FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

سہ ماہی

 

ادب سلسلہ

 

اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ

کتابی سلسلہ (۲)

جلد :۱                              جولائی تا دسمبر۲۰۱۶                                     شمارہ: ۳

 

حصہ اول۔۔ الف: گوشہ اگر سر سید نہ ہوتے ، الف

 

اس حصے میں مولانا الطاف حسین حالی کی تصنیف کردہ ’سر سید کی کہانی،سر سید کی زبانی‘ علیٰحدہ سے شائع کی جا رہی ہے

مدیر

محمد سلیم (علیگ)

مدیر اعزازی

تبسم فاطمہ

 

مجلس مشاورت: پروفیسر اصغر علی انصاری، سہیل انجم، ساحر داؤد نگری، محمد عمران، حشمت اللہ عادل، یوسف رانا، مظہر عالم،   ڈاکٹر تنویر فریدی، ڈاکٹر مشتاق خان، ڈاکٹر شمس العارفین، اخلاق احمد، نسیم اللہ خاں ، زوبینہ سلیم

E-mail: adabsilsila@gmail.com Contact : 8588840266

 

 

 

 

 

اداریہ

اگرسر سید نہ ہوتے ؟

 

خصوصی شمارہ کا اعلان ہوا تو دو باتیں کھل کر سامنے آئیں۔ کچھ لوگوں کو اس موضوع میں آج کے حالات کی جھلک نظر آئی۔ کچھ ایسے بھی تھے، جنہوں نے مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ ارے یہ بھی کوئی بھی بات ہوئی۔ اگر سر سید نہ ہوتے تو۔ ..۔ ؟ کیا ہو جاتا۔ ..۔ ؟ گردش روزگار میں کوئی نمایاں تبدیلی آ جاتی؟ دن کا نکلنا بند ہو جاتا۔ رات کی تاریکی پر اجالے کی حکومت ہوتی۔ ؟ اگر سر سید نہ ہوتے تو آخر کیا ہو جاتا۔ ؟

سوال خود سے کرتی ہوں تو ایک پورا عہد نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔ انیسویں صدی کا سرمایہ دارانہ نظام، حکومت برطانیہ کا تسلط اور ہندوستانیوں کو مذہب اور فرقے میں تقسیم کرنے کا خطرناک رجحان۔ سر سید نہ ہوتے تو شاید مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ابھی بھی تاریک نظام کا حصہ ہوتا۔ اس زمانے میں ایک سے بڑھ کر ایک دانشور موجود تھے۔ لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بھی کچھ زیادہ ہی تھا۔ مگر سر سید کے علاوہ کون تھا جس کی نظر مسلمانوں کے مستقبل پر تھی— محض تحریروں سے انقلاب نہیں آتا۔ انقلاب عمل سے آتا ہے۔ اور اس لیے سر سید نے مسلمانوں کی پسماندگی اور زوال کے لیے پوری توجہ تعلیم پر صرف کی۔ ان پر فتوے آئے۔ ان کے خلاف علماء کی فوج کھڑی ہو گئی۔ مگر سر سید تو سر سید تھے، خاموشی سے وہ کر دکھایا، کہ آج ان کے چاہنے والے کروڑوں کی تعداد میں تعلیم کی مشعل اٹھائے کھڑے ہیں۔ آج کے حالات میں جب عدم رواداری، عدم تحمل سے ہوتی ہوئی بات مسلمانوں کی ہلاکت تک پہنچ چکی ہے، اس موقع پر سر سید کو یاد کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جر-ت اظہار کے لیے عمل کا راستہ بھی سر سید نے دکھایا تھا۔

مودی حکومت کے دو ڈھائی برس نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر مسلسل حملہ کی سازش ہو رہی ہے۔ لیکن ہم پر امید ہیں کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کر دار کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ مودی حکومت جس طرح مذہبی امور اور مسلمانوں کے دیگر معاملات میں دخل دے رہی ہے، اس سے حکومت کی منشا اور نیت پوری طرح ظاہر ہو چکی ہے۔

اس خصوصی شمارہ کی اشاعت کا ایک بڑا مقصد یہ بھی کہ ہم سر سید کے خوابوں کی سرزمین پر ہونے والے ہر حملہ کو ناکام کر دیں۔ احتجاج کا یہ سلیقہ بھی ہمیں سر سید نے ہی سکھایا کہ ایک دنیا ان کے خلاف رہی اور انہوں نے مسلم یونیورسٹی کے خواب کو سچ کر دکھایا۔

خصوصی شمارہ کے ساتھ ادب سلسلہ کے اس شمارہ میں دو خصوصی گوشے شائع کیے جا رہے ہیں۔ ضیاء حسین ضیاء صوفی منش ہیں۔ خوب لکھا، دل کھول کر لکھا مگر بے نیازی ایسی کہ ہندوستان میں ان کو جاننے والوں کا حلقہ محدود ہے۔ یہ خصوصی گوشہ ضیاء حسین ضیاء کی علمی و ادبی خدمات کا ایک مختصر سا تعارف ہے۔ امید کہ آپ پسند کریں گے۔ ایک گوشہ عہد حاضر کے ناولوں کے نام ہے۔

اب ذرا آج کے حالات اور موجودہ صورتحال کی بات کر لوں۔ ہم ایک ایسے عہد کا حصہ ہیں جہاں فسطائیت عروج پر ہے۔ ادب سلسلہ کو ہم محض ادبی حصوں تک محدود نہیں رکھنا چاہتے۔ اس لیے گاہے بہ گاہے موجودہ سیاست کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔

lll

۱۱۹ حادثے کے بعد ایک امریکی صحافی کا تبصرہ تھا کہ یہ دنیا اب ہم جیسوں کے لیے نہیں رہ گئی۔ کچھ دکھانے سے قبل ہماری آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ دیکھو جو ہم دکھانا چاہتے ہیں۔ اس وقت ایسے صحافیوں کی کوئی کمی نہیں تھی جو اسامہ اور دہشت گردی سیالگ بھی کچھ سوچنا چاہتے تھے۔ سیاست وہاں آ گئی ہے جہاں صرف صحافی نہیں، دانشور نہیں، ادیب نہیں، بلکہ عام انسانوں کی آنکھوں پر بھی سیاہ پٹی باندھ دی گئی ہے اور میڈیا سے حکمراں تک کی منطق یہ ہے کہ جو ہم دکھا رہے ہیں، اسے دیکھو۔ یہاں سب سے بڑا نقصان اظہار رائے کی آزادی کا ہوا ہے۔ اور جو آج کے خطرناک ماحول میں اس آزادی کا استعمال کر رہے ہیں، ان کی دل کھول کر تعریف کی جانی چاہیے۔ ایسے لوگ اب ہمارے زندہ معاشرے اور سماج میں اب ایک فیصد بھی نہیں رہ گئے۔ کچھ نے مصلحت اور سیاسی دور اندیشی کے تحت زبان پر تالہ لگا لیا ہے۔ اور کچھ جو اپنی آنکھوں پر بھروسہ کرتے ہوئے عالمی سیاست اور ملک کے موجودہ منظر نامے کو دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی آواز کا کوئی اثر نہ میڈیا پر ہے نہ عوام پر۔

ایک انگریزی چینل کے پروگرام میں ایک فلم میکر کے صبر کا باندھ ٹوٹ جاتا ہے تو وہ چیخ پڑتے ہیں۔ آپ صحافی نہیں، فاشسٹ ہیں۔ ایک دوسرے صحافی کو کہنا پڑا کہ میں نے آپ سے بدترین اینکر نہیں دیکھا۔ اس فہرست میں آہستہ آہستہ کئی نام جڑتے جا رہے ہیں۔ لیکن فاشسٹ میڈیا جھوٹ، غلط، جائز ناجائز، ایمانداری، اعلیٰ صحافت، اقدار و کردار، ضمیر ان سب کو بہت پیچھے چھوڑ کر ہندوستان کی خوفناک تصویر بنانے پر آمادہ ہے۔ اسی خوفناک تصویر کی ٹی آر پی بھی ہے اور ملک کے زیادہ بڑے طبقے میں یہی چینل دیکھے جاتے ہیں۔ حب الوطنی، جنگ، شہید فوجیوں، کشمیر اور پاکستان جیسے ایشو اٹھا کر یہ ٹی وی چینل ایک ایسا بارودی ماحول تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جہاں مرکز، حکومت، آر ایس ایس پر سوال اٹھانے والا ہر شخص غدار ہے۔ یہ چینل مسلمانوں کو پہلے ہی غدار ثابت کر چکے۔ المیہ یہ کہ ہم ہندوستانی ایسے لوگوں سے حب الوطنی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جنہیں وطن کی ساکھ اور سالمیت گوارہ نہیں۔ جن کی نفرت میں ڈوبی تاریخوں سے صفحے کے صفحے سیاہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش کے موقع پر گاندھی کی تصویر جلاتے ہیں اور ملک دشمن گوڈسے کی پوجا کرتے ہیں۔ ہندو مہا سبھا کے لوگ گوڈسے کے نام پر جلوس نکالتے ہیں۔ سادھوی پراچی بیان دیتی ہے کہ گاندھی کو نہ مارا ہوتا تو ہندوستان مکہ بن گیا ہوتا۔ اگر میڈیا فروخت نہ ہوا ہوتا اور عوام کی برین واشنگ نہ ہوئی ہوتی تو یہ سوال لازمی تھا کہ ایسے لوگ پاگل جنگلی جانوروں کی طرح آزاد کیوں گھوم رہے ہیں۔ ؟ اور انہیں کیوں نہ غدار وطن کہہ کر جیل کی سلاخوں میں ڈالا جائے ؟ ہندوستانی میڈیا کھلے عام نفرت بیچ رہا ہے، اور مرکز کی طرف سے کوئی بھی کار روائی اس پر لگام لگانے کی نہیں ہے۔ میتاوشسٹ سے اوم پوری اور اس ام سیتھوتک کی مثالیں دیکھ لیجئے۔ اب یہ میڈیا آپ کو اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ آر ایس ایس اور مودی کے نظریہ سیالگ کی فکر رکھتے ہیں تو میڈیا کی نظروں میں آپ کی دیش بھکتی کا کردار مشکوک ہے۔

کیا یہ سب یوپی اور آئندہ انتخابات کے مد نظر ہو رہا ہے ؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یوپی کی سیاسی تصویر اچانک بدل گئی۔ سرجیکل اسٹرائیک کے ہورڈنگس اور پوسٹر لگائے گئے۔ سیاسی نوراکشتی میں ایس پی اور بی ایس پی کے رخ میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ یوپی میں بی ایس پی کے ایک پوسٹر پر کمل کھل رہا تھا۔ بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ اس لیے یہ بات پوشیدہ رہی کہ یہ پوسٹر کس کی طرف سے جاری ہوا تھا۔ سیاسی بصیرت رکھنے والے جانتے ہیں کہ مایاوتی پہلے بھی تین بار بھاجپا کو سپورٹ کر چکی ہیں۔ اور سیاست کے نئے منظر نامے میں بھی وہ بھاجپا کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے چانکیہ ملائم سنگھ یادو نے امر سنگھ اور شیوپال یادو کے ساتھ اپنے بیٹے اکھیلیش کو حاشیہ پر ڈالتے ہوئے اپنا رخ واضح کر دیا ہے۔ ملائم جانتے ہیں کہ مسلم ووٹ اس بار ان سے دور ہو گیا ہے۔ اکھیلیش یادو کا سارا زور ریاست کی ترقی پر ہے۔ اس سے یوپی انتخاب نہیں جیتا جا سکتا۔ ابھی حال میں زی نیوز کے مالک سبھاش چندرا اور اینکر سدھیر چودھری کے ساتھ امر سنگھ اور ملائم کی ایک تصویر وائرل ہوئی ہے۔ یہ تصویر نئی سیاسی حقیقت کی مکمل تصویر کشی کرتی ہے۔ ملائم کی مشکل یہ کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں — ملائم خاندان میں رسہ کشی کا ماحول ضرور ہے مگر پارٹی نے بھاجپا کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔

بہت ممکن ہے کہ دیش بھکتی کے سرٹیفکیٹ کے پس پردہ یوپی، پنجاب اور ۹۱۰۲ میں ہونے والا لوک سبھا انتخاب رہا ہو، مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک تیر سے کئی خوفناک کھیل اس وقت ملک کی سرزمین میں کھیلے جا رہے ہیں۔ سرجیکل آپریشن کے پس پشت مسلمانوں کے ساتھ مرکز اور میڈیا کا خوفناک رویہ ان دانشوروں کے خلاف بھی ابل کر سامنے آیا ہے، جو کسی بھی موقع پر اپنی بات رکھنے کے لیے خود کو آزاد محسوس کرتے تھے۔ مہیش بھٹ، سعید مرزا، راج دیپ سردیسائی، برکھا دت، ارون دھتی رائے جیسی ہزاروں آوازوں کو میڈیا کا سہارا لے کر خاموش کر دینا در اصل ایک ایسے سیاسی نظام کا حصہ ہے جہاں جمہوریت اور سیکولرزم کو کوئی دخل نہیں۔ مرکز سے میڈیا تک یہ بات جانتا ہے کہ سچ کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کو اگر روک دیا جاتا ہے تو پھر مستقبل میں مخالفت میں اٹھنے والی آواز کے امکانات ختم نہیں تو کم ضرور ہو جائیں گے۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ اندنوں اسی فکر سے دو چار ہے کہ میڈیا اپنے شو میں بلا کر بے عزتی کرتا ہے اس لیے میڈیا سے فاصلہ بنایا جائے۔ اس فاصلہ کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمیں وہی باتیں سننے کو ملیں گی جو مرکزی حکومت کی حمایت میں ہوں گی۔ دیگر سیاسی پارٹیاں بھی اس سچ سے واقف ہیں کہ اگر معاملہ فوج اور ملک کا ہو تو ایسے حالات میں اختلاف کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے۔ کانگریسی کچھ لیڈران نے من موہن سنگھ کے وقت میں ہوئے تین تین سرجیکل اسٹرائیک کا حوالہ ضرور دیا مگر کانگریس کی گائیڈ لائن یہی رہی کہ اس برے وقت میں ہم حکومت اور فوج کے ساتھ ہیں۔ دلی کے وزیر اعلیٰ کجریوال کے ساتھ ساتھ وہ تمام چہرے عوام کے غیض و غضب کا حصہ ہیں جو سرجیکل اسٹرئیک کے ویڈیو جاری کرنے کی بات کہہ رہے ہیں یا اس پورے آپریشن کو فرضی ٹھہرا رہے ہیں۔ سیاست کی برین واشنگ کا کمال یہ کہ مودی بھکتوں نے دیش بھکتی کا سہارا لے کر ایک بارودی زمین تیار کر لی۔ آپ مودی کے ساتھ نہیں ہیں تو غدار ہیں — غور کریں تو انتہائی سوجھ بوجھ اور ہوشیاری سے چلایا گیا یہ تیر ۹۱۰۲ تک اپنا کام کر جائے گا۔ لیکن اس درمیان ہم ایک ایسے ہندوستان کا حصہ ہوں گے، جہاں ہم سے اظہار رائے کی آزادی پوری طرح چھین لی جائے گی۔ پہلے دو ایک چینل مرکزی حکومت کی فکر کا حصہ تھے۔ پھر آہستہ آہستہ تمام چینل حکومت کی مشنری کا حصہ بن گئے۔ ابھی کچھ آوازیں ہیں جو سچ، ایمانداری اور جمہوریت کی محافظ ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ یہ آوازیں بھی خاموش ہو جائیں گی۔ ان آوازوں کی خاموشی کے بعد فرقہ پرستی اور فاشزم کی یلغار کا سامنا کرنا کسی بھی ہوشمند عام ہندوستانی کے لیے آسان نہ ہو گا— فیض احمد فیض نے کہا تھا۔ "بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔ بول، زبان اب تک تیری ہے۔ ” فرقہ پرست تنی ہوئی تلواروں کے درمیان زبانیں خاموش۔ سوال یہ بھی ہے کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اور ضمیر کو مردہ کر کے جینا کیا آسان ہے ؟ یہ بات ملک کے ان دانشوروں کو بھی سمجھنا ہو گی جو آہستہ آہستہ نفسیاتی سطح پر بھی لہولہان ہوتے ہوئے موجودہ حالات سے خود کو الگ تھلگ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغرور تانا شاہوں نے اقتدار کی ہوس میں ظلم کی انتہا کر دی۔ لیکن تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ان تانا شاہوں کے غرور خاک میں مل گئے اور ایک نیا سفر پھر سے شروع ہوا۔ حکومت ہندوستان کے ہر شہری پر اعتبار کرے اور اس میڈیا پر لگام لگائے جو اظہار رائے کی آزادی کا دشمن بن گیا ہے۔

lll

یہ ہندوستان کی موجودہ صورتحال ہے۔ عالمی صورت حال اس سے کچھ الگ نہیں۔ ادب کا تقاضہ ہے کہ سماجی و سیاسی صورت حال پر بھی ہماری نظر ہو۔ یہ شمارہ کیسا لگا، آپ کی رائے کا انتظار ہے۔

تبسم فاطمہ

tabassumfatima2020@gmail.com

 

 

 

 

 

سلسلہ مذاکرہ

اگر سر سید نہ ہو تے ؟

 

 

 

سر سید کی اہمیت

صغیر احمد افراہیم

شعبہ اردو، اے ایم یو، علی گڑھ

 

مشرق کی پروردہ مگر مغرب کی نبض شناس، سر سید احمد خاں کی ذات، قدیم و جدید کا سنگم تھی۔ وہ مشرق و مغرب کی تابناک جہتوں کو یکجا کر کے ایک ایسا مینارۂ نور تعمیر کر گئے ہیں جس کی ضو پاش کرنوں سے آج بھی آنکھیں منوّر ہیں۔ وہ نواب شاہجہاں بیگم اور مولوی ضیاء الدین سے متاثر اور مولوی مملوک علی کے شاگرد خاص ہونے کی وجہ سے ایک طرف ماضی کے اُس علم کے نگہبان تھے جو مسلمانوں کی شناخت ہے اور دوسری طرف وہ نئے علوم و فنون کو برِ صغیر ہندو پاک میں عام کرنا چاہتے تھے جس کے لیے سید والا گہر نے اپنے رفیقوں کے تعاون سے کاروباری اور روز مرہ کی زبان کو فروغ دیتے ہوئے اردو نثر کو ایک نیا انداز عطا کیا۔ انھوں نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ وقت تشدد کا نہیں، امن اور بھائی چارے کا ہے اور قوم کو ہر اعتبار سے مضبوط بنانے کے لیے حصولِ علم لازمی ہے۔ وہ یہ بھی سمجھ گئے تھے کہ ترقی کی بیش تر راہیں سائنسی و استدلالی نظریات سے ہو کر گزرتی ہیں لہٰذا بے حد معتدل اور متوازن انداز میں انھوں نے اپنے لائحۂ عمل کو مرتب کیا۔ سر سید کی طرح ان کے احباب کو بھی مشرق کی علمی روایات بہت عزیز تھیں اس لیے سبھی نے اپنے مضامین، مقالات، خطبات اور مکتوبات میں مسلمانوں کے گزشتہ علوم و فنون کی عظمت کا احساس دلایا اور یہ بھی واضح کیا کہ اُن کی توقیر کا اصل سبب یہ تھا کہ وہ اپنے زمانے کے لحاظ سے جدید طرزِ تعلیم کے حامل تھے۔ بانیانِ علی گڑھ نے قوم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ آج کا تقاضا ہے کہ ہم بھی اپنے عصر کے تناظر میں جدید طرزِ تعلیم سے مستفید ہونے کی کوشش کریں اور ایک بار پھر ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوں۔

محدود ذرائع اور تھوڑے سے وسائل میں ہمارے بزرگوں نے کیا کچھ ایسے کارنامے کر دکھائے جو ہمارے لیے آج بھی باعثِ حیرت ہیں۔ وہ بزرگ روز مرہ کے کاموں میں مشغول رہ کر بھی تصنیفی ذوق اور تعمیری شوق کے لیے وقت نکال لیتے تھے۔ اُن میں کوئی ایسی کشش ضرور تھی کہ وہ جاہ و منصب کے لالچ کے بغیر مختلف مزاج و درجات کے لوگ اُن کے گرد جمع ہو کر، کاندھے سے کاندھا ملا کر ملّی و قومی خدمات میں شریک ہوتے رہے۔ اس طرح سر سید اور رفقائے سر سید نے "جنّت نشاں ” کے انتہائی حسّاس منظر نامہ کو سمجھتے ہوئے کئی محاذوں پر توجہ دی۔ انھوں نے قوم کو جدید علوم سے آراستہ کرنے کا جتن کیا۔ مغربی فکر و فلسفہ کی اِفادیت بیان کی، اور مشرق کی تابندہ روایات کی بازیافت بھی کی۔ انھوں نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اخبار و رسائل کو اپنی تعلیمی، تصنیفی، قومی، ملّی، صحافتی، سیاسی اور ادبی خدمت کا طاقت ور ذریعہ بنایا۔ نثر کے اس مضبوط وسیلے کے توسط سے بلا تامل کہا جا سکتا ہے کہ آج کا ترقی یافتہ مُعاشرہ ہی نہیں بلکہ ادب بھی سر سید تحریک کا رہینِ منّت اور اُن کی عقلیت، مادیت اور حقائق نگاری کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ بلا شبہ آج کا منظر نامہ بدلا ہوا ہے۔ صارفیت کے اِس دور میں ہر شخص ذاتی ترقی اور خوش حالی کو مقدم رکھ رہا ہے اور قدروں کی باتیں از کار رفتہ بنتی جا رہی ہیں۔ ہماری نئی نسل جو بے حد ذہین، سند یافتہ اور متحرک ہے نہ جانے کیوں اپنی تاریخ، تہذیب اور اردو رسم الخط سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ہم کس طرح اُنھیں اپنے بیش قیمت تہذیبی اور ثقافتی ورثہ سے منسلک رکھیں، یہ ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ چمک دمک کے جس جال میں وہ گرفتار ہو رہے ہیں اُس کی گرہیں اتنی مضبوط ہوتی جا رہی ہیں کہ نجات کے ذرائع اپنی بے بسی پر اشک بار ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بزرگ خاموش بیٹھے ہوئے ہوں۔ وہ امکانی جتن کر رہے ہیں مگر کامیابی ہر پل دور ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ آخر کیوں ؟اس کی ایک وجہ تو ذمہ داران کی چشم پوشی قرار دی جا سکتی ہے لیکن دوسری اہم وجہ خود پر اعتبار و اعتماد کی کمی ہے۔ در اصل یہ جوہر ہی مشکل گھڑی میں کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اسی جذب حرکت و عمل کو بیدار کرنے کا نام علی گڑھ تحریک قرار پایا ہے۔ ہم سب کو رفقائے سر سید کی طرح اس بابت سوچنا ہی نہیں بلکہ عمل بھی کرنا چاہیے کہ—

۱۔ نئی نسل کو کس طرح قدروں کی اہمیت، افادیت اور معنویت کا احساس دلایا جائے۔

۲۔ تہذیب الاخلاق جیسے رسائل و جرائد سے نئی نسل کو کس طرح متعارف کرایا جائے اور مستفید ہونے کی طرف اسے کیسے راغب کیا جائے۔

۳۔ انسانیت، محبت، مروت اور در گزر کے جذبہ کو کیسے فروغ دیا جائے۔

۴۔ نئی ایجادات اور معلومات سے کس طرح مثبت نتائج اخذ کیے جانے کا رجحان عام کیا جائے۔

۵۔ اکیسویں صدی میں جو عالمی معیار وضع ہو رہے ہیں، اُن کی پاسداری کے لیے خود کو کس طرح تیار کیا جائے۔

۶۔ فنونِ لطیفہ کو کیسے اپنے لیے مفید اور کارآمد بناتے ہوئے روحانی غذا کے طور پر استعمال کیا جائے۔

۷۔ مادری زبان سے کس طرح رغبت اور انسیت پیدا کی جائے کہ وہ زندگی کا لازمی حصہ بن جائے۔

اِس جانب بھی بھر پور توجہ دینی ہے کہ کسی بھی صورتِ حال میں مثبت سوچ کو فروغ حاصل ہو، اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے باہمی اتحاد برتا جائے۔

بنیادی امر یہ ہے کہ ذاتی اختلاف ہونا یا افراد سے اختلاف ہونا ممکنات میں تو شامل ہے لیکن وسیع النظری کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بڑے مقصد یا مشن سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ آج کے حساس اور حبس زدہ ماحول میں اِس جانب اور بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ نئی نسل ادیبوں کو استفہامیہ انداز میں دیکھ رہی ہے کہ انتہائی مشقت سے آئی مثبت تبدیلی کے اثرات کیوں زائل ہو رہے ہیں۔ کل رفقائے سر سید نے قوم کو ڈھارس بندھائی تھی، محبت، مساوات اور انسانی فلاح و بہبود کے جذبہ کو فروغ دیا تھا۔ آج کا ادب یہ فریضہ انجام دینے سے کیوں قاصر ہے ؟ مسدس میں حالی نے جو قوم کی زبوں حالی کا مرثیہ پڑھا تھا۔ کیا عالمِ اسلام کے تناظر میں اُس کے پھر سے محاسبہ کی ضرورت ہے ؟

جُزوی اختلافات آج بھی برقرار ہیں مگر ہم سر سید اور رفقائے سر سید کے عظیم الشان مشن کو آگے بڑھانے میں تساہلی کیوں برت رہے ہیں ! ہمارے سامنے تو یہی نصب العین ہونا چاہیے کہ جس طرح ماضی میں علی گڑھ تحریک سے وابستہ افراد سر سید کے ہم نوا بن کر پوری تَن دہی سے فلاح و بہبود اور تعمیر و تشکیل کی ڈگر پر چلتے رہے، اُسی طرح ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے۔ رفقائے سر سید کا بنیادی مقصد اپنے ہم وطنوں اور اُن کے توسط سے عالمی برادری کو قدامت پرستی کے خار زار سے نکالنا اور جدید علوم و فنون سے واقف کرانا تھا مگر اس کے لیے وہ سب بہت احتیاط کے ساتھ چلے جس میں یہ ملحوظ رکھا گیا کہ ردّ و قبول کے دُشوار گزار مرحلہ میں قدیم تہذیب کی صحت مند روایات کا بھر پور احترام ہو اور نئی چیزوں کو بُرائیوں سے محفوظ رکھا جائے۔ دو دھاری تلوار جیسی راہ سے ہم آج بھی گزر رہے ہیں لہٰذا ہمیں عصر حاضر کے تبدیل ہوتے ہوئے معاشرتی منظر نامے کی تاریک راہوں کو روشن کرنے کے لیے سر سید اور اُن کے معاصرین کے افکار و نظریات اور عملی جد و جہد کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 اگر سر سید نہ ہوتے ؟

 

ڈاکٹر سید احمد قادری

7 نیو کریم گنج، گیا (بہار )انڈیا

 

اگر سر سید نہ ہوتے تو آج نہ صرف اپنے ملک بلکہ بیرون ممالک کے لا تعداد مسلمان تعلیمی، سماجی اور دیگر شعبوں میں جس با وقار طریقے سے اور اپنے تشخص کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، شاید یہ نہ ہوتا۔ مسلمانوں کے تشخص اور ان کی بڑھتی تعلیمی سرگرمیوں کے پیش نظر ملک کی متعصب اور فرقہ پرست سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارتی اور آر ایس ایس کے دلوں میں کانٹے کی طرح زمانے سے کھٹک رہی ہے۔ کافی عرصے سے یہ لوگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور اس یونیورسٹی کے تشخص کو ختم کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔ لیکن جب سے یہ پارٹی مرکز میں برسر اقتدار آئی ہے۔ اس کے منافرت سے بھرے عزائم اور حوصلے بڑھ گئے اور وہ ہر قیمت پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردا کو سلب کرنے کرانے کے در پے ہے۔ تاکہ یہاں کے مسلمان نہ صرف تعلیمی، بلکہ معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ ہو جائیں، اور یہ بے وقعت ہو کر نہ صرف تعلیمی بلکہ سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر حاشیہ پر چلے جائیں۔ ان کی نگاہ میں یہ بات بھی ضرور ہے کہ اس وقت یہاں کے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بد تر ہے۔ دن بدن ان کی بہتر زندگی کا خواب نہ صرف ادھورا ہوتا جا رہا ہے، بلکہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے اگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جہاں مسلم بچوں کے لئے پچاس فی صد سیٹیں مخصوص ہیں، اس کا اقلیتی کردار ختم کرا دینے سے ان کا تناسب مزید کم ہو جائے گا۔ ایسی کوشش 1967 ء میں بھی ہوئی تھی اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے تحت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو سلب کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا اور حکومت وقت کو آخر کا سپر ڈالنی پڑی تھی اور وزیر اعظم وقت اندرا گاندھی نے وقت کی نزاکت اور بگڑتے حالات کے مد نظر قانون سازی کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مسلمانوں کی سماجی اور تعلیمی ترقی کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس لئے اس میں کسی طرح کی رخنہ اندازی نہیں ہونی چاہئے۔

اس اہم اور تاریخی فیصلہ کے بعد لوگوں کو یہ توقع تھی کہ اس یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے سلسلے میں اب کسی طرح کا مسئلہ یا تنازعہ کھڑا نہیں ہو گا اور یونیورسٹی اپنے تعلیمی و ترقیاتی عزائم اور مختلف منصوبوں کے ساتھ آگے بڑھتی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہوا بھی۔ اس اہم فیصلہ کے بعد بعض چھوٹے چھوٹے مسئلہ کو چھوڑ دیں تو یونیورسٹی کے مختلف وائس چانسلروں نے اپنے تعلیمی منصوبوں اور خاص طور پر تحقیقاتی امور کو بہتر کارکردگی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ لیکن 2014 ء میں مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آتے ہی پورے ملک میں مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنے کی منظم اور منصوبہ بند سازشیں رچی گئیں اور عملی کوششیں ہر سطح پر ہونے لگی۔ ایسے میں متعصب لوگوں کی نگاہ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیسے چھوٹ جاتی، جو ملک کے مسلمانوں کو تعلیمی زیور سے آراستہ کر با وقار زندگی گزارنے کے ساتھ سیاسی اور سماجی شعور کے لئے ذہن سازی بھی کرتی ہے۔ اس لئے یہاں طرح طرح سے انتشار اور خلفشار پھیلانے کی عملی کوششیں ہنوز جاری ہیں، گرچہ کئی معاملات میں انھیں ذلت اٹھانی پڑی ہے، خاص طور پر اس وقت جب ان کا جھوٹ پوری طرح اجاگر ہو کر سامنے آیا۔ لیکن چونکہ ان سازشوں میں حکومت بھی ساتھ دے رہی ہے، اس لئے ان فرقہ پرستوں کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں۔ مرکزی حکومت کی وزارت انسانی فلاح و بہبود، نے اس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سلسلے میں جو رویّہ اپنایا ہے، وہ کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں، بلکہ غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے اور حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ ملک کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کا نہیں ہے۔ برسہا برس سے یہاں مختلف مذاہب، زبان، کلچر کے لوگ یکجہتی اور اخوت کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ اس لئے اس ملک میں ہر مذاہب کے لوگوں کو ان کا حقوق ملنا چاہئے

اور آئین نے جو حقوق خاص طور پر دفعہ 29 اور30 دیا ہے، جن کے رو سے یہاں کے اقلیتوں کو اپنی شناخت کے ساتھ ساتھ رہنے کا حق دیا گیا ہے، نیز لسانی اور مذہبی اقلیتی اداروں کے قائم کرنے کا حق بھی حاصل ہے اور یہی دفعات فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں شہتیر بنا ہوا ہے۔ یہ منافرت پھیلانے والے متعصب لوگ ہر قیمت پر یہاں کے مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے یہاں کے مسلمانوں کی تعلیمی سہولیات اور معاشی مراعات کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ لیکن اگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لوگ اپنی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ دشمنوں کی سازشوں کو سمجھیں اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنا نے کے لئے آپسی اختلافات کو بھلا کر اپنے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یقینی طور پر ان فرقہ پرستوں کو مُنھ کی کھانی پڑے گی اور سر سید کا قائم کردہ یہ تعلیمی ادارہ پوری کامیابی کے ساتھ آگے کی طرف گامزن رہے گا۔ سر سید نے ملک کے مسلمانوں کے لئے جو تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے اور اس سے جس طرح لوگ گزشتہ کئی دہائیوں سے مستفیض ہو رہے ہیں اور یہاں سے تعلیم حاصل کر اپنے ملک اور بیرون ممالک کے گوشے گوشے میں با وقار زندگی گزار رہے ہیں۔ انھیں کون فراموش کر سکتا ہے۔ ان کے اس عظیم کار ہائے نمایاں کی عظمت کا اعتراف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلبا و طالبات ملک یا بیرون ملک جہاں بھی وہ ہیں، وہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز کی تشکیل کر ہر سال سر سید کی یوم پیدائش پر بڑا جلسہ منعقد کر تے ہوئے سر سید کے تئیں اظہار تشکر کرتے ہیں۔ میرا اپنا خیال ہے کہ غالباً دنیا کی یہ واحد تعلیم گاہ، جہاں کی یادیں لوگ بھولتے نہیں اور ہر سال شاندار تقریب میں علیگ ایک دوسرے قریب ہوتے ہیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی یادوں کے چراغ روشن کرتے ہیں۔

ایک سو چالیس سالہ اس قدیم تعلیمی ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اپنی ایک شاندار تاریخ ہے۔ اس کے ماضی کے اوراق کو پلٹیں تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ مغل حکومت کا خاتمہ، ان کی پسپائی، انگریزوں کا بڑھتا تسلط اور ان کا خاص طور پر ملک کے مسلمانوں پر جبر و استبداد، اس دور کے لئے لمحۂ فکریہ تھا۔ یہاں کے مسلمانوں کے حوصلہ، جرأت، ہمّت، وقعت اور عزت و ناموس کو انگریزوں نے پارہ پارہ کر دیا تھا۔ ایسے حوصلہ شکن اور ناگفتہ بہ حالات کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ ان کا تدارک کن نہج پر ہو۔ ان امور پر امت مسلمہ کے لئے درد رکھنے اور فکر کرنے والے دانشور، مدبر اور محب وطن پریشان تھے اور وہ اپنے اپنے افکار و خیالات کے ساتھ ساتھ سامنے آئے۔ ان میں سر سید احمد خاں کا نام نمایاں تھا۔ ان کے دل میں انسانی درد اور فلاح امّت مسلمہ کا جذبہ بھرا تھا اور وہ ملک میں مسلمانوں کے مستقبل کے لئے فکر مند تھے۔ بھارت کے مسلمانوں کے بہتر اور شاندار مستقبل کے لئے کچھ کر گزرنے کے لئے وہ بے چین تھے۔ سر سید کی دور اندیش نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ اگر یہی نا مساعد حالات رہے تو یہاں کے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہو گا۔ اس جذبے کے تحت وہ وہ مسلمانوں کی عصری تعلیمی مشن کو لے کر عملی میدان میں کود پڑے اور بہت ساری مخالفتوں کے باوجود وہ اپنے تعلیمی مشن کو لے کر آگے بڑھتے گئے۔ لیکن جس طرح سے اس زمانے میں ان کے اس تعلیمی مشن کی مخالفت ہو رہی تھی اس وقت سر سید کے ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ عوام تک اپنے اس تعلیمی مشن کے افکار و خیالات کی دور تک رسائی کے لئے بہترین ذریعہ صحافت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے خاردار اور پر خطر راستے کا انتخاب اپنے ابتدائی دور میں ہی کیا اور بھارت کے مسلمانوں کو تعلیمی، معاشرتی اور تہذیبی طور پر ایک مکمل اور بہتر طرز زندگی کی جانب راغب کرانے کے اور ان کی معاشی بدحالی دور کرنے، سیاسی و سماجی شعور پیدا کرنے اور سماجی پسماندگی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کھوئے ہوئے وقار و عظمت کو بحال کرنے کے مقصد کے تحت انھوں نے صحافت کا سہارا لیا۔ غالباً ایسے ہی صحافی کے بارے میں امداد امام اثر کا خیال تھا کہ :

” ایک صحافی مورخ و ناقد کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ مورخ ہی نہیں بلکہ قوم و ملک کے خیالات و ماحول کو بنانے اور سدھارنے، بدلنے اور بگاڑنے کی بھی طاقت رکھتا ہے۔ ”

(تاریخ صحافت اردو، جلد اوّل، صفحہ:20 )

اپنے ان مقاصد کے حصول کے لئے سر سید نے جنوری 1864 ء میں "سائنٹفک سوسائیٹی” غازی پور میں قائم کی۔ پورے دو سال تک اپنی سرگرمیوں کا بڑھانے کے بعد 1866 ء میں اسی نام سے ایک اخبار علی گڑھ سے جاری کیا۔ چونکہ سر سید کو انگریزی اور اردو کو ساتھ لے کر چلنا تھا اور دونوں ہی زبان کے لوگوں کو مخاطب کرنا تھا، اسی لئے اس کا دوسرا نام “علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ” رکھا۔ اس میں ایک کالم اردو اور دوسرا انگریزی میں ہوتا تھا ابتدا میں یہ ہفتہ وار تھا، لیکن بعد میں یہ سہ روزہ ہو گیا۔

اس طرح اب ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ سر سید نے تعلیمی، سماجی، اور معاشرتی تبدیلی کا سفر صحافت سے کیا اور ایک طرف جہاں انھوں نے اپنے گہرے مطالعہ و مشاہدہ اور تجربہ سے اردو صحافت میں گرانقدر اضافے کئے، وہیں دوسری جانب سر سید کو اردو صحافت نے ان کے مقاصد کے حصول اور ان کے افکار و نظریات کی تبلیغ و ترسیل کے لئے راہ ہموار کیا۔ سر سید نے اپنے دونوں اخبارات میں ہمیشہ تعلیمی مسئلے کو فوقیت دی۔ جس کے بین ثبوت ان کے وہ ادارئے ہیں۔ جن میں انھوں نے بڑے خوبصورت اور سلیس انداز میں اپنی باتوں کو پیش کرتے ہوئے لوگوں کے دل و دماغ تک پہنچنے کی کامیاب کوشش کی۔ اس کی چند مثالیں دیکھئے

” افسوس ہے کہ بنگالہ کے مسلمانوں نے جو تدبیر مسلمانوں کی کی ترقی کی اختیار کی ہے۔ اس سے ہم کو اختلاف کلی ہے۔ ان کی تدبیر، جس پر وہ مختلف طریقوں سے زور دے رہے ہیں۔ یہ ہے کہ گورنمنٹ کی مسلمانوں کے لئے خاص رعایت مبذول ہو۔ سابق میں بھی اس مطلب سے انھوں نے بہت زبردست درخواست پیش کی تھی، اور حال میں نواکھالی کے مسلمانوں نے اس قسم کی درخواست پیش کی ہے۔ ہم اس تدبیر کو پسند نہیں کرتے ہمارا اصول “سلف ہیلپ” Self Helpپر مبنی ہے۔ ہم چاہتے ہیں مسلمان خود اپنی ترقی کے لئے آپ کوشش کریں "۔

(Eminent Mussalmans page-15)

” میری یہ سمجھ ہے کہ ہندوستان میں دو قومیں ہندو اور مسلمان ہیں اگر ایک قوم نے ترقی کی اور دوسری نے نہ کی تو ہندوستان کا حال کچھ اچھا نہیں ہونے کا۔ بلکہ اس کی مثال ایک کانڑے آدمی کی سی ہو گی۔ لیکن اگر دونوں قومیں برابر ترقی کرتی جاویں تو ہندوستان کے نام کو بھی عزت ہو گی اور بجائے اس کے کہ وہ ایک کانڑی اور بڈھی بال بکھری، دانت ٹوٹی ہوئی بیوہ کہلاوے، ایک نہایت خوبصورت، پیاری دلہن بن جاوے گی”۔

(اخبار ’سائنٹفک سوسائٹی، علی گڑھ، 3 جون1873ء )

” جو تعصبات کہ آپس کی محبت اور ارتباط کے مخل ہوتے ہیں ان کو دور کرے اور ان کے دلوں میں ایسا عمدہ کرے کہ وہ تمام قوم جسمانی بلکہ روحانی بھلائی و بہبودی کے بڑے بڑے کاموں میں اپنے آپ کو بھائی بھائی سمجھیں "۔

( سائنٹفک سوسائیٹی، علی گڑھ، 19 اپریل 1867 ء )

ان اداریوں کے یہ اقتباسات سر سید کی ذہانت، دانشوری، دوراندیشی اور ان کے نظریات و خیالات کے مظہر ہیں او ہر اداریہ ایک طویل تشریح و تفسیر کی متقاضی ہے۔ سر سید نے بھارت کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی تہذیب اختیار کرنے کی جانب راغب کرنے کے لئے، تاکہ ان کا شمار دنیا کی معزز اور مہذب قوموں میں کیا جائے، اس کے لئے خاص مقصد کے تحت24 دسمبر 1875 ء سے ایک رسالہ بھی نکالا۔ اس کے بھی دو نام تھے، اردو میں "تہذیب الاخلاق” اور انگریزی میں "دی محمڈن سوشل ریفارمر”۔ ان کے مختلف شماروں میں ایسے ایسے اہم، با مقصد اور مؤثر مضامین شائع ہوئے کہ بعض ناعاقبت اندیشوں کی نیندیں حرام ہونے لگیں اور "تہذیب الاخلاق” کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور کامیابی کی جانب بڑھتے ہوئے سر سید کے قدم نے قدامت پسند لوگوں اور سر سید کے مخالفوں کو بے چین کر دیا اور سر سید کی رہنمائی میں بڑھتے کارواں کے سامنے انھیں اپنا وجود خطرہ میں نظر آنے لگا تھا۔ لیکن الطاف حسین حالی جیسی جید شخصیت، سر سید کی تحریر و تحریک کی بڑی مداح تھی۔ "تہذیب الاخلاق ” کی اشاعت کے بعد اس کی بڑھتی مقبولیت اور مخالفت کو دیکھتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا کہ ’ اس کی اشاعت کا سب سے بڑا نتیجہ یہ ہے کہ "محمڈن اینگلو اورینٹل کالج” قائم ہو گیا، جو آج تعلیم کا سب سے بڑا مرکز بن کر ’ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ کے نام سے ہمارے سامنے ہے ‘۔

اس مختصر جائزہ کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سر سید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کر بھارت کے مسلمانوں کے اندر تعلیمی صلاحیت اور لیاقت پیدا کر نہ صرف تعلیمی میدان میں کامیاب ہونے بلکہ سماجی، سیاسی اور معاشرتی و تہذیبی اقدار کو سمجھنے اور عمل کرنے کا رجحان بھی پیدا کیا ہے۔ یہ سر سید کی ہی دین ہے ملک کے کئی گوشوں میں سیر سید کی طرز پر تعلیمی مراکز کا قیام عمل میں لا کر مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر، ان کے اندر خود اعتمادی اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابی حاصل کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ جو دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ سر سید کی قائم کردہ یونیورسٹی نے جس طرح یہاں کے مسلمانوں کو تعلیمی، سماجی، معاشرتی اور سیاسی شعور اور فہم و ادراک پیدا کر با وقار زندگی گزارنے کا جو حوصلہ دیا ہے۔ اس سے بعض متعصب اور فرقہ پرست لوگوں کی پریشانیاں بڑھی ہوئی ہیں۔ اس یونیورسٹی کی مخالفت وہی لوگ زیادہ کر رہے ہیں، جو منظم اور منصوبہ بند سازش کے تحت یہاں کے مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈال کر انھیں تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر بے وقعت اور بے دست و پا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ سر سید کا تعلیمی مشن کبھی ختم نہیں ہو گا اور سر سید کے تعلیمی مشعل کی روشنی دور بہت دور تک نسل در نسل تک پہنچتی رہے گی، جن سے امت مسلمہ ہمیشہ فیضیاب ہوتے رہیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 اگر سر سید نہ ہوتے

—آفتاب احمد آفاقی

سر سید جیسی نابغۂ روزگار شخصیت کی معنویت کسی ایک عہد، قوم یا علاقے تک محدود نہیں۔ جدید ہندستان کی تہذیب و تعمیر میں سر سید کی خدمات، تاریخ میں ایک نئے باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ سر سید تحریک، ان کے تعلیمی افکار و نظریات نیز ان کی عملی زندگی کے فیضان کی برکتیں قوم و ملک کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ حقیقت یہ کہ ان کی نظری، علمی، ادبی اور تعلیمی خدمات قیمتی اثاثے کی حکم رکھتی ہیں۔ یہ محض تاریخ کے سنہرے اوراق نہیں بلکہ حال کے تمام تر تعلیمی مسائل کے حل میں آج بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور مستقبل کے لائحہ عمل کی ترتیب و تنظیم میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔

سر سید ایک ایسے وقت میں نمودار ہوئے جب مسلمانان ہند کے سیاسی، معاشی اور تعلیمی حالات برادرانِ وطن کے مقابلے ناگفتہ بہ تھے۔ تاریکی، گمراہی اور جہالت کے دلدل میں پھنسی اس قوم کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا، اس کسمپرسی کے عالم میں سر سید پہلے شخص تھے جنھوں نے مسلم معاشرے میں پیدا ہونے والے ہر قسم کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی بحران کے لئے باضابطہ پیش قدمی کی۔ انھوں نے اپنے افکار و خیالات اور کردار وعمل سے جس طرح تہذیبی پسماندگی، فکری جمود اور علمی و ادبی تنگ نظری کا خاتمہ کیا اور ملک میں جدیدتقاضوں کے تحت عصری علوم و فنون پر توجہ دلائی وہ انہی کا خاصہ ہے۔ اپنے مذہبی عقائد کی پیروی، عظمتِ رفتہ سے محبت کے پہلو بہ پہلو سائنس و تکنیکی تعلیم پر خصوصی توجہ دے کر سر سید نے جدید ہندوستان کا خاکہ پیش کیا۔ یہ ان کے تعلیمی افکار اورعملی جد و جہدکا ہی نتیجہ تھا کہ مسلمانوں میں خود اعتمادی بحال ہوئی اور عزتِ نفس کے جذبے نے انھیں حوصلے عطا کیے۔

سر سید کے تعلیمی تصورات اورعلمی و ادبی فتوحات نیز ان کی عملی جد و جہدکسی ایک قوم، علاقے اور ملک تک محدود نہیں بلکہ قوم و ملک کی ذہنی و فکری تربیت اور ان کی تعلیمی و اخلاقی معیار بندی کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر اس کے اثرات مرتسم ہوئے ہیں۔ آج ہندستانی مسلمانوں میں سیاسی، علمی، ادبی، سائنسی، مذہبی رہنماؤں کی فہرست پر غور کیجیے ان میں سر سید کے علی گڑھ کا حصّہ سب سے زیادہ ہو گا۔ چنانچہ یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ سر سید نہ ہوتے تو ہماری موجودہ حالت بدرجہا بد تر ہوتی اور جہالت، تاریکی اور گمراہی ہمارا مقدر۔

٭٭٭

 

 

 

 

اگر سر سید نہ ہوتے

ڈاکٹر امام اعظم

 

کوئی بھی تحریک سماجی حالات کے بطن سے نمودار ہوا کرتی ہے۔ سر سید نے جب آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ہندوستان جب سے مسلمانوں کے قبضہ میں آیا تو مسلمان ہی سب سے اعلیٰ قوم تھی وہ دل کی مضبوطی اور بازوؤں کی توانائی میں ہی برتر نہ تھے بلکہ سیاست، حکمت عملی، فن تعمیر و فنون لطیفہ، صنعت و حرفت سبھی علوم میں افضل تھے۔ اپنے تدبر اور حکمت سے ٹکڑوں میں بٹی سرزمین بر صغیر ہند کی شیرازہ بندی کر کے عالم میں ہندوستانی قوم کو سرفراز کر دیا لیکن برٹش سرکار کی ملازمت کے درمیان حاصل مشاہدے و تجربے سے پایا کہ اب سرکاری ملازمت کیا؟ غیر سرکاری ذرائع میں بھی کہیں کوئی نمایاں جگہ مسلمانوں کو حاصل نہیں ہے۔ واقعۂ غدر کی بنا ڈالی برادران وطن نے اور سزاوار ٹھہرے مسلمان۔ نتیجتاً بقول جواہر لال نہرو :

"After the Mutiny the British Govt. had deliberately repressed Muslims” (Discovery of India P:34)

اس کے انجام کی وضاحت کرتے ہوئے معین احسن جذبی نے لکھا:

"انگریزی حکومت کے ابتدائی دور میں مسلمان دیوانی، پولیس، عدالت اور فوج میں چھائے ہوئے تھے اور یہ محکمے ان کی دولت اور آمدنی کے سب سے بڑے ذرائع تھے لیکن انگریزوں نے ان کے نظام کو ختم کر کے ان پر سرکاری ملازمتوں کے تمام دروازے بند کر دیے۔ "(حالی کا سیاسی شعور ص: ۱۳)

اس لئے سر سید نے اپنے لکچر میں ملت کو متنبہ کیا کہ :

” جس حساب سے یہ تنزل شروع ہوا ہے اگر اسی اوسط سے اس کا اندازہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چند برس ہی اس بات کو باقی ہیں کہ مسلمان سائیسی، خانسامائی، خدمت گاری کے سوا اور گھس کھرے ہونے کے علاوہ اور کسی درجہ میں نہ رہیں گے اور کوئی ایسا گروہ جس کو دنیا میں کچھ عزت حاصل ہو مسلمانوں کے نام سے نہ پکارا جائے گا۔ ”              (مجموعہ لکچرز ص:۳۷۲)

جب کہ مسلمانوں کو بہت سے امراض نے گھیر رکھا تھا، دینی و مذہبی تعصبات، برادران وطن کی طرح فرقہ بندی، جہالت اور ماضی پر غرور، غیر مذہبی باتوں کو اسلام سمجھنا اور طرح طرح کے خرافات میں مبتلا ہونا، شعار بن گیا تھا۔ ان میں مروجہ طریقۂ تعلیم انہیں ان امراض سے نجات دینے سے قاصر تھا۔ اس تعلیم کی بھی دنیا محدود تھی، اکثر مسلمان نئے حقائق سے یکسر ناواقف اپنی پرانی بوسیدہ دنیا میں مگن تھے۔ جہالت کے اندھیرے نے ان کی بصیرت چھین لی تھی، اور آس پاس ہونے والی ترقی ان کو نظر نہ آتی تھی، مٹھی بھر انگریزوں نے ہزاروں میل دور سمندر پار سے آ کر ان سے حکومت چھین لی اور وہی انگریزوں کے ظلم و ستم میں گرفتار تھے۔ مسلمان اپنی کمزوری کے اسباب اور حقائق حال کو سمجھنے کی بجائے منہ چھپائے پھر رہے تھے اور عاقبت سنوارنے کی جستجو غیر مفید طریقۂ تعلیم میں کر رہے تھے۔

ملّت کی اس زبوں حالی اور کسمپرسی نے سر سید کو تڑپا یا اور حالات کو بدلنے کے لئے کمربستہ ہونے پر اکسایا۔ اس دردمند اور زندہ دل مرد آزاد نے سرکاری ملازمت میں ہونے کے باوجود قوم و ملت کی خیر خواہی کے لئے قہر آلود فضا میں جب قدم بڑھایا تو اسے چار محاذوں پر جہاد کرنی پڑی۔ پہلا انگریز وں کو مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری رکھنے سے روکنا، دوسرا مسلمانوں کو علوم و فنون کی طرف راغب کرنا، تیسرا مذہب میں عقلیت کو رواج دینا اور چوتھا مسلمانوں کو سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونے سے روکنا۔ اس ضمن میں ان کا موقف تھا کہ ابھی مسلمان جن حالات سے گذر رہے ہیں ان میں سیاست سے جڑنے کا انجام ان کے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔ صدر کانگریس بدرالدین طیب جی کے ایک مراسلہ کے جواب میں سر سید نے لکھا:

"غدر میں کیا ہوا؟ ہندو نے شروع کیا۔ مسلمان من چلے تھے بیچ میں کود پڑے۔ ہندو تو گنگا نہا کر جیسے تھے ویسے ہی ہو گئے مگر مسلمانوں کے تمام خاندان برباد ہو گئے۔ ”

( ناموران علی گڑھ کا پہلا کارواں ص:۷۳۲)

"پس ہم کو جو طریقہ اختیار کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم اس پولیٹیکل شور و غوغا سے اپنے تئیں علیحدہ رکھیں اور اپنے حال پر غور کریں اور دیکھیں، ہم علم میں کم ہیں، اعلی درجہ کی تعلیم میں کم ہیں۔ دولت میں کم ہیں، پس ہم کو اپنی تعلیم پر ہی کوشش کرنی چاہئے۔ ”           (ایضاً)

یہ تمام کام غدر کے بعد کے سیاسی تناظر میں انتہائی مشکل اور سنگین تھے مگر انہوں نے پہلے مرحلہ کو "اسباب بغاوت ہند” لکھ کر اور سرکاری سطح پر اپنے تعلقات کا استعمال کر کے متعدد اقدام کر کے سرکیا۔ بقول کرنل گراہم: "غدر کے زمانے میں اور بہت مدت تک مسلمانوں پر ایک بددلی چھائی ہوئی تھی۔ اس خوفناک زمانے کے تمام مکروہات ان کی طرف منسوب کئے جاتے تھے اور اس میں شک نہیں کہ یہ تعصب زیادہ تر بیجا تھے۔ مسلمانوں کو اس کا بڑا رنج تھا اور یہ بات ان کو بری معلوم ہوتی تھی۔ ظاہر اً کسی شخص نے ان کی حمایت میں حامی نہیں بھری، سر سید احمد نے یہ مشکل کام اپنے ذمہ لیا اور جہاں تک ان کی قدرت میں تھا انہوں نے مسلمانوں کی بگڑی ہوئی بات کو پھر درست کیا۔ ”

(انتخاب رپورٹ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس لاہور ۱۸۹۹، ص:۱۵۹۱)

بہرحال مخالفانہ ہوا میں جہاں اپنے لوگ بھی کسی اچھے منصوبہ پر مخالفت کر رہے تھے وہاں سر سید تیز آندھی میں بھی جدید تعلیم کا چراغ کامیابی سے روشن کرتے رہے۔ انہوں نے بنیادی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کا منصوبہ مرتب کر لیا تھا۔ ان کے پاس وسائل کی کمی تھی اور ان کے ساتھ ذی ہوش لوگوں کی بھی کمی تھی لیکن دھیرے دھیرے دانشوران ملت یہ محسوس کرنے لگے کہ سر سید کی تحریک میں دم ہے اورتقاضائے وقت کے عین مطابق ہے۔ اسی فکر کی وجہ سے مولوی ڈپٹی نذیر احمد، علامہ شبلی نعمانی، مولانا الطاف حسین حالی، مسیح الملک، وقار الملک جیسے بلند پایہ دانشوروں نے سر سید کی تحریک میں خود کو شامل کیا اور علی گڑھ تحریک کو آگے بڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا:

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

اور اس تحریک میں دانشوران اور امراء بھی شامل ہو گئے حالانکہ نظام حیدر آباد نے دل سے ان کی حمایت نہیں کی اور جب سر سید جدید تعلیمی درسگاہ کے لئے تعاون کی رقم لینے گئے تو انہوں نے انہیں جوتا پیش کیا جسے سر سید نے مثبت انداز میں لیا اور اس کی نیلامی کی۔ مخالفت کا عالم یہ تھا کہ انہیں براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ اکبر کا یہ مصرعہ :

کونسل میں بہت سید، مسجد میں فقط جمن

لیکن سر سید نے اس کی پرواہ نہیں کی اور وہ حالات سے نہیں گھبرائے۔ انہوں نے انگریزوں سے بھی مدد لی اور ایک مرد آہن کی طرح جدید تعلیم کی بنیاد ڈال دی۔ ان کو یہ احساس تھا کہ محض مخالفت برائے مخالفت سے ملت کا بھلا نہیں ہو سکتا۔ وہ چاہتے تھے کہ ملت انگریزی تعلیم سے آراستہ ہو جائے تاکہ تمام شعبۂ حیات میں وہ سوچنے اور سمجھنے کی اہل بن سکے اور اپنا حق مقابلہ جاتی دوڑ میں حاصل کر سکے۔ اگر وہ ایسا نہیں سوچتے تو ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت اور دگر گوں ہو جاتی۔

سر سید کبھی بھی مذہب کے مخالف نہیں تھے۔ ان کا دھڑکتا ہوا دل ملت کی زبوں حالی پر پریشان تھا۔ وہ ملت کو حاشئے پر دیکھنا نہیں چاہتے تھے اس کوشش میں انہوں نے اپنے پورے نظریہ کی بنیاد رکھی۔ اسکول سے لے کر کالج اور بعد میں یونیورسٹی علی گڑھ تحریک کا وہ خاکہ تھا جس نے ملت کو ابتذال سے نکالنے اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ وقت کے تقاضے کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وقت کا مطالبہ ٹھکرانے سے اس کے خطرناک دور رس نتائج ہوتے ہیں اور جنہوں نے سر سید کی اس دور اندیشی کو نہیں سمجھا وہ فکری اعتبار سے محدود دائرہ میں سوچتے رہے۔

سر سید روشن خیال تھے۔ عصبیت سے دور ملّت کا درد اور ملّت کے مستقبل کے بارے میں سوچتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں علی گڑھ تحریک کی دھوم مچی اور بر صغیر میں آج بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ سر سید کی اپنی مخصوص Educational Philosophyتھی۔ اس میں دینیات کے ساتھ جدید تعلیم کی آمیزش ایک کھلا راستہ تھا جس میں دنیاوی جاہ و حشمت کا حصول بھی ممکن تھا اور دنیا کے مدمقابل کھڑے ہونے کا حوصلہ بھی ہوتا تھا۔ ” اگر سر سید نہیں ہوتے ” تو بر صغیر میں ملت کو اور بھی برے دن دیکھنے پڑتے اور اگر لوگوں نے مخالفت نہیں کی ہوتی اور ان کے قدم سے قدم ملا کر چلتے تو بر صغیر کی صورت حال اور بھی بہتر رہتی۔ اپنی محدود کوششوں کے باوجود انہوں نے ایک نظریہ ملت کے سامنے یہ رکھا کہ کھلے ذہن سے سوچ کر ہی علی گڑھ تحریک کے مشعل کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ سر سید سے بڑا ریفارمر اور تحریکی صلاحیت کا مالک ملک میں ہنوز پیدا نہیں ہوا۔ وہ جدید تعلیم کے معماروں میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ علی گڑھ تحریک محض دریا کا بہاؤ نہیں تھا۔ دور رس نتائج کا حامل اجتہادی کارنامہ تھا جس نے آج مسلمانوں کو برادران وطن کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اہل بنا دیا۔ میں اپنی بات پنڈت جواہر لال نہرو کے اس اقتباس پر ختم کرتا ہوں کہ:

"سر سید کا یہ فیصلہ کہ تمام کوششیں مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے پر صرف کر دینی چاہئے۔ یقیناً درست اور صحیح تھا۔ میرا خیال ہے کہ بغیر اس تعلیم کے مسلمان جدید طرز کی حکومت کی تعمیر میں کوئی قابل قدر حصہ نہ لے سکتے تھے بلکہ اندیشہ تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہندوؤں کے غلام بن کر رہ جاتے جو تعلیم میں ان سے آگے تھے اور معاشی اعتبار سے بھی زیادہ مضبوط۔ ”        (میری کہانی جلد دوم ص:۵۱۳)

یہ نکتہ آج بھی ہمارے لئے لمحۂ فکر یہ ہے بقول اکبر الہ آبادی:

ہماری باتیں ہی باتیں تھیں سید کام کرتا تھا

نہ پوچھو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں

٭٭٭

 

 

 

اگر سر سید نہ ہوتے ؟

جاوید اختر

شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

 

سر سید نہ ہوتے تو نہ جانے مسلمانان ہند کا کیا حال ہوتا؟ مسلم قوم کو جگانے کا کام سر سید نے کیا تھا۔ حالانکہ آج بھی یہ قوم سوئی ہوئی ہے۔ سر سید کی آنکھوں سے نیند ہی غائب ہو گئی تھی۔ وہ بہت دور اندیش تھے۔ آپ نے پاوں میں گھنگرو ڈال کر چندہ اکٹھا کیا۔ مدرسۃ العلوم کی بنیاد ڈالی۔ سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔ آثارالصنادید لکھی۔ اور اسباب بغاوت ہند جیسی کتاب لکھ کر انگریزوں کو 1857 میں ہوئے غدر کے سلسلے میں ہوئے بدگمانی کا ازالہ کیا۔ آپ نے سائنس اور قرآن دونوں کی تعلیم پر زور دیا۔ انگریزی کا جاننا وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ آپ مرد مجاہد تھے۔ قوم کے معمار تھے۔ آپ نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اسے چند سطروں میں لکھ پانا ناممکن ہی ہے۔ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سر سید کے خوابوں کی تکمیل ہے۔ سر سید اپنے آپ ایک انجمن تھے۔ دور اندیش تھے عالم تھے۔ آپ خود ایک تحریک تھے۔ کبھی علیگڑھ کو ہندوستانی مسلمانوں کا مکہ کہا جاتا تھا۔ سر سید کی روح آج بہت مجروح ہوتی ہو گی جب کبھی اس درسگاہ پر کوئی آنچ آتا ہے۔ اس مادر علمی کا کیا کہنا۔ علیگڑھ نے گزشتہ صدی میں زندگی کے ہر شعبہ میں متعدد ہستیاں پپدا کیں۔ چاہے ادب کا میدان ہو یا سائنس کا۔ سیاست کا یا کھیل کا میدان ہو۔ قلم کا ہو یا فلم کا۔ یہ مادر علمی سر سید رحمۃ اللہ علیہ کی نیک نیتی اور دعاؤں کا ہی ثمرہ ہے جو آج بھی علیگڑھ میں پھل پھول رہا ہے۔

موجودہ دور میں بھی علیگڑھ ایک انجمن ہے۔

آج کے تازہ سیاسی و سماجی صورت حال کے تناظر میں علی گڑھ کو اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ سر سید کا تعلیمی نظریہ اور مسلم قوم کی بیداری کے سلسلے میں کئے گئے اقدام پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک و ملت کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ ہاتھ بٹانا ہو گا۔ ایک سیکولر سماج کی تشکیل اور مثبت تعلیمی نظریہ پیش رکھنا ہو گا۔ سر سید کے خوابوں کی تکمیل اور مسلمانان ہند کے اس مکہ کو نظر بد سے بچانا ہو گا۔ تاکہ سر سید احمد خاں کی روح کو تسکین مل سکے۔

سر سید کا سیدھا اور سچا موقف تھا۔ وہ یہ کہ ایک معیاری سماج کی تشکیل ہو۔ ہندوستان کی ترقی میں مسلمان کا بھی ہاتھ ہو ساتھ ہو۔ وہ جانتے تھے کہ جدید و عصری تعلیم ہی واحد اس کا حل ہے۔ ان کا یہ قول بہت ہی مشہور ہے۔ "” دائیں ہاتھ میں قرآن بائیں ہاتھ میں سائنس اور سر پر کلمہ کا تاج ہو””۔ انگریزی تعلیم کے پیش نظر ان پر فتوے بھی صادر کئے گئے مگر سر سید جیسے قائد قوم و ملت کو دنیا کی پرواہ کہاں تھی۔ تبھی تو حالی نے کہا تھا ” ہماری باتیں ہی باتیں ہیں اور سید کام کرتا تھا””۔ سچ ہے انہوں نے کبھی ہار نہیں مانا اور ساری زندگی قوم و ملت کے لئے وقف کر دیا تھا۔ سچ یہ بھی ہے کہ اگر سر سید نہ ہوتے تو اس غریب مسلمان کو کون پوچھتا بھلا۔ جب غدر کے بعد یہ قوما نگریزوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوا تب سر سید نے "”اسباب بغاوت ہند”” لکھ کر انگریزوں کے دل سے مسلمانوں سے نفرت کو دور کیا۔ وہ سر سید ہی تھے جنہوں نے ولایت کا سفر کیا اور اسی طرز پر ہندوستانی مسلمان کے لئے نظریہ تعلیم پیش کیا اور آج علی گڑھ اسی کی مرہون منت ہے۔ سر سید کا مسلمانان ہند پر بڑا احسان ہے کہ آپ نے مسلمانوں میں بیداری کا کام کیا اور انہیں خواب غفلت سے آزاد کیا۔ آپ نہ ہوتے تو شاید آج ہندی مسلمانوں کی حالت بہت ہی سنگین ہوتی۔ تعلیمی و معاشی طور پر مسلمانان ہند بہت ہی پسماندہ ہوتا۔ یوں تو آج بھی ہے مگر سر سید کے پیغام اور نظریہ پر عمل کر کے ہی اس سے بہت حد تک نجات پایا جا سکتا ہے۔ آپ نے نہ صرف مدرسۃ العلوم کی بنیاد ڈالی بلکہ علی گڑھ تحریک کے ذریعہ پورے ملک کی آب وہوا ہی بدل ڈالی۔ لوگوں کو بیدار کیا اور سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد بھی ڈالی۔ گویا آپ نے ہر شعبہ میں کارہائے نمایاں انجام دیا۔ آج مسلمانان ہند کی ترقی اور تعلیمی رجحان میں سر سید کا بہت ہی بڑا رول ہے۔ اگر سر سید نہ ہوتے تو اس موضوع پہ بات نہ ہوتی۔

٭٭٭

 

 

 

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ۔ ..۔

ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی

 

یہ سوال بے حد اہم ہے کہ "اگر سر سید نہ ہوتے ؟ ” تو آج ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی، معاشی، سیاسی، اقتصادی صورت حال کیا ہوتی؟ پہلی جنگ آزادی کے بعد انگریزی حکومت کی نگاہ میں مسلمانوں کی جو شبیہ قائم ہو گئی تھی، اس کا سد باب کیوں کر ہوتا؟ یا 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے دہلی اور نواح دہلی میں جن تاریخی عمارتوں کو مسمار کیا یا جن مسجدوں کو شہید کیا ان کا علم کیوں کر ممکن تھا؟ مدرسۃ العلوم کے نام سے جو مدرسہ بنارس میں قائم ہوا تھا، کیا سبیل تھی کہ وہ آئندہ ایک یونیورسٹی کی شکل اختیار کر لے گا۔ غرض کہ اس طرح کی ایک دو نہیں کئی مثالیں ایسی ہیں جو اس ضمن میں پیش کی جا سکتیں ہیں۔ بہرحال ان تمام کاموں کو سر سید اور ان کے رفقائے کار نے یوں کر دکھایا جیسے قدرت نے ان کی تخلیق ان ہی معرکوں کو سر کرنے کے لیے کی تھی۔

خواجہ الطاف حسین حالی کی تصنیف کردہ کتاب "حیات جاوید” کے مطالعہ کے بعد اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس انتھک کوشش اور جاں فشانی کے بعد سر سید نے ایک معمولی مدرسے کو یونیورسٹی کی شکل عطا کی۔ موجودہ دور میں کسی مدرسے کو کالج یا یونیورسٹی میں تبدیل کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ انیسویں صدی میں تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ سر سید کے زمانے میں جہالت بالخصوص مسلم معاشرے میں جس قدر عام تھی وہ تاریخ کے اوراق سے پوشیدہ نہیں۔ لہٰذا جب مدرسۃ العلوم کا قیام عمل میں آیا اور مدرسہ کے ممبران کے ساتھ علما و فضلا کے سامنے یہ تجویز پیش کی گئی کہ مدرسے کا نظام تعلیم ولایت کی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے انتظام اور طریقۂ تعلیم کو دیکھ کر مرتب کی گئی ہے تو اس کے خلاف ایک محاذ کھڑا ہو گیا۔ کچھ لوگوں کے ذریعہ یہ کہا جانے لگا کہ جو لوگ مدرسۃ العلوم قائم کرنا چاہتے ہیں وہ در حقیقت اسلام سے بیزار ہیں۔ مدرسے میں سید احمد خاں کا اور ان کے معاونوں کی تصویریں قد آدم یا نصف قد آدم رکھی جائیں گی۔ وہاں شیعوں کے مذہب کی کتابیں بھی پڑھائی جائیں گی۔ چندے کے روپے سود میں لگائی جائیں گی۔ مدرسے میں لڑکوں کو انگریزی لباس پہننا پڑے گا۔ غرض کہ اس کی طرح کی بے شمار باتیں زبان زد خواص و عام تھیں۔ علاوہ ازاں سر سید اور مدرسۃ العلوم کے خلاف دیسی اخبارات میں خبریں اور مضامین بھی شائع ہوئیں۔

مدرسۃ العلوم سے مسلم یونیورسٹی تک کے قیام کا عمل کوئی ہنسی کھیل نہ تھا۔ اس کار خیر کو انجام دینے کے لیے سر سید نے پیسے کی حصولیابی کی خاطر جہاں مختلف وسائل کا سہارا لیا وہیں لاٹری بھی کھیلی۔ ان کے اس عمل نے عوام کے جذبات کو مزید برانگیختہ کر دیا۔ چہار جانب سے اعتراضات کیے جانے لگے، لیکن سر سید کے پایۂ استقلال میں جنبش تک نہ ہوئی۔ ان اعتراضات کا دنداں شکن جواب دیتے ہوئے سر سید نے کہا “جہاں ہم اپنی ذات کے لیے ہزاروں ناجائز کام کرتے ہیں وہاں قوم کی بھلائی کے لیے بھی ایک ناجائز کام سہی۔ ” یہیں پر بس نہیں انھوں نے چندہ جمع کرنے کی خاطر اپنی اور اپنے دوستوں کی کتابیں فروخت کیں، حتیٰ کہ اپنی تصویر کی کاپیاں تک بیچ ڈالیں۔ سر سید نے دوستوں سے اس قدر چندہ وصول کیا کہ ان کے دوست و احباب ملاقات سے ڈرنے لگے کہ کچھ سوال نہ کر بیٹھیں۔ چندہ جمع کرتے ہوئے سر سید کے ذہن و دل میں شاید یہ بات کبھی نہ ابھری تھی یا ابھری بھی تھی تو پیشانی پر شکن کے آثار دکھائی نہ دیے، کہ وہ کس حیثیت کے مالک ہیں اور کس سے، کس طرح مانگتے پھر رہے ہیں۔ جہاں تک دوستوں سے چندہ وصول کرنے کی بات ہے وہاں یہ جواز پیش کیا جا سکتا ہے کہ دوستوں سے پردہ کیسا؟ لیکن جب عوام کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بات آتی ہے، خواہ وہ قومی فلاح و بہبود کے لیے ہی کیوں نہ ہو، ضمیر کس قدر خون کے آنسو روتا ہے، کسی دوسرے کے لیے اس کا اندازہ کرنا ممکن نہیں۔

الطاف حسین حالی نے ’حیات جاوید‘ میں بیسیوں ایسے واقعات درج کیے ہیں جنھیں پڑھ کر آنکھیں نم، ذہن متحیر اور قلب میں ہیجانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ تمام باتیں خیالی ہوں یا سر سید کوئی دوسری مخلوق۔ مولوی عبدالحق نے سر سید کی جہد مسلسل اور دنیا جہان سے بے پرواہ ہو کر نصب العین کی حصولیابی کے لیے اٹھائے گئے قدم کو خراج پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :

"سر سید کی زندگی سے ہمیں بہت سے بے بہا سبق مل سکتے ہیں۔ ان کا اپنے نصب العین پر آخر دم تک جمے رہنا، اس کے ہر جائز ذریعہ کو کام میں لانا، مخالف قوتوں کا دلیری سے مقابلہ کرنا، محنت و مشقت سے کبھی جی نہ چرانا، دن رات کام میں لگے رہنا، تساہل اور کاہلی کو پاس نہ پھٹکنے دینا خود ایک بڑا کارنامہ ہے۔ انھوں نے اپنے خیالات کو کبھی نہیں چھپایا۔ جو دل میں تھا وہی ان کی زبان و قلم پر تھا۔ کبھی اس کی پرواہ نہیں کی کہ اس سے ان کی ذات یا ان کے مقاصد کو نقصان پہنچے گا۔ ان کی زندگی میں اکثر ایسے موقعے آئے جب ان پر خیر اندیش اور مخلص دوستوں نے ان کو کسی فعل سے باز رہنے کی صلاح دی، اعتماد سے معاملے کی اونچ نیچ سمجھائی لیکن انھوں نے وہی کیا جو ان کے ضمیر نے کہا۔ اور ہمیشہ کمال اخلاقی جرأت سے کام لیا۔ بے ریائی اور صداقت عمر بھر ان کا شعار رہا۔ ” 1

(مطالعہ سر سید احمد خاں، عبدالحق، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1989، ص۔ 93)

درج بالا اقتباس میں جن نکات کی طرف اشارے موجود ہیں وہ سر سید پر حرف بہ حرف صادق آتی ہیں۔ سوائے اس کے کہ انھوں نے ہر جائز ذریعہ کو کام میں لایا۔ درج بالا سطور میں لاٹری کھیلنے کی ایک مثال پیش کی جا چکی ہے جو اسلامی نقطۂ نظر سے کسی طرح درست نہیں، لیکن سر سید کی نگاہ میں شاید یہ جرم نہ تھا۔ ۔ بہرحال اس سے ان کی خدمات میں کوئی بال نہیں آتا۔ یہ سر سید کی کوششوں اور کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی دنیوی علوم و فنون کے معاملے میں اپنی مثال آپ ہے۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

سر سید کی تصنیف کردہ کتابیں یا خود مسلم یونیورسٹی، آج بالخصوص مسلمانوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں طلبا مستفید ہو چکے ہیں اور آئندہ بھی انشا اللہ ہوتے رہیں گے۔ مسلم یونیورسٹی کے خلاف سازشیں یا اسے بدنام کرنے کی کوششیں سر سید کے زمانے میں بھی کی جاتی رہیں اور آج کی ترقی یافتہ دور میں بھی اس کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ جب یونیورسٹی کا وجود بھی نہ تھا تو سر سید نے تن تنہا اس کو صورت بخشی اورتمام سرد و گرم سے نبردآزما ہو کر اس کو وہ معراج عطا کی جس کی نظیر رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ لیکن تاسف کی بات یہ ہے کہ چند تخریبی ذہن کے افراد خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، اس کے کردار کو اپنے مفاد کے لیے داغ دار بنانے کے درپے ہیں۔ لہٰذا یونیورسٹی کی موجودہ صورت حال کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت اور عدلیہ کا فیصلہ حق بجانب ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

اگر سر سید نہ ہوتے ؟

محمد سلام (علیگ)

 

ہندوستان کا مسلم سماج سر سید احمد کا احسان مند ہے جنہوں نے مسلمانوں کے لئے ایسا کارنامہ انجام دیا جس کی بدولت ہندوستان کا مسلمان آج فخر کے ساتھ انہیں یاد کرتا ہے۔ انگریزوں نے ہندوستان کے مسلمانوں پر قید و بند و ظلم و اذیت کے ایسے ایسے خوفناک ہتھکنڈے استعمال کئے کہ اسے سونچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انگریزوں نے ہندوستان سے اقتدار مسلم حکمرانوں سے ہی چھینا تھا۔ اس لئے انگریزوں کی نظر میں مسلم ہی سب سے بڑا خطرہ تھے۔ ۱۸۵۷ کی بغاوت بھی بہادر شاہ ظفر کی رہنمائی میں ہی لڑی گئی تھی۔ مگر ملک کے دغا بازوں کی انگریزوں سے ساٹھ گانٹھ کی وجہ سے بغاوت کو سختی سے کچل ڈالا گیا اور مسلم سماج کے تمام با اثر شخصیات پر انگریز قہر بن کر ٹوٹ پڑے۔ بغاوت کی ناکامی سے مسلمانوں میں پژمردگی چھا گئی اور انگریزوں کے ہر ظلم کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرنے پر مجبور و لاچار ہو گئے۔ مسلمانوں کے اکثر با اثر شخصیات کو شہید کر ڈالا گیا۔ جس سے مسلمانوں کو لاچارگی کی زندگی جینے پر مجبور ہو جانا پڑا۔ اس دور میں مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف زبردست اندرونی نفرت پیدا ہو چکی تھی۔ اور وہ انگریز حکومت کے ہر قدم کو غیر شرعی تصور کرتے ہوئے انگریزوں سے دوری بنائے ہوئے تھے۔ جس کے نتیجے میں ملک پر سینکڑوں سال تک حکومت کرنے والی مسلم قوم ہر میدان میں پچھڑتی چلی گئی۔ انگریزوں نے بھی اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں انگریزیت نافذ کر دی جس سے مسلم قوم قطعی ناواقف تھی۔ مسلمانوں کی تعلیم مدرسوں تک ہی محدود تھی۔ جس کی وجہ سے وہ انگریز حکومت میں ترقی و خوشحالی سے بہت دور ہو چکے تھے۔ دور دور تک کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آ رہی تھی جو مسلمانوں کو اس بدحالی سے باہر نکال سکے۔ ایک تو انگریزوں کا خوف اور دوسرے انگریزوں سے شدید نفرت بھی اس کی خاص وجہ تھی۔

ایسے وقت میں مشیت ایزدی سے ایک دردمند شخصیت نمودار ہوا جس کا نام سر سید احمد تھا اور بعدہ سر سید کے نام سے مشہورہوا۔ سر سید احمد نے مسلمانوں کو اس بدحالی سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ ایک ایسا فیصلہ تھا جو شدید آندھی میں چراغ جلانے والی بات تھی۔ سر سید احمد جیسی دوراندیش شخصیت نے اس بات کو شدّت کے ساتھ محسوس کیا کہ مسلمانوں کو بدحالی اور پزمردگی سے باہر نکالنے کے لئے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کی بھی ضرورت ہے اس کے بغیر مسلم قوم ساری دنیا سے کنارہ کش ہو چکی ہے۔ انہونے اس کے لئے پہلے ان علماء کرام سے رابطہ قائم کیا جو مسلم سماج میں دینی تعلیم کا ادارہ چلا رہے تھے۔ لیکن اس وقت اکثریت علماء کرام کی نظر میں غیر مذہب کے ماننے والوں کی زبان میں تعلیم حاصل کرنا بھی کفر تھا اور ان علماء نے سر سید کو اس سے دور رہنے کی ہدایت کر ڈالی اور کسی بھی قسم کے تعاون سے قطعی انکار کر دیا۔ سر سید کے لئے تمام راستے بند تھے کیونکہ علماء کرام کا یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنا کفر ہے۔ پھر بھی سر سید نے حوصلہ نہیں ہارا اور اپنے جیالے ساتھیوں کو اپنے دلائل سے اس بات کے لئے آمادہ کر لیا کہ بدحالی میں مسلمانوں کو عصری کرنا ضروری ہے۔

سر سید کے سامنے سب سے بڑی دشواری علماء کرام کی شدید مخالفت اور ذرائع آمدنی تھی۔ بغیر اقتصادی امداد کے کوئی بھی ادارہ قائم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے اس وقت کے دولتمند رئیسوں اور نوابوں سے رابطہ قائم کیا لیکن یہاں بھی مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ اکثریت نے ان کا ساتھ نہیں دیا کیونکہ انہیں بھی علماء کے کفر کے فتویٰ کا دار تھا۔ سر سید نے لاچار ہو کر عوام سے چندہ وصول کرنا شروع کیا۔ اس میں اہالیان پنجاب نے کھل کر ان کی مدد کی۔ اسی لئے سر سید انہیں زندلان پنجاب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مگر یہاں بھی ان کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک واقعہ مشہورہے کہ ایک شخص نے پرانے جوتوں کا پارسل چندہ میں ارسال کر دیا۔ مگر سر سید نے اس کا برا نہ مانا اور پرانے جوتوں کو فروخت کر جو آمدنی ہوئی۔ اس کی رسید اس شخص کو شکریہ کے ساتھ بھیج دی۔ سر سید کو یقین تھا کہ اگر ان کی نیت سچی ہے تو اللہ کی مدد ضرور ملے گی۔ ان کا قول تھا نیکی کا مقابلہ جیوں جیوں بدی نے کیا ہے نیکی بڑھتی جاتی ہے۔ اپنے اس یقین پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کے تمام خطرے سے دو چار ہونے کے باوجود وہ نیک نیتی کے ساتھ اپنے مشن میں لگے رہے اور ایک چھوٹی سی تعلم گاہ کی بنیاد ڈال دی جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ چند سالوں کے اندر ہی خاطر خواہ نتیجہ بھی برامد ہونے لگا۔ اس تعلیم گاہ سے تعلیم حاصل کر کے مسلم نوجوان انگریزی حکومت میں علی عہدہ پانے لگے۔ دیکھا دیکھی اور بھی مسلم بچوں کا داخلہ ہونے لگا چھوٹی سی درسگاہ بہت جد ہی ہندوستان کی اعلی تعلیم گاہ میں شامل ہو گئی اور کالج کا درجہ بھی مل گیا۔ انگریز حکومت کو بھی ماننے کو مجبور ہونا پڑا کہ سر سید کے اسکول و کالج ہندوستان کے بہترین اسکولوں اور کالجوں میں سر فہرست ہے بعد میں انگریزی حکمرانوں نے بھی یہ محسوس کیا کہ ہندوستان کے بڑے بڑے وکلائ، جج، بیرسٹر، ڈاکٹر، پروفیسرو اعلیٰ سرکاری عہدہ پر اسی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء ہیں۔ تو انہوں نے کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا۔ پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ سر سید کی تعلیم گاہ جو یونیورسٹی کا درجہ پا چکی ہے۔ یہاں سے فارغ بچے یوروپ و امریکہ میں بھی اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

سر سید کے بے انتہا محنت و حوصلہ سے قائم تعلیم گاہ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے بر صغیر کی وہ عظیم الشان یونیورسٹی ہے جس پر یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والا ہر شخص اپنے آپ کو فخر کے ساتھ کہتا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا طالب علم ہے اور اپنے نام کے ساتھ علیگ لگا کر فخر محسوس کرتا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی فرقہ پرست طاقتوں کی آنکھوں میں ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے۔ اس کی عظمت کو داغدار کرنے کی ہمیشہ کوشش ہوتی رہی ہے۔ اور بار بار فتنہ پرور ذہنیت کے فرقہ پرست سیاستدانوں نے اس یونیورسٹی کے کردار کو تہ و بالا کرنے کی سازش کرتے رہے ہیں۔ انہیں اس یونیورسٹی کا کردار ایک آنکھ نہیں بھاتا انہیں لفظ مسلم اور مسلمانوں سے ہی نفرت ہے اور آئے دن کسی نہ کسی سازش کے تحت اس یونیورسٹی میں انتشار پیدا کرتے رہتے ہیں۔ تاکہ مسلم طلباء و طالبات کے کیرئیر کو تباہ و برباد کر دیا جائے۔ لیکن انہیں یہ بات معلوم نہیں ہے کہ جس کی بنیاد خلوص نیتی کے ساتھ رکھی گئی ہو اس کی بنیاد بہت مستحکم ہوتی ہے اور دنیا کا کوئی بھی زلزلہ، طوفاں اس بنیاد کو ہلا نہیں سکتا۔ سر سید احمد کی خلوص نیتی کی بنیاد والی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی ہر مصائب کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور سر سید احمد کی روح اس کی محافظ ہے۔ سر سید احمد کے جاں نثار طلباء ہمالیہ سے بھی زیادہ مضبوط ہیں جو اس کی حفاظت کے لئے ہمیشہ سینہ سپرد نظر آئیں گے۔

اگر اس ملک میں سر سید نہ ہوتے تو ہمارا آپ کا یہ تابندہ یونیورسٹی بھی نہ ہوتا اگر سر سید نہ ہوتے تو اس ملک کا مسلمان تعلیم کے معاملہ میں سینکڑوں برس پیچھے چلے گئے ہوتے۔ اگر سر سید نہ ہوتے تو آج ہمارے قوم میں کوئی بیرسٹر، جج، آء اے ایس، آء پی اس، آء ایف اس، ڈاکٹر، انجنیئر، پروفیسر تو کیا ملک میں شاید کوئی تعلیم یافتہ مسلمان کی یہ تعداد نظر نہ آتی۔ گویا سر سید ہی ہندوستان کے اولین مسلم شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی قوم کے مستقبل کی خاطر تمام مصیبت جھیلے لیکن اپنے عزم و حوصلہ کا پیغام دے کر چلے گئے۔ واقعی سر سید نہ ہوتے تو بر صغیر کے اتنی تعداد میں مسلمان عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ ہوتے۔

٭٭٭

 

 

 

سید کی طرح کوئی سنبھالے گا اگر..

—انصاری حنان حسین احمد

 

انیسویں صدی کی دلّی میں ایک پڑھا لکھا کھاتا پیتا خاندان بستا تھا۔ اسی گھر میں ۱۷ اکتوبر۱۸۱۷ کو ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام سیّد احمد رکھا گیا۔ بڑا ہو کر یہی لڑکا ہندوستان کی تاریخ میں سر سیّد کے نام سے مشہور ہوا اور بہت سے لوگ بھول گئے کہ ماں باپ نے اس کا نام سیّد احمد رکھا تھا۔ اس زمانے کے شریف مسلمان گھروں میں بچوں کو فارسی عربی پڑھائی جاتی تھی۔ سر سید نے بھی وہی پڑھی۔ جب وہ بیس سال کے تھے تو باپ کا سایا سر سے اٹھ گیا، اور انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک دفتر میں نوکری کر لی۔ وہ بچپن ہی سے بڑے سمجھدار اور محنتی تھے، جلد جلد ترقی کر کے جج ہو گئے۔ اپنے سرکاری کام سے وقت بچا کر پڑھتے لکھتے بھی رہتے تھے، اس لئے ان کی بڑی عزت تھی۔

۱۸۵۷ء میں جب سر سیّد کی عمر چالیس سال کی تھی، ہندوستانیوں نے آزادی حاصل کرنے کے لئے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ ہر طرف مار کاٹ ہونے لگی۔ سر سیّد نے بہت سے انگریزوں کی جان بچائی اور اس بات کی کوشش کی کہ انگریزوں اور ہندوستانیوں کے تعلقات دوستانہ ہو جائیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے بہت کام کئے۔ ان کا خیال تھا کہ دونوں قوموں میں دوستی اسی وقت ہو سکتی ہے، جب ہندوستانی انگریزی زبان، رہن سہن، خیالات اور علوم سے واقف ہوں۔ اس کے لئے انہوں نے اسکول کھولے اور ایک سائنٹفک سوسائٹی قائم کی، جس کا کام یہ تھا کہ انگریزی کی کتابوں کا ترجمہ کیا جائے اور اردو جاننے والے سائنس اور دوسرے نئے علوم سے واقف ہوں۔ اس سوسائٹی کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا۔ اس دوران میں سر سید مرادآباد، غازی پور، علی گڑھ اور بنارس میں رہے اور سماجی کام کرتے رہے۔

۱۸۶۸میں سر سید انگلستان گئے۔ ان کے دو لڑکے سید احمد اور سید محمود بھی ساتھ تھے۔ وہ انگلستان اپنے لڑکوں کی تعلیم کا انتظام کرنے گئے تھے مگر مطلب تھا وہاں کی تعلیم اور رہن سہن کو دیکھنا، اچھی کتابیں لانا اور وہاں کی زندگی کو سمجھنا۔ سر سید وہاں سے بہت کچھ دیکھ اور سمجھ کر واپس آئے۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے نئے خیالوں کو ظاہر کرنے اور پھیلانے کے لئے ایک رسالہ نکالا، جس کا نام تہذیب الاخلاق تھا۔ اس سے لوگوں کے خیالات ہی نہیں بدلے، اردو نثر کی بھی ترقی ہوئی۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے علی گڑھ میں وہ کالج کھولا جو آج علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی شکل میں موجود ہے اور ان کی بڑی یادگار ہے۔

اب سر سید بہت مشہور ہو چکے تھے۔ انھیں وائسرائے کی کونسل کا ممبر بھی بنا دیا گیا تھا اور سرکا خطاب بھی انگریزی سرکار کی طرف سے ملا تھا۔ اب انھیں ہر شخص سر سید ہی کہتا تھا۔ ۲۷مارچ ۱۸۹۸ کو ان کا انتقال ہو گیا۔

سر سید ایسے لوگوں میں گنے جاتے ہیں جو دنیا میں کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے زمانے کو سمجھا اور اپنے ملک کو وقت کے ساتھ چلانے کی کوشش کی۔ وہ ایک اچھے رہنما، اچھے ادیب اور اچھے انسان تھے۔ انہیں کام سے محبّت تھی اس لئے انہوں نے نام بھی پایا۔

لکھنا سر سید نے کم عمری ہی سے شروع کر دیا تھا۔ کچھ ترجمے کئے، کچھ چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھیں، لیکن تیس سال کی عمر میں انہوں نے دہلی کی پرانی عمارتوں اور مشہور لوگوں کے بارے میں اپنی کتاب "آثار الصنادید” لکھی تو بہت مشہور ہو گئے۔ اس کا ترجمہ فرانسیسی میں بھی ہوا اور یورپ میں بھی انہیں شہرت حاصل ہوئی۔ بجنور میں جو بغاوت ہوئی تھی، سر سید نے اس کی تاریخ بھی لکھی۔ بغاوت کے بارے میں اسباب بغاوت ہند لکھ کر برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بھیجی۔ کئی مذہبی کتابیں لکھیں، مگر اردو ادب میں ان کے وہ چھوٹے چھوٹے مضمون زیادہ مشہور ہوئے جو تہذیب الاخلاق میں چھپے تھے۔ ان کے خیالات کو کچھ مسلمان پسند کرتے تھے کچھ ناپسند۔ کچھ لوگ انگریزی راج کا خوشامدی سمجھتے تھے، کچھ لوگ ملک کا دوست۔ مگر سچ یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے ان لوگوں میں تھے جو بعد کی نسلوں پر اپنا گہرا اثر چھوڑتے ہیں اور جنھیں ملک کے تاریخی لوگوں میں شمار کرنا پڑتا ہے۔

انیسویں صدی کا آخری نصف ہندوستان کی تاریخ میں بڑی تبدیلیوں کا زمانہ تھا۔ ایک طرف وہ زندگی تھی جو سینکڑوں سال سے ایک ہی حال پر چلی جا رہی تھی اور دوسری طرف مغربی تعلیم، انگریزی ادب، سیاسی خیالات، پریس، ریل اور تار کے اثر سے پیدا ہونے والی نئی زندگی۔ ان دونوں میں بڑا فرق تھا۔ عام لوگوں کے لئے یہ بات بڑی مشکل تھی کے وہ ان کی کشمکش کو سمجھیں مگر سر سید انگریزی زبان نہ جانتے ہوئے بھی اس کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ باہر سے جو خیالات آ رہے ہیں، ان میں سے کون سے خیالات ملک کی ترقی کے لئے مفید ہیں۔ اس لئے ان کی رائے تھی کہ چاہے ان کی کتنی ہی مخالفت کی جائے ان خیالات کو قبول کر لینا چاہیے۔ ترقی کی راہ میں جو رکاوٹیں تھیں، وہ انہیں بھی جانتے تھے۔ اس طرح اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق وہ نئے اور پرانے، پورب اور پچھم کو ملا کر ہندوستانیوں اور خاص کر مسلمانوں کو ایک نئی زندگی کا پیام دینا چاہتے تھے۔

تاریک جو ہو گی رات، ڈھل جائے گی

آئے گی کوئی بلا تو ٹل جائے گی

سید کی طرح کوئی سنبھالے گا اگر

بگڑی ہوئی قوم سنبھل جائے گی

—صبا اکبر آبادی

تبدیلی کا یہ پیام ایسا تھا کہ جو لوگ اس کو نہیں سمجھ سکتے تھے وہ سر سید کو مذہب اور قوم کا دشمن سمجھنے لگے۔ لیکن زمانہ جس تیزی سے بدل رہا تھا، اسے دیکھتے ہوئے ان کے خیالات کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ وہ سماج میں، طریقہ تعلیم میں، اور شعر و ادب میں، ہر چیز میں تبدیلی چاہتے تھے۔ یہی پرانے بندھنوں کو توڑ کر آگے بڑھنے کا راستہ تھا۔

ادبی نقطۂ نظر سے بھی سر سید کے کاموں کی خاص اہمیت ہے۔ انہوں نے رنگین اور بناوٹی ادبی زبان کے مقابلے میں سیدھی سادھی نثر کی طرف توجہ کی اور ان کے اثر سے اس زمانے کے کئی اور لکھنے والوں نے بھی ویسی ہی نثر لکھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تحریر میں سادگی اور مطلب پر زور دیا جانے لگا۔ سر سید کی تحریروں میں رنگینی اور سجاوٹ تو نہیں ہے مگر زور اور سچائی بہت ہے۔

اس زمانے کے مشہور ادیبوں میں خواجہ الطاف حسین حالی، ڈاکٹر نظیر احمد، ذکاء اللہ، محسن الملک، چراغ علی، مولانا شبلی اور کچھ دوسرے لکھنے والے سر سید سے متاثر ہوئے۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جن کے مضامین سر سید کے رسالے تہذیب الاخلاق ہی میں چھپتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ سر سید کے مخالف تھے، وہ بھی انہیں جیسی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ اس طرح اردو نثر میں وہ نیا رنگ پیدا ہو گیا جو آج تک اس کے اوپر چھایا ہوا ہے۔

مختصر یہ کہ ہندوستان کو نئے دور میں داخل کرنے میں سر سید کا بڑا ہاتھ ہے اور ان کے کارناموں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا

نہ بھولو اس کو جو کچھ فرق ہے کہنے میں کرنے میں

یہ دنیا چاہے جو کچھ بھی کہے اکبر یہ کہتا ہے

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

—اکبر الہ آبادی

سر سید احمد خاں بر صغیر میں مسلم نشاط ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے اور انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ سر سید احمد خان انیسیوں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انہیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جد و جہد کی۔ آپ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔ ” سر سید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُن کی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ ۔ ..۔ . وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان ” سائیس، خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ ۔ .. سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُن کو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جِد و جہد کرتے رہے

جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے۔ ۔ ۔ مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری

ترے احسان رہ رہ کر سدا یاد آئیں گے ان کو

کریں گے ذکر ہر مجلس میں اور دہرائیں گے ان کو

—حالی

٭٭٭

 

 

 

ادب سلسلہ کا آئندہ شمارہ کا عنوان فکر انگیز ہے میرا خیال ہے کہ

ہماری یہ پسماندہ قوم سر سید کی عدم موجودگی میں سفاک ترین اندھیروں کا نوالہ بن چکی ہوتی

—راشد جمال فاروقی

 

اگر آپ مجھ سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ "اگر سر سید نہ ہوتے تو کیا ہوتا” میرا خیال یہ ہے کہ اگر سر سید نہ ہوتے تو مسلمان جدید علوم و فنون سے محروم رہتے۔ ان میں ذہنی بیداری؛ شائستگی؛ اور علم و عمل کے میدان میں بہت پیچھے رہتے۔ سر سید دور اندیش اور انقلابی شخصیت کے مالک تھے انھوں نے نہایت سنجیدگی اور جانفشانی سے کام لیا اور مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کا قیام عمل میں لایا۔ کاش سر سید جیسی عظیم دیندار شخصیتیں ہر دور میں پیدا ہوتی رہیں۔ علامہ اقبال نے بجا فرمایا ہے کہ

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

—ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

 

 

تاریخ ہند

 برطانوی راج سے علی گڑھ تحریک تک

— معین احسن جذبی

 

برطانوی تسخیر کے اثرات

 

انیسویں صدی کے نصف اول میں صنعتی استحصال اور لوٹ کھسوٹ کی پالیسی کے باوجود ہندوستان میں برطانوی حکومت کا کردار بعض اعتبار سے ترقی پسندانہ تھا۔ ملکی توسیع کے سلسلے میں سیکڑوں جاگیریں اور ریاستیں مٹیں اور انحطاط پذیر جاگیری نظام پر بڑی کاری ضرب پڑی۔ دیہی نظام کی شکست نے گاؤں کی ہزاروں سال پرانی جامد زندگی میں ہلچل ڈال دی۔ سماجی اصلاحات کے لحاظ سے ستی، ٹھگی، غلامی اور بچہ کشی کو ختم کرنے کی وسیع پیمانے پر کوششیں کی گئیں۔ اس کے علاوہ مغربی تعلیم کے رواج اور اخبارات کی آزادی سے ایک نیا شعور پیدا ہو ا۔ ان تمام ترقی پسندانہ اقدامات میں برطانوی متوسط طبقے کے معاشرتی اور مذہبی تصورات کا بہت کچھ دخل تھا۔ یہ تصورات در اصل انیسویں صدی کے سر مایہ دارانہ دور کی پیدا وار تھے اور برطانیہ کا متوسط طبقہ انھیں خلاصۂ انسانیت سمجھتا تھا۔ ہندوستان کے انگریز حکام بھی اسی طبقے کے افراد تھے، اس لیے ان کی اصلاحات کی تہ میں ان ہی عقائد کی کار فرمائی تھی۔ اس زمانہ میں ہندوستان کے ترقی پسند طبقے نے بھی ان اصلاحات کو سراہا اور ان کا خیر مقدم کیا۔

دوسری طرف ہندوستان کے سماجی ڈھانچے کی شکست اور انگریز سرمایہ داروں کی لوٹ کے نتیجے میں سارا ملک افلاس اور بے روزگاری سے دو چار تھا۔ انیسویں صدی کے نصف اول میں سات بار قحط آئے اور تقریباً پندرہ لاکھ جانیں تلف ہوئیں۔ عوام کی بے چینی بڑھتی رہی اور اس کا اظہار بد امنی کی صورت میں بھی ہوتا رہا۔ لیکن1857کی بغاوت ہر طبقے اور ہر پیشے کی مجموعی بے اطمینانی کا مظہر تھی۔ یہ اگر چہ نا کام رہی لیکن اس نے برطانوی سیاست دانوں کی آنکھیں کھول دیں اور انھیں اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے ایک نئی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

یہ نئی پالیسی جو انیسویں صدی کے نصف آخر میں اور اس کے بعد بھی برابر جا ری رہی، انتہائی رجعت پسندانہ عناصر کی حامل تھی۔ 1857کی بغاوت میں انگریزوں کو دیسی ریاستوں کی اہمیت کا اندازہ ہوا تھا، جو کیننگ (Canning)کیالفاظ میں اس سیلاب کے لیے بند ثابت ہوئی تھیں۔ چنانچہ بغاوت کے بعد، برطانوی ہند میں دیسی ریاستوں کے مزید الحاق کا سلسلہ ختم کر دیا گیا اور انھیں ناقص و نا فرجام روایتوں کے ساتھ نہ صرف بر قرار رکھا بلکہ ان کو اندرونی آزادی دے کرتا ج برطانیہ کے مفاد کو ان کے مفاد کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا اور اس طرح ان کی جڑیں اور بھی گہری کر دی گئیں، نیز تعلقہ داروں اور زمینداروں کو بعض مراعات دے کر ایک ایسا طبقہ وجود میں لایا گیا جو انگریزی سامراج کے زیر سایہ ہی پنپ سکتا تھا۔ چنانچہ انگریزوں کی توقعات کے مطابق ان وفاداروں نے ہمیشہ اپنے آقاؤں ہی کا ساتھ دیا اور آزادی کی راہ میں سنگ گراں بن گئے۔ برطانوی مدبروں نے اسی پر بس نہیں کیا۔ غیر جانب داری اور مذہبی عدم مداخلت کی آڑ میں انھوں نے سماجی اصلاحات سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی اور اسی طرح مذہبی تعصبات، لا یعنی رسوم اور ہر قسم کی رجعت پسندی کو ابھر نے کا پورا پورا موقع دیا۔

1857کی بغاوت کے بعد ہندوستان پر برطانیہ کا اقتدار شمشیر کے زور سے قائم ہوا۔ کچھ عرصے کے بعد اس شمشیر کی نمائش ختم کر دی گئی، لیکن اس کا سایہ ہر جگہ محسوس ہوتا تھا۔ ڈاڈ ول کے بیان کے مطابق انگریز مبلغوں اور تاجروں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ حکومت کی توسیع و ترقی کے سلسلے میں انگریز عہدے دار بھی کثرت سے بڑھائے گئے، لیکن کام کی نوعیت نے ہر جگہ انھیں اپنی میزوں تک محدود کر دیا۔ ایک باقاعدہ نظام حکومت Rule) of (Systemنے شخصی حکومت کی جگہ لے لی۔ حکومت کی مستعدی تو بڑھ گئی لیکن اس میں میکانکی انداز پیدا ہو گیا۔ گرمی سے بچنے کے لیے پہاڑوں کی رسائی پہلے کی بہ نسبت آسان ہو گئی۔ رسل و رسائل کی جتنی زیادہ سہولتیں پیدا ہوئیں انگریز حکام اتنی ہی کثرت سے رخصت لے کر اپنے وطن جانے لگے۔ ہندوستانی زبان جو پہلے سرکاری کاموں میں استعمال ہو تی تھی اب ان کی زبانوں پر اتنی روانی سے نہ آتی۔ سرکاری دنیا کی اس بڑھتی ہوئی بے تعلقی پر اگر ایک حد تک پر دہ پڑا ہوا تھا تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ ہندوستانیوں نے انگریزی زبان اختیار کر لی تھی۔

اور ان تمام تغیرات پر بغاوت کی تلخ یاد کا سایہ بھی تھا۔ پہلے پہل اس کا اثر صرف یوروپینوں (Europeans)پر تھا۔ بغاوت کے بعد ابتدائی سالوں میں ہندوستان کے ساتھ ان کی پرانی ہمدردی نفرت میں بدل گئی۔ وہ پہلے جس اطمینان سے ہندوستان میں کام کر تے اور زندگی گزارتے تھے یا ہندوستان کے مسائل کو ہندوستانی نقطۂ نظر سے سمجھتے تھے وہ اطمینان جاتا رہا۔ اس کے بجائے وہ اب ہندوستان میں اتنے ہی عرصے قیام کرتے جتنا کہ لازمی تھا۔ ان میں ہندوستان کے مسائل کو انگریزی معیار سے جانچنے کا رجحان بھی زیادہ بڑھتا گیا۔ اس کا ردّ عمل ہندوستانی ذہنوں پر لازمی تھا اور بعد کو جوں جوں غدر کی ہولناکیوں کی یاد انگریزوں کے ذہن میں دھندلی ہوتی گئی اسی قدر غدر کو فرو کرنے میں جس شدید سختی سے کام لیا گیا تھا اس کا شعور ہندوستانی ذہنوں میں بڑھتا گیا نیز لوگوں میں غدر کو حق بجانب اور اس کے مقاصد کو صحیح سمجھنے کا رجحان پیدا ہونے لگا اس کے سا تھ ساتھ حکومت کی مادی طاقت کے ثبوت کی نمائش میں کمی ہونے لگی اور لوگوں کے دلوں میں انگریزی حکومت کی طاقت اور خیر و برکت کے سلسلے میں شبہات پیدا ہونے لگے۔

1857 کے بعد ہندوستان اور انگلستان کی حکومتوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت میں بھی بہت بڑی تبدیلی رو نما ہوئی۔ کمپنی کے دور میں گورنر جنرل کو ہندوستان میں اختیارات کلی حاصل تھے لیکن بغاوت کے بعد جب سے برقی اور بحری تار کا سلسلہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان قائم ہوا ان اختیارات میں گورنر جنرل کی مداخلت روز بروز بڑھتی گئی۔ اس طرح ریلوے اور تار برقی کی بدولت حکومت ہند گورنروں اور گورنر اپنے ما تحت افسروں کے معاملات میں زیادہ دخیل ہو گئے۔ اس سے حکومت میں ایک مرکزیت پیدا ہو گئی اور مرکزیت سے سارے ملک میں یکساں پالیسی کا نفاذ ہونے لگا۔ لیکن ڈاڈول کے قول کے مطابق ایک ایسے ملک میں جیسا کہ ہندوستان ہے اور جہاں ایک خطے کے لوگ دوسرے خطے کے لوگوں سے قطعی مختلف ہیں۔ ایک سی پالیسی فائدہ بخش ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہو تی ہے اور پھر اس مضرت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے جب حکومت کا اصل مر کز ہندوستان میں نہیں بلکہ ہندوستان سے سیکڑوں میل دور واقع ہو۔

برطانوی تسخیر و اقتدار کاہندوستان کے مختلف فرقوں اور طبقوں کے باہمی تعلقات پر جو اثر پڑا اور ہندوستانی تہذیب و معاشرت جس حد تک متاثر ہوئی اس کا اجمالی خاکہ ڈاکٹر سید محمود کے یہاں ملتا ہے۔ موصوف کے خیال کے مطابق برطانوی تسخیر سے پہلے ہندوستانی سماج دو طبقوں پر مشتمل تھا ان میں سے ایک کا کام قیادت تھا دوسرے کا تقلید۔ اول الذکر کئی جماعتوں میں بٹا ہوا تھا۔ اہل علم اور اہل مذہب (پنڈت، مولوی، درویش اور سادھو)۔ عامل اور زمینی جائداد کے مالک (ریاست کے فوجی اور سول حکام اور زمیندار)۔ اہل دولت (مہاجن، سوداگر اور چودھری)۔ دوسرے طبقے میں صناع، دستکار، کسان اور مزدور تھے۔ سوسائٹی میں لوگوں کو استحقاق کا درجہ علم و تعلم میں انہماک، ریاست کی خدمت اور جائداد کی ملکیت کی بنا پر حاصل تھا۔ لیکن یہ استحقاق ان پر تہذیبی اور سیاسی قیادت کے فرائض بھی عائد کرتا تھا۔ قرون وسطیٰ کی تہذیب کے معمار ان ہی جماعتوں سے متعلق تھے لیکن ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط نے انھیں تباہ و برباد کر ڈالا۔

اس کے بعد ڈاکٹر محمود ان مختلف جماعتوں کی تباہی کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ قدیم علوم کے جاننے والوں کے سلسلے میں ان کا بیان یہ ہے کہ مغربی تعلیم کے اجرا نے ایک انقلاب بر پا کر دیا تھا۔ چنانچہ ان کا سماج سے جو ایک حیاتی اور نامیاتی رشتہ تھا وہ ٹوٹنے لگا اور وہ پست اور کاسہ لیس ہو گئے۔ ان کے بجائے جو نیا تعلیم یافتہ طبقہ پیدا ہوا وہ ایسے تصورات کا حامل تھا، جنھوں نے اس کے اور عوام کے درمیان ایک خلیج حائل کر دی۔ اس اکھڑے ہوئے طبقہ کا رویہ ہندوستانی زندگی کی روایات سے ایک مدت تک غیر ہمدردانہ رہا۔ اس کے نزدیک مغرب کی کورانہ تقلید ہی زندگی کا مقصد و منتہا تھی۔

جہاں تک اس جماعت کا تعلق ہے جو سوشل اور پولٹیکل لیڈروں، ریاست کے موروثی ملازموں اور زمینداروں پر مشتمل تھی، وہ بقول ڈاکٹر محمود سیاسی قوت کی شکست کے ساتھ بر باد ہو گئی۔ ان کے لڑکے جو اس تباہی سے بچ گئے تھے عام طور سے پست ہمتی کا شکار ہو کر کاہلی اور بد چلنی کی زندگی بسر کرنے لگے اور ملکیت کے عوض میں جو خدمات ان پر واجب تھیں ان سے تقریباً کنارہ کشی اختیار کر لی۔ یہ موروثی بے منصب جائدادوں کے مالک جو اولو العزمی کے جو ہر سے محروم ہو چکے تھے، نئے سیاسی نظام کے سر گرم حامی بن گئے کیوں کہ یہ نیا نظام ان کے لیے شہرت طلبی یا اقتدار پسندی سے دور ایک تن آسان زندگی کا ضامن تھا۔

اہل سرمایہ ڈاکٹر مو صوف کے نزدیک اس لیے تباہ ہوئے کہ تجارت برطانوی سوداگروں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اس میں برطانوی پالیسی کو بھی دخل تھا جو ہندوستان کی تجارت اور صنعت کا گلا اس لیے گھوٹنا چاہتی تھی کہ وہ انگلستان کے لیے کچا مال فراہم کرنے والی ایک وسیع نو آبادی بن جائے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی مقابلہ کا کوئی امکان نہ رہے۔

لیکن ہندوستان پر برطانوی تسلط کا بد ترین اثر ڈاکٹر محمود کیالفاظ میں یہ ہوا کہ عوام کی ترکیبی وحدت بر باد ہو گئی۔ مختلف فرقوں نے جو اس ملک میں بستے آئے تھے رہنے سہنے کا ایک مشترکہ طریقہ مر تب کر لیا تھا، اس میں ہر فرقہ دوسرے کے سہارے کا محتاج تھا۔ ہر ذات یا جماعت اپنے اپنے پیشے میں لگی رہتی لیکن اس کے باوجود وہ کل کا جز تھی۔ پیشوں کے اختلاف سے وہ مقابلے یا مجادلے سے بچتے اور سماجی ڈھانچے کی تعمیر کا کام تکمیل تک پہنچاتے، مذہب اس میں مانع نہ آتا تھا لیکن برطانوی تسلط نے اس ڈھانچے کو توڑ دیا۔ برطانوی ہاتھوں میں اقتدار اور سر پرستانہ اختیارات کے مر کوز ہونے سے مختلف فرقوں کے باہمی انحصار کی غایت ہی جاتی رہی اور وہ ایک دوسرے سے دور ہونے لگے۔ ایک فاتح کی کامیابی مبنی ہو تی ہے مفتوح کی کمزوری اور نا اتفاقی پر اور اس کی حکومت کی بقا کا انحصار ان ہی چیزوں کے بر قرار رکھنے پر ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ حکومت کا پرانا آزمایا ہوا اصول ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمود نے فارن افیرز(Foreign Affairs )میں سے سرجان مینرڈ ( Sir John Maynard)کا قول پیش کیا ہے۔

یہ یقیناً صحیح ہے کہ برطانوی اقتدار نہ تو قائم ہو سکتا تھا اور نہ آج ہی بر قرار رہ سکتا ہے اگر وہ انتشاری میلان جس کا ایک مظہر ہندو مسلم مخالفت ہے یہاں نہ پایا جاتا۔ نیز یہ حقیقت ہے کہ ہندو مسلم عوام کی رقابت کی ابتدا برطانوی دور حکومت میں ہوئی۔

اس طرح وہ اندرونی میلانات جو ہندوستانی سماج کی شکست میں، ممد و معاون تھے انھیں تازہ تقویت پہنچی اور ہندوستان کے باشندے مختلف الخیال جماعتوں کی ایک غیر منظم اکثریت میں تبدیل ہو گئے۔

الغرض برطانوی تسلط سے جو نتائج مر تب ہوئے ان کے بارے میں ڈاکٹر محمود کی رائے حسب ذیل ہے :۔

انیسویں صدی میں ہندوستان کی اقتصادی زندگی جو قرون وسطیٰ سے متعلق تھی ختم ہو گئی۔ یعنی خود کفالتی اور جامد اقتصادی نظام کا خاتمہ ہو گیا۔ عالمی قوتوں کے اثرات اور صنعت میں نئی تکنیک کے رواج نے اسے ایک ایسا نظام بنا دیا جس میں ایک مفرد اقتصادی وحدت کارفرما تھی اور جو اپنے آپ کو قومی بنیاد پر منظم کرنے اور دیہی خطوں کے جمود و خود کفالت اور موروثی جماعتی تنظیموں کو توڑنے کی جد و جہد کر رہا تھا۔ یہ صورت حال سیاسی و سماجی حالات میں بھی اسی قدر تبدیلیوں کی مقتضی تھی اور اس نے سیاسی اور سماجی ترقیوں کے لیے قوت عمل فراہم کی۔

اقتصادی ترقی کو غیر ملکی حکومت کی تائید حاصل نہ ہو سکی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اس کی مزاحم تھی۔ چنانچہ انیسویں صدی میں مغربی یو رپ ترقی کی جس منتہا تک پہنچا وہ ہندوستان کو نصیب نہ ہو سکی۔ سیاسی اور سماجی قوتوں کو حکمت عملی سے اس طرح کام میں لایا گیا کہ سماجی انتشار ایک مستقل صورت اختیار کرے اور مرکز گریز رجحان کو تقویت پہنچے۔

ہندوستان میں انگریزی دور حکومت کے آغاز ہی سے برطانوی پالیسی کی تہ میں جو جذبہ کام کر رہا تھا وہ اپنے اقتدار کا قیام تھا۔ وہ اختلافات جو ایک جماعت کو دوسری جماعت سے اور ایک فرقے کو دوسرے فرقے سے تھے اور بھی شدید ہو گئے۔

انگریزوں کی یہ سیاست تاریخی حالات کی بنا پر مسلمانوں کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئی۔ انگریزوں کو ہندوستان میں قدم جمانے کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں ہی سے لڑنا پڑا۔ یہ انھوں نے ابتدا ہی سے سمجھ لیا تھا کہ ان کے اصل دشمن مسلمان ہیں اور انھیں پوری طرح مٹائے بغیر وہ یہاں اطمینان سے حکومت نہیں کر سکتے۔ 1843میں ہندوستان کا گور نر جنرل لارڈ النبرا صاف صاف کہتا ہے :۔

میں اس عقیدے کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتا کہ یہ قوم(مسلمان ) بنیادی طور پر ہماری مخالف ہے۔ اس لیے ہماری صحیح پالیسی یہ ہے کہ ہم ہندوؤں کو اپنا طرفدار بنائیں۔

یہ 1843کی بات ہے لیکن یہ پالیسی 1870تک چلتی رہی۔ 1857 کے واقعات نے اس میں اور بھی شدت پیدا کر دی۔ بغاوت کی ساری ذمہ داری مسلمانوں کے سر گئی اور انتقام اپنی تمام قہر مانی قوتوں کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑا۔ مسلمان انگریزی بارگاہ میں مردود تو پہلے ہی سے تھے اب باغی اور حکومت کے بدترین دشمن بھی سمجھے جانے لگے۔ ہندوؤں کی یہ کیفیت نہ تھی۔ ہنٹر 1870 میں لکھتا ہے :

مسلمانان ہندوستان اب بھی اور اس سے بہت عرصے پہلے بھی ہندوستان کی انگریزی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی نہ کسی وجہ سے وہ ہمارے طور طریقوں سے بالکل الگ تھلک رہے اور ان تمام تبدیلیوں کو جن میں زمانہ ساز ہندو بڑی خوشی سے حصہ لے رہا ہے اپنے لیے بہت بڑی قومی بے عزتی تصور کرتے ہیں۔

اور یہ حقیقت بھی تھی۔ مسلمان صدیوں سے ہندوستان کے حاکم اور حکومت کے خوگر تھے۔ وہ اپنا شاندار ماضی اور اپنی جاہ و حشمت کے زمانے یکایک کیسے بھول جاتے۔ محکومی کی زندگی ان کے لیے ناقابل برداشت ذلت تھی۔ انھیں یہ بھی یاد تھا کہ کس طرح انگریزوں نے شہنشاہ دہلی کے ملازم کی حیثیت سے بنگال اور بہار میں اپنا قدم جمایا اور پھر معاہدے کے خلاف شرعی، تعلیمی اور ملکی نظام میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ مسلمان اعلیٰ عہدوں، منصبوں اور جائدادوں سے بے دخل اور محروم ہوتے چلے گئے۔ افلاس، محرومی اور محکومی کی ذلتوں کو دھونے کے لیے انھوں نے 1857میں ایک آخری کوشش کی اور اس کی پاداش میں وہ اس طرح تباہ کیے گئے کہ جو کچھ رہا سہا تھا وہ بھی جاتا رہا لیکن نفرت کی خلیج کچھ اور وسیع ہو گئی۔ غم، غصہ اور ذلت کے احساس نے انھیں ایک عرصے تک غیر ملکی غاصبوں کے آگے سر نہ جھکا نے دیا۔ یہ ناسور آسانی سے مندمل ہونے والا نہ تھا۔ آج تقریباً سو سال بعد ان کے مجروح دل و دماغ کو سمجھنا آسان کام نہیں۔ وہ اپنی ہلاکت اور تباہی اور انگریزوں کے جابرانہ اور تشدد آمیز رویہ کو جس شدت سے محسوس کرتے تھے اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہنٹر کے ان الفاظ میں نظر آتی ہے :

"اس حقیقت سے چشم پوشی بے سود ہے کہ مسلمان ہم پر کیسے کیسے شدید الزام عائد کرتے ہیں، ایسیالزام جو شاید ہی کسی حکومت پر عائد کیے گئے ہوں۔ وہ ہمیں اس بات کا ملزم ٹھہراتے ہیں کہ ہم نے ان پر ہر قسم کی با عزت زندگی کا دروازہ بند کر دیا وہ ہمیں اس بات کا ملزم ٹھہراتے ہیں کہ ہم نے ایک ایسا طریقہ تعلیم رائج کر دیا ہے جس سے ان کی قوم بہرہ ور نہیں ہو سکتی اور جو ان کی ذلت و خواری کا سبب بن گیا ہے۔ وہ ہمیں یہ بھی الزام دیتے ہیں کہ ہم نے مسلمان قاضیوں کی برطرفی سے ہزار ہا خاندانوں کو مبتلائے آفات کر دیا ہے ہمارا بڑا جرم ان کے نزدیک یہ ہے کہ ہم نے مسلمانوں کے مذہبی اوقاف میں بددیانتی سے کام لیتے ہوئے ان کے سب سے بڑے تعلیمی سرمایے کا غلط استعمال کیا۔ ان مخصوص الزامات کے علاوہ جن کے متعلق ان کو یقین ہے کہ بہ آسانی ثابت کیے جا سکتے ہیں اور بھی بہت سی شکایات ہیں جو جذبات پر مبنی ہیں اور شاید انگریزوں کے تصور سے قاصر دماغ پر کوئی اثر نہ ڈال سکیں۔ ..۔ وہ علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہم نے بنگال میں قدم رکھا تو مسلمانوں کے ملازمین کی حیثیت سے لیکن اپنی فتح و نصرت کے وقت ان کی مطلق پروا نہ کی اور نو دولت طبقے کی گستاخانہ ذہنیت کے ساتھ اپنے سابق آقاؤں کو پاؤں تلے روند ڈالا۔ مختصر یہ کہ ہندوستانی مسلمان برطانوی حکومت کو غفلت اور بے اعتنائی کا مجرم، جذبات شجاعت سے معرا اور سرمایہ میں کمینوں کی طرح بددیانتی سے کام لینے والے اور دیگر بڑی بڑی نا انصافیوں کا جن کا سلسلہ سو سال تک پھیلا ہوا ہے، مرتکب ٹھہراتے ہیں۔ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ یہ سب کچھ نتیجہ ہے ان کے اپنے انحطاط کا، عذر گناہ بد تر از گناہ کا مصداق ہو گا کیونکہ ان کا انحطاط بھی تو ہماری ہی سیاسی غفلت اور بے پروائی سے مرتب ہوا ہے یہ وہ قوم ہے جسے برطانوی حکومت کے ماتحت تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ ”

اور پھر ہنٹر اس تباہی اور بربادی کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتا ہے کہ انگریزی حکومت کے ابتدائی دور میں مسلمان دیوانی، پولس، عدالت اور فوج میں چھائے ہوئے تھے اور یہ محکمے ان کی دولت اور آمدنی کے سب سے بڑے ذرائع تھے۔ لیکن انگریزوں نے ان کے نظام کو ختم کر کے ان پر سرکاری ملازمتوں کے تمام دروازے بند کر دیے۔ طبابت، وکالت اور دیگر غیر سرکاری پیشے جن پر مسلمان تمام و کمال قابض تھے وہ بھی حکومت کی مسلم کش پالیسی، انگریزی تعلیم اور طب مغربی کے اجرا کی بدولت مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتے رہے اور رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اگر کچھ اسامیاں خالی ہوتیں تو اشتہار میں اس بات کی وضاحت کر دی جاتی کہ ہندوؤں کے علاوہ یہ کسی اور کو نہیں دی جائیں گی۔ یعنی جہاں تک ملازمتوں کا تعلق ہے مسلمانوں کی اہلیت یا نا اہلی کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ ہنٹر نے بہت ہی واضح طور پر لکھا ہے :۔

"حقیقت یہ ہے کہ جب یہ ملک ہمارے قبضے میں آیا تو مسلمان ہی سب سے اعلیٰ قوم تھی۔ وہ دل کی مضبوطی اور بازوؤں کی توانائی ہی میں برتر نہ تھے بلکہ سیاسیات اور حکمت عملی کے علم میں بھی سب سے افضل تھے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں پر حکومت کی ملازمتوں کا دروازہ بالکل بند ہے۔ غیر سرکاری ذرائع زندگی میں بھی کوئی نمایاں جگہ حاصل نہیں۔ ”

الغرض ہندوستان کی تسخیر کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ انگریزوں نے مسلمانوں کو عمداً اور دیدہ و دانستہ تباہ کیا۔ اس کا ردّ عمل مسلمانوں میں دو مختلف و متضاد تحریکوں میں نظر آتا ہے۔ ایک تحریک جو انگریزی حکومت کے خلاف1872تک چلتی رہی۔ وہابی تحریک کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کے اصل ہیرو سید احمد شہید ہیں اگرچہ اس کا سلسلہ شاہ ولی اللہ سے ملتا ہے۔ دوسری تحریک جو 1870 کے لگ بھگ شروع ہوتی ہے انگریزوں اور مسلمانوں میں مفاہمت کی جویا ہے۔ یہ سر سید سے منسوب ہے۔

 

مسلمانوں کی طرف سے انگریزی تسلط کی مخالفت ( وہابی تحریک )

ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ یہاں کے عام سیاسی اور معاشی حالات ہی کے ساتھ وابستہ ہے۔ مسلمان ایک فاتح کی حیثیت سے ہندوستان میں داخل ہوئے اور اپنی برتر تہذیب، نظام حکومت اور فوجی اہلیت کی بدولت آٹھ سو سال تک برسرِ حکومت رہے۔ وہ غیر ملکی ضرور تھے لیکن ہندوستان میں آنے کے بعد یہیں کے ہو رہے۔ ہندوستان ان کا وطن اور ہندوستان کا مفاد ان کا اپنا مفاد بن گیا۔ جوں جوں زمانہ گزرتا گیا آپس کی مغائرت کم ہوتی گئی اور دو مختلف تہذیبیں ایک دوسرے سے گلے ملنے لگیں۔ لیکن ایک حکمراں قوم کی حیثیت سے مسلمانوں کو معاشی اور سیاسی اعتبار سے امتیازی درجہ حاصل تھا۔ اور ظاہر ہے یہ امتیاز اسی وقت تک قائم رہ سکتا تھا جب تک مسلمانوں کی حکومت باقی رہتی۔ اور نگ زیب کی وفات کے بعد مرکزی حکومت کی کمزوری، صوبے داروں کی خودمختاری، مرہٹوں کا عروج، جاٹوں اور سکھوں کے ہنگامے، نادر شاہ کا حملہ اور انگریزوں کی ریشہ دوانیاں، یہ تمام باتیں ایسی نہ تھیں کہ مسلمان دیکھتے اور خاموش رہتے۔ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ سلطنت مغلیہ زوال کی آخری منزلیں طے کر رہی ہے۔ جاگیر داری نظام کا انحطاط تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سوداگروں اور دستکاروں کا طبقہ ابھرنا چاہتا ہے لیکن انتشار اور بد امنی کا سیل بے امان اس کو ابھرنے نہیں دیتا۔ اس افراتفری کی زد میں مسلمان بھی تھے۔ شاہ ولی اللہ (1702-1762)کی تحریک اس دور میں اسی انتشار و اضطراب کی ترجمان ہے۔

شاہ ولی اللہ کی تعلیمات کی بنیاد، یوں تو مذہب اور اخلاق پر ہے لیکن اس سلسلے میں وہ جن اصولوں کو لے کر اٹھے وہ براہ راست اس دور کے سیاسی اور معاشی حالات ہی کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ ان کے اخلاقی نظام میں مرکزی حیثیت عدالت کی ہے اور اس کے بارے میں ان کا نظریہ یہ ہے کہ

"کسی سوسائٹی میں عدالت و انصاف پیدا نہیں ہو سکتا جب تک رزق کمانے والی جماعتوں پران کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے احتراز کلی نہ برتا جائے "۔

حقیقت یہ ہے کہ شاہ صاحب پہلے مسلمان مفکر ہیں جنھوں نے اپنے فکری نظام میں اقتصادیات کو بنیادی حیثیت دی ہے۔ اس نقطۂ نظر سے وہ قوموں کے عروج و زوال کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔ اخلاقی انحطاط بھی ان کے نزدیک اقتصادی انحطاط ہی کا نتیجہ ہے۔ حجة اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں :۔

"اگر کسی قوم میں تمدن کی مسلسل ترقی جاری رہے تو اس کی صنعت و حرفت اعلیٰ کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر حکمراں جماعت آرام و آسائش اور زینت و تفاخر کو اپنا شعار بنا لے تو اس کا بوجھ قوم کے کاریگر طبقات پر اتنا بڑھ جائے گا کہ سوسائٹی کا اکثر حصہ حیوانوں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گا۔ انسانیت کے اجتماعی اخلاق اس وقت برباد ہو جاتے ہیں جب کسی جبر سے ان کو اقتصادی تنگی پر مجبور کر دیا جائے۔ اس وقت وہ گدھوں اور بیلوں کی طرح صرف روٹی کمانے کے لیے کام کریں گے "۔ ۔

شاہ صاحب نے اپنے دور میں جس طرح جاگیرداری نظام کی فرسودگی اور شہنشاہیت سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو محسوس کیا اس سے ان کی سیاسی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ جاگیر داری نظام میں اب اتنی سکت نہیں کہ اس دور کی معاشی ابتری کو دور کر  سکے۔ لیکن چونکہ اس وقت کوئی ایسا با شعور اور جاندار طبقہ موجود نہ تھا جو جاگیر دار طبقے کی جگہ لے سکتا اس لیے انھوں نے جاگیرداری نظام کے خاکے ہی میں اپنا سیاسی نظام مرتب کیا۔ وہ ان تمام خرابیوں کی اصلاح چاہتے تھے جو سلطنت مغلیہ کو گھن کی طرح کھائے جا رہی تھیں مثلاً ان کی نظر میں جاگیروں کی کثرت سلطنت کے زوال کا باعث تھی اور اس بنا پر وہ چھوٹی چھوٹی جاگیروں کے بجائے صرف بڑی بڑی جاگیروں کے قائل تھے۔ اسی طرح مرکزی حکومت کے استحکام پران کا خاص زور تھا۔ نیز بدلتے ہوئے حالات میں وہ حکومت کو بادشاہ کی مطلق العنانی سے آزاد رکھنا چاہتے تھے۔

اِن تمام اصلاحات کے باوجود شاہ صاحب کو یہ بھی احساس تھا کہ جاگیرداری نظام میں آگے بڑھنے کی نہ صلاحیت ہے اور نہ جاگیردار طبقے میں کاروبار سنبھالنے کی اہلیت۔ ان کی حقیقت بیں نگاہیں اس طبقے پر پڑ رہی تھیں جواس پر آشوب دور میں ابھرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھا۔ یہ طبقہ کاریگروں اور سوداگروں کا تھا جسے اگر ساز گار حالات میسر آتے تو جاگیردار طبقے کو ہٹا کر حکومت کی باگ ڈور سنبھال لیتا۔ شاہ صاحب کی نظر میں اس طبقے کی جو اہمیت تھی اس کا اندازہ صرف اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ اسے ملک کی اقتصادیات کا مرکزی نقطہ سمجھتے تھے۔ خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں :۔

"شاہ صاحب کو جس طبقے کی تباہی اور بربادی کا سب سے زیادہ خیال تھا وہ سوداگروں اور اہل حرفت ہی کا تھا۔ وہ اس طبقے کو ملک کی اقتصادیات کا مرکزی نقطہ سمجھتے تھے۔ ملک کی عام اقتصادی حالت پران کے خیالات اور بنیادی تصورات پر مجموعی حیثیت سے غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ اس طبقے کی بربادی کو ملک کی بربادی سے تعبیر کرتے تھے "۔

شاہ ولی اللہ کی تحریک در اصل سوداگروں اور کاریگروں کی تحریک تھی۔ یہ طبقہ ہمیشہ سے جاگیرداروں اور امیروں کے رحم و کرم پرتھا۔ شاہ صاحب کے بنیادی اصولوں پر نظر ڈالیے تو یہ معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اسے کمتری کے احساس اور طبقہ اعلیٰ کے دستبرد سے نکالنے اور اسے سوسائٹی میں صحیح جگہ دینے کی کوشش کر رہے ہوں۔ مثلاً وہ قرآنی تعلیمات کے مطابق زندگی بسرکرنے پرسب سے زیادہ زور دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیمات، اخوت ومساوات کے اصولوں کو اہمیت دیتی ہیں۔ اسی طرح وہ اجتماعی اخلاق کو اقتصادی حالات کے تابع قرار دیتے ہوئے اقتصادی توازن یا مساوات کی اہمیت ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں۔ خلافت راشدہ کے عہد کی سادہ معاشرت اختیار کرنے کی تلقین میں بھی یہی نکتہ پوشیدہ ہے کہ صنعتی طبقہ اپنا معیار زندگی اتنا کم کر دے کہ دوسروں کادست نگر نہ رہے۔ الغرض اخوت ومساوات کی یہ انقلاب آفریں تحریک جاگیرداروں کی مطلق العنانی پر بڑی کاری ضرب تھی۔ اور جب شاہ صاحب نے قرآن کو عوام تک پہچانے کی کوشش میں اس کا ترجمہ فارسی میں کیا تو ان جاگیرداروں نے جواب تک مذہب کے بھی اجارہ دار تھے شاہ صاحب کے خلاف ایک زبردست ہنگامہ برپا کر دیا۔

شاہ ولی اللہ کی تحریک ان کی حیات میں فروغ نہ پا سکی اور یہ اس قدر جلد ممکن بھی نہ تھا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دور کے سیاسی اوراقتصادی حالات کا صحیح تجزیہ کیا اور اس پس منظر میں ایسے اصول مرتب کیے جو صنعتی طبقے کی غلامانہ ذہنیت کو دور کر کے اسے جاگیرداروں کے مقابلے میں ابھارسکیں۔

لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شاہ ولی اللہ ان تمام مساویانہ اصولوں کے باوجود اسلامی حکومت ہی کا قیام چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں اس کی کوشش بھی کی۔ احمد شاہ ابدالی کوہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت اسی نیت سے دی کہ مرہٹوں، جاٹوں اور سکھوں کا زور توڑ کرہندوستان میں نئے سرے سے اسلامی حکومت کا اقتدار قائم کیا جائے۔ شاہ صاحب کی اس کیم کے ماتحت احمد شاہ ابدالی نے یہاں کی دیسی تحریکوں کا خاتمہ توکر دیا لیکن اس سے مغل بادشاہ اور ارباب حکومت کی جاگیردارانہ ذہنیتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ جاگیرداری نظام گل ہو چکا تھا۔ اس میں نمو کی قوت نہ تھی۔ کوئی نیا اقتصادی پروگرام بھی جاگیرداروں کے مفاد کے خلاف نہ تھا۔ چنانچہ احمد شاہ ابدالی کے جانے کے بعد حکومت کی تمام کمزوریاں ابھر آئیں اور انگریزوں نے ان ہی کمزوریوں پر اپنی سلطنت کی بنیاد رکھ دی۔

شاہ صاحب کواسلامی سلطنت کے قیام کے سلسلے میں صرف مرہٹوں، سکھوں اور جاٹوں ہی سے اندیشہ نہ تھا، بلکہ وہ انگریزوں کی بڑھتی ہوئی قوت کو بھی ایک خطرہ سمجھتے تھے۔ خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں :۔

"جس وقت احمد شاہ ابدالی نے حملہ کیا تھا شاہ عالم ثانی بہار میں تھا۔ پانی پت کے میدان کے بعد احمد شاہ ابدالی نے شاہ عالم کو دہلی بلانے کی بے حد کوشش کی اور اپنا آدمی بھیجا۔ جب نہ آیا تو احمد شاہ ابدالی نے شاہ عالم کی والدہ نواب زینت محل سے خط لکھوایا معلوم ایسا ہوتا ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے انگریزوں کو بھی لکھا کہ وہ شاہ عالم کو دہلی پہنچنے کے لیے ہرقسم کی سہولت دیں شاہ عالم کو وہاں سے بلانے کی کوشش اس لیے تھی کہ وہ انگریزوں کے اثر سے نکل آئے اور دہلی آ کر احمد شاہ کی موجودگی میں اپنی طاقت کا استحکام کرے۔ ”

شاہ صاحب نے جس تحریک کا پودا اپنے زمانے میں لگایا تھا وہ ان کے جانشین شاہ عبدالعزیز (1746-1824) کے دور میں ایک تن اور درخت بن گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سیاسی اور معاشی حالات روز بہ روز ابتر ہوتے چلے گئے۔ شاہ عبدالعزیز کا عہدایسٹ انڈیا کمپنی کی بیدردانہ زر کشی اور ملکی توسیع کا دور تھا۔ 1764 میں بکسر کی لڑائی میں شاہ عالم کو انگریزوں کے مقابلے میں شکست ہوئی اور بنگال اور بہار کی دیوانی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ آ گئی۔ شاہ عالم کے بعد اکبر ثانی کے عہد میں مغلوں کی سلطنت دلی کے گرد و نواح تک محدود ہو گئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اب ہندوستان کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ کلکتہ سے لے کر دلی تک سارا علاقہ انگریزوں کے تصرف میں تھا۔ مسلمان حاکم سے محکوم بن گئے۔ اعلیٰ طبقے کے ہاتھ سے حکومت کے ساتھ ساتھ منصب، جاگیریں اور ملازمتیں نکلنے لگیں۔ علما پر معاش کے وسائل تنگ ہو گئے۔ لگان کے اضافے سے کسانوں کی حالت پہلے ہی خراب تھی اب برطانیہ کے مشینی مال کی درآمد نے ہندوستانی کاریگروں کی کمر توڑ دی، بے اطمینانی اور معاشی ابتری کی اس فضا میں ولی اللہ تحریک کا شاہ عبدالعزیز کی قیادت میں آگ کی طرح پھیل جانا ایک قدرتی بات تھی۔

شاہ عبدالعزیز کا اصل مقصد اپنے والد شاہ ولی اللہ کی طرح اسلامی حکومت کا قیام تھا اور اس کے لیے وہ ساٹھ سال تک جد و جہد کرتے رہے لیکن انگریزی حکومت میں کھلم کھلا بغاوت کی تبلیغ ممکن نہ تھی۔ دوسرے جاگیری دور میں کوئی سیاسی یا معاشی تحریک اس وقت تک مقبول نہیں ہو سکتی تھی جب تک اسے مذہبی رنگ میں نہ پیش کیا جائے۔ چنانچہ شاہ صاحب کی مذہبی اصلاح کی تحریک کی نوعیت بھی یہی تھی۔ شاہ صاحب کے شاگرد اور مرید شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں ترک بدعات اور اتباع سنت پر بڑے جوش و خروش سے وعظ کہتے، لیکن درپردہ ان کا مقصد عام مسلمانوں کو ملی اور سیاسی اعتبار سے بیدار اور منظم کرنا تھا۔

شاہ ولی اللہ نے قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا تھا، لیکن شاہ عبدالعزیز کے زمانے میں فارسی کے بجائے اردو کا رواج عام ہو گیا تھا۔ اس تبدیلی کو دیکھتے ہوئے شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین نے جو شاہ عبدالعزیز کے بھائی تھے، اردو میں قرآن کے ترجمے کیے۔ صرف یہی نہیں شاہ عبدالعزیز کے بھتیجے شاہ محمد اسمٰعیل نے اردو میں مذہبی کتابیں تحریر کیں۔ اس طرح عام مسلمانوں پر مذہب کے وہ دروازے کھل گئے جو صدیوں سے ان کے لیے بند تھے۔ ان ہی دروازوں سے شاہ عبدالعزیز اور ان کے شاگرد انھیں اسلام کی اس شاہراہ پرلے گئے جو قربانی اور جہاد کی سمت جاتی ہے۔

الغرض تبلیغ و اشاعت اور اصلاح و تنظیم کے بعد وہ نقطۂ عروج بھی آ پہنچا، جب شاہ عبدالعزیز اور ان کے ایک قریبی عزیز مولانا عبدالحی نے بڑی جرأت اور بیباکی کے ساتھ اپنے فتووں میں کلکتہ سے لے کر دلی تک کا سارا علاقہ جواس وقت انگریزوں کے زیر اقتدار تھا، دار الحرب قرار دے دیا۔ شاہ عبدالعزیز نے 1824 میں وفات پائی۔

لیکن اس دوران میں پنجاب میں سکھوں کی ایک طاقتور حکومت قائم ہو چکی تھی جس کے مظالم نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا۔ ان مظالم کو دیکھتے ہوئے شاہ عبدالعزیز کے مرید سید احمد شہید نے سکھوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا اور شاہ اسمٰعیل اور مولوی عبدالحی کے ساتھ جہاد کی تنظیم میں مصروف ہو گئے۔ ان حضرات نے بنگال سے لے کر دہلی تک تمام بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں اپنی گرمیِ زبان سے ایک آگ بھڑکا دی۔

جہاد کی یہ تمام تیاریاں انگریزی عملداری میں ہو رہی تھیں۔ انگریزوں کا رویہ بظاہر غیر جانبدارانہ تھا لیکن درپردہ وہ اس تحریک کی تائید میں تھے کیونکہ اس جنگ میں انھیں ہندوستان کی دو طاقتوں کے کمزور یا پاش پاش ہو جانے کی توقع تھی، جس کے بعد وہ فاتح اور مفتوح دونوں پر آسانی سے غلبہ حاصل کر سکتے تھے۔

قصہ مختصر سید احمد شہید مجاہدین کے ساتھ سرحد پہنچے اور وہاں افغانی قبائل کی امداد و اعانت سے اسلامی حکومت بھی قائم کر لی۔ لیکن بعد میں ان ہی افغانی قبائل کی غداری ان کی شکست کا سبب بھی بنی۔ 1831میں بالا کوٹ کی لڑائی میں سید احمد، شاہ اسمٰعیل اور بہت سے مجاہدین سکھوں کے ہاتھوں شہید ہوئے جو زندہ بچے انھوں نے استھانہ میں اپنا مرکز قائم کر لیا۔

لیکن ان واقعات سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ سید احمد شہید کی تحریک کا اصل مقصد مسلمانوں کو سکھوں کی دستبرد سے بچانا تھا۔ یہ تحریک در اصل غیرملکی حکمرانوں کے خلاف تھی اور اسی بنا پر شاہ عبدالعزیز اور مولانا عبدالحی اپنے فتووں میں ہندوستان کودار الحرب قرار دے چکے تھے۔ اس کے علاوہ سید احمد شہید کا چھ سال تک فوجی تربیت کی غرض سے والی ٹونک کے یہاں مقیم رہنا جو ان دنوں انگریزوں اور بعض ہندو راجاؤں سے لڑ رہے تھے اور پھر نواب کی انگریزوں سے مصالحت پر رنجیدہ ہو کر دہلی چلا آنا اس قیاس کو اور بھی تقویت دیتا ہے۔ اس ضمن میں وہ شاہ عبدالعزیز کو لکھتے ہیں :۔

"خاکسار قدم بوسی کو حاضر ہوتا ہے۔ یہاں لشکر کا کارخانہ درہم برہم ہو گیا۔ نواب صاحب انگریزوں سے مل گئے۔ اب یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں "۔

سید احمد شہید کے بعض خطوط سے بھی تحریک جہاد کی اصل نوعیت واضح ہوتی ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں :۔

"ہمارا جھگڑا اُمرا و رؤسا اسلام سے نہیں بلکہ ہم کو لانبے بال والوں اور تمام فتنہ انگیز کافروں سے جنگ کرنا ہے نہ کہ اپنے کلمہ گو بھائیوں اور ہم مذہب مسلمانوں سے "۔

لیکن ایک اور خط میں تو وہ بالکل ہی کھل جاتے ہیں۔

"تقدیر سے چند سال سے ہندوستان کی حکومت و سلطنت کا یہ حال ہو گیا ہے کہ عیسائی اور ہندوؤں نے ہندوستان کے اکثر حصے پر غلبہ حاصل کر لیا ہے اور ظلم و بیداد شروع کر دیا ہے۔ کفر و شرک کی رسومات کا غلبہ ہو گیا ہے اور شعائر اسلام اٹھ گئے۔ یہ حال دیکھ کر دل کو بڑا صدمہ ہوا۔ ہجرت کا شوق دامن گیر ہوا۔ دل میں غیرت ایمانی اور سر میں جہاد کا جوش و خروش ہے "۔

غالباً اسکیم یہ تھی کہ سرحد میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے بعد جنگجو افغانوں کی مدد سے ہندوستان کو انگریزوں سے نجات دلائی جائے۔ بہت ممکن ہے کہ یہ اسکیم مولانا عبیداللہ سندھی کے خیال کے مطابق پہلے پہل شاہ عبدالعزیز کے ذہن میں آئی ہو اور سید احمد شہید اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مامور کیے گئے ہوں۔ بہر حال یہ تحریک تھی انگریزی حکومت کے خلاف جس کے لیے ایک دلیل یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ بالا کوٹ کی لڑائی پراس کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ کچھ عرصے کے بعد یہ اپنے اصل حریف کے مقابل آ گئی۔

سید احمد شہید کے بعد مولانا ولایت علی نے جو سید صاحب کے خلفا میں تھے اپنے بھائی مولانا عنایت علی اور سید صاحب کے بعض دوسرے مریدوں کی مدد سے اس شیرازے کو جو بکھر چکا تھا دو بارہ مرتب کیا اور جہاد کی تنظیم از سر نو شروع کی۔ پٹنہ ان کا مرکز تھا جہاں سے وہ اپنے مریدوں کو ملک کے تمام اطراف و جوانب میں تبلیغ و اشاعت کی غرض سے بھیجتے تھے لیکن یہ تحریک سب سے زیادہ بہار اور بنگال کے دیہی علاقوں میں مقبول ہوئی۔

صادق پور کے سرفروشوں کی جماعت جسے انگریزوں نے عام مسلمانوں کو بد ظن کرنے کے لیے وہابی جماعت کے نام سے مشہور کر دیا تھا، تھوڑے ہی عرصے میں استھانہ کیمپ کی امداد کے قابل ہو گئی اور خفیہ طور پر روپے اور مجاہد بھیجنے لگی۔ اس مقصد کے لیے بنگال سے سرحد تک ایک نظام قائم تھا۔ ابتدا میں سرحدی مجاہدین سکھوں سیالجھتے رہے لیکن1849میں جب پنجاب انگریزی مملکت میں شامل کر لیا گیا تو وہ باریک پردہ بھی اُٹھ گیا جو انگریزوں اور مجاہدین کے درمیان حائل تھا۔ اس کے بعد سے سرحدی لڑائیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ 1869میں جا کر کہیں ختم ہوا۔ ان کی شدت اور نوعیت کے بارے میں ہنٹر لکھتا ہے :۔

"میں ان بے عزتیوں، حملوں اور قتل و غارت کی تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا جو 1858میں سرحدی جنگ کا باعث ہوئے۔ اس دوران میں مذہبی دیوانوں نے سرحدی قبائل کو انگریزی حکومت کے خلاف اکسائے رکھا۔ ایک ہی واقعہ تمام حالات کو واضح کر دے گا۔ یعنی 1850سے 1857 تک ہم علاحدہ علاحدہ سولہ فوجی مہمیں بھیجنے پر مجبور ہوئے جس سے باقاعدہ فوج کی تعداد تینتیس ہزار ہو گئی اور سنہ 1850سے 1862تک ان مہمات کی گنتی بیس تک اور باقاعدہ فوج کی مجموعی تعداد ساٹھ ہزار تک پہنچ گئی۔ ..۔ بے قاعدہ فوج اور پولیس اس کے علاوہ تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کے رخ سے اگر مذہب کی نقاب اٹھا دی جائے تو ابتدا ہی سے یہ غیرملکی حکمرانوں کے معاشی استحصال کے خلاف ایک زبردست بغاوت کا اظہار نظر آتی ہے۔ وہابیوں کی وحدانیت اور مساوات کی تعلیم کے زیر اثر بنگال کے مسلمان کسانوں اور کاری گروں میں مذہبی بیداری ہی نہیں سیاسی بیداری بھی پیدا ہوئی۔ جب سید احمد شہید نے 1830 میں پش اور فتح کیا تو ادھر جنوبی بنگال کے مسلمان کسان حکومت اور زمین داروں کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، یہ زمین دار جو استمراری بندوبست کی پیداوار تھے عام طور سے ہندو تھے۔ ان کا مفاد انگریزی حکومت کے استحکام سے وابستہ تھا۔ چنانچہ اس بغاوت میں زیادہ تر ہندو زمین دار ہی کسانوں کے غم و غصہ کا شکار ہوئے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ انھوں نے مسلمان زمین داروں کو بخش دیا۔ ہنٹر لکھتا ہے :

"1831میں کلکتہ کے گرد و نواح میں جو بغاوت ہوئی اس میں یہ لوگ بلا امتیاز ہندو اور مسلمان زمین داروں کے گھروں میں گھس گئے اور حقیقت یہ ہے کہ مسلمان زمینداروں کو کہیں زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ ان لٹیروں کی عادت تھی کہ بعض اوقات اپنے کسی بدعقیدہ ہم مذہب کی لڑکی کو بدعات سے نجات دلانے کے خیال سے زبردستی اٹھا کر لے جاتے اور اپنے کسی ڈاکو سردار سے اس کا نکاح کر دیتے "۔

اوپر کے اقتباس سے ظاہر ہے کہ اس بغاوت میں فرقہ وارانہ ذہنیت کو دخل نہ تھا، بلکہ اس کا رخ در اصل برسراقتدار طبقے کے خلاف تھا اور اس میں ایک عوامی پہلو بھی شامل تھا۔ اس کا مذہبی رنگ خالص جاگیرداری دور کی خصوصیت ہے۔ بہرحال اس بغاوت کو حکومت نے انتہائی سختی اور بربریت کے ساتھ دبا دیا۔

لیکن یہ چنگاری اندر ہی اندر سلگتی رہی اور صادق پوری جماعت کے اثر سے ایک اور جماعت ’فرائضی‘ کے نام سے تیا رہو گئی۔ ان فرائضیوں کے بارے میں ہنٹر کا بیان ہے کہ

"دہانۂ گنگا کے متعصب مسلمان اپنے آپ کو وہابی نہیں بلکہ فرائضی کہتے ہیں یعنی زیادہ اعلیٰ مذہب کے پیرو۔ وہ اپنے آپ کو نومسلم کہہ کر بھی پکارتے ہیں۔ کلکتہ کے مشرقی اضلاع میں وہ ایک بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ ہم پہلے دیکھ آئے ہیں کہ1831میں ایک مقامی لیڈر نے تین چار ہزار آدمیوں کو اپنے گرد جمع کر لیا تھا اور کلکتہ کی ملیشیا کی ایک جماعت کو شکست بھی دی تھی۔ یہاں تک کہ باقاعدہ فوج ہی کی مدد سے ان کو دبایا جا سکا۔ 1843میں اس جماعت نے ایک خطرناک صورت اختیار کر لی اور حکومت کو اس کی بالخصوص تحقیقات کرنا پڑی۔ بنگال کے پولیس افسر کی رپورٹ تھی کہ ان کے صرف ایک واعظ نے اسّی ہزار مرید جمع کر رکھے ہیں جو آپس میں پورا پورا بھائی چارہ رکھتے ہیں اور ایک کے مقصد کو ساری جماعت کا مقصد سمجھتے ہیں۔ بعد کے خلفا خصوصاً یحییٰ علی نے جنوبی بنگال کے فرائضیوں کو شمالی ہندوستان کے وہابیوں میں مدغم کر دیا تھا اور گزشتہ تیرہ برس سے ہم ان کو میدان جنگ کے مقتولین اور عدالتوں کے کٹہروں میں ساتھ ساتھ کھڑا دیکھتے ہیں ”

بنگال کی یہ عام بغاوتیں جو کسانوں کی معاشی ابتری کا نتیجہ تھیں اور سرحد کی لڑائیاں جو مشرقی اور شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کی مدد سے جاری تھیں در اصل وہابیوں ہی کے جوش و خروش اور سعی و تنظیم کی رہین منت تھیں۔ ان مجاہدوں نے 1868تک علم بغاوت بلند رکھا لیکن برطانیہ کے جدید اسلحہ جات کے مقابلے میں جاگیرداری دور کے پرانے ہتھیار کیا کام دیتے۔ اس کے علاوہ حکومت نے بنگال اور سرحد کی شورشوں سے خوف زدہ ہو کر دارو گیر شروع کر دی۔ 1864 میں مولوی یحییٰ علی، مولانا احمد اللہ عظیم آبادی، مولانا جعفر تھانیسری وغیرہ جواس بغاوت کے روح رواں تھے گرفتار کر لیے گئے اور انھیں دائم الحبس بہ عبور دریائے شور کی سزا دی گئی۔ بنگال اور بہار میں گرفتاریوں کا سلسلہ 1872تک جاری رہا۔ اس طرح غیرملکی حکومت کے خلاف مسلمانوں کی ایک انتہائی باغیانہ تحریک کا خاتمہ ہوا۔

اس تحریک کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ یہ اپنی مذہبی نوعیت کی بنا پر صرف مسلمانوں تک محدود رہی۔ اس کے علم برداروں نے اسلامی حکومت قائم کرنے کی فکر میں ہندوؤں کو اپنے ساتھ لانے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ عام ہندو بھی اس غیرملکی حکومت کوا تنی ہی نفرت سے دیکھتا تھا جتنا کہ مسلمان۔

لیکن دوسری طرف اس تحریک نے انگریزوں کو مسلمانوں کے مسائل پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے پر مجبور کیا۔ ہنٹر 1871میں اپنی مشہور کتا ’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘ میں ان تمام حالات و واقعات کا جائزہ لیتا ہے جو مسلمانوں کی بے اطمینانی کا باعث تھے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہابیوں یا عام مسلمانوں میں باغیانہ رجحانات کی پرورش اس وقت تک ہوتی رہے گی جب تک وہ معاشی ابتری اور حکومت کی بے اعتنائی کا شکار رہیں گے۔ جہاں تک سرکاری ملازمت کا تعلق ہے ترجیح ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو انگریزی تعلیم سے بہرہ یاب ہیں۔ لیکن مسلمان عام طور پر انگریزی تعلیم سے دور بھاگتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی طریقہ تعلیم مسلمانوں کی مذہبی روایات کے خلاف ہے۔ ہنٹر حکومت سے مسلمانوں کی روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے طریقہ تعلیم میں تبدیلیوں کی سفارش کرتا ہے تاکہ انھیں انگریزی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی عذر باقی نہ رہے۔ وہ حکومت کو مشورہ دیتا ہے کہ مسلمانوں کی جانب دوستی اور سرپرستی کا ہاتھ بڑھائیں۔ پرانی معاندانہ پالیسی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تین کروڑ مسلمان ہمیشہ کے لیے حکومت کے دشمن ہو جائیں۔ ایسی صورت میں انگریزوں کا سکون و اطمینان سے حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا۔

ہنٹر کی ان سفارشات میں کافی وزن تھا۔ بعض با اثر انگریز حکام بھی مسلمانوں کے متعلق حکومت کی پالیسی کو موجودہ حالت کے مطابق نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن خود حکومت بھی صورت حال کا جائزہ لے رہی تھی۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ مسلمان حکومت کے انتہائی تشدد کے باوجود اپنی باغیانہ روش پر قائم ہیں اور وہ لوگ بھی وہابیوں کی تحریک سے ہمدردی رکھتے ہیں جو عملی حیثیت سے شریک نہیں۔ ان حالات نے بالآخر حکومت کو 1871میں اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ مخالفانہ اور معاندانہ روش سرپرستانہ اور ہمدردانہ رویہ میں بدل گئی۔ مسلمانوں کے لیے تعلیمی سہولتیں فراہم کی گئیں اور ان کے طبقہ اعلیٰ یا علما کے ان افراد کی کوششوں کو سراہا گیا جو برطانوی حکومت سے تعاون کر چکے تھے اور جن کے نزدیک انگریزوں سے جہاد کرنا مذہباً جائز نہ تھا۔ مثال کے طور پر طبقہ اعلیٰ کے نمائندوں میں مولوی عبد اللطیف خان بہادر سکریٹری محمڈن لٹریری سوسائٹی کلکتہ انگریزی حکومت سے تعاون اور انگریزی تعلیم کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ اسی طرح طبقہ علما میں سید احمد شہید کے مرید مولوی کرامت علی جون پوری قابل ذکر ہیں جنھوں نے اپنے فتوے میں جہاد کو ناجائز قرار دیا تھا۔ لیکن اس خیال کے لوگوں میں سب سے زیادہ اہم اور قابل ذکر ہستی سر سید کی ہے جن سے مسلمانوں کی قومی زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔

 

انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش (سر سید کی تحریک)

سر سید کی تحریک کے بارے میں مختلف رائیں ملتی ہیں۔ کوئی اسے مذہبی سمجھتا ہے کوئی معاشرتی اور کوئی تعلیمی۔ ذاتی طور پر میں کچھ اس طرح سمجھتا ہوں کہ یہ تحریک بڑی حد تک سیاسی تھی جسے مسلمانوں کے عام سماجی حالات نے پیدا کیا تھا۔ اس پر مذہب، معاشرت اور تعلیم کے جتنے دبیز یا ہلکے پردے پڑے ہوے ہیں ان سے عموماً دھوکا ہوتا ہے۔ حالی لکھتے ہیں :۔

"اگرچہ بظاہر سر سید کے پولیٹکل ورکس میں چند تحریروں اور اسپیچوں کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا مگر در حقیقت جیسا کہ ان کی بائیوگرافی سے ثابت ہوتا ہے سنہ 1857کے بعد جو کچھ انھوں نے لکھا یا کہا یا کیا اس کا بہت بڑا حصہ مسلمانوں کی پالیٹکل حالت کی اصلاح سے علاقہ رکھتا ہے۔ ”

سر سید کی زندگی کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک حقیقت پسند انسان تھے۔ یہ خصوصیت ان میں ابتدا ہی سے نظر آتی ہے۔ اکیس سال کی عمر میں جب ان کے سامنے یہ سوال آیا کہ وہ انگریزی حکومت کی ملازمت اختیار کریں یا بہادر شاہ کی، تو انھوں نے اول الذ کر کی ملازمت کو ترجیح دی۔ ان کے اس ارادے میں نہ تو ان کے خاندان والوں کی مخالفت حائل ہو سکی اور نہ یہ کمزوری کہ ان کے بزرگ ایک عرصے تک دربار شاہی سے متوسل اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے تھے۔ انگریزوں کے روز افزوں اقتدار کو دیکھتے ہوئے انھیں شروع سے یقین تھا کہ بہادر شاہ کی حکومت جو صرف قلعے کی چہار دیواری تک محدود تھی کچھ دن کی مہمان ہے۔ ہندوستان میں اب کوئی اگر حکومت کا اہل ہے تو وہ صرف انگریز ہیں اور ان کی حکومت قائم ہوکے رہے گی۔ ان کا یہ عقیدہ 1857کے پُر آشوب زمانے میں بھی متزلزل نہیں ہوا جبکہ ہندوستان میں خود انگریزی حکومت کی بنیادیں متزلزل تھیں۔ حالی کے قول کے مطابق عقل ان کی طبیعت پر غالب تھی۔ اس لیے نہ تو فاتح کی حکومت انھیں ناگوار گزری اور نہ قومی تعصبات مغلوب کر سکے۔

سر سید نے 1857کی بغاوت میں مسلمانوں کی تباہی کو دو باتوں پر محمول کیا۔ پہلی یہ کہ ان میں تعلیم و تربیت نہیں تھی۔ دوسری یہ کہ انگریزوں سے جن کو خدا نے ہم پرمسلط کیا ہے میل جول اور اتحاد نہ تھا اور باہم ان دونوں میں مذہبی اور رسمی منافرت بلکہ مثل آب زیر کاہ عداوت کا ہونا تھا۔ چنانچہ انھوں نے مسلمانوں کی عام بہبودی کے لیے تعلیم و تربیت اور انگریزوں سے ربط و اتحاد پر خاص طورسے زور دیا۔

سب سے پہلے ہم ان کے انگریزوں سے اصلی اتحاد ودوستی کے نظریے کوسمجھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ ابتدا ہی سے حقیقت پسند تھے اور اس حقیقت پسندی نے انھیں انگریزی حکومت کا بہی خواہ اور وفا دار بنا دیا تھا۔ وہ اپنی ایک تقریر میں ہندوستان کو بیوہ سے تشبیہ دیتے ہیں جس نے خود انگلش نیشن کو اپنا شوہر بنانا پسند کیا تھا۔ ان کے خیال کے مطابق ہندوستان میں ہم نے اپنے ملک کی بھلائی کے لیے انگلش حکومت قائم کی۔ ملک کی بھلائی سے ان کی مراد ملک کی ترقی تھی اور اس کے لیے وہ امن و امان کو ضروری تصور کرتے تھے۔ لیکن یہ امن و امان ان کے نزدیک ہندو اور مسلمانوں کی رقابت کے ہوتے قائم نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ "ہندوستان کے لیے ناممکن ہے کہ ہندو یا مسلمانوں میں سے کوئی حاکم ہو اور امن قائم رکھ سکے۔ پھر یہی ہونا ہے کہ کوئی دوسری قوم ہم پر حکمراں ہو”۔ الغرض ان تمام دلائل کی بنا پر وہ یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ انگلش گورنمنٹ کا بہت دنوں تک بلکہ ہمیشہ کے لیے رہنا ضروری ہے۔

"لیکن انگریزی حکومت کو دوام اسی صورت میں نصیب ہو سکتا تھا جب وہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو۔ سر سید کو اس کی فکر انگریزوں سے کم نہ تھی کیونکہ ان کے سارے منصوبوں کا دارومدار اسی پرتھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 1858میں حکومت کو ہندوؤں اور مسلمانوں کی الگ الگ فوج رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ بغاوت کی صورت میں ایک کی سرکوبی دوسرے سے کی جا سکے۔ یعنی دوسریالفاظ میں ان کی مراد یہ ہے کہ حکومت اپنے استحکام کی خاطر فرقہ وارانہ اختلاف سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتی۔ اس استحکام کی خاطر انھوں نے ہندوستان کی مفلسی کو بھی نظرانداز کر کے حکومت کے ٹیکسوں کو جائز قرار دیا۔ کانگریس کی مخالفت کے متعدد وجوہ میں ایک وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اسے حکومت کی پاے داری کے لیے ایک مستقل خطرہ تصور کرتے تھے۔

لیکن سر سید یہ بھی جانتے تھے کہ صرف تلوار کے زور سے کسی حکومت کو استحکام حاصل نہیں ہو سکتا، اس کے لیے حاکم کے دل میں ہمدردی اور محکوم کے دل میں وفاداری کا جذبہ ہونا ضروری ہے۔ یہ ان کی نظر میں اصلی اتحاد و دوستی کی بنیاد تھی اور اسی میں انھیں مسلمانوں کے معاشی اور سیاسی مسائل کا حل بھی نظر آتا تھا۔ اس نظریہ کے تحت وہ تمام عمر مسلمانوں اور انگریزوں کی باہمی عداوت و نفرت کو مٹانے اور ایک کو دوسرے سے قریب تر کرنے میں مصروف رہے۔ ان کی تعلیمی، مذہبی اور معاشرتی سرگرمیوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمانوں میں حکومت کی طرف سے وفاداری کا گہرا جذبہ پیدا ہو۔ یہ وفاداری استحکام سلطنت کے لیے بہت بڑی خدمت تھی جس کے صلے میں سر سید مسلمانوں کے لیے اعلیٰ ملازمتیں اور اعلیٰ ملازمتوں کے ذریعہ سیاسی حقوق حاصل کرنا چاہتے تھے۔

اگرچہ سر سید کی تحریک 1870یعنی تہذیب الاخلاق کی اشاعت سے شروع ہوتی ہے لیکن ان کی جد و جہد کا آغاز 1858سے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے انگریزوں کے ذہن سے یہ خیال دور کرنے کی کوشش کی کہ مسلمان بغاوت کے اصل ذمہ دار ہیں۔ "اسباب بغاوت ہند” ان کی اس کوشش کا نتیجہ ہے۔ ان کے خیال میں ہندوستانیوں کا لیجسلیٹو کونسل (Legislative Council) میں شریک نہ ہونا بغاوت کا اصل سبب تھا۔ اس کے علاوہ جو اسباب انھوں نے بتائے ہیں ان میں بڑی صداقت ہے۔ مثلاً امور مذہبی میں مداخلت، زمین داریوں اور تعلقوں کی ضبطی، عدالتوں کی بد انتظامی، طریقہ تعلیم کی خرابی، نامناسب آئین، مفلسی، اعلیٰ ملازمتوں سے محرومی، مسلمانوں کی بے روزگاری اور ان کی نفسیاتی کیفیت وغیرہ۔ اس میں شک نہیں کہ انھوں نے اس پُر آشوب دور میں جبکہ مسلمانوں پر حکومت کا شدید عتاب نازل ہو رہا تھا، بڑی جرأت سے کام لیا اور بغاوت کی ساری ذمہ داری خود انگریزی حکومت کی خامیوں اور بدعنوانیوں کے سر ڈال دی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے بغاوت کے کردار کو مسخ کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ بغاوت قومی نہیں تھی۔ اس حقیقت کو جھٹلانا ہے کہ اس میں ہر مذہب، ہر ملت اور ہر طبقے کے لوگ شریک تھے۔ اسی طرح جہاد کے فتوے کو جعلی قرار دینا اصل واقعہ پر پردہ ڈالنا ہے۔ سیکڑوں عالموں کو پھانسی اور حبس دوام کی سزائیں اور پھر مولانا فضل حق خیرآبادی کا انگریزی عدالت میں یہ بیان حقیقت کے رُخ سے نقاب اٹھانے کے لیے کافی ہے :۔

"وہ فتویٰ صحیح ہے۔ میرا لکھا ہوا ہے اور آج اس وقت بھی میری وہی رائے ہے "۔

اس فتوے کے سلسلے میں مفتی صدر الدین خاں آزردہ بھی ماخوذ تھے لیکن وہ ’بالحر‘ کو ’بالجبر‘ بتا کر اپنی جان بچا لے گئے۔ لیکن ایسے عالموں کی مثالیں کم یاب ہیں۔

مسلمانوں کو بری کرنے کی کوشش میں سر سید نے یہ بھی کیا کہ بغاوت کی تمام تر ذمہ داری ہندوؤں سے منسوب کر دی۔ بدر الدین طیب جی کو لکھتے ہیں کہ” غدر کیا ہوا؟ ہندوؤں نے شروع کیا۔ مسلمان دل جلے تھے۔ وہ بیچ میں کود پڑے۔ ہندو تو گنگا نہا کر جیسے تھے ویسے ہی ہو گئے مگر مسلمانوں کے تمام خاندان تباہ و برباد ہو گئے "۔ اس قسم کی باتوں سے سر سید کا منشا یہ تھا کہ انگریز صرف مسلمانوں ہی کو بغاوت کا مجرم نہ سمجھیں۔

سر سید نے لائل محمڈنز آف انڈیا(Loyal Mohammadons of India) کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ صرف اس لیے تھا کہ انگریزوں کی نظر تصویر کے دوسرے رُخ پربھی پڑے۔ اس رسالے میں وہ ان مسلمانوں کے کارنامے پیش کرتے ہیں جنھوں نے بغاوت میں انتہائی خطرات کے باوجود انگریزوں کا ساتھ دیا تھا اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بغاوت میں مسلمانوں کی شرکت قومی حیثیت نہیں رکھتی۔ حکومت کے عتاب کی مستحق ساری قوم نہیں بلکہ صرف وہ لوگ ہیں جنھوں نے واقعی بغاوت میں حصہ لے کر ’نمک حرامی اور ناشکری‘ کا ثبوت دیا تھا۔

سر سید انگریزوں کو یہ بھی یقین دلانا چاہتے تھے کہ اسلام تلوار کا مذہب نہیں۔ وہ نہ تو ظلم و خون ریزی سکھاتا ہے اور نہ تعصب کی تعلیم دیتا ہے۔ نیز مذہب کی رُو سے مسلمان عیسائیوں یا عیسائی حکومت کے بدخواہ نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ بائبل کی تفسیر کی غرض و غایت یہی تھی کہ عیسائیوں کو دکھایا جائے کہ دنیا میں اگر کوئی مذہب عیسائی مذہب کا دوست ہو سکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہی ہو سکتا ہے اور بس۔ ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب ’ہمارے مسلمان‘ پروہ اس لیے کڑی تنقید کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو مذہب کی روسے انگریز دشمن بتاتا ہے، اور اسی روشنی میں وہابی تحریک کو دیکھتا ہے۔ اس سلسلے میں سر سید وہابی تحریک کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ صرف مذہبی اصلاح کی تحریک نظر آنے لگتی ہے جسے انگریزوں کی مخالفت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ہنٹر کے ایک سوال کے جواب میں وہ یہ کہنے میں مطلق تامل نہیں کرتے کہ "انگریزوں کی امان سے علاحدہ ہونا اور غنیم کو مدد دیناکسی حالت میں کسی مسلمان کا مذہبی فرض نہیں ہے۔ ”

اسی طرح "خطبات احمدیہ” میں وہ انگریزوں پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام حقیقتاً تہذیب، شائستگی اور معقولیت کا مذہب ہے۔ سر سید کی اس نوع کی کوششوں سے عام انگریزوں کی رائے مسلمانوں کے بارے میں بہت کچھ تبدیل ہوئی۔

اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سر سید نے اپنی پالیسی کے بموجب مسلمانوں کو وفا شعار بنانے اور انھیں پستی سے اُبھارنے میں کن تدابیر سے کام لیا۔ اس ضمن میں ان کے تمام کاموں کو عموماً تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اخلاق و معاشرت، تعلیم اور مذہب۔

پہلے اخلاق و معاشرت کو لیجیے۔ سر سید نے ’اسباب بغاوت ہند‘ میں بغاوت کا ایک سبب حاکم و محکوم میں سوشل تعلقات کی عدم موجودگی کو قرار دیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ مسلمانوں اور انگریزوں کے ربط و اتحاد اور معاشرتی اختلاط کی اہمیت پر زور دیتے رہے۔ 1866میں ان کا رسالہ احکام طعام اہل کتاب اس سلسلے کی کڑی ہے۔ اس میں انھوں نے مسلمانوں اور انگریزوں کے ایک ساتھ کھانے پینے کا شرعی جواز پیش کیا۔ 1869میں انگلستان کے دورانِ قیام میں انھیں برطانوی تہذیب و معاشرت کے مطالعے کا موقع ملا اور وہ اس کی برتری سے کچھ اتنے مرعوب ہوئے کہ ہندوستانیوں کو انگریزوں کے مقابلے میں جانور تصور کرنے لگے۔ وہیں انھیں مسلمانوں کی اصلاح معاشرت کا خیال پیدا ہوا اور اس مقصد کی خاطر انھوں نے 1870 میں تہذیب الاخلاق جاری کیا۔

تہذیب الاخلاق نے جاگیرداری دور کی زوال آمادہ تہذیب و معاشرت پر سخت حملے کیے اور مسلمانوں کو مغربی تہذیب اختیار کرنے پر مائل کیا۔ انیسویں صدی کے مغرب کی تہذیب لبرل (Liberal) تہذیب تھی جسے سرمایہ دارانہ دور نے پیدا کیا تھا۔ اس کے بنیادی عناصر میں عقلیت، نیچر اور انسان دوستی کے تصورات کوبڑی اہمیت حاصل تھی۔ سر سید جانتے تھے کہ آج قوموں کی ترقی کا مدار عقلیت اور سائنس پر ہے اور مسلمانوں کو اگر اپنی موجودہ پستی سے ابھرنا ہے تو لبرل تہذیب کو جو ان تصورات کی حامل ہے اپنائے بغیر چارہ نہیں۔ اس خیال کے تحت انھوں نے جاگیرداری دور کے فرسودہ اخلاق و معاشرت کو عقلیت اور نیچر کی کسوٹی پر پرکھا۔ انیسویں صدی کے مغرب کی قدروں کو سامنے رکھ کر جہاد، غلامی اور عورتوں کی محکومی کی مذمت کی اور اس طرح تعصب، تقلید اور بیہودہ رسم و رواج کی بندشوں کو ڈھیلا کیا۔ سر سید کو اس سلسلے میں اپنے دوستوں سے بھی بڑی مدد ملی جن کے مضامین تہذیب الاخلاق کے صفحات میں ان کی تائید اور حمایت کرتے تھے۔ تہذیب الاخلاق اگرچہ معاشرت کی اصلاح سے متعلق تھا لیکن مذہبی نقطہ نظر سے بھی اس کی اہمیت ثابت کرنا ضروری تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جاگیری معاشرت کا پروردہ مسلمان دین و دنیا کی ہر بات میں شرعی جواز طلب کرتا تھا۔

تہذیب الاخلاق نے کافی گہرے نقوش چھوڑے لیکن اس کا دائرہ اثر محدود تھا۔ ادنیٰ طبقہ اپنی جہالت اور پسماندگی کے باعث اس سے مستفید نہ ہو سکتا تھا اور ادنیٰ طبقے کے لیے یہ تھا بھی نہیں۔ مولوی اور عالم اپنے سیاسی اور مذہبی خیالات اور غالباً اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر عمداً اس سے بیگانہ رہے۔ امرا کو آسائشوں کے ہوتے اس پر توجہ دینے کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔ اس کا اثر صرف متوسط درجے کے لوگوں میں محدود رہا جو نہ محض جاہل تھے اور نہ جامع۔ علوم عقلیہ و نقلیہ اور مقدور کے لحاظ سے نہ نہایت پست حالت میں تھے اور نہ اعلیٰ درجے میں۔ پھر خاص کر دلی اور لکھنو اور ان کے نواح میں جہاں مسلمانوں کی قدیم شائستگی کے کچھ دھندلے نشان باقی تھے اس کا اثر بہت کم ہوا۔ باوجود اس کے چونکہ اس کی آواز زمانے کی گونج کے موافق تھی، اس نے توقع سے بہت زیادہ کامیابی حاصل کی۔

سر سید کے کارناموں میں سب سے زیادہ اہمیت ان کی تعلیمی تحریک کو حاصل ہے۔ انھوں نے ابتدا ہی میں یہ اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی مسائل انگریزی تعلیم سے وابستہ ہیں۔ حالی لکھتے ہیں :۔

"انھوں نے تمام خرابیوں کی اصلاح اور تمام مشکلات کا حل اس بات میں دیکھا کہ قوم میں تعلیم کی اشاعت کی جائے مگر قومی تعلیم و تربیت خود ایک عظیم الشان کام تھا جس کے لیے صدیاں درکار تھیں۔ اس لیے انھوں نے خیال کیا کہ سب سے مقدم، مسلمانوں کو پولیٹکل بے وقعتی سے نکالنا اور ملک کی حکومت میں جس قدر حصہ لینے کا گورنمنٹ نے ان کو بحیثیت ہندوستان کی رعایا ہونے کے حق دیا ہے، اس میں ان کا استحقاق پیدا کرنا ہے جو بغیر اس کے، قوم میں ایک مناسب تعداد ہندوستان اور انگلستان کی یونیورسٹیوں کے گریجویٹس کی پیدا ہو جائے کسی طرح ممکن نہیں "۔

انگریزوں اور مسلمانوں میں سوشل تعلقات پیدا کرنے اور مسلمانوں میں انگریزوں کی طرف سے اجنبیت، غیریت اور بیگانگی کے احساس کو دور کرنے کے لیے بھی یہ نہایت ضروری تھا کہ مسلمانوں کے دلوں میں انگریزی نظام کی خیر و برکت کا سکہ بٹھایا جائے۔ لیکن یہ سب کچھ انگریزی تعلیم پر موقوف تھا۔

سر سید نے ان مقاصد کے پیش نظر سب سے پہلے 1863میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی جو اپنے اراکین کے اعتبار سے غیر فرقہ وارانہ تھی۔ اس سوسائٹی کا کام مختلف انگریزی علوم و فنون کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا تاکہ ہندوستانیوں میں عموماً اور مسلمانوں میں خصوصاً انگریزی علم و ادب کا مذاق پیدا ہو۔ اور وہ اس طرح خودبخود انگریزی تعلیم کی طرف راغب ہوں۔ یہ گویا انگریزی تعلیم کے لیے میدان ہموار کرنے کی تیاری تھی۔ لیکن اس سلسلے میں تہذیب الاخلاق نے تبلیغ و اشاعت میں اور مسلمانوں کے مذہبی موانعات دور کرنے میں جو کام کیا وہ کسی اور ذریعہ سے نہ ہو سکا۔

1875میں سر سید کی انتھک تعلیمی کوششوں کا نتیجہ علی گڑھ اس کول کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور 1877میں علی گڑھ کالج کی بنیاد پڑی۔ اس میں ایک طرف انگلستان کی یونیورسٹیوں کی طرز تعلیم کی نقل اتاری گئی، دوسری طرف مذہبی تعلیم کو ایک لازمی عنصر قرار دیا گیا تاکہ مسلمانوں کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی عذر نہ ہو۔ لیکن خود انگلستان کے اسکولوں میں جس قسم کی تعلیم رائج تھی اس کی وضاحت ڈاڈول ان الفاظ میں کرتا ہے :۔

"ان اداروں میں طلبہ کو سمجھوتے کی ضرورت اور مل جل کر کام کرنے کے فوائد کا احساس ہوتا تھا۔ وہ لیڈری کے فن سے آشنا ہوتے اور رائے عامہ کو تسلیم کرنے کے خوگر بھی بنائے جاتے۔ اس سخت تربیت کے اثر سے جو اوسط درجے کے افراد کے لیے موزوں اور مفید تھی ایسے لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے سلطنت کی تعمیر اور استحکام میں مدد دی۔ برطانوی تجارت کی بنیاد ڈالی اور انگریزوں کی سیاسی زندگی کی تشکیل کی اور اسے آگے بڑھایا۔ لیکن ان کی تربیت جتنی ذہنی تھی اس سے کہیں زیادہ اخلاقی تھی۔ تبحر علمی کے لیے اتنی مناسب نہ تھی جتنی کہ عملی صفات پیدا کرنے کے لیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے لیے فارغ البالی اور نازک صلاحیتوں کا ہونا ضروری تھا جو اوسط آدمی نہ تو ترکہ میں پاتا ہے اور نہ خود ہی حاصل کر سکتا ہے "۔

سر سید کا کالج بھی در اصل ایسے ہی خوش حال لوگوں کے لیے تھا۔ جوہر قابل پیدا کرنا جو برطانوی یونیورسٹیوں کا مقصد نہ تھا تو پھر ان کی نقل یعنی علی گڑھ کالج میں تو یہ سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا تھا۔ سر سید کا سارا زور تربیت پرتھا جو عام طورسے انگریزی کھیلوں، انگریزی طرز معاشرت اور آدابِ مجلس کے حصول پر منحصر تھی۔

سیاسی اعتبار سے کالج کا مقصد مسلمانوں کو تاجِ برطانیہ کی کارآمد اور وفادار رعایا بنانا تھا۔ اس لیے کالج کے قواعد میں یورپین اسٹاف کو کالج کا ایک لازمی عنصر قرار دیا گیا تاکہ مسلمانوں اور انگریزوں میں اتحاد و یک جہتی پیدا ہو اور حکومت کو بھی کالج کی خیر خواہی پراعتماد رہے۔ طلبا میں جہاں جسمانی صحت، وقت کی قدر اور فرض کا احساس پیدا کیا جاتا وہاں اطاعت کی بھی مشق کرائی جاتی کیوں کہ سر سید کے نزدیک یہ محکوم قوم کا زیور تھا۔ پھر ملازمتوں کے لیے بھی سب سے زیادہ اسی خصوصیت کی ضرورت تھی۔ سر سید کے تعلیمی مشن کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ حکومت کی تائید اور سرپرستی تھی۔ خودسر سید نے بھی اپنے اثرورسوخ سے کافی کام لیا۔ اس سے لوگوں میں کافی بد ظنی پیدا ہوئی۔ حالی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

"ہزاروں یہ خیال کرتے تھے کہ مدرسہ قوم کے فائدے کے لیے قائم نہیں کیا گیا بلکہ اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ انگریزی سلطنت کو زیادہ استحکام ہو۔ اس خیال کا دوسرا جز صحیح تھا مگر پہلا جز اس لیے غلط تھا کہ حالت موجودہ میں مسلمانوں کی قومی زندگی اس بات پر موقوف ہے کہ انگریزی سلطنت کو زیادہ استحکام ہو”۔

سر سید کو اپنے مذہبی خیالات کی بنا پر بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ مذہبی بحثوں میں نہیں پڑنا چاہتے تھے لیکن اس کے بغیر چارہ بھی نہ تھا۔ حالی اس کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں :۔

"اگرچہ سر سید کا اصل مقصد مسلمانوں کی پولیٹکل اور سوشل حالت کا درست کرنا تھا لیکن چونکہ مسلمان اپنے مذہب کو ہمیشہ سے دین و دنیا دونوں کا رہبر سمجھتے رہے ہیں اور کسی بات کو خواہ دینی ہو خواہ دنیوی جب تک کہ اس کا ثبوت مذہب کی روسے نہ دیا جائے تسلیم نہیں کرتے اور نیز مسلمانوں کی پالیٹکل حالت کو بہت کچھ تعلق ان کے مذہب کے ساتھ تھا، اس لیے سر سید کو 1857کے بعد سے اخیر دم تک برابر مذہبی مباحث میں مشغول رہنا پڑا”۔

سر سید انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی تنفر کی خلیج سے خوب واقف تھے۔ ایک انیسویں صدی کی مغربی قدروں سے اسلام کو پرکھتا اور اسے دنیاوی ترقی کا سب سے بڑا مانع، جنگجو اور غیر شائستہ مذہب ثابت کرتا تودوسرا عیسائیت کو اسلام سے کمتر ٹھہراتا اور انجیل کے موجودہ نسخے کو اصل کے مطابق نہ سمجھتا۔ چنانچہ انگریزوں اور مسلمانوں میں صلح کرانے کے لیے ضروری تھا کہ عیسائیت اور اسلام میں صلح کرائی جائے۔ سر سید کی "تبیین الکلام” کی غرض و غایت یہی تھی۔ یہ بائبل کی پہلی تفسیر تھی جو اصول اسلام کے مطابق لکھی گئی اور جس میں سر سید نے یہ ثابت کیا کہ اسلام اور عیسائیت اصولی اعتبار سے ایک ہیں۔ نیز تمام مذاہب میں صرف اسلام ہی عیسائیت کا دوست ہو سکتا ہے۔ "خطبات احمدیہ” میں سر ولیم میور کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوے انھوں نے مغرب کی جدید قدروں کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور جس کسوٹی سے انگریزوں کا تعلیم یافتہ طبقہ اسلام کو حقارت سے دیکھتا تھا اسی کسوٹی سے اسے مہذب اور شائستہ ثابت کیا۔ قرآن کی تفسیر بھی سر سید نے اسی نقطہ نظر سے لکھی۔

سر سید نے مروّجہ اسلام پر بڑی سخت تنقید کی ہے۔ مذہب کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا رجحان شاہ ولی اللہ کی تصنیفات سے پیدا ہو گیا تھا۔ اسے سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل نے جن سے وہابی تحریک منسوب کی جاتی ہے، اور بھی تقویت پہنچائی۔ وہابی زوائد اور بدعات کے سخت مخالف تھے اور قرآن کو مذہبی تعلیم کا اصل منبع تصور کرتے تھے۔ سر سید بھی ان ہی عقائد کولے کر اٹھے۔ وہ بھی مسلمانوں کو مذموم رسموں اور تقلید کی زنجیروں سے آزاد اور اجتہاد اور تنقید سے آشنا کرنا چاہتے تھے۔ لیکن مذہب کی بقا کے سلسلے میں انھیں مسلمانوں کی موجودہ حالت سے اتنا خوف نہ تھا جتنا مشنری عیسائیوں کی جانب سے تھا کیونکہ ان کے جدید سائنٹفک تصورات تعلیم یافتہ مسلمانوں کو تشکیک میں مبتلا کر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقلیت اور سائنس کے حملوں سے ہندوستان میں اسلام کو وہی خطرہ تھا جو سترہویں اور اٹھارھویں صدی میں عیسائیت کو انگلستان میں پیش آیا تھا۔ انگلستان میں ایک مدت تک سائنس اور مذہب کی کشاکش جاری رہی اور آخر کار عیسائی عالموں کو مذہب کی بقا کی خاطر عقلیت اور سائنس سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ ہندوستان میں اسلام کی یہی کیفیت انیسویں صدی کے نصف آخر حصے میں تھی اور سر سید کو اس دور میں مذہب کو بچانے کے لیے وہی کرنا پڑا جواس سے پہلے سائنس کی ترقی کی وجہ سے یورپ کے مذہبی حلقوں کو کرنا پڑا تھا۔ یعنی مذہب کی ترجمانی عقل و نیچر کے مطابق۔ اس ضمن میں سر سید نے صرف قرآن کو مذہب کا اصل سرچشمہ قرار دیا اور اس کی ایک جدید تفسیر پیش کی۔ قرآن کو خدا کا قول اور نیچر کو خدا کا فعل مان کر قول اور فعل میں تطبیق کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح مذہب اسلام پہلی بار سائنس کے سانچے میں ڈھالا گیا۔

سر سید نے مغربی تہذیب کا مطالعہ بڑی گہری نظر سے کیا تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مذہب کی حیثیت اتنی جماعتی نہیں رہتی جتنی کہ انفرادی ہو جاتی ہے۔ سر سید نے بھی دین و دنیا کو الگ کر کے مذہب کو ایک انفرادی چیز بنا دیا بلکہ اتنا زور دیا کہ اس کے مقابلے میں دین کی کوئی اہمیت نہ رہی۔ مثلاً "پیٹ ایسی چیز ہے کہ دین رہے یا جاوے خدا ملے یا نہ ملے، اس کو بھرنا چاہیے "۔ ” دین چھوڑنے سے دنیا نہیں جاتی مگر دنیا چھوڑنے سے دین جاتا رہتا ہے "۔ ” مذہبی تعلیم عقبیٰ کی تعلیم کے لیے ہے، دنیوی تعلیم دنیوی ترقی کے لیے "۔

لیکن اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ نہ کرنا چاہیے کہ سر سید سے پہلے مسلم سوسائٹی میں دنیوی عنصر سرے سے مفقود تھا۔ یہ عنصر کم و بیش ہر دور میں موجود تھا۔ صوفیوں کی اخلاقی اور روحانی تعلیمات اس کے اثرات زائل کرنے میں برابر مصروف رہیں اور دنیا کو دین پر غالب ہونے سے روکتی رہیں۔ سر سید نے اسی دنیوی عنصر کو دوبارہ ابھارنے کی کوشش کی جو صوفیا کے اثر سے دب گیا تھا۔

مسلمانوں کو انگریزوں کا طرفدار اور وفادار بنانے میں سر سید کے پاس سب سے بڑا آلہ مذہب ہی تھا۔ وہ مسلمانوں کے باغیانہ جذبات سے بہت خائف تھے۔ اس لیے 1857کے بعد سے جہاد کے مسئلے کو بار بار اپنی تحریر و تقریر میں اٹھاتے رہے۔ خطبات احمدیہ بھی اس ذکر سے خالی نہیں۔ لیکن تفسیر القرآن میں انھوں نے خاص طور سے اس پر زور دیا اور ثابت کیا کہ :۔

"اسلام فساد اور غدر کی اجازت نہیں دیتا جس نے ان کو(یعنی مسلمانوں کو) امن دیا ہو مسلمان ہو یا کافر اس کی اطاعت و احسان مندی کی ہدایت کرتا ہے "۔

اس سے سر سید کا اصل منشا انگریزوں کے ذہن سے جہاد کے خوف ناک تصور کا دور کرنا ہی نہیں بلکہ مسلمانوں میں ایک ایسا مذہبی عقیدہ بھی پیدا کرنا تھا جس کے ہوتے وہ کبھی بھی انگریزوں کے خلاف تلوار نہ اٹھا سکیں۔

سر سید براہ راست سیاست میں حصہ لیتے ہوئے کتراتے تھے لیکن آخر عمر میں انھیں نیشنل کانگریس کے قیام کے بعد سیاسی اکھاڑے میں کودنا ہی پڑا۔ یہیں سے ان کے بارے میں دو رائیں ہو گئیں۔ ایک انھیں ہیرو سمجھنے لگا۔ دوسرا فرقہ پرست۔ لیکن اس قسم کی یک طرفہ رائے قائم کر لینے سے پہلے ہمیں سر سید کی پوری سیاسی زندگی اور بدلتے ہوئے حالات پربھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔

سر سید نے مسلمانوں کے بارے میں جو پالیسی وضع کی تھی اس کا ذکر ابتدا میں آ چکا ہے۔ مختصر یہ کہ وہ برطانوی حکومت کے استحکام کو امن کے لیے اور امن کو ملکی ترقی کے لیے لازمی سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں ملکی ترقی تعلیمی ترقی کے مترادف تھی جس پر اعلیٰ ملازمتوں کا دارومدار تھا اور اعلیٰ ملازمتیں اس لیے ضروری تھیں کہ ان کے بغیر مسلمانوں کو کوئی سیاسی درجہ حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ سر سید کی کوشش یہی تھی کہ مسلمان جلد سے جلد موجودہ نظام حکومت میں ایک سیاسی حیثیت کے مالک ہو جائیں۔ اس لیے وہ ان کی تمام تر توجہ انگریزی تعلیم پر مرکوز رکھتے تھے۔ انھیں اندیشہ تھا کہ مسلمان کسی اور مسئلے میں الجھ گئے تو یہ توجہ بٹ جائے گی اور ان کے تعلیمی پروگرام اور سیاسی منصوبے کی راہ میں سخت رکاوٹیں حائل ہو جائیں گی۔

سر سید نے اس پالیسی کو ہمیشہ نظر کے سامنے رکھا اور بدلتے ہوئے حالات میں بھی اس پرسختی کے ساتھ پابند رہے۔ وہ اس پالیسی کو عام طور سے ہندوستان کے تمام باشندوں کے لیے مفید سمجھتے تھے لیکن ان کے صحیح مخاطب در اصل مسلمان ہی تھے۔ وہ فطرتاً نہ تنگ دل تھے نہ تنگ نظر، بلکہ اس کے برعکس ان میں انتہائی رواداری اور کشادہ دلی تھی۔ بغاوت کے بعد وہ ایک عرصے تک ہندوستان کے تمام باشندوں کو ایک قوم تصور کرتے رہے اور قوم کی خصوصیت کے واسطے مذہب، فرقہ یا گروہ کے امتیازات کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا کیے۔ 1861میں وائسرائے کی کونسل میں ہندوستانی ممبروں کی نامزدگی بھی بڑی حد تک "اسباب بغاوت” کی رہین منت تھی جس میں انھوں نے وائسرائے کی کونسل میں ہندوستانی ممبروں کی عدم موجودگی کو بغاوت کا اصل سبب بتایا تھا۔ وہ دو بار خود بھی وائسرائے کی لیجسلیٹو کونسل (Legislative Council) کے ممبر رہے اور اس حیثیت میں ان کی خدمات کو عام طور سے پسند کیا گیا۔ البرٹ بل کے سلسلے میں ملکی اور غیرملکی امتیازات کے بارے میں جو انھوں نے تقریر کی تھی اس نے تو انھیں ہندو اور مسلمان دونوں کا متفقہ طور پر لیڈر بنا دیا تھا۔ 1884میں جب سریندر ناتھ بنرجی ہندوستان میں سول سروس کے امتحان کی تحریک کے سلسلے میں دورہ کرتے ہوئے علی گڑھ آئے تو سر سید نے بڑے جوش و خروش سے ان کے اعزاز میں جلسہ کیا۔ کالج فنڈ میں ہندوؤں کی امداد بھی ان کی قومی بے تعصبی کی ایک دلیل ہے۔ بہر حال وہ1884تک ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی نظر آتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہت پہلے 1867میں بنارس کے ہندوؤں کی اردو دشمنی نے ان میں یہ احساس پیدا کر دیا تھا کہ ہندو مسلمان ایک ساتھ مل کر کام نہیں کر سکتے۔ زبان کے مسئلے پر ان کا ردّ عمل ایک خط سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو انھوں نے 1870میں لندن سے محسن الملک کو لکھا تھا۔ اس میں وہ سائنٹفک سوسائٹی کے اخبار اور ترجموں کو ہندی میں چھاپنے کی تحریک کی بابت لکھتے ہیں :۔

"مسلمان ہرگز ہندی پر متفق نہ ہوں گے اور نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ ہندو علاحدہ مسلمان علاحدہ ہو جائیں گے۔ یہاں تک تو کچھ اندیشہ نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان ہندوؤں سے علاحدہ ہو کر اپنا کاروبار کریں گے تو مسلمانوں کو زیادہ فائدہ ہو گا اور ہندو نقصان میں رہیں گے اور اس میں صرف دو امر کا خیال ہے۔ ایک خاص اپنی طبیعت کے سبب سے کہ میں کل ہند(کیا ہندو کیا مسلمان) کی بھلائی چاہتا ہوں۔ دوسرا بڑا خوف اس بات کا ہے کہ مسلمانوں پر نہایت بد اقبالی اور ادبار چھایا ہوا ہے۔ وہ جھوٹے اور لغو تعصب میں مبتلا ہیں، اور کسی قدر مفلس بھی ہیں "۔

لیکن کچھ عرصے بعد1882میں جبکہ سر سید وائسرائے کی لیجسلیٹو کونسل Legislative Council) کے ممبر تھے ایجوکیشن کمیشن میں ہندوؤں کو اردو کی مخالفت کا پھر موقع ملا۔ اس دفعہ پہلے سے بھی زیادہ زور شور کے ساتھ شمالی مغربی اضلاع اور پنجاب کے ہندوؤں نے اردو زبان اور فارسی خط کی مخالفت میں کوشش کی۔ اس تنگ نظری کو دیکھتے ہوئے یہ خیال کہ مسلمان ہندوؤں سے علاحدہ ہو کر اپنا کاروبار کریں گے تو مسلمانوں کو زیادہ فائدہ ہو گا سر سید کے ذہن میں روزبروز جڑ پکڑتا گیا۔ یہاں تک کہ 1883میں قانون لوکل سلف گورنمنٹ جب مجلس قانون ساز میں آیا تو انھوں نے خالص فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے اس امر پر زور دیا کہ حکومت اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک ثلث ممبروں کا تقرر اپنے ہاتھ میں رکھے۔ یہیں سے ہندو اور مسلمانوں کی سیاست کے دھاریالگ الگ رنگ اختیار کرنے لگے۔ یہ ابھی اچھی طرح نمایاں نہیں ہوئے تھے۔ لیکن 1887 اور 1888میں سر سید کی دو تقریروں سے جن میں مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس سیالگ رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا یہ رنگ کافی نمایاں اور گہرا ہو گیا۔

انڈین نیشنل کانگریس1885میں قائم ہوئی۔ اس کی بنیاد سرکاری طور پر ایک انگریز افسر اے۔ او۔ ہیوم نے رکھی جو1882تک انگریزی ملازمت میں تھا۔ اس سلسلے میں رجنی پام دت لکھتے ہیں کہ

"ہیوم جب سرکاری ملازم تھا تو اسے اپنے عہدے کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں خفیہ پولیس کی تمام ضخیم رپورٹیں ملی تھیں جن میں بتایا گیا تھا کہ عوام میں بے چینی کس طرح پھیل رہی ہے اور خفیہ سازشی انجمنیں قائم ہو رہی ہیں۔ 1870 اور اس کے بعد کے دس سال کا زمانہ بڑے بڑے قحطوں اور سخت تباہیوں کا زمانہ تھا اور عوام میں بے چینی بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی جس کی ایک مثال دکن کے کسانوں کی بغاوت تھی۔ 1877 کے اتنے بڑے وحشت ناک قحط کے زمانے ہی میں ملکہ وکٹوریہ کا دربار ہوا جس میں ان کے ملکہ ہندوستان بننے کا اعلان کیا گیا اور روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا اور اسی زمانے میں افغانوں سے دوسری لڑائی بھی ہوئی۔ بے چینی کو جبر و تشدد سے کچل دیا گیا۔ 1878میں ہندوستانی اخباروں کا قانون بنایا گیا۔ جس کی روسے اخباروں کی ساری آزادی سلب کر لی گئی اور اس کے ایک سال بعد ہتھیاروں کا قانون بنا جس کی رو سے ہر قسم کے ہتھیار رکھنا منع کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ کسان جانوروں سے اپنی حفاظت کے لیے بھی کوئی ہتھیار نہیں رکھ سکتے تھے۔ عام جلسے کرنے کے حقوق بہت زیادہ محدود کر دیے گئے۔ ” ہیوم کے سوانح نگار نے لکھا ہے :۔

"رجعت پرستوں نے ایک طرف تو اتنے بہت سے منحوس قانون بنائے اور ساتھ ہی پولیس نے ظلم و تشدد کے وہ طریقے اختیار کیے جو زار روس کیا کرتا تھا۔ اس کی وجہ سے ہندوستان کی باگ ڈور لارڈ لٹن (Lord Lytton)کے ہاتھ میں اس زمانے میں دی گئی جبکہ وہ انقلابی بغاوت کے بالکل کنارے پہنچ گیا اور ٹھیک اسی وقت ہیوم اور ان کے ہندوستانی مشیروں نے بہت با موقعہ یہ محسوس کیا کہ مداخلت کرنی چاہیے۔ ”

سرولیم ویڈربرن (Sir William Wedderburn)نے آگے چل کر اس مداخلت کا سبب بھی بیان کر دیا ہے :۔

"وائسرائے لارڈ لٹن (Lord Lytton)کے آخری دور میں یعنی 1878 اور 1879 کے قریب مسٹر اے او ہیوم (A O Hume)نے یہ محسوس کیا کہ اب یہ ضروری ہے کہ اس بڑھتی ہوئی بے چینی کو دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جائے۔ ملک کے مختلف حصوں میں حکومت کے جو بہی خواہ تھے انھوں نے ہر جگہ سے انھیں متنبہ کیا کہ حکومت کو اور ہندوستان کے مستقبل کو عوام کی معاشی تباہ حالی اور تعلیم یافتہ طبقے کی بے چینی اور باغیانہ جذبات سے سخت خطرہ لاحق ہے "۔

اسی خطرے کو دور کرنے کے لیے کانگریس کا قیام عمل میں آیا۔ لارڈ ڈفرن (Lord Dufferin )کا مقصد یہ تھا کہ کانگریس کے ذریعے ہندوستان کے تعلیم یافتہ اور بیدار طبقوں کو حکومت کا موید بنایا جائے اور اس کے لیے وفادار اور انتہا پسند گروہوں میں دیوار کھڑی کر دی جائے۔ فوری نتائج سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مقصد میں پوری کامیابی حاصل ہو گی۔ کانگریس کے پہلے اجلاس نے نہایت فدویانہ طرز عمل کا اظہار کیا اس میں نو قرار دادیں منظور ہوئیں جن میں نظم ونسق کی صرف تفصیلات میں اصلاح کی تجاویز پیش کی گئیں تھیں۔ کسی قرار داد میں قومی جمہوری مطالبہ کی ذرا سی بھی جھلک تھی تو وہ قرار داد تھی جس میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ قانون ساز کونسل میں چند منتخبہ ممبر بھی لے لیے جائیں۔ اس کے بعد نیشنل کانگریس تقریباً بیس سال تک اسی ڈھرے پر چلتی رہی جس پر اس کے بانیوں نے اسے لگا دیا تھا۔ ان بیس سالوں میں سلف گورنمنٹ (خود مختاری) کا کسی شکل میں کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔ یعنی اس کی تجویز میں کوئی بنیادی قومی مطالبہ پیش نہیں کیا گیا۔ بلکہ صرف یہ مطالبہ کیا گیا کہ برطانوی حکومت کی اس موجودہ مشینری میں ہندوستانیوں کو زیادہ نمائندگی دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ جو مطالبہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ نمائندے ادارے قائم کیے جائیں۔ ہندوستانیوں کی خودمختاری کا کہیں مطالبہ نہیں کیا گیا۔

اس قومی سیاسی جماعت میں بڑے درمیانی طبقے کے افراد، ترقی پسند جاگیردار، نئے صنعتی سرمایہ دار اور خوش حال تعلیم یافتہ لوگ شریک تھے۔ یہ تحریک ساحلی علاقوں یعنی ممبئی، مدراس اور بنگال کے متوسط طبقے کی تحریک تھی۔ اس کا سبب ڈبلیو، سی اسمتھ(W.C. Smith) کے تجزیہ کے مطابق یہ تھا کہ برطانوی تہذیب کے اثرات سب سے پہلے ساحلی علاقوں میں پھیلے۔ ان ہی علاقوں میں سب سے پہلے مغربی تعلیم اور ہندوستانی صنعت کا آغاز ہوا۔ اس طرح ایک متوسط طبقہ پیدا ہو گیا جو اتفاق سے ہندو تھا۔ ممبئی اور مدراس میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن صرف دیہی باشندوں میں۔ شہری آبادی میں ہندو ہی غالب ہیں۔ اس لیے بنگال میں بھی مسلمانوں کے بجائے ہندوؤں ہی کا متوسط طبقہ پیدا ہوا۔ اسی طرح شمالی مغربی صوبے جو مسلم اشرافیہ کے مراکز تھے سب سے آخر میں برطانوی اثرات سے دوچار ہوے اسی طبقے سے مسلمان اپنا متوسط طبقہ پیدا کر سکتے تھے لیکن تاریخی اسباب کی بنا پر سنہ 1870سے پہلے نہ تو حکومت کی تشدد آمیز پالیسی ہی بدلی اور نہ مسلمان ہی حکومت سے تعاون پر آمادہ ہو سکے۔ بہرحال کانگریس میں ہندو اکثریت اسمتھ کیالفاظ میں ایک اتفاقی امر تھا۔ کانگریس ہندوبورڑوا طبقے کی نمائندہ تھی جوتعلیم اور ملازمت کی دوڑ میں مسلمانوں سے کہیں آگے بڑھ گیا تھا۔ سنہ1870کے بعد تک ملک میں اس کا کوئی حریف نہ تھا۔ لیکن حکومت کی فرقہ وارانہ پالیسی نے جب اس پر ملازمتوں کے دروازے بند کیے اور مسلمانوں کو نوازنا شروع کیا تو تعلیم یافتہ ہندوؤں میں حکومت کے خلاف ایک عام بے چینی پیدا ہوئی اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے رشک و رقابت کا جذبہ بھی پیدا ہوا۔ بنگالی اخبارات نے اس موقع پر بڑی ہلچل مچائی اور حکومت کو مسلمانوں کی باغیانہ سرگرمیاں یاد دلائیں۔ مسلمانوں سے مفاہمت کی کوشش کو نادانی سے تعبیر کیا۔ یہیں سے ایک مستقل شک کا آغاز ہوا۔ بہت سے مسلمان لیڈر جن میں قومی رجحانات شدت سے پائے جاتے تھے علاحدگی پسند ہو گئے

کانگریس کی ابتدائی نیاز مندانہ اور وفا دارانہ روش اور اس کے نرم مطالبات کو دیکھتے ہوئے خود کانگریس کے بانی ہیوم بھی سر سید کی مخالفت کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ لیکن سر سید کے ذہنی پس منظر میں زبان کا جھگڑا، گاؤ کشی کا قضیہ، بنگالی اخبارات کی مسلم دشمنی اور اس قسم کی نہ جانے کتنی باتیں تھیں۔ دوسرے وہ ہندوؤں کو صنعتی اور تجارتی اعتبار سے اُبھرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ پھر ان کی نظر میں یہ بھی تھا کہ ہندو اپنی وفاداری اور انگریزی تعلیم کی بدولت حکومت کی مشینری میں دخیل ہوتے جا رہے ہیں اور اس طرح ملک کی سیاست میں انھیں خاصا مرتبہ حاصل ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف مسلمان صنعت و تجارت کا تو ذکر ہی کیا تعلیم و ملازمت میں بھی اتنے پیچھے ہیں کہ انھیں کوئی سیاسی اہمیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ سر سید نے بڑی کوششوں اور مصیبتوں کے بعد مسلمانوں کوتعلیم پر مائل کیا تھا۔ انھیں اندیشہ تھا کہ مسلمان کانگریس میں شریک ہو کر کہیں تعلیم سے ہاتھ نہ اٹھا لیں اور انگریزوں کی مخالفت انھیں ایک بار پھر سیاسی اور معاشی اعتبار سے 1857 کی سطح پرنہ پہنچا دے اور اس طرح ان کے سارے کیے دھرے پر پانی پھر جائے۔

الغرض 1857کی خوف ناک یاد اور ہندوؤں کے سیاسی اور معاشی غلبے کا خوف وہ محرکات تھے جو سر سید کے لیے کانگریس کی مخالفت کا سبب بنے۔ انھوں نے لکھنو اور میرٹھ کی تقریروں میں مسلمانوں کو کانگریس سیالگ رہنے کا مشورہ دیا، اس لیے کہ کانگریس کے بنیادی مطالبات ان کے نزدیک مسلمانوں کے حق میں انتہائی مضر تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں سول سروس کے امتحان کی مخالفت اس لیے کی کہ مسلمانوں کا بنگالیوں کے مقابلے میں جوان سے تعلیمی اعتبار سے بہت آگے تھے کام یاب ہونا ممکن نہ تھا۔ کونسلوں میں منتخب ممبروں کے اضافے اور توسیع کو وہ مسلمانوں کے لیے اس بنا پر نقصان دہ سمجھتے تھے کہ اس سے ملک میں نیا بتی طرز حکومت کی بنیاد پڑتی تھی جس میں مسلم اقلیت ہندو اکثریت سے ہمیشہ مغلوب رہتی۔

سر سید بنیادی طور پر مسلمانوں ہی کے لیڈر تھے۔ وہ صرف اس وقت تک قومی مطالبات کی حمایت کرتے رہے، جب تک ان سے مسلمانوں کے ذاتی مفاد کوکسی قسم کے نقصان پہنچنے کا احتمال پیدا نہیں ہوا۔ جمہوریت اور نیابتی طرز حکومت کے زبردست حامی ہوتے ہوے بھی انھوں نے فرقہ وارانہ نقطۂ نظر سے اس صورت حال کا جائزہ لیا جو کانگریس کے مطالبات سے پیدا ہو گئی تھی۔ ہندوؤں کے غلبہ کے خوف اور مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی نے انھیں اور بھی حکومت کی گود میں ڈھکیل دیا۔ کانگریس نے اپنے مطالبات کے پردے میں برطانوی اقتدار میں حصہ بٹانے کی ابتدائی کوشش شروع کر دی تھی۔ یہ مطالبات اگر منظور ہو جاتے تو ہندوؤں اور انگریزوں کا ایک متحدہ محاذ سا بن جاتا جسے سر سید مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے لیے ایک زبردست خطرہ تصور کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی مخالفتوں سے یہ محاذ نہیں بننے دیا، بلکہ اس کے بجائے ایک اینگلو مسلم محاذ بنایا جس کی بنیاد مسلمانوں کی غیر مشروط وفاداری پر رکھی۔ انھوں نے عمداً حکومت کے اقتدار کو اور بھی مضبوط کیا کیونکہ ان کے نزدیک مسلمانوں کی بہبودی حکومت کے استحکام ہی پر منحصر تھی۔ اس کوشش میں انھوں نے کانگریس کے مطالبات کی مخالفت کرتے ہوئے بجٹ یا فوجی امور میں کسی ہندوستانی کی مداخلت کو ناجائز قرار دیا اور ہندوستان کی مفلسی کو نظر انداز کر کے نمک کے محصول کا جواز پیش کیا۔

اس میں شک نہیں کہ سر سید اپنی تقریروں میں بعض ایسی باتیں بھی کہہ گئے جوان کے شایان شان نہ تھیں۔ مثلاً بنگالیوں کی روایتی بزدلی یا ادنیٰ اور اعلیٰ کے امتیازات کو جس طرح انھوں نے دلیل کے طور پر استعمال کیا وہ غالباً اس زمانے میں بھی کچھ اچھی نظر سے نہ دیکھا گیا ہو گا۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ سر سید کا مسلمانوں کو کانگریس سے علاحدہ رکھنا قومی نقطہ نظر سے کہاں تک درست تھا؟ اس سلسلے میں خود سر سید کیالفاظ کہ ” بنگالیوں کا ایجی ٹیشن (Agitation)تمام ہندوستان کا ایجی ٹیشن (Agitation) نہیں ہے ” اپنی جگہ حقیقت پر مبنی تھا۔ جواہر لال نہرو کی رائے بھی سر سید کے حق میں ہے :۔

"سر سید کا یہ فیصلہ کہ تمام کوششیں مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے پر صرف کر دینی چاہئیں، یقیناً درست اور صحیح تھا۔ بغیر اس تعلیم کے میرا خیال ہے کہ مسلمان جدید طرز کی قومیت کی تعمیر میں کوئی موثر حصہ نہیں لے سکتے تھے، بلکہ یہ اندیشہ تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوؤں کے غلام بن جائیں گے جو تعلیم میں بھی ان سے آگے تھے اور معاشی اعتبار سے بھی زیادہ مضبوط تھے۔ ”

"ہندوؤں کی طرح مسلمانوں میں ابھی تک کوئی بورژوا طبقہ نہیں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے نہ تو تاریخی حالات اس کی اجازت دیتے تھے اور نہ ان کے خیالات میں کوئی ایسا انقلاب پیدا ہوا تھا کہ مسلمان بورڑوا تحریک وطنیت میں شامل ہو جائے "۔

مولانا محمد علی نے اسے اور بھی واضح طور پر پیش کیا ہے :۔

"سید احمد خاں معصوم نہ تھے، غیر خاطی نہ تھے مگر کوئی دور اندیش اور مصلحت بیں مسلمان ان کے اس احساس سے اپنے کو سبک دوش ہرگز خیال نہ کرے گا کہ انھوں نے مسلمانوں کو کانگریس کی ابتدا میں کانگریس کی شرکت سے روکا۔ یہی نہیں کہ اس وقت کی شرکت سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا اور وہ جس طرح مدراس، کلکتہ اور ممبئی کی یونیورسٹیوں کی تعلیم سے مستغنی رہ کر گھاٹے میں رہے تھے، علی گڑھ کالج سے مستغنی رہ کر گھاٹے میں رہتے بلکہ انگریزوں کے خلاف جوش انتقام سے مجبور ہو کر کانگریس میں ایک شورش پسند فریق کی حیثیت سے شریک ہوتے اور اسے بھی نقصان پہنچاتے۔ مسلمانوں کے لیے میدان سیاست میں قدم رکھنے کا وہ وقت نہ تھا بلکہ ان کی شرکت سیاست کے لیے وقت بیس برس بعد آیا جبکہ علی گڑھ کالج کے قیام کو بھی تیس سال گزر چکے تھے اور جس طرح مدراس کلکتہ اور ممبئی یونیورسٹیوں کے 1857کے قیام کے تیس سال بعد ہندوؤں کی ایک نئی تعلیم یافتہ نسل 1885میں تیار ہو کر کانگریس کی بانی ہوئی، اسی طرح1875سے علی گڑھ اسکول اور 1877سے علی گڑھ کالج کی بنیاد کے تیس سال بعد مسلمانوں کی ایک نئی تعلیم یافتہ نسل1906میں تیار ہو کر مسلم لیگ کی بانی ہوئی اور مسلمانوں نے بہ حیثیت ملت میدان سیاست میں قدم رکھا”۔

مسلمانوں کی اس سیاسی بیداری کے بارے میں وہ ایک جگہ پھر لکھتے ہیں :۔

"1907میں جبکہ قیام کالج کے پورے تیس سال بعد ایک نئی نسل آغوش کالج میں تربیت پا چکی اور تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ہندوؤں کی طرح ایک سیاسی کروٹ لی اور کانگریس کی طرح مسلم لیگ کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا یہ کوئی اتفاقی امر نہ تھا کہ طلبا نے حکومت کی پولیس اور خود اپنے یورپین اسٹاف کی جانب سے اس پولیس کی حمایت کے خلاف اسٹرائک کر دی اور عین اسی زمانے میں ایک دو ماہ پیشتر کی میری دعوت پرگو کھلے آنجہانی بھی علی گڑھ میں تشریف لائے اور جنھوں نے طلبا کو اپنا گرویدہ پایا "۔

مذکورہ بالا اقتباسات سے ظاہر ہے کہ کانگریس کی بنیاد جس زمانے میں پڑی مسلمانوں کا متوسط طبقہ تشکیلی دور میں تھا اور ہندوؤں کی طرح وہ بھی وفا دارانہ طریقے سے جدید تعلیم، مغربی خیالات اور آئینی جد و جہد سے آشنا ہو رہا تھا۔ 1885میں جس معاشی بے چینی نے ہندوؤں کے متوسط طبقے کو کانگریس کی صورت میں یک جا کر دیا تھا اسی طرح 1906میں اسی نوع کے معاشی حالات نے مسلمانوں کے متوسط طبقے کو جواب تیار ہو چکا تھا اپنی سیاسی تنظیم پر آمادہ کیا۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی تعداد جس طرح بڑھ رہی تھی اس مناسبت سے حکومت کے پاس ملازمتیں نہ تھیں۔ اس سے ایک بے اطمینانی پیدا ہوئی جس نے ہندوؤں کے غلبے کے خوف سے مل کر مسلم لیگ کی صورت اختیار کر لی۔

کانگریس میں مسلمانوں کی عدم شرکت کی اصل وجہ یہ تھی کہ 1870تک انگریزوں کے خلاف جد و جہد کرنے کے بعد خود مسلمانوں کی ہمتیں جواب دے چکی تھیں۔ پھر مسلمانوں کے اس طبقے کے لیے جس کا ذریعہ معاش صرف ملازمت تھی، سر سید کی ہم نوائی کے سوا کوئی اور راستہ نہ تھا۔ ہندو اکثریت کا اندیشہ اتنا شدید نہ تھا کہ انھیں کانگریس کی شرکت سے باز رکھتا۔ لیکن بدقسمتی سے اس اندیشے کو بعد کے واقعات سے کافی تقویت پہنچی۔ 1893میں گنپتی کے میلے اور انسداد گاؤ کشی کی تحریک نے ممبئی، اعظم گڑھ اور دوسرے مقامات میں ہندو مسلم فسادات برپا کر دیے۔ یہ تحریکیں جنھیں تلک جیسے لیڈر کی حمایت حاصل تھی در اصل انگریزوں کے خلاف تھیں۔ یہ گویا ترقی پسند قوم پرستی اور ہندو مذہب پرستی کی انتہائی رجعت پسند قوتوں کے اتحاد کا اظہار تھا۔ جس کی ابتدا تلک سے ہوئی۔ اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے پام دت لکھتے ہیں :۔

"ایسے حالات میں جبکہ ہر قسم کی سیاسی سرگرمی اور سیاسی ادارے کو سامراج اپنی پوری قوت کے ساتھ دباتا تھا اور جبکہ قومی تحریک ابھی عوام تک نہیں پہنچی تھی، سیاسی سرگرمیوں کے لیے اس طرح مذہبی اداروں کی آڑ لینا بالکل جائز تھا۔ لیکن یہاں سوال ایک سیاسی تحریک کی صرف ظاہراً شکل کا نہیں ہے اور بات صرف اتنی نہیں ہے کہ سیاسی سرگرمی کے لیے مذہبیت کی آڑ لی گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ یہاں خالص مذہب پرستی یا تو ہم پرستی کو قومی تحریک میں مرکزی حیثیت دے دی گئی تھی اور دعویٰ یہ کیا جاتا تھا کہ قدیم ہندو تہذیب روحانی نقطہ نظر سے جدید مغربی تہذیب سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ اس بنیادی سیاسی تبلیغ سے قومی تحریک کی اصل ترقی اور سیاسی بیداری کو بڑا دھکا پہنچا اور مسلمانوں کی بڑی تعداد جو قومی تحریک سیالگ اور اس کے خلاف ہو گئی، اس کی کچھ ذمہ داری اس پربھی ہے کہ قومی تحریک میں ہندو مذہب پر بڑا زور دیا گیا”۔

یہ بھی ہمیں نہ بھولنا چاہیے کہ سر سید کے آخری دور کی سیاست میں علی گڑھ کالج کے پرنسپل مسٹر بیک کا بہت کچھ ہاتھ تھا۔ اکثریت کے غلبہ کے خوف کو انھوں نے اور بھی ہوا دی۔ کبھی انھوں نے مسلمانوں کو گزشتہ بغاوت کے انجام کی یاد تازہ کرائی اور کبھی ملازمتوں کے چھن جانے کی دھمکی دی اور اس طرح وہ خلیج جو تاریخی اسباب کی بنا پر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہو گئی تھی اسے اور بھی وسیع کیا۔ 1888میں یونائیٹڈ انڈین پٹیریاٹک ایسوسی ایشن جوکانگریس کی مخالفت کے لیے قائم ہوئی ایک حد تک مسٹر بیک کی کوششوں کی رہین منت تھی۔ لیکن اس قسم کی مخالفتوں کے باوجود کانگریس کی قومی تحریک بڑھ رہی تھی۔ چنانچہ1892میں ہندوستانی کونسلوں کا قانون پاس ہوا اور صوبے کی کونسلوں میں میونسپل اور ڈسٹرکٹ بورڈوں، تجارتی جماعتوں اور یونیورسٹیوں سے بھی ممبر لیے جانے لگے۔ ممبروں کو کونسلوں میں سوالات کرنے اور بجٹ پر بحث کرنے کے بھی اختیارات حاصل ہوئے۔ یہ مسٹر بیک کی شکست تھی جو کانگریس اور اس کے مطالبات کو برطانوی حکومت کے اقتدار کے لیے بہت بڑا خطرہ تصور کرتے تھے۔ بہر حال انھوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور 1893میں ایک اور جماعت مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت کے لیے قائم ہوئی۔ اس کا نام محمڈن اینگلو اور ینٹل ڈیفنس ایسوسی ایشن آف اپر انڈیا، رکھا گیا۔ یہ جماعت جیسا کہ نام سے ظاہر ہے صرف مسلمان ممبروں پر مشتمل تھی اور اس کا قیام ٹھیک اس زمانے میں عمل میں آیا۔ جب تلک کی انسداد گاؤ کشی کی تحریک سے جگہ جگہ ہندو مسلم فسادات برپا تھے۔ اس کے سکریٹری خود مسٹر بیک تھے۔ سر سید نے خود اپنی مصروفیت اور پیرانہ سالی کی بنا پراس کی کار روائیوں میں بہت کم حصہ لیا۔ سارا کام مسٹر بیک ہی کرتے تھے اور ان کی ساری توجہ ہندوؤں کے خلاف اینگلو مسلم بلاک بنانے میں صرف ہوتی تھی جوان کے نزدیک برطانوی حکومت کے استحکام کے لیے نہایت ضروری تھا۔ چونکہ سر سید خود بھی ہندو اکثریت سے خوفزدہ تھے اور ان کی نظر میں بھی مسلمانوں کا مستقبل انگریزی حکومت کی پائداری پر مبنی تھا، اس لیے بیک کی فرقہ وارانہ سیاست کو ان کی تائید حاصل رہی۔ اس کے علاوہ سر سید بیک پر اتنا بھروسہ کرنے لگے تھے کہ آخری عمر میں انھوں نے انسٹی ٹیوٹ گزٹ بھی ان کے سپرد کر دیا تھا۔ بیک نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر فرقہ وارانہ فضا کو اور بھی مکدر کیا۔ میر ولایت حسین کیالفاظ میں "بیک نے بنگالیوں اور ان کی تحریک کے خلاف انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے اڈیٹوریل کالم میں مضامین لکھنا شروع کیے جوسر سید سے منسوب ہوئے اور بنگالیوں نے سر سید کوبرا بھلا کہنا شروع کیا اور اس طرح بنگالیوں سے اعلانیہ لڑائی شروع ہو گئی "۔

مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو سر سید کی خدمات مسلمانوں کے لیے بڑی اہم اور بڑی انقلاب آفریں تھیں۔ ان کے دور میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو اپنی معاشی بدحالی کی بنا پر حکومت سے تعاون کرنے پر مجبور تھا، ، لیکن اسے مذہبی جواز کی بھی ضرورت تھی۔ سر سید نے یہ مذہبی جواز مہیا کیا اور حالی کی رائے کے مطابق مذہب کا وہ متروک حصہ تلاش کیا جو موجودہ زمانے کے موافق تھا۔ ان کی وجہ سے تقلید، تعصب اور تنگ نظری میں وہ اگلی سی شدت باقی نہ رہی۔ اس کے علاوہ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا سے جو بے تعلقی دین کی بدولت پیدا ہو گئی تھی وہ بھی سر سید کی کوششوں سے دور ہوئی اور مسلمان دنیوی امور میں جوش و خروش سے حصہ لینے لگے۔

سر سید کی وفا دارانہ پالیسی شروع سے آخر تک غیر متزلزل رہی۔ انھیں حکومت کے استحکام کا اس درجہ خیال تھا کہ معمولی سے معمولی سیاسی ہنگامے کو بھی برداشت نہ کر سکتے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے صرف کانگریس کے ہندوؤں ہی کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی بھی مخالفت کی۔ مثلاً جنگ بلقان کے دوران میں جب مسلمان ترکی اور خلیفہ ترکی کی حمایت میں انگریزوں سے بد ظن اور مشتعل ہو رہے تھے، انھوں نے ترکوں کے مقابلے میں انگریزوں ہی کی طرفداری کی اور خلیفہ ترکی کو روحانی پیشوا ماننے سے انکار کر دیا۔

لیکن اگر سر سید اس حد تک وفادار نہ ہوتے تو شاید حکومت ان کے تعلیمی منصوبوں کو عملی شکل دینے میں اتنی مدد نہ کرتی اور مسلمانوں کا وہ متوسط طبقہ جو مغرب کے علوم و فنون، اقدار و تصورات اور تہذیب و معاشرت سے آشنا ہو کر سیاست میں اپنی جگہ پیدا کرنے کے قابل بنا اس قدر جلد نہ بن پاتا۔ سر سید نے ایک عرصے تک مسلمانوں کو سیاست میں نہ پڑنے دیا، لیکن ان کے آخری دور میں حالات بہت کچھ بدل چکے تھے۔ مسلمانوں کی نئی تعلیم یافتہ نسل ملکی سیاست میں حصہ لینے کے لیے بے چین ہو رہی تھی۔ سر سید نے اگرچہ اس سے پہلے امیر علی کی محمڈن نیشنل کانفرنس میں جو اسی نئی نسل کی بے اطمینانی کا پہلا مظاہرہ تھی شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا، لیکن 1893 تک انھیں خود مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کی ضرورت کا احساس پیدا ہو چلا تھا۔ محمڈن ڈیفنس ایسوسی ایشن اسی ضرورت کی بنا پر وجود میں آئی۔

سر سید کو انگریزوں سے بڑا حسن ظن تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ حاکم محکوم میں مساویانہ تعلقات بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ اس معاملے میں سر سید کی توقعات جس حد تک وہ چاہتے تھے پوری نہیں ہوئیں۔ 1884ہی میں انھیں یہ شکایت پیدا ہو گئی تھیں کہ انگریزوں کو مسلمانوں سے وہ ہمدردی نہیں جس کے وہ متمنی تھے۔ لیکن اس مسئلے کو وہ خالص ہندوستانی نقطہ نظر سے دیکھتے تھے اور اگر کبھی اس خود داری کو ٹھیس لگتی تو برہم ہو جاتے۔ اپنی وفات سے کچھ قبل وہ شدت کے ساتھ محسوس کرنے لگے تھے کہ انگریزوں کے توہین آمیز رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں۔ اس تلخ حقیقت کے بارے میں آخر کار انھیں کہنا پڑا کہ "انگریزوں کا جو سلوک اپنے ہم قوموں سے اور جو ہندوستانیوں سے ہے اس میں اتنا ہی فرق ہے جتنا سفید اور سیاہ میں "۔ اور شاید اسی غیر مساویانہ سلوک کی بنا پر وہ "اپنی زندگی کے آخری ایام میں کانگریس کے مطالبات کو حق بجانب سمجھنے لگے تھے "۔

سر سید کو غالباً غیرملکی سرمایہ دارانہ استحصال کا پوری طرح علم نہ تھا ورنہ وہ انگریزوں سے اتنی توقعات وابستہ نہ کرتے۔ صنعت و تجارت پر حکومت کی بے شمار پابندیوں کے باوجود انھیں یہ امید تھی کہ انگریز مسلمانوں کو اپنی تجارت میں حصہ دینے پر تیار ہو جائیں گے۔ ۔ یہی خیال ان کا سرکاری ملازمتوں کے بارے میں تھا، لیکن ان مراعات کے لیے وہ وفاداری اور اعلیٰ تعلیم کی شرائط بھی پیش کرتے تھے۔ یہ سب ان کی خوش فہمی تھی۔ وہ انگریزوں کی شرافت، دیانت، اخلاق اور عہد و پیمان پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کر بیٹھے تھے۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ 1870سے مسلمانوں کے متعلق انگریزی پالیسی میں جو تبدیلی ہوئی وہ کسی ترحمانہ اور شریفانہ جذبہ کے بجائے خود برطانوی حکومت کے اپنے مفاد پر مبنی تھی۔ ہندوؤں کے بڑھتے ہوئے متوسط طبقے کے مقابلے میں حکومت مسلمانوں کا ایک متوسط طبقہ پیدا کرنا چاہتی تھی تاکہ باہمی رقابت اور دشمنی کی بنیادوں پر حکومت کی عمارت کو اور بھی مستحکم کیا جا سکے۔ انگریز نہ ہندوؤں کے دوست تھے نہ مسلمانوں کے اور نہ وہ کسی کو اتنی مراعات دینے کے قائل تھے کہ خود ان کا مفاد مجروح ہو۔ ان کے سرمایہ دار زر کشی کے لیے ملک میں بڑے بڑے سرمایے لگا رہے تھے اور اسی سرمایے کی حفاظت کے لیے ہنٹر کی نظر میں حکومت کا استحکام ضروری تھا۔

سر سید کا ایک کارنامہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے لیے سب سے پہلے قوم کا لفظ استعمال کیا اور انھیں قومیت کے تصور سے آشنا کیا۔ 1857تک اور اس کے بعد بھی اس قسم کی جداگانہ قومیت کا تصور ہندوؤں میں تھا نہ مسلمانوں میں۔ لیکن یہ ضرور تھا کہ سید احمد شہید کی تحریک سے مسلمانوں میں اپنی جداگانہ ہستی کا ایک خفیف سا احساس پیدا ہو چلا تھا۔ اس میں فرقہ واریت مطلق نہ تھی۔ یہ بعد کی چیز ہے جو سر سید کے زمانے میں انگریزوں کی سیاسی اور معاشی پالیسی کی بدولت پیدا ہوئی۔ بہرحال مسلمانوں میں ایک جداگانہ قوم کا تصور سر سید ہی کی دین ہے اور1884کے بعد کی پیداوار ہے۔ اسے سر سید کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس نے اور بھی ابھارا جو1886میں مسلمانوں کی عام تعلیمی اصلاح کی غرض سے قائم ہوئی تھی۔ اس کے سالانہ جلسوں میں ملک کے دور دراز گوشوں سے نمائندے شریک ہوتے اور مسلم قومیت کے جذبہ سے سرشار ہو کر واپس جاتے لیکن اس جذبہ کی جہاں سب سے زیادہ نشو و نما ہوئی وہ علی گڑھ کالج تھا جس کی اقامتی زندگی پرسر سید کی خاص توجہ تھی۔ علی گڑھ کے طلبہ جو ہندوستان کے مختلف حصوں سے آتے تھے۔ سر سید کے زیر اثر ایک خاص انداز میں رہنے، ایک خاص یونیفارم پہننے اور ایک خاص انداز میں سوچنے کے عادی بنائے گئے۔ اس یک رنگی سے جداگانہ قومیت اور جداگانہ قومیت سے فرقہ وارانہ ذہنیت کی پرورش ہوئی۔

سر سید بعض معاملات میں قدامت پرست اور تنگ نظر بھی تھے۔ مثلاً موجودہ حالات میں وہ عورتوں کے پردے کے حامی تھے اور ان کی انگریزی تعلیم کے مخالف۔ وہ ان کے لیے اخلاق اور دینیات کی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عورتوں سے پہلے مردوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد وہ خود عورتوں کوتعلیم سے آراستہ کر لیں گے کیونکہ "جہاں کے مرد تعلیم یافتہ ہو گئے ہیں وہاں کی عورتیں بھی تعلیم یافتہ ہو گئی ہیں "۔

ادنیٰ حیثیت کے مسلمان لڑکوں کے لیے بھی وہ انگریزی تعلیم کو ضروری خیال نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے ٹیکنیکل ایجوکیشن کی بھی شدید مخالفت کی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس سے ہائی ایجوکیشن میں خلل پڑے گا۔ انھوں نے اس سلسلے میں یہ نہ دیکھا کہ ہندوستان صنعتی ترقی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ ان کی ساری توجہ بس اس پرتھی کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ جلد سے جلد انگریزی تعلیم حاصل کر کے ملکی سیاست میں دخیل ہو جائے۔ اس کے علاوہ تمام چیزیں ان کی نظر میں ثانوی حیثیت رکھتی تھیں۔

سر سید کو ابتدا میں سخت مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آخری عمر میں وہ عام طور سے مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر سمجھے جانے لگے تھے۔ پھر بھی عالموں اور مولویوں کا طبقہ جو در اصل ادنیٰ درجے کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتا تھا۔ سر سید کی مسلسل مستقل اور شدید مخالفت کرتا رہا۔ یہ طبقہ سیاسی اعتبار سے جتنا انگریز دشمن تھا اتنا ہی مذہبی اعتبار سے قدامت پرست بھی تھا۔ وہ لوگ بھی سر سید کے مخالف رہے جو قدیم سماج کے پروردہ تھے اور ڈرتے تھے کہ کہیں سر سید کے جدید خیالات سے ان کے قدیم اقدار و تصورات کا وہ شیرازہ نہ بکھر جائے جو ان کی ذہنی اور جذباتی تسکین کا باعث تھا۔ پھر بھی سر سید کی جدے دیت نے قدیم اقدار کی دیواروں میں ایسے شگاف پیدا کر دیے تھے جن کی وجہ سے دل و دماغ کی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ عقل نئی دنیا کی طرف کھینچتی تھی، جذبہ پرانی دنیا کی طرف۔ دونوں کی ہم آہنگی کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سر سید کے آخری دور میں جب ان کی تحریک کی عمر بیس بائیس سال ہو چکی تھی علما یا قدیم اقدار کے پرستاروں کے علاوہ عام مخالفتوں میں بڑی حد تک کمی پیدا ہو گئی تھی۔ قدیم جدید سے مانوس ہو چلا تھا۔

آخر میں اگر ہم سر سید کے بارے میں کوئی فیصلہ کن رائے قائم کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ مجموعی طور پر اپنے دور کی عام ترقی پسندی کے معیار پر ہر طرح پورے اترتے ہیں۔ حکومت سے وفاداری ان کی رجعت پسندی کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ خود کانگریس بھی جو ملک کی سب سے زیادہ ترقی پسند جماعت تھی اسی منزل میں تھی اور سر سید کے بعد بھی ایک عرصے تک اسی منزل میں رہی۔ کانگریس بورژوا طبقے کی نمائندہ تھی اور اس دور کا بورژوا طبقہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ اتنا طاقت ور نہیں ہے کہ برطانوی حکومت کے نظام کو چیلنج کر سکے۔ اس کے برعکس وہ برطانوی حکومت کو اپنا دوست سمجھتا تھا۔ اس طبقے کے نزدیک ان کی اصل دشمن برطانوی حکومت نہیں تھی بلکہ یہ حقیقت تھی کہ عوام بالکل پسماندہ تھے، ملک کو جدید ترقیوں کی ہوا نہیں لگی تھی، توہمات اور جہالت کا اثر لوگوں پر بہت زیادہ غالب تھا اور نوکر شاہی نظم و نسق کا ناقص نظام ان تمام خامیوں کا ذمہ دار تھا۔ "ان خرابیوں کے خلاف جد و جہد کرتے ہوئے انھیں توقع رہتی تھی کہ برطانوی حکومت ان کے ساتھ تعاون کرے گی”۔ سر سید کو اس نقطہ نظر سے دیکھیے تو وہ بھی مسلمانوں کی پسماندگی، جہالت اور توہمات کو دور کرنے اور مغربی اقدار اور جمہوری تصورات کے پھیلانے میں تمام عمر مصروف رہے۔ کانگریسی لیڈروں کی طرح وہ بھی حکومت کے وفادار تھے اور حکومت کے نظم و نسق میں ہندوستانیوں کو برابر کا شریک دیکھنا چاہتے تھے لیکن جیسا کہ بتایا جا چکا ہے انھیں یہ بھی گوارا نہ تھا کہ ہندو اپنی اکثریت اور تعلیمی ترقی کی بدولت مسلمانوں سے پہلے حکومت کی مشینری پر قابض ہو جائیں اور ان کی حق تلفی کریں۔ سر سید کو کانگریس کی مخالفت کی بنا پر رجعت پسند قرار دینا ایک عام غلطی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو یقیناً ایک جداگانہ سیاسی نصب العین دیا، لیکن اسے ایک تاریخی مجبوری کے سوا کچھ اور سمجھنا سخت نا انصافی ہو گی۔

سر سید کی داستان نا مکمل رہ جائے گی اگر ہم شعر و ادب کی دنیا میں اس انقلاب کا ذکر نہ کریں جوان کی توجہ کا رہین منت ہے۔ انھوں نے مختلف النوع موضوعات پر قلم اٹھا کر زبان کو ہر قسم کے خیالات کی ادائیگی کے قابل بنایا۔ تکلف اور تصنع کی بجائے سادگی اور سلاست کو رواج دیا۔ اس طرح اردو کو جہاں تک نثر کا تعلق ہے سر سید کی بدولت پہلی بار وسعتیں نصیب ہوئیں۔ ان کی تحریر ایک عرصے تک نثر لکھنے والوں کے لیے نمونہ بنی رہی۔ حالی، شبلی سبھی ان کے خوشہ چیں ہیں۔ نظم بھی ان کی کچھ کم احسان مند نہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد اگر چہ نئی اور نیچرل شاعری کے بانی ہیں لیکن اس کے رخ کو سادگی اور افادیت کی طرف موڑنے میں سر سید کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس نیچرل شاعری کے بانی کی نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک خط میں لکھتے ہیں :۔

"میں مدت سے چاہتا تھا کہ ہمارے شعرا نیچر کے حالات کے بیان پر متوجہ ہوں۔ آپ کی مثنوی "خواب امن” پہنچی۔ بہت دل خوش ہوا۔ در حقیقت شاعری اور زور سخن وری کی داد دی ہے۔ اب بھی اس میں خیالی باتیں بہت ہیں۔ اپنے کلام کو اور زیادہ نیچر کی طرف مائل کرو۔ جس قدر کلام نیچر کی طرف مائل ہو گا اتنا ہی مزا دے گا۔ اب لوگوں کے طعنوں سے مت ڈرو۔ ضروری ہے کہ انگریزی شاعروں کے خیالات لے کر اردو زبان میں ادا کیے جاویں۔ یہ کام ہی ایسا مشکل ہے کہ کوئی کر تودے۔ ابھی تک ہم میں خیالات نیچر کے ہیں ہی نہیں۔ ہم بیان کیا کر سکتے ہیں۔ ”

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، جنہوں نے اس کی مکمل فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز   عبید