سرائے والی بڑھیا
فتح علی انوری
شیشم کے درختوں کے گھنے جنگل کے کنارے سندیل پور نامی ایک سرسبز قصبہ واقع ہے۔ شہری لوگ یہاں سے عمارتی لکڑی خرید کر لے جاتے ہیں۔ یہاں تین چار مال دار آڑھتی رہتے ہیں۔ اس قصبے کی طرف ایک پکی سڑک بھی جاتی ہے، جس پر کاریں اور بسیں چلتی ہیں۔ کچھ فاصلے پر کچی سڑک ہے، جس سے فاصلہ دس بارہ میل کم ہو جاتا ہے، لیکن اس کچی سڑک پر جیپ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ہی چل سکتی ہیں۔
دو برس پہلے جب دو صحافی کسی دوست کی شادی میں سندیل پور گئے تھے تو انھوں نے یہی کچا راستہ اختیار کیا تھا۔ وہ دونوں موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔ اس کچی سڑک پر صرف ایک جھگی نما سرائے تھی۔ ان دونوں صحافی دوستوں نے وہاں ٹھہر کر چائے پی تھی۔ اس جھگی سرائے کی مالکہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ اب دوسری بار وہ دونوں اسی راستے سے سندیل پور جا رہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ جھگی سرائے کی جگہ ایک پکی عمارت کھڑی ہے، جس پر "سندیل پور سرائے” لکھا تھا۔
دونوں دوست موٹر سائیکلوں کو سائے میں کھڑی کر کے سرائے کے اندر گئے۔ اندر وہی بڑی بی موجود تھیں۔ صاف ستھری چینی کی پیالیوں میں چائے لائی گئی۔ ایک صحافی سے رہا نہ گیا اور اس نے پوچھ ہی لیا: "اماں جی! یہ تو بتائیں کہ یہ کایا کیسے پلٹی، کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا تھا کیا؟”
بڑی بی بولیں: "اللہ جب دینے پر آتا ہے تو چھپّر پھاڑ کر دیتا ہے۔”
دوسرے صحافی نے کہا: "تو پھر اپنی کہانی سنا ڈالیں۔ اگر مزے دار ہوئی تو میں اپنے اخبار میں چھپوا دوں گا۔ لوگ پڑھیں گے، سندیل پور سرائے کی شہرت ہوگی اور بیٹھے بٹھائے آپ کی آمدنی بڑھ جائے گی۔ تو پھر شروع کریں اپنی کہانی۔”
بڑی بی کی سمجھ میں بات آ گئی اور وہ بولیں: "بیٹا! میرا میاں بہت بوڑھا ہے۔ ہاتھوں میں رعشہ اور جوڑوں میں درد رہتا ہے۔ سردی کے موسم میں اپاہج ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پانچ بکریاں تھیں۔ ایک دن وہ انھیں چرانے لے گیا تو جنگل میں اسے ایک چھوٹی سی شیشی ملی، جس میں سفید پوڈر سا تھا۔ میرا میاں وہ شیشی اٹھا لایا کہ شاید یہ کوئی دوا ہے۔ دوسرے دن جنگل میں ایک مردی آدمی ملا۔ پولیس نے بتایا کہ اس آدمی نے زہر کھا کر خودکشی کی ہے۔ میرے میاں نے وہ شیشی طاق کے کونے میں رکھ دی۔ جب اس کے جوڑوں میں بہت درد ہوتا تو زہر کھا کر مر جانے کی بات کرتا۔ میں نے وہ شیشی چھپّر کے کونے میں چھپا دی۔ کچھ دن بعد وہاں فاختہ کے جوڑے نے گھونسلا بنا لیا۔”
بڑی نے تھوڑا رک کر کہا: "اب آگے کی سنو کہ کس طرح کہانی کے تانے بانے بنتے چلے گئے۔ ڈیڑھ دو سال گزرے تھے کہ سرائے کہ آگے ایک سبز رنگ کی جیپ آ کر رکی۔ دو مسٹنڈے جوان اتر کر سرائے میں آ گھسے۔ تیسرے آدمی نے جیپ درختوں کے پیچھے چھپا کر کھڑی کر دی اور خود بھی سرائے میں آ گیا۔ ایک آدمی نے ساتھ لائے ہوئے تھیلے میں سے دو ذبح کیے ہوئے مرغے نکالے اور مجھے حکم دیا کہ جا بڑھیا! جلدی سے یہ مرغے بھون لا۔ پھر وہ تینوں آدمی ایک چار پائی پر بیٹھ کر بھنے ہوئے مرغوں کا انتظار کرنے لگے۔ میں کھانا پکانے لگی۔ اتنے میں ایک آدمی نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور تینوں اس پر جھک کر کانا پھوسی کرنے لگے۔ مجھے وہ لوگ اٹھائی گیر لگ رہے تھے۔ میں مرغے بھون کر لائی تو وہ منٹوں میں چٹ کر گئے اور مجھے حکم دیا کہ اے بڑھیا! کھڑی کیا دیکھ رہی ہے۔ تھوڑی سی کھیر بنا کر لا۔ ابھی پیٹ نہیں بھرا۔ تھوڑی دیر میں کھیر تیار ہو گئی۔ وہ بھی انھوں نے چٹ کر ڈالی۔
ایک آدمی بولا: "بکری کے دودھ کی بہت مزے دار تھی۔ جا! پوری دیگچی اٹھا لا۔ "میں دیگچی لا رہی تھی تو وہ خود دیگچی کی طرف لپکا۔ چھپرے کے گھونسلے سے ایک فاختہ پھڑ پھڑا کر اڑی اور وہ چھوٹی سی سفید پوڈر والی شیشی کھیر کی دیگچی میں آ پڑی۔ اس آدمی نے دیگچی چھین لی۔ میں اسے روکتی رہ گئی۔ ان تینوں نے ساری دیگچی صاف کر ڈالی تب میں کیا دیکھتی ہوں کہ وہ تینوں فرش پر ذبح کیے مرغوں کی طرح لوٹ رہے ہیں۔ اتنے میں چار جیپ گاڑیاں سرائے کے سامنے رکیں اور دس بارہ پولیس والے سرائے میں گھس آئے۔ انھوں نے اب تینوں اٹھائی گیروں کو ہتھکڑیاں لگا دیں۔ ایک پولیس والے نے ان کی سبز جیپ بھی ڈھونڈ نکالی۔ تینوں اٹھائی گیروں کی حالتیں بہت بری تھیں، لہٰذا انھیں ایک جیپ میں فوراً اسپتال کی طرف روانہ کر دیا گیا۔
تھانے دار صاحب نے کہاَ: "بڑی بی تم نے وہ کام کر دکھایا۔ جو ہم نہیں کر سکے۔ ان تینوں نے ہم پولیس والوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ یہ تینوں اشتہاری ڈاکو ہیں۔ ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر دس دس ہزار روپے کا سرکاری انعام ہے۔” اس واقعہ کے ہفتہ بھر بعد چند پولیس افسر آئے اور مجھے تیس ہزار روپے دے گئے۔ میں اتنی بڑی رقم چھپا کر کہاں رکھتی۔ یہ روپے سندیل پور کے ایک ایمان دار آڑھتی کے پاس رکھوا دیے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے تو اپنے شوہر کا شہر لے جا کر علاج کراؤ۔ باقی روپوں سے پکی سرائے بنواؤ۔ میں تمہاری مدد کروں گا۔ رقم محفوظ کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔
بیٹا! تمہیں یہ کہانی لگتی ہو گئی، مگر یہ سچی کہانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کام بھی نرالے ہوتے ہیں۔ کڑیوں سے کڑیاں ملتی جاتی ہے۔ مجھے تو گمان بھی نہیں تھا کہ میرا میاں صحت مند ہو جائے گا اور میری جھگی سرائے پکی سندیل پور سرائے بن جائے گی۔ یہ سب مرے اللہ کا کرم ہے۔ دن رات میں اللہ تعالیٰ کے گن گاتی رہتی ہوں۔
٭٭٭
ٹائپنگ : فہیم اسلم
پروف ریڈنگ: سید زلفی، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید