FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اَپنے دُکھ مُجھے دے دو

 

 

 

                راجندر سنگھ بیدی

 

 

 

 

 

 

شادی کی رات بالکل وہ نہ ہوا،جو مدن نے سوچا تھا۔

جب چکلی بھابھی نے پھُسلا کر مدن کو بیچ والے کمرے میں دھکیل دیا، تو اندو سامنے شالو میں لپٹی ہوئی اندھیرے کا بھاگ بنی جا رہی تھی۔ باہر چکلی بھابھی، دریا باد والی پھوپھی اور دوسری عورتوں کی ہنسی، رات کے خاموش پانیوں میں مصری کی طرح دھیرے دھیرے گھل رہی تھی۔ عورتیں سب یہی سمجھتی تھیں، اتنا بڑا ہو جانے پر بھی مدن کچھ نہیں جانتا ۔ کیونکہ جب اسے بیچ رات کے نیند سے جگایا گیا تو وہ ہڑبڑا رہا تھا — ’’کہاں، کہاں لیے جا رہی ہو مجھے؟‘‘

ان عورتوں کے اپنے دن بیت چُکے تھے۔پہلی رات کے بارے میں اُن کے شریر شوہروں نے جو کچھ کہا اور مانا تھا، اس کی گُونج تک اُن کے کانوں میں باقی نہ رہی تھی۔ وہ خود رَس بس چکی تھیں اور اب اپنی ایک اور بہن کو بسانے پر تُلی ہوئی تھیں۔ دھرتی کی یہ بیٹیاں مَرد کو یوں سمجھتی تھیں ،جیسے بادل کا ٹکڑا ہو، جس کی طرف بارش کے لیے منھ اُٹھا کر دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ نہ بر سے تو منتیں ماننی پڑتی ہیں، چڑھاوے چڑھانے پڑتے ہیں، جادُو ٹونے کرنے پڑتے ہیں۔ حالاں کہ مدن کالکاجی کی اس نئی آبادی میں گھر کے سامنے کھلی جگہ پر پڑا اسی وقت کا منتظر تھا۔ پھر شامتِ اعمال، پڑوسی سبطے کی بھینس اس کی کھاٹ ہی کے پاس بندھی تھی جو بار بار پھنکارتی ہوئی مدن کو سونگھ لیتی اور وہ ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر اسے دُور رکھنے کی کوشش کرتا —— ایسے میں بھلا نیند کا سوال ہی کہاں تھا؟

سمندر کی لہروں اور عورتوں کے خون کو راستہ بتانے والا چاند، ایک کھڑکی کے راستے اندر چلا آیا تھا اور دیکھ رہا تھا، دروازے کے اس طرف کھڑا مدن اگلا قدم کہاں رکھتا ہے؟ مدن کے اپنے اندر ایک گھن گرج سی ہو رہی تھی اور اسے اپنا آپ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے بجلی کا کھمبا ہے، جسے کان لگانے سے اسے اندر کی سنسناہٹ سنائی دے جائے گی۔ کچھ دیر یوں ہی کھڑے رہنے کے بعد اُس نے آگے بڑھ کر پلنگ کو کھینچ کر چاندنی میں کر دیا تاکہ دُلہن کا چہرہ تو دیکھ سکے۔ پھر وہ ٹھٹھک گیا۔ جبھی اس نے سوچا—— اندو میری بیوی ہے، کوئی پرائی عورت تو نہیں جسے نہ چھُونے کا سبق بچپن ہی سے پڑھتا آیا ہوں۔ شالُو میں لپٹی ہوئی دُلہن کو دیکھتے ہوئے اُس نے فرض کر لیا، یہاں اندو کا منھ ہو گا اور جب ہاتھ بڑھا کر اس نے پاس پڑی گٹھری کو چھُوا تو وہیں اندو کا منھ تھا۔ مدن نے سوچا تھا وہ آسانی سے مجھے اپنا آپ نہ دیکھنے دے گی، لیکن اندو نے ایسا کچھ نہ کیا، جیسے پچھلے کئی سالوں سے وہ بھی اسی لمحے کی منتظر ہو اور کسی خیالی بھینس کے سونگھتے رہنے سے اُسے بھی نیند نہ آ رہی ہو۔ غائب نیند اور بند آنکھوں کا کرب اندھیرے کے باوجود سامنے پھڑپھڑاتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ ٹھوڑی تک پہنچتے ہوئے عام طور پر چہرہ لمبوترہ ہو جاتا ہے، لیکن یہاں تو سبھی گول تھا۔ شاید اسی لیے چاندنی کی طرف گال اور ہونٹوں کے بیچ ایک سایہ دار کھوہ سی بنی ہوئی تھی، جیسی دو سرسبز اور شاداب ٹیلوں کے بیچ ہوتی ہے۔ ما تھا کچھ تنگ تھا لیکن اس پر سے ایکا ایکی اُٹھنے والے گھنگریالے بال ——

جبھی اندو نے اپنا چہرہ چھڑالیا، جیسے وہ دیکھنے کی اجازت تو دیتی ہو، لیکن اتنی دیر کے لیے نہیں۔ آخر شرم کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے۔ مدن نے ذرا سخت ہاتھوں سے یوں ہی سی ہُوں ہاں کرتے ہوئے ،دُلہن کا چہرہ پھر سے اُوپر کو اُٹھا لیا اور شرابی کی سی آواز میں کہا — ’’اندو!‘‘

اندو کچھ ڈر سی گئی۔ زندگی میں پہلی بار کسی اجنبی نے اس کا نام اس انداز سے پُکارا تھا اور وہ اجنبی کسی خدائی حق سے رات کے اندھیرے میں آہستہ آہستہ اس اکیلی بے یارو مددگار عورت کا اپنا ہوتا جا رہا تھا۔ اِندو نے پہلی بار ایک نظر اُوپر دیکھتے ہوئے پھر آنکھیں بند کر لیں اور اتنا سا کہا—— ’’جی‘‘… اسے خود اپنی آواز کسی پاتال سے آتی ہوئی سنائی دی۔

دیر تک کچھ ایسا ہو ہوتا رہا اور پھر ہولے ہولے بات چل نکلی۔ اب جو چلی سو چلی۔ وہ تھمنے ہی میں نہ آتی تھی۔ اندو کے پِتا ، اِندو کی ماں، اندو کے بھائی، مدن کے بھائی بہن، باپ، ان کی ریلوے میل سروس کی نوکری، ان کے مزاج، کپڑوں کی پسند، کھانے کی عادت ،سبھی کچھ کا جائزہ لیا جانے لگا۔ بیچ بیچ میں مدن بات چیت کو توڑ کر کچھ اور ہی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اندو طرح دے جاتی تھی۔ انتہائی مجبوری اور لاچاری میں مدن نے اپنی ماں کا ذکر چھیڑ دیا ،جو اسے سات سال کی عمر میں چھوڑ کر دق کے عارضے سے چلتی بنی تھی۔ ’’جتنی دیر زندہ رہی بچاری‘‘ مدن نے کہا۔ ’’بابوجی کے ہاتھ میں دوائی کی شیشیاں ہی رہیں ۔ ہم اسپتال کی سیڑھیوں پر اور چھوٹا پاشی گھر میں چیونٹیوں کے بل پر سوتے رہے اور آخر ایک دن —— 28؍ مارچ کی شام … ‘‘ اور مدن چُپ ہو گیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ رونے سے ذرا اِدھر اور گھگھی سے ذرا اُدھر پہنچ گیا۔ اِندو نے گھبرا کر مدن کا سر اپنی چھاتی سے لگا لیا۔ اس رونے نے پل بھر میں اندو کو بھی اپنے پن سے اِدھر اور بیگانے پن سے اُدھر پہنچا دیا تھا … مدن اِندو کے بارے میں کچھ اور بھی جاننا چاہتا تھا، لیکن اندو نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے اور کہا —— ’’میں تو پڑھی لکھی نہیں ہوں جی۔ پر میں نے ماں باپ دیکھے ہیں، بھائی اور بھابیاں دیکھی ہیں، بیسیوں اور لوگ دیکھے ہیں۔ اس لیے میں کچھ سمجھتی بوجھتی ہوں… میں اب تمھاری ہوں۔ اپنے بدلے میں تم سے ایک ہی چیز مانگتی ہوں۔‘‘

روتے وقت اور اس کے بعد بھی ایک نشہ سا تھا۔ مدن نے کچھ بے صبری اور کچھ دریا دلی کے ملے جُلے شبدوں میں کہا۔

’’کیا مانگتی ہو؟ تم جو بھی کہو گی میں دوں گا۔‘‘

’’پکّی بات؟‘‘ اندو بولی۔

’’مدن نے کچھ اُتاؤلے ہو کر کہا —— ’’ہاں، ہاں —— کہا جو پکّی بات۔‘‘

لیکن اس بیچ میں مدن کے مَن میں ایک وسوسہ آیا—— میرا کاروبار پہلے ہی مندا ہے۔ اگر اندو کوئی ایسی چیز مانگ لے جو میری پہنچ ہی سے باہر ہو تو پھر کیا ہو گا؟ لیکن اندو نے مدن کے سخت اور پھیلے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ملائم ہاتھوں میں سمیٹتے اور ان پر اپنے گال رکھتے ہوئے کہا——

’’تم اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘

مدن سخت حیران ہوا۔ ساتھ ہی اُسے اپنے آپ پر سے ایک بوجھ بھی اُترتا ہوا محسوس ہوا۔ اُس نے پھر چاندنی میں ایک بار اندو کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ کچھ نہ جان پایا۔ اُس نے سوچا۔ یہ ماں یا کسی سہیلی کا رٹا ہوا فقرہ ہو گا جو اندو نے کہہ دیا۔ جبھی ایک جلتا ہوا آنسو مدن کے ہاتھ کی پُشت پر گرا۔ اُس نے اندو کو اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا۔ ’’دیے‘‘ لیکن ان سب باتوں نے مدن سے اس کی بہیمیت چھین لی تھی۔

مہمان ایک ایک کر کے سب رُخصت ہوئے۔ چکلی بھابی دو بچوں کو انگلیوںسے لگائے سیڑھیوں کی اُونچ نیچ سے تیسرا پیٹ سنبھالتی ہوئی چل دی۔ دریاباد والی پھوپھی،جو اپنے   ’’نولکھے ہار‘‘ کے گُم ہو جانے پر شور مچاتی ، واویلا کرتی ہوئی بے ہوش ہو گئی تھی اور جو غسل خانے میں پڑا مل گیا تھا، جہیز میں سے اپنے حصّے کے تین کپڑے لے کر چلی گئی۔ پھر چاچا گئے، جن کو ان کے جے پی ہونے کی خبر تار کے ذریعے سے مل گئی تھی، جو شاید بدحواسی میں مدن کی بجائے دُلہن کا مُنھ چُومنے چلے تھے …

گھر میں بوڑھا باپ رہ گیا تھا اور چھوٹے بہن بھائی۔ چھوٹی دُلاری تو ہر وقت بھابی کی بغل ہی میں گھُسی رہتی۔ گلی محلّے کی کون سی عورت دُلہن کو دیکھے یا نہ دیکھے، دیکھے تو کتنی دیر دیکھے، یہ سب اس کے اختیار میں تھا۔ آخر یہ سب ختم ہوا اور اِندہ آہستہ آہستہ پُرانی ہونے لگی۔ لیکن کالکاجی کی اس نئی آبادی کے لوگ آج بھی آتے جاتے مدن کے سامنے رُک جاتے اور کسی بھی بہانے سے اندر چلے آتے۔ اِندو انھیں دیکھتے ہی ایک دم گھونگھٹ کھینچ لیتی، لیکن اس چھوٹے سے وقفے میں انھیں جو کچھ دکھائی دے جاتا، وہ بِنا گھونگھٹ کے دکھائی ہی نہ دے سکتا تھا۔

مدن کا کاروبار گندے بروزے کا تھا۔ کہیں بڑی سپلائی والے دو تین جنگلوں میں چیڑ اور دیودار کے پیڑوں کو جنگل کی آگ نے آ لیا تھا اور وہ دَھڑ دَھڑ جلتے ہوئے خاک سیاہ ہو کر رہ گئے تھے۔ میسور اور آسام کی طرف سے منگوایا ہوا بروزہ مہنگا پڑتا تھا اور لوگ اسے مہنگے داموں خریدنے پر تیار نہ تھے۔ ایک تو آمدنی کم ہو گئی تھی، اس پر مدن جلدی دُکان اور اس کے ساتھ والا دفتر بند کر کے گھر چلا آتا —— گھر پہنچ کر اس کی ساری کوشش یہی ہوتی کہ سب کھائیں پئیں اور اپنے اپنے بستروں میں دُبک جائیں۔ جبھی وہ کھاتے وقت خود تھالیاں اُٹھا اُٹھا کر باپ اور بہن کے سامنے رکھتا اور ان کے کھاچکنے کے بعد جھوٹے برتنوں کو سمیٹ کر نل کے نیچے رکھ دیتا۔ سب سمجھتے بہو —— بھابی نے مدن کے کان میں کچھ پھونکا ہے اور آج وہ گھر کے کام میں دلچسپی لینے لگا ہے۔ مدن سب سے بڑا تھا۔ کندن اس سے چھوٹا اور پاشی سب سے چھوٹا۔ جب کندن بھابی کے سواگت میں سب کے ایک ساتھ بیٹھ کر کھانے پر اصرار کرتا، تو باپ دھنی رام وہیں ڈانٹ دیتا—— ’’کھاؤ تم‘‘ —— وہ کہتا — ’’وہ بھی کھا لیں گے‘‘ اور پھر رسوئی میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا اور جب بہو کھانے پینے سے فارغ ہو جاتی اور برتنوں کی طرف متوجہ ہوتی، تو بابو دھنی رام اُسے روکتے ہوئے کہتے ’’رہنے دو بہو ۔برتن صبح ہو جائیں گے۔‘‘ اِندو کہتی — ’’نہیں بابوجی، میں ابھی کیے دیتی ہیں، جھپا کے سے۔‘‘ تب بابو دھنی رام ایک لرزتی ہوئی آواز میں کہتے —— ’’مدن کی ماں ہوتی بہو، تو یہ سب تمھیں کرنے دیتی؟‘‘… اور اِندو ایک دم اپنے ہاتھ روک لیتی۔

چھوٹا پاشی بھابی سے شرماتا تھا۔ اس خیال سے کہ دُلہن کی گود جھٹ سے ہری ہو، چکلی بھابی اور دریاباد والی پھوپھی نے ایک رسم میں پاشی ہی کو اِندو کی گود میں ڈالا تھا۔ جب سے اندو اُسے نہ صرف دیور، بلکہ اپنا بچّہ سمجھنے لگی تھی۔ جب بھی وہ پیار سے پاشی کو اپنے بازوؤں میں لینے کی کوشش کرتی تو وہ گھبرا اُٹھتا اور اپنا آپ چھڑا کر دو ہاتھ کی دوری پر کھڑا ہو جاتا، دیکھتا اور ہنستا، پاس آتا، نہ دُور ہٹتا۔ ایک عجیب اتفاق سے، ایسے میں بابوجی ہمیشہ وہیں موجود ہوتے اور پاشی کو ڈانٹتے ہوئے کہتے —— ’’ارے جانا—— بھابی پیار کرتی ہے، ابھی سے مرد ہو گیا ہے تو؟‘‘… اور دُلاری تو پیچھا ہی نہ چھوڑتی اُس کے ’’ میں تو بھابی کے ساتھ ہی سوؤں گی‘‘ کے اصرار نے بابوجی کے اندر کوئی جناردھن جگا دیا تھا۔ ایک رات اس بات پر دُلاری کو زور سے چپت پڑی اور وہ گھر کی آدھی کچی آدھی پکّی نالی میں جا گری۔ اِندو نے لپکتے ہوئے پکڑا تو سر پر سے دوپٹہ اُڑ گیا ۔بالوں کے پھول اور چڑیاں، مانگ کا سیندور، کانوں کے کرن پھول سب ننگے ہو گئے۔ ’’بابوجی‘‘! اِندو نے سانس کھینچتے ہوئے کہا —— ایک ساتھ دُلاری کو پکڑنے اور سر پر دوپٹہ اوڑھنے میں اندو کے پسینے چھُوٹ گئے۔ اس بے ماں کی بچّی کو چھاتی کے ساتھ لگائے ہوئے اندو نے اسے ایک بستر میں سلا دیا، جہاں سرہانے ہی سرہانے، تکیے ہی تکیے تھے۔ نہ کہیں پائنتی تھی، نہ کاٹھ کے بازو۔ چوٹ تو ایک طرف، کہیں کوئی چبھنے والی چیز بھی نہ تھی۔ پھر اِندو کی اُنگلیاں دُلاری کے پھوڑے ایسے سر پر چلتی ہوئی اُسے دُکھا بھی رہی تھیں، اور مزا بھی دے رہی تھیں۔ دُلاری کے گالوں پر بڑے بڑے اور پیارے سے گڑھے پڑتے تھے۔ اندو نے ان گڑھوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا— ’’ہائے ری مُنّی ! تیری ساس مرے۔ کیسے گڑھے پڑ رہے ہیں تیرے گالوں پر ——!‘‘ مُنّی نے مُنّی ہی کی طرح کہا ’’گڑھے تمھارے بھی تو پڑتے ہیں بھابی!‘‘

’’ہاں مُنّو!‘‘ اِندو نے کہا اور ایک ٹھنڈا سانس لیا۔

مدن کو کسی بات پر غصّہ تھا۔ وہ پاس ہی کھڑا سب کچھ سُن رہا تھا۔ بولا — ’’میں تو کہتا ہوں ،ایک طرح سے اچھّا ہی ہے۔‘‘

’’کیوں، اچھّا کیوں ہے؟‘‘ اِندو نے پُوچھا۔

’’ہاں۔ نہ اُگے بانس نہ بجے بانسری… ساس نہ ہو تو کوئی جھگڑا ہی نہیں رہتا۔‘‘

اِندو نے ایکا ایکی خفا ہوتے ہوئے کہا —— ’’تم جاؤ جی سو رہو جا کے، بڑے آئے ہو… آدمی جیتا ہے تو لڑتا ہے نا؟ مرگھٹ کی چُپ چاپ سے جھگڑے بھلے۔ جاؤنا، رسوئی میں تمھارا کیا کام؟‘‘

مدن کھسیانا ہو کر رہ گیا۔ بابو دھنی رام کی ڈانٹ سے باقی بچیّ تو پہلے ہی سے اپنے اپنے بستروں میں یوں جا پڑے تھے، جیسے ڈاک گھر میں چٹھیاں سارٹ ہوتی ہیں، لیکن مدن وہیں کھڑا رہا۔ احتیاج نے اسے ڈھیٹ اور بے شرم بنادیا تھا۔ لیکن اس وقت جب اِندو نے بھی اسے ڈانٹ دیا، تو وہ روہانسا ہو کر اندر چلا گیا۔

دیر تک مدن بستر میں پڑا کسمساتا رہا۔ لیکن بابوجی کے خیال سے اندو کو آواز دینے کی ہمّت نہ پڑتی تھی۔ اس کی بے صبری کی حد ہو گئی، جب مُنّی کو سلانے کے لیے اِندو کی لوری سنائی دی۔ ’’تو آنند یارانی، بورائی مستانی۔‘‘

— وہی لُوری جو دلاری مُنّی کو سلا رہی تھی، مدن کی نیند بھگا رہی تھی۔ اپنے آپ سے بیزار ہو کر اس نے زور سے چادر کھینچ لی۔ سفید چادر کے سر پر لینے اور سانس کے بند کرنے سے خواہ مخواہ ایک مُردے کا تصور پیدا ہو گیا۔مدن کو یوں لگا جیسے وہ مر چکا ہے اور اس کی دُلہن اندو اس کے پاس بیٹھی زور زور سے سر پیٹ رہی ہے، دیوار کے ساتھ کلائیاں مار مار کر چوڑیاں توڑ رہی ہے، اور پھر گرتی پڑتی، روتی چلاتی رسوئی میں جاتی ہے اور چُولھے کی راکھ سر پر ڈال لیتی ہے، پھر باہر لپک جاتی ہے اور بانہیں اٹھا اٹھا کر گلی محلّے کے لوگوں سے فریاد کرتی ہے —— ’’لوگو! میں لُٹ گئی۔‘‘ اب اُسے دوپٹے کی پروا نہیں، قمیص کی پروا نہیں، مانگ کا سیندور، بالوں کے پھول اور چڑیاں سب ننگے ہو چکے ہیں، جذبات اور خیالات کے طوطے تک اُڑ چکے ہیں۔

مدن کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہہ رہے تھے۔ حالاں کہ رسوئی میں اِندو ہنس رہی تھی،پل بھر میں اپنے سہاگ کے اجڑنے اور پھر بَس جانے سے بے خبر۔ مدن جب حقائق کی دنیا میں آیا تو آنسو پُونچھتے ہوئے اپنے اس رونے پر ہنسنے لگا … ادھر اِندو ہنس تو رہی تھی، لیکن اس کی ہنسی دبی دبی تھی۔ بابوجی کے خیال سے وہ کبھی اونچی آواز میں نہ ہنستی تھی، جیسے کِھلکھلاہٹ کوئی ننگا پن ہے۔خاموشی دوپٹہ اور دبی دبی ہنسی، ایک گھونگھٹ۔ پھر مدن نے اِندو کا ایک خیالی بُت بنایا اور اس سے بیسیوں باتیں کر ڈالیں۔ یوں اُس سے پیار کیا، جیسے ابھی تک نہ کیا تھا … وہ پھر اپنی دُنیا میں لوٹا ،جس میںسا تھ کا بستر خالی تھا۔ اُس نے ہولے سے آواز دی ’’اندو‘‘… اور پھر چُپ ہو گیا۔ اس اُدھیڑ بُن میں وہ بورائی مستانی نند یا اُس سے بھی لپٹ گئی۔ ایک اونگھ سی آئی ،لیکن ساتھ ہی یوں لگا جیسے شادی کی رات والی پڑوسی سبطے کی بھینس مُنھ کے پاس پھنکارنے لگی ہے۔ وہ ایک بے کلی کے عالم میں اُٹھا، پھر رسوئی کی طرف دیکھتے، سر کو کھجاتے دو تین جمائیاں لے کر لیٹ گیا۔ سو گیا۔

مدن، جیسے کانوں کو کوئی سندیسہ دے کر سویا تھا۔ جب اِندو کی چوڑیاں بستر کی سلوٹیں درست کرنے کے لیے کھنک اُٹھیں، تو وہ بھی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ یوں ایک دم جاگنے میں محبت کا جذبہ اور بھی تیز ہو گیا تھا۔ پیار کی کروٹوں کو توڑے بغیر آدمی سوجائے اور ایکا ایکی اُٹھے تو محبت دَم توڑ دیتی ہے۔ مدن کا سارا بدن اندر کی آگ سے پھنک رہا تھا اور یہی اس کے غصّے کا کارن بن گیا، جب اُس نے کچھ بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا ——

’’سو ،تم —— آ گئیں؟‘‘

’’ہاں!‘‘

’’مُنّی —— سو مر گئی ؟‘‘

اندو جھُکی جھُکی ایک دم سیدھی کھڑی ہو گئی —— ’’ہائے رام!‘‘ اُس نے ناک پر انگلی رکھتے، ہاتھ ملتے ہوئے کہا —— ’’کیا کہہ رہے ہو؟ … مرے کیوں بے چاری؟— ماں باپ کی ایک بیٹی۔‘‘

’’ہاں!——‘‘ مدن نے کہا۔ ’’بھابی کی ایک ہی نند۔‘‘ اور پھر ایک دم تحکمانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے بولا —— ’’زیادہ مُنھ مت لگاؤ اس چڑیل کو۔‘‘

’’کیوں، اس میں کیا پاپ ہے؟‘‘

’’یہی پاپ ہے‘‘ مدن نے اور چڑتے ہوئے کہا ’’پیچھا ہی نہیں چھوڑتی تمھارا۔ جب دیکھو جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہے، دفان ہی نہیں ہوتی۔‘‘

’’ہا ——‘‘ اِندو نے مدن کی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا ’’بہنوں اور بیٹیوں کو یوں تو دھتکارنا نہیں چاہیے۔ بے چاری دو دن کی مہمان۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ایک دن چل ہی دے گی۔‘‘ اس کے بعد اِندو کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن وہ چُپ ہو گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اپنی ماں، باپ، بھائی بہن، چچا ، تایا سبھی گھوم گئے۔ کبھی وہ بھی ان کی دُلاری تھی جو پلک جھپکتے ہی نیاری ہو گئی اور پھر دن رات اس کے نکالے جانے کی باتیں ہونے لگیں، جیسے گھر میں کوئی بڑی سی بانبی ہے جس میں کوئی ناگن رہتی ہے اور جب تک وہ پکڑ کر پھنکوائی نہیں جاتی، گھر کے لوگ آرام کی نیند سو نہیں سکتے۔ دُور دُور سے کیلنے والے، نتھن کرنے والے، دانت پھوڑنے والے ماندری بُلوائے گئے۔ بڑے بڑے دھنونتری اور موتی ساگر —— آخر ایک دن اُتّر پچھم کی طرف سے لال آندھی آئی جو صاف ہوئی تو ایک لاری کھڑی تھی جس میں گوٹے کناری میں لپٹی ہوئی ایک دُلہن بیٹھی تھی۔ پیچھے گھر میں، ایک سُر پر بجتی ہوئی شہنائی بین کی آواز معلوم ہو رہی تھی۔ پھر ایک دھچکے کے ساتھ لاری چل دی …

مدن نے کچھ برافروختگی کے عالم میں کہا —— ’’تم عورتیں بڑی چالاک ہوتی ہو۔ ابھی کل ہی اس گھر میں آئی ہو اور یہاں کے سب لوگ تمھیں ہم سے زیادہ پیار ے لگنے لگے؟‘‘

’’ہاں!‘‘ اندو نے اثبات سے کہا۔

’’یہ سب جھُوٹ ہے … یہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘

’’تمھارا مطلب ہے میں——‘‘

’’دِکھاوا ہے یہ سب —— ہاں!‘‘

’’اچھا جی؟‘‘ اِندو نے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ سب دکھاوا ہے میرا؟‘‘ اور اندو اُٹھ کر اپنے بستر پر چلی گئی اور سرہانے میں مُنھ چھپا کر سسکیاں بھرنے لگی۔ مدن اُسے منانے ہی والا تھا کہ اِندو خود ہی اُٹھ کر مدن کے پاس آ گئی اور سختی سے اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی —— ’’تم جو ہر وقت جلی کٹی کہتے رہتے ہو —— ہوا کیا ہے تمھیں؟‘‘…

شوہرانہ رُعب داب کے لیے مدن کے ہاتھ بہانہ آ گیا — ’’جاؤ جاؤ — سوجاؤ جا کے‘‘ مدن نے کہا— ’’مجھے تم سے کچھ نہیں لینا۔‘‘

’’تمھیں کچھ نہیں لینا، مجھے تو لینا ہے۔‘‘ اِندو بولی۔ ’’زندگی بھر لینا ہے‘‘ اور وہ چھینا جھپٹی کرنے لگی۔ مدن اسے دھتکارتا تھا اور وہ اسے لپٹ لپٹ جاتی تھی۔ وہ اس مچھلی کی طرح تھی جو بہاؤ میں بہہ جانے کی بجائے، آبشار کے تیز دھارے کو کاٹتی ہوئی اُوپر ہی اُوپر پہنچنا چاہتی ہے۔ چٹکیاں لیتی، ہاتھ پکڑتی، روتی ہنستی وہ کہہ رہی تھی ——

’’پھر مجھے، پھاپھا کٹنی کہو گے؟‘‘

’’وہ تو سبھی عورتیں ہوتی ہیں۔‘‘

’’ٹھہرو—— تمھاری تو ——‘‘ تو یوں معلوم ہوا جیسے اِندو کوئی گالی دینے والی ہو۔ اور اس نے مُنھ میں کچھ منمنایا بھی۔ مدن نے مُڑتے ہوئے کہا — ’’کیا کہا؟‘‘ اور اِندو نے اب کے سنائی دینے والی آواز میں دہرا دیا۔ مدن کھِل کھِلا کر ہنس پڑا۔ اگلے ہی لمحے اِندو مدن کے بازوؤں میں تھی اور کہہ رہی تھی —

’’تم مرد لوگ کیا جانو؟—— جس سے پیار ہوتا ہے اس کے سبھی چھوٹے بڑے پیارے معلوم ہوتے ہیں۔ کیا باپ، کیا بھائی اور کیا بہن ——‘‘ اور پھر ایکا ایکی دُور دیکھتی ہوئی بولی —

’’میں تو دُلاری مُنّی کا بیاہ کروں گا۔‘‘

’’حد ہو گئی ‘‘ مدن نے کہا ۔’’ابھی ایک ہاتھ کی ہوئی نہیں اور بیاہ کی بھی سوچنے لگیں؟‘‘

’’تمھیں ایک ہاتھ کی دِکھتی ہے نا؟‘‘ اِندو بولی اور پھر اپنے دونوں ہاتھ مدن کی آنکھوں پر رکھتی ہوئے کہنے لگی —— ’’ذرا آنکھیں بند کرو اور پھر کھولو ——‘‘ مدن نے سچ مچ ہی آنکھیں بند کر لیں اور پھر جب کچھ دیر تک نہ کھولیں تو اندو بولی —— ’’اب کھولو بھی، اِتنی دیر میں تو میں بوڑھی ہو جاؤں گی‘‘—— جبھی مدن نے آنکھیں کھولیں۔ لمحہ بھر کے لیے اُسے یوں لگا جیسے سامنے اندو نہیں، کوئی اور بیٹھی ہے۔ وہ کھوسا گیا۔

’’میں نے تو ابھی سے چار سوٹ اور کچھ برتن الگ کر ڈالے ہیں اس کے لیے۔‘‘ اندو نے کہا اور جب مدن نے کوئی جواب نہ دیا تو اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولی — ’’تم کیوں پریشان ہوتے ہو؟… یاد نہیں اپنا وچن؟—— تم اپنے دُکھ مجھے دے چکے ہو۔‘‘

’’ایں؟‘‘ مدن نے چونکتے ہوئے کہا اور جیسے بے فکر سا ہو گیا ۔لیکن اب کے جب اس نے اندو کو اپنے ساتھ لپٹایا تو وہ ایک جسم ہی نہیں رہ گیا تھا، ساتھ ساتھ ایک روح بھی شامل ہو گئی تھی۔

مدن کے لیے اندو روح ہی روح تھی، اندو کے جسم بھی تھا لیکن وہ ہمیشہ کسی نہ کسی وجہ سے مدن کی نظروں سے اوجھل ہی رہا۔ ایک پردہ تھا ۔ خواب کے تاروں سے بُنا ہوا، آہوں کے دھوئیں سے رنگین، قہقہوں کی زرتاری سے چکا چوند، جو ہر وقت اندو کو ڈھانپے رہتا تھا۔ مدن کی نگاہیں اور اس کے ہاتھوں کے دو شاسن صدیوں سے اس دروپدی کا چیر ہَرن کرتے آئے تھے، جو کہ عرف عام میں بیوی کہلاتی ہے، لیکن ہمیشہ اسے آسمانوں سے تھانوں کے تھان، گزوں کے گز کپڑا ننگا پن ڈھانپنے کے لیے ملتا آیا تھا۔ دوشاسن تھک ہار کے یہاں وہاں گرے پڑے تھے، لیکن دروپدی وہیں کھڑی تھی۔ عزّت اور پاکیزگی کی سفید ساری میں ملبوس وہ دیوی لگ رہی تھی اور ——

… مدن کے لوٹتے ہوئے ہاتھ خجالت کے پسینے سے تر ہوتے، جنھیں سکھانے کے لیے وہ انھیں اُوپر ہوا میں اُٹھا دیتا اور پھر ہاتھ کے پنجوں کو پورے طور پر پھیلاتا ہوا ایک تشنجی کیفیت میں اپنی آنکھوں کی پھیلتی پھٹتی ہوئی پتلیوں کے سامنے رکھ دیتا، اور پھر انگلیوں کے بیچ میں سے جھانکتا—— اندو کا مرمریںجسم، خوش رنگ اور گداز سامنے پڑا ہوتا۔ استعمال کے لیے پاس، ابتذال کے لیے دور… کبھی اندو کی ناکہ بندی ہو جاتی تو اس قسم کے فقرے ہوتے——

’’ہائے جی! گھر میں چھوٹے بڑے سبھی ہیں، وہ کیا کہیں گے؟‘‘

مدن کہتا— ’’چھوٹے سمجھتے نہیں ۔ بڑے سمجھ جاتے ہیں ——‘‘

اِسی دوران میں بابو دھنی رام کی تبدیلی سہارنپور ہو گئی۔ وہاں وہ ریلوے میل سروس میں سیلیکشن گریڈ کے ہیڈ کلرک ہو گئے۔ اتنا بڑا کوارٹر ملا کہ اس میں آٹھ کنبے رہ سکتے تھے۔ لیکن بابو دھنی رام اس میں اکیلے ہی ٹانگیں پھیلائے ہوئے پڑے رہتے۔ زندگی بھر وہ بال بچوں سے کبھی علاحدہ نہیں ہوئے تھے۔ سخت گھریلو قسم کے آدمی، آخری زندگی میں اس تنہائی نے ان کے دل میں وحشت پیدا کر دی۔ لیکن مجبوری تھی۔ بچے سب دلّی میں مدن اور اندو کے پاس تھے اور وہیں اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ سال کے خاتمے سے پہلے انھیں بیچ میں سے اُٹھانا، ان کی پڑھائی کے لیے اچھا نہ تھا۔ بابوجی کو دل کے دَورے پڑنے لگے۔

بارے گرمی کی چھٹیاں ہوئیں اور ان کے بار بار لکھنے پر مدن نے اندو کو کندن، پاشی اور دلاری کے ساتھ سہارنپور بھیج دیا۔ دھنی رام کی دُنیا چہک اُٹھی۔ کہاں اُنھیں دفتر کے کام کے بعد فرصت ہی فرصت تھی اور کہاں اب کام ہی کام تھا۔ بچے، بچّوں ہی کی طرح، جہاں کپڑے اتارتے وہیں پڑے رہنے دیتے اور بابوجی انھیں سمیٹتے پھرتے، اپنے بدن سے دُور، السائی ہوئی رتّی، اندو تو اپنے پہناوے تک سے غافل ہو گئی تھی۔ وہ رسوئی میں یوں پھرتی تھی جیسے کانجی ہاؤس میں گائے باہر کی طرف منھ اُٹھا اُٹھا کر اپنے مالک کو ڈھونڈا کرتی ہے۔ کام دھام کرنے کے بعد وہ کبھی اندو ٹرنکوں پر لیٹ جاتی، کبھی باہر کنیر کے بوٹے کے پاس اور کبھی آم کے پیڑ تلے، جو آنگن میں سینکڑوں ہزاروں دلوں کو تھامے کھڑا تھا۔

ساون، بھادوں میں ڈھلنے لگا۔ آنگن میں سے باہر کا دریچہ کھُلتا تو کنواریاں، نئی بیاہی ہوئی لڑکیاں پینگ بڑھاتے ہوئے گاتیں۔ جھولا کن نے ڈارو رے امریاں۔ اور پھر گیت کے بول کے مطابق دو جھولتیں اور دو جھُلاتیں اور کہیں چار مل جاتیں تو بھول بھلیاں ہو جاتیں۔ ادھیڑ عمر کی اور بوڑھی عورتیں ایک طرف کھڑی تکا کرتیں۔ اندو کو معلوم ہوتا ،جیسے وہ بھی ان میں شامل ہو گئی ہے۔ جبھی وہ منھ پھیر لیتی اور ٹھنڈی سانسیں بھرتی ہوئی سوجاتی۔ بابو جی پاس سے گزرتے تو اسے جگانے اور اُٹھانے کی ذرا بھی کوشش نہ کرتے، بلکہ موقع پاکر اس کی شلوار کو، جو بہو دھوتی سے بدل آتی اور جسے وہ ہمیشہ اپنی ساس والے پرانے صندل کے صندوق پر پھینک دیتی، اُٹھا کر کھونٹی پر لٹکا دیتے۔ ایسے میں اُنھیں سب سے نظریں بچانا پڑتیں۔ لیکن ابھی شلوار کو سمیٹ کر مُڑتے ، تو نگاہ نیچے کونے میں بہو کے مَحرم پر جا پڑتی تب اُن کی ہمت جواب دے جاتی اور وہ یوں شتابی کمرے سے نکل بھاگتے، جیسے کہیں سانپ کا بچّہ بِل سے باہر آ گیا ہو۔ پھر برآمدے میں ان کی آواز سنائی دینے لگتی۔ اوم نمو بھگوتے واسودیوا——

اَڑوس پڑوس کی عورتوں نے بابوجی کی بہو کی خوبصورتی کی داستانیں دور دور تک پہنچا دی تھیں۔ جب کوئی عورت بابوجی کے سامنے بہو کے پیارے پن اور سڈول جسم کی باتیں کرتی، تو وہ خوشی سے پھُول جاتے اور کہتے —— ’’ہم تو دھنّیہ ہو گئے، امی چند کی ماں! شکر ہے ہمارے گھر میں بھی کوئی صحت والا جیو آیا‘‘ اور یہ کہتے ہوئے اُن کی نگاہیں کہیں دور پہنچ جاتیں جہاں دق کے عارضے تھے، دوائی کی شیشیاں، اسپتال کی سیڑھیاں یا چیونٹیوں کے بل۔ نگاہ قریب آتی تو انھیں موٹے موٹے گدرائے ہوئے جسم والے کئی بچے بغل میں، جانگھ پر، گردن پر چڑھتے اُترتے ہوئے محسوس ہوتے اور ایسا معلوم ہوتا جیسے ابھی اور آ رہے ہیں۔ پہلو پر لیٹی ہوئی بہو کی کمر زمین کے ساتھ اور کولھے چھت کے ساتھ لگ رہے ہیں اور وہ دھڑا دھڑ بچّے جنتی جا رہی ہے اور ان بچّوں کی عمر میں کوئی فرق نہیں۔ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا، سبھی ایک سے جڑواں —— توام… اوم نموبھگوتے ——

آس پاس کے لوگ سب جان گئے تھے، اندو بابوجی کی چہیتی بہو ہے۔ چنانچہ دودھ اور چھاچھ کے مٹکے دھنی رام کے گھر آنے لگے اور پھر ایک دن سلام دین گوجر نے فرمائش کر دی۔ اندو سے کہا ’’ بی بی! میرا بیٹا آر ۔ ایم۔ ایس میں قلی رکھوا دو، اللہ تم کو اَجر دے گا‘‘ اندو کے اشارے کی دیر تھی کہ سلام دین کا بیٹا نوکر ہو گیا، وہ بھی سارٹر—— جو نہ ہو سکا اُس کی قسمت، آسامیاں ہی زیادہ نہ تھیں۔

بہو کے کھانے پینے اور اس کی صحت کا بابوجی خاص خیال رکھتے تھے۔ دودھ پینے سے اندو کو چڑ تھی۔ وہ رات کے وقت خود دودھ کوباٹی میں پھینٹ گلاس میں ڈال، بہو کو پلانے کے لیے اس کی کھٹیا کے پاس آ جاتے۔ اندو اپنے آپ کو سمیٹتے ہوئے اُٹھتی اور کہتی —— ’’نہیں بابوجی! مجھ سے نہیں پیا جاتا۔‘‘

’’تیرا تو سسُر بھی پیے گا‘‘ وہ مذاق سے کہتے۔

’’تو پھر آپ پی لیجیے نا‘‘ اندو ہنستی ہوئی جواب دیتی اور بابوجی ایک مصنوعی غصّے سے برس پڑتے —— ’’تو چاہتی ہے بعد میں تیری بھی وہی حالت ہو جو تیری ساس کی ہوئی؟‘‘

’’ہوں —— ہوں ——‘‘ اندو لاڈ سے روٹھنے لگتی۔ آخر کیوں نہ رُوٹھتی۔ وہ لوگ نہیں روٹھتے جنھیں منانے والا کوئی نہ ہو۔ لیکن یہاں تو منانے والے سب تھے، روٹھنے والا صرف ایک۔ جب اندو بابوجی کے ہاتھ سے گلاس نہ لیتی تو وہ اسے کھٹیا کے پاس سرہانے کے نیچے رکھ دیتے —— اور ’’لے یہ پڑا ہے —— تیری مرضی ہے پی —— نہیں مرضی تو نہ پی ‘‘ —— کہتے ہوئے چل دیتے۔

اپنے بستر پر پہنچ کر دھنی رام، دُلاری مُنّی کے ساتھ کھیلنے لگتے۔ دُلاری کو بابوجی کے ننگے پنڈے کے ساتھ پنڈا گھسانے اور پیٹ پر مُنھ رکھ کر پھُٹکڑا پھُلانے کی عادت تھی۔ آج جب بابوجی اور مُنّی یہ کھیل کھیل رہے تھے، ہنس ہنسا رہے تھے تو مُنّی نے بھابی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا—— ’’دودھ تو کھراب ہو جائے گا بابو جی—— بھابی تو پیتی ہی نہیں۔‘‘

’’پیے گی، ضرور پیے گی بیٹا! —— ‘‘ بابو جی نے دوسرے ہاتھ سے پاشی کو لپٹاتے ہوئے کہا —— ’’عورتیں گھر کی کسی چیز کو خراب ہوتے نہیں دیکھ سکتیں‘‘ ابھی یہ فقرہ بابوجی کے مُنھ ہی میں ہوتا کہ ایک طرف سے ’’ہُش —— ہے خصم کی کھانی‘‘ کی آواز آنے لگتی۔ پتہ چلتا، بہو بلّی کو بھگا رہی ہے —— اور پھر کوئی غٹ غٹ سی سنائی دیتی اور سب جان لیتے، بہو —— بھابی نے دودھ پی لیا۔ کچھ دیر کے بعد کندن ، بابوجی کے پاس آتا اور کہتا ——

’’بوجی —— بھابی رورہی ہے۔‘‘

’’ہائیں؟‘‘ بابوجی کہتے اور پھر اُٹھ کر اندھیرے میں دُور اسی طرف دیکھنے لگتے جِدھر بہو کی چارپائی پڑی ہوتی۔ کچھ دیر یوں ہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ پھر لیٹ جاتے اور کچھ سمجھتے ہوئے کندن سے کہتے —— ’’جا —— تو سو جا —— وہ بھی سوجائے گی اپنے آپ۔‘‘

اور پھر سے لیٹتے ہوئے بابو دھنی رام آسمان پر کِھلے ہوئے پرماتما کے گلزار کو دیکھنے لگتے اور اپنے مَن کے بھگوان سے پُوچھتے — ’’چاندی کے ان کھلتے، بند ہوتے ہوئے پھولوں میں میرا پھُول کہاں ہے؟‘‘ اور پھر پورا آسمان اُنھیں درد کا ایک دریا دکھائی دینے لگتا اور کانوں میں ایک مسلسل ہاؤ ہو کی آواز سنائی دیتی ،جسے سُنتے ہوئے وہ کہتے ——

’’جب سے دُنیا بنی ہے انسان کتنا رویا ہے!‘‘ اور وہ روتے روتے سوجاتے۔

اندو کے جانے کے بیس پچیس روز ہی میں مدن نے واویلا شروع کر دیا۔ اس نے لکھا ’’میں بازار کی روٹیاں کھاتے کھاتے تنگ آ گیا ہوں۔ مجھے قبض ہو گئی ہے، گُردے کا دَرد شروع ہو گیا ہے۔‘‘ پھر جیسے دفتر کے لوگ چھٹی کی عرضی کے ساتھ ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ بھیج دیتے ہیں، مدن نے بابوجی کے ایک دوست سے تصدیق کی ہوئی چٹھی لکھوا بھیجی۔ اس پر بھی جب کچھ نہ ہوا ، تو ایک ڈبل تار — جوابی —

جوابی تار کے پیسے مارے گئے لیکن بلا سے۔ اندو اور بچّے لَوٹ آئے تھے۔ مدن نے اندو سے دو دن سیدھے مُنھ بات ہی نہ کی۔ یہ دُکھ بھی اندو ہی کا تھا۔ ایک دن مدن کو اکیلے میں پاکر وہ پکڑ بیٹھی اور بولی — ’’اتنا مُنھ پھُلائے بیٹھے ہو، میں نے کیا کِیا ہے؟‘‘

مدن نے اپنے آپ کو چھُڑاتے ہوئے کہا — ’’چھوڑ— دور ہو جا میری آنکھوں سے— کمینی —‘‘

’’یہی کہنے کے لیے اتنی دُور سے بُلوایا ہے؟‘‘

’’ہاں!‘‘

’’ہٹاؤ اب۔‘‘

’’خبردار—— یہ سب تمھارا کیا دھرا ہے۔ تم جو آنا چاہتیں تو کیا بابوجی روک لیتے؟‘‘

اندو نے بے بسی سے کہا — ’’ہائے جی — تم تو بچوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ میں بھلا انھیں کیسے کہہ سکتی تھی؟ سچ پوچھو تو تم نے مجھے بُلوا کر بابوجی پر بڑا جُلم کیا ہے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب کچھ نہیں— اُن کا جی بہت لگا ہوا تھا بال بچّوں میں۔‘‘

’’اور میرا جی؟‘‘

’’تمھارا جی؟—— تم تو کہیں بھی لگا سکتے ہو۔‘‘ اندو نے شرارت سے کہا اور کچھ اس طرح سے مدن کی طرف دیکھا کہ اس کی مدافعت کی ساری قوتیں ختم ہو گئیں۔ یوں بھی اسے کسی اچھے سے بہانے کی تلاش تھی۔ اس نے اندو کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور بولا — ’’بابوجی تم سے بہت خوش تھے؟‘‘

’ہاں!‘‘ اندو بولی —— ’’ایک دن میں جاگی تو دیکھا تو سرہانے کھڑے مجھے دیکھ رہے ہیں۔‘‘

’’یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘

’’اپنی قسم!‘‘

’’اپنی نہیں، میری قسم کھاؤ۔‘‘

’’تمھاری قسم تو میں نا کھاتی — کوئی کچھ بھی دے۔‘‘

’’ہاں!‘‘ مدن نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’کتابوں میں اسے سیکس کہتے ہیں۔‘‘

’’سیکس؟‘‘ اندو نے پوچھا۔ ’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’وہی جو مرد اور عورت کے بیچ ہوتا ہے۔‘‘

’’ہائے رام!‘‘ اندو نے ایک دم پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔ ’’گندے کہیں کے —— شرم نہیں آئی بابوجی کے بارے میں ایسا سوچتے ہوئے؟‘‘

’’کیوں؟‘‘ اندو نے بابوجی کی طرفداری کرتے ہوئے کہا۔ ’’وہ اپنی بہو کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے۔‘‘

’’کیوں نہیں۔ جب بہو تم ایسی ہو۔‘‘

’’تمھارا من گندہ ہے‘‘ اندو نے نفرت سے کہا ’’اِسی لیے تو تمھارا کاروبار بھی گندے بروزے کا ہے۔ تمھاری کتابیں سب گندگی سے بھری پڑی ہیں۔ تمھیں اور تمھاری کتابوں کو اس کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اَیسے تو جب میں بڑی ہو گئی تھی، تو میرے پتا جی نے مجھ سے ادھک پیار کرنا شروع کر دیا تھا تو کیا وہ بھی … وہ تھا نگوڑا —— جس کا تم ابھی نام لے رہے تھے؟‘‘ اور پھر اندو بولی — ’’بابوجی کو یہاں بُلا لو۔ ان کا وہاں جی بھی نہیں لگتا۔ وہ دُکھی ہوں گے تو کیا تم دُکھی نہیں ہو گے؟‘‘

مدن اپنے باپ سے بہت پیار کرتا تھا۔ گھر میں ماں کی موت نے، مدن کے بڑا ہونے کے کارن سب سے زیادہ اثر اسی پر کیا تھا۔ اسے اچھی طرح سے یاد تھا۔ ماں کے بیمار رہنے کے باعث جب بھی اس کی موت کا خیال مدن کے دل میں آتا، تو وہ آنکھیں مُوند کر پرارتھنا شروع کر دیتا —— اوم نمو بھگوتے واسودیوا۔ اوم نمو … اب وہ نہیں چاہتا تھا کہ باپ کی چھتر چھایا بھی سر سے اُٹھ جائے۔ خاص طور پر ایسے میں جب کہ وہ اپنے کاروبار کو بھی جما نہیں پایا تھا۔ اس نے غیریقینی لہجے میں اندو سے صرف اتنا کہا —— ’’ابھی رہنے دو بابوجی کو۔ شادی کے بعد ہم دونوں پہلی بار آزادی کے ساتھ مل سکے ہیں۔‘‘

تیسرے چوتھے روز بابوجی کا آنسوؤں میں ڈوبا ہوا خط آیا۔ میرے پیارے مدن کے تخاطب میں، میرے پیارے کے الفاظ شور پانیوں میں دھُل گئے تھے۔ لکھا تھا — ’’بہو کے یہاں ہونے پر میرے تو وہی پُرانے دن لَوٹ آئے تھے —— تمھاری ماں کے دِن، جب ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ تو وہ بھی ایسی ہی الّھڑ تھی۔ ایسے ہی اتارے ہوئے کپڑے اِدھر اُدھر پھینک دیتی اور پتا جی سمیٹتے پھرتے۔ وہی صندل کا صندوق، وہی بیسیوں خلجن… میں بازار جا رہا ہوں، آ رہا ہوں، کچھ نہیں تو دہی بڑے یا ربڑی لا رہا ہوں۔ اب گھر میں کوئی نہیں۔ وہ جگہ جہاں صندل کا صندوق پڑا تھا، خالی ہے…‘‘ اور پھر ایک آدھ سطر اور دھُل گئی تھی۔ آخر میں لکھا تھا— ’’دفتر سے لوٹتے سمے، یہاں کے بڑے بڑے اندھے کمروں میں داخل ہوتے ہوئے میرے مَن میں ایک ہَول سا اُٹھتا ہے ‘‘… اور پھر — ’’بہو کا خیال رکھنا ۔اسے کسی ایسی ویسی دایہ کے حوالے مت کرنا۔‘‘

اندو نے دونوں ہاتھوں سے چٹھی پکڑ لی، سانس کھینچی، آنکھیں پھیلاتی، شرم سے پانی پانی ہوتے ہوئے بولی — ’’میں مرگئی، بابوجی کو کیسے پتہ چل گیا؟‘‘

مدن نے چٹھی چھڑاتے ہوئے کہا — ’’بابو جی کیا بچے ہیں؟—— دنیا دیکھی ہے۔ ہمیں پیدا کیا ہے۔‘‘

’’ہاں مگر‘‘ اندو بولی ’’ابھی دن ہی کے ہوئے ہیں؟‘‘

اور پھر اُس نے ایک تیز سی نظر اپنے پیٹ پر ڈالی جس نے ابھی بڑھنا بھی نہیں شروع کیا تھا اور پھرجیسے بابوجی یا کوئی اور دیکھ رہا ہو، اس نے ساری کا پلّو اس پر کھینچ لیا اور کچھ سوچنے لگی۔ جبھی ایک چمک سی اس کے چہرے پر آئی اور وہ بولی —— ’’تمھاری سسُرال سے شیرینی آئے گی۔‘‘

میری سسُرال؟—— اور ہاں‘‘ مدن نے راستہ پاتے ہوئے کہا — ’’کتنی شرم کی بات ہے۔ ابھی چھ آٹھ مہینے شادی کو ہوئے ہیں اور چلا آیا ہے۔‘‘ اور اس نے اندو کے پیٹ کی طرف اِشارہ کیا۔

’’چلا آیا ہے، یا تم لائے ہو؟‘‘

’’تم —— یہ سب قصور تمھارا ہے۔ کچھ عورتیں ہوتی ہی ایسی ہیں۔‘‘

’’تمھیں پسند نہیں؟‘‘

’’ایک دم نہیں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’چار دن تو مزے لے لیتے زندگی کے۔‘‘

’’کیا یہ جندگی کا مَجا نہیں؟‘‘ اندو نے صدمہ زدہ لہجے میں کہا ’’مرد عورت شادی کِس لیے کرتے ہیں؟ بھگوان نے بِن مانگے دے دیا نا؟ پوچھو ان سے جن کے نہیں ہوتا۔ پھر وہ کیا کچھ کرتی ہیں؟ پِیروں فقیروں کے پاس جاتی ہیں۔ سمادھیوں، مجاروں پر چوٹیاں باندھتی، شرم حیا کو تج کر، دریاؤں کے کنارے ننگی ہو کر سرکنڈے کاٹتی— شمشانوں میں مسان جگاتی —‘‘

’’اچھا! اچھا۔‘‘ مدن بولا — ’’تم نے بکھان ہی شروع کر دیا۔ اولاد کے لیے تھوڑی عمر پڑی تھی؟‘‘

’’ہو گا تو!‘‘ اندو نے سرزنش کے انداز میں اُنگلی اُٹھاتے ہوئے کہا — ’’جب تم اسے ہاتھ بھی مت لگانا۔ وہ تمھارا نہیں میرا ہو گا۔ تمھیں تو اس کی جرورت نہیں، پر اس کے دادا کو بہت ہے۔ یہ میں جانتی ہوں۔‘‘

اور پھر کچھ خجل ، کچھ صدمہ زدہ ہو کر اندو نے اپنا مُنھ دونوں ہاتھوں میں چھُپا لیا۔ وہ سوچتی تھی، پیٹ میں اس ننھی سی جان کو پا لینے کے سلسلے میں، اس جان کا ہوتا سوتا تھوڑی بہت ہمدردی تو کرے گا ہی، لیکن مدن چُپ چاپ بیٹھا رہا۔ ایک لفظ بھی اس نے منھ سے نہ نکالا۔ اندو نے چہرے پر سے ہاتھ اُٹھا کر مدن کی طرف دیکھا اور ہونے والی پہلو ٹن کے خاص انداز میں بولی ’’وہ تو جو کچھ میں کہہ رہی ہوں، سب پیچھے ہو گا۔ پہلے تو میں بچوں گی ہی نہیں…مجھے بچپن ہی سے وہم ہے اس بات کا۔‘‘

مدن جیسے خائف ہو گیا۔ یہ ’’خوبصورت چیز‘‘ جو حاملہ ہونے کے بعد اور بھی خوبصورت ہو گئی ہے، مر جائے گی؟ اس نے پیٹھ کی طرف سے اندو کو تھام لیا اور پھر کھینچ کر اپنے بازوؤں میں لے آیا اور بولا — ’’تجھے کچھ نہ ہو گا اندو… میں تو موت کے مُنھ سے بھی چھین کے لے آؤں گا تجھے — اب ساوتری کی نہیں،ستیہ وان کی باری ہے—‘‘

مدن سے لپٹ کر اندو بھول ہی گئی کہ اس کا اپنا بھی کوئی دُکھ ہے…

اس کے بعد بابوجی نے کچھ نہ لکھا، البتہ سہارنپور سے ایک سارٹر آیا جس نے صرف اتنا بتایا کہ بابوجی کو پھر سے دَورے پڑنے لگے ہیں۔ ایک دورے میں تو وہ قریب قریب چل ہی بسے تھے۔ مدن ڈر گیا، اندو رونے لگی۔ سارٹر کے چلے جانے کے بعد ہمیشہ کی طرح مدن نے آنکھیں مُوند لیں اور مَن ہی مَن میں پڑھنے لگا— اوم نمو بھگوتے…

دوسرے ہی روز مدن نے باپ کو چٹھی لکھی — ’’بابوجی ! چلے آؤ… بچّے بہت یاد کرتے ہیں اور آ پ کی بہو بھی ——‘‘ لیکن آخر نوکری تھی۔ اپنے بس کی بات تھوڑی تھی۔ دھنی رام کے خط کے مطابق وہ چھُٹی کا بندوبست کر رہے تھے… ان کے بارے میں دن بہ دن مدن کا احساسِ جُرم بڑھنے لگا —— ’’اگر میں اندو کو وہیں رہنے دیتا تو میرا کیا بگڑتا؟——‘‘

وجے دشمی سے ایک رات پہلے مدن اضطراب کے عالم میں بیچ والے کمرے کے باہر برآمدے میں ٹہل رہا تھا کہ اندر سے بچّے کے رونے کی آواز آئی اور وہ چونک کر دروازے کی طرف لپکا۔ بیگم دایہ باہر آئی اور بولی— ’’مُبارک ہو بابو جی— لڑکا ہوا ہے۔‘‘

’’لڑکا؟‘‘ مدن نے کہا اور پھر متفکرانہ لہجے میں بولا— ’’بی بی کیسی ہے؟‘‘

بیگم بولی— ’’خیر مہر ہے۔ میں نے ابھی تک اسے لڑکی ہی بتائی ہے… زچّہ زیادہ خو ش ہو جائے تو اس کی آنول نہیں گرتی نا؟‘‘

’’او …‘‘ مدن نے بیوقوفوں کی طرح آنکھیں جھپکتے ہوئے کہا اور پھر کمرے میں جانے کے لیے آگے بڑھا۔ بیگم نے اسے وہیں روک دیا اور کہنے لگی —— ’’تمھارا اندر کیا کام؟‘‘اور پھر ایکا ایکی دروازہ بھیڑ کر اندر لپک گئی۔

مدن کی ٹانگیں ابھی تک کانپ رہی تھیں۔ اس وقت خوف سے نہیں، تسلّی سے یا شاید اس لیے کہ جب کوئی اس دُنیا میں آتا ہے تو اِرد گرد کے لوگوں کی یہی حالت ہوتی ہے۔ مدن نے سُن رکھا تھا، جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو گھر کے در و دیوار لرزنے لگتے ہیں۔ گویا ڈر رہے ہیں کہ بڑا ہو کر ہمیں بیچے گا یا رکھے گا۔ مدن نے محسوس کیا جیسے سچ مچ ہی دیواریں کانپ رہی تھیں… زچگی کے لیے چکلی بھابی تو نہ آئی تھی کیونکہ اس کا اپنا بچہ بہت چھوٹا تھا، البتہ دریا باد والی پھوپھی ضرور پہنچی تھی جس نے پیدائش کے وقت رام رام ، رام رام کی رَٹ لگادی تھی، اور اب وہی رٹ مدھم ہو رہی تھی—

زندگی بھر مدن کو اپنا آپ اِتنا فضول اور بیکار نہ لگا تھا۔ اتنے میں پھر دروازہ کھُلا اور پھوپھی نکلی۔ برآمدے کی بجلی کی مدھم سی روشنی میں اس کا چہرہ بھوت کے چہرے کی طرح ایک دم دودھیا سفید نظر آ رہا تھا۔ مدن نے اس کا راستہ روکتے ہوئے کہا ——

’’اندو ٹھیک ہے نا پھوپھی——؟‘‘

’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے۔‘‘ پھوپھی نے تین چار بار کہا اور پھر اپنا لرزتا ہوا ہاتھ مدن کے سر پر رکھ کر اُسے نیچا کیا، چُوما اور باہر لپک گئی۔

پھوپھی برآمدے کے دروازے میں سے باہر جاتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ وہ بیٹھک میں پہنچی، جہاں باقی کے بچے سو رہے تھے۔ پھوپھی نے ایک ایک کر کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور پھر چھت کی طرف آنکھیں اُٹھا کر مُنھ میں کچھ بولی اور پھر نڈھال سی ہو کر مُنّی کے پاس لیٹ گئی۔ اوندھی ۔ اس کے پھڑکتے ہوئے شانوں سے پتہ چل رہا تھا، جیسے رو رہی ہے۔ مدن حیران ہوا… پھوپھی تو کئی زچگیوں سے گزر چکی ہے، پھر کیوں اس کی رُوح تک کانپ اُٹھی ہے—؟

پھر ادھر کے کمرے سے ہرمل کی بُو باہر لپکی۔ دھُوئیں کا ایک غبار سا آیا جس نے مدن کا احاطہ کر لیا۔ اس کا سر چکرا گیا۔ جبھی بیگم دایہ، کپڑے میں کچھ لپیٹے ہوئے باہر نکلی۔ کپڑے پر خون ہی خون تھا جس میں سے کچھ قطرے نکل کر فرش پر گر گئے۔ مدن کے ہوش اُڑ گئے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں ہے۔ آنکھیں کھلی تھیں پر کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ بیچ میں اندو کی ایک مرگھلّی سی آواز آئی ’’—ہا — ئے۔‘‘ اور پھر بچّے کے رونے کی آواز…

تین چار دن میں بہت کچھ ہوا۔ مدن نے گھر کے ایک طرف گڑھا کھود کر آنول کو دبایا۔ کُتّوں کو اندر آنے سے روکا۔ لیکن اُسے کچھ یاد نہ تھا۔ اسے یُوں لگا جیسے ہرمل کی بُو دماغ میں بس جانے کے بعد آج ہی اسے ہوش آیا ہے۔ کمرے میں وہ اکیلا ہی تھا اور اندو — — نند اور جسودھا— — اور دوسری طرف نند لال … اندو نے بچّے کی طرف دیکھا اور کچھ ٹوہ لینے کے سے انداز میں بولی — — ’’بالکل تم ہی پر گیا ہے۔‘‘

’’ہو گا‘‘ مدن نے ایک اچٹتی سی نظر بچے پر ڈالتے ہوئے کہا — — ’میں تو کہتا ہوں شکر ہے بھگوان کا تم بچ گئیں۔‘‘

’’ہاں!‘‘ اندو بولی — — میں تو سمجھتی تھی — — ‘‘

’’شُبھ شُبھ بولو‘‘ مدن نے ایک دم اندو کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’یہاں تو جو کچھ ہوا ہے… میں تو اب تمھارے پاس بھی نہیں پھٹکوں گا‘‘ اور مدن نے زبان دانتوں تلے دَبا لی۔ ’’توبہ کرو‘‘ اندو بولی۔

مدن نے اسی دم کان اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیے … اور اندو نحیف سی آواز میں ہنسنے لگی۔

بچّہ پیدا ہونے کے بعد کئی روز تک اندو کی ناف ٹھکانے پر نہ آئی۔ وہ گھوم گھوم کر اُس بچّے کو تلاش کر رہی تھی ،جو اب اس سے پَرے باہر کی دنیا میں جا کر اپنی اصلی ماں کو بھُول گیا تھا۔

اب سب کچھ ٹھیک تھا اور اندو شانتی سے اس دُنیا کو تک رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا اس نے مدن ہی کے نہیں، دنیا بھر کے گناہ گاروں کے گناہ معاف کر دیے ہیں اور اب دیوی بن کر دَیا اور کرونا کے پرساد بانٹ رہی ہے … مدن نے اندو کے منھ کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا — — اس سارے خون خرابے کے بعد کچھ دُبلی ہو کر اندو اور بھی اچھی لگنے لگی ہے … جبھی ایکا ایکی اندو نے دونوں ہاتھ اپنی چھاتیوں پر رکھ لیے— —

’’کیا ہوا؟‘‘ اندو تھوڑا سا اُٹھنے کی کوشش کر کے بولی — ’’اسے بھُوک لگی ہے۔‘‘اور اس نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔

’’اِسے؟ — — بھُوک؟— — ‘‘ مدن نے پہلے بچّے کی طرف اور پھر اندو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’تمھیں کیسے پتہ چلا؟‘‘

’’دیکھتے نہیں؟‘‘ اندو نیچے کی طرف نگاہ کرتے ہوئے بولی ’’سب گیلا ہو گیا ہے۔‘‘

مدن نے غور سے اندو کے ڈھیلے ڈھالے گلے کی طرف دیکھا۔ جَھر جَھر دودھ بہہ رہا تھا اور ایک خاص قسم کی بُوآ رہی تھی۔ پھر اندو نے بچے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا — ’’اسے مجھے دے دو۔‘‘

مدن نے ہاتھ پنگوڑے کی طرف بڑھایا اور اسی دم کھینچ لیا۔ پھر کچھ ہمت سے کام لیتے ہوئے اس نے بچے کو یوں اُٹھایا، جیسے وہ مرا ہوا چُوہا ہو۔ آخر اس نے بچّے کو اندو کی گود میں دے دیا۔ اندو مدن کی طرف دیکھتے ہوئے بولی— ’’تم جاؤ… باہر۔‘‘

’’کیوں؟… باہر کیوں جاؤں؟‘‘ مدن نے پوچھا۔

’’جاؤنا— ‘‘ اندو نے کچھ مچلتے، کچھ شرماتے ہوئے کہا۔ ’’تمھارے سامنے میں دودھ نہیں پلا سکوں گی۔‘‘

’’ارے؟‘‘ مدن حیرت سے بولا۔ ’’میرے سامنے… نہیں پلا سکے گی؟‘‘ اور پھرناسمجھی کے انداز میں سر کو جھٹکا دے کر باہر کی طرف چل نِکلا۔ دروازے کے پاس پہنچ کر مُڑتے ہوئے اُس نے اندو پر ایک نگاہ ڈالی — اِتنی خوبصورت اندو آج تک نہ لگی تھی!

بابو دھنی رام چھُٹی پر گھر لَوٹے تو وہ پہلے سے آدھے دکھائی پڑتے تھے۔ جب اندو نے پوتا اُن کی گود میں دیا تو وہ کھِل اُٹھے۔ ان کے پیٹ کے اندر کوئی پھوڑا نکل آیا تھا جو چوبیس گھنٹے اُنھیں سولی پر لٹکائے رکھتا۔ اگر منّا نہ ہوتا تو بابوجی کی اس سے دس گنا بُری حالت ہوتی۔

کئی علاج کیے گئے۔ بابوجی کے آخری علاج میں ڈاکٹر نے ادھنّی کے برابر گولی ،پندرہ بیس کی تعداد میں روز کھانے کو دیں۔ پہلے ہی دن اُنھیں اتنا پسینہ آیا کہ دن میں تین تین چار چار بار کپڑے بدلنے پڑے۔ ہر بار مدن کپڑے اُتار کر بالٹی میں نچوڑتا۔ صرف پسینے ہی سے بالٹی ایک چوتھائی ہو گئی تھی۔ رات اُنھیں متلی سی ہونے لگی اور اُنھوں نے پُکارا— —

’’بہو!‘‘ ذرا داتن تو دینا ۔ذائقہ بہت خراب ہو رہا ہے۔‘‘ بہو بھاگی ہوئی گئی اور داتن لے آئی۔ بابوجی اُٹھ کر داتن چبا ہی رہے تھے کہ ایک ابکائی کیا آئی، ساتھ ہی خون کا پرنالہ لے آئی۔ بیٹے نے واپس سرہانے کی طرف لٹایا تو اُن کی پُتلیاں پھر چکی تھیں اور کوئی ہی دم میں وہ اُوپر آسمان کے گلزار میں پہنچ چکے تھے ،جہاں اُنھوں نے اپنا پھُول پہچان لیا تھا۔

مُنّے کو پیدا ہوئے کل بیس پچیس روز ہوئے تھے۔ اندو نے مُنھ نوچ نوچ کر، سر اور چھاتی پِیٹ پِیٹ کر خود کو نیلا کر لیا۔ مدن کے سامنے وہی منظر تھا، جو اس نے تصوّر میں اپنے مرنے پر دیکھا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اندو نے چوڑیاں توڑنے کی بجائے اُتار کے رکھ دی تھیں۔ سر پر راکھ نہیں ڈالی تھی، لیکن زمین پر سے مٹی لگ جانے اور بالوں کے بکھر جانے سے چہرہ بھیانک ہو گیا تھا۔ ’’لوگو! میں لٹ گئی‘‘ کی جگہ اس نے ایک دلدوز آواز میں چلاّنا شروع کر دیا تھا — — ’’لوگو! ہم لُٹ گئے‘‘— —

گھر بار کا کتنا بوجھ مدن پر آ پڑا تھا، اس کا ابھی مدن کو پوری طرح سے اندازہ نہ تھا ۔ صبح ہونے تک اس کا دل لپک کر منھ میں آ گیا۔ وہ شاید بچ نہ پاتا، اگر وہ گھر کے باہر بدرو کے کنارے سیل چڑھی مٹی پر اوندھا لیٹ کر، اپنے دل کو ٹھکانے پر نہ لاتا … دھرتی ماں نے چھاتی سے لگاکر اپنے بچے کو بچا لیا تھا۔ چھوٹے بچّے کندن، دُلاری مُنّی اور پاشی یوں چلاّ رہے تھے، جیسے گھونسلے پر شکرے کے حملے پر چڑیا کے بونٹ چونچیں اُٹھا اُٹھا کر چیں چیں کرتے ہیں۔ اُنھیں اگر کوئی پروں کے نیچے سمیٹتی تھی تو اندو — —

نالی کے کنارے پڑے پڑے مدن نے سوچا اب تو یہ دُنیا میرے لیے ختم ہو گئی۔ کیا میں جی سکوں گا؟ زندگی میں کبھی ہنس بھی سکوں گا؟ وہ اُٹھا اور اُٹھ کر گھر کے اندر چلا آیا۔

سیڑھیوں کے نیچے غسل خانہ تھا جس میں گھُس کر اندر سے کواڑ بند کرتے ہوئے مدن نے ایک بار پھر اس سوال کو دُہرایا ،میں کبھی ہنس بھی سکوں گا؟— — اور وہ کھل کھلاکر ہنس رہا تھا حالانکہ اس کے باپ کی لاش ابھی پاس ہی بیٹھک میں پڑی تھی۔

باپ کو آگے کے حوالے کرنے سے پہلے مدن، ارتھی پر پڑے ہوئے جسم کے سامنے ڈنڈوت کے انداز میں لیٹ گیا۔ یہ اُس کا اپنے جنم داتا کو آخری پرنام تھا۔ تس پر بھی وہ رو نہ رہا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ماتم میں شریک ہونے والے رشتے دار ، محلّے والے سن سے رہ گئے۔

پھر ہندو رواج کے مطابق سب سے بڑا بیٹا ہونے کی حیثیت سے مدن کو چِتا جلانی پڑی۔ جلتی ہوئی کھوپڑی میں کپال کریا کی لاٹھی مارنی پڑی… عورتیں باہر ہی سے شمشان کے کنویں پر نہا کر گھر لَوٹ چکی تھیں۔ جب مدن گھر پر پہنچا تو وہ کانپ رہا تھا۔ دھرتی ماں نے تھوڑی دیر کے لیے جو طاقت اپنے بیٹے کو دی تھی، رات کے گھر آنے پر پھر سے ہوس میں ڈھل گئی… اسے کوئی سہارا چاہیے تھا۔ کسی ایسے جذبے کا سہارا جو موت سے بھی بڑا ہو۔ اس وقت دھرتی ماں کی بیٹی، جنک دُلاری اندو نے کسی گھڑے میں سے پیدا ہو کر اس رام کو اپنی بانہوں میں لے لیا … اس رات اگر اندو اپنا آپا ، یوں مدن پر نہ وار دیتی، تو اتنا بڑا دُکھ مدن کو لے ڈوبتا۔

دس ہی مہینے کے اندر اندر اندو کا دوسرا بچہ چلا آیا۔ بیوی کو اس دوزخ کی آگ میں دھکیل کر مدن خود اپنا دُکھ بھُول گیا تھا۔ کبھی کبھی اُسے خیال آتا ، اگر میں شادی کے بعد بابوجی کے پاس گئی ہوئی اندو کو نہ بُلا لیتا ، تو شاید وہ اتنی جلدی نہ چل دیتے ۔لیکن پھر وہ باپ کی موت سے پیدا ہونے والے خسارے کو پُورا کرنے میں لگ جاتا … کاروبار جو پہلے بے توجہی کی وجہ سے بند ہو گیا تھا—— مجبوراً چل نکلا۔

اِن دنوں بڑے بچّے کو مدن کے پاس چھوڑ کر چھوٹے کو چھاتی سے لگائے اندو میکے چلی گئی تھی۔ پیچھے مُنّا طرح طرح کی ضد کرتا ، جو کبھی مانی جاتی تھی اور کبھی نہیں بھی۔ میکے سے اندو کا خط آیا—— مجھے یہاں اپنے بیٹے کے رونے کی آواز آ رہی ہے، اسے کوئی مارتا تو نہیں؟… مدن کو بڑی حیرت ہوئی۔ ایک جاہل، اَن پڑھ عورت … ایسی باتیں کیسے لکھ سکتی ہے؟—— پھر اُس نے اپنے آپ سے پُوچھا —— ’’کیا یہ بھی کوئی رٹا ہوا فقرہ ہے؟‘‘

سال گزر گئے ۔ پیسے کبھی اتنے نہ آئے تھے کہ ان سے کچھ عیش ہو سکے ۔لیکن گزارے کے مطابق آمدنی ضرور ہو جاتی تھی۔ دِقّت اس وقت ہوتی جب کوئی بڑا خرچ سامنے آ جاتا… کندن کا داخلہ دینا ہے، دُلاری مُنّی کا شگن بھجوانا ہے۔ اس وقت مدن منھ لٹکا کر بیٹھ جاتا اور پھر اندو ایک طرف سے آتی، مُسکراتی ہوئی اور کہتی — ’’کیوں دُکھی ہو رہے ہو؟‘‘ مدن اس کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہتا — ’’دُکھی نہ ہوں؟ کندن کا بی اے کا داخلہ دینا ہے… مُنّی …‘‘ اندو پھر ہنستی اور کہتی —— ’’چلو میرے ساتھ‘‘ اور مدن بھیڑ کے بچّے کی اندو کے پیچھے چل دیتا۔ اندو صندل کے صندوق کے پاس پہنچتی، جسے کسی کو مدن سمیت ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی۔ کبھی کبھی اس بات پر خفا ہو کر مدن کہتا —— ’’مردگی تو اسے بھی چھاتی پر ڈال کر لے جانا‘‘ اور اندو کہتی—— ’’ہاں لے جاؤں گی‘‘ پھر اندو وہاں سے مطلوبہ رقم نکال کر سامنے رکھ دیتی۔

’’یہ کہاں سے آ گئے؟‘‘

’’کہیں سے بھی آئے… تمھیں آم کھانے سے مطلب ہے کہ … ‘‘

’’پھر بھی ؟‘‘

’’تم جاؤ، اپنا کام چلاؤ۔‘‘

اور جب مدن زیادہ اصرار کرتا تو اندو کہتی ’’میں نے ایک سیٹھ دوست بنایا ہے نا‘‘ اور پھر ہنسنے لگتی۔ جھوٹ جانتے ہوئے بھی مدن کو یہ مذاق اچھا نہ لگتا۔ پھر اندو کہتی ’’میں چور لٹیرا ہوں— تم نہیں جانتے؟—— سَخی لٹیرا —— جو ایک ہاتھ سے لُوٹتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے گریب گربا کو دے دیتا ہے‘‘… اسی طرح مُنّی کی شادی ہوئی جس پر ایسی ہی لُوٹ کے زیور بکے۔ قرضہ چڑھا اور پھر اُتر بھی گیا…

ایسے ہی کندن بھی بیاہا گیا۔ ان شادیوں میں اندو ہی ’’ہتھّ بھرا‘‘ کرتی تھی اور ماں کی جگہ کھڑی ہو جاتی۔ آسمان سے بابوجی اور ماں دیکھا کرتے اور پھول برساتے، جو کسی کو نظر نہ آتے۔ پھر اَیسا ہوا، اوپر ماں جی اور بابوجی میں جھگڑا چل گیا۔ماں نے بابوجی سے کہا ’’تم بہو کے ہاتھ کی پکّی کھا آئے ہو، اس کا سُکھ بھی دیکھا ہے، پر میں نصیبوں جلی نے کچھ بھی نہیں دیکھا‘‘— اور یہ جھگڑا وشنُو ، مہیش اور شیو تک پہنچا۔ اُنھوں نے ماں کے حق میں فیصلہ دیا —— اور یوں ماں، مات لوک میں آ کر بہو کی کوکھ میں پڑی—— اور اندو کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی…

پھر اندو ایسی دیوی بھی نہ تھی۔ جب کوئی اُصول کی بات ہوتی تو نند دیور تو کیا خود مدن سے بھی بھِڑ جاتی —— مدن راست بازی کی اس پتلی کو خفا ہو کر ہریش چندر کی بیٹی کہا کرتا تھا۔ چونکہ اندو کی باتوں میں اُلجھاؤ ہونے کے باوجود سچائی اور دھرم قائم رہتے تھے ، اس لیے مدن اور کنبے کے باقی سب لوگوں کی آنکھیں اندو کے سامنے نیچی ہی رہتی تھیں۔ جھگڑا کتنا بھی بڑھ جائے، مدن اپنے شوہری زعم میں کِتنا بھی اندو کی بات کو رد کر دے، لیکن آخر سبھی سر جھکائے ہوئے اندو ہی کی شرن میں آتے تھے اور اسی سے چھما مانگتے تھے۔

نئی بھابی آئی۔ کہنے کو تو وہ بھی بیوی تھی، لیکن اندو ایک عورت تھی جسے بیوی کہتے ہیں۔ اس کے اُلٹ چھوٹی بھابی رانی ایک بیوی تھی، جسے عورت کہتے ہیں۔ رانی کے کارن بھائیوں میں جھگڑا ہوا اور جے پی چاچا کی معرفت جائداد تقسیم ہوئی ،جس میں ماں باپ کی جائداد تو ایک طرف، اندو کی اپنی بنائی ہوئی چیزیں بھی تقسیم کی زد میں آ گئیں اور اندو کلیجہ مسوس کر رہ گئی۔

جہاں سب کچھ مل جانے کے بعد اور الگ ہو کر بھی کندن اور رانی ٹھیک سے نہیں بس سکے تھے، وہاں اندو کا اپنا گھر دنوں ہی میں جگمگ جگمگ کرنے لگا۔

بچی کی پیدائش کے بعد اندو کی صحت وہ نہ رہی۔ بچی ہر وقت اندو کی چھاتیوں سے چمٹی رہتی تھی۔ جہاں سبھی گوشت کے اس لوتھڑے پر تھوتھو کرتے تھے، وہاں ایک اندو تھی جو اسے کلیجے سے لگائے پھرتی۔ لیکن کبھی خود بھی پریشان ہو اُٹھتی اور بچی کو سامنے جھلنگے میں پھینکتے ہوئے کہہ اُٹھتی —— ’’تو مجھے جینے بھی دے گی —— ماں؟‘‘

—— اور بچی چلاّ چلاّ کر رونے لگتی۔

مدن ،اندو سے کٹنے لگا۔ شادی سے لے کر اس وقت تک اُسے وہ عورت نہ ملی تھی جس کا وہ متلاشی تھا۔ گندہ بروزہ بِکنے لگا اور مدن نے بہت سا روپیہ اندو سے بالا ہی بالا خرچ کرنا شروع کر دیا۔ بابوجی کے چلے جانے پر کوئی پوچھنے والا بھی تو نہ تھا۔ پوری آزادی تھی۔

گویا پڑوسی سبطے کی بھینس پھر مدن کے مُنھ کے پاس پھنکار نے لگی، بلکہ بار بار پھنکارنے لگی۔ شادی کی رات والی بھینس تو بِک چکی تھی، لیکن اس کا مالک زندہ تھا۔ مدن اس کے ساتھ ایسی جگہوں پر جانے لگا جہاں روشنی اور سائے عجیب بے قاعدہ سی شکلیں بناتے ہیں۔ نکڑ پر کبھی اندھیرے کی تکون بنتی ہے کہ اوپر کھٹ سے روشنی کی ایک چوکور آ کر اسے کاٹ دیتی ہے۔ کوئی تصویر پوری نہیں بنتی۔ معلوم ہوتا ہے بغل سے ایک پاجامہ نکلا اور آسمان کی طرف اُڑ گیا ،یا کسی کوٹ نے دیکھنے والے کا مُنھ پوری طرح سے ڈھانپ لیا اور کوئی سانس کے لیے تڑپنے لگا۔ جبھی روشنی کی چوکور ایک چوکھٹا سی بن گئی اور اس میں ایک صورت آ کر کھڑی ہو گئی۔ دیکھنے والے نے ہاتھ بڑھایا تو وہ آر پار چلا گیا اور وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ پیچھے کوئی کُتا رونے لگا۔ اوپر طبل نے اس کی آواز ڈبو دی…

مدن کو اس کے تصوّر کے خد و خال ملے لیکن ہر جگہ ایسا معلوم ہو رہا تھا ،جیسے آرٹسٹ سے ایک غلط خط لگ گیا، یا ہنسی کی آواز ضرورت سے زیادہ بلند تھی اور مدن بے داغ صنّاعی اور متوازن ہنسی کی تلاش میں کھو گیا۔

سبطے نے اس وقت اپنی بیوی سے بات کی جب اس کی بیگم نے مدن کو مثالی شوہر کی حیثیت سے سبطے کے سامنے پیش کیا، پیش ہی نہیں کیا بلکہ مُنھ پر مارا۔ اس کو اُٹھا کر سبطے نے بیگم کے مُنھ پر دے مارا۔ معلوم ہوتا تھا کسی خونیں تربوز کا گودا ہے جس کے رگ و ریشے بیگم کی ناک، اس کی آنکھوں اور کانوں پر لگے ہوئے ہیں۔ کروڑ کروڑ گالی بکتی ہوئی بیگم نے حافظے کی ٹوکری میں سے گودا اور بیج اُٹھائے اور اندو کے صاف سُتھرے صحن میں بکھیر دیے۔

ایک اندو کی بجائے دو اندو ہو گئیں۔ ایک تو اندو خود تھی اور دوسری ایک کانپتا ہوا خط جو اندو کے پورے جسم کا احاطہ کیے ہوئے تھا اور جو نظر نہیں آ رہا تھا۔

مدن کہیں جاتا بھی تھا تو گھر سے ہو کر… نہا دھو، اچھے کپڑے پہن، مگھئی کی ایک جوڑی جس میں خوشبودار قوام لگا ہوا، مُنھ میں رکھ کر… لیکن اُس دن جو مدن گھر آیا تو اندو کی شکل ہی دوسری تھی۔ اس نے چہرے پر پوڈر تھوپ رکھا تھا۔ گالوں پر روج لگا رکھی تھی ۔ لپ اسٹک کے نہ ہونے پر ہونٹ ماتھے کی بِندی سے رنگ لیے تھے، اور بال کچھ اس طریقے سے بنائے تھے کہ مدن کی نظریں ان میں اُلجھ کے رہ گئیں۔

’’کیا بات ہے آج؟‘‘ مدن نے حیران ہو کرپُوچھا۔

’’کچھ نہیں‘‘ اندو نے مدن سے بچاتے ہوئے کہا — ’’آج فرصت مِلی ہے۔‘‘

شادی کے پندرہ برس گزر جانے کے بعد اندو کو آج فرصت ملی تھی! اور وہ بھی اس وقت جب کہ چہرے پر چھائیاں چلی آئی تھیں۔ ناک پر ایک سیاہ سی کاٹھی بن گئی تھی اور بلاؤز کے نیچے، ننگے پیٹ کے پاس کمر پر چربی کی دو تین تہیں دکھائی دینے لگی تھیں۔ آج اندو نے ایسا بندوبست کیا تھا کہ ان عیوب میں سے ایک بھی چیز نظر نہ آتی تھی۔ یوں بنی ٹھنی، کَسی کسائی وہ بے حد حسین لگ رہی تھی —— ’’یہ نہیں ہو سکتا‘‘—— مدن نے سوچا اور اُسے ایک دھچکا سا لگا۔ اُس نے پھر ایک بار مُڑ کر اندو کی طرف دیکھا — جیسے گھوڑوں کے بیوپاری کسی نامی گھوڑی کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہاں گھوڑی بھی تھی اور لال لگام بھی … یہاں جو غلط خط لگے تھے، شرابی کی آنکھوں کو نہ دِکھ سکے… اندو سچ مچ خوبصورت تھی۔ آج بھی پندرہ سال کے بعد پھولاں، رشیدہ، مسز رابرٹ اور ان کی بہنیں اس کے سامنے پانی بھرتی تھیں … پھر مدن کو رحم آنے لگا اور ایک ڈر!

آسمان پر کوئی خاص بادل بھی نہ تھے، لیکن پانی پڑنا شروع ہو گیا۔ گھر کی گنگا طغیانی پر تھی اور اس کا پانی کناروں سے نکل نکل کر پوری ترائی اور اس کے آس پاس بَسنے والے گانو اور قصبوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، اسی رفتار سے پانی بہتا رہا تو اس میں کیلاش پربت بھی ڈوب جائے گا … ادھر بچی رونے لگی۔ ایسا رونا جو وہ آج تک نہ روئی تھی۔

مدن نے اس کی آواز سن کر آنکھیں بند کر لیں، کھولیں تو بچی سامنے کھڑی تھی۔ جوان عورت بن کر۔ نہیں،نہیں ، وہ اندو تھی۔ اپنی ماں کی بیٹی، اپنی بیٹی کی ماں جو اپنی آنکھوں کے دنبالے سے مسکرائی اور ہونٹوں کے کونے سے دیکھنے لگی۔

اِسی کمرے میں جہاں ایک دن ہرمل کی دھُونی نے مدن کو چکرا دیا تھا، آج خَس کی خوشبو نے بوکھلا دیا۔ ہلکی بارش، تیز بارش سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اس لیے باہر کا پانی اوپر کسی کڑی میں سے ٹپکتا ہوا اندو اور مدن کے بیچ ٹپکنے لگا … لیکن مدن تو شرابی ہو رہا تھا۔ اس نشے میں اس کی آنکھیں سمٹنے لگیں اور تنفس تیز ہو کر انسان کا تنفّس نہ رہا۔

’’اندو ——‘‘ مدن نے کہا… اور اس کی آواز شادی کی رات والی آواز سے دو سُر اُوپر تھی اور اندو نے پرے دیکھتے ہوئے کہا—— ’’جی‘‘ اور اس کی آواز دو سُر نیچے تھی… پھر آج چاندنی کی بجائے اماوس تھی…

اِس سے پہلے کہ مدن اندو کی طرف ہاتھ بڑھاتا، اندو خود ہی مدن سے لپٹ گئی۔ پھر مدن نے ہاتھ سے اندو کی ٹھوڑی اُوپر اُٹھائی اور دیکھنے لگا، اس نے کیا کھویا، کیا پایا ہے؟ اندو نے ایک نظر مدن کے سیاہ ہوتے ہوئے چہرے کی طرف پھینکی اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

’’یہ کیا؟‘‘ مدن نے چونکتے ہوئے کہا —— ’’تمھاری آنکھیں سُوجی ہوئی ہیں۔‘‘

’’یونہی‘‘ اندو نے کہا اور بچی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی —— ’’رات بھر جگایا ہے اس چڑیل میّا نے۔‘‘

بچّی اب تک خاموش ہو چکی تھی۔ گویا دم سادھے دیکھ رہی تھی، اب کیا ہونے والا ہے؟ آسمان سے پانی پڑنا بند ہو گیا تھا۔ مدن نے پھر غور سے اندو کی آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا—— ہاں، مگر — یہ آنسو؟‘‘

’’خوشی کے ہیں‘‘ اندو نے جواب دیا ’’آج کی رات میری ہے‘‘ اور پھر ایک عجیب سی ہنسی ہنستی ہوئی وہ مدن سے چمٹ گئی۔ ایک تلذّذ کے احساس سے مدن نے کہا — ’’آج برسوں کے بعد میرے مَن کی مُراد پوری ہوئی ہے، اِندو! میں نے ہمیشہ چاہا تھا ——‘‘

’’لیکن تم نے کہا نہیں‘‘ اندو بولی —— ’’یاد ہے شادی کی رات میں نے تم سے کچھ مانگا تھا؟‘‘

’’ہاں!‘‘ مدن بولا —— ’’اپنے دُکھ مجھے دے دو۔‘‘

’’تم نے تو کچھ نہیں مانگا مجھ سے۔‘‘

’میں نے؟‘‘ مدن نے حیران ہوتے ہوئے کہا —— ’’میں کیا مانگتا؟ میں تو جو کچھ مانک سکتا تھا، وہ سب تم نے دے دیا۔ میرے عزیزوں سے پیار —— اُن کی تعلیم، بیاہ شادی— یہ پیارے پیارے بچے —— یہ سب کچھ تو تم نے دے دیا۔‘‘

’’میں بھی یہی سمجھتی تھی‘‘ اندو بولی —— ’’لیکن اب جا کر پتہ چلا، ایسا نہیں۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’کچھ نہیں‘‘ پھر اندو نے رُک کر کہا —— ’’میں نے بھی ایک چیز رکھ لی‘‘

’’کیا چیز رکھ لی؟‘‘

اِندو کچھ دیر چُپ رہی اور پھر اپنا مُنھ پرے کرتی ہوئی بولی —— ’’اپنی لاج —— اپنی خُوشی … اس وقت تم بھی کہہ دیتے —— اپنے سُکھ مجھے دے دو —— تو مَیں …‘‘ اور اندو کا گلا رُندھ گیا۔

اور کچھ دیر بعد وہ بولی —— ’’اب تو میرے پاس کچھ نہیں رہا‘‘——

مدن کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ وہ زمین میں گڑ گیا —— یہ اَن پڑھ عورت؟ کوئی رَٹا ہوا فقرہ —؟

نہیں تو … یہ تو ابھی سامنے ہی زندگی کی بھٹّی سے نکلا ہے۔ ابھی تو اس پر برابر ہتھوڑے پڑ رہے ہیں اور آتشیں بُرادہ چاروں طرف اُڑ رہا ہے …

کچھ دیر کے بعد مدن کے ہوش ٹھکانے آئے اور بولا —— ’’میں سمجھ گیا اندو۔‘‘

پھر روتے ہوئے مدن اور اِندو ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ اندو نے مدن کا ہاتھ پکڑا اور اُسے ایسی دُنیاؤں میں لے گئی جہاں انسان مر کر ہی پہنچ سکتا ہے…

٭٭٭

ماخذ:

http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید