FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

 

بڑوں نے لکھا بچوں کے لئے ….۱۶

 

 

بچوں کی جیلانی بانو

 

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

ایک دن کی بادشاہت

 

 

’’عارف، سلیم چلو فوراً سو جاؤ۔‘‘ امی کی آواز عین اس وقت آتی تھی جب وہ دوستوں کے حلقے میں جیسے قوالی گاتے تھے۔۔ ۔  یا پھر صبح بڑے مزے میں آئس کریم کھانے کے خواب دیکھ رہے ہیں کہ آپا جھنجھوڑ ڈالتیں۔

’’جلدی اٹھو۔  اسکول کا وقت ہو گیا۔۔ ۔‘‘ دونوں کی مصیبت میں جان تھی ہر وقت پابندی۔  ہر گھڑی تکرار۔  اپنی مرضی سے چوں بھی نہ کر سکتے تھے کبھی عارف کو گانے کا موڈ آتا تو بھائی جان ڈانٹتے ’’چپتا ہے یا نہیں ہر وقت مینڈک کی طرح ٹرائے جاتا ہے۔‘‘ باہر جاؤ تو امی پوچھتیں ’’باہر کیوں گئے۔۔ ۔ ؟‘‘ اندر رہتے تو دادی چلاتیں:

’’ہائے میرا دماغ اڑا جا رہا ہے شور کے مارے۔  اری رضیہ ذرا ان بچوں کو باہر ہانک دے !‘‘ جیسے بچے نہ ہوئے مرغی کے چوزے ہو گئے دونوں گھنٹوں بیٹھ کر ان پابندیوں سے بچ نکلنے کی ترکیبیں سوچا کرتے ان دونوں سے تو سارے گھر کو دشمنی ہو گئی تھی۔  ایک دن شام کو وہ دوستوں کے ساتھ گولیاں کھیل رہے تھے تو ابا چلائے۔

’’اب کھیل ختم کرو اور ذرا دوکان سے سگریٹ کا ایک پیکٹ لے آؤ۔‘‘ ’’نہیں لاتے۔‘‘ اس نے آنکھ میچ کر گولی کا نشانہ تاکتے میں کہا۔

لیکن اس خودسری کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند سیکنڈ بعد اس کا کان ابا کے ہاتھ میں تھا اور وہ اپنے کان کے پیچھے پیچھے گھسٹتا ہوا چلا جا رہا تھا۔

دوسرے دن اپنے دکھتے ہوئے کان کو تھامے جب سلیم اٹھا تو وہ بغاوت کی آگ میں تپ رہا تھا۔  عارف بھی غلامی کی اس زندگی سے بیزار تھا۔  لہذا دونوں نے مل کر ایک پلان بنایا اور ابا کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی۔  ایک دن انہیں بڑوں کے سارے اختیار دے دیئے جائیں اور سب بڑے چھوٹے بن جائیں۔

’’کوئی ضرورت نہیں ہے اودھم مچانے کی۔‘‘ امی نے حسب عادت ڈانٹ پلائی۔  لیکن ابا جاننے کس موڈ میں تھے کہ نہ صرف مان گئے بلکہ یہ اقرار بھی کر بیٹھے ان دونوں کو ہر قسم کے اختیارات مل جائیں گے۔

ابھی صبح ہونے میں کئی گھنٹے تھے کہ عارف نے امی کو جھنجھوڑ ڈالا۔

’’امی جلدی اٹھئے ناشتہ تیار کیجئے۔‘‘

امی نے چاہا ایک جھانپڑ رسید کر کے سور ہیں مگر یاد کہ آج تو ان کے سارے اختیارات چھینے جا چکے ہیں۔

پھر دادی نے فجر کی نماز پڑھتے میں دوائیں کھانا اور بادام کا حریرہ پینا شروع کیا تو عارف نے انہیں ڈانٹا ’’توبہ ہے دادی، کتنا حریرہ ڈکوسیں گی آپ۔  پیٹ پھٹ جائے گا۔‘‘ اور دادی نے جوتا اٹھایا اسے مارنے کے لئے۔

ناشتہ میز پر آیا تو عارف نے خانساماں سے کہا۔

’’انڈے اور مکھن وغیرہ ہمارے سامنے رکھو۔  دلیا اور دودھ، بسکٹ ان سب کو دے دو۔‘‘ آپا نے قہر بھری نظروں سے انہیں گھورا۔  مگر بے بس تھیں، کیوں کہ روز کی طرح آج وہ تر مال اپنے لئے نہ رکھ سکتی تھیں۔  سب کھانے بیٹھے تو سلیم نے امی کو ڈانٹا۔

’’امی ذرا اپنے دانت دیکھئے، پان کھانے سے کتنے گندے ہو رہے ہیں۔‘‘

’’میں تو دانت مانجھ چکی ہوں۔‘‘ امی نے ٹالنے کے لئے کہا۔

’’نہیں آپ چھوٹ کہہ رہی ہیں، چلئے اٹھئے۔‘‘ امی نوالا توڑ چکی تھیں مگر سلیم نے زبردستی کاندھا پکڑ کر انہیں اٹھا دیا۔

امی کو باتھ روم میں جاتے دیکھ کر سب ہنس پڑے۔  جیسے روز سلیم کو زبردستی بھگا کے ہنستے تھے۔  پھر وہ ابا کی طرف مڑا۔

’’ذرا ابا کی گت دیکھئے۔  بال بڑھے ہوئے۔  شیو نہیں کیا۔  کل کپڑے پہنے تھے اور آج اتنے میلے کر ڈالے۔  آخر ابا کے لئے کتنے کپڑے بنائے جائیں گے۔‘‘

یہ سن کر ابا کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔  آج یہ دونوں کیسی صحیح نقل اتار رہے تھے سب کی۔  مگر اپنے کپڑے دیکھ کر وہ سچ مچ شرمندہ ہو گئے۔

تھوڑی دیر بعد جب ابا اپنے دوستوں کے بیچ بیٹھے اپنی نئی غزل لہک لہک کر سنا رہے تھے تو عارف پھر چلانے لگا۔

’’بس کیجئے ابا۔۔ ۔  فوراً آفس جائیے، دس بج گئے۔

’’چ۔۔ ۔ چ، چوپ۔۔ ۔‘‘ ابا ڈانتٹے ڈانٹتے رک گئے۔  بے بسی سے ادھورا مصرع دانتوں میں دبائے پاؤں پٹکتے عارف کے ساتھ ہو لئے۔

’’رضیہ ذرا مجھے پانچ روپے تو دینا۔‘‘ ابا آفس جانے کو تیار ہو گئے۔

’’پانچ روپے کا کیا ہو گا! کار میں پٹرول تو ہے۔‘‘ عارف نے تنک کر ابا کی نقل اتاری۔  جیسے ابا کہتے ہیں کہ اکنی کا کیا کرو گے۔  جیب خرچ تو لے چکے۔

تھوڑی دیر بعد خانساماں آیا ’’بیگم صاحب آج کیا پکے گا۔ ؟‘‘

’’آلو گوشت، کباب، مرچوں کا سالن۔‘‘ امی نے حسب عادت کہنا شروع کیا۔

’’نہیں آج یہ سالن نہیں پکیں گے۔‘‘ سلیم نے کتاب رکھ کر امی کی نقل اتاری۔

’’آج گلاب جامنیں، گاجر کا حلوہ اور میٹھے چاول پکاؤ۔‘‘

لیکن مٹھائیوں سے روٹی کیسے کھائی جائے گی۔۔ ۔ ؟‘‘ امی کس طرح صبر نہ کر سکیں۔

’’جیسے ہم روز صرف مرچوں کے سالنوں سے کھاتے ہیں۔‘‘ دونوں نے ایک ساتھ کہا۔  دوسری طرف دادی الگ ماما سے تو تو میں میں کئے جا رہی تھیں۔

’’افوہ، دادی تو شور کے مارے دماغ پگھلائے دے رہی ہیں۔۔ ۔‘‘

عارف نے دادی کی طرح دونوں ہاتھوں میں سر تھام کے کہا ’’ذرا کوئی دادی کو باہر بھیج دے۔‘‘

اتنا سنتے ہی دادی نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ آج یہ لڑکے میرے پیچھے پنجے جھاڑ کے پڑ گئے ہیں، مگر ابا کے سمجھانے پر خون کا گھونٹ پی کر رہ گئیں۔

کالج کا وقت ہو گیا تو بھائی جان اپنی سفید بشرٹ کو عارف سلیم سے بچاتے دالان میں آئے ’’امی شام کو میں دیر سے آؤں گا۔  دوستوں کے ساتھ پکچر جانا ہے۔‘‘

’’خبردار۔۔ ۔‘‘ عارف نے آنکھیں نکال کر انہیں دھمکایا۔۔  ’’کوئی ضرورت نہیں پکچر دیکھنے کی۔  امتحان قریب ہیں اور ہر وقت سیر سپاٹوں میں گم رہتے ہیں آپ۔‘‘

پہلے تو بھائی جان ایک کرارا سا ہاتھ مارنے لپکے، پھر کچھ سوچ کر مسکرا پڑے۔

’’لیکن حضور عالی دوستوں کے ساتھ اس خاکسار کا پروگرام بن چکا ہے اس لئے اجازت مرحمت فرمائی جائے۔‘‘ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔  ’’بنا کرے۔۔ ۔  بس میں نے ایک بار کہہ دیا۔۔ ۔‘‘ اس نے لاپروائی سے کہا اور صوفے پر دراز ہو کر اخبار دیکھنے لگا۔

اسی وقت آپا بھی اپنے کمرے سے نکلیں۔  ایک نہایت بھاری ساری میں لچکتی مٹکتی بڑے ٹھاٹ سے کالج جا رہی تھیں۔

’’آپا۔۔ ۔ !‘‘ سلیم نے بڑے غور سے آپا کا معائنہ کیا۔۔ ۔  ’’اتنی بھاری ساری کیوں پہنی۔  شام تک غارت ہو جائے گی۔  اس ساری کو بدل کر جائیے۔  آج وہ سفید وائل کی ساری پہننا۔‘‘

’’اچھا اچھا۔  بہت ہو چکے احکام۔۔ ۔‘‘ آپا چڑ گئیں ’’ہمارے کالج میں آج فنکشن ہے‘‘ انہوں نے ساری کی شکنیں درست کیں۔

’’ہوا کرے۔۔ ۔  میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔ ۔  سنا نہیں۔۔ ۔ ؟‘‘ اپنی اتنی اچھی نقل دیکھ کر آپا شرمندہ سی ہو گئیں۔  بالکل اسی طرح تو وہ عارف اور سلیم سے ان کی پسندیدہ بشرٹس اتروا کے نہایت فرتوس کپڑے پہننے کا حکم صادر کر دیتی ہیں۔

دوسری صبح ہوئی۔

سلیم کی آنکھ کھلی تو آپا ناشتے کی میز سجائے ان دونوں کے اٹھنے کا انتظار کر رہی تھیں۔  امی خانساماں کو حکم دے رہی تھیں کہ ہر کھانے کے ساتھ ایک میٹھی چیز ضرور پکایا کرو۔  اندر عارف کے گانے کے ساتھ بھائی جان میز کا طبلہ بجا رہے تھے اور ابا سلیم سے کہہ رہے تھے۔

’’اسکول جاتے وقت ایک چونی جیب میں ڈال لیا کرو۔۔ ۔  کیا ہرج ہے۔۔ ۔ ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

لچھمی

 

’’پپو کو تو لچھمی نے گود لے لیا ہے۔‘‘

’’ارے جاؤ پپو تمہاری ماں بلا رہی ہے۔‘‘

’’اس جانور کے گلے میں رسی باندھ کر اسے بھی گائے کے پاس کھونٹے سے باندھا کرو۔‘‘

سب پپو کو چڑاتے تھے، مگر پپو میاں پر ان پھبتیوں کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا وہ بڑے انہماک سے لچھمی اور اس کے بچھڑے سے کھیلا کرتے تھے۔

مگر ٹھہرئیے۔۔ ۔  پہلے پپو سے آپ کا تعارف تو کرا دیں یہ ہمارے سب سے چھوٹے بھائی ہیں۔  عمر ہے یہی کوئی تین سال۔  مگر سدا کے رو گی اور چڑ چڑے ہیں اور اس کے ندیدے پن کی تو کچھ نہ پوچھئے۔  حد یہ ہے کہ گائے کا بچھڑا دودھ پیتا ہے تو انہیں بھی بھوک لگ جاتی ہے۔ یہ گائے در اصل سنی کے لئے آئی تھی۔  مگر پپو میاں نے اس سے خوب دوستی کی پیںنگیں بڑھائیں، اس کا نام لچھمی رکھا، اسے روٹیاں چُرا چرا کر کھلاتے، بچھڑے کے ساتھ تو ان کی خوب گھٹتی تھی۔ دونوں پکے دوستوں کی طرح مل جل کر کھیلتے۔

ہمیں لچھمی کے نوکیلے سینگوں سے بڑا ڈر لگتا تھا۔  کبھی ہم شرارت سے لچھمی کے سینگ پکڑ کر کھینچتے تھے تو وہ سینگ اٹھا کر ہماری طرف دوڑتی تھی۔  اس لئے ہم پپو کو خوب چڑاتے۔  مگر پپو صاحب کو نہ تو بھاگنا آتا تھا نہ ان کے گھونسوں میں اتنی طاقت تھی کہ بدلہ لے سکیں۔

امی بچھڑے کو الگ باندھتی تھیں کہ وہ گائے کا سب دودھ نہ پی لے۔  اس لئے بچھڑا اپنی ماں کے پاس جانے کو اچھلتا تھا اور گائے بھی چلاتی تھی۔  پپو میاں تھوڑی دیر تو موقع کی تلاش میں بیٹھے رہتے تھے پھر سب کی آنکھ بچا کر جھٹ بچھڑے کو کھول دیتے۔  اس بات پر ان کی خوب پٹائی ہوتی تھی اور ہم سب ان کے پٹنے کا تماشہ دیکھ کر ہنسا کرتے تھے۔  ایک دن صبح اٹھ کر پپو نے اطلاع دی۔۔ ۔۔   ’’امی، امی بچھڑا ابھی تک سو رہا ہے۔‘‘

یہ سن کر سب کو ہنسی آ گئی۔  ’’تم جگا دو نا۔۔ ۔۔‘‘ امی نے کہا۔

’’وہ میری بات نہیں سن رہا ہے۔  لچھمی کی بات نہیں سنتا۔‘‘

لچھمی کے چلانے کی آواز سن کر ہم سب آنگن میں آئے تو دیکھا کہ بچھڑا مرا پڑا ہے اور لچھمی اپنی رسی تڑا کر اس کے ارد گرد گھوم رہی ہے بار بار اسے زبان سے چاٹتی۔

یہ سن کر کہ بچھڑا مر گیا ہے پپو میاں کے ساتھ ہم سب بھی رونے لگے تھے۔  لچھمی اب بہت اداس رہنے لگی۔  دودھ بھی سوکھ گیا، بڑی مرکھنی ہو گئی۔  پپو سے بھی اس نے دوستی کے تعلقات منقطع کر لئے تھے۔  وہ اب بھی خوشامد میں جا کر اس کے مونہہ میں زبردستی روٹیاں ٹھونستے تھے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے۔  ایک دن اس کی سینگوں میں جھولا جھولنے کی مشق فرما رہے تھے کہ لچھمی نے ایک زور دار پٹخنی دی۔  ٹانگوں کی رہی سہی طاقت بھی جواب دے گئی۔  بعد میں معلوم ہوا کہ چوٹ بہت زیادہ آئی ہے اور پپو میاں بخار میں بھننے لگے۔  امی نے لچھمی کو خوب کوسنے دئیے کہ ایک تو پپو اسے اتنا چاہتا ہے اور یہ بے وفا اس کو اتنا مارتی ہے۔  اسی دن سے سزا کے طور پر لچھمی کے چارے میں کمی کر دی گئی۔  پپو کا بخار بڑھتا ہی گیا۔  بخار کی شدت میں بھی یہی بڑبڑائے جاتے کہ میں تو لچھمی کا دودھ پیوں گا۔

مگر لچھمی کا دودھ تھا ہی کہاں !! امی اور ابا سخت پریشان تھے کہ پپو کی ضد کیسے پوری کریں ! کئی بار انہیں کھانے کے بجائے شاندار دھوکا بھی کھلایا گیا۔  پھر امی نے سوچا کہ لچھمی کو بیچ کر دوسری گائے خرید لیں، مگر پپو نے اس خبر سے اور رونا شروع کر دیا۔

لچھمی اب چپ چاپ آنکھیں بند کئے پڑی رہتی تھی۔  کبھی کبھار اچانک بڑبڑا کر اٹھتی، اور مونہہ اٹھا کر چلانا شروع کر دیتی تھی۔  امی کہتی تھیں کہ وہ اپنے بچھڑے کو پکار رہی ہے۔  مگر ہم لوگ پپو سے کہتے۔  ’’جاؤ پپو تمہیں لچھمی بلا رہی ہے۔‘‘

یہ سن کو وہ خوش ہو جاتے۔  فوراً آیا کی گود میں چڑھ کر چھپر کے نیچے پہنچ جاتے تھے۔  اور لچھمی بھی انہیں دیکھ کر اپنی اداسی بھول جاتی تھی۔  کبھی ان کا ہاتھ پیار سے چاٹتی تھی کبھی ان کی ٹانگوں سے اپنا سر رگڑتی۔

لچھمی کے ذرا سے التفات سے پپو میاں کے چہرے پر پھر رونق آ گئی۔  بخار بھی کم ہو گیا۔  ہمارے یاد دلانے پر بھی انہیں لچھمی کی وہ پٹخنی یاد نہ آئی۔

ایک دن صبح سب نے دیکھا کہ لچھمی بڑی محبت سے انہیں چاٹ رہی ہے اور پپو میاں بڑے مزے میں ہمک ہمک کر اس کا دودھ پی رہے ہیں۔  امی نے بڑی مسرت سے ابا کو یہ خبر سنائی۔

’’ذرا دیکھا لچھمی کو پپو کی کتنی محبت ہے۔  اس کی وجہ سے لچھمی کے تھنوں میں پھر دودھ اتر آیا ہے۔‘‘

ہم سب کا ہنسی کے مارے برا حال تھا۔  پپو میاں بھی کھسیا کر بھاگنے کی سوچنے لگے۔  مگر لچھمی بالکل اسی طرح انہیں بلانے لگی جیسے وہ اپنے بچھڑے کو بلاتی تھی۔

اس دن سے پپو میاں تو جانوروں میں نہ مل سکے۔  مگر امی نے لچھمی کو اپنے گھر کا ایک فرد بنا لیا۔

***

 

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل