فہرست مضامین
- نبیؐ کا دیار آنکھوں میں
- سید اقبال عظیم
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- حضور آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں
- کھلا ہے سبھی کے لیے بابِ رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنیٰ نہ عالی
- کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی ، میرے آقاؐ نے عزت بچا لی
- مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
- جہاں روضۂ پاک خیر الوریٰ ہے وہ جنت نہیں ہے ، تو پھر اور کیا ہے
- میں تو خود انؐ کے در کا گدا ہوں ، اپنے آقاؐ کو میں نذر کیا دوں
- میں لب کشا نہیں ہوں اور محو التجا ہوں
- ہر وقت تصور میں مدینے کی گلی ہے
- بسا ہوا ہے نبیؐ کا دیار آنکھوں میں
- نعت میں کیسے کہوں انؐ کی رضا سے پہلے
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
نبیؐ کا دیار آنکھوں میں
سید اقبال عظیم
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
حضور آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں
اخوت ، علم و حکمت ، آدمیت لے کے آئے ہیں
کہا صدیق نے میری صداقت ان کا صدقہ ہے
عمر ہیں ان کے شاہد وہ عدالت لے کے آئے ہیں
کہا عثمان نے میری سخاوت ان کا صدقہ ہے
علی دیں گے شہادت وہ شجاعت لے کے آئے ہیں
رہے گا یہ قیامت تک سلامت معجزہ ان کا
وہ قرآن میں نور و ہدایت لے کے آئے ہیں
خدا نے رحمت للعالمیں خود ان کو فرمایا
قسم اللہ کی رحمت ہی رحمت کے کے آئے ہیں
قناعت ، حریت ، فکر و عمل ، مہر و وفا ، تقوی
وہ انساں کے لیے عظمت ہی عظمت لے کے آئے ہیں
٭٭٭
کھلا ہے سبھی کے لیے بابِ رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنیٰ نہ عالی
مرادوں سے دامن نہیں کوئی خالی، قطاریں لگائے کھڑے ہیں سوالی
میں پہلے پہل جب مدینے گیا تھا، تو تھی دل کی حالت تڑپ جانے والی
وہ دوبارہ سچ مچ مرے سامنے تھا، ابھی تک تصور تھا جس کا خیالی
جو اک ہاتھ سے دل سنبھالے ہوئے تھا، تو تھی دوسرے ہاتھ میں سبز جالی
دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے تو کیسے ، نہ یہ ہاتھ خالی نہ وہ ہاتھ خالی
جو پوچھا ہے تم نے ، کہ میں نذر کرنے ، کو کیا لے گیا تھا، تو تفصیل سن لو
تھا نعتوں کا اک ہار اشکوں کے موتی، درودوں کا گجرا، سلاموں کی ڈالی
دھنی اپنی قسمت کا ہے تو وہی ہے ، دیارِ نبیؐ جس نے آنکھوں سے دیکھا
مقدر ہے سچا مقدر اسی کا، نگاہِ کرم جس پہ آقاؐ نے ڈالی
میں اُس آستانِ حرم کا گدا ہوں، جہاں سر جھکاتے ہیں شاہانِ عالم
مجھے تاجداروں سے کم مت سمجھنا، مرا سر ہے شایانِ تاجِ بلالی
میں توصیفِ سرکارؐ تو کر رہا ہوں مگر اپنی اوقات سے باخبر ہوں
میں صرف ایک ادنیٰ ثنا خواں ہوں اُن کا ، کہاں میں کہاں نعتِ اقبال و حالی
٭٭٭
کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی ، میرے آقاؐ نے عزت بچا لی
فردِ عصیاں مری مجھ سے لے کر، کالی کملی میں اپنی چھپا لی
وہ عطا پر عطا کرنے والے اور ہم بھی نہیں ٹلنے والے
جیسی ڈیوڑھی ہے ویسے بھکاری، جیسا داتا ہے ویسے سوالی
میں گدا ہوں مگر کس کے در کا؟ وہ جو سلطان کون و مکاں ہیں
یہ غلامی بڑی مستند ہے، میرے سر پر ہے تاج بلالی
میری عمر رواں بس ٹھہر جا، اب سفر کی ضرورت نہیں ہے
انؐ کے قدموں پہ میری جبیں ہے اور ہاتھوں میں روضے کی جالی
اِس کو کہتے ہیں بندہ نوازی، نام اِس کا ہے رحمت مزاجی
دوستوں پر بھی چشمِ کرم ہے ، دشمنوں سے بھی شیریں مقالی
میں مدینے سے کیا آگیا ہوں، زندگی جیسے بجھ سی گئی ہے
گھر کے اندر فضا سونی سونی، گھر کے باہر سماں خالی خالی
میں فقط نام لیوا ہوں انؐ کا، انؐ کی توصیف میں کیا کروں گا
میں نہ اقبال خسرو، نہ سعدی ، میں نہ قدسی نہ جامی، نہ حالی
٭٭٭
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
غلامان محمد دور سے پہچانے جاتے ہیں
دل گرویدہ گرویدہ، سرِ شوریدہ شوریدہ
کہاں میں اور کہاں اُس روضۂ اقدس کا نظارہ
نظر اُس سمت اٹھتی ہے مگر دُزیدہ دُزیدہ
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ
٭٭٭
جہاں روضۂ پاک خیر الوریٰ ہے وہ جنت نہیں ہے ، تو پھر اور کیا ہے
کہاں میں کہاں یہ مدینے کی گلیاں یہ قسمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
محمدؐ کی عظمت کو کیا پوچھتے ہو کہ وہ صاحب قاب قوسین ٹھہرے
بشر کی سرِ عرش مہماں نوازی ، یہ عظمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
جو عاصی کو دامن میں اپنی چھپا لے ، جو دشمن کو بھی زخم کھا کر دعا دے
اسے اور کیا نام دے گا زمانہ وہ رحمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
شفاعت قیامت کی تابع نہیں ہے ، یہ چشمہ تو روز ازل سے ہے جاری
خطا کار بندوں پہ لطف مسلسل شفاعت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
قیامت کا اک دن معین ہے لیکن ہمارے لیے ہر نفس ہے قیامت
مدینے سے ہم جاں نثاروں کی دوری قیامت نہیں ہے ، تو پھر اور کیا ہے
تم اقبال یہ نعت کہہ تو رہے ہو مگر یہ بھی سوچا کہ کیا کر رہے ہو
کہاں تم کہاں مدح ممدوحِ یزداں ، یہ جرأت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
٭٭٭
میں تو خود انؐ کے در کا گدا ہوں ، اپنے آقاؐ کو میں نذر کیا دوں
اب تو آنکھوں میں بھی کچھ نہیں ہے ورنہ قدموں میں آنکھیں بچھا دوں
آنے والی ہے اُنؐ کی سواری ، پھول نعتوں کے گھر گھر سجا دوں
میرے گھر میں اندھیرا بہت ہے ، اپنی پلکوں پہ شمعیں جلا دوں
میری جھولی میں کچھ بھی نہیں ہے ، میرا سرمایہ ہے تو یہی ہے
اپنی آنکھوں کی چاندی بہا دوں ، اپنے ماتھے کا سونا لٹا دوں
بے نگاہی پہ میری نہ جائیں ، دیدہ ور میرے نزدیک آئیں
میں یہیں سے مدینہ دکھا دوں ، دیکھنے کا سلیقہ سکھا دوں
روضۂ پاک پیش نظر ہے ، سامنے میرے آقاؐ کا در ہے
مجھ کو کیا کچھ نظر آ رہا ہے ، تم کو لفظوں میں کیسے بتا دوں
میرے آنسو بہت قیمتی ہیں ، ان سے وابستہ ہیں اُنؐ کی یادیں
ان کی منزل ہے خاک مدینہ ، یہ گوہر یوں ہی کیسے لٹا دوں
مجھ کو اقبال نسبت ہے اُنؐ سے جن کا ہر لفظ جاں سخن ہے
میں جہاں نعت اپنی سنا دوں، ساری محفل کی محفل جگا دوں
٭٭٭
میں لب کشا نہیں ہوں اور محو التجا ہوں
میں محفل حرم کے آداب جانتا ہوں
جو ہیں خدا کے پیارے میں ان کو چاہتا ہوں
اُن کو اگر نہ چاہوں تو اور کس کو چاہوں
ایسا کوئی مسافر شاید کہیں نہ ہوگا
دیکھے بغیر اپنی منزل سے آشنا ہوں
کوئی تو آنکھ والا گزرے گا اس طرف سے
طیبہ کے راستے میں ، میں منتظر کھڑا ہوں
یہ روشنی سی کیا ہے ، خوشبو کہاں سے آئی؟
شاید میں چلتے چلتے روضے تک آگیا ہوں
طیبہ کے سب گدا گر پہچانتے ہیں مجھ کو
مجھ کو خبر نہیں تھی میں اس قدر بڑا ہوں
اقبال مجھ کو اب بھی محسوس ہو رہا ہے
روضے کے سامنے ہوں اور نعت پڑھ رہا ہوں
٭٭٭
ہر وقت تصور میں مدینے کی گلی ہے
اب در بدری ہے نہ غریب الوطنی ہے
وہ شمع حرم جس سے منور ہے مدینہ
کعبے کی قسم رونق کعبہ بھی وہی ہے
اس شہر میں بک جاتے ہیں خود آ کے خریدار
یہ مصر کا بازار نہیں ، شہر نبیؐ ہے
اس ارضِ مقدس پہ ذرا دیکھ کے چلنا
اے قافلے والو یہ مدینے کی گلی ہے
نظروں کو جھکائے ہوئے خاموش گزر جاؤ
بے تاب نگاہی بھی یہاں بے ادبی ہے
نذرانہ جاں پیش کرو حلقہ بگوشو!
یہ بارگہِ ہاشمی و مطلبی ہے
اقبال میں کس منہ سے کروں مدحِ محمدؐ
منہ میرا بہت چھوٹا ہے اور بات بڑی ہے
٭٭٭
بسا ہوا ہے نبیؐ کا دیار آنکھوں میں
سجائے بیٹھا ہوں اک جلوہ زار آنکھوں میں
جو دن مدینے میں گزرے ہیں اُن کا کیا کہنا
رچے ہوئے ہیں وہ لیل و نہار آنکھوں میں
دیارِ پاک کا ہر منظر حسین و جمیل
رہے گا تابہ قضا یادگار آنکھوں میں
عطا کیا جو مدینے کے باسیوں نے مجھے
مہک رہا ہے ابھی تک وہ پیار آنکھوں میں
دیارِ پاک کی جن کو ہوئی ہے دید نصیب
میں ڈھونڈ لوں گا وہ آنکھیں ہزار آنکھوں میں
سنائوں گا وہ کہانی حضورؐ کو جا کر
چھپائے بیٹھا ہوں جو اشک بار آنکھوں میں
ہے اعتماد بھی اقبال کو شفاعت پر
سزا کا خوف بھی ہے گناہ گار آنکھوں میں
دنیا میں جو فردوس عطا ہم کو ہوئی ہے
وہ شہر نبیؐ شہر نبیؐ ،شہر نبیؐ ہے
جو چیز بھی اس شہر سے منسوب ہوئی ہے
وہ کتنی بڑی ، کتنی بڑی، کتنی بڑی ہے
جو روح کو تسکین ہے اور دل کی تسلی
وہ ذکر نبیؐ ،ذکر نبیؐ ، ذکر نبیؐ ہے
دن رات یہاں ہوتی ہے انوار کی بارش
وہ کوئے نبیؐ ، کوئے نبیؐ ، کوئے نبیؐ ہے
انسان کے ہر نام سے جو نام بڑا ہے
وہ نام نبیؐ نام نبیؐ ، نام نبیؐ ہے
اﷲ نے سرکار کو خود پاس بلایا
کیا اوج نبیؐ ، اوج نبیؐ ، اوج نبیؐ ہے
جو صنف سخن جان ہے اقبال سخن کی
وہ نعتِ نبیؐ ، نعت نبیؐ نعت نبیؐ ہے
٭٭٭
نعت میں کیسے کہوں انؐ کی رضا سے پہلے
میرے ماتھے پہ پسینہ ہے ثنا سے پہلے
نور کا نام نہ تھا عالمِ امکاں میں کہیں
جلوۂ صاحب لو لاک لما سے پہلے
اُنؐ کا در وہ درِ دولت ہے جہاں شام و سحر
بھیک ملتی ہے فقیروں کو صدا سے پہلے
اب یہ عالم ہے کہ دامن کا سنبھلنا ہے محال
کچھ بھی دامن میں نہ تھا انؐ کی عطا سے پہلے
تم نہیں جانتے شاید میرے آقاؐ کا مزاج
اُنؐ کے قدموں سے لپٹ جاؤ سزا سے پہلے
چشم رحمت سے ملا اشک ندامت کا جواب
مشکل آسان ہوئی قصد دعا سے پہلے
میری آنکھیں میرا رستہ جو نہ روکیں اقبال
میں مدینے میں ملوں راہ نما سے پہلے
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید