FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

آئینے کے سامنے

 

 

 

                راجندر سنگھ بیدی

جمع و ترتیب: راغب اختر، اعجاز عبید

 

 

 

 

 

مجھے آج تک پتا نہ چلا ، میں کون ہوں ؟

 

شاید اس سے کوئی یہ مطلب اخذ کرے کہ میں عجز وانکسار کا اظہار کر رہا ہوں ، تو یہ نا درست ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ جو آدمی کسی دوسرے کے آگے نہیں جھکتا ، یا کسی خاص مدرسۂ فکر و خیال یا مذہب یا ’’ازم ‘‘کی پیروی نہیں کرتا ، عجز کا حامل ہو اور وہ شخص جو بہت ہاتھ جوڑتا ہے ،جھک جھک کر بات کرتا ہے ، انا کا بد ترین نمونہ —

بلکہ بہت انکسار کا اظہار کرنے والا شاید زیادہ خطرناک انسان ہوتا ہے۔

اَپرا ہدی دونا نِویں ، جیوں ہنستاں مرگانہہ

گرنتھ صاحب

…اَپرا ہدی دُگنا جھکتا ہے ، جیسے ہرن کو مارنے کے لیے شکاری !

میں جانتا ہوں ، میں عام طور پر ایک سادہ اور منکسرالمزاج آدمی ہوں ، لیکن مجھ پر ایسے لمحے آتے ہیں ، بادی النظر سے دیکھنے والا جسے میری انا سے تعبیر کر سکتا ہے۔وہ لمحے اُس وقت آتے ہیں جب میں کوئی ادبی چیز لکھنے کے لیے بیٹھوں۔ مضمون میرے ذہن میں ہو۔ بات نئی اور مختلف اور مجھے اسے کہنے کے انداز پر ایک اندرونی طاقت اور صحت کا احساس ہو۔جب معلوم ہوتا ہے،میں اپنے آپ کو ایک غیر شخصی حیثیت سے دیکھ رہا ہوں — ہٹ جاؤ ، میں آ رہا ہوں ، با ادب با ملاحظہ ہوشیار یا …ساودھان ، راج راجیشور ،چکرورتی سمراٹ …رنگ بھومی میں پدھارتے ہیں …

چونکہ ایسے احساس کے بغیر لکھنا سہل نہیں ،اس لیے میری یہ لمحاتی انا انکسار سے دور کی بات نہیں۔ اس وقت کاغذ اور میرے در میان کوئی نہیں ہوتا۔ اس لیے کسی کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اپنے گھر بیٹھ کر کوئی اپنے آپ کو کالی داس یا شیکسپیٔرسمجھ لے ، اس سے کسی کا کیا جاتا ہے ؟البتّہ لکھ لینے اور پبلشر کے پاس پہنچنے تک بھی وہ اپنے آپ کو عظیم سمجھتا رہے تو بڑا احمق آدمی ہے۔ اول تو کاغذ پر نزول ہوتے ہی اپنی اوقات کا پتا چل جاتا ہے، اور جو نہ چلے تو دوست بتا دیتے ہیں اور جو زیادہ بے عزّتی کرنا چاہیں تو بتاتے بھی نہیں۔

ہاں ، تو میں کون ہوں ؟

عام طور پر یہی پوچھا جاتا ہے کہ فلاں آدمی کون ہے ؟ یا کیا ہے ؟ — مطلب یہ کہ کیا کام کرتا ہے ؟ یہ دو سوال میرے سلسلے میں غیر ضروری ہیں کیونکہ چند لوگ مجھے جانتے ہیں۔ کیا کام کرتا ہوں ؟اس سے بھی واقف ہیں۔ بھلا ہو فلموں کا ،جنھوں نے مجھے رسوا کر دیا۔ یہ دنیا اشتہاروں کی دنیا ہے۔ مشتہر انسان کی طرف لوگ آنکھیں پھیلا کے دیکھتے ہیں لیکن مشتہر آدمی کو اپنے جانے پہچانے ہو نے کی جو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ، اس سے عام آدمی واقف نہیں اور اس لیے شہرت کی تمنّا کیا کرتے ہیں۔ میں تو کچھ بھی نہیں۔ ہماری فلموں کے ہیرو لوگوں سے پوچھیے۔ کیا وہ اپنی زندگی کا ایک بھی لمحہ فطری طریقے سے گذ ار سکتے ہیں ؟ وہ گھر میں ہوں تو بیوی کے لیے بھی ہیرو بننے کی کوشش کیا کرتے ہیں ، جو کہ ان کی رگ رگ پہچانتی ہے اور مسکراتے ہوئے کہتی ہے

بہر رنگِ کہ خواہی جامہ می پوش

من اندازِ قدت را می شناسم

اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو مجھے وہ کتّا یاد آتا ہے (میں پھر انکسار کا اظہار نہیں کر رہا ) جسے ایک ڈائریکٹر نے اپنی ایک فلم میں لیا۔ کتا فلم کے تسلسل میں آ گیا۔ یعنی سین نمبر بارہ میں آیا تو سین نمبر اکیاون میں بھی اس کی ضرورت تھی۔ اور وہ سین چھ مہینے کے بعد لینا تھی۔ بے چارہ اچھا بھلا کتا تھا۔بازار میں گھومتا ، کوڑے کے ڈھیر یا اِدھر اُدھر ہر جگہ کھانے کی کسی چیز کی تلاش میں سر دھنتا تھا، لیکن فلم میں آ جانے کے بعد وہ ایک معیّن تجارتی چیز ، ایک جنس بن گیا جو بک سکتی تھی ، جس کا بھاؤ تاؤ ہو سکتا تھا۔ اس لیے ڈائریکٹر صاحب نے اسے باندھ کر رکھ لیا۔ اب بیچارے کو دن میں تین چار وقت کھانا پڑتا تھا۔ سونے کے لیے گدّے استعمال کرنے پڑتے۔ زکام لگنے پہ سلوتری کو بلوایا جاتا تھا۔ اور ہر آدمی کے آنے پر کتّا زور زور سے دُم ہلاتا۔ وہ انسان کو فرشتہ سمجھنے لگا۔ یعنی جتنا کہ کتا شیطان اور فرشتے کے درمیان تمیز کر سکتا ہے۔ چنانچہ فلم بنتی رہی اور کتا صاحب موج اُڑاتے رہے۔ اُدھر فلم ختم ہوئی’ اِدھر انھیں ‘آزاد ’کر دیا گیا۔ لیکن اب کوڑے کر کٹ کے ڈھیر سے روزی کُریدنے کی اسے عادت نہ رہی تھی۔وہ با ر بار گھوم پھر کے وہیں پہنچ جاتا اور پہلے سے زیادہ زور سے دُم ہلاتا، جس کے جواب میں اُسے ٹھوکر ملتی۔ اور چوں چوں کرتا ہوا وہ وہاں سے بھاگ جاتا۔ لیکن پھر گھوم کر وہیں …وہی حیرانی ، وہی کشت ،وہی گالی — یہ ڈائریکٹر کتّا نہیں — کوئی انسان ہے !

یہ اس آدمی کی حالت ہے،جو شہر ت میں بہک جاتا ہو۔ یا زندگی میں کسی مرتبے، مقام کا بھوکا ہو۔ پیسے چاہتا ہو جس سے وہ ہر چیز کو خرید نے کی طاقت حاصل کر سکے۔ قانون ، مذہب ، سیاست سب کو جیب میں ڈال لے۔لولِتا کے ہیرو کی طرح کسی نفسیاتی اُلجھن کا شکار ہو جائے ، مزے اُڑائے۔ اور لوگ داد دیں — ’’بڑے لوگوں کے چونچلے ہیں !‘‘شہرت ، مرتبہ ، مقام ، پیسا ایسی خطرناک چیزیں ہیں کہ انھیں حاصل کر نے کے بعد ہر شریف آدمی ان کا تیاگ کر نا چاہتا ہے لیکن ‘میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں ‘ کمبل مجھے نہیں چھوڑتا‘ کی طرح یہ چیزیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ یہ بھی محل نظر ہے کہ وہ شخص خالی خولی باتیں کرتا ہے یا واقعی ان چیزوں کو چھوڑنا بھی چاہتا ہے ؟

ایک دفعہ کا ذکر ہے ، میرے ایک چاہنے والے ،میرے مدّاح مجھے مل گئے۔ انھوں نے میری کچھ کہانیاں پڑھی تھیں۔ وہ ان بزرگوں میں سے تھے جو زندگی کا راز جانتے ہیں۔ تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کر نے کے بعد وہ سیدھے مطلب پر آ گئے —

’’بیدی صاحب …آپ بہت بڑے آدمی ہیں۔‘‘

’’جی ؟‘‘میں نے کچھ گھبراتے ہوئے کہا ’’میں جی (پنجابی انداز)‘‘۔’’جی، میں تو کچھ بھی نہیں۔‘‘

— اور جب انھوں نے مجھ سے اتفاق کیا تو مجھے بڑا غصّہ آیا !

میں کون ہوں ؟کیا ہوں ؟ کے سوال تو ختم ہوئے۔ در اصل یہ سوال مجھ پہ لا گو ہی نہیں ہوتے۔ میں تو اُن لوگوں میں سے ہوں ،جن سے پوچھنا چاہیے — ’’آپ ،کیوں ہیں ؟— یعنی کہ آخر — کیوں ؟‘‘

یہ بھی میں نہیں جانتا!

واقعی دنیا میں کروڑوں انسان روز پیدا ہوتے ہیں۔ ان سب میں سے ایک میں بھی ایک دن ایکا ایکی پیدا ہو گیا۔ ماں کو خوشی ہوئی ہو گی ،باپ کو ہوئی ہو گی۔ لیکن دائیں ہاتھ کے پڑوسی کو پتا بھی نہ تھا اور پڑوسی کو پتا ہونا کوئی اچھی بات بھی نہیں۔وہ ضرور مبارک باد دینے کے لیے آیا ہو گا لیکن رسمی طور پر۔ میرے پیدا ہو جانے سے اسے کیا خوشی ہو سکتی تھی ؟اُلٹا اس تجارتی دنیا میں اس کے لڑکے پنّا لال کا مدّمقابل پیدا ہو گیا۔ اس کا حریف۔ اس کی پیدا ہونے والی لڑکی کے لیے خواہ مخواہ کا خطرہ …تو گویا ایک قاعدہ بنا ہوا ہے کہ راجندر سنگھ بیدی پیدا ہو تو مبارک باد دو۔ چوہڑ سنگھ ہو تو بدھائی دو۔ ڈھلّو رام یا چمنّے خاں آ جائیں تو خوشی مناؤ ،ڈھول بجاؤ۔

ٹیگور کہتے ہیں ، دنیا میں ہر روز جو اتنے انسان پیدا ہو جاتے ہیں ، اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا ابھی انسان بنانے سے نہیں تھکا۔ خدا کی کتنی ستم ظریفی ہے۔ چونکہ وہ تھک نہیں سکتا، اس لیے انسان بناتا جا رہا ہے !

بیکار مباش کچھ کیا کر

پاجامہ اُدھیڑ کر سیا کر

چنانچہ خدا کے پاجامے کا آخری ٹانکا یعنی یکم ستمبر 1915کی سویر کو لاہور میں 3بج کر 47منٹ پر ،صرف مہا کوی ٹیگور کو ثبوت مہیا کر نے کے لیے پیدا ہو گیا …رام اور رحیم انسان کی طرح بھول گئے کہ یہ دنیا دُکھ کا گھر ہے۔ورنہ اس دنیا میں مجھے بھیجنا رحمت کی بات تھی ؟بلکہ شاستروں کے مطابق کوئی بدلا لینے کی۔کوئی کرم پچھلے جنم میں کیے ہوں گے جنھیں خدا کی رحمت بھی معاف کر نے کی قدرت نہ رکھتی تھی۔

جیسے ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا بیٹا بڑا ہو، تو کلکٹر بنے ،ایسے ہی میرے ماں باپ کی خواہش تھی۔ان بیچاروں کا کیا قصور ؟ان کی سوچ ہی کلکٹر تک محدود تھی۔انھیں کیا معلوم کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے جس کے سامنے کلکٹر پانی بھریں۔ جیسے سیدھا سادا ایک جاٹ ما لگذاری کے سلسلے میں تحصیلدار کے سامنے پیش ہوا تو تحصیلدار صاحب نے جاٹ کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ جاٹ نے بہت خوش ہو کر دعا دی — — — ’’خدا کرے تحصیلدار صاحب،آپ ایک دن پٹواری بنیں ……‘‘

کمپیٹیشن کی اس دنیا میں لوگ بڑے بڑے حوالے دیتے ہیں۔ایک ایسی سازش ہوتی ہے ،عام آدمی فوراً جس کا شکار ہو جا تا ہے۔مثلاً لوگ کہتے ہیں — لنکِن لاگ کیبن میں پیدا ہوا اور اسٹیٹس کا پر یذیڈنٹ بنا۔لاگ کیبن سے پریذیڈنٹ کی روایت کا ذکر کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ کتنے لوگ ہیں جو جھونپڑی سے راج بھون تک پہنچے۔اس دھوکے، اس سازش کے شکار ہو کر لاکھوں ، کروڑوں سر پٹختے مر جاتے ہیں اور پھر

اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اک ولادتِ مہر

اس کے بعد بھی آپ خدائی اور خلقت سے نا انصافی کرنا چاہیں تو آپ کی مرضی۔

میں ایک بیمار بچہ تھا۔ ایک بیما ر ماں کا بیٹا۔میں نے تپ محرقہ میں وہ غیر مشتکل ہچکولے دیکھے ہیں جن کا مرکز مریض خود ہوتا ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کے گو پھیے میں ڈال کر اسے بار بار دور ،کسی موت کے اُفق سے پار پھینکا جا رہا ہے۔میں نے سرہانے میں آنکھیں دبا کر ،ایک دوسرے میں گڈگڈ ہوتے ہوئے وہ ہزاروں رنگ دیکھے ہیں ، جو کسی عکس کی زد میں نہیں آتے اور طیّب جن کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہے ،قوسِ قزح جن کی حد باندھنے سے عاری۔ وہ آنسو روئے ہیں جو نمکین تھے اور نہ میٹھے۔ جو کسی ذائقے کی قید میں نہیں آتے۔ اور جسے پیار کرنے والے ماں باپ ،بھائی اور بہن یا محبوبہ نہیں پونچھ سکتی۔سیکڑوں بار میں کسی لق و دق ویرانے میں اکیلا رہ گیا ہوں اور ایکا ایکی ڈر کی پوری شدّت کے ساتھ مجھے محسوس ہوا کہ کروڑوں یوجنوں تک میرے پاس کوئی نہیں ، میں بھی نہیں …

بیسیوں بار میں نے انگلستان کا وہ بازار دیکھا ہے ،یا بنارس کا وہ گھاٹ جہاں پچھلے جنموں میں میں پیدا ہوا تھا …گنگا طغیانی کے بعد ہٹ گئی ہے اور کناروں کے قریب سرخی اور زردی سے ملی جلی مٹی کے بیچ ہزاروں لاکھوں چھوٹی چھوٹی ندیاں چھوڑ گئی ہے۔ جہاں پیر پڑتا ہے تو ایک ندی اور بہہ نکلتی ہے …اور وہاں آٹھ نو برس کا ایک سیاہ فام بچّہ،ننگا، کمر میں سیاہ تاگا باندھے ، سر پر چوٹی رکھے کھڑا ہے اور وہ — میں ہوں …

اس سے پہلے کہ میں بڑا ہو کر اپنی نسوں کو بدکاری اور کاروباری حادثات میں تباہ کر لیتا ،میرے اعصاب ختم ہو چکے تھے۔ذرا اسی بات پر ناراض ،ذرا اسی بات پر ریں ریں روں روں …ماں جھلّا کر مجھے دور پھینک دیتی تھی کیونکہ میں اس کی بیمار چھاتی تک چچوڑ ڈالتا تھا … ماں ،تم ہو نہ ہو ، مجھے میرا دودھ دے دو۔میں آج تک پکار رہا ہوں — ماں !مجھے میرا دودھ دے دو۔اور ماں کہیں نہیں ہے … اس کا مطلب جانتے ہیں ؟— ماں کہیں نہیں ہے۔ ہاں تو ،ایک بار پھینک دینے کے بعد اتھاہ ماد ریت کے عالم میں ، ماں مجھے پھر اٹھا لیتی تھی۔وہ نہیں جانتی تھی، مجھے رکھے یا پھینک دے …

میں کئی بار مرا اور کئی بار زندہ ہوا۔ ہر چیز کو دیکھ کر حیران ،ہر سانحے کے بعد پریشان۔میری حیرانی کی کوئی حد نہیں تھی۔پریشانی کی کوئی انتہا نہیں۔ جیسا کہ بعد میں پتا چلا، جیوتش لگوائے گئے۔ جیوتش نے کہا۔لگن میں کیتو ہے اور بر ہسپت اپنے گھر سے بُدھ پر درشٹی ڈالتا ہے۔یہ بالک کوئی بہت بڑا کلاکار بنے گا۔ لیکن چونکہ شنی کی درشٹی بھی ہے ،اس لیے اسے نام مرنے کے بعد ملے گا… سوریہ سوگریہ ہے ، دھن اور لابھ استھان میں پڑا ہے۔اور اسی گھر میں شکر ہے، جسے سوریہ نے اپنے تیج سے اِستھر کر دیا ہے۔چونکہ شنی شکر کو دیکھتا ہے اس لیے اس کے جیون میں بیسیوں عورتیں آئیں گی۔شنی اور شکر کا یہ میل شاید اسے کوٹھے پر بھی لے جائے ،لیکن بر ہسپتی گھر کا ہونے کے کارن کبھی بدنامی نہیں ہو گی — لیجیے !

…پھر منگل بھی سنیچر کے ساتھ پڑا ہے۔اگر دونوں ایک دوسرے کو کاٹتے ہیں لیکن پھر بھی منگل منگل ہے ،اثر تو کر ے گا ہی۔کام چلتے چلتے ایک دم رک جائیں گے۔خاص طور پر اُن دنوں جب کہ بر ہسپتی وکریہ ہو گا۔ دسویں گھر میں ر اہو ہے جسے منگل دیکھتا ہے، اس لیے پتنی ہمیشہ بیمار رہے گی۔گویا میرے باپ کی بیوی بیمار ،دائم المرض اور میری بیوی بھی …پورے خاندان کو شراپ لگا تھا !

چنانچہ آج تک میں نے ایک بیوی کی زندگی تباہ کرنے اور چند بچوں کا مستقبل خراب کرنے کے علاوہ کوئی اُپجاؤ کام کیا ہے تو یہی صفحے کالے کرنا ،کچھ کتابیں لکھ ڈالنا اور پھر خود ہی اُن کو خریدنے کے لیے چل دینا۔

— — — — — — — — —

میری ماں براہمن تھیں اور میرے پتا کھشتری۔اس زمانے میں اس قسم کی شادی گریٹنا گرین میں بھی نہ ہو سکتی تھی، لیکن ہو گئی۔ میرے ماں باپ ایک دوسرے کے جذبات اور خیالات کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔اس لیے گھر میں ایک طرف گرنتھ صاحب پڑھا جاتا تھا تو دوسری طرف گیتا کا پاٹھ ہوتا تھا۔ پہلی کہانیاں جو بچپن میں سنیں ،جنّ اور پری کی داستانیں نہ تھیں ،بلکہ مہاتم تھے جو گیتا کے ہرا دھیائے کے بعد ہوتے ہیں اور جو بڑی شردھا کے ساتھ ہم ماں کے پاس بیٹھ کر سناکرتے تھے۔چند باتیں جو سمجھ میں آ جاتی تھیں جیسے راجا …برہمن …پشاچ…لیکن ، ایک بات —

’’ماں !یہ گنِکا کیا ہوتی ہے ؟‘‘

’’ہوتی ہے ،آرام سے بیٹھو۔‘‘

’’اُوہوں ،بتاؤ نا— گنکا…‘‘

’’چپ‘‘

— اور پھر وہ دَیا جو ماں ہی کو آسکتی ہے، جب وہ اپنے بچّے کے چہرے کو ایکا ایکی کمھلاتے ہوئے دیکھتی ہے —

’’گِنکا بُری عورت کو کہتے ہیں۔‘‘

’’تم تو اچھی ہو نا ،ماں ؟‘‘

’’ماں ہمیشہ اچھی ہوتی ہے …کسی کی بھی ہو ؟‘‘

’’تو پھر بُری کون ہوتی ہے ؟‘‘

’’تو تو سر کھا گیا ہے ،راجے …بُری عورت وہ ہوتی ہے جو بہت سے مردوں کے ساتھ رہے۔‘‘

میں سمجھ گیا لیکن دوسرے دن مجھے بے شمار جوتے پڑے۔ہوا یہ کہ میں نے پڑوس میں سومتری کی ماں کو گِنکا کہہ دیا کیونکہ اس کے گھر میں دیور ، جیٹھ اور دوسرے انٹ سنٹ قسم کے کئی مرد رہتے تھے۔

چنانچہ میری باقی کی زندگی سب ایسی ہی ہے۔ اِدھر میں نے سوال کیا ،اُدھر زندگی نے کہا — ’’چُپ۔‘‘

اور جو کبھی جواب بھی دیا تو ایسا کہ میں اسے سمجھ ہی نہ سکوں۔اور سمجھ جاؤں تو جوتے پڑیں۔

میری جسمانی کمزوری ، نسوں کا اُلجھے ہونا ، میرے سوالوں کا جواب مناسب طور پر نہ دیے جانا ، یا جواب کی ماہیئت کا نہ سمجھنا، ایسی باتیں ہیں جو کسی بھی بچے میں احساسِ ذات پیدا کر سکتی ہیں اور وہ ضرورت سے زیادہ محسوس کرنے لگتا ہے ،حسّاس ہو نے لگتا ہے۔پھر زندگی میں سیدھے سادے اندھیرے کے علاوہ مہا شُونیہ بھی ہے — مقام ہُو …اور بیسیوں ڈر ہیں ،خطرے ہیں ، مایوسیاں جو دل میں ہر وقت لرزہ پیدا کیے رہتی ہیں۔جیسے بجلی کا موہوم اشارہ بھی ڈایا فرام میں جُھرجُھری پیدا کر دیتا ہے …باقی کی چیزیں واقعات اور تجربات ہیں ، جو ہر مصنّف کی زندگی میں آتے ہیں۔ وہ اُن سے سیکھتا ،اُن کا تجزیہ کرتا ہے اور پھر اسے کاغذ پر اتارنے کی کوشش۔

یوں جانیے کو پانچ برس کی عمر میں میں رامائن اور مہابھارت کی کہانیوں اور اُن کے کردار سے واقف ہو چکا تھا۔اب رامائن کتنی بڑی کتاب ہے۔ اس میں کتنے خوبصورت اور ایثار والے کردار آتے ہیں ، لیکن اس کی کیا وجہ کہ اب رامائن کے کرداروں میں مجھے سب سے زیادہ ہمدردی سگریو کے ساتھ ہوئی جس کا بڑا بھائی بالی ،اس کی بیوی تک کو اٹھا کر لے جاتا ہے اور وہ بیچارہ منھ اٹھا کر دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اگر بھگوان رام ادھر نہ آ نکلتے تو سگریو بیچارہ لنڈورہ ہی رہ گیا تھا۔اسی طرح میری دلچسپی کا مرکز ،ایک کردار مہابھارت میں بھی آتا ہے — شکھنڈی ،مخنّث …جسے بیچ میں رکھ کر بھیشم پتامہ کو مارا جاتا ہے ، ورنہ وہ نہ مرتے ؟…آج تک زندہ نہ ہو تے۔

ماں کی بیماری کی وجہ سے میرے پتا بازار سے ایک پیسے روز کے کرایے پر کوئی نہ کوئی کتاب لے آیا کرتے تھے اور میری ماں کے پاس بیٹھ کر اسے سنایا کرتے۔میں پائینتی میں دبکا سنا کرتا۔ گویا اسکول کی عمر کے ساتھ ٹاڈ کے راجستھان اور شرلک ہومز کے کارناموں سے واقف ہو چکا تھا۔جو چیز اپنی سمجھ میں نہ آئی وہ تھی — مسڑیز آف دی کورٹ آف پیرس …مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ وہ اسے بڑے مزے لے لے کر پڑھا کر تے تھے۔ اور میں حیران ہوتا تھا کہ فلاں آدمی کیوں ہر بار نئی عورت سے گڑبڑ کرتا ہے۔جب تک میں جان چکا تھا کہ عورتوں کے پیچھے پڑنا کوئی شرافت کی بات نہیں اور یہ کہ عورت بہت گندی چیز ہے …چنانچہ میں بے کیف ہو کر سو جاتا۔

اس کے بعد میرے چچا نے ایک اسٹیم پریس خرید لیا جو جہیز میں پانچ چھ ہزار کتابیں لایا۔ پرائمری سے مڈل تک پہنچتے پہنچتے میں نے وہ سب چٹ کر لیں۔ میں وہ سلور فش تھا جو ہر پرانی کتاب کے بیچ میں سے نکلتا ہے۔یا بُک مارک، جسے ہر معقول پبلشر نئی کتاب میں ڈال دیتا ہے۔ علمی طور پر میں قریب قریب ہر چیز سے واقف ہو چکا تھا لیکن عملی طور پر نہیں۔ علم اور عمل میں فاصلہ ہونے سے جو بھی تباہی ہو سکتی ہے ،وہ ہوئی۔ میں ہر تجربے کی سُولی پر مصلوب ہوا اور شاید میرے لیے ضروری بھی تھا …

زندگی کی ایسی بنیاد کو وضاحت سے بتا دینے کے بعد باقی کے حوادث کا ذکر فروعی ہے۔یہی نا کہ میڑک پاس کیا ،کالج میں داخل ہوئے۔انگریزی اور پنجابی میں شعر کہے۔اردو میں افسانے لکھے۔ماں چل بسیں۔ ڈاک خانے میں نوکر ہو گئے — شادی ہوئی ،بچّہ ہوا۔پتا چل بسے۔ بچّہ چل بسا۔نو سال ڈاک خانے میں ملازمت کی۔ریڈیو میں چلے گئے …بٹوارہ ہوا …قتل و غارت …لہوسے لتھڑے ہوئے بدن …ننگے ریل کی چھت پر دلّی پہنچنا …اسٹیشن ڈائریکٹر جموں ریڈیو اسٹیشن …ریاست کے جمہوری نظام ،سے لڑائی …پھر بمبئی …اچھی فلمیں ،بڑی فلمیں …کہیں کہیں بیچ میں افسانوں کی کوئی کتاب …پھر ہاتھ قلم کرتے رہے۔

لکھتے رہے جنوں کی حکایتِ خوں چکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

پھر کوئی معاشقہ …ایسے لمحے جو بُدھ پر بھی نہ آئے ،ایسے پل جنھیں راجا مل بھی نہ جی سکا… بیوی میں دلچسپی کا فقدان ، بیوی کی اپنے ساتھ محبت کا خاتمہ …وجہ ؟— ادھیڑ عمر کا سڑی پن۔ بڑے بیٹے کا مجھے کاروباری طور پر بیوقوف سمجھنا اور میرا اسے پیسے کا پجاری اور غیر ذمّہ دار …بھلا کوئی بات ہوئی ؟

میرے اعتقادات کیا ہیں ؟— کوئی نہیں۔میری امیدیں کیا ہیں ،اور مایوسیاں کیا— ؟ کوئی نہیں۔میں عقلمندی کی وجہ سے کسی عورت سے محبت نہیں کرتا اور وہ بیوقوفی کی وجہ سے مجھ سے نہیں کرتی۔اس لیے کہ میں حرص اور محبت کا فرق سمجھتا ہوں۔بغیر خواہش کے میری ایک ہی خواہش ہے کہ میں لکھوں۔پیسے کے لیے نہیں ،کسی پبلشر کے لیے نہیں۔میں بس لکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے کسی دھرم گرنتھ کی ضرورت نہیں کیونکہ اُن متروک کتابوں سے اچھی میں خود لکھ سکتا ہوں۔ مجھے کسی گرو ، استاد ، کسی دیکشا کی تلاش نہیں ، کیونکہ ہر آدمی آپ ہی اپنا گرو ہو سکتا ہے ،اور آپ ہی چیلا۔ باقی دکانیں ہیں۔میں نے ہرے ہرے پتوں اور چنبیلی کے پھولوں سے باتیں کی ہیں اور ان سے جواب لیا ہے۔میں کاگ بھاشا جانتا ہوں۔میرا کتّا مجھے سمجھتا ہے اور میں اسے۔ مجھے کسی حقیقت، کسی موکش کی ضرورت نہیں۔ اگر بھگوان انسان کو بنانے کی حماقت کرتا ہے، تو میں انسان ہو کر بھگوان بناتے رہنے کی بیوقوفی کیوں کروں ؟اگر حقیقت کو میری ضرورت ہے تو میں سمجھتا ہوں ، وہ ماضی اور مستقبل سے بے نیاز ،مکمل سُکوت کے کسی لمحے میں مجھے اپنے آپ ڈھونڈلے گی۔ میں ایک سادے سے انسان کی طرح جینا چاہتا ہوں ،چاہنے کا مفہوم نکال کر۔ ایک ایسے مقام پر پہنچنے کی تمنّا رکھتا ہوں ، تمنا سے عاری ہوکر، جسے ہم عرفِ عام میں ’ سہج اوستھا ‘کہتے ہیں اور جو صرف جاننے کے بعد ہی آتی ہے ،اور — —

٭٭٭

 

 

 

میں — کتابوں سے فلموں تک

 

 

کبھی میں نے اس لیے لکھنا شروع کیا تھا کہ مجھے کچھ کہنا تھا معاشرے کے بارے میں ، زمانے کے بارے میں ،حالات کے بارے میں ، خود اپنے بارے میں۔ میں نے سوچا تھا کہ اپنی تصانیف کے ذریعے معاشرے کے زخموں کو دکھاؤں ،تاکہ جو لوگ ان پر مرہم لگا سکتے ہیں ، وہ لگائیں ،یا اُن چھوٹی چھوٹی باتوں کا بیان کروں ،جو زندگی کی بڑی بڑی مصیبتیں بن جاتی ہیں۔

پھر،میں کتابی زندگی سے نکل کر فلمی زندگی میں آیا اور میں نے محسوس کیا کہ ہر فلم ساز میری طرف ایسے دیکھ رہا ہے جیسے شیش محل میں کو ئی کتّا گھس آیا ہو۔ہر شخص مجھے سمجھانے کی کو شش کرتا کہ فلمی کہانی اصل میں کیا ہوتی ہے اور کیسے لکھی جاتی ہے۔کامیاب فلم سازوں کی تقریریں سننا میں گورا کر بھی لیتا ،لیکن ان کے چیلے چانٹے ،جنھیں فلمی زبان میں ’’چمچے‘‘ کہا جاتا ہے ، وہ بھی مجھے سمجھاتے کہ فلمی کہانی اصل میں ایسی ہونی چاہیے ، اس میں فلاں فلاں باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، اور کہنے کا انداز ایسا ہونا چاہیے …میں ان باتوں میں ایسا جکڑ گیا کہ کبھی کبھی سوچنے لگتا کہ ادبی کہانی اور فلمی کہانی اصل میں دو الگ الگ چیزیں ہیں۔او ر پھر جب میں نے فلمی کہانیاں لکھیں تو ان پر بھی ویسی ہی نکتہ چینی ہوئی ،جو ادبی کہانیوں پر ہوتی تھی۔ ان میں بھی وہی جھول نظر آئے جو ادبی کہانیوں میں دکھائی دیتے تھے۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ فلم ساز مجھے زبان اور لکھنے کا انداز اور جملے بنانا تک سکھانے لگے۔ میں ان کی غلط باتوں پر جھنجھلاتا ،آخر ایک بار اُس زمانے کے ایک بہت بڑے فلم ساز سے میں یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔’’آپ نے کون سی کتاب لکھی ہے ؟‘‘اور اُس کے بتانے پر کہ اس نے کوئی کتاب نہیں لکھی ،میں نے کہا ’’میری تین کتابیں چھپ چکی ہیں !اور اُن میں میں نے کسی ہندوستانی یا غیر ملکی فلم سے کچھ نہیں چرایا ہے۔‘پھر جو سین وہ مجھ سے سات بار لکھوا چکا تھا ، اُسے آٹھویں بار لکھنے کی بجائے ،کاغذوں کے پُرزے پُرزے کر کے اس کی میز پر پھینک کر چلا آیا۔

ہمارے اسٹوڈیوبہت بڑے اصطبل ہیں۔ ان میں کیمرے اور ساؤنڈریکارڈنگ کا سامان پچھلی صدی کا ہے ،مگر مہنگائی کی وجہ سے ان کا کرایا دوگنا ہے۔پھر ، انگڑائی لے کر جاگے مزدور اور ان کی یونین ہے۔ صبح کی شفٹ میں کام کرنے والوں کو بھی پروڈیوسر کو دوپہر کا کھانا دینا پڑتا ہے اور شام کی شفٹ میں کام کر نے والوں کو بھی۔لنچ تو لنچ ہوا ہی، مگر ڈنر بھی لنچ ،اور بریک فاسٹ بھی لنچ اور پھر نام میں کیا رکھا ہے۔ گلاب کے پھول کو آک کہہ دیجیے تو کیا وہ گلاب نہیں رہتا ؟ خاص کر جب لنچ کا مطلب دال روٹی نہ ہو کر صرف پیسا ہوا ور پیسا بھی چھ یا آٹھ گنا۔

فلم کی پوری دنیا ایک اُلٹا استرا ہے جس سے پروڈیوسر کے سر کی حجامت کی جاتی ہے۔ لاکھوں روپئے لینے کے باوجود آپ کا ہیرو، کار کے پیڑول کے پیسے نہ مانگے تو وہ بہت اچھا اور مقبول ہیرو مانا جاتا ہے، مگر ڈرائیور کے دس روپئے کے بھتّے کے لیے وہ بھی بگڑجاتا ہے۔پھر اس کی شرطیں کہ میک اپ مین اس کا اپنا ہو گا، مگر اس کی تنخواہ پروڈیوسر کو دینی پڑے گی۔اسی طرح ہیروئن کو بھی انار ،انگور ،موسمی کے رس اور بھنے ہوئے مرغ مسلّم کے علاوہ بڑھیا شراب بھی چاہیے۔ اگر کوئی شرط نہیں ہے تو پروڈیوسر کی نہیں۔

جلا بھُنا میں ایک روز بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اور پروڈیوسر آ گیا۔وہ جیسے بھول ہی گیا کہ میں اب ادیب نہیں رہا۔ اور کہنے لگا ’’بیدی صاحب ،میں ’’چھینا جھپٹی ‘‘نام کی ایک فلم بنا رہا ہوں۔ آپ میرے لیے ڈائلاگ لکھ دیں گے ؟‘‘

’’ضرور لکھ دوں گا ، مگر میری ایک شرط ہے۔‘‘

’’بتایے‘‘

’’ہیئر ڈریسر میرا اپنا ہو گا۔‘‘

میں ایک نئی کشمکش میں گرفتار ہو گیا تھا۔ کئی موقعوں پر میں نے دیکھا کہ ہدایت کار اور فلم ساز کی پسند الگ الگ ہے اور وہ ایک دوسرے کے برعکس رائے دیتے ہیں۔دونوں کو مطمئن کرنے کا جو ایک طریقہ مجھے سوجھا ،وہ تھا کہ ایک ہی سین کو دو الگ الگ طریقوں سے لکھوں او ر پھر یہ فیصلہ ان دونوں پر چھوڑ دوں کہ انھیں کون سا سین پسند آیا۔

یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ ایک شکایت اندر ہی اندر مجھے پریشان کرنے لگی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ میں نے کسی ناشر کے کہنے پر اس کی مرضی کے مطابق لکھا ہو۔بلکہ میں نے جو کچھ اپنی مرضی سے لکھا ،وہی ناشر نے قبول کیا۔لیکن اب میں مجبور تھا کہ یا تو فلم ساز کی مرضی کے مطابق لکھوں یا فلم کے ہدایت کار کی پسند کو ذہن میں رکھوں۔ مجھے ایک عجیب سی گھٹن محسوس ہونے لگی۔ اور فلم ساز اور ہدایت کار دونوں ہی کی شکایتیں سننی پڑتیں۔ان شکایتوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ میں خود ہی ہدایت کار بن جاؤں ، لیکن ایسا کوئی فلم ساز نہ ملا جو ایک مکالمہ نگار کو بطور ہدایت کار فلم دینے کو تیار ہو جائے۔ آخر مجبور ہو کر مجھے خود ہی فلم ساز اور ہدایت کار بنناپڑا۔

تب ، سب سے پہلا سوال آیا پیسے کا۔فلم کے لیے پیسا کہاں سے آئے گا ؟آخر کون پیسا دے گا مجھے ؟جب کوئی بھی پیسا دینے والا نہ ملاتو ’’فلم فائنانس کارپوریشن ‘‘کی طرف نظر گئی، جس سے نپی تلی رقم ہی مل سکتی تھی۔اس رقم کو دھیان میں رکھ کر میں نے اپنی کہانیوں اور ساتھ ہی اُن ڈراموں پر نظر گئی، جو میں نے کبھی آل انڈیا ریڈیو کے لیے لکھے تھے اور ’’سات کھیل ‘‘کے نام سے شائع ہو چکے تھے۔ اُن ڈراموں میں سے میں نے ’’نقلِ مکانی ‘‘نامی ڈرامے کو منتخب کر لیا کیونکہ اُس کے لیے ایک ہی سیٹ کافی ہو سکتا تھا۔تب میں نے ڈرامے کو فلم کے نقطۂ نظر سے لکھا اور اس پر ’’دستک ‘‘نامی فلم بنائی۔اس فلم نے اس سال کی بہترین فلم کا قومی انعام حاصل کیا اور ’’باکس آفس‘‘پر بھی کامیاب رہی۔اس طرح اُس نے یہ ثابت کر دکھایا کہ ایک ادبی کہانی ،فلمی کہانی بھی ہو سکتی ہے اور ایک ادبی ادیب ،فلم ہدایت کار بھی بن سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

چلتے پھرتے چہرے

 

 

اس وقت میں صرف ایک ہی چہرے کی بات کر رہا ہوں جو بہت ’’چلتا پھرتا ہے ‘‘… اور وہ چہرہ آج کل کے عام نوجوانوں کا ہے، چنانچہ میرے بیٹے کا بھی۔

اپنے بیٹے کاچہرہ دکھانے کی کوشش میں ،اگر کہیں بیچ میں آپ کو میرا چہرہ بھی دکھائی دینے لگے تو بُرا مت مانیے گا۔کیونکہ میں آخر اسی کا باپ ہوں ،اپنے بیٹے پر ہی گیا ہوں۔چنانچہ جو کچھ بھی آپ کو میرے بیٹے کے خلاف لکھا ہوا معلوم ہو گا ،وہ در اصل میرے اپنے ہی خلاف ہو گا۔ کیونکہ اسے اس دنیا میں لانے کے علاوہ، اس کی جسمانی اور ذہنی تربیت کا ذمّہ دار میں ہوں۔البتّہ جو کچھ اس کے حق میں کہوں گا، وہ میرے بیٹے کی اپنی لیاقت ہو گی ، جس میں میرا رتّی بھر بھی قصور نہیں۔

میرے بیٹے کا قد لمبا ہے اور رنگ کسی قدر کھِلتا ہوا۔ حالانکہ میرا قد چھوٹا ہے ، اور رنگ بھی پکّا۔ اس کی وجہ غالباً میری بیوی ہے ،جس کے میکے میں سب لوگ لمبے قد کے ہیں اور رنگ کے گورے۔ میاں بیوی کے ملاپ سے جو نتیجہ نکلتا ہے، اس سے کھٹکا ہی لگا رہتا ہے۔نہ معلوم کیا چیز نکل آئے ؟مثلاً!ایکٹرس ہیلن ٹیری نے جارج بر نا رڈشا کو لکھا تھا۔ ’’ہم دونوں کا ملاپ ہو جائے تو اولاد کتنی اچھی ہو ؟‘‘جس پر برنا رڈشا نے جواب دیا تھا ’’ما دام بد قسمتی سے اگر بچّہ کو میری شکل مل گئی اور عقل آپ کی تو …؟‘‘شا کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ اس لیے اگر آپ کو ان کا لطیفہ پٹا ہوا معلوم ہو تو اندازہ کیجیے ، اگر بچے کو شکل ہیلن کی اور عقل شاکی مل جاتی تو ؟

میرا بیٹا بہت دبلا ہے۔ مجھے یہی کھٹکا لگا رہتا ہے کہ وہ کسی جیٹ ہوائی جہاز کے بہت ہی قریب نہ چلا جائے، یا کوئی میرے بیٹے کے بہت ہی قریب منھ کر کے پھونک نہ مار دے۔ اس کے مہین سے چہرے پر موٹی سی ناک رکھی ہے۔جو اس بات کے انتظار میں رہتی ہے کہ چہرے کے باقی خد و خال بھی بھر جائیں تا کہ وہ خود معقول معلوم ہو اور بات بات پر اسے لال نہ ہونا پڑے۔اس وقت میرے بیٹے کے ناک کے نتھنے یونان سے ہندوستان تک بھاگ کر آئے ہوئے سکندر کے گھوڑے بوس قیلس کے نتھنوں کی طرح کھلتے بند ہوتے ہیں۔یا اس وقت کام میں آتے ہیں جب انھیں اپنے مالک کی انا، یا وہم کو جتانا ہو ،ورنہ وہ تو مہینے میں تین چار بار صرف زکام کی وجہ سے بند رہتے ہیں۔

اس زکام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جوانی میں مجھے بھی اکثر زکام ہوا کرتا تھا۔ لیکن میں نے ورزش کر کے، وقت پر سو کر اور وقت پر جاگ کر اسے ٹھیک کر لیا تھا۔ لیکن میرا بیٹا اس زکام کو بالکل انقلابی طریقے سے ٹھیک کر تا ہے۔ وہ رات ایک ڈیڑھ بجے تک میکس ،یا نیویارک کا ہفتہ وار انگریزی رسالہ ’’ٹائم ‘‘ پڑھتا رہتا ہے ، جس پر اس کا دنیا بھر کے علم کا مدار ہے اور پھر صبح سب سے آخر میں اٹھتا ہے، جب کہ اس کے بہن بھائی وغیرہ اسکول جا چکے ہوتے ہیں۔ ماں گھر کا سب کام کر چکی ہوتی ہے اور میرا ایک پیر گھر کے اندر ہوتا ہے اور ایک باہر۔ تب وہ نیند کا ماتا میرے پاس آتا ہے اور مجھے یوں دیکھتا ہے جیسے میں کوئی اجنبی ہوں۔ اسے دیکھتے ہی پہلے میں سلام کرتا ہوں۔ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ اگر ایک بار میں نے اس کو سلام کے سلسلے میں آنا کانی کر دی تو وہ مجھے کبھی سلام نہیں کریگا۔اس کا کچھ نہیں جائے گا میرا سارا دن کڑھتے رہنے کی وجہ سے برباد ہو جائے گا اور آپ جانتے ہیں کہ دنوں کے تسلسل ہی کو زندگی کہتے ہیں۔

میرے بیٹے کے ہونٹ پتلے ہیں اور ٹھوڑی مضبوط، جو ایک پکّے ارادے کا ثبوت ہے اور جسے وہ اکثر اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں پر استعمال کرتا ہے۔آنکھیں چھوٹی ہیں ، جن سے پاس کاتو سب کچھ دکھائی دیتا ہے اور دور کا اتنا بھی نہیں ، جتنا کوئی صحت مند آدمی ،مٹی کا ڈھیلا پھینک سکے۔ ا س لیے میرا بیٹا آج کل کے نئے علم کا چشمہ پہنتا ہے۔اس کی آنکھوں پر کی بھویں گھنی ہیں جو خلوص کی نشانی ہوتی ہیں۔ یہ بات نہیں کہ میرے بیٹے میں خلوص نہیں۔اس میں خلوص ہے ، بہت ہے، لیکن اس کے باوجود وہ کسی آدمی سے دھوکا نہیں کھاتا اور یہ آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آدمی کا دل صاف ہو اور اس میں خلوص ہو ،پھر بھی وہ دھوکا نہ کھائے ؟

میرے بیٹے کا ماتھا چھوٹا ہے۔کہتے ہیں ایسی تنگ پیشانی کے لوگ زیادہ بھاگیہ وان نہیں ہوتے ، جس کا ثبوت تو یہ ہے کہ وہ راک فیلر کے گھر میں پیدا ہونے کی بجائے ہمارے گھر میں پیدا ہو گیا۔ لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ اس کی ماں کام کر کے مری جا رہی ہے ،میں مر مر کے کام کرتا جا رہا ہوں اور وہ مزے سے لیٹا ہوا ہے، تو مجھے بزرگوں کی کسی بات پر یقین نہیں رہتا۔وہ فطرتاً بے صبر واقع ہوا ہے۔ اگر وہ کسی کی بات بیچ میں نہ کاٹے تو اپنے چہرے پر کے رگ و ریشوں کی خفیف سی جنبش سے دوسرے کو اس بات کا یقین دلا دیتا ہے کہ آپ کی بات تو میں آپ کے کہنے سے پہلے ہی سمجھ گیاتھا۔ اس پر بھی آپ کہتے ہی رہنا چاہتے ہیں تو بڑی خوشی سے اور یہ اس کی اسی ناطق خاموشی کی وجہ ہے کہ اسے اپنے باپ کو کبھی بیوقوف کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ غالباً یہ اس کی بے صبری نہیں۔ آج کل کی دنیا تیز رفتار ہے، جس سے میرا بیٹا مطابقت رکھتا ہے اور میں نہیں رکھتا۔ وہ کار بھی چلائے گا تو چالیس پچاس میل کی اسپیڈ پر اور میں بیس پچیس پر ٹٹرک ٹوں رہوں گا۔ اس نے کئی ایکسیڈنٹ بھی کیے، جن میں سے دو تو بہت قیمتی تھے۔ ایک کوئی اٹھارہ سو روپئے کا تھا اور دوسرا کوئی بارہ ساڑھے بارہ سو کا۔ اور اس پر بھی مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے اس بات پر شرمندہ نہ کرے کہ میں اسے شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

ایک دن میں اور میرا بیٹا کار میں بیٹھے ہوئے جا رہے تھے۔ میں حسبِ معمول سلو اسپیڈ میں تھا۔اچانک پیچھے سے کوئی بچہ بھاگ کر آیا۔ اسے کار کا دھکّا لگا تو فٹ پاتھ پر جا گرا۔ خیر یہ ہوئی کہ اس کی جان بچ گئی اور ساتھ ہی ہماری بھی۔ ہسپتال سے اسے مرہم پٹّی کرانے کے بعد ہم گھر کے لیے روانہ ہوئے تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا ’’دیکھا میں تمھاری اسپیڈ پر ہوتا تو بچہ مر گیا ہوتا۔‘‘

’’آپ میری اسپیڈ پر ہوتے ‘‘میرے بیٹے نے کہا ’’تو بچے کے آنے سے بہت پہلے نکل گئے ہوتے۔‘‘

یہ شاید خلیل جبران نے کہا ہے کہ آپ اپنے بچے کو اپنا جسم اور ذہن دے سکتے ہیں ، اپنے خیالات نہیں دے سکتے۔ ایک تو یہ کہ لکھنے والوں نے بڑی گڑبڑ کی ہے۔ وہ الفاظ میں حقیقت کا ایک ایک لمحہ جکڑ لیتے ہیں۔ اس وقت آدمی یہ نہیں سوچتا کہ دنیا کی ہر چیز ایک اضافی حیثیت رکھتی ہے اور کو ئی حقیقتِ مطلق نہیں۔ حقیقت ایک مقامی حیثیت رکھتی ہے، اور کاہلی پسند کُند ذہن اس وقت پڑھنا اور سوچنا بند کر دیتا ہے اور اس محدود حقیقت کو دنیا بھر پر پھیلاتا رہتا ہے۔

کوئی خلیل جبران سے پوچھے ’’کیوں بھئی۔ہم انھیں اپنے خیالات کیوں نہیں دے سکتے؟‘‘

پھر کیوں ہمیں کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی کو بچّوں کے سامنے لڑنا جھگڑنا نہیں چاہیے۔ حالانکہ یہی فطری جھگڑا ہے جسے دیکھ کر بچے کو سمجھنا چاہیے کہ زندگی صرف قلاقند ہی نہیں ،کونین کی گولی بھی ہے۔ اور اس آدمی کا آپ کیا کریں گے ،جس نے کبھی کبھی بچے کو ماں باپ کا ننگا بدن دکھانے کی کوشش کی ہے۔یہ خارجی زندگی ہے جو بچے کے خیالات کی رہنمائی کرتی ہے اور آخر اس کی ’’پریرنا‘‘ کا حصّہ ہو جاتی ہے۔ آج کل کے بچے کانوں اور آنکھوں کے ذریعے ہزاروں آوازوں اور تصوّرات کو اپنے دل میں اتار لیتے ہیں ، اور کچھ اس انداز سے کہ نہ آپ جان سکتے ہیں اور نہ میں جان سکتا ہوں۔ آج کا بچہ اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ اسے کوئی جنم دے گیا تھا یا وہ برسات کے پہلے قطرے کے ساتھ اس دھرتی پر ٹپکا تھا۔ وہ اپنے بڑوں سے اپنی اور ان کی پیدایش کے بارے میں سوال پوچھتا ہے اور رسمی جواب حاصل کر کے چپکے سے قلم اٹھاتا ہے اور اپنے جوابی مضمون میں لکھتا ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پورے خاندان میں چار پشت سے کوئی بھی قدرتی طریقے سے پیدا نہیں ہوا۔

در اصل کرشی ویاس سے لے کر وشنو پربھا کر تک، سب لکھنے والوں نے گڑ بڑ کی ہے۔ وہ اس زمانے سے اتنا ہی پیچھے ہیں ، جتنا زمانہ ان سے آگے ہے۔ چلیے وقت کے اعتبار سے ہی سہی، مانیے ہم نے سب کچھ پایا ہی نہیں ، کھویا بھی بہت کچھ ہے۔ لیکن اس کھونے میں جو کچھ ہم نے پایا ہے ، اسے کالی داس، بھوبھوتی اور شیکسپیئر آج نہ پا سکیں گے۔میں آپ سے در خواست کروں گا کہ مجھے اتنا تاؤ نہ دیجیے کہ میں ان بڑے لوگوں کو آج کے نقطۂ نظر سے دیکھوں۔میں کس قدر بے بضاعت ہوں ، ان مہان ہستیوں کے مقابلے میں۔ لیکن آج کے نوجوان کو میرا یہی مشورہ ہے کہ مجھے پڑھیں اور پھینک دیں اور واقعی کسی نا محسوس دلیل کی بِنا پر مکمل طور پر رد ّکر دیں اور میں یہ محسوس کروں ، میرا بیٹا بھی ٹھیک ہے اور میں بھی غلط ہوں !

میرا بیٹا میری اتھارٹی کو نہیں مانتا۔ کسی اتھارٹی کو بھی نہیں مانتا۔ میں روتا ہوں۔میرے بڑوں اور پیشروؤں کی روحیں کسی آسمان میں کلبلاتی ہیں اور وہ میرے ساتھ مل کر اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی اپنے زمانے میں انقلابی تھے اور انھوں نے اتھارٹی کے خلاف جہاد کیا تھا ،اور اس کی وجہ سے کڑی مصیبتیں اٹھائی تھیں۔ کیونکہ ان کے زمانے میں بھی ہماری ہی طرح کے ماں باپ تھے ، حاکم تھے ، مذہبی پیشوا تھے۔ انھوں نے بھی وقت کو تھامنے کی کوشش کی تھی اور نئے اخلاق کو دیکھ کر سر پیٹ لیا تھا! آپ اندازہ تو کیجیے کہ میرے بیٹے کو کن چیزوں سے نبٹنا پڑتا ہے ، زندگی کی رفتار سے ،قد م قدم پر ایک کڑے مقابلے سے ،مادی اور روحانی قدروں کی کشاکش سے ، پُرانے اور نئے جھگڑوں سے — میں نے اگر بہت پڑھا بھی ہے تو میرا ذہن جاگیر دا را نہ ہے لیکن میرے بیٹے کا نہیں۔ میں ایک خاص قسم کا ادب اور متابعت اس سے مانگتا ہوں ، جو وہ مجھے نہیں دے سکتا اور دینا بھی نہیں چاہتا۔ میں جب اس کی طرف دیکھتے ہوئے جھلّا کر کہتا ہوں ، تم آج کل کے نوجوانوں کو کیا ہو گیا ہے، تو میں یہ بھول جاتا ہوں کہ یہی فقرہ مجھے بھی میرے ماں باپ نے کہا تھا۔ ہمارے بڑوں کے زمانے میں سرطان (کینسر )صرف ایک پھوڑا تھا، جس پر کوئی مرہم لگایا جاتا تھا اور مصفٰی خون کی بوتل پینی پڑتی تھی۔ ان کے زمانے میں دباؤ اتنے نہ تھے کہ انسانی شخصیت ایک ٹوٹے ہوئے آئینہ کی طرح نظر آئے — جب ’’سکزوفیرنا‘‘ کا لفظ ایجاد نہ ہوا تھا۔ خواب آور گولیاں استعمال نہ ہوتی تھیں اور نہ لوگوں کو ایل۔ایس۔ڈی چوبیس یا اُس کھمب کا پتا تھا، جس کا رس پی کر …انسان کو اپنا ہی لطیف جسم، گہرائیوں میں اترتا اور بلندیوں پر پرواز کرتا دکھائی دیتا ہے اور جن بے حد حسین سبزہ زاروں میں وہ جاتا ہے، وہ انسان کے اپنے دماغ ا ور اس کے شعور کی تہیں ہیں ، جن میں سیلا کانٹ مچھلی سے لے کے آئنسٹائن تک کے سب مجرّبات چھپے پڑے ہیں اور جہاں تک پہنچنے کے لیے ہمارے رشی منیوں نے ہزاروں سال تپسّیاکی۔

یہ کہ میں اپنے بیٹے کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا ،ایک حقیقت ہے۔اگر آپ سمجھیں کہ یونہی میں نے اپنے آپ کو صِفر کرنے کی کوشش کی ہے، تو مجھ پر بڑا ظلم ہو گا۔اگر میں جانتا بھی ہوں کہ سوئز کی نہر فرانسیسی انجینئر ڈی لیلپس نے بنائی تھی، تو بھی میں اپنے بیٹے کے سوالوں کا جواب کچھ اس انداز سے دوں گا جس سے اس کی تسلی نہ ہو گی اور میں اس بات کو چھپانے کی کوشش کروں گا۔ میں بھی سب باپوں کی طرح جاہل ہوں۔ اور میرا زمانہ گذر چکا ہے۔میری حیثیت اس وقت اس ’’ڈیڈی‘‘ کی طرح ہو گی جس سے بیٹے نے پوچھا۔’’ڈیڈی !یہ مصر کے مینار کیوں بنائے گئے ہیں ؟‘‘

’’خدا معلوم۔بس بنا دیے ،اگلے وقتوں میں بہت زیادہ وقت تھا لوگوں کے پاس !‘‘

’’زرّاف کی گردن اتنی لمبی کیوں ہے ڈیڈی ؟‘‘

’’بھائی کسی جانور کی لمبی ہوتی ہے اور کسی کی چھوٹی۔‘‘

’’ڈیڈی !بچہ صرف عورت ہی کو کیوں پیدا ہوتا ہے ؟‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہو۔اگر مرد کو بچہ پیدا ہونے لگے تو پھر وہ عورت نہ ہو جائے !‘‘

’’ڈیڈی !اگر آپ میرے سوالوں سے خفا ہوتے ہیں تو میں نہ پوچھوں۔‘‘

’’نہیں نہیں پوچھو بیٹا ، سوال نہیں پوچھو گے تو علم کیسے ہو گا ؟‘‘

میرا بیٹا رات کو کیا سوچتا رہتا ہے ؟کیوں رات دیر تک اسے نیند نہیں آتی ؟کیا صرف روغن بادام یا خواب آور گولیاں ہی اس کا علاج ہیں ؟کیا اسے سیکس ستاتا ہے ؟کیونکہ اس کی عمر ستائیس سال کی ہو چکی ہے اور اس کے چند مطالبے جائز ہیں۔پھر اس نے شادی سے انکار کیوں کر دیا۔کیا صرف اس لیے کہ جب تک وہ اس دنیا کی تگ و دو میں اپنا مقام نہ بنائے گا ، کسی لڑکی کی زندگی تباہ نہ کرے گا ؟کیوں ہمارے زمانے میں لوگ اس عقیدے پر شادی کر لیا کرتے تھے کہ عورت لکشمی ہوتی ہے ؟اس کے آنے سے قسمت کے دروازے اپنے آپ کُھل جاتے ہیں۔ اکثر وہ نہیں کھلتے تھے ، صرف چند تاریک مستقبل والے بچے اس دنیا میں چلے آتے۔

میرے بیٹے کے خیالات کیا ہیں ؟میں ان تک پہنچنے کی کوشش تو کروں۔ اس کی روح میں اتر کر دیکھوں کہ وہ کیوں اتنا خود غرض ہو گیا ہے ؟ کیوں وہ دوسرے کسی کے باپ کے پیر بھی چھو تا ہے لیکن صبح اُٹھ کر اپنے باپ کی طرف دیکھتا بھی نہیں۔ کیا صرف اس لیے کہ دوسرے کا باپ امیر کبیر ہے اور اس نے اپنے بیٹوں کو دولت اور شہرت کے ساتویں آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ حالانکہ میرے بیٹے کے باپ نے چند کالے صفحوں کے علاوہ اسے کچھ نہیں دیا۔ کیا یہ کہہ دینا کافی ہے کہ آج کل کے دوسرے نوجوانوں کی طرح میرا بیٹا بھی راتوں رات لکھ پتی ہو جانا چاہتا ہے اور نہیں جانتا کہ پیسا کمانے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ایک ردّے پر دوسرا ردّا رکھنا پڑتا ہے ؟ جیسے وہ مذہب اور دوسری رسوم و روایات کا قائل نہیں۔ وہ گردو پیش کی دنیا کو دیکھ کر اس قسم کی محنت کا بھی قائل نہیں۔ ایسے نظام کا بھی قائل نہیں جس میں کچھ لوگ مرتے رہتے ہیں اور کچھ عیش کرتے ہیں اور کھلے بندوں کہتے ہیں ، بزنس میں تو سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں ، میرا بیٹا میرا نام استعمال کرتا ہے اور اس میں کوئی شرم نہیں سمجھتا۔ایک دن مجھے پتا چلا کہ وہ میرا بیٹا ہونے کی وجہ سے مجبور اور شرم سار ہے۔ میری وجہ سے وہ کسی سے دس روپئے بھی نہیں مانگ سکتا۔

میں نے ہنسی کی آڑ میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے کہا۔’’بیٹا تو پھر تم سَو مانگا کرو۔‘‘

اور مجھے پتا چلا کہ وہ میری زندگی میں سے جذباتیت اور مثالیت کو یکسر نکال دینا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس کے باپ کی اتنی حیثیت تو ہو جائے کہ وہ کسی سے لاکھ دو لاکھ مانگ سکے، جس سے وہ ایک فلم بنائے اور اس سے کئی لاکھ کمائے۔

اس قسم کی مادّہ پرستی ، خود غرضی ، سگریٹ ،شراب ،عورت کی وجہ سے باپ اپنے بیٹوں کو اپنی زمین جایداد سے بر طرف کر دیا کر تے تھے۔ لیکن مادّی معنوں میں میرے پاس ہے ہی کیا، جس سے بیٹے کو بر طرف کردوں ؟اگر وہ کسی بات سے ناراض ہو کر چلا جائے تو میں ہی اسے ڈھونڈتا پھروں گا اور اگر میں کہیں چلا جاؤں تو وہ مجھے نہیں ڈھونڈے گا۔ اس لیے میں سخت و حشت کے لمحوں میں بھی چپکے سے گھر چلا آتا ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں میرا بیٹا کہیں چلا نہ جائے۔ میں اسے برطرف کرنے کی نہیں سوچتا۔اس بات سے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے انسانی اصول کے کلبلاتے ہوئے درخشاں مستقبل سے بر طرف نہ کر دے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

مہمان

 

 

میں شروع ہی میں مانے لیتا ہوں کہ مجھے مہمانوں سے نفرت ہے ، سخت نفرت !

اگر چہ میں اتنا پڑھا لکھا نہیں لیکن یہ بات ضرور جانتا ہوں کہ ہماری سبھیتامیں مہمان کا بہت بڑا درجہ ہے۔ یہ مہمان کی اپنی بد کرداریوں اور اس کے نام میں لگی ہوئی فالتو سی ’م‘ نے گڑبڑ کر دی، ورنہ وہ تھا ہی مہمان … آپ ذرا اسے لکھ کر تو دیکھیے۔

اتتھی ستکار کا ہماری پستکوں میں بڑا مہتو ہے۔جگہ جگہ اس بات کی پریرنا کی گئی ہے کہ مہمان کیسا بھی ہو ،اسے بھگوان کر کے مانا جائے۔اس زمانے میں شاید خیالات کی زیادتی یا سوچ بچار کی کمی کہ ان درشن شا ستروں کے لکھنے والے گھو م گھام کر پھر شبد مہمان پہ چلے آتے تھے۔ غالباً وہ سب اس لیے کرتے تھے کہ خود ان کے پاس پہننے کو لنگوٹی تھی اور نہ کھانے کو روٹی، اور وہ جانتے تھے کہ ایک نہ ایک دن ان کو کسی کا مہمان ہونا ہی پڑے گا۔اگر یہ با ت ٹھیک ہے کہ مہمان کا درجہ بھگوان کا ہے، تو میں بڑی نمرتا سے آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہوں گا کہ مجھے بھگوان سے بھی نفرت ہے!

جس زمانے میں ہمارے شاستر لکھے گئے تھے، اس زمانے میں جگہ کی کیا کمی تھی ؟ سواے وشالتا کے اور تھا ہی کیا؟ نیچے زمین ،اوپر آسمان اور بیچ میں مہمان ،چاہے درجنوں لٹک جائیں۔آج کس کے پاس10×10فٹ سے بڑا کمرہ ہے؟

شامت اعمال، اگر مہمان چھ فٹ کا آ جائے تو آپ کو ٹانگیں سکیڑ کر انھیں چھاتی سے لگا کر باقی کے چار فٹ میں گزارا کرنا پڑے گا۔حالانکہ مرنے کے لیے بھی آدمی کو کم سے کم چھ فٹ جگہ چاہیے۔جس میں کہ مہمان پڑا ہوتا ہے …صبح اٹھیں گے تو آپ کی ٹانگیں چھاتی کے ساتھ ہی لگی رہ جائیں گی اور جب انھیں پھیلانے کی کوشش کریں گے تو یوں لگے گا جیسے آپ پھر سے پیدا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگلے وقتوں میں ہمارا پورا فلسفہ مہمان کی مدد کرنے پر تلا ہوا تھا۔جب لوگ جنگل میں جا کر کند مول وغیرہ کھا لیتے تھے اور اسی میں سنتشٹ ہو جاتے تھے، لیکن آج کا دُشٹ مہمان چکن روسٹ سے کم بات ہی نہیں کرتا۔کچھ اس انداز سے چکنی چپڑی باتیں کرتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو کوالٹی ریستوران میں بیٹھے ہوئے پاتے ہیں۔آخر دم تک یہی معلوم ہوتا ہے کہِ بل وہ دینے والے ہیں — یہ مسئلہ آپ کا ہے ،مہمان کا نہیں کہ دیش بھر میں کھانے کو نہیں۔راشننگ کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے۔بیوی کی شکل دُکان پہ کھڑے کھڑے کیوسی ہو گئی ہے۔پھر پُرانے زمانے میں انسان زیادہ تھے اور مہمان کہیں اِکّا دُکّا ملتا تھا۔لیکن آج مال تھوسی کے عقیدے کے مطابق ،اِس بھوکی ننگی دنیا میں مہمان ہی مہمان رہ گئے ،انسان کہاں نظر آتا ہے ؟اس زمانے کے مہمانوں میں پھر کوئی آنکھ کی شرم تھی ،حیا تھی ،دوسرے کی تکلیف کا احساس تھا۔ لیکن آج کل کے مہمان ؟ارے توبہ۔ آپ تو انھیں مجھ سے بہتر جانتے ہیں ، کیونکہ ہندوستان میں کوئی ایسا آدمی نہیں ، جسے اس موذی سے پالا نہ پڑا ہو۔وہ موت کی طرح سے ہر ایک پہ آتا ہے۔جینا جھوٹ ہے اور مرنا بھی جھوٹ۔ صرف مہمان سچ ہے۔ آج کل کے مہمان کو تو بس گولی ماریے۔ذرا سوچیے تو ہم جو خود اس دنیا میں کل دو ہی دن کے مہمان ہیں ، اپنے اوپر ایک اور مہمان کو لے آئیں جو مہینے بھر سے پہلے جانے کا نام ہی نہ لے ؟

نا صاحب۔گھر میں مہمان لانے سے تو اپنی بیوی پر سوت لے آنا اچھا۔

اس دنیا میں تکلّف کی بھی ایک جگہ ہے۔مثلاً آپ کسی کے گھر کھانا کھائیں تو شوربے میں ڈوبے ہوئے دو آلوؤں کے بارے میں ضرور کہنا پڑے گا۔واہ صاحب مزا آ گیا۔برسوں کے بعد ایسا لذیذ کھانا نصیب ہوا ہے،یا رُخصت ہوتے ہوئے اپنے میزبان کی بیوی کے بارے میں کہنا پڑے گا، آپ کی بیوی بڑی Charmingہے۔سمجھ دار میاں تو اس بات کو سمجھتا ہے۔وہ صرف ایک بار مُڑ کر اپنی بیوی کو دیکھتا ہے اور پھر گھبرا کر بوٹ کے تسمے بند کر نے لگتا ہے۔ لیکن مہمان ؟آپ کہیں غلطی سے بھی اسے کہہ دیں ،آپ غریب خانے پر تشریف لے چلیے ،وہ آپ کا اپنا ہی گھر ہے ، تو پھر دیکھیے،کیسے وہ آپ کے ہاں انتقال فرما جاتے ہیں اور وہیں اپنی قبر بنا کر رہتے ہیں۔ آپ کو، آپ کی بیوی کو ، آپ کے بچوں کو مجاور بنا کر چھوڑ تے ہیں۔کچھ دنوں کے بعد آپ کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ آپ اپنے ہی گھر میں مہمان ہو گئے۔میزبان تو وہ ہیں ، بذات خود !

اپنے دل میں پھر سے گھر کا احساس جگانے کا کے لیے آپ کے پاس ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگلے پھیرے میں آپ اس کے گھر میں مہمان ہو جائیں اور ہر بات میں ان کی جھونپڑی کو بار بار دولت خانہ کہیں۔’’تشریف رکھیے ‘‘…’’پہلے آپ ‘‘ اور اس قسم کے جملوں کا آزادانہ استعمال کریں۔ پھر ایک اور بات جو اُن سے سہواًچھوٹ گئی۔ اس کی بیوی سے عشق بھی کریں ، اس لیے نہیں کہ آپ کا جی چاہے گا ،بلکہ اس لیے کہ اس کمینے کو پتا تو چلے کہ کسی دوسرے کے گھر میں مہمان کیسے ہوا جاتا ہے ؟

بمبئی کے فلیٹوں کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں۔سالے بہت ہی فلیٹ ہیں۔ان میں اگر آپ ایک چار پائی رکھ دیں ، تو دو پائے والے کے لیے کہیں کوئی گنجائش نہیں۔آخر چارپائی تک پہنچنے کے لیے تھوڑی جگہ تو چاہیے ہی۔ بہر حال وہ کھاٹ جسے آپ کی بیوی جہیز میں لائی تھی اور جسے آپ پلنگ نہ کہیں تو وہ مرنے مارنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔مہمان کو دینا پڑتی ہے اور خود نیچے سونا پڑتا ہے، بد قسمتی سے اگر آپ کے مہمان ساتھ اپنی بیوی کو بھی لائے ہوں تو پھر آپ اوپر سو سکتے ہیں ،نہ نیچے۔ہاں ،تو جب آپ مہمان صاحب کو چار پائی پر سونے کے لیے کہیں گے تو پہلے وہ ضرور کہے گا۔ نہیں صاحب !یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟آپ پلنگ پر سوئیے،میں نیچے سوجاتا ہوں۔ لیکن اس کی نیت ایسی ہرگز نہ ہو گی۔وہ جانتا ہے نا کہ اس کی خاطر کر کے میزبان اپنے کر تویّہ ہی کا تو پالن کر رہا ہے۔اس کی اس پیش کش سے انکار کیا تو بے چارے میزبان کے دل پر کیا بیتے گی؟ چنانچہ وہ پلنگ پر ٹانگیں پھیلا کر مزے سے سو جائے گا۔تھوڑی دیر بعد آپ کو یوں لگے گا، جیسے دشمن کا ریڈیو براڈ کاسٹ کر رہا ہے۔ لیکن آپ کوڈ نہ جاننے کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں سکتے۔ پھر آپ کو اچانک خیال آئے گا۔ نہیں بھائی ،اس Wave lengthپر تو پہلے ہی بیسیوں نشریات سن چکے ہیں۔ یہ نو مہمان کے خر اّٹے کے ہیں۔

چنانچہ مہمان صاحب سو رہے ہیں۔ ہمیشہ کی نیند نہیں۔صبح وہ پھر جگ جائیں گے۔ ایک نہیں نیند آتی تو آپ کو اور آپ کی بیوی کو ،جو سوچ رہے ہیں کہ کل ان کو کیا کھلائیں گے ؟آپ سوچتے تو نیلا تھوتھا ہیں اور لاتے سیب ہیں ، جن کا منھ بھی مہنگائی کے اس زمانے میں آپ نے مہینوں سے نہیں دیکھا۔پھل بیچنے والا پیشہ ور آدمی ہے۔وہ آپ کو دیکھتے ہی تا ڑ جاتا ہے کہ ہو نہ ہو ان کے گھر میں کوئی مہمان آیا ہے اور اتتھی ستکار کی بھاونا ان کے من میں ویاکل ہو اُٹھی ہے۔ چنانچہ وہ سیب تو ایک دیتا ہے اور روپئے دو مانگتا ہے۔ جیسے اکیلا وہی ایک سیب ہے جو ہوائی جہاز میں بیٹھ کر کشمیر سے آیا ہے۔ پھر آپ آم خرید نے کا فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ وہ مقابلہ میں سستا پڑتا ہے۔ گھر پہنچ کر آپ اس آم کی بہت سی قاشیں کاٹ کر مہمان کے سامنے رکھتے ہیں تا کہ انھیں ایک کے دو معلوم ہوں۔مہمان ایک بار پھر آپ کا دل نہیں دکھانا چاہتا۔ چنانچہ لپڑ چپڑ وہ سارے کا سارا چٹ کر جاتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں ، شاید وہ سمجھ رہا ہے کہ اندر اور بھی بہت سے آم ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اندر صرف بیوی ہے جو غصّہ سے کانپ رہی ہے اور اس کی شکل انناس کی سی ہو گئی ہے۔

مہمان کے گھر میں آنے سے سب سے بڑی بیہودگی جو ہو تی ہے ،وہ آپ کے سب راز ، سب پول کھل جانا۔ آپ گھر میں آدھی کھائیں یا ساری ، یا بھوکے ہی سور ہیں ،لیکن مہمان کے آتے ہی آپ کی قلعی کھل جاتی ہے۔ آپ کتنا ہی اس سے چھپانے کی کوشش کریں ، مگر وہ سب ایسے ہی بیکار ہے جیسے کارک کو پانی میں ڈبونے کی کوشش۔مہمان اس وقت اندر سے خوش لیکن باہر سے اُداس دکھائی دیتا ہے اور اکثر یہ جملہ کہتا ہے — ’’کیا ہوا بھائی ، گھروں میں ایسا ہوتا ہی ہے …‘‘

وہ ہمدردی کر رہا ہے جسے آپ سخت نا پسند کرتے ہیں۔ جب تک آپ پڑوس سے سو روپئے کا نوٹ پکڑ سکتے ہیں ،اپنی گھڑی بیچ سکتے ہیں ، بیوی کی چوڑیاں گروی رکھ سکتے ہیں ، کسی کو ہمدردی جتانے کا کیا حق ہے ؟اگر آپ کسی نہ کسی طرح حقیقتِ حال چھپانے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو پھر مہمان بڑے شاطر انہ انداز میں کُرید نے کی کوشش کرتا ہے۔

’’ کیوں بھائی !کارو بار کا کیا حال ہے ؟‘‘

’’آپ جواب دیتے ہیں — ’’اچھا ہے۔‘‘

’’کوئی ترقی و رقی نہیں ہوئی ؟‘‘

’’ہوئی کیوں نہیں ؟… ہر سال ہوتی ہے ، جیسے ہر معقول ہندوستانی عورت کے بچہ پیدا ہوتا ہے — ہی۔‘‘

چنانچہ ہنسی میں بہہ جانے کی وجہ سے آپ کو بالکل اندازہ نہیں رہتا کہ آپ کیسے دھیرے دھیرے مہمان کی سازش میں آرہے ہیں۔ وہ آپ کے بھونڈے مذاق پر آپ سے کہیں زیادہ ہنستا ہے اور اعتراف بھی کرتا ہے کہ اس کے پیٹ میں بل پڑ گئے ہیں اور پھر ایکا ایکی آپ کو پورے طور پر نہ دیکھتے ہوئے اپنے تر کش سے ایک اور تیر چھوڑتا ہے — اب تو تنخواہ تین سو روپئے مہینہ ہو گئی ہو گی؟‘‘

آپ کی رگِ حمیت ایک دم بھڑک اٹھتی ہے اور کچھ یاد نہیں رہتا۔ آپ اپنے آپ کو کہتے ہوئے پاتے ہیں — ’’تین سو؟ پانچ سو تو میری پچھلے برس تھی — ‘‘جبھی آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ نے کیا حماقت کی۔ خود کو کنویں میں گرا کر اب آپ بچنے کے لیے بے کار ہی ہاتھ پیر مارتے ہیں اور کہتے ہیں ’’پانچ سو میں آج بنتا ہی کیا ہے ؟ کچھ انکم ٹیکس کٹ جاتا ہے ،کچھ انشورنس ، پراویڈنٹ فنڈ میں چلا جاتا ہے۔ کچھ بیوی کمیٹی کے لیے رکھ لیتی ہے، تا کہ اس بیٹی کی شادی کر سکے جو ابھی پیدا نہیں ہوئی …‘‘ لیکن صاحب آپ کچھ بھی کیجیے۔ مہمان اندازہ لگا چکا ہے کہ آپ کے گھر میں اور کتنے دن رہا جا سکتا ہے۔

ہر معقول آدمی کا بیوی سے جھگڑا ہوتا ہے کیونکہ مرد عورت کا رشتہ ہی جھگڑے کا ہے۔ لیکن جب مہمان گھر میں آتا ہے تو وہی جھگڑا مہا بھارت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بیوی آپ سے کتنی نفرت کرتی ہے اس کا اس وقت تک پتا نہیں چلتا ، جب تک مہمان گھر میں نہ آئے۔ جیسے آپ کو بھولنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا ،ایسے ہی بیوی یاد رکھنے کے سوا کچھ اور نہیں جانتی۔ جانے کب کا بغض آپ کے خلاف سینے میں لیے بیٹھی ہے جو مہمان کے آتے ہی پنڈورا باکس کی طرح آپ کے سر پر اُلٹ دیتی ہے۔مہمان سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے وہ کہتی ہے۔’’دیکھیے بھائی صاحب۔ دن میں چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں اور اس پہ دودھ کا ایک گلاس نہیں پیتے۔ آپ بتائیے ان کو خشکی ہو گی کہ نہیں ہو گی ؟ نہ ناشتے کا کوئی وقت ہے نہ کھانے کا …اب پینے کی نئی لت پڑ گئی ہے۔ اس بات کے انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی مہمان آئے اور ان کے پینے کا بہانا ہو جائے… آج تو میں انھیں ہاتھ بھی نہیں لگانے دوں گی۔‘‘

’’کسے ؟‘‘مہمان شرارت سے کہتا ہے۔

بیوی کچھ مُسکراتے اور کچھ شرماتے ہوئے کہتی ہے۔’’بوتل کو ،اور کسے ؟آپ بھی بالکل نہ پیجیے گا ، بھائی صاحب۔‘‘

مہمان تھوڑا گھبرانے لگتا ہے اور لہجے میں وہ پیار لے آتا ہے جو وہ اپنی سگی بیوی کے لیے بھی کبھی نہیں لایا — ’’کبھی کبھی پی لینے میں کوئی حرج نہیں ،بھابی!مرد لوگ… ‘‘

بیوی ایکا ایکی میز پر ہاتھ مار کر کہتی ہے۔’’نہیں ‘‘

’’ہاں۔‘‘میں جواباً کہتا ہوں اور بوتل ڈھونڈنے چل نکلتا ہوں ، جو بیوی نے گودریج کی الماری میں چھپا کر رکھی ہے اور تالا لگا دیا ہے۔ میں کنجی مانگتا ہوں اور وہ ٹھنٹ دکھاتی ہے۔ میں جانتا ہوں ، چابی کہاں ٹھنسی ہے،لیکن مہمان کے سامنے وہاں سے نکال نہیں سکتا۔ چونکہ میرے شوہری وقار کو ٹھیس لگتی ہے، اس لیے میں آگ بگولا ہو جا تا ہوں اور بیوی کے خلاف زہر اگلنے لگتا ہوں۔’’یہ عورتیں !… آپ دو روپئے کمائیں اور دیانت دار آدمی کی طرح آتے ہی ایک روپیا ان کو تھما دیں۔ باقی کے روپئے میں آپ بس کا کرایا رکھیں اور صر ف اٹھنّی اپنے موج میلے کے لیے۔ جب بھی ان کی نگاہ آپ کی اٹھنّی پر رہے گی۔ مرد سے یہ آخری سانس تک نچوڑ لیں گی اور جب مر جائے تو اونچی اونچی آواز میں روئیں گی۔ اس لیے نہیں کہ وہ مر گیا ہے ، بلکہ اس لیے کہ اب نچوڑیں گی کسے؟‘‘

’’بکو مت ‘‘بیوی کی بلند آواز آتی ہے اور اب دیکھتے ہیں کہ اس کی سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی ہے۔ ابھی اسے فکر پڑ گئی کہ یہ گیا تو روپیا کہاں سے آئے گا ؟لیکن آپ اپنا ٹیمپو کم نہیں ہونا دینا چاہتے۔آپ مہمان سے کہتے ہیں — ’’آپ ہی بتایئے بھائی صاحب … ہر بیوی شادی کے دس سال میں یہ ہو جاتی ہے۔اس دلہن کو دیکھیے جسے آپ برسوں پہلے گھر لائے تھے اور جس سے والہانہ پیار کیا تھا ، دو گھونٹ پینا ضروری ہیں یا نہیں ؟ یہ ذلیل سا گھر ہمارا … جب میں پی لیتا ہوں تو مجھے یہ سَچیو الیہ معلوم ہونے لگتا ہے اور یہ گندا سا محلہ ’’ہینگنگ گارڈن !‘‘ پھر میں آنکھوں میں شعلے اور انگارے برساتے ہوئے بیوی کی طرف دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں ’’دیکھو شانتی !مجھے آکاش وانی ہو رہی ہے۔ ‘‘

بیوی آکاش وانی کا مطلب سمجھتی ہے۔اس لیے ڈر کے مارے چابی میرے ہاتھ میں تھما دیتی ہے لیکن اس کے بعد جو ہتھیار میرے خلاف استعمال کرتی ہے ، اس کے سامنے آکاش وانی بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ وہ رو نے لگتی ہے اور مہمان سے مخاطب ہوتی ہے — ’’آپ کو کیا بتاؤں بھائی صاحب ! جب یہ چا بی لیتے ہیں تو آدمی نہیں رہتے۔‘‘

’’کیا ہو جاتے ہیں ؟۔‘‘ وہ پوچھتا ہے۔

بیوی ہچکچاتے ہوئے کہتی ہے۔’’باہر جاتے ہیں۔‘‘

’’باہر جانے میں کیا حرج ہے ؟’’مہمان عارفانہ تجاہل کے ساتھ کہتا ہے ’’باہر کی کھلی ہوا… ‘‘

’’او ہو۔ آپ نہیں سمجھتے۔‘‘

’’او۔‘‘ مہمان کہتا ہے ، جیسے وہ سمجھ رہا ہے۔

’’ آپ ایسے نہیں ، تو سمجھتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی مرد ایسا نہیں ؟‘‘ اور پھر گھگھیا کر رونے لگتی ہے اور ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ ذلیل اور گھٹیا مہمان، ہم میاں بیوی پہ جج بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ بیوی مجھے نقطوں سے بھری ہوئی گالیاں دیتی ہے اور میں اسے بے نقط سناتا ہوں۔مہمان بیچ بچاؤ کرتا ہے۔ باہر سے دکھی مگر اندر سے سکھی نظر آتا ہے۔ آخر وہ مجھے بے تحاشہ صلواتیں سنانے لگتا ہے…’’ شرم آنی چاہیے آپ کو۔ ہم نے ہزاروں عورتیں دیکھیں ہیں ، لیکن شانتی جیسی دیوی نہیں دیکھی۔ آپ اگلے سات جنم تک بھی لگے رہیں تو ایسی ستی ساوتری آپ کو نہیں ملے گی۔‘‘

’’ پچھلے سات جنم سے ستی ساوتری کی تلاش میں ہوں ،اور اب جا کر یہ مجھے ملی ہے شانتی۔ اب تو مجھے موکش ملنے والا ہے۔‘‘

بیوی عقیدت کے ایک جذبے سے مہمان کی طرف دیکھتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے۔اس گھر میں مہمان کی نوکری پکی۔ یہ تو موٹی عقل کا مہمان بھی جانتا ہے کہ کسی کے گھر میں رہنا ہے تو بیوی کے ساتھ بنا کر رکھو۔ اب اور بھی وہ مجھے بُرا بھلا کہتے لگتا ہے۔ بیوی چونکہ مرد کا Egoہوتی ہے۔اس لیے میاں اوپر سے بے حد خفا ہوتا ہے اور بھیتر سے خوش۔ بیوی کے سلسلے میں اسے کھانا کھا کر اتنی خوش نہیں ہوتی ، جتنے جوتے کھا کر ہوتی ہے۔ ہر بیوی کسی انتقامی جذبے سے چاہتی ہے کہ مرد کو بے بھاؤ کی پڑیں کہ نانی یاد آ جائے اور پھر وہ بے دست و پا ہو کر اس کی شرن میں چلا آئے۔ جب وہ اسے ایسا پیار دے جو ماں ہی اپنے بچے کو دے سکتی ہے ، جب وہ پڑوس کے کلوا سے پٹ پٹا کر گھر آتا ہے۔

لیکن آپ کا مہمان تھوڑی ہی دیر میں آپ کا سب مزا کرکرا کر دیتا ہے۔ وہ آپ کو آنکھ مار کر ایک طرف لے جاتا ہے اور با لکونی پر لے جاکر بڑی راز داری سے کہتا ہے۔’’ آپ بھی ایک پنتک ہیں۔ ہوتی میری بیوی، تو ایک چھانپڑ دے کر گھر سے نکال دیتا۔ ‘‘

مہمان کو گھر سے بھگانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اس کے کپڑوں میں سیاہی انڈیلنے ، روٹی میں ریت ڈالنے ، گھر کا مین سوئچ آف کر دینے کے سب طریقے پرانے ہو چکے ہیں۔ جدید طریقہ یہ ہے کہ خود ایک دم گھبرا جاؤ، جس سے آپ کا مہمان بھی گھبرا جائے گا۔ اس کی اتنی خاطر کرو کہ وہ توبہ توبہ بول اٹھے۔ اس کا پانو ہی زمین پر نہ پڑنے دو۔ اس کے منھ سے ’پ‘ نام کا حرف نکلے تو دوڑ کر پانی کا گلاس لے آؤ۔ پلنگ پر بیٹھا وہ زمین کی طرف دیکھے تو سلیپروں کی جوڑی اٹھا کر سامنے رکھ دو۔ وہ آپ سے بار بار معافی مانگے گا۔ لیکن اس بات کا آپ پر ذرا بھی اثر نہ ہو۔ باتھ روم کا بٹن آپ دباؤ۔ نل بھاگ کر کھولو اور ایسے میں دیوار سے ٹکرا کر اپنا سر پھوڑ لو۔غلطی سے وہ خود ہاتھ دھونے لگے تو ایک تولیہ لے کر کھڑے رہو۔ ٹٹی کا لوٹا خود ہاتھ میں لے کر سامنے بیٹھ جاؤ اور اس کی منت کر نے پر بھی نہ ٹلو۔ لیکن یاد رہے۔ یہ سب نسخے باریک عقل کے مہمانوں پر چلتے ہیں ، موٹی عقل کے مہمانوں پر نہیں۔پچھلے مہمان کو میں نے باریک عقل کا سمجھا تھا۔ لیکن وہ موٹی عقل کا نکل آیا۔ میرے یہ سب کرنے کے بعد اس نے منڈی ہلائی اور کہا — ’’ آپ بڑے دیوتا آدمی ہیں۔ ‘‘

جب میری سمجھ میں آیا کہ میں کیا کر رہا ہوں ؟

پھر مہمان کے ساتھ جو اس کی بیوی آتی ہے ، وہ عجیب ہی چیز ہوتی ہے۔ نہ جانے آپ کیسے اُسی وقت اندر کے کمرے میں جاتے ہیں ، جب وہ کپڑے بدل رہی ہوتی ہے۔ وہ آپ کو دیکھتے ہی ہڑ بڑا کر ایک طرف بھاگتی ہے۔ آپ کھڑ کھڑا کر دوسری طرف۔ اسی گھبراہٹ میں اس کی رہی سہی ساڑی بھی کھل جاتی ہے اور جب آپ دونوں سخت وحشت کے عالم میں الٹی سمتوں میں بھاگتے ہیں تو نہ جانے کیسے پھر برآمدے میں ٹکرا جاتے ہیں۔ آخر بڑ ی مشکل سے آپ اپنے ہونٹ پونچھتے ہوئے الگ ہو جا تے ہیں …

مہمانوں کے ساتھ ایک بہت بڑی ایوالانش بھی آتی ہے، جس کا نام بچے ہیں اور جو شکل ہی سے مہمان کے بچے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ بچوں سے پیار کرنا چاہیے کیونکہ وہ پرماتما کے راج بھوت ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیجیے کہ چھوٹے نلی چو چو کی ناک بہہ رہی ہے ، جسے وہ ہمیشہ اپنی قمیص کے کف سے پونچھتا ہے۔ بڑا باہر سے کھیلتا ہوا آتا ہے اور اپنے کیچ سے لت پت پانو دِوان پر رکھ دیتا ہے۔ ان کی ماں رسمی طور پر انھیں ڈانٹتی ہے۔ لیکن آپ کہتے ہیں — ’’بچے ہیں ، بھابی۔ یہ تو ایسے ہی کریں گے، جیسے بچے کرتے ہیں۔ انھیں روکنا بڑی غلطی ہے۔‘‘یہی نہیں ، آپ اپنے علم کے زور پر اِسے بتاتے ہیں کہ بچے تھوڑی بہت توڑ پھوڑ نہ کریں تو ان میں تخریبی جذبے دب جاتے ہیں اور اس وقت نکلتے ہیں ، جب وہ بڑے ہو جائیں۔ لیکن یہ بات تو آپ بھی نہیں جانتے کہ آج کل کے بچے ، آپ کی سب باتیں سمجھ رہے ہیں ابھی آپ نے کھانے کے لیے لقمہ منھ میں رکھا کہ اڑڑڑڑ دھڑام کی آواز آتی ہے۔ آپ سب بھاگتے ہوئے بغلی کمرے میں پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ لینن کا بت، جو آپ لینن گراڈ ہی سے لائے تھے، زمین پر گر کر ٹکڑے ٹکڑ ے ہو گیا ہے اور نلی چو چو پاس کھڑا کچھ فاتحانہ ، کچھ مجرمانہ انداز سے ہنس رہا ہے۔ہے ہے ہے ہے۔ اب ماں دکھاوے کے لیے تھپڑ مارتی ہے، لیکن صاف پتا چلتا ہے کہ وہ کس پھولوں کی چھڑی سے اس کی تواضع کر رہی ہے۔ اب آپ ہیں اور آپ کی بیوی جو اسے چھڑا رہے ہیں۔ آپ کا انتا کرن تو کہتا ہے ، سالے کو ننگا کر کے ،ٹکٹکی لگا کر وہ بید مارو کہ چمڑی ا ُ دھڑ جائے۔ لیکن اوپر سے آپ یہی کہتے ہیں۔’’کیا ہوا بھابی ؟ بچے تو توڑیں گے ہی۔ میں نے آپ سے کہا نہیں تھا ؟… چھوڑو اب مار ہی ڈالو گی معصوم کو ؟‘‘پھر چھڑانے کی بجائے اسے دھکیلتے ہوئے آپ کہتے ہیں ’’ روس والے اب مجھے Reactionaryسمجھنے لگے ہیں ، ورنہ میں ایک بت اور ماسکو سے لے آتا۔‘‘

بجلی مجھ پر اس وقت گرتی ہے جب میرا مہمان اور اس کی بیوی دونوں مل کر بچے سے کہتے ہیں ’’نمستے کرو ، نمستے کرو انکل کو … ارے کِنگ۔‘‘

اب کِنگ ماں کی دھوتی پکڑ کر اس کے پیچھے چھپنے لگتا ہے اور مشکوک انداز سے آپ کی طرف دیکھتا ہے اور بڑی ادا سے کہتا ہے۔ ’’ نائیں …‘‘

بچے کا باپ اسے پکڑ تے ، سامنے لاتے ہوئے کہتا ہے ’’ ارے ، نمستے کر سالے، انکل چاکلیٹ دیں گے۔ ‘‘

جبھی ماں اتراتی ہے ’’ میرا کِنگ چاکلیٹ بہت پسند کرتا ہے۔‘‘

آپ فوراً کہتے ہیں ’’ چاکلیٹ لے دوں گا بیٹے اور ٹافی بھی۔‘‘ حالانکہ انتا کرن کہتا ہے۔ تھوڑا — پوٹا شیم سائنائیڈ بھی۔ میں پھر شروع ہوتا ہوں۔

’’ تمھارے لیے غبارہ لاؤں گا ، کِنگ ! بہت بڑا غبارہ۔نمستے … ‘‘

’’ہی ہی ہی۔ نمشتے ! ‘‘ آخر کِنگ کہتا ہے۔

پھر اس کا باپ شروع ہوتا ہے … ’’ یار کِنگ ، انکل کو اے بی سی ڈی سناؤ۔‘‘

کِنگ انکار میں سر ہلا دیتا ہے، اور پھر ماں کے پیچھے چھپنے لگتا ہے۔

’’ ارے سناؤ نا ، شر ما کیوں رہے ہو ؟ ‘‘ ماں اسے پھر سامنے لاتے ہوئے کہتی ہے۔ ’’ انکل سائیکل لے کر دیں گے۔‘‘

’’ ہاں ‘‘ میں کہتا ہوں ’’کار لے دوں گا۔‘‘

جب کِنگ فارم میں آتا ہے اور کہتا ہے ’’ چابی والی کار نائیں ،انکل! وہ والی‘‘ ،اور پھر دونوں ہاتھوں سے اسٹیرنگ وھیل کی شکل بناتا ہے۔

آخر میرے وعدہ کرنے پر وہ شروع ہوتا ہے۔

’’ اے …بی …شی… ڈی … ای… ہی ہی،مجھے سو‘سو‘آیا ہے ممّی۔‘‘

’’ارے ! ‘‘ممّی یوں اظہار کرتی ہے ، جیسے کوئی اَن ہونی بات ہو گئی۔

’’ چل اندر ‘‘۔

اور وہ وہیں سے اس کا ازار بند کھولتی ہوئی کِنگ کو باتھ روم کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن جاتے میں یہ بھی کہہ جاتی ہے۔ ’’ بالکل باپ پر گیا ہے ، کام کے وقت سو‘ سو‘ … ‘‘

باپ ہنستا ہے۔ میں بھی ہنستا ہوں۔ میری بیوی ہنستی ہے۔ ساری دنیا ہنستی ہے۔

ہمارا مہمان پھر شروع ہوتا ہے۔’’ بڑا ذہین ہے اپنا کِنگ !‘‘

’’کیوں نہ ہو۔‘‘ میں اتفاق کرتا ہوں۔’’ذہین ماں باپ کی اولاد …‘‘حالانکہ میرا انتا کرن کہتا ہے۔گدھے کا بچہ گدھا ہی ہو گا ، گھوڑا کیسے ہو جائے گا؟

جبھی ایک طرف سے کوئن چلی آتی ہے۔انگریزیGENDERکے سب قانون جھٹلاتی ہوتی۔، کیونکہ وہ کوئِن ہونے پر بھی کِنگ کی بہن ہے۔وہ اپنے بھائی کی ہر دل عزیزی دیکھتی اور جلتی رہی ہے۔شایداس لیے کہ وہ کسی پتری پاٹھشالہ میں پڑھتی ہے، سامنے آتے ہی وہ، بنا کسی فرمایش کے، ایک پُرانا، بے سُرا سا گانا شروع کر دیتی ہے۔

’’ہیئے دیامئے،ہم سبھوں کو شدھتائی دیجیے…‘‘

میں بھجن سنتا ہوں ، لیکن نہ جانے کیوں مجھے اپنی تائی یاد آ جاتی ہے ،جو بہت ہی شُدھ ہے…میں اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے کوئِن کو بیچ ہی میں ٹوک دیتا ہوں اور کہتا ہوں — ’’واہ، کیا گلا پایا ہے … بڑی ہو گی تو لتا منگیشترسے کم کیا ہو گی ؟ ‘‘ اور میرے انتا کرن سے آواز آتی ہے۔ مینڈک کی اولاد !

لیکن کوئِن بد ستور گا رہی ہے۔ انترہ پہلے اور استھائی بعد میں۔ اس سے بھجن اور بھی موثر ہو جاتا ہے۔

’’ ایسی کرپا اور انوگرہ ہم پہ ہو پر تما۔‘‘

چونکہ وہ بچّی ہے ، اس لیے بھلائی اور بُرائی میں تمیز نہیں کر سکتی اور بڑی نمرتا سے پرارتھنا کرتی ہے، جس سے وہ پُرانا اور فرسودہ گانا نیا اور ماڈرن ہو جا تا ہے۔

’’دورکرکے ہر بھلائی کو بُرائی دیجیے !‘‘

اتنے میں کِنگ فارغ ہو کر چلا آتا ہے اور کوئِن کو گاتے دیکھ کر شروع ہو جاتا ہے ’’ میں بھی سناؤں گا اردو کا سبق۔‘‘

’’ارے سناؤ ، سناؤ کِنگ … یار کِنگ تم تو … ‘‘ ہم سب کہنے لگتے ہیں۔

اب کِنگ ایک ہی سانس میں سبق سناجا تا ہے۔

’’ بچّھو سے کسی نے پوچھا۔ تو جاڑے میں باہر کیوں نہیں آتا ؟

بچّھو نے کہا۔ گرمیوں میں میری کو ن سی خاطر ہوتی ہے جو جاڑے میں بھی باہر آؤں ؟‘‘

اور پھرکِنگ یکبارگی اُ لٹا سانس لیتا ہے۔ ہا!

……………………………

آخر ایک دن ہمیں آناً فاناً پتا چلتا ہے کہ ہمارے مہمان جانے والے ہیں۔یہ نہیں کہ وہ پہلے ہی سے ہمیں اپنے سُرگباش ہو نے کی خبر دے دیتے ہیں بلکہ کچھ یوں کہ اس سہانی صبح کو ہمارا مہمان ہمارے پاس آتا ہے ، محبت بھرا ہاتھ ہمارے کاندھے پہ رکھ دیتا ہے اور آہستہ آہستہ خود سرکتا ہمیں سرکاتا ہوا، بالکونی کی طرف لے جاتا ہے اور کھُسر پھُسر کے انداز میں بات شروع کرتا ہے۔’’بات یہ ہے ،میں نے بینک میں ایک چیک ڈالا تھا…‘‘

میں ایکا ایکی سب سمجھ جاتا ہوں اور اسی وقت پوچھتا ہوں۔’’کے روپئے چاہییں آپ کو؟‘‘

وہ کہنے لگتے ہیں۔’’میں دلّی پہنچتے ہی آپ کو لوٹا دوں گا۔‘‘

اب میں اپنے مہمان کو یہ نہیں بتا سکتا کہ جو آدمی مجھے پیسا لوٹانے کی بات کر تا ہے ، میرااس کے منھ پہ تمانچا مارنے کو جی چاہتا ہے۔ خیر وہ تو میرا انتا کرن ہے۔ میں اسے صرف اتنا ہی کہتا ہوں۔ ’’ ارے یار ، تم نے آتے ہی کیوں نہ مانگے … کتنے چاہییں ؟‘‘

’’ زیادہ نہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔’’ یہی تین اِک سو روپئے۔‘‘میں فوراً بھاگا ہوا اندر جاتا ہوں اور اپنی بیوی کے پانوپر سر رکھ دیتا ہوں اور اس سے تین سو روپئے لا کر مہمان کو دے دیتا ہوں۔ وہ کچھ کھسیائے ہوئے انداز میں مجھے تکلیف دینے کی معذرت چاہتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ میں اندر سے کتنا خوش ہوں۔ بھلا مہمان ، اس کے لاؤ لشکر۔کِنگ، کوئِن ، پرنس رائل اور اس کے پورے شاہی خاندان سے چھٹکارا پانے کی تین سو روپئے بھی کوئی قیمت ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

بیوی یا بیماری

 

 

جب سے دنیا بنی ہے، بیویاں بیمار ہوتی آئی ہیں۔چنانچہ میرے حصّہ میں جو بیوی آئی وہ بھی بیمار تھی۔ ہے !

بیویاں اپنی بیماری کی سب سے بڑی وجہ اپنے شوہر کو بتاتی ہیں ، ورنہ مائیکے میں وہ بھلی چنگی تھیں۔ ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی تھیں۔ البتّہ بیچ بیچ میں اس بات پر بھی مچلتی تھیں کہ ذرا بیمار ہو کر دیکھا جائے۔ چنانچہ اسی امید اور خوشی میں ڈھول ڈھماکوں کے ساتھ ریشمی کپڑے پہنے اور جڑاؤ زیوروں سے آراستہ سُسرال کی چوکھٹ پر پیر رکھتی ہیں۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد بیماری کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ نو آموز (شوہر ) دولھا، دلھن کے آتے ہی اسے تشنج میں دیکھ کر سخت گھبراتا ہے اور بھاگا ہوا بھابی یا ماں کے پاس پہنچ جاتا ہے، جو اس کے پھوہڑ پنے پہ خوب ہنستی ہیں۔ چونکہ اسے کسی دوسرے کا منھ تو ملتا نہیں ، اس لیے اپنا سا منھ لے کر لوٹ آتا ہے۔ شادی کے پہلے ہی چند دنوں میں میاں کو پکّا کر نے کے لیے بیوی تندرستی کے دن، یعنی کنوار پنے اور میکے کو یاد کر کے رونے لگتی ہے ، جہاں وہ اپنی نیند سوتی اور اپنی ہی نیند جاگتی تھی اور اب یہاں اسے پرائی نیند سونا پڑ رہا ہے اور پرائی ہی نیند جاگنا۔ البتّہ آنسوخالص اس کے اپنے ہوتے ہیں اور وہ کبھی دولھا کے آنسو نہیں روتی۔

پھر وہ دن آ جاتے ہیں جب وہ واقعی طبّی نقطۂ نظر سے — clinicallyبیمار ہوتی ہے۔ میاں ایک کی جگہ دس دوائیں لاتا ہے۔ اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو دکھاتا ہے، جو بیوی سے کچھ سوال کرتے ہوئے ضمناً میاں سے بھی کر جاتا ہے اور اسے سخت شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ لیکن بیوی کی بیماری، ڈاکٹر کو نبض دکھانے یا اسے دوائیں لا کر دینے سے نہیں جاتی۔ وہ اس وقت تک رہتی ہے جب تک میاں دوا اپنے ہاتھ سے نہیں پلاتا۔ وہ روٹھتی ہے۔ بُرے بُرے منھ بناتی ہے ، میاں پیار کا دھوکا دیتا ہے یا دھوکے میں پیار کر جاتا ہے۔ یہ تھو تھو کرتی ہیں۔ وہ فو فو کرتا ہے۔ آخر آدھی دوا اندر جاتی ہے، آدھی باہر گرتی ہے۔ اور کچھ دیر کے بعد جنابہ بیوی کا ذائقہ ٹھیک ہوتا ہے تو میاں کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے ایک ادا سے کہتی ہے ’’اے! تمھارے ہاتھ سے تو میں زہر بھی پی لوں۔‘‘ اور میں یہاں اپنے شوہر بھائیوں کو مشورہ دوں گا کہ بیوی کی اور بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی سفید ، کالا ، یا ہرے رنگ کا جھوٹ سمجھیں ، ورنہ پھانسی ہو جائے گی۔

اگر بیویاں آس پاس نہ ہوں ، یا ہوں تو ہمیشہ کی طرح اپنی ہی بات میں کسی دوسرے کی نہ سنیں ، تو میں آپ کو بتاؤں۔ بیویاں در اصل بیمار نہیں ہوتیں۔ وہ یونہی تھوڑے سے نوٹس پر بیمار ہو کر دکھا دیتی ہیں۔ اس بات کو جاننے کے لیے کہ ان کی بیماری کے ساتھ ان کا ہوتا سوتا کتنا بیمار دکھائی دیتا ہے۔ کتنے دکھ اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔ جو فعل، بیویوں کی لغت میں محبت کا دوسرا نام ہے۔ اگر میاں کے چہرے پر بیوی کی بیماری کے کوئی آثار دکھائی نہ دیں ، تو وہ اسے نہایت کمینہ اور رذیل آدمی سمجھتی ہیں۔ لیکن دل میں خوش ہوتی ہیں اور کہتی ہیں ’’ مرد ہے ! ‘‘ اگر وہ کہیں ہمدردی کا اظہار کرے ، کروٹ کروٹ ساتھ مرے ،تو یوں دیکھنے میں خوش نظر آئیں گی ، لیکن اندر سے کہیں گی ’’زنخا ہے موا۔‘‘

میں بڑی بیماری کی بات نہیں کرتا جو کہ بیوی خود ہوتی ہے ،ان چھوٹی چھوٹی بیماریوں کا ذکر کر رہا ہوں جو در اصل کوئی وجود نہیں رکھتیں اور جو مرد کو اُکسانے کے لیے بیوی دن رات پیدا کر تی رہتی ہے۔ خالص بیوی ہو گی تو روز سویرے اٹھ کر شکایت کرے گی۔ ’’ آج میرا سر کچھ بھاری بھاری ہے۔‘‘پھر وہ ناک سکیڑے گی۔ ہاتھ کنپٹیوں پر رکھ لے گی اور اس کی یہی بات آپ کو پیاری لگے گی۔ آپ خود بھی محسوس کرنے لگیں گے کہ اس کی وجہ آپ خود ہیں۔ آپ بہت بڑی محبت ، جو لفظ اردو میں لکھتے وقت حجّت معلوم ہونے لگتا ہے ، کے ساتھ کہیں گے۔’’ او ہو، ایسپرین ہے گھر میں ؟‘‘ چنانچہ ایسپرین ہو گی۔ کوڈاپائرین بھی ہو گی۔ مگر وہ کھائیں گی نہیں۔ آپ سوچنے لگیں گے۔ ان کا کچھ نہ کچھ بھاری ہی رہتا ہے۔ سر نہیں تو پیر ہی سہی۔ پھر بیوی کے بدن میں ایک حصّہ ہوتا ہے جسے وہ کمر کہنے پر مصر ہوتی ہے۔ یاد رہے ، یہ عورت کے بدن کا وہ حصّہ ہے ، جس پر ہمارے شاعروں اور نثر نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے اور تعلّی کے مضمون میں ، اسے نازک پتلا ہونا تو کیا ،نہ ہونے کے برابر کر دیا ہے۔ مگر بیوی کے سلسلے میں وہی کمر حقیقت بن کر سامنے آ جاتی ہے۔ ان شعروں کو اور بیوی کی کمر کو ساتھ رکھ کے دیکھا جائے تو وہی چیز اچھا خاصا کمرہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ وہ ہوتا یا ہوتی تو بدن ہی کے ساتھ ہے، مگر آپ کو اسے ٹوٹا ہوا تصوّر کرنا پڑتا ہے۔ بیویاں اتنی سادہ سی حقیقت نہیں جانتیں کہ میاں کو ان کے بدن کے ہر حصّے سے ہمدردی اور پیار ہوتا ہے۔ مگر کمر سے نہیں ، کیونکہ مرد کی فطرت اسے معدوم ہی دیکھنا چاہتی ہے۔ بہر حال بیوی کی ٹوٹی ہوئی یا ٹوٹتی ہوئی کمر پہ کوئی لیپ ، کوانٹی فلاجسٹین اثر نہیں کرتا اور نہ درد شقیقہ و عصابہ (Nervolgia)دُور کرنے والی گولیاں۔ لیکن چونکہ اب تک آپ بھی خالص میاں ہو چکے ہوتے ہیں ، اس لیے اسی کمر کے گرد ہاتھ ڈال کر کہتے ہیں — ’’بنّو !آج تو تم بڑی حسین لگ رہی ہو۔‘‘ پھر کہاں کی کمر اور کہاں کا درد ؟ حقیقت یہ ہے کہ کمر درد کے لیے اس سے بہتر دوا آج تک سائنس ایجاد نہ کر پائی۔

میں جانتا ہوں کہ کسی بھی معاشرے میں بیوی کی بیماری پر ہنسنا اچھی بات نہیں۔ مگر اس کا کیا علاج کہ وہ رونے بھی تو نہیں دیتیں۔ جیسے ان کا میاں کوئی جیوتشی ہے۔ رمّال ہے یا کوئی ولی اللہ۔ اور جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ چنانچہ بیوی کی بیماری کے ایّام میں میاں جنّت اور دوزخ کے بیچ عالمِ برزخ میں کہیں اُلٹا لٹکا ہوتا ہے۔ چہرہ دیکھو تو غم کے گھٹا ٹوپ بادل چھائے ہیں۔ دل کو کریدو تو ایک ہنسی ہے جو اس کان سے اس کان تک پھیلتی جا رہی ہے اور منھ سے ناف تک زبردست جھٹکے دے رہی ہے۔

یہ حیا تیاتی حقیقت ہے کہ کائنات میں مادہ ، نر سے زیادہ سخت جا ن ہوتی ہے اور اس سے زیادہ لمبی عمر کی متوقع۔ یہی وجہ ہے کہ مسکت بیوی نہایت بے فکری کے عالم میں دن کو پچیس تیس مرتبہ تو ضرور کہتی ہے ’’ ہائے میں مر گئی۔ ‘‘ لیکن یہی بات اپنے میاں کو نہیں کہنے دیتی۔ وہ جانتی ہے، اگر اس نے کہا ’’ میں مرگیا۔‘‘ تو وہ سچ مچ مر جائے گا ! جلدی یا آسانی سے مر جانے کی سزا قدرت نے مرد کو شاید اسی لیے دی ہے کہ اس کا جنسی نظام عورت کے پُر پیچ جنسی سلسلے کی بہ نسبت بہت سیدھا اور سادہ ہے۔ غالباً اسی لیے بیویاں میاں کی مسلسل تندرستی کی حاسد ہو جاتی ہیں ، کیونکہ ان مردوں کو تو کچھ ہوتا ہواتا نہیں۔ حالانکہ اس بے چارے کا قصور ہے تو صرف اتنا کہ پہلے وہ مرد بنا اور دوسرے ان کا شوہر۔ وہ میاں کو دیکھ دیکھ کر یونہی کباب ہوتی رہتی ہیں اور کسی طرح اس کا بھلا نہیں چاہتیں۔ اسی لیے وہ مرد کے رنڈوا ہو جانے کو ، اپنے بیوہ ہو جانے سے اچھا سمجھتی ہیں۔

بیویوں کی بہت سی بیماریوں میں سے کچھ کہنے کے لائق ہوتی ہیں اور کچھ نہ کہنے کے لائق۔ میاں کو اس بات کی سمجھ بہت دیر کے بعد آتی ہے اور اس کی سمجھ کا سلسلہ معمول کی سیدھی سادی آزمائش اور غلطی ، بلکہ حماقت سے شروع ہوتا ہے۔ وہ اپنی سادگی میں بیوی سے براہ راست سوال پو چھ بیٹھتا ہے اور پھر اسی وقت ڈانٹ کھا کر سامنے سیڑھیوں پر جا بیٹھتا ہے۔ بیویوں کی زبان اگر وہ بے حد خفا نہ ہوں تو بالواسطہ ہوتی ہے۔ وہ تشبیہ اور اشارے کی جان ہے۔ مثلاً حال ہی کی بات ہے۔ میرے ایک دوست نے وطن میں اپنی بیوی کو لکھ بھیجا ’’ اب کَے مہینے رہ گئے ؟‘‘ تو بیوی نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ صرف خط کے ایک طرف تین چھوٹے چھوٹے دائرے بنا دیے۔ گویا عورتوں کی زبان میں ابجد کا کوئی دخل نہیں ، جسے ہم اور آپ استعمال کرتے ہیں۔ وہ اگر اس ابجد کو جانتی بھی ہوں گی، تو اسے استعمال کرنا اپنی شان کے شایاں نہ سمجھیں گی۔ ان کی زبان اب تک قدیم مصری خطِ تصویر (Hieroglyphics) سے ملتی جلتی ہے، جسے مصر کے لوگ کب کے چھوڑ چکے مگر ہماری بیویاں اب تک کلیجے سے لگائے پھرتی ہیں اور وہ ایک نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

ہمارے ہندوستان میں اپنی بیوی کے علاوہ ایک اور چیز ہوتی ہے جس کی شکل بیوی ہی کی طرح ہوتی ہے۔ مگر خصلت ایک دم الگ۔ اسے ہم دوسرے کی بیوی کہتے ہیں۔ جس کی بیماری اور بھی ٹیڑھی اور نا قابل علاج ہوتی ہے۔ مثلاً آپ کسی کی بیوی کے بیمار ہونے کی خبر پائیں اور شامتِ اعمال عیادت کے لیے چلے بھی جائیں ، تو آپ صاحبِ خانہ سے پوچھتے ہیں — ’’ کیسی طبیعت ہے۔ گھر میں ؟‘‘

’’اب تو اچھی ہے ، بھگوان کی دیا سے۔‘‘

’’ کیا تکلیف تھی ؟‘‘

اس پر وہ دوسرے کی بیوی کا میاں یا دوسرے میاں کی بیوی، آپ کی طرف یوں دیکھتے ہیں ، جیسے آپ کوئی گھنٹہ گھر ہیں اور شہر کے چوک میں نصب ہیں۔ دوسرے کی بیوی ہونٹوں کے بیچ مسکراتی ہوئی منہ پرے کر لیتی ہے اور اس عمل میں اپنی بیوی سے بھی پیاری لگتی ہے۔ البتّہ میاں نہایت مکروہ صورت بنا کر کہتا ہے — ’’ زنانہ تکلیف … ‘‘ مطلب یہ کہ اس کے بعد بکواس بند کیجیے۔ آپ کی سٹّی گم ہو جاتی ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ بیوی کی بیماری، شاید بیوی سے الگ کوئی چیز ہے۔ مگر اس وقت تک آپ اپنے ہوش میں نہیں رہتے اور جلدی سے کسی اچھے ڈاکٹر کا نام تجویز کر کے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دہلیز ہمیشہ کی طرح ایک فٹ اوپر اُٹھ کر آپ کو ٹھوکر لگاتی ہے، مگر آپ اپنے آپ کو اسی قابل سمجھ کر سنبھل جاتے ہیں۔ سڑک پر پہنچتے ہیں تو خیال آتا ہے ، مجھے کسی لیڈی ڈاکٹر کا نام لینا چاہیے تھا۔ چنانچہ تصحیح کی غرض سے آپ لوٹتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو ’’بکواس بند کر‘‘ کہتے ہوئے کسی اور واقف کار کے ہاں چل دیتے ہیں ، جہاں خوش قسمتی سے کوئی میاں بیمار ہے۔

شاذ ہی کوئی بیوی ہو گی جو مہینے میں چند روز بیمار نہ ہو تی ہو۔ اس میں میری بیوی یا آپ کی بیوی کی بات نہیں۔ دنیا جہان کی ، جملہ بیوی جات کا قصّہ ہے۔ ان ایّام میں وہ کچھ یوں لیٹی ہوں گی، جیسے انھیں ہیضہ ہو گیا ہو۔ وہ عاشق کی طرح زرد اور معشوق کی طرح دھان پان نظر آ رہی ہیں۔ چڑ چڑی اس قدر کہ بات بات پر میاں کو کاٹنے دوڑتی ہیں۔ حالانکہ اس غریب کا قصور نہیں۔ گری گدھے پر سے ہیں اور غصّہ کمھار پر اتار رہی ہیں ،جو میاں اب تک شکل سے دکھائی دینے لگا ہے۔ اپنے سڑی پن میں بیویاں بھول جاتی ہیں کہ اس بیماری ہی میں ان کی صحت ہے۔ اگر کسی مہینے میں چھوٹی بیماری نہ آئی تو بڑی آئے گی۔ پھر کھٹّی کھٹّی ڈکاریں آئیں گی۔ سر چکرائے گا۔ اُبکائیاں آئیں گی۔ ایک طرف اس بیماری پر غصّہ آئے گا، دوسری طرف پورے بدن میں خوشی کی سنسناہٹ دوڑ جائے گی۔ میاں پوچھے گا ، مگر کبھی نہیں بتائیں گی۔ اشارے سے یہی کہیں گی کہ بس سمجھ جاؤ۔ میاں ایک طرف مجرمانہ اور دوسری طرف فاتحانہ انداز سے بیوی کی طرف متوجّہ ہو گا اور تلافیِ مافات کے سلسلے میں بازار سے سیب اور ناشپاتیاں ، قلاقند اور امرتیاں لا کر دے گا، جنھیں لے کر بیوی خوش تو ہو گی مگر بیماری سے اپنا ازلی رشتہ قائم رکھنے کے لیے بڑے سلیقے سے ان سب چیزوں کو طاق پر رکھ دے گی، جو لکڑی کا نہیں ، نسیان کا بنا ہوتا ہے۔ وہ شربت روح افزا کی جگہ جل جیرے کی فرمایش کرے گی۔ گلاب جامن کی جگہ ،گول گپّے اور آم شریفے کی جگہ چولھے کی مٹّی کھائے گی۔ مرد کو جب بری بات کہنا ہوتی ہے تو وہ خاکم بدہن سے شروع کرتا ہے۔ لیکن بیوی ہے کہ اچھی خبر سنانے سے پہلے منہ میں خاک جھونک لے گی۔ اگر میاں خفا ہو کر کوئی بات کہہ دے تو یہ بیٹھی بیٹھی کھڑی بولی میں صلواتیں سنائے گی۔

بیوی کی ماہانہ بیماری کی نوعیت الگ ہے اور سالانہ کی الگ۔ پہلی قسم کی بیماری میں پھر میاں کے لیے تھوڑی سی تسکین کی گنجایش ہے لیکن دوسری میں یکسر نہیں۔ اسے سال بھر یہ محسوس ہوتا رہتا ہے کہ بڑے افسر نے کہیں اس کے کیریکٹرشیٹ پر اُلٹا سلٹا ریمارک لکھ دیا، یا وطن سے باہر اس کا ٹرانسفر کر دیا۔ اب ایک گھر یہاں ہے ، دوسرا باہر بنانا پڑے گا۔ مہنگائی کا زمانہ۔ ان دو گھروں کا خرچ کہاں سے لائے گا۔ آخر وہ اپنے افسر کے سامنے گڑگڑاتا ہے اور کچھ اپنے آپ کو سمجھاتا ہے اور پھر وہ دن آ جاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو زچّہ خانے کے باہر ٹہلتا ہوا پاتا ہے۔ سگریٹ پہ سگریٹ پیتا ہے۔ نہ اُ ٹھ سکتا ہے نہ بیٹھ سکتا ہے، اور بیویاں ہیں کہ اپنی جسمانی تکلیف کے سامنے میاں کی روحانی تکلیف کو کو ئی بات ہی نہیں سمجھتیں — میاں کے لیے یہی تکلیف کیا کم ہے کہ زچّہ خانے کے باہر وہ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا گدھا سمجھتا ہے۔ حالانکہ اس کے پاس ہی اور بھی بہت سے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ اس احساس کا بیوی کے نزدیک کوئی مول نہیں ؟ بیوی جو مزے سے ایک بچہ پیدا کر رہی ہوتی ہے۔

آخر عزرائیل کی بہن نرس لیبر روم سے تھوتھنی نکالتی ہے اور میاں سے مختصر سا خطاب کرتی ہے۔ ’’IT’S A BOY‘‘ اور میاں اپنی گھبراہٹ میں نرس سے کہتا ہے۔ ـ”Congratulations”۔ اس سے پہلے کہ میاں ، بیوی کی حالت پوچھ سکے ، نرس جا چکی ہوتی ہے۔

اب میاں ہمت کرتا ہوا اندر جا تا ہے اور بیوی کو اس جانکا ہی کے بعد آرام سے سوتا ہوا دیکھتا ہے۔ اس کا سارا اندر، ابل کر باہر آ جاتا ہے مگر وہ یہ نہیں جان پاتا کہ اب کیا کرے ؟ ہنسے یا روئے ؟ وہ ہنس اس لیے نہیں سکتا کہ خدا اور عورت کے درمیان عظیم سازش کا ایک اور شکار چلا آیا۔ اور رو اس لیے نہیں سکتا کہ اس کی اپنی طرح کا ایک اور گدھا پیدا ہو گیا ، جو بڑا ہو کر ضرو ر محبت میں مبتلا ہو گا اور پھر شادی کر کے زندگی بھر دوائیں ڈھوئے گا۔ چنانچہ اس وقت میاں کو بھی ڈاکٹر پرچی پر کچھ دوائیں لکھ کر دیتا ہے اور میاں بیوی کو کسی چچی یا پھوپی کی تحویل میں دے کر خود بازار سے دوائیں خرید نے نکل جاتا ہے۔ لوٹتا ہے تو بیوی جاگ رہی ہوتی ہے۔ وہ شکوہ شکایت کی نظر سے میاں کی طرف دیکھتی ہے، جیسے کہہ رہی ہو۔ ’’ اس دکھ کی دنیا میں کوئی دوا ہے ؟‘‘ لیکن میاں اب تک جان چکا ہوتا ہے ، اس لیے دواؤں کا بنڈل کھولنے کی بجائے وہ کوئی اور ہی پیکٹ کھولتا ہے ، جس میں سے گلابی رنگ کی نہایت خوبصورت ساڑی نکلتی ہے۔ اس کے بعد ایک اور ڈبیہ جس میں کلائی گھڑی بر آمد ہوتی ہے اور میاں آنکھ میں محبت اور تاسف کے آنسو لیے ایک اُلٹی رکشا بندھن کی شکل میں گھڑی بیوی کی کلائی پر باندھ دیتا ہے اور ساڑی اس کے قدموں پہ نثار کر دیتا ہے اور کہتا ہے۔

’’ بنّو یہ رشوت ہے ، مول نہیں۔‘‘

اور بیوی کے چہرے پہ پھر سے ایک دلکش مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے ، جوارگٹ اور لائی سول وغیرہ کبھی نہیں لا سکتیں۔

یہ ہم شوہر بھائیوں ہی کی ہمت ہے کہ بیماریوں کے اس پٹارے سے، جسے بیوی کہتے ہیں ، محبت کر تے چلے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں مجھے منشی پریم چند کا ایک افسانہ یاد آتا ہے ، جس میں ایک بیوی اپنے نکمّے ، نکھٹو لریکڑے چھوت ، اس کے لاونئے چ تأاور سادہ لوح میاں کا رونا روتی ہے اور آخر اس بات پر حیران ہوتی ہے کہ اس کی سب ایسی باتوں کے باوجود وہ کہیں آدھ گھنٹہ بھی لیٹ ہو جائے تو اس کی ساری کائنات اُلٹ جاتی ہے۔ بجنسہٰ یہ بات میں اپنی بیوی کے سلسلے میں محسوس کرتا ہوں۔ اس کے سارے لڑائی جھگڑے فساد اور گونا گوں بیماریوں کے باوجود میں سر شام اپنے آپ کو اس کی تحویل میں پاتا ہوں اور پھر میرے ساتھ بھی وہی ہوتا ہے جو مرزا اسداللہ خاں کے ساتھ ہوا تھا :

اسدؔخوشی سے میرے ہاتھ پانو پھول گئے

کہا جب اس نے ذرا میرے پانو داب تو دے

٭٭٭

 

 

 

تُرکِ غمزہ زن

 

 

1936کی با ت ہے ، منشی پریم چند کی وفات کے سلسلے میں لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں تعزیتی جلسہ ہوا۔

میری ادبی زندگی کی شروعات تھی۔ مشکل سے دس بارہ افسانے لکھے ہوں گے جو کہ معمول کی دِقّتوں کے بعد آہستہ آہستہ ادبی رسالوں میں جگہ پانے لگے۔ ہم نئے لکھنے والوں کی کھیپ منشی جی سے اثر پذیر تھی ، اس لیے ہم سب کو محسوس ہو رہا تھا کہ ہمارا مجازی باپ چلا گیا۔ چنانچہ اپنا غم دوسروں کو دکھانے ، دوسروں کے غم کو اپنا بنانے کے لیے بھی جلسے میں پہنچ گیا۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ جائز اور حقیقی وارثوں سے ملیں گے جن سے غائبانہ تعارف تو تھا لیکن سامنے کی ملاقات نہ تھی۔

جلسہ شروع ہوا۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ اچھا لکھنے والے اچھی تقریر کر پائیں۔ کچھ لوگوں نے بہت ہی اچھی تقریریں کیں اور میں سمجھ گیا۔ اس جلسے میں ایسے بھی تھے جنھوں نے چھاتی پیٹ پیٹ کے محرّم کا سماں پیدا کر دیا تھا۔ یہ سب ’’ پرچے بیچنے ‘‘ والے تھے ، جنھیں یوں الفاظ کے خاک و خون میں غلطاں دیکھ کر مجھے شر بناچٹر جی کے کردار دیوداس کی یاد آ گئی، جو اپنے باپ کی موت پر گھر کے ایک کونے سے لگا رسمی آہ و بکا کرنے والوں کو اپنے دنیا دار بھائی کی طرف یہ کہہ کر بھیج دیتا ہے— ’’اُدھر !‘‘

جلسے میں کچھ لوگ اِدھر والے بھی تھے۔ ان میں سے ایک اُٹھا۔ سانولے رنگ کا دیوار کے ساتھ گڈی لگی ، سلیٹ کا سا ماتھا ، تُشار کانتی گھوش کے سے بال ، آنکھوں پر ہیرلڈ لائیڈ کا سا چشمہ ، دھوتی کرتے میں اوپر مسجد ، نیچے ٹھاکر دوار۔ تھکا تھکا۔ مضمحل۔ مرنے سے برسوں پہلے مرا ہوا۔

’’ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ! ‘‘ اُس نے اپنی ڈُڈّی انگلیوں کو انگوٹھے کے ساتھ لگاتے ہوئے، ہاتھ صاحبِ صدر کی طرف بڑھاتے ہوئے ، کہا۔

صاحبِ صدر نے اجازت دی بھی نہ تھی کہ اُس نے میز پر پہنچ کر ایک کرخت آواز ، ایک بھونڈے لہجے میں [بولنا ] شروع کیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پنجابی ہتھوڑے سے ہندی اور اردو کے کوبڑ نکال رہا ہے۔ ابھی لندن کے لیے روانہ ہوا ،کلکتہ پہنچ گیا۔ پھر لوگوں نے دیکھا ، یہ تو کوئمبٹور میں گھوم رہا ہے ، پھر دلّی میں ہے ، جبھی کسی خیالی جیٹ میں بیٹھ کر منزل پر پہنچ گیا۔ تقریر کیا تھی، ایک ایسے آدمی کی چال تھی جو غم کے مارے زیادہ پی گیا ہو۔ لیکن اُسے کسی کی پروا نہ تھی۔ وہ ’’ نالہ پابندِ نَے نہیں ہے ‘‘ کے سے انداز میں بولا چلا جا رہا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ میز کے ایک طرف کھڑا وہ کل عالم کا باپ ہے اور ارد گرد کے سب لوگ اس کے بچے بالے ہیں ، جو کھیل رہے ہیں اور انھیں کھیلنے دینا چاہیے …

ان سب باتوں کے باوجود اس کی تقریر میں ایک اثر تھا، کیوں کہ وہ اُس دل سے آئی تھی جو صَرف و نحو کے قواعد سے نا واقف ہوتا ہے۔ اس میں ایک درد تھا اور ایک کلبلاہٹ تھی جو صرف طبّاعوں کے حصّے میں آتی ہے ، اور جس کا غیر منطقی منطق ’’ پرچہ بیچنے ‘‘ والوں کو حیران کیا کرتا ہے۔ وہ اُن خطوط کا حوالہ دے رہا تھا جو منشی جی نے اپنی حیات میں لکھے تھے اور جس میں رہنمائی اور عقدہ کشائی کی بہ نسبت اپنے ہم مشرب سے جذباتی یگانت [یگانگت ] کا اظہار زیادہ تھا اور جو خط ،اس ماتمی لمحے میں محض خط سے بڑھ کر اب ایک خزانہ ہو چکے تھے۔

یہ اشک تھا۔ اس سے پہلے میری اشک سے ملاقات تک نہ ہوئی تھی۔ میں نے اس کو سدرشن کے رسالے ’’ چندن ‘‘ میں پڑھا ضرور تھا، لیکن دیکھا نہ تھا۔ یہاں تک کہ اس کی کوئی تصویر بھی میری نظر سے نہ گذری تھی۔ جو لوگ اشک کو جانتے ہیں ، کہیں گے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اشک تو تصنیف و تالیف کے ساتھ تشہیر کا بھی قائل ہے اور اس لکھنے والے کو بیوقوف اور جاہل سمجھتا ہے جو صرف لکھنا ہی جانتا ہے۔ بعد میں میں نے بھی دیکھا کہ اشک نہایت بے تکلّفی سے اپنی کوئی اُلٹی سیدھی تصویر ایڈیٹر یا کسی ناشر کے گلے منڈھ دیتا ہے جو اس غریب کو چھاپنی ہی پڑتی ہے، اور کیا تصویر ہوتی ہے !— سامنا ایک چوتھائی ، تین چوتھائی پر وفائل جس میں زلفیں کاندھوں پر بکھری ہوئی ہیں ، یا اگر شیو بنی ہے تو سر کے بالوں کو بڑی صفائی سے کنڈلوں میں ڈال رکھا ہے۔کچھ دیر دیکھنے پر یقین ہو جاتا ہے — مرد ہے — ابھی ننگا ہے۔ ابھی ڈھانپے ہوئے… ایک منٹ ایک پرچہ ، ایک کتاب ! پہلے سر پر گاندھی ٹوپی تھی تو اب فلٹ ہیٹ ہے جو سر پر عمداً ٹیڑھی رکھی ہے اور بانکا لگ رہا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ خود بھی مسکرا رہا ہے … یا سر پر قرہ قلی ہے اور آنکھیں ادھ کھلی۔ ترکِ غمزہ زن معلوم ہو رہا ہے ، جو اس کے ہزاروں پڑھنے دیکھنے والوں کو کھل رہا ہے۔ اس پر بھی جو دل میں گھر کیے ہوئے ہے۔ حافظ کے الفاظ میں دل کے نہاں خانے میں آرام کر رہا ہے اور خلقت کو گمان ہے کہ وہ محفل میں بیٹھا ہے … میں جو ڈاڑھی کو کسی دشمن کے چہرے پر دیکھنا چاہتا ہوں اور اس ڈر کے مارے آئینہ نہیں دیکھتا ، اشک کے چہرے پر فرانسیسی طرز کی بکروٹی دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد اشک کی شکل کسی تصویر میں کیا ہو گی، یہ کسی کو نہیں معلوم ، خود اشک کو بھی نہیں معلوم ،کیونکہ تلوار کی دھار کے سے من ، چانکیہ کی سی بُدھّی اور دور پہنچنے والی نگاہوں کے باوجود، اشک اس لمحے کا پورا احترام کرتا ہے جس میں وہ اس وقت جی رہا ہو۔ وہ صرف حواس سے ہی زندگی کا لطف نہیں لے رہا، اس میں شعور بھی پورے طریقے سے شامل ہے۔ معلوم ہوتا ہے حال اور قیل و قال کے سلسلے میں اگر کرشنا مورتی کو کسی نے غلط پڑھا ہے تو اشک نے۔ ہو سکتا ہے اگلی تصویر میں وہ جو گیا بامَا پہنے ہوئے ہو۔ اور ایک ہاتھ سے دیکھنے والے کی طرف ’’ چھو‘ ‘‘بھی کر رہا ہو۔ یہیں پر بات ختم نہیں ہو جاتی۔ وہ تصویر ایسے ناول کا بھی حصّہ ہو سکتی ہے، جو سر تا سر پھول کی پتّی ہو اور جس سے ہیرے کا جگر بھی کٹ سکے۔

شاید کوئی ازلی دوستی تھی یا ابدی رشتہ قائم ہونے والا تھا کہ اشک سے متعارف ہوئے بغیر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ شخص اشک کے بغیر اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اُس دور کے سب لکھنے والوں میں سے جو آدمی منشی جی کے قریب تھا اور اُن سے ہم رنگ تھا، وہ اشک تھا۔ منشی جی نے اپنی زندگی میں دوسروں کو بھی خطوط لکھے ہوں گے ، لیکن جن خطوط کا اشک حوالہ دے رہا تھا، اُن کا مضمون ہم مشربی کی طرف اشارہ کرتا تھا … جلسہ برخواست ہوا۔ میں ان دنوں پوسٹ آفس میں کلرک کی حیثیت سے کام کرتا تھا، اس لیے پبلک کی شکایتوں سے بہت ڈرتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ ڈرتے ڈرتے میں اشک کے پاس پہنچ گیا۔ وہ ایک ایڈیٹر صاحب کے ساتھ بحث میں الجھا ہوا تھا۔ بحث کے خاطر بحث کرنا اشک کا آج تک شیوہ ہے۔ یہ بات نہیں کہ جو وہ کہنا چاہتا ہے اس میں وزن یا دلیل نہیں ہوتی۔ سب کچھ ہوتا ہے اور نہیں بھی ہوتا۔ لیکن اشک تو اس میں سے ایک خاص قسم کا مچھندری مزا لیتا ہے اور اس سلسلے میں بحث و تمحیص کے سب حربے استعمال کرتا ہے۔ ایک آدمی ابھی ابھی مدّلل گفتگو کر رہا ہے لیکن اشک اس سے یہ کہہ کر کہ ہم شاید دو مختلف چیزوں کی بات کر رہے ہیں ، اسے ایسی سوچ ، ایسی گھبراہٹ میں ڈال دیتا ہے کہ گفتگو کر نے والے کی ریل صاف پٹری سے اتر جاتی ہے۔ پھر آپ جانتے ہیں کہ ایک بار ریل پٹری سے اتر جائے تو کیا ہوتا ہے۔ مخالف تلملاتا ہوا رہ جاتا ہے۔ اگر وہ ہوشیار ہو اور خلطِ مبحث ہونے دے تو [اشک ] آپ کو ٹھہا کا مارکر ہنستا ہوا اور کہتا ہوا ملے گا ’’ تم تو یارسنجیدہ ہو گئے !‘‘ ابھی وہ پورے طریقے سے سمجھ بھی نہ سکا کہ اشک اس کا ہاتھ پکڑ کر بڑے پیار سے کہہ رہا ہے ’’ در اصل جو بات تم کہہ رہے ہو ،وہی میں بھی کہہ رہا ہوں۔صرف لفظوں کا ہیر پھیر ہے … ‘‘ اس کے بعد اور کیا ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ دوسرا آنکھیں جھپکتا رہ جائے اور اپنے آپ کو بیوقوف سمجھنے لگے یا پھر خفا ہو جائے کہ مجھ سے خواہ مخواہ زبان کی ورزش کرائی گئی۔ نتیجہ ہر دو صورت میں وہی ہوتا ہے۔ کوئی خفا ہو تو میدان اشک کے ہاتھ میں اور خوش ہو تو اشک کے ہاتھ میں۔ چِت بھی اشک کی اور پٹ بھی اشک کی … جب میں دھیرے دھیرے سرکتا ہوا اشک کے پاس پہنچا تو بحث کرنے والے ایڈیٹر کا بگل بج چکا تھا۔ اب میری باری تھی۔ میں نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔

’’اشک صاحب !‘‘

ایک دم گھوم کر اشک نے اپنی نظریں مجھ پر گاڑ دیں اور میرے آر پار دیکھنے لگا۔ آپ اندازہ کیجیے، اگر میرے کمرے میں عام روشنی کی بجائے روتنجن شعاعیں (X.RAYS)ہوں تو بڑے سے بڑا رومانی منظر بھی کیا ہو گا۔ یہی نا کہ کھوپڑی سے کھوپڑی ٹکرا رہی ہے۔ ایک ڈھانچے کا بازو اٹھا اور دوسرے ڈھانچے کے گلے میں پیوست ہو گیا اور معلوم ہوا کہ صنفِ مخالف کو ہم آغوشی کے لیے نہیں ، گلا گھونٹنے کے لیے اپنی طرف کھینچا جا رہا ہے اور پھر گلا بھی کہاں ؟… میں نے کہا— ’’بڑی مدّت سے میری تمنّا تھی کہ اشک صاحب … ‘‘

’’ آپ — ؟‘‘ اور پھر اگلے ہی لمحے وہ کہہ رہا تھا۔ ’’ تم کہیں راجندر سنگھ بیدی تو نہیں ؟ ‘‘

ایکا ایکی جیسے میں اپنا نام بھول گیایا کم سے کم یہ ضرور محسوس ہوا کہ راجندر سنگھ بیدی کوئی دوسری شخصیت ہے ، جسے میں نہیں جانتا ہوں۔ جبھی اپنے آپ میں آتے ہوئے میں نے کہا ’’ ہاں اشک صاحب، میرا ہی نام راجندر سنگھ بیدی ہے۔ ‘‘

انسان کی انا کہاں تک پہنچتی ہے۔ در اصل یہ دنیا کتنا بڑا جنگل ہے۔ کتنا بڑا صحرا ، جس میں وہ کھویا کھویا پھرتا ہے اور ہر دم یہی چاہتا ہے کہ کوئی بھی اسے پہچانے ، کوئی بھی اس کا نام پکارے اور جب ایسا ہو جائے تو اسے کتنی بڑی خوشی ہوتی ہے۔ ایک بچہ تو دھیرے دھیرے اپنا نام سیکھتا ہے ، اپنی ذات کو دوسروں سے الگ کر کے دیکھنے لگتا ہے، لیکن بڑا ہو کر اپنے مجازی نام کو پا لینے کے بعد اپنے حقیقی نام کے لیے کتنی دوڑ دھوپ کرتا ہے اور پہچانے جانے کے بعد وہ اپنے نام کو اسمِ اعظم سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتا۔ پھر اس میں جذب ہو جانے کی تمنّا کے باوجود اپنی ایک انفرادیت بھی رکھتا ہے۔ اگر میں نے اشک کو ملے بغیر اسے پہچان لیا، تو اس نے بھی ایک ہی نظر میں مجھے جان لیا … میں پھر ایک چھوٹا سا ادیب، اور ایک اتنا بڑا ادیب مجھے میرے نام سے جانتا ہے … یہی نہیں اس نے میری ایک دو کہانیوں کا ذکر بھی کر دیا، جو ان دنوں تھوڑے تھوڑے وقتی فرق کے ساتھ لاہور کے رسالوں میں چھپی تھیں … وہ ان کی تعریف بھی کرتا تھا … کیا یہ سچ ہے ؟ اس لق و دق ویرانے میں مجھ بے بضاعت ڈاک خانے کے ایک بابو کے لیے بھی جگہ ہے ؟…

جگہ تھی یا نہیں۔ اِس وقت بھی ہے یا نہیں۔ اس سے بحث نہیں۔ اشک جسے پسند کرتا ہے اُسے تسلیم بھی کرتا ہے اور نام و نمود کی اس دنیا میں اس کے لیے جگہ بنانے کی شعوری کوشش بھی۔ یہ بات ہے جو میں نے اشک میں بدرجۂ اتم پائی ہے۔ آج جب میں اپنے پیچھے ادبی زندگی کے تیس سال دیکھتا ہوں تو ندامت سے اپنی گردن جھُکا لیتا ہوں۔ میں نے تو کسی نئے لکھنے والے کی مدد نہیں کی۔ میں بھی اشک کی طرح ان کی تعریف کر سکتا تھا، تنقید کرسکتا تھا اور ان کے لیے راستہ آسان کرسکتا تھا۔ لیکن میں میں ہوں اور اشک اشک۔ آج بھی ،جب میں اشک سے ملتا ہوں تو اسے کسی نئے لکھنے والے کا نام لیتا ہوا پاتا ہوں۔ مجھے اچمبھا ہوتا ہے۔ وہ محبت جو انسان چوبیس گھنٹے اپنے ساتھ کرتا رہتا ہے، نفرت سے بدل جاتی ہے اور چونکہ آدمی ہر حالت میں اپنے آپ سے پیار کرنا چاہتا ہے، اس لیے اشک سے آدمی چڑ جاتا ہے۔ میری اس کمزوری کی وجہ کیا ہے ؟ شاید میرے لیے اسے سمجھانا مشکل ہے اور کسی کے لیے سمجھنا مشکل۔ آسانی کے لیے صرف اتنا کہوں گا … مجھے شروع ہی سے ایک احساسِ کمتری ہے۔ باوجود کوشش کے ، دوسروں کی تحسین و تسلیم کے ، میں اسے نہیں جھٹک سکا … جیسے مجھے اپنے آپ پر یقین نہیں ؟کیوں یقین نہیں ؟ اسے جاننے کے لیے کسی کو میری زندگی جینا پڑے گی اور اشک کو کیوں یقین ہے ،اس کے لیے اشک کی زندگی جینا پڑے گی۔

اگلے ہی لمحے ہم دو دوستوں کی طرح باتیں کر رہے تھے ، جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں … شاید گرمیوں کا موسم تھا اور ایک غبار سا چھایا ہوا تھا۔نیچے کی دھول اور گرد تھی،جو کچّے علاقوں سے بے شمار گھوڑوں کی ٹاپ سے یا بے لگام ہوا کے ساتھ اوپر چلی آئی تھی اور ریزہ ریزہ نیچے آ رہی تھی۔ ہم پیدل چل رہے تھے۔ اشک باتیں کر رہا تھا اور میں سن رہا تھا۔ وہ بہت باتیں کرنا چاہتا تھا۔ ایسا کیوں ؟ اس کی وجہ مجھے بعد میں پتا چلی۔ اس وقت ہماری باتیں ایک نئے شادی شدہ جوڑے کی سی باتیں تھی ، جو رات بھر ایک دوسرے کو کچھ کہتے سنتے رہتے ہیں اور دوسرے روز اپنی ہی باتوں کا ’’ تات پریہ ‘‘ (مطلب) نہ پاکر حیران ہوتے ہیں۔ پیدل چلتے باتیں کرتے ہوئے ہم انارکلی کے قریب پہنچ گئے ، جہاں اشک نے مجھے اپنا گھر دکھایا۔

اشک کا گھر انار کلی بازار سے ہٹ کر پیچھے ایک گنجان آباد گلی میں تھا ، جس میں اکثر عورتیں اپنے مکان سے ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتی سنائی دیتی تھیں۔ ’’ بھابو ، آج تیرے یہاں کیا پکا ہے؟ ‘‘ اور وہ جواب میں کہتی ’’ آج کچھ نہیں پکا۔ یہ باہر کھانا کھا رہے ہیں نا۔ تو دال ایک کٹورے میں بھیج دینا … ‘‘ اور کہیں آپ بے خبر جا رہے ہوں تو اوپر سے کوڑا گرتا ہے اور آپ کی طبیعت تک صاف کر دیتا ہے۔ گلی میں اتنی جگہ نہیں کہ کوئی اچھل کر ایک طرف ہو جائے۔ کوئی لڑکا کوٹھے میں کھڑا سامنے کی کھڑکی میں جھکی ہوئی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر اس کی ہتھیلیاں کھجلا دیتا ہے ، جو لاہور کا عام منظر ہے اور جس سے پتا چلتا ہے کہ عشق کے لیے لاہور شہر سے بہتر دنیا میں کوئی جگہ نہیں … اور اسی گلی میں اشک رہتا ہے۔ اگر چہ اشک اور عشق کی ہجّوں میں فرق ہوتا ہے لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ بات گھوم پھر کر وہیں پہنچتی ہے۔ کیا خبر کب عشق ، اشک میں بدل جائے یا اس کا الٹا ہو جائے … اشک کا مکان دو منزلہ تھا۔ اس کی اوپر کی منزل پر اشک کے دندان ساز بھائی ڈاکٹر شرما بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے اور نیچے اشک اور اس کا کتب خانہ۔ کام کرنے کی جگہ … جہاں پہنچنے کے لیے دُبلے کی جنت اور موٹے کی دوزخ قسم کی سیڑھیوں پر سے ہوکر جانا پڑتا تھا۔ ایک رسّہ تھا جو لوگوں کے ہاتھ لگ لگ کر میلا ہو چکا تھا اور جسے پکڑ کر نہ چلنے پر لڑھک جانے کا ڈر تھا۔ اس تنگ و تاریک مکان میں اشک رہتا تھا۔ یہیں وہ آرٹسٹ کے وشی واشی (Wishy Washy) انداز میں لکھتا۔ کاٹتا۔ پھر لکھتا۔ پہلے نقش کو مٹا کر دوسرے نقش کو بنانے لگتا۔ لکھنا اس کے لیے عادت تھی اور عبادت بھی ، جو زندگی کے پرے تھی، تو موت کے بھی پرے۔

اشک چھوٹی عمر میں اپنی روزی کمانے لگا۔ اس کے والد اسٹیشن ماسٹر تھے جنھیں شراب پینے اور گھر سے بے پروا ہونے کی عادت تھی۔ وہ گھر کی طرف رجوع بھی کرتے تو کسی تادیبی کارروائی کے لیے۔ بیوی سے لڑ رہے ہیں ، اس پر گرج رہے ہیں یا کسی بچے کو الٹا لٹکا کر اسے بید سے مارا جا رہا ہے۔ ان کی شکل جابر تھی اور عقل بھی جابر ، جو فیصلہ ہو گیا اٹل ہے۔ اس زبردست شخصیت والے مرد کے ساتھ ایک گائے صفت عورت کی شادی ہوئی ، جو اشک کی ماں تھی۔ اپنے مرد کے ظلم نے، جس کے چہرے پر ایک مظلومیت دوام کر دی تھی۔ اشک کی تحریروں میں گھریلو نزع کے ساتھ ساتھ اپنے ماں باپ کے متضاد کردار بھی آتے ہیں۔ یہ اس زبردست شخصیت والے باپ ہی کی وجہ سے تھا کہ اشک نے زندگی میں اپنی جگہ پانے کے لیے باپ کی عاطفت کا سایہ چھوڑ دیا۔ بیٹے نے چیلنج دیا۔ باپ نے قبول کیا اور دونوں جیت گئے۔ کیونکہ زندگی کی منقلب ہواؤں اور جھکّڑوں سے ٹکّر لینے والا ، خو د دق کے عارضے میں مبتلا ہو کر موت کا منھ چڑاتا ہوا بچ کر نکل آنے والا ، ناداری اور تِس پہ دوستوں اور عزیزوں کی بے رخی کے باوجود ، معاصرانہ تعصّب سے پٹے ہوئے شہر الہٰ آباد میں نشر و اشاعت کا کاروبار مستحکم کرنے والا ، ایسے ہی باپ کا بیٹاہو سکتا تھا۔

اشک کے ماں باپ، چھے بیٹے اس دنیا میں لائے اور سب کے سب نر۔ جالندھر[کے] مردم خیز خطّے میں جنھوں نے پرورش پائی۔ جہاں کا ہر آدمی شاعر ہے یعنی مغنّی۔ جہاں سال کے سال ہر بلّب کا میلا ہوتا ہے اور پورے ہندوستان سے پکّا راگ گانے والے چلے آتے ہیں اور گاتے ہوئے ڈرتے ہیں ، کیونکہ اس شہر کا بچہ بچہ ’’پدپابان ‘‘ ہے جو سیدھا کلیجے میں لگتا ہے۔ جانتا ہے کہاں کوئی سُر غلط لگ گیا۔ پھر وہ لحاظ تھوڑا ہی کرے گا۔ جہاں کہیں بھی کونے میں بیٹھا ہے، وہیں سے پکار اٹھے گا اور برسوں اپنے یا اپنے استاد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور سنگیت سیکھنے کی دعوت دے گا۔ سردیوں کی رات کو الاؤ کے گرد بیٹھ کر وہ بیت بازی کرے گا، جو صبح تک چلے گی … اس شہر کا ہر بشر اپنے آپ کو طبّاع سمجھتا ہے اور اس کی طبّاعی کو تسلیم نہ کیا جائے تو ایک ہاتھ ہے ،جو سیدھا نہ ماننے والے کی پگڑی کی طرف آتا ہے ،پھر گالیوں اور مار پیٹ تک نوبت آسکتی ہے … یہ چھَؤں بھائی اس شہر کی پیداوار تھے اور یہ حیرت کی بات نہیں کہ ان میں سے ہر ایک ، ایک مسلّمہ فرد تھا۔ ایسے تشخّص کے حامل جس سے وہی انکار کرے ، جس کی شامت آئی ہو۔ معلوم ہوتا ہے گھونسا بھی دلیل کا ایک حصّہ ہے۔ اگر کسی وجہ سے وہ گھونسا نہ تان سکے تو یوں ہی شور مچا رہا ہے۔ مکان سے ’’مرگیا‘‘ اور ’’ مار  یڑدیا ‘‘ کی آوازیں آ رہی ہیں اور لوگ اس کان سے سن کر اس کان سے نکال دیتے ہیں۔ ایک دن کی بات ہو تو کوئی کچھ کرے بھی ، ہر روز اس مکان سے کوئی نہ کوئی گرج سنائی دیتی ہے۔ چھؤں کے چھؤں شیر۔ کوئی بڑا اپنے وزن سے دوسروں کو دبا لے ، پیٹ ڈالے ، لیکن چھوٹا بھی گرجنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ کچھ نہیں تو زخمی ہو کر چلّا رہا ہے ، شور مچا رہا ہے۔شور کے بنا کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ چاروں طرف ایک ہڑ بونگ سی مچی ہے۔ دو اِدھر آرہے ہیں۔ تین اُدھر جا رہے ہیں۔ کچھار سے نکل رہے ہیں کچھار میں داخل ہو رہے ہیں۔ خون بہہ رہا ہے ، مرہم پٹّی ہو رہی ہے۔ اس لیے مارا جا رہا ہے کہ مار کیوں کھائی ہے اور سب کی گرج اور ایک پاٹ دار آواز ایک اور بڑی گرج میں دب جاتی ہے ’’چپ!‘‘ — یہ پتا جی کی آواز ہے۔ ایک شیر ببر کی گرج، جسے سُن کر پورے جنگل میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ اس گیر کے بیلے (Gir Forest) میں کوئی لومڑی نہیں ہے۔ گائے ماں کانپتی رہ جاتی ہے،جب کہ پتا جی بوتل کھول کر بیٹھ جاتے ہیں ، برائی کرتے ہیں لیکن براہمن ہونے کے ناطے بھول بخشوانا بھی جانتے ہیں۔ گا رہے ہیں — ’’ شاماجی اوگن چت نہ دھرو۔‘‘

اشک کے پتا کو اپنے براہمن ہونے پر ناز تھا۔ وہ اُس پرش رام کی اولاد تھے جس نے ہاتھ میں کلہاڑا لے کر اکِّیس بار کشتریوں کا ناش کیا تھا۔ کشتری ، لڑنا اور مارنا جن کا پیشہ تھا اور جو کسی کے سامنے نہ دب سکے، آج بھی پرش رام کی اس اولاد سے دبتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے اشک کے پتا کا شراب پینے کا عمل، ایک دو بچوں کے بعد اور تیز ہو گیا۔ اچھے بھلے سریندر ناتھ ، رویندر ناتھ کے نام رکھتے ہوئے سیدھے پرشو رام تک پہنچ گئے۔ جو اِن چھے بھائیوں میں تیسرا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جالندھر کے اُس محلّے میں رہتے تھے جہاں کشتریوں کی برہمنوں کے ساتھ ہمیشہ ٹھنی رہتی تھی۔ برسوں پہلے کھشتریوں نے مل کر سرِ بازار اشک کے پاگل بابا کو پیٹا تھا۔ جب کے ان ہاں کی عورتیں ،جن میں اشک کی ماں بھی تھی، سانس روکے ہوئے دیکھتی رہ گئی تھیں۔ جبھی سے ایک عزم تھا جو اشک کی بظاہر مرنجاں مرنج ماں کے دل میں بیدار ہو گیا تھا اور یہ اس عزم کی وجہ ہی تھی جس کارن نئے پیدا ہونے والے بچے کا نام پرشو رام رکھا گیا۔ بچپن ہی سے اس بچے سے کہا گیا … ارے ! تو پرشو رام ہو کر روتا ہے جس نے کشتریوں کے کُل کا ناش کر دیا اور آنکھ تک نہ جھپکی، اور وہ بچہ روتے روتے خاموش ہو جاتا اور سوچنے لگتا، وہ بڑا ہو کر کھشتریوں کی بیخ کنی کرے گا۔ اگلے بیٹے کا نام اشک کے ماں باپ نے اندرجیت رکھا۔ براہمن راون کا سپوت ،دیوتاؤں پہ حکم چلانے ، ان کو جیتنے والا، کھشتری لکشمن کو برچھا مار کر اسے مور چھا گت کرنے والا … اشک کے ماں باپ کا بس چلتا تو پوری رامائن نئے سرے سے لکھتے ، جس میں ثابت ہوتا کہ راون ہیرو تھا اور رام چندر ایک ولین !

اشک کے والدین کے یہاں آٹھ اولادیں ہوئیں ، ان میں سات لڑکے تھے اور ایک بیٹی، جوپیدا ہونے کے کچھ دنوں بعد مر گئی۔ اشک کی ماں کے بارے میں جوتشیوں نے کہا تھا کہ وہ ’’سات پوتی ‘‘ ہے۔ اوّل تو اس کے بیٹی ہو ہی نہیں سکتی، اگر ہو گئی بھی تو زندہ نہ رہے گی۔ چنانچہ یہی ہوا۔ لڑکے ہی لڑکے چلے آئے اور ایسی تعلیم کے سہارے ایک سے ایک دبنگ۔ ایک سے ایک لڑاکا۔ دنیا کی تاریخ میں پٹھانوں کی بدلہ کشی مشہور ہے کیونکہ وہ اپنی مخاصمتوں کو اولادوں تک منتقل کر دیتے ہیں۔ لیکن اشک کے والدین ان سے کم نہ تھے۔ آخر ایک روز آیا جب کہ ان بھائیوں نے مل کر پورے محلّے کو پیٹ پیٹ کر اسپتال میں بھجوا دیا۔ اکیلے پرشو رام نے مار مار کر سب کے پراخچے اڑا دیے۔ اگر چہ وہ خود بھی زخمی ہوا اور قانونی شکنجے میں پھنس گیا ، لیکن سب کو خوشی اس بات کی تھی کہ پاگل بابا کی روح کہیں آسمانوں میں دیکھ کر خوش ہو رہی ہو گی !

سو یہ سب تھے اشک کے ڈرامے ’’ چھٹا بیٹا‘‘ کے کردار۔ اشک ان بھائیوں میں سے دوسرا تھا۔ پھر تو گھر میں بھابیاں آنا شروع ہوئیں۔ شیروں کے پاس بکریاں بندھنے لگیں۔ اب آپ ہی بتایئے وہ کیا کھاتیں کیا پیتیں ؟ اس آپسی مار دھاڑ، گھر کے ہنگامے میں وہ کھا پی بھی لیتیں تو کیا بدن کو لگتا ؟ انار کلی والے مکان سے پہلے اشک اور ان کے بڑے بھائی چنگرو محلّے کے ایک تنگ و تاریک کمرے میں رہتے تھے ، جس میں تازی ہوا کے بجائے، وہ ایک دوسروں کی سانسوں میں جیتے۔ اس حیرت آباد میں عورتیں نے بہت کیا تو رو لیا، نہیں تو—

گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیّاد کی ہے

اشک کی بیوی شیلا جب بیاہی آئی تو گندمی رنگ کی ایک گول مٹول لڑکی تھی، جو بات بات پر ہنستی رہتی تھی۔ اس گھر کے ماحول میں اس کا دم گھٹنے لگا ، لیکن وہ اپنی پہلی فرصت میں کھلکھلا اٹھتی۔ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بات بھی اس کی ہنسی کو نہ (نہیں ) دبا سکتی۔ میں شیلا سے ملا تو نہیں ، البتّہ اشک کے لاہور والے کمرے اور بعد میں الہٰ آباد میں اشک کے گھر ، اس کے بڑے بیٹے اُمیش کی خواب گاہ میں شیلا کی تصویر ضرور دیکھی ہے ، جس میں وہ ہنس رہی ہے۔ موت بھی اس ہنسی کو نہ دبا سکی … جس زمانے میں یہ لوگ چنگرو محلّے کے کمرے میں رہتے تھے تو شیلا بیمار ہو گئی اور ڈاکٹروں نے تپِ دِق کی تشخیص کر دی۔

اشک ان دنوں بہت مشغول تھا۔ وہ اپنی تحریروں کو ٹوہ ٹوہ کے دیکھ رہا تھا۔ انھیں بازار لے جا رہا تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ بکتی ہیں کہ نہیں۔ کچھ بک سکیں اور کچھ نہیں۔ کچھ پیسے وصول ہوئے، بیشتر مارے گئے ، لیکن اپنی تحریروں کے بل بوتے اُسے روزانہ اخبار ویر بھارت اور پھر بندے ماترم کی سب ایڈیٹری مل گئی۔ فرصت کے لمحوں میں وہ Ghost Writing کیا کرتا۔ اس کے لکھے ہوئے ہدایت نامے لاکھوں کی تعداد میں بکے ، لیکن چند ٹکلیوں کے سوا اشک کے ہاتھ میں کچھ نہ آیا۔ پھر گھر میں ایک اور واقعہ ہو گیا۔ شیلا کی ماں کو اپنی بیوگی نبھانے کے سلسلے میں لاہور کے کسی امیر کے ہاں گھر کے چوکا برتن کے لیے ملازم ہونا پڑا، جس سے شیلا کے جذبات بسمل ہو گئے اور اس کے کارن اشک کوجو ٹھیس پہنچی، اس نے فیصلہ کر لیا کہ سماجی طور پر شیلا کو ایسا مرتبہ اور مقام دے گا جس سے باقی لوگ رشک کریں گے۔ اس نے شِشن جج بننے کی ٹھان لی۔

اب وہ وکالت پڑھتا تھا۔ دن کو ادبی مشاغل ، لا کالج کی تعلیم اور رات کو قانون پڑھنا۔ کوٹھے کوٹھے جتنی بڑی کتابوں سے نبرد آزمائی، لیکن جس مٹّی سے اشک کا خمیر اٹھایا گیا تھا ،جس ہڈّی سے اس کی پشت بنی ، کسی بھی محنت کے قابل تھی۔ اسی دوران میں شیلا نے اُمیش ، اشک کے سب سے بڑے لڑکے کو جنم دیا۔ گھر کے ماحول ، خوراک کی کمی سے اس کی بیماری بڑھ گئی۔ اب اشک ایک طرف ادب تخلیق کرتا، دوسری طرف قانون کی کتابیں پڑھتا اور تیسری طرف ہفتے میں دو تین بار سائیکل پر آٹھ میل کی منزل مار کر گلاب دیوی ٹی۔ بی۔ اسپتال میں شیلا سے ملنے جاتا۔ اسے دراصل یقین نہیں تھا کہ قدرت استہزا کو اس کمینہ حد تک لے جائے گی۔ وہ سمجھتا تھا کہ شیلا اچھی ہو جائے گی۔ اتنی محنت ، اتنی ریاضت سے، اِدھر اشک ایک امتیازی شان سے قانون کے امتحان میں پاس ہو گیا ، اُدھر شیلا چل بسی۔ قضا و قدر نے ایک ہاتھ سے دیا اور دوسرے ہاتھ سے سبھی کچھ چھین لیا۔ اب زندگی میں کوئی قاعدہ کوئی قانون نہ رہا۔ اشک نے سشِن ججی کے خیال کو بالائے طاق رکھ دیا۔ جس کے لیے وہ جج بننا چاہتا تھا،وہ تو جا چکی تھی … اس نے رنج ، بے حد تکان، بے حد اضمحلال کے عالم میں اپنا قلم اٹھایا اور ادب پیدا کرنا شروع کر دیا۔ کیونکہ ادب ہی تھا جس میں اپنے آپ کو غرق کر دینے سے وہ اپنی زندگی کے عظیم سانحے کو بھول سکتا تھا … گھر بھر کے نزاع ، حالات کی ابتری ہی تھی جسے اشک نے اپنی تحریروں کا مضمون بنایا۔ اس زمانے میں وہ اپنا نیم سوانحی ناول ’’گرتی دیواریں ‘‘ شروع کر چکا تھا، جو اس کا بڑا کارنامہ تھا۔ اس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی کہانیاں — کونپل ،324،گوکھرو، ڈاچی وغیرہ لکھیں ، جن پر اشک کی عظیم اداسی کی چھاپ ہے۔

شاید اشک میری اس بات کی شہادت دے کہ اس نے محبت صرف ایک عورت سے کی ہے اور وہ شیلا ہے ، کیونکہ اس زمانے میں شعور رکھنے کے باوجود وہ نہ جانتا تھا [کہ] محبت کیا ہوتی ہے اور نہ شیلا جانتی تھی۔ وہ دونوں جی رہے تھے لیکن اپنے لیے نہیں ، ایک دوسرے کے لیے۔ اور یہ محبت تھی جس کی ہر ادا والہانہ تھی، جو نہ کسی صفت کی محتاج تھی اور نہ موصوف کی۔ اس کے بعد بھی اشک نے محبت کی۔ لیکن جنون اس میں سے غائب ہو چکا تھا۔ اس میں ایک پختگی آ چکی تھی جس کے کارن وہ دوسری شادی کے کچھ ہی دنوں کے اندر مایا ، اپنی دوسری بیوی ، کو چھوڑسکا اور کوشلیا، اپنی موجودہ بیوی ، سے کہہ سکا … جانِ من ! میں زندگی کا سفر کرتے کرتے تھک گیا ہوں۔ مجھ میں جوانی کی وہ لپک نہیں رہی ہے۔ اگر تم مجھ سے اس کی امّید رکھتی ہو تو بیکار ہے۔ میں اس محبت کے قابل نہیں ، جو شعلۂ جواّلہ ہو ، ہاں وہ محبت میں تمھیں دے سکتا ہوں جو دھیمی آنچ ہو سکتی ہے اور اس لیے خوش ذائقہ بھی ہوتی ہے۔

تو یوں مجھے اپنے گھر لا کر اشک نے میرے ساتھ سیکڑوں باتیں کر ڈالیں۔ اپنا کھایا پیاسب میرے سامنے اگل دیا۔ آزمودہ کار آدمی عام طور پر اپنا سب کچھ نہیں کہہ ڈالتے اور یوں ، پھر اس آدمی سے، جو اِن سے پہلی بار ملا ہو۔ مگر اشک مجھ سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ یہ تو اچھا ہوا میں مل گیا، نہیں تو وہ دیواروں سے باتیں کرتا۔ سڑک پر گڑے کسی بجلی کے کھمبے کے سامنے اپنی داستان دہرا دیتا … جب تک رات آدھی سے زیادہ جا چکی تھی۔ غبار دب چکا تھا ،البتّہ آسمان کچھ صاف نہ تھا۔ کہیں کہیں کوئی ستارہ خود نمائی کے عالم میں دُھند اور دھوئیں اور دھول کی قبائیں چیرتا پھاڑتا اپنا ٹمٹماتا ہوا حسن دکھانے لگتا۔ اشک کی باتوں میں مَیں کئی بار ہنسا، کئی بار میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اب میری طبیعت اوبنے لگی تھی۔ کچھ اِس بات کا بھی خیال تھا کہ اِس وقت میری بیوی گھر میں انتظار کر رہی ہو گی۔ جب تک مرد کے سیلانی ہونے کا یقین نہ ہو جائے ، ہر عورت اپنے میاں کے پیچھے کچھ گھوڑے دوڑا دیتی ہے۔ ان میں کچھ گدھے نکل آتے ہیں ، جن میں میرا ایک عزیز تھا جو مجھے ڈھونڈنے کے لیے بھیجا گیا۔ اشک مجھے کچھ دور چھوڑنے کے لیے مکان سے نیچے اترا۔ وہ دور نہ جا سکتا تھا، کیونکہ جب تک اس نے دھوتی کُرتے کو تہبند اور بنیائن سے بدل لیا تھا۔ لیکن پھر باتوں کے نئے شوشے چھوڑتے ہوئے ہم انار کلی کے بازار سے نکل کر بائبل سوسائٹی کے سامنے چلے آئے اور پھر وہاں سے ہوتے ہوئے مال روڈ پر … میرے گھر کی طرف … گول باغ، جہاں میرا وہ عزیز، جیسا کہ بعد میں پتا چلا ’’ چھٹیے درد فراق دالیئے ‘‘ گاتا ہوا پاس سے گذر گیا اور ہم بے فکری کے عالم میں گول باغ کے ایک بینچ پر بیٹھ گئے … آہستہ آہستہ مجھ میں اپنی بیوی کی وجہ سے ایک گھبراہٹ پیدا ہو رہی تھی۔ میں نے اُٹھنے کی کوشش کی، مگر اشک اپنی کوِتا سناتا رہا۔

چل دو گی کُٹیا سونی کر ، اِسی گھڑی اِس یام

یُگ یُگ تک چلتے رہنے کا مجھے سونپ کر کام

اور میں اس کی داد دے رہا تھا۔ مجھے کوِتا اچھی ضرور لگی لیکن گھر کا خیال بھی ستارہا تھا۔ اب میں کمبل کو چھوڑنا چاہتا تھا لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا تھا۔ آخر میں نے جی کڑا کیا ، لیکن جو الفاظ میرے منھ سے نکلے، معافی نامے کی حیثیت سے زیادہ نہ تھے۔ میں اٹھا تو اشک بھی میرے ساتھ اٹھ گیا … باتیں کرتا ہوا وہ میرے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔

بچے نے دروازہ کھولا اور میں جلدی جلدی اندر گیا۔ بیٹھک کھول کر بتّی جلائی اور اشک کو اندر بٹھایا ، اتنی گرمی کے باوجود ستونت، میری بیوی ، نیچے میرا انتظار کر رہی تھی۔ وہ عام کلرک کی بیوی تھی جو دفتر سے چھٹّی کے آدھے گھنٹے کے اندر اندر شوہر کو اپنے گھٹنے کے پاس بیٹھا دیکھنا چاہتی ہے اور اب تو رات آدھی سے زیادہ گذر چکی تھی اور’ ’ ’ بُرے بُرے خیال من میں آرہے تھے۔ ‘‘

’’ کہاں رہے اتنی رات تک ؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔

’’ جہنّم میں۔‘‘ میں نے کہا۔’’ تم ذرا میرے ساتھ بیٹھک میں آؤ۔ ایک بہت بڑا ادیب مجھ سے ملنے آیا ہے …‘‘

’’ ہاں مگر۔ اس وقت ؟‘‘

ہاں۔ تم آؤ تو !‘‘

اور میں ستونت کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیٹھک کی طرف لے چلا۔ جب تک ستونت ادیبوں کو عزّت کے قابل کوئی چیز سمجھتی تھی۔ جلدی جلدی ستونت نے اپنا غصّہ پی لیا اور اپنے چہرے کو ، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ، کے نک سُک سے سنوارتے ہوئے میرے پیچھے بیٹھک میں چلی آئی اور ایک کالے کلوٹے آدمی کو اس ہیئت کذائی میں دیکھ کر ڈر گئی۔ اشک اس وقت بھاٹی دروازے کا کوئی غنڈہ معلوم ہو رہا تھا ، جس سے لاہور کی سب عورتیں ڈرتی تھیں اوراسے سامنے آتے دیکھ کر سڑک چھوڑتے ہوئے ایک طرف ہو جاتی تھیں۔ ستونت نے جلدی سے ’نمستے‘ کی اور ایک طرف کھڑی ہو گئی۔ مجھے اس کا یہ انداز اچھا نہ لگا۔ لیکن میں کر ہی کیا سکتا تھا۔ میں نے پہلے اشک کی طرف ہاتھ بڑھایا …’’ اوپندر ناتھ اشک ‘‘۔ اور پھر بیوی کی طرف — ’’ ستونت ، میری بیوی۔‘‘

چھوٹتے ہی اشک نے میری بیوی کا نام پکارا۔ ’’ ستونت !برا مت ماننا۔ میں ایسے ہی چلا آیا ہوں۔ ‘‘ اس نے اپنی بنیائن اور تہبند کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ بات یہ ہے کہ میں ملنگ آدمی ہوں …‘‘

اور پھر زور سے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ہنسا — ایسی ہنسی میں ، جس سے پھیپھڑے پھٹ جائیں۔ ایک چڑیا، جس نے اوپر کارنس کے قریب گھونسلا بنا رکھا تھا ،پھڑ پھڑا اٹھی۔ سامنے گھر کی بتّی جلی اور کسی نے بالکونی پر سے جھانکا … اس سے پہلے میری بیوی کچھ کہتی، اشک اس سے کہہ رہا تھا۔’’ کچھ کھانے کو ہے ستونت !… بہت بھوک لگی ہے …‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

باقر مہدی کے تعلّق سے

 

 

یقیناً یہ میری بد قسمتی ہے کہ آج کی شام میں باقر اور آپ کے درمیان نہیں گزار سکا ہوں۔ کیا یہ استہزا نہیں کہ ہم دو دوست بوتل کے گرد تو اکھٹے ہوں ، لیکن کتاب کے لیے نہیں ؟

باقر مہدی بہت بڑے شاعر نہیں ہیں۔ یہ میں وضعِ احتیاط سے کہہ رہا ہوں ، کیونکہ بڑے شاعر کی تعریف کسی کو نہیں معلوم … ابھی تو ہم یہی جانتے ہیں کہ باقر شخصی کردار کے اعتبار سے نہ صرف ضدّی بلکہ معکوس و متضاد آدمی ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ عالمی ادب ، فی الخصوص شعری ادب ، ان کا پسِ منظر ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ تجربے اور تجربے کے [تجزیے؟] کے معاملے میں ہمارے شعرا حفظِ ما تقدّم کا شکار ہیں۔ نیا محاورہ (Idiom)یا ان کی سمجھ میں نہیں آتا اور یا ان کا نظریہ باقر کا نہیں ، کسی باکرہ کا ہے ، جو انحراف کو قبولِ عام پر ترجیح دیتی ہے۔

’’ شہرِ آرزو ‘‘ سے لے کر ’’ ٹوٹے شیشے کی آخری نظمیں ‘‘ تک باقر صاحب میں قبولیت ، انحراف ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جہاں وہ غزل کی صورت میں بظاہر روایتی ہیں ، وہاں وہ غزل کی زبان میں ، نفسِ مضمون کے پیشِ نظر ، خاصی ہیرا پھیری کرتے ہیں۔ روایتی کے بجائے وہ انقلابی زیادہ نظر آتے ہیں۔ اور جب نظم سے رجوع کرتے ہیں ،تو الفاظ کی نشست و برخاست کو، پیچھے مڑ کر دیکھ لیتے ہیں کہ نشست ٹھیک بیٹھی ہے اور برخاست ٹھیک سے اٹھی ہے یا نہیں۔ لیکن اکثر و بیشتر وہ پٹے ہوئے مضامین اور فرسودہ بندشوں کے خلاف بغاوت کرتے ہیں۔ سوائے ’’ شہر آرزو‘‘ کے، ان کے دواوین کے نام ’’ کالے کاغذ کی نظمیں ‘‘ اور ’’ ٹوٹے شیشے کی آخری نظمیں ‘‘ اس بات کا ثبوت ہیں۔ یہ آخری نظمیں انھوں نے کیوں کہیں ، یہ بات مجھ میں جھر جھُری پیدا کرتی ہے۔

ایک بات جو انحرافِ شخصی سے آگے ہے ،وہ باقر کا احساس علاحدگی ہے۔ زندگی کی کسی قدر پر تکیہ نہیں۔ الفاظ و معنی میں کبھی الفاظ ، کبھی معنی کو ایک شدید شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کسی بھی کتاب کا کوئی بھی ورق اُلٹیے۔

میں جو بولوں تو ہر ایک شخص خفا

اور خاموشی کو رُسو ا دیکھوں

یہ شعر باقر کے پورے کردار و گفتار کی کلید ہے — باقر کا مصرع’’ اور خاموشی کو رُسوا دیکھوں ‘‘ کسی بھی حسّاس آدمی پر تشنّجی کیفیت پیدا کرسکتا ہے۔ باقر بولنے سے نہیں رہ سکتے۔ خاموشی کو رُسوا نہیں دیکھ سکتے — ان کی تنہائی اور اکیلا پن ، وہ تنہائی اور اکیلا پن نہیں ہے جسے دنیا بھر کے لکھنے والوں نے فیشن کے طور پر استعمال کیا ہے۔ چوں کہ مشرق و مغرب کے فلسفیانہ فکر میں فرق ہے، اس لیے باقر ان کااسلوب اپناتے ہوئے بھی نگارش کے اعتبار سے مشرقی رہتے ہیں۔ زبان کو جان بوجھ کر انھوں نے کہیں اینڈی بینڈی بنایا ہے تا کہ زمانے کے ، زبان و مضمون کے تقاضے کو پورا کر سکیں۔

میں نے جب بھی باقر کو پڑھا تو خیال کے اعتبار سے مجھ میں ایک ہول اٹھا ، ان سے نہیں ، اپنے آپ سے۔ انسان سب کچھ برداشت کر لیتا ہے لیکن اپنے روح کے اندھیرے کو نہیں۔ مقامِ ہُو کا تذکرہ سنیں تو ایک بات ہے لیکن اس میں خود گھر جائیں تو دوسری بات۔ باقر انسان کے اندر کے مقامِ ہُو کو محصور کر دیتے ہیں۔ یہاں تک محسوس ہونے لگتا ہے کہ انسان اپنی تنہائی میں بھی تنہا ہے ، وہ کہاں جائے ، کیا کرے ؟ … جو چیز دکھائی دیتی ہے، ویسی نہیں۔ ہر بات ایک الیوژن (Illusion)ہے۔ زندگی کی دو شیزہ کا ازالۂ بکارت ممکن ہی نہیں۔

باقر اپنے شعروں سے اس قدر حسّاس نظر آتے ہیں کہ خوف آنے لگتا ہے۔ اگر انھوں نے خود کشی نہ کرلی ، جس کی طرف راہ نمائی ان کے شعر ، ان کا کردار اور گفتار کرتے ہیں ، تو وہ یقیناً نظرو فکر کے اعتبار سے ہمارے شعری ادب کے لیے نئے راستے نکالیں گے، جب ہمیں بھی ان کو بڑا شاعر ماننے میں کیا وہ ہے ؟

٭٭٭

 

 

خواجہ احمدعباس

 

 

خواجہ احمد عباس میرے دوست نہیں ، ان معنوں میں جن میں کہ دوست ہوتا ہے اور میرے خیال میں اسے ہونا چاہیے۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں نے ہمیشہ انھیں اپنا بزرگ اور پیشرو مانا اور یوں احترام کرتے ہوئے ٹال دیا۔ کچھ اسی قسم کا سلوک انھوں نے بھی میرے ساتھ کیا۔ ادبی سلسلے میں بارہا میری پیٹھ ٹھونکی ، تحریری طور پر مجھے تسلیم کیا اور اس کے بعد ٹکسال باہر کر دیا۔ حال ہی کی بات ہے ،جب کہ میں نے انھیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تو بلا تکلّف انھوں نے مجھ سے پوچھا ’’ تم رہتے کہاں ہو ؟‘‘

عباس صاحب کی ہمدمی کا شرف بھی مجھے حاصل نہیں ہوا ، جس میں میرا قصور ہے تو ان کا بھی۔ میرے خیال میں انھوں نے میری طرح دوستوں کا انتخاب امتیازی نظریہ سے نہیں کیا۔ ایک واضح ارادے سے کسی صحیح آدمی کوتو قریب لانے کی کوشش نہیں کی۔ جی ہاں آدمی کے سلسلے میں اگر میرا اشارہ خود اپنی طرف ہے، تو چند دوسرے لوگوں کی طرف بھی، جو نقد و نظر سے عباس صاحب کی بہتری کا سامان کر سکتے تھے، اور خود بھی ان سے سیکھ سکتے تھے۔ جو بھی ان کے پاس آیا ، انھوں نے آنے دیا۔ پاس آنے والوں میں کچھ تو پہلے ہی پیر مغاں تھے، اور اگر نہیں تھے تو عباس صاحب کے حسن سلوک نے ہمیشہ کے لیے انھیں بنا دیا اور جانے والوں کا تو ذکر ہی کیا ؟

اس مودّب فاصلے کے باوجود میں کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم مجھے ان کی ہم مشربی کا فخر حاصل ہے جس سے ہمدمی اور دوستی کہیں دور کی بات نہیں۔ پھر تھوڑا جاننے والے میں اتنا انکسار تو ہوتا ہے کہ وہ کسی کو جاننے کا حتمی دعوا نہیں کرتا۔ بر خلاف اس کے ہمیشہ ساتھ رہنے والا اس سلسلے میں بڑی بونگی باتیں کرتا ہے، جن سے پتا چلتا ہے کہ جو آدمی جتنا قریب ہوتا ہے ، اتنا ہی دور بھی۔

زندگی میں کم ہی آدمی آپ نے ایسے دیکھے ہوں گے جن کی شکل پیدایش سے لے کر آخر دم تک ایک ہی سی رہی ہو ، جس کی وجہ سے وہ بہت سے جرائم نہیں کرسکتے۔ میں نے عباس صاحب کو ان کے بچپن میں تو نہیں دیکھا ،لیکن اپنے فرنیالوجی کے محدود علم کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت بھی عباس صاحب اپنے اس لائبریری اڈیشن کا پیپر بیک ہوں گے۔ اور کچھ نہیں تو پچھلے پچیس برس سے تو میں ان کا منھ دیکھ رہا ہوں۔ جہاں ذہنی طور پر ان کا قد بڑھا ہے ، جسمانی طور پر آ پ وہی کے وہی رہے ہیں۔ چہرے پر جس فہم و فراست کے نشان پہلے تھے ، وہی اب بھی ہیں۔ ویسے ہی نگاہ اچٹ کر سامنے والے پہ پڑتی ہے۔ وہی مونچھوں کی ہلکی سی تحریر جس کے نیچے پتلے سے ہونٹ، جو خفگی یا کھسیانے لمحوں میں کچھ اس طرح سے ہلتے ہیں کہ انھیں پھڑ پھڑانا کہا جا سکتا ہے اور نہ بھینچنا۔ ان کی ہنسی بے ساختہ ہے مگر ریشمی ، جسے استعمال کرتے ہوئے وہ ایکا ایکی رک جاتے ہیں۔ معتبر آدمی کو زیادہ ہنسنا نہیں چاہیے !… سر پر کے بال پہلے ڈھائی تھے اب دو رہ گئے ہیں۔ اس کے باوجود سکھوں کے خلاف نہیں ، بلکہ کئی دفعہ میں نے انھیں کسی سکھ کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پایا ہے۔ لباس میں سادگی ہے اور استغناکا فن بھی۔ ان کی عام نشست و برخاست کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ زندگی میں تاکید تکلفات پر نہیں ، کچھ اور ضروری باتوں پر ہے، جس میں ادب، صحافت ، فلم ، سیاست اور دوسری بیسیوں قسم کی سماجی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ دنیا کے موجودہ سیاسی نظام میں اگر انھیں اسرائیل اور متحدہ عرب جمہوریہ کے درمیان چُننے کا حق دیا جائے تو وہ یقینا ًعرب جمہوریہ کو چنیں گے۔ صدر عبد الناصر کی پیروی کریں گے، لیکن شکل ہمیشہ اسرائیل کے بین گور یَن سے ملے گی۔

میں نے عباس صاحب کو پہلی بار لاہور میں دیکھا، جہاں وہ اپنے صحافی دوست ساٹھے کے ساتھ کوئی فلم بنانے کے سلسلے میں آئے تھے۔ یہ دونوں دوست انڈین پیپلز تھیٹر کی تحریک کا حصّہ تھے ، جس کے ایک جلسے میں ، مَیں عباس صاحب کو دیکھنے چلا گیا۔ ان دنوں لاہور کے لارنس باغ میں ایک نیا اوپن اِیَر تھیٹر قائم ہوا تھا جہاں خوب ہی ہنگامہ تھا۔ معلوم ہوتا تھا کمبھ نہیں تو اردھ کمبھی ضرور ہے۔ چنانچہ عباس صاحب کو دیکھنے کے سلسلے میں مجھے خوب دھکّے پڑے۔ خیر ، دھکّوں کی بات چھوڑیے۔ وہ تو زندگی کا حصّہ ہیں۔ ہم سب دھکّے کھاتے ہیں۔ کبھی مل کر اور کبھی الگ الگ۔ ایک بار پہلے بھی جب لاہور کے بریڈلا ہال میں مہا کوی ٹیگور کو دیکھنے گیا تھا، تو اس بھی برا سلوک ہوا۔ بھگدڑ میں سیکڑوں پیروں کے نیچے دَلا گیا۔ جب بھی میں نے یہی سوچا تھا کہ کیا بڑے آدمی کو دیکھنے کے لیے خود چھوٹا ہونا ضروری ہے ؟

اس جلسے میں عباس صاحب ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ باقی کے فضول اور بے کار قسم کے مرد تھے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں اور عباس صاحب سب سے ملتے اور سب سے باتیں کرتے پھر رہے تھے ، جسے صحافت کی زبان میں کہا جاتا ہے :’’… اور وہ آزادانہ مہمانوں میں گھومتے اور ان سے ملتے جلتے رہے۔‘‘

ایسا معلوم ہوتا تھا ، عباس صاحب کسی کا دل توڑنا نہیں چاہتے۔ ایسا کریں گے تو ان کا اپنا دل ٹوٹ جائے گا۔ اس عمل میں انھیں کتنا ہی بولنا ، کتنا ہی وقت ضائع کر نا پڑا، وہ اس بات کو بھول ہی گئے اور آج تک بالعموم بھولے ہوئے ہیں کہ جب تک وہ کسی کا دل نہیں توڑیں گے ، بات کیسے بنے گی ؟ (دل ’’ بدست آور ‘‘ کہ حج اکبر است !)

جب عباس صاحب کے چہرے پر ایسی ہی طمانیت برستی تھی، جس سے پتا چلتا تھا کہ بعد میں وہ ’’ آزاد قلم ‘‘ ہو جائیں گے اور فلموں میں رہے تو ’’ آزاد فِلم ‘‘۔ ایک نقطہ اور بھی کم۔ ان کے چہرے پر سب سے اوپر عقیل اور آزاد روی کے نقوش تھے۔ اس سے نیچے پی۔ سی۔ جوشی کی پارٹی لائن اور سب سے نیچے مہاتما گاندھی کی ’تلاش حق ‘ پوری کی پوری ، جو چھٹپٹا کر سب سے اوپر چلی آتی تھی۔

اسی دن مجھ پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ کسی آدمی کی بڑائی سے بچنے کے لیے اس سے ذاتی طور پر مل لینا ضروری ہے۔ اسے چھو کر دیکھنا لا بدی ہے، چاہے وہ ہاتھ ملانے کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ اس عمل میں اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ وہ بھی ہماری ہی طرح کا انسان ہے۔ صرف اس نے زندگی کے خاص شعبے میں حد سے زیادہ محنت اور ریاضت کی ہے اور ہم نے نہیں کی۔ کریں تو ذہنی طور پربھی ہم ان سے ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ ورنہ ہم اپنے ذہن میں ایسے آدمی کو کچھ ایسے مافوق الفطرت انتسابات دے دیتے ہیں کہ وہ خواہ مخواہ ہمیں وہ بامن اوتار سوگزامعلوم ہونے لگتا ہے۔ پھر اسے انسان کی تربیت میں دیکھ کر ، عام انسانوں کی سی حرکتیں کرتے پاکر ہمارا طلسم ٹوٹ جاتا ہے ،جس میں اس بچارے بڑے آدمی کا تو کچھ بگڑتا نہیں ، ہمارا اپنا قد پہلے سے بھی چھوٹا ہو جاتا ہے۔ عباس صاحب سے مصافحے کے بعد کم از کم ایک بات کی تسلی تو ضرور ہوئی کہ جسمانی طور پر ان کا قد مجھ سے بڑا نہیں۔ البتّہ رنگ گورا ہے۔ لیکن کبھی تو افریقی قومیں میر ا ہاتھ پکڑ کر اٹھیں گی اور گوروں کا جوا اتار پھینکیں گی (چنانچہ آج میری پیشن گوئی کتنی پیغمبرانہ ثابت ہو رہی ہے !) … رہی ذہنی قد کی بات تو ورزش سے وہ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔

ان دنوں عباس صاحب نے ابابیل نام کی ایک کہانی لکھی تھی ،جس کا مجھ پر بہت رعب پڑا تھا۔ لائم او فلا ہر ٹی نے پرندوں کے بارے میں کچھ خوبصورت افسانے لکھے تھے ، لیکن عباس صاحب کا افسانہ ’’ ابابیل ‘‘ ان پر بیس تھا۔ جب میں ڈاک خانے میں بابو ( بیک نقطہ بیش ، یابو شود!) تھا اور میرے نزدیک کاؤ نٹر پر منی آرڈر بک کروانے والے سے لے کر عباس صاحب تک سب انگریز وائسراے کی ایگزیکٹوکونسل کے ممبر تھے۔ چنانچہ میں نے لکنت سے پٹی زبان میں افسانے کی تعریف شروع کی۔ عباس صاحب خوش تو ہوئے لیکن پھر انکسار میں ٹال گئے اور میری کہانیوں کی باتیں کرنے لگے اور میں بھول ہی گیا کہ ابھی مجھے ان کی ایک اور کہانی ’’ایک پاؤلی چاول ‘‘ کی بھی تعریف کرنا ہے۔ میں خود بھی اپنے افسانوں کی باتیں کرنے لگا۔ میں کس قدر گرا پڑا ہوں گا ، کہ انکسار ان دنوں میرے لیے بہت بڑی عشرت کی بات تھی ، جیسے عباس کی تعریف میرے نزدیک بہانۂ محض تھی۔ اپنی باتیں کرنے کے لیے جب میں عباس صاحب سے مل کر آیا تو مجھے پتا چلا کہ میرے اس وقت جانے بوجھے بغیر انھوں نے اپنی عظمت کا کچھ حصّہ مجھے بھی دے دیا ہے۔ میں گورا نہیں ہوا تو لمبا ضرور ہو گیا ہوں۔

اور یہ عباس صاحب میں امتیازی بات ہے۔ ادیبوں میں ( میرے سمیت) کم آدمی آپ کو ایسے ملیں گے جو اپنی باتیں کم کریں گے اور دوسروں کی زیادہ۔ ایک دوسرا شخص جو لوگوں کو بظاہر ’’انا‘‘ سے معمور معلوم ہوتا ہے ، وہ — اوپندر ناتھ اشک۔ میں جب بھی ان دوستوں سے ملا ہوں ، مجھے پتا چلا ہے کہ ادب کے آسمان پر کوئی نیا ستارہ طلوع ہوا ہے۔ یہ اسی کا تذکرہ کرتے ہیں ، اس کی چیزیں پڑھ کر سناتے ہیں یا پڑھواتے ہیں۔ تھوڑی سی بحث کے بعد مان بھی جاتے ہیں کہ وہ ستارہ ابھی طوع ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میں ڈر ‘محض ڈر کے جذبے سے اس ادیب کی طرف متوجّہ ہوتا ہوں۔ چونکہ ڈر کوئی اثباتی جذبہ نہیں ، اس لیے یا تو وہ ادیب مجھے تالستائی اور چے خف سے بھی بڑا معلوم ہونے لگتا ہے اور یا پھر اپنے سے بھی چھوٹا۔ میری طرح کے جاگیردارانہ ذہن رکھنے والے اور بھی بہت سے ادیب ہیں۔ لیکن ایک فرق ہے۔ میں اپنی اس کمزوری کو جانتا ہوں اور اسے دور کرنے کی کوشش بھی کرتا ہوں ، لیکن ان میں سے اکثر جانتے ہیں ، نہ کوشش کرتے ہیں۔ خیر ، وقت بڑے بڑوں کو ٹھیک کر دیتا ہے اور میں اپنے آپ سے مایوس نہیں۔

یہ بات نہیں کہ عباس صاحب اور اشک میں انا نہیں۔ ارے صاحب، ہے اور بہت ہے۔ لیکن اسی قدر جس قدر اسے تخلیقی عمل کے لیے ہونا چاہیے اور وہیں اسے جہاں ہونا چاہیے جیسے اکثر لوگوں کا سیکس تمام تر سر میں ہوتا ہے اور ایک معزّز خاتون کے مطابق— ،وہاں نہیں جہاں اسے ہونا چاہیے۔ عباس صاحب میں انا اتنی ہی ہے جس میں وہ اپنی ذات کو پہچان سکیں ، دوسروں سے الگ ، اور دوسروں کے بیچ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بہت سے ادیب ساتھی لکّھاڑ ہی بہت ہیں۔

میں نے عباس صاحب کے بہت سے افسانے پڑھے ہیں جن میں سے کچھ یاد ہیں اور کچھ بھول گیا۔ بھول جانا شعور کے سلسلے میں رائے ہو تو ہو لیکن انسانی دماغ ایک کمپیوٹر نہیں۔ اس سے بہت بلند ہے جس کی تفصیل یا بحث مضمون کا حصّہ نہیں …عباس صاحب کاافسانہ ’ بارہ بجے ‘ تو میں بھول ہی نہیں سکتا۔ ایک تو اس لیے کہ اس سے میرا براہ راست تعلق ہے ( اگر چہ میں ڈاڑھی کاٹنے اور سگریٹ پینے والا سکھ ہوں ) دوسرے اس لیے کہ یہ افسانہ پنجاب کے فسادوں سے متعلق تھا جن میں سے میں بھی گزرا ہوں اور ریل کی چھت پر ننگے بدن بیٹھ کر تقسیم کے وقت ہندوستان پہنچا ہوں۔ اس افسانے میں عباس صاحب نے اپنے ہی طرز کی حسابی مساوات میں برابر کے سکھ اور مسلمان مارے تھے۔ لیکن اس پر بھی سکھوں کی تسلی نہ ہوئی اور مجھے اپنی قوم سے غداری کرتے ہوئے عباس صاحب کے حق میں بیان دینا پڑا۔ آخر میں عباس صاحب کی جان بچ گئی۔ اب ، آپ نے بھی عباس صاحب کو پڑھا ہے ، ان کی فلمیں دیکھی ہیں۔ آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ میں نے اچھا کیا یا برا ؟

جب تک عباس صاحب انڈین پیلپز تھیٹر کے دوسرے ساتھیوں سے مل کر ہندوستانی فلم کا کلاسیک ’’ دھرتی کے لال ‘‘ بنا چکے تھے۔ نہ صرف یہ کہ ’’ دھرتی کے لال ‘‘ پہلی ہندوستانی Realisticفلم تھی بلکہ اس نے اپنے ملک کے سوئے ہوئے لوگوں کو بھنبھوڑا اور بیرون ملک کے باشندوں کی توجّہ اس المیے کی طرف دلائی جس کا نام اس زمانے کا ہندوستان تھا۔’’ آجکل ‘‘ بھی تکمیل پا چکی تھی۔ اس میں بھی عباس صاحب کے ان افسانوں اور ناولوں کی قسم کا ایک پیغام تھا جو تائید کی کثرت سے پیغام نہیں رہ جاتا، آدمی کو چڑا دیتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو بد صورت نہیں چاہتا۔ ’’ انہونی‘‘ پہلی غیر جانبدار فلم تھی جو بہت حد تک کامیاب رہی۔

تقسیم کے بعد میں بمبئی چلا آیا تو اکثر عباس صاحب سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ہماری ترقی پسند تحریک ان دنوں شباب پر تھی۔ عباس صاحب اس کے رہبر تھے اور راہی بھی۔ کبھی انھیں اس تحریک کی زیادتی معلوم ہوتی تھی اور اکثر کمی۔ مجھے وہ دن یاد ہے جبکہ غریبوں اور ناداروں کے حق میں ایک مبلّغ کی حد تک شور مچانے والے عباس صاحب کو پارٹی مینڈیٹ کے مطابق تحریک سے عاق کر دینے کی کوششیں ہونے لگیں۔ تب میں نے پہلی مرتبہ عباس صاحب کو اس قدر غصّے میں دیکھا، جب ان کے ہونٹ بھِنچ بھی رہے تھے اور پھڑ پھڑا بھی رہے تھے۔چہرہ لال ہو رہا تھا اور وہ تیز تیز باتیں کیے جا رہے تھے۔آواز جو پہلے ہی کھسیائی ہوئی تھی اور کھسیا گئی ،لیکن پانی پت کا ہونے اور اور اپنے آپ کو پنجابی کہلوانے کے باوجود عباس صاحب کے منھ سے ایک بھی گالی نہ نکلی۔ کیونکہ وہ تہذیب کا تقاضا نہ تھا۔ان دنوں ہم’’ چور‘‘ کا رول ادا کر رہے تھے اور دیکھ رہے تھے کہ جس طرف پلڑا بھاری ہو،جھک جائیں۔کچھ ہمت اور شخصیت کی کمی اور کچھ دماغی ابطال۔بس جو اِسٹالن نے کہہ دیا، وہ آسمانی صحیفہ ہے۔ کبھی کبھی محسوس بھی کر تے تھے کہ یہ سیل (CELL)کیا بلا ہے ؟ جس میں بیٹھے ہوئے لوگ عالمِ کُل ہیں ، ہمیں سنے بغیر ہی ہماری قسمت کا فیصلہ کر ڈالتے ہیں ؟ جس کے سامنے سر جھکا نا ہی پڑتا ہے، ورنہ آ پ تحریک سے خارج ، حالانکہ آپ کی تحریک کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں کم از کم براہ راست نہیں۔ اس پہ طرفہ یہ کہ غلط فیصلہ کر نے کی صورت میں بچ بھی نکلتے ہیں۔ کیونکہ وہ فیصلہ ایک آدمی کا نہیں ، کئی پنجوں کا ہوتا ہے، اور آپ تو جانتے ہیں پنچ پرمیشر ہوتا ہے۔پھر ہوشیاری کا یہ عالم کہ ان پنچوں میں ایک ادیب قسم کا آدمی بھی ہوتا ہے۔ایسا آدمی جو ادب اور فن اور اس کے عوام کے لیے مفید یا غیر مفید ہونے کی سب حدیں جانتا ہے اور پھر اس قدر لوچ بھی ہے کہ برسوں بعد پارٹی لائن کے غلط ہونے پر بھی معافی مانگ سکے … میں تو اپنی نا سمجھی اور کمزوری کی وجہ سے خائف تھا لیکن دوسرے بھی خاموش تھے جو مجھ سے بھی زیادہ ڈرے ہوئے تھے۔ وہ عباس صاحب کے منھ پر کھری کھری سناتے تھے اور بعد میں اس کا تذکرہ کر کر کے خوش ہوتے تھے۔ اپنی ہمت پہ خود حیران۔ لیکن عباس صاحب کو ان کی اور اپنی تحقیق کی بہ نسبت اپنے جذبے پر یقین تھا۔ اس لیے نہیں کہ وہ اسٹالن سے لے کر کیفی اعظمی تک(سے) اپنے آپ کو زیادہ قابل سمجھتے تھے، بلکہ اس لیے کہ حقیقت پر پہنچنے کے لیے ان کے پاس ایک ہی کسوٹی تھی۔ محبت … جسے صحیح آدمی کبھی کبھی خود بھی شک اور شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے اور سر کس کے روپ واکر کی طرح زندگی کے رسّے پر اپنے فکر اور جذبات کے درمیان متوازن رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ بہر حال اپنے آخری تجزیے میں وہی کسوٹی نسبتاً ٹھیک اُترتی ہے، کیونکہ اس کے پیش نظر ادب اور سیاست ریاضی کے گنجلک سوال نہیں رہ جاتے اور نہ انسان کے سیدھے سادے مسئلوں کی توضیح و تفہیم اسٹالن کے پر جز کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور نہ چاؤ ماؤ کی طرح ہندوستان پر حملے کی، تا کہ روس کے کان ہوں … چنانچہ ان سب باتوں کے باوجود عباس صاحب کے قدم اپنے رستے سے نہیں ڈگمگائے۔ لیکن ، جب تک ، بقول شخصے ، بہت سا پانی ہمارے دریاؤں میں بہہ گیا تھا۔

ہمارے دوسرے بہت سے دوستوں کی طرح عباس صاحب بھی مقصدی ادب کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں اگر کوئی دل اور دماغ کو ہم آہنگ کر کے لایا تو نتیجہ اچھا نکلا، ورنہ محض آواز ہو کر رہ گیا ، بلکہ شور ، … عباس صاحب کے کئی افسانے اور دوسری تحریریں ایسی بھی ہیں جو موثر نہیں ہوتیں اور اگر ہوتیں ہیں تو کردار کے اعتبار سے سخت خارجی ،ہنگامی پہلو لیے ہوئے، جس کے باعث ان کی گونج جلد ہی معدوم ہو جاتی ہے۔ لیکن ان کے مقصد اوردوسروں کے مقصد میں بھی فرق ہے۔ اِنھوں نے لڑکی کے سہارے، تو ایک طرف لکڑی کے سہارے بھی انقلاب تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی اور نہ اس عمل میں بہت سوں کی طرح منقلب ہوئے ہیں ،نہ انھوں نے زبان اور جمالیات کو اپنے معنی پہنائے ہیں ، بلکہ اپنے مقصد کی جستجو میں کچھ یوں سیدھے گئے ہیں کہ اِدھر اُدھر بھی نہیں دیکھا۔ حالانکہ نظروں سے راستے کی تزئین کرتے جانا عین فن ہے۔ ان کی بہت سی تحریریں پڑھ کر مجھے یوں لگا جیسے عباس صاحب بہت جلدی میں ہیں۔ انھیں ایک کام تھوڑا ہی ہے؟ سیکڑوں ہیں۔ ان کے پاس وقت نہیں اور زمانہ ہے کہ تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ اپنی رفتار قائم رکھنا ایک خالص سائنسی عمل ہے۔ میں اس بات کو فلسفیانہ سطح پر لاتے ہوئے عرض کروں گا کہ وقت کو تھامنا ہی پڑے گا، ورنہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ جیسے ہمارے بڑوں نے مٹسون کے ذریعے گویائی تھام لی تھی اور یکسوئی اختیار کر کے کالی بھگوان کی مار سے بھی پرے چلے گئے تھے ، اسی طرح کا عمل ہمیں بھی روا رکھنا ہو گا۔ ہم ادیبوں کا کاو اسٹاک اور ہمارا راکٹ یہی ہے کہ جس پر سوار ہو کر مہرو ماہ سے بھی اوپر جا سکتے ہیں … ایک دن آئے گا جبکہ جدلی مادیات کے دعویداروں کو بھی مقصد کی تحلیل اور اس کے اندرونی تضادات کو خاطر میں لانا پڑے گا۔

عباس صاحب کی نجی زندگی کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں کہ ان کی بیگم — مرحومہ بھی ایک نہایت ہی پیار کرنے والی عورت تھیں۔ ہم ادیبوں سے وہ بھائیوں کا سا سلوک کرتی تھیں۔ جو ہُو میں میرا ایک کمرہ ہوا کرتا تھا جہاں میں بیٹھ کر اپنا کام کیا کرتا۔ عباس صاحب کا گھر راستے میں پڑتا تھا۔ کبھی ا ن کے ہاں رُکتا تو وہ بڑی شکایت کرتیں کہ قریب سے گزر جاتے ہو ، آتے تک نہیں۔ ان کی وفات سے ہمیں قلق ہے ، تو عباس صاحب کے بارے میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔

جنسی زندگی کے بارے میں عباس صاحب کا نظریہ ایک عام ، نارمل مہذب آدمی کا نظریہ ہے۔ وہ زندگی کے اس حصّے کو بالکل منفرد سمجھتے ہیں۔ انگریزی قول کے مطابق نہ تو وہ کسی کے گندے کپڑے پبلک میں دھوتے ہیں اور نہ اپنے دھونے دیتے ہیں۔ مطلب ، اگر ان کے پاس ایسے کپڑے ہیں تو … ! (ضرور ہوں گے )

ایک چیز جس نے عباس صاحب کے سلسلے میں مجھے ہمیشہ ورطۂ حیرت میں ڈالا ہے ، وہ ہے ان کے کام کرنے کی حیرت انگیز طاقت و قوت۔ کہانی لکھ رہے ہیں اور ناول بھی۔ قومی یا بین الاقوامی سطح پر فلم بھی بنا رہے ہیں اور صحافت کو بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ بلٹز کا آخری صفحہ تو بہر حال لکھنا ہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی خرو شچوف کی سوانح بھی ہو گئی۔ پنڈ ت نہرو سے بھی مل آئے، جن سے عباس صاحب کے ذاتی مراسم ہیں۔ پھر پینتیس لاکھ کمیٹیوں کا ممبر ہونا سماجی ذمہ داری کا ثبوت ہے۔ اور یہ بات ممبر شپ تک ہی محدود نہیں۔ ہر جگہ پہنچیں گے بھی، تقریر بھی کریں گے۔ پورے ہندوستان میں مجھے اس قسم کے تین آدمی دکھائی دیتے ہیں — ایک پنڈت جوہر لال نہرو ، دوسرے بمبئی کے ڈاکٹر بالیگا اور تیسرے خواجہ احمد عباس ، جن کی یہ قوت اور استعدادایک عام آدمی کی بات نہیں۔ چنانچہ جب میں نے ایک بار عباس صاحب کے سامنے اس حیرت کے جذبے کا اظہار کیا تو انھوں نے معمول کے رسمی انکسار سے ٹال دیا اور بولے۔’’ جبھی تو ہر بات میں پتلا پن ہے ‘‘ اور پھر مسکراکر میری طرف دیکھتے ہوئے بولے ’’ آج کل کیا لکھ رہے ہو ؟‘‘

بیچ میں کسی نے ٹوک دیا۔ اس لیے عباس صاحب نے میری آنکھیں نہ دیکھیں جو نمناک ہو گئی تھیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات اور اس ملاقات میں بیس پچیس برس کا وقفہ آچکا تھا اور میں اپنے بارے میں کم بات کرنا سیکھ چکا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

وِجینتی مالا

 

 

— اس کی اداکاری روح کی غذا تھی —

وِجینتی مالا کی آنکھیں بہت بڑی بڑی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اسے قدرت نے نہیں ، یامنی رائے نے بنایا ہو۔ وہ کسی حد تک کانوں کی طرف کھنچی ہوئی ہیں۔ انھیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ سامنے دیکھتی ہوئی پیچھے بھی دیکھ رہی ہوں گی۔ ایسی آنکھیں پورے جلال میں آ جانے پر کیا ہوتا ہو گا؟ ان میں سے برستا نور میں نے ڈرامائی مناظر میں دیکھا ہے، جہاں ا ن آنکھوں کی وجہ سے مکالمے لکھنے اور بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

مجھے وجینتی مالا کے سا تھ چار فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا ہے :دیوداس ،مدھومتی ، آس کا پنچھی اور رنگولی میں۔

’’ دیوداس ‘‘ میں وجینتی مالا نے ایک طوائف کا رول کیا تھا، جو کسی طرح بھی ہیروئن کا رول نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن جنھوں نے شرت چندر کا ناول ’’ دیوداس ‘‘ پڑھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ چندر مکھی کا رول چھوٹا ہونے کے باوجود اپنے آپ میں اتنا ہی تیکھا ہے کہ اس کی بات ہیروئن ’پارو ‘ کو میسّر نہیں آتی۔

اُن دنوں وجینتی مالا مدراس کی ایک دو ہندی فلموں میں کام کرچکی تھی۔ جب وہ ہمارے سامنے آئی، تو ہم اسے ایسی گڑیا سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے، جو چابی دینے سے ہاتھ پانو چلانے لگتی ہے۔ اس کے سامنے ہیروئن کے رول میں مشہور بنگالی اداکارہ سُچِترا سین تھی، جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اعلا درجے کی فن کا ر بھی تھی۔ ان ہی دنوں اسے ایک بین الاقوامی ایوارڈ بھی ملا تھا۔ اس کے سامنے وجینتی مالا کا ٹکنا بہت مشکل تھا۔ اور پھر اس کے رول میں اتنی گہرائی تھی کہ اس کی تہوں کو پانا کسی ایرے غیرے کے بس کی بات نہ تھی۔

طوائف چندر مکھی ، دیوداس سے اس باعث محبت کرتی ہے کہ وہ پہلا مرد تھا ، جس نے اس سے نفرت کی۔ اس نفرت نے چندر مکھی کی ’ بری ‘عورت کو سدا کے لیے فنا کر دیا اور وہ اپنا پیشہ چھوڑ کر جسم کی بجائے صرف روح بن گئی۔ وجینتی مالا نے کچھ اداس سی اداؤں اور بہکی بہکی نظروں سے اُس بے حد مشکل رول کو بہت عمدہ ڈھنگ سے نبھایا۔ اس کا رقص تفریح کا ذریعہ تھا، تو اس کی اداکاری روح کی غذا تھی۔

شاید اسی لیے بمل رائے نے وجینتی مالا کو اپنی اگلی فلم ’’ مدھومتی ‘‘ میں ہندی فلموں کے سب سے بڑے اداکار، دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے کے لیے منتخب کیا۔’’ مدھومتی ‘‘ میں کئی ایسے منظر آتے ہیں جن میں دلیپ کمار سراسر حسن بن جاتا ہے اور وجینتی مالا خالصتاً محبت۔ وجینتی مالا نے دیکھنے والوں کے سامنے محبت کی وہ تصویر پیش کی کہ وہ اسے پانے کے لیے آئندہ جنموں کی مصیبتیں سہنے کو بھی تیار تھے۔ اگر وہ دوسرے جنموں کا سلسلہ نہ ہوتا، تو میں اس فلم کو کیسے لکھتا ؟

’’آس کا پنچھی ‘‘ میں وجینتی مالا کا ایک عام سا رول تھا اور اس کا کینواس بھی ، ہیرو کے مقابلے ، بہت چھوٹا تھا۔ لیکن رول چھوٹا ہونے کے باوجود وجینتی مالا نے اعلا فن کا ثبوت دیا۔ ’’رنگولی‘‘ میں نے خود لکھی اور بنائی تھی۔ تب وجینتی مالا سے میرا براہ راست واسطہ پڑا ، جس میں تلخ تجربے بھی ہوئے اور میٹھے بھی۔ لیکن ایک بات جو وجینتی مالا کے حق میں جا سکتی ہے ،وہ یہ کہ ایک بار ’’ کال شیٹ ‘‘ منظور کر لینے کے بعد ، دیگر اداکاروں کے مقابلے ، وہ اس میں کم ہی ادل بدل کرتی ہے اور سیٹ پر اس کا سلوک بہت اچھا ہوتا ہے۔ ’’ رنگولی‘‘ کے آغاز میں ، پہلے ہی دن اسے طویل مکالموں پر مبنی ایک ڈرامائی سین دیا گیا تھا۔ ہماراخیال تھا کہ مادری زبان تامل ہونے کی وجہ سے وہ ہندی لب و لہجہ آسانی سے نہ اپنا سکے گی۔ سین ایک روز پہلے ، شام کے وقت ، اس کے گھر بھیج دیا گیا تھا۔ اگلی صبح جب وہ سیٹ پر آئی تو اسے نہ صرف سین کا ایک ایک لفظ یاد تھا ، بلکہ اس کا لہجہ اور ادائیگی بھی دیکھنے لائق تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

گیتا

 

 

میں خفا ہوں ، بے حد خفا! — انسان سے، دیوی سے، خدا سے اور اس تجاہل سے جسے انسانیت کا ایک بہت بڑا حصّہ، خدا کے نام سے یاد کرتا ہے۔

خفا ہونے سے کیا ہوتا ہے ؟ … آپ ایک مورتی کی پوجا کرتے ہیں۔ اسے اپنے سے، انسان سے بڑا درجہ دیتے ہیں اور مقامی طور پر اسے اپنے لیے آخری حقیقت سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک دن وہ مورتی اپنے ٹھکانے پر سے گر کر ٹوٹ جاتی ہے۔ ایسے میں آپ کس سے شکایت کریں گے ؟ کسے کوسنے دیں گے ؟ کیا آپ ساکن چیزوں میں حرکت کی پیچیدہ حسابی مساوات اور اس کی اقلیدسی شکلوں میں الجھیں گے، یا اس سائنسی حقیقت پر سر دُھنیں گے کہ پتھر نہ صرف زندگی رکھتا ہے بلکہ بہت دور کا ایک نا محسوس اور استھول سا ارادہ بھی ؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ پتھر نے کسی اندرونی تحریک سے خود کو گرا کر ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہو ؟

دانائے راز ان باتوں کا کیا جواب دے سکتا ہے ، سوائے اس بات کے کہ وہ چُپ رہے اور دنیا کی سب بے وقت اور ’مہمل ‘ موتوں کے دکھ کو کہیں دور ’ دل کے اندر ‘ اپنے آفاقی غم کا حصّہ بنا لے۔ پھر ہکسلے کے ٹھٹھولیے پائلٹ کی طرح سے آگے گزر جائے اور اس منزل پر پہنچ کر انتظار کرے جہاں وقت کی حدیں بس ہو جاتی ہیں اور انسانی خفگی، عقلِ کل سے سوال کرتی اور اس ک اجواب پاتی ہے۔

گیتا کو اس وقت موت نے آ لیا، جب وہ زندگی کے اوج پر تھی۔ چیچک سے بچنے کے لیے اسے کئی بار ٹیکہ لگوانے کے لیے کہا گیا، لیکن اس نے ہمیشہ انکار کر دیا، کیونکہ اس کے والد کو انسان کی اس چارہ جوئی کے باوجود چیچک ہو گئی تھی، جس میں اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے جاتی رہیں۔ گیتا جو ایک اچھی بیٹی ، بہن ، بیوی ، ماں اور دوست تھی ، سب کا کہا مانتی تھی، لیکن اس نے کیوں ضد پکڑ لی؟ یہ کیسا انکار تھا جو اس کے منھ سے نکلا تھا ؟ کون سا ہاتھ تھا جو اسے موت کی طرف کھینچ رہا تھا؟ ہو سکتا ہے گیتا سے یہ بھول نہ ہوتی تو وہ آج اپنے بچوں مکی اور کاجل ، اپنے میاں شمی ، اپنے بہن بھائیوں اور ان گنت عزیزوں اور دوستوں کے درمیان ہوتی۔ لیکن کہیں اس کا چہرہ مسخ ہو جاتا یا آنکھیں چلی جاتیں تو کیا ہوتا ؟ گیتا جو زندگی میں اپنی ہی شرط پر جینے کی عادی تھی ، کیسے مشروط زندگی سے مصالحت کر لیتی؟ اسے دیکھ کراُس کے لاکھوں چاہنے والوں کا کیا حال ہوتا؟ اپنے چاہنے والوں کو نہ دیکھ کر اس کی کیا حا لت ہوتی ؟ اس قسم کے سوال پھرmystique La-کی حدیں چھونے لگتے ہیں اور آخر مبتلائے عقل آدمی اس حقیقت کے سامنے سر جھکا دیتا ہے جو ایک ہی جست لے کر زندگی کی باقی سب حقیقتوں سے آگے آ کھڑی ہوتی ہے اور وہ ہے موت۔ یہ سچ ہے کہ گیتا آج نہیں ہے۔ اس پار آ کر اُس کے بڑے سے پتّے پر لڑھکنے والے شبنم کے قطرے کو چتا کی آگ نے دھواں بنا دیا ہے۔ وہ بمبئی میں بان گنگا کے شمشان میں جلائی جاچکی ہے اور اس کی روح ایک ایسی شانتی پاچکی ہے جس کی تمنا گیتا نے ہر گز نہ کی تھی، کیونکہ اس نے اضطراب کا راز پالیا تھا۔

بان گنگا کے شمشان کے ساتھ وہ مندر تھا جہاں دس برس پہلے گیتا نے اپنا ہاتھ شمی کے ہاتھ میں دیا تھا اور پیار نبھانے کی سوگند لی تھی۔ اس نے تو اپنی سوگند نبھا دی، لیکن شمی کی سوگند کا کیا ہوا ؟ وہ شمی سے محبت کرتی تھی ، ایسی محبت جو ہمارے شاستروں اور مریادا نے ایک پتنی کو تفویض کی ہے۔ وہ بیک وقت پتنی ، دوست اور ماں تھی اور ایک فاصلے سے اپنے پتی کے کھلنڈر ے پن کو دیکھا کرتی تھی۔ شمی کے پیار میں بھی وہی والہانہ پن تھا جسے میں نے گیتا کی باتوں کے بین السطور جانا ہے۔ چنانچہ جتنے دن گیتا بیمار رہی ، شمی اپنا سب کام چھوڑ کر گیتا کی نگہداشت کرتے رہے۔ اس کی جانکاہی میں محبت کے کئی چھوٹے اور بڑے وعدے کیے اور نیازیں گزاریں ، جو ایک طرح کے واسطے تھے قضا و قدر کو،جو قسمت نے تسلیم نہ کیے۔ جب ان کی شادی، ہوئی تھی تو مندر کے بت ، ساحل کے سنگریزے ، سمندر کی لہریں اور اس وقت کا آسمان جانتے تھے ،لیکن ان سب نے مل کر اس حسین جوڑے کو چند برس کے لیے عشرت کی چھوٹ دے دی تھی۔

اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن

دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

میں نے اس مضطرب روح کو اس کے بچپن ہی سے دیکھا ہے۔ گیتا، لاہور میں ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ جب بھی وہ نظر کی پہیلی کی طرح، یہ تھی وہ گئی ، قسم کی لڑکی تھی۔ اس کے دبلے پتلے بدن اور گورے چٹے چہرے میں ایک ہی چیز، باقی کے تمام خدوخال سے نمایاں تھی اور وہ تھیں اس کی بڑی بڑی آنکھیں ، جن میں حیرت تھی ، جستجو تھی۔ خوب سے خوب تر کی جستجو۔ وہ ہر بات کی ماہیت جاننا چاہتی تھی اور اس کے لیے کوئی بھی قیمت دینے کو تیار تھی۔ اس کی آنکھیں پپوٹوں میں ایک تیز گراری کی طرح سے چلتی تھیں اور یہ تھا بھی ٹھیک، کیونکہ انھیں سو سال کا سفر چونتیس برس ہی میں طے کرنا تھا۔ گیتا کی آنکھیں درسی کتاب پر اتنا نہ رکیں جتنا کتابِ زندگی پر۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ مضمون کے آر پار نکل سکتی تھی۔ ورنہ عام کتاب میں تو الفاظ اور پھر کاغذ نظر کی پرواز کو جکڑ لیتے ہیں۔ اس کی حیرت انگیز سمجھ بوجھ ایک عام تعلیم یافتہ آدمی سے کہیں زیادہ تھی، کیونکہ اس علم کا مدار وجدان پر تھا۔ لیکن اس کی نگاہوں میں کہیں ایک لمحہ ساکت تھا، جسے بہت کم لوگوں نے دیکھا۔ نظروں کی قوس میں ایک مقام خالی تھا ،جہاں تک کوئی نہ پہنچا۔

چند لوگوں نے فروعی طور پر ان آنکھوں کے سحر کو جانا اور غالباً اسی لیے انھیں صرف شوخی اور چلبلے پن اور کہیں ایک آدھ جذباتی سین میں استعمال کرسکے۔ پہلی فلم، جس میں گیتا نے منفرد اداکاری کی ، سہاگ رات تھی، جس کی شوٹنگ ہی کے دور ان میں ہدایت کار نے اس نظر کے اٹھنے اور جھکنے کے بیچ نغمہ و سحر بھی دیکھ لیا اور آہِ صبح گاہی بھی اور اپنی اگلی تصویر کا نام ’’بانورے نین‘‘ رکھ لیا۔ لیکن گیتا کے نام لینے کے باوجود و ہ ان شاہین بچوں کے پرِ پرواز کی قوت اور ان کی اڑان کا اندازہ نہ کر پائے۔ ان کا انداز ہ گیتا کو تھا لیکن غیر شعوری طور پر۔ آخر کوئی وجہ تھی کہ جب گیتا نے اپنی تصویر ’رانو‘ بنانے کا فیصلہ کیا، تو اپنے ادارے کا علامتی نشان دو آنکھیں رکھا۔ بڑی بڑی آنکھیں ، جو ایک طرف تو بدری ناتھ کے مندر پر بنی ہوئی بھگوان وشنو ناتھ کی آنکھیں تھیں ، جو منزلوں دور سے آنے والے یاتریوں کو دیکھتی اور ان کی ر کھشا کرتی ہیں ، اور دوسری طرف دیوی کی آنکھیں ، جو انسانی زندگی کو اس کے پاپ اور پُن میں دیکھتی ہیں۔ من اور اس کی ور تیوں کے آر پار چلی جاتی ہیں اور ہر جذبے کے ساتھ رنگ بدلتی رہتی ہیں۔ ابھی ان میں دَیا ہے، ابھی کرونا اور ابھی چنڈی کا کوپ۔ ابھی جزا ہے ، ابھی سزا اور پھر چھما۔ آنکھیں نہ صرف دل کا آئینہ ہیں ،بلکہ باہر کی دنیا کو بھی دیکھتی ہیں اور اس کا عکس دل میں اتار لیتی ہیں۔ ان کا اوّل اور آخر مقصد ہے دیکھنا اور اپنا آپ دکھانا لیکن ہر گاہ خاموش رہنا۔ ایسی خاموشی کہ نطق بھی جس کے سامنے پانی بھرے اور یہ گیتا کی خاص بات تھی۔ وہ بات کرنے والے کی طرف ٹک ٹک یوں دیکھتی تھی کہ وہ بعض اوقات گھبرا اٹھتا تھا۔ لیکن اسے گیتا اور اپنے رشتے کے بارے میں فوراً پتا چل جاتا۔ ابھی وہ آپ کی دوست ہیں ، ابھی دشمن ، پھر دوست نہ دشمن ، ایک ہی لمحے پہلے ہستی سے معمور وہ آنکھیں اچٹ کر نیستی کی منزلوں میں گم ہو گئی ہیں…

مجھے اس سے دل چسپی نہیں کہ گیتا نے فلمی دنیا میں کامیابی کا سنگلاخ راستہ کیسے طے کیا، یا وہ کون کون سی تصویروں میں آئی۔ مجھے کتاب سے دلچسپی ہے ، اس کے ابواب کی فہرست سے نہیں۔ اگر کسی فلم میں اسے کامیابی کا منھ دیکھنا نصیب ہوا تو اس لیے کہ کہانی یا منظر اس کی وجدانی سمجھ میں آ گیا ،یا کوئی ذہین ہدایت کار جزوی طریقے سے پھر اسے گیتا کے ذہن میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن اکثر اور بیشتر ہمارے ہدایت کار اپنی مجبوریوں کے باعث گیتا سے وہ کا م نہ لے سکے جس کی صلاحیت گیتا میں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی اچھی کہانی ، کسی اچھے خیال اور جذبے کی تلاش میں سرگرداں رہتی تھی۔ کبھی ماحول کی مناسبت اور کردار کے اچھے ہونے سے اسے کام کرنے میں مزا آتا اور کبھی خانہ پُری کر دیتی اور اپنے تنہائی کے لمحوں میں بیٹھ کر رو دیتی۔

مجھے اندازہ نہ تھا کہ فلم اور فلمی اداکاری کے بارے میں گیتا کی نظرِ انتقاد اتنی بلند تھی۔ کہتے ہیں کہ عنقا کا آشیانہ بلند ہوتا ہے لیکن گیتا کا ٹھکانہ عنقا کے آشیانے سے کہیں اوپر تھا۔ یعنی وہاں جہاں کبیر کے ایک بھجن کے مطابق، بغیر بادلوں کے بجلی چمکتی ہے اور سورج اجیارا ہوتا ہے۔ جہاں آنکھوں کے بغیر موتی پروئے جاتے ہیں اور بنا شبد کے شبد کا اچارن ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار باتوں باتوں میں میں نے کچھ ایسے فلم بنانے والوں کے نام لے دیے جنھیں نہ صرف ہمارا ملک بلکہ باہر ملکوں کے لوگ بھی مانتے ہیں۔ مڑ کر دیکھا تو گیتا کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں اس کی وجہ پوچھتا ، گیتا میرے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھی اور پھڑکتے ہوئے ہونٹوں سے التجا کر رہی تھی کہ میں آئندہ اس کے سامنے کبھی ان لوگوں کے نام نہ لوں۔ وفورِ جذبات میں وہ چندایسے نام بھی لے گئی، جو اس کے اپنے قریب کے تھے۔ وہ فلم ’رانو ‘ کو کسی ایسے ہی دیکھے نہ سنے انداز میں بنانا چاہتی تھی۔ اس نے اپنے لیے وہ مقام متعین کر رکھا تھا جس تک آج تک کوئی نہ پہنچا۔ شاید مرے بغیر وہ خود بھی نہ پہنچ سکتی تھی۔ جب مجھے پتا جلا کہ گیتا کس دیس کی باسی ہے …

میں نہیں جانتا اسے میں اپنی اس وقت کی خوش قسمتی کہوں یا اس وقت کی بد قسمتی کہ خود میرے اور اپنے عزیز دوستوں کے منع کرنے کے باوجود گیتا نے میرے ناول ’’ایک چادر میلی سی ‘‘ کو فلمانے کا فیصلہ کر لیا۔ گیتا کے پاس یہ ناول میرے دوست وید صاحب لے گئے تھے ،جنھیں آخر اس فلم کا ہدایت کار ہونا تھا۔ ہماری، گیتا کو منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ’’ایک چادر میلی سی‘‘ کی کہانی ہماری مروجّہ فلمی کہانیوں سے یکسر الگ تھی۔ چھوٹتے ہی اس کی نائیکہ رانو چار بچوں کی ماں دکھائی دیتی تھی۔ پھر اپنی بد کرداریوں کے کارن اس کا پتی قتل ہو جاتا ہے اور رانو کو اپنے دیور پر چادر ڈالنا ، اس کے ساتھ شادی کرنا پڑتی تھی، جو عمر میں اس سے گیارہ سال چھوٹا تھا اور جسے اس نے ایک بچے کی طرح پالا تھا۔ گیتا کو رانو کے کردار میں ایک بہت بڑی رینج دکھائی دی اور وہ اس پر مر مٹی۔ رانو اور گیتا میں کیا مماثلت تھی ؟ غالباً یہی کہ دونوں نے دکھ دیکھا تھا۔ اپنی فلسفیانہ تحلیل میں رانو دیوی تھی کیونکہ اس نے زندگی کو ایک بھر پور طریقے سے جیا۔ ا س نے مار کھائی ، مار۔ اپنے پیٹ، اپنی بیٹی ، اپنی محبت کے لیے اس نے میٹھے مالٹے ، شراب کی بوتل توڑی اور پھر اپنے دیور کو رام کرنے کے لیے اسے پلائی بھی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود دیور نے اس کے سارے پاپ چھما کر دیے۔ یہی نہیں وہ خود دیوی ہو گئی … دیا اور کرونا کے پرساد بانٹنے لگی … رانو کے کردار نے گیتا کے دل میں ایک عجیب سی گھلاوٹ پیدا کر دی تھی اور وہ جان گئی تھی کہ زندگی کے بھلے برے کے آخر میں موکش ہے۔ چنانچہ میرے ناول کی نائیکہ اور یہ نائیکہ، دونوں آخر موکش کو پہنچ گئیں اور میں بیچ ہی میں رہ گیا۔

اس بات سے گیتا کے بہت سے قریبی لوگ بھی واقف نہیں کہ گیتا کو Father fixationتھا۔ اس کی سب حرکتیں ایک ’اناتھ ‘ لڑکی کی طرح تھیں۔ وہ کھلتی تو بے تحاشا کھلتی اور جب سمٹتی تو ایک پھول کی طرح اپنی پنکھڑیاں کچھ اس انداز سے بند کر لیتی کہ سب کیڑے مکوڑے اس میں گھٹ کر مر جاتے۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ورسوا میں اس کے پتا کا انتقال ہوا۔ میں مُردے سے بہت ڈرتا ہوں ، لیکن نہ معلوم یہ کیسا رشتہ تھا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے گیتا کے باپ کو نہلایا۔ جب سے گیتا نے میری طرف اس انداز سے دیکھنا شروع کر دیا جیسے کوئی بیٹی باپ کی طرف دیکھتی ہے۔ چنانچہ وہ مجھے اپنی تصویر ’رانو کا باپ‘ کہا کرتی تھی۔

گیتا کے دل میں تخلیق اور اس کے خالق کے لیے بے پناہ جذبہ تھا اور عقیدت تھی۔ چاہے وہ زندگی اور فن کا کوئی شعبہ ہو، وہ پائے کے مصّوروں ،موسیقاروں ، شاعروں اور مصنّفوں کے سامنے یوں ہتھیار ڈال دیتی، جیسے اس کی اپنی کوئی شرط ہوتی ہو۔ وہ انھیں اپنے دل میں وہی درجہ دینے لگتی، جو عام آدمی کسی اوتار یا ولی اللہ کو دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب کوئی اس کے ایثار ، اس کے بلند معیار پر پورا نہ اترتا، تو اسے برابر ہی کی مایوسی ہوتی اور پھر ایکا ایکی اسے جھٹک بھی دیتی۔ وہ مثالیت کی گرویدہ تھی اور اس سلسلے میں اسے کئی بار اپنے ارد گرد کے ماحول سے ٹکر لینا پڑتی۔ لیکن چونکہ گیتا کا پل تتودرن تھا، اس لیے وہ مچھلی کی طرح ہمیشہ دھارے کے خلاف ، زندگی کے آبشار کے اوپر ہی اوپر پہنچنے کی کوشش کرتی۔ بیچ میں ایسے لمحے بھی آئے جب وہ عملی زندگی کے ساتھ مصالحت کے سلسلے میں ہار بھی جاتی۔ جب وہ خاموش ہو جاتی اور صرف کسی نگاہ والے ہی کو اس کی اندرونی کیفیت کا پتا چلتا۔ اس کی شکل سمندر کی سی ہوتی جو اوپر ، سطح پر سے تو شانت نظر آتا ہے لیکن اندر ، اپنے سینے میں بڑدانل لیے ہے ، جب اس کا راز اگلوانا مشکل ہی نہیں ، نا ممکن ہوتا… البتّہ پتا اس وقت چلتا جب کچھ کشتیاں ڈوبی ہوئی ملتیں ، کچھ بادبان اور مستول ٹوٹی پھوٹی حالت میں کنارے پر آلگتے۔

اس سے پہلے مجھے ایک فلمی رسالے میں گیتا کے بارے میں لکھنے کا اتفاق ہوا۔ گیتا نے مجھ سے کہا— آپ لیکھک ہیں۔ آپ جو جی چاہے ، میرے بارے میں لکھیے، اور اس سلسلے میں کسی کی پروا نہ کیجیے — میں نے کہا — یہ نہیں ہو سکتا گیتا ! پھر میں نے اپنے مبہم طریقے سے اس سے پوچھا : کیا میں اس بڑدانل کے بارے میں لکھ سکتا ہوں ؟ جس کا بھید تم نے مجھ پر بھی ظاہر نہیں کیا۔ لیکن تمھارا چہرہ ، تمھاری آنکھیں اس کی غمازی کرتے ہیں ؟ … کیا میں وہ سب لکھ دوں ؟

گیتا کے ساتھ وید بھی بیٹھے تھے۔ گیتا نے مڑ کر میری آنکھوں میں دیکھا اور بول اٹھی — ’’نہیں ‘‘

اس کے بعد گیتا ’رانو‘ کی شوٹنگ کے لیے اپنا پورا یونٹ لے کر بنگلہ ، پنجاب چلی گئی، جہاں اس نے عام دیہاتی عورتوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ، انھیں کی طرح کے کپڑے پہنے۔ ویسے ہی جاگتی ، ویسے ہی سوتی۔ اور ان سے زندہ رہنے کا وہ فن سیکھا جس کے بعد زندہ رہنے کی حسرت ہی نہیں رہ جاتی۔ ایک تالاب کے کنارے رانو کا گھر تھا ، جس میں گیتا رہتی تھی۔ گانو کے سب لوگ اسے اسی نام سے پکارتے تھے۔ اس کے گھر کے دروازے آج بھی یوں کھلے ہیں جیسے چونک جانے کے بعد کسی کا منھ کھل جاتا ہے۔

گیتا دو برس رانو کے ساتھ سوئی اور اسی کے ساتھ جاگی۔ وہ اسے اس کے مصنّف سے کہیں زیادہ جاننے لگی تھی۔ وہ خود رانو ہو گئی تھی۔ وہ مجھے خط بھی لکھتی تو اس پر رانو ہی کے دستخط ہوتے۔ پھر وہ بمبئی لوٹ آئی اور 12جنوری کی صبح کو گیارہ بج کر دس منٹ پر چل پڑی۔ یہ سب کتنا تیز تیز ہوا… پونے گیارہ تک تو میں عیادت کے سلسلے میں اس کے ہاں تھا۔ گیتا کے سسر پرتھوی راج کپور ، اس کے پتی شمی ، ڈاکٹر سب نے یقین دلایا کہ وہ اب خطرے سے باہر ہے۔ ان کے چہرے پر رونق چلی آئی تھی اور رَت جگوں کے نقوش مٹنے لگے تھے۔ با ہر آ کر میں نے بیوی کی تسلّی کے لیے اسے فون کر دیا۔

گھر لوٹا تو میری بیوی رو رہی تھی۔ ایک اور فون آ گیا تھا۔

میں گھر سے اپنی وہ کتاب جو پنجابی میں چھپی ہوئی تھی اور جس پر گیتا کی تصویر تھی، اسے ساتھ لیتا گیا۔ میں چاہتا تھا گیتا کے ساتھ اسے بھی شعلوں کے نذر کر دوں ، کیونکہ گیتا نے اسے مجھ سے زیادہ جانا تھا۔ پھر میں نے سوچا — شاید یہ جذباتیت ہو گی۔ فلم کے لوگ اسے دکھاوا سمجھیں گے۔

چتا کے شعلے بلند ہوئے ، میری ہمت پست ہو گئی۔

میں چپکے سے ساحل کی طرف سٹک گیا اور کتاب سمندر میں پھینک دی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ لہروں کے ساتھ واپس آنے لگی۔ گیتا مجھے کتاب لوٹانے لگی۔ میں نے کہا — نہیں گیتا ! یہ تمھاری ہے۔ اسے تم ہی فلماؤ گی۔ دوسرا کوئی نہیں۔

— ہو سکتا ہے آج سے پینتیس چالیس برس بعد کسی بڑی بڑی آنکھوں والی اداکارہ کی نظر اس کتاب پر پڑے اور وہ اپنا آپ اس میں دیکھ لے۔ اسے فلمانے کا تہیّہ کر لے۔ صرف اسے یہ پتا نہ ہو گا کہ پچھلے جنم میں وہ گیتا تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

سوانحی اور تاریخی فلمیں

 

سوانحی اور تاریخی فلمیں کیا ہیں ؟ اگر ایک سادہ سے لفظ یا جملے کے لیے لغت تک ہاتھ بڑھانا ضروری ہو، تو سوانحی فلمیں وہ ہیں جو کسی بڑے آدمی ، کسی عظیم شخصیت کی زندگی کو فلم کی صورت میں ہمارے سامنے لے آئیں اور تاریخی وہ جو کسی ملک اور قوم کی گذشتہ زندگی کو مصوّر شکل میں پیش کر دیں۔ لیکن یہاں پہنچ کر ایک سوال پیدا ہوتا ہے— کیا کسی بڑے آدمی یا بڑی شخصیت کی زندگی میں ، پیدایش سے لے کر موت تک کے واقعات کی فہرست گنوا دینا ایک سوانحی فلم کہلائے گا؟ یا کسی ملک اور قوم پر گزرے ہوئے حالات کو سیلولائڈ پر لے آنے سے تاریخی فلم بن جائے گی ؟

افسانے کے بہت سے معمولوں کی طرح سوانح اور تاریخ بھی بند معنوں میں اینٹ اور پتھر ہیں۔ جب تک یہ اینٹ اور پتھر کسی کاریگر ، معمار کے ہاتھوں میں نہیں آتے ، کوئی خوبصورت عمارت نہیں بن سکتی۔ آخر ایک انسان اور بہت سے انسانوں کی زندگی کی — سوانح اور تاریخ کا ایک تصوّر وہ ہے جو بچپن میں اسکول ماسٹر نے ہمارے ذہن میں پیدا کیا اور ایک وہ جو پنڈت جواہر لال نہرو ’’ دریافتِ ہند ‘‘(تلاشِ ہند) کی شکل میں ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ ایک معمولی اسکول ماسٹر کا تصور ، سوانح اور تاریخ کے بارے میں ساکت ہے، کیونکہ اُس میں ہم ہر انسان اور ہر واقعے کو ایک جگہ ٹھہرا ہوا دیکھتے ہیں۔ گویا انسان اور واقعات کا، نہ گزرے ہوئے زمانے کے انسان اور واقعات سے کوئی تعلق تھا اور نہ بعد میں آنے والے لوگوں سے۔ انسان یا واقعہ جس سلسلے کی کڑی ہے، اسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی بادشاہ یا اس کی رعایا پر خارجی حالات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اچھا آدمی ، اچھا حاکم تھا تو اس لیے کہ اس کا باپ چغتائی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ یا بہادر تھا تو اس لیے کہ اس کی ماں راجپوت کی بیٹی تھی یا اس سے بھی ایک قدم پیچھے جا کر — وہ پیدائشی طور پر بھی [ہی؟] اچھا یا برا تھا۔ اگر اکبر کو عقلِ سلیم حاصل تھی تو وہ خدا کی دین تھی۔ ایک بات جو اس قسم کا اسکول ماسٹر ، تاریخ داں ، یا سوانح نگار نہیں دیکھتا، وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کیا ہوا ؟ اکبر کے باپ ہمایوں کو کیا کیا تکلیفیں اٹھانا پڑیں اور کیونکر ؟اکبر نے اور کہیں نہیں تو مصیبت اور تجربے کے مدرسے میں تعلیم پائی اور اس لیے وہ ایسا حکمراں بنا ، اکبر ا عظم کہلایا … بر خلاف اس کے ’’دریافتِ ہند ‘‘ کے فاضل مصنّف ، خارجی حالات اور داخلی کیفیات، دونوں کا برابر تجزیہ کر کے ہمارے سامنے رکھتے ہیں اور یہی بتاتے ہیں کہ اس زمانے کے سماج نے فرد پر کیا اثر ڈالا اور فرد نے سماج کو جوابی طور پر کیا دیا ؟ آدمی اور ذرائع پیدا وار کے آپسی رشتے کیا تھے ؟ ہم پتھر کے زمانے سے لے کر چندر گپت موریا کے سنہرے عہد تک پہنچتے ہیں تو کیسے ؟ اور پھر کلائیو سے کرپس مشن تک…

… ان کا تاریخ کا تصوّر ایک ٹھہرے پانی کا تالاب نہیں۔ ایک ایسا سمندر ہے جس میں دن رات لہریں آتی ہیں جاتی ہیں۔ ہر بار جو پانی آتا ہے وہ پہلے ہی کا پانی نہیں ہوتا ،کیونکہ سمندر میں اگر نربدا اور تاپتی آ کر مل جاتے ہیں تو دجلہ اور فرات بھی اس میں حل ہوتے ہیں اور یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ بحیرۂ عرب کا پانی کہاں ختم ہوتا ہے اور بحیرۂ ہند کا پانی کہاں سے شروع ؟ گویا ان کے تصوّر کی تاریخ ساکن نہیں ، متحرّک ہے جس میں ہمیں نہ صرف سماجی اور طبقاتی کش مکش دکھائی دیتی ہے بلکہ ہر وقت بدلتے ہوئے فرد کی شکل بھی نظر آتی ہے۔ یہ چیز کتنی فکر انگیز ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو ہندوستان ہی کی پیداوار ہوتے ہوئے جب ہندوستان کی تاریخ مرتّب کرنے بیٹھتے ہیں تو نئی ترتیب کو ’’دریافتِ ہند ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ کیا ہندوستان پہلے کہیں کھویا ہوا تھا ؟ یہ بات نہیں ، ہندوستان یہیں موجود تھا اور موجود رہے گا مگر اس ملک کی تاریخ کو جس نظر سے مفاد پرستوں اور سامراجیوں نے دیکھا ، پنڈت جی اس نظر سے دیکھنے کو تیّار نہیں تھے۔ ہند کی تاریخ کے بارے میں ان کا اپنا ایک نقطۂ نظر تھا جسے انھوں نے بڑی کھوج اور عملی جدّ و جہد کے بعد حاصل کیا۔

یہ کھوج اور آخر کار دریافت ، تاریخ اور سوانحِ حیات کے لیے بے حد ضروری ہیں ، کیونکہ انھیں [ان ہی ] سے آ پ کا نقطۂ نظر وضع ہوتا ہے۔ سوانحی اور تاریخی حالات اور واقعات یوں اپنی جگہ ساکن ہیں ، وہ موم کی ناک ہیں جسے آپ جس طرف چاہے موڑ کے رکھ دیں ، لیکن اگر آپ نے کسی شخص کی زندگی یا کسی ملک کی زندگی کے بارے میں ایک نقطۂ نظر وضع کر لیا ہے تو پھر آپ اسی [اُس] زندگی کے واقعات میں ایسے رنگ بھر سکتے ہیں کہ کتاب کی صورت میں پڑھنے اور فلم کی صورت میں دیکھنے والوں کو وہ نئے اور دلچسپ معلوم ہوں اور وہ سوچیں کہ واقعی لکھنے والے یا فلم پیش کرنے والے نے ہمیں پتے کی بات بتائی ہے۔ کسی خاص شخص کی زندگی یا کسی خاص عہد کی تاریخ کو ایسے انداز میں پیش کیا ہے جس سے ہم واقف نہیں تھے یا اگر واقف تھے تو یہ سب باتیں ہمارے عقلی اور جذباتی جسم کا حصّہ نہیں بن پائی تھیں۔

یہ نقطۂ نظر کچھ بھی ہو، ہمیں اس سے مطلب ہے تو صرف اتنا کہ اس کا مدار کسی دلیل پر ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچے ، زیادہ سے زیادہ لوگوں کے علم میں اضافہ ہو اور بہتری کے لیے انسان کی جدّو جہد آگے بڑھے۔یہ بھی نہ ہو تو کم سے کم ایک ایسی تفریح کا سامان ہو جو ہمارے بچوں ، ہماری بہو بیٹیوں کے اخلاق کو نقصان نہ پہنچائے۔ انسان نے جو کچھ حاصل کیا ہے، کسی ایک آدمی کی دین نہیں۔ انسانی زندگی کا کل اس وقت بنا جب بہت سے جزو مل گئے۔ بقول مرزا یگانہ:

اپنے اپنے رنگ میں ، اپنے اپنے حال میں

کوئی حیرانِ خزاں ، کوئی پریشانِ بہار

دنیا کی کم ہی چیزیں ہیں جواُپج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کچھ ہم نے عربوں سے سیکھا، یونانیوں سے سیکھا، کچھ انھوں نے ہم سے۔ ہندوستان نے تصوّریت کا فلسفہ دنیا کے سامنے رکھا جس سے برکلے ، کانٹ، ہیگل سے فلسفی متاثّر ہوئے۔ مارکس نے انھیں [ان ہی] فلسفیوں سے سیکھ کر ایک نیا اندازِ فکر پیدا کیا جسے ہم کائنات کا مادّی تصور بھی کہتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے میں انھوں نے خود سے پہلے آنے والوں کی عملی شرکت کو نہیں جھٹلایا۔ گویا آپ چاہے روحانی نقطۂ نظر کے قائل ہوں ، چاہے مادّی کے اور چاہے آپ کا کوئی اپنا ہی نقطۂ نظر ہو، مگر اس کے بغیر کسی بھی اچھی سوانح یا تاریخ کا لکھا جانا یا فلمانا ممکن نہیں۔ جب آپ اس نقطۂ نظر کو وضع کرنے بیٹھیں گے تو آپ کو پتا چلے گا کہ ماضی کی چیزوں کو مصوّر کر نے کے لیے آپ کو آج کے زمانے کا علم بروئے کار لانا پڑے گا۔ گویا شراب پرانی ہو گی ، بوتل نئی۔

اس کو میں ایک مثال کے ذریعے سے واضح کروں گا۔ خاندانِ غلامان کی سلطانہ رضیہ کے بارے میں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس کی محبت امیرِ آخور— یا قوت سے ہوئی جو ایک حبشی غلام تھا۔ رسمی تاریخ جب اس محبت کا ذکر کرتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی زبان دانتوں میں دبا لی ہے۔ آج بھی سینکڑوں ہزاروں لوگ ہیں جو ایک بادشاہ یا ایک شہزادی کی ایک عام آدمی سے محبت کو بغیر آہ یا واہ کیے نہیں دیکھ سکتے۔ اور ایک خاص تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے کہ گورے اور کالے کی محبت کو دیکھ کر جن کا خون کھول اٹھتا ہے اور وہ کالے آدمی کو کھڑے کھڑے کچل دینا چاہتے ہیں۔

ایسے لوگ اس زمانے میں بھی موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں۔ اس لیے اس قسم کے ظلم کو ہوتے دیکھ کر بغاوت یا قتل و خون کر دینا ایک ایسی بات ہوتی ہے، جسے آپ سینکڑوں بار سن چکے ہیں۔ پڑھ چکے ہیں اور سنیما کے پردے پر دیکھ چکے ہیں۔ اس لیے اگر اس زمانے میں آپ رضیہ سلطانہ اور یاقوت کا قصّہ بیان کریں گے تو آپ کو یہ نقطۂ نظر اختیار کرنا پڑے گا کہ سلطانہ نے حبشی غلام سے اس لیے محبت کی کہ وہ بہت صحت مند تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ گورے اور کالے میں فرق نہیں سمجھتی تھی۔ ایبک سے لے کر خود اس کے باپ التمش تک کی تاریخ نے اس پر یہ چیز ظاہر کر دی تھی کہ ہر انسان میں صلاحیتیں موجود ہیں ، بشرطیکہ انھیں مناسب طریقے پر پنپنے کا موقع دیا جائے یا اگر آپ کو سلطانہ رضیہ اور یاقوت کی محبت کے واقعے کی صحت پر ہی شک ہو، تو آپ یہ دکھائیں گے کہ نسلی امتیاز کے خلاف جدّو جہد آج سے صدیوں پہلے ہمارے ملک میں شروع ہو چکی تھی۔ جب یہ کہانی ایک نئے نقطۂ نظر کی دلیل ہو گی، تو نہ صرف لوگوں کے لیے دلچسپ ہو گی بلکہ تاریخ کی تجدید (REORIENTATION) کی صورت میں دیکھنے والوں کے علم میں اضافہ کرے گی۔ آپ رضیہ کے قصّے کو کسی نظر سے دیکھیں ، ترقی پسند اور رجعت پسند قوّتوں کی ٹکر آ پ کے سامنے نظر آئے گی۔ رضیہ کی ماں ملکہ شہہ ترکن اور اس کا بوڑھا وزیر جنیدی اور دوسرے ترک اُمرا نہیں چاہتے تھے کہ ایک نچلے طبقے کا اور پھر کالا آدمی کسی قسم کی طاقت حاصل کرے۔ اس لیے انھوں نے رضیہ کی جگہ اس کے بھائی رکن الدین کو تخت پر بٹھانے کی کوشش کی، حالانکہ وہ ایک عیّاش آدمی تھا اور زیادہ شراب پینے کے عمل نے اسے بزدل اور حکومت کے ناقابل بنا دیا تھا۔ چنانچہ رضیہ ان سب باتوں کے خلاف عملی طور پر جنگ کرتی ہے، مگر آخر کار دیکھتی ہے کہ چہ جائیکہ ترک امیر اور وزیر ، اس کی اور یاقوت کی محبت کو اچھی نظر سے دیکھیں ، وہ ایک عورت کے مردوں پر حکومت کرنے ہی کو اپنے لیے باعث شرم سمجھتے ہیں۔ مگر وہ ڈٹی رہتی ہے۔ خود اس کی ماں ملکہ شہہ ترکن اسے قتل کرنے کے لیے بونٹ پلاؤ میں زہر ملا کر بھیجتی ہے اور اس کام کے لیے یاقوت ہی کو گانٹھا جاتا ہے۔ مگر یاقوت جب ملکہ کے حسن و جمال کو دیکھتا ہے تو اس ارادے کو تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا۔ جمالیات کا احساس ایک کالے آدمی کو بھی ہو سکتا ہے اور یاقوت نہیں چاہتا کہ اتنی خوبصورت چیز کو ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادیا جائے۔ رضیہ کی زندگی کا آخر ی دور ہمارے اس افسانے میں ممد و معاون ثابت نہیں ہو سکتا، کیونکہ آخر میں وہ الطونیہ سے شادی کر لیتی ہے۔ اس لیے اس کہانی کو یا تو ہم وہیں ختم کر دیں گے جہاں الطونیہ دوبارہ اسٹیج پر آتا ہے اور یا تھوڑے سے تصرف سے کام لیتے ہوئے ہمیں یہ دکھانا پڑے گا کہ جب الطونیہ کے ساتھ شادی کی قربان گاہ پر اپنا سر قربان کر رہی تھی، تب بھی وہ پہلے ہی کی طرح باغی اور بیدار عورت تھی۔ البتّہ کسی مصلحت کے پیش نظر اس نے ایسا کیا۔ یہاں پہنچ کر ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سوانح اور تاریخی باتوں میں آنے والے واقعات صرف افسانوی صلاحیتیں لیے ہوتے ہیں۔ بنے بنائے افسانے نہیں ہوتے۔ جس طرح عام ادب میں ہمیں زندگی میں ہونے والے واقعات میں رنگ بھر نا یا تصرّف کرنا پڑتا ہے، اسی طرح سوانحی اور تاریخی کہانیوں میں بھی ـ، لیکن واقعات کو جھٹلائے بغیر۔ مثلاً اوپر کے قصے میں وہ واقعہ بھی لا سکتے ہیں جو مصر کی ایک ملکہ اور حبشی کے درمیان ہوا۔ ملکہ ہمیشہ حبشی غلام کے کالے رنگ کا مذاق اڑایا کرتی تھی۔ ایک دن غلام نے کہا۔ ’’ ملکہ ! میرے اس کالے رنگ کا چھینٹا تمھارے چہرے پر پڑ جائے تو تمھارے حسن کو چار چاند لگ جائیں۔ لیکن اگر تمھارے رنگ کا ایک چھینٹا بھی مجھ پر آ پڑے تو لوگ مجھے کہیں گے کوڑھی ہے !‘‘ … اور اسی چھوٹے سے واقعے سے ملکہ اور غلام کے رومان کی ابتدا ہو سکتی ہے، کیونکہ وہ زمانہ تھا جب حاضر جوابی اور بر جستگی کی بہت قدر ہوا کرتی تھی۔

یہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر ہمارے لیے وہ نقطۂ نگاہ ،وہ پرا پیگنڈا مقدّم ہے جسے ہم عوام کے سامنے رکھنے جا رہے ہیں۔

ایک انسان یا بہت سے انسانوں کے سوانح ، جسے تاریخ کہہ لیجیے ، نتیجہ ہے ٹکّر کھا تے ہوئے نظریات کا۔ اور جتنی زیادہ سے زیادہ بار آپ اس ٹکر کو لائیں گے، اتنا ہی آپ کے لیے اچھا ہے۔ کیونکہ بغیر نزاع (CONFLICT)کے آپ کا کو ئی ڈراما نہیں بنتا۔ سوانح اور تاریخی واقعے میں مرکزی اعتبار سے فلم کی صورت میں جو آپ دکھا نا چاہتے ہیں وہ تو طے ہے ہی، مگر اس کے بعد جزئیات میں کرداروں کو مختلف نظریوں کا حامل دکھانا پڑے گا۔ گویا یہ طے ہے کہ جہاں ملک اور قوم کی ترقی میں اور بہت سی باتیں ضروری ہیں ، وہاں سوانح اور تاریخ کا گہرا مطالعہ لازمی ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں میں نے جب بھر تری ہری اور گوتم بدھ کی زندگیاں پڑھیں ، تو مجھ پر کیا کیفیت طاری ہوئی تھی۔ میرے چھوٹے سے دماغ نے ، کسی مبہم طریقے سے ، زندگی کی چند قدروں کی طرف توجّہ دلائی تھی اور طبیعت میں ایک طرح کا ہیجان پیدا ہو گیا تھا۔ پھر اپنے ملک اور بیرونِ ملک کی بڑی شخصیتوں کے حالات پڑھے، تو میں نے راتوں رات اپنے آپ کو ان کے کردار میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ میں نے بڑی حیرانی سے دیکھا کہ سب بڑے لوگوں کی زندگی میں پیار زیادہ تھا اور نفرت کم۔ نفرت تھی بھی تو اسے کسی خاص مقصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا، کیونکہ محبت کی نفرت بھی ایک اساسی جذبہ ہے جس کے وجود سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔ آخر کیا بات تھی جس نے طالسطائی کوYASNAYAPOLYANAکی اسٹیٹ چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا تھا اور آنِ واحد میں کاؤنٹ طالسطائی، بچوں کے استاد اور ہل چلانے والے کسان بن گئے ؟ کون سی بات تھی جس نے مغربی رنگ میں رنگے ہوئے بیر سٹر گاندھی کو لنگوٹی پہنا دی ؟ حقیقت وہی نہیں جسے ہم اپنے تجربے سے حاصل کر تے ہیں۔ حقیقت وہ بھی ہے جو ہم دوسروں کے تجربوں میں دیکھتے ہیں۔ آج ہم گیہوں کھانے کے لیے خود گیہوں نہیں اگاتے۔ اگر گیہوں اگانے اور کپڑا بننے لگیں گے تو کتاب لکھ سکیں گے ،نہ فلم بنا پائیں گے۔ آج کل کے بچے اور وہ لوگ جو صرف عمر کے لحاظ سے اُکتا چکے ہیں مگر جذباتی طور پر بچے ہیں ، ان کے دماغ پر جس طریقے سے فلم کا میڈیم اثر انداز ہوتا ہے، ہم فلم بنانے والوں پر ایک بڑی ذمّے داری عائد کرتا ہے۔ چونکہ سوانح اور تاریخ مصدّقہ حیثیتوں کی حامل ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ اثر ڈالنے والی ہوتی ہیں ، اس لیے ہم عوام کے دماغ کی ان گنت فوٹو پلیٹوں کو لے سکتے ہیں اور ان پر تعلیم و تربیت کے نقش چھوڑ سکتے ہیں۔

سوانحی اور تاریخی فلموں کے سلسلے میں ہماری فلم انڈسٹری نے بحیثیت مجموعی لوگوں کو اچھی چیزیں دی ہیں اور دیکھنے والوں کے دلوں پر ان تصویروں نے گہرا اور واضح اثر چھوڑا ہے۔ پربھات فلم کمپنی کی تصویریں ’’ رام شاستری ‘‘ ’’سنت گیانیشور ‘‘ ’’تکارام ‘‘ آج بھی شاہ کار گنی جاتی ہیں۔ منروا مودی ٹون کی ’’ سکندرِ اعظم ‘‘ ’’ پکار ‘‘ ’’ پرتھوی ولّبھ ‘‘ ’’ جھانسی کی رانی ‘‘ اور ’’ مرزا غالب‘‘ ایسی تصویریں ہیں جو مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ نیوتھیٹر ز نے ’’ راج رانی میرا‘‘۔’’یونٹی پکچر ز‘‘ نے ’’چیتنیامہاپربھو ‘‘۔ ’’ پرکاش [پکچرز؟] ‘‘ نے ’’ رام راجیہ ‘‘ اور ’’ بیجو باورا ‘‘۔ رنجیت[پکچرز؟] نے ’’ تان سین ‘‘ ایسی فلمیں پیش کر کے ہمارا سر فخر سے اونچا کیا ہے۔ یہ تصویریں نہ صرف ہر دل عزیز اور مقبولِ عام ثابت ہوئی ہیں ، بلکہ انھوں نے لوگوں کے ذہن میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ جہاں ان فلموں میں پیش کش کا انداز بے حد خوبصورت اور پیارا تھا، وہاں کچھ ایسی بھی تھیں جن محبت کا عنصر اتنا ابھر گیا کہ اس نے سوانحی یا تاریخی شخصیت کی جامعیت کم کر دی یا تاریخ کے کسی دَور کو ناچ رنگ کا دَور ثابت کر دیا۔ میں خود کئی حیثیت میں فلموں میں کام کر نے کی وجہ سے پروڈیوسروں کی مشکلات ، سنسر کا نقطۂ نظر ، عوام کی مقبولیت کا قائل ہوں۔ لیکن اس پر بھی عرض کروں گا کہ جہاں تصویر کی عوام کے نزدیک مقبولیت ، فلم بنانے والوں کی زندگی کے لیے ضروری ہے ،وہاں ملک اور قوم کے تئیں بھی ان کا فرض نکلتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ سوانحی اور تاریخی فلمیں بنانے والا جہاں مضمون کے ساتھ انصاف کرے ، اپنے ساتھ انصاف کرے ، وہاں ملک اور قوم کا بھی خیال اپنے دل میں رکھے ؟

آج ہمارا ملک ترقی کر رہا ہے۔ ہماری قوم بن رہی ہے۔ دوسرا پنج سالہ منصوبہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ سب ہمارے راہ نماؤں کی بدولت ہے کہ انھوں نے ہمارے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔لیکن کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک […] اکائی کی حیثیت سے ہم بھی قوم اور ملک کی ترقی اور بہبودی کی جدّو جہد میں شعوری طور پر شرکت کر رہے ہیں ؟ میں نہیں چاہتا کہ آج سے سو سال بعد جب آج کے ہندوستان کی تاریخ لکھی جائے تو کوئی کہے ’’ ملک کے دانشوروں نے اپنے راہ نماؤں سے غدّاری کی۔‘‘ فلم انڈسٹری کے دانشوروں کے ہاتھ میں اتنا بڑا آلۂ کار ہے جس سے وہ ملک کی تعلیم و تربیت میں حصّہ لے سکتے ہیں۔ سوانحی اور تاریخی فلمیں چونکہ بنیادی طور پر زیادہ پُر شکوہ ، زیادہ موثّر ہوتی ہیں ، اس لیے ان کی طرف زیادہ توجّہ کرنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں بے شمار عظیم المرتبت آدمی پیدا ہوئے ہیں جن کے سامنے دنیا سرِ تسلیم خم کرتی ہے۔ ان کی زندگیاں فلم کے پردے پر لا کر ہمیں اپنے لوگوں کے وقار کا سر اونچا کرنا ہے۔ ہماری تاریخ اتنی قدیم ، اتنی حسین اور اتنی رنگین ہے کہ کہیں سے بھی اس کے دو ورق اٹھا لیجیے ، آپ کو انھیں سے فلمی کہانی کا مواد مل سکتا ہے۔ ایک نقطۂ نظر اختیار کر کے، جسے ہم لوگوں کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ وہ فلم چاہے تصوّریت کی چھاپ لیے ہوئے ہو اور چاہے مادّیت کی ، ہمیں روحانی مسرّت دے سکتی ہے اور پھر اس دنیا کے ٹکراتے ہوئے نظریات کا [کے ؟] مابین بھی ایک جگہ ہے جسے ہم ’’ جیو اور جینے دو‘‘ کے ملگجے اور فاختئی رنگ سے بھر رہے ہیں۔ اس [کے؟] تاریخی رول کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے ؟ اس کی طرف توجّہ دلاتے ہوئے میں اپنے فلمی دوستوں سے یہی کہوں گا:

کعبہ و دیر کے ما بین جگہ خالی ہے

کیوں یہ ویرانہ رہے ، کیوں نہ یہ میخانہ بنے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

فلم بنانا کھیل نہیں

 

فلم یوں تو کھیل ہے، لیکن اس کا بنانا کھیل نہیں۔ ارادے اور روپ ریکھا سے لے کر فلم بنانے تک بیچ میں بیسیوں ، سیکڑوں ایسی رکاوٹیں آتی ہیں کہ بڑے دل گردے والا آدمی بھی دم توڑسکتا ہے۔

سوشل فلم، باقی دوسری فلموں سے الگ نہیں ، لیکن زیادہ مشکل اس لیے ہے کہ اس کے ساتھ آپ پر زیادہ ذمے داری آ پڑتی ہے۔ہمارا سماج مختلف قسم کا ہے۔ کئی مذہب ،نسل ،صوبے ،بولیاں ٹھولیاں ہیں۔ جمہوری نظام نے انفرادی طور سے سب کو بنیادی حقوق دے رکھے ہیں ، اور مجموعی طور پر برابری کے حقوق۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان حقوق کے خلاف ہوں ، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور سے ابھی میرے بھائیوں کو ان حقوق کا استعمال کرنا نہیں آتا۔

مجھے یاد ہے جب میں نے فلم ’مرزا غالب ‘ لکھی تو اول اور آخر ہمارے سامنے مقصد یہ تھا کہ دیش کے کونے کونے میں مرزا غالب کا کلام گونجے۔ لوگ، ان کے خیالات اور ان کی شاعری کی عظمت سے روشناس ہوں۔ کہانی تو ایک بہانہ ہوتی ہے ، جس کی مدد سے آپ اس عہد کے سماج کی پرچھائیاں قلم بند کرتے ہیں۔ چنا نچہ بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں — ’’ آواز اٹھی اور نہ آنسو بہے۔ شہنشاہ ہند کی حکومت جمنا کے کنارے تک رہ گئی۔‘‘مغل عہد ختم ہو رہا تھا اور برٹش سا مرا جیت دھیرے دھیرے اپنے پنجے پھیلا رہی تھی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ مرزا صاحب جب جیل سے رہا ہو کر اپنی محبوبہ کے یہاں آتے ہیں اور دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کوئی جواب نہیں آتا۔ اس وقت وہ ایک سادہ مگر دکھ بھر ے جملے میں اس عہد کا پورا نقشہ کھینچ دیتے ہیں ’’ارے کہاں ہو دلّی والو؟… دن دہاڑے ہی سو گئے ؟‘‘ اس پر بھی کچھ لوگوں کو سوجھی کہ مرزا صاحب کی عشقیہ زندگی کیوں پیش کی گئی ؟ جیسے وہ انسان نہیں تھے۔ ان کے دل نہیں تھا۔ وہ کتنے دل والے تھے ، ان کے خطوط پڑھ کر پتا چلتا ہے۔

تاریخی فلموں کا ذکر محض تذکرہ ہے ، کیونکہ حقیقت میں وہ کسی نہ کسی طرح سماجک پہلو لیے ہوئے ہیں۔ مگر اس کا کیا جائے کہ اس کے ساتھ کسی نہ کسی مقصد کا اشارہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مہاراج رنجیت سنگھ کے بارے میں فلم بنانا آسان نہیں ہے۔ حقیقت سے متعلق دو مورخّوں کی رائے آپس میں نہیں ملے گی۔ پھر وہ مقصد ان کی زندگی کے انفرادی پہلو کو فلم کے پردے پر نہیں لانے دے گا۔ آپ کو کئی اداروں سے کلیرنس حاصل کرنا ہو گا اور جب وہ حاصل ہو گا تو اسکرپٹ کی شکل بالکل بدل چکی ہو گی ، جس میں آپ اپنا چہرہ پہچان ہی نہیں پائیں گے۔ کچھ اس قسم کی باتیں ہو جائیں گی — آپ بہت اچھے ہیں ، میں بھی بہت اچھا ہوں۔ تندرستی ہزار نعمت ہے ، وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر آپ ان کے شکوک کے خلاف جائیں گے تو مورچے لگیں گے ، آپ کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی اور آپ گھر کے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ آپ زیب النساء کے بارے میں فلم نہ ہی بنائیں تو اچھا ہے ، کیونکہ وہ اورنگ زیب کی بیٹی تھی اور اس لیے سیزر کی بیوی کی طرح تمام شکوک اور شبہوں سے اوپر۔ عاقل خاں گورنر ملتان سے ان کی محبت کو نہ صرف مشکوک سمجھا جائے گا، بلکہ ا س کی صحت ، میرا مطلب ہے قصے کی صحت کو بیہودہ قرار دیا جائے گا۔ آپ دور کیوں جاتے ہیں۔حال ہی میں ستیہ جیت رائے نے ، جنھیں دنیا ایک بڑے ڈائریکٹر کی حیثیت سے مانتی ہے ، ایک فلم بنائی جس میں ایک نرس دکھائی گئی جو اپنے گھر کے حالات سے مجبور ہو کر رات کو دھندا کرتی ہے۔ اب وہ ایک انفرادی بات تھی، جس کا اجتماعی طور پر نرس پیشہ عورتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پر اس پر بھی ہنگامہ برپا ہو گیا۔ نرسوں نے آندولن چلایا اور شری رائے کو ان سے معافی مانگنی پڑی۔ میں پوچھتا ہوں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک طرف لوگ ’مرزا غالب ‘اور’ سنسکار ‘ جیسی فلموں کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں اور دوسری طرف بھارت سرکار انھیں سال کی بہترین فلم قرار دیتی ہے۔ اس کے بنانے والے کو راشٹر پتی اپنے ہاتھوں سے سورن پدک اور مان پتر پیش کرتے ہیں۔

ساماجک فلم اپنے یہاں بنانے میں ، اپنے یہاں دیش کے حالات بہت آڑے آتے ہیں۔ مختلف گروہ ،قومیں اور مقصد تو ایک طرف ، خود سرکار بھی اس گناہ سے بری نہیں۔ مثال کے طور پر سرکار کی پالیسی اہنسا ہے۔ لیکن اس کو کیا کیجیے گا کہ کئی ہنسا استعمال کرنے والوں کو ہم نے اپنا رہنما مانا ہے ، ان کے سامنے سر جھکایا ہے اور اس کے سہرے گائے ہیں۔ میں شہید بھگت سنگھ کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ شہید بھگت سنگھ اول اور آخر کرانتی کاری تھے۔ وہ من سے سو شلسٹ تھے اور ان کا نظر یہ تھا کہ طاقت کے استعمال کے بنا برٹش سامراجیہ کا تختہ الٹنا ممکن نہیں ہے۔ اب آپ ان کے بارے میں فلم بنائیں تو ایک طرف ان کو ان کے ساتھی بھگوتی چرن ورما کی بیوی کو بار بار بھابی کہہ کر پوشیدہ سیکس کی طرف اشارہ کرنا پڑے گا اور دوسری طرف ان کے اسمبلی میں بم پھینکنے کے واقعے کو یا تو چھوڑ دینا ہو گا اور یا پھر اس کا بیا ن یوں کرنا ہو گا کہ وہ صرف سامراجیہ کو چونکا نا چاہتے تھے۔تبھی ایک اندرونی تضاد پیدا ہو جائے گا۔ کیا لاہور میں سپر نٹنڈنٹ پولس سانڈرس کی ہتّیا بھی انھوں نے انگریزوں کو چونکانے کے لیے کی تھی ؟ اگر آپ ان واقعات کو ایسے ہی دکھائیں گے جیسے کہ وہ واقع ہوئے تو آپ حملوں کا نشانہ بنیں گے ، کیونکہ ملک میں کئی ایسے گروہ ہیں جو گولی بندوق میں یقین رکھتے ہیں اور سرکار کی پالیسی ایسی ہے کہ وہ دھماکہ بھی برداشت نہیں کرسکتی۔ ورنہ ان کروڑوں نوجوانوں کا کیا حال ہو گا جو د ن رات یونیورسٹی کیمپس میں اودھم مچاتے رہتے ہیں۔

یہ تاریخ کو چڑانے والی بات ہو گی کہ ہم کہیں کہ ہندوستان کو آزادی صرف اَہنسا کی پالیسی کی وجہ سے ملی۔ اس میں رائل نیوی کے ناوِکوں کا بھی ہاتھ تھا، جنھوں نے گھٹیا قسم کے کھانے اور بدسلوکی کا بہانہ لے کر ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑائی لڑی ، مخالفت کی اور بمبئی کی گلیوں میں انگریز کی گولیوں سے شہید ہوئے۔ جلیان والا باغ کے بیسیوں سال کے بعد اودھم سنگھ نے لندن پہنچ کر مائیکل اوڈائر کو گولی ماردی اور ہماری قومی بے عزّتی کا بدلہ لیا۔ لیکن آپ اس سوشل اور تاریخی سچ کو مصیبت میں آئے بغیر نہیں دکھا سکتے۔ اس لیے کہ برطانیہ کے ساتھ ہمارے کامن ویلتھ تعلقات ہیں ،جو موجودہ بین الاقوامی حالات کو دیکھتے ہوئے، ہم کسی طرح نہیں بگاڑ سکتے۔ ہم حقیقت کی آنکھوں میں نہیں گھور سکتے۔

سوشل فلم بناتے وقت ہم ہر ہر قدم پر ایسے بیسیوں خطروں سے دو چار ہوتے ہیں۔ آپ قومی ایکتا پر فلم بنا رہے ہوں ، تو آپ میں ہمت نہیں ہو گی کہ رانچی،بھیونڈی اور مالیگاؤں کے واقعات کو ان کی صحیح صورت میں پیش کر سکیں۔ کیونکہ ان میں ایک مذہب یا قوم کے لوگوں نے دوسرے پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے۔ آ پ ہندو مسلم فساد دکھاتے ہیں ، تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ جہاں دو ہندو مرے ہوں وہاں دو مسلم مار کے دکھائیں۔ اس پر بھی نہ ہندوؤں کی تسلی ہو گی نہ مسلمانوں کی۔ دونوں آپ سے نا خوش ، دونوں ناراض اور اس پر آپ کو سینسر سرٹیفکٹ لینے میں تکلیف ہو گی۔ تو آپ یہ طلبہ کے موجودہ ایجی ٹیشن کو بھی نہیں ٹٹول سکتے۔ ان کے دنگوں اور مخالفت تک پہنچے کی کوشش نہیں کرسکتے۔ یونیورسٹی کیمپس میں جو آج ہو رہا ہے ، آخر ہے کیا ؟ کیا صرف یہ بات ہے کہ آج کل نوجوانوں کا دماغ پھر گیا ہے ؟ وہ اپنا اصل مقصد چھوڑ کر سنیاسی ہو تے جا رہے ہیں ، یا وہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے ہتھکنڈوں کا شکار ہیں ؟ آخر اس مار دھاڑ کی وجہ کیا ہے ؟ یہ بھی تو گاندھی جی کو مانتے ہیں۔ پھر کیوں یہ لوگ ایکا ایکی اُمڑ کر مار کاٹ کر نے لگتے ہیں۔ ان باتوں کی تہہ میں جانا اور ان کے بارے میں فلم بنانا مشکل ہی نہیں ،نا ممکن ہے۔ ایسا کریں گے تو کئی ہزاروں کے پانو پر آپ کے پانو پڑیں گے اور وہ سب ہیں بڑی پہنچ والے۔ اس لیے آپ صرف گول گول دال والی بات کیجیے۔ پانچ چھ گانے ڈال دیجیے۔ دو چار ناچ۔ ماں باپ ، بیٹے بیٹیوں کو بچپن ہی سے بچھڑوا دیجیے تا کہ بڑا بھائی جوان ہو کر پولس انسپکٹر ہو جائے۔ انجانے ہی میں اپنے چھوٹے بھائی کو ملزم کے طور پر عدالت میں پیش کرے اور یہ بعد میں پتا چلے کہ جج ان دونوں کا باپ تھا اور ماں جو بیٹے کے خلاف گواہی دے رہی ہے ، اس کی بیوی تھی۔ پھر تو باپ کے لیے مشکل ہو جائے ، ماں کے لیے مصیبت۔ نوجوانوں کے بارے میں فلم بنائیے تو صرف یہیں تک پہنچیے کہ بڑوں کا عشق، عشق تھا اور چھوٹوں کی محبت بدنامی اور بدکاری۔ اسے ’اُچت‘ مت لکھیے کہ     شری مدبھاگوت سے لے کر ان تک استری اور پرشوں کے بیچ کیا کیا گردانیں ہوئیں۔ صرف اتنا ہی کافی ہے کہ چند مصیبتوں میں پڑے ، بڑوں کے پاس کوئی وقت نہیں۔ وہ انھیں سیاسی اور رہنما نہیں سمجھتے اور اگر سمجھتے ہیں تو اپنے ہی الٹے معنی پہناتے ہیں۔

اب آپ اس بدنام لفظ ’سیکس ‘ پر آ جائیے۔ ہمارا سماج یہ تو سہن کر سکتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی ناچتے ہوئے پیڑ کے گرد یا موٹر میں بیسیوں چھچھوری اور اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کریں۔ لیکن باغ میں جو پیار کرنے والے کا اپنی محبوبہ کو پہلا اُپہار ہے ، وہ اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم اپنی فلموں میں دو، تین ،چار ریلیں صرف یہ ثابت کرنے کے لیے لیتے ہیں کہ راجو کو رادھا سے محبت تھی۔ لیکن نفسیاتی بات جو چند سیکنڈ میں ثابت ہو سکتی ہے ، پورا معاشرہ اس کے خلاف ہے ، ہمارا سماج اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ کھجورا ہو ،کونارک کے وارث یہ بات کہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں — اصل مقصد تو یہ تھا کہ اس عمل کو ڈھکے چھپے ڈھنگ سے پیش کیا جائے اور فلم کسی حد تک آرٹ بھی ہے ، کمر شیل اور پیشہ وروں کے ہاتھوں سے نکلتی جائے۔ لیکن عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ چند مناظر کو فلمانے کی اجازت اچھے اور بڑے فلم سازوں کو یکساں نہیں ہے۔ یوں سنسر نے اپنے لیے گنجایش رکھی ہے کہ ہر فلم اور اس میں ہو نے والے واقعات کو بنانے والے کی نیت اور واقعے کی نوعیت میں دیکھا جائے گا۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ ایک لمحے کے لیے مان بھی لیا جائے کے سنسر کے چودھری بڑے دل والے ہیں ، مگر ان کا کیا کیجیے گا جو پبلک کی سطح پر تصویر کو پاس کر نے کے سلسلے میں پہلے دیکھتے ہیں اور جن کا ادبی ذوق قابلِ غور ہے اور بار بار اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں — ’’ میں فلم نہیں لکھتا ، نہ دیکھتا ہوں۔‘‘

مثال کے طور پر میں ایک فلم بناتا ہوں جس کا بنیادی خیال ہے کہ بالغ ہوتے ہوئے بچے کو جنسی تعلیم دینی چاہیے اور اسے ان تمام خطروں سے آگاہ کرنا چاہیے جو پیدا ہو سکتے ہیں۔ اب صاف بات ہے کہ اگر میں لڑکے اور لڑکی کے سلسلے میں کوئی لغزش نہیں دکھاؤں گا تو ڈراما پیدا نہیں ہو گا اور دکھاؤں گا تو اس کا حل مجھے وہی پیش کرنا ہو گا، جو مقبول ہے اور وہ نہیں جو نفسیاتی ہے۔

حال ہی کی بات ہے ، میں ایک فلم بنا رہا تھا ، جو نفسیاتی تھی۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک عورت کا شوہر کسی اور لڑکی کی وجہ سے گھر چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد اس عورت کے ایک بچی پیدا ہوتی ہے۔ جوان ہو کر وہ شادی کرتی ہے، پر ماں بیٹی کے ساتھ یوں چپک جاتی ہے کہ داماد کے لیے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی اور داماد کو ایک دوسرے کے بازوؤں میں دیکھ لیتی ہے ، اور ایک لمحے کے لیے اپنے آپ کو اپنی بیٹی کی جگہ پروجیکٹ کر دیتی ہے۔

انسان اپنے دماغ میں کئی بار ایسی ایسی باتیں سوچ لیتا ہے جو ساماجک اور اخلاقی نظریے سے قبول نہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ سمجھ لیتا ہے، چاہے اس کے بعد وہ اپنے آپ کو بہت بڑا پاپی اور گناہگار سمجھے۔ اس لیے ایسا ہی ہوتا ہے ،ساس ایک لمحے کے لیے رک تو جاتی ہے ، پر فوراً ہی چونک کر پیچھے ہٹ جاتی ہے اور احساس گناہ سے اُوت پروت مندر میں جا کر بھجن گانے لگتی ہے — ’مورے تو گر دھر گوپال دوجا نہیں کوئے۔‘

اس سین کو فلمایا تھا کہ میری ہیروئن نے اس پر اعتراض کیا ‘’’ یہ کیسا ہو سکتا ہے ؟‘‘ میں نے کہا ’’ ہوتا ہے میڈم۔ اور پھر جب یہ دکھلاتا ہوں کہ وہ ایک گنہگار ہونے کے جذبے سے شرمندہ ہو کر سیٹ سے چلی جاتی ہے ،تو پھر آپ کو کیا اعتراض ہے ؟‘‘ میڈم نے وہ سین کر تو دیا ،پر سوچتی رہی کہ اس پر پبلک سے جوتے پڑیں گے۔ میں نے اس پر بھی کہا کہ جوتے جو پڑیں گے ، آپ مجھے بھیج دیجیے ،میرے اپنے جوتے پرانے ہو گئے ، بلکہ پھٹ چکے ہیں۔

سو شیل فلم بنانے والے کی حیثیت اس عورت کی طرح ہے جو غرارہ پہنے ہوئے کسی پارٹی میں گئی اور جب لوٹی تو برسات ہو چکی تھی اور گھر کے سامنے پانی ہی پانی تھا۔ اس کے مرد نے سروالٹر ریلے کی طرح راستے میں اینٹیں اور سلیں رکھ دیں اور وہ غرارے کو سنبھالتی ہوئی چلی۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ ایک اینٹ ٹیڑھی رکھی ہوئی ہے۔ وہ دھپ سے پانی میں گری — غرارے سمیت! ساودھانی اُسے لے ڈوبی۔

نا با با۔ سماجک فلم بنانے میں بڑی جوکھم ہے۔ چاروں طرف سے آپ ننگے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بدن پر کھال نہیں اور نمک کی کان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

فلمیں ساماجک اور دوسری کن حالات میں بنتی ہیں ، اس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ نام کی ہمیں پوری آزادی ہے۔مگر اس کے بعد جو مراحل پیش آتے ہیں ، اس عالم میں مجاز کا شعر یاد آ جاتا ہے :

حدیں وہ کھینچ رکھّی ہیں حرم کے پاسبانوں نے

کہ بِن مجرم بنے پیغام بھی پہنچا نہیں سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

اظہار خیال

 

 

کیا آپ’’ کُن فَیَکُون‘‘ پر یقین رکھتے ہیں ؟ آپ مسلمان اور دیندار ہونے کے ناطے رکھتے ہوں گے ، لیکن میں ’’ اظہار ‘‘ کے اجرا کے سلسلے میں رکھتا ہوں۔ اگر آپ کافر ہیں تو     فضیل جعفری کا اداریہ پڑھنے کے بعد مسلمان ہو جائیں گے ، لیکن بیعت باقر مہدی کے ہاتھوں پر کریں گے۔ آخر اللہ نے بھی تو ارادہ کیا ، نیت ہی باندھی — اور عالم پیدا ہو گیا۔ اسی طرح باقر مہدی ، فضیل جعفری ، عزیز قیسی ، عالی جعفری ، محمود چھاپرا ، اور دوسرے دوست۔ چاہے جامعہ کے شاہد علی خاں ہی کے یہاں اکھٹے ہوئے ، باہر ہی فٹ پاتھ پر بیٹھے، مگر نیت باندھی اور اظہار کا اجرا ہو گیا۔ اگر جو گندر پال کے افسانے ’’ٹوٹی پھوٹی کہانی ‘‘ کے اس فقرے پر غور کیا جائے — ’’ کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں ، جو چلے جاتے ہیں ، وہ مرجاتے ہیں ؟‘‘— تو آپ کو اس بات کا بھی یقین ہو جائے گا کہ تصدیق سہادری بھی اس وقت ہمارے درمیان ہیں اور ’’ اظہار‘‘ کا یہ پہلا شمارہ ہاتھ میں لیے خوش ہیں ، اور شاید — میری ہی کہانی پڑھ رہے ہیں !

جب آپ مادّہ (Mass)پیدا کرتے ہیں تو روح اپنے آپ اس کا احاطہ کر لیتی ہے۔ ایسے میں صوفی اور مارکسسٹ کا جھگڑا فضول سی بحث ہو کر رہ جاتا ہے۔ جیسا کہ ’ادب برائے ادب‘ ’ادب برائے زندگی‘ وغیرہ۔ اور ہم سوچتے ہیں کہ بیکار ہی ہم آسکروائیلڈ کو گالی دیتے رہے، جس نے کہا تھا کہ — ’’ بڑا ادب زندگی اور قدرت کی طرف لوٹنے اور اسے نصب العینی مرتبہ دینے کی کوشش سے پیدا ہوتا ہے۔ ادب جب اپنے تخیّلی حصّے سے کٹ جاتا ہے تو اپنا سب کچھ کھو بیٹھتا ہے…‘‘ اور اس بات پر ہمیں اور بھی صدمہ ہوا تھا ، جب اِنھوں نے کہا تھا کہ’’فن کا مقصد ہے — جھوٹ بولنا … اُن بے بنیاد مگر خوبصورت باتوں کا ذکر کرنا جو … ‘‘وغیرہ۔ حالانکہ آج ہم اِس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ پیداوار ، اس کے ذرائع اور تقسیم ہی کے سلسلے انسانی رشتوں پر حاوی نہیں ہیں۔ جب ان کا حاوی ہونا اشترا کی ملکوں میں عادتاً دکھایا جاتا ہے، تو وہ ہمیں فن سے اتنا ہی گرا ہوا معلوم ہوتا ہے ، جتنی اخلاق سے گری ہوئی کوئی حرکت — عجیب بات ہے نا کہ ایک لڑکی، لڑکے سے صرف اس لیے محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی نوع کا بیستوں کاٹ کر اُس میں سے فاسفیٹ لے آیا ، اپنی کھیتی میں ڈالا ، جس کے نتیجے کے طور پر اس میں معمول سے دس گنا اناج پیدا ہو گیا اور لڑکی کی عقل اس میں دفن ہو گئی۔ ہم اس قسم کی اُول جلول باتیں کریں تو پھر بھی کوئی قبول کر لے — لیکن اس اشترا کی نظام سے [کو؟ ] جو عقلِ محض اور سائنس کو خدا سے برتر سمجھتی ہے، لیکن سائنس کی ایک شاخ کیمسٹری کو بھول جاتی ہے ، جو بد قسمتی سے ہر لڑکی کے بدن میں ہوتی ہے اور کسی قانون کو مانتی ہی نہیں۔ اگر اساطیری لہجے کی جگہ ، مشین 557کی کھڑکھڑ نے لے لی، تو پھر فرق ہی کیا رہا ؟ آسمان سے گر گرا کر کھجور ہی میں اٹکنا ہے، تو پھر اُڑیں ہی کیوں !

’’ اظہار ‘‘ اپنے معنوی اعتبار سے اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہم جو کہیں گے کھل کر کہیں گے ، سامنے آکر کہیں گے۔ حدِّ ادب کا وعدہ ہے بھی اور نہیں بھی۔ کیونکہ کچھ کام ایسے ہیں جو صرف گالی ہی سے نکلتے ہیں۔’’ آپ کی والدۂ ماجدہ کی شان میں گستاخانہ بات کہہ دوں گا۔‘‘ اس ضمن میں ایسا کلمہ ہے جو تہذیب کو غیر مہذّب بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ اظہار ‘‘ کی سب سے مکمّل کہانی ہے :’’ ٹوٹی پھوٹی کہانی ‘‘۔ زندہ کہانی : ’’ کٹا ہوا سر ‘‘ اور خاموش کہانی :     ’’ بولو ‘‘— قاضی سلیم ’’ فرار ‘‘سے [’’فرار…‘‘ میں ] میں نبرد آزما ہوتے ہیں زندگی سے، اور   باقر مہدی کی ’’ بزدلی ‘‘ اُس کا مریڈ کو برہنہ کرتی ہے جو زندگی بھر خوف سے جہد کرتا ہوا آخرش تصّوف کے پردے میں چھپ گیا ہے۔ جب کہ ہِراس اب گلی گلی چھایا ہے !

’’اظہار ‘‘ کا اجرا اس لیے بھی مبارک ہے کہ ابھی تک مکمّل زندگی سے ہمارا واسطہ نہیں۔ اگر ہم اگاتھا کرسٹی ، رابنزوغیرہ کو نہیں بھی پڑھتے تو مِشی ما، کاواباٹا اور ہنرنیخ بوئیل کو پڑھتے ہیں۔اس لیے نہیں کہ ان میں سے دو موخرالذّکر ہستیوں کو نوبل پرائز ملا تھا، بلکہ لا معنویت ، تر سیلی مشکلات اور بیگانگی ، تنہائی اور وجودیت کی تلاش میں ، جس کی تھاہ اس ملک کے رِشی منی صدیوں پہلے پا چکے ہیں ، ان کے حصّے بخر ے کر کے ، چیتھڑے اُڑا چکے ہیں ان کے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب بارہ کوس میں ایک دیا جلتا تھا ، اب ایک کوس میں بارہ ہزار جلتے ہیں۔ ہم ہر وقت ہر گاہ اپنے کی بجائے کسی دوسرے کا تجربہ لکھنے پہ کیوں آمادہ رہیں ؟ سار تر ہی کیوں ہمیں راستہ دکھائے ، زندگی سمجھائے ؟ میں انسان کے ان پڑھ ہونے کا جواز پیش نہیں کر رہا ، لیکن اُس وشوودیالیہ ، اس یونیورسٹی کی طرف اشارہ کرتا ہوں جس کا کوئی وائس چانسلر نہیں ، کوئی گھراؤ نہیں۔ جہاں سے پڑھنے کے بعد کوئی ڈگری دار بیکار نہیں۔ ہم ہمیشہ ہمیشہ کسی کتاب ہی کا سہارا کیوں لیں ، جب کہ زندگی ورق ورق ہمارے سامنے کھلی ہے؟ نہیں صاحب ،ہمارا اور چند لوگوں کا کوئی میل نہیں — بالکل ہی نہیں کیونکہ وہ عقلی یا جذباتی طور پر نقّال ہیں ،سرقہ کرتے ہیں۔تلسی داس کہتے ہیں :

تیرا میرا منوا کیسے اِک ہوئی رے؟

تو کہتا ہے کا گت کی لیکھی ،

میں کہتا ہوں — آنکھن دیکھی

تیرا میرا منوا کیسے اِک ہوئی رے؟!

نا صاحب — ہم اپنے قلم سے اپنی بات لکھیں گے، ہم ہندوستانی — جب تک ہم اپنے گرم خانوں میں یہاں کی خس نہیں لگاتے ،نہ ٹھنڈک آئے گی اور نہ خوشبو!

یہ سرقہ یا نقّالی ایسے ہی ہے ، جیسے میں نے اپنا ناول ’’ایک چادر میلی سی‘‘اردو میں لکھا لیکن خوش قسمتی یا بد قسمتی سے اس کا پنجابی ترجمہ پہلے شائع ہو گیا اور لاہور کے ایک رسالے نے پنجابی سے اس کا ارد و ترجمہ کر کے چھاپ ڈالا۔ میں نے پڑھا تو یوں لگا جیسے اس کے لکھنے والے کوئی بیدی حَسَن ہیں اور سُر میں بھی نہیں !…

’’اظہار ‘‘میں ایک بات چیخ کی صورت اختیار کر گئی ہے — — چیخ اس لیے کہ جب کسی کو بات کرنے سے منع کیا جاتا ہے، اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں تو وہ آدمی نہ صرف جھٹکے سے ہاتھ ہٹا دیتا ہے ، بلکہ جو آواز اس کے منھ سے نکلتی ہے وہ معمول سے سو گنا زیادہ پچِ کی ہوتی ہے۔

نہ صرف ہماری نظمیں ، ہمارے افسانے ، ہمارے ناول ، بلکہ ہماری تنقید بھی چربا ہوتی جا رہی ہے۔ بالاستثنیٰ چند نقّادوں کے۔ مثلاً وارث علوی ، باقر مہدی ، اور دوسروں کے۔ ہماری تنقید بھلمنسیت کا کفن اوڑھے ہوئے ہے — اور اس بات کو بھول گئی ہے کہ جب تک آپ نوا کو تلخ تر نہیں کریں گے ، بہتری کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔ اگر آپ زندگی سے واقف ہیں تو آپ کو پتا ہو گا کہ اکثر غنڈے ، بدمعاش آدمی ہی کی اولاد شریف ہوتی ہے اور شریف ماں باپ کی اولاد چاروں عیب شرعی۔ یہ رازِ درونِ زندگی کون سمجھائے ،کیسے سمجھائے؟ پرانی تنقید کا عالم مجھے یاد ہے کہ سجاد حیدر یلدرم کی تحریریں پڑھنے کے بعد میں نے کہیں بھولے سے ’’ ادبی دنیا ‘‘ کے اڈیٹر صلاح الدین صاحب سے کہہ دیا : مولیٰنا ! آپ یلدرم صاحب اور پریم چند کا نام ایک ہی سانس میں کیوں لیتے ہیں۔ کیونکہ ایک تر کی افسانوں کے چربے اتارتے ہیں اور دوسرے طبع زاد چیزیں پیش کرتے ہیں ؟ بس صاحب کفر و الحاد ہو گیا ، میری سانس کھینچی تنقید کے جواب میں مولیٰنا ’’ ادبی دنیا‘‘ کے اگلے شمارے میں لکھتے ہیں — ’’چند ایسے نوجوان پیدا ہو گئے ہیں جو اپنی ننھّی منّی داڑھی ہلا کر سجاد حیدر یلدرم کے بارے میں کہتے ہیں ‘‘ وغیرہ ! اور یقین جانیے کہ میں آج تک اس تنقید کا تعلق اپنی داڑھی سے پیدا ہی نہیں کر سکا۔ ایسے ہی شریف النّسل نقاد ’’ کلیانی ‘‘ پر تبصرہ کرنے سے گھبراتے ہیں ، جب کہ انگلینڈ کا سب سے بڑا محقّق ’’ اوہ کلکتہ ‘‘ کے سے فحش ڈرامے کو سماجی اہمیت کی سند دیتا ہے۔ ان نقّادوں سے مجھے یہ شکایت نہیں ہے کہ وہ جیسی تیسی بھی تنقید کیوں کرتے ہیں ، بلکہ یہ کہ بہتوں کو ان کی تحسینِ ناشناسی نے مارا ہے۔ وہ ادیب سمجھتے رہے کہ وہ انھیں اپنے گروہ ، اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں ، لیکن بعد میں انھیں پتا چلا کہ بے چارے خود استعمال ہو گئے اور اب چائے کی استعمال شدہ پتّی کی طرح نالی میں پھینک دیے گئے ہیں۔

حال ہی میں لاہور کے ’’نقوش ‘‘ کے اڈیٹر محمد طفیل نے میرے پاس اپنا تازہ پرچہ بھیجا۔ چونکہ پاکستان کے ساتھ خط و کتابت عرصے سے بند تھی ، اس لیے وہ میرے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھا۔ میں ایک سِلوَر فِش کی طرح اسے شروع سے آخر تک چٹ کر گیا۔ اس میں بنگلہ دیش بننے سے پہلے کے مسعود مفتی کے خط طفیل صاحب کے نام اور طفیل کے مسعود مفتی کے نام پڑھے۔ ظاہر ہے اس وقت پوری دنیا میں قوم پرستی (CHAUVINISM)کا دور دورہ ہے اس لیے ان سب میں پاکستانیوں پر کیے گئے مظالم کا ذکر تھا ، لیکن ان دانشوروں کا نہیں جنھیں یونیورسٹیوں سے چن چن کر باہر نکالا اور گولی کا نشانہ بنا یا گیا۔ ساتھ مسعود مفتی کا افسانہ ’’ تشنگی ‘‘ بھی تھا اس میں ، جو ایک نہایت معر کے کا افسانہ ہے۔ لیکن صاحب پورے پرچے میں عجیب سینہ کوبی کا عالم تھا۔ چنانچہ میں نے انھیں لکھا — میں نے آپ کے سب خطوط پڑھے ہیں ، طفیل صاحب — اور وہ بھی پڑھ لیے جو آپ نے نہیں لکھے — مسعود مفتی کا ’’ تشنگی ‘‘ عصمت چغتائی کا تجریدی افسانہ ’’ گلدان ‘‘ بہت عمدہ ہیں ‘‘۔

طفیل صاحب میری بات نہیں سمجھے۔ شاید آپ بھی نہ سمجھیں۔ لیکن میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے قریب آنے کی بجائے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر سر حد کے پار ایک پین اسلامی کوشش ہے تو اِدھر ہندی کی یورِش۔ حال ہی میں دھر م ویر بھارتی اڈیٹر ’’ دھرم یگ ‘‘ نے ویکلی میں ہندی ساہتیہ پر ایک مضمون لکھا جس میں اردو کو ہندی کی ایک شیلی(صنف) قرار دیا۔ اوّل تو میں اس بات کو نہیں مانتا کہ اردو ہندی کی شیلی ہے کیونکہ اس کی تاریخ موجود ہے۔ ہندی کی تاریخ سے کہیں پرانی برج بھاشا ،اودھی ، مگدھی تحریریں تھیں جو گوشوں کونوں میں پل رہی تھیں اور آج سے کہیں ڈیڑھ سو سال پہلے آریاسماج کی معرفت ہندی بھاشا کی موجودہ شکل لے کر سامنے آئیں۔ تا ہم اگر اسے ہندی کی شیلی مان بھی لیں تو پھر یہ کیا بے ایمانی اور ریا کاری ہے کہ دھرم ویر بھارتی ہندی کی اس شیلی کے ایک بھی مظہر کا نام نہیں لیتے۔ ناگپور میں ہندی کانفرنس ہوتی ہے۔ جرمنی اور ملیشیا سے ہندی اسکالر منگوائے جاتے ہیں ، لیکن اس ملک سے اس شیلی کا ایک بھی نہیں۔ دکھاوے کے لیے اردو کے ایک ادیب کو انعام سے نواز دیا جاتا ہے۔ حالانکہ بے چارے کا قصور صرف اتنا ہے کہ اس نے ’’ دیوانِ غالب ‘‘ ایک طرف فارسی رسم الخط اور دوسری طرف دیونا گری میں چھاپا !   ع

بے خیالت مباد منظرِ چشم

زانکہ این گوشہ جایِ خلوتِ اوست

حال میں اُڑتی اُڑتی سنی ہے کہ وہ اردو کے ادیبوں کی تحریریں نہیں چھاپیں گے کیونکہ وہ انھیں گالی دیتے ہیں ، حالانکہ اردو کی حالت اُس بھیڑ کی سی ہے جو کہ بھیڑیے کی طرف سے آنے والے پانی کو پی رہی ہے !

دوسرے ’’ اظہار ‘‘ ہی کے ذریعے سے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ’ دروغ گو را حافظہ نہ باشد ‘ کے انداز میں باتیں مت کیجیے۔ آپ کا ہر ادیب ایشیا کا سب سے بڑا ادیب ہوتا ہے۔ فلاں شاعر — ایشیا کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ فلاں افسانہ نگار ایشیا کا سب سے بڑا افسانہ نگار — ارے آپ نے اپنے گھر سے نکل کر تر چنا پلّی نہیں دیکھی۔ آپ کس ایشیا کی بات کر رہے ہیں۔ اس سے مجھے عالمی مقابلۂ حُسن کی یاد آتی ہے ، جس میں ہر دیس ، ہر ملک سے لڑکیاں کیا کیا منزلیں پار کر کے آتی ہیں۔ اپنے ضروری اعضا (معاف کیجیے VITAL STATISTICSکا مجھے ترجمہ نہیں ملا ) برہنگی کے عالم میں منصفوں کو دکھاتی ہیں ، انعام پاتی ہیں ، لیکن کوئی نہیں جانتا کہ دنیا کی حسین ترین عورت شاید بنکوک کے پاس ایک گانوسے فے میں بیٹھی کپڑے دھو رہی ہے۔

یہ پرائز اور نوبل پرائز — جیتندر کمار کو مل سکتا ہے ( اگر چہ کوشش کے باوجود نہیں ملا ) دھرم ویر بھارتی کو مل سکتا ہے ( بشرطیکہ آسمان کے آٹھویں گھوڑے پر سوار ہوں ) آر۔کے۔ نرائن کو مل سکتا ہے ( اگر وہ مال گاڑی [مال گُڈی ؟] سے باہر نہ نکلیں تو )اس لیے نہیں کہ وہ اس کے حقدار ہیں بلکہ اس لیے کہ — ’’ کمال ہے ، رابندر ناتھ ٹیگور کے بعد اب تک کسی ہندوستانی کو نہیں ملا ! حالانکہ روس اور امریکا کے بیچ کتنی خوبصورت TIGHT ROPE WALKINGکر رہے ہیں !‘‘

’’اظہار ‘‘ کے نکالنے والے آزاد ہیں۔ اس قدر آزاد کہ ان کے پاس ایک پائی بھی نہیں۔ پورا پرچہ بک جانے پر گھاٹے میں رہیں گے۔ پھر انھیں کس بات کی فکر ؟ ایک ہاتھ آگے ایک پیچھے۔ یہ دیو جانس کلبی ہیں۔ جس نے سکندر سے کہا تھا — ’’ ذرا دھوپ چھوڑ دو — ‘‘ان کے پاس کچھ نہیں ہے مگر ہمّت ہے۔ پیسا ہمّت سے پیدا ہوتا ہے ، پیسے سے بل بہت پیدا ہوتا ہے لیکن آخر ہمدرد دوا خانے اور ڈاکٹر کے حمید کے پاس پہنچ جاتی ہے — صرف ہمّت کے بل بوتے پر یہ لوگ اتنا حسین اظہار کیسے کر گئے ، یہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس بات کا اس لطیفے سے کوئی تعلق نہیں ، جس میں کچھ روسی ہندوستان میں آ بھر خوف سے جہد کرتا ہوا ا کر خدا کو مان گئے — اس لیے کہ یہ ملک کیسے چل رہا ہے ؟!

٭٭٭

ماخذ:

http://baazgasht.com/category/reading/sketches-urdu/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید