FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

بستی

 

 

                انتظار حسین

 

(1)

 

جب دنیا ابھی نئی نئی تھی، جب آسمان تازہ تھا اور زمین ابھی میلی نہیں ہوئی تھی، جب درخت صدیوں میں سانس لیتے تھے اور پرندوں کی آوازوں میں جگ بولتے تھے، کتنا حیران ہوتا تھا اور اردگرد کو دیکھ کر کہ ہر چیز کتنی نئی تھی اور کتنی قدیم نظر آتی تھی۔ نیل کنٹھ، کھٹ بڑھیا، مور، فاختہ، گلہری، طوطے جیسے سب اس کے سنگ پیدا ہوئے تھے، جیسے سب جگوں کے بھید سنگ لیے پھرتے ہیں۔ مور کی جھنکار لگتا کہ روپ نگر کے جنگل سے نہیں برندا بن سے آ رہی ہے۔ کھٹ بڑھیا اُڑتے اُڑتے اونچے نیم پہ اُترتی تو دکھائی دیتا کہ وہ ملکہ سبا کے محل میں خط چھوڑ کے آ رہی ہے اور حضرت سلیمان کے قلعے کی طرف جا رہی ہے اور جب گلہری منڈیر پر دوڑتے دوڑتے اچانک دُم پہ کھڑی ہو کے چک چک کرتی تو وہ اسے تکنے لگتا اور حیرت سے سوچتا کہ اس کی پیٹھ پر پڑی یہ کالی دھاریاں رام چندر جی کی انگلیوں کے نشان ہیں اور ہاتھی تو حیرت کا ایک جہان تھا۔ اپنی ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر جب وہ اسے دور سے آتا دیکھتا تو بالکل ایسا لگتا کہ پہاڑ چلا آ رہا ہے۔ یہ لمبی سونڈ، بڑے بڑے کان پنکھوں کی طرح ہلتے ہوئے تلوار کی طرح خم کھائے ہوئے دو سفید سفید دانت دو طرف نکلے ہوئے۔ اسے دیکھ کے وہ حیران اندر آتا اور سیدھا بی اماں کے پاس پہنچتا۔

’’بی اماں، ہاتھی پہلے اُڑا کرتے تھے؟‘‘

’’ارے تیرا دماغ تو نہیں چل گیا ہے‘‘

’’بھگت جی کہہ رہے تھے۔‘‘

’’ارے اس بھگت کی عقل پہ تو پتھر پڑ گئے ہیں۔ لو بھلا لحیم شحیم جانور، وہ ہوا میں کیسے اُڑے گا‘‘

’’بی اماں ہاتھی پیدا کیسے ہوا تھا؟‘‘

’’کیسے پیدا ہوتا۔ میّا نے جنا پیدا ہو گیا‘‘

’’نہیں بی اماں، ہاتھی انڈے سے نکلا ہے۔‘‘

’’ارے تیری عقل چرنے تو نہیں گئی ہے؟‘‘

’’بھگت جی کہہ رہے تھے۔‘‘

’’بخت مارے بھگت کی تو مت ماری گئی ہے۔ اتنا بڑا جانور، ہاتھی کا ہاتھی، وہ انڈے میں سے نکلے گا۔ نکلنا تو بعد کی بات ہے، اس میں سمائے گا کیسے۔‘‘

مگر اسے بھگت جی کے علم پہ بہت اعتبار تھا۔ گلے میں جنیؤ، ماتھے پہ تلک، چوٹی کو چھوڑ کر سارا سر گھٹا ہوا۔ نون تیل کی دکان پر بیٹھے نون تیل بھی بیچتے جائے اور رامائن اور مہا بھارت میں لکھی ہوئی حکمتیں بھی سناتے جاتے۔ لڑکے بالے شور مچا رہے ہیں۔ ’’بھگت جی ڈیڑھ پیسے کا سانبھر، بھگت جی دھیلے کا گڑ‘‘

’’بالکورول مت مچاؤ۔ دھیرج سے کام لو۔‘‘ کہتے کہتے سانبھر تولتے، گڑ دیتے اور پھر وہیں سے جہاں سے چھوڑا تھا سرا پکڑ لیتے۔ ’’بالکو، برہماں جی نے یہ دیکھا تو شیش سے کہا کہ دیکھ شیش دھرتی اس سمے ادھک ڈانواڈول ہے۔ تو واکی شہایتا کر۔ شیش بولا مہاراج واکو اُٹھا کے موکے پھن پہ رکھ دو، پھر وہ ٹک جاوے گی۔ برہماں جی بولے کہ شیش تو دھرتی کے بھیتر چلا جا۔ شیش نے دھرتی میں ایک چھید دیکھا۔ وا میں سٹک گیا۔ دھرتی تلے پہنچ کے پھن پھیلایا اور دھرتی کو پھن پر ٹکا لیا۔ کچھوے نے یہ دیکھا تو وا کو چنتا ہوئی کہ شیش کو پونچ تلے تو پانی، ہی پانی ہے۔ وانے شیش کی پونج تلے جا کے سہارا دیا۔ سو بالکو دھرتی شیش جی کے پھن پہ ٹکی ہوئی ہے۔ شیش جی کچھوے کی پیٹھ پہ ٹکے ہوئے ہیں۔ جب کچھوا ہلے ہے تو شیش جی ہلتے ہیں۔ جب شیش جی ہلتے ہیں تو دھرتی ہلے ہے اور بھونچال آوے ہے۔‘‘

مگر ابا جان زلزلے کی وجہ کچھ اور ہی بتاتے تھے۔ حکیم بندے علی اور مصیب حسین روز اس کے بڑے کمرے میں آ کر بیٹھتے جس کے بیچوں بیچ جھالر والا پنکھا لٹک رہا تھا اور اونچی چھت کے برابر چاروں طرف کنگنی بنی تھی۔ جہاں کسی جنگلی کبوتروں کے جوڑے نے، کسی فاختہ نے، کسی گڑسل نے اپنا اپنا گھونسلا بنا رکھا تھا۔ دونوں ابا جان سے کتنے مشکل مشکل سوال کرتے تھے اور ابا جان بلا تامل قرآن کی آیتیں پڑھ کر اور حدیثیں سنا کر سوالوں کے جواب دیتے تھے۔

’’مولانا ! اللہ تعالیٰ نے زمین کو کیسے پیدا کیا؟‘‘

تھوڑا تامل، پھر جواب ’’سوال کیا جابر بن عبداللہ انصاری نے کہ قربان ہوں ہمارے ماں باپ حضور پر سے، زمین کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے کس شے سے ترکیب دیا۔ فرمایا سمندر کے پھینے سے۔ پوچھا سمندر کا پھیناکس چیز سے بتایا؟ فرمایا، پانی سے۔ پوچھا، پانی کہاں سے نکلا؟ فرمایا، دانہ مروارید سے۔ پوچھا، دانہ مروارید کہاں سے نکلا؟ فرمایا تاریکی سے۔ تب کہا جابر بن عبداللہ انصاری نے کہ صدقت یا رسول اللہؐ۔‘‘

’’مولانا زمین کس چیز پر قائم ہے؟‘‘

پھر دم بھر کے لیے تامل۔ پھر اس خوش اسلوبی سے جواب ’’سوال کیا سوال کرنے والے نے کہ قربان ہوں یا حضرت میرے ماں باپ آپ پر سے۔ زمین کو قرار کس سے ہے؟ فرمایا، کوہ قاف سے۔ پوچھا کوہ قاف کے گرداگرد کیا ہے؟ فرمایا سات زمینیں۔ پوچھا سات زمینوں کے گرد کیا ہے؟ فرمایا، اژدھا۔ پوچھا اژدھے کے گرد کیا ہے؟ فرمایا، اژدھا۔ پوچھا، زمین کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا گائے جس کے چار ہزار سینگ ہیں اور ایک سینگ سے دوسرے سینگ تک کا فاصلہ پانچ سو برس کے سفر کا ہے۔ یہ سات طبق زمین کے اس کے دو سینگوں پر ٹکے ہوئے ہیں اور پھر ایک اس گائے کے نتھنوں کے روبرو بیٹھا ہے۔ کہ خوف سے اس کے وہ جنبش نہیں کر سکتی۔ بس سینگ بدلتی ہے کہ اس سے زلزلہ آتا ہے۔ پوچھا، کھڑی ہے وہ کس چیز پر؟ فرمایا مچھلی کی پشت پر تب قائل ہوا سوال کرنے والا اور بولا صدقت یا رسول اللہؐ۔‘‘

ابا جان چپ ہوئے۔ پھر بولے ’’حکیم صاحب! اس دنیا کی حقیقت بس اتنی ہے کہ ایک مچھر گائے کے نتھنوں کے روبرو بیٹھا ہے۔ مچھر ہٹ جائے تو پھر دنیا کہاں ہو گی۔ تو ہم ایک مچھر کے رحم و کرم پر ہیں، مگر نہیں جانتے اور غرور کرتے ہیں۔‘‘

روز یہی باتیں، روز یہی کہانیاں جیسے بھگت جی اور ابا جان مل کر اس کے لیے کائنات کی تفسیر کر رہے تھے۔ یہ باتیں سن سن کر اس کے تصور میں دنیا کی ایک تصویر بن گئی تھی۔ دنیا تو خیر پیدا ہو گئی مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ روئیں بہت بی بی حوا پیدا ہوئی ان کے آنسوؤں سے مہندی اور سرمہ۔ مگر پیٹ سے پیدا ہوئے ہابیل اور قابیل دو بیٹے اور اقلیما ایک بیٹی چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ بیاہ دیا باپ نے بیٹی کو چھوٹے بیٹے ہابیل سے۔ تس پر غصہ کھایا۔ بڑے بیٹے قابیل نے اور پتھر اُٹھا کے مارا ہابیل کو کہ مر گیا وہ اس سے۔ تب اُٹھائی قابیل نے ہابیل کی لاش اپنے کاندھے پر اور چکر کاٹا پوری زمین کا۔ اور گرا جس جس مقام پر خون ہابیل کا، ہو گئی اس اس جگہ پر زمین شور۔ تب سوچ میں پڑ گیا قابیل کہ کروں کیا بھائی کی لاش کا کہ دکھنے لگے تھے لاش کے بوجھ سے اس کے کندھے۔ دیکھا اُس گھڑی اس نے دو کووں کو کہ لڑ رہے تھے آپس میں اور مار ڈالا ایک نے دوسرے کو۔ کھو دی مارنے والے نے اپنی منقار سے زمین اور گاڑ کر اس میں مقتول کو جا بیٹھا درخت پر۔ تب افسوس کیا قابیل نے کہ اے خرابی میری، نہ ہو سکا مجھ سے اتنا کہ ہوؤں برابر کوے کے اور کروں دفن اپنے برادر کو۔ تب دفن کیا بھائی نے بھائی کو کوے کی مثال پر۔ سو وہ تھی پہلی قبر کہ بنی روئے زمین پر اور تھا وہ پہلا خون آدمی کا کہ ہوا آدمی کے ہاتھوں اور تھا وہ پہلا بھائی کہ مارا گیا بھائی کے ہاتھوں۔۔۔ اس نے پیلے ورقوں والی وہ کتاب بند کر کے ابا جان کی کتابوں کی الماری میں اسی جگہ رکھ دی جہاں سے اُٹھائی تھی، پھر بی اماں کے پاس پہنچا۔

’’بی اماں! ہابیل قابیل کا بھائی تھا؟‘‘

’’ہاں بیٹے! ہابیل قابیل کا بھائی تھا‘‘

’’پھر ہابیل کو قابیل نے قتل کیوں کیا؟‘‘

’’ڈوبا خون جو سفید ہو گیا تھا۔‘‘

اس نے یہ سنا اور حیران ہوا، مگر اب اس کی حیرت میں ہلکا ہلکا ڈر بھی شامل تھا۔ حیرت کے تجربوں میں خوف کی پہلی لہر۔ وہ اُٹھ کے بڑے کمرے میں گیا جہاں حسب دستور حکیم بندے علی اور مصیب حسین بیٹھے ابا جان سے سوال کر رہے تھے اور جواب سن رہے تھے۔ مگر اس وقت ابا جان دنیا کے آغاز سے زقند بھر کر دنیا کے انجام پر پہنچ چکے تھے۔

’’مولانا قیامت کب آئے گی؟‘‘

’’جب مچھر مر جائے گا اور گائے بے خوف ہو جائے گی۔‘‘

’’مچھر کب مرے گا اور گائے کب بے خوف ہو گی؟‘‘

’’جب سورج مغرب سے نکلے گا‘‘

’’سورج مغرب سے کب نکلے گا؟‘‘

’’جب مرغی بانگ دے گی اور مرغا گونگا ہو جائے گا‘‘

’’مرغی کب بانگ دے گی اور مرغا کب گونگا ہو گا؟‘‘

’’جب کلام کرنے والے چپ ہو جائیں گے اور جوتے کے تسمے باتیں کریں گے۔‘‘

’’کلام کرنے والے کب چپ ہو جائیں گے اور جوتے کے تسمے کب باتیں کریں گے؟‘‘

’’جب حاکم ظالم ہو جائیں گے اور رعایا خاک چاٹے گی۔‘‘

ایک جب کے بعد دوسرا جب، دوسرے جب کے بعد تیسرا جب۔ جبوں کا عجب چکر تھا۔ جب جو گزر گئے جو آنے والے تھے۔ کب کب کے جب بھگت جی کو یاد تھے، کب کب کے جب ابا جان کے تصور میں منور تھے۔ ایسے لگتا کہ دنیا جبوں کا بے انت۔ سلسلہ ہے۔ جب اور جب اور جب۔۔۔ مگر اب تصور کی ڈوری اچانک سے ٹوٹ گئی۔ باہر بلند ہوتے نعروں کا شور اچانک اندر آیا اور اس کی یادوں کی لڑی کو تتر بتر کر گیا۔

 

 

 

اس نے اُٹھ کر دریچے سے جھانکا اور سامنے والے میدان پر کہ کچھ دنوں سے جلسہ گاہ بنا ہوا تھا، ایک نظر ڈالی اور ان گنت سروں کو گڈ مڈ دیکھا۔ جلسہ گرم تھا اور اچانک نعرے لگنے شروع ہو گئے تھے۔ دریچہ بند کر کے پھر کرسی پر آ بیٹھا تھا اور کتاب کو الٹ پلٹ کر کے دیکھنا اور جہاں تہاں سے پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ آخر صبح کے لیے لیکچر بھی تو تیار کرنا تھا۔ مگر کھڑکی بند ہو جانے کے باوجود نعروں کا شور سنائی دے رہا تھا۔ گھڑی دیکھی، گیارہ بج رہے ہیں۔ جلسہ اب شروع ہوا ہے۔ تو پتہ نہیں ختم کب ہو گا؟ کہیں پھر وہی کل کا چکر شروع نہ ہو جائے اور رات کی نیند حرام ہو جائے۔ آج کل تو جلسوں میں یہی ہوتا ہے۔ گالی سے شروع ہوتے ہیں، اور گولی پر ختم ہوتے ہیں۔ مگر کمال ہے وہ اپنے آپ پہ حیران ہونے لگا۔ باہر جتنا ہنگامہ بڑھتا جاتا ہے، میں اندر سمٹتا جاتا ہوں۔ کب کب کی یادیں آ رہی ہیں۔ اگلے پچھلے قصّے، بھولی بسری باتیں۔ یادیں ایک کے ساتھ دوسری، دوسری کے ساتھ تیسری اُلجھی ہوئی، جسے آدمی جنگل میں چل رہا ہو۔ میری یادیں میرا جنگل ہیں۔ آخر یہ جنگل شروع کہاں سے ہوتا ہے۔ نہیں، میں کہاں سے شروع ہوتا ہوں اور وہ پھر جنگل میں تھا۔ جیسے جنگل کی انتہا تک پہنچنا چاہتا ہو، جیسے اپنا شروع تلاش کر رہا ہو۔ اندھیرے میں چلتے چلتے کوئی منور منطقہ آتا تو ٹھٹھکتا مگر پھر آگے بڑھ جاتا کہ وہ تو اس ساعت تک پہنچنا چاہتا تھا جب اس کے شعور نے آنکھ کھولی تھی مگر وہ ساعت اُس کی گرفت میں نہیں آ رہی تھی۔ جب کسی یاد پہ انگلی رکھی تو اس کے عقب میں یادوں کے دل بادل منڈلاتے نظر آئے۔ پھر وہ یوں چلا کہ اس کی یاد کے حساب سے روپ نگر میں سب سے پہلے کون سا واقعہ ہوا تھا۔ مگر اس بستی کا ہر عمل صدیوں میں پھیلا نظر آیا۔ روز و شب کا قافلہ وہاں کتنا آہستہ گزرتا تھا۔ جیسے گزر نہیں رہا، رکا کھڑا ہے۔ جو شے جہاں آ کر ٹھہر گئی سو بس ٹھہر گئی۔ جب بجلی کے کھمبے پہلی پہل آئے تھے اور سڑکوں پر جہاں تہاں ڈالے گئے تھے تو یہ کتنا انقلابی واقعہ نظر آتا تھا۔ پورے روپ نگر میں ایک سنسنی دوڑ گئی۔ لوگ چلتے چلتے ٹھٹھکتے، سڑکوں کے کنارے پڑے ہوئے لمبے آہنی کھمبوں کو حیرت سے دیکھتے۔

’’تو روپ نگر میں بجلی آ رئی اے؟‘‘

’’ہمبے‘‘

’’میرے سر کسوں؟‘‘

’’تیسرے سرکسوں‘‘

دن گزرتے گئے، تجسس کم ہوتا گیا۔ کھمبوں پر گرد کی تہیں جمتی چلی گئیں۔ رفتہ رفتہ ان پر اتنی ہی گرد جم گئی جتنی ان کنکروں کی ڈھیریوں پر جو کسی بھلے وقت میں سڑکوں کی مرمت کے لیے یہاں ڈالی گئی تھیں۔ مگر پھر ڈالنے والوں نے انہیں فراموش کر دیا اور وہ روپ نگر کی گرد میں اُلٹے لینڈ سکیپ کا حصہ بن گئیں۔ اب یہ کھمبے بھی اس گرد میں اٹے لینڈ سکیپ کا حصہ تھے۔ لگتا کہ سدا سے یہاں پڑے ہیں، سدا یہاں پڑے رہیں گے۔ بجلی کی بات آئی گئی ہو چکی تھی۔ روز شام پرے لالٹین جلانے والا کاندھے پہ سیڑھی رکھے ہاتھ میں تیل کا کپا لئے نمودار ہوتا اور جابجا لکڑی کے ستونوں پر نصب اور دیواروں کی بلندی پر ٹھکی ہوئی لالٹینوں کو روشن کرتا چلا جاتا۔ ’’ہے رہی وسنتی سنجا ہو گی۔ دیا بال دے‘‘ وسنتی سانولی رنگت، بھولی صورت، ماتھے پہ بندیا، ملی دلی ساڑھی، ننگے پیروں، تھپ تھپ کرتی ڈیوڑھی پہ آتی۔ طاق میں رکھے دیے میں تیل بتی ڈال کے جلاتی اور اُلٹے پیروں اندر چلی جاتی، بغیر اُس کی طرف دیکھے ہوئے کہ وہ اپنی ڈیوڑھی پہ کھڑا اسے تکرا رہتا۔ چھوٹی بزریا میں بھگت جی ہیلے چیکٹ ڈیوٹ پر رکھے دیے میں ایک پلی کڑوا تیل ڈال کے اسے جلاتے اور سمجھ لیتے کہ ان کی دکان منور ہو گئی۔ انہیں کی دکان آگے نالی کے آگے مٹرو مشال جلا کر خوانچے کے برابر گاڑ دیتا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد آواز لگاتا۔ ’’سونٹھ کے بتاشے‘‘ مگر سب سے تیز روشنی لالہ ہردیال صراف کی دکان پر ہوتی جہاں چھت میں لٹکے ہوئے لیمپ کی روشنی دکان سے نکل کر سڑک پر تھوڑا اُجالا کر دیتی۔ روشنی کی پونجی اس نگر میں بس اتنی ہی تھی اور یہ بھی کتنی دیر۔ دکانیں ایک ایک کر کے بند ہوتی چلی جاتیں۔ ڈیوڑھیوں کے طاقوں میں جھلملاتے دئیے مندے ہوئے چلے جاتے اور آخر کو بجھ جاتے۔ پھر بس کسی کسی نکڑ پہ لکڑی کے ستون پر نصب لالٹین ٹمٹماتی رہ جاتی۔ باقی اندھیرا ہی اندھیرا۔ یوں اس اندھیرے میں دیکھنے والی آنکھوں کو بہت کچھ نظر آتا۔

’’بی اماں! یہ پچھلی جمعرات کی بات ہے۔ دونوں وخت مل رئے تھے۔ چوپال کے پاس سے گزری تو ایسے لگا جیسے کوئی عورت رو رہی ہے۔ اِدھر دیکھا اُدھر دیکھا، کوئی بھی نئیں۔ چوپال کے پھاٹک کے پاس ایک کالی بلی بیٹھی تھی۔ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میں نے اسے دھتکار دیا۔ آگے جو گئی تو اے میں کیا دیکھوں ہوں کہ نیم والی بوا کی دیوار پہ وہی بلی میں نے پھر اسے دھتکارا۔ وہ دیوار سے اندر کود گئی۔ آگے چل کے اونچے کنویں والی گلی سے نکلی تو اسے بی اماں یقین کریو پھر وہی بلی۔ لالہ ہردیال کے چبوترے پہ بیٹھی ایسے رو رہی تھی۔ جیسے عورت رو رہی ہو۔ میرا جی سن سے رہ گیا۔‘‘

’’اللہ بس اپنا رحم کرے‘‘۔ بی اماں نے تشویش سے کہا اور چپ ہو گئیں۔ مگر رحم کہاں۔ اس کے دوسرے تیسرے دن شریفن نے آ کر دوسری خبر سنائی:

’’اے بی اماں! محلے میں چوہے بہت مر رہے ہیں۔‘‘

’’اچھا؟‘‘

’’ہاں، میں گھووے کی طرف سے گزری تو دیکھا کہ ڈھیروں مرے پڑے ہیں۔‘‘

پہلے چوہے مرے، پھر آدمی مرنے لگے۔ باہر سے آتی ہوئی آواز آرام نام ستیہ ہے۔

’’اری شریفن دیکھ تو سہی کون مر گیا۔‘‘

’’بی اماں! پیار سے لال کا پوت جگدیش مر گیا۔‘‘

’’ہئے ہئے! وہ تو کڑیل جوان تھا کیسے مر گیا۔‘‘

’’بی اماں اس کے گلٹی نکلی تھی۔ گھنٹوں میں چٹ پٹ ہو گیا۔‘‘

’’گلٹی؟ اری کمبخت کیا کہہ رہی ہے۔‘‘

’’ہاں بی اماں! سچ کہہ رہی ہوں۔ طاعون۔۔۔‘‘

’’بس بس زبان بند کر۔ بھرے گھر میں اس ستیاناسی بیماری کا نام نہیں لیا کرتے۔‘‘

گلٹی جگدیش کے نکلی، پھر پنڈت ہردیال کے نکلی، پھر مصرا جی کے نکلی۔ پھر لوگوں کے نکلتی ہی چلی گئی۔ جنازہ ایک گھر سے نکلا، پھر دوسرے گھر سے نکلا، پھر گھر گھر سے نکلا۔ بی اماں نے اور شریفن نے مل کر دس تک گنتی گنی۔ پھر وہ گڑبڑائیں۔ ایک دن میں کتنے گھروں سے جنازے نکل گئے۔ شام ہوتے ہوتے گلی کوچے سنسان ہو گئے۔ نہ قدموں کی آہٹ نہ ہنستے بولتے لوگوں کی آوازیں۔ اور تو اور آج چرنجی کے ہارمونیم کی بھی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی جو جاڑے، گرمی، برسات روز رات کو بیٹھک میں ہارمونیم کو لے کے بیٹھ جاتا اور تان لگاتا:

لیلیٰ لیلیٰ پکاروں میں بن میں

لیلیٰ موری بسی مورے من میں

جب صبح ہوئی تو بستی کا رنگ ہی اور تھا۔ کوئی کوئی دکان کھلی تھی، باقی سب بند۔ کچھ گھروں میں تالے پڑ گئے تھے، کچھ میں پڑ رہے تھے۔ کسی گھر کے سامنے بیلی کھڑی تھی، کسی گھر کے سامنے اکّہ۔ لوگ جا رہے تھے، نگر خالی ہو رہا تھا۔ نگر دونوں طرح خالی ہوا۔ کچھ نگر سے نکل گئے، کچھ دنیا سے گزر گئے۔

’’بی اماں! ہندو زیادہ مر رہے ہیں۔‘‘

’’بی بی ہیضے میں مسلمان مرتے ہیں، طاعون میں ہندو مرتے ہیں۔‘‘

مگر پھر طاعون نے ہندو مسلمان میں امتیاز ختم کر دیا۔ کلمے کی آوازوں کے جلو میں نکلتے ہوئے جنازے بھی زور پکڑ گئے۔

’’بہو! ذاکر کو روک کے رکھو۔ یہ بار بار باہر جاتا ہے۔‘‘

’’بی اماں! یہ لڑکا میری نہیں سنتا۔‘‘

’’اچھا اب نکل کے دیکھے، اس کی ٹانگیں توڑ دوں گی۔‘‘

مگر کسی دھمکی نے اس پر اثر نہیں کیا۔ رام نام ستیہ کی آواز آئی اور وہ زن سے باہر ڈیوڑھی پر۔ جنازہ جب گزر جاتا تو سوگوار عورتیں ایندھن سنبھالے بین کرتی ہوئی گزرتیں۔ ان کے گزر جانے کے بعد سڑک کتنی ویران نظر آتی تھی۔ شریفن دوڑتی ہوئی آئی اور اسے پکڑ کر اندر لے جاتی۔

ٹخ ٹخ کرتی ایک بیلی آئی اور ڈیوڑھی کے آگے آ کر کھڑی ہو گئی۔

’’اری شریفن دیکھ تو سہی، ان قیامت کے دنوں میں کون مہمان آیا ہے۔‘‘

شریفن گئی اور آئی۔

’’بی اماں! دانپور سے ماموں ابا نے بیلی بھیجی ہے۔ کہلوایا ہے کہ سب کو لے کر نکل آؤ۔‘‘

بی اماں سیدھی بڑے کمرے میں گئیں جہاں ابا جان سب سے الگ دن بھر مصلے پہ بیٹھے رہتے۔

’’بیٹے ناصر علی! تمہارے ماموں ابا نے بیلی بھیجی ہے۔‘‘

ابا جان نے تامل کیا۔ پھر بولے!

’’بی اماں! حضور رسالت مآب نے فرمایا کہ جو موت سے بھاگتے ہیں وہ موت ہی کی طرف بھاگتے ہیں۔‘‘

بیلی خالی آئی تھی، خالی واپس گئی اور ابا جان نے چینی کی پیالی میں زعفران گھولا، قلم پاک کر کے اس میں ڈبویا اور ایک دبیز کاغذ پر جلی حروف میں لکھا:

’’لی خمسۃ اطفی بہاحر الوباء الحاطمہ المحمدوالفاطمہ والحسن والحسین یا علی یا علی یا علی‘‘

پھر یہ کاغذ ڈیوڑھی پر جا کر پھاٹک پر چپکایا اور واپس مصلے پر آ بیٹھے۔

ڈاکٹر جوشی کا شفا خانے سے نکلنا اور کسی کے گھر پہ پہنچنا پہلے ایک واقعہ ہوا کرتا تھا۔ مگر اب تو ڈاکٹر صاحب وقت بے وقت گلے میں آلہ ڈالے نمودار ہوتے۔ کبھی اس گلی میں کبھی اُس گلی میں۔ ڈاکٹر صاحب روپ نگر کے مسیحا تھے کہنے والے کہتے تھے کہ ان کے مقابلے کا ڈاکٹر دلی کے بڑے ہسپتال میں نہیں ہے۔ لیکن اب مسیحا کا زور گھٹ رہا تھا، موت کا زور بڑھ رہا تھا۔ خود ڈاکٹر صاحب کی بیوی کے گلٹی نکلی اور ڈاکٹر صاحب کے دیکھتے دیکھتے پر ان کو چھوڑ گئی۔

’’ڈاکٹر کی بھی بیر مر گئی۔‘‘

’’ہمبے!‘‘

بھگت جی کی دکان پہ بیٹھے لوگ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکے۔ سرونجی مل وید کی ودیا اور حکیم بندے علی کی حکمت سے پہلے ہی ہلے میں اعتبار اُٹھ گیا تھا۔ اب ڈاکٹر جوشی کے مسیحائی بھی اپنا اعتبار کھو بیٹھی۔ موت اب ایک اٹل حقیقت تھی۔ مرنے والے خاموشی سے مر رہے تھے۔ جنازے اُٹھانے والے تھکے تھکے نظر آئے۔

وہ خود کتنا تھک گیا تھا۔ جنازہ گزر جاتا اور وہ اسی طرح کھڑا رہتا اور خالی سڑک کو تکتا رہتا۔ اس کے گھر کے سامنے کی سڑک اب کتنی ویران نظر آتی تھی۔ دکانوں اور مکانوں میں بالعموم تالے پڑے تھے۔ وسنتی کے گھر کے دروازے میں تالا پڑ چکا تھا۔ کسی کسی دکان کا پٹ کسی وقت تھوڑا کھلا نظر آتا، پھر جلد ہی بند ہو جاتا۔ وہ مقفل دروازوں، بند کواڑوں اور سونی سڑک کو دیکھ دیکھ کے تھک جاتا اور شریفن کے تقاضے سے پہلے ہی واپس اندر چلا جاتا جہاں ایک خاموشی سی چھائی رہتی۔ ابا جان سب سے الگ موت و زیست کے معاملات سے بے نیاز مصلے پہ بیٹھے تسبیح پھیرتے رہتے۔ بی اماں پلنگ پہ بیٹھی کچھ سیتی پروتی رہتیں۔ اکّا دکّا بات اسی سے یا شریفان سے۔ اب حیرت ان کی آنکھوں سے رخصت ہو چکی تھی۔ حیرت بھی اور خوف بھی۔ دوسری آنکھوں میں بھی اب نہ حیرت تھی نہ خوف۔ وبا کو جیسے ایک قائم و دائم حقیقت کے طور پر سب نے قبول کر لیا تھا۔ ہاں مگر ایک روز بی اماں صبح کو اس طور جاگیں کہ بدن ان کا کانپ رہا تھا۔ اسی عالم میں انہوں نے نماز پڑھی اور دیر تک سجدے میں پڑی رہیں۔ جب سجدے سے سر اٹھایا تو جھریوں بھرا چہرہ آنسوؤں میں تر بتر تھا۔ پھر انہوں نے آنچل منہ پہ رکھ کر ہلکی ہلکی آواز کے ساتھ رونا شروع کر دیا۔ ابا جان نے مصلے پہ بیٹھے بیٹھے غور سے بی اماں کو دیکھا۔ اُٹھ کر قریب آئے۔ ’’بی اماں! کیا بات ہے؟‘‘

’’بیٹے امام کی سواری آئی تھی۔‘‘ رکیں، پھر بولیں ’’ایسی روشنی جیسے گیس کا ہنڈا جل گیا ہو۔ جیسے کوئی کہہ رہا ہے کہ مجلس کرو۔‘‘

ابا جان نے تامل کیا۔ پھر کہا:

’’بی اماں! آپ کو بشارت ہوئی ہے‘‘

بشارت کی خبر شریفن کی زبانی گھر گھر پہنچی۔ ہر اس گھر سے جس میں تالا نہیں پڑا تھا۔ بیبیاں آئیں۔ مجلس ہوئی اور بہت رقت ہوئی۔

’’اے بی اماں! آپ نے کچھ سُنا۔ نحوست ماری بیماری ٹل گئی۔‘‘

’’اری سچ کہہ‘‘

’’ہاں بی اماں! ڈانکر جوشی نے بتایا ہے‘‘

’’اللہ تیرا شکر ہے‘‘ اور بی اماں کی آنکھوں میں پھر آنسو اُمنڈ آئے۔ جب سجدے سے انہوں نے سر اُٹھایا تو جھریوں بھرا چہرہ پھر آنسوؤں میں تر بتر تھا۔

بیلیاں جس طرح لدی پھندی گئی تھیں اسی طرح لدی پھندی واپس آئیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک نیا اکہ چرخ چوں کرتا آتا اور ایک اور مقفل گھر کھل جاتا۔ مقفل مکان کھل رہے تھے اور گھر کے اندر کے چیتھڑے گودڑے باہر ڈھیر لگا کر جلائے جا رہے تھے۔

اب شام تھی۔ دور وسنتی کے گھر کے آنگن سے دھات کے چھوٹے بڑے برتنوں کی کھنکھناہٹ صاف سنائی دے رہی تھی نہ مندر سے آتی گھنٹیوں کی آوازوں کے بیچ ایک مانوس آواز سنائی دی۔ ’’ہے ری وسنتی، سنجا ہو گئی، دیا بال دے‘‘ اور وسنتی اسی طور ننگے پیروں ڈیوڑھی پہ آئی، نئے دیوے میں نئی بتی ڈال کر جلائی۔ واپس جانے لگی تھی کہ سڑک پار کر کے وہ اس کے قریب گیا ’’وسنتی!‘‘

وسنتی نے مڑ کر اسے دیکھا اور مسکرائی

’’آ گئی تو؟‘‘

’’ہمبے‘‘

وہ اور قریب آ گیا۔ اس کی ننگی باہیں ہولے سے چھوتے ہوئے نرم میٹھے لہجے میں بولا ’’آ کھیلیں‘‘

وسنتی ٹھٹھکی۔ پھر ایک ساتھ بھڑکی ’’چل مسلّے کے چھورے‘‘ اور بھاگ کر اندر چلی گئی۔

وسنتی سے جھڑکی کھا کر خوشی سے سرشار وہ واپس گھر گیا اور دیر تک اپنی پوروں میں مٹھاس گھلتی محسوس کرتا رہا۔

بے آباد گھر پھر آباد ہو گئے تھے اور چھوٹی بزریا میں پھر ویسی ہی گہما گہمی تھی۔ پھر بھی اب جہاں تہاں کھانچے نظر آتے اور چہرے یہاں وہاں سے کم دکھائی دیتے۔ پنڈت ہردیال اپنے گھر کے چبوترے پہ اور مصرا جی اپنی دکان کی مسند پہ کہاں دکھائی دیتے تھے اور جگدیش کہاں تھا جو روز رات کو چرنجی کی بیٹھک میں جا کر ہارمونیم سیکھتا تھا۔ پنڈت ہردیال کے بیٹے سوہن کا گھٹا ہوا سر ہفتوں اعلان کرتا رہا کہ وہ باپ کے سوگ میں ہے۔ پھر مگر سوہن کے سر پہ بال آتے چلے گئے اور چھوٹی بزریا کے کھانچے بھرتے چلے گئے۔ پھر اتنے ہی لوگ جیسے کوئی کم نہیں ہوا ہے اور ویسی ہی رونق جیسے یہاں کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے۔ چرنجی کی بیٹھے میں پھر بھیڑ جمنے لگی تھی۔ آدھی آدھی رات تک ہارمونیم بجتا اور گانے کی آواز دور تک جاتی:

رات بھر لیلیٰ پڑی رہتی ہے یوں

اپنے پہلو میں دبائے دردِ دل

دردِ دل بھی کیا کوئی معشوق ہے

جس کو دیکھو مبتلائے دردِ دل

’’چرنجی سالے تیرے تو مزے ہو گئے۔‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’کھمبا تیری بیٹھک کے بالکل برابر کھڑا ہوا ہے۔ سالے تو تو اب بجلی کی روشنی میں ہارمونیم بجایا کرے گا۔‘‘

کھمبے کہ ایک زمانے سے گرد میں رلے ملے پڑے تھے، اچانک کھڑے ہو گئے تھے۔ لوگ چلتے چلتے ٹھٹھکتے ، نظریں اُٹھا کر اونچے کھمبوں کو دیکھتے اور آنے والی نئی روشنی کا تصور کر کے دن رہ جاتے۔

’’کہویں ہیں کہ بجلی میں بہت روشنی ہووے ہے۔‘‘

’’بس ایسا سمجھ لو کہ دن نکلا ہوا ہے۔‘‘

’’بھئی انگریز بھی کمال ہے۔‘‘

مگر مزدور کھمبوں کو کھڑا کر کے پھر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ دن گزرے، مہینے گزرے، پھر وقت گزرتا ہی چلا گیا۔ کھمبے گرد آلود ہو کر پھر لینڈ سکیپ کا حصہ بن گئے۔ لگتا تھا کہ گاڑے نہیں گئے ہیں، زمین سے اُگے ہیں۔ اُڑتے اُڑے کوئی فاختہ، کوئی کھٹ بڑھیا دم بھر کے لیے کسی کھمبے پر اُترتی۔ مگر شاید اس کی آہنی صورت سے بیزار ہو کر جلدی اُڑ جاتی ہاں کوئی چیل آ بیٹھتی تو دیر تک بیٹھی رہتی۔ مگر چیلیں ممٹیوں پر بیٹھنا زیادہ پسند کرتی تھیں۔ چوپال کی اونچی مٹی پر جو چیل آ بیٹھتی وہ پھر بیٹھی ہی رہتی۔ لگتا کہ جگ بیت جائے گا اور وہ یہاں سے نہیں اُڑے گی۔ یہ ممٹی کچھ امتداد زمانہ سے پرانی ہوئی، کچھ چیلوں کی بیٹوں نے اسے پرانا بنا دیا۔ مگر بڑی حویلی کی برجیاں پرانی ہونے سے پہلے ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ یہ بندروں کا کارنامہ تھا بات یہ ہے کہ جس طرح چیل ہر ممٹی پر نہیں بیٹھتی اسی طرح بندر بھی ہر منڈیر پر نہیں دندناتے۔ اس نگہ کی کچھ ممٹیاں چیلوں کو بھا گئی تھیں، کچھ منڈیریں بندروں کو پسند آ گئی تھیں۔

بندروں کا عجب طور تھا۔ آتے تو آتے ہی چلے جاتے۔ جاتے تو اس طرح جاتے کہ کوٹھوں پر تو کیا کربلا کے پاس والی املیوں پر بھی نظر نہ آتے۔ چھتیں سنسان، منڈیریں ویران۔ صرف اونچے کوٹھوں کی شکستہ برجیاں یہ یاد دلاتیں کہ یہ اونچے کوٹھے کبھی بندروں کی زد میں تھے مگر اس شام کیا ہوا تھا۔ گلی سے گزرتے گزرتے اُسے ایسا لگا جیسے اس کے سر پر ایک منڈیر سے مقابل والی منڈیر پر کوئی کودا ہے۔ نظر اُٹھائی تو کیا دیکھا کہ بندروں کی ایک قطار منڈیر منڈیر چلی جا رہی ہے۔ ’’ارے بندر‘‘ اس کے منہ سے نکلا اور دل دھک سے رہ گیا اور دوسرے دن جب وہ صبح کو سو کر اُٹھا تو گھر میں اور گھر سے باہر شور مچا ہوا تھا۔ آنگن میں رکھی ہوئی چیزیں یا ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں یا غائب ہو گئی تھیں۔ ایک بندر امی کا دوپٹہ لے اُڑا تھا اور سب سے اونچے والے کوٹھے کی منڈیر پہ بیٹھا اسے دانتوں میں دبا کر لیر لیر کر رہا تھا۔

 

 

بندر جانے کس کس بستی سے کس کس جنگل سے چل کر آئے تھے۔ ایک قافلہ، دوسرا قافلہ، قافلہ کے بعد قافلہ۔ ایک منڈیر سے دوسری منڈیر پر، دوسری منڈیر سے تیسری منڈیر پر۔ بھرے آنگنوں میں لپک جھپک اُترتا، چیزوں کو اچک یہ جا وہ جا۔ ننوا تیلی نے چندہ جمع کر کے چنے خریدے اور گڑ کی ایک بھیلی پینٹھ والے تالاب میں جا کر کہ برسات کے سوا سارے برس میں خشک پڑا رہتا، چنے بکھیر سے، بیچ میں گڑ کی بھیلی رکھی، ساتھ میں چھوٹے چھوٹے ڈنڈے۔ بندر کودتے پھاندتے آئے، چنے اناپ شناپ کھائے۔ گالوں میں بھر لیے۔ بھیلی پہ لپکے۔ ایک بھلی سو بندر۔ فساد شروع ہو گیا۔ ڈنڈے تو موجود ہی تھے۔ دیکھتے دیکھتے سب بندر لٹھ بند ہو گئے۔ جس نے بھیلی اُٹھائی، اُسی کے سر پر ڈنڈا پڑا۔

بندروں نے دنوں ہفتوں دھومیں مچائیں۔ شبخوں، لوٹ مار اور بالآخر خانہ جنگی، اس کے بعد غائب چھتیں پھر سنسان، منڈیریں پھر ویران۔ مگر جب بجلی آئی ہے ان دنوں وہ بستی میں تھے اور منڈیر منڈیر نظر آتے تھے۔ کھمبے کہ موسموں کے ستم سہتے سہتے منظر میں رمل مل گئے تھے۔ اچانک پھر توجہ کا مرکز بن گئے۔ مزدور لمبی لمبی سیڑھیاں کاندھوں پہ اُٹھائے نمودار ہوئے۔ کھمبوں کے اوپری سروں پر صلیبی انداز میں سلاخیں لگیں، سلاخوں میں سفید سفید چینی کی سی گٹکیں درست ہوئیں۔ ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے تک، دوسرے کھمبے سے تیسرے کھمبے تک تار تانے گئے اور سڑک سڑک کھمبوں پہ تار کھینچتے چلے گئے۔

فضا میں ایک نیا واقعہ ظہور پذیر ہو گیا تھا اور پرندوں کو پنجے ٹکانے کے لیے نئے ٹھکانے میسر آ گئے تھے۔ روپ نگر کے پرندے اب منڈیروں اور درختوں کی شاخوں کے محتاج نہیں رہے تھے۔ کوے منڈیروں پہ بیٹھے کائیں کائیں کرتے تھک جاتے تو وہاں سے اُڑتے اور کسی تار پہ جھولنے لگتے۔ کوئی نیل کنٹھ، کوئی شاما چڑیا، کوئی دھوبن چڑیا۔ اُڑتے اُڑتے دم لینے کے لیے کسی تار پہ اُتر آتی۔

پرندوں کی دیکھا دیکھی ایک بندر نے چھوٹی بزریا کی ایک منڈیر سے چھلانگ لگائی اور تاروں پہ جھول گیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ پٹ سے زمین پہ آ رہا۔ ایک طرف سے بھگت جی، دوسری طرف سے لالہ مٹھن لال اپنی دکان سے اُٹھ کر دوڑے۔ حیرت اور خوف سے دم توڑتے بندر کو دیکھا۔ چلائے:

چندی نے لپک جھپک کنویں پہ جا ڈول ڈالا، پانی بھر کے لایا اور پورا ڈول بندر پہ انڈیل دیا مگر بندر کی آنکھیں بند اور بدن ساکت ہوتا چلا گیا۔

آس پاس کے منڈیروں پر جانے کہاں کہاں سے بندر اُمنڈ آئے تھے اور سڑک بیچ ساکت پڑے ہوئے اپنے رفیق کو دیکھ دیکھ کے شور مچا رہے تھے۔ پھر گلی محلوں سے لوگ دوڑے ہوئے آئے اور مرے ہوئے بندر کو حیرت سے تکنے لگے۔

’’کون سے تار پہ لٹکا تھا؟‘‘

’’اس تار پہ‘‘ چندی سب سے اوپر والے تار کی طرف اشارہ کرتے۔

’’تو بلی آ گئی؟‘‘

’’ہاں جی آ گئی۔ ادھر آدمی نے تار کو چھوا اور ادھر ختم۔‘‘

دوسرے دن پھر ایک بندر تاروں پر کود اور دھپ سے زمین پر آ رہا۔ پھر بھگت جی اور لالہ مٹھن لال لپک کر وہاں پہنچے اور پھر چندی پانی سے بھرا ڈول لے کر دوڑا مگر بندر دیکھتے دیکھتے ٹھنڈا ہو گیا۔

بندروں میں پھر ایک کھلبلی پڑی۔ دور دور کی چھتوں سے کودتے پھاندتے آئے۔ بیچ سڑک پہ پڑے مردہ بندر کو ایک وحشت کے ساتھ دیکھا اور بساط بھر شور مچایا۔

بندر ہار تھک کر چپ ہو چلے تھے۔ بہت سے واپس ہونے لگے تھے کہ ایک موٹا تازہ بندر پنڈت ہر دیال کی اونچی لمبی منڈیر پر دور سے دوڑتا ہوا آیا۔ غصے سے منہ سرخ، بال بدن پر تیروں کی طرح کھڑے ہوئے۔ کھمبے پہ چھلانگ لگائی، کھمبے کو اس زور سے ہلایا کہ وہ بودے پیڑ کی طرح ہل گیا۔ پھر وہ اوپر چڑھا اور پوری قوت کے ساتھ تاروں پہ حملہ آور ہوا۔ تاروں پہ کودتے ہی لٹک گیا۔ گھڑی بھر لٹکا رہا، پھر ادھ موا ہو کے زمین پر گر پڑا۔ بھگت جی لالہ مٹھن لال اور چندی تینوں نے پھر اپنا اپنا فرض ادا کیا۔ بندر نے پانی پڑنے پر آنکھیں کھولیں، بے بسی سے اپنے درد مندوں کو دیکھا اور ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔

بندر چھتوں چھتوں کودتے پھاندتے آئے۔ لگتا تھا کہ سب سڑک پر اُتر آئیں گے، مگر بس وہ منڈیروں پہ منڈلاتے رہے، چیختے چلاتے رہے پھر ایک دم سے چپ ہو گئے جیسے کسی خوف نے انہیں آ لیا ہو۔ پھر منڈیریں خالی ہونے لگیں۔

شام ہو رہی تھی۔ موٹا بندر ابھی تک سڑک پہ پڑا تھا۔ آس پاس کی کسی منڈیر پہ کہیں کوئی بندر نہیں تھا۔ روپ نگر اپنے تین بندروں کی بھینٹ دے کر بجلی کے زمانے میں داخل ہو گیا اور بندر ایسے غائب ہوئے کہ ہفتوں تک کسی منڈیر، کسی چھت، کسی درخت پہ کوئی بندر دکھائی نہیں دیا اور تو اور کالے مندر کے بڑے پیپل پہ بھی، جہاں ہر موسم، ہر دنوں میں بندر شاخ شاخ اُچکتے لٹکتے نظر آتے تھے، سناٹا تھا۔

روپ نگر کا نرجن بن اسی کالے مندر سے شروع ہوتا تھا۔ دیواروں اور گنبد پر اتنی کائی جم گئی تھی اور جم کے کالی پڑ گئی تھی کہ پورا مندر کالا کار دکھائی پڑتا تھا۔ اندر باہر سب سنسان جیسے صدیوں سے یہاں نہ سنکھ پھنکا ہو، نہ کسی پجاری نے قدم رکھا ہو۔ جتنا اونچا مندر تھا اتنا ہی اونچا اس کا پیپل جس کی ٹہنیوں پر سدا بندر جھولتے رہتے۔ سوائے ان دنوں کے جب ادھر کوئی لمبی رسی جیسی دم اور کالے منہ والا لنگور آ نکلتا کہ اُس کے دیکھتے ہی بندر غائب ہو جاتے۔ کالے مندر سے آگے کربلا تھی کہ سال میں ایک عاشورہ کے دن کے سوا ویران دکھائی دیتی جیسے سچ مچ کربلا ہو۔ اس سے تھوڑے فاصلے پر ایک ٹیلہ جس پہ عمارت کے نام ایک برجی کھڑی رہ گئی تھی اور قلعہ کہلاتی تھی۔ آگے راون بن بالکل اجاڑ۔ دور تک میدان ہی میدان جس کے بیچوں بیچ ایک بھاری بڑھ کا پیڑا کھڑا تھا۔ بستی سے نکل کر بندو اور حبیب کے ساتھ گرمی کے دوپہروں میں گھومتا پھرتا جب وہ اس طرف آ نکلتا اور کالے مندر کی سرحد کو پار کر لیتا تو اسے لگتا کہ وہ کسی دوسرے براعظم میں داخل ہو گیا ہے۔ کسی بڑے جنگل میں جہاں پتہ نہیں کس گھڑی کس مخلوق سے مڈھ بھیڑ ہو جائے، اور اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا۔

کالے مندر والے بندروں سے شاد آباد پیپل سے گزرتے گزرتے وہ ٹھٹکا ’’یار‘‘ اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکا۔

’’کیا ہے بے؟‘‘ حبیب نے بے پرواہی سے پوچھا۔

’’آدمی‘‘ اس نے ڈری ہوئی آواز میں کہا۔

’’آدمی ! کہاں؟‘‘ حبیب اور بندو دونوں ایک دم سے چونکے۔

’’وہ‘‘ اس نے قلعے کی طرف اُنگلی اٹھائی جہاں ایک اکیلا آدمی چلتا نظر آ رہا تھا۔

اس نرجن بن میں آدمی! کیوں؟ کیسے؟ آدمی ہی ہے یا۔۔۔ مگر خود آدمی کے ہونے کا خوف بے پایاں تھا۔ بس وہ ایک دم سے اُلٹے پیروں بھاگ کھڑے ہوئے۔

بندو تو اسی گھر میں رہتا تھا کہ شریفن بوا کا پوت تھا۔ حبیب سے یارا نہ تھا۔ دونوں کے ساتھ اس نے کتنی آوارہ گردی، کتنی دشت نوردی کی تھی۔ مگر صابرہ کے آنے کے بعد اس کی آوارہ گردی میں فرق پڑتا چلا گیا۔

صابرہ، پہلے تو اس نے اس کا صرف نام سنا تھا، جب خالہ جان کا گوالیار سے خط آتا اور اس میں لکھا ہوتا کہ طاہرہ اور صابرہ اچھی ہیں۔ سب سلام کہتی ہیں۔ خالہ جان گوالیار میں رہتی تھیں کہ خالو جان، جو بی اماں کے بھتیجے تھے، وہیں ملازم تھے۔ مگر ایک دن تار آیا خالو جان کے دنیا سے اُٹھ جانے کا۔ امی نے روٹی پکاتے پکاتے تو اُلٹ دیا اور اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ بی اماں بین کر کر روئیں۔

بس اس کے تھوڑے ہی دنوں بعد سامان اور سواریوں سے لدا پھدا اور چاروں طرف سے چادر سے تنا ہوا کہ گھر کے پھاٹک کے سامنے آ کر رُکا۔ ابا جان ایک لمبی چادر لے کر باہر آئے۔ ایک کونا اُسے پکڑایا، ایک کونا خود پکڑا۔ ایک سمت میں تو اس طرح پردہ کیا۔ دوسری سمت میں کوئی آدمی چلتا پھرتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھرا کے کا پردہ اُٹھا۔ خالہ جان اُتریں۔ خالہ جان کے ساتھ دو لڑکیاں، ایک طاہرہ باجی اور دوسری صابرہ جسے خالہ جان سبو کہہ کر پکار رہی تھیں۔ بس لگتا تھا کہ اس کے برابر کی ہے۔

پہلے تو صابرہ اس سے الگ الگ رہی۔ وہ جھینپا جھینپا سا اس سے دور پھرتا رہا مگر کنکھیوں سے اُسے دیکھتا رہا۔ پھر جھجکتا جھجکتا اُس کے قریب آیا ’’آؤ سبو کھیلیں۔‘‘

’’میاں ذاکر‘‘ ابا جان داخل ہوتے ہوئے بولے ’’لگتا ہے کہ آج بھی یہ لوگ سونے نہیں دیں گے۔‘‘

’’جی‘‘ وہ ہڑبڑا کر جنگل سے نکلا۔

’’میاں یہ لوگ جلسہ کر رہے ہیں یا ہلڑ بازی کر رہے ہیں‘‘

’’ابا جان تحریکوں میں یہی ہوتا ہے۔ جوش میں لوگ بے قابو ہو جاتے ہیں۔‘‘

’’کیا کہا، تحریک؟ یہ تحریک ہے؟ بیٹے کیا ہم نے تحریکیں دیکھی نہیں ہیں۔ تحریک خلافت سے بڑی بھی کوئی تحریک ہوئی ہے اور مولانا محمد علی، اللہ اللہ! جب بولتے تھے تو لگتا تھا کہ انگارے برس رہے ہیں مگر مجال ہے کہ کوئی کلمہ تہذیب سے گرا ہوا ہو۔ خیر وہ تو مولانا محمد علی تھے، ہم نے تو کبھی کسی رضا کار کو بھی تہذیب سے گری ہوئی بات کرتے نہیں دیکھا۔ انگریز کو مردہ باد کہا اور بات ختم کر دی۔‘‘ ابا جان چپ ہوئے۔ پھر جیسے یادوں میں کھو گئے ہوں، بڑبڑانے لگنے ’’بس اس بزرگ سے ایک ہی خطا ہوئی کہ جنت البقیع کے معاملے میں ابن سعود کی حمایت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ اُس کے اس گناہ کو معاف کرے اور اُس کی قبر کو نور سے بھر دے۔ بعد میں وہ خود بھی اس حمایت پہ بہت پچھتائے تھے۔‘‘

وہ دل ہی دل میں مسکرایا، ابا جان بھی خوب ہیں۔ ابھی تک تحریک خلافت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔

’’اور تم کیا کر رہے ہو؟‘‘

’’خیال تھا کہ صبح کے لیے لیکچر تیار کروں گا۔۔۔‘‘

’’اس شور میں کوئی کام ہو سکتا ہے۔‘‘ ابا جان نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔

’’ہاں بہت شور ہے مگر جلسہ شادی آج جلدی ختم ہو جائے۔ کل تو باہر سے آئے ہوئے لیڈروں کی وجہ سے لمبا کھنچا تھا۔‘‘

’’میاں مجھے تو جلدی ختم ہوتا نظر نہیں آتا‘‘۔ رکے، پھر بولے ’’ہمارے زمانے میں بھی جلسے ہوتے تھے۔ شور ہوتا بھی تھا تو جلسے سے پہلے۔ مقرر سٹیج پہ آیا اور لوگ مؤدب ہو کر بیٹھ گئے کیا تہذیب تھی اُس زمانے کی۔

وہ مسکرایا۔ ابا جان تحریک خلافت کے زمانے سے ابھی تک باہر نہیں آئے ہیں۔ مگر جب وہ یوں سوچ رہا تھا تو اسے لگا کہ جیسے وہ بھی ابا جان کے پیچھے پیچھے گزرے زمانے میں چلا جا رہا ہے۔ کیا تہذیب تھی اُس زمانے کی۔ کبھی کوئی اونچی آواز میں بولا تو ابا جان نے فوراً سرزنش کی۔ میاں ہم اونچا نہیں سنتے۔ کبھی طاہرہ باجی نے تیز لہجے میں بات کی تو بی اماں نے ٹوکا ’’ارے لڑکی تیرے گلے میں کیا پھٹا بانس رکھا ہے۔‘‘ اور جب ساون بھادوں کی ترنگ میں طاہرہ باجی نے سہیلیوں کے ساتھ لمبے لمبے جھولے لیے تھے اور اونچی آواز میں ہنسی تھیں تو بی اماں نے فوراً ٹوک دیا تھا۔

’’بیٹی یہ کیا ٹھیکرے پھوٹ رہے ہیں۔‘‘

ساون بھادوں، جھولا، گیت، پکی نیم کی نبولی۔۔۔

’’اچھا، ہم چلتے ہیں۔ نیند تو آئے گی نہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ابا جان واپس جا رہے تھے۔ ’’اور اب تم بھی آرام کرو‘‘

اس نے ان کی بات سنی ان سنی کی۔ ایک دور کی آواز سے اپنی طرف کھینچ رہی تھی:

پکی نیم کی نبولی ساون کب کب آوے گا

جیوے موری ماں کا جایا ڈولی بھیج بلاوے گا

طاہرہ باجی اپنی سہیلی کے ساتھ کتنے لمبے لمبے جھونٹے لے رہی تھیں اور صابرہ کتنی حسرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ اسی آن باورچی خانے سے خالہ جان کی آواز آئی ’’طاہرہ!‘‘

’’جی‘‘

’’بیٹی! کب تک جھولا جھولو گی۔ کڑھائی پہ آ کے بیٹھو۔ تھوڑی پھلکئیں پکا لو۔‘‘

طاہرہ باجی کے چلے جانے کے بعد وہ سبوکے پاس آیا ’’سبو آؤ جھولا جھولیں۔‘‘

جب وہ صابرہ کے ساتھ لگ کر جھولے میں بیٹھا تو لگا کہ نرمی اس کے اندر اُتر آ رہی ہے، گھل رہے ہے۔ جی چاہ رہا تھا کہ بس اسی طرح جھولتا رہے۔ مگر صابرہ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔ ’’ہم تیرے ساتھ نہیں جھولتے۔‘‘ وہ اچانک جھولے سے اُتر پڑی۔

’’کیوں؟‘‘ ہکاّ بکّا رہ گیا۔

’’بس نہیں جھولتے۔‘‘

وہ حیران اور اُداس کھڑا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے قریب پہنچا۔

’’سبو‘‘

’’ہم تجھ سے نہیں بولتے‘‘

صابرہ کو جب وہ کسی طور منا نہ پایا تو وہ اُداس اُداس وہاں سے چلا۔ یوں ہی اس کا رُخ زینے کی طرف ہو گیا۔ زینہ چڑھ کر وہ اوپر کھلی چھت پر پہنچ گیا۔ چھت کچی تھی۔ اور چونکہ مینہ کو بند ہوئے دیر ہو چکی تھی اس لیے مٹی جم گئی تھی۔ جیب سے چاقو کا وہ ٹوٹا ہوا پھل نکالا جو پنسل بنانے کے لیے جیب میں رکھا کرتا تھا۔ جمی ہوئی مٹی پر نوک کو اس طرح چلانا شروع کیا جیسے شکر پارے کاٹ رہا ہو۔ تھوڑی دیر میں صابرہ بھی بھٹکتی ہوئی وہیں آ پہنچیں۔ بڑی توجہ سے اسے شکر پارے کاٹتے دیکھتی رہی۔ مگر اب وہ اپنے کام میں مصروف تھا۔ صابرہ کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ شکر پارے بناتے بناتے جب جی بھر گیا تو اپنے لیے اک نئی مصروفیت پیدا کر لی۔ جہاں مٹی زیادہ خشک ہو گئی تھی وہاں اس نے مٹی کو کریدا۔ تھوڑا گڑھا بن گیا تو اپنا ایک پاؤں اس میں رکھا اور کریدی ہوئی ساری مٹی اس پہ جما دی۔ پھر آہستہ سے اپنا پاؤں نکال لیا۔ مٹی کا ایک غار سا بن گیا۔ صابرہ بڑی توجہ سے دیکھتی رہی۔ پھر بولی ’’یہ کیا ہے؟‘‘

’’قبر‘‘ اس نے صابرہ کی طرف دیکھے بغیر بے تعلقی سے جواب دیا:

’’یہ قبر ہے؟‘‘ صابرہ نے حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں‘‘

حیرت سے قبر کو دیکھتی رہی، پھر بولی اس طرح کہ لہجے میں گرمی آ گئی تھی۔ ’’ذاکر ہمارے لیے بھی قبر بنا دے‘‘

’’خود بنا لے‘‘ اس نے روکھا سا جواب دیا۔

صابرہ اس کی طرف سے مایوس ہو کر اپنی قبر آپ بنانے کا جتن کرنے لگی۔ مٹی بہت ساری کُھرچی۔ کھرچی ہوئی جگہ میں اپنا ننگا پاؤں رکھا۔ پھر اُس پہ کھرچی ہوئی مٹی کو جمایا۔ پھر آہستگی سے پاؤں نکالا۔ پاؤں نکالتے ہی مٹی کی چھت گر پڑی۔ وہ اس کی ناکامی پر کھلکھلا کر ہنسا۔ مگر صابرہ نے حوصلہ نہیں چھوڑا۔ دوسری دفعہ پھر اس نے کوشش کی، پھر ناکام ہوئی۔ تیسری دفعہ پھر کوشش کی اور اس مرتبہ اس نے واقعی اتنی نفاست سے پاؤں باہر نکالا کہ مٹی کا ریزہ تک نہیں گرا۔ صابرہ نے اپنی کامیابی پر ناز کیا اور اس کی قبر پر نظر ڈالتے ہوئے اپنی قبر کو دیکھا:

’’میری قبر اچھی ہے۔‘‘

’’ہوں، بڑی اچھی ہے‘‘ اس نے صابرہ کا منہ چڑایا۔

’’پاؤں ڈال کے دیکھ لے‘‘

اس تجویز پہ وہ ٹھٹھکا۔ کچھ سوچا۔ پھر دھیرے دھیرے کر کے اس نے اپنا پاؤں بڑھایا اور صابرہ کی قبر میں کھسکا دیا۔ پھر دل ہی دل میں قائل ہوا کہ سبو سچ کہتی ہے اور اپنا پاؤں دیر تک اس نرم گرم قبر میں رکھے رہا۔

اس کے بعد اس کی طبیعت کا تکدر خود بخود دور ہو گیا۔ صابرہ سے اس کے تعلقات پھر سے خوشگوار ہو گئے۔ جب دوسری مرتبہ بناتے بناتے صابرہ کی قبر ڈھے گئی تو اس نے اپنے ہاتھوں سے اس کا گورا پاؤں صاف کیا۔ پھر جیب سے سیپ نکالی۔

’’سبو سیپی لے گی؟‘‘

’’ہاں لوں گی‘‘ اُس نے للچائی نظروں سے سیپ کو دیکھا۔

سیپ اُس سے لے کر صابرہ نے پیشکش کی ’’چل جھولا جھولیں‘‘

چھت سے اُترتے اُترتے اُنہوں نے طاہرہ باجی اور سہیلی کی آواز سنی:

اماں آڑو جامن گھلے دھرے

اماں میں نہیں کھاؤں میری ماں

اماں تتا پانی بھرا دھرا

اماں میں نہیں نہاؤں میری ماں

اماں دھانی جوڑا سلا دھرا

اماں میں نہیں پہنوں میری ماں

اماں ساجن ڈولا لئے کھڑا

اماں میں نہیں جاؤں میری ماں

وہ پلٹے اور پھر چھت پہ آ بیٹھے۔ اب کیا کریں۔ اس نے ایک نئی تجویز پیش کی۔

’’سبو!‘‘

’’ہوں‘‘

’’آؤ دولہا دلہن کھیلیں۔‘‘

’’دولہا دلہن؟‘‘ وہ سٹپٹا گئی

’’ہاں جیسے میں دولہا ہوں اور تم دلہن ہو‘‘

’’کوئی دیکھ لے گا‘‘ وہ گھبرا گئی۔

بس اسی دم ایک دم سے بادل گرجا کہ دونوں ڈر گئے اور فوراً ہی مینہ اس زور سے برسا کہ کھلی چھت سے زینے تک پہنچتے پہنچتے دونوں شرابور ہو گئے۔

 

 

 

 

(2)

 

مینہ کا آغاز کتنا پر شور ہوتا۔ اندر باہر سب جگہ ہلچل مچ جاتی مگر جب برسے ہی چلا جاتا ایک ہی رفتار سے تو فضا آہستہ آہستہ اُداسی سے بھر جاتی اور آوازیں خاموش ہوتی چلی جاتیں۔ شام پڑے کسی مور کی بھٹکی آواز دور جنگل سے آتی اور اُداس برستی شام میں اور اُداسی پھیلا دیتی۔ پھر رات ہو جاتی اور مینہ میں شرابور تاریکی گہری اور دبیز ہوتی چلی جاتی۔ رات کے بیچ جب کبھی آنکھ کھلتی تو مینہ اُسی طرح برس رہا ہوتا جیسے ازل سے برس رہا ہے۔

ابد تک برستا رہے گا مگر وہ رات آوازوں سے کتنی آباد تھی۔

دیکھو شام نئیں آئے، گھیری آئی بدری

اک تو کاری رات اندھیری، برکھا برسے بیری بیری

نیناں نیند نہ سہائے، گھیری آئی بدری

گھنشام نئیں آئے، گھیری آئی بدری

’’ارے یہ ہند نئیں آج کی رات سونے تھوڑا ہی دیں گی۔ اوپر سے مینہ برسے چلا جا رہا ہے‘‘

’’بی اماں یہ جنم اشٹمی کا مینہ ہے‘‘ شریفن بوا نے وضاحت کی ’’کنھیا جی کے پوتڑے دھل رہے ہیں‘‘

’’ارے اب کنھیا جی کے پوتڑے دھل بھی چکیں۔ جل تھل تو ہو گئے۔‘‘ بی اماں نے کروٹ لے کر پھر سونے کی کوشش کی۔ بس اسی دم وسنتی کے چوبارے میں ڈھولک بجی۔

پانی بھرن گئی راما جمنا کنروا

رہیا میں مل گئے نند لال

اے نندیا موری روئے

اور کہیں دور سے آواز آ رہی تھی:

رتیا ہے مجے دار سجن آئیو کہ جائیو

پلنگ ہے لچکدار سجن آئیو کہ جائیو

سارا مینہ جنم اشٹمی ہی کو پڑتا تھا۔ صبح جب وہ جاگا تو نہ بارش نہ بادل۔ اردگرد سب کچھ روشن روشن، دھلا دھلا۔ آسمان، پیڑ، بجلی کے کھمبے، دیواریں، منڈیریں۔

’’ذاکر! چل بیر بہو ٹئیں پکڑیں‘‘

بندو کی تجویز کے ساتھ وہ فوراً گھر سے نکل پڑا اور بیر بہوٹیوں کی تلاش میں کالے مندر سے گزر کر کربلا تک گیا۔ زمین و آسمان اس گھڑی کتنے نرم اور اُجلے تھے اور گھاس میں بجا بجا کتنی بیر بہوٹیاں رینگ رہی تھیں، نرم نرم مخمل جیسی۔ انہیں چھونے میں اسے کتنی لذت مل رہی تھی۔ نرم چیزوں کو چھونے کو اُس کا ان دنوں کتنا جی چاہتا تھا مگر چھو جانے پر بیر بہوٹی پنجے سمیٹ ساکت ہو جاتی اور مری ہوئی بن جاتی۔ نرم چیزیں چھو جانے سے اتنا بدکتی کیوں ہیں، وہ سخت حیران ہوتا۔

’’سبو! یہ دیکھ‘‘

’’ہائے اتنی بہت سی بیر بہوٹئیں۔‘‘ حیرت اور مسرت سے وہ کھل اُٹھی۔ اور پھر وہ اس کے ساتھ کتنی گھل مِل گئی۔ ایک دم سے کتنی قریب آ جاتی تھی، ایک دم سے کتنی دور چلی جاتی تھی۔

’’سبو! آ کھیلیں‘‘

’’نہیں کھیلتے‘‘

’’میرے پاس کوڑیئیں ہیں‘‘

’’میں کیا کروں‘‘

’’یہ دیکھ، پھرکنی‘‘

’’ہوں‘‘ اُس نے منہ چڑا دیا۔

پھر وہ اکیلا ہی پھرکنی پھراتا رہا۔ بہت دیر تک۔ پھر اپنی چکئی نکالی اور چکئی گھمانی شروع کر دی۔ چکئی گھمانے میں اُسے کتنا مزا آتا تھا۔

سنتے ہیں لیلیٰ کا یہ دستور تھا

چکئی گھماتے گھماتے ایک دم سے وہ چونکا ’’مجنوں آ گیا‘‘ اور چکئی کو بھول تیر کے موافق ڈیوڑھی کی طرف بھاگا۔ جب وہ پھاٹک میں کھڑا تھا تو دیکھا کہ صابرہ بھی برابر آ کھڑی ہوئی ہے۔ ’’ذاکر! یہ مجنوں ہے‘‘

’’اور کیا مجنوں تو ہے ہی‘‘

گریباں چاک، بال بکھرے ہوئے، ایک ہاتھ میں پیالہ، دوسرے ہاتھ میں اینٹ، پیر میں زنجیر کہ چلنے میں چھن چھن کر رہی تھی۔ رک کر کھڑا ہوا:

سنتے ہیں لیلیٰ کا یہ دستور تھا

بھیک دیتی تھی جو آتا تھا گدا

ایک دن مجنوں بھی کاسہ ہاتھ لے

جا پکارا کچھ مجھے لِللہ دے

آئی لیلیٰ اور سبھوں کو کچھ دیا

ہاتھ سے مجنوں کے کاسّہ لے لیا

ساتھ ہی اینٹ زور سے ماتھے پہ ماری کہ ماتھا خونم خون ہو گیا اور دھڑام سے زمین پر گر کر ساکت ہو گیا۔

’’ذاکر! مجنوں مر گیا؟‘‘ وہ بری طرح کانپ رہی تھی۔

’’نہیں، مرا نہیں ہے۔‘‘

’’نہیں، وہ مر گیا‘‘ وہ رو پڑی

’’اری پگلی اس نے مکر بھر رکھا ہے‘‘

’’نہیں، مجنوں مر گیا‘‘ وہ روئے جا رہی تھی

مجنوں ایک دم سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ حیران رہ گئی۔ پیالہ سنبھال جس میں دیکھنے والوں نے کچھ پیسے ڈال دیے تھے، وہ آگے بڑھ لیا۔

’’سبو! تو نے لیلیٰ مجنوں دیکھا تھا؟‘‘

’’نہیں، کیا ہوتا ہے اس میں؟‘‘

’’اس میں ماسٹر روپی مجنوں بنتا ہے اور الٰہی جان لیلیٰ بنتی ہے‘‘

’’پھر کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’پھر ماسٹر روپی الٰہی جان پہ عاشق ہو جاتا ہے‘‘

دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور جھینپ گئے۔ پھر فوراً ہی صابرہ کے تیور بدل گئے۔ ’’چل بے شرم، ابھی بتاتی ہوں جا کے بی اماں کو‘‘

’’میں نے کیا کہا ہے؟‘‘ وہ گھبرا گیا۔

مگر ایسی بات بی اماں کو بتاتی کیسے۔ بس اُس سے روٹھ گئی اور دور دور پھرنے لگی۔ وہ خود جھینپا ہوا تھا۔ اُس سے آنکھ ملاتے جھجکتا تھا۔

 

’’کون باس، کون باس‘‘ ایک دم اس کے کان کھڑے ہوئے۔ قریب اور دور سے آتی آوازوں کا اس پر عجب اثر ہوتا تھا۔ سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں، وہ ان کی طرف کھنچا چلا جاتا تھا۔ ’’کوں باس‘‘ یہ کیا لفظ ہے، یہ کبھی اُس کی سمجھ میں نہ آیا۔ بس وہ اتنا جانتا تھا کہ جب وسنتی کے پتالالہ چونی مل چھت پہ کھڑے ہو کر یہ صدا لگاتے ہیں تو کوے کہاں کہاں سے آ کر ان کے سر پر منڈلانے لگتے ہیں۔ وہ تیر کی طرح اپنی چھت پہ گیا۔ پیچھے پیچھے صابرہ۔

سامنے وسنتی کی چھت پہ دو بڑی پتلین بچھی تھیں۔ ان پر دودھ میں پکے چاول رکھے ہوئے۔ چاولوں پر کوے ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ کوئی کوئی چیل منڈلاتی آتی اور چیل پر جھپٹا مارتی لالہ چونی مل کھڑے آواز لگا رہے تھے:

’’کوں باس، کوں باس‘‘

اور چپل کووں کی ایک گھٹا ان کے سر پہ چھائی ہوئی تھی۔

’’پتہ ہے کیا بات ہے؟‘‘ اُس نے صابرہ کی حیرت دیکھ کر اسے معلومات فراہم کرنے کی ٹھانی۔ ’’رام چندر جی کی پتلیں صاف ہو رہی ہیں‘‘

’’رام چندر جی کی پتلیں؟‘‘ وہ اور حیران ہوئی۔

’’ہاں اور کیا۔ جب رام چندر جی بھوجن کر چکتے تھے تو کووں کا راجہ آ کے ان کا جھوٹا کھاتا تھا اور پتل صاف کرتا تھا۔‘‘

’’چل جھوٹے‘‘

’’اللہ قسم!‘‘

’’پوچھو بی اماں سے؟‘‘ اور اس نے فوراً جا کر بی اماں کے کان میں پرو دیا کہ ذاکر کیا کہہ رہا ہے۔

’’بیٹے!‘‘ بی اماں نے اُسے گھور کے دیکھا ’’تو ہمارے گھر کیوں پیدا ہوا، کسی ہندو کے گھر پیدا ہوا ہوتا۔ باپ ہر وقت اللہ رسولؐ کرے ہے۔ پوت کی خبر نہیں کہ ہندوانی قصوں میں پڑ گیا ہے۔‘‘

مگر بی اماں کا اب وہ چم خم نہیں رہا تھا۔ پہلے ہی کی طرح سب پہ روک ٹوک کرتی تھیں ڈانٹ ڈپٹ کرتی تھیں مگر آواز میں اب زیادہ دم نہیں رہا تھا۔ مرجھا کے بالکل منقا بن گئی تھیں جیسے دھیرے دھیرے ڈھے رہی ہوں۔ ’’بس اب تو یہ دعا ہے کہ پلنگ پہ پیٹھ لگنے سے پہلے اللہ مجھے اُٹھا لے۔‘‘

’’اے بی اماں! کیا کہہ رہی ہو۔ ابھی تو تمہیں پوتے کا سہرا دیکھنا ہے‘‘

’’اے شریفن بوا! ہڈی سے ہیڑا تو لگ گیا۔ اب میں کیا اللہ میاں کی بوریئیں سمیٹنے کے لیے جیوں گی۔‘‘

بی اماں بے شک بہت جی چکی تھیں۔ بتایا کرتی تھیں کہ ان کے بچپن میں صرف چھوٹی بزریا میں رات کو ایک مشال جلتی تھی۔ باقی سب سڑکوں، گلیوں میں اندھیرا رہتا تھا۔ ان کے دیکھتے دیکھتے مشال رخصت ہوئی اور سڑکوں اور گلیوں میں لالٹینیں نصب ہو گئیں اور اب ان کی جگہ کھمبے کھڑے تھے اور سڑکوں پر جہاں تہاں بجلی کی روشنی نظر آتی تھی۔

بجلی تو اب مسجد میں بھی لگنے لگی تھی مگر بیچ میں ابا جان نے کھنڈت ڈال دی۔ ’’یہ بدعت ہے‘‘ اور عصا لے کر مسجد کے دروازے پہ پاسبان بن کر کھڑے ہو گئے۔ فٹنگ کرنے والے آئے اور جھڑکی کھا کر چلے گئے۔ حکیم بندے علی اور منشی مصیب حسین نے انہیں بہت قائل کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے ایک ہی جواب دیا کہ

’’یہ بدعت ہے۔‘‘

پہرے کے تیسرے دن بی اماں کی طبیعت بگڑ گئی اور ایسی بگڑی کہ سانس چلنے لگا۔ ابا جان پہرہ چھوڑ چھاڑ گھر آئے مگر بی اماں نے ان کے آنے کا انتظار نہیں کیا۔

اگلے دن جب ابا جان فجر کی نماز کے لیے مسجد پہنچے تو دیکھا کہ بجلی لگ چکی ہے۔ یہ دیکھ کر اُلٹے پاؤں آئے اور زندگی میں پہلی مرتبہ فجر کی نماز گھر پر ادا کی۔ پھر وہ کبھی مسجد میں نہیں گئے اور کبھی نماز گھر سے باہر نہیں پڑھی۔ ہاں صبح شام بی اماں کی قبر پہ جا کے قرآن خوانی بہت دنوں تک کرتے رہے۔

ابا جان نے روپ نگر میں پھیلتی بدعتوں کو روکنے کی کتنی کوششیں کی تھیں۔ محرم پر جب تاشے بجنے لگے تھے تو انہوں نے منڈھے ہوئے تاشے پھاڑ دئیے:

’’تاشا بجنا از روئے شریعت حرام ہے۔ میں اسے مجلسوں اور زیارتوں کے ساتھ نہیں بجنے دوں گا۔‘‘

’’مگر لکھنؤ میں تو ہر زیارت کے ساتھ تاشے بجتے ہیں۔‘‘

’’بجا کریں۔ لکھنؤ والے شریعت کو بدلنے کے تو مجاز نہیں ہیں۔‘‘

اس برس تو تاشے کسی مجلس میں، کسی زیارت کے ساتھ واقعی نہیں بجے مگر اگلا برس آتے آتے ابا جان کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ ہر زیارت تاشوں کے ساتھ نکلی، سوائے اس زیارت کے جو کھڑکی والے امام باڑے سے نکلتی تھی کہ یہ اپنا خاندانی امام باڑہ تھا اور اس پر ابا جان کا زور چلتا تھا اور پھر یہ زیارت کہ حضرتِ حر کی تھی، روپ نگر کے خرم کی سب سے خاموش زیارت ٹھہری۔ نہ تاشے، نہ ڈھول، نہ سوز خوانی کو بھی شرع کے خلاف بتاتے تھے۔ سوز خوانی کے خلاف بھی ابا جان نے محاذ قائم کیا تو تھا مگر اس محاذ کا بھی وہی انجام ہوا جو ان کے دوسرے محاذوں کا ہوا تھا۔

روپ نگر پہ ابا جان کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی تھی۔ بی اماں اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں اور بستی میں بجلی آ گئی تھی۔ ابا جان بجلی کو مسجد میں آنے سے نہ روک سکے، جس طرح وہ تاشے کو محرم میں راہ پانے سے نہ روک سکے تھے۔ بجلی کے خلاف محاذ، زمانے کی بدعتوں کے خلاف ان کا آخری محاذ تھا۔ اس کے بعد وہ خانہ نشین ہو گئے۔ گھر ہی میں نماز ادا کرتے گھر ہی میں بیٹھ کر محرم کے دسوں دن گزارتے۔ پھر ایک روز انہوں نے جانماز پہ بیٹھے بیٹھے سفر کے لیے استخارہ کیا۔ استخارہ آ گیا، سفر کا سامان ہونے لگا۔

’’امی جان ہم جا رہے ہیں؟‘‘ بی اماں کے گزر جانے کے بعد اب وہ ہر بات امی سے پوچھتا تھا۔

’’ہاں بیٹا۔‘‘ امی نے افسردگی سے کہا۔ چپ ہوئیں، پھر آپ ہی آپ بڑبڑانے لگیں۔

’’اب ہمارا یہاں کیا رکھا ہے۔ زمینیں پہلے ہی ٹھکانے لگ گئی تھیں۔ ایک ٹوٹا پھوٹا گھر رہ گیا ہے مگر خالی گھر کو لے کے چاٹنا ہے۔‘‘

’’امی! ہم ویاس پور جا رہے ہیں؟‘‘

’’ہاں بیٹا! ویاس پور جا رہے ہیں۔ تمہارے چچا تائے تو سب ویاس پور ہی میں ہیں۔ بی اماں نے زمین پکڑی تھی، نہیں تو، ہم تو پہلے ہی یہاں سے جا چکے ہوتے۔‘‘

’’امی! ویاس پور بہت دور ہے؟‘‘

’’ہاں دور ہی ہے۔ یہاں سے بلند شہر تک تو لاری میں جائیں گے۔ وہاں سے ریل میں سوار ہوں گے۔‘‘

باہر اکّا کھڑا تھا۔ اس کے تصور میں لاری تھی اور ریل تھی۔ وہ اجنبی سواریاں جن میں اسے زندگی میں پہلی مرتبہ سوار ہونا تھا۔ امی جتنی اُداس تھیں وہ اتنا ہی خوش تھا۔ سفر کرنے اور نئی بستی کو دیکھنے کا شوق اس کے یہاں یکایک جاگ اُٹھا تھا۔ صابرہ جانے کس وقت یہاں آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اس سے دور کھڑی وہ بندھتے ہوئے بستروں اور تالا لگتے بکسوں کو تکے جا رہی تھی۔ تکتی رہی، پھر اچانک پاس کھڑی خالہ جان کے دامن میں منہ چھپا لیا اور سسکیاں لینے لگی۔ خالہ جان نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور بولیں:

’’اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ خالہ بی جلدی واپس آئیں گی۔‘‘

یہ کہتے کہتے ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ امی نے صندوق میں تالا لگاتے لگاتے کہا۔ ’’صابرہ!‘‘ رکیں، پھر بولیں:

’’بیٹی! میں وہاں پہنچ کے جلدی تمہیں بلاؤں گی۔ بس تمہیں وہیں رکھوں گی اپنے پاس۔‘‘

ابا جان نے بستر باندھتے باندھتے ایک نظر سسکیاں بھرتی صابرہ کو دیکھا اور پھر اپنے کام میں غرق ہو گئے۔

وہ دیکھتا رہا۔ اس کی ساری خوشی زائل ہو چکی تھی۔ ہمت کر کے آہستہ آہستہ اس کے قریب گیا۔ ’’سبو‘‘

صابرہ نے بھیگے چہرے کے ساتھ (اتنی دیر میں اس کے سارے گال آنسوؤں میں تر بتر ہو گئے تھے) اسے دیکھا اور ایک دم سے پھر منہ خالہ جان کے دامن میں چھپا لیا اور پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ سسکیاں لینے لگی۔۔۔

 

 

 

’’میاں ذاکر! یہ کیا ہو رہا ہے۔‘‘ ابا جان پھر اُس کے کمرے میں چلے آئے تھے۔

’’جی، کچھ نہیں‘‘ اس نے اس طرح کہا جیسے وہ چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے اور فوراً کتاب کھول کے سامنے رکھ لی جیسے جتا رہا ہو کہ وہ اصل میں کتاب پڑھ رہا تھا۔

’’کچھ تو ہوا ہے۔ بہت شور پڑا ہوا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ گولی چلی ہے کچھ آواز سی آئی تھی۔‘‘

اس نے اُٹھ کر کھڑکی کھولی اور سامنے جلسہ گاہ پر نظر ڈالی۔ کچھ لوگ کھڑے ہو گئے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔ کچھ رضاکار قسم کے نوجوان کھڑے ہو جانے والوں میں سے کسی کو زبردستی بٹھانے کی اور کسی کو باہر دھکیلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بیچ مجمع میں دو ٹولیاں بننے لگی تھیں۔ پھر ایک دھماکہ ہوا۔ اس نے بیزاری کے ساتھ کھڑکی بند کی اور واپس ہوتے ہوئے ابا جان کو اطلاع دی۔

’’گولی نہیں چلی، پٹاخے چھوڑے جا رہے ہیں۔‘‘

’’وہ کس خوشی میں؟‘‘

’’تاکہ جلسہ درہم برہم ہو جائے‘‘

’’کیا ہو گیا ہے لوگوں کو‘‘

’’ابا جان آپ پریشان نہ ہوں۔ یہ آج کل کے جلسوں کا یہی معمول ہے۔ آپ اب سو جائیں۔‘‘

’’بیٹے تمہیں پتہ ہے کہ میری نیند ایک دفعہ اچٹ جائے تو پھر مشکل ہی سے آتی ہے۔‘‘ چپ ہوئے، پھر بڑبڑائے:

’’پاکستان پہ اللہ رحم کرے۔ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔‘‘ اور بڑبڑاتے ہوئے نکل گئے۔

اس نے اُٹھ کر پھر کھڑکی تھوڑی کھول کر جھانکا۔ کھڑے لوگ بیٹھ گئے تھے۔ مگر شور اب بھی بہت تھا۔ اس نے کھڑکی بند کی، بجلی گل کی اور بستر پر جا لیٹا۔

’’لوگوں کو کیا ہو گیا ہے‘‘

ابا جان کا فقرہ ذہن میں گونجا۔ واقعی، لوگوں کو ہو کیا گیا ہے؟ اس نے سنجیدگی سے سوچا۔ گھروں میں، دفتروں میں، ریستورانوں میں، گلیوں بازاروں میں سب جگہ ایک ہی نقشہ ہے۔ بحث پہلے نظریاتی، پھر ذاتی، پھر تو تکار، پھر گالم گلوچ، پھر سر پھٹول۔ راہ چلتے لوگوں کا ٹھٹک کر کھڑے ہو جانا، لڑنے والوں کو دہشت سے تکنا، پھر ایک دوسرے سے پوچھنا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہونے والا ہے؟ ہر ایک کی آنکھوں میں ایک خوف، جیسے واقعی کچھ ہونے والا ہے۔ پھر اپنی اپنی راہ چل پڑنا اور بھول جانا کہ کچھ ہوا ہے۔ جیسے کچھ نہیں ہو گا۔ اتنی تشویش اور اتنی بے اعتنائی! یکایک کوئی افواہ جیسے دفعتاً آندھی لوگوں کو آ لیتی ہے۔ چہروں پر پھیلتا ہوا خوف و ہراس۔ پھر وہی تشویش بھرا سوال کہ پاکستان میں کیا ہونے والا ہے؟ پھر اپنی اپنی راہ چل پڑنا اور بھول جانا۔ جیسے کچھ نہیں ہوا ہے، جیسے کچھ نہیں ہو گا۔ مگر کیا واقعی کچھ ہونے والا ہے؟ کیا ہونے والا ہے؟ آگے کچھ نظر نہیں آتا تو پیچھے چل پڑنا۔ پھر وہی یادوں کی گھنی بنی میں لمبا سفر۔ جب میں روپ نگر میں تھا۔۔۔ میری زندگی کا دیومالائی زمانہ پھر جب میں ویاس پور آیا۔۔۔ ویاس پور۔۔۔

’’یہ مردہ جل رہا ہے؟‘‘

’’ہمبے، یومر گھٹ ہے اور جی یو مردہ جو ہے یوجندہ ہے۔‘‘

’’چل جھوٹی‘‘

’’رام کسوں! جندہ ہے۔ اُٹھ کے کھڑا ہو گیو۔ ہے رام! موری تو میا مر گئی۔‘‘

’’اچھا پھر؟‘‘

’’فیروے لیٹ گیو اور ماں واں سے بھاگ آئی۔‘‘

’’جھوٹی‘‘

وہ پھلو کے ایسے کسی بیان پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اب وہ بچہ تھوڑا ہی تھا۔ بی اماں کے گزر جانے اور روپ نگر سے نکل آنے کے بعد وہ جیسے ایک ساتھ بڑا ہو گیا تھا، جیسے اس کا بچپن روپ نگر میں رہ گیا تھا۔ روپ نگر میں کیا کچھ رہ گیا تھا۔ کچے پکے رستے جو جانے کہاں جا کر نکلتے تھے، بس درختوں میں گم ہوتے دکھائی دیتے تھے۔ ڈولتے ہچکولے کھاتے اکے، اونگھتی رینگتی بیل گاڑیاں، کوئی کوئی رتھ کہ اس میں جتے توانا بیلوں کی گردنوں میں آویزاں گھنٹیوں اور گھنگھروؤں کی بدولت وہ مٹی میں اٹے رستے ایک میٹھے شور سے بھر جاتے۔ کالا مندر، کالے مندر کے احاطے میں کھڑا بندروں سے آباد بڑا پیپل، کربلا کی ویران اور اُداس فصیل، ٹیلے والا قلعہ، راون بن، راون بن کے بیچ کھڑا بھید بھرا برگد، بس ایک پورا دیومالائی عہد تھا جو روپ نگر کے ساتھ رہ گیا تھا۔ یہاں ہر چند کہ سامنے مرگھٹ تھا اور مرگھٹ میں کھڑے گھنے پیپل کے پیڑ مگر اسے وہاں کسی پیڑ کے اردگرد بھید بھری فضا کا احساس نہیں ہوا، حالانکہ پھلو نے وہاں بہت کچھ دیکھا تھا۔

’’موکو تو بھیا چڑیل نے پکڑ لیو۔‘‘

’’چل چل بکواس مت کر‘‘

’’رام کسوں! دوپہر یا ٹیکم ٹیک۔ وے جو پیپل دکھائی دیوت ہے، واکے تلے ایک کلھیامیں چون کا پتلا اور سیندور اور تنک کھانڈ۔ اور بڑھ کے تلے ایک بیر ب انی دانت نکو سے ایسی کلکلاوے جیسے چیل کلکلاوے ہے۔‘‘

’’بکواس مت کر، جا اپنا کام کر‘‘

وہ ویاس پور میں کچھ اور دیکھ رہا تھا۔ ہموار سڑکوں پر دوڑتے ہوئے ربڑ ٹائر تانگے، بیچ بیچ میں کوئی بگھی، کوئی موٹر کار۔ ان سڑکوں سے آگے بازاروں اور محلوں سے پرے تار کول والی وہ چکنی چکنی سرمئی سڑک جس پر دن بھر لاریاں دوڑتی رہتیں۔ ان سواریوں سے عجب سا شور پیدا ہوتا تھا۔ وہ آوازیں اب کہاں تھیں جو روپ نگر کی فضا میں بسی ہوئی تھیں۔ اب اس کے کان نئی آوازوں سے آشنا ہو رہے تھے۔ بگھیوں اور تانگوں کی گھنٹیوں کی آوازیں۔ لاری کے ہارن کی آواز، موٹر کار کے ہارن کی آواز اور سب سے عجب ریل کی سیٹی کی آواز جو اسے روپ نگر سے دور لے آئی تھی اور ویاس پور سے پرے لیے جا رہی تھی۔ ان جانے، ان دیکھوں شہروں کی طرف۔ دور پرے سے آتی ریل کی سیٹی کی آواز کے ساتھ وہ کوٹھی کی چھت پہ پہنچا۔ جہاں سے مرگھٹ کے اس طرف پھیلی ہوئی ریل کی پٹری صاف دکھائی دیتی۔ ریل گاڑی دور سے سیٹی دیتی اور دھواں اگلتی آتی، پہلے درختوں کی اوٹ میں دوڑتی رہتی، صرف اس کا دھواں فضا میں پھیلتا نظر آتا، پھر اچانک درختوں کی اوٹ سے وہ کالا بھنور انجن نمودار ہوتا جو اپنے سے بھی زیادہ کالا دھواں آسمان کے رخ اُگل رہا ہوتا اور اس کے پیچھے سواریوں سے بھرے ان گنت ڈبے۔ کسی تیزی سے یہ ڈبے گزرتے چلے جاتے اور دم کے دم میں نظروں سے اوجھل ہو جاتے۔ وہ حیران رہ جاتا۔ پھر جب ابا جان کی بتائی ہوئی یہ بات اس کے دھیان میں آئی کہ یہ ریل گاڑی مراد آباد سے آ رہی ہے اور ویاس پور سے ہوتی ہوئی دلی جا رہی ہے تو وہ اور حیران ہوتا۔

وہ یہاں خان بہادر تایا کی کوٹھی میں آ کر رہا تھا جو آبادی سے کسی قدر دور کھیتوں اور باغوں کے بیچ کھڑی تھی کہ اس کی چھت پہ کھڑے ہو کر دیکھو تو سامنے مرگھٹ سے پرے ریل کی پٹری، ریل کی پٹری سے پرے اُفق کی حدوں پر قطار میں کھڑے ہوئے درخت۔ پھر جب وہ بازار جاتا تو ایک ایک دکان کو تعجب سے دیکھتا۔ کھڑکی بازار روپ نگر کی چھوٹی بزریا کے مقابلے میں کتنا بڑا بازار تھا۔ ایک دکان پر سائیکلیں ہی سائیکلیں۔ اتنی سائیکلیں اس نے کبھی کا ہے کو دیکھی تھیں۔ سائیکلوں، جوتوں اور کپڑے کی دکانوں سے آگے وہ لمبا چوڑا چوک تھا۔ جہاں جا بجا گیہوں اور کپاس کے اونچے اونچے ڈھیر لگے ہوئے تھے اور آس پاس جنگلی کبوتروں کی پوری برات اُتری ہوئی تھی۔ دکانیں جن میں مال و اسباب کچھ نہیں، بس چاندنی بچھی ہوئی، چاندنی پر مسند، مسند پر بیٹھا ہوا سیٹھ، اس کے آگے ٹیلی فون رکھا ہوا۔ ایک ساتھ شور پڑتا اور ہر سیٹھ، ہر لالہ تیزی سے ڈائل گھماتا اور فون پہ زور زور سے باتیں کرتا۔ وہ ششدر رہ جاتا۔ رفتہ رفتہ اسے پتہ چلا کہ یہ شور اس وقت پڑتا ہے جب کسی جنس کا بھاؤ کھلتا ہے۔

بازار میں اتنا شور، کوٹھی کے آس پاس اتنی خاموشی! جب ریل گاڑی آتی تب ہی یہ خاموشی ٹوٹتی۔ اس کے گزر جانے کے بعد پھر خاموشی اور دور تک پھیلی ہوئی ریل کی پٹری جسے وہ چھت سے کھڑا دیر تک حیرت سے تکتا رہتا۔ اس کی حیرتیں بھی اب سفر کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھیں اور کس قدر بدل گئی تھیں۔

خان بہادر تایا نے یہ کوٹھی یہ سوچ کر بنوائی تھی کہ وہ پنشن ہو جانے کے بعد یہاں آ کر رہیں گے۔ رائے سینا میں عمر گزارنے کے بعد وہ ویاس پور کی گلیوں میں تو نہیں رہ سکتے تھے مگر وہ تو پنشن پانے سے پہلے ہی دنیا سے گزر گئے۔ یہ واقعہ اس کے ویاس پور آنے سے بہت پہلے گزر چکا تھا۔ اس نے خان بہادر تایا کو نہیں دیکھا تھا مگر ویاس پور آ کر پورے خاندان پر ان کی عظمت کے سائے کو منڈلاتے دیکھا۔

’’پھر بھائی خان بہادر مرحوم نے یہ ترکیب کی کہ باغی بن کے باغیوں میں مل گئے۔ ایسے زبردست باغی بنے کہ ان کی کمیٹی کے صدر بن گئے۔ مگر باغیوں کے بھی جاسوس لگے ہوئے تھے۔ ایک جاسوس نے انہیں تاڑ لیا۔ بیچ کمیٹی میں اس نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ یہ شخص تو انگریزوں کا جاسوس ہے۔ بس پھر کیا تھا، باغیوں نے بھائی جان پہ پستول تان لیے۔‘‘

چچا جان بولتے بولتے رکے۔ اچھے بھائی، نجیب بھائی، صاحب میاں سب بہت یکسوئی سے سن رہے تھے۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

’’اجی بھائی جان مرحوم کب چوکنے والے تھے انہوں نے ایسی تقریر کی کہ باغیوں کے پستول اسی باغی کی طرف مڑ گئے۔ جس نے انہیں انگریزوں کا جاسوس بتایا تھا‘‘ چچا جان رکے، پھر بولے کہ

’’یہ باغی اتنے خطرناک تھے کہ بھائی خان بہادر مرحوم نے انہیں نہ پکڑا ہوتا تو وہ انگریزوں کا وہ حال کرتے جو سن ستاون میں ہوا تھا۔ دہشت پسند تھے سارے ہندوستان میں انہوں نے تہلکہ ڈال رکھا تھا۔‘‘

خاندان میں جب کوئی شادی بیاہ کی تقریب ہوتی اور سب خاندان والے اکٹھے ہوتے تو بس چچا جان اسی طرح خان بہادر تایا کی باتیں شروع کر دیتے تھے اور بیٹے، بھانجے، بھتیجے اردگرد اکٹھے ہو جاتے اور اس طور سنتے جیسے کسی دیو مالائی ہیرو کے قصے سُن رہے ہیں۔

’’بھائی خان بہادر مرحوم کی ایک ٹانگ چاندی کی تھی۔‘‘

’’چاندی کی ٹانگ؟‘‘ نجیب بھائی نے تعجب سے پوچھا۔

’’ہاں! بات یہ ہوئی کہ انہوں نے سلطانہ ڈاکو کا پیچھا کرتے کرتے چلتی گاڑی سے چھلانگ لگا دی۔ ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ پھر رائے سینا میں وائسرائے کے سرجن نے ان کا علاج کیا اور پوری ٹانگ نکال کے چاندی کی ٹانگ لگا دی۔‘‘

سب حیرت میں غرق ہو گئے۔ پھر نجیب بھائی نے پوچھا:

’’تو سلطانہ ڈاکو کو تایا جان نے پکڑا تھا؟‘‘

’’اور کس نے پکڑا تھا؟ بیگ صاحب کے تو والد ماجد بھی آ جاتے تو سلطانہ کو نہیں پکڑ سکتے تھے۔ یہ بھائی جان بہادر ہی کی ہمت تھی کہ اسے پکڑ لیا اور ریشمیں رومال والوں کو کسی نے پکڑا تھا؟‘‘

’’ریشمیں رومال والے؟ وہ کون تھے؟‘‘

’’ریشمیں رومال والے کون تھے؟‘‘ چچا جان ہنسے:

’’بیٹو تمہیں معلوم کیا ہے؟ ریشمیں رومال والوں نے انگریز کا تختہ اُلٹنے کا پورا منصوبہ بنا لیا تھا۔ تنت وقت پہ بھائی خان بہادر مرحوم نے تاڑا اور ریشمیں رومال بیچ میں سے اچک لیا۔‘‘

رکے، پھر کہنے لگے:

’’انگریزوں پہ بھائی خان بہادر مرحوم کے بہت احسانات ہیں۔ جب ہی تو ان کے مرنے پہ وائسرائے نے کہا تھا کہ خان بہادر کے مرنے سے میری کمر ٹوٹ گئی۔‘‘

’’بھیا! اپنے اس بھتیجے سے بھی تو پوچھو کہ اسے تایا کی طرح کچھ بننا ہے یا ڈنڈے ہی بجانے ہیں۔‘‘

’’بیٹے ذاکر! جواب دو، بھائی جان کیا پوچھ رہی ہیں؟ ایک بات ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں۔ بھائی خان بہادر آسانی سے خان بہادر نہیں بن گئے تھے۔ محنت انہوں نے کتنی کی تھی۔ جس محنت سے انہوں نے پڑھا تھا اس محنت سے آج کوئی پڑھ سکتا ہے؟ ایک دفعہ کیا ہوا کہ ان کی لالٹین کا تیل ختم ہو گیا۔ تیل کی بوتل جا کے دیکھی تو وہ خالی پڑی تھی۔ انہوں نے کیا کیا کہ جگو پکڑ کے بی اماں کے دوپٹے کے آنچل میں باندھے اور ان کی روشنی میں صبح اذان کے وقت تک پڑھتے رہے۔ آج کوئی اس بات کا یقین کرے گا؟ مگر پھر اس محنت کا انہیں صلہ ملا۔ میٹرک کے امتحان کا جب نتیجہ آیا تو وہ یو پی میں اول تھے۔‘‘

محنت سے تو وہ بھی پڑھ رہا تھا۔ میٹرک کا امتحان سر پر تھا۔ رات رات بھر لالٹین جلائے بیٹھا رہتا اور دن میں دن دن بھر سکول کے احاطے میں کھڑے آم کے پیڑ کے نیچے پڑاؤ ڈالے رہتا۔ امتحان کی تیاری کے لیے سکول بند تھا۔ کلاسوں کے کمرے مقفل، برآمدے خالی، فیلڈ میں سناٹا۔ پڑھنے کے لیے یہ کتنی سازگار فضا تھی۔ سکول کے اکلوتے آم کی چھاؤں میں وہ اور سریندر دونوں یکسوئی سے پڑھتے رہتے۔ جب تھک جاتے تو سامنے کی اس تار کول والی سڑک کو تکنے لگتے جس پر کبھی کبھی کوئی لاری گزرتی نظر آتی اور پھر سڑک خالی۔

’’پتہ ہے یہ لاری کہاں جا رہی ہے؟‘‘

سریندر نے اس سے پوچا:

’’کہاں جا رہی ہے؟‘‘

’’میرٹھ‘‘

’’میرٹھ؟ یہ لاری میرٹھ جا رہی ہے؟ تو نے میرٹھ دیکھا ہے؟ کیسا ہے میرٹھ؟‘‘ اُس نے ایک سانس میں کتنے سوال کر ڈالے۔

 

 

 

 

(3)

 

برآمدے، کمرے، سبزہ زار، ہفتوں، مہینوں سنسان پڑے رہے۔ جہاں تہاں بیٹھے ہوئے لٹھ بردار سپاہی کبھی اونگھتے ہوئے، کبھی مستعدی سے کھڑے ہوئے۔ مٹھی بھر مسلمان لڑکے، پانچ سات ایک کلاس میں تو ڈھائی تین دوسری کلاس میں۔ مگر پروفیسر مکرجی اب بھی اتنی ہی گرمجوشی سے اور اتنی ہی آواز میں لیکچر دیتے جیسے کچھ نہیں ہوا ہے۔

امتحانوں کے آتے آتے لڑکے واپس آئے مگر گہما گہمی واپس نہیں آئی۔ پھر چھٹیاں آ گئیں۔ واپس پھر ویاس پور میں۔ موسم اب کتنا بدل گیا تھا۔ بدلتے بدلتے اتنا بدلا کہ لوئیں چلنے لگیں۔ دوپہر ہوتے ہوئے گھروں کے دروازے بند ہو جاتے، بیٹھکوں میں لگی خس کی ٹٹیاں پانی میں تر بتر نظر آتیں۔ مگر پتلی گلیاں دھوپ سے ناآشنا تھیں۔ ان گلیوں میں کتنے گھر تھے کہ خس کی ٹٹی سے بے نیاز تھے۔ ڈیوڑھیوں میں عورتیں چرخہ کاتتی، باتیں کرتی نظر آتیں۔

میرٹھ کو اس نے پہلے سریندر کی آنکھوں سے دیکھا۔ اب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ کالج سے فراغت پا کر وہ اور سریندر دونوں کمپنی باغ کی طرف چل پڑتے۔ چھاؤنی، انگریزوں کی دنیا، لمبی خاموش چکنی چکنی سڑکیں، دو رویہ گھنے درختوں کے بیچ دور تک جاتی ہوئیں، گم ہوتی ہوئیں۔ کوئی گورا سفید کرمچ کے جوتے اور سفید نیکر قمیض پہنے، ہاتھ میں ٹینس کا بلا سنبھالے، تیزی سے قریب سے گزرتا اور آگے جا کے کمپنی باغ کے گیٹ میں مڑ جاتا۔ سنہری بالوں، گورے چہرے والی کوئی میم برابر سے گزرتی اور وہ دونوں حد نظر تک اس کی گوری ننگی پنڈلیوں کو دیکھتے رہتے، پھر کوئی کالی آیا کسی دودھ جیسی رنگت والے بچے کو گاڑی میں بٹھائے آہستہ آہستہ گاڑی کو دھکیلتی چلی جاتی۔

’’یاں سے‘‘ سریندر چلتے چلتے رک کر کھڑا ہو جاتا۔ ’’سن ستاون کا اندولن شروع ہوا تھا۔‘‘

’’یاں سے؟‘‘ وہ چکرا کر اس جگہ کو دیکھتا اور سوچتا کہ اس جگہ میں کیا خاص بات ہے؟ وہ دیکھتا رہتا، سوچتا رہتا اور پھر اس جگہ کا رعب اس پہ طاری ہوتا چلا جاتا۔

’’یار سریندر!‘‘ وہ چلتے چلتے یوں ہی سوال کر ڈالتا۔ ’’ہٹلر لندن کیسے پہنچے گا؟ بیچ میں تو سمندر ہے۔‘‘

’’استاد! ہٹلر کے پاس ایسا برادہ ہے کہ سمندر میں چھڑک دو تو وہ شانت ہو جائے اور پتھر سمان بن جائے۔‘‘

پھر واپس کالج میں جہاں ہجوم تھا، شور تھا، سریندر نہ ہوتا تو وہ لڑکوں کے اس ہجوم میں کھو جاتا۔ مگر پھر وہ پورا ہجوم کھو گیا معہ سریندر کے کسی لڑکے نے برآمدے سے گزرتے گزرتے نعرہ لگایا:

’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘

کلاسوں میں جاتے، کلاسوں سے نکلتے لڑکے ٹھٹکے۔ پھر ایک دم سے نعروں کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’ہندوستان چھوڑ دو۔۔۔ انقلاب زندہ باد۔۔۔ مہاتما گاندھی کی جے‘‘

پھر کلاسوں کے شیشے ٹوٹنے لگے۔ پھر کسی نے خبردار کیا:

’’وہ آ رہے ہیں‘‘

بھگدڑ، خالی ہوتے برآمدے، سناٹا، سناٹے میں دور سے آتی ہوئی گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز۔ کالج میں گھڑ سوار پولیس آ رہی تھی۔

برآمدے، کمرے، سبزہ زار، ہفتوں، مہینوں سنسان پڑے رہے۔ جہاں تہاں بیٹھے ہوئے لٹھ بردار سپاہی کبھی اونگھتے ہوئے، کبھی مستعدی سے کھڑے ہوئے۔ مٹھی بھر مسلمان لڑکے، پانچ سات ایک کلاس میں تو ڈھائی تین دوسری کلاس میں۔ مگر پروفیسر مکرجی اب بھی اتنی ہی گرمجوشی سے اور اتنی ہی آواز میں لیکچر دیتے جیسے کچھ نہیں ہوا ہے۔

امتحانوں کے آتے آتے لڑکے واپس آئے مگر گہما گہمی واپس نہیں آئی۔ پھر چھٹیاں آ گئیں۔ واپس پھر ویاس پور میں۔ موسم اب کتنا بدل گیا تھا۔ بدلتے بدلتے اتنا بدلا کہ لوئیں چلنے لگیں۔ دوپہر ہوتے ہوئے گھروں کے دروازے بند ہو جاتے، بیٹھکوں میں لگی خس کی ٹٹیاں پانی میں تربتر نظر آتیں۔ مگر پتلی گلیاں دھوپ سے ناآشنا تھیں۔ ان گلیوں میں کتنے گھر تھے کہ خس کی ٹٹی سے بے نیاز تھے۔ ڈیوڑھیوں میں عورتیں چرخہ کاتتی، باتیں کرتی نظر آتیں۔

’’تو نے دیکھا؟‘‘ سریندر نے پتھر والی گلی سے جلدی جلدی نکلتے ہوئے پوچھا۔

’’نہیں یار! مجھے تو کوئی دکھائی نہیں دیا۔‘‘

’’چوبارے میں جو کھڑی تھی، اُسے نہیں دیکھا؟‘‘

’’نہیں، کون کھڑی تھی؟‘‘

’’رم جھم اور کون‘‘

’’رم جھم؟‘‘

’’ہاں، میں اُسے رم جھم کہتا ہوں۔ بس تو اُسے دیکھے گا تو سالے ہلاک ہو جائے گا۔‘‘

ایک پھیرا، دوسرا پھیرا، تیسرا پھیرا، پھر نظر ہی نہیں آئی۔ ’’یار وہ تو غائب ہو گئی۔‘‘

سریندر مایوس نہیں ہوا تھا۔ بندر والے کو دیکھ کر کھل اُٹھا۔ ’’یار سن! اس کے ساتھ چلتے ہیں۔‘‘

بندر والا کھڑی دوپہری میں ڈگڈگی بجاتا ایک گلی سے دوسری گلی میں، دوسری گلی سے تیسری گلی میں۔ آخر کو پتھر والی گلی میں تماشا شروع کیا۔ بندریا نہیں مانی تو بندر نے اُسے ڈنڈے سے پیٹا، اتنا کہ روٹھ کر میکے چلی گئی۔

سریندر کی نظریں چوبارے پر جمی تھیں۔ اُسے یقین تھا کہ وہ بندر کا تماشا دیکھنے ضرور آئے گی۔

’’ابے سالے دیکھ۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’چوبارے میں، وہ کھڑی ہے۔‘‘

اس نے دیکھا۔ سانولی رنگت، دبلا دبلا نرم نرم بدن۔

’’اری ماں مُسلا‘‘۔ اک دم سے بھڑکی اور غائب۔

پھر وہ اُسے نظر نہیں آئی۔ نہ آئے۔ سریندر نے اسے یہ تو سکھا ہی دیا تھا کہ لڑکی کو کیسے دیکھتے ہیں۔

پھر وہ روپ نگر چلا گیا۔ اسے ان چھٹیوں میں خالہ جان سے ملنے روپ نگر بھی تو جانا تھا کتنے برسوں کے بعد وہ روپ نگر کو پھر دیکھ رہا تھا۔ گڑھے پڑی سڑک اُسی طرح گرد میں اٹی، اُسی طرح جہاں تہاں پڑے ہوئے دو رویہ کنکروں کے ڈھیر، اُسی طرح اکے اونچے نیچے راستوں پر ہچکولے کھاتے ہوئے اور اُسی طرح بیل گاڑیاں کچے رستوں پر رینگتی ہوئی۔ یہ تو سب کچھ اُسی طرح ہے۔ ایک اطمینان بھری حیرت کے ساتھ اس نے ایک ایک چیز کو دیکھا۔ مگر سب کچھ اُسی طرح نہیں تھا۔ اس کے ساتھ والے سب کے سب کتنے لمبے ہو گئے تھے۔ ان کے چہروں کی رنگت پک گئی تھی، آوازوں میں بھاری پن آ گیا تھا۔ حبیب میٹرک پاس کر کے علی گڑھ چلا گیا تھا اور اب چھٹیوں میں واپس آیا تھا تو اس کی سج دھج ہی اور تھی۔ پائجامے کا کٹ بدل گیا تھا۔ کہاں اس کے سر پر اُسترے کے بعد آم کی گٹھلی رگڑی جاتی تھی۔ اور کہاں اب اس کے لمبے لمبے انگریزی بال تھے۔ بندو کو بھی شریفن بوا نے تالوں کا کام سیکھنے کے لیے علی گڑھ بھجوا دیا تھا۔

اور صابرہ! صابرہ اب کتنی لمبی ہو گئی تھی اور سینہ اُس کا کتنا اُبھر آیا تھا کہ ہمیشہ اُسے دوپٹے سے ڈھکے رکھتی۔ پھر بھی گول گول ابھار چھلکتے دکھائی دیتے۔ اس سے تو وہ اب آنکھ بھی نہیں ملاتی تھی، جیسے وہ اجنبی ہو۔

گلی گلی، بازار، بازار گھومتا رہا۔ ایک پیاسے کی طرح کتنے دنوں کے بعد وہ اس مانوس منظر سے سیراب ہو رہا تھا۔ کس بے تابی کے ساتھ چیزوں کو دیکھ رہا تھا، بے تابی کے ساتھ اور ہوس کے ساتھ جیسے سب کچھ نظر کی راہ اندر سمیٹ لینا چاہتا ہو۔ چیزیں کبھی اُسی طرح نظر آتیں، کبھی بدلی بدلی بجلی کے کھمبے کتنے زیادہ ہو گئے تھے اور بجلی کے تار کتنے پھیل گئے تھے کہ چھوٹی بزریا کے سوا بھی پھیلے نظر آتے تھے۔ بندر تاروں سے بچ کر ایک کوٹھے سے دوسرے کوٹھے پر چھلانگیں لگا رہے تھے۔ روپ نگر کے بندروں نے بجلی کے زمانے میں جینا سیکھ لیا تھا۔

کالے مندر سے کربلا تک، کربلا سے قلعے تک، قلعے سے راون بن تک سب کچھ اُسی طرح تھا۔ دیر تک وہاں گھوما، اس منظر میں اشنان کیا، پر پوری آسودگی نہیں ملی۔ جیسے وہ پُراسراریت جو یہاں رچی بسی تھی، رخصت ہو گئی ہو۔ دور کھڑے ہو کر کالے مندر کو، اس کے بڑے پیپل کو اور اس موٹے بندر کو جو سب سے اوپر والی ٹہنی پہ بیٹھا تھا، اگلے پچھلے خوف کے تجربوں کو دھیان میں لاتے ہوئے دیکھا مگر اس کی آنکھوں میں کوئی تحیّر پیدا نہ ہو سکا۔ نہ تحیّر نہ خوف۔ سب کچھ اُسی طرح تھا۔ مگر شاید وہ بدل گیا تھا یا شاید اس کا وہ رشتہ برقرار نہیں رہا تھا۔ کالے مندر سے، بڑے پیپل سے، پیپل کے بندروں سے، کربلا کی خاموش فصیل سے، راون بن سے، اس کے بیچ کھڑے بڑھ سے، شاید صابرہ سے بھی۔

ناآسودہ، نا مطمئن، تھکا تھکا واپس گھر آیا۔ گرمی بہت تھی تولیا لیا اور دوپہر کی دھوپ میں تپتے صحن کو عبور کر کے غسل خانے کی طرف چلا۔ غسل خانہ اب بھی اُسی پرانے انداز پر تھا کہ اندر باہر نہ کنڈی نہ چٹخی۔ اٹکل رہتی تھی کہ کوئی اندر ہے یا نہیں ہے۔ شاید اب اسے اٹکل نہیں رہی تھی کہ غسل خانے کے کواڑ کھولے اور پوری طرح کھولنے سے پہلے بند کر دئیے۔ آنکھوں میں بجلی سی کوند گئی۔

دیر تک بجلی ایسے اس لمحے میں کھویا کھویا رہا۔ یہ سوچ کر حیران ہوا کہ طاہرہ باجی تو بالکل عورت ہیں، اس دن تو ان سے آنکھ ہی نہ ملا سکا۔ دوسرے دن آنکھ بچا کر ان کا سر سے پیر تک جائزہ لیا۔ وہ پنڈا گورا گورا بھر بھرا اس کے تصوّر میں اُبھر آیا۔ اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ شرم سے اُس کا منہ لال پڑ گیا۔ اپنے آپ پہ اس نے دل ہی دل میں کتنی ملامت کی۔ مگر طاہرہ باجی کو سرے سے کوئی احساس ہی نہیں تھا۔ اس سے بے تکلفی سے باتیں کیں اور کالج کی ایک ایک بات پوچھی۔

’’ذاکر تمہارے کالج کی لائبریری میں راشد الخیری کی ’شامِ زندگی‘ ہے؟‘‘

جی ہے‘‘

’’ہائے اللہ! ذاکر اب کے آؤ تو ’شامِ زندگی‘ ضرور لے کے آنا۔‘‘

ناولوں کا ذکر ہوتے دیکھ کر صابرہ بھی جھجکتی جھجکتی آئی اور طاہرہ باجی کے ساتھ سمٹ کر بیٹھ گئی۔ ناولوں کا ذکر کتنے شوق سے سن رہی تھی۔ باورچی خانے سے خالہ جان کی آواز آئی۔

’’اری طاہرہ ہنڈیا تو دیکھ لے، کہیں جل نہ جائے۔ میں آٹا گوندھ رہی ہوں۔‘‘

طاہرہ باجی کے چلے جانے پر صابرہ سٹپٹا سی گئی مگر اُٹھ کے جا بھی نہیں سکی۔ وہ خود بھی جھینپا جھینپا بیٹھا رہا۔

رفتہ رفتہ حوصلہ پکڑا:

’’صابرہ تم نے ’فردوسِ بریں‘ پڑھی ہے؟‘‘

’’نہیں، کیسا ناول ہے؟‘‘

اس نے فوراً ہی ’’فردوسِ بریں‘‘ کا قصہ سنانا شروع کر دیا۔ پورا قصّہ سنا ڈالا۔

’’ذاکر! ہمیں ’فردوسِ بریں‘ لا دو گے؟‘‘

’’ہاں جب آؤں گا تو لے کے آؤں گا۔‘‘

’’اب، تم کب آؤ گے؟‘‘

’’بڑے دن کی چھٹیوں پر‘‘

اس نے شرر کے اور کئی ناولوں کے قصّے بھی سنائے۔ مع ان تفصیلات کے جنہیں بیان کرتے ہوئے کچھ وہ جھجکتا، کچھ وہ جھینپ جاتی مگر صابرہ اب اس کے ساتھ گھل مل گئی تھی۔ گھر کے کام کاج سے تو اُس کا جی کچھ اُچاٹ سا ہو گیا تھا۔ اُدھر خالہ جان اور طاہرہ باجی گھر کے کاموں میں جتی رہتیں، ادھر وہ اس کی باتیں سنتی رہتی، اس سے باتیں کرتی رہتی۔ باتیں کبھی زور زور سے، کبھی دھیرے دھیرے، کبھی اتنی دھیرے کہ باتیں سرگوشیاں بن جاتیں اور صابرہ کے چہرے پہ سرخی دوڑ جاتی اور جب اُس نے بُندوں کی تعریف کے بہانے اس کے کان کی لو کو چھوا تھا تو اس کا سانس ایک دم سے کتنا گرم ہو گیا اور کتنا تیز چلنے لگا تھا۔ کتنی نرم اور گرم تھی وہ لو کہ ایک نرم گرم رو پوروں کی راہ اس کے اندر سرایت کرتی چلی گئی۔

کتنی جلدی چھٹیاں ختم ہو گئیں۔ روپ نگر اسے پکڑ رہا تھا مگر اسے آخر کالج پہنچنا تھا اور اس سے پہلے ویاس پور جا کر امی جان کو صورت بھی دکھانی تھی۔

’’اے تو آ گیا تو تو ایک ہفتے کا کہہ کے گیا تھا اور اتنے دن لگا دئیے۔‘‘

سریندر کی بات کے جواب میں اس نے پہلے کوئی ادھر کی بات کی کوئی ادھر کی مگر راز کو وہ کتنی دیر چھپا کر رکھ سکتا تھا۔

’’پھر تو نے کیا کیا؟‘‘

’’میں نے کیا کیا؟ کیا کرتا؟ کچھ نہیں‘‘

’’جھوٹا‘‘

’’سچ، اس سے آگے کوئی بات نہیں ہوئی‘‘

’’تو بہت گھامڑ ہے‘‘ سریندر نے ملامت کی اور چپ ہو گیا۔

پھر وہ آپ ہی آپ بولا:

’’یار اُس کے ہاتھ بہت نرم تھے۔‘‘

سریندر کی بیزاری دور ہو گئی۔

’’اچھا؟‘‘

’’ہاں‘‘ چپ ہوا، خیالوں میں غوطہ کھایا، پھر بہت آہستہ سے بولا۔ ’’اور ہونٹ بھی۔‘‘

’’ہونٹ؟‘‘ سریند کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

پھر وہ کھلتا چلا گیا جو یہاں پر بیان نہیں کر سکا تھا، وہ اس نے کالج پہنچ کر، جب اطمینان سے دونوں بیٹھے، بیان کیا۔ جب سب کچھ بیان کر چکا تو جو بیان کر چکا تھا اسے پھر بیان کیا، اور پھر بیان کیا۔ ہر مرتبہ یوں بیان کیا جیسے پہلی مرتبہ بیان کر رہا ہے۔

’’اچھا اب تو کب جا رہا ہے؟‘‘

’’کرسمس کی چھٹیوں میں‘‘

’’وہ تو ابھی دور ہیں‘‘

’’ہاں یار! وہ تو ابھی دور ہیں‘‘

’’خط وط لکھ اُسے‘‘

’’خط، ہاں یار خط لکھنا چاہیے۔‘‘ اور خط لکھنے کا سودا دنوں ہفتوں سر پہ سوار رہا۔ روز قلم کاغذ لے کر بیٹھنا، کچھ لکھنا، پھر پھاڑ دینا۔

’’یار لکھا کیا جائے؟‘‘

’’جو لکھنا چاہیے‘‘

’’مگر یار! اگر کسی اور نے خط پڑھ لیا تو؟‘‘

’’تو؟‘‘

سریندر سوچ میں پڑ گیا

’’اُس نے تجھ سے ناولوں کے لیے کہا تھا نا؟ بس تو یہ لکھ کہ مجھے ناولوں کے نام یاد نہیں رہے۔‘‘

’’بالکل ٹھیک‘‘

پھر کرسمس کی چھٹیاں بھی آخر آ ہی گئیں اور اس نے راشد الخیری اور شرر کے ناول الماریوں میں سے ٹٹول ٹٹول کر نکالے اور اپنے کارڈ پہ جاری کرائے۔

’’یار تو روپ نگر تو نہیں جا رہا ہے؟‘‘

’’کیوں نہیں جاتا۔ جا رہا ہوں۔ کل کالج بند ہوتے ہی نکل جاؤں گا‘‘

سریندر کا، پھر بولا:

’’یار مت جا‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’یار سفر لمبا ہے اور گاڑیوں میں گڑ بڑ کی خبریں آ رہی ہیں‘‘

وہ سوچ میں پڑ گیا

یار گڑبڑ تو یہاں بھی ہوتی نظر آ رہی ہے۔‘‘

’’ہاں یہاں بھی کچھ گڑ بڑ ہے۔ کسی وقت بھی کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘

’’پھر؟‘‘

سریندر نے سوچا، پھر کہا:

’’ویاس پور چلتے ہیں، دونوں مل کر‘‘

ویاس پور تک کا سفر کالے کوسوں کا سفر بن گیا۔ جو مسافر زیادہ نقل و حرکت کرتا، مشکوک دکھائی دیتا۔ ویاس پور کا پلیٹ فارم کتنا خاموش تھا اور جب باہر آئے تو حیران رہ گئے۔’’یار یہاں تو کوئی تانگہ ہی نہیں ہے۔‘‘

’’پھر پیدل چلتے ہیں۔ آخر دوسرے بھی تو پیدل جا رہے ہیں۔‘‘

تھوڑی دور تک آگے اور پیچھے گاڑی سے اُترے ہوئے مسافر پیدل چلتے نظر آئے۔ پھر یکایک احساس ہوا کہ سڑک خالی ہے۔ دور تک سڑک خالی نظر آ رہی تھی۔ جگت ٹاکیز کہ اس راہ میں سب سے پُر شور مقام تھا۔ بند تھا اور بالکل خاموش۔ اس کی پیشانی پر خاصے دنوں سے جو ایک جھنڈا سا کھڑا تھا اور جس پر کانن بالا کی مورت مسکراتی رہتی تھی، وہ بیچ سڑک پر گرا پڑا تھا۔ کانن کی تصویر پھٹ چکی تھی اور دور تک اینٹیں بکھری پڑی تھیں۔

’’یار غلطی ہو گئی۔‘‘ سریندر نے آہستہ سے کہا۔

’’آنا نہیں چاہیے تھا۔‘‘

پھر خاموش چلنے لگے۔ شام گہری ہوتی جا رہی تھی اور دور تک کوئی آدمی نہیں تھا۔ بس اینٹیں ہی اینٹیں۔ اس نے خوف و حیرت سے ان بکھری اینٹوں کو دیکھا، اتنی اینٹیں تھیں یاس پور میں!

چلتے چلتے وہ میرٹھ دروازے پر آئے۔ آگے سیدھی راہ پر کھڑکی بازار تھا جو بند پڑا تھا اور بے چراغ تھا۔ یہ وہ راستہ تھا جو ہندوؤں کے محلوں میں جا نکلتا تھا۔ برابر میں ایک گلی چلی گئی تھی جو مسلمانوں کے محلوں میں جاتی تھی اس دوراہے پر دونوں ٹھٹکے، دونوں نے ایک دوسرے کو خاموش نظروں سے دیکھا اور الگ الگ رستے پر چل پڑے۔۔۔

’’ذاکر بیٹے!! ارے کچھ سنا تو نے، باہر گولی چل رہی ہے۔‘‘

’’جی‘‘ اُس نے بدقت جنگل سے واپس ہوتے ہوئے امی جان کو دیکھا جن کے چہرے پہ ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور آواز میں سخت گھبراہٹ تھی۔

وہ اُٹھ کر کھڑکی تک گیا۔ ایک پٹ کھول کر باہر نظر ڈالی۔ جلسہ گاہ درہم و برہم تھی، شامیانہ گرا پڑا تھا، قناتیں کہیں کھڑی رہ گئی تھیں۔ کہیں جھک گئی تھیں، شامیانے کے ایک کونے سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ بھگدڑ پڑی ہوئی تھی۔ کچھ بھاگ رہے تھے، کچھ سر پھٹول کر رہے تھے۔ اس نے کھڑکی بند کی اور واپس آیا۔ بڑبڑایا ’’بکواس‘‘۔

’’اے ہے میں تو سوتے سے اُچھل پڑی۔ قیامت مچی ہوئی تھی۔ پھر ٹھائیں سے آواز آئی میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اب تک کر رہا ہے۔ میں نے تیرے باپ کو آواز دی کہ اجی میں نے کہا کہ سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو؟ وہ بڑبڑائے کہ یہ بدبخت کسی بھلے مانس کو سونے دیں گے؟ میں نے کہا کہ مجھے ایسا لگے ہے کہ گولی چلی ہے۔ بڑبڑانے لگے کہ پاکستان میں اب یہی ہو گا۔ میں نے کہا کہ کوئی بات ہو یہ تو بڑبڑا کے رہ جاتے ہیں۔ ذاکر کو جا کے بتاؤں؟‘‘

’’کسی نے فائر کر دیا ہو گا۔ کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ جلسوں میں آج کل یہی ہوتا ہے‘‘

’’اے بیٹے! ایسے گولیاں چلیں تو کیا ہو گا؟‘‘

’’کچھ نہیں ہو گا۔ آپ جا کے اطمینان سے سوئیں۔‘‘

’’تجھے یقین نہ آوے گا، میں تو اندر سے ہل گئی ہوں۔ پاکستان پہ اللہ رحم کرے۔‘‘

’’امی کچھ نہیں ہوتا، آپ جا کے سوئیں‘‘

امی کو جیسے تیسے رخصت کر کے اس نے ایک مرتبہ پھر کھڑکی کھول کر باہر نظر ڈالی۔ مجمع منتشر ہو چکا تھا، گرے ہوئے شامیانے کے ساتھ جلسہ گاہ خالی پڑی تھی اور سارے بلب اُسی طرح جل رہے تھے۔ شامیانے کے جس کونے سے پہلے بہت دھواں اُٹھ رہا تھا۔ اب وہاں دھوئیں کی صرف ایک لکیر سی اُٹھ رہی تھی۔

جلتی روشنی میں اُجڑی پُجڑی خالی پڑی جلسہ گاہ کو دیر تک تکتا رہا۔ وہ ایک لمبا سفر کر کے آیا تھا اور اب اپنے زمانے میں سانس لے رہا تھا۔

 

 

 

 

(4)

 

 

مینہ اس کے اندر رات ٹوٹ کے برسا تھا۔ یادوں کی بدلیاں کہاں کہاں سے گھر کر آئی تھیں۔ آسمان اب دھلا دھلا اور نرم نرم تھا۔ کوئی کوئی بدلی ایک آسودگی کے ساتھ تیرتی رہ گئی تھی۔ کوئی اُجلا سا چہرہ، کوئی نرم سی مسکراہٹ۔ وہ اس وقت اپنے آپ میں کتنا مگن تھا۔ باہر کی دنیا اس کے لیے اپنا مفہوم کھو چکی تھی۔ ناشتے کی میز پر بیٹھے بیٹھے اس نے اخبار کی سرخیوں پر بے تعلقانہ سی نظر ڈالی اور اسے ابا جان کی طرف سرکا دیا۔

ابا جان ناشتہ پہلے ہی کر چکے تھے اور اردو والا اخبار پڑھنے میں منہمک تھے۔ جب وہ میز پہ آ کے بیٹھا تو انہوں نے اسے تعجب سے دیکھا۔

’’ذاکر! کیا آج تمہیں کالج نہیں جانا ہے؟‘‘

’’جانا تو ہے، آنکھ دیر سے کھلی۔‘‘

’’تو پھر جلدی ناشتہ کرو اور جاؤ‘‘ یہ کہتے کہتے پھر اخبار پڑھنے میں منہمک ہو ئے۔

اس کی آنکھ آج بے شک دیر سے کھلی تھی، پھر بھی اسے کوئی عجلت نہیں تھی۔ اطمینان سے نہایا دھویا، اب اطمینان سے ناشتہ کر رہا تھا۔

امی آئیں، چائے دانی کو ہاتھ لگا کر دیکھا۔

’’ٹھنڈی تو نہیں ہو گئی۔‘‘

’’نہیں، ابھی ایسی ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے، چلے گی۔‘‘ اس نے چائے دانی کو پانچوں انگلیوں اور ہتھیلی سے محسوس کرتے ہوئے کہا۔

بیٹا! ناشتہ سویر سے کر لیا کرو۔ آخر میں اکیلی دم ہوں۔ گھر کے سارے کام مجھے ہی نبیڑنے ہوتے ہیں۔‘‘ پھر فوراً ابا جان سے مخاطب ہوئیں:

’’اجی ڈھاکہ کے لیے کیا لکھا ہے؟‘‘

’’کوئی خاص خبر نہیں ہے۔‘‘

ابا جان کی طرف سے منہ موڑ کر انہوں نے پاس پڑا ہوا انگریزی کا اخبار اس کی طرف سرکایا:

’’بیٹے! انگریزی کے اخبار میں دیکھ۔ اس میں کچھ لکھا ہو گا؟‘‘

بے تعلقی سے پھر ایک نظر اخبار پہ ڈالی اور کہا:

’’کوئی قابل ذکر خبر نہیں ہے۔‘‘

’’ارے تو پھر بتول کی خیریت کیسے معلوم ہو گی؟ وہاں سے تو کوئی خبر ہی نہیں آتی۔‘‘

’’اُس پر بھروسہ رکھو۔‘‘ ابا جان نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔

’’ہاں اُسی پہ تو بھروسہ کیا تھا۔‘‘

امی جَلے بُھنے لہجے میں بولیں:

’’بھروسے ہی بھروسے میں یہ دن آ گیا۔‘‘

ابا جان نے گھور کے امی کو دیکھا اور سرزنش کی:

’’ذاکر کی ماں بے دھیانی میں منہ سے نکلا ہوا کوئی ایک جملہ عمر بھر کی عبادت پہ پانی پھیرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔‘‘

ندامت سے امی کا سر جھک گیا۔ چپ ہو گئیں۔ پھر انہوں نے اور ہی بات شروع کر دی:

’’اجی تمہیں یاد ہے کہ میں نے اس وقت بتول سے کیا کہا تھا؟‘‘

’’کب کیا کہا تھا؟‘‘

’’جب ہم چلے تھے۔‘‘

’’ذاکر کی ماں! کب کی بات یاد کر رہی ہو؟ مجھے تو یاد نہیں ہے کہ تم نے اُس وقت کس سے کیا کہا تھا؟‘‘

’’اجی تمہیں یاد نہ ہو، مجھے تو اُس وقت کی ایک ایک بات یاد ہے۔ یہاں پہنچتے ہی میں نے اسے خط لکھا تھا کہ تم ادھر آ جاؤ، اللہ مسبب الاسباب ہے۔ وہ تو ادھر آنے کے لیے تیار تھی مگر طاہرہ کے میاں پہ ایسی سنک سوار ہوئی کہ وہ اُس طرف نکل گیا۔ اس غریب کو بھی بیٹی کی خاطر ادھر جانا پڑا۔‘‘

’’ذاکر کی ماں! جناب امیر علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے فسخ سے پہچانا۔ تو ہمارے ارادے اس کی مرضی کے تابع ہیں جو اُسے منظور ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے۔‘‘

امی ایک دفعہ پھر چھ ہو گئیں اور سر جھک گیا، جیسے انہوں نے رضائی الٰہی کے سامنے سر جھکا دیا ہو۔

ابا جان اس کی طرف مخاطب ہوئے:

’’تمہیں شاید آج کالج نہیں جانا۔‘‘

’’بس جا رہا ہوں‘‘ اس نے ایک عجلت کے ساتھ چائے کے آخری گھونٹ لیے اور اُٹھ کھڑا ہوا۔

گھر سے نکل کر گلی کا موڑ مڑتے مڑتے نظیر کی دوکان پر رکا۔ آتے جاتے اس دوکان پر روکنا اور سگریٹ خریدنا اُس کا معمول تھا۔

’’ذاکر میاں! آج تو بہت گڑبڑ ہے۔‘‘ سگریٹ کا پیکٹ دیتے دیتے نظیرا نے ٹکڑا لگایا۔

’’کل گڑبڑ نہیں تھی؟‘‘

’’مگر آج بہت گڑبڑ ہے۔‘‘

آج واقعی بہت گڑبڑ تھی۔ کالج پہنچا تو دیکھا کہ گملے جا بجا ٹوٹے پڑے ہیں، کلاسیں خالی ہیں، شیشے دروازوں کے چکنا چور، کچھ کلاسوں کے اندر، کچھ باہر برآمدوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ لڑکے ندارد۔ کہاں گئے سب لڑکے۔ معلوم ہوا کہ سب کے سب نعرے لگاتے توڑ پھوڑ کرتے کالج سے نکل کہیں آگے جا چکے ہیں۔ اپنے کمرے میں گیا، بیٹھا، یاد کیا کہ آج اُسے کیا لیکچر دینا تھا؟ مگر اب اسے کون سا لیکچر دینا تھا۔ بلاوجہ بلاسبب دراز کھول کر کچھ کاغذ اُلٹ پلٹ کیے، میز پہ لگی کتابیں اِدھر اُدھر سے کھول کر دیکھیں، پھر بند کر کے رکھ دیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے؟ گھر سے وہ یادوں سے شاداب چلا تھا، اپنے آپ میں مگن، باہر سے بے تعلق۔ مگر یہاں تک پہنچتے پہنچتے باہر کی دنیا میں پھر سے مفہوم پیدا ہوتا چلا گیا۔ اب اس کے لیے یہ ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ اس فرصت اور تنہائی سے فائدہ اُٹھا کر آرام سے بیٹھے، سگریٹ سلگائے اور یادوں کی دنیا میں کھو جائے۔ کالج کا نقشہ درہم برہم دیکھ کر اسے خفقان سا ہو رہا تھا۔ پھر کیا کیا جائے؟ اچھا شیراز میں چلتے ہیں۔ ممکن ہے چوکڑی جمی ہو۔ عرفان کو تو بہر صورت اس وقت وہاں ہونا چاہیے۔ اُٹھ کھڑا ہوا۔

تھوڑے وقت کے بعد وہ شیراز میں تھا اور عرفان سے راز و نیاز کی باتیں کر رہا تھا۔ عرفان حیران تھا!

’’آخر کون تھی وہ؟‘‘

’’بس تھی وہ‘‘

’’اس سے پہلے تو تم نے اس کا ذکر کبھی کیا نہیں تھا؟‘‘

’’میں تو اُسے بھول ہی گیا تھا۔ ذکر کیا کرتا۔‘‘

’’بھول گیا تھا؟‘‘ عرفان نے اُسے تعجب سے دیکھا۔

’’ہاں یار بھول ہی گیا تھا۔ دن بھی تو بہت ہو گئے۔‘‘

’’پھر اب کیسے یاد آ گئی؟‘‘

’’یہ ہماری یادوں کی واپسی کا موسم ہے۔ جانے کب کب کی بھولی باتیں یاد آتی ہیں۔‘‘

’’اس وقت جبکہ چاروں طرف اتنا ہنگامہ ہے؟‘‘

’’ہاں اس وقت جب کہ چاروں طرف اتنا ہنگامہ ہے۔‘‘ رکا، پھر بولا۔

’’معلوم ہے آج کل ہماری امی کا کیا مشغلہ ہے؟ روز صبح اخبار آنے پر سوال کرتی ہیں کہ ڈھاکہ کے لیے کیا لکھا ہے۔ تمہیں پتہ ہے نا کہ ہمارے کچھ عزیز ڈھاکہ میں آباد ہوئے تھے؟ ہماری خالہ جان۔ تو امی پریشان رہتی ہیں اور روز صبح کو اخبار آنے پر سوال کرتی ہیں کہ ڈھاکہ کے لیے کیا لکھا؟ اور جب انہیں کوئی تشفی بخش جواب نہیں ملتا تو انہیں یاد آتا ہے کہ یہاں آنے پر انہوں نے خالہ جان کو خط لکھا تھا اور مشورہ دیا تھا کہ اُدھر اللہ میاں کے پچھواڑے مت جانا، ادھر آ جاؤ اور پھر انہیں ہجرت کے وقت کے بھولے بسرے قصّے یاد آنے لگتے ہیں۔‘‘

’’تو وہ ڈھاکہ میں ہے؟‘‘ عرفان نے قیافہ لڑایا۔

’’نہیں، وہ تو پاکستان آئی ہی نہیں تھی۔‘‘

’’پاکستان نہیں آئی تھی؟ اچھا!‘‘ وہ سوچ میں پڑ گیا۔

’’اور تم تب سے ہندوستان نہیں گئے؟‘‘

’’نہیں‘‘

’’پھر تو واقعی بہت زمانہ گزر گیا‘‘

’’یہی میں سوچ رہا ہوں۔‘‘ اس کی آواز دھیمی ہوتی چلی گئی۔ ’’بہت زمانہ گزر گیا۔‘‘

’’جلوس آ رہا ہے۔‘‘ ایک بدحواس ٹولی نے داخل ہوتے ہوئے خبر دی۔

’’جلوس؟‘‘ مختلف میزوں پر بیٹھے ہوؤں کے کان کھڑے ہوئے۔

’’ہاں۱ بہت بڑا جلوس ہے۔ توڑ پھوڑ کرتا چلا آ رہا ہے۔‘‘

’’اچھا؟‘‘

شیراز میں بیٹھے ہوئے سب ہی لوگ گھبرا گئے تھے۔ کئی ایک اُٹھے اور تیزی سے باہر نکل گئے۔ عبدل تیر کے موافق کچن سے نکلا، جلدی جلدی دروازہ بند کیا اور شیشوں پر پردے کھینچ دئیے۔

’’آج کچھ زیادہ ہی گڑبڑ نظر آتی ہے۔‘‘ عرفان بڑبڑایا۔

’’ویسے کل کی افواہ تو غلط نکلی۔‘‘

’’مگر کل تو وہ لوگوں کے لیے سچ تھی۔‘‘

’’ہاں کل تو وہ بالکل سچ نظر آ رہی تھی۔‘‘

’’خبر اور افواہ دونوں کی عمر ایک دن ہوتی ہے۔ دوسرے دن یہ جاننے سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ خبر نہیں، افواہ تھی یا وہ افواہ نہیں خبر تھی۔‘‘

سلامت اور اجمل کچن کے راستے اندر داخل ہوئے۔ سلامت نے غضب ناک نظریں چاروں طرف ڈالیں اور انگشت شہادت چاروں طرف گھماتے ہوئے اونچی آواز میں کہا:

’’میں پوچھتا ہوں کہ دروازہ کیوں بند ہے اور پردے کیوں پڑے ہوئے ہیں اور اندھیرا کیوں ہے؟‘‘

عرفان نے گھور کے سلامت کو دیکھا اور سرد مہری سے کہا:

’’اس لیے کہ باہر شور بہت ہے۔‘‘

سلامت نے عرفان اور اسے دونوں کو غضب ناک نظروں سے دیکھا:

’’اور اس لیے کہ تم عوام کی آواز نہیں سننا چاہیے۔ مگر سامراجی دلّو! یہ آواز اب نہیں دب سکتی۔ وہ پردوں کو چیر کر آئے گی اور تمہارے کانوں کے پردوں کو پھاڑ دے گی۔‘‘

پھر اُس نے آواز دیا:

’’عبدل!‘‘

عبدل تیزی سے کچن سے نکل کر آیا۔

’’ہاں جی!‘‘

’’عبدل! دروازہ کھول دو اور یہ پردہ ہٹا دو۔‘‘

’’اور باہر سے روشنی اور ہوا آنے دو۔ روشنی، ہوا اور عوام کی آواز۔‘‘ اجمل نے تائیدی لہجے میں اضافہ کیا۔

’’دروازہ مت کھولو۔ جلوس بہت بپھرا ہوا ہے۔‘‘ دور کی ایک میز سے آواز آئی۔ سلامت نے لال پیلے ہو کر کہا:

’’وہ عوام ہیں جو سرمایا داروں اور سامراجی پٹھوؤں کے خلاف بپھرے ہوئے ہیں۔‘‘

سلامت اور اجمل دونوں اسی میز پر بیٹھ گئے جس پر وہ اور عرفان بیٹھے تھے۔

سفید سر والا آدمی کہ دیر سے اکیلا بیٹھا چائے پی رہا تھا، اپنی جگہ سے اُٹھا، قریب آیا اور بولا۔ ’’آپ پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ کچھ بتائیے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔‘‘

سلامت نے اُسے حقارت سے دیکھا اور کہا:

’’وہ ہو رہا ہے جو ہونا چاہیے۔‘‘

سفید سر والا آدمی سلامت کا منہ تکنے لگا۔ پھر ٹھنڈا سانس بھرا:

’’اللہ ہم پر رحم کرے۔‘‘ اور واپس اپنی جگہ پہ جا بیٹھا۔

’’یار میں یہ محسوس کرتا ہوں۔‘‘ سلامت بولا۔ ’’یہ سفید سر والا آدمی میرے سفید سر والے باپ سے بھی زیادہ جاہل ہے۔‘‘ ’’میرا باپ‘‘ اجمل بولا۔ ’’تیرے سفید سر والے باپ اور اس سفید سر والے آدمی دونوں سے زیادہ جاہل ہے۔‘‘

’’مگر میرا باپ، میرا باپ نہیں ہے۔‘‘ سلامت نے دانت کچکچائے ’’میں حرام زادہ ہوں۔‘‘

اجمل نے اعلان کیا:

’’میں اپنے باپ کو اپنا باپ ماننے سے انکاری ہوں۔‘‘

’’یار ہمارے مکروہ باپوں نے ہمیں برباد کر ڈالا۔‘‘ سلامت کی آواز میں یکایک رقت پیدا ہو گئی۔

اجمل نے عرفان کو اور پھر اُسے دیکھا:

’’تم دونوں بھی تو کچھ بولو۔‘‘

سلامت کو پھر غصّہ آ گیا:

’’یہ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ چپ رہ کر اپنے مکروہ باپوں کو اور ان مکروہ باپوں کے ناجائز بیٹوں کو وقت کی زد سے بچا لیں گے۔‘‘ میز پہ مکا مارا: ’’ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘

’’سلامت صاحب آپ یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘ ایک آشنا شخص کچن کی راہ سے داخل ہوتے ہوئے بولا : ’’وہاں گول مارکیٹ میں شراب کی دوکان لٹ رہی ہے۔‘‘

اجمل نے چونک کر دیکھا ’’واقعی؟‘‘

’’ہاں جی، ہم ابھی ابھی ادھر سے ہی آ رہے ہیں۔ شراب نالیوں میں بہہ رہی ہے۔ اور کتے بیہوش پڑے ہیں۔‘‘

’’پھر چوک ہو گئی۔‘‘ اجمل متاسفانہ بڑبڑایا۔ پھر اس نے سلامت کو ٹھوکا:

’’یار چلیں۔ ذرا دیکھیں تو سہی۔‘‘

’’کہاں چلیں؟ کیا دیکھیں؟‘‘ سلامت نے بھنا کر کہا:

’’کتوں کو بے ہوش دیکھنے کے لیے شراب کی لٹی ہوئی دوکان کے آس پاس جانا ضروری نہیں ہے۔ کون سی نالی ہے۔ جہاں کتے بیہوش پڑے دکھائی نہیں دیتے۔‘‘

پھر اس نے انگارے برساتی ہوئی نظروں سے اردگرد کی میزوں کا جائزہ لیا اور چیخ کر بولا:

’’کتو! تمہیں اب ہوش میں آنا ہو گا۔ حساب کا وقت آ گیا ہے، حساب دینا ہو گا، تمہیں، مجھے، سب کو۔‘‘

’’سوائے میرے۔‘‘ افضال نے اطمینان سے کہا جو ابھی ابھی داخل ہوا تھا اور سلامت کو گرجتے دیکھ کر ٹیبل کے قریب آ کر خاموش کھڑا ہو گیا تھا۔ اب وہ کرسی گھسیٹ کر سلامت کے سامنے بیٹھا اور اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولا ’’چوہے! تو دم پہ کیوں کھڑا ہے، حساب تو مجھے لینا ہے۔ بس مجھے بانسری کا انتظار ہے۔‘‘

’’بانسری کا اور شہر کے جلنے کا۔‘‘ سلامت نے غصّے سے کہا۔

’’شہر تو جل رہا ہے‘‘ افضال نے آنکھیں بند کیں، پھر کھولیں اور بولا جیسے کسی دوسری دنیا سے بول رہا ہو۔ ’’چوہوٍ ڈرو اس دن سے جب میں بانسری کے ساتھ یہاں آؤں گا۔ میں آؤں گا اور تمہیں حکم دوں گا کہ سنو، بانسری کیا کہتی ہے۔ میں تمہیں حکم دوں گا کہ چوہو میرے پیچھے چلو۔ تم بلوں سے نکلو گے اور میرے پیچھے چلو گے۔ حتیٰ کہ میں سمندر پہ پہنچ جاؤں گا اور میں سمندر کو حکم دوں گا کہ سمندر! ان چوہوں کو لے لے، اور سمندر تم سب چوہوں کو ایک سانس میں نیچے اُتار لے گا۔‘‘

’’بکواس‘‘ سلامت پھنپھنایا۔

’’یار یہاں وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ؟ آؤ گول مارکیٹ چلتے ہیں۔‘‘ اجمل نے سلامت کا بازو پکڑا اور نکل گیا۔

اصل میں اب ہم ’شیراز، میں اُکھڑے اُکھڑے رہنے لگے تھے۔ جمے رہنے کی ہم نے کوشش تو بہت کی۔ سارے قصوں کو بھول کر ادب پر بحث کرتے، کبھی نئے ادب پر، کبھی تجریدی آرٹ پر، مگر جانے کیسے کوئی باتیں کرتے کرتے بہکتا اور ممنوعہ علاقے میں جا نکلتا۔ بات ادب سے ہٹ کر حالات پر ہونے لگتی۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں کوئی برابر کی میز کی طر ف دیکھ کر چونکتا اور چپ ہو جاتا۔ برابر کی میز پر بیٹھے ہوئے کی نظریں دوسری طرف، کان ہماری طرف۔ لگتا کہ جیسے کان ہمارے بیچوں بیچ رکھے ہوں۔ کان ہمارے تصور میں بڑے ہوتے چلے جاتے، ہمارے ہونٹوں سے آ لگتے، ہم چپ ہو جاتے۔

آخر ہم شیراز سے اُکھڑ گئے، اور ایسے اُکھڑے کہ منڈلی تتر بتر ہو گئی۔ بس میں اور عرفان رہ گئے کہ اب شیراز سے ہجرت کر کے امپیریل میں جا بیٹھے تھے۔ مگر امپیریل بھی ہمیں اب اتنا آباد نظر نہیں آتا تھا۔ نہ گورے چہرے، نہ ہم رقصوں کے جوان جوڑے، نہ پیالیوں اور پلیٹوں کی کھنکھناہٹ، نہ بیروں کی لپک جھپک۔ زیادہ میزیں خالی پڑی رہتیں۔ اکّا دکّا میز بھری ہوئی۔ کھلے صحن میں فلور پر کچھ اُدھیڑ عمر اینگلو پاکستانی جوڑے تھکے تھکے انداز میں رقص کرتے ہوئے۔ بینڈ بھی تو کچھ تھکے ہوئے انداز ہی میں بجتا تھا۔ صندلی بلی منیجر کی کرسی سے لگی آنکھیں موندے بیٹھی رہتی۔ کبھی کبھار اُٹھ کر فلور پر جاتی اور مسکین سی آواز میں میاؤں کرتی اور خود ہی پلٹ آتی۔ فلور پر ٹھہر کر کیا کرتی۔ اب یہاں مس ڈولی کا کیبرے نہیں ہوتا تھا۔ اسے کوئی زندہ دل اُڑا کر لے گیا۔ اس کے ساتھ امپیریل کی رونق بھی رخصت ہو گئی۔

’’کل سے میں نہیں آؤں گا‘‘۔

’’کیوں؟‘‘

’’مجھے اخبار میں نوکری مل گئی ہے اور رات کی ڈیوٹی لگی ہے‘‘۔

میں نے عرفان کو تعجب سے دیکھا ’’تم نوکری کرو گے؟‘‘

’’کرنی پڑے گی‘‘۔ اس نے ٹھنڈا سانس بھرا۔

’’اچھا تو تم کل ادھر نہیں آؤ گے‘‘۔ میں سوچ میں پڑ گیا ’’پھر میں اکیلا یہاں آ کے کیا کروں گا۔۔۔‘‘

تسنیم! وہ تو مجھے بس چھو کر نکل گئی۔ تاریخ میں ایم۔ اے کی تیاری کر رہی تھی۔ سفارش لے کر میرے پاس آئی اور تیاری میں میری مدد چاہی۔ باقاعدگی سے آتی، بڑے خلوص سے کتاب کھول کر بیٹھی، نوٹس لیتی اور چلی جاتی۔ اِدھر اُدھر کی مجال ہے کوئی بات کر جائے۔ مجھے بھی اس سے کوئی اور بات کرنے کی خواہش نہیں ہوئی۔ بہت بے رنگ لڑکی نظر آتی تھی۔ کیا بات کرتا اس سے مگر اس روز وہ مجھے اچھی لگی۔ وہ صبح کا وقت تھا۔ میں بھی نہا دھو کے کپڑے بدل کر نکلا تھا، وہ بھی اُجلی اُجلی نظر آ رہی تھی۔ اس بھری بس میں خواتین کی نشستوں کے درمیان کھڑے ہونے کی جگہ بنانے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ میرے آگے کھڑی ہے اتنی قریب کہ اس کی گوری گردن اور کانوں کی سرخی مائل لوئیں میرے سانس کی زد میں تھیں۔ میرا سانس بھی تو اس وقت کچھ تیز ہو گیا تھا۔

اس کے بس سے اُترنے کے ساتھ میں بھی بس سے اُتر گیا۔ مجمع کو چیر کر اُترتے ہوئے مجھے تھوڑا وقت لگا۔ بس اسی تھوڑے وقت میں وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ خیر کوئی بات نہیں۔ میں نے سوچا، شام کو وہ پڑھنے کے لیے آئے گی، مگر وہ اس شام نہیں آئی۔ خیر کل شام سہی، میں نے اپنے آپ کو سمجھایا۔ مگر وہ دوسرے دن بھی نہیں آتی۔ اس کے نہ آنے نے میری بے تابی میں اور اضافہ کر دیا۔

اگلے دن میں نے اُسے فون کیا اور اُستاد کی حیثیت میں اس سے نہ آنے کا سبب پوچھا۔ اس نے کوئی بے معنی وجہ بتائی اور رکتے رکتے کہا کہ آج آؤں گی۔

شام کے انتظار میں وہ دن پہاڑ سا گزرا۔ خیر شام آئی اور وہ بھی آئی۔ آ کر خاموش بیٹھ گئی۔ جس انہماک سے وہ سوال کرتی تھی اور نوٹس لیتی تھی وہ انہماک اس میں نظر نہیں آیا۔ آج میرا بھی پڑھانے میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ جلدی ہی سبق لپیٹ دیا۔ پھر وہ بھی چپ میں بھی چپ۔

’’تسنیم!‘‘ آخر میں نے زبان کھولی۔

جواب میں اس نے نظریں اُٹھا کر مجھے دیکھا، مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں نے کیا کہنے کے لیے اسے مخاطب کیا ہے۔ میں کھو سا گیا جیسے میں ہوں ہی نہیں۔

آخر وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ میں بھی ہڑبڑا کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ دروازے تک اسے چھوڑنے چلا۔ کمرے سے نکلتے نکلتے آہستہ سے کہا:

’’تسنیم!‘‘

وہ ٹھٹھک گئی اور میں گم سم۔ پھر وہ اچانک بجلی کی سی تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔ میں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔

پھر وہ نہیں آئی۔

تسنیم جا چکی ہے۔ شام کی مصروفیت ختم۔ میں اندر سے خالی خالی، باہر سے بیزار، شہر میں بھٹکتا پھرتا ہوں۔ بلاوجہ قدم شیراز کی طرف اُٹھ جاتے ہیں۔ عبدل حیران ہوتا ہے۔

’’ذاکر صاحب! آپ کہاں تھے؟‘‘

’’یہیں تھا، دوسرے کہاں ہیں؟‘‘

’’کوئی نہیں آتا جی۔ چائے لاؤں؟‘‘

’’لے آؤ‘‘۔

میں ایک گوشے میں اکیلا بیٹھا چائے پی رہا ہوں۔ اردگرد سب چہرے نئے اور اجنبی ہیں۔ اچھا یہ سفید سر والا آدمی اب بھی برابر آتا ہے۔ بہت وضعدار آدمی ہے۔ مگر یار کہاں ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے۔ شیراز میں ایک وقت میں ہم ہی ہم تھے۔ اب ایسے صاف ہوئے ہیں جیسے یہاں کبھی تھے ہی نہیں۔

افضال اچانک داخل ہوتا ہے۔ ’’یار سب لوگ کہاں ہیں؟ میں تمہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کے مر گیا۔ کوئی چوہا نہیں ملا۔ میں نے سُنا تھا کہ تم اور عرفان امپیریل میں بیٹھتے ہو‘‘۔

’’بیٹھتے تھے‘‘۔

’’بہرحال میں اسی گمان میں وہاں گیا تھا کہ تم اب بھی وہاں بیٹھتے ہو۔ یار وہاں کا نقشہ تو بہت ابتر ہے۔ کیبرے ہو رہا تھا، لائٹ گل تھی۔ خیر میں بیٹھ گیا۔ دل میں کہا کہ روشنی آ جائے تو میں ان چوہوں کو ڈھونڈ لوں گا۔ فلور کی طرف دیکھتا ہوں تو مس ڈولی غائب۔ ایک مکروہ عورت ناچ رہی تھی۔ داد دینے والے بھی اپنی آوازوں سے ایسے ہی لگے۔ روشنی آئی اور میں نے اردگرد دیکھا تو سب ماجھے گامے۔ میں نے تم دونوں کو ایک گالی دی اور باہر نکل آیا‘‘۔

افضال سچ کہہ رہا تھا۔ امپیریل کا نیا رنگ یہی تھا۔ میں بھی ایک شام وہاں جا نکلا تھا۔ یہ نقشہ دیکھ کر واپس ہو لیا۔

’’یار! اچھے لوگ کہاں چلے گئے؟‘‘ یہ کہتے کہتے افضال نے چاروں طرف دیکھا۔ بڑبڑایا

’’یہ کون لوگ ہیں؟ پبلک کہاں گئی؟‘‘

’’زوار تو سی ایس پی بن کر شہر سے چلا گیا‘‘۔

’’اسے دفعہ کرو۔ دوسروں کی سناؤ‘‘۔

’’سلامت شاید امریکہ چلا جائے، سکالر شپ کے لیے دوڑ دھوپ کر رہا ہے۔ بالعموم یو ایس آئی ایس میں پایا جاتا ہے۔ اجمل بنیادی جمہوریتوں میں کھپ گیا‘‘۔

’’اور عرفان؟‘‘

’’اُسے اخبار میں نوکری مل گئی‘‘۔

’’چوہے!‘‘ افضال بڑبڑایا۔

’’تو کیا کر رہا ہے؟‘‘

’’عشق‘‘۔

’’عشق؟‘‘ افضال نے سر سے پیر تک مجھے قدر شناس نظروں سے دیکھا۔ ’’بس تو ایک اچھا آدمی ہے‘‘۔

’’شیراز میں بیٹھ کر ادب اور آرٹ اور سیاست بگھارنا ہی تو سب کچھ نہیں ہے‘‘۔

افضال نے سنجیدگی سے میری بات سنی، ’’تو ٹھیک کہتا ہے۔ عشق ان کاموں سے بڑا کام ہے۔ مگر کاکے عشق کرنے کے لیے آدمی کو طیب ہونا چاہیے‘‘۔

’’یار! تم تو طیب ہو‘‘۔

’’ہاں میں طیب توں ہو مگر یار میں مصروف بہت ہوں‘‘۔

’’مصروف؟‘‘

’’کاکے! تجھے پتہ نہیں، چڑیوں اور پیڑوں کی سنگت میں میرا کتنا وقت گزرتا ہے۔ عشق کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ تو کر، میں تیرے لیے دعا کروں گا‘‘۔

’’یارٍ اب دعا میرے کیا کام آئے گی؟ وہ تو آ کر چلی گئی‘‘۔ میں نے لمبا سا ٹھنڈا سانس لیا۔

افضال نے بہت دردمندی سے مجھے دیکھا اور نصیحت کے لہجے میں بولا:

’’کاکے! دروازہ کھلا رکھ اور جاگتا رہ‘‘۔

دروازہ جو مدت سے بند پڑا تھا، اسے وہ جاتے جاتے کھول گئی تھی۔ میں اسے اب بند نہیں کر سکتا تھا۔ دروازہ کھلا رہا اور میں انتظار کرتا رہا۔ وہ نہیں آئی، کوئی اور ہی آ گئی۔ انیسہ سے میری مڈھ بھیڑ موسیقی کانفرنس میں ہوئی۔ میں اسے دیکھ کے حیران رہ گیا ’’ارے تم! کب آئیں تم لندن سے؟‘‘

ویسے اصل بات یہ ہے کہ میں اس کے اچانک لندن سے آ جانے پر حیران نہیں ہوا تھا۔ حیران اس پر ہوا تھا کہ وہ ایک نئی پھبن کے ساتھ واپس آئی تھی۔ جب امپیریل میں میں نے اسے دیکھا تھا، اس وقت تو میں اس سے بالکل متاثر نہیں ہوا تھا۔ اس نے تھوڑا قدم بڑھایا بھی تھا۔ مگر میں نے اسے بالکل رستہ نہیں دیا۔ کیسے دیتا۔ میرے اندر دروازہ ہی بند پڑا تھا۔ یوں بھی اس وقت وہ ایسی کہاں کی جاذبِ نظر تھی۔ جسم بالکل سپاٹ لگتا تھا۔ مگر اب تو اُس کے جسم میں زاویے خوب اُبھر آئے تھے اور گولائیاں خوب نمایاں ہو گئی تھیں۔ برہنہ بھرے بھرے بازو، کمر اور کولھے کا خوشگوار نشیب و فراز، ہری بھری گات، اُمنڈتا چھلکتا سینہ۔ میں نے حیرت اور مسرت سے اس کے سراپا پر نظر ڈالی، ’’انیسہ! لندن نے تو تمہاری کایا کلپ کر ڈالی ہے‘‘۔

اس نے اس فقرے کو داد کے طور پر قبول کیا۔ ہنسی، پھر بولی:

’’بہت رات ہو گئی۔ یہ محفل کب ختم ہو گی؟‘‘

’’ختم کا انتظار ضروری ہے؟‘‘

’’کوئی ضروری نہیں ہے‘‘۔

ہم دونوں فوراً ہی باہر نکل آئے۔ میں نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو اس نے حیران ہو کر مجھے دیکھا۔ ’’ارے تم موٹر والے ہو گئے ہو۔ یعنی میں ہی نہیں بدلی، تم بھی بدل گئے ہو‘‘۔

’’سیکنڈ ہینڈ ہے‘‘۔

’’سیکنڈ ہینڈ زیادہ رواں چلتی ہے‘‘۔ اور کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

’’کہیں چل کر چائے نہ پئیں‘‘۔

’’ضرور۔ ہم وہاں سے نکلے کس لیے ہیں۔ امپیریل کیسا رہے گا۔ مجھے لندن میں ایک ہی چیز یہاں کی یاد آتی تھی۔ امپیریل‘‘۔

’’امپیریل بھی بدل گیا ہے۔ مگر وہ دوسرے رنگ سے بدلا ہے۔ اب تم اسے دیکھو گی تو تمہیں افسوس ہو گا‘‘۔

’’پھر تو مجھے ضرور چل کے دیکھنا چاہیے‘‘۔

میں نے گاڑی امپیریل کی طرف موڑ دی‘‘۔

اب امپیریل کا رنگ دگر تھا۔ نہ کیبرے، نہ بینڈ باجا۔ میزیں زیادہ خالی تھیں۔ جہاں تہاں اِکّا دُکا آدمی بیٹھا خاموش چائے پی رہا تھا۔ صندلی بلی منیجر کی کرسی سے لگی آنکھیں موندے پڑی تھی۔ پھر ایک الکساہٹ کے ساتھ اُٹھی۔ انگڑائی لے کر بدن کو سیدھا کیا پھر تھکی تھکی چال کے ساتھ مختلف خالی میزوں کے نیچے سے نکلتی ہوئی، شامی کباب کھاتے ایک کسٹمر کے قریب جا کر ٹھٹھکی، مسکین آواز میں میاؤں کیا، مگراُس کی بے اعتنائی دیکھ کر آگے بڑھ گئی۔ میلے گرد آلود فلور پر پہنچ کر بیچوں بیچ بیٹھ کر آنکھیں موند لیں۔

انیسے افسوس کے ساتھ یہ سارا منظر دیکھا۔ بولی:

’’امپیریل پر تو بالکل زوال آ گیا۔ کیسے ہوا یہ؟ میں جب گئی ہوں اس وقت تو امپیریل بہت عروج پہ تھا۔ اُس وقت کون یہ تصور کر سکتا ھاھ کہ اس کا یہ عالم ہو جائے گا؟‘‘

’’عروج کی یہی تو خرابی ہے۔ اُس عالم میں یہ گمان ہی نہیں گزرتا کہ اس عروج کو زوال بھی ہو سکتا ہے! اور جب زوال شروع ہوتا ہے تو اسے بیچ میں روکا نہیں جا سکتا۔ زوال اپنی انتہا تک پہنچ کر دم لیتا ہے‘‘۔

’’یہ تو تم قوموں کے زوال کی بات کرنے لگے ہو۔ میں امپیریل کی بات کر رہی تھی‘‘۔

’’زوال جس پر بھی آئے، جہاں بھی آئے، ایک ہی طرح اُس کا عمل ہوتا ہے‘‘۔

انیسہ نے مجھے معنی خیز انداز میں دیکھا ’’تم اس عرصے میں لگتا ہے کہ پورے دانشور بن چکے ہو۔ چلو یہاں سے چلتے ہیں‘‘۔

گاڑی میں بیٹھ کر میں نے تجویز پیش کی:

’’اس وقت لورین کھلا ہو گا۔ وہاں چائے اچھی ملے گی‘‘۔

’’مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘۔

لورین میں بیٹھ کر وہ شرارت سے بولی:

’’تو میں لندن جا کر بدل گئی ہوں؟‘‘

میں نے پھر سر سے پیر تک اسے دیکھا اور مسرور ہوا ’’بالکل بدل گئی ہو‘‘۔

’’مگر میں دیکھ رہی ہوں کہ تم یہیں بیٹھے بیٹھے بدل گئے ہو‘‘۔

’’کیسے؟‘‘

’’ایسے کہ اب تم لڑکی سے باتیں کر سکتے ہو اور رات گئے ہوٹل میں اس کے ساتھ چائے پی سکتے ہو۔‘‘ رکی، بولی:

’’تم نے میرے پیچھے کوئی محبت کا تجربہ تو نہیں کر ڈالا؟‘‘

’’کیا تو نہیں، کرنا چاہتا ہوں‘‘۔

’’جھوٹ مت بولو۔ تمہارا Behaviour بتا رہا ہے کہ تم نے یہ تجربہ کر ڈالا ہے۔ ناکام ہو گئے ہو تو الگ بات ہے۔خیر وہ کوئی ایسی بات نہیں۔ پہلے تجربے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ دوسرا تجربہ کرو، کامیابی تمہارے قدم چومے گی‘‘۔

’’میں Overage نہیں ہو گیا ہوں؟‘‘

’’نان سٹس اُدھر تو عشق و محبت کا اصلی پیریڈ چالیس کے بعد ہی شروع ہوتا ہے اور جس مرد کے کنپٹی کے بال سفید ہوں، اس پر تو لڑکیاں مکھیوں کی طرح گرتی ہیں‘‘۔

میں نے غیر ارادی طور پر اپنی کنپٹی کے بالوں پر انگلیاں پھیریں۔ ’’یہ فیشن یہاں کب پہنچے گا‘‘۔

’’پہنچ چکا ہے۔ تم میدان میں اُترو۔ بس جلدی سے کسی لڑکی کے ساتھ سلسلہ شروع کر دو۔ بتاؤ کس کے ساتھ شروع کرنا چاہتے ہو؟‘‘

’’تمہارے ہی ساتھ شروع ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے‘‘۔

’’میرے ساتھ!‘‘ اس نے مجھے کسی قدر تعجب سے دیکھا اور پھر بے پروائی سے ہنسی ’’تم میں تو واقعی جرأت آ گئی ہے‘‘۔

’’بہرحال اس میں ہرج کیا ہے‘‘۔

’’ہرج تو کوئی نہیں ہے‘‘۔ اس نے متانت سے کہا:

’’مگر میں مشکل لڑکی ہوں۔ تم میرے ساتھ چل نہیں سکو گے‘‘۔ سوچ کر بولی:

’’سنو! اگر تمہارا معاملہ رضیہ سے کرا دیا جائے تو کیسا رہے؟‘‘

’’مجھے وہ لڑکی پسند نہیں‘‘۔

’’پھر کون پسند ہے؟‘‘

’’تم‘‘

’’اچھا‘‘ مسکرائی ’’تم میں واقعی مردانہ جرأت آ گئی ہے۔ اچھی بات ہے‘‘۔

لورین سے اس کے گھر جاتے ہوئے میں نے مزید مردانہ جرأت کا مظاہرہ کیا۔ گاڑی چلاتے چلاتے ایک ہاتھ ویل سے ہٹایا اور اس کے برہنہ بازو پر رکھ دیا۔ اس مردانہ جرأت پر اس نے کوئی داد نہیں دی، حوصلہ شکنی بھی نہیں۔ بازو کو سہلاتا ہوا میرا ہاتھ شانے پر گیا۔ شانے کا سفر کرتا ہوا جب سینے کی طرف بڑھنے لگا تو اس کی طرف سے ہدایت جاری ہوئی ’’آگے نہیں‘‘۔

’’کیوں؟‘‘

’’ہر بات پوچھنے کی نہیں ہوتی۔ بس میں نے تمہیں بتا دیا ہے‘‘۔

’’مگر میرا جی چاہتا ہے‘‘۔ یہ کہتے کہتے میں نے گاڑی کو رستے سے تھوڑا اُتار کر بریک لگا دئیے۔ رات بہت جا چکی تھی اور سڑک اس کنارے سے اُس کنارے تک خالی پڑی تھی۔ میں انیسہ کے قریب سرک آیا، اتنا قریب کہ میں اپنے جسم سے اُس کے کولھے کی نرمی اور گرمی کو محسوس کر سکتا تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرے، بکھری زلفوں کے ساتھ پھسلتی پھسلتی انگلیاں نرم شانوں پر اُتر آئیں، شانوں سے پھلسواں بازوؤں پر۔ پھر میں نے آہنگی اور نرمی سے اس اُمنڈتے سینے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس نے متانت سے نظریں اُٹھائیں، مجھے دیکھا۔ ’’میں نے تم سے کیا کہا تھا؟‘‘

میرا ہاتھ اس نرمی اور گرمی میں اسی طرح پیوست رہا۔ وہ مجھے دیکھے جا رہی تھی۔ حکم دے دیا تھا، دیکھ رہی تھی کہ اس کی بجا آوری کب ہوتی ہے۔ میں نے آہستہ آہستہ سے ہاتھ ہٹا لیا مگر ہم ایک دوسرے کو اب تکے جا رہے تھے۔ میں اس کے اور قریب سرک آیا۔ میرے ہونٹ اس کے شاداب ہونٹوں کی طرف بڑھنے لگے۔

قطعی لہجے میں کہا:

’’نہیں‘‘۔

’’کیوں؟‘‘

’’میں مشکل لڑکی ہوں۔ تم سیدھے آدمی ہو‘‘۔

’’میں اب سیدھا نہیں رہا ہوں‘‘۔

’’اچھا!‘‘ اس نے مجھے تیکھی نظروں سے دیکھا۔

’’ہاں‘‘۔

وہ ہنس پڑی جیسے بچے کی کوئی معصومانہ سی بات سن کر ہنس پڑتے ہیں۔ ’’اچھا چلو، رات بہت ہو گئی ہے۔ مجھے سونا بھی ہے‘‘۔

گھر پر گاڑی سے اُترتے ہوئے بولی:

’’آؤ تمہیں کافی پلاتے ہیں‘‘۔

’’رات گئے گھر والوں کو پریشان کرنا شرافت کی بات ہے‘‘۔

’’نہیں میرا کمرہ الگ تھلگ ہے۔ کافی کا انتظام میں اپنے کمرے ہی میں رکھتی ہوں‘‘۔

’’مگر اس وقت، یہ کھڑاک تم کہاں پھیلاؤ گی۔ میں تمہیں بور کرنا نہیں چاہتا‘‘۔

مسکرا کر بولی:

’’اچھا، بائی بائی!‘‘

’’بائی بائی!‘‘ میں نے کہا اور گاڑی سٹارٹ کی۔

دور نکل آنے کے بعد میں ٹھٹکا۔ وہ مجھے کیوں روک رہی تھی؟ میں نے بریک لگائے۔ بیچ سڑک پر گاڑی روک کر سوچ میں پڑ گیا۔ پھر میں نے تیزی سے گاڑی سٹارٹ کر کے موڑی اور فراٹے بھرتا ہوا اس کے گھر کی طرف چلا۔

گاڑی کوٹھی کے احاطے میں داخل کی۔ رُکا، اس کمرے کا جائزہ لیا جو انیسہ نے بتایا تھا کہ یہ اس کا کمرہ ہے اور باقی کمروں سے الگ تھلگ ہے اور یہ بھی بتایا تھا کہ میں رات گئے تک جاگتی رہتی ہوں اور پڑھتی رہتی ہوں۔ مگر اس وقت تو کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ روشنی کی کوئی شعاع کسی دریچے، کسی شیشے سے چھنتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ میں نے بہت بے دلی سے گاڑی موڑی اور واپس ہو لیا۔

’’ارے!‘‘ میں چلتے چلتے ٹھٹکا۔ امپیریل کی عمارت گری پڑی تھی۔ چہار دیواری بالکل ڈھے گئی تھی۔ فلور پہ منوں مٹی پڑی تھی۔

کھڑا دیکھتا رہا۔ جانا آگے تھا مگر قدم آگے کی طرف اُٹھے ہی نہیں۔ وہیں سے پلٹ لیا۔ پلٹتے پلٹتے نظر اچانک صندلی بلی پہ جا پڑی۔ وہ منوں مٹی میں دبے فلور کے آس پاس اس جھٹپٹے میں سائے کی طرح بھٹک رہی تھی۔ اب وہ کتنی میلی اور دُبلی ہو گئی تھی۔

’’چوہو! تم پھر آ گئے؟‘‘ افضال نے منڈلی جمی دیکھی اور حیران ہوا۔

’’ہم گئے کہاں تھے؟‘‘ سلامت اور اجمل اکٹھے بولے۔

’’سلامت!‘‘ افضال سلامت سے مخاطب ہوا!

’’تجھے امریکہ کا جو سکالرشپ مل رہا تھا، اس کا کیا ہوا؟ میں سمجھ رہا تھا کہ تو اب تک امریکہ پہنچ چکا ہو گا؟‘‘

’’امریکہ‘‘۔ سلامت نے حقارت بھرے لہجے میں کہا:

’’تمہیں پتہ ہے کہ میں اینٹی امریکن ہوں۔ سکالر شپ کی آفر ہوئی تھی۔ مگر میں نے Reject کر دی‘‘۔

عرفان سلامت کو دیکھ کر خاموشی سے مسکرایا۔

’’چوہے! تو کیوں ہنس رہا ہے؟‘‘

’’کچھ نہیں۔ میں بالکل نہیں بولوں گا‘‘۔ عرفان نے مسکراہٹ کو قابو میں کر سنجیدہ سی صورت بنا لی۔ سلامت نے اسے غصے سے دیکھا مگر چپ رہا۔

’’اور اجمل تو؟‘‘

’’میں؟‘‘ اجمل نے نہایت سنجیدگی سے اعلان کیا:

’’ایوب آمریت کے ساتھ Reconcile نہیں کر سکتا تھا۔ میں نکل آیا‘‘۔

’’یا نکال دیا گیا؟‘‘ افضال نے پھر معنی خیز نظروں سے عرفان کو دیکھا۔

’’میں خاموش ہوں‘‘۔ عرفان ایک خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

عرفان بھی تو پھر شیراز میں نظر آنے لگا تھا۔ دن دن بھر اور رات رات بھر اخبار میں سر کھپانے کے بعد اسے کام کو نبٹانے اور دفتر سے نکل بھاگنے کے طریقے آ گئے تھے۔

سب یار ایک ایک کر کے واپس آئے مگر گئے ہوئے دن واپس نہیں آئے۔

 

 

 

 

(5)

 

شہر اب ایک نئے نعرے کے سحر میں تھا۔ پرانے نعروں کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی تھی۔ اگرچہ انہیں ہوا دینے والے اشتہار اسی صورت لگے ہوئے تھے، اسی صورت میں سب گالیاں سب الزام تراشیاں دیوار دیوار رقم تھیں۔ کسی دھوپ، کسی بارش نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ پھر بھی سب کا رنگ، سب کے لفظ ماند پڑ چکے تھے۔ اس نے دیواروں کو دیکھا اور تعجب کیا کہ نعرے کتنی جلدی باسی ہو جاتے ہیں۔ نیا نعرہ آندھی دھاندی آیا اور دیواروں، کاروں، بلیک بورڈوں پر چھاتا چلا گیا۔ کرش انڈیا، کرش انڈیا۔ گھر گھر ایک ہی چرچا، محفل محفل ایک ہی گفتگو، جنگ، جنگ، جنگ۔ ایک ہی سوال کہ گھر باہر ہر جگہ اس کا تعاقب کر رہا تھا:

جنگ ہو گی یا نہیں ہو گی۔

’’مولانا صاحب! تمہارے کرامت کا خط آیا ہے۔ آج کل وہ ڈھاکہ میں لگا ہوا ہے‘‘۔

’’کیا لکھتا ہے، خیریت سے تو ہے نا؟‘‘

’’ویسے تو خیریت ہی سے ہے، مگر خط سے لگتا ہے کہ کچھ پریشان ہے‘‘۔

’’پریشان اس زمانے میں کون نہیں ہے‘‘۔

’’ہاں یہ تو ہے، حالات تو روز بروز خراب ہی ہوتے چلے جا رہے ہیں‘‘۔ خواجہ صاحب یہ کہتے کہتے اس کی طرف مخاطب ہوئے۔

’’کیوں ذاکر پتر؟‘‘

’’جی ہاں حالات کچھ اچھے نہیں ہیں‘‘۔

’’خبریں کیا ہیں؟‘‘

’’خبریں؟ کوئی خاص خبر تو ہے نہیں‘‘۔

’’مولانا صاحب!‘‘ خواجہ صاحب ابا جان سے مخاطب ہوئے۔

’’ہمارے بیٹوں کو کیا ہو گیا ہے۔ اتنے گھومتے پھرتے ہیں، خبر پوچھو تو کہتے ہیں کہ کوئی خبر نہیں۔ سلامت سے پوچھتا ہوں تو ایک ہی خبر سناتا ہے کہ انقلاب آ رہا ہے۔ میں نے کہا کہ پترا! انقلاب نہیں آ رہا ہے، جنگ آ رہی ہے۔ بولا، بس اسی کے ساتھ انقلاب آئے گا۔ میں نے کہا کہ بدبختا، دیکھتا نہیں مشرقی پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ کیا جواب دیتا ہے کہ مشرقی پاکستان آزاد ہو رہا ہے۔ میں نے کہا کہ نکل جا حرام دے پتر میرے گھر سے‘‘۔

’’اللہ ہم پہ رحم کرے‘‘۔ ابا جان نے مختصراً کہا اور حقے کی نے منہ میں دبا لی۔

’’ہاں اللہ رحم کرے، حالات خراب ہیں۔ آج صبح ہی کی بات ہے، میں نماز پڑھنے کے لیے لوٹا تو دیکھا کہ فوجی گاڑیاں واہگہ کی طرف جا رہی ہیں۔ بہت گاڑی تھی۔‘‘ رکے، پھر اس سے مخاطب ہوئے۔

’’پتر! کیا خیال ہے جنگ ہو گی یا نہیں ہو گی‘‘۔

’’آپ کا کیا خیال ہے‘‘۔ اس نے ان کا سوال انہیں ہی لوٹا دیا۔

خواجہ صاحب نے اپنی طرف آئے سوال کو ابا جان کی طرف دھکیل دیا ’’مولانا صاحب! بیٹے کے سوال کا جواب دو‘‘۔

ابا جان خاموش حقہ پیتے رہے۔ مگر خواجہ صاحب ان کی طرف تکے جا رہے تھے۔ آخر انہوں نے نے سے منہ ہٹایا، حقہ خواجہ صاحب کی طرف سرکایا اور اس سے مخاطب ہوئے۔

’’بیٹے، سیاسی معاملات تو تم سمجھو۔ ہم ایک بات جانتے ہیں اور تم سے کہتے ہیں کہ جب حاکم ظالم ہو جائیں اور اولادیں سرکش ہو جائیں تو پھر خلقِ خدا پہ کوئی بھی آفت ٹوٹ سکتی ہے‘‘۔

’’جب حاکم ظالم ہو جائیں‘‘ وہ ٹھٹکا۔ جب حاکم ظالم ہو جائیں گے اور رعایا خاک چاٹے گی۔ ابا جان کا کہا ہوا بھولا بسرا فقرہ اس کے ذہن میں گونج گیا۔

’’بالکل ٹھیک ہے‘‘۔ خواجہ صاحب کا سر جھک گیا تھا۔

دونوں بزرگوں کو خاموش دیکھ کر اس نے موقع غنیمت جانا اور وہاں سے سرک لیا۔

نظیرا کی دکان پر بھی یہی ذکر تھا۔ سگریٹ کی ڈبیا اسے پکڑاتے پکڑاتے سوال کر ڈالا

’’ذاکر صاحب جی! آپ کا کیا خیال ہے جنگ ہو گی؟‘‘

’’تمہارا اپنا کیا خیال ہے؟‘‘

’’پتہ نہیں جی پر لوگ کہہ رہے ہیں‘‘۔

کریم بخش نے جو کہ دکان کے متصل رکھے ہوئے مونڈھے پہ ڈٹا بیٹھا تھا اعتماد سے اعلان کیا ’’جنگ تو جی اب ہووے ای ہووے‘‘۔

’’کریم بخش! تو نے یہ کیسے جانا‘‘۔

’’میں فجر کی نماز پڑھتا ہوں، تو پڑھتا ہے؟‘‘

’’نہیں‘‘۔

’’پڑھ، پھر پتہ چل جاوے گا۔ شام کو آسمان کا کچھ پتہ نہیں چلتا، اتنا شور ہوتا ہے۔ اس وقت تو وہ گونگا ہوتا ہے۔ فجر کو اُٹھ کے دیکھو، اس وقت آسمان بولتا ہے۔ آج کل تو دم دار ستارہ نکلا ہوا ہے‘‘۔

’’یار سنا ہے پر مجھے یقین نہیں آیا‘‘۔

’’فجر کو اُٹھ اور آسمان کو دیکھ، یقین آ جاوے گا۔ دم بالکل جھاڑو کی طرح ہے‘‘۔

’’یار کہیں جھاڑو ہی نہ پھر جاوے‘‘۔

شیراز میں اس نے ابھی قدم رکھا ہی تھا اور عرفان سے، جو وہاں پہلے ہی سے بیٹھا ہوا تھا۔ علیک سلیک کی ہی تھی کہ سلامت اپنی پلٹن سمیت داخل ہوا۔ سلامت کے ساتھ اب صرف اجمل نہیں تھا۔ ایک پوری ٹولی تھی اور اب اپنی قائدانہ حیثیت کا لحاظ رکھتے ہوئے وہ زیادہ ٹھسے سے بات کرتا تھا۔

’’رجعت پسندو!‘‘ سلامت نے پہلے اسے، پھر عرفان کو گھور کے دیکھا ’’کیا خیال ہے تمہارا! جنگ ہو گی یا نہیں ہو گی؟‘‘

’’کاش! جنگ میرے خیال کے تابع ہوتی‘‘۔ عرفان کا لہجہ طنزیہ تھا۔

سلامت کا چہرہ فوراً ہی تن گیا ’’عرفان! تمہارے شائستہ مزاح اور لطیف طنز کا زمانہ گزر چکا ہے۔ یہ بورژوائی ہتھیار ہیں جو کندر ہو چکے ہیں۔ آج تمہیں سیدھا جواب دینا ہو گا کہ تم جنگ چاہتے ہو یا نہیں چاہتے‘‘۔ آج اس کو مٹ منٹ سے تم نہیں بچ سکتے‘‘۔

’’کومٹ منٹ!‘‘ عرفان نے زہر خند کیا ’’سلامت تم نے غلط دروازے پر دستک دی ہے میرا کومٹ منٹ نہ جنگ کو روک سکتا ہے، نہ جنگ شروع کرا سکتا ہے‘‘۔

’’وقت کے سوال سے بچ نکلنے کی وہی فرسودہ زنگ آلود بورژوائی تکنیک‘‘ سلامت نے عرفان کو حقارت سے دیکھا اور اس کی طرف متوجہ ہو گیا ’’اور تم ذاکر؟ تم کیا کہتے ہو‘‘۔

’’میں! میں کیا کہوں گا؟‘‘

’’تم جنگ کے حق میں ہو یا جنگ کے خلاف ہو‘‘۔

وہ سوچ میں پڑ گیا ’’پتہ نہیں یار‘‘ رک کر بولا۔ ’’کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ آج میں کس چیز کے حق میں ہوں، اور کس چیز کے خلاف ہوں۔ اجمل نے گھور کے اسے دیکھا ’’یہ شخص ہمیں کنفیوز کرنا چاہتا ہے‘‘۔

پلٹن میں سے دوسرا بولا ’’جب صورت حال کھل کر سامنے آتی ہے اور کومٹ منٹ مانگتی ہے تو رجعت پسند بوکھلا جاتے ہیں‘‘۔

سلامت نے آستینیں چڑھائیں۔ غصیلی نظریں چاروں طرف ڈالیں وہ ایک بھرپور تقریر کے لیے پر تول رہا تھا ’’کنفیوز کرو، یہ سامراج کا پرانا ہتھکنڈہ ہے۔ آج سب سامراجی ایجنٹ یہی کر رہے ہیں‘‘۔ پھر دانت کچکچائے اور میز پر مکا مارا ’’سامراجی دلّو! تمہارے ہتھکنڈے اب نہیں چلیں گے۔ تم ہندوستان سے کنفیڈریشن کر کے اپنے آپ کو بچا لے جانا چاہتے ہو، غریبوں کی آواز کو دبانا چاہتے ہو۔ یہ ہتھکنڈے نہیں چلیں گے۔ ہندوستان کے ساتھ کنفیڈریشن نہیں ہو گا۔ جنگ ہو گی‘‘۔ یہ سلامت نے اتنے اونچے لہجے میں کہا کہ شیراز میں بیٹھے ہوئے سب لوگ سن لیں۔ انہوں نے سنا اور اسے اور عرفان کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے وہ پاکستان کے خلاف کوئی بڑی سازش کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ سلامت نے اردگرد اطمینان بھری نظر ڈالی اور پھر شروع ہو گیا ’’جنگ ہو گی اور تم جس فرسودہ نظام کے سہارے کھڑے ہو اس کے پرخچے اُڑ جائیں گے۔ یہ جو تم اپنی سڑی بسی اخلاقی قدریں لیے پھر رہے ہو اور معاشرے میں تعفن پھیلا رہے ہو، ان میں سے کوئی قدر باقی نہیں بچے گی۔ میرا یا وہ گو باپ مجھ سے پوچھنے لگا کہ پھر باقی کیا بچے گا۔ میں نے کہا کہ بڈھے! میں باقی بچوں گا، انقلاب‘‘

افضال جانے کس وقت آ کر خاموشی سے بیٹھ گیا اور سلامت کو گھورے جا رہا تھا۔ جب تقریر ختم ہوئی تو اس نے زبان کھولی ’’چوہے، تیرے خیالات سے اتنا زہر تعفن اُٹھتا ہے۔ کہ اب شیراز آنے کے لیے مجھے گیس ماسک پہننا پڑے گا‘‘۔

سلامت نے خشمگیں نظروں سے افضال کو دیکھا۔ ایک دفعہ پھر میز پر مکا مارا اور وہ چیخا ’’رجعت پسندو! سامراج کے پٹھوؤ! سرمایہ داروں کے بوٹ چاٹنے والو تمہارے حساب کا وقت آ گیا ہے‘‘۔

’’کاکے ہولے بول۔ آدمی تو پدی سا ہے اور حلق سے آواز اتنی اونچی نکالتا ہے‘‘۔

سلامت کو افضال کے اندر تخاطب نے بوکھلا دیا کہ یہ اندازِ تخاطب اس کی قائدانہ حیثیت پر ایک کاری ضرب تھا۔ شعلے برساتی نظروں سے اسے گھورتے ہوئے ایک دم سے اُٹھ کھڑا ہوا ’’دلّو! عوام کے خلاف تمہاری سازش نہیں چلے گی‘‘۔

’’نہیں چلے گی، نہیں چلے گی‘‘ پوری پلٹن نے نعرے لگانے شروع کر دئیے اور نعرے لگاتے لگاتے شیراز سے نکل گئے۔

پلٹن کے نکلتے ہی خاموشی چھا گئی، تینوں کچھ دیر چپ بیٹھے رہے۔ پھر افضال بڑبڑایا ’’یار یہ انقلابی تو ہمیں برباد کر دیں گے اور یہ چوہا کتنا بولتا ہے‘‘۔

’’یہ انہی لوگوں کے بولنے کا زمانہ ہے‘‘۔ عرفان بولا۔

جب جوتے کے تسمے بولیں گے اور کلام کرنے والے چپ ہو جائیں گے۔ وہ چونک پڑا۔ کب کی بات اسے یاد آئی تھی۔ ان دنوں اس کے ساتھ یہی ہو رہا تھا۔ ایسے ہی کوئی بھولا بسرا مکالمہ، کوئی ابا جان کا کہا ہوا فقرہ، کوئی بی اماں کی کہی ہوئی بات اچانک سے یاد آ جاتی اور ترت ہی بسر جاتی، جیسے سانپ گھاس میں سے سر نکالے اور فوراً ہی گھاس میں گم جائے۔

’’کاکے! ایسے زمانوں میں ایسا ہی ہوتا ہے‘‘۔ افضال بولا۔ ’’حلق طاقتور ہو جاتے ہیں اور ذہن کمزور پڑ جاتے ہیں۔ جب میں اس مکروہ آدمی کی آواز سنتا ہوں تو لگتا ہے کہ سکوٹر میں ٹرک کا ہارن لگ گیا ہے۔ جب اس کے سر پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے وہ شاہ دولہ کا چوہا نظر آتا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ اس کے سر کو چھو کے دیکھوں، مگر میری طبیعت گجگجا جاتی ہے۔ جیسے کوئی گلگلی چیز چھولی ہو۔ میں ہاتھ کھینچ لیتا ہوں‘‘۔ رکا، بڑبڑایا ’’چوہے‘‘! چپ ہو گیا پھر سوچتے ہوئے ڈری سی آواز میں بولا ’’یار! کبھی کبھی چلتے ہوئے مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اکیلا آدمی ہوں کہ چل رہا ہوں۔ باقی پنجوں پر دوڑ رہے ہیں اور آواز سی آتی ہے جیسے کوئی کچھ کتر رہا ہو‘‘۔ چپ بیٹھا رہا۔ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا۔ پھر بولا ’’یارو اس کا کچھ کرو‘‘۔

’’افضال! آج تم نے زیادہ پی لی ہے‘‘۔

’’کاکے! جو کہتا ہوں اسے غور سے سن‘‘۔ افضال نے عرفان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ پھر قریب سرک آیا اور دھیمی رازدارانہ آواز میں بولا ’’پاکستان ایک امانت ہے۔ تم دونوں میرے بازو بن جاؤ۔ میں اس امانت کو سنبھالتا ہوں۔ نہیں تو یہ چوہے۔ پاکستان کو کتر کتر کے اس کا برادہ بنا دیں گے‘‘۔

سفید سر والا آدمی اپنی میز سے اُٹھا، قریب آیا، بولا ’’افضال صاحب! آپ سچ کہتے ہیں پاکستان ایک امانت ہے‘‘۔

افضال نے سفید سر والے کو گھور کے دیکھا۔ ’’سفید سر والے آدمی! تو اس وقت واپس چلا جا۔ میں اس وقت ان دو طیب آدمیوں کو ہدایات پہنچا رہا ہوں‘‘۔

’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے‘‘ سفید سر والا آدمی واپس اپنی میز پر گیا اور اخبار پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔

افضال اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’کیوں؟ جا رہے ہو؟‘‘

’’ہار یار! نشہ غارت ہو گیا۔ اب مجھے ایک جرعہ اور پینا پڑے گا‘‘۔ رکا، پھر بڑبڑایا۔ ’چوہے! لگ رہا تھا کہ سب ابھی شراب کے مٹکے میں ڈبکی کھا کر نکلے ہیں اور اپنی دموں پر کھڑے ہیں‘‘۔ چپ ہوا، کچھ سوچا، باہر نکل گیا۔

سفید سر والے آدمی نے اخبار سے سر اُٹھایا، دیکھا کہ افضال چلا گیا، اُٹھ کر آیا، ویسے کیا خیال ہے آپ کا، جنگ ہو گی؟‘‘

’’آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ عرفان نے جلے بھنے لہجے میں پوچھا۔

’’میرا خیال‘‘ سوچ میں پڑ گیا ’’صاحب حالات بہت خراب ہیں‘‘۔

’’اچھے کب تھے؟‘‘

’’یہ بھی آپ سچ کہتے ہیں۔ حالات یہاں اچھے کب ہوئے تھے‘‘۔

چپ ہوا، پھر بڑبڑایا ’’ہم بدقسمت لوگ ہیں‘‘۔ واس اپنی جگہ جا بیٹھا۔ پھر عبدل کو آواز دی۔ بل ادا کیا اور چلا گیا۔

’’کہتا ہے میرے سر کے بال ہجرت میں سفید ہوئے ہیں‘‘۔ عرفان ہنسا۔

اس نے سنجیدگی سے عرفان کو دیکھا ’’ایک بات تو ہے۔ ہم نے جب سے اسے دیکھا ہے تب سے یہ شخص ایسا ہی ہے‘‘۔

’’اور کتنی پابندی سے یہاں آتا ہے‘‘۔ عرفان پھر تھوڑا ہنسا، وہ اس شخص کے بارے میں سنجیدہ ہونے کے لیے تیار نہیں تھا۔

’’شروع زمانے سے آ رہا ہے، اسی وضعداری کے ساتھ اور اسی زمانے میں اس کے سر کے سارے بال سفید تھے۔ ہم کہا کرتے تھے کہ اس کے سر پر برف گری ہے‘‘۔ رکا، چپ ہو گیا۔ جیسے خیالوں میں کھو گیا ہو۔ پھر کہنے لگا ’’یار اس زمانے کے بعض لوگ تو بالکل ہی غائب ہو گئے‘‘۔ یہ کہتے کہتے خود بھی غائب ہو گیا۔ کتنے بھولے بسرے چہرے ایک دم سے تصور میں اُمنڈ آتے تھے۔ کوئی کوئی دھندلا کہ آنکھوں کے سامنے آیا اور سرک گیا۔ کوئی صاف اور روشن کہ آنکھوں کے سامنے آ کر ایسا ٹک گیا جیسے اب نہیں سرکے گا۔ ملا بنوٹیا، مختصر سا آدمی کہ مٹھی میں آ جائے، چھوٹی ڈاڑھی، ٹھنگنا قد۔ ’’بس جی مجھے تو گوالیاری پیسے نے بچا لیا‘‘۔

’’ملا، وہ کیسے؟‘‘

’’چلتے ہوئے مال اسباب سب وہیں پہ چھوڑ آیا۔ بس ایک گوالیاری پیسہ انٹی میں اڑس لیا۔ سکھوں نے حملہ کیا و میں نے کہا کہ ابے ملاں! آج ترے ہنر کا امتحان ہے اور بنوٹ کی عزت تیرے ہاتھ ہے۔ گوالیاری پیسہ انٹی میں سے کھول رومال میں باندھ ایک دفعہ جو گھمایا تو سبھوں کی کلائیں اُتار دیں۔ بس جی چھکے چھڑا دئیے‘‘۔

اور کرنالیا، سوکھا چمرخ، گلے میں پانوں کا خوانچہ سخت باتونی ’’اماں، میں بھی وہیں سے آیا ہوں۔ جہاں سے تمہارے لیاقت علی خاں آئے ہیں۔ بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔ کرنالیوں میں یہی تو صفت ہے۔ پورا پک جاوے تو وزیر اعظم، ایک آنچ کی کسر رہ جاوے تو جوتے بناوے گا یا پان بیچے گا‘‘۔

اور نورو نانبائی، نخالص انبالوی ہونے کا مدعی ’’سید صاحب! ان میں سے کوئی انبالے والا نہیں ہے۔ سب سالے ساڈھورے کے ہیں، ذات کے شیخ۔ انبالے کا پنچھالہ دموں کے ساتھ لگا لیا ہے۔ انبالے کا تو اکیلا میں ہوں۔ جب ہی تو وہ مجھ سے آنکھ نہیں ملاتے۔ بس جی پاکستان میں تو ایسا ہی ہے۔ وہ سالا لمبو بغچونچ کرسی کا رہنے والا اپنے کو نکھلؤ کا نواب بتاتا ہے‘‘۔

شہروں سے نکلے ہوئے شہروں کی امانتیں سروں پر اٹھائے ہوئے یہی ہوتا ہے۔ شہر چھٹ کر بھی چھٹتے۔ پھر تو جڑ پکڑ لیتے ہیں، زمین اس وقت گھیرا ڈالتی ہے۔ جب قدموں تلے سے سرک جاتی ہے اور بے شک مٹی کی پکڑ سخت ہوتی ہے، مگر مولوی دیا سلائی؟ وہ کہاں کا رہنے والا تھا؟ نہ کسی سے بولنا نہ بات کرنا، اپنے آپ میں گم اور ان ماچس کی ڈبیوں میں جو خالی ادھ کلی سامنے بچھی بساط پر پڑی رہتیں۔ مولوی دیا سلائی، یہ ڈبیاں کیسے ہیں۔ بابو جی یہ بستیاں ہیں مولوی دیا سلائی! ان میں تیلیاں تو ہے ہی نہیں، سب خالی ہیں۔ بابو بستیاں خالی ہو گئیں۔

بڑبڑایا ’’کہاں کہاں سے لوگ آئے تھے۔ جیسے پتنگیں کٹ کر آتی ہیں اور کسی چھت پر گر پڑتی ہیں۔‘‘ چپ ہوا اور عرفان کو تکنے لگا ’’یار عرفان!‘‘

’’ہوں‘‘۔

’’بہت دن ہو گئے ہمیں آئے ہوئے‘‘۔

عرفان نے اسے گھور کے دیکھا ’’پھر،‘‘

’’پھر کچھ بھی نہیں‘‘۔ رکا بولا ’’تم نے اس سفید سر والے آدمی کی بات کو ہنسی میں اُڑا دیا۔ میں اندر سے ہل گیا۔ مجھے سارا پچھلا زمانہ یاد آ گیا۔ یار!‘‘ رک کر بولا ’’اب تو تیرے میرے بال بھی سفید ہو چکے ہیں‘‘۔ اور اس کی نظریں عرفان کی سفید کنپٹی پر جم گئیں۔

’’مگر ہمارے بال ہجرت میں نہیں، پاکستان کی دھوپ میں سفید ہوئے ہیں‘‘۔

’’پاکستان کی دھوپ!‘‘ وہ پھر جیسے خیالوں میں ڈوب گیا ہو ’’یارٍ! ہم اس شہر کی دھوپ میں کتنا چلے ہیں۔ گرمی کی دوپہروں میں تپتی مال ہوا کرتی تھی اور ہمارے قدم ہوتے تھے ہماری آخری منزل پل کے پار والا پیپل کا پیڑ ہوا کرتا تھا، کتنا گھنا تھا وہ پیڑ اور کتنی ٹھنڈی ہوا کرتی تھی اس کی چھاؤں۔ اب تو وہ پیڑ ہے ہی نہیں۔ سالوں نے کاٹ ڈالا‘‘۔

عرفان نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ مگر اس پر اثر ہونا شروع ہو گیا تھا۔ جیسے وہ بھی پچھلے دنوں میں سفر کرنے پر مائل ہو۔ ’’یار عرفان! میں سوچتا ہوں کہ وہ دن ہم پر سخت ضرور تھے مگر اچھے تھے‘‘۔

’’ہاں وہ دن اچھے ہی تھے‘‘۔

’’وہ دن بھی اور وہ لوگ بھی‘‘۔

’’اور اب؟‘‘ عرفان نے اسے گھور کے دیکھا۔

’’ہاں اور اب‘‘۔ آواز اتنی مری ہوئی کہ جیسے ڈھے گیا ہو۔

دیر تک چپ بیٹھے رہے، اپنے اپنے خیالوں میں گم۔ پھر اس نے عرفان کی طرف دیکھا دیکھتا رہا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو مگر جھجک رہا ہو۔

’’یار عرفان!‘‘

عرفان نے اس کی طرف دیکھا، مگر وہ چپ تھا۔

’’کیا بات ہے‘‘

’’یار‘‘! رکا، پھر کچھ جھجکتے ہوئے ’’یار پاکستان ٹھیک بنا تھا؟‘‘

عرفان نے اسے تیز نظروں سے دیکھا تم پر بھی سلامت کا اثر ہو گیا ہے؟‘‘

’’سلامت کا نہیں، یہ تمہارا اثر ہے۔‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’شک کی جب ابتدا ہو جائے تو پھر اس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔‘‘

عرفان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کسی قدر برہمی سے اسے دیکھا اور چپ سادھ لی، وہ بھی چپ بیٹھا رہا۔

’’میں ایک بات جانتا ہوں،‘‘ آخر عرفان بولا ’’غلط لوگوں کے ہاتھوں میں آ کر صحیح بات بھی غلط ہو جاتی ہے۔‘‘ اور فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا۔

’’جا رہے ہو؟‘‘

’’ڈیوٹی پر نہیں جانا ہے؟‘‘ اور فوراً ہی نکل گیا۔

شیراز میں اس وقت بہت سکون تھا۔ اکثر میزیں خالی تھیں جو میزیں بھری تھیں ان پر بھی زیادہ شور نہیں تھا۔ اس لیے سوچا کہ ابھی تھوڑی دیر یہاں اطمینان سے بیٹھا جا سکتا ہے۔ مستقبل میں کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا تھا، سلامت کی بلا آ کر گزر چکی تھی۔

منیجر نے کاؤنٹر پر بیٹھے بیٹھے دیکھا کہ وہ اکیلا ہے وہ اٹھ کر اس کے پاس آ گیا۔

’’ذکر صاحب! کیا خیال ہے جنگ ہو گی؟‘‘ اس سے ایسے پوچھا جیسے یہ راز کی بات صرف اسے معلوم ہے۔

وہ گڑبڑا گیا کہ کیا جواب دے ’’پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے؟‘‘

’’ٹھیک کہا! کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟‘‘

’’ٹھیک کہا! کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ میں جس سے پوچھتا ہوں وہ یہی جواب دیتا ہے کہ پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے مگر فوجوں کی موومنٹ اس وقت بہت ہے۔‘‘

اس نے بے دلی سے ہوں ہاں کی اور اکتا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ باہر نکل کر قدرے اطمینان کا سانس لیا۔

پھر وہی دیواریں، دیواروں پر لگے ہوئے بڑے بڑے اشتہار، اس کی نظریں غیر ارادی طور پر پھر ان اشتہاروں کے بیچ بھٹک رہی تھیں۔ اب شام کے سائے پھیلتے جا رہے تھے اور اشتہاروں کے لفظ اتنے روشن نہیں رہے تھے مگر اس کی نظریں دیواروں کے اشتہاروں سے گزر کر کچھ پڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ یہ تو اشتہار ہیں، نوشتۂ دیوار کیا ہے؟ یو ں بھی تو اکثر ہوا ہے کہ دیواروں پر کچھ لکھا گیا، نوشتۂ دیوار کچھ نکلا مگر دیواریں اشتہاروں سے پٹی پڑی ہیں۔ نوشتۂ دیوار سے بے خبر، اشتہاروں اور نعروں کے سحر میں چلتے ہوئے لوگ جیسے غفلت میں ہیں اور چل رہے ہیں، چل رہے ہیں؟ کون؟ برابر سے گزرتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ کئی شخص آگے پیچھے اس کے برابر سے گزرے، صورتیں صاف تو نظر نہیں آئیں کہ شام کا دھندلکا تھا اور روشنی کا کھمبا اس سے کسی قدر دور تھا۔ یہ روشنی نہ ہونے کی وجہ سے ہے کہ دھندلکے میں صورتیں بالعموم عجب سی نظر آتی ہیں یا واقعی ان کی صورتیں ایسی ہی ہیں۔ ایک شخص پھر برابر سے گزرا۔ مگر اس مرتبہ یا تو اس کی نظروں نے کوتاہی کی یا وہ گزرے گا اسے وہ غور سے اس کا چہرہ دیکھے گا۔ مگر کوئی برابر سے نہیں گزرا۔ آج لوگ اتنے کم! وہ حیران ہوا۔ شام تو مال پر بہت پر ہجوم ہوتی ہے۔ آج کیا ہوا؟ اور جب وہ یہ سوچ رہا تھا تو اچانک دو چمکتی ہوئی آنکھوں اس کی آنکھیں لڑ گئیں۔۔۔ بلی۔۔۔ فٹ پاتھ سے متصل درختوں کے بیچ بیٹھی ہوئی بلی اسے جیسے گھور رہی تھی۔ وہ برابر سے گزرا مگر وہ نہیں ملی جیسے جمی بیٹھی ہو۔ ساکت و جامد بلی۔ اس کی چنگاری جیسی آنکھیں جو اسے گھور رہی تھیں۔ برابر سے ایک شخص گزرا چلا گیا۔ وہ اس شخص کی صورت نہیں دیکھ سکا۔ اسے چلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ یہ شخص آخر چل کیسے رہا تھا۔ اس طرح برابر سے گزرا کہ اس کے قدموں کی آہٹ ہی سنائی نہیں دی۔ لوگ آج کیسے چل رہے ہیں؟ وہ سامنے سے آتے ہوئے ایک شخص کے اٹھتے پڑتے قدم دیکھ کر حیران ہوا۔ اب اس کی نظریں لوگوں کے چہروں پر نہیں، قدموں پر تھیں۔ آس پاس چلتے ہوئے مختلف لوگوں کی ٹانگوں کو، ان کے اٹھتے ہوئے قدموں کو غور سے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ہم غور نہیں کرتے ورنہ آدمی اپنی دو ٹانگوں پر چلتا ہوا کتنا عجیب لگتا ہے یا شاید آج لگ رہا ہے۔ آدمی اپنی چال سے پہچانا جاتا ہے۔ ہر آدمی، ہر مخلوق۔ مگر یہ تو ایسے چل رہے ہیں جیسے اپنی پہچان کھو چکے ہوں اور میں؟ کہیں بھی تو ایسے ہی نہیں چل رہا ہوں۔ نہیں، نہیں، اس سے قطعی انداز میں دل ہی دل میں کہا اور پھر فوراً اپنی چال کا جائزہ لینے لگا۔ میں ایسے تو نہیں چلا کرتا تھا۔ وہ بڑبڑایا، پھر اس نے اپنی چال درست کرنے کی کوشش کی۔ قدموں کو احتیاط سے اٹھایا، احتیاط سے رکھا مگر جیسے اس کی چال بگڑتی چلی جا رہی ہو۔ آج میری چال کو کیا ہو گیا ہے؟ تامل کیا، پھر سوچا کہ آج سے پہلے کبھی میں نے اپنی چال پر غور بھی تو نہیں کیا تھا۔ ہم چلتے رہتے ہیں اور کبھی غور نہیں کرتے کہ کیسے چل رہے ہیں۔ یہ میں چل رہا ہوں۔ وہ ایک دم سے ٹھٹک گیا۔ اپنی غیر انسانی سی چال کو دیکھ کر اسے عجیب سا خیال آیا کہ وہ نہیں، اس کی جگہ کوئی اور چل رہا ہے مگر کون؟ وہ مخمصے میں پڑ گیا۔ رفتہ رفتہ اس نے اپنے شک پر قابو پایا۔ ناپ تول کر قدم اٹھائے قدموں کی چاپ کو سنا۔ نہیں، میں ہی ہوں۔ میں یہاں اپنے شہر کے اس پختہ فٹ پاتھ پر اور یہ میرے قدموں ک چاپ ہے مگر جب وہ اس طرح اپنے آپ کو اطمینان دلا رہا تھا تو اسے وہم سا ہوا کہ اس کے قدموں کی چاپ اس کے قدموں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ عجب بات ہے میں یہاں چل رہا ہوں اور میرے قدموں کی چاپ وہاں سے آ رہی ہے۔۔۔ کہاں سے۔۔۔؟یا شاید میں یہاں ہوں اور چل کہیں اور رہا ہوں۔۔۔؟ کہاں۔۔۔؟ میں کہاں چل رہا ہوں؟ کس زمین پر قدم پڑ رہے ہیں؟ اس نے حیران ہو کر اردگرد نظر ڈالی۔ سب سنسان، ویران۔ جیسے بستی خالی ہو گئی ہو، جیسے دیا سلائی کی ڈبیا خالی ہو جاتی ہے، مکان وسرا و جا سب خالی۔ کوئی آہٹ، کوئی کچھ کتر رہے ہوں۔ دہشت زدہ، حیرت گرفتہ ایک کوچے سے دوسرے کوچے میں، دوسرے کوچے سے تیسرے کوچے میں۔ ایک کوچے میں چلتے چلتے اس نے آگے رستہ بند پایا۔ اب کیا کیا جائے؟ حویلی کا پھاٹک بند تھا۔ اس نے بند پھاٹک پر دستک دی۔

’’کوئی ہے؟‘‘ پکار پوری بستی میں گونج گئی۔ کوئی ہے، جیسے وہ ازل سے اس بند پھاٹک پر کھڑا ہو اور پکار رہا ہو۔

’’کوئی ہے؟‘‘ اپنے دو پیروں پہ کھڑی ایک بلی نے دروازہ کھولا، اسے گھور کے دیکھا اور دروازہ بند کر لیا۔ بتی سبز سے سرخ ہو گئی۔ وہ زیبرا کراسنگ کو عبور کرنے لگا تھا کہ رک گیا۔ رکی ہوئی موٹریں، رکشائیں اور سکوٹر ایسے اچانک سامنے سے گزرے جیسے دریا کا بند ٹوٹ گیا ہو۔

 

 

 

(6)

 

یار ذاکر!

پہلے تم میرا رسمی سلام لو اور جان لو کہ میں خیریت سے ہوں اور تمہاری خیر و عافیت نیک مطلوب ہے۔

تم حیران ہو کے سوچ رہے ہو گے کہ کمبخت کو خط لکھنے کی کس وقت سوجھی ہے اور خیریت بھیجنے اور معلوم کرنے کا کس عالم میں خیال آیا ہے۔ میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ کتنے برس کہ کتنے برس سے نہ میں نے خط لکھا نہ تم نے یاد کیا اور اب اس غیر وقت میں یکایک تم یاد آ گئے اور میں خط لکھ رہا ہوں مجھے ڈاک کے درہم و برہم سلسلے کو دیکھتے ہوئے یہ بھی اعتبار نہیں کہ یہ خط تمہیں ملے گا۔ پر پھر بھی لکھ رہا ہوں۔ آخر کیوں؟ ابھی بتاتا ہوں۔ پہلے یہ سن لو کہ میں نے محکمہ ایک مرتبہ پھر تبدیل کر لیا ہے۔ اب ریڈیو میں آ گیا ہوں۔ ایک فائدہ تو یہاں آنے سے ہوا کہ فائلوں کے بور کاروبار سے اچھی خاصی نجات مل گئی ہے۔ یہاں معاملہ لوگوں سے ہے، فائلوں سے نہیں۔ فائلوں کے مقابلے میں یہ مشکل کام ہے مگر بور کام نہیں۔

یار! یہاں آ کر ایک عجب لڑکی کو دیکھا۔ میرے تو سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی اس سے مڈبھیڑ ہو گی۔ گیہواں رنگ، پتلے پتلے نقش، چھریرا بدن، درمیانہ قد، طور طریقے سیدھے سچے، ہمیشہ سفید سوتی ساڑھی میں نظر آتی ہے۔ سیدھی مانگ نکال کر چوٹیا باندھتی ہے، پھر بھی ایک لٹ کبھی کبھی اس کے منہ پر پڑی دکھائی دیتی ہے۔ لیے دیئے رہتی ہے۔ چپ چپ، اداس اداس۔

یار اس کی سادگی اور اداسی نے مل کر مجھے لوٹ لیا۔ میرے اس فقرے پر ٹھٹکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے پوری بات سن لو۔

مجھے وقتاً فوقتاً نیوز روم میں بھی جانا پڑتا ہے۔ میر اس کی مڈبھیڑ وہیں ہوئی۔ اس سے پہلے میں نے آتے جاتے اسے دیکھا تھا۔ میرے علم میں یہ بات تھی کہ وہ یہاں اناؤنسر ہے۔ اس کا نام بھی کان میں پڑا ہوا تھا مگر پھر بھی اس کے بارے میں میں ایسا متسجس نہیں ہوا۔ سادگی شروع میں آدمی سے کچھ نہیں کہتی اور اداسی دھیرے دھیرے سحر بنتی ہے۔ وہ چپ چاپ آتی۔ ڈھاکہ کے متعلق خبریں معلوم کرتی اور چلی جاتی۔ خبریں تشویشناک ہوتیں مگر کیا مجال کہ اس کے چہرے سے کسی پریشانی کا اظہار ہو جائے۔ یہ میں نے اپنے قیافے سے جانا کہ یہ لڑکی ان خبروں پر اندر سے بہت پریشان ہے۔ میں نے اس سے ایک روز پوچھ لیا کہ ’’بی بی! ڈھاکہ میں آپ کے کوئی عزیز ہیں؟۔‘‘

’’جی ہاں، وہاں میری والدہ اور ہمشیرہ ہیں۔‘‘

’’خط وط آرہے ہیں؟‘‘

آخری خط دو ہفتے پہلے آیا تھا۔ اس کے بعد سے میں دو خط بھیج چکی ہوں۔ تار بھی دیا۔ کوئی جواب نہیں آیا۔‘‘

’’مگر ریڈیو پر آنے والی خبروں سے آپ کو کیا پتہ چلے گا؟‘‘

’’کم از کم شہر کی حالت کا اندازہ تو ہوسکے گا۔‘‘

’’تو پھر میرے کمرے میں آئیں۔ میری میز پر ڈھاکہ کے سارے اخبار ہوتے ہیں۔‘‘

اس کے بعد سے اس نے میرے کمرے میں آنا شروع کر دیا۔ پابندی سے روز آتی، ڈھاکہ کے سارے اخباروں کا مطالعہ کرتی اور چلی جاتی۔

’’آپ کے باقی عزیز کہاں ہیں؟‘‘ ایک روز میں نے پوچھا۔

’’کوئی کراچی میں ہے، کوئی لاہور میں، کوئی اسلام آباد۔‘‘

’’اور یہاں؟‘‘

’’یہاں تو اب کوئی نہیں ہے۔‘‘

’’یہاں صرف آپ ہیں‘‘

’’جی، میں ہندوستان میں اکیلی ہوں‘‘

بھرے ہندوستان میں اکیلی رہ جانے والی ایک مسلمان لڑکی، مجھے یہ بات عجیب سی لگی، مجھے یہ پتہ ہے کہ یہاں پورے پورے خاندانوں نے ہجرت کی اور پیچھے کوئی ایک فرد رہ گیا ہے مگر یہ فرد بالعموم بوڑھا آدمی پایا گیا ہے۔ اکیلے رہ جانے والے ان بوڑھوں کو جائیداد کے خیال نے نہیں روکا ہے، قبر کے خیال نے روکا ہے۔ جائیداد کا کیا ہے، اس کا تو پاکستان میں جا کر کلیم داخل کیا جا سکتا ہے اور جعلی کلیم داخل کر کے ہر چھوٹی جائیداد کے بدلے میں بڑی جائیداد حاصل کی جا سکتی ہے مگر قبر کا کوئی کلیم داخل نہیں کیا جا سکتا۔ ویاس پور میں وہ جو کوٹلہ والے حکیم جی تھے نا، ان کا پورا خاندان پاکستان چلا گیا وہ اپنے ٹھئے پر بیٹھے رہے اور بیماروں کی نبضیں دیکھتے رہے۔ میں نے پوچھا:

’’حکیم جی! آپ پاکستان نہیں گئے؟‘‘

’’نہیں لالہ۔‘‘

’’کارن؟‘‘

’’‘‘لالہ! کارن معلوم کرتے ہو؟ تم نے ہمارا قبرستان دیکھا ہے؟

’’نہیں۔‘‘

’’ذرا کبھی جا کے دیکھو۔ ایک سے ایک گھنا پیڑ ہے۔ پاکستان میں میری قبر کو ایسی چھاؤں کہاں ملے گی؟‘‘

میں دل میں ہنسا۔ یار تم مسلمان لوگ خوب ہو، یوں عرب کے صحراؤں کی طرف دیکھتے ہو مگر قبروں کے لیے تمہیں ہندوستان ک چھاؤں بھاتی ہے۔ یہاں پیچھے رہ جانے والے بوڑھوں کو دیکھ کر میں نے یہ جانا کہ مسلمانوں کی تہذیب میں قبر کتنی بڑی طاقت ہے۔ مگر کیا اس لڑکی کو بھی قبر کے خیال نے باندھ رکھا؟ اس خیال نے مجھے چکرا دیا۔ ایک روز میں نے اس سے پوچھ لیا:

’’آپ کا پورا پریوار پاکستان میں جا چکا ہے۔ آپ نہیں گئیں؟‘‘

’’جی میں نہیں گئی‘‘۔

’’کارن؟‘‘

’’کوئی ضروری تو نہیں کہ ہر بات کا کوئی کارن بھی ہو‘‘۔

’’کوئی ضروری تو نہیں، پر پھر بھی؟‘‘

’’پھر یہ کہ میں پاکستان چلی بھی جاتی تو کیا فرق پڑتا۔ میں پاکستان میں اکیلی ہوتی‘‘۔

میں اس کی صورت تکنے لگا۔

’’آپ رہنے والی کس نگر کی ہیں؟‘‘

’’روپ نگر کی‘‘

’’روپ نگر! میں چونک پڑا۔ ’’ارے آپ وہ صابرہ ہیں؟‘‘ وہ میرے اس رد عمل پر کچھ چکرا گئی۔ مگر میں نے اسے زیادہ دیر چکر میں نہیں رکھا۔ جلدی سے پوچھا:

’’آپ ذاکر کو جانتی ہیں؟‘‘

اس نے جواب میں مجھے سر سے پیر تک غور سے دیکھا۔ پھر آہستہ سے بولی:

’’اچھا تو آپ وہ سریندر صاب ہیں‘‘۔

اس کے بعد وہ بالکل چپ ہو گئی۔ میں بھی سٹپٹا کر چپ ہو گیا۔ پھر وہ چلی گئی۔ دوسرے دن وہ نہیں آئی۔ تیسرے دن بھی نہیں آئی مگر میرے لیے اب اس لڑکی میں نئے معنی پیدا ہو گئے تھے۔ اب میرے لیے وہ ریڈیو کی اناؤنسر لڑکی نہیں تھی، گمشدہ دوست کی نشانی تھی۔ میں نے اسے جا پکڑا اور بس بے تکلف ہو گیا ’’صابرہ! تم مجھ سے ناراض ہو؟‘‘

’’کس بات پر؟‘‘

’’بات جو بھی ہو، بہرحال آدمی کو دوسرے کی جذباتی زندگی کے علاقے میں دیکھ بھال کر قدم رکھنا چاہیے‘‘۔

اس نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا مگر دوسرے دن وہ آئی اور ڈھاکہ سے آئے ہوئے اگلے پچھلے سارے اخبارات کا انہماک سے مطالعہ کیا اور تب سے اس کا یہ معمول بن گیا ہے کہ وہ مقررہ اوقات میں آتی ہے، ڈھاکہ کے اخبار اُلٹتی پلٹتی ہے، تھوڑی گفتگو کرتی ہے۔ چائے پیتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ میں نے ایک دو مرتبہ تمہارا ذکر کیا مگر ہر مرتبہ یہی ہوا کہ یا تو اس نے چپ سادھ لی یا کوئی اور ذکر چھیڑ دیا۔ سو میں اب احتیاط برتتا ہوں اور تمہارا ذکر نہیں کرتا۔ مگر مجھے معلوم ہے کہ ہم جب ملتے ہیں تو دو نہیں ہوتے، تیسرا آدمی غائب ہو کر وہاں موجود ہوتا ہے۔ شاید اب وہ اسی تیسرے آدمی کی خاطر مجھ سے ملتی ہے۔ ڈھاکہ کے اخبارات اب ضمنی چیز ہیں۔ ایک روز میں نے پوچھا:

’’صابرہ! تمہارا شادی وادی کا کوئی پروگرام ہے؟‘‘

’’کوئی نہیں‘‘۔

’’کارن؟‘‘

وہ ٹھٹکی، پھر پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا:

’’دیکھئے آپ نے پھر غلط علاقے میں قدم رکھ دیا ہے‘‘۔

’’Sorry‘‘ میں نے معذرت کی۔

’’کوئی بات نہیں‘‘۔ اُسی پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا اور چپ ہو گئی۔

یار ذاکر! یہ تمہاری صابرہ مجھے تو لڑکی سے زیادہ تاریخ کا ایک عجوبہ نظر آتی ہے۔ یار بُرا مت ماننا، تم لوگوں کی تاریخ ہندوستان میں عجب اوبڑ کھابڑ چلی ہے۔ پہلے تمہارے فاتحین آئے اور اس زور شور سے آئے کہ ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے یہاں کی زمین ہل گئی اور تلواروں کی جھنکار سے فضا گونج اُٹھی۔ پھر سیاسی رہنما نمودار ہوئے اور اُنہوں نے اپنی گھن گرج دکھائی۔ بابر، اکبر، شاہ جہان، اورنگ زیب پھر سرسید احمد خاں، مولانا محمد علی، محمد علی جناح اور ان سب کے بعد تمہاری صابرہ۔ بھرے ہندوستان میں اکیلی رہ جانے والی ایک اُداس خاموش لڑکی۔ پتہ نہیں یہ تمہاری تاریخ کا کمال ہے یا تہذیبوں کی تاریخ ہی اس طور چلتی ہے۔ شمشیر و سناں اول۔ اور آخر؟ تمہارے حکیم الامت کی نظر اس آخر پر بھی تھی یا نہیں تھی۔ تقدیر امم کا ایک رنگ یہ بھی ہے۔۔۔ ہاں وہ عید کا دن تھا۔ میں نے دیکھا کہ صابرہ سٹوڈیو سے نکل رہی ہے۔ میں اس روز اسے دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا۔ ’’ارے تم؟ تم نے آج چھٹی نہیں کی؟‘‘

’’جی نہیں‘‘۔ مختصر جواب آیا۔

’’تو پھر یہیں عید مناؤ اور ہماری خاطر کرو‘‘۔

’’ضرور، چلئے ہمارے کمرے میں‘‘۔

اپنے کمرے میں جا کر اس نے چائے کا آرڈر دیا، کیک منگایا۔ وہ چائے بنا رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ عید کے دن کون مسلمان دفتر میں ڈیوٹی دیتا ہے۔ بلکہ دفتری بابو تو ان دنوں شہر میں نہیں ٹکتے۔ ایک دن پہلے ہی، وقت سے پہلے دفتر سے سٹک جاتے ہیں اور ٹکٹ کٹا کر سیدھے اپنی بستی پہنچتے ہیں اور لڑکیاں؟ لڑکیاں تو مردوں سے بڑھ کر عید مناتی ہیں۔ میں نے چائے پیتے پیتے پوچھ لیا:

’’صابرہ! تم روپ نگر نہیں گئیں؟‘‘

’’روپ نگر؟‘‘ اس نے تعجب سے مجھے دیکھا ’’وہ کس لیے؟‘‘

’’آپ لوگوں کے یہاں رواج یہ ہے کہ لوگ عید پر دیس میں نہیں ٹکتے، گھر جا کر عید مناتے ہیں‘‘۔

’’میں شاید آپ کو اپنی خاندانی صورت حال بتا چکی ہوں۔ روپ نگر میں اب ہمارا کوئی نہیں ہے‘‘۔

میں چپ ہو گیا۔ پھر یونہی چائے پیتے پیتے پوچھ لیا:

’’کیا دور کے عزیزوں میں بھی وہاں کوئی نہیں ہے؟‘‘

’’دور کے عزیز بھی سب جا چکے ہیں۔ روپ نگر خالی ہو چکا ہے‘‘۔

’’کتنی عجیب بات ہے‘‘۔ میں بڑبڑایا۔

’’آپ چائے اور پیجئے گا؟‘‘ اُس نے میری بات کاٹی اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر میری پیالی میں چائے بنانی شروع کر دی۔ مگر میں نے چائے پیتے پیتے پھر ایک سوال جڑ دیا:

’’تم دلی آ کر کیا پھر کبھی روپ نگر نہیں گئیں؟‘‘

’’نہیں‘‘۔

’’عجیب بات ہے کتنے دن ہو گئے اس بات کو؟‘‘

’’اب تو اس بات کو زمانہ بیت چکا FIFTIES کے شروع میں دولہا بھائی کا ڈھاکہ سے خط آیا تھا کہ مجھے ملازمت مل گئی ہے، آپ لوگ آ جائیں۔ انہی دنوں مجھے آل انڈیا ریڈیو سے تقرری کا پروانہ ملا تھا۔ میں نے دلی کا رُخ کیا۔ باجی اور امی نے ڈھاکہ کی راہ لی۔ روپ نگر کی طرف سے پاکستان کو بھیجی جانے والی یہ آخری قسط تھی‘‘۔

’’اور تم نے ہندوستان میں ٹکنے کا فیصلہ کیا؟‘‘

’’یہ بتانے کی ضرورت باقی رہ گئی تھی؟‘‘

اس جواب پر مجھے چپ ہو جانا چاہیے تھا مگر میں نے اس کے شائستہ طنزیہ لہجے کو نظر انداز کیا اور کہا:

’’میرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم پاکستان چلی گئی ہوتیں تو۔۔۔‘‘

میں تھوڑا رُکا اور اس نے تیز لہجے میں فوراً میری بات کاٹی ’’تو؟ تو کیا ہوتا؟‘‘ اور اس نے مجھے ایسے ایسے دیکھا کہ مجھے اپنی بات پوری کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ میں کیا کہنا چاہتا تھا؟‘‘

یار کتنی عجیب بات ہے کہ وہی ایک بستی اپنے ایک باسی کے لے ہجرت کر گیا ہے، پہلے سے بڑھ کر بامعنی ہو گئی کہ وہ اسے خوابوں میں دیکھتا ہے اور دوسرے کے لیے اس کے سارے معنی جاتے رہے کہ وہ اسی دیس میں ہے مگر کبھی اس کے یہاں اس بستی کو دوبارہ دیکھنے کی آرزو پیدا نہیں ہوتی۔ ہجرت نے روپ نگر کو کتنا بامعنی بنا دیا ہے اور صابرہ کو ہندوستان میں ٹکے رہنے کی کتنی سزا ملی ہے کہ روپ نگر اس کے لیے بے معنی ہو گیا ہے۔ میں سوچتا ہو ں کہ میری تقدیر بھی وہی ہے جو صابرہ کی ہے اور کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ شاید بالپن میں میں نے کسی رشی منی کا اپمان کیا تھا اور اس نے مجھے سراپ دیا تھا کہ پتر تیری جنم بھومی تجھے درشن بند کر دے گی۔ سو ویاس پور کی نگری اب مجھے درشن نہیں دیتی۔ میں جب بھی وہاں جاتا ہوں مجھے لگتا ہے کہ نگری پوچھ رہی ہے کہ دوسرا کہاں ہے اور جب مجھ سے جواب بن نہیں پڑتا تو وہ مجھ پر اپنے دوار بند کر لیتی ہے۔ وہ جو ایک چاہت ہوا کرتی تھی کہ کوئی چٹھی آئے اور دوڑ کر ویاس پور پہنچ جائیں وہ چاہت اب بالکل مٹ چکی ہے۔ بہت دنوں کے بعد میں پچھلے اساڑھ میں وہاں گیا تھا۔ یہ اساڑھ کے شروع کے دن تھے۔ برسات ابھی دور تھی اور دوپہریں اپنے عروج پر تھیں۔ ایک کھڑی دوپہر میں میری آوارگی کی سوئی ہوئی رگ پھڑکی اور میں نکل کھڑا ہوا۔ ایک گلی سے دوسری گلی میں، دوسری گلی سے تیسری گلی میں۔ یار ہر گلی نے مجھ سے یہی پوچھا کہ دوسرا کہاں ہے؟ میں محسوس کر رہا تھا کہ اب ان گلیوں سے میرا کوئی ناتا نہیں رہا، جیسے سب گلیاں مجھ سے خفا ہیں۔ رم جھم والی گلی سے بھی گزرا۔ وہ ڈیوڑھی تو بہت ہی ویران نظر آئی۔ رم جھم کی ماں اپنے ادھ کھلے پنڈے اور ڈھلکے جوبن کے ساتھ ڈیوڑھی میں اکیلی بیٹھی چرخا کات رہی تھی۔ میں ان گلیوں سے نکلا اور اپنے سکول کی راہ پہ پڑ گیا۔ چھٹیوں کے دن تھے، سکول بند پڑا تھا۔ خالی برآمدوں سے گزر کر فیلڈ کی طرف چلا۔ یکایک میری نظر پراٹِھنا کے استھان والے آم کے پیڑ پر پڑی۔ میں اس کی چھاؤں میں جا بیٹھا۔ یار اس کی چھاؤں میں کتنی کتنی دیر بیٹھے رہا کرتے تھے اور اینٹیں مار مار کر امیاں گرایا کرتے تھے۔ اس سمے بھی شاخیں امیوں سے لدی ہوئی تھیں۔ میرا بے ساختہ جی چاہا کہ اینٹ مار کر امیاں گراؤں۔ مگر یار! ہاتھ جیسے سُن ہو گیا ہو۔ اینٹ مارنے کے لیے اُٹھتا ہی نہیں۔ میں چپ بیٹھا رہا اور امیوں سے لدی ہری بھری شاخوں کو دیکھتا رہا۔ ٹپ سے ایک امیا میرے سامنے آ کے گری۔ یہ کیا؟ اس سمے تو ہوا بھی نہیں چل رہی ہے اور طوطوں کی کوئی ڈار بھی پیڑ پر اُتری ہوئی نہیں ہے۔ کیا اپنے آم کے پیڑ نے مجھے پہچان لیا ہے۔ بس میں اداس ہو گیا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔ گلیاں، چڑیاں اور پیڑ نہ پہچانیں تو دُکھ ہوتا ہے، پہچان لیں تو طبیعت اُداس ہوتی ہے۔ تو نیم کے پیڑ کو تلاش کرتا پھرتا ہے (کوئی نیم کا پیڑ ملا؟) یہاں صورت یہ ہے کہ نیم، املی، آم، پیپل سب اپنے اپنے استھان پر موجود ہیں۔ مگر وہ مجھے دیکھ کر انجانے بن جاتے ہیں۔ ایک برکش نے مجھے پہچانا تو میں اُداس ہو گیا۔

پیارے! اپنے لیے تو اب اُداسی ہی اُداسی ہے۔ تو نے وہاں جا کے کچھ کمایا ہو گا۔ میں نے تو یہاں رہ کر کچھ نہیں کمایا، بس عمر ہی گنوائی ہے۔ یار میری کنپٹیاں بالکل سفید ہو چکی ہیں۔ تیری کنپٹیوں کا کیا حال ہے۔ اور ایک بات اور بتاؤں اور سب سے زیادہ اُداس کر دینے والی بات یہی ہے۔ کل جب میں صابرہ کے ساتھ چائے پی رہا تھا تو میری نظر اس کی مانگ پر جا پڑی، کس سلیقے سے سیدھی مانگ نکالتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ کالے بالوں کے بیچ ایک بال چاندی کی طرح چمک رہا ہے تو اے مرے متر! سمے بیت رہا ہے۔ ہم سب سمے کی زد میں ہیں۔ تو بس جلدی کر اور آ جا۔ آ کر شہر دلی کو دیکھ اور شہرِ خوبی سے مل کہ دونوں تیرے انتظار میں ہیں۔ آ اور مل اس سے پہلے کہ اس کی مانگ میں چاندی بھر جائے اور اس سے پہلے کہ تیرا سر برف کا گالا بن جائے اور ہم کہانی بن جائیں۔ فقط

سریندر

’’اور اس سے پہلے کہ‘‘۔۔۔ وہ بڑبڑایا، خط کو جہاں تہاں سے پھر پڑھا اور سوچ میں ڈوب گیا۔

مجھے خط لکھنا چاہیے، دیر تک سوچ میں ڈوبے رہنے کے بعد وہ بڑبڑایا۔ خط۔۔۔ اب اتنے زمانے کے بعد۔۔۔ اب اتنے زمانے کے بعد اسے خط لکھنے کی کوئی تک نظر نہیں آ رہی تھی۔ کمال ہے، میں نے یہاں آ کر اسے خط ہی نہیں لکھا۔ پھر وہ رفتہ رفتہ میرے ذہن ہی سے اُتر گئی اور اسے دیکھو کہ اس نے بھی کروٹ نہیں لی۔ چپ سادھ لی جیسے وہ ہے ہی نہیں یا جیسے میں نہیں ہوں اور اب یکایک کھلا کہ وہ تو ہے اور میں بھی ہوں۔ پہلے وہ میری یاد میں زندہ ہوئی اور اب ایک گمشدہ دوست ظاہر ہوتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ وہ میری یاد سے الگ اپنے طور موجود ہے، اپنی یاد کے ساتھ جس میں۔ میں ہنوز زندہ ہوں۔ وہ ٹھٹکا۔ میں اس کی یاد میں زندہ ہوں؟۔۔۔ واقعی۔۔۔؟ اگر نہیں تو وہ اُداس کیوں ہے اور کڑھ کیوں رہی ہے۔ میں اس کی اُداسی اور کڑھن میں زندہ ہوں۔ اس نے یہ سب کچھ سوچا جیسے یہ کوئی حیرت بھری واردات ہو اور اچانک اس کے اندر ایک لہر اُٹھی، مجھے جانا چاہیے اور اس سے ملنا چاہیے اور دفعتاً اس کے حافظے کی کسی گہری تہ میں سے ایک تصویر اُبھری۔ سڑک کے بیچوں بیچ لیٹا ہوا بے سدھ آدمی جس کے پاؤں میں زنجیر بندھی تھی اور ماتھا اینٹ لگنے سے خونم خون تھا۔ ’’ذاکر! مجنوں مر گیا؟‘‘۔۔۔ ’’نہیں وہ زندہ ہے‘‘۔۔۔ ’’نہیں، مجنوں مر گیا‘‘۔ اور وہ رونے لگی۔۔۔ ’’سبو، اس نے مکر بھر رکھا ہے‘‘۔۔۔ ’’نہیں، مجنوں مر گیا‘‘۔ وہ روئے جا رہی تھی۔۔۔ ہاں! مجھے جانا چاہیے، اور اعلان کرنا چاہیے کہ میں۔۔۔

’’بیٹے کہاں سے خط آیا ہے؟‘‘ امی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔

’’ہندوستان سے‘‘۔

’’ہندوستان تک سے خط آ رہے ہیں۔ بس ایک ڈھاکہ ہی کو کچھ ہو گیا ہے کہ وہاں سے کوئی خط نہیں آتا‘‘۔ امی نے افسردہ لہجے میں کہا اور چپ ہو گئیں۔ پھر سوچ کر بولیں ’’ہندوستان سے کس کا خط آیا ہے‘‘۔

’سریندر کا‘‘۔

’’سریندر‘‘۔ امی چکرائیں۔

’’امی آپ کو سریندر یاد نہیں ہے، وہ جو میرا دوست تھا‘‘۔

’’اچھا سریندر۔ آئے اس بخت مارے نے کن دنوں میں خط لکھا ہے‘‘۔

’’امی‘‘ اس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا ’’روپ نگر میں اب کیا کوئی نہیں ہے؟‘‘

امی نے اسے غور سے دیکھا ’’بیٹے! پاؤ صدی بعد تجھے یہ پوچھنے کا خیال آیا ہے؟ وہاں اب کون بیٹھا ہے۔ ہم تو پہلے ہی آ گئے تھے۔ بتول رہ گئی تھی، پھر وہ بھی بیٹی کے ساتھ ڈھاکہ چلی گئی‘‘۔

’’مگر صابرہ۔۔۔؟‘‘

’’صابرہ کا نام میرے سامنے مت لے‘‘ امی نے غصے سے کہا۔

’’کیوں؟ وہ امی کا منہ تکنے لگا‘‘۔

’’وہ تو بہت ہی خود سر لڑکی نکلی‘‘۔ امی نے وضاحت کی ’’اول تو میں پوچھوں ہوں کہ جب سارا خاندان ہی وہاں سے چلا آیا تو وہ وہاں کیوں رُکی۔ ارے وہ یہاں آ جاتی تو اس کا کوئی نہ کوٹھی ٹھکانا ہو ہی جاتا۔ خاندان ہی میں کہیں کھپ جاتی۔ وہاں کنواری بیٹھی ہے۔ اور گو کھا رہی ہے۔ اچھا خیر اگر وہاں رہی تھی تو حویلی کا کچھ خیال رکھتی۔ بتول نے اسے کتنی تاکید کی تھی، میں نے بھی اسے خط لکھا کہ بیٹی محرم کے دس دنوں کے لیے وہاں کا ایک پھیرا لگا لیا کر کہ امام باڑے میں چراغ جل جایا کرے اور علم کھڑے ہو جایا کریں، مگر اس خدا کی بندی نے وہاں ایک دفعہ جو جا کے جھانکا ہو۔ آخر کو شرنا تھی وہاں آ کے بیٹھ گئے۔ اب ملے گا اسے ٹھینگا اور نہ وہ اکیلی گھر کی مالک ہوتی۔ یہاں سے کون حصہ بٹانے جا رہا تھا‘‘۔

’’امی ہم وہاں جائیں تو ٹھہریں گے کہاں؟‘‘

’’لڑکے تیرا دماغ چل گیا ہے، وہاں اب ہم کیوں جائیں گے۔ وہاں ہمارا کون بیٹھا ہے‘‘۔

’’خود روپ نگر تو ہے‘‘۔ اس نے سوچتے ہوئے آہستہ سے کہا اور امی جیسے لاجواب ہو گئی ہوں، بالکل چپ ہو گئیں۔

’’امی تو چپ ہو گئی تھیں، مگر پھر انہیں کچھ خیال آ گیا۔ کہنے لگیں ’’آئے رات میں نے عجب خواب دیکھا۔ جیسے ہم وہاں گئے ہیں۔ جیسے سب ہیں، میں بتول سے کہہ رہی ہوں کہ بہن تو تو گھر کو بالکل کھلا چھوڑ گئی تھی۔ بھلا دیکھو بھرا گھر اور کسی ایک کمرے میں تالا نہیں ہے۔ امی چپ ہوئیں پھر بڑبڑائیں ’’پتہ نہیں اس کی کیا تعبیر ہے۔ تیرے باپ سے پوچھوں گی کہ کیسا خواب ہے‘‘۔

امی چپ ہو گئیں اور سوچ میں ڈوب گئیں۔ ان کے ساتھ ساتھ وہ بھی کسی دور کے دھیان میں کھو گیا۔ کتنے زمانے بعد ماں بیٹا اکٹھا بیٹھے دھیان کی ایک ہی لہر میں بہہ رہے تھے۔ لہر انہیں بہا کر کہاں سے کہاں لے گئی تھی۔ اس آن وہ یہاں کہاں تھے۔ روپ نگر کے بیچ اپنی حویلی میں بھٹک رہے تھے۔

ابا جان اس آن جانے کہاں سے آن درآمد ہوئے۔ ماں بیٹے کو گم سم دیکھ کر کسی قدر حیران ہوئے۔

’’ذاکر! کیوں کیا ہوا؟‘‘

’’کچھ نہیں ابا جان‘‘۔ آہستہ سے کہا اور چپ ہو گیا۔

پھر انہوں نے بیوی کی طرف دیکھا ’’بات کیا ہے؟‘‘

’’بات تو کچھ بھی نہیں، بس یونہی پچھلی باتوں کا خیال آ گیا تھا‘‘۔ ایک لمبے ٹھنڈے سانس کے ساتھ وہ روپ نگر کے سفر سے واپس آئیں۔ واپسی پر انہیں اس چھوٹے سے کرائے کے گھر کے در و دیوار کتنے عجب اور اجنبی نظر آئے۔ تھوڑی دیر کے لیے وہ پھر گم ہو گئیں۔ پھر اچانک بولیں ’’اجی، میں نے کہا کہ کوٹھری کے تالے کی چابی کہاں ہے؟‘‘

’’کوٹھری؟ کون سی کوٹھری؟‘‘

’’اے ہے ابھی سے بھول گئے۔ اپنی حویلی میں کوٹھری نہیں تھی؟‘‘

’’اچھا حویلی کی کوٹھری‘‘۔ ابا جان چپ ہوئے۔ پھر بولے ’’ذاکر کی ماں، پچاس برس گزر چکے ہیں‘‘۔

’’اجی میں نے کوٹھری کی چابی کا پوچھا ہے، برسوں کا حساب نہیں پوچھا‘‘۔

’’تم نے کوٹھری کی چابی کا پوچھا تو میں نے سوچا کہ تمہیں یہ بتا دوں کہ کتنا زمانہ گزر چکا ہے‘‘۔

’’اجی زمانے کا کیا ہے وہ تو گزرتا ہی رہتا ہے مگر کوٹھری کی چابی کھو گئی تو غضب ہو جاوے گا۔ ہماری تو ساری جدی پشتی چیزیں اسی میں بند ہیں۔ میرا سارا جہیز کا سامان اسی میں ہے اور اللہ رکھے جب ذاکر پیدا ہوا تھا تو دادا نے پوتا ہونے کی خوشی میں چاندی کی رکابیوں میں بالو شاہئیں برادری میں بانٹی تھیں۔ اس وقت کی بچی ہوئی بارہ رکابئیں بھی وہی رکھی ہیں اور ہاں تم نے جو کربلائے معلیٰ سے کفن منگایا تھا وہ بھی وہیں اسی ٹرنک میں رکھا ہے جس میں بڑے ابا کی مدینہ منورہ والی جانماز اور خاک شفا کی سجدہ گاہ رکھی ہے اور بڑی اماں کی پٹاری اور رحل رکھی ہے‘‘۔

’’کفن؟‘‘ اس نے تعجب سے امی کو دیکھا۔

’’ہاں بیٹے کفن۔ جب تیرے دادا کربلا کی زیارت سے آئے تھے تو دو کفن خاص وہاں کے تیار کیے ہوئے اور امام کے روضے سے مس کیے ہوئے اپنے ساتھ لائے تھے۔ ایک میں تو خود دفن ہوئے۔ ارے جب ہی تو ان کی قبر سے چالیس دن تک مشک کی سی خوشبو آتی رہی تھی‘‘۔

’’چالیس دن؟ تم چالیس دن کی بات کر رہی ہو، میں تو یہ جانتا ہوں کہ جب بھی میں نے وہاں جا کے فاتحہ پڑھی مجھے یہ محسوس ہوا کہ قبر سے خوشبو نکل رہی ہے۔ عجیب ہی طرح کی خوشبو ہوتی تھی‘‘۔ ابا جان چپ ہوئے، پھر ٹھنڈا سانس بھر کے بولے ’’اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ سب قبریں کس حال میں ہیں‘‘۔

’’میں جو کر سکتی تھی وہ تو میں نے کر دیا، ویاس پور کے لیے جب ہم چلے ہیں تو اسی وقت میں نے جدی پشتی نشانیاں کوٹھڑی میں سنگھوا دی تھیں اور تالا ڈال دیا تھا اور میں نے پاکستان چلنے سے پہلے بار بار تم سے کہا کہ میں روپ نگر کا ایک پھیرا لگا آؤں اور جو چیز وہاں سے لینی ہو لے لوں، مگر تم نے میری ایک نہ سنی۔ ارے میں ایک مرتبہ تالا کھول کے چیزوں کو کم سے کم دھوپ تو لگا آتی۔ اتنا زمانہ ہو گیا، کمبخت دیمک نہ لگ گئی ہو، اس گھر میں دیمک بہت تھی‘‘۔

مجھے جانا چاہیے بیشتر اس سے پہلے کہ دیمک سب کچھ چاٹ جائے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ پھر اس کے ذہن میں سوال اُٹھا کہ آخر وقت کے ساتھ چیزوں کو دیمک کیوں لگ جاتی ہے۔ وقت اور دیمک کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ وقت دیمک ہے یا دیمک وقت ہے؟

’’ذاکر کی ماں! تمہیں یاد نہیں کہ اس وقت گاڑیوں میں کیا ہو رہا تھا۔ میں تو خود چاہتا تھا کہ چلنے سے پہلے روپ نگر کا ایک پھیرا لگا لوں۔ بزرگوں کی قبروں پر آخری فاتحہ تو پڑھ لی ہوتی‘‘ ابا جان رُکے، پھر بولے ’’ اور کم از کم اپنا کفن تو لے آتا۔‘‘ رکے اور اس سے مخاطب ہوئے ’’بیٹے وہاں تو ہم نے اپنے کفن دفن کا سارا انتظام کر رکھا تھا۔ کفن آیا رکھا تھا، قبر کی جگہ بھی طے کر لی تھی۔ بس عزیزوں کو اتنی زحمت کرنی پڑتی کہ بیری کی چار ٹہنیاں توڑ کے ہمیں غسل دے دیں اور کاندھا دے کر قبر میں اتار دیں۔ مگر یہاں کوئی انتظام نہیں ہے۔ سب انتظام تمہیں کرنا ہے۔ ‘‘

مسلمانوں کی تہذیب میں قبر کتنی بڑی طاقت ہے اسے سریندر کے خط کا فقرہ یاد آ گیا۔

’’ارے مجھے تو یہی فکر کھائے جا رہی ہے کہ ہمارا مرنا کیسے ہو گا۔‘‘ امی فکر مندانہ لہجے میں بولیں ’’زندگی تو جیسے تیسے گزر گئی، مگر مرنے پر سو انتظام کرنے ہوتے ہیں۔‘‘

تو گویا موت زندگی سے زیادہ انتظام چاہتی ہے ۔ اس نے دل میں سوچا۔

دروازے پر دفعتاً دستک ہوئی۔

’’کون؟‘‘

’’میں عرفان‘‘

’’آیا۔‘‘ وہ اٹھ کر دروازے کی طرف چلا۔

امی تو فوراً ہی کمرے سے نکل گئیں، مگر ابا جان نے عرفان کے آنے کا انتظار کیا۔ اس کے داخل ہوتے ہی سوال جڑ دیا۔ ’’میاں! کوئی خبر؟‘‘

’’جی کوئی خاص خبر تو ہے نہیں۔‘‘

’’میاں تم کیسے اخبار نویس ہو؟‘‘ رک کر بولے ، مگر تمہاری بھی کیا خطا ہے، آج کل اخباروں کا حال ہی ایسا ہے۔ آگے خبروں کو اچھالا کرتے تھے، اب خبریں چھپاتے ہیں۔ بہرحال اللہ رحم ہی کرے، حالات کچھ اچھے نظر نہیں آرہے۔‘‘ یہ کہتے کہتے اٹھے اور اندر چلے گئے۔

’’یار! میں تیرا انتظار کرتا رہا، بہت بوریت رہی، شیراز تو آج بالکل خالی پڑا تھا۔‘‘

’’اچھا؟ کوئی نہیں آیا!‘‘

’’بس وہی سفید سر والا آدمی۔ آج اس نے مجھے اکیلا پا کے دبوچ لیا۔ بہت بور کیا۔‘‘ رکا، پھر بولا ’’یار مجھے یہ آدمی بہت مشکوک نظر آتا ہے۔‘‘

’’یہ بات تم مجھے پہلے بھی کہہ چکے ہو۔‘‘

’’مگر آج مجھے یقین ہو گیا ہے۔‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’یار ! جو شخص قومی درد کا بہت مظاہرہ کرے اس کے بارے میں مجھے خواہ مخواہ شک ہونے لگتا ہے۔‘‘

’’چھوڑ یار اس قصے کو۔ تجھے ایک خبر سناؤں۔‘‘

’’اچھا؟ سنا۔‘‘

’’یار آج ایک خط آیا ہے‘‘ اس نے راز دارانہ لہجے میں کہا۔

’’کہاں سے؟‘‘

’’ہندوستان سے۔‘‘

’’ہندوستان سے؟۔۔۔ عرفان نے اسے سر سے پیر تک شک بھری نظروں سے دیکھا۔’’ہندوستان سے خط؟ اس زمانے میں؟۔۔۔ کسی عزیز کا ہے۔‘‘

’’نہیں، اپنے پرانے دوست سریندر کا۔‘‘

’’سریندر کا خط اس زمانے میں؟‘‘ عرفان نے طنز بھرے لہجے میں کہا ۔’’یار ذاکر، مجھے کبھی کبھی تجھ پر بھی شک ہونے لگتا ہے۔‘‘

’’میں نے خود اپنے بارے میں اکثر شک کیا ہے۔ مگر خیر فی الحال تو اس خط کو پڑھ، اس نے خط عرفان کے حوالے کیا۔

عرفان نے شروع سے آخر تک احتیاط سے پڑھا۔ وہ خط پڑھ رہا تھا اور ذاکر اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے اس کے رد عمل کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ خط پڑھ چکنے کے بعد عرفان ہنسا ’’یار میں سمجھتا تھا کہ صابرہ تمہارے نوسٹالجیا زدہ تخیل کا فتور ہے، مگر وہ تو سچ مچ وجود رکھتی ہے۔‘‘ رکا، پھر بولا ’’بہرحال تمہارے عشق کی Timing خوب ہے۔ عشق کا پھل کس موسم میں آ کر پکا ہے۔‘‘

اس نے عرفان کے بیان کو نظرانداز کیا اور کہنے لگا ’’یار میں وہاں جانا چاہتا ہوں۔‘‘

’’کیا کہا؟ جانا چاہتے ہو۔‘‘

’’ہاں یار! جی چاہتا ہے کہ ایک مرتبہ جا کر ملا جائے، اس سے پہلے کہ ۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔

’’اس سے پہلے کہ ۔۔۔ ‘‘ عرفان نے ایک طنز کے لہجے میں اس کے کہے ہوئے لفظ دہرائے پھر بولا ’’میرے عزیز! وقت بہت گزر چکا ہے۔‘‘

’’ہاں وقت بہت گزر چکا ہے، مگر پھر بھی ۔۔۔ ‘‘ کہتے کہتے وہ سوچ میں پڑ گیا۔

امی نے کمرے میں جھانکا ’’ارے بیٹا، یہ باہر شور کیسا مچ رہا ہے۔‘‘

’’شور؟ کیسا شور؟‘‘

’’کہہ رہے ہیں کہ جنگ شروع ہو گئی؟‘‘

’’کیا؟ جنگ شروع ہو گئی؟‘‘ دونوں ایک دم سے اٹھ کھڑے ہوئے اور تیزی سے باہر نکلے۔

اب شام تھی اور گلی میں اس طرف سے اس طرف تک اندھیرا تھا۔ دور کے کئی مکانوں کے دریچوں اور روشن دانوں سے روشنی چھن کر آ رہی تھی۔ مگر ساتھ ہی گلی میں ایک شور اٹھ رہا تھا کہ ’بجلی گل کرو‘، لائٹ آف کر دو اور گھروں کی روشنیاں گل ہوتی چلی گئیں۔ اب دور دور تک پورا اندھیرا تھا۔ رضا کار نوجوانوں کی ایک ٹولی سیٹیاں بجاتی تیزی سے گلی میں داخل ہوئی۔ ذاکر آگے بڑھا ’’کیا بات ہے بھئی۔‘‘

’’جنگ شروع ہو گئی۔‘‘

’’کون کہتا ہے۔‘‘

’’ریڈیو سے اعلان ہوا ہے۔‘‘ اور ٹولی سیٹیاں بجاتی ہوئی تیزی سے دوسری گلی میں مڑ گئی۔

وہ دونوں تھوڑی دیر تک چپ کھڑے رہے، پھر وہ اپنے گھر کی ڈیوڑھی پر بیٹھے ہوئے بولا ’’یار جنگ تو واقعی شروع ہو گئی۔‘‘

’’ہوں‘‘ عرفان سوچتے ہوئے بولا اور اس کے برابر بیٹھ گیا۔

دونوں دیر تک اس گرد آلود ڈیوڑھی پہ بیٹھے رہے۔ اندھیری گلیوں میں دو ساکت سائے۔

یکایک سائرن بجنا شروع ہو گیا اور اس کے ساتھ قریب و دور سے سیٹیوں کی تیز آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ سیٹیوں کی آوازیں اور بھاگتے دوڑتے قدموں کی چاپ۔

’’اندر نہ چلے چلیں؟‘‘ اس نے آہستہ سے کہا

’’اندر بہت محفوظ ہے؟‘‘ عرفان نے ناخوشگوار سے لہجے میں پوچھا۔

’’نہیں۔‘‘

’’تو پھر؟‘‘

سائرن کی آواز رفتہ رفتہ معدوم ہو گئی۔ بھاگتے دوڑتے قدموں کی چاپ، سیٹیوں کی آواز، لوگوں کی چیخ و پکار، لائٹ آف کرو، کی غصیلی ہدایات رفتہ رفتہ سب آوازیں خاموش ہو گئیں، فضا میں سناٹا چھا گیا۔ کان اس سناٹے میں کوئی بڑی آواز سننے کے منتظر تھے، دیر تک منتظر رہے، کوئی بڑی آواز، کوئی دھماکہ سنائی نہیں دیا۔

’’یار!‘‘

’’ہوں‘‘

’’یار میں سوچ رہا ہوں کہ صابرہ۔۔۔‘‘

’’تو تم صابرہ کے متعلق سوچ رہے ہو؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’اس وقت؟‘‘

’’ہاں اس وقت۔‘‘

دور سے آئی ہوئی ایک گھوں گھوں کی مدھم آواز نے انہیں خاموش کر دیا۔ پھر گوش بر آواز ہو گئے۔

’’یہ ہندوستان کے جہاز ہیں؟‘‘

’’ہاں ہندوستان کے ، جہاں سے آج تمہیں محبت نامہ موصول ہوا ہے۔‘‘

’’مگر یار میں کچھ اور سوچ رہا تھا۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’یہ کہ اب صابرہ ڈھاکہ کو بھول کر اس شہر کی خبریں معلوم کرتی پھرے گی۔‘‘

’’سنو‘‘ عرفان نے تشویش بھرے لہجے سے سرگوشی میں کہا اور دونوں پھر گوش بر آواز ہو گئے، جیسے دور پرے کسی انجانی بستی میں گولہ گرا ہو۔ اور پھر اتھاہ خاموشی، ایک خوف بھرا سناٹا۔ پورا شہر جیسے سانس روک کے ساکت ہو گیا تھا۔

 

 

 

(7)

 

موٹریں، ٹیکسیاں، رکشائیں، تانگے سب سواریاں عجلت میں تھیں کہ ایک دوسرے پر چڑھ جا رہی تھیں۔ اسے سڑک عبور کرنا دشوار نظر آ رہا تھا۔ سواریوں کو دیکھا۔ دفعتاً ایک کار کہ اس کی پشت پر CRUSH INDIA لکھا ہوا تھا۔ سواریوں سے بھری، سامان سے لدی فراٹے کے ساتھ اس کے برابر سے گزری چلی گئی۔ کار کی پشت پر لکھا ہوا نعرہ ذرا دیر کے لیے اس کی نظروں کے سامنے آیا اور پھر اڑتی گرد میں دھندلا گیا۔ کار بہت تیزی میں تھی کہ سڑک سے اتر کر کچے میں آئی اور گرد اڑاتی اڑی چلی گئی۔

اس نے گزرتے ٹریفک کا اب تفصیل سے جائزہ لیا۔ کاریں اور ٹیکسیاں اپنی چمک دمک کھو بیٹھی تھیں۔ ان کے ڈھانچوں پر مٹی لپی ہوئی تھی۔ ہر کار، ہر ٹیکسی سواریوں سے بھری ہوئی۔ سامان سے لدی ہوئی۔ تانگوں میں سامان اور سواریاں ایک دوسرے میں گڈ مڈ۔۔۔ یا اللہ!یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟ اپنی اس حیرانی کا ذکر اس نے شیراز پہنچ کر عرفان سے کیا۔ ’’یار! آج ہماری سڑک پر بہت ٹریفک دیکھا ہے۔ میں ابھی اسٹیشن کا نقشہ دیکھ کے آ رہا ہوں۔‘‘

’’وہ نقشہ بھی بتا دو۔‘‘

’’مت پوچھو۔ پلیٹ فارم پر اتنا مسافر ہے کہ وہاں پر سانس لینا مشکل ہے اور گاڑی کوئی نہیں آ رہی۔ بس قیامت کا سماں ہے۔‘‘

’’اور یہاں شیراز خالی پڑا ہے۔‘‘ اس نے اردگرد نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ آج شیراز بالکل ہی خالی تھا۔ وہ اور عرفان بس دو دم ایک میز کے گرد بیٹھے تھے۔ ’’یار آج وہ اپنا دوست سفید بالوں والا بھی نہیں آیا۔‘‘

اچانک دروازہ کھلا اور افضال داخل ہوا۔ اردگرد نظر ڈالی ’’خالی؟‘‘

’’خالی۔‘‘ اس نے افسردگی سے جواب دیا۔

’’چوہے کہاں چلے گئے۔‘‘

’’تمہاری بانسری کا انتظار کر کے اتنے FRUSTRATE ہوئے کہ خود ہی سمندر کی طرف چلے گئے۔‘‘ عرفان نے طنز بھرے لہجے میں جواب دیا۔

افضال نے گھور کر عرفان کو دیکھا۔ کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے بولا:

’’مکروہ آدمی! چائے منگا۔‘‘

’’عبدل! ‘‘ عرفان نے آواز دی۔

عبدل جیسے آرڈر کا منتظر ہی تھا، فوراً لپک کر آیا ’’ہاں جی!‘‘

’’چائے‘‘

افضال سوچتے ہوئے بولا:

’’یار پرندے بہت پریشان ہیں۔ میں ابھی ابھی راوی کی طرف سے آ رہا ہوں۔ جب جہاز آتے تو آس پاس کے باغوں سے پرندے حواس باختہ اڑتے ہیں، بے معنی طور پر آسمان پہ چکر کاٹتے ہیں اور غریب پھر درختوں میں چھپ جاتے ہیں۔‘‘

رکا، بڑبڑایا:

’’اس شہر کے پرندے پریشان ہیں۔‘‘

’’اور تم؟‘‘ عرفان نے اسے گھور کے دیکھا۔

’’میں بھی پریشان ہوں۔‘‘

’’تمہیں پتہ نہیں کہ جو پریشان ہیں وہ شہر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔‘‘

افضال سوچ میں پڑ گیا۔ پھر کہنے لگا:

’’ایک مسافر نے کسی جنگل سے گزرتے گزرتے دیکھا کہ ایک چندن کے پیڑ میں آگ لگی ہوئی ہے۔ شاخوں پہ بیٹھے ہوئے پرندے اڑ چکے ہیں مگر ایک راج ہنس شاخ پر جما بیٹھا ہے۔ مسافر نے پوچھا کہ اے راج ہنس! کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ چندن میں آگ لگی ہوئی ہے؟ پھر تو یہاں سے اڑتا کیوں نہیں؟ کیا تجھے اپنی جان پیاری نہیں؟ ہنس بولا کہ اے مسافر! میں نے اس چندن کی چھاؤں میں بہت سکھ پایا ہے۔ کیا یہ اچھا لگتا ہے کہ اب جبکہ وہ دکھ میں ہے، میں اسے چھوڑ کے چلا جاؤں؟‘‘

افضال چپ ہو گیا، پھر بولا:

’’جانتے ہو وہ کون تھا؟۔۔۔شاکیہ منی نے جاتک سنائی، بھکشوؤں کو دیکھا کہ ہے بھکشوؤ! جانتے ہو وہ راج ہنس کون تھا؟ وہ راج ہنس میں تھا۔‘‘

’’اچھا!‘‘ عرفان طنزیہ لہجے میں بولا:

’’میں تم سے بھی اسی اعلان کی توقع کر رہا تھا۔‘‘

افضال عرفان کا منہ تکنے لگا، پھر بولا:

’’تو ٹھیک کہتا ہے۔ بالکل ٹھیک۔ وہ راج ہنس میں تھا۔‘‘

’’وہ اٹھ کھڑا ہوا، دروازے تک گیا مگر کچھ سوچ کر پھر پلٹا۔ عرفان کے قریب آیا، بولا:‘‘

افضال پلٹ کر جانے لگا تھا کہ عبدل چائے لے کر آ گیا۔ عرفان بولا:

’’چائے آ گئی ہے۔‘‘

افضال نے عرفان کو مشفقانہ نظر سے دیکھا۔

’’عرفان! تو اچھا آدمی ہے۔‘‘

افضال بیٹھ گیا۔ عرفان نے چائے بنائی۔ افضال چائے پیتے پیتے بولا:

’’یار جو کچھ ہوا اچھا ہوا۔‘‘

’’کیا اچھا ہوا؟‘‘

’’یہی کہ مکروہ لوگ شہر چھوڑ رہے ہیں۔ شیراز آج کتنا پاکیزہ نظر آ رہا ہے۔‘‘ رکا اور بولا:

’’یار میں نے بہت سوچا، آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ لوگ جو طیب ہیں، اس ملک کو بچا لیتے ہیں۔‘‘

’’وہ کہاں ہیں؟ ‘‘عرفان نے اپنے مخصوص طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

’’کہاں ہیں؟ کاکے تجھے وہ نظر نہیں آتے۔ میں اور تم اور ذاکر۔ یار تین بہت ہوتے ہیں۔‘‘

پھر جیب سے نوٹ بک نکالی، قلم کھولا، نوٹ بک کھول کر کچھ لکھتے ہوئے بولا:

’’عرفان! میں نے تجھے معاف کر دیا۔ طیب لوگوں کی فہرست میں تیرا نام شامل کر لیا ہے۔‘‘

پھر بڑبڑایا:

’’میری نوٹ بک میں طیب لوگوں کی فہرست روز بروز مختصر ہوتی چلی جا رہی ہے۔‘‘

اچانک سائرن بجنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی سیٹیاں تیز تیز بجنے لگیں۔ افضال اٹھ کھڑا ہوا۔

’’مجھے چلنا چاہیے۔‘‘

’’یہ ہوائی حملے کا سائرن ہے۔ باہر مت نکلو، بیٹھے رہو۔‘‘

’’ذاکر! تو بہت ڈرا ہوا ہے، رکا ، بولا:‘‘

’’کا کا مت ڈر۔ آج داتا سے میری بات ہو گئی ہے۔ میں نے کہا کہ داتا میں تیرے شہر کو اپنی پناہ میں لے لوں؟ کہا کہ لے لے۔ سو یہ شہر اب میری پناہ میں ہے۔ اسے کچھ نہیں ہو گا۔‘‘

یہ کہتے کہتے اٹھا اور باہر نکل گیا۔

بس اسی طرح رات اور دن کی تمیز کے بغیر وقفے وقفے سے سائرن بولتا، سائرن کے ساتھ سیٹیاں بجتیں۔ ٹریفک کے سپاہی اور سول ڈیفنس کے رضاکار سڑک سڑک سیٹیاں بجا کے اور اشارے کر کے ہدایات دیتے نظر آتے۔ سڑک سڑک سواریوں کی رفتار اچانک تیز ہو جاتی۔ پھر دھیمی پڑتی چلی جاتی کہ وہ سڑک سے اتر کر درختوں کے سائے میں ٹھکانے بناتی چلی جاتیں۔ رفتہ رفتہ سڑکیں خالی ہو جاتیں اور صرف ٹریفک کے سپاہی اور رضا کار سیٹیاں منہ میں دبائے جہاں تہاں کھڑے دکھائی دیتے۔ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک سڑک خالی ۔ کنارے کنارے کھڑی ہوئی موٹروں، رکشاؤں، ٹیکسیوں اور سکوٹروں کی لمبی قطار۔ ٹریفک کا سارا شور، شہر کی ساری آوازیں معطل، چار سو بے حرکتی اور خاموشی۔ تیزی سے گزرتی ہوئی کوئی جیپ اس بے حرکتی اور خاموشی کو توڑنے کی کوشش کرتی مگر وہ دم کے دم میں اوجھل ہو جاتی۔ اس کے بعد خاموشی اور امنڈ آتی، بے حرکتی اور گہری ہو جاتی اور وہ کبھی کسی سڑک کے کنارے درخت کے سہارے بیٹھ کر، کبھی درختوں کے پیچھے کسی کھائی میں اجنبی راہ گیروں کے بیچ پسر کر، کبھی شیراز کے کسی گوشے میں دبک کر کان کھڑے کرتا۔ اس اندیشے کے ساتھ کہ اب ایک عجیب شور اٹھے گا اور فضا کا سکوت درہم برہم ہو جائے گا۔ مگر کوئی شور سنائی نہ دیتا۔ نہ کوئی بڑا دھماکہ، نہ کوئی اونچی آواز۔ بس دور سے آئی ہوئی ایک مدھم گھوں گھوں۔ اس کے بعد پھر مکمل خاموشی اور پھر سائرن بولتا کہ اب اس کے بولنے کے ساتھ چھپے ہوئے لوگ کونوں کھڈوں سے نکلتے اور رکشائیں، سکوٹر، موٹریں، ٹیکسیاں ایک دم سے پورے شور کے ساتھ چل پڑتیں، ابھی فضا پر شور ہے اور ٹریفک رواں دواں ہے اور ابھی پھر سائرن بولنے لگا۔ پھر وہی سیٹیاں، پھر وہی چھپتے ہوئے لوگ اور تھمی ہوئی سواریاں اور پھیلتی ہوئی خاموشی۔ دن میں کتنی بار یہ عمل دہرایا جاتا۔ مگر شام پڑے سائرن دوسرے رنگ سے بجتا کہ اس کے ساتھ سواریوں کی رفتار میں اور پیادوں کی چال میں اچانک ایک درہمی پیدا ہو جاتی۔ رکنے کی بجائے ہر سواری بے تحاشا دوڑ، دوڑ رہی ہے اور ہر پیادہ بھاگم بھاگ چلا جا رہا ہے۔ مگر رفتہ رفتہ شور دور ہوتا چلا جاتا۔ خاموشی شام کے دھندلکے کے ساتھ پھیلتی چلی جاتی اور رات کے پھیلتے سائے کے ساتھ مل کر پورے شہر پر چھا جاتی۔ اس خاموشی سے فائدہ اٹھا کر کتے اول رات میں بھونکنا شروع کر دیتے۔ بس پھر لگتا کہ رات بہت گزر چکی ہے۔ اتنی جلدی اتنی رات ہو گئی۔ مگر اس کے بعد رات پڑ جاتی اور گزرنے کا نام نہ لیتی۔ پھر اچانک سائرن بول پڑتا۔ پھر وہی سیٹیاں۔ اس کے ساتھ ہی کتے ایک نئی توانائی کے ساتھ بھونکنا شروع کر دیتے۔ لگتا کہ سارے شہر کے کتے ایک دم سے جھرجھری لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سیٹیوں اور کتوں کے بھونکنے کا شور اس کے حواس پر چھاتا چلا جاتا۔ بستر میں لیٹے لیٹے اسے لگتا کہ ساری فضا اس مکروہ شور سے بھر گئی ہے۔ قریب پلنگ پر لیٹے ہوئے ابا جان آہستہ سے اٹھ کر بیٹھ جاتے اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنا شروع کر دیتے۔ پھر امی کروٹ لیتیں اور اٹھ کر بیٹھ جاتیں۔

’’ذاکر بیٹے جاگ رہے ہو؟‘‘

’’جی امی! اور وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا۔‘‘

اور اس کے بعد امی دعا کے لیے دونوں ہاتھ اٹھاتیں:

’’یا الٰہی خیر‘‘

ابا جان منہ ہی منہ میں عربی میں کچھ پڑھتے۔ کبھی ناد علی، کبھی آیۃ الکرسی۔ امی! اونچی کانپتی آواز میں دعا مانگتیں۔ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے۔ امی کی خواہش کے مطابق ہم ایک ہی کمرے میں سوتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں اپنے اپنے پلنگ پر بیٹھے ہوئے تین سائے ابا جان آیتوں کا ورد کر رہے ہیں۔ امی دعا مانگ رہی ہیں اور میں خطرے کی اتنی راتیں گزارنے کے بعد بھی اپنے ذہن کو ایسے وقت میں مصروف رکھنے کے لیے کوئی صورت نہیں سوچ سکا ہوں۔

سناٹے میں کان کچھ سننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خاموشی کی تہوں سے ابھرتی ہوئی ایک آواز، گھوں گھوں۔ دن میں یہ آواز کتنی مدھم ہوتی ہے مگر اس وقت یہ آواز کتنی تیز اور کتنی ہیبت بھری ہے۔ اچانک کہیں دور سے دھماکے کی آواز۔

’’ذاکر‘‘

’’جی۔‘‘

’’بیٹا! یہ تو بم کی سی آواز ہے۔‘‘

’’جی۔‘‘

’’کہاں گرا ہے؟‘‘

بم کہاں گرا ہے؟ شہر کے مختلف کوچے میرے تصور میں ابھرتے ہیں۔ میں اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہوں کہ دھماکے کی آواز کس سمت سے آئی تھی اور اس سمت میں کون کون سے محلے واقع ہیں۔ ابا جان اسی یکسوئی کے ساتھ آیات کا ورد کرنے میں مستغرق ہیں اور میرا ذہن شہر کے مختلف کوچوں میں بھٹک رہا ہے۔ شام نگر میں اچانک ٹھٹھک جاتا ہوں اور شام نگر کا وہ مکان جس میں ہم نے پاکستان آ کر پڑاؤ ڈالا تھا، میرے تصور میں ابھر آتا ہے۔ کیا یہ بم وہاں گرا ہے؟ نہیں اسے وہاں نہیں گرنا چاہیے۔ میری اس مکان سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں ہے۔ بس وہاں سے منتقل ہوتے ہی وہ مکان میرے دل و دماغ پر کوئی نقش چھوڑے بغیر حافظے سے اتر گیا تھا۔ مگر اس وقت اچانک وہ میرے تصور میں ابھر آیا ہے۔ وہ کمرہ میری آنکھوں میں پھر رہا ہے جس میں میں نے پاکستان آ کر پہلی رات بسر کی تھی۔ نہیں، بم اس علاقے میں نہیں گرنا چاہیے۔ اس گھر کو محفوظ رہنا چاہیے۔ اس پورے گھر کو اس کمرے کو کہ وہ پاکستان میں میری پہلی رات کے آنسوؤں کا امین ہے۔

5دسمبر:

جنگ کی راتوں میں اپنے ذہن کو ایک رستے پر لگا کے رکھنے کی ترکیب میں نے سوچ لی ہے اور اس پر عمل شروع کر دیا ہے۔ یعنی اس وقت جب باہر کہیں دور کتے بھونک رہے ہیں۔ میں لحاف میں بیٹھا لالٹین سامنے رکھے ڈائری لکھ رہا ہوں۔

جاڑے کی راتیں لمبی ہوتی ہیں، جنگ کی راتیں ان سے زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔ اب کے اجاڑے اور جنگ کے موسم ساتھ ساتھ آئے ہیں۔ جنگ کا دن تو فتوحات کے مژدے میں اور شکستوں کی افواہیں سننے اور قیاس کے گھوڑے دوڑانے میں گزر جاتا ہے۔ رات کیسے گزاری جائے؟ کرفیو کے وقت سے پہلے پہلے گھر آ جاتا ہوں۔ امی جان کی کوشش ہوتی ہے کہ بلیک آؤٹ سے پہلے پہلے کھانے پینے سے فراغت حاصل کر لی جائے۔ یہی ہوتا بھی ہے۔ ہم بلیک آؤٹ سے پہلے کھانا کھا لیتے ہیں۔ پھر امی باورچی خانہ بند کر کے اطمینان سے کمرے میں آ بیٹھتی ہیں۔ بس اس 0أکے ساتھ ساتھ باہر گلی سے قدموں کی آہٹ بند ہو جاتی ہے نہ قدموں کی آہٹ نہ بچوں کا شور و غل، نہ بچوں کو پکارتی ہوئی ماؤں کی چیخ و پکار۔ بس ایک دم سے سناٹا ہو جاتا ہے۔ رضاکاروں کی سیٹیوں کی آواز بھی آنی بند ہو جاتی ہے۔ اچانک محلے کے کتے با جماعت بھونکنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں دور کے محلوں کے کتوں سے اپنے اقدام کی تائید حاصل ہوتی چلی جاتی ہے۔ رات کے اول وقت میں آدھی رات کا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ سناٹا، پھر سائرن اور سیٹیاں، پھر کہیں دور آسمان پر اُڑتے جہازوں کی بہت مدھم گھوں گھوں، پھر سائرن، پھر سناٹا۔ رات کھنچتی چلی جاتی ہے۔ کسی طور ختم ہونے میں نہیں آتی۔

ابا جان نے جنگ کی لمبی راتوں کو گزرانے کا اچھا طریقہ سوچا ہے۔ مصلیٰ بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور رات گئے تک بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی امی جان نے بھی اپنی عشا کی نماز کو طول دینا شروع کر دیا ہے۔

میری سمجھ میں ان راتوں کو گزرانے کا طور نہیں آ رہا تھا۔ لالٹین کی روشنی میں کتاب زیادہ دیر تک پڑھ نہیں سکتا۔ بجلی امی جان نہیں جلانے دیتیں۔ وہ بھی سچی ہیں۔ بجلی کی تیز روشنی کسی نہ کسی طور چھن کر باہر پہنچ جاتی ہے۔ پھر رضا کار غل مچاتے ہیں، لائٹ بند کرو، لائٹ بند کرو اور لالٹین یوں مجھے اچھی لگتی ہے۔ لالٹینوں کے زمانے کو جب ہمارے روپ نگر میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی اور اندر گھر میں بھی اور باہر گلی میں بھی لالٹین ہی کی روشنی ہوتی تھی، میں کس محبت سے یاد کرتا ہوں۔ بڑے ہو کر میں نے تعلیم کی ساری منزلیں بھی لالٹین ہی کی روشنی میں طے کیں۔ مگر اب یہ حال ہے کہ لالٹین کے زمانے کو صرف یاد کرسکتا ہوں۔ لالٹین کی روشنی میں کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ مگر میں نے آج تجربہ کیا ہے، لکھ سکتا ہوں۔

مجھے اس عمارت کے سفید ہونے پر زمانۂ امن سے اعتراض چلا آتا ہے۔ عمارت سفید ہونے کے ساتھ تاج محل بن جائے تو الگ بات ہے ورنہ سفیدی عمارت کے با وقار بننے میں بالعموم کھنڈت ڈالتی ہے۔ دھوپ، آندھی، بارش، چیل کی بیٹ، یہ چار چیزیں مل کر کسی عمارت کو قدامت اور عظمت بخشتی ہیں مگر یہ ہمارے شہر کی سفید عمارت اتنی نئی اور اتنی اجلی ہے کہ ابھی بہت عرصے تک اسے وہ وقار حاصل نہیں ہوسکے گا جو اکثر عمارتوں کو وقت کے ساتھ ساتھ موسموں کے گرم و سرد سے گزرنے کے بعد مل جایا کرتا ہے۔

اس ڈائری کو لکھنے کا اولین مقصد تو یہی ہے کہ جنگ کی لمبی راتوں میں میرا ذہن جو بے خوابی کا مریض بن کر آوارہ بھٹکتا پھرتا ہے اسے کسی رستے پر لگا دیا جائے اور پراگندہ خیالی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا جائے۔ مگر اسی کے ساتھ اس میں مجھے ایک اور فائدہ بھی نظر آرہا ہے۔ اس طور میری جنگ کی آپ بیتی مرتب ہو جائے گی۔ جنگ گزرنے کے بعد بشرط زندگی میں جان سکوں گا کہ جنگ کے دنوں میں کتنا جھوٹ سنا اور کتنا جھوٹ کہا اور جنگ کی راتوں میں میں نے کتنا خوف کھایا، جسم میں کتنی مرتبہ کپکپی پیدا ہوئی۔ میرے جھوٹ اور میری بزدلی کا ریکارڈ میرے پاس محفوظ ہونا چاہیے۔

6دسمبر:

اہل وطن خوش ہیں، سب سے زیادہ وطن کے اخبار خوش ہیں۔ یکایک ان کی اشاعتیں دوگنی چوگنی ہو گئی ہیں۔ روز فتح کی ایک نئی خبر آتی ہے۔ روز لوگ اخباروں پر ٹوٹ کر گرتے ہیں اور فتح کی خبر پڑھ کر خوش ہوتے ہیں۔ مگر:

فتح لندن کی ہوتی ہے قدم جرمن کے بڑھتے ہیں

مگر خیر آج فتح کے ساتھ ٹھوس پیش قدمی کی بھی خبر ہے۔ امرتسر پر بھی قبضہ ہو گیا۔ خواجہ صاحب نے اتنے وثوق سے اور اتنے معتبر راویوں کے حوالے سے یہ خبر سنائی کہ ابا جان کو اعتبار کرنا پڑا۔ مگر ابا جان فتح اور شکست دونوں طرح کی خبریں متانت سے سنتے ہیں۔ خواجہ صاحب کے خبر سنانے کے بعد میں نے غور سے انہیں دیکھا۔ اس متین چہرے پر ایک اطمینان کی جھلک تو تھی۔

میں گھر سے نکلا تو نذیر ا کی دکان سے لے کر شیراز تک یہ خبر سنتا چلا گیا کہ امرتسر پر قبضہ ہو گیا ہے۔

7دسمبر:

آج کی تازہ خبر، آگرہ کے ہوائی اڈے کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ کیسے؟ بلیک آؤٹ کے اندھیرے میں مرمریں تاج جگمگ جگمگ کر رہا تھا۔ اس سے آگرہ اور آگرہ کے ہوائی اڈے کی جائے وقوع کا پتہ چل گیا اور بمباری کر کے اسے تہس نہس کر دیا گیا۔

لوگ اس خبر کو پڑھ کر اور باخبر ذرائع سے رابطہ رکھنے والے یاروں سے اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ سن کر کتنے خوش ہوئے۔ اس خبر کے ساتھ ہی تاج محل کی گری ہوئی ساکھ یکایک بحال ہو گئی ورنہ ہم یہ طے کر چکے تھے کہ تاج محل سے اور اس تاریخ سے جس نے تاج محل کو جنم دیا ہے ، پاکستان کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔

مر مر کی طرح سفید ایک عمارت اس شہر میں بھی ہے۔ آج جب ہم شیراز میں بیٹھے تھے تو عرفان نے اپنے طنز بھرے لہجے میں کہا کہ یار! ہم نے امپیریل ہوٹل کو ڈھا کر جو ایک جھوٹا سچا تاج محل کھڑا کیا ہے وہ کہیں اپنے ساتھ ہمیں نہ لے بیٹھے۔‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’یار دفتر سے واپس آتے ہوئے میں اس راہ سے گزرا تو میں بہت ڈرا۔ وہ عمارت بلیک آؤٹ کے اندھیرے میں اتنی صاف نظر آ رہی تھی جیسے یہاں ہلکی ہلکی روشنی کا انتظام ہو۔ دشمن کے جہاز اسے آسانی سے تاڑ سکتے ہیں۔‘‘

مجھے اس عمارت کے سفید ہونے پر زمانۂ امن سے اعتراض چلا آتا ہے۔ عمارت سفید ہونے کے ساتھ تاج محل بن جائے تو الگ بات ہے ورنہ سفیدی عمارت کے با وقار بننے میں بالعموم کھنڈت ڈالتی ہے۔ دھوپ، آندھی، بارش، چیل کی بیٹ، یہ چار چیزیں مل کر کسی عمارت کو قدامت اور عظمت بخشتی ہیں مگر یہ ہمارے شہر کی سفید عمارت اتنی نئی اور اتنی اجلی ہے کہ ابھی بہت عرصے تک اسے وہ وقار حاصل نہیں ہوسکے گا جو اکثر عمارتوں کو وقت کے ساتھ ساتھ موسموں کے گرم و سرد سے گزرنے کے بعد مل جایا کرتا ہے۔

بہرحال اب جبکہ امپیریل اس شہر کے تختے سے حرف مکرر کی طرح مٹ چکا ہے اور ڈولی اور اس کے پروانے افسانہ بن چکے ہیں، صندلی بلی غائب ہو چکی ہے، اس عمارت کو برقرار رہنا چاہیے۔ ایک وقت آئے گا کہ اس کی منڈیریں کائی لگ لگ کر سیاہ ہو چکی ہوں گی اور پرندے اپنی کب کب کی ، کی ہوئی سفید و سیاہ بیٹوں کے بیچ آسودگی کے ساتھ بیٹھا کریں گے۔

نئے زمانے کی جنگوں کا ایک نقصان یہ ہے کہ وہ عمارتوں کو عظمت حاصل نہیں کرنے دیتیں۔ اونچی اونچی عمارتیں پرانی نہیں ہونے پاتیں کہ کوئی جنگ چھڑ جاتی ہے اور بمبار طیارے انہیں مسمار کر ڈالتے ہیں۔ جنگ کے بعد شہروں کی نئے سرے سے منصوبہ بندی ہوتی ہے اور پہلے سے زیادہ اونچی عمارتیں بنائی جاتی ہیں مگر ابھی وہ نئی ہوتی ہیں کہ پھر کوئی جنگ شروع ہو جاتی ہے اور اس سے پہلے کہ ان کے گرد عظمت اور اسرار کا ہالہ بنا یا جائے گر کر ڈھیر ہو جاتی ہیں

8دسمبر:

کل رات تو حد ہی ہو گئی۔ ڈائری لکھ چکنے کے بعد میں لیٹا، فوراً ہی آنکھ لگ گئی مگر تھوڑی ہی دیر بعد امی نے جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ ’’بیٹے! سائرن بج رہا ہے۔‘‘

بس پھر رات بھر یہی ہوتا رہا۔ جانے کتنی بار سائرن بجا۔ میں بہت ڈرا۔ ڈرا یہ سوچ کر کہ اس شہر کو جہاں میں نے اتنے دکھ سہے ہیں، جہاں بیٹھ کر میں نے روپ نگر کو اتنا یاد کیا ہے اور اپنے تصور میں اب تک زندہ رکھا ہے، اسے اگر کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گا۔ میں اپنے دکھوں کو یاد رکھنا چاہتا ہوں۔ بستی برباد ہوتی ہے تو اس کے ساتھ وہ دکھ بھی فراموش ہو جائے ہیں جو وہاں رہتے ہوئے لوگوں نے بھرے ہوتے ہیں۔ اس جنگ زدہ عہد کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دکھ، ہماری یادیں نہیں بن پاتے۔ جو عمارتیں، جو مقام ان دکھوں کے امین ہوتے ہیں انہیں کوئی ایک بم کا گولہ دم کے دم نیست و نابود کر دیتا ہے۔

میں اس شہر کے لیے اور کچھ نہیں کرسکتا، دعا کرسکتا ہوں، سو کرتا ہوں۔ یہ میرے تصور میں آباد روپ نگر کے لیے بھی دعا ہے کہ اسے میں اب اس شہر سے الگ کر کے تصور میں نہیں لا سکتا۔ روپ نگر اور یہ شہر میرے اندر گھل مل کر ایک بستی بن گئے ہیں۔

9 دسمبر:

سڑک کو اس شہر میں عبور کرنا اب چنداں مشکل نہیں رہا۔ جنگ کی پہلی صبح کو میں نے کس مشکل سے سڑک عبور کی تھی مگر پھر کتنی جلدی ٹریفک کا زور ٹوٹ گیا۔ دن گزرتے گئے، ٹریفک کم ہوتا گیا، رکشاؤں کا شور اب کتنا کم ہو گیا ہے اور لوگوں کی چیخ و پکار بھی۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ شہر میں اب صرف بس کی سواری ملتی ہے کہ یہ سواری اسی پہلے تواتر کے ساتھ سڑک سڑک رواں نظر آتی ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ اب اس کے فٹ بورڈ پر سواریاں لٹکی دکھائی نہیں دیتیں اور اندر لوگ ڈنڈا پکڑے کھڑے نظر نہیں آتے۔ تھوڑی سواریاں وافر نشستیں۔ کسی بس سٹینڈ پر ہجوم بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ہاں جب ہوائی حملے کا سائرن بجتا ہے اور ٹریفک کے سپاہی سیٹیاں بجاتے بیچ سڑک پر آ جاتے ہیں تو سڑک کے دونوں طرفوں میں سواریوں کی قطاریں لگتی چلی جاتی ہیں۔ اس وقت احساس ہوتا ہے کہ شہر میں رکشائیں اور ٹیکسیاں ہنوز چل رہی ہیں۔

شام پڑے کرفیو کا اعلان کرتی ہوئی سیٹیوں کے ساتھ جب میں گھر لوٹتا ہوں تو امی مجھ سے شہر کا حال پوچھتی ہیں اور محلے کا حال سناتی ہیں کہ آج فلاں گھر کے لوگ فلاں شہر چلے گئے ہیں۔ روز صبح کو خواجہ صاحب دروازے پر دستک دیتے ہیں اور ڈرائنگ روم میں اطمینان سے بیٹھ کر حقّے کے گھونٹ بھر کر سینہ بہ سینہ سفر کر کے آئی ہوئی کسی نئی فتح کی خبر سناتے ہیں، اور روز محلے کے ایک اور گھر میں تالا پڑا نظر آتا ہے۔ روز امی جانے والوں پر تبصرہ کرتی ہیں۔

آج امی کچھ زیادہ گھبرائی نظر آتی تھیں ’’اے ہے کیا محلے میں ہم اکیلے ہی رہ جائیں گے؟‘‘

’’ذاکر کی ماں‘‘۔ ابا جان متانت کے ساتھ بولے ’’موت ہر جگہ ہے اس سے بھاگ کر آدمی کہاں جا سکتا ہے۔ حضور کی حدیث ہے کہ جو موت سے بھاگتے ہیں وہ موت ہی کی طرف بھاگتے ہیں‘‘۔

میں حیران ابا جان کو تکنے لگا۔ یہ تو وہی بات ہے جو ابا جان نے دادی اماں سے کہی تھی۔ جب روپ نگر میں وبا پھیلی تھی اور لوگ گھروں کو چھوڑ چھوڑ کر نگر سے باہر جا رہے تھے۔

دو فرد ہمارے گھر سے بھی رخصت ہو گئے ہیں۔ ہمارے صحن میں ایک امرود کا پیڑ ہے۔ بیتے ہوئے بھلے موسم میں بلبلوں کا ایک جوڑا سونگھتے سونگھتے یہاں پہنچا اور یہیں کا ہو رہا۔ امی ان بلبلوں سے بہت بیزار تھیں ’’ارے ان کم بختوں نے، امرودوں کا ناس کر ڈالا۔ ذرا پکتا ہے تو اس میں چونچ مار دیتی ہیں۔ کسی امرود کو جو پورا پکنے دیا ہو‘‘۔

’’امی! درختوں سے اُترنے والے رزق میں پرندوں کا بھی تو حصہ ہوتا ہے۔۔۔‘‘

امی نے مجھے گھور کے دیکھا ’’یہ اچھی رہی کہ دُکھ، ہم بھریں اور کھائیں چڑئیں طوطے‘‘۔

مگر اب وہ بلبلیں کہاں ہیں۔ جنگ کی پہلی صبح کو وہ دونوں بلبلیں اُڑتی اُڑتی آئیں اور امرود پر اُتر پڑیں۔ کس ذوق و شوق کے ساتھ پکتے امرودوں کا اپنی چونچ سے جائزہ لے رہی تھیں کہ گھن گرج کے ساتھ ایک جہاز اوپر سے گزرا۔ دونوں حواس باختہ امرودوں کو چھوڑ کر اُڑ گئیں۔

امرود ہمارے درخت میں اب بہت پک گئے ہیں۔ امی روز توڑ کر چاٹ بناتی ہیں اب کسی امرود پر کسی چونچ کا نشان نہیں ہوتا۔ ہمارے گھر آئے ہوئے وہ مہمان، ہمارے پھلوں کے رزق میں وہ حصہ دار جا چکے ہیں۔

آج شیراز سے نکلتے نکلتے شام ہو گئی۔ بس کرفیو میں تھوڑا وقت باقی تھا کہ میں نے چائے کا آخری گھونٹ لیا اور باہر نکلا۔ باہر خلقت بھاگم بھاگ چلی جا رہی رہی۔ سواریاں سر پٹ دوڑ رہی تھیں۔ موٹر، تانگے، سکوٹر، ٹیکسی، رکشا۔ بس عذر سا مچا ہوا تھا جیسے کوئی فلم کا شو ٹوٹا ہو۔ مجھے بہت حیرت ہوئی۔ دن بھر تو سڑکیں خالی پڑی رہتی ہیں۔ سواریوں کا یہ سیلاب کہاں سے اُمنڈ آیا۔ کن اوجھل راہوں پر یہ سواریاں چل رہی تھیں کہ اچانک مال روڈ پر کھنچ آئی ہیں۔

میں نے کتنے رکشا والوں کو پکارا مگر کسی نے نہیں سنا، کوئی نہیں رکا، حالانکہ وہ رکشائیں خالی تھیں۔ سواریوں کے ہجوم میں پھنس کر ایک رکشا میرے قریب آ کر رکی۔ میں نے رکشا والے کی منت کی تو بولا:

’’باؤ باغبانپورے چلنا ہو تو چل‘‘

’’باغبانپورے کس خوشی میں؟‘‘

’’ایس خوشی میں کہ مینوں گھر پہنچنا ہے اور بھونپو بجنے والا ہے‘‘۔

تب میں نے سوچا کہ سواری کی تلاش میں مزید وقت ضائع کرنا بے سود ہے۔ اس وقت سب کو اپنی پڑی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ پیدل چل پڑو، رستے میں ممکن ہے اُدھر جاتی ہوئی کوئی رکشا مل جائے یا کوئی بھلا مانس موٹر سوار ترس کھا کر لفٹ دے دے۔

شام کے جھٹپٹے میں دکانوں کے شٹر ایک شور کے ساتھ جلدی جلدی گر رہے تھے۔ دکاندار جھٹ پٹ تالا لگا، یہ جا وہ جا۔ کوئی موٹر میں، کوئی سکوٹر پر، کوئی پیدل۔ دونوں وقت بجلی کی روشنی کے شرمندۂ احسان ہوئے بغیر مل رہے تھے۔ اندھیرا دھیرے دھیرے سڑکوں اور گلیوں میں پھیل رہا تھا۔ یونہی مجھے خیال آیا کہ گزرے زمانوں میں روز شام کو یہی کچھ ہوا کرتا ہو گا۔ جنگلوں میں زندگی کا بے چراغ زمانہ، جب شکاری دن بھر شکار کھیلنے کے بعد شکار کے بوجھ کے ساتھ شام پڑنے سے پہلے پہلے اپنے اپنے غاروں میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہوں گے۔ وہ زمانہ جب جہاں تہاں بستیاں آباد ہو گئی تھیں اور چراغ جلنے لگتے تھے، جب بستی والے دن کی روشنی میں سارے کام کاج کرنے کے بعد دن ڈھلے لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے گھروں کی طرف چلتے کہ چراغ میں بتی پڑنے سے پہلے گھر پہنچ جائیں۔ وہ زمانہ جب بڑے شہر آباد ہو گئے تھے اور شہروں کے گرد فصیلیں کھنچ گئی تھیں، جب قافلے دہکتے سورج تلے لیے آباد گرم راہوں پر رنج سفر کھینچتے منزل منزل گزرتے، رات پڑنے سے پہلے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرتے۔ جو قافلہ سست قدم ہوا اس نے شہر کے دروازوں کو بند پایا اور بے اماں کالی رات فصیل کے سائے میں بسر کی۔

جنگ نے شہر کی زندگی کو درہم برہم کر دیا ہے۔ میرے اندر زمانے اور زمینیں درہم و برہم ہیں۔ کبھی کبھی بالکل پتہ نہیں چلتا کہ کہاں کس جگ میں ہوں۔ دن ڈھل چکا۔ شام ہونے کو ہے، جنگل کے رستے سنسان ہوتے جا رہے ہیں۔ میں ڈگ بھرتا اپنے غار کی طرف جا رہا ہوں۔

10دسمبر:

کالج میں کلاسیں ولاسیں تو ہوتیں نہیں، بس اسے چھوکر شیراز میں آن بیٹھتا ہوں۔ پھر عرفان آ جاتا ہے۔ کبھی کبھی افضال بھی آن دھمکتا ہے۔ سلامت اور اجمل دکھائی نہیں دیتے مگر سنا ہے کہ وہ انقلابی سے حب وطن بن گئے ہیں اور سپاہیوں کے لیے تحفے جمع کرتے پھرتے ہیں۔ ہم سے تو وہی اچھے رہے۔

ہم سے کیا ہوسکا محبت میں

شیراز میں بیٹھ کر باتیں کر لیتے ہیں۔ باتیں بھی اول ٹپال۔ آج میں عرفان سے کہنے لگا: ’’یار! تمہاری اخبار نویسی سے مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔‘‘

’’کیا فائدہ چاہتے ہو؟‘‘

’’یار! تمہارے پاس کرفیو پاس ہوتا ہے، اخبار کی گاڑی ہوتی ہے ۔ تم مجھے بلیک آؤٹ میں شہر نہیں دکھا سکتے۔‘‘

’’دکھا سکتا ہوں۔ مگر ایک شاد آباد شہر کو سنسان صورت میں دیکھنے کے لیے ہمت چاہیے۔‘‘

’’ہم نے اس شہر میں اتنے کرفیو دیکھے ہیں۔ کیا اب بھی یہ ہمت پیدا نہیں ہوئی؟‘‘

’’کرفیو میں شہر کو دیکھنے کا تجربہ الگ ہے۔ یہ تجربہ اس سے بالکل مختلف ہے۔‘‘

افضال بیچ میں بول پڑا:’’عرفان ٹھیک کہتا ہے۔ مت دیکھ۔ ڈر جائے گا۔‘‘

’’دیکھا ہے یا بے دیکھے کہہ رہے ہو؟‘‘

’’کاکے! دیکھا ہے جب کہہ رہا ہوں۔ رکا اور پھر ایسے بولا جیسے ڈرا ہوا آدمی بولتا ہے۔ پرسوں رات جب عرفان نے اپنی دفتر کی گاڑی میں مجھے گھر پہنچوایا تھا تو میں سنسان اندھیری سڑکوں پے گزرتے ہوئے دائیں بائیں کی عمارتوں کو دہشت سے دیکھ رہا تھا۔ ہر عمارت گم ستھان جیسے اندر کوئی نہ ہو۔ مجھے لگا کہ یہ لوگوں کے مکان نہیں، چوہوں کے بل ہیں۔ چوہے ڈرے سمٹے بیٹھے ہیں۔ میں ڈر گیا۔‘‘

افضال مجھ سے بڑھ گیا۔ مجھے اپنے محلے کے گھر، جب میں رات میں کبھی گلی میں نکل کر نظر ڈالتا ہوں، اندھیرے میں لپٹے بے آواز، بے آہٹ ایسے نظر آتے ہیں جیسے غار ہوں۔

11دسمبر:

غار میں بیٹھا ہوں۔ باہر کالی رات منہ کھولے کھڑی ہے۔ سائرن، سیٹیاں، کتوں کے بھونکنے کی آوازیں، انسانی آواز ندارد۔ جیسے لوگ کہیں، ہجرت کر گئے ہوں۔ جنگ کے طلسم میں بندھا شہر۔ کبھی کبھی آس پاس کے سارے کتے اس زور شور سے بھونکتے ہیں کہ لگتا ہے میرے غار میں گھس آئیں گے۔ پھر چپ ہو جاتے ہیں مگر دور سے آوازیں آتی رہتی ہیں۔ رات کو جنگل میں سفر کرتے ہوئے یہی کچھ ہوتا ہے۔ دور کی ان دیکھی، ان جانی بستیوں سے مستقل بھونکتے ہوئے کتوں کی آوازیں آتی ہیں، آتی رہتی ہیں۔ ایک حصار سا بن جاتا ہے۔ جیسے آدمی بھونکتے کتوں کے حصار میں چل رہا ہے۔ جیسے پورے کرہ ارض کے گرد کتوں نے گھیرا ڈالا ہے۔ میں خوف کے حصار میں ہوں۔ اپنے غار سے دور بیچ جنگل میں۔ زمانے اور زمینیں میرے اندر درہم برہم ہیں۔ میں کہاں چل رہا ہوں؟ کس زمانے میں؟ کس زمین پر؟ ہر سودرہمی، ہر مقام پر ابتری۔ جنگل سے نکل کر بستی میں آیا۔ مگر کیس بستی میں؟ آدمی نہ آدم زاد۔ سنسان کوچے، ویران گلیاں، دکانیں بند، حویلیاں مقفل، عزیزو! میں دیر تک حیران حیران پھرتا رہا۔ آخر الامر ایک بڑے پھاٹکوں والی حویلی کو دیکھ کر مجھے کچھ آس ہوئی کہ شاید اس کے اندر لوگ ہوں۔ میں نے دستک دی اور چلایا: ’’کوئی ہے؟‘‘

جواب ندارد۔ پھر زور سے دستک دی اور اونچی آواز سے چلایا:’’کوئی ہے؟‘‘ بس میری آواز کی گونج ہی مجھے سنائی دی۔ مجھ پر دہشت غالب آ گئی۔ دل میں کہا کہ اس بستی سے نکل چلو۔ مبادا کوئی افتاد آپ پڑے۔ یہ سوچتا تھا کہ دیکھتا ہوں کہ ایک جھیل ہے۔ پانی جھیل کا کچھ اجلا کچھ گدلا۔ جھیل کے بیچوں بیچ ایک ہاتھی اور ایک کچھوا کہ ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے مگر دونوں میں سے نہ کوئی غالب آتا ہے تھا نہ مغلوب ہوتا تھا۔

میں حیران کھڑا اس لڑائی کو دیکھتا تھا کہ ایک مرد فقیر نمودار ہوا۔ جھیل کے قریب پہنچا۔ رک کر ہاتھی اور کچھوے پر اک نظر افسوس بھری ڈالی اور آہ سرد کھینچی۔ پھر کہا کہ کاش وہ علم سے محروم ہوتے اور زبانیں ان کی بے تاثیر ہوتیں۔

فقیر کے اس کہنے نے مجھے حیران کیا۔ میں اس کے روبرو پہنچ کر دست بستہ عرض پرداز ہوا کہ اے مرد بزرگ تو نے کیا دیکھا اور کیا جانا کہ ایسا کلمہ زبان پر لایا؟ وہ بولا کہ اے عزیز، آدمی تین چیزوں کے ہاتھوں خوار ہوتا ہے:

عورت کے ہاتھوں جب وہ وفادار نہ ہو، بھائی کے ہاتھوں جب وہ حق سے زیادہ مانگے، علم کے ہاتھوں جب وہ ریاضت کے بغیر حاصل ہو جائے اور زمین تین چیزوں سے بے آرام ہوتی ہے:

کم ظرف سے جب اسے مرتبہ مل جائے، عالم سے جب وہ زرپرست ہو جائے۔ حاکم سے جب وہ ظالم ہو جا ئے۔

میں یہ سن کر اس بزرگ کا منہ تکنے لگا اور اس کے بیان کی گتھی کو ناخن فہم سے سلجھانے کی کوشش کرنے لگا۔ جب نہ سلجھا سکا تو عرض پرداز ہوا کہ اے بزرگ اس تفہیم کی تخصیص کر۔

تب اس نے مجھ سے پوچھا کہ عزیز تو نے اس بستی کو کیسا دیکھا؟ میں نے کہا کہ بزرگ ! میں نے اس بستی کو بے آباد دیکھا۔

تب وہ مرد فقیر یوں گویا ہوا کہ عزیز داستان اس بستی کی یوں ہے کہ والی اس کا ایک مرد نیک دل نیک انجام تھا۔ دولت دنیا کے ساتھ دولت روحانی سے مالا مال تھا۔ جب اس کا وقت آخر ہونے لگا تو اس نے اپنے فرزندوں کو کہ گنتی میں دو تھے، پاس بلا کر باری باری سینے سے لگایا۔ طبیعت اس کی اس سے ہلکی ہوئی۔ بولا کہ بیٹو! میں نے علم اپنا تم دونوں بیچ مساوی تقسیم کیا اور اے میرے بیٹو! تم میرے بعد میرے اس باقی ترکے کو بھی آپس میں اسی طور تقسیم کرنا کہ میں ڈرتا ہوں اس دن سے کہ تم اپنے حق سے زیادہ طلب کرو اور خلق خدا کے لیے عذاب بن جاؤ۔

ایسا کہہ کر اس مرد نیک فال نے آخری سانس لیا اور اس دار فانی سے عالم جاودانی کو کوچ کر گیا۔ دونوں بیٹوں نے اس کا بہت سوگ کیا، پر جب ترکہ تقسیم کرنے بیٹھے تو باپ کی وصیت کو بھول گئے اور اپنے اپنے حق سے زیادہ مانگنے لگے۔ اس پر جھگڑا ہوا۔ جھگڑا کرتے کرتے دونوں نے باپ سے پائے ہوئے علم کے زور پر ایک دوسرے کے لیے بددعا کی۔ بڑے نے خشم آلود نظروں سے چھوٹے کو دیکھا اور بددعا کے لہجے میں کہا کہ تو کچھوا ہے۔ چھوٹے نے نفرت سے بڑے کو دیکھا اور بدعا کے لہجے میں کہا کہ تو بدمست ہاتھی ہے۔ سو اس کے بعد چھوٹا کچھوا بن گیا اور بڑے نے بدمست ہاتھی کا روپ دھار لیا۔ تب سے دونوں غصے میں دیوانے ہو رہے ہیں اور لڑ رہے ہیں۔

یہ قصۂ عبرت سن کر میں نے استفسار کیا کہ اے بزرگ! انجام اس لڑائی کا کیا ہو گا؟ بولا کہ جھیل کا پانی گدلا ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ وہ تو ہو چکا ہے۔ بولا اور ہو گا۔ میں نے پوچھا کتنا؟ کہا اتنا کہ جھیل دلدل بن جائے گی اور بستی میں خاک اڑے گی۔

میں خوف کھا کے اس ڈھنڈار بستی سے نکلا۔ چلا آباد بستی کے کھوج میں۔ جنگل جنگل پھرتا۔ پھرا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ دور آبادی کا نشان نظر آیا۔ اسی راہ پڑ لیا۔ قریب پہنچا تو کیا دیکھا۔ ایک نئی مرزبوم۔ شہر خوب، فضا مرغوب،۔ باغوں میں اشجار ثمر دار انواع و اقسام کے گل پھل رنگ رنگ کے طائران خوش الحان شاخ شاخ، غزالان صبا رفتار، روش روش۔ خوشبو کوچے، معطر گلیاں، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے، کٹورا بجتا ہے، سقے سرخ لنگیاں باندھے مشکیں کاندھوں پر لادے چھڑکاؤ کرتے چلے جاتے ہیں، بہشتی بھر بھر کٹورے آبِ کوثر پلاتے ہیں۔ دکانیں صاف شفاف صراف کے مقابل صراف۔ بالا خانے، آئینہ خانے، کوئی نازک پدمنی جھولنے میں جھولتی ہے۔ آرسی میں اپنا روئے زیبا دیکھتی ہے۔ کہتی ہے اللہ ری میں۔ کوئی شہر خوبی آب رواں کا پیراہن پہنے ہوئے کہ صاف ادھر سے نظر آتا ہے ادھر کا پہلو۔ کسی گل رو کا عالم یہ کہ آنکھوں میں کاجل ہونٹوں پہ مسی کی دھڑی سینہ چھلکا پڑتا ہے۔ ڈوپٹہ ڈھلک ڈھلک جاتا ہے، پیٹ صندل کی تختی، ناف سونے کی پیالی، پیڑو جیسے پیڑے، آگے پردہ داری ہے۔ شرم کی عملداری ہے۔ قیاس کن زگلستان من بہار مرا جس کی قسمت یاوری کرے اور ہمت ساتھ دے۔ وہ غوطہ مارے اور گنگا نہائے، ہمت کو شناوری مبارک۔

ایک دفعہ تو میں الف لیلہ کا ابو الحسن بن گیا۔ گلی کوچوں میں پھرتا تھا اور حیران ہوتا تھا مگر رفتہ رفتہ آنکھیں کھلیں، عجب منظر نظر آیا۔ حق دق رہ گیا۔ جس سر پر نظر گئی اسے غائب پایا۔ آدمی صحیح سلامت ، کھوپڑی غائب۔ دل میں حیران کہ یہ خواب ہے یا عالم بیداری۔ آنکھیں مل کے دیکھا، پھر وہی منظر۔ یا الٰہی ان لوگوں کی کھوپڑیاں کہاں گئیں؟ دیر تک چپ رہا۔ آخر ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹا۔ ایک راہ گیر سے کہ آدمی سن رسیدہ تھا اور صورت سے ثقہ نظر آتا تھا۔ استفسار کیا کہ اے صاحب کیا تمہارے شہر میں آدمی کے کھوپڑی نہیں ہوتی۔ اس مرد معمر نے حیرت سے مجھے سر سے پیر تک دیکھا اور کہا کہ اے شخص! لگتا ہے تو اس شہر میں اجنبی ہے کہ ایسا سوال کرتا ہے۔ سو تو اگر نہیں جانتا تو بھی چپ رہ اور جانتا ہے تو بھی چپ رہ کہ دیوار گوش دارد۔ پھر وہ بزرگ مجھے اپنے گھر لے گئے اور خوب مدارات کی، پھر کہا کہ اے عزیز! سن کہ ہماری کھوپڑیاں ہمارے بادشاہ کے سانپوں کی غذا بن گئیں۔ یہ سن کر میں بہت حیران ہوا۔ تب اس بزرگ نے وضاحت کی ،اے میرے عزیز! سن کہ ہمارے بادشاہ کے شانوں پر دائیں بائیں دو سانپ مستقل پھنکارتے رہتے ہیں۔ آدمی کی کھوپڑی ان کی غذا ہے۔ روز اس شہر میں قرعہ اندازی ہوتی ہے۔روز دو آدمی پکڑے جاتے ہیں اور ان کی کھوپڑیاں تراش کر جلالۃ الملک کے سانپوں کو کھلائی جاتی ہیں اور اب اس شہر میں گنتی کے لوگ رہ گئے ہیں جن کی کھوپڑیاں ابھی باقی ہیں۔ مگر تابکے؟ جس کی کھوپڑی کل نہیں تراشی گئی تھی ۔ آج اس کی تراشی گئی، جس کی آج نہیں تراشی گئی اس کی کل تراشی جائے گی اور سن کہ کل گجر دم نوبت بجے گی اور بعد اس کے قرعہ اندازی ہو گی۔

یہ قصۂ ہوشربا سن میں ورطۂ حیرت میں غرق ہوا۔ جب رفتہ رفتہ اوسان بجا ہوئے تو شوق تجسس جاگا اور گجر دم موقعہ واردات پر جانے کے لیے مستعد ہوا۔ مرد معمر نے روکا ٹوکا کہ اے ناعاقبت اندیش اپنی جوانی پر رحم کھا اور اس فعل سے باز آ۔ ہم تو بادشاہ کی رعیت ہوئے کہ یہ کھیل دیکھنے پر مجبور ہیں۔ تو ناحق اپنے تئیں خطرے میں ڈالتا ہے۔ بادشاہ کے آدمی تجھے دیکھیں گے اور تیرا نام بھی لکھ لیں گے اور قرعہ میں شامل کریں گے۔روکنے سے میری آتش شوق اور بھڑکی۔ بزرگ کی نصیحت پر مطلق کان نہ دھرا۔ بس یہی سودا سر میں سمایا کہ چل کے دیکھیں آج قدرت کیا گل کھلاتی ہے، قضا کس کے سر پر کھیلتی ہے۔

محل کے متصل پہنچا تو کیا دیکھا کہ ایک اژدہام ہے، مجمع خاص و عام ہے۔ امیرو غریب، شریف و وضیع، محتاج و غنی، گداگر و تونگر، بنیے بقال، امراء و وزراء سب اکٹھے ہیں اور قرعے کے نتیجے کا انتظار کرتے ہیں۔

جب نام نکلے تو خلقت دم بخود ہوتی۔ سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، کف افسوس ملنے لگے، آہ و بکا کرنے لگے۔ میں نے مرد معمر سے پوچھا کہ قضا نے کن بدنصیبوں کو منتخب کیا۔ تس پر اس نے ایک ٹھنڈی آہ کھینچی اور یوں گویا ہوا کہ اے نوجوان ان میں سے دو کے نام نکلے ہیں وہ دربارِ دُربار کے منتخب دانش مند ہیں۔ عالی فکر، روشن دماغ ذہن رسا پایا ہے۔ علم و فضل میں یکتا ہیں۔ بحر حکمت کے ،غواص ہیں۔ دانش میں ان کی دھوم از روم تا شام ہے۔ مملکت کے رموز سمجھتے ہیں۔ بڑی سے بڑی گتھی کو ناخن تدبیر سے سلجھا دیتے ہیں۔ اب جو وہ اپنی کھوپڑیوں سے محروم ہوں گے تو چراغ حکمت کا بجھ جائے گا۔ شہر بے دانش ہو جائے گا۔

آہ و بکا بے سود تھی، قرعہ کا نتیجہ قسمت کا لکھا تھا۔ اسے کون ٹال سکتا تھا۔ کھوپڑیاں دونوں دانش مندوں کی تراشی گئیں اور سانپوں کے سامنے طشت میں رکھ کر پیش کی گئیں۔ مگر سانپ منہ مار کر الگ ہوئے اور فرط غضب سے پھنپھنانے لگے۔ بادشاہ نے مقربوں کو غصے سے دیکھا اور پوچھا نمک حراموں! تم نے اس غذائے لطیف کے ساتھ کیا ملا دیا کہ سانپ اسے نہیں کھاتے ا ور غصے میں پھنکارتے ہیں۔ مقربین نے دست بستہ عرض کیا کہ جہاں پناہ، ہماری کیا مجال کہ عالی مقام سانپوں کی غذا میں کوئی آمیزش کریں۔ مگر یہ کہ وہاں ہے کیا جو سانپ تناول کریں۔ کھوپڑیاں اِن منتخب روزگار دانشمندوں کی مغز سے خالی ہیں۔

اس خالی ڈھنڈار نگر سے زیادہ اس آباد شہر سے میں نے خوف کھایا۔ جیسے تیسے لُپ چھُپ کر وہاں سے نکلا۔ کھوپڑی کے سلامت لے آنے پر پاک پروردگار کا شکر ادا کیا۔ بس پھر قریوں، شہروں بستیوں کا خیال چھوڑا، ویرانوں میں پھرتا پھرا، پھرتا پھر رہا ہوں۔ کبھی دشت بے آب و گیاہ میں، کبھی گھنے جنگلوں میں، بستیاں، کتوں کی آوازوں کی راہ، تعاقب کیے جا رہی ہیں۔ جنگل میں میں نے کوئی کتا نہیں دیکھا۔ کتے بستیوں میں ہوتے ہیں۔ بستیوں اور ان کے نواح میں بھونکتے کتوں کی آوازیں رات کو جنگل میں اس طرح آتی ہیں جیسے سب بستیوں کے سب کتے جنگل کی طرف منہ کر کے بھونک رہے ہیں۔ میں محاصرے میں ہوں۔ جنگل کے چاروں طرف بستیاں پھیلی معلوم ہوتی ہیں۔ چاروں طرف سے کتوں کی آوازیں آ رہی ہیں جیسے بڑا سا دائرہ بنا کر میری طرف منہ کر کے بھونک رہے ہیں۔ جنگل کی رات کتنی لمبی ہوتی ہے۔ میں اپنے غار سے کتنی دور ہوں۔ سائرن کی آواز، سیٹیاں، سناٹا۔

’’بیٹے! لالٹین بجھا دو، کہیں روشنی باہر نہ جا رہی ہو۔‘‘ امی جان ڈری آواز میں کہتی ہیں کہ کہیں ان کی آواز طیاروں تک نہ پہنچ جائے۔

’’جی اچھا‘‘

’’ میں لالٹین بجھانے لگا ہوں۔ غار میں مکمل اندھیرا ہونا چاہیے۔‘‘

12دسمبر:

دن کی سب باتیں دن کے ساتھ بسر گئیں۔ اب رات ہے اور میں ہوں۔ جنگ کی رات کتنی لمبی ہوتی ہے اور چھور ہی نہیں ملتا۔ جیسے جنگل میں چل رہے ہیں اور صدیوں سے سفر کر رہے ہیں۔ جنگل کا سناٹا اور صدیوں کا سکوت۔ سوئی بستیوں میں کتے، جنگلوں میں گیدڑ۔ ان کی آوازیں کائنات کی نیند کو توڑتی نہیں، گہرا کرتی ہیں۔ سوئی بستیاں، سوئی صدیاں، سوے جنگل کسی وقت بھی سب جاگ سکتے ہیں۔ جیسے میرے اندر جاگنے لگے ہیں۔ لمبی یاترا سے میں تھک گیا تھا۔ چلتے چلتے ٹھٹھکا۔ اس برگد تلے چیتے کی کھال پر اپنی لمبی اجل جٹاؤں کے سنگ آنکھیں موندے دم روکے وہ ایسا بیٹھا تھا جیسے بن کے بیچ جٹاؤں والا بوڑھا برگد۔ آگے نادیا بیل دھرا تھا۔ جٹاؤں کے بیچ فاختہ نے گھونسلا بنایا تھا اور انڈے سہہ رہی تھی کہ راجہ کو آتے دیکھ کر پھڑپھڑائی اور اڑ گئی۔ اس نے اجل پلکوں کو اٹھایا اور دیکھ کے بولا:

’’ہے راجہ، لے گا یا دے گا؟‘‘

’’یدھ کروں گا۔ لے سکا تو لوں گا، دینا پڑا تو دوں گا۔‘‘

’’کیسے یدھ کرے گا؟‘‘

’’جیسے ویر کیا کرتے ہیں۔ دھنش میں بان جوڑوں گا اور ہلہ بولوں گا۔‘‘

’’کون سی دھنش اور کون سے بان؟‘‘

’’بدھی کی دھنش اور پرشنوں کے بان۔‘‘

’’پھر دھنش سیدھی کر اور بان چلا۔‘‘

’’بول کہ کس کا کس سے پیٹ نہیں بھرتا؟‘‘

’’ہے راجہ! نو چیزوں کا نو چیزوں سے پیٹ نہیں بھرتا؟‘‘

’’کن نو چیزوں کا کن نو چیزوں سے پیٹ نہیں بھرتا؟‘‘

’’ساگر کا ندیوں کے پانی سے، اگنی کا ایندھن سے، ناری کا بھوگ سے، راجہ کا راج پاٹ سے، دھنوان کا دھن دولت سے، ودوان کا ودیاسے، مورکھ کا موڑنا سے، اتیاچاری کا اتیا چار سے۔‘‘

’’یہ سن کر راجہ نے اس کے چرن چھوئے، دھنیہ ہو منی مہاراج، میں نے تمہیں سو گؤئیں دان دیں۔‘‘

’’سوئیکار کیا۔ اور پوچھ‘‘

’’ہے منی مہاراج میں کیسے چلوں؟‘‘

’’سوریہ کے اجالے میں چل۔‘‘

’’سوریہ جب ڈوب جائے پھر؟‘‘

’’تو پھر چندر ما کے اجالے میں چل۔‘‘

’’چندر ما ڈوب جائے ، پھر؟‘‘

’’پھر تو دیا جلا، اس کے اجالے میں چل۔‘‘

’’دیا بجھ جائے، پھر؟‘‘

’’پھر تو آتما کا دیا جلا، اس کے اجالے میں چل۔‘‘

راجہ نے بھر چرن چھوئے۔ دھنیہ ہو منی مہاراج، میں نے تمہیں سو گؤئیں اور دان میں دیں۔

’’راجہ نے پھر دھنش سیدھی کی۔ بان جوڑنے لگا تھا کہ منی بولا۔‘‘

’’راجہ بس کر۔‘‘

’’کس کارن بس کروں؟‘‘

’’اس کارن کہ سنسار میں گؤئیں تھوڑی ہیں، پوچھنے کی باتیں بہت ہیں۔‘‘

میں نے اسے اس نے مجھے دیکھا

’’کیا مانگتا ہے؟‘‘

’’شانتی‘‘

’’شانتی؟‘‘

اچرج سے مجھے دیکھا ’’بھوساگر میں شانتی؟‘‘دیکھے گیا۔

’’فاختہ کا گھونسلا خالی تھا۔ سر کو جھٹکا کہ انڈے گرے اور ٹوٹ گئے۔ سائرن۔۔۔ پھر کتے جاگ اٹھیں گے۔۔۔‘‘

13دسمبر:

’’یہ خبر ہے یا افواہ ہے؟‘‘

’’صاحب! مصدقہ خبر ہے۔ ساتواں بحری بیڑا چل پڑا ہے۔‘‘

’’واقعی؟‘‘

’’آج میں شہر میں گھومتا پھرتا رہا۔ آثار اچھے نہیں۔ نقشہ شہر کا ابتر دیکھا۔ مورچوں کو ٹھنڈا پایا۔ سپاہی مورچوں میں کم اور بازاروں میں زیادہ نظر آتے ہیں، میرٹھ سے جو پوربئے شعلہ جوالہ کی صورت اٹھے تھے اب سرد دکھائی پڑتے ہیں۔ لڈو پیرے کھاتے ہیں، بھنگ گھوٹتے ہیں، جلیبیوں سے انہیں خاص رغبت ہے۔ ہر حوالی سے پوری کچوری کے ساتھ جلیبیوں کا تقاضا ہے۔ شہر کے حوالی پوربیوں سے تنگ ہیں۔ رہے بخت خان کے غازی تو میدان جنگ میں جوہر دکھانے کا موقع ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ دربار جو کبھی دُربار تھا اب ادبار کے سائے میں ہے۔ سازشوں کا وہاں جال بچھا ہے، معتبر غیر معتبر ہو چکے ہیں۔ دربار کی زینت ہیں مگر اغیار سے نگاہ بازی کرتے ہیں۔ بخت خان میدان جنگ کا آدمی، دربا میں آ کر مات کھا گیا۔ سپہ سالاری کے حصے بخرے ہو چکے ہیں۔ اب مرزا مغل بھی اس میں حصہ دار ہیں۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام۔ ہاں مرزا غوث بھی بیچ میں کود پڑے ہیں۔ تیموری خون بس اب لاف و گزاف کی حد تک گرم ہے۔ کچھ ان میموں کی حد تک گرم ہے جو ان کے ہتھے چڑھ گئی ہیں۔ مرزا غوث رجز خوانی زیادہ کرتے ہیں۔ جنگ کم لڑتے ہیں مگر ان کی رجز سے زیادہ حضور بادشاہ سلامت کا یہ شعر فضا میں گونج رہا ہے

’’واقعی، اب تو خلیج بنگال میں داخل ہونے والا ہے۔ بس اب جنگ کا پانسہ پلٹنے والا ہے۔‘‘

شیراز میں، نظیرا کی دکان پر، ہمارے گھر میں جہاں خواجہ صاحب پل پل کی خبریں لے کر ابا جان کے پاس پہنچتے ہیں، سب جگہ امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کا چرچا ہے۔ سوکھے دھانوں پرجیسے پانی پڑ گیا ہو۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اسی مضمون کا اشتہار میں نے کہیں لگا دیکھا ہے۔ کہاں؟ کس دیوار پر؟ میں شہر کی دیواریں تصور میں لاتا ہوں۔ کون سی دیوار تھی وہ؟ دیوار دیوار دیکھتا پھرتا ہوں۔۔۔ اچھا! یہ تھی وہ دیوار۔ شاہجہانی مسجد کی دیوار، ایک بڑا سا اشتہار لگا ہے جس پر ڈھال اور تلوار کی تصویر بنی ہے۔ خبر درج ہے کہ ایرانی لشکر چل پڑا ہے جہاں آباد پہنچا چاہتا ہے۔ خلقت اکٹھی ہے جیسے پورا جہاں آباد سمٹ آیا ہو۔

’’اماں کیسا اخبار ہے؟ کیا اس میں درج ہے؟‘‘

’’اے صاحب مضمون! واضح ہے، ایران کا لشکر مارا مار کرتا چلا آ رہا ہے۔ بس ابھی پہنچا سمجھو، فرنگی کے دن آ گئے ہیں۔‘‘

’’اماں نہیں؟‘‘

’’تو پھر قبلہ آپ خود پڑھ لیں۔‘‘

’’اچھا؟ پھر تو بہت بیرا کھیری ہو گی۔‘‘

’’اے صاحب !وہ تو ہو گی۔‘‘

’’مگر میرے عزیز! فرنگی کچھ منہ کا نوالہ نہیں ہے۔ اس کے پیروں تلے گنگا بہتی ہے۔‘‘

’’اے حضت! پھر ایران بھی کچھ پتلا نہیں موتتا۔ فرنگی کو چھٹی کا دودھ یاد آ جاوے گا۔‘‘

جہاں آباد میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، سوکھے دھانوں پر پانی پڑ گیا۔ یار خوشی سے پھولے نہیں سماتے، اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں۔

’’ابے او زانگلو، آج تو بہت اترا ریا اے۔ سالے اپچی بنا ہوا ہے، کہیں آنکھ لڑ گئی۔‘‘

’’ڈھڈوکے، تجھے بسنت کی بھی خبر ہے۔‘‘

’’خبر نہیں تو تو بتا دے۔ کیا پھر تو نے کوئی اشغلہ چھوڑا ہے۔‘‘

’’ابے مخنچو، ایران آریا ائے۔‘‘

’’نہیں بے۔‘‘

’’نہیں مانتا تو جامع مسجد پہ جا، واں پہ پرچہ لگا ہوا ہے۔‘‘

’’ایران کیا لینے آریا اے بے۔‘‘

’’بچو تیری عقل پہ تو ختل پڑ گئے۔ ابے وہ فرنگی سے دو دو ہاتھ کرنے آریا اے۔‘‘

’’کھا میرے سر کی قسم۔ بس اب سالے فرنگی کا سارا، رعاب شعاب ختم ہو جاوے گا۔‘‘

’’پھر تو پوبارے ہیں۔‘‘

’’پوبارے ہی پوبارے۔‘‘

’’ابے او اود بلاؤ، تیری بنوٹ کس دن کام آوے گی۔‘‘

’’موقع تو آنے دے، بس گوالیاری پیسہ تیار رکھ۔ سالے سب فرنگیوں کی کلائییں اتار دوں گا۔‘‘

مگر میں یہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ کرفیو کا وقت جو قریب تھا۔ میں نے ایک رکشا والے کو روکا۔

بولا ’’بابو بلیک آؤٹ میں واپس آنا پڑے گا۔‘‘

’’یار میٹر سے روپیہ زیادہ لے لینا۔‘‘

’’اچھا بیٹھ جاؤ۔‘‘

رکشا سٹارٹ کرتے ہی وہ شروع ہو گیا ’’باؤ جی جنگ کی کیہہ خبراں ہیں۔‘‘

’’کوئی نئی خبر نہیں۔‘‘

’’پھر میرے سے سنو! چین دی فوجاں آ گئی ہیں۔‘‘

’’کون کہتا ہے؟‘‘

’’ایک باؤ میرے رکشا میں بیٹھا، اس نے بتایا۔ پکی خبر ہے جی۔ رات کو جتنی لڑائی ہوتی ہے ۔ چینی فوجاں لڑتی ہیں۔‘‘

’’رات کی کیا تخصیص ہے؟‘‘

’’دن کو پہچانے جاویں گے۔ رات کو بھیس بدل کر لڑتے ہیں۔‘‘

’’اماں یہ سبز پوش بی بی کون ہے؟‘‘

’’سبز پوش بی بی۔ سنا تو ہے۔ ایں گلِ دیگر شگفت‘‘

’’اماں آپ سننے کی بات کرتے ہیں۔ دیکھنے والوں نے دیکھا ہے۔ بس ایک غیبی گولے کی طرح دشمن پہ گرتی ہے۔ خاکیوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹتی چلی جاتی ہے۔ جب معرکہ پڑ چکتا ہے تو غائب ہو جاتی ہے۔ مجال ہے پھر اس کا آنچل بھی نظر آ جائے۔‘‘

’’اے صاحب ! یہ تو عجب ماجرا ہے۔‘‘

’’اے حضت! آپ سبز بی بی کی بات کر رہے ہیں۔ پھر مجھ سے سنو۔ بندہ درگاہ نے اپنی آنکھ سے اسے دیکھا ہے۔‘‘

’’اماں نہیں؟‘‘

’’حضت! جھوٹ بولے سو کافر۔ کابلی دروازے والے مورچے پہ جب رن پڑا ہے تو اے حضت! میں بھی سر پہ کفن باندھ کود پڑا۔ قسم علی مرتضیٰ شیر خدا کی، دن سالے خاکیوں کے چھکے چھڑا دئیے۔ لڑتے لڑتے کیا دیکھوں ہوں کہ ایک بی بی سر سے پیر تک سبز، منہ پہ نقاب پڑی ہوئی، ہاتھ میں تلوار، گھوڑے پہ سوار خاکیوں کے دل میں گھسی ہوئی ہے۔ میں حریان کہ یہ بی بی کون ہے! وس نے جی کمال کیا۔ ایسی تلوار مارے کہ سر بھٹے کی طریوں اڑ جاوے۔ ون سالوں کے تو بکھیر دئیے۔ خاکی دم دبا کے بھاگے۔ جدوں لڑائی ختم ہوئی تو میں نے مڑ کے دیکھا، لو جی وے غائب۔ بہت ایدھر اودھر نظریں دوڑائیں، وس کی پھر پینچھل نئیں دکھائی دی۔‘‘

14دسمبر:

’’آج میں شہر میں گھومتا پھرتا رہا۔ آثار اچھے نہیں۔ نقشہ شہر کا ابتر دیکھا۔ مورچوں کو ٹھنڈا پایا۔ سپاہی مورچوں میں کم اور بازاروں میں زیادہ نظر آتے ہیں، میرٹھ سے جو پوربئے شعلہ جوالہ کی صورت اٹھے تھے اب سرد دکھائی پڑتے ہیں۔ لڈو پیرے کھاتے ہیں، بھنگ گھوٹتے ہیں، جلیبیوں سے انہیں خاص رغبت ہے۔ ہر حوالی سے پوری کچوری کے ساتھ جلیبیوں کا تقاضا ہے۔ شہر کے حوالی پوربیوں سے تنگ ہیں۔ رہے بخت خان کے غازی تو میدان جنگ میں جوہر دکھانے کا موقع ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ دربار جو کبھی دُربار تھا اب ادبار کے سائے میں ہے۔ سازشوں کا وہاں جال بچھا ہے، معتبر غیر معتبر ہو چکے ہیں۔ دربار کی زینت ہیں مگر اغیار سے نگاہ بازی کرتے ہیں۔ بخت خان میدان جنگ کا آدمی، دربا میں آ کر مات کھا گیا۔ سپہ سالاری کے حصے بخرے ہو چکے ہیں۔ اب مرزا مغل بھی اس میں حصہ دار ہیں۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام۔ ہاں مرزا غوث بھی بیچ میں کود پڑے ہیں۔ تیموری خون بس اب لاف و گزاف کی حد تک گرم ہے۔ کچھ ان میموں کی حد تک گرم ہے جو ان کے ہتھے چڑھ گئی ہیں۔ مرزا غوث رجز خوانی زیادہ کرتے ہیں۔ جنگ کم لڑتے ہیں مگر ان کی رجز سے زیادہ حضور بادشاہ سلامت کا یہ شعر فضا میں گونج رہا ہے:

دم دموں میں دم نہیں اب خیر مانگو جان کی

اے ظفر! بس ہو چکی شمشیر ہندوستان کی

خدا اس شہر پہ اپنا رحم کرے۔ میں نے قلعہ معلیٰ کی دیواروں پر زردی کھنڈی دیکھی ہے۔ سادہ دل اہل دلی ایران کے لشکر کے ہنوز منتظر ہیں۔‘‘

15دسمبر:

ڈیوڑھی سے قدم نکالا ہی تھا کہ ایسا دھماکہ ہوا کہ سب در و دیوار ہل گئے۔ لگتا تھا کہ اسی کوچے میں کسی نے گراب ماری ہے۔ آگے چلا، چاوڑی بازار میں ایک حلوائی کی دکان پر پوربیوں کا بھیڑ بھڑکا دیکھا۔ کوئی شور مچاتا ہے، ہمو کو پوری دو، کوئی غل مچاتا ہے جلیبی، جلیبی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ دھماکہ کیسا ہوا تھا؟

’’کیا کہوت ہے رہے۔‘‘ ایک نے مٹھی بھر قلاقند منہ میں ٹھونستے ہوئے پوچھا۔

’’ابھی ابھی دھماکہ ہوا تھا جیسے پاس ہی توپ دغی ہو۔‘‘

’’ماری ہو گی کسو ساس کے جنوائی نے گراب۔‘‘ دوسرا لاپروائی سے بولا۔

’’دیکھ میاں!‘‘ تیسرے نے غصے سے کہا:

’’لڑائی بھڑائی جاوے بھاڑ میں۔ تو ہمو کو پیٹ پوجا کر لینے دے۔ جا لمبا بن۔‘‘

میں اپنا سا منہ لے کر آگے بڑھ لیا۔ یہ ہیں وہ جو دلی کے تخت کی حفاظت کریں گے؟

ہرے بھرے شاہ کے مزار اور شاہجہانی مسجد کے بیچ کھڑا ہوں اور سوئے فلک دیکھتا ہوں۔ یا میرے مولا! حضور ظل سبحانی کے ہوتے یہ کیسا سایہ مسجد کے میناروں اور قلعے کی برجیوں پر کانپتا دیکھتا ہوں۔

ایک ننگ دھڑنگ فقیر، کربڑی ڈاڑھی، میلی لمبی الجھی زلفیں، سرخ انگارہ آنکھیں، وحشت سے چلایا:

’’پرے ہٹ، دیکھتا نہیں لاشیں پڑی ہیں۔‘‘

’’لاشیں! کیسی لاشیں؟ کہاں ہیں؟ میں نے اردگرد نظر ڈالی۔‘‘

فقیر چپ ہوا۔ بڑبڑایا جیسے اپنے آپ سے کہہ رہا ہو:

’’زبان بند رکھو۔ تمہیں اسرار الٰہی فاش کرنے کو کس نے کہا ہے؟‘‘

پھر ہرے بھرے شاہ کے مزار کی طرف چلا۔ مزار کے پاس پہنچتے پہنچتے نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

16دسمبر:

آج ستمبر کی 14 ہے۔ قیامت کا دن ہے۔ ستاون سنہ کی سب سے ستم انگیز ساعت۔ گھر سے باہر آیا تو شہر کو درہم و برہم دیکھا۔ یہ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ ایک زبردست دھماکہ ہوا جیسے بندوقوں کے سو فیر ایک ساتھ ہوئے ہوں۔ دماغ مختل ہو گیا۔ سمجھ میں نہ آیا کدھر جاؤں؟ پاؤں خود بخود قلعے کی طرف اٹھ گئے۔

قلعے کے دروازے پہ پہنچا تو کیا دیکھا کہ پھاٹک بند ہے، قفل لگا ہے، نہ دربان، نہ پہرے دار۔ پھاٹک کے متصل ایک توپ نصب ہے مگر چلانے والا کوئی نہیں۔ عقل حیران، عجب ثم العجب۔ شاہ جہانی قلعے کے دروازے میں تالا۔۔۔؟ بارے ایک صورت نظر آئی۔ میں نے اسے پہچانا۔ یہ تو دربارِ دُربار کا دربان ہے۔ کہاں بھاگا جاتا ہے؟ میں نے اسے ٹوکا۔ اس نے بھاگتے بھاگتے کہا کہ خیر چاہتا ہے تو یہاں سے چلا جا۔ خاکیوں کی پلٹن آ رہی ہے۔

’’اور حضور ظل سبحانی؟‘‘

’’حضور ظل سبحانی مقبرۂ ہمایوں میں ہیں۔ شہزادے شہزادیاں تتر بتر ہیں۔ جس کے جہاں سینگ سمائے نکل گیا۔ قلعہ خالی ہے، بھائیں بھائیں کرتا ہے۔‘‘

میں پلٹ لیا۔ رستے ہو حق کر رہے تھے مگر دور سے توپوں کے دغنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کبھی اس راہ، کبھی اس راہ۔ کبھی کسی چھتے میں، کبھی کھلی سڑک پر۔ کہیں رستہ یہاں سے وہاں تک خالی۔ کہیں لوگ سراسیمہ بغلوں میں پوٹلیاں دبائے ٹبرّ کو پیچھے لگائے بھاگے چلے جاتے ہیں۔ چاوڑی میں اور نقشہ دیکھا۔ لوگ لٹھ پونگے لیے کھڑے ہیں۔ ایک چارپائی کی پٹی لیے گھر سے نکلا اور صف میں آن شامل ہوا۔ دوسرا پھکنی سے مسلح گھر سے برآمد ہوا اور بازو تولتا بیچ سڑک پہ آن ڈٹا۔

میں نے قریب جا کر رازدارانہ پوچھا:

’’عزیز کیا نیت ہے؟‘‘

پھکنی والے نے کڑک کر کہا:

’’لڑیں گے؟‘‘

میں نے پھکنی والے، پھر چارپائی کی پٹی والے کو حیرت سے دیکھا اور آگے بڑھ لیا۔ پھر خود ہی حیرت رفع ہو گئی۔ ٹھیک ہے، لڑنے والے پھکنی چمٹے اور چار پائیوں کی پٹیوں سے بھی لڑ لیتے ہیں۔ جنہیں نہیں لڑنا ہوتا وہ تیار توپوں اور بھری بندوقوں کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔

جامع مسجد کے سامنے سے گزرتے گزرتے ٹھٹھکا۔ سکتے میں آ گیا۔ لاشوں کا فرش بچھا ہوا تھا۔ ہرے بھرے شاہ کی طرف سے غضب ناک آواز آئی:

’’تجھے کس نے کہا کہ یاں ٹھہرے۔ چلا جا‘‘

ادھر نظر گئی۔ وہی ننگ دھڑنگ مجذوب۔ بدن میں رعشہ آ گیا۔ تیز قدم اٹھاتا آگے بڑھا پھر بالکل ادھر ادھر نہیں دیکھا۔ بس گھر کی طرف دوڑا چلا جا رہا تھا۔

گھر میں امی جان بیٹھی دھاروں رو رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کے ان کی حالت اور غیر ہو گئی۔

بیٹے! بتول کا کیا بنے گا۔‘‘

ابا جان صبر و سکون سے بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھا۔ تامل کیا، بولے:

’’یہ خبر صحیح ہے؟‘‘

میں کیا جواب دیتا، جتنا سب کو معلوم تھا، اتنا ہی مجھے معلوم تھا۔ سوچ کر میں نے کہا کہ

’’عرفان کے دفتر جاتا ہوں۔ وہاں سے پتہ چلے گا کہ صحیح خبر کیا ہے؟‘‘

’’پھر جاؤ اور معلوم کر کے آؤ‘‘

رستے میں جو بھی ملا، جس سے بھی پوچھا وہ اتنا ہی باخبر اور اتنا ہی بے خبر تھا جتنا میں تھا۔ واضح خبر کسی کے پاس نہیں تھی۔ سب کو پتہ تھا کہ یہ کچھ ہو گیا ہے اور کسی کو اعتبار نہیں آ رہا تھا۔

اعتبار اور بے اعتباری کے درمیان ڈانوا ڈول میں نے گھر سے شیراز تک کے رستے میں کتنی مرتبہ اس خبر کو افواہ جانا اور کتنی مرتبہ اس افواہ کو خبر سمجھا۔

میرا قیاس تھا کہ عرفان اس وقت شیراز میں ہو گا۔ وہاں موجود تھا۔

’’عرفان! دفتر سے آرہے ہو؟‘‘

’’ہاں! خبر پوچھو گے؟‘‘

’’ہاں!‘‘

’’مت پوچھو۔ صحیح صورت حال کا کسی کو پتہ نہیں ہے۔ ہم نے ڈھاکہ سے رابطہ قائم کرنے کی بہت کوشش کی، نہیں قائم ہوا۔‘‘

’’پتہ نہیں زوار غریب کا کیا حال ہو گا؟‘‘

’’یہ لوگ گورنر ہاؤس سے انٹر کون میں منتقل ہو گئے ہیں۔‘‘

’’اور میری امی اپنی بہن کے لیے پریشان ہیں۔‘‘

’’پریشان ہونا چاہیے، مگر کیا ہوسکتا ہے؟‘‘

’’ٹھیک کہتے ہو،‘‘ میں چپ ہو گیا۔

شیراز اس وقت بھرا ہوا تھا مگر کوئی چائے نہیں پی رہا تھا۔ سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔ کیا پوچھ رہے تھے۔ وہ پوچھ رہے تھے جو وہ جانتے تھے۔ مان چکے تھے، ماننے سے انکار کر رہے تھے۔

 

 

 

 

 

(8)

 

اس وقت وہ سارا اپنی ٹانگوں میں تھا۔ وہ کہ چلتے چلتے کتنا کچھ سوچتا تھا اور سوچتے سوچتے کہاں کہاں نکل جاتا تھا، اس وقت صرف اور محض چل رہا تھا۔ تیز تیز اٹھتے قدم، قدموں کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی یا شاید اور کوئی آواز ہی نہیں تھی۔ وہ خالی شہر میں اکیلا چل رہا تھا اور دو قدموں کی آہٹ سے پوری فضا گونج رہی تھی۔ ان دو قدموں کے شور میں رکشا کا شور بھی دب گیا تھا کہ جب وہ بالکل برابر آ گئی اور برابر آ کر آہستہ آہستہ چلنے لگی تب اسے پتہ چلا رکشا خالی تھا اور رکشا والا اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔’’نہیں،‘‘ اس نے کہا اور رکشا والے نے رکشا کی رفتار تیز کی اور آگے بڑھ گیا۔ جب مجھے واقعی کہیں جانا ہوتا تو رکشا والے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، کوئی نہیں رکتا اور آج جب مجھے کہیں نہیں جانا تو قدم قدم پر خالی رکشا نظر آ رہی ہے اور مجھے دعوت دے رہی ہے، جیسے آج شہر میں میں اکیلی سواری ہوں۔ اس نے نظر اٹھا کر آس پاس دیکھا، پھر سامنے دور تک نظر ڈالی۔ اسے لگا کہ آس پاس اور دور تک کوئی نہیں ہے۔ لوگ کہاں گئے؟ اس نے پھر ایک مرتبہ قریب دور کا جائزہ لیا۔ جہاں تہاں کوئی ٹولی کھڑی ہوئی یا آہستہ آہستہ چلتی ہوئی نظر آئی آپس میں کچھ باتیں کرتے ہوئے اور چہر سونتے سونتے۔ یہ سب چہرے سونتے سونتے کیوں ہیں؟ خوف سے؟

چلتے چلتے نظر دیوار پر گئی جہاں ایک بڑا سا اشتہار لگا تھا۔ گھوڑے پر سوار، ہاتھ میں تلوار، صورت خونخوار، یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے۔ اس پہ کوئی رد عمل نہیں ہوا کہ اب وہ تصویر بھی مردہ تھی اور وہ لفظ بھی۔ اگلے نکڑ پر پھر وہی اشتہار، وہی تصویر، وہی لفظ، مردہ تصویر۔ مردہ لفظ۔ اس کے تصور میں ایک جلسہ گاہ کی تصویر ابھری۔ جا بجا جھنڈیاں لگی ہوئیں، جھنڈیوں کی صورت میں بڑے بڑے اشتہارات ہوا میں لہراتے ہوئے۔ اس وقت اس کے لفظ، اس کے نقش کتنے زندہ نظر آتے ہیں۔ جلسہ درہم و برہم ہو جاتا ہے۔ جلسہ گاہ خالی پڑی ہے مگر اشتہار اسی صورت ہوا میں پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ اس پر لکھے لفظ، بنے نقش کتنے مردہ نظر آتے ہیں۔ دنوں تک ان اشتہاروں کو کوئی نہیں اتارتا۔ برابر سے موٹر گزری پیچھے لکھا تھا کرش انڈیا۔ شاید کار والا یہ نعرہ لکھ کر بھول گیا ہے۔ نہیں تو۔۔۔ نہیں تو کیا؟ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اصل میں اس وقت اس کا دماغ خالی خالی تھا۔ دماغ بھی اور دل بھی۔ صبح سے وہ سوچنے اور محسوس کرنے کی ضرورت کس شدت سے محسوس کر رہا تھا۔ ابھی تک وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ کسی بڑے سانحہ کو کس طور محسوس کیا جاتا ہے صبح دیر تک وہ کمرے میں بند بیٹھا اور محسوس کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ جتنا اس نے محسوس کرنے کی کوشش کی اتنی ہی اس پر بے حسی طاری ہوتی گئی۔ پھر خواجہ صاحب آ گئے اور ان کے بلانے پر اسے ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھنا پڑا۔ خواجہ صاحب کو یہ گمان رہتا تھا کہ اسے دوسروں سے زیادہ معلوم ہے۔ آج بھی اسی گمان میں انہوں نے اسے بلایا تھا۔ مگر اسے کیا معلوم تھا؟ بس اتنا ہی جتنا دوسروں کو معلوم تھا۔ خواجہ صاحب نے بھی آج اس سے زیادہ سوال نہیں کیے۔ ان کے پاس آج تو ایک ہی سوال تھا۔

’’مولانا صاحب ! یہ کیا ہو گیا؟‘‘

ابا جان نے خواجہ صاحب کے رقت بھرے سوال کا جواب خشک سے لہجے میں دیا:

’’خواجہ صاحب! یہ دنیا دارالحساب ہے۔ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔‘‘

پھر خاموشی سے حقہ پینے لگے۔

خواجہ صاحب چپ چاپ بیٹھے رہے۔ پھر بولے:

’’مولانا صاحب! جب میں ریڈیو سن رہا تھا تو جی چاہ رہا تھا کہ دھاڑیں مار مار کے روؤں مگر میں بوڑھا آدمی، جوان اولاد کے سامنے روتا کیا اچھا لگتا تھا؟ ضبط کیے بیٹھا رہا۔ آخر اٹھ کے کمرے سے نکل گیا اور صحن میں درخت کے نیچے کرسی ڈال کے بیٹھ گیا۔ اس وقت آس پاس کوئی نہیں تھا۔ سب کمرے میں بیٹھے ریڈیو سن رہے تھے۔ بس بند ٹوٹ گیا۔‘‘

خواجہ صاحب کی آنکھ پھر بھر آئی تھی مگر ضبط کر گئے۔ چپ بیٹھے رہے۔ پھر ایک ٹھنڈے سانس کے ساتھ اٹھے، رکے، بولے:

’’مولانا صاحب! میرے بڑے کے لیے دعا کرو۔ اس کی ماں رات سے مستقل رو رہی ہے۔‘‘

’’خواجہ صاحب! گھر میں کہو کہ صبر کریں۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو صبر کا صلہ دیتا ہے۔ ان اللہ مع الصابرین‘‘ پھر آنکھیں بند کر لیں اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگے۔ حقہ الگ رکھا تھا۔ آنکھیں بند تھیں اور ہونٹ ہل رہے تھے ا ور وہ انہیں تکے جا رہا تھا۔ چاہا کہ اٹھ کر آہستہ آہستہ سے نکل جائے مگر لگ رہا تھا کہ ٹانگوں میں دم نہیں ہے۔

’’اب سارا دم جیسے ٹانگوں میں آ گیا تھا۔ اٹھتے ہوئے تیز تیز قدم اس گھڑی وہ یہی کچھ تھا۔ ایک سڑک سے دوسری سڑک پر، دوسری سڑک سے تیسری سڑک پر دیواروں پر لگے اشتہار پڑھتا ہوا۔ لگتا تھا کہ سارا شہر کھوند ڈالے گا اور شہر کی دیواروں پر جتنا کچھ لکھا ہوا ہے،قد آدم پوسٹروں کی صورت میں اور چاک اور کوئلے سے لکھے ہوئے نعروں اور گالیوں کی صورت میں، وہ سب پڑھ ڈالے گا مگر بغیر کچھ محسوس کیے۔ کتنے ایسے اشتہاروں کو جن پر ایک ہی مضمون درج تھا اور کتنی ایسی کاروں کو جن کی پشت پر، شیشے پر ایک ہی نعرہ انگریزی کے دو لفظوں میں لکھا ہوا تھا، وہ بغیر کسی اکتاہٹ کے پڑھتا چلا گیا۔ کتنے لفظ مرے پڑے تھے۔ اسے لگا کہ نعرے نہیں پڑھ رہا۔ مری ہوئی مکھیوں پہ چل رہا ہے۔ طبیعت مالش کرنے لگی۔ دیواروں سے نظریں ہٹا کر آس پاس چلتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ سب کے چہرے سونت سونتا کر ایک سے ہو گئے تھے۔ احساس سے عاری۔ بس خوف کی ایک پرچھائیں ان پر کانپ رہی تھی۔ خود بھی پرچھائیں لگ رہے تھے، جیسے ان میں وزن ہی نہ ہو۔ مجھ میں وزن ہے؟ اچانک اسے خیال آیا اور وہ شک میں پڑ گیا۔ تیز چلتے چلتے اچانک آہستہ چلنے لگا اور قدم ناپ تول کر رکھنے لگا۔ وہ اپنے آپ میں وزن محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وزن مجھ میں ہے کہ نہیں ہے؟ کب ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بے وزن ہو جاتے ہیں اور کب ایسا ہوتا ہے کہ جسم آدمی کے لیے بوجھ اور سروبال دوش بن جاتے ہیں؟ پھر ایک رکشا اس کے قریب آ کر کچھوے کی چال چلنے لگی تھی۔ رکشا کو خالی پا کر بے دھیانی میں بیٹھنے لگا کہ خیال آیا، مجھے جانا کہاں ہے؟ کہیں بھی نہیں۔ جب کہیں جانا ہوتا ہے تو ہر رکشا بھری نظر آتی ہے اور ہر خالی رکشا پرے پرے دوڑتی ہوئی اور اب جب کہیں نہیں جانا تو سر پہ سوار ہے۔’’نہیں جانا‘‘ رکشا کی رفتار تیز ہوئی اور وہ آگے نکل گئی۔

اس نے تو قدموں کو کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔ بس چل رہا تھا۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا۔ مگر ملا کی دوڑ مسجد تک۔ ہر پھر کر یہیں آنا تھا۔ عرفان پہلے سے موجود تھا، سامنے چائے کی پیالی رکھے ہوئے اور منہ میں سگریٹ دبائے ہوئے۔

’’چائے؟‘‘

’’آج بہت چلا ہوں‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’بس ویسے ہی۔‘‘

’’تھک گئے ہو؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’پھر؟‘‘

’’چائے تو بہرحال پینی ہے۔‘‘

عرفان نے مزید آرڈر دیا۔ عبدل نے جلد ہی چائے لا کر رکھ دی اور بغیر کوئی بات کیے واپس چلا گیا۔

وہ اور عرفان دونوں آمنے سامنے بیٹھے ایسے چائے پی رہے تھے جیسے ایک دوسرے سے بالکل بے تعلق ہوں۔ چائے پیتے پیتے اس کی نظر یوں ہی سامنے پڑے مڑے تڑے اخبار پہ جا پڑی اور وہیں جم گئیں۔ سب وہی خبریں تھیں اور وہی سرخیاں جو صبح اس نے گھر بیٹھ کر پڑھی تھیں۔ اس وقت یہی سرخیاں اس پہ دشمن کی طرح حملہ آور ہوئی تھیں مگر کسی نہ کسی طور تو اپنے آپ کو مصروف کرنا ہی تھا۔ بے دلی سے جہاں تہاں سرخیوں پر نظر دوڑائی۔ ایک خبر کو یونہی پڑھنا شروع کر دیا۔ پڑھتا چلا گیا۔ بغیر یہ سوچے کہ کیا خبر ہے؟ نظر مصروف تھی،ذہن بے تعلق۔ آخر بیزار ہو گیا۔ اخبار پرے کر کے عرفان کو ایک نظر دیکھا ، جس نے پیالی ختم کر کے سگریٹ سلگا لی تھی۔ اس نے بھی میز پر پڑے پیکٹ میں سے ایک سگریٹ نکالی اور ہونٹوں سے لگا کر سلگا لی۔

’’یار کوئی بات کرو۔‘‘

’’بات کرنا بہت ضروری ہے؟‘‘

’’ضروری تو نہیں، پھر بھی۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے ا رد گرد نظر ڈالی۔ میزیں جہاں تہاں بھری ہوئی تھیں۔ ایک میز پہ ایک شخص اکیلا چائے پی رہا تھا اور ساتھ میں بہت انہماک سے اخبار پڑھ رہا تھا۔ قریب کی دوسری میز پر ایک اور شخص چائے پی چکا تھا اور خلا میں گھور رہا تھا۔ کچن کے قریب ایک میز کے گرد ایک ٹولی بیٹھی تھی۔ باتیں کر رہی تھی۔ مگر دبی دبی آوازوں میں اور وقفوں کے ساتھ شیراز چائے پینے والوں کے باوجود آج کتنا خاموش تھا۔

سفید سر والا آدمی معمول کے عین مطابق داخل ہوا۔ ان کی میز کے قریب آیا، مگر پھر آتے آتے رستہ بدلا اور کاؤنٹر کے قریب والی اپنی پرانی میز پر جا بیٹھا۔ عبدل قریب آ گیا،’’چائے؟‘‘

’’ہاں چائے۔‘‘

’’اور کچھ؟‘‘

’’اور کچھ نہیں؟‘‘

عبدل نے جلد ہی چائے لا کر چن دی۔ عبدل آج جلدی جلدی سرو کر رہا تھا۔ چائے پینے والوں سے باتیں جو نہیں کر رہا تھا۔

سامنے رکھی چائے ٹھنڈی ہو رہی تھی اور سفید سر والا آدمی سامنے دیوار کو تکے جا رہا تھا۔ اچانک سر جھکا کے منہ پہ رومال لیا اور سسکیاں لے کے رونے لگا۔

جو جو جس جس میز پہ بیٹھا تھا، اسی طرح اپنی جگہ پہ بیٹھا سفید سر والے آدمی کو خاموشی سے تکتا رہا۔

’’اب ہمیں یہاں سے نکل چلنا چاہیے۔‘‘ عرفان بولا۔

’’کیوں؟‘‘

’’شکست برداشت کی جا سکتی ہے۔ جذباتیت مجھ سے برداشت نہیں ہوتی‘‘۔

مگر ادھر سفید سر والا آدمی سسکیاں لیتے لیتے ایک دم سے چپ ہو گیا۔ رومال سے آنکھیں پونچھیں اور خاموشی سے چائے پینے لگا۔

شیراز جذباتیت کے ایک مختصر سے مظاہرے کے بعد پھر خاموش تھا۔ جو شخص چائے پینے کے ساتھ اخبار پڑھ رہا تھا اب پھر چائے پینے اور اخبار پڑھنے میں مصروف تھا۔ خلا میں تکنے والے آدمی نے نئی چائے کا آرڈر دیا اور اُٹھ کر قریب کی میز پر پڑا اخبار اٹھایا ار اپنی جگہ پہ بیٹھ کر اسے الٹ پلٹ کرنے لگا۔ کچن کے قریب کی میز پہ باتیں کرتی ہوئی ٹولی جو دم بھر کے لیے بالکل خاموش ہو گئی تھی، پھر دبی دبی آوازوں میں باتیں کر رہی تھی۔

سلامت اور اجمل داخل ہوئے اور ان کے داخل ہوتے ہی شیراز کی خاموش فضا میں ایک درہمی سی آ گئی۔ گھور کے اسے اور عرفان کو دیکھا اور زور سے کرسیاں گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے تند و تیز لہجے میں کہا:

’’چائے منگاؤ‘‘۔

سلامت نے پہلے اسے اور پھر عرفان کو گھور کے دیکھا:

’’تم لوگ ہو اس شکست کے ذمہ دار‘‘۔

دونوں نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔

’’عرفان! میں تم سے کہہ رہا ہوں۔ تم ہو اس شکست کے ذمہ دار اور ذاکر تم‘‘۔

’’کیسے؟‘‘ اس نے سادگی سے پوچھا۔

سلامت نے لال پیلے ہو کر کہا:

’’تم سامراج کے پٹھو، تم بھولے بن کر پوچھتے ہو کیسے؟ سوچو کہ تم لڑکوں کو کیا پڑھاتے ہو؟ بادشاہو ں کی تاریخ۔ افیون کی گولیاں۔ ہاں اور تمہارا باپ ذمہ دار ہے جو میرے باپ کو روز مذہب کی افیون کی ایک گولی کھلا دیتا ہے، آج بھی ایک گولی کھلائی ہے۔ میرا باپ آج تیرے مذہب پرست باپ سے صبر کا سبق لے کے آیا ہے۔ کہتا ہے: اِنَّ اللہ مَع الصابرینَ۔ میں نے کہا بڈھے یہ ٹوٹکے اب تمہیں نہیں بچا سکتے۔ حساب کا وقت آن پہنچا ہے‘‘۔

عرفان نے لال پیلے ہوئے سلامت کو سکون کے ساتھ دیکھا اور کہا:

’’تو گویا آج تم نے اپنے باپ کو اپنا باپ تسلیم کر لیا ہے‘‘۔

سلامت نے گھور کے عرفان کو دیکھا، ’’تم مجھ پر طنز کر رہے ہو؟‘‘

’’نہیں، اطمینان کا اظہار کر رہا ہوں‘‘۔

کچن کے قریب کی میز سے ایک نوجوان اُٹھ کر آیا۔ سلامت کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا اور زہریلے لہجے میں بولا:

’’سلامت صاب! میں نے آپ کی پارٹی کے جلسے میں آپ کی تقریر سنی تھی۔

جو آپ نے بنگلہ دیش کی حمایت میں کی تھی۔ آپ آج کس بات پہ افسوس کر رہے ہیں؟‘‘

’’افسوس‘‘۔ سلامت نے غصے سے کہا۔ ’’افسوس کیسا؟ میں سامراجی دلّوں کو خبردار کر رہا ہوں کہ تم بازی ہار چکے ہو‘‘۔

’’یعنی پاکستان بازی ہار چکا ہے؟ یہی کہنا چاہتے ہو؟‘‘ نوجوان کی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔

منیجر نے دور سے بگڑتی صورتِ حال کو بھانپا، لپک کر آیا اور نوجوان کو سمجھانے لگا۔ ’’آپ اپنی میز پر چلیں اور چائے پی لیں‘‘۔

’’نہیں مجھے ذرا پوچھ لینے دیں کہ یہ بھائی صاحب چاہتے کیا ہیں؟‘‘

منیجر نے نوجوان کو پکڑ دھکڑ کر کے اس کی جگہ پر پہنچایا۔ پھر آ کر کہا ’’سلامت صاحب! آج آپ ایسی باتیں نہ کریں۔ لوگوں کے دل آج بہت دکھے ہوئے ہیں‘‘۔

’’کن لوگوں کے دل؟‘‘ سلامت نے دانت کچکچا کر کہا۔

’’دیکھئے میں آپ سے بحث نہیں کروں گا‘‘۔ منیجر نے چلتے چلتے عبدل کو پکارا ’’عبدل! تم سلامت صاحب کے لیے چائے لاؤ‘‘۔

عبدل کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ چائے کی ٹرے لے کر اس میز پر پہنچ چکا تھا۔

’’عبدل!‘‘ عرفان نے کھڑے ہوتے کہا ’’یہ چائے میرے حساب میں جائے گی‘‘۔ اور سلامت کے کچھ کہنے سے پہلے عرفان اور وہ دونوں شیراز سے باہر نکل آئے تھے۔

شیراز کے باہر فٹ پاتھ پر ایک ٹولی کھڑی تھی۔ آپس میں کوئی بہت گرم بحث ہو رہی تھی اور لوگ اکٹھے ہوتے جا رہے تھے۔ کیا بحث تھی؟ یہ وہ نہیں سن سکا۔ بس بار بار ایک لفظ سنائی دیتا تھا۔۔۔ غدار۔ اور پھر اچانک دو نوجوان ایک دوسرے پر پل پڑے۔

وہ اور عرفان بغیر رُکے، بغیر اس طرف متوجہ ہوئے آگے بڑھ لئے اور دیر تک چپ چلتے رہے پھر وہ بولا ’’سلامت ٹھیک کہتا تھا۔‘‘

’’کیا ٹھیک کہتا تھا؟‘‘ عرفان نے برہمی سے اسے دیکھا۔

’’وہ ٹھیک کہتا تھا اس شکست کا ذمہ دار میں ہوں‘‘۔

عرفان نے اسے گھور کے دیکھا، پھر بولا ’’ذاکر! کہیں تم جمال عبد الناصر بننے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہو؟‘‘

’’نہیں، وہ کیسے بن سکتا ہوں۔ ایک معلم غریب بزدل و تر سندہ جاں، وہ جمال عبد الناصر کیسے بن سکتا ہے؟‘‘

’’پھر؟‘‘

’’بات یہ ہے عرفان کہ شکست بھی ایک امانت ہوتی ہے۔ مگر اس ملک میں آج سب ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہیں اور آگے چل کر اور دیں گے۔ ہر شخص اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کر رہا ہے اور کرے گا۔ میں نے سوچا کہ کسی نہ کسی کو یہ امانت اٹھانی چاہیے‘‘۔ ’’یہاں تک تم نے صحیح سوچا، مگر اس سے آگے بھی سوچنے کی ایک بات ہے‘‘۔

’’کیا؟‘‘

’’یہ کہ اس بار امانت کو اٹھانے کے لیے آدمی کو کم از کم جمال عبد الناصر ضرور ہونا چاہیے‘‘۔

وہ سوچ میں پڑ گیا، پھر بولا ’’ٹھیک کہتے ہو۔ امانت بڑی ہے اٹھانے والا چھوٹا ہے‘‘۔ اس کے بعد ایک لمبی خاموشی۔ دیر تک چلتے رہے، ساتھ ساتھ مگر ایک دوسرے سے یکسر بے تعلق۔ پھر عرفان دفعتاً رکا ’’اچھا یار! میں چلا‘‘۔

’’کہاں؟ ڈیوٹی تو تمہاری رات کی ہے‘‘۔

’’بس اب کل ملیں گے‘’۔ اور فوراً ہی دوسری سڑک پر مڑ گیا۔

اکیلا رہ جانے کے بعد اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ عرفان ہی کی نہیں، شاید اس کی بھی اس وقت کی ضرورت یہی تھی۔ شاید دونوں اپنی اپنی جگہ دسرے کو بار سمجھ رہے تھے اور اکیلا ہو جانا چاہتے تھے۔ اتنی لمبی دوستی میں وہ پہلی بار ایک دوسرے کے لیے بار بنے تھے۔

چلتا چلا گیا، یہ سوچے بغیر کہ کہاں جا رہا ہے۔ ایک سگریٹ والے کی دوکان پر رکا۔ دکاندار سے آنکھیں ملائے بغیر سگریٹ کا پیکٹ خریدا اور آگے بڑھ لیا۔ اصولاً اسے گھر سے نکل کر نظیرا کی دکان پر رکنا چاہیے تھا اور وہاں سے سگریٹ خریدنا چاہیے تھا کہ یہی وضعداری چلی آ رہی تھی، مگر آج تو وہ اس راستے سے نظیر اسے ایسے آنکھ بچا کر نکلا جیسے وہ اس کا مقروض ہے۔

منہ میں سگریٹ دبائے چلا جا رہا تھا کہ جناح گارڈن کے قریب سے گزرتے گزرتے ٹھٹکا۔ میں کیوں بلاوجہ اپنی ٹانگیں توڑ رہا ہوں؟ بس اس خیال کے آتے ہی وہ سڑک سے باغ میں مڑ گیا۔ روش روش گزرتا اس وسیع سبزہ زار میں پہنچا جہاں جا بجا پھولوں کے تختے تھے اور پتھر کی بینچیں۔ مگر بینچ پر بیٹھنے کی بجائے اس نے سبزہ زار میں ٹانگیں پھیلا کر بیٹھنا پسند کیا۔ پھر اس نے اردگرد نظر ڈالی۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آیا۔ آج تو بالکل خالی ہے اور یہ سوچتے ہوئے احساس ہوا کہ وہ بے مقصد نہیں گھوم رہا تھا۔ اسے کسی تنہا گوشے کی تلاش تھی۔ مگر کس لیے؟ جس لیے خواجہ صاحب کو تلاش تھی؟ اس خیال نے اسے چونکا دیا۔ تو گویا میں صبح سے اس لیے مارا مارا پھر رہا ہوں کہ تنہائی کا گوشہ ملے اور میں۔۔۔ نہیں عرفان ٹھیک کہتا ہے۔ شکست برداشت کی جا سکتی ہے۔ جذباتیت نہیں۔ مگر پھر ایک دوسری رو آئی اور اسے اپنے ساتھ بہا لے گئی۔ رقیق القلبی کا مظاہرہ مبتذل حرکت ہے۔ تنہائی میں جذبات کی نکاسی عین انسانی وصف ہے۔ اس میں مضائقہ بھی کیا ہے؟ آدمی اس کے بعد ہلکا ہو جاتا ہے اور ایک دفعہ پھر اس نے اس سانحہ کے بارے میں شدت سے محسوس کرنے کی کوشش کی۔ دیر تک بیٹھا رہا اور اپنے اوپر کیفیت طاری کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں۔ مگر اس ساری کوشش کے باوجود وہ ایک بے رنگی کی کیفیت کے سوا کوئی کیفیت اپنے پہ طاری نہ کر سکا۔

’’کاکے! تو یہاں کیا کر رہا ہے؟ سو رہا ہے؟‘‘

’’نہیں‘‘۔ وہ ہڑبڑا کے اُٹھ بیٹھا۔ سامنے افضال کھڑا تھا۔

’’پھر کیا کر رہا ہے؟‘‘ افضال گھاس پر بیٹھتے ہوئے بولا۔

’’یار سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں، کچھ سمجھ میں نہ آیا تو یہاں آ گیا۔ یہاں کم از کم تنہائی تو ہے اور تم کس چکر میں آئے؟‘‘

’’میں یہاں پھولوں سے کبھی کبھی ملاقات کرنے آیا کرتا ہوں۔ پھولوں سے اور درختوں سے اچھے لوگ ہیں، سب اپنے یار ہیں‘‘۔

’’پھولوں سے ملاقات؟ آج کے دن؟‘‘

’’ہاں آج کے دن‘‘۔ افضال چپ ہوا، پھر بولا ’’یار آج منہ اندھیرے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے سوچا کہ دیکھنا چاہیے شکست کی صبح کیسے چڑھتی ہے۔ میں نے اپنے کمرے کا دریچہ کھولا اور باہر دیکھنے لگا۔ بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ باہر کچھ بھی تو نہیں تھا۔ میں نے دریچہ بند کر لیا اور چادر منہ پہ لے کے سو گیا۔ دوپہر تک سوتا رہا آخر میری نانی نے مجھے جھنجھوڑ کے اُٹھایا۔ یار! میں نے تجھ سے کبھی اپنی نانی کا ذکر کیا تھا۔

’’جب ہم چلے تھے تو برسات کا موسم تھا، باڑھ آئی ہوئی تھی۔ ادھر فسادات، اُدھر باڑھ۔ مگر، ہماری نانی زمین نہیں چھوڑتی تھی۔ میری ماں نے اسے سمجھایا کہ اماں ہم تو باڑھ کی وجہ سے جا رہے ہیں، جب اُترے گی تو واپس آ جائیں گے۔ نانی میری بھولی بھالی چکر میں آ گئی۔ مگر وہ بات اس کے دماغ میں پھنسی ہوئی ہے۔ تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد تقاضا کرتی ہے کہ کاکی! باڑھ اُتر گئی ہو گی، مینوں واپس لے چل‘‘۔

’’واقعی؟‘‘ وہ ہنس پڑا۔

’’بالکل۔ اب تک یہی سمجھ رہی ہے کہ باڑھ اُترے گی تو ہم واپس چلے جائیں گے تو آج اس نے مجھے جھنجھوڑ کے اُٹھایا۔ میں آنکھیں ملتا اُٹھا۔ اس نے مجھے بہت پیار سے کھانا کھلایا۔ پھر کہنے لگی کہ کاکے! باڑھ تو اُتر گئی ہو گی۔ تو مینوں واپس لے چل۔ میں اس کی صورت تکنے لگا۔ جی میں آیا کہ کہوں کہ نانی میری کاکی! باڑھ اُدھر اُتری تو ادھر چڑھ گئی۔ جانے کا راستہ کہاں ہے؟ دل نے کہا مت کہ۔ نانی آگے سے کچھ اور پوچھ بیٹھے گی۔ بس یہاں سے نکل ہی چل۔ تو میں نکل کھڑا ہوا، نکل کر میں نے سوچا کہ آج کے دن مکروہ لوگوں کے ملنے سے یہ اچھا ہے کہ چل کر درختوں اور پھولوں سے ملاقات کی جائے‘‘ چپ ہوا، اردگرد نظر ڈالی، پھر کہنے لگا ’’دھوپ اس وقت اچھی ہے مگر جا رہی ہے‘‘۔ لہجے میں افسردگی آ گئی۔ ’’دسمبر کی دھوپ اچھی ہوتی ہے مگر جلدی ڈھل جاتی ہے‘‘۔

افضال ٹھیک کہتا ہے، اس نے سوچا۔ جب دل و دماغ خالی ہوں اور سوچنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت سلب ہو جائے تو آدمی کو چاہیے کہ درختوں کی صحبت میں مودب بیٹھے اور پھولوں سے ہنسے بولے۔ بے شک درخت دانشمند ہوتے ہیں اور پھو ل اچھی باتیں کرتے ہیں۔ اس نے افضال کو دیکھا کہ اس کی طرف سے بے پرواہ ہو کر دور کے درختوں کو تک رہا تھا۔ افضال کی نظروں کے ساتھ ساتھ اس کی نظریں بھی سفر کرنے لگیں اور دور کے درختوں پر جا کر ٹک گئیں۔ جسم دونوں کے یہاں، نظر دور درختوں میں۔ دل اور دماغ بھی وہیں پہنچے ہوئے تھے۔

’’کاکے! سن‘‘ افضال رازدارانہ لہجے میں اس سے مخاطب ہوا۔

وہ مشکل سے درختوں کی دنیا سے واپس آیا مگر اس واپسی پر وہ خوش نظر نہیں آتا تھا۔ ’’ہاں کہو‘‘۔

’’یار! پاکستان کا انتظام میں اپنے ہاتھ میں نہ لے لوں؟‘‘

’’کیا؟‘‘ اس نے عجیب نظروں سے افضال کو دیکھا۔

’’یار! میں نے اب یہی سوچا ہے۔ اگر دو طیب آدمی مجھے مل جائیں اور میرے بازو بن جائیں تو یہ ذمہ داری سنبھال لوں۔ ایک تو ہے، ایک عرفان کو ملایا جا سکتا ہے۔ کبھی کبھی مکروہ باتیں کرتا ہے، پھر بھی اچھا آدمی ہے۔ تم دو میرا ساتھ دو تو میں پاکستان کو پھر سے خوبصورت بنا سکتا ہوں۔ یار! ان بدصورتوں نے پاکستان کی صورت بگاڑ دی ہے، بہت مکروہ لوگ ہیں‘‘۔

وہ تلخ سی ہنسی ہنسا، بولا کچھ نہیں۔

’’کاکے! تجھے مجھ پہ اعتبار نہیں ہے‘‘ افضال بے دماغ ہو گیا۔

’’تجھ پہ تو اعتبار ہے، اپنے پہ اعتبار نہیں ہے‘‘۔

’’کیوں اعتبار نہیں ہے؟ یار ان مکروہ لوگوں کے درمیان ہم ہی تو وہ دو خوبصورت آدمی ہیں‘‘۔ رکا، پھر بولا ’’تجھے پتہ ہے مجھے کچھ مربع الاٹ ہونے والے ہیں‘‘۔

’’وہ تو میں بہت دنوں سے سن رہا ہوں‘‘۔

’’بس میں نے ہی توجہ نہیں کی تھی۔ اب کی ہے۔ الاٹمنٹ ہونے والی ہے۔ میں نے نقشہ تیار کر لیا ہے۔ ایک مربعے میں گلاب کے تختے ہوں گے‘‘۔

’’ایک مربعے میں؟۔۔۔ کس خوشی میں؟‘‘

’’یار پاکستان میں پھول بہت کم ہو گئے ہیں، جب ہی تو لوگ بدصورت ہوتے چلے جا رہے ہیں اور نفرت پھیلتی جا رہی ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ ان بدبختوں کی صورتوں کو مسخ ہونے سے بچایا جائے۔ تو منصوبہ یہ ہے کہ ایک مربعے میں گلاب کے تختے ہوں، دو مربعوں میں آموں کا باغ ہو گا۔ یار بات یہ ہے مکروہ آوازیں سن سن کے میری سماعت خراب ہو گئی ہے۔ آموں کا باغ ہو گا تو کوئل کی آواز تو سنائی دے گی۔ کیوں کیا خیال ہے؟‘‘

’’اچھا خیال ہے‘‘۔

’’بس پھر تیار ہو جا، پاکستان کو خوبصورت بنانا ہے‘‘۔

بس اسی وقت آسمان پر ایک کھڑکھڑاہٹ ہوئی۔ ایسی کہ کانوں کے پردے پھٹ جائیں۔ اس کی اور افضال کی دونوں کی نظریں آسمان کی طرف اُٹھ گئیں۔ ’’ہوائی حملہ‘‘ اس کے منہ سے نکلا۔

’’ہوائی حملہ‘‘ افضال تعجب سے بولا ’’سائرن تو بولا نہیں‘‘۔

’’ہمارے سائرن آج صبح سے خاموش ہیں‘‘۔

افضال آسمان کو تکتا رہا۔ رفتہ رفتہ فضا خاموش ہو گئی۔ افضال نے اطمینان کا سانس لیا ’’یار میں تو ڈر رہا تھا کہ کہیں یہیں گولہ نہ گر پڑے اور یہ سب پھول۔۔۔‘‘ وہ چپ ہو گیا۔

’’اور تم کہتے ہو کہ پاکستان کو خوبصورت بنانا ہے‘‘۔

’’یار! جنگوں کو ہم روک نہیں سکتے؟‘‘

افضال نے اتنی معصومیت سے پوچھا کہ وہ ہنس پڑا۔

’’ذاکر، تو ہنس رہا ہے۔ میں نے سنجیدگی سے یہ سوال کیا ہے کیا ہم جنگوں کو روک نہیں سکتے؟‘‘

’’نہیں‘‘۔

’’کاکے پھر تو مجھے جانتا نہیں۔ مگر مجھے دو طیب آدمیوں کی ضرورت ہے۔۔۔ ذاکر‘‘۔

’’ہوں‘‘۔

’’تو میرا بازو بنے گا؟‘‘

آسمان پر پھر گھوں گھوں ہونے لگی۔ آواز تیز ہوتے ہوتے کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی کھڑکھڑاہٹ بن گئی۔ آج تیسرے پہر سے حملہ کرنے والے طیارے بہت نیچے اُڑ رہے تھے۔ تیزی سے آئے تھے اور گزرے چلے جاتے تھے، بغیر گولہ گرائے۔ اس نے سامنے رکھی ٹک ٹک کرتی گھڑی پر نظر ڈالی۔ ساڑھے سات بجنے والے تھے۔ تو گویا یہ آخری ہوائی یلغار ہے اور اسے یاد آیا کہ 65ء میں جنگ بندی کی رات کو بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ سوتے سوتے میں ایک دم سے جاگ پڑا۔ کمرے کی دیواریں ہل رہی تھیں، کھڑکیاں اور دروازے جھنجھنا رہے تھے۔ میں نے گھڑی پہ نظر کی۔ بارہ بج رہے تھے۔ میں حیران ہوا اور خوفزدہ ہوا اس گھڑی تو توپوں کو خاموش ہو جانا چاہیے تھا۔ کیا جنگ بندی کا معاہدہ ناکام ہو گیا اور جنگ دوبارہ شروع ہو گئی؟ توپیں اس شور سے گرج رہی تھیں کہ پچھلی سولہ راتوں کی گرج اور دھمک اس کے مقابلہ میں ماند پڑ گئی مگر ایک دم سے گرج اور دھمک رک گئی۔ کامل سکوت، اتھاہ سناٹا۔ ابھی وہ گرج اور دھمک تھی کہ زمین ہل رہی تھی اور دیواریں لرز رہی تھیں اور اب ایک دم سے اتنا سکوت، اتنا سناٹا۔ میں دہل گیا۔ شاید جنگ سے زیادہ جنگ بندی دہشت ناک ہوتی ہے۔ میں ایک دہشت سے نکل کر دوسری دہشت میں سانس لے رہا تھا۔۔۔ زیادہ گہری دہشت میں، پھر میں صبح تک نہ سو سکا۔

گھڑی کی سوئی انتیسویں منٹ سے ایک لمبا دہشت بھرا سفر کر کے تیسویں منٹ پر جا ٹکی ہے۔ آسمان خاموش ہے۔ تو ہندوستان کے طیارے آخری بار اپنا طنطنہ دکھا کر واپس جا چکے ہیں۔ گویا جنگ بندی ہو چکی ہے۔ میں اُٹھ کر دریچہ کھولتا ہوں، باہر جھانک کر آسمان کو دیکھتا ہوں، فضا میں دور تک نظر دوڑاتا ہوں۔ کچھ نظر نہیں آتا۔ فضا تاریک، پورا شہر اندھیرے میں غرق ہے۔ افضال ٹھیک کہتا تھا۔ باہر کچھ بھی نہیں ہے۔

میں دریچہ بند کرتا ہوں اور اندھیرے کمرے میں ٹٹولتے ٹٹولتے اپنے پلنگ پہ آ لیٹتا ہوں۔ باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ افضال ٹھیک کہتا تھا۔ باہر سب اسی طرح ہے۔ پھر یہ سب کچھ کہاں ہوا ہے؟ پھر یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے؟ کہاں سے؟ میرے اندر سے؟ مگر میں خود کہاں ہوں؟ یہاں یا وہاں؟ وہاں گرے ہوئے شہر میں؟ اور گرا ہوا شہر؟ مگر گرا ہوا شہر تو میں خود ہوں۔ دل ہمارا گویا دلی شہر ہے۔ شہر جب گرتا ہے اور آدمی جب ڈھیتا ہے، جب کڑیل جواب کبڑے ہو جاتے ہیں اور گھر کے رکھوالے تھرتھرانے لگتے ہیں اور جب ہم نے تم سے یہ عہد لیا تھا کہ آپس میں خونریزی مت کرنا اور اپنوں کو اپنے ملک سے مت نکالنا پھر تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم اس کے گواہ ہو۔ پھر وہی تم ہو کہ اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنوں میں سے ایک گروہ کو ملک سے نکالتے ہو۔ قتل کیا، پھر قتل ہوئے۔ نکالا، پھر نکلے اور پھر جب دہشتیں راہوں میں خیمہ زن ہوئیں اور گلیو ں کے کواڑ بند ہو گئے اور گھروں سے چکی کی آواز آنی بند ہو گئی اور چولہے ٹھنڈے ہو گئے اور جب میں قصر سوسن میں تھا تو ایسا ہوا کہ حنانی جو میرے بھائیوں میں سے ایک ہے، وہ آیا اور میں نے اُس سے اُن کا جو اسیروں میں سے باقی رہے اور بچ رہے، حال پوچھا، ونیز یروشلم کا۔ اس نے کہا کہ باقی بچ جانے والے ذلت اٹھاتے ہیں اور یروشلم کی دیوار ڈھائی ہوئی ہے اور اس کے پھاٹک آگ سے جلے ہیں۔ جہاں آباد خرابہ بن چکا ہے۔ مبالغہ نہ جاننا، امیر غریب سب نکل گئے۔ جو رہ گئے تھے وہ نکالے گئے۔ جاگیردار، پنشن دار، دولت مند، اہل حرفہ کوئی بھی نہیں۔ مفصل حالات لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ ملازمان قلعہ پر شدت ہے اور بازپرس اور داروگیر میں مبتلا ہیں۔ اپنے مکان میں بیٹھا ہوں۔ دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے شہر میں ہے کون ہے؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔۔۔ ہے موجزن ایک قلزم خوں کاش یہی ہو۔۔۔ وہ ایک بے کلی کے ساتھ اُٹھ کے بیٹھ گیا۔ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ کر اردگرد دیکھا۔ میں کہاں ہوں؟ کہاں کہاں کس کس کی کہی ہوئی باتیں، کب کب کے قصے، میرا دماغ ہنڈیا کی طرح پک رہا ہے۔ پھر سوچا کہ اس سے بہتر تو یہی ہے کہ ڈائری لکھنے بیٹھ جاؤں۔ آخر محض جنگ تک کی ڈائری لکھنے کی تو قسم نہیں کھائی تھی اور آج کی ڈائری تو ضرور لکھنی چاہیے۔ آج کے دن کو محفوظ کر لینا چاہیے۔ اس نے لالٹین کی لو اونچی کی اور لکھنا شروع کر دیا۔

18 دسمبر:

قلعۂ معلیٰ بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ میں ہرے بھرے شاہ کے مزار پر گیا۔ وہ مجذوب وہاں نہیں تھا۔ بہت تلاش کیا، نہیں ملا۔

دلی اب ایک غارت زدہ شہر ہے۔ اوراقِ مصوّر ایسے کوچے بکھرے پڑے ہیں۔ کتنے ورق اُڑ گئے، کتنوں کے نشان مٹ گئے۔ گھر کتنے بے چراغ ہیں، کتنے ڈھئے پڑے ہیں۔

میں اس خربے سے نکلا اور لکھنؤ کی راہ چلا۔ جب متصل اس شہر کے پہنچا تو سنا کہ لکھنؤ کی بساط اُلٹ چکی ہے اور نواب حضرت محل اپنے جاں نثاروں کی معیت میں شہر چھوڑ کر نیپال کے جنگلوں میں نکل گئی ہیں۔ لشکر فرنگ ان کے تعاقب میں ہے۔ شکاری کتّوں کی مثال انہیں نگر نگر، جنگل جنگل سونگھتا پھرتا ہے۔ میں حیران ہوا۔ ملکہ نے کیا سوچا کہ ہتھیار نہیں ڈالے۔ میں نے ملکہ کی نا مصلحت اندیشی پر افسوس کیا اور آگے بڑھ لیا۔

جھانسی کے نواح سے گزرتے گزرتے ایک راہرو سے پوچھا کہ بھائی! جھانسی کی کچھ خبر وبر ہے؟ افسوس سے بولا، مہارانی نے لڑ کر جان دے دی۔ جھانسی کا تختہ ہو گیا۔

میں آگے بڑھ لیا۔ کتنے شہروں کے نواح سے گزرا۔ ہر شہر کو برہم پایا۔ ہر مورچے کو ٹھنڈا دیکھا۔ نربدا میں پانی تھوڑا تھا، میں نے آسانی سے ندی عبور کر لی۔ عبور کر کے آگے چلا تو گھنا جنگل نظر آیا۔

تانیتا توپی سے ملاقات:

جنگل سے گزرتے گزرتے تانتیا توپی سے مڈھ بھیڑ ہو گئی۔ وہ اس گھنے ڈراؤنے جنگل میں ایسے نظر آتا تھا جیسے کچھار میں شیر۔ میں نے مودب ہوا سے شہروں کا احوال سنایا۔

’’دلی کا زوال ہو چکا‘‘۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘ اس نے لاپروائی سے جواب دیا۔

’’لکھنؤ کی بھی بساط اُلٹ چکی ہے‘‘۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

’’جھانسی کی رانی ماری گئی۔ جھانسی کا بولو رام ہو گیا‘‘۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

’’ہندوستان جنگ ہار چکا ہے‘‘۔

’’پھر کیا ہوا‘‘۔

’’اب لڑنا بے سود ہے۔ مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ ہتھیار ڈال دئیے جائیں۔ ویسے بھی برسات گزر چکی ہے۔ نربدا میں پانی ڈھل چکا ہے۔ فرنگی فوج کے رستے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے‘‘۔ تانتیا توپی نے مجھے گھور کے دیکھا۔ بولا:

’’میرے متر! پہلے میں ہندوستان کا تخت بچانے کے لیے لڑ رہا تھا، اب ہندوستان کی آتما بچانے کے لیے لڑ رہا ہوں۔ وہ لڑائی ہار گیا، یہ لڑائی نہیں ہاروں گا‘‘۔

چپ ہوا۔ مجھے غور سے دیکھا، بولا

’’تم مسلمان ہو؟‘‘

’’الحمد للہ کہ میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوں‘‘۔

’’جب ہی‘‘۔

’’اس کا مطلب؟‘‘

’’متر! مطلب اس کا ظاہر ہے۔ تم مسلمان لوگ اب صرف تخت کے لیے لڑتے ہو۔ لڑتے بھی کہاں ہو۔ مجھے پتہ ہے کہ دلی کے قلعے میں کیا ہوتا رہا ہے‘‘۔

دلی کے قلعے میں کیا ہوتا رہا ہے؟ اب اور پہلے۔ بھائیوں کے ہاتھوں بھائیوں۔۔۔ مغلوں کی زنگ آلود تلواریں۔ مگر شہزادہ فیروز شاہ۔۔۔ اور بخت خاں۔ وہ کس جنگل میں ہے؟ کیا وہ بھی نیپال کے جنگلوں میں بھٹک رہا ہے؟ کتنے لوگ ڈھاکہ سے نکل کر مرتے گرتے نیپال پہنچ چکے ہیں۔ نیپال کے جنگلوں کی آغوش کشادہ ہے۔ وہ جو سر نہ جھکانے کا خناس لے کر یہاں پہنچتے ہیں۔ وہ جو جان بچا کر بھاگتے ہیں اور یہاں آتے ہیں۔ کتوں نے بھونکنا شروع کر دیا ہے۔ میرا ذہن پراگندہ ہونے لگا۔ فقرے بے ربط ہوتے جا رہے ہیں۔ کتے بالکل اُسی طرح بھونک رہے ہیں جیسے کل رات بھونک رہے تھے۔ ان کے لیے کوئی فرق نہیں پڑا۔

لکھتے لکھتے وہ اُٹھا۔ کھڑکی کھول کر باہر نظر ڈالی۔ سامنے والی دو منزلہ عمارت میں روشنی ہو رہی تھی۔ سب کمروں میں بجلی جل رہی تھی۔ اسے یہ روشنی عجیب لگی۔ وہ تو یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آج کی رات کتنی گہری اور کالی ہے۔

واپس آیا، بستر پہ لیٹتے لیٹتے گھڑی پہ نظر ڈالی، حیران ہوا۔ ابھی صرف دس بجے ہیں؟ اچھا! اور لگ رہا ہے کہ آدھی رات گزر گئی۔ یا اللہ! یہ رات تو جنگ کی راتوں سے بھی لمبی ہو گئی۔

 

 

 

 

(9)

 

خواجہ صاحب ابھی ابھی آ کر بیٹھے تھے۔ ابا جان نے حقے کی نے ان کی طرف موڑتے ہوئے پوچھا:

’’کچھ پتہ چلا؟‘‘

’’ہاں کچھ پتہ چلا تو ہے‘‘۔ آج خواجہ صاحب کے لہجے میں اُمید کی رمق تھی۔

’’اچھا! کیا پتہ چلا؟‘‘

’’اُدھر سے ایک شخص آیا ہے۔ کہتا ہے کہ اس نے کرامت کو بنکاک میں دیکھا ہے‘‘۔

’’بنکاک میں؟‘‘

’’شاہ صاحب! اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ اس قیامت میں تو جس کے جدھر سینگ سمائے ادھر نکل گیا۔ کتنے تو ہندوستان میں چھپے چھپے پھر رہے ہیں۔ کتنے ہندوستان کی راہ نیپال پہنچ گئے۔ ادھر مشرق کی سرحد پاکر کے بہت سے برما میں نکل گئے۔ کوئی رنگون گیا، کوئی بنکاک پہنچا۔ وہ شخص بتاتا ہے کہ وہ بنکاک ہوتا ہوا آیا ہے۔ وہاں اس کی ملاقات کرامت سے ہوئی ہے‘‘۔

’’کون شخص ہے یہ؟‘‘

’’اجی وہ اپنے امرتسر کا محمد دین ہے نا، اُس کا جاننے والا ہے۔ اس سے میں نے اس شخص کا پتہ لیا ہے۔ وہ سیالکوٹ میں ہے۔ تو آج میں سیالکوٹ جا رہا ہوں‘‘۔

’’جاؤ اللہ مدد کرے گا‘‘۔

’’شاہ صاب! آپ کا کیا خیال ہے؟ مجھے تو یقین ہے کہ کرامت زندہ ہے اور واپس آئے گا‘‘۔

ابا جان نے تامل کیا، پھر بولے:

’’اُس کی رحمت سے کچھ دور نہیں۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ آدمی کے لیے پھانسی کا حکم صادر ہو گیا اور پھر وہ بچ گیا۔ بس ایمان پختہ رہنا چاہیے‘‘۔

’’وہ کیوں؟‘‘

’’اجی وہاں میرے سانڑوکاپراہ ہے۔ اس کا جنوائی۔ ادھر سے نکل کے آیا ہے۔ میرے سانڑو نے بتایا کہ وہ کرامت سے ملا ہے۔ بلکہ وہ تو یہ کہتا ہے کہ کرامت نے اسے کوئی چٹھی بھی دی ہے۔ تو آج میں لائل پور جا رہا ہوں۔ دیکھتا ہوں چٹھی میں کیا لکھا ہے؟‘‘ اُٹھ کھڑے ہوئے۔

خواجہ صاحب اور امی داخل ہوئیں:

’’اجی! میں نے کہا کہ یہ خواجہ صاحب فال کی جو بات کر رہے تھے تو مجھے خیال آیا کہ ہم بھی کیوں نہ فال نکلوائیں‘‘۔

’’ذاکر کی ماں! اللہ تعالیٰ کا حکم ہو گا تب کچھ ہو گا۔ بس اُس پہ بھروسہ رکھو‘‘۔

’’پتہ نہیں اُس کا حکم کب ہو گا؟‘‘ امی نے برہمی سے کہا۔

’’اس کی مصلحت وہی جانے۔ ہم تو خود اس کے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں۔ حکم ملے تو کوچ کریں‘‘۔ رکے، ٹھنڈا سانس بھرا، ’’بس اب ہمیں مر جانا چاہیے‘‘۔

’’اے ہے تم کیا ہر وقت مرنے کی رٹ لگائے رکھتے ہو۔ یہ نیا سودا سوار ہوا ہے؟‘‘

’’ذاکر کی ماں! جناب امیر کا قول یاد کرو کہ تم اور تمہاری آرزوئیں اس دنیا میں مہمان ہیں ذاکر کی ماں! مہمانوں کو یاد کرتے رہنا چاہیے کہ انہیں یہاں ہمیشہ نہیں رہنا‘‘۔

امی نے بیزاری سے ابا جان کی بات سنی اور اس کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ ’’ارے ذاکر! دلی سے خط کا جواب نہیں آیا؟‘‘

’’امی آئے گا۔ ڈاک وہاں دیر سے پہنچتی ہے اور دیر ہی سے وہاں سے آتی ہے‘‘۔

’’اے بیٹے! آخر کتنے دنوں میں خط پہنچتا ہے اور آتا ہے؟ تجھے تو لکھے ہوئے خاصے دن ہو گئے‘‘۔

’’امی ہندوستان پاکستان کی ڈاک میں بہت گڑبڑ ہے۔ کوئی خط پہنچتا ہے، کوئی نہیں پہنچتا‘‘۔

’’ارے بیٹا، تو اپنے دوست کو دوسرا خط لکھ‘‘۔

’’لکھا ہے امی، میرا خیال ہے اس خط کا جواب جلدی آئے گا‘‘۔

’’یار، میں دو خط لکھ چکا ہوں۔ سریندر نے جواب نہیں دیا۔ پتہ نہیں کیا بات ہے‘‘۔

’’پھر اُسے براہ راست خط لکھو‘‘۔

’’اُسے؟‘‘ وہ سوچ میں پڑ گیا۔

شیراز کا دروازہ کھلا اور افضال داخل ہوا۔ ’’یار! میں نے سنا ہے کہ وہ چوہا بھی آ گیا‘‘۔

’’کون؟‘‘

’’زوار‘‘۔

’’تم نے اب سنا ہے؟ زمانہ ہوا اُسے آئے ہوئے۔ پوسٹنگ بھی ہوئی اور ترقی کے ساتھ‘‘۔ عرفان کے لہجے میں تھوڑا طنز تھا۔

’’یار! تو اُسے معاف کر دے۔ وہ ہم میں سب سے زیادہ قابل رحم آدمی ہے‘‘۔

’’قابلِ رحم؟‘‘ عرفان نے افضال کو خشمگیں نظروں سے دیکھا۔

’’ہاں یار! مجھے اُس پہ بہت ترس آتا ہے۔ وہ رحم کا مستحق ہے‘‘۔

’’کس وجہ سے؟‘‘

’’اس وجہ سے کہ وہ سی ایس پی ہو گیا ہے اور ترقی کرتا چلا جا رہا ہے‘‘۔

’’واقعی وہ بہت قابل رحم ہے‘‘۔ عرفان نے تلخ لہجے میں کہا۔

’’یار! تم مجھے شراب نہیں پلا سکتے؟ بہت پیاسا ہوں‘‘۔

’’ہم صرف چائے پلا سکتے ہیں؟‘‘۔

’’چائے؟ چائے تو بیکار چیز ہے۔ باطن کی غلاظت شراب سے دھلتی ہے‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے جیب سے نوٹ نکالے، گنے۔ ’’یار! صرف دس روپے کی کسر ہے عرفان! پانچ تو نکال‘‘۔ اس کیا طرف دیکھتے ہوئے بولا:

’’پانچ اپنا کاکا دے گا‘‘۔

اس نے اور عرفان نے پانچ پانچ کا نوٹ جیب سے نکال کر افضال کے حوالے کیا۔ افضال فوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔ مگر پھر اسے کچھ یاد آیا۔ بیٹھتے ہوئے بولا۔

’’یار! وہ جو دو چوہے جو دم پہ کھڑے ہو جایا کرتے تھے، میں ان کے لیے دعا کرنا چاہتا ہوں‘‘۔

’’کہ وہ امریکہ ہی میں رہیں‘‘۔

’’نہیں یارٍ! مجھ سے بددعا مت کراؤ۔ سلامت اور اجمل اتنے بُرے نہیں تھے۔ شراب پی کر اچھی باتیں کرتے تھے۔ یار! وہ امریکہ کیوں چلے گئے؟ میں ان کے لیے یہاں بندوبست کر رہا تھا۔ مجھے مربعے بس الاٹ ہونے والے ہیں۔ ایک مربع میں تو صرف گلاب کے تختے ہوں گے۔ ایک مربع میں مَیں چاہتا ہوں کہ بس بیریہوٹیاں ہوں‘‘۔

’’بیریہوٹیاں؟‘‘ عرفان نے طنزیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔

’’کاکے! تو چپ رہ تجھے یہ بات سمجھ نہیں آئے گی۔ ساون میں میں بہت پریشان پھرتا ہوں۔ یہاں کہیں بیر بہوٹی دکھائی نہیں دیتی۔ بیر بہوٹیاں ہونی چاہئیں۔ پاکستان کو خوبصورت بنانا ہے‘‘۔ پھر لہجہ بدل کر مخاطب ہوا:

’’سنو! تم دونوں میرے ساتھ رہو گے۔ یہ حکم ہے۔ میں اور تم دونوں‘‘۔

’’اور بیر بہوٹیاں‘‘۔ عرفان نے ٹکڑا لگایا۔

’’ہاں اور بیر بہوٹیاں۔ خوبصورت پاکستان میں صرف خوبصورت لوگ رہیں گے‘‘۔

 

 

 

 

(10)

 

اس نے گرجتے نعروں اور برستی اینٹوں میں سڑکوں کو عبور کیا اور ’’شیراز‘‘ کے بند پردہ پوش دروازے پر دستک دی۔ ایک دستک، دوسری دستک، تیسری دستک۔ عبدل نے تھورا سا پردہ سرکا کر اندر جھانکا، پھر دروازے کا ایک پٹ ذرا سا کھولا ’’ذاکر جی، جلدی آ جاؤ‘‘۔

اندر نیم تاریکی میں خالی میز کرسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے اس گوشے کو تاڑا جہاں عرفان اکیلا بیٹھا چائے پی رہا تھا۔

’’یار، یہ تو وہی زمانہ آ گیا‘‘۔

’’اس سے برا زمانہ، اس لیے کہ جب وہی زمانہ واپس آتا ہے تو زیادہ برا ہو کر آتا ہے مگر تم کیسے آ گئے؟ مجھے تو یقین نہیں تھا کہ آج تم آ سکو گے‘‘۔

’’بس آ گیا۔ دلی کے وضعداروں میں ایک وضعدار بزرگ تھے۔ روز شام مقررہ وقت پر دوست کے گھر دستک دیا کرتے تھے اور بیٹھک کرتے تھے۔ غدر جب پڑا تو آنے جانے کے سارے رستے بند ہو گئے۔ وہ وضعدار گھر سے نکلے اور کھائیوں، نالیوں میں سے رینگ رینگ کر لشٹم پشٹم مقررہ وقت پر دوست کے گھر پہنچے‘‘۔

’’ہاں، ہم بھی غدر کے وضعداروں میں سے ہیں‘‘۔

’’اگرچہ وہ وقت ابھی نہیں آیا ہے‘‘۔

’’ہاں ابھی تو نہیں آیا ہے‘‘۔

دروازے پر پھر دستک ہوئی اور پھر عبدل نے دوڑ کر تھوڑا سا پردہ سرکا کر شیشے سے جھانکا۔ پھر پہلے کی طرح ایک پٹ ذرا سا کھولا ’’افضال جی، جلدی کرو‘‘۔ افضال کو داخل کرنے کے بعد پھر دروازہ بند کر لیا۔

نیم تاریک فضا میں خالی میز کرسیوں پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اس میز پر نگاہیں مرکوز کیں جہاں وہ دونوں بیٹھے تھے ’’اے لوگو! تم دیکھتے ہو کہ فساد کی صورتیں پھر نمودار ہو رہی ہیں‘‘۔

’’ہاں ہم نے سنا اور ہم نے دیکھا اور ہم نے تصدیق کی‘‘۔ عرفان نے ایک ہلکے سے طنزیہ لہجے میں کہا۔

افضال نے خوش ہو کر اس کی پیٹھ تھپکی ’’تو اچھا آدمی ہے۔ بس جب تو مجھ سے انکار کرتا ہے اس وقت مکروہ ہو جاتا ہے‘‘۔

’’یار، کیا پھر کچھ ہونے والا ہے؟‘‘ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔

’’ہاں سلامت آ گیا ہے‘‘ عرفان نے اس کے سوال کو نظر انداز کر کے اطلاع دی۔

’’کیا کہا؟ وہ چوہا پھر آ گیا؟‘‘ افضال چونکا ’’اور دوسرا چوہا؟‘‘

’’دونوں آ گئے ہیں اور مسلمان ہو گئے ہیں‘‘۔

’’بالکل، دونوں انقلابی دو پلّو ٹوپی سر پر منڈھ کر مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں‘‘۔

’’واقعی؟‘‘ وہ حیرت زدہ رہ گیا ’’یہ واقعی تشویشناک بات ہے‘‘۔

عبدل نے چائے لا کر رکھی، پھر کھڑا ہو گیا ’’یہ جی سب کیا ہو رہا ہے؟‘‘

’’جو تم دیکھ رہے ہو‘‘۔ عرفان بولا۔

’’بس جی اچانک ہی شروع ہو گیا۔ سان گمان بھی نہیں تھا کہ پھر ایسا ہو گا‘‘۔

’’عبدل!‘‘ افضال نے اسے گھور کے دیکھا ’’تو بھی چوہا ہو گیا‘‘۔

عبدل نے افضال سے سیدھا سوال کر ڈالا ’’افضال صاحب جی! آپ بتائیں، آخر ہو گا کیا؟ کیا ہونے والا ہے؟‘‘

افضال نے ہونٹوں پر انگلی رکھی ’’عبدل چپ رہ۔ مجھے بیان کرنے کا حکم نہیں ہے‘‘

فائر بریگیڈ کی دور سے آواز آئی۔

’’کہیں آگ لگی ہے‘‘۔

خاموشی۔۔۔ سب کے کان فائر بریگیڈ کی آواز پر تھے۔

’’دوستو! میں تم سے ایک اجازت لینا چاہتا ہوں‘‘۔ افضال نے اتنی سنجیدگی سے کہا کہ وہ عرفان اور عبدل تینوں گوش بر آواز ہو گئے۔

’’جانتے ہو کہ بابا فرید نے کلیر والے خواجہ سے کیا فرمایا تھا؟ نہیں جانتے ہو تو سنو۔ خواجہ نے بابا کو شہر کے مکروہ لوگوں کا حال لکھ کر بھیجا۔ بابا نے کہا بھیجا کہ صابر، کلیر تیری بکری ہے، ہم نے اجازت دی۔ چاہے تو اس کا دودھ پی، چاہے اس کا گوشت کھا۔ تب خواجہ نے مسجد کے سامنے کھڑے ہو کے کہا کہ اے مسجد سجدہ کر۔ مسجد حکم بجا لائی اور ایسا سجدہ کیا کہ سینکڑوں ملبے کے نیچے دب کے مر گئے۔ پھر وبا پھیلی۔ ایک ایک گھر سے ایک ایک وقت کئی کئی جنازے نکلے‘‘۔

افضال سنا کر چپ ہو گیا۔ پھر تینوں چہروں کو گھور کے دیکھا۔ پھر گھمبیر لہجے میں بولا۔

’’دوستو کیا کہتے ہو؟ اس بکری کا کیا کروں؟ دودھ پیوں یا گوشت کھاؤں؟‘‘

عرفان نے افضال کی پوری تقریر کو نظر انداز کیا اور اس سے مخاطب ہوا ’’ذاکر، اب تمہارے والد کا کیا حال ہے؟‘‘

’’کوئی بات نہیں، بڑھاپے میں آدمی ایسی ہی باتیں کرتا ہے‘‘۔

شجرہ، بوسیدہ مخطوطے، دیمک لگی پیلے ورقوں والی کتابیں، پرانے رقعے پرچے، کب کب کے لکھے ہوئے نسخے، دعائیں، تعویذ، ابا جان عینک لگائے ایک ایک تحریر کو غور سے پڑھتے جاتے تھے اور اس کے سپرد کرتے جاتے تھے۔

’’اے ہے آج یہ تم کیا دفتر کھول کے بیٹھو ہو۔ ذرا طبیعت تو سنبھل جانے دی ہوتی۔ یہ سمجھ لو کہ بڑھاپے میں آدمی ایک دفعہ گر جائے تو مشکل سے کھڑا ہوتا ہے‘‘۔

’’ذاکر کی ماں! دامن جھاڑ رہا ہوں۔ آدمی جب اُٹھے تو دامن جھاڑ کے اُٹھے‘‘۔ رک کر بولے ’’اللہ کا شکر ہے کہ دامن زیادہ گرد آلود نہیں۔ نہ جائیداد، نہ روپیہ پیسہ۔ اگر تھا تو اُدھر ہی رہ گیا بس یہی تھوڑے اوراق پارینہ ہیں‘‘۔

’’اجی تمہیں تو وہم ہو گیا ہے۔ ہر وقت مرنے کا ذکر اچھا نہیں ہوتا‘‘۔

’’ذاکر کی ماں! اب اچھا ذکر کون سا کرنے کے لیے رہ گیا ہے۔ دیکھ نہیں رہی ہو۔ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے‘‘۔ یہ کہتے کہتے انہوں نے ایک پھپھوندی لگی جلد کی کتاب اُٹھائی۔ کھول کر دیکھا اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’حضرت سجاد کی دعاؤں کا مجموعہ ہے۔ احتیاط سے رکھو‘‘۔ رکے کچھ سوچا، پھر کہنے لگے ’’ایک سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ یا سید الساجدین، آپ نے صبح کس عالم میں کی؟ آپ نے فرمایا پالنے والے کی قسم، ہم نے بنی اُمیّہ کے ظلم میں صبح کی‘‘۔ ابا جان یہ کہہ کے افسردہ ہو گئے، کہنے لگے ’’بیٹے! تب سے اب تک وہی صبح چل رہی ہے‘‘ چپ ہو گئے، پھر بولے ’’اور ظہور تک چلے گی‘‘۔ پھر چپ ہو گئے اور لمحہ بھر بعد خود ہی کہنے لگے ’’جب ہی تو حضرت رابعہ بصری نے ایسا جواب دیا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ آپ نے دنیا میں آ کر کیا کیا؟ فرمایا، افسوس! ہاں اس نیک بی بی نے تو افسوس کرنے کا حق ادا کیا کہ ہر وقت گریہ کرتی رہتی تھیں۔ ہم نے کیا حق ادا کیا۔ بس چند ٹھنڈی آہیں بھریں اور چپ ہو رہے۔ شاید ہمارے حصے میں اتنا ہی افسوس آیا تھا۔ آگے جو زندہ رہے گا وہ اپنا حق ادا کرے گا‘‘۔ ٹھنڈا سانس بھرا اور پھر کاغذات کریدنے لگے ’’یہ لو، یہ درد قولنج کا نسخہ ہے، حکیم نابینا کا لکھا ہوا۔ ایک پڑیا تمہارے سو انجکشنوں پہ بھاری ہے۔ احتیاط سے رکھو‘‘۔ اور وہ خستہ حال پرچی اسے دے کر پھر چیزیں اُلٹ پلٹ کرنے لگے۔

بغچے کے اندر کے خانے سے ایک سجدہ گاہ، ایک تسبیح نکلی ’’ذاکر کی ماں، یہ تم رکھو لو۔ سجدہ گاہ خاک شفا کی ہے اور تسبیح خاک کربلا کی ہے۔ دونوں چیزوں کو آنکھوں سے لگایا، بوسہ دیا اور امی جان کے حوالے کر دیا۔

باغیچے کے کہیں بہت اندر سے کاغذوں کے نیچے سے چابیوں کا ایک گچھا برآمد کیا۔ اسے غور سے دیکھا۔ بولے ’’تم اس روز حویلی کی چابیوں کو یاد کر رہی تھیں، یہ مل گئیں‘‘۔

امی کا مرجھایا چہرہ کھل اٹھا ’’سچ؟‘‘ چابیوں کے گچھے کو اشتیاق بھری نظروں سے دیکھا ’’اجی تمہیں یقین نہیں آوے گا، اس روز جب تم نے کہا کہ خبر نہیں کہاں رکھی ہیں تو میرا دل دھک سے رہ گیا۔ لگتا تھا کہ جیسے جسم سے روح نکل گئی ہو‘‘۔ رک کر بولیں ’’اجی زنگ تو نہیں لگا ہے‘‘۔

ابا جان نے ایک مرتبہ پھر چابیوں کا جائزہ لیا ’’نہیں، ہم نے تو انہیں زنگ لگنے نہیں دیا، آگے ذاکر میاں جانیں‘‘۔ پھر اس سے مخاطب ہوئے ’’بیٹے یہ اس گھر کی چابیاں ہیں جس پر اب ہمارا کوئی حق نہیں ہے اور حق پہلے بھی کہاں تھا۔ دنیا جیسا کہ جناب امیر نے فرمایا۔ مہمان خانہ ہے۔ ہم اور ہماری آرزوئیں اس میں مہمان ہیں۔ مہمانوں کا حق نہیں ہوا کرتا۔ زمین جتنا مہمانوں کو نواز دے اس کا احسان ہے اور زمین کے ہم پہ بہت احسانات ہیں یہ چابیاں امانت ہیں۔ اس امانت کی حفاظت کرنا اور چھوڑی ہوئی زمین کے احسانوں کو یاد رکھنا کہ یہی تمہاری سب سے بڑی سعادت مندی ہو گی‘‘ یہ کہتے کہتے ایک دم سے سانس اُکھڑ گیا۔ اذیت کی کیفیت کے ساتھ آنکھیں بند کیں اور سینے پہ ہاتھ رکھا۔ امی گھبرا کر فوراً کھڑی ہو گئیں ارے یہ کیا ہو گیا‘‘۔ سہارا دے کر لٹایا ’’بیٹے ڈاکٹر کو بلاؤ‘‘۔ ابا جان نے آنکھیں کھولیں۔ اشارے سے منع کیا۔ آہستہ سے بصد دقت کہا۔ ’’جناب امیر تشریف لائے ہیں‘‘۔

وہ جیسے سکتے میں آ گیا ہو، بت بنا دیکھتا رہا۔ ابا جان نے ایک مرتبہ پھر آنکھیں کھولیں، اس کی طرف دیکھا، آہستہ سے جیسے سرگوشی میں کہہ رہے ہوں۔ ’’بیٹے صبح ہو رہی ہے، درود پڑھو‘‘۔ ساتھ ہی ہچکی لی کہ سر تکیے پہ ڈھلگ گیا۔ امی کہاں اتنی گھبرائی ہوئی تھیں، کہاں ایک دم سے ساکت ہو گئیں۔ پھر انہوں نے بہت آہستہ سے چادر سے اس ٹھنڈے جسم کو ڈھانپا۔ ساتھ ہی زمین پہ ڈھیر ہو گئیں اور پٹی پہ سر ٹکا کے سسکیاں لینے لگیں۔

’’کاکے! تیرا باپ طیب آدمی تھا‘‘۔ افضال نے اسے گلے لگاتے ہوئے جذباتی لہجے میں کہا ’’میں اسے دیکھتا تو سوچتا کہ پنگھوڑے میں لیٹے لیٹے اس کی ڈاڑھی نکل آئی ہے۔ بالکل بچہ تھا، ایک دم سے معصوم‘‘۔

’’واقعی بہت نیک اور شریف آدمی تھے‘‘۔ عرفان جو دیر سے چپ بیٹھا تھا، متانت سے بولا۔

افضال نے عرفان کو غور سے دیکھا۔ ’’شکر ہے تو نے میری تائید کی۔ دنیا میں کم از کم ایک آدمی کے بارے میں تو تیری رائے اچھی ہے‘‘۔

پھر خاموشی چھا گئی۔ پھر افضال کچھ سوچتے ہوئے بولا ’’ذاکر، میری نانی تھی نا! جو جب سے آئی تھی یہی کہہ رہی تھی کہ کاکا باڑھ اُتر گئی ہو گی، گھر چل‘‘۔

’’ہاں ہاں، کیا ہوا اُنہیں؟‘‘

’’وہ مر گئی‘‘۔

’’اچھا؟۔۔۔ بہت افسوس ہوا۔۔۔ مگر کیسے؟‘‘

’’بس جیسے تیرا باپ مر گیا۔ اس میں کیسے اور کیوں نہیں ہوتا۔ بس آدمی مر جاتا ہے‘‘۔

’’ٹھیک کہتے ہو‘‘۔

’’ایک دن بہت لجاجت سے اس نے مجھ سے کہا کہ کاکا، اتنا ویلا ہو گیا۔ اب تو باڑھ اُتر گئی ہو گی۔ مجھے تو گھر لے چل، میں نے کہا کہ میری نانی باڑھ اُدھر اُتر گئی مگر اس طرف چڑھ گئی ہے۔ اس نے مجھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا بس ایک لفظ کہا ’’اچھا‘‘ اور مر گئی‘‘۔

’’پتر! رات مولانا صاحب خواب میں آئے تھے۔ کچھ پریشان تھے۔ مجھے فکر ہوئی کہ کیا بات ہے۔ صبح ہی قبرستان گیا۔ قبر پر فاتحہ پڑھی۔ قبر بیٹھ گئی ہے، اس کا بندوبست کرو‘‘۔

’’جی، بہت اچھا‘‘۔

’’میں نے گورکن سے کہا ہے کہ چالیس دن تک روز شام کو چراغ جلنا ہے۔ موم بتیوں کا ایک پیکٹ بھی دے آیا ہوں۔ ذرا تم بھی تاکید کرنا‘‘۔

’’جی، بہت اچھا‘‘۔

’’مولانا صاحب جنتی آدمی تھے، کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔ مجھے ان سے بڑی ڈھارس تھی۔ کرامت کی جدائی میں دل بے چین ہوتا تھا۔ تو ان کے پاس آ جاتا تھا۔ ایسی روایتیں، حدیثیں سناتے تھے کہ دل کو قرار آ جاتا تھا‘‘۔

’’خواجہ صاحب، سلامت تو آ گیا ہے‘‘۔

’’اس بددے تخم کو کس نے بلایا تھا۔ جس کا انتظار ہے وہ آتا نہیں۔ جس کے جانے پہ خدا کا شکر ادا کیا تھا وہ پھر آ کے سینے پہ مونگ دلنے لگا۔ پتر اس کے وہی لچھن ہیں‘‘۔

’’مگر میں نے تو سنا ہے کہ وہ اب نماز پڑھنے لگا ہے‘‘۔

’’ہاں پتر‘‘ خواجہ صاحب نے ٹھنڈا سانس بھرا ’’پہلے وہ ہمیں سوشلزم سکھاتا تھا، اب اسلام پڑھا رہا ہے۔ اپنی ماں کو آج اسلام پہ لیکچر دے رہا تھا۔ وہ بولنے لگی تھی۔ میں نے اسے روکا کہ نصیباں والی، اس ویلے تیرا پتر نشے میں ہے۔ جب ہوش میں آ جاوے اس وقت اس سے بات کیجو۔ بولی، وہ ہوش میں کب ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ نیک بخت، ہوش میں اس ویلے ہے کون۔ لوگوں نے آدھا ملک کھو دیا اور ہوش میں نہیں آئے۔ اس نے تو ایک بھائی ہی کھویا ہے۔ پتر، میں نے ٹھیک کہا نا؟‘‘

’’جی، آپ نے درست فرمایا‘‘۔

’’پتر! لوگوں کو کیا ہو گیا ہے‘‘۔ خواجہ صاحب کا لہجہ ایک دم سے بدل گیا۔

’’کیا ہوا؟‘‘

’’جو ہو رہا ہے وہ تم دیکھ رہے ہو۔ آگے کیا ہو گا یہ پتہ نہیں۔ لوگوں پہ خون سوار ہے۔ پتہ نہیں کیا کریں گے۔ سنا ہے کہ گھروں پہ نشان لگنے شروع ہو گئے ہیں‘‘۔

’’نشان؟ کیسے نشان؟‘‘

’’پتر تو کس دنیا میں رہتا ہے۔ لڑائی کی تیاریاں ہیں۔ دونوں طرف اتنا گولہ بارود جمع ہے کہ بس فیتہ لگنے کی دیر ہے۔ یہ شہر ایسا بھڑکے گا جیسے سوکھا ایندھن دیا سلائی لگنے پہ بھڑکتا ہے۔ اللہ رحم ہی کرے۔ رک کر قریب آئے اور سرگوشی کے لہجے میں کہا ’’پتر ایک بات بتا‘‘۔

’’جی‘‘

’’ویسے تو پاکستان پر ولیوں کا سایہ ہے، پر کبھی کبھی ڈر لگتا ہے۔ پاکستان پہ کوئی آنچ تو نہیں آئے گی؟‘‘

وہ اس سوال پہ بوکھلا سا گیا۔ خواجہ صاحب نے اس کی پریشانی دیکھی۔ بولے ’’کاکا! یہی سوال میں نے مولانا صاحب سے کیا تھا۔ ہر سوال کا جواب وہ آیت حدیث سے دیتے تھے۔ اس سوال پہ چپ ہو گئے۔ ایسے چپ ہوئے کہ پھر ہمیشہ ہی کے لیے چپ ہو گئے‘‘۔

تعزیتی خطوط کے بیچ ہندوستان سے آیا ہوا ایک خط۔ ارے یہ تو سریندر کا خط ہے۔ اس نے عجلت سے لفافہ چاک کیا۔

’’یار ذاکر! میں نے اگر تمہارے پتروں کا جواب نہیں دیا تو اس کا کارن یہ ہے کہ میں دیس میں نہیں تھا۔ لمبے سمے سے یورپ کے دیسوں میں گھوم پھر رہا تھا۔ لوٹ کے آیا تو تمہارے پتر ملے۔

تمہاری ماتا صابرہ کی فیملی کی خیریت معلوم کرنے کے لیے بے چین ہوں گی۔ مگر صابرہ کو بھی ان لوگوں کے بارے میں کوئی خیر خبر نہیں مل سکی۔ میں نے اس سے تمہارے پتروں کا ذکر کیا۔ بولی کچھ نہیں، رو پڑی۔ میں چکرا گیا۔ ان دنوں میں بھی جب ڈھاکہ سے بُری بُری خبریں آ رہی تھیں، میں نے اسے ہمیشہ شانت پایا۔ مگر آج وہ رو پڑی۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ مگر میں اسے دیکھ کے دُکھی ہوا۔ متر! ایک بات کہوں؟ بُرا مت ماننا۔ تم ظالم آدمی ہو، یا شاید پاکستان جا کر ہو گئے ہو‘‘۔

نئی دہلی

تمہارا سریندر

رو پڑی؟ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ ماں اور بہن کی یاد آنے پر رو پڑنا عجیب بات تو نہیں ہے اور بالخصوص ایسی حالت میں کہ ان کا اتا پتا ہی نہیں ہے۔ زندہ ہیں یا مر گئیں۔ یہ توجیہ اسے بہت معقول نظر آئی۔ مگر فوراً ہی اسے بے چینی سی ہونے لگی جیسے یہ توجیہہ ناکافی ہو۔ میرے خطوں کا سن کر رو پڑی! کیوں؟ میں ظالم؟ وہ کیسے؟

باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے جا کر دیکھا۔ افضال کھڑا تھا۔

’’دوست، بے وقت آنے کے لیے مجھے معاف کرو‘‘۔

’’کمال ہے، تم بھی وقت اور بے وقت کے قائل ہو گئے‘‘۔

’’میں تو نہیں ہوں، میرے لیے سب وقت ایک وقت ہیں، مگر تیرے تو اوقات ہیں‘‘۔

’’مجبوری ہے، بندگی بے چارگی میں اوقات کا کچھ نہ کچھ تو لحاظ رکھنا ہی پڑتا ہے خیر چھوڑو اس ذکر کو‘‘۔

’’پوچھنا چاہتے ہو، میں اس وقت کیوں آیا۔ یار اکیلے میں مجھے خفقان ہونے لگا تو میں نکل کھڑا ہوا۔ آج میں ڈرا ہوا بہت ہوں‘‘۔

’’ڈرے ہوئے؟ کیوں؟‘‘

’’یار! مجھے آوازیں سنائی دیتی ہیں‘‘۔

’’آوازیں؟ کیسی آوازیں؟‘‘

’’یہی تو میری سمجھ میں نہیں آتا۔ اچانک میں ڈرا کہ کہیں آندھی نہ چل پڑے اور کوئی چیخ مجھے آ لے‘‘۔

’’کیا؟ کیا کہہ رہے ہو؟ بہک گئے ہو تم؟‘‘ اس نے افضال کو غور سے دیکھا۔ جو بہت دہشت زدہ نظر آ رہا تھا۔

افضال نے اس کی بات سنی ان سنی کی۔ کہنے لگا ’’صبح جب میں اُٹھا تو میں گھبرا کر آئینے کے پاس گیا اور اپنی صورت دیکھی کہ کہیں میں۔۔۔‘‘

’’افضال!‘‘ اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا ’’تمہیں تو دوسرے مکروہ نظر آتے ہیں‘‘۔

’’یار ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی دوسروں کو مکروہ سمجھتے سمجھتے۔۔۔ بس کسی صبح اسے پتہ چلتا ہے کہ خود اس کی شکل بدل گئی ہے۔ مجھے کل پرسوں سے شک سا ہو رہا ہے کہ کہیں میں بھی۔۔۔ کہیں میری شکل۔۔۔؟‘‘

’’اچھا بکواس بند کرو۔ یہ پلنگ ہے، اس پہ لیٹو اور سو جاؤ‘‘۔

’’ہاں یار‘‘ وہ فوراً ہی پلنگ پہ جا لیٹا ’’میں سونا چاہتا ہوں‘‘۔ یہ کہتے کہتے اردگرد دیکھا، تعجب سے بولا ’’یار! تیرا کمرہ مجھے غار لگتا ہے‘‘۔ رکا، سوچا، آہستہ سے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، میں بھی بہت جاگا ہوا ہوں۔ سات سو سال تک سوؤں گا۔‘‘ اور آنکھیں اس کی مندتی چلی گئیں۔

آوازیں، کیسی آوازیں؟ وہ بڑبڑایا۔ افضال کے تو کان بجتے ہیں۔ چپ ہو گیا مگر اندر ہی اندر بول رہا تھا۔ یہ شخص وہموں میں زندہ ہے۔ روز ایک نیا وہم۔ یہ شخص ابھی تک بالغ نہیں ہوا ہے۔ سمجھتا ہے کہ وہ بچہ ہے اور اپنی نانی کے ساتھ اپنے اُسی پرانے قصبے کی فضا میں سانس لے رہا ہے، جہاں ایسے ہی درخت ہوں گے جیسے ہمارے روپ نگر میں تھے۔ روپ نگر، وہاں درخت ہی ایسے تھے جنہیں دیکھ کر ایسے وہم خواہ مخواہ پیدا ہوتے تھے اور وہ تصور ہی تصور میں روپ نگر میں جا پہنچا۔ ٹیکا ٹیک دوپہری، کالے مندر سے گزر کر، کربلا کی طرف سے ہو کر وہ قلعے کے پاس پہنچے۔ پھر اور آگے چلے، چلتے چلے گئے۔ راون بن میں جا پہنچے۔ چلتے چلتے ٹھٹکے۔ دور فاصلے پر بڑھ کا پیڑ دکھائی دے رہا تھا۔ راون بن کے بیچ کھڑا ہوا اکلوتا پیڑ جیسے راون کھڑا ہو۔ پیڑ میں جیسے انہیں کچھ دکھائی دے رہا ہو۔ پھر حبیب ڈری آواز میں بولا:

’’یار! یہ آواز کیسی تھی؟‘‘

’’آواز‘‘ بندو نے حیرت سے حبیب کی طرف دیکھا۔

’’ابھی جو آئی تھی۔ ذاکر! تجھے سنائی دی تھی؟‘‘

’’نہیں‘‘۔

’’سنو!‘‘ حبیب نے ایسے کہا جیسے وہ پھر آواز سن رہا ہو۔

تینوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ چلچلاتی دھوپ میں گم سم کھڑے کان لگائے کسی دور کی انجانی بھید بھری آواز پر۔ اُسے خود کچھ سنائی نہیں دیا۔ مگر حبیب اور بندو کے چہروں پر پھیلتی حیرت اور دہشت بتا رہی تھی کہ انہوں نے کوئی آواز سنی ہے اور انہیں دیکھ کر وہ بھی حیرت اور دہشت کے اثر میں آ گیا۔

’’بھاگو‘‘۔ حبیب نے ایسے کہا جیسے آواز چل کر ان کے قریب آ رہی ہو اور دبوچ لینا چاہتی ہو۔ اور وہ ان کے ساتھ ساتھ بھاگ کھڑا ہوا۔ بھاگتا چلا گیا، بھاگتا رہا۔ راون بن سے واپسی کالے کوسوں کا سفر بن گئی۔ آواز جیسے پیچھے پیچھے چلی آ رہی ہو اور بستی، اپنا گھر، میلوں دور ہو۔ ابھی تو کالا مندر بھی دکھائی نہیں دیا تھا۔ دکھائی دیا تو اس طرح کہ جیسے افق کے اُس پار ہو۔ حبیب اور بندو آگے نکل گئے تھے۔ وہ اکیلا پیچھے رہ گیا تھا اور دوڑے جا رہا تھا جیسے زمانہ گزر گیا ہو اور وہ دوڑے جا رہا ہو۔ کب تک دوڑتا رہوں گا۔ میرا سانس پھولنے لگا ہے اور ٹانگیں تھک چکی ہیں۔ تھکی ٹانگوں اور پھولتے سانس کے ساتھ میں اس نرجن بن میں اکیلا دوڑ رہا ہوں۔ مگر کب تک؟ گھر کتنی دور ہے؟ دور تک کوئی آدمی نظر نہیں آتا۔ دوڑتے دوڑتے اس کی ٹیلے پر نظر گئی۔ آدمی، یہ آدمی ہے؟ اس کے جسم میں رعشہ دوڑ گیا اور پاؤں سو سو من کے ہو گئے۔ یہ آدمی ہے؟

افضال کے ایک اونچے خراٹے نے اسے جگا دیا یا چونکا دیا۔ وہ سویا کہاں تھا؟ اس نے افضال پر ایک نظر ڈالی جو بے سدھ سو رہا تھا اور اونچے خراٹے لے رہا تھا۔ یہ شخص واقعی سات سو سال تک سوئے گا۔ اس نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے جمائی لی اور بڑبڑایا۔ پھر سوچ میں ڈوب گیا۔ افضال نے ٹھیک کہا۔ ہاں واقعی یہ وقت لمبی نیند لینے کا ہے۔ آدمی سب سے الگ کسی غار میں جا کر سو رہے۔ سوتا رہے، سات سو سال تک۔ جب اُٹھے اور غار سے باہر نکل کر دیکھے تو پتہ چلے کہ زمانہ بدل چکا ہے اور وہ نہیں بدلا ہے۔ اچھا ہے، اس سے اچھا ہے کہ روز صبح اُٹھ کر اس اندیشے کے ساتھ آئینہ دیکھے کہ اس کی صورت تو نہیں بدل گئی ہے۔ اور دن بھر یہ وسوسہ سناتا رہے کہ شاید وہ بدل رہا ہے۔ اردگرد لوگوں کو بدلتے دیکھ کر ایسے ہی وسوسے پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی وسوسہ پیدا نہیں ہوتا اور پھر آدمی بدل جاتا ہے۔ کیسے؟ کیسے وہ بدلتے چلے گئے۔ وہ جن میں سے ہر شخص یہ سمجھ رہا تھا کہ دوسرے بدل رہے ہیں، اس کی شکل جوں کی توں ہے۔ ہر ایک نے ہر دوسرے کو دیکھا اور ششدر رہ گیا۔

’’عزیز! تجھے کیا ہو گیا؟‘‘

’’مجھے؟ مجھے تو کچھ نہیں ہوا۔ مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے کچھ ہو گیا ہے‘‘۔

’’عزیز، مجھے کچھ نہیں ہوا ہے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ تیری شکل‘‘۔

ایک دوسرے کے ساتھ، دوسرا تیسرے کے ساتھ اُلجھتا چلا گیا۔ ایک نے دوسرے کو بھنبھوڑا، دوسرے نے تیسرے کو بھنبھوڑا۔ سب ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہے تھے اور مجروح اور مسخ ہوتے چلے جا رہے تھے۔ میں ڈرا کہ مبادا میں بھی۔۔۔ میں نکل کھڑا ہوا۔ مجھے اپنے غار میں جا کر سو جانا چاہیے۔ سوتے رہنا چاہیے، یہاں تک کہ زمانہ بدل جائے۔ میں جنگل میں ہوں۔ جنگل گھنا ہوتا جا رہا ہے۔ کتنا گھنا، کتنا گہرا اور یہ نگری؟ نہ شانتی کے شبد، نہ شردھا کی ورشا۔ بانسری کی مدھر تان ٹوٹ چکی تھی۔ بھکتی رس کہیں نہیں تھا۔ جل ستھل اتھل پتھل۔ نر ناری بیاکل۔ جنتا گھروں سے نکلی ہوئی۔ جیسے کوئی بھونچال میں گھر چھوڑ کے بھاگے سدا چاریوں پہ انیائے ہو رہا تھا۔ ساوتری ایسی استریوں کی ساڑھیاں لیر لیر تھیں۔ سیندور سے بھری مانگیں اُجڑ رہی تھیں۔ بھری گودیں خالی ہو رہی تھیں۔ بالکوں کے منکے ڈھلے تھے، پتلی پھری تھی۔ میں بھوچک کہ اس نگری کا رکھشک کہاں ہے؟ ایک جٹا دھاری مجھ پہ گرجا: مورکھ، اس نگری کا رکھشک جگ نستار نہار تھا۔ پر اس نے یاں سے ڈیرا اُٹھایا اور جنگل میں جا برا جا۔

’’کارن؟‘‘

’’کارن مت پوچھ۔ دیکھ لے اور جان لے اور ایسا ہوا کہ گھورے اس کے باگیں تڑا کے ہنہناتے ہوئے بن میں نکل گئے۔ یہ دیکھ وہ نراش ہوا۔ رتھ سے اتر کے بانسری کو گھڑے پہ رکھ کے توڑا، گھڑے کو پھوڑا اور بندھو کو ڈھونڈتا ڈھونڈتا بنوں میں نکل گیا‘‘۔

یہ بپتا سن میں اس نگری سے نکلا۔ چلتے چلتے ایک بن آیا۔ نرجن بن۔ اتھاہ سناٹا۔ دیکھا کہ اک برکش تلے اُس کا بندھو انگ بھبوت ملے، مرگ چھال پہ بیٹھا ہے۔ جٹائیں اُلجھی ہوئیں، آنکھیں موندی ہوئیں، منہ کھلا ہوا کہ بھیتر سے اس کے ایک سفید سانپ نے سر نکالا۔ پھنپھناتا ہوا نکلا، لمبا ہونے لگا، ہوتا گیا، ہوتا گیا۔ اتنا ہوا کہ اس کے پھن نے دُور اُمنڈتے ساگر کی لہروں کو جا چھوا۔ میں نے ایک بھے کے ساتھ دیکھا کہ وہ لمبا سفید سانپ منہ سے اس گیانی کے نکلتا جا رہا تھا اور ساگر میں اُترتا جا رہا تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ دم اس سانپ کی اس کے منہ سے نکل آئی ہے اور دم اس گیانی کا نکل چکا ہے۔

یہ دیکھ میں نے اچرج کیا کہ ہے رام اس میں کیا بھید ہے؟ اسی دم میں اُلٹے پاؤں پھرا کہ جا کر بتاؤں کہ دوار کا باسیو! تم یاں پہ کٹ مر رہے ہو، واں پہ سانپ ساگر میں اُتر گیا۔ پر میرے پہنچنے سے پہلے ساگر کی لہریں واں پہ پہنچ چکی تھیں۔ وہ نگری کہ اس بھو ساگر میں شانتی کا دیپ تھی، اب ساگر کی اُمنڈ گھمنڈ لہروں میں بلبلے سمان دکھائی پڑتی تھی۔ سوبھیشم نے کورو کشیتر کے بیچ پران چھوڑتے سمے یدھشٹر سے کہا کہ ہے یدھشٹر پہلے پانی تھا کہ پانی ہی سے سب کچھ بنا ہے اور جانا میں نے کہ انت میں بھی پانی ہی ہے۔ ادبہ پانی، انت پانی۔ اوم شانتی شانتی، شانتی۔۔۔

اس نے جھرجھری لی اور سوتے ہوئے ساتھی کو دیکھا جو جانو جنم جنم سے سو رہا تھا، دنیا و مافیہا سے بے خبر، لمبے اونچے خراٹوں کے ساتھ۔ باہر غار سے جھانکا اور فوراً ہی سر اندر کر لیا کہ باہر بہت اندھیرا تھا اور آندھی بھی چلنے لگی تھی۔ بڑبڑایا، ابھی تو بہت رات باقی ہے۔ فتنہ کی رات کتنی لمبی ہوتی ہے۔۔۔ سوتے ہوئے ساتھی کو دیکھا۔ کس آرام سے سو رہا ہے جبکہ باہر آندھی چل رہی ہے اور کب سے سو رہا ہے۔ حالانکہ اس نے صرف سات سو برس تک سونے کی نیت کی تھی۔ مگر اب اس کے پپوٹے بھی بھاری ہونے لگے تھے۔ لمبی جمائی لیتے ہوئے بڑبڑایا، اب سونا چاہیے۔

 

 

 

 

 

(11)

 

 

’’بیٹے یہ چابیوں کا گچھا اسی طرح پڑا ہے‘‘۔

اس نے چابیوں کا گچھا میز پر پڑا دیکھا اور شرمندہ ہوا۔ ابا جان نے آخری وقت میں کس احتیاط سے یہ گچھا اس کے سپرد کیا تھا۔ ’’امی آج ضرور اسے اندر رکھ دوں گا‘‘۔

’’ہاں بیٹے یہ باپ دادا کی امانت ہے۔ اسے حفاظت سے رکھنا ہے‘‘۔ امی جان کہتے کہتے کمرے سے نکل گئیں۔ آخر گھر میں اور کام بھی تو تھے۔

باپ دادا کی امانت، وہ بڑبڑایا ’’بیٹے یہ اُس گھر کی چابیاں ہیں جس پر اب تمہارا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔ اس گھر کی اور اس زمین کی روپ نگر کی چابیاں۔ چابیاں یہاں میرے پاس ہیں اور وہاں ایک پورا زمانہ بند ہے، گزرا زمانہ۔ مگر زمانہ گزرتا کہاں ہے۔ گزر جاتا ہے پر نہیں گزرتا۔ آس پاس منڈلاتا رہتا ہے اور گھر کبھی خالی نہیں رہتے۔ مکین چلے جاتے ہیں تو زمانہ ان میں بسا نظر آتا ہے۔ روپ نگر کے کتنے خالی پرانے مکان اس کے تصوّر میں پھر گئے۔ وہ بیری والا گھر، وہ جو مسجد والی گلی میں تھا اور جس کے صدر دروازے میں بڑا سا تالا پڑا تھا۔ پتہ نہیں اس گھر میں کون لوگ رہتے تھے اور کب تالا لگا کر چلے گئے۔ اب تو ایک زمانے سے اس میں تالا پڑا ہوا تھا جس پر زنگ لگ گیا تھا اور اندر کئی کوٹھڑیوں کی چھتیں گر پڑی تھیں، بس دیواریں کھڑی رہ گئی تھیں اور جب ایک دوپہر کو وہ ایک پتنگ کا پیچھا کرتے کرتے اس کی دیوار پہ چڑھا تھا تو اندر اس نے دیکھا جیسے بالکل جنگل ہو۔ کتنی لمبی لمبی گھاس کھڑی تھی اور پپیا اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ آم کا چھوٹا سا پیڑ نظر آتا تھا۔ خالی مکان خالی پڑے پڑے کس طرح جنگل بن جاتے ہیں اور زمانہ، زمانہ بھی اندر بند رہ رہ کر جنگل بن جاتا ہے۔ میرا حافظہ میرا دشمن میرا دوست۔ مجھے لے جا کر جنگل میں چھوڑ دیتا ہے۔

پلنگ ہے لچکدار سجن آئیو کہ جائیو

رتیا ہے مجے دار سجن آئیو کہ جائیو

مینہ برسے چلے جا رہا ہے۔ کہاں کہاں سے کس کس گھر سے اس مینہ برستی رات میں ڈھولک کی آواز آتی چلی جا رہی ہے۔۔۔

’’ذاکر، ہمارے لیے بھی قبر بنا دے‘‘۔

’’میں کیوں بناؤں، خود بنا لے‘‘۔

صابرہ خود گیلی مٹی کھرچ کر اپنے گورے پیر پہ جماتی ہے اور پیر جب اُس کے اندر سے نکالتی ہے تو تودہ اپنی کھکھل کے ساتھ قائم رہتا ہے۔

’’ذاکر! میری قبر تیری قبر سے اچھی ہے‘‘۔

’’اجی ہاں؟‘‘

’’اپنا پاؤں اس میں ڈال کے دیکھ لے‘‘۔

صابرہ کے گورے نرم پیر کے سانچے پر بنی ہوئی قبر، اس میں میرا پاؤں۔ کتنی نرم، کتنی خنک۔۔۔؟

’’ذاکر بیٹے! ارے کچھ سنا، تندور والی کے پوت کے گولی لگ گئی‘‘۔

’’گولی لگ گئی۔۔۔ کیسے؟‘‘ اس نے چونک کر امی کو دیکھا جو سخت گھبرائی ہوئی اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔

’’ارے محلے میں تو حشر اُٹھا ہوا ہے۔ غریب کا ایک ہی پوت تھا‘‘۔

’’کس نے ماری؟‘‘

’’کس نے؟ کوئی ایک ہو تو کسی کا نام لے۔ محلے والے کہہ رہے ہیں کہ مال روڈ پر گولیوں کا مینہ برس رہا ہے۔ ارے لوگوں کے سر پہ تو خون سوار ہے۔ جنونی ہو رہے ہیں۔ بھلا بتاؤ کہ تندور والی کے پوت نے ان کا کیا بگاڑا تھا‘‘۔

گولیوں کا مینہ، وہ بڑبڑایا۔ باہر گولیوں کا مینہ برس رہا تھا اور اندر وہ جنگلوں میں بھٹکتا پھر رہا تھا، پھر جنگل۔ وہ بڑھتا جا رہا تھا اور جنگل گھنے ہوتے جا رہے تھے۔ یہ میں کون سے جنگل میں ہوں۔ کتنا گھنا، کتنا گہرا اور یہ نگر۔۔۔

’’ارے ذاکر، ارے کچھ سنا! آگ لگ گئی‘‘۔ امی نے کمرے میں قدم رکھتے ہوئے دہشت بھری آواز میں کہا۔

’’آگ؟‘‘ اس نے جنگلوں سے واپس آتے ہوئے امی کو دیکھا ’’کہاں آگ لگ گئی؟‘‘

’’وہ ہے نہیں گھوڑوں والی کوٹھی میں اُن ناس پیٹوں کا دفتر۔ وہ کون سی پارٹی ہے۔ میری یاد پہ تو پتھر پڑ گئے اور آرٹیوں پارٹیوں کے نام تو بالکل نہیں رہتے‘‘۔

’’ٹھیک ہے۔ ان کے نام یاد رکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے‘‘۔

’’محلے والیوں نے تو مجھے بولا دیا۔ کہیت ہیں باہر نکل کے دیکھو کیا ہو رہا ہے‘‘۔

’’امی باہر کچھ نہیں ہو رہا، آپ اطمینان سے بیٹھیں‘‘۔

’’بیٹے یہی تو میں تم سے کہنے آئی تھی۔ باہر کچھ ہوا کرے ہمیں کیا؟ میں تجھے آج باہر نہیں نکلے دوں گی‘‘۔ امی نے کہا اور فوراً واپس ہو گئیں۔

بالکل ٹھیک، باہر کچھ ہوا کرے، وہ بڑبڑایا۔ باہر کچھ نہیں ہو رہا۔ سب کچھ میرے اندر ہو رہا ہے۔ وہ سب جو ہو چکا ہے۔ ہو رہا ہے کہ صدر دروازے میں پڑا تالا کھل چکا ہے چھوٹی بزریا سنسان ویران ہے۔ قدموں کی آہٹ صرف اس وقت سنی جاتی ہے جب کسی گھر سے کوئی جنازہ نکلتا ہے۔ اس کے بعد پھر سناٹا جو زیادہ گہرا ہو جاتا ہے۔ کیا روپ نگر آدمیوں سے خالی ہو جائے گا۔

’’بیٹے ناصر علی! دانپور سے آتی ہوئی بیلی تم نے واپس کرا دی، اچھا کیا۔ مگر تمہیں پتہ ہے کہ صبح سے اب تک کتنے گھر خالی ہو چکے ہیں اور کتنے جنازے نکل چکے ہیں‘‘۔

اور جب اِملی والی حویلی میں آگ لگی تھی اور روپ نگر کے سارے سقے اپنی مشکیں لے لے کر آ گئے تھے۔ مگر پانی میں مٹی کے تیل کی تاثیر تھی کہ مشک انڈیلے جانے کے بعد آگ کی لپٹیں اور تیز ہو جاتی تھیں۔

چہ میگوئیاں کرتے لوگوں کو حکیم بندے علی نے غصے سے دیکھا ’’میں کہتا ہوں کہ کسی باہر والے کو کیا پڑی تھی کہ آ کر آگ لگاتا‘‘۔

’’پھر کس نے لگائی ہے؟‘‘

’’لوگو! میرا منہ مت کھلواؤ۔ جائیداد کے جھگڑے نے اس خاندان کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیا ہے‘‘۔

’’ذاکر مجھے ڈر لگ رہا ہے، یاں سے چلیں‘‘۔

’’سبو تو بہت ڈرپوک ہے، ابھی چلتے ہیں‘‘۔

’’مجھے ڈر لگ رہا ہے، چلیں یاں سے‘‘۔

دھماکہ! گرتی ہوئی چھت کی کڑیاں ایسے جل رہی تھیں جیسے بن کر لکڑی جلتی ہے۔

’’آگ بجھانے والا انجن آ گیا ہے‘‘۔

’’آگ بجھانے والا انجن؟‘‘ اس نے جنگلوں سے واپس آتے ہوئے کسی قدر چونک کر پوچھا۔

’’ارے اگر تھوڑی دیر انجن اور نہ آتا تو آس پاس کے گھر بھی لپیٹ میں آ جاتے اور ہمارا گھر بھی کون سا الگ تھلگ ہے‘‘۔ یہ کہتے کہتے اُلٹے پاؤں واپس ہو لیں جیسے بس اتنی خبر دینے ہی آئی تھیں۔ مگر پھر کچھ سوچ کر رکیں ’’ذاکر! تمہارے لیے چائے بناؤں؟‘‘

’’چائے‘‘ اس نے چونک کر امی کو دیکھا ’’نہیں امی‘‘ اورساتھ ہی اُٹھ کھڑا ہوا۔

امی نے اسے شک بھری نظروں سے دیکھا ’’اے ہے میرے آتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا‘‘۔

’’بس میں چل رہا ہوں‘‘۔

’’کیا کہا‘‘ امی تقریباً چیخ پڑیں ’’تیری مت ماری گئی ہے۔ آج کوئی نکلنے کا دن ہے‘‘۔

’’امی! خواجہ صاحب نے بہت تاکید کی تھی۔ ابا جان کی قبر بیٹھ گئی ہے۔ قبرستان جا کر کچھ اس کا بندوبست کروں‘‘۔

امی یہ سن کر ڈھیلی پڑ گئیں، مگر پھر بولیں ’’بیٹے! یہ کام کل بھی ہو سکتا ہے‘‘۔

’’کل! امی آپ کو کل پہ بہت اعتبار ہے‘‘۔ اس نے ماں کو گھور کے دیکھا ’’ہو سکتا ہے کہ کل کا دن آج کے دن سے بھی زیادہ خراب چڑھے‘‘۔

امی بالکل ہی ڈھے گئیں۔ کوئی جواب بن ہی نہ پڑا اور وہ تیزی سے جوتا پہن، بال درست کر کے باہر نکل گیا۔

دروازے پر ہی خواجہ صاحب سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ ’’میں تو تمہارے پاس آ رہا تھا۔ تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘

’’آپ نے کل کہا نہیں تھا، قبرستان جا رہا ہوں‘‘۔

’’مگر‘‘ خواجہ صاحب متذبذب لہجے میں بولے ’’کیسے جاؤ گے۔ اُدھر تو بہت گڑبڑ ہے‘‘۔

’’نہیں۔ چلا جاؤں گا‘‘۔

خواجہ صاحب رکے، پھر بولے ’’ہماری مانو تو آج مت جاؤ۔ کل چلے جانا‘‘۔

’’اچھا! میں تو امی ہی کو خوش فہم سمجھ رہا تھا۔ خواجہ صاحب آپ بھی اس گمان میں ہیں کہ کل اچھا چڑھے گا‘‘۔

خواجہ صاحب سٹپٹا کر چپ ہو گئے۔ پھر تھم کر شفقت بھرے لہجے میں بولے ’’بیٹے! پتہ نہیں تمہیں یہ بات کیسی لگتی ہے۔ مولانا صاحب کے اُٹھ جانے کے بعد میں شاید تم پہ کچھ روک ٹوک کرنے لگا ہوں۔ یا شاید کرامت کی جگہ میں اب تمہیں۔۔۔‘‘ خواجہ صاحب کی آواز تھوڑی بھرا گئی۔ فقرہ پورا کرنے سے پہلے ہی چپ ہو گئے۔

اس نے خواجہ صاحب کو دلاسا دینے کی کوشش کی ’’آپ تو مایوس ہونا جانتے ہی نہیں تھے۔ آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ جہاں اتنا انتظار کیا ہے اور تھوڑے دن انتظار کیجئے۔ کیا خبر کہ۔۔۔ ہاں اور کیا؟ برسوں بعد بھی لوگ آتے دیکھے گئے ہیں۔ ایک صاحب کو تو میں بھی جانتا ہوں جو کہاں کہاں کے دھکے کھاتے انہی دنوں یہاں پہنچے ہیں‘‘۔

’’پتر!‘‘ خواجہ صاحب مایوسانہ لہجے میں بولے ’’آنے کا ویلا گزر گیا۔ اور اب کوئی یہاں پہ آئے بھی تو کیا لے گا۔ دیکھ نہیں رہے ہو کیا ہو رہا ہے۔ مولانا صاحب اچھے رہے کہ آرام سے چلے گئے‘‘ رکے، سوچا، بولے ’’جا پتر تجھے نہیں روکتا۔ مولانا صاحب پریشان تھے۔ پر جب واپس آ جائے تو مجھے بتا جانا کہ اطمینان ہو جائے۔‘‘

اس پتلی سڑک سے گزرتے گزرتے وہ ٹھٹھکا۔ امی ٹھیک کہتی تھیں۔ اسے اس وقت یہ احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ آگ پھیل بھی سکتی ہے اور جہاں لگی تھی وہ جگہ اس کے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ آس پاس کے کتنے ہی گھر شعلوں کی مد میں آ کر کالے پڑ گئے تھے۔ فائر بریگیڈ آیا کھڑا تھا۔ اس کا لمبا موٹا پائپ سڑک سے گزر کر اس جلی پھنکی عمارت کے اندر چلا گیا تھا۔ جو اپنی چھت سے محروم ہو کر کالے کالے سلگتے ملبے سے بھر گئی تھی۔ دور نزدیک لوگ اکٹھے تھے اور تک رہے تھے۔ جلی ہوئی عمارت کو، پیتل کے خود سروں پہ منڈھے فائر بریگیڈ والوں کو۔

وہ نظیرا کی دوکان کے سامنے سے گزرتا ہوا جو بند پڑی تھی۔ سڑک پر آیا جو دور سے خالی نظر آ رہی تھی۔ خالی اور خاموش۔ بیچ سڑک پر چڑیوں کا ایک قافلہ اُترا ہوا تھا کہ قدموں کی آہٹ پر چونک کر کچھ تعجب سے اسے دیکھا اور بھرا کھا کر اُڑ گیا۔ آگے تھوڑے فاصلے پر ایک چیل بیچ سڑک میں پر پھیلائے ٹہل رہی تھی۔ قدموں کی چاپ پر ٹھٹھکی، گول گول متحیر دیدوں سے اسے دیکھا اور چونچ میں ایک چھیچھڑا دبا کر اُڑ گئی۔ پھر دور تک سڑک بالکل خالی

’’وہ بھی قبرستان ہی کی طرف جا رہے ہیں‘‘۔

’’قبرستان کی طرف!۔۔۔ وہ کیوں؟‘‘

’’قبرستان کے قریب جو لال بلڈنگ ہے وہاں مورچہ لگا ہوا ہے۔ یہ اس پہ ہلہ بولیں گے‘‘۔

’’یہ تو مشکل آ پڑی ہے، کیا کیا جائے؟‘‘

’’ضروری ہے کہ اسی رستے سے جاؤ؟ کسی دوسرے رستے سے چلے جاؤ۔ یہاں سے اگر تم چرچ والی سڑک پہ مڑ جاؤ تو وہاں سے گلیوں میں سے ہوتے ہوئے قبرستان تک پہنچ سکتے ہو‘‘۔

’’ہاں یہی ہو سکتا ہے‘‘۔

مگر یہ نہیں ہو سکا۔ اردگرد ہجوم اس قدر تھا کہ وہ بالکل پھنسا ہوا تھا۔ ایسے چل رہا تھا جیسے سیلاب میں تنکا بہتا چلا جاتا ہے۔ اس نے بے چارگی کے ساتھ اردگرد کے چہروں کو دیکھا۔ لگا کہ کھنچ کر لمبے ہو گئے ہیں۔ پھر چپٹے ہونے لگے۔ کھنچی گردنیں، چپٹے چہرے، منہ سرخ، اور بدن جیسے پورے بدن پر بال کھڑے ہوں۔ وہ ڈرا۔ کہیں گردنیں کھنچتی کھنچتی اور چہرے چپٹے ہوتے ہوتے ان کی صورتیں بالکل ہی نہ بدل جائیں یا صورت سے بے صورت ہو جائیں۔ کیا میں ان میں سے ہوں؟ ان کے ساتھ اُٹھایا جاؤں گا؟۔۔۔ نہیں! پھر مجھے اعلان کر دینا چاہیے اعلان اس ہجوم میں؟ سنے گا کون؟ کان پڑی آواز تو سنائی نہیں دے رہی۔ کم از کم مجھے ان کے ساتھ نہیں چلنا چاہیے۔ وہ قبرستان اپنے رستے سے جائیں، میں اپنے رستے سے۔ مجھے اس ہجوم سے جلدی نکل جانا چاہیے۔ مبادا میں بھی۔۔۔ میری بھی گردن لمبی اور چہرے چپٹا ہوتا چلا جائے اور گلے کی رگیں پھول جائیں اور میری صورت۔۔۔ دفعتاً ایک شور اُٹھا۔ گولی چلنی شروع ہو گئی تھی، بھگدڑ، نعرے، گالیاں، برستی ہوئی اینٹیں چلتی ہوئی گولیاں۔ ایک ٹرک تیزی سے اس کے برابر سے گزرا جس پر کھڑے ہوئے کھنچی ہوئی گردنوں اور لمبے چپٹے ہوتے چہرے والے جوانوں کے ہاتھوں میں پستول تھے کہ رُخ ان کا سامنے آتی ہوئی لال بلڈنگ کی طرف تھا۔ اسے عجیب لگا کہ اس بلڈنگ کی اونچی چھت پر کھڑے اور نچلی منزلوں کے دریچوں سے جھانکتے جوانوں کی گردنیں بھی جیسے اچانک کھنچ گئی ہوں اور چہرے چپٹے اور لمبے ہوتے چلے جا رہے ہوں۔ وہ بھی اسی طرح پستولوں سے مسلح تھے، گولیوں کا مینہ برسنے لگا۔ بھگدڑ، چیخ و پکار، غیر انسانی چیخوں کا ایک طوفان۔ وہ طوفانی لہروں پر بہتا ایک تنکا۔

جانے کیسے اور کتنی دیر بعد کسی قدر اوسان درست ہونے پر اس نے دیکھا کہ وہ قبرستان کے دروازے پر گرا پڑا ہے۔ مجھے اندر چلنا چاہیے کہ قبروں کے بیچ اس رستاخیز سے محفوظ رہوں گا۔ گرتا پڑتا اندر داخل ہو گیا اور قبروں کے درمیان بھٹکتا پھرا۔ رکا ’’یہ ہے کہ ابا جان کی قبر‘‘ وہ قبر کے کنارے بیٹھ گیا۔ یہ سوچ کر کہ اوسان بجا ہوں تو فاتحہ پڑھی جائے ابھی تو اس کی یہ حالت تھی کہ سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا اور بدن کانپ رہا تھا۔ گولیوں کی آواز یہاں تک آ رہی تھی۔ نعروں کا شور بھی، مگر اب نعرے کہاں رہے تھے۔ اب وہ غیر انسانی وحشیانہ چیخوں کا ایک ریلا تھا اور یہ دھواں کیسا ہے؟ اس نے چونک کر سامنے عمارتوں سے اوپر فضا میں نظر دوڑائی جہاں دھوئیں کے کالے اور بھورے بادل سے اُمنڈ رہے تھے اور پھر ایک کالی سی موٹی سی لکیر بن کر بلندی کی طرف جا رہے تھے۔ ’’آگ‘‘ وہ ڈرے سہمے لہجے میں بڑبڑایا۔ اب دھواں قبرستان کی طرف آ رہا تھا اور پھر جیسے پورا قبرستان دھوئیں سے بھر گیا ہو۔ قبروں کے بیچ بیٹھا ہوا وہ دھوئیں کے بیچ آ گیا تھا۔ سانس سے بڑھ کر اس کے حواس دھوئیں کی زد میں تھے۔ اس کے تصور میں پورا شہر جل رہا تھا۔ اُن کی زمیں مشالیں بنی ہوئی تھیں اور جھاڑو کی طرح شہر میں پھر رہی تھیں، دھٹر دھٹر جلتا شہر۔ کتنا کچھ جل چکا، کتنا کچھ جل رہا ہے۔ عمارتیں کتنی ڈھے گئیں، کتنی ڈھے پڑنے کو ہیں۔ اس نے رینگ رینگ کر ملبے کے تلے سے نکلنے کی کوشش کی۔ اسے لگا کہ وہ اکٹھا نہیں ہے۔ یہ میں ہوں یا میرا ملبہ؟ کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے، میں بکھر گیا ہوں؟ میرے اردگرد خالی۔ اس سناٹے میں اسے اپنے قدموں کی چاپ کتنی اونچی محسوس ہو رہی تھی اور کانوں پر کتنی بار بنی ہوئی تھی۔ آگے بند بازار کے بیچ دور تک اینٹیں بکھری ہوئی تھیں۔ کاروں کے شیشے، موٹر کا ایک ٹائر جو آدھا جل کر بُجھ گیا تھا۔ اس کے قدم کہ تیز تیز اُٹھ رہے تھے۔ کچھ رُکنے لگے۔ کچھ تامل۔ یہاں کچھ ہوا ہے اور یہ دھیان میں لاتے ہوئے کہ کیا کچھ ہوا ہو گا اسے اچانک لگا کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے۔ اس نے دائیں بائیں نظر ڈالی۔ دکانیں سب بند تھیں۔ مگر ان کے کنارے کنارے پولیس کے سپاہی لاٹھیاں تھامے قطار در قطار کھڑے تھے، بالکل ساکت۔ صرف ان کی نظریں حرکت میں تھیں کہ آ توں جا توں کا تعاقب کر رہی تھیں۔ مگر آتے جاتے کون تھے؟ اس وقت تو وہ اکیلا ہی چل رہا تھا۔

آگے رستہ ڈراؤنا ہوتا جا رہا تھا۔ خاموشی کے منطقے سے نکل کر وہ شور کے منطقے میں داخل ہو چکا تھا۔ کہیں قریب ہی نعروں کا شور سنائی دے رہا تھا اور دھواں اُٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔ کیا کہیں آگ لگی ہے۔ نہیں، میرے خیال میں کسی نے ٹائر جلایا ہے۔ مگر خیر مجھے کیا۔ مجھے کچھ اور سوچنا چاہیے۔ قبرستان یہاں سے اب کتنی دور ہے۔ سریندر کا خط۔ میں ظالم؟ بکواس کرتا ہے۔ مگر اس سے آگے وہ نہیں سوچ چکا۔ بغل کی سڑک سے ایک سیلاب اُمنڈا چلا آ رہا تھا۔ دوسرے لمحے اس نے اپنے آپ کو ہجوم کے بیچ پایا۔ تنے ہوئے چہرے، آنکھوں میں خون اُترا ہوا، گردنوں کی رگیں پھولی ہوئیں، لبوں پر نعرے اور گالیاں۔ کون لوگ ہیں۔ یہ سب چہرے اس کے لیے اجنبی تھے۔ دیر بعد اجنبی چہروں کے سیلاب سے ایک آشنا صورت اُبھری اور اسے دیکھ کر ٹھٹھکی۔

’’تم بھی جلوس کے ساتھ ہو؟‘‘

’’نہیں‘‘۔

’’پھر تم ان کے ساتھ کیوں جا رہے ہو‘‘۔

’’میں ان کے ساتھ نہیں جا رہا۔ میں قبرستان جا رہا ہوں۔ والد کی قبر پر‘‘

سب کچھ بکھر چکا ہے۔ وقت بھی۔ اس ایک وقت کے بطن میں اتنے وقت تھے۔ میں ٹوٹ پھوٹ کر کن کن وقتوں میں بھٹکتا پھر رہا ہوں۔ نگر جل چکا پر دُمیں اسی پر کار سلگ رہی ہیں۔ ہم اپنی سلگتی پونچوں کو کہاں لے جائیں۔ پتر انہیں منہ میں رکھ لو۔ ہماری پونچیں ہمارے دانتوں تلے جیبھ اور تالو کے بیچ ٹھنڈی پڑ چکی ہیں پر، ہمارے منہ کس کارن کالے ہو گئے ہیں۔ ہر آگ کا انت کالک ہے تب میں نے اس روسیاہ سے پوچھا کہ اے سیاہ روسیہ بخت! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے۔ کیا تو بھی رقعہ لکھنے والوں میں تھا۔ سر جھکا کر بولا پہلا مکتوب میں نے ہی لکھا تھا کہ فصل تیار ہے۔ باغوں میں شگوفے پھوٹے ہوئے ہیں، انگوروں کی بیلیں، انگوروں کے خوشوں سے لدی ہوئی ہیں۔ پھر میں نے سب سے پہلے اس کے ایلچی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر اس کے بعد تجھے کیا ہو گیا۔ مجھے نہیں شہر کو، اور اس نے سرگوشی میں کہا کہ اے اخی آہستہ بول بلکہ مت بول کہ سروں کی فصل پک چکی ہے اور کوفے میں کرفیو لگا ہوا ہے کوفے میں کرفیو! میں حیران ہوا اور کوچہ کوچہ پھرا۔ کوچے ویران، گلیاں سنسان، دریچے بند، دروازے مقفل، مسجد ہو حق کرتی تھی۔ وہ جب امامت کے لیے کھڑا ہوا تھا اور نمازی صف بصف صحنِ مسجد کی آخری حد تک کھڑے تھے۔ جب سلام پھیرنے کے بعد اس نے مڑ کے دیکھا تو صفیں صاف، مسجد خالی۔ وہ مسجد میں نمازیوں کے جلو میں داخل ہوا تھا اور اکیلا مسجد سے رخصت ہوا۔ خالی گلیوں اور سنسان کوچوں میں بھٹکتا پھرا۔ باغوں میں شگوفے پھوٹے ہوئے تھے۔ انگوروں کی بیلیں انگوروں کے خوشوں سے لدی ہوئی تھیں اور سروں کی فصل پک چکی تھی۔ مت بولو مبادا تم پہچانے جاؤ۔۔۔ تب گوتم بدھ نے زبان کھولی کہ ایک گھنی بنی میں ایک شیر رہتا تھا۔ رت بسنت کی، رات پور نماشی کی۔ شیر اپنے بالک کے سنگ جنگل میں منگل مناتا تھا۔ ایک بار ایسا دہاڑا کہ جنگل سارا گونج گیا۔ اس کی دہاڑ کو سن کے گیدڑوں نے بھی جھرجھری لی۔ گلا پھاڑ کے چیخ و پکار کرنے لگے۔ سارے بن کو سر پر اُٹھا لیا، پر شیر چپ رہا۔ اس کے بالک نے کہا کہ ہے میرے پتا! تو اتنا جیالا جنگل کا راجہ، پر اچنبھے کی بات ہے کہ گیدڑ اتنا بول رہے ہیں اور تو چپ ہے۔ شیر بولا کہ ہے میرے پتر! ایک بات اپنے پتا کی انٹی میں باندھ رکھ کہ جب گیدڑ بولتے ہیں تو شیر چپ ہو جاتے ہیں۔

یہ جاتک سن ایک بھکشو بولا کہ ہے تتھا گت، یہ کس سمے کی بات ہے۔ مسکائے، کہا کہ اس سمے کی جس سمے میں سنگھ کے جنم میں آیا تھا اور بنارس سے پرے ہمالیہ کی تلہٹی میں باس کرتا تھا، راہل میرے سنگ تھا۔

یہ کہہ کے بدھ دیو جی چپ ہو گئے۔ لمبے سمے چپ رہے تو بھکشو دبدا میں پڑ گئے کہ کہیں پھر چپ ہونے کا سمے تو نہیں آ گیا۔ جب دانا چپ ہو جائیں گے اور جوتے کے تسمے باتیں کریں گے یہ جوتے کے تسموں کے باتیں کرنے کا وقت ہے۔ سو مت بولو مبادا تم پہچانے جاؤ۔ وہ بولے اور پہچانے گئے اور سروں کی فصل کٹنے لگی۔ جب میں نہر کے کنارے پہنچا تو اس گھنے درخت کی شاخیں سروں سے لدی ہوئی تھیں۔ کٹے ہوئے سر مجھے دیکھ کر کھلکھلا کے ہنسے اور پکے پھلوں کی مثال نہر میں ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ میں ڈرا کہیں میرا سر بھی تو نہیں پک چکا ہے۔ قبل اس کے کہ پھل شاخ سے گرے میں نہر میں کود پڑا۔ غوطے کھاتا چلا جاتا تھا کہ کنارہ آ گیا۔ میں نہر سے نکلا اور شہر کی طرف چلنے کو ٹھانی۔ مگر وہاں کوئی سواری ہی نہیں تھی۔ بس سٹینڈ ویران پڑا تھا۔ نہ رکشا، نہ ٹیکسی۔ کوئی پرائیویٹ کار بھی چلتی نظر نہیں آئی۔ میں نے ایک راہگیر سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ کوئی سواری نظر نہیں آ رہی۔ وہ بولا کہ آج شہر میں ہڑتال ہے۔ سب سواریاں معطل ہیں اور سب بازار بند ہیں۔ میں پیدل چل پڑا۔ چار قدم چلا تھا کہ ایک جلوس نے آ لیا۔ بہت بڑا جلوس تھا۔ آدمی ہی آدمی۔ سروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر۔ مگر سر ہیں کہاں؟ میں نے غور سے دیکھا، کسی کے سر نہیں تھا۔ ان کے سر کہاں گئے؟ اور میرا سر کہیں وہیں تو نہیں رہ گیا۔ نہر سے نکلنے کے بعد یہ تو خیال ہی نہیں آیا تھا کہ دیکھ تو لوں کہ سر سلامت لے آیا ہوں یا کھو آیا ہوں۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے سر کو چھو کے دیکھا اور اسے گردن پر سلامت پایا۔ شکر خدا کا بجا لایا۔ گرمی قیامت کی تھی۔ وَقنا ربَنّاَ عَذَابَ النّاَرَ۔ سورج سوا نیزے پہ آ چکا ہے اور کھوپڑیاں ہنڈیوں کی طرح پک رہی ہیں۔ سر آج وبالِِ دوش ہیں۔ اچھے رہے وہ جنہوں نے اس وبال سے نجات پا لی۔ میں بھی اپنا سر وہیں چھوڑ آتا تو عافیت میں رہتا۔ جو سر رکھتے ہیں اور سر کے اندر مغز رکھتے ہیں وہ آج مشکل میں ہیں وہ جو سر کے اندر مغز اور منہ کے اندر زبان رکھتے ہیں وَالعصرِ ان الانسَانَ لَفیِ خُسرِِ شام کا وقت ہے۔ چلتا ہوا دریا ٹھہرا، خیمے جل چکے۔ آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر۔ کوئی کوئی قنات جلتی رہ گئی ہے۔ اس کی روشنی میں مَیں نے دیکھا کہ لاشوں کے سر نہیں ہیں۔ سران کے کہاں ہیں۔ یا اخی وہ نیزوں پر چڑھائے گئے۔ اب تو انہیں دمشق کے دربار میں دیکھے گا۔ جوتے کے تسمے بولتے ہیں۔ بولنے والے کا سر طشت میں ہے۔ اے عزیز! اب شہر کی کیا خبر ہے؟ یا اخی اب سر کاٹنے والوں کے سر کاٹ کر دربار میں لائے جاتے ہیں اور ایک کنکھجورا ناک کے اندر داخل ہوا اور منہ سے باہر آیا اور پھر ناک کے اندر۔

طشت میں رکھا ہوا یہ سر اس شقی کا ہے جس نے وہ مبارک سر کاٹ کر نیزے پر چڑھایا اور طشت میں رکھ کر دربار میں پیش کیا۔ اس دربار میں کتنے سر طشت میں رکھ کر پیش کیے گئے۔ کتنے پیش کیے جائیں گے۔ تب داؤد کے بیٹے نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میرے بیٹے جو ٹیڑھا ہے اسے سیدھا نہیں کیا جا سکتا۔ جو مر گئے وہ اچھے رہے، جو زندہ ہیں وہ بدنصیب ہیں۔ سب سے بدنصیب وہ ہیں جو پیدا ہوں گے‘‘۔ اے آنے والے اگر تیرا گزر شہر مبارک سے ہوا ہے تو وہاں کا حال بیان کر۔ ناقہ سوار رویا۔ اے اخی وہاں کا احوال مت پوچھ۔ اس مرد دلیر کی لاش تین دن تک شہرِ مبارک کے وسط میں سولی پر ٹنگی رہی۔ تب اس کی ماں گھر سے نکلی۔ اس مقام پر آئی، فرزند کی ٹنگی لاش کو دیکھا اور بولی کہ میرے شہسوار ابھی تیرا سواری سے اُترنے کا وقت نہیں آیا ہے۔ شہر میں اب امن ہے۔ دانا چپ ہیں۔ فصلیں کٹ چکیں۔ سروں کی فصل، عصمتوں کی فصل کتنے بھوک میں تڑپ کر اور پیاس سے بلبلا کر مر گئے۔ کتنی گودیں خالی ہو گئیں۔ کتنی بیبیاں شہر مبارک کی بیبیاں۔۔۔ جہان آباد کے کنوئیں بیبیوں کی لاشوں سے پٹے پڑے ہیں جنہیں آفتاب نے ننگے سر نہیں دیکھا تھا۔ وہ مجمع عام میں بے ردا ہیں۔ اے شہر کیوں کر تو نے تقدیس حاصل کی، کیونکر تو بے حرمت ہوا۔ افسوس ہے تیرے اُجڑے کوچوں پر اور ان پر جنہوں نے تجھے اُجاڑا حالانکہ وہ تیرے ہی فیض یافتہ تھے۔ شہر کیوں کر تقدیس حاصل کرتے ہیں، کیوں کر بے حرمت ہوتے ہیں، ان ہی کے ہاتھوں جو ان سے فیض پاتے ہیں اور انہیں مقدس جانتے ہیں۔ پھر اس پوتر نگری کی پوترتا کہاں چلی گئی۔ اس کا رکھشک بانسری کو توڑ، گھڑے کو پھوڑ کر بنوں میں نکل گیا اور سفید سانپ اس گیانی کے منہ سے نکلا اور لہراتا ہوا ساگر کی لہروں سے جا ملا۔ اول پانی آخر پانی۔ اوم شانتی، شانتی، شانتی۔ والعصر ان الانسان لفی خسر۔ مثال ان لوگوں کی لکڑی کی سی ہے جس نے گھر بنایا اور بودے گھروں میں سب سے بودا گھر مکڑی کا ہوتا ہے۔ سو افسوس ہے ان بستیوں پر جنہیں چیخ نے آ لیا یا پانی کا ریلا بہا لے گیا، یا ہوا، یا آگ۔ کتنی حویلیاں اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں۔ کتنے ٹھنڈے میٹھے پانی والے کنویں خاک سے اَٹ گئے۔ نیک بیبیوں کی لاشوں سے پٹ گئے۔ مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازے تک ایک صحرائے لق و دق ہے۔ خاص بازار، اُردو بازار، خانم کا بازار، سب بازار کہاں گئے۔ نہ سقے دکھائی دیتے ہیں، نہ کٹورا بجتا ہے اوراقِ مصوّر ایسے کوچے بکھر گئے۔ اب خرابہ ہوا جہان آباد۔۔۔ لمبی چپ کے بعد شاکیہ منی نے زبان کھولی ’’بھکشوؤ تنک اس گھر کو دھیان میں جاؤ جو چاروں اور سے جل رہا ہے۔ بھیتر اس کے کچھ بالک بھٹک رہے ہیں اور سہمے ہوئے ہیں ہے بھکشوؤ نر ناری بالک ہیں کہ دھڑ دھڑ جلتے گھر کے بھیتر بھٹک رہے ہیں‘‘۔ زمانے کی قسم، آدمی گھاٹے میں ہے۔

’’اے مرے بیٹے! تو نے بستیوں کو کیسا پایا؟‘‘

’’میرے باپ، میں نے بستیوں کو بے آرام دیکھا۔ مشرق مغرب شمال جنوب میں شادمانی اور شانتی کے کھوج میں سب سمتوں میں گیا۔ ہر سمت میں میں نے آدم کے بیٹوں کو دُکھی اور پریشان پایا‘‘۔

’’مرے بیٹے، تو نے اس شے کو کھوجا جو اس چرخ نیلی فام کے نیچے نہیں پائی جاتی‘‘۔

’’پھر اے میرے باپ، تو مجھ سے کیا کہتا ہے؟‘‘

’’میں تجھ سے وہی کہوں گا جو داؤد کے بیٹے نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میرے بیٹے بکھری ہوئی بدلیاں پھر سے اکٹھی ہوا نہیں کرتیں۔ برسے بادل پھر نہیں برستے۔ سو اس سے پہلے کہ چڑیاں چپ ہو جائیں اور چکی کی آواز تھم جائے اور اس سے پہلے کہ جھانکنے والیاں دھندلا جائیں اور گلی کے کواڑ بند ہو جائیں اور اس سے پہلے کہ چاندی کی ڈوری کھولی جائے اور سونے کی کٹوری توڑی جائے اور گھڑا چشمے پہ پھوڑا جائے اور۔

’’کاکے، تو یہاں کیا کر رہا ہے؟‘‘

اس نے چونک کر افضال کو دیکھا جو جانے کب یہاں آیا اور اس کے سر پہ آ کھڑا ہوا۔

’’یار، میں والد کی قبر پر آیا تھا۔ یہاں آ کے پھنس گیا۔ آج سارا ہنگامہ قبرستان ہی کے آس پاس ہوا۔ مگر تم کس چکر میں یہاں آئے؟‘‘

’’وہی قبر کا چکر جو تیرے ساتھ ہے، میرے ساتھ بھی ہے۔ میری نانی بھی یہیں دفن ہے۔‘‘ اشارہ کرتے ہوئے: ’’وہ ادھر اُس کی قبر ہے‘‘ رکا، ڈھئی آواز میں، ’’یار ذاکر۔ نانی کی موت نے مجھے کمزور کر دیا ہے‘‘۔ چپ ہو گیا۔ دیر تک چپ بیٹھا رہا، خیالوں میں کھویا کھویا۔ پھر آہستہ سے بولا ’’یار ذاکر، تجھے یہ بات عجب نہیں لگتی؟‘‘

’’کیا؟‘‘

’’آج کے آشوب میں ہماری ملاقات قبروں کے درمیان‘‘۔

وہ تو یہ بھول ہی گیا تھا۔ چونک کر اردگرد دیکھا۔ قبریں ہی قبریں اور اب شام ہو رہی تھی۔ ’’یار، شام ہو رہی ہے، چلیں‘‘۔

’’یہاں سے کہاں چلیں؟‘‘ افضال نے معصومیت سے پوچھا۔

’’کہیں بھی چلیں۔ یہاں سے چلیں‘‘۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔

سڑک دور تک خالی تھی اور بھری ہوئی تھی۔ یہاں سے وہاں تک کتنی اینٹیں بکھری پڑی تھیں۔ ٹوٹی پھوٹی اینٹیں، کاروں کے شیشوں کی کرچیاں، اَدھ جلے ٹائر۔ ٹریفک سگنل کتنے اپنی بتیوں سے محروم اندھے کھڑے تھے، کتنے خمیدہ ہو گئے تھے۔ خاموشی گزرے ہوئے شور کی غماز۔ عجیب بات ہے، جتنا بڑا ہنگامہ ہوتا ہے، اس کے بعد اتنی ہی گہری خاموشی آتی ہے۔ چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ اینٹیں اتنی بکھری پڑی تھیں اور کاروں کے شیشوں کی کرچیاں اور ڈھئی ہوئی حویلیوں کا ملبہ سعادت خاں کا کڑہ، جرنیل کی بی بی کی حویلی، صاحب رام کا باغ اور حویلی سب ڈھے گئے۔ خاک سے اٹ گئے۔ شاہ جہانی مسجد سے راج گھاٹ تک ایک صحرا ہے۔ اینٹوں کے ڈھیر جو پڑے ہیں وہ اگر اُٹھ جائیں تو ہو کا مقام ہو جائے۔ ہرے بھرے شاہ کے مزار پر پھر وہی مجذوب بیٹھا نظر آیا۔ دل دھک سے رہ گیا۔ ڈرا کہ پھر مجھ پہ گرجے گا۔ مگر آج اس کی گرجدار آواز نہیں آئی۔ تب میں خود آگے بڑھا۔ مؤدب ہو کر پوچھا۔ ’’شاہ صاحب، آگے کیا دیکھتے ہو؟‘‘

’’جو ہو چکا ہے پھر وہی ہو گا‘‘۔

’’وہ تو ہو رہا ہے‘‘۔

قہر آلود نظروں سے مجھے دیکھا۔ گرج کر کہا:

’’چلا جا۔ آگے بتانے کا حکم نہیں ہے‘‘۔

میں چلا آیا۔

’’یار ذاکر!‘‘ افضال رکا، پھر بولا: ’’لگتا ہے۔ بہت ہنگامہ ہوا ہے‘‘۔

اصل میں وہ سڑک پر پڑے خون کے دھبے دیکھ کر سہم گیا تھا۔

’’ہاں لگتا یہی ہے‘‘۔

’’لوگ ظالم ہو گئے ہیں‘‘۔ افضال بڑبڑایا۔

ظالم، افضال کی زبان سے یہ لفظ سن کر وہ کچھ چونکا، پر خاموش رہا۔

دونوں خاموش ہو گئے تھے۔ بس چل رہے تھے، ساتھ ساتھ مگر ایک دوسرے سے بے تعلق۔

’’شیراز بھی‘‘۔ دونوں کے منہ سے بیک وقت نکلا کہ دونوں بغیر کسی ارادے کے چلتے چلتے شیراز کی طرف آ نکلے تھے اور اسے دیکھ کر ٹھٹک گئے تھے۔

شیراز بند پڑا تھا مگر اس طور کہ اس کے دروازوں کے سب شیشے چکنا چور تھے۔ دیوار اور دروازوں پر کالونس پتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ پیشانی پہ آویزاں سائن بورڈ جل پھنک کر زمین پہ عین دروازے کے سامنے گرا پڑا تھا۔ اینٹیں اتنی بکھری پڑی تھیں کہ باہر سے اندر تک بکھری نظر آ رہی تھیں۔ تو گویا یہاں بھی ہلّا بولا گیا تھا اور یہاں بھی آگ لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔ دونوں بس ٹکٹکی باندھے شیراز کو دیکھتے رہے۔ پھر وہیں فٹ پاتھ پر بکھری اینٹوں اور شیشوں سے بچ کر بیٹھ گئے۔

چپ بیٹھے رہے اور شام کا دھندلکا پھیلتا رہا۔ سامنے کی سڑک گہری خاموشی میں تھی نہ قدموں کی آہٹ نہ سواری کا شور۔ پھر اس جھٹپٹے میں ایک سایہ دکھائی دیا کہ اسی طرف آ رہا تھا اس نے غور سے دیکھا کہ کون ہے ’’عرفان‘‘ اس نے دل ہی دل میں کہا اور اس کی آنکھوں میں امپیریل کی صندلی بلی پھر گئی، جب ایک خاموش شام کو اس راہ سے گزرتے ہوئے اس نے اسے امپیریل کے ملبے میں بھٹکتے دیکھا تھا۔

عرفان نے اُسے اور افضال کو بیٹھے ہوئے دیکھا بغیر کسی تعجب کے۔ پھر بغیر بولے، بات کیے برابر میں بیٹھ گیا۔ تینوں بت بنے بیٹھے تھے۔ گہری ہوتی شام کے جھٹپٹے میں تین ساکت پرچھائیاں۔

اچانک افضال اُٹھ کھڑا ہوا جیسے خاموش اور ساکت بیٹھے بیٹھے اسے خفقان ہونے لگا ہو۔ دونوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا ’’یار، تم دو اچھے آدمی ہو مجھے معاف کر دو۔ میں شہر کی حفاظت نہیں کر سکا‘‘۔

دونوں نے اسے خاموش نظروں سے دیکھا، دیکھتے رہے۔ عرفان کو افضال کے اس اندازِ بیان پر آج کوئی جھنجھلاہٹ نہیں ہوئی۔

افضال کھڑا رہا۔ پھر بیٹھ گیا، پھر آہستہ سے بولا:

’’یار، ہم بھی طیب نہیں ہیں‘‘۔ دونوں کو دیکھا ’’ہم ظالم ہیں، ہم بھی‘‘۔

اس نے افضال کو خاموش نظروں سے دیکھا، ’’میں ظالم ہوں‘‘۔ وہ افضال کے بیان میں اصلاح کرنا چاہتا تھا یا شاید اپنے طور پر بڑبڑایا تھا۔

افضال نے جیب سے نوٹ بک نکالی، ناموں کی فہرست پر نظر ڈالی، قلم سے سارے ناموں پر سیاہی پھیر دی ’’کوئی طیب آدمی نہیں ہے‘‘۔

عرفان نے نہ اس نے، دونوں نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ دیر تک تینوں چپ بیٹھے رہے۔ پھر وہ قدرے بے چین ہوا۔

’’یار‘‘ وہ عرفان سے مخاطب ہوا۔ ’’میں اسے خط لکھنا چاہتا ہوں‘‘۔

’’اب؟‘‘ عرفان اس کا منہ تکنے لگا۔

’’ہاں اب‘‘۔

’’اب جب کہ ۔۔۔ ‘‘ عرفان پتہ نہیں کیا کہنا چاہتا تھا، بولتے بولتے چپ ہو گیا۔

’’ہاں اب جب کہ۔۔۔‘‘ کچھ کہتے کہتے رکا، پھر اور طرف نکل گیا ’’اس سے پہلے کہ۔۔۔‘‘ اُلجھ کر چپ ہو گیا۔

اس سے پہلے کہ۔۔۔ اس نے اپنے ذہن میں سلجھنے کی کوشش کی۔۔۔ اس سے پہلے۔۔۔ اس سے پہلے کہ اس کی مانگ میں چاندی بھر جائے اور چڑیاں چپ ہو جائیں اور اس سے پہلے کہ چابیوں کو زنگ لگ جائے اور گلی کے کوڑا بند ہو جائیں۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ چاندی کی ڈوری کھولی جائے اور سونے کی کٹوری توڑی جائے اور گھڑا چشمے پہ پھوڑا جائے اور چندن کا پیڑ اور ساگر میں سانپ اور۔۔۔

’’چپ کیوں ہو گئے؟‘‘ عرفان اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔

’’خاموش‘‘۔ افضال نے انگلی ہونٹوں پہ رکھ کر عرفان کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ ’’مجھے لگتا ہے کہ بشارت ہو گی‘‘۔

’’بشارت؟ اب کیا بشارت ہو گی؟‘‘ عرفان نے تلخ مایوس لہجے میں کہا۔

’’کاکے، بشارت ایسے ہی وقت میں ہوا کرتی ہے، جب چاروں طرف۔۔۔‘‘ کہتے کہتے رکا۔ پھر سرگوشی میں بولا:

’’یہ بشارت کا وقت ہے۔۔۔‘‘

٭٭٭

ماخذ:

http://humshehrionline.com/?p=5261#sthash.7I1HRJ9M.dpuf

تدوین اور ای بک کی تشکیل:اعجاز عبید