تخلیق کے نسائی رنگ
حقانی القاسمی
سائنس کی نئی تھیوری کے لحاظ سے جنس سے ذہن کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ تمام مردوں کے پاس نہ مردانہ ذہن یعنی Male Brain ہوتا ہے اور نہ ہی تمام عورتوں کے پاس فیمیل برین۔ کچھ ذہن مشترکہ نوعیت کے بھی ہوتے ہیں۔ ایک ذہن empathising ہوتا ہے جسے ای ٹائپ برین کہا جاتا ہے۔ ایک Systemising ہوتا ہے جو ایس ٹائپ برین کہلاتا ہے، ایک Balancad برین ہوتا ہے جسے بی ٹائپ کہا جاتا ہے۔ اوّل الذکر برین empathising زیادہ تر عورتوں میں ہوتا ہے اور Systemising برین مردوں میں ہوتا ہے۔
بہت سے مردوں میں Anima (زنانہ صفات) اور بہت سی عورتوں میں Animus (مردانہ صفات) پائے جاتے ہیں۔ ان صفات کی نمود ذہن اور احساس کی سطح پر ہوتی ہے۔ جسم کی سطح پر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ یونان کے مشہور مورخ ہیرو ڈوٹس نے سیتھن قوم کے بارے میں لکھا ہے کہ اس قوم کے مردوں پر نسائیت اس قدر حاوی تھی کہ وہ عورتوں جیسا لباس پہنتے تھے اور امور خانگی انجام دیتے تھے۔ کوئی قوق قبیلہ کے سارے مرد عورت نما تھے۔ الاسکا کے کادیاک جزیرے کی نیاگا قوم کے مرد نسائی طرز معاشرت اور احساس کے حامل تھے کہ عورتوں کی طرح خاوند رکھتے تھے۔ یہ لوگ اخنوتشیق کہلاتے تھے۔ ہیلوگا بالوس جیسے عورت نما مردوں (Male Feminisme) کی مثالوں سے قدیم تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ یونانیوں کے دیوتا پیکر حسن و جمال اپولو میں زنانہ، مردانہ دونوں خوبیاں تھیں۔ یونانیوں کا صنم اکبر زیوس مرد بھی ہے، عورت بھی۔ اس طرح مصر کی ملکہ ہتشپ مردانہ لباس پہنتی تھی اور مصنوعی داڑھی لگاتی تھی۔ لیڈس، میری اینڈرسن اور سیکڑوں عورتیں تا حیات مرد بن کر زندگی گزارتی رہیں۔ پس ثابت ہوا کہ مرد اور عورت بھی ایک ذہنی کیفیت سے عبارت ہے۔ جسمانی ساخت عورت اور مرد کی صنفی شناخت کا محض ایک مظہر ہے اور اب تو میڈیکل سائنس کی تحقیق یہ ہے کہ عورتوں کی Clitorisمردوں کے Miniature Penis کے مشابہ ہے اور مردوں کا Penis عورتوں کے Large Clitoris کی طرح ہے اور اس کا ادراک جنسی تحرک و اہتزاز اور آرگزم تک پہنچنے کے دوران ہوتا ہے۔
خالد سہیل کی کہانی ’’ہم زاد‘‘ مرد عورت کی جسمانی تقطیب کو مسترد کرتی ہوئی کیفیت اور صورتِ حال کی غماز ہے۔ اردھ ناریشور پر مبنی اس طرح کی درجنوں کہانیاں لکھی جا چکی ہیں :
’’میں نے آپ کو صاف صاف بتا دیا کہ میں ایک عورت ہوں لیکن مرد کے جسم میں قید ہوں۔ میرے اندر کی عورت باہر آنا چاہتی ہے۔ وہ کھلی فضا میں سانس لینا چاہتی ہے۔ وہ آزاد ہونا چاہتی ہے، لیکن میرا جسم وہ قید ہے، وہ کوٹھری ہے، وہ قبر ہے جس نے اسے زندہ درگور کر رکھا ہے۔ ‘‘
آپ نے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ انسان کی جنسی زندگی بہت پیچیدہ ہوتی ہے اور بہت سے مراحل سے گزرتی ہے۔ اگر کوئی شخص چند بنیادی باتوں سے واقف نہ ہو تو وہ جنسی زندگی کی نشو و نما کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ پھر آپ نے اس ارتقاء کے مختلف مدارج کی تشریح کی تھی۔
’’آپ نے سمجھایا تھا کہ کسی بچے کا لڑکا ہونا اس کی جینز (Genes) پر منحصر ہوتا ہے جو اس کے کر دموسومز (Chromosomes) کا حصہ ہوتی ہیں۔ عورتوں میں دو ایکس (XX) اور مردوں میں ایک ایکس اور ایک وائی (XY) کروموسومز ہوتے ہیں۔ اس پہلے مرحلے پر ہم اسے (Genetic Sex) کہتے ہیں۔ ‘‘
دوسرا مرحلہ بچوں کے جنسی اعضا کی نشو و نما کا ہوتا ہے جسے ہم (Anatomic Sex) کہتے ہیں۔ لڑکیوں میں Ovarles اور Uterus اور لڑکوں میں (Penis اور Testicles) تشکیل پاتے ہیں۔ اس دن مجھے بھی پہلی دفعہ پتہ چلتا کہ سب (Fetus) بنیادی طور پر مادہ لاتے ہیں لیکن وہ (Fetus) جو (Y) کروموسومز سے متاثر ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ نر کا روپ دھار لیتے ہیں اور لڑکے بن کر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اس تبدیلی میں نقص رہ جائے تو پھر Hermaphroonte جنم لیتے ہیں جن میں نر و مادہ آپس میں خلط ملط ہو جاتے ہیں۔ شاید انہی لوگوں کو لوگ ہجڑا کہہ کر بلاتے ہیں۔
تیسرے مرحلے سے بچہ تین اور پانچ سال کی عمر کے دوران گزرتا ہے۔ اس وقت بچے کو یہ شعور ہونے لگتا ہے کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی اور اس کی عادات و اطوار اس کے شوق، پسند و ناپسند میں اس کا عکس نظر آنے لگتا ہے۔ وہ یہ موڑ ہوتا ہے جہاں سے مردانگی اور نسوانیت کا احساس شروع ہو جاتا ہے۔ یہ شناخت کا مرحلہ (Gender Identity) کہلاتا ہے اور یہی شناخت کا مرحلہ تھا جو میرے مسائل کی بنیاد تھا۔ اگر کسی انسان کا جسم لڑکوں کا ہو اور وہ لڑکی محسوس کرے یا جسم لڑکی کا ہو اور وہ خود لڑکا محسوس کرے تو ہم اسے Transexual کہتے ہیں۔ ‘‘
’’تقریباً دو ہفتے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک فنکار ایک بت بنا رہا ہے۔ وہ مرد کا بت ہے لیکن اس کے مداح ایک عورت کا بت چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ بت کا Penis ہتھوڑے کی ضربوں سے توڑ دیتا ہے اور اس کی جگہ بت کے پستان بنا دیتا ہے اور ایک خوبصورت مجسمہ تیار کر دیتا ہے۔
مجھے امید ہے کہ آپ میرے ان پریشان خیالات کو کہیں محفوظ کر لیں گی۔ لیکن جانے سے پہلے میں اپنی آخری خواہش، آخری آرزو، آخری تمنا یا یوں کہیں کہ آخری وصیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرنے کے بعد مجھے اس ننھے فرشتے کے پہلو میں دفن کیا جائے اور میری قبر پر ایک کتبہ آویزاں ہو۔ جس پر جلی حروف میں لکھا جائے۔ ’اس جگہ ایک ایسی عورت دفن ہے جسے ساری عمر لوگ مرد سمجھتے رہے۔ ‘‘
(ہم زاد۔۔۔ خالد سہیل)
ورجینیا وولف نے ادب اور آرٹ میں مردانہ اور نسوانی ذہن کی تفریق کو بے معنی قرار دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ذہن یا احساس کی سطح پر مرد اور عورت کے مابین اشتراک اور افتراق کا تعلق شعور، لاشعور اور تخیل سے ہے۔ جینیاتی تفریق سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ایک عورت کا ذہن شعوری طور پر زیادہ متحرک ہے اور سخت ترین حقائق سے روبرو ہونے کی قوت رکھتا ہے تو اُس کا مطلب ہے کہ اس کے ذہن کا میل پارٹ زیادہ کارگر ہے اور اِسی طرح مردانہ ذہن پر لاشعوری احساسات اور جذبات کا غلبہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے ذہن کا Femaleness زیادہ فعال ہے۔ اور دیکھا جائے تو اس تفریق کو اربابِ دانش نے بھی مسترد کر دیا ہے۔ اربابِ تصوف اور اہل بینش نے رابعہ بصری کو مرد قرار دیا ہے کہ اہل وحدت اور ارباب محبت کے یہاں مرد، عورت کا کوئی علیحدہ وجود نہیں ہے۔ وہاں مسئلہ صرف طالب المولیٰ مذکر کا ہوتا ہے۔ حضرت جامی نے رابعہ کو مکمل مرد کہا تھا اور اِس بات کی وضاحت کی تھی کہ سورج کے لیے صیغہ تانیث نہ باعث شرم ہے اور نہ چاند کے لیے صیغۂ تذکیر باعث افتخار۔ پس ثابت ہوا کہ تذکیر و تانیث کی تقسیم جاگیردارانہ بورژوائی، اقتداری ذہن کی ایجاد ہے۔ اِس کا نظامِ فطرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عورت مرد کے درمیان تفریق صرف جینیاتی سطح پر ہو سکتی ہے، ذہنی سطح پر یہ تقسیم لایعنی ہے۔
پھر بھی مروجہ تصور کے مطابق نسائی احساس کی کئی سطحیں ہیں۔ ایک کالی کے روپ میں ہے تو دوسری اناپورنا کا روپ ہے۔ ایک سوچ کی وہی سطح ہے جو پروین شاکر یا شفیق فاطمہ شعری کی ہے جو پُرش اور پراکرتی کے ملن کو نقطۂ تکمیل سمجھتی ہے۔ مرد عورت کے مکمل وصال سے درجۂ کمال تک پہنچنے پر یقین رکھتی ہے۔ یہ گندھاری اور انسویا کا روپ ہے اور ایک سطح وہ ہے جو بعض فیمنزم کی علمبردار خواتین کی تخلیقات میں نظر آتی ہے جو مرد کو عورت کی ضد کے طور پر دیکھتی ہے۔ سوزاں اسٹن فرڈ کے مطابق عورت dual consciousness کی ہوتی ہے اور Elaine Showalter کے مطابق Feminine نے Angle of the House کا رول قبول کر لیا ہے۔ Female Self-assertiveness کو نکارنا ہی Feminineہے۔ یہاں فیمینائن اور فیمینزم کی مختلف صورتوں کے حوالے سے نسائی تخلیقات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
کرشنا سوبتی نے ’ہم حشمت‘ میں اردھ ناریشور کے تصور پر مبنی جو کچھ لکھا ہے وہ بھی اِسی حقیقت کا اظہار ہے کہ عورت اور مرد کی ذہنی اور جذباتی تقسیم بہتر نہیں ہے۔ کرشنا سوبتی کا اپنا الگ طرزِ تحریر اور فکری نظام ہے۔ انہوں نے عورتوں کی داخلی دنیا کے درد و کرب اور کشمکش کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ عورت اور مرد کی نفسیات اور ان دونوں کے مابین بنتے بگڑتے نازک رشتوں کی کہانیاں جادوئی اسلوب میں لکھی ہیں کہ پڑھنے والا ان میں کھو سا جاتا ہے، قاری خود کو عجیب سی طلسماتی دنیا میں قید سا محسوس کرتا ہے اور پھر جب آنکھ کھلتی ہے تو وہ ایک نئی فکر اور تازہ سوچ لے کر باہر آتا ہے۔
کرشنا سوبتی نے سلگتی ہوئی ان عورتوں کی کہانیاں لکھی ہیں اور عورت کے ہر درد و کرب کو اپنے اظہار کا پر اثر پیرہن عطا کیا ہے۔ ان کے ناول اور افسانوی مجموعے ’’زندگی نامہ‘‘ تقسیم ملک کے کولاژ پر مبنی ہے۔ اس ناول پر ۱۹۸۰ء میں انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔
’’مترومرجانی‘‘ توان کا بہت ہی مشہور ناول ہے جس میں نسائی جنسیت کا خوبصورت بیان ہے۔ ایک اَن پڑھ دیہاتی عورت کی کہانی جو اپنے نامرد شوہر اور طوائف کے پیشے کے درمیان اپنے شوہر کا انتخاب کرتی ہے اور اس طرح وہ خاندانی نظام سے جڑ جاتی ہے اور اپنے جنسی جذبات کو کچل دیتی ہے اور اپنے جنسی تشنگی کا اظہار اپنی جٹھانی سے یوں کرتی ہے ’’دیور تمہارا میرا روگ نہیں پہچانتا… بہت ہوا ہفتے… پکھواڑے… اور میری اس دیہہ میں اتنی پیاس ہے، اتنی پیاس ہے کہ مچھلی سی تڑپتی ہوں۔ ‘‘ اور ناول ’’دل و دانش‘‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اپنے تشخص کے لیے بغاوت پر آمادہ ہو جاتی ہے اور بالآخر اسے حاصل کر کے ہی دم لیتی ہے۔ ’’دل و دانش‘‘ میں جو کہانی ہے وہ چاندنی چوک دہلی کی ایک حویلی کے اردگرد گھومتی ہے۔ اس کا مرکزی کردار مہک بانو ہے جو ایک وکیل کرپا e٭نارائن کی داشتہ اور رکھیل ہے۔ وکیل صاحب کی زندگی ان کی بیوی اور مہک بانو کے دو پاٹوں کے بیچ الجھی ہوئی ہے کیونکہ وکیل کی بیوی کسی بھی طور پر اس داشتہ کو قبول نہیں کرتی اور جب مہک بانو اپنی بیٹی معصومہ کی شادی کرانا چاہتی ہے تو وکیل صاحب کہتے ہیں کہ اس کی شادی اس شرط پر ہو گی کہ وہ اسے اپنی گود لی ہوئی بیٹی کی حیثیت سے شادی کرائیں گے اور اس کی ماں کبھی اس کے پاس نہیں جائے گی۔ وہیں سے وکیل اور مہک بانو کے درمیان تعلقات میں دراڑیں آتی ہیں۔ بالآخر یہ بغاوت میں بدل جاتی ہے۔ وہ دوسرے وکیل کے در پہ دستک دیتی ہے جہاں اسے انور علی خاں ملتے ہیں ، مقدمہ چلتا ہے اور وکیل صاحب کے پاس مہک بانو کے جو زیورات ہوتے ہیں وہ اسے مل جاتے ہیں اور پھر معصومہ کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنی بچی کو نیک خواہشات پیش کرنے کے لیے پہنچ جاتی ہے۔ یہیں سے کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے اور قارئین کے ذہنوں میں تجسس کی ایک نئی دنیا بساتی ہے۔
اس میں کرشنا سوبتی نے اردو فارسی ملی جلی ہوئی خوبصورت زبان استعمال کی ہے۔ اور داشتاؤں کی زندگی پہ انتہائی خوب صورت انداز میں روشنی ڈالی ہے کہ آخر ان داشتاؤں کا کیا قصور ہے، انہیں کوئی سماجی حیثیت کیوں حاصل نہیں ہے۔ مرد اسے اپنی عیاشی کے لیے کیوں استعمال کرتا ہے اور عورت کو ایک بازاری چیز کیوں سمجھتا ہے۔ مرد حاوی سماج کی اس تاریکی کے خلاف یہ دراصل زبردست جنگ ہے۔
کرشنا سوبتی نے سماج کے ٹوٹے بکھرے رشتوں اور حساس مسائل پر انتہائی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں اور ہر کہانی ایک نیا ذائقہ اور لطف دیتی ہے اور ضمیر کو جھنجھوڑتی بھی ہے۔
ان کے برخلاف ترنم ریاض ایک sweet temper افسانہ نگار ہیں۔ اُن کی کہانیوں میں صوفیانہ لَے اور سرمستی ہے۔ تصوف کا ایک طیف ہے جو ان کے تخیل پر محیط ہے۔ رابعہ عدویہ بصری کی طرح ان کی کہانیوں میں پاکیزگی، عطوفت، امومت اور ممتا ہے۔ وہ عورت اور مرد کے خانے میں تقسیم ہو کر کہانیاں نہیں لکھتیں بلکہ اُن کی کہانیاں فرد کائنات کی کہانی ہوتی ہے جس کے جذباتی ارتعاشات کو ہم ان کی کہانیوں میں محسوس کر سکتے ہیں۔ ترنم ریاض عالمی حالات و واقعات سے مکمل طور سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی کائنات اور حیات کے مسائل کو انسانی نظر سے دیکھتی ہیں۔ اپنے مقدمے میں وہ لکھتی ہیں :
’’نئی صدی میں داخل ہوتے ہوئے اور عالمی گاؤں (Global Village) کی جاندار شے ہوتے ہوئے بھی میری اپنی اندر کی ایک دنیا ہے۔ میں تخلیقی عمل کو شاعری موسیقی یا آرٹ تک ہی محصور نہیں دیکھ سکتی۔ مجھے احساس ہے کہ تیکنالوجی کی بادشاہت قائم کرنے والا بل گیٹس بھی ایک تخلیق کار ہے جس کی پھیلتی ہوئی سلطنت نے دنیا کے ہر قلم کار کے تخلیقی عمل کو متاثر کیا ہے۔ میری نظر میں نام چومسکی بھی ایک بہت بڑا تخلیق کار ہے کہ اُس کی تحریریں امریکی سیاسی اور معاشی نظام کے بخیے اُدھیڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ ایک امریکی شہری ہونے کے با وصف امریکی سماج پر اُس کی طنزیہ تحریریں کسی فن پارے سے کم نہیں ہیں۔ ولیم سمرسٹ ماہم ایڈگرایلن پو اور آلودس ہاکسلے سے اُس کے موضوعات کہیں زیادہ وسیع ہیں۔ چیخوف، موپاساں اور ترگینف ایک مخصوص دور کی پیداوار ہیں۔ اُن کا مقام اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ لیکن سول زی نیژن کی کینسر وارڈ ایک ایسا شاہکار ہے جو ایک زوال پذیر معاشرے کی عکاسی اس طرح کرتا ہے کہ اِس کی تعبیر کچھ دہائیوں کے بعد ایک عظیم سلطنت سوویت یونین کے ٹوٹ کر بکھر جانے میں نظر آتی ہے۔ میری نظر میں ایلوِن ٹافلر کا مقام تخلیق کاروں کی اوّلین فہرست میں شامل ہونا چاہیے۔ گو کہ اُس نے رسمی طور پر ایک بھی کہانی نہیں لکھی، لیکن نظامِ تعلیم سے لے کر جنگی نظام تک ہر موضوع پر تحریریں قلم بند کی ہیں۔ یہ عظیم فنکار بھی میری زیرِ نظر رہتے ہیں۔ میرے قلم میں وسعت بخشتے رہتے ہیں۔ ‘‘
اُن کے یہاں جوشش باراں نہیں ہے اور نہ ہی تمرد و طغیانی و آشفتہ جولانی بلکہ تحمل، تدبر اور تفکر ہے۔ اُن کا ردِّ عمل کسی بھی سطح پر ہیجانی یا جذباتی نہیں ہوتا بلکہ نہایت مثبت ہوتا ہے۔ وہ عورت مرد کے تعلقات اور دونوں کے مابین رشتوں کے رموز سے واقف ہیں اور اپنے متعینہ حدود و حریم میں رہ کر مسائل پر غور و فکر کرتی ہیں۔ درد و کرب کے باوجود آتش فشاں نہیں بنتیں بلکہ نہایت قرینے اور خوش سلیقگی کے ساتھ اپنے غم و غصے، خفگی، برہمی کا اظہار کرتی ہیں۔ اُن کی تخلیق سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ ایسی عورت کی ہے جس کے ایک ہاتھ میں مشعل اور دوسرے ہاتھ میں پانی سے لبالب پیالہ ہے۔ اُن کی کہانیوں میں خدا کی رحیمی کے اسرار نظر آتے ہیں۔ ان کی کہانی آہستہ رو آب اور سبک خرام پانی کی طرح استقامت کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ کہانی میں نہ کوئی شور و غوغا ہے، نہ مصنوعی فضا آفرینی۔ فطری فضا میں اُن کی کہانی اتمام کی منزل تک پہنچتی ہے۔ کہانی میں اپنا فلسفہ، اپنا ادراک، اپنا وژن نہیں بگھارتیں۔
ترنم ریاض کی کچھ کہانیوں میں مردانہ جبر کے خلاف ہلکی سی آہٹ تو ملتی ہے مگر وفاداری بشرط استواری کی فضا قائم و دائم رہتی ہے۔ ان کا یہ غصہ مرد کو ’متغائر‘ سمجھ کر نہیں بلکہ اپنی ذات اور حیات کا ایک حصہ مان کر ہی ظاہر ہوتا ہے اور برہمی کی یہ کیفیت مرد سے متعلق نہیں ہے بلکہ مسائل سے متعلق ہے اور یہ مسائل پوری کائنات کے مشترک ہوتے ہیں اور یہ عورت اور مرد دونوں کے پیدا کر دہ ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعہ ’یہ تنگ زمین‘ کا فکری افق نہایت وسیع ہے تو ’’ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘‘ میں ان کا تخلیقی فن ایک قدم اور آگے بڑھا ہے۔ کہانی کتاب کا عنوان ہی ان کی تخلیقی فکر کو پوری طرح ظاہر کرتا ہے اور یہ نسائی احساس کا اشاریہ بھی ہے۔ انہدام کسی وجود کا ہویا عمارت کا یا تہذیب کا، تشخص کا، جب انہدامی قوتیں حد سے آگے بڑھ جاتی ہیں اور ظلم کا دائرہ پھیل جاتا ہے تو غیبی قوتیں خودبخود نمودار ہوتی ہیں۔ ترنم ریاض کے اس عنوان میں جو رمز اور تہہ داری ہے، وہی ان کی تخلیقی فکر کا نشان بھی ہے۔ گویا ترنم ریاض منتظر فردا ہیں اور صابر و شاکر خموشی کی زبان بن کر غیبی نصرت کی امید لگائے بیٹھی ہیں۔ یہ عنوان اُن کے Sensitivity of mind کو مکمل طور سے ظاہر کرتا ہے۔ تمام کہانیاں بشمول عنوان کتاب ان کے Femaleness of mind کا اشاریہ ہیں اور اُن کی نسائی حسیت اور ادراک کا اظہارنامہ بھی۔
ترنم ریاض کے برعکس شہناز شورو phallo-centric سوسائٹی کے مکمل طور پر خلاف ہیں۔ اُن کے افسانوی مجموعہ ’’لوگ، لفظ اور انا‘‘ میں مزاحمتی رویہ مکمل طور سے روشن ہے۔ اس میں جو تپش اور تمازت ہے، وہ ہر حسّاس قاری محسوس کر سکتا ہے۔ ان کا بنیادی مسئلہ عورت ہے۔ وہ عورت جو یہ کہتی ہے کہ you had killed my smile۔ دراصل عورت کی اسی مسکان کی واپسی کا ایک تخلیقی اظہاریہ ہے یہ افسانوی مجموعہ۔ اس میں شہناز نے بلند ہمتی اور بلند حوصلگی کے ساتھ درد کی ڈور سے بندھی ہوئی عورتوں اور آنسوؤں کے حجاب میں لپٹی ہوئی خواتین کے داخلی اور خارجی منظر نامے کو اجاگر کیا ہے۔ ہر ایک افسانہ ایک پرشن اٹھاتا اور احتجاج کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ شہناز کے افسانے پڑھ کر شہر زاد کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ وہ شہر زاد جو کہانی کہنا جانتی تھی اور کہانی کی پُراسراریت سے آگاہ بھی تھی۔ ایک فلسفیانہ ٹچ دے کر شہناز نے ان افسانوں کی شدت کو اور بڑھا دیا ہے۔ خود کلامی، بے ترتیبی اور انتشاری داخلی کیفیات کو خوبصورت اظہاری جمالیات سے سجایا ہے۔ ایک اقتباس دیکھئے:
’’مجھے معلوم ہوا کہ تم نے پھر Abortion کروا لیا ہے۔ تم… تم کیا چاہتی ہو آخر میں بپھر گیا۔
بچے کیوں نہیں چاہتیں تم۔ میں چاہتا ہوں اپنا شناخت…
شناخت کا لفظ زہر بن گیا ہے تمہارے ہونٹوں پر…
’’تم شناخت نہیں ملکیت چاہتے ہو۔ جسے تم اپنی مرضی سے خرید و فروخت کر سکو۔ حکم چلا سکو۔ حکم عدولی کی سزا دے سکو اور اپنے ماضی کو ان میں زندہ دیکھو… اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ‘‘
’’تم نہیں جانتیں اولاد کیا ہوتی ہے۔ کتنا سرور ہوتا ہے اس لفظ میں …‘‘
’’میں جانتی ہوں … سب جانتی ہوں … کتنا سرور ہوتا ہے۔ بس اولاد پیدا کرنے سے غرض ہوتی ہے۔ جانور ہو تم سب لوگ اپنی جسمانی عیاشی میں یہ نہیں سمجھتے کہ آنے والے کا کیا ہو گا۔ کیا دیکھے گا وہ، کیا بھگتے گا وہ۔
تم اولاد نہیں پیدا کرنا چاہتے۔ جسمانی لذت برتنا چاہتے ہو۔ اگر اولاد کو وجود میں لانے کا Procedure اتنا ولولہ انگیز نہ ہو، اشتہا مر جائے تو میں دیکھتی ہوں کہ کتنی اولادیں پیدا ہوتی ہیں … تم میں سے کسی کو اولاد کی ضرورت نہیں۔ یہ صرف بڑھاپے کے خوف کی وجہ سے اولاد۔ اولاد کی مالا جپی جاتی ہے۔ ‘‘
ذکر اساس معاشرہ اور مرد حاوی سوچ کے خلاف شہناز کا مزاحمتی رویہ، ان کی بہت ساری کہانیوں میں نظر آتا ہے۔ ’الیوژن‘ ایک ایسی ہی کہانی ہے جس سے مرد اور عورت کے رشتوں کے حوالے سے اس سچویشن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ اقتباس دیکھئے:
’’عورت ہر دور میں غلام نہیں رہی ہے۔ قدیم تواریخ کا مطالعہ کرو گے تو معلوم ہو گا کہ عورت حکمراں رہی ہے۔ مادری سماج میں عورت کے نام سے اولاد پہچانی جاتی تھی۔ وہ سربراہ ہوا کرتی تھی۔ یہ تو بدلتے ڈھلتے سماج اور معاشرے نے اپنی حالت تبدیل کی تو پھر مرد کو عورت پر بالا دستی حاصل ہو گئی۔ کیا تم وہ دور پسند کرتی ہو جہاں عورت تو بالا دست ہے مگر نہ تو اس کی شناخت ہے نہ اہمیت… نہ اسے معلوم ہے کہ اس کی کوکھ سے پیدا ہونے والے بچے کا باپ کون ہے… وہ مختلف مردوں کے ساتھ ہمبستری کیا کرتی تھی۔ کیا آزادی اور برتری اسی کا نام ہے؟
عورت تعجب زدہ ہو کر بولی۔
اس دور میں بچے کی ماں اہم تھی، باپ نہیں ، آج عورت زیردست ہے اور اسکی کوئی شناخت، کوئی اہمیت اور کوئی حیثیت نہیں ہے… تو پھر وہی دور کیوں نہ ہو؟ اور کیا اب بھی ایک عورت کو دس دس مرد ہمبستری کے لیے نہیں رکھتے؟ کم از کم قدیم دور میں وہ اپنی مرضی سے تو وقت مقرر کر سکتی تھی کہ کتنی راتیں ہیں اور کتنے مرد… اور آج جبر کا یہ حال ہے کہ ایک رات میں اس کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے پھر یا قبر اس کا مقدر بنتی ہے یا پھر معاشرے کے الاؤ میں ایندھن بن کر جینا پڑتا ہے۔
کیا میرا چاہنا اور میرا نہ چاہنا۔ مگر جو یہ ترازو کے دونوں پلڑے ہیں ، ایک دوسرے سے اس قدر شاکی ہیں کہ ایک آسمان پر تو دوسرا پاتال میں۔ اس میں Balance کی قدر تو قائم ہونا۔ اگر Chastity کی اہمیت اتنی زیادہ ہے تو مرد کے لیے دوہرا معیار کیوں ہے۔ اسے بھی کنوارے پن سے محروم ہونے کی پاداش میں عورت Reject کیوں نہیں کرتی۔ مرد ہی چھینے مرد ہی دھتکارے۔ مرد ہی لذت سمیٹے، مرد ہی گناہ گار ہونے کی مہر لگائے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے بھلا!
یہاں سارا مسئلہ عورت کی شناخت اور اس کے حقوق کا ہے۔
ڈاکٹر فہیم اعظمی نے ابتدائیے میں شہناز شورو کے افسانوی فن اور فکری افق کے حوالے سے کافی اچھی بحث کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ’’شہناز شورو کی بیشتر کہانیاں ہمارے سماج میں عورتوں کے استحصال، عورتوں کے جذبات و محسوسات سے صرف نظر کرنے کے رویے، ان کے ذہن کو ناقص اور ان کی حیثیت کو مرد کی کنیز کے طور پر متعین کرنے کی روایت کے خلاف احتجاج معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ان کی تمام کہانیوں میں مرد اور عورت کے حیاتیاتی رشتوں کو تسلیم کیا گیا ہے… شہناز شورو کی کئی کہانیوں میں تمثیلی انداز اور شعوری رو اکثر نظر آتی ہے جو ان کہانیوں میں تخیل اور فکر کے عناصر کی نشان دہی کرتی ہے۔ ‘‘ شہناز شورو نے اپنے فن کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ افسانے میری داخلی بھول بھلیوں میں الجھنے کھوجنے اور رستہ نہ ملنے کی خلش، تڑپ اور بے بسی کا احساس ہیں۔ خوش آئند بات یہی ہے کہ میں اپنے ذہنی ارتقاء سے مایوس نہیں ہوں۔ میں اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتی ہوں تو اپنی ہی سوچ پر ہنستی ہوں اور یہی ہنسی میرے ارتقاء کا احساس ہے۔
پاکستان کا نسائی تخلیقی ذہن کافی زرخیز رہا ہے۔ حجاب امتیاز علی، الطاف فاطمہ، بانو قدسیہ، خدیجہ مستور، رضیہ فصیح احمد، جمیلہ ہاشمی، ہاجرہ مسرور، فرخندہ لودھی، زاہدہ حنا، خالدہ حسین، عذرا اصغر، بشری رحمن، شکیلہ رفیق، نیلوفر اقبال، عطیہ سید، نیلم احمد بشیر، فردوس حیدر یہ ایسے نام ہیں جنہوں نے اردو فکشن کو نئے امکانات سے آشنا کیا اور افسانوی افق کو وسعت عطا کی۔ شہناز اسی سلسلے کا ایک نمایاں نام ہے۔
شہناز شورو کی کہانیاں واقعتاً ایسی ہوتی ہیں جنہیں پڑھ کر آدھی دنیا آنچل کے بجائے پرچم اٹھا سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانے کے ذریعے خاموش زبانوں کو گویائی عطا کی ہے۔ شبنم کو شعلہ اور آنسو کو انگاروں کو بدل دیا ہے۔ جلبابی ادب کی بھیڑ میں یہ ایک موثر آواز ہے جو صرف جزیرۂ نسواں کو نہیں بلکہ منطقۂ مرداں کو بھی متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
مزاحمتی تیور کی ایسی ہی کہانیاں فہمیدہ ریاض، عذرا عباس، زاہدہ حنا، فاطمہ حسن کے یہاں ملتی ہیں۔ زاہدہ حنا کی کہانی ’’زمین آگ کی، آسماں آگ کا‘‘ مشہور زمانہ شاہ بانو کیس سے متعلق ہے جس میں نسائی مظلومیت Subjugation of women اور اس کے رد عمل کا نہایت جذباتی مگر منطقی، معروضی بیان ہے۔ فہمیدہ ریاض کی ’پرسنل اکاؤنٹ‘ میں بھی فیمنزم کی مضبوط آواز گونجتی محسوس ہوتی ہے۔ اُن کی کئی کہانیاں اپنی تمام تر شدتوں کے ساتھ نسائی مسائل و متعلقات کے اِردگرد گھومتی ہیں۔ عذرا عباس کی ’’نیند میں ڈر‘‘ اور ’’کھڑکی کے اندر کا منظر‘‘ اسی نوع کی مزاحمتی کہانیاں ہیں۔ فاطمہ حسن کا ’’چھتیس نمبر‘‘ مختصر ہوتے ہوئے بھی معنی خیز ہے۔
شہناز شورو کی کہانیوں میں مزاحمتی رنگ ہے تو نجمہ محمود کی کہانیوں میں اصلاحی رنگ نمایاں ہے۔ اُن کی کہانیاں میر، غالب، اقبال، ٹیگور، خلیل جبران، شیکسپیر اور رومی کی ذہنی اور فکری بازیافت ہیں اور یہ افسانے ایسے ہیں کہ گم اس میں ہیں آفاق… یہ کہانیاں حکایات لقمان، منطق الطیر اور طوطی نامہ کے سلسلے کی توسیع ہیں جن کے مقاصد اصلاحی تھے۔
یہ کہانیاں دراصل مجمع البحار ہیں ، کئی عظیم دریاؤں کا سنگم۔ ان میں مذہب، نفسیات، فلسفہ، تصوف کا زبردست منتھن ہے۔ اتنا زبردست کہ ایک کا سرا ہاتھ لگتا ہے تو دوسرے کا سرا چھوٹ جاتا ہے۔ یہ کہانیاں زندگی کے متنوع مظاہر کی تفسیر و تعبیر ہیں۔ ’پانی اور چٹان‘ کی زیادہ تر کہانیاں بقول مصنفہ تشکیل معاشرہ اور اصلاحِ سماج کے لیے لکھی گئی ہیں۔ مگر جملۂ معترضہ کے طور پر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جو کہانیاں تشکیل معاشرہ کے لیے لکھی جاتی ہیں ، وہ اکثر فنی اور فکری اعتبار سے لاتشکیلی ہو جاتی ہیں۔ ان کی کہانیوں کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں اس قدر فطرت ہے اور فطرت سے اتنی وابستگی کہ ان کے افسانوں پر ورڈس ورتھ کی شاعری کا گماں گزرتا ہے۔ فطرت کی طرف مراجعت اور ذہنی و فکری اعتکاف کا منظر ان کے کئی افسانوں میں نمایاں ہے۔ مثلاً:
’’فطرت میں کتنے اسرار پوشیدہ ہیں ، کیسی گہرائیاں ہیں پانی کی لہروں کے نیچے۔ زمین پر بسنے والے انسانوں میں جن کے مختلف رنگ روپ ہیں۔ لہریں ابھرتی ہیں ، ڈوبتی ہیں … اور سمندر کا حصہ بن جاتی ہیں ، انسان جنم لیتے ہیں مرتے ہیں لیکن زندگی چلتی رہتی ہے… رواں رہتی ہے۔ آج اسے فطرت کے مکمل حسن کا ادراک ہوا تھا۔
اس کے سامنے تھیں دریا کی لہریں … سامنے رنگ بدلتا آسمان، زمین پر سبزے کا جادو۔۔۔ اور تصور میں ایک انسان کا پیکر اور کانوں میں گونجتے ہوئے یہ الفاظ۔۔۔
’’بس اتنا ہی کاپھی ہے بہن جی…بس بس اتنا ہی کاپھی ہے۔ ‘‘ اور کھڑکی کے اس پار کھجور کے درختوں کا بکھرتے پانیوں پر پڑتا ہوا عکس جادو جگا رہا تھا۔
اُسے محسوس ہوا جیسے وہ ایک لہر ہے اور سمندری کائنات کا ایک حصہ ہے۔ لہر لہر سمندر!‘‘
اسی طرح ’پانی اور چٹان‘ ان کی فطرت سے گہری وابستگی اور ذہنی اور فکری شناخت کا اشاریہ ہے۔ یہ اقتباس دیکھئے:
’’پکے صحن کو پار کرتی وہ ذرا نشیب میں واقع کچے صحن کی طرف بڑھی جو خاصا وسیع تھا جس میں پھلوں اور پھولوں کے درخت تھے… اور پھر اس کا پسندیدہ کنج… گلاب اور بیلے کی کیاریاں۔ بیلے کی بھینی بھینی، بے خود کرنے والی مہک کو خود میں اتارا۔ گلاب کا ایک پھول توڑ ذراءا مقا اس کی نرمی کو محسوس کیا۔ گہری گہری سانسیں لے کر تازی ہوا کو اپنی رگوں میں سرایت کیا۔ ایک لطیف مسکراہٹ اس کے لبوں پر آئی… اور پورا وجود ایک عارفانہ جذبے سے سرشار ہو گیا… اور … صبح کو خوش آمدید کہتی ہوئی چڑیوں کا گیت فضا میں بکھر رہا تھا۔ پو پھٹ چکی تھی… دور مشرق میں سورج کی پہلی کرن نمودار ہو رہی تھی!
کاش میں تا عمر تنہا رہ سکتی۔ اس نے انتہائی شدت سے سوچا۔ تنہائی کی برکتیں لامحدود۔ ایک میں اَنیک ’’ہم یکے باشند ہم شش صد ہزار‘‘ وہ ساری عمر تنہا ہی رہے گی۔ اس نے فیصلہ کیا۔ اشوک کے با وقار درختو! گواہ رہنا۔
وہ اپنے کمرے میں واپس آ گئی… اس کی نظر دیوار پر لگی پینٹنگ پر گئی… تنہا چٹان اور پاس ہی لہریں مارتا پانی اور اس پانی پر بہتی کشتی!
کوئل اپنا نغمہ فضا میں بکھیر رہی تھی!
فطرت کے علاوہ ذات کے گمشدہ حصوں کی دریافت اور اپنے جڑوں کی تلاش کا عمل بھی ان افسانوں میں نمایاں ہے۔ انہوں نے زوال پذیر انسانی معاشرے کی کہانی اور اخلاقی انحطاط کا فسانہ بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نجمہ محمود کو مرد معاشرے کی جڑوں میں کثافت نظر آئی ہے اور بعض کہانیوں میں وہ اسی کثافت کے خلاف آمادہ جنگ ہیں ، اور اس طہارت کی بازیافت کرنا چاہتی ہیں جو طہارت حضرت رابعہ بصری کو میسر تھی:
’’تجرد کی زندگی تو سب سے اچھی زندگی کہی گئی ہے۔ لیکن شاہینہ بیگم تم رابعہ بصری نہیں ہو، انتہائی معمولی متنفس ہو۔ وہ پہنچی ہوئی خاتون تھیں لیکن… سر سید نے تو کہا تھا۔ ’’انجمن خاتونان پنجاب‘‘ کے جلسے میں کہ تم میں ہزاروں رابعہ بصری موجود ہیں۔ لیکن شادی کے بغیر یہ دنیا والے کیا زندہ رہنے دیں گے ذرا لڑکی بڑی ہوئی فوراً انگلیاں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ابھی تک شادی کیوں نہیں ہوئی اور المیہ ہے کہ اگر شادی کے بعد کچھ ہی عرصہ میں وہ کمسن لڑکی اتفاق سے بیوہ ہو گئی تو پھر کوئی اس کی دوسری شادی کے سلسلے میں فکرمند نہیں ہوتا، کسی کو اس کی تنہائی کا خیال نہیں آتا وسیمہ بیچاری کی مثال سامنے ہے۔ چھوٹے سے بچے کے ساتھ بیوگی کی زندگی گزار رہی ہے۔ ماں باپ کب تک زندہ رہیں گے۔ قدم قدم پر مشکلات، عدم تحفظ… کیسا عجیب سماج ہے۔ ‘‘
Inner Space سے جنم لیتی ان کہانیوں میں دکھ بھی ہیں ، درد بھی اور تنہائی کا گہرا احساس بھی۔ مگر ایک بات طے ہے کہ ان افسانوں میں پروفیسر نجمہ محمود کے تخلیقی جنون کا شعلہ بھڑک رہا ہے۔ ان کہانیوں میں کہیں کہیں ان کی اپنی زندگی اور ذات بھی شامل ہو گئی ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہانیاں ان کی داخلی خارجی زندگی اور فکری تموجات کا ایک منظرنامہ بھی ترتیب دیتی ہے۔
سجاد ظہیر اور پروفیسر وحید اختر نے نجمہ محمود کے بارے میں جو بشارت دی تھی، وہ بشارت ’پانی اور چٹان‘ کے ذریعے سچ ثابت ہو رہی ہے۔ نجمہ محمود کی تخلیقی مسافرت کی یہ داستان بڑی طویل ہے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں کو آفاقی عشق کی کہانیاں کہا ہے۔ سچ مچ اس میں آفاقیت بھی ہے اور عشق بھی اور عشق سے جڑے ہوئے سارے درد و آلام بھی۔ میں نے اس دشت عجیب، صحرائے غریب میں بہت ہی مختصر مسافرت کی لیکن محسوس ہوا کہ محترمہ کے تحت الشعور میں جو کہانیاں محفوظ تھیں ، وہ کہانیاں اب پانی اور چٹان کے ذریعے قاری تک پہنچیں گی اور قاری کو اس میں باغ سراپا بہار بھی نظر آئے گا اور آتش صحرا بھی۔ ہاں ان کی کہانیاں بوجھل ہیں مگر بیلے، پام، بوگن ویلیا اور کروٹن کی خوشبو اس بوجھل فضا کو خوشگوار بنا دیتی ہے اور یہی ایک کہانی کار کا تخلیقی معجزہ ہے کہ وہ اپنے دھڑکتے، سلگتے، مہکتے لفظوں سے ایک ایسی فضا تشکیل کرے جس فضا میں بہت سارے رنگ ہوں اور بہت سارے خواب…
افسانے کے علاوہ شعری تخلیق میں بھی مختلف نسائی رنگ ہیں۔ ایک رنگ شہلا نقوی کی شاعری کا ہے جو اپنی شاعری میں ایک Female machismo کی مثال بن کر سامنے آتی ہیں۔
پھن کو پھیلائے ہوئے کالا ناگ
یوں تعاقب میں پھرا کرتا ہے
آنکھ کھلتے ہی ہر اک لڑکی نے
اونچ نیچ اپنے گھرانے میں سنی
سر سے کھسکا ہوا تیرا آنچل
بیسوا تجھ کو بنا سکتا ہے
اور مسجد سے جمعے کے خطبے
میری ہم جنسوں کی نفرت سے بھرے
پھیل جاتے ہیں گلی کوچوں میں
(زنا بالجبر)
یہ ہے شہلا نقوی کا انقلابی تیور۔۔۔ منبری مولویوں کے موٹے عماموں کے نیچے دبے، عورتوں کے تئیں نفرتوں کے کہسار اور شرعی حصاروں میں جکڑے ہوئے کہنہ ذہنوں کے خلاف نئے زمانے کی عورت کی گرج دار آواز اور کالے مذہبی ناگوں کے پھن کو کچلنے والی ایک جری عورت کی یلغار… مولوی اساس معاشرہ پر ایک کاری وار، شہلا کی یہ نظم اذانِ سحر اور ساز بیداری ہے۔ نسائی شناخت کے لیے برسوں سے بر سر پیکار عورت کا یہ مخاطبہ نہیں بلکہ مقاومہ اور مزاحمت ہے۔ یہ دیدۂ خوناب سے ٹپکا ہوا آنسو ہے جو انگارہ بن گیا ہے۔ یہی ’’لفظ انگارے‘‘ نقوی کی نظموں میں لپکتے اور ’’خرمن مرداں ‘‘ کو خاشاک کرتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ نقوی اس طبقۂ اناث کی نمائندہ ہیں جسے ’ذکر اساس سماج‘ نے صدیوں سے دیواروں میں قید کئے رکھا جس کے سچے جذبوں کو مذہبی جبر کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جس کی صادق آواز کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی، جس کی صدیاں مجبوریوں اور مظلومیت کی نذر ہو گئیں۔ اسی لیے اب عورت صدیوں کے زندانوں کی زنجیریں توڑ کر اپنی آواز سے مردوں کی بے حس، مردہ کائنات کو بیدار کرنا چاہ رہی ہے۔ شہلا نقوی دراصل اسی باغیانہ نسائی سوچ کی زائیدہ ہیں جس کا منشور یہ ہے:
بنت حوا ہی نہیں
نصف بنی آدم ہیں
اور اسی احساس کے ساتھ وہ خاموشی کا زنگ آلود قفل توڑ کر ’’نسا مرکزیت‘‘ مستقبل کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی ہے، اب نہ باد و باراں ، نہ آندھی نہ طوفاں اس کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں … یہ ’’شگفتن لب‘‘ مرد غالب معاشرے کو خواہ کتنا ہی ناگوار گزرے مگر عورت اب ہر سو بلند بانگ لہجے میں پکارے گی اور اپنی مظلومیت کی داستان، کائنات کے ہر صفحے پر رقم کر دے گی کیونکہ وہ جان چکی ہے:
اپنی تاریخ کے دریا کا بہاؤ/ جس کو روکنے کی سدا تدبیریں تھیں / بند اور پشتے بنے اس پہ ہزاروں لیکن/ پل کوئی نہ بن سکا اس کے کناروں پہ کبھی۔
نسائی مزاحمت کے اس بہاؤ کو بند اور پشتے اب کبھی نہیں روک سکتے… نقوی نے عورت کے دکھ درد، کرب کو اس کے مکمل سیاق و سباق اور صحیح تناظر میں دیکھا ہے، اس لیے وہ طبقہ اناث کی آہوں ، سسکیوں اور چیخوں کو آواز عطا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ یہ جانتی ہیں کہ مرد اساس معاشرے پر مجہولیت کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے اور ذہنوں میں ایک ’حجابِ مستور‘ ہے کہ عورت کی مظلومیت، مقہوریت، بیکسی، بے بسی ان پر روشن نہیں ہو پاتی ہے۔ اسی لیے اس طبقۂ نسواں کا درد لیے شہلا نقوی مرد فرقہ واریت اور صنفی امتیازیت کے خلاف نعرہ بلند کرتی ہیں اور ’’ذکر فرقہ واریت‘‘ کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں۔ انہیں یہ گیان ہے کہ مرد کے ذہنوں میں ظلمات کے جنگل آباد ہیں اور ان کے ہاتھوں سے وہ صحیفے کھو گئے ہیں جن میں امن، عقل و فہم اور مروت کی عبارتیں درج تھیں ، اس لیے وہ ان کھوئے ہوئے صحیفوں کو یاد دلا کر اس مادری نظام کو روشن کرنا چاہتی ہیں جو تہذیب انسانی کا نقش اولیں تھا۔ عمرانیات کے محققین کہتے ہیں کہ ابتداء میں نظامِ امہاتی ہی رائج تھا۔ یونان کے مشہور مؤرخ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ ابتدائی اقوام میں ماں کے نام پہ ہی بچوں کا نام رکھا جاتا تھا۔ ایشیاء کوچک کی لائسی قوم اور جزیرہ سماترہ میں اب بھی یہی امہاتی نظام رائج ہے۔ حضرت یعقوبؑ کا اپنے سسرال میں رہنا اور حضرت موسیٰؑ کا اپنی بیوی صفورہ کے میکے میں طویل قیام کرنا اسی نظامِ امہاتی کا اشاریہ ہے۔
یوں تو شہلا کی ساری نظموں میں باغیانہ تیور اور نسائی وکالت ہے مگر یہ بے جا وکالت نہیں۔ صحیح زاویے سے دیکھیں تو یہ حرفِ صداقت ہے، ایک سچا تانیثی بیانیہ ہے جسے مرد مہابیانیوں نے برسوں اپنے جبڑوں تلے دبائے رکھا۔ ہفت افلاک کی سیر کرتے ہوئے مردوں نے اپنی زمین اور جڑ کو فراموش کر دیا۔ وہ زمین جو عورت کی ایک علامت ہے۔ مردوں نے اسی زمین سے کسب فیض کیا اور اسی کو پاؤں تلے روندا… ’’نمک کا ٹیلہ‘‘ اسی احساس کا اظہار ہے:
قریۂ دل پہ جو برسے/ عذاب، بجر کے سنگ/ تو جاں بچانے کو نکلے/ وہاں سے مرد و زن/ افق سے جوڑ لیا/ مرد نے جو تار نگاہ/ جما کے اپنے قدم/ اک نئی منزل کو چلا/ زمین نے عورت کے/ پاؤں تھام لیے/ قدم اٹھا نہ سکی/ دیکھ رہی ہے/ وہ انجماد ہوا میں تھا/ سانس لے نہ سکی/ بس اس کا جسم ہی/ اشکوں کو جذب کرتا رہا/ بنا وہ منجمد آنسو/ ہوا مجسم اشک/ نمک کا ٹیلہ/ جو بارش کی آرزو میں رہا
یہ Pillar of Salt بحر مردار کے کنارے ایک ٹیلہ ہے جو بروایت حضرت لوط کی معذب زوجہ ہیں۔ اس نظم میں زمین سے عورت کی علامتی تجسیم کی گئی ہے کہ جس طرح زمین ہر طوفان ہر دکھ ہر عذاب سہ کر اپنے محور پر قائم رہتی ہے، اسی طرح عورت بھی ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ بارش (یعنی آسمان) کی آرزوؤں میں رہتی ہے کہ آسمان کی بارش سے ہی زمین زرخیز ہوتی ہے۔ یہ دراصل اس بات کا اشاریہ ہے کہ آسمان و زمیں کے وصال اور عورت مرد کے ملن کے بغیر شکتی، زرخیزی ممکن نہیں۔ یہاں بھی عورت ایک استقامت کا استعارہ ہے کہ وہ نمک کا ٹیلہ بن کر اپنی زمین سے جڑی ہوئی ہے۔
شہلا نقوی کی نظموں میں تخلیقی اور ذہنی تحرک کا ایک جہاں آباد ہے۔ ایک ذہنی ارتکاز اور فلسفیانہ عمق ہے جو گہرے تفکر اور تدبر کا نتیجہ ہے۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ نقوی کی نظموں میں جو نمک ہے وہ غزلوں میں نہیں۔ مگر ان نظموں کی ناک بڑی ٹیڑھی ترچھی ہے اور ہونٹ لہو میں تر! غزلوں میں ذہنی تھکن، کثافت اور بوجھل پن کا احساس حاوی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہلا کی افتاد طبع غزل کے لیے موزوں نہیں بلکہ ان کی اصل مناسبت نظم سے ہے۔ پھر بھی ان کی تخلیق کے آنچل میں غزل کے دو چار اچھے شعر مل جاتے ہیں :
نہ چھوڑا اس لیے کہ گھر کا دل بھی ٹوٹ سکتا ہے
وگرنہ کٹ ہی جاتی زندگی بے خانماں میری
وہ اور ہیں جو ستاروں پہ ڈالتے ہیں کمند
زمیں کے عشق میں ہم پاس سے پلٹ آئے
یہ ہے زمین سے جڑی ہوئی شاعری کا احساس۔ شہلا کے دل میں انسانی درد کا دریا موجزن ہے۔ اس لیے سطح دریا پہ ایسے شعر بھی تیرتے نظر آتے ہیں :
موت کے کھیت سے لاشوں کی ایک فصل کٹے گی پھر
ظلم کے مندر سے نفرت پوجا کا اٹھا اک شور
ڈھا کر انسانی عظمت کی مسجد اس کی اینٹیں
ہاتھ میں لے کر سچ کا خون کرنے کو بڑھا اک شور
دراصل یہی مذہبی جنوں و نفرت کا شور ہے جس میں عورت کی چیخ و آہ بھی گھٹ کر رہ گئی ہے۔ شہلا نقوی اسی گھٹی ہوئی آواز کی بازیافت کے لیے کوشاں ہے۔ وہ آج کے عہد کا نیا نسائی صحیفہ مدوّن کر رہی ہیں تاکہ عورتوں کو اُس انسانی احترام کے دائرے میں با وقار مقام ملے جو اسے کبھی قدیم الایام میں حاصل تھا اور پھر سے مادری نظام کا وہ وقار بلند ہو جو ہماری تہذیب اولیں کی اساس تھا۔
شہلا نقوی کی شاعری ’کالی‘ یعنی جلال کا ایک روپ ہے۔ اس میں عورت ’’پھنکار‘‘ میں ڈوبی نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری کا اس جہت سے مطالعہ کیا جائے تو بہت ساری مخفی جہتیں منور ہو جائیں گی…
شہلا نقوی کے برعکس فرحت زاہد کی شاعری کا رنگ مختلف ہے۔ ان کی شاعری میں جلال کا نہیں جمال کا رنگ نظر آتا ہے:
چوڑیوں سے کنگن تک لڑکیاں ادھوری ہیں
خواب گہ سے چلمن تک لڑکیاں ادھوری ہیں
پھول اور شگوفوں پر
تتلیاں تو آتی ہیں
تتلیاں ضروری ہیں
خواب گر نہ دیکھیں تو
لڑکیاں ادھوری ہیں
جویل نے لکھا ہے: ’’ہماری حیات مختصر، خواب میں ملفوف ہے، خواب ہی ہمارا جھولنا ہے خواب ہی ہماری قبر ہے اور خواب ہی ہمارا گھر…‘‘ شاید یہی خواب ہیں جن کی وجہ سے ہم عذاب رتوں سے گزرتے ہیں۔ پھر لڑکیوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ گہری نیند میں کھوئے ہوئے مردوں کی آنکھوں میں اپنے خوابوں کی تعبیریں تلاش کرتی ہیں … ست رنگی خوابوں کے طلسمی نگر کی باسی فرحت زاہد کی آنکھوں سے خواب کا رشتہ بہت پرانا لگتا ہے۔ اس کی آنکھ اور خواب کے وصال سے ہی تخلیق کے طلسماتی محل میں وہ چمک دمک اور رنگ جمال ہے کہ آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ فرحت کی شاعری میں ’خواب‘۔۔۔ ایک نسائی استعارہ ہے جو ان کی غزلوں ، نظموں میں چاند کی طرح چپکے سے روشن ہو جاتا ہے۔ ’’ادھورے سفر کے مسافر‘‘ میں خواب میں گاڑی چلانے کا منظر ہو یا Menopause میں خوابوں میں اُترے، پھول گلابوں کے، خواب سے ان کا رشتہ کہیں نہیں ٹوٹتا۔ خواب ایک تسلسل اور دوام کی طرح ان کی شاعری میں رواں دواں ہے اور اسی خواب ناک فضا نے ان کی شاعری کو انفرادیت اور عظمت کی راہ دکھائی۔
خوابوں کی بارش میں بھیگتی شاعرہ فرحت زاہد کے جہانِ شعر کی سیر کرتے ہوئے جانے کیوں ’بن جیوتسنا‘ آنکھوں میں لہرانے لگتی ہے۔ کالی داس کے شکنتلا کی بن جیوتسنا۔۔۔ چنبیلی کے پودے کا، آم کے پیڑ سے وصال کا یہ منظر شکنتلا کی آنکھوں میں جانے کیسے کیسے خواب اور کیسی کیسی آرزوئیں جگاتا تھا، جیوتسناتکمیلیت کا بھرپور مظہر تھا اور اسے دیکھ کر شکنتلا پہروں اداس رہتی اور شرد رت کی چاندنی کی تلاش میں بھٹکتی کنول کے نازک پتے پر ناخنوں سے اپنے دل کا حال لکھتی تھی۔ جیوتسنا کو دیکھ کر وہ ایک خواب ناک فضا میں کھو جاتی تھی، ایسا کیوں ہوتا تھا کیا کسی نے سوچا ہے؟ شاید تکمیلیت کی خواہش ہی اس کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ ہر ادھوری لڑکی کے خوابوں کی منزل جیوتسنا ہی ہوتی ہے۔ فرحت زاہد کی شاعری بھی ادھورے پن سے تکمیلیت تک کے سفر کی کہانی سناتی ہے۔ اِس دشوار گزار سفر میں عورت جن انجانی راہوں ، دکھ بھرے راستوں سے گزرتی ہے۔ اس کا بیان بھی اس شاعری میں موجود ہے۔ اسی سفر میں وہ کالی رات بھی آتی ہے جو سارے خواب نگل جاتی ہے:
خوابوں کے سب تارے جل کر راکھ ہوئے
اب ہم سے کیا مانگ رہی ہے کالی رات
سکھ کے کتنے دنوں پر بھاری ہوتی ہے
تنہائی کی وحشت لیے دکھ والی کالی رات
یہ ہے وہ کالی رات، مفارقت کی رات جو کئی صدیوں پر محیط، ہجر کی عظیم رات سے آن ملی ہے جس رات کے زنداں میں عورت آج بھی قید ہے۔ صدیاں بدل گئیں مگر عورت کی تقدیر نہیں بدلی۔ عورت آج بھی وہیں اسی مقام پر کھڑی ہے۔ اس کے دُکھ درد اب بھی ویسے ہی ہیں۔ لڑکی ابھی تک ادھوری ہے مگر اسے اتنا یقین ہے:
دیکھ لینا یہ وقت بدلے گا
خود کو منوائے گی یہی لڑکی
(فرحت زاہد)
اس کے باوصف فرحت زاہد مرد اساس ذہنیت کی ردِّتشکیل کے لیے وہ مزاحمتی، مقاومتی رویہ اختیار نہیں کرتی جو آج کی فیمنزم کا نصب العین اور لائحۂ عمل ہے بلکہ وہ عورت کے ادھورے پن کی تکمیل بڑی کوملتا اور سجلتا سے کرنا چاہتی ہے۔ وہ ’’ذکر اساس‘‘ سماج کے سلاسل کی ساخت شکنی کے لیے ’’کالی‘‘ کا روپ نہیں دھارتی بلکہ ’’انا پورنا‘‘ بن کر ایک مستحکم نسائی معاشرے کی تشکیل کرنا چاہتی ہے۔ فرحت کی شاعری کے جو نسائی کردار ہیں وہ مثبت زاویۂ نظر کے حامل، ممتا اور محبت کے مثالی پیکر، سدھارتھ کی یشودھرا، تلسی داس کی رتناولی، لچھمن کی ارملا اور گورانگ مہاپربھو کی وشنوپریا جیسے ایثار اور قربانی سے بھرپور نسائی پیکر ہیں جو مرد کے وجود میں مدغم ہو کر ہی اپنے خوابوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ فرحت کے یہاں مشرقی نسائیت کی یہی خوبصورت جہت روشن ہے:
سورج سر پہ اوڑھ کے نکلوں جب بھی میں گھر سے
دھوپ کے ہر خیمے کے اندر تیرا سایہ ہو
خوشبو بن کر تیری یادیں سانسوں میں مل جائیں
میں ہی تیرے پاس رہوں تو جب بھی تنہا ہو
جیون کے سب سپنے تیرے ہو جائیں لیکن
میرا ایک ہی سپنا ہو اور وہ بھی تیرا ہو
چنا نہ میں نے کوئی گھر تمہارے گھر کے سوا
ہزار اور بھی در تھے تمہارے در کے سوا
فرحت کی شاعری میں عشق کی تہذیبی قدر کے سارے نسائی ابعاد منور ہیں اور اُن کے یہاں انتہائی شگفتہ اور کومل نسوانی جذبات ہیں۔ یہی ان کی شاعری کا نشانِ امتیاز ہے۔ لہجے میں نسائیت اور تخاطب میں نسائی ادا ہے یعنی فرحت زاہد کی شاعری ایک مکمل نسائی اظہار ہے۔ یہ اور بات کہ ان کی شاعری صرف نسائی محور پر نہیں گھومتی بلکہ بہت سے سلگتے عصری موضوعات سے بھی ان کی شاعری مملو ہے۔ انہیں نئے زمانے کا گیان ہے اور نئے حالات کا ادراک بھی، بدلتے زمانے کا احساس بھی۔ ان کی شاعری گھر آنگن کی بھی ہے اور گھر باہر کی بھی اور دونوں صورتوں میں ان کی شاعری ادھوری نہیں بلکہ مکمل ہے۔ جذبہ اور احساس کی تکمیلیت کی معراج کو ان کی شاعری نے چھو لیا ہے۔ فرحت زاہد کو پرانے تہذیبی اور تنقیدی معیار کے حوالے سے دیکھا جائے اور قدیم الایام کے نقطۂ نظر سے ان کی شاعری کا غائر مطالعہ کیا جائے تو ان کی شاعری ’’اناپورنا‘‘ یعنی جمال اور کمال کا ایک روپ ہے جس میں عورت، جھنکار، میں ڈوب جاتی ہے…
اسی طرح کچھ آب بیتیاں ایسی ہیں جس میں کئی طرح کے نسائی رنگ ملتے ہیں۔ ایک خودنوشت ’’جنت سے نکالی ہوئی حوا‘‘ ہے جس میں مکمل طور سے پروٹیسٹ ہے تو دوسری خودنوشت اجیت کور کی ’’خانہ بدوش‘‘ ہے، جس میں خودسپردگی کا جذبہ احساس نمایاں ہے۔
اور خودنوشت سوانح پڑھتے ہوئے جارج برناڈشا کے اس قول کے قریب نہیں پھٹکتا کہ ’’خود نوشت سوانح جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے‘‘ اور نہ ہی دوستوفسکی کے اس دستک پہ دھیان دیتا ہوں کہ ’’صداقت اور حقائق پر مبنی خود نوشت کی تخلیق ناممکن ہے۔ ‘‘ مجھے پتہ ہے کہ ہر کوئی روسو نہیں بن سکتا۔ سینٹ آگسٹائن کی طرح Confessions نہیں لکھ سکتا… اور پھر آدمی سچ بولے بھی تو کیوں؟ سچ تو صلیب تک لے جاتا ہے اور پھر مشرق کا محجوب منافق معاشرہ اسکی اجازت بھی نہیں دیتا کہ آدمی وہ سچ لکھے جس کی سزا بدنامی، ذلت اور رسوائی ہوتی ہے۔ اب یہاں ہر کوئی میڈونا یا برگتی بردوت کی طرح Naked Truth تو نہیں لکھ سکتا۔ مشرق میں رہ کر کوئی میرن کی طرح اپنی خود نوشت Faithfull میں یہ تو نہیں لکھ سکتا کہ It was the last great f… I have ever had. یہ لکھنے کے لیے صرف جرأت رندانہ نہیں بلکہ تھوڑی سی مغربی بے حیائی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک فروغ فرخ زاد اور کشور ناہید کا سچ ہی ہمارا معاشرہ سہن ہی نہیں کر سکتا تو پھر کسی اور سچ کو کیسے برداشت کر پائے گا؟ نوال السعداوی نے ‘The Hidden face of Eve’ میں جو بھیانک سچ لکھا ہے اس کی آگ میں مصری معاشرہ اب بھی جل رہا ہے۔ ‘Labia majora’ (شفرِ کبیر) اور ‘Labia minora’ (شفرِ صغیر) کے کاٹنے کی درد بھری داستان لکھنے کے جرم میں معاشرے نے اسے معتوب قرار دیا ہے۔ ایسے میں بھلا سچ لکھنے کی غلطی کرنے کی جرأت کون کر سکتا ہے؟ بالخصوص اگر سچ اور خودنوشت سوانح کا تعلق کسی خاتون سے ہو تو معاملے کی نزاکت اور بڑھ جاتی ہے…
مجھے عورتوں کی آپ بیتیاں Fascinate کرتی ہیں اور اچھا لگتا ہے عورتوں کے باطنی مدو جزر میں جھانکنا۔ ان کی تنہائیوں ، اداسیوں اور درد کے ساتھ کچھ ساعتیں گزارنا۔ امرتا پریتم کی ’رسیدی ٹکٹ‘ آج بھی ذہن کو مشتعل کرتا ہے۔ پدما سچدیو کی ’’بوند باؤڑی‘‘ پڑھتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔ کشور ناہید کی ’’بری عورت کی کتھا‘‘ پیاری لگتی ہے۔ سعیدہ احمد کی ’’ڈگر سے ہٹ کر‘‘ بھی اچھا تاثر پیدا کرتا ہے۔ ادا جعفری کی ’جو رہی سو بے خبری رہی‘ بھی ’آدھی دنیا‘ کے درد سے باخبر کرتی ہے۔ ہندی اور دیگر علاقائی ادب میں بھی عورتوں نے اچھی آتم کتھائیں لکھی ہیں۔ اجیت کور کا ’خانہ بدوش‘ کسم انسل کا ’جو کہا نہیں گیا‘ اور کرشنا اگنی ہوتری کا ’لگتا نہیں ہے دل مرا‘ ایسی خود نوشت ہیں جن میں ان خواتین نے نسائی، تخلیقی اظہارات اور لمحاتِ گزراں کے نئے تجربے پیش کیے ہیں۔ تسلیمہ نسرین اور تہمینہ درانی بھی اچھے مونتاژ تیار کرتی ہیں۔ لیکن ان دونوں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ مشرقی معاشرے میں ان کی تحریریں مضر سمجھی جاتی ہیں۔ تہمینہ درانی تو خیر معروضی اندازِ فکر رکھتی ہیں۔ مگر تسلیمہ نسرین بقول شخصے Freedom of mind کے نام پر Freedom of Vagina کی ہی وکالت کرتی ہیں۔ یہ بات میں نہیں ، شوبھا ڈے نے کہی ہے۔ جو ظاہر ہے کہ تسلیمہ نسرین کو مجھ سے یا کسی اور سے کہیں زیادہ جانتی اور سمجھتی ہیں۔
’’جنت سے نکالی ہوئی حوا‘‘ بھی ایک خودنوشت سوانح حیات ہے۔ اس میں زندگی کے بہت سارے نشیب و فراز، ھبوط و صعود کے قصے سلگ رہے ہیں۔ یہ یادوں ، جذبات اور احساسات کا ایک کولاژ ہے اور یہ صرف ایک اکیلی عورت کی داستان نہیں ہے بلکہ اجتماعی نسائی معاشرے کا منظرنامہ ہے۔ وہ دکھ ہیں ، وہ درد ہیں ، جنہیں سہ کر شبنم میں بھی شعلگی آ جاتی ہے۔ ’جنت سے نکالی ہوئی حوا‘ نام سے ہی اپنے حسن کا پتہ دیتی ہے اور مصنفہ کے خوبصورت تخیل کی کہانی سناتی ہے۔ میری نظر میں یہ ایک Bio mythography ہے۔ اس سے صرف نفیس بانو شمع کی داخلی زندگی کی داستان نہیں معلوم ہوتی بلکہ پورا ایک سماجی، ثقافتی معاشرہ ہمارے سامنے آتا ہے اور مرد معاشرہ تو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا نظر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کا رویہ ذکر اساس سماج کے تئیں بہت ہی متشددانہ یا جارحانہ ہے۔ بلکہ انہوں نے مرد اور عورت کے رشتے کے حوالے سے اپنے درد کے جس ساز کو چھیڑا ہے، اس ساز سے ہر ایک دل کا تار جڑا ہوا ہے۔ ان کی داستان پڑھتے ہوئے جیکولین کنیڈی انیسِس کی اس بات پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ:
”I don’t think there are any men who are faithful to their wives.”
نفیس بانو شمع کی اس داستان میں جتنے نسائی کردار ہیں ، سب کشتہ تیغ ستم ہیں۔ ان کی زندگیاں ، ان کی آرزوئیں ، تمنائیں سبھی اجڑ چکی ہیں۔ رابعہ ہوں یا شاہ جہاں ، نایاب ہوں یا افروز، رشیدہ خاں ہوں یا ثروت بیگم، یہ سبھی کردار درد کی ڈور میں بندھے ہوئے ہیں جن کی قسمت میں صرف اور صرف مردوں کی بے وفائی لکھی ہے اور آنکھوں میں صرف آنسو …شاہجہاں کی کہانی نفیس بانو کی زبانی سنئے:
’’جدید طرز کے عمدہ لباس میں ملبوس میک اَپ سے آراستہ، گلے میں قیمتی ہیرے کا ہار، انگلیوں کی تعداد سے زیادہ انگوٹھیاں ، کانوں میں جھولتے ہوئے ڈائمنڈ کے بیش قیمت بندے اس بات کے غماز تھے کہ وہ بہت خوش ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ایک عورت نے کتنے سلیقے سے اپنے غموں کو ہیرے جواہرات سے ڈھانپ رکھا تھا۔ لوگ اسے زندہ دل، ہنس مکھ اور چنچل کہتے تھے۔ ہر محفل میں لوگوں کا دل بہلانا، روتی ہوئی آنکھوں کو ہنسا دینا، یہ اس کا خاص فن تھا۔ اس کا سراپا ہر زاویہ سے زندگی کی مکمل تصویر لگتا تھا۔ مگر یہ تو وہی جانتی تھی کہ وہ لمحہ لمحہ آنسوؤں کو پیتی ہے۔
تیس سال کی عمر میں تین شادیاں کرنے والی یہ عورت غلط نہ تھی۔ ہمارے معاشرے میں تو مرد کے لیے بڑی وسعت ہے لیکن عورت کے لیے دوسری تیسری شادی کا تصور ہی غلط سمجھا جاتا ہے۔ کسی عورت کو شوق نہیں ہوتا کہ وہ مختلف بستروں کی زینت بنے، مرد کی کمزوری اگر عورت ہے تو عورت کے لیے بھی سب سے بڑا سہارا مرد ہوتا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو مگر عورت کو طلاق دینا آج کل مرد کے لیے فیشن بن گیا ہے۔ اگر عورت دوسری شادی نہ کرے تو کیا کرے۔ سماج میں اسے تنہا بھی تو نہیں رہنے دیا جاتا۔
(یوں جوانی شہید ہوتی رہی)
نفیس بانو شمع نے بہت ہی Shocking Portrait پیش کیا ہے۔ یہ کہانی صرف ایک وجود پر مرتکز نہیں ہے۔ بلکہ بہت سارے وجود اس کہانی کی Fabrics سے جڑے ہوئے ہیں۔
غازی پور کے قصبہ ’’بھتری‘‘ سے شروع ہونے والی یہ کہانی بمبئی سے ہوتی ہوئی دلی کے ایک ویران مکان میں آکر ختم ہو جاتی ہے۔ نفیس بانو شمع کے تخیل کا کمال ہے کہ انہوں نے گاؤں کی تاریکی میں روشنی اور روشنیوں کے شہر میں تاریکی تلاش کی ہے۔ اس داستان میں نظام الدین اولیاء کے آستانے کا نور بھی ہے، اور نگ زیب کے مزار کا جلال و جمال بھی۔ ’’جنت سے نکالی ہوئی حوا‘‘ میں جہاں ایک طرف سماجی خبر نامہ ہے، وہیں ادبی منظرنامہ بھی ہے۔ ادب اور سماج کے گہرے ارتباط کو نفیس بانو شمع نے بڑی ہی فنی چابک دستی کے ساتھ پیش کیا ہے اور اپنے تخلیقی محرکات اور مہیجات کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے۔ یہ ایک طرح سے نگار خانۂ رقصاں ہے جس میں بہت سارے چہرے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ٹوٹتے بکھرتے نظر آتے ہیں۔ نفیس بانو شمع نے اپنے Silcky, Juicy style میں جنت سے نکالی ہوئی حوا کی پوری درد انگیز داستان لکھ دی ہے۔ یہ ایسی درد بھری داستان ہے جسے پڑھ کر مرد موم نہ ہوں لیکن پتھر ضرور موم ہو جائیں گے۔
اجیت کور کی خانہ بدوش پڑھتے ہوئے مشہور رقاصہ اساڈورا ڈنکن Isadora Duncan یاد آ گئیں جنہوں نے اپنی آپ بیتی My life میں لکھا ہے کہ ’’آج تک کسی عورت نے اپنی زندگی کی صداقت ظاہر نہیں کی۔ مشہور عورتوں کی خودنوشت سوانح عمریوں میں ان کے ظاہری وجود کا حساب کتاب ملتا ہے۔ غیر ضروری تفصیلات اور واقعات جن سے ان کے حقیقی زندگی کی ایک جھلک بھی سامنے نہیں آتی۔ نشاط اور کرب کے عظیم لمحوں سے متعلق سب کی سب حیرت ناک طور پر خاموش ہیں۔ ‘‘ اگر ایسا ڈورا اجیت کور کی خودنوشت پڑھ لیتیں تو شاید انہیں اپنی بات میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہوتی۔ یہ سچ ہے کہ جیسی بیباکی، حق گوئی، ژان ژاک روسو اور والٹ وٹمین نے کی ہے، کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ انہوں نے اپنے روح کی صداقت کو پیش کیا اور زندگی کے محجوبات سے پردہ اٹھایا۔
اجیت کور کی یہ خود نوشت سوانح ایک ایسی کتاب ہے جس میں درد کے الاؤ ہر ایک سطر میں جلتے اور سلگتے محسوس ہوتے ہیں کیونکہ یہ کہانی ایک ایسے وجود کی ہے جو پوری زندگی آگ کی سرخ لپٹوں میں جلتی رہی۔ جو رات کو آگ میں نہاتی ہے۔ جلتی آگ کے ساتھ نوکیلے پتھریلے راستے طے کرتی ہے۔ جس سے سانس کی تار ٹوٹنے لگتی ہے اور اس کی شریر اور آتما لہولہان ہو جاتی ہے۔ ایک انت ہین درد اس کی شریر اور آتما سے پیوند کی طرح چپک جاتا ہے۔ اس کے لیے زندگی بے معنی ہو جاتی ہے۔ بیٹی کی قبر میں اس کا آدھا جسم، آدھی روح دفن ہے۔
اجیت کور کی یہ آتم کتھا محبت کے سچے جذبے کی کہانی ہے۔ وہ جذبہ جس میں وحشت جنوں بھی ہے اور رنگ ایثار بھی۔ یہ کہانی صرف اجیت کور کی نہیں بلکہ پورے نسائی وجود کی کہانی ہے۔ میں نے اسے نسائی وجود کی کلیت کے تناظر ہی میں پڑھا ہے۔ عموماً آپ بیتیاں لکھتے ہوئے لوگوں کو ’’داغِ عیوب برہنگی‘‘ کے نمایاں ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے اور سماج کا خوف بھی لاحق ہوتا ہے۔ مگر اجیت کور نے انتہائی بیباکی اور بے خوفی کے ساتھ آپ بیتی لکھی ہے اور اپنی دربدری، ذہنی جسمانی جلاوطنی اور تنہائی کی آگ میں جلنے کی داستان بڑے ہی دلسوز انداز میں لکھی ہے۔
یہ ایک عورت کی جدوجہد کی داستان ہے۔ ایک ناپسندیدہ شوہر سے نجات حاصل کر کے ایک محبوب کی آغوش میں اپنی زندگی بسر کرنے کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں اوما نامی ایک شخص عاشق کردار ہے۔ وہ شادی شدہ ہے۔ پھر بھی اجیت کور ان سے Live-in کا رشتہ کرتی ہیں اور Other Womanکی حیثیت سے گزارتی ہیں۔ ایسا سچ لکھنے کے لیے بہت جگر حوصلہ چاہیے۔ نازک نحیف ہاتھ، حنائی انگلیاں اس طرح کی کہانیاں لکھتے ہوئے ہزار بار سوچتی ہیں۔ مگر اجیت کور نے اپنی زندگی کے ایک ایک سچ کو بہت ہی بے خوفی کے ساتھ بیان کر دیا ہے اور یہی بے خوفی ان کی آتم کتھا کا وہ جوہر ہے جو انہیں امتیازی نشان عطا کرتا ہے۔
ایک حساس دراک عورت کی Traumatic past کی اس کہانی میں ہمیں جذبے اور رومانس کے بہت سارے شیڈس نظر آتے ہیں۔ خانہ بدوش کا ایک ایک شبد دراصل آنسوؤں میں بھیگا ہوا، درد میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ ایک جلتے وجود کی آتم کتھا ہے اور یہی جلنا اور سلگنا ہی آج کی عورت کی کہانی ہے۔ اس کے باطن میں جو درد کی جوالا مکھی اور احساس کا آتش فشاں ہے، وہ اس آتم کتھا کو ایک نیا معنیاتی اور موضوعاتی تناظر عطا کرتا ہے۔ عورت مرد کے رشتوں کی نوعیت اور تعلقات کی معنویت کو جس طرح اس خودنوشت میں آشکار کیا گیا ہے اس سے اس کا وقار بلند ہوتا ہے۔
اجیت کور نے بہت ساری کہانیاں لکھی ہیں ، بہت سارے ناول لکھے ہیں اور تخلیقی سطح پر بہت سرگرم بھی رہتی ہیں۔ یہ خود نوشت سوانح ان کی ایک ایسی داستانِ حیات ہے جسے ہر عورت کو پڑھ کر احساس ہو گا کہ دراصل کسی نہ کسی سطح پر ہر عورت جلا وطن ہے، خانہ بدوش ہے، عورت کے نصیب میں اپنا گھر نہیں ، دربدر بھٹکنا ہی عورت کا مقدر ہے اور آتش نہفتہ میں جلتے رہنا ہی اس کی تقدیر ہے:
’’سرخ لپٹوں کے ہیولیٰ میں میں روز جلتی ہوں۔ دن میں کم رات میں زیادہ اس آگ میں روز نہانا میری تقدیر ہے۔ یہ تقدیر اب تو بائیس برس بیت گئے، صرف درد ہی ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ سات برس پہلے چودہ اور پندرہ اگست کے بیچ والی رات میرے ماتھے ہی نہیں میرے سارے بدن پر لکھی گئی تھی اور پھر اگلے سات دن کوئی میرا گوشت کھرچ کھرچ کر اس تقدیر کو میرے بدن پر نقش کرتا رہتا تھا۔ ‘‘
’عورت نامہ‘ کا ایک باب
٭٭٭