تفہیم مُلّا
آلِ احمد سرورؔ
آنند نرائن ملّاؔ کی شاعری نئے لکھنؤ کی آواز ہے۔ یہ نیا لکھنؤ پرانے لکھنؤ سے بھی متاثر ہوا ہے مگر بیسویں صدی کی روح کا اثر اس نے زیادہ قبول کیا ہے۔ لکھنؤ کی پرانی شاعری فن کی پرستار تھی یہ نئی شاعری جذبات کے اظہا رپر زور دیتی ہے مگر فن کی روایات کو نظرانداز نہیں کرتی۔ لکھنؤ کی پرانی شاعری وزن و وقار رکھتی ہے مگر اس میں جذبہ کی تھرتھراہٹ اور احساس کی تازگی ہے۔ اس نئی شاعری نے بیسویں صدی کی زندگی سے نیا احساس لیا ہے اور فن کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے۔
لکھنؤ جس تہذیب کا گہوارہ ہے وہ بعض لوگوں کے نزدیک مٹ چکی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ صرف بدلی ہے۔ لکھنؤ کے تمدن کے نقش و نگار جاگیردارانہ تہذیب سے بنے تھے۔ سرمایہ داری کے اس دور میں بھی جاگیردارانہ تہذیب غزل اور رندی میں چھپ چھپ کے ظاہر ہوتی رہی، مگر انیسؔ سے لے کر چکبست تک مسدّس کی مقبولیت کچھ اور بھی کہتی ہے۔ انیسؔ کے نیم مذہبی، نیم تہذیبی مرثیے چکبستؔ کے نیم قوی اور نیم سیاسی مرقعے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ لکھنؤ میں رندی اور رنگینی کے علاوہ کچھ انسانی اور اخلاقی قدریں بھی مقبول رہیں۔ لکھنؤ کی شاعری میں لاکھ خرابیاں سہی، مگر لکھنؤ میں اردو زبان و ادب کو تقریباً دو سو سال کی مسلسل زندگی ملی ہے، اس نے یہاں کے رہنے والوں کے مزاج میں ایک لطافت و شائستگی پیدا کر دی ہے۔ اس لطافت و شائستگی کا ہم کتنا ہی مذاق اُڑائیں مگر ہماری سیاست کے دورِ جنوں میں بھی لکھنؤ تہذیب اور انسانیت کا علمبردار رہا ہے۔ رواداری، بے تعصبی، امن و اخوت کو لکھنو نے محض زبان سے نہیں سراہا، اسے دل میں بھی جگہ دی، اردو زبان یہاں محض بولی ہی نہیں گئی، دلوں کی آواز اور روحوں کی ترجمان بھی رہی لکھنؤ میں اسے زبان شیخ و لبِ برہمن دونوں ملے اور دوسرے مقامات سے بہت زیادہ ملے اس تہذیبی خصوصیت کو تنگ نظر اور رجعت پرستی کی ہوائیں جلد فنا نہیں کر سکتیں۔
آنند نرائن ملّاؔ کشمیری ہیں، کشمیریوں کی ذہانت اور جمالیاتی احساس کو دنیا جانتی ہے۔ اردو زبان و ادب کی ترقی میں ان کا جتنا حصہ ہے وہ بھی سب کو معلوم ہے۔ آنند نرائن ملّا کے والد پنڈت جگت نرائن ملا۔ لکھنؤ کی مشہور شخصیتوں میں سے تھے۔ ملا ۱۹۰۱ء میں یعنی بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ پیدا ہوئے۔ جوبلی اسکول اور کیننگ کالج کی انگریزی تعلیم کے علاوہ اردو اور فارسی گھر پر پڑھی۔ انگریزی میں ایم۔ اے کرنے کی وجہ سے انھیں عالمی ادب کے رجحانات و میلانات سے بھی واقفیت کا موقع ملا۔ وکالت اس لئے اختیار کی کہ آبائی پیشہ تھا اور اس میں امتیاز بھی حاصل کیا۔ مگر ملّاؔ کی سلامت طبع کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ وکالت کے ہو کر نہ رہ سکے اور نہ کلب اور جدید سوسائٹی کی تفریحات ان کے دل کی خلش اور دردمندی کو مٹاس کیں یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ لکھنؤ میں رہتے ہوئے بھی ملا لکھنو کے کسی شاعر سے زیادہ متاثر نہیں ہیں لے دے کر چکبست کا کچھ رنگ ہے۔ ورنہ وہ غالب اور اقبال سے زیادہ متاثر ہیں۔ انھوں نے کسی سے باقاعدہ اصلاح بھی نہیں لی اور صرف اپنی انفرادیت کو سہارا بنایا۔ ملا کے یہاں اس طرح لکھنؤ کے عام ماحول سے بغاوت ملتی ہے، مگر لکھنو کی تہذیب کے اثرات ان کی شخصیت اور مزاج میں ایک نکھرے اور ستھرے رنگ سے ملتے ہیں دنیا نے ان سے اچھا سلوک کیا، انھیں ’’خالی جیب اور ٹوٹے ہوئے دل‘‘ ہی پر قناعت نہ کرنی پڑی، جو ایک نقاد کے الفاظ میں شاعروں کو خوب راس آتی ہے۔ انھوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں انیسؔ ، غالبؔ اور اقبالؔ کے اشعار کے ترجمے کیے اور انگریزی میں کچھ نظمیں کہیں بھی۔ مگر پنڈت منوہر لال زتشیؔ کے اشارے سے اس ذہنی آوارگی کو ایک فطری راستہ مل گیا اور انھوں نے اردو میں شعر کہنے شروع کئے۔ ملّاؔ کی شاعری میں وطن، حسن، انسان دوستی اور نئی دنیا کے محور ملتے ہیں، ان کی شاعری ہمارے ادب کے تمام صالح میلانات کی آئینہ دار ہے اور ان کی شخصیت ہماری تہذیب کی وسیع المشربی اور ہمہ گیری کی ایک زندہ اور تابندہ تصویر۔
اردو شاعری میں ایسے ناکام عاشقوں کی کمی نہیں ہے جو زندگی کی محرومیوں اور تلخیوں کو عشق کا المیہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اردو کا عام شاعر در اصل حسن کا بھی پرستار نہیں وہ اپنے حسنِ تخیل کا عاشق ہے۔ نظارے سے زیادہ وہ نظر کا قائل ہے۔ اس کی مزاج کی یہ نرگسیت (Narcissusism)غزل کی دھندلی چاندنی میں بڑے لطیف سایے پیدا کرتی ہے۔ ان کی وجہ سے ہماری غزل کا بڑا حصہ ایک ایسی پرچھائیں بن گیا ہے جو تنقید کی روشنی کی تاب مشکل سے لا سکتا ہے۔ غزل کی تاریخ اور اس کے ارتقا پر تبصرے کا نہ یہ موقع ہے نہ اس کی یہاں گنجائش ہے مگر اتنا کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ اردو کے اچھے اچھے شاعروں کا تصور یا تو محدود ہے یا ناقص۔ زندگی اور اس کے نظاروں کا حسن تو درکنار، یہ حسن نسوانی کا بھی بہت رومانی، بہت سطحی اور بہت مبالغہ آمیز تصور ہے۔ سماجی شعور کی کمی اس کی رندی اور رومانیت کو اور بھی عبرت انگیز بنا دیتی ہے۔ حالیؔ ، چکبستؔ اور اقبالؔ کی غزلوں کو چھوڑ کر پہلی جنگ عظیم تک اردو کا غزل گو شاعر مریض انفرادیت اور بیمار تخیل کا شکار رہا ہے۔ یہ تینوں شاعر چونکہ صرف غزل گو نہ تھے اور شاعری کا زیادہ بلند اور وسیع تصور رکھتے تھے، اس لئے ان کے یہاں عشق میں سچائی اور سپردگی ہے، اگرچہ یہ عشق بڑے مقاصد اور قومی تقاضوں کا عشق ہے۔ لکھنؤ نے چونکہ اس نئے حسن و عشق کا راز ذرا دیر میں سمجھا اس لئے چکبستؔ سے پہلے یہ ہمیں غزل میں نہیں ملتا، ہاں نظموں میں صفی نے اس کا اظہار کیا ہے۔ چکبست اور ملا دونوں لکھنؤ کے ہیں مگر دونوں کو ایک قومی تصور نے روایت کے اس سخت حصار سے باہر نکلنے کا بھی موقع دیا جو دوسرے شعراء کو گرفتار رکھنے میں کامیاب ہوا۔ ملا ؔ نے جب ہوش سنبھالا اور ان کے خون نے جب شباب کی گرمی محسوس کی تو ہندوستان کافی بدل چکا تھا۔ پہلی جنگ عظیم نے ہندوستان کو اتنا بدل دیا جتنا کہ دو سو سال میں نہیں بدلا تھا اور دوسری جنگ عظیم نے تبدیلی اور تغیر کی اس رفتار کو اور بھی تیز کر دیا۔ چنانچہ ۱۹۲۵ء میں ایک جوان اور حسّاس شاعر، حسن کی رنگینی اور دنیا کے بدلتے ہوئے چہرے دونوں کا بیک وقت احساس کر لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملّاؔ کی نظموں اور غزلوں میں شروع سے ایک جدید ذہن ملتا ہے، اس جدید ذہن کی تربیت انگریزی ادب اور ملک کی سیاسی لہروں سے مل کر ہوئی ہے۔ یہ حسن کا فدائی ہے۔ وفا کے رسمی تصور سے بے نیاز ہے اور وطن کا عاشق بھی ہے یعنی شاعر یہاں ایک ایسا فرد ہے جو بعض اجتماعی ذمہ داریاں اور جذبات رکھتا ہے۔ ملّاؔ کو غزل اور نظم دنوں پر یکساں قدرت ہے اور نیازؔ نے موجودہ شعرا کا جو اپنا انتخاب شائع کیا تھا۔ اس میں اس خصوصیت کا بجا اعتراف کیا تھا۔ مگر ۱۹۳۵ء تک ملّاؔ کی غزلوں اور نظموں میں انفرادیت نہیں آئی ان میں تازگی، شگفتگی اور لطافت ہے مگر کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ہمیں چونکا دے۔ ۱۹۳۵ء کے بعد ملّاؔ کے فکر و فن میں انسان دوستی کا جذبہ ایسی گہرائی اور گیرائی اور ایک ایسی قوت شفا پیدا کر دیتا ہے کہ اس کی طرف نگاہیں فوراً اٹھ جاتی ہیں۔
نظموں میں ’’میری دنیا‘‘ زمین وطن، ہم لوگ، نوروز، موتی لال نہرو، اور گاندھی۔ حب وطن سیاسی جد و جہد، قومیت کی تحریک اور آزادی کی خلش کو ظاہر کرتے ہیں۔ وطن پر اردو میں اچھی نظمیں لکھی گئی ہیں۔ خصوصاً چکبستؔ ، ساغرؔ ، افسرؔ ، روشؔ ، حفیظؔ ، جوشؔ کی وطنی شاعری بڑی قابل قدر ہے مگر اس کے باوجود ملّاؔ کی زمین وطن، اپنی غنائیت، شیرینی اور نکھری ہوئی کیفیت کی وجہ سے ممتاز ہے، چکبستؔ اور جوشؔ کی ایسی نظموں میں عظمت ہے مگر ملّاؔ کے یہاں وارفتگی اور سپردگی، نغمگی اور دل نشینی زیادہ ہے۔ چکبست کا اثر موتی لال نہرو اور گاندھی میں بھی ظاہر ہوتا ہے مگر اس کے بعد ملّا اس سے آگے نکل جاتے ہیں۔ چکبست کی سیرت نگاری کے بجائے ملا کی نظموں میں تفکر اور ایک بڑے نصب العین کی گرمی ہے یہی وجہ ہے کہ قومی شاعر کی حیثیت سے ملّاؔ کا درجہ چکبست سے بڑھ جاتا ہے۔
بیسوا، روح اضطراب، شاعر، انقلاب زندہ باد، جام حیات، اقبال کے اثر کی یاد گار ہیں ملاؔ پر اقبالؔ کے فکر و فن دونوں کا گہرا اثر ہے۔ لکھنؤ کے شعراء میں اقبال کے رنگ کو صرف ملّا نے جذب کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملّا لکھنوی ہوتے ہوئے مقامی شاعر نہیں ہیں۔ اقبالؔ کی شاعری فن کے بجائے زندگی کے حسن اور روح انسانی کے سربستہ رازوں کی پرستار ہے۔ اقبال ؔ کے یہاں شاعر قوم کی سیاسی، مضطرب، غیر مطمئن اور بیدار روح ہے جو انسانیت کے بلند مینار کی طرف نگراں ہے اور خوب سے خوب تر کی جستجو کرتی رہتی ہے اور اسی وجہ سے ہماری موت کی سی بے حسی، غلامی اور رسم و رواج کی اسیری سے بیزار ہے۔ ملّانے یہاں مذہب، وطن اور قومیت کے محدود اور جا رہانہ تصور پر بے دھڑک وار کئے ہیں۔ ان کی انسان پرستی، قوم و مذہب کے محدود تصور سے اتنی بیزار ہے کہ اقبال سے بھی مایوس ہو جاتی ہے اس اجمال کی کچھ تفصیل ضروری ہے۔
اقبالؔ کے یہاں وطنیت سے مذہب کی طرف جو میلان ملتا ہے وہ قومی نقطۂ نظر سے بڑا مایوس کن ہے۔ اقبال کی وطنی شاعری میں بڑی دل کشی تھی۔ بڑا جوش اور جذبہ تھا، مگر یورپ کے قیام نے انھیں قومیت کے تصور سے نکلنا سکھایا، انھیں بین الاقوامیت اور انسانیت کا پرستار بنایا۔ اقبالؔ کے نزدیک آفاقیت سب سے بڑا نصب العین بن گئی، مگر اس آفاقیت کے لئے انھوں نے جو خط و خال لیے وہ مذہب سے لئے۔ اقبال ؔ کے لئے مذہب کے ظاہری رسوم سے زیادہ اس کی اخلاقی تعلیم اہم ہے مگر اس میں شک نہیں کہ اقبال کی مذہبی اصطلاحوں، ان کی مذہبی زبان اور ایک مذہبی تہذیب و تمدن سے وابستگی اس آفاقیت کو مجروح بھی کرتی ہے۔ ہندوستان کی قومی تحریک کے دوش بدوش یہاں ایک تحریک مسلمانوں کے مذہبی احیاء کی بھی چل رہی تھی، ملّاجیسے انسانیت پرست جو مندر و مسجد دونوں سے بیزار ہیں اور انسان کی خدائی پر ایمان رکھتے ہیں اقبالؔ کی اس آفاقیت کو جب مذہبیت اور مذہبی تحریکوں میں گھرا ہوا دیکھتے ہیں تو وہ اقبال سے ہی بیزار ہو جاتے ہیں، حالانکہ اقبالؔ اور ملاؔ دونوں میں انسان دوستی، جدید ذہن اور سماجی شعور ملتا ہے۔ ملاؔ جو شروع میں اقبالؔ کی طرح وطن کے پجاری تھے جب موجودہ دور میں وطنیت کے نام پر ہنگامے اور کشت و خون دیکھتے ہیں تو آزادی کی دیوی، جس کے جلوؤں کے لئے انھوں نے کتنی ہی راتیں تارے گن گن کر گزاری تھیں، اپنی معصومیت کھو بیٹھتی ہے۔ وہ اس آزادی کا خیر مقدم کرتے ہیں مگر خوش نہیں ہیں ؎
آہ! نادان پتنگوں کی تباہی کے لئے
کتنی ہنستی ہوئی شمعوں کے پیام آئے ہیں
کتنے ظلمات کے پالے ہوئے سایے شب رنگ
بن کے اک طور سرِ منظر عام آئے ہیں
ابنِ آدم کے لئے جبر کے کتنے نئے دور
لے کے انساں کی مساوات کا نام آئے ہیں
ہاں سمجھتا ہوں بلندی میں نہاں ہے جو نشیب
پھر بھی کھاتا ہوں میں آج اپنی تمنا کا فریب
ایک سجدے کو شنا سائے جبیں اور کروں
دل کا اصرار ہے اک بار یقیں اور کروں
۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۸ء میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد ملک میں نفرت اور خوف کی جو آندھی چل رہی تھی اور جس نے لاکھوں مردوں اور عورتوں کے جسم اور روح سے زندگی اور شادابی چھین لی تھی۔ اس نے ہندوستان کے ہر مہذب اور سچے انسان کی روح کو صدمہ پہنچایا، اس نے تھوڑی دیر کے لئے انسانیت پر ہمارے یقین کو متزلزل کر دیا۔ آدمی اس طرح جانوروں کو شرما سکتا ہے ؟لوگ اس طرح عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں سے بے رحمی اور بربریت برت سکتے ہیں ملّاؔ کے درد مند دل نے بھی ہمارے اس داغ کو محسوس کیا اور وہ پکار اٹھے ؎
غارت و قتل کی ہے گرمیِ بازار وہی
ابھی انسان کی ہے فطرت خونخوار وہی
سب سے قانون بڑا آج بھی قانونِ قصاص
سب میں مضبوط دلیل آج بھی تلوار وہی
ایک سے ایک سوا، کون کہے کس کو کہے
اہلِ تسبیح وہی، صاحبِ زنّار وہی
کس کو مظلوم کہیں، کس کو ستمگار کہیں
آج مظلوم وہی، کل ہے ستمگار وہی
وطن اے میرے وطن! یوں مجھے مایوس نہ کر
شبھ گھڑی آئی ہے تیری اسے منحوس نہ کر
۱۹۴۷ء کے فسادات سے جب تعصب اور نفرت کا پیٹ نہ بھرا تو اس نے اس دور کے سب سے بڑے انسان اور آزادی کے رہنما کا خون بہانے میں بھی پس و پیش نہ کیا۔ مہاتما گاندھی کا قتل ایک شرمناک حادثہ ہے جس پر ہمارے وطن کی روح ہمیشہ ہمیشہ محجوب رہے گی۔ جو قوم و ملک کے لئے سب لٹا سکتا ہے اور ہمیں اتنا کچھ دے سکتا ہے، اس کے ساتھ یہ سلوک بھی روا ہو سکتا ہے اردو کے کئی شاعروں نے گاندھی جی کے قتل پر نظمیں لکھیں۔ ان میں روشؔ ، وامقؔ ، اقبال سہیلؔ ، نشورؔ واحدی اور مظہرؔ جمیل کی نظمیں قابل ذکر ہیں۔ ان میں وامق ؔ اور ملّاؔ کی نظمیں صرف مہاتما گاندھی کی شخصیت کی عکاسی نہیں کرتیں بلکہ ان کے پیام کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔ وامقؔ کی نظر عوامی اپیل زیادہ ہے مگر ملّا کی نظم ایک ادب پارہ ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ گاندھی جی کے چیلے نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی اخلاقی تعلیم اور انسان دوستی کے بڑے فدائی ہیں دو بند ملاحظہ ہوں ؎
سینے میں جو دے کانٹوں کو بھی جا اس گل کی لطافت کیا کہیے
جو زہر پیے امرت کر کے اس لب کی حلاوت کیا کہیے
جس سانس سے دنیا جاں پائے اس سانس کی نکہت کیا کہیے
جس موت پہ ہستی ناز کرے، اس موت کی عظمت کیا کہیے
یہ موت نہ تھی قدرت نے ترے سر پر رکھا اک تاجِ حیات
تھی زیست تری معراجِ وفا اور موت تری معراجِ حیات
پستیِسیاست کو تو نے اپنے قامت سے رفعت دی
ایماں کی تنگ خیالی کو انساں کے غم کی وسعت دی
ہر سانس سے درسِ امن دیا، ہر جبر پہ دادِ الفت دی
قاتل کو بھی گو لب ہل نہ سکے آنکھوں سے دعائے رحمت دی
’’ہنسا‘‘ کو ’’اہنسا‘‘ کا اپنی پیغام سنانے آیا تھا
نفرت کی ماری دنیا میں اک ’’پریم سندیسہ‘‘ لایا تھا
ملا چونکہ ہماری تہذیب کی تمام اچھی قدروں کی نمایندگی کرتے ہیں اس لئے ان شخصیتوں کی انھوں نے خاص طور پر تصویر کشی کی ہے جو ہندوستان کی ساری تاریخ اور جدید رجحانات کا سار ارنگ اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔ مسز سروجنی نائڈو ہماری محفل کی ایک روشن شمع اور ہمارے گلستاں کا ایک سدا بہار پھول تھیں۔ ہماری سیاست اور ادب پر ان کے گہرے نقوش ہیں مگر ہماری تہذیب پر ان کی شخصیت کا لازوال اثر ہے۔ آنند نرائن ملّانے سروجنی نائڈو پر اپنی نظم میں ان کی ساری تہذیبی صفات کو بڑی خوبی سے اجاگر کیا ہے ؎
خزاں کی فصل میں بھی نکہتِ بہار رہی
وطن کے دور جنوں میں بھی ہوشیار رہی
خروشِ بزم میں بھی تو ترانہ بار رہی
جہنموں میں نسیمِ عدن سلام تجھے
غرورِ قومیت و دیں کے کوہساروں میں
نفاقِ نسل و تمدن کے ریگزاروں میں
الگ الگ سے حیاتِ جہاں کے دہاروں میں
ترانۂ دلِ گنگ و جمن سلام تجھے
ملّا اگر چہ اپنے وطن اور قوم سے محبت کرتے ہیں مگر وہ وطن کو قدرِ اعلیٰ نہیں مانتے، نہ وہ قوم کے بت کے اندھے پجاری ہیں، ان کی نظموں اور غزلوں میں انسان کی پرستش کا ترانہ ہے۔ اس لحاظ سے ان کا کلام صحیفۂ انسانیت کہا جا سکتا ہے۔ وہ اگر چہ خیر و شر، نور و ظلمت، تہذیب و جہالت کی کشمکش کو معمولی نہیں جانتے اور نہ انسان کے اندر خوابیدہ حیوانیت سے چشم پوشی کرتے ہیں، مگر ارتقاء اور انسانیت پر ان کا ایمان مستحکم ہے۔ ارتقاء میں فرماتے ہیں۔
دیر تک رہتی نہیں اک جام میں صہبائے زیست
اس میں وہ تندی ہے پیمانے پگھلتے ہی رہے
تیرگی بڑھ بڑھ کے تاروں کو بجھاتی ہی رہی
تیرگی کو چیر کر تارے نکلتے ہی رہے
ارتقاء کی راہ میں رکنا ہی ہے انساں کی موت
ہیں وہی زندہ جو اس رستے پہ چلتے ہی رہے
یعنی ملّاؔ کا دل اپنی جگہ پر ہے اور ان کے ذہن نے انھیں دھوکا نہیں دیا۔ بیسویں صدی کو مختلف ناموں سے یاد کیا گیا۔ یہ حیات کی پیچیدگی کا دور ہے۔ یہ آزادی کی جد و جہد اور اس کے حقیقی مفہوم کی تلاش کا نام ہے۔ یہ شک اور یقین کی دھوپ چھاؤں ہے۔ یہ مشین کی حکومت اور انسان کے بدلتے ہوئے ذہن کی داستان ہے۔ یہ امن کے خوابوں اور جنگ کے بادلوں کی کہانی ہے، یہ اژدہے کے دانت بونے اور خونریزی کی فصل کاٹنے کی بھول بھلیاں ہے۔ ان سب باتوں میں حقیقت کی جھلک ہے مگر یہ ساری حقیقت نہیں ہے۔ سائنس دانوں نے حقیقت کے راز تک پہنچنے کی بڑی کوشش کی ہے۔ وہ عالمِ فطرت، حیات اور انسانی شخصیت کے متعلق بہت کچھ علم حاصل کر چکے ہیں مگر یہ علم ابھی مکمل نہیں ہے، ابھی انسان نیم حکیم ہے اور نیم حکیم خطرہ بھی ہوتا ہے۔ موجودہ پیچیدگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان نے طبیعاتی علوم میں بڑی ترقی کی ہے مگر اجتماعی علوم میں ترقی نہیں کی۔ اجتماعی علوم کی ترقی کے بغیر انسان جو ہری بم تو گرا سکتا ہے، مگر اسے امن انسانی کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ وہ بجلی کیا تھاہ طاقت پیدا کر سکتا ہے، اسے انسانیت کے چراغاں کے لئے کام میں نہیں لا سکتا۔ سائنس ترقی کی طرف مائل کرتی ہے، مگر ادب ترقی کے لئے جذبہ پیدا کرتا ہے اور ترقی کے نصب العین کو ’’نوائے سینہ تاب‘‘ بناتا ہے اس لئے جدید شاعر کا فرض اور بھی اہم ہو جاتا۔ اسی لئے اس کے لئے ضرورت ہے کہ وہ نور و نغمہ کی دنیا کو چھوڑ کر اس سر زمین اور اس کے مسائل سے اپنا رشتہ مضبوط کرے اور یہاں نور و نغمہ کی جنت بنائے۔ ترقی پسند شاعری کا یہی نصب العین ہے اور اس نے پچھلے پندرہ سال میں اس کی طرف اردو ادب کی رہنمائی بھی کی ہے۔
کیا ملّاؔ کو ترقی پسند کہا جا سکتا ہے ؟ میرا جواب اثبات میں ہے۔ ترقی پسندی، سماجی شعور زندگی کی اہم اور زندہ قدروں کے احساس، انسانیت کے پرچار، تہذیب اور علم کی دولت کو عام کرنے، ہر فرد کو آزاد کرنے اور آزاد افراد کا ایک ایسا سماجی نظام قائم کرنے کا نام ہے جو طبقات کی تفریق کو مٹا دے اور ذہنی اور مادی وسائل سے سب کو فائدہ اٹھانے کا موقع دے۔ ملّانے ’’میری شاعری‘‘، ’’ جادہ امن‘‘ اور دوسری نظموں میں ترقی، آزادی، انسانیت کی جنت کے گیت گائے ہیں۔ ان کی آخری نظم جادہ امن میں، ہندوستان کو امن کی دعوت دی گئی ہے۔ امن کی پکار انسانیت کی روح کی پکار ہے، اس میں ملا ؔ چند خطرات کا ذکر کرتے ہیں ؎
بدل بدل کے رنگ ابھر رہا ہے فتنہ جہاں
فن و ادب کو بھی پنہائی جا رہی ہیں وردیاں
گرج رہی ہیں بدلیاں، کڑک رہی ہیں بجلیاں
اِدھر سیاہ آندھیاں، اُدھر ہیں سرخ آندھیاں
ان آندھیوں کے درمیاں ہی درمیاں بڑھے چلو
علم کیے شہیدِ قوم کا نشاں بڑھے چلو
ملّا یہاں ایک بین بین راستے پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں، ان کی امن پسندی تو مسلّم ہے مگر انھوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ جن سرخ آندھیوں کا انھوں نے ذکر کیا ہے وہ در اصل امریکہ کے اعصابی سرمایہ داروں کے ذہن کی پیداوار ہیں۔ جس ملک نے ابھی پچھلی جنگ عظیم میں اتنے گہرے زخم کھائے ہوں کہ اس کا بچ نکلنا تاریخ عالم کے ایک معجزے سے کم نہ ہو، وہاں کے عوام کسی طرح بھی ایک اور مہلک اور انسانیت سوز جنگ کے لئے تیار نہیں ہو سکتے۔ پچھلی لڑائی میں سب سے زیادہ محفوظ رہا اور آج وہیں سے ’’سرخ آندھیوں ‘‘ کا یہ غبار اُڑایا جا رہا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان کے جھگڑوں سے الگ رہنا تو بہت اچھا ہے مگر موجودہ زمانے میں جب ساری دنیا ایک ہو گئی ہے تو یہ ممکن بھی ہے ؟ اس لئے میرے نزدیک تمام مخلص اور دردمند انسانوں کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ جنگ کو ہر حال میں روکنے کی کوشش کریں اور امن پسند قوتوں کو وہ جہاں بھی ہوں مدد پہنچائیں میرا خیال یہ ہے کہ روسؔ ایک امن پسند طاقت ہے وہ جنگ نہیں چاہتا، یہ دوسری بات ہے کہ مصیبت کے وقت حفاظت کے لئے ہر کوئی تیار ہو جاتا ہے۔
ملّاؔ کی شاعری کا کوئی تذکرہ اس وقت تک مکمل نہ ہو گا جب تک ان کی طویل نظم ’’ٹھنڈی کافی‘‘ کا نام نہ لیا جائے۔ اس نظم میں ہمیں محبت کی وہ فضا ملتی ہے جو اس دنیا کی ہوتے ہوئے بھی آسمانوں کی ہمراز ہے۔ اس کا فطری بہاؤ اور ارتقاء، اس کی موزوں و متناسب تصویریں، اس کے نفسیاتی لہجے اور شوخ اشارے، اسے کامیاب محبت کا ایک دلکش ڈراما بنا دیتے ہیں۔ اس نظم کی فضا میں دو کردار ابھرتے ہیں اور دونوں جادو کے کرشمے نہیں اسی دنیا کے انسان ہیں جو مل بیٹھتے ہیں تو دنیا کچھ اور حسین اور گوارا ہو جاتی ہے جو ذہنی پرچھائیاں نہیں گوشت پوست کے انسان ہیں یہ نظم جدید بھی ہے اور لذیذ بھی۔
ملّا ان شاعروں میں سے ہیں جو نظم اور غزل دونوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں، ان کے سخن کی دولت نذرِ خوباں بھی ہے اور نذرِ دوراں بھی۔ ان کی غزلوں میں ایک تازگی، تفکر اور جذب و لطافت ملتی ہے۔ اس کا نشہ بعض شعرا کی رندی، زندہ دلی اور رومانیت کے مقابلے میں کچھ مدھم معلوم ہوتا ہے مگر در حقیقت اس کی نرمی، دل آسائی، قوت شفا، بڑی خاصے کی چیز ہے۔ لکھنؤ کے اکثر شعراء کی غزلیں اپنے رچے ہوئے انداز بیاں اور چست و درست زبان کے باوجود پرانی معلوم ہوتی ہیں، ان کی فضا پرانی ہے، ان کی دنیا ہماری آج کل کی دنیا سے خاصی مختلف ہے، ان کی زبان میں انوکھا پن نہیں ہے جو ارسطوؔ کے نزدیک اعلیٰ شاعری میں ضروری ہے جو انوکھے، منفرد یا تازہ احساس سے آتا ہے، پھر یہ غزلیں ایک ایسا کیف و اثر پیدا کرتی ہیں جو الفاظ کا عشق سکھاتا ہے انسانوں کا عشق نہیں۔ فن کو سیکھنے کے لئے لکھنؤ اسکول کی غزلیں سب سے زیادہ مفید ہیں مگر زندگی کو سمجھے کے لیے نہیں، حسرتؔ ، فانیؔ ، اصغرؔ ، جگرؔ ، فراقؔ کی غزلوں میں تازگی ملتی ہے۔ حسرت کی دنیا ہماری مانوس دنیا کے ایسے حسن کو پیش کرتی ہے جس سے ہم اب تک بے خبر تھے۔ فانیؔ قدیم غزل سے اتنے قریب ہوتے ہوئے بھی، اپنی یاسیت کے اعتبار سے بالکل مختلف اور منفرد ہیں۔ ایسی بھرپور اور گہری یاسیت بیسویں صدی کے احساسِ شکست سے ہی پیدا ہو سکتی تھی۔ اصغرؔ کا تصوف اگر غالبؔ اور مومنؔ کے تغزل سے رموز نہ لیتا تو اس میں یہ لطافت اور تاثیر نہ آتی، جگرؔ کی سرمستی اور رندی، عشق کو عبادت بناتی ہے اور عشق کی عظمت کی یادگار ہے۔ فراقؔ کی دنیا میں نفسیات کی گہرائیاں ہماری غزل کے لئے نئی ہیں۔ ملّا اس برادری میں ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ غزل کو بہت سے عاشق ملے مگر ملّا انسانیت کے عاشق ہیں۔ انھیں بشر اپنی ساری پستیوں اور عظمتوں کے ساتھ عزیز ہے۔ ایک معنی میں ملّا بھی رومانی ہیں۔ وہ ایک خواب سے محبت رکھتے ہیں۔ مگر غزل خوابوں کی داستان نہیں تو کیا ہے۔ ملّاؔ کا کمال یہ ہے کہ خوابوں سے اس قدر عشق کے باوجود وہ حقائق کا احساس رکھتے ہیں اور اپنے گرد و پیش کی فضا کو نظر انداز نہیں کر سکتے ؎
ملّا یہ اپنا مسلک فن ہے کہ رنگ فکر
کچھ دیں فضائے دہر کو کچھ لیں فضا سے ہم
غزل بڑی کا فر صنف سخن ہے۔ یہ پیمبروں اور مصلحوں کے لئے نہیں، عاشقوں کے لئے ہے اور اس میں اگر آدمی زخم خوردہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ غزل پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ سب بجا اور درست مگر کتاب دل کی تفسیر اور خواب جوانی کی تعبیر کی حیثیت سے اس کا جواز ہے اور رہے گا۔ ملا کی جوانی دیوانی تو نہیں، مگر رنگین ضرور ہے، ان کے عشق میں وہ چمک دمک اور سپردگی تو نہیں جو جوشؔ اور جگرؔ کی یاد دلاتی ہے مگر گداز اور تاثیر قدم قدم پر ہے۔ ملّاؔ کا عشق سنبھلا ہوا اور مہذب عشق ہے مگر اس کی صداقت اور دل گدازی میں کلام نہیں۔ ملّا کو بۂ عاشق کی بے باکی نہیں آتی، وہ نگاہوں کی زبان کو سمجھتے ہیں اور اس کے ترجمان بھی ہیں ان کے یہاں نفسیات انسانی کا علم بھی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کا اثر دیر میں ہوتا ہے مگر دیر پا رہتا ہے۔ ملاؔ کی شخصیت کے گرد چونکہ اس قسم کا کوئی ہالہ نہیں ہے جو آج کل بہت سے شاعروں نے رندی یا نعروں سے پیدا کر لیا ہے اور نہ انھوں نے کسی سستے نشے کی دوکان لگائی ہے، وہ چونکہ کسی حلقہ یا برادری سے بھی وابستہ نہیں ہیں، اس لئے عام طور پر لوگوں نے ان سے بے اعتنائی کی ہے۔ حالیؔ کی طرح اگرچہ ان کا مال نایاب ہے مگر گاہک اکثر بے خبر ہیں۔ انھوں نے کسی مشہور لیبل کی آڑ نہیں لی۔ وہ شاعری کی محفل میں کوئی پیترا یا ڈھول لے کر نہیں اترے۔ میں اس بات کو ان کی سلامتی طبع کی بہت بڑی دلیل سمجھتا ہوں۔ ان کی ایک نمائندہ غزل اور چند منتخب اشعار سے میرے اس دعویٰ کی تصدیق ہو جائے گی ؎
بشر کو مشعلِ ایماں سے آگہی نہ ملی
دھواں وہ تھا کہ نگاہوں کو روشنی نہ ملی
خوشی کی معرفت اور غم کی آگہی نہ ملی
جسے جہاں میں محبت کی زندگی نہ ملی
یہ کہہ کے آخرِ شب شمع ہو گئی خاموش
کسی کی زندگی لینے سے زندگی نہ ملی
لبوں پہ پھیل گئی آ کے موجِ غم اکثر
بچھڑ کے تجھ سے ہنسی کی طرح ہنسی نہ ملی
ثبات پا نہ سکے گا کوئی نظامِ چمن
فسردہ غنچوں کو جس میں شگفتگی نہ ملی
فلک کے تاروں سے کیا دور ہو گی ظلمتِ شب
جب اپنے گھر کے چراغوں سے روشنی نہ ملی
ابھی شباب ہے کر لوں خطائیں جی بھر کے
پھر اس مقام پہ عمرِ رواں ملی نہ ملی
وہ قافلے کہ فلک جن کے پاؤں کا تھا غبار
رہِ حیات سے بھٹکے تو گرد بھی نہ ملی
وہ تیرہ بخت حقیقت میں ہے جسے ملاؔ
کسی نگاہ کے سایے کی چاندنی نہ ملی
مہر وہ ہے خاک کے ذرّے جو کر دے زرنگار
اونچی اونچی چوٹیوں پر نور برسانے سے کیا
سختیِ زیست عشق سے دور نہ ہو سکی مگر
پھول تو کچھ کھلا دئے دامنِ کوہسار میں
ساقیا جب مے ہر میکش کی قسمت میں نہیں
سب کو اس محفل میں پیمانے عطا کیوں ہو گئے
شبِ غم میں بھی اے تصوّر دوست
زندگی کا مزا دیا تو نے
آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے ماضی کی یاد گار
گزرا تھا اس مقام سے اک کارواں کبھی
نظر جس کی طرف کر کے نگاہیں پھیر لیتے ہو
قیامت تک پھر اس دل کی پریشانی نہیں جاتی
بس تو یہ بھی نہیں اک پھول قفس میں رکھ لیں
اور نگاہوں میں گلستاں کا گلستاں ہونا
مے کشوں نے پی کے توڑے جامِ مے
ہائے وہ ساغر جو رکھے رہ گئے
کسی کی زندگی کا رنج ہی حاصل نہ بن جائے
غم اچھا ہے مگر جب تک مزاجِ دل نہ بن جائے
ترے دل پہ حق ہے جہاں کا بھی یہ فرارِ عشق روا نہیں
غمِ دوست خوب ہے جب تلک غمِ زندگی کو بھلا نہ دے
یہ خزاں بدوش سموم تو ہے گلوں کے ظرف کا امتحاں
وہی گل ہے گل جو فسردہ ہو تو فسردگی بھی بہار دے
نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے
تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا
خروشِ بزم میں بھی ساز دل چھیڑے ہی جاتا ہوں
اکیلا ہوں ابھی لیکن مجھی کو کارواں سمجھو
کبھی تیغ و قلم سے بھی مٹے ہیں تفرقے دل کے
مٹانا ہیں تو پہلے رکھ کے ساغر درمیاں سمجھو
اظہارِ درد دل کا تھا اک نام شاعری
یارانِ بے خبر نے اسے فن بنا دیا
خونِ دل ضائع نہ ہو مجھ کو بس اتنی فکر ہے
اپنے کام آیا تو کیا غیروں کے کام آیا تو کیا
بس ایک پھول نمایاں ہے دل کے داغوں میں
یہاں رکی تھی تری چشمِ التفات کبھی
وہ کون ہیں جنھیں توبہ کی مل گئی فرصت
ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے
جمالِ حسن میں تھا اک جلالِ عفت بھی
گناہ گار خیالِ گناہ کر نہ سکے
ہاں تم نے اعترافِ محبت نہیں کیا
نیچی کئے ہوئے ہیں نظر کیا حیا سے ہم
اردو شاعری نے ہماری تہذیب و تمدن کو جس طرح نکھارا اور سنوارا ہے اور اس میں جو انسانی اور عالمی قدریں پید اکی ہیں اس کا اعتراف آج کل کی ہیجانی فضا میں مشکل ہے، ہندوستان کی تقسیم کے بعد ملک میں تنگ نظری اور ماضی پرستی کی اتنی گرم بازاری ہے کہ ہندوستان کو امن و اخوت کی ایک جنت بنانے میں اردو کے ادیبوں اور شاعروں کی کوششیں اتنی مقبول نہیں ہیں جتنی ہونی چاہئیں لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان مساعی کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے۔ اردو کے افسانہ نگاروں، شاعروں اور نقادوں نے سخت آندھیوں میں تہذیب کی شمع روشن رکھی ہے۔ اس اجالے میں ملّاؔ کی اپنی روشنی بھی کم نہیں اور اس لئے ان کا یہ فخر بالکل بجا ہے ؎
خزاں کے تند جھونکوں میں بھی خوابِ رنگ و بو دیکھا
جہنم میں بھی جس نے گل کھلائے ہیں وہ جنت ہوں
ملّاؔ کی پاکیزہ اور مہذب شخصیت، ان کی وضعداری اور ہماری تہذیبی روایات کی صحیح آئینہ داری ان کی وطنیّت کا وہ تصور جو بین الاقوامیت کے لئے پہلی اینٹ کا کام دیتا ہے اور آراؔگوں کے نزدیک صحیح بین الاقوامیت ہے ان کا عوام کے دکھ درد کو اپنانا اور تسبیح و زنّار سے بلند ہو کر دیکھنا، ان کا تازہ ہواؤں اور نئی فضاؤں کے لئے دل و دماغ کے دریچوں کو کھلا رکھنا، انسانیت سے یہ شدید، گہرا اور پر جوش عشق، موجودہ دور میں جبکہ زندگی کی سختیوں اور تلخیوں نے اچھے اچھوں کے حواس باختہ کر دئے ہیں ہمارے لئے ایک روشنی کا مینار ہے، ان کے مزاج کی نرمی، ان کے واضح نصب العین اور پختہ شعور کے ساتھ مل کر ہمارے ادب کا ایک نشان راہ بن جاتی ہے۔ ان کے کلام میں ہمیں بیسویں صدی کی زندگی کے سارے موڑ نظر آتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب کے تمام صالح عناصر بھی۔ نیازؔ نے ان کی نظموں میں تغزل کی تعریف کی ہے۔ ان کی نظر ان کی نظموں کے تعمیری حسن، تناسب اور گہرے سماجی شعور پر نہیں گئی۔ غزل کی صف میں جب عشاق کا ذکر آئے گا تو انسانیت کے اس عاشق کو کوئی فراموش نہ کر سکے گا، اور آج جب بعض حلقوں میں اردو کو اس کے دیس میں بدیسی کہا جا رہا ہے ملّاؔ کا یہ شعر ایک خاموش تازیانہ بن کر زندہ رہے گا ؎
لبِ مادر نے ملّا لوریاں جس میں سنائی تھیں
وہ دن آیا ہے اب اس کو بھی غیروں کی زباں سمجھو
(آنند نرائن ملّا کے شعری مجموعے جوئے شیر کا دیباچہ)
٭٭٭
کتاب ’آنند نرائن ملاؔ : حیات اور فن‘ : مرتبہ: عزیز نبیؔل، آصف اعظمی کا ایک حصہ
تشکر: عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید