FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

مہرباں روشنی

                   مخمور سعیدی

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

اپنا یہی ہے صحن یہی سائبان ہے

پھیلی ہوئی زمین کھلا آسمان ہے

 

یہ شاخ سے پرند کی پہلی اڑان ہے

 

جو چل پڑے ہیں کشتی موجِ رواں لئے

چادر ہوا کی ان کے لئے بادبان ہے

 

قربت کی ساعتوں میں بھی کچھ دوریاں سی ہیں

سایہ کسی کا ان کے مرے درمیان ہے

 

آنکھوں میں تیرے خواب نہ دل میں ترا خیال

اب میری زندگی کوئی خالی مکان ہے

 

مخمورؔ اس سفر میں نہ سایہ تلاش کر

ان راستوں پہ دھوپ بہت مہربان ہے

٭٭٭

 

 

 

وہ ہم سے خفا تھا مگر اتنا بھی نہیں تھا

یوں مل کے بچھڑ جائیں، کچھ ایسا بھی نہیں تھا

 

کیا دل سے مٹے اب خلشِ ترکِ تعلق

کر گزرے وہ ہم جو کبھی سوچا بھی نہیں تھا

 

رستے سے پلٹ آئے ہیں ہم کس لئے آخر

اس سے نہ ملیں گے یہ ارادہ بھی نہیں تھا

 

کچھ، ہم بھی اب اس درد سے مانوس بہت ہیں

کچھ، دردِ جدائی کا مداوا بھی نہیں تھا

 

سر پھوڑ کے مر جائیں، یہی راہِ مفر تھی

 

دیوار میں در کیا کہ دریچا بھی نہیں تھا

 

دل خون ہوا اور یہ آنکھیں نہ ہوئیں نم

سچ ہے، ہمیں رونے کا سلیقہ بھی نہیں تھا

 

اک شخص کی آنکھوں میں بسا رہتا ہے مخمورؔ

برسوں سے جسے میں نے تو دیکھا بھی نہیں تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھیڑ میں ہے مگر اکیلا ہے

اس کا قد دوسروں سے اونچا ہے

 

اپنے اپنے دکھوں کی دنیا میں

میں بھی تنہا ہوں وہ بھی تنہا ہے

 

منزلیں غم کی طے نہیں ہوتیں

راستہ ساتھ ساتھ چلتا ہے

 

ساتھ لے لو سپر محبت کی

اس کی نفرت کا وار سہنا ہے

 

تجھ سے ٹوٹا جو اک تعلق تھا

اب تو سارے جہاں سے رشتہ ہے

 

خود سے مل کر بہت اداس تھا آج

وہ جو ہنس ہنس کے سب سے ملتا ہے

 

اس کی یادیں بھی ساتھ چھوڑ گئیں

ان دنوں دل بہت اکیلا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سامنے غم کی رہگزر آئی

دور تک روشنی نظر آئی

 

پربتوں پر رکے رہے بادل

وادیوں میں ندی اتر آئی

 

دوریوں کی کسک بڑھانے کو

ساعتِ قربِ مختصر آئی

 

دن مجھے قتل کر کے لوٹ گیا

شام میرے لہو میں تر آئی

 

مجھ کو کب شوقِ شہر گردی تھی

خود گلی چل کے میرے گھر آئی

 

آج کیوں آئینے میں شکل اپنی

اجنبی اجنبی نظر آئی

 

ہم کہ مخمورؔ صبح تک جاگے

ایک آہٹ سی رات بھر آئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

چل پڑے ہیں تو کہیں جا کے ٹھہرنا ہوگا

یہ تماشا بھی کسی دن ہمیں کرنا ہوگا

 

ریت کا ڈھیر تھے ہم، سوچ لیا تھا ہم نے

جب ہوا تز چلے گی تو بکھرنا ہوگا

 

ہر نئے موڑ پہ یہ سوچ قدم روکے گی

جانے اب کون سی راہوں سے گزرنا ہوگا

 

لے کے اس پار نہ جائے گی جدا راہ کوئی

بھیڑ کے ساتھ ہی دلدل میں اترنا ہوگا

 

زندگی خود ہی اک آزار ہے جسم و جاں کا

جینے والوں کو اسی روگ میں مرنا ہوگا

 

قاتلِ شہر کے مخبر در و دیوار بھی ہیں

اب ستمگر اسے کہتے ہوئے ڈرنا ہوگا

 

آئے ہو اس کی عدالت میں تو مخمورؔ تمہیں

اب کسی جرم کا اقرار تو کرنا ہوگا

٭٭٭

 

 

 

 

 

پار کرنا ہے ندی کو تو اتر پانی میں

بنتی جائے گی خود ایک راہگزر پانی میں

 

ذوق تعمیر تھا ہم خانہ خرابوں کا عجب

چاہتے تھے کہ بنے ریت کا گھر پانی میں

 

سیلِ غم آنکھوں سے سب کچھ نہ بہا لے جائے

ڈوب جائے نہ یہ خوابوں کا نگر پانی میں

 

کشتیاں ڈوبنے والوں کے تجسس میں نہ جائیں

رہ گیا کون، خدا جانے کدھر پانی میں

 

اب جہاں پاؤں پڑے گا یہی دلدل ہوگی

جستجو خشک زمینوں کی نہ کر پانی میں

 

موج در موج، یہی شور ہے طغیانی کا

ساحلوں کی کسے ملتی ہے خبر پانی میں

 

خود بھی بکھرا وہ، بکھرتی ہوئی ہر لہر کے ساتھ

عکس اپنا اسے آتا تھا نظر پانی میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سر پر جو سائباں تھے پگھلتے ہیں دھوپ میں

سب دم بخود کھڑے ہوئے جلتے ہیں دھوپ میں

 

پہچاننا کسی کا کسی کو، کٹھن ہوا

چہرے ہزار رنگ بدلتے ہیں دھوپ میں

 

بادل جو ہمسفر تھے کہاں کھو گئے کہ ہم

تنہا سلگتی ریت پہ جلتے ہیں دھوپ میں

 

سورج کا قہر ٹوٹ پڑا ہے زمین پر

منظر جو آس پاس تھے جلتے ہیں دھوپ میں

 

پتے ہلیں تو شاخوں سے چنگاریاں اڑیں

سر سبز پیڑ آگ اگلتے ہیں دھوپ میں

 

مخمورؔ ہم کو سائےابرِ رواں سے کیا

سورج مکھی کے پھول ہیں، پلتے ہیں دھوپ میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سن سکا کوئی نہ جس کو، وہ صدا میری تھی

منفعل جس سے میں رہتا تھا، نوا میری تھی

 

آخرِ شب کے ٹھٹھرتے ہوئے سناٹوں سے

نغمہ بن کر جو ابھرتی تھی، دعا میری تھی

 

کھلکھلاتی ہوئی صبحوں کا سماں تھا ان کا

خون روتی ہوئی شاموں کی فضا میری تھی

 

مدعا میرا، ان الفاظ کے دفتر میں نہ ڈھونڈ

وہی ایک بات جو میں کہہ نہ سکا میری تھی

 

منصفِ شہر کے دربار میں کیوں چلتے ہو

صاہبو مان گیا میں کہ خطا میری تھی

 

مجھ سے بچ کر وہی چپ چاپ سدھارا مخمورؔ

ہر طرف جس کے تعاقب میں صدا میری تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ راستہ نہ کوئی ڈگر ہے یہاں

مگر سب کی قسمت سفر ہے یہاں

 

سنائی نہ دے گی دلوں کی صدا،

دماغوں میں وہ شور و شر ہے یہاں

 

ہواؤں کی انگلی پکڑ کر چلو،

وسیلہ یہی معتبر ہے یہاں

 

نہ اس شہر بیحس کو صحرا کہو،

سنو اک ہمارا بھی گھر ہے یہاں

 

پلک بھی جھپکتے ہو مخمورؔ کیوں،

تماشا بہت مختصر ہے یہاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

بکھرتے ٹوٹتے لمحوں کو اپنا ہم سفر جانا

کہ تھا اس راہ میں آخر ہمیں خود بھی بکھر جانا

 

ہوا کے دوش پر بادل کے ٹکڑے کی طرح ہم ہیں،

کسی جھونکے سے پوچھیں گے کہ ہے ہم کو کدھر جانا

 

میرے جلتے ہوئے گھر کی نشانی بس یہی ہوگی،

جہاں اس شہر میں تم روشنی دیکھو ٹھہر جانا

 

پس ظلمت کوئی سورج ہمارا منتظر ہوگا،

اسی ایک وہم کو ہم نے چراغ رہگزر جانا

 

دیار خاموشی سے کوئی رہ رہ کر بلاتا ہے،

ہمیں مخمورؔ ایک دن ہے اسی آواز پر جانا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جہاں میں جاؤں ہوا کا یہی اشارہ ہو

کوئی نہیں جو یہاں منتظر تمہارا ہو

 

میری بجھتی ہوئی آنکھوں کو روشنی بخشے،

وہ پھول جو تیرے چہرے کا استعارا ہو

 

چلا ہوں اپنی ہی آواز بازگشت پہ یوں،

کسی نے دور سے جیسے مجھے پکارا ہو

 

گنوا چکے کئی عمریں امیدوار تیرے،

کہاں تک اور تری بے رخی گوارا ہو

 

تو پاس آتے ہوئے مجھ سے دور ہو جائے،

عجب نہیں کہ یہی حادثہ دوبارہ ہو

 

نظر فریبی رنگ چمن سے بچ مخمورؔ

جسے تو پھول سمجھ لے کہیں شرارہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں

گھر کہیں گم ہو گیا دیوارو در کے درمیاں

 

کون اب اس شہر میں کس کی خبرگیری کرے ؟

ہر کوئی گم اک ہجوم بے خبر کے درمیاں

 

جگمگائے گا مری پہچان بن کر مدتوں

ایک لمحہ ان گنت شام و سحر کے درمیاں

 

ایک ساعت تھی کہ صدیوں تک سفر کرتی رہی

کچھ زمانے تھے کہ گزرے لمحے بھر کے درمیاں

 

وار وہ کرتے رہیں گے، زخم ہم کھاتے رہیں

ہے یہی رشتہ پرانا سنگ و  سر کے درمیاں

 

کیا کہیں ہر دیکھنے والے کو آخر چپ لگی

گم تھا منظر اختلافاتِ نظر کے درمیاں

 

کس کی آہٹ پر اندھیروں کے قدم بڑھتے گئے ؟

رہنما تھا کون اس اندھے سفر کے درمیاں

 

کچھ اندھیرا سا، اجالوں سے گلے ملتا ہوا

ہم نے اک منظر بنایا خیرو شر کے درمیاں

 

بستیاں مخمورؔ یوں اجڑیں کہ صحرا ہو گئیں

فاصلے بڑھنے لگے جب گھر سے گھر کے درمیاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر دریچے میں مرے قتل کا منظر ہوگا

شام ہوگی تو تماشا یہی گھر گھر ہوگا

 

پل کی دہلیز پہ گر جاؤں گا بے سدھ ہو کر

بوجھ صدیوں کی تھکن کا میرے سر پر ہوگا

 

میں بھی اک جسم ہوں سایہ تو نہیں ہوں تیرا

کیوں تیرےہحجر میں جینا مجھے دوبھر ہوگا

 

اپنی ہی آنچ میں پگھلا ہوا چاندی کا بدن

سرحد لمس تک آتے ہوئے پتھر ہوگا

 

لوگ اس طرح تو شکلیں نہ بدلتے ہوں گے

آئینہ اب اسے دیکھے گا تو ششدر ہوگا

 

سر پٹکتے ہیں جو بگلے وہی موجوں کی طرح

اب جو صحرا ہے کسی دن یہ سمندر ہوگا

 

دشتِ تدبیر میں جو خاک بسر ہے مخمورؔ

ہو نہ ہو میرا ہی آوارہ مقدر ہوگا

٭٭٭

 

 

 

 

پنگھٹ

 

گاؤں کی فضاؤں میں،ڈولتی ہواؤں میں

نغمگی مچلتی ہے، مستیاں سنکتی ہیں

اک شریر آہٹ پر، پرسکون پنگھٹ پر

گاگریں چھلکتی ہیں، چوڑیاں چھنکتی ہیں

سلسلے رقابت کے دور تک پہنچتے ہیں

زنگ خوردہ تلواریں دیر تک کھنکتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

زادِ سفر

 

 

اجنبی چہروں کے پھیلے ہوئے اس جنگل میں

دوڑتے بھاگتے لمحوں کے دریچے سے کبھی

اتفاقاً تری مانوس شباہت کی جھلک

پردۂ  چشمِ تخیّل پہ ابھر کر اے دوست

ڈوب جاتی ہے اسی پل، اسی ساعت، جیسے

تیز رو ریل کی کھڑکی سے، ذرا دوری پر

کسی صحرا کی جھلستی ہوئی ویرانی میں

ناگہاں منظرِ رنگیں کوئی دم بھر کے لئے

اک مسافر کو نظر آئے اور اوجھل ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

سبب میری اداسی کا

 

 

کسی دن پاس میرے آ کے بیٹھو

مرے سینے پہ رکھ کر ہاتھ – دیکھو

یہ دل کی دھڑکنیں کیا کہہ رہی ہیں !

مری الجھن، میرا آزار کیا ہے ؟

 

کسی دن دور مجھ سے جا کے بیٹھو

مرے بارے میں تھوڑی دیر سوچو

سبب میری اداسی کا سمجھ لو

محبت کی یہ کیا مجبوریاں ہیں

تمہاری دوریوں میں قربتیں تھیں

تمہاری قربتوں میں دوریاں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خیر اندیش

 

 

مری یہ دعا ہے

کہ جو صبح دم، گھر سے نکلے

سرِ شام، وہ خیریت سے

اسی گھر میں پہنچے

میری یہ دعا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

طلسمی پھول

 

 

کھنڈر میں پھول کھلا تھا بس ایک پل کے لئے

گزر گئے کئی موسم، کئی رتیں بیتیں

مگر وہ پھول کھلا تھا جو ایک پل کے لئے

مہک رہا ہے کہیں میرے جسم و جاں میں ہنوز

اسی کا رنگ ہے اس چشمِ خوں فشاں میں ہنوز

٭٭٭

 

 

 

 

ادھورے رشتوں کا کرب

 

 

 

وہ میرا ہے، مگر میرا نہیں ہے

افق پر جگمگاتا اک ستارہ

زمیں کو روشنی تو بانٹتا ہے

اترتا ہے کب آنگن میں کسی کے

اک آنسو بن کے لیکن گاہے گاہے

ٹپک پڑتا ہے دامن میں کسی کے

میں اس کا ہوں مگر اس سے جدا ہوں

گزرتی شب کے سناٹے میں تنہا

بچشمِ نم بھٹکتا پھر رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

بلاوا

 

ذرا ٹھہرو ! کدھر ہم جا رہے ہیں

ادھر اس چار دیواری کے پیچھے

وہ بوڑھا گورکن چلا رہا ہے :

 

‘ادھر آؤ ! قدم جلدی بڑھاؤ

یہاں اس چار دیواری کے اندر

جنم دن سے تمہاری منتظر ہیں

وہ قبریں، جن کی پیشانی پہ اب تک

کسی کے نام کا کتبا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مہرباں روشنی

 

 

روشنی !

اے میرے جسم و جاں جگمگاتی ہوئی مہرباں روشنی !

دفعتاً کس لئے مجھ پہ یہ بے رخی

میں، کہ تیرے لئے دور کا اجنبی

جن اندھیروں سے آیا ہوں تیری طرف

وہ اندھیرے بلاتے ہیں اب بھی مجھے

(کس قدر پیار سے، کتنے اسرار سے)

ان اندھیروں میں پھر لوٹ آؤں گا میں

تو ملی تھی کبھی بھول جاؤں گا میں

روشنی !

مہرباں روشنی !!

٭٭٭

 

 

 

 

شکست

 

ترا ہنستا ہوا چہرہ

غزل گاتی ہوئی آنکھیں

میں اس چہرے کو جب ہاتھوں میں لے کر چوم لیتا ہوں

تو لگتا ہے

اتر آئی کنواری روشنی صبح ازل کی

مرے سینے میں

میں ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب دیکھ لیتا ہوں

تو یوں محسوس ہوتا ہے

ابد کی وادیوں تک اک اچھوتا کیف چھایا ہے

جسے چھونا، جسے اپنا بنا لینا

(ہزاروں دشمنوں کے درمیاں)

میرا، فقط میرا ہی حصہ ہے

ترا ہنستا ہوا چہرہ

غزل گاتی ہوئی آنکھیں

میرا سرمایۂ ہستی، میرے پندار کی مستی

مگر میں اپنے اس پندار سے خود ہار جاتا ہوں

مخالف بھیڑ میں خود کو تہی مایہ سا پاتا ہوں

جب اس ہنستے ہوئے چہرے پہ کچھ انجان سے سائے

(میں جن سے ناشناسا ہوں)

گھنے، گہرے، دھندلکوں کی نقابیں ڈال دیتے ہیں

غزل گاتی ہوئی آنکھوں میں کچھ بے نام سے موسم

(جو مجھ سے دور گزرے ہیں)

اچانک لوٹ آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرا نام

 

 

میرا نام سلطان محمد خاں ہے

میں بیٹا ہوں

مولانا احمد خاں کا

جو پنج وقتہ نمازی تھے

لیکن میں فجر کی نماز کے وقت

سویا ہوا پایا جاتا ہوں

ظہر اور عصر کی نمازوں میں

دفتری مصروفیت

میرا پیچھا نہیں چھوڑتی

مغرب اور عشاء کی نمازیں

مجھ پر لعنت بھیجتی ہیں

کہ یہ وقت میری شراب نوشی کا ہے

اس کے باوجود مجھے

اپنے نام پر بھی اسرار ہے

اور اپنی ولدیت پر بھی

٭٭٭

ماخذ: کوتا کوش ڈاٹ آرگ

ہندی سے رسم الخط تبدیلی

http://uh.learnpunjabi.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید