FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

منتخباتِ شادؔ عارفی

 

حصہ دوم (منتخب غزلیں )

 

                مرتّبہ: ڈاکٹر مظفرؔ حنفی

 

 

                ٭٭٭

’’مجھے اُردو غزل کی پوری تاریخ میں صرف دو ہی ایسے نام نظر آتے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے غزل سے با مقصد اور سنجیدہ طنز نگاری کا بھرپور کام لیا ہے۔ میری مراد مرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالبؔ اور شادؔ عارفی سے ہے۔ دونوں نسلاً پٹھان ہیں اور دونوں کو شاعری سے زیادہ آباء و اجداد کے پیشۂ سپہ گری پر ناز ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زبان اور طرز بیان سے تیغ جوہر دار کا کام لینے اور مدِّ مقابل پر بے محابا وار کرنے سے نہیں چوکتے۔ لیکن دو باتیں شاد عارفی کے طنزیہ لہجے کو بالکل الگ کر دیتی ہیں ایک تو یہ کہ شعروں میں طنزیہ لہجہ غالبؔ کے اسلوب کا ایک جزو ہے اور شادؔ عارفی کے طنز کا دائرہ، انداز نظر اور موضوع ہر اعتبار سے غالبؔ کے مقابلے میں وسیع، با مقصد اور بہت واضح ہے۔ ‘‘

فرمان فتح پوری

 

 

 

 

 

نعت

 

پیار کی نظروں سے دیکھے رحمتِ باری ہمیں

لازم آتا ہے یہاں نازِ گُنہ گاری ہمیں

بھا گئی تھی اس قدر مندر کی گلکاری ہمیں

حق نظر آتی تھی باطل سے وفاداری ہمیں

آپ نے بخشا جبینوں کو سجودِ قبلہ رُخ

یعنی سمتِ بندگیِ خالقِ باری ہمیں

سرمۂ ارشادِ والا سے جونہی آنکھیں ملیں

خواب تھا محسوس ہوتی تھی جو بیداری ہمیں

وہ مشیت آفریں ہے، آپ ختم المرسلیں

اور تھوڑی دیر ہے رستہ کی اندھیاری ہمیں

ہم کو احساسِ سفر کی داد ملنی چاہیے

روکتی ہے منزل یثرب سے ناداری ہمیں

پوچھتی ہیں گنبدِ خضرا پہ چھا کر بدلیاں

رحمۃ اللعالمیں ! اِذنِ گہر باری ہمیں

انتہائے خلق ہے، عہدِ رعونت میں بھی شادؔ

آپؐ نے تلقین فرمائی گُل افشاری ہمیں

٭٭٭

 

 

 

 

آپ کا رُتبہ سلامت، آپ من مانی کریں

دوسروں کو درسِ عبرت ہو وہ نادانی کریں

خوشنما غزلیں جو شاعر صرفِ عُریانی کریں

کس طرح ظاہر زمانے کی ستم رانی کریں

جب بھی دھندلائے شرافت خستہ حالی کے سبب

عارضِ عصمت پہ آنسو شبنم افشانی کریں

ہو چکا جب ’’ خندۂ گل کا تصوّر‘‘ مستند

کیا شگوفے احتجاجِ چاک دامانی کریں

مسکرانا چاہیے لیکن کچھ اِس انداز سے

دیکھنے والے نہ احساسِ پریشانی کریں

’’مانگ لائیں گے اُجالا‘‘ ’’ نوچ لائیں گے کنول‘‘

آپ ہم سے وعدۂ تشریف ارزانی کریں

کاروانِ عہدِ نو کے ساتھ چلنا ہے ہمیں

بندہ پرور، آپ تکمیلِ تن آسانی کریں

انجمن میں اب خلافِ مصلحت ہو گا کہ آپ

میری جانب دیکھ کر اظہارِ حیرانی کریں

ایک ہے ’’تزئینِ گلشن‘‘ اور ’’تہذیبِ وطن‘‘

وہ جہاں بانی سے پہلے گُلستاں بانی کریں

آنکھ ملنے کا تاثر، الحفیظ والاماں !

بیخودی سے ہوش کی کب تک نگہبانی کریں

برہمن کی دوستی میں عید کے دن دیکھیے

شیخ صاحب بھینٹ دیتے ہیں کہ قربانی کریں

بے درو دیوار سا اک گھر بنا کر ہم کہیں

چین سے بیٹھیں تو ذکرِ خانہ ویرانی کریں

کام آتا ہے تخلص ہر پریشانی میں شادؔ

شادؔ ہم کس طرح ترکِ خندہ پیشانی کریں

وقت ہی وہ آ گیا ہے ورنہ شادِؔ عارفی

ہم سے نا واقف بھی دعویِٰ سخن دانی کریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

بربادیوں کو ہم نے گلے سے لگا لیا

ان کی خوشی کو اپنے موافق بنا لیا

گمنام آرزو میں بڑا نام پا لیا

دامن کی بھینٹ دے کے گریباں بچا لیا

اک وہ کہ گلستاں میں نشیمن بنا لیا

ہم سوچ ہی رہے تھے کہ بجلی نے ’’ آ لیا‘‘

از راہِ شوق ہم نے تِرا نام کیا لیا

اوچھوں نے انجمن کو سروں پر اٹھا لیا

کانٹے چنے جو ہم نے سرِ راہِ کوئے دوست

جھگڑا یہ ہے دکھاؤ ہمیں ’’کیا اٹھا لیا؟‘‘

انصاف کی تو یہ ہے کہ منہ چاہیے اُسے

جتنے دنوں فریبِ وفا ہم نے کھا لیا

اس ندرتِ خیال کے قربان جائیے

جگنو سے آگ لے کے نشیمن جلا لیا

چھلکا جو پھول جامِ لبالب کو مات دی

ساغر نے گر کے پھول کا انجام پا لیا

اب رونقِ نظامِ کہن کا یہ کام ہے

کوئی اُٹھا تو کر کے اشارہ بٹھا لیا

جو الجھنیں سُلجھ نہ سکیں زلف کی طرح

ان الجھنوں کو ہم نے گریباں بنا لیا

صیّاد و احترامِ بہاراں کی بات ہے

اب کیا کہیں کہ ہم نے قفس کیوں سجا لیا

یوں راز رکھ رہا ہوں ترے التفات کو

جس طرح تو نے میرا ہر اک خط چھپا لیا

کوتاہیِ بصارتِ محدود کی قسم

آواز آ رہی ہے کہ پردہ اُٹھا لیا

آغازِ مشورہ میں کہاں مر گئے تھے آپ

اب روکنے چلے ہیں قدم جب بڑھا لیا

’’ رو کار‘‘ کہہ رہی ہے کہ منزل کی پشت ہے

اس آدمی نے ہم سے غلط آسرا لیا

ہنس کر گزارنا ہے یہ ’’ عہدِ جہادِ غم‘‘

وہ دن گئے کہ رو کے مقدّر بنا لیا

الفاظِ آنحضور میں بیداد ہے کرم

مفہومِ آنحضور مگر ہم نے پا لیا

یہ انتخابِ غیر مبارک رہے مگر

ہیرا سمجھ کے آپ نے پتھر اٹھا لیا

ان ماہرانِ شعر و ادب نے جناب شادؔ

عریانیِ غزل کا کبھی جائزہ لیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نوجوانی میں یوں بھی بسر ہو گئی

کوئی کہتا تھا، اٹھیے سحر ہو گئی

جس قدر عام اور مشتہر ہو گئی

آرزو اتنی ہی معتبر ہو گئی

وہ جدھر سے بھی گزرے خبر ہو گئی

نکہتِ پیرہن نامہ بر ہو گئی

جانتے ہیں مگر اب یہ کس سے کہیں

کیوں ہماری دعا بے اثر ہو گئی

جستہ جستہ محبت اجاگر ہوئی

رفتہ رفتہ سبھی کو خبر ہو گئی

وہ مرا حال کہہ کر پشیماں ہوا

جس نے دیکھا کہ وہ آنکھ تر ہو گئی

وہ بہاروں کا مژدہ غلط ہی رہا

نذرِ تحقیق جھوٹی خبر ہو گئی

میرے اٹھوائے جانے سے فرمائیے

کون سی وقعتِ سنگِ در ہو گئی

رائیگاں ہی سہی میرے سجدے مگر

آپ کی رہ گزر، رہ گزر ہو گئی

آپ کو دیکھ کر پھول مرجھا گئے

میں یہ سمجھا کہ میری نظر ہو گئی

میری حق گوئیوں پر خدا کے سوا

شادؔ ساری خدائی اُدھر ہو گئی

٭٭٭

 

 

 

 

شادِؔ مغموم جو مسرور نظر پڑتا ہے

سچ کہا ہے کہ تخلص کا اثر پڑتا ہے

صرف کعبہ ہی نہ دورانِ سفر پڑتا ہے

میں جدھر جاؤں ادھر آپ کا گھر پڑتا ہے

گریۂ غم کا محبت پہ اثر پڑتا ہے

کچھ دکھائی بھی تجھے دیدۂ تر پڑتا ہے

سیرِ گلشن کے علاوہ نہیں چارہ اس کا

دل پہ دورہ سا جو ہنگامِ سحر پڑتا ہے

غالباً وسوسۂ سود و زیاں ہے باقی

جام پیتا ہوں تو انجام نظر پڑتا ہے

حُسنِ کافر کا بھرم کھلتا ہے پاس آنے پر

وہ نہیں ہوتا ہے منظر، جو نظر پڑتا ہے

ان گھٹاؤں سے اجالوں کی توقع ہے مگر

کوئی جگنو، کوئی تارا بھی نظر پڑتا ہے

طے کیے جائیں شب و روزِ جدائی کیوں کر

بیچ میں ’’مرحلۂ شمس و قمر ‘‘ پڑتا ہے

دلنوازی جو بھرے گھر میں نہیں بن پڑتی

رخِ محجوب پہ گیسو ہی بکھر پڑتا ہے

پاسبانانِ چمن جس کو ہوا دیتے ہیں

وہ غمِ نظمِ وطن میرے ہی سر پڑتا ہے

آپ اربابِ صداقت کے مقابل اے شادؔ

چاپلوسوں کا مقدر ہی زبر پڑتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تجربے جن کو جنوں کے نہ گریبانوں کے

طنز کرتے ہیں وہ حالات پہ دیوانوں کے

کہہ رہے ہیں کہ پڑو پاؤں نگہبانوں کے

آپ ہمدرد ہیں ہم سوختہ سامانوں کے

کھُل گئے بھید جو رندوں پہ جہاں بانوں کے

ڈھیر لگ جائیں گے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے

جمگھٹے بچ کے گزرتے ہوئے انسانوں کے

قہقہے اور بڑھا دیتے ہیں دیوانوں کے

موسمِ گُل سے خزاں نے وہ سیاست کھیلی

گلستانوں کے ہوئے ہم نہ بیابانوں کے

جن شگوفوں کو سمجھتا تھا دلِ صد پارہ

دیکھتا کیا ہوں کہ ٹکڑے ہیں گریبانوں کے

وہی اخلاق کو، ایماں کو بناتے ہیں سپر

وہ جو اخلاق کے قائل ہیں نہ ایمانوں کے

شرطِ اوّل ہے مسلمان کا انساں ہونا

وہ مسلمان کے دشمن ہیں کہ انسانوں کے

جن کو آہوں کی طرح ضبط کیا جاتا ہے

ترجماں اشک ہی بنتے ہیں اُن ارمانوں کے

جس توقع پہ خوشامد میں لگے رہتے ہیں

اختیارات سے باہر ہیں نگہبانوں کے

کہہ رہے ہو جسے تم ابرِ بہاری اے شادؔ

میں سمجھتا ہوں کہ آثار ہیں طوفانوں کے

٭٭٭

 

 

 

 

نہیں، کہ شغلِ مئے و جام میں کسر رکھیے

مگر حضور! زمانے کی بھی خبر رکھیے

’’موافقانِ خزاں کو لگائیے سینے‘‘

’’ مخالفانِ خزاں سے اگر مگر رکھیے‘‘

بتائیں کیا کہ کسی بُت کو ہم نے کیوں چاہا

یہ فیصلہ تو ہماری نگاہ پر رکھیے

ابھی تو بزم کا رجحان میری جانب ہے

ابھی تو آپ نگاہیں اِدھر اُدھر رکھیے

فریبِ نظمِ ادب سے کمائیے دولت

’’ کسی رئیس کے قدموں پہ جا کے سر رکھیے‘‘

غزل میں مرثیۂ آرزو کی خاطر شادؔ

نہ آئے آپ کو رونا تو نوحہ گر رکھیے

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی اتنی پِیے ہوتے ہو یارو

نہ سونے دو نہ خود سوتے ہو یارو

غلط باتوں سے خوش ہوتے ہو یارو

حقیقت کا بھرم کھوتے ہو یارو

ادھورے ’’ جاگتے سوتے‘‘ ہو یارو

نہیں پاتے مگر کھوتے ہو یارو

ادھر مُنہ پھیر کر ہنسنے لگو گے

ادھر مُنہ دیکھ کر روتے ہو یارو

مہکتی چاندنی شب بھر جگا کر

چمکتی دھوپ میں سوتے ہو یارو

جو تھے تخلیقِ تخئیل و تصور

وہ گھوڑے بیچ کر سوتے ہو یارو

تمھیں علم و عمل سے واسطہ کیا

’’ سکندر بخت کے پوتے‘‘ ہو یارو

یہی ہے سعیِ نا مشکور و مہمل

کہ دو پاتے ہو سَو کھوتے ہو یارو

وہی بے اعتدالی کا نتیجہ

بہت ہنستے، بہت روتے ہو یارو

نظر آتے ہیں جب چہروں کے دھبّے

تو پُشتِ آئینہ دھوتے ہو یارو

ابھی تک ’’ فن برائے فن‘‘ پہ حجت

جو کاٹا تھا وہی بوتے ہو یارو

بقولِ شادؔ رسمِ ’’ طوطمیت۱؎ ‘‘

کبھی بُلبُل کبھی توتے ہو یارو

۱؎       منطق الطیر۔ ٹوٹم ازم کی طرف اشارہ ہے

٭٭٭

 

 

 

گر قاعدۂ چاکِ گریباں نہیں ہوتا

تجزیۂ حالاتِ پریشان نہیں ہوتا

گلشن میں اگر خطرۂ طوفاں نہیں ہوتا

ہر پھول، چراغِ تہہِ داماں نہیں ہوتا

مصرع ہے، اگر آپ بُرا مان نہ جائیں

اوچھوں سے کوئی کارِ نمایاں نہیں ہوتا

حالانکہ اسی رُخ پہ اُسے چاہ رہا ہوں

وہ کافرِ نو عُمر مسلماں نہیں ہوتا

پھولوں کی طرح آپ ہیں کانٹوں کی طرح ہم

کس پر اثرِ گردشِ دوراں نہیں ہوتا

ہم خوبی تقدیر سے جس روز بھی جائیں

اُس در پہ اُسی روز نگہباں نہیں ہوتا

سچ اور کھری بات چھپائی نہیں جاتی

ہاں ہم سے غلط بات پہ ’جی ہاں ‘نہیں ہوتا

گلچیں کو شگوفوں کی تجارت سے غرض ہے

اندھوں کے لیے جلوۂ جاناں نہیں ہوتا

فریاد نہ کرتا تو ٹھہرتے نہیں آنسو

دامن کو بچاتا تو گریباں نہیں ہوتا

بڑھ جاتی ہے اُس روز مناظر کی اُداسی

جب اُس سے ملاقات کا امکاں نہیں ہوتا

تحصیلِ معانی ہو کہ ہو تکملۂ فن

آسان سمجھ لینے سے آساں نہیں ہوتا

بنتا نہیں تصویر دکھانے سے مصوّر

اشعار سُنانے سے غزل خواں نہیں ہوتا

محتاجِ تعارف تو نہیں، جن کی غزل سے

اے شادؔ مرا رنگ نمایاں نہیں ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

ہلکے پھُلکے طنز سے گویا ٹکڑے ٹکڑے پتھّر دیکھا

جس نے مجھ کو گھُور کے دیکھا، میں نے اس کو ہنس کر دیکھا

’’چور کی داڑھی میں تنکے کا‘‘ منظر اکثر اکثر دیکھا

میرے’’ رہزن کے فقرے پر‘‘ راہ نما نے مڑ کر دیکھا

’’ عہدِ ظلم و آزادی‘‘ میں ’’ ذوق و شوق‘‘ برابر دیکھا

اُس نے میری گردن دیکھی، میں نے اُس کا خنجر دیکھا

دل کی تاریکی کھونے سے قاصر ہے ساغر کی چشمک

دُور تلک ’’ گہرا اندھیارا‘‘ قصرِ طرب کے باہر دیکھا

اُن کے ہاں ’’ بلوائے جانے کی عزت سے‘‘ دھوکا کھا کر

میری ’’ ٹھنڈی سانس پہ مجھ کو‘‘ محفل نے غرّا کر دیکھا

میری اعلیٰ ظرفی ’’ میرے چہرے پر تحریر ‘‘ نہ پا کر

ساقی نے گہری نظروں سے مجھ کو دیکھا، ساغر دیکھا

جن کے ’’ اپنے‘‘ اُن کی بابت کہتے ہیں بیہودہ باتیں

ہم نے ’’ ایسوں کا‘‘ ہر غصہ اُن کے بدلے ہم پر‘‘ دیکھا

جب ’’ اربابِ مدح و تغزّل‘‘ لطف کی بھکشا مانگ رہے تھے

میں نے ’’ تاج و چترشہی‘‘ کی جانب ہاتھ بڑھا کر دیکھا

مجھ پر کچھ موقوف نہیں ہے، کہہ دے گا پھولوں کو ساغر

رنگ ر نکہت کے متوالوں سے جس نے بھی ہٹ کر دیکھا

’’ دل کو دل سے راہ‘‘ کی بابت میں ایمان سے کہہ سکتا ہوں

اس کوچے سے میں جب گزرا اس کو دروازے پر دیکھا

’’ یہ دعوائے ضبطِ عرضِ غم‘‘ ہے شادؔ جوابی صورت

پہلے پہلے حال کسی کو لکھ کر بھیجا کہہ کر دیکھا

٭٭٭

 

 

 

 

باغباں کو اعتمادِ گلستاں حاصل بھی ہے

آپ یہ تحقیق فرمائیں گے، اتنا دل بھی ہے

اُن پہ حیرت ہے کہ تمئیز حق و باطل بھی ہے

اور سمجھتے ہیں جو ’’ پتّے باز‘‘ ہے قابل بھی ہے

مُسکرا لیجے ہمارے حال پر جی کھول کر

’’حال کی تبدیلیوں کا نام‘‘ مستقبل بھی ہے

کیا ضمانت ہے نہ ہو گا ’’ از قبیلِ سنگ و خشت‘‘

’’ فرض کردم‘‘ آپ کے سینے کے اندر دل بھی ہے

عرضِ غم کا اس سے اچھا کون موقع آئے گا

آپ ہیں محوِ کرم، یکسوئیِ محفل بھی ہے

’’ کیفِ مہمل‘‘ پر فدا ہے ’’ حُسن آوارہ‘‘ پہ رپ۱؎

ہائے وہ انساں جو نابینا بھی ہے غافل بھی ہے

دل گواہی دے رہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں

دل جدھر لے جا رہا ہے اس طرف منزل بھی ہے

بر بِنائے بادۂ گلرنگ اک نسبت سہی

پھول کی مانند پیمانہ مگر بسمل بھی ہے

کان میں کہنے کی باتوں کا زمانہ لَد گیا

نظمِ محفل جس کو سونپا ہے وہ اس قابل بھی ہے

تابعِ فرمانِ دل ہے دل جو چاہے کام لے

’’ عقلِ سادہ‘‘ کافرِ نعمت بھی ہے ’’ قائل بھی ہے‘‘

یہ جو شاگردوں کی اک ٹولی لیے پھرتے ہیں شادؔ

کوچہ گردی کے سوا ان کی کوئی منزل بھی ہے

۱ ؎            بُری طرح والہ و شیدا

٭٭٭

 

 

 

 

دولتِ عقل سے معذور ہے وہ

یعنی ظالم نہیں، مجبور ہے وہ

شیخ کہتا ہے سرِ طور ہے وہ

اس کا مطلب ہے بہت دُور ہے وہ

کچھ اس انداز سے مستور ہے وہ

پاس ہو کر بھی بہت دُور ہے وہ

میں نے نزدیک سے دیکھا ہے اُسے

وہ نہیں ہے کہ جو مشہور ہے وہ

ان کی محفل میں غلط بخشی کا

تھا جو دستور، بدستور ہے وہ

کُل کو مجبورِ تبسّم پایا

ہم سمجھتے تھے کہ مسرور ہے وہ

خود خریدی ہے مصیبت جس نے

کون ہے وہ، دلِ رنجور ہے وہ

کوئی بھی نیم نگاہی اس کی

نا مکمل نہیں، بھرپور ہے وہ

اتفاقی ہے یہ ’’مدحِ دشمن‘‘

یا اسی کام پہ مامور ہے وہ

سانولا رنگ، کشیدہ قامت

نہ پری ہے نہ کوئی حُور ہے وہ

شادؔ کے فن سے پچکنے والے

کہتے پھرتے ہیں کہ مغرور ہے وہ

٭٭٭

 

 

 

غم نہیں مانتا، شراب تو لاؤ

ورنہ اے زاہدو! علاج بتاؤ

ہر غلط بات پر بھی ہاتھ اُٹھاؤ

یہ نمائندگی نہیں، شرماؤ

بد مزاجی کو معتبر نہ بناؤ

بزم سے ہم کو مُسکرا کے اٹھاؤ

عہدِ حاضر کی روشنی پہ نہ جاؤ

جب ستارے بجھیں، چراغ جلاؤ

سینک سکتے ہیں آپ بھی آنکھیں

جل رہے ہیں نشیمنوں کے الاؤ

ہم کہ ہیں تازہ واردانِ قفس

اور صیّاد کہہ رہا ہے کہ گاؤ

چوٹ چلنا بہت بڑا فن ہے

کھوٹ دل میں نہیں تو آنکھ ملاؤ

میری تنقیدِ عہدِ حاضر سے

ہو اگر متفق تو ہاتھ اٹھاؤ

ظرف کی بات کہہ رہا ہوں میں

بادۂ تلخ پی کے مُنہ نہ بناؤ

دوستو یہ نشاط آور شے

کم سے کم میرے سامنے سے ہٹاؤ

ہم نے عادت بگاڑ دی ورنہ

ہم نہ دیکھیں تو خود نقاب اُٹھاؤ

ہم ہی کچھ احترام کرتے ہیں

ورنہ دامن چھڑا کے بھاگ نہ پاؤ

محوِ احساس کمتری ہیں ابھی

بیکسی میں ہمیں گلے نہ لگاؤ

یہ تو محرومِ آرزو دل ہیں

ہوں شگوفے تو گُدگُدا کے ہنساؤ

یہ اجازت برائے بیت ہے شادؔ

رہنماؤں کو اُن کے عیب گناؤ

٭٭٭

 

 

 

جو بھی اپنوں سے اُلجھتا ہے وہ کر کیا لے گا

وقت بکھری ہوئی طاقت کا اثر کیا لے گا

خار ہی خار ہیں تا حدِّ نظر دیوانے

ہے یہ ویرانۂ انصاف، اِدھر کیا لے گا

جان پر کھیل بھی جاتا ہے سزاوارِ قفس

اس بھروسے میں نہ رہیے گا ’’ یہ پَر کیا لے گا‘‘

’’ پستیِ ذوق‘‘ بلندیِ نظر، دار و رسن

ان سے تو مانگنے جاتا ہے مگر کیا لے گا

’’ رہبرِ قوم و وطن‘‘ اس کو خدا شرمائے

خود جو بھٹکا ہو وہ اوروں کی خبر کیا لے گا

شمعِ محفل کا ’’ بقیّہ ‘‘ ہے فروغِ امید

شام سے جس کا یہ عالم ہو، سحر کیا لے گا

باغباں ’’کوششِ بے جا‘‘ پہ مگن ہے لیکن

بنگ بوتا ہے جو گلشن میں، ثمر کیا لے گا

شاعرِ ’’ گوہرِ بے آبِ زمانہ‘‘ اے شادؔ

شعر فہموں سے کبھی دادِ ہنر کیا لے گا

 

٭

 

تو اور پوچھے میرا حال

آگ لگا پھر پانی ڈال

ساقی کی مستانہ چال

نظریں زخمی، دل پامال

دل کا داغوں سے وہ حال

مُفلس، لیکن مالا مال

رس اور انگوروں کا رس

زاہد کی اب ٹپکی رال

کشتی ڈوبے، فکر نہیں

جو سب کا وہ اپنا حال

جینا ہے تو ہنس کر جی

رو کر جینا ہے جنجال

اس کا کوچہ ہے اور میں

گویا دل کی رائے بحال

الفت کا انجام بخیر

دل بپتا میں ہے فی الحال

پچھلے سال جدا تھا کوئی

دیکھیں کیا ہو اب کے سال

لکھ کر میرا نام اے شادؔ

اُس نے بھیجا ہے رومال

٭٭٭

 

 

بہ پاسِ احتیاطِ آرزو یہ بارہا ہوا

نکل گیا قریب سے وہ حال پوچھتا ہوا

حجابِ رُخ لہک اُٹھا اگر بہت خفا ہوا

جبھی تو ہم سے پَے بہ پَے قصورِ مدّعا ہوا

شکایتِ عدم توجہی بجا سہی۔ مگر

نصیبِ اہلِ انجمن نہیں ہے، دل دُکھا ہوا

امینِ رازِ غم نہیں ہیں ’’ در خورِ ستم نہیں ‘‘

پلٹ رہے ہیں آپ ہی پہ آپ کا کہا ہوا

اٹھیں گی میری وجہ سے جب آپ پر بھی انگلیاں

کہیں گے پھر تو آپ بھی کہ واقعی بُرا ہوا

ہجوم ماسوا سے بچ کے، منزلِ مُراد تک

پہنچ گیا ہوں رہزنوں سے راہ پوچھتا ہوا

کبھی کبھی ’’ خلوصِ بے تعلّقی‘‘ بھی چاہیے

نگاہ میں نے پھیر لی تو اُس کا سامنا ہوا

’’ زمانۂ عبورِ انقلاب‘‘ کی بھی عُمر ہے

نہ شاخِ آشیاں رہی نہ آشیاں جلا ہوا

نہیں کچھ اس سے مختلف گروہِ بزمِ رقص و مئے

نکل گیا جو گلستاں میں خواب دیکھتا ہوا

یہ کاوشِ اُمید و بیم بھی ہے لذّتِ آفریں

نظر اُدھر جمی ہوئی، نقابِ رُخ اُٹھا ہوا

غلط بیانیوں کے عہدِ نو میں شادؔ عارفی

مرا کمالِ فن یہ ہے کہ ’’ صَرفِ ماجرا ہوا‘‘

٭٭٭

 

 

 

(نذرِ غالبؔؔ)

 

دل پہ کیا دوش، محبت جو چھپائے نہ بنے

یہ وہ دریا ہے جو کوزے میں سمائے نہ بنے

شبِ وعدہ جو گزرتی ہے بتائے نہ بنے

آس توڑے نہ بنے آنکھ لگائے نہ بنے

گدگدائے نہ بنے، ہاتھ لگائے نہ بنے

’’ بن کے لیٹی ہو جوانی‘‘ تو اُٹھائے نہ بنے

وہ مرے سامنے آ جائے تو جائے نہ بنے

ہے یہ وہ رابطۂ دل جو چھپائے نہ بنے

آج اس طرح ’دبے پاؤں ‘پہنچ لوں کہ اُسے

شانہ رکھے نہ بنے، زلف بنائے نہ بنے

ہم نگاہوں سے بہت دور نکل آئے مگر

اب وہاں ہیں کہ جہاں بات بنائے نہ بنے

’ وہ ہوں یا میں ‘ غمِ حالات سے عاجز آ کر

دل کہیں اور لگائیں تو لگائے نہ بنے

ہاتھ سینے پہ تو مژگاں پہ دمکتے ہوئے اشک

قصۂ غم وہ نہیں ہے جو سُنائے نہ بنے

’’ مست و مخمور‘‘ نگاہی کا یہی مطلب ہے

وہ بھی پی لیں، جنھیں ساقی کو پلائے نہ بنے

انگلیاں اس کی مرے ہاتھ میں ہیں جام کے ساتھ

ہاتھ کھینچے نہ بنے، جام گرائے نہ بنے

’ پاؤں سونے‘‘کی اذیت کا بہانہ بے سود

تیرے زانو پہ وہ سر ہے جو اٹھائے نہ بنے

وہی دو چار ہیں غم خوارِ حوادث اے شادؔ

وہی دو چار جو اپنے تھے، پرائے نہ بنے۱؎

۱؎   مخمورؔ، واقفؔ، ساتھیؔ، صابرؔ عارفی

٭٭٭

 

 

 

تم کو رسوائے حکایت کیا کریں

کافرو! کفرانِ نعمت‘‘ کیا کریں

نوجوانوں کو نصیحت کیا کریں

لازمی شے ہے محبت، کیا کریں

ناصحِ مشفق سے پوچھا چاہیے

عشق ہو جائے تو حضرت کیا کریں

زاہدِ قبلہ ! ’’بڑی تاخیر کی

’’ ختم شد‘‘ اب ’’ صَرفِ خدمت‘‘ کیا کریں

شکر ہے در اصل مجبوری کا نام

دعویِ صبر و قناعت کیا کریں

ہم وفاداروں کی’’ غیبت اور آپ‘‘

ہم ہیں اور ’پاسِ شریعت‘‘ کیا کریں

دُور تک تکتے رہیں اُس کی طرف

اور ہم ہنگامِ رخصت کیا کریں

جب کرم کا ان کو آتا ہے خیال

سوچتے ہیں ’’ ترکِ عادت کیا کریں ‘‘

ہم بھی چُپ ہیں رنگِ محفل دیکھ کر

وہ بھی اظہارِ رفاقت کیا کریں

موسمِ گُل کا دِلاتی ہے یقیں

باغبانوں کی سیاست، کیا کریں

بزم جھوٹے شعر کی عادی ہے شادؔ

التماسِ واقعیت کیا کریں

٭٭٭

 

 

 

باغباں ذوقِ تعلی سے گزرتے ہی نہیں

اور پھولوں کا یہ عالم کہ نکھرتے ہی نہیں

یہ جو اُلجھے ہوئے حالات سدھر تے ہی نہیں

ہائے گیسوئے سیاست کہ سنورتے ہی نہیں

رہِ پُر خار نے ’’ اصلاحِ خبر‘‘ فرما دی

ہم نے کانٹوں کو سُنا تھا کہ بکھر تے ہی نہیں

’’پئے تحسینِ وطن‘‘ طنز ہمارا فن ہے

ہم کسی خانہ بر انداز سے ڈرتے ہی نہیں

ہم سے اس طرح کی اُمّید نہ رکھّے دنیا

ہم کسی شخص کی تعریف تو کرتے ہی نہیں

جن کی ’’ منزل طلبی‘‘ اپنے لیے ہوتی ہے

اُن کے ’’ نقشِ کفِ پا‘‘ مِٹ کے اُبھرے ہی نہیں

راہزن راہ کے سایوں پہ نظر رکھتے ہیں

اس لیے ہم کسی سائے میں ٹھہرتے ہی نہیں

اُن کے دُشنام بھُلا دیتے ہیں دشمن، لیکن

کہتے ہیں، زخم زباں کے کبھی بھرتے ہی نہیں

شادؔ ہم شعر کی دُنیا میں بقولِ غالبؔ

عشق کی وجہ سے جیتے بھی ہیں مرتے ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

شادؔ ضعیف العُمر ہے لیکن اُس کے شعر جواں ہوتے ہیں

ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں، ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں

کوئی نہیں کہہ سکتا، کانٹے بھی پامالِ خزاں ہوتے ہیں

ان کے نام و نشاں مٹتے ہیں جن کے نام و نشاں ہوتے ہیں

فتنے روز جنم لیتے ہیں، فتنے روز جواں ہوتے ہیں

اتنے پاپ کہاں ہوتے ہیں جتنے پاپ یہاں ہوتے ہیں

کچھ مطعونوں کے افسانے کچھ نا معقولوں کے نام

اکثر وردِ زباں رہتے ہیں اکثر وردِ زباں ہوتے ہیں

یہ شاعر جن کے شعروں کو سُنتے وقت گُماں ہوتا ہے

اب آنکھوں میں آنسو آئے، اب مصروفِ فغاں ہوتے ہیں

راہزن و رہبر کے قدموں کی پہچان بھی ہے اے راہی

دس ان میں سے منزل رس نوّے نقصان رساں ہوتے ہیں

زاہدِ قبلہ مئے خانے کی راتوں پر آ جائے نہ حرف

لوگ سمجھتے ہیں کعبے میں لیکن آپ یہاں ہوتے ہیں

وہ اصحابِ وقف و عطا تھے یہ اربابِ مکر و ریا

وہ بھی شاہِ زماں ہوتے تھے یہ بھی شاہ زماں ہوتے ہیں

اتنا تو اے کوچہ گر دو تم کو بھی ہو گا معلوم

جن میں سجدے سر ٹکرائیں وہ سب کوئے بتاں ہوتے ہیں

کیا تھا؟ کیوں تھا؟ یہ مت سوچو، کیا ہے؟ اس پر غور کرو

شاخوں پر آنے سے پہلے ہوں گے پھول جہاں ہوتے ہیں

چند بڑے لوگوں سے مل کر میں نے یہ محسوس کیا

اپنی بابت نا اہلوں کو کیا دلچسپ گماں ہوتے ہیں

یہ ماحول کے بکھرے گیسو، یہ حالات کے ٹوٹے جام

اپنے اپنے رُخ پر گویا اک اندازِ بیاں ہوتے ہیں

ہے رسوائے حکایت ہونا رازِ نہاں کی پہلی شرط

شادؔ چمن کے سینے میں غنچے بھی رازِ نہاں ہوتے ہیں

٭٭٭

 

 

تائیدِ غزل کے بارے میں دو چار اشارے کیا کم ہیں

نَو لمبی لمبی نظموں سے تو شعر ہمارے کیا کم ہیں

جاں دادۂ وحدت فی الکثرت کو اس کے نظارے کیا کم ہیں

گلشن میں شرارے کیا کم ہیں، گردوں پہ ستارے کیا کم ہیں

جگنو کے اشارے کیا کم ہیں، ہرنوں کے طرارے کیا کم ہیں

مہجوروں کے بہلانے کو اتنے بھی سہارے کیا کم ہیں

ہم گھر سے نکل کر وحشت میں صحرا کی جانب کیوں جائیں

چُننے کو شگوفے کیا کم ہیں گِننے کو ستارے کیا کم ہیں

پاتے ہی کسی کی چشمِ کرم، بیتابیِ و نومیدی رخصت

جیتے بھی تو جیتے کیا کم ہیں، ہارے بھی تو ہارے کیا کم ہیں

نیچی نظریں، بکھری زلفیں، لٹکے آنچل شانے عریاں

حد بھر دل کش ’’اتنے سارے‘‘انداز تمھارے کیا کم ہیں

نزدیک آنے کی تدبیریں، بے جا ہیں بہ پاسِ رسوائی

جب دُور سے باتیں کرنے کو آنکھوں کے اشارے کیا کم ہیں

جب وہ ہی نہیں تو میلے کی رنگینی اور دلچسپی کیا

ہونے کو حسینوں کے جمگھٹ گنگا کے کنارے کیا کم ہیں

فطرت کے جلووں سے اُلفت کچھ شاعر ہی کو سجتی ہے

الفاظ کی سیمیں موجوں میں افکار کے دھارے کیا کم ہیں

از راہِ تجلی سمجھا ہوں، از راہِ تصوف کہتا ہوں

اے شیخ! حریمِ کعبہ سے مندر کے دوارے کیا کم ہیں

گردوں بگڑا، اپنے بگڑے، قسمت بگڑی، صحّت بگڑی

اس پر بھی ہم نے دُنیا کے جو کام سنوارے، کیا کم ہیں

دولت پر مٹنے والوں نے احساسِ خودی مجروح کیا

دولت کے آگے جتنوں نے بھی ہاتھ پسارے کیا کم ہیں

ہوتا ہے چراغاں منزل پر تو مَیل نہ لا اپنے دل پر

جو بیٹھ رہے کتنے ہی سہی، ہمّت جو نہ ہارے کیا کم ہیں

کافر آنکھوں، ’’ہندو زلفوں ‘‘ گلشن جسموں کو کیا دیکھیں

اُلجھے اُلجھے بگڑے بگڑے حالات ہمارے کیا کم ہیں

ان مُنہ پر کہنے والوں کی جو قدر کر و وہ تھوڑی ہے

ہونے کو تمھاری محفل میں مدّاح تمھارے کیا کم ہے

ٹوٹی شاخوں کی قلّت پر پھولوں کی کثرت حاوی ہے

دلکش نظّاروں کے پیچھے دلدوز نظارے کیا کم ہیں

مایوسی کی اندھیاری میں مت ڈھونڈھ امیدوں کی شمعیں

منزل گم کردہ راہی کو جگنو کے شرارے کیا کم ہیں

سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جو آج بھی بوڑھی غزلوں کو

اے شادؔ وہ شعروں کے رسیا وہ عشق کے مارے کیا کم ہیں

٭٭٭

 

 

جہاں جہاں غمِ دوراں پہ گفتگو نہ ہوئی

وہاں وہاں مرے شعروں کی آبرُو نہ ہوئی

ہجومِ گُل میں بھی تسکینِ جستجو نہ ہوئی

کسی میں رنگ نہ پایا کسی میں بُو نہ ہوئی

میں بزمِ ناز میں بیٹھا رہا ہوں جب تک بھی

نقاب اُس کی جُدا میرے رُوبرو نہ ہوئی

ہزار طرح کی باتیں ہوئیں مگر اُن سے

کبھی سیاستِ حاضر پہ گفتگو نہ ہوئی

جو ارتقاء کے بھروسے پہ طاق پر رکھ دو

تو دیکھ لو گے کہ مینائے مئے سبُو نہ ہوئی

شکستِ عزم پہ تہمت تراشنے والے

یہ اعتراف نہ کر لیں کہ جستجو نہ ہوئی

نہیں حسدکے سوا اُن کی دشمنی کا سبب

ہوئی نہ جن سے ملاقات، گفتگو نہ ہوئی

بتوں سے عشق رہا، آج تک بھی ہے لیکن

خلافِ عقل کبھی کوئی آرزو نہ ہوئی

اگر اصول نہ دیکھیں اگر خلوص کو لیں

کوئی نشست بھی رندوں کی بے وضو نہ ہوئی

وہ التفاتِ وفا جس پہ مسکرادیں آپ

مژہ پہ آ کے وہ کس دن لہو لہو نہ ہوئی

یہ دیکھنا ہے کہ نقّاد کیا کہیں اے شادؔ

غزل میں مجھ سے جو تک بندیِ عدو نہ ہوئی

٭٭٭

 

 

 

کیا بتائیں اُن سے کیا کہنا تھا کیا کہنا پڑا

مدّعا کا رُخ بدل کر مدّعا کہنا پڑا

ابتداء میں ہر جفا پر، واہ وا کہنا پڑا

اور پھر جو کچھ زباں پر آ گیا، کہنا پڑا

مُنکرِ وحدت کی یکسوئی پہ کثرت چھا گئی

ایک کو چھوڑا تو لاکھوں کو خدا کہنا پڑا

’’ کامیابانِ بُتاں ‘‘ کو مُسکراتا دیکھ کر

اپنی مجبوری کو تسلیم و رضا کہنا پڑا

نو جوانی کو کہا جب چار دن کی چاندنی

چودھویں منزل کو دو دن کی ہوا کہنا پڑا

کوششوں کے بعد جب کشتی خدا پر چھوڑ دی

نا خدائے مطمئن کو با خدا کہنا پڑا

چاپلوسی داخلِ آدابِ محفل دیکھ کر

پردۂ تعریف میں اُن کو بُرا کہنا پڑا

اس کے استفسارِ پَے درپَے کے تیور بھانپ کر

دشمنوں کو بھی ہمارا ماجرا کہنا پڑا

اور اب یہ حال ہے ’’ کیا کیجیے گا پوچھ کر‘‘

ورنہ لوگوں سے فسانہ بارہا کہنا پڑا

پوچھنے والوں سے ’’ اس کی‘‘ اس قدر تعریف کی

میری جانب سے انھیں ’’ اس کو‘‘ برا کہنا پڑا

التجاؤں میں نہ پا کر زینتِ حُسنِ قبول

ہر دعائے بے اثر کو مدّعا کہنا پڑا

جن کے خدّ و خال پر ہنستے تَوے اوندھے ہوئے

اُن بتانِ تابہ رُو کو دل ربا کہنا پڑا

بے حیا غزلوں کے اندر بے نُقَط شعروں پہ شادؔ

فن پناہوں کو تکلف آشنا کہنا پڑا

٭٭٭

 

 

 

چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں

سمجھ سکو تو ٹھکانے کی بات کرتا ہوں

شرابِ تلخ پلانے کی بات کرتا ہوں

خود آگہی کو جگانے کی بات کرتا ہوں

سخنوروں کو جلانے کی بات کرتا ہوں

کہ جاگتوں کو جگانے کی بات کرتا ہوں

اُٹھی ہوئی ہے جو رنگینی تغزّل پر

وہ ہر نقاب گرانے کی بات کرتا ہوں

اس انجمن سے اُٹھوں گا کھری کھری کہہ کر

پھر انجمن میں نہ آنے کی بات کرتا ہوں

یہاں چراغ تلے لُوٹ ہے اندھیرا ہے

کہاں چراغ جلانے کی بات کرتا ہوں

وہ باغبان! جو پھولوں سے بیر رکھتا ہے

یہ آپ ہی کے زمانے کی بات کرتا ہوں

روش روش پہ بچھا دو ببول کے کانٹے

چمن سے لُطف اُٹھانے کی بات کرتا ہوں

وہاں شراب پلاتا ہوں اہلِ بینش کو

جہاں بھی خون بہانے کی بات کرتا ہوں

مزاجِ حُسن کہیں بد مزا نہ ہو جائے

اَدل بَدل کے فسانے کی بات کرتا ہوں

مگر فریب میں درکار ہے اچھوتا پن

ترے فریب میں آنے کی بات کرتا ہوں

وہیں سے شعر میں برجستگی نہیں رہتی

جہاں سے حال چھپانے کی بات کرتا ہوں

پِلا رہا ہوں میں کانٹوں کو خونِ دل اے شادؔ

گُلوں کے رنگ اڑانے کی بات کرتا ہوں

٭٭٭

 

بے کسوں پر ظلم ڈھا کر ناز فرمایا گیا

طنز کی جانب میں خود آیا نہیں لایا گیا

التماسِ حال پر دل اور تڑپایا گیا

یعنی کم ظرفوں کا طرزِ فکر اپنایا گیا

گلستاں کا روپ بدلا یا بدلوایا گیا

کچھ تو مُنہ سے پھوٹتا کوئی ادھر آیا گیا

رات کو عشرت کدوں میں چھپ کے پینے کے عوض

تشنہ کاموں کے سروں پر جام چھلکایا گیا

بے خودی کے بعد آتا ہے مقامِ آگہی

مچھ کو دیوانہ بنا کر ہوش میں لایا گیا

مُسکرا کر وہ سُنی کو اَن سُنی کرتے رہے

ہم نے سمجھایا جہاں تک ہم سے سمجھایا گیا

’’آپ کی تعریف؟‘‘ محفل میں مجھی سے پوچھ کر

میری غیرت، میری خود داری کو شرمایا گیا

یا تو ساقی جانتا ہے یا ہمیں معلوم ہے

جس طرح محفل میں ہم تک جام پہنچایا گیا

پائے اصنامِ حسیں سے آستانِ یار تک

ہر جبینِ شوق کو پتھّر سے ٹکرایا گیا

لَوٹ آئیں گے نشیمن، ٹوٹ جائیں گے قفس

ہم سے جس دن بھی ہوا کا رُخ بدلوایا گیا

٭٭٭

 

 

 

کوئی نقشِ قدمِ یار ابھرنے نہ دیا

یہ سہارا بھی ہمیں راہگزر نے نہ دیا

عظمتِ فن کی روایات کو مرنے نہ دیا

شعر سے بچ کے کوئی ظلم گزرنے نہ دیا

’’ مئے معمول سے‘‘ ساقی نے گزرنے نہ دیا

حد سے زئید کبھی اک جام بھی بھرنے نہ دیا

آتے جاتے ہوئے لوگوں کو نہ گزرے کوئی شک

اس تصوّر نے وہاں ہم کو ٹھہرنے نہ دیا

بہ اشاراتِ تغزّل بہ نگاہِ تحسیں

اس کے گیسوئے پریشاں کو سنورنے نہ دیا

جیسے چلمن سے لگا جھانک رہا ہو کوئی

یہ تاثر ہمیں کب نورِ سحر نے نہ دیا

صنفِ مجبور نے پاکیزگی غم کے لیے

شبنمِ چشم کو عارض پہ بکھرنے نہ دیا

مشعلِ دل نے تصوّر کو سُجھائیں راہیں

پردۂ در سے اِدھر کام نظر نے نہ دیا

نا تمامی تو بہر حال مقدّر تھی، مگر

کچھ سہارا بھی تو یارانِ سفر نے نہ دیا

آسرا دیتے ہیں لمحاتِ سُبک سیر اُسے

وقت کو جس نے دبے پاؤں گزرنے نہ دیا

باغبانوں کی شکایت ہو کہ گلچینوں کی!

ذوقِ اصلاحِ چمن نے کبھی ڈرنے نہ دیا

پیٹھ پیچھے جو کہا تھا وہ کہا مُنہ پر بھی

فکرِ فردا نے صداقت سے مُکرنے نہ دیا

اپنے انجام پہ افسوس رہے گا مجھ کو

بے گناہی نے اگر جیل میں مرنے نہ دیا

شادؔ لکھتا میں کرائے کے مکانوں پہ غزل

اتنا موقع کبھی گھر گھر کے سفر نے نہ دیا

٭٭٭

 

جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس ہے آج

کیا اسی کو کہیں گے جنتا راج

نہ بدل پائیں گے رسوم و رواج

جھوٹ کہتی ہے بک رہی ہے سماج

یہ حکایت نہیں حقیقت ہے

بیکَسی کا بدل چکا ہے مزاج

گرم رفتاریِ زمانہ سے

کل جو ہوتا وہ ہو رہا ہے آج

ہم وہ پہنچے ہوئے شرابی ہیں

ایک بوتل میں بیچتے ہیں تاج

ہیں وہ خود انتہا کے بد پرہیز

چاہتے ہیں جو رشوتوں کا علاج

یہ تغیّر کا کارخانہ ہے

وقت پوچھے گا سر پھروں کے مزاج

یہ پژاؤں پہ گھومنے والے

ہم سے کرتے ہیں دعویِٰ معراج

زندگی پر دِلیر ہیں وہ لوگ

مقبروں سے جو لے رہے ہیں خراج

ہم تہی دامنِ سکوں ہیں اگر

بندہ پرور ہیں عقل سے محتاج

شادؔ حیرت یہ ہے کہ اَن داتا

بھر کے لاتے ہیں گاڑیوں میں اناج

٭٭٭

 

 

 

بقولِ غالبؔ ہوا کیا ہے جو حشر دہقان کے لہُو کا

نشیمنوں سے وہی تعلق ہے آج کل نظمِ شعلہ خُو کا

وہاں بہاروں سے باغبانوں کی سازشیں بار ور نہ ہوں گی

جہاں خزاں نے اٹھا دیا ہو سوال کانٹوں کی آبرو کا

کسی کے ظاہر سے اُس کے باطن کا جائزہ سہل بھی نہیں ہے

شراب کی تلخیوں سے پہلے سوال آتا ہے رنگ و بو کا

ذلیل ہو کر تمھاری محفل میں آنے والوں کو کیا کہوں میں

اگر اسی کا ہے نام عزت تو ایسی عزت پہ میں نے تھوکا

یہ اگلے وقتوں کے رہ نما، ان کی مصلحت پر نگاہ رکھیے

پِٹے ہوئے راستوں پہ چل کر فریب دیتے ہیں جستجو کا

حضور قبل از مسیح کے تجربوں پہ شاید یہ کہہ رہے ہیں

اثر مرتّب ہوا نہیں ہے کبھی غریبوں کی ہاؤ و ہو کا

ہماری دوزخ میں لوگ بھوکے بھی ہیں عذابوں میں مبتلا بھی

تمہاری جنت میں شیخ صاحب! نہ کوئی ننگا نہ کوئی بھوکا

ہم اُن کے وعدوں پہ ٹوپیاں کیوں اچھال دیں جو پئے سیاست

ہوا کے جھونکے، قدم کی آہٹ پہ رخ بدلتے ہیں گفتگو کا

کبھی رئیسوں کی انجمن پر زوال آیا تو دیکھ لیں گے

ابھی غریبوں کی انجمن میں نہیں ہے مصرَف خم و سبو کا

چمن میں پودوں کے سوکھ جانے کی شکوہ سنجی کو طنز کہہ کر

کہاں لکھا ہے، گلا دبا دیجے عندلیبانِ خوش گلو کا

جوان شاعر تو شادؔ اس لغویت سے دامن چھُڑا چکے ہیں

مگر ضعیفوں میں اب بھی چرچا ہے چاک دامانی و رفو کا

٭٭٭

 

 

عمر، بکر کی شرارتوں پر جو زید کو بزم سے اٹھا دیں

بتائیے، اُن کی اس روش پر جو سر نہ پیٹیں تو مُسکرا دیں

وہ شاعرانِ فرار و رجعت حیاتِ نو کا پیام کیا دیں

جو شہر آشوب کے محل پر حسین و نازک غزل سنا دیں

اگر ہمارا یقیں نہیں ہے تو آئیے آپ کو گِنا دیں

بہار میں جن کے آشیانے لُٹے ہیں وہ اپنے ہاتھ اُٹھا دیں

ہمارے پَلّے ہی کیا رہا ہے تو اے نشیمن جلانے والو!

بطور رشوت کہاں سے تم کو گزک منگا دیں، شراب لا دیں

یہ بیچ کے لوگ ان پہ گہری نظر ہے لازم کہ یہ فریبی

وہاں پہنچ کر یہاں کی جَڑ دیں وہاں کی آ کر یہاں لگا دیں

بہ اعتبارِ لباس یہ شیخِ وقت ہے اور وہ برہمن

بہ اعتبارِ مزاج و طینت اسے اُٹھا دیں اسے بِٹھا دیں

نہ جانے کیوں خادمانِ قوم و وطن ہوئے جا رہے ہیں دُبلے

جہاں دِوالہ نکالنا ہو وہاں کوئی یونیَن بنا دیں

تمھارے ہر اعتراض میں جب نہ وزن کوئی نہ کوئی نُدرت

تو پھر بہی خواہِ مُلک و ملّت سوائے ’ جی ہاں ‘ جواب کیا دیں

بہ ایں ہمہ وہ جسے بھی چاہیں پلا رہے ہیں پِلا چکے ہیں

خلافِ دستورِ انجمن ہے کہ جس کو چاہیں اُسے پِلا دیں

وہ بزمِ شعر و سخن میں خاموش رہ کے میری غزل کا مطلب

اگر سمجھ لیں تو مسکرا دیں اگر نہ سمجھیں تو سر ہِلا دیں

اُٹھا چکے ہیں حلف جو اے شادؔ باغبانوں کی دوستی پر

ہماری خاطر وہ کیوں سُلگتے نشیمنوں کی خبر اڑا دیں

٭٭٭

 

 

جب غریب جنتا نے بر بنائے آزادی، دل پہ تیر کھا کھا کر، سعی سُرخ رُو کی ہے

کیا بتائیں اَن داتا، اب رہا نہیں جاتا، آپ عیش کرتے ہیں اور قوم بھوکی ہے

جن ذلیل شرطوں پر، جن ضعیف ہاتھوں میں دی ہوئی یہ آزادی مغربی گرُو کی ہے

بوجھ سب ہے چیلوں پر، ہاتھ ہے نکیلوں پر، رہ نما کا مقصد ہی طائف الملوکی ہے

نظمِ نَو پہ ہنسنے کو، تم ہنسی سمجھتے ہو، چَین سے گزرتی ہے، میکدوں میں بستے ہو

عادتاً بہاروں میں پھول مسکراتے ہیں، صرف مسکراتے ہیں، بحث رنگ و بُو کی ہے

جس میں جان جاتی ہو، جس میں آن رہتی ہو، اس میں نام کی خاطر، اس میں شان کے کارن

اے وطن کے دیوانو، اے وطن کے پروانو، دشمنوں سے ٹکّر لو، بات آبرو کی ہے

غیر کی عطا کردہ، حکمت و سیاست پر، نا سزا قیادت پر، قوم کٹ بھی جاتی ہے

قوم ڈٹ بھی جاتی ہے، پھر بھی آج تک ہم نے، احتیاط کی حد میں، تم سے گفتگو کی ہے

آپ کی نگاہوں نے، موٹروں کے شیشے سے، مختصر سے وقفے میں، نوجوان دیکھے ہیں

کاش غور فرماتے، عمر کی رعایت سے، ان کے قلب کے اندر، بوند بھی لہُو کی ہے

ٹھوکریں ہی کھائی ہیں، راحتیں گنوائی ہیں، آنکھ دی ہے چوروں کو، پونجیاں لٹائی ہیں

رہ نمائے پُر فن سے، رہروانِ منزل نے، جب خیال بہکا ہے، جب نگاہ چُوکی ہے

ہم وفا شعاروں کی، تا کجا دل آزاری، طنزِ تلخِ ناداری، طعنۂ سبک ساری

چاہیے روا داری، اے بُتانِ سنگیں دل، آبرو نہیں بیچی، ہم نے آرزو کی ہے

کارواں کے کاندھوں پر، رہروی سے حاصل کیا، سنگِ میل گن گن کر، قطعِ راہِ منزل کیا

آپ نے سیاحت کی، پاؤں میں کوئی کانٹا، ہاتھ میں کوئی چھالا، خاک جستجو کی ہے

تان، دھُن، گلے بازی، سعیِ شعر افرازی، سامعین کے دل پر انبساط اندازی

کل جو دَور آئے گا، عہدِ غور آئے گا، شادؔ غم نہ کر، دُنیا آج خوش گلو کی ہے

٭٭٭

 

 

 

نظر بچا کے مجھ کو وہ مجھ میں اس کو دیکھتا رہا

جبھی تو کہہ رہا ہوں کامیابِ مدّعا رہا

خیالِ عرضِ حال تھا مگر یہ سوچتا رہا

ہزار بار کی گئی گزارشوں کا کیا رہا

قریب رہ کے بھی جو خار و گل میں فاصلہ رہا

تو پھر چمن کی زندگی سے کون فائدہ رہا

تمھیں کو چاہتا ہوں میں تمھیں سے تھیں شکایتیں

تمھیں پہ اعتماد ہے، تمھیں پہ فیصلہ رہا

نگاہِ پاکباز و قلبِ پُر خلوص چاہیے

کبھی مجھے بھی شکوۂ بُتانِ بے وفا رہا

سکونِ دل جِنھیں نصیب ہے انھیں سے پوچھیے

تڑپ اگر نہیں رہی تو زندگی میں کیا رہا

کہیں بھی مطمئن نہ ہو سکے گی چشمِ حیلہ جوُ

اگر یہی نقاب اُٹھا اُٹھا کے دیکھنا رہا

لرَز رہا تھا میں کہیں کھٹک نہ جائے انجمن

وہ انجمن میں آج اس قدر بچا بچا رہا

حدودِ ہوش سے ادھر کی بات ہی کچھ اور ہے

بہت دنوں فریبِ آگہی میں مبتلا رہا

اسی روش پہ روز ہو رہا ہے اُس کا سامنا

وہ حُسنِ اتفاق کب رہا جو بارہا رہا

وہ اصطلاحِ شاعری میں شادؔ کامیاب ہے

جو اس گلی کا ہو رہا جو اُس کے در پہ جا رہا

٭٭٭

 

 

اپنی تقدیر کو پیٹے جو پریشاں ہے کوئی

آپ کے بس میں علاجِ غمِ دوراں ہے کوئی

ٹوکیے اس کو جو اس وقت غزل خواں ہے کوئی

جیل میں نغمہ سرائی کا بھی امکاں ہے کوئی

اپنی مرضی سے تو اُگتے نہیں خودرَو پودے

ہم غریبوں کا بہر حال نگہباں ہے کوئی

کیا یہ ممکن ہے گلستاں میں نہ آئے کبھی رات

گُل رہیں، خار نکل جائیں یہ آساں ہے کوئی

زرد چہروں کو تبسّم نے کیا ہے رسوا

ورنہ ظاہر بھی نہ ہوتا کہ پریشاں ہے کوئی

حرصِ دربان کو آقا کا مصاحب سمجھے

صبر آقا کو سمجھتا ہے کہ درباں ہے کوئی

راس آتی ہے غریبوں کو کہیں آزادی

خاک بر سر ہے کوئی چاک گریباں ہے کوئی

نہ تو شرمندہ نگاہیں نہ جبیں پر شبنم

آپ کس طرح یہ کہتے ہیں پشیماں ہے کوئی

چاپ سُن کر جو ہٹا دی تھی اُٹھا لا ساقی

شیخ صاحب ہیں، میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی

مجھ سے کافر کے یہاں شادؔ مکمل سرقہ

عسسِ شہر بڑا صاحبِ ایماں ہے کوئی

٭٭٭

 

 

 

ایسی شراب جس کی زمانے کو بُو نہ آئے

میری نظر کسی کے تبسّم کو چھُو نہ آئے

وہ سب کے سامنے ہو مرے رُو بہ رو نہ آئے

محفل میں اس لحاظ پہ کچھ گفتگو نہ آئے

آنکھوں کے پاس کوئی خزانہ تو ہے نہیں

پلکوں پہ آنسوؤں میں کہاں تک لہُو نہ آئے

زاہد کی مئے کشی کا سلیقہ نہ پوچھیے

جیسے کوئی نماز پڑھے اور وضو نہ آئے

درکارِ ہر نگار ہے اک سیرتِ جمیل

رنگت پہ منحصر ہو تو پھولوں سے بو نہ آئے

راتیں گزر گئی ہیں مجھے جاگتے ہوئے

تکیوں سے اب تو اُس کے پسینے کی بو نہ آئے

موسم کو خوشگوار بناتے ہیں لازمات

ساون پہ ظلم ہے جو مئے مُشک بو نہ آئے

تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی ضرور

ظالمّ ترا سلوک ترے رُوبرو نہ آئے

یہ آستیں کا حال گریبان کا یہ رنگ

فریاد کی تو یہ کہ چلو تا گُلو نہ آئے

اظہارِ ظرف و مقصد مقدار چاہیے

ساغر نہ کر قبول تو دیکھوں سبُو نہ آئے

اس انجمن میں جا تو رہے ہیں جنابِ شادؔ

ممکن نہیں سوالِ غمِ آرزو نہ آئے

٭٭٭

 

 

آپ یا میں ؟ سوچیے اُلفت جتاتا کون ہے

انجمن میں آنکھ ملتے ہی لجاتا کون ہے

ہم ہیں جس دُنیا میں، اُس دنیا میں آتا کون ہے

مُسکرانا پڑ رہا ہے، مُسکراتا کون ہے

کس طرف روئے سخن ہے نام اس کا لیجیے

بِن بلائے آپ کی محفل میں آتا کون ہے

یہ دمکتی جلوہ گاہیں، یہ ’’چھلکتے آفتاب‘‘

ہوش ہی کس کو، بجھی شمعیں جلاتا کون ہے

یوں تو میرِ کارواں سے مطمئن کوئی نہیں

دیکھنا یہ ہے ہمارے ساتھ آتا کون ہے

داڑھیوں پر اوس پڑ جائے تو پیشانی پہ بل

ہم جو کہہ دیں بتکدے سے فیض پاتا کون ہے

زاہدِ ناداں بتوں کو مُورتیں سمجھے مگر

مورتوں کو خلوتوں میں گُدگُداتا کون ہے

ایک شاعر، اک مغنّی، فیصلہ فرمائیے

کون غزلیں ڈھالتا ہے اور گاتا کون ہے

لذتِ سوز دروں کی دل میں تعریفیں تو ہیں

لذتِ سوزِ دروں دل میں اُٹھاتا کون ہے

جن پہ صادق ہیں مری طنزیں وہ فرماتے ہیں شادؔ

’’ شادؔ صاحب آپ کو خاطر میں لاتا ہے کون‘‘

٭٭٭

 

 

میسر جن کی نظروں کو ترے گیسو کے سائے ہیں

غزل کے خوشنما اسلوب اُن کے ہاتھ آئے ہیں

یگانے اور بیگانے تعصّب نے بنائے ہیں

وگر نہ سنبل و گل ایک ہی گلشن کے جائے ہیں

حقیقت ناگوارِ خاطرِ نازک نہ بن پائی

کچھ اس تکنیک سے ہم نے اُنھیں قصے سنائے ہیں

تو وہ انداز جیسے میرا گھر پڑتا ہو رستے میں

پئے اظہارِ ہمدردی وہ جب تشریف لائے ہیں

نقابِ رُخ الٹ کر اُس نے چشمِ شوق کے پردے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا، اٹھائے ہیں گرائے ہیں

دمکتا ہے جبینِ ناز پر رنگِ پشیمانی

اب ان سے کیا کہا جائے کہ یہ صدمے اٹھائے ہیں

لگاوٹ کی نگاہوں نے چراغِ آرزو مندی

جلائے ہیں، بجھائے ہیں، بجھائے ہیں، جلائے ہیں

جنھیں مینائے مئے حاصل ہے جن کو دُردِ پیمانہ

وہ جیسے آپ کے اپنے ہیں، یہ جیسے پرائے ہیں

تغافل کی کوئی حد بھی تو ہونی چاہیے آخر

کہ جیسے بن بُلائے ہم تری محفل میں آئے ہیں

نظر آتے ہیں تارے اس طرح ساون کی راتوں میں

کسی نے پھول کاغذ کے سمندر میں بہائے ہیں

یقیں ہے شادؔ مجھ کو، کلّیاتِ نظمِ فطرت سے

گلوں نے رنگ و نگہت کے بہت مضموں چُرائے ہیں

٭٭٭

 

 

اس کو دیکھا تھا تھام کر دل رہ گئے

کچھ نہ کہہ پائے، بہت کچھ کہہ گئے

اے وفورِ شوق ہم کیا کہہ گئے

بزم کے چہرے اُتر کر رہ گئے

پھول کھلنے تھے کہ خوشبو اُڑ گئی

موج بہہ نکلی کنارے رہ گئے

زخمِ دل اُبھرا تو ٹیسیں دب گئیں

چاند گہنا تھا، ستارے گہہ گئے

وہ برابر سے نکل کر چل دیے

دامنِ نکہت میں جلوے رہ گئے

میری نظریں آپ سہہ سکتے نہیں

لوگ دیوانوں کے پتّھر سہہ گئے

کیا بتائیں دل کی کمزوری کا حال

آپ جب یاد آئے آنسو بہہ گئے

یہ بھی حالت ہے کہ ہم ہیں اور ’’ آہ‘‘

وہ بھی عالم تھا کہ صدمے سہہ گئے

چومتے آتے ہیں ہم نقشِ قدم

وہ سمجھتے ہیں کہ پیچھے رہ گئے

تنگ ہیں ہم اپنی اس فطرت سے شادؔ

جو زباں پر آ گئی وہ کہہ گئے

یہ اندھیرا کوتوالی کے قریب

شاد صاحب آپ لُٹ کر رہ گئے

٭٭٭

 

 

 

دیکھ پاتے جو ہم کو درمیانِ کوئے دوست

کھڑکیوں سے بھول جاتے ہیں بُتانِ کوئے دوست

پاسدارِ لا مکاں ہے ہر مکانِ کوئے دوست

دوست ہی چاہے تومِل جائے نشانِ کوئے دوست

جھوٹ بھی کیا کہہ رہے ہیں واقفانِ کوئے دوست

کون دیوانوں کو بتلائے نشانِ کوئے دوست

اوّلاً ہر موڑ پر کچھ ناصحانِ کوئے دوست

اور ان کے بعد جرحِ پاسبانِ کوئے دوست

یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کوچۂ دار و رسن

ہم نہ جانے کر رہے تھے کیا گمانِ کوئے دوست

شام ہوتے ہی بکھر جائیں گے تارے راہ میں

شام تک سوتی رہے گی کہکشانِ کوئے دوست

کوئی سوچے تو جبیں سائی کا حاصل کیا رہا

نا مکمل چھوڑنی ہے داستانِ کوئے دوست

جب شفق کی آڑ میں کوئی سرِ بام آ گیا

جگمگا اٹھی فضائے آسمانِ کوئے دوست

ہر صداقت رنگ لاتی ہے مگر تاخیر سے

دوست بنتے جار ہے ہیں دشمنانِ کوئے دوست

آج کل راتیں بڑی ہیں اس لیے دن گھٹ گیا

تھے کبھی ہم لوگ بھی شایانِ شانِ کوئے دوست

ریشمیں پردوں سے، رنگیں چلمنوں کی آڑ سے

جھانکنے لگتا ہے مجھ کو ہر مکانِ کوئے دوست

شادؔ بیچارے قصیدے بھی تو کہہ پاتے نہیں

تاجرانِ عصمتِ فن، مدح خوانِ کوئے دوست

٭٭٭

 

 

تعبیر پہ حاوی ہوں، تشبیہہ پہ قابو ہے

مچلی ہوئی زلفوں میں چلتا ہوا جادو ہے

اس نسبتِ موزوں سے افراد میں خو بو ہے

گویا یدِ قدرت میں اک ’’ رام ترازو‘‘ ہے

تعریف کے لہجے میں تذلیل کا پہلو ہے

جوآپ نے برتا ہے وہ ’’آپ ‘‘ نہیں ’’تو‘‘ ہے

مشکین و مُعنبر ہیں اُس بُت کی گزر گاہیں

واللہ پسِ آہو، گردِ رمِ آہو ہے

مرہونِ بصیرت ہے تابانیِ ذرّہ بھی

ٹوٹا ہوا تارا ہے، اُڑتا ہوا جگنو ہے

یہ ’’ بدرِ قدح صورت‘‘ تم مجھ سے اگر پوچھو

آکاش کے دامن میں بہتا ہوا آنسو ہے

ہر طرح خریدوں گا میں تیری رضا مندی

توہینِ چمن میں ہوں، تزئینِ چمن تو ہے

سب ہی کو نوازا ہے اس قادرِ مطلق نے

اس پھول میں رنگت ہے اس پھول میں خوشبو ہے

اے شادؔ جوانی میں تکمیل ہوئی جس کی

وہ شعر و غزل۱؎ دستہ’’ درجِ رُخ و گیسو۲؎ ‘‘ ہے

۱؎     بطور گلدستہ       ۲؎   میرے عشقیہ اشعار کے مجموعے کا نام ہے۔ (شادؔ عارفی)

٭٭٭

 

 

 

ہماری وفا کا یقیں چاہتے ہیں مگر امتحاں بھی ہمارا نہیں ہے

کہیں کیا؟ کریں کیا؟ جب اس انجمن میں کوئی ترجماں بھی ہمارا نہیں ہے

اگر ہم سے پھولوں کو ضد ہو گئی ہے اگر باغباں بھی ہمارا نہیں ہے

یہ گُلبن تمھارے، یہ گُلشن تمھارا، تو کیا آشیاں بھی ہمارا نہیں ہے

اندھیروں میں یونہی بھٹکتے رہیں گے، اُلجھتے رہیں گے کھٹکتے رہیں گے

مگر جس نے یہ پھُوٹ ڈالی ہے اُس پر نظر کیا گماں بھی ہمارا نہیں ہے

نہ تمئیزِ نغمہ، نہ تحقیقِ نالہ، نہ تشریحِ گریہ، نہ تائیدِ شکوہ

وہاں سب زباں دانِ اُردو ہیں لیکن کوئی ترجماں بھی ہمارا نہیں ہے

توقع نہیں ہے جو ہم نے کہا تھا تمھیں ہو بہو وہ سُنایا گیا ہو

کچھ اپنی طرف سے بڑھایا گیا ہے، یہ طرزِ بیاں بھی ہمارا نہیں ہے

اس الٹی لیاقت اس اُلٹی سمجھ کا بھگتوان تم کو بھُگتنا پڑے گا

جِسے تم ہمارے لیے لا رہے ہو وہ سود و زیاں بھی ہمارا نہیں ہے

یہ مانا لئیمانِ مغرب کے سکّوں کا پورا تسلط ہے روئے زمیں پر

جو کوندے نہ لپکے جو شعلے نہ برسے تو پھر آسماں بھی ہمارا نہیں ہے

ہماری خودی کو گورا نہیں ہے تری ترش روئی تری سرد مہری

جہاں تیری محفل نہیں ہے ہماری، ترا آستاں بھی ہمارا نہیں ہے

بھروسہ نہیں ہے ہمارے لیے کوئی آنسو بہائے گا از راہِ عبرت

وہاں کون یاروں کے لائے گا مانڈے جہاں نوحہ خواں بھی ہمارا نہیں ہے

یہ جنتا، یہ ہم لوگ، ’’کالی کی بھیڑوں کا گلّہ ‘‘ کہاں بھینٹ چڑھنے کو جائے

تمھیں قتل کر دو، تمھارے علاوہ کوئی مہرباں بھی ہمارا نہیں ہے

وہ اس طرح بڑھ بڑھ کے باتیں بناتے ہیں نخوت جتاتے ہیں دولت کے بل پر

زمانے میں جو کچھ ہے سب ان کے حق میں ہے، شورِ فغاں بھی ہمارا نہیں ہے

گلستاں میں کانٹوں کی مانند اے شادؔ ہم لوگ پھولوں میں تُلتے رہے ہیں

کوئی پاسبانی یہ مامور بھی ہے، کوئی پاسباں بھی ہمارا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

بت خانوں کو یہ آزادی

اینٹ کی خاطر مسجد ڈھا دی

یہ بد نظمی یہ بربادی

زرّیں جنس گدھوں پر لادی

بڑھتے جاتے ہیں فریادی

آزادی حد پر پہنچا دی

ہم نے ان کو ہمدم کہہ کر

جانے بات کہاں پہنچا دی

شیخ و برہمن دونوں ننگے

پردے کی دیوار گرا دی

تم نے عرضِ حال پہ ہنس کر

ظلم کیا ہے، داد تو کیا دی

بڑھیا شاعر بھی دیکھے ہیں

گھٹیا شعر و سخن کے عادی

سلجھانے کی بات بنا کر

’’ داڑھی‘‘ ’’ چوٹی‘‘ میں اُلجھا دی

ہمسایوں کو ذہن میں رکھ کر

اپنے گھر کو آگ لگا دی

بہرے ہیں اربابِ دولت

کون توقع اے فریادی

’’دھنگنا ‘‘دے کر چھوڑ دیا ہے

یوں بھی ملتی ہے آزادی

اس نے جب سو تیر چلائے

میں نے ایک غزل چِپکا دی

اب اربابِ طریقت جانیں

شادؔ نے میخانے سے لادی

٭٭٭

 

 

نِکھر رہی ہے سنور رہی ہے نگارِ معنی کی زُلفِ پُر فن

چراغ روشن، مُراد حاصل، مُراد حاصل، چراغ روشن

پھر اور چلمن، پھر اور چلمن، پھر اور چلمن، پھر اور چلمن

جبھی تو بزمِ ہزار جلوہ پہ کوئی پہرہ نہ کوئی قدغن

اگر تصوّر کی وادیوں میں نہ کی گئی میری کوئی دستگیری

کسی کا دامن بھی تھام سکتا ہوں میں سمجھ کر تمھارا دامن

یہ کفر و ایماں کی کشمکش بے مُراد و بے مدّعا نہیں ہے

جہانِ کون و فساد میں پائی جا رہی ہے مفید اَن بَن

حصولِ عرفاں کی جستجو میں شراب خانے پہنچنے والو

وہاں کا ساغر فریبِ رنگیں، وہاں کاساقی حسین رہزن

وہ سب کو دیکھے وہ سب کے نزدیک ہوکے گزرے نظر نہ آئے

نسیم و نگہت بنا ہوا ہے شبابِ معصوم و پاک دامن

جہانِ ظاہر میں جس طرح مختلف ہے تعمیرِ دَیر وکعبہ

اسی طرح ہیں جہانِ دل میں الگ الگ کفر و دیں کے مسکن

تھکی ہوئی چشمِ جلوہ جوُ کی نگاہ میں پھول پھول کب ہیں

مگر نشیمن، مگر نشیمن، مگر نشیمن، مگر نشیمن

عبادتِ شب کے ساتھ اے شادؔ گریۂ عفو لازمی ہے

زبانِ اظہارِ التجا کو عطا ہوئی ہے مجالِ شیون

٭٭٭

 

 

نہ کوئی بت حسیں ہے نہ کوئی بُت جوان ہے

ہماری پاکبازیِ نظر کا امتحان ہے

کبھی کوئی بیان ہے کبھی کوئی بیان ہے

جو پینترے بدل سکے وہ آپ کی زبان ہے

وہ ہم پہ مہربان تھا وہ ہم پہ مہربان ہے

قیاس ہی قیاس ہے، گمان ہی گمان ہے

مخالفانِ شعر کی یہ شکل ہے یہ شان ہے

گھٹے تو ایک فرد ہے، بڑھے تو خاندان ہے

جنابِ شیخِ شہر بھی اُچھل پڑے یہ دیکھ کر

کہ میرے گھر کے پاس ہی شراب کی دکان ہے

سُنا رہے ہیں ماجرائے دل ہم اس خیال سے

اگر وہ سُن کے مُسکرا دیے تو داستان ہے

عروجِ پاسبانِ قوم پر ہمیں حسد نہیں

یہ سب خدا کی دین ہے یہ سب خدا کی شان ہے

رہا ہے غیر مستقل سُرور بھی، خمار بھی

خوشی بھی میہمان تھی الم بھی میہمان ہے

محل ہیں طعنہ زن ہمارے غم کدوں پہ اس طرح

کہ جس طرح زمین سے بلند آسمان ہے

صداقتوں کی تلخیوں کے ساتھ شادؔ عارفی

لطافتِ بیانِ واقعہ غزل کی جان ہے

٭٭٭

 

 

 

گدرائی کلیوں کی صورت کب چھُپتا ہے جوبن کوئی

تھام رہا ہے بانہیں کوئی، کھینچ رہے ہے دامن کوئی

بدلی ایسی زلف کی لٹ میں شامل کر کے الجھن کوئی

میری خاطر بال سُکھانے ناپ رہا ہے آنگن کوئی

تیرہ چودہ کی عمروں میں لازم ہے محتاط رہیں ہم

کیا ایسی پھلتی عمروں کو کہہ سکتا ہے بچپن کوئی

ایسی للچائی نظروں سے اس کو دشمن دیکھ رہا ہے

جیسے اس کے جھومر بُندے تاک رہا ہو رہزن کوئی

مستقبل میں رفتہ رفتہ، گھُل مل کر افسانے ہوں گے

اب تک چلتے پھرتے جملے، وہ بھی رسماً ضمناً کوئی

اُس کی زلف کا لہرا لینا دُور سے کچھ ایسا لگتا ہے

چندن سے گورے شانے پر جیسے کالی ناگن کوئی

تو نے میری ہمدردی میں آج جو اتنی جرأت برتی

کل ہوتے ہی بڑھ جائے گا تیرے حق میں بندھن کوئی

فیضانِ ساقی سے اندر آتے ہی تعریفیں رخصت

میخانے سے باہر آ کر کوئی شیخ، برہمن کوئی

لفظیں موضوعات سے ہٹ کر اپنا مقصد کھو دیتی ہیں

محبوبہ کے نظّارے کو کہہ کر دیکھے درشن کوئی

خلوت میں بھی پرتو اس کا، اُس کا ہالہ بن جاتا ہے

بے پردہ مل آنے والو! بیچ میں ہو گی چلمن کوئی

الفت کے آکاش پہ جھلمل جھلمل کا نظاّرہ کِیجے

تخمیناً دس لاکھ مقدّر، مدھم کوئی روشن کوئی

شعروں میں اظہارِ حقیقت سے اغماض کہاں ممکن ہے

شادؔ میری طنزوں سے بڑھ کر کب ہے میرا دشمن کوئی

٭٭٭

 

 

یہاں نہیں ہے وہاں نہیں ہے اِدھر نہیں ہے اُدھر نہیں ہے

مگرکسی طرح دل نہیں مانتا کہ وہ جلوہ گر نہیں ہے

جنونِ الفت پہ طعن کرنے کا یہ محل چارہ گر نہیں ہے

نہیں ہے کچھ کم یہی مصیبت کہ شامِ غم کی سحر نہیں ہے

سحر کے سازِ طرب میں کیسے کہوں نشاط و اثر نہیں ہے

یہ دوسری بات ہے کہ نغموں سے دل مِرا بہرہ ور نہیں ہے

کسی بھی در پر علاجِ آویزشِ یقین و گُماں نہ ہو گا

ادھر چلا آ کہ میکدے میں اگر نہیں ہے مگر نہیں ہے

ہزار ہا سامنے کی باتوں سے جان پڑتی ہے شاعری میں

وہ کون سے پیش پا مضامیں ہیں جن پہ میری نظر نہیں ہے

جبیں پہ بِندی، نظر میں جادو، لبوں پہ بجلی، کمر پہ گیسو

وہ میری حیرت کو دیکھتے ہیں انھیں کچھ اپنی خبر نہیں ہے

نہیں جو قاصد کا آنا جانا، فریب کھانے لگا زمانہ

تو یہ حقیقت، کہ ربطِ بے حد کو حاجت نامہ بر نہیں ہے

نقاب اُٹھنے میں دیر کیوں ہے یہ کون سمجھے یہ کون جانے

کسے خبر ہے کہ خواہشِ دید وقت سے پیشتر نہیں ہے

خدائے دولت کی تجھ کو اے دوست اور پہچان کیا بتاؤں

خدائے دولت وہی ہے جس کو خدائے برتر کا ڈر نہیں ہے

غلط بیانی سے شادؔ اہلِ سخن ابھی کام لے رہے ہیں

نہیں ہے ہر چند وہ زمانہ’’ دہن نہیں ہے، کمر نہیں ہے‘‘

٭٭٭

 

 

اُداسیوں کی چھاؤں کو سمجھ رہے ہیں نور ہے

یہ آپ کی تمیز ہے یہ آپ کا شعور ہے

تغافلِ کمالِ فن مزاجِ رامپور ہے

تو مجھ سے بے رُخی میں دوستوں کا کیا قصور ہے

وطن فروش کہہ کے جس کو ہونٹ کاٹتے ہیں ہم

وہ اپنے فائدے کے سلسلے میں ذی شعور ہے

شگوفۂ جواں کی طرح کھُل کے مُسکرائیے

نہ سوچیے خزاں چمن کے پاس ہے کہ دُور ہے

جو ریزہ چینِ خوانِ اشقیا رہے ہیں عمر بھر

انھیں کے لب پہ بندگانِ عالی و حضور ہے

اگر لحاظِ رسمِ رہ نُما ضرور ہے اُنھیں

تو کارواں کی عافیت کا پاس بھی ضرور ہے

وطن کو بیچ دے جو اپنے فائدے کے واسطے

وہ ذہن کا پلید ہے وہ دل کا نا صُبور ہے

اگر میں اُٹھ چلوں کہیں گے فن کا اہل ہی نہ تھا

اگر میں جام توڑ دوں کہیں گے بے شعور ہے

اک اجنبی کی طرح اپنی زندگی گزار کر

جہاں میں رہ رہا ہوں وہ مرا وطن ضرور ہے

امامِ فن کہیں گے اس غزل کو دیکھ دیکھ کر

یہ کوئی شاعری ہے جس میں ’’حور‘‘ ہے نہ ’’ طور‘‘ ہے

زمانہ اُن کے باب میں کرے گا شادؔ فیصلہ

وہ کھوکھلے کہ جن کو فنِّ شعر پر غرور ہے

٭٭٭

 

 

بحث تھی جس پر وہ موضوع سخن باقی بھی ہے

فن پژوہوں میں مذاقِ انجمن باقی بھی ہے

مجھ کو اظہارِ حقیقت کی خدا توفیق دے

کیوں نہیں، افسانۂ دار و رسن باقی بھی ہے

انقلاب آمادہ ذہنوں کو غزل کی چاشنی

تجھ میں اے مطرب تمیزِ اہلِ فن باقی بھی ہے

اک مثالی چیز بن جاتی ہے سعیِ کامیاب

تھا کوئی فرہاد، لیکن کوہکن باقی بھی ہے

وسمہ و غازہ کی یہ شوقین بڑھیا تا بہ کَے

فرض کر لیجے غزل میں بانکپن باقی بھی ہے

میں تعارف بھی کرا دوں گا اگر چاہیں گے آپ

شمرِ ذی الجوشن یزیدِ بد چلن باقی بھی ہے

تم کہاں تک عدل خواہوں کے اُڑا سکتے ہو سر

آدمی جب تک ہے یہ دیوانہ پن باقی بھی ہے

کیا کروں اپنی زباں میں آج اظہارِ خیال

انجمن میں کوئی میرا ہم سخن باقی بھی ہے

نظمِ ناکارہ کو دشمن کیوں نہ اپنائے کہ شادؔ

نظمِ ناکارہ کے باعث راہزن باقی بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

ناصح جو غلط بین و غلط کار رہا ہے

آنکھوں سے ترُپ ذہن سے نادار رہا ہے

اس وقت کہ ماحول بھی للکار رہا ہے

کیا موقعۂ رنگینیِ اشعار رہا ہے

اِن غم کی گھٹاؤں میں پپیہے کی صدا پر

محسوس یہ ہوتا ہے کہ جَھک مار رہا ہے

ہم تھے سو ہُوئے نذرِ تگ و تازِ معیشت

اب کون حریفِ رسن و دار رہا ہے

تاریخ بتاتی ہے کہ انبوہِ لئیماں

ہر دَور میں ظلمت کا طرفدار رہا ہے

رفتار وہی، ٹھاٹ بھی، تیور بھی وہی ہیں

یہ شخص کسی عہد میں سرکار رہا ہے

سستائے جو رہرو تو نہ دیجے کوئی طعنہ

یہ دیکھیے ہمّت تو نہیں ہار رہا ہے

ہر زاہدِ شب زندہ کے افعال پرکھیے

رہنے کو تو عیاش بھی بیدار رہا ہے

کیوں شرکتِ محفل کی نہیں ہم کو اجازت

ہر پھول کے پہلو میں اگر خار رہا ہے

مہمل ہیں، بھروسہ ہے جنھیں چترِ شہی پر

اک حال میں کب سایۂ دیوار رہا ہے

اس شہرِ سخنداں سے نہیں مجھ کو تعلّق

محبوبِ جہاں قسمتِ اغیار رہا ہے

دس پانچ برس حضرتِ حالی کی طرح شادؔ

مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

عید کا دن ہے، کوئی سلسلۂ دید نہیں

دید ہے عید اگر دید نہیں، عید نہیں

آج دشمن سے تو جائز ہے گلے مِل لینا

آپ کی ذات سے لیکن مجھے امّید نہیں

میں ہوں آمادۂ تجدیدِ ملاقات، مگر

اُن کی جانب سے ابھی تک کوئی تمہید نہیں

رویتِ ماہ ضروری ہے پئے عید مگر

میں قسم کھا کے یہ کہہ دوں گا مری عید نہیں

اُس کی الفت کے سوا اُس کے تصوّر کے سوا

میرے افکار کو حاصل کوئی تائید نہیں

خواہشِ دید کے انکار پہ ہنستے ہوئے لب

اس کو تائید کہا جاتا ہے تردید نہیں

عید کا چاند سرِ بام نہ دیکھا اے شادؔ

یہ وہ مصرع ہے کہ جس میں کہیں تعقید نہیں

٭٭٭

 

 

صداقتوں کے ہمنَوا پچاس فی صدی نہیں

مرے وطن میں میرے دشمنوں کی کچھ کمی نہیں

ابھی تو انقلابِ اوّلیں ہی نا تمام ہے

اک انقلابِ تام آئے گا مگر ابھی نہیں

کس آسرے پہ چھوڑنے چلے ہو بزمِ میکدہ

اِدھر بھی روشنی نہیں، اُدھر بھی روشنی نہیں

بیان کی صداقتوں کو نذرِ مصلحت نہ کر

وہی تو گفتنی ہے اصل میں جو گفتنی نہیں

ٹھہر ٹھہر کے سوچنے کا وقت اب کہاں رہا

پلٹ پلٹ کے دیکھنا مزاجِ آگہی نہیں

بہارِ بوستاں سے کیا یہ پوچھنا بھی جرم ہے

جو چاہیے روِش روِش پہ، کیوں وہ تازگی نہیں

ہماری بے کسی سے فائدہ بھی مت اٹھاؤ تم

اگر تمھارے پاس کچھ علاجِ بے کسی نہیں

نفاقِ باہمی ہی ’’ آدمی‘‘ پہ اک دلیل ہے

ہم آدمی کہاں اگر نفاقِ باہمی نہیں

کلی کلی کے لب پہ اس ہنسی کو غور کیجیے

گماں ہو جس پہ ہونٹ کاٹنے کا وہ ہنسی نہیں

چمن سے باغبان کو وہ رابطہ نہیں رہا

تو کس طرح یہ مان لوں کہ اُس میں کوئی فی نہیں

نوائے تلخ شادؔ جن کو بد حواس کر گئی

وہ کہہ رہے ہیں یہ غزل سُنی گئی، چلی نہیں

٭٭٭

 

 

 

تم نہ ہو گے تو کوئی اور سہارا ہو گا

کون ہو گا؟ کوئی اللہ کا پیارا ہو گا

جن کو سہمی ہوئی فطرت کا سہارا ہو گا

ان کو توہین بھگتنے کا بھی یارا ہو گا

آتشِ گُل سے نشیمن بھی کہیں جلتے ہیں

آپ کی چشمِ فسوں گر کا اشارا ہو گا

حقِّ آزادیِ گلشن میں کمی بیشی کیوں

غالباً آپ نے ’’ہدّق ‘‘کوئی مارا ہو گا

جو سفینہ بھی ہو ممنونِ فریبِ تخئیل

جو تھپیڑا اُسے چونکائے، کنارا ہو گا

کان دھرتے نہیں راحت کے گریزاں سائے

تم نے بھی عشرتِ رفتہ کو پکارا ہو گا

عدل و انصاف کے پردے میں کوئی حکمِ غلط

غیر از جبر و تشدّد نہ گوارا ہو گا

بت و بادہ کے بیانات سے چلتا ہے پتہ

شیخ صاحب نے کہاں ہاتھ نہ مارا ہو گا

نظر آئے گا جو بجھتا سا چراغِ منزل

ہر سلگتی ہوئی قسمت کا ستارا ہو گا

ناخدا، راہ نما، برہمن و شیخ و مغاں

ہے کوئی روپ جو رہزن نے نہ دھارا ہو گا

اور نزدیک بلا لیں تو سُہا بدر بنے

چاند کو اور اُچھالیں تو ستارا ہو گا

سرِ مژگاں جو دمکتا ہے، جو آنسو ہے ابھی

اس کے دامن پہ ڈھلک جائے تو پارا ہو گا

شادؔ خوش فہمیِ یارانِ ادب کے باعث

میرؔ صاحب کی طرح میرا گزارا ہو گا

٭٭٭

 

 

لفظ و معنی کے دھنی ہیں حُسن پر مرتے ہیں ہم

فن برائے فن کی حد تک شاعری کرتے ہیں ہم

وقت کے تیور سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں ہم

چِین سے ڈرتے نہیں ہیں چِین سے ڈرتے ہیں ہم

بر بِنائے احترامِ آہوانِ رہ گزار

بیٹھ کر رستوں میں آزادی کا دم بھرتے ہیں ہم

آپ لوگوں نے ہمارا کیا بگاڑا ہے مگر

آپ کے سر برق کا الزام کیوں دھرتے ہیں ہم

مژدۂ منزل کو آنکھیں مان لیں گی کس طرح

اپنے کانوں پر اگر احسان بھی دھرتے ہیں ہم

بد دعاؤں کا دعاؤں سے کہیں چلتا ہے کام

باغبانوں کو بھلا کر کہہ بُرا کرتے ہیں ہم

بے تکلّف مسکراتے ہیں جو ہر توہین پر

اپنی عزت سے زیادہ آپ سے ڈرتے ہیں ہم

جیسے جس سے بات کی جائے گی، سر ہو جائے گا

آج اس محفل میں جس جانب نظر کرتے ہیں ہم

آج بیٹھے پی رہے ہیں آپ ہم لوگوں کے ساتھ

حضرتِ زاہد جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں ہم

کوئی تبدیلی ہوئی واقع نہ کچھ ردّو بدل

موسمِ گُل پر خزاں کا نام یوں دھرتے ہیں ہم

پاسباں سے غالبِؔ مرحوم کی شامت کے بعد

احتیاطاً شادؔ ہر دربان سے ڈرتے ہیں ہم

٭٭٭

 

 

ہم کسی گلچیں کو کیسے باغباں کہنے لگیں

آپ کی کیا ہے زمیں کو آسماں کہنے لگیں

زرو دے کر الحفیظ والاماں کہنے لگیں

وہ مخاطب ہوں تو اپنی داستاں کہنے لگیں

وہ ستاتے ہیں ہمیں لیکن کچھ اس انداز سے

جب سوال اُٹّھے تو ہنس کر امتحاں کہنے لگیں

جاؤ بھی، تم سے نہیں آتیں زمانہ ساز یاں

آؤ نا! ہم بھی خزاں کو گلفشاں کہنے لگیں

کیا پڑی ہے اور کو ہم سے کَھپائے گا جو سر

اپنی کوشش کو ہمیں جب رائیگاں کہنے لگیں

ہم تمھارے ہیں تمھیں راضی رکھیں گے ہر طرح

تم جسے کہہ دو، تمھارا آستاں کہنے لگیں

اس کے چہرے پر بکھر جاتی ہے سرسوں دفعتاً

ہم کسی کافر کو جب نا مہرباں کہنے لگیں

مُنہ چڑھانے کو جو اُن کے غنچۂ نورس کہے

وہ اسی کو شاعرِ شیریں زباں کہنے لگیں

’’ سُرخ شاعر‘‘ مصلحت کی کینچلی جھاڑیں جو شادؔ

پھول کو دل اور نگہت کو فغاں کہنے لگیں

٭٭٭

 

 

 

ہماری غزلوں، ہمارے شعروں سے تم کو یہ آگہی ملے گی

کہاں کہاں کارواں لُٹے ہیں کہاں کہاں روشنی ملے گی

جہاں ملیں گے، بتوں کے ہونٹوں پہ یوں تو گہری ہنسی ملے گی

مگر بہ باطن خلوص و شائستگی میں واضح کمی ملے گی

اُسی سمَے ہم نے ان کو ٹوکا تھا باغباں جب یہ کہہ رہے تھے

بہار آتے ہی جی اٹھے گا چمن، نئی زندگی ملے گی

سنبھل سنبھل کر قدم بڑھاتے ہیں اس طرح مصلحت کے پیرو

کہ جیسے سکّے کی طرح رستے میں کامیابی پڑی ملے گی

ہمیں ستا کر جو ہیں پشیمان دل میں، شاید وہ بچ بھی جائیں

ہمیں ستا کر جو مطمئن ہیں انھیں سزا لازمی ملے گی

بھرے ہوئے ساغر و سبو میں شراب بھر پائے گا نہ ساقی

تو پھر غریقانِ عیش و عشرت کو خاک آسودگی ملے گی

نہیں ہے انسانیت کے بارے میں آج بھی ذہن صاف جن کا

وہ کہہ رہے ہیں کہ جِس سے نیکی کرو گے اُس سے بَدی ملے گی

غمِ محبت کے بعد آتی ہے سر حدِ التفاتِ جاناں

شراب کی تلخیاں سہو گے تو لذّتِ بے خودی ملے گی

یہ بدگمانانِ انجمن شادؔ کس لیے جان کھو رہے ہیں

نقاب اٹھانے کے بعد بھی اس نگاہ میں برہمی ملے گی

٭٭٭

 

 

 

ایک تو اک جام ہی شائستۂ محفل نہیں

دُوسرے یہ بھی کہ میں حقدار ہوں ’سائل نہیں ‘

باغ سے جاتی بہاروں کی طرف مائل نہیں

پھول کو ہم پھول کہہ سکتے ہیں لیکن، دل نہیں

یہ نرالی طرزِ استدلال یہ جمہوریت

تیغِ قاتل سے ٹپکتا ہے کہ یہ قاتل نہیں

آپ طاقتور بھی، ساری مملکت بھی آپ کی

ہے تو گستاخی، پہ عالی جاہ اس قابل نہیں

عزم محکم، تاک میں سرمایہ، زنداں منتظر

جو مری منزل ہے قبلہ آپ کی منزل نہیں

رات کو دن میں بدل دیں گے یہ مٹّی کے دیئے

اب ہمارے ذہن میں تاریک مستقبل نہیں

’’ موج ٹکرا کر پلٹ پڑتی ہے ساحل کی طرف‘‘

ظلم کی لَو پر پگھل جانا مقامِ دل نہیں

بے محَل ہو گا سوالِ خاطرِ مینا و جام

یہ ہماری انجمن ہے آپ کی محفل نہیں

بات ساقی کی بڑھانا چاہتا ہوں میں، مگر

انجمن محسوس کرتی ہے کہ میں غافل نہیں

وہ جو ننگی ناچتی رہتی ہے بزمِ عیش میں

اس غزل کا شادؔ کیا ماحول بھی قائل نہیں

٭٭٭

 

 

سر سے ٹوپی گر جائے گی گردن دُکھ کر رہ جائے گی

تب میرے اہرامِ معنیٰ تک تنقید پہنچ پائے گی

میرے شعروں پر وہ جس دن بگڑے گی یا شرمائے گی

شادؔ اسی دن ساری محفل رازِ الفت پا جائے گی

سیدھی سادی باتیں کہہ کر فن دانی پر ناز غلط ہے

شہ راہوں پر چلنے والی منڈلی کیا ٹھوکر کھائے گی

تیرے رنگ پہ مرنے والے تجھ کو آج شگوفہ کہہ لیں

تیری آنکھ سے خوں برسے گا تیری زلف غضب ڈھالے گی

خلقی کج بحثی کے باعث اچھے مستقبل کی بابت

وہ کہتے ہیں گھٹا امڈے گی میں کہتا ہوں خبر آئے گی

زاہدِ قبلہ ہوں یا قاضی، ان سے مَیخانے آتے ہی

کوئی لطیفہ سرزد ہو گا کوئی حماقت ہو جائے گی

میرے ہوتے وہ سنجیدہ رہ جائے، حد بھر نا ممکن

آنچل مچلے گا، سنبھلے گا، شوخ نگاہی اِترائے گی

?فن کے جلوہ پاش کلس کو تکتا کیا ہے تو اے حاسد

فن کے جلوہ پاش کلس تک چشمِ زخم نہ جا پائے گی

وہ چاہیں تو ان کی دولت میرے کام نہیں آ سکتی

شادؔ مرے شعروں سے لیکن ان کی شہرت ہو جائے گی

٭٭٭

 

 

 

قدم سنبھل کے بڑھاؤ کہ روشنی کم ہے

اگر یہ بھول نہ جاؤ کہ روشنی کم ہے

گھروں کو آگ لگاؤ کہ روشنی کم ہے

یہیں سے بات بناؤ کہ روشنی کم ہے

جواب یہ کہ کوئی رہنمائے قوم ہیں آپ

اگر کسی کو بتاؤ کہ روشنی کم ہے

سحر کو شام سمجھنا جو بس کی بات نہیں

یہی سوال اٹھاؤ کہ روشنی کم ہے

صدا لگاؤ کہ آنکھیں عجیب نعمت ہیں

انھیں یقین دلاؤ کہ روشنی کم ہے

کہیں جھپٹ نہ پڑیں دن میں مشعلیں لے کر

عوام کو نہ سُجھاؤ کہ روشنی کم ہے

رَوا نہیں کہ کسی ڈوبتے ستارے کو

چراغِ راہ بناؤ کہ روشنی کم ہے

سوادِ شام کے خاموش جگنوؤں سے کہو

تمھیں چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے

ذرا پہنچ کے تو دیکھو سوادِ منزل تک

تم اس خبر پہ نہ جاؤ کہ روشنی کم ہے

ہزار سال تو رہتا نہیں عبوری دَور

فساد خوب اُگاؤ کہ روشنی کم ہے

یہ شاعرانِ غلط بِیں کہیں گے اک دن شادؔ

ہمیں چراغ دکھاؤ کہ روشنی کم ہے

٭٭٭

 

 

 

جذبۂ محبت کو تیرِ بے خطا پایا

میں نے جب اُسے دیکھا، دیکھتا ہوا پایا

جانتے ہو کیا پایا؟ پوچھتے ہو کیا پایا؟

صبح دم دریچے میں ایک خط پڑا پایا

دیر سے پہنچنے پر بحث تو ہوئی لیکن

اُس کی بے قراری کو حسبِ مدّعا پایا

صبح تک مرے ہمراہ آنکھ بھی نہ جھپکائی

میں نے ہر ستارے کو درد آشنا پایا

گریۂ جدائی کو سہل جاننے والو

دل سے آنکھ کی جانب خون دَوڑتا پایا

اہتمامِ پردہ نے کھول دیں نئی راہیں

وہ جہاں چھُپا جا کر، میرا سامنا پایا

دل کو موہ لیتی ہے دلکشیِ نظّارہ

آنکھ کی خطاؤں میں دل کو مبتلا پایا

رنگ لائی نا آخر ترکِ ناز برداری

ہاتھ جوڑ کر اُس کو محوِ التجا پایا

شادؔ غیر ممکن ہے شکوۂ بتاں مجھ سے

میں نے جس سے الفت کی اس کو با وفا پایا

٭٭٭

 

 

 

عہدِ مایوسی جہاں تک سازگار آتا گیا

اپنے آپے میں دلِ بے اختیار آتا گیا

جس قدر خدشہ خلافِ انتظار آتا گیا

وہ مرے نزدیک مثلِ اعتبار آتا گیا

کچھ سکوں، کچھ ضبط، کچھ رنگِ قرار آتا گیا

الغرض اخفائے رازِ قربِ یار آتا گیا

اُڑتے اُڑتے اس کے آنے کی خبر ملتی رہی

بال کھولے مژدۂ گیسوئے یار آتا گیا

مسترد کرتا رہا میں اس کی دل آویزیاں

میری الغرضی کی ضِد میں اُس کو پیار آتا گیا

جستہ جستہ لہلہایا گلشنِ زخمِ جگر

رفتہ رفتہ دستۂ گُل پر نکھار آتا گیا

نیند آنکھوں میں مگر آتی گئی اُڑتی گئی

دوش نگہت پر پیامِ زلفِ یار آتا گیا

اُس نے جس حد تک بھی ہم سے داستانِ غم سُنی

ہم کو اُس نسبت سے فنِّ اختصار آتا گیا

اس کے رجحانِ نظر میں دلکشی پاتے ہوئے

اعتبارِ گردشِ لیل و نہار آتا گیا

غالباً یہ بھی ہے میری کامیابی کا سبب

اپنی ناکامی پہ غصّہ بار بار آتا گیا

اُن میں شامل مسکراتے پھول بھی تارے بھی ہیں

جن دریچوں سے شعورِ حُسنِ یار آتا گیا

آگے آگے آشیانے خار و خس چنتے چلے

پیچہ پیچھے تختِ طاؤسِ بہار آتا گیا

رنگ لائے گی ہماری تنگدستی۱؎ ایک دن

مثلِ غالبؔ شادؔ گر سب کُچھ اُدھار آتا گیا

۱؎   فاقہ مستی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غالبؔ

٭٭٭

 

 

 

چارۂ زخمِ دلِ زار سے بھر پائے نا

میں جو کہتا تھا کہ گھبراؤ گے گھبرائے نا

یاد نے اس کی وہی دل پہ ستم ڈھائے نا

الغرض، ترکِ ملاقات سے پچھتائے نا

جس نے بیگانۂ اسلام بنا رکھّا ہے

کوئی اس کافرِ بد کیش کو شرمائے نا

یہ جو شہرت ہے مریدوں کی شرارت سے نہ ہو

شیخ صاحب سے کسی روز ’’مِلا جائے نا‘‘

ہمہ اوقات جِھجکنے کے نہیں ہم قائل

حُسن انگڑائی کا عالم ہو تو شرمائے نا

جن کو کھو جانے کا دعویٰ ہے غلط سمجھے ہیں

راہ میں اُس کی جو کھو جائے اُسے پائے نا

عہدِ الفت سے اگر چال نہیں ہے مقصود

اپنی بھرپُور جوانی کی قسم کھائے نا

آپ جس میکدۂ امن سے گھبراتے تھے

ہو کے دنیا سے پریشان وہیں آئے نا

اب تو یہ فیصلۂ بزمِ ادب ہے اے شادؔ

وہی شاعر ہے جو لہرا کے غزل گائے نا

٭٭٭

 

 

 

قیاس پر ہے بہاروں کا اعتبار ابھی

کہ میں نہ آپ ’’گریبان تار تار‘‘ ابھی

بڑھا ہوا ہے جوانوں میں شوقِ دار ابھی

پیامِ سیرِ گلستاں نہ دے بہار ابھی

غلط نہیں، وہ پریشان و بے قرار ابھی

ہے جن کو صبحِ شبِ غم کا انتظار ابھی

یہ زرپرست وطن پر فدا ہوئے ہیں نہ ہوں

مگر غریب کہ ہو جائیں گے نثار ابھی

ابھی وہ جھوٹ کی تصدیق پر ہیں خوش ہم سے

کریں جو عذر تو ٹھہرائیں فتنہ کار ابھی

ابھی تو ختم نہ ہو گا طویل مستقبل

ہے انقلاب کو موقع ہزار بار ابھی

بدل رہی ہے وہ چولے سیاستِ منزل

تصوّرات کے چہروں پہ ہے غبار ابھی

ذرا چمن سے خزاں کی ہَوا اُکھڑنے دو

سمن بروں پہ مچل جائے گا نکھار ابھی

کبھی تو گردشِ افلاک راس آئے گی

نہ ہوں، نہیں ہیں جو حالات سازگار ابھی

شراب و رقص پہ جن کو یقین عشرت تھا

بھگَت رہے ہیں وہی کلفتِ خمار ابھی

وہ ہوں گے شادؔ پشیمان ایک دن، جن کو

مرا کلام گزرتا ہے ناگوار ابھی

٭٭٭

 

 

 

اس اندھیرے میں وہ آستاں آ گیا

سوچنا پڑ رہا ہے کہاں آ گیا

کار و بارِ قفس اب یہاں آ گیا

یہ فلاں چل بسا، وہ فلاں آ گیا

حادثے محو تھے جس کمیں گاہ میں

گھُوم پھر کر وہیں کارواں آ گیا

باغباں آگ دینے کے حق میں نہ تھا

خار کے ’’ اول۱؎ ‘‘میں گلستاں آ گیا

اب وہ محفل سے اُکتا کے اُٹھنے کو ہے

وقتِ رنگینیِ گلستاں آ گیا

جانے والے چمن سے، پلٹ آئیں گے

جب کوئی نرم دل باغباں آ گیا

وہ مصیبت بہر حال قائم رہی

جِس مصیبت پہ اُن کا بیاں آ گیا

بھول جائے’’ دو عملی ‘‘ کا فن تو سہی

میری زد پر اگر راز داں آ گیا

کشتیِ ساغرِ مئے بڑی چیز ہے

ہاتھ میرے اگر آسماں آ گیا

آنے والی گھڑی سامنے آئے گی

کس شش و پنج میں کارواں آ گیا

قابلِ قدر ہیں شادؔ وہ بھی جنھیں

میرے شعروں میں لطفِ زباں آ گیا

۱؎   لپیٹ

٭٭٭

 

 

 

بارہا خط دے کے واپس نامہ بر سے لے لیا

اور یہ سب جانتے ہیں جس نظر سے لے لیا

میں نے جتنا کچھ دعائے ہر سحر سے لے لیا

کیا کسی نے بھی بتانِ فتنہ گر سے لے لیا

ہر چمکتی چیز سے تشبیہ دی جائے انھیں

آج ان کا جائزہ اُن کی نظر سے لے لیا

پا نہ لے شہرت کہیں یہ شیوۂ عرضِ کرم

التجا کا کام ہم نے چشمِ تر سے لے لیا

بے تکلف بے محابا ٹوٹ کر اُن کی طرف

دل نے کیا جھگڑا بتانِ کم نظر سے لے لیا

’’ کیفِ آغازِ محبت‘‘ خدشۂ انجامِ غم

’’ مبتدا‘‘ سے آپ نے، ہم نے ’’ خبر ‘‘سے لے لیا

جس سے خالی ہے ابھی دستِ دعائے بے خلوص

میں نے دو سجدوں میں اُن کے سنگِ در سے لے لیا

کہتے ہیں، پوچھا گیا جب چھُپ کے رونے کا سبب

دردِ دل کا کام اُس نے دردِ سر سے لے لیا

’’آپ کے آنے سے پہلے، آپ کے جانے کے بعد‘‘

’’ آپ کا پرچہ‘‘ حسینانِ سحر سے لے لیا

ایک لغزش میں سمو کر آپ نے کُل نیکیاں

میری اک غفلت کا بدلہ عمر بھر سے لے لیا

ہوں اب اس الجھن میں پی لوں، پھینک دوں واپس کروں

جام لینے کو تو ساقی کے اثر سے لے لیا

فن برائے فن میں الفت لازمی مضمون ہے

اور یہ مضموں جدھر پایا اُدھر سے لے لیا

’’ تُرکِ شیرازِ غزل‘‘ نے شادؔ مجھ کو دیکھ کر

ہاتھ سے رکھ دی کماں، خنجر کمر سے رکھ دیا

٭٭٭

 

 

 

شباب و خلوت کی بات اچھی تو ہے مگر آج کل نہ کہیے

غزل برائے حیات لکھیے، غزل برائے غزل نہ کہیے

سیاہ کاروں کی رسّیوں سے خدا کا طرزِ عمل نہ کہیے

نمک حرامانِ قوم جس سے گھٹیں وہ ضربُ المثل نہ کہیے

پرانی جِلدوں پہ خوش نما ’’ ابریوں ‘‘ کا غازہ مَلا گیا ہے

ہمارے دستور میں کہاں تک ہوئی ہے ردّ و بدل نہ کہیے

غریب ہونا خلوصِ نیت کے واسطے کوئی جُرم کب ہے

غریب کو بر بِنائے افلاس و بے زری ’ مبتذل‘ نہ کہیے

محل ہو، ایوانِ عدل و انصاف ہو کہ ہو بزمِ کفر و عصیاں

جہاں ضرورت ہو بر محل کی وہاں کبھی بے محل نہ کہیے

تو انقلابِ وطن کو وجہِ حیاتِ نَو ماننا پڑے گا

بہار ایسی حسین شئے کو خزاں کا ردِّ عمل نہ کہیے

سخن سرایانِ عارض و لب کے مُنہ پہ اُس وقت کیا رہے گا

کہیں جو اے شادؔ سننے والے، کلام پڑھیے زٹل نہ کہیے

٭٭٭

 

 

 

مانا’ سرِ نیاز‘ کی اک آبرو بھی ہے

لیکن ’’شعورِ حال‘‘ سے خالی کدو بھی ہے

دشمن کے دل میں غیر حقیقی لہُو بھی ہے

کردار میں جبھی تو خباثت کی بو بھی ہے

غالبؔ کی طرح تو بھی مصاحب ہوا تو کیا

کچھ شہر کی نظر میں تری آبرُو بھی ہے

ظاہر نہیں ہیں کس پہ تری بدقماشیاں

ذکرِ وطن بھی فکرِ مئے مشکبو بھی ہے

ہر اہتمامِ خلوتِ رنگین اور تو

جیسے ترے کرم ہیں تری آبرو بھی ہے

تو نَین سُکھ نہیں کہ سجھانا پڑے تجھے

گلشن کا حالِ زار ترے رو برو بھی ہے

مدعو کیا گیا ہے جو بزمِ نشاط میں

شاعر تو خیر ہو کہ نہ ہو، خوش گلو بھی ہے

یہ شیخ وقت اور یہ بے اعتدالیاں

’’ لا تصرفو‘‘ کے ساتھ’’ کلو و اشربو‘‘ بھی ہے

ماضی گواہ شادؔ کہ ’’عہدِ قصیدہ گو‘‘

سب کا عدو رہا ہے سو میرا عدو بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

تمناؤں کا قتلِ عام کیوں ہے سوچنا ہو گا

ہمیں پر بارشِ احکام کیوں ہے سوچنا ہو گا

بہارِ بوستاں بدنام کیوں ہے سوچنا ہو گا

چمن آخر خزاں انجام کیوں ہے سوچنا ہو گا

اگر دھوکا نہیں کھایا نظر نے صبحِ کاذب سے

سحر کی جستجو میں شام کیوں ہے سوچنا ہو گا

جو لائی ان کی محفل میں، اُٹھایا جس نے محفل سے

وہ کوشش، کوششِ ناکام کیوں ہے سوچنا ہو گا

جو ہم نے پھول کو خوشبو کے باعث پھول سمجھا تھا

تو پھر کانٹے کا کانٹا نام کیوں ہے سوچنا ہو گا

مقدّر نے ستایا ہے جنھیں، ان کی زبانوں پر

تمھارا ہی تمھارا نام کیوں ہے سوچنا ہو گا

اُسے اندازۂ احساسِ توبہ ہو چکا شاید

مخاطب ساقیِ گلفام کیوں ہے سوچنا ہو گا

کھلے گی اب کوئی اونچی سیاست ان کی محفل میں

صلائے خاص و اِذنِ عام کیوں ہے سوچنا ہو گا

جنھیں اے شادؔ فنِّ شعر کی ’’ ابجد‘‘ نہیں آتی

انھیں توفیقِ رقص و جام کیوں ہے سوچنا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

جو دیوانہ خود سے باتیں کرتے کرتے چونک پڑا ہو

کون تعجب اس منزل تک الفت کے رستے پہنچا ہو

رنگ و نگہت کی دنیا میں رنگ ہی جس کا من بھاتا ہو

ایسا ہے جو شعر پہ جھومے لیکن شعر نہیں سمجھا ہو

باطن پر نظروں سے شاید تم نے بھی محسوس کیا ہو

جیسے کوئی چھت پر چڑھ کر ہمسائے میں جھانک رہا ہو

اس کی صورت بھی دیکھی تھی، یہ ہم کو تسلیم نہیں ہے

ہو سکتا ہے تم کو اُس کے پَر تو پر محسوس ہوا ہو

’’سنگِ میل‘‘ نظر پڑتا ہے وہ سادھو جو دھیان لگائے

من مندر کی جوت جگا کر آنکھیں بند کیے بیٹھا ہو

حُسنِ پاکیزہ جس سے بھی آنکھ ملا کر ہاتھ چھُڑا لے

وہ میکش ہے، جس کو ساقی پیمانہ دے کر چلتا ہو

راہ نما کی اُلجھی باتیں جیسے پگڈنڈی کی زلفیں

ماتھے کی شکنیں کچھ ایسی، جیسے رستہ بھول گیا ہو

ناممکن ہے نظاّروں کا تجزیّہ، ہاں یہ ممکن ہے

ہر چھوٹے دھوکے سے آگے اُس سے بھی اُونچا دھوکا ہو

میری ذات بھی ہو گی اُس کی خود داری کے پس منظر میں

جو پرسانِ حال سے کہہ دے اچھا ہوں اور حال بُرا ہو

یہ تحقیقیں یہ توجیہیں، یہ اپنے اور یہ بیگانے

میری مجبوری کا تم پر آ جائے الزام تو کیا ہو

شادؔ مگر میرؔ و مرزاؔ کے ’’ اسلوبی شاعر‘‘ ایسے ہیں

گویا بوڑھے دادا کی انگلی تھامے اُس کا پوتا ہو

٭٭٭

 

 

 

کب رہزنوں سے مل کے نگہباں نہیں رہا

یہ اور بات ہے کہ نمایاں نہیں رہا

اب ہم کو یہ شعور بھی آساں نہیں رہا

گردن نہیں رہی کہ گریباں نہیں رہا

تب ہم کو سُوجھتے ہیں مشیت کے آسرے

جب سوچتے ہیں اب کوئی امکاں نہیں رہا

یہ ’’ ڈوبنے کی بات‘‘ خدا ساز بات تھی

فرعون ورنہ بے سرو ساماں نہیں رہا

سارے وطن کو آپ تو زنداں قرار دیں

ذہنِ عوام لائقِ زنداں نہیں رہا

عہدِ بہار و شورِ عنادِل کے باوجود

محسوس ہو رہا ہے گلستاں نہیں رہا

میں ترکِ میکشی کی طرف آ گیا تو کیا

اپنی روش پہ زاہدِ ناداں نہیں رہا

جب سے ہُوا عوام کی تشنہ لبی کا عِلم

اپنے لیے میں جام کا خواہاں نہیں رہا

دلّی کو مانتے ہیں وہ ٹکسال آج بھی

جِن کی نظر میں شادؔ غزل خواں نہیں رہا

٭٭٭

 

 

 

یہ تغزل، کہ چمن ہے میرا

حاصلِ ذوقِ سخن ہے میرا

نقدِ ماحول کہ فن ہے میرا

ہر طرف رُوئے سخن ہے میرا

جھُوٹ جب جانِ سخن ہے میرا

ہر بُتِ غنچہ دہن ہے میرا

آج کچھ تیز پلادے ساقی

آج کچھ نشّہ ہرَن ہے میرا

’’ کون سُنتا ہے کہانی میری‘‘

میں ہوں اور باؤلا پن میرا

اور دنیا میں دھرا ہی کیا ہے

’’ حُسن‘‘ ہے آپ کا ’’ ظن‘‘ ہے میرا

کوئی پوچھے تو کروں عرض کہ یوں

ذوق آلودہ دہن ہے میرا

یہی قانونِ وراثت ہے تو پھر

نہ نشیمن نہ چمن ہے میرا

جب ’’ چلے چال‘‘ وہ قسمیں کھا کر

مات کھالوں، یہ چلن ہے میرا

برہمن سے نہ سہی، شیخ سے بھی

کچھ بُرا چال چلن ہے میرا

الغرض محفلِ سرمایہ میں

طنز گلدستۂ فن ہے میرا

شادؔ میں ’’خانہ بدوشوں کی طرح‘‘

جس طرف جاؤں وطن ہے میرا

٭٭٭

 

 

جھجکا کہ خدا جانے کیفِ مئے میخانہ

پینا تھی کہ جاگ اٹھے افکارِ حکیمانہ

دُنیا سے الجھتا ہے کب ’’ آپ سے بیگانہ‘‘

دیوانۂ کامل کو کہتے رہو دیوانہ

وہ سامنے آجائے اس وقت مجھے دیکھو

جیسے کوئی وارفتہ جیسے کوئی دیوانہ

افشائے محبّت پر لنکا تو نہیں ڈھاتے

اپنوں سے کہیں اچھے ناواقف و بیگانہ

کِس طرح چھُپیں گے ہم دُنیا کی نِگاہوں سے

کِس طرح سمیٹیں گے بِکھرا ہوا افسانہ

اکثر مری محرومی ساقی پہ نہیں کھُلتی

اکثر مرے حصّے کی پی جاتا ہے پیمانہ

میخانہ و کعبہ میں اب تک ہے وہی اَن بَن

کیا مصرفِ میخانہ اے مالکِ میخانہ

اُس بُت کے تبسّم کو مخصوص بنانا ہے

ہمّت مرے ہونٹوں کو اے جرأتِ رندانہ

قطعہ

لُٹتے ہوئے نظّارے، چھٹتے ہوئے فوّارے

سنکی ہوئی پُروائی، مہکا ہوا کاشانہ

برسات کی راتوں میں وہ رات نہ بھولیں گے

انگڑائی پہ انگڑائی، پیمانہ پہ پیمانہ

اے شادؔ جہاں ساقی آتا ہے پِلانے پر

یہ غور نہیں کرتا، چُلّو ہے کہ پیمانہ

٭٭٭

 

 

 

چاہتا ہوں فائدہ سرکار کا

جائزہ لیجے مری گفتار کا

میں پڑوسی ہوں بڑے دیندار کا

کیا بِگڑتا ہے مگر میخوار کا

ہم خدا کے ہیں وطن سرکار کا

حکم چلتا ہے مگر زر دار کا

مجھ سے رتبہ ہے مرے اشعار کا

باڑھ کاٹے نام ہو تلوار کا

خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے

کیا کریں گے ابرِ گوہر بار کا

سو گئی ہو جیسے گھوڑے بیچ کر

ہے یہ عالم قسمتِ بیدار کا

واں کسی انصاف کی اُمّید کیا

ہو بڑا ٹکڑا جہاں سرکار کا

جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی

چُوم لوں مُنہ آپ کی تلوار کا

پِھر رہا ہے ناک کٹوائے ہوئے

ہائے رُتبہ شاعرِ دربار کا

ہر طرح ثابت ہے ترکِ التفات

اب کوئی موقع نہیں اِنکار کا

بعض احمق تک رہے ہیں آج بھی

آسرا گِرتی ہوئی دیوار کا

خار ہی ٹھہرائیے ہم کو مگر

دیکھیے پھولوں میں رتبہ خار کا

جب سے پی ہے پی رہا ہے آج تک

شیخ بھی ہے آدمی کردار کا

یہ چِھچھورا شخص، پہچانے اسے

خون ہے اس میں کسی سرکار کا

شادؔ سُن کر سٹپٹا جانا بھی ہے

معترف ہونا مرے اشعار کا

٭٭٭

 

 

 

خلوص و پاکیزگیِ اُلفت کو بے نیازانہ تولتا ہے

تو پھر وہ غنچوں کی مسکراہٹ کے سات پردوں میں بولتا ہے

غضب کے تیور بنا کے آتا ہے نرم لہجے میں بولتا ہے

نظر کو کڑوی شراب دیتا ہے شہد کانوں میں گھولتا ہے

بہ شرطِ اخفائے بیقراری، تقاضۂ واقعہ نگاری

بہ ایں سوالِ ’’ محال و ممکن‘‘ جفا کے پہلو ٹٹولتا ہے

مرے علاوہ کسی سے بھی انجمن میں اس کو نہیں ہے الفت

مرے علاوہ وہ انجمن میں سبھی سے ہنستاہے بولتا ہے

یہ عنبریں صبح یہ دھندلکے، سمجھ رہے ہو جو تم ٹہل کے

اُسے بھی دیکھا جو اپنی چوٹی نہ باندھتا ہے نہ کھولتا ہے

سخنورانِ ہزار و قمری اسی میں خوش ہیں یونہی مگن ہیں

کہ طوطمیّت کے دائرے میں ادب کا طوطی ہی بولتا ہے

سوال اس میں نہیں حسینوں کو بُت نہ کہیے، ضرور کہیے

مگر بعید از قیاس ہو جائے گا کہ پتھر بھی بولتا ہے

جہاں محبت کو راز رکھنے میں سو جتن کر لیے گئے ہوں

اگر تمھیں سابقہ پڑا ہو، وہ ہر جتن راز کھولتا ہے

تلاطمِ غم سے ڈرنے والو، سکونِ ساحل پہ مرنے والو

جو کُود جاتا ہے قلزمِ جستجومیں، موتی بھی رولتا ہے

قدم کی آہٹ، لباس کی نزہتیں پتہ دے رہی ہیں لیکن

ترے تصوّر میں خود کو بھولا ہوا کہیں آنکھ کھولتا ہے

’’ بڑی اندھیری ہے‘‘ ’’راستہ پُر خطر ہے‘‘ نا مردِ عزمِ منزل

یہی دلیلیں، یہی سہارے، یہی بہانے ٹٹولتا ہے

ہوا کے جھونکوں میں شاخِ سنبل پہ ہے یہ کیفیتِ نشیمن

فضا میں اُڑنے کو جیسے زخمی پرند پر اپنے تولتا ہے

یہ گُدگُدانا یہ بوسۂ لب، اُسی کا ردِّ عمل سمجھیے

ابھی جو ارشاد ہو رہا تھا کہ ہم سے کیوں کوئی بولتا ہے

اگر یہ معراجِ زندگی ہے تو میں سمجھتا ہوں شادؔ اب تک

سحر کو ہر روز اپنی آنکھیں ’’ حسین پھولوں پہ‘‘ کھولتا ہے

٭٭٭

 

 

 

نہ سازِ عیش نہ مینائے بادہ رکھتے ہیں

تو کیا بتائیں کہ ہم کیا ارادہ رکھتے ہیں

جونفسِ بد کو سگِ بے قلادہ رکھتے ہیں

وہ ما سوا سے عقیدت زیادہ رکھتے ہیں

نہ جانے حضرتِ زاہد کہاں گرفت میں آئیں

نہ جانے کب گروِ مئے لبادہ رکھتے ہیں

عمل نہ ہو تو ارادہ کو احتجاج کہو

جو لوگ ترکِ چمن کا ارادہ رکھتے ہیں

کسی بھی موڑ پہ ثابت نہیں ہُوا کہ جناب

شعورِ منزل و تمئیزِ جادہ رکھتے ہیں

نہیں ہے جن کو وہاں التماسِ حال کا حق

مژہ پہ شبنمِ نا اوفتادہ رکھتے ہیں

بتانِ تنگ دہان و ہلال پیشانی

زباں دراز، جبیں نا کشادہ رکھتے ہیں

وہ جن کی چشمِ عنایت سے کانپتے ہیں ہم

ہمیں پہ چشمِ عنایت زیادہ رکھتے ہیں

متین و سادہ پری زادِ میکدہ کیا کیا

جبین و زلف و نظر تاب دادہ رکھتے ہیں

ہمیں قبول تِرا میرِ کارواں ہونا

مگر جو خوئے سفر پا پیادہ رکھتے ہیں

ذرا شباب تو لہکے ذرا غرور تو آئے

ابھی وہ فطرتِ معصوم و سادہ رکھتے ہیں

جنابِ شادؔ یہ چربے اُتارنے والے

جنوں نہیں مرضِ استفادہ رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

فضائیں بھانپ لیتے ہیں، ہوائیں تاڑ لیتے ہیں

بہار آئے نہ آئے ہم گریباں پھاڑ لیتے ہیں

ہمیں آگے بڑھا کر خود ہماری آڑ لیتے ہیں

یہیں سے ہم بڑے لوگوں کی نیّت تاڑ لیتے ہیں

سوادِ منزلِ مقصد کو منزل جاننے والو

عموماً راہزن رستوں پہ خیمے گاڑ لیتے ہیں

ہماری بیکَسی دل پر کدورت لا نہیں سکتی

جہاں سے بیٹھ کر اٹھتے ہیں دامن جھاڑ لیتے ہیں

جنھیں خوشنودیِ صیّاد پر پورا بھروسہ ہے

گلے اپنے قفس میں غل مچا کر پھاڑ لیتے ہیں

وہ جن پر چُست کرنا تھا کوئی چُبھتا ہوا فقرہ

انھیں سے جھینپ کر کانٹے گلوں کی آڑ لیتے ہیں

ہمارے رہ نماؤں کی یہ کمزوری نہیں جاتی

متاعِ غیر واجب بھر کے جیبیں پھاڑ لیتے ہیں

رہِ ہستی میں پیش آتے ہیں یوں عشرت کے وقفے بھی

ٹھہر کر جیسے رہرو اپنے جُوتے جھاڑ لیتے ہیں

ہم ایسوں کا تو کیا کہنا بہاروں کی جوانی پر

جو دیوانے نہیں وہ بھی گریباں پھاڑ لیتے ہیں

حقیقت ہیں جنھیں جھوٹے قصیدے مدح خوانوں کے

وہ اپنے ذہن میں شہرت کے جھنڈے گاڑ لیتے ہیں

وہ شاعر جن کو ’’ زہرِ عشق‘‘ بھاتا ہے، اگر ٹوکو

تو بیچارے ہمیشہ مصلحت کی آڑ لیتے ہیں

محَل ہو یا نہ ہو اے شادؔ ہر تنقید میں لیکن

نئے نقّاد ساری قابلیّت جھاڑ لیتے ہیں

٭٭٭

 

 

بزمِ عشرت کو ہمارے نام نے چونکا دیا

نام نے کیا تلخیِ پیغام نے چونکا دیا

اطلاعِ آرزوئے خام نے چونکا دیا

میری خوش فہمی کو خالی جام نے چونکا دیا

تو بھی اے سوزِ فراقِ یار آنکھیں کھول دے

کرمکِ شب کو سوادِ شام نے چونکا دیا

ہم نہیں ہیں جاں نثارِ ملک و ملّت ہائے ہائے

آپ کی اس نُدرتِ الزام نے چونکا دیا

نا تمامیِ تلاشِ حق پہ راضی دیکھ کر

مجھ کو ہر افسانۂ ناکام نے چونکا دیا

چھیڑ رکھی ہے جنھوں نے راگنی بے وقت کی

ان کو دیکھو گے گرفتِ دام نے چونکا دیا

ابتدائے آرزو کے آسروں نے ٹوٹ کر

بیخودِ آغاز کو انجام نے چونکا دیا

طالبانِ دید کے چہروں پہ رونق آ گئی

ذرّہ ذرّہ آفتابِ بام نے چونکا دیا

عارضِ پُر نور پر بَل کھا رہی ہیں کاکلیں

حامیانِ کفر کو اسلام نے چونکا دیا

شادؔ یہ حالات اور یہ خدمتِ شعر و سخن

دشمنوں کو بھی مرے انجام نے چونکا دیا

٭٭٭

 

 

 

آئی نا، مغرب کے قدموں میں سیاست گھوم کے

ہو گئے آخر کو دو ٹکڑے وطن مرحوم کے

تلخیِ حالات شامل تھی دلِ مغموم کے

مُنہ بنانا پڑ گیا لب ہائے ساغر چوم کے

ہے یہ موسم کی خرابی یا دلیلِ انقلاب

جام چھُوتا ہوں تو اُڑ جاتے ہیں بادل جھوم کے

تب کہیں منظر پہ آئی ہیں جو چوٹیں دل میں تھیں

جب ہزاروں ناز اٹھائے ہیں دلِ مغموم کے

جن سے کھا جاتا ہوں ٹھوکر جن پہ آ جاتا ہے طیش

چھوڑ دیتا ہوں میں وہ رستے کے پتھر چوم کے

میکدے سے جانے والوں کو پلٹ آنا بھی ہے

خدمتِ ساقی میں آ جاتے ہیں ساغر گھوم کے

بیکَس و مجبور حکمًا مسکرائے بھی تو کیا

جیسے اک الزام تھوپا جائے سر، محکوم کے

جس قدر جمہور میں آئے گی تابِ جستجو

عَیب کھلتے جائیں گے آزادیِ موہوم کے

اکثریّت نے اقلیّت کو کر رکھّا ہے تنگ

ظالموں کے سیکڑوں ساتھی، مگر مظلوم کے

تاجدارانِ جفا پیشہ ہیں چُپ سادھے ہوئے

مقبرے سُونے پڑے ہیں عشرتِ مرحوم کے

آرہے ہیں میکدے کی سمت شیخ و برہمن

اس نتیجے پر تو پہنچے دیر و کعبہ گھوم کے

مجھ کو پا سکتے نہیں اے شادؔ اربابِ نِعم

میں نے برسوں ناز اُٹھائے ہیں دلِ مغموم کے

٭٭٭

 

 

 

کہہ رہی ہیں اُلجھنیں حالات کی

ناموافق ہے روِش دن رات کی

سانولی چنچل گھٹا برسات کی

جیسے دوشیزہ کوئی دیہات کی

اب انھیں تشریف لانا چاہیے

رات میں کِھلتی ہے رانی رات کی

دیکھ لینا لے اُڑے گی انجمن

تم نے جس دن مُسکراکر بات کی

حضرتِ زاہد قضا پڑھتے رہے

رند نے پابندیِ اوقات کی

باغبانوں سے مِلا رازِ چمن

یا قفس والوں سے تحقیقات کی

کس کو آتا ہے یہ فنِّ گفتگو

سرپھروں سے ہم نے اُلٹی بات کی

پیش آئے گا لِکھا تقدیر کا

مِٹ نہیں سکتیں لکیریں ہات کی

نامہ بر خط لے اُڑا تو کیا ہُوا

ذات پہچانی گئی بد ذات کی

سیکڑوں اس شان میں پینے لگے

ساقیِ رنگیں ادا نے بات کی

اس کو سچ ثابت نہ کر پائیں گے آپ

مہہ جبینوں نے سبھی سے گھات کی

ہم بھی اب اتنے گئے گزرے نہ تھے

آپ نے ہم سے کسی دن بات کی

یہ بُتانِ مرمرینِ بُت کدہ

جیسے اب انگڑائی لی اب بات کی

آج ہر شیریں ادا نے مجھ سے شادؔ

میرے شعروں پر بگڑ کی بات کی

٭٭٭

 

 

 

تو دیکھنا جو ہم کو نظم و اہتمام مل گیا

ادھر نگاہِ تشنہ لب اُٹھی کہ جام مل گیا

کچھ اس طرح چمن میں وہ سُبک خرام مل گیا

کہ جیسے جو لکھا ہوا تھا میرے نام، مل گیا

شمارِ اخترانِ شب کہ چاکِ دامنِ سحر

جنونِ آرزو کو ہر محَل پہ کام مل گیا

جس انجمن میں دوسروں کی بات ہو بنی ہوئی

اُس انجمن میں شکر کیجیے کہ جام مل گیا

نگاہِ اشتیاق میں وہ زلفِ رُخ کے زاویے

کبھی سلام ہو گیا کبھی پیام مل گیا

شبابِ ساقیِ جواں کی ہر ادا سے دوستو

مرا تو کام بن گیا مجھے تو جام مل گیا

یہ سعیِ باغبانِ کم سواد و رسمِ عہدِ نو

بہار گُل کھلا گئی خزاں کو کام مِل گیا

اُسی کو ہم نے جائے امن و عافیت سمجھ لیا

جہاں بھی دو گھڑی کو موقعِ قیام مل گیا

تغیّر نظامِ میکدہ میں یہ تو دیکھیے

ملی نہ ہم کو دُزدِ مئے، عدو کو جام مل گیا

ہُوا دبی زبان سے ہمارا ذکرِ خیر بھی

ہمیں بھی خیر ’کچھ نہ کچھ‘ برائے نام مل گیا

جناب شیخ روز پی رہے ہیں اس دلیل سے

اک آبجو میں ساغرِ مئے حرام مل گیا

کرم کیا کہ ہم سے جب چمن چھُڑا دیا گیا

تو شاخ ہائے گل کو حکمِ قتلِ عام مل گیا

قفس کی زندگی پہ شعر گھر میں اپنے بیٹھ کر

تو داعیانِ فن تمھیں قبولِ عام مل گیا

نہ تھا جو شادؔ میرے طنز آتشیں سے متّفق

وہ آج مجھ سے گھر پہ ہو کے لا کلام مل گیا

٭٭٭

 

 

 

مایوس انقلاب غزل کہہ رہا ہوں میں

مقبولِ آنجناب غزل کہہ رہا ہوں میں

بِن عشق و بے شباب غزل کہہ رہا ہوں میں

کم اصل و فن مآب غزل کہہ رہا ہوں میں

اُٹّھی ہے وہ نقاب غزل کہہ رہا ہوں میں

مانندِ آفتاب غزل کہہ رہا ہوں میں

ساغر میں جیسے شعلۂ عریانِ دختِ زر

پروردۂ شباب غزل کہہ رہا ہوں میں

کھُل کھیلنے کا نام تغزّل ہے اس لیے

بے باک و بے حجاب غزل کہہ رہا ہوں میں

گلشن سے مدّعا ہے کوئی رسمسا بدن

گلشن ہے محوِ خواب غزل کہہ رہا ہوں میں

صہبا سے کم نشاط نہیں نشّۂ سخن

ساقی ہٹا شراب غزل کہہ رہا ہوں میں

محسوس ہو رہا ہے تمھیں ’’لُچپنا‘‘ تو ہو

ہم جنس و جنس تاب غزل کہہ رہا ہوں میں

ہیں فن برائے فن کے ’’ محاسن‘‘ مغالطے

’’بِن لذّتِ۱؎ عذاب‘‘ غزل کہہ رہا ہوں میں

وسمہ لگا لگا کے طباشیر۲؎ عمر پر

’’سمبل۳؎ ‘‘ میں لا جواب غزل کہہ رہا ہوں میں

چالو ہیں جب کہ نظمِ معرّیٰ علی الحساب

پندرہ کی انتخاب غزل کہہ رہا ہوں میں

مختارِ عامِ شعر و ادب مرحبا کہیں

دلچسپ و کامیاب غزل کہہ رہا ہوں میں

کیا لِکھ رہے ہَیں آپ مجھے دیکھ دیکھ کر

مَیں نے دِیا جواب غزل کہہ رہا ہوں میں

کوئل کی تان اور پپیہے کی مُرکیاں

پگھلا کے نغمہ تاب غزل کہہ رہا ہوں میں

اے شادؔ انکسار و تعلّی کے طور پر

کہہ دے بڑی خراب غزل کہہ رہا ہوں میں

۱؎ گناہ بے لذّت   ۲؎ سفید بالوں والی ۳؎ Symbol

٭٭٭

 

 

انجمن میں کیف آور جامِ شعر چلتے ہیں

جن میں خون ہوتا ہے وہ ایاغ ڈھلتے ہیں

یا تو کاکلِ عارض اپنے مَن اُگلتے ہیں

یا چراغ کالوں کے سامنے بھی جلتے ہیں

جب غزل سرا بوڑھے ٹھمریاں اُگلتے ہیں

تالیاں نہیں پِٹتیں، لوگ ہاتھ ملتے ہیں

جن کو میں سمجھتا ہوں میرے ساتھ چلتے ہیں

وہ مرے ٹھہرنے پر صاف بچ نکلتے ہیں

غالباً یہ منشا ہے دوسروں کو عبرت ہو

رند ورنہ گِر گِر کر کس لیے سنبھلتے ہیں

فطرتوں کی یہ دُوری کون میٹ سکتا ہے

تم جہاں ٹھہر تے ہو ہم وہاں سے چلتے ہیں

روشنی کا یہ پہلو دھوپ میں نہیں ملتا

چاند ساتھ چلتا ہے ہم جدھر کو چلتے ہیں

جیسے کوئی بھی بچّہ ضد کی آخری حد پر

بس جہاں نہیں چلتا ہم وہاں مچلتے ہیں

سرخوشوں کے ہاتھوں سے جام چھین لینے کو

تشنگی کے سینے میں انقلاب پلتے ہیں

اے معاملہ بندو، دیکھتے نہیں تم پر

بیس مسکراتے ہیں چار ہاتھ ملتے ہیں

ترجمانِ دل آنسو، کوہ ماجرا چشمے

سنگدل چٹانوں کو توڑ کر نکلتے ہیں

اُن ستم شعاروں کو ہم پہ شک گزرتا ہے

جن کے سر کچلنے کو انقلاب پلتے ہیں

رہبرانِ صادق سے انحراف کیا معنی

وہ کہیں کہ چلتے ہو ہم کہیں کہ چلتے ہیں

ہم کو گمرہی اپنی چھوڑ تے نہیں بنتی

خود نہیں بدل پاتے، رہنما بدلتے ہیں

نالۂ شرر افشاں کِھینچیے کہ سرد آہیں

ہاتھ ہوں کہ پوَدے ہوں برف سے بھی جلتے ہیں

گمزِیوں کے پہلو میں شادؔ ہم وہ پیپل ہیں

جن کو پالنے والا پالتا ہے، پلتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

یہ بناوٹ، یہ تغافل، یہ نظر

چھُپ نہیں سکتا محبّت کا اثر

اس کے مڑ کر دیکھنے سے پیشتر

دشمنانِ آرزو تھے بے خبر

بات کچھ خطرے کی ہو گی نامہ بر

ورنہ اور یہ جوابِ مختصر

صبر کرنا چاہیے اے دل مگر

کہہ نہیں سکتا کہاں تک صبر کر

میرے ہاں وہ اور کبھی میں اس کے گھر

اک قدم پھولوں پہ اک تلوار پر

سب سے اونچی شاخ پر تازہ گلاب

جیسے کوئی ماہ پارہ بام پر

یہ مری جرأت کہ دامن تھام لوں

تو دبے قدموں برابر سے گُزر

انجمن میں دوسروں کی سمت بھی

مسکرا کر دیکھ لے بیداد گر

یہ تکلف چھوڑ دینا چاہیے

نظمِ محفل بھی رہے مدِّ نظر

ان کی بینائی میں کوئی نقص ہے

وہ جو کہتے ہیں تجھے شمس و قمر

پاسباں روکیں انھیں جرأت کہاں

تو ہے جب در پر تو پھر کیا پردہ در

رفتہ رفتہ عشق کی پینگیں بڑھیں

رفتہ رفتہ آ گئے وہ راہ پر

کیا قیامت ہے وہاں جاتے ہوئے

پوچھتے ہیں دوست، اے حضرت کدھر؟

یہ جنونِ آرزو، یہ آگہی

کارواں احمق، نِکمّا راہبر

ضبطِ الفت نے یہ ثابت کر دیا

میں ابھی حاوی ہوں اپنے آپ پر

شادؔ جن کو اصطلاحی خبط ہے

وہ سمجھتے ہیں اُسے شمس و قمر

٭٭٭

 

 

 

جو آپ فرمائیں جس سے خوش ہوں میں وہ روِش اختیار کر لوں

یہ خار دامن پکڑ رہے ہیں انھیں جِھڑک دوں کہ پیار کر لوں

اگر یہ چاہوں کہ عہدِ حاضر کو ہر طرح سازگار کر لوں

تو آپ کی ہر غلط بیانی کا ساتھ دوں، اعتبار کر لوں

پئے مہاجن’’ دھرَم کے دُونے‘‘ تو یہ کہ دو دے کے چار کر لوں

مگر’’ زر اندوزیِ سیاست‘‘ کہ ’’کر‘‘ لگا کر ہزار کر لوں

بتائیے نا وہ کیا دلائل ہیں جن کی شاداب روشنی میں

شگوفہ ہائے خزاں رسیدہ کو فخرِ گلشن شمار کر لوں

خدائے قدّوس ہی نہ چاہے تو کون بر روئے کار آئے

جو شے وسیلے سے مِل رہی ہو وہ کیوں نہ دامن پسار کر لوں

برائے زاہد برائے ناصح برائے واعظ برائے قاضی

مِلا کے مشک و گلاب و عنبر شراب کو خوشگوار کر لوں

اِدھر صبوحی اُدھر عِشائی، کہاں کا احساسِ پارسائی

دمِ طلوع و غروب جن سے علاجِ لیل و نہار کر لوں

زہے سلوکِ نگاہِ ساقی ابھی ہے یہ سُوجھ بوجھ باقی

یہاں سے مدہوش ہو کے اُٹّھوں وہاں پہنچ کر اُتار کر لوں

بڑوں کی خدمت میں مشورے کے لیے سلیقہ بھی لازمی ہے

سُدھارنا ہو اگر کسی کو تو پہلے اپنا سُدھار کر لوں

پچاس وعدوں میں دس وفا بھی ہوئے، اس اوسط کی چَپقلِش میں

وہ اب نہ آئے گا پھینک دوں مئے، نہیں ابھی انتظار کر لوں

کہا گیا ہے کہ عہدِ حاضر کے بد لجاموں کے مُنہ نہ آؤ

تو پھر بڑی مصلحت یہی ہے کہ عاجزی اختیار کر لوں

اِدھر اُدھر سے اُدھار کھا کر ’’ مہارتِ قرض‘‘ اب یہاں ہے

کہ مہہ جبینانانِ بت کدہ سے غمِ محبّت اُدھار کر لوں

فضول سی اک غزل جو اے شادؔ فن پناہوں کی لَے میں لِکھّوں

تو اس سے بڑھ کر فضول یہ ہے کہ میں ستارے شمار کر لوں

٭٭٭

 

 

بُو کو ہوا اُڑا گئی، رنگ کو دھوپ کھا گئی

کہیے اس اعتبار سے آئی بہار یا گئی

شہرِ طرب کی روشنی محلوں کو جگمگا گئی

گھر جو سیاہ پوش تھے اُن سے نظر بچا گئی

دولتِ انبساطِ دل تیرا بھی اعتبار کیا

اِس کو فریب دے گئی، اُس سے فریب کھا گئی

خواب کا دُور دُور تک ورنہ کوئی پتہ نہ تھا

ٹوٹ گیا جب آسرا، آنکھوں میں نیند آ گئی

مجھ کو اُداس کر گیا جب کہ سلوکِ انجمن

اُٹھ کے نگاہِ دِلبری ہاتھ مرا دبا گئی

خطرۂ نظمِ گلستاں بن کے رہے وہ آشیاں

جن کو حقیر جان کر برق نظر بچا گئی

جتنے بھی واسطے دِیے اُتنی ہی اُن کی بد ظنی

اور قریب آ گئی اور قریب آ گئی

دل جونہی بیٹھنے لگا، منزلِ آرزوئے دل

محملِ گرد باد سے جھانک کے مُسکرا گئی

ورنہ نشانِ پا نہ ہوں راہ میں سر بسر غلط

میری عدم توجّہی نقشِ قدم مٹا گئی

میکدۂ خواص پر شورِ عوامِ تشنہ لب

سر میں یہ کیا ہَوا بھری دل میں یہ کیا سما گئی

ساقیِ باخبر کو بھی شادؔ مری خبر نہ تھی

میری نگاہِ التجا میرا پتہ بتا گئی

٭٭٭

 

 

 

شباب ان کی ڈور پر شراب اُن کے پاس ہے

اور اس طرح نہیں، کھلی کتاب اُن کے پاس ہے

بطورِ خود جوازِ ہر عتاب اُن کے پاس ہے

جواب دیں، اگر کوئی جواب اُن کے پاس ہے

سِتم یہ ہے نگاہِ انتخاب اُن کے پاس ہے

مگر غزل خراب سے خراب اُن کے پاس ہے

نظامِ گلستاں نہ کوئی کھیل ہے نہ شعبدہ

تو کیا یہ کوئی عذرِ کامیاب اُن کے پاس ہے

معلّمانِ نظمِ نَو ہیں پیش رَو کی راہ پر

جواُس کے پاس ہے وہی نِصاب اُن کے پاس ہے

بلا کے مطلبی ہو تم بلا کے مذہبی ہو تم

فقط یہی طریقۂ خطاب اُن کے پاس ہے

وہ اپنے عیب دوسروں پہ ڈھالنے میں فرد ہیں

شراب میرے جام میں، گلاب اُن کے پاس ہے

سرشتِ میرِ کارواں بھرے گی رُوپ دفعتاً

تم اس سے مطمئن رہو، نقاب اُن کے پاس ہے

یقین تھا ہمیں کہ ہیں وہ جام کے فریب میں

انھیں خیال تھا کہ آفتاب ان کے پاس ہے

ابھی سے امتناعِ مئے پہ کس لیے وہ دھیان دیں

ابھی تو خیر سے شرابِ ناب اُن کے پاس ہے

جنابِ شیخ کی عبا میں جھول شادؔ عارفی

ضرور، ہو نہ ہو، کوئی عذاب ان کے پاس ہے

٭٭٭

 

 

اپنی کشتی آپ تو کوئی ڈبونے سے رہا

حامیِ قوم و وطن غدّار ہونے سے رہا

بادۂ گلرنگ میں دامن بھگونے سے رہا

شیخ بیچارہ غرض انسان ہونے سے رہا

آپ کے تیور بتاتے ہیں بُرا مت مانیے

آپ سے کوئی اُصولی کام ہونے سے رہا

عقل ہی ٹخنوں میں آ جائے تو مجبوری کی بات

ورنہ کوئی وقت کے زانو پہ سونے سے رہا

جن فضاؤں پر بھروسہ کر رہے ہیں باغباں

اُن فضاؤں میں چمن گلزار ہونے سے رہا

یاد ہیں جس شخص کو صحرا نوردی کے مزے

دوسروں کے پاؤں میں کانٹے چُبھونے سے رہا

جام کے اندر نہ بھر دے میکدہ ساقی اگر

’’کوزۂ کم ظرف‘‘ میں دریا سمونے سے رہا

بِن بلائے آپ کی محفل میں آ جانے کے بعد

کوئی غیرت مند اپنی بات کھونے سے رہا

دوسرے شاعر جہاں روتے ہیں میں ہنستا ہوں شادؔ

مُسکرانا جس کی فطرت ہو وہ رونے سے رہا

٭٭٭

 

 

 

اگر چمن سے نکال دو گے چمن سے باہر گزار لیں گے

چمن کہا یہ نہیں کہا ہے وطن سے باہر گزار لیں گے

گزارنے کو تو اہلِ ہجرت وطن سے باہر گزار لیں گے

سوال یہ ہے حدود چرخِ کہن سے باہر گزار لیں گے؟

وہ جن کی ’’آب و؎ ہوائے گنگ و جمن میں نشو و نما ہوئی ہو

وہ کس طرح سرزمین گنگ و جمن سے باہر گزار لیں گے

جو فرصتیں یہ شعور بخشیں کہ نا مناسب ہے خانہ جنگی

وہ فرصتیں ہم گرفتِ رنج و محن سے باہر گزار لیں گے

یہ ’’ مغربی انجمن‘‘ تو آپس کی دشمنی کو سراہتی ہے

اٹھو کہ ہم سب ہنسی خوشی انجمن سے باہر گزار لیں گے

گمان یہ ہے کسی سیاست کا ہم پہ کوئی اثر نہ ہو گا

یقین یہ ہے کہ دشمنوں کے جتن سے باہر گزار لیں گے

جو اُن سے پوچھو وہ کیا شرائط ہیں جن پہ ڈالر عطا ہوئے ہیں

زبان ہونٹوں پہ پھیرنے کو دہن سے باہر گزار لیں گے

وطن سے اے شادؔ جن کو الفت نہیں ہے وہ شاعرانِ نغمہ

نکال دیجے تو رات بزمِ سخن سے باہر گزار لیں گے

۱؎ کثرتِ استعمال سے اب یہ ترکیب جائز ہو چکی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

تمیزِ نقدِ انجمن کچھ اس قدر نِکھر گئی

جہاں جہاں بھی جھول تھے وہیں وہیں نظر گئی

بہ سعیِ باغباں، جبینِ ہر روش سنور گئی

اگر نگاہِ جستجو چمن کی پُشت پر گئی

بہار آ کے غالباً دبے قدم گزر گئی

نہیں گزر گئی تو پھر کہاں گئی، کدھر گئی

ہمارے دل سے وقعتِ بتان فتنہ گر گئی

وہاں خبر گئی مگر بڑی غلط خبر گئی

ذلیل ہو کے اس کی واپسی کا کیا محل رہا

فغاں جو رائیگاں گئی دعا جو بے اثر گئی

کسی کو رغبتِ شراب و شوخیِ شباب دی

کسی میں ’’ سرخیِ گلاب‘‘ دھول بن کے بھر گئی

تو کیوں فضا بھڑک رہی ہے کیوں زمیں ہے مَوجزن

اگر وہ آفتاب ڈھل گیا، ندی اتر گئی

مری جسارتِ نظر پہ اور مُسکرائیے

نگاہِ انجمن پلٹ کے مجھ سے آپ پر گئی

ہر ایک ہم قدم ہمارے حافظے میں درج ہے

مغالطہ نہ دیجیے کہ زحمتِ سفر گئی

یہ اتفاق ہے مگر عجیب اتفاق ہے

جہاں بھی میں رُکا وہ برقِ سر و قد ٹھہر گئی

فرازِ بام، ڈر کے چاندنی سے بھاگتی نہیں

ہوا سے شاخِ گل کہیں دُبک کہیں اُبھر گئی

کِسی کی یاد میں جو رات بِیتنی محال تھی

کسی کے انتظار میں بخیریت گزر گئی

وہ ہم کہ جن کا ’’حاصلِ مطالعہ‘‘ صفر کہیں

وہ آپ جن کی عمر فنِّ شعر میں گزر گئی

وہ کھردرا کلام جِس کا’’ ریتنا‘‘ بھی وصف ہے

جو زیرِ بحث آ گیا تو شادؔ پر نظر گئی

٭٭٭

 

 

 

آنکھ نے جس پھول کو تاکا اسے توڑا نہیں

احترامِ جلوہ چینی یہ بھی کچھ تھوڑا نہیں

شوقِ بیحد میں بھی مجھ کو عقل کا توڑا نہیں

آستانِ یار سے ٹکرا کے سر پھوڑا نہیں

امتیازِ پاکبازانِ وفا بھی چاہیے

دامنِ محبوب اس اقرار بِن چھوڑا نہیں

میری نظروں کے اثر سے ہو گئے مجبور آپ

میں نے تُڑوایا ہے پردہ، آپ نے توڑا نہیں

بد گمانانِ محبت کو مِلیں گے آسرے

مسکراکر دیکھنا تم نے اگر چھوڑا نہیں

کل کوئی آفت ہی آ جائے تو مجبوری کی بات

آج تک عہدِ وفا سے ہم نے مُنہ موڑا نہیں

ان مصائب کے صِلے میں جن سے ہیں دوچار ہم

داستانوں کے لیے مضمون کا توڑا نہیں

عہدِ مستقبل سے ہم کو اک توقع ہے مگر

وقت نے جس دل کو توڑا ہے اُسے جوڑا نہیں

٭٭٭

 

 

 

فراقِ یار کیا ہے، سو طرح کی ایک بیماری

طبیعت سُست، اضمحلال، دل میں درد، سر بھاری

جزاک اللہ اے عزمِ صمیمِ ناز برداری

وہی جیتا یہاں، جس شخص نے ہمّت نہیں ہاری

شریکِ حالِ بیکس اور تو، رہنے بھی دے ظالم

ترا دل کر رہا ہے بے وفا میری طرف داری

پسِ ترکِ محبّت آپ کی تشریف ارزانی

بہارِ گلستاں جیسے بہ مجبوری، بہ ناچاری

بھرا گھر جس کی شوخی اور طرّاری کا قائل ہے

مجھے دیکھا کہ اس پر ہو گئی سنجیدگی طاری

شباب و عشق سے گزروں تو پہنچوں اس نتیجے پر

سمجھ رکھّا تھا میں نے خواب کے عالم کو بیداری

بتِ رنگیں ادا و خلوتِ محفوظ و مئے نوشی

بچا لائی مگر اے شادؔ مجھ کو رحمتِ باری

٭٭٭

 

 

 

اُن کے مدّاح اس زمانے میں

جیسے کتّے، ’قصائی خانے‘ میں

جن کے پینے میں ہوں نہ کھانے میں

منہمک ہیں مجھے ستانے میں

’’سوچیے تو پڑے گی کَے گھر کی‘‘

بات بگڑی اگر بنانے میں

گلستانوں سے اُٹھ رہا ہے دھواں

دیر کیا ہے بہار آنے میں

دیکھ لینا کہ ہر سِتم کا نام

عدل ہو گا کسی زمانے میں

شمع بجھتی ہے روشنی دے کر

جان دے زندگی بنانے میں

امنِ عالم پہ دے رہے ہیں بیان

اور بیٹھے ہیں ’’ آشیانے‘‘ میں

کس نے بہکا دیا ہے اے ’’لَے کار‘‘

’’ لوریاں قوم کے جگانے میں ‘‘

یہ مصاحب، یہ آس پاس کے لوگ

’’ درج ہیں ‘‘ شیطنت کے خانے میں

یہ ہرے قمقمے یہ آدھی رات

اب نہ جھانکو نگار خانے میں

چھین کر پونجیاں غریبوں کی

جمع کر لیجیے خزانے میں

کس کے قابو کی ہے یہ اونچی بات

گھر اُجڑتے گئے بسانے میں

میں تو چٹنی سے کھا رہا ہوں شادؔ

دال مِلتی ہے جیل خانے میں

٭٭٭

 

 

 

اگر بِسمل اگر گھائل نہ ہو گی

کلی قائم مقامِ دِل نہ ہو گی

جہاں سر گرمیِ کامل نہ ہو گی

وہاں منزل پَئے منزل نہ ہو گی

نظر جائے گی انجامِ ستم پر

انھیں کیوں فکرِ مستقبل نہ ہو گی

وہ حُسنِ رہ گزر عنقا نہیں تھی

ہماری آرزو کامِل نہ ہو گی

امیرِ کارواں کا سر سلامت

ہمیں محرومیِ منزل نہ ہو گی

یہ بُت خانہ وہ مسجد آؤ سوچیں

کہاں رنگینیِ باطل نہ ہو گی

ہمیں یہ عرض کرنا تھا کہ ہم پر

ہنسی شائستۂ محفل نہ ہو گی

تو پھر اے ساتھیو یہ طے رہا نا

کہیں بھی راہ میں منزل نہ ہو گی

جہاں ہم بِن بُلائے جا سکیں گے

وہ محفل آپ کی محفل نہ ہو گی

اب اٹھتے ہیں اگر اس انجمن سے

تو کیا شرمندگی حاصل نہ ہو گی

تصنّع سے غرض رکھّی تو حضرت

حقیقت آپ کے قابل نہ ہو گی

مئے عشرت، مئے عشرت کے بندو!

ہمارے جام میں شامل نہ ہو گی

غزل چولا نہ بدلے گی اگر شادؔ

متاعِ عہدِ مستقبل نہ ہو گی

٭٭٭

 

 

 

بہار آنے کے بعد جن کا چمن کا پھیرا نہیں ہوا ہے

وہ کہہ رہے ہیں خزاں کا سایہ ابھی گھنیرا نہیں ہوا ہے

کہیں جِسے ’زلفِ عارضِ صبح‘ وہ اندھیرا نہیں ہوا ہے

فریب ہے ’مکر چاندنی کا‘ ابھی سویرا نہیں ہوا ہے

چمن کے چہرے پہ یہ خراشیں، انھیں شگوفے کہیں کہ لاشیں

بہار نے مشقِ ناز کی ہے، خزاں کا پھیرا نہیں ہوا ہے

اداسیاں مستقل نہیں ہیں جراحتیں وقفِ دل نہیں ہیں

وہ دامنِ دشت ہو کہ گلشن، خزاں کا ڈیرا نہیں ہوا ہے

تو رہ نما ہے یہ مانتے ہیں مگر جنھیں ہم ہی جانتے ہیں

ابھی تو ان چور گھاٹیوں سے گزر بھی تیرا نہیں ہوا ہے

حلَف اُٹھا کر تمھیں بتاؤں کہ عندلیبانِ گلستاں کے

کہاں نشیمن نہیں بنے تھے، کہاں بسیرانہیں ہوا ہے

تجھے ہماری مصیبتوں پر ترس نہ آئے تو کیا تعجب

جو اکثریّت کاہو چکا ہے وہ حال تیرانہیں ہوا ہے

سوائے ’بزمِ سرور و سرمایہ و رعونت‘ جہاں گیا ہوں

کسی بھی مظلومِ غم سے کم احترام میرا نہیں ہوا ہے

جنھیں عقیدت ہے اُن کی نیکی پہ طنز بیجا ہے شادؔ لیکن

جو رہ نماؤں سے آ پڑا ہے وہ کام میرا نہیں ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

ہم وطن ہوں آپ کا بندہ نہیں

فیصلہ منظور ہے جھگڑا نہیں

دل دُکھانا آپ کا شیوا نہیں

بولتے ہیں سچ مگر اِتنا نہیں

میکدے میں اور سب کچھ ہے مگر

صرف ساقی کا سلوک اچھا نہیں

آپ ہی کے فائدے کی بات ہے

چھوڑیے گر آپ کا منشا نہیں

کون بانہیں ڈال دے گا اس طرح

جھوٹ بھی ہر شخص کا حصّہ نہیں

عام ذہنی الجھنوں کو چھوڑ کر

کیا نہیں میرے وطن میں، کیا نہیں

آپ سے شکوے تو ہیں بیشک ہمیں

آپ سے بیزار ہیں ایسا نہیں

باغبانوں کی نظر سیدھی رہے

آشیانوں کی ہمیں پروا نہیں

اس نتیجے پر انھیں آنا پڑا

شادؔ شاعر ہے مگر جھُوٹا نہیں

٭٭٭

 

 

 

انتظار تھا ہم کو خوش نما بہاروں کا

یہ قصور کیا کم ہے ہم قصور واروں کا

آفتاب چہرہ تھا جن شراب خواروں کا

داغ داغ حُلیہ ہے اُن سیاہ کاروں کا

سعیِ انفرادی بھی نقش چھوڑ جاتی ہے

بِچھ گیا ہے منزل تک نقش رہ گزاروں کا

ایک روز کھودے گا اعتمادِ ذاتی بھی

آسرا تکا جس نے دوسرے سہاروں کا

جس میں ’’ شہدِ لب‘‘ ہو گا کل بڑا ادب ہو گا

آج نا مناسب ہے ذکر ماہ پاروں کا

رہنمائے رہرَو ہیں شمعِ بزمِ عِشرت میں

حسبِ حال پایا ہے مدّعا ستاروں کا

آپ حضرتِ زاہداُس سے کچھ نہیں کہتے

شادؔ بھی تو ساتھی ہے ہم گناہ گاروں کا

٭٭٭

 

 

گویا اے اربابِ سیاست اس نے جب انسان بنائے

تم ایسوں کو عقل عطا کی ہم ایسے نادان بنائے

جس کو دولت پر غرّہ ہے پھرتا ہے جو شان بنائے

آنکھیں کھولے دنیا دیکھے اپنے کو انسان بنائے

صحرا میں گلزار کھلائے گلشن میں دے کانٹے بو

گھر بیٹھے تخئیلی شاعر شہرت کا میدان بنائے

اب یہ اس کی مرضی ٹھہری زنداں ہو یا رنگ محل

سُنتے ہیں وہ سوچ رہا ہے ہم کو بھی مہمان بنائے

ہر میکش کو لازم یہ ہے جب تک بھی ہے ماہِ صیام

دن بھر روزے داروں ایسا منھ حتیّ الامکان بنائے

’’ عشرت منزل‘‘ میں بُلوا کر ہم کو ہے اپنانا ’’ مکر‘‘

ہم سے نیچا بن کر بیٹھے پھر اونچا ایوان بنائے

پچھلوں کو رونا پڑتا ہے، کہتے ہیں یہ اگلے لوگ

دیکھیں اس دربان کے بدلے وہ کس کو دربان بنائے

لالہ رُخ کہنے والوں کی یہ باتیں تسلیم، مگر

پھولوں کا انجام تو دیکھے پِھرتا ہے کیا شان بنائے

گہری نالی میں جا ڈوبے اس سے بہتر ہو گا شادؔ

بے ہودہ کردار سخن ور، ناکارہ دیوان بنائے

٭٭٭

 

 

 

وہ جو دعویٰ کریں وہ جو پردا کریں

آپ سنتے رہیں آپ دیکھا کریں

کھا کے قسمیں مُکر جائیں، دھوکا کریں

شوق سے آپ اُن کا بھروسا کریں

جا رہے ہیں کہ عرضِ تمنّا کریں

وہ کہِیں یہ نہ کہہ دیں کہ ہم کیا کریں

اب یہ حالات ہیں ہم سے وہ کچھ دنوں

دشمنوں کے دکھانے کو پردا کریں

وہ اگر انجمن سے اُٹھا دیں ہمیں

ہم سے یہ بھی نہ ہو گا کہ شکوا کریں

کون تسلیم کر لے گا فرمائیے

ہم جو اُن کی جفاؤں کا چرچا کریں

شیخ صاحب دِکھاوے کے عادی نہیں

ورنہ قطرے کو چاہیں تو دریا کریں

آئیے آج ہم رہزنوں کی طرح

دُور تک رہنماؤں کا پیچھا کریں

اب یہاں آ گئے ہو کے مایوس ہم

کیا تقاضا کریں، کیوں تقاضا کریں

اُن بُتانِ ستمگر کو، جو کچھ بھی ہو

ہم نے سجدہ کیا ہے نہ سجدا کریں

شادؔ صاحب یہ نقّادِ بر خود غلط

فنِّ شعر و ادب کو نہ رُسوا کریں

٭٭٭

 

 

 

اگر ہم آپ کو ظالم کہیں انکار مت کیجے

مثالیں سیکڑوں مل جائیں گے اصرار مت کیجے

جو ہموارِ وفا ہیں ان کو نا ہموار مت کیجے

غلط رستے سے منزل کی طلب سرکار مت کیجے

اٹھیں گی انگلیاں اس غیر جمہوری طریقے پر

ہماری حسرتوں کے تخت پر دربار مت کیجے

مبادا اختیاراتِ جہاں بانی پہ حرف آئے

جو کرنا چاہتے ہیں کیجیے، اظہار مت کیجے

کہیں ایسا نہ ہو یہ بات جا پہنچے بتنگڑ تک

جو جنتا مانگتی ہے دیجے، تکرار مت کیجے

شعوروں کے لیے شعلے ہیں طنزِ نا وفا داری

وفاداروں کی غیرت پر یہ اوچھا وار مت کیجے

ارادے بھانپ کر اقدام کی تہمت بجا لیکن

دماغوں کو بغاوت کے لیے تیار مت کیجے

بیانِ ماجرا پر بھُول کر دستور کی شرطیں

ہمیں دار ورسن کے عہدسے دوچار مت کیجے

غلط سنجانِ فنِّ شعر سے اے شادؔ پھر کہہ دوں

مرے ’ شیروں ‘کو پتّھر مار کر بیدار مت کیجے

٭٭٭

 

 

 

بلبل اگر قفس میں بقیدِ حیات ہے

نیرنگیِ اصولِ سیاست کی بات ہے

وہ بھی ہے اک گروہ جو رہزن کے ساتھ ہے

یہ میرِ کاروں کو جتانے کی بات ہے

کہتی ہے صاف صاف یہ مہندی رچی ہوئی

بربادیِ چمن میں تمھارا بھی ہات ہے

مخدوش ہو چکی رہِ منزل کچھ اس قدر

ترکِ رہِ نجات کے اندر نجات ہے

اس عہد میں کہ سہل نہیں رقصِ جام مئے

ساغر کا ٹوٹنا بھی پیامِ حیات ہے

لعنت ہے شاطرانِ سیاست کی جِیت پر

محسوس کر رہے ہیں کہ بازی ہی مات ہے

محسوس ہو رہی ہے جو دل کو نمودِ صبح

وہ بادی النّظر میں نہ دن ہے نہ رات ہے

اے شادؔ جن کو فن کا اجارہ نہ مل سکا

کہنے لگے کہ ’’صنفِ غزل‘‘ واہیات ہے

٭٭٭

 

 

 

جنھیں بھی خواہِ موسمِ گُل پیامِ سیرِ بہار دیں گے

جلے ہوئے آشیاں انھیں ہر قدم پراک اشتہار دیں گے

غریب و بے کس ہر اک ستم پر نہ کیوں دعائیں ہزار دیں گے

اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو آپ گردن نہ مار دیں گے

عمل کو لازم ہے استواری نہ یہ کہ اظہارِ بے قراری

جو تیز گامی پہ فخر کرنے چلے ہیں ہمّت بھی ہار دیں گے

گزر چکا عہدِ بربریّت فریب ہے دورِ آدمیّت

جو ناپتے ہیں ہماری گردن ہم ان کا احسان اتار دیں گے

چمن کو لُوکا لگانے والے ہیں جانے کِن خوش گمانیوں میں

جلے اگر سیکڑوں نشیمن تو ایک مشتِ غبار دیں گے

یہ من کے مَیلے یہ تن کے اُجلے رہے جو ظاہر فریب اب تک

کہاں تک آشوبِ عہدِ نو اُن کو رُوپ دیں گے نکھار دیں گے

جو آپ ایسے یتیم عقلوں کو مان لیں گے چمن کا مالی

تو کیوں نہ از راہِ بے وقوفی گُلوں کے طالب کو خار دیں گے

غزل برائے غزل کے حامی پڑھا رہے ہیں یہ شادؔ ان کو

اگر سنواریں گے آپ گیسو تو نظم عالم سنوار دیں گے

٭٭٭

 

 

سو گریباں پھاڑ ڈالے دو گریباں سی دیے

یہ نوازش کم نہیں لیکن تناسب سیکھیے

مسکرا کر آپ نے جتنے غلط وعدے کیے

ذہن میں جگنو سے چمکے چند لمحوں کے لیے

شہہ سوارانِ سیاست سے یہ پوچھا چاہیے

زین لادے پھر رہے ہیں آپ ،گھوڑے کیا کیے

اپنے سر الزام کیوں لیتے ہو پھونکیں مار کر

آپ ہی بُجھ جائیں گے بے نُور مٹّی کے دِیے

یوں نظر آتے ہیں مستقبل میں ٹوٹے آسرے

جیسے کجلاتے ستارے، جیسے منزل کے دِیے

مانگ لیں ہم سے ہماری بے کسی کا ایک دن

عیش کی راتیں نہیں کٹتی ہیں جن سے بِن پِیے

ہم سے تنظیمِ وطن میں فرق پڑتا ہے تو پھر

چھوڑ دیجے سب کو، جیلوں میں ہمیں بھر دیجیے

تم نے فِطرت کو سمجھنے میں بڑی تاخیر کی

تم کو فِطرت نے سنبھلنے کے بڑے موقعے دیے

دیکھیے نا حال مستقبل سے کھاتا ہے شکست

کل جوتھے ’’ظلِّ الٰہی ‘‘ آج ہیں بہروپیے

شادؔ مجھ سے تجربے کوئی کہاں سے لائے گا

میں نہیں کہتا یہ ’’ طرزِ فکر‘‘ ہے میرے لیے

٭٭٭

 

 

 

جب گھٹا امڈتی ہے برق جب چمکتی ہے

آشیاں کے تنکوں سے بیکَسی ٹپکتی ہے

ضبط ناوکِ غم سے بات بن تو سکتی ہے

آدمی کی انگلی میں پھانس بھی کھٹکتی ہے

کیا کسی نوازش کی پول کھول دی میں نے

آنکھ جھینپتی کیوں ہے کیوں زباں بہکتی ہے

ہم نفس نصیبوں کا گلستاں سے کیا رِشتہ

جس طرح کوئی ڈالی ٹوٹ کر لٹکتی ہے

ساتھیو تھکے ماندہ، ہارتے ہو ہمّت کیوں

دُور سے کوئی منزل دن میں کب چمکتی ہے

کام عزم و ہمّت سے انصرام پاتے ہیں

کاہلی کی مت سُنیے، کاہلی تو َبکتی ہے

کیوں مزاجِ والا کو روشنی نہیں بھاتی

کیوں حضورِ والا کو آگہی کھٹکتی ہے

جس کو نکہتِ گُل سے واسطہ نہیں ہوتا

خوش لباس پھولوں میں وہ نظر بہکتی ہے

شادؔ ان اندھیروں میں کہکشاں کی منزل سے

رات کے گزرنے کی صُبح راہ تکتی ہے

٭٭٭

 

 

 

خود بینی کا حق ہے لیکن ہٹ دھرمی سے کام نہ لے

اے کترا کر جانے والے کوئی دامن تھام نہ لے

کیا کچھ آنکھیں تاڑ رہی تھیں کیا کچھ خطرہ تھا موجود

ورنہ اے نادان پیامی وہ میرا پیغام نہ لے

خواہش کی تعمیل میں الفت کھوتی ہے تکمیل کا لُطف

آنکھ ملائے جا ساقی سے ہاتھ بڑھا دے جام نہ لے

بھیگی پلکیں، بِکھری زلفیں، اُترا چہرا، پھیکے ہونٹ

ان حالات میں کب تک محفل سوئے ظن سے کام نہ لے

دنیا والے ہمدردی کے معنی لیتے ہیں کچھ اور

مجھ سے ہمدردی جتلا کر اپنے سر الزام نہ لے

اچھا آج بھری محفل میں الفت کی تصدیق سہی

اچھا آج بھری محفل میں وہ جس کا بھی نام نہ لے

نظریں جیسے خالی ساغر جلوے جیسے دور کے پھول

رکھّے وہ انداز کہ گھر بھر کج فہمی سے کام نہ لے

بے باکانہ دل چسپی کا ہوتا ہے انجام بُرا

اپنی صبحِ عُمر کے بدلے میرے غم کی شام نہ لے

شادؔ مگر افشا تھا اس پر میری خالی جیب کا حال

ورنہ یہ ممکن تھا ساقی جام پلا دے دام نہ لے

٭٭٭

 

 

 

نظر آتے ہیں اب تو باغباں ہی باغباں ہم کو

بھگتنا ہے مگر انجامِ گلشن بعد ازاں ہم کو

ہمیں کانٹے سمجھ کر مُنھ بنا سکتے ہو تم لیکن

نہ کہنا پھول کے چھُونے سے پہلے رائیگاں ہم کو

مناسب تو یہی ہو گا کہ از راہِ روا داری

انھیں ناقوس پر حق ہے تو کہنے دیں اذاں ہم کو

اسے ہم ٹال جاتے ہیں فریبِ آگہی کہہ کر

اگر ہوتا بھی ہے بھُولے سے احساسِ زیاں ہم کو

وہ اس انداز، اس لہجے میں فرماتے ہیں تردیدیں

غلط معلوم ہوتا ہے ہمارا ہر بیاں ہم کو

جو اپنی سادگی کی آڑ میں کیا کچھ نہیں کرتے

کچھ ایسے دوست ملتے ہیں نصیبِ دشمناں ہم کو

شگوفوں کے تبسم پر ہُوا ادراکِ مایوسی!

ہوا احساسِ کم بینی چمن کے درمیاں ہم کو

کسی اچھے نتیجے کی طرف آنے نہیں دیتے

تمھارا راز داں تم کو ہمارے مہرباں ہم کو

ہمیں اے شادؔ ان رجعت پسندوں سے تو کیا لینا

کرے گی یاد مستقبل کی تہذیبِ جواں ہم کو

 

٭٭٭

 

 

 

ما سوا کی تاک میں ہیں سبحہ گردانوں میں ہیں

کچھ یہودی بھی بڑے پکّے مسلمانوں میں ہیں

شاعرانِ بے بدَل اُلفت کے ارمانوں میں ہیں

شمع کے دل پر بنی ہے آپ پروانوں میں ہیں

بارہا پائے گئے ہیں لُوٹنے والوں کے ساتھ

جن کو دعویٰ تھا کہ ہم سچّے نگہبانوں میں ہیں

خوب دولت جمع کر لیجے، محل بنوائیے

آپ دُنیا میں رہیں گے، ہم تو مہمانوں میں ہیں

ان کا کُتّا بھونکتا ہے آنے والے شخص پر

ان میں کیا ہوں گے جو تیور اُن کے دربانوں میں ہیں

فاقہ کش مخلوق کی حاجت سمجھنے کے لیے

ایک دو روزے ہی رکھ لیتے جو ’’ خَس خانوں ‘‘میں ہیں

خود لگا لائیں گے جن کانٹوں سے گھبراتے ہیں آپ

جھول اتنے آپ کے زرتار دامانوں میں ہیں

مانعِ اشعار کیا ہو شادؔ ذہنی کش مکش

حادثے آنکھوں میں، آوازیں مرے کانوں میں ہیں

٭٭٭

 

 

 

وہ اپنے جاں نثاروں پر عنایت ہی نہیں کرتے

یہ بہتر تھا کہ ہم اُن سے محبت ہی نہیں کرتے

نگاہیں ترجمانِ خواہشِ بیدادِ پیہم ہیں

ہم اُن سے عرضِ بیتابی کی جرأت ہی نہیں کرتے

نہ ہوتے ہم اگر مستِ مئے خانۂ اُلفت

جنابِ شیخ کے ہاتھوں پہ بیعت ہی نہیں کرتے

بتاتی ہیں ادائیں ہم ستم کو دوست رکھتے ہیں

نگاہیں کہہ رہی ہیں ہم مروّت ہی نہیں کرتے

کشیدے پر نظر، لب پر تبسّم، راز کی باتیں

یہ پھر کہیے کسی سے ہم محبت ہی نہیں کرتے

جنابِ شیخ ہیں ساقی پلاتا ہے، نہیں پیتے

جنابِ شادؔ ہیں، کفرانِ نعمت ہی نہیں کرتے

٭٭٭

 

 

 

اپنے جی میں جو ٹھان لیں گے آپ

یا ہمارا بیان لیں گے آپ؟

جس طریقے سے جان لیں گے آپ

خون میں ہاتھ سان لیں گے آپ

آسرا ہے مگر یقین نہیں

غلطی اپنی مان لیں گے آپ

جستجو قاعدے کی ہو ورنہ

در بدر خاک چھان لیں گے آپ

عہدِ حاضر کے بعد آئے گا

وہ زمانہ کہ جان لیں گے آپ

صاف کہیے کہ چاہتے کیا ہیں

کیا غریبوں کی جان لیں گے آپ

یوں تو غصّہ حرام ہے لیکن

روز جب امتحان لیں گے آپ!

آپ کو مہرباں سمجھتے ہیں

اور کیا ’’ ناک کان‘‘ لیں گے آپ

یہ حریفانِ کم نظر اے شادؔ

مجھ کو اک روز مان لیں گے آپ

٭٭٭

 

 

 

شکوۂ حالِ پریشاں چھوڑ دوں

فکر مرہم، ذکرِ درماں چھوڑ دوں

آپ کہہ دیں، میں گلستاں چھوڑ دوں

چھوڑنا ٹھہرا تو آساں چھوڑ دوں

اس طرف جاتا ہے وہ بت ہاتھ سے

اس طرف دامانِ ایماں چھوڑ دوں

وہ مجھے کانٹا سمجھنا چھوڑ دے

میں گریبانِ بہاراں چھوڑ دوں

اب یہی تدبیر باقی ہے کہ میں

اعتمادِ چارہ سازاں چھوڑ دوں

واہ کیا ایمان لگتی بات ہے

اس بتِ کافر کا ارماں چھوڑ دوں

وہ اگر محسوس فرمائیں تو میں

سعیِ عرضِ چاک داماں چھوڑ دوں

ہو نہیں سکتا کسی راہی کاساتھ

جان کر ’’ نادان انساں ‘‘ چھوڑ دوں

شیخ صاحب سر نہ ہوں میرے تو شادؔ

مَئے کشی تا حدِّ امکاں چھوڑ دوں

٭٭٭

 

 

 

کھُلیں گے میکدۂ امن اس نظام کے ساتھ

لڑیں نہ بادہ پرستوں کے جام جام کے ساتھ

غرض ہے جن کو مساواتِ خاص و عام کے ساتھ

وہی نبھائیں گے رندانِ تشنہ کام کے ساتھ

بہار آئے گی جب عزم بے لگام کے ساتھ

اٹھے گا شور نسیمِ سبک خرام کے ساتھ

تری نگاہ میں فقدانِ دل دہی ہے وہی

شراب کو جو تعلق ہے میرے جام کے ساتھ

رواجِ عطف پیام وسلام کیا معنی

اگر پیام کو نسبت نہیں سلام کے ساتھ

ٹھہر ٹھہر کے کریں گے وہ راستہ کھوٹا

چلے ہیں گھر سے جو یارانِ تیز گام کے ساتھ

گزر نہ جائے قیامت جو دیدہ و دل پر

تم اپنا نام سنوگے نہ میرے نام کے ساتھ

جو ہر صدا کا مخاطب، جو ہر جگہ موجود

پکار لیجیے اس کو کسی بھی نام کے ساتھ

مزاجِ دہر نے متروک کر دیا ہے اُسے

چلا رہے ہیں وہ محفل کو جس نظام کے ساتھ

وہ شادؔ ہوں گے پشیمانِ آگہی اِک دِن

لگاؤ جن کو نہیں ہے مرے کلام کے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

اگر کہیں ادب میں انقلاب ہم کو چاہیے

تو آپ جان لیں، شرابِ ناب ہم کو چاہیے

بجائے خود، سکوں نہ اضطراب ہم کو چاہیے

بہ ’اعتبارِ طبع‘ انتخاب ہم کو چاہیے

یہ کون ہیں ؟ کہ جِن میں کچھ سلیقۂ طلب نہیں

سوال اُن سے چاہیے جواب ہم کو چاہیے

وہ جس قدر بھی بَن پڑے وہ جس طرح بھی ہو سکے

رواجِ عاشقی میں انقلاب ہم کو چاہیے

کھُلی کتابِ آرزو میں ’بابِ بد ظنی‘ نہیں

لحاظِ گفتگو سے اجتناب ہم کو چاہیے

حیا کی شوخ چشمیاں ہیں لفظ آفریں مگر

لبِ شگوفہ رنگ سے جواب ہم کو چاہیے

فریبِ آب و تابِ ماسوا کے موڑ موڑ پر

ہدایتِ نگاہِ انتخاب ہم کو چاہیے

نشاطِ و انبساط و کیفِ مستقل کے واسطے

حجابِ چشم و ’روئے بے نقاب‘ ہم کو چاہیے

وہ انتہا پسند ہیں تو شادؔ ہم بھی کم نہیں

ستم ہو یا کرم علی الحساب ہم کو چاہیے

٭٭٭

 

 

 

نہایت مختصر انجامِ شاخِ آشیاں ہو گا

چمن پر ایک ہلکی سی چمک ہو گی، دھواں ہو گا

چمن ہے، چاندنی راتیں ہیں، میں ہوں اور تنہائی

وہ ایسے میں چلے آئیں، مگر ایسا کہاں ہو گا

زمیں اس کی، زماں اس کا، مکیں اس کے، مکاں اُس کا

کہیں سجدے کرے کوئی، اُسی کاآستاں ہو گا

ترے کوچے میں آ کر ہم تو آپے میں نہیں رہتے

پہنچ جائے جو تیری خلوتوں میں، وہ کہاں ہو گا

لبِ بام آپ، میں کوچے میں، گھبرائی ہوئی باتیں

ہمیں اس حال میں جو دیکھ لے گا، بد گماں ہو گا

وہ رخصت ہو چکا، ہم ڈھونڈتے پھرتے ہیں گھر گھر میں

اِدھر ہو گا، اُدھر ہو گا، یہاں ہو گا، وہاں ہو گا

محبت اُس بتِ بیداد فن کی کام آئے گی

جسے تم راہزن سمجھے ہو میرِ کارواں ہو گا

گھُلا دیتی ہے فکرِ شعرِ تر اے شادؔ شاعرکو

بڑھے گی شعر کی طاقت یہ جتنا ناتواں ہو گا

٭٭٭

 

 

 

بچو سیاستِ وفا میں اس ہجومِ عام سے

جہاں بشر کو جانچنے لگے ہوں فہمِ خام سے

خودی! کہ مختلف نہیں ہے اب خیالِ خام سے

ملو حیا فروش سے ڈرو نمک حرام سے

مزاج دانِ میکشاں ہے فیضِ ساقیِ ازل

مرے لیے وہ پھول میں، جوانجمن کو جام سے

شرابِ لالہ فام کو تری نظر سے واسطہ؟

نہیں ہے میری شاعری شرابِ لالہ فام سے

کسی کی زلفِ مُشکبو سے کھیلنا ہے یاد ابھی

اسے ملالِ دام ہے نکل گیا جو دام سے

مرے اصولِ بندگی میں چند خامیاں سہی

مگر جبینِ سجدہ خُو لگی ہوئی ہے کام سے

عجب نہیں جو گفتگو کے بعد اور لَے بڑھے

پیام تک تو آ چکا ہے سلسلہ سلام سے

گزر رہے ہیں سیکڑوں تری نظر سے بے خبر

مرے لیے ہی بجلیاں برس رہی ہیں بام سے

جو گامزن نہ ہو سکے، وہ پاؤں تھے کہ سو سکے

مذاقِ سعی و جستجو کی موت ہے قیام سے

نشاط و کیف و سر خوشی انھیں جو نکتہ سنج ہیں

تو سطح بیں کے واسطے، خلش مرے کلام سے

وہ بزمِ بے نظام کے امین و راز دار ہیں

اٹھا رہے ہیں رونقیں جو بزم بے نظام سے

’ مجاز‘ ہو کہ ’ ما سوا‘ وہی فریبِ مدّعا

نہ ہو سکے گا فیصلہ ثبوتِ ناتمام سے

’’ سیاستِ مدن‘‘ میں شادؔ جانے اس کو کیا کہیں

بچا رہا ہوں شاہ کو ٹرمپ کے غلام سے

٭٭٭

 

 

فراق کی شب تھکے مسافر کی چال سے وقت جا رہا ہے

سُہیل مغرب کی وادیوں پر اسی طرح جھلملا رہا ہے

محافظانِ رکیک طینت سے راز اُلفت چھپا رہا ہے

میں اس سے مل مل کے چل رہا ہوں وہ مجھ سے بچ بچ کے جا رہا ہے

مری وفاؤں کا امتحاں لے رہا ہے ہمّت بندھا رہا ہے

جبیں سے تیور بدل رہا ہے نگاہ سے مُسکرا رہا ہے

یقین فرمائیے محبت میں دل پہ قابو ہے کامیابی

جو میرے سجدوں سے بھاگتا تھا وہی مرا سر دبا رہا ہے

اُڑا رہا ہے ہنسی زمانہ مگر وہی میں وہی فسانہ

یہ امر اب فیصلہ طلب ہے کہ کون کِس کو بنا رہا ہے

یہ الفتیں ہوں کہ نفرتیں ہوں غرض نہیں اس سے یہ خوشی ہے

نظر میں آتا رہا ہوں جب تک مجھی کو وہ دیکھتا رہا ہے

ابھی وہاں تھے ابھی یہاں ہیں، ابھی نہاں تھے ابھی عیاں ہیں

حسین جلوؤں کی بے قراری سے عشق ترتیب پا رہا ہے

تم اپنی آزادیوں کو دیکھو ہماری مجبوریوں کو سمجھو

وہ بات اوروں سے کر رہا ہے مجھے مخاطب بنا رہا ہے

وہ میرا ’تارا‘ کہ جس کے جلوے محیط ہیں نورِ کہکشاں کو

گھرا ہے ہم جولیوں میں اپنے مگر الگ جگمگا رہا ہے

جسے اقارب سمجھ رہے ہیں سُکھا رہا ہے حسین گیسو

حسین گیسو کی آڑ میں وہ نگاہ مجھ سے ملا رہا ہے

بہار کی رُت میں ہر سحر اس کو کھینچ لاتی ہے سوئے گلشن

سحر کے پردے میں جا چھپی رات شادؔ خوشیاں منا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

آہوں میں تاثیریں ہیں لیکن ’آندھی کے بیر نہیں ‘

شادؔ خدا کے ہاں القصّہ دیر توہے اندھیر نہیں

صبحِ وصل پہ یہ گِریاں ہے شامِ ہجر سے وہ مغموم

جیسا جوانسان ہے کیا، ویسا ہی سمجھ کا پھیر نہیں

ظرف سے زائد کب ہوتا ہے اُن سے میرا کوئی سوال

ایسا دامن پھیلاتا ہوں جس کے اندر گھیر نہیں

اطمینانِ دل کی خاطر ہر پہلو پر غور کیا

اطمینانِ دل کی دنیا بستے لٹتے، دیر نہیں

پیرِ مغاں کے کڑوے تیور شاید کیف عطا فرمائیں

ساقی کی میٹھی میٹھی باتوں سے طبیعت سیر نہیں

گھر سے دیر و کلیسا ہو کر جانا ہے اک طولِ امل

میخانہ سے کعبہ کو سیدھا رستہ ہے پھیر نہیں

شیخ و برہمن کو سینے ملوا دیجے لیکن بے سود

دونوں ہٹ دھرمی کے جائے کوئی کسی سے زیر نہیں

غیروں کو درشن ملتے ہیں اپنوں کو دو ٹوک جواب

کیا یہ الفت کی بستی میں ’نو گاڑی اندھیر‘ نہیں

کوہِ طُور کے جل اٹھنے پر کم ظرفی کے طعنے کیوں

اس کو دیکھیں جس پر تیری آنکھ پڑے اور ڈھیر نہیں

مقطعے میں آنے والا مصرع ہے اُس کافر کا شادؔ

’’ ایسی بحر میں اتنے تھوڑے شعر طبیعت سیر نہیں ‘‘

٭٭٭

 

 

 

ہزار عیب نکالے گی عقلِ بیگانہ

متاعِ ہوش نہیں در خورِ صنم خانہ

جنابِ شیخ کی حُجّت خلافِ میخانہ

جو سعیِ خام میں الجھأ رہے وہ دیوانہ

کسی کی مَست نگاہوں سے لڑ رہی ہے نظر

برس رہا ہے مرے دل پہ کیفِ پیمانہ

جنھیں نصیب نہیں درد ہجر، اُن میں سے

خدا کسی کو نہ لے جائے سوئے میخانہ

وہ پھر رہا ہے نظر میں، رواں ہیں آنسو بھی

بنا ہے ساحلِ گنگا کے ساتھ بُت خانہ

نہیں ہے عام ابھی رمزِ خود فراموشی

بہت ہیں وہ جو سمجھتے ہیں مجھ کو دیوانہ

یہ مانتا ہوں کہ ساقی نہیں حسین، مگر

مجھے یہ کہہ نہیں بنتا، اِدھر بھی پیمانہ

نظر کو حُسنِ ازل سے دوچار ہونے دے

قدم قدم پہ نظر آئے گا پری خانہ

بھرا ہے شادؔ اچھوتے خیال سے عالَم

شرابِ ناب سے خالی نہیں ہے میخانہ

٭٭٭

 

 

 

مئے سے بھر پور جام ہوتا ہے

ورنہ خالی تو نام ہوتا ہے

شام سے اہتمام ہوتا ہے

تب وہ بالائے بام ہوتا ہے

جس کے ہاں کچھ پیام ہوتا ہے

شاعرِ بزمِ عام ہوتا ہے

کرمِ خاص چاہتے ہیں ہم

مسکرا دو تو کام ہوتا ہے

ہاتھ سے یا زبان ہی سے نہیں

آنکھ سے بھی سلام ہوتا ہے

گُل کے ایمائے ابتسام کے ساتھ

مجھ کو اِذنِ کلام ہوتا ہے

میں جو بدنام ہو رہا ہوں تو کیا

آپ کا بھی تو نام ہوتا ہے

شیخ صاحب وہاں ہمارا بھی

کچھ نہ کچھ احترام ہوتا ہے

بات اس سے نہ ہو سکی جس کا

سامنا صبح و شام ہوتا ہے

کسی محفل پہ اعتراض نہ کر

اپنا اپنا نظام ہوتا ہے

اُس کی دُرگت نہ پوچھ شادؔ مرا

جس لفافے پہ نام ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

فریب کیوں کھا رہا ہے، گلزارِ کامیابی سے بچ نکل بھی

وفا کے جتنے درخت بوئے گئے ہیں آیا ہے اُن میں پھل بھی

مجھی سے تاکیدِ ضبطِ اُلفت مجھی سے فرمائشِ غزل بھی

یہ وہ مثل ہے کہ پھول شاخوں سے توڑ کانٹوں سے بچ کے چل بھی

نظر شناسوں کو دیکھ کر مجھ سے پھیر لے آنکھ، رُخ بدل بھی

مگر محبت کے بعد رُسوائیوں کا قانون ہے اٹل بھی

نہ جا محبت کی نا تمامی پہ، کامرانی کی سمت چل بھی

جو پھول کی طرح مُسکرائے تو شمعِ خاموش بن کے جل بھی

وہاں پہ دِقّت کہ دو گھڑی منہ لپیٹ کر لیٹنا بھی مشکل

یہاں یہ ممکن کہ دوستوں میں رہوں تو جاتا ہے جی بہل بھی

وہی چمن ہے وہی جوانی، وہی ہے دریا وہی روانی

زہے تقاضائے وحشتِ دل، یہاں سے اُٹھ بھی یہاں سے چل بھی

وہ اس سے پہلے بھی پاسبانوں کے خوف سے خط نہ بھیجتا تھا

جو اس سے پہلے گزر چکی ہے وہی مصیبت ہے آج کل بھی

اگر حقیقت سے لَو لگا لوں تو ماسوا سے نظر بچا لوں

مجاز کو رہنما بنا لوں تووہ ستارہ بھی ہے کنول بھی

بیان کی وسعتوں سے بالا ہے ماجرائے شبِ جُدائی

نہ فکرِ اشعار غم بٹائے نہ چین پاؤں میں ایک پل بھی

زباں سے اقرارِ عشق پر ضد فضول جب میں نظر پڑا ہوں

نہ زلف ہی آ گئی ہے چہرے پہ بلکہ آنچل گیا ہے ڈھل بھی

لُبھا چکے بے قرارِ جلوہ کو مُطرب خوش نوا کے نغمے

نظر کی بیتابیاں نہ جائیں گی جائے گا جی اگر بہل بھی

’’رواج‘‘ کو جاننا پڑے گا کہ دو دلوں کا ملاپ کیا ہے

’’سماج‘‘ کو ماننا پڑے گا ’’اصولِ محتاط‘‘ میں خلل بھی

سلیقۂ نظم ہائے جدّت طراز جس نے عطا کیا ہے

اُسی نے اے شادؔ عارفی سونپ دی مجھے نُدرت غزل بھی

٭٭٭

 

 

 

کیا کریں گلشن پہ جوبن زیرِ دام آیا تو کیا

کیا توقع، انقلابِ نو نظام آیا تو کیا

اب یہ تاثیر محبت پر قصیدہ کیا ضرور

جذبۂ بے تابیِ دل تھا جو کام آیا تو کیا

آنکھ سے دل کی طرف دوڑے وہ مئے پیتے ہیں ہم

ہم وہ میکش ہیں کہ ساقی لے کے جام آیا تو کیا

ضعف اپنا توڑنے دیتا ہے زنجیریں کہیں

ہم میں دَم کیا ہے، جو وقتِ انتقام آیا تو کیا

میں سمجھتا ہوں اُسے آغازِ مستقبل فزا

آپ کہتے ہیں کوئی بالائے بام آیا تو کیا

اب وہ اظہارِ حقیقت کے لیے ڈرتے نہیں

اب وہ کہتے ہیں ’’ خط اُس کا میرے نام آیا تو کیا‘‘

ہے تو نا احساں شناسی، شادؔ لیکن کیا کروں

کام بن سکتا تھا یوں بھی، کوئی کام آیا تو کیا

٭٭٭

 

 

 

کون بتوں سے رشتہ جوڑے

نام بڑے اور درشن تھوڑے

اُس پر یہ بھرپور جوانی

بانہیں بھر لے اور نہ چھوڑے

جوبن کو یہ عقل کہاں ہے

چادر اتنے پاؤں سکوڑے

چھلکے ساغر، آنکھ نشیلی

نرگس میں انگور نچوڑے

حال سے مستقبل بنتا ہے

پھوٹ بہیں کے پکّے پھوڑے

پیٹھ نہ دے آزادہ روی کو

سینے پر کھا زخم بھگوڑے

شادؔ نئے حالات میں ہوں میں

مجھ کو کیا مضمون کے توڑے

٭٭٭

 

 

بُتانِ دیر سے شکوہ نہیں ہے

جو سنتا ہے وہی سنتا نہیں ہے

کہاں ہیں شاکیِ انجام اُلفت

یہاں آغاز ہی اچھا نہیں ہے

مرے ذوقِ پرستش کے مخالف

مرا سجدہ ترا سجدا نہیں ہے

ہمارے دل میں موزوں ہے ترا غم

جہاں جو چیز ہے بے جا نہیں ہے

مناظر کی کِیے جاتا ہوں پوجا

خدا کو آنکھ سے دیکھا نہیں ہے

یہ اندازِ تحمل آفریں کیا؟

کبھی پردا کبھی پردا نہیں ہے

ابھی انگڑائیاں لی جا رہی ہیں

سمجھتے ہیں ابھی دیکھا نہیں ہے

مری آنکھیں، مرامنشاء، مرا دل

نہیں وہ با وفا، اچھا نہیں ہے

تڑپ دل کی کہاں تک چھُپ سکے گی

زمانہ دیکھنے والا نہیں ہے

تجھے اے شادؔ خود داری مبارک

مگر دُنیا کا یہ شیوا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

شادؔ اُفتادِ ہر نفس مت پوچھ

حضرتِ قاضی و عسس مت پوچھ

خون بھی ہے رگِ حمیت بھی

کیوں نہیں لوگ ٹس سے مس مت پوچھ

پھُول کانٹوں میں تو نے دیکھا ہے

مجھ سے حالاتِ پیش و پس مت پوچھ

کیا مری آرزو سے واقف ہے

وہ نگاہِ دقیقہ رس، مت پوچھ

چیستاں ہے فریبِ آزادی

شرحِ اجمال کو ترس، مت پوچھ

قتل کا حکم ہی سہی، لیکن

ہے جو اُس کے گلے میں رس، مت پوچھ

٭٭٭

 

 

 

وارفتگیِ شوق میں طوفان آ گیا

اب میرے ہاتھ جس کا گریبان آ گیا

جب شور مچ گیا کہ مسلمان آ گیا

بزمِ بتاں سے ہوکے پریشان آ گیا

آمادۂ سجودِ بتاں تھی جبینِ شوق

بد باطنوں کے ہاتھ اک عنوان آ گیا

لہجہ بدل گیا تھاسوالِ حقوق پر

بد باطنوں کے ہاتھ اک عنوان آ گیا

رونے نہ پائے تھے ابھی پہلے کی جان کو

اک اور سخت گیر نگہبان آ گیا

دل میں لہو کہاں تھا کہ اک تیر آ لگا

فاقہ سے تھا غریب کہ مہمان آ گیا

تہذیبِ میکدہ کا ہمیں پاس ہے، مگر

ساقی ترے سلوک پہ شیطان آ گیا

یہ دیکھنے کے بعد کہ پیتا ہے چھپ کے شیخ

میں سوئے میکدہ علی الاعلان آ گیا

گلشن میں چل رہی ہیں نسیمِ سحر مگر

کلیاں پکارتی ہیں کہ طوفان آ گیا

سُن لو گے ایک روز کہ ہر گلستاں کے نام

تخلیۂ بہار کا فرمان آ گیا

اب تک کوئی مثال ملی ہے نہ ملے سکے

جتنا وطن کے کام مسلمان آ گیا

اے شادؔ اب غزل کا تصوّر کچھ اور ہے

اب یوں نہیں کہیں گے’’ مرا جان‘‘ آ گیا

٭٭٭

 

 

 

’’بن اندھیرے‘‘ غزالِ یار کہاں ؟

چاندنی رات میں شکار کہاں ؟

پردۂ در کو تھا قرار کہاں ؟

آپ کو میرا انتظار کہاں ؟

وہی حالِ شباب ہے مثلاً

موسمِ گُل کا اعتبار کہاں ؟

یہ تو بدنام کر رہے ہیں لوگ

قاتلوں میں ترا شمار کہاں ؟

بو دیے ہیں سماج نے کانٹے

رہِ اُلفت میں خار زار کہاں ؟

آڑ میں چُندریاں سکھانے کے

وہ لبِ بام بار بار کہاں ؟

احتیاطاً یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ

’’بے وفا‘‘ ہے ’’وفا شعار‘‘ کہاں ؟

ہر گھڑی منقلب زمانہ ہے

اعتبارِ مزاجِ یار کہاں ؟

جاگنے کا اثر تو ممکن ہے

مدھ بھری آنکھ میں خمار کہاں ؟

راہزن دور ہیں ابھی لیکن

مجھ میں کوتاہیِ فرار کہاں ؟

ہر مشیت پہ مُسکراتا ہوں

شادؔ رونا مرا شعار کہاں ؟

٭٭٭

 

 

 

جو پیش آئیں غریبوں سے انکسار کے ساتھ

تو ہم کو ضد بھی نہیں اہلِ اقتدار کے ساتھ

روش روش پہ چھڑکنے چلے ہو عطر جہاں

گلوں کو رنگ بھی دو مژدۂ بہار کے ساتھ

کدورتِ دلِ سالارِ کارواں کی قسم

نہ ہم شمار سے باہر نہ ہم قطار کے ساتھ

یہ چاہتے ہیں بنے بات تو پلٹ آئیں

ٹھہر رہے ہیں جو ہر موڑ پر غبار کے ساتھ

حصولِ امن کو سعیِ فضول کہہ کر آپ

اسی میں خیر ہے، اُلجھیں نہ خاکسار کے ساتھ

غزل کا لفظ نہیں ’’انقلاب‘‘ یوں کہیے

بدل رہا ہے زمانہ مزاجِ یار کے ساتھ

یہ فنِّ طنز مرے حق میں در حقیقت شادؔ

بہت بڑا المیّہ ہے اختصار کے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

پھول پھول چہروں سے، مدھ بھرے غزالوں سے

ہم بتوں پہ مرتے ہیں سیکڑوں مثالوں سے

آپ کی یہ دلچسپی ہم شکستہ حالوں سے

واسطہ نہ پڑ جائے مختلف سوالوں سے

دستِ غیبِ زاہد ہے، منسلک شوالوں سے

یہ خیال اونچا ہے، دوسرے خیالوں سے

جستجو میں ناکامی، ہم نے خود خریدی ہے

الجھنوں سے گھبرا کر، ڈر کے احتمالوں سے

’’ ذکر اُس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا‘‘

ورنہ کون واقف تھا ان پری جمالوں سے

انبساطِ باطن کا کامیاب تجزیّہ

آپ چاہتے کیوں ہیں اُن کے پائمالوں سے

گھیر لے نہ ہمت کو بے پناہ ویرانی

ذہن کو بچا رکھیے بے کسی کے جالوں سے

موسمِ بہاراں کی بات بن نہیں سکتی

دلربا دلیلوں سے، خوش نما حوالوں سے

ان کی نو جوانی کا، اُن سے ماجرا سُنیے

ناصحوں کو زچ کیجے، ناصحوں کی چالوں سے

منظرِ رُخ وگیسو، جیسے شام آتی ہے

سر مئی اندھیروں سے، نقرئی اجالوں سے

کل کی بات لگتی ہے، جن پہ آشیانے تھے

بھر گئی ہیں وہ شاخیں مکڑیوں کے جالوں سے

دل اُداس ہے ورنہ، روز روز ممکن ہیں

نو جوان فن پارے ریشمیں خیالوں میں

عظمتِ تغزل میں ان سے کام لیتا ہوں

زندگی گزرتی ہے شادؔ جن ملالوں سے

٭٭٭

 

 

 

خلوتِ حسن کی رنگیں یادو

دلِ مغموم کو مت ایذا دو

درِ گلشن پہ ’’ قفس ایجادو‘‘

’’ راستہ بند ہے‘‘ یہ لکھوا دو

جن مسائل میں وطن اُلجھا ہے

’’ہاتھ لکھتا ہوں ‘‘ اگر سُلجھا دو

ذہن خود صاف نہیں جس بابت

چاہتے ہو کہ ہمیں سمجھا دو

کُفر ہے دل شکنیِ خوباں

ورنہ تم! اور ہمیں بہکا دو

’’ کون سُنتا ہے فغانِ درویش‘‘

اپنے آپے میں رہو فریادو!

کوئی مصرف نہیں دولت اگر

دوسرا تاج محل بنوا دو

’’ جیل ‘‘ ٹکسال سے باہر ہی سہی

ہم کو فی الحال قفس پہنچا دو

(قطعہ)

اے وہ اُردوئے معلی نہ سہی

شادؔ کی بات سُنو، استادو!

عشقِ شیرینِ غزل کی خاطر

نہر میں ڈوب مرو فرہادو

’’شہِ شطرنج‘‘ غزل سے ہرگز

نہ کہو شعر عطا فرما دو

’’ اس کو‘‘ ساقی کا دلا دو ’’ بوسہ‘‘

’’ اس کو‘‘ بازار سے ’’ جنگل لا دو‘‘

شادؔ مستقبلِ روشن کے لیے

’’حال‘‘ ماضی کی طرف ٹھکرا دو

٭٭٭

 

 

 

چاہت کا الزام بُرا ہے

بد اچھا بدنام بُرا ہے

حالِ دل ناکام بُرا ہے

ضبطِ غم، انجام بُرا ہے

رہزن کو نزدیک سے دیکھو

خصلت اچھی، نام بُرا ہے

قاصد کے اَوسان خطا ہیں

ظاہر ہے، پیغام بُرا ہے

منزل کھوٹی ہو جائے گی

رستے میں آرام بُرا ہے

مئے پینا، یا پردہ اُٹھنا

جلدی کا ہر کام بُرا ہے

سیجیں ہوں یا قبر کی چادر

پھولوں کا انجام بُرا ہے

ساقی کے تیور اچھے ہیں

ہونے دو گر جام بُرا ہے

شادؔ فلاطونی دُنیا میں

فکرِ سخن بھی کام بُرا ہے

٭٭٭

 

 

 

مجھ پہ اس ’’ حیا خو‘‘ کی ہر نظر ادھوری ہے

پھر بھی مدّعا کامل، پھر بھی بات پوری ہے

حاضرینِ محفل سے، قرب ہے نہ دوری ہے

شمع بزمِ عرفاں کا مسئلہ شعوری ہے

ان کو چھوڑ کر، جن کی ہر مُراد پوری ہے

’’التفات و الفت‘‘ میں فاصلہ ضروری ہے

ایک رنگ آتا ہے، ایک رنگ جاتا ہے

مصلحت پرستوں کی شاعری عبوری ہے

اُن ادب پناہوں کو کیا کہیں، جنھیں اب تک

عندلیب ’بیدلؔ‘ ہے اور گل ’ ظہوریؔ‘ ہے

خار و گل پہ گلشن میں غور کیجیے، یعنی

ایک سر بسر ’ باغی‘ ایک ’جی حضوری‘ ہے

اس تضاد پر آخر کس سے بحث کی جائے

عشق بھی ضروری ہے، صبر بھی ضروری ہے

گرمیاں دکھانے سے فاصلہ فزوں ہو گا

نرمیوں سے طے ہو گی یہ دلوں کی دوری ہے

میری مسکراہٹ ہے بر بِنائے مایوسی

پھول کے تبسم کا رنگ لا شعوری ہے

دوستو، جہاں چاہو دادِ جرم و لغزش دو

قابلِ سزا جب تک ’ نازِ بے قصوری ‘ہے

’’ وہ بھی کوئی شاعر ہے‘‘ وہ بھی کیا ’’ سخنور تھا‘‘

شادؔ رام پوری تھا، شادؔ رام پوری ہے

٭٭٭

 

 

تا چند باغبانیِ صحرا کرے کوئی

لیکن سوال یہ ہے کہ پھر کیا کرے کوئی

خنجر دِکھا دِکھا کے جو وعدہ کرے کوئی

کیوں اور کس طرح نہ بھروسہ کرے کوئی

ان میں سے، جن کو آپ سمجھتے ہیں معتبر

کس وقت جانے آپ سے دھوکہ کرے کوئی

خود مبتلا ہیں اپنی پریشانیوں میں ہم

فرصت کسے کہ آپ کو رسوا کرے کوئی

یہ ریشمیں نقاب کی بد احتیاطیاں

اب کیا برائے دید تقاضا کرے کوئی

جو فتنہ و فساد کی باتیں نہ کر سکے

محفل میں اعتراض ہی پیدا کرے کوئی

اٹھتی نہیں نگاہِ پشیماں زمین سے

شکوہ کرے کوئی کہ نہ شکوہ کرے کوئی

رنگینیِ چمن کا جہاں تک سوال ہے

گلچین و باغباں سے نہ جھگڑا کرے کوئی

سرمایہ دار سُن کے جسے تِلملائیں شادؔ

ایسی غزل کی ہم سے تمنّا کرے کوئی

٭٭٭

 

 

                (مستزاد)

 

رخنہ کارِ امنِ عالم جو بھی ہو بد ذات ہے

لیکن اتنی بات ہے

’’چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے‘‘

سوچنے کی بات ہے

اک طرف گلگوں شرابِ ناب کی برسات ہے

محوِ احسانات ہے

اس طرف توپوں کے امریکن خدا کا ہات ہے

سوچنے کی بات ہے

اپنی من مانی پہ طاقت سے لیا جاتا ہے کام

فیصلے سب ناتمام

صاف ’ یو، این، او‘ کا دھندا اک سیاسی گھات ہے

سوچنے کی بات ہے

سیکڑوں من گندم بے دام پاکستان کو

مصر کو، ایران کو

وہ عطیّہ کہہ کے خوش ہو لیں، مگر خیرات ہے

سوچنے کی بات ہے

اب سمجھ میں آ رہی ہے دشمنوں کی واہیات

کوئی فقرہ، کوئی بات

کُو بہ کُو مشہور احمق جانور کی لات ہے

سوچنے کی بات ہے

اب نہ چمکا پاؤ گے ذہنوں میں جھوٹے انقلاب

ہے یہ سیدھا سا حساب

دن بتاؤ گے جسے تم، ہم کہیں گے رات ہے

سوچنے کی بات ہے

مدرسوں میں پیٹتے پھرتے ہو شخصیّت کے دھول

کیوں مچا رکھّی ہے پول

شیخ صاحب آپ کی کیا ذات، کیا اوقات ہے

سوچنے کی بات ہے

شادؔ ہجر و وصل تک محدود تھی فکر و نظر

اک زمانہ تھا مگر

آج میری ہر غزل وابستۂ حالات ہے

سوچنے کی بات ہے

٭٭٭

تشکر: مصنف اور پرویز مظفر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید