سب کی کہانی ایک ہے
عامر حسینی
سب کی کہانی ایک ہے
وہ رات کو دس بجے بس سٹینڈ پر پہنچ گیا تھا۔ اور پھر ایک گھنٹہ وہ بیٹھا رہا۔ تب کہیں جا کر بس آئی۔ وہ ڈیزرٹ رحیم یار خان جانا چاہتا تھا۔ وہاں اس کے دوستوں نے ایک تقریب رکھی تھی۔ وہ اس تقریب میں شرکت کرنے جا رہا تھا۔ اس کو اتنا لمبا سفر کبھی بھی بس میں کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ تو لمبے سفر کو ٹرین میں بیٹھ کر کرنے کا خواہاں رہا تھا۔ لیکن اس کا ملک تیسری دنیا کا وہ ملک تھا جہاں اچانک اور کمبائنڈ ترقی کا تجربہ اپنے عروج پر تھا۔ وہاں موٹر وے تھی۔ فوج نے ایٹم بم بنا لیا تھا۔ بلیسٹک مزائل بنانے میں خود کفیل ہو چکی تھی۔ لیکن ریل وے کے پاس انجن نہیں تھے۔ ان کے پاس دیسل نہیں تھا۔ تو ٹرین بھی کسی وقت کی پابند نہیں رہی تھی۔ اس نے پھر بھی ریل وے اسٹیشن جا کر آزمائی کی تھی۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ والا معاملہ ہی رہا۔ سو وہاں سے پھر بس ٹرمینل پر آیا۔ یہاں سے ایک پوش بس سروس کا ٹکٹ لیا۔ گاڑی لاہور سے آ رہی تھی۔ اس نے آگے کراچی تک جانا تھا۔ تو یہ ایک گھنٹہ لیٹ ہو گئی۔ گیارہ بجے گاڑی آئی۔ وہ اس میں سوار ہوا۔ اس کی سیٹ درمیان میں تھی۔ اور اس کی طرف کھڑکی تھی۔ رات کا وقت تھا۔ گاڑی اپنی منزل کی طرف چل پڑی۔ اس نے آئی پوڈ نکالا اور ہیڈ فون کو کان سے لگا لیا۔ آئی پوڈ کو نکالتے ہوئے اس کو اس کے موجد سٹیو جاب کا خیال آ گیا۔ کہ کیسے اس نے ایک سرمایہ دار سے کچھ پیسے لیکر ایپل کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ اور پھر فون کی دنیا میں اور کمپیوٹر کی دنیا میں اس نے انقلاب برپا کر ڈالا تھا۔ اس نے آئی پوڈ کی طرف عقیدت سے دیکھا اور تھوڑی دیر کے لئے سر کو جھکا لیا۔ سٹیو جاب مر چکا تھا۔ لیکن اس کی موجودگی کا احساس اس کو یہ آئی پوڈ دلا رہا تھا۔ آئی پوڈ پر گیت چل رہا تھا
تیری یاد ساتھ ہے
جاوید اختر نے یہ گیت لکھا تھا۔ اور راحت اپنی آواز کا جادو جگا رہا تھا۔ اس کو سفر میں یہ گیت بہت ہانٹ کرتا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ سر کو سیٹ سے ٹکا دیا۔ اور سوچوں کے سمندر میں گم ہو گیا۔
ابھی جب ہمارا یہ مسافر ذرا آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ تو ہم اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مسافر کا تعارف کرتے چلیں۔ یہ سید انور کاظمی ہے۔ شاعر بھی ہے۔ لیکن اس کی نظموں کو پاکستان کے لوگ زیادہ نہیں جانتے۔ اس نے ایک دور میں بہت سرگرم سیاست کی تھی۔ جب ملک میں ایک خادم اسلام حکومت پر براجمان تھا۔ جس کو سیاست سے ہی نہیں بلکہ فنون لطیفہ سے بھی بیر تھا۔ انور کاظمی ان دنوں یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ اس کو آنکھوں کے خراب زاویے رکھنے والا اور ٹانگوں کے غیر جمالیاتی پھیلاؤ کا مالک امیر المومنین ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ اس نے ان دنوں ایک نظم "عقل سے بڑی بھینسیں "لکھی تھی۔ اس نے یہ نظم ملک میں ملٹری کورٹ بنانے پر لکھی تھی۔
عقل سے بڑی بھینسیں مسند عدالت پر فیصلے سناتی ہیں
بھونکتے ہیں وردی پوش ،کاٹتی ہیں سنگینین
دس کروڑ لوگوں کو موت کی سزا دے دو
یہ نظم اس نے کیا لکھی۔ اس کا تو اس ملک میں جینا ہی دوبھر ہو گیا۔ وہ ایک دن چپکے سے ملک سے فرار ہو گیا۔ اور جرمنی جا پہنچا۔ وہاں ایک عرصۂ تک اس نے فرینکفرٹ میں گزارا۔ سیاسی پناہ گزین کے طور پر۔ پھر جب بھٹو کی بیٹی برسر اقتدار آئی تو وہ ملک واپس آگیا۔ لیکن اس کو یہ ملک بہت بدلا ،بدلا لگا۔ یہاں تو طبقہ بدلنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی تھی۔ پلاٹ،پرمٹ ،ایجنسی کا ٹھیکہ اور کوئی سفارشی نوکری۔ یہ تھی سیاست ان لڑکوں کی بھی۔ جن کے بالوں میں کہیں کہیں اب سیفدی جھلکتی تھی۔ اور وہ سب انقلاب کو بھول کر اپنے سماجی مقام کو تبدیل کرنے کو زور دے رہے تھے۔ اس کی محبوب لیڈر امریکہ سے بہتر تعلقات بنانے کے لئے ان سارے لوگوں کو بیک سیٹ پر جانے کا کہ رہی تھی۔ جو کبھی امریکی سامراج کے خلاف نعرے لگاتے تھے۔ اور بھٹو کی بیٹی ان کو بھٹو کے سپاہی کہتی تھی۔ اس نے مغربی جرمنی اپنے بعض سرخ ساتھیوں کو سبز ہوتے دیکھا تھا۔ وہ اچانک مغرب کی لبرل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ کے دلدادہ ہو گئے تھے۔ ان کو لگتا تھا جس ارضی جنت کی ان کو تلاش تھی۔ اس کو انھوں نے پا لیا ہے۔
انور تو خود کو سیاسی پناہ گزین خیال کرتا تھا۔ اور وہ بس پیٹ کا اندھیں بھرنے اور بنیادی ضرورتیں پوری کرنے جتنی مزدوری کیا کرتا۔ ہر ہفتہ کو مختلف اخبارات کے دفاتر تک جاتا۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی ،سیاسی آزادی کے لئے مغرب کے جمہوریت پسندوں کے ضمیر پر تازیانے برساتے بیانات اور مضامین دیتا۔ ان سے سوال کرتا کہ ان کا ضمیر کہاں ہے۔ جو ایک امر اور بنیاد پرست کو مال دینے اور اس کو مدد دینے پر بھی خاموش رہتا ہے۔ ریگن کو وہ مولوی ریگن اور تھیچر کو وہ نن تھیچر کہا کرتا تھا۔ لیکن جب جمہوریت بحال ہوئی۔ اور وہ پاکستان بھاگا بھاگا آیا تو۔ یہاں کے حالات دیکھ کر اس کو سخت مایوسی ہوئی۔ اس نے ایک خاموشی سے واپس فرینکفرٹ کی فلائٹ پکڑی اور پاکستان چھوڑ دیا۔ واپس آ کر بھی وہ بس زندگی کی گاڑی کو گھسیٹتا ہی رہا۔ پاکستان کی خبریں اس کو ملتی رہتی تھیں۔ جمہوریت کی آنکھ مچولی اچانک۱۲ اکتوبر کو ایک جنرل نے ختم کر دی۔ یہ جنرل آیا تو اس کی ایک تصویر اس نے جرمنی کے ایک بڑے اخبار میں دیکھی۔ دو کتے بغل میں دبائے وہ لبرل پوز کے ساتھ نظر آ رہا تھا۔ یار لوگوں نے اس کے ڈھمکوں وٹ دختر انگور کو پی کر تال پر جھومنے کو پاکستان سے رجعت پسندی سے نجات کی دلیل قرار دے ڈالا۔ وہ ہنستا تھا۔ اس کو نہ تو اے آر ڈی کے تماشے سے کوئی دلچسپی تھی۔ نا ہی اس کو فوجی کی لبرل مسخرہ گیری سے۔ لیکن جس دن راول پنڈی کی سڑک پر بھٹو کی بیٹی کا خون گرا تھا تو نہ جانے کہاں سے اس کے اندر کا وہی جیالہ انور بیدار ہو گیا تھا۔ جو اس کی جوانی کے سورج کے نصف النہار پر اس کے عمل اور قول سے جھلکتا رہتا تھا۔ وہ گڑھی خدا بخش کے قبرستان جا کر رویا بھی تھا۔ لیکن اس نے دیکھا کہ یہ خون بھی ملک کی سیاست میں کوئی تبدیلی لانے سے قاصر رہا تھا۔ وہ جرمنی سے واپس جب آیا تھا تو اس نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور پھر فیس بک کھولی تو اس کے دوست ریاض نے اس کو ایک فوٹو ارسال کی تھی۔ اس فوٹو میں ملک کے وزیر داخلہ رحمان ملک کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری لیتے دکھایا گیا تھا۔ تصویر میں کھڑے ایک مرد اور عورت کو پہچانتا تھا۔ یہ تو ۷۰ میں اس کے ساتھ سرخ سرخ سیاست کرتے رہے تھے۔ اور انور کی کم علمی کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ آج ایک جاہل کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دیتے ہوئے بہت خوش نظر آتے تھے۔ اس نے سوچا کے ریاض کو بھی یقین نہیں آتا ہو گا کہ لوگ ایسے بھی بدل جاتے ہیں۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ کراچی جا کر ریاض کو ضرور کہانی سنائے گا کہ کیسے اس کے کئی دوست بدل گئے تھے۔ اسے منیر نیازی کا شعر یاد آیا
آنکھوں میں پھر رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دھر ہے ،اور ہم ہیں دوستو
لٹی محفلوں کی دھول بھی آنکھوں میں رڑک بن کر جب پھرتی ہے۔ تو تکلیف ہو بھی تو بتائی نہیں جاتی۔ بہت دور کسی رستے پر جا کر اچانک پتہ چلتا ہے کہ یہ رستہ تو کوئی اور رستہ تھا۔ اس وقت چہرے پر پہلے اداسی اور ملال کے رنگ صاف نظر آتے ہیں۔ ہمارا یہ مسافر ابھی کیوں کہ تھکا ہوا ہے۔ اس لئے سو رہا ہے۔ اس کا سر ساتھ والی سواری کے کندھوں پر جا لگا تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھا ہوا مسافر کوئی بہت نرم دل والا لگتا تھا۔ جو خاموش تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک کہ چکا ہوتا کہ اپنے سہارے پر نیند پوری کیجئے۔ ویسے ہمارا یہ مسافر جاگ رہا ہوتا تو شائد ابھی تک وہ بھی معافی کا طلبگار ہو جاتا۔ اس مرتبہ جب وہ پاکستان آیا تھا تو پاکستان میں اس کو یہ تبدیلی لگی تھی کہ اس ملک کا مڈل کلاس طبقہ کی نوجوان پرت انقلاب اور تبدیلی کی بات کر رہی تھی۔ ان میں اکثر نوجوان وہ تھے۔ جو اس کے زمانے میں جی سی لاہور یا ایف سی لاہور میں پڑھا کرتے تھے۔ اور اس زمانے کے فیشن کے مطابق وہ یا تو ہپی ازم کے دلدادہ ہوا کرتے تھے۔ یا بہت کیا تو سوشلسٹ ہو جاتے تھے۔ برگر سی یہ کلاس ان دنوں بھی انقلاب کی بات کرتی تھی تو بہت عجیب لگتا تھا۔ انور جیسے بہت سارے لڑکوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ ان کو کون سے دکھ اور تضاد اس لڑائی میں گھسیٹ لائے ہیں۔ آج کی یہ برگر کلاس بھی اس کو انقلاب کے سلوگن کے ساتھ بڑی عجیب لگی تھی۔ لاہور میں مینار پاکستان کے سائے میں کرکٹ کے سابق ستارے کی قیادت میں برگر فیملیز کے لڑکوں اور لڑکیوں کا جم غفیر تھا۔ اور ان میں بہت سے لوئر مڈل کلاس کے لڑکوں اور لڑکیوں کا ہجوم بھی تھا۔ جو برگر فیملی کے بچوں کی ڈریسنگ اور بولنے کے انداز سے ویسے ہی متاثر ہوئے جاتے تھے۔ جیسے کبھی انور اور اس کے ساتھی ہو جاتے تھے۔ ان کی آنکھوں میں رشک اور چند خواب اچانک سے آ کر جو چمکنے لگتے تھے۔ اس سے انور کو ایک ہی جلسہ میں ایک طبقے کی دو پرتوں کے درمیان کا فرق خوب معلوم ہو رہا تھا۔ بس اس مرتبہ فرق یہ تھا کہ اس جلسہ میں بھٹو کے ۷۰ والے اور اس کی بیٹی کے ۸۶ والے جلسوں کی طرح مزدوروں ،کسانوں اور غریبوں کی وہ پرتیں موجود نہ تھیں۔ جن کے بدن کی نیم عریانی چھپائے نہ چھپتی تھی۔ ان میں ٹپکتی چھت والا کوئی نہ تھا۔ ان میں جھگی میں رہنے والا کوئی نہیں تھا۔ ریلوے کی پٹٹری کے ساتھ ساتھ بسنے والی بستیوں کے مکینوں میں سے کوئی ادھر نہ تھا۔ وہ سارے لوگ کہاں گئے تھے۔ انقلاب اور تبدیلی جن کے سلوگن ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ ملک تھا جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۴۰ فیصد لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے۔ شہری غریبوں کی شمولیت اس میں نہ تھی۔ یہ ایک نئی مڈل کلاس تھی جو ۹۰ کی دہائی میں ابھر کر سامنے آئی تھی۔ اب اس مڈل کلاس کی نئی نسل تبدیلی کے سلوگن کے ساتھ آگے تھی۔
بس اپنے مقررہ رستے پر رواں دواں تھی کہ اچانک بریک لگنے سے زور کا جھٹکا لگا اور ہمارے مسافر کی آنکھ کھل گئی۔ انور نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔ گاڑی بہاول پور پہنچنے وی تھی۔ بس ہوسٹسس کہ رہی تھی کہ وہاں بس ٹرمینل پر پندرہ منٹ کا سٹاپ ہو گا۔
بس ٹرمینل میں داخل ہو گئی۔ آسمان پر بدل چھائے ہوئے تھے۔ انور باہر نکلا اور ویٹنگ روم میں جانے کی بجائے باہر کھڑا ہو گیا۔ اس نے جیب سے سگریٹ کیس نکالا اور سگریٹ پینا شروع کر دی۔ بادلوں سے چاند آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ ستارے آسمان میں کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ انور کو بہاول پور کی رات ویسے بہت پسند تھی۔ ریاست کے پورے علاقے میں اس کو چاندنی راتوں سے عشق سا تھا۔ ایک مرتبہ جب وہ ضیاء آمریت سے بھاگا پھر رہا تھا تو اس نے کافی دن اور راتیں بہاول پور میں گزارے تھے۔ یہاں قائد اعظم میڈکل کالج سرخوں کا گڑھ تھا۔ آج اتنے عرصے کے بعد بس ٹرمینل پر کھڑے۔ رات کے اس پہر میں اور بادلوں کی چاند سے آنکھ مچولی دیکھ کر اس کو کئی کہانیاں سی یاد آ کر رہ گئی تھیں۔ اس کو بے اختیار میڈکل کالج کی نہال اختر کی یاد آئی تھی۔ وہ بھی مفروری کے دن کاٹ رہی تھی۔ وہ بھی عجب دن تھے۔ جب دانشوروں کی ایک پرت بہت جوش میں تھی۔ نہال اختر نے تازہ تازہ پولینڈ کا دورہ کیا تھا۔ وہاں کے دانشوروں نے ایک تحریک آمریت کے خلاف چلائی ہوئی تھی۔ وہ بھی بس اسی سے متاثر ہو کر نکل پڑی تھی۔ غضب کی تحریریں لکھتی تھی۔ ضیاء کو مینڈک جیسی آنکھوں والا قرار دے ڈالا تھا۔ ہندو صنمیات کے کردار راون اور راکھشس سے اس خادم اسلام کو تعبیر کرنا بہت بڑا جرم تھا۔ بس مارشل لاء کا حکم نمبر ۱۹ کی زد میں آ گئی تھی وہ۔ سرو جیسا قد۔ غزال جیسی آنکھیں ،کتاب جیسا چہرہ ،ہرنی جیسی چال ،پتلی سی کمر ،یہ بڑی بڑی آنکھیں ،ان پر پڑی جھالر ،کمان کی طرح کھنچی ابرو۔ غرض ایک شاعر کے لئے وہ سارے سامان رکھتی تھی۔ جو شاعری میں بطور مواد کا کام کرتے ہیں۔ مگر وہ یہ سب چھوڑ چھاڑ سیاست کی پر خار وادی میں آ نکلی تھی۔ سیکولر تھی۔ مذہب سے بیزار تھی۔ آزاد خیال تھی۔ مگر یہ آزاد خیالی وہ نہیں تھی۔ جو جماعت اسلامی کا ہر صالح جوان اپنے گرد لوگوں کو بتلایا کرتا تھا۔ جمعیت کے لڑکوں کی اس سے جان جاتی تھی۔ پچھلی مرتبہ جب وہ جرمنی سے فرانس گیا تھا۔ تو پیرس میں اس کی ملاقات خالد احمد سے ہو گئی تھی۔ تو اس نے انور کو بتایا تھا کہ "یار!تم کو معلوم ہے کہ نہال اختر فرانس میں حزب اللہ کی خواتین ونگ کی انچارج بن گئی ہے۔ اور وہ حجاب لینے لگی ہے۔ ساتھ ساتھ درس قرآن بھی دیتی ہے۔ "یہ سب سن کر انور کو بہت حیرانی ہوئی تھی۔ خالد اس کو نہال اختر سے ملانے لے گیا تھا۔ وہ پیرس کے پوش علاقے میں رہ رہی تھی۔ بہت خوبصورت فلیٹ تھا اس کا۔ ڈرائنگ روم میں نجف اشرف ،روضۂ امام حسین ،روضۂ بیبی زینب کی تصویر لگی تھیں۔ ایک طرف دیوار پر تلوار ذوالفقار کا نقش بنا ہوا تھا۔ یہ سب دیکھ کر اس کو بہت اچنبھا ہوا تھا۔ پھر جب ایک سیاہ عبایا میں لپٹی اور چہرے پر حجاب لئے جس میں سے صرف آنکھیں جھلک رہی تھیں نہال ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھی۔ تو اس کو دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ یہ وہی نہال ہے جس کی مذہب بیزاری کے قصے زبان زد عام ہوا کرتے تھے۔ اور آج وہ حزب اللہ جیسی کٹر بنیاد پرست جماعت کے ساتھ کھڑی تھی۔ انور نے اس سے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا۔ اس کے ذہن میں جرمنی میں ایک کیمونسٹ کی باتیں گھوم رہی تھیں۔ جس نے اس کو کہا تھا کہ یار یہ جو مڈل کلاس ہوتی ہے نا۔ اس کے کردار کی چنچ بہت مشکل ہوتی ہے۔ یہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ کئی بھیس بدل لیتی ہے۔ اور ہر کردار جم کر اور ڈوب کر کرتی ہے۔ نا جانے نہال اختر کیوں ایسے اس کیمونسٹ کی کہی ہوئی بات کا مصداق لگی تھی۔ اس کو خیال آیا تھا کہ کہیں اس نے نہال کو دیکھ کر تو یہ سب نہیں کہا تھا۔ وہ انہی خیالوں میں گم سگریٹ کے مرغولے اڑا رہا تھا۔ کہ اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ رکھا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ اس کے ساتھ والا مسافر تھا۔ اس نے کہا۔ دوست گاڑی سفر کے لئے تیار کھڑی ہے۔ اس نے تشکر بھری نگاہ سے اپنے ہمسفر کو دیکھا۔ سگریٹ کو پاؤں سے مسلا اور گاڑی کی طرف چل دیا۔
گاڑی اپنے رستے پر رواں دواں تھی۔ خیالوں کی یلغار تھی جو اس کو گھیرے ہوئے تھی۔ وہ یونہی خیالوں میں گم تھا۔ کہ کب احمد پور شرقیہ کا ٹول پلازہ آ گیا۔ نوابوں کا یہ ڈیرہ۔ جس کو ڈیرہ نواب صاحب بھی کہتے ہیں۔ اب وہ شان و شوکت نہیں رکھتا۔ جو کبھی رکھا کرتا تھا۔ بلکہ یہ تو انتہائی پسماندہ قصبے میں بدل چکا تھا۔ اس کو یاد تھا کہ ایک مرتبہ وہ یہاں دو راتیں رہا تھا۔ وہ برسات کے دن تھے۔ تو سارا احمد پور جوہڑ میں بدلا ہوا تھا۔ وہ جہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ صاحب بہت عالم فضل تھے۔ جج تھے۔ مگر جمہوریت کے بہت حامی تھے۔ ان کا گھر سرکار کے مفروروں کی جائے پناہ بنا ہوا تھا۔ گاڑی جہاں سے گزر رہی تھی۔ وہاں کنارے پر سی این جی فلنگ اسٹیشن اور جدید گیسٹ ہاؤس تھے۔ ایک پر لکھا تھا فوڈ کلب۔ وہ یہ ترقی اور پستی کی ساتھ ساتھ ہونے کی کہانی پورے پاکستان میں دیکھ چکا تھا۔ لیکن پنجاب سے نکلتے ہوئے سرائیکی بیلٹ میں آتے ہوئے یہ ساتھ کچھ زیادہ ہی گھمبیر صورت اختیار کر لیتا تھا۔
بس صبیح پانچ بجے چوک بہادر میں بنے بس ٹرمینل پر پہنچی۔ وہاں پر اس کو لینے رئیس بہادر آئے ہوئے تھے۔ رئیس اس کا یونیورسٹی فیلو تھا۔ اور جب وہ جرمنی سیاسی پناہ میں گیا تھا تو رئیس وہاں موجود تھا۔ وہ رحیم یار خان کی ایک جاگیردار فیملی کا چشم و چراغ تھا۔ رئیس نے اس کو سختی اور مشکل کے دنوں میں بہت سہارہ دیا تھا۔ ان کی دوستی بہت گہری ہو گئی تھی۔ رئیس بہت نیک دل اور یاروں کا یار تھا۔ وہ کہیں جاتا یا نہ جاتا۔ پاکستان آ کر رئیس کے پاس ضرور رکتا تھا۔ اس مرتبہ رئیس نے اس کو ڈیزرٹ لے کر جانا تھا۔ رئیس اپنی لینڈ کروزر لیکر آیا تھا۔ بس سے اترا تو رئیس اس ک گرم جوشی سے ملا۔
انور سائیں !لگتا ہے عمر کا ایک پھر تم پر آ کر ٹھہر گیا ہے۔ لگتا ہی نہیں ہے کہ تم عمر کی پچاسویں سیڑھی پر قدم رکھ چکے ہو۔ "رئیس نے اس کو دیکھ کر کہا۔
انور کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ تھی۔ یہ دیکھ کر رئیس بولا۔ یار !تم بس میں بیٹھ کر حسب معمول خیالوں کی گھاٹیوں میں اتر گئے ہوں گے۔ اور سالوں کا سفر چند گھنٹوں میں طے کر گئی ہوں گے۔ یہ سن کر انور پھر مسکرایا۔ اور آہستہ سے بولا۔
"رئیس!یاد ماضی ہم جیسے افتاد گان خاک کے ا عذاب ہوا کرتی ہے۔ یہ تم جیسے عرش نشینوں کے سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ "
رئیس اور انور دونوں گری میں بیٹھ گئے۔ اور بس باتوں ہی باتوں میں رئیس کا بنگلہ آگیا۔ وہ تھکا ہوا سا تھا۔ رئیس نے اس کو آرام کرنے کو کہا۔ وہ جاتے ہی مہمان خانے میں ایک کمرے میں سو گیا۔ اور اس کو شام کو رئیس نے اٹھایا۔ اور کہا بابا بس کرو۔ اب اٹھو۔ نہاؤ اور فریش ہو کر ڈرائنگ روم میں چلے آؤ۔ ڈیزرٹ چلنا ہے۔ وہ فریش ہو کر ڈرائنگ روم میں آیا تو یہاں دو مرد اور اور ایک عورت موجود تھی۔ رئیس نے طرف کرایا۔
ان محترمہ سے ملو !یہ میری خالہ کی بیٹی ہیں۔ سٹیٹس سے پڑھی ہیں۔ ان کا نام صوت فاطمہ ہے۔ سوشیالوجی میں پی یہ ڈی کے ہوئے ہیں۔ کل آئی ہیں۔ بس ڈیزرٹ دیکھنے کا شوق ہے۔ اور یہ طارق ہیں۔ رئیس نے ایک فربہ سے آدمی کی طرف اشارہ کیا۔ یہ انکم ٹیکس افسر ہیں۔ یہ مراد علی ہیں۔ فروٹ بزنس سے وابستہ ہیں۔ اور دوستو!یہ انور کاظمی ہے۔ میرا یار !اور آپ کی پرخار سیاست کا ایک بھولا بسرا کردار۔ صوت فاطمہ یہ سن کر چونکی۔ اور کہنے لگیں۔ اوہ !آپ ہیں وہ۔ رئیس نے مجھے امریکہ میں تمہاری بہت سی باتیں باتیں تھی۔ میں آپ سے ملنے کی مشتاق تھی۔
انور نے بس شکریہ کہنے پر اکتفا کیا۔ وہاں جو بھی باتیں ہوتی رہیں۔ اس میں وہ ہوں ،ہاں سے زیادہ اضافہ نہیں کر سکا۔ پھر اتنے میں ملازم نے آ کر کہا کہ سامان گاڑیوں میں رکھوایا جا چکا ہے۔ دو گاڑیوں میں سے ایک میں بس صوت فاطمہ اور انور تھے۔ جب کہ دوسری گاڑی میں رئیس اور اس کے دونوں دوست بیٹھ چکے تھے۔ گری جب پورج سے کھلے صحن کی طرف آئی تو اس نے دیکھا کہ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار پر رہی تھی۔ گاڑی شہر کی مختلف سڑکوں سے ہوتی ہوئی۔ کینٹ میں داخل ہو گئی۔ اور پھر ڈیزرٹ والے رستے کی طرف چل پڑی۔ فاطمہ بولی ! یہ سڑک متحدہ عرب امارات کے خلیفہ نے بنوائی تھی۔ ۔ رستے میں اس کا محال بھی آیا تھا۔ خلیفہ اور اس کے دیگر لوگ اس علاقے میں آرام کرنے آتے تھے۔ اور پھر کئی کہانیاں سینہ بسینہ بھی چلی آتی تھیں۔ فاطمہ اس کو کہنے لگی کہ کیسے غربت اور مجبوریاں ان عیاش بادشاہوں کو ان داتا اور غریب پرور ہونے کا خطاب دلا جاتی ہیں۔ انور فاطمہ کے منہ سے یہ الفاظ سنکر چونکا تھا۔ اور اس نے فاطمہ کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔ جو شدت جذبات سے سرخ نظر آتا تھا۔ وہ اپنے غصہ کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔
انور نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں اس سے ملنا چاہتی تھی۔ تو فاطمہ کہنے لگی کہ وہ جب امریکہ پڑھنے گئی تو وہاں ایک فلسطینی لڑکی اس کی دوست بن گئی تھی۔ جو کہ سوشلسٹ تھی۔ وہ اس سے پہلے سیاست کو بالکل پسند نہیں کرتی تھی۔ یہ لیلیٰ احمد تھی جس نے اس کو اس رستہ پر ڈالا تھا۔ اس نے امریکی معاشرے میں پائے جانے والے طبقاتی اور نسلی تضاد سے اس کو روشناس کرایا تھا۔ اس نے نیو یارک کی تنگ و تاریک گلیوں میں اور کسی متروک سب وے یا متروک گٹر لائن میں زندگی کو جبر مسلسل کی طرح کاٹتے کالوں کو دیکھا تھا۔ اور پھر امریکی سرمایہ کی چکا چوند میں زندگی بسر کرتے راک فیلروں کو بھی۔ تو اس کو احساس ہوا تھا کہ کیسے یہ فرق تو ہر جگہ موجود تھا۔ چند لوگوں کے پاس سب کچھ تھا۔ اور اکثریت کے پاس کچھ نہ ہونے کے برابر۔ اور وہ اس پر بھی لڑ رہے تھے۔ بس یہیں سے میری کیا کلپ ہو گی۔ میں نے چند کو چھوڑا اور اکثریت کے ساتھ ہو گئی۔ میں سٹیٹس میں سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے ساتھ ہوں۔ لوگ ہمیں دیوانہ اور نہ جانے کیا کچھ کہتے ہیں۔ لیکن ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔ رئیس وہاں آیا تھا۔ تو اس نے دیکھا کہ میرا فلیٹ تو کمیون بنا ہوا ہے۔ تو اس نے میری باتیں سنی تو کہنے لگا کہ تم بھی مجھ کو دوسری انور کاظمی لگتی ہو۔ میں نے اس سے تمہارے بارے میں پوچھا تو اس نے جو بتایا۔ وہ تو ہم سے بہت قریب تھا۔ یہ کہہ کر صوت فاطمہ خاموش ہو گئی۔
اتنے میں گاڑی ڈیزرٹ میں داخل ہو گئی۔ رئیس وغیرہ بھی اتر آئی تھے۔ موسم بہت سہانا تھا۔ شام کا اندھیرا ابھی پھیلنے لگا تھا۔ رئیس کے دو ملزموں نے گاڑی سے سامان نکالا۔ اور پھر انھوں نے تھوڑی دائر میں دو خیمے نسب کر ڈالے۔ اس کے دوست رات کو گاڑی میں لگی سرچ لائٹ کی مدد سے شکار کھیلنا چاہتے تھے۔ صوت فاطمہ نے کہا کہ اس کو شکار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انور کو بھی نہیں تھی۔ رئیس ہنس کر بولا کہ آپ ذرا دماغ سوزی کرو۔ ہم شکار سوزی کرتے ہیں۔ دور دور تک صحرا کی ریت پہلی ہوئی تھی۔ صوت فاطمہ ڈارک مالٹائی کلر میں صحرا میں کھڑا کوئی صحرائی درخت لگ رہی تھی۔ وہ دونوں ریت کے ٹیلوں کے درمیان چلنے لگے۔ اور پھر ایک ٹیلے پر جو نسبتاً اونچائی پر تھا جا کر صوت فاطمہ بیٹھ گئی۔ وہ دور کہیں دیکھ رہی تھی۔ انور نے اس کو واپس لانے کے لئے ہلایا۔ وہ چونک گئی۔
کیا سوچ رہی تھیں ؟انور بولا
میں سوچ رہی تھی کہ یہ صحرا کس قدر خاموشی کے ساتھ چند اجنبی لوگوں کی آمد کو برداشت کے ہوئے ہے۔ جبکہ انسانوں کے ہاں یہ دستور نہیں ہے۔ وہاں تو ہجرتوں کے سلسلے بھی اب و دانہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ یا قبضہ گیری لوگوں کو گھر سے بےگھر کر دیتی ہے۔ ہم تو مہاجر کونجوں کو بھی صحیح سلامت واپس وطن جانے نہیں دیتے۔
انور بولا ٹھیک کہتی ہو۔ فاطمہ انسانوں کے ہاں جب سے تقسیم شروع ہوئی تب سے کسی ہجرت کو خوش آمدید کہنے کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ اب ہجرتیں مرضی سے نہیں بلکہ جبری طور پر ہوتی ہیں۔ مرضی سے تو بس سرمایہ حرکت کرتا ہے۔ اس کا جہاں دل کرتا ہے چلا جاتا ہے۔ منڈی کی دنیا میں آزادی بس اسی چیز کا نام ہے۔
انور اور فاطمہ نے اس رات بہت سے باتیں کی تھیں۔ صبیح کب ہوئی۔ کب وہ واپس آئی اور کب وہ جرمنی اور امریکہ میں اپنی اپنی منزلوں کو روانہ ہوئے۔ ان کو یاد نہیں تھا۔ ایک جست میں لگتا تھا یہ سارا سفر ہو گیا تھا۔ لیکن دونوں کو لگتا تھا کہ وہ اپنا کچھ بلکہ بہت کچھ وہیں صحرا میں چھوڑ آئی تھے۔ یہ بہت کچھ کیا تھا ؟دونوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
نیو یارک میں بروک لین کی ایک گلی میں ایک سٹریٹ میں صوت فاطمہ کے فلیٹ پر وال سٹریٹ پر قبضہ کر لو تحریک کے تحت کل کے جلوس کی تیاری ہو رہی تھی۔ سٹرٹیجی کی بات تھی۔ فاطمہ نے کچھ تجویزیں دین اور پھر چھپ ہو گئی۔ بیٹھے بیٹھے وہ اسی ڈیزرٹ میں پہنچ گئی۔ انور کو وہاں دیکھنے لگی۔
ادھر انور ارجنٹائن میں بیونس آئرس میں ایک کیفے میں بیٹھا تھا۔ وہ یہاں اپنے محبوب رائیٹر پاؤلو کوہلو کے ایک پروگرام میں شریک ہونے کے بعد اس کے ساتھ کافی پینے چلا آیا تھا۔ کوہلو اس کو اپنی محبوبہ کی کہانی سنا رہا تھا۔ کہ کیسے وہ اس کو اس سفر میں ملی تھی جو اس نے نروان پانے کے لئے کیا تھا۔ وہ دیوار گریہ کے قرین یروشلم میں ملے تھے۔ وہاں اسرائیلی تاریخ سے لیکر صیہونیت تک کی تاریخ کا سفر انھوں نے اکٹھا کیا تھا۔ بس اسی سفر کے دوران ان کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی تھی۔ اور وہ ایک ہو گئے تھے۔
یہ سن کر انور نے وہیں بیٹھے بیٹھے صوت فاطمہ کا نمبر ڈائل کرنے کے لئے موبائل نکالا تو اس پر پہلے ہی سکرین پر صوت فاطمہ کا نمبر چمک رہا تھا۔ اس نے یس کا بٹن پش کر کے ہیلو کہا تو آگے سے فاطمہ بولی۔
"انور تم تھے کہتے تھے کہ سب کی کہانی ایک ہے۔ میں جرمنی آنا چاہتی ہوں۔ "
انور یہ سن کر بولا میں بھی تمھیں یہی کہنا چاہتا تھا۔ نہ تم جرمنی آؤ ،نہ میں امریکہ۔ ہم دونوں پھر اسی ڈیزرٹ میں اکٹھے ہوں گے۔ اور اس مرتبہ ہجرت جبری نہیں بلکہ مرضی کے ساتھ ہو گی۔
٭٭٭
رخصتی
احمر اور راشدہ بہت تیزی سے گھر کا سامان سمیٹ رہے تھے۔ احمر چہرے کے تاثرات کے اعتبار سے قدرے مطمئن نظر آتا تھا۔ لیکن راشدہ بہت اداس تھی۔ وہ صبیح سے سامان سمیٹ رہے تھے۔ یہ گھر ایک یونورستے کے احاطہ میں قائم تھا۔ آج سے چھے سال پہلے جب احمر لندن سے یہاں آیا تھا اور اس نے شعبہ فلسفہ میں بطور پروفیسر جوائننگ دی تھی تو یہ گھر ان کو الاٹ ہوا تھا۔ احمر بہت جوش اور جذبہ کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ سامان سمیٹے ہوئے احمر نے جب اپنی چھے سللقبل کی لکھی ڈائری کو سامان میں رکھنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو وہ بے اختیار کچھ دیر کے لئے ماضی میں کھو گیا۔
اس نے لندن کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جن کا جد ۱۹۰۵میں لندن میں تعلیم حاصل کرنے اتر پردیش کے شہر بلند شہر سے پڑھنے ایک بحری جہاز سے یہاں آگیا تھا۔ اور پھر لندن فضاء اس کو ایسی راس آئی کہ وہ بس یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ یہیں شادی ہوئی اور یہیں پر ایک خاندان کی بنیاد پڑ گئی۔ احمر کو اپنے والد سے جہاں بہت سا تہذیبی ورثہ ملا تھا۔ وہیں پر ایک ورثہ اس کے پاس یہ تھا کہ وہ تقسیم کے بعد کے پاکستان سے بہت محبت بھی کرتا تھا۔ اس پاکستان کے لئے اس کے دل میں بہت درد تھا۔ اس نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ اور وہ لندن کے معروف کالج امپریل کالج میں استاد ہو گیا تھا۔ اس کالج میں وہ طلبا کو یونانی فلسفہ اور تاریخ فلسفہ پڑھاتا تھا۔ اس کی ذہانت اور وسعت علمی کی اس کالج کا ہر فرد گواہی دیتا تھا۔ اس کو مسلم دنیا کی علمی پسماندگی کا بہت قلق تھا۔ اور وہ مسلم دنیا میں فکری آزادی کے فقدان پر بہت زیادہ افسردہ بھی رہا کرتا تھا۔ وہ اس کے لئے کچھ کرنا بھی چاہتا تھا۔
پھر ایسا ہوا کہ اس کے کالج نے جنوبی ایشیا کی یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے فلسفہ کی ایک کانگریس منعقد کی۔ اس کانگریس میں پاکستان کی ایک معروف یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے صدر ڈاکٹر منظور احمد بھی آئے۔ ان سے احمر کی ملاقات ہوئی۔ اور وہ ایک ہفتہ لندن رہے تو احمر سے مسلسل ان کی ملاقات ہوتی رہی۔ اس دوران ڈاکٹر منظور احمد سے پاکستان میں سماجی علوم کی زبوں حالی پر کافی بات چیت ہوئی۔ ڈاکٹر منظور احمد احمر کی اس بات سے متفق تھے کہ فکری آزادی کے بغیر مسلم سماج ترقی نہیں کر سکتے۔ اور اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہاں کی یونیورسٹیز میں اکیڈمک آزادی کا رستہ ہموار ہو۔ اور یہ کام فلسفہ کی تعلیم کو فروغ دئے بنا ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر منظور کہتے تھے کہ ان کی یونیورسٹی کو فلسفی استادوں کی ضرورت ہے۔ جو مشکل سے میسر آتے ہیں۔ انھوں نے احمر کو کہا کہ اگر اس جیسے لوگ تھوڑی قربانی دے ڈالیں تو پاکستان میں فکری انقلاب کی رہ ہموار ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر منظور احمد سے ملاقات کے بعد احمر کے ذہن میں ایک کشمکش شروع ہو گئی۔ اس کو یاد آیا کہ اس کے بابا کس قدر زور دیتے تھے احمر پر کہ اس کو پاکستان جا کر تدریس کرنی چاہئے۔ اور وہ پاکستان میں ان دنوں آمریت ہونے کی وجہ سے نہیں جاسکا تھا۔ کیونکہ جب اس نے پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں اپلائی کیا تھا تو وہ انٹرویو کے لئے جب پاکستان میں سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو اس سے انٹرویو لینے والے نے آیت الکرسی اور دعائے قنوت سنانے کے لئے کہا۔ اس کو بہت حیرانی ہوئی کہ فلسفہ کی تدریس سے اس کا کیا تعلق تھا۔ اس کو پتہ چلا کہ اس سے قبل کیمسٹری کے ایک ٹاپر کو اس لئے ریجکٹ کر دیا گیا تھا کہ اس کو رات کو سوتے وقت کی دعا یاد نہیں تھی۔ وہ واپس چلا آیا تھا۔ اس نے ڈاکٹر منظور کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا تو انھوں نے تسلی کرائی کہ اب وہ دور چلا گیا ہے۔ سو اس نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اور وہاں ایک یونیورسٹی کو جوائن کر لیا۔
یہاں آکر اس نے پہلے تو یہ دیکھا کہ لوگ فلسفہ جیسے اہم مضمون کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے۔ بلکہ یہاں تو سرے سے علم کی تحقیر و توہین کو لوگوں نے رواج بنا رکھا تھا۔ اس کو ایسے لگا کہ وہ مغرب میں اس دور کے اندر واپس آگیا ہے جب کلیسا نے علم اور حکمت کے خلاف ایک مہم چلائی ہوئی تھی۔ وہ جب بھی یونیورسٹی کی واحد مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے جاتا تو اس کو مولوی صاحب کا سارا خطبہ علم کی تحقیر پر مبنی معلوم ہوتا تھا۔ اور ایسے لگتا تھا کہ سماجی علوم کی ترقی مولوی صاحب کے نزدیک کوئی بہت بڑا جرم تھی۔ اس کو خیال آتا کہ جب وہ نویں صدی میں عرب میں فلسفہ اور حکمت کی کتابوں کو جلائے جانے کا تذکرہ پڑھا کرتا تھا تو اس وقت وہ سوچا کرتا تھا کہ آجووہ فعل کرنے والے موجود ہوتے تو خود کتنی شرمندگی محسوس کرتے۔ لیکن یہاں آ کر اسے محسوس ہوا کہ پاکستان سمیت دیگر کئی ملکوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو اب بھی اسی طرح کا فعل روا رکھنے کو مذہب اور سماج کی خدمت خیال کرتے تھے۔ اور جب بامیان میں طالبان نے بدھا کا مجسمہ گرا ڈالا تھا تو اس کو بہت حیرانی ہوئی تھی کہ اس کی یونیورسٹی کے کئی استاذہاس عمل کو ٹھیک کہ رہے تھے۔ یہ سب باتیں دیکھ کر اس کو اپنے فیصلے کے ٹھیک ہونے کا یقین آگیا تھا۔ اور وہ زیادہ تندہی سے فکری آزادی کے لئے کام کرنے لگا تھا۔ اس نے نہ صرف اپنے شعبہ میں فکری آزادی کو پروان چڑھانے پر زور دینا شروع کیا بلکہ اس نے اس عمل کو پوری یونیورسٹی میں آگے لیکر جانے پر زور دیا۔
اس کے اس عمل پر ایک مرتبہ ایک مذہبی تنظیم نے سخت رد عمل بھی دکھایا لیکن اس نے کوئی پرواہ نہ کی۔ وہ یونیورسٹی کی ضابطہ کمیٹی کا رکن بھی تھا۔ احمر کو اپنی کوششوں کے دوران ہی یہ احساس ہو گیا کہ فکری آزادی کے عمل کو یونورستیز میں پھیلنے سے روکنے میں رجعت پسندوں سے زیادہ رکاوٹ وہ لوگ ہیں جو ترقی پسندی کا علم اٹھائے کھڑے ہیں۔ جو اپنی ہوس اور شہوت انگیزی کو ترقی پسندی کا نام دیتے ہیں۔
احمر کو اس امر کا اندازہ اس وقت ہوا جب اس کے شعبہ کے ایک استاد نے پرچہ لیتے ہوئے تئیں لڑکیوں کے سوا سب لڑکیوں کو فیل کر ڈالا اور پھر جب ایک لڑکی نے اس کو آکر یہ شکایت کی کہ مذکورہ استاد کہتے ہیں کہ بی بی اگر پاس ہونا ہے تو کچھ لو اور کچھ دو پر عمل کرنا پڑے گا۔ اسی طرح شعبہ میں وزٹینگ اساتذہ کی بھرتی کے معاملے پر بھی ایسی ہی حرکت دیکھنے کو ملی۔ جس کا احمر نے کبھی لندن کے کسی تعلیمی ادارہ میں تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے جب اس پر اپنا رد عمل ظاہر کیا تیکسر لوگوں نے اس کو معمول کی بات قرار دیکر نظر انداز کرنے کی تجویز دی۔ لکین وہ ڈٹ گیا۔ اس وقت تک ڈاکٹر منظور بھی وی سی بن گئے تھے۔ انھوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ تو اس روش پر قابو پا لیا گیا۔ لیکن اس نے دیکھا کہ تعلیمی ادارہ میں یہ تو ایک رجحان بنتا جا رہا ہے۔ اور ڈاکٹر منظور کے جانے کے بعد جب نئے وی سی آئے تو اس کو بہت زادہ تنہائی کا احساس ہونے لگا۔ اور ایک دن وہ ہو گیا جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
یہ سردیوں کے دن تھے۔ جب وہ اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے شعبہ میں نئی بھرتی ہونے والی لیکچرر چیختی ہوئی اس کے کمرے میں داخل ہوئیں۔ یہ مس ساجدہ تھیں۔ اس نے ان کو چھپ کرایا۔ وہ کہ رہی تھیں کہ ان کو بچا لیا جائے۔ ان کے پاس کوئی دوپٹہ یا چادر نہیں تھی۔ اس نے اپنا لانگ کوٹ مس ساجدہ کو پہنایا۔ ان کو تسلی ڈی۔ جب وہ بات کرنے کے قابل ہوئیں تو ان سے پوچھا کیا ہوا تھا؟تو وہ روتے ہوئے کہنے لگیں کہ آج ان کو سر صداقت نے اپنے روم میں بلایا تھا۔ اور ان کو کہا کہ یہ ڈاکومنٹ سوفٹ کاپی میں ان کے پی سی میں موجود ہیں۔ ان کو آ کے پڑھئیے۔ جب وہ پڑھنے کے لئے قریب ہوئیں تو اچانک پیچھے سے ان کو صداقت نے پکڑ لیا اور ان کے گالوں کو چومنے کی کوشش کرنے لگے۔ اور اس دوران ان کی شال بھی اتار کر پھینک دی۔ انھوں نے خود کو بہت مشکل سے بچایا اور بھاگ کر اس کے کمرے میں اگائیں۔ احمر کو یہ سب سنکر بہت غصہ آیا۔ اس نے مس ساجدہ کو فوری طور پر اےکدرخوسٹ لکھنے کو کہا۔ درخواست لکھی گئی۔ وی اسی نے ضابطہ کمیٹی کو معاملے کی تحقیق کرنے کو کہا۔ ضابطہ کمیٹی میں کل پانچ رکن تھے۔ احمر کو اس وقت سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ضابطہ کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا۔ اور اس میں ضابطہ کمیٹی کے صدر نے جو کہ ساجدہ کے باپ کی عمر کے ہوں گے۔ اور یونیورسٹی میں ترقی پسندی کے گرو گھنٹال خیال کے جاتے تھے۔ بہت ہی گھٹیا انداز اختیار کرتے ہوئے دیکھنے لگے۔
ساجدہ کے بارے میں ایک بات تو کہنی پڑتی ہے کہ وہ ہے تو سیکس بم جس کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کا ایمان ڈول جاتا ہے۔اگر صداقت صاحب بہک گئے تو کوئی بڑی بات نہیں۔
ایک اور رکن بولے کہ "سالی صداقت کے قابو میں آ جاتی تو سارے کس بل نکل گئے ہوتے اور اب فلاں رجعت پسند گروپ کو ہم پر باتیں بنانے کی جرات نہ ہوتی۔
ایک اور کا خیال تھا کہ یہ سب سازش ایک مذہبی تنظیم کی کارستانی ہے۔
احمر یہ سب باتیں سن کر حیران ہو رہا تھا۔ اور اس وقت حد ہو گئی جب مس ساجدہ کو ضابطہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا کہا گیا۔ اور کمیٹی کے وہ لوگ جو ان کے بارے میں توہین آمیز بیانات دی رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایسے بیہودہ سوالات کرنے لگے کہ احمر کو اس پر سخت احتجاج کرنا پڑا۔ اور جب احمر نے صدر کمیٹی کے اصل چہرے کو بےنقاب کیا اور وی سی سے ان کو ضابطہ کمیٹی سے الگ کرنے کا کہا تو اگلے دن احمر کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب وی سی نے ان کو ضابطہ کمیٹی سے الگ کر دیا۔ اور احمر پر جانبداری برتنے کا الزام لگایا۔ اور اسی دن اس گروپ کا بھی اجلاس ہوا جو خود کو یونیورسٹی میں مذہبی فاشزم کا مخالف کہا کرتا تھا۔ اس نے صداقت کو بیگناہ کہا اور یونیورسٹی میں کلاسوں کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی بھی دی۔ اور اسے یونیورسٹی میں طالبانیت کو پھیلانے والوں کی سازش بھی قرار دے ڈالا۔
مس ساجدہ نے یہ صورت حال دیکھتے ہوئے نہ صرف درخواست کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا۔ بلکہ یونیورسٹی جاب بھی ترک کر دی۔ احمر کے لئے یہ بہت تکلیف دہ صورت حال تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ علم کی درسگاہوں میں یہ کھیل کھیلے جاتے ہوں گے۔ اور ہوس کے پجاریس طرح سے فکری آزادی کے نام پر دندناتے ہوں گے۔ اس کے بہت سے خواب تھے جو چکنا چور ہو گئے تھے۔ اس نے یہ سبدیکہ کر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے امپریل کالج کی انتظامیہ کو خط لکھا کہ ووہواپس آنا چاہتا ہے۔ اس کو اگلے دن ہی جواب موصول ہوا۔ امپریل کالج کے پرنسپل اور شعبہ فلسفہ کے ڈین نے لکھا تھا کہ اس کا پرانا آفس اور کلاس روم اس کی آمد کے شدت سے منتظر ہیں۔ آج وہ یہاں سے جا رہا تھا۔ وہ انہی خیالوں میں گم تھا کہ اس کی بیوی راشدہ کی آواز آئی کہ سامان گاڑی میں رکھا جا چکا ہے۔ آپ بھی آ جائیے۔ وہ بھاری قدموں کے ساتھ چل کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اور گاڑی ائر پورٹ کی طرف روانہ ہو گئی۔ جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھ کر اسے یاد آتا رہا کہ کیسے کیسے خواب دیکھے تھے۔ اور کیا کچھ کرنے کا عزم کیا تھا اس نے۔ اس کو یاد آتا رہا کہ وہ تو پورے معاشرے میں فکری آزادی کی تحریک چلانے آیا تھا۔ اور چند پروفیسروں اور بابوؤں سے مار کھا گیا تھا۔
بہت عرصہ بعد لندن کی ایک کافی شاپ میں وہ بیروت سے آئے ایک پروفیسر کے ساتھ بیٹھا کاپی سپ کر رہا تھا۔ تو پروفیسر نے کہا کہ جنوبی لبنان کے اکثر ترقی پسند مرد اور خواتین حزب اللہ اور العمل کے کارکن بن گئے ہیں۔ اور انھوں نے ٹھیک کیا ہے۔ کیونکہ کھوکھلا اور بنجر لبرل ازم ان کو کچھ نہیں دی رہا تھا۔ احمر یہ سن کر چھپ رہا۔ اگر یہی فقرہ اس نے پاکستان جانے اور واپس آنے سے قبل سنا ہوتا تو وہ شائد مذکورہ پروفیسر سر لڑ پڑتا۔ اور بہت بحث کرتا۔ لیکن اسے لگا کہ اس کی شکایت بھی بہت حد تک ٹھیک ہے۔ پھر اس پروفیسر نے احمر کو کہا کہ احمر ترقی پسندی اور انقلاب کیجنگ یونیورسٹیوں میں نہیں لڑی جاتی یہ تو باہر بیٹھ کر لڑی جاتی ہے۔ اوٹو بائر کو برداشت نہیں کیا تھا جرمنی والوں نے۔ نکال باہر کیا تھا۔ کارل مارکس کو بون میں نہیں نوکری ملی تھی۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں کرئیر اور ریڈکل ازم ساتھ ساتھ نہ چل سکتے۔ ذہین دماغ یا تو ہجرت کر کے مغربی ملکوں میں اپنی ذہانت سے سکوں پاتے ہیں یا پھر اپنے ملکوں میں غربت کے ساتھ لڑتے لڑتے جان دی دیتے ہیں۔ احمر یہ سب سن کر کافی شاپ سے اٹھا اور اس پروفیسر سے ہاتھ ملایا اور باہر کے دروازہ سے نکلتا چلا گیا ۔
٭٭٭
فرشتہ
وہ نو محرم کی رات تھی جب اس کو درد زہ کی تکلیف شروع ہوئی تھی۔ یہ بہت تیز درد تھا۔ وہ بہت خوفزدہ تھی۔ حالانکہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس مرتبہ اس کو بہت خوف تھا۔ پچھلی مرتبہ جب وہ اس درد سے گزر رہی تھی اور نئے مہمان کے آنے کا وقت ہوا تھا تو مستجاب حیدر حسب روایت گھر کیا شہر میں نہیں تھے۔ وہ اکتوبر کا مہینہ تھا۔ اور ڈاکٹر نجیب کی برسی ان پہنچی تھی۔ مستجاب کو ان کے دوستوں نے افغانستان میں آنے کی دعوت دے ڈالی تھی۔ وہاں پر مستجاب کے کافی دوست آنے والے تھے۔ پرانے پرچمی اور خلقی جو کبھی سرخ انقلاب کے حامی تھے۔ اب یورپ اور امریکہ جا بسے تھے۔ وہ بھی نجیب کی برسی میں آ رہے تھے۔ ان سے ملے مستجاب کو عرصۂ ہو گیا تھا۔ وہ اس حالت میں نہ ہوتی تو مستجاب کے ساتھ ضرور جاتی۔ کیونکہ اس کے بہت سے دوست روس ،چیک اور پولینڈ سے آرہے تھے۔ یہ سب اس کے وہ دوست تھے۔ جو اس کو ماسکو میں تعلیم کے زمانے میں ملے تھے۔
ماسکو جانے کی کہانی بھی بہت عجیب تھی۔ وہ اور مستجاب کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کر کے فارغ ہوئے تھے۔ کہ دونوں کی شادی کر دی گئی۔ اور مستجاب نے چپکے سے اپنے اور اس کے کاغذات ماسکو بھیجے۔ وہاں سے دونوں کا سکالرشپ ویزہ آگیا۔ جب کہ ان کی شادی کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا۔ دونوں ماسکو کی سرد ماحول میں چلے گئے لیکن یہاں ان کے دوستوں نے ان کو سرد نہیں ہونے دیا۔ ماسکو سے آنے کے بعد ایک عرصۂ تک ان کی کسی سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ سو جب مستجاب نے اس کو بتایا کہ وہ کابل جا رہا ہے جہاں نتاشا اور کروپسکایا ،میخوف بھی آ رہے ہیں۔ تو اس کو اپنی تکلیف کی وجہ سے وہاں نہ جانا برا لگا تھا۔
وہ ۱۸اکتوبر کی رات تھی جب اس کو مستجاب کے بغیر اس درد سے گزرنا پڑا تھا۔ جس کے بارے میں اس نے سنا تھا کہ وہ جان نکال لیتا ہے۔ اس کو جب ڈاکٹر نے نشہ دیا تو وہ حالت مدہوشی میں بھی مستجاب کو پکار رہی تھی۔ اور بعد میں ہسپتال کی ایک نرس نے بتایا تھا کہ آپریشن کے دوران اس نے اس کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا تھا اور وہ مستجاب مستجاب پکار رہی تھی۔ ڈاکٹر بھی تھوڑا سا گھبرا گئے تھے۔ اور انہوں نے مستجاب کو بلانے کا کہا تھا۔ جب ان کو پتہ چلا کہ مستجاب ملک میں نہیں ہی تو وہ خاصے حیران ہوئے تھے۔ مستجاب اس کے بعد ایک مرتبہ جب اس کا چیک اپ کرانے اس لیڈی ڈاکٹر کے پاس گئے۔ تیس نے مستجاب کو دیکھ کر انہیں کافی کھڑی کھڑی سنائی تھیں۔ اور مستجاب جن کو اپنی سخن وری پر ناز تھا۔ بہت بوکھلائے ہوئے نظر آئے تھے۔
اس مرتبہ وہ جیسے کہیں جانا بھول گئے تھے۔ وہ مسلسل تین ماہ ہو گئے تھے۔ شہر سے باہر نہیں گئے تھے۔ اور ان کی ہر شام اور رات گھر پر گزرتی تھی۔ وہ ان کی اس پابندی پر حیران تھی۔ اور وہ اسے بہت کم کوئی کام کرنے دیتے تھے۔ پھر جب آخری ماہ آیا تو وہ ساری ساری رات جاگ جڑ گزرتے تھے۔ تھوڑی سی تکلیف پرتھ جاتے۔ اور ہر ممکن طریقہ سے اس کا خیال رکھتے تھے۔ لیکن اس کے اندر نجانے کہاں سے کوئی خوف آ کر بیٹھ گیا تھا۔ وہ بہت کوشش کر کے بھی اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتی تھی۔ اس نے اپنے بہت سارے ڈر مستجاب سے چھپا رکھے تھے۔ لیکن مستجاب کو نجانے کیسے پتہ چل جاتا تھا۔ رات کو ووہکرسی پر بیٹھے بظاہر کسی کتاب میں گم ہوتے تھے۔ اور وہ بعید پر لیتی آنکھیں بند کر کے یوں ظاہر کرتی تھی کہ سو رہی ہے۔ مستجاب اچانک کتاب پر سے نظریں ہٹا کر اس سے مخاطب ہوتے اور کہتے کہ "بتول کیا سوچ رہی ہو،”وہ ہڑبڑا جاتی اور کہتی کچھ بھی تو نہیں”مستجاب اس پر ہنس پڑتے اور کہتے کہ مولا کی بیٹی جھوٹ بولتی اچھی تو نہیں لگتی۔ اور ہاں تم سے کہا ہے کہ اندیشہ ہائے دور دراز سے خود کو ہلکان مت کیا کرو۔
وہ مستجاب کی یہ بات سن کر حیران ہو جاتی کہ کیسے کتاب میں مگن ہونے کے باوجود وہ اس کی حالت جن جاتے تھے۔ وہ ان کے سامنے کوئی بات بھی سوچتے ہوئے ڈرتی تھی کہ ان کو پتہ چل جائے گا۔
مستجاب کی شخصیت اس کو ہمیشہ سے بہت عجیب لگتی تھی۔ وہ اپنے چہرے کے تاثرات کے اعتبار سے کبھی ایسے نہیں لگتے تھے کہ ان کی شخصیت میں جذبات کوئی اہمیت رکھتے ہوں گے۔ سخت اور سیاسی قسم کے ثقیل مضامین لکھنے یا پھر فلسفیانہ مباحث پر تحریروں کو دیکھ کر ہر کوئی یہ تاثر پکڑتا تھا کہ موصوف دل کے خانے میں کوئی پتھر ہی رکھتے ہوں گے۔ لیکن ان کے اندر کے آدمی سے اس کی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ بہت بیمار ہوئی۔ یا کسی صدمہ سے اس کو گزرنا پڑا۔ عام حالات میں بھی وہ بہت خاموشی سے اپنے درد مند ہونے کا احساس دلاتے تھے۔ اور کبھی اس کا اعلان نہیں کرتے تھے۔
اس مرتبہ وہ بہت زیادہ بدلے ہوئے نظر آئے۔ وہ کچھ دنوں کے لئے اسلام آباد گئے تھے۔ واپس آئے تو بہت بدلے ہوئے سے لگے تھے۔ مستجاب سے ان کی جو شکایتیں تھیں وہ ایک طرح سے ختم ہی ہو گئیں تھیں۔ مستجاب کو اہنوں نے زیادہ سگریٹ پینے سے روکا تو وہ رک گئے۔ اپنی صحت کا خیال رکھنے کو کہا تو وہ بات بھی مان لی۔ ان کو مستجاب میں یہ تبدیلی بہت عجیب لگی تھی۔ پھر ایک دن وہ بہت حیران ہوئی جب ان کو فون آیا کہ اسلام آباد میں ان کو وزیر اعظم سے ملاقات کرنی ہے۔ لیکن انھوں نے دوسری طرف بات کرنے والے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کہ گھر میں ان مصروفیت ہے تو وہ نہیں آ سکتے۔
دسمبر میں جب عاشور کا آغاز ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ پہلی مرتبہ اتنے سالوں میں وہ عاشور میں رات کو مجلس سننے بھی جاتے رہے۔ یہ بہت عجیب سی تبدیلی تھی۔ کیونکہ ہر محرم ک آغاز پر بتول ان کو کہتی کہ مجلس سسنے چلیں یا امام بارگاہ چلنے کو کہتی تو وہ سختی سے انکار کر دیتے تھے۔ ایک دو مرتبہ بتول نے ان کو کہا تو اس کے بعد نہیں کہا۔ بتول اس وقت بہت حیران ہوئی تھی۔ جب وہ زیارات پر گئی تھی۔ اور واپس آ کر انھوں نے مشہد سے امام علی رضا کے مزار سے لیا ہوا ایک نگ دوری میں پرو کر ان کی دائیں کلائی پر باندھا تو انھوں نے چھپ چاپ بندھوا لیا تھا۔ ورنہ ان کو یاد تھا کہ وہ جب کراچی سے ماسکو کے لئے روانہ ہوئے تھے تو ان کی اماں نے ان کو امام ضامن باندھنا چاہا تھا تو انھوں نے انکار کر دیا تھا۔ تو اس پر وہ بولی تھیں کہ بیٹا تو تو اپنے کیمونسٹ دادا سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ وہ کم از کم ایسا تو نہیں کرتے تھے۔ تو تب جا کر وہ امام ضامن بندھوانے پر راضی ہوئے تھے۔ لیکن اب تو چپ چاپ وہ یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح ایک مرتبہ انھوں نے پہلی مرتبہ ان کے دائیں ہاتھ ہی دوسری انگلی میں ایک انگوٹھی دیکھی۔ تو انھوں نے پوچھا یہ کہاں سے آئی۔ تو کہنے لگے ایک دوست شام گئی تھیں۔ اہنوں نے یہ بی بی زینب کے مزار سے میرے لئے لے لی تھی۔ تو میں نے پہن لی۔ اس مرتبہ وہ وہ عشرہ محرم میں پوری طرح سے شریک ہوئے۔
نو محرم کی رات وہ ہسپتال داخل ہو گئیں تھیں۔ وہ رات سے وہیں اس کے پاس تھے۔ لیکن فجر کی اذان سے پہلے یہ کہ کر نکل گئے کہ قاسم کی اذان کی آواز کانوں میں تبھی گونجے کی جب امام کی بارگاہ میں ہوں گا۔ اور بتول شانت رہنا۔ گھبرانا نہیں۔ جلوس میں جاؤں گا۔ عزاداران حسین کا ساتھ دینا بہت ضروری ہے۔ یہ کہ کر چلے گئے۔ دوپہر گزر گئی۔ اور اس کو آپریشن تھیٹر میں جب لیجایا جا رہا تھا تو مستجاب کا فون آگیا۔ کہا بتول گھبرانا مت۔ شہادت امام کے وقت تم عمل تخلیق سے گزرنے جا رہی ہو۔ بہت مبارک گھڑی ہے۔ مولا کرم کریں گے۔ اس کو ذرا دیر پہلے جو خوف تھا اور ڈر تھا۔ وہ سب دور ہو گیا۔ اس کو آپریشن تھیٹر جاتے ہوئے اپنے دادا کی بات یاد آئی جو کوئی بھی بات کہتے تو یہ ضرور کہتے تھے کہ مولا تجھ کو کوئی دکھ نہ دے سوائے غم حسین کے۔ بس جب آج کے دن کے بارے میں سوچا تو ایک ایک کر کے ساری تصویریں سامنے آنے لگیں۔ اور ایک عجب سی کیفیت طاری ہوئی اور وہ اپنی تکلیف بھول گئی۔ اپپریشن تھیٹر میں جب ڈاکٹر نے اس کو بیہوش کیا تو بیہوشی میں ادراک کا جو در وا ہوا وہ بھی بہت عجیب تھا۔ اس نے خود کو ایک حسین جمیل باغ میں پایا۔ جہاں ہر طرف گلاب کے پھولوں کی کیاریاں لگی تھیں۔ پیپل کے درخت تھے۔ اور درمیان میں ایک فوارہ تھا۔ جس سے رنگ برنگا پانی نکل رہا تھا۔ وہ اکیلی تھی۔ اچانک کہیں سے ایک سیاہ پوش عورت نمودار ہوئی۔ اس نے بتول کا ماتھا چوما۔ اور پھر اس کو ایک گلاب کا پھول دیا۔ اور کہا خوش قسمت ہو کہ عاشور حسین تمھاری قسمت میں لکھا گیا۔ وہ یہ خواب دیکھتی رہی جوبیس کو ہوش آیا تو لیڈی ڈاکٹر نے اس کو مابرک بعد دی اور کہا کہ تمھارے بیٹا ہوا ہے۔ اس کو اپنا خواب یاد آیا۔
ادھر مستجاب عزاداران کے ساتھ جلوس میں تھا کہ اس کو فون پر بیٹے کے پیدا ہونے کی خبر ملی۔ اس نے فون پر بتول سے بات کی۔ اور کہا بتول ہم اس ننھے فرشتہ کا نام عاشور حسین رکھیں گے۔ بتول حیران رہ گئی۔ اس نے مستجاب کو اپنا خواب سنایا۔ تو مستجاب نے ہنس کر اسے اس کے تخیل کی پرواز قرار دیا۔ اور بتول کو کہنے لگا آج جب وہ جلوس میں آیا تو بہت سے لوگ اسے دیکھ کر کہنے لگے کافر سید مسلمان ہو گیا ہے۔ اور وہ یہ سن کر مسکراتا رہا۔
٭٭٭
گھر
میں آج بہت عرصۂ بعد اس گھر میں داخل ہوا ہوں۔ یہ گھر میری جنم بھومی نہیں ہے۔ لیکن میں دو سال کا تھا۔ جب اس گھر میں رہنے والے دو مکین مجھے اس گھر میں لے آئے تھے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اتنے بڑے گھر میں اپنے دادا ،دادی کے ساتھ خود کو اکیلا پایا۔
بہت پرسرار اور خاموش سا لگا یہ گھر مجھے۔ اس گھر کی پیشانی پر لکھا ہوا ہے "لکشمی ہاؤس ۱۸۹۷”۔ اس گھر کا بڑاسا دروازہ۔ جو کے دیودار کی لکڑی سے بنا ہوا ہے۔ دو بڑے بڑے پٹ۔ جن پر نقش ہندو صنمیات عجب تاثر دیتی ہیں۔ پھر دروازے کے دائیں اور بائیں ہر بنی دو چوکیاں۔ اور سائیڈ پر بنے دو اوطاق جن میں شائد تیل کے چراغ جلا کرتے تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی بہت بڑا صحناوپر سے نظر آتا آسمان۔ سامنے حال کمرہ۔ دائیں اور بائیں سمت بنے ۶ کمرے۔ ان میں سے ایک کمرے میں ایک چوکی پر مورتیاں سجی ہوئی تھیں۔ سائیڈ پر ایک کمرہ جس میں کتابیں بری ترتیب سے چاروں طرف ریک میں سجی ہوئی تھیں۔ ایک میز اور کرسی۔ دادا کا کہنا تھا کہ انھوں نے بس تین کمرے اس گھر کے اپنے استعمال میں رکھے تھے۔ اور باقی کو یونہی رہنے دیا تھا۔ کتابوں والا کمرہ اسے ہی سجا ہوا ملا تھا۔ بس اس میں دادا اور دادی نے اپنے طرف سے کتب کا اضافہ کیا تھا۔ انہوں نے عبادت والے کمرے کو بھی نہیں چھیڑا تھا۔ ۔ اس پر ایک مرتبہ دادا کو خاصی مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ انھیں جماعت اسلامی والوں نے ہندو مشہور کر دیا تھا۔ دادا اور دادی نے معمولی سی مرمت تو کروائی ہو گی۔ لیکن اس مکان کے نقشے میں کبھی تبدیلی نہیں کی۔ دادا نے جب اس گھر کی اکلوتے کتب خانے میں کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو ان ک معلوم ہوا کہ یہ گھر رام لال نامی کسی ہندو نے تعمیر کروایا تھا۔ اور وہ سرکاری ٹھیکیداری کیا کرتا تھا۔ اور لکشمی اس کی بیٹی کا نام تھا۔ جس کے پیدا ہونے پر رام لال کا کاروبار چمک اٹھا تھا۔ اس نے جب اس گھر کی ۱۸۹۷میں تعمیر شروع کر وی تھی تو اس نے اس گھر کی پیشانی پر لکشمی ہاؤس کندہ کر وایا تھا۔ رام لال خود بھی کتابوں کا بہت رسیا معلوم ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ میں اس کتب خانے میں رکھی ایک کتاب جو ہندو صنمیات کی ڈکشنری تھی۔ کو دیکھ رہا تھا تو کتاب کے آغاز میں لال روشنائی سے کافی سارے حوالے اور تبصرے درج تھے۔ نیچے رام لال کا نام درج تھا۔ اکثر رام لال کے ساتھ ساتھ تاریخ اور وقت کے فرق کے ساتھ ساتھ ساتھ کرشن لال کا نام بھی لکھا نظر آتا تھا۔ جو دادا کے بقول شائد رام لال کا بیٹا ہو گا۔ میں نے یہاں پر انگریزی ادب عالیہ کی بہت اچھی کلیکشن دیکھی تھی۔ اور اس پر جا بجا مجھے لکشمی دیوی کا نام لکھا نظر آیا۔ لکشمی دیوی انگریزی ادب میں روشن خیالی اور خرد افروزی کی تحریک سے خاصی متاثر نظر آتی تھی۔ ان دنوں میرے ساتھ عجب معاملہ ہو رہا تھا۔ کہ میرے خیال کی پرواز بہت بلند ہو گئی تھی۔ میں رام لال،کرشن لال اور لکشمی دیوی کے پیکر تراش لیتا۔ اور ان کو اس کتاب گھر میں حاضر کر لیتا۔ کبھی میں لکشمی دیوی کو اپنی دادی کا روپ دیتا اور ان کو عبادت والے کمرے کی طرف دیکھ کر ان کے چہرے پر عجب سے مسکان دیکھ لیتا۔ لکشمی دیوی تو جدید الحاد کی تحریک سے بھی متاثر نظر آتی تھی۔ اسی لئے اس کے لکھ حوالوں میں بہت سے ہولو ایسے ہوتے تھے کہ جن سے اس کے اس طرف جھکاؤ کا پتا چلتا تھا۔
میں جب بھی اس قسم کے کوئی پیکر تراشتا تو بعض اوقات ان کو لفظوں میں قید کرنے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ میری دادی اس پر ہنستی بھی۔ اور کبھی کبھی سنجیدہ ہو کر میرا حوصلہ ہی بڑھاتی تھیں۔ مجھے یہ گھر جدید اور قدیم کی کشمکش میں گرفتار لگتا تھا۔ اس گھر میں جو اصل مکین رہتے تھے۔ وہ تقسیم کے بعد کہاں گئے۔ ہمیں کچھ معلوم نہ تھا۔ اور یہ اب اس علاقہ میں واحد گھر ہے۔ جو اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ رات کو ایک سائے کی طرح ایستادہ نظر آتا ہے۔ باقی کے تمام گھر اب جدید طرز کے بنگلوں میں بدل چکے ہیں۔ دادا اور دادی کی وفات کے بعد بھی میں نے اس گھر میں میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس گھر میں اب دو کمرے اور اسے ہیں جن میں پر چیزیں ویسی کی ویسی ہیں جیسی وہ ۱۹۹۸میں تھیں جب دادی اس جہاں سے رخصت ہو کر دادا کے پاس چلی گئیں تھیں۔
اس گھر کا جو ہال نما کمرہ ہے۔ اس کمرے میں کسی زمانے میںہر ہفتہ بہت رش ہوا کرتا تھا۔ ایک اسٹڈی سرکل ہوتا تھا۔ جس میں مزدور،استاد،ڈاکٹر،شوبز سے تعلق رکھنے والے نا جانے کون کون شامل ہوتے تھے۔ اور وہ سب مل کر آرٹ،فلسفہ،ادب،سیاست،معشیت وغیرہ پر نا جانے کیا کچھ پڑھا کرتے تھے۔ مجھے بہت سے کردار آج بھی یاد ہیں۔ ان میں وہ مصور لڑکی جو کسی پارسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے۔ وہ پنسل سے خاکے تراشنے میں مہارت رکھتی تھی۔ اس کا خاص کمال وہ تھا کہ وہ اکتوبر کے ماہ میں جب روسی انقلاب کی سالگرہ قریب ہوتی تو بہت محنت کے ساتھ وہ لینن ،اس کی بیوی کروپسکایا کی تصویر بناتی تھی۔ یکم مئی کو وہ چند گمنام سے مزدوروں کے پیکر کپڑے پر تراشتی تھی۔ ۔ اس کو نہ خانے کا ہوش ہوتا تھا۔ نہ پینے کا۔ شوبھا نام تھا اس کا۔ پھر وہ لندن چلی گئی تھی۔ میں ایک مرتبہ صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ پراگ گیا تو پراگ یونیورسٹی میں بس اچانک اس سے ملاقات ہو گی۔ مجھے لگا جیسے اس کے ہاں کچھ بھی نہ بدلہ ہو۔ وہ اسی طرح سے دبلی پتلی تھی۔ لگتا تھا عمر اس پر کہیں آ کر ٹھہر سی گئی تھی۔ شادی اس نے اب تک نہیں کی تھی۔ برطانیہ میں کسی یونیورسٹی میں استاد ہو گی تھی۔ ہم یونیورسٹی کے اس گراونڈ میں جا بیٹھے تھے جہاں پر طلبہ کو احتجاج کرتے ہوئے نازی حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا حال احوال ہیں۔ تو ایک لمبی رام کتھا سننے کو ملی۔ وہ اب بھی تصویریں بناتی تھی۔ میں حیران تھا کہ وہ کہتی تھی کہ اس کی تصویر کہانی کے کئی سورما اب راکھشس ہو چکے ہیں۔ جیسے سٹالن اور ٹیٹو۔ اور ایک راکھشس اب سورما۔ جیسے ٹراٹسکی۔ میں نے اس کو زیادہ نہیں چھیڑا۔ وہ مجھ کو اب بھی سات آٹھ سال کا بچہ سمجھ کر ڈائل کر رہی تھی۔ اور مجھے یہ سب اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے جب اس کو رات کے خانے پر بلانے پر اصرار کیا تو اس نے کہا نہیں تم میرے مہمان بنو گے۔ خانے کے بعد جاتے ہوئے شوبھا نے مجھے ریڈ وائن کی بوتل کا تحفہ یہ کہتے ہوئے دیا کہ آپ کے دادا جب اسی پراگ یونیورسٹی کے دورے پر میرے ساتھ آئے تھے تو ان کو ایک کامریڈ میزبان نے یہی تحفہ دیا تھا۔ جو انھوں نے قبول کر لیا تھا۔ اور اپنے کامریڈ دوست کو اس بات کی ہوا بھی لگنے نہیں دی تھی کہو وہ اس نعمت سے محروم تھے۔ الکوحل ان کے وجود کا کبھی حصہ نہیں بن سکی تھی۔ شوبھا کی یہ بات سن کر مجھے یاد آگیا کہ میں تو ماسکو کی سردی سے ڈر کر پہلے دن ہی ودکا سے دوستی کر بیٹھا تھا۔ شوبھا کے علاوہ ایک اور کردار استاد صمدو تھے۔ یہ بیٹری ورکرز یونین کے صدر تھے۔ کسی سکول .کالج کا انھوں نے منہ نہیں دیکھا تھا۔ سارا سماج ان کا استاد تھا۔ لیکن دنیا کی سات زبانوں پر ان کو عبور تھا۔ انگریزی ان کی سن کر دیکھ کر مجھے بھی شرم اتی تھی۔ میرے دادا کے بعد تاریخ میں یہ میرے استاد تھے۔ جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ اس گھر میں آج اپنے پرانے کمرے میں لیتا میں یہ سب کچھ سوچ رہا تھا۔ وقت تیزی سے گزر جاتا ہے۔ اور پھر یہی گھر تو ہے جہاں میں اور ہما ہمیشہ سردیوں کی لمبی راتوں کو کتب خانے میں رات گئے تک کتابوں کو دیکھتے تھے۔ اور دادا دادی سے بہت سے قصے بھی سنتے تھے۔ یہیں پر کبھی کبھی ہما کی والدہ بھی آہ جاتی تھیں۔ اور پھر تاریخ کے کئی ایسے گوشے وہ ہوتے تھے۔ کہ بس آج بہت افسوس ہوتا ہے کہ کاش سٹیو جابز کی ایجاد اس وقت مجھے میسر ہوتی تو میں وہ تاریخی لمحات ریکارڈ کر لیتا۔ اور آج پھر سے ان کو اپنے سامنے ہوتا دیکھتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اسی طرح سے ذی الحج کے آخری دن تھے۔ اور محرم شروع ہونے والا تھا۔ شائد وہ عید مباہلہ کی رات تھی۔ جی یہ وہ دن ہے جس دن کہا جاتا ہے کہ حضرت محمد علیہ السلام نے پنجتن پاک کو لے کر مسیحیوں سے مناظرے کے لئے نکلے تھے۔ اور اسی دن بی بی سکینہ کی ولادت کا دن بھی بتایا جاتا ہے۔ یہ دن شیعہ کے ہاں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ میرے دادا ،دادی،اور ہما کی والدہ مسلم تاریخ کے اس طرح کے دنوں کی ریڈکل تبریروں پر غور و فکر کر رہے تھے۔ میں اور ہما ان کی باتیں سن رہے تھے۔ اس وقت ہم اس بات پر متفق تھے کہ دادا ،دادی اور ہما کی والدہ سب لاشعوری طور پر اپنے ورثہ کی نئی تعبیر کی کوشش کر رہے تھے۔ بہت بعد میں جا کر میں اور ہما اس رمز سے آشنا ہوسکے جو تاریخ میں مذہب کے ساتھ کہیں جڑ جاتی ہے اور اس سے ہم الگ نہیں ہو پاتے۔ میں آج جب یہ سطریں لکھ رہا تھا تو میری نظر اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں پڑی انگوٹھی پر پر۔ اور کلائی پر بندھے ہوئے ایک کلپ پر۔ انگوٹھی ملک شام سے بیبی زینب کے مزار سے آئی ہے۔ اور کلپ میں جڑا عقیق اس پر لکھا ہوا ہے یا علی مدد۔ یہ کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوتے۔ بس یہ وہ کہانی ہے۔ جو آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ گھر نا جانے کب تک یونہی قائم رہے گا۔
٭٭٭
سرتاج رحم کیجئے
۔ میرے دوست سرتاج ہیں۔ جن کا نام لیتے ہوئے عورتوں کو تو سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ عورت شادی شدہ ہو تو اس کو اپنی خانگی زندگی کے تباہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اور اگر غیر شادی شدہ ہو تو بہت سے لوگوں کے دل ٹوٹ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ۔ اور اگر وہ کوئی مرد ہو تو اس کی جنس بارے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ انہوں نے فیض احمد فیض کی سرکاری صد سالہ پیدائشی تقریبات کی آخری تقریب کے حوالے سے بہت اچھا مضمون لکھا ہے۔ فیض صاحب کے نام پر حکمران طبقات کی جعل سازی کو انھوں نے نے بہت اچھے انداز میں بیان کیا ہے۔ مجھے بھی اس پروگرام میں شمولیت کی دعوت ملی تھی۔ میں نہیں گیا۔ اور سرتاج جیسے لوگوں کی وجہ میرے جیسا غریب آدمی کچھ پیسوں سے اور مفت کی شراب سے محروم ہو گیا ہے۔ خدا سرتاج تم لوگوں کو پوچھے گا۔ ان پیسوں سے میرے بہت سے کام نکلنے والے تھے۔ پی آر الگ بننی تھی۔ مگر تمھیں خدا جانے ہم جیسے غریبوں سے کیا بیر ہے۔ اب یہ جو شامل شمس تم سے پوچھتا ہے کہ فیض نے کیا جدوجہد کی تو اس کو بتاتے کیوں نہیں ہو۔ اس کو بتاؤ کہ تم نے فیض کو کیوں اپنا لیا ہے؟اور وہ کون سے کار ہائے نمایاں ہیں جو فیض نے انجام دئے تھے۔
ویسے یہ جو ماضی کے انقلابی طالب علم تھے تم نے ٹھیک کہا ہے کہ ان کی اکثریت تو دور حاضر کے پروفیشنل لوگوں میں تبدیل ہو گئی ہے۔ کچھ لوگ کاروباری ہو گئے ہیں۔ کچھ نے زمینیں دوبارہ سنبھال لی ہیں۔ یہ سب لوگ ترقی پسندی کے لفظ کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ لیکن اس لفظ سے ماضی میں جو روایتیں منسلک تھیں ان کو بھی یہ اپنانا نہیں چاہتے۔ کیونکہ یہ رند کے رند بھی رہنا چاہتے ہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہیں جانے دیتے۔ یہ جو پروفیشنل مڈل کلاسیوں کی ترقی پسندی ہے۔ اس نے بہت سارے روپ دھارے ہیں۔ جب سوویت یونین ٹوٹ گیا تو میں خانیوال میں ایک این ایس ایف کے سابق مرکزی رہنما سے ملنے کچہریوں میں گیا۔ یہ صاحب سرخ بلوں والے کافر کے نام سے مشہور تھے۔ میں جب ان کے چیمبر کے پاس پہنچا تو یہ اپنے چیمبر سے نکل رہے تھے۔ انھوں نے اپنی پتلون کے پوھنچے اونچے کے ہوئے تھے۔ اور سر پر ٹوپی رکھے نماز پڑھنے جا رہے تھے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور ان کے چیمبر میں جا کر بیٹھ گیا۔ یہ نماز پڑھ کر واپس آئے تو میں نے ان سے سوویت یونین کے ٹوٹنے پر ان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ سب کیچ ختم ہو گیا ہے۔ بہت مایوس تھے۔ اور سرمایہ داری کو آخری حل بتا رہے تھے۔ یہ پاکستان کے قومی اداروں خاص طور پر ریلوے وغیرہ کی زبوں حالی کا ذمہ دار مزدوروں کو ٹھہراتے تھے۔ ان دنوں بہت زور شور سے ملازموں کو نکالا جا رہا تھا۔ یہ اس عمل کی تائید کر رہے تھے۔ مشرف دور میں یہ بہت شد و مد سے مشرف اصلاحات کے حامی تھے۔ اور اس زمانے میں ان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر سے ترقی پسندی پر بہت زور دیا گیا۔ لبرلزم کے دلدادہ تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر یہ ریاست کی روش کو خوب پسند کر رہے تھے۔ اسی طرح سے امریکہ کی ترقی پسندی پر بھی ان کو یقین آنے لگا تھا۔ یہ ان دنوں پتن این جی یو کے مالک سرور باری صاحب کے ساتھ مل کر لبرل خیالات پر بھی بہت کچھ کہتے پھرتے تھے۔ پھر لبرل فورم کے ساتھ ہوئے۔ اور وہاں سے یہ صاحب ورکرز پارٹی میں چلے گئے۔ ۔ معراج محمد خان،سی آر اسلم .ابد حسن منٹو ،مبشر حسن خان،شیخ رشید احمد ،خورشید حسن میر سمیت بہت سارے ترقی پسندوں کے ساتھیوں کا وہی انجام ہوا جو میرے دوست سرتاج نے لکھا ہے۔ بہت زیادہ کنفیوز لوگ ہیں۔ اور ان کا سب سے زیادہ المیہ یہ ہے کہ آج دنیا بھر کی حکومتیں تیسری دنیا میں سامراج کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والی ترقی پسندی کا جو منشور تیار کے بیٹھی ہیں یہ اس ترقی پسندی کے حامی بنے ہوئے ہیں۔ مجھے نہرو نجانے کیوں یاد آتے ہیں کہ انھوں نے یہ حکمت عملی بہت پہلے استعمال کر لی تھی۔ جس پر آج ہماری فوجی اور سیاسی اشرافیہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں اپنے دوست سرتاج کو یاد کروں گا کہ اندرا گاندھی نے جب ہندوستان مین ایمرجینسی نافذ کی اور کیمونسٹوں کے ایک حلقے نے اس کی حمایت کر ڈالی تو کیفی اعظمی نے کہا تھا کیک نظم میں کہ کہیں سے بیلچہ لا کر زمیں کو کھودا جائے۔ میں دیکھ تو لوں مجھے کہاں دفن کیا گیا ہے۔ اس زمانے میں نہرو سمیت کانگریس نے بہت سے ترقی پسندوں کو رام کر لیا تھا۔ اور وہ انقلاب وغیرہ سب بھول کر پروفیشنل مڈل کلاس میں بدل گئے تھے۔ انھوں نے ایکٹو ازم کو کب کا ترک کر دیا تھا۔ ان کے ہاں محنت کشوں کی سیاست کا کوئی مطلب نہیں رہا تھا۔ ریاست جو کہ سرمایہ دارانہ ریاست ہے اس میں جو بھی ہو رہا ہو ان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں رہی تھی۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آج کے ان لبرل ترقی پسندوں نے سامراج اور ان کے گماشتہ حکمرانوں کی ترقی پسندی کا جو ماڈل قبول کیا ہے۔ اس پر تعجب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ فوج کو تو ہنر آگیا ہے کہ وہ حافظ سعید کو بھی ساتھ رکھتی ہے اور جاوید جبار،شاہد ندیم جیسے ترقی پسندوں کو بھی ساتھ رکھتی ہے۔ ویسے یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ ہمارے ترقی پسند تو ایوب خان کے ساتھ بھی کھڑے ہو گئے تھے۔ لیکن سرتاج صاحب جیسوں سے ہمیں یہ گلا ہے کہ وہ ہم جیسے غریبوں کو ایسی تقریبوں میں شرکت سے پہلے کم از کم ایسے مضمون نہ لکھا کریں۔ تاکہ ہمارے کچھ مسائل حل ہو جائیں۔ ہمارے جیسے غریبوں کے لئے ایسی تقریبات ایسے ہی ہوتی ہیں جیسے محلے میں کوئی ختم یا شادی کسی امیر کے ہاں ہو۔ اور غریبوں کو چاول میسر آ جائیں۔
٭٭٭
بابا غنی
غنی احمد چک ۳۴ٹن آر کا رہنے والا تھا۔ اس کو سب بابا غنی کہتے تھے۔ وہ فوج میں سپاہی بھرتی ہوا تھا۔ ایک دن اس کو فوج سے یہ کہ کر ریٹائر کر دیا گیا کہ وہ اب فوج میں خدمات سر انجام نہیں دے سکتا۔ حالانکہ اس کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔ وہ محض ۳۵سال کا تھا۔
سپاہی کی پوسٹ سے ریٹائر ہونے والوں کو افسروں کی طرح نہ تو رقبہ ملتا ہے۔ نہ ہی کوئی پیسہ بنانے کا موقعہ۔ وہ تو بس ریٹائر ہونے کے بعد یا تو کہیں دکان ڈال سکتے ہیں۔ یا پھر سیکورٹی گارڈ کے طور پر بھرتی ہوسکتے ہیں۔ غنی احمد نے بھی اپنے چک واپس آ کر سبزی کی دکان کرنا شروع کر دی تھی۔
گھر میں اس کی بیوی ،اور ایک بیٹا تھا جو ابھی سات سال کا تھا۔ وہ صبیح سویرے اٹھتا۔ فجر کی نماز پڑھ کر وہ چک کی سولنگ پار کرتا ہوا اس سڑک کے کنارے آ جاتا جہاں سے وہ اس رکشے میں بیٹھ جاتا جو شہر سبزی منڈی کی طرف جا رہا ہوتا تھا۔ اس میں اور بھی لوگ ہوتے جو سبزی منڈی کی طرف جا رہے ہوتے تھے۔ منڈی سے وہ سودا خرید کرتا اور واپس چک آ جاتا۔
وہ ۳۵ سال کا تھا لیکن سب اس کو بابا غنی کہتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ دیکھنے میں ۶۰ سال کا لگتا تھا۔ اس کے سر کے سارے بال سفید ہو گئے تھے۔ جن کو اس نے لال مہندی کے خضاب سے رنگا ہوا تھا۔ اس کی مونچھوں کے بال بھی سفید ہو گئے تھے۔ ان کو بھی مہندی کے کذاب سے رنگے رہتا تھا۔ اس کے چہرے اور ہاتھوں کی جلد بھی مرجھا چکی تھی۔ وہ اسی لئے کسی کے اس کو بابا غنی کہ کر بلانے پر برا نہیں مناتا تھا۔
وہ ایسا نہیں تھا۔ وہ تو اپنے گاؤں کا سب سے کڑیل جوان تھا۔ اس کی چھاتی بہت چوڑی تھی۔ قد اس کا ۶ فٹ سے بھی زیادہ تھا۔ اس کے کندھے چوڑے تھے۔ رنگ خوب گورا تھا۔ اس کے بازو کی مچھلیاں اس کی قمیض کو پھاڑ کر باہر آنے کو لگتی محسوس ہوتی تھیں۔ وہ چلتا تو اس کے چلنے سے زمین میں جو دھمک پیدا ہوتی۔ تو لوگ سمجھ جاتے غنی جا رہا ہے۔ وہ چک کے کئی جوانوں میں کھڑا دور سے نظر آ جاتا تھا۔ آج تک کوئی کبڈی میں اس کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکا تھا۔ اور اس کی پکڑ میں جو آ جاتا وہ پھر بھاگ نہیں پاتا تھا۔
اس کی کڑیل جوانی ہی اس کو فوج میں لے جانے کا سبب بن گئی تھی۔ اسے یاد تھا کہ کیسے اس کے گاؤں میں فوج کی بھرتی والی موبائل وین آئی تھی۔ اور اس میں موجود ایک حوالدار نے اس کے قد کاٹھ کو دیکھ کر اس کو فوج میں بھرتی ہونے کو کہا تھا۔ فوج میں جانے کا اس کو بھی بہت شوق تھا۔ بچپن سے وہ بھی فوج کے شیر جوانوں کے قصے سنتا آیا تھا۔ گاؤں کے بوڑھے اس کو جب ۶۵کی جنگ کے قصہ سناتے تھے تو اس کے من میں بھی محاذ پر جا کر کافروں سے لڑنے کی خواہش طوفان بن کر مچلنے لگتی تھی۔ وہ فوج میں بھرتی ہو گیا۔ وہ پنجاب رجمنٹ کا حصہ بنا۔ اس کی پہلی پوسٹنگ فورٹ عباس کے نزدیک سرحد پر ہوئی تھی۔ وہ جن جذبوں کو لی کر فوج میں گیا تھا۔ اس پہلی پوسٹنگ پر ہی اس کو اپنے جذبے ماند پڑتے نظر آئے۔ جب اس نے اپنی یونٹ کے میجر صاحب کو سرحد پار سے شراب کی سمگلنگ کرنے والوں سے رشوت وصول کرتے اور ان کے ساتھ شراب و شباب کی محفلیں سجاتے دیکھا۔ اس کی یونٹ کے لوگ ملک میں مارشل لاء لگ جانے پر ایک کرنل صاحب کے ساتھ واپڈا میں مانٹرنگ ٹیم کے طور پر بھی کام کرنے گئے تھے۔ اس دوران اس نے اپنے کرنل کو رشوت لیتے اور ٹھیکے پاس کرنے کی قیمت وصول کرتے بھی دیکھا تھا۔
ایک مرتبہ وہ جب کشمیر میں چکوٹھی سیکٹر میں تھا تو وہاں ایک استاد سے اس کی دوستی ہو گئی۔ اس نے ۶۵کی جنگ بارے اس کو بتایا تھا کہ یہ جنگ جیتی نہیں بلکہ ہاری گئی تھی تو اس کو پہلے یقین نہ آیا۔ لیکن جب اس کو ایک ریٹائر برگیڈئر جو کے استاد کا دوست تھا نے بتایا تو بڑا حیران ہوا تھا کہ کیسے اس کے ملک میں تاریخ کچھ کی کچھ بنا دی جاتی تھی۔
اس نے دوران نوکری فوج میں طبقاتی تقسیم کو بھی بہت نزدیک سے دیکھ لیا تھا۔ افسروں کے میس سے لیکر گھر تک الگ تھے۔ اور ان کو سب کچھ ملتا تھا۔ اور وہ صرف ملٹری ڈیوٹی ہی نہیں کرتے تھے۔ بلکہ افسروں کی بیویوں اور بچوں کی چاکری کرتے تھے۔ اس نے اسی دوران سوچ لیا تھا کہ وہ اپنے بچے کو لکھا پڑھا کر افسر بنائے گا۔
وہ ریٹائر ہونے کے بعد سخت محنت کر رہا تھا۔ لیکن اس کے اندر لگتا تھا کہ ٹیزیسے کوئی شے کم ہو رہی تھی۔ وہ اپنی زندگی کو بہت بچا کر خرچ کر رہا تھا۔ لیکن لگتا تھا کہ وہ بہت تھوڑی ہے جو بچانے کے بعد بھی ختم ہوتی جاتی ہے۔ کچھ دنوں سے اس کا بایاں بازو بہت درد کرنے لگا تھا۔ کبھی کبھی کندھوں میں پیچھے کی طرف زبردست دباؤ محسوس ہوتا تھا۔ بازو سن ہو جاتا تھا۔ اس نے درد کی گولیوں کا پتہ خرید کیا اور صبیح شام دو گولیاں کھانی شروع کر دیں۔ درد کم نہ ہوا۔ تو ایک دن شہر ڈاکٹر کے پاس چلا گے۔ اس نے کوئی چار پانچ ٹسٹ لکھ کر دے دئے اور بازار کی دوائیاں بھی۔ اس نے سب کو پھاڑ کر پھینک دیں۔ گھر واپس آیا تو بیوی نے پوچھا کہ ڈاکٹر نے کیا کہا؟تو کہنے لگا "اللہ کی بندی ڈاکٹر کہتا ہے کہ تو چنگا بھلا ہے۔ معمولی سا درد ہے۔ ٹھیک ہو جائے گا۔ "یہ سن کر اس کی بیوی کہنے لگی کہ اتنے دنوں سے گولی کھا رہے ہو تو ٹھیک کیوں نا ہوا/صغرا !مجھے کچھ نہیں ہوا۔ اب تو درد بھی کم ہے۔ اس نے جھوٹ بولا۔ لا مجھے روٹی دے۔ اس کی بیوی نے اس کو کھانا دیا۔ اس نے کھانا کھایا۔ اور پھر جا کر وہ چارپائی پر لیٹ گیا۔
چارپائی پر لیتے لیتے اس کو خیال آیا کہ اس کی جوانی کو شائد گھن نہ لگتا اگر وہ سیاچن نہ جاتا۔ وہ کشمیر کے محاذ پر تھا جب اس کو کئی اور یونٹوں سے چنے فوجیوں کے ساتھ سیاچن جانے کا حکم ملا۔ وہ اور اس کے ساتھ لام ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیاچن بنی ایک چاک پوسٹ پہنچا دئے گئے۔ ہر طرف برف ہی برف تھی۔ وہ ہر طرح سے بند لباس میں ہونے کے باوجود بھی سردی کو اپنی ہڈیوں میں گھستا محسوس کرتے تھے۔ برف پوش پہاڑ نا جانے اسے کیوں لگتا تھا کہ ان کی آمد سے ناراض تھے۔ اس کو یہ گھورتے ہوئے اور ناراض ناراض سے نظر آتے تھے۔ اس کو لگتا کہ پہاڑوں کے درمیان ہر طرف بارود کی بو اور خون کی سرانڈ پھیلی ہوئی ہے۔ بعض اوقات بدبو سے اس کا سر پھٹنے لگتا تھا۔ اور وہ الٹیاں کرنے لگتا۔ اس کو اپنی جوانی جمتی ہوئی لگتی تھی۔ سیاچن میں آئے اس کو تیسرا سال تھا۔ جب اس کو چکر آنے لگے۔ سانس پھولنے لگا۔ اور اس کے سر اور مونچھوں کے بال یک دم سفید ہونے لگے۔ پھر اس کو سان چڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ٹانگوں اور ہاتھوں کی جان نکلتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ ایک روز وہ بیہوش ہو کر گر پڑا۔ ہوش میں آیا تو وہ ملٹری کے عارضی ہسپتال میں تھا۔ جہاں پر اس کا تفصیلی طبی معائنہ کرنے کے بعد اس کو سیاچن کے لئے ان فٹ قرار دے دیا گیا۔ وہ اپنی یونٹ میں واپس آ گیا۔ وہاں اس کو پھر طبی معائنہ کرانا پڑا۔ اس چیک اپ کے بعد اس کو فوج سے مکمل طور پر ریٹائر کر دیا گیا۔ جب وہ واپس اپنے چک آیا۔ تو جیسے ہی وہ بڑی سڑک سے اپنی چک کو جاتی سولنگ پر چڑھا تو راستے میں کئی اس کے چک والوں نے اس کو نہ پہچانا۔ اس کے بچپن کا دوست چھیما جب اجنبیوں کی طرح اس کے قریب سے گزرنے لگا تو اس نے بختیار اس کو آواز دے ڈالی۔ وہ اوز سن کر پلتا اور قریب آ کر جب غور سے اس کو دیکھنے لگا۔ اور اچانک چیخ کر بولا اوے یہ توں اے غنی۔ اور وہ بھی بہت حیران تھا اور دکھی بھی تھا۔ اس کو اس حال میں دیکھ کر۔ اس نے چھیمے کو بتایا تھا کہ وہی نہیں سیاچن جانے والے اکثر سپاہی اسی عذاب میں گرفتار ہو جاتے تھے۔ گھر آیا تو اس کی بیوی کافی دیر سکتے میں کھڑی رہی۔ اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ اس ا مجازی خدا ہے۔ جس کی جوانی پر سارا چک رشک کرتا تھا۔ وہ جب چک میں لوگوں کو ملنا شروع ہوا تو اکثر اس کی عمر سے بڑے لوگوں نے اس کو بابا غنی کہ کر بلانا شروع کر ڈالا۔ تو وہ سارے چک کا بابا غنی بن گیا۔ یہ سب سوچتے ہوئے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ اور وہ سو گیا۔ صبیح سویرے وہ اٹھا۔ وضو کر کے مسجد کی طرف چل دیا۔ اس کے بازو میں سخت درد تھا۔ اس نے بیوی کو بتانا مناسب نہ سمجھا کہ وہ پریشان ہو گی۔ مسجد میں جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ ایک رکعت گزر چکی تھی۔ اس نے امام کے پیچھے نیت باندھی اور کھڑا ہو گیا۔ اس کو کھڑا ہونے میں اور بازوں پیٹ کے گرد باندھنے میں سخت تکلیف ہو رہی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے نماز ادا کی۔ اور جب وہ باہر آیا تو ابھی دو تین قدم چلا ہو گا کہ اس کو محسوس ہوا کے کمر میں کندھوں کے درمیان کا درد اب آگے سینے کو توڑ کر باہر کو نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ لیکن تیز چکر آیا۔ اور سینے میں ایک شدید لہر درد کی اٹھی اور اس کی آنکھوں میں اندھیرا آیا۔ اور وہ دھڑام سے نیچے گرتا چلا گیا۔ مسجد سے نماز پڑھ کر نکلنے والوں نے اس کو گرتے دیکھا تو اس کو سنبھالنے کے لئے آگے بڑھے۔ مگر وہ گر چکا تھا۔ پاس جا کر نبض چیک کی وہاں تو کوئی جنبش نہیں تھی۔ پاس ایک گھر سے چارپائی پر اس کو ڈالا۔ اور اس کے گھر کی طرف لیکر چل پڑے۔
صغراں ابھی بس نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ وہ دروازہ پر گئی۔ پوچھا کون ہے۔
دروازے کے پیچھے سے آواز آئی۔ صغراں پتر دروازہ کھول میں ماسی بشیراں ہوں۔ صغراں نے دروازہ کھول دیا۔ ماسی بشیراں اندر داخل ہوئی اور آتے ہی سینے پر دو ہتر مار کر کہنے لگی۔ صغراں توں اجڑ گئی۔ تیرا سہاگ نہیں رہا۔ اتنے میں کچ مرد ایک چارپائی اٹھائے اندر آ گئے۔ اس پر غنی احمد لیتا ہوا تھا۔ چک کی اور عورتیں بھی صحن میں آ گئیں تھیں۔ کسی نے اس کے بیٹے کو جگایا اور کہا پتر تیرا پیو نہیں رہا۔ فوت ہونا کیا ہوتا ہے۔ یہ اس معصوم کو سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کے باپ کا سوئم ہو گیا تو اس کی ماں نے اس سے کہا کہ پتر ہن تو سکول نہی جانا۔ دوکان کھولنی ہے۔ ماسی بشیراں کے پتر کے ساتھ توں سبزی منڈی جایا کر۔ اگلی صبیح وہ منہ اندھیرے اٹھا اور چک سے سولنگ والے رستے پر چل پڑا۔ وہ چلتا ہوا سوچتا جاتا تھا کہ جن کے ابا نہیں ہوتے۔ وہ سکول نہیں جاتے۔ اور کیا اسی کو فوت ہونا کہتے ہیں۔ پیچھے گھر میں اس کی ماں کی سسکیاں ابھر رہی تھیں۔ وہ غنی کی تصویر کے سامنے کھڑی ہو کر کہہ رہی تھی کہ ذیشان کے پو مینوں معاف کریں میں تیرے پتر نوں افسر نہ بنا سکی –
٭٭٭
ماخذ: عامر حسینی کے فیس بک نوٹس سے
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
السلام علیکم ! آج بس اچانک ویسے ہی گوگول سرچ انجن پر ایک موضوع تلاش کرتے ہوئے یہ ویب سائٹ سامنے آگئی اور اس میں اپنی کہانیوں اور کچھ مضامین کی ای بک تدوین دیکھ کر یک گونہ خوشی ہوئی اور عبید عابد کا شکریہ ادا کرنا مقدم جانا ، ویسے یہ کہانیاں دو سال پہلے ایک رو میں لکھی تھیں ، اس وقت اردو کمپوز کرنے کا اسقدر تجربہ بھی نہیں تھا ، اب خاصا طاق ہوگیا ہوں ، اور اوپر اپنے ایک بلاگ کا لنک دیا ہے ،اگر آپ محسوس کریں کہ یہ ای بک شکل میں تدوین اور آپ کی ویب سائٹ کے مطابق ہے تو اسے بھی اپنی ویب سائٹ کی زینت بنالیں
والسلام
عامر حسینی