فہرست مضامین
چھلاوہ اور دوسری کہانیاں
انیس احمد
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
چھلاوہ
(زیر تحریر ناول سے اقتباس)
نکے کے دادا کا گھر ترائی میں تقریباً ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک بہت پرانے شیو مندر کے پاس تھا۔ جس سے ذرا ہٹ کر مرگھٹ تھا جہاں کبھی ہندوؤں کی چتائیں جلانے کیلئے لائی جاتی تھیں۔ یہ جگہہ دریا سے کوئی بیس فٹ کی بلندی پر ہو گی اور یہاں سے ایک سیدھا راستہ نیچے دریا کی طرف اترتا تھا۔
بستی والوں کا خیال تھا یہاں بد روحیں اور بھوت پریت رہتے ہیں سو اس کے قریب کوئی دن میں بھی نہ پھٹکتا۔ یہاں سے دائیں جانب ذرا آگے ایک چھوٹا سا قبرستان تھا جس سے ملحقہ زمین پر قبضہ کر کے قریشی صاحب نے اسے اب اپنے کھیتوں میں شامل کر لیا تھا۔ بستی کے کئی معتبر لوگ حلفیہ بتاتے تھے کہ دوپہر کے وقت یہاں سے گزرتے ہوئے انہیں کئی مرتبہ جنوں کی موجودگی کا احساس ہوا ہے، اور رات کو تو یہاں جشن کا سماں ہوتا ہے اور چڑیلیں بال کھولے غل غپاڑہ کر رہی ہوتی ہیں۔
خود فضلو کمہار نے تو مولوی صاحب کی موجودگی میں قسمیں کھا کر بتایا تھا کہ جیٹھ کے مہینے میں ایک دن دوپہر کو وہ گدھے پر اپنے برتن لاد کر بیچنے کیلئے شہر جا رہا تھا کہ مر گھٹ کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے محسوس ہوا جیسے اچانک اس کے قدم من من کے ہو گئے ہوں۔ گدھا بھی ڈولنے لگا تھا جیسے اس پر بہت زیادہ بوجھ لاد دیا گیا ہو۔ حالانکہ ڈھیری عام وزن سے بھی کم تھی۔ اچانک کسی بچے کے رونے کی آواز آنے لگی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چھوٹا سا بچہ مجھ سے کوئی دس قدم آگے راستے میں بیٹھا رو رہا ہے۔ میں سمجھا شاید کوئی عورت اسے یہاں بٹھا کر حاجت کیلئے کسی جھاڑی وغیرہ کے پیچھے گئی ہے۔ میں اسے بہلانے کیلئے آگے بڑھا تو بچہ غائب۔ میں بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا قصہ ہے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بچے کے رونے کی آواز پیچھے سے آنے لگی۔ مڑ کر دیکھا تو وہی بچہ دس قدم پیچھے بیٹھا رو رہو تھا اور آنکھیں اسکی ایسی تھیں جیسے تندور کا منہ۔
اب میں آگے جاؤں تو بچہ پیچھے۔ پیچھے آؤں تو بچہ آگے۔ میں سمجھ گیا آج نہیں بچتا۔ بس فوراً آیت الکرسی پڑھنے لگا۔ ادھر کھوتا تھا کہ رسہ چھڑا کر بھاگ جانا چاہتا تھا۔ میں نے مدد کیلئے لوگوں کو بلانا چاہا تو منہ سے آواز ہی نہ نکلے۔ اتنی دیر میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہی بچہ مرگھٹ کے کنوئیں کے پاس کھڑے بیری کے درخت پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہے اور اسکی ٹانگیں آہستہ آہستہ لمبی ہوتی ہوتی زمین کی طرف آ رہی ہیں۔ اب تو مجھے پورا یقین ہو گیا کہ آخری وقت آ گیا ہے اور آج یہ جن مجھے چھوڑے گا نہیں۔
ایسے میں مولوی صاحب اسکی بات کاٹتے ہوئے بولے:
اوئے کودن ! جن نہیں تھا وہ۔ جن تو عام طور سے مسلمان ہوتے ہیں۔ بھوت تھا بھوت! کسی کراڑ کی بھٹکتی ہوئی بد روح ہو گی۔ تو انکے علاقے میں جو چلا گیا تھا۔ دیکھتا نہیں اس علاقے سے گزرتے ہوئے کیسی گندی سی بو آتی ہے جیسے گوشت جل رہا ہو۔
فضلو کمہار کا بہنوئی دینو، اس موقع پر اپنے خدشے کا اظہار کیئے بنا نہ رہ سکا۔ منہ سکیڑتے ہوئے بولا:
میرے خیال میں تو چھلاوہ تھا۔ یہ ایسے ہی کرتب دکھا دکھا کر پریشان کرتے ہیں انسانوں کو۔
فضلو کمہار اپنے بہنوئی پر برہم ہوتے ہوئے بولا:
اوئے جاہل! عالم مولوی صاحب ہیں یا تو۔ تجھے کیا پتہ ان باتوں کا۔ کتاب قاعدہ تو نے ایک نہیں پڑھا۔ ساری عمر مٹی گوندھ گوندھ کر تیرا اپنا دماغ مٹی ہو گیا ہے اور بات کاٹتا ہے تو مولوی صاحب کی۔ اچھا تو اُڑا لے مذاق جتنا چاہے۔ پر تجھے پتہ نہیں مذاق اُڑانے والوں سے بدلہ بھی لیتی ہیں یہ بد روحیں۔ ایک دن تجھے تیرا اپنا کھوتا بھی بھوت دکھائی دے گا۔ تب تجھے جن بھوت کا فرق خود ہی سمجھ آ جائے گا۔ کیوں مولوی صاحب! ٹھیک کہا میں نے!
مولوی صاحب جو اپنی بات رد کیئے جانے پر پیچ و تاب کھانے لگے تھے چہرے پر متانت طاری کرتے ہوئے بولے:
اللہ کی شان ہے بھائی۔ اب لوٹے گھڑے بنانے والے بھی علم کی باتیں کرنے لگے۔ کل کو نماز بھی پڑھانے لگیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ کمہار کا بچہ مسجد میں کم کم ہی نظر آتا ہے۔ شاید وقت نہیں ملتا اسے دین کے کاموں کیلئے۔ پھر کہتے ہیں کہ جی ہم مسلمان ہیں۔ امداد علی سے بھی اسکی یاری ہے۔ اسکا مسلک تو سب کو معلوم ہے۔ فتوے بھی آ چکے ہیں لیکن بھائی یہ تواسکی مجلسوں میں بڑے شوق سے جاتا ہے۔ ا ور کون نہیں جانتا کہ جب یہ برتن لے کر شہر جاتا ہے تو راستے میں وہاں چکلے میں ضرور رکتا ہے۔ اب کوئی پوچھے بھئی تیرا وہاں کیا کام ملعون۔
مولوی صاحب نے ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بات ختم کی تو سارا مجمع سر جھکائے نادم کھڑے دینو پر لعن طعن کرنے لگا۔
فضلو کمہار اپنی بات کا سرا پکڑتے ہوئے بولا:
تو بس سائیں جب کوئی اور چارہ دکھائی نہ دیا تو میں ہمت کر کے بولا:
دیکھ بھئی ! تو جو کوئی بھی ہے، اگر مجھے مارنا چاہتا ہے تو مار دے یا پھر میرا راستہ چھوڑ دے اور مجھے آگے جانے دے۔ بس میرا یہ کہنا تھا کہ وہ بچہ بڑی مکروہ سی ہنسی ہنسنے لگا اور بھاری مردانہ آواز میں بولا:
یہ ہمارا علاقہ ہے۔ ادھر ہمارے بچے کھیلتے ہیں تو ادھر سے گزرا کیوں۔ تجھے پتہ ہے تیرے کھوتے نے چلتے چلتے ہمارے بچے کو لات مار دی ہے۔
میں ہمت کر کے پھر بولا:
سائیں اس دفعہ تو معافی دے دو۔ آئندہ اس راستے سے کبھی نہیں گزروں گا۔
وہ پھر بھاری آواز میں ہنستے ہوئے بولا:
چل تجھے تو اس وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں کہ تو بستی والوں کو جا کر بتا دے کہ اس علاقے میں کوئی نہ آئے۔ پر تیرے کھوتے کو ہم نہیں چھوڑیں گے۔
بس جی اسکا یہ کہنا تھا کہ درخت پر بیٹھا لمبی ٹانگوں والا بچہ غائب۔ پاؤں بھی میرے ہلکے ہو گئے اور میں شہر جانے کی بجائے واپس گھر لوٹ آیا۔ گھر پہنچ کر مجھے تو بخار چڑھ گیا لیکن کھوتے کو نجانے کیا ہوا کہ زمین پر گر کر پسلیٹے کھانے لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہیں مر گیا۔
بس جی وہ دن اور آج کا دن۔ میں تو پھر کبھی ادھر گیا نہیں۔
٭٭٭
” میں تو مر گئی ہوں "
۔ انکل آپ کا نام کیا ہے۔
۔ میرا نام رضوان ہے بیٹے۔ اور تمہارا۔
۔ میں ارم ہوں۔ اور یہ میرا بھائی ہے۔ ۔ خُرم۔
۔ تم اسکی بڑی بہن ہو ناں!
۔ جی انکل۔ میں چھ سال کی ہوں اور یہ پِدو ابھی چار سال کا ہے۔
کل اسکی برتھ ڈے بھی ہے۔ ۔
۔ کوئی گفٹ خریدا تم نے اس کے لئے۔
۔ نہیں ! آج جاؤں گی لینے امی کے ساتھ مارکیٹ۔
۔ کیا لو گی۔
۔ میں آپ کے کان میں بتاتی ہوں۔ سرپرائز دینا ہے ناں۔ نہیں تو یہ سن لے گا۔ بڑا چالاک ہے۔
ہیلی کاپٹر لوں گی۔ ریموٹ کنٹرول والا۔
۔ واؤ ! یہ چلا لے گا۔ کیا خیال ہے۔
۔ میں سکھا دوں گی ناں اس کو۔ مجھے تو آتا ہے چلانا۔ میں تو کمپیوٹر گیمز بھی کھیل سکتی ہوں۔
۔ ویری گڈ۔ اچھا یہ بتاؤ اب کونسی کلاس میں ہو تم۔
۔ ابھی تو کلاس ٹُو میں ہوں۔ روزانہ سٹار ملتے ہیں مجھے۔ ہاں جی ! ہوم ورک پر بھی۔
اور انکل رضوان میں آپ کو بتاؤں پچھلے سال میں فرسٹ بھی آئی تھی کلاس میں۔
۔ واہ بھئی واہ ! شاباش۔ تم تو بڑی ذہین ہو بھئی۔
۔ انکل میں پائلٹ بنوں گی بڑی ہو کر۔
۔ ہیلی کاپٹر چلا لو گی۔
۔ میرا دل تو جہاز چلانے کو کرتا ہے۔ وہ بڑے والا۔ جیسے پی آئی اے کے ہیں ناں۔ وہی والا۔
۔ ڈرو گی تو نہیں۔
۔ نہیں جی ! میں نہیں ڈرتی۔ میں تو دو دفعہ کراچی جا چکی ہوں امی ابو کے ساتھ۔ اسی بڑے والے جہاز پر۔
یہ پدو بھی ساتھ تھا۔ بہت تنگ کرتا ہے مجھے۔ میں نے کہا مجھے ونڈو کے ساتھ بیٹھنے دو۔ کہتا ہے نہیں میں خود بیٹھوں گا۔ بڑا ضدی ہے۔
۔ اچھا یہ سارے بچے تمہارے سکول کے ہیں ناں۔
۔ جی انکل ! ساری کلاسوں کے ہیں۔ وہ ہماری مس ہیں وہ شال والی۔ بہت پیار کرتی ہیں ہمیں۔
اور وہ جو ادھر کھڑی ہے ناں۔ ۔ وہ جس کی یونیفارم اور منہ پر لال رنگ لگا ہوا ہے۔ وہ نازلی ہے۔
میری بیسٹ فرینڈ۔ میرے ساتھ ہی بیٹھتی ہے ڈیسک پر۔
وہ تو انجینئر بنے گی۔ اسکے ابو بھی انجینئر ہیں آرمی میں۔
۔ تم سارے بچوں کو جانتی ہو سکول میں۔
۔ سینیئر کلاسوں کے بچے تو بڑے پراؤڈ ہیں۔ جونیئر کلاسوں کے سارے بچوں کو جانتی ہوں۔ ہم سب ساتھ ہی کھیلتے ہیں ناں۔
وہ جو فرح ہے ناں۔ وہ جس کے بالوں اور گردن پر لال رنگ لگا ہو ہے۔ یونیفارم پر بھی۔ مجھے نہیں اچھی لگتی۔
گیم میں چیٹنگ کرتی ہے موٹی۔
۔ تم تو چیٹنگ نہیں کرتیں۔ ۔ ارے ! یہ تم ہنس کیوں رہی ہو۔ کرتی ہو ناں۔
۔ انکل کرتی ہوں کبھی کبھی۔ اور یہ پدو بھی کرتا ہے۔ لیکن اسے تو ابھی گیم کھیلنی آتی ہی نہیں۔
میں تو مذاق مذاق میں کھیلتی ہوں اس کے ساتھ۔ ہر دفعہ جیت جاتا ہے۔ نہ کھیلوں تو رونے لگتا ہے۔ روندو کہیں کا۔
اب دیکھیں ساری یونیفارم پر لال رنگ لگا کر آ گیا ہے۔ امی کپڑے چینج کرتی ہیں پھر میلے کر دیتا ہے۔ پھر چینج کرتی ہیں پھر میلے کر دیتا ہے۔
بہت تنگ کرتا ہے سب کو نواب صاحب۔
۔ میری یونیفارم پر لال رنگ!!! جی انکل رضوان۔ سوری۔ ہم تو صاف یونیفارم پہن کر سکول گئے تھے۔
پھر پتہ نہیں وہ پانچ چھ انکل کہاں سے آ گئے۔ بہت اونچا اونچا بول رہے تھے۔
ہم سب بچے ڈر کر رونے لگے تو ایک ڈاڑھی والے انکل میرے پاس آئے اور بولے کلمہ سناؤ۔
مجھے تو کلمہ آتا ہے ناں انکل۔ میں تو پانچویں سپارے پر ہوں۔ نازلی بھی میرے ساتھ کھڑی تھی۔ انکل انہوں نے نازلی کا منہ کھول کر اس میں بندوق کی نالی ڈال دی۔
انکل میں تو ڈر کر ڈیسک کے نیچے چھپ گئی تھی، پر ڈاڑھی والے انکل نے مجھے کھینچ کر وہاں سے نکلا اور میری گردن پرا تنا بڑا چھرا رکھ دیا۔
میں نے کہا۔ ۔ انکل نہ کریں۔ ۔ نہ کریں۔ پلیز نہ کریں بہت درد ہو رہا ہے۔
انکل انہوں نے ہماری مس کو بھی آگ لگا دی۔ انکل وہ سارے انکل بہت غصے میں تھے۔ پھر وہ زور زور سے گولیاں چلانے لگے۔
ہم سب کے کپڑے لال ہو گئے تھے انکل۔
مجھے بہت ڈر لگ رہا رہا تھا۔ بہت درد ہو رہا تھا انکل رضوان۔ بہت درد ہو رہا تھا۔
لیکن انکل آپ کیوں رونے لگے۔ آپ تو اتنے بڑے ہیں۔
انکل اب میں پائلٹ کیسے بنوں گی۔
میں تو مر گئی ہوں۔
٭٭٭
دو بزرگ شرفاء کی گفتگو
۔ ارے آؤ آؤ میرزا! بڑے دنوں بعد دکھائی دیئے۔
۔ بھئی کیا بتائیں میر صاحب ! وقت ہی نہیں ملتا۔
۔ میاں ایسی بھی کیا مصروفیت کہ ملاقات سے بھی گئے۔
۔ خیر اب تم سے کیا پردہ۔ یہ جب سے بہو لے کر آیا ہوں گھر کا سکون ہی برباد ہو گیا ہے۔
۔ باہر کی ہو گی۔ خاندانی شرافت تو میاں خاندان کے ساتھ چلتی ہے۔ سچ پوچھو تو اپنے ہاں بھی یہی حا لت ہے۔ ہائے کیا وقت تھے جب ابا حضور کے سامنے بیگم کی آواز نہ نکلتی تھی۔ اور اب۔ ۔ ۔
۔ اب۔ ۔ اب تو صاحب ’’ وہ کہے اور سنا کرے کوئی‘‘۔ بس یہ سمجھو اپنے ہی گھر میں بے وقعت ہوئے جاتے ہیں۔
۔ اور ہم اپنے صاحبزادے کی کیا بتائیں۔ سامنے بیٹھے ہیں۔ باپ کی بات کاٹی جا رہی ہے۔ بیوی کے اللے تللے ہو رہے ہیں۔ نہ اِن کے سر پر ٹوپی۔ نہ اُنکے سر پر اوڑھنی۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات ہو رہی ہے۔
ارے کیا یاد دلا دیا میرزا ! بھئی ابا حضور تو سوتے میں بھی دو پلی اوڑھے رہتے تھے کہ نجانے کب کوئی بزرگ خواب میں تشریف لے آویں۔
۔ سبحان اللہ ! اگلے شرافت کے نمونے تھے میاں وہ لوگ۔ سچ پوچھو تو اب باہر گلی میں جاتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔ ہر سو لچے لفنگے گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ دندناتے پھرتے ہیں۔
۔ ارے کیا بات کر دی میرزا۔ ابا حضور تو شام کو جب اپنے تانگے پر سوار ہو عذرا جان کے ہاں جاتے تھے ٹھمری غزل سننے تو محلے کے لونڈے بالے احترام سے دیوار کے ساتھ لگ لگ جاتے تھے۔
۔ ارے واہ۔ نگاہ نیچی۔ آواز دھیمی۔ آداب آداب کہتے جھکتے چلے جاتے تھے ہماری گلی کے بانکے تو۔ اب کیا بتائیں! ابا حضور گلنار بائی کے بالا خانے سے مجرا سن کر جب رات گئے لوٹتے تو نتھو پنواڑی کی دکان کے سامنے یونہی بے مقصد ڈولتے ایرے غیرے ما رے خوف کے ایک دوسرے کی اوٹ میں ہونے لگتے۔ ایسا تو احترام تھا شرفاء کا۔
۔ میاں کیا گانے والیاں تھیں۔ گویا شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو۔ اللہ بخشے ابا حضور بتایا کرتے تھے۔ میاں یہ کوٹھے نہیں۔ علم و ادب کے گہوارے ہیں۔ شرفاء کی تربیت گاہیں ہیں۔
۔ ارے میر صاحب منہ کی بات چھین لی تم نے تو۔ یہی بات تو ابا حضور بھی کیا کرتے تھے۔ اور پھر کوئی ایرا غیرا ارزل تو قدم نہ دھر سکتا تھا وہاں۔ اپنا ہی ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے جنت مکانی بتاتے تھے کی ایک شب گلنار بائی داغ کی غزل۔ ۔ ’’ہم بھی پئیں تمہیں بھی پلائیں تمام رات ‘‘۔ ۔ گاتی تھیں۔ جب ’’ہوتی رہی قبول دعائیں۔ ۔ ‘‘۔ ۔ پر پہنچیں تو مصرعہ ایسا اٹھایا کہ سبھی لوٹ پوٹ ہو گئے۔ ابا حضور نے دادا جان کی شیروانی پہن رکھی تھی جس میں ہیرے کے بٹن ٹنکے تھے۔ جھٹ سے ایک بٹن نوچا اور گلنار بائی کی جانب اچھال دیا۔ اب وہ قبول کرنے سے ہچکچاتی ہیں کی ایسی قیمتی چیز میں کیسے لے لوں۔ ابا حضور نے انکی اماں سے گلوری لیتے ہوئے سفارش کی التجا کی۔
اماں بولیں۔ ارے بٹیا لے لو۔ پشتنی ہیں پشتنی۔ انکے لئے ایک آدھ ہیرے کی کیا وقعت۔ چاہیں تو ابھی نوچ کر سارے دے دیویں۔ بس انکا یہ کہنا تھا کہ ابا حضور نے سبھی بٹن نوچ، گلنار کی جانب اچھال دیئے۔ اب وہاں ببن نواب بھی موجود تھے جو ابھی ابھی حقہ تازہ کر کے لائے تھے۔ آبدیدہ ہوتے ہوئے بولے۔ میاں بس تم جیسوں کے دم سے ہی شرفاء کا بھرم قائم ہے۔ ہمیں ہی دیکھ لو۔ گاؤں بک گئے۔ حویلیاں گروی رکھ دیں۔ اب انکی چلم بھرتے ہیں پر ناک نیچی نہیں ہونے دی۔ بھئی سبحان اللہ !کیسے وضعدار لوگ تھے۔
۔ لو ! میرزا ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے ابا حضور سنایا کرتے تھے۔ بتایا کہ ایک شب عذرا جان ٹھمری گاتی تھیں۔ ۔ ’’رنگی ساری گلابی چنریا رے‘‘۔ جانے کیا ہوا کہ گاتے گاتے آواز بھرا گئی اور آنکھوں سے اشک رواں۔ بس وہاں بیٹھے سبھی شرفاء کی آنکھیں بھی نم ہونے لگیں۔ ابا حضور نے آنسو پونچھتے ہوئے ماجرا پوچھا تو پہلے تو بائی جی کچھ بتاویں نہ۔ پھر دبے دبے لفظوں میں بولیں۔ اجی نواب صاحب کیا بتائیں۔ یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ شرفاء کی میزبانی سے محروم ہوئے جاتے ہیں۔ ابا حضور نے دلاسہ دیا۔ پانی پلایا تو بولیں۔ اچھن نواب نے یہ حویلی بٹیا کے نام کر دی تھی۔ ا ب آج کے زمانے میں ان جیسے رئیس کہاں۔ ایک ایک مصرعہ پر توڑا اشرفیوں کا لٹا دیویں تھے۔ اب اس کم سن کو اتنا ہوش کہاں۔ اوڑھنے پہننے کے شوق میں میں سب کچھ مہاجن کے ہاں گروی رکھوا دیا۔ اب وہ کمبخت نیلامی کی بات کرے ہے۔ بس نواب صاحب ہماری لاج تو اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ تو میرزا ! یہ سننا تھا کہ ابا حضور تو طیش میں آ گئے۔ فوراً ہی طبلے والے کو بھیج کر منشی کو بلا یا اور وہیں کے وہیں کاغذ لکھ دیا کہ اس کم ذات مہاجن کی رقم تو چھوٹی حویلی بیچ کر فوراً ادا کر دی جائے۔
۔ ارے کیا وقت تھے میر صاحب کیا وقت تھے وہ۔ چین ہی چین۔ سستا زمانہ۔ سات روپے من تو آٹا تھا۔
۔ میاں ہوش کے ناخن لو۔ کب کی بات کرتے ہو۔ ہمارے زمانے میں تونو روپے من تھا۔
۔ تمہارے زمانے میں نو روپے من کیسے ہو سکتا ہے۔ میاں عمر کے ساتھ ساتھ تمہاری یادداشت بھی جواب دیتی جا رہی ہے۔
۔ اپنی یادداشت کے بارے میں کیا خیال ہے۔ یقیناً تم بھول رہے ہو۔
۔ کیسے بھول رہے ہیں۔ تمہاری پیدائش تو ہم سے پہلے کی ہے۔
۔ اماں یہ کیا بات کر دی۔ میرے حساب سے تو تم چار سال بڑے ہو ہم سے۔
۔ میں تو پہلے ہی کہہ رہا ہوں کہ تمہارا حافظہ جواب دینے لگا ہے۔ بس میاں عمر کا تقاضہ سمجھو اسے۔
۔ اور تم تو ابھی بچے ہو۔ دودھ پیو گے ننھے میاں۔ کب کی پیدائش ہے تمہاری۔
۔ ہماری پیدائش تو جب کی بھی ہے، درست ہے۔ تمہاری طرح نہیں کہ ابا نے پان سات سال کم لکھوا دی۔
۔ اب ایسی چھچھوری حرکتیں تو میاں آپ کے ابا ہی کرتے ہوں گے۔ ہمارے ابا تو اللہ بخشے کردار والے تھے۔
۔ تو تمہارا مطلب ہے ہمارے والد بد کردار تھے۔ دیکھو زبان سنبھال کر بات کرو۔
۔ ارے جا جا !زبان سنبھال کر بات کرو۔ ۔ بڑا آیا ہمیں کردار سکھانے والا۔ خاندانی لوگ ہیں ہم خاندانی۔
۔ ارے جانتے ہیں تمہارے خاندان کو۔ دعا دو زمانے کو۔ سالے پشتنی کنجڑے آج میرزا مغل بنے گھومتے ہیں۔
۔ دیکھ بے کبابئے۔ نواب حیدر کی حویلی کے پچھواڑے تیرا ابا جو کباب لگاتا تھا ناں، وہ ہمارے گھر بھی آتے تھے۔ بھئی کیا ذائقہ تھا۔ یاد کرتے ہیں تو آج بھی منہ میں پانی آ جاتا ہے۔
۔ دیکھ کسی گھمنڈ میں مت رہیؤ۔ سالے بتیسی توڑ دو ں گا۔
۔ تو میں کیا چوڑیاں پہنے ہوئے ہوں۔ دو ہاتھ جڑ دیئے تو چلنے پھرنے سے بھی جائے گا سالا کبابیا۔
۔ ابے کنجڑے کی اولاد۔ لگتا ہے آج تو ہڈی پسلی تڑوا کر ہی ٹلے گا۔
۔ اور تیری کھٹیا جو کھڑی ہو جائے گی، وہ۔
۔ چل چل۔ اپنی راہ لگ۔ اسی لئے تو میں تم جیسوں سے ملتا نہیں۔
۔ ارے میں تو تیری صورت دیکھنے کا روادار نہیں۔ نجانے صبح سویرے کس منحوس کا منہ دیکھا تھا جو تجھ سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔
ابھی دونوں میں مکالمہ جاری تھا کہ سامنے سے حکیم صاحب آتے دکھائی دیئے۔ ضعیفی سے جن کی کمر جھک گئی تھی۔ لاٹھی ٹیکتے کھانستے لڑھکتے قریب پہنچے تو بولے۔
بھئی یہ آج دن چڑھے دونوں بڈھے ایک ساتھ کیسے۔ خیریت تو ہے۔
بڈھے !۔ ۔ دونوں شرفاء حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ آخر میرزا بولے۔
بس ذرا یونہی بازار کی سیر کو نکلے تھے۔ کہاں کا قصد ہے۔
حکیم صاحب ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے بولے:
ارے بھئی وہ اپنے شمشیر بیگ تفنگ آبادی نے اصرار کر کے مشاعرے پر بلایا ہے۔ اب ہم لاکھ انکار کرتے ہیں پر وہ مان کر ہی نہیں دیتے۔ کہتے ہیں حکیم صاحب مشاعرے کا رنگ تو آپ ہی سے جمتا ہے۔ اب کیا کیا جائے۔ برخوردار ہیں اپنے۔ لو تمہیں بھی سنائے دیتے ہیں دو چار اشعار۔ عرض کیا ہے:
گل سے بلبل نے کہا اب کسے صیاد کا خوف جل گیا۔ ۔ ۔
۔ اجی حکیم صاحب !۔ چھوڑیئے شاعری کو۔ پہلے یہ بتایئے آپ کی جوانی میں آٹا کس بھاؤ ملتا تھا۔
حکیم صاحب تبسم فرماتے ہوئے بولے۔ میاں شاعری تو شرفاء کا اوڑھنا بچھونا ہوتی ہے۔ خیر تمہاری مرضی۔ اور جوان تو ہم اب بھی ہیں۔ ہاں لڑکپن کی پوچھتے ہو، تو تھا یہی کوئی بارہ روپے من۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے۔
بارہ روپے من !!! دونوں پھر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔
ان کو حیرت میں ڈوبا چھوڑ حکیم صاحب تو چلتے بنے۔ میر صاحب سے نہ رہا گیا۔ تلملا کر بولے۔
۔ سائیس تھا یہ پیر فرتوت۔ وہاں گندے نالے کے پہلو میں چھپر ڈال رکھا تھااس ارزل نے۔ نعل لگاتا تھا گھوڑوں کے۔ اب حکیم کہلاتا ہے۔ اللہ کی شان ہے میاں۔
۔ ارے سچ کہا میر صاحب۔ جب کبھی نعل لگوانے ہوتے تو ابا حضور وہیں بھیجا کرتے تھے اپنے کمندِ ہوا کو۔ کہتے تھے کاریگر اچھا ہے۔
۔ حد ہو گئی ہے میرزا۔ سنا تم نے۔ آٹا بارہ روپے من۔ بھئی لا حول ولاقوۃ۔
۔ چلو چھوڑو میاں۔ ایسے نیچ کم ذاتوں کی حرکتوں پر کیا جی کو جلانا۔ اب چلتے ہیں۔ گھر میں آج بادامی شاہی قورمہ بنانے کا ذکر ہو رہا تھا۔ ٹھنڈا ہو گیا تو کھانے کا مزہ جاتا رہے گا۔
ار ے میر صاحب ! کیا یاد دلا دیا۔ بھئی بادامی شاہی قورمہ تو ابا حضور کی خاص فرمائش پر اماں بنایا کرتی تھیں۔ بس جتنا گوشت اتنے بادام۔ اور ابا حضور کا مزاج ایسا کہ کھانا چنا جائے تو دھواں اٹھتا دکھائی دے۔ کبھی رکابی میں ترائی پر جھلی پڑتی نظر آ جاتی تو اللہ بخشے نقرئی رکابی سمیت کنویں میں الٹ دیا کرتے تھے۔ اب اماں لاکھ کہتی ہیں کہ اللہ ماری بی مغلانی نے باتوں میں لگا لیا تھا۔ پر توبہ کیجئے صاحب۔ تین دن تک تو طیش کے عالم میں رہتے۔ اب وہ نوالہ توڑیں تو کوئی دوسرا بھی ہاتھ بڑھائے۔
۔ کیا یاد دلا دیا میاں۔ کچھ ایسا ہی واقعہ ہمارے ہاں بھی تھا۔ تم کنویں کی بات کرتے ہو۔ ابا حضور تو پورا دیگچہ دریا میں۔ ۔ ۔
۔ اچھا تو میر صاحب اجازت۔ چلتا ہوں۔ بہو انتظار کرتی ہوں گی۔
۔ بھئی میرزا پوری بات تو سن لیا کرو۔ شریفوں میں تو بات پوری سننے کا دستور ہے۔ خیرہم بھی چلتے ہیں۔ آج واجد شاہی پسندے بنانے کا کہہ رہی تھیں بیگم۔ شیرمال بنتے تو میں دیکھ آیا ہوں۔ پسندے بھی تیار ہی ہوں گے۔ راہ تکتے ہوں گے سبھی۔
۔ خدا حافظ میر صاحب!
۔ خدا حافظ میرزا۔ بھئی ملتے رہا کرو۔ غنیمت ہے جو ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں۔
٭٭٭
عزیز ہموطنو !
سلطانہ انگڑائی لے کر بیدار ہوا تو اسے یوں محسوس ہو جیسے قیلولے کے دوران دنیا ہی بدل گئی ہو۔ نہ وہ جنگل تھا نہ وہ چٹانیں جہاں اس نے اپنے ساتھیوں سمیت ٹھکانا بنا رکھا تھا۔ ابھی وہ پوری طرح حیران ہونے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ سامنے شیروانی اور قراقلی ٹوپی اوڑھے ایک شریف آدمی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ادھر کو آتا دکھائی دیا۔ خدا کا شکر بجا لایا کہ کمپنی بہادر کی پولیس نہ تھی ورنہ آج تو اسکی گرفتاری لازمی تھی۔ شریف آدمی قریب آیا تو بے تکلفی سے بولا۔
ہاں بھئی سلطانہ۔ اٹھ گئے۔ یار بڑی لمبی تان کے سوئے ہوئے تھے تم۔ میں تو روزانہ تمہیں دیکھنے آتا تھا۔ کچھ یاد ہے۔ کون ہوں میں!!
سلطانہ کچھ دیر تو آنکھوں کو ملتا رہا پھر حیران ہوتے ہوئے بولا۔
ارے گبر تم!! یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے تم نے۔ تم تو میرے حریف تھے۔ کیا جان لینے آئے ہو میری!!
گبر بلغمی قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔
چھوڑو یار ! کیسی باتیں کرتے ہو۔ وہ تو پرانی بات ہو گئی۔ اب کیسا جھگڑا۔ میں تو تمہیں اپنا شریک بنانے آیا ہوں۔
شریک !!!سلطانہ بگڑتے ہوئے بولا۔ کیسا شریک۔ میں تو غریبوں کی مدد کرنے والا ڈاکو ہوں۔ اور تمہاری حرکتیں کون نہیں جانتا۔ کئی ٹھاکروں کو لوٹ کر کھا گئے تم۔ مگر حرام ہے کبھی کسی غریب کی مدد کی ہو۔ اور وہ بیچاری مظلوم عورتوں کو ٹوٹے ہوئے کانچ پر نچوانا کون بھول سکتاہے۔ اور کانچ بھی شراب کی بوتلوں کا۔ چلو چلو اپنی راہ لو۔ میرا اپنا ایک نام ہے۔ اسے مٹی میں ملانا چاہتے ہو۔
گبر اپنی ٹوپی اتار کر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
ارے نہیں بزرگوار! اب تو میں سدھر گیا ہوں۔ اب تو میں نے اپنی زندگی خلق خدا کی خدمت کے لئے وقف کر دی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اس نیک کام میں میرے شریک بن جاؤ۔
سلطانہ نرم پڑتے ہوئے بولا۔
لیکن میں حیران ہوں کہ تم گرفتاری سے بچ کیسے گئے۔ کمپنی بہادر کی پولیس کو تو تمہیں دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم ہے۔
گبر سینہ پھلاتے ہوئے بولا۔
ارے کیسی کمپنی بہادر اور کہاں کے فرنگی۔ اب تو ہم خود حکمران ہیں اپنے ملک کے۔ جو چاہے کرتے ہیں۔ دراصل تم اتنے عرصے بعد جاگے ہو کہ تمہیں پتہ ہی نہیں دنیا کتنی بدل چکی ہے۔
اچھا ! سلطانہ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بولا۔ لیکن یہ تو بتاؤ کہ اب تم کرتے کیا ہو۔
گبر اکڑوں بیٹھ کر ٹوپی سے کھیلتے ہوئے بولا۔
بھائی کرنا کیا ہے۔ سیاست کرتے ہیں۔ اب کہاں کے ڈاکے اور لوٹ مار جیسے گھٹیا کام۔ ہم تو بھولے ہی رہے۔ یقین جانو جتنا پیسہ اور جتنی عزت اس کام میں ہے تم اسکا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اور پھر اختیارات الگ۔ پولیس بھی جھک جھک کر سلام کرتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اس کام میں شامل ہو جاؤ تو مزہ آ جائے کہ تم تو ہو ہی پیدائشی لیڈر۔ پارٹی کو کہاں سے کہاں لے جاؤ گے۔ بس اسی لئے تمہیں لینے آیا ہوں۔
سلطانہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا۔
بھئی سردار کی طاقت تو جتھے سے ہوتی ہے۔ یہ پارٹی کیا بلا ہے۔
گبر سلطانہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سمجھانے لگا۔
یار پارٹی اور جتھا ایک ہی چیز ہے۔ کچھ کم عقل اسے ٹولی بھی کہتے ہیں۔ دیکھو طریقہ وہی ہے جو تم نے اختیار کر رکھا تھا۔ جس کے پاس ہے اسے لوٹو۔ تھوڑا سا غریبوں کو دے دو تاکہ وہ تمہاری تعریف میں نعرے لگاتے رہیں۔ باقی اپنی جیب میں ڈالو اور ہضم کر جاؤ۔ نہ گرفتاری کا خوف نہ پولیس کا خدشہ۔
سلطانہ احتجاج کرتے ہوئے بولا۔
لیکن میں تو لوٹتا ہی غریبوں کی مدد کیلئے ہوں، اور وہ بھی ظالم ساہوکاروں اور جاگیرداروں کو۔ تم کسے لوٹتے ہو۔
گبر قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔
یار ابھی میں نے تمہیں بتایا تو ہے کہ ہم نے فرنگیوں کو نکال باہر کیا ہے۔ یہ ہمارا ملک ہے۔ اب ہم آزاد ہیں، جسے چاہیں لوٹیں۔ لیکن ہاں! ساہوکاروں اور جاگیرداروں وغیرہ کو ہم نہیں لوٹتے۔ وہ تو ہمارے ساتھی اور ہماری طاقت ہیں۔
تو پھر کسے لوٹتے ہو تم۔ یہ تو بتاؤ ! سلطانہ جھنجلاتے ہوئے بولا۔
عوام کو۔ اور کسے۔ گبر بے اعتنائی سے بولا۔
عوام کو !! سلطانہ اچھلتے ہوئے بولا۔ لیکن انکے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔
صحیح کہا تم نے۔ گبر سنجیدگی سے بولا۔ تب بھی نہیں تھی اور اب بھی نہیں ہے۔ اور سچ پوچھو تو ہونی بھی نہیں چاہیئے۔ سرکش ہو جاتے ہیں کم ظرف۔
یہ کیا پہیلیاں بجھوا رہے ہو تم۔ کہیں پولیس کے مخبر تو نہیں بن گئے۔ مجھے باتوں میں لگا کر گرفتار کروانا چاہتے ہو۔ اگر عوام ویسے ہی بھوکے ننگے ہیں تو پھر ان سے لوٹتے کیا ہو۔ سلطانہ مزید جھنجھلاتے ہوئے بولا۔
بھئی یہی تو بات ہے سمجھنے کی۔ دیکھو میں تمہیں سمجھاتا ہوں۔ گبر ایک آنکھ میچتے ہوئے بولا۔ میں نے تمہیں بتایا ہے ناں کہ اب ہم آزاد ہو چکے ہیں۔ اب یہ ملک ہمارا ہے، سو جسے چاہیں لوٹیں اور جو چاہے لوٹیں۔ ت و بھیا اب ہم اس ملک کی دولت لوٹتے ہیں۔ اور مزے کی بات دیکھو کہ یہ بھوکے ننگے عوام اس غلط فہمی کا شکار ہیں کی یہ دولت انکی ہے۔ یعنی اسکے مالک یہ دو دو ٹکے کے چمرخ ہیں۔
تو اس میں غلط بات کیا ہے۔ سلطانہ نے لہجے میں سختی پیدا کرتے ہوئے کہا۔ جب فرنگی اس ملک کی دولت لوٹتا تھا تو میں فرنگی یا اسکے گرگوں سے چھین کراسے واپس عوام کو لوٹا دیتا تھا۔
گبر بحث کرتے ہوئے بولا۔
لیکن اب تو فرنگی چلا گیا ناں۔ اور فرنگی سے پہلے جو دوسرے باہر والے آتے تھے وہ لوٹتے تھے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اب جب کہ ہم خود اسکے مالک ہیں یہ کام خود کریں۔ اور پھر تم جو یہ بار بار عوام کی بات کرتے ہو تو بھائی انہیں کس نے روکا ہے۔ جس میں ہمت ہو آگے بڑھے اور اپنا حصہ وصول کر لے۔
سلطانہ بگڑتے ہوئے بولا۔
میں نہیں سمجھتا کہ عوام اتنے بیوقوف ہیں کہ تمہیں آسانی سے اس لوٹ مار کی اجازت دے دیں۔
گبر پھر ایک بلغمی قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگا۔
بھئی یہ سب کچھ ہم عوام کی رضا و رغبت سے ہی تو کرتے ہیں۔ کم بختوں سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ انہیں اپنے حق میں ہموار کرنا پڑتا ہے۔ ہم نہ کریں تو کوئی دوسرا ڈاکو ان نا شکروں کو اپنے پیچھے لگا لیتا ہے۔ تم تو سوئے رہے لیکن تمہیں کیا پتہ مقابلہ کتنا سخت اور کیسا کیسا ڈاکو میدان میں ہے۔ پراسکا حل بھی اب ہم نے نکال لیا ہے۔ اب تو بھائی باریاں لگی ہوئی ہیں سب کی۔
سلطانہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے گبر کے دائیں پہلو میں کھڑے ایک نورانی صورت بزرگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھنے لگا۔
اور یہ حضرت جو تمہارے ساتھ کھڑے ہیں کیا یہ بھی ڈاکو ہیں۔ اور انہوں نے ہاتھ میں بوتلیں کیسی پکڑی ہوئی ہیں۔
ارے نہیں۔ گبر بتانے لگا۔ یہ تو اپنے علامہ سبز باغ ہیں۔ نو سروں والے عقاب کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اور بوتلیں جو انکے ہاتھ میں تم دیکھ رہے ہو دودھ اور شہد کی ہیں۔ مال اگرچہ دو نمبر ہے۔ یہ ان عاصی اور گناہگار عوام کو دودھ اور شہد چٹا کر ان کی عاقبت سنوارتے ہیں۔ بہت کام کے آدمی ہیں۔ ان سے تو ہر دفعہ مدد لینی پڑتی ہے۔
اور یہ جو مونچھوں والا ہاتھ میں کوڑا لئیے کھڑا ہے، یہ کون ذات شریف ہیں۔ سلطانہ نے دائیں پہلو چوبند کھڑے شخص کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
گبر تھوڑا سا گھبرایا۔ پھر سلطانہ کے کان کے پاس منہ لے جاتے ہوئے بولا۔
پنگا مت لینا اس سے۔ بڑا غصیل اور سرکش ہے۔ بات بات پر کوڑا لہرانے لگتا ہے۔ ہماری باریاں بھی یہی بے صبرا خراب کرتا ہے۔ جبرو ہے اسکا نام۔
سلطانہ پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے بولا۔
لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کی تم ان بیچارے عوام کو اپنے پیچھے لگا کیسے لیتے ہو۔ اتنے ناسمجھ تو وہ کبھی بھی نہ تھے۔ فرنگی کے زمانے میں بھی نہیں۔
گبر یہ سن کر مسکرانے لگا۔ دیکھو گے۔ وہ بولا۔ اچھا آؤ تمہیں دکھاتا ہوں۔
یہ کہہ کر گبر نے اپنے ساتھ آئے ہجوم پر ایک نظر ڈالی جو نقاہت اور خوشامد سے تقریباً دوہرا ہوا جاتا تھا۔ پھر ایک نسبتاً تگڑے آدمی کو پکارا۔
اوئے کالو ! ادھر آ۔
کالو دوڑتا ہوا آیا اور گبر کے اشارے پر گھوڑے کی طرح ہاتھ پاؤں کے بل اسکے سامنے دہرا ہو گیا۔ گبر نے کچھ دیر تؤقف کیا۔ ہجوم پر ایک نظر ڈالی اور لوگوں کی داد و تحسین کے جواب میں ہاتھ لہراتا ہوا سامنے بچھی انسانی سٹیج پر چڑھ کر ان سے خطاب کرنے لگا۔
میرے عزیز ہم وطنو !!
ابھی یہ لفظ اسکے منہ میں ہی تھے کہ پیچھے کھڑے جبرو نے کوڑا لہراتے ہوئے اسے سٹیج سے کھینچ کر نیچے زمین پر دے مارا اور چلایا!
تیرے باپ کے نوکر ہیں سالے۔ اتنی دیر سے دھوپ میں کھڑے تیرے مکالمے سن رہے ہیں۔ چل بھاگ یہاں سے۔
کالو ابھی تک وہیں دہرا ہوا سٹیج بنا پڑا تھا۔ ایسے مناظر وہ پہلے بھی دیکھ چکا تھا اور انتظار میں تھا کہ دیکھیں اس پر اب کون قدم رکھتا ہے۔
اس دوران علامہ سبز باغ اپنی دودھ اور شہد کی بوتلیں لہراتا اچک کر جبرو کے پیچھے آن کھڑا ہوا تھا اور بھوک سے بیتاب ہجوم کو دکھا دکھا کر انہیں جبرو کے حق میں نعرے لگانے کی دعوت دے رہا تھا۔
ہجوم کی جانب سے ایسی پذیرائی دیکھ کر جبرو نے ایک مرتبہ پھر اپنا کوڑا لہرایا جسکی کڑک سے مجمع پر سناٹا طاری ہو گیا۔ پھر وہ ہاتھ لہراتا سامنے بچھے کالو پر چڑھ کر تقریر کرنے لگا۔ ۔
میرے عزیز ہم وطنو !!
سلطانہ کے پہلو میں آن گرے گبر کو ذرا ہوش آیا تو شکایت کرتے ہوئے بولا۔
مروا دیا نہ یار تو نے الٹے سیدھے سوال کر کے۔ اس مرتبہ پھر اس مچھل نے باری پوری ہونے سے پہلے ہی روند مار دی۔ خیر ! اگلی مرتبہ دیکھ لوں گا اس کوڑا بردار کو۔ کم ظرف میں ذرا بھی سپورٹس مین سپرٹ نہیں ہے۔
اور پھر دونوں ڈاکوؤں کو نیند آنے لگی۔ گہری نیند میں جانے سے پہلے بس وہ اتنا ہی سن پائے۔ ۔ ۔
آوے ای آوے !! جاوے ای جاوے۔ ۔ آوے ای آوے۔ ۔ ۔ جاوے ای۔
٭٭٭
خوش بخت
۔ اسلام علیکم و رحمت اللہ۔
۔ وعلیکم اسلام۔ آئیے حضرات تشریف لائیے۔
۔ ماشا اللہ بڑا خوبصورت قالین بچھا رکھا ہے آپ نے۔ ہاتھ کا بنا ہوا لگتا ہے۔
۔ جی بزرگوار ! چند سال قبل جلال آباد جانا ہوا تھا۔ وہیں سے خریدا تھا۔
۔ وہاں کے حالات تو کچھ ایسے اچھے نہیں ہیں۔ عرصے سے خراب چلے آ رہے ہیں۔ خیریت تھی ناں۔
۔ جی قبلہ! خیریت تھی۔ دراصل ایک پرانے دوست کی بچی بیوہ ہو گئی تھی۔ اسنے نے سہارے کا اشارہ دیا تو جانا ضروری سمجھا۔ بیچاری کا شوہر چڑھتی جوانی میں شہید ہو گیا تھا۔
۔ سبحان اللہ۔ بلند درجات پا گیا۔ کتنا عرصہ رہے آپ جلال آباد۔
۔ بس دو دن ہی رہا تھا۔ زوجگان اور بچے بھی ہمراہ تھے۔ اور پیچھے اتنا بڑا کاروبار۔ کوئی اور سنبھالنے والا تھا بھی نہیں۔ آپ تو جانتے ہیں ملازموں پر تو بھروسہ کیا نہیں جا سکتا۔ کتنا ہی کھلائیں پلائیں، موقع پاتے ہی ہاتھ دکھا جاتے ہیں۔
۔ درست فرمایا آپ نے۔ بد نیت اور بے ایمان لوگ۔ خدا سے بھی نہیں ڈرتے۔ تو کیا دو دن میں نمٹا لیئے تھے آپ نے سارے کام۔
۔ جی بزرگوار۔ میں تو بڑا سادہ سا انسان ہوں۔ اور پھر بیوہ کا معاملہ تھا۔ گانے بجانے کی تو ویسے ہی اجازت نہیں ہے۔ بس سادگی سے نکاح پڑھوایا اور رخصتی لے کر اگلے روز ہی واپس لوٹ آیا۔ بچوں کو زیادہ چھٹیاں کروانے کے تو میں حق میں ہوں نہیں۔ تعلیم کا حرج ہوتا ہے۔
۔ اللہ اجر دے گا آپ کو اس نیک کام کا۔ کسی لاچار کو سہارا دینا تو انتہائی لائق تحسین کام ہے۔
۔ ہم کس لائق حضور ! سہارا دینے والی تو اوپر والے کی ذات ہے۔
۔ تو میرے خیال میں اب معاملے کی بات کر لی جائے۔
۔ جی بسم اللہ !
۔ پیغام تو آپ کو حاجی صاحب نے پہنچا ہی دیا ہے۔ اب آپ فرمائیے کیا فیصلہ ہے آپ کا۔
۔ دیکھئے ایسے معاملات میں بات صاف صاف کر لینے کا حکم ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ دختر عزیز اسی جلال آباد والی زوجہ کے بطن سے ہے۔ ماشا اللہ اگلے ماہ پورے نو برس کی ہو جائے گی۔ انتہائی نیک اور فرمانبردار بچی ہے۔
۔ کیوں نہ ہو۔ نیک اور صالح والدین کی اولاد نیک ہی ہوتی ہے۔
۔ بس دعا کریں۔ اس فرض سے سبکدوش ہو جاؤں تو حج کی سعادت حاصل کروں۔ عمرے تو اللہ کے فضل سے چار کر چکا ہوں۔
۔ اللہ تعالیٰ آپ کی یہ آرزو جلد پوری کرے۔
۔ بس آپ کی دعا چاہیئے۔ عرض یہ ہے کہ آپ جیسے صالح بزرگوں سے ملنے کے بعد کوئی سوال کرنا زیب تو نہیں دیتا۔ پھر بھی رسماً کچھ اپنے بارے میں فرما دیں تو اور تسلی ہو جائے گی۔
۔ یہ تو آپ کا حق ہے۔ آخر آپ لڑکی کے والد ہیں۔ دیکھ بھال کر ہی رشتہ طے کریں گے اسکے مستقبل کا سوال ہے۔ اور بحیثیت والد یہ آپ کا فرض بھی ہے
۔ پدری ذمہ داری کا تقاضہ سمجھ لیجئے۔
۔ بہر حال ! فدوی کا دودھ کا کاروبار ہے کراچی میں۔ ایک بہانہ ہے جس میں تیس چالیس بھینسیں رکھی ہوئی ہیں۔ ایک چھوٹی سی فیکٹری اگر بتیاں بنانے کی ہے۔ مانگ اتنی ہے کہ صرف کراچی کی ہی ضرورت پوری نہیں ہو پاتی۔ ہوٹلوں اور ڈھابوں پر برف سپلائی کرنے کے ٹھیکے بھی ہیں۔ ہے۔ دو وقت کی روٹی عزت سے مل رہی ہے۔
۔ ماشا اللہ! بڑا کرم ہے مالک کا آپ پر۔ ایک وسیع کنبے کی کفالت کرتے ہیں آپ۔
۔ اللہ کے فضل سے گھریلو زندگی بھی پر سکون ہے۔ دونوں زوجاؤں کو الگ الگ گھر لے کر دیئے ہوئے ہیں۔ اللہ نے اولاد کی نعمت سے بھی نواز رکھا ہے۔ چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بیٹیاں گھروں کی ہو چکی ہیں۔ بڑے بیٹے کاروبار میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ چھوٹا ابھی پڑھ رہا ہے۔
۔ ماشا اللہ ! ماشا اللہ۔ ہماری بچی کے لئے بھی یقیناً آپ الگ گھر ہی لیں گے۔
۔ سب میں انصاف کرنے کا حکم ہے۔ آپ کی دعا سے خرید رکھا ہے۔ بس گھر والی کا انتظار ہے۔ شادی ہوتے ہی اس میں منتقل ہو جائے گی۔ دراصل عمر کے ساتھ ساتھ اب توجہ کی ضرورت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
۔ کیسی باتیں کرتے ہو میرے عزیز۔ مرد کی بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ اللہ سلامت رکھے تمہیں اپنے ٹبر پر۔ اور وسعت دے۔
۔ تو پھر معاملہ طے سمجھا جائے۔
۔ تمہاری امانت ہے عزیزی۔ دو بول پڑھواؤ اور لے جاؤ۔
۔ لڑکی سے پوچھ لیا آپ نے۔ شادی کے لئے عورت کی رضا مندی حاصل کرنے کا حکم ہے۔
۔ یہ بھی کوئی ایسی بات ہے۔ ضرور پوچھیں گے۔ انتہائی فرمانبردار اور نیک بچی ہے۔ سمجھتی ہے کہ ہم جو بھی کریں گے اسکے بھلے کے لیئے ہی کریں گے۔ اسکی جانب سے تو بس ہاں سمجھئے۔ پوچھنے کی رسم بھی پوری کر لیں گے۔
۔ تو لیجئے پھر منہ میٹھا کیجئے۔ مبارک ہو۔ یہ کراچی کی مٹھائی ہے۔ دیکھیں کیسا شیرہ ٹپک رہا ہے گلاب جامنوں سے۔
۔ واہ ! سبحان اللہ۔ عزیزی ایک آدھ کلو ہی کافی تھی۔ تم تو دو ٹوکرے اٹھا لائے۔ کیا ضرورت تھی اس تکلف کی۔ ویسے مٹھائی تو تمہاری منگیتر کی بھی کمزوری ہے۔ دیکھے گی تو بہت خوش ہو گی۔
۔ خوشی کا موقع ہے۔ اس میں تکلف کیسا۔
۔ بیشک بیشک۔ اچھا عزیزی ایک اور بات بھی کرنی تھی۔ پہلی زوجاؤں سے تحریری اجازت لے لی تم نے۔
۔ یہ بھی کوئی بات ہے قبلہ ! صالح بیبیاں ہیں۔ اجازت ہی سمجھیں۔ تحریر بھی لے لیں گے۔ دیکھئے کیسے کیسے قانون بنا رکھے ہیں ان نامرادوں نے۔ یہ تو اپنے شعائر کا مذاق اڑانے والی بات ہے۔ خیر امید تو ہے جلد ہی ان کالے قوانین سے نجات مل جائے گی۔
۔ درست کہا تم نے۔ لگتا ہے ابھی تک ہم غیروں کے غلام ہیں۔ جو حکم وہ دیتے ہیں، ہم مان لیتے ہیں۔ اسی کے مطابق قانون بنا لیتے ہیں۔ جبھی تو اتنے عذاب ہم پر نازل ہو رہے ہیں۔
۔ بس اللہ رحم کرے۔ تو اب اگر آپ مناسب سمجھیں تو تاریخ ذرا جلدی کی دیں۔ دو ایک اور جاننے والے بھی جوان بچیوں کے باپ ہیں۔ دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔
۔ بس گھر مں بات کر کے تمہیں جلد ہی مطلع کر دیں گے۔ ایک بات تو طے ہے۔ اس فریضے سے سبکدوش ہو کر ہی حج پر جانے کی سعادت حاصل ہو گی۔ اور اب حج میں ایک دو ماہ ہی تو رہ گئے ہیں۔
۔ بہت خوب۔ آپ جیسے متقی اور پرہیز گار لوگوں سے مل کر ایمان تازہ ہو جا تا ہے۔ بس کراچی پہنچتے ہی میں تمام ضروری کاغذات وغیرہ تیار کروا لیتا ہوں تاکہ بعد میں اس پر وقت ضائع نہ ہو۔
۔ بہت مناسب رہے گا۔ اچھا مغرب کی اذان ہو رہی ہے۔ نماز پڑھ لیں۔ پھر کھانا کھاتے ہیں۔
جی بسم اللہ۔ اور ہاں یاد آیا۔ کاغذات میں نام پتہ کیا لکھا جائے گا۔ یہ تو بتایا ہی نہیں آپ نے۔
۔ ہاں ہاں لکھو۔ ۔ ۔
خوش بخت بی بی۔ سکنہ خوش بخت پورہ۔ ضلع خوش بخت آباد۔ خوشبختستان۔
٭٭٭
گدی نشین کے بیٹے کی دعوت ولیمہ
جب خواص و عام اور علماء کرام و مشائخ عظام بہ نیت طعام سیدھی صفوں میں بٹھا دیئے گئے تو لمبے لمبے دسترخوان انکے سامنے بچھائے گئے جن کے کونوں پر جلی حروف میں۔ ۔ اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی۔ ۔ ۔ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔ ۔ چھپا ہوا تھا۔
ایسے میں خدمتگار دستر خوان پر بڑے بڑے تھالوں میں کھانا چننے لگے۔ نچڑتے حلوے کی پراتیں، زعفرانی زردے کے تھال، اپنی ہی چکنائی میں بل کھاتا قورمہ، مرغ ہائے مسلم کے پہاڑ، مہکتا پلاؤ، رابڑی سے منجمد کھیر اور نہ جانے کیا کیاتھا۔ اور پھر جیسے ہی بسم اللہ کیجئے کا مژدہ میزبان کے لبوں سے برآمد ہو ا، زمانہ قیامت کی چال چلنے لگا۔ پل بھر پہلے جو بزرگ عطر میں ڈوبی ریشوں کے گلدستے لہراتے تقویٰ، پرہیزگاری اور مرنے کے بعد کیا ہو گاجیسے موضوعات پر عالمانہ گفتگو فرما رہے تھے، انکی ریشیوں کے گلدستے زعفرانی ہونے لگے جن سے بوند بوند حلوہ ٹپکتا تھا جبکہ کہیں کہیں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح کپکپاتے زردے کے چاول بھی دکھائی دیتے تھے۔
رفتہ رفتہ یہ حال ہونے لگا کہ خواص کی پگڑیاں عوام کے ہاتھوں میں، اور عوام کی گردن عظام کے شکنجوں میں، اور عظام کے گریبان کرام کے پنجوں میں جکڑے جا رہے تھے، اور محو حیرت خدام ادب کسی متوقع حملے کے پیش نظر سامنے رکھی دیگوں کی قطار کو اپنے حصار میں لئے کھڑے تھے اور خوف سے تھر تھر کانپتے تھے کہ ماکولات انواع و اقسام سے بر سر پیکار یہ متقی و پرہیزگار عظام و کرام کہیں ادھر کو ہی دھاوا نہ بول دیں۔
لذت کام و دہن کی ایسی کڑی آزمائش سے گزرتے ہوئے چند ہی لمحوں بعد کسی بزرگ کی عینک اچھل کر بل کھاتے قورمے میں جا گری تھی تو کسی کا براق لباس دھنک کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کوئی پلاؤ کے تھال پر قابض تھا تو کوئی آستینیں چڑھائے مقبوضہ تھال میں سے چن چن کر بوٹیاں اچکنے کے عمل میں مصروف تھا اور ادھ کھائی بوٹیاں ہوا میں یوں اچھل رہی تھیں جیسے من و سلویٰ آسمان سے گرنے کی بجائے آج زمین سے اوپر آسمان کی طرف برس رہا ہو۔
ہاتھوں میں پکڑی رکابیاں اڑن طشتریوں کی طرح پورے پنڈال میں محو پرواز تھیں اور اندیشہ ہائے دور دراز رکھنے والے اہل نظر نے کوئی خطرہ مول لینے کی بجائے حفظ ماتقدم کے طور پر اب براہ راست ڈونگوں میں ہی کھانا شروع کر دیا تھا۔ مرغ ہائے مسلم کے پہاڑ ان کی ہیبت سے سمٹ کر رائی ہو چکے تھے اور ان کے ہاتھوں میں دبی مرغان بے نوا کی چیتھڑہ ٹانگیں کسی خطرناک ہتھیار سے کم دکھائی نہ دیتی تھیں۔
ایک بزرگوار جن کی عینک کا شیشہ کل چھوہارے لوٹتے ہوئے چٹخ گیا تھا اور جن کے مصنوعی دانت ہاتھ میں جکڑی مرغ مسلم کی ٹانگ پر تیزی سے چلتے ہوئے مسلسل بج رہے تھے، رکابی پر رکوع کے انداز میں جھکے ہوئے تھے اور تیزی سے ادھڑتی ٹانگ ہلا ہلا کر بھرے بھرے منہ سے اپنے نو سالہ سست رو فرزند کو ڈانٹ رہے تھے کہ حرامخور کھاتا کیوں نہیں۔ سب کچھ ختم ہونے کو ہے اور تو ابھی تک سلاد کی جگالی کیئے جا رہا ہے۔ پھر انہوں نے ادھ کھائی ٹانگ، اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا والے دستر خوان پر پھینکتے ہوئے سرعت سے ایک اور مرغ مسلم اٹھایا اور اسے جنگی قیدیوں کو گھوڑوں سے باندھ کر چیر دینے والے چنگیز خانی طریق کے مطابق دونوں ہاتھو ں سے پھاڑ کر لخت لخت کرتے ہوئے ایک حصہ بجتے ہوئے مصنوعی دانتوں میں دابا اور دوسرا کاہل فرزند کی جانب بڑھاتے ہوئے دھاڑے۔ ۔ ۔ کھا اسے۔ اور ادھر لا اپنی پلیٹ میں تجھے پلاؤ نکال دوں۔ یہ ساتھ بیٹھا قائم خانی سارا ختم کئے دیتا ہے۔ سبھی اچھی اچھی پٹھ کی بوٹیاں نکال کر چٹ کر گیا ہے ولد الخنزیر۔ نجانے کب تمیز آئے گی ان لوگوں کو۔ حریص حرام زادے۔
پیر صاحب بار بار تسلی دلا تے تھے کہ کھانا وافر ہے، پر ان کی ایسی طفل تسلیاں کھانے سے برسر پیکار مردان با صفاکو اور مشتعل کیئے دیتی تھیں۔ بیرے بیچارے خوانوں کو دوبارہ بھرنے کے لئے دوڑ دوڑ کر سامان لا رہے تھے۔ ولے افسوس کہ ان میں سے اکثر خوان تک پہنچنے سے پہلے ہی چت کر دیئے جاتے، اور جو منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے، جب لوٹتے تو یوں دکھائی دیتے جیسے کسی شکست خوردہ لشکر کے بھاگے ہوئے سپاہی ہوں۔ گریباں چاک۔ دامن تار تار۔ پگڑیاں گلے میں لٹکی ہوئی۔ لبادہ کھیر و قورمہ آلود۔ چال شکست خوردہ اور آنکھوں میں وحشت۔
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید