فہرست مضامین
اب گواہی دو
سمیرا گل عثمان
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب پڑھیں…..
روشن رو پہلی معطر سی صبح کا آغاز ہو چکا تھا وہ بھی دروازے کی ٹھک ٹھک اور دھم دھم کرتے میوزک کے بغیر ہی، کہ یہ کھلی کھلی سی سحر رعنائیوں بھری شب کا آغاز تھا اس نے اپنا آنچل اٹھا کر اوڑھا تو کلائیوں میں کھنکتی چوڑیاں بج اٹھیں، شہریار کو بیڈ ٹی کی عادت تھی اور اس کے آنے سے قبل وہ یہ کام خود سرانجام دیتا تھا ان کے گھر کی مانند یہاں بھی کل وقتی ملازمہ کی کمی تھی جو دو تین تھیں وہ بھی اپنے ٹائم پر آتیں اور کام نمٹا کر چلی جاتی تھیں اور جو آج کل میرج ہال میں شادی کا رواج تھا تو قریبی احباب بھی وہیں سے اپنے اپنے گھروں کو سدھار جاتے تھے اور جس طرح شہریار نے اس کے حضور درخواست پیش کی تھی۔
’’اگر زحمت نہ ہو تو ایک کپ چائے مل سکتی ہے۔‘‘ وہ شرمگیں مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوئے اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی تھی کچن تک رہنمائی شہریار نے کر دی تھی اور خود واش روم میں جا گھسا تھا۔
اور وہ کچن کے بیچ و بیچ کھڑی خوب دماغ لڑتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ چائے کیسے بنتی ہے اس نے تو آج تک کبھی باورچی خانے میں جھانک کر نہیں دیکھا تھا عمر اکثر جب اپنے لئے چائے بناتا تو ایک کپ اسے بھی عنایت کر دیا کرتا تھا کچھ خیال آنے پر اس نے عمر کا نمبر ڈائل کر دیا، بیل جا رہی تھی۔
’’اٹھا لو عمر۔‘‘ وہ بے چینی سے بولی اتنے میں نیند سے بوجھل آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’تم کیسے اٹھ گئی اتنی سویرے۔‘‘ اس کی ہیلو کے جواب میں وہ بولا۔
’’عمر چائے کیسے بناتے ہیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ اچھل کر اٹھ بیٹھا۔
’’کیا بد تمیزی ہے یہ۔‘‘ وہ دور سے بھی اس کی حرکت نوٹ کر چکی تھی۔
’’تم اپنی ویڈنگ نائٹ کی پہلی صبح اتنی سویرے اٹھ کر چائے بنا رہی ہو۔‘‘ اس کی حیرت قابل دید تھی۔
’’بنا نہیں رہی پوچھ ہی ہوں۔‘‘ وہ اصل مسئلے کی جانب آئی، مگر وہ بھی خوب تنگ کرنے کے موڈ میں آ چکا تھا۔
’’وہ در اصل بات یہ ہے کہ چائے بنانے کے تین طریقے ہوتے ہیں اب تمہیں کون سا بتاؤں۔‘‘
’’جو سب سے آسان ہے۔‘‘ اس نے تحمل سے کہا اور مختلف کیبنٹ کھنگال کر مطلوبہ اشیاء برآمد کرنے لگی اور پھر اس کے کہنے کے مطابق دودھ میں چینی پتی ڈال کر چولہا جلا دیا تھا اور جب تک چیزیں سمیٹ کر واپس کیبنٹ میں رکھیں چائے کو ابال آنے لگے تھے۔
’’عمر یہ تو ابل رہی ہے چھلک جائے گی، کیا کروں؟‘‘ وہ حواس باختہ ہونے لگی تھی۔
’’آنچ ہلکی کرو پاگل۔‘‘ وہ چلایا۔
’’یہ آنچ کیا ہوتی ہے۔‘‘ چائے کناروں تک آ چکی تھی کچھ سمجھ نہ آنے پر ساس پین کو پکڑنا چاہا تو انگلیاں جل گئیں وہ اچھل کر پیچھے ہٹی اور کسی نے فوراً آگے بڑھ کر برنر بند کر دیا پھر الٹے قدموں واپس بھاگا۔
تب تک شہریار بھی کچن میں جھانک چکا تھا، وہ اپنی جلی ہوئی انگلیوں کو دیکھتے ہوئے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی جلن سے برا حال تھا۔
’’بھائی یہ پیسٹ لگا دیں۔‘‘ سالار نے عجلت میں ٹیوب پکڑائی اور چلا گیا۔
’’یہ کیسے ہوا؟‘‘ وہ اس کی انگلیوں پر پیسٹ لگاتے ہوئے تاسف سے پوچھ رہا تھا۔
’’مجھے چائے بنانی نہیں آتی۔‘‘ وہ لب کاٹتے ہوئے دھیرے سے بولی۔
’’او گاڈ۔‘‘ شہریار نے اپنا سر تھام لیا۔
’’تو جان پہلے بتا دیتی۔‘‘
’’آپ کو انکار کرنا اچھا نہیں لگا۔‘‘ ایک اور جواز اب سر کی بجائے دل تھامنے کی باری تھی۔
’’بس انہی اداؤں سے مات کھا گئے۔‘‘
٭٭٭
’’لو بھلا یہ کوئی بات ہوئی پہلی صبح ہی بہو کو کچن میں گھسا دیا۔‘‘ عائشہ آنٹی عنبرین کی انگلیوں پر برنال لگاتے ہوئے شہریار کو ڈپٹ رہی تھیں جبکہ وہ مسلسل مسکراتے جا رہا تھا۔
’’اب ناشتہ کیسے کرے گی وہ۔‘‘ انہوں نے تمام لوازمات میز پر منتقل کرتے ہوئے اسے گھورا تو اس نے بھی چھٹ اپنی خدمات پیش کر دیں۔
’’میں کروا دیتا ہوں۔‘‘ گرم گرم پوریاں، حلوہ، چنے اور چائے کے علاوہ بریڈ، مارجرین بوائل انڈے بھی تھے، شہریار نے نوالہ اس کی سمت بڑھایا تو عنبرین کی نظریں بے ساختہ سالار کی جانب اٹھ گئیں جو اس کے سامنے والی کرسی سنبھالے یوں بیزار سا بیٹھا تھا جیسے کسی نے زبردستی وہاں بٹھایا ہو، رات بھی اسے مختلف آوازیں آتی رہی تھیں، ہر کوئی سالار کو ڈھونڈ رہا تھا کہ رسم کے لئے وہ بھابھی کے پاس آ کر بیٹھے، لیکن اس نے دو ٹوک انکار کر دیا تھا۔
’’مجھے ایسی فضول رسمیں نہیں پسند۔‘‘ سب خواتین پکارتی ہی رہ گئی تھیں مگر وہ اسے پھولوں کا گلدستہ اور منہ دکھائی میں گولڈ برسلیٹ تھما کر جا چکا تھا۔
عائشہ آنٹی ملازمہ سے کچن کی صفائی کروا رہی تھیں انکل ابھی تیار نہیں ہوئے تھے۔
سالار نے اسے یوں اپنی جانب دیکھتا پایا تو اورنج جوس کا گلاس ایک ہی گھونٹ میں چڑھا کر اٹھ کھڑا ہوا پیچھے اب وہ دونوں رہ گئے تھے۔
’’سالار کافی ریزروڈ ہے۔‘‘ اس نے خیال آرائی کی شہریار نے جاتے ہوئے سالار کو دیکھا اور آزردگی سے بولا۔
’’میرا بھائی تو بہت شوخ اور شرارتی ہوا کرتا تھا بس دل کے معاملے میں قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔‘‘
’’کون تھی وہ لڑکی؟‘‘ عنبرین نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’بس تھی کوئی تم چھوڑو اس بات کو ناشتہ جلدی کرو پھر میں نے تمہیں پارلر چھوڑ کر خود بھی کہیں جانا ہے۔‘‘ وہ عجلت میں بات بدل گیا ولیمے کافنکشن ڈے تھا کچھ اسے کاموں کی بھی جلدی تھی ابھی اسے بوتیک سے اپنے ولیمے کا سوٹ بھی لانا تھا وہ بھی سب بھول کر اپنی باتیں کرنے لگی تھی۔
٭٭٭
ولیمے کے بعد دوست احباب کے ہاں دعوتوں کا سلسلہ چل نکلا تھا وہ ختم ہوا تو دونوں ہنی مون کے لئے پیرس چلے گئے وہاں سے دو ہفتوں کے بعد واپسی ہوئی تھی کل صبح سے شہریار کو باقاعدہ اپنا آفس جوائن کرنا تھا، اس کے دفتر جانے کے بعد اکیلے لاؤنج میں بیٹھی وہ کافی بوریت محسوس کر رہی تھی جب عائشہ آنٹی تصویروں کا البم اٹھائے چلی آئیں۔
’’یہ کب آئیں۔‘‘ وہ خوشدلی سے اٹھ بیٹھی۔
’’دو چار روز قبل ہی آئی تھیں۔‘‘ انہوں نے جواب دینے کے ساتھ البم اسے تھمایا اور خود فون ریسیو کرنے چلی گئیں وہ تصویریں دیکھنے میں مگن تھی جب سالار چائے کا کپ اٹھائے اس کے پیچھے آن کھڑا ہوا۔
’’ٹھہریں پلیز۔‘‘ وہ پیج ٹرن کرنے والی تھی جب اچانک اس نے ٹوک دیا وہ رک کر سر اٹھائے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی تھی لیکن وہ اس کی بجائے تصویر میں اس کے ساتھ کھڑی سندس کو دیکھ رہا تھا۔
’’یہ کون ہے؟‘‘ نیچے جھکتے ہوئے اس نے سندس کی تصویر پہ ہاتھ رکھ دیا۔
’’میری دوست ہے۔‘‘
’’میں نے تو اسے شادی میں نہیں دیکھا۔‘‘
’’ہاں اس کی امی بیمار تھیں تو یہ بس تھوڑی دیر کے لئے آئی تھی۔‘‘
’’کس کے ساتھ آئی تھی؟‘‘
’’اپنے بھائی کے ساتھ۔‘‘ اس کے پے درپے سوالات پہ عنبرین کو کوفت ہونے لگی تھی آخر وہ اتنی انوسٹی گیشن کیوں کر رہا تھا جبکہ ’’بھائی‘‘ کے نام پر وہ ٹھٹک سا گیا تھا۔
’’کیوں اس کا ہزبینڈ نہیں آیا۔‘‘
’’ہزبینڈ؟‘‘ اب کی بار عنبرین چونکی۔
’’اس کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔‘‘
’’آپ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ اس کی شادی نہیں ہوئی۔‘‘
’’ہاں دوست ہے میری فرسٹ ائیر سے بی ایس سی تک ہم ساتھ ہی تھے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے کہیں بات چل رہی ہو۔‘‘
’’نہیں بھئی ابھی تو اس کی ایک بڑی بہن موجود ہے۔‘‘
’’اچھا!‘‘ عنبرین نے اس کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھا جیسے کچھ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا ہو کچھ دیر وہ اس کے بولنے کی منتظر رہی پھر وہ دوبارہ سے تصویروں کی سمت متوجہ ہو گئی، سالار کو اس کی آخری فون کال یاد آئی تھی۔
’’ڈیڈی میرا رشتہ طے کر چکے ہیں ایک ہفتے بعد میری شادی ہے۔‘‘
’’بھابھی!‘‘
’’ہوں۔‘‘ وہ پھر سے سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی جو اب کی بار اس کے سامنے آن بیٹھا تھا۔
’’میں اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس کی فرمائش پر عنبرین نے قدرے سٹپٹا کر اسے دیکھا۔
’’یوں اچانک شادی کا خیال کیسے آ گیا۔‘‘
’’ممی اور ڈیڈی سے میں بات کر لوں گا آپ بس جانے کی تیاری کریں۔‘‘ وہ فیصلہ کن انداز میں کہہ کر چلا گیا تو وہ سارا دن الجھتی رہی اور جب رات کو شہریار سے بات ہوئی تو وہ سن کر بہت خوش ہوا۔
’’ارے تو خوشی کی بات ہے ہم کل ہی چلیں گے پرپوزل لے کر۔‘‘ وہ سالار سے بھی زیادہ جلد باز تھا، پھر باقی کے مراحل کافی خوش اسلوبی سے طے ہوئے تھے اور بارات کا دن آن پہنچا تھا۔
٭٭٭
’’عنبرین جلدی چلو بھئی دیر ہو رہی ہے۔‘‘ شہریار اسے پکارتا ہوا اندر آیا تھا اور پھر دروازے پر ہی مبہوت سا کھڑا رہ گیا، نیوی بلیو ساڑھی میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔
’’اتنی سجاوٹ۔‘‘ اس کا اشارہ پھولوں کے کنگن اور چمکتی ہوئی بندیا کی جانب تھا۔
’’اتار دوں۔‘‘ وہ معصومیت سے بولی۔
’’ارے نہیں یار بس ایک کاجل کا ٹیکا لگا لو بہت سی نظروں کی بچت ہو جائے گی۔‘‘
’’آپ اپنی نظر کی فکر کریں بہت خراب ہے یہ۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے پرفیوم اسپرے کرنے لگی تھی شہریار نے اس کے گلے میں بازو ڈال دیا۔
’’ کتنی خوبصورت لگ رہی ہو، کاش کہ تمہارے جیسی تین اور ہوتیں۔‘‘
’’میرے جیسی کی اگر شرط ہے تو پھر ایک پر ہی اکتفا کریں۔‘‘ اب وہ ناخنوں پر کیوٹیکس لگا رہی تھی اور شہریار فل شرارت کے موڈ میں تھا۔
’’کوشش میں کیا حرج ہے۔‘‘
’’میں ہیلپ کروا دوں۔‘‘ وہ اطمینان سے بولی۔
’’تم جیلس کیوں نہیں ہوتی۔‘‘ شہریار نے اس کی لٹ کھینچی۔
’’آپ فرمائش بھی تو میرے جیسی کی کرتے ہیں تو اس پر مغرور تو ہوا جا سکتا ہے جیلس نہیں۔‘‘ وہ اس کی گرفت سے نکل کر دروازے کی سمت بڑھی۔
’’بات تو سنو۔‘‘ اس نے پھر پکارا۔
’’اب بھلا دیر نہیں ہو رہی۔‘‘ وہ باور کرواتے ہوئے باہر نکل گئی، شہریار بھی اس کا ہینڈ بیگ اٹھائے پیچھے لپکا لاؤنج میں کھڑی بے ساختہ ہنستی ہوئی لڑکیوں کو ایک اور بہانہ مل گیا تھا۔
’’شہریار بھائی شادی کے بعد یہی کام ہوتا ہے۔‘‘ ایک لڑکی نے ہنستے ہوئے جملہ کسا تو خجل سا ہو کر سر کھجانے لگا۔
’’خبردار جو میرے میاں کو تنگ کیا ہو تو۔‘‘ سالار کو ہار پہناتے ہوئے اس نے دور سے آنکھیں دکھائیں۔
’’اوئے ہوئے۔‘‘ ایک اور زبردست معنی خیز سا قہقہہ پڑا تھا۔
بارات میں چند قریبی دوست احباب ہی شامل تھے زیادہ گیدرنگ اس لئے نہیں تھی کہ سندس کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔
انہوں نے شادی کا ارینج بھی گھر میں ہی کیا تھا بارات گئی نکاح ہوا اور کھانا کھا کر وہ لوگ دولہن گھر لے آئے۔
ولیمے کا فنکشن ایک ہفتے بعد تھا سو مہمان شام کے بعد رخصت ہو چکے تھے، وہ بھی مختلف رسموں کے بعد سندس کو بیڈ روم میں چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلی آئی خوب تھکن کے باعث اب تو برا حال ہو رہا تھا، وہ لباس تبدیل کرنے کے بعد اپنی سائیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔
’’یار تھوڑا سر ہی دبا دو۔‘‘ یہ بھی قریب بلانے کا ایک انداز تھا۔
’’کیوں میں آپ کی نوکرانی ہوں۔‘‘ وہ زیر لب ہنسی۔
’’اچھا تو پھر کیا ہو۔‘‘ وہ مصنوعی رعب سے بولا۔
’’رانی!‘‘ اس نے کروٹ بدلے بدلے ہی جواب دیا۔
’’کہاں کی۔‘‘ وہ اس کے اوپر جھک آیا تھا۔
’’شہر دل کی۔‘‘ وہ شوخی سے بولی۔
’’شہر میں دل تو کئی ہیں۔‘‘ وہ مشکوک ہوا۔
’’ہاں لیکن دل کا شہر تو ایک ہی ہوتا ہے نا۔‘‘
’’اچھا جی۔‘‘ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کا رخ اپنی سمت موڑ لیا۔
’’میں ہمیشہ سے یہی چاہتا تھا کہ میری بیوی کا کردار شفاف آئینے کی مانند ہو۔‘‘ وہ اس کے بالوں کی لٹ کو اپنی انگلی پہ لپیٹتے ہوئے بتا رہا تھا اور عنبرین کی رنگت متغیر ہو گئی تھی اس کی بات پر۔
٭٭٭
’’سندس کیا ہوا؟‘‘ اگلے روز وہی سب سے پہلے اٹھ کر سالار کے بیڈ روم میں آئی تھی اور بیڈ پر بیٹھی سندس کو دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔
شادی کی پہلی صبح اس نے کسی دلہن کو اتنی اجڑی ہوئی حالت میں نہیں دیکھا تھا بکھرے ہوئے بال، شکن آلود لباس اور متورم آنکھیں، ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے کانچ اس کی کلائیوں میں کھبے ہوئے تھے۔
وہ بھی ایک بیاہتا لڑکی تھی شہریار نے تو کبھی اس کے ساتھ یوں وحشیوں جیسا سلوک نہیں کیا تھا اس کی حالت دیکھ کر یک لخت ہی اس کا دل غم و غصے سے بھر گیا۔
’’جاؤ پلیز شاور لے لو اور اپنی حالت درست کرو۔‘‘ وہ اس کی ٹوٹی بکھری حالت سے نظریں چراتے ہوئے بولی اور بہت پیار سے اسے اٹھا کر واش روم بھیجا اور خود اس کا ناشتہ بنوا کر کمرے میں ہی لے آئی لیکن سندس سے کچھ کھایا نہیں جا رہا تھا، نوالے اس کے حلق میں اٹک رہے تھے۔
’’ایم سوری سندس۔‘‘ وہ اس کے سامنے شرمندہ ہو رہی تھی کہ رشتہ تو اس کے توسط سے ہوا تھا۔
’’میں نہیں جانتی تھی کہ سالار…‘‘ لب کاٹتے ہوئے اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’تم فکر مت کرو میں آنٹی سے بات کروں گی وہ اچھی طرح پوچھ لیں گی کہ اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔‘‘
’’وہ مجھے چھوڑ دے گا عنبرین اس نے مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا ہے۔‘‘ وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
’’ارے کیسے کیسے چھوڑ دے گا اپنی پسند سے اس نے شادی کی ہے میں انکل، آنٹی اور شہریار سب تمہارے ساتھ ہیں تم اکیلی نہیں ہو۔‘‘ وہ اسے تسلی سے نوازنے کے بعد اپنے کمرے میں آ کر شہریار سے الجھ پڑی تھی۔
’’میری دوست کیا لا وارث تھی جو آپ کے بھائی نے اس کے ساتھ شادی کی ایک رات گزاری اور اب گھر سے نکل جانے کا حکم سنا دیا ہے۔‘‘
’’کیا بکواس ہے یہ۔‘‘ اس کی پیشانی پر ایک ساتھ کئی بل نمودار ہوئے۔
’’یہ اس سے جا کر پوچھیں۔‘‘ وہ غصے سے کہتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔
’’عجیب تماشا ہے۔‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے باہر نکل گیا لیکن سالار کا سارے گھر میں کہیں کچھ پتہ نہیں تھا فی الحال اس نے ممی اور ڈیڈی سے اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا وہ پہلے سالار سے خود بات کرنا چاہتا تھا اور جب تک اس کی واپسی ہوئی اسے نیند آ چکی تھی۔
٭٭٭
’’تم گئی نہیں ابھی تک۔‘‘ اسے اپنے کمرے میں موجود دیکھ کر سالار کا طیش عود کر آیا تھا سندس کا دل سینے میں سکڑ کر پھیلا۔
’’اتنی بڑی سزا اگر سنا ہی رہے ہو تو جرم بھی بتا دو۔‘‘
’’کیا کہا تھا تم نے کہ تمہاری شادی ہو رہی ہے تم ایک مجبور لڑکی ہو جس نے ماں باپ کی عزت کی خاطر اپنی محبت کو قربان کر دیا ہے بیوقوف بنا رہی تھی مجھے۔‘‘ وہ اس کا بازو کھینچتے ہوئے غرایا۔
’’تم کیا کہہ رہے ہو میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔‘‘ اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا تھا شاید کوئی بہت بڑی مس انڈراسٹینڈنگ ہو چکی تھی۔
’’یہ تصویر سمجھ میں آ رہی ہے تمہیں۔‘‘ اس نے اپنا سیل فون نکال کر اس کے سامنے رکھا جس کی ایل سی ڈی پر اس کی تصویر چمک رہی تھی اور کچھ مزید انکشافات کے بعد سارے منظر اس کی آنکھوں کے سامنے دوڑنے لگے تھے، وہ اپنی جگہ سن سی بیٹھی رہ گئی۔
’’کل تک تم مجھے اس گھر میں نظر نہ آؤ، ڈائیورس پیپر تمہیں وہیں مل جائیں گے۔‘‘ وہ اپنا فیصلہ سنا کر جا چکا تھا اور وہ عنبرین سے کہہ رہی تھی۔
’’عنبرین تم جانتی ہو نا کہ وہ میں نہیں تھی۔‘‘ اور عنبرین کی آنکھوں کے گرد اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔
٭٭٭
’’ٹھک… ٹھک… ٹھک۔‘‘ گہری پر سکون نیند پر یہ آواز کسی ہتھوڑے کی مانند اس کی سماعتوں پر برس رہی تھی نیند سے بوجھل لمبی پلکوں کو کسلمندی سے کھولتے ہوئے اس نے خاصی ناگواری سے دروازے کی سمت دیکھا تھا گویا وہ آواز کی سمت کا تعین کر چکی تھی اگلے ہی پل اس کی سنہری آنکھوں نے وال کلاک کا رخ کیا، سات بج کر دس منٹ ہو چکے تھے آٹھ بجے اس کا کالج تھا، دستک لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی کمبل ایک سمت اچھالتے ہوئے وہ چھلانگ لگا کر بستر سے اتری اور سی ڈی پلیئر آن کرنے کے بعد خود واش روم میں جا گھسی۔
بیڈ روم بوفر کی تیز دھمک سے گونج اٹھا تھا اور اب کمرے کی ساکت فضا میں میڈونا کے سر بکھر رہے تھے، باہر کھڑے عمر کو اشارہ مل چکا تھا کہ محترمہ بیدار ہو چکی ہیں وہ الٹے قدموں سے سیڑھیاں اترتے ہوئے ناشتے کی میز پر آن بیٹھا تھا، جہاں اس کے ڈیڈی معروف بزنس میں گوہر رحمان اخبار بینی میں مشغول تھے اور مما کچن میں کھڑی ملازمہ کو ہدایات دے رہی تھیں۔
’’عینا اٹھ گئی۔‘‘ حسب معمول انہوں نے عمر سے استفسار کیا۔
’’جی!‘‘ اس نے تابعداری سے سر ہلایا اور پھر اٹھ کر مما کی مدد کے خیال سے میز پر ان کے ساتھ مختلف لوازمات سیٹ کرنے لگا تھا مما اس کے احساس ذمہ داری پر نہال ہو کر رہ گئی تھیں۔
عینا اور عمران کے دو ہی بچے تھے عمر جتنا مودب مہذب اور سلجھا ہوا تھا عینا اس کے برعکس اتنی ہی ضدی، نٹ کھٹ اور ٹام بوائے قسم کی لڑکی تھی ابھی بھی گیلے بالوں میں ٹاول لپیٹے اس نے سیڑھیاں اترنے کی بجائے ریلنگ سے سلائیڈ لگائی تھی نائلہ بیگم کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔
’’عینا آخر تم کب سدھرو گی۔‘‘
’’گڈ مارننگ ڈیڈ۔‘‘ حسب معمول اس نے گوہر رحمان کے گلے میں بازو ڈال کر اپنا گال ان کے رخسار کے ساتھ مس کیا اور کرسی سنبھال کر بیٹھ گئی۔
قیمہ بھرے پراٹھوں کے ساتھ مکمل طور پر انصاف کرتے ہوئے ساتھ ساتھ اک نظر اخبار پر بھی ڈالے جا رہی تھی۔
’’عینا جلدی کرو۔‘‘ عمر نے ریسٹ واچ پر نظر دوڑاتے ہوئے زچ ہو کر کہا مگر مجال ہے جو اس کی سست روی میں کوئی کمی واقع ہوئی ہو۔
اب وہ دودھ میں اوولٹین ملا کر گھونٹ گھونٹ حلق سے اتار رہی تھی۔
’’ایک منٹ میں اگر تم نہ آئی تو میں چلا جاؤں گا۔‘‘ اپنا بیگ اور فولڈر اٹھا کر دھمکی آمیز لہجے میں کہتا وہ تن فن کرتا لاؤنج کی سیڑھیاں اتر گیا تھا، عینا نے معصومیت بھری شکایتی نظروں سے باپ کو دیکھا۔
’’دیکھا آپ نے ڈیڈی۔‘‘
’’ہاں تو ٹھیک کہتا ہے، وہ بھی روز تمہاری وجہ سے اسے بھی دیر ہو جاتی ہے۔‘‘ نائمہ بیگم نے بروقت مداخلت کر کے عمر کا دفاع کیا تھا وہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ گوہر رحمان اسے نئی گاڑی لے کر دیں ایک تو انہیں عینا کی ڈرائیونگ کا کوئی بھروسہ نہیں تھا دوسرا وہ اس کی موڈی اور من موجی ٹائپ فطرت سے خوب اچھی طرح آگاہ تھیں، گاڑی لے کر دینے کا مطلب تھا کہ وہ جو دن میں دو چار بار اس کی شکل دیکھ لیتی تھیں اس سے بھی محروم ہو جاتیں، باہر وہ ہارن پہ ہاتھ رکھ چکا تھا۔
’’گویا یہ آخری وارننگ تھی۔‘‘ مما کی بے جا حمایت پر وہ منہ پھلا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’یوں شکل کے زاویے بگاڑ کر میرے ساتھ نہ جایا کرو۔‘‘ عمر نے جان کر اسے چڑایا تو وہ بھڑک کر بولی۔
’’مائینڈ یور لینگویج بڑی ہوں تم سے۔‘‘
’’سات منٹ بڑے ہونے کا اعزاز اگر آپ کو حاصل ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مجھ پر خوامخواہ کا رعب بگاڑیں۔‘‘ یوٹرن لیتے ہوئے اس نے عینا کے سرخ چہرے کو دیکھا تو وہ خشمگیں نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولی۔
’’گاڑی روکو۔‘‘
’’پھر تم نے پن لینا ہو گا مجھے سمجھ میں نہیں آتا یہ ہر روز تم ایک نیا پن کیوں لیتی ہو، شاید مجھے پریشان کرنے کے لئے لیکن آج میں بھی ٹائم پر کالج جاؤں گا اور یہ گاڑی اب تمہارے کالج گیٹ پر ہی رکے گی۔‘‘ اس نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دی جبکہ ’’کالج گیٹ‘‘ نے عینا کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا اس نے چپکے سے ڈیش بورڈ پہ رکھا عمر کا قیمتی پن اٹھا لیا۔
یہ پن اسے انگلش کی ٹیچر ثانیہ کے جوڑے میں ٹکانا تھا ان کا جوڑا اسے اتنا پسند تھا کہ اس میں لگانے کے لئے وہ روز ایک نیا پن لے کر جاتی تھی۔
سیکنڈری سکول کی مخصوص سرخ بلڈنگ کو دیکھ کر ہی اس کا موڈ بگڑ جاتا تھا، مما نے اسے کالج میں ایڈمیشن کی پرمیشن ہی نہیں دی تھی ان کا خیال تھا کہ کالج کا آزادانہ ماحول اسے مزید بگاڑ دے گا۔
سکول گیٹ سے اندر داخل ہونے تک اسمبلی ہو چکی تھی، وہ تاخیر سے آنے والے طلبہ میں بیگ کاندھے پر ڈالے اک ادا سے کھڑی چیونگم چبا رہی تھی اور کھڑکی سے جھانکتی سندس، مہرین اور رومانہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس کا حلیہ ملاحظہ کرنے میں مشغول تھیں۔
ہاف سلیو لیس لانگ شرٹ کے ساتھ چست کیپری تلے سرخ و سفید پنڈلیاں اپنی جھلک دکھا رہی تھیں نازک پیر ہائی ہیل والی بلیک سینڈل میں مقید تھے گھنگریالے بال شانوں پہ بکھرے ہوئے تھے جس کی لٹیں رخساروں سے بوسہ کناں تھیں، لیٹ فائن ادا کرنے کے بعد وہ کلاس میں آئی تو پوری کلاس منہ کھولے دم بخود تھی، ایک لڑکی جو پچھلے ایک ہفتے سے عبایا پہن کر آ رہی تھی اس کا یہ گیٹ اپ شاکنگ ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابل فہم بھی تھا۔
’’عینا یہ تم ہو؟‘‘ سب سے پہلے سندس کو ہوش آیا تھا۔
’’کیوں میرے سر پہ کیا سینگ نکل آئے ہیں۔‘‘ وہ اطمینان سے کہتی اپنی سیٹ سنبھال چکی لیکن کلاس میں موجود لڑکیاں ہنوز گردن گھمائے اسے دیکھ رہی تھیں۔
’’تمہارا عبایا کہاں ہے اور یہ کیا پہن رکھا ہے کیپری۔‘‘ مہرین کی نظریں اس کی برہنہ پنڈلیوں پر جمی تھیں، وہ ان کی آنکھوں سے جھلکتے حیرت آمیز تاثرات کو انجوائے کرتے ہوئے لاپرواہی سے بولی۔
’’اب فیشن بدل چکا ہے۔‘‘
’’تو تم عبایا فیشن کے طور پر پہنتی تھی۔‘‘
’’یس مائی ڈئیر۔‘‘ اس نے رومانہ کے سر پر پنسل ماری اور جھک کر بیگ سے نوٹ بک نکالنے لگی ٹیچر کلاس میں آ چکی تھی۔
٭٭٭
بیڈ پر نیم دراز میوزک سننے کے ساتھ ساتھ وہ ایک فیشن میگزین کی ورق گردانی کرنے میں مشغول تھی جب اچانک موبائل کی رنگ ٹیون بجنے لگی کوئی اجنبی نمبر تھا اس نے یس کا بٹن پریس کر کے موبائل کان سے لگا لیا۔
’’ہیلو!‘‘ گھمبیر مردانہ آواز سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ سیدھی ہو بیٹھی۔
’’کس سے بات کرنی ہے۔‘‘ اس نے جھجکتے ہوئے استفسار کیا۔
’’تم سے۔‘‘ وہ بے دھڑک بولا۔
’’اچھا تو کرو بات۔‘‘
’’تمہارا نام۔‘‘
’’عینا!‘‘
’’عینا کیا میں تم سے دوستی کر سکتا ہوں۔‘‘
’’وائے ناٹ۔‘‘ وہ فراخدلی سے بولی۔
’’او رئیلی۔‘‘ اسے جیسے دھچکا لگا تھا۔
’’اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔‘‘ اس کا ہونق چہرہ تصور میں لا کر حظ اٹھا رہی تھی۔
’’بس یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوئی لڑکی اتنی آسانی سے بھی ایک انجان شخص کی فرینڈ شپ آفر کو قبول کر سکتی ہے۔‘‘
’’ہاں میں تو ایسی ہی ہوں۔‘‘ گویا کہ اسے اپنے ایسے ہونے پر بھی فخر تھا۔
’’کیا کر رہی تھی؟‘‘
’’میوزک سن رہی تھی۔‘‘
’’کون سا سنگر پسند ہے؟‘‘
’’کوئی بھی نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’سنگیت کا تعلق آواز سے ہوتا ہے۔‘‘ وہ ہنسی۔
’’اچھا۔‘‘ وہ جیسے لاجواب سا ہو گیا اس کا انداز بتا رہا تھا کہ جیسے وہ فرسٹ ٹائم کسی رانگ کالر سے بات کر رہا ہو خصوصاً ً کسی لڑکی سے۔
’’ہونہہ ڈنر کا ٹائم ہو چکا ہے میں جا رہی ہوں۔‘‘
’’کیا آئٹم ہے آج کھانے میں۔‘‘ وہ بات بڑھانے کو بولا۔
’’یہ تو ڈائننگ روم میں جا کر دیکھوں گی۔‘‘
’’تم کھانا نہیں بناتی؟‘‘
’’ہمارا شیف بناتا ہے۔‘‘
’’تم مجھ سے کچھ نہیں پوچھو گی؟‘‘
’’میرا نمبر کہاں سے ملا؟‘‘
’’ارجنٹ موبائل دوستی۔‘‘
’’اوکے پھر بات ہو گی۔‘‘ اس نے کہہ کر کال ڈس کنیکٹ کر دی رانگ نمبرز پر بات کرنا اس کا دلچسپ مشغلہ تھا لیکن خود کو پراسرار شو کرنے کے لئے وہ کسی سے بھی لمبی بات نہیں کرتی تھی۔
’’ڈیڈی اس سے پوچھیں کہ میرا پن کہاں ہے؟‘‘ وہ جیسے ہی ڈرائنگ روم میں آئی عمر اس کو دیکھتے ہی بولا۔
’’مجھے کیا پتہ پن تمہارا ہے ڈیڈی مجھ سے کیوں پوچھیں۔‘‘ وہ صاف مکر گئی۔
’’چھوڑو عمر ایک پن ہی تو ہے۔‘‘ وہ بیزاری سے بولے تو عینا نے ہنستے ہوئے شوشہ چھوڑا۔
’’کیا پتہ اس کی کسی گرل فرینڈ نے دیا ہو۔‘‘ اور عمر کا نوالہ اس سنگین الزام پر حلق میں اٹکنے لگا تھا گوہر رحمان نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔
’’ڈیڈی بہت بڑی جھوٹی ہے یہ۔‘‘ وہ بس یہی کہہ کر سر جھکا کر رہ گیا۔
٭٭٭
لان کے چھ چکر وہ لگا چکی تھی لیکن ابھی سا تواں چکر باقی تھا۔
کھڑکیوں سے جھانکتی ریلنگ پہ جھکی اور آتی جاتی لڑکیاں ترحم بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں اور وہ سب کو ہاتھ ہلا ہلا کر اپنا سا تواں چکر لگا رہی تھی، اس کے چہرے پر نہ کوئی شرمندگی تھی نہ ندامت کے آثار۔
یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پنشمنٹ کی بجائے آؤٹنگ پر نکلی ہو آج ایک ہفتہ ہو چکا تھا اسے میتھ کے ٹیسٹ میں زیرو لیتے ہوئے جس کی سزا لان میں سات چکر لگانے کی ملتی تھی۔
’’عینا اب تو شرم کر لو سارے سکول میں بدنام ہو چکی ہو کوئی سزا کو بھی اتنا انجوائے کر سکتا ہے۔‘‘ سندس نے منرل واٹر کی بوتل اس کی سمت بڑھاتے ہوئے گھورا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’اصل میں بات یہ ہے کہ مارننگ واک کے لئے مجھ سے اٹھا نہیں جاتا تو ویٹ لوز کرنے کے لئے یہ واک اچھی ہے۔‘‘
’’اپنے ٹائپ کا ایک ہی کردار ہو تم۔‘‘ وہ سر جھٹکتے ہوئے مسکرا دی۔
کلاس روم کے آخری کارنر پر لڑکیوں کا جمگھٹا سر جوڑے کچھ دیکھنے میں مگن تھا۔
’’یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ وہ ان کے سر پہ آن کھڑی ہوئی۔
’’ثمرہ کی انگیج منٹ پکچرز۔‘‘ سندس نے اس کے کان میں گھستے ہوئے اطلاع دی۔
’’بڑا ہینڈسم ہے ثمرہ کا فیانسی۔‘‘ رومانہ اسی جمگھٹے سے باہر نکلی تھی۔
’’ثمرہ بھی بڑی خوبصورت لگ رہی تھی۔‘‘ مہرین نے اسے تپانے کی خاطر خوامخواہ میں ثمرہ کو سراہا وہ جانتی تھی عینا کی اور اس کی ایک پل کے لئے بھی نہیں بنتی ٹیچرز تک عاجز تھیں، دونوں کی نوک جھونک پر۔
ثمرہ نے انہیں سینئر سمجھ کر کلاس روم کا پتہ پوچھا تھا حالانکہ یہ کوئی یونیورسٹی تو نہیں تھی جہاں کلاسز ڈھونڈنے میں کوئی دقت ہوتی پھر بھی عینا نے اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے اسے سیڑھیوں کے دائیں جانب بنے ٹیچرز واش کا راستہ بتا دیا تھا۔
وہاں سے اچھی خاصی جھاڑ سننے کے بعد جب وہ واپس آئی تو اس سے معذرت کرتے ہوئے اپنے خلوص، دوستی اور تعاون کا بھرپور یقین دلاتے ہوئے پٹاخوں کی ایک لڑی تھما کر کہا تھا۔
’’بس تمہیں انہیں چلا کر روسٹرم کے نیچے رکھنا ہے بعد میں میرا نام لگا دینا باقی میں سنبھال لوں گی۔‘‘ ٹیچر الوینہ کا اس روز کلاس میں پہلا پیریڈ تھا اپنا تعارف کروانے کے لئے انہوں نے جیسے ہی لب کھولے پوری کلاس پٹاخ، پٹاخ کی آواز سے گونج رہی تھی۔
ٹیچر الوینہ اس اچانک افتاد پر اپنی ساڑھی سنبھالتے ہوئے جونہی اچھلیں ہائی ہیل پر ان کا پاؤں رپٹا اور وہ دھڑام سے نیچے۔
قہقہوں کی آوازیں ایک دم گہرے سکوت میں ڈھل چکی تھیں ثمرہ کی رنگت فق، کچھ دیر بعد پرنسپل کے آفس دونوں کی طلبی ہوئی تو عینا نے صاف مکرتے ہوئے کہا۔
’’آپ کلاس سے آ کر پوچھ لیں ساری کلاس نے اسے روسٹرم کے نیچے پٹاخے رکھتے دیکھا تھا میں تو دوسری رو کے فرنٹ پر بیٹھتی ہوں۔‘‘ اور ثمرہ اس دروغ گوئی پر ہق دق سی کھڑی منمناتے ہوئے پرنسپل کی ڈانٹ سنتی رہی تھی۔
مس الوینہ سے ایکسکیوز کرنے کے بعد جب وہ کلاس میں آئی تو ہر کوئی استہزائیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے زیر لب مسکرا رہا تھا، بس وہی دن تھا دونوں کی دشمنی کے آغاز کا۔
٭٭٭
لاؤنج میں رکھے صوفے پر بیٹھی بظاہر وہ ٹی وی میں گم تھی لیکن اس کا خیال ثمرہ کی تصویروں میں الجھا ہوا تھا سب لڑکیاں کیسے اس کی قسمت پر رشک کر رہی تھیں جیسے انگیج منٹ کی بجائے ہفتہ اقلیم کی دولت اس کے ہاتھ لگ گئی ہو اور وہ سب کے کمنٹس پر کیسے گردن اکڑائے بیٹھی بلش ہو رہی تھی۔
اس کا سیل بج رہا تھا لیکن اس کا آج اس رانگ کالرز سے بھی بات کرنے کو دل چاہ رہا تھا اس نے پاورڈ آف کر کے قالین پر اچھال دیا۔
’’کیا بات ہے عینا؟‘‘ نائمہ بیگم نے اس کی خاموشی سے زیادہ بیزاری اور اکتاہٹ بھرے انداز کو نوٹ کیا تھا ورنہ وہ ایک جگہ ٹک کر بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھی، ابھی کچھ دیر قبل عمر نے ریکٹ اس کی جانب اچھالتے ہوئے بیڈ منٹن کھیلنے کی آفر کروائی تو اس نے ’’موڈ نہیں ہے‘‘ کہہ کر منع کر دیا تھا۔
’’مما میں چاہتی ہوں آپ میری شادی کر دیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ یوں اچھلیں جیسے کسی بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔
’’اتنا اوور ری ایکٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ وہ ان کے ماتھے کی شکنیں دیکھتے ہوئے خفگی سے بولی تو وہ اپنے حواس مجتمع کرتے ہوئے چلائیں۔
’’دماغ درست ہے تمہارا؟‘‘
’’کیوں شادی کیا پاگل لوگ کرتے ہیں؟‘‘
’’کون ہے وہ؟‘‘ اگلے ہی پل انہوں نے کڑے تیوروں سے دریافت کیا۔
’’کون وہ؟‘‘ وہ اچنبھے سے بولی۔
’’جس نے تمہارے سر پہ شادی کا بھوت سوار کیا ہے۔‘‘
’’ایسی کوئی بات نہیں بس میں اس لائف سے فیڈ اپ ہو چکی ہوں کوئی بگ اینڈ گڈ چینج ہونا چاہیے۔‘‘
’’پہلے اپنی اسٹڈی تو کمپلیٹ کر لو۔‘‘ وہ رسانیت سے بولیں۔
’’مجھے اسٹڈی میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے آپ اس بات پر غور کریں جو میں نے آپ سے کہی ہے۔‘‘ وہ فیصلہ صادر کرتی اٹھ کر اوپر چلی آئی، جبکہ پیچھے وہ سر پکڑ کر رہ گئی تھیں بھلا یہ کوئی کپڑوں جوتوں کی فرمائش تو نہیں تھی جو جھٹ پٹ پوری کر دی جاتی۔
٭٭٭
’’عینا یہ ائیر رنگز ڈائمنڈ کے ہیں۔‘‘ آج پھر کلاس کی تمام تر توجہ اس کی جانب مبذول تھی لڑکیاں اس کی ڈائمنڈ ائیر رنگز لاکٹ اور سرخ یاقوت احمر سے مزین برسلیٹ کو کافی پر شوق نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
Pendent میں چمکتا ہیرا سب کی نظروں کو خیرہ کیے دے رہا تھا۔
’’عینا یہ زیور اتار کر بیگ میں رکھو کالج میں اس کی پرمیشن نہیں ہے۔‘‘ ٹیچر انعم نے ڈپٹتے ہوئے کہا تو اس نے بیگ سے اسکارف اور گلویز نکال کر پہن لئے۔
’’اب تو نظر نہیں آ رہا نا۔‘‘ وہ ایسے ہی ہر کسی کو زچ کر کے رکھ دیتی تھی، کالج والے اسے ریسٹیکٹ بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اس کے فادر گوہر رحمان کالج کے سب سے بڑے ٹرسٹی تھے اپنی حیثیت کا اسے اچھی طرح سے ادراک تھا اور سب کی توجہ خود پر مرکوز رکھنے کی خاطر وہ ہمیشہ سے ایسی ہی اوٹ پٹانگ قسم کی حرکتیں کیا کرتی تھی۔
’’تم بہت بد تمیز لڑکی ہو۔‘‘ سر جھٹکتے ہوئے انہوں نے ناگواری سے کہا تو وہ یوں مسکرائی جیسے مس ورلڈ کا خطاب مل گیا ہو۔
’’تھینک یو میم۔‘‘
’’میں تمہاری تعریف نہیں کر رہی۔‘‘ اس کا انداز مس انعم کو سرتاپا سلگا گیا تھا۔
’’ہاں تو اس میں شرمندگی کی کیا بات ہے جس طرح اچھے خوبصورت ذہین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ویسے بد تمیز بھی ہوتے ہیں ان کے لئے ہی تو یہ لفظ بنا ہے ورنہ پھر آپ بد تمیز کس کو کہتی۔‘‘ وہ باقاعدہ جرح پر اتر آئی تھی مس انعم لب بھینچے ہوئے روسٹرم پر رکھی کتاب کھول کر لیکچر کی سمت متوجہ ہوئیں اور اس کے نیم وا لب سندس کی زور دار چٹکی پر باہم پیوست ہو کر رہ گئے تھے۔
’’تم کیسے اتنا نڈرہو کر بول لیتی ہو؟‘‘ مہرین نے متاثر کن انداز میں پوچھا تو سندس نے اسے بھی زوردار دھپ رسید کی۔
’’اسے بگاڑنے میں سب سے زیادہ تم دونوں کا ہاتھ ہے سرزنش کرنے کی بجائے یوں متاثر ہو رہی ہو جیسے وہ ٹیچر سے بد تمیزی کرنے کی بجائے ماؤنٹ ایو رسٹ فتح کر کے آئی ہو۔‘‘ وہ خاصی جلی بیٹھی تھی۔
’’میں نے کیا کہا ہے۔‘‘ خاموش بیٹھی رومانہ اس الزام پر تڑپ اٹھی، اس دوران عینا کا سیل فون بجنے لگا تھا۔
’’ہش۔‘‘ اس نے سب کو خاموش کروانے کے بعد یس کا بٹن پریس کرنے کے ساتھ ساتھ اسپیکر بھی آن کر دیا تھا۔
’’عینا کہاں ہو تم، کل سے تمہارا سیل آف تھا اتنی ٹینشن ہو رہی تھی مجھے، ساری رات تمہیں کال کرتا رہا ہوں اب بھی ساری کلاسز بنک کر کے پھر سے تمہیں فون کر رہا ہوں۔‘‘ وہ جو کوئی بھی تھا نان اسٹاپ شروع ہو چکا تھا۔
’’اچھا میں تم سے کچھ دیر میں بات کرتی ہوں۔‘‘ کال اینڈ کرنے کے بعد وہ اس کے جذباتی پن پر ہنستے ہوئے پیچھے گھاس پر لڑھک گئی تھی۔
’’کون تھا یہ؟‘‘ سندس نے گھورا تو وہ بمشکل اپنا قہقہہ ضبط کرتے ہوئے بے نیازی سے شانے اچکا کر بولی۔
’’ہو گا کوئی فرسٹ ائیر فول۔‘‘
’’اور تم اسے بے وقوف بنا رہی ہو، دیکھو عینا لڑکیوں کو ایسے مذاق نہیں کرنے چاہئیں۔‘‘
’’بورنگ باتیں مت کرو، یہی تو عمر ہوتی ہے انجوائے منٹ کی پھر کل کو شادی، بچے، گھریلو مصروفیات کچھ تو ایسے ایڈونچرز ہونے چاہئیں، جنہیں یاد کر کے ہم ڈھیر سارا خوش ہو سکیں۔‘‘
’’عورت کا کردار شفاف آئینے کی مانند ہوتا ہے مرد کو اگر اس آئینے پر ہلکی سی دھول بھی نظر آ جائے تو عورت اس کے دل سے اتر جاتی ہے، رہی خوشی کی بات تو وہ کسی کا دل توڑنے سے بھی نہیں ملتی۔‘‘ سندس اس کو سمجھاتے ہوئے بولی۔
’’میں نے کس کا دل توڑ دیا ہے۔‘‘ وہ اتنے لمبے لیکچر پر بھڑک اٹھی تھی۔
’’یہ لڑکا جو تمہاری وجہ سے رات بھر جاگتا رہا ہے صبح سے کالج میں کلاسز بنک کر کے بیٹھا ہے کچھ تو امیدیں دلائی ہوں گی نا تم نے اسے۔‘‘
’’پاگل تو نہیں ہوئی، تمہیں لگتا ہے وہ سچ بول رہا تھا ارے یار اس کو کچھ سمجھاؤ پتہ نہیں کس سیارے سے اتر کر اس دنیا میں آ گئی ہے یا پھر پوز کر رہی ہے۔‘‘ اپنا سیل فون اور نوٹ بکس اٹھا کر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر چلی گئی تھی مہرین اور رومانہ نے تاسف بھری نظروں سے سندس کو دیکھا تو وہ بے بسی سے بڑبڑائی۔
’’اس کا لہجہ جھوٹ نہیں لگتا۔‘‘
٭٭٭
’’عینا!‘‘ وہ ٹیرس پہ کھڑی واک میں کان میں لگائے آئس کریم کھا رہی تھی جب عمر تن فن کر کے اس کے سر پر آن کھڑا ہوا۔
’’یہ کیا سن رہا ہوں میں؟‘‘ اس کے تیور اچھے خاصے جارحانہ تھے۔
’’کیا؟‘‘ وہ متاثر ہوئے بغیر ابرو اچکا کر بولی۔
’’تم شادی کرنا چاہتی ہو؟‘‘ اس نے دانت پیستے ہوئے باور کروایا نائمہ بیگم نے گوہر رحمان سے بات کی تھی لیکن انہوں نے اس موضوع کو کچھ خاص درخود اعتنا نہیں جانا تھا۔
’’ابھی وہ کم عمر اور ناسمجھ ہے کم از کم چار سال تک تو میں ابھی اس متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ اور وہ ان کے جواب پر گہری سوچ میں متفرق ہو چکی تھیں عینا نے وا شگاف الفاظ میں دھمکی دی تھی کہ اگر جلد از جلد اس کی شادی نہیں ہوئی تو گھر چھوڑ کر چلی جائے گی اور وہ اس کی ضد اور ہٹ دھرمی سے اچھی طرح واقف تھیں پھر بھی آخری کوشش کے طور پر عمر کو اس کے پاس بھیجا تھا جس کے استفسار پر وہ سپاٹ نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولی تھی۔
’’تو؟‘‘
’’عمر دیکھی ہے اپنی یو آر جسٹ سوینٹین۔‘‘ وہ بھنا اٹھا۔
’’اٹس ناٹ یور پرابلم۔‘‘
’’عینا سمجھنے کی کوشش کرو مما بہت ڈسٹرب ہیں تمہاری بے تکی ضد پر۔‘‘
’’یہ میری ضد نہیں میرا شوق ہے اور ویسے بھی کبھی نہ کبھی تو مجھے شادی کرنی ہی ہے تو پھر جب اب میرا دل چاہ رہا ہے تو ابھی کیوں نہیں کر سکتی۔‘‘
’’تمہاری ضد ہو تمہارا شوق یا تمہارا دل چاہے پہلے تم اپنی اسٹڈی کمپلیٹ کرو گی پھر تمہاری شادی ہو گی کم از کم گریجویشن تو شرط ہے۔‘‘ نائمہ بیگم کا ضبط جواب دے چکا تھا انہوں نے حتمی انداز میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔
٭٭٭
کچھ دن بعد ایگزیم تھے۔
اور وہ وصی شاہ کی پوئٹری، نور جہاں کے گیت اور ابن انشاء کے کالم پڑھتی رہی تھی۔
’’عینا تمہارا دماغ ٹھیک ہے۔‘‘ سندس نے کئی بار ٹوکا مگر اسے پرواہی کب تھی اسے تو فیل ہونا تھا وہ بھی انتہائی شاندار انڈوں کے ساتھ۔
اور اس کی مارکس شیٹ دیکھ کر گوہر رحمان پر سکتہ طاری ہو چکا تھا کولمبیا کے گولڈ میڈلسٹ کی اکلوتی بیٹی گیارہ سو میں سے ایک مارکس بھی حاصل نہیں کر سکی تھی انہوں نے بورڈ سے اس کے پیپر نکلوائے اور آنسر شیٹ پر درج۔
جے میں ہوندی ڈھولنا
سونے دی تویتڑی
پڑھ کر ان کا صدمے دکھ اور طیش سے بُرا حال ہو چکا تھا گھر آ کر انہوں نے سارے پیپر اس کے منہ پر دے مارے تھے۔
’’کیا ہے یہ سب؟‘‘ عینا نے پہلی بار انہیں اتنے جلال میں دیکھا تھا، وہ تو خود بورڈ والوں کی بد ذوقی اور کمیں گی پر حیران تھی کیمسٹری کے پیپر میں آخر بغیر کسی ویزے اور ٹکٹ کے لندن، پیرس، نیو یارک کی سیر کروائی تھی، اور اُردو میں وصی شاہ کی نظمیں اور میتھ میں ملکہ ترنم کے گیت، آخر کوئی تو نمبر دیا ہوتا۔
’’ڈیڈی وہ…‘‘ اس نے ابھی لب کھولے ہی تھے کہ ایک زناٹے دار تھپڑ اسے دن میں تارے دکھا گیا تھا وہ لڑکھڑا کر صوفے پر گری تھی، نائمہ بیگم اور عمر اپنی جگہ ششدر رہ گئے تھے۔
’’کل سے تم دوبارہ فرسٹ ائیر کلاس میں بیٹھو گی۔‘‘ فیصلہ سنا کر وہ باہر نکل گئے۔
٭٭٭
رات بھر اس نے کچھ نہیں کھایا تھا صبح ناشتے کی میز پر بھی نہیں آئی تھی۔
’’عینا کہاں ہے؟‘‘ گو ہر رحمان کو اپنے فرنٹ کی چیئر خالی نظر آئی تو سرسری سے انداز میں نائمہ بیگم سے استفسار کیا جبکہ اس کے رزلٹ کی وجہ سے وہ رات بھر ڈسٹرب رہے تھے، زندگی میں پہلی بار انہوں نے اپنی لاڈلی بیٹی پر ہاتھ تھا اس کا دکھ تو تھا ہی۔
’’اپنے بیڈ روم میں ہی ہو گی۔‘‘ انہوں نے بھی اتنا ہی سرسری جواب دیا۔
’’عمر جاؤ اسے بلا کر لاؤ۔‘‘ ریسٹ واچ پر نظر دوڑاتے ہوئے انہوں نے عمر کو اوپر بھیجا اور خود کرسی کی بیک سے ٹیک لگا کر انتظار کرنے لگے پانچ منٹ بعد فق چہرے کے ساتھ عمر سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک سفید لہراتا ہوا کاغذ تھا۔
’’ڈیڈی وہ تو گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے۔‘‘ عمر کے حواس اڑے ہوئے تھے۔
گوہر رحمان کو لگا جیسے ان کے سر پر کسی نے بم بلاسٹ کر دیا ہو زمین انہیں اپنے مرکز سے ہٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی، نائمہ بیگم سپاٹ نظروں سے باپ بیٹے کے متغیر چہرے دیکھ رہی تھیں اور آنکھوں سے آنسو گرتے جا رہے تھے۔
’’اتنی صبح کہاں جا سکتی ہے وہ۔‘‘ وہ لاؤنج کی سیڑھیاں اتر کر تقریباً بھاگتے ہوئے میں گیٹ تک آئے تھے گیٹ کیپر اپنی ڈیوٹی پر مستعد کھڑا تھا۔
نو بجے ان کی ایک اہم میٹنگ تھی لیکن اس وقت تو انہیں جیسے سب کچھ بھولا ہوا تھا پروا تھی تو صرف اپنی عزت کی کہ کس طرح اسے داؤ پر لگنے سے بچا لیں۔
’’تم نے عینا کو باہر جاتے دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں صاحب میں نے بی بی کو باہر جاتے نہیں دیکھا ہم صبح سے یہیں کھڑا ہے۔‘‘ وہ ان کا پرانا وفادار ملازم تھا کم از کم ان سے تو جھوٹ نہیں بول سکتا تھا، پورچ میں گاڑیاں بھی دونوں کھڑی تھیں۔
’’رات میں باہر گئی تھی تم نے دیکھا ہو۔‘‘ اپنے ہی ملازم سے بات کرتے ہوئے ان کا لہجہ ٹوٹ رہا تھا خان نے پھر نفی میں سر ہلا دیا۔
’’اچھا بس زیادہ رومینٹک ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اپنے بیڈ روم کی الماری کے پیچھے گھس کر بیٹھی وہ اسی ارجنٹ موبائل دوستی والے سے بات کر رہی تھی جو کہہ رہا تھا۔
’’عینا دیکھو باہر کا موسم کتنا حسین اور دلفریب ہو رہا ہے اس برستی بارش میں سڑک کے کنارے کسی شیڈ کے نیچے کھڑے ہو کر کاش تم میرے ساتھ پانی پوری کھا رہی ہوتی۔‘‘
٭٭٭
جیسے جیسے شام کے سائے ڈھل رہے تھے ان کی فکر و تشویش اور غم میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا اس کی ساری فرینڈز کے گھر اسکول اور بہانے بہانے سے قریب عزیزوں کے گھر میں بھی معلوم کر چکے تھے وہ کہیں بھی نہیں تھی۔
عمر تو لاہور کے سارے پارک، لائبریریاں تک چھان آیا تھا اور اب وہ چھت، اسٹور روم اور عینا کے بیڈ روم کا تفصیلی جائزہ لے رہا تھا۔
’’کیا اس نے میرے تھپڑ کی وجہ سے یہ حرکت کی ہے۔‘‘ وہ کافی ملول اور دلگرفتہ لہجے میں بول رہے تھے نائمہ بیگم نے چونک کر انہیں دیکھا اور بھیگے لہجے میں بولیں۔
’’نہیں آج کل اس نے ایک نئی ضد پکڑی ہوئی ہے۔‘‘
’’کیسی ضد؟‘‘ وہ یکدم ٹھٹکے۔
’’شادی کی ضد، کچھ روز قبل کہہ رہی تھی کہ اگر ہم نے اس کی شادی نہیں کی تو وہ گھر سے بھاگ جائے گی۔‘‘
’’اور یہ تم مجھے اب بتا رہی ہو؟‘‘ ان کے ابرو تن گئے۔
’’آپ سے ذکر تو کیا تھا۔‘‘ وہ گھبرائیں کہ اب سارا الزام انہی کے کھاتے ہی درج ہو گا۔
’’احمق عورت۔‘‘
’’ڈیڈی، مما اوپر آئیں۔‘‘ عمر ریلنگ پہ جھکا انہیں بلا رہا تھا وہ بات ادھوری چھوڑ کر اوپر عینا کے بیڈ روم میں آئے تو عمران کا ہاتھ پکڑ کر سیف الماری کے پیچھے لے آیا، جہاں وہ سکڑی سمٹی سی دیوار سے ٹیک لگائے بے خبر پڑی سو رہی تھی انہوں نے اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا اور اس پہ کمبل اوڑھا کر ایک فیصلہ کرتے ہوئے اٹھ گئے۔
٭٭٭
اس کے لئے جو چند ایک پرپوزل موجود تھے انہی میں سے انہوں نے سیف علی کا انتخاب کر لیا تھا فی الحال صرف نکاح ہونا تھا، رخصتی دو سال بعد وہ نام سن کر ہی خوش تھی۔
’’سیف علی خان جیسا ہی ڈیشنگ ہو گا اسے دیکھ کر کلاس کی لڑکیاں ثمرہ کے فیانسی کے گن گانا بھول جائیں گی۔‘‘ دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے اس نے کلاس میں جب اپنے نکاح کی خبر نشر کی تو لڑکیوں کا جم غفیر اس کے گرد امنڈ آیا تھا، سب اصرار کر رہی تھیں کہ اپنے فیانسی کی فوٹو دکھاؤ اس نے کہہ دیا تھا کہ اب نکاح پکچرز میں ہی دیکھنا۔
’’شادی کے بعد تم پیرس چلی جاؤ گی۔‘‘ رومانہ نے حسرت آمیز لہجے میں پوچھا۔
’’ظاہر ہے۔‘‘ وہ اٹھلا کر بولی۔
’’پیرس تو بہت خوبصورت ہے یار، تم بہت لکی ہو۔‘‘ یہ مہرین تھی خوابوں کی دنیا میں رہنے والی، جو پیرس کو فلموں میں دیکھ کر ہی آہیں بھرا کرتی تھیں۔
’’سیف علی خان کا تو اپنا بوتیک ہے ہر روز نیا سوٹ مزے آ جائیں گے تمہارے۔‘‘ رخشندہ نے آہ بھری۔
’’اتنی بورنگ پڑھائی سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔‘‘ سوینا نے منہ پھلاتے ہوئے کہا کیمسٹری کے فارمولے رٹنے سے جان جاتی تھی اس کی۔
’’کاش یہ پڑھائی بھی پیار کی طرح ہوتی یارو خود بخود ہو جاتی۔‘‘ ہانیہ نے دونوں بازو پھیلا کر پیچھے گرنے کی ایکٹنگ کی تو ایک زبردست قہقہہ پڑا۔
کلاس نے مل کر اسے فیئر ویل پارٹی دی تھی اور تو اور ثمرہ نے بھی اپنی خود ساختہ ناراضگی کو ختم کرتے ہوئے اسے مبارکباد دی مس ثانیہ نے اپنے جوڑے پر لگائے جانے والے سارے پن واپس کیے تو وہ جی بھر کر حیران ہوئی، حالانکہ یہ کام وہ بڑے خفیہ طریقے سے کرتی رہی تھیں، اس میں عمر کا وہ قیمتی پن بھی تھا جس کے لئے وہ اس سے کتنا لڑا تھا۔
شام کو وہ مما کے ساتھ جا کر اپنا ویڈنگ ڈریس اور جیولری وغیرہ لے کر آئی تھی اور اب ڈنر کرنے کے بعد جب سو چکے تھے تو وہ اپنا لمبا لہنگا پہن کر سنگھار میز کے سامنے کھڑی خود کو ہر زاویے سے دیکھ رہی تھی۔
جب سیل فون کی بیپ بجنے لگی دوسری جانب وہی تھا ارجنٹ موبائل دوستی، ایک بار اس نے یہ سروس یوز کی تھی اور اس کے بعد سے روز رانگ کالز آتی تھیں لیکن سوائے اس لڑکے کے اس نے کبھی کسی سے دو تین بار سے زیادہ بات نہیں کی تھی۔
’’ہیلو۔‘‘ اس نے سیل فون کان سے لگایا۔
’’آج میں بہت خوش ہو عینا۔‘‘ شوخ لہجے میں سے گنگناہٹیں جھلک رہی تھیں۔
’’کیوں؟‘‘ وہ مترنم آواز میں بولی۔
’’پانچ روز قبل تم سے چھ گھنٹے بات ہوئی تھی۔‘‘ یہ اس روز کی بات تھی جب وہ الماری کے پیچھے چھپی ہوئی تھی اور اس نے وہ بے مقصد گھنٹے اس سے باتیں کرتے ہوئے گزارے تھے۔
’’اور آج پانچ روز کی کشمکش کے بعد مجھ پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے آئی لو یو۔‘‘ وہ ایک جذب کے عالم میں بول رہا تھا وہ کچھ پل سنتی رہی اور پھر اس کی کیفیت سے حظ اٹھاتے ہوئے خفگی سے بولی۔
’’اور میں کیا فلرٹ کر رہی ہوں۔‘‘
’’نہیں عینا مجھے یقین ہے تم ایسی لڑکی نہیں ہو یہ بھی سچ ہے کہ میں نے اس دوستی کی ابتداء محض یونہی دل لگی کی خاطر کی تھی لیکن اب میں بہت سیریس ہو چکا ہوں۔‘‘ اگلے پورے سترہ منٹ تک جب اس نے اپنا حال دل سنا کر فون بند کیا تو ایک استہزائیہ مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو گی۔
’’تم جیسے فلرٹ بازوؤں کو مجھے اچھی طرح سے ہینڈل کرنا آتا ہے۔‘‘
٭٭٭
مصروفیت بھرے دن یوں پلک جھپکتے میں گزرے تھے نکاح کا دن اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت جلوہ گر ہوا دن کا فنکشن تھا ناشتے کے بعد وہ اپنی چیزیں سمیٹ کر پارلر چلی گئی تھی وہاں سے جب واپس میرج ہال آئی تو کافی مہمان آ چکے تھے، برائیڈل روم میں سندس اور مہرین اس کی منتظر بیٹھی تھیں۔
’’عینا تم نے تو کرینہ کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔‘‘ ریڈ عروسی لہنگے میں اس پر ٹوٹ کر روپ آیا تھا، سب نے ہی انتہائی والہانہ انداز میں سراہا وہ خود بھی آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر مبہوت سی کھڑی تھی فوٹو گرافر مختلف پوز میں اس کی تصویریں لے رہا تھا جب بارات کا شور اٹھا سب لوگ انٹرس کی جانب لپکے۔
’’اللہ کرے دولہا بھائی بھی سیف جیسے ہی ہوں۔‘‘ مہرین نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا تو سندس ہنسی۔
’’کیوں تم نے دونوں کی فلم بنانی ہے۔‘‘
لیکن عینا کا دھیان تو شیشے کے پار اس انٹرس پہ کھڑے دولہا کی جانب تھا، کریم کلر کی شیروانی میں اس کی سانولی رنگت بے حد واضح تھی، درمیانہ قد، واجبی سا نقشہ، ہیر اسٹائل بھی کچھ خاص نہیں تھا، رومانہ اور مہرین کی ساری شوخی بھک سے اڑ گئی تھی اور اب دونوں خاموش نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے گم صم سی کھڑی تھیں، عینا نے اڑے اڑے حواسوں کے ساتھ انہیں دیکھا۔
’’میں یہ شادی نہیں کروں گی۔‘‘ اس کا انداز قطعی تھا۔
’’کیا؟‘‘ تینوں کی چیخیں نکل گئیں، اتنے میں عمر اندر چلا آیا۔
’’کمرہ خالی کر دو نکاح خواں آنے والے ہیں۔‘‘ عینا کا حلق خشک ہو چکا تھا، ڈیڈ پر بھروسہ کر کے اس نے کتنی بڑی غلطی کر دی تھی۔
’’عمر پلیز کچھ کرو مجھے یہ شادی نہیں کرنی۔‘‘ وہ اس کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے ملتجی لہجے میں بولی تو وہ خشمگیں نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولا۔
’’علاج ہے تمہارا کتنا سمجھایا تھا لیکن تمہیں اپنے سوا کسی اور کی پروا کہاں ہوتی ہے۔‘‘
’’عمر کے بچے۔‘‘ اس نے دانت پیسے۔
’’یہ حساب کتاب کے کھاتے پھر کبھی کھول لینا فی الحال یہ سوچو کہ اس شادی کو کیسے ملتوی کیا جائے۔‘‘
’’اب کیا مسئلہ ہے؟‘‘ وہ زچ ہو اٹھا۔
’’اس سڑے ہوئے بینگن سے شادی سے اچھا ہے کہ میں خود کشی کر لوں۔‘‘
’’تو پھر خود کشی ہی کر لو کیونکہ انکار کی صورت میں تو ڈیڈی ویسے ہی تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ وہ مزے سے اسٹول پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔
’’اگر میں بے ہوش ہونے کی ایکٹنگ کروں تو۔‘‘
’’تو میں تمہیں گدگدی کروں گا۔‘‘ اس نے جملہ مکمل کیا۔
’’رومانہ کوئی ایسی چیز تلاش کرو جس کی ہلکی سی ضرب لگنے پر میں فی الحال سینس لیس ہو سکوں۔‘‘ وہ خود بھی چاروں جانب نظریں گھما رہی تھی اور پھر اسے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا کرسٹل کا گلدان نظر آ ہی گیا تھا۔
’’ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘
’’سوچ لو ضرب ذرا سی بھی کاری پڑ گئی تو ویزا اوپر کا بھی لگ سکتا ہے اور پھر دماغ کا معاملہ تو بہت نازک ہوتا ہے تم کومہ میں بھی جا سکتی ہو یا ہو سکتا ہے کہ ہوش میں آنے کے بعد تمہاری یاد داشت چلی جائے یا پھر تم اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھو۔‘‘ عمر نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے اتنے منفی پہلو دکھائے تھے کہ گھبراہٹ میں وہ اس کے ہاتھ سے ہی چھوٹ گیا تھا۔
’’اب کیا کروں کلاس میں جو ڈینگیں مارنی تھی مار چکی ثمرہ کو جیلس کروانا تھا کروا لیا لیکن اس بندے سے شادی کر کے میری تو زندگی کا کباڑا ہو جائے گا، ڈیڈی کو اس سے رشتہ جوڑتے ہوئے بھلا میں نظر نہیں آئی تھی۔‘‘ وہ روہانسی ہو چکی تھی ویسے بھی اس کے ڈیڈی ایک آئیڈیل پرسنالٹی کے مالک تھے گریس فل، با وقار اور ویل ڈریسڈ۔
اس نے فطری طور پر سوچ لیا تھا کہ انہوں نے اپنے جیسا ہی کوئی شخص سلیکٹ کیا ہو گا۔
’’اب دو ہفتوں کے ریمانڈ پر تو گوہر نایاب دریافت کرنے سے رہے ہم۔‘‘
’’مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا۔‘‘ وہ ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھی اور پوری قوت کے ساتھ اپنا ماتھا شیشے سے ٹکرا دیا کانچ کی کرچیاں چٹخ کر اس کے سر میں گھسی تھیں اور اب وہاں سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا تھا، اس نے دونوں ہاتھ سر پر رکھے تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا اگلے ہی پل وہ تیورا کر زمین پر گر گئی، یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کہ وہ چاروں اپنی جگہ اچھل کر رہ گئے تھے۔
٭٭٭
دو دن ہاسپٹل میں گزارنے کے بعد وہ گھر آ چکی تھی لیکن عمر کے سوا کوئی بھی اس سے بات نہیں کر رہا تھا شام کے کھانے پر وہ ڈائیننگ ہال میں آئی تو ڈیڈی اسے دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
’’نائمہ میرا کھانا کمرے میں بھجوا دینا۔‘‘
’’آپ کو کمرے میں جا کر کھانے کی ضرورت نہیں ہے میں ہی چلی جاتی ہوں۔‘‘ ایک جھٹکے سے اٹھ کر وہ کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھتی اوپر ٹیرس پہ آن کھڑی ہوئی تھی۔
گوہر رحمان پہلے بھی اس سے خفا ہوتے تھے لیکن اتنی سنگدلی اور کٹھور پن اسے سوچ کر ہی رونا آنے لگا تھا عمر نے اس کے شانوں کے گرد بازو لپیٹ کر ساتھ لگا لیا۔
’’اچھا پلیز اب رونا تو بند کرو دیکھو میں تمہارے لئے چاکلیٹ لایا ہوں۔‘‘ لیکن وہ مزید زور و شور سے رونے لگی تھی۔
’’چلو کہیں لانگ ڈرائیو پر چلتے ہیں تمہیں بوٹنگ کا بہت شوق ہے نا آج تمہارے ساتھ کشتی میں چلاؤں گا اگرچہ کافی احمق لگوں گا لیکن پھر بھی تمہاری خاطر یہ پاگل پن بھی کر کے دیکھیں گے اور تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ اس کے بعد میں تمہیں کہاں لے کر جانے والا ہوں فائیو اسٹار میں کینڈل لائٹ ڈنر اور یہ دیکھو میرے پاس عاطف اسلم کے کنسرٹ کے دو پاس بھی ہیں۔‘‘
’’آئی ایم ناٹ یور گرل فرینڈ۔‘‘ وہ اپنی سرخ ناک سکیڑتے ہوئے بولی تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
’’میں کچھ دیر کے لئے تصور کر لوں گا۔‘‘
’’عمر!‘‘ وہ رونا بھول کر اب اسے گھورنے لگی تھی۔
’’سوری۔‘‘ اس نے جھٹ سے کان پکڑ لئے۔
’’ڈیڈی مجھ سے خفا ہیں اور ممی بھی مجھ سے بات نہیں کرتی۔‘‘
’’جو تم نے کیا ہے اس کے بعد تو حق بنتا ہے ان کا بٹ ڈونٹ وری ہم انہیں منا لیں گے دو روز بعد ان کی برتھ ڈے ہے میں تمہیں کالج سے پک کرنے آؤں گا تو کچھ سرپرائزنگ سا اہتمام کریں گے۔‘‘ تجویز اچھی تھی وہ فوراً متفق ہو گئی، لیکن جب دو روز کے بعد پرنسپل کے آفس ہاف لیو لینے گئی تو انہوں نے صاف معذرت کر لی۔
’’سوری بیٹا آپ کے ڈیڈ کی جانب سے پرمیشن نہیں ہے۔‘‘ لیکن وہ بھی عینا تھی چھٹی ملے نہ ملے اسے گھر تو جانا ہی تھا اگلے دس منٹ میں تمام اسٹوڈنٹس، ٹیچرز، پرنسپل سمیت روڈ پر کھڑے تھے بس ان میں وہ واحد تھی جو بیگ کے ساتھ بھاگی تھی۔
’’یہ سکول کے باہر رش کیسا ہے؟‘‘ عمر نے حیرت سے پوچھا۔
’’پہلے گاڑی اسٹارٹ کرو پھر بتاتی ہوں۔‘‘ اس کا سانس پھولا ہوا تھا عمر نے جلدی سے وائٹ ہینڈا سوک اسٹارٹ کی اور یو ٹرن لینے کے بعد ایک بار پھر سے سوالیہ نظروں کے ساتھ اسے دیکھا، جو منرل واٹر کی بوتل منہ سے لگائے اب کافی ریلیکس ہو کر بیٹھی تھی۔
’’چھٹی نہیں مل رہی تھی میں نے کلاس کا پنکھا ہلا کر شور مچا دیا کہ زلزلہ آ گیا ہے بس کسی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور باہر کی جانب دوڑ لگا دی۔‘‘ بات کے اختتام تک اس کی مسکراہٹ قہقہے میں ڈھل چکی تھی عمر جو اس سے بوتل لے کر پانی پی رہا تھا ایسا اچھو لگا بیچارے کی ساری شرٹ گیلی ہو گئی۔
’’عینا تم نے سچ میں ایسا کیا ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ وہ ٹشو سے اب اس کی شرٹ صاف کر رہی تھی۔
’’او مائی گاڈ۔‘‘ کالج کے احمقانہ پن پر اب اسے بھی ہنسی آ رہی تھی۔
راستے میں رک کر دونوں نے بلونز، کینڈل، پھول اور دوسرا ڈیکوریشن کا سامان خریدا تھا ممی آج گھر میں نہیں تھیں ڈیڈ اپنے آفس میں تھے ان دونوں کے پاس اپنی تیاری کے لئے کافی وقت تھا۔
٭٭٭
گوہر رحمان صاحب کافی خراب موڈ کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے تھے لیکن جونہی لاؤنج میں قدم رکھا سماں ہی بدل گیا۔
پھولوں کی بارش بلونز، سنہری لڑیوں اور کاغذی پھولوں سے سجا لاؤنج بڑی بڑی کینڈلز، سینٹرل ٹیبل پر رکھا کیک، پیانوں کی مترنم دھن اور سماعتوں سے ٹکراتی عینا کی آواز۔
’’ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ڈیر سویٹ ڈیڈ۔‘‘ وہ بھاگ کر ان سے لپٹ گئی تھی اتنے خوشگوار ماحول میں انہیں اپنا غصہ سائیڈ پر رکھنا پڑ گیا تھا نائمہ بیگم بھی آج ان کی فیورٹ ساڑھی زیب تن کیے کافی دل سے تیار ہوئی تھیں، کھانے کی میز پر آج ساری ان کی فیورٹ ڈشز تھیں اور وہ مسکراہٹ لبوں پر سجائے اپنی فیملی کے بیچ کھڑے بچوں کی مانند کیک کاٹ رہے تھے عینا نے برتھ ڈے کیپ بھی ان کے سر پہ رکھی ہوئی تھی۔
’’ایم سوری ڈیڈ۔‘‘ کیک کھانے کے بعد موقع غنیمت جانتے ہوئے اس نے معذرت بھی کر لی تھی لیکن ان کے ابرو تن گئے
’’معذرت اس بات پر کی جاتی ہے جسے ہم رپیٹ نہیں کرتے آج کالج میں جو کیا آپ نے مجھے اس کی اطلاع مل چکی ہے۔‘‘
’’ایک تو ڈیڈ کے با وثوق ذرائع اتنی جلدی تو جیو والے بھی خبر نشر نہیں کرتے ہوں گے۔‘‘ وہ دل میں جل کر رہ گئی تھی لیکن ڈیڈی کے سامنے معصوم بننا بھی ضروری تھا۔
’’سوری ڈیڈ۔‘‘
’’عینا اب میں مزید تمہاری کسی حماقت کا متحمل نہیں ہو سکتا تم کوئی بچی نہیں رہی اپنے اندر تھوڑی سی میچورٹی لاؤ اور یہ فضول حرکتیں چھوڑ دو کل کو اپنے سسرال جاؤ گی وہاں کون برداشت کرے گا یہ سب، یا پھر تم تمام عمر ہمارا سر جھکائے ہی رکھو گی۔‘‘
’’ڈیڈ پلیز ایسا تو مت کہیں آئی پرامس اب کبھی آپ کو شکایت نہیں ہو گی۔‘‘ ان کی آخری بات پر اس نے تڑپ کر سر اٹھایا تھا اور پھر ان کے گلے لگ گئی تھی انہوں نے بھی فوراً معاف کر دیا تھا۔
٭٭٭
’’عینا کہاں تھی تم، اتنے دن تمہارا نمبر آف رہا میں کتنا اداس ہو گیا تھا۔‘‘ فری پیریڈ تھا اس نے لان میں آ کر سیل فون آن کیا تو فوراً اس کی کال آ گئی۔
’’ہاں بس میں بیمار تھی۔‘‘ وہ بے نیازی سے بولی۔
’’کیا ہوا تھا؟‘‘ وہ بے چین ہو اٹھا۔
’’ٹمپریچر تھا۔‘‘
’’ضرور تم نے ٹھنڈ میں آئس کریم کھائی ہو گی یا پھر بارش میں بھیگی ہو گی۔‘‘
’’تمہیں کیسے پتہ چلا۔‘‘ حالانکہ ان دونوں میں سے کچھ بھی نہیں ہوا تھا پھر بھی اس نے مزے سے اس کے اندازے کی تصدیق کر دی تھی۔
’’بس میں جانتا ہوں تمہیں۔‘‘ وہ خفگی سے بولا۔
’’اچھا کتنا جانتے ہو مجھے؟‘‘ اس نے ایک آنکھ بند کرتے ہوئے پاس بیٹھی سندس کو دیکھا جو اشارے سے فون بند کرنے پر اصرار کر رہی تھی۔
ایف ایس سی میں خلاف توقع اس نے سیکنڈ ڈویژن لی تھی رومانہ نے پڑھائی چھوڑ دی تھی اور مہرین شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ دوبئی جا چکی تھی۔
’’بس اتنا جانتا ہوں کہ تم میری ہو۔‘‘ وہ اتنے وثوق سے بولا کہ عینا نے سٹپٹا کر کال ڈس کنیکٹ کر دی۔
’’تم ابھی بھی اس سے بات کرتی ہو۔‘‘ حسب معمول اس نے گھورا تھا۔
’’تم نے کیمسٹری کے نوٹس بنا لئے۔‘‘ اس نے جواباً بات بدل دی۔
’’ہاں اور تم نے۔‘‘ اس نے الٹا سوال پوچھا۔
’’میں تم سے کاپی کروا لوں گی فی الحال تو آڈیٹوریم جا رہی ہوں مجھے انارکلی کی ریہرسل بھی کرنی ہے۔‘‘ ایک ہفتے بعد کالج میں یوتھ فیسٹیول تھا، جس کی تیاریاں چل رہی تھیں اور ایک ہفتے بعد اسٹیج پر بیٹھے چیف گیسٹ کو دیکھ کر لڑکیوں نے انگلیاں منہ میں ڈال لی تھیں، یوں لگتا تھا جیسے انہوں نے اپالو دیکھ لیا ہو، عینا کو اتنی ریہرسل کے باوجود اپنے ڈائیلاگ بھول رہے تھے، گھر آ کر بھی وہ بہت ڈسٹرب رہی تھی، عجیب جادوگر تھا ایک نظر میں ہی سحر طاری کر گیا تھا، کتنے دنوں وہ یونہی بیزار بیزار سی رہی تھی عمر کہہ رہا تھا۔
’’میں نے تم سے زیادہ موڈی لڑکی نہیں دیکھی ڈیڈی مجھے مجبور کر رہے ہیں میں اکیلا جا کر بور ہو جاؤں گا۔‘‘ ڈیڈی کے کسی بزنس فرینڈ کی گھریلو تقریب تھی وہ عمر کو لے جانا چاہتے تھے کہ آگے چل کر عمر کو ہی سارا بزنس سنبھالنا تھا لیکن عمر کی ضد تھی کہ عینا بھی ساتھ چلے، اس کا موڈ نہیں تھا لیکن جب وہ ایموشنل بلیک میلنگ پر اتر آیا تھا اسے اٹھنا ہی پڑا تھا۔
٭٭٭
باتھ لینے کے بعد وہ اپنی وارڈ روب کے سامنے کھڑی تھی مختلف ملبوسات کا جائزہ لے رہی تھی ممی نے سارے اوٹ پٹانگ فیشن والے ڈریسز نکال کر کام والی کو دے دئیے تھے، تھک ہار کر اس نے لائیٹ فیروزی رنگ کا شلوار شوٹ جس پر سلور گرے کڑھائی اور موتیوں کا کام بنا ہوا تھا نکال لیا۔
جب سے نکاح کے روز والا حادثہ پیش آیا تھا اور وہ ڈیڈ کے سامنے شرمندہ ہوئی تھی مما کو بھی گویا اس پہ رعب جمانے کا موقع مل گیا تھا، اٹھتے بیٹھتے ہی بڑبڑائے جاتیں۔
’’مجھے تو اب عینا تمہاری فکر رہنے لگی ہے جس لڑکی کی بارات واپس جا چکی ہو کون کرے گا اس سے شادی، ایک عیب تو لگ گیا نا۔‘‘ اور اب شلوار سوٹ کے ساتھ دوپٹہ اوڑھنے کی بھی سختی سے ہدایت تھی، تیار ہو کر نیچے آئی تو عمر اور ڈیڈ اس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔
’’چلیں۔‘‘ وہ پاس آ کر بولی تو دونوں اٹھ کھڑے ہوئے، مما راستہ بھر اسے نصیحت کرتے ہوئے آئی تھیں۔
’’دوپٹہ اچھی طرح سے اوڑھنا۔‘‘
’’زیادہ پٹر پٹر مت بولنا۔‘‘
’’سلیقے سے رہنا اور زیادہ مت ہنسنا۔‘‘
’’مما آپ کی پرابلم کیا ہے۔‘‘ وہ جزبز ہو کر رہ گئی تھی۔
’’ایسی ہی تقریبات میں خواتین اپنی بہوئیں پسند کرتی ہیں اللہ کرے کوئی اچھا سا پرپوزل تمہارے لئے بھی آ جائے۔‘‘
’’اونہوں۔‘‘ وہ سر جھٹک کر باہر جھانکنے لگی۔
تقریب کا اہتمام لان میں تھا ولیمے کا فنکشن تھا اس لئے زیادہ گیدرنگ نہیں تھی یا پھر شاید ابھی دولہن والوں کے مہمان نہیں آئے تھے پھولوں سے سجے اسٹیج پر دولہا، دلہن اپنی فیملی کے ساتھ فوٹو شوٹ کروا رہے تھے۔
مما اور ڈیڈ ملنے ملانے میں مصروف ہو چکے تھے وہ اور عمر ایک ٹیبل پر آ بیٹھے۔
’’عینا پرسوں ہمارا ٹرپ مری جا رہا ہے۔‘‘ عمر نے یاد آنے پر اطلاع دی، ویسے بھی وہ اسے کالج کی ساری باتیں سنایا کرتا تھا۔
’’چھوڑو یار، تمہیں کیا کرنا ہے وہاں جا کر ابھی لاسٹ چھٹیوں میں مری، کاغان، ناران اور شوگران تک گھوم کر آئے ہو۔‘‘
’’ہاں لیکن تب سنو فال نہیں ہو رہا تھا ویسے بھی فرینڈ کے ساتھ جانے کا اپنا ہی مزہ ہے میں تو کہتا ہوں تم بھی چلو بہت انجوائے منٹ ہو گی حرمت اور ردا بھی تمہیں مس کر رہی تھیں۔‘‘ اضافے کے طور پر اس نے اپنی کلاس میٹ کے نام بھی لے دئیے۔
’’اچھا دیکھو گی۔‘‘ ممی ایک خاتون کے ساتھ اسی جانب آ رہی تھیں۔
’’یہ میری بیٹی ہے عنبرین اور یہ عمر۔‘‘ مما ان کا تعارف کروا رہی تھیں دونوں نے اٹھ کر مصافحہ کیا تو اس کی نظر دور کھڑے اس اپالو سے جا ٹکرائی، دھڑکنوں کا شور یک لخت ہی بڑھ گیا تھا، وہ خاتون ان کی ٹیبل پر ہی بیٹھ چکی تھیں اور عینا کی نظریں اس کی تلاش میں سرگراں جانے ایک لمحے میں کہاں غائب ہو گیا تھا۔
’’شہریار کو بھی ادھر ہی بلا لیں۔‘‘ مما ان خاتون سے کہہ رہی تھیں انہوں نے سر ہلا کر سیل فون سے میسج کیا تو کچھ دیر میں ہی وہ ان کی ٹیبل کی سمت چلا آیا تھا۔
’’جی مما۔‘‘ خاتون نے دونوں کا تعارف کروایا رسمی علیک سلیک ہوئی اور وہ ان کی ٹیبل پر ہی بیٹھ گیا عمر اور وہ بزنس کی باتوں میں مشغول ہو چکے تھے۔
اپنی دیو مالائی شخصیت کی طرح اس کا ہجر بھی کس قدر سحر انگیز تھا، نظریں بھٹک بھٹک کے اس کا طواف چاہتی تھیں لیکن وہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دل پہ جبر کیے بیٹھی رہی۔
وہ جتنا ڈیشنگ، مہذب اور تہذیب یافتہ تھا یقیناً اس کا تصوراتی پیکر بھی اتنا ہی با وقار، خوش رو اور آئیڈیل لڑکی کی ڈیمانڈ کرنا ہو گا۔
’’آپ کیوں اتنی خاموش ہیں۔‘‘ اچانک ہی وہ اس سے مخاطب ہوا تھا، وہ گھبرا اٹھی یوں لگا جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو یا پھر اس کا رعب حسن تھا کہ اس جیسی اوور کانفینڈنٹ لڑکی کو بھی اپنا سارا اعتماد بھک سے اڑتا محسوس ہو رہا تھا۔
’’یہ تو بالکل سوشل نہیں ہے اور عمر کے سوا تو آج تک اس نے کبھی کسی لڑکے سے بات چیت وغیرہ نہیں کی تعلیم کے سلسلے میں بھی ہم نے اس کے لئے گرلز کالج کا ہی انتخاب کیا تھا۔‘‘ مما فوراً بیچ میں کودی تھیں۔
اس کی نظر ایسے ہی شہریار کی جانب اٹھی وہ بڑی گہرائی سے اس کا جائزہ لے رہا تھا، عینا کی پلکیں لرز کر عارضوں پہ آن گری، البتہ شہریار کی ممی نے کافی توصیفی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
’’اچھی بات ہے ورنہ ماڈرن ازم کے نام پر آج کل کی لڑکیاں جس قدر بے راہ روی کا شکار ہیں مجھے تو یہ سب نہیں پسند ہمارا مذہب بھی یوں آزادانہ میل جول کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘ گفتگو کا رخ اب کسی اور طرف مڑ چکا تھا۔
کچھ دیر میں ڈیڈی بھی ایک سوبر اور گریس فل سی شخصیت کے ہمراہ آ گئے جو کہ شہر یار کے ڈیڈی تھے اس کے بعد ڈنر کافی خوشگوار ماحول میں کیا گیا تھا، جانے سے قبل فون نمبرز کے تبادلے بھی ہو گئے، ان خاتون کے ساتھ مما کی اچھی دوستی ہو چکی تھی۔
ایک ہفتے بعد اس کے لئے شہریار کا پرپوزل آ گیا مما کی تو خواہش پوری ہوئی تھی عمر بھی بہت خوش تھا ڈیڈی کو بھی کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا سو کچھ دن گھر میں یہ معاملہ زیر بحث رہا اور پھر ڈیڈی نے اس کی رضا مندی جان کر باقاعدہ طور پر ہاں کر دی تھی۔
٭٭٭
ایگزیم سے فارغ ہوتے ہی گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں، ابھی بھی وہ شاپنگ کر کے لوٹی تھی جب عمر کو لان میں بیٹھا دیکھ کر اس جانب چلی آئی، وہ فون پر شہریار سے بات کر رہا تھا۔
’’بات کرو گی؟‘‘ اس نے اشارے سے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا کر اورنج جوس کے سپ لینے لگی اس کا خیال تھا وہ جتنا ریزروڈ رہے گی شہریار اتنی ہی اس کی ریسپکٹ کرے گا۔
’’لگتا ہے ڈیڈی کو کنگال کر کے تم اس گھر سے جاؤ گی۔‘‘ فون بند کرنے کے بعد وہ اس کی جانب متوجہ ہوا اشارہ ڈھیر سارے شاپنگ بیگز کی جانب تھا۔
’’ہاں تمہیں اکیلے اکیلے سب ہڑپ کرنے تھوڑی دوں گی۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے اسے اپنی شاپنگ دکھانے لگی تھی اور اس کے جانے کے بعد وہ دوبارہ سے سب سمیٹ کر بیگز میں ٹھونس رہی تھی جب سیل فون بج اٹھا۔
’’ارجنٹ موبائل دوستی۔‘‘ نمبر پر نظر پڑتے ہی اس کے چہرے کے زاویے بگڑ گئے تھے۔
’’آج اس سے تو جان چھڑانی پڑے گی۔‘‘ کچھ سوچتے ہوئے اس نے سیل فون کان سے لگا لیا تھا۔
‘’کیسی ہو عینا؟‘‘ اس کا خوبصورت گھمبیر لہجہ سماعتوں سے ٹکرایا۔
’’بہت خوبصورت ہوں۔‘‘ وہ بیزاری سے بولی۔
’’ہاں وہ تو تم ہو ہی۔‘‘ اس کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
’’تم نے کہاں دیکھا؟‘‘ وہ ٹھٹکی۔
’’کتاب دل میں ڈھیر سارے ورق ہیں اور ہر صفحے پر محبت نے اپنے تخیل سے تمہارے نقوش تراش رکھے ہیں کبھی سوچتا ہوں عینا ایسی ہو گی کبھی سوچتا ہوں ویسی ہو گی۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ اس نے بے اختیار گہرا سانس بھرا۔
’’میرے ایم بی اے کے ایگزیم ہو چکے ہیں اور میں نے ڈیڈ کا آفس بھی جوائن کر لیا ہے مجھے لگتا ہے اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اس محبت کو کسی مقدس رشتے میں باندھ لیں تم مجھے اپنا ایڈریس دو میں اور ڈیڈی سے بات کر چکا ہوں وہ ایک دو روز میں آئیں گے تمہیں مانگنے۔‘‘ اس کے سنجیدہ لیکن شوخ لہجے میں کہی بات پر وہ ایک پل کے لئے ساکت سی رہ گئی تھی۔
’’فکر مت کرو لڑکیاں کہتی ہیں میں بہت ہینڈسم ہوں تمہیں ضرور پسند آ جاؤں گا۔‘‘ وہ اس کی خاموشی کو حیا سمجھ کر چھیڑنے لگا۔
’’مجھے تمہیں یہی بتانا تھا کہ میرے والدین میرا رشتہ طے کر چکے ہیں ایک ہفتے بعد میری شادی ہے۔‘‘ زیر لب مسکراتے ہوئے اس نے دوسری جانب گزرنے والی قیامت کا بھرپور حظ اٹھایا لیکن لہجہ یوں تھا جیسے بہت دکھ سے بول رہی ہو۔
’’عینا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘ اس کی آواز جیسے پاتال سے آئی تھی۔
’’میں نے بہت کوشش کی کافی عرصے سے سب کو منا رہی ہوں، لیکن کوئی میری بات نہیں مان رہا الٹا جب مما نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے تو مجھے اپنی محبت کی قربانی دینی پڑی، تم تو جانتے ہو ہم لڑکیاں کتنی مجبور ہوتی ہیں ورنہ تمہارے بغیر میں بھی کبھی خوش نہیں رہ پاؤں گی۔‘‘
’’عینا مجھے ایک کوشش تو کرنے دو۔‘‘ اس کا لہجہ بھیگ چکا تھا۔
’’اب کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ وہ دل گرفتی سے بولی۔
’’ایک آخری بات مانو گی۔‘‘ وہ بڑی آس سے پوچھ رہا تھا اور شاید وہ رو بھی رہا تھا، عینا نے لب کاٹتے ہوئے ہاں کر دی۔
پہلی بار اسے اس پر بے پناہ ترس آیا تھا اس کی دل گرفتی کسی کے لئے دل کا روگ بن گئی تھی۔
وہ اس سے اس کی تصویر مانگ رہا تھا وہ کہہ رہا تھا کتاب دل کے سارے نقش ادھورے ہیں اور کچھ نہیں تو محبت کی یہ ادھوری تصویر مکمل کر دو اور اس نے جلدی میں اسے سندس کی تصویر سینڈ کر دی تھی یہ سوچے بنا کہ اس کی یہ حرکت کسی کے لئے اذیت کا باعث بنے گی اور اب سندس اسے کہہ رہی تھی۔
’’تم جانتی ہو وہ میں نہیں تھی اور یہ بھی تمہیں پتہ ہے کہ وہ کون تھی اب تم گواہی دو عنبرین میرے کردار کی گواہی دو۔‘‘ سندس اسے جھنجھوڑ رہی تھی۔
’’اگر اس نے مجھ پہ طلاق کا داغ لگا دیا تو میری بیمار ماں اس صدمے سے مر جائے گی میری ماں کو بچا لو عنبرین، میرے گھر کو ٹوٹنے سے بچا لو میرے کردار پہ لگے یہ چھینٹے تمہیں دھونے ہی پڑیں گے تمہیں گواہی دینی ہو گی۔‘‘ سندس اس کے سامنے گڑگڑا رہی تھی اور اسے اپنا وجود گہرے پاتال میں اترتا محسوس ہو رہا تھا، ایک ذرا سی وقتی انجوائے منٹ اسے کس ذلت آمیز مقام پر لے آئی تھی، اگر وہ لب کھولتی تھی تو اس کا اپنا آشیانہ بکھر جاتا تھا اور اگر مہر بہ لب رہتی تو اس کی دوست اجڑ جاتی۔
دروازے پر آہٹ ہوئی دونوں نے چونک کر سر اٹھایا، سالار اندر داخل ہو رہا تھا سندس کو دیکھ کر اس کی پیشانی شکن آلود ہو چکی تھی وہ آس بھری ملتجی نظروں سے عنبرین کو دیکھتے ہوئے اٹھ کر باہر چلی گئی تھی اور وہ جیسے پل صراط پر آن کھڑی ہوئی۔
آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ لڑکیوں کو کس قدر محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، کچھ کہنے کی کوشش میں اس کے لب کانپ رہے تھے۔
شہریار سے دستبرداری کا کٹھن مرحلہ جیسے اس کی رگوں سے خون نچوڑ رہا تھا۔
’’یا خدا کچھ ایسا کر دے کہ ہم دونوں کا بھرم رہ جائے۔‘‘ وہ دل میں دعا گو تھی۔
’’اگر آپ سندس کی حمایت میں کچھ کہنا چاہتی ہیں تو میں اس معاملے میں ایک لفظ نہیں سنوں گا آپ نہیں جانتی اس نے میرے ساتھ کتنا بڑا دھوکہ کیا ہے۔‘‘ سالار نے اس کے نیم وا لبوں کو دیکھتے ہوئے کچھ بھی کہنے سے روک دیا تھا۔
’’وہ سندس ہے اور میں عینا ہوں۔‘‘ بالآخر اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ سچ بولے گی چاہے اس کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے، جبکہ اس انکشاف پر سالار پورے کا پورا اس کی سمت گھوم گیا تھا اور پھر اپنے اور اس کے مابین رشتے کی نوعیت کے باعث وہ اپنی نظریں جھکا گیا۔
’’پھر وہ تصویر؟‘‘ اس نے یونہی نظریں جھکائے جھکائے ہی استفسار کیا تھا۔
’’جلدی میں غلطی سے سینڈ ہو گئی تھی اور اس کے بعد میں نے سم نکال کر پھینک دی تھی۔‘‘ وہ آنسو ضبط کرتے ہوئے بولی۔
’’بہرحال جو بھی ہوا اب شہریار کی نسبت سے آپ میرے لئے قابل احترام ہیں، بھول جائیں کہ کبھی آپ مجھے جانتی تھیں۔‘‘ وہ کہہ کر کھڑکی میں جا کھڑا ہوا۔
’’اور سندس۔‘‘ وہ اس کے عقب میں آ کر بولی۔
’’وہ میرا مسئلہ ہے میں اسے منا لوں گا۔‘‘ وہ لب کاٹتے ہوئے پشیمانی سے بولا تو وہ پلکیں جھپکا جھپکا کر آنسو ضبط کرتی کمرے سے باہر نکل آئی اور مشکور نظروں سے اوپر آسمان کی جانب دیکھا سندس کی عزت کی خاطر اس نے سچی گواہی دی تھی اور اللہ نے اس کا بھرم رکھ لیا تھا سالار یہی سمجھ رہا تھا کہ اس نے گھر والوں کی مرضی سے شہریار سے شادی کی تھی اور اسے کوئی دھوکہ نہیں دیا تھا، ورنہ سندس ٹھیک کہتی تھی کہ عورت کا کردار شفاف آئینے کی مانند ہوتا ہے مرد کو اگر اس آئینے پہ ہلکی سی بھی دھول نظر آ جائے تو وہ اس کے دل سے اتر جاتی ہے اور دل سے اتری ہوئی عورت سے مرد کبھی محبت نہیں کرتا۔
٭٭٭
ماخذ: ’کتاب‘ اینڈرائیڈ ایپ
تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں