FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

جادوئی ٹوپی اور دوسری کہانیاں

 

                آغا گل

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

اڑتی اڑتی خبر مجھ تک بھی آن پہنچی کہ ڈاکٹر پیرک کو مچ جیل بھجوا دیا گیا ہے۔ وہ” پیر کا کی تاڑ "کی مانند ایک بے ضرر سا انسان تھا ۔ مچھلیاں پھانسنے کے علاوہ اس نے کوئی بھی واردات نہیں کی تھی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ مچھلیوں کا بلند پایہ شکاری ہے۔ کانٹے ڈال کر بیٹھے رہنے کو شکار کا نام تو نہیں دیا جا سکتا۔ یوں تو سنگھوڑے میں ہاتھ پاؤں مارنے والے نو مولود کو بھی پہلوان ہی کہنا پڑے گا ۔ یہ بھی شنید میں آیا کہ نرسوں نے آہوں اور سسکیوں کے ہجوم میں اسے رخصت کیا۔ افغان جنگ زوروں پہ تھی۔ افغانستان سے یہاں آ کر پناہ لینے والے کو یہاں تو افغان بھگوڑے کہا جاتا جو کہ جنگ کرنے کی بجائے کیمپوں میں یہاں ہر چیز بکتی ہے کے بورڈ لگائے بیٹھے تھے۔ امریکی ڈالر سعودی ریال ان کا من و سلویٰ تھا ۔لہٰذا ہمارے ڈار ۔ بٹ اور چوہدری افسران داڑھیاں بڑھانے افغان روپ اختیار کیے افغانستان میں لڑے جا رہے تھے ۔آخر کسی کو تو اسلام کی سر بلندی کے لیے لڑنا ہی تھا ۔ ورنہ اگر سوشلسٹ نظام زر کسی طور سرمایہ دارانہ نظام پہ بھاری پڑتا تو ظل الٰہی امریکہ کا کیا بنتا۔ ہمیں ہی عتاب شاہی کا نشانہ بننا پڑتا۔ ڈاکٹر پیرک بھی ایسے ہی باغیانہ خیالات کے باعث حکمرانوں کی نظر میں کھٹکتا تھا۔ ہم نے بارہا مشورہ بھی دیا کہ کسی نرس کے ساتھ کہیں فرار ہو جائے تو بہتر ہے۔ اگر گائنا کالوجسٹ مل سکے تو کیا بات ہے کیونکہ بچے پیدا کرنا ہی ہماری اصل پروڈکشن ہے جی ڈی پی ہے ۔ پیرک کے یوں مچ جیل جانے سے ماحول میں سراسیمگی پھیل گئی ۔ نرسوں کی حالت سنبھلی ۔ انہیں لخلخا سنگھایا تو انہوں نے راز اگلا کہ پیرک کو بطور جیل ڈاکٹر بھجوایا گیا ہے ۔ ڈھارس بندھی کہ اگر سرکار نے ہمیں جیل بھجوایا تو اپنا کوئی والی وارث تو وہاں ہو گا ہی ۔وہ مشقت ہی معاف کر دے گا۔ اگر ڈاکٹر لکھ دے کہ دل کا مریض ہے کوڑے برداشت ہی نہ کر پائے گا۔ تو پھر فوجی عدالتوں کے احکامات کے باوجود کوڑے نہیں مارے جاتے تھے۔ غرضیکہ ڈاکٹر پیرک امرت دھارا بن گیا ہمارے لیے۔ وہ ہر طرح مدد کرسکتا تھا ۔ ہم اسے ملنے گئے تو وہ ایک کلینک بھی کھول چکا تھا ۔ جو بھی مریض آتا دھڑ سے اسے ڈرپ لگا دیتا ۔ ہمیں بھی تاکید کی کہ شرف بازیابی کے لیے جیل کی بجائے کلینک آیا کریں ۔ وہ بھی مریض بن کر لنگڑاتے ہوئے یا پھر کھانستے ہوئے ۔ خدا توفیق دے تو ادھر ادھر سے اصلی مریض بھی پکڑ لائیں تاکہ مچ میں رعب پڑے کہ کوئٹہ سے مریض دوڑے چلے آتے ہیں ۔ حالانکہ کوئٹہ کلینکوں ا ور اخباروں کا قبرستان ہے۔ وہاں سے کسی مسیحا کے پاس علاج کے لیے چلے آنا بڑی بات تھی۔ پیرک کشتی نوح سے اڑنے والی فاختہ کی مانند بے ضرر تو تھا ہی ساتھ ہی ساتھ ہوشیار بھی تھا۔ مریضوں کی جیبیں خالی کرانے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیا کرتا۔وہ خوش ہوتا کہ مجرموں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے ۔ اگر خدانخواستہ قدیم دور کی طرح بھوکے شیروں کے آگے ڈالا جاتا تو اس کا کیا بنتا ۔ وہ شکر ادا کرتا کہ آدم خور شیر بھوکوں مر گئے ۔ اب حکمران عوام کو بھوکے شیروں کی مانند کھاتے ہیں ۔ اور مرحوم شیر صرف مسلم لیگ ن کے جھنڈے پر ہی رہ گیا ہے۔ شاعری میں چونکہ ن عورتوں کا علامیہ ہے۔ اور ن ایک خاص نسوانی معنویت کے ساتھ ہی آتا ہے ۔ لہٰذا وہ نہایت ہی بے باکانہ تبصرے کرتا ۔ اور ڈنڈے سے تو خوف کھاتا مگر جھنڈے کے شیر سے نہ ڈرتا کہ اسے شیر میں ن کی جھلک دکھائی دیتی۔

ڈھاڈر میں ہمارے دو مستقل میزبان تھے ۔ ملک دینار خان بنگلزئی کہ ڈسٹرکٹ چیئرمین زکوٰة کمیٹی بھی تھا ۔ اور میر صالح محمد رند۔ انہیں ہم فون کرتے اور ان کی جانب سے انتظام ہو جاتا۔ دینار بھی زکوٰة کی بجائے ذاتی جیب سے ہم پر خرچ کرتا ۔ حالانکہ ڈاک خانے کے افسروں کو زکوٰة دینا مباح ہے ۔ ہمارا قافلہ شکاریاں مچ میں سے زبردستی پیرک کو کلینک سے اٹھا کر لے جاتا اور پھر درہ بولان میں مناسب مقام پہ پڑاؤ ڈالتا۔ مچھلیاں پکڑنے والے ، جال پھینکنے والے ،مچھلیاں صاف کرنے والے اور تلنے والے افراد ہمارے میزبان فراہم کرتے ۔ پیرک سے سامان رسد مل جاتا۔ پہلی بار تو ڈرنے ڈرتے ہی ہم جیل گئے تھے کہ مبادا دھر ہی نہ لیے جائیں ۔مگر افسروں نے گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ عجیب سا خوفناک ماحول تھا مگر پیرک سے مل کر تو ہمیں یوں لگا کہ جیسے کوئی گمشدہ سنگت صدیوں بعد ملا ہو ۔ پیرک مچ آ کر مچ (کھجور کا درخت ) کی مانند اکیلا نہ رہا۔مجلسی انسان تھا۔ چند ہی روز میں وہ بے حد مقبول ہو گیا۔ مگر وہ اب مچھلی پکڑنے کا مشغلہ ہی نا پسند کرنے لگا تھا۔ وہ اپنے کلینک کے لیے موزوں جگہ بازار میں تلاش کرکے کلینک چلانے بلکہ دوڑانے لگا تھا۔ کہنے لگا کہ مچھلیوں پہ جال پھینکنے کی نسبت مریضوں پہ کمند آور ہونا بدر جہا بہتر ہے۔ اس نے خاصے عذر تراشے اس نے یہ بھی ڈرا وا دیا کہ مچھلی سوبھی جائے تو اس کی آنکھیں کھلی رہتی ہیں ۔ کیا عجب کہ اتنی مچھلی کھانے سے سبھی کو یہ عارضہ لاحق ہو۔ مچ جیل کے پانی نے اسے سخت مچھلی پرست بنا دیا تھا جس کا بظاہر تو سبب یہ تھا کہ وہ اپنے کلینک میں ہی کانٹی ڈال کے بیٹھنا چاہتا تھا ۔ سردار چا کر رند گو صدیوں پہلے ہی پنجاب جا آباد ہوا تھا۔ جبکہ یہیں رہ جانے والوں نے ان کی روایات کو نبھائے رکھا ۔ میر صالح محمد رند بھی ہیبتاں کی مانند قول نبھانے والا اور بیبرگ کی مانند مدبّر تھا۔ جبکہ ملک دینار خان بنگلزئی بھی سردار شہک کی مانند ہمیشہ سچ بولتا۔ دوستی نبھاتا ۔ وہ دنوں ہی ہماری خاطر مدارت کرتے۔

درہ بولان میں سہ پہرا ترقی ہے ۔ پھر شام دبے پاؤں چلی آتی ہے۔ اس کے بعد رات چھا جاتی ہے ۔ پانی بہنے کی آوازیں ، ہواؤں کا ترنم اور دور سے آتے جاتے ٹرکوں کی لا تعداد بتیاں عجب بہار دکھلاتیں ۔بولان میں رات بسر کرنا نہایت ہی پُر لطف اور خیال آفریں تجربہ ہے ۔ جمبانڑیں میں تو شمب جلا کر بھی مچھلی کا شکار کیا جاتا مگر یہ فن محدود تھا جس کے باعث سرشام ہی سامان سمیٹ کر ہم الاؤ کے پاس چلے آتے ۔

شام میں جنات اور دیگر پُر اسرار مخلوقات کے بارے میں کہانیاں سنی سنائی جاتیں ۔ ایک ایسی ہی رات میں جبکہ درہ بولان میں ہوائیں کوند رہی تھیں ۔ پانی پتھروں سے ٹکراتا ، گنگناتا موسیقی بکھیرتا ہزاروں لاکھوں برس پرانے جانے پہچانے رخ پہ بہے جا رہا تھا دور بہت دور ٹرکوں کی بتیاں میدانی علاقوں کی جانب بڑھ رہی تھیں پرانے قصے کہانیاں بیان کرتے ہر دوست بوجھ بجھکڑ بنا اپنے قصے سچ ثابت کرنے کے سر رہتا ۔ الاؤ سے چنگاریاں پھوٹ جاتیں اور ہواؤں سے الاؤ کا رخ بدلتا تو ہم بھی نشست بدلنے پر مجبور ہو جایا کرتے ۔ میں نے دوستوں کو باور کرانے کی کوششیں کی کہ پرانی کہانیوں میں ، داستانوں میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور رہی ہو گئی۔ لوگ باگ ایک بلند قامت جانور کو اُچ نہار کہا کرتے تھے۔ وقت نے ثابت کر دکھایا کہ وہ عفریت نما جانور ڈائینا سور تھا جس کا ڈھانچہ بھی بالآخر ملا۔ پرانے زمانے میں جادوئی ٹوپی کا چرچا تھا ۔ داستا نیں اس ذکر سے بھری پڑی ہیں ۔ یقیناً کوئی ایسی ٹوپی رہی ہو گی۔

اس پہ تو خوب قہقہے بلند ہوئے جب میں نے دوستوں کو بتلایا کہ میں تو کوہ کیر تھر میں اسے تلاش کرتا پھرا ۔ اور کالی پت میں جسے انگریزوں نے اپنے تلفظ میں خلیفت بنا دیا بہت دن تلاش کیا۔ یہ چیزیں محض خیالی نہیں ہیں ۔ البتہ نسل درنسل یہ کہانیاں منتقل ہوتے ہوتے اپنے اصل صداقت کھو بیٹھی ہیں ۔

دوستوں کا اصرار تھا کہ یہ محض ذہنی اختراع ہے۔ پریاں ، بونے ، الف لیلیٰ کی چالیس شہزادیاں ۔ الہ دین کا جادوئی چراغ۔ انسان کچھ لمحے خوش رہنا چاہتا ہے۔ زندگی کے تلخ حقائق سے گھبرا کر انسان ایسی داستانیں ایسی کہانیاں گھڑ لیتا ہے ۔ جو اسے خورش رکھ سکیں ۔ وہ اسی مایا جال میں خوش رہتا ہے۔ بولان کی رات اس قدر سحر آگیں ہوا کرتی ہے کہ سونے کو دل نہیں چاہتا ۔اس حسن کو من میں سمٹنے کے لیے باتیں کیا کرتے ہیں ۔ نہیں کہتا تھا کہ کہانیوں میں داستانوں میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور موجود ہے ۔ دوست میرے اس یقین اور خواہش پہ دیر تک قہقہے لگاتے رہے۔ پھر مجھے گراں قدر مشورے بھی دیے گئے کہ خلیفاء ، آماچ اور ہر بوئی کی بلندیوں پہ جادوئی ٹوپی تلاش کروں ۔ حالت بہ ایں جار سید کہ میں مچھلیاں پکڑتے ادھر ادھر ہوتا تو وہ آوازے کستے ۔ ” جادو کی ٹوپی والے ! کدھر ہو بھائی”۔ جال کھنچنے والے بھی دلاسہ دیتے کہ کسی روز مچھلیوں کے ساتھ ہی جادوئی ٹوپی بھی برآمد ہو جائے گی ۔اس کا انتقام میں نے یوں لیا کہ ایک بار پریذیڈنٹ سیکریٹریٹ کسی دوست سے ملنے گیا تو سرکاری ڈی او پیڈ کے کچھ ورق ساتھ ہی لیتا آیا۔ ملک دینار چونکہ چیئرمین ڈسٹرکٹ زکوٰة کمیٹی تھا ۔ اسے نہایت افسرانہ انگریزی میں تنبیہ جاری کر دی کہ صدر تم سے نا خوش ہیں ۔ تمہارا ایک دوست لنگڑا ہے ۔ دو ایک یتیم و یسیر ہیں ۔ ایک تو بالکل ہی پاگل ہے ۔ اس کی گنوکی پہ بھی تمہیں ترس نہ آیا۔ تمہارا دل نہ پسیجا ۔ فوراً زکوٰة فنڈ سے انہیں مالی امداد دو اور پاگل دوست کو زکوٰة کے پیسوں سے کسی اچھے سے پاگل خانے میں داخل کرا دو ۔ میں نے فرضی دستخط کر کے سرکاری لفافے میں ہی مراسلہ رجسٹری کر دیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ملک دینار اُسے بھانپ لیا۔ چند روز بعد میرے ہی پتے پہ سرکاری رجسٹری آئی لکھا تو صدر مملکت کو تھا۔ مگر لفافے پہ میرا پتہ تھا ۔ اس نے وضاحت کی کہ ایسے سبھی لوگ خود آ کر اپنے آپ کو رجسٹر کروائیں ۔ نیز ان کے لیے صوابدیدی فنڈ سے صدر پاکستان کچھ عنایت فرمائیں ڈسٹرکٹ بولان کا چیئرمین زکوٰة ایسے تلنگوں (VAGABONDS) کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتا۔ دینار نے ایک روز مجھے ایک بلوچی ٹوپی تحفتاً دی۔ جو کہ کشیدہ کاری کا شاہکار تھی۔ اس میں ننھے منے شیشے بھی بہار دکھا رہے تھے۔ پیروں کی طرح نسل درنسل ہمارے حاکم تو ازل سے ہیHELI0PHOBIC ہیں ۔ وہ ملک پہ اندھیرے تانے رہتے ہیں ۔ جس کے باعث بلوچ اپنی ٹوپی پہ آئینے لگائے رہتے ہیں کہ شاید ان منّے منّے آئینوں سے ہی روشنی اتر آئے۔ دینار خوشدلی سے مسکرایا ۔

” جادو کی ٹوپی تو میں نہیں دے سکتا ہاں یہ بلوچی ٹوپی قبول کر لو تمہارا عید کا تحفہ ہے۔ کیا عجب اس کے بعد جادو کی ٹوپی بھی مل ہی جائے۔ جیسے کہ ایک شخص کو سڑک پہ نعل ملا تو کھل اٹھا اور صد الگائی۔ یا اللہ صرف تین نعل اور ایک گھوڑے کی ضرورت رہ گئی ہے "۔

عید کے روز میں بلوچی ٹوپی پہن کر ہی نماز کے لیے گیا۔ احباب سے ملنا ملانا ہوا۔ عید کے اگلے روز اپنے بھائی میجر احمد گل سے عید ملنے اکیلا ہی جیپ چلاتاسٹاف کالج پہنچا ۔ چونکہ عید کی چھٹیاں تھیں میں نے سرکاری ڈرائیور کی عید خراب کرنا مناسب نہ جانا۔ اسے گگڑائی سے نہ بلوایا ۔ میں سٹاف کالج کے گیٹ پرہی دھر لیا گیا۔ کہاں تو سپاہی جھٹ گیٹ کھول مسکراتے ہوئے راستہ دیا کرتے۔ کہاں مجھے بائیں جانب جیپ روکنے کا اشارہ کیا۔ سوال و جواب ردو کد کے بعد میرے بھائی کو فون کر کے تصدیق کروائی۔ میری جیپ میں جھانکتے پھرے ۔بارے طوعاً کرہاً اجازت دے دی۔ میں حیران سا بھائی کے ہاں پہنچا۔ وہاں کچھ ملاقاتی پہلے سے براجمان تھے میں نے ذکر مناسب نہ سمجھا ۔ اس کے بعد میں بریگیڈیئر شفیق نیازی سے عید ملنے گیا تو گیٹ پر ہی روک کر میری جیپ کی تلاشی لی گئی۔ میرا سرکاری کارڈ ، شناختی کارڈ ،گاڑی پارک کرنے کا کہہ کرMP-5 بردار دو مستعد سپاہی مجھے مشکوک انداز میں گھورتے چلے گئے ۔ ان کے تیور بتلا رہے تھے کہ وہ مجھے بھوپت ڈاکو سمجھ رہے ہیں ۔ میں نے ذرا گڑ بڑ کی تو وہ مجھے بھون ہی ڈالیں گے۔ بارے ایک اور دوست کے ہاں پہنچا تو وہاں بھی شناخت پریڈ کروائی گئی۔ میں سر پکڑ کے رہ گیا ۔ کہاں تو ہنستے مسکراتے دوستانہ انداز کے سپاہی جھٹ راستہ دیا کرتے کہاں یہ افتاد آن پڑی کہ ہر کوئی مجھے مشکوک اور دشمن سمجھ رہا تھا ۔ جیپ پر سرکاری نمبر پلیٹ کے ہوتے ہوئے بھی ANTA GONISTIC دکھائی دے رہا تھا تب میں ایک دوست کے ہاں جا ڈھیر ہوا۔ اسے فسانہ غم سنایا۔ پرانی داستانوں کے ٹوٹ بھی لگائے کہ کس طرح کسی بددعا یا شراپ کے باعث بادشاہ یا شہزادے کی شکل و صورت ہی بدل گئی۔ انہیں کوئی بھی نہ پہچانے اپنے ہی سپاہی جوتے ماریں ۔ انگریزی کی وہ کہانی بھی سنائی جس میں ایک شہزادی خفیہ طور پر محل سے باہر نکل گئی ۔ عوامی میلہ دیکھا لوگوں میں گھل مل گئی۔ شام کو محل لوٹی تو اس کی شکل ہی قدرت نے بدل ڈالی۔ دروازے پہ ہی سپاہیوں نے روک دیا۔ اور برہمی سے واپس جانے کا حکم دیا کہ ہر ایرے غیرے کو شاہی محفل میں آنے کی اجازت نہیں ۔ ادب ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ ورنہ جلال شاہی نازل ہونے کا احتمال ہو گا ۔ یہ سوچ کر کہ رات نے مذاق نہ کیا ہو میں نے آئینہ منگوا کر روئے زیبا کے درشن لیے ۔ وہی ٹیڑھے میڑھے دانت ، چھوٹی چھوٹی اندر دھنسیآانکھیں ۔ ان کے نیچے پپوٹوں پہ سیاہ حلقے !کچھ تو نہ بدلا تھا ۔ معاً میرا دوست چلا اٹھا” یہ جادو کی ٹوپی تمہارے سر پہ نئی ہے ۔ جادو سر چڑھ کے بولتا ہے ۔ تم یہ ٹوپی اتار کے دیکھو "۔ میں نے ٹوپی اتار کے بغل میں داب لی ۔ اب جو چھاؤنی کی سڑکوں پہ نکلا تو دنیا ہی بدل چکی تھی۔ کہاں تو ہے یہ وہی آسماں اور ہے وہی زمیں ۔ پر مہری کو دوبارہ راج پاٹ مل گیا یا مظہر العجائب جہاں جاؤں مسکراہٹوں سے استقبال ہو۔ بیریرز کھلتے ہی چلے جائیں ، زنجیریں چھن سے زمین بوس ہوں ۔ گیٹ دل مضطر کی مانند وا ہوں ۔

ملک دینار عید ملنے آیا تو معانقہ و مصافحہ کے میں نے تُرت سوال کیا۔

” سنا ہے کہ انگریز بلوچی ٹوپی کے بہت ہی قدر دان تھے۔چارلس نیپیئر نے 1846 میں اعلان کیا تھا کہ جو کوئی بلوچی ٹوپی لائے گا ۔ اسے دس روپیہ انعام دیا جائے گا”۔

ملک دینار بہت محظوظ ہوا ۔”1846کے دس روپے ؟ یہ تو آج کل کے حساب سے لاکھو ں بنتے ہیں ۔سر چارلس نیپیئر نے بلوچی ٹوپی نہیں ، ٹوپی کے نیچے والا سر مانگا تھا ۔ ہر مری کا سر لانے والے کو دس روپیہ انعام ملا کرتا ۔ مگر سرسلامت بھی ہیں ۔ سر بلند بھی ہیں "۔

تحفہ لوٹانا بڑی معیوب سی بات ہے، مگر میں نے ڈرتے ڈرتے بلوچی ٹوپی دینار کو لوٹانا چاہی۔ "معذرت چاہتا ہوں ! میں یہ ٹوپی نہیں پہن سکتا۔یہ واقعی جادو کی ٹوپی ہے "۔

دینار نے استعجاب سے ابرو اٹھائے اس کی آنکھوں کا سوال لبوں تک نہ آنے پایا تو میں خود ہی بول اٹھا۔

” جادوئی ٹوپی پہننے والا تو دکھائی نہیں دیتا ۔ جبکہ یہ ٹوپی پہننے والا نہ صرف یہ کہ دکھائی دیتا ہے بلکہ ستم یہ کہ دشمن ہی دکھائی دیتا ہے”۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بروری روڈ

 

بہت دنوں سے یہ خبر گشت کررہی تھی کہ شال کوٹ کے مغرب میں مٹی کے ویران بے آب و گیاہ ٹیلوں پہ انگریزوں نے شراب کی فیکٹری لگا لی ہے۔ خان قلات سے نوشکی کوئٹہ اور درہ بولان دراصل اجارہ داری پہ حاصل کیا تھا۔ مگر انہوں نے کوٹہ ( قلعہ) جسے وہ اپنے تلفظ میں کوئٹہ کہا کرتے ایک فوجی چھاؤنی میں بدل ڈالا۔ 1883 میں اچانک ہی ابھرنے والی چھاؤنی زلف یار کی طرح دامِ صیاد بنتی چلی گئی۔ حتیٰ کوئٹہ بروری(BREWERY) بھی قائم کر لی۔ خان قلات تک خبر پہنچی تو اس نے برہم ہو کر کیپٹن ڈیو ( ازاں بعد کرنل اور پولیٹیکل ایجنٹ ریاست قلات، کی سززنش کی ” بلوچ شراب ، جواء یا دیگر خرافات کو ناپسند کرتے ہیں ، یہ آپ نے شراب کی فیکٹری کیوں لگالی ہے ۔ آپ تو کہتے ہیں کہ زارِ روس سے آپ کو خطرہ ہے۔ اور یہاں شراب پینے بیٹھ گئے۔ اب کیا جوا خانہ بنانے کا بھی ارادہ ہے۔ بند کریں یہ شراب خانہ ۔ سمیٹ لے جائیں یہ کوئٹہ بروری”۔

کیپٹن ڈیو بھی گرگ باراں دید تھا وہ جھوٹ بولا ” یوئر ہائی نس ! کمانڈر اپنے سپاہیوں کے ہاتھوں بے بس ہوتا ہے، لڑتے تو سپاہی ہی ہیں ۔ دنیا کے کئی ایک ملکوں میں بھی شراب بطور راشن سپاہیوں کو دی جاتی ہے ۔ یہ نیٹو سپاہی تو یقین کریں دشمن کی گولیوں کی بجائے شراب نہ ملی تو سردی سے ہی فوت ہوں گے۔ اتنی Heavy Casualty ہم برداشت نہیں کرسکتے شراب ہی انہیں گرم رکھتی ہے”۔

خان نے نا گواری سے کہا ” ہماری زمین پر شراب خانہ نہیں بن سکتا ۔ آپ سرکار برطانیہ کو آگاہ کریں بلوچ اگر بگڑ بیٹھے تو انہیں سنبھالنا مشکل ہو گا "۔ یہاں کی لوک شاعری میں ڈیہو کے نام سے یاد رکھا جانے والے کیپٹن ڈیو بھی ایک کائیاں تھا گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا تھا۔ زیرک انسان تھا زیر مونچھ مسکرا کر سوال کر ڈالا ” یورہانس کچھی میں بھی تو Crude طریقے سے شراب بنتی ہے ، صدیوں سے بن رہی ہے ۔” خان کی آنکھوں میں غصہ کوند گیا۔ مگر کسی مدّبر حکمران کی مانند اس نے خود کو سنبھالے رکھا۔ ” ہاں صدیوں سے بن رہی ہے ۔ میر محراب خان کے خون بہا میں کچھی کا علاقہ ریاست قلات کو ملا ہے ، عادتیں سنوارنے میں کچھ وقت تو لگتا ہے ، وہاں چھپ چھپا کر بھٹی لگاتے ہیں ۔ آپ کی طرح تو نہیں کہ اونٹ نما بروری خنجر کی طرح لوگوں کے سینوں میں گاڑ دی ہے”۔

انگریز بڑے منجھے ہوئے افسروں کو ہی پولیٹیکل ذمہ داریاں سونپا کرتے تھے۔ کیپٹن ڈیو بھی چکنا گھڑا ثابت ہوا ۔” ہم نے علاقہ اجارہ داری پر لیا ہے۔ ہم آپ کے کرایہ دار ہیں ۔ جیسے چاہیں رہیں ۔ آپ کے یہ بڑے بڑے صحرا ہیں ۔ کہتے ہیں کہ بلوچ سے دوستی کرو تو دروازہ بھی بڑا رکھو تاکہ اس کے اونٹ بھی اندر آ سکیں ۔بڑے دل کے لوگ ہیں آپ ! میرے نیٹو سپاہیوں کی خاطر آپ ان سے درگزر کریں "۔

سیاسی طور پر یہ ایک کھلم کھلا انکار تھا ۔ اب محض ایک شراب خانے کے لیے انگریزی فوج سے ٹکرانا بھی مناسب نہ تھا۔ انگریز آدھی دنیا کے مالک تھے۔ ان کے پاس دور مار توپیں بھی تھیں باغی سپاہی اور جنرل بخت خان رانی جھانسی بھی تو لڑی تھی!! شراب خانے کی خبر لخ پاس سے ہوتی ہوئی مستنگ پہنچی۔ ادھر کردگاپ درینگڑ سے نوشکی گئی۔ یہ خبر رکنے کی نہیں تھی۔ علماءسخت ناراض ہوئے ادھر میانوں میں تلواریں مچلنے لگیں ۔ اگرچہ سردار تو انگریزوں کو قبول کر چکے تھے ۔ اور ان سے مراعات حاصل کر رہے تھے۔ جیسا کہ اشرافیہ کا وطیرہ ہے کہ وہ ہمیشہ نئے حکمران کی وفا کا دم بھرنے لگتے ہیں ۔ تاکہ ان کی طاقت اور دولت میں اضافہ ہوتا رہے۔ جبکہ عوام ہی سر کٹانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ۔ اور ہر دور میں معتوب ہی رہتے ہیں ۔ انگریزوں کا جاسوسی نظام بھی سرداروں کے بل پہ چل رہا تھا۔ سرداروں کو گھر بیٹھے رقوم ملا کرتیں ۔ انہیں لیویز کے سپاہی بھرتی کرنے کا بھی اختیار تھا۔ وہ اکثر و بیشتر ساری رقم خود ہی ہڑپ کر لیا کرتے۔ بصورت خیرات کبھی کبھار کچھ رقم ایسے لیویز والوں کو بھی یاد کرتے ۔جن کے باعث لیویز کو بے دلی سے کام کرنے کی عادت پڑ گئی۔ انہیں یہ بھی علم نہ تھا کہ آیا تنخواہ چند ماہ بعد ہی سہی کیا مل ہی جائے گی ؟ اور سردار سے تنخواہ کا مطالبہ کرنا تو خزانے پہ بیٹھے ناگ کو چھیڑنے کے مترادف تھا ۔ جو سردار ان کے بھرّے میں نہ آتا اسے چلتا کرتے۔ اسی کی قوم میں سے کوئی اور میر جعفر چن لیا کرتے انہوں نے شاہی جرگہ بھی بنا رکھا تھا جو ان کے کہنے پر آزادی پسند مجاہدین اور سرمچاروں کو طویل سزائیں سنا دیا کرتا۔ جس کی توثیق خان قلات کو کرنا ہوتی۔ بلوچستان میں سزائے موت کا قانون نہ تھا ۔ برٹش بلوچستان میں تو مجاہدوں کو پھانسی سے کم سزا نہ دیتے لیکن ریاستی بلوچستان میں عمر قید اور طویل سزائیں سنا کر بھی مطمئن نہ ہوتے ۔ ایسے حاکموں کی بروری پہ حملہ کرنا کارِ دشوار تھا۔ زیرِ زمین میٹنگوں میں فیصلے کیے گئے کہ مجاہد مختلف ٹکڑیوں میں غیر محسوس طور پر وسیع علاقے میں پیش قدمی کریں ۔ اورپھر قریب پہنچ کر بروری پر دھاوا بول دیا جائے۔ حساس اداروں نے کوئٹہ بروری پر حملے کے امکانات کی رپورٹ پہنچا دی تھی۔ بروری کا منیجر نا تھورام کلکتہ سے تھا۔ شراب بنانے اور فروخت کرنے کے فن کا تو ماہر تھا۔ مگر جنگ و جدل سے اس کی جان جاتی ۔ وہ بہت ہراساں ہوا اور کمانڈر کے پاس آ کر بازیابی کی اجازت چاہی۔ انگریز افسر اس کی بدحواسی سے خاصے محظوظ ہوئے۔ ” لڑنا مرنا تو مردوں کا کام ہے "۔

ناتھو نے ادب سے انکار میں سر ہلایا ” میری زندگی کا مقصد پینا پلانا اور خوش رہنا ہے۔ مجھے باز رکھیں "۔ اس نے ہاتھ جوڑ دیے۔ یوں تو نفری بڑھا دی گئی تھی مگر وہ خوفزدہ سا التجا کیے گیا کہ چار سپاہی کچھ نہیں کرسکتے۔ پوری بٹالین دی جائے وہ بھی سکھ ، گورکھای ا پھر راجپوت جو ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں ۔ اتفاقاًاس وقت ٹی بریک تھا۔ کمانڈر بھی ذہنی طور پر فارغ تھا اور خوشگوار موڈ میں بھی تھا۔ اس نے خوفزدہ سولین افسر چائے نوشی میں شامل کر لیے ۔ ان کا خوف دور کرنے کے لیے کمانڈر عسکری زبان میں تکنیکی رموز بیان کرنے لگا۔ وہ ان کا مورال بلند کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔

” فرض کیا بلوچ حملہ بھی کریں تو یہ ایک انفرادی فعل ہو گا۔ کچھ جذباتی لوگ ہوں گے۔ ان کے پاس محمود خانی۔ سیاہ مار ۔رخدار توڑے دار بندوقیں ہیں ۔ باپور کو بارود ڈال کر بار بار پھرتے ہیں ۔ اگر بارش ہو تو یہ بندوقیں بھیگ کر نا کارہ ہو جاتی ہیں ۔ ان کی موثر مار 50 گز سے زیادہ نہیں ۔ ہاں لشکر سامنے ہو تو 72 گز تک زخمی کرسکتی ہے۔ ان کے پاس جو رخدار ہیں یعنی Grooves والی بندوقیں ان کی مار 100 گز سے 120 گز تک ہے "۔

شراب خانے کا منیجر غم ناک آواز میں منمنایا۔

” مگر بندوق تو بندوق ہوتی ہے، مار ہی ڈالتی ہے چاہے دیسی ہو یا ولایتی ان کے پاس تلواریں بھی تو ہوں گی”۔

کمیدان مسکرایا ” ہمارے سپاہیوں کے پاس آئین فیلڈ303 رائفلیں ہیں ۔ ان کی موثر مار ہزار گز تک ہے ویسے لشکر یا اجتماع کے لیے دو ہزار گز تک بھی زخمی کرنے کی صلاحیت ہے ۔ہماری فائر پاور ان سے ہزاروں گنا زیادہ ہے”۔ کیپٹن جیمز نے ان کا حوصلہ بڑھایا ” ان کی رائفل کے Grooves اچھے نہیں ہوتے۔ گولی بجائے گول گھومتے ہوئے نکلنے کے کسی شرابی کی طرح لہراتی ہوئی نکلتی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ جسے آپ مارنا چاہیں اس سے دو قدم ہٹ کر کھڑے ہونے والے کو وہ گولی لگ جائے "۔ نیٹیو) (Native سپاہی مے خانے بنا جی نہیں سکتے تھے۔ سکھ یوں تو گرونانک کی تعلیمات کے باعث تمباکو نوشی سے اجتناب کرتے۔ مگر گلاس میں تلچھٹ بھی نہ چھوڑتے ۔جن وہسکی یا برانڈی انہیں دو آبہ کے کھیتوں میں لے جاتی۔ جہاں کسی کھّوئی سے پانی بھرتی مٹیار ان کی یاد میں آنسو پئے جاتی۔ کھلے جھکے پہنے جانے کون کون سامنے چلی آتی اور اپنے لونگ کے لشکارے مارتی پہلو میں آ بیٹھی ۔ کمانڈر بھی کوئٹہ بروری وقتی طور پر ہی سہی بند کروا کے اپنے سپاہیوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ اسے میرٹھ کی بغاوت یاد تھی ۔ جسے بپا تو منگل پانڈے نے کیا تھا اور سنبھالنا پڑا تھا اس کے باپ کو جو وہیں تعینات تھا۔ اس نے ایک پلٹن بہ غرض حفاظت مدہوش کرنے والی بروری پہ لگا دی ۔ ایک برجی بھی بنوا دی تاکہ سپاہی دور بین سے دشت و صحرا کا جائزہ لیتے رہیں ۔ خصوصاً میان غنڈی ( دو پہاڑوں کے مابین) اور گگڑی پہ نظر رکھیں اور کلی کرانی کے باغوں پہ بھی نگاہ رکھے۔ کسی غیر معمولی نقل و حرکت پر فوری ردّ عمل کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

ان قابل قدر انتظامات کے باعث سپاہی مطمئن سے ہو گئے۔ اور ان کی بے کلی اور بے چینی ختم ہو گئی۔ لنگر کے جاسوسوں نے خبر دی کہ فضا خوشگوار ہو گئی ہے۔ کام ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ گیرژن کا ماحول حسب سابق ہے۔

ادھر بلوچ جنگجو مال مویشی لیے، اونٹ چراتے ، جلانے کے لیے جھاڑ جھنکار جمع کرتے دھیرے دھیرے بچتے بچاتے بروری کی جانب غیر محسوس طور پر بڑھتے ہی چلے گئے۔ چونکہ وہ ایک وسیع علاقے میں حرکت کر رہے تھے۔ اور مقامی آبادی ان سے مکمل تعاون کر رہی تھی ۔ حساس اداروں ، بے حس اداروں اور لیویز کو بھی علم نہ ہو سکا کہ پیش قدمی کرنے والے خطرناک فاصلے تک آ پہنچے ہیں ۔

سوموار 6مارچ1899 کی ایک یخ بستہ شام کو انہوں نے اپنی پوزیشنوں میں نماز مغرب ادا کی ۔ بعض نے فرط جذبات میں نیام سے تلواریں کھینچ کر نیام توڑ ڈالے۔ جس کا مطلب تھا کہ ایک فتح حاصل ہو گی یا شہادت ۔ آگے آگے بندوقچی(musketeers) تھے ان کے عقب میں شمشیر زن ۔ التزام یہ رکھا کہ میمنہ میسرہ اور قلب ایک ساتھ ایک ہی فاصلے سے یک دم یک بارگی حملہ آور ہوں ۔اس کے لیے سختCoordination کی ضرور ت تھی۔ کیونکہ زمین ناہموار تھی۔ جھاڑیاں بھی تھیں اور Terrain یک دم حملے کے لیے موافق نہ تھی۔ اچانک بروری پر تین اطراف سے حملہ ہوا۔ بندوقچیوں نے سب سے پہلے برجی کو کلیئر کیا۔ سرمچار دو سیڑھیاں ساتھ لیتے آئے تھے جن کی مدد سے بروری کے اندر کود پڑے۔ فائرنگ کے تبادلے سے کچھ ہی دیر میں بروری کا گیٹ بندوقچیوں نے چھلنی کر کے توڑ گرایا۔ وہ اس قدر قریب آ چکے تھے کہ بندوقچی بھی تلوار سونت کر سپاہیوں پر ٹوٹ پڑے گھمسان کارن پڑا۔ رات کی تاریکی میں گولیوں کی تڑاتڑ بندوقوں کی دھنا دھن اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی گونج تھی ۔ یا علی ؓ مدد کے نعرے تھے۔ نیٹو سپاہی اسلحہ اور تعداد کی برتری کے باوجود لشکر کو پیچھے نہ دھکیل سکے۔ بلکہ ان کے اپنے پاؤں اکھڑ گئے۔ گھوڑوں اور خچروں پہ بلازین سوار ہوکے سپاہی بھاگنے لگے۔ ایک ایک خچر پہ تین سپاہی سوار ہوئے اب انہیں فرار کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ چونکہ زمین نا ہموار تھی۔ رات کی تاریکی بھی تھی سپاہیوں کو رفو چکر ہونے میں دیر نہ لگی۔جعفر خان سرپرّہ نے ساتھیوں کو تعاقب سے روکا کہ بھگوڑے دشمن کا پیچھا نہ کیا جائے۔ کیونکہ مقصد پورا ہو چکا ہے ۔ بروری کے آلات کو فائرنگ سے سخت نقصان پہنچا تھا۔ شراب کشید کرنے والے خمیر کرنے والے بوتلیں بھرنے والے آلات سبھی چھلنی ہو چکے تھے ۔ برٹش آرمی کے گیارہ سپاہی ہلاک ہوئے تھے جبکہ نو زخمی تھے۔ ہلاک ہونے والوں کو انہوں نے باہر نکالا اور مصفّا زمین پہ احترام سے رکھ دیا۔ پھر زخمیوں کو بھی باہر نکالا جو کانپ رہے تھے کہ تلواروں سے ان کی گردنیں قلم کر دی جائیں گی۔ جعفر خان سرپرہ نے انہیں تسلی دی کہ زخمیوں کو قتل کرنا شان مردانگی کے خلاف ہے وہ سبھی نہتے بھی ہو چکے ہیں ۔ ان پہ ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا ۔ پھر انہوں نے بروری کو آگ لگا دی ۔چونکہ الکوحل کا ذخیرہ تھابس دیا سلائی دکھانے کی ہی دیر تھی۔ آگ بھڑک اٹھی ۔ اور سب کچھ خس و خاشاک ہو گیا۔ چھاؤنی میں بے بسی سے اس چتا کا نظارہ سب نے دیکھا۔ رات کے اندھیرے میں جوابی حملہ خطرناک ہوتا ۔ کیا عجب گھات لگائے بیٹھے ہوں ۔ اگلے روز کمانڈر افسروں کو جھاڑ پلا رہا تھا ۔ سبھی ندامت سے آنکھیں چرائے جا رہے تھے۔

” ہماری فائر پاور کہاں گئی؟ جن بندوقوں کی Muzzle Velocity سو ا دو ہزار فٹ فی سیکنڈ ہے انہیں وہ پھکنی نما بندوقوں والے مارکر چلے گئے ۔ تمہارے گھوڑے اور خچر بھی لے گئے اٹھارہ بندوقیں اورساڑھے چار سو روپے بھی لے گئے۔ یہ ہے تمہاری کار کردگی ۔ تمہارا کورٹ مارشل کروں یا استعفیٰ دے کر چلا جاؤں ؟” وہ کچھ دیر دانت پیستا ان پہ برستا رہا۔ افسر اٹینشن کھڑے جھاڑ برداشت کرتے رہے۔ گرجنے برسنے کے بعد اس نے سوچا کہ افسروں کا مورال بھی بلند کیا جائے کافی بل شٹ کر چکا ہے۔

” اب کیا صورتحال ہے ” وہ نسبتاً نرم لہجے میں گویا ہوا ۔ کیپٹن جیمز نے پروگرس بتلائی ” کیولری کے جوان انہیں تلاش کرنے میں ناکام رہے ، تاہم اب تک تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ حملہ آور ریاست قلات کی حدو د میں داخل ہو گئے ہیں شائد ۔ ہم نے لیویز کے کھوجی بھی اس کام پہ لگا دیے ہیں ۔ وہ نعلوں کے نشان ڈھونڈھتے کافی دور نکل گئے۔ پتھریلی زمین پہ البتہ دشواری پیش آ رہی ہے ۔ مگر ہم ان کے پیچھا نہیں چھوڑیں گے ۔ ہمارے وفادار سردار بھی کوشاں ہیں "۔

کمانڈر کو سپاہیوں کے جذبات کا بھی اندازہ تھا ۔ شراب بنا وہ بیکل ہو جاتے ” خیر! لوگ جعفر خان سرّپرہ کو تو بھول جائیں گے۔ مگر ہمارے بروری روڈ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے ! ہاں سپاہیوں کے راشن کے لیے جس بھی قیمت پہ ملے شراب حاصل کر لو۔ ورنہ ہمارے افسر اسکاچ وہسکی کے کریٹ لنگریوں کے حوالے کر دیں ۔ اونٹوں کا بوجھ بھی کم ہو گا۔ سپاہی بھی خوش ہو جائیں گے”۔

٭٭٭

 

 

 

سونے میں اُگی بھوک

 

الیکشن کے ہارنے کے بعد سے الحاج میر پاسوند خاں اپنے بیٹے ڈاکٹر شیر دل کی تجویز کو سنجیدگی سے لینے لگا۔ اپنی مقبولیت کے لئے قریب کے قبیلے سے جھگڑا کیا اور اپنے قبیلے کو مدد کے لیے پکارا۔ قبرستان میں ایک نیا مزار بنا کر اس پہ متولی بٹھا دیا۔ لوگ مزار پر آنے لگے۔ جہاں پاسوند نے سبیل بھی لگا رکھی تھی۔ روٹیاں بھی مفت بٹتیں ۔ پہلو میں مسجد بنا دی۔ جہاں ملاّں جمعہ کے روز بھی پاسوند خان کی خدمات کا ذکر کرتا ۔ شیر دل کے کہنے پہ ہی ایک ہسپتال قائم کر دیا۔ جس پہ الحاج میر پاسند خان کا یہ بڑا سا بورڈ لگا دیا۔ زیادہ روپیہ تو این جی اوز اور صوبائی حکومت سے لیا تھا۔ مگر ہسپتال اسی کے نام سے جانا جاتا۔ علاقہ بھر میں بڑا نام کمایا ۔ لوگ انصاف مانگنے مزار پہ جاتے اور نمک بطور خردہ تبرکاً لے جاتے۔ علیؓ اور نمک کے اعداد برابر ہیں ۔ لہٰذا مٹی کو بطور خردہ استعمال کرنے کی صدیوں پرانی روایت ختم کر دی۔ لوگ باگ بھی خوش رہنے لگے۔ پہلے تو داد فریاد کا یارا نہ تھا۔ اب مزار پہ وہ رات دن فریاد کرسکتے تھے۔ مرادیں مانگ سکتے تھے۔ ولی بابا سے لڑ سکتے تھے۔ ضد بھی کرسکتے تھے۔ درگاہ کا دروازہ سبھی کے لیے وا تھا۔ چاہے چھوٹی قوم والا ہو یا بڑی قوم والا ۔ ہسپتال چونکہ ریکوڈیک میں تھا۔ ڈاکٹر آنے کے لیے تیار نہ ہوتے ۔ ڈاکٹروں کی من پسند تنخواہوں کی ادائیگی بھی دشوار تھی ۔ علاقہ بھر میں اس قدر غربت تھی کہ تجہیز و تکفین کے اخراجات بھی گلے پڑ جاتے۔ زمین تو شکر ہے کہ قبر کے لیے مفت مل جاتی مگر دوران زچگی اموات ہوتیں تو بدنامی کا خدشہ ہوا۔ مڈوائف اور دائی کی بجائے سنجیدگی سے گائنا کالوجسٹ کی کمی محسوس کی گئی ۔ باقی تو سارے جی ۔ پی ڈاکٹر تھے جو آر ایم پی کو بطور ڈگری ہی اپنے نام کے ساتھ استعمال کر کے مریضوں کو متاثر کرتے۔ شیر دل دوران تعلیم کئی برس ڈاکٹر غزالہ کے حسن جہاں سوز سے متاثر رہا۔ وہ اس پہ یوں تو مرتا تھا۔ مگر بغیر لائسنس گاڑی چلانا چاہتا تھا۔ غزالہ کے سبب الیکشن میں تو چار ہی ووٹ پڑے۔ اس کا والد شیخ اکرم ریٹائر ہو چکا تھا۔ ایک طالب علم بھائی اور والدہ ۔ پھر نہ جائیداد اور نہ ہی دولت نہ ہی قوم قبیلہ کہ سماجی دباؤ یا قبائلی جھگڑوں میں کام آئے۔ ایسی خوبصورت لڑکیاں گواڑخ کی مانند دور سے ہی دیکھ کر گزر جانے کے قابل ہوتی ہیں ۔غزالہ بھی طرح دے جاتی مسکرا کر بات ٹال دیتی کبھی جمعہ خانی کرتی۔ شادی کے لیے البتہ وہ آمادہ تھی ۔ یوں بھی اسے شادی تو بہر حال کرنا تھی۔ لڑکیاں بھی چمکتی دمکتی کاروں کی مانند کراچی پورٹ پر زیادہ دن بہار نہیں دکھا سکتیں ۔ انہیں بھی رجسٹریشن کرا کے کسی مالک کے پاس جانا ہوتا ہے۔ وہ یوں تو شیر دل کو پسند کرتی تھی۔ طویل قدّ گہری سیاہ آنکھیں ، مردانہ وجاہت کا پیکر۔ بیوی بن کر تو وہ بخوشی ریکوڈیک جانے کے لیے آمادہ تھی۔ حالانکہ اس آگ اگلتی دھرتی پہ جہاں بھوک کا راج ہو اور ریتیلی ہوائیں صدیوں سے مجلسیں پڑھ رہی ہیں ۔ جیون بیتانا بہت کٹھن تھا مگر شیر دل جیسے اچھے انسان کے لیے تو یہ قربانی دی جا سکتی تھی۔

شیر دل کے اصرار پہ بھی وہ ریکوڈیک کے ہسپتال میں ملازمت کے لیے تیار نہ ہوئی۔ ہاں ہر ماہ ایک ہفتے کے لیے آنے کا وعدہ کیا۔ یوں بھی وہ اپنے کلاس فیلو سے شادی تو کرنا چاہتی تھی ۔ مگر اس کی ملازمہ بننے میں ذرا سبکی سی محسوس ہوتی ۔ خیراتی ہسپتال تھا۔ بکھری بکھری آبادی۔ جس کی غربت کا رونا جنرل رونلڈ ڈائر نے بھی رویا ۔ حالانکہ وہ انہیں قتل کرنے مفتوح بنانے آیا تھا۔ مگر ان کی مہمان نوازی اور سخت کوشی کی تعریف کے لیے بغیر نہ جا سکا۔ ایمر جنسی کسی وقت بھی ہو سکتی تھی۔ مریضہ کسی وقت بھی لائی جا سکتی تھی۔ ایسے میں گائنا کالوجسٹ کی عدم موجودگی پاسوند خان کی مقبولیت کا گراف گرا دیتی۔ ایسا خطرہ وہ مول نہیں لے سکتا تھا۔

اور پھر یوں ہوا کہ غزالہ اپنے طور پر ہی کار میں چلی آئی۔ اب تک اسے سرکاری نوکری نہیں ملی تھی ۔ ادھر ادھر پرائیویٹ ہسپتال میں کام کر رہی تھی ۔ کرائے کی کار میں یوں چلے آنا ایک اچنبھا تھا۔ غزالہ بہت نروس سی اور دکھی دکھی لگ رہی تھی۔ آنسو پینے کی کوششیں میں وہ مزید خوبصورت لگتی۔ جیسے آب گم کے بعد اچانک ہی پانی ظاہر ہونے لگتا ہے۔ دریائے بولان اس کی آنکھوں کے پیچھے کہیں چھپا چھپا سا تھا۔ شیر دل بہت خوش ہوا اس غیر متوقع آمد پہ اسے خوشگوار حیرت بھی ہوئی ۔ غزالہ نے بتلایا کہ وہ ہسپتال میں کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ مگر اسے پچیس لاکھ روپیہ فوراً ادا کیا جائے۔ یہ رقم اس کی تنخواہ سے وصول کی جائے یہی کوئی تین برس میں ۔ یہ مطالبہ تو بڑا تھا۔ مگر شیر دل تو دل کی ایک دھڑکن پہ خزانہ لٹانے والا انسان تھا۔ پاسو خان کے پاس تو ڈرگ کا روپیہ تھا۔ کارواں سے اس کا تعلق تھا۔ کارواں کو افغانستان سے ایران میں بہ حفاظت داخل کرنے کی ذمہ داری الحاج ہی کی تھی۔ یہ کارواں افغانستان سے چلتا۔ بلوچستان سیستان سے ہوتا ہوا ایران میں داخل ہوتا اور ترکی تک مال پہنچاتا جہاں سے نئی پارٹی وصول کر کے یورپ کا رخ کرتی۔ بظاہر یہ ایک ناروا مطالبہ تھا۔ مگر غزالہ کے مرتعش ہاتھوں اور کپکپاتے لبوں کو دیکھ پاسوند خان کا بھی دل پسیج گیا۔ غزالہ نے پیشکش بھی کی کہ وہ اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دے گی کہ تین برس وہ ہسپتال میں خدمات انجام دے گی۔ چھٹی بھی نہیں کرے گی۔ اور رقم کی رسید بھی دے گی۔ مگر پاسوند خان نے انکار کر دیا ۔ وہ ایسی لکھا پڑھی توہین آمیز سمجھتا تھا اور وقار کے منافی!

شیر دل نے کریدنا چاہا کہ اگر کوئی لڑائی جھگڑا ہے۔ کسی قسم کا مسئلہ ہے تو اس کے مسلح لوگ موجود ہیں ۔کوئی بیماری ہے تو بھی بتلائے مگر غزالہ نے غیر ضروری سوالوں سے منع کر دیا ۔ کرائے کی کار کو شیر دل نے رقم اد ا کر کے رخصت کر دیا۔ جبکہ غزالہ ان کے ہاں ہی ٹھہری۔اگلے روز شیر دل اپنی کار میں اسے کوئٹہ لے آیا۔ اور بینک سے رقم دلوا دی ۔ شیر دل کے محافظ یوں تو ساتھ ساتھ ہی تھے۔ مگر غزالہ نے گھر پہ گن مین کی موجودگی قبول نہ کی۔ شیر دل حیران سا چلا آیا۔ اس کے من میں ہزارو ں سوال تھے۔ جنہیں غزالہ کی حالت کے سبب وہ پوچھ نہ پایا۔

ہفتہ بھر میں انہیں اطلاع ملی کہ غزالہ کا اکلوتا بھائی قتل کر دیا گیا ہے ۔ شیر دل کے سارے گھرانے کو دھچکا لگا۔ کیونکہ مختصر قیام میں اس نے سبھی کا دل جیت لیا تھا۔ ان کے پہنچنے تک تجہیز و تکفین ہو چکی تھی۔ اغواء برائے تاوان میں مارا گیا تھا۔ رقوم وصول کر کے بھی اسے مار ڈالا گیا۔ شائد مقتول نے انہیں شناخت کر لیا تھا ۔ ایک وزیر کا نام لیا جا رہا تھا۔ جس نے سورج گنج بازار سے اغواء کرایا۔ جبکہ آئی جی پولیس نے فریاد و نشاندہی کے باوجود ریڈ کرنے سے انکار کر دیا۔ بلکہ الٹا انہیں آنکھیں دکھائیں کہ ثبوت پیش کریں ۔ وہ بہتی گنگا پہ ہاتھ دھو رہا تھا۔ عقلمند اور عاقبت اندیش افسر تھا۔

اور پھر ایک روز غزالہ خود ہی کرائے کی کار میں چلی آئی اس کے ساتھ اپنا آپریٹس بھی تھا۔ یوں تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا مگر پاسوند خان نے رقم معاف کر دی اور ڈیوٹی پر لینے سے معذرت چاہی۔

” اس وقت تمہارے والدین کو تمہاری زیادہ ضرورت ہے۔     ہم تو آگ اگلتی دھرتی پہ رہتے ہیں تم واپس چلی جاؤ ۔   پچیس لاکھ سمجھو میں نے تحفہ دیا تھا”۔

لیکن ضد کے باوجود غزالہ انکاری ہو گئی۔ ان کے گھر میں بھی رہنے سے انکار کر دیا ۔ بلکہ ڈاکٹروں کے میس میں خواتین سٹاف کے حصے میں ایک کمرے میں رہنے لگی۔ اور کامن کچن سے کھانا کھانے لگی۔ اس کے والد نے نوشکی۔ دالبندین اور تفتان میں ملازمت کی تھی۔

تربت اور گوادر میں بھی رہا ۔ وہ بلوچی کچھ کچھ بول بھی لیتا۔ ماضی الضمیر تو بیان کر ہی دیتا۔ جبکہ غزالہ برائے نام ہی سمجھ پاتی۔ اس کی مدد کے لیے شہ بی بی مڈ وائف موجود رہتی۔ جو درمیان میں ترجمان کا کام کرتی۔

غزالہ نے دن رات محنت کی۔ دن میں اُسے آنسو پیتے تو ڈاکٹر دیکھتے۔ مگر روتے کبھی کوئی بھی دیکھ نہ پایا۔ آپریشن ڈے کی طرح اس نے رونے کے لیے بھی وقت یعنی رات مقرر کر رکھی تھی۔ بقول شہ بی بی یوں آنسو بہاتی کہ تکیے بھیگ بھیگ جاتے۔

کبھی شیر دل ایسے میں دلاسہ دلاتا تو وہ اور مضطرب ہو جاتی۔

” موت کے تین برے سوداگر ہیں الفرڈ نوبیل۔ آئین سٹائن اور میخائل کلاشنکوف”۔ شیر دل اسے بولنے کا موقع دیتا تاکہ کیتھارس ہونے سے اس کا دل ہلکا ہو۔ وہ شام میں اس کے کمرے کا دروازہ بھی نہ کھٹکھٹاتا بلکہ کامن روم میں آ کر پیغام بھجوایا کرتا۔

” تم جانتے ہو کہ زیورچ میں ایک ادارہ ڈگنی ٹاس جو ڈاکٹر کی مکمل رپورٹ اور کاغذات مکمل کرنے کے بعد لا علاج مریضوں کو ایک انجکشن کے ذریعے آسان موت دیتا ہے۔ کہیں کہیں نیند کے پچاس کیپسول ایپل سوس میں گھول کر پلائے جاتے ہیں "۔

شیر دل جانتا تھا ” مگر یہ تو چند ہی ملکوں میں ہے ۔ میں ذاتی طور پر اس کا مخالف ہوں ۔ انسانی زندگی بڑی ہی قیمتی ہوا کرتی ہے "۔

غزالہ جذباتی انداز میں بحث پہ اتر آتی۔” یونانی کتنے اچھے تھے۔ سقراط کو بھی آرام دہ موت دی۔ باتیں کرتا کرتا خاموش ہو گیا”۔

ایسے بے ربط جذباتی اور غیر عقلی گفتگو سے ماحول بوجھل ہو جاتا۔شیر دل کو بہت ہی دکھ ہوتا۔

” ہاں ! کوئی پانچ سو برس قبل سر تھا مس مور نے بھی آسان موت کا تصور دیا تھا”۔

غزالہ ٹوک دیتی ۔” نہیں شیر دل ! یونانی میں آسان کو Eua کہتے ہیں ۔ اور موت کو THANATHOS کہتے ہیں ۔ جس سے Euthansia بنا ہے۔ یعنی آسان موت ۔ تم جانتے ہو کہ ایک کافر نے مغلوب ہو کر جناب امیر کے چہرہ اقدس پر تھوک دیا تھا تاکہ غضبناک ہو کر وہ اسے فوراً ہی مار ڈالیں ۔ یہ الگ بات کہ شیر خدا نے اسے معاف کر دیا۔ ایک آسان موت ہمیشہ سے انسان کی خواہش رہی ہے”۔

شام میں تنہائی اور یادوں کی کسک غزالہ کو بیکل کر دیتی اور اکثر شیر دل یا اس کے گھر کی خواتین غزالہ کو ملنے چلی آتیں ۔ تو غزالہ اپنے دل کے ٹکڑے ان کے سامنے رکھ دیتی۔

” میرے بھائی کا ایک کان اغواء کاروں نے بھجوایا ، پھر ایک انگلی کاٹ کر بھجوا دی۔ کاش وہ اور رقم مانگ لیتے اور اسے آرام دہ موت دیتےEuthansiaدیتے "۔ شیر دل کا میڈیکل کالج والا لا ابالی پن ایک پُر وقار سنجیدگی میں بدل چکا تھا۔ اس کے چچا جندہ خان اور ماموں سمندر خان نے بھی مشورہ دیا کہ وہ غزالہ سے شادی کے بارے میں سوچے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ آبادکار ہے، لا وارث ہے مگر اتنی اچھی بیوی بن سکتی ہے کہ شیر دل کا ہسپتال اور گھر ہی بدل کے رکھ دے۔ یہ خیال نیا تھا۔قبول کرنے میں کچھ وقت تو لگا۔ شدہ شدہ یہ خبر پسند خان تک بھی پہنچی۔

” ہاں ! ہو تو سکتا ہے ۔ مگر مرد تو چار شادیاں کرتا ہے ۔ غزالہ کے علاوہ ایک شادی اپنے خاندان میں کرے اور ایک کسی اور مضبوط قبیلے میں ۔ سعودی بادشاہ کو تو دیکھو ہر طاقتور قبیلے میں شادی کر رکھی ہے۔ اتنی شادیوں کے باعث ہر قبیلہ ہی اس کا اپنا ہے "۔ شیر دل رفتہ رفتہ شادی کے لیے آمادہ ہوتا چلا گیا۔ شیر دل نے خواتین کے ذریعے شادی کا عندیہ دیا ۔ تو بہت دنوں بعد غزالہ کی آنکھوں میں روشنی آئی اس کا چہرہ کھل اُٹھا۔

” مگر …….. مگر آپ لوگ تو بہت امیر ہیں ۔ ہمارا آپ کا کیا میل”۔ وہ ڈوبتے ابھرتے دل سے بولی ۔ یہ گویا اقرار ہی تھا۔ شیر دل کے لیے یہ ایک متوقع جواب تھا۔ شادی کی پیشکش سے غزالہ کی ڈھارس بندھی۔ شہ بی بی نے بتلایا کہ غزالہ کے رونے میں بہت کمی آئی ہے ۔ کبھی کبھار مسکرا بھی اٹھتی ہے ۔ ڈاکٹروں سے ایک آدھ مذاق بھی کرنے لگی ہے۔ کافی اور چائے بھی طلب کرنے لگی ہے ۔ لیکن زبان سیکھنے سے اس نے معذرت طلب کی جو کہ ایک اچھمبا تھا۔

” دیکھو شیر دل ۔ یہ سارے یو ٹوپیا میں رہتے ہیں ۔ صدیوں سے بھوک اور پیاس کے مارے ہوئے ہیں ۔ کبھی نادر شاہ” چم کش” بن کر آتا ہے۔ کبھی ڈائر کبھی کرنل ڈیہو ۔کبھی اپنے سپاہی انہیں مارے ڈالتے ہیں ۔ یہ مسیحی بّرے ہیں ۔ جن کی صرف بلّی ہی چڑھتی ہے ۔ شیر دل نے محبت سے ڈانٹ دیا ۔”غزالہ ! تم کیسی بہکی بہکی باتیں کرتی ہو۔ حالات سے لڑا جاتا ہے "۔

غزالہ بحث پر اترآئی۔” کس چیز سے لڑیں گے ۔ شہ مرید کے اونٹ پہ سوار ہو کر مستیں توکلی کی گٹار سے مسلح ہو کر "۔ شیر دل اس کے درد دل سے واقف تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ غزالہ لڑے جھگڑے خفا ہو جائے مگر نارمل برتاؤ تو کرے چاہے غصے میں ! چاہے قہقہے لگائے۔ مگر عام انسانوں جیسی بن جائے۔ اس کے رویے بدل جائیں ۔ سوگوار صحراؤں کی مانند چپ چپ کیوں رہا کرتی تھی۔ سہمی سہمی ۔ خوفزدہ سی ۔” میری بات سنو غزالہ۔ قومیں Phases میں چلتی ہیں ۔ برطانیہ ڈھائی سو برس قبل لنگ ولاش تھا۔ جرمنی بیسویں صدی کے شروع میں سخت مقروض تھا۔ چند سو برس پہلے یورپ اور برطانیہ کے علماء بادشاہوں کے حضور زبردست بحث کرتے کہ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں ۔ ان کے منہ سے جھاگ نکلتی۔ تھوک کے چھینٹے نکلتے ۔ اب یہ سب ایک مسخرا پن لگتا ہے ۔ ہم بھی اس فیز سے نکل جائیں گے۔ ہم نہ سہی ۔ ہمارے بچے”۔

غزالہ نے متعجب ہو کر سوال کیا ” ہمارے بچے کیا مطلب ؟”۔

شیر دل نے قہقہہ لگایا ” ہماری شادی ہوئی تو ہمارے بچے تو ہوں گے ہی اچھا اب ایک کافی تو ہو جائے "۔

کافی کے دوران بھی وہ ضد پہ قائم رہی” یہ سارے شیخ چلی کی مانند خوش ہیں کہ ان کی دھرتی میں سونا ہے۔ ان کے سونے پہ بھوگ اُگتی ہے موت اُگتی ہے ۔یہ عالمی ارب پتی اسی سونے کے لیے جگہ بنا رہے ہیں ۔ لاشیں گرا رہے ۔ ہر دور میں قابیل سے ہابیل کو قتل کروا رہے ہیں "۔

شیر دل نے موضوع بدلنا چاہا ۔ رات ہوتے ہی ریگستان جاگ اٹھے تھے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مٹھیوں میں ریت لیے ہوائیں ہسپتال کے شیشوں سے ٹکرانے لگیں ۔” ویسے کافی اچھی ہے۔ اچھی کافی بناتی ہو۔ کبھی تو زمانہ بدلے گا وقت میں روانی ہے ۔Spontaneous ہے اس میں fluxہے "۔غزالہ نے بہت صدیوں بعد قہقہہ لگایا ” تم بھی اسی قوم اسی سوچ کے انسان ہوں ۔ میرا پردادا بولان ریلوے بچھاتا آیا تھا تو پٹریوں کے ساتھ یہی وقت لپٹ گیا۔ میرا دادا ۔ میرے والد اور خود میں ۔ میں نہ زبان جانوں گی اور نہ ہی ان سے گفتگو کروں گی صرف علاج ہی کروں گی۔ میں ان کے میٹھے میٹھے سپنے کو "شک "جیسے کیوں توڑوں "۔

شیر دل کو یوں تو غزالہ کی بات میں سچائی نظر نہ آئی ۔ مگر اس نے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ عورتوں سے بحث کرنا ہی "گنوکی ” ہے۔

اسی رات بڑی گڑ بڑ ہوئی سپاہی دو زخمی لیے ہسپتال چلے آئے۔

” انہیں گولیاں لگی ہیں ۔ ان کے زخموں پر ٹانکے لگا دیں مہربانی ہو گئی۔ دور دور تک کوئی ہسپتال نہیں ہے۔ اور ان کا خون تو فوری طرو پر بند کر دیں ۔ ہم نے ان سے پوچھ گچھ کرنا ہے کہیں ختم ہی نہ ہو جائیں "۔ڈاکٹروں نے شیر دل کو بلوا بھیجا کیونکہ ہسپتال کی اوپی ڈی تو دوپہر تک بند ہو جاتی تھی۔ شیر دل دوڑا چلا آیا۔” میرے پاس اتنا بڑا سرجن نہیں ہے ۔ میں تو فیزیشن ہوں "۔افسر مسکرایا ” یہ کوئی تھری پیس سوٹ سینا تو نہیں ہے ۔

چند ٹانکے ہی تو لگانا ہیں ۔ پٹی باندھیں خون بند”۔

شیر دل کی معذرت پہ افسر کا رویہ ہی بدل گیا۔” آپ بھی گرفتار ہو سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب میں کوئی سکھر کا پل تو نہیں بنوا رہا ۔ شرافت کی زبان شرافت سے سمجھیں ۔ اتنی ہڑا دوڑئی ہے ۔ ہمارے پاس وقت نہیں ہے "۔ تیور بدلتے دیکھ کر شیر دل نے ڈاکٹروں کی مدد سے زخمیوں کو ابتدائی طبعی امداد دی ۔ ٹانکے لگا دیے مرہم پٹی کے بعد گلوکوز بھی لگادیا اور خون کے لیے رضا کاروں کو بلوا بھیجا ۔ سپاہیوں کا وارڈ کے گرد پہرہ سخت کر دیا۔ اگلی صبح زخمی اس دنیا سے منہ موڑ چکے تھے۔ سپاہیوں نے ان کے جسد اٹھائے اور رفو چکر ہو گئے۔ ان کے جانے کے بعد شیر دل نے ڈاکٹروں کو اکٹھا کیا اور برس پڑا ۔” یہ کیا ہو ا؟ کسی نے ان کے زخم کھول دیے۔ کون تھا وہ ؟ باہر مسلح سپاہی تھے۔ آپ لوگوں کے علاوہ کوئی وہاں جا بھی نہیں سکتا تھا”۔ اس نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر غزالہ بھی رات گئے ان کے کمرے میں گئی تھی ۔ وہ چونک اٹھا۔

” آپ تو گائناکالوجسٹ ہیں ؟ آپ کا کیا کام "۔

غزالہ نے نا گواری سے جواب دیا۔

” انسانی ہمدردی کے تحت گئی تھی ، وہ دونوں بے ہوش پڑے تھے اور ہر گائنا کالوجست سرجری بھی کرتی ہے ڈاکٹر صاحب میں ان کا چارٹ وغیرہ دیکھ کر لوٹ آئی کیا ہمدردی گناہ ہے ؟”۔

چند ہی روز میں سٹاف یہ واقعہ بھول گیا ۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ مہینہ بھر بعد وہی بدتمیز سپاہی تین زخمیوں کو لے آئے۔ انہیں بھی گولیاں لگی تھیں ۔ مگر خطرناک زخم کوئی بھی نہ تھا۔ نیٹو بور کی پتلی نوکیلی گولیاں بازوؤں اور ٹانگوں کو چیرتی زخم بناتی گزر گئی تھیں ۔ اس بار شیر دل نے بحث نہ کی مگر اگلے روز وہ تینوں بھی دنیا سے منہ موڑ چکے تھے۔ ان کا فسر بہت نراش تھا وہ افسردگی سے چائے پینے لگا۔ ” بولے بغیر ہی مر گئے ڈاکٹر صاحب ۔ پہلے موٹی موٹی طاقتور گولیاں جان لیواء ہوا کرتی تھیں پھر دنیا بھر میں پتلی نوکدار کم وزن گولیاں بننے لگیں "۔ ڈاکٹر شیر دل نے دوپہر کے کھانے کا بھی انتظام کر رکھا تھا۔ سپاہیوں کے پاس کافی وقت تھا۔ شیر دل کی دلچسپی اور مہمان نوازی سے متاثر ہو کر وہ دوستانہ انداز میں وضاحت کرتا چلا گیا۔” پہلے گولیوں سے دشمن سپاہی مر جاتے مگر دشمنوں کی پیش قدمی جاری رہتی۔ کیونکر مردہ کو صرف دفن کرنا ہوتا تھا۔ان پتلی گولیوں کے باعث دشمن سپاہی زخمی ہوتے ہیں ۔ عموماً مرتے نہیں ۔ جس کے سبب وختا پڑتا جاتا ہے ۔ سرجن آپریشن تھیٹر ۔ زخمیوں کے وارڈ ۔ دوائیاں ۔ دشمن کو اپنی جان کی ہی پڑ جاتی ہے "۔ شیر دل نے اعتراف کیا ” میں یہ باتیں نہیں جانتا تھا”۔

افسر بہت خوش ہوا ۔” آپ دیکھیں یہ 222 بور223 بور یا پھر رائفل 5.56 یا 7.62 کیا پتلی پتلی گولیاں ہیں ۔ جیسے لیلیٰ کی انگلیاں ۔ کبھی عشق کیا ہو آپ نے تو لیلیٰ سمجھ آئے گی "۔ وہ خوش دلی سے ہنسنے لگا۔ دوپہر کا پُر تکلف کھانا کھا کر وہ جسد خاکی لے کر چلتے ہیں ۔” افسوس پوچھ گچھ سے پہلے ہی اگلی دنیا میں روپوش ہو گئے۔ خیر آپ بڑے زندہ دل انسان ہیں ہم دوبارہ بھی آئیں گے”۔ شیر دل نے اثبات میں سر ہلایا۔” ضرور آئیں ۔ مگر بغیر زخمیوں کے”۔ ایک مشترکہ قہقہہ بلند ہوا۔ اور آپ بھی زخمیوں کو زندہ ہی واپس کریں گے۔ حیرت ہے یہ کوئی 12.7 کی گولیاں تو نہیں کہ مار ہی ڈالیں ۔ شائد خون بہنے سے مر جاتے ہوں بری مایوسی ہوتی ہے "۔ اسی شام کافی پیتے ہوئے شیر دل نے غزالہ سے کہا کہ کل وہ چلی جائے والدین سے ملے۔ چار ماہ سے گھر نہیں گئی۔

” اور تمہیں کس کے حوالے کروں ؟ ” غزالہ مسکرائی ۔

” ان صحرائی ہواؤں کے حوالے جو میری اپنی ہیں ” ۔شیر دل نے مختصر سا جواب دیا ۔

” تم بڑے کرب میں لگ رہے ہو کیا بات ہے ؟”۔

شیر دل نے کندھے جھٹکے ” ایسے ہی ۔ کوئی خاص بات نہیں ۔ غزالہ کو اس عرصہ میں بہت سے تحفے ملے تھے۔ اگلی صبح گاڑی تحفوں سے بھر گئی۔ سب نے گرمجوشی سے رخصت کیا تھا۔ رات کو اس کے اعزاز میں ڈنر بھی ہوا تھا۔ اگلی صبح وہ گاڑی میں آ بیٹھی تو شیر دل نے اشارے سے ڈرائیور کو دور جانے کو کہا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔

” ڈاکٹر غزالہ میں نے اس ایمر جنسی وارڈ میں خفیہ کیمرہ لگوا دیا تھا۔ گذشتہ رات آپ نے زخمیوں کے ٹانکے کھول دئیے اور خون بہانے کا انتظام کیا ۔ اوپر سے پٹیاں دوبارہ باندھ دیں ۔مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوا ۔ ہمارا ہسپتال زندگی دیتا ہے ۔ موت نہیں ۔ دوبارہ آپ آنے کی زحمت نہ فرمائیں "۔ غزالہ کے چہرے پہ صحرا اتر آیا۔ وہ ساکت رہ گئی۔ پھر سنبھل کر بولی۔” میں انہیں آسان موت دیتی ہوں ۔ جو میرے بھائی کو بھی نہ مل سکی۔ ان مسخ شدہ لاشوں کی اذیت کون جانے جو صحراؤں سے ملتی ہیں ۔ توتک کے اجتماعی قبر والے وہ 80 انسان کچھ بولے ؟ اور تم مجھے آپ آپ مت کہو کیا میں اجنبی ہو گئی ہوں ؟”۔

شیر دل گاڑی سے اتر آیا اور ڈرائیور کو سیٹ سنبھالنے کا اشارہ کیا ۔” خدا حافظ ! پچھلی گاڑی میں گن مین ہیں ۔ جو گھر پہنچا کر لوٹ آئیں گے”۔ اس نے لفافہ تھمایا تو غزالہ کو حیرت ہوئی۔

” اس میں کیا ہے "۔ شیر دل نے سرد لہجے میں کہا ۔” آپ کی چار مہینے کی تنخواہ اور پچیس لاکھ روپے میرے والد نے بخش کر دئیے تھے”۔ غزالہ نے لفافہ پھاڑ کر پرزہ پرزہ کر دیا اور پرزے شیر دل پہ اچھال پھینکے ۔” یہ میرا دل ہے کوئی ریکوڈک نہیں ۔ چلو ڈرائیور”۔

٭٭٭

 

 

 

زہریلا انسان

 

بہت دنوں سے جلات خان فراری بنا پھرتا تھا ۔ کسی قوم قبیلہ والے کو تو اغواء کرنے کی ہمت نہ پڑی۔ سب سے پہلے وہ بازار سے جیرا نائی اٹھا کے لے گیا۔ اس کے بعد پھتو قصائی پر عتاب نازل ہوا۔ ازاں بعد اس نے بڑا ہاتھ مارا اور ژوب کے سٹیشن ماسٹر نذیر کو اغواء کر کے پہاڑوں میں لے گیا۔ ایک زمانے سے ٹرین بند پڑی تھی۔ زمانہ بدلا مگر سو برس میں ٹرین کا شیڈول نہ بدلا گیا۔ حسبِ سابق وہ تیسرے روز کوئٹہ سے ژوب پہنچ پاتی۔ جبکہ کوچ پانچ گھنٹے میں ہی پہنچا دیا کرتے۔سٹیشن کے بینچ اور بتیاں ۔ آگ بجھانے والی بالٹیاں اردگرد کے لوگ اپنے ہاں لے گئے تھے۔ یونہی بیکار پڑیں تھیں ۔ اچھا ہوا کسی مسلمان بھائی کے کام آئیں گے۔ سائیں سائیں کرتے اس ریلوے سٹیشن پہ ٹکے رہنے کا سبب نوکری کے علاوہ اکلوتا بیٹا فہیم بھی تھا جو سکول میں پڑھتا تھا۔ وہاں اچھی ڈویژن ملنے کے امکانات تھے۔

اس اغواء کی مقامی انتظامیہ کو خبر نہ ہوئی ۔ ریلوے کا عملہ پہلی پہ تنخواہ لینے آیا تو اسے علم ہوا ۔ سبھی ادھر ادھر اپنا کام دھندا کرتے مگر ماہ بہ ماہ تنخواہ کی وصولی کے لیے پہنچ جایا کرتے۔ انہوں نے ہڑتال کر دی۔ جو کار گر نہ ہوئی کیونکہ ٹرین تو د س برس سے بند تھی۔ شہر میں جلوس نکالا دھرنا دیا تو گذشتہ ماہ کی تنخواہ انہیں دے دی گئی۔ جسے جیب میں ڈال کر مردہ باد کے نعرے لگاتے سبھی نے اپنی اپنی راہ لی۔ اس بار جلات نے کسی بڑے افسر پہ ہاتھ ڈالنے کا منصوبہ بنایا ۔ اکثر افسر بااثر قبیلوں کے تھے۔ باقی چند ایک کے ساتھ لیویز اور پولیس کی نفری رہا کرتی۔ ان کے بنگلوں پہ بھی پہرے ہوا کرتے۔ ضلعی انتظامیہ نے جلات سے متعدد بار مطالبہ کیا کہ وہ اغواء شدگان کو رہا کر دے سارے مطالبات ماننا تو مشکل تھا ۔ البتہ اُسے لیویز کے دس سپاہیوں کی آسامیاں دی جائیں گی۔ بینک سے زرعی قرض دیا جائے گا۔ جسے پھر معاف کر دیں گے ۔ جلات یوں تو پولیٹیکل ایجنٹ اور دیگر افسروں سے ملتا جلتا رہتا۔ ان کے بلاوے پر مسلح ساتھیوں سمیت چلا بھی آتا ۔ مگر چائے پی کر ٹکا سا جواب دے کر واپس چل پڑتا۔

انتظامیہ بھی در پردہ خوش تھی کہ پٹرولینگ اور سیکورٹی کی مدد میں نئی گاڑیاں اور زیادہ بجٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ لیویز کے لیے دس موٹر سائیکلیں بھی بس کی چھت پہ بندھی چلی آئیں جو افسروں نے اپنے ارد لیوں اور سکول جانے والے بیٹوں کو دے دیں ۔ حالانکہ یہ تو گشت بڑھانے کے لیے آئی تھیں ۔

چونکہ جلات مادر زا د ان پڑھ تھا۔ اسے پوچھنا پڑتا ،تحقیق کرنی پڑتی کہ بڑا افسر کون ہوتا ہے۔ اس بار قرعہ فال ہیڈ ماسٹر کے نام نکلا ۔ وہ بیس گریڈ کا افسر تھا۔ اس کے ما تحتوں اور شاگردوں کی بہت بڑی تعداد تھی۔ جلات خان نے اسے سکول سے گھر جاتے اُٹھا لیا۔ کھینچ کھنچ کر گاڑی میں ٹھونسا اور اپنے مسکن کی راہ لی۔سڑک سے ڈیوٹی پہ کھڑے سپاہی سٹک گئے ۔ تحصیلدار اس کا دور کا عزیز تھا ۔ اسے پہلے ہی مطلع کیا جا چکا تھا ۔ واردات سے قبل ہی وہ نفری کے ہمراہ کا لو قلعہ کی جانب مراجعت کر چکا تھا۔

ہیڈ ماسٹر رمضان نے غل غپاڑہ کیا مدافعت بھی کی جو رائیگاں گئی۔ تنگ آ کر انہوں نے رمضان کا منہ باندھ دیا ۔ آنکھوں پہ سیاہ پٹی باندھ دی۔ اور کہیں جا کر ان ویران بے آب و گیاہ پہاڑوں میں پٹی کھولی۔

رمضان پیاس سے مرا جاتا تھا۔ اس نے خوب سیر ہو کر پانی پیا۔ جلات نے تاکید کر دی کہ رمضان یہاں سے فرار ہونے کی کوشش نہ کرے ،ورنہ پہاڑوں میں بھٹک جائے گا۔ بھوکا پیاسا مر جائے گا یا پھر پہاڑوں کے بھوکے بھیڑیوں کا نوالہ بن جائے گا۔ ان سے بھی بچ نکلا تو کوئی دوسرا قبیلہ اغواء کر کے چوکھا مال کمائے گا۔

رمضان کو درختوں میں گھری اسی کھولی میں بند کر دیا گیا۔ جہاں جیرا نائی اور پھتو قصائی کے علاوہ سٹیشن ماسٹر نذیر بھی آنسو بہا رہا تھا ۔ جیرا نائی اور پھتو قصائی تو دن بھر مصروف رہا کرتے پھتو نے دنبے بکرے ذبیحہ کرنے، گوشت کاٹنے اور کھال اتارنے کے اسرا رو رموز نوجوانوں کو سمجھائے، چھری وہ بس ہلکی سی لگاتا تو پٹھہ(TENDON) کٹنے کے سبب ران الگ ہو رہتی۔ پہاڑوں میں چند گھروں کی بکھری بکھری آبادیاں تھیں ۔ اکثر انہیں پاس پڑوس لے جایا جاتا ۔ جہاں پتھو اپنے فن کا مظاہر ہ کرتا۔ جیرا نائی کو استرے کینچیاں مہیا کر دی گئیں ۔ وہ بھی ساتھ ہولیا۔ اور نئی آبادی میں بال بناتا داڑھی مونڈھتا ۔ باتوں ہی باتوں میں وہ راستہ دریافت کرنے کی کوشش کرتے مگر نا کامی رہتی۔ جیرا کم عمر تھا ، وہ اپنے ماں باپ کو یاد کر کر کے رویا کرتا۔ اپنی منگیترکو یاد کر کے بھی آہیں بھرا کرتا۔ اسے خدشہ تھا کہ طویل گمشدگی کے باعث کہیں منگنی ہی نہ ٹوٹ جائے۔ پھتو پچپن برس کا تھا۔ وہ جیرا کو تسلی دیا کرتا۔ حالانکہ وہ خود بھی بیوی بچوں کے لیے پریشان رہتا۔ سٹیشن ماسٹر نذیر کو ڈھور ڈنگر کا انچارج بنایا گیا تھا ۔

جلات خان نے سوچا کہ جو افسر ریلوے سٹیشن سنبھال سکتا وہ بار برداری کے گدھے ۔ دنبے اور بکرے بخوبی سنبھال سکتا ہے۔ نذیر خون کے اشک پیتا گدھے لے کر قریبی پہاڑوں میں جاتا۔ وہاں خشک لکڑیاں جمع کرتا انہیں گدھوں پہ لادتا اور ہنکاتا ہوا جیل خانے کی راہ لیتا۔ گدھے مردوں پر اپنی جسمانی برتری کے باعث کبھی مردوں کے پیچھے نہیں چلتے۔ بلکہ انہیں ہی پیچھے پیچھے چلاتے ہیں ۔ نذیر بھی انہیں ہانکتا چھڑیوں سے نوازتا واپس لوٹتا تو ڈھیر ہو جاتا۔ دس برس اس نے بچے پیدا کیے تھے۔ تنخواہیں بانٹی تھیں ۔ اور کوئی کام نہ کیا تھا ۔ ان بدمست باغی گدھوں کے ہاتھوں وہ بوکھلا سا گیا تھا۔ حتیٰ کہ ایک بار وہ جلات خان کے سامنے سینہ تان کے کھڑا ہو گیا۔

” میں سٹیشن ماسٹرہوں مجھے اس طرح بے عزت کیوں کرتے ہو۔ اس سے تو بہتر ہے کہ گولی ماردو”۔

جلات اس نا فرمانی پہ تمتما اٹھا۔ اس نے پہلو میں پڑی کلاشنکوف اٹھائی، کاک کر کے نذیر پر چھتائی تو نذیر کے اوسان خطا ہو گئے۔ اور سرجھکائے گدھوں کو ہانکتا ان ویران پہاڑوں میں چلا گیا۔

جلات سمجھ نہ پایا کہ رمضان کو کونسا کام دیا جائے ۔ وہ مفت کی روٹیاں توڑتا رہے۔ یہ بھی قبول نہ تھا۔ اس نے اپنے ٹرکوں اور بھتیجوں کو تعلیم دینے پر معمور کر دیا۔ نذیر کے سینے پہ سانپ لوٹ گئے کاش وہ بھی ٹیچر ہوتا۔ خرکاری تو نہ کرنا پڑتی۔

رمضان نے ایک چٹان پہ تختہ سیاہ بنوا لیا۔ درسی کتابیں تو نہ تھیں ۔ وہ الف بے اور اے ۔ بی سی پڑھانے لگا۔ لڑکے مٹی پہ اس کے بولے گئے حروف تہجی لکھتے۔ وہ ان چار قطاروں میں بیٹھے بچوں ، لڑکوں ، نوجوانوں کو گھوم پھر کر درس دیتا ایک ماہر معلوم ہونے کے سبب وہ ان کی توجہ بھی برقرار رکھتا۔ ان کے لکھے حروف درست کرتا۔ مٹی سے لفظ مٹا کر درست کر دیتا۔ قلم کی بجائے طلباء شہادت کی انگلی سے کام لیتے۔ رمضان کا خیال تھا ذرا لکھنا سیکھ لیں تو قلم تھمایا جائے ۔ فی الوقت تو کلہاڑا چلانے کے انداز میں حرف لکھتے ہوئے بلا ضرورت ہی طاقت استعمال کرتے ۔ بعض دانتوں تلے زبان رکھ کر انہماک سے لکھتے تو رمضان کوفت محسوس کرتا۔ نہایت ہی غبی طلباء تھے۔ ان کا سیکھنے کا عمل نہایت ہی سست بلکہ مایوس کن تھا۔وہ C اور G میں فرق محسوس نہ کرتے تو رمضان حکمت عملی اختیار کرتا ۔

” دیکھو بھئی میں C ہوں ۔ میر ا پیٹ خالی ہے۔ جلات G ہے ۔ ذرا G کو غور سے دیکھو اس کا پیٹ بھرا ہوا ہے "۔

رمضان کے اغواء پہ ایک روز ہڑتال رہی۔ طلباء نے جلوس بھی نکالا۔ حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے جو حکومت تک نہ پہنچ سکے جو وہاں سے پانچ گھنٹے کی مسافت پہ تھی۔ سیکنڈ ہیڈ ماسٹر نے اساتذہ یونین کی مدد سے اپنے لیے ہیڈ ماسٹر بننے کے احکامات حاصل کر لیے۔ رمضان تو غیر مقامی تھا۔ اسے کیا حق حاصل تھا کہ افسری کرتا پھرے۔ چند ہی روز میں سبھی لوگ رمضان کو بھول بیٹھے۔ لیکن انتظامیہ بازیابی کے لیے ڈرامہ کرتی رہی۔ اضافی بجٹ بھی ملا اور سیکورٹی کی مد میں خاصی رقم بھی حاصل کر لی۔ پٹرولنگ اور گاڑی کی مرمت و دیکھ بھال کے لیے ملنے والی رقم سے اپنے حالات درست کیے۔ اپنے بنگلوں پہ سپاہیوں کی تعداد بھی بڑھا لی ۔ یوں بھی ساری پولیس ججوں ، افسروں ، وزیر وزراء کے پروٹوکول پہ لگی تھی۔ انہیں شہریوں کا خون چوسنے کے سوا ان سے کوئی رغبت نہ تھی۔

یوں تو رمضان کے اغوا پر ہڑتال ہو گئی ۔ طلباء نے جلوس بھی نکالا ۔ افسروں نے وعدے بھی کیے کہ جلد ہی برآمدگی ہو گی۔ اغواءسے افسروں کو فائدہ ہوتا سیکورٹی کا بجٹ بڑھ جاتا نئی آسامیاں ملتیں چند روز اس شہر میں گہما گہمی رہتی۔ جیسے تیجے پہ خیرات بٹتی ہے۔ قرآن خانی ہوتی اور لوگ پھر دوبارہ روزمرہ کے کاموں میں لگ جاتے ہیں ۔ لوگ اغواء ہونے والوں کو فراموش ہی کر بیٹھتے۔

نذیر کو بخار نے آ لیا۔ وہ یوں بھی دکھی اور نراش رہا کرتا تھا۔ پورے علاقے کو علم تھا کہ تینوں اغوا شدہ ہیں ۔ ان سے علیک سلیک بھی ہوتی۔ اور بعض اوقات ان کی بے بسی کا مذاق بھی اڑایا جاتا۔خشک ایندھن لانے کے لیے جیرا کو کہا گیا۔ اس کے ساتھ ایک بندوق بردار جایا کرتا۔ مگر وہ بہت مطمئن سالا تعلق سا رہتا۔ جیرا نے محسوس کیا کہ بندوق بردار اسے بھی دو ٹانگوں والا گدھا سمجھتا ہے۔ جو بھاگ نہیں سکتا ، فرار نہیں ہو سکتا ۔ بندوق بردار قیوم مزے سے نسوار ہونٹوں میں داب تسبیح پھیرتا رہتا۔ بندوق کو لاٹھی کی مانند ساتھ لیے پھرتا ۔ دوپہر میں خشوع و خضوع سے نماز ادا کرتا۔ ایسے میں اپنے جوتوں کے ساتھ بندوق بھی سامنے رکھ لیتا۔ مسجد میں جوتے سامنے رکھ کر نماز ادا کرنے کی ایسی عادت پڑی تھی کہ ویران پہاڑ میں بھی یہی وطیرہ اختیار کرتا۔ حالانکہ جوتا چور مساجد میں ہوتے ہیں ۔ پہاڑوں میں نہیں ۔ خود نماز ادا کرنے کے بعد قیوم اجازت دیتا تو جیرا نماز پڑھتا ۔ نماز عصر کے بعد وہ دونوں واپس چلے آتے۔ گاؤں والے سر شام کھانا کھا کے سورہتے۔ وہ تینوں بھی جلات کو کوستے سو جاتے۔

جیرا بلند حوصلہ افسان تھا۔کسی بند ریلوے سٹیشن کا مجہول سٹیشن ماسٹر نہ تھا۔ استرے سے مسلمانی کرنے والا بڑے بڑے جغادریوں کا سرا اپنے حضور جھکا دینے والا، ٹنڈ کر دینے والا جوان تھا ۔ اس نے فرار کا سوچا ۔ وہ قیوم کا مزاج بھانپ چکا تھا اب جیرا روز انہ ایک روٹی بچا لیا کرتا ۔ چار روز بعد اس نے پہاڑ میں موقعہ پاتے ہی قیوم کو قابو کر لیا۔ پالان کی رسی سے قیوم کی مشکیں کس دیں ، پاؤں باندھ دیے۔ اسے منہ کالا کیے بغیر ہی گدھے پر سوار کرا دیا۔ دوسرے پہ خود شہسوار کی مانند بیٹھ کر بندوق تانی اور حکم دیا پتر راستہ بتا۔ ورنہ تیرے بھیجے میں سوراخ کر دوں گا”۔ قیوم جانتا تھا کہ بندوق بھی پولیس کی طرح اسی کی ہوتی ہے۔ جس کے ہاتھ میں ہو۔ وہ بے چون و چرا پگڈنڈیوں سے مین روڈ کی جانب راستہ بتلاتا رہا۔ اتنے میں اندھیرے نے آ لیا جیرا نہایت ہمدردی اور دلسوزی سے قیوم کے منہ میں روٹی دے دیا کرتا، پانی کی چھاگل بھی لگا دیتا۔ اگلی شام سڑک دکھائی دی تھی گدھا دوڑاتا کہیں کا کہیں نکل گیا۔ پہلے ہی چینکی ہوٹل پہ اس نے گدھا اور بندوق اونے پونے فروخت کر ڈالی۔ ہوٹل والا بھی خوش ہوا اس کی تو لاٹری نکل آئی تھی ۔ اس نے کہہ سن کر مال بردار ٹرک پہ سوار بھی کروا دیا۔ جیرا مصمم ارادہ کیسے بیٹھا تھا کہ واپس نہیں لوٹے گا۔ بلکہ اپنے آبائی علاقے میں نکل جائے گا۔ جانے پہلے گنجے انسان پیدا ہوا کرتے تھے ورنہ اس کا دادا ان بے رحم پہاڑوں میں کیوں چلا آیا ۔ جہاں دھوپ سے بچنے یا بارش میں چھپنے کے لیے غاریں تک نہیں ۔ ایسے نا مہرباں پہاڑوں کے باسیوں کے دلوں میں رحم اور مروت کے ٹاپوں اور گھپائیں بھلا کہاں ۔

اُدھر جلا ت نے رات تو کانٹوں پہ گزاری اور اگلی صبح اپنا لشکر لے کر جیرا کی تلاش میں نکلا۔ چونکہ دشوار گزار پگڈنڈیوں سے گزرنا تھا ، ان کی رفتار ان کے جذبات سے کہیں کم رہی۔ انہیں اِدھر اُدھر چرتے ہوئے ، گدھے بھی مل ہی گئے۔ مگر سنگلاخ چٹانوں کے باعث کھوجی بھی جیرا کے کھرّے نہ اٹھا سکا۔ قیوم بھی محجوب سا خود ہی چلا آیا ۔جلات کی علاقہ بھر میں بڑی سبکی ہوئی۔ اپنی عزت بچانے کے لیے اس نے اعلان کر دیا کہ اگر اس کے مطالبے نہ مانے گئے تو وہ اغوا شدگان کے گلے کاٹ ڈالے گا۔ پھتو قصائی اور نذیر تو اس خبر سے بے جان ہو گئے۔ان کے پاؤں سن ہو گئے ۔ حالانکہ پھتو نے عمر بھر گلے ہی کاٹے تھے ، کلمہ پڑھ کر وہ چھری چلاتا اور تڑپتا بکرا یا بکری ایک جانب دھکیل کے نئے جانور کی گردن پکڑ لیتا۔ مگر اس خبر پہ وہ کانپنے لگا جبکہ رمضان نے حوصلہ مندی سے یہ اعلان سنا اور اس کے مطالبے نے جلات کو دھلا کے رکھ دیا۔

” جلات خان! جب چاہو قتل کر ڈالو ۔ موت تو برحق ہے، ژوب کے ہسپتال میں دوائیاں نہیں ۔ آکسیجن سلنڈر خالی پڑے ہیں ۔ ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کے لیے غائب رہتے ہیں یا پھر کوئٹہ یا کراچی میں کلینک چلاتے ہیں ، ہسپتال میں تڑپ تڑپ کر مرنا ۔ یا پھتو قصائی کی چھری کے نیچے جان دینا کیا فرق ہے، مگر مجھے تعلیم سے مت روکنا ۔ بلکہ کلاس ختم کر لوں تب ذبح کرنا وہ بھی طلبہ سے چھپا کے ورنہ ان کے ذہنوں پہ برا اثر پڑے گا”۔

ژوب انتظامیہ نے جا نچا کہ اغوا شدگان کے سری پائے ملے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے ۔ جلات کے بہت سے مطالبات مان لیے۔ سیکریٹ فنڈ سے معقول رقم بھی دے ڈالی اپنے ہی چار سپاہیوں کے سروں پہ چادریں ڈال کر ہتھکڑیاں لگا کر پریس کے سامنے پیش کیا کہ ان مشکوک افراد سے معلومات حاصل کر کے اغواء شدگان تک پہنچا جائے گا ۔ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔

…….. جلات کے اب دو مطالبات رہ گئے، اول ان کی گاؤں تک بجلی پہنچائی جائے دوئم گاؤں کے اوپر پہاڑ میں ڈیم بنایا جائے تاکہ بارشوں کا پانی جمع کر کے کاشتکاری کی جا سکے ڈھور ڈنگر پانی لانے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ اس کی بجائے گاؤں کے پہلو میں ڈیم سے یہ سہولت حاصل ہو سکے گی۔ حکام نے وعدے و عید کے لیے جس کے باعث جلات بھی قدر ے مدھم ہو گیا اور اس نے بھی تیز چھریاں ایک جانب رکھ دیں جن کی نمائش اس کا معمول تھا۔

ذبح ہونے کا خوف دور ہونے کے باعث تینوں مغوی بہتر محسوس کرنے لگے ۔ نذیر اور پھتو کو گاؤں سے باہر نہ نکلنے دیا جاتا۔ وہیں انہیں مختلف قسم کے کام دیے جاتے۔ جنہیں وہ نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا کرتے۔ اور جلات کے سامنے آنے سے بچتے کہ کیا عجب جلال اکبری کا نشانہ بننا پڑے۔

رمضان کی تعلیم کے باعث نوجوانوں اور بچوں کا ذہن بدلنے لگا تھا۔ اس نے بتلایا کہ ان کے باپ دادا سے صدیوں پہلے ایک مسلمان مفکر ابنِ خلدون نے واضح کیا تھا کہ جو بھی جاندار جس ماحول میں رہے ویسا ہی بن جاتا ہے ، صحراؤں کے سانپ خاکی، جنگلوں کے سبز اور برفانی علاقوں کے سفید ہوتے ہیں ۔ اسے ماحولیاتی اثر کہا جاتا ہے۔ رمضان نے ECOLOGICAL EFFECT نہ کہا۔ وہ آسان ۔ عام فہم زبان میں تعلیم دینے کا ماہر تھا۔ اصطلاحات سے بھی پہلو تہی کرتا۔ تاکہ طلبا کے ذہن پہ زور نہ پڑے۔

” اچھا۔ ہم تو بھیڑ بکریوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔ ان کی عادت کیسی ہے۔ ان کا ماحول کیسا ہے ؟”۔ طلباء نے دریافت کیا رمضان بولتا چلا گیا۔” بھیڑ بکریاں کم عقل اور بزدل ہوا کرتی ہیں ۔ ایک بھیڑ جو راہ اختیار کرے۔ سبھی اس پہ دوڑ پڑتی ہیں ۔ اندھی تقلید کرتی ہیں ۔ جس کے باعث بھیڑ چال محاورہ بنا۔ ان کی زندگی کا محور ہے چارہ کھانا پانی پینا اور بچے پیدا کرنا۔ بزدلی، ڈر ان کی طبیعت کا خاصہ ہے۔

ہمارے ہاں کوئی بڑی چرا گاہ بھی تو نہیں ہے بڑے کھیت کھلیان بھی نہیں خشک بنجر پہاڑ ہیں ۔ چارہ کم کم ہے۔ پانی بھی نایاب ہے۔ وادیوں میں رہنے والے ڈرتے ہیں کہ ان کے پانی اور چارے پہ کوئی غیر قبضہ نہ کرے۔ اسے اپنی وادیوں میں ڈرے ڈرے رہتے ہیں ۔ غیر مقامی افراد سے خوف کھاتے ہیں ۔ کیچ کے علاقے میں تو نفرت سے غیر مقامی کو ڈنی مردم کہتے ہیں ۔ ان سے ہراساں ہوتے ہیں ۔ گھبراتے ہیں ۔ دور رہتے ہیں ۔ کسی کو اپنے میں شامل نہیں ہوتے دیتے”۔

طلباء گھروں میں بھی یہی باتیں کرتے ۔ جلات سے چھوٹے بیٹے نے دستر خوان پہ سوال کر ڈالا۔

” بابا۔ تم ڈرتے ہو جو بندوق اٹھائے پھرتے ہو”۔

وہ اپنی چاروں بیویوں اور انیس بیٹوں کے ہمراہ شام کا کھانا کھا رہا تھا۔ ہر رنگ ہر سائز ہر گڑا کے بیٹے موجود تھے۔

” میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ نالائق”۔ اس نے چھوٹی بیوی کے لاڈلے بیٹے کو پیار سے ڈانٹا "کون یہ باتیں کہتا ہے؟”۔

بیٹے نے سادگی میں بھیڑوں کی فطرت کی کہانی سنا ڈالی۔ مگر گھر گھر باتیں ہونے لگی تھیں ۔ رمضان کا ایسا محبت بھرا انداز تھا کہ یوں لگتا پڑھا نہیں رہا گپ شپ کر رہا ہے۔

درختوں لگے اس کا سکول لگتا تو وہ دلچسپی برقرار رکھتا ۔

” اچھا سوچو ! کل مجھے بتانا ۔ وہ کونسا جانور ہے جو سو بھی جائے تو آنکھیں کھلی رکھتا ہے”۔

سبھی نے بہتیرا زور مارا۔ مگر رات گئے تک جواب نہ مل پایا۔ ان کے بزرگ بھی حیران رہ گئے۔ رمضان نے اگلے روز اعلان کیا کہ وہ جانور مچھلی ہے۔ اور تعلیم دینے لگا۔ وہ پڑوسیوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، سخاوت اور معاف کر دینے کے جذبے ابھارتا۔ اس نے بتلایا کہ نبی مبارک نے اپنے پیارے چچا کی قاتلہ ہندہ اور قاتل وحشی کو بھی معاف فرما دیا تھا۔ جو ہمارے باعث تقلید ہے۔ صلہ رحمی پہ بولتا اور عفو درگزر کی باتیں بتلاتا۔

جلات کی لاڈلی بیوی نے ایک روز انارکلی کے انداز میں تیور بدل کر کہا کہ وہ بچوں کے لیے شہر سے ٹافیاں اور کھلونے کیوں نہیں لاتا۔ اس کے لیے ریشمی کپڑے لانے کا خیال نہیں آتا۔ کیا دن بھر جو پتھروں پہ گولیاں چلا کر نشانہ بازی کرتا ہے۔ اس رقم سے بچیوں کے لیے نئی چادریں بھی تو خرید سکتا ہے ۔ابھرتے چبھتے سوالوں نے جلات کو ہلکان کر ڈالا۔ وہ مجروح ہو جاتا ۔ دل میں جیسے چھید پڑ جاتے۔ماحول اذیت ناک ہو چکا تھا۔

ایک روز جو ژوب جانے کے لیے گاڑی میں آ بیٹھا تو اس کے جوان بیٹوں نے گھیر لیا سوالوں کے تیر اس کے دل میں اترتے چلے گئے۔

” بابا تم شہر جاتے ہو ہمیں کیوں نہیں لے جاتے”۔

” ہمیں ان بھیڑ بکریوں کے پاس چھوڑ جاتے ہو کیا ہم بھی ریوڑ کی طرح رہیں "۔

” اپنے ٹھاٹھ باٹھ دیکھو اور ہمارا لباس دیکھو”۔

” ہم بھی کیا دنبے بکرے ہیں ؟ تمہارے مویشی ہیں ۔ ہم سے ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں "۔

” ہمیں کسی سکول میں کیوں نہیں پڑھاتے کالج میں داخل کیوں نہیں کرتے”۔

جلات خان سکتے میں آگیا ۔ یہ ایک دبی ہوئی بغاوت تھی ایک چنگاری تھی جو سب کچھ بھسم کرسکتی تھی۔ اس شام وہ لشکر سمیت واپس لوٹا تو بجھا بجھا سا تھا۔ کھانا کھا کر گفتگو کیے بغیر آنکھیں موند کر لیٹ رہا۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ مارے خوف کے بیویاں بھی اِدھر اُدھر ہو گئیں ۔

جیرا کے فرار کے بعد مغویوں کے کمرے کو نماز مغرب کے بعد تالہ لگا دیا جاتا۔مغوی ان کے ساتھ نماز مغرب ادا کرنے کے بعد ہی بند ہوتے۔ مسجد میں اغوا کار خدا سے دعا کرتے کہ مغویوں کے بدلے کچھ مل جائے۔ جبکہ مغوی دعا کرتے کہ ان ظالموں سے چھٹکارا پائیں ۔ مغرب کی نماز کے ساتھ ہی تینوں کو کھانا دے کر دروازے کو تالہ لگا دیا جاتا۔ ایک شخص دروازے پہ پہرہ دیتا کہ کہیں نقب لگا کے نہ نکل جائیں ۔

رات کے پچھلے پہر قدموں کی چاپ آئی، بندوقوں کی کھٹ پٹ ہوئی اور تالہ کھلا تو متوحش ہو کر پھتو چلایا”۔ سنبھلنا ہمارے قاتل آ گئے ہیں "۔ دونوں ہڑ بڑا کر اٹھے، لالٹین کی روشنی میں جلات کا چہرہ دکھائی دیا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔ چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اور تو کوئی ہتھیار نہ ملا، پھتو اور نذیر نے تکیے نکالے اور گرز لندھور کی مانند تان لیے۔

” خبردار ! آگے مت آنا ورنہ تکیے مار مار کے مار ڈالوں گا”۔پھتو غرایا۔ رمضان اس غیر متوقع شب صورتحال سے گھبرا کے جوتوں کی جانب لپکا دونوں ہاتھوں میں جوتے خنجر بنا لیے پھتو کے ہوش بجا تھے۔ اس نے نعرہ بلند کیا ” ہیڈ ماسٹر صاحب ! میرے بوٹ دس نمبر کے ہیں نیچے لوہے کے نعل لگے ہیں ۔ وہ اٹھا لیں ۔ پاپڑ بنا دیں سالوں کا”۔ رمضان نے جلدی سے اپنے جوتے پھینک پھتو کے بوٹوں سے مسلح ہو گیا۔ مگر حملہ آوروں نے ان کی ٹنڈیاں کس دیں ۔ انہیں یکے بعد دیگرے پک اپ میں ٹھونس دیا۔ مغویوں کی آہ و بکا سے جلات کے اہل خانہ جاگ اٹھے ۔ اس کے جواں بیٹے آنکھیں ملتے باہر نکلے۔ انہوں نے جو اپنے استاد کی درگت بنتے دیکھی تو مدد کے لیے لپکے۔ یہ دیکھ کرمسلح افراد گاڑی میں کود گئے۔ اور گاڑی دوڑائی۔ رمضان نے دیکھا کہ جلات کے بیٹے انہیں بچانے کے لیے نعرے بلند کرتے گاڑی کے پیچھے پیچھے دوڑے چلے آرہے ہیں ۔ تو فرطِ جذبات سے اس کے اشک جاری ہو گئے۔ نا ہموار راستوں پہ ہچکولے کھاتی گاڑی بہت دور نکل گئی۔ ایک چشمے کے پاس سے گزرے تو رمضان نے فریاد کی "۔ ظالم ! ہمیں آخری بار دو نفل تو ادا کر لینے دے”۔ جلات نے سنی ان سنی کر دی۔ رمضان کو اشکبار دیکھ کر ان کا ضبط بھی جاتا رہا۔ وہ دونوں بھی رونے لگے۔

پھتو مایوسی سے بولا ” ان سے کیا مانگنا یہ تو ظالم قصائی ہیں ” جلات جو چپ بیٹھا تھا بھڑک اٹھا” میں نہیں تم قصائی ولد قصائی ہو”۔ بندوق کی سرد نالی گردن پہ چبھی تو پھتو کو اقرار کرتے ہی بن پڑی”۔ ہاں ۔ قصائی تو ہوں اغواء کار نہیں ہوں "۔ ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔ انہیں یوں لگتا تھا ہزاروں برس گزر چکے ہیں ۔ ان کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ چکے تھے ۔ نذیر کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔ ان کی آنکھیں بے جان ہو چکی تھیں ۔

صبح کاذب پہ گاڑی تھم گئی۔ انہیں گاڑی سے گھسیٹ گھسیٹ کر اتارا اور ایک ساتھ کھڑا کر دیا۔ نذیر لڑکھڑا کر گر پڑا۔ اسے دوبارہ کھڑا کر کے دو آدمیوں نے تھامے رکھا۔ ” کلمہ پڑھو، کلمہ پڑھو” رمضان نے توجہ دلائی۔ مگر جلات نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا۔” خاموش ہو”۔

” ابوجہل نہ بنو ہم ضرور کلمہ پڑھیں گے”۔ جلات جھلا گیا” چپ رہو ! میری بات سنو! تم میرے قبیلے میں علم کا زہر پھیلا رہے تھے ۔ تعلیم سے میرے بیٹوں کو بھی نہ بخشا۔ دور ہو جاؤ میری نظروں سے ۔ پھر ہمارے علاقے کا رخ نہ کرنا۔ زہریلا آدمی!”۔

٭٭٭

 

 

 

ملاکھڑا

 

 

ملنگ بابا کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ کون ہے کہاں سے آیا ہے۔ بلند قامت، دبلا پتلا، سفید کھدر کا لباس پہنتا۔ چہرہ بادسموم نے سرخ کر دیا تھا۔ دور سے عیسیٰ(عبرانی)سا لگتا۔ بہت تیز چلتا۔ یوں ڈگ بھرتا سنگریزوں اور اتھلی ندیوں سے گزرتا کہ دیکھنے والے مبہوت سے رہ جاتے۔ کبھی کرتہ میں جا نکلتا تو رند اور رند جتوئی ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ کبھی وہ ثور گز میں فر ری کے بڑے چشمے کے پاس مچھلی کھاتا دکھائی دیتا۔ لوگ باگ تو گوون کھاتے ہوئے ڈرتے کہ کھانسی ہو جاتی ہے، ملنگ مزے سے گوون چباتا پاس سے گزر جایا کرتا۔

کبھی نان پر کس سو کی چٹنی لگائے درختوں تلے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے مزے سے کھانا کھاتا۔ یوں تو پیر غائب رندوں کا علاقہ ہے۔ مگر ملنگ سے اس کا حسب نسب دریافت کرنے کا یارانہ تھا۔ چا کر رند کے بیٹے کی قبر اینٹوں کے بجائے تلواروں سے پاٹی گئی تھی۔ ملنگ اسی قبر کے پاس کبھی عالم محویت میں ملتا۔ پیر غائب کا پہاڑ روشی یوں تو بنجر سا ہے مگر جانے کہاں سے ملنگ کو رزق ملتا ہی رہتا۔

پھر وہ دشوار گزار راستوں سے گزرتا دل بند بہ جا نکلتا۔ یہاں دو سرنگ نما غاریں ہیں ۔ جہاں چغلی چک کا صدیوں سے بسیرا ہے۔ مگر عینی شاہد قسمیں کھا کھا کر بتایا کرتے کہ انہی غاروں سے انھوں نے ملنگ کو برآمد ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ سونے کو ثور یا خیسن کہتے ہیں ۔ مشہور ہے کہ پنجاب کی جانب مراجعت کرتے ہوئے رند یہاں سونا چھپا گئے تھے جس کے باعث پہاڑ کو ثور گز کہتے ہیں ۔ دوسرے پہاڑ کے متعلق روایت ملتی ہے کہ رند یہاں چاندی چھپا گئے جس کے باعث اس پہاڑ کو سفید گر کہتے ہیں ۔ کئی ایک خزانوں کے متلاشی ملنگ کے پیچھے لگ جاتے کہ انھیں سونے یا چاندی کا پتا دے۔ مگر ملنگ تو اپنی ہی دنیا میں مست رہتا۔

سخی فتح محمد کہتے ہیں کہ بابا طاہر عرف بابا خرواری کا بھائی تھا۔ سخی فتح محمد چونکہ بنگل زئیوں کے ساتھ رہا اسے سخی آفتیاں کہا جاتا ہے۔ اس کا مزار جوہان اور اسپلنجی کے درمیان ہے۔ یہاں سے ایک راستہ زہری گھٹ کو نکلتا ہے۔ یہ علاقہ ملنگ کا نہایت پسندیدہ ٹھکانہ تھا۔ خزانوں کے متلاشی اس کی تلاش میں یہاں بھی آکر ملنگ کے قدم لیتے۔ ملنگ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ہر طائفہ اس کا میزبان بننا باعث فخر سمجھتا۔

بدوزئی، دینارزئی، بجارزئی، شوران زئی۔ گہرام زئی چشم براہ ہوتے۔شاہو زئی نے اس قدر قربانیاں دیں ، جانیں نچھاور کیں کہ اب وہ نصف ٹکر دیتے ہیں وہ بھی ملنگ کو اپنے پاس ٹھہرانا قابل فخر سمجھتے۔ لیکن ملنگ تو اپنی ہی دھن میں مست رہا کرتا۔ جی چاہتا تو کسی قبیلہ کے پاس ٹھہر جاتا یا پھر کھجوری کے پر اسرارغاروں میں چلہ کشی کرنے چلا جاتا۔ کبھی رات گئے کرتہ میں نمودار ہوتا۔ شمب جلا کر تلوار سے مچھلی کا شکار کرنے والوں کی مہارت دیکھتا۔

رند، کرد، رئیسانی، جلبانی اور چھوٹا نی اس کا منہ تکتے رہ جاتے اور وہ کوچیک کا مہمان بن بیٹھتا۔ اس کی عمر کے بارے میں بھی مبالغہ آرائیاں تھیں ۔ بعض خوش عقیدہ اس کی عمر سیکڑوں برس بتلاتے۔ سبھی متفق تھے کہ ملنگ مستجاب الدعوات ہے۔ یک پاسی سیدوں کے مانند ایک پاس میں ہی اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔ انہی دنوں افواہ پھیل گئی کہ دل بند تک پکی سڑک بنائی جائے گی۔ اس کے بعد وہاں سے جوہان، اسپلنجی اور زہری گھٹ تک پکی سڑک تعمیر ہو گی۔ زہری گھٹ تو زرکزئیوں کا مرکز ہے۔ یہ افواہ ایک حقیقی صورت اختیار کر گئی۔ جبکہ بہت سے ٹرک ،مزدور ،سپاہی اور جانے کیا کیا کچھ مین روڈ کے ساتھ ڈھیر کرتے چلے گئے۔ سرمچار پہاڑی درّے کے اوپر مورچہ بند ہو گئے۔

مالدار بھی اس مہم میں آ شامل ہوئے۔ انھوں نے گول گول پتھروں کے ان گنت ڈھیر وادی کے اوپر لگا لیے۔ بلندی سے درے میں پھینکا جانے والا ہر پتھر بم ثابت ہوتا۔ بے حد مہلک اور جان لیوا جیسے ابابیلوں نے محض کنکریاں پھینک پھینک کر اَبرہہ کا ہاتھیوں والا لشکر بھسم کر دیا تھا۔ مالداروں کو یہ بھی تسلی تھی کہ ابابیل کی چھوٹی سی چونچ سے برسنے والی کنکریوں سے ان کے کلو بھر کے پتھر زیادہ ہلاکت خیز ہوں گے۔ مداخلت کے باعث کام تو شروع نہ ہو سکا، مگر بلڈوزر اور ٹریکٹر بھی آگئے۔ ایک بڑا بلڈوزر اورچھے کرینیں بھی پہنچا دی گئیں جو چین پر کسی ٹینک کے مانند چلتی تھیں ۔ اور پھر ایک بڑی نفری کے ساتھ سپاہی آگے بڑھے تو سر مچاروں نے دعوت مبارزت دی۔

ادھر مالداروں نے مال مویشی پہاڑوں میں ہنکا دیے اور بکتر بند گاڑیوں پر پتھروں کی بارش کر دی۔ خود وہ اوٹ میں تھے اور سر مچار مورچہ بند تھے۔ مجبوراً سپاہیوں کو دفاعی حکمت عملی کے سبب پسپا ہونا پڑا۔ ایک بکتر بند گاڑی پتھراؤ کے سبب یوں پھنسی کہ اسے خالی کر کے وہیں چھوڑنا پڑا۔ اس سارے ہنگامے میں التزام یہ رکھا گیا کہ آگے بڑھنے والوں کے دائیں بائیں خصوصاً سامنے فائر کیا گیا۔ پتھروں سے بھی کسی کھوپڑی کو نشانہ بنانے سے احتراز کیا گیا۔ تب جانے کہاں سے لٹھ لیے ملنگ وادی میں نمودار ہوا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ کسی غار سے مراقبہ توڑ کر باہر نکلا ہے۔ گولیوں کی بوچھاڑ کی پروا کیے بغیر وہ پسپا ہوتے ہوئے سپاہیوں کے سامنے آن کھڑا ہوا۔

اس نے ڈپٹ کر جانبین کو فائر سے روکا۔ پھر لٹھ بلند کر کے مالداروں کو سنگ باری سے روکا۔ اس کا چہرہ سپاہیوں کی جانب تھا اور پشت وادی کی طرف۔ سپاہیوں نے جو ملنگ کی دلیری اور اس کا احترام دیکھا تو انھوں نے بھی فائر روک دیا۔ لٹھ بردار ملنگ بلا خوف و خطر سپاہیوں کی جانب بڑھتا چلا گیا جو بندوق چھتیائے، نظریں وادی پہ جمائے الٹے قدموں پیچھے ہٹ رہے تھے۔ پھر انھوں نے کیمپ میں ہی جا کر دم لیا۔

ملنگ بے تکلف زمین پہ آ بیٹھا ’’سبز چائے لاؤ یا پھر ترخہ۔یہ خدا کی زمین پر کیوں فساد پھیلاتے پھرتے ہو۔‘‘ ملنگ کی کچھ ایسی شخصیت تھی کہ کسی کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوئی اور اسے لنگر کی چائے پیش کی گئی۔ ان کا افسر اور انجینئر بھی پاس ہی آ بیٹھے۔ وہ ملنگ کو عقیدت اور پُرتجسس انداز میں دیکھنے لگے۔

’’تمھارا بادشاہ کہاں ہے؟‘‘ ملنگ نے بے تکلفی سے چائے پیتے ہوئے سوال کیا۔ ’’بادشاہ! افسر بڑبڑا اُٹھا‘‘ اچھا، اچھا، بادشاہ یعنی ہمارا صدر۔ وہ اسلام آباد میں رہتا ہے۔ ‘‘

ملنگ نے اگلا سوال کیا ’’وہ بات چیت کے لیے نہیں آسکتا۔ تمھیں بھیجا ہے؟ اچھا اور تم گولی کی زبان میں بات چیت کر رہے ہو۔‘‘ افسر پریشان سے ہو گئے اور بغلیں جھانکنے لگے۔

دارالخلافہ بادشاہ کا کب بنا؟ ملنگ نے اشارے سے کپ میں چائے ڈلوائی۔ اس کا انداز تحکمانہ تھا۔ ’’اور تمھارا بادشاہ کب بنا؟‘‘

’’ہمارا بادشاہ یعنی سربراہ مملکت یوں سمجھیں کہ‘‘ افسر نے انگلیوں پہ حساب لگایا ’’پینسٹھ برس اور دارالخلافہ کوئی باون برس۔‘‘ انھیں اندازہ ہو چکا تھا کہ اس علاقے میں ملنگ کی چلتی ہے۔ لہٰذا وہ دوستانہ برتاؤ غیر محسوس طور پر بڑھا رہے تھے۔ ملنگ نے قہقہہ لگایا ’’بہت خوب اور یہاں کے رہنے والے یہاں کب آئے۔‘‘ افسر اب کی بار مسکرایا ’’یہ تو کہیں سے بھی نہیں آئے۔ ہزاروں برس سے یہاں رہتے ہیں ۔ یہ یہیں کے باسی ہیں ۔‘‘

ملنگ نے تیوری چڑھا لی ’’یہاں کے باشندوں کو تم زمین سے محبت سکھانے آئے ہو۔ یہ تمھارا کیمپ میں نے دیکھا تھا، پچھلے مہینے لگا ہے۔ بادشاہ کا حکم ہے کہ سڑک بناؤ اور تم گولیوں کی تڑ تڑ میں سڑک بناؤ گے۔ تم جانتے ہو کہ گولی کی آنکھ نہیں ہوتی۔ ادھر سے کیا پھول آئیں گے۔ خبردار کچھ نہ کرنا۔ صرف میری واپسی کا انتظار کرنا۔ ورنہ! اپنے سامان کا مسافر خود ذمہ دار ہے۔‘‘ ان کے افسر نے راہ نہ روکی اور نہ ہی وہ مزاحم ہوا ’’ہم یہاں خوش حالی لانا چاہتے ہیں ۔ ان لوگوں کو آپ بتا دیں ۔‘‘ ملنگ لمحہ بھر کو رکا ’’خوش حالی ٹریکٹر کے ہل سے آتی ہے۔ یہ ٹینک نما گاڑیاں صرف انسانوں ہی کو مار سکتی ہیں ۔ بندوق کی نال سے خوش حالی نہیں ، موت نکلتی ہے۔ یہ سب چیزیں واپس کر دو۔

صرف ٹریکٹر رہنے دو اور ان کے آگے بلیڈ اور پیچھے ہل لگا دو۔ باقی اللہ کار ساز ہے۔‘‘ سلام داغ کر ملنگ نکل گیا۔ مگر وہ واپس آنے کا وعدہ کرتا گیا۔ بکتر بند گاڑیاں چند دن بعد واپس ہوئیں ، تو سر مچاروں نے بھی اپنے مورچے خالی کر دیے۔ سپاہیوں کی بڑی تعداد نے ٹرکوں میں بیٹھ کر واپسی کی راہ اختیار کی تو مال دار بھی پتھروں کی ڈھیریاں بطور چیدغ چھوڑ کر مال مویشیوں سمیت اپنے اہلِ خانہ کے پاس گیدانوں میں چلے گئے۔ سرکار کو ملنگ کے وعدے پہ اعتبار تھا اور شدت سے انتظار بھی۔ نئی حکمت عملی کے طور پر کشت و خون سے بچنے کے لیے صلح جوئی اور آہنسا کی راہ اختیار کر لی تھی۔

اور پھر ایک روز ملنگ لٹھ بردار چلا آیا۔ اس نے آتے ہی ٹریکٹر کو ایک لٹھ رسید کیا ’’چلو‘‘ اس نے حکم دیا۔ افسر پیشوائی کے لیے خیموں سے نکل پڑے۔ جانے وہ کب سے اسی کی راہ دیکھ رہے تھے۔ ان پر حکام کا دباؤ بڑھ رہا تھا کہ جلدی پروجیکٹ مکمل کریں ۔ ملنگ ان کے لیے فرشتہ رحمت ثابت ہوا۔ انھوں نے ملنگ کو سبز چائے پیش کی۔ ان کے ایکسین نے خود جیپ کا اسٹیئرنگ سنبھالا۔ ملنگ کو اگلی سیٹ پر ساتھ بٹھایا۔ شان نزول یہ تھی کہ آگے آگے جیپ۔ اس کے پیچھے گریڈر پھر بلڈورز اور بہت سے ٹریکٹر وادی کی جانب بڑھ رہے تھے۔ وہاں انھوں نے بہت سے مالدار دیکھے جو خوش نظر آ رہے تھے۔ ملنگ نے انھیں بتلا دیا تھا کہ وادی کی زمینیں ہموار ہوں گی۔

تو وہ لوگ سبزیاں گندم اور مویشیوں کے لیے لوسن لگا لیں گے۔ انھیں خانہ بدوشی اور چراگاہوں کی تلاش میں پھرنے کی زحمت نہ ہو گی۔ اس بار نہ تو کوئی گولی چلی اور نہ ہی پتھر برسے۔ ہاں اس بار دور دور تک کوئی بندوق نہ تھی۔ خوفزدہ کارندوں نے امن کا ماحول دیکھا تو وہ بھی دل جمعی سے کام کرنے لگے۔ انھیں یہ بھی خوشی تھی کہ وہ علاقے کی ترقی کے لیے، لوگوں کی خوش حالی کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ پھر کسی نے عصر کی اذان دی تو اس روز کا کام ختم ہوا۔ ندی کے شفاف پانی سے سبھی وضو کر ہی رہے تھے کہ گیدانوں سے گھاٹیوں سے چرواہے فرداً فرداً با جماعت نماز کی سعادت کے لیے ان سے آن ملے۔

لوگوں کو خوشی ہوئی کہ زمین ہموار ہو رہی ہے۔ مختلف قطعات اور چھوٹے چھوٹے قابل کاشت کھیت بن رہے ہیں ۔ آب جو کے رُخ آب پاشی کے لیے بدلے جا رہے تھے۔ زمین ان کی تھی۔ مالک وہ تھے اور کام مفت میں بادشاہ کروا رہا تھا۔ آمدورفت کے لیے پہلو بہ پہلو سڑک بھی بننے لگی۔ ملنگ دن میں ایک آدھ بار غار سے باہر نکل کر لوگوں سے ملتا۔ چند روٹیاں اور کھلّی پانی سے بھر کر وہ دوبارہ غار میں روپوش ہو جاتا۔

دس روز ہی گزرے ہوں گے کہ پہاڑوں سے ایک گروہ اترنے لگا ۔ایکسین کا ماتھا ٹھنکا اس نے عملے کو بھاگ نکلنے کا حکم دیا اور خود جان کی پروا کیے بغیر غار کی جانب دوڑ پڑا۔ ملنگ اس کی چیخ پکار سے باہر نکل آیا۔ اتنے میں وہ گروہ غار کے دھانے تک پہنچ گیا۔ ملنگ حسبِ معمول ان کی جانب لٹھ لیے بڑھا، تو ایکسین ملنگ کے عقب میں خود کو محسوس کرنے لگا۔ اسے عصائے موسیٰ ؑکا معجزہ یاد آیا۔ دل ہی دل میں دعا مانگی کہ ملنگ کا لٹھ بھی کرامات دکھائے ورنہ تو سارے ہی مارے جائیں گے۔

ٹریکٹر وغیرہ بھی جلا دیے جائیں گے۔آنے والوں کا رویہ مودبانہ تھا۔لہجے میں التجا تھی۔ ملنگ نے ترجمہ کر کے ایکسین کو بتلایا کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی زمینوں کو بھی ہموار کیاج ائے اور پانی کا ذخیرہ کیا جائے۔ سیلابی اور بارش کے پانی کو روکنے کے لیے چھوٹے چھوٹے بند بنائے جائیں ۔ ایکسین کی جان میں جان آئی۔ اس نے آوازیں لگا لگا کر عملے کو واپس بلوایا اور جو لوگ جان بچانے کے لیے دور نکل چکے تھے انھیں اشاروں سے واپسی کا حکم دیا۔ فرطِ مسرّت سے آوازیں لگائیں ۔

عجیب سی دوستی اور اپنائیت آ چکی تھی۔ مقامی لوگ اب ان کا ہاتھ بٹانے لگے تھے۔ اپنے گدھے بھی کام پر لگا دیے۔ بات خوشحالی کی ہو رہی تھی، قبضہ گیری کی نہیں اور پھر ایک روز ملنگ نے انھیں خدا حافظ کہا اور چل دیا۔ منت سماجت پر بھی وہ وہاں رکنے پر رضا مند نہ ہوا۔ ’’میں جہاں گشت انسان ہوں ۔ ملک خدا تنگ نیست، پائے مرا لنگ نیست‘‘۔ وہ لٹھ ٹکاتا چل دیا۔ جاتے جاتے وہ نصیحت کرتا گیا ’’یہاں ٹریکٹر لانا، ٹینک نہ لانا۔ گینتی بیلچہ لانا۔ بندوق نہ لانا۔‘‘

ملنگ پانچ برس واپس لوٹا تو اسے خوشی ہوئی۔ ہر طرف کھیت کھلیان تھے۔ سبزیاں تھیں ، لہلہاتا، لوسن اور گندم کے خوشے تھے۔ مویشی فربہ ہو چکے تھے۔ لوگوں کے چہروں پر صحت اور خوشحالی چھلک رہی تھی مگر لوگ کوئٹہ سیوی روڈ بند کیے دھرنا دیے بیٹھے تھے۔ جونہی انھوں نے ملنگ کو دیکھا اپنا احتجاج بھول کر وہ خوشی سے اس کی جانب دوڑ پڑے۔ وہ قریب آئے، تو ملنگ نے لٹھ اُٹھا لیا۔

’’یہ کیا ہنگامہ کر رہے ہو؟‘‘

Vicky

٭٭٭

 

 

 

 

ٹین کے آدمی

 

 

پروفیسر آرنلڈ کو ایک زمانہ جانتا تھا۔ وہ ایک مخبوط الحواس امریکی پروفیسر تھا۔ بہت دن انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا۔ پھر انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار چلا آیا۔ امریکہ سے اس کی پنشن ماہ بہ ماہ اس کے بینک اکاؤنٹ میں جمع بھی ہو جایا کرتی اس کے دادا کے زمانے میں ۱۹۱۹ء میں ایک ہندوستانی روپیہ چار امریکی ڈالرز کے مساوی تھا جبکہ اب ایک ڈالر کے ایک سو آٹھ روپیہ آتے۔ آرنلڈ کا ہر ڈالر فوراً ایک سو آٹھ روپے میں تبدیل ہو جایا کرتا تھا۔ وہ پکا پکا دانشور۔ اسے علم پھیلانے کے سوا کوئی دھن نہ تھی اور نہ ہی اسے کسی قسم کا دنیاوی شوق تھا۔ اس کے بارے میں لوگ کہا کرتے کہ He is by himself a university اس کی داڑھی کے بال خاران کی آبادی کی طرح دور دور تھے جس کے باعث بعض طلباءاسے چٹک ریش کے نام سے بھی پکارا کرتے مگر اس کا ادب و احترام کیا جاتا کیونکہ امریکی طرز زندگی کی سہولتوں سے ہاتھ اٹھا کر وہ جلتے صحراؤں کی ریت پھانکتا۔ بجلی کا آٹھ دس گھنٹے غائب رہنا معمول کی بات تھی، مکھیاں ، مچھر اور کانوں کے پاس بھنبھناتے سپاہی بھی اس کے ارادے متزلزل نہ کر پائے۔ اس نے پورے دس برس تعلیم پھیلائی۔ مگر اب بم دھماکوں ، خود کش حملہ آوروں ، مذہبی و لسانی قتل و مقاتلوں نے تعلیم کا راستہ روک دیا تھا۔ مگر آرنلڈ عجب مٹی کا بنا ہوا تھا۔ وہ ذرا برابر خائف نہ ہوتا۔ مزے لے لے کر بیان کرتا کہ مالتھیس تھیوری کے مطابق جب بھی دنیا کی آبادی بڑھے تو قدرت اسی طور مداخلت کرتے ہوئے زلزلوں ، طوفانوں اور وباؤں سے آبادی کم کر دیتی ہے۔ آرنلڈ کو یقین تھا کہ ایک نیا معاشرہ بنانے کے قدرت پرانے معاشرے کو جڑوں سے اکھیڑ پھینکے گی۔ لہٰذا بجلی کے غائب ہونے پر اپنا جنریٹر چلوا کر اگلے لیکچر کی تیاری کرتا۔ طلباءکو وہ دلیل سے قائل کرنے کی سعی کرتا ہمہ وقت مسکراتا ہی رہتا۔

"تم لوگ اپنا مکان دوبارہ بنانا چاہو تو کیا پرانی بنیادوں پر ہی نئی عمارت کھڑی کرو گے؟ یا پہلی عمارت کو بنیادوں تک کھود ڈالو گے؟ بلکہ مضبوط اور بلند و بالا عمارت کی تعمیر کے لیے تو پرانی بنیادیں کھود ڈالو گے۔ مزید گہری اور چوڑی بنیادیں بناؤ گے۔ تاکہ عمارت مضبوط ہو۔ کیا بیس برس پہلے کوئی تصور کرسکتا تھا کہ Missing Person کے لیے تڑپتا بلکتا ہلکان ہوتا ماما قادر آجوئی مارچ کرتے ہوئے وڈھ سے گزرے گا تو سردار وڈھ کے مقام پر بڑھ کر استقبال کرے گا۔ ششک یا بجار طلب کرنے کی بجائے ماما قادر کے احتجاجی قافلہ کی مہمانداری بھی کرے گا۔ معاشرہ تلپٹ ہورہا ہے تم سبھی ٹیکنالوجی پر توجہ دو۔ اور ماما قادر عمر بھر زڑخو یا پھر باجوئی کی سڑک پر دھرنا دیئے بیٹھا بھی رہے تو کیا ہو گا؟ وہ آب پارہ یا مال روڈ پر دھرنا دیتا تو ملک ہل جاتا۔ یہ قافلہ نوسوکلومیٹر چل کر بھی کچھ حاصل نہ کر پائے گا۔ جو کچھ شیخ مجید الرحمان نے کہا وہی کچھ نواب نوروز خان نے طلب کیا ایک آزاد ہوا دوسرا پھانسی پا گیا۔ ٹیکنالوجی حاصل کرو۔ یہی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ پروفیسر نے عمر بھر شادی نہ کی۔ اور اگر کوئی اس بار ے میں سوال کرتا تو مسکرا کر جواب دیتا کہ اس نے علم سے شادی رچا رکھی ہے۔ لاپرواہی سے شانے جھٹکنا اس کی عادت تھی۔ ہر دنیاوی شے اسے بے مایہ لگتی۔ اس کے کمروں میں کتابوں کے ڈھیر، نوٹس اور کھلا لیپ ٹاپ ہی ملتا۔ طلباء نے مشہور کر رکھا تھا کہ وہ ای میل پر ہی فرشتوں کو اپنا حساب کتاب دے گا۔ بظاہر تو یوں لگتا جیسے کل ہی پروفیسر کا سالانہ امتحان ہونے کو ہے۔ بڑے تردّد توجہ ، انہماک سے منہمک ہے۔ بہت دنوں سے وہ Roboticsمیں الجھ کر رہ گیا تھا۔ ہمہ وقت وہ کچھ نہ کچھ سوچتا ہی رہتا۔ محفل میں بھی کھوجایا کرتا۔ وہ مثبت خیالات کا انسان تھا مگر اس کی مسکراہٹ کملانے لگی تھی۔پھر جانے کیا سوجھی کہ سپاہیوں سے الجھنے لگا کہ وہ چپ چاپ اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر واپس چلے جائیں چونکہ پروفیسر آرنلڈ امریکی تھا۔ سپاہی اس سے ڈرتے تھے۔ ان کے سامنے ریمین ڈیوس کی مثال تھی جو قتل مقاتلہ کرتے ہوئے تزک و احتشام سے واصل امریکہ ہوا تھا کیا عجب یہ سڑی پروفیسر ان پر فائر کھول دے۔ یا ان پر ڈرون حملہ کرا دے۔ سپاہی مشتعل ہوئے بغیر ہی شرط عائد کرتے کہ اگر سر مچار مورچہ بندی چھوڑ کر واپس چلے آئیں تو وہ بھی بیرکوں میں لوٹ جائیں گے۔ آرنلڈ کے پاس ایسی جادو کی چھڑی تو نہ تھی جس کے اشارے سے وہ نظام تبدیل کرسکتا۔ تاہم اس نے نیٹ پر پیغام بھجوائے ان پیغامات کی ہارڈ کاپیاں بھی اس نے وزیر اعظم اور صدر کو رجسٹری کروائیں یوں تو یہ کاغذ ردّی کی ٹوکری میں ہی پھینک دیے جاتے۔ مگر امریکی ہونے کے ناطے اسے جواب ملا کرتے کہ وہ امریکی حکومت کو مجبور کرے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے کہ وزیرستان میں ڈرون حملے روک دیئے جائیں اسے یہ بھی پیش کش کی گئی کہ سرکاری خرچ پر اس کا امریکہ دورہ اس ضمن میں خیرسگالی کے طور پر کرایا جائے گا۔ بشیر شتربان تو امریکی دعوت پر صدر امریکہ کا مہمان بن کر گیا تھا جبکہ پروفیسر آرنلڈ کو صدر پاکستان کا نمائندہ بنا کر امریکی حکومت سے عدم جارحیت کی بات چیت کے لیے بھیجا جانے کا اہتمام و انصرام ہو سکتا ہے۔ آرنلڈ کی رائے میں بھکاریوں کا نمائندہ بن کر جانے سے اس کی اپنی عزت بھی جاتی رہتی۔ اس نے جواب بھجوایا کہ برابری کی سطح پر آ کر بات چیت کرنے کے لیے امریکی امداد کا کاسہ توڑ دیا جائے تمام جج، حکام اور سیاست دان امریکی شہریت واپس کر دیں بطور احتجاج جیسا کہ ہندوستان زعما نے بہ شمول رابندر ناتھ ٹیگور جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے خلاف احتجاجاً نائٹ ہڈ اور سر کے خطابات برطانوی سرکار کو واپس کر دیئے تھے۔ اسی تجویز پر سرکار دربار میں سناٹا طاری ہو گیا۔ سبھی کو سانپ سونگھ گیا۔ آرنلڈ نے دوسری تجویز یہ بھجوائی کہ سرکاری حکم کے تحت نئے پیدا ہونے والے بچوں کی زبانیں کاٹ دی جائیں ۔ تاریخ میں کئی بار مختلف قوم قبیلوں میں جنم لینے والے لڑکوں کو قتل کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ذہن انسانی کے لیے قابل قبول ہو گا۔ اور بچہ بھی زندہ رہے گا۔ کیونکہ بلوچستان میں قتل و مقاتلہ زبان کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ یا پھر عقیدے کی بنیاد پر۔ عقیدے کا تعلق بھی زبان سے ہی ہے۔ کلمات کی ادائیگی اور عقیدوں کا اظہار بھی زبان کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ بس سے مسافروں کو اتار کر کسی خاص زبان بولنے کے سبب قتل کر ڈالنا یا عقیدے کے سبب خودکش حملہ آور کا لوگوں پر برس جانا بھی ختم ہو ہی جائے گا۔ آرنلڈ کف افسوس بھی ملتا کہ نظریۂ ارتقاء کے سبب حضرت انسان کی دم تو جھڑ گئی صرف بطور نشانی دمچی کی ہڈی ہی رہ گئی ہے۔ ہزاروں لاکھوں برس میں انسان کی دم کاٹنے کا کوئی واقعہ نہیں ملتا۔ جبکہ انسان کی زبان کاٹ ڈالنے کے ان گنت واقعات ملتے ہیں ۔اسی زبان کے باعث چرچ کیinquisitionسے زندہ بھی مرد و زن جلاد یے جاتے ۔ ہر ملک و ہر معاشرے میں انسان زبان پر ہی زبان ہی کے ہاتھوں زبان ہی کے ذریعے قتل ہوتے چلے آرہے ہیں ۔ انسانی جبلت زبان کے تابع میں نہیں کیونکہ گونگوں کے ہاں بھی تو اولاد پیدا ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ گونگے ہی اصل انسان ہوں ۔ بولنے والی زبان ایک بیماری ہو اپینڈیکس جیسی پروفیسر آنلڈ کے پاس روپیہ بھی تھا اور علم بھی۔ مگر سب سے بڑی بات کہ وہ ایک امریکی تھا۔ حکام بھی دبتے تھے اس سے ورنہ تو اس کی کار میں گانجہ یا چرس رکھوا کر اندر کروا ڈالتے۔ یا کسی نوخیز خودکش حملہ آور کو بہتر حوروں کے چکر میں آرنلڈ کی راہ دکھاتے۔ حکومت نے یہی فیصلہ کیا کہ پروفیسر آرنلڈ کی ای میل کا متانت سے جواب دے دیا جائے۔ اس کی حفاظت بھی کی جائے۔ وہ کہیں گھائل ہوا تو ملالہ یوسف زئی کی طرح امریکی حکومت اسے بھی بانس پر چڑھا دے گی۔ دنیا جہان کے انعام و اکرام اور تمغے پروفیسر آرنلڈ کے قدموں میں ڈھیر کر دے گی۔ اس کا بھی احتمال تھا کہ امریکی شہری کی حفاظت میں ناکام رہنے کے جرم میں ملک کے وزیر اعظم کو ہی معزول کر کے گھر بھجوا دے اور صدر کی گردن ناپ لے۔ پروفیسر آرنلڈ نے سپاہیوں سے بحث و تکرار کے بعد پہاڑوں میں جانے کی اجازت حاصل کر ہی ڈالی۔

"اگر آپ مارے گئے تو؟”

"تمہاری جان ایک پاگل پروفیسر سے چھوٹ جائے گی”

"اگر کسی نے اغوا برائے تاوان کیا تو کیا ہو گا؟”

"اغوا برائے تاوان شہروں میں ہوتا ہے پہاڑوں میں نہیں ۔”

"اگر مارے گئے تو؟ ہم کیسے آ کر اٹھا پائیں گے؟”

"تو میرا جسم گل سڑ کر قبر میں ختم ہونے کی بجائے بھوکے درندوں کے کام آئے گا۔ میری زندگی نے انسانیت کو فائدہ دیا میری موت بھی کسی کے لیے باعث فائدہ ہو گی۔‘

سپاہیوں نے اپنی حلقہ بندی سے اسے آگے بڑھنے کی اجازت دے ڈالی۔ آرنلڈ کے پاس کھانے کا تھوڑا سا سامان اور پانی کی ایک چھاگل تھی۔ سب سے مضحکہ خیز چیز بانس کے سرپہ لپٹا ایک سفید جھنڈا تھا۔ پروفیسر ویران پہاڑوں میں دھیرے دھیرے بڑھتا ہی چلا گیا۔ حتی کہ وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ وادی کے دہانے پر ہی اس نے سفید جھنڈا کھول کر لہرا دیا۔ البتہ وزن سے تھک کر وہ ہاتھ بدل لیا کرتا۔ معاً اس پر فائر آیا۔ دائیں بائیں سے گولیاں سیٹی بجاتی ہوئی گزر گئیں ۔ ماہر نشانہ باز اپنی مہارت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ آرنلڈ جھنڈا تھامے چلتا ہی رہا۔ آگے بڑھتا ہی رہا۔ اور پھر فائر سے اس کے ہاتھ میں تھامی لکڑی کی چھڑی دو ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ آرنلڈ نے دل ہی دل میں نشانہ بازوں کی تعریف کی جو اس کے پرکھوں کی طرح کاؤ بوائے معیار کی نشانہ بازی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ آرنلڈ نے عینک کے شیشے صاف کیے۔ پلٹ کر جھنڈا اٹھایا اور دل جمعی سے دوبارہ وادی کی جانب قدم بڑھانے لگا۔ چھڑی ٹوٹنے کے باعث سفید جھنڈا اب اس کے سر پر لہرا رہا تھا۔ اور پھر بہت سے بندوق بردار چٹانوں اور پتھروں کے پیچھے سے نمودار ہوئے۔

"پروفیسر! خود کشی کے لیے یہ اچھا طریقہ نہیں ہے۔ اور تم کیا امن امن کی رٹ لگائے پھرتے ہو۔ گوانتا موبے جا کر قیدیوں کو تو پہلے چھڑاؤ۔ اپنا سینہ بھی کھول کر دکھاؤ۔ خود کش جیکٹ تو نہیں پہنے آئے ہو؟”۔ آرنلڈ کو علم تھا کہ خودکش حملہ آوروں کے جسموں کے چیتھڑے بکھر تو جاتے تھے۔ مگر سر الگ اڑ جاتا۔ جس کے باعث حملہ آور کی شناخت ہو جایا کرتی۔ لہٰذا انہیں مژدۂ جانفزا دیا گیا کہ اگر وہ اپنی ٹھوڑی سینے میں پیوست کر کے کسی طور اپنے دل پہ نگاہیں گاڑ کر بٹن دبائیں تو فوراً اپنے نبی کریم کا چہرہ اقدس دل کے اندر دیکھ سکیں گے۔ لہٰذا وہ اپنی ٹھوڑی سینے میں گھسیڑ دیا کرتے۔ تبھی آرنلڈ سر سیدھا رکھے رہا کہ مبادا کوئی اسے خود کش حملہ آور سمجھ کر پہلے ہی سے نہ اڑا ڈالے۔ آرنلڈ نے سینہ کھول کر دکھایا اور ہانک لگائی۔ "چھ سو برس سے تو مسلمان ہی خودکش حملے کیے جا رہے ہیں ۔ امریکیوں کو کیا پڑی کہ مفت میں خود کو مار ڈالیں ۔ کسی پادری کے کہنے پر۔”

مسلح لوگ ہنسے "ہم تو دل لگی کر رہے ہیں پروفیسر! تمہیں کون نہیں جانتا۔ تمہیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا پڑھانے کے سوا۔ورنہ کم سے کم شادی ہی کر لیتے۔”

کسی نے فقرہ جڑا”شادی بھی کرتا تو بیوی کو اس قدر پڑھاتا کہ وہ کچھ ہی عرصہ میں گھبرا کر استانی بن جاتی۔”

انہوں نے پروفیسر کی خوب آؤ بھگت کی۔ گرم کھانا۔ کالی کافی اور فقر ہ بازی۔ اس کے ایک دو شاگرد بھی نکل آئے تھے۔ "بڑے مزے کی جگہ ہے۔ کچھ نوجوان مہیا کرو تو انہیں تعلیم دیتا رہوں ۔” سربراہ نے بار برداری کے گدھوں کی جانب اشارہ کیا "شاگرد تو موجود ہیں تم کام تو شروع کرو۔”

پروفیسر نے سنی ان سنی کرتے ہوئے ذومعنی اعلان کیا”ہاں کچھ پرانے شاگرد بھی تو موجود ہی ہیں ۔” اس پر ایک قہقہہ پڑا۔

پروفیسر نے انہیں ہولناک باتیں بتائیں کہ دنیا پر ڈیڑھ لاکھ روبوٹ قابض ہوچکے ہیں ۔ پاناسونک ٹیلی ویژن سکرین روبوٹ ہی بناتے ہیں ۔ لاکھوں کی تعداد میں بننے والے سکرین مہارت سے یوں بنتے ہیں کہ خریدار ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ فیکٹری کے انسان نگرانوں کی تعداد درجن بھر سے زیادہ نہیں ہے۔ اور امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن خصوصاً چینی مزدور سب سے کم اجرت لیتے ہیں ۔ کم از کم فی گھنٹہ ساڑھے آٹھ یورو مزدوری ہے۔ جبکہ ربوٹ محض ۳۰ سینٹ فی گھنٹہ پر کام کرتے ہیں ۔ روبوٹ نہ وردی مانگتے ہیں ۔ نہ میڈیکل نہ ہی یونین بناتے ہیں ۔ نہ تو چھٹی طلب کرتے ہیں نہ تالہ بندی کرتے ہیں اور نہ ہی پینشن طلب کرتے ہیں ۔ آنے والوں برسوں میں روبوٹس کی تعداد اس قدر بڑھے گی کہ ان کے ہاتھوں دنیا بھر میں تین کروڑانسان بے روزگار ہو جائیں گے۔ لہٰذا آپس میں جنگ و جدل کی بجائے سارا ملک ہی مل کر مشترکہ دشمن کے خلاف متحدہ ہو جائے۔ کیونکہ تاریخ انسانی میں ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ آپس میں لڑنے بھڑنے والے جنگجو یا برسرپیکار ممالک ایک مشترکہ دشمن کے خلاف نبرد آزما ہو گئے۔ سبھی نے پروفیسر کی تقریر خاموشی سے سنی اور بتلایا کہ وہ سبھی آپس میں مشورہ کر کے شام کو فیصلہ سنائیں گے۔ آرنلڈ تھکا ہوا تو تھا ہی کھانا بھی مزے کا ملا تھا اطمینان سے سو رہا۔ سرشام وہ خود ہی اٹھ بیٹھا اور چائے پی کر ان کے درمیان آ بیٹھا سوال ہوا۔ "روبوٹس کے جذبات نہیں ہوتے ، ان میں رحم دلی یا احساسات نہیں ہوتے تو کیا یہ درست ہے پروفیسر؟”

آرنلڈ چہک اٹھا”دور کی کوڑی لائے ہو، بالکل ایسا ہی ہے”

دوسرا سوال ہوا” امریکن سول وار یا گولڈ رش میں کیا رحم یا انسانیت کا مظاہرہ ہوا، دوسری جنگ عظیم۔ نیپام بم اور ویت نام پر برسنے والی آگ۔ تو رہ بورہ پر برسنے والے ڈیزی کٹر بم جن کی آواز سے ہی انسانی خلیے تباہ ہو جاتے ہیں کسی روبوٹ نے پھینکے تھے یا انسان نے؟ ہیروشیما یا ناگاساکی پر بم کسی روبوٹ نے مارے تھے۔”

پروفیسر گڑبڑا گیا۔ "نہیں ۔ وہ تو انسان ہی نے پھینکے تھے۔”

"اچھا پروفیسر حضرت ابراہیم کو کس نے آگ میں پھینکا تھا یوحنا نبی کا قاتل کون تھا یسوع مسیح کو کون گلگلتا پر لے گیا تھا طائف میں کس نے پتھر اچھالے تھے کسی ٹین یا تانبے کے روبوٹ نے؟” پروفیسر آرنلڈ کا چہرہ دھواں دھواں ہونے لگا تھا۔ وہ خاموش رہا اور جی ہی جی میں کڑھتا رہا۔ مگر مخاطب کی زبان نہیں رک رہی تھی۔”اللہ کے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ان روبوٹس کا پروگرام درست کرنے ہی تو آئے تھے۔”

بہت سے جذباتی لوگوں نے سوالوں سے پروفیسر کا ناطقہ بند کر دیا۔

"ہمارے پاس پہلے کیا کام ہے جو روبوٹس ہمیں بے روزگار کر دیں گے۔” اس پر ایک مشترکہ قہقہہ بلند ہوا۔”پروفیسر! روبوٹس میں اگر رحم دلی نہیں تو حرص لالچ مذہبی جنون لسانی تعصب بھی تو غائب ہے” ایک مضطرب نوجوان بحث میں کود پڑا۔ "ہمارے حکمران بھی تو روبوٹس ہیں ۔ جو تمہارے صدر کی ٹیلی فون کال پر ناچ اٹھتے ہیں ۔ اور نئی پالیسی بنا ڈالتے ہیں ۔” آرنلڈ کے حلق میں کچھ پھنس سا گیا۔ ہوا کے شور کے باعث سبھی کو آواز بلند کرنا پڑ رہی تھی۔ "خالق کائنات اگر انسان کی بجائے روبوٹس ہی بنا ڈالتا تو وہ دھڑ سے آدم کو سجدہ کر ڈالتا شیطان کا چکر بھی ختم ہو جاتا۔ اور جان ملٹن کو بھی اس کا قصیدہ خوانی نہ کرنی پڑتی!!” پروفیسر نے ہاتھ بلند کر کے بحث کے خاتمہ کا اعلان کر دیا۔ اور بستر پر آ گرا۔ جو ایک گوشے میں شب باشی کے لیے لگایا گیا تھا۔ اگلی صبح پروفیسر غائب تھا، امن کا جھنڈا نیچے کھائی میں پڑا تھا۔ رات کے رضاکار چوکیداروں نے بتلایا کہ انہوں نے لاکھ منایا مگر پروفیسر نہ رکا اور یہ بھی کہتا گیا کہ کوئی اس کے پیچھے نہ آئے وہ انسان کی تلاش میں نکلا ہے، اندھیرا تھا ہم نے اسے ایک ٹارچ بھی دے دی تاکہ پہچان میں آسانی رہے۔

٭٭٭

ماخذ:

سنگٹ اکادمی ڈاٹ نیٹ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید