FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نردولی کا آدم خور

               بہزاد لکھنوی

 

ٹرٹرٹر گھنٹی بجی۔ میں اپنے کمرے سے نکل کر باہر دالان میں آیا۔ دروازے کی کھڑکی ے اوپر سے مجھے ایک پچاس سالہ وجیہہ شخص کا چہرہ نظر آیا۔ اس کی پلی ہوئی مونچھیں اوپر کی جانب اٹھی ہوئی تھیں۔ میری صورت دیکھتے ہی وہ قہقہہ مار کر ہنسا اور بولا:

"بھائی بہزاد صاحب، آداب عرض ہے "۔

مجھے صورت جانی پہچانی نظر آئی۔ لیکن میں پوری طرح پہچان نہ سکا۔ سلام کے انداز سے مجھے کوئی ہندوستانی محسوس ہوا۔ میں نے کھڑکی کھولی، وہ اندر داخل ہوتے ہی مجھ سے لپٹ گیا۔ وہ سوٹ میں ملبوس تھا۔ مجھ سے بولا۔ ” آپ مجھے پہچانے نہیں بہزاد بھائی۔ اے میں متو خاں ہوں متو خاں شکاری۔ صف چوبیس پچیس برس کے اندر ہی بھول گئے "۔

مجھے یاد آ گیا۔ میں 1937ء میں جب آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ملازم تھا تو ایک نوجوان شکاری میرے پاس زیادہ آیا کرتا تھا۔ اس کی آواز بڑی خوب صورت تھی، غزلیں خوب گاتا تھا اور میری غزلیں اسے بے حد پسند تھیں۔ اس وقت اس کی عمر بیس سال کی ہو گی۔ ہمیشہ بندوق اس کے کندھے سے لٹکی رہتی تھی۔ میں نے کہا۔ "مجھے یاد آ گیا، تم میرے پاس دہلی میں ریڈیو اسٹیشن میں آیا کرتے تھے۔ "

وہ بولا، "جی ہاں۔ جی ہاں۔ میں وہی متو خاں ہوں۔ ابھی تک ہندوستانی ہوں۔ ویزے پر پاکستان گھومنے آیا تھا۔ سارا وقت لاہور اور پنجاب کی تفریح میں گزر گیا۔ ویزے پرکل پانچ دن رہ گئے تھے۔ مجھے کراچی گھومنا تھا، لہٰذا فوراً آ گیا۔ دو دن سے شہر کی تفریح گاہیں دیکھ رہا ہوں۔ بہزاد بھائی۔ پاکستان آ کر جانے کو جی نہیں چاہتا۔ آپ سے ملنا بھی ضروری تھا۔ آج صبح آپ کا پتا ریڈیو پاکستان سے معلوم ہوا تو سیدھا آ رہا ہوں، شام کی گاڑی سے مجھے واپس ہونا ہے۔ پرسوں سرحد پار کرنا ضروری ہے۔ "

میں نے کہا، "کے آمدی وکے پیر شدی”۔

وہ بولا، "آپ میری دعوت کرنا چاہتے ہوں گے ، ضرور کیجئے ، لیکن ایک شرط ہے "۔

میں نے کیا، پہلے دالان میں بچھی ہوئی کرسوں پر بیٹھ جاؤ، پھر شرط بیان کرنا، میں بوڑھا آدمی ہوں اور علیل بھی کھڑے کھڑے تھک گیا ہوں "۔

وہ کرسی پر بیٹھ کر بولا، شرط یہ کہ صرف مڑکے دانے کھاؤں گا، روٹی، سالن، دال، پلاؤ کچھ نہیں، مٹر کی پھلیاں منگائیے اور تلوائیے "۔

میں نے ملازم کو پیسے دیے دیے۔ وہ مٹر کی پھلیاں لینے چلا گیا۔

وہ بولا، "مخل تو نہیں ہوا”۔

میں نے کیا، "نہیں تو، ہمدرد نونہال کے لیے کچھ لکھنے کا ارادہ کر رہا تھا”۔

وہ بولا: "تو میرے بچپن کے شکار کا واقعہ لکھ دیجئے۔ عجیب و غریب داستان ہے۔ جب تک مٹر کے دانے بھی تیار ہو جائیں گے۔ "

میں نے کہا، "کہہ چلو، تم نے مجھے بڑی زحمت سے بچا لیا”۔

وہ بولا۔ "بہزاد بھائی۔ مجھے یہ بیان کرنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ میری ابتداء بے حد غربت کے دور سے ہوئی۔ میں بٹول کا رہنے والا ہوں، جہاں کے سنترے ہندوستان میں مشہور ہیں۔ بٹول سے چھے میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جہاں سنترے کے باغات ختم ہو کر جنگلی علاقہ شروع ہوتا ہے۔ اس گاؤں کا نام لکھن پور تھا۔ ہندو مسلمان کی ملی جلی آبادی تھی۔ کوئی سو ڈیڑھ سو گھر کاشت کاروں کے تھے۔ میرے والد کا نام رمجو خاں تھا۔ ان کا صرف ایک کھیت تھا جس کو انہوں نے بٹائی پردے رکھا تھا اور خود وہ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ کپڑے کا کاروبار بھی کیا تھا۔ وہ ناگ پور اور اکولہ جا کر دیہاتیوں کے مطلب کا کپڑا خرید لاتے تھے اور گٹھری میں لاد کر گاؤں گاؤں پھیری کر کے کپڑے بیچتے تھے۔

میں نے کہا۔ "اور گھر میں کون رہتا تھا”۔

وہ بولا۔ "میری ماں تھیں اور میں۔ وہ ایک ایک ہفتے تک واپس نہیں آتے تھے۔ مجھے اپنی ماں صرف اس حد تک یاد ہیں کہ وہ ایک گوری چٹی، مضبوط جسم کی بلند قامت عورت تھیں۔ میری تعلیم کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ میں پانچ سال کی عمر سے گھر  کے باہر نکل کر گاؤں کی چرتی چگتی مرغیوں پر ڈھیلوں سے نشانہ بازی کیا کرتا تھا۔ شروع شروع تو میرا نشانہ خطا ہوتا رہا اور مرغیاں آزاد ہو کر بھاگنے لگیں، لیکن میں اپنی دھن کا پکا تھا۔ جب میرا نشانہ مرغی پر بیٹھا اور وہ چوٹ کھا کر تڑپنے لگی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی، میں خوب قہقہہ مار کر ہنسا۔

میں نے کہا، "کمال ہے "۔

وہ بولا، "بہزاد بھائی، میری تقدیر میں چوں کہ شکاری بننا تھا، مجھے حیرت ہے کہ بچپن میں مجھے یہ کیوں کر خیال پیدا ہوا کہ میں قریب کے بجائے دور سے نشانہ لگا کر شکار کروں، چناں چہ رفتہ رفتہ میں ڈھیلے بازی میں اتنا مشتاق ہو گیا کہ مرغیوں کا کافی دور سے ڈھیلا پھینک کر زخمی کر دیتا اور کمال کی بات یہ بھی کہ جس مرغی کا انتخاب کر لیتا تھا، اسی کو میرا ڈھیلا لگتا تھا، میرا اور کسی کھیل میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔

میں نے کہا، "گاؤں والے پریشان نہیں ہوئے۔ "

وہ بولا، پریشانی تو سب کو تھی، لیکن میں ایک ٹیلے کے پیچھے چھپ کر ڈھیلے بازی کرتا تھا، لہٰذا کسی کو پتا نہ چل سکا، میرا نشانہ جم گیا، اب میں نے بکریوں کے ریوڑوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا، یقین مانیے بہزاد بھائی، میرا پہلا ہی نشانہ ٹھیک بیٹھا اور کالی موٹی سی بکری کی ٹانگ زخمی ہو گی، اب بجائے مرغیوں کے بکریاں اور بھیڑیں میرا نشانہ بننے لگیں۔ گاؤں والے پریشان ہو گئے ، لیکن ان کو پتا نہ چل سکا کہ یہ شرارت کرنے والا کون ہے ، میری آٹھ سال کی عمر تھی کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ میرے والد پھیری پر گئے ہوئے تھے۔ گاؤں کے ایک لوہار رحیمو نے جن کو میں چچا کہتا تھا، اور گاؤں والوں نے مل کر تجہیز و تکفین کی اور گاؤں کے مکھیانے نے مجھے رحیمو چچا کے سپرد کر دیا۔ رحیمی چچا کی بھی بیوی مر چکی تھی، کوئی اولاد نہیں تھی۔ رحیمو چچا اپنی دکان پر دن رات بھٹی کے سامنے بیٹے ہوئے کڑھائیاں، توے ، چمٹے اور سنسیاں بنایا کرتے تھے جن کو پندرہ دن کے بعد وہ ایک دوسرے گاؤں میں پندرہ روزہ بازار لگنے پر فروخت کرنے جایا کرتے تھے۔

میں نے کہا۔ "تمہارے کھانے پینے کا کیا انتظام ہوا۔ "

وہ بولا، "رحیمو چچا بھٹی ہی پر موٹی موٹی روٹیاں پکا لیتے تھے۔ سبزی بنا لیتے تھے اور میں اور وہ دونوں کھا لیا کرتے تھے۔ خلاف معمول والدہ کے انتقال کے ایک مہینہ بعد والد صاحب گاؤں آئے اور والدہ کی قبر پر جا کر بہت روئے۔ مجھے ہدایت کی کہ میں رحیمو چچا کے ہاں ہی قیام رکھوں، وہ پھر چلے گئے اور ایک ہفتے کے بعد جب واپس آئے تو ان کے ساتھ ایک عورت اور ایک لنگڑا جوان آدمی تھا جس کو انہوں نے میرے گھر میں بسا دیا۔ مجھے رحیمو چچا سے معلوم ہوا کہ وہ میری سوتیلی ماں ہے۔ "

میں نے کہا۔ "تم کو رنج ہوا ہو گا”۔

وہ بولا، "جی نہیں، میرا اس کا واسطہ ہی نہیں پڑا۔ میں دن بھر جنگل کی طرف نکل جانے لگا۔ میری نشانہ بازی کا ذوق مجھے مجبور کرتا۔ جنگل کا انتخاب میں نے یوں کیا کہ کسی نہ کسی دن گاؤں والوں کو اس کا علم ضرور ہو جانا تھا کہ بکریوں اور بھیڑوں کو زخمی کرنے والا شریر میں ہی ہوں۔ میں نے جنگل کے ابتدائی حصے میں ایک ٹیلے کو اپنی نشانہ بازی کا مرکز بنا کر ڈھیلے مارنا شروع کیے اور میں خوشی سے اچھل اچھل پڑتا تھا۔ جب میرا نشانہ ٹھیک ٹھیک بیٹھ جاتا تھا۔ اتفاقاً پہلے ہی دن مجھے کوئی اپنے سے پچاس گز دور ایک مرغابی بیٹھی ہوئی ملی۔ غالباً اس حصے میں کوئی بڑا جوہڑ تھا۔ میں نے ایک بڑا سا ڈھیلا اٹھا کر آہستہ آہستہ اس کے قریب جانا شروع کیا۔ تقریباً بارا چودہ گز رہ گیا تو میں نے وہ ڈھیلا مرغابی کے اوپر پھینکا۔ ڈھیلا اس کے بازو پر پڑا اور درد کی شدت سے اس نے لوٹنا شروع کیا۔ میں تیزی سے لپکا اور اس کی ٹانگوں کی ہاتھ میں دبا کر اس کو اٹھائے ہوئے سیدھا چچا رحیمو کی دکان پر پہنچا، چچا  ریمو مرغابی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جلدی سے انہوں نے اس کو ذبح کیا۔ پر نوچے ، اس کا صاف کیا اور گھر سے نمک مرچ تیل لا کر بھٹی پر بھوننا شروع کیا، ہم دونوں نے اس کا گوشت مزے لے لے کر کھایا۔ چچا نے مجھ سے کیا، "تم نے یہ مرغابی کیوں کر پکڑی”۔

میں نے صفائی کے ساتھ اپنی نشانہ بازی کا حال بتایا، وہ قہقہہ مار کر ہنسے اور بولے ، "تو یہ کہ کہو مرغیوں، بکریوں اور بھیڑوں پر حملہ کرنے والے تم ہو جس کا آج تک گاؤں والوں کو پتا نہیں ہے۔ اگر کچھ دنوں تم مشق کرتے رہے تو بہت اچھے شکار بن سکتے ہو۔ میں تم کو لوہے کی ایک غلیل بنائے دیتا ہوں۔ لوہے کے بے کار ٹکڑے تپا کر میں ان کو ایک طرف سے نوکیلا کیے دیتا ہوں۔ تم روز جنگل میں جا کر آج ہی کی طرح چڑیاں مار لایا کرو تو میں روٹی پکانے کی مصیبت سے بچ جاؤں گا۔ چچا بھتیجے دونوں گوشت ہی گوشت کھایا کریں گے "۔

دوسرے دن مجھے ایک غلیل مل گئی اور لوہے کے پچاس ساٹھ ٹکڑے جن کو چچا نے ایک تھیلے میں بھر کر مجھے دے دیا اور غلیل چلانے کی ترکیب بھی سمجھا دی۔ میں نشانہ باز پہلے تھا۔ محض ان کے بتانے پر میں نے غلیل سے ایک درخت پر بیٹھی ہوئی چڑیا کو فوراً ہی مار گرایا۔ چچا خوش ہو گئے۔ ہر روز میں کوئی نہ کوئی مرغابی یا تیتر یا دس پانچ بٹیر ضرور لانے لگا اور یوں ہم چچا بھتیجے گوشت خور بن گئے۔ غلیل کی وجہ سے میں کافی دور سے چڑیوں کو گرا لیتا تھا۔ اب میں بے خوف جنگل میں دور تک نکل جانے لگا۔ ایک دن میں جا رہا تھا کہ  ایک طرف سے ایک سیاہ سانپ نکل کر میرے سامنے پھن نکال کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے بغیر کسی خوف کے اپنی غلیل سے اس کے پھن پر نشانہ لگایا۔ اس کا پھن ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ روزانہ گوشت خوری کے باعث میں تندرست و توانا ہو گیا۔ میرا جسم تیزی کے ساتھ نشوونما پانے لگا۔ ایک دن میں جنگل میں کافی دور نکل گیا کہ مجھے ہرنوں کا ایک ریوڑ نظر آیا، میں نے ایک ہرن پر غلیل چلائی۔ میرا لوہے کا غلہ اس کے ماتھے پر بیٹھا اور اس نے گر کر تڑپنا شروع کیا۔ میں نے اس ہرن کو جس کا وزن ایک من سے کسی طرح کم نہیں تھا اور وہ زندہ بھی تھا، اپنے اوپر لاد لیا اور جب میں اس کو رحیمو چچا کی دکان پر لے کر پہنچا تو رحیمو چچا مارے خوشی کے ناچنے لگے ، میری پیٹھ ٹھونکی”۔

میں نے کیا۔ "یار متو خاں، تم تو شکاری بننے کے لیے پیدا ہی ہوئے تھے "۔

وہ بولا، "بہزاد بھائی، انسان جو کچھ بننا چاہے ، اس کا ارادہ اور اس کی ہمت اس کو بنا دیتی ہے شرط یہ کہ اس کا عزم کامل ہو، جلاد بھی انسان ہی ہوتا ہے ، قاتل بھی انسان ہی ہوتا ہے ، چور بھی انسان ہی ہوتا، ڈاکو بھی انسان ہی ہوتا ہے ، غازی بھی انسان ہی ہوتا ہے ، ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ مجھے چچا کے ساتھ رہتے ہوئے پانچ برس ہو گئے تھے ، میرے والد کبھی کبھی آ کر مجھے دیکھ جایا کرتے تھے اور بس میں نے بھی گھر کا رخ نہیں کیا۔ جنگل کی تمام ہیبت اور تمام خوف میرے دل سے نکل گیا۔ میرا نشانہ پختہ تر اور کامل سے کامل تر ہوتا گیا۔ میرا اب تک شیر اور چیتے سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ بھیڑیے میں کوئی بار مار چکا تھا جن کی کھالیں چچا نے اتار کر بیٹھنے کے کام میں لے لی تھی۔ گوشت گاؤں کے کتوں کو ڈال دیا تھا۔ آپ کو تعجب ہو گا بہزاد بھائی، تیرا سال کی عمر میں اٹھارہ سال کو نوجوان نظر آتا تھا۔ گوشت خوری، جنگل کی آب و ہوا، پرسکوں اور آزاد زندگی نے مجھے قبل از وقت جوان کر دیا تھا۔ میں اپنے جسم میں بے پناہ طاقت بھی محسوس کرتا تھا”۔

ایک دن گاؤں میں شور اٹھا کہ لچھمن چرواہے کو شیر اٹھا کر لے گیا ہے۔ وہ ریوڑ کے ساتھ گھر واپس آ رہا تھا کہ ریوڑ واپس آ گیا، لیکن وہ غائب تھا۔ اس کے نہ آنے پر گاؤں والے لاٹھیاں لے کر اس راستے پر بڑھے۔ ابھی سورج ڈوبنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا کہ ان لوگوں نے جس مقام پر شیر نے چرواہے کو پکڑا تھا۔ اس مقام پر خون کا تھالا دیکھا اور شیر اپنے شکار کو منھ میں دبا کر جس طرف لے گیا تھا، خون کے دھبے برابر نظر آ رہے تھے۔ کوئی ایک میل تک انہیں خون کے دھبے نظر آتے رہے یہاں تک کہ انہیں لچھمن کی آدھ کھائی ہوئی لاش ملی۔ گاؤں بھر میں کہرام مچ گیا۔

میں نے کیا، "تم کہاں تھے اس وقت”۔

وہ بولا، "میں نے تین مرغابیاں مار لیں تھیں، ان کو لیے ہوئے چچا رحیمو کے ہاں آ رہا تھا، دوسرے دن گاؤں کی ایک بڑھیا فجر کے وقت حوائج ضروریہ کے لیے بیٹھی ہی تھی کہ شیر اس کو دبا کر لے گیا۔ اس کی چیخیں سن کر گاؤں والے دوڑے ، لیکن کوئی پتا نہیں چلا۔ مسلسل پانچ دن تک گاؤں کے رہنے والے شیر کے ہتھے چڑھنے لگے تو گاؤں والوں نے گھبرا کر مکھیا سے کہا جو سیدھا ناگ پور ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچا۔ وہاں سے فوراً ہی تین چار شکاری گاؤں بھیج دیے گئے۔ میں ان کا ساز و سامان دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ان کے ساتھ ٹارچیں تھیں، بندوقیں تھیں، تھرماس تھے۔ وہ لوگ آ کر مکھی کے مہمان ہوئے۔ گاؤں والوں نے ان کی خوب خاطر مدارات کی انہوں نے جا کر ان مقامات کا معائنہ کیا جہاں جہاں  حادثات ہوئے تھے "۔

میں نے کہا۔ "لیکن کیا فائدہ ہوا ہو گا”۔

وہ بولا، آپ سچ کہتے ہیں۔ انہیں کوئی نشان نہ مل سکا۔ وہ رات میں تھک کر سورہے تھے کہ چار بجے ، چیخ پکار کی آواز بلند ہوئیں۔ گاؤں والے لالٹینیں لے کر نکل پڑے۔ مرلی دھر بنیے کو شیر اس کے گھر سے اٹھا لے گیا تھا۔ ایک طرف کی دیوار ٹوٹی ہوئی تھی جسے پھاند کر وہ اندر آیا اور اس کے منھ میں دبا کر شیر دیوار کو پھاند کر لے گیا۔ جب شکاریوں کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو صبح ہو رہی تھی۔ پہلے تو شکاریوں نے ناشتہ کیا، چائے پی اور دن نکلنے پر مرلی دھر کے مکان پر پہنچے۔

گاؤں والوں کے ساتھ میں بھی ہولیا۔ جہاں مرلی دھر کو شیر نے دبایا تھا، وہاں خون کا تھالا جما ہوا تھا۔ دیوار پر خون کی بوندیں تھیں اور دیوار کے باہر جس طرف شیر لاش کو لے کر چلا تھا۔ خون کے نشانات موجود تھے۔ اوروں کا تو میں نہیں کہہ سکتا، لیکن چوں کہ اس رات میں شبنم گری تھی۔ زمین میں تری کے باعث شیر کے پنجوں کے نشانات صاف نمایاں تھے۔ مجھے ان نشانات میں ایک پیر کا نشان ہلکا نظر آیا”۔

میں نے کہا، "تمہارا مطلب یہ ہے کہ شیر کا ایک پیر چوٹیلا تھا”۔

اس نے کہا، جی ہاں، تقریباً دو میل خون کے نشانات کے سہارے سب لوگ ایک مقام پر نکلے ، جہاں جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں، انہی جھاڑیوں کے درمیان میں مرلی دھر کی لاش پڑی ہوئی تھی، اس کا ایک پری اور ایک ہاتھ غالباً شیر نے کھا لیا تھا۔ منظر بڑا خوفناک تھا۔ تینوں شکاری اسی مقام پر رک گئے اور لاش کے قریب تین درختوں پر مچانیں بندھوانے کا حکم دے کر وہ لوگ واپس ہوئے۔ میں بھی چلا آیا۔ میں نے چچا سے ذکر کیا کہ شیر کا شکار دیکھنا چاہتا ہوں۔

وہ بولے۔ "ٹھیک ہے ، لیکن تم رات میں کیوں کر جا سکو گے۔ ان شکاریوں کے پاس تھرماس میں چائے ہوتی ہے ، ٹارچ ہوتی ہے ، بندوقیں ہوتی ہیں۔ چائے پی پی کر یہ رات جاگ کر بسر کر لیتے ہیں "۔

میں نے کہا، "چچا کوئی ایسی دوا تم کو نہیں معلوم جس کو کھا کر نیند نہ آئے "۔

وہ بولے۔ "معلوم تو ہے۔ سامنے کی جھاڑیوں میں جو کالی کالی ہریالیاں لگی ہوئی ہیں، ان کو کھالو رات بھر نیند نہیں آئے گی۔ لیکن یہ انتہائی کڑوی اور بدمزہ ہوتی ہیں۔ ان کو جانور تک نہیں چھوتے۔

میں ہریالیاں لیں۔ واقعی یم سے زیادہ کڑوی تھیں۔ لیکن میں شکار کے شوق میں کھا کر چلا گیا۔ یہاں تک کہ شام کے چار بج گئے۔ کل جو ہرن مارا تھا، اس کا گوشت موجود تھے۔ اس سے پیٹ بھرنے کے بعد میں شکاریوں سے پہلے ان مچانوں کے پاس پہنچ گیا۔ لاش کی سڑاند ہوا میں بسی ہوئی تھی، مکھیاں لاش پر بھنبھنا رہی تھیں۔ میں درخت رپ چڑھ گیا کہ جہاں سے لاش صاف نظر آ رہی تھی۔ میں نے اپنے کو پتوں میں چھپایا ہی تھا کہ تینوں شکاری آتے ہوئے نظر آئے۔ ان میں ایک ہندو، ایک سکھ اور ایک انگریز تھا۔ ان کے ساتھ گاؤں والے بھی تھے۔ ان کے بیٹھتے ہی سورج غروب ہونا شروع ہوا اور جنگل میں تاریکی نے تسلط جما لیا”۔

میں نے کہا، "جنگل میں شب گزاری کا تمہارے لیے پہلا موقع ہو گا، تمہارا کیا حال تھا”۔

وہ بولا، "بہزاد بھائی، یقین جانیے مجھے ذرا برابر بھی خوف نہیں تھا۔ قریب آدھی رات تک وہ آپس میں باتیں کرتے رہے۔ سگریٹوں پر سگریٹیں جلتی رہیں۔ جنگلی جانوروں کی آوازیں برابر جنگل میں سنائی دیتی رہیں۔ مگر مجھ پر ذرہ برابر بھی خوف طاری نہیں ہوا۔ میں بہ آرام درختوں کی شاخوں پر بیٹھا رہا، یہاں تک کہ رات کافی گزر گئی، شکاریوں کی باتیں بھی بند ہو گئیں، غالباً وہ اونگھ گئے ہوں گے۔ لیکن میری آنکھوں میں نیند کا کہیں سے کہیں تک پتا نہیں تھا۔ میں آرام سے بیٹھا ہوا جاگ رہا تھا۔ یکایک بندروں کی آوازیں مسلسل آنا شروع ہوئیں۔ میں سمجھ گیا کہ شیر کو دیکھ کر بندر خوف کھا رہے ہیں، میں چوکنا ہو گیا۔ پتوں پر بھاری قدموں کی آواز قریب سے قریب تر آنا شروع ہوئی۔ میری آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کی عادی تھیں، میں نے ایک جانب سے شیر کو آتے دیکھا، وہ آیا اور لاش کے پاس بیٹھ کر آرام سے لاش کو کھانے لگا۔ ہڈیوں کی کڑکڑاہٹ صاف سنائی دے رہی تھی۔ غالباً کسی شکاری کی آنکھ کھل گئی۔ ٹارچ کی روشنی کا ہالہ بیٹھے ہوئے شیر پر پڑا۔ وہ روشنی میں نہا گیا۔ ایک فیر کی آواز ہوئی، لیکن غالبا گولی شیر کو نہیں لگی۔ وہ زور سے ڈھکا اور جس طرف کی مچان سے فیر ہوا تھا۔ اس پر اس نے زمین سے پیٹ لگا کر جست لگائی۔ دوسرے درختوں پر بیٹھے ہوئے دونوں شکاریوں کی ٹارچیں بھی شیر پر اس وقت پڑ رہی تھیں۔ شیر نے پہلے فیر والے کی مچان پر اپنا پنجہ اس طاقت سے مارا کہ مچان ٹوٹ گیا اور میں نے شکاری کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا، اس موقع پر دوسرے شکاریوں نے بھی شیر پر فیر کیے ، لیکن سب غالباً خالی گئے۔ شیر زمین پر گرئے ہوئے شکاری کی طرف پنجہ اٹھا کر بڑھا ہی تھا کہ میں نے اسی غلیل میں لوہے کا نوک دار غلہ لگا کر شیر کی آنکھ پر مارا۔ گلہ شیر کے اس وقت لگا جب وہ اپنا پنجہ شکاری پر مارنا چاہتا تھا۔ شیر کی آنکھ غلہ لگتے ہی پھوٹ گئی۔ اس نے ایک زور سے دھاڑ ماری اور پچھلے پاؤں چیختا ہوا جنگل میں بھاگ گیا۔ اس کی چیخوں کی آوازیں مسلسل دور ہوتی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ جب یہ چیخیں بالکل بند ہو گئیں اور صبح کے آثار رونما ہونے لگے تو دنوں شکاری مچانوں سے نیچے اترے اور زمین پر گرے ہوئے شکاری کے پاس پہنچے ، غالباً اس کا ایک کولہا اتر گیا تھا، اٹھنے سے معذور تھا، لیکن ہوش میں تھا۔

میں درختوں میں چھپا بیٹھا رہا۔ یکایک ایک شکاری نے متواتر کئی ہوائی فیر کیے جن کی آوازوں پر گاؤں والے فوراً ہی آ موجود ہوئے۔ زخمی شکاری کے لیے گاؤں سے پلنگ لایا گیا اور اس کو لاد کر گاؤں لے جایا گیا۔ اس کے ساتھ دوسرے شکری جب جنگل سے چلے گئے تو میں درخت سے نیچے اتر، جب میں اس جگہ پہنچا، جہاں شکاری گرا تھا، تو مجھے وہاں ایک ٹارچ، ایک تھرماس اور ایک تھیلا نظر آیا۔ میں نے وہ تینوں چیزیں اٹھا لیں اور ایک دوسرے راستے سے رحیمو چچا کی دکان پہنچا۔ میں نے ان تینوں چیزوں کو واپس کرنا مناسب خیال نہیں کیا، ورنہ گاؤں والے مجھے الزام دیتے کہ میں وہاں کیوں موجود تھا۔ ٹارگ کی مجھے بھی ضرورت تھی اور تھرماس کی بھی۔ تھیلا کرمچ کا بنا ہوا تھا اس کے کھولنے پر مجھے اس میں ڈبل روٹی کے ٹکڑے ملے اور اس میں ایک کتاب انگریزی زبان میں چھپی ہوئی ملی جس میں تصویریں تھیں۔ میں نے اس کتاب کو دیکھنا شروع کیا۔ کتاب تو میں پڑھ نہیں سکتا تھا۔ کتاب میں غالباً شکاریوں کے حالات تھے۔ ایک تصویر میں، میں نے سیاہ سیاسی قد آور آدمیوں کو بلم سے شیر کا شکار کرتے ہوئے دیکھا۔ میرے دماغ میں پہلی بار بلم کا خیال پیدا ہوا۔ میں نے رحیمو چچا سے کہا۔

"مجھے ایک بلم بنا دو چچا، میں اب بلم سے شکار کی مشق کرنا چاہتا ہوں "۔

وہ بولے ، "اچھی بات ہے "۔

انہوں نے اسی دن مجھے ایک ہلکا سا بلم بنا دیا جو کو لے کر میں چلا گیا۔ میں نے بلم کو نشانے پر پھینکنے کی مشق شروع کی۔ غلیل کی نشانہ بازی کی مشق اس میں بھی کام آ گئی۔ ایک ہفتے کے اندر ہی میں نے کئی تیتر، مرغابیاں بلم سے چھید ڈالیں۔ ایک ہرن بھی بلم سے زخم کر کے گرا لیا۔ اب میں غلیل اور بلم دونوں ساتھ رکھنے لگا۔

ادھر میرے گاؤں والوں کو سکون ہو گیا۔ اس شیر نے اب ایک دوسرے گاؤں کے لوگوں کا شکار شروع کر دیا جو یہاں سے 10 میل دور تھا۔ سرکاری کم سے جب شکاری وہاں پہنچے تو شیر نے ایک تیسرا گاؤں تاک لیا اور اب وہاں سے لوگوں کے اٹھائے جانے کی خبریں آنے لگیں۔ سرکاری کارندے اور شکاری بھی حیران تھے جب وہ کسی گاؤں میں وقوعہ کرتا تھا اور شکاری پہنچے تھے تو کیا جانے اسے کیوں کر خبر ہو جاتی تھی اور وہ اس گاؤں کو چھوڑ کر دوسری بستیوں پر حملے شروع کر دیتا تھا۔ یہاں تک کہ دو سال کی مدت گزر گئی۔ اس آدم خور نے تقریباً ساٹھ ستر آدمی ہلاک کر ڈالے۔ ہر گاؤں کے لوگ ہراساں اور پریشان نظر آنے لگے۔ کھیتی باڑی کے اوقات میں بھی دو ایک فالتو آدمی کھیتوں کی نگرانی پر ڈٹے رہتے تھے۔ وہ دن میں بھی تنہا آدمی کو نہیں چھوڑتا تھا۔ حکومت نے گھبرا کر ایک ہزار روپے نقد کا اعلان کر دیا۔

میں نے کہا، "بڑی رقم کا اعلان کیا۔ پیشہ ور شکاریوں کی تو بھرمار ہو گئی ہو گی”۔

وہ بولا، "یہ نہ پوچھئے ، بڑے بڑے جغادری شکاری آئے ، لیکن آ کر ناکام ہی گئے۔ ایک دن میں رحیمو چچا کی دکان پر بیٹھا ہوا بھٹی سلگا رہا تھا کہ میرے والد آئے اور آتے ہی مجھ سے لپٹ کر رونے لگے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کیا، "بیٹا، میرا سارا روپیہ ڈوب گیا، میں پیسے پیسے کو محتاج ہو گیا ہوں۔ جن جن لوگوں کو میں نے قرض کپڑا دیا تھا، وہ سب لے لے کر بھاگ گئے۔ اب صرف کھیت ہی کھیت رہ گیا ہے "۔

میں نے کہا، آپ گھبرائیے نہیں۔ اللہ مالک ہے :۔

ان کے جانے کے بعد مجھے پہلی بار ایک ہزارو روپیہ انعام حاصل کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ وہ آدم خور نردولی کے آدم خور کے نام سے مشہور تھا۔ یہ گاؤں میرے گاؤں سے پچیس میل دور تھا۔ وہاں اس نے مسلسل گاؤں والے شکار کیے تھے اور اب تک وہ اس کے قریب جنگلات میں موجود تھا۔ کئی شکاری نردولی میں مستقل مقیم تھے اور وہ ظالم آدم خور ان کی موجودگی میں ہر روز کسی نہ کسی آدمی کو شکار کر لیا تھا۔ پاڑے بھی باندھے گئے ، مچان بھی بند ہے۔ رات رات بھر شکاری اور گاؤں والے شیر کی فکر میں رہے ، لیکن وہ ہاتھ آنا تھا نہ آیا۔

رحیمو چچا سے بغیر کہے ہوئے میں نردولی روانہ ہوا۔ میرے ساتھ اب ٹارچ بھی تھی جس کے سیل میں نے شہر سے منگوا کر بھروا لیے تھے۔ تھرماس بھ تھا جس میں میں نے چائے بنا کر بھر لی تھی۔ وہ تھیلا بھی تھا جس میں نیند اڑانے والی پیپریاں اور نکیلے غلے میں نے بھر لیے تھے۔ کچھ روغنی روٹیاں بھی رکھ لی تھیں۔ غلیل اور بلم ہاتھ میں لے کر میں جنگل ہی جنگل روانہ ہوا۔ نردولی جنگل کی پگ ڈنڈیوں سے دس میل پڑتا تھا اور سڑک کے راستے سے پچیس میل۔ میں بہ آرام ڈھائی گھنٹوں میں نردولی پہنچ گیا۔ نردولی میں شکاریوں کے کئی خیمے گاؤں کے باہر لگے ہوئے تھے۔ ان کی خاطر تواضع میں گاؤں والے اپنی حیثیت سے زیادہ لگے ہوئے تھے۔ میں اس گاؤں کے لیے نیا آدمی تھا۔ ٹھہرنے کا بڑا مسئلہ تھا۔ لیکن میرے واسطے یہ مسئلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ میں جنگل میں ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ کھانا میرے ساتھ تھا۔ میں نے دوپہر کاٹ لی۔ شکاریوں کے لیے مچان مختلف مقامات پر باندھے جانے لگے۔ مچان کے نیچے ایک بکرا باندھا گیا۔ کوئی پانچ چھے شکاری تھے اور سب کے سب مشہور۔

میں نے کہا، "تم نے کیا کیا کیا”۔

وہ بولا، "بہزاد بھائی کیا کرتا۔ ان مچانوں سے تقریباً دو فرلانگ کے فاصلے پر میں نے ایک درخت کو اپنے بسیرے کے لیے منتخب کر لیا۔ میرے سامنے نہ کوئی پروگرام تھا اور نہ کوئی امید کامیابی، میں پچھتا رہا تھا کہ میں کیوں آیا، اسی میں شام ہو گئی۔ میں درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ چاند آج کل رات کو بارا بجے کے بعد نکلنے لگا تھا۔ رات جوں جوں بڑھتی گئی۔ جنگل کا سناٹا بھیانک سے بھیانک تر ہوتا گیا۔ چوں کہ میں مچانوں سے کافی دور تھا، لہٰذا شکاری کا کوئی احوال مجھے معلوم نہ ہوسکا۔ یکایک چاند نکلا اور جنگل چاندنی میں نہا گیا۔ مجھے نیند کے جھونکے آن لگے۔ میں نے چائے پر چائے پی۔ لیکن مجھے تو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ان بیری نما کڑوے پھلوں کو کھاتے ہی نیند آرام سے اڑ گئی۔ اچانک میرے کانوں میں شیر کی آواز آئی۔ عجیب قسم کی دھاڑ تھی۔ خوف اور غصے سے علیحدہ ایک قسم کی دھاڑ تھی۔ جس کے جواب میں ایک دوسری دھاڑ اسی قسم کی مجھے قریب سے سنائی دی۔ ان دھاڑوں کا تبادلہ مسلسل شروع ہوا۔ مجھے بھائی قدموں کی چاپ اپنے درخت کے قریب سے سنائی دی۔ پتوں کے پیروں سے دبنے کے بعد جو کھڑاکھڑاہٹ پیدا ہو رہی تھی، صاف نمایاں تھی۔ یہاں تک کہ میں نے ایک شیر کو دیکھا جو ایک پیر سے لنگ کرتا تھا۔ وہ میرے درخت سے دو گز کے فاصلے پر آ کر ٹھہرا۔ چاندنی میں مجھے صاف نظر آیا، اس کی ایک ہی آنکھ تھی۔ میں سمجھ گیا۔ یہ وہی آدم خور ہے جس کے جواب میں اس شیر نے دھاڑ مارنے کے لیے منھ کھولا۔ بلاارادہ میرا ہاتھ بلند ہوا اور میں نے بلم شیر کے کھلے ہوئے منھ میں مارا جو محض اتفاقاً اس کے حلق میں جا کر پھنس گیا۔ شیر نے گھبرا کر جست لگائی اور جب وہ گرا تو اس کے گرنے سے بلم اور بھی اس کے سینے میں اتر گیا۔ اس نے دھاڑیں مار کر تڑپنا شروع کر دیا۔ میں سمجھ گیا، بلم اس کے سینے میں پھیپھڑوں یا دل کے پار اتر گیا ہے۔ وہ تڑپتا رہا۔ اس کی چیخیں اب کراہوں میں تبدیل ہو گئیں۔ یہاں تک کہ آواز آنا بالکل بند ہو گئی۔ میں صبح کا انتظار کرنے لگا تقریباً دو گھنٹے کے بعد صبح ہو گئی۔ میں نے اور انتظار کیا۔ جب روز روشن ہو گیا تو میں درخت سے اترا شیر کے قریب گیا۔ وہ اب مر چکا تھا۔ اب میں اس جانب بڑھا۔ وہاں جس طرف شکاریوں کے مچان تھیں۔ شکاری مچان سے اترے ہوئے کھڑے تھے اور سب کے سب حیران نظر آ رہے تھے۔ ان کو گھیرے ہوئے  گاؤں کے بیس پچیس آدمی کھڑے تھے۔

میں نے گاؤں والوں سے کہا، ” میں نے آدم کور کو بلم سے مار ڈالا ہے۔ آپ لوگ چل کر اس کو اٹھالیں "۔

ایک شکاری نے قہقہہ مارتے ہوئے کہا، "ارے لڑکے ، کیوں الوبنارہا ہے ، کہیں بلم سے شیر مارا جاتا ہے "۔

میں نے کہا، "سانچ کو آنچ نہیں ہے۔ دو فرلانگ تک آپ کو چلنا ہو گا۔ خود آپ لوگ دیکھ لیں گے "۔ وہ لوگ بادل ناخواستہ ساتھ ہولیے۔ شیر کو مرا ہوا دیکھ کر وہ لوگ حیران رہ گئے۔

ان میں اسی شکاری نے کہا، "لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ تم نے اس کو بلم سے مارا ہے "۔

میں نے کہا، "گاؤں ل جا کر اس کی کھال ادھڑوائیے ، اس کے حلق کے اندر سے میرا بلم برآمد ہو جائے گا”۔

دیہاتیوں نے شیر کی لاش کو دو ڈنڈوں میں لگا کر گاؤں کا رخ کیا۔ جب شیر کی کھال اتاری گئی تو اس کے اندر سے میرا بلم برآمد ہوا۔ جو شیر کے پھیپھڑوں میں گھسا ہوا تھا۔ سارے شکاری حیران ہو گئے۔ مکھیا نے اس کی اطلاع فوراً ناگ پور کی کمشنری کو بھیجی جہاں سے دوسرے دن میری طلبی ہوئی۔ میرے پہنچنے پر افسران کو مجھے دیکھ کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں نے بلم سے شکار کیا ہو۔ میں نے بلم ہاتھ میں لے کر دور جاتی ہوئی ایک بکری پر بلم پھینک کر ورا کیا۔ بکری بلم سے چھد کر گرگئی۔ مجھے سرکار سے ایک ہزار روپیہ انعام کا اور ایک بندوق کا لائسنس ملا اور مجھے ایک شکاری کے سپرد کیا گیا کہ میں اس سے بندوق چلانا سیکھ لوں۔ وہ ایک ہزار روپیہ لا کر میں نے اپنے والد کے قدموں میں ڈال دیے۔ بہزاد بھائی، وہ دن ہے اور آج کا دن میرے نشانے اور شکار کا جواب نہیں۔ انسان کا عزم، محنت اور مشق انسان کو کامیابی کی منزل سے ضرور روشناس کرا دیتی ہے ، مٹر کے دانے تیار ہوں گے بہزاد بھائی، منگوائیے ، مارے بھوک کے میرا برا حال ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.vshineworld.com/urdu/library/stories/1/27/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبی