فہرست مضامین
- علی جواد زیدی
- دیکھ اے قصہ گو رنج
- یہ مانا ذرۂ آوارۂ دش ہوں میں
- دین و دل پہلی ہی منزل میں یہاں کام آئے
- غیر پوچھیں بھی تو ہم کیا اپنا افسانہ کہیں
- ہے خموش آنسوؤں میں بھی نشاطِ کامرانی
- ہم سفر گم، راستے نا پید، گھبراتا ہوں میں
- اک آہِ زیر لب کے گنہ گار ہو گئے
- جوانی حریف ستم ہے تو کیا غم
- جو مقصد گریۂ پیہم کا ہے وہ ہم سمجھتے ہیں
- کم ظرف احتیاط کی منزل سے آئے ہیں
- منزل دل ملی کہاں ختم سفر کے بعد بھی
- مستی گام بھی تھی غفلت انجام کے ساتھ
- نیا مے کدے میں نظام آ گیا
- نیند آ گئی تھی منزل عرفاں سے گزر کے
- راہِ الفت میں ملے ایسے بھی دیوانے مجھے
- شکوے ہم اپنی زباں پر کبھی لائے تو نہیں
- ترے دیار میں کوئی غم آشنا تو نہیں
- تیرے ہلکے سے تبسم کا اشارہ بھی تو ہو
- اف وہ اک حرف تمنا جو ہمارے دل میں تھا
- ظلمت کدوں میں کل جو شعاع سحر گئی
انتخاب
علی جواد زیدی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
آنکھ کچھ بے سبب ہی نم تو نہیں
یہ کہیں آپ کا کرم تو نہیں
ہم نے مانا کہ روشنی کم ہے
پھر بھی یہ صبح شامِ غم تو نہیں
عشق میں بندشیں ہزار سہی
بندش دانہ و درم تو نہیں
تھا کہاں عشق کو سلیقۂ غم
وہ نظر مائلِ کرم تو نہیں
مونسِ شب رفیقِ تنہائی
درد دل بھی کسی سے کم تو نہیں
وہ کہاں اور کہاں ستم گاری
کچھ بھی کہتے ہوں لوگ ہم تو نہیں
شکوے کی بات اور ہے ورنہ
لطف پیہم کوئی ستم تو نہیں
دیکھ اے قصہ گو رنج
نوک مژگانِ یار نم تو نہیں
ان کے دل سے سوال کرتا ہے
یہ تبسم شریکِ غم تو نہیں
٭٭٭
آنکھوں میں اشک بھر کے، مجھ سے نظر ملا کے
نیچی نگاہ اٹھی فتنے نئے جگا کے
میں راگ چھیڑتا ہوں ایمائے حسن پا کے
دیکھو تو میری جانب اک بار مسکرا کے
دنیائے مصلحت کے یہ بند کیا تھمیں گے
بڑھ جائے گا زمانہ طوفاں نئے اٹھا کے
جب چھیڑتی ہیں ان کو گم نام آرزوئیں
وہ مجھ کو دیکھتے ہیں میری نظر بچا کے
دیدار کی تمنا کل رات رکھ رہی تھی
خوابوں کی رہ گزر میں شمعیں جلا جلا کے
دوری نے لاکھ جلوے تخلیق کر لئے تھے
پھر دور ہو گئے ہم تیرے قریب آ کے
شام فراق ایسا محسوس ہو رہا ہے
ہر ایک شے گنوا دی ہر ایک شے کو پا کے
آئی ہے یاد جن کی طوفان درد بن کے
وہ زخم میں نے اکثر کھائے ہیں مسکرا کے
میری نگاہِ غم میں شکوے ہی سب نہیں ہیں
اک بار ادھر تو دیکھو نیچی نظر اٹھا کے
یہ دشمنی ہے ساقی یا دوستی ہے ساقی
اوروں کو جام دینا مجھ کو دکھا دکھا کے
دل کے قریب شائد طوفان اٹھ رہے ہوں
دیکھو تو شعر زیدی اک روز گنگنا کے
٭٭٭
عیش ہی عیش ہے نہ سب غم ہے
زندگی اک حسین سنگم ہے
جام میں ہے جو مشعلِ گلرنگ
تیری آنکھوں کا عکسِ مبہم ہے
اے غمِ دہر کے گرفتارو
عیش بھی سرنوشتِ آدم ہے
نوک مژگاں پہ یاد کا آنسو
موسم گل کی سرد شبنم ہے
درد دل میں کمی ہوئی ہے کہیں!!
تم نے پوچھا تو کہہ دیا کم ہے
مٹتی جاتی ہے بنتی جاتی ہے
زندگی کا عجیب عالم ہے
اک ذرا مسکرا کے بھی دیکھیں
غم تو یہ روز روز کا غم ہے
پوچھنے والے شکریہ تیرا
درد تو اب بھی ہے مگر کم ہے
کہہ رہا تھا میں اپنا افسانہ
کیوں تیرا دامن مزا نم ہے
غم کی تاریکیوں میں اے زیدیؔ
روشنی وہ بھی ہے جو مدھم ہے
٭٭٭
دبی آواز میں کرتی تھی کل شکوے زمیں مجھ سے
کہ ظلم و جور کا یہ بوجھ اٹھ سکتا نہیں مجھ سے
اگر یہ کشمکش باقی رہی جہل و تمدن کی
زمانہ چھین لے گا دولت علم و یقیں مجھ سے
تمھیں سے کیا چھپانا ہے تمہاری ہی تو باتیں ہیں
جو کہتی ہے تمنا کی نگاہِ واپسیں مجھ سے
نگاہیں چار ہوتے ہی بھلا کیا حشر اٹھ جاتا
یقیناً اس سے پہلے بھی ملے ہیں وہ کہیں مجھ سے
دکھا دی میں نے وہ منزل جو ان دونوں کے آگے ہے
پریشاں ہیں کہ آخر اب کہیں کیا کفر و دیں مجھ سے
یہ مانا ذرۂ آوارۂ دش ہوں میں
نبھانا ہی پڑے گا تجھ کو دنیائے حسیں مجھ سے
سر منزل پہنچ کر آج یہ محسوس ہوتا ہے
کہ لاکھوں لغزشیں ہر گام پر ہوتی رہیں مجھ سے
ادھر ساری تمناؤں کا مرکز آستاں ان کا
ادھر برہم تمنا پر میری سر کش جبیں مجھ سے
٭٭٭
دین و دل پہلی ہی منزل میں یہاں کام آئے
اور ہم راہِ وفا میں کوئی دو گام آئے
تم کہو اہل ِخرد عشق میں کیا کیا بیتی
ہم تو اس راہ میں نا واقفِ انجام آئے
لذتِ درد ملی عشرتِ احساس ملی
کون کہتا ہے ہم اس بزم سے نا کام آئے
وہ بھی کیا دن تھے کہ اک قطرۂ مے بھی نہ ملا
آج آئے تو کئی بار کئی جام آئے
اک حسیں یاد سے وابستہ ہیں لاکھوں یادیں
اشک امڈ آتے ہیں جب لب پہ تیرا نام آئے
سی لئے ہونٹ مگر دل میں خلش رہتی ہے
اس خاموشی کا کہیں ان پہ نہ الزام آئے
چند دیوانوں سے روشن تھی گلی الفت کی
ورنہ فانوس تو لاکھوں ہی سر بام آئے
یہ بھی بدلے ہوئے حالات کا پر تو ہے کہ وہ
خلوت خاص سے تا جلوہ گہِ عام آئے
ہو کے مایوس میں پیمانہ بھی جب توڑ چکا
چشم ساقی سے پیا پے کئی پیغام آئے
شہر میں پہلے سے بد نام تھے یوں بھی زیدیؔ
ہو کے مے خانے سے کچھ اور بھی بد نام آئے
٭٭٭
غیر پوچھیں بھی تو ہم کیا اپنا افسانہ کہیں
اب تو ہم وہ ہیں جسے اپنے بھی بیگانہ کہیں
وہ بھی وقت آیا کہ دل میں یہ خیال آنے لگا
آج ان سے ہم غمِ دوراں کا افسانہ کہیں
کیا پکارے جا ئیں گے ہم ایسے دیوانے وہاں
ہوش مندوں کو بھی جس محفل میں دیوانہ کہیں
شب کے آخر ہوتے ہوتے دونوں ہی جب جل بجھے
کس کو سمجھیں شمعِ محفل ،کس کو دیوانہ کہیں
اور کچھ کہنا تو گستاخی ہے شانِ شیخ میں
ہاں مگر نا واقف آدابِ مے خانہ کہیں
آج تنہائی میں پھر آنکھوں سے ٹپکا ہے لہو
جی کے بہلانے کو آؤ اپنا افسانہ کہیں
ان سے رونق قتل گہہ کی، ان سے گرمی بزم کی
کہنے والے اہل دل کو لاکھ دیوانہ کہیں
ہیں بہم موجِ شراب و سیلِ اشک و جوئے خوں
لائق سجدہ ہے جس کو خاک مے خانہ کہیں
ان کی اس چینِ جبیں کا کچھ تقاضہ ہو مگر
کیا غم دل کی حقیقت کو بھی افسانہ کہیں
٭٭٭
ہے خموش آنسوؤں میں بھی نشاطِ کامرانی
کوئی سن رہا ہے شائد مری دکھ بھری کہانی
یہی تھرتھراتے آنسو یہی نیچی نیچی نظریں
یہی ان کی بھی نشانی یہی اپنی بھی نشانی
یہ نظام بزمِ مے سا کہیں رہ سکےگا باقی
کہ خوشی تو چند لمحے غم و درد جاودانی
ہیں وجود شے میں پنہاں ازلاو ابد کے رشتے
یہاں کچھ نہیں دو روزہ کوئی شے نہیں ہے فانی
تیری بات کیا ہے واعظ مرا دل وہ ہے کہ جس نے
اسی مے کدے میں اکثر میری بات بھی نہ مانی
پئے رفعِ بدگمانی میں وفا برت رہا تھا
مری پے بہ پے وفا سے بڑھی اور بد گمانی
مرا مے کدہ سلامت کہ ہر ایک قید اٹھا دی
نہ تو دیر کی غلامی نہ حرم کی پاسبانی
کروں ان سے لاکھ شکوے مگر ان سے شکوہ کرنا
نہ طریقۂ محبت نہ روایت جوانی
٭٭٭
ہم سفر گم، راستے نا پید، گھبراتا ہوں میں
اک بیاباں در بیاباں ہے، جدھر جاتا ہوں میں
بزم فکر و ہوش ہو یا محفلِ عیش و نشاط
ہر جگہ سے چند نشتر، چند غم لاتا ہوں میں
آ گئی اے نا مرادی وہ بھی منزل آ گئی
مجھ کو کیا سمجھائیں گے وہ، ان کو سمجھاتا ہوں میں
ان کے لب پر ہے جو ہلکے سے تبسم کی جھلک
اس میں اپنے آنسوؤں کا سوز بھی پاتا ہوں میں
شامِ تنہائی بجھا دے جھلملاتی شمع بھی
ان اندھیروں میں ہی اکثر روشنی پاتا ہوں میں
ہمت افزا ہے ہر اک افتاد راہِ شوق کی
ٹھوکریں کھاتا ہوں، گرتا ہوں، سنبھل جاتا ہوں میں
ان کے دامن تک خود اپنا ہاتھ بھی بڑھتا نہیں
اپنا دامن ہو تو ہر کانٹے سے الجھاتا ہوں میں
شوقِ منزل ہم سفر ہے ،جذبۂ دل راہ بر
مجھ پہ خود بھی کھل نہیں پاتا کدھر جاتا ہوں میں
٭٭٭
اک آہِ زیر لب کے گنہ گار ہو گئے
اب ہم بھی داخلِ صف اغیار ہو گئے
جس درد کو سمجھتے تھے ہم ان کا فیضِ خاص
اس درد کے بھی لاکھ خریدار ہو گئے
جن حوصلوں سے میرا جنوں مطمئن نہ تھا
وہ حوصلے زمانے کے معیار ہو گئے
اب ان لبوں میں شہد و شکر گھل گئے تو کیا
جب ہم حلق کی تلخیِ گفتار ہو گئے
ہر وعدہ جیسے حرف غلط تھا سراب تھا
ہم تو نثار جرأت انکار ہو گئے
تیری نظر پیام یقیں دے گئی مگر
کچھ تازہ وسوسے بھی تو بیدار ہو گئے
اس مے کدے میں اچھلی ہے دستار بارہا
واعظ یہاں کہاں سے نمودار ہو گئے
سر سبز پتیوں کا لہو چوس چوس کر
کتنے ہی پھول رونق گل زار ہو گئے
زیدیؔ کے تازہ شعر سنائے برنگِ خاص
ہم بھی فدائے شوخی انکار ہو گئے
٭٭٭
جوانی حریف ستم ہے تو کیا غم
تغیر ہی اگلا قدم ہے تو کیا غم
ہر اک شے ہے فانی تو یہ غم بھی فانی
مری آنکھ گر آج نم ہے تو کیا غم
مرے ہاتھ سلجھا ہی لیں گے کسی دن
ابھی زلفِ ہستی میں خم ہے تو کیا غم
خوشی کچھ ترے ہی لئے تو نہیں ہے
اگر حق مرا آج کم ہے تو کیا غم
مرے خوں پسینے سے گلشن بنیں گے
ترے بس میں ابر کرم ہے تو کیا غم
مرا کارواں بڑھ رہا ہے بڑھے گا
اگر رخ پہ گرد الم ہے تو کیا غم
یہ مانا کہ رہبر نہیں ہے مثالی
مگر اپنے سینے میں دم ہے تو کیا غم
میرا کارواں آپ رہبر ہے اپنا
یہ شیرازہ جب تک بہم ہے تو کیا غم
تیرے پاس طبل و عَلم ہیں تو ہوں گے
مرے پاس زورِ قلم ہے تو کیا غم
٭٭٭
جو مقصد گریۂ پیہم کا ہے وہ ہم سمجھتے ہیں
مگر جن کو سمجھنا چاہئیے تھا کم سمجھتے ہیں
ذرا میرے جنوں کی کاوش تعمیر تو دیکھیں
جو بزم زندگی کو درہم و برہم سمجھتے ہیں
ان آنکھوں میں نہیں نشتر خود اپنے دل میں پنہاں ہے
اب اتنی بات تو کچھ ہم بھی اے ہمدم سمجھتے ہیں
یہ ان کی مہر بانی ہے یہ ان کی عزت افزائی
کہ میرے زخم کو وہ لائق مرہم سمجھتے ہیں
ہم اہل دل نے معیارِ محبت بھی بدل ڈالے
جو غم ہر فرد کا غم ہے اسی کو غم سمجھتے ہیں
جھجکتے سے قدم، بہکی سی نظریں، رکتی سی باتیں
یہ انداز تجاہل وہ ہے جس کو ہم سمجھتے ہیں
سلوکِ دوست بھی ہے اک اشارہ تیز گامی کا
ہم اہل کارواں آنچل کو بھی پرچم سمجھتے ہیں
ہٹو اہلِ خرد۔ اہلِ جنوں کو جانے دو آگے
وہی کچھ راہِ ہستی کے یہ پیچ و خم سمجھتے ہیں
پلک سے اس طرح ٹپکا کہ گویا اک کلی چٹکی
ہم اہل درد اشک غم کو بھی شبنم سمجھتے ہیں
خلوص ظاہری روزانہ اک محفل سجاتا ہے
سمجھتے وہ بھی ہیں لیکن ابھی کم کم سمجھتے ہیں
٭٭٭
جنوں سے راہِ خرد میں بھی کام لینا تھا
ہر ایک خار سے اذنِ خرام لینا تھا
فراز دار پہ دامن کسی کا تھام لیا
جنون شوق کو بھی انتقام لینا تھا
ہزار بار نتائج سے ہو کے بے پروا
اسی کا نام لیا جس کا نام لینا تھا
علاج تشنہ لبی سہل تھا مگر ساقی
جو دست غیر میں ہے کب وہ جام لینا تھا
جنوں کی راہ میں تدبیر سر خوشی کے لئے
بس ایک ولولۂ تیز گام لینا تھا
شکستہ لاکھ تھی کشتی ہزار تھا طوفاں
خیال میں کوئی دامن تو تھام لینا تھا
نسیم ایک روش تک پہنچ کے تھم سی گئی
کہ نو شگفتہ کلی کا پیام لینا تھا
شب فراق میں بھی کچھ دیئے چمکنے لگیں
نگاہِ شوق سے اتنا تو کام لینا تھا
ہزار بار تری بزم میں ہوا محسوس
لیا جو غیر نے مجھ کو وہ جام لینا تھا
میں ایک جرعۂ مستی پہ صلح کیوں کرتا
مجھے تو جام میں ماہِ تمام لینا تھا
غضب ہوا کہ ان آنکھوں میں اشک بھر آئے
نگاہِ یاس سے کچھ اور کام لینا تھا
کسی نے آگ لگائی ہو کوئی مجرم ہو
ہمیں تو اپنے ہی سر اتہام لینا تھا
نگاہِ شوخ یہی فتح اور کچھ ہوتی
جو گر رہے تھے انہیں بڑھ کے تھام لینا تھا
یہ بزم خاص کا عیش دو روزہ کیا ہوگا
غم عوام سے عیش دوام لینا تھا
٭٭٭
کم ظرف احتیاط کی منزل سے آئے ہیں
ہم زندگی کے جادۂ مشکل سے آئے ہیں
گرداب محو رقص ہے طوفان محو جوش
کچھ لوگ شوق موج میں ساحل سے آئے ہیں
یہ وضعِ ضبطِ شوق کہ دل جل بجھا مگر
شکوے زباں پہ آج بھی مشکل سے آئے ہیں
آنکھوں کا سوز دل کی کسک تو نہیں ملی
مانا کہ آپ بھی اسی محفل سے آئے ہیں
یہ قشقۂ خلوص ہے زخم جبیں نہیں
ہر چند ہم بھی کوچۂ قاتل سے آئے ہیں
دل کا لہو نگاہ سے ٹپکا ہے بارہا
ہم راہِ غم میں ایسی بھی منزل سے آئے ہیں
دل اک اداس صبح، نظر اک اداس شام
کیسے کہیں کہ دوست کی محفل سے آئے ہیں
چھیڑا تھا نوک خار نے لیکن گماں ہوا
تازہ پیام پردۂ محمل سے آئے ہیں
ہاں گائے جا مغنیِ بزم ِ طرب کہ آج
نغمے تری زباں پہ مرے دل سے آئے ہیں
٭٭٭
منزل دل ملی کہاں ختم سفر کے بعد بھی
رہ گزر ایک اور تھی راہ گزر کے بعد بھی
آج ترے سوال پر پھر میرے لب خموش ہیں
ایسی ہی کشمکش تھی کچھ پہلی نظر کے بعد بھی
دل میں تھے لاکھ وسوسے جلوۂ آفتاب تک
رہ گئی تھی جو تیرگی نور سحر کے بعد بھی
ناصح مصلحت نواز تجھ کو بتاؤں کیا یہ راز
حوصلۂ نگاہ ہے خون جگر کے بعد بھی
ہار کے بھی نہیں مٹی دل سے خلش حیات کی
کتنے نظام مٹ گئے جشن ظفر کے بعد بھی
کوئی مرا ہی آشیاں حاصل فصلِ گل نہ تھا
ہاں یہ بہار ہے بہار رقص شرر کے بعد بھی
ایک تمہاری یاد نے لاکھ دیئے جلائے ہیں
آمد شب کے قبل بھی ختم سحر کے بعد بھی
٭٭٭
مستی گام بھی تھی غفلت انجام کے ساتھ
دو گھڑی کھیل لئے گردش ایام کے ساتھ
تشنہ لب رہنے پہ بھی ساکھ تو تھی شان تو تھی
وضع رندانہ گئی اک طلبِ جام کے ساتھ
جب سے ہنگام سفر اشکوں کے تارے چمکے
تلخیاں ہو گئیں وابستہ ہر اک شام کے ساتھ
اب نہ وہ شورشِ رفتار نہ وہ جوشِ جنوں
ہم کہاں پھنس گئے یارانِ سبک گام کے ساتھ
اڑ چکی ہیں ستم آراؤں کی نیندیں اکثر
آپ سنئے کبھی افسانہ یہ آرام کے ساتھ
اس میں ساقی کا بھی در پردہ اشارہ تو نہیں
آج کچھ رند بھی تھے واعظ بد نام کے ساتھ
غیر کی طرح ملے اہل حرم اے زیدیؔ
مجھ کو یک گو نہ عقیدت جو تھی اصنام کے ساتھ
٭٭٭
نیا مے کدے میں نظام آ گیا
اٹھیں بندشیں اذنِ عام آ گیا
نظر میں وہ کیف دوام آ گیا
کہ گویا کسی کا پیام آ گیا
محبت میں وہ بھی مقام آ گیا
کہ مژگاں پہ خوں، لب پہ نام آ گیا
سر راہ کانٹے بچھاتا ہے شوق
جنوں کو بھی کچھ اہتمام آ گیا
نہ الزام ان پر نہ اغیار پر
یہ دل آپ ہی زیر دام آ گیا
بدل ہی گیا بزم عشرت کا رنگ
میرا نغمۂ درد کام آ گیا
کدھر سے یہ سنکی مہکتی ہوا
کدھر سے وہ نازک خرام آ گیا
تماشا نہیں تھا مرا اضطراب
کوئی کیوں یہ بالائے بام آ گیا
بیاں ہو رہا تھا فسانہ مرا
مگر بار بار ان کا نام آ گیا
کبھی سامنے کچھ خموشی رہی
کبھی دور سے کچھ پیام آ گیا
جو دار و رسن سے بھی رکتا نہیں
سروں میں وہ سودائے خام آ گیا
وہ زیدیؔ، وہی رندِ آتش نوا
وہ زندہ دلوں کا امام آ گیا
٭٭٭
نیند آ گئی تھی منزل عرفاں سے گزر کے
چونکے ہیں ہم اب سرحد عصیاں سے گزر کے
آنکھوں میں لئے جلوۂ نیرنگ تماشا
آئی ہے خزاں جشن بہاراں سے گزر کے
یادوں کے جواں قافلے آتے ہی رہیں گے
سرما کے اسی برگ پرافشاں سے گزر کے
کانٹوں کو بھی اب بادِ صبا چھیڑ رہی ہے
پھولوں کے حسیں چاک گریباں سے گزر کے
وحشت کی نئی راہ گزر ڈھونڈ رہے ہیں
ہم اہل جنوں دشت و بیاباں سے گزر کے
بن جائے گا تارا کسی مایوس خلاء میں
یہ اشک سحر گوشۂ داماں سے گزر کے
آوارگیِ فکر کدھر لے کے چلی ہے
سر منزل آزادی ِ امکاں سے گزر کے
پائی ہے نگاہوں نے تری بزم تمنا
راتوں کو چناروں کے چراغاں سے گزر کے
اک گردش چشم کرم اک موج نظارہ
کل شب کو ملی گردش دوراں سے گزر کے
ملنے کو تو مل جائے مگر لے گا بھلا کون
ساحل کا سکوں شورش طوفان سے گزر کے
اک نشتر غم اورسہی اے غم منزل
آ دیکھ تو اک روز رگِ جاں سے گزر کے
اب درد میں وہ کیفیت درد نہیں ہے
آیا ہوں جو اس بزم گل افشاں سے گزر کے
٭٭٭
راہِ الفت میں ملے ایسے بھی دیوانے مجھے
جو مآل دوستی آئے تھے سمجھانے مجھے
عشق کی ہلکی سی پہلی آنچ ہی میں جل بجھے
کیا بھلا درد وفا دیں گے یہ پروانے مجھے
یہ تو کہئے بے خودی سے مل گئی کچھ آگہی
ورنہ دھوکہ دے دیا تھا چشم بینا نے مجھے
نا مرادی لوٹ ہی لیتی متاعِ آرزو
اک سہارا دے دیا احساس فردا نے مجھے
کس سے کہتا دل کی باتیں کس سے سنتا ان کا راز
بزم میں تو سب نظر آتے ہیں بیگانے مجھے
توبہ توبہ نا امیدی کی خیال آرائیاں
دیکھتے ہوں جیسے خود للچا کے پیمانے مجھے
میرا اک ادنیٰ سا پر تو ہے نظام کائنات
کیا سمجھ رکھا ہے اس محدود دنیا نے مجھے
جب کبھی دیکھا ہے اے زیدیؔ نگاہِ غور سے
ہر حقیقت میں ملے ہیں چند افسانے مجھے
٭٭٭
شکوے ہم اپنی زباں پر کبھی لائے تو نہیں
ہاں مگر اشک جب امڈے تھے چھپائے تو نہیں
تیری محفل کے بھی آداب کہ دل ڈرتا ہے
میری آنکھوں نے درِ اشک لٹائے تو نہیں
چھان لی خاک بیابانوں کی ویرانوں کی
پھر بھی انداز جنوں عقل نے پائے تو نہیں
لاکھ پر وحشت و پر ہول سہی شام فراق
ہم نے گھبرا کے دیئے دن سے جلائے تو نہیں
اب تو اس بات پہ بھی صلح سی کر لی ہے کہ وہ
نہ بلائے، نہ سہی، دل سے بھلائے تو نہیں
ہجر کی رات یہ ہر ڈوبتے تارے نے کہا
ہم نہ کہتے تھے نہ آئیں گے وہ آئے تو نہیں
انقلاب آتے ہیں رہتے ہیں جہاں میں لیکن
جو بنانے کا نہ ہو اہل مٹائے تو نہیں
اپنی اس شوخی رفتار کا انجام نہ سوچ
فتنے خود اٹھنے لگے تو نے اٹھائے تو نہیں
٭٭٭
طے کر چکے یہ زندگیِ جاوداں سے ہم
آگے بڑھیں گے اور اٹھے ہیں جہاں سے ہم
کس کو صدا دیں کس سے کہیں ساتھ لے چلو
پیچھے رہے غبار رہِ کارواں سے ہم
دل میں جو درد ہے وہ نگاہوں سے ہے عیاں
یہ بات اور ہے نہ کہیں کچھ زباں سے ہم
چونکا دیا قفس نے ہمیں گہری نیند سے
وابستہ ہو چلے تھے بہت آشیاں سے ہم
گر آ بھی جائے میری جبیں تک وہ آستاں
لائیں گے سجدہ ریزی کی عادت کہاں سے ہم
فیض جنوں سے فرصت فریاد ہی نہ تھی
نا آشنا ہی رہ گئے طرز فغاں سے ہم
دیکھی ہیں ہم نے ان کی پشیماں نگاہیاں
کہنا ہو لاکھ پھر بھی کہیں کس زباں سے ہم
٭٭٭
ترے دیار میں کوئی غم آشنا تو نہیں
مگر وہاں کے سوا اور راستہ تو نہیں
سمٹ کے آ گئی دنیا قریب مے خانہ
کوئی بتاؤ یہی خانۂ خدا تو نہیں
لبوں پر آج تبسم کی موج مچلی ہے
کوئی مجھے کسی گوشے سے دیکھتا تو نہیں
بنا لیں راہ اسی خار زار سے ہو کر
جنون شوق کا یہ فیصلہ برا تو نہیں
سبب ہو کچھ بھی تیرے انفعال کا لیکن
میری شکست سے پہلے کبھی ہوا تو نہیں
نہ ریگ گرم نہ کانٹے نہ راہ زن نہ غنیم
یہ راستہ کہیں غیروں کا راستہ تو نہیں
دیار سجدہ میں تقلید کا رواج بھی ہے
جہاں جھکی ہے جبیں ان کا نقش پا تو نہیں
خیال ساحل و فکر تباہ کاریِ موج
یہ سب ہے پھر بھی تمنائے نا خدا تو نہیں
٭٭٭
تیرے ہلکے سے تبسم کا اشارہ بھی تو ہو
تا سر دار پہنچنے کا سہارا بھی تو ہو
شکوہ و طنز سے بھی کام نکل جاتے ہیں
غیرت عشق کو لیکن یہ گوارا بھی تو ہو
مے کشوں میں نہ سہی، تشنہ لبوں میں ہی سہی
کوئی گوشہ تری محفل میں ہمارا بھی تو ہو
کس طرف موڑ دیں ٹوٹی ہوئی کشتی اپنی
ایسے طوفاں میں کہیں کوئی کنارہ بھی تو ہو
ہے غم عشق میں اک لذت جاوید مگر
اس غم دہر سے اے دل کوئی چارہ بھی تو ہو
مے کدے بھر پہ تیرا حق ہے مگر پیر مغاں
اک کسی چیز پہ رندوں کا اجارہ بھی تو ہو
اشک خونیں سے جو سینچے تھے بیاباں ہم نے
ان میں اب لالہ و نسریں کا نظارہ بھی تو ہو
جام ابل پڑتے ہیں مے لٹتی ہے خم ٹوٹتے ہیں
نگہِ ناز کا در پردہ اشارہ بھی تو ہو
پی تو لوں آنکھوں میں امڈے ہوئے آنسو لیکن
دل پہ قابو بھی تو ہو ضبط کا یارا بھی تو ہو
آپ اس وادی ویراں میں کہاں آ پہنچے
میں گنہگار مگر میں نے پکارا بھی تو ہو
٭٭٭
اف وہ اک حرف تمنا جو ہمارے دل میں تھا
ایک طوفاں تھا کہ برسوں حسرت ساحل میں تھا
رفتہ رفتہ ہر تماشا آنسوؤں میں ڈھل گیا
جانے کیا آنکھوں نے دیکھا اور کیا منزل میں تھا
داستان غم سے لاکھوں داستانیں بن گئی
پھر بھی وہ اک راز سر بستہ رہا جو دل میں تھا
چشم ساقی کے علاوہ جام خالی کے سوا
کون اپنا آشنا اغیار کی محفل میں تھا
میرے ارمانوں کا مرکز میرے دردوں کا علاج
ٹمٹماتا سا دیا اک گوشۃ منزل میں تھا
گفتگو کے ختم ہو جانے پر آیا یہ خیال
جو زباں تک آ نہیں پایا وہی تو دل میں تھا
مٹ گئیں امروز و فردا کی ہزاروں الجھنیں
جو سکوں طوفاں میں پایا ہے وہ کب ساحل میں تھا
٭٭٭
ذرۂ نا تپیدہ کی خواہش آفتاب کیا
نغمۂ نا شنیدہ کا حوصلۂ رباب کیا
عمر کا دل ہے مضمحل زیست ہے درد مستقل
ایسے نظام دہر میں وسوسۂ عذاب کیا
نغمہ بلب ہیں کیاریاں رقص میں ذرۂ تپاں
سن لیا کشت خشک نے زمزمۂ سحاب کیا
چہرۂ شب دمک اٹھا سرخ شفق جھلک اٹھی
وقت طلوع کہہ گیا جانے یہ آفتاب کیا
رندوں سے باز پرس کی پیر مغاں سے دل لگی
آج یہ محتسب نے بھی پی ہے کہیں شراب کیا
شمع تھی لاکھ ادھ جلی بزم میں روشنی تو تھی
ورنہ غم نشاط میں روشنی گلاب کیا
غیر کی رہ گزر ہے یہ دوست کی رہ گزر نہیں
کون اٹھائے گا تجھے دیکھ رہا ہے خواب کیا
مدتوں سے خلش جو تھی جیسے وہ کم سی ہو چلی
آج مرے سوال کا مل ہی گیا جواب کیا
ہاں تیری منزل مراد دور بہت ہی دور ہے
پھر بھی ہر اک موڑ پر دل میں یہ اضطراب کیا
٭٭٭
ظلمت کدوں میں کل جو شعاع سحر گئی
تاریکی حیات یکایک ابھر گئی
نظارۂ جمال کی فرصت کہاں ملی
پہلی نظر نظر کی حدوں سے گزر گئی
اظہار التفات کے بعد ان کی بے رخی
اک رنگ اور نقش تمنا میں بھر گئی
ذوق جنون و جذبۂ بے باک کیا ملے
ویران ہو کے بھی مری دنیا سنور گئی
اک داغ بھی جبیں پہ مری آ گیا تو کیا
شوخی تو ان کے نقش قدم کی ابھر گئی
تارے سے جھلملاتے ہیں مژگانِ یار پر
شائد نگاہِ یاس بھی کچھ کام کر گئی
تم نے تو اک کرم ہی کیا حال پوچھ کر
اب جو گزر گئی مرے دل پر گزر گئی
جلوے ہوئے جو عام تو تاب نظر نہ تھی
پردے پڑے ہوئے تھے جہاں تک نظر گئی
سارا قصور اس نگہِ فتنہ جو کا تھا
لیکن بلا نگاہِ تمنا کے سر گئی
٭٭٭
ماخذ: (اصل ہندی میں)
http://kavitakosh.org/kk/%E0%A4%85%E0%A4%B2%E0%A5%80_%E0%A4%9C%E0%A4%B5%E0%A5%8D%E0%A4%B5%E0%A4%BE%E0%A4%A6_%27%E0%A4%9C%E0%A4%BC%E0%A5%88%E0%A4%A6%E0%A5%80%27
ہندی سے اردو براہ:
http://uh.learnpunjaboi.org