FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ادب سلسلہ

 

اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ

کتابی سلسلہ (۲)

جلد :۱        جنوری تا مارچ۲۰۱۶          شمارہ: ۲

 

حصہ چہارم

مدیر

محمد سلیم (علیگ)

مدیر اعزازی

تبسم فاطمہ

 

مجلس مشاورت: پروفیسر اصغر علی انصاری، سہیل انجم، ساحر داؤد نگری، محمد عمران، حشمت اللہ عادل، یوسف رانا، مظہر عالم،   ڈاکٹر تنویر فریدی، ڈاکٹر مشتاق خان، ڈاکٹر شمس العارفین، اخلاق احمد، نسیم اللہ خاں ، زوبینہ سلیم

E-mail: adabsilsila@gmail.com Contact : 8588840266

 

 

 

 

 

تقسیمِ ہند —اسیم کاویانی

 

نہ گئی تیرے غم کی سرداری

دِل میںیوں روز انقلاب آئے

فیض

متحدہ ہندُستان بہت سوں کا سپنا تھا لیکن شاید گاندھی جی اور مولانا آزاد کی طرح کسی کا نہیں ! گاندھی جی نے کہا تھا: ’’اگر کانگریس تقسیم کو تسلیم کرے گی تو وہ صرف میری لاش کو روند کر کرے گی۔ جب تک میرےجسم میں جان ہے ، میں تقسیم پر کبھی راضی نہ ہوؤں گا۔ ‘‘ 1 اور مولانا آزاد نے دعوا کیا تھا: ’’آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں میں سے اُتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندستان ہندومسلم اتحاد سے دست بردار ہو جائے تو میں سوراج سے دست بردار ہو جاؤں گا، مگر اس (اتحاد) سے دست بردار نہ ہوؤں گا۔ ‘‘ 2 لیکن جیسا کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے اور جغرافیہ بھی کہ ہندُستان تقسیم ہو گیا۔ ان دونوں دل فگاروں نے متحدہ ہندُستان یا متحدہ قومیت کے اپنے مقصد کی ایک عقیدے کی طرح پرورش کی تھی لیکن انجام کار اُنھوں نے اپنے خواب کو چکنا چور ہوتے دیکھا اور اس کی کرچیاں چنتے ہوئے اس جہاں سے گزر گئے۔ سیاسی تقسیم کی اس بساط پر جناح اور پٹیل فیصلہ کُن مہرے ثابت ہوئے ، جو خود اس بازی کے آغاز میں اپنیdestiny سے قطعی انجان تھے۔ شاطر کھلاڑی (انگریز)نے بڑی مہارت سے اس کھیل کو اپنے مطلوبہ انجام تک پہنچایا۔ تقریباً اسّی لاکھ ہندوؤں اور سکھوں نے ہندُستان میں بسنے کے لیے پاکستان کو تیاگا اور ساٹھ سے ستّر لاکھ مسلمانوں نے ہندُستان سے نکل کر ’مملکتِ خداداد‘‘ کا رُخ کیا، 3 تقریباً پانچ لاکھ انسان یہاں اور وہاں کے مارے گئے۔ تاریخ ہند کا ایک خوں چکاں باب ختم ہوا اور تماشا دکھا کر کھلاڑی گیا۔ گاندھی جی سے زیادہ ہندو دھرم کیروح سے نزدیک شاید ہی کوئی رہا ہو اور مولانا آزاد کے دینی تبحّر کا بھی ایک عالم معترف ہے ، پھر کیا اسباب تھے کہ مذہب سے کوسوں دور اسلام کے ایک بے پروا پیرو جناح نے امام الہند کے ہاتھوں سے مسلمانوں کی قیادت چھین لی اور ہندو دھرم کے ایک رسمی مقلّد سردار پٹیل نے ہندستان کے مہاتما کو اپنے فیصلے کے تابع کر لیا! تاریخ کے پنّوں میں جنگِ آزادی کے تین اہم کرداروں کی سیاسی زندگی کے نشیب و فراز پر نظر ڈال کر ہم نے ان ہی سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے اور اس میں آپ کو بھی شریک کرنا چاہتے ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد۔ مولانا آزاد کی شخصیت اور زندگی کے حالات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ، لیکن کچھ ایسے واقعات بھی ہیں جن کا تذکرہ تو ملتا ہے پر تفصیلات تاریخ کے دھندلکوں میں گُم ہیں۔ مثلاً: 1905ء میں تقریباً اٹھارہ برس کی عمر میں اُن کا شیام سندر چکرورتی اور بنگال کے دوسرے انقلابیوں سے ربط ضبط، اُن کی عملی شرکت سے بمبئی اور شمالی ہند کے کئی شہروں میں خفیہ انجمنوں کا قائم ہونا، اغلباً 1906-07 کے درمیان اُن کی عیش کوشیوں کا 17ماہ کا وہ دور جسے اُن کی انشا نے ’فسق و فجور‘ سے تعبیر کیا ہے۔

1908ء میں اُن کا مصر، ترکی، عراق اور فرانس کا سفر اور وہاں پر ترک اور عرب انقلابیوں سے ملاقاتیں ، اپریل 1913ء کے ’الہلال‘ میں اُن کے صریرِ خامہ کی ’امن انصاری الی اللہ‘ (خدا کی راہ میں کون ہیں جو میرے ساتھ ہیں !) کی پُراسرار پُکار، اور پھر ’حزب اللہ‘ کا اعلان اور ممبر سازی، اور 1925ء میںیورپ کے سفر کے لیے اُن کے پاسپورٹ کی درخواست کے ساتھ کلکتے کے نیشنل آرکائیوز میں رکھی سی آئی ڈی کی خفیہ رپورٹس میں اُن کے (1921ء تا 1924ء کے دوران میں ) پان اسلام ازم تحریک، سبھاش بوس کے انقلابی منصوبوں اور ینگ ٹرکس کیسرگرمیوں سے کسی نہ کسی طرح کے روابط کے انکشافات وہ سربستہ مضامین ہیں جن کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں۔ 4 ہمارے سامنے ’الہلال‘ کی فائلوں میں اُن کی مسلمانانِ ہند کو دین کی راہ سے وطنی تحریک سے جوڑنے کی فراست و حکمت اور رہ نمایانِ علی گڑھ کی سرکار پرست پالیسیوں پر تند و تلخ تنقیدوں کا دفتر ضرور کھلا ہوا ہے۔ یہیں سے وہ ملک کے سیاسی منظر نامے پر اس طرح اُبھرتے ہیں کہ روایتی رہ نمائی کے بُت لرزہ بر اندام نظر آتے ہیں۔ ’الہلال‘ میں اُنھوں نے مسلم علما کی قومی تحریک سے دوری اور سیاسی رہ نمائی میں ناکامی اور دینی رہ بری کی وسعت کے غافلوں کی تقلیدی روش پر اُنھیں جھنجھوڑتے ہوئے لکھا تھا: ’’۔ ۔ ۔ بہتر ہے کہ سرے سے اسلام ہی کو خیرباد کہہ دیا جائے۔ دنیا کو ایسے مذہب کی کیا ضرورت ہے جو صرف خطبی نکاح میں چند آیتیں پڑھ دینےیا بسترِ نزع پر سورۂیٰسین کو دہرا دینے ہی کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے؟‘‘ (’الہلال‘، 9؍اکتوبر 1912ئ،ص :6) یہ حقیقت مشہورہے کہ وہ قومی رہ نمائی کے لیے مسلمانوں کے امام الہند بننا چاہتے تھے لیکن اُن کی راہ میں فرنگی محل اور مولانا عبدالباری جیسے قدامت پسند علما رکاوٹ بنے ہوئے تھے ، لیکن کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس سے پیشتر انھیں کلکّتے کی عید گاہ تک میں امامت اور عیدین کے خطبوں سے دست بردار ہو جانا پڑا تھا غالباً اس لیے کہ وہاں کے حورو قصور کی جستجو میں غرق مصلیّوں کی عبادت گزاری میں مولانا آزاد کی فکرِ دنیا کی باتیں حارج ہو رہی تھیں۔ اپنوں کی طرف سے قتل کی دھمکیاں 5 اور حکومت کی طرف سے ’الہلال‘ کو ضبط کرنا، مولانا کا اپنی نوائے سروش کو ’البلاغ ‘کے پردۂ ساز پر بلند کرنا، پھر حکومت برتانیا کا ڈیفنس آف انڈیا ریگولیشنز کے تحت بنگال سے اُن کے اخراج کا اعلان اور اسی قانون کے تحت پنجاب، دہلی،یوپی اور بمبئی میں بھی اُن کے داخلے کی پابندی۔ بالآخر رانچی (بہار) کے ایک دور افتادہ خرابے میں اپریل 1916ء سے یکم جنوری 1920ء تک کا قید و نظر بندی کا صعوبت آزما دور ہمیںیہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ (حکومت کی نظر میں ) ’الہلال‘ کی شورش انگیزیاں اور اُس کے معاصر ’پانیر‘ کی افترا پردازیاں تو مولانا آزاد کی سزا کا معلوم و معروف سبب ہیں ہی، حکومت اُن کی ماضی کی کچھ سرگرمیوں سے بھی متشکک اور خوف زدہ رہی ہو گی! مولانا آزاد سے گاندھی جی کا پہلا رابطہ یوں ہوا تھا کہ 1908ء میں مولانا کے والد کی وفات کے سانحے پر اُنھیں ٹرانسوال سے گاندھی جی کا تعزیتی تار ملا تھا، اگرچہ مولانا نے اس کی وجہ یہ باور کرائی ہے کہ ’بمبئی اور ٹرانسوال میں اُن کے والد کے عقیدت مند پائے جاتے تھے ‘، 6 لیکن ظاہر ہے کہ گاندھی جی اُن میں نہ رہے ہوں گے۔

ہاں ! یہ ممکن ہے کہ وہ مولانا کی سرگرمیوں کی سُن گُن رکھتے ہوں ! 1918ء میں جب گاندھی جی چمپارن گئے تھے تو اُنھوں نے رانچی میں نظر بند مولانا آزاد سے ملنے کی کوشش کی تھی لیکن حکومت نے اجازت نہ دی تھی۔ آخر جنوری 1920ء میں دہلی میں دونوں رہ نماؤں کی پہلی ملاقات ہوئی اور ستمبر 1920ء میں مولانا، گاندھی جی کی ’تحریک عدم تعاون‘ سے عملی طور پر وابستہ ہو گئے ، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بہت پہلے ’الہلال‘ میں وہ خود اس طرح کا لائحہ عمل پیش کر چکے تھے۔ یہیں سے ایک طرح سے ’الہلال‘ کے بعد، مولانا کی سیاسی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا اور اُنھوں نے گاندھی جی کی سربراہی قبول کر لی۔ دسمبر 1920ء کے کانگریس کے ناگپور سیشن میں تحریک عدم تعاون کی کام یابی اور تحریک خلافت سے کانگریس کے اشتراک سے انگریزوں کے خلاف گرمائے ہوئے ماحول کا جائزہ لیا گیا۔ یہ دل چسپ اتفاق دیکھیے کہ کانگریس کے اسی سیشن سے جناح نے کانگریس سے اپنا تعلق توڑ لیا۔ اس موقع کو یاد کرتے ہوئے مولانا نے کبھی اپنے دل میں کہا تو ہو گاع مرا آنا نہ تھا ظالم تری تمہید جانے کی! یہاں اس حقیقت کا اظہار کرنا بے جا نہ ہو گا کہ 1920ء میں تحریکِ خلافت کے دوش پر مولانا محمد علیمسلم لیڈر شپ کے علم بردار بنے ہوئے تھے اور اس تحریک میں گاندھی جی ان کے رفیق اور کچھ وقت تک مولانا آزاد اُن کے حلیف بنے رہے تھے۔ اُس زمانے میں مولانا محمد علی کی مذہبی جذباتیت، جوشیلی صحافت اور ہنگامی سیاست پر مبنی لیڈری کے سامنے مولانا آزاد کی فراست و متانت کی حامل سیاست کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا لیکن تحریکِ خلافت اور ترکِ موالات نے کم سنی ہی میں دم توڑ دیا تھا اور جنوری 1931ء میں مولانا محمد علی نے میدانِ سیاست ہی نہیں عرصۂ حیات ہی سے وداع لے لی تھی۔ اگر ہم یہ حقیقت بھی دھیان میں رکھیں کہ حکیم اجمل خان اور مختار احمد انصاری جیسے مسلم رہ نما بالترتیب 1927ء اور 1936ء ہی میں اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے تو یہ احساس اور شدید ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد کی مشترکہ قومیت کی بنیاد پر وطن کی آزادی کی جد و جہد میں مولانا آزاد کتنے تنہا پڑ گئے تھے اور اُنھیں کیسے کیسے جاں گسل اور صبر آزما حالات سے لوہا لینا پڑا تھا۔ اور پھر یہ باتیں تو سیاست کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ آزادی ہند کی تاریخ میں مولانا آزاد کانگریس کے سب سے کم عمر صدر بنے اور سب سے طویل مدت تک صدر رہے۔ انھوں نے کانگریس کو کیسے کیسے سیاسی بحرانوں سے نکالا۔ خود پارٹی میں تغیر پسند اور روایت پسند، ترقی پسند اور قدامت پسند کا ٹکراؤ کبھی کبھی کانگریس کو تقسیم کے دہانے پر لے گیا لیکن مولانا نے ہر بار کام یابی سے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا راہ نکالی۔ اُن کی معاملہ فہمی، تدّبر اور متحدہ قومیت میں اٹل وشواس کی وجہ سے اُنھیں گاندھی جی کے بعد اہم مقام حاصل تھا۔ ملک کی آزادی اور اتحاد کی جد و جہد میں مولانا عزم و استقامت کی چٹان بنے رہے اگرچہ انگریزوں نے کوئی طرزِ ستم چھوڑی نہ اپنوں سے کوئی تیر ملامت چھُوٹا۔ اُنھوں نے اپنی زندگی کی تقریباً ایک دہائی قید و بند میں گزاری۔ احمد نگر کی اُن کی اسیری کے دور میں کلکتے میں اُن کی بیوی اور بھوپال میں اُن کی ہمشیرہ (آبرو بیگم) اپنی اپنی بیماری سے جان بر نہ ہو سکیں۔ اُن کے ساتھیوں نے فقر و فاقے میں بھی اُن کے صبر و استغنا کی شہادتیں دی ہیں اور یہ رنج و ابتلا اُنھوں نے اپنے امیری و کبیری کے ماحول کو وطن کے لیے تج کر منتخب کیا تھا۔

مسلم لیگ، جس کے پالن ہار نواب اور زمین دار تھے ، زندگی بھر مولانا کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہی۔ جب جناح نے اُس کی قیادت سنبھالی تو مسلم لیگیوں نے مولانا کو سدا اتہام اور دشنام کا نشانہ بنائے رکھا۔ پنڈت سندر لال نے لکھا ہے کہ ’… کبھی کبھی اُن کی جان بچانے کے لیے خاص انتظام کرنے پڑتے تھے۔ ایسے موقع پر مہاتما گاندھی آہیں بھر کر یہ کہتے تھے کہ ’’آہ، ہمیں مولانا کے لیےیہ انتظام بھی کرنا پڑتا ہے !‘‘ 7 سنگ ہیں ، ناوکِ دشنام ہیں ، رسوائی ہے یہ ترے شہر کا اندازِ پذیرائی ہے رضی اختر شوقی ابوسعید بزمی نے مولانا آزاد سےیہ جاننا چاہا تھا کہ قلم روئے علم و ادب اور مذہب و فلسفے کی تاج داری اُنھیں زیب دیتی ہے ، پھر وہ سیاست کے خارزار سے اپنا دامن چھُڑا کیوں نہیں لیتے ! اور مولانا کی باتوں سے اُنھوں نے اندازہ لگایا تھا کہ چند بار اُنھوں نے ایسا چاہا تھا لیکن گاندھی جی، جواہر لال اور بھولا بھائی ڈیسائی کی دوستی اور محبت نے انھیں سیاست سے الگ نہ ہونے دیا تھا۔ 8 مولانا آزاد اور جواہر لال ایک دوسرے کے گہرے رفیق، مزاج داں اور قدر شناس تھے۔ مولانا نے لکھا ہے کہ نہرو ایک وسیع نظر، با اُصول، روادار انسان اور ہندُستان کی مشترکہ تہذیبکا پیکر تھے۔ اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے نہرو کو جذباتی، حساس اور تصوّر پسند بھی پایا تھا۔ مولانا کا نہرو کے متعلق جہاں یہ دل چسپ تبصرہ ملتا ہے کہ ’نہرو ہر مسئلے کو جس طرح دیکھتے ہیں وہ قومی سے زیادہ بینُ الاقوامی ہوتا ہے ، وہیں پنڈت نہرو کے رجحان طبع کو دیکھتے ہوئے شائستگی سے کیاگیا یہ اشارہ بھی کہ ’لیڈی ماؤنٹ بیٹن‘ اُن لوگوں کی بھی ہم نوائی حاصل کر لیتی ہیں جو اُن کے شوہر سے پہلے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ ‘ 9 مولانا آزاد، نہرو کی دو بڑی غلطیاں کبھی معاف نہیں کر پائے۔ ایک تو یہ کہ 1937ء کے انتخاب کے بعد یوپی کی وزارت میں لیگ کو شامل نہ کرنا کانگریس کی وہ غلطی تھی جسے جناح نے یوپی میں فرقہ ورانہ ڈھنگ سے اُچھال کر لیگ میں نئی جان ڈالنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ اُنھیں کیبینٹ مشن کی ناکامی کا ذمے دار بھی سمجھتے تھے۔ مولانا آزاد نے کِرپس سے لے کر شملہ کانفرنس، لارڈ ویول، اور کیبینٹ مشن تک کی ہر گفتگو میں رہ نمائی کی تھی یا شریک رہے تھے۔ 1946ء میں اُنھوں نے کانگریس کی صدارت چھوڑی تو اکثریت کا رُخ سردار پٹیل کی طرف ہوتے ہوئے بھی اُنھوں نے نہرو کو اپنا جا نشیں مقرر کیا تھا، لیکن آزادی کے دس برس بعد اپنی سیاسیسرگذشت لکھواتے ہوئے اُنھوں نے اعتراف کیا کہ اگر اُنھوں نے سردار پٹیل کو اپنا جا نشیں مقرر کیا ہوتا تو وہ جناح کو یہ موقع فراہم نہ کرتے کہ وہ تقسیم کے مطالبے کی طرف مراجعت کریں۔ اس کے علاوہ اُن کی رائے میں جناح کی جارحانہ سیاست کے جواب میں گاندھی جی کا تحمل اور مفاہمت پسندی رویّہ بھی جناح کے حوصلے بڑھانے کا سبب بنا تھا اور گاندھی جی کا اپنے آشرم کی ایک مسلم خاتون کے منہ سے جناح کے لیے ’قائد اعظم‘ کے لفظ سن کر جناح کو لکھے اپنے ایک خط میں اُنھیں ان ہی القاب سے خطاب کرنا بھی غیر دانش مندانہ تھا، لیکن سچ پوچھیے تو 1940ء میں مسلم لیگ کی قرار دادِ پاکستان کے بعد جناح کی فرقہ ورانہ سیاست نے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا اور وہ مولانا آزاد کے متحدہ قومیت کے پیغام کو کانگریس کی سیاسی حکمت عملی سمجھ کر اَن سُنا کرنے لگتے تھے۔

مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ ’پاکستان‘ کا نام ہی میرے حلق سے نہیں اُترتا۔ کیا دنیا میں کچھ حصّے پاک ہیں کچھ ناپاک!‘ 10 اُن کا کہنا تھا کہ ’تقسیم اتنے مسائل حل نہیں کرے گی جتنے کہ پیدا کرے گی۔ ‘ اور سب نے دیکھا کہ اس تقسیم نے مسلمانوں کو وہ نقصانِ عظیم پہنچایا کہ

ع کسی صورت کسی عنوان تلافی نہ ہوئی!

مغربی اور مشرقی پاکستان کی تشکیل دیکھ کر اُنھوں نے جو پیشین گوئی کی تھی کہ: ’’یہ دونوں علاقے کسی مقام پر ایک دوسرے سے متصل نہیں ہیں۔ یہاں کے باشندے مذہب کے سوا ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ کہنا عوام کو ایک بڑا فریب دینا ہے کہ صرف مذہبی یگانگت دو ایسے علاقوں کو متحد کر سکتی ہے جو جغرافیائی، معاشی، لسانی اور معاشرتی اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل جُدا ہوں۔ ‘‘ 11 کیا ہم نے اُسے مولانا کی تحریر کے صرف 25برسوں میں بنگلا دیش کی صورت میں حقیقت بنتے نہیں دیکھ لیا! اپنی اسی تحریر میں اُنھوں نے اس تلخ حقیقت کا اظہار کرنے سے بھی گریز نہ کیا تھا کہ: ’’اس میں شک نہیں کہ اسلام نے ایک ایسے معاشرے کے قیام کی کوشش کی جو نسلی، معاشی اور سیاسی حد بندیوں سے بالاتر ہو لیکن تاریخ شاہد ہے کہ شروع کے چالیس برسوں یا زیادہ سے زیادہ پہلی صدی کو چھوڑ کر اسلام کبھی سارے مسلمان ممالک کو صرف مذہب کی بنیاد پر متحد نہ کر سکا۔ ‘‘ کیا مولانا کی اس تحریر کے مزید 55برسوں بعد بھی اس حقیقت میں کوئی فرق آیا ہے ! مولانا آزاد فطری طور پر ایک دانش ور تھے اور دروغ آمیز سیاست کی زبان نہیں جانتے تھے۔ اُنھوں نے بے لاگ لپیٹ ’الہلال‘ کے صفحات پر اس ’بدبخت و زبوں طالع قوم کو ملکی ترقی کے لیے ایک رُکاوٹ، ملک کی فلاح کے لیے ایک بدقسمتی، راہِ آزادی میں سنگِ گراں ، حاکمانہ طمع کا کھلونا اور ہندستان کی پیشانی پر ایک گہرا زخم بتایا تھا۔ 12 اور طفیل احمد منگلوری نے لکھا تھا کہ ’رجعت پسند مسلمان نئے نئے مطالبات پیش کر کے آزادیِ ہند کی راہ میں ’سنگِ گراں نہیں مثل کوہِ گراں ثابت ہوئے تھے۔ 13 یہ تلخ نوائیاں سید حامد جیسے بہت سے مخلصانِ قوم کے گلے میں صبر و حنظل گھول جاتی ہیں ، لیکن اس سے حقیقت تو نہیں بدل جاتی! دیکھیے ’سچی باتیں ‘ لکھنے والے مولانا عبدالماجد دریابادی نے جو خود بھی پاکستان کی تحریک کے حامی تھے ، اپنی ’آپ بیتی‘ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ ’’جب میں نے اپنے ہوش کی آنکھیں کھولیں ، مسلمانوں کی پالیسی سرکار انگریزی کی تائید و وفاداری کی پائی۔ علی گڑھ تو خیر اس کے لیےمشہور ہی تھا۔ باقی دیوبند، ندوہ، فرنگی محل، بریلی، بدایوں ، کیا علما و مشائخ اور کیا قومی لیڈر، اردو اخبار سب اسی خیال و عقیدے کے تھے کہ سرکار کی وفاداری کا دم بھرے جائیے ، مفادِ ملّی کا عین یہی تقاضا ہے۔ ‘‘ (ص:260) آزادی کے بعد عدم تشدّد کے پیروؤں کی دہشت گردی اور دلّی میں مسلمانوں کی ہلاکتیں دیکھ کر مولانا نہ جانے کس قیامت سے گزرے ہوں گے ! سردار پٹیل کہتے تھے کہ دونوں طرف کی اقلیتیں ایک جیسے انجام سے گزر رہی ہیں۔ بیگم انیس قدوائی نے اپنی ایک کتاب میں اُس دور کی داستانِ اشک و خوں کا مرقّع کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ اُنھوں نے کتنی پُر مغز بات لکھی ہے : ’’افراد کا کردار حکومت کا کردار بن جاتا ہے اور اُن کا اخلاقی زوال ملک و قوم کا تنزّل!‘‘14 مولانا نے اپنی زندگی ہی میں نومولود ’مملکتِ خداداد‘ میںیہاں سے زیادہ بدامنیوں اور شورش انگیزیوں کا دور دورہ دیکھا تھا اور مہاجروں کے ناگفتہ بہ حالات بھی۔ اُس وقت اُن کے دلِ حزیں میں ضرور یہ سوال آیا ہو گا،

بُجرم عشق اگر کُشتی مرا، ممنونِ احسانم

گناہِ زاہدے بیچارہیارب چیست! حیرانم (حزیں )

(ترجمہ: اگر عشق کے جرم میں تُو نے مجھے ہلاک کیا تو مَیں (اس) احسان کا ممنون ہوں ، لیکن یارب! بے چارے زاہد نے کون سا گناہ کیا ہے؟ میں (اس پر) حیران ہوں !)

اور یہاں اپنی جامع مسجد کی 23اکتوبر 1947ء کی تقریر میں اُنھوں نے ’سات کروڑ انسانوں کے غول‘ کو مخاطب کر کے اپنے دلِ پُر درد کی جو داستاں سُنائی تھی، اس کے بعد کہنے کے لیے کچھ باقی نہیں بچتا۔ مولانا کی نوائے سروش در اصل صحرا کی اذان تھی، جسے کوئی گوشِ شنوا نہ ملا اور اُن کے فکر و نظر کی روشنی ’سُونے مکان کا دِیا‘ تھی، جسے کوئی دیدی بینا میسّر نہ ہوا، در اصل برِّ صغیر کے مسلمانوں نے مولانا آزاد کی بجائے جناح کا ساتھ دے کر 15 اپنی ہزار سالہ مشترکہ تہذیب کی بربادی کے اُسی سفر میں ایک اور جست لگائی تھی جس کا آغاز انھوں نے 300برس قبل دارا شکوہ کی بجائے اورنگ زیب کا ساتھ دے کر شروع کیا تھا۔ تب سے بحیثیت مجموعی برِّ صغیر کا مسلمان، وہ چاہے یہاں کا ہو یا وہاں کا، اس مصرعے کی تصویر بنا ہوا ہے :ع مَیں ہوں لفظِ ’درد‘ جس پہلو سے اُلٹو درد ہے۔

سردار ولبھ بھائی پٹیل، مرارجی ڈیسائی نے اِنڈین نیشنل کانگریس کے صد سالہ یادگاری مجلّے 1 میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا تعارف لکھا ہے۔ اُس کا ملخص یوں ہے کہ ’وہ ناڈیاڈ کے ایک کاشت کار خاندان میں 1875میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ گودھرا میں وکالت کرنے لگے تھے پھر وہاں سے بورسد (ضلع کھیڈا) منتقل ہو گئے ، جہاں جرائم کا گراف کافی بڑھا ہوا تھا۔ وہاں وکیل دفاع کی حیثیت سے اُن کا بڑا شہرہ ہوا۔

1909 ء میں جب اُن کی بیوی کسی بیماری میں ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھی اور وہ آنند میں کسی قتل کے مقدمے میں ایک گواہ سے جرح کر رہے تھے ، اُنھیں کاغذ کے ایک پرزے پر یہ المیہ خبر دی گئی کہ اسپتال میں آپریشن کے دوران اُن کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ ‘ اُنھوں نے کسی طرح کے تاثرات ظاہر کیے بِنا جرح کی کار روائی مکمل کی اور بعد میں دوسروں کو اس سانحے سے مطلع کیا۔ آگے چل کر آہنی انسان کہلانے والے ولبھ بھائی کے مزاج کے استقلال اور جذبات پر قابو رکھنے کا یہ پہلا نقش تھا جو وہاں لوگوں کے دلوں پر ثبت ہو گیا تھا۔ 1910ء میں وہ وکالت کی مزید تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے تھے ، اور1913ء میں وہاں سے بیرسٹر بن کر لوٹنے کے بعد اُنھوں نے احمد آباد میں پریکٹس شروع کر دی تھی۔ 1918ء میں اُنھوں ضلع کھیڈا کے مفلوک الحال کاشت کاروں پر سے لگان کی موقوفی کے لیے تحریک چلائی تھی اور اُسی دور میں وہ گاندھی جی کی تحریک سے وابستہ ہوئے تھے۔ جب 1928ء میں باردولی میں اُن کی قیادت میں محصول اراضی کا اضافہ ختم کرانے کی تحریک کامیاب ہوئی تھی تو وہاں کے کسانوں نے خوش ہو کر اُنھیں ’سردار‘ کہنا شروع کر دیا تھا جو بالآخر اُن کے نام کا جُز بن گیا۔ ہم بھی آیندہ سطروں میں اُنھیں سردار سے خطاب کریں گے۔ جیسا کہ مولانا آزاد نے لکھا ہے ، سردار پوری طرح گاندھی جی کے ساختہ پرداختہ لیڈر تھے۔ 1931ء میں گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد جب کانگریسی رہ نماؤں کو داخلِ زنداں کیا گیا توسردار سولہ ماہ تک گاندھی جی کے ساتھیروڈا جیل میں رہے تھے۔ ڈاکٹر رفیق زکریا نے اپنی کتاب ’سردار پٹیل اور ہُندستانی مسلمان‘ 2 میں اُن کی شخصیت اور کردار کے کئی پہلو روشن کیے ہیں۔ مثلاً اُنھوں نے گاندھی جی کی تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد وکالت کے دور کا مغربی لباس، کلب کی زندگی کا لطف و انبساط اور شام ڈھلے کی برج پارٹیاں ساری چیزیں ترک کر دی تھیں اور فکری ہی نہیں ظاہری اعتبار سے بھی پکّے ہندستانی بن گئے تھے۔ وہ ایک سخت مزاج، قوی جُثّہ اور کھردرے لب و لہجے کے انسان تھے۔ اُن کے سلسلے میں مشہور تھا کہ ’اُن کا بھونکنا کاٹنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ ‘ بقول مینومسانی وہ بہت ذہین تھے نہ ذوقِ نظر کے حامل۔

اُن کے بارے میںیوسف مہر علی کی کہی ہوئی یہ بات بھیمشہور ہے کہ ’اگر سردار پٹیل کسی کلچر سے واقف ہیں تو وہ صرف ایگری کلچر ہو سکتا ہے۔ 3 دوسرے مذاہب تو دُور رہے اُن کا ہندو مذہب کا مطالعہ بھی رسمی نوعیت کا تھا۔ اگرچہ یہ کہا گیا ہے کہ اُنھوں ’رامائن‘ اور ’مہابھارت‘ کا مطالعہ کیا تھا، لیکن ان رزمیہ قومی داستانوں کے مطالعے سے تو ملک کے 90% پڑھے لکھے لوگ (مسلمان بھی) محظوظ ہوتے رہتے ہیں ! ایک بار گاندھی جی کے سکریٹری مہادیو ڈیسائیسردار کا یہ سوال سُن کر دنگ رہ گئے تھے کہ ’سوامی وویکا نند کون تھے؟‘ اور سردار کو خجل ہونا پڑا تھا۔ مجموعی طور پر سردار ایک نڈر، مصلحت ناپسند اور (تقسیم ملک سے قبل تک) غیر متعصب شخص تھے۔ اُنھوں نے دھرم کے ڈھکوسلوں اور فضول رسموں کا کبھی دفاع نہیں کیا تھا۔ کانگریس کے پرچار کے جلسوں میں بھی اُنھوں نے لوگوں کے مذہبی جذبات کی پروا نہیں کی تھی۔ ایک بار بچپن کی شادی کی مخالفت میں اُنھوں نے ہندوؤں کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایسی مضحکہ خیز شادیاں رچانے والے ماں باپ اور پنڈتوں کو گولی مار دینے والے قانون پر عمل کریں گے۔ یہ جو مذہب کے خطرے میں ہونے کا واویلا مچایا جاتا ہے تو در اصل ان ہی والدین اور پنڈتوں نے مذہب کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ اسی طرح اُنھوں نے مسلمانوں کو پردے کے رواج پر یُوں لتاڑا تھا کہ ’’عورتوں کو پردے میں رکھتے ہوئے تمھیں شرم نہیں آتی! یہ عورتیں تمھاری مائیں ، بہنیں ، بیویاں ہی تو ہیں ، اُن پر شک کرنے کا تمھیں کیا حق ہے؟ کیوں اُنھیں غلاموں کی طرح قید کر رکھا ہے؟ میرا جی چاہتا ہے کہ میں عورتوں سے کہوں کہ ایسے بزدل شوہروں کے ساتھ زندگی گزارنے سے تو بہتر ہے کہ وہ اُنھیں طلاق دے دیں۔ ‘‘ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کوئی جدید طرزِ فکر کے حامل تھے۔ اُن کے سوانح نگاروں نے اُنھیں قدامت پسند پایا ہے۔ مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ احمد نگر کی جیل میں جب قیدیوں کو ہیضے کے مدافعتی ٹیکے لگائے جا رہے تھے تو سردار پٹیل اور چند ساتھیوں نے ٹیکے لگوانے سے انکار کر دیا تھا۔ سیکولرزم کے نظریے کی ’بِنا مذہبی‘ تعریف اُنھیں ناپسند تھی اور وہ نہروئن سوشلزم کے بھی حامی نہ تھے۔ اس کے برخلاف وہ آزاد معیشت کے زبردست مویّد ہونے کی وجہ سے سرمایہ داروں میں مقبول تھے اور کانگریس پارٹی کے لیے فنڈ جمع کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بھی۔ ۴؍عبوری حکومت کے دنوں میں مسلم لیگی وزیر خزانہ لیاقت علی خاں کے بجٹ کے ٹیکسوں نے تاجروں پر آفت ڈھا دی تھی، جن میں اکثریت ہندوؤں کی تھی، اُس وقت سردار تِلملا کر رہ گئے تھے۔ مولانا آزاد اور سردار پٹیل کا تقریباً تیس برسوں کا ساتھ رہا تھا۔ مولانا آزاد نے ’ہماری آزادی‘ میں ایسے کئیواقعات کا ذکر کیا ہے ، جِن سے اقلیتوں کے سلسلے میں سردار کے منافرانہ نہیں تو غیر دوستانہ اور غیر ہم دردانہ رویّے کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔

مثلاً 1935-36ء میں بمبئی کی صوبائی حکومت کی تشکیل کے وقت وہاں کے ممتاز پارسی رہ نما مسٹر نریمان کا حق ہوتے ہوئے بھی سردار نے بی جی کھیر کو بمبئی کا پہلا چیف منسٹر بنا دیا تھا، اُس کے بعد مسٹر نریمان کا سیاسی کرئیر پھر پنپ نہ سکا تھا، اس پر مستزاد بی جی کھیر ہی کے عہد میں کانگریس کی نافذ کردہ شراب بندی نے اس کاروبار کے اجارہ دار پارسیوں کی تجارت پر کاری ضرب لگائی تھی۔ اُن کی تالیف قلب کے خیال سے دہلی میں 1946ء کی عبوری حکومت میں مولانا آزاد نے سردار کو صلاح دی تھی کہ وہ کسی پارسی کو بھی کابینہ میں شامل کر لیں۔ وہ اس چھوٹی سی جماعت کی حسنِ معاشرت و طرز معیشت اور اُس کی کانگریس سے وفاداری کے پیش نظر مخلصانہ جذبات رکھتے تھے۔ سردار نے غیر ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے بیٹے کے ایک دوست ایچ سی بھابا کو شامل کیا تھا، جو کسی بھی اعتبار سے پارسیوں کے نمائندے نہیں تھے اور اپنی نا اہلی کی بِنا پر کابینہ میں ٹِک بھی نہ سکے تھے۔ اس کے علاوہ بمبئی کے کامیاب وکیل بھولا بھائی ڈیسائی نے اپنی فرض شناسی اور حسنِ کارکردگی کی بِنا پر مختصر سی مدت میں پارٹی میں جو عروج حاصل کر لیا تھا وہ بہت سے پرانے کانگریسیوں (بشمول سردار پٹیل) کے لیے رشک و حسد کا سبب بن گیا تھا۔ 1945ء میں ایک بے بنیاد تنازعہ کھڑا کر کے اُن کی اس حد تک کردار کُشی کی گئی وہ مردِ شریف دل کے مرض میں مبتلا ہوکے لقمۂ اجل بن گیا تھا۔ بنگال کے کرن شنکر رائے اور کئی کانگریسی لیڈروں کو تقسیم ملک کے سمجھوتے کی یہ شق بہت وحشیانہ لگی تھی کہ تقسیم کے بعد ایک طرف کی اقلیت کے تحفظ کی ضمانت دوسری طرف کی اقلیت کی سلامتی سے مشروط ہو گی۔ گویا انھوں نے اپنی اپنی اقلیتوں کو یرغمال کی حیثیت دے دی تھی۔ رائے کی دُہائی صدر کانگریس نہرو نے سُنی نہ ہی سردار پٹیل نے۔ کرن شنکر رائے نے اپنی زندگی ہی میں اپنے اندیشوں کو خوں چکاں مناظر میں بدلتے دیکھا تھا اور آبدیدہ ہوتے رہے تھے۔ نہرو اور سردار دونوں ہی گاندھی جی کے قریب تھے اور اُن میں کچھ نہ کچھ مسابقت کا جذبہ بھی موجود تھا۔ 1950ء کے کانگریس کے ناسک سیشن میں ان میں ٹکراؤ کی نوبت آ گئی تھی جب سردار نے کانگریس کی صدارت کے لیے مسلم دشمنی میں مشہور پرشوتم داس ٹنڈن کو نام زد کر دیا تھا۔

ٹنڈن، پنڈت نہرو کے لیے شخصی اور نظریاتی ہر اعتبار سے ایک ناپسندیدہ شخص تھے۔ اُنھوں نے نسبتاً کم ناپسندیدہ اچاریہ کرپلانی کے نام پر مصالحت کرنا چاہی تھی۔ سردار نے ہوا کا رُخ جاننے کے لیے فخرالدین علی احمد اور دوسرے لیڈروں کے پاس مخبر دوڑایا۔ اُن لوگوں کا رجحان نہرو کی حمایت میں دیکھ کر اُنھوں نے فخرالدین علی احمد سے کہا تھا کہ ’کیا تم لوگوں کی مت ماری گئی ہے ! یاد رکھو، نہرو وہ شخص ہے جو نہ کسی دشمن کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ کسی دوست کی مدد کر سکتا ہے۔ مگر میں نہ تو کبھی اپنے دوست کو بھولتا ہوں اور نہ ہی دشمن کو معاف کرتا ہوں۔ ‘ آخر ٹنڈن جیت گئے تھے اور نہرو کو سخت صدمہ ہوا تھا۔ جب ٹنڈن کی سوشلزم مخالف اور غیر روادارانہ پالیسیاں اُن کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی تھیں تو نہرو نے ورکنگ کمیٹی سے استعفا دے دیا تھا۔ اُس وقت سردار کے ہوا خواہوں نے اُنھیں اُکسایاتھا کہ وہ خود وزیر اعظم بن جائیں۔

سردار بہرکیف حقیقت پسند تھے ، اُنھوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا تھا کہ ’میں جانتا ہوں کہ پارٹی میرے ساتھ ہے ، لیکن عوام نہرو کے ساتھ ہیں۔ ‘ آخر نہرو کے بِنا ورکنگ کمیٹی کے ممبران کے عدم تعاون کے اندیشے سے ٹنڈن مستعفی ہو گئے تھے اور نہرو نے صدارت سنبھال لی تھی۔ جب 1946ءمیں مولانا آزاد نے کانگریس کی صدارت چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا تو 16 میں سے 13ریاستی نمائندوں کی حمایت سردار کو حاصل تھی، لیکن مولانا نے نہرو کو ترجیح دی تھی اور گاندھی جی کو بھی ہم نوا بنا لیا تھا۔ اُس کے باوجود سردار نے کشادہ دلی کے ساتھ شکریہ کی تحریک پیش کر کے مولانا آزاد کی کانگریس کے صدر کی حیثیت سے انجام دی گئی خدمات کو سراہا تھا۔ سردار کو اس بات کا ہمیشہ افسوس رہا تھا مسلمان گاندھی جیسے مخلص انسان کی بات نہیں سنتے تھے اور حیرت رہی تھی کہ مولانا آزاد جیسا راست باز اور عالمِ دین، جناح جیسے بے عمل اور صرف نام کے مسلمان کے اثر کو زائل کرنے میں کیوں ناکام رہا؟ وہ خان عبدالغفار خان کے زیادہ قائل تھے ، جنھوں نے پٹھانوں میں جناح کو کبھی پنپنے نہیں دیا تھا اور اُن کا صوبہ سرحد مسلم لیگ کے لیے ناقابلِ تسخیر رہا تھا۔ نجانے سردار نے یہ بات کیسے نظر انداز کر دی کہ علاقائی یا قبائلی سطح کی کامیابی الگ چیز ہے جب کہ ملک گیر سطح پر لوگوں کا رجحان بدلنا آسان نہیں ! بقول راج موہن گاندھی سردار کی دنیا میں مسلمانوں کا کوئی گزر نہیں رہا سوائے اپنے کانگریسی ساتھیوں ، علی برادران اور چند اور مسلمانوں کے۔ ایک بار گاندھی جی نے اُنھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی تہذیب و روایات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے اردو زبان سیکھ لیں۔ سردار نے اپنی بڑھتی عمر کا عذر کرتے ہوئے اُن پر یہ طنز کیا تھا کہ ’آپ کے اردو سیکھ لینے سے کون سے خاطر خواہ نتائج نکلے ہیں ! آپ جتنا اُن کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ اتنا ہی آپ سے دور بھاگتے ہیں۔ ‘ تقسیم کے بعد ہندُستان میں اردو کی اہمیت کم ہوتی گئی۔ پاکستان نے اردو کو اپنی قومی زبان بنا لیا تھا اور ہندی حکومتِ ہند کی سرپرستی میں پھلنے پھولنے لگی تھی۔ سردار نشر و اشاعت اور معلومات عامّہ کے بھی وزیر تھے۔ اردو زبان سے اگر اُن کے تعصّب کا کوئی ثبوت نہیں ملتا تو محبت کا بھی نہیں ملتا۔ ڈاکٹر زکریا نے جو چند مثالیں پیش کی ہیں وہ اُن کی اردو کی حمایت کی نہیں حکمت عملی کی مظہر ہیں۔ وہ ملک کی زبان کے لیے گاندھی جی کی تقریروں کی زبان کو مثالی مانتے تھے۔ اُنھوں نے آل انڈیا ریڈیو میں سنسکرت آمیز ہندی کے بڑھتے استعمال پر ایک بار آر آر دیواکر کو اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’آل انڈیا ریڈیو کی زبان عام فہم ہونی چاہیے ،یہکوئی ادبی کلب نہیں ہے۔ ‘ اسی خط میں انھوں نے مشورہ دیا تھا کہ آل انڈیا ریڈیو کی نشریات کا کچھ حصہ اردو میں پبلسٹی اور مسلمانوں اور پناہ گزینوں میں سیکولر تہذیب و ثقافت کو عام کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ ‘

سردار کی ایما پر پبلی کیشن ڈیویزن سے جریدہ ’آج کل‘ جاری ہوا تو مقصد یہی تھا کہ حبِ وطنی اور قومی ہم آہنگی کے جذبات کو فروغ دیا جائے جیسا کہ انھوں نے جوشی کو مشورہ دیا تھا۔ جوشی کو سروجنی نائیڈو کی سفارش پر اڈیٹر بنایا گیا تھا، لیکن اُن کی تقر ری سے پہلے سردار نے اپنے سکریٹری وی شنکر کی زبانی جوش کی نظمیں سُن کر اُن کے فِکری پہلو سے اپنی تسلی کر لی تھی اور وہ جوشی کی انقلابی اور وطنی جذبے کی نظمیں سُن کر واقعی بہت خوش ہوئے تھے۔ کانگریسی نقطۂ نظر سے لکھی گئی ڈاکٹر زکریا کی کتاب کا 75%حصّہ سردار پر لگے فرقہ پرستی کے الزامات کی صفائی میں صرف ہوا ہے۔ سردار کی رواداری کی مثال میں زکریا نے لکھا ہے کہ انھوں نے فسادات کے دنوں میں بھی دہلی کے مسلم چیف کمشنر خورشید احمد کو اُن کے عہدے پر برقرار رکھا تھا۔ جب کہ مولانا آزاد کے بموجب صاحب زادہ آفتاب احمد کے صاحب زادے خورشید احمد محض نام کے افسر اعلا تھے۔ کہیں اُن پر مسلمانوں کی طرف داری کا الزام نہ لگ جائے ، اس ڈر سے اُنھوں نے فساد روکنے کے ضروری قدم بھی نہ اُٹھائے تھے۔ 1949ء میں جب اُتر پردیش میں گوند ولبھ پنت وزیر اعلا تھے ، بابری مسجد میں رام کی مورتی رکھ دی گئی تھی۔ ڈاکٹر زکریا نے پنت کے نام لکھے سردار کے اس پیغام کو بھی کافی سراہا ہے کہ ’’اگر ہم اس معاملے میں کسی خاص گروہ کی طرف داری کرتے ہیں تو یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہو گی۔ ‘‘ لیکن اُنھوں نے خط کے بینِ سطور پیغام پر غور نہیں کیا جس میں ’طے شدہ اُمور‘ کو بھی اقلیتوں کو پرچا کر حل کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اُس واقعے کے تناظر میں بھاجپا کو لتاڑتے ہوئے ڈاکٹر زکریا نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’جمہوریت اور سیکولرزم کے عہدِ جدید میں فاشسٹوں نے بابری مسجد کو پیشگی علم و اطلاع کے ساتھ دن کے اُجالے میں منہدم کر کے ملک اور قوم کا وقار ملیا میٹ کر دیا تھا۔ لیکن اُنھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کانگریس ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم پر عمل پیرا رہی تھی اور مشہور صحافی شمس کنول کے لفظوں میں ’چوکی دار ہی چور سے مل گیا تھا۔ ‘ گاندھی جی نے دہلی میں مسلمانوں کی ہلاکتوں کے لیے سردار کو ذمے دار مانا تھا اور اُن کی بے عملی کو دیکھ کر اُنھیں فسادات رکوانے کے لیے اپنی ضعیفی میں برت رکھنا پڑا تھا۔ کچھ دنوں بعد جب گاندھی جی قتل کر دیے گئے تو جے پرکاش نرائن نے اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہندُستان کا وزیر داخلہ اس قتل کی ذمے داری سے بچ نہیں سکتا۔ جب گاندھی جی کے خلاف کھلے عام زہریلا پروپیگنڈا ہو رہا تھا اور اُن کی پرارتھنا سبھا میں ایک بم پھینکا بھی جا چکا تھا تو اُن کے تحفظ کا خاص انتظام کیوں نہیں کیا گیا!‘ آج اس بات کا ذکر ایک کارنامے کی طرح کیا جاتا ہے کہ سردار پٹیل نے آر ایس ایس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ راشٹر پتا کے قتل پر اگر اتنا بھی نہ کیا جاتا تو اس سے بڑی نا اہلی اور کیا ہوتی! طرفہ تماشا یہ کہ صرف سولہ سترہ ماہ میں گوالکر کی اس یقین دہانی پر پابندی ہٹا لی گئی تھی کہ اس تنظیم کی سرگرمیاں تہذیب و ثقافت تک محدود رہیں گی۔ وہ ملک کے دستور کی پابند ہو گی اور قومی پرچم کا احترام کرے گی۔ 15دسمبر 1950کو سردار کی آنکھیں مُندتے ہی اس تنظیم نے اپنے عہد کی دھجیاں اس طرح اُڑائیں کہ 26جنوری 2002ئ تک 52برسوں میں اپنے ہیڈ کوارٹر ’اسمرتی بھون‘ (ناگپور) پر کبھی قومی پرچم نہیں لہرایا اور وہاں آج بھی گاندھی کے قاتل گوڈسے کو ایک شہید کی طرح یاد کیا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد سردار مسلم لیگ کی فرقہ پرستی کا عملی جواب ثابت ہوئے تھے۔ اُنھوں نے مسلمانوں پر اعتبار نہ کرنے کی پالیسی اپنائی تھی، اس لیے کہ وہ انھیں تقسیم کا ذمے دار سمجھتے تھے۔ اُنھوں نے ’پرمٹ سسٹم‘ کے ذریعے 15؍اگست 1947ءسے قبل پاکستان گئے ہر ہندُستانی مسلمان کی ہندُستانی شہریت ختم کر دی تھی، چاہے وہ سیر و تفریح کے لیےیا کسی رشتے دار ہی کے پاس کیوں نہ گیا ہو۔ اس کے علاوہ ’قانون ضبطیِ جائیداد‘ کا نفاذ کر کے ہندُستان سے جانے والے مسلمانوں کے کاروبار، صنعتیں ، دکانیں ، زمینیں ہر طرح کی منقولہ غیر منقولہ جائیداد ضبط کر کے اُنھیں تباہی کے غار میں ڈھکیل دیا تھا۔ پھر بھی اُنھیں اس بات کی خلش رہی تھی کہ اس سے دس گنا جائیدادیں ہندوؤں اور سکھوں کی پاکستان نے ہڑپ کر لی ہیں۔

ڈاکٹر زکریا نے لکھا ہے کہ ہندُستانی مسلمانوں کی اس تباہی کے ذمے دار بھی جناح تھے ، جن کی زندگی ہی میں پاکستان نے ان سیاہ قوانین کے نفاذ کی پہل کی تھی، لیکن سچ تو یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کے اس عہد میں سردار پر بھی فرقہ پرستی کا رنگ چڑھ رہا تھا۔ بقول راج موہن گاندھی اُنھیں پچاس مسلمانوں کی موت پر اتنا غم نہ ہوتا تھا جتنا پانچ ہندوؤں یا سکھوں کی موت پر! نہرو کی بار بار کی فہمائش اور مسلمانوں سے ہم دردی پر خفا ہو کر اُنھوں نے ایک بار کہہ دیا تھا کہ ’ہندُستان میں صرف ایک محب وطن مسلمان ہے اور وہ نہرو ہے۔ ‘ یہ فقرہ آگ کی طرح پھیل گیا تھا اور گاندھی جی نے پریشان ہو کر اُنھیں متنبہ کیا تھا کہ ’وہ اپنی ذہانت کی نمائش میں اتنے بے احتیاط نہ ہوں۔ ‘ لیکن اُنھوں نے گاندھی جی کو بھی نہیں بخشا تھا اور اُن کی بار بار کی تنبیہوں پر یہ گستاخانہ جواب دیا تھا، ’’مسلمانوں کے ساتھ نرمی برتنے کی وجہ سے آپ کا دماغ پلپلا ہو گیا ہے۔ ‘‘ شمس کنول نے اُن کے بارے میں لکھا تھا کہ ’سردار سیاست داں ہونے کے باوجود دوغلے اور ریاکار نہ تھے ، اس لیے اُن کا یہ کہنا مسلمانوں کو بُرا لگتا تھا کہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے دو کشتیوں میں سوار ہونا خطرناک ثابت ہو گا، جِن کو ہندُستان سے زیادہ پاکستان عزیز ہے اُن کو چاہیے کہ وہ پاکستان چلے جائیں۔ ‘ پھر اُنھیں کچھ واقعات اور ساتھیوں کے تجربوں نے بھی سخت گیر بنا دیا تھا۔ جب سردار کو بتایا گیا کہ حیدرآباد کے مسلمانوں نے لائق علی (نظام حیدر آباد اور قاسم رضوی کے قریبی ساتھی) کے پولس کی نگرانی سے نکل بھاگنے کا جشن منایا ہے تو اُنھوں نے کہا تھا: ’’کیا مسلمانوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اُن کا مستقبل ہندُستان سے وابستہ ہے !‘‘ اس کے علاوہ ڈاکٹر سیّد محمود، ہندُستانی فضائیہ کے ایک سبک دوش مسلمان افسر اعلا اور چودھری خلیق الزماں جیسے لوگوں کے کردار و عمل نے بھی اُن کے مزاج کو عدم رواداری کی طرف پھیر دیا تھا۔ ڈاکٹر سید محمود جو کانگریس کے ایک ممتاز لیڈر اور ’ہندستان چھوڑ دو‘ تحریک کے گرفتاروں میں سے تھے۔ احمد نگر کی اسیری میں اُنھوں نے اپنے آزاد اور نہرو جیسے ساتھیوں سے چھپا کر وائسراے کو خط لکھا تھا اور تحریک سے اپنی علاحدگی کا یقین دلا کر اپنی رہائی کا سودا کر لیا تھا۔ اُن کی رہائی کا راز کھلنے پر سردار نے کہا تھا کہ ’اگر اُنھوں نے یہ نہ کیا ہوتا اور مر گئے ہوتے توہم اُن کی زندگی کو خوش گوار ڈھنگ سے یاد رکھتے !‘ اس کے علاوہ ہندُستان میں رہ گئے مسلم لیگ کے قد آور لیڈر چودھری خلیق الزماں نے 15؍اگستکوہندستانکی پارلی منٹ میں ہندستان سے اپنی وفاداری کا ایسا جذباتی اظہار کیا تھا کہ پنڈت نہرو نے اُ ٹھ کر اُنھیں گلے لگا لیا تھا۔ کچھ دنوں بعد وہ ایک خیر سگالی وفد لے کر پاکستان گئے تھے اور اُسی کو پیارے ہو گئے تھے۔

خیر گزری کہ سردار نے اپنی زندگی میں اپنے پسندیدہ شاعر جوشی کو پاکستان سدھارتے نہیں دیکھا۔ آزادی کے بعد وہ صرف تین برس چار ماہ زندہ رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ وہ گاندھی جی کی ناراضی جو نفرت میں بدل گئی تھی نہ سہہ پائے تھے اور اُن کے قتل کے سانحے کے چند ماہ بعد دل کے مریض بن گئے تھے۔ آزاد ہند کی تاریخ میں سردار کا سب سے بڑا کارنامہ ایک ہی سال میں 562دیسی ریاستوں (جن میں 366گجرات میں تھیں ) کا ہندستان سے انضمام کرانا تھا، جس کے لیے اُنھوں نے سام دام ڈنڈ بھید ہر حکمت عملی سے کام لیا تھا۔ اُسی دوران اُنھوں نے کانگریس کی تنظیم کو مضبوط کرنے اور ملک کے حالات کو معمول پر لانے میں بھی کام یابی حاصل کر لی تھی۔ سردار ایک انتہائی فعال اور les tractableلیڈر تھے۔ مولانا آزاد نے اُن کی انتظامی صلاحیت اور اپنے مقاصد کے لیے جو عزم دیکھا تھا وہ سردار کے بعد اُنھوں نے شاید ہی کسی میں پایا ہو! رہی تقسیم کے بعد کی خوں ریزیاں اور فسادات تو وہ سب اِس تقسیم کا لازمی نتیجہ تھا جسے مولانا جانتے تھے اور لوگوں کو خبردار کرتے رہے تھے لیکن سات کروڑ انسانوں کا گلّہ اُن کی بات ماننا نہیں چاہتا تھا۔ آخر دس برس بعد پٹیل کو اپنا جا نشیں منتخب نہ کرنے کے فیصلے پر اُن کے اظہارِ افسوس سے کیا یہ اشارہ نہیں ملتا کہ مولانا نے اُنھیں اُن پر لگے الزامات سے بری کر دیا تھا!

٭٭٭

 

 

 

 

تقسیمِ ہند کا ذمہ دار کون؟—پروین ڈاور

 

یہ ایک المیہ ہے کہ ایسے افراد اور تنظیمیں جنہوں نے جنگ آزادی میں کبھی حصہ نہیں لیا، وہ جد و جہد آزادی میں قائدانہ رول ادا کرنے والے رہنماؤں پر تبصرے اور فیصلے صادر کر رہی ہیں۔ ایک وقت مسٹر ایل کے اڈوانی کا جناح سے متعلق یہ متنازعہ بیان منظر عام پرآیا کہ ’’جناح ایک سیکولر لیڈر تھے ‘‘ اور مسٹر جسونت سنگھ کی کتاب ’’ جناح۔ ہندوستان، آزادی اور تقسیم‘‘ کے منظر عام کے آنے کے بعد جن لوگوں نے شور شرابہ مچایا تھا، انہیں تحریک آزادی کے ان عظیم رہنماوں کے بارے میں معمولی سا بھی علم نہیں ہے جنہوں نے ایک عظیم مقصد کے لئے اپنی زندگیاں قربان کر دیں۔ آزادی کے حصول کے لئے انہوں نے جو قربانیاں دیں ہیں وہ بے مثال ہیں۔ آر ایس ایس کے سابق سربراہ کا یہ بیان بھی قابل غور ہے کہ جواہر لال نہرو کے تئیں مہاتماگاندھی کی کمزوری کی وجہ سے ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑا۔ در اصل جد و جہد آزادی کے متعلق حقائق کے بارے میں صرف انہیں لوگوں کی آرائ پر اعتبار کیا جا سکتا ہے جو خود اس تحریک میں سرگرم عمل رہے یا ایسے مورخین کی رائے معتبر ہو سکتی ہے جنہوں نے آزادی کی لڑائی اور تقسیم کے اسباب کا تفصیلی اور عرق ریزی کے ساتھ محققانہ مطالعہ کیا ہے۔

ہندوستان کی تقسیم کے تقریباً ایک چوتھائی صدیگزر جانے کے بعد ’’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘‘ ( آدھی رات کی آزادی ) کے مصنفین لیری کالنس اورڈومنک لیپیئر نے لارڈ ماونٹ بیٹن سے ان کی رہائش گاہ پر تفصیلی انٹرویو کیا تھا، جو ’’ماونٹ بیٹن اینڈ پارٹیشن آف انڈیا ‘‘ اور ’’پارٹیشن آف انڈیا اینڈ ماونٹ بیٹن‘‘ نامی دو جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔ اس مخصوص سوال کے جواب میں کہ وہ تقسیم کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں؟ ماونٹ بیٹن نے انکشاف کیا تھا کہ حالانکہ گاندھی جی تقسیم کے یکسر مخالف تھے لیکن وہ بے دست و پا ہو گئے تھے۔ ’’نہرو تو تقسیم کے آئیڈیا سے ہی خوف زدہ تھے … گاندھی جی اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کرپارہے تھے۔ ۔ . اس لئے یہ نہ تو گاندھی جی تھے اور نہ ہی نہرو، یہ جناح اور پٹیل تھے۔ یہی دونوں حضرات تھے۔ ‘‘

ماونٹ بیٹن بہر حال اس حقیقت کو چھپا گئے کہ تیسرے شخص وہ خود تھے۔ تقسیم اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک ماونٹ بیٹن’ ’تقسیم کرو اور چھوڑ دو‘‘ کی برطانوی پالیسی کو جلد از جلد نافذ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہو کر نہیں آتے۔ بہر حال آگے بڑھنے سے قبل ہم مختصراً ان حالات کا جائزہ لیں گے جن کے نتیجے میں ملک کی تقسیم ناگزیر ہو گئی۔ پاکستان کا نظریہ کہاں سے وجود میں آیا؟دسمبر1930 میں مسلم لیگ کے اجلاس میں اپنے صدارتی خطبہ میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے پنجاب، شمال مغرب صوبہ جات، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک ’’مسلم ہندوستان‘‘ کی بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان صوبوں کو ملا کر ایک شمال مغرب مسلم صوبہ تشکیل دیا جانا چاہئے جہاں سات کروڑ مسلمان رہ سکیں اور اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکیں۔ اقبال غالباً ایک علیحدہ اور آزاد ریاست کے بجائے ہندوستانی وفاق کے اندر ایک مستحکم( مسلم) ریاست چاہتے تھے۔ چوہدری رحمت علی، جو اس زمانے میں انگلینڈ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ، کو اقبال کا یہ گول مول نظریہ پسند نہیں آیا، نہ ہی وہ اگست 1932کے سر ریمسے میک ڈونالڈ کے کمیونل ایوارڈ، جس کے تحت بنگال اور پنجاب پر مسلمانوں کے کنٹرول کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، سے خوش یا مطمئن تھے۔ ا س لئے انہوں نے ایک علیحدہ پاکستان کا آئیڈیا پیشکیا جو پنجاب، شمال مغرب صوبہ جات، کشمیر، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک علیحدہ اور آزاد مجوزہ ریاست تھی۔ اسی دوران ویر ساورکر اور آر ایس ایس نے یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ تہذیبیں ہیں اور دونوں ایک قوم کے طور پر کبھی ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔ 26 مارچ 1940 کو مسلم لیگ نے پاکستان کے سلسلے میں باضابطہ قرار داد منظور کی۔ اس قرار داد میں شمال مغرب اور مشرقی خطے میں مسلمانوں کی اکثریت والے صوبوں کو ایک آزاد صوبہ کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ 13 اپریل 1940کو نہرو نے قرار داد پاکستان کو پاگل پن قرار دیا۔ 1942 میں ہندوستان چھوڑو تحریک کے دوران مسلم لیگ کو کانگریس کی قیمت پر اپنی قوت کو مضبوط کرنے کا بھرپور موقع ملا کیوں کہ کانگریس کے بیشتر بڑے لیڈر اس وقت تقریباً دو برسوں کے لئے جیلوں میں بند تھے۔ مار چ1946 میں جب کنزریٹیو کی جگہ لیبر پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس نے لارڈ پیتھک لارنس، سراسٹیفورڈ کرپس اور اے وی الیگزنڈر پر مشتمل ایک کیبنٹ مشن ہندوستان بھیجا۔ 16مئی کوکیبنٹ مشن نے اپنی تجاویز پیش کیں ، جس میں محدود اختیارات کے ساتھ یونین کے ساتھ ہلکی پھلکی فیڈریشن کی بات کہی گئی تھی جب کہ صوبوں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ان میں سے دو جن میں ہندو اور مسلمانوں کی اکثریت تھی اور تیسرے وہ جہاں دونوں کی نمائندگی تقریباً برابر تھی۔

29 جون کو کیبنٹ مشن کے ہندوستان سے واپس لوٹنے سے پہلے 16مئی کے طویل مدتی منصوبے کے علاوہ اس نے 16جون کوعبوری حکومت میں وزراء کی تعداد کے متعلق مختصر مدتی منصوبہ کا بھی اعلان کیا۔ اس میں 14 وزیروں کی بات کہی گئی تھی جس میں کانگریس اور مسلم لیگ سے پانچ پانچ اور سکھ، شیڈولڈ کاسٹ، ہندوستانی عیسائیوںاور پارسیوں میں سے ایک ایک شخص کی نمائندگی طے کی گئی تھی۔ کانگریس کو16جون کا اعلان کردہ مختصر مدتی منصوبہ منظور نہیں تھا، لہذا اس نے 24جون کو یہ منصوبہ مسترد کر دیا البتہ 16مئی کے منصوبہ کو تسلیم کر لیا۔ اس مرحلے پر پنڈت جواہر لال نہرو1940سے 1946تک کانگریس پارٹی کے صدر رہے۔ پنڈت نہرو کی طرف سے کیبنٹ مشن پلان کے متعلق دئے گئے بعض وضاحتی بیان کے بعد جناح نے اس پلان کو مسترد کر دیا۔ لیگ کی طرف سے کیبنٹ مشن پلان کو مسترد کر دئے جانے کے بعد 29جولائی کو کانگریس نے عبوری حکومت کے متعلق16 جون کے منصوبہ کو بھی منظور کر لیا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ لیگ اب اس میں شامل نہیں ہو گی۔ اس نئی پیش رفت نے جناح کو مشتعل کر دیا اور انہوں نے 16 اگست کو ڈائریکٹ ایکشن کی کال دے دی۔ بنگال کے مسلم لیگی وزیر اعلی ایچ ایسسہروردی نے اس دن سرکاریچھٹی کا اعلان کر دیا۔ مسلح فرقہ پرست گروپوں نے اس دن لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا، کولکتہ میں قتل و غارت گری کا بازار شروع ہو گیا، پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور آرمی کو طلب کرنا پڑا۔ چار دنوں کے اندر پانچ ہزار سے زائد جانیں ضائع ہو گئیں ، فساد نواکھالی اور پھر بہار اور اترپردیش کے علاوہ راولپنڈی اور لاہور تک پھیل گیا۔

فرقہ ورانہ فسادات اور منافرت پورے پنجاب میں پھیل گئی اور گورنر نے صوبہ کا چارج اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس دوران انسانیت سوز جرائم پیش آئے۔ جان و مال کے بربادی کا تو کوئی حساب ہی نہیں تھا۔ نظم و نسق میں برطانوی حکام کی دلچسپی ختم ہو گئی۔ حالانکہ وہ ان واقعات کو روکنے کے لئے اپنے اختیارات کا استعمال کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ عبوری حکومت میں اتحاد و اتفاق کا فقدان تھا۔ کانگریس اور لیگ کے اراکین کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں رہ گیا تھا اور قتل عام کو روکنے کے لئے کوئی مشترکہ کار روائی نہیں کی۔ سردار پٹیل نے دیکھا کہ برطانوی افسران لیگ اور کانگریس کے اراکین کے اختلاف کا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے مسلم لیگ کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ گو کہ مسٹر پٹیل اس وقت وزیر داخلہ تھے لیکن وہ اتنے بے بس تھے کہ کشیدگی کو ہوا دینے والے برطانوی ضلع مجسٹریٹوں کو ٹرانسفر بھی نہیںکرا سکتے تھے۔ انہوں نے وائسرائے کو لکھا، گورنر سے درخواست کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ پٹیل اس وقت تک یہ بات سمجھ چکے تھے اگر ملک کو تقسیم نہیں کیا گیا تو یہ افراتفری اور لاقانونیت پورے ملک میں پھیل جائے گی۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ایک حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا اور تمام صورت حال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد آٹھ مارچ کو ایک قرار داد میں کہا کہ پنجاب کو دو صوبوں میں تقسیم کرنا ناگزیر ہو گیا ہے ، غالب مسلم اکثریت والے علاقے کو غالب غیر مسلم والے علاقے سے الگ کرنا ناگزیر بن چکا ہے۔ گاندھی جی ان دنوں بہار میں تھے اور فرقہ پرستی کی آگ کو سرد کرنے کی کوشش کر رہے تھے انہوں نے جب اس قرار داد کے بارے میں سنا تو فوراً پٹیل کو لکھا ’’ پنجاب کے بارے میں اپنیقرارداد کے متعلق مجھے سمجھانے کی کوشش کرو، میں اسے سمجھ نہیں سکا ہوں۔ ‘‘ پٹیل نے جواب میں لکھا ’’ پنجاب کے بارے میں قرار داد کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔ یہ کافی بحث و مباحثہ کے بعد منظور کیا گیا ہے ، کوئی بھی چیز جلد بازی یا سوچے سمجھے بغیر نہیں کی گئی ہے۔ ہمیں صرف اخبارات سے معلوم ہوا ہے کہ آپ کا موقف اس کے خلاف ہے لیکن آپ جو کچھ بہتر سمجھتے ہیں اس کا اظہار کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ ‘‘24 مارچ1947کو لارڈ ماونٹ بیٹن نے وائسرائے کا چارج سنبھالا۔ 15 اپریل کو انہوں نے گاندھی جی اور جناح پر دباو ڈالا کہ وہ تشدد کو ختم کرنے کے لئے ہندوؤں اور مسلمانوں سے ایک مشترکہ اپیل جاری کریں ، لیکن اس اپیل کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا کیوں کہ معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ نہرو اور پٹیل اس بات پر متفق تھے کہ اس ہنگامہ آرائی اور انارکی کو ختم کرنے کے لئے تقسیم ہی واحد راستہ بچا ہے۔ ماونٹ بیٹن بھی جانتے تھے کہ تقسیم ناگزیر ہے۔ ماونٹ بیٹن نے بڑی تیزی سے کام کرتے ہوئے برطانوی حکومت کی تمام اہم پارٹیوں سے ہندوستان کی تقسیم کی منظوری حاصل کر لی اور 3جون کو اس کا اعلان کر دیا۔ نہرو اور ماونٹ بیٹن کے درمیان جو خصوصی تعلق تھا اس کی وجہ سے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملی کہ جناح جتنا بڑا پاکستان چاہتے تھے اس سے صرف آدھے سے کچھ زیادہ ہی انہیں مل سکا۔ بنگال اور پنجاب کا آدھا حصہ اور پورا آسام ہندوستان کو ہی ملا۔ کانگریس کے لیڈروں نے کافی پس و پیش کے بعد ملک کی تقسیم کو قبول کیا۔ نہرو کا احساس تھا کہ حالات کی مجبوریوں نے اس فیصلے تک پہنچا دیا ہے۔ پٹیل کا خیال تھا کہ ایک مضبوط مرکزی حکومت کا قیام سب سے ضروری کام ہے تاکہ انارکی اور افراتفری پر قابو پایا جا سکے اور یہ صرف تقسیم کے ذریعہ ہی ممکن ہے ، اس لئے تقسیم ناگزیر ہے۔ ان کی دلیل تھی کہ اگر جسم کا کوئی حصہ خراب ہو جائے تو جسم کے بقیہ حصہ کو ٹھیک رکھنے کے لئے اس حصے کو الگ کر دینا ہی عقل مندی ہے۔ ’’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ ‘‘میں لیری کولنس اور ڈومنک لیپیرے لکھتے ہیں کہ ’’پٹیل نے ماؤنٹ بیٹن کی آمد سے بہت پہلے ہی ہندوستان کی تقسیم کا ذہن بنا لیا تھا، ان کی عمر بڑھتی جا رہی تھی، انہیں دو مرتبہ دل کا دورہ پڑ چکا تھا اور چاہتے تھے کہ جو کچھ بھی ہونا ہے جلد ہو جائے تاکہ ایک آزاد ہندوستان کی تعمیر کا کام کر سکیں۔ ‘‘یکم اگست 1947 کو جواہر لال نہرو، جو آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم بننے جا رہے تھے ، نے سردار پٹیل کواپنی کابینہ میں شامل ہونے کے لئے باضابطہ خط لکھا ’’ یہ خط لکھنے کیکوئی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ آپ کابینہ کے مضبوط ترین ستون ہیں۔ ‘‘ سردار پٹیل نے جواب میں لکھا ’’میں ہر خدمت کے لئے حاضر ہوں۔ مجھے امید ہے کہ زندگی کے بقیہ دنوں میں آپ مجھے اپنا وفادار پائیں گے کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کے لئے جتنی قربانیاں آپ نے دی ہیں کسی اور نے نہیں دیں۔ ہمارا اتحاد اٹوٹ ہے اور یہی ہماری قوت ہے۔ ‘‘اگر نہرو اور پٹیل کی اٹوٹ جوڑی اور مہاتما گاندھی کی اخلاقی قوت تقسیم کو نہیں روک سکی تو یہ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔ آزادی کے 67برس گزر جانے کے بعد اب اس بحث کو ختم ہو جانا چاہئے۔ ہمیں ماضی کو دفن کر دینا چاہئے اور ہندوستان اور پاکستان کے مستقبل کی نسلوں کے لئے ایک بہتر اور محفوظ مستقبل کی تعمیر کی سمت میں آگے بڑھنا چاہئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

سیاسی فسادات—میگھنا دیسائی

 

ایمر جنسی کے موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب کے دوبارہ شائع ہونے والے ایڈیشن میں کلدیپ نیر نے ہمیںیاد دلایا ہے کہ اکتوبر 1975 میں جلیانوالہ باغ جیسے حالات تھے۔ یہ سب کچھ سنجے گاندھی نے کیا تھا، جسے گاندھی خاندان کی تاریخ سے غائب کر دیا گیا ہے۔ سنجے نے تہیہ کر لیا تھا کہ جتنے بھی مسلم نوجوان مل جائیں ، سب کی نسبندیکرا دی جائے ، لیکن مظفر نگر کے مسلمانوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، جیسا کہ ایمرجنسی کے دور میں ہوا تھا۔ انھوں نے مظاہرہ کیااور گولیاں کھائیں ، لیکن کم سے کم ایمر جنسی کے دور کے فرقہ وارانہ فسادات جیسی کوئی بات نہیں تھی۔

اب اگر تیزی سے 38 برس آگے آئیں ، تو ہمیں ایک سیاسی طور پر تیار کیا گیا فساد ملے گا۔ یہ ایسا ہے ، جیسے کسی نے سسپنس فلم کی اسکرپٹ لکھی ہو۔ ابتدا میں کچھ معمولی واقعات، یہاں وہاں چھٹ پٹ نا اتفاقی۔ اس کے بعد جس طرح سسپنس فلم کی رفتار بڑھتی ہے اور جذبات میں ابال آتا ہے ، کچھ ایسی ہی صورتحال دیکھنے کو ملے گی اور جب تک آپ اس کے بارے میں جان پاتے ہیں ، کچھ مہا پنچایتیں اور ایک قتل عام پورا ہو چکا ہوتا ہے۔ پولس ہمیشہ کی طرح دیر سے آتی ہے ، چاہے وہ کسی کے حکم سے یا اپنی خاموش حمایت سے ، لیکن فسادات میں ہونے والی اموات اور تباہی ہمیشہ سچ ہوتی ہے۔

دانشور وارڈ بیرینسکاٹ نے حال ہی میں 2002 کے گجرات فسادات کے بارے میں لکھا ہے۔ ’رائٹ پالیٹکس‘ نام کی یہ کتاب ان بنیادی اسباب کی وضاحت کرتی ہے ، جن کی وجہ سے فسادات بھڑکتے ہیں۔ عام حالات میں شہریوں کو وہ حق نہیں مل پاتا، جو ریاستی سرکار کی طرف سے ان کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ انھیں اس کے لیے چمچوں یا ایجنٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ علاقے کے سیاسی رنگ کے حساب سے ہندو ایم ایل اے ہندوؤں پر، مسلم ایم ایل اے اپنے مسلم ایجنٹوں پر ہی دھیان دیتے ہیں۔

جیسے ہی حالات خراب ہوتے ہیں ،یہ طاقتیں مشینری مخالف طاقتوں کی طرح کام کرنے لگتی ہیں۔ ایسے وقت میںیہ ایجنٹ اپنے لیڈروں کے لیے پتھر پھینکتے ہیں اور چاقو چلاتے ہیں۔ ان کی ایسی حرکتیں عوام کے منھ پران کے محافظوں کے حملے کو اور تیز کرتی ہیں۔ فسادات عام طور سے زیادہ لمبے وقت تک نہیں ہوتے ہیں۔ جلد ہی ان لوگوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم ہو جاتی ہے۔ جو کچھ دنوں پہلے تک ایک دوسرے کے گھر جلا رہے تھے۔ ایم ایل اے جلد ہی اپنے اتحادی کاموں میں لوٹ آتے ہیں اور حالات نارمل ہو جاتے ہیں۔

حالات خراب ہوتے ہی اگر پولس اپنی کار روائی جلد شروع کر دے ، تو فساد نہیں بھڑکتے ہیں۔ پولس کو اکثر اپنے سیاسی آقاؤں کی رکاوٹیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ خراب حالات کے دوران وہی سیاسی پارٹی آپ کی مدد کرتی ہے ، جسے آپ نے ووٹ دیا ہے۔ یہ ووٹ بینک کی سیاست ہے۔ اگر کسی سیاسی پارٹی کے چمچے سلامت ہیں ، اس کا مطلب پولس صحیح کام کر رہی ہے ، لیکن کسی ایم ایل اے کی اس بات کے لیے کیسے تعریف کی جا سکتی ہے کہ اس نے اپنے چمچوں کو محفوظ بچا لیا؟ میرٹھ میں مہا پنچایت بھی سیاست ہی تھی۔

اتر پردیش 2014 میں سیاسی میدان میں تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ سبھی سیاسی پارٹیاں 80 لوک سبھا سیٹوں میں سے زیادہ سے زیادہ جیتنا چاہیں گی۔ یہاں کانگریس، سماجوادی پارٹی، بی ایس پی اور بی جے پی میں چار رخی مقابلہ ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کا استعمال ووٹوں کا پولرائزیشن اپنی طرف کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ سبھی پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام لگائیں گی، لیکن سب سے زیادہ نقصان بی جے پی کو ہو سکتا ہے ، کیونکہ اسے فرقہ پرست پارٹی کے روپ میں مشہور کیا جائے گا، ویسا نہیں جیسا کہ مودی چاہتے ہیں اور یہی سیکولر پارٹیاں چاہتی ہیں۔

گزشتہ آٹھ سالوں میں تقریباً ایک ہزار فساد ہوئے ہیں ، لیکن ان میں مرنے والوں کی تعداد صرف 965 بتائی گئی ہے ، یعنی ہر فساد میں ایک موت سے بھی کم۔ مظفر نگر میں سب سے زیادہ 48 موتیں ہوئیں۔ ان فسادات میں ابھی تک کسی پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے۔ کوئی تعجب نہیںکہ فساد میں پھنسے ایم پی اور ایم ایل اے جلد ہی چھوٹ جائیں۔ ان معاملوں میں اصلی گنہگاروں کی گرفتاری کی ضرورت ہے۔

یہاں ایکتضاد دیکھنے کو ملتا ہے۔ کانگریس کے دور اقتدار میں بھاگلپور، میرٹھ کے تاریخی فسادات میں کئی رپورٹوں اور جانچوں کے باوجود آج تک کوئی سنگین اثبات جرم نہیں ہوا، لیکن گجرات فسادات اثبات جرم تک پہنچے۔ گودھرا معاملے ، جہاں سابرمتی ایکسپریس کو جلایا گیا، میں ہی نہیں بلکہ ان علاقوں ، جہاں ہندوؤں نے مسلمانوں کو مارا، میں بھی اثبات جرم ہوا۔ نرودہ پاٹیا میں تو بی جے پی رکن مایا کوڈنانی کو 28 سال کی سزا ہوئی، اس میں کوئی شک نہیں کہ میلان آج تک بھی ختم نہیں ہوا ہے۔

یہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ ابھی تک کسی بھی کانگریسی رہنما کو 1984 کے فسادات میں سزا نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی 1993 کے ممبئی فسادات میں۔ اس کے علاوہ راجیو گاندھی کے دور میں ہوئے بھاگلپور فساد میں بہت زیادہ لوگوں پر جرم ثابت نہیں ہوا۔ کانگریس سیکولر ہے ، تو اس کی حکومت میں ہوا کوئی بھی فساد کیا فرقہ وارانہ فساد نہیں ہو سکتا۔

٭٭٭

 

 

 

دادری:گنگا جمنی تہذیب فرقہ پرستوں کے نرغے میں —منصور عالم قاسمی

 

’’ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب’‘یہ خوبصورت جملہ بچپن سے سنتا آ رہا ہوں ؛جب تک ہندوستانی سیاست و معاشرت کی پیچ وخم کا شعور نہیں تھا؛جب تک محبت و نفرت، تشدد و ترحم سے عقل و خرد نا بلد تھی؛یہ جملہ بہت ہی حسین و دلکش لگتا تھا، لیکن جب فکر و فراست کا جنم ہوا اور حالات کے نشیب و فراز کو نگاہوں نےدیکھا تو یقین ہو گیا ’’ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب‘‘ بس ایک جملہ ہے جو سراب کی مانند ہے جس کا حقیقت سے شاید کوئی واسطہ نہیں ،یہ لکھنے ، بولنے اور سننے تک ہی محدود ہے۔ ممکن ہے ماضی میں گنگا جمنی تہذیب کی دیواریں بہت مستحکم رہی ہوں ، ہمارا اور تمہارا کا منحوس سایہ محلات میں کجا صحراؤں اور گھنے جنگلات میں بھی نہ رہا ہو اور یہی سچائی بھی ہے ، اسی لئے مؤرخین رقمطراز ہیں کہ 1809ء سے قبل مذہب کی بنیاد پر کبھی بھی ہندوستان میں فساد بپا نہیں ہوا، اور نہ کسی کا مرڈر ہوا لیکن۱۸۰۹ء میں بنارس میں عیدگاہ اور ہنومان ٹیلے کی زمین کو لے کر تنازع ہوا اور پہلی بار ہندوستان نے مذہب کے نام پر فساد کا خوفناک چہرہ دیکھا۔ پھر جو اقلیتی طبقات خصوصاً مسلمانوں کے خلاف لامتناہی فسادات اور قتل کا سلسلہ جاری ہوا وہ ناقابل بیان ہے۔ کانپور، بھاگلپور، مرادآباد، جمشیدپور، ہاشم پورہ، میرٹھ، مظفرنگر کہاں تک شمار کراؤں؟ اب تک کم و بیش4000 فسادات ہوئے ، ان شہروں کے در و دیوار پر آج بھی خون کے دھبے لگے ہوئے ہیں ، معصوموں کی چیخیں آج بھی سماعت سے ٹکراتی ہیں ، بیواؤں کی آہ و فغاں آج بھی گونجتی ہیں۔

ہندوستان ایک کثیر مذہبی ملک ہے ، یہاں کی مذہبی، ثقافتی تکثریت کی خصوصی شناخت رہی ہے ، تاہم سال گزشتہ جب سے آر ایس ایس کی سیاسی جماعت بی جے پی نے مسند اقتدار واضح اکثریت سے حاصل کی ہے ، فرقہ پرست طاقتیں ، سماج دشمن عناصر ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی کھلم کھلا دھجیاں اڑا رہے ہیں ، کبھی لو جہاد، کبھی گھر واپسی، کبھی گؤکشی اور اب بیف کا نعرہ دے کر یہاں کے امن و شانتی کو تہس نہس کر رہے ہیں ، اس کا تازہ ترین نمونہ پچھلے دنوں دادری کے بساہڑہ گاؤں کے اخلاق کو ان بیوی کے سامنے ، ان کی بوڑھی ماں اور جوان بیٹی کی آنکھوں کے سامنے بے دردی کے ساتھ گھر سے گھسیٹ کر لے جانا اور ہلاک کر دینا ہے۔ یہ سفاک اور جنونی بھیڑیئے نہ تو بہار و بنگال سے آئے تھے اور نہ ہی راجستھان و گجرات سے ، بلکہ یہ وہی افراد تھے جن کے ساتھ اخلاق کی صبح و شام نشست و برخاست تھی، جن کے ساتھ ہمکلامی و ہمنوائیتھی لیکن افسوس ایک بزرگ شیطان پجاری نے مندر کے لاؤڈ سپیکر پر اخلاق کے یہاں گائے کے گوشت ہونے کا اعلان کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے لنگوٹیا یار، ہمجولی اور مصاحب خونخوار درندے بن کر اخلاق اور اس کے بیٹے پر ٹوٹ پڑے اور یوں اخلاق کی شمع زندگی گل کر دی گئی۔ نہ کسی کو بھارت ماتا کی گنگا جمنیتہذیب یاد رہیاور نہ باپو کی اہنسا کا درس۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ مذہب اور گائے ماتا کے نام پر غلیظ سیاست شروع ہو گئی۔ بی جے پی کا زیڈ پلس ایم ایل اے اور مظفرنگر فساد کا کلیدی مجرم سنگیت سوم دادری آ کر ماحول کو مزید بگاڑنے کی کوشش کی، حالانکہ پکے گائے بھگتی کا دعوی ٰ کرنے والا یہ عیار خود ہی سلاٹر ہاؤس چلاتا تھا اور بیف ایکسپورٹ کرتا تھا، اس نے یومیہ5000 ہزار جانور کاٹنے کا لائسنس مانگا تھا، بیف سے اس نے کروڑوں روپئے کمائے۔ سادھوی پراچی نے کہا :بیف کھانے والے کا وہی حال ہو گا جو اخلاق کا ہوا’‘ جبکہ رگ وید کال سے لے کر ماضی قریب تک ہندو بیف کھاتے رہے ہیں ، انگریزی اخبار ’’اکنامکس ٹائمز’‘ میں 16سال سے مستقل کالم نگاردلیپ دیوگھر نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ’’بالا صاحب دیورساور موہن بھاگوت، سنگھ کے سربراہ بننے سے قبل بیف کھاتے تھے ‘‘اس حقیقت کو بر سر عام کرنا تھا کہ کالم نویس کوآر ایس ایس کے دباؤ میں کالم لکھنے سے روک دیا گیا، مرکزی وزیر مہیش شرما کے احمقانہ بیان پر افسوس ہو رہا ہے کہ :یہ قتل نہیںحادثہ ہے ‘‘ مہاراج کو قتل اور حادثہ کا فرق بھی پتہ نہیں۔ معمولی معمولی واقعات پر بولنے اور ٹیوٹ کرنے والے ہمارے وزیر اعظم کی زبان اس دلدوز واقعہ پر نہیں کھلی توصدر جمہوریہ کو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب یاد دلانی پڑی، انہوں نے کہا کہ : ہندوستان تہذیب تکثریت، رواداری اور اور وحدت میں کثرت کی بنیاد کو یقینی طور پر اپنے دماغ میں برقرار رکھنا چاہئے ، اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے ‘‘ اس کے بعد جب وزیر اعظم کی زبان کھلی بھی تو نہ اخلاق کا ذکر، نہ دادری کا نام، بس روایتی الفاظ بول گئے کہ ’’ہندو اور مسلمانوں کو متحد ہو کر غریبی سے لڑنی چاہئے ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنی چاہئے اور ملک کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہئے ‘‘ ۔

صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کا بیان قابل احترام ہے لیکن سرکشوں پر لگام لگانے کے لئے یہ ناکافی ہے ، یہی وجہ ہے کہ مین پوری میں بھی گؤکشی کی افواہ پھیلا کر شرپسندوں نے دو مسلم نوجوانوں کو بے تحاشہ مارا پیٹا، چنانچہ گائے کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پایا گیا کہ طبعی موت ہوئی تھی،جیسا کہ اخلاق کے گھر سے بر آمد گوشت کو فورنسک لیب نے مٹن ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ بنگلور میں بھی محمد ابراہیم نامی ایک مسلم تاجر کو گؤ کشی کی افواہ پھیلا کر بجرنگ دل کے اراکین نے بری طرح زد وکوب کیا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ گائے اور بیف کے نام سے قتل، تشدد اور فساد کے باوجود بی جے پینواز مسلم چہرے جو خیر خواہان امت مسلم کہلاتے ہیں دور دور تک کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں ، نہ جانے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ نہ کوئی احتجاج اور نہ ہی کوئی بیان۔ مختار عباس نقوی، شاہنواز حسین، اقلیتی امور کی وزیر نجمہ ہیبت اللہ، ’’علامہ’‘ ظفر سریش والا اور عظیم دانشور و صحافی ایم جے اکبر صاحب۔ وقت بے وقت بی جے پی کی ترجمانی کرنے والی یہ قائدین آج بے بس اور مظلوم مسلمانوں کی ترجمانی سے گھبرا رہے ہیں؟ ان سے تو وہ غیر مسلم شعراء، ادباء اور مصنفین اچھے ہیں جنہوں نے فاشزم کے خلاف، اخلاق، دابھولکر، پانسری اور گلبرگی کے قتل کے احتجاج میں ساہتیہ اور دیگر ادبی یوارڈ واپس کر کے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیباور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا سبق سرکار اور سرکشوں کو یاد دلایا اور ایک آس جگا ئی کہ آج بھی اہل محبت بیدار ہیں ، رواداری اور تہذیب ہند کے علم بردار زندہ ہیں۔ ایسے بے باک افراد کی عظمتوں ہم کو سلام کرتے ہیں –

پچھلے دنوں ایک رپورٹ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ دادری کے اسی گاؤں میں جہاں چند ایام قبل گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں متعصب، متشدد اور فرقہ پرست ہندوؤں نے اخلاق کا بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا آج اسی بساہڑہ گاؤں کے امن پسند برادران وطن دو مسلم بہنوں کی شادی کرانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ،یقیناًایکتا یکجہتیاور ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کی یہ اچھی مثال ہے لیکن افسوس بھی ہے کہ آخر یہ امن پسند لوگ اس وقت کہاں تھے؟ جب ان کے اپنے لڑکے اور خویش و اقارب بے دردی سے اخلاق اور اس کے بیٹے پر تلواریں ، کلہاڑیاں ، بھالے ، لاٹھیاںاور ڈنڈے برسا رہے تھے؟ کوئی روکنے کے لئے کیوں آگے نہیںبڑھا؟ حق تو یہ ہے کہ ہندوستان کیاکثریت امن و سکون چاہتی ہے ، بلا تفریق مذہب میل و محبت سے جینا چاہتی ہے ، لیکن چند فیصد شرپسندوں نے ، اور ان کے زہریلے سیاسی آقاؤں نے ہندوستان کی گنگا جمنیتہذیب کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

گودھرا فیصلہ سوالوں کے گھیرے میں—سہیل انجم

 

ہندوستانی عدلیہ کی جانب سے حال ہی میں سنائے گئے دو انتہائی اہم فیصلوں نے الگ الگ اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایک فیصلہ ممبئی پر دہشت گردانہ حملوں کے دوران زندہ پکڑے گئے پاکستانی دہشت گرد اجمل عامر قصاب کے بارے میں ہے اور دوسرا گودھرا ٹرین حادثہ کے بارے میں ہے۔ پہلا فیصلہ جہاں ہندوستانی عدلیہ کی شفافیت کو واضح کرتا ہے اور اس کے وقار میں اضافے کا سبب بنا ہے وہیں دوسرے فیصلے نے کئی شکوک و شبہات اور تضادات پیدا کر دیے ہیں۔ گودھرا ٹرین حادثہ معاملے میں گیارہ افراد کو سزائے موت اور بیس کو سزائے عمر قید پر الگ الگ رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ اس فیصلے سے خوش ہیں تو کچھ نے عدم اطمینان کا اظہارکیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار عدالت کی اس تھیوری کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس ٹرین کے کوچ نمبرS-6 میں ایک سازش کے تحت مقامی مسلمانوں نے آگ لگائی تھی۔ یہ نظریہ در اصل گجرات حکومت کا نظریہ تھا جسے عدالت نے قبول کر لیا ہے اور اس کی روشنی میں سزائیں سنائی ہیں۔ حالانکہ عدالتی فیصلہ ہی اس نظریہ کو کمزور کر رہا ہے۔ کیونکہ حکومت اور استغاثہ نے جن مسلمانوں کو آتش زنی کے اصل ملزم اور اصل منصوبہ ساز قرار دیا تھا ان کے خلاف ہی کوئی پختہ ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا اور عدالت کو انھیں ہی بری کر دینا پڑا ہے۔ اس معاملے میں ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ استغاثہ کی جانب سے جن گواہوں کو پیش کیا گیا تھا ان میں سے کئی منحرف ہو گئے اور انھوں نے اپنے بیانات بدل دیے۔ حکومت کے خلاف بھی جن لوگوں نے گواہیاں دی تھیں ان میں سے بھی ذرائع کے مطابق کئی لوگوں نے خوف و ہراس میںاپنے بیان بدلے تھے۔ جبکہ اجمل عامر قصاب کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ استغاثہ کی جانب سے چھ سو گواہوں کو پیش کیا گیا تھا اور سب نے قصاب کے خلاف بیان دیا۔ قصاب کا معاملہ جہاں بہت سیدھا سادا اور بے پیچ و خم تھا وہیں گودھرا معاملے میں کئی سقم اور پیچیدگیاں ہیں۔ خود اس معاملے کی کہانی ہی اپنی خامیاں بیان کر رہی ہے۔

سابرمتی ٹرین میں آتش زنی کے تعلق سے کئی نظریات ہیں۔ سب سے پہلے مقامی پولیس نے اس معاملے کی جانچ کی اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ٹرین میں آگ لگائی نہیں گئی ہو گی بلکہ خود لگی ہو گی۔ ایکنظریہ یہ ہے کہS-6 میں اندر سے ہی آگ لگی تھی۔ اس نظریے کو قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ اس ڈبے میں وہ کار سیوک بیٹھے ہوئے تھے جو اجودھیا سے آ رہے تھے اور جنھوں نے کھانا بنانے کا سامان رکھا ہوا تھا، اس ڈبے میںاسٹوو بھی رکھے ہوئے تھے اور بستر بند وغیرہ بھی تھے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آگ اندر سے ہی لگی ہو گی۔ ایکنظریہ یہ ہے کہ جب ٹرین گودھرا اسٹیشن پر پہنچی تو اس ڈبے میں سوار ہندو کارسیوکوں اور پلیٹ فارم کے مسلم دکانداروں کے مابین اچانک اور اپنے آپ کسی بات پر تکرار ہوئی جس نے جھگڑے کی شکل اختیار کر لی۔ جس کی وجہ سے دونوں فرقوں میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔ اس کے بعد مسلمانوں نے پتھراؤ کیا اور آتشیں اشیا ٹرین کے اندر پھینکی گئیں جس سے اس میں آگ لگ گئی۔ جبکہ ایک اور نظریہ یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ مسلمانوں نے پہلے سے منصوبہ بندی کر کے اور ایک سازش کر کے اس میں آگ لگائی تھی۔ یہی نظریہ گجرات حکومت کا تھا اور عدالت نے اسے تسلیم کر لیا ہے۔ جبکہ اس وقت کے ریلوے وزیر لالو یادو کی تشکیل کردہ یو سی بنرجی کمیٹی نے موقع واردات پر جا کر اور مذکورہ ڈبے میں باہر سے پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی جس میں اس کے ممبران کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ آگ باہر سے نہیں لگائی گئی تھی بلکہ اندر سے لگی تھی۔ کمیٹی کے چیئرمین اب بھی اپنی بات پر قائم ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ سازش کی بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ فورنسک جانچ میں بھی یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ آگ باہر سے لگائی ہی نہیں جا سکتی تھی۔ کیونکہ مذکورہ کوچ کافی اونچائی پر تھا اور باہر سے اس میں پیٹرول پھینکا نہیں جا سکتا تھا۔ فورنسک جانچ نے بھی اندر سے ہی آگ لگنے کی بات کہی تھی۔ اس واقعہ کے بعد گجرات حکومت نے ناناوتی کمیشن قائم کیا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں سازش کی بات کہی تھی۔ اس کے علاوہ 140 لیٹر پیٹرول خریدنے کی جو بات کہی گئی تھی وہ بھی بے حد مشکوک ہے۔ اس طرح یہ معاملہ بہت ہی پیچیدہ، مبہم اور غیر واضح تھا۔ اس کے باوجود عدالت نے سازش کے پہلو کو تسلیم کر لیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک بزرگ مولانا عمر حسین جی اور مقامی میونسپل کمیٹی کے چئیرمین بلال حسین کلوٹا کو اصل ملزم اور سازش رچنے والا قرار دیا گیا تھا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالت مولانا حسین عمر جی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں پا سکی۔ مولانا حسین عمر مقامی سطح پر ایکبا عزت شخصیت کے مالک ہیں۔ انہیں اس واقعہ کے ایک سال بعد پکڑا گیا تھا۔ وہ ٹرین حادثے کے بعد بھڑکے فسادات کے دوران ریلیف کا کام کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس سے قبل جب زلزلہ آیا تھا تواس وقت بھی انھوں نے متاثرین میں ریلیف اور باز آبادکاری کا کام کیا تھا۔ در اصل گجرات کے وزیر اعلی کو ان سے پرخاش تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے جب فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا تو ایک رفیوجی کیمپ میں مولانا عمر جی نے واجپئی کو ایک شکایت نامہ دیا تھا جس میں ریاستی حکومت کی کارستانیوں کو بیان کیا گیا تھا۔ اس بات پر وزیر اعلی ان سے ناراض تھے اور انھوں نے ایک سال بعد ان کو گرفتار کروا دیا۔ لیکن عدالت نے کوئی ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر انہیں بری کر دیا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے اس سلسلے میں کئی سوالات کیے جا رہے ہیں۔ ممبئی کے ایک صحافی اور دانشور انل دھرکرنے سوال کیا ہے کہ کیا جو عدالتی فیصلہ سنایا گیا ہے اس میں سیاسی عصبیت کی کارفرمائی نہیں ہے؟ جن لوگوں کو عدالت نے بری کیا انہیں سماعت کے دوران ضمانت نہیں دی گئی اور وہ 9سال تک جیلوں میں بند رہے۔ ان کی زندگی تباہ ہو گئی۔ ان کے خاندان بکھر گئے ، ان کا کیرئیر چوپٹ ہو گیا، ان پر ٹرین میں آگ لگانے کی سازش کا کلنک لگ گیا اور سماج میں انھیں غلط نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ اس کا ذمہ دار آخر کون ہے۔ ان کے جو9 سال جیلوں میں تباہ ہو گئے ان کا معاوضہ کون دے گا اور کیا معاوضہ سے اس کا ازالہ ہو سکے گا؟ ان تمام باتوں کا ذمہ دار کون ہے؟ پولیس ہے ، حکومت ہے ، استغاثہ ہے یا یہاں کا ناقص عدالتی نظام ہے؟ انل دھرکر یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر ان لوگوں کا قصور کیا تھا انھیں کیوں 9 سال تک جیل کی سزائیں بھگتنی پڑیں؟ وہ مزید کہتے ہیں عدالت نے فیصلہ سنانے میں جیل میں دیے گئے بیانات کو کیوں تسلیم کر لیا جبکہ کئی لوگ اپنے بیانوں سے مکر بھی گئے۔ عدالت کو چاہئے تھا کہ وہ اعترافات کی صداقت کو پرکھتی اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتی کہ کہیں زبردستی بیانات تو نہیں لیے گئے ہیں۔ اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ سناتی۔ پولیس جس طرح لوگوں سے جبراً بیاناور اقبالیہ بیان لے لیتی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے باوجود عدالت نے انہی بیانات اور اعترافات پر تکیہ کیا۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ آخر عدالت نے ایسا کیوں کیا؟ وہ اس بارے میں مالیگاؤں کے کیس کی یاد دلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں بھی بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور ان سے زبردستی اقبالیہ بیانات لے لیے گئے تھے۔ پولیس زیادتی کی وجہ سے لوگوں کو برسوں تک جیل میں گزارنا پڑا۔ وہ تو سوامی اسیما نند کے ضمیر کی بیداری کی وجہ سے حقیقت سامنے آ گئی۔ کیا گودھرا معاملے میں بھی مالیگاؤں کی مانند مسلمانوں کے ساتھ زیادتی نہیں کی گئی ہے؟

بہر حال9 سال کے بعد اس معاملے میں فیصلہ آیا اور سزائیں سنا دی گئیں لیکن اس کے باوجود ایسے کئی سوالات ہیں جو لا ینحل ہیں ، جن کی گتھی سلجھائی نہیں گئی ہے۔ اس فیصلے کے بعد وکیل صفائی نے کہا ہے کہ ابھی ان کو فیصلے کی نقل نہیں ملی ہے۔ وہ900 صفحات پر ہے۔ اس کے مطالعے کے بعد اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔ لیکنیہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ ہائی کورٹ میں اسے چیلنج کیا جائے گا۔ ہائی کورٹ کو بھی ان ثبوتوں کا جائزہ لینا ہو گا جو خصوصی عدالت کے سامنے تھے۔ اس کے بعد ہی ہائی کورٹ کوئی فیصلہ سنائے گی۔ جس طرح اجمل قصاب کے معاملے میں عدالت نے اسے ایک نادر کیس قرار دیا تھا اسی طرح احمد آباد کی خصوصی عدالت نے اس معاملے کو ایک نادر معاملہ قرار دیا ہے۔ اندیشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ گجرات حکومت اس معاملے کو اپنے سیاسی مفاد میں استعمال کرے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ہندوستانی عدلیہ اور ہندوستانی سیاست کے لیے اچھی بات نہیں ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

1984 سکھ مخالف فسادات—محمد علم اللہ اصلاحی

 

بابری مسجد انہدام اور گجرات قتل عام سے پہلے آزاد مارکیٹ کی معیشت کی راہ طے کرنے میں ہندو سامراج نے جو دو بڑے پڑاؤ طے کیے ، ان میں سے پہلا بھوپال گیس سانحہ ہے تو دوسرا سکھوں کا قتل عام، جسے امریکہ نے نسل کشی ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ منموہن کے بدلے راہل کو وزیر اعظم بنائے جانے کی بات شروع ہوتے ہی جیسے واشنگٹن نے ویزا کے لئے نریندر مودی کا خیر مقدم کر دیا، اسی طرح وہ گجرات میں قتل عام کی تاریخ کو بھی مسترد کر دیں۔ جمہوریہہند میں گھوٹالوں میں تو کبھی کسی کو سزا ہونے کی اطلاع نہیں ہے ، لیکن انسانیت کے خلاف واقع ان چاروں واقعات میںقصور واروں کو سزا نہ ہونا اور ملزمان کے اقتدار سربراہی تک پہنچ جانے کی داستان، بہر حال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر نظام کی تاریخ میں بدنما داغ سے کم نہیں ہے۔ سی بی آئی نے اپنی رپورٹ میں سابق مرکزی سیکرٹری جگدیش ٹائٹلر کو 84 کے فسادات میں کلین چٹ دی تھی۔ لیکن دہلی کی کڑ کڑ ڈوماما کورٹ نے ٹائٹلر کے توقع کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے سی بی آئی کی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے ان کے خلاف پھر سے جانچ کے احکامات دیئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سکھ فسادات کے معاملے میں جگدیش ٹائٹلر کی فائل دوبارہ کھلنے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔

سکھ قتل عام کے معاملے میں سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سکھوں کی نمائندگی کرنے والا اکالی دل اب اس یونین کے خاندان کے ساتھ ہے ، جو سکھوں کے قتل عام کے وقت کانگریس کے ساتھ بغیر شرط قدم سے قدم ملا کر چل رہیتھی۔ اسی درمیان بابری مسجد انہدام معاملے میں اڈوانی کے خلاف اپیل میں کوتاہی کے لیے سپریم کورٹ نے حکومت کی کھنچائی ضرور کی ہے۔ تاہم رام مندر تحریک کے ترکیب کے ساتھ اڈوانی نے بھی گجرات قتل عام کے معاملے میں ملزم نریندر مودی کے مقابلے شدت پسند ہندوتو کا پانسا پھینک کر وزیر اعظم بننے کا دعوی پیش کر دیا ہے۔ اب وشو ہندو پریشد کی قیادت میں ہندو قوم کے لئے سنگھ پریوار پھر رام مندر تحریک شروع کر رہی ہے۔ اسی درمیان شرومنی اکالی دل نے دہلی کی ایک عدالت کی طرف سے کانگریس کے رہنما جگدیش ٹائٹلر کے خلاف 1984 کے سکھ مخالف فسادات سے متعلق معاملے کو پھر سے کھولے جانے کو لے کر دئے گئے حکم کا خیر مقدم کیا ہے۔ جیسا کہ پنجاب کے نائب وزیر اعلی اور اکالی دل کے صدر سکھدیپ سنگھ بادل کہتے ہیں ، ’’ یہ فیصلہ ہزاروں فساد متاثرہ خاندانوں کے 30 سال کے طویل جد و جہد میں پہلی چھوٹی فتح ہے۔ کیسی جیت، کس کی جیت؟ ٹائٹلر کے خلاف 1984 کے سکھ مخالف فسادات سے منسلک معاملہ تو کھلا! مگر انصاف بھی ملے گا؟ باقی معاملات میں چاہے جو ہوا ہو، سکھوں کو انصاف نہ ملنے کی سب سے بڑی وجہ سکھ سیاست اور قیادتکا زعفرانی کرن ہے ‘‘۔ سکھ بیربادل نے الزام لگایا کہ ’’کانگریس فسادات کے بعد سے ہی دہلی پولس، سی بی آئی اور متاثرہ خاندانوں کو دباؤ بنا کر انصاف کے تمام راستوں کو مسدود کرنے کے لئے کام کر رہی ہے ‘‘۔

بہر حال، دہلی میں ہوئے 1984 کے سکھ فسادات کے معاملے میں کانگریس رہنما جگدیش ٹائٹلر کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ عدالت نے ان کے معاملے میں سی بی آئی کی طرف سے داخل کی گئی کلوزر پورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ان معاملات کی دوبارہ جانچ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ خبروں کے مطابق اضافی سیشن جج انو رادھا شکلا بھاردواج نے ایک مجسٹریٹ عدالت کے اس حکم کو منسوخ کر دیا، جس میں ٹائٹلر کوکلین چٹ دینے والی سی بی آئی کی کلوزرپورٹ کو قبول کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ 2 اپریل 2009 کو سی بی آئی نے یہ کہتے ہوئے فساد کیس میں ٹائٹلر کو کلین چٹ دے دی تھی کہ ان کے خلاف کافی ثبوت نہیں ہیں۔ ٹائٹلر 1 نومبر 1984 اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھیلے فسادات میں تین لوگوں کیموت میں ملزم ہیں۔ شمالی دہلی میں واقع پل بنگش گرودوارہ کے پاس بادل سنگھ، ٹھاکر سنگھ، اور گرچر سنگھ کے قتل کے معاملے پر سی بی آئی کی کلوز رپورٹ کو دسمبر2007 میں عدالت نے قبول نہیں کیا تھا، جس کے بعد معاملے کی دوبارہ جانچ کی گئی تھی۔ سب سے پہلے 2005 میں ناناوتی کمیشن نے اپنے تفتیش میں جگدیش ٹائٹلر کا نام لیا تھا۔ اس کے بعد سی بی آئی نے ٹائٹلر کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی، جس کے سبب ٹائٹلر کو مرکزی وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ ٹائٹلر پر الزام ہے کہ سکھوں کے قتل کے وقت وہ وہاں موجود تھے۔ اس سے پہلے 29 ستمبر 2007 کو کورٹ میں پہلی کلوزر رپورٹ دی تھی۔

رپورٹ میں سی بی آئی نے کہا تھا کہ اس معاملے کا اہم گواہ جسبیر سنگھ لاپتہ ہے اور وہ نہیں مل رہا ہے۔ لیکن معروف ٹیلی ویڑن چینلIBN7 نے جس بیر سنگھ کو کیلی فورنیا سے ڈھونڈ نکالا تھا۔ جس بیر سنگھ کا کہنا تھا کہ سی بی آئی نے کبھی اس سے پوچھ گچھ ہی نہیں کی۔ اس کے بعد کورٹ نے سی بی آئی کی کلوز رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کیس کی دوبارہ جانچ کرنے کا حکم دیا تھا۔ کورٹ کے حکم کے بعد سی بی آئی نے کل 6 گواہوں کے بیان درج کئے اس میں جسبیر سنگھ بھی شامل تھے۔ سی بی آئی نے کیلی فورنیا جا کر جسبیر سنگھ کا بیان درج کیا تھا۔ لیکنپھر بھی سی بی آئی نے اس کو قابل اعتماد گواہ نہیں مانا۔ سی بی آئی نے اپریل 2009 میں ایک بار پھر سے معاملے میں کلوزرپورٹ داخل کی۔ سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق 1 نومبر 1984کو پل بنگش میں ہوئے فسادات کے دوران ٹائٹلر موقع پر موجود نہیں تھے۔ سی بی آئی نے اپنی پیش کردہ رپورٹ میں کہا کہ ٹائٹلر اس وقت آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی رہائش گاہ تری مورتی بھون میں تھے۔

معلوم ہو کہ 23سال پہلے ہوئے اس قتل عام کے گواہ جسبیر سنگھ کی سی بی آئی کو طویل عرصے سے تلاش تھی۔ غور طلب ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد 1984 میں بھڑکے سکھ مخالف فسادات میںتقریباً 3000 سکھ فسادیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ گزشتہ دنوں دہلی کے کڑ کڑڈوما کورٹ نے سکھ مخالف فسادات سے متعلق پل بنگش کیس معاملہ میںیہ حکم دیا اور واضح لفظوں میں کہا کہ سابق مرکزی وزیر اور کانگریس لیڈر جگدیش ٹائٹلر اس معاملے میں ملزم ہیں۔ سی بی آئی نے عدالت میں اس کیس کو بند کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اپنی کلوزرپورٹ پیش کر دی تھی۔ مگر، عدالت نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے سی بی آئی کو حکم دیا کہ اس معاملے کو دوبارہ کھولا جائے اور پھر سے جانچ کر کے ٹائٹلر پر مقدمہ چلایا جائے۔

غور طلب ہے کہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں فسادات بھڑک گئے تھے اور ان فسادات کے دوران کانگریس کے کچھ لیڈروں پر فسادات کو بھڑکانے کا الزام لگا تھا۔ ٹی وی چینل آئی بی این 7نے اس کیس کے ایک اہم گواہ جسبیر سنگھ تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ جسے سیبی آئی نے اپنی کلوزر رپورٹ میں قابل اعتماد گواہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ جسبیر پر دہلی میں 1997 میں فسادات کے ایک گواہ پر حملے اور ایک گواہ کو 25 لاکھ کی رشوت کی پیشکش کا بھی الزام ہے۔ اس معاملہ پر جسبیر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ٹائٹلر کو دہلی کے پل بنگش علاقے میں فسادیوں کو بھڑکاتے ہوئے دیکھا تھا۔ آئی بی این 7 نے جسبیر کو جب کیلی فورنیا سے تلاش نکالا تھا۔ اس وقت جس بیر نے یہ کہا تھا کہ ’’ اگر سی بی آئی انہیں اور ان کے خاندان کو تحفظ دے تو وہ ہندوستان لوٹ کر گواہی دے سکتے ہیں ‘‘۔ جس بیر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’میں نے کنگس وے کیمپ میں اسپتال کے باہر ٹائٹلر کو بھیڑ کو اکساتے دیکھا، وہ کہہ رہے تھے کہ تمہاری وجہ سے میں شرمسار ہوں۔ نارتھ میں سجن کمار کے علاقے میں دیکھو یا ایسٹ میں ایچ کے ایل بھگت کی آس پاس ہر جگہ سکھوں کی کالونیوں کی کالونیاں منہدم کر دی گئی ہیں۔ لیکن میرے علاقے میں ابھی تک صرف کچھ کو ہی مارا گیا ہے ‘‘۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ماہ فروری میں کانگریس رہنما جگدیش ٹائٹلر کو نشانے پر لیتے ہوئے فساد متاثرین نے سی بی آئی پر تفتیش کو غلط طریقے سے آگے بڑھانے کا الزام لگایا تھا۔ فساد متاثرین نے سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے خلاف ہوئے فسادات میں تین افراد کے قتل کیس میں آگے کی جانچ کی مانگ کی تھی جس ٹائٹلر کا الزام ثابت ہو سکے۔ ایڈیشنل سیشن جج انو رادھا شکلا بھاردواج کو متاثرین نے بتایا کہ ’’ سی بی آئی کو بالی وڈاسٹار امیتابھ بچن اور دہلی پولیس کے سابق افسر سے بھی بطور گواہ بازپرس کرنی چاہئے کیونکہ دونوں ہی ایک سی ڈی میں ٹائٹلر کے ساتھ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے جسدخاکی کے پاس کھڑے دکھائی دے رہے ہیں ‘‘۔ ذرائع کے مطابق تری مورتی بھون میںیہ سی ڈی ایک ایجنسی نے ریکارڈ کی تھی۔ فساد متاثرہ لکھوندر کور کی جانب سے دائر کردہ مخالفت کی درخواست کے بعد کورٹ میں اس معاملے پر آخری جرح ہو رہی ہے۔ اسی میں کور کے شوہر بادل سنگھ کی فسادات میں موت ہوئی تھی۔ کور نے سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ اور ٹائٹلر کو کلین چٹ دئے جانے پر سوالیہ نشان قائم کئے ہیں۔

کلوزر رپورٹ کو صحیح قرار دیتے ہوئے سی بی آئی نے اسی سی ڈی پر یقین ظاہر کیا تھا جسے ملزم ٹائٹلر نے ہی فراہم کیا تھا۔ ٹائٹلر اس سی ڈی کو یہ ثابت کرنے کے لئے لے کر آئے تھے کہ وہ فسادات کے وقت اندرا گاندھی کے جسدخاکی کے پاس ہی تھے۔ حالانکہ سی ڈی میں نہ ہی وقت اور نہ ہی تاریخ کا کوئی ذکر ہے۔ مبینہ سی ڈی میں آر کے دھون (اندرا گاندھی کے سابق سکریٹری)، گوتم کول (تب کے ایڈیشنل کمشنر آف پولیس) اور امیتابھ بچن ٹائٹلر کے ساتھ ایک جگہ پر ہی کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ متاثرین کے وکیل سینئر ایڈووکیٹ ایچ ایس پھلکا نے سی ڈی کے کی توثیق کے لئے ان ہی تینوں سے بطور گواہ پوچھ تاچھ کرنے کو کہا ہے۔ متاثرین کے وکیل نے مطالبہ کیا ہے کہ سی بی آئی نے ان تینوں ہی سے کسی بھی طرح کی پوچھ گچھ نہیں کی ہے۔

جسبیر سنگھ 84 کے فسادات میں اہم گواہ ہیں۔ آئی بی این 2007 میں ان تک پہنچا تھا۔ سالوں سے 5 مختلف قسم کی تحقیقات، کمیشن اور دباؤ جھیل رہے جسبیر نے آئی بی این 7 سے بات چیت میں اپنا دم خم برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک اپنے بیان پر قائم ہیں۔ سی بیآئی فائلوں میںیہ شخص 1984 میں پل بنگش میں ہوئے سکھوں کے قتل عام کا چشم دید گواہ ہے۔ جسبیر نے بتایا کہ کانگریس رہنما جگدیش ٹائٹلر کے کردار کے بارے میں اس نے کئی بار بولا ہے۔ لیکن سی بی آئی سننا ہی نہیںچاہتی۔ جسبیر نے بتایا کہ سی بی آئی تو اسے لاپتہ قرار دے چکی ہے۔ یہی نہیں سی بی آئی نے ٹائٹلر کو کلین چٹ دے کر اپنی جانچ رپورٹ کی فائل ہی بند کر دی تھی لیکن 2007 میں آئی بی این 7 نے جسبیر سنگھ کو ان کے کیلیفورنیا کے گھر سے ڈھونڈ نکالا تھا۔ جسبیر نے الزام عائد کیا ہے کہ بیان نہ دینے کے لئے ان کے گھر والوں کو کئی بار دھمکیاں بھی دی گئی۔ جان پر خطرے کی وجہ سے وہ اپنے خاندان سے دور کیلی فورنیا میں رہ رہے ہیں۔ ٹیلی ویڑن آئی بی این سیون کے مطابق جس بیر کا یہ کہنا ہے کہ وہ عدالت میں اپنا بیان دوبارہ دینے کو تیار ہیں۔ لیکن سی بی آئی کبھی جسبیر تک پہنچی ہی نہیں۔ فساد متاثرہ انصاف کا انتظار کرتے رہے۔ اب عدالت سے سی بی آئی کو  جھٹکا ملا ہے۔ جس سے فساد متاثرین میں انصاف کی نئی امید پیدا ہوئی ہے۔

اس پورے معاملہ کو لے کر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ظلم بہر حال ظلم ہے۔ عدالتوں ، ایجنسیوں اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے والے اداروں کو شفافیت سے کام لینا چاہئے۔ تاکہ جمہوریت کی بالا دستی برقرار رہ سکے۔ ہر ملک میں اقلیتوں کو ان کے حقوق دئے گئے ہیں لیکن جتنا اقلیتوں کے اوپر ظلم و ستم اور ان کے ساتھ استحصال کا رویہ ہمارے ملک ہندوستان میں اپنایا جاتا ہے کسی اور جگہ نہیں۔ اس معاملہ میں عدالت کا رویہ قابل ستائش ہے۔ لیکن عدالت اسی وقت مبارکباد کی مستحق ہو گی جب صحیح معنوں میں متاثرین کو انصاف مل سکے۔ طبقہ خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، حکمرانوں کو ان کے احساسات کا لحاظ کرنا چاہیئے۔ سکھوں نے اس طرح ملک کی سب سے بڑی مسلم اقلیت گجرات کے متاثرین کے لئے بھی راستہ دکھایا ہے۔

 

                مظفر نگر: سرکاری مشینری اور فرقہ وارانہ فسادات

 

جس کا ڈر تھا وہی ہوا 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے مظفر نگر جل گیا۔ سینکڑوں قیمتی جانیں خونی سیاست کی بلی چڑھ گئی۔ اس بار بھی کہانی وہی ہے صرف کہانی کے کردار تبدیل ہوئے ہیں۔ وہی انتظامیہ اور پولیس کا جانبدارانہ کردار ایک بار پھر دیکھنے کو ملا اور پھر مسلم صدیوں پیچھے ہو گئے ، اس کے حصے کی روٹی چھن گئی اور اس کے ہاتھوں کی کتابیں جل گئیں۔ یہ فسادات کیوں ہوتے ہیں؟ کیسے ہوتے ہیں؟ ان سارے سوالوں کے جواب ہمیشہ کی طرح ایک ہی ہیں۔

آزادی کے بعد سے ہی فساد ہندوستان میں بدستور جاری رہی چاہے حکومت کسی کی بھی رہی ہو۔ ان تمام فسادوں کا پیٹرن بالکل ایک جیسا رہا ہر فساد میں سرکاری مشینری کا زبردست استعمال ہوا۔ جہاں کئی فرقے کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں وہاں فرقہ وارانہ فسادات کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن اگر انتظامیہ اور پولیس چاہے تو فساد پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ہر فساد کی روک تھام کے لئے انتظامیہ اور پولیس پرانحصارہوتا ہے۔ لیکن فرقہ وارانہ فسادات کا سب سے افسوس ناک اور باعث تشویش پہلو یہ ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران پولیس اور انتظامیہ مکمل طور پر جانبدار ہو جاتی ہے اور کار روائی کے نام پر ایک خاص فرقے کے لوگوں پر سختی کرتی ہے۔ اس بات کی تصدیق نیشنل پولیس کمیشن کی چھٹی رپورٹ، مارچ 1981 میں بھی کی گئی جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ بہت سے فرقہ وارانہ کشیدگیکے موقعوں پر پولیس کئی بار ایک خاص فرقے کا ہی ساتھ دیتی ہے اور دوسرے فرقے کے لوگوں پر ظلم ڈھاتی ہے۔ ایسے ہی انکشافات کئی اور کمیشنوں نے بھی کیا لیکن افسوس کبھی بھی پولیس والوں کا یہ رویہ قومی فکر اورسلامتی کا موضوع نہیں بنا نہ ہی بحث کا۔ پولیس کا سب سے بد ترین چہرہ 2002 کے گجرات فساد میں دیکھنے کو ملا۔ جس میں پولیس والوں نے کھل کرفسادیوں کا ساتھ دیا۔ پولیس کے ظلم کی دل دہلانے والی داستان منظر عام پر آئی۔ گجرات کے نرودا پاٹیا میں فساد کا شکار ہونے والی ایک عورت اپنے تین ماہ کے دودھ پیتے بچے کو لے کر جب در در کی ٹھوکریں کھا رہی تھی اسی دوران اس نے ایک پولیس کانسٹیبل سے فرار کے لئے محفوظ راستہ پوچھا تو کانسٹیبل نہ وہیراستہ بتایا جہاں پہلے سے فسادی گھات لگا کر بیٹھے تھے بلکہ فسادیوں نے اس کے تین ماہ کے بچے کے ساتھ اسے زندہ جلا دیا۔ ( ٹائمز آف انڈیا، 20 مارچ , (2002

کئی تفتیشی اور کمیشن کی رپورٹوں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ فرقہ وارانہ فساد انتظامیہ کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ فسادات میں انتظامیہ کی طرف سے سختی صرف ایک خاص فرقے کے خلاف ہی کیا جاتا ہے۔ اعداد وشمار گواہ ہیں کہ آدھے سے زیادہ فسادات میں مرنے والے 90 فیصد اقلیتی ہی ہوتے ہیں اس کے برعکس وہ گرفتاری، تلاشی، اور پولیس فائرنگ کے شکار بھی اقلیتی ہی ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں ہوئے اب تک کے سارے بدترین فرقہ وارانہ فساد بولتی تصاویر ہیں چاہے وہ دہلی کا فساد ہو، بھاگلپور کا فساد، بمبئی کا فساد، یا پھر گجرات کا فساد۔ گجرات میں جہاں انسانیت کی ساری حدیں پار ہو گئی 2800 سے بھی زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا مگر پولیس کی گولیوں سے بھی چھلنی مسلمان ہی ہوا۔ 28 فروری، 2002 کو نرودا پاٹیا میں پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے والے 40 لوگ تمام مسلم تھے ( انڈین ایکسپریس، 9 اپریل ) اسی طرح پولیس کا ظلم فسادات کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ زیادہ تر گرفتاریاں مسلمانوں کی ہی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں لال بہادر شاستری نیشنل ایڈمنسٹریٹو اکیڈمی \’ مسوری کا ایک مطالعہ بڑا دلچسپ ہے کہ میرٹھ، 1982 میں ہوئے فسادات کے ایف آئی آر کو پولیس نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک میں مسلم پر حملے ہوئے اور دوسرے میںہندوؤں پر حملے ہوئے جن ایف آئی آر میںہندوؤں پر حملے ہوئے ان میں 255 لوگوں کی گرفتاری ہوئی اور جن میں مسلمانوں پر حملے ہوئے ان میں ایک بھی گرفتاری نہیں ہوئی۔ یہ سن کر تعجب ہو گا کہ ایف آئی آر میں درج مرنے والے میں 7 مسلم تھے اور 2 ہندو لیکن اس کے باوجود پولیس کی کار روائی ٹھیک اس کے برعکس تھی جو پولیس کے فرقہ وارانہ ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے۔

 

                ایک پتھر نے جلا دیا شہر، فسادات پر ایک نظر

 

رانچی سے مظفرنگر تک ہر شہر صرف ایک پتھر سے جلا ہے۔ مظفرنگر میں ناگلادوڑ کی مہا پنچایت سے واپس آ رہے لوگوں پر پتھراو ہوتا ہے اور پورا شہر جل جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح سن1967 میں ہندپڑھی میں اردو کے خلاف ایک جلوس پر پتھراؤ ہوتا ہے اور رانچی میں بدترین فساد برپا ہو جاتا ہے جس میں 184 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں جس میں 164 مسلمان ہوتے ہیں۔ اسی طرح جمشیدپور میں رام نومی کے ایک جلوس پر مسلم اکثریت والے علاقے سے پتھراؤہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر میں آگ اور خون کی ہولی شروع ہو جاتی ہے جو بدترین فساد کی شکل اختیارکر لیتی ہے۔ گودھرا میں ٹرین میں پتھراؤ ہوتا ہے اور آگ زنی ہوتی ہے جس میں 56 لوگ مارے جاتے ہیں دوسرے دن مکمل گجرات جل جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی فرقہ وارانہ کشیدگی سڑک سے پہلے ذہن میں شروع ہوتا ہے۔ فسادات کے لئے ذہن سازی اور تیاری بہت پہلے ہو چکی ہوتی ہے۔ ہر فساد سے پہلے ایک پتھر درکار ہوتا ہے۔ جس سے فسادات کا آغاز کیا جا سکے ، پتھر تو ایک ڈرے ہوئے لوگوں کا رد عمل ہوتا ہے جو فسادیوں کو وجہ دیتا ہے فساد کو شروع کرنے کا تاکہ فساد کو صحیح قرار دیا جا سکے ، ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک طاقتور آدمی کمزور کو مارنے سے پہلے چاہے گا کہ کمزور پہلے اسے ایک ہاتھ ماردے تاکہ اس کی پٹائی کو درست قرار دیا جا سکے۔ ورنہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک پتھر سے پورا شہر جل جائے چاہے وہ مظفرنگر ہو، جمشید پور، رانچی یا بھیونڈی۔ فسادات کی حقیقت آرایس ایس کے مفکر ایم ایس گوولر کی طرف سے لکھی گئی کتاب we or our nation hood define 1939 \’\’ میں ملتی ہے۔ جس میں گوولر نے صرف ہندوؤں کو ہی ہندوستانی سمجھا ہے باقی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو نہیں لیکن انھیں بھی رہنے دیا جائے مگر ان شرائط پر جیسےیہاں کے ہندو چاہیں گے۔ اس لئے فسادات کو ہتھیار بنا کر مسلمانوں کو مین اسٹریم سے الگ کیا جاتا ہے تاکہ وہ ملک کی کسی بھی پالیسی سازی کا حصہ نہ بن سکیں اس لئے گجرات فساد میں خاص کر ان مسلمانوں کو فسادات میں نشانہ بنایا گیا جو مین اسٹریم کا حصہ تھے جن میں جج سے لے کر ایم پی شامل ہیں۔ احسان جعفری اسی سازش کی بلی چڑھ گئے۔

 

                فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کا کردار

 

فرقہ وارانہ فساد پولیس کے لئے کسی اگنی پریکشا سے کم نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ پولیس لڑنے والی دونوں فرقے میں سے کسی ایک سے تعلق ضرور رکھتی ہے ایسے حالات میں پولیس کا اپنا فرض بغیر کسی تفریق اور تعصب کے نبھانا کسی اگنی پریکشا سے کم نہیں ہے۔ کشیدگی کے دوران امن قائم کرنا مکمل طور پر پولیس پر ہی انحصار ہوتا ہے۔ مشہور آئی۔ پی۔ ایس افسر ویبھوتی نارائن رائے کے مطابق اگر پولیس چاہے تو کوئی بھی فساد 24 گھنٹے سے زیادہ وقت تک جاری نہیں رہ سکتا ہے۔ فسادات کا نہ رکنا پولیس کے جانبدار ہونے کی دلیل ہے۔ پولیس اسی سماج کا حصہ ہے جس معاشرے کو فرقہ واریت کا وائرس چاٹ چکا ہے۔ خاکی پہن کر بھی وہ پولیس والے نہ ہو کر صرف ایک مخصوص فرقہ کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کی سب سے دردناک مثال ہاشم پور کا فساد ہے جس میں پی۔ اے۔ سی کے جوانوں نے 40 بے گناہ اور نہتے مسلمانوں کو قتل کر دیا اور ان لاشوں کو غازی آباد کے قریب نہر میں بہا دیا۔ ویبھوتی نارائن اس وقت غازی آباد کے ایس پی تھے انہوں نے جب اس پورے معاملے کی تفتیش کی اور اس غیر انسانی کام کے پیچھے کی ذہنیت کو جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ خاکی پہن کر بھی وہ پولیس اہلکار نہ تھے بلکہ ایک کمیونٹی خاص کے ہو کر رہ گئے ، مسلمانوں کو دشمن سمجھنا ان کے ذہن میں پیوست تھا جب انہوں نے مسلمانوں کیہندوؤں پر کی جا رہی زیادتی کی جھوٹی افواہ سنی تو اسے فوری طور پر درست مان لیا اور 40 معصوم مسلمانوں کے قتل اسی ذہنیت کا رد عمل تھا۔ یہی کہانی بھاگلپور کے لویا گاؤں میں دہرائی گئی جب پولیس اور فسادیوں کی ملی بھگت سے 100 لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ یہی کہانی بمبئی میں ، گجرات میں اور اب مظفر نگر میں دہرائی گئی جہاں فساد سے متاثر بھی ایک خاص مذہب کے ماننے والے کے ساتھ ہوا اور پولیس سے سزا بھی انہی کو ملی۔ اس کی سب سے بدتریناور دل دہلا دینے والی مثال گجرات، 2002 کا فساد ہے جہاں پولیس نے فسادیوں کو مارنے اور لوٹنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ گجرات میں 2800 سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پولیس کے ظلم کا بھی شکار بھی یہی بیچارے ہوئے۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پولیس فائرنگ میں ہلاک 184 لوگوں میں 104 مسلم تھے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ جن مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے پولیس کی گولیاں بھی انہیں کے مقدر کا حصہ بنی چاہے وہ بمبئی ہو یا گجرات۔

 

                پولیس کی ایک طرفہ کار روائی

 

پولیس کا فسادات میں کار روائی مکمل طور پر جانبدار رہا ہے۔ فسادات کے دوران سختی ہمیشہ ایک طرفہ رہی ہے جس کی داستان خود اعداد و شمار بیان کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق تلاشی، گرفتاری، فائرنگ، ہمیشہ ایک مخصوص فرقہ کے خلاف ہی ہوتا ہے۔ آدھے سے زیادہ فسادات میں 90 فیصد مرنے والے مسلمان ہی ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس پولیس گرفتار بھی انہیں ہی کرتی ہیں۔ بھیونڈی میں پولیس فائرنگ میں 9 مسلمان مارے گئے ، فیروزآباد میں 6 ہلاک ہو گئے ، علی گڑھ میں 7، میرٹھ میں 6 اور نرودا پاٹیا میں 40 ہلاک ہوئے ان تمام فسادات میں مسلمانوں کا ہی قتل عام ہوا لیکن پولیس کا یہ ظالمانہ چہرہ تو دیکھو کہ ان کی فائرنگ میں صرف مسلمان ہی مرے ایک بھی ہندو نہیں۔ اسی طرح پولیس گرفتاریوں میں بھی تعصب کرتی ہیں بھیونڈی اور میرٹھ کے فسادات میں جہاں مسلمانوں کا ہی قتل عام ہوا وہاں گرفتاریاں بھی مسلمانوں کی ہی ہوئی کل گرفتار لوگوں میں 164 ہندو اور 1290 مسلمان تھے اسی طرح کی زیادتی بمبئی میں اور گجرات میں دیکھنے کو ملی۔

 

                فسادات میں خاکی اور کھادی کا اتحاد

 

تمام فسادات کے مطالعہ سے ایک بات صاف ہو جاتی ہے کہ ہر فساد خاکی اور کھادی کے اتحاد کا ہی نتیجہ ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک جتنے بھی فسادات ہوئے ان میں سیاسی مفاد موجود رہے چاہے وہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہوئے فسادات یا گجرات کے فسادات اور ہر بار پولیس والوں کے ساتھ سیاست داں بھی مجرم پائے گئے۔ بمبئی کے فساد میں بال ٹھاکرے کی شیوسینا کو اور پولیس افسر آر ڈی تیاگی کو مجرم پایا گیا۔ وہیں گجرات کے فساد میں حکمراں جماعت کے بڑے لیڈر ان ملوث پائے گئے۔ گجرات میں بی جے پی نے اقتدار سنبھالتے ہی تمام مسلم آئی۔ پی۔ ایس افسر کو متحرک عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ آئی۔ پی۔ ایسافسر سنجیو بھٹ کی طرف سے عدالت میں دیئے گئے حلف نامے میں مودی نے گودھرا سانحہ کے بعد ریاست کے اعلی پولیس افسر کے ساتھ میٹنگ میں تمام پولیس افسران کو فسادات کے دوران کوئی کار روائی نہ کرنے کا اور ہندوؤں کو اپنے غصے کے اظہار کی کھلی چھوٹ دینے کا حکم دیا۔ اس کے علاوہ جن افسروں نے فسادات کو روکنے کی ذرا سی بھی کوشش کی انہیں سنگین نتائج بھگتنے پڑے۔

 

                فسادات میں ملوث پولیس افسران پر کار روائی

 

یہ بات مکمل طور پر صاف ہو گئی ہے کہ ہر فساد پولیس کے تعصب اور غیر ذ مہ داری کا ہی نتیجہ ہے۔ لیکن اس کے برعکس وہ پولیس افسر جو فسادات میں ملوث پائے جاتے ہیں ان پر کبھی کوئی کار روائی نہیں ہوتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں خونی فساد بدستور جاری ہے۔ اب تک جس سب سے بڑے پولیس افسر کو سزا دی گئی ہے۔ وہ ایک سب اسنپیکٹر ہے جسے بھاگلپور فساد میں مبینہ کردار کے لئے سزا دی گئی۔ لیکن ہر فساد میں سیاستدانوں کے ساتھ پولیس بھی مظلوموں کے خون میں برابر کی شریک رہی۔ 1992 کے بمبئی فساد میں آر ڈی تیاگی نے 9 بے گناہ مسلمانوں کا قتل کر دیا۔ جس کی نشاندہی شری کرشن کمیشن نے بھی کی لیکن اس کے باوجود وہ عہدے پر عہدے پاتا گیا اور جوائنٹ کمیشنر کے عہدے تک پہنچ گیا الٹا اسے شیوسینا نے پارلیمانی انتخابات کا ٹکٹ بھی دے دیا۔ اسی طرح میرٹھ میں ہاشم پور میں پی۔ اے۔ سی کے جوانوں نے 40 بے گناہ مسلمانوں کا قتل کر کے ان لاشوں کو نہر میں پھینک دیا مگر آج تک اس پورے معاملے میں عینی شاہد ہونے کے باوجود بھی کسی ایک کو بھی سزا نہیں ملی۔ سب سے افسوسناک سچ یہ ہے کہ فسادات میں ملوث پولیس افسران پر کار روائی کرنے میں سیکولر پارٹیوں میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یو پی، بہار، مہاراشٹر میں بھی کسی سیکولر پارٹیوں نے ملزم پولیس افسروں پر کبھی کوئی کار روائی نہیں کی معصوموں کو انصاف دلانے اور مجرموں کو سزا دینے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ انہوں نے کبھی بھی کسی بھی کمیشن کی سفارشات پر عمل نہیں کیا بلکہ اسے ٹھنڈے بستے میں ڈالا اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا۔

 

                پولیس کو بہتر بنانے اور اقلیتوں کی نمائندگی کی ضرورت

 

فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کی طرف سے کی گئی کار روائی ان کے جانبدار ہونے کی دلیل ہے جس کی شہادت خود ان کی طرف سے دیئے گے اعداد شمار ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی یہ کار روائی سیاست سے بھی متاثر رہتی ہے۔ لہذا پولیس کو بہتر بنانے کیضرورت ہے جس کی وکالت کئی کمیشنوں اور بڑے پولیس افسران نے بھی کی ہے۔ لیکن ہندوستان میں ابھی تک اس سمت میں کوئی مثبت پہل نہیں کیا گیا ہے۔ کئی ممالک کی پولیس نے اس حالات سے نمٹنے کے لئے مناسب قدم اٹھائیں ہیں جن میں برطانیہ اور امریکہ قابل ذکر ہیں جہاں پولیس فورس میں اقلیتوں کی نمائندگی کو بڑھایا گیا۔ وہیں پولیس کی ٹریننگ میں بھی تبدیلی کی گئی۔ جس سے بہت حد تک پولیس والوں میں تعصب کو کم کیا گیا۔ لیکن ہندوستاں میں نہ تو پولیس کی ٹریننگ میں تبدیلی کے با رے میں سوچا جاتا ہے نا ہی اقلیتوں کی نمائندگی کے بارے میں۔ پولیس میں اقلیتوں کی نمائندگی محض چار فیصد کے آس پاس ہے۔ لیکن ہندوستان میں سب سے پہلے تو کوئی اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہے کہ پولیس فورس میں تعصب ہے جب لوگ مرض کو ماننے کے لئے ہی تیار نہیں ہیں تو اس کا علاج کیسے ممکن ہو گا۔

 

                قانون میں تبدیلی

 

فرقہ وارانہ فسادات سے نمٹنے کے لئے خصوصی قانون کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو پولیس اور انتظامیہ کام کے لئے ذمہ داری نہیں لے رہے ہیں ہر فساد انہیں کی غیر ذمہ داری کا نتیجہ ہے۔ کوئی بھی افسر جس کی لاپرواہی یا خواہش سے فساد ہوتا ہے۔ اسے سب سے بڑی سزا کے طور پر اس کا ٹرانسفر اس سے زیادہ بڑے عہدے پر کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے ایک قانون درکار ہے جو احتساب بھی طے کرے اور انہیں سزا بھی دے اس کے علاوہ فسادات سے جڑے معاملے کی سنوائی کے لئے خصوصی قانون کی ضرورت ہے جو ان معاملات کی سماعت جلد سے جلد کرے تاکہ مجرم کو ان کے انجام تک پہنچایا جا سکے۔

٭٭٭

 

 

 

 

1857: آزادی کی پہلی جنگ— محمد اظہر

 

1857 کی بغاوت یا پہلی جنگ آزادی کی ابتدا میرٹھ سے ہوئی آج سے ٹھیک ایک سو پچاس سال پہلے نو مئی اٹھارہ سو ستاون کو میرٹھ کی چھاونی میں تیسری لائٹ کیولری کے تقریباً پینتیس سپاہیوں کیبرسر عام وردیاں اتار دی گئیں۔ ان کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں اور انہیں دس سال کی قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے ایسے کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا جن میں مبینہ طور پر گائے اور سور کی چربی ملی ہوئی تھی۔ اس واقعہ پر مشتعل ہو کر ان کے دوسرے ساتھیوں نے اگلے روز دس مئی کو سنٹ جانس چرچ میں گھس کر متعدد انگریز افسروں اور ان کے کنبہ کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جلد ہی اس بغاوت نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور رات ختم ہوتے ہوتے متعدد ’فرنگی‘ موت کی نیند سو چکے تھے۔ ان باغیوں نے یہاں سے دلی کا رخ کیا جو یہاں سے چالیس میل دور تھی اور اگلے روز دلی پہنچ گئے۔ انہوں نے دریائے جمنا پر بنے کشتیوں کے پل کو پار کیا اور کلکتہ دروازہ سے فصیل بند شہر میں داخل ہوئے۔ دو پہر ہوتے ہوتے متعدد انگریز اور دیگر یورپی ان کی بندوقوں اور تلواروں کا نشانہ بن چکے تھے۔ بارہ اور سولہ مئی کے درمیان ان باغیوں نے عملاً لال قلعہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا۔ لال قلعہ مغل تہذیب اور ثقافت کی علامت تو تھا مگر اب اس کی وہ سیاسی حیثیت ختم ہو چکی تھی جو اسے حاصل تھی۔ یہاں بہادر شاہ ظفر کہنے کو تو تخت نشین تھے مگر ان کی سلطنت محض قلعہ کی فصیلوں تک محدود تھی۔ وہ بیاسی سال کے ہو چکے تھے۔

 

                بہادر شاہ ظفر

 

بہادر شاہ ظفر کی سلطنت محض قلعہ کی فصیلوں تک محدود تھی نوجوانی میں وہ بہترین تیر انداز، مشاق نشانہ باز اور شہ سوار تھے۔ اور انہیں فن تعمیر سے بھی دلچسپی تھی۔ مگر اب ان کا زیادہ تر وقت شاعری، موسیقی، اور اس طرح کے دیگر مشغلوں میں گزرتا تھا۔ انہیں کبوتر بازی اور مرغ بازی کا بھی شوق تھا۔ اپنے والد کی طرح وہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی سے ایک لاکھ روپیہ ماہانہ وظیفہ پاتے تھے۔ انہیں مغل سلطنت کی تباہی اور بربادی کا شدید احساس تھا۔ ان سب کے باوجود بطور بادشاہ ان کی ایک علامتی حیثیت ضرور تھی اور دلی بھی ایک طویل مدت سے سلطنت کا مرکز رہ چکی تھی۔ اس لیے باغیوں اور ان کے رہنماؤں کا ان کی طرف پر امید نظروں سے دیکھنا فطری تھا۔ باغیوں نے جب بہادر شاہ سے مدد چاہی تو انہوں نے اپنی مجبوری اور گوشہ نشینی کا ذکر کیا۔ مگر بالآخر کانٹوں کا تاج پہن لیا۔ اب لال قلعہ پوری طرح باغیوں کے قبضہ میں تھا جبکہ شہر میں چاروں طرف لاقانونیت اور نراج کا دور دورہ تھا۔ ان حالات میں بہادر شاہ کے پانچویں بیٹے مرزا مغل نے فوج کی کمان سنبھالی۔ جلدی ہی بغاوت کی یہ آگ دلی کے پڑوسی اضلاع سردھنہ، باغپت، روڑکی، بلند شہر اور سہارن پور تک پھیل گئی۔ بریلی، رام پور، مرادآباد، امروہہ، بجنور، بدایوں ، شاہ جہان پور اور فرخ آباد بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ شمالی ہندوستان کے وسطی علاقوں میں اس بغاوت نے ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لی اور اودھ سمیت پورے اتر پردیش، بہار کے متعدد اضلاع، چھوٹاناگپور، وسطی ہند، مالو اور بندیل کھنڈ میں بھی بغاوت کے شعلے بلند ہونے لگے۔ کانپور میں باغیوں نے خزانہ پر قبضہ کر لیا۔ جیل کے دروازے کھول دیے اور اسلحہ خانے پر قبضہ کر لیا اور دلی کی طرف مارچ شروع کر دیا۔

لکھنؤ میں سپاہیوں کی بغاوت تیس مئی کو شروع ہوئی اور جلدہی قریبی اضلاع میں پھیل گئی۔

 

                برطانوی فوج

 

برطانوی فوج نے بہادر شاہ ظفر کو ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار کیا اس دوران انگریزوں نے دلی پر از سر نو قبضہ کرنے کی کوشش کی اور پہلا جوابی حملہ کیا۔ میجر جنرل ہنری برنارڈ کی قیادت میں انگریز فوج نے بادلی کے سرائے میں باغیوں کو شکست دی اور پہاڑیوں میں پڑاؤ ڈالا۔ دلی پر دس جون سے گولہ باری شروع ہوئی۔ اب برسات کا موسم شروع ہو رہا تھا۔ اس دوران ہیضہ پھیلنے سے متعدد فوجیوں اور میجر برنارڈ کی موت ہو گئی۔ باغیوں کی ایک بڑی فوج بخت خان کی قیادت میں دو جولائی کو دلی میں داخل ہوئی۔ بخت خان کو مرزا مغل کی جگہ پر باغیوں کی فوج کا سپاہ سالار مقرر کیا گیا۔ جس نے نو جولائی کو برطانوی فوجوں پر ایک کامیاب حملہ کیا۔ مگر درباری سازشوں کے نتیجے میں بخت خان جیسے مستعد اور تجربہ کار جنرل کو برطرف کر دیاگبا اور ایک بار پھر برطانوی فوجوں کا پلڑا بھاری ہو گ?ا۔ انگریزی فوجوں نے چودہ ستمبر کو دلی پر ایک منصوبہ بند اور منظم حملہ کیا اور اینگلو عربک کالج اور دوسری طرف سینٹ جیمس چرچ کی جانب سے چاندی چوک کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ ان ایام میں بعض امیروں کی سازشوں کی وجہ سے بہادر شاہ نے آخری لڑائیوں میں باغی فوج کے ساتھ رہنے کی بجائے سترہ ستمبر کو قلعہ خالی کر دیا اور ہمایوں کے مقبرے میں چلے گئے۔ بیسستمبر تک دلی باغیوں سے خالی ہو گئی اور انگریز لال قلعہ میں داخل ہو گئے۔ ہزاروں لوگ جان کے خوف سے شہر چھوڑ کر ادھر ادھر چلے گئے اور متعدد قتل ہو گئے۔

 

                1857 کی جنگِ آزادی

 

مزاحمت کار ایک منظم انگریز فوج کے خلاف بڑی بہادری سے لڑے تھے دوسرے دن کیپٹن ولیم ہڈسن نے کسی مزاحمت کے بغیر بہادر شاہ کو ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار کیا۔ ہڈسن نے ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو خونی دروازے کے قریب گولی مار دی۔ بہادر شاہ کو پہلے قلعہ میں رکھا گیا اور بعد میں چاندی چوک کے ایک مکان میں منتقل کر دیا گیا۔ ان پر جنوری اٹھارہ سو انسٹھ میں لال قلعہ ہی کے دیوان خاص میں ایک فوجی عدالت میں دو مہینہ تک مقدمہ چلتا رہا اور انتیس مارچ کو انہیں قصور وار قرار دے دیا گیا اور جلاوطن کر کے رنگون بھیجنے کی سزا سنائی گئی۔ اکتوبر میں اپنی بیگم زینت محل اور ایک بیٹے جواں بخت کے ہمراہ رنگون روانہ ہوئے جہاں سات نومبر اٹھارہ سو باسٹھ کو ان کا انتقال ہو گیا۔ دلی پر فتح کے باوجود بغاوت کے دیگر مرکزوں مثلاً لکھنؤ، کانپور، اور بریلی میںانگریزوں کو اپنا اقتدار قائم کرنے میں باغیوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بالخصوص بریلی، کانپور اور جھانسی میں باغیوں نے بہت مزاحمت کی۔ اٹھارہ سو ستاون کی اس بغاوت کا جسے پہلی جنگ آزادی کہا جاتا ہے ، ناکام ہونا یقینی تھا، کیوں کہ اس کے پس پردہ کوئی مثبت فکری اور سیاسی نظام کار فرما نہیں تھا۔ یہ تحریک کوئی منظم اور منصوبہ بند تحریک نہیں تھی۔ باغیوں کو صرف ایک مقصد یعنی غیر ملکی اقتدار کے خاتمے نے متحد کر رکھا تھا۔ ان کی سوچ پسماندہ تھی اور وہ ایک ایسے نظام کو از سر نو زندہ کرنا چاہتے تھے جو اپنی اہمیت اور ضرورت کھو چکا تھا۔ البتہ انہوں نے اپنے وقت کے اقتصادی اور سماجی حالات میں اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا ایک خواب ضرور دیکھا تھا۔ اور اس کے لیے جان کی بازی لگا دی تھی۔

٭٭٭
 

 بسلسلہ ادب اور احتجاج

 

تقسیم ہند کا پرآشوب دور اور افسانہ نگار — مریم ثمر

 

1857 سے لے کر 1947 اور پھر اس کے بعد کا دور انسانیت کے لئے ایک پر آشوب دور ثابت ہوا۔ بادشاہت کی فرسودہ عمارت کو انگریزی تسلط نے منہدم کر دیا۔ مگر عوام الناس کی اکثریت اس خوش فہمیکا شکار رہی کے انگریز کے جانے کے بعد برصغیر پاک و ہند جنت نظیر خطہ اراضی کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرے گا۔ مگر افسوس کے امن آشتی کا قیام ایک خواب ہی رہا۔

المناک داستان کا یہ سفر اردو افسانے سے ہوتا ہوا ڈراموں اور ناول کی صورت میں ہم تک پہنچا۔ اس کے ذریعہ خوبصورت اور خوابناک دنیا کی بجائے وہ حقائق ہمارے سامنے آئے جن کا کو پڑھ کر انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔ حقیقتپسندی کا آغاز پریم چند سے ہوا۔ اور پھر بیدی، غلام عباس، اور حیات اللہ انصاری کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان افسانہ نگاروں کے افسانوں مین سماجی، معاشی اور معاشرتی شعور کی جھلک نظر آتی ہے۔ جس میں جادوئی اور رومانوی فضا کی بجائے زندگی کو سمجھنے اور سوچنے کا عمل شروع ہوا۔

تقسیم ہند کے بعد افسانہ نگاری بھی قدرتی طور پر ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ اس تقسیم نے صرف ملک کو ہی نہیں افسانہ نگاروں کو بھی دو الگ الگ ممالک میں تقسیم کر دیا۔

ہندوستان میں کرشن چندر، بیدی، عصمت چغتائی اور پاکستان میں سعادت حسین منٹو اور احمد ندیم قاسمی اور دیگر نئے لکھنے والے شامل ہوئے۔

یہ ایک المناک سیاسی حادثہ تھا، اس عہد کے لکھنے والوں کے یہاں اخوت اور محبت کے رشتوں کا ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل دکھائی دیتا ہے۔ انسان اپنی خود غرضی اور مذہبی تعصب کے باعث نفرت انتہائی بلندیپر پہنچ چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ افسانہ نگار ان حالات سے بری طرح متاثر دکھائی دیتے ہیں۔

نقل مکانی، قتل و غارت، بھوک، اور افلاس نے انسانی قدروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ صنف نازک جس کے وجود سے تخلیق کائنات میں رنگ تصور کیا جاتا رہا۔ جو شاعری اور فنون لطیفہ کا ایک اہم جزو سمجھی جاتی رہی۔ ان حالات میں دہشت بربریت اور ہوس کا شکار ہوتے دیکھ کر انسانیت خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو گئی۔ اس عہد کا ادب آگ اور خون کی اس ہولی کا چشم دید گواہ بن کر ابھرا۔

یہ وہ جنسی گھٹن نے انسان کے اندر چھپی ہوئی گھٹن کو آشکار کر دیا۔ جو بظاہر ترقی یافتہ کہلانے کے باعث کھل کر سامنے نہ آ سکی۔ مگر تاریخ گواہ ہے جب یہ خونی کھیل رچایا گیا تو انسانیت کی تمام حدوں کو پامال کرتے ہوئے ظلم و ستم کا بازار بلا شرکت و غیرے سر انجام دیا گیا۔

رامانند ساگر کا ناول۔ ۔ اور انسان مر گیا اس وحشت ناک سفر کا ترجمان ہے۔ پھر اس دور میں جو اہم افسانہ نگار سامنے آئے جنہوں نے اس درد کو کو شدت سے محسوس کیا اور اس درندگی کا پوسٹ مارٹم کیا جو انسان کے اندر موجود رہتی ہے۔ ان میں ایک افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی بھی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کا نام افسانہ نگاری کا ایسا نام ہے جو بر صغیر کی تقسیم کے بعد سامنے آیا۔ اس عہد میں فسادات کی گرد نے پورے اردو ادب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

فسادات کے پس منظر میں بہت سے افسانے لکھے گئے ان کو بالعموم تین اقسام پر مشتمل تھے۔

ایک وہ جو اس خونیں ڈرامے سے جنم لینے والی کہانیوں کو بنیاد بنا کر لکھے گئے۔ جس میں ظلم، بربریت، لوٹ مار اور جنسی استحصال کا ذکر ملتا ہے۔ یہ افسانے واقعاتی تھے جس میں افسانویت نہیں تھی۔ یہ افسانے سنسنی خیزی پیدا کرنے کے لئے لکھے گئے۔

دوسری قسم کے افسانوں میں۔ ہر دو جانب سے کئے گئے ظلم و ستم کی کہانیاں لکھی گئیں۔ آدھے ظلم ہندوؤں کے آدھے ظلم مسلمانوں کے ، یہ افسانے ادیبوں کی جانبداری کا پروپگنڈہ قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کے افسانے اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس میں انہوں نے ہجرت کے مظالم کی یکطرفہ کہانیوں کو بیان کیا ہے۔ کیونکہ ان افسانوں میں انسانی زندگی کے اس دکھ کو اجاگر نہیں کیا جا سکا تھا جو اس سے گزرنے والے انسانوں پر بیت جاتا ہے اور جس کو محسوس کر کے خود ظالم بھی ظلم سے نفرت کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔

تیسری قسم ان افسانوں کی تھی جو وقتی اور حادثاتی ہونے کے باوجود نا صرف افسانوی تاثیر رکھتے ہیں۔ فکری گہرائی۔ انسانی نفسیات کی آگاہی اور زندگی کی پیچیدگیوں کا احساس دلاتے ہیں۔ ان افسانہ نگاروں میں منٹو، حیات اللہ انصاری، عصمت چغتائی، بیدی، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی اور بعض دیگر افسانہ نگاروں کے نام اہم ہیں۔ پرمیشر سنگھ احمد ندیمقاسمی کا ایسا افسانہ ہے جو فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا۔ سعادت حسن منٹو کا افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ اس سلسلہ کا فکر انگیز افسانہ ہے جو تقسیم کے بعد کے دکھ کی بہترین تصویر کشی کرتا ہے۔

فسادات کے حوالے سے یہاں ایسے لوگ بھی تھے جو ان مظالم کا نشانہ بننے سے تو بچ گئے۔ مگر اس کے بعد طویل اور نا ختم ہونے والی خانہ جنگی کا مسلسل شکار رہے۔ عقیدے کی بنیاد پر ان پر ظلم ستم کے نئے پہاڑ توڑے گئے۔ شدت پسند مسلمانوں اور انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے ان کا جینا دوبھر کر دیا گیا۔ ان میں سے بہت سے تو ظلم کی چکی میں پستے ہوئے ذہنی توازن تک کھو بیٹھے۔

آج کے بھی نفسانفسی اور خود غرضی نے انسان سے محبت کرنے کا سلیقہ چھین لیا ہے۔

ادیب کی نگاہ حقیقت کا پردہ چاک کر کے ان عوامل کا کھوج لگا لیتی ہے جن کے ذریعہ ایک اچھا انسان بھی کبھی ذات کے اندھیروں میں گم ہو کر دوسروں کے لئے تکلف کا باعث بن جاتا ہے۔ حقیقت شناسی کا یہی رویہ ہے جو دوسروں کے لئے محبت اور مدد کے جذبے کو جگائے رکھتا ہے۔ ادب کا یہی وہ کارنامہ ہے جس کے دروازے اگر بند نہ کئے جائیں تو زندگی کے تمام جہنم محبت کی گھنی چھاؤں کے زیر سایہ جنت میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

مودی حکومت کے دو برس

(ایک کولاژ)

 

(یہ جاننا ضروری ہے کہ ملک کے دانشور، ادیب، فلم کار، تاریخ داں ، سائنسداں احتجاج کی آواز بن کر سامنے کیوں آئے اس کے لئے مودی حکومت کے اٹھارہ مہینوں کا تجزیہ ضروری ہے )

—تبسّم فاطمہ

 

                دلّی انتخابات کا سچ

 

دلّی انتخابات ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی، دہشت گردی اور ترقی کے کورے نعروں سے الگ ایک بڑی تبدیلی کی تصویر کا سبب بن سکتی تھی، مگر جہاں میڈیااور سماج کا پورا دباؤ سردی سے بچاؤ کرتے مفلر پہنے ایک شخص یا ایک عام آدمی کو برباد کرنے میں لگا ہو، وہاں کسی بھی انقلابی یا بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جانی چاہئے — یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ اقتدار کی طلائی کرسی پر بیٹھے شخص یا صنعت کاروں کی نظر میںیہ مفلر مین بھلے آج عدم دلائل کی ترازو پر ایک مذاق ہو، لیکنیہیمفلر مین ہندوستان کا عام آدمی ہے ، جس کے جاگنے اور بغاوت سے بڑی بڑی سلطنتیں تباہ ہوئی ہیں ، تاریخ کے صفحات پر یہ ثبوت موجود ہیں۔

 

                خواتین کے حقوق پر بھگوا حملے

 

ہریانہ کے پانی پت میں ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘منصوبہ کا آغاز کرتے ہوئے مودی نے ہندوستانی ذہنیت کو تبدیل کرنے کی بات تو کہی لیکن حیرت ہے کہ وہ اپنے وزیروں ، سادھو سنتوں ، ساکشی مہاراجوں کے اس ’مذہبی بیان‘ کو نظر انداز کر گئے ، جس میں خواتین سے 4 سے 10 بچے پیدا کرنے کا حکم دیا گیا تھا— تعلیم مافیا کے دور میں جہاں ایک بچے کو پڑھانا مشکل ہے ، وہاں ایک مڈل کلاس خاندان کی پرورش کرنے والا شخص بھی دس بچوں کی تعلیم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ دیکھا جائے تو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر جہاں آج عورت کی خود داری اور اس کی ذاتی آزادی کا سوال مسلسل بحث میں ہے ، وہاں بھگوا بریگیڈ کی طرف سے دس بچے اور پانچ بچے پیدا کرنے کا سوال ہمارا مذاق بنانے کے لئے کافی ہے۔

ہندوستان میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ماں بننے کے دوران ہر دس منٹ میں ایک عورت کی موت ہو جاتی ہے۔ 2010 میں 57000 خواتین کی موت ماں بننے کے دوران ہوئی تھی۔ 2015 تک اس کے اعداد و شمار کو کم کرنے کی مہم جاری ہے ، لیکن بڑھتے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ماں بننا اب بھی ایک نئی زندگی سے ہو کر گزرنے جیسا ہے۔ ’ یونی سیف اسٹیٹ آف دی ورلڈس چلڈرن ‘کی رپورٹ کہتی ہے کہ ’حمل اور بچے کی پیدائش سے وابستہ پریشانیوں کی وجہ سے اوسطاً ہر 7 منٹ پر ایک عورت کی موت ہو جاتی ہے۔ ‘ دیگر ممالک کے مقابلے میںیہ اعداد و شمار بہت زیادہ ہیں اور صحت سے متعلق سوالوں کو بھی پیدا کرتے ہیں۔

بد قسمتی سے ہم اب بھی اپنے ملک کے کئی ریاستوں میں اسقاط حمل جیسے مسائل سے بھی دو چار ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ قتل پڑھے لکھے اور اقتصادی سطح پر مضبوط گھرانوں میں زیادہ ہو رہا ہے۔ دس بچے پیدا کرنے اور اسقاط حمل (رحم مادر میں بچوں کا قتل)جیسے واقعات جہاں مرد معاشرے کے لئے ایک داغ ہے وہیں عورت کی ذاتی آزادی پر حملہ بھی۔ ہندوستان گاؤں میں تناسب کے لحاظ سے 60 فیصد عورتیں رہتی ہیں۔ بد قسمتی سے ، شہر سے ہوتی ہوئی یہ بیماری اب ہمارے گاؤں پر بھی حملہ کر رہی ہے۔

صدیوں سے غلامی کی بیڑیوں میں جکڑی عورت کے لئے یہ مذہبی بیان یا مردوں کے فرمان کچھ نئے نہیں ہیں۔ نیا یہ ہے کہ شہری 40 فیصد خواتین میں سے پڑھی لکھی خواتین کا کچھ فیصد اب اپنی آزادی کا سوال بھی اٹھانے لگا ہے۔ اس آزادی میں بیدار خواتین کو کئی ’این جی او‘تنظیم بھی تعاون دے رہے ہیں۔ لیکنیہ سمجھا جائے کہ ماڈلنگ، فلم، اسپورٹس، دفتر میں کام کرنے والی خواتین کا یہ فیصد اب اتنا کم ہے کہ آئے دن ان کی ذاتی آزادی پر مرد کا ہتھوڑا چل جاتا ہے۔ انٹر ریلیجین میرج، لیو ان ریلیشن شپ جیسی مثالوں پر اب بھی وشو ہندو پریشد، شیو سینا، ہندو مہاسبھا اور اسلامی تنظیموں کی بھنویں تن جاتی ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ ایک مہذب دنیا میں عورت اب بھی اپنی زندگی، پرواز، کیریئر، آزادی، یہاں تک کہ بچے پیدا کرنے کے لئے بھی مرد کی تابع ہے۔ اس لئے ’ سیمون دی بوار‘کے تیکھے لفظ آج بھی خون کے آنسو رلاتے ہیں کہ ’عورت پیدا کہاں ہوتی ہے ، وہ تو بنائی جاتی ہے۔ ‘اور یہ اس کا خالق صدیوں سے مرد رہا ہے ، جو کمہار کے چاک کی طرح اپنی بنائے ہوئے عقیدے تعمیر کئے گئے تہذیبوں کے چبوترے پر اس کی قربانی دیتا آیا ہے۔

2007 میں سنگھ پرچارک سنیل جوشی کے قتل کی تحقیقات کر رہی ایجنسی ’این آئی اے ‘نے انکشاف کیا کہ سادھوی کے تئیں مبینہ جنسی کشش بھی قتل کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ مذہبی گرو سادھوی رتمبرا سے ، سادھوی نرنجن جیوتی تک زبان کی سرحدیں ہر سطح پر ٹوٹتی رہی ہیں۔ خواتین کو اختیار فراہم کرنے کی جگہ مذہبی بیانات میں انہیں کمزور بنانے پر ہی زور دیا گیا۔ یہاں تک کہ سادھو سنتوں کے آشرم بھی جنسی ہوس اور عصمت دری کے مرکز پائے گئے۔ ایک نہیں ، کئی مثالیں ان 5 برسوں میں کھل کر سامنے آئی ہیں۔

خواتین کے حقوق اور بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کی باتیں کرنے والے مودی اگر خواتین پر کئے گئے نفرت آمیز بیانات سے انجان اور خاموش ہیں ، تو یہ مان کر چلنا چاہیے کہ ساکشی مہاراج، سادھو سنتوں اور سادھویوں کے بیان کو ان کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ خوفناک ہے۔ ایک طرف ہندوستان کو ترقی کا ماڈل بنانے اور دوسری طرف عورت کو جنسی کشش یا صرف بھوگ کا ذریعہ بنانے یا بچہ پیدا کرنے والی مشین سمجھنے والوں کے خلاف کوئی کار روائی نہ کرنے کو، سنگھ کی مجبوری بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ سنگھ سادھو سنتوں ، سادھویوں ،یو گی آدتیہ ناتھ، سنگھل جیسوں کے ساتھ کھڑا ہے جو اس مہذب معاشرے میں عورت کی بڑھتی طاقت سے گھبرا کر اسے صرف گھر میں بچہ پیدا کرنے والی مشین بنانا چاہتے ہیں۔ سلگتا سوال یہ ہے کہ کیا بچہ پیدا کرنا مردوں کا حق ہے؟ یا عورتوں کا؟ حمل سے پیدائش تک، جہاں سروے کے مطابق ہر دس منٹ میں ایک عورت کی موت ہو رہی ہے ، کیا یہ حق بھی مردوں نے لے لیا—؟ بین الاقوامی اور قومی، خواتین بیدار تنظیموں کی اس مسئلے پر خاموشی خطرناک ہے۔ یہ خواتین کی آزادی سے منسلک سوال ہے ، اور اس کے لئے ابھی سے بیرونی دباؤ بڑھا کر ان سنتوں اور سادھویوں کی زبانیں بند کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سوال اور بھی ہے ، کیا سادھوی بچے پیدا کر سکتی ہیں؟ وہ پہلے خاندان کے دائرے میں آئیں اور لفظ ممتا کو سمجھیں۔ اس میں بچے کی پیدائش تک جو تکلیف ہے ، اسے صرف ایک ماں سمجھ سکتی ہے۔ مسلم مخالف بھگوا راگ سے دس بچے پیدا کرنے کا مذہبی بیانبھی مسلم آبادی سے متاثر ہو کر ہی سامنے آیا ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ ملک کے مسلمان جہاں خود کو 25 سے 30 فیصد یعنی مسلم آبادی کو 30 کروڑ تسلیم کر رہے تھے ، وہاں وزیر داخلہ کی طرف سے مردم شماری کی بنیاد پر یہ آبادی اب بھی 14 فیصد یا 15 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ ریاستوں میں بھلے اضافہ ہوا ہو مگر ملک کی مکمل مسلم آبادی کو 14 سے 15 کروڑ تک کے اشارہ دیئے گئے ہیں ، جو کہیں سے بھی زیادہ نہیں ہے۔ (خیال رہے کہ 47 سے پہلے 30 کروڑ ہندو اور دس کروڑ مسلمان تھے )

بدقسمتی سے بھگوا بریگیڈ کی طرف سے ، ہندو خواتین کو زیادہ بچے پیدا کرنے کا مذہبی بیان بھی مسلمانوں سے متاثر ہو کر آیا ہے۔ لیکن اس طرح کے بچکانے بیان سے رسوا ہوئی ہے تو عورت۔ منہدم ہوئی ہے تو عورت۔ جس کے خصوصی حقوق پر مرد اساس معاشرہ نے اقتدار کا دباؤ بنا کر ’رادھا کی ہم جنس حوا کیبیٹی ‘کو نیچا دکھانے کا کام کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ابھی تک اس معاملے میں چپ کیوں ہیں۔؟

کیا گاندھی فلسفے کی جگہ مودی حکومت گوڈسے کے نظریات کو ترجیح دینا چاہتی ہے؟

آئین سے سیکولر اور سوشلزم الفاظ ہٹا کر آر ایس ایس کی بھاجپا حکومت نے اپنا موقف ظاہر کر دیا کہ اب یہ ملک نہ سیکولر ہے اور نہ ہی اس ملک کو گاندھی اور لوہیا کے سوشلزم کی ضرورت ہے۔ ۲۶ جنوری کے موقع پر اطلاعات و نشریات کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اشتہار میں ان دو ناموں کو ہٹانے کے پیچھے کی کہانی تاریخ سے وابستہ ہے۔ اور یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اس بار تاریخ نے خود کو دہرانے کے الزام سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ غور کریں تو ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر ہیں جہاں ملک کو ہندو راشٹر بنائے جانے کے لیے جمہوری نظام اور آئین کو بالائے طاق رکھنے کی سیاست سر گرم عمل ہے۔ ۲۰۱۴ میں بھاجپا کی فتح اور ۲۰۱۵ تک آتے آتے ملکی اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب کو مسمار کر کے ہم اچانک گاندھی سے ناتھو رام گوڈسے اور سیکولرو سوشلزم سے الگ ہندو راشٹر کی طرف قدم بڑھا چکے ہیں۔ شیو سینا اس کا مطالبہ کر چکی ہے — ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس بھی پرانی تاریخ اور نظریات سے الگ ایک نئی تاریخ کی شروعات کرنے جا رہی ہے۔

۱۹۱۵ سے ۲۰۱۵ تک سو برسوں میں تاریخ نے نئی کروٹ لی ہے۔ ۲۰۱۵ میں گاندھی جی جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس آئے تھے۔ اسی سال وہ مہاتما اور باپو بن کر ہندوستان کی جنگ آزادی میں عدم تشدد کے نظریہ کے ساتھ کود پڑے تھے۔ یہ گاندھی فلسفہ تھا جو سو برسوں میں ہمارے ساتھ تھا۔ اب ۲۰۱۵ میں اس گاندھی فلسفہ کی جگہ نتھو رام گوڈسے کے نظریات لے چکے ہیں۔ ۱۳؍اپریل۱۹۱۵ کو ہی اکھل بھارت ہندو مہا سبھا کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اب سو سال بعد ہندو مہاسبھا کی واپسی ہو رہی ہے۔ اور اس کے بانیوں میں سے ایک پنڈت مدن موہن مالویہ کو بھارت رتن دینے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ ہندو مہاسبھا سے تعلق رکھنے والے مدن سنگھ ۳۰ جنوری کو میرٹھ میں نتھو رام گوڈسے کی مورتی لگانے کا اعلان کرتے ہیں۔ سوبرسوں کا سچ گاندھی تھا اب گاندھی کی جگہ ہندو تو کے ایجنڈے پر کام کرنے والی بھاجپا گاندھی کو دھوکہ اور گوڈسے کو نئے ہندوستان اور اکھنڈ ہندو راشٹر کی علامت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ بھاجپا کے ساکشی مہاراج گوڈسے کو دیش بھکت بتاتے ہیں۔ گاندھی نظریات کے عملی قتل کے لیے ہندو مہاسبھا کچھ اور منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔ جیسے گاندھی کی جگہ گوڈسے کو راشٹر پتا کہا جائے۔ کرنسی نوٹ سے گاندھی کی تصویر ہٹائی جائے۔ نصاب میں گاندھی کے فلسفوں کی جگہ گوڈسے کا ہندو وادی فلسفہ پڑھایا جائے۔ گوڈسے کے مندر پورے ہندوستان میں تعمیر کیے جائیں۔ گوڈسے پر فلم بنائی جائے۔ اور گاندھی کی شہادت کے دن کو شوریہدیوس یعنی بہادری کے دن کے نام سے یاد کیا جائے۔ جو کل گاندھی سے خوفزدہ تھے ، آج گاندھی ان کے نشانے پر ہیں۔

۱۹۱۵ میں گاندھی کی ملک واپسی کا مقصد نفرت کے ماحول میں ملت، اتحاد اور عدم تشدد کے راستہ سے آزادی پانے کا تھا۔ گوڈسے کا تعلق ہندو مہاسبھا سے تھا۔ اس وقت ہندو مہا سبھا کے صدر ویر ساورکر تھے۔ گوڈسے گاندھی کے سیکولر نظریات کے سخت مخالف تھے۔ اس لیے جب ہندو راشٹر کے نام سے اخبار نکالنے کا خیال آیا تو ویر ساورکرنے ان کے ہاتھ میں۷۵ روپے دیے اور آگے بھی ان کی مدد کا وعدہ کیا۔ گاندھی کے قتل کے بعد یہ بات بھی اٹھی کی یہ قتل محض گاڈسے کے دماغ کی اپج نہیں ہو سکتی۔ تو کیا اس کے پیچھے ویرساورکر جیسے لوگوں کا بھی ہاتھ تھا۔؟ تاریخ اس بارے میں بہت صاف نہیں ہے لیکن اس سے انکار بھی نہیں کرتی۔ منوہر مالگو نکرنے اپنی کتاب دی مین ہوکلڈ گاندھی میں لکھا ہے۔ ’کشمیر میں پاکستان کی دھوکہ بازی اور جنگ سے ناراض نہرو اور پٹیل نے بھارتیہ ریزرو بینک کے خزانے سے پاکستان کے حصے کے ۳۵ کروڑ روپے دینے سے منع کر دیا۔ گاندھی جی کو یہ منظور نہیں تھا۔ انہوں نے نہرو اور پٹیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے دھرنے کا سہارا لیا۔ بھارت سرکار نے پاکستان کو ۳۵ کروڑ روپے دینے کا ارادہ کر لیا۔ یہ خبر جب ریڈیو سے آئی تو گاڈسے اور نارائن آپٹے نے ایک ساتھ کہا، اب گاندھی کو ختم کرنا ہو گا۔ ‘

یہ حقیقت ہے کہ گاندھی قتل کے بعد بھی زندہ رہے ، کیونکہ ان کے بغیر ہندوستانی جمہوریت اور سیکولرزم کا تصور ادھورا ہے۔ اس لیے مرنے کے بعد گاندھی کے فلسفے زیادہ طاقتور ہو گئے۔ آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا اسی دن کا انتظار کر رہی تھی جب ان کی حکومت ہو تو گاندھیکے فلسفے پر گاڈسے کے اکھنڈ بھارت کے فلسفہ کو ترجیح دیا جا سکے۔

یہاں مقصد پرانی تاریخ کو دہرانا نہیں ہے۔ گاندھی سے وابستہ تمام سچ آج بھی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ گاندھی کے قتل کے بعد گولکر کی گرفتاری ہوئی۔ سنگھ پر بین لگایا گیا۔ آج نئی تاریخ کے صفحات لکھے جا رہے ہیں۔ سنگھ اور ہندو مہاسبھا اس پرانے داغ کو دھونے کی تیاری میں نئی تاریخ لکھنے کے لیے کمر بستہ ہو چکی ہے۔ اس وقت تاریخ کو بدلنے کی ذمہ داری مودی کو سونپی گئی ہے۔ اور غور کریں تو سیاست ایک عجیب تضاد سے گزر رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی گاندھی کے ڈاک ٹکٹوں کا اجرا کرتے ہیں۔ اپنیہر تقریر میں گاندھی کا نام لیتے ہیں۔ ۲۶ستمبر۲۰۱۴، امریکہ کے میڈیسن اسکوائر کی تقریر میں گاندھی کی اہمیت کا ذکر کرتے ہیں۔ دورۂ ہند پر آئے براک اوباما کے ساتھ گاندھی کے فلسفوں کو دہراتے ہیں — اور دوسری طرف سنگھ اور ہندو مہا سبھا گاندھی کو دس لاکھ لوگوں کا قاتل مانتی ہے اور گاڈسے کو ہیرو۔ حکومت بنتے ہی بھاجپا کا بھگوا بریگیڈ سامنے آ جاتا ہے۔ اوربھاجپا حکومت کے کچھ ہی مہینوں میں فرقہ وارانہ مسلم مخالف بیانات کا سلسلہ اس قدر تشدد اختیار کرتا ہے کہ گاندھی کے عدم تشدد کا فلسفہ کہیں کھو جاتا ہے۔ گاندھی جی ہندو اور مسلمان کو اپنی دو آنکھیں کہا کرتے تھے۔ مودی کی سیاست میںیہ ایک آنکھ غائب ہے۔ یہاں تک کہ سچر رپورٹ کے ساتھ مسلمانوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے والی کنڈو رپورٹ بھی سرد بستے میں ڈال دی جاتی ہے۔

یہ بھی خوفناک تضاد ہے کہ مودی ایک طرف ترقی، کامیابی اور ملک کو سپر پاور بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف تنگ نظری اور فرقہ پرستی اس ملک کو صدیوں پیچھے ڈھکیل رہی ہے۔ اسی ملک میں گاندھی کا یوم پیدائش۲؍اکتوبر دھوم دھام  سے منایا جاتا ہے اور اس ملک کا ایک بڑا طبقہ بھی۱۵ نومبر کو گوڈسے کے بلیدان دیوس کے طور پر مناتا ہے۔ گاڈسے کے اکھنڈ بھارت کی دلیل پر گاندھی کے سیکولر اور سوشلزم کے نظریہ کو حاوی کرنے کی سیاست اپنا کام کر رہی ہے۔ مودی چپ ہیں اور یہ کہنا مشکل نہیں کہ مودی اسی نظریہ کی پیداوار ہیں ، جو سنگھ اور ہندو مہاسبھا کے راستے گاڈسے کی دلیلوں کو زیادہ طاقت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

مودی کی مشکل ہے کہ گجرات کا کلنک آج بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا ہے۔ آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کی مشکل ہے کہ گاندھی کا قتل آج بھی جمہوریت اور سیکولرزم کے حامی لوگوں کو پسند نہیں۔ مودی بہت حد تک گجرات حادثے کو لے کر قانونی الجھنوں سے دور نکل آئے ہیں اور ہندو مہاسبھا یا سنگھ اب گوڈسے کے داغ کو دھوکر انہیں بھگوان اور مورتی کی شکل دینا چاہتا ہے۔ مودی کی مشکل ہے کہ باہری ملکوں میں ہندوستان کی شناخت آج بھی گاندھی کے نام سے ہے۔ اس لیے وہ چور دروازے سے گاڈسے کو ہیرو تو بنا رہے ہیں لیکن وہ عالمی سیاست کی بساط پر خود کو گاندھی سے الگ بھی نہیں کر سکتے۔ وہ ایسا کرتے ہیں تو عالمی نقشے پر جہان میڈیا ان کی تاجپوشی کر رہی ہے ، وہاں عالمی سیاست میں وہ اپنا وقار کھو دیں گے۔ مودی کی ایک مشکل یہ ہے کہ ان کا نیا دوست امریکہ بھی گاندھی گاندھی کا جاپ کرتا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما دورۂ ہند پر آئے تو سب سے پہلے گاندھی کی سمادھی پر گئے اور گاندھی کے فلسفوں کو یاد کیا۔ اور جاتے جاتے مودیکو خبردار بھی کر گئے اگر ہندوستان مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہو گا تو ترقی نہیںکر پائے گا۔ اوباما ہندوستان کی ترقی کو مذہبی اتحاد میں پوشیدہ دیکھتے ہیںاور یہی گاندھی کا نظریہ بھی تھا۔

آر ایس ایس کے سپرمین کی مشکل یہ ہے کہ وہ گاندھی کو کہاں چھوڑیں اور گوڈسے کو کیسے گلے لگائیں —؟ باقی کام ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس تو کرہی رہی ہے۔ اور گاڈسے کے اکھنڈ بھارت کے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے خاموشی سے پہلی گولی داغ دی گئی۔ یعنی سیکولر اور سوشلزم کے الفاظ کو آئین سے باہر کا راستہ دکھادیا گیا۔

 

                نئی سیاست کا آغاز

 

ہندوستانی سیاست نئے دور سے گزر رہی ہے۔ جبکہ ایک معمولی مفلر مین، عام لوگوں کی زبان میں باتیں کرنے والا ایک شخص ہندوستانی سیاست میں ہیرو کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور دوسری طرف ایک چائے والے کے دس لاکھ کے سوٹ اور اس کے بڑ بولے پن کو پوری دلی کی عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ دلی کے پلیٹ فارم سے مودی کی یہ آواز بھی گونجی تھی کہ جو دیش کا من(دل) ہے ، وہی دلی کا من ہے۔ لیکن خود کو خوش نصیب ماننے والا اور ملک کو اپنی وراثت سمجھنے والا میجیشیئن اس بار عوام کے جادو سے حیران رہ گیا۔ دلی اگر ملک کا من (دل)ہے تو دلی میں ایسیسونامی آئی کہ کانگریس کے ساتھ بی جے پی کا، ملک کا ہر قلع فتح کرنے کامنصوبہ تاش کا محل ثابت ہوا۔ کیا یہ بی جے پی اور مودی نوازوں کے غرور کی شکست تھی—؟ دلی والوں نے میجک مین کے تمام بیرونی دوروں ، ترقی کے فارمولے اور فرقہ پرست مہم کو ایک ہی بار میں جھٹک دیا۔ سب سے حیرت انگیز ردعمل میڈیا میں دیکھنے کو ملا۔ بھارتی میڈیا جو کچھ دن پہلے تک 24 گھنٹے مودی مودی کے نعروں میں ڈوبا رہتا تھا، اچانک اس سوئے ہوئے میڈیا کے اندر ضمیر کی واپسی ہوئی۔ ٹائمس ناؤ کے ارنب گوسوامی نے سیدھے سیدھے بی جے پی کی فرقہ پرستی کا سوال اٹھایا۔ لوجہاد سے گھر واپسی اور ہندو راشٹر کے نعرے کو درکنار کرتے ہوئے ارنب کے سوال ایسے سلگتے تیر کی طرح تھے ، جن کا کوئی جواب بھاجپائی ترجمانوں کے پاس نہیں تھا۔ یہی حال تمام ہندوستانی چینلز کا ہے۔ اچانک سے ایک غصہ پھوٹ پڑا۔ ایک نئی مودی مخالف لہر جاگ گئی۔ جس نے مودی کے 9 ماہ کی مدت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ مودی کی خطرناک خاموشی کو آر ایس ایس اور فرقہ وارانہ نظریات کی حمایت مان لیا گیا تھا۔

فرقہ پرستی اور بڑھتی ہندو لہر کو کجریوال کی سونامی نے ایک جھٹکے سے روک دیا۔ کیونکہ یہ فرقہ پرستی جمہوریت میںیقین کرنے والے ہندوستانیوں کا سچ تھا ہی نہیں۔ فرقہ پرستی کی جڑیں ہندوستانی سرزمین میں کہیں نہیں ہیں۔ ترقی کی جانب بڑھتی دلی یا ملک کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ کجریوال نے انہی بنیادی مسائل پر توجہ دی۔ دلی والوں کو یہاں اپنا آدمی نظر آیا اور اس مفلر مین کی سونامی اتنی بڑی تھی کہ اس کا تیز بہاؤ سر اٹھا رہی فرقہ پرستی کو اپنے ساتھ بہا لے گئی۔

یہ ملک کی اب تک کی سیاست کی ایسی چوٹ ہے ، جس سے جلد نکل پانا بی جے پی، آر ایس ایس کے حامیوںیا مودی نوازوں کے لئے ممکن نہیں ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ عام آدمی پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی آندھی سے نئی سیاست کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس سیاست میں مذہب اور فرقہ پرستی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ مودی کے 56 انچ سینے پر ایک معمولی مفلرمین کا 36 کا انچ سینہ اس بار بھاری پڑا۔ دس لاکھ کے سوٹ کی جگہ ڈیڑھ سو روپے کا مفلر دلی والوں کی پہلی پسند بن گیا۔ وی پی سنگھ کے منڈل، اڈوانی کے رام مندر اور مودی کے ہندوتو کی جگہ کجریوال کی عام آدمی پارٹی کی فکر نئی سیاست کا نیا باب ہے ، جس کی گونج اس وقت پورے ہندوستان میں سنی جا رہی ہے۔

ایک ایک کر کے سارے قیدی آزاد ہو گئے

اس ملک میں کب تک انصاف کا گلا گھوٹا جائے گا؟

’’ ماضی سے فرار ممکن نہیں

وقت گزرنے کے بعد بھی

ماضی کی گولیوں سے نکلی آوازیں

ہمارا پیچھا کرتی رہتی ہیں ‘‘

حریت لیڈر مسرت عالم کی رہائی کو لے کر وزیر داخلہ جو بھی بیان دیں ،یا وزیر اعظم مودی لاکھ اپنے دامن کو بچانے کی کوشش کریں ، لیکن اس خاموشی کے پیچھے بھی قیدیوںاور قیدیوں کو رہا کرنے کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔ مودی اپنے ماضی سے بھی واقف ہیں اور ’’رہائی‘ ‘کے اس قصے سے بھی، میڈیا جس سے دامن بچا کر خاموشی سے گزر گئی— مسرت کا جرم قابل معافی نہیں ہے اور ایسے سنگین جرائم کے لئے جیل کی سیاہ دیواریں بھی کم پڑ جاتی ہیں لیکن اگر سیاستدان، قانون اور انصاف اپنے ہاتھ میں لے لیں تو عدالت سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ابھی مسرت کی کہانی کو رہنے دیں ، ماضی کے اوراق سے گودھرا کے اس داغ کو دیکھیں جس کے دھبے کئی موسم اور برساتوں کے گزرنے کے بعد آج بھی دھل نہیں سکے — تہلکہ کے 2007 میں کئے گئے اسٹنگ آپریشن کو مانیں تو آرام سے کہا جا سکتا ہے کہ گودھرا حادثہ میں کسی سازش کا ہاتھ نہیں تھا۔ دیٹروتھ اباؤٹ گجرات 2002 سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ 9 بی جے پیکارکن جنہیں حادثے کے عینی شاہد کے طور پر پیش کیا گیا تھا، انہوں نے جھوٹی گواہی دی تھی۔ وہ موقع واردات پر موجود نہیں تھے۔ گودھرا حادثہ اور اس کے بعد ہونے والے سمجھوتہ ایکسپریس یا اجمیر میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے بھی مسلمان نہیں تھے — ہیمنت کرکرے کے ذریعہ کی گئی تحقیقات اور سوامی اسیمانند کے اقبال جرم کے بعد بھی کئی حقیقتیں کھل کر سامنے آئی تھیں ، جن کو پوشیدہ رکھنے کا کام ہی کیا گیا۔ گودھرا سانحہ کے بعد گجرات جل اٹھا۔ ہندوستانی تاریخمیں تقسیم کے بعد یہ دوسرا بڑا سانحہ تھا جب معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کو چن چن کر مارا گیا یا جلایا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے طور 298 درگاہوں اور 205 مساجد کو تباہ کر دیا گیا اور 6100 سے زیادہ مسلمان بے گھر ہو گئے۔ سرکاری طور پر 950 مسلمانوں کے مارے جانے کی بات قبول کی گئی۔ جبکہ یہ اعداد و شمار حقیقت میں کہیں زیادہ ہے۔ گجرات قتل عام کے 13 سال بعد مخصوص عدالتوں کی طرف سے ایک ایک کر کے مجرموں کو بری کرنا انصاف اور اخلاقیات پر سوالیہ نشان لگانے کے لئے کافی ہے۔ صرف نرودا پٹیا میں 97 مسلمان بے رحمی سے قتل کیے گئے — خصوصی عدالت نے تمام 31 قصور واروں کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ بی جے پی کی خاتون وزیر مایا کوڈنانی کو 28 برس قید اور وشو ہندو پریشد کے بابو بجرنگی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

اس واقعہ کے ٹھیک دو سال بعد عشرت جہاں کا فرضی ان کاؤنٹر سامنے آیا۔ یہ کہانی گودھرا یا گجرات فسادات سے منسلک نہیں ، لیکن ان فرقہ پرستوں سے ضرور وابستہ ہے جنہوں نے عام مسلمانوں کو بھی دہشت گرد بتانے اور ڈی جی ونجارا جیسے لوگوں کو معصوم بے گناہوں کے قتل کا کام سونپ دیا تھا۔ تفتیشی ایجنسیوں نے عشرت جہاں کو بے قصور پایا اور متنازعہ آئی پی ایس افسر بنجارا اور ان کاؤنٹر میں شامل پی پی پانڈے پر خصوصی عدالت میں مقدمہ چلنے کی کار روائی شروع ہوئی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں آمریت اوراقتدارکی قوت کے آگے انصاف کی شکست ہوئی ہے۔ یہ پہلے سے ہی مان کر چلا جا رہا تھا کہ ملک کے اچھے دن آئے تو انصاف کے برے دن ضرور آئیں گے۔ عشرت جہاں ان کاؤنٹر معاملے میں خصوصی عدالت نے سابق ڈی جی پی پی پانڈے اور بنجارہ کی ضمانت منظور کر لی اور باہر نکلتے ہی دونوں نے حب الوطنی کا راگ بھی چھیڑ دیا۔

نرودا پٹیا میں مودی کی قریبی مایا کوڈنانی اور بابو بنجارہ نے کئیپر تشدد جلوسوں کی قیادت کی اور اس کے ثبوت اور عینی شاہد ہوتے ہوئے بھی آج ان دونوں کو ضمانت مل چکی ہے۔ مایاکوڈنانی کے ساتھ ان کے خاص سکریٹری کے طور پر کام کرنے والے چھابڑا کو بھی ضمانت مل گئی ،جو نرودا پٹیا میں ہونے والی ہلاکتوں کا ایک اہم مجرم تھا۔ کہتے ہیں ملک اسی کا ہے ، جس کے پاس طاقت ہے۔ انصاف پرور بھی اسی کے نام ہے۔ انصاف اور قانون پر عقیدہ رکھنے کے باوجود یہ بھی اس ملک کا سچ ہے کہ بڑا سے بڑا مجرم بھی آرام سے اقتدار کے زور پر باہر نکل آتا ہے اور کمزور بے گناہوں پر جیل کی سلاخیں تنگ ہو جاتی ہیں۔ گواہ اور ثبوتوں کے باوجود ونجارا اورکوڈنانی جیسوں کو انصاف مل جاتا ہے۔

ایک سروے کے مطابق ہندوستانی جیلیں مسلمانوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ہزاروں بے گناہ سلاخوں کے پیچھے ہیں ، جن کی رہائی کے نام پر اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ 25 کروڑ کی آبادی ہونے کے باوجود سچر کمیٹی، رنگناتھ مشرا کمیشن اور تازہ کنڈور کمیٹی کی رپورٹ میں مسلمانوں کیزندگی کو دلتوں سے بدتر بتایا گیا ہے۔ مسلم آبادی کے حساب سے 22 فیصد مسلمان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ رہائی اور انصاف ملنے میں ایک عمر گزر جاتی ہے اور تقدیر سے لپٹے ہوئے سیاہ بادل نہیں ہٹتے۔

یہ تو رہی مسلمانوں کی بات، لیکن گجرات حادثہ اور ان کاؤنٹرس میں جن کی ضمانت اور رہائیاں ہوئی ہیں ، ان کے ساتھ بھی سیاہ باب کی طرح مسلمانوں کا نام جڑا ہوا ہے۔ مودی کے اقتدار سنبھالتے ہی گجرات میں انصاف کا رنگ پھیکا ہوا— لیکن کیا اس پھیکے رنگ سے وہ داغ اور دھبے دھل سکیں گے ، جو عالمی سیاست کی آنکھ میں بھی آج تک چبھ رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک ٹی وی چینلز سے ایک صحافی نے یہی سوال دہرایا تھا کہ ایک جھٹکے سے گجرات کے تمام قصور واروں کو جیل سے آزادی مل گئی تو میڈیا اس معاملے پر چپ کیوں ہے؟ یہ سوال میرا بھی ہے۔ انصاف پر عقیدہ رکھنے کے باوجود عام آدمی کا اعتماد انصاف سے اٹھتا کیوں جا رہا ہے ، اس پر بھی حب الوطنی کی دہائیاں دینے والوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا صرف ضمانت ملنے اور رہا ہو جانے سے لباس پر لگے خون کے داغ مٹ جائیں گے؟

 

                مودی کے نیلے سوٹ پر سیاہ داغ

 

اقتدار حاصل کرنے کے نو ماہ بعد ہی مودی حکومت تنقید کے نشانے پر آ جائے گی، یہ کس نے سوچا تھا— عوام کے دل میں کیا ہے۔ یہ حکمراں بھی نہیں جان سکتے ، یہ بات انقلاب کی ہر تاریخ میں سنہری حروف میں درج ہے — دلی اسمبلی انتخابات سے قبل تک یہ سوچنا مشکل تھا کہ مودی کی مقبولیت کا گراف اچانک نیچے بھی آ سکتا ہے — حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد عالمی نقشے پر نظر رکھنا، طاقتور ممالک کے سربراہوں سے ملاقات اور مکالمے کرنا، ۲۶ جنوری کے موقع پر امریکی صدر براک اوباما کو بلانا، شائننگ، سوپر پاور اور ’میڈ، کی جگہ میک انڈیا کی باتیں کرنے والے نریند ر دامودر داس مودی کو اس بات کی کہاں خبر تھی کہ ترقی کے فارمولوں کی کھوج، صفائی تحریک اور عالمی نقشہ پر ہندوستان کی نمائندگی کا دم بھرنے کے باوجود ان کے پاؤں کے نیچے کی زمین کھسکتی جا رہی ہے — دلّی میں عآپ کا پرچم لہرایا اور مودی حکومت، کابینہ کے وزیر اور بھاجپائی چہرے مسلسل مودی صاحب کا بچاؤ کرتے ہوئے اُس پائیدان پر آ گئے جہاں کبھی کانگریس کھڑی تھی— من موہن حکومت کے آخری دنوں میںیہ بات مذاق کی حد سے آگے بڑھ گئی تھی کہ ان کانگریسیوں کو مشورے کون دیتا ہے —؟کیوں کہ مہنگائی، بدعنوانی اور رشوت خوری کے الزاموں سے گھبرا کر کانگریسی لیڈران میڈیا اور پریس کو مضحکہ خیز بیانات دیتے ہوئے نظر آتے تھے — آج دیکھئے تو صرف ۹ ماہ بعد یہ حالت مودی حکومت کی ہو گئی ہے — اسمبلی میں شکست کیا ہوئی، الٹے سیدھے بیانات نے مودی حکومت کو مزید الجھنوں اور پریشانیوں میںڈال دیا ہے — پاکستانی کشتی کو تباہ کرنے کا انکشاف بھی تنازعہ پیدا کر چکا ہے — اور مودی کے دس لاکھ کے سوٹ کی نیلامی اور اس پر ہونے والے بی جے پی کے لوگوں کے مکالمے مودی کے بچاؤ سے زیادہ حکومت کے لئے مزید دشواریاں پیدا کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں —

دہلی اسمبلی انتخابات میں شکست کی دوسری اہم وجوہات میں اس قیمتی سوٹ کو بھی دخل تھا— پریس کانفرنس میں براک اوباما کے ساتھ نیلے سوٹ میں مودی کے آتے ہی سب کی توجہ اس سوٹ پر تھی جس نے جلد ہی تنازعہ کی شکل اختیار کر لی— شکست کے بعد ہی یہ فیصلہ لیا گیا کہ ہندوستانی عوام کے دلوں سے قیمتی سوٹ اور اس کو لے کر پیدا ہوئے شک کے بیج کو نکالنا ضروری ہے — ایک بار ہٹلر نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ دشمن بوکھلا کر غلطیاں ضرور کرتا ہے — المیہ یہ کہ اس بار بچاؤ کے لئے بوکھلاہٹ میں جو دلیلیں مودی حکومت کی طرف سے دی جا رہی ہیں ، اُس نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ہے — مودی کو ملے ہوئے قیمتی تحائف کے ساتھ سوٹ کی نیلامی کے قصّے کو گنگا صفائی تحریک سے جوڑا گیا— اب بنارس جا کر اُن لوگوں سے پوچھئے ، جن کے سامنے لوک سبھا انتخابات سے قبل مودی نے گنگا صفائی کو لے کر بڑے بڑے بیانات دیئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ مودی کی فتح کے ساتھ ہی بنارس کے بدنما اور بے روغن ہوئے گھاٹوں کا نصیب بدل جائے گا۔ لیکن اقتدار کے ۹ ماہ میں کبھی اوما بھارتی کبھی مودی کی بیان بازیاں تو سامنے آتی رہیں لیکن کسی نے گنگا گھاٹ کا رُخ بھی نہیں کیا—

مودی کے قیمتی سوٹ کا تنازعہ آگے بڑھا تو گجرات کے ہیروں کے تاجر رمیش کمار بھکا بھائی ویرانی اچانک نمودار ہوئے اور بیان دے ڈالا کہ یہ سوٹ تو انہوں نے مودی کو تحفے میں دیا تھا— کاش یہ بیان وہ براک اوباما کی امریکہ واپسی کے بعد بھیدے دیتے تو مودی کا نیلا سوٹ سیاہ داغ لگنے سے بچ جاتا—اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ تنازعہ تو مودی اوباما کی پریس کانفرنس کے دوسرے دن سے ہی اٹھنا شروع ہو گیا تھا—رمیش بھائی آخر کن موقعوں کے انتظار میں خاموش تھے؟ سیاست کے چور دروازے سے رمیش بھائی کو انٹری دلانے سے قبل کیا بھاجپا کے لوگوں نے یہ نہیں سوچا کہ مودی بچاؤ کے اس انداز کو بھی عوام سرے سے مسترد کر دے گی— عالمی اخباروں نے مودی کے سوٹ پر سونے کے حروف میں لکھے ان کے نام نریندر دامودر داس مودی کو بھی نشانہ بنایا ہے — غور کریں تو خود پسندی اور نرگسیت کی اس سے بدترین مثال تاریخ کے صفحات پر نہیں ملے گی کہ ایک غریب ملک کا حکمراں ، دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے سربراہ سے ، دس لاکھ کے ایسے سوٹ کو زیب تن کئے ہوئے ملاقات کر رہا ہو، جس سوٹ پر جا بجا اُن کے نام کی کڑھائی کی گئی ہو— حزب مخالف کے یہ الزام بھی غور طلب ہیں کہ مودی کو یہ قیمتی تحفہ لینے کا کوئی قانونی حق نہیں تھا— وزیر اعظم جیسے عہدے کے لوگ صرف اور صرف قریبی رشتہ داروں سے ہی تحفے وصولی کر سکتے ہیں — اور ۵۰۰۰سے زائد کے تحفے کو سرکاری توشہ خانہ میں جمع کرانا ہوتا ہے — اور اسی لئے جب سابق صدر جمہوریہ پرتبھا پاٹل مدت کار ختم ہونے کے بعد تحائف اپنے ساتھ لے گئیں تو دوبارہ انہیںیہ تحائف سرکاری خزانے میں جمع کرانا پڑا۔

سائبر ورلڈ اور سوشل انجینئرنگ پر نظر رکھنے والے مودی کی نفسیات کو سمجھنا ضروری ہے — مودی ان بڑے سیاسی لیڈروں سے متاثر ہیں جو پرسنالٹی امیج کے لئے الفاظ کی جادوگری اور جادو بیانی کے ساتھ لباس اور مخصوص پہناوے کو ضروری جانتے ہیں — مگر وہ یہ بھول گئے کہ ہندوستان کے لوگوں نے چرچل کے اس آدھے ننگے فقیر کو پسند کیا تھا جو ننگے پاؤں غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے اُس وقت کے ۳۰ کروڑ عوام کے ساتھ تنہا نکل گیا تھا— اور یہ گاندھی ہی کی شخصیت تھی جسے اُس وقت، ہر قوم و ملت کے لوگوں کی حمایت حاصل تھی— آج مسلم، عیسائی، شمال اوراقلیت مخالف بیانات نے مودی کو اچانک عوام کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے —

کچھ مثالیں دیکھئے —لیبیا کے مقتول صدر معمر قذافی کے کردار سے خود پسندی کے مظہران کے لباس کو الگ نہیں کیا جا سکتا— یہ لباس وہ منفرد نظر آنے کے لئے زیب تن کرتے تھے — ٹائم میگزین کے ایک سروے کے مطابق قذافی خراب ترین لباس پہننے کے لئے مشہور تھے — وہ جہاں جاتے تھے اپنے لباس کی وجہ سے توجہ کا مرکز بن جاتے تھے — ان کے سفید رنگ کے یونیفارم پر سنہری کشیدہ کاری ہوتی تھی اور کبھی وہ گہرے نیلے ، سنہری، سیاہ اور دیگر رنگوں کے لباس زیب تن کرتے تھے —

یاد کیجئے تو اپنے پہلے امریکی دورے پر روانہ ہونے سے پہلے مودی نے ممبئی کے ایک ڈیزائنر ٹرائے کو سٹا کو اپنے لئے لباس تیار کرنے کا آرڈر دیا— کوسٹا بالی ووڈ انڈسٹری کے لئے کپڑے ڈیزائن کرتے ہیں — مودی کا کلف لگا ہوا، آدھی آستینوں والا کھادی یا سلک کا کرتا اور چوڑی دار پائجامہ بھی فیشن بن گیا جس کو وہ نہرو واسکٹ کے ساتھ پہنتے ہیں۔ کیا سیاست دانوں کو پرکشش نظر آنا چاہئے ، یہ بھی ایک سوال ہے — کہتے ہیں ماوزے تنگ خوبصورت لباس کے لئے بہت محتاط رہتے تھے — اگر وہ نیلا لباس پہنتے تو رعایا کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنا ہوتا تھا— اگر کسی میں ماؤ کے لباس خریدنے کی ہمت نہ ہوتی اس کی دلہن اس سے شادی کو انکار کر دیتی تھی— ایک زمانے تک چین میں ماؤ فیشن کا چلن رہا— جرمن رہنما ہٹلر اور اٹلی کے رہنما موسولینی کی فوج کا لباس سیاہ تھا— یہ دونوں اپنے لباس پر خصوصی توجہ دیتے تھے — اس زمانے میں ہٹلر کی مونچھوں کا انداز بھی فیشن بن گیا تھا— بدلتے ہوئے وقت میں سیاست دانوں میں لباس کا مقصد محض ستر پوشی نہیں بلکہ زینت و آرائش اور عوام کو متوجہ کرنے کی بھی رہی ہے — ۲۰۱۰ میں بنگلور میں ایک فیشن شو ہوا جس میں شو کے نمائندوں نے سیاست دانوں کے لئے مخصوص ڈیزائن کیے گئے کپڑوں کی طرف سیاست دانوں کی توجہ مبذول کرائی تھی— لباس کو لے کر ہندوستانی وزیر اعظموں کی تفصیلات پر نظر ڈالیں تو جواہر لال نہرو، گلزاری لال نندہ، مرار جی دیسائی، وی۔ پی سنگھ، نرسمہا راؤ، منموہن سنگھ کی پہلی پسند شیروانی تھی— لال بہادر شاستری کرتا اور دھوتی کو بہتر تصور کرتے تھے — اندرا گاندھی کو کھادی کی ساڑی زیادہ پسند تھی— چندر شیکھر کی توجہ لباس پر کبھی نہیں رہی— راجیو گاندھی کی شخصیت پرکشش تھی— آخری دنوں میں وہ بھی کرتے پائجامے میں نظر آنے لگے تھے — باجپائی بھی سادگی پسند تھے اور اکثر کرتے اور دھوتی میں ہوتے تھے — دیوے گوڑا اپنے مقامی لباس میں ہی نظر آتے تھے —

نئے فیشن کے تصور میں مودی نے ان تمام وزیر اعظموں کی چھٹی کر دی۔ سیاست میں توجہ مرکوز کرنے ، عالمی شہرت اختیار کرنے لیے خوبصورت دکھنے اور مہنگے لباسوں کو ذریعہ بنایا— لیکن وہ یہ بھول گئے کہ اسی ملک میں موہن داس کرمچند گاندھی بھی تھے ، جو جب ساؤتھ افریقہ میں تھے تو تھری پیس سوٹ میں نظر آئے۔ مگر جب آزادی کی جنگ لڑنے ہندوستان آئے۔ گاؤں اور شہروں میں پھیلی ہوئی غریبی کو دیکھا تو سودیشی اور سوراج کا نعرہ دیا۔ چرخے پر خود ہی سوت کاتتے ، کپڑا بنتے — اور ننگے پاؤں لاکھوں کی بھیڑ کے ساتھ پیدل ہی آزادی کیمشعل اٹھا کر آگے بڑھ جاتے —

ہندوستان ایک زراعت پسند ملک ہے — یہاں کی۷۰ فیصدی آبادی کسان ہے — یہاں کے ۶۰ فیصدی لوگوں کی زندگی زراعت پر منحصر ہے۔ یہاں آج بھی زیادہ تر کسان غریب ہیں۔ نہ انھیں ٹھیک سے کھانا نصیب ہوتا ہے اور نہ ہی پہننے کو ڈھنگ کا کپڑا ہی مل پاتا ہے — رنگ راجن کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر دس میں۳ آدمی غریب ہے — ۲۰۱۴ تک 29.5 فیصد لوگ غریبی سے بھی نیچے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں — تازہ سروے کے مطابق عالمی نقشے میں سب سے زیادہ غریب ہندوستان میں بستے ہیں —

سوالیہ کہ سوشل انجینئرنگ کے ہر شعبہ پر گہری نظر رکھنے والے مودی اس حقیقت کو کیسے فراموش کر گئے کہ گاندھی کے دیش میں اُن کے دس لاکھ کے سوٹ اور سوٹ سے متعلق تمام طرح کی دلیلوں کو عوام مسترد نہیں کرے گی—؟ اور وہ سوٹ کے تنازعہ میں گھرے ہٹلر، مسولونی، قذافی جیسے حکمرانوں کی صف میں شامل ہو جائیں گے ، تاریخ کی کتابوں میں آج بھی جن کا نام مغرور تاناشاہوں کی فہرست میں درج ہے — غور کریں تو گودھرہ کے لہو کے داغ سے مودی آج بھی چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے ہیں — اب یہ نیلے سوٹ کا سیاہ داغ— دیکھنا یہ ہے — سوٹ کے دھبّے دھلیں گے ، کتنی برساتوں کے بعد

 

                ہاشم پورہ معاملہ میں انصاف کہاں گیا؟

 

ملیانہ اور ہاشم پورہ میں۱۹۸۷ میں جو کچھ بھی ہوا، اس کی دھندلی دھندلی یادیں ابھی بھی تازہ ہیں۔ اس سے پہلے کئی ایسے فسادات ہوئے تھے جس نے اس بات کو پختہ کیا تھا کہ پولیس بھی فسادیوں کے ساتھ ملی ہوتی ہے۔ فساد سے متاثرہ مسلمانوں کو ایک طرف دنگائیوں کا خوف ہوتا ہے تو دوسری طرف تحفظ دینے والی پولس فرقہ پرستی کی آگ میں جلتیہوئی ان کی طرف بندوق تان دیتی ہے۔ پی اے سی کے جوانوں نے ہاشم پورہ اور ملیانہ میں جو کچھ بھی کیا، اس نے قانون، انصاف اور پولس کے وقار کو تو مجروح کیا ہی، ساتھ ہی مسلمانوں کے دلوں میںیہ بات بھی بیٹھا دی کہ فرقہ وارانہ فسادات میں زندگی بچانے کے لیے کم سے کم وہ پولیس سے بھیک نہیں مانگ سکتے۔

ہاشم پورہ اور ملیانہ فسادات پر۲۸ برس بعد یوپی حکومت کا جو فیصلہ آیا ہے ، وہ امیدوں کے خلاف نہیں ہے۔ متاثرین کے خاندان والے بھلے اس فیصلے پر ماتم کریں مگر ہندوستان کی۶۸ برس کی تاریخ میں مسلمانوں کو اتنے زخم ملے ہیں کہ مسلمان آزادی کے بعد سے اب تک کسی بھی حکومت سے کسی انصاف کی امید نہیں کر سکتا۔ بابری مسجد کے فیصلے وقت یہی کانگریس تھی۔ اور فیصلے کے ایک دن قبل تک حکومت مسلمانوں کو وعدوں اور امیدوں کا لالی پوپ دیتی رہی کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔ لیکن ایک دن بعد ہی بابری مسجد کے فیصلے نے ملک کے تمام مسلمانوں کی امیدوں کا خون کر دیا تھا۔ ہاشم پورہ اور ملیانہ فرقہ وارانہ فسادات کا معاملہ بھی بابری مسجد سے وابستہ رہا ہے۔ اس وقت وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالہ کھول کر نہ صرف ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو ہوا دی تھی بلکہ آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور کمزور بھاجپا کو مضبوط کرنے میں بھی مدد دی تھی اور اسی کے ساتھ لعل کرشن آڈوانی کے فرقہ پرستی اور مسلم مخالف رتھ نے بابری مسجد شہادت کی فضا تیار کر، ہندو مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ آج بھاجپا اقتدار میں اکثریت کے ساتھ ہے ، تو اس کے لیے راجیو گاندھی کی نادانی یا سوچے سمجھے منصوبے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ملیانہ اور ہاشم پورہ میںجو کچھ ہوا، وہ گجرات کے فسادات سے کم نہیں تھا بلکہ بہت کچھ گجرات جیسا تھا— گجرات کے قتل عام کے لیے مودی اور مودی کیبنٹ کی سچائیاں سامنے آئیں تو ہاشم پورہ کے لیے پی اے سی کے جوان سامنے تھے۔ حکومت کے اعداد وشمار اس لیے بھی معنی نہیں رکھتے کہ کہ اس وقت ہاشم پورہ اور ملیانہ کی گلیاں خون میں رنگ گئی تھیں — اور جو ظلم پی اے سی کے جوانوں نے کیا، اس کی مثال کے لیے ہٹلر اور نازیوں کی مثالیں بھی شاید کم پڑ جائیں۔ ہزاروں چشم دید گواہ تھے۔ معصوم بے گناہ مسلمانوں کو جس طرح ٹرک میںبھر بھر کر تحفظ دینے کے بہانے سے لے جایا گیا اور بے رحمی سے بہیمانہ انداز میں انہیں قتل کیا گیا، اس کے لیے۲۸ سال انتظار کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ فیصلہ اگر ۲۸ برس بعد آیا تو ایک ایسی حکومت یوپی میں تھی جو مسلمانوں کے ووٹ لے کر اقتدار میں آئی تھی۔ ایک ایسی حکومت جس پر سیکولرزم کا تمغہ لگا تھا۔ لیکن غور کریں اور ملائم کی اب تک کی زندگی کے صفحے دیکھیں تو اس حقیقت سے نقاب اٹھ جاتا ہے کہ یہ حکومت کبھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں رہی۔ ہاں ملائم اور اکھیلیش کی حکومت نے مسلمانوں کو سبز باغ ضرور دکھائے مگر ہر وہ کام کیا جو مسلمانوں کے خلاف جاتا تھا۔ اکھیلیش حکومت کے تین برسوں میں۲۰۰ سے زیادہ فسادات ہوئے۔ مظفر نگر میں نسل کشی اور غارت گری کے شرمسار کر دینے والے واقعات سامنے آئے۔ متھرا میں مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا، فیض آباد میں قتل اور مسجدوں پر حملہ ہوا۔ بریلی شریف میںدو سال قبل رمضان کے مہینے میں گولیاں چلیں۔ غازی آباد میں قرآن پاک کی حرمت پامال ہوئی۔ چھ مسلم نوجوانوں کا قتل اور ہزاروں بے گناہ مسلمانوں پر مقدمہ چلا۔ مولانا خالد مجاہد کے قتل کے بعد اکھیلیش حکومت نے قتل پر پردہ پوشی کا جو ڈرامہ کھیلا، اس سے بھی سماجوادی کا اصل چہرہ بے نقاب ہوا۔ ایماندار آئی پی ایس افسر ضیاء الحق کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ پرتاپ گڑھ میں مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل، درگاہ شریف کو نذر آتش کیا گیا۔ ملائم سنگھ ہی ہیں جنہوں نے پہلی بار مرکزی حکومت سے مدرسوں کی جانچ کرائے جانے کی مانگ کی اور یہ بیان دیا کہ مدرسوں میں دہشت گردی کے امکانات ہیں۔ ملائم کی آنکھوں کے سامنے بابری مسجد شہید ہو گئی۔ وہ چاہتے تو بابری مسجد کی شہادت کو روکا جا سکتا تھا۔ ۱۹۸۹ میں جب پہلی بار ملائم سنگھ یادو وزیر اعلیٰ بنے تو ان کی آگ اگلتیتقریر یاد کیجئے ، جس میں کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کے گھر سے اسلحے نکلتے ہیں اور نکلتے رہیں گے۔ مظفرنگر، شاملی اور میرٹھ میں بے قصور مسلمان مارے جاتے ہیں۔ ان کے راحت کیمپوں پر بلڈوزرچلتے ہیں۔ ہزاروں مثالیں ہیں ، ملائم کبھی مودی کی تاجپوشی کرتے ہیں۔ ان کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں — مسلمانوں کی حق تلفی اترپردیش میں عام بات ہو گئی ہے۔ اس لیےیہ فیصلہ اس یقین کے برعکس نہیں ہے ، کہ مرکز کا دباؤ نہ بھی ہو، تب بھی ریاستی حکومت کے سامنے ۲۰۱۷ میں ہونے والا اسمبلی انتخابات تو ہو گا ہی، جس کے لیے صرف ڈیڑھ سال بچے ہیں اور اس کم عرصے میںیوپی حکومت، غیر مسلموں کو ناراض کرنے کی ہمت نہیں دکھا سکتی۔ ہاشم پورہ میں فرقہ وارانہ تشدد اور قتل عالم کے بعد فیصلہ کے لیے ثبوت کے نہ ہونے کو ذمہ دار ماننا حکومت اترپردیش کی کمزوریوں کو سامنے لاتا ہے۔ صرف سابق آئی پی ایس افسر وبھوتی نارائن کی کتاب ۲۲ ہاشم پورہ ان ثبوتوں کے لیے کافی ہے کہ ۲۲مئی کی شام وردی والوں نے مسلمانوں کی ہلاکت اور بہیمانہ قتل کے لیے کیسا ڈرامہ کھیلا تھا۔ اس لیے کہنا مشکل نہیں کہ شروع سے ہی یوپی حکومت فیصلے کے لیے بڑے دباؤ میں تھی اور اس دباؤ کے لیے قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑانا حکومت کے لیے کوئی بڑی بات نہیں تھی۔

ہاشم پورہ کے ملزمین کا آسانی سے بری ہو جانا مودی حکومت کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گجرات قتل عام کے ایک ایک کر کے سارے ملزمین آزاد کیے جا رہے ہیں۔ عشرت جہاں فرضی ان کاؤنٹر معاملے کے ملزم آئی پی ایس افسر بنجارا اور پی پی پانڈے کے بھی اچھے دن آ چکے ہیں۔ نرودا پٹیا میں مودی کی قریبی مایا کوڈنانی اور بابو بنجارا کو ثبوت اور عینی شہادت کے ہوتے ہوئے بھی ضمانت مل چکی ہے۔ اور اب یوپی حکومت کی کمزوریوں کی وجہ سے ہاشم پورہ کے سبھی ملزمین بری کر دیئے گئے تو یہ مان کر چلیے کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔ فرقہ پرست طاقتوں کے مسلم مخالف خوفناک اور اشتعال انگیز بیانات نے پہلے ہی مسلمانوں کی زمین تنگ کر دی ہے۔ آر ایس ایس جس مسلم مخالف ایجنڈے پر کام کر رہی ہے ، اس میں مسلمانوں کے لیے کسی بھی انصاف کی امید باقی نہیں بچی ہے۔ واردات کے وقت غازی آباد کے پولیس کمشنر وبھوتی نارائن کی کتاب ۲۲ ہاشم پورہ سے یہ دو اقتباسات دیکھئے۔

’’پہلا فیصلہ یہ کیا گیا کہ ہاشم پورہ قتل کے سلسلے میں دونوں ایف آئی آر کی تفتیش سی آئی ڈی سے کرائی جائے۔ تفتیش گزشتہ ۴۸ گھنٹوں سے ہمارے پاس تھی۔ لاشوں کو نکالنے ، ان کا پوسٹ مارٹم کرانے ، دفنانے اور غازی آباد میں امن نظام قائم رکھنے کے دباؤ میں ابھی تک میں ادھر توجہ نہیں دے پایا تھا لیکن مجھے پوری امید تھی کہ اگلے چند دنوں میں ہم مکمل طور پر تفتیش میں لگ سکیں گے اور قاتلوں اور ان واردات کرانے والوں تک پہنچ سکیں گے۔ منظم روم سے ہیایک ریڈیوگرام پولیس ڈائریکٹر جنرل دیاشنکر بھٹناگر کی طرف سے داخلہ سکریٹری ماتاپرساد کے لئے بھیجا گیا جس میں وزیر اعلیٰ کا یہ حکم درج تھا کہ تفتیش غازی آباد پولیس سے لے کر سی آئی ڈی کی کرائم برانچ کو سونپ دی جائے۔ ‘‘

’’مجھے اب تک یاد ہے کہ وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ جیسا زمینی حقیقت سے منسلک لیڈر بڑی شدت سے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ پی اے سی اتنی خطرناک کیسے ہو گئی تھی کہ ڈھیروں بے قصور لوگوں کو پکڑ کر لے گئیاور بے رحمانہ طریقے سے انہیں مار ڈالا؟ پولیس ڈائریکٹر جنرل دیاشنکر بھٹناگر انہیںیہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ پی اے سی کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور ٹریننگ کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا اس صورتحال کے لئے ذمہ دار ہے۔ ‘‘

وبھوتی نارائن عینی ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر مکمل طور پر پی اے سی کے جوانوں کو اس ناقابل معافی گناہ کے لیے ذمہ دار مانتے ہیں۔ تعجب اس بات پر بھی ہے کہ مقدمہ چلنے کے دوران بھی یہ ملزمین اپنی ڈیوٹی دیتے رہے۔ حکومت اور انصاف سے مسلمانوں کی امید ایک بار پھر ختم ہوئی ہے۔ ۲۲ ہاشم پورہ سے ایکاور اقتباس دیکھئے۔

’’دو گھنٹے سے زیادہ چلے تبادلہ خیال کے دوران جس میں وزیر اعلیٰ اور ان کے ساتھ آئے اعلیٰ افسران کے علاوہ میں اور ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی بھی موجود تھے ، کافی کچھ ایسا ہوا جس کی وجہ سے مجھے لگنے لگا کہ اگر میں نے پرائیویسی کی چادر اپنے سر سے نہیں اتار پھینکیتو ہاشم پورہ کسی اندھی سرنگ میں سما جائے گا اور ملک میں آزادی کے بعد کی سب سے بڑی کسٹوڈیل کلنگ کا راز عوام کے پاس پہنچنے کے پہلے ہی سرد خاموشی میں دفن ہو جائے گا۔ ‘‘

حقیقت ہے کہ یہ پورا معاملہ ملزمین کے بری ہو جانے سے ٹھنڈے بستے میں جا چکا ہے۔ مسلمانوں کے زخم ہرے ہیں لیکن اس معاملہ میں ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کو لے کر بھی انصاف پرچھائی دھند ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ بس ایک ہی سوال ہے ، اس پر تشدد اور فرقہ پرست ماحول میں مسلمان اپنے لیے کسی انصاف کی امید کرتے ہی کیوں ہیں؟

 

                اشتعال انگیز بیانات اور ملک کی سیاست

 

کسی قوم سے اس کی زبان چھین لی جائے تو قوم کا زوال خود بہ خود شروع ہوتا ہے۔ یہ بات اکثر دہرائی جاتی رہی ہے۔ ہندوستان کے نئے سیاسی منظرنامہ کو دیکھیں تو اشتعال انگیز اور فحش زبان کے استعمال نے سیاست کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سیاست کے نام سے نفرت ہونے لگی ہے۔ ملک کی۳۰ کروڑ اقلیت کو لے کرنفرت پھیلانے والے بیانات دیے جا رہے ہیں اور حکومت خاموش ہے۔ حکومت کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے بیانات کو حکومت کی خاموش سرپرستی حاصل ہے۔ اور ایسے قانون شکن اور فرقہ وارانہ بیانات کے بعد اگر مودی صاحب مختلف ریاستوں کے چیف جسٹس اور وزرائے اعلی کی مشترکہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ قانون اور انصاف کے تعلق سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ تو یہ بات مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ عدلیہ کے طاقتور اور درست ہونے کی بات کرنے والے مودی صاحب نہ صرف گجرات دنگوں کو فراموش کر گئے بلکہ یہ بھی بھول گئے کہ سیاسی دباؤ میں عدلیہ نے ایسے فیصلے بھی لیے کہ انصاف اور قانون کو ساری دنیا میں شرمسار ہونا پڑا اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے — اگر ہم ماضی کی تلخیوں اور غلطیوں کو بھول بھی جاتے ہیں تو حکومت ان غلطیوں کو نہ دہراتے ہوئے نئی روش پر چلتے ہوئے انصاف اور قانون کے ہاتھوں کو دوبارہ مضبوط کرنے کا اعلان کر سکتی ہے مگر اس کے لیے ماضی میں کی گئی غلطیوں کے لیے اس کا معافی مانگنا ضروری ہے۔ اور یہ واضح ہے کہ حکومت ایسا نہیں کر سکتی۔ اس لیے عدلیہ کو لے کر آئندہ بھی اس کی نیت پر سوال اٹھتے رہیں گے۔ گجرات فسادات میں ملوث مجرموں کی رہائی، ہاشم پورہ کا فیصلہ اور فرضی ان کاؤنٹر میں ملوث ونجارا پر آئے فیصلوں نے نہ صرف حکومت کی فرقہ پرست شبیہ کو پیش کیا ہے بلکہ یہ فیصلہ بھی سنادیا ہے کہ اقلیتوں کے لیے انصاف کے دروازے بند ہیں۔ کیا عدالتی نظام کو حکومت کے سیاسی دباؤ سے الگ کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اور اس سوال کو آر ایس ایس اور مودی حکومت سے وابستہ لیڈران کے اشتعال انگیز اور فرقہ پرست بیانات کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو انصاف اور قانون ایک بار پھر سوالیہ نشان کے دائرے میں آ جاتے ہیں۔ کیا مسلمانوں کے خلاف بھڑکاؤ اور نفرت آمیز بیانات کے سلسلے میں عدلیہ کوئی کار روائی نہیں کر سکتی—؟’ قانون اور انصاف کے تعلق سے سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے ‘ کہنے والے مودی صاحب کی پول یہاں کھل جاتی ہے۔ کیونکہ قانون اور انصاف کا تحفظ ایسے سیاسی پاکٹ میں ہے جہاں اکثریتی طبقہ کو تو اس کا فائدہ پہنچ رہا ہے مگر اقلیتوں کو مسلسل اس کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

ابھی حال میں بی جے پی لیڈر گری راج سنگھ کو کانگریس صدر سونیا گاندھی پر نسلی تبصرہ کے بعد امت شاہ اور جیٹلی کی ناراضگی جھیلنی پڑی— مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بہار کے ایک معمولی لیڈر کو مرکزی وزیر بنانے میں بھی اسی اشتعال انگیز بیانات اور فرقہ وارانہ زبان کا ہاتھ رہا ہے۔ جب مسلمانوں کے خلاف ایک بیان کے بعد آپ اس لیڈر کی تاجپوشیکرتے ہیں تو دوسرے بیان پر ہنگامہ اور ناراضگی کا مکھوٹا، کیوں چڑھایا جاتا ہے؟ ان متنازعہ بیانات کی زبان در اصل اس مکھوٹے سے پردہ اٹھاتی ہے جو مظفر پور سے مظفر نگر فسادات تک کو، ایک بے رحم اور منصوبہ بند سازش کے تحت نہ بھولنے والی تاریخ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ایسی ہی زبان ایک سال قبل، مغربی اترپردیش کے ایک حساس علاقہ میں امت شاہ نے بھی بولی تھی اور الیکشن کمیشن سے اس کی شکایت بھی کی گئی تھی۔ ’فرقہ وارانہ فسادات سے ہمارا ووٹ بینک بڑھتا ہے ‘ کہنے والے امت شاہ گری راج سنگھ کے نسلی امتیاز اور فرقہ وارانہ بیان پر اگر رد عمل دیتے ہیں تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مکھوٹوں کے پیچھے کی تاریخ میں مسلسل ایسے فرقہ پرست الفاظ پر ایسے لوگوں کو نوازے جانے کا بھی منصوبہ رہا ہے۔ ان فرقہ پرست زبانوں کے پیچھے آر ایس ایس کی کھلی حمایت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

سنگھ پریوار کے اہم رکن پروین توگڑیا گجرات کے ہندو محلوں میں مسلمانوں کی طرف سے مکان خریدنے پر قابل اعتراض بیان دیتے ہیں کہ مکان پر قبضہ کر لو یا آگ لگا دو۔ گری راج سنگھ ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان بھیجتے ہیں۔ ماضی میں ’کٹی پتنگ، کٹے پان، کٹوے جاؤ پاکستان‘ جیسے نعرے بھی لگتے رہے ہیں۔ غیرمہذب ہوتی زبان سماج، تہذیب سے مذہب تک پھیل گئی ہے۔ ابھی حال ہی میں سادھوی سرسوتی مشرا نے بیان دیا کہ ’میں ہندو لڑکیوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ مسلم لڑکوں سے دور رہیں۔ اگر کوئی مسلم لڑکا آپ کے رابطے میں آئے تو آپ اس پر پتھر برساؤ۔ ‘بی جے پی لیڈر سادھوی پراچی کا بیان بھی سن لیں۔ شیر کا ایک بچہ نہیں ہوتا اس لئے ہندو کے ہر خاندان میں چار بچے ہونے چاہئیں ، میں نے 4 بچے پیدا کرنے کے لئے کہا ہے ، 40 پلے نہیں۔ ‘

ہندوستانی نئی سیاست کی گواہ اب یہی غیر مہذب اور زبان اور اشتعال انگیز بیانات رہ گئے ہیں۔ بار بار ہندوستانی ثقافت کی دہائی دینے والا سنگھ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے دھرم کے مسخ شدہ معنی کو اپنا کر ہندوستان کی شاندار روایت کو نقصان پہنچا رہا ہے ، تو اس پر نئے سرے سے غور کرنا ہو گا۔ گنگا جمنی تہذیب اور مساوات کی فکر زہریلے بیانات کی قطار میں کھو گئی ہے۔ ایسے بھڑکاؤ بیانات دہشت گرد قوتوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ جن دھن منصوبہ اور نئے ہندوستان کی تعمیر کے پیچھے اس زہریلی زبان نے حکومت کی خوفناک خاموشی کو تیزی سے گرتے شہرت کے گراف میں بدل دیا ہے۔ 2 اپریل، ’آج تک‘ ٹی وی چینل کے سروے میں بتایا گیا کہ اگر آج انتخابات ہوتے تو بی جے پی کے پاس وہ لہر نہیں ہوتی جو 2014 میں تھی۔

زبان کی پاسداری کا خون پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ مہاتما گاندھی کو کانگریس کا دلال تک کہا گیا۔ کئی مارکسی مدعیان نے سبھاش چندر بوس کو جاپانی ڈکٹیٹر توجو کا کتا کہا۔ آزاد ہند فوج کو راکشس، لٹیروں اور قاتلوں کی فوج کے نام سے یاد کیا گیا۔ پنڈت نہرو کو امریکی سامراجیت کا کتا اور سردار پٹیل کو فاسسٹ جیسے نام دیے گئے۔ سابق کانگریسی لیڈر بلرام جاکھڑ نے جے للتا کے لئے بھینس کا لفظ استعمال کیا تھا۔ 2014 لوک سبھا انتخابات سے پہلے ہندوستانی سیاست، زبان کی تمام حدود پارکر چکی تھیں۔

سادھوی نرنجن جیوتی ہوں ، سادھوی پراچی یا گری راج سنگھ، اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا سیاسی دباؤ میں معافی کی روایت اس ذہنیت کو بدل سکتی ہے ، جہاں تنگ نظری اور فرقہ پرستی کی جڑیں گہری ہوں؟ اگر ان بھڑکاؤ بیانات کو سنگھ یا مودی حکومت کی حمایت حاصل نہیں تو ایک کے بعد ایک نئے فحش و بھڑکاؤ بیانات سامنے نہیں آتے۔ ملک کا مسلم اور عیسائی طبقہ اگر الفاظ کے شکنجے خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اہم سوال یہ بھی ہے کہ مرکز میں بی جے پی کے ہونے پر ہی، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ناشائستہ زبان اور الزاموں کا دباؤ کیوں بنایا جاتا ہے؟ بی جے پی جب حکومت میں نہیں ہوتی تو ایسیبھڑکاؤ زبانوں کی سونامی تھم جاتی ہے۔ اقتدار میں آتے ہی فرقہ پرستی کا شیر جنگل سے نکل کر باہر سڑکوں پر آ جاتا ہے۔

سلمان خان کی فلم دبنگ میں ہیروئن سوناکشی اپنے ہیرو سلمان سے کہتی ہے۔ ’تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب، پیار سے لگتا ہے ‘ حقیقت یہ ہے کہ سیاست اب ڈرانے لگی ہے۔ زبان کی اس سیاست میں ایک سنگین نام اروند کیجریوال کا جڑ گیاہے۔ ملک کے 68 برسوں کی سیاسی تاریخ میں عام آدمی پارٹی کی صاف ستھری سیاست پر یقین کرتے ہوئے دہلی کے عوام نے 70 میں سے 67 سیٹ اس مفلرمین کو دینے میں ہچک محسوس نہیں کی، جس نے بہتر سیاست دینے کے اعلان سے پورے ہندوستان کا دل جیت لیا تھا— لیکن نئے حالات، فکسنگ اور اسٹنگ نے اچانک اس بے داغ سیاست کی پول کھول دی، جہاں اروند ’ پچھواڑے لات مار کر بھگا دو‘ جیسی زبان بولتے ہوئے نظر آئے — فرقہ وارانہ بیان بازیوں پر مودی حکومت خاموش ہے تو لات مارنے والے بیان پر اروند کجریوال کی خاموشی عام آدمی کی سیاست کا مکھوٹا اتارنے کے لئے کافی ہے۔ تنازعات سے گھرے اروند اس بار معافی مانگنا تک بھول چکے ہیں۔ اروند کے فحش الفاظ نے کروڑوں ہم وطنوں کا دل توڑ دیا ہے۔

’تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب سیاست سے لگتا ہے ‘۔ سیاست کے نئے صفحے عدم تحفظ کے تھپڑ اور زبان کی سنسناتی گولیوں سے متاثر ہیں۔ یہاں ایک حمام ہے اور سارے ننگے ہیں۔ کس کو مجرم ٹھہرایا جائے؟

 

                مودی کے توہین آمیز بیانات

 

ہمیں ہندوستان میں رہنے پر فخر ہے۔ آپ کو شرم کیوں آتی ہے مودی جی؟

وزیر اعظم مودی اپنے غیر ممالک دورے میں پچھلی حکومت پر حملہ کرنے کے بہانے ہندوستان کی توہین کرنا نہیں بھولتے۔ لیکن اس بار چین اور جنوبی کوریا میں ان کے دیئے گئے بیان کو ہضم کرنا عام ہندوستانیوں کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ وہ عام ہندوستانی جو سیاسی طوفانوں کے درمیان بھی ایک جمہوری نظام میں رہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے۔ وہ عام ہندوستانی، جس نے غلامی سے آزادی تک، سیاسی ٹکراؤ میں بھی اپنے ملک، اپنی خاک سے محبت کی ہے۔

مودی کا یہ بیان ایسے موقع پر آیا ہے جب عام مسلمان اور ہندوستانی سیکولر ڈھانچہ بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ لہروں سے پریشان ہے۔ اپنے غیر ممالک دورے میں مودی اس سے قبل بھی ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ اب سوال ہے کہ مودی یہ شرم کیوں محسوس کرتے ہیں۔ جب کہ وہ اسی ہندوستان کا حصہ ہیں اور اب ایک ہندوستانیوزیر اعظم کے طور پر پچھلے ایک برس سے وہ اس ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وہ اس ملک کا حصہ ہیں جہاں آزادی کے بعد بابری مسجد شہادت کا سیاہ باب لکھا گیا اور ۲۰۰۲ میں گجرات میں ہونے والے مظالم نے ایک ایسی داستان لکھی، جس کے زخموں کو آج تک بھرا نہیں جا سکا۔ گجرات کے خوفناک حادثے کو مودی اور ان کی پارٹیوں کے لوگوں سے منسوب کیا گیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔ ۲۰۱۴ میں ہندوستانی عوام نے کانگریس کو سبق سکھانے کا ایک بڑا تجربہ کیا۔ اور مودی زبردست اکثریت کے ساتھ اس ملک کے ہیرو بن گئے۔ آخر اس ایک برس میں ایسا کیا ہو گیا کہ مودی کو یہ متنازعہ بیان دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔؟ اس حقیقت کی تہہ تک جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ مودی حکومت ہندوستانی عوام کو ترقی کا فارمولہ دے کر، غیر ممالک کے مسلسل دورے سے اپنی طاقت کا احساس دلا کر، دوسری طرف اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ایک بھیانک کھیل، کھیل رہی ہے۔ اسے یوں سمجھنا ہو گا کہ مودی حکومت بنتے ہی آر ایس ایس نے مکمل طور پر حکومت پر قبضہ کر لیا۔ مودی کی خوش فہمی تھی کہ عوام کو ترقی اور فروغ کے نعروں میں الجھا دے گی اور آر ایس ایس، ہندو راشٹریہ بنانے کی مہم کو جاری رکھے گی۔ اور وزیر اعظم خاموش رہ کر یہ اشارہ دیں گے کہ انہیں ترقی کے علاوہ کسی بھی طرح کی اشتعال انگیزتقریر یا مسلم مخالف بیانات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن ہوا اس کے ٹھیک الٹا۔ ایک برس کی حکومت میں تحویل اراضیبل سے لے کر دس لاکھ کے سوٹ تک مودی حکومت عام ہندوستانیوں کے سامنے بے نقاب ہوتی چلی گئی۔ اس حکومت کو اقلیت مخالف، کسان مخالف اور کارپوریٹ گھرانوں ، امبانیوں ، اڈانیوں کی حکومت تک کہا گیا۔ اپنے ہدف تک نہیں پہنچنا در اصل ایک ایسی شکست تھی جس کی امید نہ مودی نے کی تھی، نہ آر ایس ایس نے۔ کچھ میڈیا اور چینلس ایسے بھی تھے ، جنہوں نے بے خطر مودی حکومت کا گھیراؤ کیا۔ یہ واقعی شرم کی بات تھی کہ جس راز کو مودی حکومت اور آر ایس راز رکھنا چاہتی تھی، اس کے ایک ایک راز سے پردہ اٹھتا جا رہا تھا۔

اب ذرا تاریخ کے صفحات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ غلامی کے تاریک دنوں سے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت کے شعلے بھڑک اٹھے تھے۔ انگریزی سامراج واد بھی اس شعلے کو ہوا دے رہا تھا۔ ۱۹۱۵ میں ہندو مہا سبھا کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اوراس کے سرکردہ رہنماؤں کی کوشش تھی، ہندوستان میں خالص ہندو حکومت قائم کرنے کی۔ آج بھاجپا لیڈران کے جو اشتعال انگیز بیانات سامنے آ رہے ہیں ، ایسے بیانات غلامی کے تاریک دنوں میں بھی دیئے جا رہے تھے۔ مثال کے لیے مسلمان اپنے مذہب، اپنی تہذیب کو فن کر دیں تو ہندوستان میں رہ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر رادھا ہردیال مکرجی نے کہا، مسلمان اپنے آپ کو مسلمانی ہندو کہیں۔ سوامی شردھا نند مہاراج نے کہا، میں بچھڑے ہوئے سات کروڑ بھائیوں کو واپس ویدک دھرم میں لاؤں گا۔ ویر ساورکر کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں جیسا برتاؤ ہو۔ ڈاکٹر مونجے نے کہا۔ مسلمانوں کو ہندو بن کر رہنا ہو گا— ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی ہندو مہاسبھا، آر ایس ایس اور تشدد پسند تنظیموں کی مسلمانوں کے خلاف تحریریو تقریری اور سیاسی ومعاشی مہم جاری ہے۔ ایک سفر آزادی سے پہلے کا تھا جہاں سات سو برسوں کی بادشاہت نے ، ۲۰۰ برسوں کی فرنگی حکومت میں مسلمانوں کے تئیں نفرت اور پوری قوم کو کچلنے کے جذبے کو بیدار کیااور غور کریں تو آزادی کے بعد کی سیاست میں بھی یہی جراثیم موجود ہیں۔ اور کہنا مشکل نہیں کہ ان سب کے پیچھے کون ہے۔ وہ کیسا مشن ہے جو اس ملک سے مسلمانوں کا صفایا کرنا چاہتا ہے۔ وہ کیسا مشن ہے ، جو بار بار خوفناک بیانات سے مسلمانوں پر نفسیاتی دباؤ قائم رکھنا چاہتا ہے۔ وہ کن لوگوں کا مشن ہے ، جو چاہتے ہیں کہ مسلمان اس قدر پستی کا شکار ہو جائیں کہ انہیں اٹھنے یا کھڑا ہونے میں صدیاں درکار ہوں۔ مودی کے محض ایک برس کی حکومت کا جائزہ لیں تو اس حکومت کے پس پشت آر ایسایس ہی کردار ادا کرتی رہی ہے۔

غلامی سے آزادی تک ہزاروں ایسے سوال ہیں جن کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں۔ لیکنیہ جواب وقت کو دینا ہے۔ اس لیے کہ تقسیم نے ایک طرف جہاں ٹکڑے ٹکڑے لہولہان پاکستان کی تصویر سامنے رکھی، وہیں ہندوستان میں مسلمانوں سے ان کا روشن مستقبل چھین کر، ایک پوری قوم کو گمنامیاور تاریکی کے اندھیرے غار میں ڈھکیل دیا۔ اس پر آشوب وقت میں ملک کا ایک مخصوص طبقہ اور سیاسی پارٹی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نیستو نابود کرنے کی متعصبانہ کوششوں میں مصروف ہے۔ ملک کو فرقہ واریت کا شکار بنا کر یہ طاقتیں مسلمانوں کی تہذیب اور تشخص کو ختم کرنے پر آمادہ ہیں۔ مسلمانوں کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں۔ روزگار اور سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیں۔ آسام میں شہریت کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ قاتلوں کو آزاد کیا جا رہا ہے۔ ہر فیصلہ مسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ آزاد ہندوستان میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کے پیچھے کون ہے؟ فرقہ وارانہ فسادات کی بھیانک کہانیوں کے پیچھے کون سی پارٹی اور مشن کام کر رہا ہے۔ بابری مسجد شہادت کے ذمہ دار کون تھے؟ یہ حقیقت بھی ظاہر ہو چکی ہے کہ مشن کے تحت ہر خفیہ ایجنسی، عدلیہ اور انصاف کی کرسیوں پر اور فوج میں سنگھ کے آدمی موجود ہیں۔ ہاشم پورہ ہو یا بابری مسجد، کوئی بھی فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کیوں نہیں ہوا؟ خالد مجاہد، طارق قاسمی اور فرضی ان کاؤنٹرس کی تاریخ میں ابھی بھی ہر روز نئی کہانیوں کا اضافہ ہو رہا ہے تو اس کے پیچھے کون ہے؟ تلنگانہ میں پولس حراست میں پانچ مسلم نوجوانوں کا ان کاؤنٹر ہوتا ہے۔ بٹلہ ہاؤس ان کاؤنٹر میں مسلمانوں کو خاموش رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ طاقتور مشن کا یہ حال کہ گجرات کے ملزم صاف بری ہو جاتے ہیں۔ سادھوی پرگیہ، سوامی اسیمانند، کرنل پروہت اور دیگر مجرموں سے مکوکہ ہٹانے کا فیصلہآ جاتا ہے۔ اور بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی کا ہر منصوبہ دھرا رہ جاتا ہے۔ آج کی تاریخ کا سچ یہ کہ مسلمانوں کی عبادت گاہیں تک محفوظ نہیں۔ تاج محل جیسے عجائبات پر خطرہ منڈرا رہا ہے اوروہان پوجا کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ آثار قدیمہ سے تاج محل کے ارد گرد کھدائی کی مانگ کی جاتی ہے۔ یہ مسلمان ہی ہے جو روز بہ روز اپنا آئینی حق کھوتا جا رہا ہے۔ اور مسلسل سیاسی دباؤ میں جس کی زندگی دوزخ سے بدتر بنا دی گئی ہے۔

مودی جی، آزادی کے ۶۸ برسوں میںیہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن مسلمانوں ، نیز سیکولر کردار کے لوگوں کو بھی، اپنے ملک کو اپنا ملک کہتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ ہم پر پہاڑ ٹوٹتے رہے۔ لیکن اسے سیاست سے وابستہ کرتے ہوئے کبھی ہم نے ہندوستان پر تہمت نہیں لگائی۔ ہاں ، ہمارے نشانے پر سیاسی لیڈران رہے اور مشتعل کرنے والے دہشت پسند آر ایسایس جیسے لوگ، لیکن اس کے باوجود حب الوطنی کے جذبے میں کبھی کوئی کمی محسوس نہیں کی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس بیان کی آڑ میں نگاہیں کہیں اور نشانہ کہیں ہے۔ ۱۹۱۵ سے ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والی آر ایس ایس کیا آپ کے بہانے محض ایک برس میں اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی تھی؟ اور ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا تو آپ کو ہندستان پر غصہ آ رہا ہے۔ یہ مت بھولیے کہ ہندوستان، جنت نشان میں سیکولرزم کی جڑیں اتنی گہری اور مضبوط ہیں کہ محض کچھ تشدد پسندانہ طاقتوں کے چاہنے کے باوجود جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہمیں اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے ، آپ کو شرم کیوں آتی ہے مودی جی۔؟

 

                بارہ مہینے کی سرکار

 

ایک برس کی حکومت میں ایسا دو بار ہوا جب وزیر اعظم مودی نے مسلم رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس سے قبل سریش ظفر والا بھی مسلم رہنماؤں سے مل کر یہ پیغام پہنچا چکے تھے کہ وزیر اعظم مودی مسلمانوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ مسلم رہنماؤں سے مل کر مودی نے یہ پیغام بھی دینے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت مذہبی تفریق اور فرقہ پرستی کو پسند نہیں کرتی اور ان کی خواہش ہے کہ انہیں ان کے کام سے پہچانا جائے۔ اس ایک برس میں ایسا کئی بار ہوا ہے ، جب آر ایس ایس اور دیگر ہندو سنگٹھن کے اشتعال انگیز بیانات کی عالمی سطح پر بھی دھجیاں اڑائی گئیں تو مودی نے خاموشی سے ایک بیان دے دیا کہ وہ یہ سب پسند نہیں کرتے۔ یہی بات انہوں نے مسلم رہنماؤں سے بھی کہی۔ اور کچھ دن پہلے باضابطہ سنگھ کا نام لے کر بھی عالمی سیاست کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی، کہ ان کی حکومت میں فرقہ پرست ہونے کے جو الزام لگائے جا رہے ہیں ، وہ مناسب نہیں۔ ادھر ایک خبر پارٹی کے نیشنل مائنارٹی سیل کی طرف سے جاری کی گئی کہ مسڈ کال کے ذریعہ تیس لاکھ مسلمانوں کی بی جے پی میں شمولیت ہو چکی ہے۔ مسڈکال کے معاملے پر پہلے بھی بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ مسڈ کال کا معاملہ بہت حد تک گمراہی کا ہے اور اسے کوئی حتمی فیصلہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی حال میں اپنے ایک کالم میں مشہور صحافی کرن تھاپرنے بھی پہلی بار مودی حکومت کی کچھ خوبیوں کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عیسائیوں پر ظلم اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے معاملے اور اشتعال انگیز بیانات پر وزیر اعظم مودی خاموش رہ جاتے ہیں۔؟ یہ سوال اہم ہے اور ایک برس کی کارکردگی میں بغیر کسی مسلم رہنما سے ملے ہوئے مودی کو اس کا جواب خود تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں ایک بیان اور ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ گجرات کے داغ آج تک دھل نہیں پائے اور گوگل کا سرچ انجن بھی مودی کو دہشت گردوں کی فہرست میں رکھتا ہے۔ آج بھی امریکہ اور یوروپ کے بہت سے صحافی، دانشور اوران جی اوز کی نظروں میں مودی کی شخصیت مشتبہ ہے۔ امریکہ سے دوستی کا اعلان کرنے والے مودی کو بار بار صدر اوبامہ کی طرف سے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ مذہبی منافرت پر قابو پائیں۔

جس دن مودی مسلم رہنماؤں سے ملے ، اسی دن بھاجپا لیڈران کی طرف سے رام مندر تعمیر کا معاملہ اٹھا کر فضا کو مکدر کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ یہ مودی کی ہی طاقت کا ’چمتکار‘ تھا کہ بھاجپا اتنی بڑی اکثریت سے سامنے آئی،یہ مودی کی ہی طاقت تھی کہ آسانی سے مودی اپنے مہرے رکھتے چلے گئے۔ اور بھاجپا کے تمام بزرگ لیڈران خاموشی سے سیاسی حاشیے پر ڈال دیئے گئے۔ ایک برس کا ہر ساتواں دن غیر ممالک میں گزارنے والے مودی سے یہ قطعی امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان اشتعال انگیز بیانات اور فرقہ پرست سیاست پردباؤ نہیں ڈال سکتے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک طرف میک ان انڈیا کی باتیں ہوتی رہیں ، دوسری طرف مختار عباس نقوی تک یہ بیان دیتے رہے کہ گؤ کا مانس کھانا ہے تو پاکستان یا عرب چلے جاؤ۔ ظاہر ہے کہ یہ بیان کسی توگڑیا، کسی یو گی آدتیہ ناتھ کی طرف سے نہیں آیا بلکہ ایک سنجیدہ وزیرکی طرف سے دیا گیا اور آسانی سے اس بیان کے پیچھے پوشیدہ مسلم مخالف رویے کو سمجھا جا سکتا ہے۔

حیرانی اسی بات پر ہوتی ہے کہ اشتعال انگیز بیانات سے لے کر مسجدوں پر قبضے اور مقدس مقامات کو مسمار کرنے کے واقعات بار بار مودی حکومت میں ہوتے رہے اور مودی خاموش رہے۔ بلبھ گڑھ ہریانہ میں واقع اٹالی گاؤں میں گجرات، آسام اور مظفر نگر جیسے حادثوں کو دہرایا گیا۔ مسجد شہید کر دی گئی۔ گجرات قتل عام ۲۰۰۲ کے طرز پر مسلمانوں کے گھروں میں باضابطہ نشانات لگائے گئے۔ دہشت گرد پٹرول اور گیس سلنڈروں کے ساتھ تھے۔ مقامی پولیس بھی دہشت گردوں کے ساتھ تھی۔ وزیر اعظم مودی کو یہ سوچنا ہو گا کہ اس ملک میں کب تک گجرات قتل عام کی تاریخ دہرائی جاتی رہے گی۔ لو جہاد اور گھر واپسی کا معاملہ ابھی تک سرد نہیں ہوا۔ وشو ہندو پریشد نے ابھی حال میں اپنے تخریبی ایجنڈے میں اعلان کیا کہ اجودھیا سے متصل ۴؍اضلاع میں مسجد تعمیر نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بھی اعلان کیا کہ کسی عمارت کی نئی بنیاد مسلمانوں کے نام پر نہیں رکھی جائے گی۔ ابھی کچھ ماہ قبل وشو ہندو پریشد کا یہ بیان بھی غور طلب ہے کہ مسلمانوں کو ہری دوار جانے پر پابندیلگا دی جائے۔ کیا یہ واقعات مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں اجنبی بنانے کے لیے کافی نہیں۔؟ کبھی مسلمانوں کو پاکستان بھیجا جا رہا ہے۔ کبھی کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے۔ ملک میں گاڈسے کی مورتیاں لگانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ ابھی حال میں امریکی سکھوں کی تنظیم سکھس فار جسٹس (ایس اف جے ) نے بھی آرایس ایس کے گھر واپسی مہم کے خلاف عرضی داخل کی ہے۔ دلچسپ یہ کہ عرضی دینے والوں میں ایک عیسائی مائیکل مسیح، ایک سکھ کلوندر سنگھ اور ایک مسلمان ہاشم علی شامل ہیں۔ کیا اس سے یہ بات نکل کر سامنے نہیں آتی کہ امریکہ کے ان آر آئی بھی آپ سے کس حد تک برہم ہیں۔ اور اقلیتوں میں آر ایس ایس، وی ایچ پی کی جانب سے جوزہر افشانی کی جا رہی ہے ، اس کو لے کر کس حد تک لوگوں میں ناراضگی ہے؟

غلامی سے آزادی تک ہزاروں ایسے سوال ہیں جن کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں۔ اس پر آشوب وقت میں ملک کا ایک مخصوص طبقہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی متعصبانہ کوششوں میں مصروف ہے۔ ملک کو فرقہ واریت کا شکار بنا کر یہ طاقتیں مسلمانوں کی تہذیب اور تشخص کو ختم کرنے پر آمادہ ہیں۔ مسلمانوں کے لیے روزگار اور سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیں۔ آسام میں شہریت کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ابھی حال میں گجرات میں ایک نوجوان کو صرف اس لیے نوکری دینے سے منع کیا گیا کہ وہ مسلمان ہے۔ لیکن اس کے دو ہندو دوستوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے اپنی نوکری ٹھکرا کر ایک مضبوط مثال قائم کی۔ یہ سوال اہم ہے کہ آزاد ہندوستان میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کے پیچھے کون ہے؟ بابری مسجد شہادت کے ذمہ دار کون تھے؟ یہ حقیقت بھی ظاہر ہو چکی ہے کہ مشن کے تحت ہر خفیہ ایجنسی،  عدلیہ اور انصاف کی کرسیوں پر اور فوج میں سنگھ کے آدمی موجود ہیں۔ ہاشم پورہ ہو یا بابری مسجد، کوئی بھی فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کیوں نہیں ہوا؟ طاقتور مشن کا یہ حال کہ گجرات کے ملزم صاف بری ہو جاتے ہیں۔ سادھوی پرگیہ، سوامی اسیمانند، کرنل پروہت اور دیگر مجرموں سے مکوکہ ہٹانے کا فیصلہ آ جاتا ہے۔ اور بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی کا ہر منصوبہ دھرا رہ جاتا ہے۔ تاج محل جیسے عجائبات پر خطرہ منڈرا رہا ہے اوروہاں پوجا کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔

مودی جی، آزادی کے ۶۸ برسوں میںیہ سب کچھ ہوتا رہا لیکنیہ مت بھولیے کہ ہندوستان، جنت نشان میں سیکولرزم کی جڑیں اتنی گہری اور مضبوط ہیں کہ محض کچھ تشدد پسندانہ طاقتوں کے چاہنے کے باوجود جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مسلمان اس مضبوط جمہوریت کا حصہ ہیں۔ اور ان سے ملنے کا راستہ کوئی مشکل راستہ نہیں ہے۔ لیکن ایک سوال اور ہے ، کیا اس ملک کے مسلمان صرف وہی ہیں جو داڑھی رکھتے ہیں ، کرتا پائجامہ اور ٹوپی پہنتے ہیں۔ دیگر سیاسی پارٹیاں بھی مسلمانوں سے ملنے کے بہانے ایسے ہی رہنماؤں پر بھروسہ کرتی ہیں۔ ان رہنماؤں میںبڑی تعداد سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والوں کی بھی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ آپ اس ملک کے مسلم دانشور، ادیب، سوشل ورکر، ڈاکٹر، انجینئر اور ہر شعبہ کے سنجیدہ لوگوں کو شامل کر یں تو زیادہ بہتر ہے۔ مگر ان سب سے زیادہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کے اندر پیدا ہو رہے انتشار، اندیشے کو دور کریں۔ مسلمان اسی ملک کا حصہ ہیں۔ اور انہیں بھروسہ میں لینے کے لیے صرف اتنا کرنا کافی ہے کہ ان کے اندر سے عدم تحفظ کے احساس کو دور کریں۔ آپ ۲۵ کروڑ مسلمانوں کو مین اسٹریم میں شامل سمجھتے ہیں تو کسی مسلم وفد سے ملنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

 

                یوم یوگا: امکانات کو ممکن بنائیں

 

کبھی کبھی اشاروں اشاروں میں بھی سچائی بیان کر دی جاتی ہے۔ یوم یوگا کے موقع پر وزارت آیوش کی جانب سے جاری کیے گئے ہندی اشتہار پر نظر ڈالیں تو وہاں ایک جملہ لکھا ہوا ہے۔ ’سمبھاؤناؤں کو سمبھو بنائیں ‘۔ اس کا اردو ترجمہ ہے ، امکانات کو ممکن بنائیں۔ اب پہلا سوال تو یہی ہے کہ آخر مودی حکومت کن امکانات کو ممکن بنانے کی بات کر رہی ہے؟ دوسرا بہت معمولی سوال ہے جو اکثر ذہنوں میں اٹھ رہا ہو گا کہ کہ یوگا ہی کیوں؟ سیاچن سے کنیا کماری تک اور پورے ملک میںیوم یوگا کے لیے زور وشور سے کی جانے والی تیاریوں کا راز کیا ہے؟ اس ملک میں دو سو برسوں تک انگریزوں کی حکومت رہی۔ انگریز کردار میں ظالم تھے لیکن تاریخ میں کوئی ایسا مثال نہیں ملتی جب انگریزوں نے اپنے کسی مذہبی فعل کو ہندوستانیوں کو اختیار کرنے کے لیےمجبور کیا ہو۔ اسی طرح ۷۰۰ برسوں کی حکومت میں مسلمانوں نے بھی غیر مسلموں کے تحفظ کے لیے جزیہ (تمام بادشاہوں نے نہیں )ضرور لیا مگر اسلامی تعلیمات سے وابستہ کسی مذہبی فعل کو اپنانے کے لیے دباؤ نہیں بنایا۔ پھر اچانک صرف ایک برس کی حکومت میں وزیر اعظم مودی کو ہندوستانیوں کے صحت کی اتنی فکر کیسے ہو گئی کہ وزارت آیوش کی ہر ممکنہ کوشش ہے کہ مسلمان، عیسائی اور ملک کے ہر طبقے کے لوگ صحت کے اس زریں جشن میں شامل ہوں اور ایک دن کے لیے جامِ صحت نوش فرمائیں۔؟ پہلے کہا گیا کہ یہ یوگا صرف بچوں کے لیے ہے۔ پھر کہا گیا کہ یہ ایک تہذیب ہے ، جسے گھر گھر پہچانا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ یوگام کے توسیعی منصوبہ کے تعلق سے آناً فاناً، ’یوگ اور اسلام‘ کے عنوان سے ایک کتاب کا اجرا بھی ہو گیا۔ اور کچھ ’خاص‘ مسلمان قرآن کی آیت کے ذریعہ بھی یوگا کو اسلام سے وابستہ کرنے کے لیے حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ آخر اس جلد بازی کا راز کیا ہے؟ سوریہ نمسکار کا معاملہ ابھی بھی تنازعہ کا شکار ہے کیونکہ للت مودی کی قریبی اور راجستھان کیوزیر اعلیٰ وسندھرا راجے یوگا کے عمل میں سوریہ نمسکار کی پابندی کو ہٹانے کے لیے تیار نہیں۔ غور کریں تو یوم یوگا کے بہانے اچانک ایک ایسی فضا تیار کرنے کی کوشش کی گئی، جہاں آر ایس ایس کے لیڈران سے لے کر ساکچھی مہاراج تک مسلمانوں کے لیے شیریں رویہ اختیار کرنے لگے جو ایسے لوگوں کی شخصیت سے قطعی میل نہیں کھاتا۔

سب سے پہلے تو یہ جانیے کہ یوگا کیا ہے۔؟ یوگا برہمنی اور ویدک دھرم میں بھگتی کا ایک طریقہ ہے ، جسے عہد قدیم سے سادھو سنت اپناتے رہے ہیں۔ اس کی ابتدا سوریہ نمسکار کے ساتھ اوم سے ہوتی ہے۔ اور یوگا کے مختلف آسنوں میںشلوک کے پڑھنے کا رواج ہے۔ دنیا بھر کے مسلم، عیسائیاور یہودی بھی یوگا کو ہندومت اور بودھ مت سے وابستہ مذہبی عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دو سال قبل برطانیہ کے ایک چرچ کے پادری جان چینڈلر نے بھی یوگا پر پابندی کی مانگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک ہندو روحانی ورزش ہے اور عیسائیوں کو اس سے دور رہنا چاہئے۔ امریکہ کے کچھ پادریوں نے یوگا کو شیطانی عمل قرار دیا تھا۔ اب یوگا کو نہ صرف نصاب کا لازمی حصہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے بلکہ یوم یوگا کے ذریعہ، سوریہ نمسکار یعنی سورج دیوتا کی پرستش کے ساتھ جبراً ہندو عقیدے کو عام ہندوستانیوں پر تھوپنے کی کوشش بھی کی جا رہیہے۔ یہاں ہندو مہا سبھا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی اس فکر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پچھلے سو برسوں سے وہ ہندوتو اور ہندو تہذیب کو مسلط کرنے کی جن کوششوں میں مصروف تھے ، اب اس کے مضبوط تار یوم یوگا سے جڑتے ہوئے صاف نظر آ رہے ہیں۔

یومیوگا پر بحث و مباحثہ کے طویل سلسلے کی شروعات ہو چکی ہے۔ مرکزی حکومت یوگا کے تعین پروگرام سے سوریہ نمسکار کو ہٹا کر مسلمانوں کو بھروسے میں لینا چاہتی ہے کہ اس میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہے۔ یوگا کی پیروی کرنے والے یو گی آدتیہ ناتھ بھی مسلمانوں کو یوگ کرنے کی نصیحت دیتے ہیں۔ وزیر خارجہ سشما سوراج کا کہنا ہے کہ یوگا میں شلوک کی جگہ پر مسلمان اللہ کا تلفظ کر سکتے ہیں۔ ملک کے 68 برس کی تاریخ میں پہلی بار یوگا کو ملک کی قدیم ہندو تہذیب سے وابستہ کرنے کا موضوع بنایا گیا—یہ بھی غور طلب ہے کہ یوگا گرو سوامی رام دیو اور آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کو مرکزی حکومت پہلے ہی ہندوتو کے فروغ کے لیے زیڈ سیکیوریٹی کا تحفہ دے چکی ہے۔ یوگا پر مسلم تنظیموں کی طرف سے مخالفت جتانے پر انہیں ’انسانیت کا دشمن‘ٹھہرانے کے بیان بھی مسلسل سیاسی سازشوں کو ہوا دے رہے ہیں —اس سے اب انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ہندوتو کو مسلط کرنے اور مسلمانوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی پہلی منظم کوشش ہے — جمعیۃ علماء ہند اور دوسری مسلم تنظیمیں بھلے اس دلیل کو پیش کریں کہ نماز میںیوگا ہے ، لیکن نماز یوگا نہیں ، اس کی دلیل کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی جب سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ مرکزیحکومت مسلمانوں کو بھی یوم یوگا منانے پر مجبور کر رہی ہو۔ کیا تیزی سے ملک کے نقشہ پر حاوی ہوتی ہندوتو کی مہم تک یہ سماعت ہو گی کہ ایک دن میں پانچ بار نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کو یوگا کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ صحت کے بہانے مذہب پر سیندھ لگانے کی یہ مرکزی حکومت کی پہلی مضبوط کوشش ہے۔ اور اگر دباؤ میںیہ تیر چل گیا تو مستقبل میں سوریہنمسکار سے لے کر شیو پوجا اور دیگر مذہبی رسوم تک مسلمانوں کو گھیرنے کی اور کمزور کرنے کی کار روائی میں آر ایس ایس کے ساتھ مرکزی حکومت کو کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔

گزشتہ ایک سال میں مذہب کی تنگ نظری کے نام پر جس طرح سیکولرازم کا مکھوٹا غائب ہوا، اسے جمہوریت کا المیہ ہی کہا جائے گا۔ بی جے پی، شیو سینا، آر ایس ایس جیسے لیڈران کے اسلام مخالف بیانات نے دنیا کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس میں شک نہیں کہ پہلی بار مسلمانوں کو اس ایک سال کی مدت میں احساس ہوا کہ میک ان انڈیا کی جگہ مرکزی حکومت ہندوتو کی ترقی کے فارمولے پر غور کرتی ہوئی، اقلیتوں پر بھاری دباؤ بنانے کا کام کر رہی ہے۔ چرچ پر حملے سے لے کر مساجد کو مسمار کرنے کی کار روائی منظم منصوبوں کی کڑی ہے اور اس کڑی میں مسلسل مجرم افسران کو کلین چٹ ملتی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ایسے لوگوں کی بڑے عہدوں پر بحالی بھی سامنے آ رہی ہے۔ مسلسل اشتعال انگیز بیانات کے ذریعہ بھی مسلمانوں پر نفسیاتی دباؤ کا شکنجہ کستا جا رہا ہے۔ تازہ واقعات کی کڑی میں دیکھیں تو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار لوگوں کا مقدمہ لڑ رہے محمود پراچا کو کورٹ روم سے باہر اے ٹی ایس کی طرف سے جان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کے وکیل بھی دہشت گرد ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں دہشت گردی کے فرضی معاملہ سے آزاد ہوئے ایک مفتی عبدالقیوم احمد حسین نے بھی ’گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے ‘کے عنوان سے کتاب لکھ کر اپنے دکھ کا اظہار کیا کہ میں ایک مفتی ہوں ، دہشت گرد نہیں ہوں۔ کچھ سال پہلے اداکار شاہ رخ خان نے اپنی فلم ’مائی نیم از خان‘ میں بھی اسی المیہ کو دکھایا تھا کہ آئی ایم مسلم بٹ آئی ایم ناٹ اے ٹریرسٹ‘— لہذا ان سب کا آغاز بہت پہلے ہی ہو چکا ہے ، مسلمانوں پر نکیل کسو۔ جھوٹے مقدموں میں پھنساؤ۔ ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرو اور چور دروازے سے ہندوتو کو حاوی کرنے کی کوشش کرو۔ نئے حالات میں اس طرح کے معاملات نے دھماکہ خیز شکل اختیار کر لیا ہے۔

ایک سال کے اندر اندر مسلمانوں پر اس ملک کی زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ شیوسینا کے سنجے راوت نے کہا کہ، مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لو۔ ایمرجنسی لگا کر مسلمانوں کی نسبندی کرو— گھر واپسی، ’بہو لاؤ بیٹی بچاؤ‘ جیسے بیانات کے پیچھے بھی نفسیاتی دباؤ بنانے کا خطرہ موجود ہے۔ رام مندر بنانے اور تاج محل کو راجپوت راجہ کا محل ٹھہرانے تک ہر بار مسلمانوں کے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے اور اسی تناظر میں بڑے گوشت پر پابندی کی مضبوط پہل نے بھی غریب مسلمانوں اور سلاٹر ہاؤس مالکان کو حاشیے پر لا دیا ہے۔

یہ مرکزی حکومت کو بھی معلوم ہے کہ بت پرستی سے انکار کرنے والے مسلمان سوریہ نمسکار یعنی سورج دیوتا کی پرستش نہیں کر سکتے۔ ممکن ہے ، یوم یوگا کو اللہ کے تلفظ کے ساتھ قبول کرنے کے بعد یہ دباؤ بڑھا دیا جائے کہ سوریہ نمسکاربھی ضروری ہے اور یوگا کے مذہبی اصول و قانون کے تحت اوم بھی کہنا پڑے گا تو اسلام کے محافظ مسلمانوں کے پاس اس کو ماننے کے علاوہ راستہ کیا ہو گا؟ ہندوتو کی حکومت کی طرف سے مذہبی دباؤ کے اس عمل کو مناسب نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس سے آئین کے اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے ، ساتھ ہی یہ پورا عمل جمہوریت کے خلاف بھی ہے۔ مذہب میں مداخلت کی سیاست کا اجتماعی احتجاج ضروری ہے۔ یوم یوگا کی شروعات مستقبل میں نئے تنازعات کا راستہ بھی کھولے گی اور اس سے نیا مذہبی بحران پیدا ہو جائے گا۔

 

                ڈیجیٹل انڈیا : بدعنوانی سے فرقہ پرستی تک

 

اگر ایک ماہ میں مودی حکومت میں آئے ہوئے طوفان کا جائزہ لیا جائے تو ایک سنسنی خیز کہانی سے پردہ اٹھتا ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ ایک طرف ہندوستان میں ڈیجیٹل عہد کی شروعات ہو رہی ہے۔ کمار منگلم برلا (ادتیہ برلا)، سنیل متل (بھارتیہ ایئرٹیل)، انیل انبانی (اے ڈی جی گروپ)، سائرس مستری (ٹاٹا)، مکیش انبانی (رلائنس) جیسے بڑے بڑے انڈسٹریلسٹ گروپ کے سہارے وزیر اعظم مودی ملک کو سپر پاور اور ڈیجیٹل ٹکنالوجی سے ماڈرن انڈیا بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ، لیکن اس ڈیجیٹل انڈیا میں جس طرح بدعنوانی اور فرقہ واریت کی پرورش ہو رہی ہے ، اس نے بھگوا بریگیڈ کے سائے میں تمام بلند بانگ نعروں کو بے اثر اور کھوکھلا ثابت کیا ہے۔

برنارڈشا نے ایکبار کہا تھا کہ جب آپ خود پر سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں ، در اصل اس وقت آپ سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ قاعدے سے دیکھیں تو ۲۶ مئی۲۰۱۴ کو قیادت سنبھالنے والی مودی حکومت پر یہ مقولہ صادق آتا ہے۔ مودی کی زبردست خود اعتمادی ہی آج مودی اور مودی حکومت کے لیے خلفشار اور انتشار کی وجہ بن گئی ہے۔ بھاجپا کے خیمے سے ایک کے بعد ایک مخالفین نے حملہ بولنے کی شروعات کر دی ہے۔ یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ اس ملک کو مودی کیبنٹ نہیں بلکہ چار گجراتی (مودی، امت شاہ، اڈوانی، مکیش امبانی) مل کر چلا رہے ہیں۔ کرتی آزاد، شتروگھن سنہا، ال کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی کے بعد یشونت سنہا نے بھی مودی حکومت کے خلاف مورچہ کھول لیا۔ یشونت سنہا یہاں تک کہہ گئے کہ یہ کیسی حکمت عملی ہے کہ سینئر اور تجربہ کار لیڈران کو مودی نے برین ڈیڈ قرار دیا۔ حکومت بنانے سے قبل تک سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کی خاموشی پر جو بھاجپا مذاق اڑایا کرتی تھی، آج اسی بھاجپا کے کارکن دبی زبان میںیہاں تک کہنے لگے ہیں کہ کانگریس کے پاس تو صرف ایک منموہن سنگھ تھے۔ یہاں تو مودی اور امت شاہ کے علاوہ پوری کیبنیٹ من موہن سنگھ ہے۔ کیونکہ حکومت کا کوئی بھی شعبہ ہو، فیصلے کا حق صرف مودی اور امت شاہ کو حاصل ہے۔ اندر خانے چلنے والی یہ بغاوت ایک سال کے اندر اس طرح کھل کر سامنے آئے گی، یہ سوچنا مشکل تھا۔ ایک طرف مودی کے مخالفین کے حوصلے بڑھ رہے ہیں ، دوسری طرف مودی حکومت کے سفید کالر پر کرپشن اورگھوٹالوں کے داغ بھی نمایاںہونے لگے ہیں۔ ایک سال مکمل ہونے کی تقریب میں جب امت شاہ، مودی حکومت کے قصیدے پڑھ رہے تھے ، اس وقت انہیں کیا معلوم تھا کہ صرف ایک ایک مہینے بعد ہی حکومت کا دوہرا معیار کچھ ایسے بے نقاب ہو گا کہ مودی من کی بات میں بھی ان الزامات کو دھونے کے بجائے من موہن سنگھ کی روش پر ہی چلنے کی کوشش کریں گے۔

للت مودی نے ٹوئٹ کر کے مودی کی تعریف کی۔ اور اب ایکنیا شوشہ سامنے آیا کہ ورون گاندھی نے سونیا گاندھی سے ملاقات کر کے اس مسئلہ کو سلجھانے کے لیے۶ کروڑ ڈالر مانگے تھے۔ سشما، وسندھرا، اسمرتی، پنکجا منڈے ، ونود تاوڑے کے بعد اب اس ڈرامے میں ایک اور نام مینکا گاندھی اورورن گاندھی کا آ چکا ہے۔ غور کریں تو ان میں سے زیادہ تر چہرے مودی کے ناپسندیدہ لوگوں کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔ وسندھرا کو راجستھان میں ملنے والی بڑی حمایت مودی کے لیے مجبوری بن گئی ورنہ راج گھرانے کی وسندھرا اور وسندھرا کا شاہی انداز مودی کو کبھی پسند نہیں آیا۔ بیٹے کو وزیر اعلیٰ بنانے کے پیچھے مینکا گاندھی کے بیان سے مودی پہلے ہی متنفر تھے۔ اور اس لیے ہندوتو کے فروغ میں اشتعال انگیز بیان دینے کے باوجود ورون گاندھی مودی کی پسند نہیں بن سکے۔ سشما سوراج نہ مودی کی پسند تھیں اور نہ ارون جیٹلی کی۔ اوراب آر ایس ایس نے پوری طرح کمان مودی کو سونپ دی ہے کہ وہ استعفیٰ دلوائیںیا حمایت میں فیصلہ لیں ، اس کا انحصار مودی کی قوت برداشت پر ہے۔ اسمرتی ایرانی پہلی بار تب نشانے پر آئیں جب وہ فیب انڈیا کے ٹرائیل روم میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کو دیکھ کر میڈیا میں ، ہائی لائٹ ہوئیں اور آر ایس ایس کی ناگ پور ریلی کا معاملہ سرد پڑ گیا۔ اور اس کے بعد فرضی ڈگری کے معاملے کو لے کر پہلے امت شاہ اور پھر وزیر اعظم مودی بھی ان سے ناراض بتائے گئے۔ اس مکمل منظرنامہ پرغور کریں تو ال کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی،یشونت سنہا، شتروگھن سنہا جیسے بزرگوں کے ساتھ ناپسندیدہ لوگوں سے انتقام لینے اور حاشیے پر ڈالنے کی کار روائی میں مودی کا کوئی ثانی نہیں رہا ہے۔ لیکن کہتے ہیں ، ہر تانا شاہ کے دن پھرتے ہیں۔ خاموشی اکثر طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ اب چوطرفہ حملوں کی چپیٹ میں مودی ہیں اور دیکھا جائے توبہار، راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر تک یہ آگ پھیلتی جا رہی ہے۔

بہارکا معاملہیہ ہے کہ نا اتفاقی اور انتشار میں ڈوبی بھاجپا کے پاس آج بھی وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے لیے آپسی جنگ کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ تازہ سروے میں صرف ۴۷ سیٹیں بھاجپا کے نام ہیں اور یہ سروے رپورٹ سشیل مودی، اور نریندر مودی دونوں کی نیند اڑانے کے لیے کافیہے۔ مہاراشٹر میں ایک کے بعد ایک بدعنوانی کی خبروں نے مہاراشٹرا حکومت کو بیک فٹ پر لا دیا ہے۔ سینئر لیڈر ال کے اڈوانی نے اس معاملے میںیہ کہہ کر سنسنی پھیلا دی کہ ۱۹۹۰ میں حوالہ اس کینڈل میں نام آتے ہی باجپئی کے منع کرنے کے باوجود انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ مودی حکومت پر سیدھا اور بڑا حملہ تھا کہ جب جب للت گیٹ کی سچائی ایک ایک کر کے سامنے آ رہی ہے تو وسندھرا اور سشما کے استعفیٰ نہ دینے کی وجہ کیا ہے۔؟ لیکنچو طرفہ حملہ میں گھری مودی حکومت جانتی ہے کہ یہ استعفیٰ لینے کے لیے بہتر وقت نہیں ہے اور اس کا سیدھا اثر بہار انتخاب پر پڑے گا۔ اور اسی لیے اس وقت سمت پاترا اور سدھانشور ترویدی جیسے لوگوں کو ذمہ داری دے کر نریندر مودی نے شتر مرغ کی طرح سچائیوں کا سامنا کرنے کے بجائے ریت میں منہ چھپا لیا ہے۔ حقیقت خوفناک ہے اوراب عوام بھی حقیقت سے آشنا ہونے لگی ہے۔ سیاہ دھن کی واپسی اور بد عنوانیوں کو ختم کرنے کا نعرہ دے کر لوک سبھا ۲۰۱۴ کے انتخاب میں ، عوام کو سبز باغ دکھا کر جو مقبولیت اور جیت مودی نے حاصل کی تھی، اب عوام اس کا حساب مانگ رہی ہے۔ نہ ۱۵ لاکھ کسی کے بینک اکاؤنٹ میں آئے ، نہ سیاہ دولت کی واپسی ہوئی اور اب حکومت اسی کرپشن کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے ، جہاں کبھی کانگریس کی حکومت تھی۔ صرف نام بدل گیا ہے۔ چہرہ وہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ کانگریس کی خاموشی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتی تھی اور یہاں بھاجپا لیڈران کی دیدہ دلیری، پردہ پوشی کی راہ اختیار کر رہی ہے۔

مودی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہندوتو اور فرقہ واریت کو فروغ دینا ہے۔ آخر کیا وجہ تھی کہ رمضان کے مقدس مہینے میں بھی ریڈیو پرمن کی بات کہتے ہوئے مودی کو رکچھا بندھن کی یاد تو آئی لیکن رمضان کریم کی یاد نہ آ سکی۔؟ آرایس ایس کی نظروں میں مزید اعتبار پیدا کرنے کے لیےیہ دکھانا ضروری ہے کہ میں نے کسی مسلمان سے نہ ہی ٹوپی پہنیاور نہ ہی مسلمانوں کی کوئی اہمیت میری نظر میں ہے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیےیہ طریقہ غیر جمہوری بلکہ غیر آئینی اور غیر مہذب بھی ہے ، خفیہ ایجنسی آئی بی کی تازہ رپورٹ پر نظر ڈالیں تو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک مودی حکومت میں اقلیتوں پر تشدد اور حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی گونج نہ صرف امریکی سینیٹ میں ہوئی بلکہ نتیجہ کے طور پر غیر ممالک میں ہندوستان کی عدم مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ وہاں کی صحافت مودی کو ایک ایسے جابر حکمراں کے طور پر دیکھتی ہے ، جس نے نہ صرف اشتعال انگیز بیانات اور تشدد کو ہوا دی ہوئی ہے بلکہ اقلیتوں کی زندگی بھی تنگ کر دی ہے۔ روہنی سالیان کے انکشاف نے بھی نہ صرف ریاستی سرکار کے طریقوں سے پردہ اٹھایا بلکہ نفرت اور عصبیت کی بنیاد پر کھڑی مودی حکومت کو بھی بے نقاب کر دیا کہ کس طرح یہ حکومت اپنوں کو بچانے کے لیے قانون اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے اور قانون کا غلط استعمال کر رہی ہے۔

بد عنوانیوں اور فرقہ واریت کی تیز لہروں کے درمیان ڈیجیٹل انڈیا کا نعرہ کسی مذاق سے زیادہ نہیں لگتا۔ مہاراشٹر کے مدرسوں کو اسکول تسلیم نہ کیے جانے سے لے کر اٹالی گاؤں سے مسلمانوں کی ہجرت تک کے واقعات پر غور کریں تو مرکز کی طرف سے خوفناک شروعات ہو چکی ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں اٹالی سے مظفر نگر اور سارے ہندوستان میں نہ صرف ہماری عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ سوشل ویب سائٹس پر بھگوا بریگیڈ مسلسل اسلام دشمنی نبھانے میں ایک دوسرے پر فوقیت لیے جا رہے ہیں۔ ایک طرف مرکزی حکومت میں شامل لیڈران کے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے ہیں اور دوسری طرف مرکزی حکومت مالیگاؤں سے لے کر بھگوا آتنک واد کے ملزمین تک کو بچانے میں مصروف۔ موبائیل گورنینس، میک ان انڈیا اور ڈیجیٹل انڈیا کے بہانے ملک کو فرقہ پرستی کی جس دلدل میں ڈھکیلا جا رہا ہے ، اس کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

 

                آر ایس ایس کی جلدبازی کی وجہ کیا ہے؟

 

چھتیس گڑھ کے دھان گھوٹالہ سے مدھیہ پردیش کے ویاپم گھوٹالے تک پہلی بار آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کو اس بات کا احساس ہوا کہ ملک کے اچھے دن بھلے نہ آئے ہوں ، لیکن آر ایس ایس کے برے دن ضرور شروع ہو گئے ہیں۔ مودی حکومت کے ایک برس اور چار ماہ کے کی حکومت کا جائزہ لیں تو آر ایس ایس کیجلد بازی اور اس کی سازشوں کا پردہ فاش ہو جاتا ہے۔ ان تمام گھوٹالوں میں آر ایس ایس کے لوگ شریک تھے — یہ کہنا آسان ہے کہ سنگھ پریوار اب اقتدار، دولت، لالچ اور اپنے ساتھیوں کو فائدہ پہچانے کے اسی راستے پر چل پڑی ہے ، جس سے اب تک وہ الگ ہونے کا اعلان کرتی آئی تھی۔ میک ان انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا کے نعرے صرف ملک کو گمراہ کرنے کے لئے تھے ، اور اس کی آڑ میں آر ایس ایس اپنا وہی پرانا کھیل، کھیل رہی تھی، جس کے لئے اس کی بنیاد رکھی گئی۔ اٹل بہاری باجپئی کے دور اقتدار میں آر ایس ایس کو پوری طرح اپنا کھیل کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔ باجپئی کی لبرل امیج بھی تھی۔ سنگھ کے حامی ہونے کے باوجود باجپئی نے سنگھ سے دوری بنائے رکھی تھی۔ باجپئی کے دور اقتدار میں مرلی منوہر جوشی نے تعلیمی نصاب اور تاریخ کی کتابوں میں زعفرانی رنگ بھرنے کا عمل شروع کیا تو زبردست مخالفت ہوئی۔ اس وقت فلم اور سنسر بورڈ سے متعلق شعبوں میں انوپم کھیر اور ونود کھنہ جیسے اداکاروں کی خدمات لی گئی، لیکنیہ دونوں نام سنیما کے اہم ناموں میں سے ایک تھے ، اس لئے مخالفت کی کوئی آواز ابھر کر سامنے نہیں آئی۔

مودی حکومت کے ایک برس چار ماہ میں اسرائیل سے دوستی، تمام بھگوا قیدیوں کی ایک ایک کر کے رہائی،بھگوا بریگیڈ سے جڑے لوگوں کے مقدمے بند کرنے کا عمل، ادب و سینما کے میدان میں سنگھ کے ہم خیال لوگوں کو بھرتی کرنا، یہ تمام مسائل ایسے ہیں ، جہاں بہت جلد بازی میں آر ایس ایس اپنے ہی چہرے کو مسلسل بے نقاب کرتی جا رہی ہے۔

۲۷ ستمبر ۱۹۲۵، قیام کے ۹۰ برسوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اوراس کے نمائندے اب تک اپنی صاف ستھری امیج کا ڈھنڈورا پیٹتے آئے تھے۔ ہندوستان میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی اہم کڑی ہونے کے باوجود سنگھ پریوار کا کردار پوری طرح اس وقت تک کھل کر سامنے نہیں آیا تھا، جب تک مالیگاؤں بم دھماکے کے سنسنی خیز انکشافات سامنے نہیں آئے تھے۔ غور کریں تو ویاپم گھوٹالے تک کی تمام کڑیاں۲۰۰۶ کے اس دھماکہ سے وابستہ ہیں۔ اب تک ایسے دھماکوں کے پیچھے مسلم تنظیموں کے ہی نام سامنے آتے رہے تھے۔ لیکن مہاراشٹر اے ٹی ایس کے خوددار اور سیکولر افسر ہیمنت کرکرے نے جب معاملے کی چھان بین کی تو پہلیبار بھگوا آتنک وادیوں کی سازش بے نقاب ہوئی۔ سادھوی پرگیہ ٹھاکر، سمیر کلکرنی، سابق، میجر ریٹائرڈ پربھاکر کلکرنی، ریٹائرڈ کرنل شیلش، اجئے سمیر کلکرنی، راہرکر، راکیش دھواڑے ، لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت، اسیمانند جیسے بڑے بڑے سابق فوجی اور خفیہ ایجنسیوں سے وابستہ نام سامنے آئے بلکہ ہندو تنظیم ابھینو بھارت کی کار روائیوں کا بھی خوفناک خلاصہ ہوا۔ اورملک نے پہلی بارجانا کہ خاموشی سے ۱۹۱۵ کے بعد فوج سے لے کر خفیہ ایجنسیوں تک میں سنگھ پریوار کے آدمی موجود ہیں۔ اسی کے بعد سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں بھی کرنل پروہت کا کردار پوری طرح بے نقاب ہوا۔ ممبئی تاج ہوٹل حملے کے دوران جس طرح ہیمنت کرکرے کا قتل ہوا، وہ بھی چونکانے والا تھا۔ کرکرے کو ہندو تنظیموں سے متعلق کئی تفصیلات کا علم تھا۔ اور یہ بات کرکرے کے قتل کے بعد ان کی بیوی نے بھی دہرائی اور تفتیش کی مانگ کی۔ مگر ظاہر ہے سنگھ پریوار کے دباؤ میں کسی بھی تفتیش کا کوئی نتیجہ نکلنا مشکل تھا۔ سنگھ پریوار کو ایسے مضبوط کردار کی ضرورت تھی جو ایسے تمام معاملات کو دفنانے میں عبور رکھتا ہو۔ مودی کی شکل میں سنگھ پریوار کو ایک ایسا نمائندہ نظر آیا جو تمام گناہگاروں کو آسانی سے بے گناہ ثابت کر سکتا تھا۔ ایسا شخص جو ایک کٹر ہندو امیج کے ساتھ ابھرا تھا اور جسے مسلمانوں کے ساتھ میل جول کی نمائش یہاں تک کہ ٹوپی پہنا بھی منظور نہیں تھا۔ اس لیے لوک سبھا انتخاب ۲۰۱۴ میں سنگھ نے کھل کر مودی کی حمایت کی۔ اور مودی نے ایک سال کے اندر سنگھ کی ہی اسٹریٹجی پر خاموشی سے کام کیا۔ ایک طرف وہ دنیا کو غیر ممالک دورے اور ہندوستان کو سپر پاور بنانے کے خواب دکھاتے رہے ، دوسری طرف گجرات کے گناہگار، ابھینو بھارت، سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگاؤں بم دھماکہ کے مجرمین کو بچانے کا کھیل کھیلتے رہے۔ یہ کھیل بھی خاموشی سے چلتا رہتا، اگر مالیگاؤں بم دھماکہ کی خصوصی سرکاری وکیل روہنی سالیان کا ضمیر نہیں جاگتا، اور وہ یہ انکشاف نہ کرتیں کہ بھگوا دہشت گردوں کو بچانے کی کار روائی کی جا رہی ہے۔ روہنی نے یہ الزام بھی لگایا کہ مرکزی حکومت سی بی آئی کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ ان آئی کی سربراہی میں کیس کے منتقل ہونے کے بعد کئی ملزمین کی رہائی سامنے آ چکی ہے۔ یہ کڑی اس وقت اور خوفناک ہو جاتی ہے جب اے ٹی ایس راجستھان کے افسران اردو صحافیوں سے دلی میں گفتگو کرتے ہیں اور یہ بات واضح ہوتی ہے کہ در اصل بھگوا دہشت گردی ایک جھوٹ ہے اور ان کی نظر میں سادھوی پرگیہ سے لے کر تمام ملزمین بے قصور ہیں۔ اور یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ان کے نشانے پر صرف مسلمان ہیں۔

ان تمام واقعات پر غور کریں تو سنگھ کی حکمت عملی ان دنوں تیزی سے اپنا کام کر رہی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف سنگھ کے وفاداروں کو انعام و اعزاز کا تمغہ دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف سماجیو تعلیمی وتہذیبی سطح پر سنگھ اپنے ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے ادب سے سینما تک اپنے کمزور نمائندوں کو بھرتی کرنے کا کام کر رہی ہے۔ لیکن سنگھ اس حقیقت کو فراموش کر گئی کہ اس جلد بازی کے خوفناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ ابھی بھی یہ معاشرہ زندہ لوگوں کا معاشرہ ہے۔ جہاں ادب سے سنیما تک، کسی مخصوص نظریہ اور مذہبی آئیڈیا لوجی کی حمایت ممکن ہی نہیں ہے۔ تعلیمیو تہذیبی سطح پر بھگوا کرن کا کام اچ آر ڈی منسٹری کو سونپا گیا ہے۔ ۸ جون ۲۰۱۵، ہندو ایجوکیشن بورڈ کی میٹنگ میں تعلیم کے قدیم نسخوں اور ویدک میتھس پر گفتگو کے دوران اسمرتی نے واضح کر دیا کہ وہ اس سلسلے کو آگے بڑھائیں گی، جو کام ماضی میں مرلی منوہر جوشی نہیں کر سکے — اسی سلسلے میںیوگ کا نصاب سے جوڑا جانا اور پڑھایا جانا بھی شامل ہے۔ مستقبل میں ان سی آر ٹی اور قومی اردو کونسل کے ذریعہ بھی اسمرتی ایرانی کو اپنا ہدف پورا کرنا ہے — سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن (CBFC) پر جب سنگھ پریوار کا دباؤ بڑھا تو لیلا سیمسن اور پینل کے دوسرے ممبران نے استعفیٰ دے دیا۔ بھاجپا کے نمائندے اور تیسرے درجہ کی فلمیں بنانے والے پہلاج نہلانی کو چیئرمین بنا دیا گیا۔ چلڈرن سوسائیٹی کی ذمہ داری بھاجپا کے دوسرے نمائندے اور آسا رام باپو کے حمایتی مکیش کھنہ کو دی گئی اور اب اف ٹی آئی آئی جیسے آرگنائزیشن کی ذمہ داری گجندر چوہان کو دی گئی جو یہ بھی نہیں جانتے کہ سینما کیا ہے۔ حد صرف یہیں نہیں ہوئی، سعید مرزا جیسے دانشور کی جگہ جہاں سنگھ پریوار کے حامی گجندر چوہان کو جگہ ملی وہیں ممبران کے طور پر سنگھ پریوار اپنے لوگوں کی بھرتی کر کے خبروں میں آ گیا۔ ان ممبران میں انگھ گھئی ساس نہ صرف آر ایس ایس سے وابستہ ہیں بلکہ نریندر مودی پر ڈکیومینٹری بھی بنا چکی ہیں۔ نریندر پاٹھک سنگھ کی یوتھ شاخ اے بی وی پی سے وابستہ رہے ہیں۔ پرانجل سیکیا سنگھ کے سنسکار بھارتی کے ممبر ہیں۔ راہل سولا پور کر آر ایس ایس کے ممبر ہیں۔ اف ٹی آئی آئی کے طلباء زعفرانی فکر کو تھوپے جانے کے خلاف ہیں۔ اسٹوڈنٹس اسٹرائیک نے آخر میڈیا کو بھی متوجہ کیا اور یہ راز کھلا کہ کس طرح سنگھ پریوار ادب سے سینما اور تھیٹر تک اپنی آئیڈیالوجی سے ہندوستان کی سماجی، تہذیبی وتعلیمی سطح کو متاثر کرنا چاہتی ہے۔

در اصل سنگھ کی جلد بازی ہی سنگھ کے لیے خطرہ بن گئی۔ ایک ایک کر کے سارے مکھوٹے اترتے چلے جا رہے ہیں۔ جیسےیہ واضح ہوا کہ ویاپم کو سنگھ خاندان کی ہی قیادت اور سرپرستی حاصل ہے۔ اور بے چارے وزیر اعلیٰ تو مسلسل سنگھ کے مشکوک کردار کو سامنے آنے سے بچانے کی کوشش کرتے رہے تھے۔ بقول راج دیپ سردیسائی، سنگھ پریوار جان گئی ہے کہ اپنوں کو خوشحال بنانے کے لیے اقتدار کا استعمال کس طرح کرنا چاہئے۔ کہیں اس جلد بازی کی وجہ یہ تو نہیں کہ مودی کی عدم مقبولیت سنگھ کے لیے پریشانی کی وجہ بن گئی ہو۔ اور اس ارادے کو دخل ہو کہ اگر ۲۰۱۹ میں مودی کو شکست ملتی ہے تو سنگھ کے خوابوں کا کیا ہو گا؟ نقاب اترنے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں ایک خوفناک کھیلکی شروعات ہو چکی ہے۔ یہاں مسلمان نشانے پر ہیں اور گنگا جمنی تہذیب بھی۔ یہاں فنون لطیفہ کو بھی زعفرانی بنانے کا کھیل جاری ہے۔ اگر ابھی سے اس تماشہ کو نہ روکا گیا تو ملک بد تر غلامی کی آغوش میں گم ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

 

                سیاست، یعقوب میمن کی پھانسی اور مسلمان

 

یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مسلمان بھی اس ملک کا پر امن شہری ہے اور کوئی بھی مسلمان نہ دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے اور نہ ہی دہشت گردی کے ساتھ کھڑا ہے۔ پھر بھی سیاست سے میڈیا تک دہشت گردی کی آڑ میں جس طرح عام مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، وہ قابل مذمت ہے۔ ملک میں ہونے والی کسی بھی دہشت گردانہ کار روائی کے بعد مسلمانوں کی تسلی کے لیے ملک کے لیڈران سے میڈیا تک جب یہ بات بار بار دہرائی جاتی ہے کہ مسلمس آر ناٹ ٹیر رسٹ، تو یہ بات آج کی تاریخ میں مذاق سے زیادہ نہیں لگتی۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم میں سے ہر مسلمان کیطرف اشارہ کر کے کہا جا رہا ہو کہ دیکھو وہ ہے دہشت گرد۔ خوفناک حقیقت یہی ہے کہ ایسی ہر کار روائی کی آڑ میں نشانہ ملک کے ۲۵ کروڑ مسلمانوں کی طرف ہی ہوتا ہے۔ صرف یعقوب میمن کی پھانسی پر ہونے والی سیاست کا اندازہ کریں تواس سیاست نے ملک کے اس سفاک چہرہ کو سامنے رکھا ہے جس نے گنگاجمنی تہذیب کے علمبردار بھائیوں کے درمیان تقسیم کی دیوار حائل کر دی ہے۔

آخر کار یعقوب کو پھانسی دے دی گئی اور کہا گیا کہ ۲۲ سال پرانا تنازعہ ختم ہو گیا۔ لیکن کیا واقعی تنازعہ ختم ہو گیا؟ کاتب تقدیر کا یہ تماشہ بھی عجیب کہ ایک دن دو جنازے اٹھے۔ سابق صدر جمہوریہ ہند اے پی جے عبد الکلام کو عوام کا صدر اور ملک کی شان کہا گیا۔ اور دوسرے کے حصے میں نفرت و حقارت کا ایسا بدنما تحفہ آیا کہ غدار اور ملک دشمن کے خطاب سے نوازا گیا۔ دونوں مسلمان۔ خاموش طبیعت، ملنسار، مسلم سائنسداں اور میزائل مین کا نام اٹل بہاری باجپئی نے ۲۰۰۲ میں صدر جمہوریہ ہند کے طور پر اس لیے کہا کہ وہ انتہا پسندی اور تنگ نظری کے داغ کو دھونا چاہتے تھے۔ اور اس کے لئے اپوزیشن کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھی ایک مسلم نام کی ضرورت تھی۔ گو عہدۂ صدارت کے پانچ برسوں میں عبدالکلام نے عظیم ہندوستانی ہونے کا تو ثبوت دیا لیکن مصلحتاً اپنے مسلمان ہونے کی کبھی نمائش نہیں کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان ہونے کے نام پر اجمل قصاب، افضل گرو اور یعقوب میمن نے نفرت کی جو داستان قلمبند کی اُسے بھی کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

یعقوب کی پھانسی کی رات ۹ بجے ٹائمس ناؤ پر مشہور اینکر ارنب گو سوامی نے بحث و مباحثہ کے پروگرام میں تمام دلیلوں کو مسترد کرتے ہوئے صرف اس بات پر زور دیا کہ کیا آپ یعقوب کی پھانسی کو سیاست اسپانسرڈ مانتے ہیں؟ ایک مسلم صحافی کے ذریعہ بابو بجرنگی، مایا کوڈنانی، نروداپاٹیا، بابری مسجد اور گجرات کے گنہگاروں کے نام لینے پر ایک آر ایس ایس کے صحافی نے حملہ بولا کہ آپ کو یعقوب کی ایسی ہی فکر ہے تو پاکستان چلے جائیے۔ غور کریں کہ یہ بات ساکشی مہاراج، سادھوی پراچی، سادھوی پرگیہ، گری راج سنگھ، یو گی آدتیہ ناتھ نے نہیں کہی، پرائم ٹائم، کمرسیشن چینل پر کہی گئی اور نشانہ صرف ایک مسلم صحافی نہیں تھا بلکہ اس کے اشتعال انگیز جملے کی آڑ میں اس وقت ہندوستان کے تمام مسلمان شامل تھے۔ ٹائم ناؤ پر حق کی آواز بلند کرنے والے ارنب گو سوامی سے یہ بھی نہیں ہوا کہ وہ اس جملے کے لئے معافی مانگنے کو کہتے۔ یہ کام سی پی ایم لیڈر اتل انجان نے کیا۔ مگر اس کے بعد بھی آر ایس ایس کے صحافی نے معافی نہیں مانگی۔ کیا یعقوب کے لئے رہائی کی مانگ کرنے والے صرف مسلمان تھے؟ صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کو رہائی کے نام پر موصول ہونے والی 339 چٹھیوں میں انصاف کی مانگ کرنے والے شتروگھن سنہا، سیتارامیچوری، پرشانت بھوشن جیسے تمام لوگوں کو پاکستان بھیجا جائے گا یا نیپال؟ ممکن ہے اگر مسلم صحافی نے پاکستان بھیجے جانے کے سوال پر یہ پوچھا ہوتا کہ باقی غیر مسلموں کو کہاں بھیجیں گے تو شاید جواب ملتا کہ ہندوستان ان کا وطن ہے۔ اس لئے کہیں اور جانے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ پھر کیا یہ وطن مسلمانوں کا نہیں رہا؟ کیا اظہار رائے کی آزادی پر اس حد تک پہرہ لگ چکا ہے کہ ہم اپنی طرف سے کوئی دلیل، کوئی انصاف کی مانگ نہیں کر سکتے۔ اور اگر غلطی سے کریں تو پروین توگڑیا سے لے کر نیشنل نیوزچینل تک ہمیں پاکستان بھیجنے کی باتیں کریں گے؟ اس دن ہندی کے تمام چینلوں پر یعقوب کی پھانسی کی خبریں چلتی رہیں۔ لیکن جہاں کہیں بھی مایا کوڈنانی یا بابو بجرنگی کا نام آتا، نیوز اینکر گھبرا کر جلدی سے بات کو پلٹ دیتے تھے۔ بھاجپا کے مقر رین کو کچھ بھی بولنے کی آزادی تھی مگر انصاف اور رہائی کی باتیں سننے والا دور تک کوئی نہ تھا۔ این ڈی ٹی وی چھوڑ کر کسی بھی ٹی وی چینل پر یہ آزادی دیکھنے میں نہیں آئی۔ این ڈی ٹی وی کے رویش کمار کی تعریف کرنی ہو گی کہ ہمیشہ کی طرح اس نڈر اور بیباک صحافی نے نہ صرف مایا کوڈنانی اور بابو بجرنگی کا نام لیا بلکہ بات بات میں سیاسی دباؤ اور تقسیم کی سیاست کا فلسفہ بھی پیش کر دیا۔ جن ستّہ کے مدیر اوم تھانوی نے فیس بک کے اپنے بلاگ میں لکھا کہ اب وہ دیش دروہی اور غدّار جیسے الفاظ سننے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ تکلیف دہ مسائل ہیں اور یہ بخوبی اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی حمایت میں اگر اکثریتی فرقہ کا کوئی فرد کھڑا ہونا چاہتا ہے تو اس پر بھی الزامات کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ سیاسی دباؤ اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ سیکولر طاقتیں بھی ایسے معاملوں میں منہ کھولنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان میں سے بیشتر یہ جان چکے ہیں کہ حق کی آواز اٹھانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تیستا سیتلواڑ اور روہنی سالیان جیسوں کی آوازیں بھی خاموش کر دی جاتی ہیں۔ مشہور سنگر ابھیجیت نے یعقوب کا مقدمہ لڑنے والے اور انصاف کی مانگ کرنے والے پرشانت بھوشن کو جی بھر کر گالیاں دیں۔ مشہور فلمی اداکار سلمان خان کو بھی رہائی کی مانگ پر پاکستان بھیجے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ بعد میں دباؤ بڑھا تو سلمان نے باپ سلیم خان کے مشورے سے اپنا پیغام واپس لے لیا۔ سلمان خان پیغام واپس نہ لیتے تو ممکن تھا کہ شیو سینک اور مہاراشٹر حکومت ان کا جینا دوبھر کر دیتی۔ مہاراشٹر سدن میں دو ایک مسلمانوں کے ذریعہ رہائی اور انصاف کی آواز بلند کرنے پر شیو سینا اور بھاجپائیوں نے انہیں غدّار تک کہنے سے گریز نہیں کیا۔ اسد الدین اویسی اور ابو عاصم اعظمی مسلسل سوشل ویب سائٹ پر بھی فحش گالیوں سے نوازے جا رہے ہیں۔

آزاد ہندوستان میںیہ سوال بار بار اٹھے گا اور اسے اٹھنا بھی چاہئے کہ دہشت گردی کی سزا پھانسی ہے تو بابو بجرنگی اور مایا کوڈنانی کو ضمانت کیسے مل جاتی ہے؟ ممبئی دھماکہ کرنے والے بیشک مجرم ہیں اور ایک جرم کو کم کرنے کے لیے دوسرے جرم کو آگے نہیں کیا جا سکتا۔ تسلیم، لیکنکیا یہ سوال جائز نہیں کہ اسی دہشت گردی میں ملوث باقی گنہگاروں کو ضمانت کیسے مل رہی ہے اور انہیں رہائی کا پروانہ کون دے رہا ہے؟ ہندوستان کا کوئی بھی مسلمان یعقوب میمن کے جرم سے انکار نہیں کر سکتا لیکن اگر عدالتیں انصاف کی بنا پر فیصلہ سناتی ہیں تو باقی مجرموں کو کیا صرف اس لیے رہائی مل جاتی ہے کہ وہ مسلمان نہیں؟ آزادی کے بعد سب سے سفاک اور خوفناک رویہ کانگریس کا رہا ہے۔ کانگریس آج بھی یعقوب کی پھانسی کو لے کر خاموش ہے۔ یہ وہی کانگریس ہے جس نے ایک لمبے عرصے تک مسلمانوں کو اپنا ووٹ بینک سمجھا اور مسلمانوں کو دہشت گرد ٹھہرانے کی سیاست بھی اسی کانگریس نے شروع کی۔ بھاجپا اپنے طریقے سے اسی کام کو آگے بڑھا رہی ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں ، جہاں انصاف اور عدلیہ پر بھی سیاست کا رنگ حاوی ہے۔ محض ایک برس کچھ مہینے میں ہندوستان کا نقشہ بدل چکا ہے۔ ہندوستان جنت نشان کی جن جمہوری قدروں کی ہم دہائیاں دیتے آئے تھے ، وہاں فرقہ واریت حاوی ہے۔ ایک طرف اشتعال انگیز بیانات ہیں جن کا سلسلہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اور اب ایسے لوگ سوشل میڈیا اور ویب سائٹ پر مسلسل مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انتہا پسند قوتیں شرارتوں پر آمادہ ہیں۔ محبت کے رشتوں کو گہن لگ چکا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ رشتے وہاں پہنچ چکے ہیں جہاں روز بروز نفرتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔

یعقوب میمن کی پھانسی کا سب سے خوفناک پہلو ہے ، اس کے جنازے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا شامل ہونا۔ غور کریں تو سیاست خاموشی سے اپنا کام کر گئی۔ یعقوب کو پھانسی ملی۔ مسلمانوں کی ہمدردی ملی۔ میڈیا کو بریکنگ نیوز مل گیا۔ اس موقع پر ایک بار پھر ارنب گوسوامی کے پروگرام کو یاد کیجئے جس میں ایک مسلم صحافی سے کہا گیا کہ آپ پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے۔

 

                انصاف کو ترستا مسلمان

 

ممبئی کا بھیڑ بھرا ایک چوراہا۔ چورا ہے کے ایک طرف سفید کرتا، پائجامہ پہنے ، ٹوپی لگائے ایک شخص آتا ہے۔ وہ آنکھوں پر ایک پٹی باندھتا ہے۔ اپنی پاؤں کے قریب ایک بورڈ رکھتا ہے۔ اس بورڈ پر لکھا ہے۔ میں مسلم ہوں اورمیں آپ پر بھروسہ کرتا ہوں۔ کیا آپ بھی مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں۔؟ ضرورت ایک بار گلے لگنے کی ہے۔ آنکھوں پر پٹی باندھ کر وہ اپنی بانہیں کھول دیتا ہے۔ آتے جاتے ہوئے لوگ بورڈ کو دیکھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا ہے۔ اچانک کندھے سے بستہ لگائے ایک نوجوان ٹھہرتا ہے۔ وہ آگے بڑھتا ہے ، اور گلے لگ جاتا ہے۔ اور اس کے بعد کئی دوسرے آتے ہیں جو بھروسہ کرتے ہیںاور اس شخص کے گلے لگ جاتے ہیں۔ ان میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ یوٹیوب پر یہ ویڈیو ’بلائنڈ مسلم ٹرسٹ‘ کے نام سے وائرل ہو چکا ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت میںیہ پہلا ایسا علامتی واقعہ ہے جس نے میری آنکھیں نم کر دی ہیں۔ ممبئی کے ان محبت کرنے والے لوگوں کو سلام، جنہوں نے اس شخص کے گلے لگتے ہوئے یہ ظاہر کیا کہ نہ صرف جمہوری اقدار پر لوگوں کا بھروسہ ہے بلکہ منافرت، فرقہ واریت کی سیاست بھی انہیں راس نہیں آ رہی۔ اس طرح کے واقعات اکثر غیر ممالک میں سماجی فورم کی طرف سے ہوتے رہے ہیں۔ مگر یہ پہلا واقعہ اس ہندوستانی سیاست پر حملہ ہے جس نے شدت کے ساتھ ہندوستان کے ۲۵ کروڑ مسلمان کو دہشت گرد ٹھہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اب ایک دوسری تصویر دیکھئے۔ سابق صدر جمہوریہ ہند اے پی جے عبدالکلام کی وفات کے بعد جب ان کی چھوڑی ہوئی جائیداد کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ساری دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ ایک شخص جو عظیم سائنسداں تھا، میزائیل مین کہلاتا تھا، جسے ہندوستان کی بادشاہت دی گئی، اس کے پاس محض تین جوڑے کپڑے ، ایک کلائی گھڑی تھی۔ اگر اس سیاسی عہد کو رشوت کے سوٹ کیس کی علامت کے طور پر استعمال کیا جائے تو کلام کے پاس محض ایک سوٹ کیس تھا۔ اور وہ بھی خالی۔ یہ نہ بھولیں کہ وطن پرست ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک مسلمان بھی تھے اور اگر مسلمانوں کی نمائندگی کی بات آتی ہے تو یہ چہرہ پچیس کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اب ہندوستان کا نیا منظرنامہ اور نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ اور کتنے افسوس کی بات کہ ہمارے ملک سے وفادار، محب وطن، جانباز اور ملک کی آزادی پر نثار ہو جانے والے مجاہدوں کی تاریخ کو فراموش کیا جا رہا ہے۔ بلکہ فراموش کیا جا چکا ہے۔ اور نئی تاریخ میںیہ مسلمان علامت کے طور پر ممبئی کے اس اجنبی مسلمان کی تصویر بن گئے ہیں جسے بھیڑ بھرے چورا ہے پر آنکھوں پر انصاف کی پٹی باندھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ کیا آپ مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں۔؟

سوال تو پوچھا جائے گا اور بار بار پوچھا جائے گا کہ آخر اس علامتی پیرائے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟کیا یہ سب کچھ محض ڈیڑھ سال میں ہوا؟ یا ہندوستان کی۶۸ برسوں کی حکومت میں مسلمانوں کو اجنبی، دہشت گرد، خوفزدہ بنانے کیجو مہم شروع ہوئی، وہ اب مودی حکومت میں رفتار پکڑ چکی ہے۔؟ اس رفتار کا ایک خوفناک حصہ تب سامنے آیا جب منظم طور پر، انتہائی ہوشیاری سے اس ملک کی سیاست نے یعقوب میمن کو پھانسی کی سزا سناتے ہوئے اس ملک کو ہندو اور مسلمان دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک سوال اور بھی ہے ، کیا دہشت گرد یعقوب کی لاش کو رشتہ داروں کو سونپا جانا ضروری تھا۔؟ سیاست ایک تیر سے کئی شکار کر رہی تھی، اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ سرکار اس سیاست میں کامیاب رہی۔ عبدالکلام کو مسلمان نہیں ، ایک دیش بھکت کے طور پر پیش کیا گیا اور یعقوب میمن کی پھانسی کے ذریعہ یہ پیغام پہچانے کی کوشش کی گئی کہ اس کے آخری سفر میں اگر ہزاروں لوگ شامل تھے تو اس سے ہندوستان کے عام مسلمانوں کی ذہنیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔

سیاست کے اس رخ کو بھی دیکھئے کہ اس درمیان بھگوا دہشت گردی کی مخالفت کی مہم مرکزی حکومت کی طرف سے تیز ہوئی۔ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی پارلیامنٹ کے مانسون اجلاس میں کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے ہندو آتنک واد کی مخالفت کی۔ اس سے قبل فرضی ان کاؤنٹر، گجرات کے کئی قاتلوں کی رہائی سامنے آ چکی تھی۔ تیستا سیتلواڑ پر فرضی مقدمے چلا کر ان کی آواز کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ روہنی سالیان جیسیبا ضمیر عورتوں پر سیاسی دباؤ بنا کر ان کی آواز کو خاموش کر دیا گیا۔ اور اب سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے کے ملزم اسیمانند کو لے کر اس ملک کے انصاف نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔ دہشت گردی کے مکمل ثبوت، اقبال جرم اور چشم دید گواہوں کے بیانات کے باوجود اگر ایک ایک کر کے بھگوا بریگیڈ سے وابستہ تمام ملزمین کو رہا کرنے اور ضمانت دینے کی کار روائی ہو رہی ہے تو مرکزی سیاست کا رخ صاف ہو جاتا ہے۔ دہشت گرد مسلمان ہیں۔ دہشت گرد ہندو نہیں ہو سکتے۔ آرایس ایس کے اعلی افسران بھی یہ بیان دے چکے ہیں کہ ہندو کبھی دہشت گرد نہیں ہوتے۔ ہیمنت کرکرے کا قتل اورباضمیر لوگوں کی آواز کو دبایا جانا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان کڑیوں کو آپس میں ملائیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ لوک سبھا انتخاب سے پہلے ہی نریندر مودی اورامت شاہ نے اس کھیل کی بنیاد رکھ دی تھی کہ انتخاب جیتنے کے بعد آرایس ایس سے وابستہ ملزمین کی رہائی کو آسان بنا یا جائے گا۔ اور مرکزی حکومت نے صرف ڈیڑھ سال کے عرصہ میں جھوٹ کو سچ، ناجائز کو جائز، جرم کو بے گناہ بتا کر اپنی حکمت عملی سے پردہ اٹھادیا ہے۔ کیونکہ حکومت جانتی ہے کہ چند با ضمیر لوگوں کی آواز کو دبانا سیاست کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اور اس ملک میں اس وقت یہی ہو رہا ہے۔

آزادی کے بعد بابری مسجد سے بٹلہ ہاؤس، گودھرہ سانحہ، ہاشم پورہ تک ہندوستانی مسلمان ایک انصاف کو ترس گئے۔ رہی سہی کسر وہ اشتعال انگیز بیانات پوری کر دیتے ہیں ، جو بار بار مسلمانوں کی مخالفت میں بولے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہو گئی کہ سادھوی پراچی مسلم پارلیمنٹرینکو بھی آتنک وادی ٹھہراتی ہیںاور مرکزی حکومت مزے لیتی ہے۔ ممبئی بم حادثے کے ملزمین کو سزا ملنے کی ہم حمایت کرتے ہیں لیکن اس بم دھماکہ کے بعد جب ممبئی کو فسادات کی آگ میںجھونک دیا کیا، وہ ملزمین کہاں گئے؟ ہزاروں مسلمانوں کے گھر پھونکے گئے۔ ان مسلمانوں کو انصاف کب ملے گا؟ سرکاری اعداد و شمار گواہ ہیں کہ گجرات قتل عام میں کتنے مسلمان مارے گئے — عشرت جہاں فرضی ان کاؤنٹر کے ماسٹر مائنڈ ڈی جی ونجارا اور پی پی پانڈے کو رہائی کیوں دی گئی؟ نرودا پٹیا میں ہزاروں کی ہلاکتوں کی مجرم بابو بجرنگی اور مایا کوڈنانی کے لیے اس ملک کے انصاف نے آنکھیں کیوں بند کر لیں۔؟ آج ہندوستان کی جیلیں بے گناہ مسلمانوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ان کے لیے انصاف کا پروانہ کب آئے گا۔

مودی حکومت کے قیام کے بعد مسلم راشٹریہ منچ کے ذریعہ اندریش کمار اور دیگر سنگھی لیڈران نے مسلمانوں کو قریب لانے کے ایجنڈا پرکام کیا۔ ظفر سریش والا بھی اس مہم میں پیش پیش رہے۔ مگر یہ کیسا ایجنڈا، کیسی پیش قدمی ہے کہ مسلسل عبادت گاہوں پر حملے ، اشتعال انگریزبیانات، پر زور مسلم مخالفت، خوفزدہ کرنے کی رسم کے ساتھ مسلمانوں سے گلے ملنے کی باتیں کہی جا رہی ہیں۔ مسلمان اس آر ایس ایس کی حمایت کیسے کر سکتا ہے ، ۱۹۲۵ سے جس کے کھلے ایجنڈے میں مسلم دشمنی کی باتیں کی گئی ہوں۔ جہاں سیاسی منشا مسلمانوں کو حاشیے پر رکھنے اور دوئم درجے کا شہری بنانے کا ہو، وہاں قریب لانے کی باتیں بھی گمراہ کن ہیں۔ کیا مسلم راشٹریہ منچ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ اس وقت اس ملک کی سیاست مسلمانوں سے کیا کھیل، کھیل رہی ہے۔؟ کوئی بھی مسلمان، مسلم مخالف ایجنڈے کا ساتھ دے کر اندریش کمار، یا ظفر سریش والا کا ساتھ کیسے دے سکتا ہے؟ہیمنت کرکرے کے قتل کے بعد یہ حقیقت بھی سامنے آ گئی کہ خفیہ ایجنسی، عدلیہ، فوج اور ہر جگہ سنگھ کے حامی موجود ہیں۔ اور اس لیے۶۸ برسوں کی تاریخ میں سیکولرزم کی جگہ فرقہ واریت کی زمین مضبوط ہوتی رہی۔ یہ طاقتور مشن کا ہی کرشمہ ہے کہ سادھوی پرگیہ، سوامی اسیمانند، کرنل پروہت اور دیگر مجرموں سے مکوکہ ہٹانے کا فیصلہ آ جاتا ہے۔ اور آئی ٹی ایس عدلیہ کے فرمان کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو زبان بندی کے لیے مجبور کرتی ہے۔ اور اگر کوئی مسلمان زبان کھولتا ہے تو سیاست سے میڈیا تک مسلمانوں کی وطن پرستی، حب الوطنی پر سوالیہ نشان قائم کرنے لگتی ہے۔

ہندوستان کے مسلمان عدلیہ کے انصاف پر کل بھی بھروسہ کرتے تھے اور آج بھی یہ بھروسہ قائم ہے۔ مگر اب ہندوستان کی سپریم عدالت کو، ممبئی کی بھیڑ بھری سڑکوں پر اس چہرے کو دیکھنے کی ضرورت ہے ، جو آنکھوں پر پٹی باندھ کر پوچھنا چاہتا ہے کہ ہم پر بھروسہ کب کرو گے۔؟ کیونکہ انصاف کے دو پیمانے نہیں ہو سکتے۔ ممبئی کے چورا ہے پر اس شخص سے گلے ملنے والوں نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ ابھی نا امید ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جمہوریت زندہ ہے۔

 

                بہار اسمبلی انتخابات کے بہانے ایک سوال

 

ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ بہار میں سیکولر اتحاد کا یہ تجربہ کیا صرف مسلمانوں کے ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے ہے؟ تو اس امکان سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ مسلمان اگر بی جے پی کے ساتھ نہیں ہیں تو کیا بی جے پی کو بھی مسلمانوں کا ووٹ نہیں چاہئے؟

عام طور پر مودی حکومت اور بھاجپا کے کارکن اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کی حمایت انہیں کبھی حاصل نہیں ہو گی۔ لیکن مودی حکومت اس سچ کو بھی جانتی ہے کہ مسلمان اس ملک کا بڑا ووٹ بینک ہے اور مسلمانوں کو سیاست میں نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ اس لیے انتخابات کا موسم آتا ہے تو مسلم دشمنی نبھاتے ہوئے بھی انہیں ساتھ لے چلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مودی اس حقیقت سے کچھ زیادہ ہی واقف ہیں کہ مسلمان ان کی حمایت کبھی نہیں کریں گے۔ ہاں ، سیاسی مفاد کی خاطر کچھ مسلمان ان کے ساتھ ضرور ہو جائیں گے مگر اس کے باوجود مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کے ساتھ کبھی نہیں آئے گا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس معاملے میں مودی نے کبھی نمائش نہیں کی۔ گجرات فسادات کے بعد وہ اس سچ سے بھی واقف ہیں کہ خواب دکھا کر اور وعدے کر کے بھی مسلمانوں کے دل کو فتح نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے نہ انہوں نے مسلمانوں کے ہاتھ سے ٹوپی پہنی اور نہ وزیر اعظم بننے کے بعد افطار کی روایت کو قائم رکھا۔ ایک وزیر اعظم کے طور پر رمضان اور عیدین کی مبارکباد دینا ان کے فرائض میں شامل ہیں۔ تاریخ کی سرنگ میں جانا مقصود ہو تو مودی اس راستے پر چلے ، جس پر ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس نے چلنے کی روایت شروع کی تھی۔

ہندو مہا سبھا کی بنیاد۰۹۔ ۱۹۰۸ میں پنجاب میں رکھی گئی— مقصد تھا، اکھنڈ ہندوستان کا قیام— ہندو تہذیب کی بنیاد پر ہندو سلطنت کو مضبوطی سے قائم کرنا۔ اس لیے شروعات سے ہی مسلمانوں پر حملے تیز کیے گئے۔ آرایس ایس کی بنیاد۱۹۲۵ میں رکھی گئی۔ اس کے عزائم بھی وہی تھے۔ عزائم کی تکمیل کے لیے سیاسی پارٹی کی ضرورت تھی۔ ۲۱؍اکتوبر۱۹۵۱ کو شیاما پرساد مکھرجی اور بلراج مدھوک نے بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے سیاسی پارٹی کا تجربہ کیا، جسے کامیابی۱۹۸۰ میں ملی، جب اس پارٹی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے نئی پہچان ملی۔ ۱۹۴۸ میں مہاتما گاندھی کے قتل کے پیچھے ہندو مہا سبھا کے ہی لوگ تھے۔ اور آزادی کے بعد سے یہ منظر نامہ صاف تھا کہ تقسیم اور پاکستان کولے کر مسلسل مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے گا اور ہندو راشٹریہ کے قیام کی مانگ دہرائی جائے گی۔ ال کے اڈوانی کی رتھ یاتراؤں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو مضبوطی دی۔ اور بابری مسجد شہادت کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی اس راستہ پر بڑھتی گئی، جہاں فرقہ واریت حاوی تھی اور مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنا اور کمزور کرنا ہی مشن۔ ۱۹۸۰ کے بعد ہندوستان کے سیاسی حالات بہت حد تک بدل چکے تھے۔ فسادات تو پہلے بھی ہوتے رہے تھے۔ مگر ہندو راشٹر کا قیام ایک ایسا نعرہ تھا، جہاں ہندو تو کے فروغ کے لیے کٹرپنتھی ہندو پوری طرح سامنے آ چکا تھا۔ اس لیے کہ جن سنگھ کے خیالوں سے جنمی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنا مشن سامنے رکھ دیا تھا کہ نام نہاد سیکولرزم اور جمہوریت کو کمزور کیے بغیر ہندو راشٹر کا قیام ممکن نہیں ہے۔ اورسیاست کے راستہ اس پر عمل آسانی سے ہو سکتا ہے۔ اور اس لیے۲۰۱۴ میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے شاندار واپسیکی تو اس بار اس کی باگ ڈور مودی کے ہاتھ میں تھی۔ باجپائی اور اڈوانی سنگھ پرچارک ہونے کے باوجود کبھی کبھی سیاسیڈپلومیسی کو لے کر جمہوریت اور سیکولرزم کی باتیں بھی کرنے لگتے تھے۔ آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کو یہ قطعی منظور نہ تھا۔ مودی میں یہ خوبی تھی کہ وہ سیاسی ڈپلو میسی کی جگہ انتہا پسندی کے راستہ پر چلے کیونکہ وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ اگر ملک کے 96.63کروڑ ہندوؤں کو مضبوطی سے جوڑ لیا تو انہیں مسلمانوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ۲۰۱۴ کے لوک سبھا انتخاب کے لیے مودی نے اسی فارمولے کو سامنے رکھا اور یہ تجربہ کامیاب رہا۔

بھاجپا اب حقیقت سے واقف ہے کہ اکثریتی فرقہ ساتھ ہو تو اقلیتوں کی فکر کرنا دانشمندی نہیں۔ کانگریس نے یہی کردار نبھایا تھا۔ مسلم دوستی کانگریس کو مہنگی پڑی۔ اور کانگریس کی اسی مسلم دوستی کو ۲۰۱۴ کے انتخاب کے لیے بھاجپا نے اپنا انتخابی ہتھیار بنا دیا۔ نام نہاد سیکولر پارٹیاں اگر مسلمانوں کی حمایت کا دعویٰ پیش کرتی ہیں تو ملک کی اکثریت ہندوؤں کو نظرانداز کیوں کیا جائے۔؟ اس حقیقت کو کجریوال نے بخوبی سمجھا اور دلی اسمبلی انتخاب میں اس سے فائدہ اٹھایا اور اس لیے دلی جامع مسجد کے شاہی امام کی حمایت ملنے پر فوراً پریس کانفرنس کر کے عآپ نے اپنا موقف ظاہر کر دیا کہ ان کی پارٹی کسی ایک کے ساتھ نہیں بلکہ سب کے ساتھ کھڑی ہے۔ ۲۰۱۴ کی شکست فاش کے بعد سونیا اور راہل کو بھی یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ گھوٹالوں اور مہنگائی کے ساتھ مسلم دوستی بھی ایک بڑا سیاسی مدعا تھا، جسے بھاجپا ان کے خلاف استعمال کرنے میں کامیاب رہی۔

اٹل بہاری واجپئی کے دور حکومت سے مودی حکومت تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔ واجپئی حکومت میں مسلمانوں کو بھروسہ میں لینے کے لئے واجپئی حمایت کمیٹی تک بنائی گئی۔ لیکن اس کے کچھ اچھے نتائج سامنے نہیں آئے۔ اس سوال سے آنکھیں ملانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کیا مسلمانوں کے لئے بی جے پی اچھوت ہے؟ اسی کا دوسرا پہلو ہے کہ بی جے پیکیا یہ مان کر چلتی ہے کہ مسلمان ان کی حمایت میں کبھی نہیں آئیںگے؟ تاریخ کی گواہی اور اشارہ کافی ہے کہ ہندو مہاسبھا، آر ایس ایس، جن سنگھ اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیاد ہی مسلم مخالفت پر قائم ہے تو مسلمان کسی ایسی پارٹی کا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں؟ بہار بی جے پی کے لیڈر شاہنواز حسین تک کبھی بھی مسلمانوں کو بی جے پی کے لئے مناتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ اس کے برعکس اگر دیکھیں تو مودی حکومت میں بہار بی جے پی کے گری راج سنگھ سمیت کئی لیڈر نہ صرف مسلمانوں کے رویہپر سوالیہ نشان لگا چکے ہیں ، بلکہ کئی مواقع پر انہیں پاکستان جانے کا مشورہ بھی دے چکے ہیں۔

لوک سبھا 2014 کے انتخابات میں جب کانگریس اور نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلم ووٹوں پر اپنا حق جتا کر انہیں متحد کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ، تب انتخابی سروے سامنے آیا کہ مسلم تو متحد نہیں ہوئے لیکن ملک کے اکثریتی طبقہ کو مودی حکومت مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ کانگریس سے مسلم کارڈ کھیلنے میں غلطی ہوئی۔ اکثریتی طبقہ اس سے کٹتا چلا گیا۔ مسلمانوں نے بھی 68 برسوں کے اس سچ کو سمجھا کہ کانگریس صرف ان کو بے وقوف بنانے کا کام کرتی رہی ہے۔ مسلمانوں کی ضرورت ایک ایسی پارٹی تھی جو فرقہ پرست نہ ہو اور ان کے مفاد کا خیال رکھے۔ دہلی اسمبلی انتخاب میں اس کی جھلک دیکھنے کو ملی۔ مسلم ووٹر کجریوال کے حق میں نظر آئے۔ اس لہر کا دوسرا مرکز اب بہار ہے۔

لوک سبھا انتخابات میں اکثریتی ووٹوں کی یکجہتی کام کر گئی تھی۔ بہت حد تک بہار اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے نے اسی پرانی تاریخ کو ہی دوہرانے کی کوشش کی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات بھی ہندو بمقابلہ مسلم ہو کر رہ گیا تھا۔ اور اس بار بھی سیکولر اتحاد کے جوڑ کے باوجود اکثریتی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کوشش میں اگر اویسی اپنے امیدوار کھڑے کرتے ہیں تو سیکولر اتحاد کی امیدوں کو کرارا دھکا لگے گا۔

ملک کی سیاست نے اگر ہندو اور مسلمانوں کو دو مختلف ووٹ بینک بنا دیا، تو اس میں اہم کردار کانگریس کا رہا ہے۔ تعصب اور فرقہ واریت کے تشدد کا ایک نتیجہ ملک 1947 میں آزما چکا ہے۔ ووٹ کی سیاست کے لئے یہ تقسیم قبول نہیں ، لیکن بدقسمتی سے بہار میں بھی اس وقت یہی کھیل دہرایا جا رہا ہے۔

 

                شناخت مٹانے کی کوشش

 

تقسیم کے بعد ہندوستانی اور پاکستانی مسلمانوں کا نفسیاتی اور سیاسی تجزیہ کوئی مشکل کام نہیں۔ جنہیں قوم و مذہب کی فکر دامن گیر تھی، وہ پاکستان چلے گئے۔ اور جنہوں نے ہندستان سے جانا منظور نہیں کیا، ان کے لیے اس وطن کی خاک زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ اور جنہوں نے وطن کی خاک میں جینے مرنے کا فیصلہ کیا، جمہوریت اور سیکولرزم پر ان کا بھروسہ قائم تھا— سیکولرزم اور جمہوریت کی روایت میں بہت حد تک ہندو مسلم دوستی کو بھی دخل تھا۔ کیونکہ یہ صدیوں سے یہ دونوں قومیں ایک دوسرے میں ایسے گھل مل گئی تھیں کہ ان کی شناخت صرف ہندوستانی کے طور پر کی جاتی تھی۔ آزادی کا بعد کا سیاسی تجزیہ اسی حقیقت کو سامنے رکھتا ہے کہ کانگریس، کمیونسٹ اور دیگر سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کی حمایت میں اس لیے سامنے آئیں کہ یہ پارٹیاں مسلمانوں کے مضبوط ہندستانی سیکولر کردار کی گواہی دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو فرقہ پرست ٹھہرانے اور پاکستانی ٹھہرانے کا دشمن منصوبہ کبھی کام نہیں آیا۔ کیونکہ آزادی کے بعد سیاست سے اسپورٹس اور فلم تک ہر شعبہ میں مسلمانوں کی نمائندگی تھی۔ اور مسلمانوں کے بڑے طبقے نے کبھی مسلم پارٹی یا مسلم لیڈران کو اہمیت نہیں دی۔ اس کی چھوٹی سی وجہ سیکولرزم کی وہی زمین تھی، جس پر ہندوستان کے مسلمان پوری طاقت کے ساتھ کھڑے تھے اور اب بھی کھڑے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ آزادی کے بعد ایسے کئی مواقع آئے جب فسادات کی گرم آندھی چلی۔ فرقہ واریت کا طوفان مختلف شکلوں میں نمودار ہوا۔ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سیاست بھی ہوئی۔ مگر غور کریں تو ہندوستانی مسلمان مسلسل ایسی فرقہ پرست اور فاشسٹ طاقتوں کے مقابلے چٹان کی طرح کھڑا رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ بابری مسجد سے لے کر ہاشم پورہ تک کبھی کوئی سیاسی فیصلہ مسلمانوں کے حق میں نہیں آیا۔ آزادی کے بعد سے اپنے سیکولر کردار کے ساتھ مسلمان اپنے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔ اور آج بھی لڑ رہے ہیں۔ مسلم پرسنل لا اور شاہ بانو سے لے کر کئی ایسے مسائل بھی سامنے آئے جب مسلم لیڈران نے اپنی اپنی سیاست کو ہوا دینے کا کام شروع کیا۔ مگر سید شہاب الدین سے امام بخاری تک مسلمان کسی کے بہکاوے میں نہیں آئے۔ آزادی کے بعد دو موڑ ایسے تھے جب ہندوستانی مسلمانوں نے خود کو ٹھگا ہوا محسوس کیا۔ پہلا موڑ بابری مسجد شہادت اور دوسرا موڑ گجرات حادثہ۔ ۱۹۸۰ کے آس پاس فرقہ پرست سیاست نے ہندو مسلمانوں کے درمیان دیوار اٹھانے کی کوشش ضرور کی اور کچھ دنوں تک خوف کا سایہ بھی برقرار رہا مگر قومی یکجہتی کی فضا نے اس دیوار کو گرانے میں دیر نہیں کی۔ واجپئی کی بھاجپا حکومت کے دور میں بھی مسلم دشمنی سے بھرے بیانات دینے والوں کی کمی کوئی نہیں تھی۔ مگر ہندوستان کے مسلمان اس حقیقت کو قبول کر چکے تھے کہ ایسے اشتعال انگیز بیانات کے پیچھے محض چند لوگوں کی سیاست ہے۔ یہ وہی ملک ہے جہاں سیاست بابری مسجد کو شہید کرتی ہے تو مسلمانوں کی حمایت میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ایک ساتھ سامنے آ کر فرقہ پرستوں کے کردار کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے۔ ظلم و ستم کی آندھی جب جب چلی، ساتھ دینے والے مہربان غیر مسلم موجود تھے۔ مسلمانوں کی بڑی آباد بھی اس سچ سے واقف ہے کہ پورے ہندوستان میں اور الگ الگ صوبوں میں ایسی کتنی ہی سیاسی پارٹیاں ہیں جو سیکولر کردار ادا کرنے میں مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہیں۔ سیاسی منشا بھلے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنا ہو لیکن مشکل لمحات میں ان سیاسی پارٹیوں کے لیڈران مسلم حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے تھے — اس لیے پر آشوب موسم کا سامنا کرنے کے باوجود ہندوستان کا مسلمان کبھی انتہا پسندی کے راستہ پر نہیں چلا۔ جمہوریت اور سیکولرزم میں اس کا یقین پختہ رہا۔

یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ نفرتوں کو بڑھاوا دینے والی سیاست کے باوجود جمہوریت کی زمین سخت ہے اور مضبوط۔ اور مسلمان مضبوطی سے اس ستون کا حصہ ہیں۔ اس لیے آزادی کے بعد سے اب تک کے حالات میں مسلمانوں نے نہ اپنی قیادت کے بارے میں سوچا اور نہ ہی مسلم قائدوں پر بھروسہ کیا۔

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، جنہوں نے اس کی مکمل فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز   عبید