FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

نہ یہ بستی ہماری نہ وہ صحرا ہمارا

 

 

                عالم خورشید

 

 

 

انتساب

 

پروفیسر ابو الکلام قاسمی

مہتاب حیدر نقوی

اور ابھے کمار بیباک

کے نام

 

 

 

مصنف کے دیگر مطبوعہ شعری مجموعے

نئے موسم کی تلاش

زہرِ گل

خیال آباد

ایک دریا خواب میں (ہندی)

کارِ زیاں

 

 

 

اظہار تشکر

 

میں نے کارِ زیاں کی اشاعت کے بعد ادبی فضاسے بیزار ہو کر شعر گوئی اور اشاعت کا سلسلہ تقریباً ترک کر دیا تھا۔

اس مجموعے کی اشاعت ہرگز ممکن نہیں تھی اگر میرے کچھ دوست مجھے اکسا اکسا کر شعر گوئی کی طرف مائل نہ کرتے۔

میں انور شمیم (بھارت)، خالد ملک ساحل (جرمنی)، فاخرہ بتول (پاکستان) اور شبنم اقبال (پاکستان) کا بے حد ممنون ہوں جن کی محبتوں کے طفیل شعر گوئی سے میرا رشتہ دوبارہ استوارہوا۔

میں نسیم سید (کنیڈا) کا بھی بے حد شکر گزار ہوں جنہوں نے مجموعے کے لئے میری شاعری کے حوالے سے اپنی محبتوں کا اظہار کیا۔

عالم خورشید

 

 

 

میں اور میری شاعری

 

قدرت نے ہر شخص کو جسمانی اور ذہنی دونوں اعتبار سے انفرادیت بخشی ہے جو اسے دوسرے سے الگ کرتی ہے۔ مگر وہ جس سماج میں رہتا ہے اس کے قوانین کے تحت زندگی گزارنے کی کوشش میں اس کی فکر اور اظہار کی انفرادیت غیر شعوری طور پر اس سانچے میں ڈھل جاتی ہے جو معاشرے کی اقدار کے تحت بنائے جاتے ہیں۔ کچھ سر پھرے ایسے ہوتے ہیں جو اپنے احساس کی شدت اور افتاد طبع کی بنا پر اس روش سے انحراف کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں فرد اور سماج کے تضاد کا یہ کرب اپنے اظہار کے لئے فنونِ لطیفہ کی کسی شاخ سے جڑ کر آرٹ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔

ادب کو سماج کا آئینہ کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ حالات کے بطن سے پیدا ہوتا ہے۔ سنہ ۱۹۴۷ء کے قبل ہماری سب سے بڑی ضرورت ملک کی آزادی تھی۔ اس آزادی کو حاصل کرنے کے لئے عوامی بیداری، اجتماعی شعور اور جوش و ولولہ کا پیدا ہونا فطری تھا۔ لہٰذا اس وقت کی شاعری میں عام طور پر بلند آہنگی اور خطابت کا انداز نمایاں ہے۔ مگر آزادی کے بعد حالات بدل گئے۔ تقسیمِ ملک فسادات، ہجرت اور خوف و دہشت کی فضا نے امن و آشتی کے ان خوابوں کو چکنا چور کر دیا جو آزادی سے وابستہ تھے۔ اس کے نتیجے میں خوف و تشکیک، انتشار و فرار اور مایوسی کا وہ دھندلکا چھایا جس میں مستقبل کی روشنی بھی معدوم ہو گئی۔ ان حالات میں اعتماد پر ضرب پڑی اور سماج سے کٹ کر فرد اپنی ذات کے دائرے میں سمٹنے پر مجبور ہو گیا۔شاعری بھی سماجی محور کو چھوڑ کر ذاتی محور پر رقص کرنے لگی۔ رفتہ رفتہ جوش و ولولہ کی جگہ مایوسی، خطابیہ انداز کے بدلے خود کلامی اور اجتماعیت کی جگہ انفرادیت کے عناصر ہماری شاعری کے ایوانوں میں داخل ہونے لبے۔ لہجہ بھی بلند آہنگ کی جگہ نرم اور مدھم ہو گیا۔ یہ صورت حال بھی برسوں قائم رہی لیکن وقت کا پہیہ اپنے محور پر لگاتار گردش کرتا رہا۔ ہندستان پاکستان کی جنگیں، بنگلہ دیش کا قیام، حکومتوں کی تبدیلی، بابری مسجد کا انہدام، سیاسی اتھل پتھل، اقتصادی پالیسی میں تبدیلی، سائنس اور الکٹرانک میڈیا کی ترقی، احیا پرستی، گلوبلائزیشن،ملٹی نیشنل کلچر،صارفیت وغیرہ کے غلبے نے آج کی زندگی اور زندگی کے نظام میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔ فن کار چوں کہ معاشرے کا سب سے حساس رکن ہوتا ہے اس لئے وہ ہر تبدیلی سے فورا متاثر ہوتا ہے یہی سبب ہے کہ حالات کی اس تبدیلی نے ہمارے شعر و ادب کو بھی فطری طور پر متاثر کیا ہے۔

میں نے اس قسم کی تبدیلیوں کی لہر اپنے شعری سفر کے اوائل ہی میں محسوس کر لی تھی اسی لئے اپنے پہلے مجموعہ کلام(نئے موسم کی تلاش ) سنہ ۱۹۸۸ ء میں پیش لفظ کے تحت میں نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا تھا :

میں شعر و ادب میں کسی تحریک، رجحان یا نظریے کا قائل نہیں۔ نہ ادب کو مکتبی، صوبائی یا ملکی دائرے میں قید کرنے کے حق میں ہوں۔ کیونکہ ادب تخلیق کرنا کوئی فائل ورک نہیں کہ دس بجے سے پانچ بجے تک دفتر کی کرسی پر بیٹھ کر گھسے پٹے لائن آف ایکشن کے سہارے مکھی پر مکھی چپکانے کا کام کیا جائے۔ ادب تو آزاد ذہن کی آزاد اڑان ہے جس کا کینوس آفاقی ہوتا ہے۔ بدلتے ہوئے وقت اور زندگی کی رفتار کے ساتھ ادب کے رنگ روپ میں بھی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ ادب بہر حال وقت اور زندگی کا عکاس ہوتا ہے۔ فن کار بدلتے ہوئے وقت اور حالات کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر متاثر ضرور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سچا فن کار اپنی تخلیق میں حقائق کی ترجمانی کرتا ہے۔ میں بھی وقت اور حالات کی تبدیلیوں کا احترام کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ تبدیلیاں ادب کیلئے نئے دریچے وا کرتی ہیں اور ادب کے خط ہو خال کو نئے رنگ و روغن سے سنوارتی ہیں۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ یکسانیت خواہ وہ خوش گوار ہی کیوں نہ ہو رفتہ رفتہ بوریت کا باعث بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے تحت میں نے جو کچھ محسوس کیا اسے کسی مصلحت کے بغیر اور کسی ازم کو اپنی راہ میں حائل کئے بغیر آزادانہ طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

میرے اس پیش لفظ کے شائع ہوتے ہی ادبی دنیا میں بحث و مباحث ایک طویل سلسلہ قائم ہو گیا۔ نئی نسل کے شعرا کو یوں محسوس ہوا کہ گویا میں نے ان کے دل کی بات لکھ ڈالی ہو۔لہذا ہر گوشے سے اسی طرح کی گونج سنائی دینے لگی اور شعر و ادب کی فضا بدلنے لگی۔ مظہر امام نے پیش لفظ کے حوالے سے کتاب نما کے اگست ۱۹۸۹ کے شمارے میں ایک لہر آتی ہوئی کے عنوان سے اداریہ لکھ ڈالا۔ مہمان مدیر کی حیثیت سے لکھے گئے اس ادارئے میں انہوں نے اس بات کی نشاندہی کہ ترقی پسندوں اور جدیدیوں کے جوتم پیزار کا مشاہدہ کرنے کے بعد اب ایک نئی لہر سامنے آ رہی ہے جو اپنے پیش رو لہروں کے خس و خاشاک کو بہا لے جانا چاہتی ہے۔ ان کے اس ادارئے نے اس بحث میں اور شدت بھر دی۔مختلف رسائل میں مضامین اور خطوط کی شکل میں جدیدیت سے بیزاری کا اظہار کیا جانے لگا۔بہت سارے لوگوں نے اس کی حمایت کی تو بہت سارے لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی۔

اسی رجحان اور بدلتی فضا کو دھیان میں رکھ کر پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ۱۹۹۷ ء میں دہلی میں ایک سہ روزہ انٹرنیشنل سیمینار منعقد کیا جس میں بڑی تعداد میں نئے پرانے شاعر و ادیب کو جمع کیا گیا۔ اور اس لہر کو مابعد جدیدیت کے نام سے منسوب کر دیا گیا جس پر ہنوز بحث و مباحث کا سلسلہ جاری ہے۔

جب میں نے یہ اقتباس لکھا تھا تو میرا مقصد کسی رجحان یا تحریک کو رد کرنا قطعی نہیں تھا اور نہ ان کے تحت لکھے گئے ادب کو مردود قرار دینا تھا بلکہ جو نئے حالات اور مسائل میرے سامنے تھے انہیں تخلیقی سطح پر ادب میں پیش کرنا تھا۔ یہ فکری تبدیلی کسی تھیوری کو پڑھ کر میرے ذہن میں نہیں آئی تھی بلکہ فطری طور پر وقت اور حالات کی تبدیلی، معاشرے کے انتشار اور تہذیب کے بکھراؤ کی دین تھی۔ میں کسی تحریک یا رجحان کو رد کیسے کر سکتا ہوں جب میں یہ مانتا ہوں کہ تحریکیں حالات کے بطن سے جنم لیتی ہیں اور وقت کے ساتھ تبدیل بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ترقی پسندی اور جدیدیت بھی حالات کی پیداوار تھیں اور ان دونوں نے تحریکوں نے لسانی اور فکری سطح پر ادب کے خزانے میں بلا شبہ بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ ادب کے کینوس کو پھیلایا اور نئے رنگ بکھیرے ہیں۔ اب اگر ان کی تصویریں دھندلی نظر آ رہی ہیں تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ حالات اور مسائل کے پیش نظر ادب کے کینوس پر کچھ نئے رنگ اور شیڈس نظر آنے لگے ہیں۔ ادب کا ارتقائی سفر اسی طرح چلتا رہتا ہے اور ادب کا کینوس وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔التباس اس نقطے پر پیدا ہوتا ہے جہاں ہم کسی تحریک کو جامد شئے سمجھ لیتے ہیں، نئے رجحان کی آمد کو پرانے تحریک یا رجحان کی موت سمجھ لیتے ہیں یا پھر مختلف تحریکوں کو ایک دوسرے کی ضد سمجھ لیتے ہیں جبکہ تحریکیں نہ تو جامد ہوتی ہیں اور نہ ایک دوسرے کی ضد ہوتی ہیں۔ ہم غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ پرانی عمارتوں کی بنیاد پر ہی نئی عمارتوں کی بتدریج تعمیر ہوتی رہتی ہے اور تحریکیں ایک دوسرے کی ضد نہ ہو کر ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہوتی ہیں اور ہمیشہ تسلسل سے آگے بڑھتی رہتی ہیں۔

میں یہ بھی نہیں مانتا کہ کسی مخصوص نظرئے کے تحت ہی یا کسی خاص موضوع پر ہی اچھے یا بڑے ادب کی تخلیق ہو سکتی ہے۔ کسی بھی فن کار کی بہترین تخلیق اس کی انفرادی افتاد طبع، احساس اور ذاتی تجربے کے سر چشمے ہی سے پھوٹتی ہے۔ اس لئے اچھے یا بڑے ادب کی تخلیق کے لئے اہمیت نجی محسوسات، عمیق تجربات و مشاہدات اور منفرد اندازِ پیش کش کی ہے۔ موضوع چاہے کوئی بھی ہو،فن کار کے اندر تخلیقی صلاحیت جس حد تک ہو گی اسی حد تک اس کی تخلیق میں بھی جذب و کشش کی نمو اور متاثر کرنے کی قوت پیدا ہو گی۔ ادب تخلیق کرنے کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ فن کار کے اندرون میں کوئی موضوع فطری طور پر اترے، ہلچل پیدا کرے اور پریشان کرے۔

ایک قاری کی حیثیت سے جب میں اپنی شاعری کا جائزہ لیتا ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس میں ایک طرف اداسی، مایوسی اور محزونی کی کیفیات کا عکس دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف خوشی، جوش، ولولہ اور سرکشی کے تیور بھی موجود ہیں۔ فرد کی حیثیت سے کبھی اپنی ڈگر پر تنہا چلنے کا رجحان دکھائی دیتا ہے تو کہیں بھیڑ کے ساتھ علم اٹھانے عزم بھی جھلکتا ہے۔ زبان کہیں سادہ ہے تو کہیں پیچیدہ اور کلاسکل،لہجہ کہیں نرم ہے تو کہیں سخت، کہیں دھیما ہے تو کہیں بلند آہنگ، کہیں سرگوشی ہے تو کہیں چیخ، کہیں طنز کی تلخی اور کاٹ ہے تو کہیں محبت کی حلاوت بھی۔ مختصر یہ کہ میری شاعری میں ایک ساتھ کئی طرح کی آوازیں اور کیفیات گڈ مڈ دکھائی دیتی ہیں۔دراصل میری شاعری مختلف کرداروں کی شاعری ہے۔ میرے شعری کردار اپنے دکھ درد،خوشی غم یا اپنے محسوسات کا جس زبان میں اظہار کرتے ہیں، میں اسے شعر کے قالب میں ڈھال دیتا ہوں

میں نہیں جانتا کہ یہ میری شاعری کا وصف ہے یا عیب مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ تمام کیفیات انسان کے خمیر میں موجود ہیں اور آج کی زندگی پہلے کے مقابلے زیادہ رنگین، سنگین اور پیچیدہ ہو گئی ہے۔اقتدار کی حرص اور دولت کی ہوس نے ہماری ان قدروں، اصولوں، آدرشوں اور روحانیت کو کھوکھلا ثابت کر دیا ہے جو ساری دنیا میں ہمارا طرۂ امتیاز تھیں۔ اس پل پل رنگ بدلتی زندگی میں آج کا انسان قدم قدم پر مختلف قسم کے حالات سے دو چار ہوتا ہے اور ان حالات سے نمٹنے کے لئے اسے مختلف قسم کی کیفیات سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی وہ اداس ہوتا ہے تو کبھی خوش۔ کبھی مایوس ہو کر زندگی سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے تو کبھی لڑتا بھڑتا بھی ہے۔ کبھی وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر چیخنے چلانے لگتا ہے تو کبھی حالات کی تہہ میں اتر کر نرمی کا رویہ بھی اختیار کرتا ہے۔ ایک ہی شخص مختلف اوقات میں خون کے آنسو بھی روتا ہے فلک شگاف قہقہے بھی لگاتا ہے، فطرت کے مناظر سے حظ بھی اٹھاتا ہے اور بلائے ناگہانی کے عتاب سے خوفزدہ بھی رہتا ہے، محبوب کی زلفوں کے پیچ و خم بھی سلجھاتا ہے اور سیاست کی گتھیاں بھی۔ ادب کا تعلق چونکہ زندگی سے ہے اس لئے ان مختلف قسم کے حالات اور کیفیات کا اظہار فن پارے میں ہونا ناگزیر اور فطری ہے۔

مختلف حالات نے میرے ذہن و دل پر جو اثرات مرتب کئے اس کا فطری اظہار میری شاعری ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ میں اپنے احساسات کے اظہار میں کسی سکہ بند نظرئے کو رکاوٹ نہ بننے دوں بلکہ صرف حقائق اور سچائی کا دامن تھام کر آزادانہ طور پر جو محسوس کروں وہی لکھوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی فکر اور اس کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔ میرے لئے کبھی مسئلہ نہیں رہا کہ کس موضوع پر لکھنا چاہئے یا کس موضوع پر نہیں لکھنا چاہئے یا کس طرح لکھنا چاہئے کس طرح نہیں لکھنا چاہئے۔

میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں سیاست کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا ہے کہ ادیب و شاعر کسی گوشے میں پناہ گزیں ہو کر سیاسی مسئلوں گریز نہیں کر سکتے کیونکہ بہر حال ان کا رشتہ معاشرے سے ہے۔ فرد کی آواز کسی نہ کسی سطح پر معاشرے کی آواز بن جاتی ہے۔ مگر ادیب و شاعر اپنے آپ کو سیاست میں اس طرح ضم نہیں کر سکتے جس طرح سیاست داں کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ کسی سیاسی پارٹی سے جڑ جائیں تو وہ پارٹی کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کی حمایت پر بھی مجبور ہونگے۔ اس صورت حال میں شاعر یا ادیب کے لئے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ ایک دانشور بن کر سیاسی اور سماجی شعور بیدار رکھے اور اچھا برا جو بھی محسوس کرے اس کا اظہار کسی مصلحت سے پرے رہ کر آرٹ کی شکل میں کرتا رہے۔ میں نے اپنی صلاحیت کے مطابق ایماندارانہ طور پر یہی کوشش کی ہے۔

عالم خورشید

 

 

 

 

 

عمر سفر میں گزری لیکن شوقِ سیاحت باقی ہے

کوئی مسافت ختم ہوئی ہے،کوئی مسافت باقی ہے

 

ایسے بہت سے رستے ہیں جو روز پکارا کرتے ہیں

کئی منازل سر کرنے کی اب تک چاہت باقی ہے

 

کوئی ستارہ ہاتھ پکڑ کر دور کہیں لے جاتا ہے

روز خلا میں کھو جانے کی آج بھی عادت باقی ہے

 

دنیا کے غم فرصت دیں تو دل کے تقاضے پورے ہوں

کوچۂ جاناں ! تیری بھی تو سیر و سیاحت باقی ہے

ختم کہانی ہو جاتی تو نیند مجھے بھی آ جاتی

کوئی فسانہ بھول گیا ہوں، کوئی حکایت باقی ہے

 

چشمِ بصیرت !کچھ تو بتا دے کب وہ ساعت آئے گی

جس کی خاطر ان آنکھوں میں اتنی بصارت باقی ہے

 

شہرِ تمنّا ! باز آیا میں تیرے ناز اٹھانے سے

ایک شکایت دور کروں تو ایک شکایت باقی ہے

 

ایک ذرا سی عمر میں عالمؔ کہاں کہاں کی سیر کروں

جانے میرے حصّے میں اب کتنی مہلت باقی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کرتے ہیں دور ہی سے اشارے ہمارے خواب

شاید بدل رہے ہیں کنارے ہمارے خواب

 

ہر روز پوچھتی ہیں مرے گھر کی کھڑکیاں

اتریں گے کب زمیں پہ ستارے ہمارے خواب

 

بادل میں چاند ہے کبھی بادل ہیں چاند میں

کیا کیا دکھا رہے ہیں نظارے ہمارے خواب

 

مجرم تو ہم بھی ہیں کبھی ان کی خبر نہ لی

قیدی ہیں جن کے پاس تمہارے ہمارے خواب

 

شاید ہمارے خواب گروں کو خبر نہیں

بنتے ہی جا رہے ہیں شرارے ہمارے خواب

 

تعبیر کو گماں ہے شکستہ ہوئے ہیں ہم

اور سچ ہے ہم نہ ہارے، نہ ہارے ہمارے خواب

 

تپتے سفر میں سائے کی صورت ہر ایک پل

چلتے ہیں ساتھ آج بھی سارے ہمارے خواب

 

ممکن نہیں ہے ان سے گریزاں ہوں ہم کبھی

عالم! ہمیں ہیں جان سے پیارے ہمارے خواب

٭٭٭

 

 

 

 

مرحلہ سخت سہی ہم سفراں اور بھی ہیں

چڑھتے دریا میں سرِ آب رواں اور بھی ہیں

 

ایک ہم ہی تو نہیں ہیں تری وحشت کے اسیر

دیکھ اے موجِ بلا ! رقص کناں اور بھی ہیں

 

آ گئے ہیں ترے در پر تو بہت ناز نہ کر!

کوچۂ اہلِ صنم، کوئے بتاں اور بھی ہیں

 

عشق اب ایک ہی معشوق سے منسوب نہیں

خوش بدن اور بھی ہیں، ماہ رخاں اور بھی ہیں

 

ختم ہو گا نہ ابھی سلسلۂ مکر و فریب

ناخدا اور بھی ہیں، راہبراں اور بھی ہیں

صرف تجھ کو نہیں قامت کی بلندی کا گماں

خود ستاں شہر میں کوتاہ قداں اور بھی ہیں

 

شعر گوئی بھی عبادت ہے ہماری عالمؔ

ورنہ دنیا میں کئی کارِ زیاں اور بھی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

در و دیوار کی زنجیر سے آزاد ہو جانا

جنوں اب چاہتا ہے دشت میں آباد ہو جانا

 

محبت! خوب یہ انجام ہے اہلِ محبت کا

تجھے آباد کرنا اور خود برباد ہو جانا

 

نئی دیوانگی ہے ایک دن خود ہی سمجھ لے گی

بہت آساں نہیں ہے عشق میں فرہاد ہو جانا

 

ازل سے دل کی بستی کا یہی معمول ہے شاید

کبھی ویران ہو جانا، کبھی آباد ہو جانا

 

ہمارا حق طلب کرنا تمہیں اچھا نہیں لگتا

ہمیں آتا نہیں ہے کاسۂ فریاد ہو جانا

 

ستم کے موجدوں کو کیوں بھلا حیران کرتا ہے

کسی مظلوم کا اک دن ستم ایجاد ہو جانا

 

مرض اپنا پرانا ہے اچانک بے سبب عالمؔ

کبھی دلشاد ہو جانا، کبھی ناشاد ہو جانا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ تماشہ دیکھ کر ہم آئینہ بیزار ہیں

جن کے چہرے ہی نہیں وہ آئینہ بردار ہیں

 

اے مری جمہوریت! تیری کہانی ہے عجیب

قابلِ نفرت ہیں جو، وہ صاحبِ دستار ہیں

 

شمع روشن کر رہے ہیں تاجرانِ تیرگی

کیا انوکھی داستاں ہے ! کیا عجب کردار ہیں !

 

نفرتیں میدان میں آئی ہیں گلدستے لئے

امنِ عالم کے سپاہی برسرِ پیکار ہیں

 

مدتوں سے سو رہے ہیں ہم حصارِ ذات میں

اور یہ دعوی بھی ہے بیدار تھے، بیدار ہیں

 

کاروانِ وقت کو شاید ضرورت ہی نہیں

ہم عبث رختِ سفر باندھے ہوئے تیار ہیں

 

آپ عالمؔ پیدلوں کی چال سے گھبرا گئے

اسپ، کشتی، فیل، فرزیں سب پسِ دیوار ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

تختِ شاہی تری اوقات بتاتے ہوئے لوگ

دیکھ ! پھر جمع ہوئے خاک اڑاتے ہوئے لوگ

 

توڑ ڈالیں گے سیاست کی خدائی کا بھرم

وجد میں آتے ہوئے، ناچتے، گاتے ہوئے لوگ

 

کچھ نہ کچھ صورتِ حالات بدل ڈالیں گے

ایک آواز میں آواز ملاتے ہوئے لوگ

 

کوئی تصویر کسی روز بنا ہی لیں گے

روز پانی پہ نئے عکس بناتے ہوئے لوگ

 

کتنی حیرت سے تکا کرتے ہیں چہرے اپنے

آئینہ خانوں میں آتے ہوئے،جاتے ہوئے لوگ

 

ہاں ! سبھی اہلِ محبت کو بھلے لگتے ہیں

نفرت و بغض کی دیوار گراتے ہوئے لوگ

 

کاش ! تعبیر کی راہوں سے نہ بھٹکیں عالم !

بجھتی آنکھوں میں نئے خواب جگاتے ہوئے لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ جانے کیوں زمانے سے تمہیں اتنی شکایت ہے

زمانے میں محبت تھی، زمانے میں محبت ہے

 

بظاہر جو بھی بدلا ہو، بہ باطن کچھ نہیں بدلا

وہی ہے آدمی اب تک، وہی اس کی جبلت ہے

 

یہ کیسا شور گریہ ہے، یہ کیسی مرثیہ خوانی

ابھی فنکار زندہ ہے، ابھی انساں سلامت ہے

 

اسی تاجر زمانے میں وہی دل کی دکانیں ہیں

وہی سودے جنوں کے ہیں، وہی رنگِ تجارت ہے

وہی آشفتگی کا رقص جاری ہے ہر اک جانب

وہی اہلِ جنوں ہیں اور وہی صحرائے وحشت ہے

 

جدھر چاہو چلے جاؤ! وہی رستے ابھی تک ہیں

وہی بستی ہوس کی ہے، وہی شہرِ قناعت ہے

 

بدل کر زاویہ تم نے کبھی دیکھا نہیں عالمؔ !

یہ دنیا آج پہلے سے زیادہ خوبصورت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیوں خیال آتا نہیں ہے ہمیں یکجائی کا

جب ہر اک شخص گرفتار ہے تنہائی کا

 

وہ بھی اب ہونے لگے ایذا رسانی کے مریض

جن کو دعویٰ تھا زمانے کی مسیحائی کا

 

شک نہیں کرتا میں رشتوں کی صداقت پہ کبھی

بس یہی ایک سبب ہے مری رسوائی کا

 

زخم بھرتے ہی نہیں میرے کسی مرہم سے

جب بھی لگتا ہے کوئی تیر شناسائی کا

 

بزدلی سمجھی گئی میری شرافت ورنہ

کب مجھے شوق رہا معرکہ آرائی کا

 

اپنی رسوائی کو اعزاز سمجھ لیتے ہیں

خوب یہ شوق ہے احباب کی دانائی کا

 

چھیڑ چلتی ہے مری صنفِ غزل سے عالم!

میں فسانہ نہیں لکھتا کسی ہرجائی کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں پرستار ہوں اب گوشۂ تنہائی کا

خوب انجام ہوا انجمن آرائی کا

 

بس وہی ملنے، بچھڑنے کی کہانی کے سوا

کیا کوئی اور بھی حاصل ہے شناسائی کا

 

خود ہی کھنچتے ہوئے آتے ہیں ستارے ورنہ

چاند کو شوق نہیں حاشیہ آرائی کا

 

اب کسی اور نظارے کی تمنا ہی نہیں

اب میں احسان اٹھاتا نہیں بینائی کا

 

کتنے بے خوف تھے دریا کی روانی میں ہم

کوئی اندازہ نہ تھا جب ہمیں گہرائی کا

 

ہم نے سمجھا نہیں دنیا کو تماشا ورنہ

یوں بھی ہوتا ہے کہیں حال تماشائی کا

 

پھر غزل روز بلانے لگی عالم صاحب!

اور کچھ شوق ہے شاید اسے رسوائی کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دبی تھی آگ جو دل میں دبی دبی ہی رہی

جلے چراغ مگر تیرگی جمی ہی رہی

 

میں راہ چلتا ہوا دور تک نکل آیا

اگرچہ میری مسافت کہیں رکی ہی رہی

 

کسی بھی بزمِ نگاراں میں ہم اداس رہے

کوئی بھی ساتھ رہا، ساتھ بے کلی ہی رہی

 

عجیب خطّۂ شاداب ہیں مری آنکھیں

ہزار خشک ہو موسم یہاں نمی ہی رہی

 

نہیں !نہیں ! ہمیں شکوہ نہیں کوئی اس سے

ہمارے واسطے شاخِ ثمر جھکی ہی رہی

 

کبھی بھرا ہی نہیں دامنِ حیات کوئی

اسے عزیز ہمیشہ گداگری ہی رہی

 

عبث ہی ہاتھ بڑھاتا ہے دوستی کے لئے

زمانے ! تجھ سے ہمیشہ مری ٹھنی ہی رہی

 

کبھی نہ کھل کے ملی ہم سے زندگی عالم!

نہ جانے کیوں وہ ہمیشہ کھنچی کھنچی ہی رہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ذرا سی دھوپ ذراسی نمی کے آنے سے

میں کھل اٹھا تھا نئی تازگی کے آنے سے

 

اداس ہو گئے اک پل میں شادماں چہرے

مرے لبوں پہ ذرا سی ہنسی کے آنے سے

 

دکھوں کے یار بچھڑنے لگے ہیں اب مجھ سے

یہ سانحہ بھی ہوا ہے خوشی کے آنے سے

 

بہت سکون سے رہتے تھے ہم اندھیرے میں

فساد پیدا ہوا روشنی کے آنے سے

 

کرخت ہونے لگے ہیں بجھے ہوئے لہجے

مرے مزاج میں شائستگی کے آنے سے

 

یقین ہوتا نہیں شہرِ دل اچانک یوں

بدل گیا ہے کسی اجنبی کے آنے سے

 

میں روتے روتے اچانک ہی ہنس پڑا عالم

تماش بینوں میں سنجیدگی کے آنے سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہت دشوار ہے اب ہر اک رستہ ہمارا

سمجھتا ہی نہیں ہے مگر سایا ہمارا

 

زمانے سے الگ ہے نئی دنیا ہماری

زمانے سے الگ ہے نیا نقشہ ہمارا

 

نہ ہم اہلِ خرد ہیں، نہ ہم اہلِ جنوں ہیں

نہ یہ بستی ہماری، نہ وہ صحرا ہمارا

 

بدل ڈالیں گے اک دن ہم اس دنیا کی صورت

اترتا ہی نہیں ہے کبھی نشّہ ہمارا

 

کسی ساحل پہ جائیں وہی بے لطفیاں ہیں

بلاتا کیوں نہیں ہے ہمیں دریا ہمارا

 

اگرچہ وہم ہے یہ مگر ہے خوبصورت

کہیں پر ہے یقیناً کوئی اپنا ہمارا

 

چمکتی روشنی میں وہ آخر گم ہوا کیا

نظر آتا نہیں ہے کہیں سایا ہمارا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یقیں نہ آئے گا تم کو مگر گئے ہیں ہم

جدھر کوئی نہیں جاتا، ادھر گئے ہیں ہم

 

میاں ! یہ راہ تمہارے لئے نئی ہو گی

زمانہ گزرا، ادھر سے گزر گئے ہیں ہم

 

یہ اور بات کہ اب میرِ کارواں ہو مگر

ادھر ادھر ہی گئے تم، جدھر گئے ہیں ہم

 

ادھر ہے زخم شماری کا سلسلہ لیکن

ادھر یہ شور مچا ہے سنور گئے ہیں ہم

 

اب اپنی خاک اڑاتے ہیں اور دیکھتے ہیں

کہ جب بھی خود کو سمیٹا بکھر گئے ہیں ہم

 

ہمیں خبر ہی نہیں کیا بتائیں سائے کو

ابھی ابھی تو یہیں تھے کدھر گئے ہیں ہم

 

شکستہ پا ہی سمجھنے لگے ہیں لوگ ہمیں

ذرا سی دیر جو عالم ! ٹھہر گئے ہیں ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کن سرابوں نے کیا اب کے گرفتار ہمیں

یاد بھی آتے نہیں ہیں در و دیوار ہمیں

 

اک عجب خواب کی آغوش میں مدہوش ہیں ہم

کوئی تعبیر بھی کرتی نہیں بیدار ہمیں

 

سب سجائے ہوئے بیٹھے ہیں دکانیں اپنی

ساری دنیا ہی نظر آتی ہے بازار ہمیں

 

کچھ نظر آتا نہیں اپنی ضرورت کی سوا

زندگی لگتی ہے اب درہم و دینار ہمیں

 

ایک غنچہ بھی نہیں کھلتا کسی کے لب پر

گھیر کر بیٹھ گئے یوں نئے آزار ہمیں

 

ہم کمر باندھ کے ساحل پہ چلے آئے مگر

کوئی آواز بلاتی نہیں اس پار ہمیں

 

ڈوبنے لگتی ہے کشتی جو بھنور میں عالم!

ناخدا سونپ دیا کرتا ہے پتوار ہمیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ کیسا کارواں ہے معتبر ہوتا نہیں کوئی

سبھی ہیں راہبر اور راہبر ہوتا نہیں کوئی

 

نہ جانے کس بلا کے سحر میں ہے قافلہ میرا

سفر جاری ہے اور محوِ سفر ہوتا نہیں کوئی

 

بظاہر سب کسی کے ساتھ ہیں محوِسفر لیکن

بہ باطن اب کسی کا ہم سفر ہوتا نہیں کوئی

 

ہماری خود فراموشی کہاں لے آئی ہے ہم کو

یہاں اک پل بھی خود سے بے خبر ہوتا نہیں کوئی

 

میں تنہا ہو گیا اہلِ ہنر کی بھیڑ میں آ کر

یہاں تو میرے جیسا بے ہنر ہوتا نہیں کوئی

 

عجب انداز سے اب کے مکاں ہم نے بنائے ہیں

نظر آتے بھی ہیں در اور در ہوتا نہیں کوئی

 

سرابِ دشت ہیں عالم! گھنے اشجار کے سائے

مسافت میں کہیں بھی مستقر ہوتا نہیں کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

دلِ ناداں بھی کیا نادان اب ہوتا نہیں ہے

کسی بھی بات پر حیران اب ہوتا نہیں ہے

 

دماغ و دل کے رشتے ہو گئے ہموار شاید

سنا ہے عشق میں نقصان اب ہوتا نہیں ہے

 

کسی کے واسطے دنیا کو ٹھوکر مار دینا

محبت کے لئے آسان اب ہوتا نہیں ہے

 

اُجڑ کر جو کبھی آباد ہوتا ہی نہیں تھا

وہی دل ہے مگر ویران اب ہوتا نہیں ہے

 

غرض کی شاخ پر ہی رابطوں کے گل کھلے ہیں

کوئی رشتہ بلا عنوان اب ہوتا نہیں ہے

 

سرائے بن چکا ہے دل یہاں بھی آنیوالا

ہمیشہ کے لئے مہمان اب ہوتا نہیں ہے

 

ازل سے جنگ کے فرمان جاری ہو رہے ہیں

محبت کا مگر اعلان اب ہوتا نہیں ہے

 

نئی تہذیب نے عالمؔ عقیدے ہی نہ بدلے

جنوں بھی صاحبِ ایمان اب ہوتا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کوئی امید ہی ایسی کیا نہیں کرتے

ببول میں تو گلاباں کھلا نہیں کرتے

 

محبتوں کے کئی رنگ روپ ہوتے ہیں

عداوتوں سے بھی کوئی گلہ نہیں کرتے

 

سفر میں لوگ تو ملتے، بچھڑتے رہتے ہیں

ذرا سی بات پر آنکھیں ملا نہیں کرتے

 

حکیمِ وقت ہی ان کا علاج کرتا ہے

دلوں کے زخم دوا سے بھرا نہیں کرتے

 

یہ کاروبارِ محبت تمہیں مبارک ہو !

اگرچہ کام یہ اہلِ وفا نہیں کرتے

 

یقین کیسے دلاؤں میں بد گمانوں کو

دعا جو کرتے ہیں وہ بدعا نہیں کرتے

 

کسی کی بات بھلا کب سنیں گے وہ عالم !

جو اپنے دل کی صدا بھی سنا نہیں کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مانگی ہی ہوئی ہے نہ چرائی ہوئی دنیا

چھوٹی ہی سہی اپنی بنائی ہوئی دنیا

 

محفوظ ہے اس خاک نشینی میں ابھی تک

آلودہ زمانے سے بچائی ہوئی دنیا

 

ظاہر کے یہ جلوے نہ دکھاؤ مجھے صاحب!

آتی ہے نظر مجھ کو چھپائی ہوئی دنیا

 

شرم آتی نہیں تم کو اسے اپنا بتاتے

غیروں کے پسینے سے کمائی ہوئی دنیا

 

آج اس کی رفاقت پہ بہت ناز ہے تم کو

کل تم ہی کہو گے کہ پرائی ہوئی دنیا

 

ہر روز گزرتا ہوں میں دامن کو جھٹکتے

کب سے ہے مری راہ میں آئی ہوئی دنیا

 

کم ظرف چلی آتی ہے آوازیں لگاتی

سو بار مرے در سے بھگائی ہوئی دنیا

 

خاک اپنے اشاروں پہ نچائے گی مجھے وہ

لٹو کی طرح خود ہی نچائی ہوئی دنیا

 

دنیا کو برا ہم نے بنا ڈالا ہے عالم !

اچھی تھی بہت اس کی بنائی ہوئی دنیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

حضور! خوب ہیں یہ عجز و انکسار کے رنگ

چڑھے نہیں ہیں ابھی ان پہ اختیار کے رنگ

 

چلیں ! اب آپ کے بھی رنگ دیکھ لیتے ہیں

اگر چہ دیکھے بہت ہم نے اقتدار کے رنگ

 

کبھی خیال بھی آیا جناب جیسوں کو

جو بے قرار ہیں، ان کو ملیں قرار کے رنگ

 

ہوا یہ کس نے چلائی کوئی بتائے گا

کہ زرد زرد ہوئے سارے شاخسارکے رنگ

 

تمام قصر تو باغِ ارم ہوئے لیکن

ہماری سمت چلے آئے زار زار کے رنگ

 

دکھائی دیتے ہیں کیا آپ کو ہماری طرح

کلی کلی میں دمکتے ہوئے شرار کے رنگ

 

ہماری سادہ دلی کو دعائیں دو صاحب!

کہ ہم خزاں سے طلب کرتے ہیں بہار کے رنگ

 

خدا کرے کہ حقیقت میں بھی نظر آئیں

قرارداد میں شامل سبھی قرار کے رنگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

اداس ہونے لگے ہیں اب انتظار کے رنگ

اتر نہ جائیں کہیں دل سے اعتبار کے رنگ

 

وہ خوش خرام اب آتا نہیں ہے سیر کو کیا

کہ زرد ہونے لگے سبز مرغ زار کے رنگ

 

نہیں اے قوسِ قزح ! تجھ میں بھی وہ رنگ نہیں

دمک رہے ہیں کہیں پر جو گل عذار کے رنگ

 

اب اس کے رنگ کی تمثیل کیا بتاؤں میں

کہ چاندنی میں ملے ہیں ذرا شرار کے رنگ

 

 

وہ نیم باز تھیں آنکھیں کہ کوئی جام و سبو

نگاہِ شوق سے جاتے نہیں خمار کے رنگ

 

مہ و نجوم ! عبث ہی چمک دکھاتے ہو

کبھی تو دیکھو! ذرا آ کے میرے یار کے رنگ

 

بلاؤ بادِ صبا ! تم اسے بلاؤ ذرا !

کہ اب خزاں میں نظر آئیں کچھ بہار کے رنگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھول کی ڈالی ہے یا شمشیر ہے

اے مصور! خوب یہ تصویر ہے

 

سوچتا رہتا ہوں اس کو دیکھ کر

خواب ہے یا خواب کی تعبیر ہے

 

چپ ہوں میں اور بولتی جاتی ہے وہ

سامنے میرے کوئی تصویر ہے

 

بھول بیٹھا ہوں میں اب طرزِ سخن

اس کی باتوں میں عجب تاثیر ہے

 

دل کھنچا جاتا ہے خود اس کی طرف

ہائے کتنا دلنشیں وہ تیر ہے

 

وہ تو عالم ! خوبصورت ہار ہے

تم سمجھتے تھے جسے زنجیر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بڑے ہنر سے یہ کارِ محال کر تو دیا

ہوائے ہجر کو بادِ وصال کر تو دیا

 

اتار لائے ترے چاند کو خرابے میں

فسردگی ! تجھے آخر نہال کر تو دیا

 

بجھا ہوا تھا دلِ شادماں زمانے سے

دوبارہ ہم نے اسے خوش خصال کر تو دیا

 

کچھ اور پیش کروں کیا اے شہر بانو بتا!

کہ اب نگینۂ دل یرغمال کر تو دیا

 

کہا تھا ہم نے فقیروں سے دل لگی ہے بری

سو دیکھ! تیرا بھی ہنسنا محال کر تو دیا

 

سنبھل! کہ آ گئے اہلِ خرد بھی صحرا میں

جنوں کے جوش میں تو نے دھمال کر تو دیا

 

بجا ہے بگڑے ہمارے نقوش کچھ عالم !

کسی کا عکس مگر بے مثال کر تو دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں جدھر جاؤں مرا خواب نظر آتا ہے

اب تعاقب میں وہ مہتاب نظر آتا ہے

 

گونجتی رہتی ہیں ساحل کی صدائیں مجھ میں

اور سمندر مجھے بیتاب نظر آتا ہے

 

اتنا مشکل بھی نہیں یار! یہ موجوں کا سفر

ہر طرف کیوں تجھے گرداب نظر آتا ہے

 

کیوں ہراساں ہے ذرا دیکھ توگہرائی میں

کچھ چمکتا سا تہہِ آب نظر آتا ہے

 

میں تو تپتا ہوا صحرا ہوں مجھے خوابوں میں

بے سبب خطۂ شاداب نظر آتا ہے

راہ چلتے ہوئے بیچاری تہی دستی کو

سنگ بھی گوہرِ نایاب نظر آتا ہے

 

یہ نئے دور کا بازار ہے عالم صاحب !

اس جگہ ٹاٹ بھی کمخواب نظر آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہیں اب میں مکیں ہوں، کہیں اب وہ مکیں ہے

تو کیوں یہ لگ رہا ہے وہ میرا ہم نشیں ہے

 

ہمیں کب راس آئی کوئی نقلِ مکانی

جہاں دل جاں گزیں تھا، وہیں دل جاں گزیں ہے

 

جدا ہم ہو گئے ہیں مگر دل اک جگہ ہیں

اکیلا میں نہیں ہوں، اکیلا وہ نہیں ہے

 

ٹھہرتی کب ہیں آنکھیں سوا اس کے کسی پر

کوئی ماہ مبیں ہے، کوئی مہر مبیں ہے

 

نظر اکتا رہی ہے کہاں یکسانیت سے

وہ پیکر دل نشیں تھا، وہ پیکر دل نشیں ہے

 

کسی اور آستاں پر میں کیسے سر جھکا دوں

کہاں قابو میں دل ہے، کہاں بس میں جبیں ہے

 

مجھے بھی دیکھتا ہے کبھی کیا وہ ستارہ

جو خوابوں کا ہے محور، جو خوابوں کا امیں ہے

 

در و دیوار اکثر کہا کرتے ہیں مجھ سے

میں جس گھر میں مکیں ہوں وہ گھر میرا نہیں ہے

 

بدل جاتے ہیں کیسے بس اک پل میں مناظر

وہی اپنا فلک ہے، وہی اپنی زمیں ہے

 

قدم رکھتا کہیں ہوں، قدم پڑتے کہیں ہیں

کبھی لگتا تھا دنیا مرے زیرِ نگیں ہے

 

میں تنہا تھا سفر میں، میں تنہا ہوں سفر میں

کبھی مجھ کو گماں تھا مگر اب کے یقیں ہے

 

نگاہ و دل پہ عالمؔ چلا تھا کوئی جادو

یہاں کوئی نہیں تھا، یہاں کوئی نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

رنگ برنگے سپنے روز دکھا جاتا ہے کیوں

بیری چاند ہماری چھت پر آ جاتا ہے کیوں

 

پلکیں بند کروں تو سب کچھ اچھا لگتا ہے

آنکھیں کھولوں تو کہرا سا چھا جاتا ہے کیوں

 

کیا رشتہ میرا آخر ایک ستارے سے

روز وہ کوئی راز مجھے بتلا جاتا ہے کیوں

 

میرے حصّے کی کرنیں جب کوئی چراتا ہے

نیل گگن پر سورج وہ شرما جاتا ہے کیوں

 

ہر پیکر کا اپنا اپنا سایا ہوتا ہے

لیکن سائے کو سایا ہی کھا جاتا ہے کیوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

لطف ہم کو آتا ہے اب فریب کھانے میں

آزمائے لوگوں کو روز آزمانے میں

 

دو گھڑی کے ساتھی کو ہم سفر سمجھتے ہیں

کس قدر پرانے ہیں ہم نئے زمانے میں

 

تیرے پاس آنے میں آدھی عمر گزری ہے

آدھی عمر گزرے گی تجھ سے دور جانے میں

 

احتیاط رکھنے کی کوئی حد بھی ہوتی ہے

بھید ہم نے کھولے ہیں، بھید کو چھپانے میں

 

زندگی تماشا ہے اور اس تماشے میں

کھیل ہم بگاڑیں گے، کھیل کو بنانے میں

 

کارواں کو ان کا بھی کچھ خیال آتا ہے

جو سفر میں پچھڑے ہیں راستہ بنانے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

تم جس کو ڈھونڈتے ہو یہ محفل نہیں ہے وہ

لوگوں کے اس ہجوم میں شامل نہیں ہے وہ

 

رستوں کے پیچ و خم نے کہیں اور لا دیا

جانا ہمیں جہاں ہے، یہ منزل نہیں ہے وہ

 

دریا کے رخ کو موڑ کے آئے تو یہ کھلا

ساحل کے رنگ اور ہیں، ساحل نہیں ہے وہ

 

نغمہ سرا ہے راہ کی دیوار ان دنوں

اب کے کسی کی راہ میں حائل نہیں ہے وہ

 

 

دنیا کی بھاگ دوڑ کا حاصل یہی تو ہے

حاصل ہر ایک چیز ہے، حاصل نہیں ہے وہ

 

عالمؔ دلِ اسیر کو سمجھاؤں کس طرح

کمبخت اعتبار کے قابل نہیں ہے وہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہم پنچھی ہیں جی بہلانے آتے رہتے ہیں

اکثر میرے خواب مجھے سمجھاتے رہتے ہیں

 

تم کیوں ان کی یاد میں بیٹھے روتے رہتے ہو

آنے جانے والے، آتے جاتے رہتے ہیں

 

وہ جملے جو لب تک آ کر چپ ہو جاتے ہیں

اندر اندر برسوں شور مچاتے رہتے ہیں

 

شاید ہم کو چین سے جینا راس نہیں آتا

شوق سے ہم دکھ بازاروں سے لاتے رہتے ہیں

 

آنکھوں نے بھی سیکھ لیے اب جینے کے دستور

بھیس بدل کر آنسو ہنستے، گاتے رہتے ہیں

 

کانٹے بونے والوں کو کیوں شرم نہیں آتی

پھول کھلانے والے، پھول کھلاتے رہتے ہیں

 

جانے کیا تبدیلی آئی چہرے میں عالم !

آئینے بھی اب مجھ سے کتراتے رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی کو الٹی اور کسی کو سیدھی لگتی ہے

ہم جیسے ہیں دنیا ہم کو ویسی لگتی ہے

 

برا زمانہ آیا ہے سب کہتے ہیں لیکن

سب کو اپنی اپنی صورت اچھی لگتی ہے

 

صحرا میں کچھ سبزے بھی لہراتے ہیں لیکن

پیلی آنکھوں کو ہریالی پیلی لگتی ہے

 

تب تب میں اشعار کی صورت پھول کھلاتا ہوں

جب جب مجھ کو دل کی مٹی گیلی لگتی ہے

 

کتنی جلدی کھو جاتی ہے ساری چمک اس کی

ہم کو جو بھی چیز بہت چمکیلی لگتی ہے

 

محفل میں جو بیباکی سے ملتی ہے اکثر

تنہا ملے تو کیوں اتنی شرمیلی لگتی ہے

 

اندر اندر دکھ ساگر میں ڈوبی ہے عالم !

باہر سے جو دنیا چھیل چھبیلی لگتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کتنی محبت سے وہ نصیحت کرتے ہیں

جو مجھ سے دن رات عداوت کرتے ہیں

 

باز آیا میں ایسی شہرت وہرت سے

سائے بھی میرے مجھ سے رقابت کرتے ہیں

 

عشق ! تجھے محفوظ رکھیں اللہ میاں

سوچ سمجھ کر لوگ محبت کرتے ہیں

 

شمعیں بجھا کر مجھ سے ہوائیں کہتی ہیں

آپ عبث ہی اتنی مشقت کرتے ہیں

 

جنگل میں خوش رہتے نہیں ہیں لوگ میاں !

مجبوری میں ترکِ سکونت کرتے ہیں

 

جانا کہاں ہیں خود ان کو معلوم نہیں

کیسے کیسے لوگ قیادت کرتے ہیں

 

بابِ رحمت کھلتا نہیں ہے کیوں عالم !

کرنے کو تو ہم بھی عبادت کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو فطرت کا تقاضہ ہے وہ ہونا بھی ضروری ہے

بہت ہنستا رہا ہوں میں سو رونا بھی ضروری ہے

 

ذرا کچھ دیر تو پلکیں جھپک لو اے مری آنکھو!

ہمیشہ جاگتی رہتی ہو، سونا بھی ضروری ہے

 

مرے خوابو! ابھی جی بھر کے دیکھا بھی نہیں تم کو

تمہیں پایا کہاں ہم نے کہ کھونا بھی ضروری ہے

 

پرانے زخم کی ٹیسوں میں اب شدت نہیں باقی

مرے تلوو! نیا کانٹا چبھونا بھی ضروری ہے

 

چلو مانا ! کہ غائب ہو گیا ہر داغ دامن کا

مگر دل پر جو دھبہ ہے وہ دھونا بھی ضروری ہے

 

الجھتی جا رہی ہے بس اسی چکر میں اب دنیا

یہ ہونا بھی ضروری ہے، وہ ہونا بھی ضروری ہے

 

یہ دنیا تو کھلونے سے زیادہ کچھ نہیں عالم!

مگر جینے کی خاطر یہ کھلونا بھی ضروری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

صحرا، دریا ہو جاتا ہے قطرہ قطرہ پانی سے

کیا کیا خواب نظر آتے ہیں آنکھوں کی ویرانی سے

 

تیرا میرا دل کا رشتہ جنم جنم کا بندھن ہے

کیا کیا لفظ تراشے ہم نے شہواتِ نفسانی سے

 

ہم کو بچھڑ کے اک پل جینا کتنا مشکل لگتا تھا

دیکھو ! بچھڑ کے زندہ ہیں ہم اب کتنی آسانی سے

 

تم نے ہی تو مجھ سے کہا تھا آج سے ہم بیگانے ہیں

اب کیوں مجھ کو دیکھ رہے ہو تم اتنی حیرانی سے

 

کیا بتلائیں کس کس بت کو اک سجدے کی خواہش تھی

کس کس کی اوقات بتا دی ہم نے اک پیشانی سے

 

لہروں کی سرگم پر جھومیں، بیچ بھنور میں رقص کریں

کتنے سرکش ہو جاتے ہیں تنکے بھی طغیانی سے

 

میری انا کو کب پروا ہے عالم ! دنیا داری کی

لاکھ منایا باز نہ آئی یہ اپنی من مانی سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اسی لئے تو کسی نے ہمیں بچایا نہیں

کہ ڈوبتے ہوئے ہم نے انہیں بلایا نہیں

 

ہمیں تھا خوف کہیں یار کم نہ ہو جائیں

سو مشکلوں میں کسی کو بھی آزمایا نہیں

 

یہ کھوئے کھوئے سے رہتے ہیں کیوں ہمیشہ ہم

کسی نے پوچھا نہیں، ہم نے بھی بتایا نہیں

 

بہت دنوں سے مری کھڑکیاں مقفّل ہیں

بہت دنوں سے ادھر چاند جگمگایا نہیں

 

بہت دنوں سے ملے ہی نہیں ہیں ہم خود سے

بہت دنوں سے کوئی شخص یاد آیا نہیں

 

اب اس کی فکر ستانے لگی ہواؤں کو

وہ اک چراغ جو ہم نے ابھی جلایا نہیں

 

ابھی سے ہو گئے حیران کیوں تماشا گر

ابھی تو ہم نے کوئی کھیل بھی دکھایا نہیں

 

کسی کو یاد کبھی ہم نے کب کیا عالم!

مگر جو یاد ہوا ہو اسے بھلایا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

بس ایک ہمیں خواب سے انکار نہیں ہے

دل ورنہ کسی شئے کا طلب گار نہیں ہے

 

آنکھوں میں حسیں خواب تو ہیں آج بھی لیکن

تعبیر سے اب کوئی سروکار نہیں ہے

 

دریا سے ابھی تک ہے وہی ربط ہمارا

کشتی میں ہماری کوئی پتوار نہیں ہے

 

کیوں اتنا ہمیں اپنی محبت پہ یقیں ہے

دنیا تو محبت کی طلب گار نہیں ہے

 

حیرت سے نئے شہر کو میں دیکھ رہا ہوں

دیوار تو ہے، سایۂ دیوار نہیں ہے

 

محفل میں چہکتے ہوئے چہروں کو تو دیکھو!

لگتا ہے یہاں کوئی دل آزار نہیں ہے

 

افواہ اڑائی ہے کسی شخص نے عالم !

اب کوئی محبت کا پرستار نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی خیال کو زنجیر کر رہا ہوں میں

شکستہ خواب کی تعبیر کر رہا ہوں میں

 

مرے وہ خواب جو رنگوں میں ڈھل نہیں پائے

انہیں کو شعر میں تصویر کر رہا ہوں میں

 

حقیقتوں پہ زمانے کو اعتبار نہیں

سو اب فسانے میں تحریر کر رہا ہوں میں

 

مرے مکان کا نقشہ تو ہے نیا لیکن

پرانی اینٹ سے تعمیر کر رہا ہوں میں

 

دکھوں کو اپنے چھپاتا ہو ں میں دفینوں سا

مگر خوشی کو ہمہ گیر کر رہا ہوں میں

 

مجھے بھی شوق ہے دنیا کو زیر کرنے کا

تو اپنے آپ کو تسخیر کر رہا ہوں میں

 

عجیب شخص ہوں منزل بلا رہی ہے مگر

بلا جواز ہی تاخیر کر رہا ہوں میں

 

جو میں ہوں اس کو چھپاتا ہوں سارے عالم سے

جو میں نہیں ہوں وہ تشہیر کر رہا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

(عرفان صدیقی کے نام)

چھن کے آتی ہے صدا روزن و دیوار سے کیا

کوئی آواز ہمیں دیتا ہے اس پار سے کیا

 

اس رویّے سے ہر اک شہر کا نقشہ بگڑا

ہم ہیں محفوظ ہمیں کوچہ و بازار سے کیا

 

چیختا ہے نہ کوئی شور مچاتا ہے یہاں

لوگ مانوس ہیں زنجیر کی جھنکار سے کیا

 

دیکھ کر تلوے مرے اتنے پریشاں کیوں ہو

تم کبھی گزرے نہیں وادیِ پر خار سے کیا

زخم مرجھانے لگے راستہ تکتے تکتے

تم بھی اکتانے لگے لذّتِ آزار سے کیا

 

عشق ہم تم سے کریں خوب ہے فرمان مگر

دل میں اترا ہے کوئی تیر سے، تلوار سے کیا

 

دور جانا ہے تمہیں چلتے رہو سست قدم

تم کو لینا ہے بھلا شہر کی رفتار سے کیا

 

چلتے رہنا ہے مسافر کا مقدر عالم

جلتے صحراؤں سے کیا، سایہ ء اشجار سے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

(عرفان صدیقی کے نام)

 

عکس چہرے پہ نہیں کوئی دل آزاری کا

رنگ کچھ اور ہے اب کے مری بیماری کا

 

اور کچھ دیر وہ احباب ابھی صبر کریں

جن کو ہے شوق بہت میری عزاداری کا

 

کیا کہوں کیسی ہنسی، کتنی ہنسی آتی ہے

جب بھی دیتا ہے کوئی درس وفاداری کا

 

سارے دروازوں کو دیوار کیا ہے اس نے

جس کو دعویٰ ہے نئے شہر کی معماری کا

 

اب ذرا آگ بجھانے کا طریقہ ڈھونڈیں

جن کو مرغوب رہا کھیل شرر باری کا

 

دو قدم چلتے ہی یہ قافلہ کیوں بیٹھ گیا

شور سنتے تھے بہت کوچ کی تیاری کا

 

کس قدر خوش ہیں قفس میں بھی پرندے عالم

معترف میں ہوا صیّاد کی عیّاری کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

رکنا کہیں بھی ہم کو گوارہ کبھی نہ تھا

لیکن ہمیں کسی نے پکارا کبھی نہ تھا

 

حالانکہ یاد آتا ہے اب تک بہت ہمیں

وہ شہر جس میں کوئی ہمارا کبھی نہ تھا

 

ہم جس کے ساتھ ساتھ تھے اس کے کبھی نہ تھے

جو ساتھ تھا ہمارے، ہمارا کبھی نہ تھا

 

بیکار اٹھ کے دوڑا کئے ہر صدا پہ ہم

اپنے لئے تو کوئی اشارہ کبھی نہ تھا

 

آتا کوئی ہماری طرف کس امید پر

خوش رنگ تو ہمارا نظارہ کبھی نہ تھا

 

میں برف برف تھا سو فریبوں میں آ گیا

ان مٹھیوں میں کوئی شرارہ کبھی نہ تھا

 

اب کیوں ہے انتظار ہمیں وقتِ سعد کا

اپنے تو حق میں کوئی ستارہ کبھی نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گھر ہی ہوتا تو بھلا چھوڑ کے گھر جاتے ہم

کوئی آواز بھی دیتا تو ٹھہر جاتے ہم

 

بھڑ نہ جاتے جو غنیموں سے تو کرتے بھی کیا

ہاتھ پر ہاتھ دھرے چین سے مر جاتے ہم

 

اپنے ہونے کے گماں نے ہمیں ثابت رکھا

ورنہ طوفان کے ریلے میں بکھر جاتے ہم

 

تو اکیلا ہی نہیں پانو کی زنجیر بنا

اپنے ہمراہ تھی دنیا بھی کدھر جاتے ہم

 

سر جھکائے ہوئے چلنا نہیں سیکھا ہم نے

تیرے کوچے سے بھلا کیسے گزر جاتے ہم

 

تو بھی سچا ہے، ترا عشق بھی سچا لیکن

اپنے خوابوں سے بھلا کیسے مکر جاتے ہم

 

روگ یہ کیسا لگا جاتا ہے عالم صاحب !

اس طرف کوئی نہ جاتا تو ادھر جاتے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جانا تو بہت دور ہے مہتاب سے آگے

بڑھتے ہی نہیں پانو ترے خواب سے آگے

 

کچھ اور حسیں موڑ تھے رودادِ سفر میں

لکھا نہ گیا کچھ بھی ترے باب سے آگے

 

تہذیب کی زنجیر سے الجھا رہا میں بھی

تو بھی نہ بڑھا جسم کے آداب سے آگے

 

موتی کے خزانے بھی تہہِ آب چھپے تھے

دیکھا نہ گیا خطرۂ گرداب سے آگے

 

بچھڑا تو نہیں کوئی تمہارا بھی سفر میں

کیوں بھاگے چلے جاتے ہو بے تاب سے آگے

 

رفتار تو اپنی بھی بہت تیز تھی لیکن

نکلا نہ گیا حلقۂ احباب سے آگے

 

دنیا کا چلن دیکھ کے لگتا تو یہی ہے

اب کچھ بھی نہیں عالمِ اسباب کے آگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر کسی کو یہاں مہماں نہیں کرتے پیارے

دل کی بستی کو بیاباں نہیں کرتے پیارے

بھول جاؤ کہ یہاں کوئی کبھی رہتا تھا

دیدہ و دل کو پریشاں نہیں کرتے پیارے

تم سے دیکھی نہیں جاتی ہیں چھلکتی آنکھیں

تم کسی پر کوئی احساں نہیں کرتے پیارے

کام آتے ہیں اندھیروں میں دئے بھی اکثر

ہر جگہ دل کو فروزاں نہیں کرتے پیارے

کچھ تکلف بھی ضروری ہے زمانے کے لئے

خود کو سب کے لئے آساں نہیں کرتے پیارے

لوگ ہاتھوں میں نمک دان لئے پھرتے ہیں

اپنے زخموں کو نمایاں نہیں کرتے پیارے

زندگی خوابِ مسلسل کا سفر ہے عالم!

خود کو خوابوں سے گریزاں نہیں کرتے پیارے

٭٭٭

 

نہیں ایسا نہیں ہے ہم سبھی کو بھول جاتے ہیں

ہمیں جو بھول جاتا ہے اسی کو بھول جاتے ہیں

سبھی کو یاد رکھنا بھی کبھی ممکن نہیں ہوتا

کسی کو یاد رکھتے ہیں، کسی کو بھول جاتے ہیں

کچھ ایسے لوگ ہیں جن کو بھلا دینے کی کوشش میں

کبھی خود کو، کبھی ہم زندگی کو بھول جاتے ہیں

ہمیں اوروں کی خامی تو ہمیشہ یاد رہتی ہے

کمی یہ ہے کہ ہم اپنی کمی کو بھول جاتے ہیں

 

ہماری اس قدر گہری اداسی کا سبب یہ ہے

کہ ہم غم یاد رکھتے ہیں، خوشی کو بھول جاتے ہیں

چمکتی شاہراہوں پر کشش ایسی ہے کچھ عالم !

کہ ہم اپنا نگر، اپنی گلی کو بھول جاتے ہیں

 

٭٭٭

 

ڈوب جانے کے علاوہ کوئی چارہ بھی ہے کیا

زندگی ! تیرے سمندر کا کنارہ بھی ہے کیا

 

ناخدا ! تیری نصیحت پہ ہنسی آتی ہے

تونے دریا میں سفینے کو اتارا بھی ہے کیا

 

میں کہیں موند لوں پلکیں نہ ہمیشہ کے لئے

آنکھ والوں کا زمانے میں گزارہ بھی ہے کیا

 

ہوتی رہتی ہے کہاں سے یہ دھویں کی یورش

میرے ملبے میں دبا کوئی شرارہ بھی ہے کیا

 

پوچھتا رہتا ہے اکثر مرا سایا مجھ سے

ساری دنیا میں کوئی شخص تمہارا بھی ہے کیا

کوئی لوٹا نہیں عالم ! تو شکایت کیسی

جانے والوں کو کبھی تم نے پکارا بھی ہے کیا

٭٭٭

 

 

اسی ہوس میں تو ہم لوگ اپنے بس میں نہیں

ہمیں وہ چاہئے جو اپنی دسترس میں نہیں

 

یہ بات کون بتائے حریص لوگوں کو

قناعتوں سا مزہ لذّتِ ہوس میں نہیں

 

عجب کمال سے اس نے بنائی ہے دنیا

قفس میں رہ کے بھی لگتا ہے ہم قفس میں نہیں

 

یہ امتیاز تو بخشا ہے زندگی تو نے

کوئی کھٹک سی ہماری رگِ نفس میں نہیں

 

فضا میں پھیلا ہوا ملگجا دھواں کیا ہے

کوئی شرارہ اگر میرے خار و خس میں نہیں

 

زیاں ہے اس میں سراسر یہ جانتا ہوں مگر

برا کہوں گا برے کو میں پیش و پس میں نہیں

 

بس ایک وہم و گماں کا ہے سلسلہ عالم !

وگرنہ کچھ بھی تمہارے ہمارے بس میں نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ اب وہ پیاس نہ پیاسے کے خواب جیسا کچھ

مگر ہے سامنے اب تک سراب جیسا کچھ

 

اب اس کا نام نہ اس کی کوئی کہانی یاد

جو برسوں میں نے پڑھا تھا کتاب جیسا کچھ

 

کوئی شبیہ نگاہوں میں دوڑ جاتی ہے

کبھی جو دیکھوں کہیں ماہتاب جیسا کچھ

 

کہیں سکوں سے مجھے رہنے ہی نہیں دیتا

مری رگوں میں رواں اضطراب جیسا کچھ

 

خیال آیا کہ لکھوں میں داستاں اپنی

بنا بھی خاکہ تو خانہ خراب جیسا کچھ

 

بھٹک رہا ہوں کہ دریا کہیں نظر آئے

اٹھائے پھرتا ہوں سر پر عذاب جیسا کچھ

 

لرز رہے ہیں مرے دل کے تار بھی عالم!

کہیں پہ بجنے لگا ہے رباب جیسا کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

بے کار ہے تم کو یہ گماں اور ہے کوئی

دیوانہ کوئی تم سا کہاں اور ہے کوئی

 

ہم بھی تو یہی سوچ کے آئے تھے بیاباں

ہم کو بھی گماں تھا کہ یہاں اور ہے کوئی

 

ہر سمت یہ آواز لگائی کہ کوئی ہے

آواز کہاں آئی کہ ہاں ! اور ہے کوئی

 

وحشت میں بہت خاک اڑا ئی ہے تو جانا

آشفتہ سراں میں بھی نہاں اور ہے کوئی

 

ہو گا کوئی مجنوں کبھی ہو گی کوئی لیلہٰ

وہ اور جہاں تھا یہ جہاں اور ہے کوئی

 

کیوں پھیلی چلی جاتی ہے ہر سمت سیاہی

کیا اب کے چراغوں میں دھواں اور ہے کوئی

 

تم ڈھونڈتے پھرتے ہو جسے ہر گھڑی عالم!

وہ اور زماں ہے، وہ مکاں اور ہے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

مشکل ہی سہی کام یہ کرنا بھی ہے مجھ کو

اک آگ کے دریا سے گزرنا بھی ہے مجھ کو

 

کیوں خود کو سمیٹے ہوئے رہتا ہوں ہمیشہ

جب جانتا ہوں میں کہ بکھرنا بھی ہے مجھ کو

 

کشتی کو جلاتے ہوئے سوچا نہیں میں نے

چڑھتے ہوئے دریا میں اترنا بھی ہے مجھ کو

 

آئے گی کہاں کوئی بہار اپنی طرف اب

پت جھڑ کی فضا ہی میں سنورنا بھی ہے مجھ کو

 

اڑتا ہوں فلک پر میں نگاہیں ہیں زمیں پر

شہرت کی بلندی سے اترنا بھی ہے مجھ کو

 

کیا خوب تماشا ہے جلانا ہے دئے بھی

اور بنتے ہوئے سائے سے ڈرنا بھی ہے مجھ کو

 

بس قتل ہی کرنا مرا مقصد نہیں عالم !

الزام کسی اور پہ دھرنا بھی ہے مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

مری کشتی کو طوفاں میں بھی دریا پار کرنا ہے

نجومی نے بتایا تھا مجھے ساحل پہ مرنا ہے

 

بس اتنا فرق ہے اپنی ہتھیلی کی لکیروں میں

ہمیں جینے سے ڈرنا ہے، تمہیں مرنے سے ڈرنا ہے

 

عجب کیا ہے ہمیں بھی جرم سے رغبت ہی ہو جائے

تمہیں ہر حال میں ہم پر کوئی الزام دھرنا ہے

 

خبر کچھ بھی نہیں اب کون سی منزل پہ ٹھہروں گا

مجھے معلوم اتنا ہے کہ ہر حد سے گزرنا ہے

 

میں پیاسا ہوں تو کیوں مجھ کو شکایت آسماں سے ہو

مرے چاروں طرف جب جھیل ہے دریا ہے جھرنا ہے

 

اسی صورت گزرنی ہے ہماری زندگی عالم

گھروندے بھی بنانا ہے، ہواؤں سے بھی ڈرنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یاد نہیں کچھ کیسے بپھری موجوں کو ہموار کیا

اب کے شاید نیند میں ہم نے چڑھتا دریا پار کیا

 

سیدھی سیدھی راہیں بھی تو منزل تک پہنچاتی تھیں

دل کے پاگل پن میں ہم نے اپنا سفر دشوار کیا

 

میں دشمن کے نرغے میں ہوں چاٹ رہا ہوں اپنا خوں

تو یاروں کی محفل میں تھا تجھ پر کس نے وار کیا

 

چاروں جانب دھوم مچی ہے اس کی خیر سگالی کی

جس نے میرے شہر کا اک اک دروازہ دیوار کیا

 

دیکھو! تپتے صحرا میں بھی اس جانب ہریالی ہے

سوچو ! کس دریا نے اس کو اس درجہ سرشار کیا

 

تم تو عالم ہر حالت میں ہنستے گاتے رہتے تھے

کون سا غم ہے جس نے تم کو جینے سے بیزار کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہیچ نظر آتی ہے دنیا پاگل دل کے آگے

حاصل کا کچھ مول نہیں ہے لاحاصل کے آگے

 

اب کے کیسی شرط لگائی راہگزر سے میں نے

منزل میرے پیچھے پیچھے،میں منزل کے آگے

 

ماضی کے اوراق سنہرے دیمک چاٹ چکی ہیں

حال مرا گروی رکھا ہے مستقبل کے آگے

 

ان کے منہ سے کوئی نصیحت گالی سی لگتی ہے

جن لوگوں نے گھٹنے ٹیکے ہیں باطل کے آگے

 

دل سے نکلے شعر و نغمہ سمجھیں گے دل والے

کوڑا،کچرا ٹھہریں گے عالم فاضل کے آگے

 

میٹھی بولی میں بھی کیا نشّہ ہوتا ہے عالم

سر کو جھکائے لوگ کھڑے ہیں اس قاتل کے آگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بے سبب ہنستا نہیں میں ارتقا کی بات پر

آج بھی تو کھیتیاں ہیں منحصر برسات پر

 

ڈھک لیا ابرِہوس نے چاند، تاروں کو مگر

تیرگی کی تہمتیں رکھّی گئی ہیں رات پر

 

جانتا ہوں آئیں گے سنگِ نفی میری طرف

پھر بھی رکّھی ہے اساسِ زندگی اثبات پر

 

کچھ سنہری خواب ہیں محفوظ اس زنبیل میں

جیتنے نکلا ہوں میں دنیا اسی اوقات پر

 

کیوں ترے ترکِ تعلق سے شکایت ہے مجھے

تو نے تو رکھا نہیں تھا ہات میرے ہات پر

 

اب کھلا اس دور میں ان کی کوئی وقعت نہیں

ہم بہت نازاں رہا کرتے ہیں جن جذبات پر

 

کب رہی پرواہ عالم دشمنوں کے وار کی

ہاں ! بہت حیران ہوں میں دوستوں کی گھات پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا ہوا وہ نیلگوں سا آسماں پھیلا ہوا

جس طرف دیکھوں ! نظر آئے دھواں پھیلا ہوا

 

چھین لی کس نے مری آنکھوں سے وہ ہریالیاں

سامنے تھا ایک دشتِ بیکراں پھیلا ہوا

 

طائروں کے چہچہانے کی صدائیں کیا ہوئیں

ہر طرف ہے شہر میں شورِ سگاں پھیلا ہوا

 

کیوں سفر اب ہو رہا ہے بے ارادہ، بے جہت

میری کشتی ! کیا ہوا وہ بادباں پھیلا ہوا

 

اک ہجومِ تشنگاں محوِ تماشا دیر سے

تک رہا ہے جلوۂ آبِ رواں پھیلا ہوا

 

گونجتی ہے طبل کی آواز اب چاروں طرف

دیکھتا ہوں کشت و خوں کا اک جہاں پھیلا ہوا

 

کیا کسی کو اب محبت پر بھروسہ ہی نہیں

خانۂ دل میں ہے کیوں وہم و گماں پھیلا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

حیران ہوں کہ شہر میں الجھن کوئی نہیں

آباد ہر مکان ہے روشن کوئی نہیں

 

سرگوشی ہو رہی ہے درختوں کے درمیاں

کیا موسموں کے ہاتھ میں ساون کوئی نہیں

 

ذکرِ بہار کیسے کروں داستان میں

سبزہ کہیں بھی اب نہیں، سوسن کوئی نہیں

 

لیلا رچائی جائے کہاں سوچتا ہوں میں

آتا کہیں نظر مجھے مدھبن کوئی نہیں

 

مقراض لگ رہی ہے کبوتر کے پنکھ میں

اور باز کی اڑان پہ قدغن کوئی نہیں

 

کرتا ہے کون سازشیں کچھ تو پتا چلے

ڈھونڈ آیا سارے شہر میں دشمن کوئی نہیں

 

یکتا ہیں میرے یار کئی فن میں ایک ساتھ

اک میں ہوں جس کے پاس یہاں فن کوئی نہیں

 

اب کھل کے وار کرتے نہیں کیوں مرے رقیب

عالم ! ہمارے بیچ تو چلمن کوئی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اک ستم روز وہ ایجاد کیا کرتے ہیں

اور ہم نالہ و فریاد کیا کرتے ہیں

 

اب قفس ہی میں پرندوں کی حفاظت ہو گی

روز اعلان یہ صیاد کیا کرتے ہیں

 

طرزِ جمہور میں بھی تختِ شہی قائم ہے

جس کے فرمان پہ ہم صاد کیا کرتے ہیں

 

منصفِ شہر ہے وہ اس کے قلم سے لیکن

فیصلے دوسرے افراد کیا کرتے ہیں

 

گھر کی تزئین میں بگڑا ہے ہمارا حلیہ

عیش تو اور ہی افراد کیا کرتے ہیں

 

روز تصویریں ابھر آتی ہیں دیواروں پر

جانے والوں کو مکاں یاد کیا کرتے ہیں

 

شہر والو ! تمہیں یاد بھی آتے ہیں کبھی

اب جو صحراؤں کو آباد کیا کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہو گئے مخمور اتنے مستیء آلام سے

بھر نہ جائے جی ہمارا زندگی کے جام سے

 

خواب بننے کے سوا کچھ اور سیکھا ہی نہیں

کاش! واقف ہم بھی ہوتے خواب کے انجام سے

 

تہمتوں کے تیر کی یلغار ہے اپنی طرف

یوں سیاست نے نوازا ہے ہمیں دشنام سے

 

بے گناہی کی سزائیں مل رہی ہیں اس طرح

ماورا ہم ہو رہے ہیں حشر کے انجام سے

 

اک تماشائی کی صورت دیکھتے رہتے ہیں ہم

روز ہوتے ہیں تماشے اب ہمارے نام سے

 

بستیوں سے قافلے آنے لگے ہیں دشت میں

کس قدر اکتا گئے ہیں لوگ اب ہنگام سے

 

روشنی کے نام سے ڈرنے لگی یوں زندگی

جیسے رہتی ہو اندھیرے میں بہت آرام سے

 

راس آ جائے ہمیں شاید صعوبت کی فضا

ہو گئے مانوس ہم بھی گردشِ ایام سے

 

بس اسی امید پر ہم کاٹتے ہیں ہر عذاب

بابِ رحمت کھلنے والا ہے ہمارے نام سے

 

پھر کوئی روشن ستارہ بھیج مولا خاک پر

کام اب چلتا نہیں ہے نور کے پیغام سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ سوچا نہیں ہے کدھر جائیں گے

مگر ہم یہاں سے گزر جائیں گے

 

ہمیں یہ فضا راس آتی نہیں

یہاں ہم رہیں گے تو مر جائیں گے

 

یہ دل ہم سفر ہے، یہ دل رہنما

جدھر دل کہے گا ادھر جائیں گے

 

جو روکیں گی رستہ کبھی منزلیں

گھڑی دو گھڑی کو ٹھہر جائیں گے

 

ڈراتا بہت ہے سمندر ہمیں

سمندر میں اک دن اتر جائیں گے

 

اسی خوف سے نیند آتی نہیں

کہ ہم خواب دیکھیں گے،ڈر جائیں گے

 

بہاروں نے مرجھا دیا ہے ہمیں

تو کیا ہم خزاں میں سنور جائیں گے

 

یہ سوچا تھا کب شہر سے دشت میں

مرے ساتھ دیوار و در جائیں گے

 

عبث یہ گماں تھا ہمیں دیکھ کر

سبھی راستے میں ٹھہر جائیں گے

 

اسی خوش گمانی نے تنہا کیا

جدھر جاؤں گا، ہم سفر جائیں گے

 

کہاں دیر تک رات ٹھہری کوئی

کسی طرح یہ دن گزر جائیں گے

 

تغیر ہے لازم تو عالم کبھی

زمیں پر ستارے بکھر جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

کیا کہیں پر مرا ٹھکانا ہے

فیصلہ تو ہوا کہ جانا ہے

 

اتنی جلدی ہے مجھ کو جانے کی

جیسے واپس بھی مجھ کو آنا ہے

 

توڑتا ہوں پرانی چیزوں کو

اب نیا کچھ مجھے بنانا ہے

 

کاٹتی ہیں جو روز اوروں کو

ان لکیروں کو اب مٹانا ہے

 

باغ میں پھول کھلتے رہتے ہیں

ریت پر پھول اب کھلاتا ہے

 

صرف دستار پر نہیں خطرہ

اپنا سر بھی مجھے بچانا ہے

 

چاہتا ہے مجھے کچلنا وہ

میری ٹھوکر میں جو زمانہ ہے

 

ٹوٹتے جا رہے ہے وہ تارے

جن سے رشتہ مرا پرانا ہے

 

ہارنا ہے ہمیں بہر صورت

اپنی دنیا قمار خانہ ہے

 

بڑھ رہی ہیں سیاہیاں عالم !

پھر لہو سے دیا جلانا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر طرف پیاسوں کا لشکر ہے کوئی

کس طرف آخر سمندر ہے کوئی

 

اصل منظر چھپ گیا جانے کہاں

سامنے تو اور منظر ہے کوئی

 

کیوں مجھے صحرا سے الفت ہو گئی

کیا مرے اندر سمندر ہے کوئی

 

چلتا جاتا ہوں کہیں رکتا نہیں

میرے پیروں میں بھی چکر ہے کوئی

 

اس کے خط و خال مبہم ہی سہی

میرے خوابو کا بھی پیکر ہے کوئی

 

سنتا رہتا ہوں یقیں ہوتا نہیں

میرے لشکر کا بھی رہبر ہے کوئی

 

گھر سے نکلا تھا میں گلدستہ لئے

اب مرے ہاتھوں میں پتھر ہے کوئی

 

بت بنا لیتا ہوں میں الفاظ سے

میرے باطن میں بھی ہے آذر کوئی

 

پھڑپھڑانے کی صدا سنتا ہوں میں

میرے سینے میں کبوتر ہے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

روز آندھی کو آزماتا ہوں

روز کوئی دیا جلاتا ہوں

 

ہر گھڑی ٹوٹنے کا خطرہ ہے

ہر گھڑی کچھ نہ کچھ بناتا ہوں

 

روز آتا ہوں کیوں یہاں آخر

روز آتا ہوں، روز جاتا ہوں

 

کب کسی کو خیال رہتا ہے

کب میں جاتا ہوں کب میں آتا ہوں

 

کچھ کسی سے میں پوچھتا کب ہوں

کچھ کسی کو کہاں بتاتا ہوں

 

خود مجھے بھی خبر نہیں کیا کیا

خود ہی لکھتا ہوں خود مٹاتا ہوں

 

یاد رہتے ہیں کب سبق مجھ کو

یاد کرتا ہوں بھول جاتا ہوں

 

پھول کھلتے نہیں ہیں باغوں میں

پھول کاغذ پہ اب کھلاتا ہوں

 

حال ابتر ہوا ہے دنیا کا

حال دل کا کہاں سناتا ہوں

 

نقش اوروں کے کیوں بگڑتے ہیں

نقش پانی پہ جب بناتا ہوں

 

اپنی گردن میں موچ آتی ہے

اپنے سر کو اگر جھکاتا ہوں

 

کیا عجب حال ہو گیا عالم

کیا سنانا تھا کیا سناتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

اب زمیں کو سلام کرنا ہے

آسماں پر قیام کرنا ہے

 

اس سے پہلے کہ نیند آ جائے

اپنا قصّہ تمام کرنا ہے

 

پھر تہی خواب ہیں مری آنکھیں

نیند کا اہتمام کرنا ہے

 

مانگتا ہوں دعائیں بارش کی

دھوپ کا انتظام کرنا ہے

 

دو گھڑی کی مسافرت کے لیے

کس قدر اہتمام کرنا ہے

 

خواب ہی زندگی کے ضامن ہیں

خواب کا احترام کرنا ہے

 

آدمی، آدمی رہے باقی

کوئی ایسا نظام کرنا ہے

 

زندگی چاہیے کہ آزادی

فیصلہ زیرِ دام کرنا ہے

 

آج دل ہے مرا اداس بہت

جشن کا اہتمام کرنا ہے

 

اس توقع میں دن گزرتے ہیں

تیرے کوچے میں شام کرنا ہے

 

خود کلامی بہت ہوئی عالم

اب کسی سے کلام کرنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم ہوئے بے صدا نہ جانے کیوں

وہ بھی چپ ہو گیا نہ جانے کیوں

 

ہنس رہا تھا میں اپنی صورت پر

ہو گئے سب خفا نہ جانے کیوں

 

دوستی خوب ہے دماغوں میں

دل نہیں ہم نوا نہ جانے کیوں

 

اب کسی کا بھی انتظار نہیں

جل رہا ہے دیا نہ جانے کیوں

 

ٹوٹتا ہی نہیں ہے آنکھوں سے

خواب کا سلسلہ نہ جانے کیوں

 

جن ستاروں سے ہم نوائی تھی

ہو رہے ہیں جدا نہ جانے کیوں

 

جاگنے کی نصیحتیں کر کے

سو گیا ناصحا نہ جانے کیوں

 

بھیڑ سے جو الگ مسافر تھا

بھیڑ میں کھو گیا نہ جانے کیوں

 

آ گئی ہے قریب جب منزل

گم ہوا راستہ نہ جانے کیوں

 

ایک ہی صف میں ہو گئے شامل

بے وفا با وفا نہ جانے کیوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنے خوابوں سے جو ڈر جاتا ہوں میں

دوسروں کو خواب دکھلاتا ہوں میں

 

شرط اداسی سے لگی ہے آجکل

ہر گھڑی ہنستا ہوں میں، گاتا ہوں میں

 

صورتیں دھوکا بھی دیتی ہیں جناب !

وہ نہیں ہوں جو نظر آتا ہوں میں

 

اپنی صورت سے پشیماں ہوں بہت

سو تمہیں آئینہ دکھلاتا ہوں میں

 

زخم سب کے اپنے لگتے ہیں مجھے

کب کسی کے زخم سہلاتا ہوں میں

 

کوئی میرا منتظر بھی ہے یہاں

روز کیوں آتا ہوں میں جاتا ہوں میں

 

روز وعدہ خود سے کرتا ہوں مگر

روز وعدے سے مکر جاتا ہوں میں

 

خود سمجھتا ہی نہیں جس بات کو

دوستوں کو روز سمجھاتا ہوں میں

 

ساری چالیں جانتا ہوں میں مگر

یار ! گھٹیا پن سے مر جاتا ہوں میں

 

جی نہیں لگتا یہاں بھی اب مرا

لے ! تری محفل سے بھی جاتا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

اک ستارہ مری طلب میں ہے

اک ستارہ بڑے غضب میں ہے

 

ایک صحرا ہے سامنے میرے

ایک دریا مرے عقب میں ہے

 

کھیلنا آ گیا تضادوں سے

دل مرا مستیء طرب میں ہے

 

میری بنتی نہیں زمانے سے

یہ خرابی حسب نسب میں ہے

 

لوگ یوں ہی نہیں اسیر اس کے

کوئی جادو سیاہ شب میں ہے

کیا سنے گا کوئی صدا میری

شہر کھویا ہوا شغب میں ہے

 

کام کرنے ہیں جو نہیں کرتا

زندگی کچھ عجیب ڈھب میں ہے

 

آدمی چار پانو چلتا ہے

زندگی عالمِ عجب میں ہے

 

زندگی سے ہوئی شناسائی

اتنی تاثیر تو ادب میں ہے

 

آج کوئی غزل کہوں گا میں

آج دل نرغۂ تعب میں ہے

 

ایک احساس تشنگی عالم

صرف مجھ میں نہیں ہے سب میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خوشیوں سے ملال بدلتا ہوں

میں صورتِ حال بدلتا ہوں

 

یہ دنیا تو روز بدلتی ہے

میں روز خیال بدلتا ہوں

 

اب کانٹے سجاتا ہوں میزوں پر

احساسِ جمال بدلتا ہوں

 

جب ایک جواب ہی ملتا ہے

کیوں روز سوال بدلتا ہوں

 

ناراض ستارے تو ہوتے ہیں

پر اپنی میں چال بدلتا ہوں

 

ہر لفظ ادھورا ہی لگتا ہے

میں تیری مثال بدلتا ہوں

 

جا! تجھ کو بھی اب میں بھلا دوں گا

لے اپنا مآل بدلتا ہوں

 

اب ہجر کے نغمے لکھوں گا میں

اوراقِ وصال بدلتا ہوں

 

دل مجھ کو بدلنا ہے اب عالم

میں دستِ کمال بدلتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

چین سے جینا کب ہوتا ہے

ہر لمحہ اب تب ہوتا ہے

 

ہنس کر جینا، رو کر جینا

اپنا اپنا ڈھب ہوتا ہے

 

ہم سے اچھا کوئی نہیں ہے

اکثر یہ اغلب ہوتا ہے

 

کبھی کبھی ہوتا تھا پہلے

روز تماشا اب ہوتا ہے

 

حیراں حیراں کیوں پھرتے ہو

اس دنیا میں سب ہوتا ہے

 

شعر و ادب کی دنیا میں بھی

روز نیا کرتب ہوتا ہے

 

تیرا، میرا، ہم کرتے ہیں

ورنہ سب کا رب ہوتا ہے

 

جس کا تس کا ہو جاتا ہے

دل بھی اپنا کب ہوتا ہے

 

ماو و مہر کی رہ میں عالم !

کیوں ظالم عقرب ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی اس کو گلے کا ہار کرتے

محبت تھی تو پھر اظہار کرتے

 

کسی کی جان کا آزار ہوتے

کسی کو جان کا آزار کرتے

 

گراتے راہ کی دیوار کوئی

کسی کا راستا ہموار کرتے

 

بلا سے آگ کا دریا رواں تھا

کسی صورت بھی دریا پار کرتے

 

مزہ کچھ اور آتا زندگی میں

اگر ہم زندگی دشوار کرتے

 

ہمیں اے کاش ! یہ معلوم ہوتا

وہ رک جاتا اگر اصرار کرتے

 

سفر میں اس طرح تنہا نہ ہوتے

ذرا کچھ کم اگر رفتار کرتے

 

ہمیں بھی نیند آ جاتی سفر میں

اگر ہم راستہ ہموار کرتے

 

عزیزوں نے کیے جو وار ہم پر

مزہ آتا اگر اغیار کرتے

 

خموشی کے سوا کیا راستہ تھا

پلٹ کر دوستوں پر وار کرتے

 

جو اپنے رہنما بیدار ہوتے

ہمیں بھی نیند سے بیدار کرتے

 

جھکایا سر کو آخر اس کے آگے

کہاں تک دل سے ہم تکرار کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

عجب دل ہے خسارہ چاہتا ہے

کوئی سودا دوبارہ چاہتا ہے

 

دھوئیں سے جی نہیں بھرتا ہے اس کا

نہ جانے کیا شرارہ چاہتا ہے

 

میں برگِ خشک ہوں جلنا ہے مجھ کو

ادھر شعلہ اشارہ چاہتا ہے

 

مری موجیں رواں ہیں اپنی دھن میں

وہ کشتی ہے کنارہ چاہتا ہے

 

سلیقہ ہی نہیں مجھ کو سخن کا

وہ رمز و استعارہ چاہتا ہے

 

بہت اکتا گیا ہے جی ہمارا

نیا کوئی نظارہ چاہتا ہے

 

نبھے گی کب تلک جگنو سے عالم !

ستارہ تو ستارہ چاہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جو میرے آگے آگے چل رہا ہے

مرے پیچھے کبھی پاگل رہا ہے

 

بچھڑنے کی شتابی ہے اسی سے

یہ دل جس کے لئے بے کل رہا ہے

 

مجھے پتھر بنا کر ایک ساحر

سنا ہے ہاتھ اپنے مل رہا ہے

 

اب اس کی مرضی آئے یا نہ آئے

دیا دہلیز پر تو جل رہا ہے

 

بھلے ہی خاک اڑتی ہے یہاں اب

یہ خطّہ بھی کبھی جل تھل رہا ہے

 

جڑوں کی جستجو میں ہے ثقافت

زمانہ پتھروں میں ڈھل رہا ہے

 

ذرا ہم حال، مستقبل بھی دیکھیں !

سنہرا تو ہمارا کل رہا ہے

 

یہاں یوں ہی نہیں وحشت کا عالم

کبھی یہ شہر بھی جنگل رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ابھی دریا میں طغیانی بہت ہے

اتر جائیں کہ آسانی بہت ہے

 

ادھر ہے تشنگی حد سے زیادہ

سمندر میں جدھر پانی بہت ہے

 

کبھی صحرا کی جانب آ کے دیکھو !

اگر شہروں میں ویرانی بہت ہے

 

مجھے کیوں لگ رہی ہے اجنبی سی

جو دنیا جانی پہچانی بہت ہے

 

اسے ٹھکرا کے کیسے جی رہا ہوں

زمانے کو یہ حیرانی بہت ہے

 

بلا سے چاند روشن ہے فلک پر

مرے جگنو میں تابانی بہت ہے

 

تو کیا میں بھی یہاں پیاسا مروں گا

مری آنکھوں میں بھی پانی بہت ہے

 

خدا ! دانشوری سے دور رکھنا

اگر چہ مجھ میں نادانی بہت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چاہتا ہوں مگر نہیں ہوتی

داستاں مختصر نہیں ہوتی

 

روز آتے ہیں موڑ قصے میں

جن کی کوئی خبر نہیں ہوتی

 

ہم سفر، ہم سفر نہیں لگتے

رہگزر، رہگزر نہیں ہوتی

 

سارے رستوں کو ہے خبر میری

منزلوں کو خبر نہیں ہوتی

 

خوبصورت ہے زندگی لیکن

زندگی معتبر نہیں ہوتی

 

ہنستا رہتا ہوں میں زمانے پر

آئینوں پر نظر نہیں ہوتی

 

کون سمجھائے نامرادوں کو

عاشقی سوچ کر نہیں ہوتی

 

بے خودی ! چھوڑ راستا میرا

دل لگی عمر بھر نہیں ہوتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب تک کھلی نہیں تھی اسرار لگ رہی تھی

یہ زندگی مجھے بھی دشوار لگ رہی تھی

 

مجھ پر جھکی ہوئی تھی پھولوں کی ایک ڈالی

لیکن وہ میرے سر پر تلوار لگ رہی تھی

 

چھوتے ہی جانے کیسے قدموں میں آ گری وہ

جو فاصلے سے مجھ کو دیوار لگ رہی تھی

 

شہروں میں آ کے کیسے آہستہ رو ہوا میں

صحرا میں تیز اپنی رفتار لگ رہی تھی

 

لہروں کے جاگنے پر کچھ بھی نہ کام آئی

کیا چیز تھی جو مجھ کو پتوار لگ رہی تھی

 

اب کتنی کار آمد جنگل میں لگ رہی ہے

وہ روشنی جو گھر میں بے کار لگ رہی تھی

 

ٹوٹا ہوا ہے شاید وہ بھی ہمارے جیسا

آواز اُس کی جیسے جھنکار لگ رہی تھی

 

عالمؔ غزل میں ڈھل کر کیا خوب لگ رہی ہے

جو ٹیس میرے دل کا آزار لگ رہی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمیشہ دل میں رہتا ہے کبھی گویا نہیں جاتا

جسے پایا نہیں جاتا، اُسے کھویا نہیں جاتا

 

کسی کی جستجو ہی خاک چھنواتی ہے دُنیا کی

یوں ہی بحر و بیاباں میں دلِ جویا نہیں جاتا

 

عجب سی گونج اٹھتی ہے در و دیوار سے ہر دم

یہ خوابوں کا خرابہ ہے یہاں سویا نہیں جاتا

 

کچھ ایسے زخم ہیں جن کو سبھی شاداب رکھتے ہیں

کچھ ایسے داغ ہیں جن کو کبھی دھویا نہیں جاتا

 

بہت ہنسنے کی عادت کا یہی انجام ہوتا ہے

کہ ہم رونا بھی چاہیں تو کبھی رویا نہیں جاتا

 

ذرا سوچو! یہ دُنیا کس قدر بے رنگ ہو جاتی

اگر آنکھوں میں کوئی خواب ہی بویا نہیں جاتا

 

نہ جانے اب محبت پر پڑی افتاد کیا عالمؔ

کہ اہلِ دل سے دل کا بوجھ بھی ڈھویا نہیں جاتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہیں پہ جسم کہیں پر خیال رہتا ہے

محبتوں میں کہاں اعتدال رہتا ہے

 

فلک پہ چاند نکلتا ہے اور دریا میں

بلا کا شور، غضب کا اُبال رہتا ہے

 

دیارِ دل میں بھی آباد ہے کوئی صحرا

یہاں بھی وجد میں رقصاں غزال رہتا ہے

 

چھپا ہے کوئی فسوں گر سَراب آنکھوں میں

کہیں بھی جاؤ اسی کا جمال رہتا ہے

 

تمام ہوتا نہیں عشقِ ناتمام کبھی

کوئی بھی عمر ہو یہ لازوال رہتا ہے

 

وصالِ جسم کی صورت نکل تو آتی ہے

دلوں میں ہجر کا موسم بحال رہتا ہے

 

خوشی کے لاکھ وسائل خرید لو عالمؔ

دلِ شکستہ مگر پُر ملال رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تھپک تھپک کے جنہیں ہم سلاتے رہتے ہیں

وہ خواب ہم کو ہمیشہ جگاتے رہتے ہیں

 

اُمیدیں جاگتی رہتی ہیں سوتی رہتی ہیں

دریچے شمع جلاتے بجھاتے رہتے ہیں

 

نہ جانے کس کا ہمیں انتظار رہتا ہے

کہ بام و در کو ہمیشہ سجاتے رہتے ہیں

 

وہ نقشِ خواب مکمل کبھی نہیں ہوتا

تمام عمر جسے ہم بناتے رہتے ہیں

 

اسی کاعکس ہر اک رنگ میں جھلکتا ہے

وہ ایک درد جسے سب چھپاتے رہتے ہیں

 

ہمیں خبر ہے کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے

گئے دنوں کو مگر ہم بلاتے رہتے ہیں

 

یہ کھیل صرف تمہیں کھیلتے نہیں عالمؔ

سبھی خلأ میں لکیریں بناتے رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

قربتوں کے بیچ جیسے فاصلہ رہنے لگے

یوں کسی کے ساتھ رہ کرسب جُدا رہنے لگے

 

کس توقع پر کسی سے آشنائی کیجیے

آشنا چہرے بھی تو ناآشنا رہنے لگے

 

دستکیں تھکنے لگیں، کوئی بھی درکھلتا نہیں

کیا پتہ اب کس جگہ اہلِ وفا رہنے لگے

 

ایک مدّت سے مقفّل ہے مرے دل کا مکاں

عین ممکن ہے یہاں کوئی بلا رہنے لگے

 

رنگ و روغن بام و در کے اڑ ہی جاتے ہیں میاں

جب کسی کے گھر میں کوئی دوسرا رہنے لگے

 

ہجر کی لذّت ذرااس کے مکیں سے پوچھیے

ہر گھڑی جس گھر کا دروازہ کھلا رہنے لگے

 

عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ فلسفے

تجھ سے ہو کر ہم خفا خود سے خفا رہنے لگے

 

پھر پرانی یاد کوئی دل میں یوں رہنے لگی

اک کھنڈر میں جس طرح جلتا دیا رہنے لگے

 

آسماں سے چاند اترے گا بھلا کیوں خاک پر

تم بھی عالمؔ واہموں میں مبتلا رہنے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر گھر میں کوئی تہہ خانہ ہوتا ہے

تہہ خانے میں اک افسانہ ہوتا ہے

 

کسی پرانی الماری کے خانوں میں

یادوں کا انمول خزانہ ہوتا ہے

 

رات گئے اکثر دل کے ویرانوں میں

اک سائے کا آنا جانا ہوتا ہے

 

بڑھتی جاتی ہے بے چینی ناخن کی

جیسے جیسے زخم پرانا ہوتا ہے

 

دل روتا چہرہ ہنستا رہتا ہے

کیسا کیسا فرض نبھانا ہوتا ہے

 

زندہ رہنے کی خاطر ان آنکھوں

کوئی نہ کوئی خواب سجانا ہوتا ہے

 

تنہائی کا زہر تو وہ بھی پیتے ہیں

ہر پل جن کے ساتھ زمانہ ہوتا ہے

 

صحرا سے بستی میں آکر بھید کھلا

دل کے ا ندر ہی و یر ا نہ ہوتا ہے

 

سرمستی میں یاد نہیں رہتا عالم

بزم سے اٹھ کر واپس جانا ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خبر سچی نہیں لگتی نئے موسم کے آنے کی

مری بستی میں قائم ہے ہوا پچھلے زمانے کی

 

مری ہر شاخ کو موسم دلاسے روز دیتا ہے

مگر اب تک نہیں آئی وہ ساعت گل کھلانے کی

 

ہمارے زخم ہی یہ کام اب انجام دیتے ہیں

ضرورت ہی نہیں پڑتی لبوں کو مسکرانے کی

 

سنا ہے اور کی خاطر وہ اب پلکیں بچھاتی ہیں

جو راہیں راہ تکتی تھیں ہمارے آنے جانے کی

 

زمانہ چاہتا ہے کیوں مری فطرت بدل دینا

اسے کیوں ضد ہے آخر پھول کو پتھر بنانے کی

 

بری اب ہو گئی دنیا، شکایت سب کو ہے لیکن

کوئی کوشش نہیں کرتا اسے بہتر بنانے کی

 

ہمارے کینوس پر یوں سیاہی پھر گئی عالمؔ

کہ اب جرأت نہیں ہوتی نیا منظر بنانے کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مصلحت کا ہے تقاضہ عقل سے مکاری کریں

اور یہ دل راضی نہیں ہوتا کہ ہشیاری کریں

 

اعتبار آتا نہیں دل کی صداقت پر اسے

یہ زمانہ چاہتا ہے ہم اداکاری کریں

 

کیا قیامت ہے کہ روز اہلِ جفا کے سامنے

ہم وفائیں کر کے بھی ثابت وفاداری کریں

 

وہ قلم کرتے رہیں گے شاخِ گل، شاخِ ثمر

اور ہمیں فرمان یہ ہے ہم شجر کاری کریں

 

چارہ گر! کچھ تو بتا دے مرہموں کی آس میں

کب تلک ہم ناخنوں کی ناز برداری کریں

 

ان چراغوں سے اجالے کی توقع ہے عبث

جن چراغوں کی ہوائیں ہی خبرداری کریں

 

اس طرف طوفان ہے تو اس طرف سیلاب ہے

بول اے جمہوریت! کس کی طرفداری کریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مل کے رہنے کی ضرورت ہی بھلا دی گئی کیا

یاں محبت کی عمارت تھی گرا دی گئی کیا

 

بے نشاں کب کے ہوئے سارے پرانے نقشے

اور بہتر کوئی تصویر بنا دی گئی کیا

 

منہ اُٹھائے چلے آتے ہیں اندھیروں کے سفیر

وہ جو اک رسم چراغاں تھی اُٹھا دی گئی کیا

 

ایک بندے کی حکومت ہے خدائی ساری

گوشے گوشے میں منادی یہ کرا دی گئی کیا

 

اب کے پانی میں نظر آتی ہے سُرخی کیسی

بہتے دریا میں کوئی چیز ملا دی گئی کیا

بجھ کے آتے ہیں چمکتے ہوئے بازارسے سب

ایک اک کر کے دکاں دل کی بڑھا دی گئی کیا

 

کم سے کم دیکھ تو لیتا میں فصیل زنداں

میری زنجیر کو وسعت ہی ذرا دی گئی کیا

 

میں اندھیروں میں بھٹکتا ہوں تو حیرت کیسی

میرے رستے میں کوئی شمع جلادی گئی کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ بات وقت سے پہلے کہاں سمجھتے ہیں

ہم اک سرائے کو اپنا مکاں سمجھتے ہیں

 

یقیں کسی کو نہیں اپنی بے ثباتی کا

سب اپنے آپ کو شاہِ زماں سمجھتے ہیں

 

بس اک اڑان بھری ہے ابھی خلاؤں تک

اسی کو اہلِ زمیں آسماں سمجھتے ہیں

 

یہ کارزارِ عمل ہے جو لوگ واقف ہیں

وہ زندگی کو فقط امتحاں سمجھتے ہیں

 

ہمیں بھی کھینچتی ہے اس کی ہر کشش لیکن

یہ خاکداں ہے، اسے خاکداں سمجھتے ہیں

 

یہ لوگ اتنے فسردہ اسی لیے ہیں کیا

کہ دوسروں کو بہت شادماں سمجھتے ہیں

 

خدا! انہیں بھی ہو توفیق اس عبادت کی

محبتوں کو جو کارِزیاں سمجھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

تاثرات

 

 

عالم خورشید کی غزلوں میں تازگی کی چمک بھی ہے اور زندگی کی رمق بھی۔ نئی غزلیہ شعری روایت سے استفادہ کرتے ہوئے انہوں نے سادہ اور سلیس زبان میں اپنی محسوسات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے اشعار میں کہیں کہیں ذہن کی بعض نازک تریں کیفیتوں کا اظہار بڑی خوبی سے ہوا ہے۔ مثلاً ذیل کے یہ اشعار :

راس آ چکی ہیں مجھ کو سمندر کی وسعتیں

ساحل بلا رہا ہے کیوں اپنی طرف مجھے

جو ختم ہو گیا رشتہ وہ دوستی کا تھا

جو بچ گیا ہے تعلق وہ انتقام کا ہے

ان کے مزاج کو غزل سے ایک مناسبتِ خاص ہے۔ اگر وہ اسی لگن سے شعر کہتے رہے تو امید کی جانی چاہئے کہ اس صنفِ شعر میں وہ اپنے لئے کوئی الگ راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ثابت ہوں۔

کمار پاشی۱۷ اکتوبر ۸۶                                                (سہ ماہی اندیشہ،شمارہ جنوری تا مارچ ۱۹۸۷ء)

 

                نئے موسم کی تلاش (پہلا مجموعہ)

 

۱۔حسن نعیم:    آپ کی شاعری میں فکر، دردمندی اور تازگی کا احساس ہوا۔ اگر آپ نے جدید و قدیم شاعری کا مطالعہ جاری رکھا اور اپنے ذاتی تجربوں پر بھروسہ کرتے رہے تو ضرور اپنا ایک الگ مقام بنا سکتے ہیں۔ درجنوں اشعار بے حد پسند آئے۔ خدا آپ کو سلامت رکھے۔

 

۲۔ جوگندر پال : میں نے آپ کا کلام بڑے شوق سے پڑھا ہے۔ اپنے پیش لفظ میں آپ نے بجا طور پر لکھا ہے کہ آپ نے شاعری کو صرف شاعری کے مانند برتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے یہاں کھلے پن کا احساس ہوتا ہے اور آپ کھرے اور جیالے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کو پڑھ کر اکثر مقامات پر ذرا رک جانے کو جی چاہا، دوبارہ پڑھا اور آپ واقعی بہت بھلے لگے۔

 

۳۔رضا نقوی واہی:             ایک زمانے میں جو شعرا اچھالے جا رہے تھے آج ان کے مداری انہیں اپنی منڈلی سے جلا وطن کر کے بھول چکے ہیں۔ اس پس منظر میں آج کے دور کے غزل گویوں خصوصاً آپ جیسے چند نوجوانوں نے اپنے پیش رو شعرا کی ڈگر چھوڑ کر جس صاف ستھری اور دلکش شاعری کا سرمایا فراہم کیا یا کر رہے ہیں وہ میری نظروں میں قابلِ صد ستائش ہے۔ آپ کا کلام پڑھ کر جو خوشی ملی اس کا اظہار دعاؤں سے کروں گا کہ خدا آپ کو ہر طرح خوش و خرم رکھے تاکہ اردو کی محفل تابندہ سے تابندہ تر ہوتی رہے۔                                         ۱۶ جنوری ۱۹۸۹ء

 

۴۔ظفر پیامی:   نئے موسم کی تلاش مجھے نہ صرف اچھا لگا بلکہ بہت اچھا لگا۔ قابلِ داد بات یہ ہے کہ آپ نے کلاسیکی ادب کے احترام کے ساتھ نئے موسموں کی نئی بات کامیابی سے کہی ہے۔ شاعری میں تہہ داری ضروری ہے اور ہونی بھی چاہئے لیکن آپ کے یہاں شعبدہ بازی نہیں ہے۔ اس لئے بات دل میں بھی اترتی اور ذہن کو بھی بار بار جھنجھوڑتی دیتی ہے۔                         ۷ اگست ۸۹ء

 

۵۔بلراج کومل: آپ کی آزاد خیالی اور آزاد روی سے میں متاثر ہوا ہوں۔ زندگی کے کاروبار پر ناقدانہ نظر، صاف گوئی، شدید رد عمل، تحرک کی آرزو، زندہ حقیقتوں کا ادراک۔۔۔ان سب سے گزر کر آپ تخلیقی اظہار کی سطح دریافت کرتے ہیں۔ غزل کا شائستہ لب و لہجہ، بعض اوقات کھردرے اور براہ راست نوعیت کے مقامات سفر کو ایمائیت میں جذب کر لیتا ہے لیکن آپ نا گزیر تہذیب کاری کے عمل میں اکثر ہ بیشتر جذبہ راہ کی غیر آلودہ قوت برقرار رکھنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔                                                                ۱۸جنوری ۱۹۹۰

 

۶۔پروفیسر علیم اللہ حالی:  ادھر چند برسوں میں غزل کی شاعری نے تخلیقیت اور تنوع کی تازہ اور خوش گوار منزلیں طے کی ہیں اور متعدد شاعروں نے اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ اس روشنی میں اپنا الگ چراغ جلانا اور اسے پورے ماحول میں اس طرح رکھنا کہ لوگ اسے دیکھیں اور دیکھتے رہیں عالم خورشید کی تحیر خیز طباعی ہے۔ ان کی شاعری بھی اپنے ارد گرد کی فضا سے ابھرتی ہے، ان کے وہی موضوعات ہیں جن سے آج کاحساس نوجوان دو چار ہے لیکن ان کے پاس زندگی اور اس کے مسائل کو سمجھنے اور برتنے کا آزادانہ رویہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فنی کاوشوں کے پیش نظر معروضیت اور موضوعیت کے مباحث بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں وہ ساری لکیریں واضح طور پر ابھرتی ہیں جو موجودہ معاشرہ نئی نسل کے کے ذہنوں پر بنا رہا ہے اس کے باوجود ان کی شاعری سراسر پرسنل ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اردو غزل کو ایک نئے دکشن سے قریب کرنا چاہا ہے۔ انے کا تخلیقی ابال صدیوں سے مروجہ الفاظ اور غزل کی مخصوص تراکیب کو خاطر میں لاتا۔ وہ کم سے کم الفاظ سے کام نکالنا جانتے ہیں۔ کہنے کے لئے بہت کچھ ہو تو پھر الفاظ بھی کئی معنی دینے لگتے ہیں۔ عالم خورشید الفاظ سے ہماری رشتہ داریاں بڑھا رہے ہیں اور نئے موسم کی تلاش کرنے میں وہ کامیاب ہو گئے ہیں۔                     (سہ ماہی توازن،مالیگاؤں )

 

                زہرِ گل(دوسرا شعری مجموعہ)

 

۱۔پروفیسر محمد حسن:             میں آ پ کی شاعری کے مداحوں میں ہوں۔ اس لئے آپ کے مجموعے کو ٹھہر ٹھہر کر بقول شخصے دشمن کی نظر سے پڑھا۔ پھر بھی اکثر اشعار نے بے خود و سرشار کرایا۔

 

۲۔مظہر امام :           اب سے دس سال پہلے جب عالم خورشید کا پہلا مجموعہ نئے موسم کی تلاش شائع ہو ا تھا تو خواہ انہیں اردو شاعری کے افق پر ایک نئے ستارے کے طلوع ہونے کی بشارت سے تعبیر نہ کیا گیا ہو لیکن اس میں شبہ نہیں کہ شاعر کے امکانات کے بارے میں بہت سی توقعات قائم ہوئی تھیں۔ یہ اندازتو ہوا ہی تھا کہ شاعر اردو شاعری کی موجودہ فضا سے مطمئن نہیں ہے اور وہ غزل کے نئے موسم کی تلاش میں ہے۔ عالم خورشید کا دوسرا مجموعہ زہرِ گل اسی تلاش کے نئے پانی میں اگلا پاؤں ہے،

عالم خورشید کی غزلیں شگفتگی، خوش آہنگی اور فن کارانہ سادہ پرکاری کا نمونہ ہیں۔ زبان و بیان کی ایسی برجستگی اور بے ساختگی اور بندش کی ایسی چستی کہ ایک ہموار بہاؤ کا احساس ہو۔ یہ شاعری نہ تجربات کی دلدادہ اور نہ حرف و صوت کی شکست کو اپنا دبدبہ قائم کرنے کے لئے ضروری سمجھتی ہے۔ یہ شاعری عروض زدہ اور عجز بیان کی پروردہ غزلوں کی طرح طبیعت کو منغص نہیں کرتی۔

وہ سامنے کے مشاہدات اور تجربات پر مبنی شعر نہیں کہتے اور معاشرے کی زبوں حالی، بے انصافی اور ظلم و تشدد کے سلسلے میں سکہ بند شکایتی یا احتجاجی لہجہ بھی اختیار نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ شاعری کا کام انسان کو اندر سے بدلنا ہے۔ اس کے بطون میں وہ احساس اور عرفان پیدا کرنا ہے جو اس کی تزکیہ نفس کا موجب بن سکے۔ کیوں کہ فرد کے اندرون کی تبدیلی ہی معاشرے کی تبدیلی کی ضامن ہو سکتی ہے۔                                       (ماہنامہ آجکل، دہلی)

 

۳۔سید امین اشرف:     زیرِ مطالعہ مجموعہ زہرِ گل ہی نہیں عطرِ گل بھی ہے۔ بڑی منفرد آواز ہے، بلا کی شائستگی اور غضب کا انوکھا پن۔ آپ کے درجنوں اشعار مجھے ازبر ہیں۔ اسے تکلف و تصنع نہ سمجھیں نہ توصیفِ باہمی۔ سچی بات اور دل کی بات یہ ہے کہ اس وقت آپ سے اچھی غزلیں کوئی نہیں کہہ رہا ہے۔

 

۴۔نیر مسعود:   آپ کی خوش فکری اور آپ کے کلام کی روانی بہت پسند آئی۔ اظہار پر قدرت ہماری شاعری میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ نعمت آپ کو حاصل ہے۔

 

۵۔عبد ا لقوی دسنوی:   زہرِ گل کا بڑے شوق سے مطالعہ کیا تو محسوس ہو ا کہ آپ کی آواز کچھ الگ ہے۔ تجربے وہی ہیں لیکن رد عمل مختلف ہے۔ اظہار میں سادگی ہے لیکن ایسی سادگی جو دلوں کو چھو لے۔ آپ کے بہت سے اشعار مجھے اچھے لگے اور کچھ سوچنے کے لئے چھوڑ گئے۔

 

۵۔عرفان صدیقی:      بلا شبہ آپ کی شاعری میں تازہ کاری اور توانائی ہے۔ یہ الفاظ بے دریغ لکھ دئے جاتے ہیں لیکن سچا تاثر انہیں لفظوں سے ظاہر ہوتا ہے کیا کیا جائے۔ ویسے آپ جیسے شاعروں کو دوسروں کے اظہارِ خیال وغیرہ کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ خدا آپ کی تخلیقی صلاحیت میں برکت دے۔

 

۶۔پروفیسر وہاب اشرفی:  میں عالم خورشید کو جدید عہد کا ایک قابلِ لحاظ شاعر تصور کرتا ہوں۔ جن کے یہاں جدید تر ادبی لہر بڑی توانائی کے ساتھ محسوس کی جا سکتی ہے۔     (سہ ماہی مباحثہ،پٹنہ)

 

ُ۷۔پرکاش فکری :       آپ کی غزلوں سے گزرتے ہوئے خوشی سرشاری کی کیفیت میں بدل گئی۔ ایک ایسی سرشاری جو کسی نئی اور کسی حد تک حیران کر دینے والی دریافت کی دین ہوتی ہے۔ میری وہ تمام توقعات پوری ہوتی نظر آئیں جو توقعات میں نے آپ سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ لب و لہجہ کی متانت اور فنِ اظہار کے کے تمام آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی اپنی نسل کی سوچ کو شعری پیکر عطا کرنے میں آپ کی کامیابی مجھے وہ اطمینان بخشتی ہے کہ جس اطمینان سے قاری اس وقت دو چار ہوتا ہے جب اسے تخلیق میں وہ سارا کچھ نظر آنے لگے جسے لوگ زمانے کا سچ کہتے ہیں۔

 

۸۔حمید الماس:  آپ میرے لئے اجنبی نہیں ہیں۔ میں نے جب بھی آپ کو پڑھا ہے یہ محسوس کیا ہے کہ آپ بڑے سلیقے سے غزل کہتے ہیں۔ زہرِ گل کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ آپ شعر و ادب کی بدلتی ہوئی قدروں کی چاپ سے واقف ہیں اور جدید طرزِ اظہار کے تقاضے آپ کی روشن ضمیری پر وا شگاف ہیں۔

 

۹۔ڈاکٹر سعید عارفی:     عالم خورشید نئی نسل کے ان شعرا میں ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقی ہنر مندی شعری اسلوب اور اظہار و بیان کی انفرادیت سے ادبی حلقے کو متوجہ کیا ہے۔ زہرِ گل کی صورت میں عالم خورشید نے اردو کے موجودہ شعری سرمائے خصوصاً غزلیہ شاعری میں ایک گراں قدر اضافہ کیا ہے۔

 

۱۰۔پروفیسر عتیق اللہ:    عالم خورشید کو میں گزشتہ پندرہ برسوں سے پڑھتا آ رہا ہوں۔ اسی نسبت سے میرے یاد کے نہاں کدے میں ان کا تعلق گہا ہے اور ان کی شاعری کے حوالے سے جو بھی تاثر ہے وہ خوشگوار بھی ہے اور تازہ دم بھی۔عالم خورشید کے یہاں انقباض کے بجائے انبساط کی کیفیت نے بھی اسی باعث نمو پائی ہے کہ اس کے حواس توانا ہیں۔ وہ چیزوں کو کو ان کے انفراد کی بجائے رشتوں کے جھرمٹ میں دیکھتا ہے۔ اس کی نظر اس سیاق و سباق کی طرف زیادہ ہوتی ہے جس میں حقیقت یک دم ایک جادو، کبھی ایک انکشاف اور کبھی ایک تجسیم کے روپ میں نمودار ہوتی ہے۔ اس طور پر تجرید و تجسیم کی ضدوں کو ایک وحدت میں ڈھالنے کا ہنر بڑا دقیق اور مشکل ہنر ہے جو عالم خورشید کے لئے سہل ثابت ہوا ہے۔ میرے لئے حیرت کا مقام وہ ہے جہاں عالم خورشید ادبیت کے جوہر کو وہاں قائم رکھنے میں پوری طرح کامیاب ہے جہاں اس کے تجربات کا سلسہ سیاست کی بے بصری اور عہدِ حاضر کی بے ضمیری سے جا ملتا ہے۔                                                       (انتخاب و جواز، دہلی)

 

۱۱۔پروفیسرابوالکلام قاسمی:       زہرِ گل بے حد پسند آیا۔ جی چاہا کہ اگر آپ کا پہلا مجموعہ بھی مجھے کسی طرح مل جاتا تو بہتر ہوتا۔ بشرطِ فرصت کچھ لکھوں گا ضرور۔ اس وقت تو آپ اتنی اچھی شاعری، متوازن تخلیقی صلاحیت اور قدرتِ کلام کے لئے دلی مبارکباد قبول کیجئے۔ آپ کی شخصیت میں جس طرح کی سادگی اور معصومیت ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے شاعری میں ایسی ریاضت کر رکھی ہے۔

 

۱۲۔سلیم شہزاد: چراغ، جگنو، شرارہ، ستارہ، شمع، مشعل، مہتاب، چاند، آفتاب، اور دھوپ وغیرہ ایسی روشن لفظیات ہیں جو زہرِ گل کے اشعار میں تاریکی، سیاہ رات، گرد، خاک میں اٹے خواب، نیم خوابی، ٹھٹھرتے موسم اور دھواں وغیرہ کی معنویت سے متلازم ہو کر نور و ظلمت کے تضاد کو عیاں کرتی ہیں۔ ان لفظیات کے علاوہ بھی عالم خورشید نے شعری تضاد یابی سے جو قول محال تخلیق کیا ہے اسے فن کار کے اسلوب کی شناخت قرار دیا جا سکتا ہے۔ شعری فنی پیکر کی تخلیق میں نا کمالی کا احساس عالم خورشید کو نئے جہانوں کی سمت لے جاتا ہے اور یہ بڑی بات ہے۔

روایتی سماجی ساخت سے پرے واقعہ، بے کراں حصول کی تمنا زہرِ گل کی کی شاعری کو نئی سماجی فکر سے ہم رشتہ کرتی ہے۔ بیسویں صدی کے آخری دہے میں عالم خورشید کی یہ کتاب آنے والی صدی کی بشارت بھی ہے اور غزل کی روایت سے عصری غزل کے رشتے کی علامت بھی۔ تمام نظرئے اور نظرئے اور نظریاتی حد بندیوں کے آزاد لیکن زندگی سے مشروط شعری اظہار کے شائقین کے لئے یہ مجموعہ یقیناً ایک نئی چیز ہے۔                                            (ایک تبصرے کا اقتباس)

 

۱۳۔عتیق احمد عتیق:      عالم خورشید صاحب غزل گوئی میں بہ اعتبارِ رنگ و آہنگ اپنے مخصوص فکری اظہار کے لئے جس ڈگر پر گامزن ہیں وہ ان کی اپنی ہموار کی ہوئی ہے۔ فی الوقت اور بھی متعدد شعرا ہیں جو اپنے منفرد طرزِ اظہار کی وجہ سے اپنا جواب آپ ہیں۔ انہیں میں شامل عالم خورشید بھی ہیں لیکن یہ اپنے شوق ( تخلیقی سوز) کی چنگاریوں کو مسلسل روشن رکھنے اور اپنے دل اور دماغ دونوں کو تخلیقی سوچ میں تپائے رکھنے کے خوگر بھی ہیں۔ دل اور دماغ اگر ایک ساتھ سلگ نہ اٹھیں تو بڑی شاعری وجود میں نہیں آتی۔ اس مقدار پر زہرِ گل کی غزلیں پڑھئے تو برجستہ کہنا پڑتا ہے کہ عالم خورشید اپنے اچھوتے لب و لہجے اور طرزِ نگارش کے نئے رنگ و نور کے ساتھ خود بھی آسمانِ ادب پر خورشید عالمتاب کی طرح ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔       (سہ ماہی جواز، مالیگاؤں )

 

۱۴۔عشرت ظفر:               آپ نے غزل کے اسلوب میں جو راہ نکالی ہے وہ اس عہد میں اب تک نظر نہیں آئی۔ آپ کی سوچ کا زاویہ مختلف ہے۔ اشیا کو دیکھنے اور انہیں برتنے کا عمل بہت ہی الگ ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ایک لہجہ غزل میں جو ۱۹۸۰ کے بعد ابھر رہا ہے اس میں آپ کی حیثیت پیش رو کی رہے گی۔

 

۱۵۔ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید:      مجھے زہرِ گل کا پیش لفظ بہت پسند آیا۔ پیش لفظ بالعموم رسمی ہوتے ہیں لیکن آپ نے معنی آفریں اور فکر انگیز باتیں کہی ہیں۔ آپ کی غزلوں کا رنگ بھی اور ہے۔

 

۱۶۔ظہیر صدیقی:              زہرِ گل کا شاعر راست تخلیقی ذہن کا شاعر ہے۔ راست تخلیقی ذہن سے میری مراد یہ نہیں کہ وہ کسی مثبت سیاسی یا مذہبی نظریہ سے وابستہ ہے بلکہ یہ ہے کہ اس کے ذہنِ تخلیق پر منفی عوامل کا رد عمل اور اس کا شعری اظہار مثبت ہی ہوتا ہے۔ شاعر حساس ذہن کا مالک ہے لیکن وہ اپنے حواس کو قابو میں رکھنے کا ہنر جانتا ہے۔ معاشرہ میں پھیلی ہوئی خرابیاں عام لوگوں کے مقابلے اس کے ذہن پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں لیکن چونکہ وہ راست اندازِ فکر کا حامل ہے اس لئے اشعار کی صورت میں جو رد عمل ظاہر ہوتا ہے وہ منفی کے بجائے مثبت ہوتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ زہرِ گل کا شاعر زہر نگلنے پر مجبور ضرور ہے لیکن اس کا قلم تریاق ہی اگلتا ہے۔

زہرِ گل کا شاعر قدیم و جدید کی آویزش و کشمکش سے بے نیاز ہو کر اپنے شاعرانہ خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ نہ وہ کسی رجحان یا تحریک سے وابستہ ہے اور نہ اسے کسی تحریک یا رجحان سے بیر ہے۔ وہ خلوصِ اظہار میں یقین رکھتا ہے اور حسنِ بیان کا قائل ہے۔اس کے نزدیک روایت، ترقی پسندی، جدیدیت ایک ہی تاریخی تسلسل کی کڑیاں ہیں۔ اس کے شعری مزاج نے تینوں عہد اور مزاج کے احسن اثرات کو قبول کیا ہے۔ زہرِ گل کا مطالعہ کیا جائے تو یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ شاعر نے روایت سے وقار و تمکنت، ترقی پسندی سے عزم و حوصلہ کی دولت حاصل کی ہے اور جدیدیت سے فرد کی بے بسی، نفسیاتی پیچیدگی کا بے باکانہ اظہار قبول کیا ہے۔ لیکن مختلف النوع اثرات کو قبول کرنے کے باوجود اس کے اشعار میں زرہ برابر فرسودگی اور پامالی نہیں۔ وہ اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتا ہے۔                  (ایک مضمون کا اقتباس، سہ ماہی عہد نامہ، رانچی)

 

۱۷۔انیس اشفاق:       رسالوں میں آپ کا کلام پڑھتا اور پسند کرتا رہا ہوں لیکن اس کلام کو مجموعے کی شکل میں دیکھ کر اسے پھر سے پڑھ کر زیادہ مسرت حاصل کی۔ اچھی شاعری کسے پسند نہیں آتی سو مجھے بھی پسند آتی ہے اور زہرِ گل اچھی شاعری کا نمونہ ہے۔ تیسرا مجموعہ اس سے بھی اچھی شاعری کا نمونہ ہو گا۔

 

۱۸۔ناصر بغدادی،مدیر، بادبان، پاکستان    آپ کی غزلیں تخیل کی تازہ کاری اور لب و لہجے کے حوالے سے منفرد اہمیت کی حامل ہیں۔ ادب میں دوسروں کی تقلید سے دامن بچاتے ہوئے اپنا اک نیا تخلیقی راستہ تلاش کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ مگر آپ کا کلام پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ انفرادی منصب کے تعلق سے آپ نے ایک جدید اسلوب کا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ آ پ کا یہ مجموعہ میری ذاتی لائبریری کے ادبی تمول میں ایک لاجواب اضافہ ہے۔

 

۱۹۔افتخار امام صدیقی:    عالم خورشید شعری امکانات سے مملو شعرا کی فہرست میں خاصے نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں تخلیقی اپج بھی ہے اور کہنے کی بابت بھی۔ ان کی شاعری پر کئی زاویوں سے مکالمہ ہو سکتا ہے۔

عالم خورشید کی شعری عمر میں اب جو روشنی سما گئی ہے اسے تیز اور صاف ہوتے رہنا ہے۔ لیکن روشنی کے اس سفر میں ان کو اپنے حرف و لفظ سے ہی روشنی خلق کرنی ہے۔ عالم خورشید کے یہاں ساری خوبیاں موجود ہیں اور وہ اپنی شاعری سے متاثر بھی کر رہے ہیں لیکن یہ سارا کچھ ابھی کاغذ پر ہی ہے۔                                             (ماہنامہ شاعر، بمبئی)

 

۲۰۔ظہیر غازیپوری:    میں نے عالم خورشید کی غزلوں کہ بغور پڑھا تو محسوس ہوا کہ نہ صرف غزل ان کی گرفت میں ہے بلکہ وہ غزل پر فخر کرتے ہیں اور ان کی غزل ان پر ناز کرتی ہے۔ اور ان کے سامنے وہ دروازہ کھل گیا ہے جس میں داخل ہو کر وہ معتبر شعرا کی صف میں کھڑے ہونے کا شرف حاصل کر سکتے ہیں۔ عالم خورشید کی غزل سطحیت، کھردرا پن، اور الہامیت سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ ان کے یہاں وہ طاقت ور روایت بھی ہے جس سے انحراف ممکن نہیں اور وہ عصری حسیت بھی جو استعارہ سازی اور پیکر تراشی کے ذریعہ معنی آفرینی کے اسباب فراہم کرتی ہے۔ عالم خورشید کا اپنا ایک اسلوب جو شعری اعتدال اور بلیغ اندازِ فکر کا ضامن ہے۔ ان کا اپنا لہجہ ہے جو منجمد تخلیقی قوتوں کو بیدار کرتا ہے۔ ان کا اپنا انتخابی رویہ ہے جو احساس کی نزاکت کو تاثیر کی شدت عطا کرتا ہے۔ ان کی غزل خود ان کی آپ بیتی بھی ہے، معاشرتی اضطراب کی آئینہ دار بھی اور آفاقی قدروں کا مظہر بھی۔

(ایک مضمون کا اقتباس)

 

۲۱۔ڈاکٹر رضوان احمد:    عالم خورشید کی خوبی یہ ہے کہ وہ پر پیچ موضوع کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور غزل کا حسن مجروح نہیں ہونے دیتے۔ ان کی شاعری کو سویع تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ ان کے افکارو خیالات ایک جانب کلاسیکی غزل سے جوڑتے ہیں تو دوسری جانب عالم سطح پر ہر لمحہ واقع ہونے والی تبدیلیوں سے بھی ہم آہنگ کر دیتے ہیں۔         (ایک مضمون کا اقتباس)

 

۲۲۔نظام صدیقی:       میں آپ کو نئے عہد کے شعری تخلیقیت کے علمبرداروں میں شمار کرتا ہوں۔ مابعد جدید تناظر میں آپ کی غزلوں میں معنویت، تخلیقیت، عصریت اور کیفیت نہایت کیمیا اثر اور معنی خیز ہے۔ آپ نے تخلیقیت افروز غزل کی کنواری برف کو توڑا ہے اور اپنی آزادانہ غزلیہ قلمرو کی تخلیق، تشکیل اور تعمیر کی ہے۔

 

۲۳۔امتیاز احمد: کلاسیکی شعریات کے زائیدہ عالم خورشید کے اشعار کلاسیکی اسلوب، آہنگ اور انداز کے ساتھ ساتھ سہل ممتنع کی اس کیفیت کا بھی پتہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر مصرعہ اپنی اپنی جگہ پوری طرح گڑھا ہوا انتہائی آسانی سے کہا گیا اور بغیرکسی بلند آہنگی اور اظہار کی شدت کے اپنی جگہ تاثر کی شدت رکھتا ہے۔

لیکن ان معروضات کے یہ معنی نہیں ہیں کہ عالم خورشید کلاسیکی شاعر ہیں۔ عالم اپنے عہد کے شاعر ہیں اور اسعہد کی ساری جھلاہٹ، تشنگی، بیچارگی، مہابیانیہ کی گم شدگی ان کے کلام میں در آئی ہے۔ اس میں احتجاج کی ایک زیریں لہر بھی ہے، عشق کی آگ بھی اور زندگی کی ناہمواریوں کو ہموار کرنے کا حوصلہ بھی۔

(ایک مضمون کا اقتباس ماہنامہ الفاظ، علی گڑھ)

 

۲۴۔عبدالا حد ساز:      دو ایک فروعی خامیوں سے قطع نظر یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ عالم خورشید ایک جینوئن شاعر ہیں جن کے یہاں زندگی کو اپنی نظر سے دیکھنے اور اپنے انداز میں اظہار کرنے کی خواہش بھی ہے، جسارت بھی ہے اور سلیقہ بھی۔ ایک لائقِ تحسین امر یہ بھی ہے کہ اپنی کتاب کو عالم خورشید نے خود اعتمادی کے ساتھ ایک مدلل اور مرتکز پیش لفظ لکھ کر اہلِ نظر کے سپرد کیا ہے۔ جو قارئین زندگی اور زمانے کے تغیر کے ساتھ آرٹ کی تبدیلیوں کی بامعنی مطابقت کی فہم رکھتے ہیں وہ زہرِ گل کے مطالعے سے ضرور حظ انداز ہوں گے۔                                         (نیا ورق، بمبئی)

 

۲۵۔شہپر رسول:       آپ میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ نئے شعر و ادب میں جو لوگ مجھے پسند ہیں ان میں آپ کا نام بہت نمایاں ہے۔

بتوں کے شہر میں یہ کامیابی کم نہیں ہے

 

۲۶۔عبد القیوم ابدالی:    عالم خورشید کی پوری شاعری دو متخالف نکتوں کے درمیان لٹکی ہوئی شاعری ہے۔ ایک طرف زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے تو دوسری طرف تلخیء حالات کا منفی ہالہ ہے جو ان رعنائیوں کو چھونے نہیں دیتا۔ شاعر کے یہاں اس منفی ہالہ کو توڑنے کا جذبہ بھی ہے، خواہش بھی ہے اور عزم بھی۔ ان معنوں میں عالم خورشید شکستِ خواب کے بعد ایک اور خواب بننے والی شاعری کی روایت کا امین بھی ہے۔

عالم خورشید کی لفظیات پر نظر ڈالیے تو بخوبی اندازہ ہو جاگا کہ لفظوں کا انتخاب ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں بنتا۔ لیکن اپنے کلاسیکی ورثے کا ایک رچا ہوا شعور ان کے یہاں ضرور جاں گزیں نظر آتا ہے۔ اس لئے عربی و فارسی الفاظ، داستانوں و تلمیحی کرداروں اور حکایتوں کا استعمال ان کے یہاں کثرت سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ لفظیات و ترکیبات اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ عالم خورشید نے اپنے کلاسیکی سرمائے سے بھی فیض حاصل کیا ہے لیکن اس نے اس سرمائے کو اپنی تخلیقی کائنات میں جذب کر لیا ہے۔ اس لئے کئی مقامی و علاقائی لفظیات ان سے اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ یہ بتانا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ کن لفظیات و تراکیب کا استعمال زیادہ ہے۔      (ایک مضمون کا اقتباس، عہد نامہ رانچی)

 

۲۷۔عبدالمتین جامی:عالم خورشید ایک باصلاحیت فن کار ہیں جن کے اندر تخلیق کرنے کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ہر وقت ابلتا رہتا ہے۔ تنقیدی زبان کی اصطلاح میں ہم جسے خلاقانہ صلاحیت کے نام سے جانتے ہیں۔ ہم عالم خورشید کے اندر اس صلاحیت کو بخوبی محسوس کر سکتے ہیں اور یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ مستقبل کا اردو شعری ادب ان سے بہت کچھ حاصل کرے گا۔   (ایک مضمون کا اقتباس)

 

۲۸۔سلیم انصاری:      عالم خورشید کی شاعری اپنے عہد کے مسائل و مصائب کا موثر اظہار ہے۔ زہرِ گل کی غزلیں معاشرے میں روز مرہ کے مائل سے لیکر بکھرتے ٹوٹتے رشتوں اور زوال پذیر تہذیبی قدروں تک نئے منظر ناموں کی تشکیل کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ محرومیوں، مایوسیوں، خوف و تشکیک اور عدم تحفظ کے درمیان زندگی کرنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ عالم خورشید کے یہاں جو خصوصیت سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ زبان و بیان پر ان کی قدرت ہے۔ ان کی شاعری کا دکشن ان کی فکر سے پوری طرح ہم آہنگ اور ان کے اظہار کی تئی سمتیں متعین کرتا ہے۔ ان کے یہاں ترسیل کے المئے کا مسئلہ نہیں ہے تاہم استعارات و علامات کا ایک منفرد نظام قائم ہے جو معنی و مفاہیم کے نئے جہانوں کی سیر کراتا ہے۔                      (ایک مضمون کا اقتباس)

 

۲۹۔جمال اویسی :       زہرِ گل کی شاعری اپنے عہد کی بہترین آئینہ دار ہے۔ زہرِگل کا شاعر مکمل آگہی کا شاعر ہے۔ اتنا شدید احساس رکھتا ہے کہ ایک لمحہ میں وہ کئی زمانوں میں سانس لیتا ہے۔ وہ بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل پر اپنی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

 

۳۰۔ سیفی سرونجی:      عالم خورشید نے اپنی شاعری کی ابتدا ہی منفرد لہجے میں کی ہے ورنہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شاعر رفتہ رفتہ اپنا رویہ بدلتا ہے۔ عالم خورشید کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے پہلے اپنے شعور کہ پختہ کیا پھر شاعری کے میدان میں قدم رکھا۔ انہوں نے ڈھیر ساری غزلوں اور کتابوں کے انبار نہیں لگائے بلکہ کم کہا لیکن جو کچھ کہا سوچ سمجھ کر کہا۔ یہ شعور ہماری نئی نسل کے شعرا میں کم ہی دیکھنے کہ ملتا ہے۔ اب تک نئی نسل کے جتنے بھی انتخاب شائع ہوئے ہیں یا مضامین شائع ہوتے ہیں ان میں عالم خورشید کا حوالہ ضرور ہے۔

 

۳۱۔شمیم فاروقی: غزلوں کا مجموعہ نہایت خوبصورت ہے۔ ہر غزل میں آپ کا مخصوص انداز موجود ہے اور ہر شعر دل پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ آپ کی صلاحیتوں کا بہت پہلے سے قائل تھا، مجموعے کے اشعار سے بے حد متاثر ہوا۔

 

۳۲۔رؤف خیر: پٹنہ کے جانے پہچانے شاعر عالم خورشید نے اپنے تریاقِ سخن کو زہرِ گل کا نام دے کر پیش کیا ہے۔ زندگی کی کڑوی حقیقتوں کو انہوں نے شعری مٹھاس میں ڈھال کر گوارا بنا دیا ہے ۔ ایہام و ابہام ایک حد میں حسن ہیں۔ اگر یہ قاری کی فہم و فراست کا امتحان لینے پر آمادہ لگیں تو قاری الجھن کا شکار ہونے کے بجائے صرفِ نظر کو ترجیح دے کر سمجھ میں آنے والے حصوں کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ عالم خورشید کے بعض اشعار پڑھ کر قاری اپنے آپ کو قصور فہم کا الزام دینے کے بجائے شاعر پر عجز بیانی کا الزام رکھے گا۔

 

۳۳۔شمیم قاسمی: زہرِ گل کی غزلیں معاصر شعری سفر کی ایک تازہ دم اڑان کی نمائندہ ہیں۔ ایک ایسی اڑان جو دورانِ سفر کسی بھی حد بندی کی قائل نہیں اور جس کے پیشِ نظر اپنا ایک الگ ہی آسمان ہے۔ شاعر کے باطن میں ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کی صدائے بازگشت ایک سیال بن کر دوڑ رہی ہے۔

(ایک مضمون کا اقتباس، مطبوعہ اثبات و نفی، کلکتہ)

 

                خیال آباد(تیسرا شعری مجموعہ)

 

۱۔شمس الرحمٰن فاروقی:          مجموعی حیثیت سے آپ کی یہ کتاب پچھلی کتاب سے بہتر ہے۔ بعض زمینیں آپ نے بہت خوب اختیار کیں اور بعض مضامین بھی آپ نے بہت اچھے نکالے ہیں۔ آپ کے یہاں درون بینی اور خود کلامی کے ساتھ ساتھ ایک تھوڑی سی شوخی بھی بہت کامیاب تاثر چھوڑتی ہے۔

 

۲۔مظہر امام:    عرفان صدیقی کے بعد اردو غزل عالم خورشید سے عبارت ہے۔

 

۳۔شکیل الرحمٰن:       خیال آباد کی غزلوں میں عالم خورشید کے جس شعری رویے کی پہچان ہوتی ہے۔ وہ نئی غزل میں بہت جلد ایک منفرد رجحان کی صورت اختیار کرے گا۔ اس بات کا مجھے یقین ہے۔ عالم خورشید ایک با شعور تخلیقی فن کار ہیں۔ زندگی اور ماحول کے اضطراب، تضادات اور انتشار کو خوب جانتے پہچانتے ہیں۔ حالات اور ماحول کی اداسی اور مایوسی سے غمزدہ تو ہوتے ہیں لیکن کبھی انہیں خود پر طاری نہیں کرتے۔ تخیل میں بسے مستقبل کے کیف اور احساس سے لہجہ نرم ہو جاتا ہے اور شاعر جو کہنا چاہتا ہے کہہ دیتا ہے اور اکثر اس طرح بھی کہتا ہے کہ لگتا ہے کہ اس کے الفاظ سرگوشیاں بھی کر رہے ہیں۔بظاہر عام سا تجربہ جب سرگوشی تو ذہن گہرائی میں اتر کر زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے اور جمالیاتی سرور حاصل کرتا ہے۔        (ایک مضمون کا اقتباس، مطبوعہ کتاب نما، دہلی)

 

۴۔پروفیسر نثار احمد فاروقی: خیال آباد قابلِ قدر، لائقِ تحسین و آفریں، نئے اچھوتے انداز کے اشعار سے آراستہ ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جو ہمیں اشعار کی معنوی فضا کی سیر کرا دیتا ہے۔

 

۵۔عبد القوی دسنوی:    آپ کی غزلیں مزاج، زبان، اظہار اور کیفیت کے لحاظ سے اپنی پہچان رکھتی ہیں۔ آپ کی آواز مدھم ضرور ہے مگر پر اثر ہے۔

 

۶۔اختر سعید خاں :       آپ نے جدید پیرایۂ اظہار کو کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ اسحسن سے اپنی غزل میں سمیٹ لیا ہے کہ نہ الفاظ اجنبی معلوم ہوتے ہیں نہ خیالات و جذبات پر قدامت کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ یہ اندازِ کلام لائقِ ستائش ہی نہیں عہدِ نو کے شعرا کے لئے مشعلِ راہ بھی ہے۔

 

۷۔رفعت سروش:      میرے خیال میں خیال آباد ناقدینِ غزل کے لئے کافی مواد فراہم کرتا ہے۔ نئی غزل کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اس کتاب کی سبک رفتار، خواب خواب، رنگ رنگ اور سرتاقدم سرگوشی کا انداز لئے ہوئے غزلوں کو دیکھیں۔ آپ نے ایک نیا جہانِ غزل آباد کیا ہے جو معنوی طور پر نئی نظم سے بہت قریب ہے۔

 

۸۔وارث کرمانی:               شعری مجموعہ خیال آباد بڑے لطف سے پڑھا۔ آپ کے کرب اور کشمکش کو محسوس کیا۔ایک عجیب آویزش اور اندرونی خلفشار کا عکس خیال آباد کی غزلوں میں نظر آیا۔ آبدار اور آبِ رواں کی طرح سیال غزلوں میں خلوص بھی ہے، موسیقی بھی اور فنّی تراش و خراش بھی۔

معلوم نہیں آپ کی عمر کیا ہے اور صحت کیسی ہے۔ اگر آپ کی تندرستی آپ کی شدتِ احساس اور آپ کی آگاہی و دردمندی کو برداشت کر سکی تو اردو غزل کو آپ زیادہ ثروت مند اور درخشاں کر دیں گے۔

 

۹۔پروفیسر وہاب اشرفی:  بہت عرصہ پہلے شب خون کے کسی شمارے میں ایک غزل پر میری نظر ٹھہر گئی تھی۔ جس کا مطلع یوں تھا

مٹھی میں بھر کے دھول ہوا میں اچھال دہ

تم اپنے انتشار کی کوئی مثال دہ

یہ شعر میرے ذہن پر نقش ہو گیا اور تب سے میں نے عالم خورشید کی تخلیقات سے باخبر رہنے کی کوشش تیز کر دی۔

۲۵۔۳۰ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب تک عالم خورشید کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ نئے موسم کی تلاش، زہرِ گل اور خیال آباد۔ ان مجموعوں کے مطالعے سے چند امور از خود واضح ہو جاتے ہیں جنہیں اختصار کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے۔

عالم خورشید کی فکر میں جدیدیت اور اس سے پہلے کی صورتوں کا ادغام جو اپنی انفرادیت یوں قائم کر تی ہے کے بے پیچیدہ اور الجھے ہوئے معاملات سہل انداز میں شعر میں ڈھل جاتے ہیں۔ اسی لئے روایتی اسلوب اپنے خد و خال بدل لیتا ہے اور لفظوں کے جدلیاتی استعمال سے نئی معنوی سطح ابھر جاتی ہے۔ غالباً عالم خورشید کا یہی رویہ انہیں مقبول بھی بناتا ہے اور ان کے بظاہر سہل اشعار کی معنوی جہتوں کی تلاش پر کمر بستہ بھی کرتا ہے۔

میں نے بہت پہلے ان کے بارے میں لکھا تھا کہ عالم خورشید جدید عہد کے ایک قابلِ لحاظ شاعر ہیں جن کے یہاں جدید ادبی لہر بڑی توانائی کے ساتھ محسوس کی جا سکتی ہے۔ میں یہاں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جدید تر لہر سے میری مراد حزن سے نکل کر نشاط کی طرف مائل ہونا ہے جو رویہ جدیدیت کے بعد کا ہے۔ میرے اس یقین کو ان کے مجموعے خیال آباد نے مزید مستحکم کیا ہے۔

عالم خورشید کی غزلوں میں شعری تجربے جنہیں تکنیکی تبدیلیوں سے ہمکنار سمجھا جائے وہ تقریبا عنقا ہیں۔ لیکن دلچسپ بات ہے روایتی اسلوب کو تازہ کاری کے ساتھ پیش کرنا ایک ایسا اجتہاد جو شاید باید ہی نصیب ہوتا ہے۔ اس صورت حال کو سمجھنے کے بعد ان کی شاعری کے تمام جوہر آئینہ ہو جاتے ہیں اور کوئی چیز گنجلک باقی نہیں رہتی۔ ان کے یہاں معنوی پیچیدگی نہیں ہے، تکثیریت بھی بہت زیادہ نہیں ہے لیکن جو ہے وہ تمام تر تازگی کے ساتھ ہے جو ان کی شاعری کو ایک خاص عمق اور ایک خاص کیف سے بہرہ مند کرتی ہے۔

میں عالم خورشید کو سادگی اور تازہ کاری کا شاعر باور کرتا ہوں۔    (ایک مضمون کا اقتباس، مطبوعہ مباحثہ پٹنہ)

 

۱۰۔قاضی عبید الرحمٰن: خیال آباد بہت نادر عنوان ہے غزلوں کے مجموعہ کے لئے نہایت مناسب۔اب غزل میں امتیازی گوشے پیدا کرنا بہت مشکل لیکن آپ نے انفرادیت کے ساتھ غزلیں کہی ہیں۔ اکثر اشعار بے حد نیا مضمون اور دل نشیں طرزِ اظہار کے حامل ہیں۔

 

۱۱۔مظفر حنفی:   بیشک آپ کی غزلوں میں ایسے شیڈز ہیں جو دوسروں سے الگ ہیں۔ آپ کی سادگی میں معنی خیزی ہے اسے برقرار ہی نہ رکھئے بلکہ بڑھائیے بھی۔

 

۱۲۔ظفر گورکھپوری:    آپ کے یہاں بڑی قابلِ قدر بات یہ ہے کہ عصری موضوعات کو نظم کرتے وقت آپ فن کی کمالیاتی تقاضوں کو فراموش نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے یہاں گمبھیر تجربات کے اظہار میں بھی شاعری کا لطف کم نہیں ہوتا۔

 

۱۳۔انیس اشفاق:       آپ کا کلام پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ مضامین کی ندرت اور الفاظ کی مناسبت کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اسی لئے آپ کی شاعری سبکِ تازہ اور مضمون اعلٰی کا عمدہ نمونہ ہے۔

 

۱۴۔ُپروفیسر سلیمان اطہر جاوید:    آپ کے یہاں صحت مند نیا پن ہے جو اس دور کے بہت کم شعرا میں پایا جاتا ہے۔

 

۱۵۔پروفیسر حامدی کاشمیری:      آپ کی غزلوں میں انفرادیت کے نقوش واضح ہیں۔

 

۱۶۔ندا فاضلی:   غزل جیسی پرانی صنفِ سخن میں اپنے طرزِ اظہار اور فکری معیار کے لئے گنجائش نکالنا آسان نہیں ہے۔ آپ نے اس مشکل کو سلیقے سے آسان کیا ہے۔

 

۱۷۔زبیر رضوی:       آپ کی غزلیں بے توجہی سے بھی پڑھی جائے تو دامن گیر ہو جاتی ہے۔ لیکن میں نے ہمیشہ آپ کی غزل کو توجہ اور اس جستجو کے جذبے سے پڑھا کہ دیکھیں آپ کی غزل نے اور کتنا سفر طے کر لیا۔ خیال آباد سے آگے ابھی آپ کی غزل کو  ابد آباد ہونا ہے اور آپ کی پر بہار غزل گوئی کے لئے یہ منزل دور نہیں۔

 

۱۸۔عشرت ظفر:       کہیں جامد،کہیں متحرک پیکروں کی جلوہ سامانیوں کے ساتھ اب عالم خورشید کی غزل اکیسویں صدی کے تین برسوں کو سمیٹ چکی ہے۔ ان کی فکر میں نمایاں وسعت اور جہت خیزی آ چکی ہے جو انہیں مستقبل کا بڑا شاعر بننے کی طرف لئے جا رہی ہے۔

عالم خورشید کے یہاں کثرت سے واحد جمع کی ضمیری آئی ہیں جو اچھی شاعری کا خاصہ ہیں اور اس بساط سے بڑی شاعری کا نخل ابھرتا ہے۔ شاعرنے اپنی ذات کے حوالے سے ان تمام باتوں کا ذکر کیا ہے جو آج کی نسل کے گرد و پیش پھیلی ہوئی ہیں۔ پوری انسانی نسل کو ایک اکائی کی شکل میں پیش کرنا اور اس منظر نامے میں خود کو شامل کرنا، تمام انسانوں کے کرب کو اپنا کرب سمجھنا، یہی بڑی شاعری کی پہچان ہے۔                                       (ایک مضمون کا اقتباس، شعر و حکمت، حیدرآباد)

 

۱۹۔اسلم حنیف:        عالم خورشید کے یہاں بیشتر روایتی شاعری کے الفاظ نئے آہنگ اور ذائقہ کے ساتھ وارد ہوئے ہیں جن کے مطالعے سے ندرت و شگفتگی کا احساس مخصوص انداز میں ابھرتا ہے۔ عالم خورشید نے ہم عصر مسائل و حادثاتِ حیات کی نقاب کشائی کے لئے جدیدیوں کی طرح الفاظ کا بے محل استعمال ہی کیا ہے اور نہ حشو زوائد سے اس کے معنیاتی نظام کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

اوزان و بحور ثقیل ہوں یا رواں دواں عالم خورشید کے یہاں حسنِ بیان مجروح نہیں ہوتا۔ اگر چہ انہوں نے بیانیہ اقدار کو بھی نظرانداز نہیں کیا ہے مگر استعاروں کے حوالے سے مافی الضمیر کے اظہار کو زیادہ اہمیت دی ہے جسے لفظ کے ساتھ مخصوس برتاؤ کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔             (ایک مضمون کا اقتباس)

 

۲۰۔صادق:    خیال آباد میں ماضی و حال اور خواب و حقیقت بہم دگر پیوست ہو کر قاری کو ایک عجیب کیفیت سے دو چار کرتے ہیں۔

 

۲۱۔نامی انصاری:       آپ کی شاعری میں جستجو کی جو ایک لہر ہے خود کو، دنیا کو اور کائنات کو پہچاننے کی، وہ جدید شاعری کا ایک روشن استعارہ ہے۔ فنّی اعتبار سے بھی آپ کا کلام مستحکم ہے۔

 

۲۲۔حفیظ اللہ نیولپوری:   آپ کے اشعار تازگیِ بصارت و تزکیہ بصیرت کا باعث بنتے ہیں۔

 

۲۳۔شموئل احمد:       شاید غزل کو خود کلامی راس آتی ہے۔ لیکن عالم کے لہجے میں کہیں کہیں بلند آہنگی بھی ہے۔ جو عصری تقاضہ بھی ہے اور ان کی انا کا پرتو بھی۔ ان کے لہجے کے آہنگ میں ایک طرح کا تیکھا پن ہے۔ ہم عصر انسانی زندگی کو بے رنگ کر دینے والے عناصر کے خلاف وہ موثر ڈھنگ سے احتجاج کرتے ہیں۔ زندگی کے تئیں ان کے تنقیدی رویوں کا بہت تخلیقی اظہار ان کی غزلوں میں ہوا ہے۔ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

مل کے رہنے کی ضرورت ہی بھلا دی گئی کیا   یاں محبت کی عمارت تھی گرا دی گئی کیا

بے نشاں کب کے ہوئے سارے پرانے نقشے         اور بہتر کوئی تصویر بنا دی گئی کیا

ایک بندے کی حکومت ہے خدائی ساری     ساری دنیا میں منادی یہ کرا دی گئی کیا

منہ اٹھائے چلے آتے ہیں اندھیروں کے سفیر وہ جو اک رسمِ چراغاں تھی اٹھا دی گئی کیا

بہتے پانی میں نظر آتی ہے سرخی کیسی        اب کے دریا میں کوئی چیز ملا دی گئی کیا

پوری غزل امریکی سامراجیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

اصل میں عالم کی شاعری مختلف رنگ لہجے اور اسالیب کی شاعری ہے۔ ان کی شاعری ذاتی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔، داخلی بھی ہے اور غنائی بھی۔ ان کے اشعار اپنے زمانے سے وابستگی کا پتہ دیتے ہیں۔ سماج کی کثافتوں کو یہ خوردبین سے دیکھتے ہیں۔ ایک حقیقت وہ ہوتی ہے جو نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے اور نظر نہیں آتی۔ عالم کی شاعری اس نادیدہ حقیقت کی بازیافت ہے۔

(ایک مضمون کا اقتباس، خصوصی گوشہ شعر و حکمت حیدرآباد)

 

۲۴۔رضوان احمد:               عالم خورشید فطری اور وہبی شاعر ہیں۔ ان کے یہاں تصنع یا بناوٹ نام کی کوئی چیز نہیں ملتی۔عالم بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں ان کا اصل رنگ غزل ہی میں نکھرتا ہے کیونکہ ان کی غزلوں کے اشعار بر محل اور تازہ توانا ہیں۔ یہ تازہ کاری، توانائی اور پرکاری انہیں ہم عصر شعرا میں ممیز اور ممتاز کرتی ہے۔ انہوں نے اردو کے شعری ادب میں اپنا مقام بنا لیا ہے۔ ان کا منفرد لب و لہجہ دور سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ عالم نے کبھی کسی قسم کی کرتب باسی یا سستی مشتہری کا سہارا نہیں لیا۔ اپنے آپ کو منوانے کے لئے دوسروں کی نفی نہیں کی، کسی کو رد نہیں کیا۔ ان کے یہاں صرف قبول کی کیفیت ہے جو ایک مثبت رجحان ہے۔ عالم کے اشعار کی توانائی نقد کی کسوٹی کی محتاج نہیں۔ اس کا کھرا پن ظاہر ہے۔ یہ مستزاد ہے کہ ان کے اشعار پر ہمارے مقتدر ناقدین نے اظہار خیال کیا ہے لیکن یہ اظہار خیال بھی بالکل بے ساختہ ہے کیوں کہ عالم نے خود اس کے لئے کبھی پیش بندی اور لام بندی نہیں کی۔ ان کے غزلوں میں درجنوں ایسے اشعار ہیں جو مستقبل میں زبان زد خاص و عام ہوں گے اور ان کی توانائی انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ انہوں نے بیسویں سدی کے قرطاس ادب کی دہلیز پر دستک ثبت کر دئے ہیں اور اب ۲۱ویں صدی میں سنگ میل بن کر ابھرے گی۔                  (ایک مضمون کا اقتباس، خصوصی گوشہ عہد نامہ رانچی)

 

۲۵۔پروفیسر قدوس جاوید:       عالم خورشید کی غزلوں کی ساخت پر غور کریں تو صاف معلوم ہو گا کہ اس کا تعبیراتی نظام نہ صرف یہ کہ کثیرالابعاد ہے بلکہ اردو غزل کے سابقہ لسانی و شعری اور سماجی و ثقافتی تصورات اور روایات و اقدار کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ دوسرے لفظوں میں عالم خورشید کی غزلیں مابعد جدید تصور ادب کے عین مطابق، روایت کی آگہی اور ماضی سے استفادہ کے چراغ روشن رکھتے ہوئے ہر لمحہ بدلتی آج کی مسئلہ خیز زندگی معاشرہ اور ثقافت کی پیچیدگیوں، مسائل اور تضادات کے عقبی حقائق اور طرفوں کو کھولتی بھی ہیں۔ اسی لئے عالم خورشید کی کی غزلوں کے اکثر و بیشتر اشعار کو ان کی روایتی ساخت کے باوجود ما بعد جدید شاعری کے عمدہ نمونے قرار دینے میں تکلف نہیں ہوتا۔

عالم خورشید کے مخصوص لسانی برتاؤ کے سبب الفاظ طے شدہ وحدانی معنی کا اخراج کر نے سے کیفیت اور تاثر کی ایسی تہہ داریاں پیدا کرتے ہیں جو الگ الگ معیار اور قماش کے قارئین کو الگ الگ معنی و مفہوم کیفییت و تاثر کی تشکیل یا ردِ تشکیل کی آزادی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم خورشید شاعری میں الفاظ اور لہجے کے برتاؤ کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اسی لئے وہ ایک طرف تو اپنی شاعری میں احتجاج و سرکشی کی بلند آوازوں کی موجودگی پر فخر کرتے ہیں وہیں وہ اپنی شاعری کو بجا طور پر خالص شاعری بھی قرار دیتے ہیں۔ان کے یہاں جدیدیت کی طرح زندگی میں انتشار و بحران کا سبب بننے والے منفی اقدار و محرکات کی شدت اور جبریت کا احساس تو ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ مزاحمت، احتجاج اور سرکشی کی وہ مثبت اور تعمیری قوت بھی ہے جو زندگی کی بے معنویت کو معنویت میں بدلنے کی ضامن ہے۔ (ایک مضمون کا اقتباس، ماہنامہ مباحثہ پٹنہ)

 

۲۶۔فرحت احساس:     خیال آباد میں سفر پر ہوں۔ اور یہ سفر اچھا لگ رہا ہے۔ افسردگی کا رنگ پہلے سے گہرا ہو گیا ہے جو خوش آئند ہے کہ کوئی۔۔۔۔روشنی کا سراغ ہے۔۔۔۔تو اسی میں ہے۔ ان غزلوں میں ایک سفر نامے کی سی کیفیت ہے۔۔۔جو مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ مہتاب کے سلسلے کے شعر :

دل میں رہتا ہے مگر خواب ہوا جاتا ہے

وہ بھی اب صورتِ مہتاب ہوا جاتا ہے

رفاقت کا احساس کراتے ہیں۔ بہت سے پہلو ہیں جن پر گفتگو بعد میں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کی شاعری ایک مسلسل عمل اور زندہ رہنے کا نعم البدل اور جواز معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔اپنے آپ کو پانے کی جدوجہد کا لازمی حصہ۔ اس عمل میں گریہ بڑے کام کی چیز ہے اور آپ کے یہاں بھی یہ جا بہ جا موجود ہے :

عجیب حادثہ اس بار ہم پہ گزرا ہے

بیان کرتے نہیں صرف روئے جاتے ہیں

 

۲۷۔عبدالاحد ساز      :       مجھے خوشی ہے کہ آپ کی شاعری دھڑکتے ہوئے محسوس کرتے ہوئے دل کے ساتھ کھلی ہوئی آنکھوں اور سوچتے ہوئے ذہن کی شاعری ہے۔

 

۲۸۔ارشد عبدالحمید:     عالم خورشید ہمارے عہد کے نمائندہ شعرا میں سے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ربع صدی میں اپنے عہد اوراپنی نسل کی مسائل کو گرفت میں لینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اپنے ہم عصروں میں ان کی شاعری اس اعتبار سے نمایاں ہے کہ انہوں نے کلام کی کیفیت اور تاثراتی فضا سازی کے طلسم میں پڑنے کی بجائے تجربے کے بے کم و کاست اظہار کو ترجیح دی ہے۔ اسلوب کی گھلاوٹ اور کیفیت کے مقابل محض تجربے کی سچائی پر فن کی تخلیقی اساس قائم کرنا جرات کی بات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیفیت سامع یا قاری کو فورا اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور تاثراتی فضا سازی جذباتی مقبولیت حاصل کرنے کا آسان نسخہ ہے۔

تاثراتی فضا سازی کے بغیر تجربے کو قابلِ قبول بنانا ایک مشکل کام ہے۔ اتنا مشکل کہ ایک نوع کی ناشاعری کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ترقی پسند شاعری کی مثال سامنے کی ہے۔مگر عالم خورشید نے اس خطرے سے اپنے کلام کو بہت بہت دور رکھا ہے۔ تجربے کے کھرے پن، موضوع کی معنویت اور معنٰی کی شعریت پر ان کا اعتماد اس قدر ہے کہ وہ اسے تاثرات کی دھند میں لپیٹ کر پیش کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ دوسری جانب وہ سپاٹ بیانی یا برہنہ گفتاری کا شکار بھی نہیں ہوتے۔ ان کے اب تک کے تینوں مجموعوں میں تخلیقی ارتقا کا بیّن ثبوت ملتا ہے۔ ان کے پہلے مجموعے نئے موسم کی تلاش میں الفاظ زیادہ تھے، معنی نسبتا کم۔ دوسرے مجموعے زہرِ گل میں الفاظ اور معنٰی کا تناسب برابر کا ہے اور تیسرے مجموعے خیال آباد میں الفاظ کے مقابلے معنٰی زیادہ ہیں

اس تدریجی ارتقا کے باعث ان سے یہ امید رکنا بے جا نہیں کہ ان کے تخلیقی امکانات مزید روشن ہوں گے اور معنٰی اساس شاعری کا جو اسلوب انہوں نے حاصل کیا اسے کھل کھیلنے مزید مواقع فراہم ہوں گے۔                                            (ایک مضمون سے اقتباس، کسوٹی جدید، پٹنہ)

 

۲۹۔انور شمیم:   خیال آباد کی شاعری میں قبل سے زیادہ مثبت اور خوشگوار تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ روز مرہ اور بول چال کی رواں دواں زبان عالم خورشید کی غزلوں کا خاص وصف ہے۔ وہ الفاظ کو برتنا اور ان کو معنوی وسعت دینا جانتے ہیں۔ انکی غزلوں میں تازہ کاری کے ساتھ سادگی بھی ہے ار ان کا اپنا امتیازی مزاج بھی ان کے اشعار سے جھلکتا ہے۔ ان غزلوں کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ خیال آباد عالم خورشید کے تجربات و مشاہدات سے آگے کا سفر ہے جہاں کوء قلندر تخلیق کار کے اندر داخل ہو کر شعر کہتا نظر آتا ہے۔ جس کے طرزِ اظہار میں ایک بی نیا زی سی بے نیازی ہوتی ہے اور دانائی نادانی کی پشت پر ہاتھ جوڑے کھڑی ہوتی ہے۔ در اصل یہ صفت ان کے فطری شاعر ہونے کا جواز فراہم کرتا ہے۔

عالم خورشید کے تینوں مجموعوں کا مطالعہ کریں تو الگ الگ تاثرات ابھرتے ہیں۔ پہلا مجموعہ کلام نئے موسم کی تلاش برسات کی ہلکی پھوہاروں میں بھیگنے کا فرحت بخش احساس اور امکانات کے در کھولتا نظر آتا ہے۔ دوسری کتاب زہرِ گل ندی کی سطح پر روشنی کے قمقموں سے سجی سبک خرام کشتی نظر آتی ہے جو خوش منظر توہے ہی شاعر کی شائستگی۔ احتیاط اور خود سپردگی کا بھی پتہ دیتی ہے۔ اور تیسرے مجموعہ کلام خیال آباد کی غزلیں صاف پانی کے نیچے گہرائی میں بکھرے وہ فطری مناظر ہیں کہ ہر منظر کو چن لینے کو جی چاہتا ہے۔ان غزلوں میں خبرداری کے ساتھ بے خبری بھی ہم آغوش ہے نظر آتی ہے۔ یہ ہنر بلا شبہ ریاضتوں کی دشوار گزار منزلیں طے کرنے کے بعد ہی آتا ہے۔           (ایک مضمون کا اقتباس)

 

۳۰۔ارشد کمال: تازگی، توانائی اور برجستگی سے بھر پور عالم خورشید کی شاعری کا ایک خاص اور اہم وصف یہ بھی ہے کہ اس میں عجلت اور ہڑبڑاہٹ والی کیفیت بالکل نہیں دکھائی نہیں دیتی یعنی وہ ٹھہر ٹھہر کر اور خوب سوچ سمجھ کر شعر کہتے ہیں اور اس دھوکے میں نہیں رہتے کہ شاعری صرف آمد والی طلسماتی کیفییت کے زیرِ اثر وجود میں آتی ہے۔ انہیں اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ اچھی اور سچی شاعری آمد اور آورد دونوں کے حسین امتزاج کا نتیجہ ہوتی ہے اور اسی روشنی میں وہ اپنی شعری کاوشوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سید امین اشرف انہیں concious آرٹسٹ مانتے ہیں۔ واقعہ ہے کہ آمد کے آنگن میں آورد والی شعوری چھان پھٹک اور آورد کے لق و دق صحرا میں آمد کی بدلی کا انتظار کئے بغیر شاعری میں مطلوبہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی۔۔۔۔یہ بات باعثِ تقویت ہے کہ خیال آباد کی بیشتر غزلیں مذکورہ انتظار اور چھان پھٹک کے مراحل سے ہو کر گزری ہیں۔ یہ احساس کی شدت، فکر کی تیزی اور روانی نیز انتشار و اضطراب کی کیفیات کے تانے بانے سے عالم خورشید کے تخلیقی مزاج کی تشکیل ہوئی ہے۔

خیال آباد میں شامل غزلوں کی خصوصیت یوں بھی ہے کہ ان میں جدیدیت کی ندرت کے ساتھ روایت کا احترام بھی شامل ہے۔ خوامخواہ کی لفظی کرتب بازی یا لسانی توڑ پھوڑ سے عالم خورشید کا مزاج میل نہیں کھاتا۔ وہ خود کو ترقی پسندوں سے قطعی مختلف اور جدیدیوں سے بہت آگے کی چیز ثابت کرنے کی بے سود کوشش نہیں کرتے۔       (ماہنامہ آجکل دہلی)

 

۳۱۔مظہر سلیم، مدیر تکمیل ممبئی:   عالم خورشید عصری غزل کے نمائندہ شاعر ہیں۔ بہت سوچ سمجھ کر شعر کہتے ہیں۔ ان کی غزل سادگی اور پرکاری کا نمونہ ہے۔

دھیمے سروں میں بات کرنے والا یہ شاعر جب پرزور آواز میں بولنے لگتا ہے تو اس کی آواز میں چھپی ہوئے سنجیدگی معنی و مفہوم کا استعارہ بن جاتی ہے۔ تمام عصری تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش عالم خورشید کے یہاں مکمل طریقے سے ملتی ہے۔ بات کرنے اور بات کہنے کا ان کے یہاں سلیقہ ایسا ہے جیسے کوئی مہذب شہری اپنے موقف کو بھرپور دلائل کے ساتھ پیش کر رہا ہو اور اس کی باتیں ذہن و دل کو متاثر کرتی چلی جاتی ہیں۔                         (تکمیل ممبئی کے خصوصی شمارے سے مقتبس)

 

۳۲۔ڈاکٹر رفعت النسا بیگم:               عالم خورشید کی غزلیں دھیمے دھیمے لہجے کی غزلیں ہیں۔ کہیں کہیں خود کلا می کا احساس بھی ہوتا ہے۔ وہ غمِ دل کی بات کرتے ہوں یا کہ غمِ جہاں کی ان کا انداز شفاف اور صاف ستھرا ہے۔ ہماری کلاسیکی شاعری اور اردو کی شعری روایات کا انہوں نے مطالعہ کیا ہے بلکہ وہ ان سے متاثر بھی ہیں۔ عالم خورشید نے ہر چند کہ اشارات وغیرہ سے کام نہیں لیا لیکن علامتی فضا ان کے یہاں پائی جاتی ہے۔ زبان و بیان اور فن کی تقاضوں کی تکمیل وہ عمدگی سے کرتے ہیں۔                                           (ماہنامہ سب رس)

 

۳۳۔اطہر ضیا:مدیر، جہات، سری نگر       عالم خورشید کے اسلوب میں سادگی اور روانی ہے۔ وہ لفاظی سے اجتناب کر کے روزمرہ کے الفاظ میں جذبہ و خیال کی دنیا آباد کرتے ہیں۔ان کی انفرادیت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ پوری سچائی سے اپنے عہد کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور پانے تاثرات کی پیکر تراشی کرتے ہیں۔                                          (ماہنامہ جہات، کشمیر)

 

۳۴۔اشہد کریم الفت:     عالم خورشید کی غزلوں کے اشعار سے زندگی کی دھڑکنوں کا پتہ چلتا ہے جو قائم رہنے کے لئے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی رہتی ہے۔ ان کے اشعار کسی ایک مرکز پرٹھہرے ہوئے نہیں دکھائی دیتے بلکہ مختلف راہوں میں اپنی منزل ڈھونڈتے ہوئے نظر آتے ہیں۔وہ غزل کی روایت سے بھی واقف ہیں اور اس کی جدت سے بھی آشنا ہیں۔

 

۳۵۔قنبر علی:   عالم خورشید کی شاعری کھلے ہوئے دل و دماغ کی شاعری ہے جس میں بیان اندر بیان اور بیان بعد از بیان اور نقش اندر نقش کے پہلو بہ پہلو نقش در نقش افتراق و امتزاج کا ایک جہانِ معنی ہویدا ہے جس کے لشکارے کو محسوس کیا جا سکتا ہے جو اپنے عہد کو پہچاننے کے لئے اجتماعی لاشعور سے قریب ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جس میں بنیادی حیثیت کیفیت کو ہے۔    (ایک مضمون کا اقتباس)

 

                کارِ زیاں

 

۱۔شمس الرحمٰن فاروقی:   تمہارا مجموعہ کارِ زیاں کچھ دن ہوئے ملا۔ بہت خوشی ہوئی۔ تمہاری شاعری اب بہتر سے بہتر کی طرف گامزن ہے۔ زبان بھی اب بہت صاف ہو گئی ہے۔ میرے خیال میں اس مجموعے کے بارے میں یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ اس میں تم نے اپنی منفرد آواز حاصل کر لی ہے۔ مبارکباد!

 

۲۔مجتبٰی حسین: آپ نے کارِ زیاں کے ذریعہ جو دولت مجھے عنایت کی ہے اس کے لئے سپاس گزار ہوں۔ آپ ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں اور عصر حاضر اپنے مسائل اور تقاضوں کے ساتھ آپ کی شاعری میں ہمیشہ جلوہ گر نظر آتا ہے۔آپ کو یہ اسلوب اور طرزِ سخن مبارک ہو۔

 

۳۔پروفیسر وہاب اشرفی:  عالم خورشید کے شعری مجموعہ کارِ زیاں کا جب میں مطالعہ کر چکا تو کئی باتیں میرے ذہن میں از خود آتی چلی گئیں۔ کیا واقعی بنیادی طور پر شاعر مبلغ ہوتا ہے ؟ شارح ہوتا ہے ؟ بلکہ کئی لحاظ سے صانع ہوتا ہے ؟ یہ بھی کہ کیا واقعی شاعری ہمیشہ الفاظ کے معنی میں تبدیلیاں کرتی رہتی ہے ؟ شاعری الفاظ کو لغوی معنی سے الگ کر دیتی ہے اور مفہوم کے نئے امکانات سے بہرہ ور کر دیتی ہے ؟ یہ بھی کہ واقعی شاعری احساس کی سا لمیت کا نام ہے اور یہ سا لمیت بذات خود کئی طرح کے متضاد معنوی دائرے اختیار کر لیتی ہے ؟ میں پہلے عالم خورشید کی ایک غزل پیش کرتا ہوں۔ پھر دیکھوں گا کہ صورتِ واقعہ کیا ہے ؟

کہیں پہ جسم کہیں پر خیال رہتا ہے    محبتوں میں کہاں اعتدال رہتا ہے

فلک پہ چاند نکلتا ہے اور دریا میں      بلا کا شور، غضب کا ابال رہتا ہے

دیارِ دل میں بھی آباد ہے کوئی صحرا یہاں بھی وجد میں رقصاں غزال رہتا ہے

چھپا ہے کوئی فسوں گر سراب آنکھوں میں    کہیں بھی جاؤ اسی کا جمال رہتا ہے

تمام ہوتا نہیں عشقِ ناتمام کبھی     کہیں بھی جاؤ اسی کا جمال رہتا ہے

وصالِ جسم کی صورت نکل تو آتی ہے         دلوں میں ہجر کا موسم بحال رہتا ہے

خوشی کے لاکھ وسائل خرید لو عالمؔ  دلِ شکستہ مگر پر ملال رہتا ہے

یہ غزل معنوی لحاظ سے بالکل نئی ہے اور روایت کو اور خصوصاً کلاسیکی روایات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے بھی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے ؟ یہ ممکن اس طرح ہے کہ شاعر ایک طرف نئی لفظی تشکیل کی بساط بلکہ سامنے کے الفاظ سے مہرے بناتا ہے اور معنی کی شہ مات کرتے ہوئے کہیں دور نکل جاتا ہے۔ گویا لفظوں کے برتاؤ میں ایسا انداز اختیار کرتا ہے جو فطری معلوم ہوتا ہے لیکن معنوی آفاق کو وسعت دینے کی بے پناہ کیفیتوں سے ہمکنار کرتے ہوئے خود اپنے لئے بھی نئے امکانات کی خبر دیتا ہے۔

میں نے یہ غزل اس لئے پیش کی کہ اندازہ ہو کہ رفعت سروش نے کتنا صحیح تجزیہ کیا ہے کہ نئی غزل کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اس کتاب کی سبک رفتار، خواب خواب، رنگ رنگ، اور سرتا سرگوشی کا اندازہ لئے ہوئے غزلوں کو دیکھیں جس میں ایک نیا جہاں غزل آباد ہے۔ موصوف نے یہ خیال، خیال آباد کے سلسلے میں رقم کیا ہے لیکن کارِ زیاں پر بھی اس کا سو فیصدی اطلاق ہو رہا ہے۔ لازما غزل کا یہ انداز ایک نیا رجحان رکھتا ہے۔ میں شکیل الرحمٰن کی رائے سے بھی اتفاق کرتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہوں کہ عالم خورشید روایت میں جدّت پیدا کرنے پر قادر ہیں اور سامنے کے الفاظ سے پرانی تعبیرات کو نئی شکل دے دیتے ہیں اس طرح کہ ان کا کارِ زیاں نئی غزل کے مزاج کو متعین کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ وارث کرمانی نے ان کی غزلوں میں سیال سی کیفیت ڈھونڈی ہے۔ موسیقی اور فنّی تراش خراش کی تلاش کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے خیالات بے معنی نہیں۔

اس تبصرے میں اس کا زیادہ موقع نہیں ہے کہ یہاں بہت ساری مثالیں اور بہت سارے پہلوؤں پر توجہ کریں۔ لیکن مجھے احساس ہوتا ہے کہ عالم خورشید نے ایک ارتقائی سفر طے کیا ہے جو نئے موسم کی تلاش (۱۹۸۸) زہرِ گل (۱۹۹۸) خیال آباد (۲۰۰۳)سے کارِ زیاں یعنی حالیہ مجموعہ پر ختم ہوتا ہے۔ جس میں خیالات و جذبات کی ندرت میں روایتی کیف و کم کے سارے سامان موجود ہیں اورجس کی معنوی فضا اتنی وسیع ہے جس سے ہر وقت ہر شخص سر شار ہو سکتا ہے۔ اظہار و بیان کی یہ کیفیت جانی پہچانی ہونے کے باوجود نئے امکانات سے بہرور کر تی ہے اور پڑھنے والوں کو نئے انداز کے خلفشار سے دو چار کرتی ہے۔آپ کارِ زیاں کو ایک مستقل کارِ عظیم کی طرح محسوس کیجئے جسے آپ کے ڈسک پر لازما ہونا چاہئے۔          (مباحثہ شمارہ ۳۵ سے ماخوذ)

 

۴۔سید احمد شمیم: آپ کا کلام بلا شبہ مقناطیسی ہے۔ تھم تھم کر قرات کا مطالبہ کرتا ہے۔ اپنے ہم عصروں میں آپ بالکل الگ ہیں۔ انفرادیت تو اوروں کے یہاں بھی ہی ہے مگر آپ کی لفظیات روایت سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود اپنے برتاؤ میں پچھلے موسموں سے الگ ہو جاتی ہے۔ مجھے آپ کو پڑھتے ہوئے بار بار ایسا لگا کہ آپ نے اپنے عہد کو ایک دانشور کی حیثیت سے دیکھا اور سوچا ضرور ہے مگر اتنی بے تکلفی سے ادا کر دیا ہے کہ دانشوری کے دباؤ سے دور ہٹ کر آپ کی شاعری کھلتی اور چٹکتی نظر آتی ہے۔

 

۵۔محمد سالم، نیو جرسی، نیویارک    مجھے یہ اعتراف ہے کہ جب بھی عالم خورشید کی کوئی غزل پڑھتا ہوں تو اس شخص سے ملنے کو بہت جی چاہتا ہے۔ افسوس کہ آج تک ان سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ میں ان کی غزلوں کو سلام کرتا ہوں۔                            (سہ ماہی مباحثہ سے ماخوذ)

 

۶۔سید امین اشرف:      زیرِ نظر شمارے میں عالم خورشید کی بیس غزلیں حاصلِ مطالعہ ہیں۔ شاعری میں پوئٹک ڈکشن کی بڑی اہمیت ہے۔ عالم غزل کو برتنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ عالم کو فکر و احساس کی کسی کیفیت سے لبریز کر دینے کا گر آتا ہے۔ بادی النظر میں تو پتا نہیں چلتا مگر وہ ایک کانسش آرٹسٹ ہیں۔ یہ ان کے فن کی باریکی ہے۔ راقم الحروف کی طرف سے ان خوبصورت غزلوں کے لئے عالم خورشید کو مبارکباد!    (سہ ماہی مباحثہ)

 

۷۔پرکاش فکری:               اس بار رسالے کی خاص چیز عالم خورشید کی غزلیں ہیں۔ نوجوان غزل گو شعرا میں وہ ذرا الگ سے جان پڑتے ہیں اور یقین ہوتا ہے کہ اپنی فکر اور اپنے لہجے کی بنا پر ان کی جو شناخت بن رہی ہے وہ آگے چل کر آنکھوں کو خیرہ کر دے گی۔                (سہ ماہی مباحثہ)

 

۸۔فرحت احساس:      عالم خورشید نے اپنے مسلسل جاری شعری سفر کا ایک ایسا پڑاؤ ڈالا ہے جو ان کا ایک مستقل مکان اور پھر گھر بننے کے امکانات سے روشن ہے۔بیس سال میں آنے والی اس چوتھی کتابِ شعر کا ایک بڑا حصہ اس گہرے دھیان کی حالت کا احساس کراتا ہے جہاں شاعر اپنے باہر کو اپنے اندر جذب کر کے آن بیٹھا ہے۔ باہر ایک کھڑکی اب بھی کھلی ہوئے ہے جو ضروری ہے مگر فیصلے سارے کے سارے اندر کی نگاہ کے تابع ہیں۔ یہ در اصل ایک شہر اور ایک گھر میں رہتے ہوئے اور اس کے تمام تر جبر کو انگیز کرتے ہوئے شاعری کو ممکن بنانے یعنی اپنے وجود اور وجہ وجود کونوں کے ساتھ وفاداری نبھانے کی حالت ہے۔ کارِ زیاں اردو کی عصری غزلیہ شاعری میں ایک با برکت آمد ہے جس میں بہت سے دلوں دماغوں کے لئے جمالیاتی۔۔روحانی سیرابی کا بہت سامان موجود ہے۔        (ماہنامہ آجکل، دہلی)

 

۹۔عبدا لاحد ساز:        عصری شعری کے افق پر گزشتہ دو ڈھائی دہائیوں میں میں جو شعرا وارد ہوئے ہیں اور ان میں سے جن چند شاعروں نے اب تک اپی ایک پہچان بھی کسی حد تک حاصل کر لی ہے ان میں عالم خورشید کا نام اہمیت سے لیا جاتا ہے۔

گزشتہ مجموعے خیال آباد کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی اور بالخصوص تازہ مجموعے کارِ زیاں کو پڑھتے ہوئے اس خیال کا اعادہ ہی ہوا کہ عالم خورشید اب جدیدیت کے اس گہرے طلسم سے خاصی حد تک باہر نکل آئے ہیں جو پہلے اور دوسرے مجموعے پر طاری نظر آتا ہے۔ اب ان کے یہاں ایک اعتدال، توازن اور معاشرتی تضاد کو ایک حد تک قبول کرنے کا قرینہ (مجبوری نہیں ) در آیا ہے اور اب ان کی غزلیں زندگی کے ساتھ داخلی و خارجی ہر دو سطح پر ایک غیر مشروط رابطہ استوار کرنی لگی ہیں۔ اس پروسس کو ما بعد جدید کہا جائے یا نہیں یہ ایک خالص اصطلاحی مسئلہ ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی شاعری عصر ابلاغ و اظہار کے شعری تقاضوں پر پورا اترنے کی فطری خواہش اور صالح کوشش سے عبارت ہے۔

عالم خورشید کی غزلیں سماج سے کٹے ہوئے داخلیت پسند فرد کی روداد نہیں سناتیں بلکہ اپنے نمائندہ معاصرین ہی کی طرح فرد اور سماج کے رشتوں کے تزاحم و تصادم کو بیان کرتی ہیں۔فی زمانہ انسانی تعلقات کے بدلتے ہوئے جذباتی و نفسیاتی زاویوں کو پیش کرتی ہے جس میں اعتراف کی بے بسی بھی ہے اور احتجاج کی جسارت بھی۔عالم خورشید کی تازہ غزلوں میں بعض مقامات پر روایت کا رچاؤ بھی ہے اور نو کلاسیکیت کی طرف جھکاؤ بھی۔     (سہ ماہی نیا ورق)

 

۸۔اشہر ہاشمی:   عالم خورشید نئی غزل میں کم از کم ہندوستان کی حد تک بہت نمایاں شاعر ہیں۔ان کے کلام میں مشاقی اور پیشکش میں بانکپن ان کے گہرے مشاہدے، تجربے اور ریزہ ریزہ زندگی کو اکائی کی شکل میں دیکھنے کی وجہ سے طاقت حاصل کرتی رہی ہے۔ عالم صرف اسلئے شعر نہیں کہتے کچھ کہنا بلکہ اس لئے کہتے ہیں کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ ہے۔

بھارت میں کم از کم دو دہائی پہلے مظہر امام نے انہیں بھیڑ سے چن لیا تھا۔ آج بھی اردو غزل کئے پڑاؤ کی تلاش میں بھٹکنے ہوئے مجھ جیسے لوگوں کو عالم خورشید کے یہاں بہت سارے امکانات نظر آتے ہیں۔

 

۹۔انور شمیم، مدیر، کسوٹی جدید:    عالم خورشید کے تیسرے شعری انتخاب خیال ‘باد کی شاعری سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے مجموعہ کلام کی پہلے غزل کے پہلے شعر سے بات شروع کی تھی:

ایک عجب سی دنیا دیکھا کرتا تھا      دن میں بھی میں سپنا دیکھا کرتا تھا

جس میں معصوم سی حیرت زدگی ہے، خوابوں کے ٹوٹنے، بکھرنے، بے تعبیر ہو جانے کا اذیت ناک احساس ہے اور خوش گمانیوں، قیاسوں کے غلط نکلنے کا کرب بھی ہے۔ جس کے باطن میں ایک اضطراب ہے، ایک بے چینی ہے۔۔۔ان گمشدہ اعلٰی اقدار اور خوشگوار و صالح روایات کی بازیابی کی جن روایات و اقدار نے خوش منظر و خوش الحان انسانی معاشرے کی تعمیر و تشکیل کا خواب دیکھا تھا۔ اب ان کا چوتھا شعری مجموعہ

کارِ زیاں میرے سامنے ہے اور اس کی پہلی غزل کا پہلا شعر یوں ہے :

جب تک کھلی نہیں تھی، اسرار لگ رہی تھی  یہ زندگی ہمیں بھی دشوار لگ رہی تھی

یہیں سے بات شروع کی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ کارِ زیاں کی شاعری اس کرب سے نجات کا احساس اور آگہی اور طمانیت کی شاعری ہے۔۔۔۔۔لیکن یہ اطمینانِ قلب دنیا اور اپنے ارد گرد کو اس کے حال پر چھوڑ دینے یا رہبانیت اختیار کرنے کا اظہار یہ نہیں ہے۔کارِ زیاں کے اشعار میں کئی ایسے اشارے موجو د ہیں جو سنجیدو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں بلکہ عقل و فہم اور ہوش و حواس کو بروئے کار لا کر عمل کا تقاضہ کرتے ہیں۔

عالم خورشید کا لہجہ نرم اور دھیما ہے۔ ان کے یہاں وہ شور نہیں ہے جو شاعری کو نعرہ یا پروپگنڈہ کے زمرے میں لا کھڑا کرتا ہے۔ لیکن اس نرم اور دھیمے لہجے میں شاعر کی ذہنی بے چینیوں کو محسوس کیا جا سکتا ہے جو منصوبہ بند غیر انسانی نظام کی زائدہ ہیں۔ جہاں رفتہرفتہ تمام اعلیٰ قدریں دم توڑ رہی ہیں۔ عالم خورشید کی پرانی اینٹ (روایت کی پاسداری) سے نئی تعمیر کی خواہش اور ذات کی تسخیر سے دنیا کو زیر کرنے کا عزم قابلِ قدر ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ان کے تمام پچھلے مجموعوں کی طرح اس تازہ انتخاب کو بھی ادبی حلقے میں خاطر خواہ پذیرائی ملے گی۔                   (کسوٹی جدید، شمارہ ۸)

 

۱۰۔رئیس الدین رئیس:  عالم خورشید دنیائے شعر و ادب کا ایک معتبر نام ہے۔وہ مدھم لہجے کے شاعر ہیں۔ انہوں نے روایتی رنگ کے تہذیبی تسلسل کو پر قرار رکھتے ہوئے اپنے پیرائے اظہار کے تنوع سے عصری حسیت اور ارضی حقیقتوں کو بحسن و خوبی اپنی شاعری میں سمیٹ لیا ہے۔

شاعری کے لئے وہ خام مواد خارجی طور پر اپنے ہی معاشرے، ماحول اور اپنے گرد و پیش سے اٹھاتے ہیں اور داخلی سطح پر ان کے اپنے ہی مطالعات و مشاہدات اور احساسات و تجربات عصری سچائیوں ارضی حقیقتوں، جہانوں زمانوں کی تبدیلیوں، تضادوں اور مسئلوں کو شعری اظہار کا لباس فاخرہ عطا کر دیتے ہیں۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جدید اسلوب اور متنوع پیرایہ اظہار ہوتے ہوئے بھی ان کی لفظیات و تلازمات نامانوس خشک اور کھردرے نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس ان کے زبان و بیان اور لب و لہجے سے شعریت و شیرینی ٹپکتی ہے جو ان کے کلام کو خوش ذائقہ اور دلپذیر بناتی ہے۔ اگر چہ معنی کو معرض وجود میں لانے کے لئے وہ بھی اصطلاحات و علامات، استعارات و تشبیہات، رمزیات و تلمیحات اور اشارات و کنایات پر تکیہ کرتے ہیں اور پیکر تراشی کے ہنر سے بھی استفادہ کرتے ہیں اس کے باوجود ان کے یہاں ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا۔ ان کے اشعار کے معنی واضح بھی ہوتے ہیں اور پوشیدہ بھی جو ذرا سی ذہنی کاوش سے خودبخود منکشف ہو جاتے ہیں۔ (ایک مضمون کا اقتباس)

 

۱۱۔فیاض احمد وجیہ:      عالم خورشید کی شاعری میں بیان کا حسن ہے لیکن ان کے اسلوب میں اصل نکتہ یہ ہے کہ شعر اپنے فکری دھیان میں سادہ گوئی کے باوجود سادہ نہیں ہے۔ یہ اسی سائنسی تجربہ کی طرح ہے کہ زمین کی ٹھہری ہوئی صورت میں گردش کی سائکی شاملِ حال ہے۔ ان کے اسلوب کا ایک کیف یہ بھی ہے کہ بہتی ہوئی ندی میں پانی کی مسلسل تہیں مٹی سے ملی ہوئی ہیں اور ایک خاص سطح پر اس سے بے تعلق ہیں۔ گویا کہ معنی اپنے مدار میں ہے اور ایک نوع کے التوائی نشان میں بھی ہمہ گیر احساس کے بہ طور گامزن ہے۔ اسی کے باعث ان کے یہاں عام تجربات کے بیان میں بھی معنی کا داخلی بھید روشن ہو گیا ہے۔

عالم خورشید کی شاعری میں اس کردار کا چہرہ نظر آتا ہے جس کی آنکھیں بولتی ہیں۔ کبھی ان آنکھوں سے ویران کتھائیں ٹپکتی ہیں تو کبھی ذات کی اندھی گپھا ان میں چمک جاتی ہے۔ ان آنکھوں میں بے بسی اور حیرانی سے زیادہ بدن کی طویل مسافت نظر آتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ یہ مسافت ماضی، حال اور مستقبل میں طے ہونے سے زیادہ بے زماں اور لا مکاں کے گربھ میں پھیلی ہوئی ہے۔ بدن کی طویل مسافت کو اپنی آنکھوں میں دھرتے ہوئے انہوں نے لہو کی سیال کیفیت کو شعری اسلوب میں منقلب کیا ہے۔ یہ لہو ہمہ دم تازہ ہے اس لئے ان کا زخم سالم ہے۔ در اصل ان کا اسلوبِ شعر بہتی ندی ہے جس کے سینہ پر پروائی سوار ہے۔ عالم خورشید کے ہاں جس شعری روایت کی تجدید نظر آتی ہے اس کا سلسلہ اپنی داخلیت میں پوشیدہ اورتسلسل ہے اس لئے ان کے شعری روئے کو مخصوص عنوان کے لئے بے تاب ہے۔ یہ نئی ہستی شاعری کے اجتماعی رخ کے پس منظر سے ابھر کر باہر آ رہی ہے اور اس کی یہ لیک غزل کی اس بنیادی حیثیت سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے جس کا رخ ہمیشہ اندر سے باہر کی طرف ہوتا ہے۔                      (ایک مضمون کا اقتباس، مطبوعہ سہ ماہی ابجد، شمارہ ۱۱ )

 

۱۰۔صدیق نقوی:       عالم خورشید نے اپنی غزل کو بیسویں صدی کے تمام تجربوں سے بے نیاز کر کے عصری تصورات سے وابستہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں مین نہ تو غمِ عشق اور نہ غم، دوراں کا ذکر ملتا ہے اور نہ غمِ جاناں کی پر کیف فضائیں ان کی غزل پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ وہ اردو شاعری کو غا لب کی فکر یعنی غمِ روزگار سے باہر نکال کر انسان کی زندگی میں جھانکتے اور انسانی جبلتوں کا اظہار کرتے ہوئے شاعری میں ان تمام کیفیا ت کو سمونے کی کوشش کرتے ہیں جو ظاہری اور باطنی خصوصیات کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے اطراف وا اکناف کا احاطہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالم خورشید کی غزلیں اپنے عہد کے شاعروں کے کلام سے جداگانہ اور مختلف ہیں۔ انہوں نے غزل کی شاعری کے ذریعے حسی کیفیات کو بھی نمایاں کیا ہے۔ اور ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ عالم خورشید نے تلازموں اور پیکروں کے کے توسط سے غزل کے میدان کو لالہ زار ہونے نہیں دیا بلکہ اپنی سوچ اور فکر کے دائروں غزل کی شاعری کو مالامال کر کے ایسا گلشن سجایا ہے کہ جس میں انسان کو اپنی زندگی کی حقیقت کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔ یہی خوبی عالم خورشید کو عصری شاعروں میں امتیازی مقام عطا کرتی ہے۔

عالم خورشید نے نئی کیفیاتی فضا کو شعر گوئی کا وسیلہ بنا کر نہ صر ف غزل کی موضوعاتی خصوصیت میں یک رنگی کا خاتمہ کیا ہے بلکہ ہمہ رنگی خصوصیات کو شامل کر کے غزل مسلسل کی روایت کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ ان کی بیشتر غزلیں ہر شعر کی اکائی کی دعویدار ہونے کے باوجود ربط و تسلسل کی ایسی دنیا کو تعمیر کرتی ہیں جن میں غزلِ مسلسل کا لطف دوبالا ہوتا نظر آتا ہے۔ روانی سلاست اور بے ساختگی عالم خورشید کی غزلوں کی خصوصیت ہے۔عالم خورشید کی غزلوں میں جس قدر روانی ہے اسی قدر خیال کا بہاؤ بھی اپنا راستہ بناتا نظر آتا ہے۔

عالم خورشید کے شعری مجموعے کارِ زیاں سے منتخب اشعار پیش کرنا بھی در حقیقت ایک مشکل مرحلہ ہے کیوں کہ ان کے ہر شعر میں شاعر کے تجربے اور کیفیات کی نئی دنیا آباد ہے۔ مجموعی طور پر بلا شبہ یہ بات تصدیق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کا شعری مجموعہ کارِ زیاں نہیں بلکہ کار ُمد شعری وصف ہے جس کے توسط سے قاری کو مسرت اور بصیرت کا حوصلہ ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں اکیسویں صدی کی وراثت کو ٹ کوٹ کر بھری ہے اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی کا اردو شاعر اسی لب و لہجے کو اختیار کر کے غزل کی دنیا کو قاری کے دل کے قریب کر سکتا ہے۔                   ( ایک مضمون کا اقتباس)

 

                کچھ سرگوشیاں سرحد پار کی

 

۱۔نصیر احمد ناصر،پاکستان:        عالم خورشید صاحب کا شمار آسانی سے ہندوستان کے ان گنے چنے شعرا میں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے غزل کی روایت اور رچاؤ کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جدید آہنگ میں ڈھالا ہے اور زبان و بیان کی اصلیت کو بھی بگڑنے نہیں دیا۔ عالم خورشید کی غزلوں میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جو اچھی شاعری کا خاصہ ہیں۔

 

۲۔راجہ اسحٰق، پاکستان:  بلا شبہہ عالم خورشید صاحب اردو شاعری میں ایک منفرد مقام کے حامل ہیں۔ ان کی شاعری میں جذبے کی فراوانی، گہرا سماجی شعور اور محبت کی چاشنی شامل ہے۔ اور ایک فکری بہاؤ ان کی فکری جہتوں کو لسانی شعور سے ہمکنار کرتا ہوا نئے آفاقی تصورات سے جوڑ دیتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان کا نیا مجموعہ کارِ زیاں بھی قبولیتِ عام کا درجہ حاصل کرے گا اور اردو شاعری کے جدید لہجے میں امکانات کی نئی راہیں ہموار کریگا۔

 

۳۔جمیل الرحمٰن، انگلینڈ :         کارزیاں کا شاعر اردو کا ممتاز شاعر عالم خورشید ہے۔ میں عالم خورشید کو شب خون کے زمانے سے جانتا ہوں اور ان کی شاعری میں جس چیز نے مجھے اپنی طرف کھینچا وہ تہہ دار اشعار کے پہلو بہ پہلو ان کا یہ ہنر بھی رہا کہ ایک پرتی شعر کہتے ہوئے بھی وہ اس میں کوئی نہ کوئی ایسا جدلیاتی لفظ یا پیکر رکھ دیتے ہیں جو اسے قابلِ توجہ بنا دیتا ہے۔ استعاروں اور تشبیہات کے معاملے میں بھی وہ خاصے محتاط ہیں اور ان کی شعوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ دور از کار مہم جوئی کا احساس نہ ہونے دیں۔ اگر چہ وہ اب نسبتا آسان شعر کہنے لگے ہیں مگر انہوں نے اپنے کلاسیکی اور جدید پیش روؤں سے جو حاصل کیا اسے انتہائی مہارت سے استعمال کر رہے ہیں اور اپنی زیادہ تر توجہ عصری مسائل پر مرکوز رکھی ہے۔

کارِ زیاں ان کا چوتھا شعری مجموعہ ہے جس کا وسیع کینوس، رواں مصرعے اور کئی عمدہ اشعار قاری کی انگلی پکڑ کر اسے نے خطوں سے روشناس کراتے ہیں۔ ان کی شاعری کا یہ سفر ابھی جاری ہے اور امید کرنا چاہئے کہ ان کے نئے مجموعۂ کلام میں امید و آگہی کا سفر ہمیں چھٹی سمت کی خبر دینے میں بھی کامیاب رہے گا۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                        ۴۔مسعود قاضی، ٹکساس:        عالم خورشید عہدِ نو کے معتبر شاعر ہیں۔

 

۵۔سید انور جاوید ہاشمی، کراچی:    ۲۱ ویں صدی میں غزل نے جس پیراہنِ اظہار کو اپنا لبادہ کیا، اپنے لئے جو جادہ طے کیا اس میں مصائب و الم، دل گرفتگی اور معاشرتی بے حسی کا ذکر کیا زیادہ کیا، ترکِ جام و بادہ کیا سو ان تمام لوازمات کے ساتھ جس قسم کی غزل متوقع تھی، ہے اور رہے گی ان میں کہیں نہ کہیں کسی طور پر عالم خورشید اپنی جگہ بناتے نظر آتے ہیں۔بلکہ یوں سمجھ لیجیئے کہ ان کے دامن میں وہ گل ہائے شاعری فطرت نے ڈال دئے ہیں جن کی تمنا ہم لوگ ہمیشہ سے کرتے چلے آئے ہیں۔

 

۶۔تبسم ورایئچ، لندن:    عالم بھائی کی شاعری کی جو سب سے بڑی خوبی مجھ کم فہم و محدود نگاہ

کو محسوس ہوتی ہے وہ ان کی شخصیت کے مختلف رنگوں، جہتوں،زاویوں کا گوناگوں کیفیات و احساسات کے ساتھ ان کی شاعری کے ذریعہ مترشح ہونا ہے۔ اس حوالے سے ان کی شاعری انہیں عصرِ حاضر کے ایک رجحان ساز شاعر کے طور پر سامنے لاتی ہے۔

وہ روایت پسندی کے امین تو ہیں لیکن لکیر کے فقیر نہیں بلکہ وہ اپنے اسلوبِ بیان کو ایک نئی جہت اور ایک الگ فکر کے ساتھ مزین کر کے قاری تک ابلاغ کرتے ہیں جسے قاری کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں اور یہ فکرِ رسا کی معجزہ نمائی ہی قرار دی جا سکتی ہے۔

 

۷۔خالد ملک ساحل، جرمنی:             قریب چار برس قبل عالم بھائی سے میرا تعارف فیس بُک پر ہوا، اِن چار برسوں میں عالم بھائی سے تو بھرپور جان پہچان ہوئی لیکن اُن کے شعری معجزے آج بھی مجھے حیران کیے ہوئے ہیں، آج بھی اُن کے شعری پیکر میرے لئے اجنبی ہیں، آج بھی میں ایک معصوم سے بچّے کی طرح اُن کے لفظوں کی سادگی میں کھو جاتا ہوں اور پھر جب مضمون کی طرف نظر اُٹھتی ہے تو سبحان اللہ سبحان اللہ کی آواز گونجتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ انٹر نیٹ میڈیا اور خاص طور پر فیس بُک کا احسان مانتا ہوں جس نے عالم بھائی جیسے شاعر سے متعارف کروایا۔

 

۸۔جگدیش پرکاش:      سیدھے سادے الفاظ میں گہری بات کہہ جانا عالم خورشید کی کلام کی خوبی ہے۔ ان کا کلام ایک بہتے ہوئے دریا کی طرح ہے جس تخیل کی کشتیاں ہلوریں لیتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہیں۔ ایک لہر سے دوسری لہر جنم لیتی ہے اور پھر دریا کے گہرے پانی میں ڈوب کر ایک نئی لہر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ان کا ہر شعر پرت در پرت نئے نئے مفہوم اجاگر کرتا ہے۔

 

۹۔عرفان ستار،کناڈا:    آپ کے یہاں مکمل عمدہ غزلیں بہت ہیں جو فی زمانہ کم کم دکھائی پڑنے والی خوبی ہے۔ بالعموم دو یا تین اشعار اچھے اور باقی بھرتی کے ہی نظر آتے ہیں۔ آپ ان میں سے ایک ہیں جو اس سے مستثنیٰ ہیں۔

 

۱۰۔جمشید گل، پاکستان:  موجودہ حالات اور واقعات کے پس منظر میں عالم صاحب کی شاعری سبھی موضوعات کو سمیٹے ایک انسائکلوپیڈیا کے مانند ہے۔معاشرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا اور پھر اظہار کا عمدہ سلیقہ عالم صاحب کو ایک الگ جگہ عطا کرتا ہے۔ میری دعا ہے کہ آنے والے وقتوں میں وہ اردو شاعری کا ایک اہم ستون بن کر سامنے آئیں۔

 

۱۱۔فیصل ہاشمی، اوسلو:    عالم خورشید اس عہد کے ایسے توانا شاعر ہیں جن کے یہاں کیفیات اور تصورات کو concrete بنانے کی بھرپور صلاحیت ہے اور وہ ان کیفیات اور تصورات کو جسم عطا کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ بھرپور تخلیقی عمل کی خاص بات ہے جس کی وجہ سے مواد اور ہیت کی دوئی باقی نہیں رہتی اور وہ مل کر ایک نامیاتی کل بن جاتے ہیں۔

ان کے اشعار میں نئی غزل کا جو پیکر نمایاں ہوا ہے وہ نئی غزل کو ایک نئے پیکر کے وجود میں آنے کا احساس دلاتا ہے۔ نفسیات کی زبان میں اس نئے پیکر کو شاید wise oldman کا نام ملے مگر میں اسے دوسری ہستی کہوں گا۔کیونکہ آج کا یہ شاعر تخلیق کے ایک نازک مقام پر کھڑا ہو کر غزل کہہ رہا ہے۔ ایک طرف تو وہ اجتماعی رخ یا معاشرہ کے ٹوٹنے کا منظر دکھاتا ہے اور اس کے لئے وہ جنگل، دھوپ، صحرا، خوابوں کا خرابہ، پت جھڑ اور لا تعداد دوسرے مظاہر کو علامت کے طور پر اپنی غزل میں استعمال کرتا ہے اور دوسری جانب وہ بار بار اپنے اندر کی دنیا اس کی کسمساہٹ اور بے قراری کا ذ کر کرتا ہے اور اسی جنگل یا صحرا یا خوابوں کے خرابے کی طرف مراجعت کر کے اپنی تلاش کرنے لگتا ہے۔ تیسری طرف وہ اس نئی ذات نئی ہستی کے ظہور کا احساس بھی دلاتا ہے جو اس جنگل یا صحرا سے رہائی حاصل کرنے میں قائم کرنا مجہول منطق ہے۔ فکری دھیان کی تمام تر منطق میں جوجہ طلب پہلو بدن ہی ہے کہ ان کے ہاں اس کا سایہ کیسا طویل کہ وہسورج کو سوا نیزے پر چاہتے ہیں ؟ واقعہ یہ ہے کہ ان کی حساس آنکھوں بدن کا سیاہ چہرہ طلوع ہو چکا ہے۔ یہاں اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ عالم خورشید کے اسلوبِ بیان میں سادہ گوئی کا رجحان ہے لیکن بیانیہ کی اصل ساخت غیاب میں ہے۔ تہہ در تہہ ایک نئی ساخت نکلتی ہے اور شاعری پراسرار بدن کی طرح اندر اندر بدل جاتی ہے۔ ان کے اسلوب کی بالائی ساخت میں ایک نوع کی پھسلن کا احساس ہے لیکن پلٹ کر دیکھئے تو شاعری کا اصل رنگ اسی پھسلن کے کھلتا ہے۔ جس میں ہماری زندگی کا داخلی بھید ایک اہم ترین حوالہ ہے اور یہ اپنے معاشرے اور بین ا لاقوامی معاشرہ سے الگ نہیں ہے۔

عالم خورشید کی شاعری یہ باور کراتی ہے کہ شعری صداقت اپنی تہوں میں گامزن رہتی ہے۔ معنی آفرینی کی منطق میں اس نوع کے تخلیقی رویہ کو نہیں سمجھ جا سکتا۔ سوچتی ہوئی آنکھیں جب بدن کی تہوں میں اترتی ہیں تو لہو قہقہہ لگاتا ہے۔ بدن سمندر کی کہانی میں شہر کا نقشہ مٹی کا رنگ اور بعض داخلی تجربات کی تجسیم میں جو کردار ان کے ہاں پیدا ہوا ہے وہ حضرت انسان کے مشترکہ کرب اور شکستہ بدن کا نمائندہ ہے۔ میرے خیال میں شاعری کا وہ حوالہ معتبر نہیں ہے جو عصری شعور کی ترجمانی میں پیش کیا جائے۔ شاعری کی اپنی فطری سچائی ہوتی ہے اور یقین جانئے کہ عالم خورشید کے ہاں ایسی سچائی کا خوب گزر ہوا ہے۔ ( ایک مضمون کا اقتباس)

 

۱۲۔فاخرہ بتول، پاکستان: عالم خورشید کی غزلیں قاری کو نہ صرف کسی حیرت کدے میں لے جاتی ہیں بلکہ وہ اس طلسمِ ہوشربا سے باہر نکلنے کی کوشش میں آگے۔۔۔اور آگے۔۔۔۔اور آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ عالم صاحب کا کلام انڈیا کی سرحدوں میں گم نہیں ہو سکتا۔

میری دعا ہے کہ یہ خوبصورت قلم کار اسی طرح اپنے قلم سے ادب کی خدمت کرتا رہے کیونکہ اب میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ اور فیضؔ نے نہیں لوٹنا۔ اب عالم خورشید جیسے سچے اور سچے شاعر غزل گو ہی نے شعر و سخن کا منصب سنبھالنا ہے۔

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے کتاب کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید