کی زبان پر چپ کی مہر لگا دی تھی۔ چھوٹے ماموں نے اسے خاموش اور شرمندہ دیکھا تو اس کے دونوں شانے تھام کر کہا’’ بیٹا اعتدال کی راہ پر چل کر ہی دعائیں حاصل کی جاتی ہیں۔ در حقیقت بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو مسکرا کر لوگوں سے ملتا ہو، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتاہو اور ان کی خدمت کر کے ان کی دعائیں لیتا ہو۔ ‘‘
ماموں جان کی بات مکمل ہوئی تھی کہ ایاز بول اٹھا’’ ماموں جان، آپ کی باتوں نے آج میری آنکھیں دی ہیں۔ بڑا آدمی بننے کے لئے میں اپنی زندگی میں اعتدال اور میانہ روی کی راہ اپناؤں گا۔ لوگوں کی خدمت کروں گا۔ ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤں گا اور ان کی دعائیں لوں گا۔ ‘‘
’’ شاباش!‘‘ ماموں جان خوشی سے نہا ل ہو گئے۔ ا سی وقت ایاز کو کچھ یاد آیا۔ وہ سائیکل لے کر باہر جانے لگا۔ ماموں جان نے پوچھا تو کہنے لگا۔ ’’ فاطمہ خالہ کا سوئی گیس اور بجلی کا بل جمع کرانا ہے۔ وہ کل سے کہہ رہی ہیں کل تو میں نے انہیں منع کر دیا تھا لیکن اب میں انہیں کبھی منع نہیں کروں گا۔ ‘‘
ایاز باہر جانے لگا تو آپا نے پچاس کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا، ’’ منے میاں، بازار سے واپسی پر دو درجن گرم گرم سموسے لے آنا۔ ‘‘
’’ بہت بہتر آپا جانی، میں یوں گیا اور یوں آیا‘‘ بڑی خوش دلی سے ایاز نے کہا۔ جب وہ سائیکل پر باہر جانے لگا تو ماموں جان نے آواز لگائی’’ میاں، جلدی آ جانا، ہم سب تمہارے ساتھ مل کر چائے پئیں گے۔ ‘‘
ماموں جان کے ہاتھوں ایاز کی کایا پلٹ جانے پر گھر کے تمام افراد بے حد خوش نظر آ رہے تھے۔ ماموں جان نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ ایاز نے بڑا آدمی بننے کے لئے پہلا قدم اٹھا لیا تھا، دوسرا نہیں اٹھایا تھا۔ آج اس کا دوسرا قدم بھی اس سمت میں اٹھ چکا ہے۔ دعا کریں کہ ایک دن واقعی وہ بڑا آدمی بن جائے‘‘
ماموں جان کی بات مکمل ہوتے ہی سب نے بڑے زور سے کہا’’ آمین‘‘
٭٭٭
ٹائم مشین
مصطفیٰ الیاس
ناسا، جو کہ دنیا کا اہم ترین ادارہ ہے۔ یہ ادارہ امریکہ میں موجود ہے۔ موجودہ زمانے میں اس کا کام خلائی کارنامے انجام دینا اور خلا میں پائے جانے والے مختلف سیاروں پر تحقیقات کرنا ہے۔ یہ ادارہ بہت ترقی کر چکا ہے۔ اس کمپنی کا کام یہی ہے کہ مختلف امور پر تحقیقات اور ان میں جدت پسندی کا رجحان بڑھایا جائے۔
ایک دن اس کمپنی کے چیف اپنی ایک تباہ کن خلائی شٹل کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے۔ ان کے پاس ایک خط پہنچا وہ اس خط کو فوری طور پر کھول کر پڑھنے لگے۔ اس خط میں کچھ اس طرح سے تحریر تھا۔
ڈی۔ جے سائنس کالج،
کراچی، پاکستان، 8نومبر2004ء
محترم چیف ناسا!
آداب عرض کرتا ہوں۔ میرا نام پروفیسر عالم ہے اور میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوتی ہے کہ ناسا ایک زبردست تحقیقاتی ادارہ ہے ار اب میں آپ کو ایک خوشخبری سناتا ہوں کہ میں نے بھی ایک مشین ایجاد کی ہے۔ میں یہ چاہوں گا کہ آپ پاکستان تشریف لائیں اور میری اس ایجاد کو یہاں آ کر جانچیں۔ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ مشین آپ کی ہر مشین سے بہتر ہو گی۔
آپ کی آمد کا منتظر
پروفیسر عالم
ایجاد ہو کیسے گئی۔
لیکن پھر یہ سوچ کر کہ سائنس نام ہی ناقابل یقین باتوں کا ہے، ان سب نے مل کر پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔
حکومت پاکستان کو جب چیف صاحب اور ان کے ساتھ چھ بڑے سائنس دانوں کے آنے کی خبر ملی تو حکومتی اداروں میں کھلبلی مچ گئی۔ بالآخر وہ دن بھی آ گیا جب سب پاکستان پہنچ گئے۔ جس روز وہ پاکستان پہنچے یہاں کے سائنس دانوں اور سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان کا پر تپاک استقبال کیا۔ پھر ان کو پاکستان کے مختلف مقامات کی سیر کروائی گئی۔ کچھ دن بعد ان تمام لوگوں نے درخواست کی کہ اب ہمیں پروفیسر عالم سے ملوایا جائے۔ چنانچہ ایک گاڑی ان لوگوں کو لے کر پروفیسر صاحب کے گھر کی جانب روانہ ہوئی پھر ان کی گاڑی ایک ایسی کچی آبادی میں داخل ہوئی جہاں کی گلیاں بے حد تنگ تھیں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ ماحول کافی زیادہ آلودہ تھا۔ ان کی گاڑی ایک پرانے گھر کے سامنے آ کر رکی گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا اندر سے پروفیسر عالم نے ان سب کا استقبال کیا۔ گھر کو اندر سے دیکھ کران سب کو احساس ہوا کہ کافی عرصے سے اس گھر میں رنگ و روغن نہیں ہوا اور گھر کی تنگی بھی سب پر عیاں تھی۔ پروفیسر صاحب سب کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور اندر بلا لیا۔ تمام سائنس دانوں کو یہ سب کچھ دیکھ کر ہی اپنے چیف کی بات جھوٹی لگ رہی تھی۔ خود چیف صاحب بھی کش مکش میں مبتلا تھے کہ آیا انہوں نے اپنے دفتر میں جو کچھ دیکھا تھا وہ سچ تھا یا خواب۔ وہ زیادہ دیر اس کش مکش میں مبتلا نہ رہے۔ پروفیسر صاحب ان سب کو دوسرے کمرے میں لے آئے جہاں وہ مشین رکھی تھی۔ وہ مشین کافی بڑی تھی وہ ایسی ہی تھی جیسا کہ آج کل شیشے کی لفٹ ہوتی ہے۔ اس کا دروازہ شیشے کا بنا ہوا تھا۔ اندر سے دونوں اطراف میں بٹن لگے ہوئے تھے۔ پروفیسر صاحب ان بٹنوں کو چھیڑنے لگے اور کہنے لگے ’’میں آپ تمام لوگوں کا مزید وقت ضائع نہیں کروں گا اب جو حیرت انگیز بات میں آپ کو بتانے والا ہوں آپ لوگ بالکل اس پر یقین نہیں کریں گے جب کہ اس اکیسویں صدی میں ایجاد ہو چکی ہے۔ ہم سب اس مشین کے ذریعے پندرہ منٹ میں امریکہ پہنچ جائیں گے اور اس بات کا میں آپ کو ثبوت بھی پیش کرتا ہوں۔ ‘‘
پھر سب کے سب مشین میں ہچکچاتے ہوئے داخل ہو گئے۔ دروازہ خود بند ہو گیا پندرہ منٹ انتہائی خاموشی سے گزر گئے اور جیسے ہی دروازے کھلا سب کے سب ناسا کے آفس میں موجود تھے۔ سیکرٹری نے سب کو دیکھا تو حیران و پریشان رہ گیا کہ یہ تمام لوگ دروازے سے داخل ہوئے بغیر آفس میں کیسے پہنچ گئے۔ چیف نے سیکرٹری کو سب کچھ بتایا اور دوبارہ پاکستان کی طرف واپس آ گئے۔
پروفیسر صاحب نے کہا’’ اس مشین کی مزید خاصیتیں بھی ہیں وہ یہ کہ آپ جس زمانے میں چاہیں جا سکتے ہیں۔ ‘‘ ایک سائنس دان نے کہا’’ مجھے سو سال پہلے بھیجیں تاکہ میں اپنے دادا کا بچپن دیکھ سکوں کیونکہ میرے دادا کہتے تھے کہ و ہ اپنے بچپن میں بہت تمیزدار تھے۔ ‘‘ سب یہ بات سن کر ہنس پڑے۔ چنانچہ وہ بٹن دبا کر اپنے چھوٹے سے دادا کے زمانے میں پہنچ جاتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دادا اپنے ابا سے مار کھا رہے ہیں اور جب چیف نے دادا جان کو چھڑانے کی کوشش کی تو بجائے چیف کا شکریہ ادا کرنے کے اس کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ چیف اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے اور کہنے لگے ’’ واقعی تمہارے دادا تو بہت تمیزدار بچے تھے۔ ‘‘ سب واپس اپنی جگہ پر آئے اور کہنے لگے’’ اب ہمیں سو سال بعد کا زمانہ دیکھنا ہے۔ ‘‘ پروفیسر صاحب مشین میں لے کر سب کو روانہ ہوتے ہیں۔ اچانک وہ ایک اڑتی ہوئی جیپ سے ٹکراتے ٹکراتے بچے۔ آسمان پر تمام کنٹرول روبوٹوں نے سنبھالا ہوا تھا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ہر گھر میں روبوٹ موجود ہیں جو انسانوں کی طرح ان کے سارے کام کر رہے تھے۔ اب تو سب کو یقین آ گیا، یقیناً اگلا زمانہ روبوٹوں کا ہو گا۔
پروفیسر صاحب فخریہ انداز میں کہنے لگے’’ اس مشین کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ آپ کو آسمانوں کی اور دنیا کی بھی سیر کرائے گی اور آپ مختلف سیاروں اور چاند کی بھی سیر کر سکتے ہیں۔ آج کل مریخ پر اتنی زیادہ تحقیقات ہو رہی ہیں کہ آج کا انسان مریخ پر پہنچنے کی تیاریاں کر رہا ہے ہم مریخ پر چلتے ہیں ‘‘ پروفیسر صاحب سب کو مخصوص خلائی لباس اور خلائی سامان دیتے ہیں اور کہتے ہیں چلیں، تقریباً آدھے گھنٹے میں وہ مریخ پر ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں ایک عجیب سر زمین ہے۔ یہ دوسرے سیاروں سے مختلف اور ہماری دنیا سے ملتی جلتی ہے، اس کے اندر ریگستان ہیں۔ یہاں کسی بھی قسم کی کوئی زندگی نہیں اور یہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس زمین کے مقابلے میں پتلی ہے۔ یہاں پر پروفیسر نے پاکستان کا جھنڈا گاڑا اور مسکراتے ہوئے کہا’’ میں پہلا آدمی ہوں جس نے مریخ پر قدم رکھا‘‘ تمام سائنس دان وہاں کی سرخ مٹی جمع کرتے ہیں تاکہ بعد میں اس کا تجربہ کیا جا سکے۔ تاہم انہیں یقین آ جاتا ہے کہ یہ مریخ ہی ہے۔ پھر سب عطارد(Pluto) کی جانب روانہ ہوئے، کچھ ہی دیر میں وہ عطارد میں موجود تھے۔ عطارد جو کہ سرد ترین سیارہ ہے۔ اس کا درجہ حرارت منفی220 رہتا ہے یہ سورج سے سب سے زیادہ دور ہے۔ سائنس دان جب عطار پر پہنچے تو یہاں کی سخت ترین سردی کے باعث زیادہ دیر ٹھہر نہ پائے بالآخر اپنے ٹھکانے پر اپنی دنیا میں واپس آ جاتے ہیں تمام سائنس دان پروفیسر عالم سے بڑے مرعوب نظر آتے ہیں۔ ناسا کے چیف پروفیسر صاحب سے مخاطب ہوئے ’’ آپ ہمیں اس مشین کی تکنیک بتائیں تاکہ ہم بھی اپنے ملک جا کر ایسی مشین بنا سکیں اور اگر ہمارا ساتھ دیں گے تو ہم آپ کو دنیا کا امیر ترین انسان بنا دیں گے۔ ‘‘ پروفیسر صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا’’ میں یہاں بہت خوش ہوں اور میں نے جو کچھ بھی کیا ہے اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے کیا ہے۔ ‘‘ یہ سن کر سب کے منہ لٹک گئے۔
ناسا کے چیف نے کچھ سوچ کر لہجے میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا’’ پروفیسر یہ مشین تمہارے اس پسماندہ ملک کے کسی کام کی نہیں اس سے صرف ہمارا ترقی یافتہ ملک ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تم آرام سے اسے ہمارے حوالے کر دو ورنہ ہمیں اور بہت سے طریقے آتے ہیں یقیناً تم سمجھ گئے ہو گے۔ ‘‘
پروفیسر نے چیف کی دھمکی پر کچھ غور کیا اور خوشدلی سے کہنے لگا ’’ ارے میں تو مذاق کر رہا تھا۔ اجی ہم بھی آپ کے، ہماری مشین بھی آپ کی۔ ‘‘ چیف پروفیسر کی بات سن کر مسکرانے لگا اور کہنے لگا’’ پروفیسر تم واقعی بہت ذہین ہو‘‘ شکریہ شکریہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسر نے کہا۔
پھر کہنے لگے اب تک آپ اپنی پسندیدہ جگہوں کی سیر کرنے گئے تھے، اب میں آپ کو اپنی پسندیدہ جگہ پر لے چلتا ہوں۔ کیا آپ چلیں گے؟ سائنس دانوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
پروفیسر نے بٹنوں پر زور آزمائی کی اور مشینی کمرے میں داخل ہونے کی دعوت دی۔ جب سب کمرے میں داخل ہو گئے اور پروفیسر باہر رہ گئے تو پروفیسر نے جلدی سے دروازہ بند کرنے والا بٹن دبا دیا۔ اب وہ تمام سائنس دان اپنے غرور سمیت یورپ کے قرون مظلمہ کے سفرپر روانہ ہو چکے ہیں۔ پروفیسر نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا۔
٭٭٭
شرارتی مرغا
ماریہ افضل
ابھی شہلا نے سونے کے لئے آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ اچانک ایک آواز آئی شہلا نے آنکھیں کھولیں یہ کیسی آواز ہے؟ پڑ۔ ۔ ۔ ۔ پڑ پڑ۔ اسے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ پڑوس کی مرغیاں پھر لان میں گھس آئی ہیں۔ وہ جلدی سے اٹھی اور لان میں پہنچی۔ دو مرغیاں بڑی بے فکری سے کیاریوں میں گھوم پھر رہی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ پھول والے پودوں کے سب پتے وہ کھا چکی ہیں۔ غصے کے مارے شہلا کا برا حال ہو گیا ان مرغیوں کی یہ جرات اتنے مہنگے پودوں کو ایسے مزے سے چٹ کر گئیں کہ جیسے ان کی دعوت کرنے کے لئے ہی تو نرسری سے خرید کر لایا گیا تھا اس کا جی چاہا کہ مرغیوں کو پکڑ کر ان کا ٹینٹوا ہی دبا دے مگر یہ کام خاصا مشکل تھا بھلا میں کیسے ان کو پکڑوں اور پھر ان کا گلہ دبا دوں نہ بابا۔ یہ کام میرے بس کا نہیں شہلا نے سوچا مرغیوں کو لان سے باہر نکالنے کے لئے قریب جا کر شی شی کی آواز نکالی تو وہ باہر جانے کی بجائے اور پیچھے کی طرف دوڑنے لگیں اس نے اب دوسری طرف کو گھوم کر انہیں بھگایا تھوڑی سی جدوجہد کے بعد وہ گیٹ سے نکل کر باہر چلی گئیں۔
شہلا نے سکھ کا سانس لیا توبہ میری نیند کا ستیاناس کر دیا بدتمیز مرغیوں نے! شہلا نے واپس کمرے کا رخ کیا ہی تھا کہ پھرکسی مرغے کی آواز کانوں سے ٹکرائی اچھا تو اب بھی کوئی مرغا موجود ہے اس نے لان کے ایک کونے کی طرف غور سے دیکھا تو سرخی مائل براؤن رنگ کا مرغا آرام سے کھڑا اسے دیکھ رہا ہے۔ کیوں مسٹر مرغے تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آتی بلا اجازت کسی کے گھر میں گھس جاتے ہو شہلا نے جل کر کہا لیکن مرغے کو بھلا اس کے غصے کی کب پرواہ تھی وہ صاحب مزے سے بانگیں دینے میں مصروف ہو گئے۔ شہلا نے اسے بھگایا تو وہ آنکھ مچولی کھیلنے پر اتر آیا کبھی ایک جھاڑی کے پیچھے جا چھپتا کبھی دوڑ لگانے لگتا اتنی دیر میں سارہ بھی باہر نکل آئی۔ ہائے ہائے یہ کیا ہو رہا ہے باجی! شہلا زور سے ہنسی۔ ذرا اسے باہر بھگاؤ نا شہلا نے کہا۔ یہ بڑا بدتمیز مرغا ہے اس قدر تنگ کرتا ہے بار بار ہمارے گھر میں گھس آتا ہے اور پتہ ہے اس نے وہ ساری پنیری خراب کر دی جو مالی نے لگائی تھی سارہ بولی! یہ مرغیاں آخر ہیں کس کی؟ اس نے پوچھا اور یہاں آئی کیوں ہیں۔ یہ رانی کے گھر والوں کی ہیں جو کالے گیٹ والے گھر میں رہتے ہیں سارہ نے کہا۔ امی نے ارم کو اس کے گھر بھیجا تھا کہ اپنے مرغے مرغیوں کو اپنے گھر کے اندر رکھیں مگر وہ لوگ کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور ہمارے گھر میں گھس کر یہ پھول پودے خراب کر دیتی ہیں۔ سارہ بولی، اب تو اس شرارتی مرغے کا کوئی علاج کرنا پڑے گا کہ یہ دوبارہ کبھی ہمارے گھر نہ آئے شہلا بولی۔ ہاں بالکل سارہ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی، ٹھیک ہے۔ ارم کو بلاؤ شہلا نے کہا۔ سارہ اسے بلا کے لے آئی۔ ارم یہ مرغا ہے اسے پکڑ کے اندر بند کرنا ہے۔ شہلا نے کہا، بند کرنا ہے؟ وہ حیرت سے بولی، یہ ہر روز گھر میں آ جاتا ہے اور پودے خراب کرتا ہے ان کے گھر والوں کو امی نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ انہیں آپ سنبھال رک رکھیں مگر یہ باز نہیں آتے سارہ بولی۔ ہاں اب لگے گا پتہ ادھر سے تم دروازہ بند کرو اور اندر لے جا کر اسے باندھ دو یا بند کر دو۔ جی باجی ٹھیک ہے ارم خوش ہو کر بولی۔ باجی اسے ذبح کر لیں پھر اس کا قورمہ بنا لیں گے۔ ارے پاگل ہے تو! شہلا نے اس کے منصوبے پر پانی پھیر دیا اسے بند کرو جب شام ہو گی اور گھر والے اسے ڈھونڈنے آئیں گے تو مزہ آئے گا سارہ بولی۔ جی ٹھیک ہے پھر شام کو واپس کر دیں گے۔ ارم نے پوچھا ہاں اور کیا۔ شہلا نے آرام سے کہا۔ ارم مرغے کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگی کیونکہ اب وہ زور زور سے شور مچا رہا تھا اور دائیں بائیں دوڑیں بھی لگا رہا تھا۔ ا رم کی بہن گڑیا اور بھائی نثار بھی مرغے کو قابو کرنے کی کوشش میں شامل ہو گئے۔ شہلا اور سارہ اندر آ گئیں۔
پرسوں بھی میں اور ارم مرغیوں کی شکایت کرنے رانی کے گھر گئے تو ان کی امی بولیں دیکھیں ہم نے مرغیوں کے لئے اتنا اچھا ڈربہ بنایا ہے۔ اتنا اچھا اس کے اوپر پینٹ کرایا ہے۔ اس کی چھت بھی اتنی اچھی ہے۔ آپ بے شک اندر آئیں اور گھر دیکھیں۔ انہوں نے بچیوں کو گھر کے معائنے کی دعوت دی آپ نے ان کے گھر میں قالین بھی ڈالا ہو گا آنٹی۔ سارہ نے پوچھا اور شرارت سے مسکرائی۔ نہیں بیٹا قالین تو نہیں ڈالا مگر اس میں اے سی لگانے کا سوچ رہی ہوں۔ وہ بھی مسکرائیں۔ آپ آئیں نا اندر آ کر ان کا گھر دیکھیں انہوں نے پھر دعوت دی نہیں جی بس شکریہ! آنٹی اتنے اچھے گھر میں یہ مرغے مرغیاں رہتے کیوں نہیں ارم نے پوچھا۔ پرندے ہی تو ہیں نا یہ، گیٹ کھلا دیکھ کر باہر نکل جاتے ہیں یہ باہر خوش رہتے ہیں۔ آنٹی یہ ہمارے پودے خراب کرتے ہیں۔ آپ انہیں روکیں۔ نہیں نہیں یہ ذرا نا سمجھ ہیں آپ لوگ ناراض نہ ہوا کریں انہوں نے کہا۔ آپ اپنے گھر کا گیٹ بند رکھا کریں نا! ارم نے کہا۔ اچھا بیٹے ٹھیک ہے انہوں نے جواب دیا۔ بچیاں واپس آ گئیں۔ لیکن مرغیوں کا گھر میں آنا جانا بند نہ ہوا۔ باجی مرغے کو میں نے باندھ دیا ہے درخت کے ساتھ بڑی مشکل سے قابو آیا ہے۔ ارم نے اندر آ کر بتایا چلو ٹھیک ہے شہلا نے ارم سے کہا اس کو ذرا پانی ڈال دینا اور دانہ بھی۔ ہاں میں ابھی ڈالتی ہوں ارم نے جواب دیا۔ نثار اس کے آگے گھاس ڈال رہا ہے ارم نے بتایا’’ یہ کوئی بکرا ہے جو گھاس کھائے گا اس کو روٹی کے چھوٹے ٹکڑے کر کے دو شہلا نے کہا۔ سارہ کو زور سے ہنسی آئی۔ باجی پچھلے ہفتے مالی نے بتایا کہ مرغیاں سب پنیری کھا گئی ہیں تو امی نے مالی کو ان کے گھر بھیجا کہ جا کر انہیں بتا کر آؤ۔ مالی ان کے گھر گیا تو رانی کے ابو کہنے لگے یہ تو جانور ہیں ان کی مرضی جہاں چاہے جائیں ہم ان کو بھلا کیسے روکیں۔ مالی کو غصہ آیا کہنے لگا اب اگر یہ ہمارے لان میں آئیں تو ہم ان کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ وہ پھر بولا مرغیوں کو ایسی دوا ڈالوں گا کہ یہ مر جائیں گی۔ سب کا ہنس ہنس کے برا حال ہو گیا ذرا دیر بعد شہلا کتاب پڑھنے لگی پھر اسے نیند آ گئی وہ سو گئی۔
مغرب کے وقت آنکھ کھلی امی نے مرغے کو گھر میں دیکھا تو حیران ہوئیں۔ ارم نے ساری بات بتا دی ارے چھوڑ دو مرغا، دیکھو یہ پرایا جانور ہے۔ وہ لوگ پریشان ہوں گے۔ اچھا ہے نا ذرا وہ بھی تو پریشان ہوں۔ ہمارے پودوں کا خیال کرتے نہیں شہلا بولی۔ اب سب لوگ انتظار کرنے لگے کہ وہ مرغے کو تلاش کرنے آئیں گے وقت گزرتا جا رہا تھا کوئی بھی نہ آیا شام کے چھ بج گئے سردیوں میں تو دن چھوٹے ہوتے ہیں اندھیرا جلدی ہو جاتا ہے سات بج گئے کوئی مرغے کو ڈھونڈنے نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے ان کا نوکر مرغیوں کو ڈربے میں بند کرتا ہو وہ کام چور آدمی ہو اور اس نے یہ دیکھا ہی نہ ہو کہ مرغا غائب ہے اور بے فکری سے اپنے کام میں لگ گیا ہو سارہ نے اندازہ لگایا۔ مگر انہوں نے مرغے کی گمشدگی کا نوٹس ہی نہ لیا تو ہم اس مرغے کا کیا کریں گے کہیں رات کو یہ سردی سے مر ہی نہ جائے ہم پر تو مرغے کو مارنے کا الزام لگ جائیگا شہلا نے کہا۔ وہ فکرمند ہو گئی۔ پھر کیا کریں۔ سارہ نے کہا ارے مرغے کو ان کے گھر دے آؤ جا کر۔ امی جی نے کہا نہیں نہیں ایسے مفت میں مرغا نہیں دیتے سارہ بولی۔ اتنی دیر میں نثار اندر آیا۔ باجی رانی کیا بو اور اس کے بھائی مرغا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں گلی میں۔ اچھا یہ ہوئی نا بات ذرا پریشان تو ہوں ! شہلا خوش ہو کے بولی اب آئے گا مزہ! پڑوس سے خالہ جی آ گئیں خالہ جی محلے کی خبریں پہنچانے میں بڑی ماہر ہیں انہوں نے بتایا کہ پچھلے ہفتے بلو کی مرغیاں تارہ کے گھر جا گھسیں تو تارہ کی امی نے پولیس والوں کو فون کر دیا پولیس والے فوراً بلو کی امی کے گھر جا پہنچے اور انہیں ڈرایا دھمکایا آئندہ آپ کی مرغیاں ان کے گھر نہ جائیں انہیں روک کے رکھیں۔ خالہ جی تو چائے پی کر چلی گئیں شہلا نے ان کے جاتے ہی پولیس کو احتیاطاً فون کر دیا۔ باجی کتنا مزہ آئے گا رانی لوگ مرغے کو ڈھونڈنے ہمارے گھر آئیں۔ ارم نے کہا۔ ہاں آنا تو چاہیے۔ انہیں اپنے مرغے سے بہت پیار ہو گا۔ شہلا بولی۔ اگر وہ نہ آئے تو سارہ بولی۔ ایسا کرو کہ اگر وہ لوگ تھوڑی دیر تک اپنا مرغا نہ لینے آئے تو تم انہیں جا کر بتا آنا کہ مرغا ہمارے گھر میں ہے اور آ کر لے جائیں۔ امی نے رائے دی۔ اس طرح تو مزہ نہیں آئے گا۔ شہلا بولی ابھی مت جانا اچانک دروازے کی گھنٹی زور زور سے بجی ارم نے جا کر دیکھا تو رانی، اس کی امی، اس کا نوکر اور بھائی چار پانچ لوگ کھڑے تھے۔ کہاں ہے تمہاری بیگم صاحبہ تم لوگوں نے ہمارا مرغا چرایا ہے ارم ان کا غصہ دیکھ کر ڈر گئی وہ بھاگی ہوئی اندر آئی۔ باجی باجی وہ لوگ لڑنے کے لئے آ گئے ہیں وہ سب بہت غصے میں ہیں انہیں اندر بلاؤ۔ ہم بھی دیکھتے ہیں۔ آئیے آنٹی اندر آئیے شہلا نے مسکرا کر کہا’’ آپ لوگوں نے ہمارا مرغا پکڑا ہے‘‘ رانی بولی۔ وہ بڑے غصے میں تھی مرغا چرانا کوئی اچھی بات نہیں ہم دو گھنٹے سے مرغا ڈھونڈ رہے ہیں آپ لوگ چور ہیں۔ رانی کے نوکر نے کہا۔ ان کا غصہ دیکھ کر شہلا کو بھی غصہ آ گیا۔ ہم چور نہیں ہیں مگر ہم نے مرغا ضرور پکڑا ہے۔ یہ بتائیے کہ اگر یہ آپ کا مرغا ہے تو یہ ہمارے گھر کیا کرنے آتا ہے شہلا نے پوچھا۔ واہ یہ کیا بات ہے۔ مرغا چلنے پھرنے والا جانور ہے اس کو اب رسی سے باندھ کر تو نہیں رکھا جا سکتا۔ رانی کی امی بولیں۔ آپ نے مرغا پکڑا کیوں۔ کس کی اجازت سے پکڑا یہ تو چوری ہوئی۔ جی یہ کوئی ان کی خالہ جی کا گھر تو نہیں ہے نا کہ جہاں جی چاہے مرغے جا گھسیں وہ تو شکر کریں کہ ہم نے ابھی اس کی ٹانگیں نہیں توڑیں آپ کو کئی دفعہ بتایا کہ مرغے کو روکیں سارے پودے خراب کر دیئے آپ نے کوئی پرواہ نہ کی آپ کی بلا سے کسی کے پودے خراب ہوں تو ہو جائیں کیوں جی! ہمارے گھر کے اندر ہمارے پودے محفوظ نہ ہوں باہر سے آ کر جانور انہیں خراب کریں جی نہیں ایسا نہیں ہو گا سارہ بولی۔ رانی بولی آپ ہمارا مرغا دیں ورنہ ہم پولیس کو بلا لیں گے۔ اچھا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے! رانی کی امی نے کہا ہم انہیں مزہ چکھائیں گے انہوں نے ہمارا مرغا پکڑا ہے۔ اتنے میں پولیس آ گئی اور سب چپ ہو گئے۔ ہاں جی یہ کس کی مرغیاں ہیں جو پڑوس کی فصلیں خراب کرتی ہیں یہ سنتے ہی ان لوگوں کے چہرے فق ہو گئے۔ جی ان لوگوں کی مرغیاں ہیں اور الٹا یہ ہمیں الزام دے رہے ہیں سارہ بولی۔ رانی اور اس کی امی گھبرا گئیں۔ نہیں ہم لڑنے نہیں آئے ہم تو دعا سلام کرنے آئے تھے پڑوس میں یہ تو بہت ہی اچھے ہیں۔ پولیس والے نے کہا چلیں جی چلیں۔ آپ لوگوں کو تھانے چلنا پڑے گا وہیں سب تفتیش ہو گی۔ پولیس والے نے کہا کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے جانوروں کو کسی اور کے گھر جانے دے اور ان کا نقصان ہو۔ رانی کی امی بولیں ہمیں معاف کر دیں مرغا اب ادھر کبھی نہیں آئے گا۔ نہیں نہیں آپ لوگ بیٹھیں تشریف رکھیں۔ شہلا بولی نہیں نہیں بس ہمیں جانا ہے چلو چلو۔ ارے آنٹی مرغا تو لیتی جائیں۔ ارم نے ہنس کر کہا وہ تو مرغا چھوڑ چھاڑ کے بھاگ گئے۔ شہلا اور سارہ کو زور کی ہنسی آئی انکل آپ کا بہت شکریہ یہ لوگ تو ہم سے لڑنے آ گئے تھے۔ پولیس کانسٹیبل بولا ہم تو جی انصاف کی بات کرتے ہیں پولیس جانے کے بعد شہلا نے ارم کے ہاتھ مرغا بھجوا دیا اور پھر مرغا کبھی ادھر نہ آیا۔ ‘‘
٭٭٭
روشنی
شیر جان
’’ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ قانون کی پناہ میں ہوتے ہوئے میرے ہاتھ تم تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ساجے تم شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ سینتال کے ہاتھ قانون سے بھی لمبے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ وہ جب چاہے۔ ۔ ۔ جیسے چاہے اپنے شکار تک پہنچ سکتا ہے!۔ ۔ ۔ اس کے شکنجے سے بچ کر نکل جانا۔ ۔ ۔ ۔ آسان نہیں۔ ۔ ۔ ۔ بہت مشکل ہے ساجے!۔ ۔ ۔ بہت مشکل ہے!!!‘‘
مگر وہ صورت شخص شعلہ بار نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ’’ میرا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا ہے!۔ ۔ ۔ ۔ صرف اور صرف تمہاری وجہ سے۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم غداری نہ کرتے تو اسلحہ کی اتنی بڑی کھیپ کبھی بھی پکڑی نہ جاتی اور۔ ۔ ۔ ۔ آج میرے درندے گلی گلی موت تقسیم کر رہے ہوتے اور۔ ۔ ۔ ۔ میں اس ملک کے وفاداروں کو ایسا عبرت ناک سبق سکھاتا کہ ان کے آنے والی نسلیں یاد رکھتیں لیکن جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار تم ہو۔ ۔ ۔ ۔ میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔ ۔ ۔ ۔ ہرگز معاف نہیں کروں گا۔ ‘‘
’’ بب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بب۔ ۔ ۔ بب۔ ۔ ۔ باس!‘‘ ساجا ہکلاتے ہوئے بولا’’ میں مجبور تھا۔ ۔ ۔ ۔ باس۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے بے بس کر دیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ میرے دونوں بچے ان کے قبضے میں تھے۔ ‘‘
’’ تم مجھے تھے۔ ۔ ۔ یا نہیں۔ ۔ ۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ ۔ ۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ تم ہو!‘‘ سینتال نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا اور اگلے لمحے اس نے ریوالور کا رخ نیچے گرے ساجے کی طرف کر دیا۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ر۔ ۔ ۔ ۔ رحم۔ ۔ ۔ ۔ باس خدا کے لیے مجھ پر رحم کریں۔ ۔ ۔ ۔ مجھے ایک موقع۔ ۔ ۔ صرف ایک موقع اور دے دیں۔ ‘‘ ساجا گڑگڑایا۔
’’ آہاہا ہا ہا!‘‘ سینتال قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔ موقع۔ ۔ ۔ ۔ تو اسے دیا جاتا ہے جس نے انجانے میں غلطی کی ہو۔ ۔ ۔ ۔ اور تم نے تو سب کچھ جان بوجھ کر کیا ہے۔ ۔ ۔ تمہیں موت دے سکتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ موقع نہیں۔
سینتال کی انگلی کا دباؤ ٹریگر پر بڑھنے لگا اور پھر اس سے پہلے کہ گولی ریوالور سے نکل کر ساجے کا سینہ چیر ڈالتی۔ ۔ ۔ ۔
کمرہ اچانک تاریکی میں ڈوب گیا!
’’ افوہ! کیا مصیبت ہے!۔ ۔ ۔ ۔ اس کمبخت بجلی کو بھی اس وقت ہی جانا تھا۔ کس قدر تجسس بھرا سین تھا۔ ‘‘ عمیر کے لہجے میں غصہ تھا۔
’’ ارے چھوڑو سین وین کو۔ ۔ ۔ ۔ بتاؤ ماچس کہاں رکھی ہے؟‘‘ متین نے اندھیرے میں ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہوئے پوچھا۔
’’ متین بھائی! ماچس اور موم بتی دونوں ٹی وی کے نیچے رکھی ہیں۔ ‘‘ منو کی آواز سنائی دی۔
تمہارے خیال میں کیا سینتال نے ساجے کو مار دیا ہو گا؟متین نے موم بتی جلاتے ہوئے عمیر سے پوچھا۔
’’ مجھے کیا پتہ یار۔ ۔ ۔ ۔ ساجا مر گیا ہے یا زندہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو بجلی بند کرنے والوں کو پتہ ہو گا۔ ‘‘
’’ آؤ دیکھتے ہیں ‘‘ متین نے کہا
دونوں منو کو ڈھونڈتے ہوئے سٹڈی روم تک پہنچ گئے۔ کھڑکی سے اندر کا منظر دیکھنے کے بعد دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ سٹڈی روم کی لائٹ بند تھی اور منو موم بتی کی روشنی میں اندر بیٹھا کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ وہ دونوں غیر محسوس انداز میں دروازہ کھول کر دبے پاؤں چلتے ہوئے اندر آ گئے۔
’’ منے میاں ! جب گھر میں بجلی ہے تو موم بتی کی روشنی میں آنکھیں خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے تمہیں ‘‘ عمیر اس کے کان کے قریب منہ لے جا کر اچانک بولا۔
منو نے لکھتے لکھتے نظریں اٹھا کر عمیر کی طرف دیکھا اور پھر دوبارہ لکھنے میں مصروف ہو گیا۔
متین لائٹ آن کرنے کے ارادے سے سوئچ بورڈ کی طرف بڑھا ہی تھا کہ منو کی آواز کمرے میں گونجی۔
’’ متین بھائی لائٹ نہ جلائیں ‘‘
’’ کیوں بھئی؟‘‘ متین نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
’’ بس میں نے کہہ جو دیا کہ لائٹ نہ جلائیں۔ ‘‘
’’ اچھا تو آؤ پھر دوسرے کمرے میں چلتے ہیں۔ ‘‘ عمیر اٹھتے ہوئے بولا۔
’’ نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں ‘‘
’’ عجیب بے وقوف لڑکا ہے اندھیرے میں آنکھیں پھوڑنے پر تلا ہوا ہے۔ ‘‘
’’ ابھی پورے چالیس منٹ کا ڈرامہ باقی ہے۔ ۔ ۔ وہ دیکھ سامنے والے گھر میں بجلی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک فیز آف ہوا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو باقی کھیل دیکھ سکتے ہیں۔ ‘‘ متین نے دروازے سے باہر دیکھتے ہوئے انکشاف کیا۔
’’ وہ کیسے بھئی؟‘‘ عمیر کی آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی تھی۔
’’ ابھی بتاتا ہوں۔ ‘‘ متین نے کہا اور پھر تیزی سے سٹور روم کی طرف لپکا۔ ا ور پھر پانچ منٹ بعد وہ گھر جو کچھ دیر پہلے اندھیرے میں ڈوبا نظر آ رہا تھا ایک بار پھر روشنی سے جگمگانے لگا۔
’’ واہ یار کیا ترکیب نکالی ہے تم نے!۔ ۔ ۔ ۔ کس سے سیکھا ہے یہ ہنر؟‘‘ عمیر کے لہجے میں خوشی جھلک رہی تھی۔
’’ اپنے دوست عمران سے۔ ۔ ۔ جب بھی بجلی جاتی ہے تو وہ لوگ کنڈال ڈال کر کام چلاتے ہیں۔ ‘‘ متین ٹی وی کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’ ارے یہ منو کہاں چلا گیا؟‘‘ عمیر نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا
’’ اگر یہاں نہیں ہے تو ظاہر ہے دوسرے کمرے میں ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ خود ہی آ جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ چھوڑو اسے۔ ۔ ۔ ۔ آؤ ڈرامہ دیکھو۔ ‘‘ متین نے سکرین پر نظریں جمائے ہوئے جواب دیا۔
ڈرامہ ختم ہوا تو انہیں پھر منو کی یاد آ گئی۔ ’’ وہ منو آخر ہے کہاں ؟‘‘ عمیر بولا۔
’’ آپ مجھے بے وقوف کہہ سکتے ہیں اور میری آنکھوں پر اثر بھی پڑ سکتا ہے لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ لیکن کیا؟‘‘ متین اور عمیر دونوں نے ایک ساتھ پوچھا’’ لیکن یہ کہ چوری کی جگمگ جگمگ کرتی روشنی سے میری یہ چھوٹی سی موم بتی کہیں بہتر ہے وہ عقل مندی کس کام کی جو اپنے گھر کو روشن کرنے کے لیے اپنے ہی ملک کو اندھیروں میں جھونک دے۔ ‘‘
کمرے کی فضا میں سناٹا چھا گیا تھا متین اور عمیر دونوں کی نظریں موم بتی کے ننھے سے شعلے پر جمی ہوئی تھیں۔ انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ننھا سا شعلہ دور تک روشنی پھیلا رہا ہے اور اس روشنی میں انہیں اپنا چھوٹا بھائی بھی بڑا نظر آ رہا تھا۔ بہت بڑا۔
٭٭٭
رحم
محمد خلیل قریشی
سردیوں کی ٹھٹھرتی رات میں ہوا اس کے چہرے پر سوئیوں کی طرح چبھ رہی تھی۔ موسم اتنا سرد تھا کہ اسے اپنا چہرہ برف ہوتا ہوا معلوم ہوا۔ رات کے آٹھ بجے کے قریب عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا گھر کو لوٹ رہا تھا۔ مسجد سے پچاس ساٹھ قدم کے فاصلے پر دو تین گلیاں چھوڑ کر جیسے ہی وہ ایک چوراہے پر پہنچا اس نے کسی کے کراہنے کی نہایت مدھم آوازیں سنیں۔ وہم جان کر اس نے اپنے سر کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور رکتے قدموں کو دوبارہ تیز کر دیا۔ لیکن وہ تین چار قدم بھی آگے نہ رکھ پایا تھا کہ کراہنے کی آوازیں دوبارہ اس کے کانوں سے ٹکرائیں ان کراہوں میں رگوں میں جما دینے والی سردی کی وجہ سے کپکپاہٹ بھی موجود تھی۔ یہ دردناک آوازیں سن کر اس کا اپنا جسم کانپ اٹھا۔ اسے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی اسے مدد کیلئے منت سے بلا رہا ہو۔ اس کے قدم وہیں رک گئے۔ کراہیں اسے آگے جانے سے روک رہی تھیں اور اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔
اسی لمحے اسے اپنے گرم گرم لحاف کا خیال آیا اور ساتھ ہی اسے ایسا لگا گویا اسے کوئی ان دیکھا خوف روک رہا ہو اور کہہ رہا ہو۔
میاں ایسی سردی میں کیوں اپنے بستر کی گرمی اور میٹھی نیند کا مزا برباد کرتے ہو؟ تمہیں کسی کی مدد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ رہ گئی بات نیکی کی تو اس بارے میں بھی تمہیں پریشان ہونے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ تمہاری گزشتہ نمازیں اور دن رات کی ریاضت تمہیں کافی ہیں۔
چنانچہ اس نے گھر کی طرف جانے کیلئے اپنے پاؤں کو اٹھانا چاہا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ آگے ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکے گا۔ صدیاں گزر جائیں گی مگر وہ یہیں کھڑا رہے گا۔ کسی ان دیکھی، ان جانی قوت نے اسے آگے جانے سے روک دیا تھا۔
کراہنے کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔ آخر کراہوں کی مضبوط رسیوں نے اسے جکڑ کر اپنی طرف کھینچ ہی لیا۔
اس نے سوچا۔
سب کام جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کیلئے تھوڑا ہی کیے جاتے ہیں خدا کی رضا کے حصول کا جذبہ بھی تو موجود ہونا چاہیے۔ اچھے کام کو صرف اچھا سمجھ کر ہی کیا جائے۔
اس نے محسوس کیا جیسے اس کا بوجھ کسی اور نے اٹھا لیا ہو۔ اسی لیے اس نے خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ تب اس نے آواز کی سمت میں چلنا شروع کر دیا۔
دائیں ہاتھ کی گلی میں دس قدم دور نالی کے ساتھ اس نے بلب کی روشنی میں تین ننھے اور نالی کے پانی میں بھیگے بلی کے بچوں کو دیکھا وہ ساتھ کی ٹوٹی ہوئی دیوار میں اینٹوں کے ساتھ لگے سردی سے کانپ رہے تھے۔
اسے ان بچوں کی اس حالت پر بہت رحم آیا۔ اور اس نے فوری طور پر ان بچوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا، چنانچہ اس نے ان تینوں بچوں کو جو گندے پانی میں لتھڑے ہوئے تھے اٹھایا اور اپنی اس نئی اور گرم چادر میں لپیٹ لیا جو اس کے ابا جان بڑے اہتمام سے اس کے لیے لائے تھے۔ اس نے اس وقت نئی چادر کی بھی کروائی پرواہ نہ کی۔ بلی کے بچے گرم چادر میں آ کر پر سکون ہو گئے تھے۔ وہ خود ٹھٹھرتا ہوا گھر کی جانب تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔
گھر پہنچ کر اس نے ان تینوں کو آتشدان کے قریب بٹھا دیا۔ اور پیار سے ان کو دیکھنے لگا۔ پھر کچھ سوچ کر وہ اٹھا اور کچن سے ان کے لیے پیالے میں دودھ بھر کر لے آیا۔ اس نے جیسے ہی یہ دودھ ان کے سامنے رکھا وہ تینوں اسے جلدی جلدی پینے لگے۔
جب وہ بچے پچ پچ کر کے دودھ پی رہے تھے تو اسے ایسا لگا جیسے کوئی کہہ رہا ہو۔
’’ رحم کرو، اللہ رحم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘
٭٭٭
پھول
محمد ادریس
راشد کو غصہ بہت آتا تھا۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو جایا کرتا تھا۔ کسی کی مذاق میں کہی ہوئی بات بھی اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنا ذہن بالکل استعمال نہیں کرتا تھا۔ اس کو کوئی بھی آسانی سے کسی کے بھی خلاف بہکا سکتا تھا۔ وہ ہر ایک سے لڑنے کو ہر وقت تیار رہتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے دوست بہت کم تھے۔ مگر حامد جو ٹھنڈے مزاج کا لڑکا تھا، اس نے راشد سے دوستی نہیں توڑی تھی۔ حامد کو معلوم تھا کہ راشد دل کا برا نہیں، مگر اسے اپنے غصے پر قابو نہیں ہے۔ وہ اکثر اسے سمجھاتا رہتا تھا کہ تم غصہ نہ کیا کرو، غصہ اسلام میں حرام ہے۔ اپنا ذہن استعمال کیا کرو۔ تم کئی ٹیلی ویژن نہیں ہو جس کا ریموٹ کنٹرول دوسرے کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ تم بہکاوے میں جلدی آ جاتے ہو۔
راشد نے کہا: مگر میں کیا کروں ؟ مجھ سے بالکل برداشت نہیں ہوتا اور خاص طور پر غلط بات تو میں برداشت کر ہی نہیں سکتا۔ سب میرے دبلے ہونے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لمبو کہتے ہیں تو مجھے غصہ آ جاتا ہے۔
’’ تم طاہر اور امین کی باتوں میں کیوں آ جاتے ہو؟ وہ دونوں تو لڑائی جھگڑا کروا کے خوش ہوتے ہیں۔ ‘‘ راشد نے کہا
حامد نے سمجھایا:
’’ نہیں نہیں، وہ تمہیں بہکاتے ہیں۔ یقین کرو تمہارے پیچھے کوئی تمہیں کچھ نہیں کہتا۔ کسی کو اتنی فرصت نہیں کہ تمہارے خلاف بات کرے۔ طاہر اور امین تو تمہیں دوسروں سے لڑوا کر تماشا دیکھتے ہیں۔ تم کو چاہیے کہ تم ان کی باتوں میں نہ آؤ۔ ‘‘
اپنا ذہن استعمال کرو۔ تم کوئی کھلونا نہیں ہو۔ جس کی چابی بھری اور وہ چلنے لگا۔
مگر راشد چونکہ اپنا ذہن استعمال نہیں کرتا تھا۔ اسے پھر طاہر اور امین نے بہکایا:
’’ دیکھو زبیر تمہیں لمبو کہتا ہے۔ اور کل کس طرح گا رہا تھا اونٹ رے اونٹ! تیری کون سی کل سیدھی۔ ‘‘ یہ اکثر تم یہ فقرے کستا ہے۔ تم ایک بار اسے مزہ چکھا دو تاکہ آئندہ تمہیں چڑانے کی ہمت نہ کر سکے۔
’’ میں لڑتا تو ہوں، مگر ہا تھا پائی نہیں کر سکتا۔ وہ بہت طاقتور لڑکا ہے۔ میں اس کا کس طرح مقابلہ کر سکتا ہوں ؟ وہ بہت موٹا بھی ہے۔ ‘‘ راشد نے کہا۔
’’ ہا تھا پائی کی کیا ضرورت ہے؟ دور سے ہی ایک پتھر اٹھاؤ اور دے مارو‘‘ طاہر اور مین نے مشورہ دیا۔
’’ ہاں، یہ ٹھیک ہے کل میں ایسا ہی کروں گا۔ اب وہ مجھے کچھ کہہ کر دیکھے۔ ‘‘ راشد نے بات مانتے ہوئے کہا۔
دوسرے دن راشد کہیں جا رہا تھا کہ زبیر جو اپنی دکان پر بیٹھا تھا اسے دیکھتے ہی بولا:
’’ ہاں بھئی کھمبے! کہاں چل دیئے؟ کیا کہیں بجلی کی تاریں باندھنی ہیں جس کے لیے تمہاری ضرورت پڑ گئی؟ تم تو چلتے پھرتے کھمبے ہو۔ ‘‘
راشد تو پہلے ہی بھرا ہوا تھا۔ اٹھا کر ایک وزنی پتھر دے مارا جو نشانے پر بیٹھا اور زبیر کا سر پھٹ گیا۔ یہ حرکت کر کے راشد وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور سیدھا اپنے گھر پہنچا اور کمرے میں جا کر دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ پتا نہیں کیا ہوا ہو گا؟ اس وقت کوئی تھا بھی نہیں۔ اس کا خون تو کافی بہہ گیا ہو گا۔ راشد دل کا برا نہیں تھا۔ اس نے جو کچھ بھی کیا غصے میں کیا، اب اس کو بہت افسوس ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں دستک ہوئی وہ ڈر گیا کہ پولیس تو نہیں آ گئی کہیں۔ اس نے کھڑکی سے دیکھا حامد کھڑا ہوا تھا اس نے دروازہ کھول دیا۔
’’ یہ کیا کیا تم نے؟ بنا دیا اپنا تماشا پورے محلے والے تمہارے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’ وہ۔ ۔ ۔ ۔ وہ زبیر کا زیادہ نقصان تو نہیں ہوا۔ ‘‘ راشد نے حامد کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’ چھوڑو، جاؤ جا کر ان ہی کی بات مانو جن کی باتیں تمہیں اچھی لگتیں ہیں اور جو تمہارے خیال میں تمہارے ہمدرد ہیں۔ ‘‘ حامد ے راشد کا ہاتھ جھٹکا۔
’’ مہربانی کر کے مجھے بتاؤ۔ زبیر کا خون زیادہ تو نہیں بہہ گیا۔ ‘‘
حامد نے اسے دیکھا۔ وہ بالکل معصوم نظر آ رہا تھا۔ ’’ کیوں اپنا ذہن استعمال نہیں کرتے ہو؟ زبیر کو وقت پر طبی امداد مل گئی تھی۔ اب وہ بالکل ٹھیک ہے۔ ‘‘
شکر ہے میرے اللہ! راشد نے سچے دل سے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اللہ نے اسے بڑی مصیبت سے بچا لیا تھا۔ اگر زبیر کا زیادہ نقصان ہو جاتا تو راشد کی مصیبت ہی آ جاتی۔ وہ دل سے اس کا نقصان نہیں چاہتا تھا۔ اسے طاہر اور امین نے بہکا دیا تھا۔ وہ حامد کو ساتھ لے کر زبیر کی عیادت کرنے پھول لے کر گیا۔
زبیر اس وقت سو رہا تھا۔ اس کے والدین بہت خوشی سے ملے۔
’’ انکل! میں بہت شرمندہ ہوں ‘‘ راشد نے کہا
’’ بیٹے! تمہارا قصور بھی نہیں ہے۔ ہمارے بیٹے کی عادت ہی کچھ ایسی ہے اس کے ساتھ ایسا ایک نہ ایک دن ہونا تھا۔ کسی کی چڑ بنانا بہت بری بات ہوتی ہے۔ ‘‘ اتنے میں زبیر کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے راشد کو دیکھ کر منہ پھیر لیا اور غصہ سے کہا:
’’ اس نے میرا سر پھاڑ دیا تھا۔ میں اس سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا۔ ‘‘
’’ اور تم جو اس کی چڑ بنا رہے تھے؟ تمہیں اس حرکت کی سزا ملی ہے اور راشد کو دیکھو، وہ پھر بھی شرمندہ ہے، تمہاری عیادت کو آیا ہے۔ پھولوں کا تحفہ لے کر جو محبت کا اظہار ہوتے ہیں۔ ‘‘
’’ اچھا خود ہی مار کر خود ہی سہلانے آیا ہے۔ ‘‘ زبیر نے کہا
’’ ہاں ! ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں تم ایک سمجھدار لڑکے ہو۔ پھو ل لانے کا مطلب خود سمجھ جاؤ۔ یہ تم سے دوستی کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘ زبیر کے والد نے کہا۔
’’ نہیں بھئی، مجھے اس کے غصے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ابھی تو صرف سر پھاڑا ہے، آگے نہ جانے اس کا غصہ کیا رنگ دکھائے؟‘‘ زبیر نے کہا۔
’’ غصہ میں نے چھوڑ دیا۔ میں حامد کی باتوں پر عمل کروں گا۔ ‘‘ راشد نے کہا۔
’’ تو ٹھیک ہے، میں نے بھی دشمنی چھوڑ دی‘‘ اب ہم دونوں مل کر طاہر اور امین سے بدلا لیں گے وہ دوسروں کو لڑواتے ہیں۔ زبیر نے راشد سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
’’ کیا تم لوگوں نے اس لیے ہاتھ ملائے ہیں کہ بدلہ لو۔ بدلا لینا بری بات ہے۔ ‘‘
والد صاحب نے کہا
’’ نہیں، ہم مذاق کر رہے تھے۔ میرا مطلب ہے کہ ہم پھول دیں گے اور کہیں گے کہ پھولوں جیسے بن جاؤ، دنیا کو مہکاؤ، کانٹوں سے زخمی نہ کرو۔ ‘‘ اور پھر سب ہنسنے لگے۔
٭٭٭
پڑوسی کی کہانی
اقراء عبدالعزیز
ظہیر کمرے میں بیٹھا ہوا بڑے انہماک سے اپنا ہوم ورک کرنے میں مصروف تھا کہ دروازے پر ہونے والی دستک نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ وہ جھنجھلا کر چپل پہنے بغیر اٹھا اور بے دلی سے جا کر دروازہ کھولا۔ سامنے والے گھرکا پڑوسی عارف ہاتھ میں ایک پیالہ لیے کھڑا تھا۔ آپ اپنے فریج میں سے کچھ برف دے دیں بڑی مہربانی ہو گی۔ ظہیر بیٹے کون آیا ہے دروازے پر۔ ظہیر نے بگڑے ہوئے لہجے میں کہا عارف آیا ہے برف مانگنے اس کے یہاں کچھ مہمان آ گئے ہیں۔ تو پھر سوچنے کی کیا بات ہے برف دے دو، ابھی تو فریج میں کافی برف ہو گی۔ ظہیر پیر پٹختا ہوا فریج تک آیا اور اس میں سے برف نکال کر عارف کے پیالے میں ڈال دی۔ عارف چلا گیا تو اس کی امی نے پھر سمجھاتے ہوئے کہا بیٹا کیا بات ہے کوئی بھی پڑوسی تمہارے یہاں کچھ لینے آئے تو تم جھنجھلاہٹ کا شکار کیوں ہو جاتے ہو۔ کیا تم نے رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان نہیں پڑھا کہ وہ انسان ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہے جس کو ایسا ماحول میسر ہو جس میں اس سے محبت اور ہمدردی سے پیش آنے والے لوگ ہوں۔ بیٹے تم کیوں برے پڑوسیوں کی طرح پیش آنا چاہتے ہو۔ اس سے نہ صرف پڑوسی کو دکھ پہنچے گا بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ بھی ناراض ہوں گے۔ ظہیر نے امی کی باتیں سنیں مگر وہ اس کے دل و دماغ میں سما نہ سکیں۔
وہ بولا کیا اچھا اور با اخلاق پڑوسی ہونا صرف ہمارا ہی فرض ہے۔ محلے میں اور بھی تو لوگ رہتے ہیں مگر زیادہ تر ہمارے ہی یہاں سے لوگ اپنی ضرورت کی چیزیں مانگنے آتے ہیں۔ نہیں بیٹے ایسی باتیں نہیں سوچتے تمہیں معلوم ہے کہ اس کے ابو یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔ تمہارے ابو کو ماہانہ تنخواہ ملتی ہے تو وہ سارا سودا سلف ایک ساتھ لا دیتے ہیں۔ اگر ان کی طرح ہماری بھی یومیہ آمدنی ہوتی تو تم بھی اسی طرح گزارہ کرتے۔
کمرے میں پہنچا تو وہ اپنی مسہری پر آنکھیں بند کیے خاموش لیٹی تھیں۔ الماری میں سے بام کی شیشی نکال کر وہ ان کے سرہانے بیٹھ گیا اور دھیرے دھیرے بام ملنے لگا، بام ملتے ہوئے اس نے محسوس کیا جیسے امی کو بخار ہے اور سوچنے لگا کہ اب کیا کرے ابو تو رات نو بجے تک گھر آئیں گے، کہیں امی کی طبیعت اور زیادہ خراب نہ ہو جائے۔ امی تو اس وقت جھاڑو دے کر کچن کے کاموں میں مصروف ہو جاتی تھیں۔ اس نے سوچا ذیشان سے آلو منگا کر وہ بھرتہ تیار کرے گا۔ امی نے اسے اتنا تو سکھا ہی دیا تھا اور روٹی تندور سے آ جائے گی۔ یہ خیال آتے ہی وہ کمرے سے باہر نکل آیا اور ذیشان کو آلو لینے بھیج کر خود صحن میں جھاڑو دینے لگا۔ وہ نصف صحن تک ہی جھاڑو دے پایا تھا کہ بغیر دستک کے دروازہ کھلا۔ اس نے سوچا ذیشان آلو لے آیا ہو گا مگر نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے عارف کی امی کھڑی تھیں اور اس سے قینچی طلب کر رہی تھیں۔ انہوں نے پوچھا امی کہاں ہیں۔ کہیں گئی ہوئی ہیں کیا۔ ظہیر نے کہا نہیں ان کی طبیعت خراب ہے۔ عارف کی امی سنتے ہی قینچی لینا بھول کر سیدھی امی کے کمرے میں چلی گئیں۔ ارے شمع کیا ہوا کیسی طبیعت گئیں۔ پھر انہوں نے بڑی آہستگی سے امی کو دیکھا ارے تمہیں تو سخت بخار ہے۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر وہ گھر چلی گئیں اور عارف کو ڈاکٹر کے پا س بھیج دیا۔
ظہیر بیٹے میں شام کا کھانا تیار کر دوں۔ آپ پہلے ہی مجھے بتا دیتے تو میں اسی وقت یہاں آ جاتی۔ یہ سن کر ظہیر کی سمجھ میں اپنی امی کی بات آ گئی کہ پڑوسیوں کے ساتھ کیوں اچھا سلوک کرنا چاہیے۔
مشکل وقت میں ان کی پڑوسن نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ظہیر نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ اب وہ تمام پڑوسیوں کو اپنا کنبہ سمجھ کر ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا اور ضرورت پڑنے پر ان کی مدد کرے گا۔
٭٭٭
کوے کی چوہے کو نصیحت
حافظ عمیس احمد
ایک دفعہ کوے نے چوہے سے کہا غیر قبیلے کے کسی شخص کو جس کا کردار تمہیں معلوم نہ ہو اپنے گھر میں جگہ نہیں دینی چاہیے۔ کیونکہ ایک بار بلی نے گدھ کو مروا دیا تھا۔
ایسا کیونکر ہوا؟ چوہے نے حیرانی سے پوچھا
جواب میں کوے نے یہ کہانی سنائی:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دریا کے کنارے ایک بہت قدیم، بہت بلند اور گھنا پیپل کا پیڑ تھا۔ اس پر ایک گدھ کے کنبے کی رہائش تھی۔ یہ پیپل ایسی موزوں جگہ پر تھا کہ دوسرے ننھے ننھے پرندوں نے بھی اس پر بسیرے بنا رکھے تھے دن بھر یہ چہچہاتے۔ بھوک لگتی تو آس پاس کے درختوں سے پھل کھاتے اور پیاس لگتی تو دریا کا پانی پیتے تھے۔
گدھ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دور دور تک مردہ جانوروں کی تلاش میں جاتا اور گوشت لا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ اس طرح پرندے اور یہ گدھ بڑے مزے کی زندگی بسر کر رہے تھے۔
ایک بلی کا نام کن کتری تھا۔ وہ چپکے سے ادھر آ نکلی اور پاس ہی ایک درخت کے کھوکھلے تنے میں چھپ گئی اور پرندوں کے ننھے بچوں کی تاک میں رہنے لگی۔ جب کن کتری کو موقع ملتا وہ بڑے پیپل کے نزدیک آتی اور بے خبر ننھے پرندوں کو پکڑ کر کھا جاتی۔ اس طرح پیڑ کے رہنے والے پرندوں کے سب بچے بلی سے ڈرنے لگے۔ ایک دن جب کن کتری پیپل کے پاس آئی تو گدھ موجود تھا۔ بلی کو دیکھ کر بچوں نے شور مچایا۔ گدھ بڑی رعب دارانہ آواز میں بولا اس طرف کون آ رہا ہے۔
یہ سن کر کن کتری بہت گھبرائی اور جی میں کہنے لگی اب میری خیر نہیں۔ میں اس دشمن سے بھاگ نہیں سکتی۔ گدھ مجھے دیکھ چکا ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ میں جی کڑا کر کے اس کے پاس چلی جاؤں۔ دل میں یہ فیصلہ کر کے بلی آگے بڑھی اور کہا۔
’’ عالی جاہ! میں آپ کی باندی‘‘
’’ کون ہو تم؟‘‘ گدھ نے پوچھا
’’ حضور مجھ حقیر کو بلی کہتے ہیں ‘‘ کن کتری نے جواب دیا۔
’’ اگر جان کی خیر چاہتی ہو تو فوراً یہاں سے چلی جاؤ۔ ‘‘
میرے حضور! اس حقیر باندی کی ایک عرض تو سن لیجئے ویسے آپ مالک ہیں اگر چاہیں تو میری کھال بھی نوچ سکتے ہیں۔ بلی نے نہایت مسکین صورت بنا کر جواب دیا۔
’’ کہو! کیا کہنا چاہتی ہو! گدھ نے پوچھا۔ ‘‘
عالی جناب! یہ باندی دریا کے کنارے رہتی ہے۔ ہر روز اس میں غسل کرتی ہے اور حضور! میں نے ہر قسم کا گوشت بلکہ مچھلی بھی کھانا چھوڑ دی ہے۔ ہر وقت اللہ سے لو لگائے پڑی رہتی ہوں۔ یہاں اس لیے حاضر ہوئی تھی کہ حضور عقل اور تجربے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اس لیے آپ سے انصاف کی امید تھی مگر آپ بھی مجھ اجنبی کو بلا قصور مارنا چاہتے ہیں۔
گدھ نے کہا:ـ بلیاں نرم گوشت کھانے کی شوق ہوتی ہیں اس لیے انہیں نازک پرندوں کے درمیان رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
یہ سن کر بلی نے اپنے کان پکڑے اور سر زمین پر ٹیک کر بولی حضور والا! پجارن بن چکی ہوں۔ اس لیے گوشت کھانا چھوڑ چکی ہوں۔ حضور مجھ پر یقین کیجئے میں سچ کہتی ہوں بالکل سچ۔ گدھ کن کتری کی باتوں میں آ گیا اور کن کتری پیپل کے کھوکھلے تنے میں رہنے لگی۔
چند دنوں کے بعد موقع دیکھ کر بلی نے پرندوں کے بچوں کو گھونسلوں سے دبوچا اور پیپل سے کافی دور جا کر انہیں کھا گئی۔
اس شام جب پرندے دریا کی سیر سے واپس اپنے بسیروں پر آئے اور انہیں اپنے بچوں کا کہیں نام و نشان نہ ملا تو انہوں نے شور سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ہر پرندہ یہی کہتا کہ گدھ کہاں تھا اور اس وقت کیا کر رہا تھا کن کتری نے جب یہ سنا تو چپکے سے کھسک گئی۔
پرندے پیپل کے ارد گرد چکر لگاتے رہے۔ آخر انہوں نے درخت سے فاصلے پر اپنے بچوں کی ہڈیاں اور پر دیکھے، ہر پرندے نے اپنے جی میں سوچا کہ ان کی غیر حاضری میں گدھ ہی ان کے بچوں کو کھا جاتا ہے۔ اس لیے سب پرندوں نے فیصلہ کیا کہ گدھ کا کام تمام کر دینا چاہیے۔
یہ فیصلہ کر کے سب پرندوں نے اونگھتے ہوئے گدھ پر ایک دم ہلہ بول دیا اور منٹوں میں اسے جان سے مار دیا۔
اس لیے میں کہتا ہوں کہ غیر قبیلے کے کسی شخص پر جس کے متعلق تم کچھ بھی نہ جانتے ہو اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ اور نہ ہی اسے بغیر سوچے سمجھے اپنے گھروں میں جگہ دینی چاہیے۔
٭٭٭
ماخذ:
http://magifa.com/detail/1896156/article/3
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید