فہرست مضامین
- ترجمہ قرآن
- ۱۷۔ سورۃ اسراء /بنی اسرائیل
- ۱۸۔ سورۃ الکھف
- ۱۹۔ سورۃ مریم
- ۲۰۔ سورۃ طٰہ
- ۲۱۔ سورۃ الانبیاء
- ۲۲۔ سورۃ الحج
- ۲۳۔ سورۃ مُومنون
- ۲۴۔ سورۃ نور
- ۲۵۔ سورۃ فرقان
- ۲۶۔ سورۃ شعراء
- ۲۷۔ سورۃ نمل
- ۲۸۔ سورۃ قصص
- ۲۹۔ سورۃ عنکبوت
- ۳۰۔ سورۃ روم
- ۳۱۔ سورۃ لقمان
- ۳۲۔ سورۃ سجدہ
- ۳۳۔ سورۃ احزاب
- ۳۴۔ سورۃ سبا
- ۳۵۔ سورۃ فاطر
- ۳۶۔ سورۃ یسٰں
- ۳۷۔ سورۃ صٰفّٰت
- ۳۸۔ سورۃ ص
- ۳۹۔ سورۃ زُمر
- ۴۰۔ سورۃ مؤمن
- ۴۱۔ سورۃ حٰمٓ السجدۃ
- ۴۲۔ سورۃ شوریٰ
- ۴۳۔ سورۃ زخرف
- ۴۴۔سورۃ دخان
- ۴۵۔ سورۃ جاثیہ
- ۴۶۔ سورۃ احقاف
- ۴۷۔ سورۃ محمد
- ۴۸۔ سورۃ فتح
- ۴۹۔ سورۃ الحجٰرات
- ۵۰۔ سورۃ ق
- ۵۱۔ سورۃ الذٰریٰت
- ۵۲۔ سورۃ الطور
- ۵۳۔سورۃ النجم
- ۵۴۔ سورۃ القمر
- ۵۵۔ سورۃ الرَّحمٰن
- ۵۶۔ سورۃ الواقعۃ
- ۵۷۔ سورۃ الحدید
- ۵۸۔ سورۃ المجادلۃ
- ۵۹۔ سورۃ الحشر
- ۶۰۔ سورۃ الممتحنۃ
- ۶۱۔ سورۃ الصَّفّ
- ۶۲۔ سورۃ الجمعۃ
- ۶۳۔ سورۃ المنٰفقون
- ۶۴۔ سورۃ التغابن
- ۶۵۔ سورۃ الطلاق
- ۶۶۔ سورۃ التحریم
- ۶۷۔ سورۃ الملک
- ۶۸۔ سورۃ قلم
- ۶۹۔ سورۃ الحاقۃ
- ۷۰۔ سورۃ معارج
- ۷۱۔ سورۃ نوح
- ۷۲۔ سورۃ الجنّ
- ۷۳۔ سورۃ مزمل
- ۷۴۔ سورۃ المدثر
- ۷۵۔ سورۃ القیامۃ
- ۷۶۔ سورۃ الدھر
- ۷۷۔ سورۃ المرسلٰت
- ۷۸۔ سورۃ نباء
- ۷۹۔ سورۃ نٰزِعٰت
- ۸۰۔ سورۃ عَبَس
- ۸۱۔ سورۃ تکویر
- ۸۲۔ سورۃ انفطار
- ۸۳۔ سورۃ مُطفِّفیِن
- ۸۴۔ سورۃ اِنشِقاق
- ۸۵۔ سورۃ بروج
- ۸۶۔ سورۃ الطارق
- ۸۷۔ سورۃ اعلیٰ
- ۸۸۔ سورۃ غاشیہ
- ۸۹۔ سورۃ فجر
- ۹۰۔ سورۃ بلد
- ۹۱۔ سورۃ شمس
- ۹۲۔ سورۃ لیل
- ۹۳۔ سورۃ ضحیٰ
- ۹۴۔ سورۃ الم نشرح
- ۹۵۔ سورۃ التین
- ۹۶۔ سورۃ علق
- ۹۷۔ سورۃ قدر
- ۹۸۔ سورۃ بیّنۃ
- ۹۹۔ سورۃ زلزال
- ۱۰۰۔ سورۃ عادیات
- ۱۰۱۔ سورۃ قارعہ
- ۱۰۲۔ سورۃ تکاثر
- ۱۰۳۔ سورۃ العصر
- ۱۰۴۔ سورۃ ہمزہ
- ۱۰۵۔ سورۃ فیل
- ۱۰۶۔ سورۃ قریش
- ۱۰۷۔ سورۃ ماعون
- ۱۰۸۔ سورۃ کوثر
- ۱۰۹۔ سورۃ کافرون
- ۱۱۰۔ سورۃ النصر
- ۱۱۱۔ سورۃ لہب
- ۱۱۲۔ سورۃ اخلاص
- ۱۱۳۔ سورۃ فلق
- ۱۱۴۔ سورۃ الناس
ترجمہ قرآن
حصہ دوم اسراء تا الناس
فرمان علی
۱۷۔ سورۃ اسراء /بنی اسرائیل
۱وہ خدا (ہر عیب سے ) پاک و پاکیزہ ہے جس نے اپنے بندہ کو راتوں رات مسجد حرام(خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (آسمانی مسجد) تک کی سیر کرائی جس کے چو گرد ہم نے ہر قسم کی برکت مہیّا کر رکھی ہے تاکہ اس کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں اس میں شک نہیں کہ (وہ سب کچھ) سنتا (اور) دیکھتا ہے
۲ اور ہم نے موسیٰؑ کو کتاب (توریت) عطا کی اور اس کو بنی اسرائیل کی رہنما قرار دیا۔
۳(اور حکم دیا کہ) اے ان لوگوں کی اولاد جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا بے شک نوحؑ بڑا شکر گزار بندہ تھا۔
۴اور ہم نے بنی اسرائیل سے اسی کتاب (توریت) میں صاف صاف بیان کر دیا تھا کہ تم لوگ رُوئے زمین پر دو مرتبہ فساد پھیلاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے۔
۵پھر جب ان دو فسادوں میں پہلے کا وقت آ پہنچا تو ہم نے تم پر کچھ اپنے بندوں (بخت النصر اور اس کی فوج) کو مسلّط کر دیا جو بڑے سخت لڑنے والے تھے تو وہ لوگ تمہارے گھروں کے اندر گھسے (اور خوب قتل و غارت کیا) اور خدا (کے عذاب) کا وعدہ پورا ہو کر رہا۔
۶ پھر ہم نے تم کو دوبارہ ان پر غلبہ دے کر تمہارے دن پھیرے اور مال سے اور بیٹوں سے تمہاری مدد کی اور تم کو بڑا جتھے والا بنا دیا۔
۷اگر تم اچھے کام کرو گے تو اپنے فائدے کے لیے اچھے کام کرو گے اور اگر تم بُرے کام کرو گے تو (بھی) اپنے ہی لیے۔ پھر جب دوسرے وقت کا وعدہ آ پہنچا تو (تو ہم نے طیطوس رُومی کو تم پر مسلّط کیا) تاکہ وہ لوگ (مارتے مارتے ) تمہارے چہرے بگاڑ دیں (کہ پہچانے نہ جاؤ) اور جس طرح پہلی دفعہ مسجد (بیت المقدس) میں گھس گئے تھے اسی طرح پھر گھس پڑیں۔ جس چیز پر قابو پائیں خوب اچھی طرح برباد کر دیں
۸(اب بھی اگر تم چین سے رہو تو) امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر ترس کھائے اور اگر (کہیں ) وہی (شرارت) کرو گے تو ہم بھی پھر پڑیں گے اور ہم نے تو کافروں کے لیے جہنم کو قید خانہ بنا ہی رکھا ہے۔
۹اس میں شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے اور جو ایماندار اچھے اچھے کام کرتے ہیں ان کو یہ خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر اور ثواب (موجود) ہے۔
۱۰اور یہ بھی کہ بے شک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
۱۱اور آدمی کبھی (عاجز ہو کر اپنے حق میں ) بُرائی (عذاب وغیرہ کی دُعا) اس طرح مانگتا ہے جس طرح اپنے لیے بھلائی کی دُعا کرتا ہے اور آدمی بڑا جلد باز ہے۔
۱۲اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں قرار دیا پھر ہم نے رات کی نشانی (چاند) کو دھندلا بنایا اور دن کی نشانی (سُورج) کو روشن بنا دیا (کہ سب چیزیں دکھائی دیں ) تاکہ تم لوگ اپنے پروردگار کا فضل (معاش) ڈھونڈتے پھرو اور تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب کو جانو (بوجھو) اور ہم نے ہر چیز کو خوب اچھی طرح تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔
۱۳اور ہم نے ہر آدمی کے نامہ اعمال کواس کے گلے کا ہار بنا دیا ہے (کہ اس کی قسمت اس کے ساتھ رہے ) اور قیامت کے دن ہم اسے اس کے سامنے نکال کے رکھ دیں گے کہ وہ اس کو ایک کھلی ہوئی کتاب اپنے روبرو پائے گا
۱۴(اور ہم اس سے کہیں گے ) کہ اپنا نامہ اعمال پڑھ لے اور آج اپنا حساب لینے کے لیے تو آپ ہی کافی ہے
۱۵جو شخص رو براہ ہوتا ہے تو بس اپنے فائدے کے لیے راہ پر آتا ہے اور جو شخص گمراہ ہوتا ہے تو اس نے بھٹک کر اپنا آپ بگاڑا۔ اور کوئی شخص کسی دوسرے (کے گناہ) کا بوجھ اپنے سر نہیں لے گا اور ہم تو جب تک رسولؐ کو بھیج (کر اتمام حجت نہ کر) لیں کسی پر عذاب نہیں کیا کرتے۔
۱۶اور ہم کو جب کسی بستی کا ویران کرنا منظور ہوتا ہے تو ہم وہاں کے خوشحالوں کو (اطاعت کا) حکم دیتے ہیں تو وہ لوگ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں تب وہ بستی عذاب کی مستحق ہو گئی۔ اس وقت ہم نے اسے اچھی طرح تباہ و برباد کر دیا
۱۷اور نوحؑ کے بعد سے (اس وقت تک) ہم نے کتنی امتوں کو ہلاک کر مارا۔ اور (اے رسولؐ)تمہارا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں کو جاننے اور دیکھنے کے لیے کافی ہے (اور گواہ شاہد کی ضرورت نہیں )
۱۸اور جو شخص دنیا کا خواہاں ہو تو ہم جسے چاہتے اور جو چاہتے ہیں اسی دنیا میں سردست اسے عطا کرتے ہیں مگر پھر ہم نے اس کے لیے تو جہنم ٹھہرا ہی رکھا ہے کہ وہ اس میں بُری حالت سے راندا ہوا داخل ہو گا۔
۱۹اور جو شخص آخرت کا متمنی ہو گا اس کے لیے خوب جیسی چاہیے کوشش بھی کی اور وہ ایماندار بھی ہے تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش مقبول ہو گی۔
۲۰(اے رسولؐ) اِن کو اور اُن کو (غرض سب کو) ہم ہی تمہارے پروردگار کی (اپنی) بخشش سے مدد دیتے ہیں۔ اور تمہارے پروردگار کی بخشش تو(عام ہے ) کسی پر بند نہیں۔
۲۱(اے رسولؐ) ذرا دیکھو تو کہ ہم نے بعض لوگوں کو بعض پر کیسی فضیلت دی ہے اور آخرت کے درجے تو یقیناً (یہاں سے ) کہیں بڑھ کے ہیں اور وہاں کی فضیلت بھی تو کہیں بڑھ کے ہے۔
۲۲اور دیکھو کہیں خدا کے ساتھ دوسرے کو (اس کا) شریک نہ بنانا ورنہ تم بُرے حال میں ذلیل و رسوا بیٹھے کے بیٹھے رہ جاؤ گے۔
۲۳اور تمہارے پروردگار نے تو حکم ہی دیا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیکی کرنا اگر ان میں سے ایک یا دونوں تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچیں (اور کسی بات پر خفا ہوں ) تو (خبردار ان کے جواب میں ) اُف تک نہ کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور (جو کچھ کہنا سُننا ہو تو) بہت ادب سے کہا کرو
۲۴اور ان کے سامنے نیاز سے خاکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور (ان کے حق میں ) دُعا کرو کہ اے میرے پالنے جس طرح ان دونوں نے میرے چھٹپنے میں میری پرورش کی اسی طرح تو بھی اُن پر رحم فرما
۲۵اور تمہارے دل کی بات تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے۔ اگر تم (واقعی) نیک ہو گئے (اور بھُولے سے ان کی خطا کی ہے تو وہ تم کو بخش دے گا)کیونکہ وہ تو توبہ کرنے والوں کا بڑا بخشنے والا ہے۔
۲۶اور قرابت داروں اور محتاج اور پردیسی کو ان کا حق دے دو اور (خبردار) فضول خرچی مت کرو
۲۷کیونکہ فضول خرچی کرنے والے یقیناً شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکری کرنے والا ہے۔
۲۸اور تم کو اپنے پروردگار کے فضل و کرم کے انتظار میں جس کی تم کو اُمید ہو (مجبوراً) ان غریبوں سے مُنہ موڑنا پڑے تو نرمی سے ان کو سمجھا دو۔
۲۹اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (بہت تنگ)کر لو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں ) اور نہ بالکل کھول دو کہ (سب کچھ دے ڈالو اور آخر) تم کو ملامت زدہ حسرت ناک بیٹھنا پڑے۔
۳۰اس میں شک نہیں کہ تمہارا پروردگار جس کے لیے چاہتا ہے روزی کو فراخ کر دیتا اور (جس کی روزی چاہتا ہے ) تنگ رکھتا ہے اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے بندوں سے باخبر اور دیکھ بھال رکھنے والا ہے۔
۳۱اور (لوگو) مُفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو (کیونکہ) ان کو اور تم کو (سب کو) تو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ بے شک اولاد کا قتل بڑا سخت گناہ ہے۔
۳۲اور (دیکھو) زنا کے پاس بھی نہ پھٹکنا کیونکہ بے شک وہ بڑی بے حیائی کا کام ہے اور بہت بُرا چلن ہے۔
۳۳اور جس جان کا مارنا خدا نے حرام کر دیا ہے اس کو قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (بفتوائے شرع) اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) قابو دیا ہے تو اسے چاہیے کہ قتل (خون کا بدلہ لینے ) میں زیادتی نہ کرے۔ بے شک وہ مدد دیا جائے گا (کہ قتل ہی کرے اور معاف نہ کرے )
۳۴اور یتیم جب تک جوانی کو پہنچے اس کے مال کے قریب بھی نہ جانا مگر ہاں اس طرح پر کہ (یتیم کے حق میں ) بہتر ہو۔ اور عہد کو پورا کرو کیونکہ (قیامت میں ) عہد کی ضرور پوچھ گچھ ہو گی۔
۳۵اور جب ناپ کر دینا ہو تو پیمانے کو پورا بھر دیا کرو اور (جب تول کر دینا ہو تو) بالکل ٹھیک ترازو سے تولا کرو (معاملہ میں ) یہی (طریقہ) بہتر ہے اور انجام بھی (اس کا) اچھا ہے۔
۳۶اور جس چیز کا کہ تمہیں یقین نہ ہو (خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔ (کیونکہ) کان اور آنکھ اور دل ان سب کی (قیامت کے دن) یقیناً باز پُرس ہونی ہے۔
۳۷اور (دیکھو) زمین پر اکڑ کر نہ چلا کر کیونکہ تو (اپنے اس دھماکے کی چال سے ) نہ تو زمین کو ہرگز پھاڑ ڈالے گا اور نہ (تن کر چلنے سے ) ہرگز لمبائی میں پہاڑوں کے برابر پہنچ سکے گا
۳۸(اے رسولؐ) ان سب باتوں میں سے جو بات بُری ہے وہ تمہارے پروردگار کے نزدیک ناپسند ہے۔
۳۹یہ بات تو حکمت کی ان باتوں میں سے ہے جو تمہارے پروردگار نے تمہارے پاس وحی بھیجی اور خدا کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنانا ورنہ تو ملامت زدہ راندہ ہو کر جہنم میں جھونک دیا جائے گا
۴۰(اے مشرکین مکّہ) کیا تمہارے پروردگار نے تمہیں چُن چُن کر بیٹے دیئے ہیں اور خود بیٹیاں لی ہیں (یعنی فرشتے ) اس میں شک نہیں کہ تم بڑی (سخت) بات کہتے ہو۔
۴۱اور ہم نے تو اسی قرآن میں طرح طرح سے بیان کر دیا تاکہ لوگ کسی طرح سمجھیں مگر اس سے تو ان کی نفرت ہی بڑھتی گئی۔
۴۲(اے رسُولؐ) ان سے تم کہہ دو کہ اگر خدا کے ساتھ جیسا یہ لوگ کہتے ہیں اور معبود بھی ہوتے تو اب تک ان معبودوں نے مالک عرش تک کی رسائی کی کوئی نہ کوئی راہ نکالی ہوتی۔
۴۳جو جو بے ہودہ باتیں یہ لوگ (خدا کی نسبت) کہا کرتے ہیں وہ اُن سے بہت بڑھ کے پاک و پاکیزہ اور برتر ہے۔
۴۴ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں ہیں (سب) اس کی تسبیح کرتے ہیں اور (سارے جہان میں ) کوئی چیزایسی نہیں جو اس کے حمد (و ثنا) کی تسبیح نہ کرتی ہو مگر تم لوگ ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ بڑا بُردبار بخشنے والا ہے۔
۴۵اور جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے ایک گہرا پردہ ڈال دیتے ہیں۔
۴۶اور (گویا) ہم خود اُن کے دلوں پر غلاف چڑھا دیتے ہیں تاکہ وہ قرآن کو نہ سمجھ سکیں اور (گویا ہم) ان کے کانوں میں گرانی (پیدا کر دیتے ہیں کہ نہ سُن سکیں ) جب تم قرآن میں اپنے پروردگار کا تنہا ذکر کرتے ہو تو کفّار الٹے پاؤں نفرت کر کے (تمہارے پاس سے ) بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
۴۷جب یہ لوگ تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جو کچھ غور سے سنتے ہیں ہم تو خوب جانتے ہیں اور جب یہ باہم کان میں بات کرتے ہیں تو اسوقت یہ ظالم (ایمانداروں سے کہتے ہیں کہ تم بس ایک دیوانے کے پیچھے پڑے ہو جس پر کسی نے جادو کر دیا ہے۔
۴۸(اے رسولؐ) ذرا دیکھو تو یہ (کمبخت) تمہاری نسبت کیسی کیسی پھبتیاں کستے ہیں تو (اسی وجہ سے ) ایسے گمراہ ہوئے کہ اب (حق کی) راہ اسی طرح پا ہی نہیں سکتے۔
۴۹اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم مرنے کے بعد (سڑ گل کر) ہڈیاں رہ جائیں گے اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا کر کے اٹھا کھڑے کیے جائیں گے۔
۵۰(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم (مرنے کے بعد) چاہے پتھر بن جاؤ یا لوہا
۵۱یا اور کوئی چیز جو تمہارے خیال میں بڑی سخت ہو (اور اس کا زندہ ہونا دشوار ہو وہ بھی ضرور زندہ ہو گی) تو یہ لوگ عنقریب ہی تم سے پوچھیں گے کہ بھلا ہمیں دوبارہ کون زندہ کرے گا تم کہہ دو کہ وہی خدا جس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا (جب تم کچھ نہ تھے ) اس پر یہ لوگ تمہارے سامنے اپنے سر مٹکائیں گے اور کہیں گے (اچھا اگر ہو گا) تو آخر کب؟ تم کہہ دو کہ بہت جلد عنقریب ہی ہو گا۔
۵۲جس دن تمہیں خدا (اسرافیل کے ذریعے سے ) بلائے گا تو اس کی حمد و ثنا کرتے ہوئے اس کی تعمیل کرو گے (اور قبروں سے نکلو گے ) اور تم خیال کرو گے کہ (مرنے کے بعد قبروں میں ) بہت ہی کم ٹھہرے۔
۵۳اور (اے رسولؐ) میرے (سچّے ) بندوں (مومنوں ) سے کہہ دو کہ وہ (کافروں سے ) بات کریں تو اچھے طریقہ سے (سخت کلامی نہ کریں ) کیونکہ شیطان تو (ایسی ہی) باتوں سے ان میں فساد ڈلواتا ہے۔ اس میں تو شک ہی نہیں کہ شیطان آدمی کا کھلا ہوا دشمن ہے۔
۵۴تمہارا پروردگار تمہارے حال سے خوب واقف ہے اگر چاہے گا تم پر رحم کرے گا اور اگر چاہے گا تم پر عذاب کرے گا۔ اور (اے رسولؐ) ہم نے تم کو کچھ ان لوگوں کا ذمّہ دار بنا کر نہیں بھیجا۔
۵۵اور جو لوگ آسمانوں میں ہیں اور زمین پر ہیں (سب کو) تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے اور ہم نے یقیناً بعض پیغمبروں کو بعض پر فضیلت دی اور ہم ہی نے داؤد کو زبور عطا کی۔
۵۶(اے رسولؐ) تم ان سے کہہ دو کہ خدا کے سوا اور جن لوگوں کو معبود سمجھتے ہو ان کو (وقت پڑے ) پکار تو دیکھو کہ وہ نہ تو تم سے تمہاری تکلیف ہی دفع کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کو بدل سکتے ہیں۔
۵۷یہ لوگ جن کی مشرکین (اپنا خدا سمجھ کر) عبادت کرتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کی قربت کے ذریعے ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ (دیکھیں ) ان میں سے کون زیادہ قربت رکھتا ہے اور اس کی رحمت کی اُمیّد رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اس میں شک نہیں کہ تیرے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے
۵۸اور کوئی بستی نہیں ہے مگر روز قیامت سے پہلے ہم اسے تباہ و برباد کر چھوڑیں گے (یا نافرمانی کی سزا میں ) اس پر سخت سے سخت عذاب کریں گے۔ اور یہ بات کتاب (لوح محفوظ) میں لکھی جا چکی ہے۔
۵۹اور ہمیں معجزات بھیجنے سے بجز اس کے اور کوئی وجہ مانع نہیں ہوئی کہ اگلوں نے انہیں جھٹلا دیا۔ اور ہم نے قوم ثمود کو (معجزہ سے ) اُونٹنی عطا کی (جو ہماری قدرت کی) دکھانے والی تھی تو ان لوگوں نے اس پر ظلم کیا (یہاں تک کہ مار ڈالا) اور ہم تو معجزے صرف ڈرانے کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں۔
۶۰اور (اے رسولؐ) وہ وقت یاد کرو جب تم سے ہم نے کہہ دیا تھا کہ تمہارے پروردگار نے لوگوں کو(ہر طرف سے )روک رکھا ہے (کہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے )اور ہم نے جو خواب تم کو دکھلایا تھا تو بس اسے لوگوں (کے ایمان) کی آزمائش ( کا ذریعہ) ٹھہرایا تھا اور (اسی طرح) وہ درخت جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے اور ہم باوجودیکہ ان لوگوں کو طرح طرح سے ڈراتے ہیں مگر ہمارا ڈرانا ان کی سخت سرکشی کو بڑھاتا ہی گیا۔
۶۱اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس (وہ غرور سے ) کہنے لگا کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔
۶۲اور (شوخی سے )بولا بھلا دیکھو تو سہی یہی وہ شخص ہے جس کو تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اگر تو مجھ کو قیامت تک کی مہلت دے تو میں (دعوے سے یہ کہتا ہوں کہ) قدرے قلیل کے سوا اس کی نسل کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔
۶۳خدا نے فرمایا چل (دُور ہو) ان میں سے جو شخص تیری پیروی کرے گا تو (یاد رہے کہ) تم سب کی سزا جہنّم ہے اور وہ بھی پوری پوری سزا ہے۔
۶۴اور اس میں سے جس پر اپنی (چکنی چپڑی) بات سے قابو پا سکے بہکا اور اپنے (چیلوں کے لشکر) سوار اور پیادے (سب) سے چڑھائی کر اور مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا کرے اور ان سے (خوب جھوٹے ) وعدے کر اور شیطان تو ان سے جو وعدے کرتا ہے دھوکے (کی ٹٹی) کے سوا کچھ ہوتا نہیں۔
۶۵بے شک جو میرے (خاص) بندے ہیں ان پر تیرا زور نہیں (چل سکتا) اور کارسازی میں تیرا پروردگار کافی ہے۔
۶۶(لوگو) تمہارا پروردگار وہ قادر مطلق ہے جو تمہارے لیے سمندر میں جہازوں کو چلاتا ہے تاکہ تم اس کے فضل و کرم (معاش) کی تلاش کرو۔ اس میں شک نہیں کہ وہ تم پر بڑا مہربان ہے۔
۶۷اور جب سمندر میں کبھی تم کو کوئی تکلیف پہنچی تو جن کی تم عبادت کیا کرتے تھے غائب (غلا) ہو گئے مگر بس وہی (ایک خدا یاد رہتا ہے ) اس پربھی جب خدا نے تم کو چھٹکارا دے کر خشکی تک پہنچا دیا پھر تم اس سے مُنہ موڑ بیٹھے اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔
۶۸تو کیا تم کو اس کا بھی اطمینان ہو گیا کہ وہ تمہیں خشکی کی طرف لے جا کر (قارون کی طرح) زمین میں دھُنسا دے یا تم پر (قومِ لُوط کی طرح) پتھروں کا مینہ برسا دے پھر (اس وقت) تم کسی کو اپنا کارساز نہ پاؤ گے۔
۶۹یا تم کو اس کا بھی اطمینان ہو گیا ہے کہ خدا پھر تم کو دوبارہ اسی سمندر میں لے جائے گا اس کے بعد ہوا کا ایک ایسا جھونکا جو (جہاز کے ) پرخچے اڑا دے تم پر بھیجے پھر تمہیں تمہارے کفر کی سزا میں ڈوبا دے پھر تم کسی کو (ایساحمایتی) نہ پاؤ گے جو ہمارا پیچھا کرے (اور تمہیں چھڑائے )
۷۰اور ہم نے یقیناً آدمؑ کی اولاد کو عزّت دی اور خشکی اور تری میں ان کو (جانوروں، کشتیوں کے ذریعے ) لیے لیے پھرے اور انہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں اور اپنے بہتیرے مخلوقات پر ان کو اچھی خاصی فضیلت دی۔
۷۱اس دن (کو یاد کرو) جب ہم تمام لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے تو جس کا نامہ عمل ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ لوگ (خوش خوش) اپنا نامہ عمل پڑھنے لگیں گے اور اُن پر ریشہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
۷۲اور جو شخص اس دنیا میں (جان بوجھ کر) اندھا بنا رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا اور (نجات کے ) رستہ سے بہت دُور بھٹکا ہوا۔
۷۳اور یقیناً یہ لوگ چاہتے تھے کہ تمہیں اس کلام سے ہٹا دیں جو ہم نے تم پر وحی کے ذریعے نازل کیا تھا تاکہ تم اس (قرآنی حکم) کے علاوہ کوئی اور بات نکالو جو حق نہ ہو اور اگر ایسا ہو جاتا تو اس وقت وہ لوگ تمہیں اپنا دوست بنا لیتے
۷۴ا ور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں نے تمہیں ثابت قدم رکھا ہے تو تم ان کی جانب کچھ نہ کچھ مائل ہو جاتے۔
۷۵اس وقت ہم تم کو زندگی اور موت دونوں کے دُہرے عذاب کا مزا چکھاتے پھر تم اپنے لیے ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار بھی نہ پاتے۔
۷۶اور یہ لوگ تو تمہیں (سر) زمین (مکّہ) سے دل برداشتہ کرنے ہی لگے تھے تاکہ تم کو وہاں سے (شام کی طرف) نکال باہر کریں اور ایسا ہوتا تو تمہارے پیچھے میں یہ لوگ چند روز کے سوا ٹھہرنے بھی نہ پاتے۔
۷۷تم سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے ہیں ان کا برابر یہی دستور رہا ہے اور جو دستور ہمارے (ٹھہرائے ہوئے ) ہیں ان میں تم تغیّر و تبدل نہ پاؤ گے۔
۷۸(اے رسولؐ) سُورج کے ڈھلنے سے (ظہر،عصر) رات کے اندھیرے تک نماز ( مغرب، عشا) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی) کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات دونوں کے فرشتوں کی) گواہی ہوتی ہے۔
۷۹اور رات کے خاص حصّہ میں نماز تہجّد پڑھا کرو یہ سُنّت تمہاری (خاص) فضیلت ہے قریب ہے کہ (قیامت کے دن) خدا تم کو مقام محمود تک پہنچائے۔
۸۰اور یہ دُعا مانگا کرو اے میرے پروردگار مجھے (جہاں ) پہنچا اچھی طرح پہنچا اور مجھے (جہان سے ) نکال تو اچھی طرح سے نکال اور مجھے خاص اپنی بارگاہ سے ایک طاقتور مددگار دے دے۔
۸۱اور (اے رسولؐ) کہہ دو کہ (دین) حق آ گیا اور (دین) باطل نیست و نابود ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ باطل مٹنے والا ہی تھا۔
۸۲اور ہم تو قرآن میں وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے (سراسر) شفا اور رحمت ہے (مگر) نافرمانوں کو تو گھاٹے کے سوا کچھ بڑھتا ہی نہیں۔
۸۳اور جب ہم نے آدمی کو نعمت عطا فرمائی تو (اُلٹے ) اس نے (ہم سے ) مُنہ پھیرا اور پہلو تہی کرنے لگا اور جب اُسے کوئی تکلیف چھو بھی گئی تو مایوس ہو بیٹھا۔
۸۴(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ ہر ایک اپنے (اپنے ) طریقہ پر کار گزاری کرتا ہے پھر تم میں سے جو شخص بالکل ٹھیک سیدھی راہ پر ہے تمہارا پروردگار (اس سے ) خوب واقف ہے۔
۸۵اور (اے رسولؐ) تم سے لوگ رُوح کے بارے میں سوال کرتے ہیں تم (ان کے جواب میں ) کہہ دو کہ روح (بھی) میرے پروردگار کے حکم سے (پیدا ہوئی ہے )اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے (اس کی حقیقت نہیں سمجھ سکے )
۸۶اور (اے رسولؐ) اگر ہم چاہیں تو جو (قرآن) ہم نے تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجا ہے (دنیا سے ) اٹھا لے جائیں پھر تم اپنے واسطے ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار نہ پاؤ گے
۸۷مگر یہ صرف تمہارے پروردگار کی رحمت ہے (کہ اس نے ایسا نہیں کیا) اس میں شک نہیں کہ اس کا تم پر بڑا فضل و کرم ہے
۸۸(اے رسولؐ) تم کہہ دوکہ اگر (سارے دنیا جہان کے ) آدمی اور جن اس بات پر اکٹھے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو (غیر ممکن ہے ) اس کے برابر نہیں لا سکتے اگرچہ (اس کوشش میں ) ایک کا ایک مددگار بھی بنے
۸۹اور ہم نے تو (لوگوں کے سمجھانے ) کے واسطے اس قرآن میں ہر قسم کی مثلیں ادل بدل کے بیان کر دیں اس پر بھی اکثر لوگ ناشکری کیے بنا نہیں رہتے
۹۰اور (اے رسولؐ) کفّار مکّہ نے تم سے کہا جب تک تم ہمارے واسطے زمین سے چشمہ نہ بہا نکالو گے ہم تم پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے
۹۱یا (یہ نہیں تو) کھجوروں اور انگوروں کا تمہارا کوئی باغ ہو اس میں تم بیچ بیچ میں نہریں جاری کر کے دکھلا دو
۹۲یا جیسا تم گمان رکھتے تھے۔ یا ہم پر آسمان ہی کو ٹکڑے (ٹکڑے ) کر کے گراؤ یا خدا اور فرشتوں کو (اپنے قول کی تصدیق میں ) ہمارے سامنے (گواہی میں ) لا کھڑا کر دو
۹۳یا تمہارے (رہنے کے ) لیے کوئی طلائی محل سرا ہو یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ ا ور جب تک تم ہم پر (خدا کے ہاں سے ایک) کتاب نہ نازل کرو گے کہ ہم اُسے خود پڑھ بھی لیں، اس وقت تک ہم (تمہارے آسمان پر) چڑھنے کے بھی قائل نہ ہوں گے (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ سبحان اللہ! میں ایک آدمی (خدا کے ) رسول کے سوا آخر اور کیا ہوں (جو یہ بیہودہ باتیں کرتے ہو)
۹۴اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آ چکی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے سوا اور کسی چیز نے نہ روکا کہ وہ کہنے لگے کہ کیا خدا نے آدمی کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔
۹۵(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اگر زمین پر فرشتے (بسے ہوئے ) ہوتے کہ اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ان لوگوں کے پاس فرشتہ ہی کو رسُول بنا کر نازل کرتے۔
۹۶(اے رسُولؐ) تم کہہ دو کہ ہمارے تمہارے درمیان گواہی کے واسطے بس خدا ہی کافی ہے اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے بندوں کے حال سے خوب واقف اور دیکھتا رہتا ہے۔
۹۷اور خدا جس کی ہدایت کرے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جس کو گمراہی میں چھوڑ دے تو (یاد رکھو کہ) پھر اس کے سوا کسی کو ان کا سرپرست نہ پاؤ گے اور قیامت کے دن ہم ان لوگوں کو مُنہ کے بل اوندھے اور اندھے اور گونگے اور بہرے (قبروں سے ) اٹھائیں گے ان کا ٹھکانا جہنم ہے کہ جب کبھی بجھنے کو ہو گی تو ہم ان لوگوں پر (اُسے ) اور بھڑکا دیں گے۔
۹۸یہ سزا ان کی اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا اور کہنے لگے کہ جب ہم (مرنے کے بعد سڑ گل کر) ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا پھر ہم ازسرنو پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے۔
۹۹کیا ان لوگوں نے اس پر بھی نہیں غور کیا کہ وہ خدا جس نے سارے آسمان اور زمین بنائے اس پر بھی ضرور قادر ہے کہ ان کے ایسے آدمی دوبارہ پیدا کرے اور اُس نے ان (کی موت) کی ایک میعاد مقرر کر دی ہے جس میں ذرا بھی شک نہیں۔ اس پر بھی یہ ظالم انکار کیے بغیر نہ رہے۔
۱۰۰(اے رسولؐ ان سے )کہو اگر میرے پروردگار کے رحمت کے خزانے بھی تمہارے اختیار میں ہوتے تو بھی تم خرچ ہو جانے کے ڈر سے (ان کو) بند رکھتے اور آدمی بڑا ہی تنگ دل ہے۔
۱۰۱اور ہم نے یقیناً موسیٰؑ کو کھلے ہوئے نو معجزے عطا کیے تو (اے رسولؐ) بنی اسرائیل سے (یہی) پوچھ دیکھو کہ جب موسیٰؑ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ اے موسیٰؑ میں تو سمجھتا ہوں کہ کسی نے تم پر جادو کر کے دیوانہ بنا دیا۔
۱۰۲موسیٰ ؑ نے کہا تم پر ضرور جانتے ہو کہ یہ معجزے سارے آسمان و زمین کے پروردگار نے نازل کئے (اور وہ بھی لوگوں کی) سوجھ کی باتیں ہیں اور اے فرعون میں تو خیال کرتا ہوں کہ تم پر شامت آئی ہے۔
۱۰۳پھر فرعون نے یہ ٹھان لیا کہ بنی اسرائیل کو (سر) زمین (مصر) سے نکال باہر کرے تو ہم نے فرعون اور جو لوگ اس کے ساتھ تھے سب کو ڈوبا مارا
۱۰۴اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ (اب تم ہی) اس ملک میں (خوب آرام سے )رہو سہو پھر جب آخرت کا وعدہ آ پہنچے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے۔
۱۰۵اور (اے رسولؐ) ہم نے اس قرآن کو بالکل ٹھیک نازل کیا اور بالکل ٹھیک نازل ہوا اور تم کو تو ہم نے جنت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذاب سے ) ڈرانے والا (رسول) بنا کر بھیجا ہے۔
۱۰۶اور قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے نازل کیا کہ تم لوگوں کے سامنے (حسب ضرورت) مہلت دے کر اس کو پڑھ دیا کرو (اور اسی وجہ سے ) ہم نے اس کو رفتہ رفتہ نازل کیا۔
۱۰۷تم کہہ دو کہ خواہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ اس میں شک نہیں کہ جن لوگوں کواس کے قبل ہی (آسمانی کتابوں کا) علم عطا کیا گیا ہے ان کے سامنے جب یہ پڑھا جاتا ہے تو ٹھڈیوں سے (منہ کے بل) سجدے میں گر پڑتے ہیں
۱۰۸اور کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار(ہر عیب سے ) پاک و پاکیزہ ہے بے شک ہمارے پروردگار کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا
۱۰۹اور یہ لوگ (سجدے کے لیے ) منہ کے بل گر پڑتے ہیں اور روتے جاتے ہیں اور یہ قرآن ان کی خاکساری کو بڑھاتا جاتا ہے
۱۱۰(اے رسولؐ) تم ان سے کہہ دو کہ (تم کو اختیار ہے ) خواہ اسے اللہ (کہہ کر) پکارو یا رحمن (کہہ کر) پکارو اس کے تو سب نام اچھے (سے اچھے ) ہیں اور (اے رسولؐ) نہ تو اپنی نماز بہت چلّا کر پڑھو اور نہ بالکل چپکے سے بلکہ اس کے درمیان ایک اوسط طریقہ اختیار کر لو۔
۱۱۱اور کہو کہ ہر طرح کی تعریف اس خدا کو (سزاوار) ہے جو نہ تو کوئی اولاد رکھتا ہے اور نہ (سارے جہان کی) سلطنت میں اس کا کوئی ساجھے دار ہے اور نہ اسے کسی طرح کی کمزوری ہے کہ کوئی اس کا سرپرست ہو اور اسی کی بڑائی اچھی طرح کرتے رہا کرو۔
٭٭٭
۱۸۔ سورۃ الکھف
۱ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جس نے اپنے بندے (محمدؐ) پر کتاب (قرآن) نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی (خرابی) نہ رکھی
۲(بلکہ) ہر طرح سے سُدھارا۔ تاکہ جو سخت عذاب خدا کی بارگاہ سے (کافروں پر نازل ہونے والا) ہے اس سے (لوگوں کو) ڈرائے اور جن مومنین نے اچھے اچھے کام کیے ہیں ان کو اس بات کی خوشخبری دے کہ ان کے لیے بہت اچھا اجر (و ثواب) موجود ہے۔
۳جس میں وہ ہمیشہ (باطمینان تمام) رہیں گے
۴اور جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے ان کو (عذاب سے ) ڈرائے۔
۵نہ تو ان ہی کو اس کی کچھ خبر ہے اور نہ ان کے باپ دادوں ہی کو تھی۔ (یہ) بڑی سخت بات ہے جو ان کے مُنہ سے نکلتی ہے۔ یہ لوگ جھوٹ کے سوا (کچھ اور ) بولتے ہی نہیں۔
۶تو (اے رسولؐ) اگر یہ لوگ اس بات کو نہ مانیں تو شاید تم مارے افسوس کے ان کے پیچھے اپنی جان دے ڈالو گے۔
۷جو کچھ روئے زمین پر ہے ہم نے اسے اس کی زینت(رونق) قرار دی تاکہ ہم لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے
۸اور (پھر) ہم (ایک نہ ایک دن) جو کچھ بھی اس پر ہے (سب کو نابود کر کے ) چٹیل میدان بنا دیں گے۔
۹(اے رسولؐ) کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ اصحاب کہف و رقیم (کھوہ اور تختی والے ) ہماری (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک عجب نشانی تھی
۱۰کہ اکبارگی کچھ جو ان غار میں آ پہنچے اور دُعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں اپنے بارگاہ سے رحمت عطا فرما اور ہمارے واسطے ہمارے کام میں کامیابی عنایت کر۔
۱۱تب ہم نے کئی برس تک غار میں ان کے کانوں پر پردے ڈال دیئے (انہیں سُلا دیا)
۱۲پھر ہم نے انہیں چونکایا تاکہ ہم دیکھیں کہ دو گروہوں میں سے کسی کو (غار میں ) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔
۱۳(اے رسولؐ) (اب) ہم ان کا حال تم سے بالکل ٹھیک تحقیقاً بیان کرتے ہیں وہ چند جوان تھے، اپنے سچّے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی سوچ سمجھ اور زیادہ کر دی
۱۴اور ہم نے ان کے دلوں پر (صبر و استقلال کی) گرہ لگا دی (کہ جب دقیانوس بادشاہ نے کفر پر مجبور کیا)تو اُٹھ کھڑے ہوئے اور (بے تامل) کہنے لگے ہمارا پروردگار تو بس سارے آسمان و زمین کا مالک ہے ہم تو اس کے سوا کسی معبود کی ہرگز عبادت نہ کریں گے اگر ہم ایسا کریں تو یقیناً ہم نے عقل سے دُور بات کہی
۱۵(افسوس ایک) یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں کہ جنہوں نے خدا کو چھوڑ کر (دوسرے ) معبود بنائے ہیں (پھر) یہ لوگ ان (کے معبود ہونے ) کی کوئی صریحی دلیل کیوں نہیں پیش کرتے اور جو شخص خدا پر جھوٹ بہتان باندھے اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو گا
۱۶(پھر باہم کہنے لگے کہ) جب تم نے ان لوگوں سے اور خدا کے سوا جن معبودوں کی یہ لوگ پرستش کرتے ہیں اُن سے کنارہ کشی کر لی تو چلو (فلاں ) غار میں جا بیٹھو تمہارا پروردگار اپنی رحمت تم پر وسیع کر دے گا ا ور تمہارے کام میں تمہارے لیے آسانی کے سامان مہیّا کرے گا
۱۷(غرض یہ ٹھان کر غار میں جا پہنچے کہ) جب سُورج نکلتا ہے تو تو دیکھے گا کہ وہ اُن کے غار سے داہنی طرف جھُک کے نکل جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو اِن سے بائیں طرف کترا جاتا ہے اور وہ لوگ (مزے سے ) غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں (لیٹے ) ہیں یہ خدا کی (قدرت) کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جس کو خدا ہدایت کرے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جس کو گمراہ کرے تو پھر تم اس کا کوئی سرپرست رہنما ہرگز نہ پاؤ گے
۱۸اور آپ ان کو سمجھیں گے کہ وہ جاگتے ہیں حالانکہ وہ (گہری نیند میں ) سو رہے ہیں اور ہم کبھی داہنی طرف اور کبھی بائیں طرف ان کی کروٹیں بدلوا دیتے ہیں اور ان کا کُتا اپنے آگے کے دونوں پاؤں پھیلائے چوکھٹ پر ڈٹا بیٹھا ہے (ان کی یہ حالت ہے کہ) اگر کہیں تو ان کو جھانک کر دیکھے تو اُلٹے پاؤں ضرور بھاگ کھڑا ہو اور تیرے دل میں دہشت سما جائے۔
۱۹اور (جس طرح اپنی قدرت سے ان کو سلایا) اسی طرح (اپنی قدرت سے ) ان کو (جگا) اٹھایا تاکہ آپس میں کچھ پوچھ گچھ کریں (غرض) ان میں ایک بولنے والا بول اُٹھا کہ (بھئی آخر اس غار میں ) تم کتنی مُدّت ٹھہرے۔ کہنے لگے (ارے ٹھہرے کیا) بس ایک دن یا ایک دن سے بھی کم (اس کے بعد) کہنے لگے کہ جتنی دیر تم غار میں ٹھہرے اس کو تمہارا پروردگار ہی (کچھ تم سے ) بہتر جانتا ہے (اچھا) تو اب اپنے میں سے کسی کو اپنا یہ روپیہ دے کر شہر کی طرف بھیجو تو وہ (جا کر) دیکھ بھال لے کہ وہاں کا کون سا کھانا بہت اچھا ہے پھر اس میں سے (بقدر ضرورت) کھانا ہمارے واسطے لے آئے اور اسے چاہیے کہ وہ آہستہ چپکے سے آ جائے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔
۲۰اس میں شک نہیں کہ اگر ان لوگوں کو تمہاری اطلاع ہو گئی تو بس پھر تم کو سنگسارکر دیں گے یا پھر تم کو اپنے دین کی طرف پھیر کر لے جائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو پھر تم کبھی کامیاب نہ ہو گے
۲۱اور ہم نے یوں ان کی قوم کے لوگوں کو ان کی حالت پر اطلاع کرائی تاکہ وہ لوگ دیکھ لیں کہ خدا کا وعدہ یقیناً سچا ہے اور یہ (بھی سمجھ لیں ) کہ قیامت (کے آنے ) میں کچھ بھی شُبہ نہیں اب (اطلاع ہونے کے بعد) ان کے بارے میں لوگ باہم جھگڑنے لگے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ان (کے غار) پر (بطور یادگار) کوئی عمارت بنا دو ان کا پروردگار تو ان کے حال سے خوب واقف ہے اور ان کے بارے میں جن (مومنین) کی رائے غالب رہی انہوں نے کہا ہم تو ان (کے غار) پر ایک مسجد بنائیں گے۔
۲۲قریب ہے کہ لوگ (نصاریٰ نجران) کہیں گے کہ وہ تین آدمی تھے چوتھا ان کا کتّا (قطمیر) ہے۔ اور کچھ لوگ (عاقب وغیرہ) کہتے ہیں کہ پانچ آدمی تھے چھٹا ان کا کتّا ہے (یہ سب) غیب میں اٹکل لگاتے ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سات آدمی ہیں اور آٹھواں ان کا کتّا ہے (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ ان کا شمار میرا پروردگار ہی خوب جانتا ہے ان (کی گنتی) کو تھوڑے ہی لوگ جانتے ہیں تو (اے رسولؐ) تم (ان لوگوں سے ) اصحاب کہف کے بارے میں سرسری گفتگو کے سوا (زیادہ) نہ جھگڑو اور ان کے بارے میں ان لوگوں میں سے کسی سے کچھ پوچھو بھی نہیں
۲۳اور کسی کام کی نسبت نہ کہا کرو کہ میں اس کو کل کروں گا
۲۴مگر ان شاء اللہ کہہ کر اور اگر (ان شاء اللہ کہنا) بھول جاؤ تو (جب یاد آئے ) اپنے پروردگار کو یاد کر لو (ان شاء اللہ کہہ لو) اور کہو کہ اُمید ہے کہ میرا پروردگار مجھے ایسی بات کی ہدایت فرمائے جو رہنمائی میں اس سے بھی زیادہ قریب ہو۔
۲۵اور اصحاب کہف اپنے غار میں نو اُوپر تین سو برس رہے۔
۲۶(اے رسولؐ اگر وہ لوگ اس پر نہ مانیں تو) تم کہہ دو کہ خدا ان کے ٹھہرنے کی مُدّت سے بخوبی واقف ہے۔ سارے آسمانوں اور زمین کا غیب اسی کے واسطے خاص ہے (اللہ اکبر) وہ کیسا دیکھنے والا اور کیا ہی سننے والا ہے اس کے سوا ان لوگوں کا کوئی سرپرست نہیں اور وہ اپنے حکم میں کسی کو اپنا دخیل نہیں بناتا۔
۲۷اور (اے رسولؐ) جو کتاب تمہارے پروردگار کی طرف سے وحی کے ذریعے سے نازل ہوئی ہے اس کو پڑھا کرو۔ اس کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ اور تم اس کے سوا کوئی کہیں ہرگز پناہ کی جگہ (بھی) نہ پاؤ گے۔
۲۸اور (اے رسولؐ) جو لوگ اپنے پروردگار کی صبح سویرے اور ( جھٹ پٹے وقت) شام کو یاد کرتے ہیں اور اسی کی خوشنودی کے خواہاں ہیں ان کے ساتھ تم (خود بھی) اپنے نفس پر جبر کرو اور ان کی طرف سے اپنی نظر (توجّہ) نہ پھیرو کہ تم دنیا میں زندگی کی آسائش چاہنے لگو اور جس کے دل کو ہم نے (گویا خود) اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور وہ اپنی خواہش نفسانی کے پیچھے پڑا ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی ہے اس کا کہنا ہرگز نہ ماننا
۲۹اور (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ سچی بات (کلمہ توحید) تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہو چکی ہے پس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے (مگر) ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ (دھکا کے ) تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیر لیں گی اور اگر وہ لوگ دہائی دیں گے تو ان کی فریاد رسی (کھولتے ہوئے ) پانی سے کی جائے گی جو مثل پگھلے ہوئے تانبے کے ہو گا اور وہ مُنہ کو بھُون ڈالے گا۔ کیا بُرا پانی ہے اور (جہنّم) بھی) کیا بُری جگہ ہے۔
۳۰اس میں شک نہیں کہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کرتے رہے تو ہم ہرگز اچھے کام والے کے اجر کو اکارت نہیں کرتے۔
۳۱یہ وہی لوگ ہیں جن کے (رہنے سہنے کے ) لیے سدا بہار (بہشت کے ) باغات ہیں ان کے (مکانات کے ) نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ ان باغات میں دمکتے ہوئے کندن کے کنگنوں سے سنوارے جائیں گے اور انہیں باریک ریشم (کریب) اور دبیز ریشم (بافتی) کے دھانی جوڑے پہنائے جائیں گے اور تختوں پر تکیے لگائے (بیٹھے ) ہوں گے کیا ہی اچھا بدلہ ہے اور (بہشت بھی آسائش کی) کیسی اچھی جگہ ہے۔
۳۲اور (اے رسولؐ) ان لوگوں سے ان دو شخصوں کی مثل بیان کرو کہ ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دے رکھے ہیں اور ہم نے ان کے چو گرد خرمے کے درخت لگا رکھے ہیں اور ان دونوں باغوں کے درمیان کھیتی بھی لگائی ہے۔
۳۳وہ دونوں باغ خوب پھل لائے اور پھل لانے میں کچھ کمی نہیں کی اور ہم نے ان دونوں باغوں کے درمیان نہر بھی جاری کر دی تھی۔
۳۴اور اُسے پھل ملا تو اپنے ساتھی سے جو اس سے باتیں کر رہا تھا بول اٹھا کہ میں تو تجھ سے مال میں (بھی) زیادہ ہوں اور جتھے میں (بھی) بڑھ کر ہوں۔
۳۵اور (یہ باتیں کرتا ہوا) اپنے باغ میں جا پہنچا۔ حالانکہ اس کی حالت یہ تھی کہ (کفر کی وجہ سے ) اپنے اوپر آپ ظلم کر رہا تھا۔ (غرض) وہ کہہ بیٹھا کہ مجھے تواس کا گمان بھی نہیں ہوتا کہ کبھی بھی یہ باغ اجڑ جائے
۳۶اور میں تو یہ بھی خیال نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہو گی اور (بالفرض ہوئی بھی تو) جب میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جاؤں گا تو یقیناً اس سے کہیں اچھی جگہ پاؤں گا۔
۳۷اس کا ساتھی جو اس سے باتیں کر رہا تھا کہنے لگا کہ کیا تو اس پروردگار کا مُنکر ہے جس نے (پہلے ) تجھے مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے۔ پھر تجھے بالکل ٹھیک مرد (آدمی) بنایا۔
۳۸لیکن (ہم تو یہ کہتے ہیں کہ) وہی خدا میرا پروردگار ہے اور میں تو اپنے پروردگار کا کسی کو شریک نہیں بناتا۔
۳۹اور جب تو اپنے باغ میں آیا تو (یہ) کیوں ) نہ کہا یہ سب (ماشاء اللہ) خدا ہی کے چاہے سے ہوا ہے (میرا کچھ بھی نہیں کیونکہ) بغیر خدا (کی مدد) کے (کسی میں ) کچھ سکت نہیں۔ اگر مال و اولاد کی راہ سے تو مجھے کم سمجھتا ہے۔
۴۰تو عنقریب ہی میرا پروردگار مجھے وہ باغ عطا فرمائے گا جو تیرے باغ سے کہیں بہتر ہو گا اور تیرے باغ پر کوئی ایسی آفت آسمان سے نازل کرے گا کہ (خاک سیاہ ہو کر) چٹیل چکنا صفا چٹ میدان ہو جائے
۴۱یا اس کا پانی نیچے (اُتر کے خشک) ہو جائے پھر تواس کو کسی طرح طلب نہ کرسکے
۴۲(چنانچہ عذاب نازل ہوا) اور اس کے (باغ کے ) پھل (آفت میں ) گھیر لیے گئے تو وہ اس مال پر جو باغ کی تیاری میں صرف کیا تھا (افسوس سے ) ہاتھ ملنے لگا اور باغ کی یہ حالت تھی کہ اپنی ٹہنیوں پر اوندھا گرا ہوا پڑا تھا تو کہنے لگا کاش میں اپنے پروردگار کا کسی کو شریک نہ بناتا۔
۴۳اور خدا کے سوا اس کا کوئی جتھا بھی نہ تھا کہ اس کی مدد کرتا اور نہ وہ بدلا لے سکتا تھا۔
۴۴اسی جگہ سے (ثابت ہو گیا کہ) سرپرستی خاص خدا ہی کے لیے ہے جو سچا ہے وہی بہتر ثواب (دینے ) والا ہے اور انجام کے خیال سے بھی وہی بہتر ہے۔
۴۵اور (اے رسولؐ) ان سے دنیا کی زندگی کی مثل بھی بیان کر دو کہ اس کی حالت اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا تو زمین کی روئیدگی اس میں مل جل گئی اور (خوب پھلی پھولی پھر) آخر ریزہ ریزہ (بھوسہ) ہو گئی کہ اس کو ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
۴۶(اے رسولؐ) مال اور اولاد (اس ذرا سی) دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تمہارے پروردگار کے نزدیک ثواب میں اس سے کہیں زیادہ اچھی ہیں اور تمنّا و آرزو کی راہ سے بھی بہتر ہیں۔
۴۷اور (اُس دن سے ڈرو) جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو کھلا میدان (پہاڑوں سے خالی) دیکھو گے اور ہم ان سبھوں کو اکٹھا کریں گے توا ن میں سے ایک کو نہ چھوڑیں گے
۴۸اور (سب کے سب) تمہارے پروردگار کے سامنے قطار قطار پیش کیے جائیں گے ا ور (اس وقت ہم یاد دلائیں گے کہ جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا (اسی طرح) تم لوگوں کو (آخر) ہمارے پاس آنا پڑا مگر تم تو یہ خیال کرتے تھے کہ ہم تمہارے (دوبارہ پیدا کرنے کے ) لیے کوئی وقت ہی نہیں ٹھہرائیں گے
۴۹اور (لوگوں کے اعمال کی) کتاب سامنے رکھی جائے گی تو تم گنہگاروں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا) ہے دیکھ دیکھ کر سہمے ہوئے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ہائے ہماری شامت یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹے ہی گناہ کو بے قلمبند کیے چھوڑتی ہے نہ بڑے گناہ کو اور جو کچھ ان لوگوں نے (دنیا میں ) کیا تھا وہ سب (لکھا ہوا) موجود پائیں گے۔ اور تیرا پروردگار کسی پر (ذرہ برابر) ظلم نہ کرے گا
۵۰اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کروتو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا (یہ ابلیس) جنّات سے تھا تو اپنے پروردگار کے حکم سے نکل بھاگا تو (لوگو) کیا مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی اولاد کو اپنا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے (قدیمی) دشمن ہیں ظالموں (نے خدا کے بدلے شیطان کو اپنا دوست بنایا یہ ان) کا کیا بُرا عوض ہے۔
۵۱میں نے نہ تو آسمان و زمین کے پیدا کرنے کے وقت ان کو (مدد کے لیے ) بلایا تھا اور نہ خود ان کے پیدا کرنے کے وقت اور میں ایسا (گیا گزرا) نہ تھا کہ میں گمراہ کرنے والوں کو مددگار بناتا۔
۵۲اور (اس دن سے ڈرو) جس دن خدا فرمائے گا کہ اب تم جن لوگوں کو میرا شریک خیال کرتے تھے ان کو (مدد کے لیے ) پکارو تو وہ لوگ ان کو پکاریں گے مگر وہ لوگ ان کی کچھ نہ سنیں گے اور ہم ان دونوں کے بیچ میں مہلک آڑ بنا دیں گے
۵۳اور گنہگار (دوزخ کی) آگ دیکھ کر سمجھ جائیں گے کہ یہ اس میں جھونکے جائیں گے اور اس سے گریز کی راہ نہ پائیں گے۔
۵۴اور ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھانے )کے واسطے ہر طرح کی مثالیں پھیر بدل کر بیان کر دی ہیں مگر انسان تمام مخلوقات سے زیادہ جھگڑالو ہے۔
۵۵اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آ چکی تو (پھر) ان کو ایمان لانے اور اپنے پروردگار سے مغفرت کی دُعا مانگنے سے اس کے سوا اور کون امر مانع ہے کہ اگلوں کی سی ریت رسم ان کو بھی پیش آئی یا ہمارا عذاب ان کے سامنے سے آ (موجود) ہو۔
۵۶اور ہم تو پیغمبروں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ (اچھوں کو نجات کی) خوشخبری سنائیں اور (بدوں کو عذاب سے ) ڈرائیں۔ اور جو لوگ کافر ہیں جھوٹی جھوٹی باتوں کا سہارا پکڑ کے جھگڑا کرتے ہیں تاکہ اس کی بدولت حق کو (اس کی جگہ سے ) اکھاڑ پھینکیں۔ اور ان لوگوں نے میری آیتوں کو اور جس (عذاب) سے یہ لوگ ڈرائے گئے ہنسی ٹھٹھا بنا رکھا ہے۔
۵۷اور اس سے بڑھ کر اور کون ظالم ہو گا جس کو خدا کی آیتیں یاد دلائی جائیں اور وہ اُن سے روگردانی کرے اور اپنے پہلے کرتوتوں کو جو اس کے ہاتھوں نے کیے ہیں بھول بیٹھے گویا ہم نے خود ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ (حق بات کو) نہ سمجھ سکیں۔ اور (گویا) ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دی ہے (کہ سُن نہ سکیں ) اور اگر تم ان کو راہِ راست کی طرف بلاؤ تو یہ ہرگز کبھی رو براہ ہونے والے نہیں ہیں۔
۵۸اور (اے رسولؐ) تمہارا پروردگار تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے اگر ان کے کرتوتوں کی سزا میں دھر پکڑتا تو فوراً (دنیا میں ہی) ان پر عذاب نازل کر دیتا مگر ان کے لیے تو ایک میعاد (مقرر) ہے جس سے خدا کے سوا کہیں پناہ کی جگہ نہ پائیں گے۔
۵۹اور یہ بستیاں (جنہیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو) جب ان لوگوں نے سرکشی کی تو ہم نے انہیں ہلاک کر مارا۔ اور ہم نے ان کی ہلاکت کی میعاد مقرر کر دی تھی۔
۶۰اور(اے رسولؐ)وہ واقعہ یاد کرو)جب موسیٰؑ(خضر کی ملاقات کو چلے تو)اپنے جوان(وصی، یوشع)سے بولے کہ جب تک میں دونوں دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں (چلنے سے ) باز نہ آؤں گا (خواہ اگر ملاقات نہ ہو تو) برسوں یوں ہی چلا جاؤں گا۔
۶۱ پھر جب یہ دونوں دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچنے تو اپنی (بھنی ہوئی) مچھلی چھوڑ چلے توا ُس نے دریا میں راستہ بنا کر اپنی راہ لی۔
۶۲پھر جب کچھ اور آگے بڑھ گئے تو موسیٰ ؑ نے اپنے جوان (وصی) سے کہا (اجی) ہمارا ناشتہ تو ہمیں دے دو ہمارے (آج کے ) اس سفر سے تو ہم کو بڑی تھکن ہو گئی
۶۳(یوشع نے ) کہا کیا آپ نے یہ دیکھا بھی کہ جب ہم لوگ (دریا کے کنارے ) اس پتھر کے پاس ٹھہرے تھے تو میں (اسی جگہ) مچھلی چھوڑ آیا اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان ہی نے بھلا دیا اور مچھلی نے عجیب طرح سے دریا میں اپنی راہ لی۔
۶۴ موسیٰؑ نے کہا وہی تو وہ (جگہ) ہے جس کی ہم جستجو میں تھے پھر دونوں اپنے قدم کے نشانوں پر دیکھتے دیکھتے اُلٹے پاؤں پھرے
۶۵تو (جہاں مچھلی چھوڑی تھی) دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص ) بندہ (خضرؑ ) کو پایا جس کو ہم نے اپنی بارگاہ سے رحمت (ولایت) کا حصہ عطا کیا تھا اور ہم نے اسے علم لدنی (اپنے خاص علم میں سے کچھ) سکھایا تھا۔
۶۶موسیٰ ؑ نے ان (خضرؑ) سے کہا کیا (آپ کی اجازت ہے کہ) میں اس غرض سے آپ کے ساتھ ساتھ رہوں کہ جو رہنمائی کا علم آپ کو (خدا کی طرف سے ) سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیجیے۔
۶۷خضرؑ نے کہا (میں سکھا تو دوں گا مگر) آپ کو میرے ساتھ صبر نہ ہو سکے گا
۶۸اور (سچ تو ہے ) جو چیز آپ کی علمی احاطہ سے باہر ہو اس پر آپ کیوں کر صبر کرسکتے ہیں۔
۶۹موسیٰ ؑ نے کہا (آپ اطمینان رکھیے ) اگر خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر آدمی پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کروں گا۔
۷۰خضرؑ نے کہا (اچھا) تو اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو جب تک میں خود آپ سے کسی بات کا ذکر نہ چھیڑوں آپ مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھیے گا
۷۱غرض یہ دونوں (مل کر) چل کھڑے ہوئے یہاں تک کہ (ایک دریا میں ) جب دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو خضرؑ نے کشتی میں چھید کر دیا موسیٰؑ نے کہا (آپ نے تو غضب کیا) کیا کشتی میں اس غرض سے سوراخ کیا ہے کہ لوگوں کو ڈبا دیجیے ! یہ تو آپ نے بڑی عجیب بات کی ہے
۷۲ خضرؑ نے کہا: کیا میں نے آپ سے (پہلے ہی) نہ کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکیں گے۔
۷۳موسیٰ ؑ نے کہا (اچھا جو ہوا سو ہوا) آپ میری فروگزاشت پر گرفت نہ کیجیے اور مجھ پر میرے اس معاملے میں اتنی سختی نہ کیجیے۔
۷۴(خیر یہ ہو گیا)پھر دونوں کے دونوں آگے چلے یہاں تک کہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو اس بندۂ خدا نے اسے جان سے مار ڈالا۔ موسیٰؑ نے کہا اے (معاذ اللہ) کیا آپ نے ایک معصوم شخص کو مار ڈالا (اور وہ بھی) کسی کے خون کے بدلہ میں نہیں آپ نے تو یقینی ایک عجیب حرکت کی۔
۷۵(خضرؑ نے ) کہا کیوں میں نے آپ سے (مکّرر) نہ کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز نہیں صبر کرسکیں گے۔
۷۶(موسیٰ ؑ نے ) کہا (خیر جو ہوا) اَب اگر میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے گا بے شک آپ میری طرف سے معذرت (کی حد کو) پہنچ گئے۔
۷۷غرض (یہ سب ہو ہوا کر پھر) دونوں کے دونوں آگے چلے یہاں تک کہ جب ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے تو وہاں کے لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگا تو ان لوگوں نے دونوں کو مہمان بنانے سے انکار کیا۔پھر ان دونوں نے اسی گاؤں میں ایک دیوار کو دیکھا کہ گرا ہی چاہتی تھی (تو خضرؑ نے ) اسے سیدھا کھڑا کر دیا (اس پر) موسیٰ ؑ نے کہا اگر آپ چاہتے تو (ان لوگوں سے ) اس کی مزدوری لے سکتے تھے (تاکہ کھانے کا سہا ر ا ہو تا)
۷۸خضرؑ نے کہا بس اب میرے ا و ر آپ کے د ر میان چھٹم چھٹا اب جن باتوں پر آپ سے صبر نہ ہو سکا میں ابھی آپ کو ان کی اصل حقیقت بتائے دیتا ہوں
۷۹(لیجیے سنیے ) وہ کشتی (جس میں میں نے سوراخ کر دیا تھا) تو چند غریبوں کی تھی جو دریا میں محنت کر کے گزارا کرتے تھے میں نے چاہا کہ اے عیب دار بنا دوں (کیونکہ) ان کے پیچھے پیچھے ایک (ظالم) بادشاہ (آتا) تھا کہ تمام کشتیاں زبردستی بیگار میں پکڑ لیتا تھا۔
۸۰اور وہ جو لڑکا تھا (جس کو میں نے مار ڈالا) تو اس کے ماں باپ دونوں (سچّے ) ایماندار ہیں توہم کو یہ اندیشہ ہوا کہ (ایسا نہ ہو کہ بڑا ہو کر) ان کو بھی اپنے سرکشی اور کفر میں پھنسا دے
۸۱تو ہم نے چاہا کہ ہم اس کو مار ڈالیں اور ) ان کا پر و ر د گا ر اس کے بدلہ میں (ایسا فرزند) عطا فرمائے جو اس سے پاک نفسی میں اور پاک قرابت میں بہتر ہو
۸۲اور وہ جو دیوار تھی (جسے میں نے کھڑا کر دیا) تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان ہی دونوں لڑکوں کا خزانہ(گڑا ہوا) تھا اور ان لڑکوں کا باپ ایک نیک آدمی تھا تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ دونوں لڑکے اپنی جوانی کو پہنچیں تو تمہارے پروردگار کی مہربانی سے اپنا خزانہ نکال لیں اور میں نے (جو کچھ کیا کچھ) اپنے اختیار سے نہیں کیا (بلکہ خدا کے حکم سے )۔ یہ حقیقت ہے ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہ ہو سکا۔
۸۳(اور اے رسولؐ) تم سے لوگ ذوالقرنین کا حال (امتحاناً) پوچھا کرتے ہیں۔ تم (ان کے جواب میں ) کہو کہ میں ابھی تمہیں اس کا کچھ حال بتائے دیتا ہوں۔
۸۴(خدا فرماتا ہے کہ) بے شک ہم نے ان کو روئے زمین پر قدرت (حکومت) عطا کی تھی اور ہم نے اسے ہر چیز کے ساز و سامان دے رکھے تھے۔
۸۵وہ ایک سامان (سفر) کے پیچھے پڑا۔
۸۶یہاں تک کہ جب (چلتے چلتے ) آفتاب کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو آفتاب ان کو ایسا دکھائی دیا کہ (گویا) وہ کالی کالی کیچڑ کے چشمہ میں ڈوب رہا ہے اور اسی چشمہ کے قریب ایک قوم کو بھی آباد پایا ہم نے کہا اے ذوالقرنین (تم کو اختیار ہے ) خواہ (ان کے کفر کی وجہ سے ) ان کی سزا کرو (کہ ایمان لائیں ) یا ان کے ساتھ حسن سلوک کا شیوہ اختیار کرو۔ (کہ خود ایمان قبول کریں )
۸۷(ذوالقرنین نے ) عرض کی جو شخص سرکشی کرے گا تو ہم اس کی سزا دیں گے (آخر) پھر تو وہ (قیامت میں )اپنے پروردگار کے سامنے لوٹا کر لایا ہی جائے گا اور وہ بُری سے بُری سزا دے گا۔
۸۸اور جو شخص ایمان قبول کرے گا اور اچھے اچھے کام کرے گا تو (ویسا ہی) اس کے لیے اچھے سے اچھا بدلہ ہے اور ہم بہت جلد اسے اپنے کاموں میں سے آسان کام (کرنے کو) کہیں گے۔
۸۹پھر اس نے ایک دوسری راہ اختیار کی۔
۹۰یہاں تک کہ جب (چلتے چلتے ) آفتاب کے طلوع ہونے کی جگہ پہنچا تو آفتاب اُسے ایسا ہی دکھائی دیا کہ (گویا) کچھ لوگوں (کے سر) پر اس طرح طلوع کر رہا ہے جن کے لیے ہم نے آفتاب کے سامنے کوئی آڑ نہیں بنائی تھی
۹۱اور تھا بھی ایسا ہی اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا ہم کو اس سے پوری واقفیت تھی
۹۲(غرض) اس نے پھر ایک (اور) راہ اختیار کی
۹۳یہاں تک کہ جب (چلتے چلتے روم میں ایک پہاڑ کے کنگروں ) کے دیواروں کے بیچوں بیچ میں پہنچ گیا تو ان دونوں دیواروں کے اس طرف ایک قوم کو (آباد) پایا جو بات چیت کچھ ہی نہیں سمجھ سکتی تھی
۹۴ان لوگوں نے (مترجم کے ذریعے سے ) عرض کی اے ذوالقرنین (اسی گھاٹی کے ادھر) یاجوج ماجوج کی قوم ہے (جو) ملک میں فساد پھیلایا کرتے ہیں تو اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم لوگ اس غرض سے آپ کے پاس چندہ جمع کریں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی دیوار بنا دیں۔
۹۵ذوالقرنین نے کہا کہ میرے پروردگار نے خرچ کی جو قدرت مجھے دے رکھی ہے وہ (تمہارے چندہ سے ) کہیں بہتر ہے (مال کی ضرورت نہیں )تم فقط مجھے قوت سے مدد دو تو میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک روک بناؤں
۹۶(اچھا تو) مجھے (کہیں سے ) لوہے کی سلیں لادو (چنانچہ وہ لوگ لائے اور ایک بڑی دیوار بنائی) یہاں تک کہ جب دونوں پہاڑوں کے درمیان (دیوار کو بلند کر کے ان) کو برابر کر دیا تو حکم دیا کہ (اس کے گرد آگ لگا کر) دھونکو یہاں تک کہ جب اس کو (دھونکتے دھونکتے ) لال انگار بنا دیا تو کہا کہ اب ہم کو تانبا دو کہ اس کو پگھلا کر اس دیوار پر انڈیل دیں
۹۷(غرض وہ ایسی اونچی مضبوط دیوار بنی کہ)نہ تو یاجوج ماجوج اس پر چڑھ ہی سکتے تھے اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے۔
۹۸(ذوالقرنین نے دیوار کو دیکھ کر) کہا یہ میرے پروردگار کی مہربانی ہے مگر جب میرے پروردگار کا وعدہ (قیامت) آئے گا تو اسے ڈھا کر ہموار کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچّا ہے۔
۹۹اور ہم اس دن (انہیں ان کی حالت پر) چھوڑ دیں گے کہ ایک دوسرے میں (ٹکرا کے دریا کی) لہروں کی طرح گڈمڈ ہو جائیں اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو اکٹھا کریں گے
۱۰۰اور اسی دن جہنّم کو ہم ان کافروں کے سامنے کھلم کھلا پیش کریں گے۔
۱۰۱جن کی آنکھیں ہماری یاد سے پردے میں تھیں اور (رسولؐ کی دشمنی کی وجہ سے سچّی بات) کچھ بھی سُن ہی نہ سکتے تھے
۱۰۲تو کیا جن لوگوں نے کفر اختیار کیا۔ اس خیال میں ہیں کہ ہم کو چھوڑ کر ہمارے بندوں کو اپنا سرپرست بنا لیں (اور کچھ پوچھ گچھ نہ ہو گی اچھا سنو) ہم نے کافروں کی مہمانداری کے لیے جہنّم تیار کر رکھی ہے۔
۱۰۳(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا ہم ان لوگوں کا پتہ بتا دیں جو لوگ اعمال کی حیثیت سے بہت گھاٹے میں ہیں۔
۱۰۴(یہ) وہ لوگ (ہیں ) جن کی دنیاوی زندگی کی سعی و کوشش سب اکارت ہو گئی اور وہ اس خام خیال میں ہیں کہ وہ یقیناً اچھے اچھے کام کر رہے ہیں۔
۱۰۵یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں سے اور (قیامت کے دن) اس کے سامنے حاضر ہونے سے انکار کیا تو ان کا سب کیا کرا یا اکارت ہوا تو ہم اُن کے لیے قیامت کے دن میزان حساب بھی قائم نہ کریں گے۔ (اور سیدھے جہنم میں جھونک دیں گے )
۱۰۶یہ جہنم ان (کی کرتوتوں ) کا بدلہ ہے کہ انہوں نے کفر اختیار کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کو ہنسی ٹھٹھا بنا لیا۔
۱۰۷بے شک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے ان کی مہمان داری کے لیے فردوس (بریں ) کے باغات ہوں گے
۱۰۸جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور وہاں سے کبھی ہٹنے کی خواہش نہ کریں گے۔
۱۰۹(اے رسولؐ ان لوگوں سے ) کہو کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں (کو لکھنے ) کے واسطے سمندر (کا پانی) بھی سیاہی بن جائے تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں ختم ہوں سمندر ختم ہو جائے گا اگرچہ ہم ویسا ہی (ایک اور سمندر) اس کی مدد کو لائیں
۱۱۰(اے رسولؐ) کہہ دوکہ میں بھی تمہارا ایسا ہی (شکل و شباہت میں ) ایک آدمی ہوں (فرق اتنا ہے کہ میری نوع جدا ہے اور ) میرے پاس یہ وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود یکتا معبود ہے۔ تو جو شخص آرزو مند ہو اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہونے کا تو اسے اچھے کام کرنے چاہئیں اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔
٭٭٭
۱۹۔ سورۃ مریم
۱ ک ہ ٰی ٰع ص
۲یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی کا ذکر ہے جو (اس نے ) اپنے خاص بندے زکریاؑ کے ساتھ کی تھی
۳کہ جب زکریاؑ نے اپنے پروردگار کو دھیمی آواز سے پکارا۔
۴(اور) عرض کی اے میرے پالنے والے میری ہڈیاں کمزور ہو گئیں اور سر ہے کہ بڑھاپے (کی آگ) سے بھڑک اٹھا (سفید ہو گیا) ہے اور اے میرے پالنے والے تیری بارگاہ میں دُعا کر کے کبھی محروم نہیں رہا ہوں۔
۵اور میں (اپنے مرنے کے بعد) اپنے وارثوں سے سہما جاتا ہوں (کہ مبادا دین کو برباد کریں ) اور میری بیوی (ام کلثوم بنت عمران) بانجھ ہے پس تو مجھ کو اپنی بارگاہ سے ایک جانشین (فرزند) عطا فرما
۶جو میری اور یعقوبؑ کی نسل کی میراث کا مالک ہو اور اے میرے پروردگار اس کو اپنا پسندیدہ بنا۔
۷(خدا نے فرمایا)ہم تم کو ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہو گا اور ہم نے اس سے پہلے کسی کو اس کا ہم نام نہیں پیدا کیا
۸(زکریا نے ) عرض کی یا الہٰی (بھلا) مجھے لڑکا کیوں کر ہو گا اور (حالت یہ ہے کہ) میری بیوی تو بانجھ ہے اور میں خود حد سے زیادہ بڑھاپے کو پہنچ گیا ہوں۔
۹(خدا نے ) فرمایا ایسا ہی ہو گا۔ تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ یہ بات ہم پر (کچھ دشوار نہیں ) آسان ہے۔ اور (تم اپنے کو تو خیال کرو کہ)اس سے پہلے تم کو پیدا کیا حالانکہ تم کچھ بھی نہ تھے۔
۱۰(زکریاؑ نے ) عرض کی الہٰی میرے لیے کوئی علامت مقرر کر دے۔ حکم ہوا تمہاری پہچان یہ ہے کہ تم تین رات (دن) برابر لوگوں سے بات نہیں کرسکو گے۔
۱۱پھر زکریاؑ (اپنے عبادت) کے حجرے سے اپنی قوم کے پاس (ہدایت دینے کے لیے ) نکلے تو انسے اشارہ کیا کہ تم لوگ صبح و شام (برابر) اس کی تسبیح (و تقدیس) کیا کرو۔
۱۲(غرض یحییٰ ؑ پیدا ہوئے اور ہم نے ان سے کہا) اے یحییٰ کتاب (توریت) مضبوطی کے ساتھ لو۔ اور ہم نے انہیں بچپن ہی میں اپنی بارگاہ سے نبوت
۱۳اور رحم دلی اور پاکیزگی عطا فرمائی اور وہ (خود بھی) پرہیزگار
۱۴اور اپنے ماں باپ کے حق میں سعادت مند تھے اور سرکش نافرمان نہ تھے۔
۱۵(اور ہماری طرف سے ) ان پر برابر سلام ہے اور جس دن پیدا ہوئے اور جس دن مریں گے اور جس دن (دوبارہ) زندہ اٹھا کھڑے کیے جائیں گے۔
۱۶اور (اے رسولؐ) قرآن میں مریم کا (بھی) تذکرہ کرو۔ کہ جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر پورب طرف والے مکان میں (غسل کے واسطے ) جا بیٹھی۔
۱۷پھر اس نے ان لوگوں کے سامنے پردہ کر لیا۔ تو ہم نے اپنی روح (جبرئیل) کو ان کے پاس بھیجا تو وہ اچھے خاصے آدمی کی صورت بن کر ان کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
۱۸(وہ اس کو دیکھو کہ گھبرائیں اور کہنے لگیں اگر تو پرہیز گار ہے تو میں تجھ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں (میرے پاس سے ہٹ جا)
۱۹(جبرئیلؑ نے ) کہا میں تو صاف تمہارے پروردگار کا پیغام بر (فرشتہ) ہوں تاکہ تم کو پاک و پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔
۲۰(مریمؑ نے ) کہا: مجھے لڑکا کیوں کر ہو سکتا ہے حالانکہ کسی(مرد) آدمی نے مجھے چھوا تک نہیں ہے اور نہ میں بدکار ہوں۔
۲۱(جبرئیلؑ نے ) کہا ایسا ہی ہو گا تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ بات (بے باپ کے لڑکا پیدا کرنا) مجھ پر آسان ہے تاکہ اس کو (پیدا کر کے ) لوگوں کے واسطے اپنی (قدرت کی) نشانی قرار دیں اور خاص رحمت (کا ذریعہ) بنائیں اور یہ بات فیصل شدہ ہے۔
۲۲غرض لڑکے کے ساتھ وہ آپ ہی آپ حا ملہ ہو گئیں پھر اس کی وجہ سے لوگوں سے الگ ایک د ور کے مکان میں چلی گئیں
۲۳(پھر جب جننے کا وقت قریب آیا) تو درد زہ انہیں ایک کھجور کے (سوکھے ) د رخت کی جڑ میں لے آیا اور (بے کسی میں شرم سے ) کہنے لگیں کاش میں اس سے پہلے مر جاتی اور (ناپید ہو کر) بالکل بھولی بسری ہو جاتی۔
۲۴تب جبرئیلؑ نے مریمؑ کے پائیں کی طرف سے آواز دی کہ تم کڑھو نہیں دیکھو تو تمہارے پروردگار نے تمہارے (قریب ہی) نیچے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے۔
۲۵اور خرمے کی جڑ (پکڑ کر) اپنی طرف ہلاؤ تم پر پکے پکے تازہ خرمے جھڑ پڑیں گے
۲۶پھر (شوق سے خرمے ) کھاؤ اور (چشمہ کا پانی) پیو اور (لڑکے سے ) اپنی آنکھ ٹھنڈی کرو۔ پھر اگر تم کسی آدمی کو دیکھو (اور وہ تم سے کچھ پوچھے ) تو تم (اشارہ سے ) کہہ دینا کہ میں نے خدا کے واسطے روزہ کی نذر کی تھی تو میں آج ہرگز کسی سے بات نہیں کرسکتی۔
۲۷پھر مریمؑ اس لڑکے کو اپنی گود میں لیے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں۔ وہ لوگ (دیکھ کر) کہنے لگے اے مریمؑ تم نے تو یقیناً بہت بُرا کام کیا۔
۲۸اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی بُرا آدمی تھی اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔ (یہ تو نے کیا کیا)
۲۹تو مریمؑ نے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا (کہ جو کچھ پوچھنا ہے اس سے پوچھ لو) وہ لوگ بولے (بھلا)ہم گود کے بچّے سے کیوں کر بات کریں۔
۳۰(اس پر وہ بچہ قدرت خدا سے ) بول اٹھا کہ میں بے شک خدا کا بندہ ہوں مجھ کو اسی نے کتاب (انجیل) عطا فرمائی ہے اور مجھ کو نبی بنایا۔
۳۱اور میں (چاہے ) کہیں رہوں مجھ کو مبارک بنایا اور مجھ کو جب تک زندہ رہوں نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کی تاکید کی ہے
۳۲اور مجھ کو اپنی والدہ کا فرمانبردار بنایا۔ اور (الحمدللہ کہ) مجھ کو سرکش نافرمان نہیں بنایا۔
۳۳اور (خدا کی طرف سے ) جس دن میں پیدا ہوا ہوں اور جس دن مروں گا مجھ پر سلام ہے اور جس دن دوبارہ زندہ اٹھا کھڑا کیا جاؤں گا۔
۳۴یہ ہے مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ کا سچّا سچّا قصّہ جس میں یہ لوگ (خواہ مخواہ) شک کیا کرتے ہیں۔
۳۵خدا کے لیے یہ کسی طرح سزاوار نہیں کہ وہ (کسی کو) بیٹا بنائے۔ وہ پاک و پاکیزہ ہے۔ جب وہ کسی کام کا کرنا ٹھان لیتا ہے تو بس اس کو کہہ دیتا ہے کہ ہو جاتو وہ ہو جاتا ہے۔
۳۶اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا (ہی) میرا (بھی) پروردگار ہے اور تمہارا (بھی) پروردگار ہے تو سب کے سب اسی کی عبادت کرو یہی(توحید) سیدھا رستہ ہے۔ (اور یہی دین عیسیٰ ؑ لے کر آئے تھے )
۳۷پھر (کافروں کے ) فرقوں نے باہم اختلاف کیا تو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے بڑے (سخت) دن (خدا کے حضور) حاضر ہونے سے خرابی ہے۔
۳۸جس دن یہ لوگ ہمارے حضور میں حاضر ہوں گے کیا کچھ سنتے دیکھتے ہوں گے مگر آج تو نافرمان لوگ کھلم کھلا گمراہی میں ہیں۔
۳۹اور (اے رسولؐ) تم ان کو حسرت (و افسوس) کے دن سے ڈراؤ جب قطعی فیصلہ کر دیا جائے گا اور (اس وقت تو) یہ لوگ غفلت میں (پڑے ) ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔
۴۰اس میں شک نہیں کہ(ایک دن) زمین اور جو کچھ اس پر ہے (اس کے ) ہم ہی وارث ہوں گے (اور سب نیست و نابود ہو جائیں گے ) اور سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے
۴۱اور (اے رسولؐ) قرآن میں ابراہیمؑ کا (بھی) تذکرہ کرو اس میں شک نہیں کہ وہ بڑے سچّے نبی تھے۔
۴۲جب انہوں نے اپنے (چچا ا و ر منہ بولے ) باپ سے کہا تھا کہ اے ا بّا آپ کیوں ایسی چیز(بت) کی پرستش کرتے ہیں جو نہ سن سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے ا و ر نہ کچھ آپ کے کام ہی آ سکتا ہے۔
۴۳اے میرے ابّا یقیناً میرے پاس وہ علم آ چکا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا تو آپ میری پیروی کیجیے میں آپ کو (دین کی)سیدھی راہ دکھا دوں گا۔
۴۴اے ابّا آپ شیطان کی پرستش نہ کیجیے (کیونکہ) شیطان یقیناً خدا کا نافرمان (بندہ) ہے۔
۴۵اے ابا! میں یقیناً اس سے ڈرتا ہوں کہ (مبادا) خدا کی طرف سے آپ پر کوئی عذاب نازل ہو تو(آخر) آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔
۴۶(آذر نے ) کہا (کیوں ) اے ابراہیمؑ ! کیا تو میرے معبودوں کو نہیں مانتا ہے ؟ اگر تو(ان باتوں سے ) کسی طرح باز نہ آئے گا تو (یاد رہے ) میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور تو میرے پاس سے ہمیشہ کے لیے دُور ہو جا۔
۴۷(ابراہیمؑ نے کہا اچھا تو) میرا سلام لیجیے (مگر اس پر بھی) میں اپنے پروردگار سے آپ کی بخشش کی دعا کروں گا (کیونکہ) بے شک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے
۴۸ا و ر میں نے آپ کو (بھی) اور (ان بتوں کو بھی) جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پوجا کرتے ہیں (سب کو) چھوڑا اور اپنے پروردگار ہی کی عبادت کروں گا۔امید ہے کہ اپنے پروردگار کی عبادت سے محروم نہ رہوں گا۔
۴۹غرض جب ابراہیمؑ نے ان لوگوں کو اور جس کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پرستش کیا کرتے تھے چھوڑا تو ہم نے انہیں اسحاقؑ و یعقوبؑ (سی اولاد) عطا فرمائی اور ہر ایک کو نبوت کے درجہ پر فائز کیا۔
۵۰اور ان سب کو اپنی رحمت سے کچھ عنایت فرمایا اور ہم نے ان کے لیے اعلیٰ درجہ کا ذکر خیر (دنیا میں بھی) قرار دیا۔
۵۱اور (اے رسولؐ) قرآن میں (کچھ) موسیٰ ؑ کا (بھی) تذکرہ کرو اس میں شک نہیں کہ وہ برگزیدہ (میرا بندہ) اور بھیجا ہوا (صاحب کتاب و شریعت) نبی تھا
۵۲اور ہم نے ان کو (کوہ) طور کی داہنی طرف سے آواز دی اور ہم نے انہیں راز و نیاز کی باتیں کرنے کے لیے اپنے قریب بلایا۔
۵۳اور ہم نے انہیں اپنی خاص مہربانی سے ان کے بھائی ہارونؑ نبی کو (ان کا وزیر بنا کر) عنایت فرمایا۔
۵۴اور (اے رسولؐ) قرآن میں اسماعیلؑ کا تذکرہ کرو۔ اس میں شک نہیں کہ وہ وعدہ کے سچّے تھے اور بھیجے ہوئے پیغمبر تھے۔
۵۵اور اپنے گھر کے لوگوں کو نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کی تاکید کیا کرتے تھے اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پسندیدہ تھے۔
۵۶(اور اے رسولؐ) قرآن میں ادریسؑ کا بھی تذکرہ کرو اس میں شک نہیں کہ وہ بڑے سچّے (بندے اور ) نبی تھے۔
۵۷اور ہم نے ان کو بہت اونچی جگہ (بہشت میں ) بلند کر (کے ) پہنچایا
۵۸یہ انبیاء لوگ جنہیں خدا نے اپنی نعمت دی آدمؑ کی اولاد سے ہیں اور ان کی نسل سے جنہیں ہم نے (طوفان کے وقت) نوحؑ کے ساتھ (کشتی پر) سوار کر لیا تھا۔ اور ابراہیمؑ اور یعقوبؑ کی اولاد سے ہیں اور ان لوگوں سے ہیں جن کی ہم نے ہدایت کی اور منتخب کیا جب ان کے سامنے خدا کی (نازل کی ہوئی) آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو زار و قطار روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے تھے۔
۵۹ پھر ان کے بعد کچھ نا خلف (ان کے ) جانشین ہوئے جنہوں نے نمازیں کھوئیں اور نفسانی خواہشوں کے چیلے بن بیٹھے عنقریب ہی یہ لوگ اپنی گمراہی (کے خمیازے ) سے مل جائیں گے۔
۶۰مگر (ہاں ) جس نے توبہ کر لی اور اچھے اچھے کام کیے، تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔
۶۱(وہ) سدا بہار باغات میں (رہیں گے ) جن کا خدا نے اپنے بندوں سے غائبانہ وعدہ کر لیا ہے۔ بے شک اس کا وعدہ آنے والا ہے۔
۶۲وہ لوگ وہاں سلام کے سوا کوئی بے ہودہ بات سنیں گے ہی نہیں مگر (ہر طرف سے ) سلام ہی سلام (کی آواز آئے گی) اور وہاں ان کا کھانا صبح و شام(جس وقت چاہیں گے ) ان کے لیے (تیار) رہے گا۔
۶۳یہی وہ بہشت ہے کہ ہمارے بندوں میں سے جو پرہیزگار ہو گا ہم اسے اس کا وارث بنائیں گے۔
۶۴اور (اے رسولؐ) ہم لوگ (فرشتے ) آپ کے پروردگار کے حکم کے بغیر (دنیا میں ) نہیں نازل ہوتے جو سامنے ہے اور جو کچھ ہمارے پیٹھ پیچھے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے (غرض سب کچھ) اسی کا ہے اور تمہارا پروردگار کچھ بھولکڑ نہیں ہے۔
۶۵سارے آسمان و زمین کا مالک ہے اور ان چیزوں کا بھی جو دونوں کے درمیان میں ہے تو تم اسی کی عبادت کرو اور اسی کی عبادت پر ثابت قدم رہو بھلا تمہارے علم میں اس کا کوئی ہم نام بھی ہے۔
۶۶اور (بعض) آدمی(ابی بن خلف) تعجب سے کہا کرتے ہیں کہ کیا جب میں مر جاؤں گا تو جلدی سے جیتا جاگتا (قبر سے ) نکالا جاؤں گا۔
۶۷کیا (وہ) آدمی اس کو نہیں یاد کرتا کہ اس کو اس سے پہلے جب وہ کچھ ہی نہ تھا پیدا کیا۔
۶۸تو وہ (اے رسولؐ) تمہارے پروردگار کی (اپنی) قسم ہم ان کو اور شیطانوں کو اکٹھا کریں گے پھر ان سب کو جہنم کو گرداگرد گھٹنوں کے بل حاضر کریں گے۔
۶۹پھر ہر گروہ میں سے ایسے لوگوں کو الگ نکال لیں گے جو (دنیا میں ) خدا سے اوروں کی نسبت اکڑے پھرتے تھے۔
۷۰پھر ہم ان سے خوب واقف ہیں جو لوگ جہنم میں جھونکے جانے کے زیادہ سزاوارہیں
۷۱اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو جہنم پر سے ہو کر نہ گزرے (کیونکہ پل صراط اسی پر ہے ) یہ تمہارے پروردگار پر حتمی اور لازمی (وعدہ) ہے۔
۷۲پھر ہم پرہیزگاروں کو بچائیں گے اور نافرمانوں کو گھٹنے کے بل اسی میں چھوڑ دیں گے۔
۷۳اور جب ہماری واضح و روشن آیتیں ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ایمانداروں سے پوچھتے ہیں (بھلا یہ تو بتاؤ کہ ہم تم) دونوں فریقوں میں سے مرتبہ میں کون زیادہ بہتر ہے اور کس کی محفل زیادہ اچھی ہے۔
۷۴حالانکہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی جماعتوں کو ہلاک کر چھوڑا جو ان سے ساز و سامان اور ظاہری نمود میں کہیں بڑھ چڑھ کے تھیں۔
۷۵(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ جو شخص گمراہی میں پڑا ہے تو خدا اس کو ڈھیل ہی دیتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس چیز کو (اپنی آنکھوں سے ) دیکھ لیں جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے یا عذاب یا قیامت تو اس وقت انہیں معلوم ہو جائے گا کہ مرتبہ میں کون بدتر ہے اور لشکر (جتھے ) میں کون کمزور (بے کس) ہے۔
۷۶اور جو لوگ راہِ راست پر ہیں خدا ان کی ہدایت اور زیادہ کرتا جاتا ہے۔ اور باقی رہ جانے والی نیکیاں تمہارے پروردگار کے نزدیک ثواب کی راہ سے بھی بہتر ہیں اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
۷۷(اے رسولؐ) کیا تم نے اس شخص پر بھی نظر کی جس نے ہماری آیتوں سے انکار کیا اور کہنے لگا کہ (اگر قیامت ہوئی تو بھی) مجھے مال اور اولاد ضرور ملے گی۔
۷۸کیا اسے غیب کا حال معلوم ہو گیا ہے یا اس نے خدا سے کوئی عہد (و پیمان) لے رکھا ہے
۷۹ہرگز نہیں۔ جو کچھ یہ بکتا ہے (سب) ہم ابھی سے لکھے لیتے ہیں اور اس کے لیے اور زیادہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں۔
۸۰اور جو (مال و اولاد کی نسبت) بک رہا ہے ہم ہی اس کے مالک ہو بیٹھیں گے۔ اور یہ ہمارے پاس تنہا آئے گا
۸۱اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کی عزت کے باعث ہوں۔
۸۲ہرگز نہیں (بلکہ) وہ معبود خود ان کی عبادت سے انکار کریں گے اور الٹے ان کے دشمن ہو جائیں گے۔
۸۳(اے رسولؐ) کیا تم نے اس بات کو نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں بہکاتے رہتے ہیں۔
۸۴تو (اے رسولؐ) تم ان کافروں پر (نزولِ عذاب کی) جلدی نہ کرو ہم تو بس ان کے لیے (عذاب کے دن)گن رہے ہیں۔
۸۵کہ جس دن پرہیزگاروں کو (خدائے ) رحمن کے (اپنے ) سامنے مہمانوں کی طرح جمع کریں گے۔
۸۶اور گنہگاروں کو جہنم کی طرف پیاسے (جانوروں ) کی طرح ہنکائیں گے۔
۸۷(اس دن) یہ لوگ سفارش پر (بھی) قادر نہ ہوں گے۔ مگر (ہاں ) جس شخص نے خدا سے (سفارش کا) اقرار لے لیا ہو۔
۸۸اور (یہودی) لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے (عزیر کو) بیٹا بنا لیا ہے
۸۹(اے رسولؐ تم کہہ دو کہ) تم نے اتنی بڑی سخت بات (اپنی طرف سے گھڑ کے ) کہی ہے۔
۹۰کہ قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں، اور زمین شگافتہ ہو جائے، اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں
۹۱اس بات سے کہ ان لوگوں نے خدا کے لیے بیٹا قرار دیا ہے۔
۹۲حالانکہ خدا کے لیے یہ کسی طرح شایاں نہیں کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔
۹۳سارے آسمان و زمین میں جتنی چیزیں ہیں سب کی سب خدا کے سامنے بندہ ہی بن کر آ موجود ہوتی ہیں۔
۹۴اس نے یقیناً ان سب کو اپنے (علم کے ) احاطہ میں گھیر لیا ہے اور سب کو اچھی طرح گن لیا ہے۔
۹۵اور یہ سب کے سب اس کے سامنے قیامت کے د ن اکیلے (اکیلے ) حاضر ہوں گے۔
۹۶بے شک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے عنقریب خدا ان کی محبت لوگوں پر فرض کر دے گا۔
۹۷بے شک ہم نے اس فرض محبت کو تمہاری زبان کے ذریعے سے سہل کر دیا ہے تاکہ تم اس کے ذریعے پرہیزگاروں کو (جنت کی) خوش خبری دو اور (عرب کی) جھگڑالو قوم کو (عذاب خدا سے ) ڈراؤ
۹۸اور ہم نے ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کر ڈالا۔ بھلا تم ان میں سے کسی کو (کہیں ) دیکھتے ہو یا اس کی کچھ بھنک بھی سنتے ہو۔
٭٭٭
۲۰۔ سورۃ طٰہ
۱(اے ) طٰہٰ
۲(رسول اللہ) ہم نے تم پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ تم اس قدر مشقت اٹھاؤ۔
۳مگر جو شخص (خدا سے ) ڈرتا ہے اس کے لیے نصیحت (قرار دیا) ہے
۴(یہ) اس ذات کی طرف سے نازل ہوا جس نے زمین اور اونچے اونچے آسمانوں کو پیدا کیا۔
۵وہ رحمن ہے جو عرش پر (حکمرانی کے لیے ) آمادہ و مستعد ہے۔
۶جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ دونوں کے بیچ میں ہے اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے غرض (سب کچھ اسی) کا ہے۔
۷اور اگر تو پکار کر بات کرے (تو بھی آہستہ کرے تو بھی) وہ یقیناً بھید اور اس سے زیادہ پوشیدہ چیز کو جانتا ہے۔
۸اللہ وہ (معبود) ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اچھے (اچھے ) اسی کے نام ہیں۔
۹اور (اے رسولؐ) کیا تم تک موسیٰؑ کی خبر پہنچی ہے۔
۱۰کہ جب انہوں نے (دُور سے ) آگ دیکھی تو اپنے گھرکے لوگوں سے کہنے لگے کہ تم لوگ (ذرا یہیں ) ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے کیا عجب ہے کہ میں (وہاں جا کر) اس میں سے ایک انگارا تمہارے پاس لے آؤں یا آگ کے پاس کسی راہ کا پتہ پا جاؤں
۱۱پھر جب موسیٰ آگ کے پاس آئے تو انہیں آواز آئی کہ اے موسیٰ ؑ
۱۲بے شک میں ہی تمہارا پروردگار ہوں تو تم اپنی دونوں جوتیاں اتار ڈالو کیونکہ تم (اس وقت) طویٰ (نامی) پاکیزہ چٹیل میدان میں ہو۔
۱۳اور میں نے تم کو (پیغمبری کے واسطے ) منتخب کیا ہے تو جو کچھ تمہاری طرف وحی کی جاتی ہے اسے کان لگا کے سنو
۱۴اس میں شک نہیں کہ میں ہی وہ اللہ ہوں کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز (برابر) پڑھا کرو
۱۵(کیونکہ) قیامت ضرور آنے والی ہے اور میں اسے لامحالہ چھپائے رکھوں گا تاکہ ہر شخص (اس کے خوف سے نیکی کرے ) اور جیسی کوشش کی ہے اس کا اسے بدلہ دیا جائے۔
۱۶تو (کہیں ) ایسا نہ ہو کہ جو شخص اسے دل سے نہیں مانتا اور اپنی نفسانی خواہش کے پیچھے پڑا ہے وہ تمہیں اس (فکر) سے روک دے تو تم تباہ ہو جاؤ گے۔
۱۷اور اے موسیٰ ؑ یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا چیز ہے۔
۱۸عرض کی یہ تو میری لاٹھی ہے میں اس پر سہارا کرتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر (درختوں کی) پتیاں جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے اور بھی مطلب ہیں۔
۱۹فرمایا اے موسیٰؑ اس کو ذرا زمین پر ڈال تو دو۔
۲۰موسیٰؑ نے اسے ڈال دیا تو فوراً وہ سانپ بن کر دوڑنے لگا۔
۲۱(یہ دیکھ کر موسیٰؑ بھاگے تو) فرمایا کہ تم اسے پکڑ لو اور ڈرو نہیں میں ابھی اس کی پہلی سی صورت پھر کیے دیتا ہوں۔
۲۲اور اپنے ہاتھ کو سمیٹ کر اپنے بغل میں تو کر لو (پھر دیکھو کہ) وہ کسی بیماری کے بغیر سفید چمکتا دمکتا ہوا نکلے گا (یہ) دوسرا معجزہ ہے۔
۲۳تاکہ ہم تم کو اپنی (قدرت کی) بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔
۲۴اب تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے بہت سر اٹھایا ہے۔
۲۵موسیٰؑ نے عرض کی پروردگارا (میں تو جانتا ہوں مگر) تو میرے لیے میرے سینہ کو کشادہ فرما (دلیر بنا)
۲۶اور میرا کام میرے لیے آسان کر دے،
۲۷اور میری زبان سے (لکنت) کی گرہ کھول دے،
۲۸تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ لیں،
۲۹اور میرے کنبہ والوں میں سے
۳۰میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر (بوجھ بٹانے والا) بنا دے۔
۳۱اس کے ذریعے سے میری پشت مضبوط کر دے،
۳۲اور میرے کام میں اس کو میرا شرک بنا
۳۳تا کہ ہم دونوں (مل کر) کثرت سے تیری تسبیح کریں۔
۳۴اور کثرت سے تیری یاد کریں۔
۳۵بے شک تُو تو ہماری حالت دیکھ ہی رہا ہے۔
۳۶فرمایا اے موسیٰؑ تمہاری سب درخواستیں منظور کی گئیں۔
۳۷اور ہم تو تم پر ایک بار اور احسان کر چکے ہیں۔
۳۸جب ہم نے تمہاری ماں کو الہام کیا جو اب تمہیں وحی کے ذریعے سے بتایا جاتا ہے
۳۹کہ تم اسے (موسیٰ ؑ کو) صندوق میں رکھ کر صندوق کو دریا میں ڈال دو پھر دریا اسے دھکیل کے کنارے ڈال دے گا کہ موسیٰؑ کو میرا دشمن اور موسیٰ ؑ کا دشمن (فرعون) اٹھا لے گا اور میں نے تم پر اپنی محبت کا (پرتو) ڈال دیا (کہ جو دیکھتا پیار کرتا) تاکہ تم میری خاص نگرانی میں پالے پوسے جاؤ۔
۴۰(اس وقت) جب تمہاری بہن چلی (اور فرعون کے گھر میں آ کر) کہنے لگی کہ کہو تو میں تمہیں ایک دایہ بتاؤں کہ جو اسے اچھی طرح پالے۔ تو (اس تدبیر سے ) ہم نے پھر تم کو تمہاری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور (تمہاری جدائی پر) کڑھے نہیں۔ اور تم نے ایک شخص (قبطی) کو مار ڈالا تھا (اورسخت پریشان تھے ) تو ہم نے تم کو اس غم سے نجات دی اور ہم نے تمہارا اچھی طرح امتحان کر لیا پھر تم کئی برس تک مدین کے لوگوں میں جا کر رہے (اے موسیٰ ؑ ) پھر تم اس حد پر پہنچ گئے (جو تبلیغ رسالت کے لیے ) مقدر تھی۔
۴۱اور میں نے تم کو اپنی رسالت کے واسطے چن لیا۔
۴۲تم اپنے بھائی سمیت ہمارے معجزے لے کر جاؤ اور دیکھو میری یاد میں سستی نہ کرنا۔
۴۳تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ بہت سرکش ہو گیا ہے۔
۴۴پھر اسے (جا کر) نرمی سے باتیں کرو تاکہ وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے۔
۴۵دونوں نے عرض کی اے ہمارے پالنے والے ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ ہم پر زیادتی (نہ) کر بیٹھے یا اور زیادہ سرکشی کر بیٹھے۔
۴۶فرمایا تم ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں (اور سب کچھ) سنتا اور دیکھتا ہوں۔
۴۷غرض تم دونوں اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم آپ کے پروردگار کے رسولؐ ہیں تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے اور انہیں ستایئے نہیں ہم آپ کے پاس آپ کے پروردگار کا معجزہ لے کر آئے ہیں اور جو راہِ راست کی پیروی کرے اسی کے لیے سلامتی ہی۔
۴۸ہمارے پاس خدا کی طرف سے یہ وحی نازل ہوئی ہے کہ یقیناً عذاب اسی شخص پر ہے جو (خدا کی آیتوں کو) جھٹلائے اور (اس کے حکم سے ) منہ موڑے۔
۴۹(غرض گئے اور کہا) فرعون نے پوچھا اے موسیٰ ؑ آخر تم دونوں کا پروردگار کون ہے
۵۰موسیٰ ؑ نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے لیے (مناسب) صورت عطا فرمائی پھر اسی نے زندگی بسر کرنے کے طریقے بتائے ہیں۔
۵۱فرعون نے پوچھا بھلا اگلے لوگوں کا حال (تو بتاؤ کہ) کیا ہوا۔
۵۲موسیٰ ؑ نے کہا ان باتوں کا علم میرے پروردگار کے پاس ایک کتاب (لوح محفوظ) میں لکھا ہوا) ہے۔ میرا پروردگار نہ بہکتا ہے نہ بھولتا ہے
۵۳وہ وہی ہے جس نے تمہارے (فائدہ کے واسطے ) زمین کو بچھونا بنایا اور تمہارے لیے اس میں راہیں نکالیں اور اسی نے آسمان سے پانی برسایا۔پھر (خدا فرماتا ہے کہ) ہم ہی نے اس پانی کے ذریعے سے مختلف قسموں کی گھاسیں نکالیں۔
۵۴(تاکہ)تم خود بھی کھاؤ اور اپنے چار پاؤں کو (بھی) چراؤ۔ کچھ شک نہیں کہ اس میں عقل مندوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔
۵۵ہم نے اسی زمین سے تم کو پیدا کیا اور (مرنے کے بعد) اس میں لوٹا کر لائیں گے اور اسی سے دوسری بار (قیامت کے دن) تم کو نکال کھڑا کریں گے۔
۵۶اور میں نے فرعون کو اپنی ساری نشانیاں دکھا دیں اس پر بھی اس نے (سب کو) جھٹلا دیا اور نہ مانا
۵۷(اور) کہنے لگا اے موسیٰ ؑ کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم کو ہمارے ملک (مصر) سے اپنے جادو کو زور سے نکال باہر کرو۔
۵۸اچھا تو (رہو) ہم بھی تمہارے سامنے ایسا ہی جادو پیش کرتے ہیں پھر تم اپنے اور ہمارے درمیان ایک وقت مقرر کرو کہ نہ ہم اس کے خلاف کریں اور نہ تم اور (مقابلہ)ایک صاف کھلے میدان میں ہو۔
۵۹موسیٰ ؑ نے کہا تمہاری (مقابلہ کی) میعاد زینت (عید) کا دن ہے اور (اس روز) سب لوگ دن چڑھے جمع کیے جائیں گے۔
۶۰اس کے بعد فرعون (اپنی جگہ) لَوٹ گیا پھر اپنے چلتر (جادو کے سامان)جمع کرنے لگا۔ پھر (مقابلہ کو) آ موجود ہوا۔
۶۱موسیٰؑ نے (فرعونیوں سے ) کہا تمہارا ناس ہو خدا پر جھوٹی جھوٹی افترا پردازیاں نہ کرو ورنہ وہ عذاب (نازل کر کے اس) سے تمہارا ملیامیٹ کر چھوڑے گا اور (یاد رکھو کہ) جس نے افترا پردازی کی وہ یقیناً نامراد رہا۔
۶۲اس پر وہ لوگ اپنے کام میں باہم جھگڑنے اور سرگوشیاں کرنے لگے۔
۶۳(آخر) وہ لوگ بول اٹھے یہ دونوں یقیناً جادوگر ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے جادو (کے زور) سے تم لوگوں کو تمہارے ملک سے نکال باہر کریں اور تمہارے اچھے خاصے مذہب کو مٹا چھوڑیں
۶۴تو تم بھی خوب اپنے چلتر (جادو وغیرہ) درست کر لو۔ پھر پرا باندھ کے (ان کے مقابلہ میں ) آ پڑو۔ اور جو آج ور رہا وہی فائز المرام رہا۔
۶۵(غرض جادوگروں نے ) کہا اے موسیٰؑ یا تو تم ہی (اپنے جادو) پھینکو اور یا یہ کہ پہلے جو جادو پھینکے وہ ہم ہی ہوں۔
۶۶موسیٰؑ نے کہا (میں نہیں ڈالوں گا) بلکہ تم ہی (پہلے ) ڈالو (غرض انہوں نے اپنے کرتب دکھائے )تو بس موسیٰ ؑ کو ان کے جادو (کے زور) سے ایسا معلوم ہوا کہ ان کی رسیاں اور ان کی چھڑیاں دوڑ رہی ہیں۔
۶۷تو موسیٰؑ نے اپنے دل میں کچھ دہشت سی پائی۔
۶۸ہم نے کہا (موسیٰ سے ) ڈرو نہیں یقیناً تم ہی ور رہو گے۔
۶۹اور تمہارے داہنے ہاتھ میں جو (لاٹھی) ہے اسے ڈال تو دوکہ جو کر تب ان لوگوں نے کی ہے۔ اسے ہڑپ کر جائے۔ کیونکہ ان لوگوں نے جو کچھ کر تب کی وہ ایک جادوگر کی کرتب ہے۔ اور جادوگر جہاں جائے کامیاب نہیں ہو سکتا۔
۷۰(غرض موسیٰؑ کی لاٹھی نے سب ہڑپ کر لیا) یہ دیکھتے ہی وہ سب جادوگرسجدے میں گر پڑے (اور) کہنے لگے ہم ہارونؑ اور موسٰیؑ کے پروردگار پر ایمان لائے۔
۷۱فرعون نے (ان لوگوں سے ) کہا (ہائیں ) اس سے پہلے کہ ہم تم کو اجازت دیں تم اس پر ایمان لے آئے اس میں شک نہیں کہ یہ تم سب کا بڑا (گرو) ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے تو میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ دوسری طرف کے پاؤں ضرور کاٹ ڈالوں گا اور تمہیں یقیناً خرموں کی شاخوں پر سولی چڑھا دوں گا اور اس وقت تم کو (اچھی طرح) معلوم ہو جائے گا کہ ہم (دونوں فریقوں ) سے عذاب میں زیادہ بڑھا ہوا کون ہے اور کس کو قیام زیادہ ہے
۷۲جادوگر بولے کہ ایسے واضح و روشن معجزات جو ہمارے سامنے آئے اُن پر اور جس (خدا) نے ہم کو پیدا کیا اس پر تو ہم تم کوکسی طرح ترجیح دے نہیں سکے تو جو تجھے کرنا ہو کر گزر۔ تو بس دنیا کی (اسی ذرا سی) زندگی پر حکومت کرسکتا ہے۔
۷۳(اور کہا) ہم تو اپنے پروردگار پر اس لیے ایمان لائے ہیں تاکہ ہمارے واسطے ہمارے سارے گناہ معاف کر دے اور (خاص کر) جادو (کے گناہ) جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا۔ اور خدا ہی سب سے بہتر ہے اور (اسی کو) سب سے زیادہ قیام ہے۔
۷۴اس میں شک نہیں کہ جو شخص مجرم ہو کر اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہو گا تو اس کے لیے یقیناً جہنم (دَھرا ہوا) ہے جس میں نہ تو وہ مرے ہی گا اور نہ زندہ ہی رہے گا۔ (سسکتا رہے گا)
۷۵اور جو شخص اس کے سامنے ایمان دار ہو کر حاضر ہو گا اور اس نے اچھے اچھے کام بھی کیے ہوں گے تو ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے بڑے بڑے بلند رُتبے ہیں۔
۷۶وہ سدا بہار باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ وہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور جو (گناہ سے ) پاک و پاکیزہ رہے اس کا یہی صلہ ہے۔
۷۷اور ہم نے موسیٰ ؑ کے پاس وحی بھیجی کہ میرے بندوں (بنی اسرائیل) کو (مصر سے ) راتوں رات نکال لے جاؤ پھر دریا میں (لاٹھی مارکر) ان کے لیے ایک سُوکھی راہ نکالو (اور) تم کو نہ پیچھا کرنے کا کوئی خوف رہے گا اور نہ (ڈوبنے کی) کوئی دہشت۔
۷۸غرض فرعون نے اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کیا پھر دریا (کے پانی کا ریلا) جیسا کچھ ان پرچھا گیا وہ چھا گیا۔
۷۹اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ(کر کے ہلاک) کر ڈالا اور ان کی ہدایت نہ کی-
۸۰اے بنی اسرائیل ہم نے تم کو تمہارے دشمن (کے پنجہ) سے چھڑایا اور تم سے (کوہ) طور کے داہنے طرف کا وعدہ کیا اور ہم ہی نے تم پر من و سلویٰ نازل کیا۔
۸۱اور (فرمایا کہ) ہم نے جو پاک و پاکیزہ روزیاں تمہیں دے رکھی ہیں ان میں سے کھاؤ (پیو) اور اس میں (کسی قسم کی) شرارت نہ کرو ورنہ تم پرمیرا غضب نازل ہو جائے گا اور (یاد رکھو کہ) جس پر میرا غضب نازل ہوا تو وہ یقیناً گمراہ (ہلاک) ہوا۔
۸۲اور جو شخص توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرے پھر ثابت قدم رہے تو ہم اس کو ضرور بخشنے والے ہیں۔
۸۳(پھر جب موسیٰ ؑ ستّر آدمیوں کو لے کر چلے اور خود بڑھ آئے تو ہم نے کہا کہ) اے موسیٰ تم نے اپنی قوم سے آگے چلے آنے میں جلدی کیوں کی؟
۸۴عرض کی وہ بھی تو میرے پیچھے ہی پیچھے چلے آرہے ہیں اور الٰہی میں جلدی کر کے تیرے پاس اس لیے آگے بڑھ آیا تاکہ تو (مجھ سے ) خوش رہے۔
۸۵فرمایا تو ہم نے تمہارے آنے کے بعد تمہاری قوم امتحان لیا اور سامری نے ان کو گمراہ کر چھوڑا۔
۸۶پھر (تو) موسیٰؑ غصّہ میں بھرے پچھتائے ہوئے اپنی قوم کی طرف پلٹے اور (آ کر) کہنے لگے اے میری (کم بخت) قوم کیا تم سے تمہارے پروردگار نے ایک اچھا وعدہ (توریت دینے کا) نہ کیا تھا۔ تو کیا تمہارے وعدے میں عرصہ لگ گیا یا تم نے یہ چاہا کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب ٹوٹ پڑے تم نے میرے وعدہ (خدا کی پرستش)کے خلاف کیا۔
۸۷وہ لوگ کہنے لگے ہم نے آپ کے وعدہ کے خلاف نہیں کیا بلکہ (بات یہ ہوئی کہ فرعون کی) قوم کے زیور کے بوجھے جو (مصر سے نکلتے وقت) ہم پر لا دے گئے تھے ان کو ہم لوگوں نے (سامری کے کہنے سے آگ میں ) ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا
۸۸پھر (سامری) نے ان لوگوں کے لیے (اسی زیور سے ) ایک بچھڑے کی مورت بنائی جس کی آواز بھی بچھڑے کی سی تھی۔ اس پر بعض لوگ کہنے لگے یہی تمہارا (بھی) معبود ہے اور موسیٰؑ کا معبود ہے۔ مگر وہ بھول گیا ہے
۸۹بھلا ان لوگوں کو اتنی بھی نہ سوجھی کہ یہ بچھڑا نہ تو ان لوگوں کو پلٹ کر ان کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کا ضرر ہی اس کے ہاتھ ہے اور نہ نفع۔
۹۰اور ہارونؑ نے ان سے پہلے کہا بھی تھا کہ اے میری قوم تمہارا صرف اس کے ذریعہ سے امتحان لیا جا رہا ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ تمہارا پروردگار بس (خدائے ) رحمن ہے تو تم میری پیروی کرو اور میرا کہا مانو۔
۹۱وہ لوگ کہنے لگے جب تک موسیٰ ؑ ہمارے پاس پلٹ کر نہ آئیں ہم تو برابر اس کی پرستش پر ڈٹے بیٹھے رہیں گے۔
۹۲موسٰیؑ نے (ہارونؑ کی طرف خطاب کر کے ) کہا: اے ہارون جب تم نے ان کو دیکھ لیا تھا کہ گمراہ ہو گئے ہیں۔ تو تمہیں کس نے منع کیا
۹۳میری پیروی (قتال) کرنے تو کیا تم نے میرے حکم کی نافرمانی کی؟
۹۴ہارونؑ نے کہا:اے میرے ماں جائے (بھائی)میری داڑھی نہ پکڑیئے اور نہ میرے سَر (کے بال) میں تو اس سے ڈرا کہ (کہیں ) آپ (واپس آ کر) یہ (نہ) کہیے کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا بھی خیال نہ رکھا۔
۹۵(تب سامری سے ) کہنے لگے کہ او سامری! تیرا کیا حال ہے۔
۹۶(اس نے جواب میں ) کہا: مجھے وہ چیز دکھائی دی جو اوروں کو نہ سوجھی(جبرئیلؑ گھوڑے پر سوار جا رہے تھے )تو میں نے جبرئیلؑ (کے گھوڑے ) کے نشانِ قدم کی ایک مٹھی (خاک کی) اٹھا لی۔ پھر میں نے (بچھڑے کے قالب میں ) ڈال دی (تو وہ بولنے لگا) اور اس وقت مجھے میری نفس نے یہی سوجھائی۔
۹۷موسیٰؑ نے کہا چل (دور ہو) تیرے لیے (اس دنیا کی) زندگی میں تو (یہ سزا ہے ) کہ تو کہتا پھرے گا کہ مجھے نہ چھونا (ورنہ بخار چڑھ آئے گا) اور (آخر میں بھی) یقینی تیرے لیے (عذاب کا)وعدہ ہے کہ ہرگز تجھ سے خلاف نہ کیا جائے گا اور تو اپنے معبود کو تو دیکھ جس کی (عبادت) پر تو ڈٹا بیٹھا تھا کہ ہم اسے یقیناً جلا (کر راکھ کر) ڈالیں گے پھر اسے ہم تتّر بتّر کر کے دریا میں اڑا دیں گے۔
۹۸تمہارا معبود تو بس وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی اور معبود برحق نہیں کہ اس کا علم ہر چیز پر چھا گیا ہے۔
۹۹(اے رسولؐ) ہم تمہارے سامنے یوں واقعات بیان کرتے ہیں جو گزر چکے ہیں اور ہم نے تمہارے پاس اپنی بارگاہ سے قرآن عطا کیا۔
۱۰۰جس نے اس سے منہ پھیرا وہ قیامت کے دن یقیناً (اپنے بُرے اعمال کا) بوجھ اٹھائے گا
۱۰۱اور اسی حال میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور کیا ہی بُرا بوجھ ہے جو قیامت کے دن یہ لوگ اٹھائے ہوں گے۔
۱۰۲جس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم اس دن گنہگاروں کو (ان کی) آنکھیں نیلی (اندھی) کر کے (اپنے سامنے ) جمع کریں گے
۱۰۳(اور) آپس میں چپکے چپکے کہتے ہوں گے کہ (دنیا یا قبر میں ) ہم لوگ (بہت سے بہت) تو بس دس دن ٹھہرے ہوں گے۔
۱۰۴جو کچھ یہ لوگ (اُس دن) کہیں گے ہم خوب جانتے ہیں کہ جو ان میں سب سے زیادہ ہوشیار ہو گا بول اُٹھے گا کہ تم تو بس (بہت سے بہت) ایک دن ٹھہرے ہوں گے۔
۱۰۵اور (اے رسولؐ) تم سے لوگ پہاڑوں کے بارے میں پوچھا کرتے ہیں (کہ قیامت کے دن کیا ہوں گے ) تو تم کہہ دو کہ میرا پروردگار بالکل ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا۔
۱۰۶اور زمین کو ایک چٹیل میدان کر چھوڑے گا
۱۰۷کہ (اے شخص) نہ تو تو اس میں موڑ دیکھے گا اور نہ اونچ (نیچ)
۱۰۸اس دن لوگ ایک پکارنے والے (اسرافیل کی آواز) کے پیچھے (اس طرح سیدھے ) دوڑ پڑیں گے کہ اس میں کچھ بھی کجی نہ ہو گی اور آوازیں اُس دن خدا کے سامنے (اس طرح) گھگھیا جائیں گی کہ تو گھنگھناہٹ کے سوا کچھ نہ سنے گا۔
۱۰۹اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی مگر جس کو خدا نے اجازت دی ہو اور اس کا بولنا پسند کرے۔
۱۱۰جو کچھ ان لوگوں کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے (غرض سب کچھ) وہ جانتا ہے اور یہ لوگ اپنے علم سے اس پر حاوی نہیں ہو سکتے۔
۱۱۱اور (قیامت میں ) ساری (خدائی کے )منہ زندہ پائندہ خدا کے سامنے جھک جائیں گے اور جس نے ظلم کا بوجھ (اپنے سر پر) اٹھایا وہ یقیناً ناکام رہا
۱۱۲اور جس نے اچھے اچھے کام کیے اور وہ مومن بھی ہے تو اس کو نہ کسی طرح کی بے انصافی کا ڈر ہے اور نہ کسی نقصان کا۔
۱۱۳ہم نے اس کو اسی طرح عربی زبان کا قرآن نازل فرمایا اور اس میں عذاب کے طرح طرح کے وعدے بیان کیے تاکہ یہ لوگ پرہیزگار بنیں یا ان کے مزاج میں عبرت پیدا کر دے
۱۱۴پس (دو جہان کا) سچّا بادشاہ خدا برتر و اعلیٰ ہے۔ اور (اے رسولؐ) قرآن (کے پڑھنے ) میں، اس سے پہلے کہ تم پر اس کی وحی پوری کر دی جائے، جلدی نہ کرو اور دُعا کرو کہ اے میرے پالنے والے میرے علم کو اور زیادہ فرما۔
۱۱۵اور ہم نے آدمؑ سے پہلے ہی عہد لے لیا تھا (کہ اس درخت کے پاس نہ جانا) تو آدمؑ نے اسے ترک کر دیا اور ہم نے ان میں ثبات و استقلال نہ پایا۔
۱۱۶اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر شیطان نے انکار کیا۔
۱۱۷تو ہم نے (آدمؑ سے ) کہا اے آدمؑ یہ یقینی تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے تو کہیں تم دونوں کو بہشت سے نکلوا نہ چھوڑے تو تم (دنیا کی) مصیبت میں پھنس جاؤ۔
۱۱۸کچھ شک نہیں کہ (بہشت میں ) تمہیں یہ (آرام) ہے کہ نہ تو تم یہاں بھوکے رہو گے اور نہ ننگے
۱۱۹اور نہ یہاں پیاسے رہو گے اور نہ دھوپ کھاؤ گے
۱۲۰تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا (اور) کہا اے آدمؑ کیا میں تمہیں ہمیشگی (کی زندگی) کا درخت اور وہ سلطنت جو کبھی زائل نہ ہو بتا دوں۔
۱۲۱چنانچہ دونوں میاں بیوی نے اسی میں سے کچھ کھایا تو ان کا آگا پیچھا ان پر ظاہر ہو گیا اور دونوں بہشت کے (درخت کے ) پتے اپنے آگے پیچھے پر چپکانے لگے اور آدمؑ نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی تو (راہِ ثواب سے بے راہ ہو گئے )
۱۲۲اس کے بعد ان کے پروردگار نے برگزیدہ کیا پھر ان کی توبہ قبول کی اور ان کی ہدایت کی۔
۱۲۳فرمایا کہ تم دونوں بہشت سے نیچے اُتر جاؤ تم میں سے ایک کا ایک دشمن ہے پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (تم اس کی پیروی کرنا) کیونکہ جو شخص میری ہدایت پر چلے گا نہ تو وہ گمراہ ہو گا اور نہ مصیبت میں پھنسے گا۔
۱۲۴اور جس شخص نے میری یاد سے منہ پھیر لیا تو اس کی زندگی بہت تنگی میں بسر ہو گی اور ہم اس کو قیامت کے دن اندھا (بنا کے ) اٹھائیں گے۔
۱۲۵وہ کہے گا الٰہی! میں (دنیا میں ) آنکھ والا تھا تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا۔
۱۲۶خدا فرمائے گا ایسا ہی (ہونا چاہیے ) ہمارے آیتیں بھی تو تیرے پاس آئی تھیں تو تو اُنہیں بھلا بیٹھا اور اسی طرح آج تو بھی بھلا دیا جائے گا۔
۱۲۷اور جس نے (حد سے ) تجاوز کیا اور اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان نہ لایا اس کو ایسا ہی بدلہ دیں گے۔ اور آخرت کا عذاب تو یقینی بہت سخت اور بہت دیرپا ہے۔
۱۲۸تو کیا ان (اہل مکّہ) کو اس (خدا) نے یہ نہیں بتا دیا تھا کہ ہم نے ان کے پہلے کتنے لوگوں کو ہلاک کر ڈالا جن کے گھروں میں یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس میں عقلمندوں کے لیے (قدرت خدا کی) یقینی بہت سی نشانیاں ہیں۔
۱۲۹اور (اے رسولؐ) اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے پہلے ہی ایک وعدہ اور (عذاب کا) ایک وقت معین نہ ہوتا تو (ان کی حرکتوں سے ) فوراً عذاب کا آنا لازمی بات تھی۔
۱۳۰(اے رسولؐ) جو کچھ یہ کفّار بکا کرتے ہیں تم اس پر صبر کرو اور آفتاب نکلنے کے قبل اور اس کے غروب ہونے کے قبل اپنے پروردگار کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح کیا کرو اور کچھ رات کے وقتوں میں اور دن کے کناروں میں تسبیح کرو تاکہ تم نہال ہو جاؤ۔
۱۳۱اور (اے رسولؐ) جو ان میں سے کچھ لوگوں کو دُنیا کی اس ذرا سی زندگی کی رونق سے نہال کر دیا ہے تاکہ ہم ان کو اس میں آزمائیں تم اپنی نظریں ادھر نہ بڑھاؤ اور (اس سے ) تمہارے پروردگار کی روزی (ثواب) کہیں بہتر اور زیادہ پائدار ہے۔
۱۳۲اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور تم خود بھی اس کے پابند رہو۔ ہم تم سے روزی تو طلب نہیں کرتے (بلکہ) ہم تو خود تم کو روزی دیتے ہیں اور پرہیزگاری کا تو انجام بخیر ہے۔
۱۳۳اور (اہل مکّہ) کہتے ہیں کہ اپنے پروردگار کی طرف سے ہمارے پاس کوئی معجزہ (ہماری مرضی کے موافق) کیوں نہیں لاتا تو کیا جو (پیشین گوئیاں ) اگلی کتابوں (توریت انجیل) میں (اس کی) گواہ ہیں (وہ بھی) ان کے پاس نہیں پہنچیں
۱۳۴اور اگر ہم ان کو اس (رسولؐ) سے پہلے عذاب سے ہلاک کر ڈالتے تو ضرور کہتے کہ اے ہمارے پالنے والے تو نے ہمارے پاس (اپنا) رسولؐ کیوں نہ بھیجا تو ہم اپنے ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے تیری آیتوں کی پیروی کرتے۔
۱۳۵(اے رسولؐ) تم کہہ دوکہ ہر شخص (اپنے انجام کار کا) منتظر ہے تو تم بھی انتظار کرو پھر تو تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ سیدھی راہ والے کون ہیں (اور کجی پر کون ہے ) اور ہدایت یافتہ کون ہیں (اور گمراہ کون ہیں )۔
٭٭٭
۲۱۔ سورۃ الانبیاء
۱لوگوں کے پاس ان کا حساب (کا وقت) آ پہنچا اور وہ ہیں کہ غفلت میں پڑے مُنہ موڑے ہی جاتے ہیں۔
۲جب ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس کوئی نیا حکم آتا ہے تو اسے صرف کان لگا کر سُن لیتے ہیں اور پھر (اس کا) ہنسی کھیل اڑاتے ہیں۔
۳ان کے دل (آخرت کے خیال سے ) بالکل بے خبر ہیں اور یہ ظالم چپکے چپکے کانا پھوسی کیا کرتے ہیں کہ یہ شخص (محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کچھ بھی نہیں )بس تمہارا ہی سا آدمی ہے۔ تو کیا تم دیدہ و دانستہ جادُو میں پھنستے ہو۔
۴(تو اس پر رسولؐ نے ) کہا کہ میرا پروردگار جتنی باتیں آسمان اور زمین میں ہوتی ہیں خوب جانتا ہے (پھر کیا کانا پھوسی کرتے ہو) اور وہ تو بڑا سننے والا واقف کار ہے۔
۵(اس پر بھی ان لوگوں نے اکتفا نہ کی) بلکہ کہنے لگے (یہ قرآن تو) خواب ہائے پریشان کا مجموعہ ہے بلکہ اس نے خود اپنے جی سے جھوٹ موٹ گھڑ لیا ہے بلکہ یہ شخص شاعر ہے (اور اگر حقیقتاً رسولؐ ہے تو)اسی طرح یہ بھی کوئی معجزہ (جیسا ہم کہیں ) ہمارے پاس بھلا لائے تو سہی جس طرح اگلے پیغمبر (معجزوں کے ساتھ) بھیجے گئے تھے
۶ان سے پہلے ہم نے جن بستیوں کو تباہ کر ڈالا (معجزہ دیکھ کر بھی تو) ایمان نہ لائے تو کیا یہ لوگ ایمان لائیں گے۔
۷اور (اے رسولؐ) ہم نے تم سے پہلے بھی آدمیوں ہی کو (رسولؐ بنا کر) بھیجا تھا کہ ان کے پاس وحی بھیجا کرتے تھے تو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے ہو تو عالموں سے پوچھ دیکھو۔
۸اور ہم نے ان (پیغمبروں ) کے بدن ایسے نہیں بنائے تھے کہ نہ کھانا کھائیں اور نہ وہ (دنیا میں ) ہمیشہ رہنے سہنے والے تھے۔
۹پھر ہم نے انہیں (اپنا عذاب کا) وعدہ سچّا کر دکھایا (اور جب عذاب آ پہنچا تو) ہم نے ان پیغمبروں کو اور جس جس کو چاہا چھٹکارا دیا اور حد سے بڑھ جانے والوں کو ہلاک کر ڈالا۔
۱۰ہم نے تو تم لوگوں کے پاس وہ کتاب (قرآن) نازل کی ہے جس میں تمہارا (بھی) ذکر (خیر) ہے۔ تو کیا تم لوگ (اتنا بھی) نہیں سمجھتے۔
۱۱اور ہم نے کتنی بستیوں کو جن کے رہنے والے سرکش تھے برباد کر دیا اور ان کے بعد دوسرے لوگوں کو پیدا کیا
۱۲تو جب اُن لوگوں نے ہمارے عذاب کی آہٹ سنی تو ایکا ایکی بھاگنے لگے
۱۳(ہم نے کہا)بھاگو نہیں اور ان ہی بستیوں اور گھروں میں لَوٹ جاؤ جن میں تم چین کرتے تھے تاکہ تم سے کچھ پوچھ گچھ کی جائے۔
۱۴وہ لوگ کہنے لگے ہائے ہماری شامت بے شک ہم سرکش تو ضرور تھے۔
۱۵غرض وہ تو برابر یہی پڑے پکارا کیے یہاں تک کہ ہم نے، انہیں کٹی ہوئی کھیتی کی طرح بجھا کے ٹھنڈا کر کے ڈھیر کر دیا۔
۱۶اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے بے کار لغو نہیں پیدا کیا
۱۷اگر ہم کوئی کھیل بنانا چاہتے تو بے شک ہم اسے اپنی تجویز سے بنا لیتے اگر ہم کو کرنا ہوتا (مگر ہمیں شایان ہی نہ تھا)
۱۸بلکہ ہم تو حق کو ناحق (کے سر) پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ باطل کے سر کو کچل دیتا ہے پھر وہ اسی وقت نیست و نابود ہو جاتا ہے اور تم پر افسوس ہے کہ ایسی ایسی ناحق باتیں بنایا کرتے ہو
۱۹حالانکہ جو لوگ (فرشتے ) آسمان اور زمین میں ہیں (سب) اسی کے (بندے ) ہیں۔ اور جو (فرشتے ) اس کی سرکار میں ہیں نہ تو وہ اس کی عبادت کی شیخی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔
۲۰رات اور دن اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں (اور) کبھی کاہلی نہیں کرتے۔
۲۱ان لوگوں نے جو معبود زمین میں بنا رکھے ہیں کیا وہی (لوگوں کو) زندہ کریں گے۔
۲۲ اگر(بفرضِ محال) زمین و آسمان میں خدا کے سوا چند معبود ہوتے تو دونوں کب کے برباد ہو گئے ہوتے۔ تو جو باتیں یہ لوگ اپنے جی سے (اس کے بارے میں ) بنایا کرتے ہیں خدا جو عرش کا مالک ہے ان تمام عیبوں سے پاک و پاکیزہ ہے
۲۳جو کچھ وہ کرتا ہے اس کی پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی (ہاں ) اور لوگوں سے باز پُرس ہو گی۔
۲۴کیا ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر کچھ اور معبود بنا رکھے ہیں ( اے رسولؐ) تم کہو کہ بھلا اپنی دلیل تو پیش کرو جو میرے (زمانہ میں ) ساتھ ہیں ان کی کتاب (قرآن) اور جو لوگ مجھ سے پہلے تھے ان کی کتابیں (توریت وغیرہ) یہ (موجود) ہیں (ان میں خدا کا شریک بتا دو) بلکہ ان میں سے اکثر تو حق (بات کو) جانتے ہی نہیں (تو جب حق کا ذکر آتا ہے ) یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں۔
۲۵اور اے رسولؐ ہم نے تم سے پہلے جب کبھی کوئی رسول بھیجا تواس کے پاس ہم یہی وحی بھیجتے رہے کہ بس ہمارے سوا کوئی معبود قابل پرستش نہیں تو میری عبادت کرو۔
۲۶اور اہل مکہ کہتے ہیں کہ خدا نے (فرشتوں کو) اپنی اولاد (بیٹیاں ) بنا رکھا ہے (حالانکہ) وہ اس سے پاک و پاکیزہ ہے بلکہ (وہ فرشتے خدا کے ) معزز بندے ہیں
۲۷وہ گفتگو میں اس سے سبقت نہیں کرسکتے اور وہ اسی کے حکم پر چلتے ہیں
۲۸جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے (غرض سب کچھ) وہ (خدا) جانتا ہے۔ اور وہ اس شخص کے سوا جس سے خدا راضی ہوکسی کی سفارش بھی نہیں کرتے اور وہ خود اس کے خوف سے (ہر وقت) ڈرتے رہتے ہیں۔
۲۹اور ان میں سے جو کوئی یہ کہہ دے کہ خدا نہیں (بلکہ) میں معبود ہوں تو وہ (مردودِ بارگاہ ہوا) ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے۔ اور سرکشوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔
۳۰جو لوگ کافر ہو بیٹھے کیا ان لوگوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین دونوں بستہ (بند) تھے تو ہم نے دونوں کو شگافتہ کیا (کھول دیا) اور ہم ہی نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ تو کیا اس پر بھی یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے۔
۳۱اور ہم ہی نے زمین پر بھاری بوجھل پہاڑ بنائے تاکہ زمین ان لوگوں کو لے کر کسی طرف جھک نہ پڑے اور ہم نے اس میں لمبے چوڑے راستے بنائے تاکہ یہ لوگ اپنے اپنے منزل مقصود کو جا پہنچیں
۳۲اور ہم نے آسمان کو چھت بنایا جو ہر طرح محفوظ ہے اور یہ لوگ اس کی آسمانی نشانیوں سے منہ پھیر رہے ہیں۔
۳۳اور وہی وہ (قادر مطلق) ہے جس نے رات اور دن اور آفتاب اور ماہتاب کو پیدا کیا کہ سب کے سب ایک (ایک) آسمان میں پیر (کر چکر لگا) رہے ہیں۔
۳۴اور (اے رسولؐ) ہم نے تم سے پہلے بھی کسی فرد بشر کو سدا زندگی نہیں دی تو کیا اگر تم مَر جاؤ گے، تو یہ لوگ ہمیشہ جیا ہی کریں گے۔
۳۵ہر نفس کے لئے (ایک نہ ایک دن) موت کا ذائقہ ہے۔ اور ہم تمہیں مصیبت و راحت میں امتحان کی غرض سے آزماتے ہیں اور (آخرکار) ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
۳۶اور (اے رسولؐ) جب تمہیں کفّار دیکھتے ہیں تو بس تم سے مسخرا پن کرتے ہیں کہ کیا یہی حضرت ہیں جو تمہارے معبودوں کو (بُری طرح) یاد کیا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ خود خدا کی یاد سے انکار رکھتے ہیں (تو ان کی بے وقوفی پر ہنسنا چاہیے )۔
۳۷آدمی تو بڑا جلد باز پیدا کیا گیا ہے میں عنقریب ہی تمہیں اپنی (قدرت کی)نشانیاں دکھاؤں گا تو تم مجھ سے جلدی (کی دھوم) نہ مچاؤ۔
۳۸اور (لطف تو یہ ہے کہ) کہتے ہیں کہ اگرسچّے ہو تو یہ (قیامت کا) وعدہ کب (پورا) ہو گا۔
۳۹اور جو لوگ کافر ہو بیٹھے کاش اس وقت کی حالت سے آگاہ ہوتے (کہ جہنم کی آگ میں کھڑے ہوں گے ) اور نہ اپنے چہروں پر سے آگ کو ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھ سے۔ اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
۴۰(قیامت کچھ جتا کر تو آنے سے رہی) بلکہ وہ تو اچانک ان پر آ پڑے گی اور انہیں ہکّا بکّا کر دے گی۔ پھر اس وقت ان میں نہ اس کے ہٹانے کی مجال ہو گی اور نہ انہیں مہلت ہی دی جائے گی۔
۴۱اور (اے رسولؐ کچھ تم ہی نہیں ) تم سے پہلے پیغمبروں کے ساتھ مسخرا پن کیا جا چکا ہے تو ان پیغمبروں سے مسخرا پن کرنے والوں کو اس سخت عذاب نے آ گھیر لیا جس کی وہ ہنسی اڑایا کرتے تھے۔
۴۲(اے رسولؐ) تم ان سے پوچھو تو کہ خدا (کے عذاب) سے بچانے میں رات کو یا دن کو تمہارا کون پہرا دے سکتا ہے۔ (اس پر ڈرنا تو درکنار) بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیرتے ہیں۔
۴۳کیا ہمارے سوا ان کے کچھ اور پروردگار ہیں کہ جو ان کو (ہمارے عذاب سے ) بچا سکتے ہیں۔ (وہ کیا بچائیں گے ) یہ لوگ خود اپنے آپ تو مدد کر ہی نہیں سکتے اور نہ ہمارے عذاب سے انہیں پناہ دی جائے گی۔
۴۴بلکہ ہم نے ان کو اور ان کے بزرگوں کو آرام و چین دیا۔ یہاں تک کہ ان کی عمریں بڑھ گئیں تو پھر کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم روئے زمین کو چاروں طرف سے قبضہ کرتے اور اس کو فتح کرتے چلے آتے ہیں تو کیا (اب بھی) یہی لوگ (کفّارِ مکّہ) غالب اور وَر ہیں۔
۴۵(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں تو بس تم لوگوں کو وحی کے مطابق (عذاب سے ) ڈراتا ہوں (مگر تم لوگ گویا بہرے ہو) اور بہروں کو جب ڈرایا جاتا ہے تو وہ پکارنے ہی کو نہیں سنتے (ڈریں کیا خاک)
۴۶اور (اے رسولؐ) اگر کہیں ان کو تمہارے پروردگار کے عذاب کی ذرا سی ہوا بھی لگ گئی تو بے ساختہ بول اُٹھے ہائے افسوس واقعی ہم ہی ظالم تھے۔
۴۷اور قیامت کے دن تو ہم (بندوں کے بھلے بُرے اعمال تولنے کے لیے ) انصاف کی ترازوئیں کھڑی کر دیں گے اور پھر تو کسی شخص پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ اور اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی (کسی کا عمل) ہو گا تو ہم اسے لا حاضر کریں گے۔ اور ہم حساب کرنے کے واسطے بہت کافی ہیں۔
۴۸اور ہم ہی نے یقیناموسیٰ ؑ اور ہارونؑ کو (حق و باطل کی) جدا کرنے والی کتاب (توریت) اور پرہیزگاروں کے لیے ازسرتاپا نور اور نصیحت عطا کی۔
۴۹جو بے دیکھے اپنے پروردگار سے خوف کھاتے ہیں اور یہ لوگ روز قیامت سے بھی ڈرتے ہیں۔
۵۰اور یہ (قرآن بھی) ایک بابرکت تذکرہ ہے جس کو ہم نے اتارا ہے۔ تو کیا تم لوگ اس کو نہیں مانتے۔
۵۱اور اس میں بھی شک نہیں کہ ہم نے ابراہیمؑ کو پہلے ہی سے فہم سلیم عطا کی تھی اور ہم ان (کی حالت) سے خوب واقف تھے۔
۵۲جب انہوں نے اپنے (منہ بولے ) باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیں جن کی تم لوگ مجاوری کرتے ہو آخر کیا (بلا) ہیں۔
۵۳وہ لوگ بولے (اور تو کچھ نہیں جانتے مگر) اپنے بڑے بوڑھوں کو ان ہی کی پرستش کرتے دیکھا ہے۔
۵۴ابراہیمؑ نے کہا یقیناً تم بھی اور تمہارے بزرگ بھی کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
۵۵وہ لوگ کہنے لگے تو کیا تم ہمارے پاس حق بات لے کر آئے ہو یا تم (یوں ہی ) دل لگی کرتے ہو۔
۵۶ابراہیمؑ نے کہا (مذاق نہیں ٹھیک کہتا ہوں کہ تمہارے معبود بُت نہیں ) بلکہ تمہارا پروردگار آسمان و زمین کا مالک ہے جس نے ان کو پیدا کیا اور میں خود اس بات کا تمہارے سامنے گواہ ہوں۔
۵۷اور (اپنے جی میں کہا) خدا کی قسم تمہارے پیٹھ پھیرنے کے بعد میں تمہارے بتوں کے ساتھ ایک چال چلوں گا۔
۵۸چنانچہ ابراہیمؑ نے ان بتوں کو (توڑ کر) چکنا چور کر ڈالا مگر ان کے بڑے بت کو (اس لیے رہنے دیا) تاکہ یہ لوگ (عید سے پلٹ کر) اس کی طرف رجوع کریں۔
۵۹(جب کفّار کو معلوم ہوا تو) کہنے لگے جس نے یہ گستاخی ہمارے معبودوں کے ساتھ کی ہے اُس نے یقینی بڑا ظلم کیا۔
۶۰(کچھ لوگ) کہنے لگے ہم نے ایک نوجوان کو جس کو لوگ ابراہیمؑ کہتے ہیں ان بتوں کا (بُری طرح) ذکر کرتے سنا تھا۔
۶۱لوگوں نے کہا تو اچھا اس کو سب لوگوں کے سامنے (گرفتار کر کے ) لے آؤ تاکہ وہ (جو کچھ کہے ) لوگ اس کے گواہ رہیں۔
۶۲(غرض ابراہیمؑ آئے اور لوگوں نے ان سے پوچھا) کہ کیوں ابراہیمؑ کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے ؟
۶۳ابراہیمؑ نے کہا بلکہ یہ حرکت ان بتوں (خداؤں ) کے بڑے (خدا) نے کی ہے تو اگر یہ بت بول سکتے ہوں تو ان ہی سے پوچھو۔
۶۴اس پر ان لوگوں نے اپنے جی میں سوچا تو (ایک دوسرے سے ) کہنے لگے بے شک تم ہی لوگ خود برسرِ ناحق ہو۔
۶۵پھر ان لوگوں کے سَر (اسی گمراہی میں ) جھکا دیئے گئے (اور تو کچھ بن نہ پڑا مگر یہ بولے کہ) تم کو تو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ بُت بولا نہیں کرتے۔
۶۶(پھر ان سے کیا پوچھیں ) ابراہیمؑ نے کہا تو کیا تم لوگ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع پہنچا سکتی ہیں اور نہ تمہارا کچھ نقصان ہی کرسکتی ہیں۔
۶۷تف ہے تم پر اور اس چیز پر جسے تم خدا کے سوا پوجتے ہو تو کیا تم (اتنا بھی)نہیں سمجھتے۔
۶۸(آخر) وہ لوگ (باہم) کہنے لگے کہ اگر تم کچھ کرسکتے ہو تو ابراہیمؑ کو آگ میں جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو۔
۶۹(غرض ان لوگوں نے ابراہیمؑ کو آگ میں ڈال دیا تو) ہم نے فرمایا اے آگ تو ابراہیمؑ پر بالکل ٹھنڈی اور سلامتی کا باعث ہو جا (کہ ان کو کوئی تکلیف پہنچے )
۷۰اور ان لوگوں نے ابراہیمؑ کے ساتھ چالبازی کرنی چاہی تھی تو ہم نے ان سب کو ناکام کر دیا۔
۷۱اور ہم ہی نے ابراہیمؑ اور لوطؑ کو (سرکشوں سے ) صحیح و سالم نکال کر اسی (سرزمین) شام (بیت المقدس) میں جا پہنچایاجس میں ہم نے سارے جہان کے لیے طرح طرح کی برکت عطا کی تھی
۷۲اور ہم نے ابراہیمؑ کو انعام میں اسحاق (جیسا بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) عنایت فرمایا اور ہم نے سب کو نیک بخت بنایا۔
۷۳اور ان سب کو (لوگوں کا) پیشوا بنایا کہ ہمارے حکم سے (ان کی) ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کے پاس نیک کام کرنے اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کی وحی بھیجی تھی اور یہ سب کے سب ہماری ہی عبادت کیا کرتے تھے۔
۷۴اور لوطؑ کو بھی ہم ہی نے فہم سلیم اور نبوت عطا کی اور ہم ہی نے اُن کو اس بستی سے جہاں کے لوگ بد کاریاں کرتے تھے نجات دی اس میں شک نہیں کہ وہ لوگ بڑے بدکار آدمی تھے۔
۷۵اور ہم نے (لوطؑ کو) اپنی رحمت میں داخل کر لیا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ نیکوکار بندوں میں سے تھے
۷۶اور (اے رسولؐ لوطؑ سے بھی پہلے ہم نے ) نوحؑ (کو نبوت پر فائز کیا) جب انہوں نے (ہم کو) آواز دی تو ہم نے ان کی (دُعا سن) لی پھر ان کو اور ان کے ساتھیوں کو (طوفان کی)بڑی سخت مصیبت سے نجات دی۔
۷۷اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کے مقابلے میں ان کی مدد کی۔ بے شک یہ لوگ (بھی) بہت بُرے لوگ تھے۔ تو ہم نے ان سب کو ڈبا مارا۔
۷۸اور (اے رسولؐ) ان کو داؤدؑ اور سلیمانؑ (کا واقعہ یاد دلاؤ) جب یہ دونوں ایک کھیتی کے بارے میں جس میں رات کے وقت کچھ لوگوں کی بکریاں (گھس کر) چر گئی تھیں فیصلہ کرنے بیٹھے اور ہم ان لوگوں کے قصّہ کو دیکھ رہے تھے۔ (کہ باہم اختلاف ہوا)
۷۹تو ہم نے سلیمانؑ کو (اس کا) صحیح فیصلہ سمجھادیا اور (یوں تو) سب کو ہم ہی نے فہم سلیم اور علم عطا کیا اور ہم ہی نے پہاڑوں کو داؤدؑ کا تابع بنا دیا تھا کہ ان کے ساتھ خدا کی تسبیح کیا کرتے تھے اور پرندوں کو (بھی تابع کر دیا تھا)اور ہم ہی (یہ عجائب) کیا کرتے تھے
۸۰اور ہم ہی نے ان کو تمہاری جنگی پوشش (زرہ) کا بنانا سکھا دیا تاکہ تمہیں (ایک دوسرے کے ) وار سے بچائے تو کیا تم(اب بھی) شکر گزار نہ بنو گے۔
۸۱اور (ہم ہی نے ) بڑے زوروں کی ہوا کو سلیمانؑ کا (تابع) کر دیا تھا کہ وہ ان کے حکم سے اس سرزمین (بیت المقدس) کی طرف چلا کرتی تھی جس میں ہم نے طرح طرح کی برکتیں عطا کی تھیں اور ہم تو ہر چیز سے خوب واقف (تھے اور ) ہیں۔
۸۲اور جنات میں سے جو لوگ (سمندر میں ) غوطہ لگا کر (جواہرات ) نکالنے والے تھے اور اس کے علاوہ اور اور کام بھی کرتے تھے (سلیمانؑ کا تابع کر دیا تھا) اور ہم ہی ان کے نگہبان تھے (کہ بھاگ نہ جائیں )۔
۸۳اور (اے رسولؐ) ایوبؑ (کا قصّہ یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ (خداوندا بیماری تو میرے (پیچھے ) لگ گئی ہے اور تو تو سب رحم کرنے والوں سے کہیں بڑھ کے ہے۔ (مجھ پر ترس کھا)۔
۸۴تو ہم نے ان کا جو کچھ دکھ دَرد تھا دفع کر دیا اور انہیں ان کے لڑکے بالے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی محض اپنی خاص مہربانی سے اور عبادت کرنے والوں کی عبرت کے واسطے عطا کیے۔
۸۵اور (اے رسولؐ) اسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفل (کے واقعات یاد کرو) کہ یہ سب صابر بندے تھے۔
۸۶اور ہم نے ان سب کو اپنی (خاص) رحمت میں داخل کر لیا۔بے شک یہ لوگ نیک بندے تھے۔
۸۷اور ذوالنون (یونسؑ کو یاد کرو) جب کہ غصّے میں آ کر چلے اور یہ خیال کیا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے (تو ہم نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں پہنچا دیا) تو (گھٹا ٹوپ) اندھیرے میں (گھبرا کر) چلّا اٹھا کہ (پروردگارا) تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو (ہر عیب سے ) پاک و پاکیزہ سے بے شک میں قصوروار ہوں
۸۸تو ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور انہیں رنج سے نجات دلائی اور ہم تو ایمانداروں کو یونہی نجات دیا کرتے ہیں۔
۸۹اور زکریاؑ (کو یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی اے میرے پالنے والے مجھے تنہا (بے اولاد) نہ چھوڑ اور تو تو سب وارثوں سے بہتر ہے۔
۹۰تو ہم نے ان کی دعا سن لی اور انہیں یحییٰ ؑ سا بیٹا کیا اور ہم نے ان کے لیے ان کی بیوی کو اچھی بنا دیا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سب لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہم کو بڑی رغبت اور خوف کے ساتھ پکارا کرتے تھے اور ہمارے آگے گڑگڑایا کرتے تھے۔
۹۱اور (اے رسولؐ) اس بی بی (مریمؑ ) کو (یاد کرو)جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی تو ہم نے ان (کے پیٹ) میں اپنی طرف سے روح پھونک دی اور ان کو اور ان کے بیٹے (عیسیٰ ؑ ) کوسارے جہان کے واسطے (اپنی قدرت کی) نشانی بنایا۔
۹۲بے شک یہ تمہارا دین (اسلام) ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کرو۔
۹۳اور لوگوں نے باہم (اختلاف کر کے ) اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا(حالانکہ) وہ سب کے سب ہر پھر کے ہمارے ہی پاس آنے والے ہیں۔
۹۴(اس وقت فیصلہ ہو جائے گا) کہ جو شخص اچھے اچھے کام کرے گا اور وہ ایماندار بھی ہو تو اس کی کوشش اکارت نہ جائے گی۔ اور ہم اس کے اعمال لکھتے جاتے ہیں۔
۹۵اور جس بستی کو ہم نے تباہ کر ڈالا ممکن نہیں کہ وہ لوگ (قیامت کے دن ہر پھر کے ہمارے پاس نہ لوٹیں۔
۹۶بس اتنا (توقف تو ضرور ہو گا) کہ جب یاجوج ماجوج (سد سکندری کی قید سے ) کھول دیئے جائیں اور یہ لوگ (زمین کی) ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے نکل پڑیں۔
۹۷اور (قیامت کا) سچّا وعدہ نزدیک آ جائے پھر تو کافروں کی آنکھیں ایک دم سے پتھرا ہی جائیں (اور کہنے لگیں ) ہائے ہماری شامت کہ ہم تو اس (دن) سے غفلت ہی میں (پڑے ) رہے بلکہ (سچ تو یوں ہے کہ اپنے اوپر) ہم آپ ظالم تھے۔
۹۸(اس دن کہا جائے گا کہ اے کفّار!) تم اور جس چیز کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے تھے یقیناً جہنم کا ایندھن ہو گے (اور) تم سب کو اس میں اترنا پڑے گا۔
۹۹اگر یہ (سچّے ) معبود ہوتے تو انہیں دوزخ میں نہ جانا پڑتا۔ اور (اب تو) سب کے سب اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔
۱۰۰ان لوگوں کی دوزخ میں چیخ چنگھاڑ ہو گی اور یہ سب لوگ (اپنے شور و غل میں ) کسی کی بات بھی نہ سنیں گے۔
۱۰۱(ہاں البتہ) جن لوگوں کے واسطے ہماری طرف سے پہلے ہی سے بھلائی (تقدیر میں لکھی جا چکی ہے ) وہ لوگ دوزخ سے دور رکھے جائیں گے۔
۱۰۲(یہاں تک) کہ یہ لوگ اس کی بھنک بھی نہ سنیں گے، اور یہ لوگ ہمیشہ اپنی من مانگی مرادوں میں (چین سے ) رہیں گے۔
۱۰۳اور ان کو (قیامت کا) بڑے سے بڑا خوف دہشت میں نہ لائے گا اور فرشتے ان سے (خوشی خوشی) ملاقات کریں گے ( اور یہ خوشخبری دیں گے ) کہ یہی وہ تمہارا (خوشی کا) دن ہے جس کا(دنیا میں ) تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
۱۰۴(یہ) وہ دن (ہو گا) جب ہم آسمان کو اس طرح لپٹیں گے جس طرح خطوں کا طومار لپیٹا جاتا ہے جس طرح ہم نے (مخلوقات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا (اسی طرح) دوبارہ (پیدا) کر چھوڑیں گے (یہ وہ) وعدہ (ہے جس کا کرنا)ہم پر (لازم) ہے۔ اور ہم اسے ضرور کر کے رہیں گے۔
۱۰۵اور ہم نے تو نصیحت (توریت)کے بعد یقیناً زبور میں لکھ ہی دیا تھا کہ روئے زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
۱۰۶اس میں شک نہیں کہ اس میں عبادت کرنے والوں کے لیے (احکامِ خدا کی) تبلیغ ہے۔
۱۰۷اور (اے رسولؐ) ہم نے تو تم کو سارے جہان کے لوگوں کے حق میں ازسرتاپا رحمت بنا کر بھیجا۔
۱۰۸تم کہہ دو کہ میرے پاس تو بس یہی وحی آئی ہے کہ تم لوگوں کا معبود بس یکتا خدا ہے تو کیا تم (اس کے ) فرمانبردار بندے بنتے ہو!
۱۰۹اس پر بھی منہ پھیریں تو تم کہہ دو کہ میں نے تم کو یکساں خبر کر دی ہے اور میں نہیں جانتا کہ جس (عذاب) کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے قریب آ پہنچا یا (ابھی) دُور ہے۔
۱۱۰اس میں شک نہیں کہ وہ اس بات کو بھی جانتا ہے جو پکار کر کہی جاتی ہے، اور جسے تم لوگ چھپاتے ہو اس سے بھی خوب واقف ہے۔
۱۱۱اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ شاید یہ (تاخیر عذاب) تمہارے واسطے امتحان ہو ا ور ایک معین مدّت تک (تمہارے لیے ) چین ہو۔
۱۱۲(آخر رسولؐ نے ) دعا کی کہ اے میرے پالنے والے تو ٹھیک ٹھیک (میرے اور کافروں کے درمیان) فیصلہ کر دے ا ور ہمارا پروردگار بڑ ا مہربان ہے کہ اسی سے ان باتوں میں مدد مانگی جاتی ہے جو تم لوگ بیان کرتے ہو
٭٭٭
۲۲۔ سورۃ الحج
۱اے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو (کیونکہ) قیامت کا زلزلہ (کوئی معمولی نہیں ) ایک بڑی (سخت) چیز ہے۔
۲جس دن تم اسے دیکھ لو گے تو ہر دودھ پلانے والی (ڈر کے مارے ) اپنے دودھ پیتے (بچے ) کو بھول جائے گی اور ساری حاملہ عورتیں اپنے اپنے حمل (دہشت سے ) گرا دیں گی، اور (گھبراہٹ میں ) لوگ تجھے متوالے معلوم ہوں گے حالانکہ وہ متوالے نہیں ہیں بلکہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے (کہ لوگ بدحواس ہو رہے ہوں گے )۔
۳اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بغیر جانے خدا کے بارے میں (خواہ مخواہ) جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے ہو لیتے ہیں
۴جس (کی پیشانی) کے اوپر(خط تقدیر سے ) لکھا جا چکا ہے کہ جس نے اس سے دوستی کی تو یہ یقیناً اسے گمراہ کر کے چھوڑے گا اور دوزخ کے عذاب تک پہنچا دے گا۔
۵لوگو اگر تم کو (مرنے کے بعد) دوبارہ جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہے تواس میں شک نہیں کہ ہم نے تمہیں (شروع شروع) مٹی سے اس کے بعد نطفہ سے اس کے بعد جمے خون سے پھر اس لوتھڑے سے جو پورا (سڈول) ہو یا ادھورا ہو پیدا کیا تاکہ تم پر (اپنی قدرت) ظاہر کریں (پھر تمہارا دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے ) اور ہم عورتوں کے پیٹ میں جس (نطفہ) کو چاہتے ہیں ایک مدّت معین تک ٹھہرا رکھتے ہیں پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے ہیں پھر (تمہیں پالتے ہیں ) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو (قبل بڑھاپے کے ) مر جاتے ہیں اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو ناکارہ زندگی (بڑھاپے ) تک پھیر لائے جاتے ہیں تاکہ سمجھنے کے بعدسٹھیا کے کچھ بھی (خاک) نہ سمجھ سکے۔ اور تو زمین کو مُردہ (بے کار افتادہ) دیکھ رہا ہے پھر جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو لہلہانے اور اُبھرنے لگتی ہے اور ہر طرح کی خوش نما چیزیں اُگاتی ہے۔
۶تو یہ (قدرت کے تماشے ) اس لیے (دکھاتے ہیں تاکہ تم جانو) کہ بے شک خدا برحق ہے اور (یہ بھی) کہ بے شک وہی مُردوں کو جلاتا ہے اور وہ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے۔
۷اور قیامت یقیناً آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور بے شک جو لوگ قبروں میں ہیں ان کو خدا دوبارہ زندہ کرے گا۔
۸اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بے جانے بوجھے بے ہدایت پائے بغیر روشن کتاب کے (جو اسے راہ بتائے خدا کی آیتوں سے ) منہ موڑتے ہیں۔
۹(خواہ مخواہ) خدا کے بارے میں لڑنے (مرنے ) پر تیار ہیں تاکہ (لوگوں کو) خدا کی راہ سے بہکا دے۔ ایسے (نابکار) کے لیے دنیا میں (بھی) رسوائی ہے اور قیامت کے دن (بھی) ہم اسے جہنم کے عذاب (کا مزہ) چکھائیں گے۔
۱۰اور (اس وقت اس سے کہا جائے گا) کہ یہ ان اعمال کی سزا ہے جو تیرے ہاتھوں نے پہلے سے کیے ہیں اور بے شک خدا بندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا۔
۱۱اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو ایک کنارے پر (کھڑا ہو کر) خدا کی عبادت کرتا ہے تو اگر اس کو کوئی فائدہ پہنچ گیا تو اس کی وجہ سے مطمئن ہو گیا اور اگر (کہیں ) اس کو کوئی تکلیف چھو بھی گئی تو (فوراً) منہ پھیر کے (کفر کی طرف) پلٹ پڑا۔ اس نے دنیا اور آخرت (دونوں ) کا گھاٹا اٹھایا۔ یہی تو صریحی گھاٹا ہے۔
۱۲خدا کو چھوڑ کر ان چیزوں کو (حاجت کے وقت) بلاتا ہے جو نہ اس کو نقصان ہی پہنچا سکتے ہیں اور نہ کچھ نفع ہی پہنچا سکتے۔ یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے۔
۱۳اور اس کو (اپنی حاجت روائی کے لیے ) پکارتا ہے جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے بے شک ایسا مالک بھی برا اور ایسا رفیق بھی برا۔
۱۴بے شک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے (ان کو) خدا (بہشت کے ) ان (ہرے بھرے ) باغات میں لے جا کر داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ بے شک خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
۱۵جو شخص (غصّہ میں ) یہ بدگمانی کرتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں خدا اس کی ہرگز مدد نہ کرے گا تو اُسے چاہیئے کہ آسمان تک ایک رسّی تانے (اور اپنے گلے میں پھانسی ڈال دے ) پھر کاٹ دے (تاکہ گھٹ کر مر جائے )۔ پھر دیکھے کہ جو چیز اسے غصّہ میں لا رہی تھی اسے اس کی تدبیر دور دفع کر دیتی ہے (یا نہیں )۔
۱۶اور ہم نے اس (قرآن) کو یوں ہی واضح و روشن نشانیاں (بنا کر) نازل کیا اور بے شک خدا جس کی چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔
۱۷اس میں شک نہیں کہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا (مسلمان)اور یہودی اور لامذہب لوگ اور نصارا اور مجوسی (آتش پرست)اور مشرکین (کفار) خدا ان لوگوں کے درمیان قیامت کے دن (ٹھیک ٹھیک) فیصلہ کر دے گا۔ اس میں شک نہیں کہ خدا ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
۱۸کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہر ایک اس کو ہی سجدہ کرتا ہے خواہ وہ آسمانوں میں ہے یا زمین میں اور آفتاب اور ماہتاب اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے (غرض کل مخلوقات) اور آدمیوں میں سے بہت سے لوگ اور بہتیرے ایسے بھی ہیں جن پر (نافرمانی کی وجہ سے ) عذاب (کا آنا) لازم ہو چکا ہے۔ اور جس کو خدا ذلیل کرے پھر اس کا کوئی عزت دینے والا نہیں۔ کچھ شک نہیں کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
۱۹یہ دونوں (مومن کافر) دو فریق ہیں آپس میں اپنے پروردگار کے بارے میں لڑتے ہیں غرض جو لوگ کافر ہو بیٹھے ان کے لئے تو آگ کے کپڑے قطع کیے گئے ہیں (وہ انہیں پہنائے جائیں گے اور ) ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔
۲۰جس (کی گرمی) سے جو کچھ ان کے پیٹ میں ہے (آنتیں وغیرہ) اور کھالیں سب گل جائیں گی۔
۲۱اور ان کے (مارنے کے ) لئے لوہے کے گرز ہوں گے۔
۲۲کہ جب صدمے کے مارے چاہیں گے کہ دوزخ سے نکل بھاگیں تو (گرز مار کے )پھر اسی کے اندر دھکیل دیئے جائیں گے۔ اور (ان سے کہا جائے گا) کہ جلانے والے عذاب کے مزے چکھو۔
۲۳بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اچھے کام کئے ان کو خدا بہشت کے (ایسے ہرے بھرے )باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی انہیں وہاں سونے کے کنگن اور موتی (کے ہار) سے سنوارا جائے گا اور ان کا لباس وہاں ریشمی ہو گا۔
۲۴اور (یہ اس وجہ سے کہ دنیا میں ) انہیں اچھی بات (کلمۂ توحید) کی ہدایت کی گئی اور انہیں سزاوار حمد (خدا) کا راستہ دکھایا گیا۔
۲۵بے شک جو لوگ کافر ہو بیٹھے اور خدا کی راہ سے اور مسجد محترم (خانہ کعبہ) سے جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے (معبد) بنایا ہے (اور) اس میں شہر ی اور بیرونی سب کا حق برابر ہے (لوگوں کو) روکتے ہیں (ان کو) اور جو شخص اس میں شرارت سے گمراہی کرے اس کو ہم درد ناک عذاب کا مزا چکھا دیں گے۔
۲۶اور (اے رسولؐ) (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے (ابر کے ذریعے سے ) ابراہیمؑ کے واسطے خانہ کعبہ کی جگہ ظاہر کر دی) اور (ان سے کہا کہ) میرا کسی چیز کو شریک نہ بنانا اور میرے گھر کو طواف اور قیام اور رکوع سجود کرنے والوں کے واسطے صاف ستھرا رکھنا۔
۲۷اور لوگوں کو حج کی خبر کر دو کہ لوگ تمہارے پاس (جوق در جوق) پیادہ اور ہر طرح کی (دبلی) سواریوں پر جو راہ دور دراز طے کر کے آئی ہوں گی۔ (چڑھ چڑھ کے ) آ پہنچیں گے
۲۸تاکہ اپنے (دنیا و آخرت کے ) فائدوں پر فائز ہوں اور خدا نے جو جانور چار پائے انہیں عطا فرمائے ان پر (ذبح کے وقت) چند معین دنوں میں خدا کا نام لیں تو تم لوگ (قربانی کے گوشت) خود بھی کھاؤ اور بھوکے محتاج کو بھی کھلاؤ۔
۲۹پھر لوگوں کو چاہیے کہ اپنی اپنی (بدن کی) کثافت دُور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور قدیم (عبادت) خانہ (کعبہ) کا طواف کریں
۳۰یہی (حکم) ہے اور (اس کے علاوہ) جو شخص خدا کی حرمت والی چیزوں کی تعظیم کرے گا تو یہ اس کے پروردگار کے یہاں اس کے حق میں بہتر ہے، اور ان جانوروں کے علاوہ جو تم سے بیان کیے جائیں گے کل چار پائے تمہارے واسطے حلال کیے گئے تو تم ناپاک بتوں سے بچے رہو اور لغو باتیں گانے وغیرہ سے بچے رہو۔
۳۱نرے کھرے اللہ کے ہو کر (رہو) اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ۔ اور جس شخص نے (کسی کو) خدا کا شریک بنایا تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر اس کو (یا تو درمیان ہی سے ) کوئی پرندہ اچک لے گیا یا اسے ہوا کے جھونکے نے بہت دور جا پھینکا۔
۳۲یہ (یاد رکھو) اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیزگاری سے حاصل ہوتی ہے۔
۳۳اور ان چار پایوں میں ایک معین مدّت تک تمہارے لیے بہت سے فائدے ہیں پھر ان کے ذبح ہونے کی جگہ قدیم (عبادت) خانہ (کعبہ) ہے۔
۳۴اور ہم نے تو ہر امت کے واسطے قربانی کا طریقہ مقرر کر دیا ہے تاکہ جو مویشی چار پائے خدا نے انہیں عطا کیے ہیں ان پر (ذبح کے وقت) خدا کا نام لیں غرض تم لوگوں کا معبود (وہی) یکتا خدا ہے اور اسی کے فرمانبردار بن جاؤ۔ اور (اے رسولؐ) ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو (بہشت کی) خوشخبری دے دو۔
۳۵یہ وہ ہیں کہ جب (ان کے سامنے ) خدا کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل سہم جاتے ہیں اور جب ان پر کوئی مصیبت آ پڑے تو صبر کرتے ہیں اور نماز پابندی سے ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے (راہِ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں۔
۳۶اور قربانی کے (موٹے گدبدے ) اونٹ اُن کو بھی ہم نے تمہارے واسطے خدا کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے ان میں تمہارے لیے بہت سی بھلائیاں ہیں پھر ان کا تانتے کا تانتا باندھ کر (نحر کرو اور اس وقت) ان پر خدا کا نام لو۔ پھر جب ان کے دست و بازو (کٹ کر) گر پڑیں تو ان میں سے تم خود بھی کھاؤ اور قناعت پیشہ فقیروں اور مانگنے والے محتاجوں (دونوں ) کو بھی کھلاؤ۔ ہم نے یوں ان جانوروں کو تمہارا تابع بنا دیا۔ تاکہ تم شکر گزار بنو۔
۳۷خدا تک نہ تو ہرگز ان کے گوشت ہی پہنچیں گے اور نہ ان کے خون مگر (ہاں ) اس تک تمہاری پرہیزگاری البتہ پہنچے گی۔ خدا نے ان جانوروں کو (اس لیے ) یوں تمہارے قابو میں کر دیا ہے تاکہ جس طرح خدا نے تمہیں بتایا ہے اسی طرح تم اس کی بڑائی کرو اور (اے رسولؐ) نیکی کرنے والوں کو (بہشت کی) خوشخبری دے دو۔
۳۸اس میں شک نہیں کہ خدا ایمانداروں سے (کفّار کو) دُور دفع کرتا رہتا ہے یقیناً خدا کسی بد دیانت ناشکرے کو ہرگز دوست نہیں رکھتا۔
۳۹جن (مسلمانوں ) سے (کفّار) لڑا کرتے تھے چونکہ وہ (بہت) ستائے گئے اس وجہ سے انہیں بھی (جہاد کی) اجازت دے دی گئی اور خدا تو ان لوگوں کی مدد پر یقیناً قادر (و توانا ہے
۴۰ یہ وہ (مظلوم) ہیں جو (بے چارے ) صرف اتنی بات کہنے پر کہ ہمارا پروردگار خدا ہے ناحق (ناحق) اپنے اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے دُور دفع نہ کرتا رہتا تو گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مجوس کے عبادت خانے اور مسجدیں جن میں کثرت سے خدا کا نام لیا جاتا ہے کب کے کب ڈھا دیئے گئے ہوتے۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرے گا خدا بھی البتہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ بے شک خدا ضرور زبردست غالب ہے۔
۴۱یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں روئے زمین پر قابو دے دیں تو (بھی) یہ لوگ پابندی سے نمازیں ادا کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور اچھے اچھے کام کا حکم کریں گے اور بُری باتوں سے (لوگوں کو) روکیں گے۔ اور (یوں تو) سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے۔
۴۲اور (اے رسولؐ) اگر یہ (کفّار) تم کو جھٹلاتے ہیں تو (کوئی تعجب کی بات نہیں ) ان سے پہلے نوحؑ کی قوم اور (قوم) عاد، ثمود
۴۳ اور ابراہیمؑ کی قوم اور لوطؑ کی قوم
۴۴اور مدین کے رہنے والے (اپنے پیغمبروں کو) جھٹلا چکے ہیں اور موسیٰؑ (بھی) جھٹلائے جا چکے ہیں تو میں نے کافروں کو چندے ڈھیل دے دی پھر (آخر) انہیں لے ڈالا، تو تم نے دیکھا میرا عذاب کیسا تھا۔
۴۵غرض کتنی بستیاں ہیں کہ ہم نے انہیں برباد کر دیا وہ سرکش تھیں پس وہ اپنی چھتوں پر ڈھئی پڑی ہیں اور (کتنے ) بے کار اُجڑے کنویں اور (کتنے ) مضبوط بڑے بڑے اونچے محل (ویران ہو گئے )۔
۴۶کیا یہ لوگ روئے زمین پر چلے پھرے نہیں تاکہ ان کے ایسے دل ہوتے جن سے (حق باتوں کو) سمجھتے۔ یا ان کے ایسے کان ہوتے جن کے ذریعے سے (سچّی باتوں کو) سنتے۔ کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ جو دل سینے میں ہیں وہ اندھے ہو جایا کرتے ہیں۔
۴۷اور (اے رسولؐ) تم سے یہ لوگ عذاب کے جلد آنے کی تمنّا رکھتے ہیں اور خدا تو ہرگز اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرے گا۔ اور بے شک (قیامت کا) ایک دن تمہارے پروردگار کے نزدیک تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس کے برابر ہے
۴۸اور کتنی بستیاں ہیں کہ میں نے انہیں (چندے ) مہلت دی حالانکہ وہ سرکش تھیں پھر آخر میں نے انہیں لے ڈالا۔ اور (سب کو) میری ہی طرف لوٹنا ہے۔
۴۹(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ لوگو میں تو صرف تم کو کھلم کھلا (عذاب سے ) ڈرانے والا ہوں۔
۵۰پس جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے (آخرت میں ) ان کے لیے بخشش ہے اور (بہشت کی) بہت عمدہ روزی۔
۵۱اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں (کے جھٹلانے ) میں (ہمارے )عاجز کرنے کے واسطے کوشش کی یہی لوگ تو جہنمی ہیں۔
۵۲اور (اے رسولؐ) ہم نے تو آپ سے پہلے جب کبھی کوئی رسول اور نبی بھیجا تو یہ ضرور ہوا کہ جس وقت اس نے (تبلیغ احکام کی) آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں (لوگوں کو بہکا کر )خلل ڈال دیا۔ پھر جو وسوسہ شیطان ڈالتا ہے خدا اُسے میٹ دیتا ہے۔ پھر اپنے احکام کو مضبوط کرتا ہے اور خدا تو بڑا واقف کار اور دانا ہے۔
۵۳اور شیطان جو (وسوسہ) ڈالتا (بھی) ہے تو اس لیے تاکہ خدا اُسے ان لوگوں کی آزمائش (کا ذریعہ) قرار دے جن کے دلوں میں (کفر کا) مرض ہے اور جن کے دل سخت ہیں اور بے شک (یہ) ظالم (مشرکین) پرلے درجہ کی مخالفت میں (پڑے ) ہیں۔
۵۴اور (اس لیے بھی) تاکہ جن لوگوں کو (کتب سماوی کا) علم عطا ہوا ہے وہ جان لیں کہ یہ (وحی) بے شک تمہارے پروردگار کی طرف سے ٹھیک ٹھیک (نازل)ہوئی ہے پھر (یہ خیال کر کے ) اس پر وہ لوگ ایمان لائیں۔ پھر ان کے دل خدا کے سامنے عاجزی کریں اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا ان کو خدا سیدھی راہ تک پہنچا دیتا ہے۔
۵۵اور جو لوگ کافر ہو بیٹھے تو وہ قرآن کی طرف سے ہمیشہ شک ہی میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت یکایک ان کے سرپر آ موجود ہو یا (یوں کہو کہ) ان پر ایک سخت منحوس دن کا عذاب نازل ہو۔
۵۶اس دن کی حکومت تو خاص خدا ہی کی ہو گی۔ وہ لوگوں (کے باہمی اختلاف) کا فیصلہ کر دے گا۔تو جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے ہیں وہ نعمتوں کے (بھرے ہوئے ) باغات بہشت میں رہیں گے۔
۵۷اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو یہی وہ (کمبخت) لوگ ہیں جن کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
۵۸اور جن لوگوں نے خدا کی راہ میں اپنے دیس چھوڑے پھر شہید کیے گئے یا (آپ اپنی موت سے ) مر گئے خدا انہیں (آخرت میں ) ضرور عمدہ روزی عطا فرمائے گا اور بے شک تمام روزی دینے والوں میں خدا ہی سب سے بہتر ہے۔
۵۹وہ ضرور انہیں ایسی جگہ (بہشت میں ) پہنچا دے گا جس سے وہ نہال ہو جائیں گے اور خدا تو بے شک بڑا واقف کار بُردبار ہے۔
۶۰یہی (ٹھیک) ہے اور جو شخص (اپنے دشمن کو) اتنا ہی ستائے جتنا یہ اس کے ہاتھوں سے ستایا گیا تھا اس کے بعد پھر (دوبارہ دشمن کی طرف سے ) اس پر زیادتی کی جائے تو خدا اس (مظلوم) کی ضرور مدد کرے گا بے شک خدا بڑا معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔
۶۱یہ (مدد)اس وجہ سے (دی جائے گی) کہ خدا (بڑا قادر ہے وہی تو) رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ خدا (سب کچھ) سنتا دیکھتا ہے۔
۶۲(اور) اس وجہ سے (بھی) کہ یقیناً خدا ہی برحق ہے اور اس کے سوا جن کو لوگ (وقت مصیبت) پکارا کرتے ہیں (سب کے سب) باطل ہیں اور (یہ بھی) یقینی (ہے کہ) خدا ہی (سب سے ) بلند رتبہ بزرگ ہے۔
۶۳(ارے ) کیا تو نے اتنا بھی نہیں دیکھا کہ خدا ہی آسمان سے پانی برساتا ہے تو زمین سرسبز (و شاداب) ہو جاتی ہے۔ بے شک خدا (بندوں کے حال پر) بڑا مہربان واقف کار ہے۔
۶۴جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) اسی کا ہے اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا (سب سے ) بے پروا (اور) سزاوارِ حمد ہے۔
۶۵کیا تو نے اس پر نظر نہ ڈالی کہ جو کچھ روئے زمین میں ہے سب کو خدا ہی نے تمہارے قابو میں کر دیا ہے اور کشتی کو (بھی)جو اسی کے حکم سے دریا میں چلتی ہے اور وہی تو آسمان کو روکے ہوئے ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے مگر (جب) اس کا حکم ہو گا (گر پڑے گا) اس میں شک نہیں کہ خدا لوگوں پر بڑا مہربان رحم والا ہے۔
۶۶اور وہی تو (قادرِ مطلق) ہے جس نے تم کو (پہلی بار ماں کے پیٹ میں ) جلا اٹھایا پھر وہی تم کو مار ڈالے گا پھر وہی تم کو (دوبارہ) زندہ کرے گا اس میں شک نہیں کہ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔
۶۷(اے رسولؐ) ہم نے ہر امت کے واسطے ایک طریقہ مقرر کر دیا کہ وہ اس پر چلتے ہیں پھر تو انہیں اس دین (اسلام) میں آپ سے جھگڑا نہ کرنا چاہیے اور آپ (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی طرف بلائے جائیں۔بے شک آپ سیدھے راستے پر ہیں
۶۸اور اگر (اس پر بھی) لوگ آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہہ دیں کہ جو کچھ تم کر رہے ہو خدا اس سے خوب واقف ہے۔
۶۹جن باتوں میں تم باہم جھگڑا کرتے ہو۔ قیامت کے دن خدا تم لوگوں کے درمیان (ٹھیک ٹھیک) فیصلہ کر دے گا۔
۷۰(اے رسولؐ) کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے خدا یقیناً جانتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سب (باتیں ) کتاب (لوح محفوظ) میں (لکھی ہوئی موجود) ہیں۔ بے شک یہ (سب کچھ) خدا پر آسان ہے۔
۷۱اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن کے لیے نہ تو خدا ہی نے کوئی سند نازل کی ہے اور نہ اس (کے حق ہونے ) کا خود انہیں علم ہے۔ اور قیامت میں تو ظالموں کا کوئی مددگار بھی نہیں ہو گا۔
۷۲اور (اے رسولؐ) جب ہماری واضح و روشن آیتیں ان کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو تم (ان) کافروں کے چہروں پر ناخوشی (کے آثار) دیکھتے ہو (یہاں تک) کہ قریب ہوتا ہے کہ جو لوگ ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں ان پر یہ لوگ حملہ کر بیٹھیں (اے رسولؐ) تم کہہ دو (کہ) تو کیا میں تمہیں اس سے بھی کہیں بدتر چیز بتا دوں۔ (اچھا تو سن لو) وہ جہنم ہے جس (میں جھونکنے ) کا وعدہ خدا نے کافروں سے کیا ہے اور وہ (کیا) بُرا ٹھکانا ہے۔
۷۳اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے تو اسے کان لگا کے سنو۔ کہ خدا کو چھوڑ کر جن لوگوں کو تم پکارتے ہو وہ لوگ اگرچہ سب کے سب اس کام کے لیے اکٹھے بھی ہو جائیں تو بھی ایک مکھّی تک پیدا نہیں کرسکتے اور اگر کہیں مکھّی کچھ ان سے چھین لے جائے تو اس سے اس کو چھڑا نہیں سکتے (عجب لطف ہے کہ) مانگنے والا (عابد) اور جس سے مانگا گیا (معبود۔ دونوں ) کمزور ہیں۔
۷۴خدا کی جیسی قدر کرنی چاہیے ان لوگوں نے نہ کی۔ اس میں شک نہیں کہ خدا تو بڑا زبردست غالب ہے۔
۷۵خدا فرشتوں میں سے بعض کو اپنے احکام پہنچانے کے لیے منتخب کر لیتا ہے اور (اسی طرح)آدمیوں میں بھی۔ بے شک خدا (سب کی) سُنتا دیکھتا ہے۔
۷۶جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے (ہو چکا) ہے (خدا سب کچھ) جانتا ہے۔ اور تمام امور کی رجوع خدا ہی کی طرف ہوتی ہے۔
۷۷اے ایماندارو رکوع کرو اور سجدے کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور نیکی کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔
۷۸اور جو حق جہاد کرنے کا ہے خدا کی راہ میں جہاد کرو اسی نے تم کو برگزیدہ کیا اور امور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں کی تمہارے باپ ابراہیمؑ کے مذہب کو (تمہارا مذہب بنا دیا ہے ) اسی (خدا)نے تمہارا پہلے ہی سے مسلمان (فرمانبردار بندے ) نام رکھا اور اس قرآن میں (بھی تو جہاد کرو) تاکہ رسول تمہارے مقابلے میں گواہ بنیں اور تم تمام لوگوں کے مقابلے میں گواہ بنو اور تم پابندی سے نماز پڑھا کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور خدا ہی(کے احکام) کو مضبوط پکڑو وہی تمہارا سرپرست ہے۔ تو کیا اچھاسرپرست ہے اور کیا اچھا مددگار ہے۔
٭٭٭
۲۳۔ سورۃ مُومنون
۱البتہ وہ ایمان لانے والے رستگار ہوئے
۲جو اپنی نمازوں میں (خدا کے سامنے ) گڑگڑاتے ہیں
۳اور جو بے ہودہ باتوں سے منہ پھیرے رہتے ہیں۔
۴اور جو زکوٰۃ (ادا) کیا کرتے ہیں۔
۵اور جو (اپنی) شرمگاہوں کو (حرام سے ) بچاتے ہیں۔
۶مگر اپنی بیویوں سے یا اپنی زر خرید لونڈیوں سے کہ اُن پر ہرگز الزام نہیں ہو سکتا۔
۷پس جو شخص اس کے سوا (کسی اور طریقہ سے شہوت پرستی کی) تمنا کرے تو ایس ہی لوگ حد سے بڑھ جانے والے میں۔
۸اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہیں۔
۹اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کیا کرتے ہیں۔
۱۰(آدمؑ کی اولاد میں ) یہی لوگ سچّے وارث ہیں
۱۱جو بہشت بریں کا حصّہ لیں گے (اور) یہی لوگ اس میں ہمیشہ (زندہ) رہیں گے۔
۱۲اور ہم نے آدمی کو گیلی مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔
۱۳پھر ہم نے اس کو ایک جگہ (عورت کے رحم) میں نطفہ بنا کر رکھا۔
۱۴پھر ہم ہی نے نطفہ کو جما ہوا خون بنایا پھر ہم ہی نے منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا پھر ہم ہی نے لوتھڑے کی ہڈیاں بنائیں پھر ہم ہی نے ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم ہی نے اس کو (روح ڈال کر) ایک دوسری صورت میں پیدا کیا۔ تو (سبحان اللہ) خدا بابرکت ہے جو سب بنانے والوں سے بہتر ہے۔
۱۵پھر اس کے بعد یقیناً تم سب لوگوں کو (ایک نہ ایک دن) مرنا ہے۔
۱۶اس کے بعد قیامت کے دن تم سب کے سب قبروں سے اٹھائے جاؤ گے۔
۱۷اور ہم ہی نے تمہارے اوپر تہ بہ تہ آسمان بنائے اور ہم مخلوقات سے بے خبر نہیں ہیں۔
۱۸اور ہم ہی نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ پانی برسایا پھر اس کو زمین میں (حسب مصلحت) ٹھہرائے رکھا۔اور ہم تو یقیناً اس کے غائب کر دینے پر قابو رکھتے ہیں۔
۱۹پھر ہم نے اس پانی سے تمہارے واسطے کھجوروں اور انگوروں کے باغات بنائے کہ ان میں تمہارے واسطے (طرح طرح) کے بہتیرے میوے (پیدا ہوتے ) ہیں ان میں سے بعض کو تم لوگ کھاتے ہو
۲۰اور (ہم ہی نے زیتون کا) درخت (پیدا کیا) جو طورسینا پہاڑ میں (کثرت سے ) پیدا ہوتا ہے جس سے تیل بھی نکلتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی ہے۔
۲۱اور اس میں شک نہیں کہ تمہارے واسطے چوپایوں میں بھی عبرت ہے۔ اور (خاک بلا) جو کچھ ان کے پیٹ میں ہے اس سے ہم تم کو دودھ پلاتے ہیں اور جانوروں میں تو تمہارے اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور انہی میں سے بعض کو تم کھاتے ہو
۲۲اور انہی جانوروں اور کشتیوں پر چڑھے چڑھے پھرتے بھی ہو۔
۲۳اور ہم نے نوحؑ کو ان کی قوم کے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا تو(نوحؑ نے ان سے ) کہا: اے میری قوم خدا ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں تو کیا تم (اس سے ) ڈرتے نہیں ہو۔
۲۴تو ان کی قوم کے سرداروں نے جو کافر تھے کہا کہ یہ بھی تو بس (آخر) تمہارا ہی سا آدمی ہے (مگر) اس کی تمنّا یہ ہے کہ تم پر بزرگی حاصل کرے۔ اور اگر خدا (پیغمبر ہی بھیجنا) چاہتا تو فرشتوں کو نازل کرتا۔ہم نے تو (بھئی) ایسی بات اپنے اگلے باپ داداؤں میں (بھی ہوتی) نہیں سنی۔
۲۵ہو نہ ہو بس ایک آدمی ہے جسے جنون ہو گیا ہے۔ غرض تم لوگ ایک (خاص) وقت تک (اس کے انجام کا) انتظار کرو
۲۶( نوحؑ نے یہ باتیں سن کر) دُعا کی اسے میرے پالنے والے میری مدد کر اس وجہ سے کہ ان لوگوں نے مجھے جھٹلا دیا۔
۲۷تو ہم نے نوحؑ کے پاس وحی بھیجی کہ تم ہمارے سامنے ہمارے حکم کے مطابق کشتی بنانا شروع کرو پھر جب ہمارا عذاب آ جائے اور تنور (سے پانی) اُبلنے لگے تو تم اس میں ہر قسم (کے جانوروں میں ) سے (نر و مادہ) دو دو کے جوڑے اور اپنے لڑکے بالوں کو بٹھا لو مگر ان میں سے جس کی نسبت (غرق ہونے کا) پہلے سے ہمارا حکم ہو چکا ہے (انہیں چھوڑ دو) اور جن لوگوں نے (ہمارے حکم سے ) سرکشی کی ہے ان کے بارے میں مجھ سے کچھ کہنا (سننا) نہیں کیونکہ یہ لوگ یقیناً ڈوبنے والے ہیں۔
۲۸غرض جب تم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ کشتی پر درست ہو بیٹھو تو کہو تمام حمد و ثنا کا سزاوار خدا ہی ہے جس نے ہم کو ظالم لوگوں سے نجات دی۔
۲۹اور دعا کرو کہ اے میرے پالنے والے تو مجھ کو (درخت اور پانی کی) بابرکت جگہ میں اتارنا اور تو تو سب اُتارنے والوں سے بہتر ہے۔
۳۰اس میں شک نہیں کہ اس میں (ہماری قدرت کی) بہت سی نشانیاں ہیں اور ہم کو تو بس ان کا امتحان لینا منظور تھا۔
۳۱پھر ہم نے ان کے بعد ایک اور قوم (ثمود) کو پیدا کیا۔
۳۲اور ہم نے ان ہی میں سے (ایک آدمی صالحؑ کو) رسول بنا کر ان لوگوں میں بھیجا (اور انہوں نے اپنی قوم سے کہا) کہ خدا کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں۔ تو کیا تم (اس سے ) ڈرتے نہیں ہو۔
۳۳اور ان کی قوم کے چند سرداروں نے جو کافر تھے اور (روز) آخرت کی حاضری کو بھی جھٹلاتے تھے اور دنیا کی (چند روزہ) زندگی میں ہم نے انہیں ثروت بھی دے رکھی تھی آپس میں کہنے لگے (ارے ) یہ تو بس تمہارا ہی سا آدمی ہے جو چیزیں تم کھاتے ہو وہی یہ بھی کھاتا ہے اور جو چیزیں تم پیتے ہوا ن ہی میں سے یہ بھی پیتا ہے۔
۳۴اور اگر کہیں تم لوگوں نے اپنے ہی سے آدمی کی اطاعت کر لی تو ضرور گھاٹے میں رہو گے۔
۳۵کیا یہ شخص تم سے وعدے کرتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور (مر کر) صرف مٹّی اور ہڈیاں (بن کر) رہ جاؤ گے تو تم (دوبارہ زندہ کر کے قبروں سے ) نکالے جاؤ گے
۳۶(ہیِ ہیِ ارے ) جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے بالکل (عقل سے ) دُور اور (قیاس سے ) بعید ہے
۳۷(دوبارہ زندہ ہونا کیسا) بس یہی دنیا کی زندگی ہے کہ ہم مرتے بھی ہیں اور جیتے بھی ہیں اور ہم تو پھر (دوبارہ)اٹھائے نہیں جائیں گے۔
۳۸ہو نہ ہو یہ (صالحؑ ) وہ شخص ہے جس نے خدا پر جھوٹ موٹ بہتان باندھا ہے اور ہم تو کبھی اس پر ایمان لانے والے نہیں۔
۳۹(یہ حالت دیکھ کر) صالحؑ نے دعا کی اے میرے پالنے والے چونکہ ان لوگوں نے مجھے جھٹلا دیا تو میری مدد کر۔
۴۰خدا نے فرمایا (ایک ذرا ٹھہر جاؤ) عنقریب ہی یہ لوگ نادم و پشیمان ہو جائیں گے۔
۴۱غرض انہیں یقیناً ایک سخت چنگھاڑنے لے ڈالا تو ہم نے انہیں کوڑے کرکٹ (کا ڈھیر) بنا چھوڑا پس ظالموں پر (خدا کی) لعنت ہے۔
۴۲پھر ہم نے ان کے بعد دوسری قوموں کو پیدا کیا۔
۴۳کوئی اُمّت اپنے وقتِ مقّرر سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے نہ (اس سے ) پیچھے ہٹ سکتی ہے۔
۴۴پھر ہم نے لگاتار بہت سے پیغمبر بھیجے (مگر) جب جب کسی اُمّت کا پیغمبر ان کے پاس آتا تو یہ لوگ اس کو جھٹلاتے تھے تو ہم بھی (آگے پیچھے ) ایک کو دوسرے کے بعد (ہلاک) کرتے گئے اور ہم نے انہیں (نیست و نابود کر کے )افسانہ بنا دیا۔ تو ایمان نہ لانے والوں پر (بھی) خدا کی لعنت ہے۔
۴۵پھر ہم نے موسیٰؑ اور ا ن کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور واضح و روشن دلیل کے ساتھ
۴۶فرعون اور اس کے دربار کے امراء کے پاس (رسول بنا کر) بھیجا تو ان لوگوں نے شیخی کی اور وہ تھے ہی بڑے سرکش۔
۴۷لوگ آپس میں کہنے لگے کیا ہم اپنے ہی ایسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان دونوں کی (قوم کی) قوم ہماری خدمت گاری کرتی ہے۔
۴۸غرض ان لوگوں نے ان دونوں کو جھٹلایا تو آخر یہ سب کے سب ہلاک کر ڈالے گئے۔
۴۹اور ہم نے موسیٰ ؑ کو کتاب (توریت) اس لیے عطا کی تھی کہ یہ لوگ ہدایت پائیں۔
۵۰اور ہم نے مریمؑ کے بیٹے (عیسیٰؑ )اور ان کی ماں کو (اپنی قدرت کی) نشانی بنائی تھی اور ان دونوں کو ہم نے ایک اُونچی ہموار ٹھہرنے کے قابل چشمہ والی زمین پر(رہنے کی) جگہ دی
۵۱(اور میرا حکم عام تھا) کہ اے (میرے ) پیغمبرو (پاک و) پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے اچھے کام کرو (کیونکہ) تم جو کچھ بھی کرتے ہو میں اس سے بخوبی واقف ہوں۔
۵۲(لوگو) یہ (دین اسلام) تم سب کا مذہب ایک ہی مذہب ہے اور میں تم لوگوں کا پروردگار ہوں تو بس مجھ سے ہی ڈرتے رہو۔
۵۳پھر لوگوں نے اپنے کام (میں اختلاف کر کے اس) کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی میں نہال نہال ہے۔
۵۴تو (اے رسُولؐ) تم ان لوگوں کو ان کی غفلت میں ایک خاص وقت تک (پڑا) چھوڑ دو۔
۵۵کیا یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال و اولاد میں ترقی دے رہے ہیں
۵۶تو ہم ان کے ساتھ بھلائیاں کرنے میں جلدی کر رہے ہیں (ایسا نہیں ) بلکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں۔
۵۷اس میں شک نہیں کہ جو لوگ اپنے پروردگار کی دہشت سے لرز رہے ہیں۔
۵۸اور جو لوگ اپنے پروردگار کی (قدرت کی) نشانیوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
۵۹اور جو لوگ اپنے پروردگار کا کسی کو شریک نہیں بناتے۔
۶۰اور جو لوگ (خدا کی راہ میں ) جو کچھ بن پڑتا ہے دیتے ہیں اور پھر ان کے دل کو اس بات کا کھٹکا لگا ہوا ہے کہ انہیں اپنے پروردگار کے سامنے لوٹ کر جانا ہے (دیکھیے کیا ہوتا ہے )
۶۱یہی لوگ (البتہ) نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں اور بھلائیوں کی طرف (دوسروں سے ) لپک کے آگے بڑھ جاتے ہیں
۶۲اور ہم تو کسی شخص کو اس کی قوت سے بڑھ کر تکلیف دیتے ہی نہیں اور ہمارے پاس تو (لوگوں کے اعمال کی) کتاب ہے جو بالکل ٹھیک حال بتاتی ہے اور ان لوگوں کی (ذرّہ برابر) حق تلفی نہیں کی جائے گی۔
۶۳بلکہ ان کے دل اس کی طرف سے غفلت میں پڑے ہیں اور اس کے علاوہ ان کے بہت سے اعمال ہیں جنہیں یہ (برابر) کیے جاتے ہیں (اور باز نہیں آتے )۔
۶۴یہاں تک کہ جب ہم ان کے مالداروں کو عذاب میں گرفتار کریں گے تو یہ لوگ واویلا کرنے لگیں گے۔
۶۵(اس وقت کہا جائے گا) آج واویلا مت کرو۔تم کو اب ہماری طرف سے مدد نہیں مل سکتی۔
۶۶جب ہماری آیتیں تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو تم اکڑتے، قصّہ کہتے، بکتے ہوئے ان سے اُلٹے پاؤں پھر جاتے تھے۔
۶۷اور تکبر کر کے اس (ہمارے رسولؐ) کو مثل کہانی کہنے والے کے چھوڑ بیٹھا کرتے تھے
۶۸تو کیا ان لوگوں نے (ہماری) بات (قرآن) پر غور نہیں کیا۔ یا ان کے پاس کوئی ایسی نئی چیز آئی جو ان کے اگلے باپ داداؤں کے پاس نہیں آئی تھی۔
۶۹یا ان لوگوں نے اپنے رسُول ہی کو نہیں پہچانا تو اس وجہ سے ان کا انکار کر بیٹھے۔
۷۰یا کہتے ہیں کہ اس کو جنون ہو گیا ہے (ہرگز اسے جنون نہیں ) بلکہ وہ تو ان کے پاس حق بات لے کر آیا ہے اور ان میں کے اکثر حق بات سے نفرت رکھتے ہیں۔
۷۱اور اگر کہیں حق ان کی نفسانی خواہشوں کی پیروی کرتا تو سارے آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں ہیں (سب کے سب) برباد ہو جاتے بلکہ ہم تو انہی کے تذکرے (جبرائیلؑ کے واسطہ سے ) ان کے پاس لے کر آئے تو یہ لوگ اپنے ہی تذکروں سے منہ موڑتے ہیں
۷۲(اے رسُولؐ) کیا تم ان سے (اپنی رسالت کی) کچھ اُجرت مانگتے ہو تو تمہارے پروردگار کی اُجرت کہیں اس سے بہتر ہے اور وہ تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے
۷۳اور تم تو یقیناً ان کو سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہو۔
۷۴اور اس میں شک نہیں کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔
۷۵اور اگر ہم ان پر ترس کھائیں اور جو تکلیفیں ان کو (کفّر کی وجہ سے ) پہنچ رہی ہیں ان کو دفع کر دیں تو یقیناً یہ لوگ(اور بھی) اپنی سرکشی پر اڑ جائیں اور بھٹکتے پھریں۔
۷۶اور ہم نے ان کو عذاب میں گرفتار کیا تو بھی یہ لوگ نہ تو اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ گڑگڑائے۔
۷۷یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے سامنے ایک سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا تو اس وقت فوراً یہ لوگ بے آس ہو کر بیٹھ رہے۔
۷۸حالانکہ وہی وہ (مہربان خُدا) ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کیے (مگر) تم ہو ہی بہت کم شکر کرنے والے۔
۷۹اور وہی وہ (خدا) ہے جس نے تم کو روئے زمین میں (ہر طرف) پھیلا دیا اور (پھر ایک دن) سب کے سب اسی کے سامنے اکٹھے کیے جاؤ گے۔
۸۰اور وہی وہ (خدا) ہے جو جِلاتا اور مارتا ہے، اور رات دن کا پھیر بدل بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ تو کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے (ان باتوں کو سمجھے خاک نہیں )
۸۱بلکہ جو اگلے لوگ کہتے آئے ویسی ہی بات یہ بھی کہنے لگے
۸۲ کہ جب ہم مر جائیں گے اور مر کر مٹّی (کا ڈھیر) اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر دوبارہ (قبروں سے زندہ کر کے ) نکالے جائیں گے۔
۸۳اس کا وعدہ تو ہم سے اور ہم سے پہلے ہمارے باپ داداؤں سے بھی (بارہا) کیا جا چکا ہے یہ تو بس صرف اگلے لوگوں کے ڈھکوسلے ہیں
۸۴(اے رسُولؐ) تم کہہ دو کہ بھلا اگر تم لوگ کچھ جانتے ہو تو (بتاؤ) یہ زمین اور جو لوگ اس میں ہیں کس کے ہیں ؟
۸۵وہ فوراً جواب دیں گے کہ خدا کے۔ تم کہہ دو کہ تو کیا تم اب بھی غور نہ کرو گے
۸۶(اے رسُولؐ) تم (ان سے ) پوچھو تو کہ ساتوں آسمانوں کا مالک اور (اتنے ) بڑے عرش کا مالک کون ہے۔
۸۷تو فوراً جواب دیں گے کہ (سب کچھ) خدا ہی کا ہے اب تم کہو تو کیا تم اب بھی (اس سے ) نہیں ڈرو گے۔
۸۸(اے رسولؐ) تم (ان سے ) پوچھو کہ بھلا اگر تم کچھ جانتے ہو تو (بتاؤ کہ) وہ کون ہے جس کے اختیار ہیں ہر چیز کی بادشاہت ہے وہ (جسے چاہتا ہے ) پناہ دیتا ہے اور اس (کے عذاب) سے پناہ نہیں دی جا سکتی۔
۸۹تو یہ لوگ فوراً بول اُٹھیں گے کہ (سب اختیار) خدا ہی کو ہے اب تم کہہ دو کہ تم پر جادو کہاں کیا جاتا ہے۔
۹۰بات یہ ہے کہ ہم نے ان کے پاس حق بات پہنچا دی اور یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں۔
۹۱نہ تو اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا بنایا ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت ہر خدا اپنی اپنی مخلوق کو لیے لیے پھرتا اور یقیناً ایک دوسرے پر چڑھائی کرتا (اور خوب جنگ ہوتی) جو جو باتیں یہ لوگ (خدا کی نسبت) بیان کرتے ہیں اس سے خدا پاک پاکیزہ ہے۔
۹۲وہ پوشیدہ اور حاضر (سب) سے خوب واقف ہے غرض وہ ان کے شرک سے (بالکل پاک اور ) بالاتر ہے
۹۳(اے رسولؐ) تم دعا کرو کہ اے میرے پالنے والے جس( عذاب کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اگر شاید تو مجھے دکھائے
۹۴تو پروردگارا مجھے ان ظالم لوگوں کے ہمراہ نہ کرنا۔
۹۵اور (اے رسولؐ) ہم یقیناً اس پر قادر ہیں کہ جس عذاب کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں تمہیں دکھا دیں
۹۶اور بُری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہایت اچھی ہو جو کچھ یہ لوگ (تمہاری نسبت) بیان کرتے ہیں اس سے ہم خوب واقف ہیں۔
۹۷اور (وہ بھی) دُعا کرو کہ اے میرے پالنے والے میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں
۹۸اور اے میرے پروردگاراس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس آئیں
۹۹(اور کفّار تو مانیں گے نہیں )یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آئی تو کہنے لگے پروردگارا تو مجھے (ایک بار) اس مقام (دُنیا) میں جسے میں چھوڑ آیا ہوں پھر واپس کر دے
۱۰۰تاکہ میں (اب کی دفعہ) اچھے اچھے کام کروں (جواب دیا جائے گا) ہرگز نہیں۔ یہ ایک لغو بات ہے جسے وہ بک رہا ہے اور ان کے (مرنے کے ) بعد (عالم) برزخ ہے (جہاں ) اس دن تک کہ دوبارہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے (رہنا ہو گا)
۱۰۱پھر جس وقت صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ لوگوں میں قرابت داریاں رہیں گی اور نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے۔
۱۰۲پھر جن (کے نیکیوں ) کے پلّے بھاری ہوں گے تو یہی لوگ کامیاب ہوں گے
۱۰۳اور جن (کے نیکیوں ) کے پلّے ہلکے ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنا آپ نقصان کیا کہ ہمیشہ جہنّم میں رہیں گے۔
۱۰۴جہنّم کی آگ ان کی مُنہ جھلس دے گی۔ اور وہ لوگ منہ بنائے ہوئے ہوں گے
۱۰۵(اس وقت ہم پوچھیں گے ) کیا تمہارے سامنے میری آیتیں نہ پڑھی گئی تھیں (ضرور پڑھی گئی تھیں ) تو تم انہیں جھٹلایا کرتے تھے۔
۱۰۶وہ جواب دیں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری کم بختی نے آ دبایا اور ہم گمراہ لوگ تھے۔
۱۰۷پروردگارا ہم کو (اب کی دفعہ) کسی طرح اس جہنم سے نکال دے۔ پھر اگر دوبارہ ہم ایسا کریں تو البتہ ہم قصّوروار ہیں۔
۱۰۸خدا فرمائے گا دور ہو اسی میں (تم کو رہنا ہو گا) اور (بس) مجھ سے بات نہ کرو۔
۱۰۹بے شک میرے بندوں میں سے ایک گروہ ایسا بھی تھا جو (برابر) یہ دعا کرتا تھا کہ اے ہمارے پالنے والے ہم ایمان لائے تو تو ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو تمام رحم کرنے والوں سے بہتر ہے۔
۱۱۰تو تم لوگوں نے انہیں مسخرا بنا لیا یہاں تک کہ (گویا) ان لوگوں نے تم سے میری یاد بھلا دی اور تم ان سے (برابر) ہنستے رہے۔
۱۱۱میں آج ان کو ان کے صبر کا اچھا بدلہ دیا کہ یہی لوگ اپنی (خاطر خواہ) مراد کو پہنچنے والے ہیں۔
۱۱۲(پھر ان سے خدا) پوچھے گا کہ (آخر) تم زمین پر کتنے برس رہے
۱۱۳ وہ کہیں گے (برس کیسا) ہم تو بس پورا ایک دن رہے یا ایک دن سے بھی کم تو تُو شمار کرنے والوں سے پوچھ لے۔
۱۱۴خدا فرمائے گا بے شک تم (زمین میں ) بہت ہی کم ٹھہرے کاش تم (اتنی بات بھی دنیا میں ) سمجھے ہوتے۔
۱۱۵تو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو (یوں ہی) بے کار پیدا کیا اور یہ کہ تم ہمارے حضور میں لوٹا کر نہ لائے جاؤ گے۔
۱۱۶تو خدا جو سچّا بادشاہ (ہر چیز سے ) برتر و اعلیٰ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی عرش بزرگ کا مالک ہے۔
۱۱۷اور جو شخص خدا کے ساتھ دوسرے معبود کی بھی پرستش کرے گا۔ اس کے پاس اس شرک کی کوئی دلیل تو ہے نہیں تو بس اس کا حساب (کتاب) اس کے پروردگار ہی کے پاس ہو گا (مگر یاد رہے کہ) کفّار ہرگز فلاح پانے والے نہیں
۱۱۸اور (اے رسولؐ) تم کہو پروردگارا تو (میری اُمّت) کو) بخش دے اور ترس کھا اور تو تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر ہے۔
٭٭٭
۲۴۔ سورۃ نور
۱(یہ) ایک سورۃ ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور اس (کے احکام) کو فرض کر دیا اور اس میں ہم نے واضح و روشن آیتیں نازل کیں۔ تاکہ تم (غور کر کے ) نصیحت حاصل کرو۔
۲زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو (سو) کوڑے مارو اور اگر تم خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو حکم خدا کے نافذ کرنے میں تم کو ان کے بارے میں کسی طرح کا ترس کا لحاظ نہ ہونے پائے اور ان دونوں کی سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو موجود رہنا چاہیے۔
۳زنا کرنے والا مرد تو زنا کرنے والی ہی عورت یا مشرکہ سے نکاح کرے گا اور زنا کرنے والی عورت سے بس زنا کرنے والا مرد یا مشرک ہی نکاح کرے گا اور سچّے ایمانداروں پر تو اس قسم کے تعلقات حرام ہیں۔
۴اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگائیں پھر (اپنے دعوے پر) چار گواہ پیش نہ کریں تو انہیں اسی کوڑے مارو اور (پھر آئندہ) کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور (یاد رکھو کہ) یہ لوگ خود بدکار ہیں۔
۵مگر ہاں جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کر لی اور اپنی اصلاح کی تو بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۶اور جو لوگ اپنی بیویوں پر (زنا کا) عیب لگائیں اور (اس کے ثبوت میں ) اپنے سوا ان کا کوئی گواہ نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ایک کی گواہی چار مرتبہ (اس طرح) ہو گی کہ وہ (ہر مرتبہ) خدا کی قسم کھا کر بیان کرے کہ وہ (اپنے دعوے میں ) ضرور سچّا ہے۔
۷اور پانچویں مرتبہ یوں (کہے گا) کہ اگر وہ جھوٹ بولتا ہو تو اس پر خدا کی لعنت۔
۸اور عورت (کے سر) سے اس طرح سزا ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ خدا کی قسم کھا کر بیان کر دے کہ یہ شخص (اس کا شوہر اپنے دعویٰ میں ) ضرور جھوٹا ہے
۹اور پانچویں مرتبہ بیان کرے گی کہ اگر یہ شخص (اپنے دعویٰ میں ) سچّا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب پڑے۔
۱۰اور اگر تم پر خدا کا فضل (و کرم) اور اس کی مہربانی نہ ہوتی (تو دیکھتے کہ تہمت لگانے والوں کا کیا حال ہوتا) اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا بڑا تو بہ قبول کرنے والا حکیم ہے۔
۱۱بے شک جن لوگوں نے جھوٹی تہمت لگائی وہ تمہیں میں سے ایک گروہ ہے۔ تم اپنے حق میں اس تہمت کو بُرا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ان میں سے جس شخص نے جتنا گناہ سمیٹا وہ اس (کی سزا) کو خود بھگتے گا اور ان میں سے جس شخص نے اس تہمت کا بڑا حصّہ لیا اس کے لیے بڑی (سخت) سزا ہو گی۔
۱۲اور جب تم لوگوں نے اس کو سناتو اسی وقت ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں نے اپنے لوگوں پر بھلائی کا گمان کیوں نہ کیا اور یہ کیوں نہ بول اٹھے کہ یہ تو کھلا ہوا بہتان ہے۔
۱۳اور جن لوگوں نے تہمت لگائی تھی اپنے دعوے کے ثبوت میں چار گواہ کیوں نہ پیش کیے پھر جب ان لوگوں نے گواہ نہ پیش کیے تو خدا کے نزدیک یہی لوگ جھوٹے ہیں
۱۴اور اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں خدا کا فضل (و کرم) اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جس بات کا تم لوگوں نے چرچا کیا تھا اس کی وجہ سے تم پر کوئی بڑا (سخت) عذاب آ پہنچتا۔
۱۵کہ تم اپنی زبانوں سے اس کو ایک دوسرے سے بیان کرنے لگے اور اپنی منہ سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تمہیں علم و یقین نہ تھا اور (لطف تو یہ ہے کہ) تم نے یہ ایک آسان بات سمجھی تھی حالانکہ وہ خدا کے نزدیک بڑی (سخت بات) تھی۔
۱۶اور جب تم نے ایسی بات سنی تھی تو تم نے لوگوں سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کو ایسی بات منہ سے نکالنی مناسب نہیں۔ سبحان اللہ یہ بڑا بھاری بہتان ہے۔
۱۷خدا تمہاری نصیحت کرتا ہے اگر تم سچّے ایماندار ہو تو خبردار پھر کبھی ایسا نہ کرنا اگر
۱۸اور خدا تم سے (اپنے ) احکام صاف صاف بیان کرتا ہے۔ اور خدا تو بڑا واقف کار حکیم ہے۔
۱۹جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمانداروں میں بدکاری کا چرچا پھیل جائے بے شک ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اور خدا (اصل حال کو) خوب جانتا ہے اور تم لوگ نہیں جانتے ہو۔
۲۰اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم پر خدا کا فضل (و کرم) اور اس کی رحمت ہے اور یہ کہ خدا (اپنے بندوں پر) بڑا شفیق و مہربان ہے۔
۲۱(تو تم دیکھتے کہ کیا ہوتا) اے ایماندارو شیطان کے قدم بقدم نہ چلو اور جو شخص شیطان کے قدم بقدم چلے گا تو وہ یقیناً اُسے بدکاری اور بُری بات (کرنے ) کا حکم دے گا۔ اور اگر تم پر خدا کا فضل (و کرم) اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک صاف نہ ہوتا مگر خدا تو جسے چاہتا ہے پاک و صاف کر دیتا ہے اور خدا بڑا سننے والا واقف کار ہے۔
۲۲اور تم میں سے جو لوگ زیادہ دولت اور مقدور والے ہیں قرابت داروں اور محتاجوں اور خدا کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ دینے لینے ) سے قسم نہ کھا بیٹھیں۔ بلکہ انہیں چاہیے کہ (ان کی خطا) معاف کر دیں اور درگزر کریں۔کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ خدا تمہاری خطا معاف کرے۔ اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۲۳بے شک جو لوگ پاک دامن، بے خبر اور ایماندار عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگاتے ہیں ان پر دُنیا اور آخرت میں (خدا کی) لعنت ہے اور ان پر بڑا سخت عذاب ہو گا۔
۲۴جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کی کارستانیوں کی گواہی دیں گے۔
۲۵اس دن خدا ان کو ٹھیک ان کا پورا پورا بدلا دے گا اور جان جائیں گے کہ خدا بالکل برحق اور حق کا ظاہر کرنے والا ہے۔
۲۶گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے (مناسب) ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے (موزوں ) ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے۔ لوگ جو کچھ ان کی نسبت بکا کرتے ہیں اس سے یہ لوگ بری الذمّہ ہیں۔ان ہی (پاک لوگوں ) کے لیے (آخرت میں ) بخشش ہے اور عزّت کی روزی۔
۲۷اے ایماندارو اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں (درّانہ) نہ چلے جاؤ یہاں تک کہ ان سے اجازت لے لو اور ان گھروں کے رہنے والوں سے صاحب سلامت کر لو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے (یہ نصیحت اس لیے ہے ) تاکہ تم یاد رکھو۔
۲۸پس اگر تم ان گھروں میں کسی کو نہ پاؤ تو تاوقتیکہ تم کو (خاص طور پر) اجازت نہ حاصل ہو جائے ان میں نہ جاؤ۔ اور اگر تم سے کہا جائے کہ پھر جاؤ تو تم (بے تامل واپس) پھر جاؤ یہی تمہارے واسطے زیادہ صفائی کی بات ہے۔ اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو خدا اس سے خوب واقف ہے۔
۲۹اس میں البتہ تم پر کوئی الزام نہیں کہ غیر آباد مکانات میں جس میں تمہارا کوئی اسباب ہو (بے اجازت) چلے جاؤ اور جو کچھ کھلم کھلا کرتے ہو اور جو کچھ چھپا کر کرتے ہو خدا (سب کچھ) جانتا ہے۔
۳۰(اے رسولؐ) ایمانداروں سے کہہ دو کہ اپنی نظروں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے واسطے زیادہ صفائی کی بات ہے۔ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں خدا اس سے یقیناً خوب واقف ہے۔
۳۱اور (اے رسولؐ) ایماندار عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے بناؤ سنگار کے مقامات کو (کسی پر)ظاہر نہ ہونے دیں۔ مگر جو خود بخود ظاہر ہو جاتا ہے (چھپ نہ سکتا ہو اس کا گناہ نہیں ) اور اپنی اوڑھنیوں کو (گھونگٹ مار کے ) اپنے گریبانوں (سینوں ) پر ڈالے رہیں اور اپنے شوہروں یا اپنے باپ داداؤں یا اپنے شوہر کے باپ داداؤں یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہر کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں یا اپنی عورتوں یا اپنی لونڈیوں یا (گھر کے ) وہ نوکر چاکر جو مرد صورت ہیں مگر (بہت بوڑھے ہونے کی وجہ سے ) عورتوں سے کچھ مطلب نہیں رکھتے یا وہ کم سن لڑکے جو عورتوں کے پردے کی بات سے آگاہ نہیں ہیں ان کے سوا (کسی پر) اپنا بناؤ سنگار ظاہر نہ ہونے دیا کریں اور چلتے میں اپنے پاؤں زمین پراس طرح نہ رکھیں کہ لوگوں کو ان کے پوشیدہ بناؤ سنگار (جھنکار وغیرہ) کی خبر ہو جائے۔ اور اے ایماندارو تم سب کے سب خدا کی بارگاہ میں توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
۳۲اور اپنی (قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کر دیا کرو۔ اگر یہ لوگ محتاج ہوں گے تو خدا اپنے فضل (و کرم) سے انہیں مال دار بنا دے گا۔ اور خدا تو بڑی گنجائش والا واقف کار ہے۔
۳۳اور جو لوگ نکاح کرنے کا مقدور نہیں رکھتے ان کو چاہیے کہ پاک دامنی اختیار کریں یہاں تک کہ خدا ان کو اپنے فضل (و کرم) سے مالدار بنا دے اور تمہاری لونڈی غلاموں میں سے جو مکاتب ہونے (کچھ روپے کی شرط پر آزادی کا سر خط لینے ) کی خواہش کریں تو تم اگر ان میں کچھ صلاحیت دیکھو تو ان کو مکاتب کر دو اور خدا کے مال سے جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے ان کو بھی دو۔اور تمہاری لونڈیاں جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں ان کو دنیاوی زندگی کے فائدے حاصل کرنے کی غرض سے حرام کاری پر مجبور نہ کرو اور جو شخص ان کو مجبور کرے گا تو اس میں شک نہیں کہ خدا اُن کی بے بسی کے بعد بڑا بخشنے والا مہربان ہے
۳۴اور (ایماندارو) ہم نے تو تمہارے پاس (اپنی) واضح و روشن آیتیں اور جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کی حالتیں اور پرہیزگاروں کے لیے نصیحت (کی باتیں ) نازل کیں۔
۳۵خدا تو سارے آسمان اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق (سینہ) ہے جس میں ایک روشن چراغ (علمِ شریعت) ہو اور چراغ ایک شیشے کی قندیل (دل) میں ہو (اور)قندیل (اپنی تڑپ میں ) گویا ایک جگمگاتا ہوا روشن ستارہ (وہ چراغ) زیتون کے ایسے مبارک درخت (کے تیل) سے روشن کیا جائے جو نہ مشرق کی طرف ہو اور نہ مغرب کی طرف (بلکہ بیچ و بیچ)میدان میں اس کا تیل (ایسا شفاف ہو کہ) اگرچہ آگ اُسے چھوئے بھی نہیں تاہم ایسا معلوم ہو کہ آپ ہی آپ روشن ہو جائے گا (غرض ایک نور نہیں بلکہ) نور علیٰ نور (نور کی نور پر چھوٹ پڑی رہی ہے ) خدا اپنے نور کی طرفجسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور خدا لوگوں (کے سمجھانے ) کے واسطے مثلیں بیان کرتا ہے اور خدا تو ہر چیز سے خوب واقف ہے
۳۶اور وہ (قندیل) ان گھروں میں روشن ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جس میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں۔
۳۷ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے نہ تو تجارت ہی غافل کرسکتی ہے اور نہ خرید (و فروخت) کا معاملہ (کیونکہ) وہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں (خوف کے مارے ) دل اور آنکھیں اُلٹ جائیں گی (اس کی عبادت اس لیے کرتے ہیں )
۳۸تاکہ خدا انہیں ان کے اعمال کا بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے اور اپنے فضل (و کرم) سے کچھ اور زیادہ بھی دے اور خدا تو جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے۔
۳۹اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کی کارستانیاں (ایسی ہیں ) جیسے ایک چٹیل میدان کا چمکتا ہوا بالو کہ پیاسا اس کو دُور سے تو پانی خیال کرتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کے پاس آیا تو اس کو کچھ بھی نہ پایا (اور پیاس سے تڑپ کر مرگیا) اور خدا کو اپنے پاس موجود پایا تو اُس نے اس کا حساب (کتاب) پورا پورا چکا دیا۔ اور خدا تو بہت جلد حساب کرنے والا ہے ہی
۴۰یا(کافروں کے اعمال کی مثال)اس بڑے گہرے دریا کی تاریکیوں کی سی ہے جیسے ایک لہراس کے اوپر دوسری لہراس کے اُوپر اَبر (تہہ تہہ) ڈھانکے ہوئے ہو (غرض) تاریکیاں ہیں کہ ایک کے اوپر ایک (اُمنڈی چلی آتی ہیں اس طرح سے کہ) اگر کوئی شخص اپنا ہاتھ نکالے تو (شدّت تاریکی سے ) اُسے دیکھ نہ سکے اور جسے خود خدا ہی نے (ہدایت کی) روشنی نہ دی ہو تو (سمجھ لو کہ) اس کے لیے کہیں کوئی روشنی نہیں ہے
۴۱(اے شخص) کیا تو نے اتنا بھی نہیں دیکھا کہ جتنی مخلوقات سارے آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے (غرض سب) اسی کی تسبیح کیا کرتے ہیں سب کے سب اپنی نماز اور اپنی تسبیح کا طریقہ خوب جانتے ہیں اور جو کچھ یہ کیا کرتے ہیں خدا اس سے خوب واقف ہے۔
۴۲اور سارے آسمان و زمین کی سلطنت خاص خدا ہی کی ہے اور خدا ہی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔
۴۳کیا تو نے اس پربھی نہیں نظر کی کہ یقیناً خدا ہی اَبر کو چلاتا ہے پھر وہی باہم اُسے جوڑتا ہے۔ پھر وہی اُسے تہ بہ تہ رکھتا ہے تب تو بارش اس کے درمیان سے نکلتی ہوئی دیکھتا ہے اور آسمان میں جو جمے ہوئے (بادلوں کے ) پہاڑ ہیں ان میں سے وہی اُسے برساتا ہے پھر انہیں جس (کے سر) پر چاہتا ہے پہنچا دیتا ہے اور جس(کے سر) سے چاہتا ہے ٹال دیتا ہے۔ قریب ہے کہ اس کی بجلی کی کوند آنکھوں کی روشنی اُچکے لیے جاتی ہے۔
۴۴خدا ہی رات اور دن کو پھیر بدل کرتا رہتا ہے بے شک اس میں آنکھ والوں کے لیے بڑی عبرت ہے۔
۴۵اور خدا ہی نے تمام زمین پر چلنے والے کو پانی سے پیدا کیا۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ان میں ایسے ہیں جو دو پاؤں پر چلتے ہیں اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو چار پاؤں پر چلتے ہیں۔ خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اس میں شک نہیں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
۴۶ہم ہی نے یقیناً واضح و روشن آیتیں نازل کیں اور خدا ہی جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے۔
۴۷اور (کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ) جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور رسُولؐ پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت قبول کی پھر اس کے بعد ان میں سے کچھ لوگ (خدا کے حکم سے ) منہ پھیر لیتے ہیں اور (سچ یوں ہے کہ) یہ لوگ ایماندار تھے ہی نہیں۔
۴۸اور جب وہ لوگ خدا اور اُس کے رسُولؐ کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ رسُولؐ ان کے آپس کے (جھگڑے کا) فیصلہ کر دیں تو ان میں ایک فریق روگردانی کرتا ہے۔
۴۹اور (اصل یہ ہے کہ) اگر حق ان کی طرف ہوتا تو گردن جھکائے (چپکے ) رسُولؐ کے پاس دوڑے ہوئے آتے۔
۵۰کیا ان کے دل میں (کفر کا) مرض (باقی) ہے یا شک میں پڑے ہیں یا اس بات سے ڈرتے ہیں کہ (مبادا) خُدا اور اس کارسُولؐ ان پر ظلم کر بیٹھے گا (یہ سب کچھ نہیں ) بلکہ یہی لوگ ظالم ہیں۔
۵۱ایمانداروں کا قول تو بس یہ ہے کہ جب ان کو خدا اور اس کے رسُولؐ کے پاس بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے (باہمی جھگڑوں کا) فیصلہ کر دیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے (حکم) سُنا اور (دل سے ) مان لیا۔ اور یہی لوگ (آخرت میں ) کامیاب ہونے والے ہیں۔
۵۲اور جو شخص خدا اور اس کے رسُولؐ کا حکم مانے اور خدا سے ڈرے اور اس (کی نافرمانی) سے بچتا رہے گا توایسے ہی لوگ اپنی مراد کو پہنچیں گے۔
۵۳اور (اے رسُولؐ) ان منافقین نے تمہاری اطاعت کی) خدا کی سخت سے سخت قسمیں کھائی ہیں کہ اگر تم انہیں حکم دو تو بلا عذر (گھر بار چھوڑ کر) نکل کھڑے ہوں۔ تم کہہ دو کہ قسمیں نہ کھاؤ دستور کے موافق اطاعت اس سے بہتر ہے۔ اور بے شک تم جو کچھ کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے
۵۴(اے رسُولؐ) تم کہہ دو کہ خدا کی اطاعت کرو اور رسُولؐ کی اطاعت کرو۔ اس پر بھی اگر تم سرتابی کرو گے تو بس رسُولؐ پر اتنا ہی (تبلیغ) واجب ہے۔ جس کے وہ ذمہ دار کیے گئے اور جس کے ذمہ دار تم بنائے گئے ہو تم پر واجب ہے اور اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور رسُولؐ پر تو صرف صاف طور پر (احکام کا) پہنچانا فرض ہے
۵۵(اے ایماندارو) تم میں سے جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے ان سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو (ایک نہ ایک دن) روئے زمین پر ضرور (اپنا) نائب مقرر کرے گاجس طرح ان لوگوں کو نائب بنایا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور جس دین کواس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے (اسلام) اس پر انہیں ضرور ضرور پوری قدرت دے گا اور ان کے خائف ہونے کے بعد (ان کے ہر اس کو) امن سے ضرور بدل دے گا کہ وہ (اطمینان سے ) میری ہی عبادت کریں گے اور کسی کو ہمارا شریک نہ بنا لیں گے اور جو شخص اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو ایسے ہی لوگ بدکار ہیں۔
۵۶اور (اے ایماندارو) نماز پابندی سے پڑھا کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور (دل سے ) رسُولؐ کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
۵۷اور (اے رسُولؐ) تم یہ نہ خیال کرو کہ کفّار (اِدھر اُدھر) زمین میں (پھیل کر ہمیں ) عاجز کر دیں گے (یہ خود عاجز ہو جائیں گے ) اور ان کا ٹھکانا تو جہنم ہے اور کیا بُرا ٹھکانا ہے۔
۵۸اے ایماندارو تمہاری لونڈی، غلام اور وہ لڑکے جو ابھی تک بلوغ کی حد تک نہیں پہنچے ہیں ان کو بھی چاہیے کہ (دن رات میں ) تین مرتبہ (تمہارے پاس آنے کی) تم سے اجازت لے لیا کریں (تب آئیں ) ایک نماز صبح سے پہلے اور (دوسرے ) جب تم (گرمی سے ) دوپہر کو (سونے کے لیے معمولی) کپڑے اتار دیا کرتے ہو اور (تیسرے ) نماز عشاء کے بعد (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں۔ ان اوقات کے علاوہ (بے اذن آنے میں ) نہ تو تم پر کوئی الزام ہے نہ ان پر (کیونکہ) ان اوقات کے علاوہ میں (بضرورت یا بے ضرورت) لوگ ایک دوسرے کے پاس چکر لگایا کرتے ہیں۔ یوں خدا (اپنے ) احکام تم سے صاف صاف بیان کرتا ہے۔ اور خدا تو بڑا واقف کار حکیم ہے۔
۵۹اور (اے ایماندارو) جب تمہارے لڑکے حد بلوغ کو پہنچیں تو جس طرح ان کے قبل (بڑی عمر) والے (گھر میں آنے کی) اجازت لے لیا کرتے تھے۔ اسی طرح یہ لوگ بھی اجازت لے لیا کریں۔ یوں خدا اپنے احکام تم سے صاف صاف بیان کرتا ہے اور خدا تو بڑا واقف کار حکیم ہے۔
۶۰اور بڑی بوڑھی عورتیں جو (بڑھاپے کی وجہ سے ) نکاح کی خواہش نہیں رکھتیں وہ اگر اپنے کپڑے (دوپٹہ وغیرہ) اتار (کر سرننگا کر) ڈالیں تو اس میں ان پر کوئی گناہ نہیں ہے بشرطیکہ ان کو اپنا بناؤ سنگار دکھانا منظور نہ ہو۔ اور (اس سے بھی) بچیں تو ان کے لیے اور بہتر ہے اور خدا تو (سب کی سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔
۶۱اس بات میں نہ تو اندھے آدمی کے لیے مضائقہ ہے اور نہ لنگڑے آدمی پر کچھ الزام ہے اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے اور نہ خود تم لوگوں پر کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے باپ دادا نانا وغیرہ کے گھروں سے یا اپنی ماں، دادی، نانی وغیرہ کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا اس گھر سے جس کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں ہیں یا اپنے دوستوں (کے گھروں ) سے اس میں بھی تم پر کوئی الزام نہیں کہ سب کے سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔ پھر جب تم گھر والوں میں جانے لگو (اور وہاں کسی کو نہ پاؤ) تو خود اپنے ہی اوپر سلام کر لیا کرو جو خدا کی طرف سے ایک مبارک پاک و پاکیزہ تحفہ ہے۔ خدا یوں (اپنے ) احکام تم سے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو۔
۶۲سچّے ایماندار تو صرف وہ لوگ ہیں جو خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے اور جب کسی ایسے کام کے لیے جس میں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہے رسولؐ کے پاس ہوتے ہیں تو جب تک اس سے اجازت نہ لے لی نہ گئے (اے رسولؐ) جو لوگ تم سے (ہر بات میں ) اجازت لے لیتے ہیں وہی لوگ (دل سے ) خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے ہیں۔ تو جب یہ لوگ اپنے کسی کام کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو تم ان میں سے جس کو (مناسب خیال کر کے ) چاہو اجازت دے دیا کرو اور خدا سے اس کی بخشش کی دعا بھی کرو بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۶۳(اے ایماندارو) جس طرح تم میں سے ایک دوسرے کو (نام لے کر) بلایا کرتا ہے اس طرح آپس میں رسولؐ کو نہ بلایا کرو۔ خدا ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں سے آنکھ بچا کے (پیغمبرؐ کے پاس سے ) کھسک جاتے ہیں۔ تو جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کواس بات سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ (مبادا) ان پر کوئی مصیبت آ پڑے یا ان پر کوئی دردناک عذاب نازل ہو۔
۶۴خبردار! جو کچھ سارے آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) یقیناً خدا ہی کا ہے۔ جس حالت پر تم ہو خدا خوب جانتا ہے اور جس دن اس کے پاس یہ لوگ لوٹا کے لائے جائیں گے تو جو کچھ اِن لوگوں نے کیا کرایا ہے بتا دے گا۔اور خدا تو ہر چیز سے خوب واقف ہے۔
٭٭٭
۲۵۔ سورۃ فرقان
۱(خدا) بہت بابرکت ہے جس نے اپنے بندے سے (محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) پر قرآن نازل کیا تاکہ سارے جہان کے لیے (خدا کے عذاب سے ) ڈرانے والا ہو۔
۲وہ خدا کہ سارے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے اور اس نے (کسی کو) نہ (اپنا) لڑکا بنایا اور نہ سلطنت میں اس کا کوئی شریک ہے اور ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا پھر اُسے (اندازے سے ) درست کیا۔
۳اور لوگوں نے اس کے سوا دوسرے دوسرے معبود بنا رکھے ہیں جو کچھ بھی نہیں پیدا کرسکتے بلکہ وہ خود دوسرے کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور وہ خود اپنے لیے بھی نہ نقصان پر قابو رکھتے ہیں نہ نفع پر اور نہ موت ہی پر اختیار رکھتے ہیں اور نہ زندگی پر اور نہ مرنے کے بعد جی اُٹھنے پر۔
۴اور جو لوگ کافر ہو گئے بول اُٹھے کہ یہ (قرآن) تو نرا جھوٹ ہے جسے اس شخص (رسُولؐ) نے اپنے جی سے گڑھ لیا اور کچھ اور لوگوں نے اس افترا پردازی میں اس کی مدد بھی کی ہے تو یقیناً خود ان ہی لوگوں نے ظلم و فریب کیا ہے۔
۵اور (یہ بھی) کہا کہ (یہ تو) اگلے لوگوں کے ڈھکوسلے ہیں جسے اس نے کسی سے لکھوا لیا ہے پس وہی صبح و شام اس کے سامنے پڑھا جاتا ہے۔
۶(اے رسُولؐ) تم کہہ دو کہ اس کو اس نے نازل کیا ہے جو سارے آسمان و زمین کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۷اور ان لوگوں نے (یہ بھی) کہا کہ یہ کیسا رسُولؐ ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل ہوا تاکہ وہ بھی اس کے ساتھ (خدا کے عذاب سے ) ڈرانے والا ہوتا۔
۸یا (کَم سے کم) اس کے پاس خزانہ ہی (آسمان سے ) گرا دیا جاتا یا (اور نہیں تو) اس کے پاس کوئی باغ ہی ہو تاکہ اس سے کھاتا پیتا۔ اور یہ ظالم (کفّار مومنوں سے ) کہتے ہیں کہ تم لوگ تو بس ایسے آدمی کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو کر دیا گیا ہے۔
۹(اے رسُولؐ) ذرا دیکھو تو ان لوگوں نے تمہارے واسطے کیسی کیسی پھبتیاں گڑھی ہیں اور گمراہ ہو گئے۔ تو اب یہ لوگ کسی طرح راہ پر آ ہی نہیں سکتے۔
۱۰خدا تو ایسا بابرکت ہے کہ اگر چاہے تو (ایک باغ کیا چیز ہے ) اس سے بہتر بہتیرے ایسے باغات پیدا کر دے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں اور (باغات کے علاوہ ان میں ) تمہارے واسطے محل بنا دے۔
۱۱(یہ سب کچھ نہیں ) بلکہ (سچ یہ ہے ) ان لوگوں نے قیامت ہی کو جھوٹ سمجھا ہے اور جس شخص نے قیامت کو جھوٹ سمجھا اس کے لیے ہم نے جہنم کو (دہکا کے ) تیار کر رکھا ہے۔
۱۲کہ جب جہنم ان لوگوں کو دور سے دیکھے گی تو (جوش کھائے گی اور ) یہ لوگ اس کے جوش و خروش کی آواز سنیں گے۔
۱۳اور جب یہ لوگ زنجیروں سے جکڑ کر اس کی کسی تنگ جگہ میں جھونک دیئے جائیں گے تو اس وقت موت کو پکاریں گے۔
۱۴(اس وقت ان سے کہا جائے گا) آج ایک ہی موت کو نہ پکارو بلکہ بہتیری موتوں کو پکارو(مگر اس سے کچھ ہونے والا نہیں۔
۱۵(اے رسولؐ) تم پوچھو تو کہ یہ (جہنم)بہتر ہے یا ہمیشہ رہنے کا باغ (بہشت) جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ اُن (کے اعمال) کا صلہ ہو گا اور آخری ٹھکانا
۱۶جس چیز کی وہ خواہش کریں گے ان کے لیے وہاں موجود ہو گی (اور) وہ ہمیشہ (اسی حال میں رہیں گے ) یہ تمہارے پروردگار پر (ایک لازمی اور ) مانگا ہوا وعدہ ہے۔
۱۷اور جس دن خدا ان لوگوں کو اور جس کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پرستش کیا کرتے ہیں (اس کو) جمع کرے گا اور پوچھے گا کیا تم ہی نے ہمارے ان بندوں کو گمراہ کر دیا تھا یا لوگ خود راہِ راست سے بھٹک گئے تھے
۱۸(ان کے معبود) عرض کریں گے سبحان اللہ (ہم تو خود تیرے بندے تھے ) ہمیں یہ کسی طرح زیبا نہ تھا کہ ہم تجھے چھوڑ کر دوسروں کو اپنا سرپرست بناتے (پھر اپنے کو کیوں کر معبود بناتے ) مگر بات تو یہ ہے کہ تو ہی نے ان کو اور ان کے باپ داداؤں کو چین دیا یہاں تک کہ ان لوگوں نے (تیری) یاد بھلا دی۔ اور یہ خود ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔
۱۹تب (کافروں سے کہا جائے گا کہ) تم جو کچھ کہہ رہے ہو اس میں تو (تمہارے معبودوں نے ) تمہیں جھٹلا دیا تو اب تم نہ (ہمارے عذاب) کے ٹال دینے کی سکت رکھتے ہو نہ کسی سے مدد لے سکتے ہو اور (یاد رکھو) تم میں سے جو ظلم کرے گا ہم اس کو بڑے (سخت) عذاب (کا مزہ) چکھائیں گے
۲۰اور (اے رسولؐ) ہم نے تم سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے وہ سب کے سب یقیناً بلا شک کھانا کھاتے تھے، اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تم میں سے ایک کو ایک کا (ذریعہ) آزمائش بنایا۔ (مسلمانوں ) کیا تم اب بھی صبر کرتے ہو (یا نہیں ) اور پروردگار تمہارا (سب کی) دیکھ بھال کر رہا ہے۔
۲۱اور جو لوگ (قیامت میں ) ہماری حضوری کی اُمید نہیں رکھتے کہا کرتے ہیں کہ آخر فرشتے ہمارے پاس کیوں نہیں نازل کیے گئے یا ہم اپنے پروردگار کو (کیوں نہیں ) دیکھتے۔ ان لوگوں نے اپنے جی میں اپنے کو (بہت) بڑا سمجھ لیا ہے اور بڑی سرکشی کی ہے۔
۲۲جس دن یہ لوگ فرشتوں کو دیکھیں گے اُس دن گنہگاروں کو کچھ خوشی نہ ہو گی اور (فرشتوں کو دیکھ کر) کہیں گے دُور دفان۔
۲۳اور ان لوگوں نے (دُنیا میں ) جو کچھ نیک کام کیے ہیں ہم اس کی طرف توجہ کریں گے تو ہم اس کو (گویا) اُڑتی ہوئی خاک بنا (کر برباد کر) دیں گے۔
۲۴اُس دن جنت والوں کا ٹھکانہ بھی بہتر سے بہتر ہو گا اور آرام گاہ بھی اچھی سے اچھی۔
۲۵اور جس دن آسمان بدلی کے سبب پھٹ جائے گا اور فرشتے کثرت سے جوق در جوق نازل کیے جائیں گے
۲۶اس دن کی سلطنت خاص خدا ہی کے لیے ہو گی۔اور وہ دن کافروں پر بڑا سخت ہو گا۔
۲۷اور جس دن ظلم کرنے والا اپنے ہاتھ (مارے افسوس کے ) کاٹنے لگے گا اور کہے گا کاش رسُولؐ کے ساتھ میں بھی (دین کا سیدھا) رستہ پکڑتا۔
۲۸ہائے افسوس کاش میں فلاں شخص کو (اپنا) دوست نہ بناتا۔
۲۹بے شک یقیناً اُس نے ہمارے پاس نصیحت آنے کے بعد مجھے بہکایا اور شیطان تو آدمی کا رسوا کرنے والا ہی ہے
۳۰اور (اس وقت) رسولؐ (بارگاہِ خداوندی میں ) عرض کریں گے کہ اے میرے پروردگار میری قوم نے تو اس قرآن کو بے کار بنا دیا۔
۳۱اور ہم نے (گویا خود) گنہگاروں میں سے ہر نبی کے دشمن بنا دیئے ہیں اور تمہارا پروردگار ہدایت اور مددگاری کے لیے کافی ہے۔
۳۲اور کفّار کہنے لگے کہ ان کے اوپر (آخر) قرآن کُل کا کُل (ایک ہی دفعہ) کیوں نہیں نازل کیا گیا (ہم نے ) اس طرح اسی لیے (نازل کیا) تاکہ تمہارے دل کو اس سے تسکین دیتے رہیں۔ اور ہم نے اس کو ٹھہر ٹھہر کر نازل کیا
۳۳اور یہ (کفّار) چاہے کیسی ہی (انوکھی) مثل بیان کریں مگر ہم تمہارے پاس (اس کا) بالکل ٹھیک اور نہایت عمدہ (جواب) بیان کر دیں گے
۳۴جو لوگ(قیامت کے دن) اپنے اپنے مونہوں کی بل جہنم میں ہنکائے جائیں گے وہی لوگ بدتر جگہ میں ہوں گے اور سب سے زیادہ راہِ راست سے بھٹکنے والے
۳۵اور البتہ ہم نے موسیٰؑ کو کتاب (توریت) عطا کی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارونؑ کو (ان کا) وزیر بنایا۔
۳۶تو ہم نے کہا تم دونوں ان لوگوں کے پاس جو ہماری (قدرت کی) نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں، جاؤ (اور سمجھاؤ۔ جب نہ مانا) تو ہم نے انہیں خوب برباد کر ڈالا۔
۳۷اور نوحؑ کی قوم کو جب ان لوگوں نے (ہمارے ) پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ڈوبا دیا اور ہم نے ان کو لوگوں (کی عبرت) کی نشانی بنایا۔ اور ہم نے ظالموں کے واسطے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
۳۸اور (اسی طرح) عاد اور ثمود اور نہر والوں اور ان کے درمیان میں بہت سی جماعتوں کو ہم نے ہلاک کر ڈالا۔
۳۹اور ہم نے ہر ایک سے مثلیں بیان کر دی تھیں اور (خوب سمجھایا مگر نہ مانے ) ہم نے ان کو خوب ستیاناس کر چھوڑا۔
۴۰اور یہ لوگ (کفّار مکّہ) اس بستی پر (ہو) آئے ہیں جس پر (پتھروں کی) بُری بارش برسائی گئی۔ تو کیا ان لوگوں نے ان کو دیکھا نہ ہو گا مگر (بات یہ ہے کہ) یہ لوگ مرنے کے بعد جی اُٹھنے کی اُمیّد نہیں رکھتے (پھر کیوں ایمان لائیں )
۴۱اور (اے رسُولؐ) یہ لوگ تمہیں جب دیکھتے ہیں تو تم سے مسخرا پن ہی کرنے لگتے ہیں کہ کیا یہی وہ (حضرت) ہیں جنہیں اللہ نے (رسولؐ بنا کر بھیجا ہے
۴۲(معاذ اللہ) اگر ہم بتوں کی پرستش پر ثابت قدم نہ رہتے تو اس شخص نے ہم کو ہمارے معبودوں سے بہکا ہی دیا تھا اور بہت جلد (قیامت میں ) جب یہ لوگ عذاب کو دیکھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ راہِ راست سے کون زیادہ بھٹکا ہوا تھا
۴۳اور کیا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے تو کیا تم اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہو
۴۴(کہ وہ گمراہ نہ ہو) کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ان (کفّار) میں اکثر (بات) سُنتے یا سمجھتے ہیں (نہیں ) یہ تو بس بالکل مثل جانوروں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ راہ (راست) سے بھٹکے ہوئے۔
۴۵(اے رسُولؐ) کیا تم نے اپنے پروردگار کی قدرت کی طرف نظر نہیں کی کہ اس نے کیوں کر سایہ کو پھیلا دیا اگر وہ چاہتا تواسے (ایک ہی جگہ) ٹھہرا ہوا کر دیتا پھر ہم نے آفتاب کو (اس کی شناخت کے واسطے ) اس کا رہنما بنا دیا
۴۶پھر ہم نے اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے اپنی طرف کھینچ لیا۔
۴۷اور وہی تو وہ (خدا) ہے جس نے تمہارے واسطے رات کو پردہ بنا لیا اور نیند کو راحت اور دن کو (کاروبار کے لئے ) اُٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔
۴۸اور وہی تو وہ (خدا) ہے جس نے اپنی رحمت (بارش) کے آگے آگے ہواؤں کو خوشخبری دینے کے لیے (پیش خیمہ بنا کے ) بھیجا اور ہم ہی نے آسمان سے بہت پاک اور نتھرا ہوا پانی برسایا۔
۴۹تاکہ ہم اس کے ذریعے سے مُردہ (ویران) شہر کو زندہ (آباد) کریں اور اپنی مخلوقات میں سے چوپایوں اور بہت سے آدمیوں کو اس سے سیراب کریں
۵۰اور ہم نے پانی کو ان کے درمیان (طرح طرح سے ) تقسیم کیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں مگر اکثر لوگوں نے ناشکری کے سوا کچھ نہ مانا
۵۱اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ضرور ایک (عذاب خدا سے ) ڈرانے والا (پیغمبر) بھیجتے
۵۲تو (اے رسُولؐ) تم کافروں کی اطاعت نہ کرنا اور اُن سے قرآن کے (دلائل سے ) خوب لڑو۔
۵۳اور وہی تو وہ (خُدا) ہے جس نے دو دریاؤں کو آپس میں ملا دیا اور (باوجودیکہ) یہ خالص مزیدار میٹھا ہے اور یہ بالکل کھاری کڑوا (مگر دونوں کو ملایا) اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بنا دی ہے۔ (کہ گڑبڑ نہ ہو)
۵۴اور وہی تو وہ خدا ہے جس نے پانی (منی) سے آدمی کو پیدا کیا پھر اس کو خاندان اور سُسرال والا بنایا اور (اے رسولؐ) تمہارا پروردگار ہر چیز پر قادر ہے۔
۵۵اور لوگ (کفّار مکّہ) خُدا کو چھوڑ کر اس چیز کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں نفع ہی دے سکتی ہے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکتی ہے اور کافر (ابوجہل) تو ہر وقت اپنے پروردگار کی مخالفت پر زور لگائے ہوتا ہے۔
۵۶اور (اے رسُولؐ) ہم نے تو تم کو بس (نیکوں کو جنت کی) خوشخبری دینے والا اور بُروں کو عذاب سے ) ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے
۵۷(اے رسُولؐ) تم ان سے کہہ دو کہ میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا ہوں سوائے اس کے کہ جو چاہے اپنے پروردگار تک پہنچنے والی راہ (مستقیم) اختیار کرے )
۵۸اور (اے رسُولؐ) تم اس (خدا) پر بھروسہ رکھو جو ایسا زندہ ہے کہ کبھی نہیں مرے گا اور اس کی حمد و ثنا کی تسبیح پڑھو اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی واقف کاری میں کافی ہے
۵۹(وہ خود سمجھ لے گا)جس نے سارے آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش (کے بنانے ) پر آمادہ ہوا اور وہ بڑا مہربان ہے تو تم اس کا حال کسی باخبر ہی سے پوچھنا۔
۶۰اور جب ان کافروں سے کہا جاتا ہے کہ رحمن (خدا) کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمن کیا چیز ہے کیا تم جس کے لیے کہتے ہو ہم اسی کو سجدہ کرنے لگیں۔ اور (اس سے ) ان کی نفرت اور بڑھ جاتی ہے۔
۶۱بہت بابرکت ہے وہ خدا جس نے آسمان میں بُرج بنائے اور ان بُرجوں میں (آفتاب کا) چراغ اور جگمگاتا چاند بنایا۔
۶۲اور وہی تو وہ (خدا) ہے جس نے رات اور دن (ایک) کو (ایک کا) جانشین بنایا یہ اس کے (سمجھنے کے ) لیے ہے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے یا شکر گزاری کا ارادہ کرے۔
۶۳اور (خدائے ) رحمن کے خاص بندے تو وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے (جہالت کی) بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سلام (تم سلامت رہو)
۶۴اور وہ لوگ جو اپنے پروردگار کے واسطے سجدہ اور قیام میں رات کاٹ دیتے ہیں۔
۶۵اور وہ لوگ جو دُعا کرتے ہیں کہ پروردگارا ہم سے جہنم کا عذاب پھیرے رہ کیونکہ اس کا عذاب بہت (سخت) اور پائیدار ہو گا۔
۶۶بے شک وہ بُرا ٹھکانا اور بُرا مقام ہے۔
۶۷اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ اس کے درمیان اوسط درجہ کا رہتا ہے
۶۸اور وہ لوگ جو خدا کے ساتھ دوسرے معبود کی پرستش نہیں کرتے اور جس جان کے مارنے کو خدا نے حرام کر دیا ہے اُسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسا کرے گا وہ آپ اپنے گناہ کی سزا بھگتے گا۔
۶۹کہ قیامت کے دن اس کے لیے عذاب دُگنا کر دیا جائے گا اور اس میں ہمیشہ ذلیل و خوار رہے گا۔
۷۰مگر (ہاں )جس شخص نے توبہ کی اور ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے تو (البتہ) ان لوگوں کی برائیوں کو خدا نیکیوں سے بدل دے گا۔ اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۷۱اور جس شخص نے توبہ کر لی اور اچھے اچھے کام کیے تو بے شک اُس نے خدا کی طرف (سچّے دل سے ) حقیقتاً رجوع کی۔
۷۲اور وہ لوگ جو فریب کے پاس ہی نہیں کھڑے ہوتے اور وہ لوگ جب کسی بیہودہ کام کے پاس گزرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گزر جاتے ہیں
۷۳اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے پروردگار کی آیتیں یاد دلائی جاتی ہیں تو بہرے اندھے ہو کر گر نہیں پڑتے (بلکہ جی لگا کر سُنتے ہیں )۔
۷۴اور وہ لوگ جو (ہم سے ) عرض کیا کرتے ہیں کہ پروردگار ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنا
۷۵یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کی جزا میں (بہشت کے ) بالاخانے عطا کیے جائیں گے۔ اور وہاں انہیں تعظیم اور سلام (کا ہدیہ) پیشکش کیا جائے گا۔
۷۶ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ رہنے اور ٹھہرنے کی کیا اچھی جگہ ہے۔
۷۷(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اگر تم دعا نہیں کرتے تو میرا پروردگار بھی تمہاری کچھ پرواہ نہیں کرتا تم نے تو (اس کے رسولؐ کو) جھٹلایا تو عنقریب ہی (اس کا وبال) تمہارے سر پڑے گا۔
٭٭٭
۲۶۔ سورۃ شعراء
۱طٰ سٓ مٓ
۲یہ واضح و روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔
۳(اے رسولؐ) شاید تم (اس فکر میں ) اپنی جان ہلاک کر ڈالو گے کہ یہ (کفّار) مومن کیوں نہیں ہو جاتے۔
۴اگر ہم چاہیں تو ان لوگوں پر آسمان سے کوئی ایسا معجزہ نازل کریں کہ ان لوگوں کی گردنیں اس کے سامنے جھک جائیں
۵اور (لوگوں کا قاعدہ ہے کہ جب ان کے پاس کوئی نئی نصیحت کی بات خدا کی طرف سے آئی تو یہ لوگ اس سے منہ پھیرے بغیر نہیں رہے۔
۶ان لوگوں نے جھٹلایا ضرور تو عنقریب ہی (انہیں ) اس (عذاب) کی حقیقت معلوم ہو جائے گی جس کی یہ لوگ ہنسی اڑاتے تھے
۷کیا اُن لوگوں نے زمین کی طرف بھی (غور سے ) نہیں دیکھا کہ ہم نے ہر رنگ کی عمدہ عمدہ چیزیں اس میں کس کثرت سے اُگائی ہیں۔
۸یقیناً اس میں بھی (قدرتِ خدا کی) ایک بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے ہی نہیں۔
۹اور اس میں شک نہیں کہ تیرا پروردگار یقیناً (ہر چیز پر) غالب اور مہربان ہے۔
۱۰(اے رسولؐ وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے موسیٰؑ کو آواز دی کہ(ان) ظالم لوگوں
۱۱فرعون کی قوم کے پاس جاؤ (ہدایت کرو) کیا یہ لوگ (میرے غضب سے ) ڈرتے نہیں ہیں۔
۱۲موسیٰ ؑ نے عرض کی پروردگارا میں ڈرتا ہوں کہ (مبادا) وہ لوگ مجھے جھٹلا دیں۔
۱۳اور (ان کے جھٹلانے سے ) میرا دم رک جائے اور میری زبان (اچھی طرح) نہ چلے تو تو ہارون کے پاس پیغام بھیج دے (کہ میرا ساتھ دیں )
۱۴اور (اس کے علاوہ) ان کا میرے سر ایک (دعوائے ) جرم بھی ہے (کہ میں نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا) تو میں ڈرتا ہوں کہ (شاید) مجھے یہ لوگ مار ڈالیں
۱۵(خدا نے ) فرمایا ہرگز نہیں۔ اچھا تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور (ساری گفتگو) اچھی طرح سنتے ہیں۔
۱۶غرض تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم سارے جہان کے پروردگار کے رسول ہیں (اور یہ پیغام لائے ہیں )
۱۷کہ آپ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے (چنانچہ موسیٰؑ گئے اور کہا)۔
۱۸(فرعون) بولا (موسیٰ) کیا ہم نے تمہیں یہاں رکھ کر بچپنے میں تمہاری پرورش نہیں کی اور تم اپنی عمر سے برسوں ہم میں رہ سَہ چکے ہو
۱۹اور تم اپنا وہ کام (خونِ قبطی) کر گئے جو کر گئے اور تم (بڑے ) ناشکرے ہو۔
۲۰موسیٰؑ نے کہا (ہاں ) میں نے اس وقت اس کام کو کیا جب میں حالتِ غفلت میں تھا۔
۲۱پھر جب میں آپ لوگوں سے ڈرا تو بھاگ کھڑا ہوا۔ پھر (کچھ عرصہ کے بعد)میرے پروردگار نے مجھے نبّوت عطا کی اور مجھے بھی ایک پیغمبر بنایا۔
۲۲اور یہ بھی کوئی احسان ہے جسے آپ مجھ پر جتا رہے ہیں کہ آپ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔
۲۳فرعون نے پوچھا (اچھا یہ تو بتاؤ) رب العالمین کیا چیز ہے۔
۲۴موسیٰؑ نے کہا سارے آسمان و زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے (سب کا) مالک) اگر آپ لوگ یقین کیجیے (تو کافی ہے )
۲۵فرعون نے ان لوگوں سے جو اس کے اردگرد (بیٹھے ) تھے کہا کیا تم لوگ نہیں سُنتے ہو۔
۲۶موسیٰؑ نے کہا (وہ خدا کہ) تمہارا پروردگار اور تمہارے باپ داداؤں کا پروردگار ہے۔
۲۷فرعون نے کہا(لوگو) یہ رسُولؐ جو تمہارے پاس بھیجا گیا ہے ہو نہ ہو دیوانہ ہے۔
۲۸(موسیٰ ؑ نے ) کہا وہ خدا جو مشرق اور مغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے (سب کا) مالک ہے اگر تم سمجھتے ہو (تو یہی کافی ہے )
۲۹فرعون نے کہا اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو (اپنا) خدا بنایا ہے تو میں ضرور تمہیں اپنا قیدی بناؤں گا۔
۳۰موسیٰ ؑ نے کہا اگرچہ میں آپ کو ایک واضح و روشن معجزہ بھی دکھاؤں (تو بھی)
۳۱فرعون نے کہا (اچھا) تو تم اگر (اپنے دعویٰ میں ) سچّے ہو تو (لا دکھاؤ)
۳۲بس (سنتے ہی) موسیٰؑ نے اپنی چھڑی (زمین پر) ڈال دی پھر تو یکایک وہ ایک صریحی اژدھا بن گئی۔
۳۳ اور (جیب سے ) اپنا ہاتھ باہر نکالا تو یکایک دیکھنے والوں کے واسطے بہت سفید چمکدار تھا
۳۴(اس پر) فرعون اپنے درباریوں سے جو اس کے گرد (بیٹھے ) تھے کہنے لگا کہ یہ تو یقینی بڑا کھلاڑی جادوگر ہے
۳۵یہ تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کر۔ تو تم لوگ کیا حکم لگاتے ہو۔
۳۶درباریوں نے کہا ابھی اس کو اور اس کے بھائی کو (چندے ) مہلت دے دو اور تمام شہروں میں جادوگروں کے جمع کر نے کو ہر کارے روانہ کیجیے
۳۷کہ وہ لوگ تمام بڑے بڑے کھلاڑی جادوگروں کو آپ کے سامنے لا حاضر کریں
۳۸غرض (وقت مقرر ہوا اور ) سب جادوگر اس مقرر دن کے وعدہ پر جمع کیے گئے
۳۹اور لوگوں میں منادی کرا دی گئی کہ تم لوگ اب بھی جمع ہو گے (یا نہیں )
۴۰تاکہ اگر جادوگر لوگ غالب ور رہیں تو ہم لوگ ان کی پیروی کریں۔
۴۱الغرض جب سب جادوگر آ گئے تو جادوگروں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آ گئے تو کیا ہم کو یقیناً کچھ انعام (سرکار سے ) ملے گا۔
۴۲ فرعون نے کہا ہاں (ضرور ملے گا) اور (انعام کیا چیز ہے ) تم اس وقت(میرے )مقربین (بارگاہ) سے ہو گے۔
۴۳موسیٰ ؑ نے جادوگروں سے کہا (منتر ونتر) جو کچھ تمہیں پھینکنا ہو پھینکو۔
۴۴اس پر جادوگروں نے اپنی رسیاں اور اپنی چھڑیاں (میدان میں ) ڈال دیں اور کہنے لگے فرعون کے جلال کی قسم ہم ہی غالب رہیں گے
۴۵تب موسیٰ ؑ نے اپنی چھڑی ڈال دی تو جادوگروں نے جو کچھ (شعبدے ) بنائے تھے اس کو وہ نگلنے لگی۔
۴۶یہ دیکھتے ہی جادوگر لوگ سجدے میں (موسیٰ ؑ کے سامنے ) گر پڑے
۴۷ اور کہنے لگے ہم سارے جہان کے پروردگار پر ایمان لائے
۴۸(جو) موسیٰ ؑ اور ہارون کا پروردگار ہے۔
۴۹فرعون نے کہا (ہائیں ) قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے بے شک یہ تمہارا بڑا (گرو) ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے تو (خیر) ابھی تم لوگوں کو (اس کا نتیجہ) معلوم ہو جائے گا کہ ہم یقیناً تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ ڈالیں گے اور تم سب کے سب کو سُولی دے دیں گے۔
۵۰وہ بولے کچھ پرواہ نہیں ہم کو تو بہر حال اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
۵۱ہم چونکہ سب سے پہلے ایمان لائے ہیں اس لیے یہ اُمید رکھتے ہیں کہ ہمارا پروردگار ہماری خطائیں معاف کر دے گا۔
۵۲اور ہم نے موسیٰؑ کے پاس وحی بھیجی کہ میرے بندوں کولے کر راتوں رات نکل جاؤ کیونکہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔
۵۳تب فرعون نے (لشکر جمع کرنے کے خیال سے ) تمام شہروں میں (دھڑا دھڑ) ہر کارے روانہ کیے۔
۵۴(اور کہا) کہ یہ لوگ (موسیٰؑ کے ساتھ بنی اسرائیل)تھوڑی سی (مٹھی بھرکی) جماعت ہیں
۵۵اور ان لوگوں نے ہمیں سخت غصّہ دلایا ہے
۵۶اور ہم سب کے سب باساز و سامان ہیں (تم بھی آ جاؤ کہ سب مل کر تعاقب کریں )
۵۷غرض ہم نے ان لوگوں کو (مصر کے ) باغوں اور چشموں
۵۸اور خزانوں اور عزّت کی جگہ سے (یوں ) نکال باہر کیا
۵۹(اور جو نافرمانی کرے )اسی طرح (سزا ہو گی) اور آخر ہم نے انہی چیزوں کا مالک بنی اسرائیل کو بنایا۔
۶۰غرض (موسیٰؑ تورات ہی کو چلے گئے اور ) ان لوگوں نے سورج نکلتے نکلتے ان کا پیچھا کیا
۶۱تو جب دونوں جماعتیں (اتنی قریب ہوئیں کہ) ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں تو موسیٰؑ کے ساتھی (ہراساں ہو کر کہنے لگے لو اب تو ہم پکڑے گئے
۶۲موسیٰ ؑ نے کہا ہرگز نہیں کیونکہ میرے ساتھ میرا پروردگار ہے وہ فوراً مجھے کوئی (مخلصی کا) رستہ بتا دے گا
۶۳تو ہم نے موسیٰؑ کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی چھڑی دریا پر مارو (مارنا تھا کہ) کہ فوراً دریا پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا گویا ہر ٹکڑا ایک بڑا (اونچا) پہاڑ تھا۔
۶۴اور ہم نے اسی جگہ دوسرے فریق (فرعون اور اس کے ساتھیوں ) کو قریب کر دیا
۶۵اور موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کو سب کو ہم نے (ڈوبنے سے ) بچا لیا۔
۶۶پھر دوسرے فریق (فرعون اور اس کے ساتھیوں کو) ڈوبا (کر ہلاک کر) دیا
۶۷بے شک اس میں یقیناً ایک بڑی عبرت ہے اور ان میں اکثر ایمان لانے والے ہی نہ تھے۔
۶۸اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمہارا پروردگار یقیناً (سب پر) غالب اور بڑا مہربان ہے۔
۶۹اور (اے رسولؐ ان لوگوں کے سامنے ابراہیمؑ کا قصّہ بیان کرو
۷۰جب انہوں نے اپنے (منہ بولے )باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ کس کی عبادت کرتے ہو۔
۷۱ وہ بولے ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور انہی کے مجاور بن جاتے ہیں۔
۷۲ابراہیمؑ نے کہا بھلا جب تم لوگ انہیں پکارتے ہو تو وہ تمہاری کچھ سنتے ہیں
۷۳یا کچھ تمہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
۷۴کہنے لگے (یہ سب کچھ تو نہیں ) بلکہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایسا ہی کرتے پایا ہے۔
۷۵ابراہیمؑ نے کہا کیا تم نے دیکھا بھی کہ جن چیزوں کی تم پرستش کرتے ہو
۷۶یا تمہارے اگلے باپ دادا (کرتے تھے )
۷۷یہ سب میرے یقینی دشمن ہیں مگر سارے جہان کا پالنے والا
۷۸جس نے مجھے پیدا کیا (وہی میرا دوست) ہے پھر وہی میری ہدایت کرتا ہے
۷۹اور وہی وہ ہے جو مجھے (کھانا) کھلاتا ہے اور مجھے پانی) پلاتا ہے
۸۰اور جب بیمار پڑتا ہوں تو وہی مجھے شفا عنایت فرماتا ہے
۸۱اور وہی وہ ہے جو مجھے مار ڈالے گا اس کے بعد (پھر) مجھے زندہ کرے گا
۸۲اور وہی وہ ہے جس سے امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میری خطاؤں کو بخش دے گا۔
۸۳پروردگارا مجھے علم و فہم عطا فرما اور مجھے نیکوں کے ساتھ شامل کر
۸۴اور آئندہ آنے والی نسلوں میں میرا ذکر خیر قائم رکھ
۸۵اور مجھے بھی نعمت کے باغ (بہشت) کے وارثوں میں سے بنا
۸۶اور میرے (منہ بولے ) باپ (چچا آذر) کو بخش دے کیونکہ وہ گمراہوں میں سے ہے
۸۷اور جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے مجھے رسوا نہ کرنا
۸۸جس دن نہ تو مال ہی کچھ کام آئے گا اور نہ لڑکے بالے
۸۹مگر جو شخص خدا کے سامنے گناہوں سے پاک دل لیے ہوئے حاضر ہو گا (وہ فائدہ میں ) رہے گا
۹۰اور بہشت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گی
۹۱اور دوزخ گمراہوں کے سامنے ظاہر کر دی جائے گی
۹۲اور ان لوگوں (اہل جہنم) سے پوچھا جائے گا کہ خدا کو چھوڑ کر جن کی تم پرستش کرتے تھے
۹۳(آج) وہ کہاں ہیں کیا وہ تمہاری کچھ مدد کرسکتے ہیں یا وہ خود اپنی آپ باہم مدد کرسکتے ہیں۔
۹۴پھر وہ (معبود) اور گمراہ لوگ
۹۵اور شیطان کا لشکر (غرض سب کے سب) جہنم میں اوندھے منہ دھکیل دیئے جائیں گے
۹۶اور یہ لوگ جہنم میں باہم جھگڑا کریں گے اور (گمراہ اپنے معبود سے ) کہیں گے
۹۷خدا کی قسم ہم لوگ تو یقیناً صریحی گمراہی میں تھے
۹۸کہ ہم تم کو سارے جہان کے پالنے والے (خدا) کے برابر سمجھتے رہے
۹۹اور ہم کو بس (ان) گنہگاروں نے (جو ہم سے پہلے ہوئے ) گمراہ کیا۔
۱۰۰تو اب نہ کوئی (صاحب) ہماری سفارش کرنے والے ہیں
۱۰۱اور نہ کوئی دلبند دوست ہے۔
۱۰۲تو کاش ہمیں اب دنیا میں دوبارہ جانے کا موقع ملتا تو ہم (ضرور) ایمانداروں سے ہوتے۔
۱۰۳(ابراہیمؑ کے ) اس قصّہ میں بھی یقیناً ایک بڑی عبرت ہے۔اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے تھے بھی نہیں۔
۱۰۴اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمہارا پروردگار (سب پر) غالب اور بڑا مہربان ہے۔
۱۰۵(یوں ہی) نوحؑ کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔
۱۰۶کہ جب ان سے ان کے بھائی نوحؑ نے کہا تم لوگ (خدا سے ) کیوں نہیں ڈرتے۔
۱۰۷میں تو تمہارا یقینی امانت دار پیغمبر ہوں۔
۱۰۸تم خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
۱۰۹اور میں اس (تبلیغ رسالت) پر کچھ اُجرت تو مانگتا نہیں میری اُجرت تو بس سارے جہان کے پالنے والے (خدا) پر ہے۔
۱۱۰تو خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
۱۱۱وہ لوگ بولے جب کمینوں (مزدوروں وغیرہ) نے (لالچ سے ) تمہاری پیروی کر لی ہے تو ہم تم پر کیا ایمان لائیں۔
۱۱۲نوح ؑ نے کہا یہ لوگ جو کچھ کرتے تھے مجھے کیا خبر (اور کیا غرض)
۱۱۳ان لوگوں کا حساب تو میرے پروردگار کے ذمہ ہے کاش تم (اتنی) سمجھ رکھتے۔
۱۱۴اور میں تو ایمانداروں کو اپنے پاس سے نکالنے والا نہیں۔
۱۱۵میں تو صرف (عذاب خدا سے ) صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔
۱۱۶وہ لوگ کہتے اے نوحؑ اگر تم اپنی حرکت سے باز نہ آؤ گے تو تم ضرور سنگ سار کر دیئے جاؤ گے۔
۱۱۷(آخر) نوحؑ نے عرض کی پروردگارا میری قوم نے یقیناً مجھے جھٹلایا۔
۱۱۸تو اب تو میرے اور ان لوگوں کے درمیان ایک قطعی فیصلہ کر دے اور مجھے اور جو مومنین میرے ساتھ ہیں ان کو نجات دے۔
۱۱۹غرض ہم نے نوحؑ اور ان کے ساتھیوں کو جو بھری ہوئی کشتی میں تھے نجات دی۔
۱۲۰پھر اس کے بعد ہم نے باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔
۱۲۱بے شک اس میں بھی یقیناً ایک بڑی عبرت ہے۔ اور ان میں سے بہتیرے ایمان لانے والے ہی نہ تھے۔
۱۲۲اور اس میں شک ہی نہیں کہ تمہارا پروردگار (سب پر) غالب اور بڑا مہربان ہے
۱۲۳(اسی طرح قوم) عاد نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔
۱۲۴جب ان کے بھائی ہودؑ نے ان سے کہا تم خدا سے کیوں نہیں ڈرتے
۱۲۵میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔
۱۲۶تو تم خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
۱۲۷اور میں تو تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کچھ مزدوری بھی نہیں مانگتا میری اُجرت تو بس ساری خدائی کے پالنے والے (خدا) پر ہے۔
۱۲۸تم کیا ہر اونچی جگہ پر بے کار بے کار یادگاریں بناتے پھرتے ہو
۱۲۹اور بڑے بڑے محل تعمیر کرتے ہو گویا تم ہمیشہ (یہیں ) رہو گے۔
۱۳۰اور جب تم (کسی پر) ہاتھ ڈالتے ہو تو سرکشی سے ہاتھ ڈالتے ہو۔
۱۳۱تم خداسے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
۱۳۲اور اس (خدا) سے ڈرو جس نے تمہاری ان چیزوں سے مدد کی جنہیں تم خوب جانتے ہو
۱۳۳(اچھا سنو) اس نے تمہاری چار پایوں اور لڑکے بالوں
۱۳۴اور باغوں اور چشموں سے مدد کی
۱۳۵میں تو یقیناً تم پر ایک بڑے (سخت) روز کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
۱۳۶وہ لوگ کہنے لگے خواہ تم نصیحت کرو یا نہ نصیحت کرو ہمارے واسطے (سب) برابر ہے۔
۱۳۷یہ (ڈراوا) تو بس اگلے لوگوں کی عادت ہے
۱۳۸حالانکہ ہم پر عذاب (وغیرہ اب) کیا نہیں جائے گا۔
۱۳۹غرض ان لوگوں نے ہود کو جھٹلایا۔ تو ہم نے بھی ان کو ہلاک کر ڈالا بے شک اس واقعہ میں ایک بڑی عبرت ہے اور ان میں سے بہتیرے ایمان لانے والے بھی نہ تھے
۱۴۰اوراس میں شک نہیں کہ تمہارا پروردگار یقیناً (سب پر) غالب اور بڑا مہربان ہے،
۱۴۱اسی طرح قوم، ثمود نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔
۱۴۲جب ان کے بھائی صالحؑ نے ان سے کہا کہ تم (خدا سے ) کیوں نہیں ڈرتے۔
۱۴۳میں تو یقیناً تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔
۱۴۴تو خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
۱۴۵اور میں تو تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کچھ مزدوری بھی نہیں مانگتا میری مزدوری تو بس ساری خدائی کے پالنے والے (خدا) پر ہے
۱۴۶کیا جو چیزیں یہاں (دنیا میں ) موجود ہیں
۱۴۷باغ اور چشمے
۱۴۸اور کھیتیاں کھجور کے درخت جن کی کلیاں لطیف و نازک ہوتی ہیں۔ ان ہی میں تم لوگ اطمینان سے (ہمیشہ کے لیے ) چھوڑ دیئے جاؤ گے۔
۱۴۹اور (اسی وجہ سے ) پوری مہارت اور تکلیف کے ساتھ پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر گھر بناتے ہو۔
۱۵۰تو خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
۱۵۱اور زیادتی کرنے والوں کا کہا نہ مانو
۱۵۲جو روئے زمین پر فساد پھیلایا کرتے ہیں اور (خرابیوں کی) اصلاح نہیں کرتے۔
۱۵۳وہ لوگ بولے کہ تم پر توبس جادو کر دیا گیا ہے (کہ ایسی باتیں کرتے ہو)۔
۱۵۴تم بھی تو آخر ہمارے ہی ایسے آدمی ہو پس اگر تم سچے ہو تو کوئی معجزہ ہمارے پاس لا (دکھاؤ)۔
۱۵۵صالحؑ نے کہا یہی اونٹنی معجزہ ہے ایک باری اس کے پانی پینے کی ہے اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی پینے کا ہے۔
۱۵۶اور اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ ایک بڑے (سخت) روز کا عذاب تمہیں لے ڈالے گا۔
۱۵۷اس پر بھی ان لوگوں نے اس کے پاؤں کاٹ ڈالے (اور اس کو مار ڈالا) پھر خود پشیمان ہوئے
۱۵۸پھر انہیں عذاب نے لے ڈالا۔ بے شک اس میں یقیناً ایک بڑی عبرت ہے۔ اور ان میں کے بہتیرے ایمان لانے والے بھی نہ تھے۔
۱۵۹اوراس میں تو شک ہی نہیں کہ تمہارا پروردگار(سب پر) غالب (اور) بڑا مہربان ہے۔
۱۶۰(اسی طرح) لوطؑ کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔
۱۶۱جب ان کے بھائی لوطؑ نے ان سے کہا کہ تم (خدا سے ) کیوں نہیں ڈرتے۔
۱۶۲میں تو یقیناً تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔
۱۶۳تو خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
۱۶۴اور میں تو تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کچھ مزدوری بھی نہیں مانگتا۔ میری مزدوری تو بس ساری خدائی کے پالنے والے (خدا) پر ہے۔
۱۶۵کیا تم لوگ (شہوت پرستی کے لیے ) سارے جہان کے لوگوں میں مردوں ہی کے پاس جاتے ہو
۱۶۶اور تمہارے واسطے جو بیبیاں تمہارے پروردگار نے پیدا کی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو (یہ کچھ نہیں ) بلکہ تم لوگ حد سے گزر جانے والے آدمی ہو۔
۱۶۷ان لوگوں نے کہا اے لوط اگر تم باز نہ آؤ گے تو تم ضرور نکال باہر کر دیئے جاؤ گے۔
۱۶۸لوطؑ نے کہا میں یقیناً تمہاری (ناشائستہ) حرکت سے بیزار ہوں۔
۱۶۹(اور دُعا کی) پروردگارا جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں اس سے مجھے اور میرے لڑکے بالوں کو نجات دے۔
۱۷۰تو ہم نے اُن کو اور اُن کے سب لڑکے بالوں کو نجات دی۔
۱۷۱مگر (لوطؑ کی) بوڑھی عورت کہ وہ پیچھے رہ گئی (اور ہلاک ہوئی)۔
۱۷۲پھر ہم نے ان لوگوں کو ہلاک کر ڈالا۔
۱۷۳اور ان پر ہم نے (پتھروں کا) مینہ برسایا۔ تو جن لوگوں کو (عذاب خدا سے ) ڈرایا گیا تھا ان پر کیا بُری بارش ہوئی۔
۱۷۴بے شک اس واقعہ میں بھی ایک بڑی عبرت ہے۔ اور ان میں کے بہتیرے ایمان لانے والے ہی نہ تھے۔
۱۷۵اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمہارا پروردگار یقیناً (سب پر) غالب (اور) بڑا مہربان ہے۔
۱۷۶اسی طرح جنگل کے رہنے والوں نے (میرے ) پیغمبروں کو جھٹلایا
۱۷۷جب شعیبؑ نے ان سے کہا (تم (خدا سے ) کیوں نہیں ڈرتے
۱۷۸میں تو بلاشبہ تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔
۱۷۹تو خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
۱۸۰اور میں تو تم سے اس (تبلیغ رسالت)پر کچھ مزدوری بھی نہیں مانگتا۔ میری مزدوری تو بس ساری خدائی کے پالنے والے (خدا) کے ذمّہ ہے۔
۱۸۱تم (جب کوئی چیز ناپ کر دو تو) پورا پیمانہ دیا کرو اور نقصان دِہ نہ بنو۔
۱۸۲اور تم (جب تو لو تو)ٹھیک ترازو سے (ڈنڈی سیدھی رکھ کر) تولو۔
۱۸۳اور لوگوں کو ان کی چیزیں (جو خریدیں ) کم نہ دیا کرو اور رُوئے زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔
۱۸۴اور اس (خدا) سے ڈرو جس نے تمہیں اور اگلی خلقت کو پیدا کیا۔
۱۸۵وہ لوگ کہنے لگے تم پر تو بس جادو کر دیا گیا ہے (کہ ایسی باتیں کرتے ہو)
۱۸۶اور تم تو ہمارے ہی ایسے ایک آدمی ہو اور ہم لوگ تو تم کو جھوٹا ہی سمجھتے ہیں
۱۸۷تو اگر تم سچّے ہو تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دو۔
۱۸۸(شعیبؑ نے ) کہا جو کچھ تم لوگ کرتے ہو میرا پروردگار خوب جانتا ہے۔
۱۸۹غرض ان لوگوں نے شعیبؑ کو جھٹلایا تو انہیں سائبان (ابر) کے عذاب نے لے ڈالا اس میں شک نہیں کہ یہ (بھی) ایک بڑے (سخت) دن کا عذاب تھا۔
۱۹۰اس میں بھی شک نہیں کہ اس میں (سمجھ داروں کے لیے ) ایک بڑی عبرت ہے اور ان میں کے بہتیرے ایمان لانے والے ہی نہ تھے
۱۹۱اور بے شک تمہارا پروردگار یقیناً (سب پر) غالب(اور) بڑا مہربان ہے۔
۱۹۲اور (اے رسولؐ) بے شک یہ (قرآن) ساری خدائی کے پالنے والے (خدا) کا اتارا ہوا ہے۔
۱۹۳جسے روح الامین (جبرئیلؑ) صاف عربی زبان میں لے کر
۱۹۴تمہارے دل پر نازل ہوئے ہیں
۱۹۵تاکہ تم بھی (اور پیغمبروں کی طرح لوگوں کو عذاب خدا سے ) ڈراؤ۔
۱۹۶اور بے شک اس کی خبر اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں (بھی موجود) ہے۔
۱۹۷کیا ان کے لیے یہ کوئی (کافی) نشانی نہیں ہے کہ اس کو علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں۔
۱۹۸اور اگر ہم اس قرآن کو کسی دوسری زبان والے پر نازل کرتے
۱۹۹اور وہ ان عربوں کے سامنے اس کو پڑھتا تو بھی یہ لوگ اس پر ایمان لانے والے نہ تھے۔
۲۰۰اسی طرح ہم نے (گویا خود) اس انکار کو گنہگاروں کے دلوں میں راہ دی۔
۲۰۱کہ یہ لوگ جب تک درد ناک عذاب کو نہ دیکھ لیں گے اس پر ایمان نہ لائیں گے۔
۲۰۲کہ وہ یکایک اس حالت میں ان پر آ پڑے گا کہ انہیں خبر بھی نہ ہو گی۔
۲۰۳(مگر جب عذاب نازل ہو گا) تو وہ لوگ کہیں گے کہ ہمیں (اس وقت کچھ) مہلت مل سکتی ہے
۲۰۴تو کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کی جلدی کر رہے ہیں۔
۲۰۵تو کیا تم نے غور کیا کہ اگر ہم ان کو سالہا سال چین کرنے دیں
۲۰۶اس کے بعد جس (عذاب) کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے اُن کے پاس آ پہنچے
۲۰۷تو جن چیزوں سے یہ لوگ چین کیا کرتے تھے کچھ بھی کام نہ آئیں گی۔
۲۰۸اور ہم نے کسی بستی کو بغیر اس کے ہلاک نہیں کیا کہ اس کے سمجھانے کو (پہلے سے ) ڈرانے والے (پیغمبر بھیج دیئے ) تھے
۲۰۹اور ہم ظالم نہیں ہیں
۲۱۰اور اس قرآن کو شیاطین لے کر نہیں نازل ہوئے۔
۲۱۱اور یہ کام نہ تو ان کے لیے مناسب تھا اور نہ وہ کرسکتے تھے۔
۲۱۲بلکہ وہ تو (وحی کے ) سُننے سے محروم ہیں۔
۲۱۳تو (اے رسولؐ) تم خدا کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہ کرو ورنہ تم بھی مبتلائے عذاب کیے جاؤ گے۔
۲۱۴اور(اے رسُولؐ) تم اپنے قریبی رشتے داروں کو (عذابِ خدا سے ) ڈراؤ
۲۱۵اور جو مومنین تمہارے پیرو ہو گئے ہیں ان کے سامنے اپنا بازو جھکاؤ (تواضع کرو)
۲۱۶پس اگر لوگ تمہاری نافرمانی کریں تو تم (صاف صاف) کہہ دو کہ میں تمہارے کرتوتوں سے بری الذمّہ ہوں
۲۱۷اور تم اس (خدا) پر جو (سب سے ) غالب (اور) بڑا مہربان ہے بھروسہ رکھو
۲۱۸جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم (نماز تہجّد میں ) کھڑے ہوتے ہو
۲۱۹اور سجدہ کرنے والوں کی (جماعت) میں تمہارا پھرنا (اُٹھنا بیٹھنا سجدہ رکوع وغیرہ سب) دیکھتا ہے
۲۲۰بے شک وہ بڑا سننے والا واقف کار ہے۔
۲۲۱کیا میں تمہیں بتا دوں کہ شیاطین کن لوگوں پر نازل ہوا کرتے ہیں۔
۲۲۲(لو سنو) یہ لوگ ہر جھوٹے بدکردار پر نازل ہوا کرتے ہیں۔
۲۲۳جو (فرشتوں کی باتوں پر) کان لگائے رہتے ہیں (کہ کچھ سن پائیں ) حالانکہ ان میں کے اکثر تو (بالکل) جھوٹے ہیں۔
۲۲۴اور شاعروں کی پیروی تو گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں۔
۲۲۵کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ لوگ جنگل جنگل سرگرداں مارے پھرتے ہیں۔
۲۲۶اور یہ لوگ ایسی باتیں کہتے ہیں جو کبھی کرتے نہیں۔
۲۲۷مگر (ہاں ) جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے اور کثرت سے خدا کا ذکر کیا کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم کیا جا چکا اس کے بعد انہوں نے بدلہ لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا ہے انہیں عنقریب ہی معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس جگہ لوٹائے جائیں گے۔
٭٭٭
۲۷۔ سورۃ نمل
۱طٰ سٓ۔ یہ قرآن اور واضح و روشن کتاب کی آیتیں ہیں
۲(یہ) ان ایمانداروں کے لیے (ازسرتاپا) ہدایت اور (جنّت کی) خوشخبری ہے۔
۳جو نماز کو پابندی سے ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیا کرتے ہیں اور یہی لوگ آخرت (قیامت) کا بھی یقین رکھتے ہیں۔
۴اس میں شک نہیں کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (گویا) ہم نے خود ان کی کارستانیوں کو (ان کی نظر میں ) اچھا کر دکھایا ہے تو یہ لوگ بھٹکے پھرتے ہیں۔
۵یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے (قیامت میں ) بُرا عذاب ہے اور یہی لوگ آخرت میں سب سے زیادہ گھاٹا اٹھانے والے ہیں۔
۶اور (اے رسولؐ) تم کو تو قرآن ایک بڑے واقف کار حکیم کی بارگاہ سے عطا کیا جاتا ہے۔
۷(وہ واقعہ یاد دلاؤ) جب موسیٰ ؑ نے اپنے لڑکے بالوں سے کہا کہ میں نے (اپنی بائیں طرف) آگ دیکھی ہے (اگر ذرا ٹھہرو تو) میں وہاں سے کچھ (راہ کی) خبر لاؤں یا تمہیں ایک سلگتا ہوا آگ کا انگارا لادوں تاکہ تم تاپو۔
۸غرض جب موسیٰؑ اس آگ کے پاس آئے تو ان کو آواز آئی کہ مبارک ہے وہ جو آگ میں (تجلی دکھاتا) ہے اور جو اس کے گرد ہے اور وہ خدا جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔ (ہر عیب سے ) پاک و پاکیزہ ہے۔
۹اے موسیٰ ؑ اس میں شک نہیں کہ میں زبردست حکمت والا خدا ہوں
۱۰اور (ہاں ) اپنی چھڑی تو (زمین پر) ڈال دو تو جب موسیٰؑ نے اس کو دیکھا کہ وہ اس طرح لہرا رہی ہے گویا وہ زندہ اژدھا ہے تو پچھلے پاؤں بھاگ چلے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا (تو ہم نے کہا) اے موسیٰؑ ڈرو نہیں ہمارے پاس تو پیغمبر لوگ ذرا نہیں ڈرتے (مطمئن ہو جاتے ہیں )
۱۱مگر جو شخص گناہ کرے پھر گناہ کے بعد اسے نیکی (توبہ) سے بدل دے تو البتہ میں بڑا بخشنے والا مہربان ہوں۔
۱۲(ہاں ) اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں تو ڈالو کہ وہ سفید براق ہو کر بے عیب نکل آئے گا (یہ دو معجزے ) منجملہ نو معجزات کے ہیں (جو تم کو ملیں گے تم) فرعون اور اس کی قوم کے پاس (جاؤ) کیونکہ وہ بدکار لوگ ہیں۔
۱۳تو جب ان کے پاس ہماری آنکھیں کھول دینے والے معجزات آئے تو کہنے لگے یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔
۱۴اور باوجودیکہ ان کے دل کو ان معجزات کا یقین تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تکبّر سے ان کو نہ مانا تو (اے رسولؐ) دیکھو کہ(آخر) مفسدوں کا انجام کیا ہوا۔
۱۵اور اس میں شک نہیں کہ ہم نے داؤدؑ اور سلیمانؑ کو علم عطا کیا اور دونوں نے (خوش ہو کر) کہا خدا کا شکر ہے جس نے ہم کو اپنے بہتیرے ایماندار بندوں پر فضیلت دی۔
۱۶اور (علم و حکمت جائیداد منقولہ غیر منقولہ سب میں ) سلیمانؑ داؤدؑ کے وارث ہوئے اور کہا: لوگو! ہم کو (خدا کے فضل سے ) پرندوں کی بولی بھی سکھائی گئی ہے اور ہمیں (دنیا کی)ہر چیز عطا کی گئی ہے اس میں شک نہیں کہ یہ یقینی (خدا کا) صریحی فضل و کرم ہے۔
۱۷اور سلیمانؑ کے سامنے ان کے لشکر جنات اور آدمی اور پرند سب جمع کیے جاتے تو وہ سب کے سب (مثل مثل) کھڑے کیے جاتے تھے۔
۱۸(غرض اس طرح لشکر چلتا) یہاں تک کہ جب (ایک دن) چیونٹیوں کے میدان میں آ نکلے تو ایک چیونٹی بولی اے چیونٹیو اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور ان کا لشکر تمہیں روند ڈالے اور انہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔
۱۹تو سلیمانؑ اس کی اس بات سے مسکرا کر ہنس پڑے اور عرض کی پروردگارا مجھے توفیق عطا فرما کہ جیسی جیسی نعمتیں تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر نازل فرمائی ہیں میں (ان کا) شکریہ ادا کروں اور میں ایسے نیک کام کروں جسے تو پسند فرمائے اور تو اپنی خاص مہربانی سے مجھے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل فرما۔
۲۰اور سلیمانؑ نے پرندوں (کے لشکر) کی حاضری لی تو کہنے لگے کہ کیا بات ہے کہ میں ہد ہد کو (اس کی جگہ پر) نہیں دیکھتا یا(واقع میں ) وہ کہیں غائب ہے۔
۲۱(اگر ایسا ہے تو) میں اسے سخت سے سخت سزا دوں گا یا (نہیں تو) اسے ذبح ہی کر ڈالوں گا یا وہ (اپنی بے گناہی کی) کوئی صاف دلیل میرے پاس پیش کرے۔
۲۲غرض سلیمانؑ نے تھوڑی ہی دیر توقف کیا تھا (کہ ہُد ہُد آ گیا) تو اس نے عرض کی مجھے وہ بات معلوم ہوئی جو اب تک حضور کو بھی معلوم نہیں ہے اور میں آپ کے پاس شہر سبا سے ایک تحقیقی خبر لے کر آیا ہوں
۲۳میں نے ایک عورت کو دیکھا جو وہاں کے لوگوں پر سلطنت کرتی ہے اور اسے (دنیا کی) ہر چیز عطا کی گئی ہے اور اس کا ایک بہت بڑا تخت ہے
۲۴میں نے خود ملکہ کو اور اس کی قوم کو دیکھا کہ وہ لوگ خدا کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کی کرتوتوں کو (ان کی نظر میں ) اچھا کر دکھایا ہے اور ان کو راہِ راست سے روک رکھا ہے تو انہیں (اتنی سی بات بھی) نہیں سوجھتی
۲۵کہ وہ لوگ خدا ہی کا سجدہ کیوں نہیں کرتے جو آسمان اور زمین کی پوشیدہ باتوں کو ظاہر کر دیتا ہے اور تم لوگ جو کچھ چھپا کر یا ظاہر کر کے کرتے ہو سب جانتا ہے۔
۲۶اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی (اتنے ) بڑے عرش کا مالک ہے۔
۲۷(غرض) سلیمانؑ نے کہا ہم ابھی دیکھتے ہیں کہ تو نے سچ سچ کہا یا تو جھوٹا ہے۔
۲۸(اچھا) ہمارا یہ خط لے کر جا اور اس کو ان لوگوں کے سامنے ڈال دے پھر ان کے پاس سے ہٹ جانا پھر دیکھتے رہنا کہ وہ لوگ آخر کیا جواب دیتے ہیں
۲۹(غرض ہُد ہُد نے خط ملکہ کے پاس پہنچا دیا) تو ملکہ بولی (اے میرے دربار کے ) سردارو یہ ایک واجب الاحترام خط میرے پاس ڈال دیا گیا ہے
۳۰یہ سلیمانؑ کی طرف سے ہے یہ (اس کا سرنامہ ہے ) بسم اللہ الرحمن الرحیم
۳۱(اور مضمون یہ) ہے کہ مجھ سے سرکشی نہ کرو اور میرے سامنے فرمانبردار بن کر حاضر ہو
۳۲تب ملکہ (بلقیس) بولی: اے میرے دربار کے سردارو تم میرے اس معاملہ میں مجھے رائے دو (کیونکہ میرا تو یہ قاعدہ ہے کہ) جب تک تم لوگ میرے سامنے موجود نہ ہو(مشورہ نہ دے دو) میں کسی امر میں قطعی فیصلہ نہیں کیا کرتی۔
۳۳ان لوگوں نے عرض کی: ہم بڑے زور آور بڑے لڑنے والے ہیں اور (آئندہ) ہر امر کا آپ کو اختیار ہے تو جو آپ حکم دیں خود اچھی طرح (اس کے انجام پر) غور کر لیں
۳۴ملکہ نے کہا: بادشاہوں کا قاعدہ ہے کہ جب کسی بستی میں (بزور فتح) داخل ہوتے ہیں تو اس کو اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے معزز لوگوں کو ذلیل و رسوا کر دیتے ہیں۔ اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے
۳۵اور میں ان کے پاس (ایلچیوں کی معرفت) کچھ تحفہ بھیج کر دیکھتی ہوں کہ ایلچی لوگ کیا جواب لاتے ہیں۔
۳۶غرض جب (بلقیس کا ایلچی تحفہ لے کر) سلیمانؑ کے پاس آیا تو سلیمان نے کہا کہ تم لوگ مجھے مال کی مدد دیتے ہو تو خدا نے جو (مالِ دنیا) مجھے عطا کیا ہے وہ (مال) اس سے جو تمہیں بخشا ہے کہیں بہتر ہے (میں تو نہیں ) بلکہ تم ہی لوگ اپنے تحفہ تحائف سے خوش ہوا کرو
۳۷(پھر تحفہ لانے والے سے کہا) تو انہی لوگوں کے پاس جا۔ ہم تو یقیناً ایسے لشکر سے ان پر چڑھائی کریں گے جس کا اس سے مقابلہ نہ ہو سکے گا اور ہم ضرور انہیں وہاں سے ذلیل و خوار کر کے نکال باہر کریں گے وہ رسوا ہوں گے
۳۸(جب وہ جا چکا تو) سلیمانؑ نے (اپنے اہل دربار سے ) کہا: اے میرے دربار کے سردارو تم میں سے کون ایسا ہے کہ قبل اس کے وہ لوگ میرے سامنے فرمانبردار بن کر آویں ملکہ کا تخت میرے پاس لے آئے۔
۳۹اس پر جنوں میں سے ایک دیو بول اٹھا کہ قبل اس کے حضور (دربار برخاست کر کے )اپنی جگہ سے اٹھیں میں تخت آپ کے پاس لے آؤں گا اور میں یقیناً اس پر قابو رکھتا ہوں (اور) ذمہ دار ہوں
۴۰(اس پر ابھی سلیمانؑ کچھ کہنے نہ پائے تھے کہ) وہ شخص (آصف بن برخیا) جس کے پاس کتاب (خدا) کا کسی قدر علم تھا بولا کہ میں آپ کی پلک جھپکنے سے بھی پہلے تخت کو آپ کے پاس حاضر کیے دیتا ہوں (بس اتنے ہی میں وہ آ گیا) تو جب سلیمانؑ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو کہنے لگے یہ تو محض میرے پروردگار کا فضل (و کرم) ہے تاکہ وہ میرا امتحان لے کہ میں اس کا شکر کرتا ہوں یا نا شکری کرتا ہوں اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے شکر کرتا ہے اور جو شخص ناشکری کرتا ہے تو (یاد رکھے ) میرا پروردگار یقیناً بے پروا اور سخی ہے۔
۴۱(اس کے بعد) سلیمانؑ نے کہا کہ اس کے تخت میں (اس کی عقل کے امتحان کے لیے ) تغیّر و تبدل کر دو تاکہ ہم دیکھیں کہ پھر بھی وہ سمجھ رکھتی ہے یا ان لوگوں میں ہے جو سمجھ نہیں رکھتے
۴۲(چنانچہ ایسا ہی کیا گیا) پھر جب بلقیس (سلیمانؑ کے پاس) آئی تو پوچھا گیا کہ تمہارا تخت بھی ایسا ہی ہے۔ وہ بولی گویا یہ وہی ہے (پھر کہنے لگی کہ) ہم کو تواس سے پہلے ہی (آپ کی نبوت) معلوم ہو گئی تھی اور ہم تو آپ کے فرمانبردار تھے ہی۔
۴۳اور خدا کے سوا جسے وہ پوجتی تھی سلیمانؑ نے اس سے اس کو روک دیا۔کیونکہ وہ کافر قوم کی تھی (اور آفتاب کو پوجتی تھی)
۴۴پھر اس سے کہا گیا کہ آپ اب محل میں چلیے تو جب اس نے محل (میں شیشہ کے فرش) کو دیکھا تواس کو گہرا پانی سمجھی (اور گزرنے کے لیے اس طرح اپنے پائنچے اٹھائے کہ اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں۔ سلیمانؑ نے کہا (تم ڈرو نہیں ) یہ(پانی نہیں ہے ) محل ہے جو شیشوں سے منڈھا ہوا ہے (اس وقت متنبہ ہوئی اور ) عرض کی پروردگارا میں نے (آفتاب کو پوج کر) یقیناً اپنے اوپر آپ ظلم کیا اور اب میں سلیمانؑ کے ساتھ سارے جہان کے پالنے والے پر ایمان لاتی ہوں
۴۵اور ہم ہی نے قوم ثمود کے پاس ان کے بھائی صالحؑ کو پیغمبر بنا کر بھیجا کہ تم لوگ خدا کی عبادت کرو تو وہ صالحؑ کے آتے ہی (مومن و کافر) دو فریق بن کر باہم جھگڑنے لگے۔
۴۶صالحؑ نے کہا: اے میری قوم (آخر) تم لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے واسطے کیوں جلدی کر رہے ہو۔ تم لوگ خدا کی بارگاہ میں توبہ استغفار کیوں نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
۴۷وہ لوگ بولے : ہم نے تو تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے برا شگون پایا۔ صالحؑ نے کہا: تمہاری بدقسمتی خدا کے پاس ہے (یہ سب کچھ نہیں ) بلکہ تم لوگوں کی آزمائش کی جا رہی ہے
۴۸اور شہر میں نو آدمی تھے جو ملک کے بانیِ فساد تھے اور اصلاح (کی فکر) نہ کرتے تھے۔
۴۹ان لوگوں نے (آپس میں ) کہا کہ تم خدا کی قسم کھاتے جاؤ کہ ہم لوگ صالحؑ اور اس کے لڑکے بالوں پر شب خون کریں اس کے بعد اس کے والی وارث سے کہہ دیں گے کہ ہم لوگ ان کے گھر والوں کے ہلاک ہوتے وقت موجود ہی نہ تھے اور ہم لوگ تو یقیناً سچّے ہیں۔
۵۰اور ان لوگوں نے ایک تدبیر کی اور ہم نے بھی ایک تدبیر کی اور (ہماری تدبیر کی) ان کو خبر بھی نہ ہوئی۔
۵۱تو (اے رسُولؐ) تم دیکھو ان کی تدبیر کا کیا (بُرا) انجام ہوا کہ ہم نے ان کو اور ان کی ساری قوم کو ہلاک کر ڈالا۔
۵۲یہ بس ان کے گھر ہیں کہ ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے خالی ویران پڑے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس واقعہ میں واقف کار لوگوں کے لیے بڑی عبرت ہے۔
۵۳اور ہم نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور پرہیزگار تھے بچا لیا۔
۵۴اور (اے رسُولؐ) لُوطؑ کو (یاد کرو) جب اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ کیا تم دیکھ بھال کر (سمجھ بوجھ کر) ایسی بے حیائی کرتے ہو۔
۵۵کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت سے مردوں کے پاس آتے ہو (یہ تو اچھا نہیں کرتے ) بلکہ تم لوگ بڑی جاہل قوم ہو
۵۶تو لوطؑ کی قوم کا اس کے سوا کچھ جواب نہ تھا کہ وہ لوگ بول اُٹھے کہ لوطؑ کے خاندان کو اپنی بستی (سیدوم) سے نکال باہر کرو۔ یہ لوگ بڑے پاک صاف بننا چاہتے ہیں۔
۵۷غرض ہم نے لوطؑ کو اور اُن کے خاندان کو بچا لیا مگر ان کی بیوی کو ہم نے اس کی تقدیر میں پیچھے رہ جانے والوں میں لکھ دیا تھا۔
۵۸اور (پھر تو) ہم نے ان لوگوں پر (پتھر کا) مینہ برسایا۔ تو جو لوگ ڈرائے جا چکے تھے ان پر کیا برا مینہ برسا۔
۵۹(اے رسُولؐ) تم کہہ دو (ان کے ہلاک ہونے پر) خدا کا شکر اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام۔ بھلا خدا بہتر ہے یا وہ چیز جسے یہ لوگ شریکِ خدا کہتے ہیں۔
۶۰بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے واسطے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر ہم ہی نے پانی سے دلچسپ و خوشنما باغ اُگائے تمہارے تو یہ بس کی بات نہ تھی کہ تم ان کے درختوں کو اُگا سکتے۔ تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے۔ (ہرگز نہیں ) بلکہ یہ لوگ خود (اپنے جی سے گڑھ کے بتوں کو) اس کے برابر بناتے ہیں۔
۶۱بھلا وہ کون ہے جس نے زمین کو (لوگوں کے ) ٹھہرنے کی جگہ بنایا اور اس کے درمیان جا بجا نہریں دوڑائیں اور اس(کی مضبوطی) کے واسطے پہاڑ بنائے اور (میٹھے کھاری) دو دریاؤں کے درمیان حد فاصل بنایا۔ تو کیا خُدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں ) بلکہ ان میں کے اکثر (کچھ) جانتے ہی نہیں۔
۶۲بھلا وہ کون ہے کہ جب مضطر اُسے پکارے تو دُعا قبول کرتا ہے اور مصیبت کو دور کرتا ہے اور تم لوگوں کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا ہے۔ تو کیا خُدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں ) اس پر بھی تم لوگ بہت کم عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہو۔
۶۳بھلا وہ کون ہے جو تم لوگوں کو خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے اور کون اور اپنی رحمت (بارش) کے آگے آگے ہواؤں کو خوشخبری دینے کے لیے (پیش خیمہ بنا کے ) بھیجتا ہے کہ خدا کے ساتھ ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں ) یہ لوگ جن چیزوں کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں خدا اس سے بالاتر ہے۔
۶۴بھلا وہ کون ہے جو خلقت کو نئے سرے سے پیدا کرتا ہے پھر اُسے دوبارہ (مرنے کے بعد) پیدا کرے گا اور کون ہے جو تم لوگوں کو آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے۔ تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں۔ اے رسُولؐ) تم (ان مشرکین سے ) کہہ دو کہ اگر تم سچّے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔
۶۵(اے رسُولؐ ان سے ) کہہ دو کہ جتنے لوگ آسمان و زمین میں ہیں ان میں سے کوئی بھی غیب کی بات خدا کے سوا نہیں جانتا۔ اور وہ یہ بھی تو نہیں سمجھتے کہ قبر سے دوبارہ کب زندہ اُٹھا کھڑے کیے جائیں گے۔
۶۶بلکہ (اصل یہ ہے کہ) آخرت کے بارے میں اُن کے علم کا خاتمہ ہو گیا ہے۔بلکہ اس کی طرف سے شک میں پڑے ہیں۔ بلکہ (سچ یہ ہے کہ) اس سے یہ لوگ اندھے بنے ہوئے ہیں۔
۶۷اور کفّار کہنے لگے کہ کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا (سڑ گل کر) مٹّی ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر نکالے جائیں گے۔
۶۸اس کا تو پہلے بھی ہم سے اور ہمارے باپ داداؤں سے وعدہ کیا گیا تھا (کہاں کا اٹھنا اور کیسی قیامت) یہ تو ہو نہ ہو اگلے لوگوں کے ڈھکوسلے ہیں۔
۶۹(اے رسُولؐ) لوگوں سے کہہ دو کہ روئے زمین پر ذرا چل پھر کر تو دیکھو کہ گنہگاروں کا انجام کیا ہوا۔
۷۰اور (اے رسولؐ) تم ان کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو اور جو چالیں یہ لوگ (تمہارے خلاف) چل رہے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہو۔
۷۱اور یہ (کفّار مسلمانوں سے ) پوچھتے ہیں کہ اگر تم سچّے ہو تو (آخر) یہ (قیامت یا عذاب کا) وعدہ کب پورا ہو گا۔
۷۲(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ جس (عذاب) کی تم لوگ جلدی کر رہے ہو کیا عجب ہے اس میں سے کچھ قریب آ گیا ہو۔
۷۳اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمہارا پروردگار لوگوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔مگر بہتیرے لوگ (اس کا) شکر نہیں کرتے۔
۷۴اور اس میں بھی شک نہیں کہ جو باتیں ان کی دلوں میں پوشیدہ ہیں اور جو کچھ یہ اعلانیہ کرتے ہیں تمہارا پروردگار یقینی جانتا ہے۔
۷۵اور آسمان اور زمین میں کوئی ایسی بات پوشیدہ نہیں جو واضح و روشن کتاب (لوح محفوظ) میں (لکھی) موجود نہ ہو۔
۷۶اس میں بھی شک نہیں کہ یہ قرآن بنی اسرائیل پر ان کی اکثر باتوں کو جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں ظاہر کر دیتا ہے۔
۷۷اور اس میں بھی شک نہیں کہ یہ قرآن ایمان داروں کے واسطے ازسرتاپا ہدایت و رحمت ہے۔
۷۸(اے رسولؐ) بے شک تمہارا پروردگار اپنے حکم سے ان کے آپس (کے جھگڑوں کا فیصلہ کر دے گا اور وہ (سب پر) غالب اور واقف کار ہے۔
۷۹تو (اے رسولؐ) تم خدا پر بھروسہ رکھو بے شک تم یقینی صریحی حق پر ہو۔
۸۰بے شک نہ تو تم مُردوں کو (اپنی بات) سنا سکتے ہو اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے ہو (خاص کر)جب وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں
۸۱اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پر لا سکتے ہو تم تو بس انہی لوگوں کو(اپنی بات) سنا سکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں پھر وہی لوگ تو ماننے والے بھی ہیں۔
۸۲اور جب ان لوگوں پر (قیامت کا) وعدہ پورا ہو گا تو ہم ان کے واسطے زمین سے ایک چلنے والا نکال کھڑا کریں گے جو ان سے یہ باتیں کرے گا کہ (فلاں فلاں ) لوگ ہماری آیتوں کا یقین نہیں رکھتے تھے۔
۸۳اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہم ہر امت سے ایک ایسے گروہ کو جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتے تھے (زندہ کر کے ) جمع کریں گے پھر ان کی ٹولیاں علیحدہ علیحدہ کریں گے۔
۸۴یہاں تک کہ جب وہ سب (خدا کے سامنے ) آئیں گے اور خدا ان سے کہے گا کیا تم نے ہماری آیتوں کو بے اچھی طرح سمجھے بوجھے جھٹلایا بھلا تم کیا کیا کرتے تھے
۸۵اور چونکہ یہ لوگ ظلم کیا کرتے تھے ان پر (عذاب کا) وعدہ پورا ہو گیا پھر یہ لوگ کچھ بول بھی تو نہ سکیں گے۔
۸۶کیا ان لوگوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ ہم نے رات کو اس لیے بنایا کہ یہ لوگ اس میں چین کریں اور دن کو روشن(تاکہ دیکھ بھال کریں ) بے شک اس میں ایمان لانے والوں کے لیے (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔
۸۷اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن صور پھونکا جائے گا تو جتنے لوگ آسمانوں میں ہیں اور جتنے لوگ زمین میں ہیں (غرض سب کے سب) دہل جائیں گے مگر جس شخص کو خدا چاہے (وہ البتہ مطمئن رہے گا) اور سب لوگ اس کی بارگاہ میں ذلت و عاجزی کی حالت میں حاضر ہوں گے
۸۸اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر انہیں مضبوط جمے ہوئے سمجھتے ہو حالانکہ یہ (قیامت کے دن) بادل کی طرح اُڑے اُڑے پھریں گے۔ (یہ بھی) خدا کی کاریگری ہے کہ جس نے ہر چیز کو خوب مضبوط بنایا ہے بے شک جو کچھ تم لوگ کرتے ہواس سے وہ خوب واقف ہے۔
۸۹جو شخص نیک کام کرے گا اس کے لیے اس کی جزا کہیں اس سے بہتر ہے۔ اور یہ لوگ اس دن خوف و خطر سے محفوظ رہیں گے۔
۹۰اور جو لوگ بُرا کام کریں گے وہ منہ کے بل جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا کہ) جو کچھ تم (دنیا میں ) کرتے تھے بس اس کی جزا تمہیں دی جائے گی۔
۹۱(اے رسولؐ ان سے کہہ دو کہ) مجھے تو بس یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اِس شہر (مکّہ) کے مالک کی عبادت کروں جس نے اسے عزت و حرمت دی ہے اور ہر چیز اسی کی ہے اور مجھے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ میں (اس کے ) فرمان بردار بندوں میں سے ہوں
۹۲اور یہ کہ میں قرآن پڑھا کروں۔ پھر جو شخص راہ پر آیا تو اپنی ذات کے نفع کے واسطے راہ پر آیا۔ اور جو گمراہ ہوا تو تم کہہ دو کہ میں بھی بس ایک ڈرانے والا ہوں۔
۹۳اور تم کہہ دو کہ الحمدللہ وہ عنقریب تمہیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھا دے گا تو تم انہیں پہچان لو گے اور جو کچھ تم کرتے ہو تمہارا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے۔
٭٭٭
۲۸۔ سورۃ قصص
۱طٰ سٓ مٓ۔
۲(اے رسولؐ) یہ واضح و روشن کتاب کی آیتیں ہیں
۳(جن میں ) ہم تمہارے سامنے موسیٰؑ اور فرعون کا واقعہ ایمان دار لوگوں کے نفع کے واسطے ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔
۴بے شک فرعون نے (مصر کی) سرزمین میں بہت سر اٹھایا تھا اور اس نے وہاں کے رہنے والوں کو کئی گروہ کر دیا تھا ان میں سے ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو عاجز کر رکھا تھا کہ ان کے بیٹوں کو ذبح کرا دیتا تھا اور ان کی عورتوں (بیٹیوں ) کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ بے شک وہ بھی مفسدوں میں تھا
۵اور ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ روئے زمین میں کمزور کر دیئے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان ہی کو (لوگوں کا) پیشوا بنائیں اور ان ہی کو اس (سرزمین) کا مالک بنائیں
۶اور انہی کو رُوئے زمین پر پوری قدرت عطا کریں اور فرعون اور ہامان اور دونوں کے لشکروں کو ان ہی کمزوروں کے ہاتھ سے وہ چیزیں دکھائیں جس سے یہ لوگ ڈرتے تھے
۷اور ہم نے موسیٰؑ کی ماں کے پاس یہ وحی بھیجی کہ تم اس کو دودھ پلالو۔پھر جب اس کی نسبت تم کو کوئی خوف ہو تو اس کو (ایک صندوق میں رکھ کر) دریا میں ڈال دو اور (اس پر) تم کچھ نہ ڈرنا اور نہ کڑھنا (تم اطمینان رکھو) ہم اس کو پھر تمہارے پاس پہنچا دیں گے اور اس کو (اپنا) رسُول بنائیں گے۔
۸(غرض موسیٰؑ کی ماں نے دریا میں ڈال دیا وہ صندوق بہتے بہتے فرعون کے محل کے پاس آ لگا تو) فرعون کے لوگوں نے اُسے اُٹھا لیا تاکہ(ایک دن یہی) ان کا دشمن اور ان کے رنج کا باعث بنے اس میں شک نہیں کہ فرعون اور ہامان ان دونوں کے لشکر غلطی پر تھے۔
۹(اور جب موسیٰؑ محل میں لائے گئے ) تو فرعون کی بیوی (آسیہ اپنے شوہر سے ) بولی کہ یہ میری اور تمہاری (دونوں کی) آنکھوں کو ٹھنڈک ہے تو تم لوگ اسے قتل نہ کرو کیا عجب ہے کہ ہم کو یہ نفع پہنچائے یا ہم اسے لے پالک ہی بنا لیں اور انہیں (اسی کے ہاتھ سے برباد ہونے کی) خبر نہ تھی۔
۱۰(ادھر تو یہ ہو رہا تھا) اور (اُدھر) موسیٰؑ کی ماں کا دل ایسا بے چین ہو گیا کہ اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کر دیتے تو قریب تھا کہ موسیٰ ؑ کا حال ظاہر کر دیتی (اور ہم نے اس لیے ڈھارس دی) تاکہ وہ (ہمارے وعدہ کا) یقین رکھے۔
۱۱اور موسیٰ ؑ کی ماں نے (دریا میں ڈالتے وقت) ان کی بہن (کلثوم) سے کہا کہ تم اس کے پیچھے پیچھے (الگ) چلی جاؤ تو وہ موسیٰؑ کو دُور سے دیکھتی رہی اور ان لوگوں کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی
۱۲اور ہم نے موسیٰؑ پر پہلے ہی سے اور دائیوں (کے دودھ) کو حرام کر دیا تھا(کہ کسی کی چھاتی سے منہ نہ لگایا) تب موسیٰؑ کی بہن بولی بھلا میں تمہیں ایک گھرانے کا پتہ بتاؤں کہ وہ تمہاری خاطر سے اس بچّے کی پرورش کر دیں گے اور وہ یقینی اس کے خیرخواہ ہوں گے
۱۳غرض (اس ترکیب سے ) ہم نے موسیٰؑ کو اس کی ماں تک پھر پہنچا دیا تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو جائے اور رنج نہ کرے اور تاکہ سمجھ لے کہ خُدا کا وعدہ بالکل ٹھیک ہے مگر ان میں اکثر نہیں جانتے۔
۱۴اور جب موسیٰ ؑ اپنی جوانی کو پہنچے اور (ہاتھ پاؤں نکال کے )درست ہو گئے تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا کیا۔اور نیکی کرنے والوں کو ہم یوں جزائے خیر دیتے ہیں۔
۱۵اور ایک دن اتفاقاً موسیٰؑ شہر میں ایسے وقت آئے کہ وہاں کے لوگ (نیند کی) غفلت میں پڑے ہوئے تھے تو دیکھا کہ وہاں دو آدمی آپس میں لڑے مرتے ہیں۔ یہ (ایک) تو ان کی قوم (بنی اسرائیل) میں کا ہے اور وہ(دوسرا) ان کے دشمن کی قوم (قبطی) کا ہے۔ تو جو شخص ان کی قوم کا تھا اس نے اس شخص پر جو ان کے دشمنوں میں تھا(غلبہ حاصل کرنے کے لیے ) موسیٰؑ سے مدد مانگی یہ سُنتے ہی موسیٰ ؑ نے اسے ایک ہی گھونسا مارا تھا کہ اس کا کام تمام ہو گیا۔ موسیٰؑ نے (اس وقت) کہا کہ یہ (ان کا لڑنا جھگڑنا) شیطانی کام تھا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ دشمن اور کھلم کھلا گمراہ کرنے والا ہے۔
۱۶(پھر بارگاہِ خُدا میں ) عرض کی پروردگارا بے شک میں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا (کہ اس شہر میں آیا) تو تو مجھے (دشمنوں سے ) پوشیدہ رکھ۔ غرض خدا نے انہیں پوشیدہ رکھا اس میں تو شک ہی نہیں کہ وہ بڑا پوشیدہ رکھنے والا مہربان ہے
۱۷موسٰیؑ نے عرض کی: پروردگارا چونکہ تو نے مجھ پر احسان کیا ہے میں بھی کبھی آئندہ گنہگاروں کا ہرگز مددگار نہ بنوں گا۔
۱۸غرض (رات جوں توں گزری) صبح کو اُمیّد و بیم کی حالت میں موسیٰؑ شہر میں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی شخص جس نے کل ان سے مدد مانگی تھی ان سے (پھر) فریاد کر رہا ہے۔ موسیٰؑ نے اس سے کہا بے شک تو یقینی کھلم کھلا گمراہ ہے۔
۱۹غرض جب موسیٰؑ نے چاہا کہ اس شخص پر جو دونوں کا دشمن تھا (چھڑانے کے لیے ) ہاتھ بڑھائیں تو قطبی کہنے لگا اے موسیٰؑ جس طرح تم نے کل ایک آدمی کو مار ڈالا (اسی طرح) مجھے بھی مار ڈالنا چاہتے ہو تم تو بس یہ چاہتے ہو کہ روئے زمین میں سرکش بن کر رہو اور مصلح (قوم) بن کر رہنا نہیں چاہتے
۲۰اور ایک شخص شہر کے اس کنارے سے دوڑتا ہوا آیا اور (موسیٰؑ سے ) کہنے لگا اے موسیٰؑ (تم یہ یقین جانو کہ شہر کے ) بڑے بڑے آدمی تمہارے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ تم کو قتل کر ڈالیں تو تم (شہر سے ) نکل بھاگو میں تم سے خیر خواہا نہ کہتا ہوں۔
۲۱غرض موسیٰؑ وہاں سے امید و بیم کی حالت میں نکل کھڑے ہوئے اور (بارگاہِ خدا میں ) عرض کی پروردگارا مجھے ظالم لوگوں کے ہاتھ سے نجات دے۔
۲۲اور جب مدین کی طرف رُخ کیا (اور راستہ معلوم نہ تھا) تو آپ ہی آپ بولے مجھے اُمیّد ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا راستہ دکھا دے
۲۳(اور آٹھ دن فاقہ کرتے چلے ) جب شہر مدّین کے کنویں پر(جو شہر کے باہر تھا) پہنچے تو کنویں پر لوگوں کی بھیڑ دیکھی کہ وہ (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے ہیں اور ان سب کے پیچھے دو عورتوں (حضرت شعیبؑ کی بیٹیوں ) کو دیکھا کہ وہ (اپنی بکریوں کو) روکے کھڑی ہیں۔ موسیٰؑ نے پوچھا کہ تمہارا کیا مطلب ہے۔وہ بولیں جب تک سب چرواہے (اپنے جانوروں کو) خوب چھک کے پانی پلا کر پھر نہ جائیں ہم نہیں پلا سکتے اور ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں۔
۲۴تب موسیٰؑ نے ان کے لیے (پانی کھینچ کر) پلا دیا پھر وہاں سے ہٹ کر چھاؤں میں جا بیٹھے تو (چونکہ بہت بھوک تھی) عرض کی: پروردگارا (اس وقت) جو نعمت تو میرے پاس بھیج دے میں اس کا سخت حاجت مند ہوں۔
۲۵اتنے میں انہی دو میں سے ایک عورت شرمیلی چال سے آئی (اور موسیٰؑ سے ) کہنے لگی میرے والد تم کو بلاتے ہیں تاکہ تم نے جو (ہماری بکریوں کو) پانی پلا دیا ہے تمہیں اس کی مزدوری دیں۔ غرض جب موسیٰ ؑ ان کے پاس آئے اور ان سے قصّے کو بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ اب تم کچھ اندیشہ نہ کرو۔ تم نے ظالم لوگوں کے ہاتھ سے نجات پائی
۲۶(اسی اثنا میں ) ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا اے ابّا ان کو نوکر رکھ لیجیے کیونکہ آپ جس کو بھی نوکر رکھیں سب میں بہتر وہ ہے جو مضبوط اور ایماندار ہو (اور ان میں دونوں باتیں پائی جاتی ہیں تب)
۲۷شعیبؑ نے کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کے ساتھ تمہارا اس (مہر) پر نکاح کر دوں کہ تم آٹھ برس تک میری نوکری کرو اور اگر تم دس برس پورے کرو تو تمہارا احسان میں تم پر محنت شاقہ بھی ڈالنا نہیں چاہتا اور تم مجھے ان شاء اللہ نیکوکار آدمی پاؤ گے۔
۲۸موسیٰؑ نے کہا۔ یہ میرے اور آپ کے درمیان (معاہدہ) ہے دونوں مدتوں میں سے جو بھی پوری کروں (مجھے اختیار ہے ) مجھ پر جبر و زیادتی دینے کا آپ کو حق نہیں۔ اور ہم آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں (اس کا) خدا گواہ ہے۔
۲۹(غرض موسیٰؑ کا چھوٹی لڑکی سے نکاح ہو گیا اور رہنے لگے پھر جب موسیٰؑ نے اپنی (دس برس کی) مدّت پوری کی اور بیوی کو لے کر چلے تو (اندھیری رات جاڑوں کے دن راہ بھول گئے اور بیوی صفورا کو دردِزہ شروع ہوا اتنے میں ) کوہ طور کی طرف سے آگ دکھائی دی تو اپنے لڑکے بالوں سے کہا تم لوگ ٹھہرو میں نے یقیناً آگ دیکھی ہے (میں وہاں جاتا ہوں ) کیا عجب ہے میں وہاں سے (رستہ کی) کچھ خبر لاؤں یا آگ کی کوئی چنگاری (لیتا آؤں ) تاکہ تم لوگ تاپو۔
۳۰غرض جب موسیٰؑ آگ کے پاس آئے تو میدان کے داہنے کنارے سے اس مبارک جگہ میں ایک درخت سے اُنہیں آواز آئی کہ اے موسیٰؑ اس میں شک نہیں کہ میں ہی اللہ سارے جہان کا پالنے والا ہوں۔
۳۱اور یہ (بھی آواز آئی) کہ تم اپنی چھڑی زمین پر ڈال دو پھر جب (ڈال دیا تو) دیکھا کہ وہ اس طرح بل کھا رہی ہے کہ گویا وہ (زندہ) اژدھا ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ (تو ہم نے فرمایا) اے موسیٰؑ آگے آؤ اور ڈرو نہیں۔ تم ہر طرح امن و امان میں ہو۔
۳۲(اچھا اور لو) اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالو (اور نکال لو) تو سفید براق ہو کر بے عیب نکل آیا اور خوف (کی وجہ) سے اپنے بازو اپنی طرف سمیٹ لو (تاکہ خوف جاتا رہے ) غرض یہ دونوں (عصا و ید بیضا) تمہارے پروردگار کی طرف سے (تمہاری نبّوت کی) دو دلیلیں فرعون اور اس کے دربار کے سرداروں کے واسطے ہیں اس میں شک نہیں کہ وہ بدکار لوگ تھے۔
۳۳موسیٰؑ نے عرض کی پروردگارا میں نے ان میں سے ایک شخص کو مار ڈالا تھا تو میں ڈرتا ہوں کہیں (اس کے بدلہ) مجھے نہ مار ڈالیں۔
۳۴اور میرا بھائی ہارون وہ مجھ سے زبان میں زیادہ فصیح ہے تو تُو اُسے میرے ساتھ میرا مددگار بنا کر بھیج کہ وہ میری تصدیق کرے کیونکہ یقیناً میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ مجھے وہ لوگ جھٹلا دیں گے۔ (تو ان کے جواب کے لیے گویائی کی ضرورت ہے )۔
۳۵فرمایا اچھا ہم عنقریب تمہارے بھائی کی وجہ سے تمہارے بازو قوی کر دیں گے اور تم دونوں کو ایسا غلبہ عطا کریں گے کہ فرعونی لوگ تم دونوں تک ہمارے معجزے کی وجہ سے پہنچ بھی نہ سکیں گے (لو جاؤ) تم دونوں اور تمہارے پیرو غالب رہیں گے۔
۳۶غرض جب موسیٰؑ ہمارے واضح و روشن معجزے لے کر ان کے پاس آئے تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ تو بس اپنے دل کا گڑھا ہوا جادو ہے۔ اور ہم نے تو اپنے اگلے باپ داداؤں (کے زمانہ) میں ایسی بات سنی بھی نہیں۔
۳۷اور موسیٰؑ نے کہا میرا پروردگاراس شخص سے خوب واقف ہے جو اس کی بارگاہ سے ہدایت لے کر آیا ہے۔ اور اس شخص سے بھی جس کے لیے آخرت کا گھر ہے۔ اس میں تو شک ہی نہیں کہ ظالم لوگ کامیاب نہیں ہوتے
۳۸اور (یہ سن کر)فرعون نے کہا: اے میرے دربار کے سردارو! مجھ کو تو اپنے سوا تمہارا کوئی پروردگار معلوم نہیں ہوتا (اور موسیٰ دوسرے کو خدا بتاتا ہے ) تو اے ہامان (وزیرِ فرعون) تم میرے واسطے مٹی (کی اینٹوں )کا (بھٹہ) سلگاؤ پھر میرے واسطے ایک پختہ محل تیار کراؤ تاکہ میں (اس پر چڑھ کر)موسیٰؑ کے خدا کو دیکھوں اور میں تو یقیناً موسیٰؑ کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔
۳۹اور فرعون اور اس کے لشکر نے روئے زمین میں ناحق سر اٹھایا تھا اور ان لوگوں نے سمجھ لیا تھا کہ ہماری بارگاہ میں وہ کبھی پلٹ کر نہیں آئیں گے۔
۴۰تو ہم نے اس کو اور اس کے لشکر کو لے ڈالا پھر ان سب کو دریا میں ڈال دیا۔ تو (اے رسُولؐ) ذرا دیکھو تو کہ ظالموں کا کیسا بُرا انجام ہوا۔
۴۱اور ہم نے ان کو (گمراہوں کا) پیشوا بنایا کہ (لوگوں کو) جہنم کی طرف بلاتے ہیں۔ اور قیامت کے دن (ایسے بے کس ہوں گے کہ) ان کو (کسی طرح کی) مدد نہ دی جائے گی۔
۴۲اور ہم نے دنیا میں بھی تو لعنت ان کے پیچھے لگا دی ہے اور قیامت کے دن اُن کے چہرے بگاڑ دیئے جائیں گے۔
۴۳اور ہم نے بہتری اگلی اُمّتوں کو ہلاک کر ڈالا ا س کے بعد موسیٰؑ کو کتاب (توریت) عطا کی جو لوگوں کے لیے ازسرتاپا بصیرت اور ہدایت اور رحمت تھی تاکہ وہ لوگ عبرت و نصیحت حاصل کریں۔
۴۴اور (اے رسُولؐ) جس وقت ہم نے موسیٰؑ کے پاس اپنا حکم بھیجا تھا۔ تو تم (طور کے ) مغربی جانب موجود نہ تھے اور نہ تم ان واقعات کو بہ چشم دید دیکھنے والوں میں سے تھے۔
۴۵مگر ہم نے (موسیٰؑ کے بعد) بہتیری اُمتیں پیدا کیں۔ پھر ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا اور نہ تم مدین کے لوگوں میں رہے تھے کہ ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھتے (اور تم کو ان کے حالات معلوم ہوتے )مگر ہم تو (تم کو) پیغمبر بنا کر بھیجنے والے تھے۔
۴۶اور نہ تم طور کی کسی جانب اس وقت موجود تھے جب ہم نے (موسیٰؑ کو) آواز دی تھی (تاکہ تم دیکھتے ) مگر یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی ہے تاکہ تم ان لوگوں کو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں ڈراؤ تاکہ یہ لوگ نصیحت و عبرت حاصل کریں۔
۴۷اور اگر یہ نہ ہوتا کہ جب ان پر ان کی اگلی کرتوتوں کی بدولت کوئی مصیبت پڑتی تو بے ساختہ کہہ بیٹھتے کہ پروردگارا تو نے ہمارے پاس کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیرے حکموں پر چلتے اور ایمانداروں میں ہوتے (تو ہم تم کو نہ بھیجتے مگر)
۴۸پھر جب ہماری بارگاہ سے (دین) حق ان کے پاس پہنچا تو کہنے لگے جیسے (معجزے ) موسیٰؑ کو عطا ہوئے تھے ویسے ہی اس رسُولؐ (محمدؐ) کو کیوں نہیں دیئے گئے کیا جو معجزے اس سے پہلے موسیٰؑ کو عطا ہوئے تھے ان سے ان لوگوں نے انکار نہ کیا تھا کفّار تو یہ بھی کہہ گزرے کہ یہ دونوں کے دونوں (توریت و قرآن) جادو ہیں کہ باہم ایک دوسرے کے مددگار ہو گئے ہیں اور یہ بھی کہہ چکے کہ ہم سب کے منکر ہیں
۴۹(اے رسُولؐ) تم (ان لوگوں سے ) کہہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو خدا کی طرف سے ایک ایسی کتاب جو ان دونوں سے ہدایت میں بہتر ہو لے آؤ کہ میں بھی اس پر چلوں
۵۰پھر اگر یہ لوگ (اس پر بھی) نہ مانیں تو سمجھ لو کہ یہ لوگ بس اپنی ہواؤ ہوس کی پیروی کرتے ہیں اور جو شخص خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی ہواؤ ہوس کی پیروی کرے اس سے زیادہ گمراہ کون ہو گا۔ بے شک خدا سرکش لوگوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا
۵۱اور ہم یقیناً لگاتار (اپنے احکام بھیج کر) ان کی نصیحت کرتے رہے تاکہ وہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔
۵۲جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عطا کی ہے وہ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں۔
۵۳اور جب اُن کے سامنے یہ پڑھا جاتا ہے تو بول اُٹھتے ہیں کہ ہم تو اس پر ایمان لا چکے بے شک یہ ٹھیک ہے (اور) ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے ہم تو اس کو اس کے پہلے ہی سے مانتے تھے۔
۵۴یہی وہ لوگ ہیں جنہیں (ان کے اعمالِ خیر کی)دوہری جزا دی جائے گی چونکہ ان لوگوں نے صبر کیا اور بدی کا دفعیہ نیکی سے کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں۔
۵۵اور جب کسی سے کوئی بُری بات سُنی تو اُس سے کنارہ کش رہے اور صاف کہہ دیا کہ ہمارے واسطے ہماری کار گزاریاں ہیں اور تمہارے واسطے تمہاری کارستانیاں (بس دُور ہی سے ) تمہیں سلام ہے۔ ہم جاہلوں (کی صحبت) کے خواہاں نہیں۔
۵۶(اے رسُولؐ) بے شک تم جسے چاہو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتے۔ مگر ہاں خدا جسے چاہے منزلِ مقصود تک پہنچائے اور وہی ہدایت یافتہ لوگوں سے خوب واقف ہے۔
۵۷(اے رسولؐ) کفّار (مکّہ) تم سے کہتے ہیں کہ اگر ہم تمہارے ساتھ دینِ حق کی پیروی کریں تو ہم اپنے ملک سے اچک لیے جائیں (یہ کیا بکتے ہیں ) کیا ہم نے انہیں حرمِ مکّہ میں جہاں ہر طرح کا امن ہے جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے پھل روزی کے واسطے ہماری بارگاہ سے کھچے چلے جاتے ہیں۔ مگر بہتیرے لوگ نہیں جانتے۔
۵۸اور ہم نے تو بہتیری بستیاں برباد کر دیں جو اپنی معیشت میں بہت اتراہٹ سے (زندگی) بسر کیا کرتی تھیں تو (دیکھو) یہ انہی کے (اُجڑے ہوئے ) گھر ہیں جو ان کے بعد پھر آباد نہیں ہوئے مگر بہت کم۔ اور (آخر) ہم ہی ان کے (مال و اسباب کے ) وارث ہوئے۔
۵۹اور تمہارا پروردگار جب تک ان گاؤں کے صدر مقام پر اپنا پیغمبر نہ بھیج لے اور وہ ان کے سامنے ہماری آیتیں نہ پڑھ دے اس وقت تک بستیوں کو برباد نہیں کر دیا کرتا۔اور ہم تو بستیوں کو برباد کرتے ہی نہیں جب تک وہاں کے لوگ ظالم نہ ہوں۔
۶۰اور تم لوگوں کو جو کچھ عطا ہوا ہے تو دنیا کی (ذراسی) زندگی کا فائدہ اور اسی کی آرائش ہے۔ اور جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے اور پائیدار ہے۔ تو کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔
۶۱تو کیا وہ شخص جس سے ہم نے (بہشت کا) اچھا وعدہ کیا ہے اور وہ اُسے پا کر رہے گا اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جسے ہم نے دُنیاوی زندگی کے (چند روزہ) فائدے عطا کیے ہیں اور پھر قیامت کے دن (جواب دہی کے واسطے ہمارے سامنے ) حاضر کیا جائے گا۔
۶۲اور جس دن خُدا ان کفّار کو پکارے گا اور پوچھے گا کہ جن کو تم ہمارا شریک خیال کرتے تھے وہ (آج) کہاں ہیں۔
۶۳(غرض وہ شرکا بھی بلائے جائیں گے ) وہ لوگ جو ہمارے عذاب کے مستوجب ہو چکے ہیں کہہ دیں گے کہ پروردگارا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے گمراہ کیا تھا جس طرح ہم خود گمراہ ہوئے اسی طرح ہم نے ان کو گمراہ کیا اب ہم تیری بارگاہ میں (ان سے ) دستبردار ہوتے ہیں یہ لوگ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔
۶۴اور کہا جائے گا کہ بھلا اپنے (ان) شریکوں کو (جنہیں تم خدا سمجھتے تھے )بلاؤ تو۔ غرض وہ لوگ انہیں بلائیں گے تو وہ انہیں جواب تک نہ دیں گے (اور اپنی آنکھوں سے ) عذاب کو دیکھیں گے۔ کاش یہ لوگ (دُنیا میں ) راہ پر آئے ہوتے۔
۶۵اور (وہ دن یاد کرو) جس دن خدا لوگوں کو پکار کر پوچھے گا کہ تم لوگوں نے پیغمبروں کو (ان کے سمجھانے پر) کیا جواب دیا۔
۶۶تب اس دن انہیں باتیں نہ سوجھ پڑیں گی (اور) پھر باہم ایک دوسرے سے پوچھ بھی نہ سکیں گے۔
۶۷مگر ہاں جس شخص نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور اچھے اچھے کام کیے تو قریب ہے کہ یہ لوگ اپنی مرادیں پانے والوں سے ہوں گے۔
۶۸اور تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ) منتخب کرتا ہے اور یہ انتخاب لوگوں کے اختیار میں نہیں ہے اور جس چیز کو یہ لوگ خدا کا شریک بناتے ہیں اس سے خدا پاک اور (کہیں ) برتر ہے۔
۶۹اور (اے رسُولؐ) یہ لوگ جو باتیں اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے
۷۰اور وہی خدا ہے اس کے سوا کوئی قابل پرستش نہیں۔ دنیا اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے اور اسی کی حکومت ہے اور تم لوگ (مرنے کے بعد) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
۷۱(اے رسُولؐ ان لوگوں سے ) کہو کہ بھلا تم نے دیکھا کہ اگر خدا ہمیشہ کے لیے قیامت تک تمہارے سروں پر رات کو چھائے رہتا تو اللہ کے سوا کون خدا ہے جو تمہارے پاس روشنی لے آتا۔ تو کیا تم سنتے نہیں ہو۔
۷۲(اے رسُولؐ ان سے ) کہہ دو کہ بھلا تم نے دیکھا کہ اگر خُدا قیامت تک برابر تمہارے سروں پر دن کیے رہتا تو اللہ کے سوا کون خدا ہے جو تمہارے لیے رات کو لے آتا کہ تم لوگ اس میں آرام کرو تو کیا تم لوگ (اتنا بھی) نہیں دیکھتے۔
۷۳اور اس نے اپنی مہربانی سے تمہارے واسطے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام اور (دن میں ) اس کے فضل و کرم (روزی) کی تلاش کرو اور تاکہ تم لوگ شکر کرو۔
۷۴اور (اُس دن کو یاد کرو)جس دن وہ انہیں پکار کر پوچھے گا کہ جن کو تم لوگ میرا شریک خیال کرتے تھے وہ (آج) کہاں ہیں۔
۷۵اور ہم ہر ایک اُمّت سے ایک گواہ (پیغمبر) نکالیں (سامنے بلائیں ) گے پھر (اس دن مشرکین سے ) کہیں گے کہ اپنی (برأت کی) دلیل پیش کرو تب انہیں معلوم ہو جائے گا کہ حق خدا ہی کی طرف ہے اور جو افترا پردازیاں یہ لوگ کیا کرتے تھے۔ سب ان سے غائب ہو جائیں گی
۷۶(ناشکری کا ایک قصّہ سُنو) موسیٰؑ کی قوم سے ایک شخص قارون(نامی) تھا تو اس نے ان پر سرکشی شروع کی اور ہم نے اس کواس قدر خزانے عطا کیے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک قوی جماعت (کی جماعت) کو اٹھانا دو بھر ہوتا تھا جب (ایک بار) اس کی قوم نے اس سے کہا کہ (اپنی دولت پر) اترا مت کیونکہ خدا اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
۷۷اور جو کچھ خدا نے تجھے دے رکھا ہے اس میں آخرت کے گھر بھی جستجو کر اور دُنیا سے جس قدر تیرا حصّہ ہے مت بھول جا اور جس طرح خدا نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اوروں کے ساتھ احسان کر اور رُوئے زمین میں فساد کا خواہاں نہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ خدا فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
۷۸تو قارون کہنے لگا کہ یہ (مال و دولت) تو مجھے اپنے علم (کیمیا) کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ کیا قارون نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ اللہ اس کے پہلے ان لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اس سے قوت اور جمعیت میں کہیں بڑھ چڑھ کے تھے اور گنہگاروں سے (ان کی سزا کے وقت) ان کے گناہوں کی پوچھ گچھ نہیں ہوا کرتی۔
۷۹غرض (ایک دن قارون) اپنی قوم کے سامنے بڑی آرائش اور ٹھاٹھ کے ساتھ نکلا تو جو لوگ دُنیا کی (چند روزہ) زندگی کے طالب تھے (اس شان سے دیکھ کر) کہنے لگے جو مال و دولت قارون کو عطا ہوئی ہے کاش ہمارے لیے (بھی) ہوتی اس میں شک نہیں کہ قارون بڑا نصیب ور ہے۔
۸۰اور جن لوگوں کو(ہماری بارگاہ سے ) علم حاصل ہوا تھا کہنے لگے تمہارا ناس ہو جائے (ارے ) جو شخص ایمان لائے اور اچھے کام کرے اس کے لیے تو خدا کا ثواب اس سے کہیں بہتر ہے اور وہ ثواب صبر کرنے والوں کے سوا دوسرے نہیں پا سکتے۔
۸۱اور ہم نے قارون اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسا دیا۔ پھر تو خدا کے سوا کوئی جماعت ایسی نہ تھی کہ اس کی مدد کرتی اور نہ خود آپ اپنی مدد کرسکا۔
۸۲اور جن لوگوں نے کل اس کے جاہ و مرتبہ کی تمنّا کی تھی وہ (آج یہ تماشا دیکھ کر) کہنے لگے ارے معاذ اللہ یہ تو خدا ہی اپنے بندوں سے جس کی روزی چاہتا ہے کہ کشادہ کر دیتا ہے اور جس کی روزی چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے اگر (کہیں ) خدا ہم پر مہربانی نہ کرتا (اور اتنا مال دے دیتا) تو اسی طرح ہم کو بھی ضرور دھنسا دیتا۔ ارے معاذ اللہ (سچ ہے ) ہرگز کفّار اپنی مرادیں نہ پائیں گے۔
۸۳یہ آخرت کا گھر تو ہم انہی لوگوں کے لیے خاص کر دیں گے جو روئے زمین پر نہ سرکشی کرنا چاہتے ہیں اور نہ فساد اور (پھر سچ بھی یوں ہے کہ) پھر انجام تو پرہیزگاروں ہی کا ہے۔
۸۴جو شخص نیکی کرے گا تو اس کے لیے اس سے کہیں بہتر بدلہ ہے۔ اور جو برے کام کرے گا تو وہ یاد رکھے کہ جن لوگوں نے بُرائیاں کی ہیں ان کا وہی بدلہ ہے جو دنیا میں کرتے رہے ہیں۔
۸۵(اے رسولؐ) خدا جس نے تم پر قرآن نازل کیا ضرور تمہیں ٹھکانے تک پہنچا دے گا۔ (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کون راہ پر آیا اور کون صریحی گمراہی میں پڑا رہا اس سے میرا پروردگار خوب واقف ہے۔
۸۶اور تم کو تو یہ اُمید نہ تھی کہ تمہارے پاس (خدا کی طرف سے )کتاب نازل کی جائے گی مگر تمہارے پروردگار کی مہربانی سے نازل ہوئی تو تم ہرگز کافروں کے پشت پناہ نہ بننا۔
۸۷کہیں ایسا نہ ہو کہ احکامِ خداوندی نازل ہونے کے بعد تم کو یہ لوگ ان کی تبلیغ سے روک دیں اور تم اپنے پروردگار کی طرف (لوگوں کو) بلاتے چلے جاؤ اور خبردار مشرکین سے ہرگز نہ ہونا۔
۸۸اور خدا کے سوا کسی اور معبود کی پرستش نہ کرنا اس کے سوا کوئی قابلِ پرستش نہیں۔ اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اسی کی حکومت ہے اور تم لوگ اسی کی طرف (مرنے کے بعد) لوٹائے جاؤ گے۔
٭٭٭
۲۹۔ سورۃ عنکبوت
۱ا لٓ مٓ۔
۲کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ (صرف) اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کا امتحان نہ لیا جائے گا (ضرور لیا جائے گا)۔
۳اور ہم نے تو ان لوگوں کا بھی امتحان لیا جو ان سے پہلے گزر گئے۔ غرض خدا ان لوگوں کو جو سچّے (دل سے ایمان لائے ) ہیں یقیناً علیحدہ دیکھے گا اور جھوٹوں کو بھی (علیحدہ) ضرور دیکھے گا۔
۴کیا جو لوگ بُرے بُرے کام کرتے ہیں انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ ہم سے (بچ کر)نکل جائیں گے (اگر ایسا ہے تو) یہ لوگ کیا ہی بُرے حکم لگاتے ہیں۔
۵جو شخص خدا سے ملنے (قیامت کے آنے ) کی اُمیّد رکھتا ہو تو (سمجھ رکھے کہ) خدا کی مقرر کی ہوئی میعاد ضرور آنے والی ہے۔ اور وہ (سب کی) سنتا اور جانتا ہے۔
۶اور جو شخص(عبادت میں ) کوشش کرتا ہے تو بس اپنے ہی واسطے کوشش کرتا ہے (کیونکہ) اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا سارے جہان (کی عبادت) سے بے نیاز ہے۔
۷اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے ہم یقیناً ان کے گناہوں کا ان کی طرف سے کفّارہ قرار دیں گی اور یہ (دُنیا میں ) جو اعمال کرتے تھے ہم ان کے اعمال کی انہیں اچھی سے اچھی جزا عطا کریں گے۔
۸اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے اور (یہ بھی کہ) اگر تجھے تیرے ماں باپ اس بات پر مجبور کریں کہ ایسی چیز کو میرا شریک بنا جن (کے شریک ہونے ) کا تجھے علم تک نہیں تو ان کا کہنا نہ ماننا۔ تم سب کو (آخر ایک دن) میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔میں جو کچھ تم لوگ (دُنیا میں ) کرتے تھے بتا دوں گا۔
۹اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے ہم انہیں (قیامت کے دن) ضرور نیکو کاروں میں داخل کریں گے۔
۱۰اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو (زباں سے تو) کہہ دیتے ہیں کہ ہم خدا پر ایمان لائے پھر جب ان کو خدا کے بارے میں کچھ تکلیف پہنچی تو وہ لوگوں کی تکلیف دہی کو اللہ کے عذاب کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ اور (اے رسولؐ) اگر (تمہارے پاس) تمہارے پروردگار کی مدد آ پہنچی (اور تمہیں فتح ہوئی) تو یہی لوگ کہنے لگتے ہیں کہ ہم بھی تو تمہارے ساتھ ہی ساتھ تھے بھلا جو کچھ سارے جہان کے دلوں میں ہے کیا خدا بخوبی واقف نہیں (ضرور ہے )
۱۱اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا خدا ان کو یقیناً جانتا ہے اور منافقین کو بھی ضرور جانتا ہے۔
۱۲اور کفّار ایمانداروں سے کہنے لگے کہ ہمارے طریقہ پر چلو اور (قیامت میں )تمہارے گناہوں (کے بوجھ) کو ہم (اپنے سر) لے لیں گے۔ حالانکہ یہ لوگ ذرا بھی تو ان کے گناہ اٹھانے والے نہیں۔ یہ لوگ یقینی جھوٹے ہیں۔
۱۳اور (ہاں ) یہ لوگ اپنے (گناہ کے ) بوجھے تو یقینی اٹھائیں گے ہی اور اپنے بوجھوں کے ساتھ (جنہیں گمراہ کیا ان کے ) بوجھے بھی اٹھائیں گے اور جو جو افترا پردازیاں یہ لوگ کرتے رہتے ہیں قیامت کے دن ان سے ضرور ان کی باز پرس ہو گی۔
۱۴اور ہم نے نوحؑ کو ان کی قوم کے پاس (پیغمبر بنا کر) بھیجا تو وہ ان میں پچاس کم ہزار برس رہے (اور ہدایت کیا کیے۔ اور جب نہ مانا) تو آخر طوفان نے انہیں لے ڈالا۔ اور وہ اس وقت بھی سرکش ہی تھے۔
۱۵پھر ہم نے نوحؑ اور کشتی میں رہنے والوں کو بچا لیا اور ہم نے اس واقعہ کو ساری خدائی کے واسطے (اپنی قدرت کی) نشانی قرار دی
۱۶اور ابراہیمؑ کو (یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ(بھائیو) خدا کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اگر تم سمجھتے بوجھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔
۱۷ (مگر) تم لوگ تو خدا چھوڑ کر صرف بتوں کی پرستش کرتے ہو اور جھوٹی باتیں (اپنے دل سے ) گھڑتے ہو۔ اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا کو چھوڑ کر جن کی تم پرستش کرتے ہو وہ تمہاری روزی کا اختیار نہیں رکھتے بس خدا ہی سے روزی بھی مانگو اور اسی کی عبادت بھی کرو اور اسی کا شکر کرو (کیونکہ) تم لوگ (ایک دن) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
۱۸اور (اے اہلِ مکّہ) اگر تم نے (میرے رسول کو) جھٹلایا تو (کچھ پرواہ نہیں )تم سے پہلے بھی تو بہتیری امتیں (اپنے پیغمبروں کو) جھٹلا چکی ہیں اور رسولؐ کے ذمّہ تو صرف(احکام کا) پہنچا دینا ہے۔
۱۹کیا ان لوگوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ خدا کس طرح مخلوقات کو پہلے پہل پیدا کرتا ہے اور پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا یہ تو خدا کے نزدیک بہت آسان بات ہے۔
۲۰(اے رسولؐ ان لوگوں سے ) تم کہہ دو کہ ذرا روئے زمین پر چل پھر کر دیکھو تو کہ خدا نے کس طرح پہلے پہل مخلوق کو پیدا کیا پھر (اسی طرح) وہی خدا (قیامت کے دن) آخری پیدائش پیدا کرے گا۔ بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
۲۱جس پر چاہے عذاب کرے اور جس پر چاہے رحم کرے اور تم لوگ (سب کے سب) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
۲۲اور نہ تو تم زمین میں خدا کو زیر کرسکتے ہو اور نہ آسمان میں اور خدا کے سوا نہ تو تمہارا کوئی سرپرست ہے اور نہ مددگار۔
۲۳اور جن لوگوں نے خدا کی آیتوں اور (قیامت کے دن)اس کے سامنے حاضر ہونے سے انکار کیا میری رحمت سے مایوس ہو گئے ہیں اور ان ہی لوگوں کے واسطے دردناک عذاب ہے۔
۲۴غرض ابراہیمؑ کی قوم کے پاس (ان باتوں کا) اس کے سوا اور کوئی جواب نہ تھا کہ باہم کہنے لگے اس کو مار ڈالو یا جلا (کر خاک کر) ڈالو (آخر وہ کر گزرے ) تو خدا نے ان کو آگ سے بچا لیا۔ اس میں شک نہیں کہ دین دار لوگوں کے واسطے اس واقعہ میں (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔
۲۵اور (ابراہیمؑ نے اپنی قوم سے ) کہا کہ تم لوگوں نے خدا کو چھوڑ کربتوں کو صرف دنیاوی زندگی میں باہم محبت کرنے کی وجہ سے (خدا) بنا رکھا ہے۔ پھر قیامت کے دن تم میں سے ایک کا ایک انکار کرے گا اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا اور (آخر) تم لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور (اس وقت) تمہارا کوئی بھی مددگار نہ ہو گا۔
۲۶تب صرف لُوط ابراہیم پر ایمان لائے۔ اور ابراہیمؑ نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگار کی طرف (جہاں اس کو منظور ہو) نکل جاؤں گا۔اس میں شک نہیں کہ وہ غالب (اور) حکمت والا ہے۔
۲۷اور ہم نے ابراہیمؑ کو اسحاقؑ (سا بیٹا) اور یعقوب (سا پوتا) عطا کیا اور ان کی نسل میں پیغمبری اور کتاب قرار دی اور ہم نے ابراہیمؑ کو دنیا میں بھی اس کا بدلہ عطا کیا اور وہ تو آخرت میں بھی یقینی نیکوکاروں سے ہیں۔
۲۸اور (رسُولؐ) لُوطؑ کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ عجب بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے ساری خدائی کے لوگوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔
۲۹کیا تم لوگ (عورتوں کو چھوڑ کر قضائے شہوت کے لیے ) مردوں کی طرف گرتے ہو اور (مسافروں کی) رہزنی کرتے ہو اور تم لوگ اپنی محفلوں میں بُری بُری حرکتیں کرتے ہو تو (ان سب باتوں کا) لُوطؑ کی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ وہ لوگ کہنے لگے کہ بھلا اگر تم سچّے ہو تو ہم پر خدا کا عذاب تو لے آؤ۔
۳۰(تب) لُوطؑ نے دُعا کی پروردگارا ان مفسد لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد کر (اس وقت عذاب کی تیاری ہوئی)
۳۱اور جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ابراہیمؑ کے پاس(بڑھاپے میں بیٹے کی) خوشخبری لے کر آئے تو ( ابراہیمؑ سے ) بولے ہم لوگ عنقریب اس گاؤں کے رہنے والوں کو ہلاک کرنے والے ہیں (کیونکہ) اس بستی کے رہنے والے یقینی (بڑے ) سرکش ہیں۔
۳۲(یہ سن کر) ابراہیمؑ نے کہا کہ اس بستی میں تو لُوطؑ بھی ہیں۔ وہ فرشتے بولے جو لوگ اس بستی میں ہیں ہم لوگ ان سے خود خوب واقف ہیں۔ ہم تو ان کو اور ان کے لڑکے بالوں کو یقینی بچا لیں گے مگر ان کی بیوی کو وہ (البتہ) پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گی۔
۳۳اور جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لُوطؑ ان کے آنے سے غمگین ہوئے اور ان (کی مہمانی) سے دل تنگ ہوئے (کیونکہ وہ نوجوان و خوبصورت مردوں کی صورت میں آئے تھے ) فرشتوں نے کہا آپ خوف نہ کریں اور کڑھیں نہیں۔ ہم آپ کو اور آپ کے لڑکے بالوں کو بچا لیں گے مگر آپ کی بیوی (کیونکہ) وہ تو پیچھے رہ جانے والوں سے ہو گی۔
۳۴ ہم یقیناً اس بستی کے رہنے والوں پر چونکہ یہ بد کاریاں کرتے ہیں۔ ایک آسمانی عذاب نازل کرنے والے ہیں۔
۳۵اور ہم نے یقینی اس (اُلٹی ہوئی بستی) میں سے سمجھ دار لوگوں کے واسطے (عبرت کی) ایک واضح و روشن نشانی باقی رکھی ہے۔
۳۶اور (ہم نے ) مدین کے رہنے والوں کے پاس ان کے بھائی شعیبؑ (کو پیغمبر بنا کر بھیجا) تو انہوں نے (اپنی قوم سے ) کہا:اے میری قوم خدا کی عبادت کرو اور روزِ آخرت کی اُمیّد رکھو اور روئے زمین میں فسادنہ پھیلاتے پھرو۔
۳۷تو ان لوگوں نے شعیبؑ کو جھٹلایا پس زلزلہ (بھونچال) نے انہیں لے ڈالا تو وہ لوگ اپنے گھروں میں اوندھے زانو کے بل پڑے کے پڑے رہ گئے
۳۸اور قومِ عاد اور ثمود کو (بھی ہلاک کر ڈالا) اور (اے اہلِ مکّہ) تم کو تو ان کے (اُجڑے ہوئے ) گھر بھی (راستہ آتے جاتے ) معلوم ہو چکے اور شیطان نے ان کی نظر میں ان کے کاموں کو اچھا کر دکھایا تھا اور انہیں (سیدھی) راہ پر (چلنے ) سے روک دیا تھا،حالانکہ وہ بڑے ہوشیار تھے۔
۳۹اور (ہم ہی نے ) قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی (ہلاک کر ڈالا)حالانکہ ان لوگوں کے پاس موسیٰؑ واضح و روشن معجزے لے کر آئے پھر بھی یہ لوگ روئے زمین میں سرکشی کرتے پھرے اور ہم سے (نکل کر) کہیں آگے نہ بڑھ سکے۔
۴۰تو ہم نے سب کو ان کے گناہ کی سزا میں لے ڈالا۔ چنانچہ ان میں سے بعض تو وہ تھے جن پر ہم نے پتھر والی آندھی بھیجی اور بعض ان میں سے وہ تھے جن کو ایک سخت چنگھاڑنے لے ڈالا اور بعض ان میں سے وہ تھے جن کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا۔ اور بعض ان میں سے وہ تھے جنہیں ہم نے ڈبا مارا اور یہ بات نہیں کہ خدا نے ان پر ظلم کیا ہو۔ بلکہ (سچ یوں ہے کہ) یہ لوگ خود خدا کی نافرمانی کر کے آپ اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔
۴۱جن لوگوں نے خدا کے سوا دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں۔ ان کی مثل اس مکڑی کی سی ہے، جس نے (اپنے خیال ناقص میں ) ایک گھر بنایا۔ اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمام گھروں سے بودا گھر مکڑی کا ہوتا ہے۔ اگر یہ لوگ (اتنا بھی) جانتے ہوں۔
۴۲خدا کو چھوڑ کر یہ لوگ جس چیز کو پکارتے ہیں اس سے خدا یقینی واقف ہے اور وہ تو (سب پر) غالب اور حکمت والا ہے۔
۴۳اور ہم یہ مثالیں لوگوں (کے سمجھانے ) کے واسطے بیان کرتے ہیں اور ان کو بس علماء ہی سمجھتے ہیں۔
۴۴خدا نے سارے آسمان اور زمین کو بالکل ٹھیک پیدا کیا۔ اس میں شک نہیں کہ اس میں ایمان داروں کے واسطے (قدرت خدا کی) یقینی بڑی نشانی ہے۔
۴۵(اے رسولؐ) جو کتاب تمہارے پاس نازل کی گئی ہے، اس کی تلاوت کرو اور پابندی سے نماز پڑھو بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے باز رکھتی ہے اور خدا کی یاد یقینی بڑا مرتبہ رکھتی ہے۔ اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو خدا اس سے واقف ہے۔
۴۶اور (اے ایماندارو) مناظرہ نہ کیا کرو اہل کتاب سے مگر عمدہ اور شائستہ الفاظ و عنوان سے لیکن ان میں سے جن لوگوں نے تم پر ظلم کیا۔ (ان کے ساتھ رعایت نہ کرو)اور صاف صاف کہہ دو (کتاب) جو ہم پر نازل ہوئی اور جو کتاب تم پر نازل ہوئی ہے ہم تو سب پر ایمان لا چکے اور ہمارا معبود اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں
۴۷اور (اے رسولؐ جس طرح اگلے پیغمبروں پر کتابیں اتاریں ) اسی طرح ہم نے تمہارے پاس کتاب نازل کی تو جن لوگوں کو ہم نے (پہلے ) کتاب عطا کی ہے وہ اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اور ان (عربوں ) میں سے بعض وہ ہیں جو اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ہماری آیتوں کے تو بس پکے کٹے کافر ہی مُنکر ہیں۔
۴۸اور (اے رسولؐ) قرآن سے پہلے نہ تو تم کوئی کتاب ہی پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے تم لکھا کرتے تھے۔ ایسا ہوتا تو یہ جھوٹے ضرور (تمہاری نبوت میں ) شک کرتے
۴۹مگر جن لوگوں کو (خدا کی طرف سے ) علم عطا ہوا ہے ان کے دل میں یہ (قرآن واضح و روشن آیتیں ہیں اور سرکشوں کے سوا ہماری آیتوں سے کوئی انکار نہیں کرتا۔
۵۰اور (کفّار عرب)کہتے ہیں کہ اس (رسولؐ) پر اس کے پروردگار کی طرف سے معجزے کیوں نہیں نازل ہوئے (اے رسولؐ) کہہ دو کہ معجزے تو بس خدا ہی کے پاس ہیں اور میں تو صرف صاف صاف (عذاب خدا سے ) ڈرانے والا ہوں۔
۵۱کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تم پر قرآن نازل کیا جو ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایماندار لوگوں کے لیے اس میں (خدا کی) بڑی مہربانی اور (اچھی خاصی) نصیحت ہے۔
۵۲تم کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے واسطے خدا کافی ہے جو سارے آسمان و زمین کی چیزوں کو جانتا ہے۔ اور جن لوگوں نے باطل کو مانا اور خدا سے انکار کیا وہی لوگ بڑے گھاٹے میں رہیں گے۔
۵۳اور (اے رسولؐ) تم سے لوگ عذاب کے نازل ہونے کی جلدی کرتے ہیں اور اگر (عذاب کا) وقت معین نہ ہوتا تو یقیناً ان کے پاس اب تک عذاب آ جاتا اور (آخر ایک دن) ان پر اچانک ضرور آ پڑے گا اور ان کو خبر بھی نہ ہو گی۔
۵۴یہ لوگ تم سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ دوزخ کافروں کو (اس طرح) گھیر کر رہے گی (کہ رُک نہ سکیں گے )۔
۵۵جس دن عذاب ان کے سر کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے ان کو ڈھانکے ہو گا اور خدا (ان سے ) فرمائے گا کہ جو جو کارستانیاں تم (دنیا میں ) کرتے تھے اب ان کا مزہ چکھو۔
۵۶اے میرے ایماندار بندو میری زمین تو یقیناً کشادہ ہے اور تم میری ہی عبادت کرو۔
۵۷ہر نفس کے لئے (ایک نہ ایک دن) موت کا مزا ہے پھر تم سب آخر ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
۵۸اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے ان کو ہم بہشت کے جھروکوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اچھے چلن والوں کی بھی کیا خوب کھری مزدوری ہے۔
۵۹جنہوں نے (دنیا میں مصیبتوں پر) صبر کیا اور اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں
۶۰اور زمین پر چلنے والوں میں بہتیرے ایسے ہیں جو اپنی روزی اپنے اوپر لادے نہیں پھرتے خدا ہی ان کو بھی روزی دیتا ہے اور تم کو بھی اور وہ بڑا سننے والا واقف کار ہے۔
۶۱اور (اے رسولؐ) اگر تم ان سے پوچھو کہ(بھلا) کس نے سارے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کام میں لگایا تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ نے۔ پھر وہ کہاں بہکے چلے جا رہے ہیں۔
۶۲خدا ہی اپنے بندوں میں سے جن کی روزی چاہتا ہے کشادہ کر دیتا ہے اور (جس کے لیے ) چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ خدا ہی ہر چیز سے واقف ہے۔
۶۳اور (اے رسولؐ) اگر تم اُن سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اِس کے مرنے (پڑتی ہونے ) کے بعد زندہ (آباد) کیا تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ نے۔ (اے رسولؐ) تم کہہ دو الحمد للہ۔ مگر ان میں سے بہتیرے (اِتنا بھی) نہیں سمجھتے۔
۶۴اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں۔ اور اگر یہ لوگ سمجھیں بوجھیں تو اس میں شک نہیں کہ ابدی زندگی (کی جگہ) تو بس آخرت کا گھر ہے۔ (باقی لغو)
۶۵پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو نہایت خلوص سے اِس کی عبادت کرنے والے بن کر خدا سے دعا کرتے ہیں پھر جب انہیں خشکی میں (پہنچا کر) نجات دیتا ہے تو فوراً شرک کرنے لگتے ہیں۔
۶۶تاکہ جو (نعمتیں ) ہم نے انہیں عطا کی ہیں اُن کا اِنکار کر بیٹھیں اور تاکہ (دنیا میں ) خوب چین لیں۔ تو عنقریب ہی (اس کا نتیجہ) انہیں معلوم ہو جائے گا۔
۶۷کیا ان لوگوں نے اس پر بھی غور نہیں کیا کہ ہم نے حرم (مکّہ) امن و اطمینان کی جگہ بنایا حالانکہ ان کے گرد و نواح سے اچک لیے جاتے ہیں تو کیا یہ لوگ جھوٹے معبودوں پر ایمان لاتے ہیں اور خدا کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں
۶۸اور جو شخص خدا پر جھوٹ بہتان باندھے یا جب اس کے پاس کوئی سچّی بات آئے تو جھٹلا دے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا۔ کیا (ان) کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ہے (ضرور ہے )۔
۶۹اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے۔ اور اس میں شک نہیں کہ خدا نیکوکاروں کا ساتھی ہے۔
٭٭٭
۳۰۔ سورۃ روم
۱الٓ مّ۔
۲(یہاں سے ) بہت قریب کے ملک میں رُومی (نصاریٰ اہل فارس آتش پرستوں سے ) ہار گئے
۳مگر یہ لوگ عنقریب ہی اپنے ہار جانے کے بعد چند سالوں میں پھر (اہل فارس پر) غالب آ جائیں گے۔
۴کیونکہ (اس سے )پہلے اور بعد (غرض ہر زمانہ میں ) ہر امر کا اختیار خدا ہی کو ہے اور اس دن ایماندار لوگ خدا کی مدد سے خوش ہو جائیں گے۔
۵وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ (سب پر) غالب اور رحم کرنے والا ہے۔
۶(یہ) خدا کا وعدہ (ہے ) خدا اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کیا کرتا۔ مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
۷یہ لوگ بس دُنیاوی زندگی کی ظاہری حالت کو جانتے ہیں اور یہ لوگ آخرت سے بالکل غافل ہیں۔
۸کیا ان لوگوں نے اپنے دل میں (اتنا بھی) غور نہیں کیا کہ خدا نے سارے آسمانوں اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان میں ہیں بس بالکل ٹھیک اور ایک مقرر میعاد کے واسطے پیدا کیا ہے اور کچھ شک نہیں کہ بہتیرے لوگ تو اپنے پروردگار (کی بارگاہ) کے حضور (قیامت) ہی کو کسی طرح نہیں مانتے۔
۹کیا یہ لوگ روئے زمین پر چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے گزر گئے ان کا انجام کیسا (بُرا) ہوا حالانکہ وہ لوگ ان سے قوت میں بھی کہیں زیادہ تھے اور جس قدر زمین ان لوگوں نے آباد کی ہے اس سے کہیں زیادہ (زمین کی) ان لوگوں نے کاشت بھی کی تھی اور اس کو آباد بھی کیا تھا اور ان کے پاس بھی ان کے پیغمبر واضح و روشن معجزے لے کر آ چکے تھے (مگر ان لوگوں نے نہ مانا) تو خدا نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا مگر وہ لوگ (کفر و سرکشی سے ) آپ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔
۱۰پھر جن لوگوں نے برائی کی تھی ان کا انجام بُرا ہی ہوا۔ کیونکہ ان لوگوں نے خدا کی آیتوں کو جھٹلایا تھا اور ان کے ساتھ مسخرا پن کیا کیے۔
۱۱خدا ہی نے مخلوقات کو پہلی بار پیدا کیا پھر وہی دوبارہ (پیدا) کرے گا۔ پھر تم سب لوگ اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
۱۲اور جس دن قیامت برپا ہو گی (اس دن) گنہگار لوگ نا امید ہو کر رہ جائیں گے۔
۱۳اور ان کے (بنائے ہوئے خدا کے ) شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہو گا اور یہ لوگ خود بھی اپنے شریکوں سے انکار کر جائیں گے۔
۱۴اور جس دن قیامت برپا ہو گی اُس دن (مومنوں سے ) کفّار جُدا ہو جائیں گے۔
۱۵پھر جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے عمل کیے تو وہ باغِ بہشت میں نہال کر دیئے جائیں گے۔
۱۶مگر جن لوگوں نے کفّر اختیار کیا اور ہماری آیتوں اور آخرت کی حضوری کو جھٹلایا تو یہ لوگ عذاب میں گرفتار کیے جائیں گے۔
۱۷پھر جس وقت تم لوگوں کی شام ہو اور جس وقت تمہاری صبح ہو خدا کی پاکیزگی ظاہر کرو۔
۱۸اور سارے آسمان و زمین میں تیسرے پہر کو اور جس وقت تم لوگوں کی دوپہر ہو جائے (وہی قابل تعریف ہے )
۱۹وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی مردہ کو زندہ سے پیدا کرتا ہے اور زمین کو مرنے (پڑتی ہونے ) کے بعد زندہ (آباد) کرتا ہے۔اور اسی طرح تم لوگ بھی (مرنے کے بعد) نکالے جاؤ گے۔
۲۰اور اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تم کو مٹّی سے پیدا کیا پھر یکایک تم آدمی بن کر (زمین پر) چلنے پھرنے لگے۔
۲۱اور اسی (کی قدرت) کی نشانیوں میں ایک یہ (بھی) ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری ہی جنس کی بیبیاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے ساتھ رہ کر چین کرو اور تم لوگوں کے درمیان پیار اور اُلفت پیدا کر دی۔ اس میں شک نہیں کہ اس میں غور کرنے والوں کے واسطے (قدرتِ خدا کی) یقینی بہت سی نشانیاں ہیں
۲۲اور اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف بھی ہے یقیناً اس میں واقف کاروں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔
۲۳اور رات اور دن کو تمہارا سونا اور اس کے فضل و کرم (روزی) کی تلاش کرنا بھی اس کی (قدرت کی) نشانیوں سے ہے۔ بے شک جو لوگ سُنتے ہیں ان کے لیے اس میں (قدرتِ خدا کی بہت سی نشانیاں ہیں۔
۲۴اور اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ تم کو ڈرانے اور اُمید دلانے کے واسطے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کے ذریعے سے زمین کو اس کے پڑتی ہونے کے بعد آباد کرتا ہے بے شک عقلمندوں کے واسطے اس میں (قدرت خدا کی) بہت سی دلیلیں ہیں
۲۵اور اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں پھر (مرنے کے بعد) جس وقت تم کو ایک بار بلائے گا تو سب کے سب زمین سے (زندہ ہو ہو کر) نکل پڑو گے۔
۲۶اور جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اسی کے ہیں۔ اور سب اسی کے تابع فرمان ہیں
۲۷اور وہ ایسا (قادر مطلق) ہے جو مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر دوبارہ (قیامت کے دن) پیدا کرے گا اور یہ اس پر بہت آسان ہے اور سارے آسمان و زمین میں سب سے بالاتر اسی کی شان ہے اور وہی (سب پر) غالب حکمت والا ہے۔
۲۸اور ہم نے (تمہارے سمجھانے کے واسطے ) تمہاری ہی ایک مثل بیان کی ہے ہم نے جو کچھ تمہیں عطا کیا ہے کیا اس میں تمہارے لونڈی غلاموں میں سے کوئی(بھی) تمہارا شریک ہے کہ (وہ اور ) تم اس میں برابر ہو جاؤ (اور کیا) تم ان سے ایسا ہی خوف رکھتے ہو جتنا تمہیں اپنے لوگوں کا (حق حصّہ نہ دینے میں ) خوف ہوتا ہے (پھر بندوں کو خدا کا شریک کیوں بناتے ہو) عقلمندوں کے واسطے ہم یوں اپنی آیتوں کو تفصیل وار بیان کرتے ہیں
۲۹مگر سرکشوں نے تو بغیر سمجھے بوجھے اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کر لی (اور خدا کا شریک ٹھہرا دیا) غرض خدا جسے گمراہی میں چھوڑ دے (پھر) اسے کون راہِ راست پر لا سکتا ہے اور ان کا کوئی مددگار (بھی) نہیں۔
۳۰تو (اے رسُولؐ) تم باطل سے کترا کے اپنا رُخ دین کی طرف کیے رہو۔ یہی خدا کی بناوٹ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی (درست کی ہوئی) بناوٹ میں (تغیّر و) تبدل نہیں ہو سکتایہی مضبوط (اور بالکل سیدھا) دین ہے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں۔
۳۱اسی کی طرف رجوع ہو کر (خدا کی عبادت کرو)اور اسی سے ڈرتے رہو اور پابندی سے نماز پڑھو اور مشرکین سے نہ ہو جانا
۳۲جنہوں نے اپنے (اصلی) دین میں تفرقہ پردازی کی اور مختلف فرقے بن گئے۔ جو (دین) جس فرقے کے پاس ہے اسی میں نہال نہال ہے۔
۳۳اور جب لوگوں کو کوئی مصیبت چھو بھی گئی تو اسی کی طرف رجوع ہو کر اپنے پروردگار کو پکارنے لگتے ہیں پھر جب وہ اپنی رحمت کی لذّت چکھا دیتا ہے تو انہی میں سے کچھ لوگ اپنے پروردگار کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں
۳۴تاکہ جو (نعمت) ہم نے انہیں دی ہے اس کی ناشکری کریں۔ خیر دنیا میں چند روز چین کر لو پھر تو بہت جلد (اپنے کیے کا مزا) تمہیں معلوم ہی ہو گا۔
۳۵کیا ہم نے ان لوگوں پر کوئی دلیل نازل کی ہے جو (اس کے حق ہونے ) کو بیان کرتی ہے جس سے (یہ لوگ خدا کا) شریک ٹھہراتے ہیں۔ (ہرگز نہیں )
۳۶اور جب ہم نے لوگوں کو اپنی رحمت (کی لذّت) چکھا دی تووہ اس سے خوش ہو گئے اور جب انہیں اپنے ہاتھوں کی اگلی کارستانیوں کی بدولت کوئی مصیبت پہنچی تو یکبارگی مایوس ہو کر بیٹھ رہتے ہیں۔
۳۷کیا ان لوگوں نے (اتنا بھی) غور نہیں کیا کہ خدا ہی جس کی روزی چاہتا ہے کشادہ کر دیتا ہے اور (جس کی چاہتا ہے ) تنگ کر دیتا ہے کچھ شک نہیں کہ اس میں ایماندار لوگوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔
۳۸تو (اے رسولؐ اپنے ) قرابتدار (فاطمہ زہراؑ)کا حق (فدک) دے دو اور محتاجپردیسی کا (بھی) جو لوگ خدا کی خوشنودی کے خواہاں ہیں ان کے حق میں سب سے یہی بہتر ہے اور ایسے ہی لوگ (آخرت میں ) اپنی دلی مرادیں پائیں گے۔
۳۹اور تم لوگ جوسود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال و دولت میں ترقی ہو تو (یاد رہے کہ ایسا مال) خدا کے ہاں پھولتا پھلتا نہیں۔ اور تم لوگ جو خدا کی خوشنودی کے ارادہ سے زکوٰۃ دیتے ہو تو ایسے ہی لوگ خدا کی بارگاہ سے ) دونا دون لینے والے ہیں۔
۴۰خدا وہ (قادر و توانا) ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔پھر اسی نے روزی دی پھر وہی تم کو مار ڈالے گا پھر وہی تم کو (دوبارہ)زندہ کرے گا بھلا تمہارے (بنائے ہوئے خدا کے ) شریکوں میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو ان کاموں میں سیکچھ بھی کرسکے جسے یہ لوگ (اس کا) شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک و پاکیزہ اور برتر ہے۔
۴۱خود لوگوں ہی کے اپنے ہاتھوں کی کارستانیوں کی بدولت خشک و تر میں فساد پھیل گیا تاکہ جو کچھ یہ لوگ کر چکے ہیں خدا ان کو ان میں سے بعض کرتوتوں کا مزہ چکھا دے گا تاکہ یہ لوگ (اب بھی) باز آئیں۔
۴۲(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ ذرا رُوئے زمین پر چل پھر کر دیکھو تو کہ جو لوگ اس کے قبل گزر گئے ان (کے افعال) کا انجام کیا ہوا ان میں سے بہتیرے تو مشرک ہی ہیں
۴۳تو (اے رسولؐ) تم اپنا رخ مضبوط (اور سیدھے ) دین کی طرف کئے رہو اس دن کے آنے سے پہلے جو خدا کی طرف سے آ کر رہے گا (اور) کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ اس دن لوگ (پریشان ہو کر) الگ الگ ہو جائیں گے۔
۴۴جو کافر بن بیٹھا اس پراس کے کفر کا وبال ہے اور جنہوں نے اچھے کام کیے وہ اپنے ہی لیے آسائش کا سامان کر رہے ہیں
۴۵تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کیے ان کو خدا اپنے فضل (و کرم) سے اچھی جزاء عطا کرے گا۔ وہ یقیناً کفّار سے اُلفت نہیں رکھتا۔
۴۶اسی (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ہواؤں کو (بارش کی)خوشخبری کے واسطے (قبل سے ) بھیج دیا کرتا ہے اور تاکہ تمہیں اپنی رحمت کی لذّت چکھائے اور اس لیے بھی کہ (اس کی بدولت) کشتیاں اس کے حکم سے چل کھڑی ہوں اور تاکہ تم اس کے فضل( و کر)م سے (اپنی روزی کی) تلاش کرو اور اس لیے بھی تاکہ تم شکر کرو۔
۴۷اور (اے رسولؐ) ہم نے تم سے پہلے اور بھی بہت سے پیغمبر ان کی قوموں کے پاس بھیجے تو وہ پیغمبر واضح و روشن معجزے لے کر آئے (مگر ان لوگوں نے نہ مانا) تو ان مجرموں سے ہم نے (خوب) بدلہ لیا اور ہم پر تو مومنین کی مدد کرنا لازم تھا ہی۔
۴۸خدا ہی وہ (قادر و توانا) ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادلوں کو اڑائے اڑائے پھرتی ہیں۔ پھر وہی خدا بادل کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور (کبھی) اس کو ٹکڑے (ٹکڑے ) کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ لوندیاں اس کے درمیان سے نکل پڑتی ہیں۔ پھر جب خدا انہیں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے برسا دیتا ہے تو وہ لوگ خوشیاں منانے لگتے ہیں۔
۴۹اگرچہ یہ لوگ ان پر (بارانِ رحمت) نازل ہونے سے پہلے (بارش سے ) شرو ع ہی سے بالکل مایوس (اور مجبور) تھے۔
۵۰غرض خدا کی رحمت کے آثار کی طرف دیکھو تو کہ وہ کیوں کر زمین کواس کی پڑتی ہونے کے بعد آباد کرتا ہے۔ بے شک یقینی وہی مردوں کو زندہ کرنے والا اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔
۵۱اور اگر ہم (کھیتی کی نقصان دہ) ہوا بھیجیں پھر لوگ کھیتی کو (اسی ہوا کی وجہ سے ) زرد (پژمردہ) دیکھیں تو وہ لوگ اس کے بعد (فوراً )ناشکری کرنے لگیں۔
۵۲(اے رسولؐ) تم تو(اپنی) آواز نہ مُردوں ہی کو سنا سکتے ہو اور نہ بہروں کو سنا سکتے ہو (خصوصاً) جب وہ پیٹھ پھیر کر چلے جائیں۔
۵۳اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے (پھیر کر) راہ پر لا سکتے ہو۔ تم تو بس انہی لوگوں کو سنا (سمجھا) سکتے ہو جو ہماری آیتوں کو دل سے مانیں پھر یہی لوگ اسلام لانے والے ہیں۔
۵۴خدا ہی تو ہے جس نے تمہیں ایک (نہایت) کمزور چیز (نطفہ) سے پیدا کیا پھر اسی نے (تم میں بچپنے کی) کمزوری کے بعد (شباب کی) قوّت عطا کی پھر اسی نے (تم میں جوانی کی ) قوّت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا پیدا کر دیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اور وہی بڑا واقف کار اور (ہر چیز پر) قابو رکھتا ہے۔
۵۵اور جس دن قیامت برپا ہو گی تو گنہگار لوگ قسمیں کھائیں گے کہ وہ (دنیا میں ) گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے یوں ہی لوگ(دنیا میں بھی)افترا پردازیاں کرتے رہے۔
۵۶اور جن لوگوں کو (خدا کی بارگاہ سے ) علم اور ایمان دیا گیا ہے جواب دیں گے کہ(ہائیں ) تم تو خدا کی کتاب کے مطابق روز قیامت تک (برابر) ٹھہرے رہے پھر یہ تو قیامت ہی کا دن ہے مگر تم لوگ تو اس کا یقین ہی نہ رکھتے تھے۔
۵۷تو اس دن سرکش لوگوں کو نہ ان کی عذر معذرت کچھ کام آئے گی اور نہ ان کی شنوائی ہو گی۔
۵۸اور ہم نے تو اس قرآن میں (لوگوں کے سمجھانے کو) ہر طرح کی مثل بیان کر دی۔ اور اگر تم ان کے پاس کوئی سا معجزہ لے آؤ تو بھی یقیناً کفّار بول اٹھیں گے کہ تم لوگ نرے دغا باز ہو۔
۵۹جو لوگ سمجھ (اور علم) نہیں رکھتے ان کے دلوں پر (نظر کر کے ) خدا یوں تصدیق کرتا ہے (کہ یہ ایمان نہ لائیں گے )۔
۶۰تو (اے رسُولؐ) تم صبر کرو بے شک خدا کا وعدہ سچا ہے اور (کہیں ) ایسا نہ ہو کہ جو لوگ (تمہاری) تصدیق نہیں کرتے تمہیں (بہکا کر) خفیف کر دیں۔
٭٭٭
۳۱۔ سورۃ لقمان
۱ ا لٓ مٓ۔
۲یہ (سورۃ) حکمت سے بھری ہوئی کتاب کی آیتیں ہیں
۳جو (ازسرتاپا) نیکوکار لوگوں کے لیے ہدایت و رحمت ہیں۔
۴جو پابندی سے نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہی لوگ آخرت کا بھی یقین رکھتے ہیں۔
۵یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر عامل ہیں اور یہی لوگ (قیامت میں ) اپنی دلی مرادیں پائیں گے
۶اور لوگوں میں کوئی (نضر بن حارث) ایسا ہے جو بیہودہ قصّے (کہانیاں ) خریدتا ہے تاکہ بغیر سمجھے بوجھے (لوگوں کو) خدا کی (سیدھی) راہ سے بھٹکا دے اور آیاتِ خُدا سے مسخرا پن کرے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے بڑا رُسوا کرنے والا عذاب ہے۔
۷اور جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو شیخی کے مارے منہ پھیر کر(اس طرح) چل دیتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سنا ہی نہیں جیسے اس کے دونوں کانوں میں ٹھیٹھی ہے تو (اے رسولؐ)تم اس کو درد ناک عذاب کی (ابھی سے ) خوشخبری دے دو۔
۸بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے ان کے لیے نعمت کے (ہرے بھرے بہشتی) باغ ہیں
۹کہ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ خدا کا پکّا وعدہ ہے اور وہ (تو سب پر) غالب حکمت والا ہے۔
۱۰اس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں کے پیدا کیا جن کو تم دیکھ سکو اور اسی نے زمین پر(بھاری بھاری) پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے کہ (مبادا) تمہیں لے کر کسی طرف جنبش کرے اور اسی نے ہر طرح چل پھر کرنے والے (جانور) زمین میں پھیلائے اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور (اس کے ذریعے سے ) زمین میں ہر رنگ کے نفیس جوڑے پیدا کیے
۱۱(اے رسولؐ ان سے کہہ دو کہ) یہ تو خدا کی خلقت ہے پھر (بھلا) تم لوگ مجھے دکھاؤ تو کہ جو (معبود) خدا کے سوا تم نے بنا رکھے ہیں انہوں نے کیا پیدا کیا بلکہ سرکش لوگ (کفّار) صریحی گمراہی میں (پڑے ) ہیں
۱۲اور یقیناً ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی (اور حکم دیا تھا کہ) تم خدا کا شکر کرو۔ اور جو خدا کا شکر کرے گا وہ اپنے ہی(فائدہ کے ) لیے شکر کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو (اپنا بگاڑا کیونکہ) خدا تو(بہرحال) بے پروا (اور) قابل حمد و ثنا ہے۔
۱۳اور (وہ وقت یاد کرو) جب لقمانؑ نے اپنے بیٹے سے اس کی نصیحت کرتے ہوئے کہا اے بیٹا ! (خبردار کبھی کسی کو)خدا کا شریک نہ بنانا (کیونکہ) شرک یقینی بڑا سخت گناہ ہے (جس کی بخشش نہیں )۔
۱۴اور ہم نے انسان کو جسے اس کی ماں نے دُکھ پر دُکھ سہ کے پیٹ میں رکھا (اس کے علاوہ) دو برس میں (جا کے ) اس کی دودھ بڑھائی کی (اپنے اور ) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی کہ میرا بھی شکریہ ادا کرو اور اپنے والدین کا(بھی اور آخر سب کو) میری طرف لوٹ کر جانا ہے
۱۵اور اگر تیرے ماں باپ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرا شریک ایسی چیز کو قرار دے جس کا تجھے کچھ علم بھی نہیں تو تُو(اس میں ) ان کی اطاعت نہ کر (مگر تکلیف نہ پہنچا) اور دنیا (کے کاموں ) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دے اور اس کے طریقہ پر چل جو (ہر بات میں ) میری (ہی) طرف رجوع کرے پھر تو (آخر) تم سب کی رجوع میری ہی طرف ہے تب (دنیا میں ) جو کچھ تم کرتے تھے (اس وقت اس کا انجام) بتا دونگا۔
۱۶اے بیٹا اس میں شک نہیں کہ وہ عمل (اچھا ہو یا بُرا) اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو اور پھر وہ کسی سخت پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں (چھپا ہوا) ہو تو بھی خدا اُسے (قیامت کے دن) حاضر کر دے گا۔ بے شک خدا بڑا باریک بین واقف کار ہے۔
۱۷اے بیٹا نماز پابندی سے پڑھا کرو اور (لوگوں سے ) اچھا کام کرنے کو کہو اور بُرے کام سے روکو اور جو مصیبت تم پر پڑے اس پر صبر کرو۔ (کیونکہ) بے شک یہ (بڑی) ہمّت کا کام ہے
۱۸اور لوگوں کے سامنے (غرور سے ) اپنا منہ نہ پھلانا اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کیونکہ خدا کسی اکڑنے والے اور اترانے والے کو دوست نہیں رکھتا۔
۱۹اور اپنی چال (ڈھال) میں میانہ روی اختیار کرو اور دوسرے سے بولنے میں ) اپنی آواز دھیمی رکھو۔ کیونکہ آوازوں میں سے تو سب سے بُری آواز (چیخنے کی وجہ سے )گدھوں کی ہے۔
۲۰کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی نے یقینی تمہارا تابع کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دیں اور لوگ (نضر بن حارث وغیرہ) ایسے بھی ہیں جو(خواہ مخواہ) خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں (حالانکہ ان کے ) پاس ) نہ علم ہے اور نہ ہدایت ہے اور نہ کوئی روشن کتاب ہے۔
۲۱اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے نازل کی ہے اس کی پیروی کرو تو (چھوٹتے ہی) کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو اسی(طریقہ) پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ داداؤں کو پایا بھلا اگرچہ شیطان ان کے باپ داداؤں کو جہنم کے عذاب کی طرف بلاتا رہا ہو (تو بھی انہی کی پیروی کریں گے )۔
۲۲اور جو شخص خدا کے آگے اپنا سر (تسلیم) خم کرے اور وہ نیکو کار(بھی)ہو تو بے شک اس نے (ایمان کی) مضبوط رسی پکڑ لی اور (آخر تو) سب کاموں کا انجام خدا ہی کی طرف ہے۔
۲۳اور (اے رسولؐ) جو کافر بن بیٹھے تو تم اس کے کفر سے کڑھو نہیں۔ ان سب کو تو ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے تو جو کچھ ان لوگوں نے کیا ہے (اس کا نتیجہ) ہم بتا دیں گے۔ بے شک خدا دلوں کے راز سے (بھی) خوب واقف ہے۔
۲۴ہم انہیں چند دنوں تک چین کرنے دیں گے پھر انہیں مجبور کر کے سخت عذاب کی طرف کھینچ لائیں گے۔
۲۵اور (اے رسُولؐ) تم اگر ان سے پوچھو کہ سارے آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور کہہ دیں گے کہ اللہ تعالی نے (اے رسولؐ اس پر) تم کہہ دو الحمدللہ۔ مگر ان میں سے اکثر (اتنا بھی) نہیں جانتے ہیں۔
۲۶جو کچھ سارے آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) خدا ہی کا ہے۔ بے شک خدا (ہر چیزسے ) بے پروا (اور بہرحال)قابل حمد و ثنا ہے۔
۲۷اور جتنے درخت زمین میں ہیں سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر اس کی سیاہی بنیں، اور اس کے (ختم ہونے کے ) بعد (اور) سات سمندر (سیاہی ہو جائیں اور خدا کا علم اور اس کی باتیں لکھی جائیں ) تو بھی خدا کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔ بے شک خدا (سب پر) غالب (اور) دانا (بینا) ہے۔
۲۸تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (مرنے کے بعد) جلا اٹھانا ایک شخص کے (پیدا کرنے اور جلا اٹھانے کے ) برابر ہے بے شک خدا (تم سب کی) سنتا اور سب کچھ دیکھ رہا ہے
۲۹کیا تو نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ خدا ہی رات کو (بڑھا کے ) دن میں داخل کر دیتا ہے (تو رات بڑھ جاتی ہے ) اور دن کو (بڑھا کے ) رات میں داخل کر دیتا ہے (تو دن بڑھ جاتا ہے ) اور اسی نے آفتاب و ماہتاب کو (گویا) تمہارا تابع بنا دیا ہے کہ ہر ایک مقرر میعاد تک (یونہی) چلتا رہے گا اور (کیا تو نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ) جو کچھ تم کر رہے ہو خدا اس سے خوب واقف ہے
۳۰یہ (سب باتیں )اس سبب سے ہیں کہ خدا ہی یقینی برحق (معبود) ہے اور اس کے سوا جس کو لوگوں پکارتے ہیں یقینی بالکل باطل ہیں اور اس میں شک نہیں کہ خدا ہی عالیشان اور بڑا رتبے والا ہے۔
۳۱کیا تو نے اس پر بھی غور نہیں کیا کہ خدا ہی کے فضل سے کشتی دریا میں بہتی چلتی رہتی ہے تاکہ (لکڑی میں یہ قوّت دے کر) تم لوگوں کو اپنی (قُدرت کی) بعض نشانیاں دکھا دے بے شک اس میں بھی تمام صبر و شکر کرنے والے (بندوں ) کے لیے (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں
۳۲اور جب انہیں موج (اُونچی ہو کر) سائبانوں کی طرح (اوپر سے ) ڈھانک لیتی ہے تو نرا کھرا اسی کا عقیدہ رکھ کر خدا کو پکارنے لگتے ہیں۔ پھر جب خدا ان کو نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے بعض تو کچھ اعتدال پر رہتے ہیں (اور بعض پکے کافر) اور ہماری (قدرت کی) نشانیوں سے انکار تو بس بد عہد اور ناشکرے لوگ ہی کرتے ہیں۔
۳۳لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو اور اس دن کا خوف رکھو جب نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام آئے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آ سکے گا۔ خدا کا (قیامت کا) وعدہ بالکل پکا ہے تو (کہیں )تم لوگوں کو دُنیا کی (چند روزہ) زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ کہیں تمہیں فریب دینے والا(شیطان) کچھ فریب دے۔
۳۴بے شک خدا ہی کے پاس قیامت (کے آنے ) کا علم ہے۔اور وہی (جب موقع مناسب دیکھتا ہے ) پانی برساتا ہے۔ اور جو کچھ عورتوں کے پیٹ میں (نر یا مادہ) ہے جانتا ہے۔اور کوئی شخص (اتنا بھی تو) نہیں جانتا کہ وہ خود کل کیا کرے گا۔ اور کوئی شخص (یہ بھی) انہیں جانتا ہے کہ وہ کس سرزمین پر مرے (گڑے ) گا بے شک خدا (سب باتوں سے ) آگاہ (اور)خبردار ہے۔
٭٭٭
۳۲۔ سورۃ سجدہ
۱ا لٓ مٓ۔
۲اس میں کچھ شک نہیں کہ کتاب (قرآن) کا نازل کرنا سارے جہان کے پروردگار کی طرف سے ہے۔
۳کیا یہ لوگ (یہ) کہتے ہیں کہ اس کو اس شخص (رسُولؐ) نے اپنے جی سے گھڑ لیا ہے نہیں یہ بالکل تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تاکہ تم ان لوگوں کو (خدا کے عذاب سے ) ڈراؤ جن کے پاس تم سے پہلے کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں تاکہ یہ لوگ راہ پر آئیں۔
۴خدا ہی تو ہے جس نے سارے آسمان اور زمین اور جتنی چیزیں ان دونوں کے درمیان ہیں چھ دن میں پیدا کیں پھر عرش کے بنانے پر آمادہ ہوا۔ اس کے سوا نہ کوئی تمہارا سرپرست ہے نہ کوئی سفارشی۔ تو کیا تم (اس سے بھی) نصیحت و عبرت حاصل نہیں کرتے۔
۵ہر امر کا آسمان سے زمین تک وہی مدبّر (و منتظم) ہے پھر یہ بندوبست اُس دن جس کی مقدار تمہارے شمار سے ہزار برس ہو گی اسی کی بارگاہ میں پیش ہو گا۔
۶وہی (مدبّر) پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا (سب پر) غالب مہربان ہے۔
۷وہ (قادر) جس نے جو چیز بنائی (نکھ سکھ سے ) خوب (درست) بنائی اور انسان کی ابتدائی خلقت مٹی سے کی۔
۸پھر اس کی نسل (انسانی جسم کے ) خلاصہ یعنی (نطفہ جیسے ) ذلیل پانی سے بنائی۔
۹پھر اس (کے پُتلے ) کو درست کیا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اور تم لوگوں کے (سُننے کے ) لئے کان اور (دیکھنے کے لیے ) آنکھیں اور (سمجھنے کے لیے )دل بنائے۔ (اس پر بھی) تم لوگ بہت کم شکر کرتے ہو۔
۱۰اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم زمین میں ناپید ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر نئے جنم لیں گے (قیامت سے نہیں ) بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے (سامنے ) حضوری ہی سے انکار رکھتے ہیں
۱۱(اے رسُولؐ)تم کہہ دو کہ ملک الموت جو تمہارے اوپر تعینات ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
۱۲اور (اے رسُولؐ تم کو بہت افسوس ہو گا) اگر تم مجرموں کو دیکھو گے کہ وہ (حساب کی وقت) اپنے پروردگار کی بارگاہ میں اپنے سرجھکائے کھڑے ہیں اور (عرض کر رہے ہیں ) پروردگار ہم نے (اچھی طرح) دیکھ لیا اور سن لیا تو ہمیں (دُنیا میں ایک دفعہ) پھر لوٹا دے کہ ہم نیک کام کریں۔ اب تو ہم کو (قیامت کا) پورا پورا یقین ہے
۱۳اور (خدا فرمائے گا کہ) اگر ہم چاہتے تو(دُنیا ہی میں ) ہر شخص کو (مجبور کر کے ) راہِ راست پر لے آتے مگر میری طرف سے (روزِ ازل) یہ بات قرار پاچکی ہے کہ میں جہنم کو جنات اور آدمیوں سے بھر دوں گا
۱۴تو چونکہ تم آج کے دن کی حضوری کو بھولے بیٹھے تھے تو اب اس کا مزا چکھو ہم نے تم کو قصداً بھلا دیا اور جیسی جیسی تمہاری کرتوتیں تھیں (ان کے بدلہ) اب ہمیشہ کے عذاب کے مزے چکھو۔
۱۵ہماری آیتوں پر ایمان بس وہی لوگ لاتے ہیں کہ جس وقت انہیں وہ آیتیں یاد دلائی گئیں تو فوراً سجدے میں گر پڑے اور اپنے پروردگار کی حمد و ثنا کی تسبیح پڑھنے لگے اور یہ لوگ تکّبر نہیں کرتے۔
۱۶(رات کے وقت) ان کے پہلو بستروں سے آشنا نہیں ہوتے اور (عذاب کے ) خوف اور (رحمت کی) اُمیّد پر اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں اور ہم نے جو کچھ عطا کیا ہے ان میں سے (خدا کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں۔
۱۷ان لوگوں کی کار گزاریوں کے بدلے میں کیسی کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے ڈھکی چھپی رکھی ہے۔ اس کو تو کوئی شخص جانتا ہی نہیں۔
۱۸تو کیا جو شخص ایماندار ہے اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو بدکار ہے (ہرگز نہیں یہ دونوں ) برابر نہیں ہو سکتے۔
۱۹لیکن جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اچھے کام کیے ان کے لیے تو رہنے (سہنے ) کے (لیے بہشت کے )باغات ہیں۔ یہ سامانِ ضیافت ان کار گزاریوں کا بدلہ ہے جو وہ (دُنیا میں ) کر چکے تھے۔
۲۰اور جن لوگوں نے بدکاری کی ان کا ٹھکانا تو (بس) جہنم ہے۔ وہ جب اس میں سے نکل جانے کا ارادہ کریں گے تو اسی میں پھر دھکیل دیئے جائیں گے۔ اور ان سے کہا جائے گا کہ دوزخ کے جس عذاب کو تم جھٹلاتے تھے اب اس (کے مزے ) کو چکھو۔
۲۱اور ہم یقینی (قیامت کے ) بڑے عذاب سے پہلے دنیا کے (معمولی) عذاب کا مزا چکھائیں گے جو عنقریب ہو گا تاکہ یہ لوگ اب بھی (میری طرف) رجوع کریں۔
۲۲اور جس شخص کو اس کے پروردگار کی آیتیں یاد دلائی جائیں اور وہ ان سے منہ پھیرے اس سے بڑھ کر اور ظالم کون ہو گا۔ ہم گنہگاروں سے انتقام لیں گے اور ضرور لیں گے
۲۳اور (اے رسُولؐ) ہم نے تو موسیٰ ؑ کو بھی (آسمانی) کتاب (توریت) عطا کی تھی تو تم بھی اس کتاب (قرآن) کے (منجانب اللہ) ملنے سے شک میں نہ پڑے رہو اور ہم نے اُس (توریت) کو بنی اسرائیل کے لیے رہنما قرار دیا تھا۔
۲۴اور انہی (بنی اسرائیل) میں سے ہم نے کچھ لوگوں کو چونکہ انہوں نے (مصیبتوں پر) صبر کیا تھا پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے۔اور (اس کے علاوہ) ہماری آیتوں کا دل سے یقین رکھتے تھے۔
۲۵(اے رسُولؐ) اس میں شک نہیں کہ جن باتوں میں لوگ (دُنیا میں ) باہم جھگڑتے رہتے ہیں قیامت کے دن تمہارا پروردگار قطعی فیصلہ کر دے گا
۲۶کیا ان کی ہدایت نہیں کی اس بات نے کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی اُمّتوں کو ہلاک کر ڈالا جن کے گھروں میں یہ لوگ چل پھر رہے ہیں۔ بے شک اس میں (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔ تو کیا یہ لوگ سنتے نہیں ہیں
۲۷کیا ان لوگوں نے اس پر بھی غور نہیں کیا کہ ہم چٹیل میدان (افتادہ) زمین کی طرف پانی کو جاری کرتے ہیں پھر اس کے ذریعے سیہم گھاس پات اُگاتے ہیں جسے ان کے جانور اور یہ خود بھی کھاتے ہیں تو کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں دیکھتے۔
۲۸اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم لوگ سچّے ہو (کہ قیامت آئے گی) تو (آخر) یہ فیصلہ کب ہو گا۔
۲۹(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ فیصلہ کے دن کفّار کو ان کا ایمان لانا کچھ کام نہ آئے گا۔ اور نہ ان کو (اس کی) مہلت دی جائے گی۔
۳۰غرض تم ان کی باتوں کا خیال چھوڑ دو اور تم منتظر رہو (آخر) وہ لوگ بھی تو انتظار کر رہے ہیں۔
٭٭٭
۳۳۔ سورۃ احزاب
۱اے نبیؐ خدا ہی سے ڈرتے رہو اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو۔ اس میں شک نہیں کہ خدا بڑا واقف کار ہے۔
۲اور بس اسی کی پیروی کرو جو جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس جو وحی کی جاتی ہے تم لوگ جو کچھ کر رہے ہو خدا اس سے یقینی اچھی طرح آگاہ ہے۔
۳اور خدا پر بھروسہ رکھو اور خدا ہی کارسازی کے لیے کافی ہے۔
۴خدا نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں پیدا کیے (کہ ایک ہی وقت دو ارادے کرسکے ) اور نہ اس نے تمہاری بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری مائیں بنا دیا ہے۔ اور نہ اس نے تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے بنا دیا ہے۔ یہ تو فقط تمہاری منہ بولی بات (اور زبانی جمع خرچ) ہے۔ اور (چاہے کسی کو بُری لگے یا اچھی) خدا تو سچّی کہتا ہے اور (سیدھی) راہ دکھاتا ہے۔
۵لے پالکوں کو ان کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو یہی خدا کے نزدیک بہت ٹھیک ہے۔ ہاں اگر تم لوگ ان کے (اصلی) باپوں کو نہ جانتے ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں (انہیں بھائی، دوست کہہ کر پکارا کرو)۔ اور ہاں اس میں بھول چوک جاؤ تو البتہ اس کا تم پر کوئی الزام نہیں۔ مگر جب تم دل سے جان بوجھ کر کرو (تو ضرور گناہ ہے ) اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۶نبی تو مومنین سے خود ان کی جانوں سے بھی بڑھ کر حق رکھتے ہیں (کیونکہ وہ گویا اُمّت کے مہربان باپ ہیں ) اور اُن کی بیویاں (گویا) ان کی مائیں ہیں۔ اور مومنین و مہاجرین میں سے (جو لوگ باہم) قرابت دار ہیں کتابِ خدا کی روسے (غیروں کی نسبت) ایک دوسرے کے (ترکے کے )زیادہ حقدار ہیں مگر (جب) تم اپنے دوستوں کے ساتھ سلوک کرنا چاہو (تو دوسری بات ہے ) یہ تو کتاب (خدا) میں لکھا ہوا (موجود) ہے۔
۷اور (اے رسُولؐ وہ وقت یاد کرو)جب ہم نے (اور) پیغمبروں سے اور خاص تم سے اور نوحؑ اور ابراہیمؑ و موسیٰؑ اور مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ سے عہد و پیمان لیا اور ان لوگوں سے ہم نے سخت عہد لیا تھا
۸تاکہ (قیامت کے دن) سچّوں (پیغمبروں ) سے ان کی سچّائی (تبلیغ رسالت) کا حال دریافت کرے۔ اور کافروں کے واسطے تو اس نے دردناک عذاب تیار کر ہی رکھا ہے۔
۹اے ایماندارو خدا کی ان نعمتوں کو یاد کرو جو اس نے تم پر نازل کی ہیں (جنگ خندق میں ) جب تم پر (کافروں کا) لشکر (اُمنڈ کے ) آ پڑا تو ہم نے (تمہاری مدد کو) ان پر آندھی بھیجی اور (اس کے علاوہ فرشتوں کا) ایسا لشکر (بھیجا)جس کو تم نے دیکھا تک نہیں۔ اور تم جو کچھ کر رہے ہو خدا اسے خوب دیکھ رہا تھا۔
۱۰جس وقت وہ لوگ تم پر تمہارے اوپر سے آ پڑے اور تمہارے نیچے کی طرف سے بھی پل گئے اور جس وقت (ان کی کثرت سے )تمہاری آنکھیں خیرہ ہو گئی تھیں اور (خوف سے ) کلیجے منہ کو آ گئے تھے اور خدا پر طرح طرح کے (بُرے ) خیال کرنے لگے تھے۔
۱۱یہاں پر مومنوں کا امتحان لیا گیا تھا اور خوب اچھی طرح جھنجوڑے گئے تھے۔
۱۲اور جس وقت منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (کفر کا) مرض تھا کہنے لگے تھے کہ خدا نے اور اس کے رسُولؐ نے جو ہم سے وعدے کیے تھے وہ بس بالکل دھوکے کی ٹٹی تھی۔
۱۳اور جب ان میں کا ایک گروہ کہنے لگا تھا کہ اے یثرب والو اب (دشمن کے مقابلہ میں ) تمہارا کہیں ٹھکانا نہیں تو(بہتر ہے کہ ابھی بھی)پلٹ چلو اور ان میں سے کچھ لوگ رسُولؐ سے (گھر لوٹ جانے کی) اجازت مانگنے لگے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارے گھر (مردوں سے ) بالکل خالی (غیر محفوظ) پڑے ہوئے ہیں حالانکہ وہ خالی (غیر محفوظ)نہ تھے (بلکہ) وہ لوگ تو (اسی بہانہ سے )بس بھاگنا چاہتے ہیں۔
۱۴اور اگر (ایسا ہی لشکر) ان لوگوں پر مدینہ کے اطراف سے آ پڑے اور ان سے فساد (خانہ جنگی) کرنے کی درخواست کی جائے تو یہ لوگ اس کے لیے فوراً آ موجود ہوں اور (اس وقت) اپنے گھروں میں بھی بہت کم توقف کریں گے۔ (مگر یہ تو جہاد ہے )
۱۵حالانکہ ان لوگوں نے پہلے ہی سے خدا سے عہد کیا تھا کہ ہم (دشمن کے مقابلہ میں اپنی)پیٹھ نہ پھیریں گے اور خدا کے عہد کی پوچھ گچھ تو (ایک نہ ایک دن) ہو کر رہے گی۔
۱۶(اے رسُولؐ ان سے ) کہہ دوکہ اگر تم موت یا قتل کے خوف سے بھاگے بھی تو (یہ) بھاگنا تمہیں ہرگز کچھ بھی مفید نہ ہو گا اور (اگر تم بھاگ کر بچ بھی گئے تو) بس یہی نا کہ (دُنیا میں ) چند روز اور چین کر لو۔
۱۷(اے رسُولؐ) تم ان سے کہہ دو کہ خدا تمہارے ساتھ برائی کا ارادہ کر بیٹھے تو تمہیں اس (کے عذاب) سے کون ایسا ہے جو بچا لے یا بھلائی ہی کرنا چاہے ( تو کون روک سکتا ہے ) اور یہ لوگ خدا کے سوا نہ تو کسی کو اپنا سرپرست پائیں گے اور نہ مددگار۔
۱۸تم میں سے خدا ان کو خوب جانتا ہے جو لوگ (دوسروں کو جہاد سے ) روکتے ہیں اور (ان کو بھی خوب جانتا ہے ) جو اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے بھی آؤ اور خود بھی (فقط چھدا چھڑانے کو)لڑائی (کے کھیت) میں بس
۱۹ایک ذرا ساآ کر تم سے اپنی جان چرائی اور چل دیئے اور جب (ان پر) کوئی خوف (کا موقع) آ پڑا تو تم دیکھتے ہو کہ(یاس سے ) تمہاری طرف دیکھتے ہیں اور ان کی آنکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے کسی شخص پر موت کی بیہوشی چھا جائے۔پھر جب خوف (کا موقع) جاتا رہا اور (اور ایمانداروں کی فتح ہوئی) تو مالِ (غنیمت) پر گرتے پڑتے فوراً تم پر اپنی تیز زبانوں سے طعن کرنے لگے یہ لوگ (شروع سے ) ایمان ہی نہیں لائے (فقط زبانی جمع خرچ تھا) تو خدا نے بھی ان کا کیا کرایا سب اکارت کر دیا اور یہ تو خدا کے واسطے ایک (نہایت)آسان بات تھی۔
۲۰(مدینہ کا محاصرہ کرنے والے چل بھی دیئے مگر) یہ لوگ ابھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ (کافروں کے ) لشکر ابھی نہیں گئے اور اگر کہیں (کفّار کا) لشکر پھر آ پہنچے تو یہ لوگ چاہیں گے کہ کاش وہ جنگلوں میں گنواروں میں جابستے اور (وہیں سے بیٹھے بیٹھے ) تمہارے حالات دریافت کرتے رہتے اور اگر ان کو تم لوگوں میں رہنا پڑتا تو فقط (چھدا چھڑانے کو) بہت کم لڑتے۔
۲۱(مسلمانو) تمہارے واسطے تو خود رسُولؐ اللہ کا (خندق میں بیٹھنا) ایک اچھا نمونہ تھا (مگر ہاں یہ) اس شخص کے واسطے ہے جو خدا اور روز آخرت کی اُمیّد رکھتا ہو۔ اور خدا کی یاد بکثرت کرتا ہو۔
۲۲اور جب سچّے ایمانداروں نے (کفّار کے ) جمگھٹوں کو دیکھا تو (بے تکلّف) کہنے لگے کہ یہ وہی چیز تو ہے جس کا ہم سے خدا نے اور اس کے رسُولؐ نے وعدہ کیا تھا (اس کی پرواہ کیا ہے ) اور خدا نے اور اس کے رسُولؐ نے بالکل ٹھیک کہا تھا اور (اس کے دیکھنے سے ) ان کا ایمان اور ان کی اطاعت اور بھی زیادہ ہو گئی۔
۲۳ایمانداروں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ خدا سے انہوں نے (جاں نثاری) کا جو عہد کیا تھا اسے پورا کر دکھایا غرض ان میں سے بعض وہ ہیں جو (مَر کر) اپنا وقت پورا کر گئے اور ان میں بعض (حکمِ خدا کے )منتظر بیٹھے ہیں اور ان لوگوں نے (اپنی بات) ذرا بھی نہیں بدلی۔
۲۴(یہ امتحان اس لیے تھا) تاکہ خدا سچّے (ایمانداروں ) کو ان کی سچّائی کی جزائے خیر دے اور اگر چاہے تو منافقین کی سزا کرے یا (اگر وہ لوگ توبہ کریں تو خدا) ان کی توبہ قبول فرمائے اس میں شک نہیں کہ خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۲۵اور خدا نے (اپنی قدرت سے ) کافروں کو مدینہ سے پھیر دیا (اور وہ لوگ) اپنی جھنجھلاہٹ میں (پھر گئے ) اور انہیں کچھ فائدہ بھی نہ ہوا۔ اور خدا نے (اپنی مہربانی سے ) مومنین کو لڑنے کی نوبت نہ آنے دی اور خدا تو (بڑا) زبردست (اور) غالب ہے۔
۲۶اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں (بنی قریظہ) نے ان (کفّار) کی مدد کی تھی خدا ان کو ان کے قلعوں سے (بے دخل کر کے ) نیچے اتار لایا اور ان کے دلوں میں (تمہارا) ایسا رعب بٹھا دیا کہ تم ان کے کچھ لوگوں کو قتل کرنے لگے اور کچھ لوگوں کو قیدی (اور غلام) بنائے
۲۷اور تم ہی لوگوں کو ان کی زمین اور ان کے گھر اور ان کے مال اور اس زمین (خیبر) کا خدا نے مالک بنا دیا جس میں تم نے قدم تک نہیں رکھا تھا۔ اور خدا تو ہر چیز پر قادر (و توانا) ہے۔
۲۸اے رسُولؐ اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم فقط دُنیاوی زندگی اور اس کی آرائش و زینت کی خواہاں ہو تو ادھر آؤ میں تم لوگوں کو کچھ ساز و سامان دے دوں اور عنوانِ شائستہ سے رخصت کر دوں۔
۲۹اور اگر تم لوگ خدا اور اس کے رسُولؐ اور آخرت کے گھر کی خواہاں ہو تو (اچھی طرح خیال رکھو) کہ تم لوگوں میں سے نیکو کار عورتوں کے لیے خدا نے یقیناً بڑا (بڑا) اجر (و ثواب) مہیّا کر رکھا ہے۔
۳۰اے پیغمبرؐ کی بیویو! تم میں سے جو کوئی کسی صریحی ناشائستہ حرکت کی مرتکب ہوئی تو (یاد رہے کہ) اس کا عذاب بھی دُگنا بڑھا دیا جائے گا۔اور خدا کے واسطے یہ (نہایت) آسان ہے۔
۳۱اور تم میں سے جو (بی بی) خدا اور اس کے رسولؐ کی تابعداری اور اچھے (اچھے ) کام کرے گی اس کو ہم اس کا ثواب بھی دوہرا عطا کریں گے اور ہم نے اس کے لیے (جنت میں ) عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔
۳۲اے نبی کی عورتو! تم اور معمولی عورتوں کی سی تو ہو نہیں (پس) اگر تم کو پرہیزگاری منظور ہے تو (اجنبی آدمی سے ) بات کرنے میں نرم نرم (لگی لپٹی) بات نہ کرو تاکہ جس کے دل میں (شہوت زنا کا) مرض ہے وہ (کچھ) اور آرزو (نہ) کرے اور (صاف صاف) عنوان شائستہ سے بات کیا کرو۔
۳۳اور اپنے گھروں میں نچلی بیٹھی رہو اور اگلے زمانہ جاہلیت کی طرح اپنا بناؤ سنگار نہ دکھاتی پھرو اور پابندی سے نماز پڑھا کرو اور (برابر) زکوٰۃ دیا کرو اور خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اے (پیغمبرؑ کے ) اہلبیت خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو(ہر طرح کی) برائی سے دُور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے۔
۳۴اور (اے نبی کی بیبیو!) تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں اور (عقل و) حکمت (کی باتیں ) پڑھی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو۔ بے شک خدا بڑا باریک بین واقف کار ہے۔
۳۵(دل لگا کے سُنو) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان دار مرد اور ایمان دار عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور راستباز مرد اور راستباز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور خدا کی بکثرت یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں بے شک ان سب لوگوں کے واسطے خدا نے مغفرت اور بڑا (بڑا) ثواب مہیّا کر رکھا ہے۔
۳۶اور نہ کسی ایمان دار مرد کو یہ مناسب ہے اور نہ کسی ایمان دار عورت کو کہ جب خدا اور اُس کا رسولؐ کسی کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کام (کے کرنے نہ کرنے )کا اختیار ہو اور (یاد رہے کہ) جس شخص نے خدا اور اس کے رسولؐ کی فرمانی کی یہ یقیناً کھلم کھلا گمراہی میں مبتلا ہو چکا۔
۳۷اور (اے رسولؐ وہ وقت یاد کرو) جب تم اس شخص (زید) سے کہہ رہے تھے جس پر خدا نے احسان (الگ) کیا تھا اور تم نے اس پر (الگ) احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دے اور خدا سے ڈر اور تم اس بات کو اپنے دل میں چھپاتے تھے جس کو(آخرکار) خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ خدا اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تم اس سے ڈرو غرض جب زید اپنی حاجت پوری کر چکا (طلاق دے دی) تو ہم نے (حکم دے کر) اس عورت (زینب کا نکاح تم سے کر دیا تاکہ عام مومنین کو اپنے لے پالک لڑکوں کی بیبیوں (سے نکاح کرنے ) میں جب وہ اپنا مطلب ان عورتوں سے پورا کر چکیں (طلاق دے دیں )کسی طرح کی تنگی نہ رہے۔ اور خدا کا حکم تو کیا کرایا ہوا (قطعی) ہوتا ہے۔
۳۸جو حکم خدا نے پیغمبر پر فرض کر دیا اس (کے کرنے )میں اس پر کوئی مضائقہ نہیں۔ جو لوگ (ان سے ) پہلے گزر چکے ہیں ان کے بارے میں بھی خدا کا (یہی) دستور (جاری) رہا ہے (کہ نکاح میں تنگی نہ کی)۔ اور خدا کا حکم تو (ٹھیک) اندازے سے مقرر کیا ہوا ہوتا ہے۔
۳۹وہ لوگ جو خدا کے پیغاموں کو(لوگوں تک جوں کا توں ) پہنچاتے تھے اور اس سے ڈرتے تھے اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے (پھر تم کیوں ڈرتے ہو )اور حساب لینے کے واسطے تو خدا کافی ہے۔
۴۰(لوگو) محمدؐ تمہارے مردوں میں سے (حقیقتاً) کسی کے باپ نہیں ہیں (پھر زید کی بی بی کیوں حرام ہونے لگی) بلکہ اللہ کے رسولؐ اور نبیوں کی مُہر(یعنی ختم کرنے والے ) ہیں۔ اور خدا تو ہر چیز سے خوب واقف ہے۔
۴۱اے ایماندارو! خدا کی یاد بہ کثرت کیا کرو
۴۲اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو
۴۳وہ وہی ہے جو خود تم پر درود (رحمت) بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے (بھی) تاکہ تم کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی میں لے جائے۔ اور خدا تو ایمانداروں پر بڑا مہربان ہے۔
۴۴جس دن اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے (اس دن) ان کی مدارات (اس کی طرف سے ہر قسم کی) سلامتی ہو گی اور خدا نے تو ان کے واسطے بہت اچھا بدلہ (بہشت) تیار کر رکھا ہے۔
۴۵اے نبیؐ ہم نے تم کو (لوگوں کا) گواہ اور (نیکوں کو بہشت کی) خوشخبری دینے والا اور (بدوں کو) عذاب سے ڈرانے والا
۴۶اور خدا کی طرف اسی کے حکم سے بلانے والا اور (ایمان و ہدایت کا) روشن چراغ بنا کر بھیجا۔
۴۷اور تم مومنین کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لیے خدا کی طرف سے بہت بڑی (مہربانی اور ) بخشش ہے۔
۴۸اور (اے رسُولؐ) تم (کہیں ) کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کرنا اور ان کی ایذا رسانی کا خیال چھوڑ دو اور خدا پر بھروسا رکھو اور کارسازی میں خدا کافی ہے۔
۴۹اے ایماندارو جب تم مومنہ عورتوں سے (بغیر مہر مقرر کیے ) نکاح کرو اور اس کے بعد انہیں اپنے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو پھر تم کو ان پر کوئی حق نہیں کہ (ان) سے عدۃ پورا کراؤ ان کو تو کچھ (کپڑے روپے وغیرہ) دے کر عنوان شائستہ سے رخصت کر دو۔
۵۰اے نبیؐ ہم نے تمہارے واسطے تمہاری ان بیبیوں کو حلال کر دیا ہے جن کو تم مہر دے چکے ہو اور تمہاری ان لونڈیوں کو (بھی) جو خدا نے تم کو (بغیر لڑے بھڑے ) مالِ غنیمت میں عطا کی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ ہجرت کر کے آئی ہیں (حلال کر دیں ) اور ہر ایمان دار عورت (بھی حلال کر دی)اگر وہ اپنے کو (بغیر مہر) نبی کو دے دے اور نبیؐ بھی اس سے نکاح کرنا چاہتے ہوں مگر (اے رسولؐ) یہ حکم صرف تمہارے واسطے خاص ہے اور مومنین کے لیے نہیں۔اور ہم نے جو کچھ (مہر یا قیمت) عام مومنین پر ان کی بیبیوں اور ان کی لونڈیوں کے بارے میں مقرر کر دیا ہے ہم خوب جانتے ہیں اور (تمہاری رعایت اس لیے ہے ) تاکہ تم کو (بیبیوں کی طرف سے ) کوئی دقت نہ ہو۔ اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۵۱ان میں سے جس کو (جب) چاہو الگ کر دو اور جس کو(جب تک) چاہو اپنے پاس رکھو۔ اور جن عورتوں کو تم نے الگ کر دیا تھا اگر پھر تم ان کے خواہاں ہو تو بھی تم پر کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ (اختیار جو تم کو دیا گیا ہے ) ضرور اس قابل ہے کہ تمہاری بیویوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور آزردہ خاطر نہ ہوں اور جو کچھ تم انہیں دے دو سب کی سب اس پر راضی رہیں۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا اس کو خوب جانتا ہے اور خدا تو بڑا واقف کار بردبار ہے۔
۵۲(اے رسولؐ) اب ان (نو) کے بعد (اور) عورتیں تمہارے واسطے حلال نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بدلہ (ان میں سے کسی کو چھوڑ کر) اور بیویاں کر لو اگرچہ تم کو ان کا حسن کیسا ہی بھلا (کیوں نہ) معلوم ہو مگر تمہاری لونڈیاں (اس کے بعد بھی جائز ہیں ) اور خدا تو ہر چیز کا نگراں ہے۔
۵۳اے ایماندارو! تم لوگ پیغمبرؐ کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر جب تم کو کھانے کے واسطے (اندر آنے کی) اجازت دی جائے (لیکن) اس کے پکنے کا انتظار (نبیؐ کے گھر بیٹھ کر) نہ کرو مگر جب تم کو بلایا جائے تو (ٹھیک وقت پر) جاؤ پھر جب کھا چکو تو (فوراً) اپنی اپنی جگہ) چلے جایا کرو اور باتوں میں نہ لگ جایا کرو۔ کیونکہ اس سے پیغمبرؐ کو اذیّت ہوتی ہے تو وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور خدا تو ٹھیک (ٹھیک کہنے ) سے جھینپتا نہیں اور جب پیغمبر کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو یہی تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے واسطے بہت صفائی کی بات ہے۔ اور تمہارے واسطے یہ جائز نہیں کہ رسول اللہؐ کو (کسی طرح) اذیت دو اور نہ یہ جائز ہے کہ تم اس کے بعد کبھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو بے شک یہ خدا کے نزدیک بڑا (گناہ) ہے۔
۵۴تم چاہے کسی چیز کو ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ خدا تو (بہرحال) ہر چیز سے یقینی خوب آگاہ ہے۔
۵۵عورتوں پر نہ اپنے باپ داداؤں (کے سامنے ہونے ) میں کچھ گناہ ہے اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ بھتیجوں کے اور نہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی (قسم کی) عورتوں کے اور نہ اپنی لونڈیوں کے (سامنے ہونے میں کچھ گناہ ہے۔ اے پیغمبرؐ کی بیبیو) تم لوگ خداسے ڈرتی رہو۔ اس میں شک نہیں کہ خدا (تمہارے اعمال میں ) ہر چیز سے واقف ہے۔
۵۶اس میں بھی شک نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبرؐ (اور ان کی آل ) پر درود بھیجتے ہیں۔ تو اے ایماندارو! تم بھی درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو۔
۵۷بے شک جو لوگ خدا اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں ان پر خدا نے دنیا اور آخرت (دونوں ) میں لعنت کی ہے اور ان کے لیے رسوائی کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
۵۸اور جو لوگ ایماندار مرد اور عورتوں کو بغیر کچھ کیے دھرے (تہمت دے کر) اذیت دیتے ہیں تو وہ ایک بہتان اور صریحی گناہ (کا بوجھ اپنی گردن پر) اُٹھاتے ہیں
۵۹اے نبیؐ اپنی بیویوں اور اپنی لڑکیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلتے وقت) اپنے (چہروں اور گردنوں ) پر اپنی چادروں کا گھونگٹ لٹکا لیا کرو یہ ان کی (شرافت کی) پہچان کے واسطے بہت مناسب ہے تو انہیں کوئی چھیڑے گا نہیں اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے
۶۰(اے رسولؐ) منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (کفر کا) مرض ہے اور جو لوگ مدینہ میں بُری خبریں اڑایا کرتے ہیں اگر یہ لوگ (اپنی شرارتوں سے ) باز نہ آئیں گے تو ہم تم ہی کو (ایک نہ ایک دن) ان پر مسلط کر دیں گے پھر وہ تمہارے پڑوس میں چند روزوں کے سوا ٹھہرنے (ہی) نہ پائیں گے۔
۶۱لعنت کے مارے جہاں کہیں ہتھے چڑھے پکڑے گئے اور پھر بُری طرح مار ڈالے گئے۔
۶۲جو لوگ پہلے گزر گئے ان کے بارے میں (بھی) خدا کی (یہی) عادت (جاری) رہی۔ اور تم خدا کی عادت میں ہرگز تغیّر و تبّدل نہ پاؤ گے۔
۶۳(اے رسولؐ) لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھا کرتے ہیں تو (ان سے ) کہہ دو کہ اس کا علم تو بس خدا کو ہے اور تم کیا جانو شاید قیامت قریب ہی ہو۔
۶۴خدا نے تو کافروں پر یقیناً لعنت کی ہے اور ان کے لیے جہنم کو تیار کر رکھا ہے
۶۵جس میں وہ ہمیشہ ابد الآباد رہیں گے۔ اور نہ کسی کو اپنا سرپرست پائیں گے نہ مددگار۔
۶۶جس دن ان کے منہ جہنم میں اُلٹے پَلٹے جائیں گے تو (اس دن افسوس ناک لہجہ میں ) کہیں گے اے کاش ہم نے خدا کی اطاعت کی ہوتی اور رسولؐ کا کہنا مانا ہوتا
۶۷اور کہیں گے کہ پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہنا مانا تو انہوں نے ہی ہمیں گمراہ کر دیا۔
۶۸پروردگارا (ہم پر تو عذاب ہی ہے مگر)ان لوگوں پر دوہرا عذاب نازل کر اور ان پر بڑی سے بڑی لعنت کر۔
۶۹اے ایمان والو (خبردار کہیں ) تم لوگ بھی ان کے سے نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰؑ کو تکلیف دی تو خدا نے ان کی تہمتوں سے موسیٰؑ کو بری کر دیا اور موسیٰؑ خدا کے نزدیک ایک رودار (پیغمبر) تھے۔
۷۰اے ایمان والو خدا سے ڈرتے رہو اور (جب کہو تو) درست بات کہا کرو۔
۷۱تو خدا تمہاری کار گزاریوں کو درست کر دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کو خوب اچھی طرح پہنچ گیا۔
۷۲بے شک ہم نے (روز ازل) اپنی امانت (اطاعت عبادت) کو سارے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کے (بار) اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اسے (بے تامل) اٹھا لیا بے شک انسان (اپنے حق میں ) بڑا ظالم (اور) نادان ہے۔
۷۳(اس کا) نتیجہ یہ ہوا کہ خدا منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو (ان کے کیے کی سزادے گا اور ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کی (تقصیر امانت کی) توبہ خدا قبول فرمائے گا۔اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
٭٭٭
۳۴۔ سورۃ سبا
۱ہر قسم کی تعریف اسی خدا کے لیے (دنیا میں بھی) سزاوار ہے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے غرض سب کچھ) اسی کا ہے اور آخرت میں (بھی ہر طرف) اسی کی تعریف ہے۔ اور وہی واقف کار حکیم ہے۔
۲جو(جو) چیز (بیج وغیرہ) زمین میں داخل ہوئی ہے اور جو چیز (درخت وغیرہ) اس میں سے نکلتی ہے اور جو چیز(پانی وغیرہ) آسمان سے نازل ہوتی ہے اور جو چیز (بخارات فرشتے وغیرہ) اس پر چڑھتی ہے (سب کو) جانتا ہے اور وہی بڑا مہربان بڑا بخشنے والا ہے۔
۳اور کفّار کہنے لگے کہ ہم پر تو قیامت آئے ہی گی نہیں (اے رسولؐ) تم کہہ دو ہاں (ہاں ) مجھ کو اپنے اس عالم الغیب پروردگار کی قسم ہے جس سے ذرہ برابر (کوئی چیز) نہ آسمان میں چھپی ہوئی ہے اور نہ زمین میں کہ قیامت ضرور ضرور آئے گی اور ذرّہ سے چھوٹی چیز اور ذرّہ سے بڑی (غرض جتنی چیزیں ہیں سب) واضح و روشن کتاب (لوح محفوظ) میں محفوظ ہیں۔
۴تاکہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے ) کام کیے ان کو خدا جزائے خیر دے یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے (گناہوں کی) مغفرت اور (بہت ہی)عزت کی روزی ہے۔
۵اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں (کے توڑ) میں مقابلہ کی دوڑ دھوپ کی ان ہی کے لیے دردناک عذاب کی سزا ہو گی
۶اور (اے رسولؐ) جن لوگوں کو (ہماری بارگاہ سے ) علم عطا کیا گیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جو قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے بالکل ٹھیک ہے اور سزاوار حمد (و ثنا) غالب (خدا) کی راہ دکھاتا ہے
۷اور کفّار (مسخرا پن سے باہم)کہتے ہیں کہ کہو تو ہم تمہیں ایسا آدمی (محمدؐ) بتا دیں جو تم سے بیان کرے گا کہ جب تم (مر کر سڑ گل جاؤ گے اور ) بالکل ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے۔ تم یقیناً ایک نئے جنم میں آؤ گے
۸کیا اس شخص (محمدؐ) نے خدا پر جھوٹ طوفان باندھا ہے یا اسے جنون (ہو گیا) ہے (نہ محمدؐ جھوٹا ہے نہ اسے جنون ہے ) بلکہ خود وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے عذاب اور پرلے درجہ کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں
۹تو کیا ان لوگوں نے آسمان اور زمین کی طرف بھی جو ان کے آگے اور ان کے پیچھے (سب طرف سے گھیرے ) ہیں غور نہیں کیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان لوگوں کو زمین میں دھنسا دیں۔یا ان پر آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی گرا دیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ اس میں ہر رجوع کرنے والے بندہ کے لیے یقینی بڑی عبرت ہے
۱۰اور ہم نے یقیناً داؤدؑ کو اپنی بارگاہ سے بزرگی عنایت کی تھی (اور پہاڑوں کو حکم دیا) کہ اے پہاڑو تسبیح کرنے میں ان کا ساتھ دو اور پرند کو (تابع کر دیا) اور ان کے واسطے لوہے کو (موم کی طرح) نرم کر دیا تھا
۱۱کہ فراخ و کشادہ زر ہیں بناؤ اور (کڑیوں کے ) جوڑنے میں اندازہ کا خیال رکھو اور تم سب کے سب اچھے (اچھے ) کام کرو جو کچھ تم لوگ کرتے ہو میں یقیناً دیکھ رہا ہوں
۱۲اور ہوا کو سلیمانؑ کا (تابعدار بنا دیا تھا) کہ اس کی صبح کی رفتار ایک مہینہ (مسافت) کی تھی اور (اسی طرح)اس کی شام کی رفتار ایک مہینہ (کی مسافت) کی تھی۔ اور ہم نے ان کے لئے تانبے (کو پگھلا کر اس) کا چشمہ جاری کر دیا تھا اور جنات (کو ان کا تابع کر دیا تھا کہ ان) میں کچھ لوگ ان کے پروردگار کے حکم سے ان کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں سے جس نے ہمارے حکم سے انحراف کیا اسے ہم (قیامت میں )جہنم کے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
۱۳(غرض) سلیمانؑ کو جو بنوانا منظور ہوتا یہ جنات ان کے لیے بناتے تھے جیسے مسجدیں محل قلعے اور (فرشتے، انبیا کی) تصویریں اور حوضوں کے برابر پیالے اور (ایک جگہ) گڑی ہوئی (بڑی بڑی)دیگیں (کہ ایک ہزار آدمی کا کھانا پک سکے ) اے داؤدؑ کی اولاد شکر کرتے رہو اور میرے بندوں میں سے شکر کرنے والے (بندے ) تھوڑے سے ہیں
۱۴پھر جب ہم نے سلیمان کی موت کا حکم جاری کیا تو (مر گئے مگر لکڑی کے سہارے کھڑے تھے اور ) جنات کو کسی نے ان کے مرنے کا پتہ نہ بتایا مگر زمین کی دیمک نے کہ وہ سلیمانؑ کے عصا کو کھا رہی تھی پھر (جب کھوکھلا ہو کر ٹوٹ گیا اور ) سلیمانؑ (کی لاش) گری تو جنات نے جانا کہ اگر وہ لوگ غیب داں ہوتے تو (اس) ذلیل کرنے والی (کام کرنے کی) مصیبت میں نہ مبتلا رہتے۔
۱۵اور (قوم) سبا کے لیے تو یقیناً خود انہی کے گھروں میں (قدرتِ خدا کی) ایک بڑی نشانی تھی (کہ ان کے شہر کے دونوں طرف) داہنے بائیں (ہرے بھرے ) باغات تھے۔(اور ان کو حکم تھا کہ) اپنے پروردگار کی دی ہوئی روزی کھاؤ (پیو) اور اس کا شکر ادا کرو (دنیا میں ) کیسا پاکیزہ شہر اور (آخرت میں ) پروردگار سا بخشنے والا۔
۱۶اس پر بھی ان لوگوں نے منہ پھیر لیا (اور پیغمبروں کا کہا نہ مانا) تو ہم نے (ایک ہی بند توڑ کر) ان پر بڑے زوروں کا سیلاب بھیج دیا اور (ان کو تباہ کر کے ) ان کے دونوں باغوں کے بدلے ایسے دو باغ دیئے جن کے پھل بدمزہ تھے اور ان میں جھاؤ تھا اور کچھ تھوڑی سی بیریاں تھیں۔
۱۷یہ ہم نے ان کی ناشکری کی سزا دی اور ہم تو بڑے ناشکروں ہی کی سزا کیا کرتے ہیں
۱۸اور ہم نے اہل سبا اور (شام کی) ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت عطا کی تھی اور چند بستیاں (سرراہ) آباد کی تھیں جو باہم نمایاں تھیں اور ہم نے ان میں آمدورفت (کی راہ) مقرر کی تھی۔ کہ ان میں راتوں کو دنوں کو (جب جی چاہے ) بے کھٹکے چلو پھرو۔
۱۹تو وہ لوگ خود کہنے لگے پروردگارا (قریب کے سفر میں لطف نہیں ) تو ہمارے سفروں میں دوری پیدا کر دے اور ان لوگوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا تو ہم نے بھی ان کو (تباہ کر کے ان کے ) افسانے بنا دیئے اور ان کی دھجیاں اڑا کے ) ان کو تتّر بتر کر دیا بے شک اس میں ہر صبر و شکر کرنے والے کے واسطے بڑی عبرتیں ہیں۔
۲۰اور شیطان نے اپنے خیال کو (جو ان کے بارے میں کیا تھا) سچ کر دکھایا تو ان لوگوں نے اس کی پیروی کی مگر ایمانداروں کا ایک گروہ (نہ بھٹکا)۔
۲۱اور شیطان کا ان لوگوں پر کچھ قابو تو تھا نہیں مگر یہ (مطلب تھا) کہ ہم ان لوگوں کو جو آخرت کا یقین رکھتے ہیں ان لوگوں سے الگ دیکھ لیں جو اس کے بارے میں شک میں (پڑے ) ہیں۔ اور تمہارا پروردگار تو ہر چیز کا نگران ہے۔
۲۲(اے رسولؐ ان سے ) کہہ دو کہ جن لوگوں کو تم خود خدا کے سوا (معبود) سمجھتے ہو پکارو (تو معلوم ہو جائے گا کہ) وہ لوگ ذرہ برابر نہ آسمانوں میں کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں اور نہ ان کی دونوں میں شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا (کسی چیز میں ) مددگار ہے۔
۲۳اور جس شخص کے لیے وہ خود اجازت عطا فرمائے اس کے سوا کسی کی سفارش اس کی بارگاہ میں کام نہ آئے گی (اس کے دربار کی ہیبت یہاں تک ہے کہ جب شفاعت کا حکم ہوتا ہے تو شفاعت کرنے والے بیہوش ہو جاتے ہیں )پھر جب ان کے دلوں کی گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا حکم دیا تو (مقرب فرشتے ) کہتے ہیں کہ جو واجبی تھا اور وہی بلند مرتبہ بزرگ ہے
۲۴(اے رسولؐ) تم ان سے پو چھو تو کہ بھلا تم کو سارے آسمانوں اور زمین سے کون روزی دیتا ہے (وہ کیا کہیں گے ) تم خود کہہ دو کہ خدا اور میں یا تم (دونوں میں سے ایک تو) ضرور راہِ راست پر ہے (اوردوسرا گمراہ)یا وہ صریحی گمراہی میں پڑا ہے (اور دوسراہ راہِ راست پر)
۲۵(اے رسولؐ) تم (ان سے ) کہہ دو نہ ہمارے گناہوں کی تم سے پوچھ گچھ ہو گی اور نہ تمہاری کارستانیوں کی ہم سے باز پرس۔
۲۶(اے رسولؐ)تم(ان سے ) کہہ دو کہ ہمارا پروردگار(قیامت میں ) ہم سب کو اکٹھا کر دے گا پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا اور وہ تو بڑا ٹھیک فیصلہ کرنے والا واقف کار ہے،
۲۷(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ جن کو تم نے (خدا کا شریک بنا کر) خدا کے ساتھ ملایا ہے ذرا انہیں مجھے بھی تو دکھا دو ہرگز (کوئی اس کا شریک) نہیں۔ بلکہ وہی خدا غالب حکمت والا ہے۔
۲۸(اے رسُولؐ) ہم نے تم کو تمام (دنیا کے ) لوگوں کے لیے (نیکوں کو بہشت کی خوشخبری دینے والا اور (بدوں کو عذاب سے ) ڈرانے والا (پیغمبر) بنا کر بھیجا مگر بہتیرے لوگ (اتنا بھی) نہیں جانتے۔
۲۹اور (الٹے ) کہتے ہیں کہ اگر تم (اپنے دعوے میں ) سچّے ہو تو (آخر) یہ (قیامت کا) وعدہ کب (پورا) ہو گا۔
۳۰(اے رسولؐ) تم ان سے کہہ دو کہ تم لوگوں کے واسطے ایک خاص دن کی میعاد مقرر ہے کہ نہ تم اس سے ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہو اور نہ آگے ہی بڑھ سکتے ہو
۳۱اور جو لوگ کافر ہو بیٹھے کہتے ہیں کہ ہم تو نہ اس قرآن پر ہرگز ایمان لائیں گے اور نہ اس (کتاب) پر جو اس سے پہلے نازل ہو چکی۔ اور (اے رسولؐ تم کو بہت تعجب ہو) اگر تم دیکھو کہ جب یہ ظالم(قیامت کے دن) اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے (اور) ان میں کا ایک دوسرے کی طرف (اپنی) بات کو پھیرتا ہو گا کہ کمزور (ادنیٰ درجہ کے ) لوگ بڑے (سرکش) لوگوں سے کہتے ہوں گے کہ اگر تم (ہمیں ) نہ (بہکائے ) ہوتے تو ہم ضرور ایماندار ہوتے (اور اس مصیبت میں نہ پڑتے )۔
۳۲تو سرکش لوگ کمزوروں سے (مخاطب ہو کر)کہیں گے کہ جب تمہارے پاس (خدا کی طرف سے ) ہدایت آئی تھی تو کیا اس کے آنے کے بعد ہم نے تم کو (زبردستی عمل کرنے سے ) روکا تھا (ہرگز نہیں ) بلکہ تم تو خود مجرم تھے۔
۳۳اور کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے (کہ زبردستی تو نہیں کی مگر ہم خود بھی گمراہ نہیں ہوئے ) بلکہ (تمہاری) رات دن کی فریب دہی نے (گمراہ کیا کہ) تم لوگ ہم کو خدا کے نہ ماننے اور اس کا شریک ٹھہرانے کا برابر حکم دیتے رہے (تو ہم کیا کرتے ) اور جب یہ لوگ عذاب کو (اپنی آنکھوں سے ) دیکھ لیں گے تو دل ہی دل میں پچھتائیں گے اور جو لوگ کافر ہو بیٹھے ہم ان کی گردنوں میں طوق ڈلوا دیں گے جو جو کارستانیاں یہ لوگ (دنیا میں ) کرتے تھے اسی کے موافق تو سزا دے جائے گی۔
۳۴اور ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) نہیں بھیجا مگر وہاں کے بڑے لوگ یہ ضرور بول اٹھے کہ جو احکام دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم ان کو نہیں مانتے۔
۳۵اور (یہ بھی) کہنے لگے کہ ہم تو (ایمانداروں سے ) مال اور اولاد میں کہیں زیادہ ہیں اور ہم پر (آخرت میں ) عذاب بھی نہیں کیا جائے گا۔
۳۶(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میرا پروردگار جس کے لیے چاہتا ہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے ) تنگ کرتا ہے مگر بہتیرے لوگ نہیں جانتے ہیں
۳۷اور (یاد رکھو) تمہارے مال اور تمہاری اولاد میں یہ صلاحیت نہیں کہ تم کو ہماری بارگاہ میں مقرب بنا دیں مگر (ہاں ) جس نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے ) کام کیے ان لوگوں کے لیے تو ان کی کار گزاریوں کی دوہری جزا ہے اور وہ لوگ (بہشت کے ) جھروکوں میں اطمینان سے رہیں گے
۳۸اور جو لوگ ہماری آیتوں (کی توڑ) میں مقابلہ کی نوعیت سے دوڑ دھوپ کرتے ہیں وہی لوگ (جہنم کے ) عذاب میں جھونک دیئے جائیں گے۔
۳۹(اے رسولؐ)تم کہہ دوکہ میرا پروردگار اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے ) تنگ کر دیتا ہے اور جو کچھ بھی تم لوگ (اس کی راہ میں ) خرچ کرتے ہو وہ اس کا عوض دے گا۔ اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
۴۰اور (وہ دن یاد کرو) جس دن سب لوگوں کو اکٹھا کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری پرستش کرتے تھے۔
۴۱فرشتے عرض کریں گے (بار الٰہا) تو (ہر عیب سے )پاک و پاکیزہ ہے تو ہی ہمارا مالک ہے نہ یہ لوگ۔ (یہ لوگ ہماری نہیں ) بلکہ جنات (خبائث بھوت پریت)کی پرستش کرتے تھے کہ ان میں کے اکثر لوگ انہی پر ایمان رکھتے تھے۔
۴۲تب (خدا فرمائے گا) آج تو تم میں سے کوئی نہ دوسرے کے فائدہ ہی پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے اور نہ ضرر کا اور ہم سرکشوں سے کہیں گے کہ (آج) اس عذاب کے مزے چکھو جسے تم (دنیا میں ) جھٹلایا کرتے تھے۔
۴۳ اور جب ان کے سامنے ہماری واضح و روشن آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو باہم کہتے تھے کہ یہ (رسولؐ) بھی تو بس (ہمارا ہی سا) ایک آدمی ہے یہ چاہتا ہے کہ جن چیزوں کو تمہارے باپ دادا پوجتے تھے ان (کی پرستش) سے تم کو روک دے اور کہنے لگے کہ یہ (قرآن) تو بس نرا جھوٹ اور اپنے جی کا گڑھا ہوا ہے اور جو لوگ کافر ہو بیٹھے جب ان کے پاس حق کی بات آئی تو اس کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ تو بس کھلا ہوا جادو ہے۔
۴۴اور (اے رسولؐ) ہم نے تو ان لوگوں کونہ (آسمانی)کتابیں عطا کی تھیں جنہیں یہ لوگ پڑھتے اور نہ تم سے پہلے ان لوگوں کے پاس کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) بھیجا۔ (اس پر بھی انہوں نے قدر نہ کی)
۴۵اور جو ان سے پہلے گزر گئے انہوں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلایا تھا حالانکہ ہم نے جتنا ان لوگوں کو دیا تھا یہ لوگ (ابھی) اس کے دسویں حصّہ کو (بھی) نہیں پہنچے اس پر ان لوگوں نے میرے پیغمبروں کو جھٹلایا تو (تم نے دیکھا کہ) میرا عذاب (ان پر) کیسا سخت ہوا۔
۴۶(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں تم سے نصیحت کی بس ایک بات کہتا ہوں (وہ یہ ہے ) کہ تم لوگ محض خدا کے واسطے ایک ایک اور دو دو اٹھ کھڑے ہو اور اچھی طرح غور کرو تو (دیکھ لو گے )کہ تمہارے رفیق (محمدؐ) کو کسی طرح کا جنون نہیں ہے۔ وہ تو بس تمہیں ایک سخت عذاب (قیامت) کے سامنے (آنے ) سے ڈرانے والا ہے
۴۷(اے رسولؐ) تم (یہ بھی) کہہ دو کہ (تبلیغ رسالت کی) میں نے تم سے کچھ اجرت مانگی ہو تو وہ تمہی کو (مبارک) ہو میری اجرت تو بس خدا پر ہے اور وہی (تمہارے اعمال و افعال) ہر چیز سے خوب واقف ہے۔
۴۸(اے رسولؐ) تم (ان سے ) کہہ دو کہ میرا بڑا غیب دان پروردگار(میرے دل میں ) دین حق کو برابر اوپر سے اتارتا ہے
۴۹(اب ان سے ) کہہ دو دین حق آ گیا اور (اتنا بھی تو سمجھو کہ) باطل (معبود) نہ شروع شروع کچھ پیدا کرسکتا ہے نہ (مرنے کے بعد) دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔
۵۰(اے رسولؐ) تم بھی) کہہ دوکہ اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو اپنی ہی جان پر میری گمراہی (کا وبال ہے ) اور اگر میں راہ راست پر ہوں تو اس وحی کے طفیل سے جو میرا پروردگار میری طرف بھیجتا ہے بے شک وہ سننے والا (اور بہت) قریب ہے۔
۵۱اور (اے رسولؐ) کاش تم دیکھنے (تو سخت تعجب کرتے )جب یہ کفّار (میدان حشر میں ) گھبرائے گھبرائے پھرتے رہیں گے تو بھی چھٹکارا نہ ہو گا اور آس ہی پاس سے (بآسانی) گرفتار کر لیے جائیں گے۔
۵۲اور (اس وقت بے بسی میں ) کہیں گے کہ اب ہم رسولؐ پر ایمان لائے اور اتنی دور دراز جگہ سے (ایمان پر) ان کا دسترس کہاں ممکن ہے۔
۵۳حالانکہ یہ لوگ اس سے پہلے ہی (جب ان کا دسترس تھا) انکار کر چکے اور (دنیا میں تمام عمر) بے دیکھے بھالے (اٹکل کے ) تکے بڑی بڑی دور سے چلاتے رہے۔
۵۴اور اب تو ان کے اور ان کی تمناؤں کے درمیان (اسی طرح) پردہ ڈال دیا گیا ہے جس طرح ان سے پہلے ان کے ہم رنگ لوگوں کے ساتھ (یہی برتاؤ) کیا جا چکا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ لوگ بڑے بے چین کرنے والے شک میں پڑے ہوئے تھے۔
٭٭٭
۳۵۔ سورۃ فاطر
۱ہر طرح کی تعریف خدا ہی کے لیے (مخصوص) ہے جو سارے آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا، فرشتوں کو (اپنا) قاصد بنانے والا جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہوتے ہیں۔ (مخلوقات کی) پیدائش میں جو (مناسب)چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے۔ بے شک خدا ہر چیز پر قادر (و توانا) ہے۔
۲لوگوں کے واسطے جب (اپنی) رحمت (کے دروازے ) کھول دے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا اور جس چیز کو روک لے اس کے بعد اسے کوئی جاری نہیں کرسکتا۔اور وہی (ہر چیز پر) غالب (اور دانا و بینا) حکیم ہے۔
۳لوگو خدا کے احسانات کو جو اس نے تم پر کیے ہیں یاد کرو۔ کیا خدا کے سوا کوئی اور خالق ہے جو آسمان اور زمین سے تمہاری روزی پہنچاتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود قابل پرستش نہیں۔ پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو۔
۴اور (اے رسولؐ) اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلائیں تو (کڑھو نہیں ) تم سے پہلے بہتیرے پیغمبر (لوگوں کے ہاتھوں ) جھٹلائے جا چکے ہیں اور (آخر)کل امور کی رجوع تو خدا ہی کی طرف ہے۔
۵لوگو! خدا کا (قیامت کا) وعدہ یقینی بالکل سچا ہے تو کہیں تمہیں دنیا کی (چند روزہ) زندگی فریب میں نہ لائے (ایسا نہ ہو کہ شیطان) تمہیں خدا کے بارے میں دھوکہ دے۔
۶بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے اپنا دشمن بنائے رہو وہ تو اپنے گروہ کو بس اس لیے بلاتا ہے کہ وہ لوگ (سب کے سب) جہنمی بن جائیں۔
۷جن لوگوں نے (دنیا میں ) کفر اختیار کیا ان کے لیے (آخرت میں ) سخت عذاب ہے اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے ) کام کیے ان کے لیے (گناہوں کی) مغفرت اور نہایت اچھا بدلہ (بہشت) ہے۔
۸تو بھلاوہ شخص جسے اس کا بُرا کام (شیطانی اغوا سے ) اچھا کر دکھایا گیا ہے اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگا ہے (کبھی مومن نیکوکار کے برابر ہو سکتا ہے ہرگز نہیں ) تو یقینی(بات) یہ ہے کہ خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہِ راست پر آنے کی(توفیق) دیتا ہے تو (اے رسولؐ) کہیں ان (بدبختوں )پر افسوس کر کر کے تمہارا دم نہ نکل جائے جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں خدا اس سے خوب واقف ہے۔
۹اور خدا ہی وہ (قادر و توانا) ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو ہوائیں بادلوں کو اڑائے اڑائے پھرتی ہیں پھر ہم اس بادل کو مردہ(افتادہ) شہر کی طرف ہنکا دیتے ہیں پھر ہم اس کے ذریعے سے زمین کو اس کے مر جانے کے بعد شاداب کر دیتے ہیں یونہی (مردوں کو قیامت میں ) جی اُٹھنا ہو گا۔
۱۰جو شخص عزت کا خواہاں ہو تو (خداسے مانگے کیونکہ) ساری عزت تو خدا ہی کی ہے اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں (بلند ہو کر) پہنچتی ہیں اچھے کام کو وہ خود بلند فرماتا ہے اور جو لوگ (تمہارے خلاف) بری بری تدبیریں کرتے رہتے ہیں ان کے لیے قیامت میں سخت عذاب ہے اور (آخر) ان لوگوں کی تدبیر ملیامیٹ ہو جائے گی۔
۱۱اور خدا ہی نے تم لوگوں کو (پہلے پہل) مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر تم کو جوڑا (نر و مادہ) بنایا اور بغیر اس کے علم (اور اجازت) کے نہ کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے اور نہ جنتی ہے اور نہ کسی شخص کی عمر میں زیادتی ہوتی ہے اور نہ کسی کی عمر سے کمی کی جاتی ہے مگر وہ کتاب (لوح محفوظ) میں (ضرور) ہے۔ بے شک یہ بات خدا پر بہت ہی آسان ہے۔
۱۲(اس کی قدرت دیکھو) دو سمندر (باوجود مل جانے کے ) یکساں نہیں ہو جاتے۔ یہ (ایک تو) میٹھا خوش ذائقہ کہ اس کا پینا سوارت ہے اور یہ (دوسرا) کھاری کڑوا ہے اور اس (اختلاف) پر بھی تم لوگ دونوں سے (مچھلی کا) تر و تازہ گوشت (یکساں ) کھاتے ہو اور (اپنے لیے ) زیورات (موتی وغیرہ) نکالتے ہو جنہیں تم پہنتے ہو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں (پانی کو) پھاڑتی چلی جاتی ہیں تاکہ اس کے فضل (و کرم) تجارت کی تلاش کرو تاکہ تم لوگ شکر کرو۔
۱۳وہ رات کو (بڑھا کے )دن میں داخل کرتا ہے (تورات بڑھ جاتی ہے ) اور وہی دن کو (بڑھا کے ) رات میں داخل کر دیتا ہے (تو دن بڑھ جاتا ہے اور )اسی نے سورج اور چاند کو اپنا مطیع بنا رکھا ہے کہ ہر ایک اپنے (اپنے ) معین وقت پر چلا کرتا ہے وہی تمہارا پروردگار ہے اسی کی سلطنت ہے اور اسے چھوڑ کر جن معبودوں کو تم پکارتے ہو وہ چھوہارے کی گٹھلی کی جھلی کے برابر بھی تو اختیار نہیں رکھتے۔
۱۴اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار کو سنتے نہیں اور اگر (بفرض محال) سنیں بھی تو تمہاری دعائیں نہیں قبول کرسکتے اور قیامت کے دن تمہارے شرک سے انکار کر بیٹھیں گے۔ اور واقف کار (شخص) کی طرح کوئی (دوسرا ان کی پوری حالت) تمہیں بتا نہیں سکتا۔
۱۵لوگو تم سب کے سب خدا کے (ہر وقت) محتاج ہو اور (صرف) خدا ہی (سب سے ) بے پرواہ سزاوار حمد (و ثنا ہے )۔
۱۶اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو (عدم کے پردہ میں ) لے جائے اور ایک نئی خلقت لابسائے۔
۱۷اور یہ کچھ خدا کے واسطے دشوار نہیں۔
۱۸اور (یاد رہے کہ) کوئی شخص کسی دوسرے (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا اور اگر کوئی (اپنے گناہوں کا) بوجھ والا اپنا بوجھ (اٹھانے ) کے واسطے (کسی کو) بلائے گا تو اس کے بار میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا اگرچہ (کوئی کسی کا)قرابت دار ہی (کیوں نہ) ہو (اے رسولؐ) تم تو بس انہی لوگوں کو ڈرا سکتے ہو جو بے دیکھے بھالے اپنے پروردگار کا خوف رکھتے ہیں اور پابندی سے نماز پڑھتے ہیں اور (یاد رکھو) کہ جو شخص پاک صاف رہتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے واسطے پاک صاف رہتا ہے اور (آخر کار سب کو ہر پھر کے ) خدا ہی کی طرف جانا ہے
۱۹اور اندھا (کافر) اور آنکھوں والا (مومن کسی طرح) برابر نہیں ہو سکتے
۲۰اور نہ اندھیرا (کفر) اور اُجالا (ایمان برابر ہیں )
۲۱اور نہ چھاؤں (بہشت) اور دھوپ (دوزخ برابر ہیں )۔
۲۲اور نہ زندے (مومنین) اور نہ مردے (کافر) برابر ہو سکتے ہیں۔ اور خدا جسے چاہتا ہے اچھی طرح سنا (سمجھا) دیتا ہے۔ اور (اے رسولؐ) جو (کفّار مردوں کی طرح)قبروں میں ہیں انہیں تم (اپنی باتیں ) نہیں سنا (سمجھا) سکتے ہو۔
۲۳تم تو بس (ایک خدا سے ) ڈرانے والے ہو۔
۲۴ہم ہی نے یقیناً تم کو قرآن کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا (پیغمبر) بنا کر بھیجا۔ اور کوئی اُمت (دنیا میں ) ایسی نہیں گزری کہ اس کے پاس (ہمارا) ڈرانے والا (پیغمبرؐ) نہ آیا ہو۔
۲۵اور اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلائیں تو (کچھ پروا نہ کرو کیونکہ) ان کے اگلوں نے بھی(اپنے اپنے پیغمبروں کو) جھٹلایا ہے (حالانکہ) ان کے پاس ان کے پیغمبر واضح و روشن معجزے اور صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔
۲۶پھر ہم نے ان لوگوں کو جو کافر ہو بیٹھے لے ڈالا تو (تم نے دیکھا کہ) میرا عذاب ان پر کیسا (سخت) ہوا
۲۷(ایں ) کیا تم نے اس پر بھی غور نہیں کیا کہ یقیناً خدا ہی نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم (خدا) نے اس (کے ذریعہ) سے طرح طرح کی رنگتوں کے پھل پیدا کیے اور پہاڑوں میں قطعات (ٹکڑے راستے ) ہیں جن کے رنگ مختلف ہیں کچھ تو سفید (براق) اور کچھ لال(لال) اور کچھ بالکل کالے سیاہ۔
۲۸اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چار پایوں کی بھی رنگتیں طرح طرح کی ہیں اس کے بندوں میں خدا کا خوف کرنے والے تو بس علماء ہیں۔ بے شک خدا سب سے غالب (اور) بخشنے والا ہے۔
۲۹بے شک جو لوگ خدا کی کتاب پڑھا کرتے ہیں اور نماز پابندی سے پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اِس میں سے چھپا کے اور دکھلا کے (خدا کی راہ میں ) دیتے ہیں وہ یقیناً ایسے بیوپار کا آسرا رکھتے ہیں۔ جس کا ٹاٹ نہ الٹے گا
۳۰تاکہ خدا انہیں ان کی مزدوریاں بھرپور عطا کرے بلکہ اپنے (فضل و کرم) سے کچھ اور بڑھا دے گا بیشک وہ بڑا بخشنے والا (اور بڑا) قدردان ہے۔
۳۱ اور ہم نے جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعہ سے بھیجی وہ بالکل ٹھیک ہے اور جو (کتابیں اس سے پہلے کی) اس کے سامنے (موجود) ہیں ان کی تصدیق بھی کرتی ہے۔ بے شک خدا اپنے بندوں (کے حالات) سے خوب واقف ہے (اور)دیکھ رہا ہے۔
۳۲پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص ان کو قرآن کا وارث بنایا جنہیں (اہل سمجھ کر) منتخب کیا۔ کیونکہ بندوں میں سے کچھ تو (نافرمانی کر کے ) اپنی جان پر ستم ڈھاتے ہیں۔ کچھ ان میں سے (نیکی بدی کے ) درمیان ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ خدا کے اختیار سے نیکیوں میں (اوروں سے ) گوئے سبقت لے گئے ہیں یہی (انتخاب و سبقت) تو خدا کا بڑا فضل ہے۔
۳۳(اور اس کا صلہ بہشت کے ) سدا بہار باغات ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے اور انہیں وہاں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کی (معمولی) پوشاک خالص ریشمی ہو گی۔
۳۴اور یہ لوگ (خوشی کے لہجہ میں ) کہیں گے خدا کا شکر جس نے ہم سے (ہر قسم کا) رنج و غم دور کر دیا۔ بے شک ہمارا پروردگار بڑا بخشنے والا(اور) قدردان ہے۔
۳۵جس نے ہم کو اپنے فضل (و کرم) سے ہمیشگی کے گھر (بہشت) میں اتارا (مہمان کیا) جہاں ہمیں کوئی تکلیف چھوئے گی بھی تو نہیں اور نہ کوئی تکان ہی پہنچے گا۔
۳۶اور جو لوگ کافر ہی ہو بیٹھے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے نہ ان کی قضا ہی آئے گی کہ وہ مر جائیں (اور تکلیف سے نجات ملے ) اور نہ ان سے ان کے عذاب ہی میں تخفیف کی جائے گی۔ ہم ہرنا شکرے کی سزایوں ہی کیا کرتے ہیں۔
۳۷اور یہ لوگ دوزخ میں (پڑے ) چلّایا کریں گے کہ پروردگارا اب ہم کو (یہاں سے نکال دے تو جو کچھ ہم کرتے تھے اسے چھوڑ کر نیک کام کریں گے (تو خدا جواب دے گا کہ) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمریں نہ دی تھیں کہ جن میں جس کو جو کچھ سوچنا سمجھنا (منظور) ہو سوچ سمجھ لے اور (اس کے علاوہ) تمہارے پاس (ہمارا) ڈرانے والا (پیغمبر) بھی پہنچ گیا تھا تو (اپنے کیے کا مزا) چکھو کیونکہ سرکش لوگوں کا کوئی مددگار نہیں۔
۳۸ بے شک خدا سارے آسمان و زمین کی پوشیدہ باتوں سے خوب واقف ہے۔ وہ یقینی دلوں کے پوشیدہ راز سے باخبر ہے۔
۳۹وہ وہی (خدا) ہے جس نے روئے زمین میں تم لوگوں کو (اگلوں کو)جانشین بنایا پھر جو شخص کافر ہو گا تو اس کے کفر کا وبال اسی پر پڑے گا۔ اور کافروں کو ان کا کفران کے پروردگار کی بارگاہ میں غضب کے سوا کچھ بڑھائے گا نہیں۔ اور کفّار کو ان کا کفر گھاٹے کے سوا کچھ نفع نہ دے گا۔
۴۰(اے رسولؐ) تم (ان سے ) پوچھو تو کہ خدا کے سوا اپنے جن شریکوں کی تم عبادت کرتے ہو کیا تم نے انہیں (کچھ) دیکھا بھی مجھے بھی ذرا دکھاؤ تو کہ انہوں نے زمین(کی چیزوں ) سے کون سی چیز پیدا کی یا آسمانوں میں کچھ ان کا آدھا ساجھا ہے یا ہم نے خود انہیں کوئی کتاب دی ہے کہ وہ اس کی دلیل رکھتے ہیں (یہ سب تو کچھ نہیں ) بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے سے (دھوکے اور ) فریب ہی کا وعدہ کرتے ہیں۔
۴۱بے شک خدا ہی سارے آسمان اور زمین اپنی جگہ سے ہٹ جانے سے روکے ہوئے ہے۔ اور اگر (فرض کرو کہ) یہ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو پھر اس کے سوا انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔ بے شک وہ بڑا بردبار (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔
۴۲اور یہ لوگ تو خدا کی بڑی بڑی سخت قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ بے شک اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) آئے گا تو وہ ضرور ہر ایک امت سے زیادہ رو براہ ہوں گے۔ پھر جب ان کے پاس ڈرانے والا (رسولؐ) آ پہنچا
۴۳تو (ان لوگوں کو )روئے زمین میں سرکشی اور بری بری تدبیریں کرنے کی وجہ سے (اس کے آنے سے ) ان کی نفرت کو ترقی ہی ہوتی گئی اور بُری تدبیر (کی بُرائی) تو بری تدبیر کرنے والے ہی پر پڑتی ہے۔ تو (ہو نہ ہو) یہ لوگ بس اگلے ہی لوگوں کے برتاؤ کے منتظر ہیں تو (بہتر) تم خدا کے دستور میں کبھی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ اور خدا کی عادت میں ہرگز کوئی تغیر نہ پاؤ گے۔
۴۴تو کیا ان لوگوں نے روئے زمین پر چل پھر کر نہیں دیکھا کہ جو لوگ ان کے پہلے تھے ان کا (نافرمانی کی وجہ سے ) کیسا (خراب) انجام ہوا حالانکہ وہ زور و قوت میں ان سے بڑھ چڑھ کے تھے اور خدا ایسا (گیا گزرا) نہیں ہے کہ اسے کوئی چیز عاجز کر سکے (نہ اتنے ) آسمانوں میں اور نہ زمین میں بے شک وہ بڑا خبردار (اور) بڑی (قابو) قدرت والا ہے۔
۴۵اور اگر (کہیں ) خدا لوگوں کی کرتوتوں کی گرفت کرتا تو (جیسی ان کی کرنی ہے ) روئے زمین پر کسی جاندار کو باقی نہ چھوڑتا مگر وہ تو ایک مقرر میعاد تک لوگوں کو مہلت دیتا ہے (کہ جو کرنا ہو کر لو) پھر جب ان کا (وہ) وقت آ جائے گا تو خدا یقینی اپنے بندوں (کے حال) کو دیکھ رہا ہے۔ (جو جیسا کرے گا ویسا پائے گا)۔
٭٭٭
۳۶۔ سورۃ یسٰں
۱یٰسٓ
۲(اس) پُر از حکمت قرآن کی قسم
۳(اے رسُولؐ) تم بلا شک یقینی پیغمبروں میں سے ہو
۴(اور دین کے بالکل سیدھے راستے پر (ثابت قدم) ہو
۵جو بڑے غالب (اور)مہربان (خدا) کا نازل کیا ہوا ہے
۶تاکہ تم ان لوگوں کو (عذابِ خدا سے ) ڈراؤ جن کے باپ دادا (تم سے پہلے کسی پیغمبرؐ سے ) ڈرائے نہیں گئے تو(وہ دین سے ) بالکل بے خبر ہیں
۷ان میں اکثر پر تو (عذاب کی) باتیں یقیناً بالکل ٹھیک پوری اتریں یہ لوگ تو ایمان لائیں گے نہیں۔
۸ہم نے ان کی گردنوں میں (بھاری لوہے کے ) طوق ڈال دیئے ہیں اور وہ ٹھڈیوں تک پہنچے ہوئے ہیں کہ وہ گردنیں اٹھائے ہوئے ہیں۔ (سرجھکا نہیں سکتے )
۹ہم نے ایک دیوار ان کے آگے بنا دی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے پھر اوپر سے ان کو ڈھانک دیا ہے تو وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے۔
۱۰اور (اے رسولؐ) ان کے لیے برابر ہے خواہ تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ یہ (کبھی) ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
۱۱تم تو بس اسی شخص کو ڈرا سکتے ہو جو نصیحت مانے اور بے دیکھے بھالے خدا کا خوف رکھے تو تم اس کو (گناہوں کی) معافی اور ایک با عزت (و آبرو) اجر کی خوش خبری دے دو۔
۱۲ہم ہی یقیناً مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ لوگ پہلے کر چکے ہیں (ان کو) اور ان کی (اچھی یا بُری باقی ماندہ)نشانیوں کو لکھتے جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو ایک صریح و روشن پیشوا میں گھیر دیا ہے۔
۱۳اور (اے رسولؐ) تم (ان سے ) مثال کے طور پر ایک گاؤں (انطاکیہ) والوں کا قصّہ بیان کرو کہ جب وہاں (ہمارے )پیغمبر آئے
۱۴اس طرح کہ جب ہم نے ان کے پاس دو (پیغمبر یوحناؑ و یونسؑ) بھیجے تو ان لوگوں (اہل انطاکیہ) نے دونوں کو جھٹلایا تب ہم نے ایک تیسرے (پیغمبر شمعون) سے (ان دونوں کو) مدد دی۔ تو ان تینوں نے کہا کہ ہم تمہارے پاس (خدا کے ) بھیجے ہوئے (آئے ) ہیں
۱۵وہ لوگ کہنے لگے کہ تم لوگ بھی تو بس ہمارے ہی سے آدمی ہو اور خدا نے کچھ نازل (وازل) نہیں کیا ہے تم سب کے سب بس بالکل جھوٹے ہو۔
۱۶تب ان پیغمبروں نے کہا ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ ہم یقیناً اسی کے بھیجے ہوئے (آئے ) ہیں
۱۷اور (تم مانو یا نہ مانو) ہم پر تو بس کھلم کھلا(احکام خدا کا) پہنچا دینا فرض ہے۔
۱۸وہ بولے ہم نے تم لوگوں کو بہت نحس قدم پایا کہ (تمہارے آتے ہی قحط میں مبتلا ہوئے ) تو اگر تم (اپنی باتوں سے ) باز نہ آؤ گے تو ہم لوگ تمہیں ضرور سنگسار کر دیں گے اور تم کو یقینی ہمارا دردناک عذاب پہنچے گا۔
۱۹پیغمبروں نے کہا کہ تمہاری بد شگونی۔ (تمہاری کرنی سے )تمہارے ساتھ ہے کیا جب تمہیں نصیحت کی جاتی ہے (تو تم اسے بدفالی کہتے ہو نہیں ) بلکہ تم خود (اپنی) حد سے بڑ ھ گئے ہو
۲۰اور (اتنے میں ) شہر کے اس سرے سے ایک شخص حبیب نجار دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم (ان) پیغمبروں کا کہنا مانو
۲۱ایسے لوگوں کا (ضرور) کہنا مانو جو تم سے (تبلیغ رسالت کی) کچھ مزدوری نہیں مانگتے اور وہ لوگ ہدایت یافتہ بھی ہیں۔
۲۲اور مجھے کیا ہو گیا ہے کہ جس نے مجھے پیدا کیا ہے اس کی عبادت نہ کروں حالانکہ تم سب کے سب (آخر) اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔
۲۳کیا میں اسے چھوڑ کر دوسروں کو معبود بنا لوں اگر خدا مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو نہ ان کی سفارش ہی میرے کچھ کام آئے گی اور نہ یہ لوگ مجھے (اس مصیبت سے ) چھڑا ہی سکیں گے۔
۲۴(اگر ایسا کروں تو) اس وقت میں یقینی صریحی گمراہی میں ہوں۔
۲۵میں تو تمہارے پروردگار پر ایمان لا چکا تو میری بات سنو (اور مانو مگر ان لوگوں نے اسے سنگسار کر ڈالا)
۲۶تب (اسے خدا کا) حکم ہوا کہ جا بہشت میں (اس وقت بھی اس کو قوم کا خیال آیا تو کہا)کاش اس کو میری قوم(کے لوگ) جان لیتے (اور ایمان لاتے )
۲۷کہ میرے پروردگار نے مجھے بخش دیا ا ور مجھے بزرگ لوگوں میں شامل کر لیا۔
۲۸اور ہم نے اس کے (مرنے کے ) بعد اس کی قوم پر (ان کی تباہی کے لیے ) نہ تو کوئی آسمان سے لشکر اتارا اور نہ ہم کبھی (اتنی ہی بات کے واسطے لشکر) اتارنے والے تھے۔
۲۹وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی (جو کر دی گئی بس) پھر تو وہ فوراً (چراغ سحری کی طرح) بجھ کے رہ گئے۔
۳۰ہائے افسوس بندوں کے حال پر کہ کبھی ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر ان لوگوں نے اس کے ساتھ مسخرا پن ضرور کیا
۳۱کیا ان لوگوں نے (اتنا بھی) غور نہیں کیا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی اُمتوں کو ہلاک کر ڈالا اور وہ لوگ ان کے پاس ہرگز پلٹ کر نہیں آ سکتے۔
۳۲(ہاں ) البتہ سب کے سب اکٹھا ہو کر ہماری بارگاہ میں حاضر کیے جائیں گے۔
۳۳اور ان کے (سمجھنے کے ) لیے (میری قدرت کی) ایک نشانی مردہ (پڑتی) زمین ہے کہ ہم نے اس کو (پانی) سے زندہ کر دیا اور ہم ہی نے اس سے دانہ نکالا تو اسے یہ لوگ کھایا کرتے تھے۔
۳۴اور ہم ہی نے زمین میں چھوہاروں اور انگوروں کے باغ لگائے اور ہم ہی نے اس میں (پانی کے ) چشمے جاری کر دیئے۔
۳۵تاکہ لوگ ان کے پھل کھائیں اور کچھ ان کے ہاتھوں نے اسے نہیں بنایا (بلکہ خدا نے ) تو کیا یہ لوگ (اس پر بھی) شکر نہیں کرتے۔
۳۶وہ (ہر عیب سے ) پاک صاف ہے جس نے زمین سے اُگنے والی چیزوں اور خود ان لوگوں کے اور اُن چیزوں کے جن کی انہیں خبر نہیں سب کے جوڑے پیدا کیے
۳۷اور ان کے لیے (میری قدرت کی) ایک نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ کر نکال لیتے (زائل کر دیتے ) ہیں تو اس وقت یہ لوگ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں
۳۸اور (ایک نشانی) آفتاب ہے جو اپنے ایک ٹھکانے پر چل رہا ہے یہ (سب سے ) غالب واقف کار (خدا) کا (باندھا ہوا)اندازہ ہے۔
۳۹اور ہم نے چاند کے لیے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ ہر پھر کے (آخر ماہ میں ) کھجور کی پرانی ٹہنی کا سا (پتلا ٹیڑھا) ہو جاتا ہے
۴۰نہ تو آفتاب ہی سے یہ بن پڑتا ہے کہ وہ ماہتاب کو جالے اور نہ ہی رات ہی دن سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ (چاند، سورج، ستارے ) ہر ایک (اپنے اپنے ) آسمان (مدار) میں چکر لگا رہے ہیں
۴۱اور ان کے لیے (میری قدرت کی) ایک نشانی یہ ہے کہ ان کے بزرگوں کو (نوحؑ کی)بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا
۴۲اور اس کشتی کے مثل ان لوگوں کے واسطے بھی ویسی چیزیں (کشتیاں جہاز) پیدا کر دیں۔جن پر یہ لوگ خود سوار ہوا کرتے ہیں
۴۳اور اگر ہم چاہیں تو ان سب لوگوں کو ڈوبا ماریں پھر نہ کوئی ان کا فریاد رس ہو گا اور نہ وہ لوگ چھٹکارا ہی پا سکتے ہیں
۴۴مگر ہماری مہربانی سے اور چونکہ ایک (خاص) وقت تک (ان کو) چین کرنے دینا (منظور) ہے۔
۴۵اور جب ان (کفّار) سے کہا جاتا ہے کہ اس (عذاب سے ) ڈرو جو ہر وقت تمہارے ساتھ ساتھ تمہارے سامنے تمہارے پیچھے (موجود ہے ) تاکہ تم پر رحم کیا جائے (تو پرواہ نہیں کرتے )۔
۴۶اور ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ان کے پاس آئی تو یہ لوگ منہ موڑے بغیر کبھی نہیں رہے
۴۷اور جب ان (کفّار) سے کہا جاتا ہے کہ(مال و دولت) جو خدا نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ (خدا کی راہ میں بھی) خرچ کرو تو (یہ)کفّار ایمانداروں سے کہتے ہیں کہ بھلا ہم اس شخص کو کھلائیں جسے (تمہارے خیال کے موافق) خدا چاہتا تو اس کو خود کھلاتا۔ تم لوگ تو بس صریحی گمراہی میں (پڑے ہوئے ہو)۔
۴۸اور کہتے ہیں کہ (بھلا) اگر تم (اپنے دعوے میں ) سچّے ہو تو آخر یہ (قیامت کا) وعدہ کب پورا ہو گا۔
۴۹(اے رسولؐ) یہ لوگ ایک سخت چنگھاڑ (صور) کے منتظر ہیں جو انہیں (اس وقت) لے ڈالے گی جب یہ لوگ باہم جھگڑ رہے ہوں گے۔
۵۰پھر نہ تو یہ لوگ وصیّت ہی کرنے پائیں گے اور نہ اپنے لڑکے بالوں ہی کی طرف لوٹ کر جا سکیں گے۔
۵۱اور پھر (جب دوبارہ) صور پھونکا جائے گا تو اسی دم یہ سب لوگ (اپنی اپنی)قبروں سے (نکل نکل کے ) اپنے پروردگار کی بارگاہ) کی طرف چل کھڑے ہوں گے
۵۲اور (حیران ہو کر) کہیں گے ہائے افسوس(ہم تو پہلے سو رہے تھے ) ہمیں ہماری خوابگاہ سے کس نے اٹھایا(جواب آئے گا کہ) یہ وہی (قیامت کا) دن ہے جس کا خدا نے (بھی) وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے بھی سچ کہا تھا
۵۳(قیامت تو)بس ایک سخت چنگھاڑ ہو گی پھر ایکا ایکی یہ لوگ سب کے سب ہمارے حضور میں حاضر کیے جائیں گے
۵۴پھر آج (قیامت کے دن) کسی شخص پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا اور تم لوگوں کو تو اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو تم لوگ (دنیا میں ) کیا کرتے تھے۔
۵۵بہشت کے رہنے والے آج (روزِ قیامت) ایک نہ ایک مشغلہ میں جی بہلا رہے ہیں۔
۵۶وہ اپنی بیویوں کے ساتھ (ٹھنڈی) چھاؤں میں تکیے لگائے تختوں پر چین سے بیٹھے ہوئے ہیں۔
۵۷بہشت میں ان کے لیے (تازہ) میوے تیار ہیں اور جو وہ چاہیں ان کے لیے (حاضر) ہے۔
۵۸مہربان پروردگار کی طرف سے سلام کا پیغام آئے گا۔
۵۹اور (ایک آواز آئے گی کہ)اے گنہگارو آج تم لوگ (ان سے ) الگ ہو جاؤ۔
۶۰اے آدمؑ کی اولاد کیا میں نے تمہارے پاس یہ حکم نہیں بھیجا تھا کہ (خبردار) شیطان کی پرستش نہ کرنا۔ وہ یقینی تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔
۶۱اور یہ کہ (دیکھو) صرف میری عبادت کرنا یہی (نجات کی) سیدھی راہ ہے۔
۶۲اور (باوجود اس کے ) اس نے تم میں سے بہتیروں کو گمراہ کر چھوڑا تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے تھے۔
۶۳یہ وہی جہنم ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔
۶۴تو اب چونکہ تم کفر کرتے تھے اس وجہ سے آج اس میں (چپکے سے ) چلے جاؤ۔
۶۵آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور جو (جو) کارستانیاں یہ لوگ (دنیا میں ) کر رہے تھے خود ان کے ہاتھ ہم کو بتا دیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے۔
۶۶اور اگر ہم چاہیں تو (ان کی آنکھوں پر جھاڑو پھیر دیں تو یہ لوگ راہ کو پڑے چکر لگاتے ڈھونڈتے پھریں مگر کہاں دیکھ پائیں گے۔
۶۷اور اگر ہم چاہیں تو جہاں یہ ہیں (وہیں ) ان کی صورتیں بدل (کر کے پتھر مٹی بنا)دیں پھر نہ تو ان میں آگے جانے کا قابو رہے اور نہ (گھر) لوٹ سکیں۔
۶۸اور ہم جس شخص کو (بہت) زیادہ عمر دیتے ہیں تو اسے خلقت میں اُلٹ (کر پھر بچوں کی طرح مجبور کر) دیتے ہیں تو کیا وہ لوگ نہیں سمجھتے۔
۶۹اور ہم نے نہ اس (پیغمبرؐ) کو شعر کی تعلیم دی ہے اور نہ شاعری اس کی شان کے لائق ہے یہ (کتاب) تو بس (نری نصیحت اور صاف صاف قرآن ہے
۷۰تاکہ جو زندہ (دل عاقل) ہو اسے (عذاب سے ) ڈرائے اور کافروں پر (عذاب کا) قول ثابت ہو جائے (اور حجت باقی نہ رہے )۔
۷۱کیا ان لوگوں نے اس پر بھی غور نہیں کیا کہ ہم نے ان کے فائدے کے لیے چارپائے اس چیز سے پیدا کیے جسے ہماری ہی قدرت نے بنایا پس یہ لوگ (ہمارے فضل و کرم کی بدولت) ان کے مالک ہیں
۷۲اور ہم ہی نے چار پایوں کو ان کا مطیع بنا دیا تو بعض ان کی سواریاں ہیں اور بعض کو کھاتے ہیں۔
۷۳اور چار پایوں میں ان کے (اور) بہت سے فائدے ہیں اور پینے کی چیز (دودھ) تو کیا یہ لوگ (اس پر بھی) شکر نہیں کرتے
۷۴اور لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر (فرضی) معبود بنائے ہیں تاکہ انہیں ان سے کچھ مدد ملے۔
۷۵حالانکہ یہ وہ لوگ ان کی کسی طرح مدد کر ہی نہیں سکتے اور یہ کفّار ان معبودوں کے لشکر ہیں (اور قیامت میں ) ان سب کی حاضری لی جائے گی
۷۶تو (اے رسولؐ) تم ان کی باتوں سے آزردہ خاطر نہ ہو۔جو کچھ یہ لوگ چھپا کر کرتے ہیں اور جو کچھ کھلم کھلا کرتے ہیں ہم سب کو یقینی جانتے ہیں۔
۷۷کیا آدمی نے اس پر بھی غور نہیں کیا کہ ہم ہی نے اس کو ایک (ذلیل) نطفہ سے پیدا کیا پھر وہ یکایک (ہمارا ہی) کھلم کھلا مقابل (بنا) ہے
۷۸اور ہماری نسبت باتیں بنانے لگا اور اپنی خلقت (کی حالت) بھول گیا (اور) کہنے لگا کہ بھلا جب یہ ہڈیاں (سڑ گل کر) خاک ہو جائیں گی تو (پھر) کون (دوبارہ) زندہ کرسکتا ہے۔
۷۹(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اس کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو (جب یہ کچھ نہ تھے ) پہلی مرتبہ زندہ کر دکھایا وہ ہر طرح کی پیدائش سے واقف ہے
۸۰جس نے تمہارے واسطے (مرخ اور عفار کے ) ہرے درخت سے آگ پیدا کر دی۔ پھر تم اس سے (اَور) آگ سُلگا لیتے ہو
۸۱(بھلا) جس (خدا) نے سارے آسمان اور زمین پیدا کیے کیا وہ اس پر قابو نہیں رکھتا کہ ان کے مثل (دوبارہ) پیدا کر دے ہاں ! (ضرور قابو رکھتا ہے ) اور وہ تو پیدا کرنے والا واقف کار ہے۔
۸۲اس کی شان تو یہ ہے کہ جب کسی چیز کو (پیدا کرنا) چاہتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو (فوراً) ہو جاتی ہے۔
۸۳تو وہ خدا (ہر نقص سے ) پاک صاف ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز کی حکومت ہے اور تم لوگ اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔
٭٭٭
۳۷۔ سورۃ صٰفّٰت
۱(عبادت میں یا جہاد میں ) پرا باندھنے والوں کی (قسم)
۲پھر (بدوں کو برائی سے ) جھڑک کر ڈانٹنے والوں کی (قسم)
۳پھر قرآن کے پڑھنے والوں کی قسم ہے
۴کہ تمہارا معبود یقینی ایک ہی ہے۔
۵جو سارے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے (سب کا) پروردگار ہے۔ اور (چاند، سورج، تارے کے ) طلوع (و غروب) کے مقامات کا بھی مالک ہے۔
۶ہم ہی نے نیچے والے آسمان کو تاروں کی آرائش (جگمگاہٹ) سے آراستہ کیا
۷اور (تاروں کو ) ہرسرکش شیطان سے حفاظت کے واسطے (بھی پیدا کیا)
۸کہ اب شیطان عالمِ بالا کی طرف کان بھی نہیں لگا سکتے اور (جہاں سُن گن لینا چاہا تو) ہر طرف سے کھدیڑنے کے لیے
۹شہاب پھینکے جاتے ہیں اور ان کے لیے پائیدار عذاب ہے
۱۰مگر جو شیطان شاذ و نادر (فرشتوں کی) کوئی بات اُچک لے بھاگتا ہے تو آگ کا دھکتا ہوا تیر اس کا پیچھا کرتا ہے۔
۱۱تو ( اے رسولؐ تم ان سے پوچھو تو کہ ان کا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا ان(مذکورہ چیزوں ) کا جن کو ہم نے پیدا کیا ہم نے تو ان لوگوں کو لیس دار مٹی سے پیدا کیا
۱۲بلکہ تم تو (ان کفّار کے انکار پر) تعجب کرتے ہو اور وہ لوگ (تم سے ) مسخرا پن کرتے ہیں
۱۳اور جب انہیں سمجھایا جاتا ہے تو وہ سمجھتے نہیں ہیں
۱۴اور جب کسی معجزہ کو دیکھتے ہیں تو (اس سے ) مسخرا پن کرتے ہیں
۱۵اور کہتے ہیں کہ یہ تو بس کھلا ہوا جادو ہے
۱۶بھلا جب ہم مر جائیں گے اور خاک اور ہڈیاں رہ جائیں گے
۱۷تو کیا ہم یا ہمارے اگلے باپ دادا (پھر دوبارہ قبروں سے ) اٹھا کھڑے کئے جائیں گے۔
۱۸(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ ہاں (ضرور اٹھائے جاؤ گے )اور تم ذلیل ہو گے۔
۱۹اور وہ (قیامت) تو ایک للکار ہو گی پھر تو وہ لوگ فوراً ہی (آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے ) دیکھنے لگیں گے۔
۲۰اور کہیں گے ہائے افسوس یہ تو قیامت کا دن ہے۔
۲۱(جواب آئے گا کہ) یہ وہی فیصلہ کا دن ہے جس کو تم لوگ (دنیا میں ) جھوٹ سمجھتے تھے۔
۲۲(اور فرشتوں کو حکم ہو گا کہ) جو لوگ (دنیا میں ) سرکشی کرتے تھے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو
۲۳اور خدا کو چھوڑ کر جن کی پرستش کرتے ہیں۔ان (سب) کو اکٹھا کرو پھر انہیں جہنم کی راہ دکھاؤ
۲۴اور (ہاں ذرا) انہیں ٹھہراؤ تو ان سے کچھ پوچھنا ہے
۲۵(ارے کم بختو) اب تمہیں کیا ہو گیا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے
۲۶(جواب کیا دیں ) بلکہ وہ تو آج گردن جھکائے ہوئے ہیں۔
۲۷اور ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم پوچھ گچھ کریں گے۔
۲۸(اور انسان شیاطین سے ) کہیں گے کہ تم ہی تو ہماری داہنی طرف سے (ہمیں بہکانے کو) چڑھ آتے تھے۔
۲۹وہ جواب دیں گے (ہم کیا جانیں ) تم تو خود ایمان لانے والے نہ تھے۔
۳۰اور (صاف تو یہ ہے کہ) ہماری تم پر کچھ حکومت تو تھی نہیں۔ بلکہ تم خود سرکش لوگ تھے۔
۳۱پھر اب تو ہم لوگوں پر ہمارے پروردگار کا (عذاب کا) قول پورا ہو گیا کہ اب ہم سب یقیناً (عذاب کا مزا) چکھیں گے۔
۳۲ہم خود گمراہ تھے تو تم کو بھی گمراہ کیا۔
۳۳غرض یہ سب کے سب اس دن عذاب میں شریک ہوں گے۔
۳۴اور ہم تو گنہگاروں کے ساتھ یوں ہی کیا کرتے ہیں۔
۳۵بے شک یہ لوگ ایسے (شریر) تھے کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو اکڑا کرتے تھے
۳۶اور یہ لوگ کہتے تھے کہ ایک پاگل شاعر کے لئے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ بیٹھیں
۳۷(ارے کمبختو یہ شاعر یا پاگل نہیں ) بلکہ یہ تو حق بات لے کر آیا ہے اور (اگلے ) پیغمبروں کی تصدیق کرتا ہے۔
۳۸تم لوگ (اگر نہ مانو گے ) تو ضرور درد ناک عذاب کا مزہ چکھو گے۔
۳۹اور تمہیں تواسی کا بدلہ دیا جائے گا جو (دنیا میں ) کرتے رہے
۴۰مگر خدا کے برگزیدہ بندے
۴۱ان کے واسطے (بہشت میں ) ایک مقرر روزی ہو گی
۴۲(اور وہ بھی ایسی ویسی نہیں ) ہر قسم کے میوے اور وہ لوگ بڑی عزّت سے
۴۳نعمت کے (لدے ہوئے ) باغوں میں
۴۴تختوں پر (چین سے ) آمنے سامنے (بیٹھے ) ہوں گے
۴۵ان میں صاف سفید براق شراب کے جام کا دور چل رہا ہو گا
۴۶جو پینے والوں کو بڑا مزا دے گی
۴۷(اور پھر) نہ اس شراب میں (خمار کی وجہ سے ) درد سر ہو گا اور نہ وہ اس (کے پینے ) سے متوالے ہوں گے۔
۴۸ اور ان کے پہلو میں (شرم سے ) نیچی نگاہ کرنے والی بڑی بڑی آنکھوں والی (حوریں ) ہوں گی
۴۹(ان کی گوری گوری رنگتوں میں ہلکی سی سُرخی ایسی جھلکتی ہو گی) گویا وہ انڈے ہیں جو چھپائے ہوئے رکھے ہوں۔
۵۰پھر ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم بات چیت کرتے کرتے
۵۱ان میں سے ایک کہنے والا بول اٹھے گا کہ (دنیا میں ) میرا ایک دوست تھا
۵۲اور مجھ سے کہا کرتا تھا کہ کیا تم بھی (قیامت کی) تصدیق کرنے والوں میں ہو۔
۵۳بھلا جب ہم مر جائیں گے اور (سڑ گل کر) مٹی اور ہڈی ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم کو (دوبارہ زندہ کر کے ہمارے اعمال کا) بدلہ دیا جائے گا
۵۴(پھر اپنے بہشت کے ساتھیوں سے ) کہے گا تو کیا تم لوگ بھی (میرے ساتھ) اسے جھانک کر دیکھو گے
۵۵غرض جھانکا تو اسے بیچ جہنم میں (پڑا ہوا) دیکھا۔
۵۶(یہ دیکھ کر بے ساختہ) بول اُٹھے گا کہ خدا کی قسم تو تو مجھے بھی تباہ کرنے ہی کو تھا
۵۷اور اگر میرے پروردگار کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی (اس وقت تیرے ساتھ جہنم میں ) گرفتار کیا گیا ہوتا۔
۵۸(اب بتاؤ) کیا (میں تجھ سے نہ کہتا تھا کہ) ہم کو
۵۹اسی پہلی موت کے سوا پھر مرنا نہیں ہے اور نہ ہم پر (آخرت میں ) عذاب ہو گا (تو تجھے یقین نہ ہوتا تھا)۔
۶۰یہ یقینی بہت بڑی کامیابی ہے۔
۶۱ایسی (ہی کامیابی) کے واسطے کام کرنے والوں کو کار گزاری کرنی چاہیے۔
۶۲بھلا مہمانی کے واسطے یہ (سامان) بہتر ہے یا تھوہڑ کا درخت (جو جہنمیوں کے واسطے ہو گا)
۶۳ جسے ہم نے یقیناً ظالموں کی آزمائش کے لیے بنایا ہے۔
۶۴ یہ وہ درخت ہے جو جہنم کی تہہ میں اُگتا ہے
۶۵اس کے پھل ایسے (بدنما) ہیں گویا (ہو بہو)سانپ کے پھن (جسے چھوتے دل ڈرے )۔
۶۶پھر یہ (جہنمی لوگ) یقیناً اسی میں سے کھائیں گے پھر اسی سے اپنے پیٹ بھریں گے۔
۶۷پھر اس کے اوپر سے ان کو خوب کھولتا ہوا پانی (پیپ وغیرہ میں ) ملا ملا کر (پینے کو) دیا جائے گا۔
۶۸پھر (کھا پی کر) ان کو جہنم ہی کی طرف یقیناً لوٹ جانا ہو گا۔
۶۹بے شک ان لوگوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایا تھا
۷۰تو یہ لوگ بھی ان کے پیچھے پیچھے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔
۷۱اور ان کے قبل اگلوں میں سے بہتیرے گمراہ ہو چکے
۷۲حالانکہ ہم نے ان لوگوں کو ڈرانے والے (پیغمبر بھی) بھیجے تھے۔
۷۳ذرا دیکھو تو کہ جو لوگ ڈرائے جا چکے تھے ان کا کیسا بُرا انجام ہوا
۷۴مگر (ہاں ) خدا کے نرے کھرے بندے (محفوظ رہے۔)
۷۵اور نوحؑ نے (اپنی قوم سے مایوس ہو کر) ہم کو ضرور پکارا تھا تو (دیکھو ہم) کیا خوب جواب دینے والے تھے
۷۶اور ہم نے اس کو اور اس کے لڑکے بالوں کو بڑی (سخت) مصیبت سے نجات دی
۷۷اور ہم نے (ان میں وہ برکت دی کہ) انہی کی اولاد کو (دنیا میں ) برقرار رکھا
۷۸اور بعد کے آنے والے لوگوں میں ان کا اچھا چرچا باقی رکھا
۷۹کہ ساری خدائی میں (ہر طرف سے )نوحؑ پر سلام (ہی سلام) ہے۔
۸۰بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو یوں جزائے خیر عطا فرماتے ہیں۔
۸۱اس میں شک نہیں کہ نوحؑ ہمارے خالص ایماندار بندوں سے تھے۔
۸۲پھر ہم نے باقی لوگوں کو ڈبو دیا
۸۳اور یقیناً ان ہی کے طریقہ پر چلنے والوں میں ابراہیمؑ بھی ضرور تھے۔
۸۴جب وہ اپنے پروردگار (کی عبادت) کی طرف ایسا دل لیے ہوئے بڑھے جو (ہر عیب سے ) پاک تھا۔
۸۵جب انہوں نے اپنے (منہ بولے ) باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ کس چیز کی پرستش کرتے ہو۔
۸۶کیا خدا کو چھوڑ کر دل سے گھڑے ہوئے معبودوں کی تمنا رکھتے ہو۔
۸۷پھر ساری خدائی کے پالنے والے کے ساتھ تمہارا کیا خیال ہے۔
۸۸(پھر ایک عید میں ان لوگوں نے چلنے کو کہا) تو ابراہیمؑ نے ستاروں کی طرف ایک نظر دیکھا
۸۹اور کہا کہ میں (عنقریب) بیمار پڑنے والا ہوں
۹۰تو وہ لوگ ابراہیمؑ کے پاس سے پیٹھ پھیر کر ہٹ گئے
۹۱(بس) پھر تو ابراہیمؑ چپکے سے ان کے بتوں کی طرف متوجہ ہوئے اور (طعن سے ) کہا (تمہارے سامنے اتنے چڑھاوے رکھے ہیں )آخر تم کھاتے کیوں نہیں
۹۲(ارے ) تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم بولتے (تک) نہیں۔
۹۳پھر تو ابراہیمؑ داہنے ہاتھ سے مارتے ہوئے ان پر پل پڑے
۹۴(اور توڑ پھوڑ کر ایک بت کے گلے میں کلہاڑی ڈال دی جب ان لوگوں کو خبر ہوئی) تو ابراہیمؑ کے پاس دوڑتے ہوئے پہنچے
۹۵ابراہیمؑ نے کہا (افسوس) تم لوگ اس کی پرستش کرتے ہو جسے تم لوگ خود تراش کر بناتے ہو
۹۶حالانکہ تم کو اور جس کو تم لوگ بناتے ہو(سب کو) خدا ہی نے پیدا کیا ہے
۹۷(یہ سن کر ) وہ لوگ (آپس میں ) کہنے لگے اس کے لیے (بھٹی کی سی) ایک عمارت بناؤ (اور اس میں آگ سُلگا کر اسی) دھکتی ہوئی آگ میں اس کو ڈال دو
۹۸پھر ان لوگوں نے ابراہیم کے ساتھ مکاری کرنی چاہی تو ہم نے (آگ کو سرد گلزار کر کے ) انہیں نیچا دکھایا
۹۹(اور جب آذر نے ابراہیمؑ کو نکال دیا) تو بولے میں اپنے پروردگار کی طرف جاتا ہوں وہ عنقریب ہی مجھے رو براہ کر دے گا
۱۰۰(پھر عرض کی)پروردگارا مجھے ایک نیکو کار (فرزند) عنایت فرما
۱۰۱تو ہم نے انکو ایک بڑے نرم دل لڑکے (کے پیدا ہونے کی) خوشخبری دی۔
۱۰۲پھر جب اسماعیلؑ اپنے باپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے لگا تو (ایک دفعہ) ابراہیمؑ نے کہا: بیٹا! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں خود تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو تم بھی غور کرو تمہاری کیا رائے ہے اسماعیلؑ نے کہا ابّا جان ! جو آپ کو حکم ہوا ہے اس کو (بے تامل) کیجیے اگر خدا نے چاہا تو مجھے آپ صبر کرنے والوں میں سے پایئے گا۔
۱۰۳پھر جب دونوں نے یہ ٹھان لی اور باپ نے بیٹے کو (ذبح کے لیے ) ماتھے کے بل لٹایا
۱۰۴اور ہم نے (آمادہ دیکھ کر)آواز دی: اے ابراہیمؑ
۱۰۵تم نے اپنے خواب کو خوب سچ کر دکھایا (اب تم دونوں کو بڑے مرتبے ملیں گے ) ہم نیکی کرنے والوں کو یوں جزائے خیر دیتے ہیں۔
۱۰۶اس میں شک نہیں کہ یہ یقینی بڑا (سخت اور ) صریحی امتحان تھا۔
۱۰۷اور ہم نے اسماعیلؑ کا فدیہ ایک ذبح عظیم (بڑی قربانی) کو قرار دیا۔
۱۰۸اور ہم نے ان کا اچھا چرچا بعد کو آنے والوں میں باقی رکھا
۱۰۹کہ (ساری خدائی میں ) ابراہیمؑ پر سلام (ہی سلام) ہے۔
۱۱۰ہم یوں نیکی کرنے والوں کو جزائے خیر دیتے ہیں
۱۱۱بے شک ابراہیمؑ ہمارے (خاص) ایماندار بندوں میں تھے۔
۱۱۲اور ہم نے ابراہیمؑ کو اسحاق (کے پیدا ہونی) کی (بھی) خوشخبری دی تھی جو ایک نیکوکار نبی تھے۔
۱۱۳اور ہم نے خود ابراہیمؑ پر اور اسحاق پر اپنی برکت نازل کی۔ اور ان دونوں کی نسل میں کوئی تو نیکوکار اور کوئی (نافرمانی کر کے ) اپنی جان پر صریحی ستم ڈھانے والا ہے۔
۱۱۴اور ہم نے موسیٰؑ اور ہارونؑ پر (بہت سے ) احسانات کیے۔
۱۱۵اور خود ان دونوں کو اور ان کی قوم کو بڑی (سخت) مصیبت سے نجات دی۔
۱۱۶اور (فرعون کے مقابلہ میں )ہم نے ان کی مدد کی تو (آخر) یہی لوگ غالب رہے۔
۱۱۷اور ہم نے ان دونوں کو ایک واضح المطالب کتاب (توریت) عطا کی۔
۱۱۸اور دونوں کو سیدھی راہ کی ہدایت فرمائی۔
۱۱۹اور بعد کو آنے والوں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھا
۱۲۰ کہ (ہر جگہ) موسیٰؑ اور ہارونؑ پر سلام (ہی سلام) ہے۔
۱۲۱بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو یوں جزائے خیر عطا فرماتے ہیں۔
۱۲۲بے شک یہ دونوں ہمارے (خالص) ایماندار بندوں سے تھے۔
۱۲۳اور اس میں بھی شک نہیں کہ الیاسؑ یقیناً پیغمبروں سے تھے۔
۱۲۴جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ (خدا سے ) کیوں نہیں ڈرتے۔
۱۲۵کیا تم لوگ بعل (بت) کی پرستش کرتے ہو اور خدا کو چھوڑے بیٹھے ہو جو سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے
۱۲۶اور (جو) تمہارا پروردگار اور تمہارے اگلے باپ داداؤں کا (بھی) پروردگار ہے۔
۱۲۷تو اسے لوگوں نے جھٹلا دیا تو یہ لوگ یقیناً (جہنم میں ) گرفتار کیے جائیں گے
۱۲۸مگر خدا کے نرے کھرے بندے (محفوظ رہیں گے )۔
۱۲۹اور ہم نے ان کا ذکر خیر بعد کو آنے والوں میں باقی رکھا
۱۳۰کہ (ہر طرف سے ) آل یاسین پر سلام (ہی سلام) ہے۔
۱۳۱ہم یقیناً نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
۱۳۲بے شک وہ ہمارے (خالص) ایماندار بندوں میں تھے۔
۱۳۳اور اس میں بھی شک نہیں کہ لوطؑ یقینی پیغمبروں سے تھے۔
۱۳۴جب ہم نے ان کو اور ان کے لڑکے بالوں سب کو نجات دی
۱۳۵مگر ایک (اُن کی) بوڑھی بیوی جو پیچھے رہ جانے والوں ہی میں تھی
۱۳۶پھر ہم نے باقی لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا۔
۱۳۷اور اے اہل مکّہ تم لوگ بھی ان پر سے (کبھی) صبح کو اور (کبھی) شام کو (آتے جاتے ) گزرتے ہو
۱۳۸ تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے
۱۳۹اور اس میں شک نہیں کہ یونسؑ (بھی) پیغمبروں سے تھے۔
۱۴۰(وہ وقت یاد کرو) جب یونسؑ بھاگ کر ایک بھری ہوئی کشتی کے پاس پہنچے
۱۴۱تو (اہل کشتی نے ) قرعہ ڈالا تو (انہی کا نام نکلا اور ) یونسؑ نے زک اٹھائی(اور دریا میں گر پڑے )
۱۴۲تو ان کو ایک مچھلی نگل گئی اور یونسؑ خود (اپنی) ملامت کر رہے تھے۔
۱۴۳پھر اگر یونسؑ (خدا کی) تسبیح(اور ذکر) نہ کرتے
۱۴۴تو روزِ قیامت تک مچھلی ہی کے پیٹ میں رہتے۔
۱۴۵پھر ہم نے ان کو (مچھلی کے پیٹ سے نکال کر) ایک کھلے میدان میں ڈال دیا اور (وہ تھوڑی ہی دیر میں ) بیمار نڈھال ہو گئے تھے۔
۱۴۶اور ہم نے ان پر (سایہ کے لیے )ایک کدو کا درخت اگا دیا
۱۴۷اور (اس کے ) بعد ہم نے ایک لاکھ بلکہ (ایک حساب سے ) زیادہ آدمیوں کی طرف (پیغمبر بنا کر) بھیجا۔
۱۴۸تو وہ لوگ ان پر ایمان لائے پھر ہم نے (بھی) ایک خاص وقت تک ان کو چین سے رکھا۔
۱۴۹تو (اے رسولؐ) ان کفّار سے پوچھو کہ کیا تمہارے پروردگار کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے
۱۵۰یا (کیا واقعی) ہم نے فرشتوں کو عورتیں بنایا ہے اور یہ لوگ (اس وقت) موجود تھے۔
۱۵۱خبردار (یاد رکھو کہ) یہ لوگ یقینی اپنے دل سے گڑھ گڑھ کے کہتے ہیں
۱۵۲کہ خدا اولاد والا ہے اور یہ لوگ یقینی جھوٹے ہیں۔
۱۵۳کیا خدا نے (اپنے لئے )بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ہے۔
۱۵۴(ارے کم بختو) تمہیں کیا جنون ہو گیا ہے تم (لوگ بیٹھے بیٹھے ) کیسا فیصلہ کرتے ہو۔
۱۵۵تو کیا تم (اتنا بھی) غور نہیں کرتے۔
۱۵۶یا تمہارے پاس (اس کی) کوئی واضح و روشن دلیل ہے
۱۵۷تو اگر تم (اپنے دعوے میں )سچّے ہو تو اپنی کتاب پیش کرو۔
۱۵۸اور ان لوگوں نے خدا اور جنّات کے درمیان رشتہ ناتا مقرر کیا ہے۔ حالانکہ جنات بخوبی جانتے ہیں کہ وہ لوگ یقینی (قیامت میں بندوں کی طرح) حاضر کیے جائیں گے
۱۵۹یہ لوگ جو باتیں بنایا کرتے ہیں ان سے خدا پاک صاف ہے۔
۱۶۰مگر خدا کے نرے کھرے بندے (ایسا نہیں کہتے )۔
۱۶۱غرض تم لوگ خود اور تمہارے معبود
۱۶۲اس کے خلاف (کسی کو) بہکا نہیں سکتے
۱۶۳مگر اس کو جو جہنم میں جھونکا جانے والا ہے۔
۱۶۴اور (فرشتے یا ائمہ تو یہ کہتے ہیں کہ) ہم میں سے ہر ایک کا ایک درجہ مقرر ہے
۱۶۵اور ہم تو یقیناً (اس کی عبادت کے لیے ) صف باندھے کھڑے رہتے ہیں۔
۱۶۶اور ہم تو یقینی(اس کی) تسبیح پڑھا کرتے ہیں۔
۱۶۷اگرچہ یہ کفّار (اسلام کے قبل) کہا کرتے تھے
۱۶۸کہ اگر ہمارے پاس بھی اگلے لوگوں کا تذکرہ (کسی کتابِ خدا میں ) ہوتا
۱۶۹تو ہم بھی خدا کے نرے کھرے بندے ضرور ہو جاتے
۱۷۰(مگر جب کتاب آئی تو) ان لوگوں نے اس سے انکار کر دیا خیر عنقریب (اس کا نتیجہ) انہیں معلوم ہو جائے گا۔
۱۷۱اور اپنے خاص بندوں پیغمبروں سے ہماری بات پکی ہو چکی ہے
۱۷۲کہ ان لوگوں کی (ہماری بارگاہ سے ) یقینی مدد کی جائے گی۔
۱۷۳اور ہمارا لشکر تو یقیناً غالب رہے گا۔
۱۷۴تو (اے رسولؐ) تم ان سے ایک خاص وقت تک منہ پھیرے رہو
۱۷۵اور ان کو دیکھتے رہو تو یہ لوگ خود عنقریب ہی (اپنا نتیجہ) دیکھ لیں گے
۱۷۶تو کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کی جلدی کر رہے ہیں۔
۱۷۷پھر جب (عذاب) ان کی آنگن میں اُتر پڑے گا تو جو لوگ ڈرائے جا چکے ہیں ان کی بھی کیا بری صبح ہو گی۔
۱۷۸اور ان لوگوں سے ایک خاص وقت تک منہ پھیرے رہو
۱۷۹اور دیکھتے رہو یہ لوگ تو خود عنقریب ہی (اپنا انجام) دیکھ لیں گے۔
۱۸۰یہ لوگ جو باتیں خدا کے بارے میں بنایا کرتے ہیں ان سے تمہارا پروردگار عزت کا مالک پاک صاف ہے
۱۸۱اور پیغمبروں پر (درود) سلام ہو۔
۱۸۲اور کل تعریفیں خدا ہی کے لیے سزاوار ہیں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔
٭٭٭
۳۸۔ سورۃ ص
۱صٓ نصیحت والے قرآن کی قسم (آپؐ برحق نبی ہیں )
۲مگر یہ کفّار (خواہ مخواہ) تکبّر اور عداوت میں (پڑے اندھے ہو رہے ) ہیں۔
۳ہم نے ان سے پہلے کتنے گروہ ہلاک کر ڈالے تو (عذاب کے وقت) یہ لوگ چیخ اٹھے مگر چھٹکارے کا وقت ہی نہ رہا تھا۔
۴اور ان لوگوں نے اس بات سے تعجب کیا کہ انہی میں کا( عذابِ خدا سے )ایک ڈرانے والا (پیغمبرؐ) ان کے پاس آیا اور کافر لوگ کہنے لگے کہ یہ تو بڑا (کھلاڑی) جادو گر اور پکا جھوٹا ہے
۵بھلا (دیکھو تو) اس نے تمام معبودوں کو(ملیا میٹ کر کے بس) ایک ہی معبود قائم رکھا یہ تو یقینی بڑی تعجب خیز بات ہے۔
۶اور ان میں سے چند رودار لوگ (مجلس وعظ سے ) یہ (کہہ کر) چل کھڑے ہوئے کہ (یہاں سے ) چل دو اور اپنے معبودوں (کی عبادت پر جمے رہو یقیناً اس میں (اس کی) کچھ (ذاتی) غرض ہے۔
۷ہم لوگوں نے تو یہ بات پچھلے دین میں کبھی سنی بھی نہیں، ہو نہ ہو یہ اس کی من گڑھت ہے
۸کیا ہم سب لوگوں میں بس (محمدؐ ہی قابل تھا کہ) اس پر قرآن نازل ہوا نہیں بات یہ ہے کہ ان کو (سرے سے ) میرے کلام ہی میں شک ہے (کہ میرا ہے یا نہیں ) بلکہ اصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے ابھی تک میرے عذاب کے مزے نہیں چکھے (اس وجہ سے یہ شرارت ہے )
۹یا (اے رسولؐ) تمہارے زبردست فیاض پروردگار کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں۔
۱۰یا سارے آسمان و زمین اور دونوں کے درمیان کی سلطنت انہی کی خاص ہے۔ تب ان کو چاہیے کہ رسّے یا سیڑھیاں لگا کر (آسمان پر)چڑھ جائیں اور انتظام کریں۔
۱۱اے رسولؐ (ان پیغمبروں کے ساتھ جھگڑنے والے ) گروہوں میں سے یہاں تمہارے مقابلہ میں بھی ایک لشکر ہے جو شکست کھائے گا۔
۱۲ ان سے پہلے نوحؑ کی قوم اور عاد اور فرعون میخوں والا
۱۳اور ثمود اور لوطؑ کی قوم اور جنگل کے رہنے رہنے والے (قوم شعیب) یہ (سب پیغمبروں کو) جھٹلا چکی ہیں۔ یہی وہ گروہ ہیں (جو شکست کھا چکے )
۱۴سب ہی نے تو پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہمارا عذاب ٹھیک نازل ہوا۔
۱۵اور یہ (کافر) لوگ بس ایک چنگھاڑ (صور) کے منتظر ہیں جو (پھر انہیں ) چشم زدن کی مہلت نہ دے گی۔
۱۶اور یہ لوگ (مذاق سے ) کہتے ہیں کہ پروردگارا حساب کے دن قیامت کے قبل ہی(جو) ہماری قسمت کا لکھا (ہو) ہمیں جلدی سے دیدے۔
۱۷(اے رسولؐ) جیسی جیسی باتیں یہ لوگ کرتے ہیں۔ ان پر صبر کرو اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو جو بڑے قوت والے تھے (مگر صبر کیا)بے شک وہ (ہماری بارگاہ میں ) بڑے رجوع کرنے والے تھے
۱۸ہم نے پہاڑوں کو بھی تابعدار بنا دیا تھا کہ ان کے ساتھ صبح و شام خدا کی تسبیح کرتے تھے
۱۹اور پرند بھی (یادِ خدا کے وقت) سمٹ آتے (اور) سب ان کے فرمانبردار تھے۔
۲۰اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کر دیا اور ہم نے ان کو حکمت اور بحث کے فیصلہ کی قوت عطا کی تھی۔
۲۱(اے رسولؐ) کیا تم تک ان دعویداروں کی بھی خبر پہنچی ہے کہ جب وہ حجرہ (عبادت) کی دیوار پھاند پڑے
۲۲(اور) جب داؤد کے پاس آ کھڑے ہوئے تو وہ ان سے ڈر گئے ان لوگوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں۔ (ہم دونوں ) ایک مقدمہ کے فریقین ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے تو آپ ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دیجیے اور انصاف سے نہ گزریئے اور ہمیں سیدھی راہ دکھا دیجیے۔
۲۳(روئیداد یہ ہے کہ) یہ (شخص) میرا بھائی ہے ا ور اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے اس پر بھی یہ مجھ سے کہتا ہے کہ یہ دنبی بھی مجھ ہی کو دے دے اور بات چیت میں مجھ پرسختی کرتا ہے۔
۲۴داؤدؑ نے (بغیر اس کے کہ مدعا علیہ سے کچھ پوچھیں ) کہہ دیا کہ یہ جو تیری دنبی مانگ کر اپنی دنبیوں میں ملانا چاہتا ہے تو یہ تجھ پر ظلم کرتا ہے۔اور اکثر شرکا (کی یقیناً یہ حالت ہے کہ) ایک دوسرے پر ظلم کیا کرتے ہیں مگر جن لوگوں نے (سچے دل سے ) ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے ) کام کیے (وہ ایسا نہیں کرتے ) اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں (یہ سن کر دونوں چل دیئے ) اور اب داؤدؑ نے سمجھا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا (اور وہ ناکامیاب رہے ) پھر تو اپنے پروردگار سے بخشش کی دعا مانگنے لگے اور سجدہ میں گر پڑے (اور میری طرف رجوع کی)
۲۵تو ہم نے ان کی وہ لغزش معاف کر دی اور اس میں شک نہیں کہ ہماری بارگاہ میں ان کا اچھا تقرب اور اچھا انجام ہے۔
۲۶(ہم نے فرمایا) اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں (اپنا) نائب قرار دیا تو تم لوگوں کے درمیان بالکل ٹھیک فیصلہ کیا کرو اور نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ یہ پیروی تمہیں خدا کی راہ سے بہکا دے گی۔ اس میں شک نہیں کہ جو لوگ خدا کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کی بڑی سخت سزا ہو گی کیونکہ ان لوگوں نے حساب کے دن (قیامت) کو بھلا دیا۔
۲۷اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان ہیں بے کار نہیں پیدا کیا۔ یہ ان لوگوں کا خیال ہے جو کافر ہو بیٹھے۔ پس جو لوگ کافر ہو گئے ان کے لیے جہنم کی ویل ہے۔
۲۸کیا جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے ) کام کیے ان کو ہم ان لوگوں کے برابر کر دیں جو روئے زمین میں فساد پھیلایا کرتے ہیں یا ہم پرہیزگاروں کو مثل بدکاروں کے بنا دیں۔
۲۹(اے رسولؐ) کتاب (قرآن) جو ہم نے تمہارے پاس نازل کی ہے (بڑی) برکت والی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ عقل والے نصیحت حاصل کریں۔
۳۰اور ہم نے داؤدؑ کو سلیمانؑ (سا بیٹا)عطا کیا (سلیمانؑ بھی) کیا اچھے بندے تھے۔ بے شک وہ (ہماری طرف) رجوع کرنے والے تھے۔
۳۱(اتفاقاً) ایک دفعہ تیسرے پہر کو خاصے کے اصیل گھوڑے ان کے سامنے پیش کیے گئے
۳۲تو (دیکھنے میں اُلجھے، کہ نوافل میں دیر ہو گئی جب یاد آیا تو) بولے کہ میں نے اپنے پروردگار کی یاد پر مال کی اُلفت کو ترجیحی دی یہاں تک کہ آفتاب (مغرب) کے پردہ میں چھپ گیا
۳۳(تو بولے اچھا)ان گھوڑوں کو میرے پاس واپس لاؤ۔ (جب آئے ) تو (دیر کے کفارہ میں ) گھوڑوں کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے (کاٹنے ) لگے
۳۴اور ہم نے سلیمانؑ کا امتحان لیا اور ان کے تخت پر ایک بے جان دھڑ لا کر گرا دیا۔ پھر (سلیمان نے میری طرف) رجوع کی۔
۳۵(اور) کہا پروردگارا مجھے بخش دے اور مجھے وہ ملک عطا فرما جو میرے بعد کسی کے واسطے شایان نہ ہو اس میں تو شک ہی نہیں کہ تو بڑا بخشنے والا ہے۔
۳۶تو ہم نے ہوا کو ان کا تابع کر دیا کہ جہاں وہ پہنچنا چاہتے تھے ان کے حکم کے مطابق دھیمی چال چلتی تھی
۳۷اور(اسی طرح) جتنے شیاطین (دیو) عمارت بنانے والے اور غوطہ لگانے والے تھے سب کو (تابع کر دیا) اور اس کے علاوہ)
۳۸دوسرے دیوؤں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔
۳۹(اے سلیمانؑ) یہ ہماری بے حساب عطا ہے پس (اسے لوگوں کو دے کر) احسان کرو یا (سب)اپنے ہی پاس رکھو۔
۴۰اور اس میں شک نہیں کہ سلیمانؑ کی ہماری بارگاہ میں قرب و منزلت اور عمدہ جگہ ہے۔
۴۱اور (اے رسولؐ) ہمارے (خاص) بندے ایوبؑ کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے پروردگار سے فریاد کی کہ مجھ کو شیطان نے بہت اذیت اور تکلیف پہنچا رکھی ہے۔
۴۲(تو ہم نے کہا کہ) اپنے پاؤں سے (زمین کو) ٹھکرا دو۔( اور چشمہ نکلا تو ہم نے کہا اے ایوب) تمہارے نہانے اور پینے کے واسطے یہ ٹھنڈا پانی (حاضر) ہے
۴۳اور ہم نے ان کو ان کے لڑکے بالے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور اپنی خاص مہربانی سے عطا کیے اور عقلمندوں کے لئے عبرت و نصیحت (قرار دی)
۴۴اور (ہم نے کہا)اے ایوب تم اپنے ہاتھ میں سینکوں کا مٹھا لو اور اس سے (اپنی بیوی کو) مارو اپنی قسم میں جھوٹے نہ بنو۔ہم نے ایوبؑ کو یقیناً صابر پایا وہ کیا اچھے بندے تھے۔ بے شک وہ (ہماری بارگاہ میں ) بڑے جھکنے والے تھے۔
۴۵اور (اے رسولؐ)ہمارے بندوں میں ابراہیمؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ کو یاد کرو جو قوت اور بصیرت والے تھے۔
۴۶ہم نے ان لوگوں کو ایک خاص صفت آخرت کی یاد سے ممتاز کیا تھا
۴۷اور اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ ہماری بارگاہ میں برگزیدہ اور نیک لوگوں میں ہیں۔
۴۸اور (اے رسولؐ)اسماعیلؑ اور الیسعؑ اور ذوالکفلؑ کو (بھی) یاد کرو اور یہ سب نیک بندوں میں ہیں۔
۴۹یہ ایک نصیحت ہے اور اس میں شک نہیں کہ پرہیزگاروں کے لیے (آخرت میں ) یقینی اچھی آرام گاہ ہے
۵۰(یعنی)ہمیشہ رہنے کے (بہشت کے ) سدا بہار باغات جن کے دروازے ان کے لیے (برابر) کھلے ہوں گے۔
۵۱اور یہ لوگ وہاں تکیے لگائے ہوئے (چین سے بیٹھے ہوں گے وہاں (خدام بہشت سے )کثرت سے میوے اور شراب منگوائیں گے۔
۵۲اور ان کے پہلو میں نیچی نظروں والی(شرمیلی) ہم سن بیویاں ہوں گی
۵۳(مومنو) یہ وہ چیزیں ہیں جن کا حساب کے دن (قیامت) کے لیے تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔
۵۴بے شک یہ ہماری (دی ہوئی) روزی ہے جو کبھی تمام نہ ہو گی
۵۵یہ (پرہیزگاروں کا انجام ہے ) اور سرکشوں کا تو یقینی برا ٹھکانا جہنم ہے
۵۶جس میں ان کو جانا پڑے گا۔ تو وہ کیا بُرا ٹھکانا ہے۔
۵۷یہ کھولتا ہوا پانی اور پیپ
۵۸اور اسی طرح انواع اقسام کی دوسری چیزیں ہیں تو یہ لوگ انہیں پڑے چکھا کریں۔
۵۹(کچھ لوگوں کے بارے میں ان کے سرداروں ) سے کہا جائے گا۔یہ (تمہاری چیلوں کی) فوج بھی تمہارے ساتھ ہی ٹھونسی جائے گی ان کا بھلا نہ ہو یہ سب بھی دوزخ کے جانے والے ہیں۔
۶۰(تو چیلے ) کہیں گے (ہم کیوں ) بلکہ تم(جہنمی ہو) تمہارا ہی بھلا نہ ہو تم ہی لوگوں نے تو اس بلا سے ہمارا سامنا کرا دیا تو جہنم بھی کیا بری جگہ ہے۔
۶۱(پھر وہ)عرض کریں گے پروردگارا جس شخص نے ہمارا اس (بلا) سے سامنا کرا دیا تو تو اُس پر ہم سے بڑھ کر جہنم کا دوگنا عذاب کر
۶۲اور (پھر) خود بھی کہیں گے ہمیں کیا ہو گیا کہ ہم جن لوگوں کو (دنیا میں ) شریر شمار کرتے تھے ہم ان کو (یہاں دوزخ میں ) نہیں دیکھتے۔
۶۳کیا ہم ان سے (ناحق) مسخرا پن کرتے تھے یا ان کی طرف سے (ہماری) آنکھیں پلٹ گئی ہیں۔
۶۴اس میں شک نہیں کہ جہنمیوں کا باہم جھگڑنا یہ بالکل یقینی ٹھیک ہے۔
۶۵(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں تو بس عذاب خدا سے ) ڈرانے والا ہوں اور یکتا قہار خدا کے سوا کوئی معبود قابل پرستش نہیں۔
۶۶سارے آسمان اور زمین کا اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان میں (سب کا) پروردگار غالب بڑا بخشنے والا ہے۔
۶۷(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ یہ (قیامت) ایک بہت بڑا واقعہ ہے
۶۸جس سے تم لوگ (خواہ مخواہ) منہ پھیرتے ہو۔
۶۹عالمِ بالا کے رہنے والے (فرشتے ) جب باہم بحث کرتے تھے اس کی مجھے بھی خبر نہ تھی۔
۷۰میرے پاس تو بس وحی کی گئی ہے کہ میں (خدا کے عذاب سے ) صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔
۷۱(وہ بحث یہ تھی کہ) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں گیلی مٹّی سے ایک آدمی بنانے والا ہوں۔
۷۲تو جب میں اس کو درست کر لوں اور اس میں اپنی (پیدا کی ہوئی) روح پھونک دوں تو تم سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔
۷۳تو سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا
۷۴مگر (ایک) ابلیس نے کہ وہ شیخی میں آ گیا اور کافروں میں ہو گیا۔
۷۵خدا نے (ابلیس سے ) فرمایا کہ اے ابلیس جس چیز کو میں نے اپنی خاص قدرت سے پیدا کیا (بھلا) اس کو سجدہ کرنے سے تجھے کس نے روکا۔ کیا تو نے تکبّر کیا یا کیا واقعی تو بڑے درجے والوں میں ہے۔
۷۶ابلیس بول اٹھا کہ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو تو نے گیلی مٹی سے پیدا کیا (کہاں آگ کہاں مٹی)۔
۷۷خدا نے فرمایا تو یہاں سے نکل (دور ہو) تو تو یقینی مردود ہے۔
۷۸اور تجھ پر روزِ جزا (قیامت) تک میری پھٹکار پڑا کرے گی۔
۷۹شیطان نے عرض کی پروردگارا تو مجھے اس دن تک کی مہلت عطا کر جس میں سب لوگ (دوبارہ) اٹھا کھڑے کیے جائیں گے۔
۸۰فرمایا تجھے ایک وقت معین
۸۱دن تک کی مہلت دی گئی۔
۸۲ وہ بولا تیرے ہی عزّت (و جلال) کی قسم ان میں سے
۸۳تیرے خالص بندوں کے سوا سب کے سب کو گمراہ کروں گا۔
۸۴ خدا نے فرمایا تو (ہم بھی) حق بات (کہے دیتے ہیں )اور میں تو حق ہی کہا کرتا ہوں
۸۵کہ میں تجھ سے اور جو لوگ تیری تابعداری کریں گے ان سب سے جہنم کو ضرور بھر دوں گا۔
۸۶(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں تو تم سے نہ اس (تبلیغ رسالت) کی مزدوری مانگتا ہوں اور نہ میں (جھوٹ موٹ) بناوٹ کرنے والا ہوں۔
۸۷یہ (قرآن) تو بس سارے جہان کے لیے نصیحت ہے۔
۸۸اور کچھ دنوں بعد تم کو اس کی حقیقت معلوم ہو جائے گی۔
٭٭٭
۳۹۔ سورۃ زُمر
۱(اس کتاب (قرآن) کا نازل کرنا اس خدا کی بارگاہ سے ہے جو (سب پر) غالب حکمت والا ہے۔
۲(اے رسولؐ) ہم نے کتاب (قرآن) کو بالکل ٹھیک نازل کیا ہے تو تم عبادت کو اسی کے لیے نرا کھرا کر کے خدا کی بندگی کیا کرو۔
۳آگاہ رہو کہ عبادت تو خاص خدا ہی کے لیے ہے۔ اور جن لوگوں نے خدا کے سوا (اوروں کو) اپنا سرپرست بنا رکھا ہے (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو ان کی پرستش صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں ہمارا تقرب بڑھا دیں گے اس میں شک نہیں کہ جس بات میں یہ لوگ جھگڑتے ہیں (قیامت کے دن) خدا ان کے درمیان اس میں فیصلہ کر دے گا۔ بے شک خدا جھوٹے ناشکرے کو منزل مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا۔
۴اگر خدا کسی کو (اپنا) بیٹا بنانا چاہتا تو اپنے مخلوقات میں سے جسے چاہتا منتخب کر لیتا (مگر) وہ تو اس سے پاک و پاکیزہ ہے۔ وہ تو یکتا بڑا زبردست اللہ ہے۔
۵اسی نے سارے آسمان اور زمین کو بجا (درست) پیدا کیا۔ وہی رات کو دن پر اوپر تلے لپیٹتا ہے اور وہی دن کو رات پر تہ بہ تہ لپیٹتا ہے اور اسی نے آفتاب اور ماہتاب کو اپنے بس میں کر لیا ہے کہ یہ سب کے سب اپنے (اپنے ) مقررہ وقت پر چلتے رہیں گے۔ آگاہ رہو کہ وہی غالب بڑا بخشنے والا ہے
۶اسی نے تم سب کو ایک ہی شخص سے پیدا کیا پھر اس (کی باقی مٹّی) سے اس کی بیوی (حوّا) کو پیدا کیا اور اسی نے تمہارے لیے آٹھ قسم کے چار پائے پیدا کیے۔ وہ تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک قسم کی پیدائش کے بعد دوسری قسم (نطفہ جما ہوا خون لوتھڑا) کی پیدائش سے تہرے تہرے اندھیروں (پیٹ، رحم اور جھلی) میں پیدا کرتا ہے۔وہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، اسی کی بادشاہی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو تم لوگ کہاں پھرے جاتے ہو
۷اگر تم نے اس کی ناشکری کی تو (یاد رکھو کہ) خدا تم سے بالکل بے پروا ہے اور اپنے بندوں سے کفر اور ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ اور اگر تم شکر کرو گے تو وہ اس کو تمہارے واسطے پسند کرتا ہے اور (قیامت کے دن) کوئی کسی کا (گناہ) کا بوجھ (اپنی گردن پر)نہیں اٹھائے گا۔ پھر تم کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے تو (دنیا میں ) تم جو کچھ(بھلا یا بُرا) کرتے تھے وہ تمہیں سنا دے گا۔ وہ تو یقیناً دلوں کے راز (تک) سے خوب واقف ہے۔
۸اور آدمی (کی حالت تو یہ ہے کہ) جب اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کی طرف رجوع کر کے اپنے پروردگار سے دعا کرتا ہے (مگر) پھر جب خدا اپنی طرف سے اسے نعمت عطا فرما دیتا ہے تو جس کام کے لیے پہلے اس سے دعا کرتا تھا اسے بھلا دیتا ہے اور (بلکہ) خدا کا شریک بنانے لگتا ہے تاکہ (اس کے ذریعے سے اور لوگوں کو بھی) اس کی راہ سے گمراہ کر دے (اے رسولؐ ایسے شخص سے کہہ دو کہ تھوڑے دونوں اور اپنے کفر (کی حالت) میں چین کر لو (آخر) تو یقینی جہنمیوں میں ہو گا۔
۹کیا جو شخص رات کے اوقات میں سجدہ کر کے اور کھڑے کھڑے (خدا کی) عبادت کرتا ہو اور آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار (ناشکرے کافر کے برابر ہو سکتا ہے ) (اے رسولؐ) تم پوچھو تو کہ بھلا کہیں جاننے والے اور نہ جاننے والے لوگ برابر ہو سکتے ہیں ؟ (مگر) نصیحت عبرت تو بس عقلمند ہی لوگ مانتے ہیں۔
۱۰( اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اے میرے ایماندار بندو اپنے پروردگار (ہی) سے ڈرتے رہو (کیونکہ) جن لوگوں نے اس دنیا میں نیکی کی انہی کے لیے (آخرت میں ) بھلائی ہے۔ اور خدا کی زمین تو کشادہ ہے (جہاں عبادت نہ کرسکو اسے چھوڑ دو)صبر کرنے والوں ہی کو تو ان کا بھرپور بے حساب بدلہ دیا جائے گا۔
۱۱(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں عبادت کو اسی کے لیے خالص کر کے خدا ہی کی بندگی کروں
۱۲اور مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔
۱۳(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے (سخت) دن (قیامت) کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
۱۴(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں اپنی عبادت کو اسی کے واسطے خالص کر کے خدا ہی کی بندگی کرتا ہوں
۱۵(اب رہے ) تم تو اس کے سوا جس کو چاہو پوجو۔ (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ فی الحقیقت گھاٹے میں وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنا اور اپنے لڑکے بالوں کا قیامت کے دن گھاٹا کیا۔ آگاہ رہو کہ صریحی (کھلم کھلا)گھاٹا یہی ہے۔
۱۶کہ ان کے لیے ان کے اوپر سے آگ ہی کے اوڑھنے ہوں گے اور ان کے نیچے بھی (آگ ہی کے ) بچھونے۔ یہ وہ عذاب ہے جس سے خدا اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ تو اے میرے بندو!مجھی سے ڈرتے رہو۔
۱۷اور جو لوگ بتوں سے ان کے پوجنے سے بچے رہے اور خدا ہی کی طرف رجوع کی ان کے لیے (جنت کی) خوشخبری ہے۔ تو (اے رسولؐ) تم میرے (خالص بندوں کو خوشخبری دے دو
۱۸جو بات کو جی لگا کر سنتے ہیں اور پھر اس میں سے اچھی بات پر عمل کرتے ہیں۔ یہی لوگ وہ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی اور یہی لوگ عقل مند ہیں۔
۱۹تو (اے رسولؐ) بھلا جس شخص پر عذاب کا وعدہ پورا ہو تو کیا تم اس شخص کو خلاصی دے سکتے ہو جو آگ میں (پڑا) ہو۔
۲۰مگر جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے ان کے اونچے اونچے محل ہیں (اور) بالاخانوں پر بالا خانے بنے ہوئے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (یہ) خدا کا وعدہ ہے (اور) خدا وعدہ خلافی نہیں کیا کرتا۔
۲۱کیا تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ خدا ہی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کو زمین میں چشمے بنا کر جاری کیا پھر اس کے ذریعہ سے رنگ برنگ (کے غلّہ) کی کھیتی اُگاتا ہے پھر (پکنے کے بعد) سُوکھ جاتی ہے تو تم کو وہ زرد دکھائی دیتی ہے پھر خدا اسے چور چور (بھوسا) کر دیتا ہے بے شک اس میں عقلمندوں کے لیے (بڑی)عبرت و نصیحت ہے۔
۲۲تو کیا وہ شخص جس کے سینہ کو خدا نے (قبولِ) اسلام کے لیے کشادہ کر دیا ہے تو وہ اپنے پروردگار (کی ہدایت) کی روشنی پر (چلتا) ہے (گمراہوں کے برابر ہو سکتا ہے ) افسوس تو ان لوگوں پر ہے جن کے دل خدا کی یاد سے (غافل ہو کر) سخت ہو گئے ہیں۔ یہ لوگ صریحی گمراہی میں (پڑے ) ہیں۔
۲۳خدا نے بہت ہی اچھا کلام (یعنی یہ) کتاب نازل فرمائی (جس کی آیتیں ) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اور (ایک بات کئی کئی بار دھرائی گئی ہے اس کے سننے سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں پھر ان کے جسم نرم ہو جاتے ہیں اور ان کے دل خدا کی یاد کی طرف با اطمینان متوجہ ہو جاتے ہیں یہ خدا کی ہدایت ہے اسی سے جس کی چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔ اور جس کو گمراہی میں چھوڑ دے تو اس کا کوئی راہ پر لانے والا نہیں۔
۲۴تو کیا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ کو بڑے عذاب کی سپر بنائے گا (ناجی کے برابر ہو سکتا ہے )۔ اور ظالموں سے کہا جائے گا کہ تم (دنیا میں ) جیسا کچھ کرتے تھے اب اس کے مزے چکھو۔
۲۵جو لوگ ان سے پہلے گزر گئے انہوں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلایا تو ان پر عذاب اس طرح آ پہنچا کہ انہیں خبر بھی نہ ہوئی۔
۲۶تو خدا نے انہیں (اسی) دنیا کی زندگی میں رسوائی (کی لذّت) چکھا دی۔ اور آخرت کا عذاب تو یقینی اس سے کہیں بڑھ کر ہے کاش یہ لوگ (یہ بات) جانتے۔
۲۷اور ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے (سمجھانے کے ) واسطے ہر طرح کی مثل بیان کر دی تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔
۲۸(ہم نے تو صاف اور سلیس) ایک عربی قرآن (نازل کیا) جس میں ذرا بھی کجی (پیچیدگی) نہیں تاکہ یہ لوگ (سمجھ کر)خدا سے ڈریں۔
۲۹خدا نے ایک مثل بیان کی ہے کہ ایک شخص (غلام) ہے جس میں کئی جھگڑالو ساجھی ہیں اور ایک غلام ہے کہ پورا ایک شخص کا ہے کیا ان دونوں کی حالت یکساں ہو سکتی ہے (ہرگز نہیں ) الحمدللہ! مگر ان میں کے اکثر اتنا بھی نہیں جانتے۔
۳۰(اے رسولؐ) بے شک تم بھی مرنے والے ہو اور یہ لوگ بھی یقیناً مرنے والے ہیں
۳۱پھر تم لوگ قیامت کے دن اپنے پروردگار کی بارگاہ میں باہم جھگڑو گے۔
۳۲تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو خدا پر جھوٹ (طوفان) باندھے اور جب اس کے پاس سچی بات آئے تو اس کو جھٹلا دے کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانا نہیں ہے (ضرور ہے )
۳۳اور یاد رکھو کہ جو شخص (رسولؐ) سچی بات لے کر آیا وہ اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ تو پرہیزگار ہیں۔
۳۴یہ لوگ جو چاہیں گے ان کے پروردگار کے پاس (موجود) ہے۔ یہ نیکی کرنے والوں کی جزائے خیر ہے۔
۳۵تاکہ خدا ان لوگوں کی برائیوں کو جو انہوں نے کی ہیں دور کر دے اور ان کے اچھے کاموں کے عوض جو وہ کر چکے تھے ان کا اجر (و ثواب) عطا فرمائے۔
۳۶کیا خدا اپنے بندوں (کی مدد) کے لیے کافی نہیں ہے (ضرور ہے ) اور (اے رسولؐ) تم کو لوگ خدا کے سوا دوسرے (معبودوں سے ) ڈراتے ہیں۔ اور خدا جسے گمراہی میں چھوڑ دے تو اس کا کوئی راہ پر لانے والا نہیں ہے۔
۳۷اور جس شخص کی خدا ہدایت کرے تو اس کا کوئی گمراہ کرنے والا نہیں۔ کیا خدا زبردست اور بدلہ لینے والا نہیں ہے (ضرور ہے )۔
۳۸اور (اے رسولؐ) اگر تم ان سے پوچھو کہ سارے آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا تو یہ لوگ یقیناً کہیں گے کہ خدا نے تم کہہ دو کہ تو کیا تم نے غور کیا ہے کہ خدا کو چھوڑ کر جن لوگوں کی تم عبادت کرتے ہو اگر خدا مجھے کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ لوگ اس کے نقصان کو (مجھ سے ) دور کرسکتے ہیں یا اگر خدا مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا وہ لوگ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں (اے رسولؐ)تم کہو کہ خدا میرے لیے کافی ہے اسی پر بھروسہ کرنے والے بھروسا کرتے ہیں۔
۳۹(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اے میری قوم تم اپنی جگہ (جو چاہو) عمل کیے جاؤ میں بھی (اپنی جگہ) کچھ کر رہا ہوں۔ پھر عنقریب ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا
۴۰کہ کس پر وہ آفت آتی ہے جو اس کو (دنیا میں ) رسوا کر دے گی اور (آخر میں ) اس پر دائمی عذاب (بھی) نازل ہو گا۔
۴۱(اے رسولؐ) ہم نے تمہارے پاس (یہ) کتاب (قرآن) سچائی کے ساتھ لوگوں (کی ہدایت) کے واسطے نازل کی ہے پس جو راہ پر آیا تو اپنے ہی (بھلے کے ) لئے۔ اور جو گمراہ ہوا تو اس کی گمراہی کا وبال بھی اسی پر ہے۔ اور تم پھر کچھ ان کے ذمّہ دار تو ہو نہیں
۴۲خدا ہی لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں (اپنی طرف) کھینچ بلاتا ہے اور جو لوگ نہیں مرے (ان کی روحیں ) ان کی نیند میں (کھینچ لی جاتی ہیں ) بس جن کے بارے میں خدا موت کا حکم دے چکا ہے ان کی روحوں کو روک رکھتا ہے اور باقی (سونے والوں کی روحوں کو) پھر ایک مقرر وقت تک کے واسطے بھیج دیتا ہے جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں ان کے لیے (قدرتِ خدا کی)یقینی بہت سی نشانیاں ہیں۔
۴۳کیا ان لوگوں نے خدا کے سوا (دوسرے ) سفارشی بنا رکھے ہیں۔ (اے رسولؐ) تم کہہ تو دو کہ اگرچہ وہ لوگ نہ کچھ اختیار رکھتے ہوں گے نہ کچھ سمجھتے بوجھتے ہوں (تو بھی سفارشی بناؤ گے )
۴۴تم کہہ دو کہ ساری سفارش تو خدا کے لیے خاص ہے سارے آسمان و زمین کی حکومت اسی کے لیے خاص ہے پھر تم لوگوں کواسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
۴۵اور جب صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل متنفر ہو جاتے ہیں اور جب خدا کے سوا (اور معبودوں کا) ذکر کیا جاتا ہے تو بس ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔
۴۶(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اے خدا (اے ) سارے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے ظاہر و باطن کے جاننے والے جن باتوں میں تیرے بندے آپس میں جھگڑ رہے ہیں تو ہی ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔
۴۷اور اگر نافرمانوں کے پاس روئے زمین کی ساری کائنات مل جائے بلکہ اس کے ساتھ اتنی ہی اور بھی ہو تو قیامت کے دن یہ لوگ یقیناً سخت عذاب کا فدیہ دے نکلیں (اور اپنا چھٹکارا کرانا چاہیں ) اور (اس وقت)ان کے سامنے خدا کی طرف سے وہ باتیں پیش آئے گی جس کا انہیں وہم و گمان بھی نہ تھا
۴۸اور جو بد کرداریاں ان لوگوں نے کی تھیں (وہ سب) ان کے سامنے کھل جائیں گی اور جس (عذاب) پر یہ لوگ قہقہے لگاتے تھے وہ انہیں گھیر لے گا۔
۴۹انسان کوتو جب کوئی برائی چھو بھی گئی تو لگا ہم سے دعائیں مانگنے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ یہ تو صرف (میرے ) علم کے زور سے مجھے دیا گیا ہے (یہ غلطی ہے ) یہ تو ایک آزمائش ہے مگر ان میں کے اکثر نہیں جانتے ہیں۔
۵۰جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی ایسی باتیں بکا کرتے تھے پھر (جب ہمارا عذاب آیا) تو ان کی کارستانیاں ان سے کچھ بھی کام نہ آئیں۔
۵۱غرض ان کے اعمال کے بُرے نتیجے انہیں بھگتنے پڑے اور ان (کفّار مکّہ ) میں سے جن لوگوں نے نافرمانیاں کی ہیں انہیں بھی اپنے اپنے اعمال کی سزائیں بھگتنی پڑیں گی اور یہ لوگ (خدا کو) عاجز نہیں کرسکتے۔
۵۲کیا ان لوگوں کو اتنی بھی معلوم نہیں کہ خدا ہی جس کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ کرتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے ) تنگ کرتا ہے اس میں شک نہیں کہ اس میں ایماندار لوگوں کے لیے (قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں
۵۳(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اے میرے (ایماندار) بندو جنہوں نے (گناہ کر کے ) اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں تم لوگ خدا کی رحمت سے نا اُمید نہ ہونا بے شک خدا (تمہارے ) کل گناہوں کو بخش دے گا۔ وہ بے شک بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۵۴اور اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اسی کے فرمانبردار بن جاؤ (مگر) اس وقت کے قبل ہی کہ تم پر عذاب آ نازل ہو (اور) پھر تمہاری مدد نہ کی جا سکے گی۔
۵۵اور جو جو اچھی اچھی باتیں تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوتی ہیں ان پر چلو (مگر) اس کے قبل کہ تم پر اک بار گی عذاب نازل ہو اور تم کو (اس کی) کوئی خبر بھی نہ ہو
۵۶(کہیں ایسا نہ ہو) کہ ( تم میں سے ) کوئی شخص کہنے لگے کہ ہائے افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں نے (خدا کی بارگاہ کا) تقرب حاصل کرنے میں کی اور میں تو بس ان باتوں پر ہنستا ہی رہا
۵۷یا یہ کہنے لگے کہ اگر خدا میری ہدایت کرتا تو میں ضرور پرہیزگاروں سے ہوتا۔
۵۸یا جب عذاب کو (آتے ) دیکھے تو کہنے لگے کہ کاش مجھے (دنیا میں ) پھر دوبارہ جانا ملے تو میں نیکوکاروں سے ہو جاؤں۔
۵۹(اس وقت خدا فرمائے گا) ہاں ہاں تیرے پاس میری آیتیں پہنچیں تو تُو نے انہیں جھٹلا دیا اور شیخی کر بیٹھا اور تو بھی کافروں میں سے تھا۔(اب تیری ایک نہ سنی جائے گی)
۶۰اور جن لوگوں نے خدا پر جھوٹ بہتان باندھے تم قیامت کے دن دیکھو گے کہ ان کے چہرے سیاہ ہوں گے کیا غرور کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے (ضرور ہے )۔
۶۱اور جو لوگ پرہیزگار ہیں خدا اُنہیں ان کی کامیابی (اور سعادت) کے سبب نجات دے گا کہ انہیں تکلیف چھوئے گی بھی نہیں اور نہ یہ لوگ (کسی طرح) رنجیدہ دل ہوں گے۔
۶۲خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔
۶۳سارے آسمان و زمین کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اور جو لوگ اس کی آیتوں سے انکار کر بیٹھے وہی گھاٹے میں رہیں گے۔
۶۴(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ نادانو بھلا تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں خدا کے سوا (کسی دوسرے )کی عبادت کروں۔
۶۵اور (اے رسولؐ) تمہاری طرف اور ان (پیغمبروں ) کی طرف جوتم سے پہلے ہو چکے ہیں یقیناً یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر (کہیں ) شرک کیا تو یقیناً تمہارے سارے عمل اکارت ہو جائیں گے اور تم ضرور گھاٹے میں آ جاؤ گے۔
۶۶بلکہ تم خدا کی عبادت کرو اور شکر گزاروں میں ہو جاؤ۔
۶۷اور ان لوگوں نے خدا کی جیسی قدر کرنی چاہیے تھی اس کی (کچھ بھی) قدر نہ کی۔ حالانکہ (وہ ایسا قادر ہے کہ) قیامت کے دن ساری زمین (گویا) اس کی مٹھی میں ہو گی اور سارے آسمان (گویا) اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہیں جسے یہ لوگ اس کا شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاکیزہ اور برتر ہے۔
۶۸اور (جب پہلی بار) صور پھونکا جائے گا تو جو لوگ آسمانوں میں ہیں اور جو لوگ زمین میں ہیں (موت سے ) بیہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر (ہاں ) جس کو خدا چاہے (وہ البتہ بچ جائے گا) پھر (جب) دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو فوراً سب کے سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے۔
۶۹اور زمین پروردگار کے نور سے جگمگا اُٹھے گی اور (اعمال کی) کتاب (لوگوں کے سامنے )رکھ دی جائے گی اور پیغمبر اور گواہ لا حاضر کیے جائیں گے اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر (ذرّہ برابر) ظلم نہیں کیا جائے گا۔
۷۰اور جس شخص نے جیسا کیا ہے اُسے اُس کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں وہ اس سے خوب واقف ہے۔
۷۱اور جو لوگ کافر تھے ان کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب جہنم کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھو ل دیئے جائیں گے اور اس کے داروغہ ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم ہی لوگوں میں سے پیغمبر تمہارے پاس نہیں آئے تھے جو تم کو تمہارے پروردگار کی آیتیں پڑھ کر سناتے اور تم کو اس روز (بد) کے پیش آنے سے ڈراتے وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہاں (آئے تو تھے ) مگر (ہم نے نہ مانا) عذاب کا حکم کافروں کے بارے میں پورا ہو کر رہا
۷۲(تب ان سے ) کہا جائے گا کہ جہنم کے دروازوں میں دھنسو اور ہمیشہ اسی میں رہو غرض تکبر کرنے والوں کا (بھی) کیا بُرا ٹھکانہ ہے۔
۷۳اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے تھے وہ گروہ گروہ بہشت کی طرف (اعزاز و اکرام) سے بلائے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچیں گے اور بہشت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس کے نگہبان ان سے کہیں گے سلام علیکم تم اچھے رہے تم بہشت میں ہمیشہ کے لیے داخل ہو جاؤ۔
۷۴اور یہ لوگ کہیں گے خدا کا شکر جس نے اپنا وعدہ ہم کو سچّا کر دکھایا اور ہمیں (بہشت کی) سرزمین کا مالک بنایا کہ ہم بہشت میں جہاں چاہیں رہیں تو نیک چلن والوں کی بھی کیا خوب (کھری) مزدوری ہے۔
۷۵اور (اس دن) فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش کے گردا گرد گھیرے ہوئے ڈالے ہوں گے اور اپنے پروردگار کی تعریف (کی تسبیح) کر رہے ہیں اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دیا جائے گا اور (ہر طرف سے یہی) صدا بلند ہو گی الحمد للہ رب العالمین۔
٭٭٭
۴۰۔ سورۃ مؤمن
۱حٰ مٓ۔
۲(اس) کتاب (قرآن) کا نازل کرنا (خاص بارگاہِ) خدا سے ہے جو (سب سے ) غالب بڑا واقف کار
۳گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والا سخت عذاب دینے والا صاحب فضل و کرم ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔
۴خدا کی آیتوں میں بس وہی لوگ جھگڑے پیدا کرتے ہیں جو کافر ہیں تو (اے رسولؐ) ان لوگوں کا شہروں (شہروں ) گھومنا پھرنا (اور مال حاصل کرنا) تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے (کہ ان پر عذاب نہ ہو گا)۔
۵ان کے پہلے نوحؑ کی قوم نے اور ان کے بعد اور امّتوں نے (اپنے پیغمبروں کو) جھٹلایا اور ہر امّت نے اپنے پیغمبر کے بارے میں یہی ٹھان لیا کہ انہیں گرفتار (کر کے قتل) کر ڈالیں اور بے ہودہ باتوں کی آڑ پکڑ کے لڑنے لگے تاکہ اس کے ذریعہ سے حق بات کو اکھاڑ پھینکیں تو میں نے انہیں گرفتار کیا پھر (دیکھو ان پر)میرا عذاب کیسا (سخت) ہوا۔
۶اور اسی طرح تمہارے پروردگار کا (عذاب کا) حکم (ان) کافروں پر پورا ہو چکا ہے کہ یہ لوگ یقینی جہنمی ہیں۔
۷جو (فرشتے ) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے گردا گرد (تعینات) ہیں (سب) اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنوں کے لیے بخشش کی دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز پر احاطہ کیے ہوئے ہیں تو جن لوگوں نے (سچّے ) دل سے توبہ کر لی اور تیرے راستہ پر چلے ان کو بخش دے اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لے۔
۸اے ہمارے پالنے والے ان کو سدا بہار باغوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے داخل فرما اور ان کے باپ داداؤں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو لوگ نیک ہوں ان کو (بھی بخش دے ) بے شک تو ہی زبردست (اور) حکمت والا ہے۔
۹اور ان کو ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رکھ۔ اور جس کو تو نے اس دن (قیامت) کے عذابوں سے بچا لیا اس پر تو نے بڑا رحم کیا اور یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
۱۰(ہاں ) جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان سے پکار کر کہہ دیا جائے گا کہ جتنا تم (آج) اپنی جان سے بیزار ہو اس سے بڑھ کر خدا تم سے بیزار تھا جب تم ایمان کی طرف بلائے گئے تو کفر کرتے تھے۔
۱۱وہ لوگ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار تو ہم کو دو بار مار چکا اور دوبارہ زندہ کر چکا تو اب ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں تو کیا (یہاں سے ) نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے۔
۱۲یہ (عذاب) اس لیے ہے کہ جب تنہا خدا پکارا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ شرک کیا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے تو (آج) خدا ہی کی حکومت ہے جو عالی شان (اور) بزرگ ہے۔
۱۳وہی تو ہے جو تم کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے اور تمہارے لیے آسمان سے روزی نازل کرتا ہے اور نصیحت تو بس وہی حاصل کرتا ہے جو (اس کی طرف) رجوع کرتا ہے۔
۱۴پس تم لوگ خدا کی عبادت کو خالص کر کے اسی کو پکارا کرو اگرچہ کفّار بُرا مانیں۔
۱۵خدا تو عالی مرتبہ عرش کا مالک ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے وحی نازل کرتا ہے تاکہ وہ (بندہ لوگوں کو) ملاقات (قیامت) کے دن سے ڈرائے
۱۶جس دن وہ لوگ (قبروں سے ) نکل پڑیں گے (اور) ان کی کوئی چیز خدا سے پوشیدہ نہیں رہے گی (اور ندا آئے گی) آج کس کی بادشاہت ہے (پھر خدا خود کہے گا) خاص خدا کی جو اکیلا (اور) غالب ہے۔
۱۷ آج ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے گا آج کسی پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا بے شک خدا بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
۱۸اور (اے رسولؐ) تم ان لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جو عنقریب آنے والا ہے جب لوگوں کے کلیجے گھٹ گھٹ کے (مارے ڈر کے ) منہ کو آ جائیں گے (اس وقت) نہ تو سرکشوں کا کوئی سچّا دوست ہو گا اور نہ کوئی ایسا سفارشی جس کی بات مان لی جائے،
۱۹خدا تو آنکھوں کی دزدیدہ نگاہ کو بھی جانتا ہے اور ان باتوں کو بھی جو (لوگوں کے ) سینوں میں پوشیدہ ہیں۔
۲۰اور خدا ٹھیک (ٹھیک) حکم دیتا ہے اور اس کے سوا جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں وہ تو کچھ بھی حکم نہیں دے سکتے اس میں شک نہیں کہ خدا سننے والا دیکھنے والا ہے۔
۲۱کیا ان لوگوں نے روئے زمین پر چل پھر کر نہیں دیکھا کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا(حالانکہ) وہ لوگ قوت (شان اور عمر سب) میں اور زمین پر اپنی نشانیاں (یادگار عمارتیں ) چھوڑ جانے میں بھی ان سے کہیں بڑھ چڑھ کے تھے تو خدا نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کی لے دے کی اور خدا (کے غضب) سے ان کا بچانے والا کوئی بھی نہ تھا۔
۲۲یہ اس سبب سے کہ ان کے پیغمبران کے پاس واضح و روشن معجزے لے کر آئے اس پر بھی ان لوگوں نے نہ مانا تو خدا نے انہیں لے ڈالا اس میں شک ہی نہیں کہ وہ قوی (اور) سخت عذاب والا ہے۔
۲۳اور ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیاں اور روشن دلیلیں دے کر
۲۴فرعون اور ہامان اور قارون کے پاس بھیجا تو وہ لوگ کہنے لگے کہ (یہ تو) ایک بڑا جھوٹا (اور) جادوگر ہے۔
۲۵غرض جب موسیٰؑ ان کے پاس ہماری طرف سے سچّا دین لے کر آئے تو وہ بولے کہ جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کے بیٹوں کو تو مار ڈالو اور ان کی عورتوں کو (لونڈیاں بنانے کے لیے ) زندہ رہنے دو اور کافروں کی تدبیریں تو بے ٹھکانے ہوتی ہی ہیں۔
۲۶اور فرعون کہنے لگا مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰؑ کو قتل کر ڈالوں اور وہ اپنے پروردگار کو (مدد کے لیے بلاتا ہے ) بلائے (بھائیو) مجھے اندیشہ ہے کہ (مبادا) تمہارے دین کو اُلٹ پلٹ کر ڈالے یا ملک میں فساد پیدا کرے۔
۲۷اور موسیٰ ؑ نے کہا کہ میں تو ہر متکبر سے جو حساب کے دن (قیامت) پر ایمان نہیں لاتا اپنے اور تمہارے پروردگار کی پناہ لے چکا ہوں۔
۲۸اور فرعون کے لوگوں میں ایک ایماندار شخص (حزقیل) نے جو اپنے ایمان کو چھپائے رہتا تھا (لوگوں سے ) کہا کیا تم لوگ ایسے شخص کے قتل کے درپے ہو جو (صرف) یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے حالانکہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس معجزے لے کر آیا ہے اور اگر (بالفرض) یہ شخص جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اور اگر یہ کہیں سچا ہوا تو جس (عذاب) کی تمہیں یہ دھمکی دیتا ہے اس میں سے کچھ تو تم لوگوں پر ضرور واقع ہو کر رہے گا بے شک خدا اس شخص کی ہدایت نہیں کرتا جو حد سے گزرنے والا (اور) جھوٹا ہے۔
۲۹اے میری قوم آج تو (بے شک) تمہاری بادشاہت ہے (اور) ملک میں تمہارا ہی بول بالا ہے (لیکن کل) اگر خدا کا عذاب ہم پر آ جائے تو ہماری کون مدد کرے گا۔ فرعون نے کہا میں تو وہی بات سمجھاتا ہوں اور وہی راہ دکھاتا ہوں جس میں بھلائی ہے
۳۰تو جو شخص (درپردہ) ایمان لا چکا تھا کہنے لگا بھائیو!مجھے تو تمہارے نسبت بھی اور امّتوں کی طرح روز (بد) کا اندیشہ ہے
۳۱(کہیں تمہارا بھی وہی حال نہ ہو) جیسا نوحؑ کی قوم اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد والے لوگوں کا حال ہوا، اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا چاہتا ہی نہیں۔
۳۲اور اے میری قوم مجھے تو تمہاری نسبت قیامت کے دن کا اندیشہ ہے
۳۳جس دن تم پیٹھ پھیر کر (جہنم کی طرف)چل کھڑے ہو گے تو خدا (کے عذاب) سے تمہارا کوئی بچانے والا نہ ہو گا اور جس کو خدا گمراہی میں چھوڑ دے۔ تو اس کا کوئی رو براہ کرنے والا نہیں۔
۳۴اور (اس سے ) پہلے یوسف بھی تمہارے پاس معجزے لے کر آئے تو جو جو لائے تھے تو تم لوگ اس میں برابر شک ہی کرتے رہے یہاں تک کہ جب انہوں نے وفات پائی تو تم کہنے لگے کہ ان کے بعد خدا ہرگز کوئی رسولؐ نہیں بھیجے گا جو حد سے گزر جانے والا اور شک کرنے والا ہو خدا اسے یوں ہی گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے۔
۳۵جو لوگ بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی دلیل آئی ہو خدا کی آیتوں میں (خواہ مخواہ) جھگڑے کیا کرتے ہیں وہ خدا کے نزدیک اور ایمانداروں کے نزدیک سخت نفرت خیز ہیں۔ یوں خدا ہر متکبر سرکش کے دل پر علامت مقرر کر دیتا ہے۔
۳۶اور فرعون نے کہا اے ہامان ہمارے لیے ایک محل بنوا دو (تاکہ اس پر چڑھ کر) رستوں پر پہنچ جاؤں۔
۳۷(یعنی) آسمان کے رستوں پر پھر موسیٰؑ کے خدا کو جھانک (کر دیکھ) لوں اور میں تو اسے یقینی جھوٹا سمجھتا ہوں اور اسی طرح فرعون کی بد کرداریاں اس کو بھلی کر کے دکھا دی گئی تھیں اور وہ راہِ راست سے روک دیا گیا تھا۔ اور فرعون کی تدبیر تو بس بالکل غارت غلا ہی تھی
۳۸اور جو شخص (در پردہ)ایماندار تھا کہنے لگا بھائیو! میرا کہنا مانو میں تمہیں ہدایت کے رستے دکھا دوں گا۔
۳۹بھائیو! یہ دنیاوی زندگی تو بس (چند روزہ) فائدہ ہے اور آخرت ہی ہمیشہ رہنے کا گھر ہے۔
۴۰جو بُرا کام کرے گا تو اسے بدلہ بھی ویسا ہی ملے گا۔ اور جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت مگر ایماندار ہو تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے وہاں انہیں بے حساب روزی ملے گی۔
۴۱اور اے میری قوم مجھے کیا ہوا کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلاتے ہو۔
۴۲تم مجھے بلاتے ہو کہ میں خدا کے ساتھ کفر کروں اور اس چیز کو اس کا شریک بناؤں جس کا مجھے علم نہیں ہے اور میں تمہیں غالب (اور) بڑے بخشنے والے خدا کی طرف بلاتا ہوں۔
۴۳بے شک تم جس چیز کی طرف مجھے بلاتے ہو وہ نہ تو دنیا ہی میں پکارے جانے کے قابل ہے اور نہ آخرت میں اور آخر میں ہم سب کو خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ حد سے بڑھ جانے والے جہنمی ہیں۔
۴۴تو جو میں تم سے کہتا ہوں عنقریب ہی اسے یاد کرو گے اور میں تو اپنا کام خدا ہی کو سونپے دیتا ہوں کچھ شک نہیں کہ خدا بندوں (کے حال) کو خوب دیکھ رہا ہے
۴۵تو خدا نے اسے ان کی تدبیروں کی برائی سے محفوظ رکھا اور فرعونیوں کو بُرے عذاب نے (ہر طرف سے ) گھیر لیا۔
۴۶(اور اب تو قبر میں دوزخ کی) آگ ہے کہ وہ لوگ (ہر) صبح و شام اس کے سامنے لا کھڑے کیے جاتے ہیں۔ اور جس دن قیامت برپا ہو گی (حکم ہو گا کہ) فرعون کے لوگوں کو سخت سے سخت عذاب میں جھونک دو۔
۴۷اور یہ لوگ جس وقت جہنم میں باہم جھگڑیں گے تو کم حیثیت لوگ بڑے آدمیوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے تو کیا تم اس وقت (دوزخ کی) آگ کا کچھ حصہ ہم سے ہٹا سکتے ہو۔
۴۸تو بڑے لوگ کہیں گے (اب تو) ہم (تم) سب کے سب آگ میں (پڑے ) ہیں خدا (کو) تو بندوں کے بارے میں (جو کچھ) فیصلہ (کرنا تھا) کر چکا۔
۴۹اور جو لوگ آگ میں (جل رہے ) ہوں گے جہنم کے داروغاؤں سے درخواست کریں گے کہ اپنے پروردگار سے عرض کرو کہ ایک دن تو ہمارے عذاب میں تخفیف کر دے۔
۵۰وہ جواب دیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے پیغمبر صاف و روشن معجزے لے کر نہیں آئے تھے وہ کہیں گے ہاں (آئے تو تھے ) تب فرشتے کہیں گے تو پھر تم خود (کیوں نہ) دعا کرو حالانکہ کافروں کی دعا تو بس بے کار ہی ہے۔
۵۱ہم اپنے پیغمبروں کی اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں ضرور مدد کریں گے، اور جس دن گواہ (پیغمبر فرشتے گواہی کو) اُٹھ کھڑے ہوں گے
۵۲(اس دن بھی)جس دن ظالموں کو ان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اور ان پر پھٹکار (برستی) ہو گی اور ان کے لیے بہت بُرا گھر (جہنم) ہے۔
۵۳اور ہم ہی نے موسیٰؑ کو ہدایت (کی کتاب توریت) دی اور بنی اسرائیل کو (اس) کتاب کا وارث بنایا۔
۵۴جو عقلمندوں کے لیے (سرتاپا) ہدایت و نصیحت ہے۔
۵۵تو (اے رسولؐ) تم (ان کی شرارت پر) صبر کرو بے شک خدا کا وعدہ سچا ہے اور اپنے (امت کے ) گناہوں کی معافی مانگو اور صبح و شام اپنے پروردگار کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح کرتے رہو
۵۶بے شک جو لوگ خدا کی آیتوں میں (خواہ مخواہ) جھگڑے نکالتے ہیں حالانکہ ان کے پاس (خدا کی طرف سے ) کوئی دلیل تو آئی نہیں۔ان کے دل میں بڑائی (کی بے جا ہوس) کے سوا کچھ نہیں حالانکہ وہ لوگ اس تک کبھی پہنچنے والے نہیں تو تم بس خدا کی پناہ مانگتے رہو بے شک وہ بڑا سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔
۵۷سارے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے کی بہ نسبت یقینی بڑا (کام) ہے مگر اکثر لوگ(اتنا بھی) نہیں جانتے۔
۵۸اور اندھا اور آنکھ والا (دونوں ) برابر نہیں ہو سکتے اور نہ مومنین جنہوں نے اچھے کام کیے اور بدکار (ہی) برابر ہو سکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ تم لوگ بہت کم غور کرتے۔
۵۹قیامت تو ضرور آنے والی ہے اس میں کسی طرح کا شک نہیں مگر اکثر لوگ (اس پر بھی) ایمان نہیں رکھتے۔
۶۰اور تمہارا پروردگار ارشاد فرماتا ہے کہ تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گاجو لوگ ہماری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ہی ذلیل و خوار ہو کر یقیناً جہنم واصل ہوں گے۔
۶۱خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے واسطے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن (بنایا تاکہ کام کرو) بے شک خدا لوگوں پر بڑا فضل (و کرم) کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ (اس کا) شکر ادا نہیں کرتے۔
۶۲یہی خدا تمہارا پروردگار ہے جو ہر چیز کا خالق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم کہاں بہکے جا رہے ہو۔
۶۳جو لوگ خدا کی آیتوں سے انکار رکھتے تھے وہ اسی طرح بھٹک رہے تھے۔
۶۴اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے واسطے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اور اسی نے تمہاری صورتیں بنائی تو اچھی صورتیں بنائیں اور اسی نے تمہیں صاف ستھری چیزیں کھانے کو دیں یہی اللہ تو تمہارا پروردگار ہے تو خدا بہت ہی متبرک ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔
۶۵وہی (ہمیشہ) زندہ ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو نری کھری اسی کی عبادت کر کے اس سے دعا مانگو سب تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔
۶۶(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ جب میرے پاس میرے پروردگار کی بارگاہ سے کھلے ہوئے معجزے آ چکے مجھے اس بات کی منا ہی کر دی گئی ہے کہ خدا کو چھوڑ کر جِن کو تم پوجتے ہو میں ان کی پرستش کروں اور مجھے تو یہ حکم ہو چکا ہے کہ میں سارے جہان کے پالنے والے کا فرمانبردار بنوں۔
۶۷وہی وہ (خدا) ہے جس نے تم کو (پہلے پہل) مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر جمے ہوئے خون سے پھر تم کو بچہ بنا کر (ماں کے پیٹ سے ) نکالتا ہے تاکہ (بڑھو) پھر (زندہ رکھتا ہے ) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو پھر (اور زندہ رکھتا ہے ) تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ اور تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو (اس سے ) پہلے ہی مر جاتا ہے غرض (تم کو اس وقت تک زندہ رکھتا ہے ) کہ تم (موت کے ) مقرر وقت تک پہنچ جاؤ اور تاکہ تم (اس کی قدرت کو) سمجھو۔
۶۸وہ وہی (خدا) ہے جو جلاتا اور مارتا ہے پھر جب وہ کسی کام کا کرنا ٹھان لیتا ہے تو بس اس سے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ فوراً ہو جاتا ہے۔
۶۹(اے رسولؐ) کیا تم نے ان لوگوں (کی حالت) پر غور نہیں کیا جو خدا کی آیتوں میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں یہ کہاں بھٹکے چلے جا رہے ہیں۔
۷۰جن لوگوں نے کتاب (خدا) اور ان باتوں کو جو ہم نے پیغمبروں کو دے کر بھیجا تھا جھٹلایا تو بہت جلد (اس کا نتیجہ) انہیں معلوم ہو جائے گا۔
۷۱جب (بھاری بھاری) طوق اور زنجیریں ان کی گردنوں میں ہوں گی (اور پہلے ) کھولتے ہوئے
۷۲پانی میں گھسیٹے جائیں گے پھر (جہنم) کی آگ میں جھونک دیئے جائیں گے۔
۷۳پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ خدا کے سوا جن کو (اس کا) شریک بناتے تھے (اس وقت) کہاں ہیں۔
۷۴وہ کہیں گے اب تو وہ ہم سے جاتے رہے بلکہ (سچ یوں ہے کہ) ہم تو پہلے ہی سے (خدا کے سوا) کسی چیز کی پرستش نہ کرتے تھے یوں خدا کافروں کو بوکھلا دے گا (کہ کچھ سمجھ میں نہ آئے گا)
۷۵یہ اس کی سزا ہے کہ تم دنیا میں ناحق (بات پر) نہال نہال تھے اور اس کی سزا ہے کہ تم اترایا کرتے تھے۔
۷۶اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ (اور) ہمیشہ اسی میں (پڑے ) رہو۔غرض تکبر کرنے والوں کا بھی (کیا) بُرا ٹھکانہ ہے۔
۷۷تو (اے رسولؐ) تم صبر کرو خدا کا وعدہ یقینی سچا ہے۔ تو جس (عذاب) کی ہم انہیں دھمکی دیتے ہیں اگر ہم تم کو اس میں سے کچھ دکھا دیں یا تم ہی کو (اس کے قبل دنیا سے ) اٹھا لیں تو (آخر پھر) ان کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
۷۸اور تم سے پہلے بھی ہم نے بہت سے پیغمبر بھیجے ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کے حالات ہم نے تم سے بیان کر دیئے اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات تم سے نہیں دہرائے اور کسی پیغمبر کی یہ مجال نہ تھی کہ خدا کے اختیار دیئے بغیر کوئی معجزہ دکھا سکے پھر جب خدا کا حکم (عذاب) آ پہنچا تو ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دیا گیا اور اہل باطل ہی اس وقت گھاٹے میں رہے
۷۹خدا ہی تو وہ ہے جس نے تمہارے واسطے چار پائے پیدا کیے تاکہ تم ان میں سے کسی پر سوار ہوتے ہو اور کسی کو کھاتے ہو
۸۰اور تمہارے لیے ان میں (اور بھی) فائدے ہیں اور تاکہ تم ان پر (چڑھ کر) اپنی دلی مقصد تک پہنچو اور ان پر اور (نیز) کشتیوں پر سوار پھرتے ہو
۸۱اور وہ تم کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تو تم خدا کی کن کن نشانیوں کونہ مانو گے۔
۸۲تو کیا یہ لوگ روئے زمین پر چلے پھرے نہیں تو دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام آخر کیا ہوا جو ان سے (تعداد میں ) کہیں زیادہ تھے اور قوت اور زمین پر (اپنی) نشانیاں (یادگاریں ) چھوڑنے میں بھی کہیں بڑھ چڑھ کے تھے تو جو کچھ ان لوگوں نے کیا کرایا تھا ان کے کچھ کام بھی نہ آیا۔
۸۳پھر جب ان کے پیغمبر ان کے پاس واضح و روشن معجزے لے کر آئے تو جو علم (اپنے خیال میں ) ان کے پاس تھا اس پر نازاں ہوئے اور جس (عذاب) کی یہ لوگ ہنسی اڑاتے تھے اسی نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔
۸۴تو جب ان لوگوں نے ہمارے عذاب کو دیکھ لیا تو کہنے لگے ہم یکتا خدا پر ایمان لائے اور جس چیز کو ہم اس کا شریک بناتے تھے اب ہم ان کو نہیں مانتے۔
۸۵تو جب ان لوگوں نے ہمارا عذاب (آتے ) دیکھ لیا تو اب ان کا ایمان لانا کچھ بھی فائدہ مند نہیں ہو سکتا (یہ) خدا کی عادت (ہے ) جو اپنے بندوں کے بارے میں (سدا سے ) چلی آتی ہیں اور کافر لوگ اس وقت گھاٹے میں رہے۔
٭٭٭
۴۱۔ سورۃ حٰمٓ السجدۃ
۱حٰ مٓ۔
۲(یہ کتاب) رحمن و رحیم خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔
۳یہ (وہ) کتاب عربی قرآن ہے جس کی آیتیں سمجھ دار لوگوں کے واسطے تفصیل کے ساتھ بیان کر دی گئی ہیں۔
۴(نیکوکاروں کو) خوشخبری دینے والی اور (بدکاروں کو) ڈرانے والی ہے اس پر بھی ان میں سے اکثر نے منہ پھیر لیا اور وہ سنتے ہی نہیں۔
۵اور کہنے لگے کہ جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہواس سے تو ہمارے دل پردوں میں ہیں (کہ دل کو نہیں لگتی) اور ہمارے کانوں میں گرانی (بہرہ پن) ہے (کہ کچھ سنائی نہیں دیتا) اور ہمارے تمہارے درمیان ایک پردہ (حائل) ہے تو تم اپنا کام کرو ہم (اپنا) کام کرتے ہیں۔
۶(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں بھی (شکل و شباہت میں ) بس تمہارا ہی سا آدمی ہوں (مگر فرق یہ ہے کہ) مجھ پر وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود بس (وہی) یکتا خدا ہے تو سیدھے اس کی طرف متوجہ رہو اور اسی سے بخشش کی دعا مانگو اور مشرکوں پر افسوس ہے۔
۷جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے بھی قائل نہیں۔
۸بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرتے رہے ان کے لیے وہ ثواب ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
۹(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا تم اس (خدا) سے انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور تم (اوروں کو) اس کا ہمسر بناتے ہو۔ یہی تو سارے جہان کا سرپرست ہے۔
۱۰اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ پیدا کیے اور اسی نے اس میں برکت عطا کی اور اسی نے ایک مناسب انداز پرا س میں سامان معیشت کا بندوبست کیا(یہ سب کچھ) چار دن میں (اور تمام) طلب گاروں کے لیے برابر۔
۱۱پھرآسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ (اس وقت) دھواں (کاسا) تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں آؤ خوشی سے خواہ کراہت سے۔ دونوں نے عرض کی ہم خوش خوش حاضر ہیں (اور حکم کے پابند ہیں )
۱۲پھر اس نے دو دن میں اس (دھوئیں ) کے سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس (کے انتظام) کا حکم (کارکنانِ قضا و قدر کے پاس) بھیج دیا اور ہم نے نیچے والے آسمان کو(ستاروں کے ) چراغوں سے مزین کیا اور (شیطانوں سے ) محفوظ رکھا یہ واقف کار غالب (خدا) کے (مقرر کیے ہوئے ) اندازے ہیں۔
۱۳پھر اگر اس پر بھی یہ کفّار منہ پھیریں تو کہہ دو کہ میں تم کو ایسی بجلی گرنے (کے عذاب) سے ڈراتا ہوں جیسی قوم عاد و ثمود کی بجلی کی کڑک۔
۱۴کہ جب ان کے پاس ان کے آگے سے اور پیچھے سے پیغمبر (یہ خبر لے کر) آئے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا پروردگار چاہتا تو فرشتے نازل کرتا اور جو (باتیں ) دے کر تم لوگ بھیجے گئے ہو ہم تو اسے نہیں مانتے۔
۱۵تو عاد ناحق روئے زمین میں غرور کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم سے بڑھ کر قوت میں کون ہے۔ کیا ان لوگوں نے اتنا بھی غور نہ کیا کہ خدا جس نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے قوت میں کہیں بڑھ کے ہے غرض وہ لوگ ہماری آیتوں سے انکار ہی کرتے رہے۔
۱۶تو ہم نے بھی (ان کے ) نحوست کے دنوں میں ان پر بڑی زوروں کی آندھی چلائی تاکہ دنیا کی زندگی میں بھی ان کو رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھا دیں اور آخرت کا عذاب تو اور زیادہ رسوا کرنے والا ہی ہو گا (اور (پھر) ان کو کہیں سے بھی مدد نہ ملے گی۔
۱۷اور رہے ثمود تو ہم نے ان کو سیدھا رستہ دکھا دیا مگر ان لوگوں نے ہدایت کے مقابلہ میں گمراہی کو پسند کیا تو ان کی کرتوتوں کی بدولت ذلت کے عذاب کی بجلی نے ان کو لے ڈالا۔
۱۸اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے تھے ان کو ہم نے (اس مصیبت سے ) بچا لیا۔
۱۹اور جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف ہنکائے جائیں گے تو یہ لوگ ترتیب وار کھڑے کیے جائیں گے۔
۲۰یہاں تک کہ جب سب کے سب جہنم کے پاس جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے (گوشت) پوست ان کے خلاف ان کے مقابلہ میں ان کی کارستانیوں کی گواہی دیں گے۔
۲۱اور یہ لوگ اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی تو وہ جواب دیں گے کہ جس خدا نے ہر چیز کو گویا کیا اسی نے ہم کو (اپنی قدرت سے ) گویا کیا اور اسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور (آخر) اسی کی طرف تم لوگ لوٹائے جاؤ گے۔
۲۲اور (تمہاری تو حالت تھی کہ) تم لوگ اس خیال سے (اپنے گناہوں کی) پردہ داری بھی تو نہیں کرتے تھے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے اعضاء تمہارے برخلاف گواہی دیں گے بلکہ تم تو اس خیال میں (بھولے ہوئے ) تھے کہ خدا کو تمہارے بہت سے کاموں کی خبر ہی نہیں۔
۲۳اور تمہاری اس بد خیالی نے جو تم اپنے پروردگار کے بارے میں رکھتے تھے۔ تمہیں تباہ کر چھوڑا۔ آخر تم گھاٹے میں رہے۔
۲۴پھر اگر یہ لوگ صبر بھی کریں تو بھی ان کا ٹھکانہ دوزخ ہی ہے اور اگر توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی
۲۵اور ہم نے (گویا خود شیطانوں کو) ان کا ہم نشین مقرر کر دیا تھا تو انہوں نے اگلے پچھلے تمام امور ان کی نظروں میں بھلے کر دکھائے تو جنات اور انسانوں کی امتیں جو ان سے پہلے گزر چکی تھیں انہی کے شمول میں (عذاب کا) وعدہ ان کے حق میں بھی پورا ہو کر رہا۔ بے شک یہ لوگ اپنے گھاٹے کے درپے تھے۔
۲۶اور کفار کہنے لگے کہ اس قرآن کو سنو ہی نہیں اور جب پڑھیں (تو) اس (کے بیچ) میں غل مچا دیا کرو تاکہ (اس ترکیب سے ) تم غالب آ جاؤ۔
۲۷تو ہم بھی کافروں کوسخت عذاب کے مزے چکھائیں گے اور ان کی کارستانیوں کی بہت بُری سزا دیں گے
۲۸یہ دوزخ ہی خدا کے دشمنوں کا بدلہ ہے اُن کے لیے اس میں ہمیشہ (رہنے ) کا گھر ہے اس (جرم) کی سزا میں کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔
۲۹اور (قیامت کے دن) کفّار کہیں گے اے ہمارے پروردگار جنوں اور انسانوں میں سے جن لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا (ایک نظر) ان کو ہمیں دکھا دے کہ ہم ان کو اپنے پاؤں تلے (روند) ڈالیں تاکہ وہ خوب ذلیل ہوں۔
۳۰اور جن لوگوں نے (سچّے دل سے ) کہا کہ ہمارا پروردگار تو (بس) خدا ہے پھر وہ اسی پر قائم رہے۔ ان پر (موت کے وقت رحمت کے ) فرشتے نازل ہوں گے (اور کہیں گے ) کہ کچھ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور جس بہشت کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا اس کی خوشیاں مناؤ۔
۳۱ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی (رفیق) ہیں۔ اور جس چیز کو تمہارا جی چاہے بہشت میں تمہارے واسطے موجود ہے اور جو چیز طلب کرو گے وہاں تمہارے لیے (حاضر) ہو گی۔
۳۲(یہ) بخشنے والے مہربان (خدا) کی طرف سے (تمہاری) مہمانی ہے۔
۳۳اور بات میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو (لوگوں کو) خدا کی طرف بلائے اور اچھے اچھے کام کرے اور کہے کہ میں بھی یقیناً (خدا کے ) فرمانبردار بندوں میں ہوں۔
۳۴اور بھلائی برائی (کبھی) برابر نہیں ہو سکتی تو (سخت کلامی کا) ایسے طریقہ سے جواب دو جو نہایت اچھا ہو (ایسا کرو گے ) تو (تم دیکھو گے ) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا دل سوز دوست ہے۔
۳۵یہ بات بس ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں اور انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیب ور ہیں
۳۶اور اگر تمہیں شیطان کی طرف سے وسوسہ پیدا ہو تو خدا کی پناہ مانگ لیا کرو بے شک وہ (سب کی) سنتا جانتا ہے۔
۳۷اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند ہیں (تو)تم لوگ نہ سورج کو سجدہ کرنا اور نہ چاند کو اور اگر تم کو خدا ہی کی عبادت کرنی منظور ہے تو بس اسی کو سجدہ کرو جس نے اِن چیزوں کو پیدا کیا ہے۔
۳۸پس اگر یہ لوگ سر کشی کریں تو (خدا کو بھی اِن کی پرواہ نہیں ) جو لوگ (فرشتے ) تمہارے پروردگار کی بارگاہ میں ہیں وہ رات دن اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور وہ لوگ اکتاتے بھی نہیں۔
۳۹اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تم زمین کو خشک و بے گیاہ دیکھتے ہو پھر جب اس پر ہم پانی برسا دیتے ہیں تو لہلہانے لگتی ہیں اور پھول جاتی ہے جس (خدا) نے (مردہ) زمین کو زندہ کیا وہ یقیناً مردوں کو بھی جلائے گا بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۴۰جو لوگ ہماری آیتوں میں ہیر پھیر پیدا کرتے ہیں وہ ہرگز ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں بھلا جو شخص دوزخ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ شخص جو قیامت کے دن بے خوف و خطر آئے گا (خیر) جو چاہو سو کرو (مگر) جو کچھ تم کرتے ہو وہ (خدا) اس کو دیکھ رہا ہے۔
۴۱جن لوگوں نے نصیحت کو جب وہ ان کے پاس آئی نہ مانا (وہ اپنا نتیجہ دیکھ لیں گے ) اور یہ قرآن تو یقینی ایک عالی رتبہ کتاب ہے۔
۴۲کہ جھوٹ نہ تواس کے آگے ہی پھٹک سکتا ہے نہ اس کے پیچھے سے اور خوبیوں والے دانا (خدا) کی بارگاہ سے نازل ہوئی ہے۔
۴۳(اے رسولؐ) تم سے بھی بس وہی باتیں کہی جاتی ہیں جو تم سے پہلے رسولوں سے کہی جا چکی ہیں۔ بے شک تمہارا پروردگار بخشنے والا بھی ہے اور دردناک عذاب (دینے ) والا بھی ہے۔
۴۴اور اگر ہم اس قرآن کو عربی زبان کے سوا دوسری زبان میں نازل کرتے تو یہ لوگ ضرور کہہ نہ بیٹھتے کہ اس کی آیتیں (ہماری زبان میں ) تفصیل وار کیوں بیان نہیں کی گئیں کیا (خوب قرآن تو) عجمی اور (مخاطب) عربی (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ ایمانداروں کے لیے تو یہ (قرآن از سرتاپا) ہدایت اور (ہر مرض کی) شفا ہے اور جو لوگ ایمان نہیں رکھتے ان کے کانوں (کے حق) میں گرانی (بہرا پن) ہے اور وہ (قرآن) ان کے حق میں نابینائی (کا سبب) ہے تو (گرانی کی وجہ سے گویا)وہ لوگ بڑی دور کی جگہ سے پکارے جاتے ہیں (اور نہیں سنتے )
۴۵اور ہم ہی نے موسیٰ ؑ کو بھی کتاب (توریت) عطا کی تھی تو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہو چکی ہوتی تو ان میں کب کا فیصلہ کر دیا گیا ہوتا اور یہ لوگ ایسے شک میں پڑے ہوئے ہیں جس نے انہیں بے چین کر دیا ہے۔
۴۶جس نے اچھے اچھے کام کیے تو اپنے نفع کے لیے اور جو بُرا کام کرے اس کا وبال بھی اسی پر ہے اور تمہارا پروردگار تو بندوں پر (کبھی) ظلم کرنے والا نہیں۔
۴۷قیامت کے علم کا حوالہ اسی کی طرف ہے (یعنی وہی جانتا ہے ) اور بغیر اس کے علم (و ارادہ) کے نہ تو پھل اپنے بوروں سے نکلتے ہیں اور نہ کسی عورت کو حمل رہتا ہے اور نہ وہ بچہ جنتی ہے اور جس دن (خدا) ان (مشرکین) کو پکارے گا (اور پوچھے گا) کہ میرے شریک کہاں ہیں وہ کہیں گے ہم تو تجھ سے عرض کر چکے کہ ہم میں سے کوئی (ان سے ) واقف ہی نہیں۔
۴۸اور اس سے پہلے جن معبودوں کی یہ لوگ پرستش کرتے تھے وہ غائب (غلا) ہو گئے اور یہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ اب ان کے لیے مخلصی نہیں۔
۴۹انسان بھلائی کی دعائیں مانگنے سے تو کبھی اکتاتا نہیں اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچ جائے تو (فوراً) نا امید اور بے آس ہو جاتا ہے۔
۵۰اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچ جانے کے بعد ہم اس کو اپنی رحمت کا مزا چکھائیں تو یقینی کہنے لگتا ہے کہ یہ تو میرے ہی لیے ہے اور میں نہیں خیال کرتا کہ کبھی قیامت برپا ہو گی اور اگر (قیامت ہو بھی اور ) میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا بھی جاؤں تو بھی میرے لیے یقیناً اس کے یہاں بھلائی ہی تو ہے پس جن لوگوں نے کُفر اختیار کیا تو جو کچھ وہ کرتے رہے ہم ان کو (قیامت میں )ضرور بتا دیں گے اور ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔
۵۱(وہ الگ) اور جب ہم انسان پر احسان کرتے ہیں تو (ہماری طرف سے ) منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو بدل کر چل دیتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔
۵۲(اے رسولؐ) تم کہو کہ بھلا دیکھو تو سہی کہ اگر یہ (قرآن) خدا کی بارگاہ سے (آیا) ہو (اور) پھر تم اس سے انکار کرو تو جو (ایسے ) پر لے درجے کی مخالفت میں (پڑا) ہو اس سے بڑھ کر اور کون گمراہ ہو سکتا ہے۔
۵۳ہم عنقریب ہی اپنی (قدرت کی) نشانیاں اطراف (عالم) میں اور خود ان میں بھی دکھا دیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی یقیناً حق ہے کیا تمہارا پروردگار اس کے لیے کافی نہیں کہ وہ ہر چیز پر قابو رکھتا ہے۔
۵۴دیکھو یہ لوگ اپنے پروردگار کے رُوبرو حاضر ہونے سے شک میں (پڑے ) ہیں۔ سن رکھو وہ یقیناً ہر چیز پر حاوی ہے۔
٭٭٭
۴۲۔ سورۃ شوریٰ
۱حٰ مٓ۔
۲ عٓ سٓ قٓ۔
۳(اے رسولؐ) غالب و دانا خدا تمہاری طرف اور جو (پیغمبر) تم سے پہلے گزرے ان کی طرف یوں ہی وحی بھیجتا رہتا ہے۔
۴اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) اسی کا ہے اور وہ تو (بڑا) عالی شان (اور) بزرگ ہے۔
۵(ان کی باتوں سے ) قریب ہے کہ سارے آسمان (اس کی ہیبت کے مارے ) اپنے اوپر وار سے پھٹ پڑیں اور فرشتے تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور جو لوگ زمین میں ہیں ان کے لیے (گناہوں کی) معافی مانگا کرتے ہیں۔ سن رکھو کہ خدا ہی یقیناً بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۶اور جن لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر (اور) اور اپنے سرپرست بنا رکھے ہیں خدا ان کی نگرانی کر رہا ہے اور (اے رسولؐ) تم ان کے نگہبان نہیں ہو۔
۷اور ہم نے تمہارے پاس عربی قرآن یوں بھیجا تاکہ تم مکّہ والوں کو اور جو لوگ اس کے اردگرد رہتے ہیں ان کو ڈراؤ اور (ان کو) قیامت کے دن سے بھی ڈراؤ جس (کے آنے ) میں کچھ بھی شک نہیں۔ (اس دن) ایک فریق (ماننے والا) جنت میں ہو گا اور فریق (ثانی) دوزخ میں۔
۸اور اگر خدا چاہتا تو ان سب کو ایک ہی گروہ بنا دیتا مگر وہ تو جس کو چاہتا ہے (ہدایت) کر کے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے اور ظالموں کا تو (اس دن) نہ کوئی یار ہے اور نہ مددگار۔
۹کیا ان لوگوں نے خدا کے سوا (دوسرے ) کارساز بنائے ہیں تو کارساز بس خدا ہی ہے اور وہی مُردوں کو زندہ کرے گا اور وہی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
۱۰اور تم لوگ جس چیز میں باہم اختلاف رکھتے ہو اس کا فیصلہ خدا ہی کے حوالہ ہے۔ وہی خدا تو میرا پروردگار ہے میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
۱۱سارے آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا (وہی) ہے اسی نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس کے جوڑے بنائے اور چار پاؤں کے جوڑے بھی (اسی نے بنائے ) اس (انداز) میں تم کو پھیلاتا رہتا ہے۔ کوئی چیز اس کی مثل نہیں اور وہ (ہر چیز کو) سنتا دیکھتا ہے۔
۱۲سارے آسمان و زمین کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ جس کے لیے چاہتا ہے روزی کو فراخ کر دیتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے ) تنگ کر دیتا ہے بے شک وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔
۱۳اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر کیا جس (پر چلنے ) کا نوحؑ کو حکم دیا تھا اور (اے رسولؐ) اسی کی ہم نے تمہارے پاس وحی بھیجی ہے اور اسی کا ابراہیمؑ اور موسٰیؑ اور عیسیٰؑ کو بھی حکم دیا تھا (وہ) یہ (ہے ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ جس دین کی طرف تم مشرکین کو بلاتے ہو وہ ان پر بہت شاق گزرتا ہے خدا جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کر لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اپنی طرف (پہنچنے ) کا رستہ دکھا دیتا ہے۔
۱۴اور یہ لوگ متفرق ہوئے بھی تو علم (حق) آ چکنے کے بعد اور (وہ بھی) محض آپس کی ضد سے اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک وقت مقرر تک کے لیے (قیامت کا وعدہ نہ ہو چکا ہوتا) تو ان میں کب کا فیصلہ ہو چکا ہوتا اور جو لوگ ان کے بعد (خدا کی) کتاب کے وارث ہوئے وہ اس کی طرف سے بہت سخت شبہ میں (پڑے ہوئے ) ہیں۔
۱۵تو (اے رسولؐ) تم (لوگوں کو) اسی (دین) کی طرف بلاتے رہو اور جیسا کہ تم کو حکم ہوا ہے (اس پر) قائم رہو اور ان کی نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کرو اور (صاف صاف) کہہ دو کہ جو کتاب خدا نے نازل کی ہے اس پر میں ایمان رکھتا ہوں اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے (اختلافات کے ) درمیان انصاف (سے فیصلہ) کروں خدا ہی ہمارا بھی پروردگار اور (وہی) تمہارا بھی پروردگار ہے ہماری کار گزاریاں ہمارے ہی لیے ہیں اور تمہاری کارستانیاں تمہارے واسطے ہیں اور تم میں تو کچھ حجت (و تکرار کی ضرورت) نہیں خدا ہی ہم سب کو (قیامت میں ) اکٹھا کرے گا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
۱۶اور جو لوگ اس کے مان لیے جانے کے بعد خدا کے بارے میں (خواہ مخواہ) جھگڑا کرتے ہیں ان کے پروردگار کے نزدیک ان کی دلیل لغو باطل ہے اور ان پر (خدا کا) غضب اور ان کے لیے سخت عذاب ہے۔
۱۷خدا ہی تو ہے جس نے سچائی کے ساتھ کتاب نازل کی اور عدل و انصاف بھی نازل کیا اور تم کو کیا معلوم شاید قیامت قریب ہی ہو (پھر یہ غفلت کیسی)۔
۱۸جو لوگ اس پر ایمان نہیں رکھتے وہ تو اس کے لیے جلدی کر رہے ہیں۔ اور جو مومن ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ قیامت یقینی برحق ہے آگاہ رہو کہ جو لوگ قیامت کے بارے میں شک کیا کرتے ہیں وہ بڑے پر لے درجے کی گمراہی میں ہیں۔
۱۹خدا اپنے بندوں (کے حال) پر بڑا مہربان ہے۔ جس کو (جتنی) روزی چاہتا ہے دیتا ہے۔ وہ زور والا زبردست ہے۔
۲۰جو شخص آخرت کی کھیتی کا طالب ہو ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں افزائش کریں گے۔ اور جو دنیا کی کھیتی کا خواست گار ہو تو ہم اس کو اسی میں سے دیں گے۔ مگر آخرت میں پھر اس کا کچھ حصہ نہ ہو گا۔
۲۱کیا ان لوگوں کے (بنائے ہوئے ) ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کی خدا نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلہ (کے دن) کا وعدہ نہ ہوتا تو ان میں یقینی اب تک فیصلہ ہو چکا ہوتا اور ظالموں کے واسطے ضرور دردناک عذاب ہے۔
۲۲(قیامت کے دن) دیکھو گے کہ ظالم لوگ اپنے اعمال (کے وبال) سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ ان پر پڑ کر رہے گا۔ اور جنہوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے وہ بہشت کے باغوں میں ہوں گے۔ اور جو کچھ چاہیں گے ان کے لیے ان کی پروردگار کی بارگاہ میں (موجود) ہے یہی تو (خدا کا) بڑا فضل ہے۔
۲۳یہی وہ (انعام) ہے جس کی خدا اپنے ان بندوں کو خوشخبری دیتا ہے جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے (اے رسُولؐ) تم کہہ دو کہ میں اس (تبلیغ رسالت) کا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا اپنے قرابت داروں (اہل بیتؑ) کی محبت کے سوائے اور جو شخص نیکی حاصل کرے گا ہم اس کے لیے اس کی خوبی میں اضافہ کر دیں گے۔ بے شک خدا بڑا بخشنے والا قدر دان ہے۔
۲۴کیا یہ لوگ (آپ کی نسبت) کہتے ہیں کہ اس (رسولؐ) نے خدا پر جھوٹ بہتان باندھا ہے تو اگر (ایسا ہوتا تو) خدا چاہتا تو تمہارے دل پر مہر لگا دیتا (کہ تم بات ہی نہ کرسکتے ) اور خدا تو جھوٹ کو نیست و نابود اور اپنی باتوں سے حق کو ثابت کرتا ہے وہ یقینی دلوں کے راز سے بھی خوب واقف ہے۔
۲۵اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف کرتا ہے اور تم لوگ جو کچھ بھی کرتے ہو وہ جانتا ہے
۲۶اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے (اچھے ) کام کرتے رہے ان کی (دعا) قبول کرتا ہے اور اپنے فضل (و کرم) سے ان کو بڑھ کر دیتا ہے اور کافروں کے لیے سخت عذاب ہے۔
۲۷اور اگر خدا اپنے بندوں کی روزی میں فراخی کر دے تو وہ لوگ ضرور (روئے ) زمین میں سرکشی کرنے لگیں مگر وہ تو بقدر مناسب جس کی روزی (جتنی) چاہتا ہے نازل کرتا ہے وہ بے شک اپنے بندوں سے خبردار (اور ان کو) دیکھتا ہے
۲۸اور وہی تو ہے جو لوگوں کے نا امید ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت (بارش کی برکتوں ) کو پھیلا دیتا ہے۔ اور وہی کارساز (اور) حمد و ثنا کے لائق ہے۔
۲۹اور اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں سارے آسمان و زمین کا پیدا کرنا ہے اور ان جانداروں کا بھی جو اس نے آسمان و زمین میں پھیلا رکھے ہیں اور وہ جب چاہے ان کے جمع کر لینے پر (بھی) قادر ہے۔
۳۰اور جو مصیبت تم پر پڑتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کی کرتوت سے اور (اس پر بھی) وہ بہت کچھ معاف کر دیتا ہے۔
۳۱اور تم لوگ زمین میں (رہ کر تو خدا کو) کسی طرح ہرا نہیں سکتے اور خدا کے سوا تو تمہارا نہ کوئی دوست ہے اور نہ مددگار۔
۳۲اور اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے سمندر میں (چلنے والے بادبانی) جہاز ہیں جو گویا پہاڑ ہیں۔
۳۳اگر خدا چاہے تو ہوا کو ٹھہرا دے تو جہاز بھی سمندر کی سطح پر کھڑے (کے کھڑے ) رہ جائیں۔ بے شک تمام صبر اور شکر کرنے والوں کے واسطے ان (باتوں ) میں قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں
۳۴یا (چاہے تو) (کشتیوں ) کو ان (لوگوں ) کے اعمال (بد) کے سبب تباہ کر دے اور بہت کچھ معاف کرتا ہے
۳۵اور جو لوگ ہماری نشانیوں میں (خواہ مخواہ) جھگڑا کرتے ہیں وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ان کو کسی طرح (عذاب سے ) چھٹکارا نہیں۔
۳۶(لوگو) تم کو تو جو کچھ (مال و متاع) دیا گیا ہے وہ دنیا کی زندگی کا (چند روزہ) ساز و سامان ہے اور جو کچھ خدا کے ہاں ہے وہ کہیں بہتر ہے اور پائیدار ہے (مگر یہ) خاص انہی لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں
۳۷اور جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے بچے رہتے ہیں اور جب غصّہ آ جاتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں۔
۳۸اور جو اپنے پروردگار کا حکم مانتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور ان کے کل کام آپس کے مشورہ سے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (راہِ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں۔
۳۹اور (وہ ایسے ہیں کہ) جب ان پر (کسی قسم کی) زیادتی ہوتی ہے تو وہ بس واجبی بدلہ لے لیتے ہیں۔
۴۰اور برائی کا بدلہ تو ویسی ہی برائی ہے اس پر بھی جو شخص معاف کر دے اور (معاملہ کی) اصلاح کر دے تو اس کا ثواب خدا کے ذمہ ہے۔ بے شک وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
۴۱اور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے تو ایسے لوگوں کو کوئی الزام نہیں۔
۴۲الزام تو بس ان ہی لوگوں پر ہو گا جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور روئے زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے پھرتے ہیں۔ ان ہی لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
۴۳اور جو صبر کرے اور قصور معاف کر دے تو بے شک یہ بڑے حوصلہ کے کام ہیں۔
۴۴اور جس کو خدا گمراہی میں چھوڑ دے تو اس کے بعد اس کا کوئی سرپرست نہیں اور تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب (دوزخ کا)عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے کہ بھلا (دنیا میں ) پھر لوٹ جانے کی کوئی سبیل ہے۔
۴۵اور تم ان کو دیکھو گے کہ دوزخ کے سامنے لائے گئے ہیں (اور) ذلت کے مارے کٹے جاتے ہیں (اور) کنکھیوں سے دیکھتے جاتے ہیں اور مومنین کہیں گے کہ حقیقت میں وہی بڑے گھاٹے میں ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کوخسارے میں ڈالا۔ دیکھو ظلم کرنے والے دائمی عذاب میں رہیں گے۔
۴۶اور خدا کے سوا نہ ان کے سرپرست ہی ہوں گے جو ان کی مدد کو آئیں اور جس کی خدا گمراہی میں چھوڑ دے تو اس کے لیے (ہدایت کی) کوئی راہ نہیں۔
۴۷(لوگو) اس دن کے پہلے جو خدا کی طرف سے آئے گا اور کسی طرح (ٹالے ) نہ ٹلے گا اپنے پروردگار کا حکم مان لو (کیونکہ) اس دن نہ تو تم کو کہیں پناہ کی جگہ ملے گی اور نہ تم سے (گناہ کا) انکار ہی بن پڑے گا۔
۴۸پھر اگر منہ پھیر لیں تو (اے رسولؐ) ہم نے تم کو ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا تمہارا کام تو صرف (احکام کا) پہنچا دینا ہے۔ اور جب ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اگر ان کو انہی کے ہاتھوں کی ہوئی کرتوتوں کی بدولت کوئی تکلیف پہنچی تو (سب احسان بھول گئے ) بے شک انسان بڑا ناشکرا ہے۔
۴۹سارے آسمانوں و زمین کی حکومت خاص خدا ہی کی ہے۔ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (اور) جسے چاہتا ہے (فقط) بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے (محض) بیٹے عطا کرتا ہے۔
۵۰یا ان کو بیٹے بیٹیاں (اولاد کی) دونوں قسمیں عنایت فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے بے شک وہ بڑا واقف کار قادر ہے۔
۵۱اور کسی آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ خدا اس سے بات کرے مگر وحی کے ذریعے سے (جیسے داؤدؑ ) یا پردہ کے پیچھے سے (جیسے موسیٰؑ ) یا کوئی فرشتہ بھیج دے (جیسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) غرض وہ اپنے اختیار سے جو چاہتا ہے پیغام بھیجتا ہے بے شک وہ عالی شان حکمت والا ہے۔
۵۲اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم کی روح(قرآن) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجا تم تو نہ کتاب ہی کو جانتے تھے کہ کیا ہے اور نہ ایمان کو مگر اس (قرآن) کو ایک نور بنایا ہے کہ اس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ تم (اے رسولؐ) سیدھا ہی رستہ دکھاتے ہو
۵۳(یعنی) اس خدا کا رستہ کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) اسی کا ہے۔ سن رکھو سب کام خدا ہی کی طرف رجوع ہوں گے (اور وہی فیصلہ کرے گا)
٭٭٭
۴۳۔ سورۃ زخرف
۱حٰ مٓ۔
۲روشن کتاب (قرآن) کی قسم
۳کہ ہم نے اس کتاب کو عربی قرآن ضرور بنایا ہے۔ تاکہ تم سمجھو۔
۴اور بے شک یہ (قرآن) اصلی کتاب (لوح محفوظ) میں (بھی جو) ہمارے پاس (ہے لکھی ہوئی) ہے اور یقیناً بڑے رتبہ کی (اور) پُر از حکمت ہے۔
۵بھلا اس وجہ سے کہ تم زیادتی کرنے والے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے منہ موڑیں گے (ہرگز نہیں )۔
۶اور ہم نے اگلے لوگوں میں بہت سے پیغمبر بھیجے تھے۔
۷اور کوئی پیغمبر ان کے پاس ایسا نہیں آیا۔ جس سے ان لوگوں نے ٹھٹھے نہیں کیے ہوں۔
۸تو ان میں سے جو زیادہ زور آور تھے ان کو ہم نے ہلاک کر مارا اور (دنیا میں ) اگلوں کے افسانے جاری ہو گئے
۹اور (اے رسولؐ) اگر تم ان سے پوچھو کہ سارے آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ ضرور کہہ دیں گے کہ ان کو بڑے واقف کار زبردست (خدا) نے پیدا کیا ہے
۱۰جس نے تم لوگوں کے واسطے زمین کا بچھونا بنایا اور (پھر) اس میں تمہارے نفع کے لیے راستے بنائے تاکہ تم راہ معلوم کرو۔
۱۱اور جس نے ایک (مناسب) انداز کے ساتھ آسمان سے پانی برسایا پھر ہم ہی نے اس کے (ذریعے ) سے مردہ (پڑتی) شہر کو زندہ (آباد) کیا۔ اسی طرح تم بھی (قیامت کے دن قبروں سے ) نکالے جاؤ گے۔
۱۲اور جس نے ہر قسم کی چیزیں پیدا کیں اور تمہارے لیے کشتیاں بنائیں اور چارپائے (پیدا کیے ) جن پر تم سوار ہوتے ہو
۱۳تاکہ تم اس کی پیٹھ پر چڑھو اور جب اس پر (اچھی طرح) سیدھے ہو بیٹھو تو اپنے پروردگار کا احسان یاد کرو اور کہو وہ (خدا ہر عیب سے ) پاک ہے جس نے اس کو ہمارا تابعدار بنایا حالانکہ ہم تو ایسے (طاقتور) نہ تھے کہ اس پر قابو پاتے
۱۴اور ہم کو تو یقیناً اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
۱۵اور ان لوگوں نے اس کے بندوں میں سے اس کے لیے اولاد قرار دی ہے اس میں شک نہیں کہ انسان کھلم کھلا بڑا ہی ناشکرا ہے۔
۱۶کیا اس نے اپنی مخلوقات میں سے خود تو بیٹیاں لی ہیں اور تم کو چن کر بیٹے دیئے ہیں۔
۱۷حالانکہ جب ان میں کسی شخص کو اس چیز (بیٹی) کی خوش خبری دی جاتی ہے جس کی مثل اس نے خدا کے لیے بیان کی ہے تو اس کا چہرہ (غصّہ کے مارے ) سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ تاؤ پیچ کھانے لگتا ہے۔
۱۸کیا وہ (عورت) جو زیوروں میں پالی پوسی جائے اور جھگڑے میں (اچھی طرح) بات تک نہ کرسکے (خدا کی بیٹی ہو سکتی ہے )
۱۹اور ان لوگوں نے فرشتوں کو کہ وہ بھی خدا کے بندے ہیں (خدا کی) بیٹیاں قرار دیا ہے کیا یہ لوگ فرشتوں کی پیدائش کے وقت کھڑے دیکھ رہے تھے۔ ابھی ان کی شہادت قلمبند کر لی جاتی ہے اور (قیامت میں ) ان سے باز پرس کی جائے گی
۲۰اور کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو ہم ان کی پرستش نہ کرتے ان کو اس کی کچھ خبر ہی نہیں یہ لوگ تو بس اٹکل پچو باتیں کیا کرتے ہیں۔
۲۱یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی کہ یہ لوگ اسے مضبوط تھامے ہوئے ہیں۔
۲۲بلکہ یہ لوگ تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایک طریقہ پر پایا اور ہم ان کے قدم بقدم ٹھیک رستے پر چلے جا رہے ہیں۔
۲۳اور (اے رسولؐ) اسی طرح ہم نے تم سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) نہیں بھیجا مگر وہاں کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایک طریقہ پر پایا اور ہم یقینی ان کے قدم بہ قدم چلے جا رہے ہیں۔
۲۴(اس پر) ان کے پیغمبر نے کہا بھی کہ جس طریقہ پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے کہیں بہتر راہِ راست پر لانے والا (دین) لے کر آیا ہوں (تو بھی نہ مانو گے ) وہ بولے (کچھ ہو مگر) ہم تو اس دین کو جو تم دے کر بھیجے گئے ہو ماننے والے نہیں۔
۲۵تو ہم نے ان سے (کس طرح) بدلہ لیا (تو ذرا) دیکھو تو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔
۲۶(اور وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیمؑ نے اپنے (منہ بولے ) باپ (آذر) اور اپنی قوم سے کہا کہ جن چیزوں کو تم لوگ پوجتے ہو میں یقیناً اس سے بیزار ہوں
۲۷مگر (اس کی عبادت کرتا ہوں ) جس نے مجھے پیدا کیا تو وہی بہت جلد میری ہدایت کرے گا۔
۲۸اور اسی (ایمان) کو ابراہیمؑ اپنی اولاد میں ہمیشہ باقی رہنے و الی بات چھوڑ گئے تاکہ وہ (خدا کی طرف) رجوع کریں۔
۲۹بلکہ میں ان کو اور ان کے باپ داداؤں کو فائدہ پہنچاتا رہا یہاں تک کہ ان کے پاس (دین) حق اور صاف صاف بیان کرنے والا رسولؐ آ پہنچا
۳۰اور جب ان کے پاس (دین) حق آ ہی گیا تو کہنے لگے یہ تو جادو ہے اور ہم تو ہرگز اس کے ماننے والے نہیں۔
۳۱اور کہنے لگے کہ یہ قرآن ان دو بڑی بستیوں (مکّہ طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا۔
۳۲کیا یہ لوگ تمہارے پروردگار کی رحمت کو (اپنے طور پر) بانٹتے ہیں۔ ہم نے تو ان کے درمیان ان کی روزی دنیاوی زندگی میں بانٹ ہی دی ہے اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کیے تاکہ ان میں کا ایک دوسرے سے خدمت لے اور (جو (مال متاع) یہ لوگ جمع کرتے پھرتے ہیں خدا کی رحمت (پیغمبر) اس سے کہیں بہتر ہے۔
۳۳اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ (آخر) سب لوگ ایک ہی طریقہ کے ہو جائیں گے تو ہم ان کے لیے جو خدا سے انکار کرتے ہیں ان کے گھروں کی چھتیں اور وہ سیڑھیاں جن پر وہ چڑھتے (اُترتے ) ہیں
۳۴اور ان کے گھروں کے دروازے اور وہ تخت جن پر تکیہ لگاتے ہیں
۳۵چاندی اور سونے کے بنا دیتے یہ سب (ساز و سامان) تو بس دنیاوی زندگی کے (چند روزہ) ساز و سامان ہیں (جو مٹ جائیں گے ) اور آخرت (کا سامان) تو تمہارے پروردگار کے ہاں خاص پرہیزگاروں کے لیے ہے۔
۳۶اور جو شخص خدا کی یاد سے اندھا بنتا ہے ہم (گویا خود) اس کے واسطے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا (ہر دم کا ساتھی) ہے۔
۳۷اور وہ (شیاطین) ان لوگوں کو (خدا کی) راہ سے روکتے رہتے ہیں باوجود اس کے وہ اسی خیال میں ہیں کہ وہ یقینی راہِ راست پر ہیں۔
۳۸یہاں تک کہ جب (قیامت میں ) ہمارے پاس آئے گا تو (اپنے ساتھی شیطان سے ) کہے گا کاش مجھ میں اور تجھ میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا۔ غرض (شیطان بھی) کیا ہی بُرا رفیق ہے
۳۹اور جب تم نافرمانیاں کر چکے تو (شیاطین کے ساتھ) تمہارا عذاب میں شریک ہونا بھی آج تم کو (عذاب کی کمی میں ) کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔
۴۰تو (اے رسولؐ) کیا تم بہرے کو سنا سکتے ہو یا اندھے کو اور اس شخص کو جو صریحی گمراہی میں پڑا ہو راستہ دکھا سکتے ہو (ہرگز نہیں )
۴۱تو اگر ہم تم کو (دنیا سے ) لے بھی جائیں تو بھی ان سے بدلہ لینا ضرور ہے
۴۲یا (تمہاری زندگی ہی میں ) جس عذاب کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تم کو دکھا دیں ہم تو ان پر ہر طرح قابو رکھتے ہیں۔
۴۳تو تمہارے پاس جو وحی بھیجی گئی ہے تم اسے مضبوط پکڑے رہو اس میں شک ہی نہیں کہ تم سیدھی راہ پر ہو
۴۴اور یہ (قرآن) تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لیے نصیحت ہے اور عنقریب ہی تم لوگوں سے (اس کی) باز پرس کی جائے گی۔
۴۵اور ہم نے تم سے پہلے اپنے جتنے پیغمبر بھیجے ہیں ان سب سے دریافت کر دیکھو کیا ہم نے خدا کے سوا اور معبود بنائے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے
۴۶اور ہم ہی نے یقیناً موسٰیؑ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کی درباریوں کے پاس (پیغمبر بنا کر) بھیجا تھا تو موسیٰؑ نے کہا کہ میں سارے جہان کے پالنے والے (خدا) کا رسول ہوں۔
۴۷تو موسیٰؑ جب ان لوگوں کے پاس ہمارے معجزے لے کر آئے تو وہ لوگ ان معجزوں کی ہنسی اڑا نے لگے۔
۴۸اور ہم جو معجزہ ان کو دکھاتے تھے وہ دوسرے سے بڑھ کر ہوتا تھا اور آخر ہم نے ان کو عذاب میں گرفتار کیا تاکہ یہ لوگ باز آئیں۔
۴۹اور (جب عذاب میں گرفتار ہوئے تو موسیٰ ؑ سے ) کہنے لگے اے جادوگر اس عہد کے مطابق جو تمہارے پروردگار نے تم سے کیا ہے ہمارے واسطے دعا کرو (اگر اب کی چھوٹے تو) ہم ضرور راہ پر آ جائیں گے۔
۵۰پھر جب ہم نے ان سے عتاب کو ہٹا دیا تو وہ فوراً (اپنا) عہد توڑ بیٹھے۔
۵۱اور فرعون نے اپنے لوگوں میں پکار کر کہا اے میری قوم کیا (یہ) ملک مصر ہمارا نہیں اور کیا یہ نہریں جو ہمارے (شاہی محل کے ) نیچے بہہ رہی ہیں (ہماری نہیں ) تو کیا تم کو اتنا بھی نہیں سوجھتا۔
۵۲یا (سوجھتا ہے کہ) میں اس شخص (موسیٰؑ ) سے جو ایک ذلیل آدمی ہے اور (ہکلے پن کی وجہ سے ) صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا کہیں بہت بہتر ہوں۔
۵۳(اگر یہ بہتر ہے ) تو اس کے لیے سونے کے کنگن (خدا کے ہاں سے ) کیوں نہیں اتارے گئے یا اس کے ساتھ فرشتے جمع ہو کر آتے۔
۵۴غرض فرعون نے (باتیں بنا کر) اپنی قوم کی عقل مار دی اور وہ لوگ اس کے تابعدار بن گئے۔ بے شک وہ لوگ بدکار تھے ہی
۵۵غرض جب ان لوگوں نے ہم کو جھنجھلا دیا تو ہم نے بھی ان سے بدلہ لیا تو ہم نے ان سب (کے سب) کو ڈبو دیا
۵۶پھر ہم نے ان کو گیا گزرا اور پچھلوں کے واسطے عبرت بنا دیا۔
۵۷اور (اے رسولؐ) جب مریمؑ کے بیٹے (عیسیٰؑ ) کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تمہاری قوم کے لوگ کھل کھلا کر ہنسنے لگے۔
۵۸اور بول اُٹھے کہ بھلا ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ (عیسٰیؑ) ان لوگوں نے جو (عیسیٰؑ کی) مثال تم سے بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو۔ بلکہ (حق تو یہ ہے کہ) یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو۔
۵۹عیسٰیؑ تو بس ہمارے ایک بندے تھے جن پر ہم نے احسان کیا (نبی بنایا اور معجزے دیئے ) اور ان کو ہم نے بنی اسرائیل کے لیے (اپنی قدرت کا) نمونہ بنایا۔
۶۰اور اگر ہم چاہتے تو تم ہی لوگوں میں سے (کسی کو) فرشتے بنا دیتے جو تمہاری جگہ زمین میں رہتے۔
۶۱اور وہ تو یقیناً قیامت کی ایک روشن دلیل ہے تم لوگ اس میں ہرگز شک نہ کرو اور میری پیروی کرو یہی سیدھا رستہ ہے
۶۲اور (کہیں ) شیطان تم لوگوں کو (اس سے ) روک نہ دے وہ یقیناً تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔
۶۳اور جب عیسیٰؑ واضح و روشن معجزے لے کر آئے تو (لوگوں سے ) کہا میں تمہارے پاس دانائی (کی کتاب) لے کر آیا ہوں اور تاکہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کرتے تھے تم کو صاف صاف بتا دوں تو تم لوگ خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔
۶۴بے شک خدا ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔
۶۵تو ان میں سے کئی فرقے (ان سے ) اختلاف کرنے لگے تو جن لوگوں نے ظلم کیا ان پر دردناک دن کے عذاب سے افسوس ہے۔
۶۶کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر بیٹھے ہیں کہ اچانک ہی ان پر آ جائے اور ان کو خبر تک نہ ہو۔
۶۷(دلی) دوست اس دن باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار (کہ وہ دوست ہی رہیں گے )
۶۸(اور خدا ان سے کہے گا) اے میرے بندو!آج نہ تم کو کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہو گے۔
۶۹(یہ) وہ لوگ ہوں گے جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور (ہمارے ) فرمانبردار تھے۔
۷۰تو تم اپنی بیبیوں سمیت اعزاز و اکرام سے بہشت میں داخل ہو جاؤ۔
۷۱ان پر سونے کی رکابیوں اور پیالوں کا دَور چلے گا اور وہاں جس چیز کو جی چاہے اور جس سے آنکھیں لذت اٹھائیں (سب موجود ہیں ) اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔
۷۲اور یہ جنت جس کے تم وارث (حصہ دار) کر دیئے گئے ہو تمہاری کار گزاریوں کا صلہ ہے۔
۷۳وہاں تمہارے واسطے بہت سے میوے ہیں جن کو تم کھاؤ گے۔
۷۴گنہگار (کفّار) تو یقیناً جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے
۷۵جو ان سے کبھی ناغہ نہ کیا جائے گا اور وہ اسی عذاب میں نا اُمید ہو کر رہیں گے۔
۷۶اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے رہے
۷۷اور (جہنمی) پکاریں گے کہ اے مالک (داروغہ جہنم کوئی ترکیب کرو) تمہارا پروردگار ہمیں موت ہی دے دے وہ جواب دے گا کہ تم کو اسی حال میں رہنا ہے۔
۷۸(اے کفّار مکّہ) ہم تو تمہارے پاس حق لے کر آئے ہیں مگر تم میں سے بہتیرے حق (بات) سے چڑتے ہیں۔
۷۹کیا ان لوگوں نے کوئی بات ٹھان لی ہے ہم نے بھی کچھ ٹھان لیا ہے۔
۸۰کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے بھید اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سنتے۔ ہاں (ضرور سنتے ہیں ) اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہیں اور ان کی سب باتیں لکھتے جاتے ہیں۔
۸۱(اے رسولؐ) تم کہہ دو اگر خدا کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کو تیار ہوں۔
۸۲یہ لوگ جو کچھ بیان کرتے ہیں سارے آسمان و زمین کا مالک عرش کا مالک (خدا) اس سے پاک پاکیزہ ہے۔
۸۳تو تم انہیں چھوڑ دو کہ پڑے بک بک کرتے اور کھیلتے رہیں یہاں تک کہ جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے ان کے سامنے آ موجود ہو۔
۸۴اور آسمان میں بھی اسی کی عبادت کی جاتی ہے اور (وہی) زمین میں بھی معبود ہے اور وہی واقف کار حکمت والا ہے۔
۸۵اور (وہی) بہت بابرکت ہے جس کے لیے سارے آسمان و زمین اور ان دونوں کے درمیان کی حکومت ہے اور قیامت کی خبر بھی اسی کو ہے اور تم لوگ اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
۸۶اور خدا کے سوا جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں وہ تو سفارش کا بھی اختیار نہیں رکھتے مگر (ہاں ) جو لوگ سمجھ بوجھ کر حق بات (توحید) کی گواہی دیں۔ (تو خیر)
۸۷اور اگر تم ان سے پوچھو گے کہ ان کی کس نے پیدا کیا تو ضرور کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے پھر (باوجود اس کے ) یہ کہاں بہکے جا رہے ہیں
۸۸اور (اسی کو) رسولؐ کے اس قول (کا بھی علم ہے ) کہ پروردگارا یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔
۸۹تو تم ان سے منہ پھیر لو اور کہہ دو (کہ تم کو) سلام تو انہیں عنقریب ہی (شرارت کا نتیجہ) معلوم ہو جائے گا۔
٭٭٭
۴۴۔سورۃ دخان
۱ حٰ مٓ۔
۲واضح و روشن کتاب (قرآن) کی قسم
۳ہم نے اس کو مبارک رات (شب قدر) میں نازل کیا بے شک ہم (عذاب سے ) ڈرانے والے تھے۔
۴اسی رات کو تمام دنیا کے حکمت و مصلحت کے (سال بھر کے ) کام فیصل کیے جاتے ہیں
۵یعنی ہمارے ہاں سے حکم ہو کر (بے شک) ہم ہی (پیغمبروں کے ) بھیجنے والے ہیں۔
۶یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی ہے۔ وہ بے شک بڑا سننے والا واقف کار ہے۔
۷سارے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا مالک۔ اگر تم میں یقین کرنے کی صلاحیت ہے (تو کرو)
۸ اس کے سواکوئی معبود نہیں وہی جلاتا اور مارتا ہے تمہارا مالک اور تمہارے اگلے باپ داداؤں کا بھی مالک ہے
۹لیکن یہ لوگ تو شک میں پڑے کھیل رہے ہیں۔
۱۰تو تم اس دن کا انتظار کرو کہ آسمان سے ظاہر بظاہر دھواں نکلے گا
۱۱(اور) لوگوں کو ڈھانک لے گا یہ دردناک عذاب ہے۔
۱۲(کہ کفّار بھی گھبرا کر کہیں گے کہ) پروردگارا ہم سے عذاب کو دُور دفع کر دے ہم ابھی ایمان لاتے ہیں۔
۱۳(اس وقت) بھلا کیا ان کو نصیحت ہو گی جب ان کے پاس پیغمبر آ چکے جو صاف صاف بیان کر دیتے تھے
۱۴اس پر بھی ان لوگوں نے اس سے منہ پھیرا اور کہنے لگے یہ تو (سکھایا) پڑھایا ہوا دیوانہ ہے۔
۱۵(اچھا خیر) ہم تھوڑے دن کے لیے عذاب کو ٹال دیتے ہیں مگر (ہم جانتے ہیں ) تم ضرور پھر کفر کرو گے۔
۱۶ہم بے شک (ان سے ) پورا بدلہ تو بس اس دن لیں گے جس دن سخت پکڑ پکڑیں گے۔
۱۷اور ان سے پہلے ہم نے قوم فرعون کی آزمائش کی اور ان کے پاس ایک عالی قدر پیغمبر (موسیٰؑ ) آئے
۱۸(اور کہا) کہ خدا کے بندوں (بنی اسرائیل) کو میرے حوالے کر دو میں (خدا کی طرف سے )تمہارا ایک امانتدار پیغمبر ہوں
۱۹اور خدا کے سامنے سرکشی نہ کرو میں تمہارے پاس ایک واضح و روشن دلیل لے کر آیا ہوں
۲۰اور اس بات سے کہ تم مجھے سنگسار کرو گے میں اپنے اور تمہارے پروردگار (خدا)کی پناہ مانگتا ہوں
۲۱اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لائے تو مجھ سے الگ ہو جاؤ۔(مگر وہ ستانے لگے )
۲۲تب موسیٰ ؑ نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ یہ بڑے شریر لوگ ہیں۔
۲۳تو (خدا نے حکم دیا کہ) تم میرے بندوں (بنی اسرائیل) کوراتوں رات لے کر چلے جاؤ اور تمہارا پیچھا بھی ضرور کیا جائے گا
۲۴اور دریا کو اپنی حالت پر ٹھہرا ہوا چھوڑ (کر پار ہو) جاؤ (تمہارے بعد) ان کا سارا لشکر ڈبو دیا جائے گا
۲۵وہ لوگ (خدا جانے ) کتنے باغ اور چشمے
۲۶اور کھیتیاں اور نفیس مکانات اور آرام کی چیزیں
۲۷جس میں وہ عیش اور چین کیا کرتے تھے چھوڑ گئے۔
۲۸یوں ہی ہوا، اور ہم نے ان تمام چیزوں کا دوسرے لوگوں کو مالک بنایا۔
۲۹تو ان لوگوں پر آسمان و زمین کو بھی رونا نہ آیا اور نہ انہیں مہلت ہی دی گئی۔
۳۰اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے
۳۱فرعون (کے پنجہ) سے نجات دی۔ وہ بے شک سرکش اور حد سے باہر نکل گیا تھا۔
۳۲اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمجھ بوجھ کرسارے جہان سے برگزیدہ کیا تھا۔
۳۳اور ہم نے ان کو ایسی نشانیاں دی تھیں جن میں ان کی صریحی آزمائش تھی۔
۳۴یہ (کفّار مکّہ مسلمانوں سے ) کہتے ہیں
۳۵کہ ہمیں تو صرف ایک بار مرنا ہے اور پھر ہم دوبارہ (زندہ کر کے ) اٹھائے نہ جائیں گے۔
۳۶تو اگر تم سچّے ہو تو ہمارے باپ داداؤں کو (زندہ کر کے ) لے تو آؤ۔
۳۷بھلا یہ لوگ (قوت میں ) اچھے ہیں یا تبع کی قوم اور وہ لوگ جو ان سے پہلے ہو چکے ہم نے ان سب کو ہلاک کر دیا (کیونکہ) وہ ضرور گنہگار تھے۔
۳۸اور ہم نے سارے آسمانوں اور زمین اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان میں ہیں ان کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا۔
۳۹ان دونوں کو ہم نے بس ٹھیک (مصلحت سے ) پیدا کیا مگر ان میں کے بہتیرے لوگ نہیں جانتے۔
۴۰بے شک فیصلہ (قیامت) کا دن ان سب (کے دوبارہ زندہ ہونے ) کا مقرر وقت ہے۔
۴۱جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
۴۲مگر جس پر خدا رحم فرمائے بے شک وہ (خدا) سب پر غالب بڑا رحم والا ہے۔
۴۳(آخرت میں ) تھوہر کا درخت
۴۴ضرور گنہگار کا کھانا ہو گا
۴۵جیسے پگھلا ہوا تانبا وہ پیٹوں میں اس طرح ابال کھائے گا
۴۶جیسے کھولتا ہوا پانی ابال کھاتا ہے۔
۴۷(فرشتوں کو حکم ہو گا) اس کو پکڑو اور گھسیٹتے ہوئے دوزخ کے بیچوں بیچ میں لے جاؤ
۴۸پھراس کے سر پر کھولتے ہوئے پانی کا عذاب ڈالو
۴۹(پھر اس سے طعناً کہا جائے گا) اب مزا چکھ بے شک تو بڑی عزت والا سردار ہے۔
۵۰یہ وہی (دوزخ) تو ہے جس میں تم لوگ شک کیا کرتے تھے۔
۵۱ بے شک پرہیزگار لوگ امن کی جگہ
۵۲(یعنی) باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
۵۳ریشم کی (کبھی) باریک اور کبھی دبیز پوشاکیں پہنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے
۵۴ایسا ہی ہو گا اور ہم بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کی تزویج کر دیں گے۔
۵۵وہاں اطمینان سے ہرقسم کے میوے (کھانے کے لیے ) منگوائیں گے
۵۶وہاں پہلی دفعہ کی موت کے سوا ان کو موت کی تلخی چکھنی ہی نہ پڑے گی اور خدا ان کو دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھے گا۔
۵۷(یہ) تمہارے پروردگار کا فضل ہے یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
۵۸تو ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں (اس لیے ) آسان کر دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں۔
۵۹تو (نتیجہ کے ) تم بھی منتظر رہو یہ لوگ بھی منظر ہیں۔
٭٭٭
۴۵۔ سورۃ جاثیہ
۱حٰمٓ۔
۲یہ کتاب (قرآن) خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو غالب (اور) دانا ہے۔
۳بے شک آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کے لیے (قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔
۴اور تمہاری پیدائش میں (بھی) اور جن جانوروں کو وہ (زمین پر) پھیلاتا رہتا ہے (ان میں بھی) یقین کرنے والوں کے واسطے بہت سی نشانیاں ہیں
۵اور رات اور دن کے آنے جانے میں اور خدا نے آسمان سے جو (ذریعہ) رزق (پانی) نازل فرمایا پھر اس سے زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندہ کیا (اس میں ) اور ہواؤں کے پھیر بدل میں عقلمند لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔
۶یہ خدا کی آیتیں ہیں جن کو ہم ٹھیک (ٹھیک)تمہارے سامنے پڑھتے ہیں۔ تو خدا اور اس کی آیتوں کے بعد کون سی بات ہو گی جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے۔
۷ہر جھوٹے گنہگار پر افسوس ہے
۸کہ خدا کی آیتیں اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں اور وہ سنتا بھی ہے پھر غرور سے (کفر پر) اڑا رہتا ہے گویا اس نے ان (آیتوں ) کو سنا ہی نہیں تو (اے رسولؐ) تم اسے درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔
۹اور جب ہماری آیتوں میں سے کسی آیت پر واقف ہو جاتا ہے تو اس کی ہنسی اڑاتا ہے ایسے ہی لوگوں کے واسطے ذلیل کرنے والا عذاب ہے
۱۰جہنم تو ان کے پیچھے ہی (پیچھے ) ہے اور جو کچھ وہ اعمال کرتے رہے نہ تو وہی ان کے کام آئیں گے اور نہ وہ جن کو انہوں نے خدا کو چھوڑ کر (اپنے ) سرپرست بنائے تھے اور ان کے لیے بڑا (سخت) عذاب ہے۔
۱۱یہ (قرآن) ہدایت ہے اور جن لوگوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں سے انکار کیا ان کے لیے سخت قسم کا درد ناک عذاب ہو گا۔
۱۲خدا ہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے قابو میں کر دیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ اس کے فضل (و کرم) سے (معاش کی) تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔
۱۳اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے (حکم) سے تمہارے کام میں لگا دیا ہے جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں (قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔
۱۴(اے رسولؐ) مومنوں سے کہہ دو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو سزا کے لیے مقرر ہیں ) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں تاکہ وہ لوگوں کے اعمال کا بدلہ دے۔
۱۵جو شخص نیک کام کرتا ہے تو خاص اپنے لیے اور بُرا کام کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہو گا پھر (آخر) تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے
۱۶اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب (توریت) اور حکومت اور نبوت عطا کی اور انہیں عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو دیں اور ان کو سارے جہان پر فضیلت دی۔
۱۷اور ان کو دین کی کھلی ہوئی دلیلیں عنایت کیں تو ان لوگوں نے علم آ چکنے کے بعد بس آپس کی ضد میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا۔ یہ لوگ جن باتوں میں اختلاف کر رہے ہیں قیامت کے دن تمہارا پروردگار ان میں فیصلہ کر دے گا۔
۱۸پھر (اے رسولؐ) ہم نے تم کو دین کے کھلے رستہ پر قائم کر دیا ہے تو اسی رستہ پر چلے جاؤ اور نادانوں کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔
۱۹یہ لوگ خدا کے سامنے تمہارے کچھ بھی کام نہ آئیں گے اور ظالم لوگ ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور خدا تو پرہیزگاروں کا مددگار ہے۔
۲۰یہ (قرآن) لوگوں (کی ہدایت) کے لیے دلیلوں کا مجموعہ ہے اور یقین کرنے والے لوگوں کے لیے (ازسرتاپا) ہدایت و رحمت ہے۔
۲۱جو لوگ بُرے کام کیا کرتے ہیں کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر کر دیں گے جو ایمان لائے اور اچھے اچھے کام بھی کرتے رہے اور ان سب کا جینا مرنا یکساں ہو گا یہ لوگ (کیا) بُرے حکم لگاتے ہیں۔
۲۲اور خدا نے سارے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت سے پیدا کیا اور تاکہ ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے اور ان پر (کسی طرح کا) ظلم نہیں کیا جائے گا۔
۲۳بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور (اس کی حالت) سمجھ بوجھ کر خدا نے اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر علامت مقرر کر دی ہے (کہ یہ ایمان نہ لائے گا) اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے پھر خدا کے بعد اس کی ہدایت کون کرسکتا ہے تو کیا تم لوگ (اتنا بھی) غور نہیں کرتے۔
۲۴اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو بس دنیا ہی کی ہے (یہیں ) مرتے ہیں اور (یہیں ) جیتے ہیں اور ہم کو بس زمانہ ہی (جلاتا) مارتا ہے اور ان کو اس کی کچھ خبر تو ہے نہیں یہ لوگ تو بس اٹکل کی باتیں کرتے ہیں۔
۲۵اور جب ان کے سامنے ہماری کھلی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کی کٹ حجتی بس یہی ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچّے ہو تو ہمارے باپ داداؤں کو (جلا کر) تو لے آؤ۔
۲۶(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ خدا ہی تم کو زندہ (پیدا) کرتا ہے اور وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو قیامت کے دن جس (کے ہونے ) میں کسی طرح کا شک نہیں جمع کرے گا مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
۲۷اور سارے آسمان و زمین کی بادشاہت خاص خدا ہی کی ہے۔ اور جس روز قیامت برپا ہو گی اس روز اہل باطل بڑے گھاٹے میں رہیں گے۔
۲۸اور (اے رسولؐ) تم ہر اُمّت کو دیکھو گے (کہ (فیصلہ کی منتظر ادب سے ) گھٹنوں کے بل بیٹھی ہو گی اور ہر امت اپنے نامۂ اعمال کی طرف بلائی جائے گی۔ جو کچھ تم لوگ کرتے تھے آج تم کو اس کا بدلہ دیا جائے گا۔
۲۹یہ ہماری کتاب (جس میں اعمال لکھے ہیں ) تمہارے مقابلہ میں ٹھیک ٹھیک بول رہی ہے۔ جو کچھ بھی تم کرتے تھے ہم لکھواتے جاتے تھے۔
۳۰غرض جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے ) کام کیے تو ان کو ان کا پروردگار اپنی رحمت (سے بہشت) میں داخل کرے گا یہی تو صریحی کامیابی ہے۔
۳۱اور جنہوں نے کفّر اختیار کیا (ان سے کہا جائے گا) تو کیا تمہارے سامنے ہماری آیتیں نہیں پڑھی جاتی تھیں (ضرور) تو تم نے تکبّر کیا اور تم لوگ تو گنہگار تھے ہی
۳۲اور جب (تم سے ) کہا جاتا تھا کہ خدا کا وعدہ سچّا ہے اور قیامت (کے آنے ) میں کچھ شبہ نہیں تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا چیز ہے ہم تو بس (اسے ) ایک خیالی بات سمجھتے ہیں اور ہم تو اس کا یقین نہیں رکھتے۔
۳۳اور ان کی کرتوتوں کی برائیاں ان پر ظاہر ہو جائیں گی اور جس (عذاب) کی یہ ہنسی اڑایا کرتے تھے انہیں (ہر طرف سے ) گھیر لے گا۔
۳۴اور (ان سے ) کہا جائے گا کہ جس طرح تم نے اپنے اس دن کے آنے کو بھلا دیا تھا اسی طرح آج ہم بھی تم کو (اپنی رحمت سے عمداً) بھلا دیں گے اور تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے اور کوئی تمہارا مددگار نہیں۔
۳۵یہ اس سبب سے کہ تم لوگوں نے خدا کی آیتوں کو ہنسی ٹھٹھا بنا رکھا تھا اور دنیاوی زندگی نے تم کو دھوکے میں ڈال دیا تھا۔ غرض یہ لوگ نہ تو اس سے نکالے جائیں گے اور نہ ان کو اس کا موقع دیا جائے گا (کہ توبہ کر کے خدا کو راضی کر لیں )۔
۳۶پس سب تعریف خدا ہی کے لیے سزاوار ہے جو سارے آسمان اور زمین کا مالک (غرض) سارے جہان کا مالک ہے۔
۳۷اور سارے آسمان و زمین میں اس کے لیے بڑائی ہے اور و ہی (سب پر) غالب حکمت والا ہے۔
٭٭٭
۴۶۔ سورۃ احقاف
۱حٰ مٓ۔
۲(یہ) کتاب غالب و حکیم خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔
۳ہم نے تو سارے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے حکمت ہی سے ایک خاص وقت تک کے لیے پیدا کیا ہے اور کفّار جن چیزوں سے ڈرائے جاتے ہیں ان سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
۴(اے رسولؐ) تم پوچھو تو کہ خدا کو چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو کیا تم نے ان کو دیکھا ہے مجھے بھی تو دکھاؤ کہ ان لوگوں نے زمین میں کیا چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں (کے بنانے ) میں ان کی شرکت ہے تو اگر تم سچّے ہو تو اس سے پہلے کوئی کتاب یا (اگلوں کے ) علم کا بقیہ ہو تو میرے سامنے پیش کرو۔
۵اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو خدا کے سوا ایسے کو پکارے جو اسے قیامت تک جواب ہی نہ دے اور ان کو ان کے پکارنے کی خبر تک نہ ہو۔
۶اور جب لوگ (قیامت میں ) جمع کیے جائیں گے تو وہ (معبود) ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی پرستش سے انکار کریں گے۔
۷اور جب ہماری کھلی کھلی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو جو لوگ کافر ہیں حق کے بارے میں جب ان کے پاس آ چکا تو کہتے ہیں یہ تو صریحی جادو ہے۔
۸کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے اس کو خود گھڑ لیا ہے ؟ تو (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اگر میں اس کو (اپنے جی سے ) گھڑ لیتا تو تم خدا کے سامنے میرے کچھ کام نہ آؤ گے۔ جو جو باتیں تم لوگ اس کے بارے میں کرتے رہتے ہو وہ خوب جانتا ہے۔ میرے اور تمہارے درمیان وہی گواہی کو کافی ہے اور وہی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۹(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں کوئی نیا رسولؐ تو آیا نہیں اور میں کچھ نہیں جانتا کہ آئندہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ (یہ کہ) تمہارے ساتھ (کیا کیا جائے گا) میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میرے پاس وحی آئی ہے اور میں تو بس اعلانیہ ڈرانے والا ہوں۔
۱۰(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ بھلا دیکھو تو کہ اگر یہ (قرآن) خدا کی طرف سے ہے اور تم اس سے انکار کر بیٹھے حالانکہ بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ اس کے مثل کی گواہی بھی دے چکا اور ایمان بھی لے آیا اور تم نے سرکشی کی (تو تمہارے ظالم ہونے میں کیا شک ہے ) بے شک خدا ظالم لوگوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا۔
۱۱اور کافر لوگ مومنوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر یہ (دین) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے پہلے نہ دوڑ پڑتے اور جب قرآن کے ذریعے سے ان کی ہدایت نہ ہوتی تو اب بھی کہیں گے یہ تو ایک قدیمی جھوٹ ہے۔
۱۲اور اس کے قبل موسیٰؑ کی کتاب پیشوا اور (سراسر) رحمت تھی اور یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جو عربی زبان میں اس کی تصدیق کرتی ہے تاکہ (اس کے ذریعے سے ) ظالموں کو ڈرائے اور نیکوکاروں کے لیے (ازسرتاپا) خوش خبری ہے۔
۱۳بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا ہے پھر وہ اس پر قائم رہے تو (قیامت میں ) ان کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۱۴یہی تو اہل جنت ہیں کہ ہمیشہ اس میں رہیں گے (یہ) اس کا صلہ ہے جو یہ لوگ (دنیا میں ) کیا کرتے تھے۔
۱۵اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا (کیونکہ) اس کی ماں نے رنج ہی کی حالت میں اس کو پیٹ میں رکھا اور رنج ہی سے اس کو جنا۔ اور اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کی دودھ بڑھائی کے تیس مہینے ہوئے یہاں تک کہ جب اپنی پوری جوانی کو پہنچتا اور چالیس برس (کے سن) کو پہنچتا ہے تو (خدا سے ) عرض کرتا ہے پروردگارا تو مجھے توفیق عطا فرما کہ تو نے جو احسانات مجھ پر اور میرے والدین پر کیے ہیں میں ان احسانوں کا شکریہ ادا کروں اور یہ (بھی توفیق دے ) کہ میں ایسا نیک کام کروں جسے تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں صلاح و تقویٰ پیدا فرما میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں ہوں۔
۱۶یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک عمل ہم قبول فرمائیں گے اور بہشت (کے جانے ) والوں میں ہم ان کے گناہوں سے در گزر کریں گے (یہ وہ) سچّا وعدہ ہے جو ان سے کیا جاتا تھا۔
۱۷اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تمہارا بُرا ہو تم کیا مجھے دھمکی دیتے ہو کہ میں دوبارہ (قبر سے ) نکالا جاؤں گا حالانکہ بہت سے لوگ مجھ سے پہلے گزر چکے (اور کوئی نہ زندہ ہوا) اور دونوں فریاد کر رہے تھے کہ تجھ پر وائے ہو ایمان لے آ خدا کا وعدہ ضرور سچّا ہے۔ تو وہ بول اٹھا کہ یہ تو بس اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔
۱۸یہ وہی لوگ ہیں کہ جنات اور آدمیوں کی (دوسری) امتیں جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں ان ہی کے شمول میں ان پر بھی عذاب کا وعدہ متحقق ہو چکا ہے یہ لوگ بے شک گھاٹا اٹھانے والے تھے۔
۱۹اور لوگوں نے جیسے کام کیے ہوں گے اسی کے مطابق سب کے درجے ہوں گے اور یہ اس لیے کہ خدا ان کے اعمال کا ان کو پورا پورا بدلہ دے گا اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔
۲۰اور جس دن کفار جہنم کے سامنے لائے جائیں گے (تو ان سے کہا جائے گا) کہ تم تو اپنی دنیا کی زندگی میں اپنے مزے اُڑا چکے اور اس میں خوب چین کر چکے تو آج تم پر ذلت کا عذاب کیا جائے گا اس لیے کہ تم زمین میں ناحق اکڑا کرتے تھے اور اس لیے کہ تم بد کاریاں کرتے تھے۔
۲۱اور (اے رسولؐ) تم عاد کے بھائی (ہود) کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم کو (سرزمین) احقاف میں ڈرایا اور ان کے پہلے اور ان کے بعد بہت سے ڈرانے والے پیغمبر گزر چکے تھے (اور ہود نے اپنی قوم سے کہا) کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو کیونکہ تمہارے بارے میں ایک بڑے سخت دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
۲۲وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم کو ہمارے معبودوں سے پھیر دو تو اگر تم سچّے ہو تو جس عذاب کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو لے آؤ۔
۲۳ہود نے کہا (اس کا) علم تو بس خدا کے پاس ہے اور میں جو (احکام) دے کر بھیجا گیا ہوں وہ تمہیں پہنچائے دیتا ہوں مگر میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم جاہل لوگ ہو۔
۲۴تو جب ان لوگوں نے اس (عذاب) کو دیکھا کہ بادل کی طرح ان کے میدانوں کی طرف اُمڈا آ رہا ہے تو کہنے لگے یہ تو بادل ہے جو ہم پر برس کر رہے گا (نہیں ) بلکہ یہ وہ (عذاب) ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے (یہ) وہ آندھی ہے جس میں دردناک عذاب (بھرا) ہے
۲۵جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر چیز کو تباہ و برباد کر دے گی تو وہ ایسے (تباہ) ہوئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہ آتا تھا۔ ہم گنہگار لوگوں کی یوں ہی سزاکیا کرتے ہیں۔
۲۶اور ہم نے ان کو ایسے کاموں میں مقدور دیے تھے جن میں تمہیں (کچھ بھی) مقدور نہیں دیا اور انہیں کان اور آنکھ اور دل (سب کچھ) دیئے تھے تو چونکہ وہ لوگ خدا کی آیتوں سے انکار کرنے لگے تو نہ ان کے کان ہی کچھ کام آئے اور نہ آنکھیں اور نہ ان کے دل اور جس (عذاب) کی یہ لوگ ہنسی اڑایا کرتے تھے اس نے ان کو ہر طرف سے گھیر لیا۔
۲۷اور (اے اہل مکّہ) ہم نے تمہارے اردگرد کی بستیوں کو ہلاک کر مارا اور (اپنی قدرت کی) بہت سی نشانیاں طرح طرح سے دکھا دیں تاکہ یہ لوگ باز آئیں۔ (مگر کون سنتا ہے )
۲۸تو خدا کے سواجن کو ان لوگوں نے تقرب (خدا) کے لیے معبود بنا رکھا تھا انہوں نے (عذاب کے وقت) ان کی کیوں نہ مدد کی بلکہ وہ تو ان سے غائب ہو گئے اور ان کے جھوٹ اور ان کی افترا پردازیوں کی یہ حقیقت تھی۔
۲۹اور جب ہم نے جنوں میں سے کئی کو تمہاری طرف متوجہ کیا کہ دل لگا کر قرآن سنیں تو جب اس کے پاس حاضر ہوئے تو (ایک دوسرے سے ) کہنے لگے خاموش بیٹھے (سنتے ) رہو۔ پھر جب (پڑھنا) تمام ہوا تو اپنی قوم کی طرف واپس گئے کہ (ان کو عذاب سے ) ڈرائیں۔
۳۰تو ان سے کہنا شروع کیا کہ اے بھائیو ہم ایک کتاب سن کر آئے ہیں جو موسٰیؑ کے بعد نازل ہوئی ہے (اور) جو (کتابیں ) پہلے (نازل ہوئی) ہیں ان کی تصدیق کرتی ہے سچے (دین) اور سیدھے راستہ کی ہدایت کرتی ہے۔
۳۱اے ہماری قوم خدا کی طرف بلانے والے کی بات مانو اور خدا پر ایمان لاؤ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور (قیامت میں ) تمہیں درد ناک عذاب سے پناہ میں رکھے گا۔
۳۲اور جس نے خدا کی طرف بلانے والے کی بات نہ مانی (تو یاد رہے کہ) وہ (خدا کو روئے زمین میں ) عاجز نہیں کرسکتا اور نہ اس کے سوا اس کا کوئی سرپرست ہو گا۔ یہی لوگ صریحی گمراہی میں ہیں۔
۳۳کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ جس خدا نے سارے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے ذرا بھی تھکا نہیں وہ اس بات پر قادر ہے کہ مُردوں کو زندہ کرے گا (ضرور) وہ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے۔
۳۴اور جس دن کفّار (جہنم کی) آگ کے سامنے پیش کیے جائیں گے (تو ان سے پوچھا جائے گا) کیا اب بھی یہ برحق نہیں ہے وہ لوگ کہیں گے اپنے پروردگار کی قسم (حق ہے ) خدا فرمائے گا تو لو اب اپنے انکار اور کفر کے بدلے عذاب کے مزے چکھو۔
۳۵تو (اے رسولؐ) پیغمبروں میں سے جس طرح اولو العزم (عالی ہمّت) صبر کرتے رہے تم بھی صبر کرو اور ان کے لیے (عذاب کی) تعجیل کی خواہش نہ کرو۔ جس دن یہ لوگ اس (قیامت) کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو (ان کو معلوم ہو گا کہ) گویا یہ لوگ (دنیا میں ) بہت رہے ہوں گے تو سارے دن میں سے ایک گھڑی بھر۔ یہ پہنچا دینا ہے تو بس وہی لوگ ہلاک ہوں گے جو بدکار تھے۔
٭٭٭
۴۷۔ سورۃ محمد
۱جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور (لوگوں کو) خدا کے رستہ سے روکا خدا نے ان کے اعمال اکارت کر دیئے۔
۲اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے ) کام کیے اور جو(کتاب) محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) پر ان کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور وہ برحق ہے اس پر ایمان لائے تو خدا نے ان کے گناہ ان سے دور کر دیئے اور ان کی حالت سنوار دی
۳یہ اس وجہ سے کہ کافروں نے جھوٹی بات کی پیروی کی اور ایمان والوں نے اپنے پروردگار کا سچا دین اختیار کیا۔ یوں خدا لوگوں کے سمجھانے کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔
۴تو جب تم کافروں سے بھڑو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب تم انہیں زخموں سے چور کر ڈالو تو ان کی مشکیں کس لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ (کر چھوڑ دے ) نا، یا معاوضہ لے کر (رہا کرنا) یہاں تک کہ (دشمن) لڑائی کے ہتھیار رکھ دیں۔ یہ (یاد رکھو) اور اگر خدا چاہتا تو (اور طرح) ان سے بدلہ لے لیتا مگر اس نے چاہا کہ تمہاری آزمائش ایک دوسرے سے (لڑوا کر) کرے اور جو لوگ خدا کی راہ میں شہید کیے گئے ان کی کارگزار یوں کو خدا ہرگز اکارت نہ کرے گا۔
۵انہیں عنقریب منزل مقصود تک پہنچائے گا اور ان کی حالت سنوار دے گا۔
۶اور ان کو اس بہشت میں داخل کرے گا جس کا انہیں (پہلے سے ) شناسا کر رکھا ہے۔
۷اے ایماندارو اگر تم خدا (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
۸اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لیے تو ڈگمگاہٹ ہے اور خدا ان کے اعمال کو برباد کر دے گا۔
۹یہ اس لیے کہ خدا نے جو چیز نازل فرمائی انہوں نے اس کو ناپسندکیا تو خدا نے ان کی کارستانیوں کو اکارت کر دیا۔
۱۰تو کیا یہ لوگ روئے زمین پر چلے پھرے نہیں تو دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیسا (خراب) ہوا کہ خدا نے ان پر تباہی ڈال دی اور اسی طرح (ان)کافروں کو بھی (سزا ملے گی)۔
۱۱یہ اس وجہ سے کہ ایمان داروں کا خداسرپرست ہے اور کافروں کا ہرگز کوئی سرپرست نہیں۔
۱۲خدا ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرتے رہے ضرور (بہشت کے ) ان باغوں میں جا پہنچائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ اور جو کافر ہیں وہ (دنیا میں ) چین کرتے ہیں اور اس طرح (بے فکری سے ) کھاتے (پیتے ) ہیں جیسے چار پائے کھاتے (پیتے ) ہیں اور (آخر) ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔
۱۳اور جس بستی سے تم کو لوگوں نے نکال دیا اس سے زور میں کہیں بڑھ چڑھ کے بہت سی بستیاں تھیں جن کو ہم نے تباہ و برباد کر دیا تو ان کا کوئی مددگار بھی نہ ہوا۔
۱۴تو کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جس کی بد کاریاں اسے بھلی کر دکھائی گئی ہوں اور وہ اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہوں۔
۱۵جس بہشت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا جاتا ہے اس کی صفت یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جن میں ذرا بو نہیں اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزا تک نہیں بدلا اور شراب (پاک) کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لیے (سراسر) لذت ہیں اور صاف شفاف شہد کی نہریں ہیں اور وہاں ان کے لیے ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے پروردگار کی طرف سے بخشش ہے (بھلا یہ لوگ) ان کے برابر ہو سکتے ہیں جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا تو وہ آنتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔
۱۶اور (اے رسولؐ) ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو تمہاری طرف کان لگائے رہتے ہیں یہاں تک کہ سب سن سنا کر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو جن لوگوں کو علم (قرآن) دیا گیا ہے ان سے کہتے ہیں (کیوں بھئی) ابھی اس شخص نے کیا کہا تھا یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر خدا نے (کفر کی) علامت مقرر کر دی ہے اور یہ اپنی نفسانی خواہشوں پر چل رہے ہیں۔
۱۷اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں ان کو خدا (قرآن کے ذریعے سے ) مزید ہدایت کرتا ہے اور ان کو پرہیزگاری عطا فرماتا ہے۔
۱۸تو کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ ان پر اکبارگی آ جائے تو اس کی نشانیاں آ ہی چکی ہیں تو جس وقت قیامت ان (کے سر) پر آ پہنچے گی پھر انہیں نصیحت کہاں مفید ہو سکتی ہے۔
۱۹تو سمجھ لو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور (ہم سے ) اپنے اور ایماندار مردوں اور ایمان دار عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگتے رہو اور خدا تمہارے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے سے (خوب) واقف ہے۔
۲۰اور مومنین کہتے ہیں کہ (جہاد کے بارے میں ) کوئی سورۃ کیوں نہیں نازل ہوتا۔ لیکن جب کوئی صاف صریح معنوں کا سورۃ نازل ہو اور اس میں جہاد کا بیان ہو تو جن لوگوں کے دل میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی بے ہوشی (چھائی) ہو (کہ اس کی آنکھیں پتھرا جائیں )تو ان پر وائے ہو۔
۲۱(ان کے لیے اچھا کام تو) فرمانبرداری اور پسندیدہ بات ہے۔ پھر جب لڑائی ٹھن جائے تو اگر یہ لوگ خدا سے سچّے رہیں تو ان کے حق میں بہت بہتر ہے۔
۲۲(منافقو) کیا تم سے کچھ دور ہے کہ اگر تم حاکم بنو تو روئے زمین میں فساد پھیلانے اور اپنے رشتے ناتوں کو توڑنے لگو۔
۲۳یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی اور (گویا خود اس نے ) ان (کے کانوں ) کو بہرا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔
۲۴تو کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (ان کے ) دلوں پر تالے (لگے ہوئے ) ہیں
۲۵بے شک جو لوگ راہِ ہدایت صاف صاف معلوم ہونے کے بعد بھی الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پھر گئے شیطان نے انہیں (بتے دیکر) ڈھیل دے رکھی ہے اور ان (کی تمناؤں ) کی رسیاں دراز کر دی ہیں۔
۲۶یہ اس لئے کہ جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی (کتاب) سے بیزار ہیں یہ ان سے کہتے ہیں کہ بعض کاموں میں ہم تمہاری ہی بات مانیں گے اور خدا ان کے پوشیدہ مشوروں سے واقف ہے۔
۲۷تو جب فرشتے ان کی جانیں نکالیں گے اس وقت ان کا کیا حال ہو گا کہ ان کے چہروں پر اور ان کی پشت پر مارتے جائیں گے۔
۲۸یہ اس سبب سے کہ جس چیز سے خدا ناخوش ہے اس کی تو یہ لوگ پیروی کرتے ہیں اور جس میں خدا کی خوشی ہے اس سے بیزار ہیں تو خدا نے بھی ان کی کارستانیوں کو اکارت کر دیا،
۲۹کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا دل کے کینوں کو کبھی ظاہر نہ کرے گا۔
۳۰اور اگر ہم چاہتے تو ہم تمہیں ان لوگوں کو دکھا دیتے تو تم ان کی پیشانی ہی سے ان کو پہچان لیتے اور تم انہیں ان کے اندازِ گفتگو ہی سے ضرور پہچان لو گے اور خدا تمہارے اعمال سے واقف ہے۔
۳۱اور ہم تم لوگوں کو ضرور آزمائیں گے تاکہ تم میں جو لوگ جہاد کرنے والے اور (تکلیف) جھیلنے والے ہیں ان کو دیکھ لیں اور تمہارے حالات جانچ لیں۔
۳۲بے شک جن لوگوں پر (دین کی) سیدھی راہ صاف ظاہر ہو گئی اس کے بعد انکار کر بیٹھے اور (لوگوں کو) خدا کی راہ سے روکا اور پیغمبر کی مخالفت کی تو وہ خدا کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے اور وہ ان کا سب کیا کرایا اکارت کر دے گا۔
۳۳اے ایمان دارو خدا کا حکم مانو اور رسولؐ کی فرمانبرداری کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔
۳۴بے شک جو لوگ کافر ہو گئے اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکا پھر کافر ہی مر گئے تو خدا ان کو ہرگز نہیں بخشے گا۔
۳۵تو تم ہمّت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی دعوت نہ دو۔ تم غالب ہو ہی اور خدا تو تمہارے ساتھ ہے اور ہرگز تمہارے اعمال (کے ثواب) کو کم نہ کرے گا۔
۳۶دنیاوی زندگی تو بس کھیل تماشا ہے اور اگر تم (خدا پر) ایمان رکھو گے اور پرہیزگاری کرو گے تو وہ تم کو تمہارے اجر عنایت فرمائے گا اور تم سے تمہارے مال نہیں طلب کرے گا۔
۳۷اور اگر وہ تم سے مال طلب کرے اور تم سے اصرار کر کے مانگے بھی تو تم (ضرور) بخل کرنے لگو اور خدا تو تمہارے کینے ضرور ظاہر کر کے رہے گا
۳۸دیکھو تم لوگ وہی تو ہو کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے بلائے جاتے ہو تو بعض تم میں ایسے بھی ہیں جو بخل کرتے ہیں۔ اور (یاد رہے کہ) جو بخل کرتا ہے تو خود اپنے ہی سے بخل کرتا ہے۔ اور خدا تو بے نیاز ہے اور تم (اس کے ) محتاج ہو۔ اور اگر تم (خدا کے حکم سے ) منہ پھیرو گے تو خدا (تمہارے سوا) دوسروں کو بدل دے گا اور وہ تمہارے ایسے (بخیل) نہ ہوں گے۔
٭٭٭
۴۸۔ سورۃ فتح
۱(اے رسولؐ یہ حدیبیہ کی صلح نہیں بلکہ) ہم نے حقیقتاً تم کو کھلم کھلا فتح عطا کی
۲تاکہ خدا تمہاری امت کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے اور تمہیں سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھے،
۳اور خدا تمہاری زبردست مدد کرے۔
۴وہ وہی (خدا) تو ہے جس نے مومنین کے دلوں میں تسلی نازل فرمائی تاکہ اپنے (پہلے ) ایمان کے ساتھ اور ایمان کو بڑھائیں۔ اور سارے آسمانوں اور زمین کے لشکر تو خدا ہی کے ہیں اور خدا بڑا واقف کار حکیم ہے۔
۵تاکہ مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو (بہشت کے ) باغوں میں جا پہنچائے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ وہاں ہمیشہ رہیں گے اور ان کے گناہوں کو ان سے دور کر دے اور یہ خدا کے نزدیک بڑی کامیابی ہے۔
۶اور منافق مرد اور منافق عورتیں اور مشرک مرد اور مشرک عورتوں پر جو خدا کے حق میں بُرے بُرے خیال رکھتے ہیں عذاب نازل کرے ان پر (مصیبت کی) بڑی گردش ہے۔ اور خدا ان پر غضب ناک ہے اور اُس نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے جہنم کو تیار کر رکھا ہے۔ اور وہ کیا بُری جگہ ہے
۷اور سارے آسمان و زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں اور خدا تو بڑا واقف کار اور غالب ہے۔
۸(اے رسولؐ) ہم نے تم کو (تمام عالم کا) گواہ اور خوشخبری دینے والا اور دھمکی دینے والا (پیغمبر بنا کر) بھیجا
۹تاکہ (مسلمانو) تم لوگ خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کو بزرگ سمجھو اور صبح شام اس کی تسبیح کرو۔
۱۰بے شک جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا ہی سے بیعت کرتے ہیں خدا کی قوت و قدرت تو سب کی قوت پر غالب ہے۔ تو جو عہد کو توڑے گا تو اپنے نقصان کے لیے عہد توڑتا ہے اور جس نے اس بات کو جس کا اس نے خدا سے عہد کیا ہے پورا کیا تو اس کو عنقریب ہی اَجر عظیم عطا فرمائے گا۔
۱۱جو گنوار دیہاتی (حدیبیہ سے ) پیچھے رہ گئے اب وہ تم سے کہیں گے کہ ہم کو ہمارے مال اور لڑکے بالوں نے روک رکھا تو آپ ہمارے واسطے (خدا سے ) مغفرت کی دعا مانگیے۔یہ لوگ اپنی زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں۔ (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اگر خدا تم لوگوں کو نقصان پہنچانا چاہے یا تمہیں فائدہ پہنچانے کا ارادہ کرے تو خدا کے مقابلہ میں تمہارے لیے کس کا بس چل سکتا ہے بلکہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خوب واقف ہے۔
۱۲(یہ فقط تمہارے حیلے ہیں ) بات یہ ہے کہ تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ رسولؐ اور مومنین ہرگز کبھی اپنے لڑکے بالوں میں پلٹ کر آنے ہی کے نہیں (اور سب مار ڈالے جائیں گے ) اور یہی بات تمہارے دلوں میں کھپ گئی تھی اور (اسی وجہ سے ) تم طرح طرح کی بدگمانیاں کرنے لگے تھے اور (آخر کار) تم لوگ آپ برباد ہوئے۔
۱۳اور جو شخص خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان نہ لائے تو ہم نے (ایسے ) کافروں کے لیے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے۔
۱۴اور سارے آسمان و زمین کی بادشاہت خدا ہی کی ہے جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے سزا دے اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۱۵(مسلمانو) اب جو تم (خیبر کی) غنیمتوں کے لینے کو جانے لگو گے تو جو لوگ (حدیبیہ سے ) پیچھے رہ گئے تھے تم سے کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے قول کو بدل دیں۔ تم (صاف) کہہ دو کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلنے پاؤ گے خدا نے پہلے ہی سے ایسا فرما دیا ہے تو یہ لوگ کہیں گے کہ تم لوگ تو ہم سے حسد رکھتے ہو (خدا ایسا کیا کہے گا) بات یہ ہے کہ یہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں
۱۶جو گنوار پیچھے رہ گئے ہیں ان سے کہہ دو کہ عنقریب ہی تم ایک سخت جنگجو قوم کی ساتھ لڑنے کے لیے بلائے جاؤ گے کہ تم (یا تو) ان سے لڑتے ہی رہو گے یا وہ مسلمان ہی ہو جائیں گے پس اگر تم (خدا کا) حکم مانو گے تو خدا تم کو اچھا بدلہ دے گا اور اگر تم نے جس طرح پہلی دفعہ سرتابی کی تھی اب بھی سرتابی کرو گے تو وہ تم کو دردناک عذاب کی سزا دے گا
۱۷جہاد سے پیچھے رہ جانے کا تو اندھے ہی پر کچھ گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر گناہ ہے اور نہ بیمار پر گناہ ہے اور جو شخص خدا اور اس کے رسُولؐ کا حکم مانے گا تو وہ اس کو (بہشت کے ) ان سدا بہار باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ اور جو سرتابی کرے گا وہ اس کو دردناک عذاب کی سزا دے گا۔
۱۸جس وقت مومنین تم سے درخت کے نیچے (لڑنے مرنے ) کی بیعت کر رہے تھے تو خدا ان سے (اس بات پر) ضرور خوش ہوا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا خدا نے اسے دیکھ لیا پھر ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں اس کے عوض میں بہت جلد فتح عنایت کی
۱۹اور (اس کے علاوہ) بہت سی غنیمتیں (بھی)جو انہوں نے حاصل کیں (عطا فرمائیں ) اور خدا تو غالب (اور) حکمت والا ہے۔
۲۰خدا نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا تھا کہ تم ان پر قابض ہو گے تو اس نے تمہیں یہ (خیبر کی غنیمت) جلدی سے دلوا دی اور (حدیبیہ سے ) لوگوں کی دست درازی کو تم سے روک دیا اور غرض یہ تھی کہ یہ مومنین کے لیے (قدرت کا) نمونہ ہو اور خدا تم کو سیدھی راہ پر لے چلے
۲۱اور دوسری (غنیمتیں بھی دیں ) جن پر تم قدرت نہیں رکھتے تھے (اور) خدا ہی اُن پر حاوی تھا۔ اور خدا تو ہر چیز پر قادر ہے
۲۲اور اگر کفّار تم سے لڑتے تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے پھر وہ نہ (اپنا) کسی کوسرپرست ہی پاتے اور نہ مددگار
۲۳یہی خدا کی عادت ہے جو پہلے ہی سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کو بدلتے نہ دیکھو گے۔
۲۴اور وہ وہی تو ہے جس نے تم کو ان کفّار پر فتح دینے کے بعد مکّہ کی سرحد میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے۔ اور تم لوگ جو کچھ بھی کرتے تھے خدا اسے دیکھ رہا تھا۔
۲۵یہ وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد الحرام (میں جانے ) سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی (نہ آنے دیا) کہ وہ اپنی (مقرر) جگہ میں پہنچنے سے روکے رہے اور اگر کچھ ایسے ایماندار مرد اور ایماندار عورتیں نہ ہوتیں جن سے تم واقف نہ تھے کہ تم ان کو (لڑائی میں کفّار کے ساتھ) پامال کر ڈالتے پس تم کو ان کی طرف سے بے خبری میں نقصان پہنچ جاتا (تو اسی وقت تم کو فتح ہوتی مگر تاخیر اس لیے ہوئی) کہ خدا جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے اور اگر وہ (ایماندار) کفّار سے الگ ہو جاتے تو ان میں سے جو لوگ کافر تھے ہم انہیں دردناک عذاب کی ضرور سزا دیتے۔
۲۶(یہ وقت تھا) جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد ٹھان لی تھی اور ضد بھی جاہلیت کی سی تو خدا نے اپنے رسُولؐ اور مومنین (کے دلوں ) پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور ان کو پرہیزگاری کی بات پر قائم رکھا اور یہ لوگ اسی کے سزاوار اور اہل بھی تھے اور خدا تو ہر چیز سے خبردار ہے۔
۲۷بے شک خدا نے اپنے رسولؐ کو سچّا مطابق واقع خواب دکھایا تھا کہ تم لوگ ان شاء اللہ مسجد الحرام میں اپنے سرمنڈوا کر اور اپنے تھوڑے سے بال کتروا کر بہت امن و اطمینان سے داخل ہو گے (اور) کسی طرح کا خوف نہ کرو گے تو جو بات تم نہیں جانتے تھے اس کو معلوم تھی تو اس نے فتح مکّہ سے پہلے ہی بہت جلد فتح (خیبر) عطا کی۔
۲۸وہ وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور سچّا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب رکھے اور گواہی کے لیے تو بس خدا کافی ہے۔
۲۹محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) خدا کے رسولؐ ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر بڑے سخت اور آپس میں بڑے رحم دل ہیں تو ان کو دیکھے گا کہ (خدا کے سامنے ) جھکے سر بسجود ہیں خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے خواستگار ہیں (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں میں گھٹے پڑے ہوئے ہیں۔ یہی اوصاف ان کے توریت میں بھی ہیں اور یہی حالات انجیل میں (بھی مذکور) ہیں۔ وہ گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے ) اپنی سوئی نکالی اور پھر (اجزاء زمین کو غذا بنا کر) اسی سوئی کو مضبوط کیا تو وہ موٹی ہوئی پھر اپنی جڑ پر سیدھی کھڑی ہو گئی اور اپنی تازگی سے کسانوں کو خوش کرنے لگی۔ (اور اتنی جلد ترقی اس لیے دی) تاکہ ان کے ذریعہ کافروں کا جی جلائے جو لوگ ایمان لائے اور اچھے (اچھے ) کام کرتے رہے خدا نے ان سے بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔
٭٭٭
۴۹۔ سورۃ الحجٰرات
۱اے ایماندارو خدا اور اس کے رسولؐ کے سامنے کسی بات میں آگے نہ بڑھ جایا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بے شک خدا بڑا سننے والا واقف کار ہے۔
۲اے ایماندارو (بولنے میں ) تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کیا کرو اور جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے زور (زور) سے بولا کرتے ہو ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسانہ ہو) کہ تمہارا کیا کرایا سب اکارت ہو جائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔
۳بے شک جو لوگ رسولؐ خدا کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کر لیا کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے پرہیزگاری کے لیے جانچ لیا ہے ان کے لیے (آخرت میں ) بخشش اور بڑا اجر ہے۔
۴(اے رسولؐ)جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں
۵اور اگر یہ لوگ اتنا تامل کرتے کہ تم خود نکل کر ان کے پاس آ جاتے (تب بات کرتے ) تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۶اے ایماندارو اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو کہ) تم کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچاؤ پھر اپنے کیے پر نادم ہو۔
۷اور جان رکھو کہ تم میں خدا کے پیغمبرؐ (موجود) ہیں بہتیری باتیں ایسی ایسی ہیں کہ اگر رسولؐ ان میں تمہارا کہا مان لیا کریں تو (الٹے ) تم ہی مشکل میں پڑ جاؤ لیکن خدا نے تو تمہیں ایمان کی محبت دے دی ہے اور اس کو تمہارے دلوں میں عمدہ کر دکھایا ہے اور کفر اور بدکاری اور نافرمانی سے تم کو بیزار کر دیا ہے۔
۸یہی لوگ خدا کے فضل و کرم سے راہ ہدایت پر ہیں۔ اور خدا تو بڑا واقف کار حکمت والا ہے۔
۹اور اگر مومنین میں سے دو فرقے آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں میں صلح کرا دو پھر اگر ان میں سے ایک (فریق) دوسرے پر زیادتی کرے تو جو فرقہ زیادتی کرے تم (ابھی) اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع کرے پھر جب رجوع کرے تو فریقین میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو۔ بے شک خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
۱۰مومنین تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں میل جول کرا دیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
۱۱اے ایمان دارو (تم میں سے کسی قوم کا) کوئی مرد(دوسری قوم کے ) مردوں کی ہنسی نہ اُڑائے ممکن ہے کہ وہ لوگ (خدا کے نزدیک) اچھے ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں ) کیا عجب ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔ اور تم آپس میں ایک دوسرے کو طعنے نہ دو نہ ایک دوسرے کا بُرا نام دھرو۔ ایمان لانے کے بعد بدکاری (کا) نام ہی بُرا ہے۔ اور جو لوگ باز نہ آئیں تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔
۱۲اے ایماندارو! بہت سے گمانِ (بد) سے بچے رہو کیونکہ بعض بدگمانی گناہ ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے حال کی ٹوہ میں نہ رہا کرو اور نہ تم میں سے ایک دوسرے کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تم تو ضرور اس سے نفرت کرو گے اور خدا سے ڈرو بے شک خدا بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
۱۳لوگو ہم نے تو تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم ہی نے تمہارے قبیلے اور برادریاں بنائیں تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر لے اس میں شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تم سب میں بڑا عزّت دار وہی ہے جو بڑا پرہیزگار ہو۔ بے شک خدا بڑا واقف کار خبردار ہے۔
۱۴عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے (اے رسولؐ) کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ (یوں ) کہو کہ ہم اسلام لائے حالانکہ ایمان کا تو ابھی تک تمہارے دلوں میں گزر ہوا ہی نہیں۔ اور اگر تم خدا کی اور اس کے رسولؐ کی فرمانبرداری کرو گے تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا۔ بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۱۵(سچّے ) مومن تو بس وہی ہیں جو خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انہوں نے اس میں کسی طرح کا شک شُبہ نہ کیا اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی لوگ (دعوائے ایمان میں )سچے ہیں۔
۱۶(اے رسولؐ ان سے ) پوچھو تو کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتاتے ہو اور خدا تو جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین ہے (غرض سب کچھ) جانتا ہے۔اور خدا ہر چیز سے خبردار ہے۔
۱۷(اے رسولؐ) تم پر یہ لوگ اسلام لانے کا احسان جتاتے ہیں (تم صاف) کہہ دو کہ تم اپنے اسلام کا مجھ پر احسان نہ جتاؤ۔ بلکہ اگر تم (دعوائے ایمان میں ) سچّے ہو تو (سمجھو کہ) خدا نے تم پر احسان کیا کہ اس نے تم کو ایمان کا راستہ دکھایا۔
۱۸بیشک خدا تو سارے آسمان و زمین کی چھپی ہوئی باتوں کا جانتا ہے۔اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اُسے دیکھ رہا ہے۔
٭٭٭
۵۰۔ سورۃ ق
۱ قٓ قرآن مجید کی قسم (محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پیغمبر ہیں )
۲لیکن ان (کافروں ) کو تعجب ہے کہ انہی میں ایک (عذاب سے ڈرانے والا پیغمبر) ان کے پاس آ گیا۔ تو کفّار کہنے لگے یہ تو ایک عجیب بات ہے۔
۳بھلا جب ہم مر جائیں گے اور (سڑ گل کر) مٹّی ہو جائیں گے تو پھر یہ دوبارہ زندہ ہونا (عقل سے ) بعید (بات) ہے۔
۴ان کے جسموں سے زمین جس چیز کو (کھا کھا کر) کم کرتی ہے وہ ہم کو معلوم ہے اور ہمارے پاس تو تحریر یادداشت کتاب (لوح) محفوظ (موجود ہے )
۵مگر جب ان کے پاس (دین) حق آ پہنچا تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو وہ لوگ ایک ایسی بات میں (الجھے ہوئے ) ہیں جسے قرار نہیں۔
۶تو کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نظر نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیوں کر بنایا اور اس کو (کیسی) زینت دی اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں۔
۷اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس پر بوجھل پہاڑ رکھ دیئے اور اس میں ہر طرح کی خوشنما چیزیں اُگائیں۔
۸تاکہ تمام رجوع لانے والے (بندے )ہدایت اور عبرت حاصل کریں۔
۹اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی برسایا تو اس سے باغ (کے درخت) اُگائے اور کھیتی کا اناج
۱۰اور لمبی لمبی کھجوریں جس کا بُور باہم گتھا ہوا ہوتا ہے۔
۱۱(یہ سب کچھ) بندوں کو روزی دینے کے لیے (پیدا کیا) اور پانی ہی سے ہم نے مُردہ شہر (افتادہ زمین) کو زندہ کیا۔اسی طرح (قیامت میں مردوں کو) نکلنا ہو گا
۱۲ان سے پہلے نوحؑ کی قوم اور خندق والوں اور قوم ثمود نے اپنے اپنے پیغمبر کو جھٹلایا۔
۱۳اور (قوم) عاد اور فرعون اور لوطؑ کی قوم
۱۴اور بن کے رہنے والوں (قوم شعیبؑ ) اور تبّع کی قوم (ان) سب نے (اپنے اپنے ) پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہمارا (عذاب کا)وعدہ پورا ہو کر رہا۔
۱۵تو کیا ہم پہلی بار پیدا کر کے تھک گئے ہیں (ہرگز نہیں ) مگر یہ لوگ ازسرنو (دوبارہ) پیدا کرنے کی نسبت شک میں (پڑے ) ہیں۔
۱۶اور بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہم ان کو جانتے ہیں اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
۱۷جب (وہ کوئی کام کرتا ہے۔ تو) دو لکھنے والے (کراماً کاتبین) جو اس کے داہنے بائیں بیٹھے ہیں لکھ لیتے ہیں۔
۱۸کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔
۱۹موت کی بے ہوشی یقیناً طاری ہو گی (تو ہم بتا دیں گے کہ) یہی وہ (حالت) ہے جس سے تو بھاگا کرتا تھا۔
۲۰اور صور پھونکا جائے گا یہی (عذاب کے )وعدہ کا دن ہے۔
۲۱اور ہر شخص (ہمارے سامنے ) حاضر ہو گا کہ اس کے ساتھ ایک (فرشتہ) ہنکانے والا ہو گا اور ایک (اعمال کا) گواہ۔
۲۲(اس سے کہا جائے گا) کہ اس (دن) سے تو غفلت میں پڑا تھا تو اب ہم نے تیرے سامنے سے پردے کو ہٹا دیا تو آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے
۲۳اور اس کا ساتھی (فرشتہ) کہے گا یہ (اس کا عمل)جو میرے پاس حاضر ہے
۲۴ (تب حکم ہو گا) کہ تم دونوں ہر سرکش ناشکرے کو دوزخ میں ڈال دو
۲۵جو (واجب حقوق سے ) مال میں بخل کرنے والا، حد سے بڑھنے والا، (دین میں ) شک کرنے والا تھا
۲۶جس نے خدا کے ساتھ دوسرے معبود بنا رکھے تھے تو اب تم دونوں اس کو سخت عذاب میں ڈال دو۔
۲۷اس وقت اس کا ساتھی (شیطان) کہے گا پروردگارا ہم نے اس کو گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ تو یہ تو خود سخت گمراہی میں مبتلا تھا۔
۲۸(اس پر) خدا فرمائے گا ہمارے سامنے جھگڑے نہ کرو میں تو تم لوگوں کو پہلے ہی (عذاب سے ) ڈرا چکا تھا۔
۲۹میرے یہاں بات بدلا نہیں کرتی اور نہ میں بندوں پر (ذرّہ برابر) ظلم کرنے والا ہوں۔
۳۰اس دن ہم دوزخ سے پوچھیں گے کہ تو بھر چکی اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے۔
۳۱اور بہشت پرہیزگاروں کے بالکل قریب کر دی جائے گی
۳۲یہی تو وہ بہشت ہے جس کا تم میں سے ہر ایک (خدا کی طرف) رجوع کرنے والے (حدود کی) حفاظت کرنے والے سے وعدہ کیا جاتا ہے
۳۳تو جو شخص خدا سے بے دیکھے ڈرتا رہا اور (خدا کی طرف) رجوع کرنے والا دل لے کر آیا
۳۴(اس کو حکم ہو گا) کہ اس میں صحیح و سلامت داخل ہو جاؤ یہی تو ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔
۳۵اس میں یہ لوگ جو چاہیں گے ان کے لیے حاضر ہے اور ہمارے ہاں تو (اس سے بھی) زیادہ ہے۔
۳۶اور ہم نے ان سے پہلے کتنی امتیں ہلاک کر ڈالیں جو ان سے قوت میں کہیں بڑھ کر تھیں تو ان لوگوں نے (موت کے خوف سے ) تمام شہروں کو چھان مارا کہ بھلا کہیں بھی بھاگنے کا ٹھکانا ہے۔
۳۷اس میں شک نہیں کہ جو شخص (آگاہ) دل رکھتا ہے یا کان لگا کر حضور قلب سے سُنتا ہے اس کے لیے اس میں (کافی) نصیحت ہے۔
۳۸اور ہم ہی نے یقیناسارے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے بیچ میں ہے چھ دن میں پیدا کیے اور تکان تو ہم کو چھو بھی نہیں گئی۔
۳۹تو (اے رسُولؐ) جو کچھ یہ (کافر لوگ) بکا کرتے ہیں اس پر تم صبر کرو اور آفتاب کے نکلنے سے پہلے اور (اس کے ) غروب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کی تسبیح کیا کرو۔
۴۰اور تھوڑی دیر رات کو بھی اور نماز کے بعد بھی اس کی تسبیح کرو۔
۴۱اور کان لگا کر سُن رکھو کہ جس دن پکارنے والا (اسرافیلؑ ) نزدیک ہی کی جگہ سے آواز دے گا(کہ اُٹھو)
۴۲جس دن لوگ ایک سخت چیخ کو بخوبی سُن لیں گے وہی دن (لوگوں کے ) قبروں سے نکلنے کا ہو گا۔
۴۳بے شک ہم ہی (لوگوں کو) زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری ہی طرف پھر کر آنا ہے۔
۴۴جس دن زمین (ان کے اوپر سے ) پھٹ جائے گی اور جھٹ پَٹ نکل کھڑے ہوں گے یہ ہے اٹھانا (اور جمع کرنا) جو ہم پر بہت آسان ہے۔
۴۵(اے رسولؐ) یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں ہم اسے خوب جانتے ہیں۔ اور تم ان پر جبر تو کرتے نہیں ہو تو جو ہمارے (عذاب کے ) وعدے سے ڈرے اس کو تم قرآن کے ذریعہ نصیحت کرتے رہو۔
٭٭٭
۵۱۔ سورۃ الذٰریٰت
۱ان (ہواؤں کی) قسم جو (بادلوں کو) اڑا کر تتر بتر کر دیتی ہیں
۲پھر (پانی کا) بوجھ اٹھاتی ہیں
۳پھر آہستہ آہستہ چلتی ہیں
۴پھر ایک ضروری چیز (بارش) کو تقسیم کرتی ہیں
۵کہ تم سے جو وعدہ کیا جاتا ہے ضرور بالکل سچّا ہے
۶اور (اعمال کی) جزا (سزا) ضرور ہو گی۔
۷اور آسمان کی قسم جس میں رستے ہیں
۸کہ (اے اہل مکّہ) تم لوگ ایسی مختلف بے جوڑ بات میں پڑے ہو
۹کہ اس سے وہی پھیرا جائے گا (گمراہ ہو گا) جو (خدا کے علم میں ) پھیرا جا چکا ہے۔
۱۰اٹکل دوڑانے والے ہلاک ہوں
۱۱جو غفلت میں بھولے ہوئے (پڑے ) ہیں
۱۲پوچھتے ہیں کہ جزا کا دن کب ہو گا
۱۳اس دن (ہو گا) جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا۔
۱۴(اور ان سے کہا جائے گا) اپنے عذاب کا مزہ چکھو۔ یہ وہی ہے جس کی تم جلدی مچایا کرتے تھے۔
۱۵بے شک پرہیزگار لوگ (بہشت کے ) باغوں اور چشموں میں (عیش کرتے ) ہوں گے
۱۶جو ان کا پروردگارا نہیں عطا کرتا ہے یہ (خوش خوش) لے رہے ہیں یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں ) نیکوکار تھے
۱۷(عبادت کی وجہ سے ) رات کو بہت ہی کم سوتے تھے
۱۸اور پچھلے پہر کو اپنی مغفرت کی دعائیں کرتے تھے۔
۱۹اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محروم (دونوں ) کا حصّہ تھا۔
۲۰اور یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں
۲۱اور خود تم میں بھی ہیں تو تم کیا دیکھتے نہیں۔
۲۲اور تمہاری روزی اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان میں ہے
۲۳تو آسمان اور زمین کے مالک کی قسم یہ (قرآن)بالکل ٹھیک ہے جس طرح تم باتیں کرتے ہو۔
۲۴کیا تمہارے پاس ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں (فرشتوں ) کی بھی خبر پہنچی ہے۔
۲۵کہ جب وہ لوگ ان کے پاس آئے تو کہنے لگے سلام (علیکم) تو ابراہیمؑ نے بھی (علیکم) سلام کہا (دیکھا تو) ایسے لوگ جن سے جان نہ پہچان۔
۲۶پھر اپنے گھر جا کر جلدی سے (بھنا ہوا) ایک موٹا تازہ بچھڑا لے آئے
۲۷اور اسے ان کے آگے رکھ دیا (پھر) کہنے لگے آپ لوگ تناول کیوں نہیں کرتے
۲۸(اس پر بھی نہ کھایا) تو ابراہیمؑ ان سے جی ہی جی میں ڈرے وہ لوگ بولے آپ اندیشہ نہ کریں اور ان کو ایک دانشمند لڑکے کی خوشخبری دی
۲۹تو یہ سنتے ہی ابراہیمؑ کی بیوی (سارہ) چلاتی ہوئی ان کے سامنے آئی اور اپنا منہ پیٹ لیا کہنے لگی (اے ہے ) ایک تو (میں ) بڑھیا (اس پر) بانجھ (لڑکا کیوں کر ہو گا)
۳۰ فرشتے بولے تمہارے پروردگار نے یوں ہی فرمایا ہے۔ وہ بے شک حکمت والا واقف کار ہے۔
۳۱(تب ابراہیمؑ نے ) پوچھا کہ اے (خدا کے ) بھیجے ہوئے (فرشتو) آخر تمہیں کیا مہم درپیش ہے۔
۳۲وہ بولے ہم تو گنہگاروں (قوم لوطؑ) کی طرف بھیجے گئے ہیں
۳۳تاکہ ان پر مٹی کے پتھریلے کھرنجے برسائیں
۳۴جن پر حد سے بڑھ جانے والوں کے لیے تمہارے پروردگار کی طرف سے نشان لگا دیئے گئے ہیں۔
۳۵غرض وہاں جتنے لوگ مومنین سے تھے ان کو ہم نے نکال دیا
۳۶بس وہاں تو ہم نے ایک کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر پایا بھی نہیں۔
۳۷اور جو لوگ دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں ان کے لیے وہاں (عبرت کی) نشانی چھوڑ دی
۳۸اور موسیٰ ؑ (کے حال) میں بھی (نشانی ہے ) جب ہم نے ان کو فرعون کے پاس کھلا ہوا معجزہ دے کر بھیجا۔
۳۹تو اُس نے اپنے لشکر کے برتے پر منہ موڑ لیا اور کہنے لگا یہ (تو اچھا خاصا) جادوگر یا سودائی ہے۔
۴۰تو ہم نے اس کو اور اس کے لشکر کو لے ڈالا پھر ان سب کو دریا میں ٹپک دیا اور وہ تو قابل ملامت کام کرتا ہی تھا
۴۱اور عاد کی قوم (کے حال) میں (بھی نشانی ہے ) جب ہم نے ان پر ایک بے برکت آندھی چلائی
۴۲کہ جس چیز پر چلتی اس کو بوسیدہ ہڈی کی طرح ریزہ ریزہ کیے بغیر نہ چھوڑتی۔
۴۳اور ثمود (کے حال) میں بھی (قدرت کی نشانی) ہے جب اُن سے کہا گیا کہ ایک خاص وقت تک خوب چین کر لو۔
۴۴تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی تو انہیں ایک روز بجلی کی کڑک نے لے ڈالا اور وہ دیکھتے ہی رہ گئے۔
۴۵پھر نہ وہ اُٹھنے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ بدلا ہی لے سکتے تھے
۴۶اور (ان سے ) پہلے (ہم) نوحؑ کی قوم کو (ہلاک کر چکے تھے ) بے شک وہ بدکار لوگ تھے۔
۴۷اور ہم نے آسمانوں کو اپنے بل بوتے سے بنایا اور بے شک ہم میں سب قدرت ہے۔
۴۸ اور زمین کو بھی ہم نے ہی بچھایا تو ہم کیسے اچھے بچھانے والے ہیں۔
۴۹اور ہم ہی نے ہر چیز کی دو دو قسمیں بنائیں تاکہ تم لوگ نصیحت حاصل کرو۔
۵۰تو خدا ہی کی طرف بھاگو میں تم کو یقیناً اس کی طرف سے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔
۵۱اور خدا کے ساتھ دوسرا معبود نہ بناؤ میں تم کو یقیناً اس کی طرف سے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔
۵۲اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کے پاس جو پیغمبر آتا تو وہ اس کو جادوگر کہتے یا سڑی دیوانہ (بتاتے )
۵۳کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آتے ہیں۔ (نہیں ) بلکہ یہ لوگ ہیں ہی سرکش۔
۵۴تو (اے رسول) تم ان سے منہ پھیر لو تم پر تو کچھ الزام نہیں ہے
۵۵اور نصیحت کیے جاؤ کیونکہ نصیحت مومنین کو تو فائدہ دیتی ہے۔
۵۶اور میں نے جنوں اور آدمیوں کو اسی غرض سے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں
۵۷نہ تو میں ان سے روزی کا طالب ہوں اور نہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں۔
۵۸بے شک خدا خود بڑا روزی دینے والا زور آور (اور) زبردست ہے۔
۵۹تو (ان) ظالموں کے واسطے بھی عذاب کا کچھ حصّہ ہے جس طرح ان کے ساتھیوں کے لیے حصّہ تھا تو ان کو ہم سے جلدی نہ کرنا چاہیے۔
۶۰تو جس دن کا ان کافروں سے وعدہ کیا جاتا ہے اس سے ان کے لیے خرابی ہے۔
٭٭٭
۵۲۔ سورۃ الطور
۱(کوہ) طور کی قسم
۲اور اس کتاب (لوح محفوظ) کی
۳جو کشادہ اوراق میں لکھی ہوئی ہے
۴اور بیت معمور کی (جو کعبہ کے سامنے فرشتوں کا قبلہ ہے )
۵اور اونچی چھت (آسمان) کی
۶اور جوش و خروش والے سمندر کی
۷کہ تمہارے پروردگار کا عذاب بے شک واقع ہو کر رہے گا
۸ (اور) اس کا کوئی روکنے والا نہیں۔
۹جس دن آسمان چکر کھانے لگے گا
۱۰اور پہاڑ اڑنے لگیں گے
۱۱تو اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے
۱۲جو لوگ باطل میں پڑے کھیل رہے ہیں۔
۱۳جس دن جہنم کی آگ کی طرف ان کو دھکیل کر لے جائیں گے۔
۱۴(اور ان سے کہا جائے گا) یہی وہ جہنم ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔
۱۵تو کیا یہ جادو ہے یا تم کو نظر نہیں آتا۔
۱۶اسی میں گھسو پھر صبر کرو یا بے صبری کرو (دونوں ) تمہارے لیے یکساں ہے۔ تمہیں تو بس انہیں کاموں کا بدلہ ملے گا جو تم کیا کرتے تھے۔
۱۷بے شک پرہیزگار لوگ باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے۔
۱۸جو (جو نعمتیں ) ان کے پروردگار نے انہیں دی ہیں ان کے مزے لے رہے ہیں اور ان کا پروردگار انہیں دوزخ کے عذاب سے بچائے گا
۱۹جو جو کار گزاریاں تم کر چکے ہو ان کے صلہ میں (آرام سے ) تختوں پر جو برابر بچھے ہوئے ہیں
۲۰تکیہ لگا کر خوب مزے سے کھاؤ پیو اور ہم بڑی آنکھوں والی حُور سے ان کا بیاہ رچائیں گے۔
۲۱اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا ساتھ دیا تو ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے درجے تک پہنچا دیں گے اور ہم ان کی کار گزاریوں میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گرو ہے
۲۲ اور جس قسم کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم انہیں اور بڑھا کر عطا کریں گے۔
۲۳وہاں ایک دوسرے سے شراب کا جام لے لیا کریں گے جس میں نہ کوئی بیہودگی ہے اور نہ گناہ۔
۲۴(اور خدمت کے لیے ) نوجوان لڑکے ان کے آس پاس چکر لگایا کریں گے وہ (حسن و جمال میں گویا) احتیاط سے رکھے ہوئے موتی ہیں
۲۵اور ایک دوسرے کی طرف رُخ کر کے (لطف کی) باتیں کریں گے۔
۲۶(ان میں سے کچھ) کہیں گے کہ ہم اس سے پہلے اپنے گھر میں (خدا سے بہت) ڈرا کرتے تھے۔
۲۷تو خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا اور ہم کو (جہنم کی) لُو کے عذاب سے بچا لیا۔
۲۸اس کے قبل ہم اس سے دعائیں کیا کرتے تھے بے شک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے۔
۲۹تو (اے رسولؐ)تم نصیحت کیے جاؤ تم تو اپنے پروردگار کے فضل سے نہ کاہن ہو اور نہ مجنوں۔
۳۰ کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہے (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں۔
۳۱تم کہہ دوکہ (اچھا) تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں۔
۳۲کیا ان کی عقلیں انہیں یہ (باتیں ) بتاتی ہیں یا یہ لوگ ہیں ہی سرکش۔
۳۳کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نے قرآن کو خود گھڑ لیا ہے بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔
۳۴تو اگر یہ لوگ سچّے ہیں توایسا ہی کلام بنا تو لائیں۔
۳۵کیا یہ لوگ کسی کے (پیدا کیے ) بغیر ہی پیدا ہو گئے ہیں یا یہی لوگ (خود اپنے ) پیدا کرنے والے ہیں۔
۳۶یا انہوں ہی نے سارے آسمان و زمین پیدا کیے ہیں (نہیں ) بلکہ یہ لوگ یقین نہیں رکھتے۔
۳۷کیا تمہارے پروردگار کے خزانے انہی کے پاس ہیں یا یہی لوگ حاکم ہیں
۳۸یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر (چڑھ کر آسمان سے ) سُن آتے ہیں جو سُن آیا کرتا ہو تو وہ کوئی صریحی دلیل پیش کرے۔
۳۹کیا خدا کے لیے بیٹیاں ہیں اور تم لوگوں کے لیے بیٹے۔
۴۰یا تم (ان سے تبلیغ رسالت کی) اُجرت مانگتے ہو کہ یہ لوگ قرض کے بوجھ سے دبے جاتے ہیں۔
۴۱یا ان لوگوں کے پاس غیب (کا علم) ہے کہ وہ لکھ لیتے ہیں۔
۴۲یا یہ لوگ کچھ داؤں چلنا چاہتے ہیں تو جو لوگ کافر ہیں وہ خود داؤں میں (پھنسے ) ہیں۔
۴۳یا خدا کے سوا ان کا کوئی (دوسرا) معبود ہے جن چیزوں کو یہ لوگ (خدا کا) شریک بتاتے ہیں وہ اس سے پاک و پاکیزہ ہے۔
۴۴اور اگر یہ لوگ آسمان سے کوئی (عذاب کا)ٹکڑا گرتے ہوئے دیکھیں تو بول اُٹھیں گے یہ تو دلدار بادل ہے۔
۴۵تو (اے رسولؐ) تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ دن جس میں یہ بے ہوش ہو جائیں گے ان کے سامنے آ جائے
۴۶جس دن نہ ان کی مکاری ہی کچھ کام آئے گی اور نہ ان کی مدد ہی کی جائے گی۔
۴۷اور اس میں شک نہیں کہ ظالموں کے لیے اس کے علاوہ اور بھی عذاب ہے مگر ان میں بہتیرے نہیں جانتے ہیں۔
۴۸اور (اے رسولؐ) تم اپنے پروردگار کے حکم سے انتظار میں صبر کیے رہو تم تو بالکل ہماری نگہداشت میں ہو تو جب تم اٹھا کرو تو اپنے پروردگار کی حمد کی تسبیح کیا کرو
۴۹اور کچھ رات کو بھی اور ستاروں کے غروب ہونے کے بعد بھی تسبیح کیا کرو۔
٭٭٭
۵۳۔سورۃ النجم
۱تارے کی قسم جب ٹوٹا
۲کہ تمہارے رفیق (محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) نہ گمراہ ہوئے اور نہ بہکے۔
۳ اور وہ تو اپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں۔
۴یہ تو بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے
۵ان کو نہایت طاقتور نے تعلیم دی ہے
۶جو بڑا زبردست ہے
۷اور جب یہ (آسمان کے ) اونچے (شرقی)کنارے پر تھا
۸تو وہ (اپنی اصلی صورت میں ) سیدھا کھڑا ہوا پھر قریب ہوا
۹اور آگے بڑھا دو کمان کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی قریب تھا۔
۱۰خدا نے اپنے بندے کی طرف جو وحی بھیجی سو بھیجی۔
۱۱تو جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے جھوٹ نہ جانا۔
۱۲تو کیا وہ (رسولؐ) جو کچھ دیکھتا ہے تم لوگ اس میں اس سے جھگڑتے ہو
۱۳اور انہوں نے تو اس (جبرئیلؑ )کو ایک بار (شب معراج) اور دیکھا ہے
۱۴سدرۃ المنتہیٰ کے نزدیک
۱۵اسی کے پاس تو رہنے کی بہشت ہے۔
۱۶جب چھا رہا تھا سدرہ پر جو چھا رہا تھا۔
۱۷(اس وقت بھی) اس کی آنکھ نہ تو اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے آگے بڑھی
۱۸انہوں نے یقیناً اپنے پروردگار (کی قدرت) کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں
۱۹تو بھلا تم لوگوں نے لات و عزیٰ
۲۰اور تیسرے پچھلے منات کو دیکھا (بھلا یہ خدا ہو سکتے ہیں )۔
۲۱کیا تمہارے تو بیٹے ہیں اور اس کے لیے بیٹیاں۔
۲۲یہ تو بہت بے انصافی کی تقسیم ہے
۲۳یہ تو بس صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے گھڑ لیے ہیں خدا نے تو اس کی کوئی سند نازل نہیں کی یہ لوگ تو بس اٹکل اور اپنی نفسانی خواہش کے پیچھے چل رہے ہیں۔ حالانکہ یقیناً ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے ہدایت بھی آ چکی۔
۲۴کیا جس چیز کی انسان تمنّا کرے وہ اُسے ضرور ملتی ہے۔
۲۵آخرت اور دنیا تو خاص خدا ہی کے اختیار میں ہے
۲۶اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں جن کی سفارش بھی کچھ کام نہیں آتی مگر خدا جس کے لیے چاہے اجازت دے اور پسند کرے اس کے بعد (سفارش کرسکتے ہیں )
۲۷جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کے نام رکھتے ہیں عورتوں کے نام پر
۲۸حالانکہ انہیں اس کی کچھ خبر نہیں وہ لوگ تو بس گمان (خیال) کے پیچھے چل رہے ہیں۔ حالانکہ گمان یقین کے مقابلہ میں کچھ بھی کام نہیں آیا کرتا۔
۲۹تو جو ہماری یاد سے روگردانی کرے اور صرف دنیاوی زندگی کا طالب ہو تو تم بھی اس سے منہ پھیر لو۔
۳۰ان کے علم کی یہی انتہا ہے تمہارا پروردگار جو اس کے رستہ سے بھٹک گیا اس کو بھی خوب جانتا ہے اور جو راہِ راست پر ہے اس سے بھی خوب واقف ہے۔
۳۱اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی کا ہے تاکہ جن لوگوں نے برائی کی ہے وہ ان کو ان کی کارستانیوں کی سزا دے اور جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کو ان کی نیکی کی جزا دے
۳۲جو صغیرہ گناہوں کے سوا کبیرہ گناہوں سے اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے رہتے ہیں۔ بے شک تمہارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے۔ وہی تم کو خوب جانتا ہے جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے تو (تکبّر سے ) اپنے نفس کی پاکیزگی نہ جتایا کرو جو پرہیزگار ہے اس کو وہ خوب جانتا ہے۔
۳۳بھلا (اے رسولؐ) تم نے اس شخص کو بھی دیکھا
۳۴جس نے روگردانی کی اور تھوڑا سا (خدا کی راہ میں )دیا۔ اور (پھر) بند کر دیا
۳۵کہ کیا اس کے پاس علم غیب ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے۔
۳۶کیا اس کو ان باتوں کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰؑ کے صحیفوں میں ہے
۳۷اور ابراہیمؑ کے (صحیفوں میں ) جنہوں نے (اپنا حق) پورا (پورا ادا) کیا
۳۸(ان صحیفوں میں یہ ہے ) کہ کوئی شخص دوسرے (کے گناہ)کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا
۳۹اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے
۴۰اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب ہی (قیامت میں ) دیکھی جائے گی
۴۱پھر اس کو اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا
۴۲اور یہ کہ (سب کو آخر) تمہارے پروردگار ہی کے پاس پہنچنا ہے
۴۳اور یہ کہ وہی ہنساتا اور رلاتا ہے
۴۴اور یہ کہ وہی مارتا اور جلاتا ہے
۴۵ اور یہ کہ وہی نر اور مادہ دو قسم (کے حیوان)
۴۶ نطفہ سے جب (رحم میں ) ڈالا جاتا ہے پیدا کرتا ہے
۴۷اور یہ کہ اسی پر (قیامت میں )دوبارہ اُٹھانا لازم ہے
۴۸اور یہ کہ وہی مالدار بناتا اور سرمایہ عطا کرتا ہے
۴۹اور یہ کہ وہی شعریٰ کا مالک ہے
۵۰اور یہ کہ اسی نے پہلی (قوم) عاد کو ہلاک کیا
۵۱اور (قوم) ثمود کو بھی غرض کسی کو باقی نہ چھوڑا
۵۲اور (اس کے ) پہلے نوحؑ کی قوم کو۔ بے شک یہ لوگ بڑے ظالم اور بڑے ہی سرکش تھے۔
۵۳اور اسی نے (قومِ لوطؑ کی) اُلٹی ہوئی ہوئی بستیوں کود ے ٹپکا
۵۴پھر ان پر جو چھایا سوچھایا۔
۵۵تو تُو (اے انسان آخر) اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت پر شک کیا کرے گا۔
۵۶یہ (محمدؐ) بھی اگلے ڈرانے والوں میں سے ایک ڈرانے والا پیغمبرؐ ہے۔
۵۷قیامت قریب آ گئی۔
۵۸خدا کے سوا اسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔
۵۹تو کیا تم لوگ اس بات سے تعجب کرتے ہو۔
۶۰اور ہنستے ہو اور روتے نہیں
۶۱اور تم اس قدر غافل ہو
۶۲تو خدا کے آگے سجدے کرو اور (اسی کی) عبادت کرو۔
٭٭٭
۵۴۔ سورۃ القمر
۱قیامت قریب آ گئی اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔
۲اور اگر یہ کفّار کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا زبردست جادو ہے۔
۳اور ان لوگوں نے جھٹلایا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کی اور ہر کام کا وقت مقرر ہے۔
۴اور ان کے پاس تو وہ حالات پہنچ چکے ہیں جن میں کافی تنبیہ تھی
۵اور انتہا درجہ کی دانائی مگر (ان کو تو) ڈرانا کچھ فائدہ نہیں دیتا
۶تو (اے رسولؐ) تم بھی ان سے کنارہ کش رہو جس دن ایک بلانے والا (اسرافیلؑ) ایک اجنبی اور ناگوار چیز کی طرف بلائے گا
۷تو (قیامت میں ) آنکھیں نیچے کیے ہوئے قبروں سے نکل پڑیں گے گویا وہ پھیلی ہوئی ٹڈیاں ہیں
۸(اور) بلانے والے کی طرف گردنیں بڑھائے دوڑتے جاتے ہوں گے۔ کفّار کہیں گے یہ تو بڑا سخت دن ہے۔
۹ان سے پہلے نوحؑ کی قوم نے بھی جھٹلایا تھا پس انہوں نے ہمارے (خاص) بندے (نوح) کو جھٹلایا اور کہنے لگے یہ تو دیوانہ ہے اور ان کو جھڑکیاں بھی دی گئیں۔
۱۰تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ (بار الٰہا) میں (ان کے مقابلہ میں ) کمزور ہوں تو اب تو ہی (ان سے ) بدلہ لے۔
۱۱تو ہم نے موسلادھار پانی سے آسمان کے دروازے کھول دیئے
۱۲اور زمین سے چشمے جاری کر دیئے تو ایک کام کے لئے جو مقدر ہو چکا تھا (دونوں ) پانی مل (کر ایک ہو) گئے۔
۱۳اور ہم نے ان کو ایک کشتی پر جو تختوں اور کیلوں سے تیار کی گئی تھی سوار کیا
۱۴اور وہ ہماری نگرانی میں چل رہی تھی(یہ) اس شخص (نوحؑ) کا بدلہ لینے کے لیے جس کو لوگ نہ مانتے تھے
۱۵اور ہم نے اس کو ایک عبرت بنا چھوڑا تو کوئی ہے جو عبرت حاصل کرے۔
۱۶تو (ان کو) میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا تھا۔
۱۷اور ہم نے تو قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے واسطے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔
۱۸عاد (کی قوم) نے (اپنے پیغمبر کو) جھٹلایا تو (ان کو) میرا عذاب اور ڈرانا کیسا تھا
۱۹ہم نے ان پر بہت سخت منحوس دن میں بڑے زناٹے کی آندھی چلائی
۲۰جو لوگوں کو (اپنی جگہ سے ) اس طرح اُکھاڑ پھینکتی تھی گویا وہ اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہیں۔
۲۱تو (ان کو) میرا عذاب اور ڈرانا کیسا تھا۔
۲۲اور ہم نے تو قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے واسطے آسان کر دیا تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔
۲۳(قوم) ثمود نے ڈرانے والوں (پیغمبروں ) کو جھٹلایا۔
۲۴تو کہنے لگے کہ بھلا ایک آدمی کی جو ہمیں میں سے ہو اس کی پیروی کریں ایسا کریں تو ہم گمراہی اور دیوانگی میں پڑ گئے۔
۲۵کیا ہم سب میں سے بس اسی پر وحی نازل ہوئی ہے (نہیں ) بلکہ یہ تو بڑا جھوٹا تعلّی کرنے والا ہے۔
۲۶ان کو عنقریب کل ہی معلوم ہو جائے گا کہ کون بڑا جھوٹا تکبر کرنے والا ہے۔
۲۷(اے صالح) ہم ان کی آزمائش کے لیے اونٹنی بھیجنے والے ہیں تو تم ان کو دیکھتے رہو اور (تھوڑا) صبر کرو۔
۲۸اور ان کو خبر دو کہ ان میں پانی کی باری مقرر کر دی گئی ہے ہر (باری والے کو اپنی) باری پر حاضر ہونا چاہیے۔
۲۹تو ان لوگوں نے اپنے رفیق (قدار) کو بلایا تو اس نے پکڑ کر (اونٹنی کی) کو چیں کاٹ ڈالیں
۳۰تو (دیکھو)میرا عذاب اور ڈرانا کیسا تھا۔
۳۱ہم نے ان پر ایک سخت چنگھاڑ (کا عذاب) بھیج دیا۔ تو وہ باڑے والے کے سوکھے ہوئے چُور چُور بھوسے کی طرح ہو گئے۔
۳۲اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے واسطے آسان کر دیا تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔
۳۳لوطؑ کی قوم نے بھی ڈرانے والوں (پیغمبروں ) کو جھٹلایا۔
۳۴ہم نے ان پر کنکر بھری ہوا چلائی مگر لوطؑ کے لڑکے بالے کہ ہم نے ان کو اپنے فضل و کرم سے پچھلے پہر ہی بچا لیا۔
۳۵ہم شکر کرنے والے کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
۳۶ اور لوطؑ نے ان کو ہماری پکڑ سے ڈرا بھی دیا تھا مگر ان لوگوں نے ڈرانے ہی میں شک کیا۔
۳۷اور ان سے ان کے مہمان (فرشتے ) کے بارے میں ناجائز مطلب کی خواہش کی تو ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کر دیں تو میرے عذاب اور ڈرانے کا مزہ چکھو
۳۸اور صبح سویرے ان پر عذاب آ گیا جو کسی طرح ٹل نہیں سکتا تھا۔
۳۹تو میرے عذاب اور ڈرانے کے مزے چکھو۔
۴۰اور ہم نے تو قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے واسطے آسان کر دیا تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔
۴۱اور فرعون کے لوگوں کے پاس بھی ڈرانے والے (پیغمبر) آئے۔
۴۲تو ان لوگوں نے ہماری کل نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو اس طرح سخت پکڑا جس طرح ایک زبردست صاحب قدرت پکڑا کرتا ہے۔
۴۳(اے اہل مکّہ) کیا ان لوگوں سے بھی تمہارے کفّار بڑھ کر ہیں یا تمہارے واسطے (پہلی) کتابوں میں معانی (لکھی ہوئی) ہے۔
۴۴کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بہت قوی جماعت ہیں۔
۴۵عنقریب ہی یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر پھیر کر بھاگ جائیں گے
۴۶بات یہ ہے کہ ان کے وعدے کا وقت قیامت ہے اور قیامت بڑی سخت اور تلخ (چیز) ہے۔
۴۷بے شک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں (مبتلا) ہیں۔
۴۸اس روز یہ لوگ اپنے اپنے منہ کے بل (جہنم کی) آگ میں گھسیٹے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا)اب جہنم کی آگ کا مزہ چکھو۔
۴۹بے شک ہم نے ہر چیز ایک مقرر انداز سے پیدا کی ہے
۵۰اور ہمارا حکم تو بس آنکھ کے جھپکنے کی طرح ایک بات ہوتی ہے۔
۵۱اور ہم تمہارے ہم مشربوں کو ہلاک کر چکے ہیں تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔
۵۲اور یہ لوگ جو کچھ کر چکے ہیں (ان کے )اعمال ناموں میں (درج) ہے
۵۳(یعنی) ہر چھوٹا اور بڑا کام لکھ دیا گیا ہے۔
۵۴بے شک پرہیزگار لوگ (بہشت کے ) باغوں اور نہروں میں
۵۵(یعنی) پسندیدہ مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بارگاہ میں (مقرّب) ہوں گے۔
٭٭٭
۵۵۔ سورۃ الرَّحمٰن
۱بڑا مہربان (خدا)
۲ اسی نے قرآن کی تعلیم فرمائی۔
۳ اسی نے انسان کو پیدا کیا۔
۴اسی نے اس کو (اپنا مطلب) بیان کرنا سکھایا۔
۵سورج اور چاند ایک مقرر حساب سے (چل رہے ) ہیں
۶اور بوٹیاں، (بیلیں ) اور درخت (اسی کو) سجدہ کرتے ہیں۔
۷اور اسی نے آسمان بلند کیا اور ترازو (انصاف) کو قائم کیا
۸تاکہ تم لوگ ترازو (سے تولنے ) میں تجاوز نہ کرو۔
۹اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو اور تول کم نہ کرو
۱۰اور اسی نے لوگوں کے نفع کے لیے زمین بنائی
۱۱کہ اس میں میوے اور کھجور کے درخت ہیں جس کے خوشوں میں غلاف ہوتے ہیں
۱۲اور اناج جس کے ساتھ بھس ہوتا ہے اور خوشبودار پھول
۱۳تو (اے گروہ جن و انس) تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو نہ مانو گے۔
۱۴اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا
۱۵اور اسی نے جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔
۱۶تو (اے گروہ جن و انس) تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت سے مکرو گے۔
۱۷وہی (جاڑے گرمی کے ) دونوں مشرقوں کا مالک ہے اور دونوں مغربوں کا (بھی) مالک ہے
۱۸تو (اے جنوں اور آدمیوں ) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت سے انکار کرو گے
۱۹اسی نے دو دریا بہائے جو باہم مل جاتے ہیں
۲۰دونوں کے درمیان ایک حد فاضل (آڑ) ہے جس سے تجاوز نہیں کرسکتے
۲۱(تو اے جن و انس)تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
۲۲ان دونوں دریاؤں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں
۲۳(اے جن و انس) تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو نہ مانو گے۔
۲۴اور جہاز جو دریا میں پہاڑوں کی طرح اونچے کھڑے رہتے ہیں اسی کے ہیں
۲۵تو (اے جن و انس) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
۲۶جو (مخلوق) زمین پر ہے سب فنا ہونے والی ہے
۲۷اور صرف تمہارے پروردگار کی ذات جو عظمت اور کرامت والی ہے باقی رہے گی
۲۸تو تم دونوں اپنے مالک کی کن کن نعمتوں سے انکار کرو گے۔
۲۹اور جتنے لوگ سارے آسمان و زمین میں ہیں (سب) اسی سے مانگتے ہیں۔ وہ ہر روز (ہر وقت) مخلوق کے ایک نہ ایک کام میں ہے۔
۳۰ تو تم دونوں اپنے سرپرست کی کون کون سی نعمت سے مکرو گے۔
۳۱اے دونوں گروہو ہم عنقریب ہی تمہاری طرف متوجہ ہوں گے۔
۳۲تو تم دونوں اپنے پالنے والے کی کس کس نعمت کو نہ مانو گے۔
۳۳اے گروہِ جن و انس اگر تم میں قدرت ہے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے (ہو کر کہیں ) نکل (کر موت یا عذاب سے بھاگ) سکو تو نکل جاؤ (مگر) تم تو بغیر قوت اور غلبہ کے نکل ہی نہیں سکتے (حالانکہ تم میں نہ قوت ہے نہ غلبہ)
۳۴تو تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
۳۵(گنہگار جنوں اور آدمیوں جہنم میں ) تم دونوں پر آگ کا سبز شعلہ اور سیاہ دھواں چھوڑ دیا جائے گا تو تم دونوں (کسی طرح) روک نہیں سکو گے۔
۳۶پھر تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت سے انکار کرو گے۔
۳۷ پھر جب آسمان پھٹ کر (قیامت میں ) تیل کی طرح لال ہو جائے گا۔
۳۸تو تم دونوں اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں سے مکرو گے۔
۳۹تو اس دن نہ تو کسی انسان سے اس کے گناہ کے بارے میں پوچھا جائے گا نہ کسی جن سے۔
۴۰تو تم دونوں اپنے مالک کی کس کس نعمت کو نہ مانو گے۔
۴۱گنہگار لوگ تو اپنے چہروں ہی سے پہچان لیے جائیں گے تو پیشانی کے پٹے اور پاؤں پکڑے (جہنم میں ڈال دیئے ) جائیں گے
۴۲آخر تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت سے انکار کرو گے۔
۴۳(پھر ان سے کہا جائے گا) یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلایا کرتے تھے
۴۴یہ لوگ دوزخ اور حد درجہ کھولتے ہوئے پانی کے درمیان (بے قرار دوڑتے ) چکر لگاتے پھریں گے۔
۴۵ تو تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو نہ مانو گے۔
۴۶اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا اس کے لئے دو باغ ہیں۔
۴۷تو تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت سے انکار کرو گے
۴۸دونوں باغ درختوں کی ٹہنیوں سے ہرے بھرے (میووں سے لدے ) ہوئے
۴۹پھر تم دونوں اپنے سرپرست کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
۵۰ان دونوں میں دو چشمے بھی جاری ہوں گے
۵۱تو تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت سے مکرو گے
۵۲ان دونوں باغوں میں سب میوے دو دو قسم کے ہوں گے
۵۳تو تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت سے انکار کرو گے
۵۴یہ لوگ ان فرشوں پر جن کے استراطلس کے ہوں گے تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ دونوں باغوں کے میوے (اس قدر) قریب ہوں گے (کہ اگر چاہیں تو لگے ہوئے کھالیں )
۵۵تو تم دونوں اپنے مالک کی کس کس نعمت کو نہ مانو گے۔
۵۶اس میں (پاک دامن) غیر کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھنے والی عورتیں ہوں گی جن کو ان سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا ہو گا اور نہ جن نے
۵۷تو تم دونوں اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
۵۸(ایسی حسین) گویا وہ (مجسّم) یا قوت اور مونگے ہیں۔
۵۹تو تم دونوں اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں سے مکرو گے۔
۶۰بھلا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ اور بھی ہے
۶۱پھر تم دونوں اپنے مالک کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
۶۲ان دو باغوں کے علاوہ دو باغ اور ہیں
۶۳تو تم دونوں اپنے پالنے والے کی کس کس نعمت سے انکار کرو گے۔
۶۴دونوں نہایت گہرے سبز و شاداب
۶۵تو تم دونوں اپنے سرپرست کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے۔
۶۶ان دونوں باغوں میں دو چشمے جوش مارتے ہوں گے
۶۷تو تم دونوں اپنے پروردگار کی کس نعمت سے مکرو گے۔
۶۸ان دونوں میں میوے ہیں اور خرمے اور انار۔
۶۹تو تم دونوں اپنے مالک کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
۷۰ان باغوں میں خوش خلق اور خوبصورت عورتیں ہوں گی
۷۱تو تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو نہ مانو گے۔
۷۲وہ حوریں جو خیموں میں چھپی بیٹھی ہیں۔
۷۳پھر تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت سے مکرو گے۔
۷۴ان سے پہلے ان کو کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور نہ جن نے۔
۷۵پھر تم دونوں اپنے مالک کی کس کس نعمت سے مکرو گے۔
۷۶یہ لوگ سبز قالینوں اور نفیس و حسین مسندوں پر تکیے لگائے (بیٹھے ) ہوں گے۔
۷۷پھر تم دونوں اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں سے انکار کرو گے۔
۷۸(اے رسولؐ)تمہارا پروردگار جو صاحبِ جلال و کرامت ہے اس کا نام بڑا بابرکت ہے۔
٭٭٭
۵۶۔ سورۃ الواقعۃ
۱جب قیامت برپا ہو گی
۲(اور) اس کے واقع ہونے میں ذرا جھوٹ نہیں
۳(اس وقت لوگوں میں فرق ظاہر ہو گا) کہ کسی کو پست کرے گی کسی کو بلند
۴جب زمین بڑے زوروں میں ہلنے لگے گی
۵ اور پہاڑ (ٹکرا کر) بالکل چور چور ہو جائیں گے
۶ پھر ذرے بن کر اُڑنے لگیں گے
۷اور تم لوگ تین قسم ہو جاؤ گے
۸تو داہنے ہاتھ (میں اعمال لینے ) والے (واہ) داہنے ہاتھ والے کیا (چین میں ) ہیں
۹اور بائیں ہاتھ (میں نامہ اعمال لینے ) والے افسوس بائیں ہاتھ والے کیا (مصیبت میں ) ہیں
۱۰اور جو آگے بڑھ جانے والے ہیں (واہ کیا کہنا) وہ آگے ہی بڑھنے والے تھے۔
۱۱یہی لوگ (خدا کے ) مقرب ہیں
۱۲آرام و آسائش کے باغوں میں
۱۳بہت سے تو اگلے لوگوں میں سے ہوں گے
۱۴اور کچھ تھوڑے سے پچھلے لوگوں میں سے۔
۱۵موتی اور یا قوت سے جڑے ہوئے سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر
۱۶ایک دوسرے کے سامنے تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے
۱۷نوجوان لڑکے جو (بہشت میں ) ہمیشہ (لڑکے ہی بنے ) رہیں گے
۱۸(شربت وغیرہ کے ) ساغر اور چمکدار ٹوٹنی دار کنٹر اور شفاف شراب کے جام لیے ہوئے ان کے آس پاس چکر لگاتے ہوں گے
۱۹جس (کے پینے ) سے نہ تو ان کو (خمار سے ) دردِ سر ہو گا اور نہ وہ بدحواس مدہوش ہوں گے
۲۰اور جس قسم کے میوے پسند کریں
۲۱اور جس قسم کے پرند کا گوشت ان کا جی چاہے (سب موجود ہے )
۲۲اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں
۲۳جیسے احتیاط سے رکھے ہوئے موتی۔
۲۴یہ بدلہ ہے ان کے (نیک) اعمال کا۔
۲۵وہاں نہ تو بے ہودہ بات سنیں گے اور نہ گناہ کی (فحش) بات
۲۶بس ان کا کلام سلام ہی سلام ہو گا۔
۲۷اور داہنے ہاتھ والے (واہ) داہنے ہاتھ والوں کا کیا کہنا ہے
۲۸بے کانٹے کی بیریوں
۲۹اور لدے گتھے ہوئے کیلوں
۳۰اور لمبی لمبی چھاؤں،
۳۱اور بہتے ہوئے پانی
۳۲اور کثیر میوے میں ہوں گے
۳۳جو نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ اُن کی کوئی روک ٹوک
۳۴اور اونچے (نرم گبھوں کے ) فرشوں میں (مزے کرتے ) ہوں گے۔
۳۵(ان کو وہ حوریں ملیں گی) جن کو ہم نے نت نیا پیدا کیا ہے
۳۶تو ہم نے انہیں کنواریاں
۳۷پیاری پیاری ہمجولیاں بنایا
۳۸(یہ سب سامان) داہنے ہاتھ (میں نامہ اعمال لینے ) والوں کے واسطے ہے
۳۹(ان میں ) بہت سے تو اگلے لوگوں میں سے
۴۰ اور بہت سے پچھلے لوگوں میں سے
۴۱اور بائیں ہاتھ میں (نامہ اعمال لینے ) والے (افسوس) بائیں ہاتھ والے کیا (مصیبت میں ) ہیں۔
۴۲(دوزخ کی) لُو اور کھولتے ہوئے پانی
۴۳اور کالے سیاہ دھوئیں کے سایہ میں ہوں گے
۴۴جو نہ ٹھنڈا ہے اور نہ خوش آئند۔
۴۵یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں ) خوب عیش اڑا چکے تھے۔
۴۶اور بڑے گناہ (شرک) پر اڑے رہتے تھے
۴۷اور کہا کرتے تھے۔کہ بھلا جب ہم مر جائیں گے اور (سڑ گل کر) مٹّی اور ہڈیاں (ہی ہڈیاں ) رہ جائیں گے تو کیا ہمیں
۴۸یا ہمارے اگلے باپ داداؤں کو پھر اُٹھنا ہے۔
۴۹(اے رسولؐ)تم کہہ دو کہ اگلے اور پچھلے
۵۰سب کے سب روزِ معین کی میعاد پر ضرور اکٹھے کیے جائیں گے۔
۵۱پھر تم کو بے شک اے گمراہو، جھٹلانے والو! یقیناً (جہنم میں )
۵۲تھوہر کے درختوں میں سے کھانا ہو گا
۵۳تو تم لوگوں کو اسی سے (اپنا) پیٹ بھرنا ہو گا۔
۵۴پھر اس کے اوپر کھولتا ہوا پانی پینا ہو گا۔
۵۵اور پیو گے بھی تو پیاسے اونٹ کا سا (ڈگڈگا کے ) پینا۔
۵۶قیامت کے دن یہی ان کی مہمانی ہو گی۔
۵۷تم لوگوں کو (پہلی بار بھی) ہم ہی نے پیدا کیا ہے پھر تم لوگ (دوبارہ کی) کیوں نہیں تصدیق کرتے۔
۵۸تو جس نطفہ کو تم (عورتوں کے ) رحم میں ڈالتے ہو کیا تم نے دیکھ بھال لیا ہے
۵۹کیا تم اس سے آدمی بناتے ہو یا ہم بناتے ہیں۔
۶۰ہم نے تم لوگوں میں موت کو مقرر کر دیا ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں
۶۱کہ تمہارے ایسے اور لوگ بدل ڈالیں اور تم لوگوں کو اس (صورت) میں پیدا کریں جسے تم مطلق نہیں جانتے۔
۶۲اور تم نے پہلی پیدائش تو سمجھ ہی لی ہے (کہ ہم نے کی) پھر تم غور کیوں نہیں کرتے۔
۶۳بھلا دیکھو تو کہ جو کچھ تم لوگ بوتے ہو۔
۶۴کیا تم لوگ اسے اُگاتے ہو یا ہم اُگاتے ہیں۔
۶۵اگر ہم چاہتے تو اسے چُور چُور کر دیتے تو تم باتیں ہی بناتے رہ جاتے
۶۶(کہ ہائے ) ہم تو (مُفت) تاوان میں پھنسے
۶۷(نہیں )ہم تو بدنصیب ہیں ہی۔
۶۸تو کیا تم نے پانی پر بھی نظر ڈالی جو (دن رات) پیتے ہو۔
۶۹کیا اس کو بادل سے تم نے برسایا ہے یا ہم برساتے ہیں۔
۷۰اور اگر ہم چاہیں تو اُسے کھاری بنا دیں تو تم لوگ شکر کیوں نہیں کرتے۔
۷۱ تو کیا تم نے آگ پر بھی غور کیا جسے تم لوگ لکڑی سے نکالتے ہو۔
۷۲کیا اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا یا ہم پیدا کرتے ہیں۔
۷۳ہم نے آگ کو (جہنم کی) یاد دہانی اور مسافروں وغیرہ کے نفع کے واسطے پیدا کیا۔
۷۴تو (اے رسُولؐ) تم اپنے بزرگ پروردگار کی تسبیح کرو۔
۷۵تو میں تاروں کے منازل کی قسم کھاتا ہوں
۷۶اور اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے
۷۷کہ بے شک یہ بڑے رُتبہ کا قرآن ہے۔
۷۸جو کتاب (لوح) محفوظ میں (لکھا ہوا) ہے
۷۹اس کو بس وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک ہیں۔
۸۰سارے جہان کی پروردگار کی طرف سے (محمدؐ پر) نازل ہوا ہے۔
۸۱تو کیا تم لوگ اس کلام سے انکار رکھتے ہو۔
۸۲اور تم نے اپنی روزی یہ قرار دے لی ہے کہ (اس کو) جھٹلاتے ہو۔
۸۳تو کیا جب (جان) گلے تک آ پہنچتی ہے
۸۴اور تم اس وقت (کی حالت)پڑے دیکھا کرتے ہو
۸۵اور ہم اس (مرنے والے ) سے تُم سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں لیکن تم کو دکھائی نہیں دیتا۔
۸۶تو اگر تم کسی کے دباؤ میں نہیں ہو
۸۷تو اگر (اپنے دعوے میں ) تم سچّے ہو تو رُوح کو پھیر کیوں نہیں دیتے۔
۸۸پس اگر وہ (مرنے والا خدا کے ) مقربین سے ہے
۸۹تو (اس کے لیے ) آرام و آسائش ہے اور خوشبودار پھول اور نعمت کے باغ۔
۹۰اور اگر وہ داہنے ہاتھ والوں میں سے ہے
۹۱تو (اس سے کہا جائے گا کہ) تم پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام ہو
۹۲اور اگر جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہے
۹۳تو (اس کی) مہمانی کھولتا ہوا پانی ہے،
۹۴اور جہنم میں داخل کر دینا
۹۵بے شک یہ (خبر) یقیناً صحیح ہے۔
۹۶تو (اے رسولؐ) تم اپنے بزرگ پروردگار کی تسبیح کرو۔
٭٭٭
۵۷۔ سورۃ الحدید
۱جو جو چیز سارے آسمان و زمین میں ہے سب خدا کی تسبیح کرتی ہے۔ اور وہی غالب حکمت والا ہے۔
۲سارے آسمان و زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ وہی جلاتا ہے وہی مارتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔
۳وہی سب سے پہلے اور سب سے آخر ہے اور (اپنی قدرتوں سے ) سب پر ظاہر اور (نگاہوں سے ) پوشیدہ اور وہی سب چیزوں کو جانتا ہے۔
۴وہ وہی تو ہے جس نے سارے آسمان و زمین چھ دن میں پیدا کیے پھر عرش (کے بنانے ) پر آمادہ ہوا جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو چیز آسمان سے نازل ہوتی ہے اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے (سب) اس کو معلوم ہے اور تم (چاہے ) جہاں کہیں رہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو خدا اسے دیکھ رہا ہے۔
۵آسمان و زمین کی بادشاہی خاص اسی کی ہے اور خدا ہی کی طرف کل اُمور کی رجوع ہوتی ہے۔
۶وہی رات کو (گھٹا کر) دن میں داخل کرتا ہے (تو دِن بڑھ جاتا ہے ) اور دن کو (گھٹا کر) رات میں داخل کرتا ہے (تورات بڑھ جاتی ہے ) اور وہ دلوں کے بھیدوں تک سے خوب واقف ہے
۷(لوگو) خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ اور جس (مال) میں اس نے تم کو اپنا نائب بنایا ہے اس میں سے کچھ (خدا کی راہ میں ) خرچ کرو تو تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور (راہِ خدا میں ) خرچ کرتے رہے ان کے لیے بڑا اجر ہے۔
۸اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ خدا پر ایمان نہیں لاتے ہو حالانکہ رسولؐ تمہیں بُلا رہے ہیں کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ اور اگر تم کو باور ہو تو (یقین کرو کہ) خدا تم سے (اس کا) اقرار لے چکا۔
۹وہی تو ہے جو اپنے بندے (محمدؐ) پر واضح روشن آیتیں نازل کرتا ہے تاکہ تم لوگوں کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی میں لے جائے اور بے شک خدا تم پر بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
۱۰اور تم کو کیا ہو گیا ہے کہ (اپنا مال) خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ سارے آسمان و زمین کا مالک اور وارث خدا ہی ہے تم میں سے جس شخص نے فتح (مکّہ) کے پہلے (اپنا مال) خرچ کیا اور جہاد کیا (اور جس نے بعد میں ) وہ برابر نہیں ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا اور (یوں تو) خدا نے نیکی اور ثواب کا وعدہ سب سے کیا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خوب واقف ہے۔
۱۱کون ایسا ہے جو خدا کو خالص نیّت سے قرض حسنہ دے تو خدا اس کے لیے (اجر کو) کئی گُنا کر دے اور اس کے لیے بہت معزز صلہ (جنت) تو ہے ہی۔
۱۲جس دن تم مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو دیکھو گے کہ ان (کے ایمان) کا نور ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہو گا (تو ان سے کہا جائے گا) تم کو بشارت ہو کر آج تمہارے لیے وہ باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں ہمیشہ رہو گے یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
۱۳اُس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمانداروں سے کہیں گے ایک نظر (شفقت) ہماری طرف بھی کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کریں تو (ان سے ) کہا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے (دنیا میں ) لوٹ جاؤ اور (وہیں ) کسی اور نور کی تلاش کرو پھر ان (مومنین اور منافقین) کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہو گا (اور) اس کے اندر کی جانب تو رحمت ہے اور باہر کی طرف عذاب۔
۱۴تو منافقین مومنین سے پکار کر کہیں گے (کیوں بھائی) کیا ہم کبھی تمہارے ساتھ نہ تھے۔ مومنین کہیں گے تھے تو ضرور مگر تم نے تو خود اپنے آپ کو بلا میں ڈالا اور (ہمارے حق میں گردشوں کے ) منتظر رہے اور (دین میں ) شک کیا کیے اور تمہیں تمہاری تمناؤں نے دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ خدا کا حکم آ پہنچا اور ایک بڑے دغا باز (شیطان نے ) خدا کے بارے میں تم کو فریب دیا
۱۵تو آج نہ تم سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ کافروں سے تم سب کا ٹھکانا (بس) جہنم ہے وہی تمہارے واسطے سزاوار ہے۔ اور (کیا) بُری جگہ ہے
۱۶کیا ایمانداروں کے لیے ابھی تک اس کا وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد اور قرآن کے لیے جو (خدا کی طرف سے ) نازل ہوا ہے ان کے دل نرم ہوں اور وہ ان لوگوں کے سے نہ ہو جائیں جن کو ان سے پہلے کتاب (توریت و انجیل) دی گئی تھی تو (جب) ایک زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے بہتیرے بدکار ہیں۔
۱۷جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے (افتادہ ہونے ) کے بعد زندہ (آباد) کرتا ہے۔ ہم نے تم سے اپنی (قدرت کی) نشانیاں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں تاکہ تم سمجھو۔
۱۸بے شک خیرات دینے والے مرد اور خیرات دینے والی عورتیں اور (جو لوگ) خدا کو نیّتِ خالص سے قرض دیتے ہیں ان کو کئی گنا (اجر) دیا جائے گا۔ اور ان کا بہت معزز صلہ (جنّت) تو ہے ہی
۱۹اور جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں یہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدیقوں اور شہیدوں کے درجے میں ہوں گے ان کے لیے ان ہی (صدیقوں اور شہیدوں ) کا اجر اور ان کا نور ہو گا اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ جہنمی ہیں۔
۲۰جان رکھو کہ دنیاوی زندگی محض کھیل اور تماشا اور ظاہری زینت (و آرائش) اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ خواہش ہے (دنیاوی زندگی کی مثال تو) بارش کی سی مثال ہے جس (کی وجہ سے کسانوں کی کھیتی (لہلہاتی اور ) ان کو خوش کر دیتی ہے پھر سُوکھ جاتی ہے تو تُو اس کو دیکھتا ہے کہ زرد ہو جاتی ہے پھر چور چور ہو جاتی ہے۔ اور آخرت میں (کفّار کے لیے ) سخت عذاب ہے اور (مومنوں کے لیے )خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی۔ اور دنیاوی زندگی تو بس فریب کا ساز و سامان ہے۔
۲۱تم اپنے پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف لپک کے آگے بڑھ جاؤ جس کا عرض آسمان و زمین کے عرض کے برابر ہے جو ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو خدا پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں یہ خدا کا فضل ہے جسے چاہے عطا کرے اور خدا کا فضل (و کرم) تو بہت بڑا ہے۔
۲۲جتنی مصیبتیں روئے زمین پر اور خود تم لوگوں پر نازل ہوتی ہیں (وہ سب) قبل اس کے کہ ہم انہیں پیدا کریں، کتاب (لوح محفوظ) میں (لکھی ہوئی) ہیں بے شک یہ خدا پر آسان ہے
۲۳تاکہ جب کوئی چیز تم سے جاتی رہے تو تم اس کا رنج نہ کرو اور جب کوئی چیز (نعمت) خدا تم کو دے تو اس پر نہ اترایا کرو۔اور خدا کسی اترانے والے شیخی باز کو دوست نہیں رکھتا
۲۴جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی بخل کرنا سکھاتے ہیں اور جو شخص (ان باتوں سے ) رُوگردانی کرے تو خدا بھی بے پرواہ سزاوارِ حمد و ثنا ہے۔
۲۵ہم نے یقیناً اپنے پیغمبروں کو واضح و روشن معجزے دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ ساتھ کتاب اور (انصاف کی) ترازو نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور ہم نے ہی لوہے کو نازل کیا جس کے ذریعہ سے سخت لڑائی اور لوگوں کے بہت سے نفع (کی باتیں ) ہیں اور تاکہ خدا دیکھ لے کر بے دیکھے بھالے خدا اور اس کے رسولؐ کی کون مدد کرتا ہے بے شک خدا بڑا زبردست غالب ہے۔
۲۶اور بے شک ہم ہی نے نوحؑ اور ابراہیمؑ کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا اور ان ہی دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب مقرر کی تو ان میں کے بعض ہدایت یافتہ ہیں اور ان میں کے بہتیرے بدکار ہیں۔
۲۷پھر ان کے پیچھے ہی ان کے قدم بقدم اپنے اور پیغمبر بھیجے اور ان کے پیچھے مریم کے بیٹے عیسیٰؑ کو بھیجا اور ان کو انجیل عطا کی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی اور رہبانیت (لذات سے کنارہ کشی) ان لوگوں نے خود ایک نئی بات نکالی تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ مگر (ان لوگوں نے ) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے (ایجاد کیا) تو اس کو بھی جیسا بنانا چاہیے تھا نہ بنا سکے۔ تو جو لوگ ان میں ایمان لائے ان کو ہم نے ان کا اَجر دیا اور ان میں کے بہتیرے تو بدکار ہی ہیں۔
۲۸اے ایماندارو! خدا سے ڈرو اور اس کے رسُولؐ (محمدؐ) پر ایمان لاؤ تو خدا تم کو اپنی رحمت کے دو حصّے اَجر عطا فرمائے گا اور تم کو ایسا نور عطا فرمائے گا جس (کی روشنی) میں تم چلو گے اور تم کو بخش بھی دے گا۔ اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۲۹(یہ اسی لیے کہا جاتا ہے ) تاکہ اہل کتاب یہ نہ سمجھیں کہ یہ مومنین خدا کے فضل (و کرم) پر کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے اور یہ تو یقینی بات ہے کہ فضل خدا ہی کے قبضہ میں ہے وہ جس کو چاہے عطا فرمائے اور خدا تو بڑے فضل (و کرم) کا مالک ہے۔
٭٭٭
۵۸۔ سورۃ المجادلۃ
۱(اے رسولؐ) جو عورت (خولہ) تم سے اپنے شوہر (اوس) کے بارے میں تم سے جھگڑتی اور خدا سے گلے شکوے کرتی ہے خدا نے اس کی بات سن لی اور خدا تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے بے شک خدا بڑا سننے والا دیکھنے والا ہے
۲تم میں سے جو لوگ اپنی بیبیوں کے ساتھ ظہار کرتے ہیں (اپنی بیوی کو ماں کی پشت سے تشبیہ دیتے ہیں ) وہ کچھ ان کی مائیں نہیں (ہو جاتیں ) ان کی مائیں تو بس وہی ہیں جو ان کو جنتی ہیں۔ اور وہ بے شک ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور خدا بے شک معاف کرنے والا اور بڑا بخشنے والا ہے۔
۳اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں پھر اپنی بات واپس لیں تو دونوں کے ہم بستر ہونے سے پہلے (کفّارہ میں ) ایک غلام کا آزاد کرنا (ضرور ہے ) اس کی تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔
۴پھر جس کو غلام نہ ملے تو دونوں کی مقاربت کے قبل دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے اور جس کو اس کی بھی قدرت نہ ہو توساٹھ محتاجوں کو کھانا کھلانا (فرض ہے ) یہ (حکم) اس لئے ہے تاکہ تم خدا اور اس کے رسولؐ کی (پوری) تصدیق کرو اور یہ خدا کی مقرر حدیں ہیں اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
۵بے شک جو لوگ خدا اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں وہ (اسی طرح) ذلیل کیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل کیے جا چکے ہیں اور ہم تو اپنی صاف صریحی آیتیں نازل کر چکے اور کافروں کے واسطے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
۶جس دن خدا ان سب کو دوبارہ اٹھائے گا تو ان کے اعمال سے ان کو آگاہ کر دے گا یہ لوگ (اگرچہ) بھول گئے ہیں مگر خدا نے ان کو یاد رکھا ہے اور خدا تو ہر چیز کا گواہ ہے۔
۷کیا تم کو معلوم نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا جانتا ہے جب تین (آدمیوں ) کا خفیہ مشورہ ہوتا ہے تو وہ (خدا) ان کا ضرور چوتھا ہے اور جب پانچ کا (مشورہ ہوتا ہے ) تو وہ ان کا چھٹا ہے اور اس سے کم ہوں یا زیادہ اور چاہے جہاں کہیں ہوں وہ ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے پھر جو کچھ وہ (دنیا میں ) کرتے رہے قیامت کے دن ان کو اس سے آگاہ کر دے گا۔ بے شک خدا ہر چیز سے خوب واقف ہے۔
۸کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو سرگوشیاں کرنے سے منع کیا گیا تھا غرض جس کام کی ان کو ممانعت کی گئی تھی اسی کو پھر کرتے ہیں اور (لطف تو یہ ہے کہ) گناہ اور (بے جا) زیادتی۔ اور رسولؐ کی نافرمانی کی سرگوشیاں کرتے ہیں اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو جن لفظوں سے خدا نے بھی تم کو سلام نہیں کیا ان لفظوں سے سلام کرتے ہیں اور اپنے جی میں کہتے ہیں کہ (اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا (اے رسولؐ) ان کو دوزخ ہی (کی سزا) کافی ہے جس میں یہ داخل ہوں گے تو وہ (کیا) بُری جگہ ہے۔
۹اے ایماندارو جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسولؐ کی نافرمانی کی سرگوشی نہ کرو بلکہ نیکو کاری اور پرہیزگاری کی سرگوشی کرو اور خدا سے ڈرتے رہو جس کے سامنے (ایک دن) جمع کیے جاؤ گے۔
۱۰(بُری باتوں کی) سرگوشی تو بس ایک شیطانی کام ہے (اور اس لئے کرتے ہیں ) تاکہ ایمانداروں کواس سے رنج پہنچے۔ حالانکہ خدا کی مشیّت کے بغیر سرگوشی ان (مومنین) کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور مومنین کو تو خدا ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
۱۱اے ایماندارو جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں جگہ کشادہ کر دو تو کشادہ کر دیا کرو خدا تم کو کشادگی عطا کرے گا اور جب تم سے کہا جائے کہ اُٹھ کھڑے ہو تو اُٹھ کھڑے ہوا کرو جو لوگ تم میں سے ایماندار ہیں اور جن کو علم عطا ہوا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا اور خدا تمہارے سب کاموں سے باخبر ہے۔
۱۲اے ایماندارو! جب پیغمبرؐ سے کوئی بات کان میں کہنی چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ خیرات دے دیا کرو یہی تمہارے واسطے بہتر اور پاکیزہ بات ہے پس اگر تم کواس کا مقدور نہ ہو تو بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۱۳(مسلمانو) کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ (رسولؐ کے ) کان میں بات کہنے سے پہلے خیرات کر لو۔ تو جب تم لوگ (اتنا سا کام) نہ کرسکے اور خدا نے تمہیں معاف کر دیا تو پابندی سے نماز پڑھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے باخبر ہے۔
۱۴کیا تم نے ان لوگوں کی حالت پر غور نہیں کیا جو ان لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر خدا نے غضب ڈھایا ہے تو اب وہ نہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں یہ لوگ جان بوجھ کر جھوٹی باتوں پر قسمیں کھاتے ہیں
۱۵خدا نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں بہت ہی بُرا ہے۔
۱۶ان لوگوں نے اپنی قسموں کو سپر بنا لیا ہے اور (لوگوں کو) خدا کی راہ سے روک دیا تو ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔
۱۷ خدا کے سامنے ہرگز نہ ان کے مال ہی کچھ کام آئیں گے نہ ان کی اولاد۔ یہی لوگ جہنمی ہیں کہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
۱۸جس دن خدا ان سب کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا تو یہ لوگ جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں اسی طرح اس کے سامنے بھی قسمیں کھائیں گے اور خیال کرتے ہیں کہ وہ راہِ صواب پر ہیں آگاہ رہو یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں۔
۱۹شیطان نے ان پر قابو پا لیا ہے اور خدا کی یاد ان سے بھلا دی ہے۔ یہ لوگ شیطان کے گروہ ہیں سن رکھو کہ شیطان کا گروہ گھاٹا اٹھانے والا ہے۔
۲۰بے شک جو لوگ خدا اور اس کے رسولؐ سے مخالفت کرتے ہیں وہ سب ذلیل لوگوں میں ہیں۔
۲۱خدا نے حکم ناطق دے دیا ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے۔ بے شک خدا بڑا زبردست غالب ہے۔
۲۲جو لوگ خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ (کیوں نہ) ہوں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان کو ثابت کر دیا ہے اور خاص اپنے نور سے ان کی تائید کی ہے اور ان کو (بہشت کے ) ان (ہرے بھرے ) باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (اور وہ) ہمیشہ اس میں رہیں گے خدا ان سے راضی اور وہ خدا سے خوش یہی خدا کا گروہ ہے۔ سن رکھو کہ خدا ہی کے گروہ کے لوگ دلی مرادیں پائیں گے۔
٭٭٭
۵۹۔ سورۃ الحشر
۱جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (سب) خدا کی تسبیح کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے۔
۲وہی تو ہے جس نے کفّار اہل کتاب (بنی نضیر) کو پہلے حشر (جلائے وطن) میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا (مسلمانو!) تم کو تو یہ وہم بھی نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ لوگ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ان کے قلعے ان کو خدا (کے عذاب) سے بچا لیں گے مگر جہاں سے ان کو خیال بھی نہ تھا خدا نے ان کو آ لیا اور ان کے دلوں میں (مسلمانوں کا) رعب ڈال دیا کہ وہ لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اور مومنین کے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو اُجاڑنے لگے تو اے آنکھ والو عبرت حاصل کرو۔
۳اور اگر خدا نے ان کی قسمت میں جلاوطنی کو نہ لکھا ہوتا تو ان پر دنیا میں بھی (دوسری طرح) عذاب کرتا۔ اور آخرت میں تو ان پر جہنم کا عذاب ہے ہی۔
۴یہ اس لئے کہ ان لوگوں نے خدا اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کی اور جس نے خدا کی مخالفت کی تو (یاد رہے کہ) خدا بڑا سخت عذاب دینے والا ہے۔
۵(مومنو) کھجور کا درخت جو تم نے کاٹ ڈالے یا جوں کاتوں ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو خدا ہی کے حکم سے اور مطلب یہ تھا کہ وہ نافرمانوں کو رسوا کرے۔
۶(تو) جو مال خدا نے اپنے رسولؐ کو ان لوگوں سے بے لڑے دلوا دیا (اس میں تمہارا حق نہیں کیونکہ ) تم نے اس کے لیے تو کچھ دوڑ دھوپ کی نہیں نہ گھوڑوں سے اور نہ اونٹوں سے۔ مگر خدا اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ عطا فرماتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
۷تو جو مال خدا نے اپنے رسولؐ کو دیہات والوں سے بے لڑے دلوایا ہے وہ خاص خدا اور رسولؐ اور (رسولؐ کے ) قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پردیسیوں کا ہے تاکہ جو لوگ تم میں سے دولت مند ہیں ہر پھر کر دولت ان ہی میں نہ رہے ہاں جو تم کو رسولؐ دے دیں وہ لے لیا کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بے شک خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔
۸(اس مال میں ) ان مفلس مہاجروں کا (حصّہ) بھی ہے جو اپنے گھروں سے اور مالوں سے نکالے (اور الگ کیے ) گئے (اور)خدا کے فضل اور خوشنودی کے طلب گار ہیں اور خدا کی اور اس کے رسولؐ کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ سچّے ایماندار ہیں۔
۹اور (ان کا بھی حصّہ ہے ) جو لوگ مہاجرین سے پہلے (ہجرت کے ) گھر (مدینہ) میں مقیم اور ایمان میں (مستقل) رہے اور جو لوگ ہجرت کر کے ان کے پاس آئے ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو ملا اس کی اپنے دلوں میں کچھ غرض نہیں پاتے اور اگرچہ اپنے اوپر تنگی ہی (کیوں نہ) ہو، دوسروں کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے ہیں اور جو شخص اپنے نفس کو حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے۔
۱۰(اور ان کا بھی حصّہ ہے ) جو لوگ ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ پروردگارا ہماری اور ان لوگوں کی جو ہم سے پہلے ایمان لائے مغفرت کر اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دلوں میں کسی طرح کا کینہ نہ آنے دے۔ پروردگارا بے شک تو بڑا شفیق نہایت رحم والا ہے۔
۱۱کیا تم نے ان منافقوں کی حالت پر نظر نہیں کی جو اپنے کافر بھائیوں اہل کتاب سے کہا کرتے ہیں کہ اگر کہیں تم (گھروں سے ) نکالے گئے تو یقین جانو کہ ہم بھی تمہارے ساتھ ضرور نکل کھڑے ہوں گے اور تمہارے بارے میں کبھی کسی کی اطاعت نہ کریں گے اور اگر تم سے لڑائی ہو گی تو ضرور تمہاری مدد کریں گے مگر خدا بیان کیے دیتا ہے کہ یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں۔
۱۲اگر کفّار نکالے بھی جائیں تو یہ منافقین ان کے ساتھ نہ نکلیں گے اور اگر ان سے لڑائی ہوئی تو ان کی مدد بھی نہ کریں گے۔ اور اگر ان کی مدد کریں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر ان کو کہیں سے کمک بھی نہ ملے گی۔
۱۳(مومنو) تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں خدا سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔
۱۴یہ سب کے سب مل کر بھی تم سے نہیں لڑسکتے مگر ہر طرف سے محفوظ بستیوں میں یا (شہر پناہ کی) دیواروں کی آڑ میں۔ ان کی آپس میں تو بڑی دھاک ہے کہ تم خیال کرو گے کہ سب کے سب ایک (جان) ہیں۔ مگر ان کے دل ایک دوسرے سے بے گانہ ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ بے عقل ہیں۔
۱۵ان کا حال ان لوگوں کا سا ہے جو ان سے کچھ ہی پیشتر اپنے کاموں کی سزا کا مزہ چکھ چکے ہیں اور (ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
۱۶(منافقوں کی) مثال شیطان کی سی ہے کہ انسان سے کہتا رہا کہ کافر ہو جا پھر جب وہ کافر ہو گیا تو کہنے لگا کہ میں تجھ سے بیزار ہوں میں سارے جہان کے پروردگار سے ڈرتا ہوں۔
۱۷تو دونوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں دوزخ میں (ڈالے ) جائیں گے اور اسی میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی تمام ظالموں کی سزا ہے۔
۱۸اے ایماندارو خدا سے ڈرو اور ہر شخص کو غور کرنا چاہیے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے پہلے سے کیا بھیجا ہے اور خدا سے ڈرتے رہو بے شک جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے باخبر ہے۔
۱۹اور ان لوگوں کے ایسے نہ ہو جاؤ جو خدا کو بھلا بیٹھے تو خدا نے انہیں ایسا کر دیا کہ وہ آپ اپنے کو بھول گئے یہی لوگ تو بدکردار ہیں۔
۲۰جہنمی اور جنتی کسی طرح برابر نہیں ہو سکتے۔ جنتی ہی لوگ تو کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔
۲۱اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر(بھی) نازل کرتے تو تم اس کو دیکھتے کہ خدا کے ڈر سے جھکا اور پھٹا جاتا ہے۔ اور یہ مثالیں ہم لوگوں (کے سمجھانے ) کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں۔
۲۲وہ ہی خدا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا وہی بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
۲۳وہ وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں (حقیقی) بادشاہ، پاک ذات، (ہر عیب سے ) بَری، امن دینے والا، نگہبان، غالب، زبردست بڑائی والا یہ لوگ جس کو (اس کا) شریک ٹھہراتے ہیں اس سے پاک ہے۔
۲۴وہی خدا (تمام چیزوں کا) خالق، موجد، صورتوں کا بنانے والا ہے اسی کے اچھے اچھے نام ہیں جو چیزیں سارے آسمان و زمین میں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتی ہیں۔ اور وہی غالب حکمت والا ہے۔
٭٭٭
۶۰۔ سورۃ الممتحنۃ
۱ے ایماندارو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم تو ان کے پاس دوستی کا پیغام بھیجتے ہو اور جو (دین) حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے وہ لوگ انکار کرتے ہیں وہ لوگ رسول کو اور تم کو اس بات پر (گھر سے ) نکالتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار خدا پر ایمان لے آئے ہو اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی کی تمنّا میں (گھر سے ) نکلے ہو تو (ایسا نہ کرو کہ) ان کے پاس چھپ چھپ کر دوستی کا پیغام بھیجتے ہو حالانکہ جو کچھ بھی چھپا کریا بالاعلان کرتے ہو میں اس سے خوب واقف ہوں اور تم میں سے جو شخص ایسا کرے گا تو وہ سیدھی راہ سے یقیناً بھٹک گیا۔
۲اگر یہ لوگ تم پر قابو پا جائیں تو تمہارے دشمن ہو جائیں گے، ایذا کے لیے تمہاری طرف اپنے ہاتھ بھی بڑھائیں گے اور اپنی زبانیں بھی اور چاہتے ہیں کہ کاش تم بھی کافر ہو جاؤ۔
۳قیامت کے دن نہ تمہارے رشتے ناتے ہی کچھ کام آئیں گے نہ تمہارے اولاد (اس دن تو) وہی فیصلہ کر دے گا اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو خدا اسے دیکھ رہا ہے۔
۴(مسلمانو) تمہارے واسطے تو ابراہیمؑ اور ان کے ساتھیوں (کے قول و فعل) کا اچھا نمونہ (موجود) ہے کہ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں ) سے جنہیں تم خدا کے سوا پوجتے ہو بیزار ہیں ہم تو تمہارے (دین کے ) منکر ہیں اور جب تک تم یکتا خدا پر ایمان نہ لاؤ ہمارے تمہارے درمیان کھلم کھلا عداوت اور دشمنی قائم ہو گئی مگر (ہاں ) ابراہیمؑ نے اپنے (منہ بولے ) باپ سے یہ (البتہ) کہا تھا کہ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا ضرور کروں گا اور خدا کے سامنے تو میں آپ کے واسطے کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے پالنے والے (خدا) ہم نے تجھی پر بھروسہ کر لیا ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف (ہمیں ) لوٹ کر جانا ہے۔
۵اے ہمارے پالنے والے تو ہم لوگوں کو کافروں کی آزمائش (کا ذریعہ) نہ قرار دے اور پروردگار تو ہمیں بخش دے بے شک تو غالب حکمت والا ہے۔
۶(مسلمانو) ان لوگوں (کے افعال) کا تمہارے واسطے جو خدا اور روز آخرت کی اُمید رکھتا ہو اچھا نمونہ ہے اور جو (اس سے ) منہ موڑے تو خدا بھی یقیناً بے پروا (اور) سزاوار حمد ہے۔
۷قریب ہے کہ خدا تمہارے اور ان میں سے تمہارے دشمنوں کے درمیان دوستی پیدا کر دے اور خدا تو قادر ہے اور خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۸جو لوگ تم سے (تمہارے ) دین کے بارے میں نہیں لڑے بھڑے اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ان لوگوں کے ساتھ احسان کرنے اور ان کے ساتھ انصاف سے پیش آنے سے خدا تمہیں منع نہیں کرتا۔ بے شک خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
۹خدا تو بس ان لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکال باہر کیا اور تمہارے نکالنے میں (اوروں کی) مدد کی۔ اور جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہ لوگ ظالم ہیں۔
۱۰اے ایماندارو جب تمہارے پاس ایماندار عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو تمان کو آزما لو خدا تو ان کے اعمال سے واقف ہی ہے پس اگر تم بھی ان کو ایماندار سمجھو تو انہیں کافروں کے پاس واپس نہ پھیرو نہ یہ عورتیں ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ کفّار ان عورتوں کے لیے حلال ہیں اور ان کفّار نے جو کچھ (ان عورتوں کے مہر میں )خرچ کیا ہو ان کو دے دو اور جب تم ان کا مہرا نہیں دے دیا کرو تو اس کا تم پر کچھ گناہ نہیں کہ تم ان سے نکاح کر لو اور کافر عورتوں کی آبرو (جو تمہاری بیبیاں ہیں ) اپنے قبضے میں نہ رکھو (چھوڑ دو کہ کفّار سے جا ملیں ) اور تم نے جو کچھ ان پر خرچ کیا ہو (کفّار سے ) مانگ لو اور انہوں نے بھی جو کچھ خرچ کیا ہو (تم سے ) مانگ لیں یہی خدا کا حکم ہے جو تمہارے درمیان صادر فرماتا ہے اور خدا بڑا واقف کار حکیم ہے۔
۱۱اور اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے (اور خرچ نہ ملے ) تم ( کافروں سے ) لڑو اور لوٹو تو (مال غنیمت سے )جن کی عورتیں چلی گئی ہیں ان کو اتنا دے دو جتنا ان کا خرچ ہوا ہے اور جس خدا پر تم لوگ ایمان لائے ہو اس سے ڈرتے رہو۔
۱۲اے رسولؐ جب تمہارے پاس ایماندار عورتیں تم سے اس بات پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ نہ کسی کو خدا کا شریک بنائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو مار ڈالیں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے کوئی بہتان (لڑکے کا شوہر پر) گڑھ کے لائیں گی اور نہ کسی نیک کام میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو تم ان سے بیعت لے لو اور خدا سے ان کی مغفرت کی دعا مانگو۔ بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۱۳اے ایماندارو ان لوگوں پر خدا نے اپنا غضب ڈھایا ان سے دوستی نہ کرو (کیونکہ ) جس طرح کافروں کو مُردوں (کے دوبارہ زندہ ہونے ) کی اُمید نہیں اسی طرح آخرت سے بھی یہ لوگ نا اُمید ہیں۔
٭٭٭
۶۱۔ سورۃ الصَّفّ
۱جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں (سب) خدا کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے۔
۲اے ایماندارو تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے۔
۳خدا کے نزدیک یہ بڑے غضب کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔
۴خدا تو ان لوگوں سے اُلفت رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح پَرا باندھ کے لڑتے ہیں کہ گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
۵اور جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو تم مجھے کیوں اذیت دیتے ہو حالانکہ تم تو جانتے ہو کہ میں تمہارے پاس خدا کا (بھیجا ہوا) رسولؐ ہوں تو جب وہ ٹیڑھے ہوئے تو خدا نے بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا ہی رہنے دیا اور خدا بدکار لوگوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا۔
۶اور (یاد کرو) جب مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس خدا کا بھیجا ہوا (آیا) ہوں اور جو کتاب توریت میرے سامنے موجود ہے اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جن کا نام احمدؐ ہو گا (اور) میرے بعد آئیں گے ان کی خوش خبری سناتا ہوں تو جب وہ (پیغمبر احمدؐ) ان کے پاس واضح و روشن معجزے لے کر آیا تو کہنے لگے یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔
۷اور جو شخص اسلام کی طرف بلایا جائے (اور)وہ (قبول کے بدلے الٹا) خدا پر جھوٹ (طوفان) جوڑے اس سے بڑھ کر اور کون ظالم ہو گا اور خدا ظالم لوگوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا۔
۸یہ لوگ اپنے منہ سے (پھونک مار کر) خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں حالانکہ خدا اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا اگرچہ کفّار بُرا ہی (کیوں نہ) مانیں۔
۹وہ وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور سچّے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے اور تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرکین بُرا ہی (کیوں نہ) مانیں۔
۱۰اے ایماندارو کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتا دوں جو تم کو (آخرت کے ) دردناک عذاب سے نجات دے۔
۱۱(وہ یہ ہے کہ) خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ اور اپنے مال اور جان سے خدا کی راہ میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔
۱۲(ایسا کرو گے تو وہ بھی اس کے عوض) تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ان باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور پاکیزہ مکانات میں (جگہ دے گا) جو جاودانی بہشت میں ہیں۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے
۱۳اور ایک چیز جس کے تم دلدادہ ہو (یعنی تم کو) خدا کی طرف سے مدد (ملے گی) اور عنقریب فتح (ہو گی) اور (اے رسولؐ) مومنین کو خوشخبری (اس کی) دے دو۔
۱۴اے ایماندارو!خدا کے مددگار بن جاؤ جس طرح مریم کے بیٹے عیسیٰ ؑ نے حواریوں سے کہا تھا کہ (بھلا) خدا کی طرف (بلانے میں )میرے مددگار کون لوگ ہیں تو حوارین بول اٹھے تھے کہ ہم خدا کے انصار ہیں تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ (ان پر) ایمان لایا اور ایک گروہ کافر رہا تو جو لوگ ایمان لائے ہم نے ان کو ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد دی تو (آخر) وہی غالب رہے۔
٭٭٭
۶۲۔ سورۃ الجمعۃ
۱جو چیز آسمانوں میں ہے اور جو چیز زمین میں ہے (سب) خدا کی تسبیح کرتی ہے جو (حقیقی) بادشاہ پاک ذات غالب حکمت والا ہے
۲وہی تو ہے جس نے مکہ والوں میں ان ہی میں کا ایک رسولؐ (محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب اور عقل کی باتیں سکھاتے ہیں اگرچہ اس کے پہلے تو یہ لوگ صریحی گمراہی میں (پڑے ہوئے ) تھے۔
۳اور ان میں سے ان لوگوں کی طرف بھی (بھیجا) جو ابھی تک ان سے ملحق نہیں ہوئے اور وہ تو غالب حکومت والا ہے۔
۴یہ خداوند تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور خدا تو بڑے فضل (و کرم) کا مالک ہے۔
۵جن لوگوں (کے سروں ) پر توریت لدوائی گئی پھر انہوں نے اس (کے بار) کو نہ اُٹھایا ان کی مثل گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں۔ جن لوگوں نے خدا کی آیتوں کو جھٹلایا ان کی بھی کیا بری مثال ہے اور خدا ظالم لوگوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا۔
۶(اے رسولؐ تم) کہہ دو اے یہودیو اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں، تو اگر تم (اپنے دعوے میں ) سچّے ہو تو موت کی تمنا کرو۔
۷اور یہ لوگ ان اعمال کے سبب جو یہ پہلے کر چکے ہیں کبھی اس کی آرزو ر نہ کریں گے۔ اور خدا تو ظالموں کو جانتا ہے۔
۸(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ موت جس سے تم لوگ بھاگتے ہو وہ تو ضرور تمہارے سامنے آئے گی پھر تم پوشیدہ اور ظاہر کیے جانے والے (خدا) کی طرف لوٹا دیئے جاؤ گے پس جو کچھ بھی تم کرتے تھے وہ تمہیں بتا دے گا۔
۹اے ایماندارو جب جمعہ کے دن نماز (جمعہ) کے لیے اذان دی جائے تو خدا کی یاد (نماز) کی طرف دوڑ پرو اور (خرید و) فروخت چھوڑ دو۔ اگر تم سمجھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔
۱۰ پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں (جہاں چاہو) جاؤ اور خدا کے فضل سے (اپنی روزی کی) تلاش کرو اور خدا کو بہت یاد کرتے رہو تاکہ تم دلی مرادیں پاؤ۔
۱۱اور (ان کی حالت تو یہ ہے ) جب یہ لوگ سودا بکتا یا تماشا ہوتا دیکھیں تو اس کی طرف ٹوٹ پڑیں اور تم کو کھڑا ہوا چھوڑ دیں۔ (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ جو چیز خدا کے ہاں ہے وہ تماشے اور سودے سے کہیں بہتر ہے۔ اور خدا سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
٭٭٭
۶۳۔ سورۃ المنٰفقون
۱(اے رسولؐ) جب تمہارے پاس منافقین آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو اقرار کرتے ہیں کہ آپ یقیناً خدا کے رسولؐ ہیں اور خدا بھی جانتا ہے کہ تم یقینی اس کے رسولؐ ہو۔ مگر خدا ظاہر کیے دیتا ہے کہ یہ لوگ (اپنے اعتقاد کے لحاظ سے ) ضرور جھوٹے ہیں۔
۲ان لوگوں نے اپنی قسموں کو سپر بنا رکھا ہے تو (اسی کے ذریعہ سے لوگوں کو خدا کی راہ سے روکتے ہیں۔ بے شک یہ لوگ جو کام کرتے ہیں بُرے ہیں۔
۳یہ اس سبب سے کہ (ظاہر میں ) ایمان لائے پھر کافر ہو گئے تو ان کے دلوں پر (گویا) مہر لگا دی گئی ہے تو اب یہ سمجھتے ہی نہیں۔
۴اور جب تم ان کو دیکھو گے تو (تناسب اعضا کی وجہ سے ) ان کا قد و قامت تمہیں بہت اچھا معلوم ہو گا اور اگر گفتگو کریں گے تو ایسی کہ تم توجہ سے سنو (مگر عقل سے خالی) گویا دیواروں سے لگائی ہوئی بیکار لکڑیاں ہیں ہر چیخ کی آواز کو سنتے ہیں کہ ان پر ہی آ پڑی یہ لوگ (تمہارے ) دشمن ہیں تم ان سے بچے رہو خدا انہیں مار ڈالے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔
۵اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہؐ تمہارے واسطے مغفرت کی دعا کریں تو وہ لوگ اپنے سر پھیر لیتے ہیں اور تم ان کو دیکھو گے کہ تکبّر کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں۔
۶تم ان کی مغفرت کی دعا مانگو یا نہ مانگو ان کے حق میں برابر ہے کیونکہ خدا تو انہیں ہرگز بخشے گا نہیں۔ خدا تو ہرگز بدکاروں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا۔
۷یہ وہی لوگ تو ہیں جو (انصار سے ) کہتے ہیں کہ جو (مہاجرین) رسولؐ خدا کے پاس رہتے ہیں ان پر خرچ نہ کرو یہاں تک کہ یہ لوگ خود تتّر بتّر ہو جائیں حالانکہ سارے آسمان اور زمین کے خزانے خدا ہی کے پاس ہیں مگر منافقین نہیں سمجھتے۔
۸یہ لوگ تو کہتے ہیں کہ اگر ہم لوٹ کر مدینہ پہنچے تو عزت دار لوگ (خود) ذلیل (رسولؐ) کو ضرور باہر کر دیں گے حالانکہ عزّت تو خاص خدا اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے مگر منافقین نہیں جانتے۔
۹اے ایماندارو تمہارے مال اور تمہاری اولاد تم کو خدا کی یاد سے غافل نہ کرے اور جو ایسا کرے گا تو وہی لوگ گھاٹے میں رہیں گے۔
۱۰اور ہم نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں سے (خدا کی راہ میں ) خرچ کر ڈالو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے تو (اس کی نوبت نہ آئے کہ) کہنے لگے کہ پروردگارا تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور کیوں نہ دی تاکہ خیرات کرتا اور نیکو کاروں سے ہو جاتا۔
۱۱اور جب کسی کی موت آ جاتی ہے تو خدا اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے۔
٭٭٭
۶۴۔ سورۃ التغابن
۱جو چیز آسمانوں میں ہے اور جو چیز زمین میں ہے (سب) خدا ہی کی تسبیح کرتی ہے۔ اسی کی بادشاہت ہے اور تعریف اسی کے لیے سزاوار ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔
۲وہی تو ہے جس نے تم لوگوں کو پیدا کیا۔ کوئی تم میں کافر ہے کوئی مومن اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔
۳اسی نے سارے آسمانوں اور و زمین کو حکمت و مصلحت سے پیدا کیا اور اسی نے تمہاری صورتیں بنائیں تو سب سے اچھی صورتیں بنائیں اور اسی کی طرف لوٹ جانا ہے۔
۴جو کچھ سارے آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) جانتا ہے اور جو کچھ تم چھپا کر یا کھلم کھلا کرتے ہو اس سے (بھی) واقف ہے۔ اور خدا تو دِلوں کے بھیدوں تک سے آگاہ ہے۔
۵کیا تمہیں ان کی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے (تم سے ) پہلے کفر کیا تو انہوں نے اپنے کام کی سزا کا (دنیا میں ) مزہ چکھا اور (آخرت میں تو) ان کے لیے دردناک عذاب ہے ہی
۶یہ اس وجہ سے کہ ان کے پاس ان کے پیغمبر واضح و روشن معجزے لے کر آ چکے تو کہنے لگے کیا آدمی ہمارے ہادی بنیں گے۔ غرض یہ لوگ کافر ہو بیٹھے اور منہ پھیر بیٹھے اور خدا نے بھی (ان کی) پروا نہ کی۔ اور خدا تو بے پرواہ سزاوار حمد ہے۔
۷کافروں کا خیال یہ ہے کہ یہ لوگ دوبارہ نہ اُٹھائیں جائیں گے۔ (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ ہاں اپنے پروردگار کی قسم تم ضرور اُٹھائے جاؤ گے پھر جو جو کام تم کرتے رہے اس کے بارے میں تم کو ضرور بتا دیا جائے گا اور یہ کام خدا پر آسان ہے۔
۸تو تم خدا اور اس کے رسولؐ پر اور اسی نور پر ایمان لاؤ جس کو ہم نے نازل کیا اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے۔
۹جب وہ قیامت کے دن تم سب کو جمع کرے گا پھر یہی ہار جیت کا دن ہو گا۔ اور جو شخص خدا پر ایمان لائے اور اچھا کام کرے وہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اس کو (بہشت کے ) ان باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ان میں ابد الآباد ہمیشہ رہے گا۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
۱۰اور جو لوگ کافر ہیں اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے رہے یہی لوگ جہنمی ہیں کہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے اور وہ (کیا) بُرا ٹھکانا ہے۔
۱۱جب کوئی مصیبت آتی ہے تو خدا کے اذن سے اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے تو خدا اس کے قلب کی ہدایت کرتا ہے اور خدا ہر چیز سے خوب آگاہ ہے
۱۲اور خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ پھر اگر تم نے منہ پھیرا تو ہمارے رسولؐ پر صرف پیغام خدا کا واضح کر کے پہنچا دینا فرض ہے۔
۱۳خدا (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مومنوں کو خدا ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
۱۴اے ایماندارو! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں تو تم ان سے بچے رہو اور اگر تم معاف کر دو اور درگزر کرو اور بخش دو تو خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۱۵تمہارے مال اور تمہاری اولاد بس آزمائش ہے اور خدا کے ہاں تو بڑا اَجر (موجود)ہے۔
۱۶تو جہاں تک تم سے ہو سکے خدا سے ڈرتے رہو اور (اس کے احکام) سنو اور مانو اور اپنی بہتری کے واسطے (اس کی راہ میں ) خرچ کرو اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مرادیں پانے والے ہیں۔
۱۷اگر تم خدا کو قرض حسنہ دو گے تو وہ اس کو تمہارے واسطے کئی گنا کر دے گا اور تم کو بخش دے گا۔ اور خدا تو بڑا قدردان بردبار ہے۔
۱۸پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا غالب حکمت والا ہے۔
٭٭٭
۶۵۔ سورۃ الطلاق
۱اے رسولؐ (مسلمانوں سے کہہ دو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دو تو ان کی عدّت (پاکی) کے وقت طلاق دو اور عدّۃ کا شمار رکھو اور اپنے پروردگار خدا سے ڈرو اور (عدّۃ کے اندر) ان کے گھر سے انہیں نہ نکالو اور خود بھی گھر سے نہ نکلیں مگر جب وہ کوئی صریحی بے حیائی کا کام کر بیٹھیں (تو نکال دینے میں مضائقہ نہیں ) اور یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ اور جو خدا کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو اس نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا تو تو نہیں جانتا شاید خدا اس کے بعد کوئی بات پیدا کر دے (جس سے مرد پچھتائے اور میل ہو جائے )
۲تو جب یہ اپنا عدّۃ پورا کرنے کے قریب پہنچیں تو یا تم انہیں عنوان شائستہ سے روک لو یا اچھی طرح رخصت دو اور (طلاق کے وقت) اپنے لوگوں میں سے دو عادلوں کو گواہ قرار دے لو اور (گواہو) تم خدا کے واسطے ٹھیک ٹھاک گواہی دینا۔ ان باتوں سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور جو خدا سے ڈرے گا تو خدا اس کے لیے نجات کی صورت نکال دے گا
۳ اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے وہم بھی نہ ہو اور جس نے خدا پر بھروسہ کیا تو وہ اس کے لیے کافی ہے۔ بے شک خدا اپنے کام کو پورا کر کے رہتا ہے خدا نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔
۴اور جو عورتیں حیض سے مایوس ہو چکیں اگر تم کو (ان کے بارے میں ) شک ہووے تو ان کا عدّۃ تین مہینے ہے اور (علی ہذا القیاس) وہ عورتیں جن کو حیض ہوا ہی نہیں اور حاملہ عورتوں کا عدّۃ ان کا بچہ جننا ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کے کام میں سہولت پیدا کر دے گا۔
۵یہ خدا کا حکم ہے جو خدا نے تم پر نازل کیا ہے اور جو خدا سے ڈرتا رہے گا تو اس کے گناہ اس سے دور کر دے گا اور اسے بڑا درجہ دے گا۔
۶مطلقہ عورتوں کو (عدّۃ تک) اپنے مقدور کے مطابق وہیں رکھو جہاں تم خود رہتے ہو اور ان کو تنگ کرنے کے لیے ان کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو بچہ جننے تک ان کا خرچ دیتے رہو پھر (جننے کے بعد) اگر وہ بچہ کو تمہاری خاطر سے دودھ پلائیں تو انہیں ان کی (مناسب) اُجرت دے دو اور باہم حسنِ سلوک سے دستور کے مطابق بات چیت کرو اور اگر تم باہم کش مکش کرو تو بچہ کو اس (کے باپ) کی خاطر سے کوئی اور عورت اس کو دودھ پلا دے گی۔
۷گنجائش والے کو اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس کی روزی تنگ ہو وہ جتنا خدا نے اسے دیا ہے اس میں سے خرچ کرے۔ خدا نے جس کو جتنا دیا ہے بس اسی کے مطابق تکلیف دیا کرتا ہے خدا عنقریب ہی تنگی کے بعد فراخی عطا کرے گا۔
۸اور بہت سی بستیوں (والوں ) نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا بڑی سختی سے حساب لیا اور انہیں بُرے عذاب کی سزا دی۔
۹تو انہوں نے اپنے کام کی سزا کا مزہ چکھ لیا، اور ان کے کام کا انجام گھاٹا ہی تھا۔
۱۰خدا نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تو اے عقل مندو جو ایمان لا چکے ہو خدا سے ڈرتے رہو خدا نے تمہارے پاس (اپنی) یاد (قرآن)
۱۱اور اپنا رسولؐ بھیج دیا ہے جو تمہارے سامنے واضح آیتیں پڑھتا ہے تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرتے رہے ان کو (کفر کی) تاریکیوں سے (ایمان کی) روشنی کی طرف نکال لائے اور جو خدا پر ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کیے تو خدا اس کو (بہشت کے ) ان باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ اس میں ابد الآباد تک رہیں گے خدا نے ان کو اچھی اچھی روزی دی ہے۔
۱۲خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور انہی کے برابر زمین کو بھی۔ ان میں خدا کا حکم نازل ہوتا رہتا ہے تاکہ تم لوگ جان لو کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے اور بے شک خدا اپنے علم سے ہر چیز پر حاوی ہے۔
٭٭٭
۶۶۔ سورۃ التحریم
۱اے رسولؐ جو چیز خدا نے تمہارے لیے حلال کی ہے تم اس سے اپنی بیویوں کی خوشنودی کے لیے کیوں کنارہ کشی کرو اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۲خدا نے تم لوگوں کے لیے قسموں کے توڑ ڈالنے کا کفّارہ مقرر کر دیا ہے اور خدا ہی تمہارا کارساز ہے۔ اور و ہی واقف کار حکمت والا ہے۔
۳اور جب پیغمبر نے اپنی بعض بیوی (حفصہ) سے چپکے سے کوئی بات کہی پھر جب اس نے (باوجود ممانعت) اس بات کی (عائشہؓ کو) خبر دے دی اور خدا نے اس امر کو رسولؐ پر ظاہر کر دیا تو رسولؐ نے (عائشہؓ کو) بعض بات (قصّہ ماریہ) جتا دی اور بعض بات (قصّہ شہد) ٹال دی غرض جب رسولؐ نے اس واقعہ (حفصہ کے افشائے راز) کی اس (عائشہ) کو خبر دی تو (حیرت سے ) بول اُٹھی آپ کواس بات (افشائے راز) کی کس نے خبر دی رسولؐ نے کہا مجھے واقف کار خبردار (خدا) نے بتا دیا
۴(تو اے حفصہ و عائشہ) اگر تم دونوں (اس حرکت سے ) توبہ کرو تو (خیر کیونکہ) تمہارے دل ٹیڑھے ہو گئے ہیں اور تم دونوں رسولؐ کی مخالفت میں ایک دوسرے کی اعانت کرتی رہو گی تو (کچھ پرواہ نہیں کیونکہ) خدا اور جبرئیل اور تمام ایمانداروں میں نیک شخص ان کے مددگار ہیں اور ان کے علاوہ کل فرشتے مددگار ہیں۔
۵اگر رسولؐ تم لوگوں کو طلاق دے دیں تو عنقریب ہی ان کا پروردگار تمہارے بدلے ان کو تم سے اچھی بیویاں عطا کرے گا جو فرمانبردار ایماندار (خدا اور رسولؐ کی) مطیع (گناہوں سے ) توبہ کرنے والیاں عبادت گزار روزہ رکھنے والیاں پہلے بیاہی ہوئی اور کنواریاں ہوں گی۔
۶اے ایماندارو! اپنے آپ کو اور اپنے لڑکے بالوں کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے اور ان پر وہ تند خو سخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں کہ خدا جس بات کا حکم دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔
۷(جب کفّار دوزخ کے سامنے آئیں گے تو کہا جائے گا) کافرو! آج بہانے نہ ڈھونڈو۔ جو کچھ تم کرتے تھے تمہیں اس کی سزا دی جائے گی۔
۸اے ایماندارو! خدا کی بارگاہ میں صاف خالص دل سے توبہ کرو تو (اس کی وجہ سے ) اُمید ہے کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہارے گناہ دور کر دے اور تم کو (بہشت کے ) ان باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اس دن جب خدا رسولؐ کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں۔ رسوا نہیں کرے گا (بلکہ) ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے داہنے طرف (روشنی کرتا) چل رہا ہو گا اور یہ لوگ یہ دعا کرتے ہوں گے پروردگارا ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے
۹اے رسولؐ کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور اُن پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا بُرا ٹھکانا ہے۔
۱۰خدا نے کافروں (کو عبرت) کے واسطے نوحؑ کی بیوی (واعلہ) اور لوطؑ کی بیوی (واہلہ) کی مثل بیان فرمائی ہے۔ کہ یہ دونوں ہمارے بندوں کے تصرف میں تھیں تو دونوں نے اپنے شوہروں سے دغا کی تو ان کے شوہر خدا کے مقابلہ میں ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور ان دونوں (عورتوں ) کو حکم دیا گیا کہ جانے والوں کے ساتھ جہنم میں تم دونوں بھی داخل ہو جاؤ۔
۱۱اور خدا نے مومنین (کی تسلی) کے لیے فرعون کی بیوی (آسیہ) کی مثال بیان فرمائی ہے کہ جب اس نے دعا کی پروردگارا میرے لیے اپنے یہاں بہشت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کی کارستانی سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں (کے ہاتھ) سے چھٹکارا عطا فرما
۱۲اور (دوسری مثال) عمران کی بیٹی مریمؑ جس نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے پروردگار کی باتوں کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور فرمانبرداروں میں تھی۔
٭٭٭
۶۷۔ سورۃ الملک
۱جس (خدا) کے قبضہ میں (سارے جہاں کی) بادشاہت ہے وہ بڑی برکت والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
۲جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کام میں سب سے اچھا کون ہے اور وہ غالب (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔
۳جس نے سات آسمان تلے اوپر بنا ڈالے۔ بھلا تجھے خدا کی آفرینش میں کوئی کسر نظر آتی ہے۔ تو پھر آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھے کوئی شگاف نظر آتا ہے۔
۴پھر دوبارہ آنکھ اُٹھا کر دیکھ تو (ہر بار تیری نظر) ناکام اور تھک کر تیری طرف پلٹ آئے گی۔
۵اور ہم نے نیچے والے (پہلے ) آسمان کو (تاروں کے ) چراغوں سے زینت دی ہے اور ہم نے ان کو شیاطین کے مارنے کا آلہ بنایا اور ہم نے ان کے لیے دھکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
۶اور جو لوگ اپنے پروردگار کے منکر ہیں ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور (وہ) بہت بڑا ٹھکانا ہے۔
۷جب یہ لوگ اس میں ڈالے جائیں گے تو اس کی بڑی چیخ سنیں گے اور وہ جوش مار رہی ہو گی
۸بلکہ گویا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی۔ جب اس میں (ان کا) کوئی گروہ ڈالا جائے گا تو ان سے جہنم کے داروغہ پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) نہیں آیا تھا۔
۹وہ کہیں گے ہاں ہمارے پاس ڈرانے والا تو ضرور آیا تھا مگر ہم نے اس کو جھٹلایا اور کہا کہ خدا نے تو کچھ نازل نہیں کیا تم تو بڑی (گہری) گمراہی میں (پڑے ) ہو۔
۱۰اور (یہ بھی) کہیں گے کہ اگر(ان کی بات) سنتے یا سمجھتے تب تو (آج) دوزخیوں میں نہ ہوتے۔
۱۱غرض وہ اپنے گناہ کا اقرار کر لیں گے تو دوزخیوں کو خدا کی رحمت سے دوری ہے۔
۱۲ بے شک جو لوگ اپنے پروردگار سے بے دیکھے بھالے ڈرتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور بڑا بھاری اَجر ہے۔
۱۳اور تم لوگ اپنی بات چھپا کر کہو یا کھلم کھلا وہ تو دل کے بھیدوں تک سے خوب واقف ہے۔
۱۴بھلا جس نے پیدا کیا وہ بے خبر ہے اور وہ تو بڑا باریک بین واقف کار ہے۔
۱۵وہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے نرم (و ہموار) کر دیا تو اس کے اطراف و جوانب میں چلو پھرو اور اس کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور پھر اسی کی طرف قبر سے اُٹھ کر جانا ہے۔
۱۶کیا تم اس سے جو آسمان میں (حکومت کرتا) ہے اس بات سے بے خوف ہو کہ تم کو زمین میں دھنسا دے پھر وہ یکبارگی اُلٹ پلٹ کرنے لگے
۱۷یا تم اس بات سے بے خوف ہو کہ جو آسمان میں (سلطنت کرتا) ہے تم پر پتھر بھری آندھی چلائے تو تمہیں عنقریب ہی معلوم ہو جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہے۔
۱۸اور جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے جھٹلایا تھا تو دیکھو کہ میری ناخوشی کیسی تھی۔
۱۹کیا ان لوگوں نے اپنے سروں پر پرندوں کو اُڑتے نہیں دیکھا جو پروں کو پھیلائے رہتے ہیں اور کبھی سمیٹ لیتے ہیں خدا کے سوا انہیں کوئی نہیں روکے رہ سکتا بے شک وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
۲۰بھلا خدا کے سوا ایسا کون ہے جو تمہاری فوج بن کر تمہاری مدد کرے کافر لوگ تو دھوکے ہی (دھوکے ) میں ہیں۔
۱۲بھلا خدا اگر اپنی (دی ہوئی)روزی روک لے تو کون ایسا ہے جو تمہیں رزق دے مگر یہ کفّار تو سرکشی اور نفرت (کے بھنور) میں پھنسے ہوئے ہیں۔
۲۲بھلا جو شخص اوندھا اپنے منہ کے بل چلے وہ زیادہ ہدایت یافتہ ہو گا یا وہ شخص جو سیدھا برابر راہِ راست پر چل رہا ہو۔
۲۳(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ خدا تو وہی ہے جس نے تم کو نت نیا پیدا کیا اور تمہارے واسطے کان آنکھیں اور دل بنائے (مگر) تم تو بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔
۲۴کہہ دو کہ وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں پھیلا دیا اور اسی کے سامنے جمع کیے جاؤ گے
۲۵اور کفّار کہتے ہیں کہ اگر تم سچّے ہو تو (آخر) یہ وعدہ کب (پورا) ہو گا۔
۲۶(اے رسولؐ) تم کہہ دوکہ (اس کا) علم تو بس خدا ہی کو ہے اور میں تو صرف صاف صاف (عذاب سے ) ڈرانے والا ہوں۔
۲۷تو جب یہ لوگ اسے قریب دیکھ لیں گے تو (خوف کے مارے ) کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا یہ وہی ہے جس کے تم خواست گار تھے۔
۲۸(اے رسولؐ) تم کہہ دو بھلا دیکھو تو کہ اگر خدا مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا ہم پر رحم فرمائے تو کافروں کو دردناک عذاب سے کون پناہ دے گا۔
۲۹تم کہہ دو کہ وہی (خدا) بڑا رحم کرنے والا ہے جس پر ہم ایمان لائے ہیں اور ہم نے تو اسی پر بھروسہ کر لیا ہے۔ تو عنقریب ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون صریحی گمراہی میں (پڑا) ہے۔
۳۰(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ بھلا دیکھو تو کہ اگر تمہارا پانی زمین کے اندر چلا جائے تو کون ایسا ہے جو تمہارے لیے پانی کا چشمہ بہا لائے۔
٭٭٭
۶۸۔ سورۃ قلم
۱ن و قلم کی اور اس چیز کی جو لکھتے ہیں (اس کی) قسم ہے
۲کہ تم اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے دیوانے نہیں ہو۔
۳اور تمہارے واسطے یقیناً وہ اجر ہے جو کبھی ختم ہی نہ ہو گا۔
۴اور بے شک تمہارے اخلاق بڑے (اعلیٰ درجہ کے ) ہیں
۵تو عنقریب ہی تم بھی دیکھو گے اور یہ کفّار بھی دیکھ لیں گے
۶کہ تم میں دیوانہ کون ہے۔
۷بے شک تمہارا پروردگار ان سے خوب واقف ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
۸تو تم جھٹلانے والوں کا کہنا نہ ماننا۔
۹وہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اگر تم نرمی اختیار کرو تو وہ بھی نرم ہو جائیں۔
۱۰اور تم (کہیں ) ایسے کے کہنے میں نہ آنا جو بہت قسمیں کھاتا ذلیل اوقات
۱۱عیب جو اعلیٰ درجہ کا چغل خور،
۱۲نیکی سے روکنے والا، حد سے بڑھنے والا گنہگار،
۱۳تند مزاج اور اس کے علاوہ بد ذات (حرام زادہ) بھی ہے
۱۴چونکہ مال اور بہت سے بیٹے رکھتا ہے۔
۱۵جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو بول اُٹھتا ہے کہ یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں۔
۱۶ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے۔
۱۷جس طرح ہم نے ایک باغ والوں کا امتحان لیا تھا اسی طرح ان کا امتحان لیا جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہم اس کا میوہ ضرور توڑ ڈالیں گے
۱۸اور ان شاء اللہ نہ کہا
۱۹تو یہ لوگ پڑے سو رہے تھے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے (راتوں رات) ایک بلا چکر لگا گئی
۲۰تو وہ (سارا باغ جل کر) ایسا ہو گیا جیسے بہت کالی رات۔
۲۱پھر یہ لوگ نور کے تڑکے لگے باہم غل مچانے
۲۲کہ اگر تم کو پھل توڑنا ہے تو اپنے باغ میں سویرے سے چلے چلو۔
۲۳غرض وہ لوگ چلے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے
۲۴کہ آج یہاں تمہارے پاس کوئی فقیر نہ آنے پائے
۲۵تو وہ لوگ روک تھام کے اہتمام کے ساتھ پھل توڑنے کی ٹھانے ہوئے سویرے ہی جا پہنچے۔
۲۶پھر جب اسے (جلا ہوا سیاہ) دیکھا تو کہنے لگے ہم لوگ تو بھٹک گئے (یہ ہمارا باغ نہیں )
۲۷(پھر سوچ کر بولے ) بات یہ ہے کہ ہم لوگ بڑے بدنصیب ہیں
۲۸جو ان میں منصف مزاج تھا کہنے لگا کیوں میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم لوگ (خدا کی) تسبیح کیوں نہیں کرتے
۲۹وہ بولے ہمارا پروردگار پاک ہے بے شک ہم ہی قصوروار ہیں۔
۳۰پھر لگے ایک دوسرے کے منہ در منہ ملامت کرنے
۳۱ (آخر) سب نے اقرار کیا کہ ہائے افسوس بے شک ہم ہی خود سرکش تھے۔
۳۲ امید ہے کہ ہمارا پروردگار ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت فرمائے ہم اپنے پروردگار کی طرف رُجوع کرتے ہیں۔
۳۳(دیکھو) یوں عذاب ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب تو اس سے بڑھ کر ہے اگر یہ لوگ سمجھتے ہوں۔
۳۴بے شک پرہیزگار لوگ اپنے پروردگار کے ہاں عیش و آرام کے باغوں میں ہوں گے۔
۳۵تو کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں کے برابر کر دیں گے (ہرگز نہیں )
۳۶تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسا حکم لگاتے ہو۔
۳۷یا تمہارے پاس کوئی (ایمانی) کتاب ہے جس میں تم پڑھ لیتے ہو
۳۸کہ جو چیز تم پسند کرو گے تم کو وہاں ضرور ملے گی۔
۳۹یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو روز قیامت تک چلی جائیں گی کہ جو کچھ تم حکم دو گے وہی تمہارے لیے ضرور حاضر ہو گا۔
۴۰ان سے پوچھو تو کہ ان میں اس کا کون ذمہ دار ہے
۴۱یا (اس باب میں ) ان کے اور لوگ بھی شریک ہیں تو اگر یہ لوگ سچّے ہیں تو اپنے شریکوں کو سامنے لائیں۔
۴۲جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور (کافر) لوگ سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو (سجدہ) نہ کرسکیں گے
۴۳ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی رسوائی ان پر چھائی ہو گی۔ اور (دنیا میں ) یہ لوگ سجدے کے لیے بلائے جاتے اور ہٹے کٹے تندرست تھے۔
۴۴تو مجھے اس کلام کے جھٹلانے والے سے سمجھ لینے دو ہم ان کوآہستہ آہستہ اس طرح پکڑ لیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہو گی
۴۵اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں بے شک میری تدبیر مضبوط ہے۔
۴۶(اے رسولؐ) کیا تم ان سے (تبلیغ رسالت کا) کچھ صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے۔
۴۷یا ان کے پاس غیب (کی خبر) ہے کہ یہ لوگ لکھ لیا کرتے ہیں۔
۴۸تو تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کرو اور مچھلی (کا نوالہ ہونے والے (یونسؑ) کے ایسے نہ ہو جاؤ۔ کہ جب وہ غصّہ میں بھرے ہوئے تھے (اپنے پروردگار کو) پکارا۔
۴۹اگر تمہارے پروردگار کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے اور ان کا بُرا حال ہوتا۔
۵۰تو ان کے پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں سے بنا دیا۔
۵۱اور کفّار جب قرآن کو سنتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ تمہیں گھور گھور کر (راہِ راست سے ) ضرور پھسلا دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ تو سِڑی ہے۔
۵۲اور یہ (قرآن) توسارے جہاں کی نصیحت ہے۔
٭٭٭
۶۹۔ سورۃ الحاقۃ
۱سچ مچ ہونے والی (قیامت)
۲وہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے
۳اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ سچ مچ ہونے والی کیا ہے
۴(وہی) کھڑ کھڑانے والی جس کو (قوم) عاد و ثمود نے جھٹلایا۔
۵غرض (قوم) ثمود تو چنگھاڑ سے ہلاک کر دیئے گئے۔
۶رہے (قوم) عاد تو وہ بہت شدید تیز آندھی سے ہلاک کیے گئے
۷خدا نے اسے سات رات اور آٹھ دن لگاتار ان پر چلایا تو تُو لوگوں کو اس طرح ڈھئے (مرے ) پڑے دیکھتا کہ گویا وہ کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہیں
۸تو کیا ان میں سے کسی کو بھی بچا کھچا دیکھتا ہے۔
۹اور فرعون اور جو لوگ اس سے پہلے تھے اور وہ لوگ (قوم لوطؑ) جو الٹی ہوئی بستیوں کے رہنے والے تھے سب گناہ کے کام کرتے تھے
۱۰تو ان لوگوں نے اپنے پروردگار کے رسولؐ کی نافرمانی کی تو خدا نے بھی ان کی بڑی سختی سے لے دے کر ڈالی۔
۱۱جب پانی چڑھنے لگا تو ہم نے تم کو کشتی پر سوار کیا
۱۲تاکہ ہم اسے تمہارے لیے یادگار بنائیں اور اسے یاد رکھنے والے کان (سُن کر) یاد رکھیں۔
۱۳پھر جب صور میں ایک (بار) پھونک مار دی جائے گی۔
۱۴اور زمین اور پہاڑ اُٹھا کر اکبارگی (ٹکرا کر) ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے
۱۵تو اس روز قیامت آ ہی جائے گی
۱۶اور آسمان پھٹ جائے گا تو وہ اس دن بہت پھس پھسا ہو گا
۱۷اور فرشتے اس کے کنارے ہوں گے اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے
۱۸اس دن تم سب کے سب (خدا کے سامنے ) پیش کیے جاؤ گے اور تمہاری کوئی پوشیدہ بات چھپی نہ رہے گی۔
۱۹تو جس کو اس کا نامہ عمل داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ (لوگوں سے ) کہے گا لیجیے میرا نامہ عمل پڑھیے تو۔
۲۰میں جانتا تھا کہ مجھے میرا حساب (کتاب) ضرور ملے گا۔
۲۱پھر وہ دل پسند عیش میں ہو گا
۲۲ بڑے عالی شان باغ میں
۲۳جن کے پھل بہت جھکے ہوئے قریب ہوں گے۔
۲۴اس کے صلے میں جو کار گزاریاں تم گزشتہ ایام میں کر کے آگے بھیج چکے ہو مزے سے کھاؤ پیو
۲۵اور جس کا نامۂ عمل اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا اے کاش مجھے میرا نامہ عمل نہ دیا جاتا
۲۶اور مجھے نہ معلوم ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے۔
۲۷اے کاش موت نے (ہمیشہ کے لیے میرا) کام تمام کر دیا ہوتا۔
۲۸(افسوس) میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا
۲۹(ہائے ) میری سلطنت خاک میں مل گئی
۳۰(پھر حکم ہو گا) اسے گرفتار کر کے طوق پہنا دو
۳۱پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔
۳۲پھر ایک زنجیر میں جس کی ناپ ستر گز کی ہے اسے خوب جکڑ دو۔
۳۳(کیونکہ) یہ نہ تو بزرگ خدا ہی پر ایمان لاتا تھا
۳۴اور نہ محتاج کے کھلانے پر (لوگوں کو) آمادہ کرتا تھا۔
۳۵تو آج نہ اس کا یہاں کوئی غمخوار ہے
۳۶اور نہ پیپ کے سوا (اس کے لیے ) کچھ کھانا ہے
۳۷جس کو گناہ گاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا۔
۳۸تو مجھے ان چیزوں کی قسم ہے جو تم کو دکھائی دیتی ہیں
۳۹ اور جو تمہیں نہیں سجھائی دیتیں
۴۰کہ بے شک یہ (قرآن) ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا پیغام ہے
۴۱اور یہ کسی شاعر کی تک بندی نہیں تم لوگ بہت کم ایمان لاتے ہو۔
۴۲اور نہ کسی کاہن کی(خیالی) بات ہے تم لوگ تو بہت کم غور کرتے ہو۔
۴۳سارے جہاں کے پروردگار کا نازل کیا ہوا (کلام) ہے۔
۴۴اگر رسولؐ ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنا لاتے
۴۵تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔
۴۶پھر ہم ضرور ان کی شہ رگ کاٹ دیتے
۴۷تو تم میں سے کوئی ان سے (مجھے ) روک نہیں سکتا۔
۴۸اور بلاشبہ یہ تو پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے
۴۹ اور ہم خوب جانتے ہیں کہ تم میں سے کچھ لوگ (اس کے ) جھٹلانے والے ہیں۔
۵۰اور اس میں شک نہیں کہ یہ کافروں کی حسرت کا باعث ہے۔
۵۱اور اس میں شک نہیں کہ یہ یقیناً برحق ہے
۵۲تو تم اپنے بزرگ پروردگار کی تسبیح کرو۔
٭٭٭
۷۰۔ سورۃ معارج
۱ایک مانگنے والے نے کافروں کے لئے ہو کر رہنے والے عذاب کو مانگا
۲جس کو کوئی ٹال نہیں سکتا
۳جو درجے والے خدا کی طرف سے (ہونے والا) تھا۔
۴جس کی طرف فرشتے اور رُوح الامین چڑھتے ہیں (اور یہ) ایک دن میں (اتنی مسافت طے کرتے ہیں ) جس کا اندازہ پچاس ہزاربرس کا ہو گا۔
۵تو تم اچھی طرح (ان تکلیفوں کو) برداشت کرتے رہو۔
۶وہ (قیامت) ان کی نگاہ میں بہت دور ہے
۷اور ہماری نظر میں نزدیک ہے۔
۸جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کا سا ہو جائے گا
۹اور پہاڑ دھُنکے ہوئے اُون کا سا
۱۰کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا
۱۱باوجود یکہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے گنہگار تو آرزو کرے گا کہ کاش اس دن کے عذاب سے
۱۲(گلو خلاصی کے لیے ) وہ اپنے بیٹوں اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی
۱۳اور اپنے کنبے کو جو اُسے ٹھکانہ دیتا ہے
۱۴اور جتنے روئے زمین پر ہیں سب کو بطور فدیہ دے دے پھر وہ (فدیہ) اُسے عذاب سے چھٹکارا دے دے
۱۵ (مگر) یہ ہرگز نہ ہو گا۔(جہنم کی) وہ بھڑکتی آگ ہے
۱۶کہ کھال کو ادھیڑ کر رکھ دے گی
۱۷(اور) ان لوگوں کو اپنی طرف بلاتی ہو گی جنہوں نے (دین سے ) پیٹھ پھیری اور منہ موڑا
۱۸ اور (مال) جمع کیا اور بند کر رکھا۔
۱۹بے شک انسان بڑا لالچی پیدا ہوا ہے
۲۰جب اسے تکلیف چھو بھی گئی تو گھبرا گیا
۲۱اور جب اسے ذرا فراخی حاصل ہوئی تو بخیل بن بیٹھا
۲۲سوائے نماز پڑھنے والوں کے
۲۳جو اپنی نماز کا التزام رکھتے ہیں
۲۴اور جن کے مالوں میں مانگنے والے
۲۵اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔
۲۶اور جو لوگ روز جزا کی تصدیق کرتے ہیں
۲۷اور جو لوگ اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں
۲۸بے شک ان کے پروردگار کے عذاب سے بے خوف نہ ہونا چاہیے
۲۹اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی اپنی بیویوں اور اپنی لونڈیوں کے سوا اوروں سے حفاظت کرتے ہیں
۳۰تو ان لوگوں کی ہرگز ملامت نہیں کی جائے گی۔
۳۱تو جوان کے سوا اور کے خواستگار ہوں تو یہی لوگ حد سے بڑھ جانے والے ہیں
۳۲اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہیں
۳۳اور جو لوگ اپنی شہادتوں پر قائم رہتے ہیں
۳۴اور جو لوگ اپنی نمازوں کا خیال رکھتے ہیں
۳۵یہی لوگ (بہشت کے ) باغوں میں عزت سے رہیں گے۔
۳۶تو (اے رسولؐ)کافروں کو کیا ہو گیا ہے کہ تمہارے پاس
۳۷گروہ گروہ داہنے سے، بائیں سے دوڑتے چلے آرہے ہیں۔
۳۸کیا ان میں سے ہر شخص اسی کا متمنی ہے کہ چین کے باغ (بہشت) میں داخل ہو گا
۳۹ہرگز نہیں۔ ہم نے ان کو جس (گندی) چیز سے پیدا کیا یہ لوگ جانتے ہیں۔
۴۰تو میں مشرقوں اور مغربوں کے پروردگار کی قسم کھاتا ہوں کہ ہم ضرور اس بات کی قدرت رکھتے ہیں
۴۱کہ ان کے بدلے ان سے بہتر لوگ لا (بسائیں ) اور ہم عاجز نہیں ہیں۔
۴۲تو تم ان کو چھوڑ دو کہ باطل میں پڑے کھیلتے رہیں یہاں تک کہ جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ان کے سامنے آ موجود ہو
۴۳اُس دن یہ لوگ قبروں سے نکل کر اس طرح دوڑیں گے گویا وہ کسی جھنڈے کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں
۴۴(ندامت سے ) ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی ان پر رسوائی چھائی ہوئی ہو گی یہ وہی دن ہے جس کا اُن سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
٭٭٭
۷۱۔ سورۃ نوح
۱ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کے پاس (پیغمبر بنا کر) بھیجا کہ قبل اس کے ان کی قوم پر دردناک عذاب آئے ان کو اس سے ڈراؤ۔
۲تو (نوحؑ اپنی قوم سے ) کہنے لگے اے میری قوم میں تمہیں صاف صاف ڈراتا (اور سمجھاتا) ہوں
۳کہ تم لوگ خدا کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
۴خدا تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں (موت کے ) مقرر وقت تک باقی رکھے گا بے شک جب خدا کا مقرر کیا ہوا وقت آ جاتا ہے تو پیچھے ہٹایا نہیں جا سکتا اگر تم سمجھتے ہوتے۔
۵(جب لوگوں نے نہ مانا تو) عرض کی پروردگارا میں اپنی قوم کو (ایمان کی طرف) رات دن بُلاتا رہا۔
۶لیکن وہ میرے بلانے سے اور زیادہ گریز ہی کرتے رہے۔
۷اور میں نے جب ان کو بلایا کہ (یہ توبہ کریں اور ) تو انہیں معاف کر دے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور (مجھ سے چھپنے کو) کپڑے اوڑھ لیے اور اُڑ گئے اور بہت شدت سے اکڑ بیٹھے۔
۸ پھر میں نے ان کو بالاعلان بلایا
۹پھر ان کو ظاہر بظاہر سمجھایا اور ان کی پوشیدہ بھی فہمائش کی
۱۰پس میں نے ان سے کہا اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعا مانگو بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے
۱۱(اور) تم پر آسمان سے موسلا دھار پانی برسائے گا
۱۲اور مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لیے باغ بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا۔
۱۳تمہیں کیا ہو گیا ہے تم خدا کی عظمت کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے۔
۱۴حالانکہ اسی نے تم کو طرح طرح کا پیدا کیا۔
۱۵کیا تم نے غور نہیں کیا کہ خدا نے سات آسمان اوپر تلے کیوں کر بنائے
۱۶اور اسی نے ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو روشن چراغ بنا دیا۔
۱۷اور خدا ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا
۱۸پھر تم کو اسی میں دوبارہ لے جائے گا اور (قیامت میں اسی سے ) نکال کھڑا کرے گا۔
۱۹اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لیے فرش بنایا
۲۰تاکہ تم اس کے بڑے بڑے کشادہ رستوں پر چلو پھرو
۲۱(پھر) نوحؑ نے عرض کی پروردگارا ان لوگوں نے میری نافرمانی کی اور ایسے کی پیروی کی جس کے مال اور اولاد نے اس کو نقصان کے سوا (کچھ) فائدہ نہ پہنچایا۔
۲۲اور انہوں نے (میرے ساتھ) بڑی بڑی مکاریاں کیں
۲۳اور (الٹے ) کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور نہ وَد کو اور نہ سواع کو اور نہ یغوث و یعوق و نسر کو چھوڑنا۔
۲۴اور انہوں نے بہتیروں کو گمراہ کر چھوڑا۔اور تو (ان) ظالموں کی گمراہی کو اور بڑھا دے۔
۲۵(آخر) وہ اپنے گناہوں کی بدولت(پہلے تو) ڈبائے گئے پھر جہنم میں جھونکے گئے تو ان لوگوں نے خدا کے سوا کسی کو اپنا مددگار نہ پایا۔
۲۶اور نوحؑ نے عرض کی پروردگارا (ان) کافروں میں سے روئے زمین پر کسی کوبسا ہوا نہ رہنے دے۔
۲۷کیونکہ اگر تو ان کو چھوڑ دے گا تو یہ (پھر)تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور ان کی اولاد بھی بس گنہگار اور کافر ہی ہو گی۔
۲۸پروردگارا مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو مومن میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایماندار مردوں اور مومنہ عورتوں کو بخش دے اور (ان) ظالموں کی تباہی کو اور زیادہ کر۔
٭٭٭
۷۲۔ سورۃ الجنّ
۱(اے رسولؐ لوگوں سے ) کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن کو) جی لگا کر سُنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سُنا ہے۔
۲جو بھلائی کی راہ دکھاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اور اب تو ہم کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہ بنائیں گے
۳اور یہ کہ ہمارے پروردگار کی شان بہت بڑی ہے اس نے نہ (کسی کو) بیوی بنایا ا ور نہ بیٹا بیٹی
۴اور یہ کہ ہم میں سے بے وقوف خدا کے بارے میں حد سے زیادہ لغو باتیں بکا کرتے تھے۔
۵اور یہ کہ ہمارا تو خیال تھا کہ آدمی اور جن خدا کی نسبت جھوٹی بات نہیں بول سکتے
۶اور یہ کہ آدمیوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑا کرتے تھے تو (اس سے ) ان کی سرکشی اور بڑھ گئی
۷اور یہ کہ جیسا تمہارا خیال ہے ویسا ہی ان کا بھی اعتقاد تھا کہ خدا کسی کو ہرگز دوبارہ نہیں زندہ کرے گا۔
۸اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اس کو بھی بہت قوی نگہبانوں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا
۹اور یہ کہ پہلے ہم وہاں بہت سے مقامات میں (باتیں ) سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے۔ مگر اب کوئی سُننا چاہے تو اپنے لیے شعلہ تیار پائے گا۔
۱۰اور یہ کہ ہم نہیں سمجھتے کہ اس سے اہل زمین کے حق میں برائی مقصود ہے یا ان کے پروردگار نے ان کی بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔
۱۱اور یہ کہ ہم میں سے کچھ لوگ تو نیکوکار ہیں اور کچھ لوگ اور طرح کے۔ ہم لوگوں کے بھی تو کئی طرح کے فرقے ہیں
۱۲اور یہ کہ ہم سمجھتے تھے کہ ہم زمین میں (رہ کر) خدا کو ہرگز ہرا نہیں سکتے اور نہ بھاگ کر اس کو عاجز کرسکتے ہیں
۱۳اور یہ کہ جب ہم نے ہدایت (کی کتاب) سُنی تو اُس پر ایمان لائے تو جو شخص اپنے پروردگار پر ایمان لائے گا تو اس کو نہ نقصان کا خوف ہے اور نہ ظلم کا
۱۴اور یہ کہ ہم میں سے کچھ لوگ تو فرمانبردار ہیں اور کچھ لوگ نافرمان تو جو لوگ فرمانبردار ہیں وہ تو سیدھے راستہ پر چلے۔
۱۵اور رہے نافرمان تو وہ جہنم کے کُندے بنے۔
۱۶اور (اے رسولؐ تم کہہ دو) کہ اگر یہ لوگ سیدھی راہ پر قائم رہتے تو ہم ضرور ان کو بکثرت پانی سے سیراب کرتے
۱۷تاکہ اس سے ان کی آزمائش کریں اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے منہ موڑے گا تو وہ اس کو سخت عذاب میں جھونک دے گا۔
۱۸اور یہ کہ مسجدیں خاص خدا کی ہیں تو تم لوگ خدا کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرنا
۱۹اور یہ کہ جب خدا کا بندہ (محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) اُس کی عبادت کو کھڑا ہوتا ہے تو لوگ اس کے گرد ہجوم کر کے گرے پڑتے ہیں۔
۲۰(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں تو اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہوں اور اس کاکسی کو شریک نہیں بناتا۔
۲۱(یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نہ برائی کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ بھلائی کا۔
۲۲(یہ بھی) کہہ دو کہ مجھے خدا (کے عذاب) سے کوئی بھی پناہ نہیں دے سکتا اور نہ میں اس کے سوا کہیں پناہ کی جگہ دیکھتا ہوں
۲۳خدا کی طرف سے (احکام کے ) پہنچا دینے اور اس کے پیغاموں کو ادا کرنے کے سوا (کچھ نہیں کرسکتا) اور جس نے خدا اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی تو اس کے لیے یقیناً جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ اور ابد آلاباد تک رہے گا۔
۲۴یہاں تک کہ جب یہ لوگ ان چیزوں کو دیکھ لیں گے جن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو ان کو معلوم ہو جائے گا کہ مددگار کی حیثیت سے کون کمزور ہے اور کس کا شمار کم ہے۔
۲۵(اے رسُولؐ) تم کہہ دو کہ میں نہیں جانتا کہ جس دن کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے قریب ہے یا میرے پروردگار نے اس کی مدّت دراز کر دی ہے۔
۲۶(وہی) غیب دان ہے اور اپنی غیب کی بات کسی پر ظاہر نہیں کرتا
۲۷مگر جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس کے آگے اور پیچھے نگہبان (فرشتے ) مقرر فرما دیتا ہے
۲۸تاکہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچا دیئے اور (یوں تو) جو کچھ ان کے پاس ہے وہ سب پر حاوی ہے اور اس نے تو ایک ایک چیز گِن رکھی ہے۔
۷۳۔ سورۃ مزمل
۱اے (میرے ) چادر لپیٹنے والے (رسولؐ)
۲ رات کو (نماز کے واسطے ) کھڑے ہو مگر (پوری رات نہیں ) تھوڑی رات
۳آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر دو
۴یا اس سے کچھ بڑھا دو اور قرآن کو باقاعدہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔
۵ہم عنقریب تم پر ایک بھاری حکم نازل کریں گے۔
۶اس میں شک نہیں کہ رات کا اُٹھنا خوب (نفس کا) پامال کن اور بہت ٹھکانے سے ذکر کا وقت ہے۔
۷دن کو تمہارے اور بہت بڑے بڑے اشغال ہیں۔
۸تو تم اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرو اور سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہو رہو۔
۹(وہی) مشرق اور مغرب کا مالک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو تم اسی کو کارساز بناؤ۔
۱۰اور جو کچھ لوگ بکا کرتے ہیں اس پر صبر کرو اور اُن سے بعنوان شائستہ الگ تھلگ رہو۔
۱۱اور مجھے ان جھٹلانے والوں سے جو دولت مند ہیں سمجھ لینے دو اور ان کو تھوڑی سی مہلت دے دو۔
۱۲بے شک ہمارے پاس بیڑیاں (بھی) ہیں اور جلانے والی آگ بھی
۱۳اور پھنسنے والا کھانا (بھی) اور دُکھ دینے والا عذاب (بھی)
۱۴جس دن زمین اور پہاڑ لرزنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلے سے بھُربھُرے ہو جائیں گے۔
۱۵(اے مکہ والو) ہم نے تمہارے پاس (اسی طرح) ایک رسُول (محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) کو بھیجا جو تمہارے معاملہ میں گواہی دے جس طرح فرعون کے پاس ایک رسُول (موسیٰؑ ) بھیجا تھا۔
۱۶تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے بھی (اس کی) سزا میں اس کو بہت سخت پکڑا۔
۱۷تو اگر تم بھی نہ مانو گے تو اس دن (کے عذاب) سے کیوں کر بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنا دے گا
۱۸جس دن آسمان پھٹ پڑے گا (یہ) اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔
۱۹ بے شک یہ نصیحت ہے تو جو شخص چاہے اپنے پروردگار کی راہ اختیار کرے۔
۲۰بے شک (اے رسولؐ) تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم اور تمہارے چند ساتھ کے لوگ (کبھی) دو تہائی رات کے قرب اور (کبھی) آدھی رات اور (کبھی) تہائی رات(نماز میں ) کھڑے رہتے ہو۔ اور خدا ہی رات اور دن کا اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ تم لوگ اس پر پوری طرح سے حاوی نہیں ہو سکتے تو اس نے تم پر مہربانی کی تو جتنا آسانی سے ہو سکے اتنا (نماز میں ) قرآن پڑھ لیا کرو وہ جانتا ہے کہ عنقریب تم میں سے کوئی بیمار ہو جائے گا اور بعض خدا کے فضل کی تلاش میں روئے زمین پر سفر اختیار کریں گے اور کچھ لوگ خدا کی راہ میں جہاد کریں گے تو جتنا تم سے آسانی سے ہو سکے پڑھ لیا کرو۔ اور نماز پابندی سے پڑھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور خدا کو قرض حسنہ دو اور جو نیک عمل اپنے واسطے (خدا کے سامنے ) پیش کرو گے اس کو خدا کے ہاں بہتر اور صلہ میں بزرگ تر پاؤ گے اور خدا سے مغفرت کی دعا مانگو۔ بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
٭٭٭
۷۴۔ سورۃ المدثر
۱اے (میرے ) کپڑا اوڑھنے والے (رسولؐ)
۲اٹھو اور لوگوں کو عذاب سے ڈراؤ
۳اور اپنے پروردگار کی بڑائی کرو
۴اور اپنے کپڑے پاک رکھو
۵ اور گندگی سے الگ رہو
۶اس طرح احسان نہ کرو کہ زیادہ خواستگار بنو
۷اور اپنے پروردگار کے لیے صبر کرو۔
۸ پھر جب صور پھونکا جائے گا
۹تو وہ دن سخت دن ہو گا
۱۰کافروں پر آسان نہیں ہو گا۔
۱۱(اے رسولؐ) مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا
۱۲اور اسے بہت سا مال دیا
۱۳اور نظر کے سامنے رہنے والے بیٹے (دیئے )
۱۴اور اسے ہر طرح کے سامان کی وسعت دی
۱۵پھر اس پر بھی وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اور بڑھاؤں
۱۶یہ ہرگز نہ ہو گا یہ تو ہماری آیتوں کا دشمن تھا
۱۷تو میں عنقریب اسے سخت عذاب میں مبتلا کروں گا۔
۱۸اس نے فکر کی اور تجویز کی
۱۹تو یہ (کمبخت) مار ڈالا جائے اُس نے کیوں کر تجویز کی
۲۰پھر وہ قتل کیا جائے اس نے کیسا اندازہ لگایا۔
۲۱پھر غور کیا
۲۲پھر تیوری چڑھائی اور منہ بنا لیا
۲۳پھر پیٹھ پھیر کر چلا گیا اور اکڑ بیٹھا
۲۴پھر کہنے لگا یہ تو بس جادو ہے جو (اگلوں سے ) چلا آتا ہے
۲۵یہ تو بس آدمی کا کلام ہے (خدا کا نہیں )
۲۶میں اسے عنقریب جہنم میں جھونک دوں گا
۲۷ اور تم کیا جانو کہ جہنم کیا ہے۔
۲۸وہ نہ باقی رکھے گی نہ چھوڑ دے گی۔
۲۹اور بدن کو جلا کر سیاہ کر دے گی
۳۰اس پر انیس فرشتے معین ہیں۔
۳۱اور ہم نے جہنم کا نگہبان تو بس فرشتوں کو بنایا ہے اور ان کا یہ شمار بھی کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کیا تاکہ اہل کتاب (فوراً) یقین کر لیں اور مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو اور اہل کتاب اور مومنین (کسی طرح) شک نہ کریں اور جن لوگوں کے دل میں (نفاق کا) مرض ہے اور کافر لوگ کہہ بیٹھیں کہ اس مثل (کے بیان کرنے ) سے خدا کا کیا مطلب ہے یوں خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور تمہارے پروردگار کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور یہ تو آدمیوں کے لیے بس نصیحت ہے۔
۳۲سُن رکھو (ہمیں ) چاند کی قسم
۳۳اور رات کی جب جانے لگے
۳۴اور صبح کی جب روشن ہو جائے
۳۵کہ وہ (جہنم) بھی ایک بہت بڑی (آفت) ہے
۳۶(اور) لوگوں کی ڈرانے والی ہے
۳۷(سب کے لیے نہیں بلکہ) تم میں سے جو شخص (نیکی کی طرف) آگے بڑھنا اور (بُرائی سے ) پیچھے ہٹنا چاہے۔
۳۸ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گرو ہے
۳۹مگر داہنے ہاتھ (میں نامۂ اعمال لینے ) والے۔
۴۰(بہشت کے ) باغوں میں
۴۱ گنہگاروں سے باہم پوچھ رہے ہوں گے
۴۲کہ آخر تمہیں دوزخ میں کون سی چیز (گھسیٹ) لائی۔
۴۳وہ لوگ کہیں گے کہ ہم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے۔
۴۴اور نہ محتاجوں کو کھانا کھلاتے تھے
۴۵اور اہل باطل کے ساتھ ہم بھی بُرے کام میں گھس پڑتے تھے
۴۶اور روز جزا کو جھٹلایا کرتے تھے
۴۷(اور یوں ہی رہے ) یہاں تک کہ ہمیں موت آ گئی
۴۸تو (اس وقت) انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش کچھ کام نہ آئے گی
۴۹پس انہیں کیا ہو گیا ہے کہ نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں
۵۰گویا وہ وحشی گدھے ہیں
۵۱کہ شیر سے (دُم دبا کر) بھاگتے ہیں۔
۵۲اصل یہ ہے کہ ان میں سے ہر شخص اس کا متمنی ہے کہ اسے کھلی ہوئی (آسمانی کتابیں ) عطا کی جائیں۔
۵۳یہ تو ہرگز نہ ہو گا بلکہ یہ تو آخرت ہی سے نہیں ڈرتے۔
۵۴ہاں ہاں بے شک یہ (قرآن سراسر) نصیحت ہے۔
۵۵تو جو چاہے اسے یاد رکھے۔
۵۶اور خدا کی مشیت کے بغیر تو یہ لوگ یاد رکھنے والے نہیں۔ وہی اہل ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور وہی بخشش کا مالک ہے۔
٭٭٭
۷۵۔ سورۃ القیامۃ
۱میں روزِ قیامت کی قسم کھاتا ہوں
۲اور (بُرائی سے ) ملامت کرنے والے جی کی قسم کھاتا ہوں (کہ تم سب دوبارہ ضرور زندہ کیے جاؤ گے )
۳کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو (بوسیدہ ہونے کے بعد) جمع نہ کریں گے۔
۴ہاں (ضرور کریں گے ) ہم اس پر قادر ہیں کہ ہم اس کی پور پور درست کریں
۵مگر انسان تو یہ چاہتا ہے کہ اپنے آگے بھی (ہمیشہ) بُرائی کرتا جائے۔
۶پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہو گا۔
۷تو جب آنکھیں چکا چوندھ میں آ جائیں گی
۸اور چاند میں گہن لگ جائے گا
۹اور سُورج اور چاند اکٹھا کر دیئے جائیں گے
۱۰اس دن انسان کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے۔
۱۱یقین جانو کہیں پناہ نہیں۔
۱۲اس روز تمہارے پروردگار ہی کے پاس ٹھکانا ہے۔
۱۳ اس دن آدمی کو جو کچھ اس نے آگے پیچھے کیا ہے بتا دیا جائے گا۔
۱۴بلکہ انسان تو اپنے اوپر آپ گواہ ہے
۱۵اگرچہ وہ (اپنے گناہوں کی) عذر معذرت پڑا کرتا رہے۔
۱۶(اے رسولؐ وحی کے ) جلدی یاد کرنے کے واسطے اپنی زبان کو حرکت نہ دو
۱۷اس کا جمع کر دینا اور پڑھوا دینا تو یقینی ہمارے ذمّہ ہے
۱۸تو جب ہم اس کو (جبرئیل کی زبانی) پڑھا د یں تو تم بھی (پورا سننے کے بعد)اسی طرح پڑھا کرو
۱۹پھر اس (کے مشکلات) کا سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے۔
۲۰مگر (لوگو) حق تو یہ ہے کہ تم لوگ دنیا کو دوست رکھتے ہو
۲۱اور آخرت کو چھوڑے بیٹھے ہو
۲۲اس روز بہتیرے چہرے تو تر و تازہ بشاش ہوں گے
۲۳(اور) اپنے پروردگار (کی نعمت) کو دیکھ رہے ہوں گے
۲۴اور بہت سے منہ اُس دن اُداس ہوں گے
۲۵سمجھ رہے ہیں کہ ان پر وہ مصیبت پڑنے والی ہے کہ کمر توڑ دے گی۔
۲۶سُن لو جب جان (بدن سے کھچ کر) ہنسلی تک آ پہنچے گی
۲۷اور کہا جائے گا کہ (اس وقت) کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے
۲۸اور مرنے والے نے سمجھا کہ اب (سب سے ) جُدائی ہے
۲۹اور (موت کی تکلیف سے ) پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی
۳۰اس دن تجھ کو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں چلنا ہے۔
۳۱ تو اس نے (غفلت میں ) نہ (کلام خدا کی) تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی
۳۲مگر جھٹلایا اور (ان سے )مُنہ موڑا
۳۳پھر اپنے گھر کی طرف اتراتا ہوا چلا۔
۳۴افسوس ہے تجھ پر پھر افسوس ہے
۳۵پھر تف ہے تجھ پر پھر تف ہے
۳۶کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا
۳۷کیا وہ (ابتداءً) منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو رحم میں ڈالی جاتی ہے
۳۸پھر لوتھڑا ہوا پھر خدا نے اسے بنایا پھر اُسے درست کیا
۳۹پھر اس کی دو قسمیں بنائیں (ایک) مرد (ایک) عورت۔
۴۰ تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ (قیامت میں ) مردوں کو زندہ کرے۔
٭٭٭
۷۶۔ سورۃ الدھر
۱بے شک انسان پر ایک ایسا وقت آ چکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھا۔
۲ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں تو ہم نے اسے سُنتا دیکھتا بنایا۔
۳ہم نے اس کو راستہ بھی دکھا دیا (اب وہ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا۔
۴ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں، طوق اور دھکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔
۵بے شک نیکوکار لوگ شراب کے وہ ساغر پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہو گی۔
۶ یہ ایک چشمہ ہے جس میں سے خدا کے (خاص) بندے پئیں گے (اور جہاں چاہیں گے بہا لے جائیں گے۔
۷یہ وہ لوگ ہیں جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہو گی ڈرتے ہیں۔
۸اور اس کی محبت میں محتاج اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں
۹ (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو تم کو بس خالص خدا کے لیے کھلاتے ہیں ہم نہ تم سے بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکر گزاری کے۔
۱۰ہم کو تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جس میں مُنہ بن جائیں گے (اور) چہرے پر ہوائیاں اُڑتی ہوں گی۔
۱۱تو خدا انہیں اس دن کی تکلیف سے بچا لے گا اور ان کو تازگی اور خوش دلی عطا فرمائے گا۔
۱۲اور ان کے صبر کے بدلے (بہشت کے ) باغ اور ریشم (کی پوشاک) عطا فرمائے گا
۱۳وہاں وہ تختوں پر تکیے لگائے (بیٹھے ) ہوں گے۔ نہ وہاں (آفتاب کی) دھوپ دیکھیں گے اور نہ شدت کی سردی
۱۴اور گھنے درختوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے اور میوؤں کے گچھے ان کے بہت قریب ہر طرح ان کے اختیار میں۔
۱۵اور ان کے سامنے چاندی کے ساغر اور شیشے کے نہایت شفاف گلاس کا دَور چل رہا ہو گا
۱۶اور شیشے بھی (کانچ کے نہیں ) چاندی کے جو ٹھیک اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں۔
۱۷ اور وہاں انہیں ایسی شراب پلائی جائے گی جس میں زنجبیل (کے پانی) کی آمیزش ہو گی۔
۱۸یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے۔
۱۹اور ان کے سامنے ہمیشہ ایک حالت پر رہنے والے نوجوان لڑکے چکّر لگاتے ہوں گے کہ جب تم ان کو دیکھو تو سمجھو کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔
۲۰اور جب تم وہاں نگاہ اُٹھاؤ گے تو ہر طرح کی نعمت اور عظیم الشان سلطنت دیکھو گے۔
۲۱ان کے اوپر سبز کریب اور اطلس کی پوشاک ہو گی اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔
۲۲یہ یقینی تمہارے لیے ہو گا (تمہاری کار گزاریوں کے ) صلہ میں اور تمہاری کوشش قابل شکر گزاری ہے
۲۳(اے رسولؐ) ہم نے تم پر قرآن کو رفتہ رفتہ کر کے نازل کیا۔
۲۴تو تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کیے رہو اور ان لوگوں میں سے گنہگار اور ناشکرے کی پیروی نہ کرنا۔
۲۵اور صبح شام اپنے پروردگار کا نام لیتے رہو
۲۶اور کچھ رات گئے اس کا سجدہ کرو اور بڑی رات تک اس کی تسبیح کرتے رہو۔
۲۷بے شک یہ لوگ دنیا کو پسند کرتے ہیں اور بڑے بھاری دن کو اپنے پس پشت چھوڑ بیٹھے ہیں۔
۲۸ہم نے ان کو پیدا کیا اور ان کے اعضا کو مضبوط بنایا اور اگر ہم چاہیں تو ان کے بدلے ان ہی کے ایسے لوگ لے آئیں۔
۲۹بے شک یہ قرآن سراسر نصیحت ہے تو جو شخص چاہے اپنے پروردگار کی راہ لے۔
۳۰اور تم کچھ چاہتے ہی نہیں مگر وہی جو اللہ چاہتا ہے۔ بے شک خدا بڑا واقف کار دانا ہے
۳۱جس کو چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے اور ظالموں کے واسطے اس نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
٭٭٭
۷۷۔ سورۃ المرسلٰت
۱ہواؤں کی قسم جو (پہلے ) دھیمی چلتی ہیں
۲ پھر زور پکڑ کے آندھی ہو جاتی ہیں
۳اور (بادلوں کو) ابھار کر پھیلا لیتی ہیں
۴پھر (ان کو) پھاڑ کر جدا کر دیتی ہیں
۵پھر فرشتوں کی قسم جو وحی لاتے ہیں
۶تاکہ حجت تمام ہو اور ڈرایا جائے
۷کہ جس بات کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور ہو کر رہے گا۔
۸پھر جب تاروں کی چمک جاتی رہے گی
۹اور جب آسمان پھٹ جائے گا
۱۰اور جب پہاڑ (روئی کی طرح) اڑے اڑے پھریں گے
۱۱ اور جب پیغمبر لوگ ایک معین وقت پر جمع کیے جائیں گے
۱۲ (پھر) بھلا ان (باتوں ) میں کس دن کے لیے تاخیر کی گئی ہے
۱۳فیصلہ کے دن کے لیے۔
۱۴اور تم کو کیا معلوم کہ فیصلہ کا دن کیا ہے
۱۵ اس دن جھٹلانے والوں کی مٹی خراب ہے۔
۱۶کیا ہم نے اگلوں کو ہلاک نہیں کیا۔
۱۷ پھر ان کے پیچھے پیچھے پچھلوں کو بھی چلتا کریں گے۔
۱۸ہم گنہگاروں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔
۱۹اس دن جھٹلانے والوں کی مٹی خراب ہے۔
۲۰کیا ہم نے تم کو ذلیل پانی (منی) سے پیدا نہیں کیا۔
۲۱پھر ہم نے اس کو ایک معین وقت تک
۲۲ایک محفوظ مقام (رحم) میں رکھا
۲۳پھر (اس کا) ایک اندازہ مقرر کیا تو ہم کیا اچھا اندازہ مقرر کرنے والے ہیں۔
۲۴اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔
۲۵کیا ہم نے زمین کو زندہ
۲۶اور مُردوں کو سمیٹنے والی نہیں بنایا
۲۷اور اس میں اونچے اونچے اٹل پہاڑ رکھ دیئے اور تم لوگوں کو میٹھا پانی پلایا۔
۲۸اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔
۲۹جس چیز کو تم جھٹلایا کرتے تھے اب اس کی طرف چلو۔
۳۰(دھوئیں کے ) سائے کی طرف چلو جس کے تین حصّے ہیں
۳۱جس میں نہ ٹھنڈک ہے اور نہ جہنم کی لپک سے بچائے گا۔
۳۲اس سے اتنے بڑے انگار برستے ہوں گے جیسے محل۔
۳۳گویا زرد رنگ کے اُونٹ ہیں۔
۳۴اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔
۳۵یہ وہ دن ہو گا کہ لوگ لب تک نہ ہلا سکیں گے۔
۳۶اور نہ ان کو اجازت دی جائے گی کہ کچھ عذر معذرت کرسکیں۔
۳۷اس دن جھٹلانے والوں کی تباہی ہے۔
۳۸یہی فیصلہ کا دن ہے (جس میں ) ہم نے تم کو اور اگلوں کو اکٹھا کیا ہے۔
۳۹تو اگر تمہیں کوئی داؤ کرنا آتا ہو تو آؤ چل چکو۔
۴۰اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔
۴۱بے شک پرہیزگار لوگ (درختوں کی) گھنی چھاؤں میں ہوں گے اور چشموں
۴۲اور میوؤں میں جو انہیں مرغوب ہوں۔
۴۳دنیا میں جو عمل کرتے تھے اس کے بدلے میں مزے سے کھاؤ پیو
۴۴ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلا دیا کرتے ہیں۔
۴۵اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔
۴۶(جھٹلانے والو) چند دن چین سے کھا پی لو تم بے شک گناہ گار ہو۔
۴۷اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔
۴۸اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو تو رکوع نہیں کرتے۔
۴۹اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔
۵۰اب اس کے بعد یہ کس بات پر ایمان لائیں گے۔
٭٭٭
۷۸۔ سورۃ نباء
۱یہ لوگ آپس میں کس چیز کا حال پوچھتے ہیں۔
۲ایک بڑی خبر کا حال
۳جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں
۴دیکھو انہیں عنقریب ہی معلوم ہو جائے گا
۵پھر انہیں عنقریب ہی ضرور معلوم ہو جائے گا
۶کیا ہم نے زمین کو بچھونا
۷اور پہاڑوں کو (زمین کی) میخیں نہیں بنایا
۸اور ہم نے تم لوگوں کو جوڑا جوڑا پیدا کیا
۹اور تمہاری نیند کو آرام (کا باعث) قرار دیا
۱۰اور رات کو پردہ بنایا
۱۱اور ہم ہی نے دن کو (کسب) معاش (کا وقت) بنایا
۱۲اور تمہارے اُوپر سات مضبوط (آسمان) بنائے
۱۳اور ہم ہی نے (سورج کو) روشن چراغ بنایا
۱۴اور ہم ہی نے بادلوں سے موسلا دھار پانی برسایا
۱۵تاکہ اس کے ذریعے سے دانے اور سبزی
۱۶اور گھنے گھنے باغ پیدا کر دیں۔
۱۷بے شک فیصلہ کا دن مقرر ہے۔
۱۸جس دن صور پھونکا جائے گا اور تم لوگ گروہ گروہ حاضر ہو گے
۱۹اور آسمان کھول دیے جائیں گے تو (اس میں ) دروازے ہو جائیں گے
۲۰اور پہاڑ (اپنی جگہ) سے چلائے جائیں گے توریت ہو کر رہ جائیں گے
۲۱بے شک جہنم گھات (کی جگہ) ہے
۲۲سرکشوں کا (وہی) ٹھکانا ہے
۲۳اس میں مدتوں پڑے جھینکتے رہیں گے۔
۲۴نہ وہاں ٹھنڈک کا مزا چکھیں گے
۲۵اور نہ کھولتے ہوئے پانی اور بہتی ہوئی پیپ کے سوا کچھ پینے کو ملے گا
۲۶(یہ ان کی کارستانیوں کا) پورا پورا بدلہ ہے۔
۲۷بے شک یہ لوگ آخرت کے حساب کی اُمید ہی نہ رکھتے تھے
۲۸اور ان لوگوں نے ہماری آیتوں کو بُری طرح جھٹلایا
۲۹اور ہم نے ہر چیز کو لکھ کر منضبط کر رکھا ہے
۳۰تو اب تم مزا چکھو ہم تو تم پر عذاب ہی بڑھاتے جائیں گے
۳۱بے شک پرہیزگاروں کے لیے بڑی کامیابی ہے
۳۲(یعنی بہشت کے ) باغ اور انگور
۳۳اور اُٹھتی جوانیوں والی ہمسن عورتیں ہیں
۳۴اور شراب کے لبریز ساغر۔
۳۵وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ جھوٹ۔
۳۶ (یہ) تمہارے پروردگار کی طرف سے کافی انعام اور صلہ ہے
۳۷جو سارے آسمانوں اور زمین اور جو ان (دونوں ) کے بیچ میں ہے سب کا مالک ہے بڑا مہربان ہے لوگوں کو اس سے بات کرنے کا یارا نہ ہو گا۔
۳۸جس دن جبرئیل اور دیگر فرشتے (اس کے سامنے ) پر ا باندھ کر کھڑے ہوں گے (اس دن) اس سے کوئی بات نہ کرسکے گا مگر جسے خدا اجازت دے اور وہ ٹھکانے کی بات کہے۔
۳۹وہ دن برحق ہے تو جو شخص چاہے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں (اپنا) ٹھکانا بنائے۔
۴۰ہم نے تم لوگوں کو عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرا دیا جس دن آدمی اپنے ہاتھوں پہلے سے بھیجے ہوئے (اعمال) کو دیکھے گا اور کافر کہے گا کاش میں خاک ہو جاتا۔
٭٭٭
۷۹۔ سورۃ نٰزِعٰت
۱اِن فرشتوں (کی قسم جو کفّار کی روح) ڈوب کر سختی سے کھینچ لیتے ہیں
۲اور ان کی قسم جو (مومنین کی جان) آسانی سے کھینچ لیتے ہیں
۳اور ان کی قسم جو (آسمان و زمین کے درمیان) پیرتے پھرتے ہیں
۴پھر آگے بڑھ کر سبقت کرنے والے ہیں
۵پھر (دنیا کے ) انتظام کرتے ہیں (ان کی قسم کہ قیامت ہو کر رہے گی)
۶جس دن زمین کو بھونچال آئے گا
۷پھر اس کے پیچھے اور زلزلہ آئے گا
۸اُس دن دل دھڑک رہے ہوں گے
۹ان کی آنکھیں (ندامت) سے جھکی ہوں گی۔
۱۰ کفّار کہتے ہیں کہ کیا ہم الٹے پاؤں (زندگی کی طرف) پھر لوٹیں گے
۱۱کیا جب ہم کھوکھلی ہڈیاں ہو جائیں گے۔
۱۲کہتے ہیں کہ یہ لوٹنا تو بڑا نقصان دہ ہے۔
۱۳وہ قیامت تو (گویا) بس ایک سخت چیخ ہو گی
۱۴اور لوگ یکبارگی ایک میدان (حشر) میں موجود ہوں گے۔
۱۵ (اے رسولؐ) کیا تمہارے پاس موسیٰؑ کا قصّہ بھی پہنچا ہے۔
۱۶جب ان کو ان کے پروردگار نے طویٰ کے میدان میں پکارا
۱۷کہ فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو گیا ہے
۱۸اور (اس سے ) کہو کہ کیا تیری خواہش ہے کہ کفر سے پاک ہو جائے
۱۹اور میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تو تجھ کو خوف (پیدا) ہو۔
۲۰غرض موسیٰ نے اسے (عصا کا)بڑا معجزہ دکھایا
۲۱تو اس نے جھٹلا دیا اور نہ مانا
۲۲پھر پیٹھ پھیر کر (خلاف) تدبیر کرنے لگا
۲۳پھر (لوگوں کو) جمع کیا اور بلند آواز سے چلایا
۲۴تو کہنے لگا میں تم لوگوں کا سب سے بڑا پروردگار ہوں
۲۵ تو خدا نے اسے دنیا اور آخرت (دونوں ) کے عذاب میں گرفتار کیا۔
۲۶بے شک جو شخص (خدا سے ) ڈرے اس کے لیے اس (قصّہ)میں عبرت ہے۔
۲۷بھلا تمہارا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کا کہ اسی نے اس کو بنایا۔
۲۸اس کی چھت کو خوب اونچا رکھا پھر اسے درست کیا
۲۹اور اس کی رات کو تاریک بنایا اور (دن کو) اس کی دھوپ نکالی
۳۰اور اس کے بعد زمین کو پھیلایا۔
۳۱اسی میں سے اس کا پانی اور اس کا چارہ نکالا
۳۲ اور پہاڑوں کو اس میں گاڑ دیا
۳۳(یہ سب سامان) تمہارے اور تمہارے چار پایوں کے فائدہ کے لئے ہیں۔
۳۴تو جب بڑی سخت مصیبت (قیامت) آ موجود ہو گی
۳۵جس دن انسان اپنے کاموں کو خود یاد کرے گا
۳۶اور جہنم دیکھنے والوں کے سامنے ظاہر کر دی جائے گی۔
۳۷تو جس نے (دنیا میں ) سر اُٹھایا تھا
۳۸ اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی تھی
۳۹اس کا ٹھکانا تو یقیناً دوزخ ہے۔
۴۰مگر جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا اور جی کو ناجائز خواہشوں سے روکتا رہا
۴۱تو اس کا ٹھکانا یقیناً بہشت ہے۔
۴۲(اے رسولؐ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا کہیں تھل بیڑا بھی ہے
۴۳تو تم اس کے ذکر سے کس فکر میں ہو۔
۴۴اس (کے علم) کی انتہا تمہارے پروردگار ہی تک ہے۔
۴۵تم تو بس جو اس سے ڈرے اس کو ڈرانے والے ہو۔
۴۶جس دن وہ لوگ اس کو دیکھیں گے تو (سمجھیں گے کہ دنیا میں ) بس ایک شام یا صبح ٹھہرے تھے۔
٭٭٭
۸۰۔ سورۃ عَبَس
۱وہ اتنی بات پرچیں بہ جبیں ہو گیا اور منہ پھیر بیٹھا
۲کہ اس کے پاس نابینا آ گیا
۳اور تم کو کیا معلوم شاید وہ تعلیم سے پاکیزگی حاصل کرتا
۴یا وہ نصیحت سنتا تو نصیحت اس کے کام آتی۔
۵تو جو کچھ پرواہ نہیں کرتا
۶اس کے تو تم درپے ہو جاتے ہو
۷حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم ذمّہ دار نہیں۔
۸اور جو تمہارے پاس لپکتا ہوا آتا ہے
۹اور (خدا سے ) ڈرتا ہے
۱۰تو تم اس سے بے رُخی کرتے ہو۔
۱۱ دیکھو یہ (قرآن کی آیات) تو سراسر نصیحت ہیں۔
۱۲تو جو چاہے اسے یاد رکھے۔
۱۳(لوح محفوظ کے ) بہت معزز اوراق میں (لکھا ہوا) ہے
۱۴جو بلند رتبہ اور پاک ہیں
۱۵(ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے
۱۶جو بزرگ نیکوکار ہیں۔
۱۷انسان ہلاک ہو جائے وہ کیسا ناشکرا ہے۔
۱۸(خدا نے ) اسے کس چیز سے پیدا کیا۔
ً۱۹نطفے سے اسے پیدا کیا۔ پھر اس کا اندازہ مقرر کیا
۲۰پھر اس کا راستہ آسان کر دیا
۲۱پھر اسے موت دی پھر اسے قبر میں دفن کرایا
۲۲پھر جب چاہے گا اٹھا کھڑا کرے گا۔
۲۳سچ تو یہ ہے کہ خدا نے جو حکم اسے دیا اس نے اس کو پورا نہ کیا
۲۴تو انسان کو اپنے کھانے کی طرف غور کرنا چاہیے
۲۵کہ ہم ہی نے (بادل سے ) پانی برسایا
۲۶پھر ہم ہی نے زمین سے (درخت اُگا کر) چیرا پھاڑا
۲۷پھر ہم نے اس میں اناج اُگایا
۲۸اور انگور اور ترکاریاں
۲۹اور زیتون اور کھجوریں
۳۰اور گھنے گھنے باغ
۳۱اور میوے اور چارا
۳۲(یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چار پایوں کے فائدے کے لیے (بنایا)
۳۳تو جب کانوں کے پردے پھاڑنے والی (قیامت) آ موجود ہو گی۔
۳۴ اُس دن آدمی اپنے بھائی
۳۵اور اپنی ماں اور اپنے باپ
۳۶اور اپنے لڑکے بالوں سے بھاگے گا۔
۳۷اس دن ہر شخص (اپنی نجات کی) ایسی فکر میں ہو گا جو اس کے (مشغول ہونے کے ) لیے کافی ہو۔
۳۸بہت سے چہرے تو اس دن چمکتے ہوں گے
۳۹خنداں شادمان (یہی نیکو کار ہیں )
۴۰اور بہت سے چہرے ایسے ہوں گے جن پر گرد پڑی ہو گی
٭٭٭
۸۱۔ سورۃ تکویر
۴۱ اس پر سیاہی چھائی ہوئی ہو گی۔
۴۲یہی کفّار بدکار ہیں۔
۱جس وقت آفتاب (کی چادر کو) لپیٹ لیا جائے گا
۲اور جس وقت تارے گر پڑیں گے
۳اور پہاڑ چلائے جائیں گے
۴اور جب عنقریب جننے والی اونٹنیاں بے کار کر دی جائیں گی
۵اور جس وقت وحشی جانور اکٹھے کیے جائیں گے
۶اور جس وقت دریا آگ ہو جائیں گے
۷اور جس وقت روحیں (ہڈیوں سے ) ملا دی جائیں گی
۸اور جس وقت زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے گا
۹کہ کس گناہ کے بدلے ماری گئی
۱۰اور جس وقت (اعمال کے ) دفتر کھولے جائیں گے
۱۱اور جس وقت آسمان کا چھلکا اتارا جائے گا
۱۲اور جب دوزخ (کی آگ) بھڑکائی جائے گی
۱۳اور جب بہشت قریب کر دی جائے گی
۱۴ تب ہر شخص معلوم کرے گا کہ وہ کیا (اعمال) لے کر آیا۔
۱۵تو مجھے ان ستاروں کی قسم جو چلتے چلتے پیچھے ہٹ جاتے
۱۶اور غائب ہو جاتے ہیں
۱۷اور رات کی قسم جب ختم ہونے کو آئے
۱۸ اور صبح کی قسم جب روشن ہو جائے
۱۹کہ بے شک یہ (قرآن) ایک معزّز فرشتہ (جبرئیلؑ ) کی زبان کا پیغام ہے
۲۰جو بڑا قوی عرش کے مالک کی بارگاہ میں بلند رُتبہ ہے
۲۱وہاں (سب فرشتوں کا) سردار امانتدار ہے
۲۲اور (اے مکّے والو) تمہارے ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) دیوانے نہیں ہیں
۲۳اور بے شک انہوں نے جبرئیلؑ کو (آسمان کے ) کھلے (شرقی) کنارے پر دیکھا ہے
۲۴اور وہ غیب کی باتوں کے ظاہر کرنے میں بخیل نہیں
۲۵اور نہ یہ مردود شیطان کا قول ہے
۲۶پھر تم کدھر چلے جا رہے ہو۔
۲۷یہ سارے جہاں کے لوگوں کے لئے بس نصیحت ہے
۲۸(مگر) اسی کے لیے جو تم میں سیدھی راہ چلے۔
۲۹اور تم کچھ چاہتے ہی نہیں مگر وہی جو سارے جہانوں کا پالنے والا خدا چاہتا ہے۔
٭٭٭
۸۲۔ سورۃ انفطار
۱جب آسمان پھٹ جائے گا
۲اور جب تارے جھڑ پڑیں گے
۳اور جب دریا بہہ (کر ایک دوسرے سے مل) جائیں گے
۴اور جب قبریں اکھیڑ دی جائیں گی
۵تب ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا تھا اور پیچھے کیا چھوڑا تھا۔
۶اے انسان تجھے اپنے کریم پروردگار کے بارے میں کس چیز نے دھوکا دیا
۷ جس نے تجھے پیدا کیا تو تجھے درست بنایا اور مناسب اعضا دیئے
۸اور جس صورت میں اس نے چاہا تیرے جوڑ بند ملائے۔
۹ہاں بات یہ ہے کہ تم لوگ جزا (کے دن) کو جھٹلاتے ہو
۱۰حالانکہ تم پر نگہبان مقرر ہیں
۱۱بزرگ (فرشتے سب باتوں کے ) لکھنے والے (کراماً کاتبین)
۱۲جو کچھ تم کرتے ہو وہ سب جانتے ہیں۔
۱۳بے شک نیکوکار (بہشت کی) نعمتوں میں ہوں گے
۱۴اور بدکار لوگ یقیناً جہنم میں
۱۵جزا کے دن اسی میں جھونکے جائیں گے
۱۶اور وہ لوگ اس سے چھُپ نہ سکیں گے۔
۱۷اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا ہے۔
۱۸پھر تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا چیز ہے۔
۱۹اس دن کوئی شخص کسی شخص کی بھلائی نہ کرسکے گا اور اس دن حکم صرف خدا ہی کا ہو گا۔
٭٭٭
۸۳۔ سورۃ مُطفِّفیِن
۱ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی خرابی ہے
۲جو اوروں سے ناپ کر لیں تو پورا پورا لیں
۳اور جب ان کو ناپ یا تول کر دیں تو کم دیں
۴کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں خیال کرتے
۵کہ ایک بڑے (سخت) دن (قیامت) میں اٹھائے جائیں گے
۶جس دن تمام لوگ سارے جہاں کے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
۷ سُن رکھو کہ بدکاروں کے نامہ ہائے اعمال سجّین میں ہیں۔
۸اور تم کو کیا معلوم کہ سجّین کیا چیز ہے۔
۹ایک لکھا ہوا دفتر ہے (جس میں شیاطین کے اعمال درج ہیں )
۱۰ اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے
۱۱جو لوگ روز جزا کو جھٹلاتے ہیں
۱۲حالانکہ اس کو حد سے نکل جانے والے گنہگار کے سوا کوئی نہیں جھٹلاتا۔
۱۳جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں۔
۱۴نہیں نہیں بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو اعمال (بد) کرتے ہیں ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے۔
۱۵بے شک یہ لوگ اس دن اپنے پروردگار کی رحمت سے روک دیئے جائیں گے۔
۱۶پھر یہ لوگ ضرور جہنم واصل ہوں گے۔
۱۷پھر (اُن سے ) کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز تو ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔
۱۸(یہ بھی) سن رکھو کہ نیکوں کے نامہ ہائے اعمال عِلّیّین میں ہوں گے۔
۱۹اور تم کو کیا معلوم کہ عِلّیّین کیا ہے۔
۲۰وہ ایک لکھا ہوا دفتر ہے (جس میں نیکوں کے اعمال درج ہیں )
۲۱اس کے پاس مقرب (فرشتے ) حاضر ہیں۔
۲۲بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے
۲۳ تختوں پر بیٹھے نظارے کریں گے
۲۴تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کر لو گے۔
۲۵ان کو سربمہر خالص شراب پلائی جائے گی
۲۶جس کی مہر مشک کی ہو گی اور اس کی طرف البتہ شائقین کو رغبت کرنی چاہیے۔
۲۷اور اس (شراب) میں تسنیم (کے پانی) کی آمیزش ہو گی
۲۸وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے مقربین پئیں گے۔
۲۹بے شک جو گنہگار مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے
۳۰اور جب ان کے پاس گزرتے تو ان پر چشمک کرتے تھے
۳۱اور جب اپنے لڑکے بالوں کی طرف لوٹ کر آتے تھے تو اتراتے ہوئے
۳۲اور جب ان (مومنین) کو دیکھتے تو کہہ بیٹھتے تھے کہ یہ تو یقینی گمراہ ہیں
۳۳حالانکہ یہ لوگ ان پر کچھ نگران بنا کر تو بھیجے نہیں گئے تھے۔
۳۴تو آج (قیامت میں ) ایماندار لوگ کافروں سے ہنسی کریں گے
۳۵ (اور) تختوں پر بیٹھے نظارہ کریں گے
۳۶کہ اب تو کافروں کو ان کے کیے کا پورا پورا بدلا مل گیا۔
٭٭٭
۸۴۔ سورۃ اِنشِقاق
۱جب آسمان پھٹ جائے گا
۲اور اپنے پروردگار کا حکم بجا لائے گا اور اسے واجب بھی یہی ہے
۳ اور جب زمین (برابر کر کے ) تان دی جائے گی۔
۴اور جو کچھ اس میں ہے اگل دے گی اور بالکل خالی ہو جائے گی
۵اور اپنے پروردگار کا حکم بجا لائے گی اور اس پر لازم بھی یہی ہے۔ (تو قیامت آ جائے گی)
۶اے انسان تو اپنے پروردگار کی حضوری کی کوشش کرتا ہے تو تُو (ایک نہ ایک دن) اس کے سامنے حاضر ہو گا۔
۷پھر (اُس دن) جس کا نامہ عمل اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا
۸اس سے تو حساب آسان طریقہ سے لیا جائے گا
۹اور (پھر) وہ اپنے (مومنین کے ) قبیلہ کی طرف خوش خوش پلٹے گا۔
۱۰لیکن جس شخص کو اس کا نامۂ عمل اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا
۱۱وہ تو موت کی دعا کرے گا
۱۲اور جہنم واصل ہو گا۔
۱۳یہ شخص تو اپنے لڑکے بالوں میں مست رہتا تھا۔
۱۴اور سمجھتا تھا کہ کبھی (خدا کی طرف) پھر کر جائے گا ہی نہیں۔
۱۵ہاں ! اس کا پروردگار یقینی اس کو دیکھ (بھال کر) رہا ہے۔
۱۶تو مجھے شام کی سُرخی کی قسم
۱۷اور رات کی اور ان چیزوں کی جنہیں یہ ڈھانک لیتی ہے
۱۸اور چاند کی جب پورا ہو جائے
۱۹کہ تم لوگ ضرور ایک سختی کے بعد دوسری سختی میں پھنسو گے۔
۲۰تو ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے
۲۱اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو (خدا کا) سجدہ نہیں کرتے۔
۲۲بلکہ کافر لوگ تو اور اسے جھٹلاتے ہیں
۲۳اور جو باتیں یہ لوگ اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں خدا تو اسے خوب جانتا ہے
۲۴تو (اے رسولؐ) انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو
۲۵ مگر جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اچھے کام کیے ان کے لیے بے انتہا اجر (و ثواب) ہے۔
٭٭٭
۸۵۔ سورۃ بروج
۱بُرجوں والے آسمان کی قسم
۲اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے
۳اور گواہ کی اور جس کی گواہی دی جائے گی
۴اس کی (کہ کفّار مکّہ ہلاک ہوئے ) جس طرح خندق والے ہلاک کر دیئے گئے
۵جو خندقیں آگ کی تھیں جس میں (انہوں نے مسلمانوں کے لیے ) ایندھن جھونک رکھا تھا
۶جب وہ اُن (خندقوں ) پر بیٹھے ہوئے
۷اور جو سلوک ایمانداروں کے ساتھ کرتے تھے اس کو سامنے دیکھ رہے تھے۔
۸اور ان کو مومنین کی یہی بات بُری معلوم ہوئی کہ وہ لوگ خدا پر ایمان لائے تھے جو زبردست (اور) سزاوار حمد ہے
۹وہ (خدا) جس کی سارے آسمانوں اور زمین میں بادشاہت ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے۔
۱۰بے شک جن لوگوں نے ایماندار مردوں اور عورتوں کو تکلیفیں دیں پھر توبہ نہ کی ان کے لئے جہنم کا عذاب تو ہے ہی (اس کے علاوہ) جلنے کا بھی عذاب ہو گا۔
۱۱ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرتے رہے ان کے لیے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
۱۲بے شک تمہارے پروردگار کی پکڑ بہت سخت ہے۔
ً۱۳وہ پہلی دفعہ پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ (قیامت میں زندہ) کرے گا۔
۱۴اور وہی بڑا بخشنے والا محبت کرنے والا ہے
۱۵عرش کا مالک بڑا عالی شان ہے
۱۶جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
۱۷ کیا تمہارے پاس لشکروں کی خبر پہنچی ہے
۱۸(یعنی) فرعون و ثمود کی (ضرور پہنچی ہے )
۱۹مگر کفّار تو جھٹلانے ہی (کی فکر) میں ہیں۔
۲۰اور خدا ان کو پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے
۲۱(یہ جھٹلانے کے قابل نہیں ) بلکہ یہ تو قرآن مجید ہے
۲۲ جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔
٭٭٭
۸۶۔ سورۃ الطارق
۱آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم
۲اور تم کو کیا معلوم کہ رات کو آنے والا کیا ہے
۳(وہ) چمکتا ہوا تارا ہے
۴(اس بات کی قسم) کہ کوئی شخص ایسا نہیں جس پر نگہبان مقرر نہیں
۵تو انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے۔
۶ وہ اُچھلتے ہوئے پانی (منی) سے پیدا ہوا ہے
۷جو پشت اور سینے کی ہڈیوں کے بیچ میں سے نکلتا ہے۔
۸بے شک خدا اس کے دوبارہ (پیدا) کرنے پر ضرور قدرت رکھتا ہے۔
۹جس دن دلوں کے بھید جانچے جائیں گے
۱۰تو (اس دن) اس کا نہ کچھ زور چلے گا اور نہ کوئی مددگار ہو گا۔
۱۱چکر (کھانے ) والے آسمان کی قسم
۱۲اور پھٹنے والی زمین کی قسم
۱۳بے شک یہ قرآن قول فیصل ہے
۱۴اور لغو نہیں ہے۔
۱۵بے شک یہ کفّار اپنی تدبیر کر رہے ہیں
۱۶اور میں اپنی تدبیر کر رہا ہوں۔
۱۷ تو کافروں کو مہلت دو بس ان کو تھوڑی سی مہلت دو۔
٭٭٭
۸۷۔ سورۃ اعلیٰ
۱(اے رسولؐ) اپنے عالی شان پروردگار کے نام کی تسبیح کرو
۲جس نے (ہر چیز) کو پیدا کیا اور درست کیا
۳اور جس نے (اس کا) اندازہ مقرر کیا پھر راہ بتائی
۴اور جس نے (حیوانات کے لیے ) چارہ اگایا
۵پھر اُسے خشک سیاہ رنگ کا کوڑا کر دیا۔
۶ہم تمہیں (ایسا) پڑھا دیں گے کہ کبھی بھولو ہی نہیں۔
۷مگر جو خدا چاہے (منسوخ کر دے ) بے شک وہ کھلی بات کو بھی جانتا ہے اور چھپے ہوئے کو بھی
۸اور ہم تم کو آسان طریقہ کی توفیق دیں گے
۹تو جہاں تک سمجھانا مفید ہو سمجھاتے رہو۔
۱۰جو خوف رکھتا ہو وہ تو فوری سمجھ جائے گا
۱۱ اور بدبخت اس سے پہلوتہی کرے گا
۱۲جو (قیامت میں ) بڑی (تیز) آگ میں داخل ہو گا
۱۳پھر نہ وہاں مرے ہی گانہ جیئے گا۔
۱۴وہ یقیناً دلی مراد کو پہنچا جو (شرک سے ) پاک ہوا
۱۵اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتا اور نماز پڑھتا رہا۔
۱۶مگر تم لوگ تو دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو
۱۷حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور دیرپا ہے۔
۱۸بے شک یہی بات اگلے صحیفوں
۱۹ابراہیمؑ اور موسٰیؑ کے صحیفوں میں بھی ہے۔
٭٭٭
۸۸۔ سورۃ غاشیہ
۱بھلا تم کو ڈھانپ لینے والی مصیبت (قیامت) کا حال معلوم ہوا ہے
۲اس دن بہت سے چہرے ذلیل و رسوا ہوں گے
۳(طوق و زنجیر سے ) مشقت کرنے والے تھکے ماندے
۴دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے
۵ انہیں ایک کھولتے ہوئے چشمہ کا پانی پلایا جائے گا۔
۶خاردار جھاڑی کے سوا ان کے لیے کوئی کھانا نہیں
۷جو نہ موٹائی پیدا کرے نہ بھوک میں کچھ کام آئے گا۔
۸(اور) بہت سے چہرے اس دن تر و تازہ ہوں گے
۹اپنی کوشش (کے نتیجہ) پر شادمان
۱۰ایک عالی شان باغ میں
۱۱کوئی لغو بات سنیں گے ہی نہیں۔
۱۲اس میں چشمے جاری ہوں گے۔
۱۳اس میں اونچے (اونچے ) تخت بچھے ہوں گے
۱۴اور (ان کے کنارے ) گلاس رکھے ہوں گے
۱۵اور گاؤ تکیے قطار کی قطار لگے ہوئے
۱۶اور نفیس مسندیں بچھی ہوئیں۔
۱۷ تو کیا یہ لوگ اونٹ کی طرف غور نہیں کرتے کہ کیسا (عجیب) پیدا کیا گیا ہے۔
۱۸اور آسمان کی طرف کہ کیسا بلند بنایا گیا ہے۔
۱۹اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کیے گئے ہیں۔
۲۰اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی ہے۔
۲۱تو تم نصیحت کرتے رہو۔ تم تو بس نصیحت کرنے والے ہو۔
۲۲تم کچھ ان پر داروغہ تو ہو نہیں
۲۳ہاں جس نے منہ پھیر لیا اور نہ مانا
۲۴تو خدا اس کو بہت بڑے عذاب کی سزا دے گا۔
۲۵بے شک ان کو ہماری طرف لوٹا کر آنا ہے
۲۶ پھر ان کا حساب ہمارے ذمّہ ہے۔
٭٭٭
۸۹۔ سورۃ فجر
۱صبح کی قسم
۲اور دس راتوں کی
۳اور جفت و طاق کی
۴اور رات کو جب آنے لگے۔
۵عقلمند کے واسطے تو یہ ضرور بڑی قسم ہے (کہ کفّار پر ضرور عذاب ہو گا)۔
۶کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا کیا
۷ یعنی ارم والے دراز قد
۸جن کا مثل تمام (دنیا کے شہروں میں کوئی پیدا ہی نہیں کیا گیا
۹اور ثمود کے ساتھ (کیا کیا) جو وادی (قری) میں پتھر تراش (کر گھر بناتے ) تھے
۱۰اور فرعون کے ساتھ (کیا کیا) جو سزا کے لیے میخیں رکھتا تھا
۱۱ یہ لوگ (مختلف) شہروں میں سرکش ہو رہے تھے
۱۲اور ان میں بہت سے فساد پھیلا رہے تھے
۱۳تو تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا لگا دیا
۱۴بے شک تمہارا پروردگار تاک میں ہے۔
۱۵لیکن انسان جب اس کو اس کا پروردگار (اس طرح) آزماتا ہے کہ اس کو عزت اور نعمت دیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے پروردگار نے مجھے عزت دی ہے
۱۶ مگر جب اس کو (اس طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی کو تنگ کر دیتا ہے تو وہ بول اٹھتا ہے کہ میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا۔
۱۷ہرگز نہیں بلکہ تم لوگ نہ یتیم کی خاطر داری کرتے ہو
۱۸اور نہ محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو
۱۹اور میراث کے مال (حلال و حرام) کو سمیٹ کر ہڑپ جاتے ہو
۲۰اور مال کو بہت عزیز رکھتے ہو۔
۲۱سن رکھو کہ جب زمین کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کر دی جائے گی
۲۲اور تمہارے پروردگار کا حکم اور فرشتے قطار کی قطار آ جائیں گے۔
۲۳اور اس دن جہنم سامنے کر دی جائے گی اس دن انسان چونکے گا مگر اب چونکنا کہاں (فائدہ دے گا)۔
۲۴اس وقت کہے گا کہ کاش میں نے اپنی (اس) زندگی کے واسطے کچھ پہلے بھیجا ہوتا۔
۲۵تو اُس دن خدا ایسا عذاب کرے گا کہ کسی نے ویسا عذاب نہ کیا ہو گا
۲۶اور نہ کوئی اس کے جکڑنے کی طرح جکڑے گا
۲۷ (اور کچھ لوگوں سے کہے گا) اے اطمینان پانے والی جان
۲۸اپنے پروردگار کی طرف چل تو اس سے خوش وہ تجھ سے راضی۔
۲۹ تُو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہو جا
۳۰اور میرے بہشت میں داخل ہو جا۔
٭٭٭
۹۰۔ سورۃ بلد
۱مجھے اس شہر (مکّہ) کی قسم
۲اور تم اسی شہر میں تو رہتے ہو
۳اور تمہارے باپ (آدمؑ ) اور اس کی اولاد کی قسم
۴کہ ہم نے انسان کو مشقت میں (رہنے والا) پیدا کیا ہے۔
۵کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا۔
۶وہ کہتا ہے کہ میں نے الغاروں مال اڑا دیا۔
۷کیا وہ یہ خیال رکھتا ہے کہ اُس کو کسی نے دیکھا ہی نہیں۔
۸کیا ہم نے اس کو دونوں آنکھیں اور زبان
۹اور دونوں لب نہیں دیئے (ضرور دیئے )
۱۰اور اس کو (اچھی بُری) دونوں راہیں بھی دکھا دیں۔
۱۱پھر وہ گھاٹی پر سے ہو کر (کیوں ) نہیں گزرا
۱۲اور تم کو کیا معلوم کہ گھاٹی کیا ہے۔
۱۳کسی (کی) گردن کا (غلامی یا قرض سے ) چھڑانا
۱۴یا بھوک کے دن
۱۵یتیم رشتہ دار
۱۶یا خاکسار محتاج کو کھانا کھلانا
۱۷پھر تو ان لوگو میں (شامل) ہو جاتا جو ایمان لائے اور صبر کی نصیحت اور ترس کھانے کی وصیت کرتے رہے۔
۱۸یہی لوگ خوش نصیب ہیں۔
۱۹اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا ہے یہی لوگ بدبخت ہیں
۲۰کہ ان کو آگ میں ڈال کر آگ ہر طرف سے بند کر دی جائے گی۔
٭٭٭
۹۱۔ سورۃ شمس
۱سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی
۲اور چاند کی جب اس کے پیچھے نکلے
۳اور دن کی جب اسے چمکا دے
۴اور رات کی جب اسے ڈھانک لے
۵اور آسمان کی جس نے اُسے بنایا
۶اور زمین کی اور جس نے اُسے بچھایا
۷ اور جان کی اور جس نے اُسے دُرست کیا
۸پھر اس کی بدکاری اور پرہیزگاری کو اسے سمجھا دیا
۹(قسم ہے ) جس نے اس (جان) کو گناہ سے ) پاک رکھا وہ تو کامیاب ہوا
۱۰اور جس نے اسے (گناہ کر کے ) دبا دیا وہ نامراد رہا۔
۱۱قوم ثمود نے اپنی سرکشی سے (صالح ؑ پیغمبر کو) جھٹلایا
۱۲جب ان میں ایک بڑا بدبخت اُٹھ کھڑا ہوا
۱۳تو خدا کے رسول (صالحؑ ) نے ان سے کہا کہ خدا کی اونٹنی اور اس کے پانی پینے (سے تعرض نہ کرنا)۔
۱۴مگر ان لوگوں نے پیغمبرؑ کو جھٹلایا اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو خدا نے ان کے گناہ کے سبب سے ان پر عذاب نازل کیا پھر (ہلاک کر کے ) برابر کر دیا
۱۵ اور اس کو ان کے بدلے کا کوئی خوف تو ہے نہیں۔
٭٭٭
۹۲۔ سورۃ لیل
۱رات کی قسم جب (سورج کو) چھپا لے
۲اور دن کی جب خوب روشن ہو
۳اور اس (ذات) کی جس نے نر و مادہ کو پیدا کیا
۴کہ بے شک تمہاری کوشش طرح طرح کی ہے۔
۵تو جس نے سخاوت کی اور پرہیزگاری برتی
۶اور اچھی بات (اسلام) کی تصدیق کی
۷تو ہم اس کے لیے راحت و آسانی (جنت) کے اسباب مہیا کریں گے
۸اور جس نے بُخل کیا اور بے پروائی کی۔
۹اور اچھی بات کو جھٹلایا
۱۰تو ہم اسے (جہنم کی) سختی میں پہنچا دیں گے۔
۱۱اور جب وہ ہلاک ہو گا تو اس کا مال اس کے کچھ بھی کام نہ آئے گا۔
۱۲ہمیں راہ دکھا دینا ضروری ہے
۱۳اور آخرت اور دنیا (دونوں ) خاص ہماری چیز ہے
۱۴ تو ہم نے تمہیں بھڑکتی ہوئی آگ سے ڈرا دیا۔
۱۵اس میں بس وہی داخل ہو گا جو بڑا بدبخت ہے
۱۶ جس نے جھٹلایا اور منہ پھیر لیا۔
۱۷اور جو بڑا پرہیزگار ہے وہ اس سے بچا لیا جائے گا
۱۸جو اپنا مال (خدا کی راہ) میں دیتا ہے تاکہ پاک ہو جائے۔
۱۹اور (لطف یہ ہے کہ) کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں جس کا اُسے بدلہ دیا جاتا ہو
۲۰بلکہ (وہ تو) صرف اپنے عالی شان پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے۔
۲۱ اور وہ عنقریب ہی خوش ہو جائے گا۔
٭٭٭
۹۳۔ سورۃ ضحیٰ
۱(اے رسولؐ) پہر دن چڑھنے کی قسم
۲ اور رات کی جب (چیزوں کو) چھپا لے
۳کہ تمہارا پروردگار نہ تم کو چھوڑ بیٹھا اور نہ (تم سے )ناراض ہوا
۴اور تمہارے واسطے آخرت دنیا سے یقینی کہیں بہتر ہے۔
۵اور تمہارا پروردگار عنقریب اس قدر عطا کرے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے
۶کیا اُس نے تمہیں یتیم پا کر (ابوطالب کی) پناہ نہیں دی (ضرور دی)
۷اور تم کو (اپنی قوم میں ) غیر معروف پایا تو (تمہاری معرفت کی طرف سب کی) رہبری کی۔
۸اور تم کو تنگدست دیکھ کر مستغنی کر دیا۔
۹تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا۔
۱۰اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا۔
۱۱اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا ذکر کرتے رہنا۔
٭٭٭
۹۴۔ سورۃ الم نشرح
۱(اے رسولؐ) کیا ہم نے آپؐ کا سینہ (علم سے ) کشادہ نہیں کیا (ضرور کیا)
۲اور آپؐ پر سے وہ بوجھ اُتار دیا۔
۳جس نے آپ کی کمر توڑ رکھی تھی۔
۴ اور آپ کا ذکر بھی بلند کر دیا۔
۵تو (ہاں ) مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔
۶(اور) بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
۷تو اب جب کہ تم (تبلیغ کے اکثر کاموں سے ) فارغ ہو چکے تو (اپنا جانشین) مقرر کر دو
۸اور بارگاہ احدیت میں (حاضر ہونے کی طرف) راغب ہو جاؤ۔
۱٭٭٭
۹۵۔ سورۃ التین
انجیر اور زیتون کی قسم۔
۲اور طور سینین کی۔
۳اور اس امن والے شہر (مکّہ) کی۔
۴کہ ہم نے انسان کو بہت اچھے کینڈے کا پیدا کیا۔
۵پھر ہم نے اسے (بوڑھا کر کے ) رفتہ رفتہ پست سے پست حالت کی طرف پھیر دیا۔
۶مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھے (اچھے ) کام کرتے رہے ان کے لیے بے انتہا اجر و ثواب ہے۔
۷تو (اے رسولؐ) ان دلیلوں کے بعد تم کو روز جزا کے بارے میں کون جھٹلا سکتا ہے۔
۸کیا خدا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے (ہاں ضرور ہے )۔
٭٭٭
۹۶۔ سورۃ علق
۱(اے رسولؐ) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (ہر چیز) کو پیدا کیا۔
۲اسی نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔
۳پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے۔
۴جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔
۵اسی نے انسان کو وہ باتیں بتائیں جن کو وہ کچھ جانتا ہی نہ تھا۔
۶ سُن رکھو بے شک انسان جب اپنے کو غنی دیکھتا ہے۔
۷تو سرکش ہو جاتا ہے۔
۸بے شک تمہارے پروردگار کی طرف (سب کو) پلٹنا ہے۔
۹بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا۔
۱۰جو ایک بندے کو جب نماز پڑھتا ہے تو وہ روکتا ہے۔
۱۱بھلا دیکھو تو کہ اگر یہ راہ راست پر ہو۔
۱۲یا پرہیزگاری کا حکم کرے تو (روکنا کیا)۔
۱۳ بھلا دیکھو تو کہ اگر اس نے (سچّے کو) جھٹلایا اور (اس نے ) منہ پھیرا (تو نتیجہ کیا ہو گا)۔
۱۴کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ خدا یقیناً دیکھ رہا ہے۔
۱۵دیکھو اگر وہ باز نہ آئے گا تو ہم پیشانی کے پٹے پکڑ کر گھسیٹیں گے۔
۱۶جھوٹے خطا وار کی پیشانی کے پٹے۔
۱۷تو وہ اپنے یاران جلسہ کو بلائے۔
۱۸ہم بھی جلّاد فرشتوں کو بلائیں گے۔
۱۹(اے رسولؐ) دیکھو ہرگز اس کا کہنا نہ ماننا اور سجدے کرتے رہو اور قرب حاصل کرو۔
۱٭٭٭
۹۷۔ سورۃ قدر
ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل (کرنا شروع) کیا۔
۲اور تم کو کیا معلوم شب قدر کیا ہے۔
۳شب قدر (مرتبہ اور عمل میں ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
۴اس (رات) میں اپنے پروردگار کی طرف سے (سال بھر کی) ہر بات کا حکم لے کر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور روح (امری) آتی ہے۔
۵یہ رات صبح کے طلوع ہونے تک (ازسرتاپا) سلامتی ہے۔
٭٭٭
۹۸۔ سورۃ بیّنۃ
۱اہل کتاب اور مشرکوں سے جو لوگ کافر تھے جب تک کہ ان کے پاس کھلی ہوئی دلیل نہ پہنچے وہ (اپنے کفر سے ) باز آنے والے نہ تھے۔
۲(یعنی) خدا کے رسولؐ جو پاک اوراق پڑھتے ہیں (آئیں )۔
۳)اور) ان میں (جو) پر زور اور دُرست باتیں لکھی ہیں (سنائیں )۔
۴اور اہل کتاب متفرق ہوئے بھی تو جب ان کے پاس کھلی دلیل آ چکی۔
۵(تب) اور انہیں تو بس یہ حکم دیا گیا تھا کہ نرا کھرا اُسی کا اعتقاد رکھ کے باطل سے کترا کے خدا کی عبادت کریں اور پابندی سے نماز پڑھیں اور زکوٰۃ ادا کرتے رہیں اور یہی سچّا دین ہے۔
۶بے شک اہل کتاب اور مشرکین سے جو لوگ (اب تک) کافر ہیں وہ دوزخ کی آگ میں (ہوں گے اور ) ہمیشہ اسی میں رہیں گے یہی لوگ بدترین خلائق ہیں۔
۷بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے رہے یہی لوگ بہترین خلائق ہیں۔
۸ان کی جزا ان کے پروردگار کے ہاں ہمیشہ رہنے (سہنے ) کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ابد الآباد ہمیشہ اسی میں رہیں گے خدا ان سے راضی اور وہ خدا سے خوش۔ یہ جزا خاص اس شخص کی ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرے۔
٭٭٭
۹۹۔ سورۃ زلزال
۱جب زمین بڑے زوروں کے ساتھ زلزلہ میں آ جائے گی۔
۲اور زمین اپنے اندر کے بوجھے (معدنیات، مردے وغیرہ) نکال باہر کرے گی
۳اور ایک انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہو گیا ہے۔
۴اس روز وہ اپنے سب حالات بیان کر دے گی۔
۵کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کو حکم دیا ہو گا۔
۶اس دن لوگ گروہ گروہ (اپنی قبروں سے ) نکلیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھیں۔
۷تو جس شخص نے ذرّہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا۔
۸اور جس شخص نے ذرّہ برابر بدی کی ہے تو اُسے دیکھ لے گا۔
٭٭٭
۱۰۰۔ سورۃ عادیات
۱(غازیوں کے ) سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم جو نتھنوں سے فراٹے لیتے ہیں۔
۲پھر پتھر پر ٹاپ مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔
۳پھر صبح کو چھاپا مارتے ہیں۔
۴تو (دھوڑ دھوپ سے ) غبار بلند کر دیتے ہیں۔
۵پھر اس وقت (دشمن کے ) دل میں گھس جاتے ہیں۔
۶(غرض قسم ہے ) کہ بے شک انسان اپنے پروردگار کا ناشکرا ہے۔
۷اور وہ یقینی خود بھی اس سے واقف ہے۔
۸اور بے شک وہ مال کا سخت حریص ہے۔
۹تو کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ جب مُردے قبروں سے نکالے جائیں گے۔
۱۰اور دلوں کے بھید ظاہر کر دیئے جائیں گے۔
۱۱بے شک اس دن ان کا پروردگار ان سے خوب واقف ہو گا۔
٭٭٭
۱۰۱۔ سورۃ قارعہ
۱کھڑ کھڑانے والی۔
۲وہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے۔
۳اور تم کو کیا معلوم کہ وہ کھڑ کھڑانے والی کیا ہے۔
۴جس دن لوگ (میدانِ حشر میں ) ٹڈیوں کی طرح پھیلے ہوں گے۔
۵اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کے سے ہو جائیں گے۔
۶تو جس کے (نیک اعمال کا) پلہ بھاری ہو گا۔
۷وہ من بھاتے عیش میں ہو گا۔
۸اور جس کے (نیک اعمال کا) پلہ ہلکا ہو گا۔
۹تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہے۔
۱۰اور تم کو کیا معلوم ہاویہ کیا ہے۔
٭٭٭
۱۰۲۔ سورۃ تکاثر
۱۱ دہکتی ہوئی آگ ہے۔
۱نسل و مال کی بہتات نے تم لوگوں کو غافل بنا رکھا ہے۔
۲یہاں تک کہ تم لوگوں نے قبریں دیکھیں (مر گئے )
۳دیکھو تمہیں عنقریب ہی معلوم ہو جائے گا۔
۴پھر دیکھو تمہیں عنقریب ہی معلوم ہو جائے گا۔
۵دیکھو اگر تم کو یقینی طور پر معلوم ہوتا (تو ہرگز غافل نہ ہوتے )
۶تم لوگ ضرور دوزخ کو دیکھو گے۔
۷پھر تم لوگ یقینی دیکھنا۔
۸پھر تم سے اُس دن نعمتوں کے بارے میں ضرور باز پُرس کی جائے گی۔
٭٭٭
۱۰۳۔ سورۃ العصر
۱(نماز) عصر کی قسم۔
۲بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔
۳مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کرتے رہے اور آپس میں حق کا حکم اور صبر کی وصیت کرتے رہے۔
٭٭٭
۱۰۴۔ سورۃ ہمزہ
۱ہر طعنہ دینے والے چغل خور کی خرابی ہے۔
۲جو مال کو جمع کرتا ہے اور گن گن کر رکھتا ہے۔
۳وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ باقی رکھے گا۔
۴ ہرگز نہیں وہ تو ضرور حطمہ میں ڈالا جائے گا۔
۵اور تم کو کیا معلوم حطمہ کیا ہے۔
۶ وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔
۷جو (تلوے سے لگی تو) دلوں تک چڑھ جائے گی۔
۸یہ لوگ آگ کے لمبے لمبے ستونوں میں ڈال کر۔
۹ بند کر دیئے جائیں گے۔
٭٭٭
۱۰۵۔ سورۃ فیل
۱(اے رسولؐ) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا۔
۲کیا اس نے ان کی تمام تدبیریں غلط نہیں کر دیں (ضرور)
۳اور ان پر جھنڈ کی جھنڈ چڑیاں بھیجیں۔
۴جو ان پر کھرنجوں کی کنکریاں پھینکتی تھیں۔
۵تو انہیں چبائے ہوئے بھُس کی طرح (تباہ) کر دیا۔
٭٭٭
۱۰۶۔ سورۃ قریش
۱چونکہ قریش کو۔
۲جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کر دیا ہے۔
۳تو ان کو (مانوس کر دینے کی وجہ سے ) اس گھر (کعبہ) کے مالک کی عبادت کرنی چاہیے۔
۴جس نے ان کو بھوک میں کھانا دیا اور ان کو خوف سے امن عطا فرمایا۔
٭٭٭
۱۰۷۔ سورۃ ماعون
۱کیا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جو روزِ جزا کو جھٹلاتا ہے۔
۲یہ تو وہی (کم بخت) ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔
۳اور محتاجوں کو کھلانے کے لیے (لوگوں کو) آمادہ نہیں کرتا۔
۴تو ان نمازیوں کی تباہی ہے۔
۵جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں۔
۶جو دکھانے کے واسطے نماز پڑھتے ہیں۔
۷اور روزمرہ کی معمولی چیزیں بھی عاریتاً نہیں دیتے۔
٭٭٭
۱۰۸۔ سورۃ کوثر
۱(اے رسُولؐ) ہم نے تم کو کوثر عطا کیا۔
۲تو تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو
۳بے شک تمہارا دشمن بے اولاد رہے گا۔
٭٭٭
۱۰۹۔ سورۃ کافرون
۱(اے رسُولؐ) تم کہہ دو کہ اے کافرو
۲تم جن چیزوں کو پوجتے ہو میں ان کو نہیں پوجتا
۳اور جس (خدا) کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم عبادت نہیں کرتے۔
۴اور جنہیں تم پوجتے ہو میں اُن کا پوجنے والا نہیں
۵اور جس کی میں عبادت کرتا ہوں تم اس کی عبادت کرنے والے نہیں۔
۶تمہارے لئے اپنا دین ہے میرے لئے میرا دین۔
٭٭٭
۱۱۰۔ سورۃ النصر
۱(اے رسولؐ) جب خدا کی مدد آ پہنچے گی اور فتح (مکّہ) ہو جائے گی
۲اور تم لوگوں کو دیکھو گے کہ غول کے غول خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں
۳تو تم اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرنا اور اسی سے مغفرت کی دعا مانگنا وہ بے شک بڑا معاف کرنے والا ہے۔
٭٭٭
۱۱۱۔ سورۃ لہب
۱ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور خود ستیاناس ہو جائے
۲(آخر) نہ اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا اور نہ جو اس نے کمایا۔
۳ وہ بہت بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا
۴اور اس کی جورو بھی جو سر پر ایندھن اٹھائے پھرتی ہے
۵اور اس کے گلے میں بٹی ہوئی رسی (بندھی) ہے۔
٭٭٭
۱۱۲۔ سورۃ اخلاص
۱(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ خدا ایک ہے۔
۲خدا برحق بے نیاز ہے۔
۳نہ اس نے کسی کو جنا نہ اس کو کسی نے جنا
۴اور اس کا کوئی ہم سر نہیں۔
٭٭٭
۱۱۳۔ سورۃ فلق
۱(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں صبح کے مالک کی
۲ہر چیز کی بُرائی سے جو اس نے پیدا کی پناہ مانگتا ہوں
۳اور اندھیری رات کی برائی سے جب اس کا اندھیرا چھا جائے
۴اور گنڈوں پر پھونکنے والیوں کی برائی سے (جب پھونکے )
۵اور حسد کرنے والے کی برائی سے جب حسد کرے۔
٭٭٭
۱۱۴۔ سورۃ الناس
۱(اے رسولؐ) تم کہو کہ میں پناہ مانگتا ہوں لوگوں کے پروردگار
۲لوگوں کے بادشاہ
۳لوگوں کے معبود کی
۴(شیطانی) وسوسہ کی برائی سے جو (خدا کے نام سے ) پیچھے ہٹ جاتا ہے
۵جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کرتا ہے
۶جنات میں سے ہو خواہ آدمیوں میں سے۔
٭٭٭
تشکر: غلام رسول فیضی جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں۔
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید