فہرست مضامین
حصہ دوم یہاں دیکھیں
بانگِ درا
علاّمہ محمّد اقبال
حصہ اول ـــــــ 1905 تک
ہمالہ
اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں
ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے
تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے
امتحان دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تو
پاسباں اپنا ہے تو ، دیوار ہندستاں ہے تو
مطلع اول فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو
سوئے خلوت گاہِ دل دامن کش انساں ہے تو
برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہِ مہر عالم تاب پر
تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن
وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن
چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن
تو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن
چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیال ہے
دامن موج ہوا جس کے لیے رومال ہے
ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے
تازیانہ دے دیا برق سر کہسار نے
اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی ، جسے
دست قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے
ہائے کیا فرط طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر
فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر
جنبش موج نسیم صبح گہوارہ بنی
جھومتی ہے نشۂ ہستی میں ہر گل کی کلی
یوں زبان برگ سے گویا ہے اس کی خامشی
دست گلچیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی
کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا
کنج خلوت خانۂ قدرت ہے کاشانہ مرا
آتی ہے ندی فراز کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کی شرماتی ہوئی
آئنہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی
سنگ رہ سے گاہ بچتی ، گاہ ٹکراتی ہوئی
چھیڑتی جا اس عراق دل نشیں کے ساز کو
اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو
لیلی شب کھولتی ہے آ کے جب زلف رسا
دامن دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا
وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا
وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا
کانپتا پھرتا ہے کیا رنگ شفق کہسار پر
خوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر
اے ہمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا
کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پر غازۂ رنگ تکلف کا نہ تھا
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
گل رنگیں
تو شناسائے خراش عقدۂ مشکل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیب محفل ہے ، شریک شورش محفل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں مَیں سراپا سوز و ساز آرزو
اور تیری زندگانی بے گداز آرزو
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں
یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت بیں نہیں
آہ! یہ دست جفا جو اے گل رنگیں نہیں
کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ میں گلچیں نہیں
کام مجھ کو دیدۂ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا
دیدۂ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا
سو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے
راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے
میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے
میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے
مطمئن ہے تو ، پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں
زخمی شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں
یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو
یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو
ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو
رشک جام جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو
یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے
توسن ادراک انساں کو خرام آموز ہے
عہد طفلی
تھے دیار نو زمین و آسماں میرے لیے
وسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لیے
تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لیے
حرف بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے
درد ، طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے
شورش زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے
تکتے رہنا ہائے! وہ پہروں تلک سوئے قمر
وہ پھٹے بادل میں بے آواز پا اس کا سفر
پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر
اور وہ حیرت دروغ مصلحت آمیز پر
آنکھ وقف دید تھی ، لب مائل گفتار تھا
دل نہ تھا میرا ، سراپا ذوق استفسار تھا
مرزا غالب
فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا
تھا سراپا روح تو ، بزم سخن پیکر ترا
زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
محفل ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار
جس طرح ندی کے نغموں سے سکوت کوہسار
تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار
زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں
تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر
شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچۂ دلی گل شیراز پر
آہ! تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں
آہ! اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزیِ پروانہ ہے
اے جہان آباد ، اے گہوارۂ علم و ہنر
ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام و در
ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
دفن تجھ میں کوئی فخر روزگار ایسا بھی ہے؟
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے؟
ابر کوہسار
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابر کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا
کبھی صحرا ، کبھی گلزار ہے مسکن میرا
شہر و ویرانہ مرا ، بحر مرا ، بن میرا
کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو
سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو
مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے در افشاں ہونا
ناقۂ شاہد رحمت کا حدی خواں ہونا
غم زدائے دل افسردۂ دہقاں ہونا
رونق بزم جوانان گلستاں ہونا
بن کے گیسو رخ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں
شانۂ موجۂ صرصر سے سنور جاتا ہوں
دور سے دیدۂ امید کو ترساتا ہوں
کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں
سیر کرتا ہوا جس دم لب جو آتا ہوں
بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں
سبزۂ مزرع نوخیز کی امید ہوں میں
زادۂ بحر ہوں پروردۂ خورشید ہوں میں
چشمۂ کوہ کو دی شورش قلزم میں نے
اور پرندوں کو کیا محو ترنم میں نے
سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قم میں نے
غنچۂ گل کو دیا ذوق تبسم میں نے
فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے
جھونپڑے دامن کہسار میں دہقانوں کے
ایک مکڑا اور مکھی
ماخوذ – بچوں کے لیے
اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا
لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا
غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا
آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا
مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت! کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا
اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا ، پھر نہیں اترا
مکڑے نے کہا واہ! فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا
منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا
اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا!
اس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا
مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے
ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا
مکھی نے کہا خیر ، یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے گھر آؤں ، یہ امید نہ رکھنا
ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہیں سکتا
مکڑے نے کہا دل میں سنی بات جو اس کی
پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
یہ سوچ کے مکھی سے کہا اس نے بڑی بی !
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبا
ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبت
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا
آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا
یہ حسن ، یہ پوشاک ، یہ خوبی ، یہ صفائی
پھر اس پہ قیامت ہے یہ اڑتے ہوئے گانا
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا
ایک پہاڑ اور گلہری
(ماخوذ از ایمرسن)
(بچوں کے لیے)
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے ، اس پر غرور ، کیا کہنا
یہ عقل اور یہ سمجھ ، یہ شعور ، کیا کہنا!
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے ، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں!
کہا یہ سن کے گلہری نے ، منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا
جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا ، کوئی چھوٹا ، یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے ، خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
ایک گائے اور بکری
(ماخوذ )
بچوں کے لیے
اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں
کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں
ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں
تھے اناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں
کسی ندی کے پاس اک بکری
چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی
جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا
پاس اک گائے کو کھڑے پایا
پہلے جھک کر اسے سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا
کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں
گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں
کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی
جان پر آ بنی ہے ، کیا کہیے
اپنی قسمت بری ہے ، کیا کہیے
دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں
رو رہی ہوں بروں کی جان کو میں
زور چلتا نہیں غریبوں کا
پیش آیا لکھا نصیبوں کا
آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اس سے پالا پڑے ، خدا نہ کرے
دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے
ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے
کن فریبوں سے رام کرتا ہے
اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں
دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں
بدلے نیکی کے یہ برائی ہے
میرے اللہ! تری دہائی ہے
سن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی ، ایسا گلہ نہیں اچھا
بات سچی ہے بے مزا لگتی
میں کہوں گی مگر خدا لگتی
یہ چراگہ ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایا
ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں
یہ کہاں ، بے زباں غریب کہاں!
یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں
لطف سارے اسی کے دم سے ہیں
اس کے دم سے ہے اپنی آبادی
قید ہم کو بھلی ، کہ آزادی!
سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا
واں کی گزران سے بچائے خدا
ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا
ہم کو زیبا نہیں گلا اس کا
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو
گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی
دل میں پرکھا بھلا برا اس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اس نے
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
بچے کی دعا
(ما خو ذ)
بچوں کے لیے
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
ہمدردی
( ماخوذ از ولیم کو پر )
بچوں کے لیے
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اڑنے چگنے میں دن گزارا
پہنچوں کس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
سن کر بلبل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسرں کے
ماں کا خواب
(ماخوذ بچوں کے لیے )
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں
اسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر
مجھے اس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دیا اس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
کہا میں نے پہچان کر ، میری جاں!
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں!
جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ ، اچھی وفا تم نے کی
جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب
دیا اس نے منہ پھیر کر یوں جواب
رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری
نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا
دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تو ہو گیا کیا اسے؟
ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے
پرندے کی فریاد
بچو ں کے لیے
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت ، وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں!
کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں ، میں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اس قید کا الہی! دکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہیں قفسں میں میں غم سے مر نہ جاؤں
جب سے چمن چھٹا ہے ، یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے ، او قید کرنے والے!
میں بے زباں ہوں قیدی ، تو چھوڑ کر دعا لے
خفتگان خاک سے استفسار
مہر روشن چھپ گیا ، اٹھی نقاب روئے شام
شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوئے شام
یہ سیہ پوشی کی تیاری کس کے غم میں ہے
محفل قدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے
کر رہا ہے آسماں جادو لب گفتار پر
ساحر شب کی نظر ہے دیدۂ بیدار پر
غوطہ زن دریاۓ خاموشی میں ہے موج ہوا
ہاں ، مگر اک دور سے آتی ہے آواز درا
دل کہ ہے بے تابئ الفت میں دنیا سے نفور
کھنچ لایا ہے مجھے ہنگامۂ عالم سے دور
منظر حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں
ہم نشین خفتگان کنج تنہائی ہوں میں
تھم ذرا بے تابی دل! بیٹھ جانے دے مجھے
اور اس بستی پہ چار آ نسو گرانے دے مجھے
اے مے غفلت کے سر مستو ، کہاں رہتے ہو تم
کچھ کہو اس دیس کی آ خر ، جہاں رہتے ہو تم
وہ بھی حیرت خانۂ امروز و فردا ہے کوئی؟
اور پیکار عناصر کا تماشا ہے کوئی؟
آدمی واں بھی حصار غم میں ہے محصور کیا؟
اس ولایت میں بھی ہے انساں کا دل مجبور کیا؟
واں بھی جل مرتا ہے سوز شمع پر پروانہ کیا؟
اس چمن میں بھی گل و بلبل کا ہے افسانہ کیا؟
یاں تو اک مصرع میں پہلو سے نکل جاتا ہے دل
شعر کی گرمی سے کیا واں بھی پگل جاتا ہے دل؟
رشتہ و پیوند یاں کے جان کا آزار ہیں
اس گلستاں میں بھی کیا ایسے نکیلے خار ہیں؟
اس جہاں میں اک معیشت اور سو افتاد ہے
روح کیا اس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟
کیا وہاں بجلی بھی ہے ، دہقاں بھی ہے ، خرمن بھی ہے؟
قافلے والے بھی ہیں ، اندیشۂ رہزن بھی ہے؟
تنکے چنتے ہیں و ہاں بھی آشیاں کے واسطے؟
خشت و گل کی فکر ہوتی ہے مکاں کے واسطے؟
واں بھی انساں اپنی اصلیت سے بیگانے ہیں کیا؟
امتیاز ملت و آئیں کے دیوانے ہیں کیا؟
واں بھی کیا فریاد بلبل پر چمن روتا نہیں؟
اس جہاں کی طرح واں بھی درد دل ہوتا نہیں؟
باغ ہے فردوس یا اک منزل آرام ہے؟
یا رخ بے پردۂ حسن ازل کا نام ہے؟
کیا جہنم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے؟
آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصد تادیب ہے؟
کیا عوض رفتار کے اس دیس میں پرواز ہے؟
موت کہتے ہیں جسے اہل زمیں ، کیا راز ہے ؟
اضطراب دل کا ساماں یاں کی ہست و بود ہے
علم انساں اس ولایت میں بھی کیا محدود ہے؟
دید سے تسکین پاتا ہے دل مہجور بھی؟
‘لن ترانی’ کہہ رہے ہیں یا وہاں کے طور بھی؟
جستجو میں ہے وہاں بھی روح کو آرام کیا؟
واں بھی انساں ہے قتیل ذوق استفہام کیا؟
آہ! وہ کشور بھی تاریکی سے کیا معمور ہے؟
یا محبت کی تجلی سے سراپا نور ہے؟
تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے
شمع و پروانہ
پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں
یہ جان بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں
سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے
آداب عشق تو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟
کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا
پھونکا ہوا ہے کیا تری برق نگاہ کا؟
آزار موت میں اسے آرام جاں ہے کیا؟
شعلے میں تیرے زندگی جاوداں ہے کیا؟
غم خانۂ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو
اس تفتہ دل کا نخل تمنا ہرا نہ ہو
گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے
ننھے سے دل میں لذت سوز و گداز ہے
کچھ اس میں جوش عاشق حسن قدیم ہے
چھوٹا سا طور تو یہ ذرا سا کلیم ہے
پروانہ ، اور ذوق تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا ، اور تمنائے روشنی!
عقل و دل
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
ہوں زمیں پر ، گزر فلک پہ مرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں
کام دنیا میں رہبری ہے مرا
مثل خضر خجستہ پا ہوں میں
ہوں مفسر کتاب ہستی کی
مظہر شان کبریا ہوں میں
بوند اک خون کی ہے تو لیکن
غیرت لعل بے بہا ہوں میں
دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ ، کیا ہوں میں
راز ہستی کو تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں
علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو ، خدا نما ہوں میں
علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
شمع تو محفل صداقت کی
حسن کی بزم کا دیا ہوں میں
تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائر سدرہ آشنا ہوں میں
کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش رب جلیل کا ہوں میں!
صدائے درد
جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے
سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا ، یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے
بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب
جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں
لذت قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں
اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں
دانۂ نم خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں
ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں
حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو
ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں
کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے!
پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے
آفتاب
(ترجمہ گایتری )
اے آفتاب! روح و روان جہاں ہے تو
شیرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو
باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا
ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست و بود کا
قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے
ہر شے میں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے
ہر شے کو تیری جلوہ گری سے ثبات ہے
تیرا یہ سوز و ساز سراپا حیات ہے
وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے
دل ہے ، خرد ہے ، روح رواں ہے ، شعور ہے
اے آفتاب ، ہم کو ضیائے شعور دے
چشم خرد کو اپنی تجلی سے نور دے
ہے محفل وجود کا ساماں طراز تو
یزدان ساکنان نشیب و فراز تو
تیرا کمال ہستی ہر جاندار میں
تیری نمود سلسلۂ کوہسار میں
ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو
زائیدگان نور کا ہے تاجدار تو
نے ابتدا کوئی نہ کوئی انتہا تری
آزاد قید اول و آخر ضیا تری
شمع
بزم جہاں میں میں بھی ہوں اے شمع! دردمند
فریاد در گرہ صفت دانۂ سپند
دی عشق نے حرارت سوز دروں تجھے
اور گل فروش اشک شفق گوں کیا مجھے
ہو شمع بزم عیش کہ شمع مزار تو
ہر حال اشک غم سے رہی ہمکنار تو
یک بیں تری نظر صفت عاشقان راز
میری نگاہ مایۂ آشوب امتیاز
کعبے میں ، بت کدے میں ہے یکساں تری ضیا
میں امتیاز دیر و حرم میں پھنسا ہوا
ہے شان آہ کی ترے دود سیاہ میں
پوشیدہ کوئی دل ہے تری جلوہ گاہ میں؟
جلتی ہے تو کہ برق تجلی سے دور ہے
بے درد تیرے سوز کو سمجھے کہ نور ہے
تو جل رہی ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں
بینا ہے اور سوز دروں پر نظر نہیں
میں جوش اضطراب سے سیماب وار بھی
آگاہ اضطراب دل بے قرار بھی
تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا
احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا
یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار
خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار
یہ امتیاز رفعت و پستی اسی سے ہے
گل میں مہک ، شراب میں مستی اسی سے ہے
بستان و بلبل و گل و بو ہے یہ آگہی
اصل کشاکش من و تو ہے یہ آگہی
صبح ازل جو حسن ہوا دلستان عشق
آواز ‘کن’ ہوئی تپش آموز جان عشق
یہ حکم تھا کہ گلشن ‘کن’ کی بہار دیکھ
ایک آنکھ لے کے خواب پریشاں ہزار دیکھ
مجھ سے خبر نہ پوچھ حجاب وجود کی
شام فراق صبح تھی میری نمود کی
وہ دن گئے کہ قید سے میں آشنا نہ تھا
زیب درخت طور مرا آشیانہ تھا
قیدی ہوں اور قفس کو چمن جانتا ہوں میں
غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں
یاد وطن فسردگی بے سبب بنی
شوق نظر کبھی ، کبھی ذوق طلب بنی
اے شمع! انتہائے فریب خیال دیکھ
مسجود ساکنان فلک کا مآل دیکھ
مضموں فراق کا ہوں ، ثریا نشاں ہوں میں
آہنگ طبع ناظم کون و مکاں ہوں میں
باندھا مجھے جو اس نے تو چاہی مری نمود
تحریر کر دیا سر دیوان ہست و بود
گوہر کو مشت خاک میں رہنا پسند ہے
بندش اگرچہ سست ہے ، مضموں بلند ہے
چشم غلط نگر کا یہ سارا قصور ہے
عالم ظہور جلوۂ ذوق شعور ہے
یہ سلسلہ زمان و مکاں کا ، کمند ہے
طوق گلوئے حسن تماشا پسند ہے
منزل کا اشتیاق ہے ، گم کردہ راہ ہوں
اے شمع ! میں اسیر فریب نگاہ ہوں
صیاد آپ ، حلقۂ دام ستم بھی آپ
بام حرم بھی ، طائر بام حرم بھی آپ!
میں حسن ہوں کہ عشق سراپا گداز ہوں
کھلتا نہیں کہ ناز ہوں میں یا نیاز ہوں
ہاں ، آشنائے لب ہو نہ راز کہن کہیں
پھر چھڑ نہ جائے قصۂ دار و رسن کہیں
ایک آرزو
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں ، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر ، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں ، عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو
ہو ہاتھ کا سرھانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت ، خلوت میں وہ ادا ہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دلھن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل ، وہ صبح کی مؤذن
میں اس کا ہم نوا ہوں ، وہ میری ہم نوا ہو
کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو ، نالہ مری دعا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں ، شاید انھیں جگا دے
آفتاب صبح
شورش میخانۂ انساں سے بالاتر ہے تو
زینت بزم فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو
ہو در گوش عروس صبح وہ گوہر ہے تو
جس پہ سیمائے افق نازاں ہو وہ زیور ہے تو
صفحۂ ایام سے داغ مداد شب مٹا
آسماں سے نقش باطل کی طرح کوکب مٹا
حسن تیرا جب ہوا بام فلک سے جلوہ گر
آنکھ سے اڑتا ہے یک دم خواب کی مے کا اثر
نور سے معمور ہو جاتا ہے دامان نظر
کھولتی ہے چشم ظاہر کو ضیا تیری مگر
ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے
چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوا چاہیے
شوق آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے
زندگی بھر قید زنجیر تعلق میں رہے
زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے
آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے
آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو
امتیاز ملت و آئیں سے دل آزاد ہو
بستۂ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں
نوع انساں قوم ہو میری ، وطن میرا جہاں
دیدۂ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عیاں
ہو شناسائے فلک شمع تخیل کا دھواں
عقدۂ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے
حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے
صدمہ آ جائے ہوا سے گل کی پتی کو اگر
اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر
دل میں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
نور سے جس کے ملے راز حقیقت کی خبر
شاہد قدرت کا آئینہ ہو ، دل میرا نہ ہو
سر میں جز ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو
تو اگر زحمت کش ہنگامۂ عالم نہیں
یہ فضیلت کا نشاں اے نیر اعظم نہیں
اپنے حسن عالم آرا سے جو تو محرم نہیں
ہمسر یک ذرۂ خاک در آدم نہیں
نور مسجود ملک گرم تماشا ہی رہا
اور تو منت پذیر صبح فردا ہی رہا
آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے
لیلی ذوق طلب کا گھر اسی محمل میں ہے
کس قدر لذت کشود عقدۂ مشکل میں ہے
لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے
درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں
جستجوئے راز قدرت کا شناسا تو نہیں
درد عشق
اے درد عشق! ہے گہر آب دار تو
نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
پنہاں تہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفل نو کی نگاہ ہے
آئی نئی ہوا چمن ہست و بود میں
اے درد عشق! اب نہیں لذت نمود میں
ہاں خود نمائیوں کی تجھے جستجو نہ ہو
منت پذیر نالۂ بلبل کا تو نہ ہو!
خالی شراب عشق سے لالے کا جام ہو
پانی کی بوند گریۂ شبنم کا نام ہو
پنہاں درون سینہ کہیں راز ہو ترا
اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا
گویا زبان شاعر رنگیں بیاں نہ ہو
آواز نے میں شکوۂ فرقت نہاں نہ ہو
یہ دور نکتہ چیں ہے ، کہیں چھپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تو مکیں ہے، وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
غافل ہے تجھ سے حیرت علم آفریدہ دیکھ!
جویا نہیں تری نگہ نارسیدہ دیکھ
رہنے دے جستجو میں خیال بلند کو
حیرت میں چھوڑ دیدۂ حکمت پسند کو
جس کی بہار تو ہو یہ ایسا چمن نہیں
قابل تری نمود کے یہ انجمن نہیں
یہ انجمن ہے کشتۂ نظارۂ مجاز
مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
ہر دل مے خیال کی مستی سے چور ہے
کچھ اور آجکل کے کلیموں کا طور ہے
گل پژمردہ
کس زباں سے اے گل پژمردہ تجھ کو گل کہوں
کس طرح تجھ کو تمنائے دل بلبل کہوں
تھی کبھی موج صبا گہوارۂ جنباں ترا
نام تھا صحن گلستاں میں گل خنداں ترا
تیرے احساں کا نسیم صبح کو اقرار تھا
باغ تیرے دم سے گویا طبلۂ عطار تھا
تجھ پہ برساتا ہے شبنم دیدۂ گریاں مرا
ہے نہاں تیری اداسی میں دل ویراں مرا
میری بربادی کی ہے چھوٹی سی اک تصویر تو
خوا ب میری زندگی تھی جس کی ہے تعبیر تو
ہمچو نے از نیستان خود حکایت می کنم
بشنو اے گل! از جدائی ہا شکایت می کنم
سیدکی لوح تربت
اے کہ تیرا مرغ جاں تار نفس میں ہے اسیر
اے کہ تیری روح کا طائر قفس میں ہے اسیر
اس چمن کے نغمہ پیراؤں کی آزادی تو دیکھ
شہر جو اجڑا ہوا تھا اس کی آبادی تو دیکھ
فکر رہتی تھی مجھے جس کی وہ محفل ہے یہی
صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی
سنگ تربت ہے مرا گرویدہ تقریر دیکھ
چشم باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ
مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں
ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جو اب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ
تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا
ہے دلیری دست ارباب سیاست کا عصا
عرض مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے
بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے
قوت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے
ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامۂ معجز رقم
شیشۂ دل ہو اگر تیرا مثال جام جم
پاک رکھ اپنی زباں ، تلمیذ رحمانی ہے تو
ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو!
سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمن باطل جلا دے شعلۂ آواز سے
Excellent
realy it is a great work.