عادل منصوری کی شاعری پر ایک نظر
وارث علوی
یہ 1955 کے بعد کا زمانہ ہے۔ احمد آباد کے مڈل کلاس نوجوانوں کا وہ ٹولا جو ترقی پسند تحریک کے ساتھ وجود میں آیا، اب جدیدیت کے میلان کی طرف راغب تھا۔ محمد علوی جو ترقی پسندی کے اپنے مختصر سے دور میں یعنی1946 سے1951 تک کے زمانہ میں تحریک کے ساتھ تھے، انجمن کی میٹنگوں میں شریک ہوتے تھے، لیکن شاعری نہیں کرتے تھے۔ اگر کرتے بھی تھے تو تک بندی تھی۔ بعد میں شاعری شروع کی تو وہ جدید شاعری تھی جو اس وقت ہمیں بے تکی لگی۔ ویسے محمد علوی کی لائف اسٹائل بڑی حد تک بدل گئی تھی۔ انہوں نے شادی کر لی تھی۔ الگ مکان بنوا لیا تھا اور کنسٹرکشن کا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر لیا تھا۔ ان کا وقت اب کلب اور جمخانہ میں گنجفہ بازی میں زیادہ گزرتا لیکن پھر وہ کلیم بک ڈپو پر آنے لگے جو شروع سے ہمارا یعنی محمد علوی، مظہر الحق علوی اور راقم الحروف کا اڈا تھا۔ وہاں پر شام کے وقت عادل منصوری بھی آ جاتے اور ایک کافی بزرگ شاعر زخمیؔ صاحب بھی فٹ پاتھ پر اپنی سائیکل اتکا کر اس پر بیٹھے رہتے۔ یہ تینوں لوگ ایک دوسرے کو اپنی غزلیں سناتے، عادل منصوری اس زمانے میں کپڑوں کی ایک دکان پر ملازمت کرتے تھے، اس دکان کے مالک چیتن کمار تھے۔ تھے تو وہ بھی منصوری اور مسلمان، لیکن گجراتی میں شاعری کرتے تھے اور چیتن کمار ان کا قلمی نام تھا۔ احمد آباد میں منصوری طبقہ کے لوگ اب تو بہت بڑے کپڑے کے بیوپاری بن چکے ہیں ۔ اور تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بہت مذہبی بھی ہو گئے ہیں ۔ ان کی مادری زبان گجراتی ہے لیکن اکثر بہت اچھی اردو بول لیتے ہیں ۔ اور جنہیں شعر وسخن کا شوق ہوتا ہے وہ گجراتی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں ۔ عادل جب کلیم بک ڈپو پر آتا تو یکے بعد دیگرے سگریٹ جلاتا، کیونکہ تمام دن وہ دکان پر سگریٹ نہیں پیتا تھا۔ سگریٹ کے ساتھ یکے بعد دیگرے اردو کی غزلیں سناتا۔ پھر محمد علوی غزلیں سناتے، اور ان کے بعد بوڑھے شاعر زخمی صاحب۔ پھر کلیم بک ڈپو کے مالک جمیل قریشی اپنی دکان پر بیٹھے بیٹھے بیاض نکالتے اور اپنی غزلیں سناتے۔ میں فٹ پاتھ کی اس مشاعرہ بازی کو ایک تماشا سمجھتا۔ کیونکہ جس قسم کی غزلیں وہاں پڑھی جاتیں ، ان میں ہزل کا رنگ زیادہ ہوتا، سوائے زخمی صاحب کے جو قدیم رنگ میں شعر کہتے تھے۔ پتہ نہیں وہ محمد علوی اور عادل منصوری کی غزلیں کس نظر سے دیکھتے تھے۔ اس نوع کی غزل کے تجربہ کے طور پر عادل کے یہ چند شعر ملاحظہ فرمائیے:
الف سیر کرنے گیا نون میں
ملے میم کے نقش پا نون میں
وہ نقطہ جو تھا بے کے نیچے ابھی
سرکتا ہوا آ گیا نون میں
اس وقت عادل بالکل نوجوان تھا۔ محمد علوی اور رام الحروف تو تیس کے پیٹے میں داخل ہو چکے تھے۔ اس وقت مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ عادل گجراتی میں شعر کہتا ہے۔
انہیں دنوں میں ، یعنی چھٹی دہائی میں محمد علوی نے احمد آباد میں ایک مشاعرہ کیا۔ وہ ہندوستان بھر میں جدید شاعری کا پہلا مشاعرہ تھا۔ اس مشاعرے میں بشیر بدر، شہریار، بمل کرشن اشک، محمد علوی نے بالکل نئے انداز کی غزلیں سنائیں ۔ اور مشاعرہ بہت کامیاب رہا۔
وقت گزرنے کے ساتھ کلیم بک ڈپو کی یہ محفل بھی اجڑ گئی۔ جمیل قریشی کا انتقال ہو گیا۔ محمد علوی کلب لائف میں مشغول ہو گیا۔ عادل کو ایڈورٹائزنگ کمپنی میں بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ عادل مصور بھی بہت اچھا تھا۔ اس کی تصویروں کی کافی شہرت ہوئی۔ پھر یکایک گجراتی میں جدیدیت کا غلغلہ بلند ہوا۔ ادھر ’’شب خون‘‘ رسالہ نکلا۔ محمود ہاشمی اور بلراج کومل کی ایک گفتگو پر میں نے ایک مضمون لکھا’’ بنن کی چاہ اور ہیرا‘‘۔ عادل ایک روز مکان پر آیا تو مضمون میز پر دیکھا۔ میں نے کہا میں اپنے نام سے مضمون نہیں شائع کراؤں گا۔ ابھی بھی ترقی پسندوں کے خلاف زبان کھولنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ عادل نے ابنِ حسن کے نام سے شب خون میں مضمون بھیج دیا۔ پھر تو مضمون نگاری کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔
گجراتی میں جدیدیت کے آغاز کے ساتھ ایک چھوٹی سی انجمن قائم ہوئی۔ اس کا نام تھا’’ رے مٹھ‘‘۔ رے مٹھ کے اکثر شعراء عادل کے گھر جمع ہوتے تھے اور مٹھ کی آفس بھی خاص بازار ہی تھا۔ یہ گجراتی کی جدید شاعری کارواں گارد تھا۔ ان سے پہلی بار شناسائی عادل کے مکان پر ہی ہوئی۔ یہ سب کے سب آگے چل کر گجراتی کے نامور شاعر بنے۔ ان میں سے بڑا نام لابھ شنکر ٹھاکر کا تھا۔ پھر چینو مودی، منہر مودی، شعلا اور عادل منصوری کے نام آتے ہیں ۔
لیکن اس وقت تک عادل ہمارے لئے اردو کا شاعر تھا۔ اس کی نظمیں بہت مبہم بلکہ مہمل ہوتیں لیکن ان کی امیجری میں بڑی تازگی تھی۔ اس امیجری میں اسلامی منظر نامے سے بہت سے شعری پیکر تراشے گئے۔ غزل میں تو عادل کے ساتھ پھر بہت سے شاعر شامل ہو گئے اور اردو میں جدید غزل کی بنیاد استوار ہو گئی۔ ظفر اقبال کی غزل نے جدید غزل کے دائرے کو بہت وسیع کیا۔ محمد علوی کا پہلا مجموعہ’’ خالی مکان‘‘ نظم اور غزل دونوں میں نیا رنگِ سخن لے کر آیا۔ اس شاعری کے خلاف ردِ عمل بھی شدید ہوا۔ لیکن اس شاعری نے اظہار بیان کے جو نئے امکانات تلاش کئے تھے اس کے سبب جدید غزل میں ایک نئی تازگی اور کشادگی کا احساس ہوتا تھا۔ عادل پڑھتا بھی بہت اچھا تھا۔ پائیدار آواز میں بغیر کسی ڈرامائیت اور چیخ و پکار کے اتنے صاف ستھرے انداز میں شعر داغتا کہ سامعین مسحور ہو جاتے، غزل میں تو پھر بھی عادل کے یہاں مشاعرہ جیتنے والے اشعار نکل آتے لیکن اس کی نظمیں تو سامعین کے سر پر سر گزر جاتیں ۔ لیکن اس کے پڑھنے کا انداز اور نظموں کی تازہ کاری اسلامی اور صحرائی امیجری مشاعرے پر اپنا جادو چلاتی۔ لوگوں کی سمجھ میں کچھ آتا کچھ نہ آتا۔ لیکن سب عالمِ حیرت میں اسے سنا کرتے۔ عادل کے پاس چند صاف ستھری نظمیں بھی تھیں ۔ مثلاً والد کے انتقال پر جو مشاعروں میں مقبول ہوئی۔ عادل نے کشمیرسے لیکر کلکتہ تک اردو کے بہت مشاعرے پڑھے۔ خوب رسالوں میں بھی چھپا اور جب اس کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’حشر کی صبح درخشاں ہو‘‘ اشاعت پذیر ہو کر ہاتھ میں آیا تو رد و قبول کا ملا جلا تاثر چھوڑ گیا۔
اس مجموعہ کے بعد عادل نے اردو میں شعر کہنا کم کر دیا۔ پھر تو ایسا وقت آیا کہ شاید اردو میں شعر کہنا ترک ہی کر دیا۔ اب اس کی توجہ گجراتی پر زیادہ تھی۔ اور وہ گجراتی غزل میں نئی منزلیں طے کر رہا تھا۔
پھر یہ دور گجراتی میں غزل کا دور بھی کہلایا۔ ایک ساتھ غزل کے بہت اچھے شاعر سامنے آئے۔ انہوں نے صنفِ غزل کو گجراتی ادب میں اس کا صحیح مقام دلایا۔ ورنہ غزل پریشان بیانی، اور مجرے میں گائی جانے والی حسن و عشق اور ناز و نیاز کی شاعری سمجھی جاتی تھی۔ ثقہ استاد اسے ا دب مانتے ہی نہیں تھے۔ اوما شنکر جوشی پہلے بڑے نقاد ہیں ۔ جنہوں نے غزل کی شاعری کو تعریفی نظروں سے دیکھا۔
آج عادل منصوری گجراتی غزل کا ہی نہیں بلکہ گجراتی نظم کا بھی ایک منفرد اور بے مثال شاعر مانا جاتا ہے۔ امریکہ جانے کے بعد تو عادل ایک ادارہ بن گیا۔ امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ اور دوسرے بے شمار ممالک میں اس نے گجراتی مشاعرے برپا کیے اور ایک ہلچل مچا دی۔ ظاہر ہے ان ممالک میں گجراتیوں کی بہت بڑی تعداد بسی ہوئی ہے اور ان کے تہذیبی پروگراموں میں مشاعرے کو ایک بہت اہم مقام حاصل ہے۔ جتنا عادل کی شہرت اور مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اتنا ہی عادل کی شاعری پر نکھار آتا گیا۔ ذاتی طور پر میں عادل کی گجراتی شاعری کا بڑا دلدادہ ہوں ۔ نہ صرف غزلوں کا بلکہ نظموں کا بھی۔ گجراتی شاعری میں بھی عادل کا سب سے طاقتور عنصراس کی زبان کی سلاست اور مٹھاس ہے۔ اور احساس کی وہ آنچ جس سے اس کی نظمیں دہکتی ہیں ۔ عادل کا ہر شعر ایک تصویر ہے۔ عادل تصویروں اور استعاروں میں سوچتا ہے۔ اس کے یہاں خیال تجریدی صورت میں نہیں بلکہ محسوس پیکر میں ظاہر ہوتا ہے۔ عادل بزلہ سنج شاعر ہے۔ اس کی حس مزاح زندگی کے تلخ تجربات کو بھی زعفران زار بنا دیتی ہے۔ یہ حسِ مزاح بہت لطیف ہے جو عادل کے کھلنڈرے پن کو بھی ملائمت عطا کرتی ہے۔ بڑی سادگی سے، بڑی بے تکلفی سے وہ گہرے خیال اور فکر انگیز جذباتی تجربہ کا شعر میں بیان کر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی گجراتی شاعری پر لکھنے کے لئے تو ایک دفتر چاہیے۔ سردست تو اس کے مختصر سے تعارف پر اکتفا کیا گیا ہے۔ تاکہ چاند کا دوسر رخ بھی سامنے آ جائے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ عادل کی گجراتی شاعری بے حد صاف ستھری، سادگی کے حسن سے آراستہ، اشکال اور اہمال سے دور، ترسیل کی پوری ذمہ داری قبول کرتی ہوئی، فکر انگیز، پر تاثیر اور آرٹ کی مسرت کا ایک بحرِ بیکراں لئے ہوئے ہے۔ اس کے مقابلہ میں عادل کی اردو شاعری مشکل اور مبہم بھی ہے بلکہ مہمل بھی۔ در اصل اردو شاعری میں عادل اپنے اجتہادی اور تجرباتی دور میں قید ہے۔ جبکہ گجراتی شاعری میں وہ اس قید سے آزاد ہو چکا ہے۔ اگر عادل صرف اردو زبان کا شاعر ہوتا تواس کے تخلیقی ارتقا کا گراف غزل میں ظفر اقبال اور نظم میں محمد علوی کی طرح ایسے تجربات پر مبنی ہوتا جو معنی خیز ہوتے۔
بد قسمتی سے عادل نے اردو شاعری میں اس وقت قدم رکھا جب جدیدیت کے آغاز کے ساتھ ہی ترسیل کی ناکامی کا المیہ ہمارے اعصاب پر سوار تھا۔ اس وقت ایلیٹ کے سبھی پرستار تھے۔ لیکن کسی کو خیال نہیں آیا کہ ایلیٹ ترسیل کی ناکامی کا مدعی نہیں تھا۔ بلکہ ترسیل کا قائل اور علمبردار تھا۔ مبہم بلکہ مہمل شاعری کے جو تجربے عادل نے اردو میں کئے وہ گجراتی میں نہیں کئے۔ کیونکہ اس وقت اردو کی فرضی جدیدیت کے زیر اثر علامتی شاعری کے لائے ہوئے اشکال اور ابہام سے بوجھل تھی۔
عادل کی شاعری کا اور بھی ایک مجموعہ ہے جو1996 میں شب خون کتاب گھر سے ’’حشر کی صبحِ درخشاں ہو‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کا فلیپ شمس الرحمٰن فاروقی نے لکھا ہے۔ فاروقی کی تحریر عادل کی شاعری کی تمام خصوصیات کا احاطہ کرتی ہے۔ مثلاً انہوں نے عادل کی شاعری میں سرریلزم، یا جذبہ کے آزاد تلازمات اور استعاروں کی شکل میں اسلامی مذہبی تصورات کے تخیلی استعمال کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ عادل کے یہاں ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں معنی سے آگے جانے اور ملازمے کی طرح بے معنی مگر با معنی متن خلق کرنے کی کوشش بھی صاف نظر آتی ہے۔ فاروقی نے یہ بھی بتایا ہے بعض نظموں میں اظہار بیان اتنا پیچیدہ نہیں اور براہِ راست ہے۔ اور سماجی اور سیاسی موضوعات پر رائے زنی کی گئی ہے۔ لیکن ان نظموں میں بھی استعاروں ، پیکروں اور الفاظ کی وہی بے باکی ہے جو ان کی پیچیدہ ترین نظموں کا طرۂ امتیاز ہے۔
عادل کی شاعری پر فاروقی کے اس تبصرے کے بعد نقاد کے لئے کوئی نئی بات کہنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ سوائے اس کے کہ وہ مختلف نظموں سے مثالیں لے کر فاروقی کے خیالات کی تصدیق اور توضیع کرے۔ یہ کام بھی فاروقی حسن و خوبی کے ساتھ کرتے اگر وہ فلیپ کے سخن مختصر کے پابند نہ ہوتے اور کتاب کا ایک جامع دیباچہ قلمبند کرتے۔
عادل کا پہلا مجموعہ279صفحات پر مشتمل ہے۔ عموماً اواں گارد شعرا ء کے مجموعے اتنے ضخیم نہیں ہوتے۔ پہلا مجموعہ تو ڈیڑھ سو صفحات کا ہوتا ہے۔ کیونکہ جس قسم کی نئی شاعری جواں سال شاعر نے کی ہوتی ہے اس کا نمونہ ہی اسے پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے مجموعے آتے رہتے ہیں ۔ اتنا ضخیم شعری مجموعہ ایک طرف تو عادل کی قادر الکلامی، پر گوئی اور زود گوئی کا ثبوت ہے تو دوسری طرف اس کے بعد کسی اور مجموعے کا نہ آنا ایک پر گو شاعر کی خاموشی کا افسردہ منظر پیش کرتا ہے۔ خیر! عادل بالکل خاموش تو نہیں ہوا۔ شب خون میں کبھی کبھار اس کی غزلیں دیکھنے کو مل جاتیں ۔ اب پتا نہیں ایسا غیر مطبوعہ کلام کتنا ہے اور کس نوع کا ہے لیکن اغلب قیاس یہ ہے کہ جس نوع کی گجراتی شاعری اس کے قلم سے تحریر ہو رہی تھی اس پر اسے زیادہ اعتماد تھا اور جس نوع کی اردو شاعری اس نے کی تھی اس طرح کی شاعری کرتے رہنے میں یک آہنگی کا جو خطرہ تھا اسے مول لینے سے وہ احتراز کرنا چاہتا تھا، یہ ممکن تھا کہ عادل اگر صرف اردو زبان کا شاعر ہوتا تو وہ اپنی شاعری کو نیا موڑ دیتا جواس رنگ کو جسے فاروقی صاحب نے بے معنی بامعنی کہا ہے، زیادہ بامعنی بنانے کی کوشش کرتا۔ اور پیچیدہ استعاروں کو زیادہ اثر انگیز بناتا اور آزاد تلازمات کو جذبۂ خیال کے کسی مرکزی دھاگے سے جوڑ کر اسمیں نظم کی اکائی اور سالمیت پیدا کرتا یا اہمال کے منطقے میں داخل ہوتی ہوئی ابہام کی تاریک گھٹاؤں کو ہلکے سرمئی بادلوں میں بدلتا۔ غرض کہ اس کی گجراتی شاعری کی ڈگر پر بھی اردو شاعری میں بھی ارتقا اور تغیر کے امکانات بہت تھے جو بروئے کار نہیں آئے۔ لہذا اب ہمارے پاس عادل کی شاعری کی قدر و قیمت کا تعین کرنے کے لئے اسکا وہی کلام رہ گیا ہے جسے ہم اور میں ا س کا کل اثاثہ کہہ سکتے ہیں ۔
اس اثاثہ کو اردو تنقید نے بہت قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ عادل، محمد علوی، ظفر اقبال اردو کے دلپسند شعرا ء میں شمار کئے گئے۔ چونکہ محمد علوی کا تخلیقی ارتقا ہماری اور سب سے جدید شعرا میں سے زیادہ نقادوں کی تحسین حاصل کر سکا۔ ظفر اقبال کا تخیل بحرِ ذخّار ہے۔ جس میں سے غزلیں سونامی کی طوفانی موجوں کی طرح نکلتی ہیں اور نقاد ہڑ بڑا کر ابھی ابھی آنکھیں کھول بھی نہیں پایا تھا کہ دوسری موج اسے بہا لے جاتی ہے۔
اگر عادل کے تخلیقی تخیل کے امتیازی وصف کی نشان دہی مقصود ہو تو اس کے شعری پیکروں کی یکتائی کو ا سکے اظہار بیان کی سب سے بڑی خوبی گردانا جا سکتا ہے۔ ان پیکروں کی تعمیر میں شاعر کا سر ریل تخلیل، گھلتے ملتے رنگوں کی نقش گری اور اسلوب کے چوکھے پن کا بڑا عطیہ ہے۔ عادل مصور بھی ہے اور اس کی تصویریں ماہیت کم اور تجریدی زیادہ ہیں ۔ عادل کی آواز میں بڑی کڑک ہے اور اسی کڑک کی گونج اس کی زبان اور اسلوب میں نظر آتی ہے۔
عادل کی نظم میں نثر کا عنصر بالکل نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ ایک دو مصرعوں میں صاف و شفاف طریقہ پر اظہار خیال و جذبات کرتا ہو اور پھر اس قدر رواں شعری پیکروں کا عمل شروع ہوتا ہو۔ اس کی تو پوری نظم ایک مصرعہ اور استعارے اور شعری پیکر سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی ہر نظم کا اسلوب اول تا آخر استعاروں کا ہے۔ ہر مصرعہ ایک استعارہ ہے۔ اور استعارہ شعری پیکر میں اور شعری پیکر سرائیلی تصور میں بدل جاتا ہے۔ نظم اول تا آخر اتنے پیچیدہ اور گہن تخیل کو برداشت نہیں کر پاتی۔ پہلے ابہام اور پھر اشکال اور اکثر نظموں میں پھر اہمال پیدا ہو جاتا ہے۔ عادل کی چند نظمیں طویل ہیں ۔ باقی مختصر ہیں جو ایک صفحہ پر ختم ہو جاتی ہیں ۔ سب نظموں پر عنوانات نہیں لیکن کسی بھی نظم کو دوسرے سے الگ ایک علیحدہ اکائی کے طور پر دیکھنا لگ بھگ نا ممکن ہے۔ تمام نظمیں ایک سی لگتی ہیں ۔ پھر نظم کو آپ کہیں سے بھی شروع کر سکتے ہیں ۔ اس کا آغاز، درمیان اور انجام نہیں ہوتا۔ چونکہ معنی کا کوئی تسلسل نہیں اور شاعر نے معنی کے ماوراء جا کر بے معنی کی منزلیں طے کر کے ایک ایسے معنی کی تخلیق کی کوشش کی ہے جو ہمیں کبھی بھی دستیاب نہ ہوتا اگر ہم معنی میں قید شاعری کرتے رہتے۔
ہمارے شعور سے وراء ایسی دنیا میں جہاں ہماری دنیا کی چیزیں گڈ مڈ ہو گئی ہیں ۔ مثلاً ایک راجستھانی حویلی میں ایک بڑے سے جھروکے میں جو راجستھانی آرٹ کا بہت خوبصورت نمونہ ہے۔ ایک جھروکے میں دو گائیں اور بھینسیں کھڑی نیچے کا نظارہ کر رہی ہے۔ یہ امیج عادل منصوری کی نہیں لیکن ایک انگریزی نظم کا ہے جسے میں نے ایک انگریزی سرائیلت شاعری کی انتھولوجی میں پڑھا تھا۔ دیکھئے یہ امیج کچھ بے معنی نہیں لگتا۔
تین خوبصورت شہزادیوں کے بجائے دو گائے اور ایک بھینسہ پوچھتے ہیں کہ تصویر کے معنی کیا ہیں ۔ معنی ہیں بھی تو معنی پوچھ رہے ہیں ۔ اگر جھروکے میں تین شہزادیاں ہوتیں تو تصویر میں معنی ہوتے۔ تین شہزادیوں کا امیج اور جھروکا معنی دیتا ہے۔ جھروکے میں دو گایوں اور ایک بھینس کا امیج معنی نہیں دیتا۔ لیکن ورائے معنی ایک ایسا تجربہ خلق کرتا ہے جس کی معنویت کا تجسس نظم کے حسن اور حیرت کا موجب بنتا ہے۔
عادل کی نظمیہ شاعری کے تین رنگ ہیں ۔ ایک تو صاف ستھری نظمیں جن میں استعاروں اور علامتوں سے کام لیا گیا ہے۔ استعاراتی اسلوب کی بہترین مثال عادل کی نظم’’ والد کے انتقال پر‘‘ ہے۔ یہ والد کی موت کا مرثیہ نہیں ۔ اس میں ذاتی غم کا بیان نہیں ۔ بلکہ موت کے سامنے ایک آدمی کی بے بسی، اور آہستہ آہستہ بجھتی ہوئی زندگی کی لو کا دردناک بیان ہے۔
وہ چالیس راتوں سے سویا نہ تھا
وہ خوابوں کو اونٹوں پہ لادے ہوئے
رات کے ریگ زاروں میں چلتا رہا
میز پر
کانچ کے ایک پیالے میں رکھے ہوئے
دانت ہنستے رہے
کالی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے پھر
موتیے کی کلی سر اٹھانے لگی
آنکھ میں تیرگی مسکرانے لگی
خوابوں کو اونٹوں پہ لادے، رات کے ریگ زاروں میں چلنا، چاندنی کی چتاؤں میں جلنا، ایسے پیکر ہیں جن میں کہ زندگی کی الم ناکی کا رنگ ہے۔ اس کے فوراً بعد کانچ کے پیالے میں رکھے ہوئے دانتوں کے ہنسنے کا امیج زندگی کی محرومیوں پر گہرا طنز ہے۔ اور پھر کالی عینک کے پیچھے سے موتیے کی کلی کا ابھرنا موت ک، ے اندھیروں کے بڑھنے کا اشارہ ہے۔ اس کے بعد تو خواہشوں کے دیئے جسم میں بجھ گئے؍سبز پانی کی سیال پرچھائیاں ؍ لمحہ لمحہ بدن میں اترنے لگیں ؍گھر کی چھت میں جڑے؍ دس ستاروں کے سائے تلے؍عکس دھندلا گئے؍ عکس مر جھا گئے…………….آخری سانس اور آخری مصرعوں میں کیسی یگانگت پیدا ہو گئی ہے۔ اونٹ، ریگ زار، چاندنی اور چھت میں جڑے ستارے میں بھی تناسب ہے جو نظم کے تعمیری حسن میں اضافہ کرتا ہے۔
ایسی ہی سادگی اور پرکاری کا امتزاج فسادات پر عادل کی نظم خون میں لتھڑی ہوئی دو کرسیاں ہیں ۔ یہاں کرسیاں علامات ہیں اس خون کی جو خونِ رائیگاں تھا۔ خونِ ناحق تھا ایسے لوگوں کا جن کی لاشیں بھی نظر نہیں آتیں ۔ جن کے وجود کا اشاریہ دو کرسیاں ہیں ۔ ان علامات کو مرکز میں رکھ کر جو تباہی، بربادی اور قتل و غارت گری ہوئی اس کا بیان ایسے استعاروں میں ہوا ہے جو فسادکی ہولناک تصویریں پیش کرتے ہیں
خون میں لتھڑی ہوئی دو کرسیاں
شعلوں کی روشنی میں وحشی آنکھوں کا ہجوم
رات کی گہرائیوں میں موجزن
اجنبی بڑھتے ہوئے سایوں کا شور
نیم مردہ سا یہ چاند
کوئی دوشیزہ کا جیسے ادھ کٹا پستان
اور اس پر خون میں لتھڑی ہوئی دو کرسیاں
نظم کا آخری ٹکڑا بڑا اثر انگیز ہے۔ اس میں ہڈیوں سے جو دھواں اٹھتا ہے۔ اس میں تیرے میرے اجداد کی بو ہے۔ اور یہ دھواں جس میں اجداد کی بو ہے اجنبی سا لگ رہا ہے۔ چاروں طرف اندھیرا ہے لیکن ہر سنگین کی نوک جگنو کی طرح چمکتی ہے۔ ظاہر ہے اس صورت میں روشنی کی منتظر آنکھیں مایوس اور اداس ہیں ۔ بند کمروں میں سیلن ہے جو سانسوں میں بھر جاتی ہے اور یہ سانسیں بھی اداس ہیں ۔ اور اداسی کے پردوں کے درمیان/خون میں لتھڑی ہوئی دو کرسیاں ۔
فسادات پر نظم لکھنے کا یہ بالکلObliqueطریقہ ہے۔ یہاں اس احساس کو زیادہ دینے کی کوشش ہے جو فسادات کی ہولناکیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے، ذہن پر ایک خوفناک تاریک بادل کی طرح منڈلاتا رہتا ہے۔
عادل کی نظمیہ شاعری کا دوسرا رنگ ایک ایسے طریقۂ کار پر مبنی ہے جس میں شعری پیکر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہیں ، گمشدہ ہو جاتے ہیں ۔ اور نظم کی حقیقت پسندانہ تصویروں کے پہلو بہ پہلو اور اکثر تو ان کے بطن سے سر رئیلی تصویریں ابھرتی ہیں جن میں نظم کے معنی قتلوں کی صورت بٹ جاتے ہیں ۔ ایسی نظموں میں ابہام کی موجودگی سے زیادہ تسلسل کی عدم موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ جسے تیزی سے بدلتی ہوئی تصویریں ناقابلِ قبول بناتی ہیں ۔ عدم مطابقت رکھنے والی تصویریں جب تیزی سے بدلنے لگتی ہیں تو ان کے نقوش ذہن پر جو اثرات چھوڑتے ہیں ۔ وہی باہم مل کر نظم کے معنی کی تشکیل کرتے ہیں جو اس معنی سے ورا ہوتے ہیں ۔ جو لفظوں کے لغوی معنی سے ترتیب پاتے ہیں ۔ بلکہ یہ ہو گا کہ ہم کہیں کہ ایسی نظمیں ایک تاثر چھوڑتی ہیں جو سطحی معنی سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ ایسی نظموں میں مجموعہ کی ٹائٹل نظم ’’حشر کی صبح درخشاں ہو‘‘، ’’قلم اٹھا لے گئے‘‘ اور’’ تبوک آواز دے رہا ہے‘‘ نمائندہ نظمیں ہیں ۔ ان نظموں پر ابہام کی دبیز دھند چھائی رہتی ہے لیکن اشکال نہیں ہوتا۔
عادل کی زیادہ تر نظمیں اسی انداز کی ہیں ۔ مذکورہ بالا نظمیں تو ذرا طویل ہیں لیکن بہت سی مختصر نظمیں اس رنگ کی اچھی نمائندگی کرتی ہیں ۔ نموناً ایک نظم ملاحظہ ہو:
سلگتی شام کے سائے کو شہر پر پھینکوں
گلی گلی سے اٹھے چیخ کالے کتے کی
ہر اک مکاں میں دریچوں کے خواب مر جائیں
قدم قدم پہ خموشی کی ہڈیاں چیخیں
سیاہ کیڑے مکوڑوں سے رات بھر جائے
کسی کواڑ کے پیچھے سے چاندنی پھوٹے
سفید لمس کی خوشبو بدن میں لہرائے
ہوا میں پھیلتے جائیں دھوئیں کے مرغولے
ہر ایک آنکھ سے خوابوں کا سلسلہ کٹ جائے
خلا کے نیزے پہ میں آسماں کی لاش لئے
افق پھلانگ کے میدان میں اتر جاؤں
عادل کی نظم کا تیسرا رنگ اس خونِ ناحق سے عبارت ہے جو ابہام اور اشکال کے بیچ ایک مقام اہمال کا ہے وہیں کہیں اسلوب کے مارے جانے سے نظموں کو سرخرو کر گیا ہے۔ اس رنگ میں بھی عادل نے نظموں کی خوب ہولی کھیلی ہے۔ ایک نظم ملاحظہ ہو
لہو سبز سیلاب آواگمن
نظر جامنی تیرگی تالیاں
کھرچتے ہیں خوابوں کو ناخن نظر
مگر مفلسی
رائیگاں رت جگوں میں رطوبت طرب
پاؤں کی چوٹ لنگڑے خیالوں کو گھڑ دوڑ میداں میں
سربرہنہ صعوبت کے سایوں کے پیچھے بھگائے عدو
اشتہاروں میں لپٹی ہوئی صبح
سورج کا پھل بیچنے پہ بضد
ننھے پیروں سے لپٹا ہوا دھوپ جغرافیہ
حاشیہ ہاتھا پائی میں الجھے ہوئے لفظ میزان گھر
نظموں کے مقابلے میں عادل کی غزل صاف ستھری غیر مبہم، دو ٹوک اور بامعنی ہے گویا وہ صفات جن کا استعمال عموماً جدید غزل کی رعایت سے نہیں کیا جاتا۔ ثقہ نقادوں کے نزدیک جدید غزل کو کافی اوٹ پٹانگ، اور بے معنی ہے۔ لیکن ثقہ نقاد ہر طرف، جدید غزل، زبان اسلوب، موضوعات اور مضامین کے اعتبار سے روایتی غزل سے ایک بڑا انحراف تھا۔ کلاسیکی غزل کی سنجیدگی کے مقابلہ میں اس کا ہزل کا عنصر غزل کی سنجیدگی کے مقابلہ میں اسکے ہزل کا عنصر کافی گل کھلا رہا تھا اور نت نئے مضامین کے رنگ کے رنگ برنگے طوطا مینا اڑا رہا تھا۔ بشیر بدر، ظفر اقبال، بمل کرشن اشک، محمد علوی، عادل منصوری اور مظفر حنفی کے ساتھ ساتھ بہت سے نئے لکھنے والوں نے غزل کے جدید رنگ سخن کو اپنایا اور اس کی شناخت قائم کی۔ عادل کو غزل میں اپنا منفرد اسلوب ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی جیسا کہ اس نے اپنی نظمیہ شاعری میں کیا۔ جدید غزل کا ایک اندازِ بیان خودبخود نمو پذیر ہو رہا تھا اور عادل نے اسی زمین میں بیچ بوئے ہیں جس میں اس کے دوسرے ہم عصر اور ہم سخن شعرا اپنی کھیتیاں کاشت کر رہے تھے، اپنی گجراتی غزل کو عادل نے جدید دور اور قدیم کا جھگڑا ہی نہیں رکھا۔ اس کی شخصیت میں جدید اور قدیم ایک ہو کر غزل کا ایک نیا منفرد اسلوب میں گئے اور عادل کی نزل عادل کی نزل کہلائی جو نہ جدید تھی نہ قدیم بلکہ اس کی اپنی تھی۔ اس کا لب و لہجہ، اس کی غنائیت، اس کی طباعی اور ندرت میں ، اور مضامین کے انبار نے عادل کو گجراتی زبان کا ایک بڑا شاعر بنا دیا۔ اس کے برعکس اردو میں عادل غزل کے متن جملہ دوسرے غزل گو شعراء کے ایک جدید غزل گو شاعر کے طور پر اپنی ہستی کو پیش کرسکا۔ اور اس میدان میں اس کی شخصیت دوسرے شعراء سے کچھ زیادہ نکلتی ہوئی نہ تھی گو بہت دبتی بھی نہ تھی۔ عادل کی غزل سے اپنی پسند کے چند پیش کر کے اپنی بات کو ختم کروں گا۔
ہم اکیلے ہی جلاوطنی نہیں جھیل رہے
دیکھو صحرا کے افق پر نیا خیمہ نکلا
روتے ہیں پھوٹ پھوٹ کے سوکھے ہوئے درخت
اجڑے ہوئے چمن میں صبا جس گھڑی لگی
پانی پلانے والا وہاں کوئی نہ تھا
پنگھٹ کے پاس جا کے بھی ہم تشنہ لب رہے
کونے میں بادشاہ پڑا اونگھتا رہا
ٹیبل پہ رات کٹ گئی بیگم غلام سے
تم کو دعویٰ ہے سخن فہمی کا
جائو غالب ؔ کے طرفدار بنو
دریا کی وسعتوں سے اسے ناپتے نہیں
تنہائی کتنی گہری ہے اک جام بھر کے دیکھ
آخرِ شب سب ستارے سو رہے ہیں بے خبر
کوئی سورج کو خبر کرو کہ اب شب خون مار
کوئی خودکشی کی طرف چل دیا
اداسی کی محنت ٹھکانے لگی
منہ پھٹ تھا، بے لگام، رسوا تھا ڈھیٹ تھا
جیسا تھا دوستوں وہ محفل کی جان تھا
غیرت کو جوش آئے گا غیور ہے خدا
کھانے کو کچھ ملے نہ منہ چلائیے
انگلی سے اس کے جسم پہ لکھا اسی کا نام
پھر بتی بند کر کے اسے ڈھونڈتا رہا
حدودِ وقت سے باہر عجب حصار میں ہوں
میں ایک لمحہ ہوں صدیوں کے انتظار میں ہوں
اب ایک غزل سے چند مسلسل اشعار:
سارے کبیرہ آپ ہی کرتا ہوا سا ہے
الزام دوسرے ہی پہ دھرتا ہوا سا ہے
ہر اک نیا خیال جو ٹپکے ہے ذہن سے
یوں لگ رہا ہے جیسے کہ برتا ہوا ہے
قیلولہ کر رہے ہوں کسی نیم کے تلے
میدان میں رخشِ عمر میں چرتا ہوا سا ہے
معشوق ایسا ڈھونڈیے قحط الرجال میں
ہر بات میں اگرتا مگرتا ہوا سا ہے
پھر بعد میں وہ قتل بھی کر دے تو حرج کیا
لیکن وہ پہلے پیار بھی کرتا ہوا سا ہے
گر داد تو نہ دے، نہ سہی، گالیاں سہی
اپنا بھی کوئی عیب ہنرتا ہوا سا ہو
٭٭٭
ماخذ: تفہیم، راجوری، انٹر نیٹ پر اردو الائیو ڈاٹ کام
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید