فہرست مضامین
یہ ہے انشائیہ
مرتبہ
محمد اسد اللہ
انتساب
ڈاکٹر انور سدید کے نام
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
شکریہ
یادش بخیر، کوئی تیس برس پرانی بات ہے، مجھے خان صاحب کا نام یاد نہیں رہا البتہ وہ اس حوالے سے اب بھی ذہن نشین ہیں کہ ایک مقامی اردو اخبار میں میرا انشائیہ شائع ہوا تھا۔ اسی اثنا میں پہلی بار ان سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا، وہ ریٹائرڈ فوجی اور اس اخبار کے ادبی صفحے کے نگراں بھی ہیں۔
با توں با توں میں مجھ سے پوچھ بیٹھے، اسد اللّٰہ صاحب مجھے بتائیے، یہ انشائیہ کیا ہوتی ہے ؟
میں نے یہ کہہ کر اس بحث سے اپنا دامن بچا لیا کہ’ خان صاحب! یہ ہوتی نہیں ہوتا ہے۔ ‘
صورت حال وہی ہے، آج بھی بحث کا آغاز (انشائیہ کی مذکورہ جنس بدل کر )اسی سوال سے ہوتا ہے۔ انشائیہ نگاری کی تحریک کے وجود میں آنے کے بعد بے شمار صفحات سیاہ ہوئے۔ اس سلسلے میں قلم، سوال اور لٹھ اٹھانے والے زیادہ تر سرحد پار ہی سے میسر آئے۔ شکر ہے، ہم اس سر پھٹول سے بچے رہے۔ ہمارے ہاں انشائیہ ہنسنے اور مسکرانے سے عبارت ہے، بہت کم لوگ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں۔ راقم نے انشائیے لکھنے شروع کئے تو لوگوں سے پوچھا، کتابوں میں تاک جھانک کی، غور و فکر کرتا رہا، یہ سلسلہ جاری ہے۔ ’یہ ہے انشائیہ‘، اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ایک حقیر سی کوشش ہے۔ موضوع کی وضاحت کا تقاضا ان صفحات کی تنگ دامانی پر خندہ زن ہے، ممکن ہے اس سلسلے کی دیگر تحریریں آئندہ جلد دوم میں شائع ہوں۔
میں شکر گزار ہوں، قومی کونسل برائے فروغِ اردو، نئی دہلی کا، جس نے اس کتاب کو زیورِ طبع سے آراستہ کرنے کے لئے مالی تعاون مہیا کیا۔ اسی طرح ان تمام احباب اور مخلصین کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے گراں قدر تعاون ور مفید مشوروں سے یہ کتاب منظرِ عام پر آئی، خاص طور پر ڈاکٹر وزیر آغا کے فرزند، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش، خالد صدیقی( پاکستان )، ڈاکٹر سید صفدر، جناب سلیم شہزاد، ڈاکٹر رضی الدین معروفی اور شکیل اعجاز صاحب۔ میں اپنی شریک حیات فرزانہ اسد اور فرزند توصیف احمد کا بھی مشکور ہوں جن کے تعاون کے بغیر اس کتاب کی اشاعت ممکن نہ تھی۔
…محمد اسد اللّٰہ
عرضِ مرتب
محمد اسد اللّٰہ
اردو ادب کی اصناف میں انشائیے کو ابتدا ہی سے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ہمیشہ سوالوں کے گھیرے میں رہا ہے۔
انشائیہ کیا ہے ؟ انشائیہ کی شناخت؟ حدود؟ تعریف؟ کیا انشائیہ ایک الگ صنف ہے ؟ یا محض اسلوبِ تحریر ہے ؟ اردو میں انشائیہ کا بانی کون ہے ؟
سر سید؟ ماسٹر رامچندر؟ محمد حسین آزاد؟ میر ناصر علی ؟ مشکور حسین یاد ؟ وزیر آغا؟ وغیرہ وغیرہ ان سوالوں نے کئی آوازوں کو جنم دیا۔۔ ۔۔
انشائیہ کا اولین نقش سب رس ہے۔ ( جاوید وششٹ)انشائیہ امُّ الاصناف ہے۔ (مشکور حسین یاد )انشائیہ ایک نئے زاویۂ نگاہ کا نام ہے۔ ( وزیر آغا) انشائیہ ایک غیر مقصدی صنفِ ادب ہے۔ ( انور سدید ) یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں بے معنی با توں میں معنی تلاش کئے جاتے ہیں۔ (نظیر صدیقی )خط کی طرح انشائیہ بھی اپنی تلاش اور اپنی دریافت ہے جس میں انشائیہ نگار اپنے کردار کے پوشیدہ سر چشموں کو پا لیتا ہے۔ ( کلیم الدین احمد)انشائیہ کسی خاص موضوع کے بارے میں ادیب کی سوچ کا عکس ہوتا ہے اس صنف کی کوئی خاص صورت معین نہیں ہے۔ ( احمد ندیم قاسمی ) انشائیہ تخیل کی عمل فر سائیوں کا نتیجہ ہے اگر کوئی ذہن تخیل کا سر مایہ دار نہیں ہے تو اس سے کبھی کوئی’ انشائیہ‘ جسے واقعی انشائیہ کہا جا سکے وجود میں نہیں آ سکتا۔ (علامہ اختر تلہری)انشائیہ یا ایسّے صرف تابناک اور خود آگاہ قسم کی شخصیات ہی کے قلم سے نکل سکتا ہے۔ (ڈاکٹر محمد حسن)معلومات کا فراہم کرنا اس کا مقصد نہیں، اس کی نوعیت ذاتی اور انفرادی ہوتی ہے ایک داخلی آہنگ بھی اس میں پایا جاتا ہے جس کی حدیں غنائیت سے جا ملتی ہیں۔ اس کا تعلق عام انسانی زندگی سے ہوتا ہے۔ ( ڈاکٹر عبادت بریلوی ) مضمون اور شاعری کے درمیان کی کوئی گمشدہ کڑی ( ناصر بلوچ ) جس تحریر کو افسانہ، طنزیہ مزاحیہ مضمون، نثری نظم یا اور کچھ اور بھی نہ کہا جا سکے اسے انشائیہ کا نام دیا جاتا ہے۔ ( انوار قمر)جب انشائیے نہ لکھے گئے، لوگوں نے مانا کہ یہ انشائیے ہیں۔ اب کہا جاتا ہے کہ یہ انشائیہ ہے مگر لوگ نہیں مانتے۔ ( سلیم شہزاد، پاکستان )میں انشائیے کو اردو ادب کی سلیپنگ پِلز قرار دیتا ہوں۔ ( طاہر تونسوی)شعری ادب کی تیسری جنس کا نام انشائیہ ہے۔ ( جمیل اختر خاں ) کثرتِ تعبیر نے انشائیہ کو خوابِ پریشاں بنا دیا۔ (احمد جمال پاشا)
ان سوالوں اور مختلف آوازوں کے درمیان انشائیہ کا قاری حیران کھڑا ہے۔ انشائیہ سے متعلق اڑائی گئی اس گرد میں یقیناً اس صنف کے فروغ کی راہ کھوٹی ہوئی ہے۔ لوگ شخصیات میں الجھ کر رہ گئے۔ بیشتر مباحث میں انشائیہ کی امتیازی خصوصیات اور ادبی حیثیت کے متعلق اتفاقِ رائے نظر آتا ہے تاہم شخصیات کا ذکر چھڑتے ہی انشائیہ ایک متنازعہ صنف بن جاتا ہے۔
انشا، انشا پردازی اور انشائیہ نگاری
انشا، انشا پردازی اور انشائیہ نگاری کے متعلق بھی عوام میں ہمارے ہاں الجھنیں موجود ہیں۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ بھارت میں انشائیہ کو ایک صنف سمجھنے کے بجائے اظہار و بیان کا ایک پیرایہ تصور کیا گیا۔ آئیے ان الفاظ کے لیے لغات سے رجوع کریں۔
قرآن مجید میں یہ لفظ ’پیدا کرنے ‘کے معنوں میں کئی جگہ وارد ہوا ہے۔
سورۃ الملک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: قل ہو الذی انشاکم
کہو کہ وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ (ا)
انشاء کا مادّہ ’ نشء‘ ہے، جس کے لغوی معنی ’پیدا کرنا ‘ہے۔
اس سلسلہ میں ڈاکٹر وحید قریشی لکھتے ہیں:
انشاء کا لفظ ابتدا میں ایک دفتری اصطلاح تھا۔ اس کا اطلاق سر کاری فرامین اور مکتوبات کے رف ڈرافٹ پر ہوتا تھا اور صاف شدہ مسودے کو تحریر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ جس محکمہ کے سپرد مسودہ تیار کرنے کا کام ہوتا تھا اس نے ’ دیوان الانشاء ‘ کا نام پایا۔ (۲)
انشاء سے متعلق چند الفاظ کے معنی لغت سے نقل کئے جا رہے ہیں۔
انشا۔۔ عبارت لکھنا۔ طرزِ تحریر، دل سے بات پیدا کرنا
نامۂ جاناں ہے کیا لکھا مری تقدیر کا
خط کی انشا اور ہے لکھنے کا املا اور ہے
(رشکؔ)
یہاں انشا مونث نظم ہوا ہے، لیکن لکھنو میں مذکر بولا جاتا ہے۔
انشا پرداز۔۔ منشی۔ نثار (مہذب اللغات)، مضمون نگار۔ ادیب ( فیروز اللغات)
غرقِ گردابِ یمِ فکر ہو انشا پرداز
اے نصیر ؔاپنے دکھاؤں جو میں تقریر کے پیچ
(نصیرؔ)
انشا پردازی۔۔ لکھنے کی مہارت۔ انشا کرنا۔ تحریر کرنا۔ لکھنا۔ اردو صَرف۔ تعلیم یافتہ طبقے کی زبان۔
خون روتا ہوں میں ہر اک حرف خط پر ہمدمو
اور اب رنگین جیسا تم کہو انشا کروں
(میرؔ)۔ ۳
ڈاکٹر سلیم اختر کی تحقیق کے مطابق:
مولانا محمد حسین آزاد کے مکاتیب کے مجموعے ’ مکتوباتِ آزاد ‘میں ناٹک کی اہمیت کے متعلق لکھا گیا ہے: اس کے لکھنے والے انشاء پرداز شمار ہوتے ہیں کیونکہ فنون انشائیہ کا ادا کرنا بھی ایک جزو اعظم انشاء کا ہے۔
عبد الماجد دریابادی کے نزدیک:
’انشائیہ کی امتیازی خصوصیت حسنِ انشاء ہے۔ یہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے۔ انشائیہ وہ ہے جس میں مغز و مضمون کی اصل توجہ حسنِ عبارت پر ہو۔ ‘۴
گویا معیاری اور ادبی زبان کا تصور انشا پردازی کے ساتھ ابتدا سے وابستہ رہا ہے اسی اعتبار سے ہمارے وہ مایۂ ناز ادبا جنھوں نے ابتدا میں نثر نگاری کے ذریعے اسلوب کے عمدہ نمونے فراہم کئے اور ان کی ادبی کاوشیں ہمارے ادب کا زرین باب ہیں، انشا پرداز کہلائے۔ آج بھی بہترین نثر نگاروں کو انشاپرداز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
انشائیہ بحیثیت ایک صنفِ ادب
انشاپرداز اور انشائیہ نگار میں فرق یہ ہے (جو عموماً تعلیم یافتہ طبقہ میں بھی روا نہیں رکھا جاتا)کہ ہر ادیب اور نثر نگار، انشا پرداز ہو سکتا ہے لیکن انشائیہ نگار وہی کہلائے گا جس نے انشائیے لکھے ہوں، اس لیے کہ انشائیہ نثر کی ایک صنف ہے، اگر چہ ایسے ادیب اور ناقدین بھی موجود ہیں جو اسے صنفِ نہیں مانتے مثلاً شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں میں انشائیہ کو ایک صنف نہیں مانتا۔ بعض لوگ انشائیہ کو طنزیہ و مزاحیہ انداز کی طرح ایک طرزِ تحریر خیال کر تے ہیں۔ اگر انشائیہ کو ایک اسلوبِ تحریر مان لیا جائے تب بھی وہ اس پر راضی نہ ہوں گے کہ ہر نثر نگار کو انشائیہ نگار گر دانا جائے کیونکہ انشائیہ کے ساتھ بہر حال ایک مخصوص قسم کی تحریر کا تصور جڑا ہوا ہے۔ یہ تصور کیا ہے ؟
اس کی وضاحت اس لئے مشکل ہے کہ انشائیہ کو صنف نہ ماننے والے بھی بیشتر انھی خصوصیات کے سہارے انشائیہ کو پہچانتے ہیں جن سے انشائیہ کو بحیثیت ایک صنف پہچانا جاتا ہے۔ وہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انشائیہ خالص طنز یہ و مزاحیہ تحریر سے مختلف چیز ہے۔ ان کے نزدیک خیال آرائی، فلسفیانہ سوچ، اظہارِ ذات، تمثیلی یا شاعرانہ اندازِ بیان اور کسی موضوع کو عام ڈگر سے ہٹ کر دیکھنے اور پیش کرنے کا انوکھا انداز انشائیہ کی پہچان ہے۔ انھی بنیادوں پر سب رس، خطوطِ غالبؔ، مولانا ابو الکلام آزاد کے خطوط، ادبِ لطیف اور گلابی اردو کو انشائیہ کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے، ان فن پاروں کو جنم دینے والوں کے مقاصد میں انشائیہ شامل نہیں تھا۔ یہ ادب، داستان اور خطوط یا مضمون کی شکل میں تحریر کیا گیا البتہ یہ سچ ہے کہ مذکورہ فن پاروں میں انشائی عناصر موجود ہیں لیکن انشائیہ جو بہر حال مغرب سے در آمد شدہ ایک صنف ہے، ان تمام خوبیوں کے علاوہ اظہارو بیان کی کچھ اور وسعتیں طلب کرتا ہے۔ کوئی اسلوبِ بیان انشائی عناصر کا حامل ہو تب بھی وہ ایک’ جزو‘ ہے جب کہ انشائیہ ایک صنف کی حیثیت سے ایک’ کل‘ ہے جس میں مضمون نگار کسی موضوع کے حوالے سے اپنے خیالات اور احساسات کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ ہم اس موضوع کو نئی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ یہ طریقہ کار بقول رابرٹ لِنڈ: ’ انشائیہ انسانی فطرت کے کسی نیم تاریک گوشہ کو منوّر کرنے کی ایک سعی ہے۔ ‘انشائیہ اپنے موضوع کے ان پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے جو ہماری آنکھوں سے اوجھل تھے جیسے ماچس کی تیلی اپنے اطراف کو منور کر دیتی ہے۔
انشائیہ کی تعریف وزیر آغا اس طرح بیان کرتے ہیں:
’انشائیہ اس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کر تے ہوئے اشیاء و مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور پر گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ‘۵
ایف۔ ایچ۔ پریچرڈ کے قول کے مطابق:
دوسری اصناف کے مقابلے میں ایسّے متوازن فکر کا عمدہ حاصل ہے۔ اس میں ہلکی سی بے اطمینانی اور نا موجود کو موجود سے دریافت کرنے کی آرزو ملتی ہے۔ ۶
ڈبلیو ای ولیم کے خیال میں:
’ انشائیہ بالعموم نثر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا ہے جو بیانیہ کے لیے وقف نہیں تاہم انشائیہ نگار نکتہ آفرینی کے لیے کسی چھوٹے سے واقعے کو بھی استعمال کر سکتا ہے۔ انشائیہ نگار کا بڑا مقصد کہانی کی پیشکش نہیں بلکہ انشائیہ نگار تو معاشرے کا فیلسوف، نقاد اور حاشیہ نگار ہے۔ ۷
اگر ہم انشائیہ کو اسلوبِ تحریر کی ایک خوبی نہ مان کر ایک صنف تسلیم کریں تو اس پر پر بھی غور کر لیں کہ صنف کیا ہے۔ ادبی اصناف کی تعریف بیان کرتے ہوئے سلیم شہزاد لکھتے ہیں:
’نثر کی وہ اصناف جو مواد اور ہئیت کے اعتبار سے نثری ادب میں ایک دوسرے سے متغائر ہوں مثلاً تخلیقی اظہار کی تحقیق و تفتیش، نقد و تبصرہ اور تعین اقدار کے مقصد سے لکھی جانے والی نثری صنف مقالہ( آرٹیکل یا مضمون وغیرہ )کسی فرضی یا حقیقی واقعے کے ادبی اظہار سے کہانی (افسانہ، ڈراما، یا ناول وغیرہ )اور کسی موضوع پر طبع آزمائی سے انشائیہ کی صنف اجاگر ہوتی ہے ‘۔ ۸
ایک صنف ادب اور طرزِ تحریر کے فرق کے بعد دوسرا مغالطہ جو انشائیہ کے ساتھ پیش آتا ہے، اس میں طنز و مزاح شمولیت ہے۔ طنز و مزاح یا شگفتگی انشائیہ کو ہلکی پھلکی تحریر کی شکل دینے میں معاون تو ہو سکتی ہے لیکن یہ انشائیہ کے مقاصد میں شامل نہیں ہے بلکہ جارحانہ اور شدید قسم کا طنز اور بھر پور مزاح انشائیہ کے بنیادی مزاج کے خلاف ہے، بعض ناقدین اس کے بجائے تازگی کو انشائیہ کا امتیازی وصف قرار دیتے ہیں۔ طنز اور مزاح کسی ناگوار، مضحکہ خیز اور ناقابلِ قبول صورتِ حال پر طبیعت کی بھڑاس نکالنے اور اپنے ردّ عمل کو ظاہر کرنے سے عبارت ہے جب کہ انشائیہ نگار بے تکلف اور دوستانہ فضا میں اپنی ذہنی اور روحانی کیفیات میں پڑھنے والے کو شریک کر کے مضمون کے ختم پر ادھورے پن کا احساس دلاتا ہے اور سوچ کے ایک ایسے راستے پر ڈال دیتا ہے کہ وہ فراق کے اس شعر کی منہ بولتی تصویر بن جاتا ہے۔
ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے پھر بھی رہ گزر تیری
ان کیفیات کی حامل تحریریں ہمیں مغربی انشائیہ نگاروں کے ہاں نظر آتی ہیں۔
عہد سر سید میں اسی انداز کے مضامین لکھے گئے۔ انشائیہ کے جدِ امجد مانتین نے جس پیرایۂ اظہار کو اپنی شخصیت کی بے نقابی کا وسیلہ بنایا آگے چل کر وہ ایک ادبی صنف کی حیثیت اختیار کر گیا۔ Light Essay یا Personal Essay کے نام سے نشو و نما پانے والے ادبی اظہار کے اس پیمانہ سے ہمارے انشا پردازوں نے اردو ادب کو سیراب کیا۔
سر سید احمد خان نے انگریز انشائیہ نگار ایڈیسن اور سٹیل کے طرز کو اپنایا۔ ڈاکٹر سلیم اختر سر سید کے متعلق لکھتے ہیں:
انھوں نے ان دونوں ادیبوں کی صرف ان تحریروں سے ہی خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا جو اصلاحِ معاشرت کے لحاظ سے مفید ثابت ہو سکتی تھیں اور خود بھی انھوں نے اس انداز میں انشائیے لکھے، طبع زاد بھی اور ایسیز سے ماخوذ بھی۔ مثلاً ’امید کی خوشی‘ کے بارے میں سر سید نے خود بھی لکھا ہے کہ یہ ’ مسٹر ایڈیسن ‘کا ایک مضمون ہے جسے ہم نے اپنی زبان اور اپنی طرز پر چھاپا تھا۔ ۱۰
اسی طرح ماسٹر رامچندر کے متعلق سیدہ جعفر رقمطراز ہیں:
’انہوں نے کئی انگریزی مضامین کا ترجمہ بھی کیا اور متعدد موضوعات پر انگریزی کی طرز ہی میں مضامین لکھنے کی کوشش کی تھی ‘۔
اسی طرح محمد حسین آزاد کا یہ قول بہت مشہور ہے:
میں نے انگریزی انشا ء پردازوں کے خیالات سے اکثر چراغ شوق روشن کیا ہے۔ ( محمد حسین آزاد۔ نیرنگِ خیال )
عہدِ سر سید کے بیشتر نثر نگاروں نے انشائیہ کی ان خوبیوں کو برتنے کی کوشش کی۔
آزادی ہند کے آس پاس ہمارے ادب میں طنز و مزاح کی فراوانی نے اس رنگ کو دبا دیا اس عہد میں سماج جن مسائل سے دوچار تھا، طنز اور ظرافت کا فروغ ان حالات کا فطری تقاضا تھا۔ چنانچہ ہمیں کرشن چندر، فکر تونسوی، کنہیا لال کپور، ابراہیم جلیس، عاتق شاہ جیسے ادیب نظر آتے ہیں جن کی تحریریں طنز کی زہر ناکی سے لبریز ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر سلیم احمد لکھتے ہیں:
’ترقی پسند ادیبوں نے جہاں طنز کو بے حد ترقی دی اور کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، کنہیا لال کپور، فکر تونسوی اور ان کے بعد ابراہیم جلیس وغیرہ کی صورت میں صاحبِ طرز طنز نگار پیدا کیے، وہاں ایک بھی کام کا انشائیہ نگار نہیں ملتا۔ یہی نہیں بلکہ غیر ترقی پسند ادیبوں جیسے پطرس، رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی، چراغ حسن حسرت، عبدالعزیز فلک پیما اور حاجی لق لق کے ہاں مزاح اور طنز تو ہے مگر وہ تحریر نہیں جسے خالص انشائیہ قرار دیا جا سکے۔ ‘ ۱۱
انشائیہ اور طنز و مزاح
ہمارے ہاں طنز یہ و مزاحیہ مضامین ہی کو انشائیہ سمجھنے کا رجحان عام ہے بلکہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ طنز کا وار اوچھا پڑ جائے اور مزاح فلک شگاف قہقہہ وصول کرنے میں ناکام رہے تو اس تحریر کو انشائیہ کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔
راقم الحروف نے اپنی کتاب’ ڈبل رول ‘ ( مطبوعہ: ۲۰۱۵)میں اپنے طنزیہ مزاحیہ مضامین اور انشائیوں کو یکجا کر کے اس فرق کو واضح کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ اسی کتاب کے پیش لفظ کا ایک اقتباس درج ذیل ہے۔
طنز و مزاح
انشائیہ اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین، ان دونوں کی پہچان میں ہم اکثر اسی طرح دھوکہ کھاتے ہیں جیسے جڑواں بچوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ جن ادبی روایات نے مذکورہ مضامین کو جنم دیا ہے، ان کی نسلی خصوصیات کا ان تحریروں میں موجود ہونا فطری امر ہے۔ ان دونوں اصناف (اور بعض ناقدین کے نزدیک اسالیب بیان ) میں یہی ایک قدرِ مشترک ہے، اور انشائیہ اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین میں مغالطہ پیدا ہونے کا سبب بھی۔ ان دونوں کی صورتیں بھلے ہی جڑواں بھائیوں کی طرح ملتی جلتی کیوں نہ ہوں، میں سمجھتا ہوں، ان کے مزاج میں بڑا فرق ہے۔
میں ہوں ہنسوڑ اور تو ہے مقطّع تیرا میرا میل نہیں
ان دونوں کو جڑواں بھائی تصور کر لیں تو کہا جا سکتا ہے کہ، ایک ہنس مکھ، چلبلا، زندہ دل، بے تکلف، بات بات پر لوگوں کو ہنسانے والا، مبالغہ آرائی کا شوقین، پھبتی کسنے میں ماہر، بڑا بے مروت اور بلا کا ذہین ہے۔ گاہے بگاہے خود اپنے آپ پر ہنسنے والا، دوسروں پر طنز کے تیر چلانے والا۔ اس کا انداز استہزائیہ، اس کی ہنسی تمسخرانہ، مشاہدہ زبردست، ہر کمزوری کو تاڑ کر تابڑ توڑ حملے کرنے والا، ڈھونگیوں اور بہروپیوں کی پول کھول کر رکھ دینے والا۔۔ ۔۔، ایک طنزیہ و مزاحیہ مضمون ایسا ہی ہوتا ہے۔
انشائیہ
اس کے برعکس انشائیہ اگر چہ ہے اسی شکل و صورت کا، مگر ذرا مختلف قسم کا آدمی، اپنے آپ میں گم رہنے والا، شخصی اظہار کا خوگر، غور و فکر کا عادی، متانت، ذہانت اور حکمت و دانشوری کا پُتلا، خوش گفتار، نرم دمِ گفتگو، بات کر تے ہوئے سوچنے لگتا ہے اور سوچتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں بولنے لگتا ہے۔ اس کے خیالات فلسفیانہ اور باتیں شاعرانہ۔ ہر چیز کو دیکھنے کا انداز دنیا جہاں سے نرالا۔ اپنے ارد گرد بکھری ہو ئی چیزوں کو اس طرح دیکھتا ہے، جیسے وہ واقعتاً رکھی ہوئی ہیں اور انھیں اس انداز سے دیکھنے پر بھی قادر ہے جیسے وہ رکھی ہوئی نہیں ہیں۔ اس کی خیال آرائی مظاہرِ عالم کو بہ اندازِ دیگر بھی سجاتی ہے اور وہ منظر لوگوں کو دکھا کر خوش ہوتا ہے۔ سنا ہے حضرت لقمان سے جڑی بوٹیاں باتیں کیا کر تی تھیں، قدرتی مناظر انشائیہ نگار سے ہم کلام ہو تے ہیں۔ اسے بتاتے ہیں کہ کائنات میں ان کی رشتہ داریاں کہاں کہاں ہیں۔ وہ اپنے ذہنی فکری اور جذباتی تجربات اور محسوسات میں دوستوں کو شامل کرتا ہے۔ اسے اپنے دوستوں کے درمیان گپیں ہانکنا پسند ہے۔ وہ دورانِ سفر دلچسپ باتیں کرتا جاتا ہے تب اس کے ہم قدم خود کو ایک نئی روشنی میں محوِ سفر پاتے ہیں۔ وہ منچلا فکر و خیال کے ان ایوانوں میں بلا جھجھک داخل ہو جاتا ہے جہاں لوگ باگ یہ سوچ کر نہیں جاتے کہ یہ ہمارے شایانِ شان نہیں اور شرفا ان وادیوں میں اس خیال سے قدم نہیں دھرتے کہ یہ شاہراہِ عام نہیں ہے۔
( ڈبل رول۔ محمد اسد اللّٰہ۔ صفحہ نمبر ۱۹ مطبوعہ ۲۰۱۵)
مشہور مزاح نگار احمد جمال پاشا نے ایک موضوع ’بور‘ پر تین مختلف مضامین تحریر کئے تھے ۱۔ مضمون ۲۔ طنزیہ مزاحیہ مضمون اور انشائیہ۔ اس کا مقصد مضمون کی ان تینوں اقسام کے فرق کو واضح کرنا تھا۔
(بحوالہ: ایک موضوع، تین زاویے، ماہنامہ اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر ( اپریل مئی ۱۹۸۵)
عام مضامین میں معلومات کو ترتیب اور منطقی ربط کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس انشائیہ اظہار کا ایک آزادانہ بہاؤ ہے جس میں ابتدا اور اختتام کی کوئی پابندی نہیں۔ انشائیہ کے اختتام پر ہم ایک ادھورا پن محسوس کرتے ہیں جو ہماری سوچ کو اس خلا کے پر کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ (یہ ادھورا پن مضمون میں پایا جائے تو عیب ہے مگر یہی عدم تکمیل انشائیہ کا فن بھی ہے اور حسن بھی )۔
انشائیہ میں بے تکلف گفتگو اور خود انکشافی کو اہمیت حاصل ہے۔ انشائیہ میں سرگوشیوں کا انداز پایا جاتا ہے۔ انشائیہ نگار ہلکے پھلکے شگفتہ انداز میں روزمرہ کے تجربات، مشاہدات، وارداتِ قلبی اور اپنے خیالات کے ذریعے آپ کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ اس کے خیالات سے بھلے ہی اتفاق نہ کریں، لطف اندوز ضرور ہوتے ہیں۔
اردو میں مغربی انشائیوں کے خطوط پر انشائیہ کو استوار کرنے کی کوششیں اس وقت پر منظرِ عام پر آئیں جب ڈاکٹر وزیر آغا نے ماہنامہ اوراق کے ذریعے انشائیوں کے فروغ کا خصوصی اہتمام کیا نیز مضامین اور انشائیہ لکھ کر اسے طنزیہ اور مزاحیہ مضمون سے الگ ایک صنف کے طور پر متعارف کروایا۔ ۱۹۵۰ سے ۱۹۶۰ کے درمیان وزیر آغا نے مغربی انشائیہ نگاروں کی تحریروں کو پیش نظر رکھ کر نہ صرف انشائیے تحریر کئے بلکہ اسے ایک ادبی تحریک کی شکل دی۔ اس قافلے میں نئے اور پرانے لکھنے والے شریک ہوئے آج اردو میں ان خطوط پر طبع آزمائی کرنے والے تقریباً سو انشائیہ نگار موجود ہیں۔ ان کے نام اس مضمون کے اختتام پر درج کئے جا رہے ہیں۔
مراٹھی زبان اردو کے مقابلے میں ایک کم عمر زبان ہے۔ اس زبان میں بھی انشائیے کے فروغ کا زمانہ وہی ہے جو اردو میں ہے (۱۹۵۰ سے ۱۹۶۰ )یعنی مراٹھی میں بھی اس صنف کی عمر تقریباً ساٹھ برس سے زیادہ نہیں۔ مراٹھی میں اسے للت لیکھ، للت نبندھ، گُج گوشٹھی، سویر لیکھن وغیرہ ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسے ظریفانہ تحریروں سے قطعی مختلف صنف تصور کیا جاتا ہے۔ انشائیہ کا ایسا واضح تصور تو ہماری زبان میں، خاص طور پر ہمارے ملک میں بھی نہیں ہے کیونکہ اسے طنز و مزاح سے خلط ملط کرنے کی روش اب بھی عام ہے۔ اگر ہم اسی طرزِ تحریر کو انشائیہ قرار دیتے ہیں، ظریفانہ تحریروں کو انشائیہ کہنے پر مصر ہیں اور یہ سلسلہ قائم رہا تو اردو زبان اس صنف ادب سے یقیناً محروم رہ جائے گی جسے مغرب میں مانتین، بیکن، ہزلٹ، لیمب، ایڈیسن، سٹیل، ابراہم کاولی، چیسٹرٹن، الفا آف دی پلو اور سوِفٹ جیسے مایہ ناز ادیبوں نے پروان چڑھایا۔
حواشی
۱۔ تذکیر القرآن، ترجمہ مولانا وحیدا لدین خان،ص ۱۵۱۵
۲۔ ڈاکٹر وحید قریشی، اردو کا بہترین انشائی ادب، لاہور، ۱۹۶۴ء، ص، ۱۳۔ ۱۴
۳۔ مہذب اللغات( جلد اول )، مہذب لکھنوی، لکھنو، ۱۹۷۸ء،ص ۳۸۷
۴۔ عبدالماجد دریابادی، بحوالہ، انشائیہ ایک ہمہ جہت صنفِ نثر، سلیم آغا قزلباش، لاہور ۱۹۸۵ ء، ص۱۳۹
۵۔ ڈاکٹر وزیر آغا، دوسرا کنارہ، سرگودھا، ۱۹۸۲ءص ۸
- 6. F. H. Pritchered, Essays of today, P.No.11, London, 1930
۷۔ بحوالہ انشائیہ اردو ادب میں، ڈاکٹر انور سدید، ص۲۷، لاہور، ۱۹۸۵ء
۸۔ سلیم شہزاد، فرہنگِ ادبیات، مالیگاؤں، ۱۹۹۸ء ص۹۹
۱۰۔ بحوالہ: ڈاکٹر سلیم اختر، انشائیہ کی بنیاد، لاہور ۱۹۸۶، ص۶۹
۱۱۔ بحوالہ: ڈاکٹر سلیم اختر، انشائیہ کی بنیاد، لاہور ۱۹۸۶، ص۳۲۶
٭٭٭
انشائیہ نگار
۱۔ ڈاکٹر وزیر آغا۔ ۲۔ مشتاق قمر۔ ۳۔ ڈاکٹر انور سدید۔
۴۔ غلام جیلانی اصغر۔ ۵۔ جمیل آذر۔ ۶۔ سلیم آغا قزلباش
۷۔ کامل القادری ۸۔ محمود شام۔ ۹۔ داؤد رہبر
۱۰۔ اکبر حمیدی۱۱۔ محمد منشا یاد۔ ۱۲۔ حیدر قریشی
۱۳۔ نظیر صدیقی۱۴۔ مشکور حسین یاد۱۵۔ احمد جمال پاشا
۱۶۔ رام لعل نابھوی ۱۷۔ محمد اسد اللّٰہ۱۸۔ شہزاد احمد
۱۹۔ غلام الثقلین نقوی۲۰۔ ارشد میر۲۱۔ بشیر سیفی
۲۲۔ پرویز عالم۲۳۔ طارق جامی۲۴۔ جان کاشمیری
۲۵۔ محمد اقبال انجم ۲۶۔ انجم نیازی ۲۷۔ محمد ہمایوں۔
۲۸ سلمان بٹ۔ ۲۹ ڈاکٹر رشید احمدگریجہ۔ ۳۰ اظہر ادیب
۳۱۔ طارق بشیر۳۲۔ انجم انصار۳۳۔ رعنا تقی
۳۴۔ سعشہ خان۔ ۳۵فرح سعید رضوی۳۶۔ پر وین طارق
۳۷۔ عذرا اصغر۔ ۳۸ساجدہ نواز۳۹۔ سریتا خان۔
۴۰۔ امجد طفیل۴۱۔ تقی حسین خسرو۴۲۔ حامد بر گی
۴۳۔ بشیر سیفی ۴۴۔ محمد یونس بٹ۴۵۔ راجہ ریاض الرحمٰن
۴۶۔ خالدصدیقی ۴۷۔ شمیم ترمذی ۴۸۔ راغب شکیب
۴۹۔ راحت بھٹی۵۰۔ رب نواز مائل ۵۱۔ محمود اختر
۵۲۔ عاصی کر نالی۵۳۔ کے ایم اشرف۔ ۵۴۔ افتخارقیصر
۵۵۔ حیدر قریشی۔ ۵۶۔ راغب شکیب۵۷شمیم ترمذی
۵۸۔ محمد اسلام تبسم۵۹۔ شعیب خالق ۶۰۔ خیر الدین انصاری۔
۶۱صابر لودھی۶۲۔ حنیف باوا۶۳۔ قمر اقبال
۶۴۔ منور عثمانی ۶۵۔ عبدالقیوم۶۶۔ ناصر عباس نیّر۔
۶۷۔ شاہد شیدائی۶۸۔ شہزاد قیصر۔ ۶۹۔ علی اختر۔
۷۰نعیم احمد۔ ۷۱۔ مشتاق احمد۷۲۔ محبوب عالم محبوب
۷۳۔ مختار پارس ۷۴۔ محمد اسلم۔ ۷۵۔ آفاق احمد۔
۷۶۔ شفیع ہمدم۔ ۷۷۔ مشتاق احمد ۷۸۔ نذیر احمد راہی
۷۹۔ خالد اقبال۔ ۸۰۔ علی اختر۸۱۔ محمد عامر رعنا
۸۲۔ محمد شفیع بلوچ۔ ۸۳۔ ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی۔ ۸۴مشرف احمد۔
۸۵۔ جاوید انور۔ ۸۶۔ جاوید حیدر جوئیہ ۸۷۔ عامر عبداللّٰہ۔
۸۸۔ جاوید اصغر۔ ۸۹۔ سید تحسین گیلانی ۹۰۔ اے غفار پاشا۔
۹۱۔ انتظار باقی ۔ ۹۲۔ صفدر رضا صفی۹۳۔ محمدبصیر رضا۔
۹۴۔ سعید خان۔ ۹۵۔ بہزاد سحر۹۶۔ سلیم ملک۔
۹۷۔ عابد صدیقی۔ ۹۸۔ قاضی اعجاز محور۔ ۹۹۔ خالد سہیل ملک۔
۱۰۰۔ ملک صاحب زادہ حمید اللّٰہ ۱۰۱۔ ڈاکٹر شاہد رحمن۔ ۱۰۲۔ وفا سعادت۔
۱۰۳۔ ظہیر عباس ۱۰۴۔ فاطمہ بتول ۔ ۱۰۵۔ زوبی جعفری
٭٭٭
انشائی مجموعے
خیال پارے: وزیر آغا ۱۹۶۱
چوری سے یاری تک :وزیر آغا ۱۹۶۶
ہم ہیں مشتاق: مشتاق قمر ۱۹۷۰
جوہرِ اندیشہ : مشکور حسین یاد ۱۹۷۵
سرگوشیاں: سلیم آغا قزلباش ۱۹۸۰
شاخِ زیتون :جمیل آذر ۱۹۸۱
دوسرا کنارہ : وزیر آغا ۱۹۸۲
آم کے آم : رام لعل نابھوی ۱۹۸۳
ذکر اس پری وش کا: انور سدید ۱۹۸۲
جزیرہ کا سفر : اکبر حمیدی ۱۹۸۵
چاہِ خنداں : محمد یونس بٹ ۱۹۸۵
سوچ زاویے :رشید احمد گریجہ ۱۹۸۶
آمنا سامنا: سلیم آغا قزلباش ۱۹۸۷
خوشبو کے قافلے : محمد اقبال انجم ۱۹۸۸
آئینہ بنے ہیں پیراہن : شہزاد قیصر ۱۹۸۸
سمندر اگر میرے اندر گرے :وزیر آغا ۱۹۸۹
موڑ : ارشد میر ۱۹۸۹
تتلی کے تعاقب میں : اکبر حمیدی ۱۹۹۰
بوڑھے کے رول میں : محمد اسد اللّٰہ۱۹۹۱
میں سورج اور سمندر : انجم نیازی ۱۹۹۱
باندازِ دیگر: حامد برگی ۱۹۹۳
آسمان میں پتنگیں : ڈاکٹر انور سدید ۱۹۹۴
رت کے مہمان : جمیل آذر ۱۹۹۴
شگوفے: ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی ۱۹۹۴
پگڈنڈی سے روڈ رولر تک : وزیر آغا ۱۹۹۵
نرم دمِ گفتگو : غلام جیلانی اصغر ۱۹۹۶
جھاڑیاں اور جگنو: اکبر حمیدی ۱۹۹۸
چراغ آفریدم :ناصر عباس نیّر ۲۰۰۰
پہاڑ مجھے بلاتا ہے : اکبر حمیدی ۲۰۰۳
رعنائی خیال : شفیع ہمدم۲۰۰۵
خیالی پلاؤ: عبد القیوم ۲۰۰۶
دائروں سے باہر : حنیف باوا ۲۰۰۷
فرنٹ سیٹ : منّور عثمانی ۲۰۱۰
ڈبل رول :محمد اسد اللّٰہ۲۰۱۵
آڑی ترچھی لکیریں : خیر الدین انصاری
گوشہ عافیت : اے غفار پاشا
تجدید کا پُل : اے غفار پاشا
بولتے سنّاٹے : پروین طارق
دھند :شفیع ہمدم
٭٭٭
انشائیہ سے متعلق مطبوعات
اردو ایسیز: سید ظہیر الدین مدنی ۱۹۵۸
اردو انشائیے: سید صفی مرتضیٰ ۱۹۶۱
اردو کا بہترین انشائی ادب : ڈاکٹر وحید قریشی ۱۹۶۴
انشائیہ : ڈاکٹر آدم شیخ ۱۹۶۵
اردو کے بہترین انشائیے : جمیل آذر ۱۹۷۶
صنف انشائیہ : سید محمد حسنین ۱۹۷۸
انشائیہ : سلمان بٹ ۱۹۸۱
ممکناتِ انشائیہ : مشکور حسین یاد۱۹۸۳
منتخب انشائیے : سلیم آغا قزلباش ۱۹۸۴
انشائیہ اردو ادب میں : ڈاکٹر انور سدید۱۹۸۵
انشائیہ کی بنیاد : ڈاکٹر سلیم اختر ۱۹۸۶
انتخاب : ڈاکٹر شفیق احمد ۱۹۸۸
اردو انشائیہ : ڈاکٹر آدم شیخ۱۹۸۸
اردو میں انشائیہ نگاری : ڈاکٹر بشیر سیفی۱۹۸۹
انشائیہ کے خد و خال : ڈاکٹر وزیر آغا۱۹۹۰
جدید اردو انشائیہ : اکبر حمیدی۱۹۹۱
نئے انشائیے : سلیم آغا قزلباش۱۹۹۲
اردو انشائیہ کے ابتدائی نقوش : لطیف ساحل ۱۹۹۴
سفر راستہ بناتا ہے ( سفر سے متعلق منتخب انشائیے ): منور عثمانی ۲۰۰۰
رشید احمد صدیقی کے انشائی تیور : منور عثمانی ۲۰۰۲
انشائیہ اور انفرادی سوچ ( تنقیدی مضامین ) : جمیل آذر۲۰۰۴
انشائیہ کی روایت: مشرق و مغرب کے تناظر میں : محمد اسد اللّٰہ۲۰۱۵
یہ ہے انشائیہ: محمد اسد اللّٰہ۲۰۱۷
٭٭٭
تنقید
سوال یہ ہے
ایک مذاکرہ
شرکاء: وزیر آغا، انور سدید، غلام جیلانی اصغر، سلیم آغا قزلباش، سجاد نقوی، صابر لودھی
وزیر آغا: جیلانی صاحب! اردو انشائیہ کی عمر پینتیس برس سے زیادہ نہیں ہے جب کہ انگریزی انشائیہ کی تخلیق کا زمانہ کئی سو برس پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کم عمری کے باوجود اردو انشائیہ نے جس تیزی سے ارتقا کی منازل طے کی ہیں اس نے بعض لوگوں کو یہ کہنے پر مجبور کیا ہے کہ اردو انشائیہ نے انگریزی انشائیہ کے معیار کو چھو لیا ہے۔ بعض نے تو یہ تک بھی کہہ دیا ہے کہ اردو انشائیہ انگریزی انشائیہ سے آگے نکل گیا ہے۔ دوسری طرف بعض ستم ظریفوں کا یہ کہنا ہے کہ اردو انشائیہ نے انگریزی انشائیہ کی تقلید تک ہی خود کو محدود رکھا ہے اور وہ تا حال اپنی انفرادیت کا اظہار نہیں کر پایا۔ آپ انگریزی ادبیات کے استاد ہیں اور آپ نے انگریزی انشائیہ کا بالاستعیاب مطالعہ کیا ہے۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی اردو انشائیہ کو انگریزی انشائیے کے مقابلے میں پیش کرنے کی جسارت کی جا سکتی ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے نزدیک اردو انشائیہ اپنے مزاج، اسلوب اور مواد کے اعتبار سے انگریزی انشائیہ سے مختلف ہے ؟ اگر مختلف ہے تو کس اعتبار سے ؟
غلام جیلانی اصغر: یہ سوال اس لیے دلچسپ ہے کہ اس میں کئی سوال شامل ہیں، اور ہر سوال اپنی جگہ جس تاریخی شعور اور بصیرت کا مطالبہ کرتا ہے حسن اتفاق سے میں ان سب سے محروم ہوں۔ در اصل بات یہ ہے کہ انگریزی انشائیہ جس کا مولد فرانس ہے ایک طبی ضرورت کے ماتحت اپنایا گیا۔ جب فرانسس بیکن اپنی گوناگوں مصروفیات اور بیماری کی وجہ سے طویل تحریروں کا متحمل نہ ہو سکا تو اس نے ادب کی اس صنف کو قبول کر لیا جس میں بات اختصار سے کی جاتی ہے۔ اور ہر بات ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ بات اتنی مختصر اور مجمل ہوتی ہے کہ سننے یا پڑھنے والا آنکھ بھی نہیں جھپک سکتا۔ بیکن کے ناقدین نے یہی بات اس کی تعریف میں کہی ہے کہ اگر قاری اسے پڑھتے وقت سرور و انبساط کے عالم میں ذرا سو جائے یا کسی جسمانی عارضے کے تحت آنکھ جھپک لے تو وہ بات کوسوں دور نکل جائے گی۔ اس کے برعکس ایڈلین یا اس کا ہم عصر سٹیلے بات کو اتنی بار دہراتا ہے کہ آدمی (میرا مطلب قاری سے ہے ) تھوڑا سا سو بھی لے تو کوئی حرج نہیں۔ انشائیہ وہیں رکا کھڑا رہے گا۔ ہیزلٹ کے انشائیوں میں انشاء کا عنصر غالب آگیا ہے۔ اس لیے اس کے انشائیے زیادہ خوشگوار ہیں۔ در اصل پرسنل ایسے personal essay یا شخصی انشائیہ کا سارا مواد اور حسن یا تو چارلس لیمب کے ہاں ملتا ہے یا انیسویں اور بیسویں صدی کے انشائیہ نگاروں میں۔ رابرٹ لِنڈ، بنسن، چسٹرٹن اس کی بہترین مثال ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اردو کے انشائیہ نگاروں نے ایسے لکھنے والوں کے معیار کو چھو لیا ہے ؟ یا ان سے آگے نکل گئے ہیں ؟ اگر معیار سے مطلب ایک مخصوص صنف کے اچھے لکھنے والوں کی عظیم تخلیقات کا مجموعی نقطۂ معیار ہے تو یہ کہنا پڑتا ہے (میں بلا خوف تردید کہوں گا) کہ اردو کے اچھے انشائیہ نگاروں کا معیار اس معیار سے کسی صورت بھی کم نہیں بلکہ کبھی کبھی تو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ہمارا انشائیہ نگار صدیوں کا فاصلہ سالوں میں طے کر گیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے سامنے انگریزی انشائی ادب کا بہترین ذخیرہ موجود تھا۔ اور وہ اس نقطہ سے اپنی کاوش کا آغاز کر رہا تھا جہاں رابرٹ لِنڈ یا اسی قبیل کے دوسرے بڑے انشائیہ نگاروں نے اپنا تخلیقی سفر ختم کیا تھا۔ یوں بھی ہم غزل کی پر وقار روایت کے امین ہونے کی حیثیت سے بات کی ایمائیت اور بات کہنے کی خوبصورتی یعنی اس کے اسلوب کی انفرادیت کے زیادہ قائل ہیں۔ انشائیہ بھی ایسے معاشروں میں زیادہ آگے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جہاں بات کھل کر کہنے کا رواج نہ ہو۔ اس کے اسباب کئی ہو سکتے ہیں۔ جن کا تجزیہ غیر ضروری ہے۔ انشائیہ کا مزاج در اصل شاعرانہ ہے، اور ہم بحیثیت قوم اپنی اجتماعی سائیکی کے لحاظ سے تصوف اور شاعری کے زیادہ قریب ہیں، اس لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے سیاست دان اور دانشور بات نامکمل چھوڑ دیتے ہیں تاکہ بات کا مغز نگاہوں سے پوشیدہ رہے اور اگر لوگ چاہیں تو فارغ اوقات میں اس کی پرتیں اتارتے رہیں۔ انشائیہ کی بھی یہی خوبی ہے کہ اس میں مفہوم کی کئی پرتیں سامنے آتی ہیں، اس دلیل (اور یہ دلیل برہان قاطع میں شمار ہوتی ہے ) سے تو آپ یہ نتیجہ آسانی سے نکال سکتے ہیں کہ ہمارے بزرگ انشائیہ نگار مغربی انشائیہ سے آگے نکل گئے ہیں یا نکل جائیں گے۔ امید ہے آپ مجھ سے اتفاق کریں گے اور مثالوں پر زور نہیں دیں گے ورنہ یہ جواب بہت طویل ہو جائے گا۔
رہا سوال انشائیہ کے مزاج، اسلوب اور مواد کا! جس طرح ہماری شاعری کا مواد اور مزاج انگریزی شاعری سے مختلف ہے اور مختلف ہونا بھی چاہیے کیونکہ ہمارا موسم، ہماری تاریخ، جغرافیہ، ثقافتی روایات بلکہ لغت کا مزاج انگریزی ادب سے مختلف ہے۔ تعجب تو یہ ہے کہ انگریز انشائیہ نگاروں نے اپنے موضوعات جو انشائیوں کے لیے چنے ہیں، وہ ہمارے پسندیدہ موضوعات سے بڑی حد تک مختلف ہیں۔ انشائیہ نگار اپنا مواد تو اپنے ماحول سے ہی منتخب کرتا ہے۔ اگر ہمارا انشائیہ نگار کسی ایسے موضوع پر انشائیہ لکھے جو ہمارے لیے اجنبی ہو توہم اس سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ انگریزی انشائیہ نگاروں نے اپنے موسم کی رعایت سے کچھ انشائیے لکھے ہیں جن کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے جیسے بی بی سی سے موسم کی رپورٹ سن رہے ہوں، ایسے انشائیوں کو مغربی قاری یقیناً دلچسپی سے پڑھتا ہو گا۔ در اصل موضوع ایک ایسا متنازعہ فیہ مسئلہ ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انشائیہ کسی موضوع کا پابند نہیں ہے۔ مسئلہ تو موضوع کے پراسرار پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ جس طرح ایک اچھا فوٹو گرافر کسی شے یا object کا ایک ایسا غیر معمولی زاویہ تلاش کرتا، جہاں سے تصویر ایک نیا روپ اختیار کر لیتی ہے، اسی طرح انشائیہ نگار موضوع کے ان پہلوؤں کی نشاندہی کرتا ہے جو قاری کی نگاہ سے پوشیدہ ہوں۔ یوں تو ایک detective بھی یہی طریقہ اختیار کرتا ہے۔ لیکن اس کے ہاں اسلوب کی دلفریبی نہیں ہوتی۔ یہاں میں انشائیہ کے مزاج کا نہیں بلکہ اس کے اسلوب کا ذکر کروں گا۔ انگریزی والے کہتے ہیں کہ لکھنے والے کا اسلوب ہی سب کچھ ہے۔ اصلی الفاظ یہ ہیں (style is the man) یہ بات سب سے زیادہ انشائیہ نگار پر صادق آتی ہے اور اگر کسی انشائیہ نگار کے مقام کا تعین کرنا ہو تو اس کا منفرد اسلوب ہی اس کی پہچان کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اسلوب میں ذرا سی ناپختگی یا خامی انشائیہ کو ادب کی ذیل سے نکال کر اسے تخلیقی ادب سے یکسر خارج کر دے گی۔ آپ یہ بات دوسری اصناف کے متعلق نہیں کہہ سکتے۔ افسانہ، ناول، غزل میں اگر اسلوب میں ایک دو آنچ کی کمی بھی رہ جائے تو کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا… جب تک قافیہ ردیف موجود ہے غزل تو بہر حال موجود رہے گی یعنی اس کا وجود معرض خطر میں نہیں پڑے گا۔ اسی طرح ایک ناول اسلوب کی ناپختگی کی وجہ سے بڑا ناول نہ بن سکے گا۔ لیکن بطور ناول تووہ چھپے گا بھی اور بیشتر حضرات و خواتین میں مقبول بھی ہو گا، لیکن جیسے میں نے عرض کیا ہے کہ محض اسلوب کے نہ ہونے سے انشائیہ ایک بیکار سی تحریر بن کر رہ جائے گا۔ اب آپ نے یہ تو تسلیم کر لیا ہو گا کہ انشائیہ کا اصلی کردار اس کا اسلوب ہی متعین کرتا ہے۔ اسی سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ اردو انشائیہ کا اسلوب انگریزی انشائیہ سے کس حد تک مختلف ہے۔ اردو زبان اپنے مزاج کے لحاظ سے انگریزی زبان سے بالکل مختلف ہے۔ اسی لیے انگریزی شاعری یا انشائیہ کے کسی مجموعہ کا کامیاب ترجمہ اردو میں نہیں ہوا۔ ہونا بھی نہیں چاہیے۔ کیونکہ کوئی زبان کسی دوسری زبان کی پراسراریت کو اپنے محاورہ یا لغت میں منتقل نہیں کر سکتی۔ انشائیہ کا تعلق کیونکہ بنیادی طور پر انشا سے ہے اس لیے اردو انشائیہ انگریزی انشائیہ سے بالکل مختلف ہے۔ میں نے ایک دو بار کوشش کی ہے کہ اے پی ہربرٹ یا جیروم کے کچھ انشائیے اردو میں منتقل کروں۔ ترجمہ تو ٹھیک ٹھاک کر لیا۔ مولوی عبدالحق کی مدد سے کچھ الفاظ کے مترادفات بھی تلاش کر لیے لیکن جب انشائیہ کو اس کے اردو روپ میں دیکھا تو محسوس ہوا کہ اصلی انشائیہ کی روح غائب ہو گئی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ تو ساختیاتی تنقید والے حضرات ہی بتا سکیں گے۔ لیکن میرا عرفان یہ کہتا ہے کہ اردو انشائیہ کا کمال ہی یہ ہے کہ اس کا اسلوب اور مزاج انگریزی انشائیہ کے اسلوب اور مزاج سے مختلف ہے۔ کس اعتبار اور کس حد تک؟ یہ مسائل تصوف ہیں جو غور طلب ہیں۔
وزیر آغا: انور سدید صاحب! انشائیہ کے سلسلے میں جانسن کی اس تعریف کا بڑا شہرہ ہے جس کے مطابق انشائیہ loose sally of the mind ہے۔ جس سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انشائیہ آزاد تلازمۂ خیال کی ایک صورت ہے۔ یعنی آپ کسی ایک موضوع کو چھیڑتے ہیں اور پھر خیال کی ترنگ کے تحت دوسرے موضوعات کی طرف سفر کرنے لگتے ہیں۔ کیا آپ کے نزدیک انشائیہ اس قسم کے آزاد تلازمۂ خیال کا علم بردار ہے یا یہ افسانے اور نظم کی طرح کی فنی اکائی کو جنم دیتا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ظاہری بے ربطی کے باوجود اس میں ایک واضح ربط موجود ہوتا ہے جو انشائیہ کا مطالعہ کرتے ہوئے انکشاف کے ایک کوندے کی طرح قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ؟ اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔
انور سدید: میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر جانسن نے ایسّے کی تعریف میں a loose sally of mind الفاظ استعمال کیے تو یہ تعریف بجائے خود ڈھیلی ڈھالی تھی۔ اس کی حدود متعین نہیں تھیں، بعض لوگوں نے اسے ذہن کی آزاد ترنگ کہا جیسے ڈاکٹر اختر اورینوی، ڈاکٹر ظہیرالدین مدنی، ڈاکٹر محمد حسین وغیرہ۔ کچھ لوگوں نے اسے ذہن کی آوارہ خیالی سمجھا اور انشائیے کے مرکزی موضوع سے اسے انحراف کا لائسنس سمجھ لیا۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب طنزیہ، مزاحیہ، اخلاقیہ حتیٰ کہ درسیہ مضامین پر انشائیہ کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے تو ان مضامین کو in toto ایسے dispersed meditation یعنی’ افکار پریشاں ‘ہے تو اس سے بھی خاصہ خلط مبحث پیدا ہوا ہے۔ بیکن کے انشائیے پڑھیں تو وہ موضوع کے ساتھ اٹھکیلیاں تو کرتا ہے لیکن فکر کو پریشان نہیں ہونے دیتا اور خیال کے مرکزی نقطے کو اپنی گرفت ہی میں رکھتا ہے۔
بات در اصل یہ ہے کہ جن لوگوں نے انشائیہ کے مزاج کو نہیں سمجھا وہ ’ذہن کی آزاد ترنگ‘ اور ’افکار پریشاں ‘ وغیرہ کو لغوی معانی میں ہی قبول کرتے ہیں۔ حالانکہ ایسا تصور تو نہ بیکن نے دیا ہے اور نہ ڈاکٹر جانسن نے۔ یہ تاثر ان لوگوں کا خود ساختہ ہے جو انشائیہ کی پہچان نہیں رکھتے اور اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اس سے انشائیہ کے فروغ میں رکاوٹ پڑ گئی۔ میں نے پہلے بھی متعدد مرتبہ کہا ہے اور اب بھی برملا عرض کرتا ہوں کہ انشائیہ کی وحدت اس کے موضوع سے جنم لیتی ہے۔ اس میں خیال اپنی تمام جولانیوں کے ساتھ مرکزی نقطے کے ساتھ مربوط رہتا ہے، اسے نئے نئے زاویوں سے دائرۂ نور میں لاتا ہے، اس کے انوکھے گوشے ابھارتا ہے۔ لیکن انشائیہ بکھرتا نہیں، یہ مرکز سے تھوڑا سا گریز تو کرتا ہے لیکن پھر واپس مرکز کی طرف آ جاتا ہے اور موضوع کو بکھیرنے کے بجائے سمیٹتا ہے۔ جولانی تو افکار کی جدت سے اور اظہار کی ندرت سے پیدا ہوتی ہے۔ نیا نقطہ اٹھانے اور نیا راستہ تلاش کرنے میں جو مسرت ہے وہ انسان کے داخل کی فطری جولانی کے بغیر پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن اس سے مراد آزاد تلازمۂ خیال نہیں کہ آپ اپنی سوچ کو یوں آزاد چھوڑ دیں کہ جس سمت میں چاہے بڑھتی چلی جائے اور واپس موضوع کی مرکزیت کی طرف آنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرے۔ اس طرح تو ایک ایسا فن پارہ جو ذہن و خیال کی نئی کھڑکیوں سے تازہ ہوا لانے کا روادار ہے بس مجذوب کی بڑ بن جائے گا اور بعض لوگوں نے تو واقعی اسے مجذوب کی بڑ بنانے کی ہی کوشش کی ہے۔ آوارہ خیالی اور آزاد خیالی میں حد فاصل موجود ہے۔ آوارگی مرکز گریز صفت ہے، لیکن انشائیے میں مرکز مائل صفت کا استعمال اس کی فنی حدود کا فطری تقاضا ہے۔ چنانچہ آزادہ روی ہو گی تووہ بھی فنی حدود کے اندر ہو گی اور یہ مرکزی نکتہ کو ابھارنے اور نکھارنے میں صرف ہو گی۔ معاف کیجئے بات ذرا لمبی ہو رہی ہے لیکن ایک بات کی وضاحت کی اجازت چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ہر صنف ادب کا ایک داخلی نظام ہوتا ہے اور اسے قائم رکھنا ہر فنکار کا فرض ہے۔ اس نظام کی فنکارانہ پیروی سے ہی تو ادب پارہ پیدا ہوتا ہے، انشائیہ لکھتے ہوئے جب انشائیہ نگار مرکزی نقطے سے دور ہٹتا ہے تووہ موضوع کو بالائے طاق نہیں رکھتا بلکہ اس کی ڈوری کو مزید مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے اور وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ موضوع کو ایک نئے تناظر میں لے آئے، وہ ایسا ایک نئے بُعد یا dimension کی تلاش میں کرتا ہے۔ اگر اسے اپنے اس سفر میں گوہر مراد حاصل نہ ہو تو اس کا یہ سفر بالکل بے کار ہو جائے گا اور موضوع سے پرے ہٹنے کا عمل ناکام ہو جائے گا اور وہ انشائیے میں جو کچھ لکھے گا وہ محض ٹاٹ کے پیوند کی طرح دور سے ہی نظر آ جائے گا۔ لہٰذا انشائیہ نگار کا کمال یہ ہے کہ وہ مرکزی نقطے سے خود کو لحظہ بھرکے لیے منقطع تو کرے، آزادہ روی کا مظاہرہ بھی کرے، ذہن پر بوجھ ڈالنے کے بجائے اسے ڈھیلا چھوڑ دے لیکن جب واپس آئے تو اس شان و شکوہ کے ساتھ جیسے اس نے ماؤنٹ ایورسٹ پر پہنچ کر اپنے ملک کا جھنڈا گاڑ دیا ہو اور میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ انشائیہ لکھنے کے بعد خود انشائیہ نگار پہلے سے زیادہ درخشاں محسوس کرنے لگتا ہے۔
وزیر آغا : سجاد نقوی صاحب! اکثر لوگ ایمرسن کا یہ قول دہراتے ہیں کہ ادب ایک فی صد الہام اور ننانوے فی صد پسینے کا نام ہے۔ کہنا وہ یہ چاہتے ہیں کہ جب تک ادیب اپنی تحریر کی نوک پلک نہ سنوارے اور اپنے اسلوب کو نہ چمکائے، اس کی تحریر ادب کی سطح پر نہیں پہنچ پاتی۔ م یں آپ سے انشائیہ کے سلسلے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ انشائیہ جو نکتہ آفرینی کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور خیال، شے یا مظہر کے مخفی مفہوم کو سطح پر لانے کی کوشش کرتا ہے، اسلوب کی رعنائی کا کس حد تک گرویدہ ہے ؟ دوسرے لفظوں میں کیا انشائیہ میں اسلوب مقدم ہے یا مرکزی خیال؟
سجاد نقوی: کام تخلیقی ہو یا غیر تخلیقی خون پسینہ تو دونوں میں صرف ہوتا ہے مگر فرق مقدار کا ہے۔ غیر تخلیقی کام تو سراسر محنت کا مرہون منت ہے مگر تخلیق میں چیزے دیگر اولین عنصر ہے اور محنت ضروری ہونے کے باوجود ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ ایمرسن نے تخلیق کے لیے چیزے دیگر کی بہ نسبت خون پسینہ ایک کرنے کو زیادہ اہم قرار دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ بات نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا توہم غزل کے اشعار میں گنتی کے صرف ایک دو شعر حاصل غزل نہ قرار دیتے جن کی دوسرے اشعار کے مقابلے میں تاثیر ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ البتہ بعض بڑے شاعر اور ادیب اپنے اشعار اور ادب پاروں پراس درجہ محنت کرتے ہیں کہ ان کی سطح ’آورد‘ سے اوپر اٹھ کر ’آمد‘ کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر غالبؔ اور اقبال ؔکے اشعار اور مولانا محمد حسین آزادؔ اور مولانا صلاح الدین احمد کی نثر۔ ان اکابرین ادب کا ہر شعر اور جملہ اس لیے تخلیقی جوہر سے مملو نظر آتا ہے کہ اس کے پیچھے ایسا خلاق ذہن ہے جو آورد اور آمد کے فرق کو بڑی حد تک مٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ در اصل ادب میں سارا مسئلہ تخلیقی اسلوب کا ہے اور اسلوب کا تعلق فن کار کے مخصوص فطری مزاج سے ہے۔ فن کار کی زیادہ تر محنت تو اپنے اسلوب کو سُر میں رکھنے کی ہوتی ہے کہ فن کار اپنے اسلوب ہی سے پہچانا جاتا ہے لہٰذا اس ساز کا تار جب کبھی ڈھیلا پڑ جائے تو اسے کسنے کے لیے اسے محنت کا ایک عرصہ درکار ہوتا ہے اس لیے کہ جب تک فن کار کی محنت اس مخصوص سطح تک نہ پہنچ جائے جہاں اسلوب کا تار فطری سُر سے مملو ہو جائے، فن کار کی تسلی نہیں ہوتی اور جب سیرابی کی یہ صورت پیدا ہو جائے تو اسے ’آمد‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ غالباً ایمرسن نے اس طرح کی محنت کو ننانوے فیصد فنکار کا پسینہ perspiration قرار دیا ہے۔
یوں تو تمام اصناف ادب میں اسلوب کوبڑی اہمیت حاصل ہے مگر انشائیہ کی تفہیم اور پہچان ہی اس کے اسلوب کی مرہون منت ہے۔ عام اسلوب اور انشائی اسلوب میں یہ فرق ہے کہ عام اسلوب کے اجزائے ترکیبی میں مواد، زبان اور تکنیک شامل ہوتے ہیں مگر انشائی اسلوب میں ان کے علاوہ بھی بہت کچھ شامل ہوتا ہے مثلاً غیر رسمی انداز، تازگی، شگفتگی، بذلہ سنجی اور کفایت لفظی وغیرہ۔ انشا پردازی میں موضوع مقصود بالذات ہوتا ہے مگر انشائیہ نگاری میں ’انشائی اسلوب ‘ کو جادو کی چھڑی کی سی حیثیت حاصل ہے کہ اس سے موضوع، خیال اور جذبہ جو بھی مس کرتا ہے اس کی قلب ماہیت ہو جاتی ہے۔ یہ جادو کی چھڑی کا اثر تغزل کے علاوہ صرف اور صرف انشائی اسلوب کو حاصل ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ انشائیہ میں اسلوب کو برتری حاصل ہے یا خیال، شے یا مظہر کے مخفی مفہوم کو سطح پر لانا زیادہ اہمیت کا حامل ہے تو اس سلسلے میں میرا خیال یہ ہے کہ اسلوب خیال کے بغیر اور خیال اسلوب کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ انشائیہ کی صنف میں تو اسلوب کی تازگی اور خیال کی تازگی ہی اس کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ جس تحریر میں ان دونوں کا خوشگوار سنجوگ معرض وجود میں نہ آئے وہاں انشائیہ کی جگہ جواب مضمون ابھر کر سطح پر آ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو انشائیہ کو ہمارے ادب میں داخل ہوئے ربع صدی سے اوپر کا عرصہ ہو رہا ہے مگر ایک زمانے تک لوگ باگ مضمون اور انشائیہ میں تمیز نہیں کر پاتے تھے۔ مقام مسرت ہے کہ اب یہ صورت حال باقی نہیں رہی ہے۔ ایک دو ’میں نہ مانوں ‘ قسم کے نقادوں کے علاوہ دیگر ناقدین نے اس نو وارد صنف ادب کا نہ صرف کھلے بندوں استقبال کیا ہے بلکہ اس کے خدوخال متعین کرنے میں بھی اپنی گہری تنقیدی بصیرت کا اظہار کیا ہے۔ انہیں کی بدولت اردو انشائیہ اب نوجوان ادباء کے ساتھ ساتھ پرانے اور مشاق ادباء کی توجہ کا مرکز بھی بنتا جا رہا ہے۔ انشائیہ کی اس ملک گیر مقبولیت کی اصل وجہ یہ ہے کہ انشائیہ اسلوب اور خیال کے امتزاج کا نام ہے اور اس کا مطالعہ کرتے ہوئے اسلوب کی چاشنی، خیال کی برجستگی اور ندرت سے ہم آہنگ ہو کر ایک ایسی مکمل شے نظر آتی ہے جسے مختلف اجزا کا مرکب کہنا کسی صورت بھی جائز نہیں۔
وزیر آغا : کہا گیا ہے کہ انشائیہ لطف اندوزی کی ایک صورت ہے۔ انجم نیازی صاحب! کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ انشائیہ سے جو لطف حاصل ہوتا ہے اس کی نوعیت کیا ہے ؟ یعنی کیا انشائیہ جمالیاتی حظ مہیا کرتا ہے یا ذہنی مسرت یا دونوں ؟
انجم نیازی: انشائیہ انکشاف ذات کا ایک ایسا صحت مند عمل ہے جو انسان کے تہہ بہ تہہ باطنی اسرار و رموز آہستہ آہستہ منکشف کرتا چلا جاتا ہے۔ انسان اپنے لاشعور سے نکل کر شعور میں داخل ہو جاتا ہے اور خود کلامی سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔ خود کلامی جس میں فلسفیانہ استدلال کا بوجھل پن اور منطقیانہ بحث کا لفظی اصراف نہیں ہوتا۔ خود کلامی جس کی کوئی سمت مقرر ہوتی ہے نہ پہلے سے طے شدہ کوئی ہدف! مگر اس کے باوجود وہ بے سمتی یا بے ہدفی کے بکھراؤ کا شکار نہیں ہوتی۔ وہ ایک اڑتی پتنگ کی طرح بلندی سے پستی کے جملہ مناظر دیکھتی چلی جاتی ہے اور صرف ایک باریک اور نظر نہ آنے والی ڈور کے ذریعے زمین سے اپنا رشتہ قائم رکھے ہوئے ہوتی ہے۔ اپنی ذات کے تمام زاویے اور تمام رنگ ایک اکائی کی طرح اس کے سامنے آ جاتے ہیں۔ اسی خود کلامی کے دوران انشائیہ نگار اپنی ذات کی دریافت کا پر نور دائرہ مکمل کرتا ہے۔ اور اپنی ذات کا ساؤنڈ بیریئر (sound barrier) عبور کرتا ہے۔ دیکھے ہوئے جہان سے ان دیکھے جہان میں قدم رکھتا ہے۔ خارجی مدار سے نکل کر داخلی مدار میں داخل ہوتا ہے، اس کامیابی پراس کو احساس مسرت بھی حاصل ہوتا ہے اور جمالیاتی حظ بھی۔
احساس مسرت اس لیے کہ وہ اپنی ذات کے اونچے پہاڑ کی ناقابل تسخیر چوٹی کو سر کر لیتا ہے اور جمالیاتی حظ اس لیے کہ اس کی ذات کے ان گنت دل فریب جمالیاتی پہلو اچانک اس کے سامنے آ جاتے ہیں، فاصلوں کی گرد بیٹھتی ہے تو اس کا اپنا چہرہ نکھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ مگر اس جمالیاتی حظ کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی ہے۔ دور افق پر ابھرنے والی سات رنگی قوس قزح اور مختلف رنگوں کے پھولوں کے مناظر انسان کی بصارت پر خوشگوار اثر چھوڑتے ہیں۔ مگر اپنی ذات کے نو دریافت شدہ پہلو اور ان دیکھے روپ اس کی بصیرت کو مسحور کرتے چلے جاتے ہیں اور انشائیہ نگار ایک موم بتی کی طرح قطرہ قطرہ تحلیل ہونے لگتا ہے۔ ایک انجانی خوشبو اور ان دیکھی مہکار اس کے شعور سے لاشعور میں جا اترتی ہے اور انشائیہ نگار جمالیاتی حظ اور ذہنی مسرت کی ملی جلی کیفیت میں گم ہو جاتا ہے۔
جس طرح اندھیرے کمرے میں چراغ جلانے والا انسان روشنی سے تنہا اور اکیلا مستفیض نہیں ہوتا بلکہ کمرے کے اندر موجود ہر آدمی اس کے اس عمل سے فائدہ اٹھاتا ہے، اسی طرح انشائیہ سے حاصل ہونے والی ذہنی مسرت اور جمالیاتی حظ میں انشائیہ کے قاری بھی براہ راست شریک ہو جاتے ہیں۔
وزیر آغا : سلیم آغا! آپ نوجوان ہیں۔ یقیناً آپ انشائیہ میں عصری آگہی کو اہمیت دیتے ہوں گے۔ آپ کو معلوم ہے کہ بعض لوگ انشائیہ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ آیوری ٹاور میں بیٹھنے والے ان حضرات کا مشغلہ ہے جنھیں عصری مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
کیا آپ اس بات سے متفق ہیں ؟ اگر نہیں تو کیا آپ اپنی مرتب کردہ کتاب ’منتخب انشائیے ‘ سے مثالیں دے کر یہ بتا سکتے ہیں کہ اردو انشائیہ نے کس طرح اپنے عصر کے میلانات اور مسائل اور عالمی سطح کے مظاہر سے اپنا رشتہ قائم کیا ہے ؟
سلیم آغا قزلباش: یہ سوال بنیادی نوعیت کا ہے کیونکہ آج کے دور میں ہر چیز کی ماہیت کا اندازہ اس کی عصری اہمیت و افادیت سے لگایا جاتا ہے۔ بظاہر یہ کوئی قابل مذمت بات نہیں ہے لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ’عصری آگہی‘ کو سطحی نوعیت کی نعرہ بازی اور استحصالی رویوں کے خلاف بطور ایک ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، پھر یہ کہ عصری مسائل کی مروجہ فہرست میں چونکہ سیاست، معاشی ناہمواری اور ظلم و استبداد سر فہرست ہیں لہٰذا ہم انہیں پہلوؤں کو عصری آگہی کے مترادف سمجھنے لگتے ہیں، جس کا نتیجہ ادب میں عملی پروپیگنڈے کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہے، چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عصریت کو اس بڑی لہر کے طور پر لیا جائے جو عصری مسائل کے مواج سمندر کی بالائی سطح کے نیچے چل رہی ہے اور جس کی اوپر کی سطح کا خروش اور تلاطم اس کی ’مقامیت‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔ در اصل کچھ حضرات نے جان بوجھ کر ’عصری مسائل‘ کی اصطلاح کو بھی روایت اور جدیدیت کی طرح الجھانے کی سعی کی ہے۔ جس طرح روایت کو تاریخی شعور کے بغیر اور جدیدیت کو جدید علوم کے بغیر سمجھنا مشکل ہے اسی طرح عصری مسائل کو اجتماعی مسائل کے کلی شعور کے بغیر سمجھ پانا محال ہے، چنانچہ مجھے یہ بات کہنے میں قطعاً تامل نہیں ہے کہ انشائیہ سطحی علاقائی یا ہنگامی نوعیت کے مسائل پر سے پردہ نہیں اٹھاتا بلکہ وہ تو پوری نوع انسانی کو درپیش مسائل کو فن کی سطح پر لاکر طشت از بام کرتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں پر سطحی نگاہ کے حامل افراد کو انشائیہ نگاری محض ’آیوری ٹاور‘ میں بیٹھنے والے حضرات کا مشغلہ دکھائی دینے لگتی ہے۔ اس سے قطع نظر فرد کے شخصی مسائل اور اس کے چاروں طرف پھیلے ہوئے مسائل کو الگ الگ خانوں میں بانٹ کر دیکھنا بھی نامناسب ہے، کیونکہ یہ بات نا ممکن ہے کہ کوئی شخص عصری مسائل سے خود کو منقطع کر کے فن پارہ تخلیق کر سکے۔ پھر یہ کہ عصری مسائل کو محض باہر کی دنیا میں موجود سمجھنا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ فرد کی ذات کے آئینے میں تو عصری آگہی اپنے جملہ مسائل اور آلام کے ساتھ منعکس ہو رہی ہوتی ہے۔ سویہ کہنا کہ انشائیہ ’عصری آگہی‘ کے جوہر سے تہی ہے ایک لایعنی بہتان ہے، البتہ یہ سوال ضرور قابل غور ہے کہ انشائیہ نگاروں نے عصری مسائل کے کینوس پر کون کون سے رنگوں کو ابھارنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں ؟ اس ضمن میں دو رویے ہمارے سامنے ہیں، ایک کے ذریعے معروضی حوالے سے اشیاء اور مسائل کو بے نقاب کرنے کی سعی کی گئی ہے جبکہ دوسرے کی وساطت سے موضوعی یا باطنی حوالے سے مسائل کی گہرائی میں اترنے کی روش صاف نظر آتی ہے۔ یہاں میں اس بات کا اظہار کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عصریت کے شعور کو ہم اسی وقت بطریق احسن سمجھنے کے اہل ہو سکیں گے جب ہم ’تجربہ‘ کی دونوں صورتوں کو بیک وقت بروئے کار لائیں گے، یعنی ایک وہ تجربہ جو عصری مسائل کے مشاہدے سے عبارت ہے اور دوسرا وہ تجربہ جو ان کے اصلی مفہوم کو گرفت میں لینے کے بعد نمودار ہوتا ہے اور صنف انشائیہ کی خوبی اسی بات میں ہے کہ اس نے تجربے کی دونوں صورتوں کو الگ الگ حصوں میں نہیں بانٹا بلکہ انہیں ایک ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس مقصد میں اسے خاطر خواہ کامیابی بھی نصیب ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ بات کہ ’’فن کار اپنی ذات کے بارے میں لکھتے ہوئے بھی اپنے زمانے کے بارے میں لکھتا ہے۔ ‘‘ پوری طرح سمجھ میں آنے لگتی ہے اور پھر اس بات کو تسلیم کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ بڑا فن پارہ وہی ہو سکتا ہے جو اپنے عہد کے عصری تقاضوں کی روح کو اپنے آپ میں جذب کر لینے کی پوری اہلیت رکھتا ہو۔ ہمارے ہاں جب کبھی عصری مسائل کو سامنے رکھ کر ادب تخلیق کرنے کی کاوش کی گئی ہے تو نتیجہ اکثر، نعرے بازی یا پروپیگنڈے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ وجہ یہ کہ بالواسطہ طریق سے بات کہنے کا جو تخلیقی سلیقہ درکار ہوتا ہے اس کو مقدم نہیں رکھا گیا ہے۔ لہٰذا شعوری عمل کی مدد سے ’عصری مسائل‘ کی پیش کش کرنا، مجمع لگا کر سرمہ بیچنے کے فعل سے مشابہ ہے۔ ایک دوسری بات یہ کہ عصری مسائل کے اظہار میں جذباتی غیر وابستگی بھی کسی نہ کسی حد تک ناگزیر ہے، بصورت دیگر کو لہو کے بیل کی طرح ساری بات ذاتی نوعیت کے کسی المیے یا complex کے گرد ہی گھومتی رہے گی اور اس میں وہ وسعت پیدا نہیں ہو سکے گی جو جغرافیائی حدود کو پھلانگ کر چہار دانگ میں پھیل جانے کی صلاحیت سے مالامال ہوتی ہے۔ سو ’عصری مسائل‘ کی روح کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے تیسری آنکھ کو کھلا رکھنا از بس ضروری ہے۔ آخری بات یہ کہ جب ہم ’عصری آگہی‘ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں تو متعدد قسم کے مسائل ہمارے سامنے اچانک ابھر آتے ہیں مثلاً آشوب آگہی، روحانی کرب اور نفسیاتی الجھنوں کا مسئلہ، گھر کی مرکزیت کے ٹوٹنے کا یا بے چہرگی کا مسئلہ، اخلاقی گراوٹ اور رسوم و روایات کی شکست و ریخت کا مسئلہ، سماجی ناہمواریوں اور استحصالی رویوں کا مسئلہ اور ایسے اور بہت سے مسائل جو یوں تو دیگر اصناف نظم و نثر کے سڑکچر میں بھی مرکزی مہروں کا کام دیتے ہیں لیکن انشائیے میں ان پہلوؤں کا استعمال جداگانہ نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں مختلف انشائیوں سے لی گئی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
مادیت پسندی کا رجحان:
’’زمین بیچاری ایک مدت سے بیمار ہے۔ اس میں بڑی تیزی سے شور پھیل رہا ہے، علاوہ ازیں بنیے نے اب اس پر فصلوں کے بجائے شہر اگانے شروع کر دیے ہیں اور یہ شہر لمحہ لمحہ اپنی جڑوں کو پھیلا کر زیادہ سے زیادہ جگہ گھیر رہے ہیں۔ سو کسان کا زمانہ اب محض ایک آدھ رات کا فسانہ ہے اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ بنیا اپنے لیے خوراک زمین کے بجائے سمندر سے حاصل کرے گا یا فیکٹریوں میں تیار کرے گا اور کسان بے چارہ نقل مکانی بلکہ نقل زمانی پر مجبور ہو جائے گا۔ ‘‘(چرواہا)
ایٹمی جنگ کا خطرہ:
’’ایک دور میں اچھے بھلے نیک نیت لوگوں نے ستر سالہ بوڑھے کو محض اس بات پر سزائے موت دینے کا ارادہ کیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ زمین ساکن نہیں بلکہ سورج کے گرد گھومتی ہے۔ موجودہ دور کا سب سے اہم یہ سوال ہے کہ کتنے ہائیڈروجن بم اس گردش کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتے ہیں۔ یہ واقعی اہم سوال ہے آؤ ہم سب مل کر اسے اٹھائیں۔ ‘‘ (سوال اٹھانا)
تیسری دنیا کی حالت زار:
’’المیہ یہ ہے کہ فرد کی چھینک اضطرار کے کسی لمحۂ غنیمت میں خودبخود وارد ہوتی ہے مگر قوم کے داخل سے چھینک بیدار کرنے کے لیے خود احتسابی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے جسے مشرقی اقوام نے تا حال اختیار نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ وہ عرصے سے خواب خرگوش میں مد ہوش ہیں اور چھینکنے کے بجائے خراٹے لے رہی ہیں۔ ‘‘ (چھینک)
تیز رفتار تبدیلی:
’’بیسویں صدی میں کتنی صدیوں کا روپ سمایا ہوا ہے۔ یہ صدی اتنی تیز اور تغیرات کی حامل ہے کہ ہر آن ایک تازہ جہان آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔ الہ دین کا چراغ چینی قوت متخیلہ کا محض افسانوی کرشمہ نہ تھا یہ حقیقت اب کھلی۔ ‘‘(الگنی)
سماجی ضرورت:
’’اخبار ہماری بے خبری کی تاریکی کو اپنی لو سے روشن کرتا ہے۔ یہ ہمیں ایک ایسا مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جہاں سے ہم بغیر روک ٹوک آپس میں ہم کلامی وہم زبانی کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اخبار کا مطالعہ حقیقت میں ایک طرح کی سماجی و ثقافتی غواصی ہے۔ ‘‘ (اخبار پڑھنا)
مشین کا غلبہ:
’’کال بیل کی مختلف قسمیں ہیں، بعض اپنے بٹن سے چند قدموں کے فاصلے پر ہوتی ہیں، بعض بٹن سے پیوست، لیکن ٹیلی فون کی کال بیل ہزاروں میل کا پتہ بھی لا سکتی ہے۔ انسان گھڑی کی طرح اپنی اس ایجاد کا بھی غلام بن کر رہ گیا ہے۔ کبھی اس کی پکار سے بے توجہ نہیں رہ سکتا۔ ‘‘ (اخبار پڑھنا)
معاشی و اقتصادی ناہمواری:
’’یہ قرض کی برکت ہی ہے کہ جس کی بنا پر معاشرے میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کا امکان کم سے کم رہ جاتا ہے اور غریب ممالک متمول ممالک سے اس لیے بگاڑ پیدا نہیں کرتے کہ ان کے مقروض ہوتے ہیں۔ ‘‘ (قرض)
مستقبل کا خوف:
’’وہ وقت آنے والا ہے جب سارے کے سارے طیارے آپس میں ٹکرا جائیں گے اور کائنات ریزہ ریزہ ہو جائے گی یا تیسری عالمگیر جنگ شروع ہو چکی ہے اور اب سارے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم چلنے ہی والے ہیں … کسی نے کہا نسل انسانی کی افزائش کا اگر یہی حال رہا تو انسانوں کو روٹی نہیں ملے گی اور اس وقت ایسی گولیاں بنانی پڑیں گی جو کھانے کے وقت افراد خانہ میں تقسیم کر دی جائیں اور ان کا پیٹ بھر جائے۔ کسی صاحب نے فرمایا آج سے اتنے لاکھ یا کروڑ سال بعد پانی زہر ہو جائے گا اور انسان کو اگر وہ زندہ رہنا چاہتا ہے تو کسی مصنوعی پانی کا بندوبست کرنا ہو گا۔ ‘‘ (دوراندیشی)
وزیر آغا : صابر لودھی صاحب! آپ انشائیہ کے ایک خاموش قاری ہیں۔ آپ نے وہ ساری تنقید یقیناً پڑھی ہو گی جو پچھلی ایک دہائی میں صنف انشائیہ اور اردو انشائیہ نگاروں پر ہوئی ہے۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس تنقید کے معیار کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
صابر لودھی: متمدن ممالک میں انشائیہ ایک معتبر صنف ہے۔ انگریزی ادب میں بالخصوص معیار اور مقدار کے اعتبار سے بہت خوبصورت اور فکر انگیز انشائیے ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ اردو ادب میں بھی اب یہ صنف ’نووارد‘ یا ’اجنبی‘ نہیں رہی۔ اس کے باوجود اردو زبان میں انشائیے پر جو تنقید لکھی گئی اس کا اغلب حصہ غیر سنجیدہ با توں پر مشتمل تھا مثلاً ’’انشائیہ کوئی صنف نہیں بلکہ ام الاصناف ہے۔ ‘‘ ’’انشائیہ بے کار صنف ہے۔ ‘‘ ’’سر سید نے انشائیے لکھے البتہ ایسے نہ لکھے اور نہ ہی ویسے لکھے جیسے آج لکھے جا رہے ہیں۔ ‘‘ وغیرہ۔ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ جملوں نے انشائیہ لکھنے والوں کو گمراہ کیا۔ اور انشائیے کی فکر انگیزی، خیال آرائی، شگفتگی اور غیر رسمی انداز پر طنز و مزاح کا رنگ غالب آگیا۔
مونتین سے لے کر درجینیا وولف تک میں نے بہت سے معروف انشائیے پڑھے ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا (برٹینیکا) اور جارج ٹی شیلے کی مرتب کردہ ’ادبی اصطلاحات کی لغت‘ میں انشائیے کی صنف کا مطالعہ بھی کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اردو داں طبقے نے انشائیہ کی بحث کو بے وجہ الجھایا ہے۔
انشائیہ علم دوستی کا مظہر ہے۔ خیال کی آزادہ روی کو فکر و فراست اور اسلوب کی انفرادیت کے زور پر متوازن اور معتدل بنایا جا سکتا ہے چنانچہ وہ نقد جو علم کے بجائے تعصبات پر اپنے نظریے کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں انشائیے کی صورت کو مسخ کرنے کے درپے ہیں۔ اگر لکھنے والا مثبت سوچ کا حامل ہے اور اس میں تخلیقی صلاحیت موجود ہے تووہ اپنے خیالات کا اظہار انشائیے میں عمدہ طریقے سے کر سکتا ہے۔ مکمل انشائیہ سوچ اور اسلوب کی انفرادیت اپنے ساتھ لاتا ہے اس لیے نثر کے بہترین نمونے انشائیوں (Essays) کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ہمارے ہاں انشائیے پر تنقید موضوع کے حوالے سے زیادہ ہوئی ہے اور اسلوب کے حوالے سے کم۔ حالانکہ انشائیے کا اسلوب ہی اس کی بنیادی خوبی ہے۔ موضوع کوئی بھی ہو اگر اس کا تعلق زندگی سے ہے تو وہ انشائیے کی بنیاد بن سکتا ہے لیکن انشائیے میں حسن قلمکار کے اسلوب اور زاویۂ نظر سے پیدا ہو گا۔
انشائیے کو وجود میں آئے چار صدیاں گزر چکی ہیں۔ ہر صدی میں تہذیب کے مختلف رویوں نے انشائیے کے اسلوب کو سنوارا اور نکھارا ہے۔ البتہ انشائیہ نگار کی شخصیت اور ذوق کی مہر اس کے انشائیے پر ضرور لگی ہوتی ہے۔ انشائیہ نگار کا اپنا زاویۂ نظر انشائیے کو مضمون سے ممتاز کرتا ہے۔ بدقسمتی سے اردو میں، انشائیہ پر تنقید کرتے ہوئے اور فلسفیانہ مضامین اور انشائیے میں حد فاصل کیا ہے ؟ یہی رویہ ہمارے ہفت روزوں اور روزناموں کے ادبی ایڈیشنوں کا ہے کہ ہر تحریر پر انشائیہ کا عنوان جما دیا جاتا ہے۔ البتہ بعض ناقدین نے انشائیہ پر خاصی معیاری اور عالمانہ تنقید لکھی ہے۔
جہاں تک کتابوں کا تعلق ہے اردو میں اب تک ایک ہی جامع کتاب شائع ہوئی ہے جس میں انشائیے کی صنف پر سنجیدگی سے بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر انور سدید کی ’’انشائیہ: اردو ادب میں ‘ ہے۔ اس کتاب میں انشائیے کی صنف کے تمام ممکنہ خطوط اجاگر کیے گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب انشائیہ پر اب تک ہونے والی منفی تنقید کا مداوا کرے گی۔
٭٭٭
۱۔ اُردو انشائیہ کی کہانی
وزیر آغا
آج سے کم و بیش چالیس برس پہلے اردو انشائیہ کے خدوخال واضح ہونے شروع ہوئے، یہ نہیں کہ اردو انشائیہ اس سے قبل اپنا کوئی الگ وجود رکھتا تھا اور کسی خزانے کی طرح زیر زمین پڑا تھا جسے کسی نے اتفاقاً دریافت کر کے اہل نظر کے سامنے پیش کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تقسیم ملک سے پہلے طنزیہ مزاحیہ اور سنجیدہ مضمون بلکہ جواب مضمون لکھنے کی روش تو عام تھی جو کتابوں اور رسائل سے نکل کر آہستہ آہستہ اخباری کالموں اور شذروں کی صورت میں ڈھل رہی تھی مگر اردو انشائیہ کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ پھر جیسا کہ قاعدہ عام ہے کہ جب کوئی نئی شے وجود میں آ جائے تو فوراً اس کا سلسلہ نسب دریافت کرنے کی مساعی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب ۱۹۶۰ء کے لگ بھگ اردو انشائیہ اپنے بھر پور انداز میں ابھر کر سامنے آیا اور اردو انشائیوں کا پہلا مجموعہ بھی شائع ہو گیا تو پوری اردو دنیا میں انشائیہ کی جڑوں کی تلاش کا سلسلہ فی الفور شروع کر دیا گیا۔ انھیں دنوں میں نے انشائیے کے امتیازی اوصاف کو واضح کرنے کے لیے متعدد مضامین لکھے اور ایک مضمون میں جو علی گڑھ میگزین کے انشائیہ نمبر میں چھپا، اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ انشائیہ کے عناصر تو تقسیم سے پہلے کی غیر افسانوی نثر میں بھی جا بجا مل جاتے ہیں۔ لیکن سر سید احمد خان کے مضامین سے لے کر تقسیم ملک تک لکھے گئے مضامین کے انبار میں کوئی ایسی تحریر موجود نہیں ہے جسے مکمل انشائیہ کا نام دیا جا سکے۔
اردو کے معاملے میں تقسیم سے پہلے ہر قسم کے مضامین کو بطور ایسّے پیش کرنے کی روش عام تھی۔ البتہ تقسیم کے بعد انگریزی کے لائٹ یا پرسنل ایسے کے تتبع میں ایسی تحریریں وجود میں آئی ہیں جو تقسیم سے پہلے کے مضامین سے صنفی اعتبار سے مختلف ہیں۔ لہٰذا میں نے کہا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس نومولود کو ایک نئے نام سے موسوم کیا جائے تاکہ اذہان پر اس کی انفرادیت کا احساس مرتسم ہو سکے اور وہ اسے دوسری اصناف نثر سے الگ کرنے میں کامیاب ہوں۔ اپنے اس موقف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میں نے انگریزی کے پرسنل یا لائٹ ’’ایسّے ‘‘ کے لیے ایک متبادل اردو لفظ کی تلاش شروع کی تاکہ وہ غلط فہمیاں جو لفظ ’’ایسّے ‘‘ سے انگریزی ادب میں پیدا ہوئی تھیں، اردو میں بھی پیدا نہ ہو جائیں۔ مگر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ادھر ہم نے پرسنل ’’ایسّے ‘‘ کے لیے ’’انشائیہ‘‘ کا لفظ تجویز کیا اور ادھر یار لوگوں نے اس لفظ کو ساری غیر افسانوی نثر کے لیے مختص کرنا شروع کر دیا۔ بس سارا جھگڑا یہیں سے شروع ہوا مگر اس اجمالی کی تفصیل ضروری ہے۔
میں نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک کے عرصہ میں ادب لطیف میں متعدد ’’پرسنل ایسّے ‘‘ تحریر کئے تھے جنہیں ’’لائٹ ایسّے ‘، ’ انشائے لطیف ‘، ’ لطیف پارہ‘ مضمون لطیف وغیرہ ناموں کے تحت شائع کیا گیا تھا مگر چونکہ ایسّے کے لفظ نے خود مغرب میں بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دیا تھا جنہیں ہمارے انگریزی پڑھانے والوں نے وراثت میں حاصل کیا تھا لہٰذا میں چاہتا تھا کہ پرسنل یا لائٹ ایسّے کے لیے کوئی نیا اور منفرد اردو نام تجویز کیا جائے۔ انہی دونوں میں نے بھارت کے کسی رسالے میں انشائیہ کا لفظ پڑھا اور مجھے یہ اتنا اچھا لگا کہ میں نے میرزا ادیب صاحب سے جو ان دنوں ’’ادب لطیف‘‘ کے مدیر تھے، اس نام کو پرسنل ایسّے کے لیے مختص کرنے کی تجویز پیش کر دی جسے انہوں نے فوراً قبول کر لیا۔ بعد ازاں مجھے معلوم ہوا کہ مجھ سے پہلے ڈاکٹر سید حسنین ’’انشائیہ‘‘ کا لفظ ’’لائٹ ایسّے ‘‘ کے معنوں میں استعمال کر چکے تھے۔ مگر جن لائٹ ایسوں کے لیے انہوں نے یہ لفظ استعمال کیا تھا وہ سرے سے ’’لائٹ ایسّے ‘‘ تھے ہی نہیں۔
پچھلے دنوں اس سلسلے میں مزید دو انکشافات ہوئے۔ ایک تو یہ کہ تقسیم سے پہلے علی اکبر قاصد کے مضامین کے مجموعہ ’’ترنگ‘‘ کے دیباچہ میں اختر اورینوی نے انشائیہ کا لفظ استعمال کیا تھا اور اس سے مراد ’’پرسنل لائٹ ایسّے ‘‘ لی تھی لیکن خود علی اکبر قاصد کے مضامین کا انشائیہ سے دور کا واسطہ نہیں تھا گویا اختر اورینوی کے تجویز کردہ لفظ کے لیے اردو انشائیہ کی ایسی کوئی تحریر بطور مثال موجود نہیں تھی لہٰذا ان کے زمانے میں اس لفظ کو قبول نہ کیا گیا۔ ان سے قبل شبلی نعمانی کے بعض مضامین میں بھی انشائیہ کا لفظ استعمال ہو چکا تھا مگر ان مضامین میں لفظ انشائیہ کا ’’پرسنل ایسّے ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مثلاً بلاغت کے باب میں شبلی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’بلاغت‘‘ اس کا نام ہے کہ مبتدا اور خبر کہاں مقدم لائے جائیں اور کہاں موخر، کہاں معرفہ ہوں کہاں نکرہ، اسناد کہاں حقیقی ہوں، کہاں مجازی! جملہ کہاں خبر یہ ہو کہاں انشائیہ وغیرہ۔ ‘‘ظاہر ہے کہ اس میں شبلی نے لفظ انشائیہ تو استعمال کیا ہے مگر ایک بالکل مختلف حوالے سے۔ سو جب ’’ادب لطیف‘‘ میں لائٹ یا ’’پرسنل ایسے ‘‘ کی پیشانی پر لفظ انشائیہ درج کر دیا گیا تو گویا پہلی بار انشائیہ کے صحیح نمونے کو لفظ انشائیہ سے نشان زد کیا گیا اور ہر قسم کے طنزیہ، مزاحیہ، سنجیدہ، تنقیدی یا معلوماتی مضامین سے اسے الگ کر دیا گیا۔
ان دنوں میں اور میرزا ادیب اکثر اس بات پر غور کرتے کہ ہم نے انشائیہ کا لفظ رائج کرنے کی کوشش تو شروع کر دی ہے لیکن یہ رائج کیسے ہو گا؟ مثلاً اگر کہا جائے کہ فلاں کتاب انشائیوں کا مجموعہ ہے تو ’انشائیوں ‘ کا لفظ عجیب اور نامانوس لگے گا۔ واقعی اس وقت خود ہمیں بھی ’انشائیوں ‘ کا لفظ عجیب سا لگا تھا۔ آج کہ یہ لفظ رائج ہو چکا ہے تو انشائیہ نگاری، انشائیے، انشائیوں اور انشائیہ فہمی ایسی تراکیب اور الفاظ بالکل مناسب اور برمحل لگتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی زمانے میں Point of View کے لیے ’’نقطہ نظر‘‘ کی ترکیب وضع ہوئی تھی جسے لوگوں نے سخت ناپسند کیا تھا۔ مگر پھر یہ سکہ رائج الوقت ہو گئی اور اب کسی کو یاد بھی نہیں کہ اس ترکیب کی پیالی میں کتنا بڑا طوفان اٹھا تھا۔
ان دنوں میں اردو انشائیہ نگاری کے میدان میں بالکل تنہا تھا۔ پھر ’’ادب لطیف‘‘ ہی میں مشکور حسین یاد کے دو تین ایسے مضامین شائع ہوئے جن میں انشائیہ کے مقتضیات کو ایک بڑی حد تک ملحوظ رکھا گیا تھا لیکن ایک تو ان مضامین کا اسلوب انشائیہ کی تازگی (ان دنوں میں لفظ شگفتگی استعمال کرتا تھا جس نے بعد ازاں بہت سی غلط فہمیاں پیدا کیں )کا حامل نہیں تھا۔ پھر یہ کہ مشکور حسین یاد مضمون میں اصلاحی رنگ لے آتے تھے۔ چنانچہ میں نے ’’ادب لطیف‘‘ ہی میں ایک خط لکھ کر ان کے مضمون کی تعریف کرتے ہوئے ان اسقام کی طرف بھی ہلکا اشارہ کر دیا میں تو اپنے اس خط کو بھول چکا تھا لیکن اس کی اشاعت کے کم و بیش بیس برس بعد مشکور حسین یاد نے مجھے اس خط کا تراشہ دکھایا جو انہوں نے محفوظ کر رکھا تھا اور کہا کہ دیکھیے آپ نے ایک زمانے میں مجھے انشائیہ نگار تسلیم کیا تھا۔ یہ غلط بات نہیں تھی لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یاد صاحب نے میرے خط کے اشاروں کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور بعد ازاں بتدریج اصلاحی یا انتہائی سنجیدہ فلسفیانہ یا نیم فلسفیانہ انداز اختیار کرتے چلے گئے۔ حد یہ کہ انہوں نے انشائی اسلوب سے بھی نجات حاصل کر لی۔ آج وہ اپنے جن مضامین کو انشائیہ کے نام سے شائع کراتے ہیں وہ تنقیدی اسلوب میں لکھے گئے اصلاحی وضع کے مضامین ہیں۔ جن میں انشائیہ کی تازگی کا فقدان ہے۔
مگر جن ایام کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ محض انشائیہ لکھنے ہی کا دور نہیں تھا۔ بلکہ انشائیہ فہمی کا دور بھی تھا۔ میں نے اس سلسلے میں انشائیہ فہمی کے سوال پر متعدد مباحث کرائے جن میں غلام جیلانی اصغر، نظیر صدیقی اور دوسرے دوستوں نے خوب حصہ لیا۔ ان میں سے نظیر صدیقی انگریزی سے شغف ہونے کے باعث انشائیہ (یعنی پرسنل ایسے ) کے مقتضیات سے تو واقف تھے لیکن انشائیہ کو پہچاننے کے معاملے میں وہ بھی اختر اورینوی اور ڈاکٹر محمد حسنین وغیرہ کے گروہ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ خود انہوں نے انشائیہ کے نام سے جو مضامین لکھے وہ زیادہ سے زیادہ رشید احمد صدیقی کے تتبع میں لکھے گئے طنزیہ مضامین ہی کہلا سکتے ہیں۔
۱۹۶۵ء تک انشائیہ اور انشائیہ نگاری کے سلسلے میں کچھ دلچسپی پیدا ہو گئی تھی، مگر بالکل سرسری سی۔ چنانچہ میں اور مشتاق قمر اکثر انشائیہ کے مستقبل کے بارے میں سوچتے اور کہتے کہ کم از کم ہماری زندگیوں میں تو اس صنف کے پھلنے پھولنے یعنی مقبول ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ کیونکہ پچھلے ایک سو برس سے اردو داں طبقہ مضمون کے لفظ سے مانوس ہو چکا ہے اور مضمون میں اگر طنز و مزاح ہو تو اسے بطور خاص پسند کرتا ہے۔ لہٰذا انشائیہ کے اس خاص وصف سے مانوس ہونا اس کے لیے بہت مشکل ہے جو معمولی شے کے غیر معمولی پن کو سطح پر لاتا ہے اور جمالیاتی حظ مہیا کرنے کے علاوہ سوچ کے لیے غذا بھی مہیا کر دیتا ہے۔ گویا اس وقت ہمارے نزدیک انشائیہ کو مقبول بنانے کے لیے انشائیہ کو پہچاننے کی ایک باقاعدہ تحریک کی ضرورت تھی مگر یہ جبھی ممکن تھا کہ ایک بڑی تعداد میں اردو انشائیے دستیاب ہوتے۔ ادھر یہ حال تھا کہ ابھی انشائیوں کا صرف ایک مجموعہ ہی شائع ہوا تھا۔ مشتاق قمر اس سلسلے میں بہت سنجیدہ تھے لیکن چونکہ وہ ایک عرصہ سے طنزیہ مزاحیہ مضامین لکھتے آرہے تھے۔ لہٰذا ان کے لیے ایک مدار سے باہر آ کر ایک بالکل نئے مدار میں گردش کرنا بے حد مشکل تھا۔ تاہم انہوں نے ہمت نہ ہاری اور چار برس تک انشائیہ نگاری کی کوشش کے بعد بالآخر ایک انشائیہ لکھنے میں کامیاب ہو گئے جو میں نے ’’اوراق‘‘ میں شائع کر دیا یہ گویا بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ اس کے بعد جمیل آذر، غلام جیلانی اصغر اور ڈاکٹر انور سدید نے بھی انشائیے تحریر کرنے شروع کر دیے۔ مشتاق قمر نے تو اتنے انشائیے لکھ لیے کہ ان کے انشائیوں کا مجموعہ ’’ہم ہیں مشتاق‘‘ کے نام سے شائع بھی ہو گیا۔ مگر ابھی تک انشائیہ کی تحریک محض چند ادبا تک ہی محدود تھی۔ نئے لکھنے والے ابھی اس میدان میں نہیں آئے تھے۔ پھر سلیم آغا کو انشائیہ لکھنے کا خیال آیا اور جب اس کا پہلا انشائیہ ’’اوراق‘‘ میں چھپا تو یہ انشائیہ کے میدان میں نہ صرف نئی پود کی آمد کا اعلامیہ تھا بلکہ اس سے یکایک انشائیہ نگاری کی تحریک میں تازہ خون کی آمیزش بھی ہو گئی اور انشائیہ کا نام کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر لیا جانے لگا۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایف۔ اے کے نصاب میں تو اردو انشائیے بھی شامل کر لیے گئے اور طالب علموں نیز اساتذہ کے ہاں انشائیے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی ایک رو وجود میں آ گئی۔ مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جہاں سینئر ادبا انشائیہ کو اکثر و بیشتر ’’ایسے ‘‘ کے متبادل گردانتے تھے اور اس کے دامن میں ہر قسم کی غیر افسانوی نثر کو شامل کر لیتے تھے وہاں نوجوان لکھنے والے انشائیہ کے مزاج سے آگاہ ہو رہے تھے۔ ان کے لیے یہ آسانی تھی کہ انہیں کسی سابقہ نظریہ میں ترمیم کرنے کی ضرورت نہ بھی۔ جب وہ انشائیہ پڑھتے تو اسے فوراً پہچان لیتے۔ حتیٰ کہ اسے طنزیہ اور مزاحیہ یا ہلکے پھلکے معلوماتی قسم کے مضامین سے الگ کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے۔ ’’اوراق‘‘ نے ان نئے انشائیہ نگاروں کے لیے اپنا دامن کشادہ کر دیا۔ چنانچہ پہلے جہاں ’’اوراق‘‘ کے ہر شمارے میں محض دو یا تین انشائیے شائع ہوتے تھے جن کا مشکل ہی سے کوئی نوٹس لیتا تھا وہاں اب دس بارہ اور اس کے بعد اٹھارہ بیس انشائیے ایک ہی شمارے میں شائع ہونے لگے اور نوجوان لکھنے والوں کے علاوہ بہت سے منجھے ہوئے ادیب بھی انشائیہ نگاری کی طرف راغب ہو گئے۔ چنانچہ کامل القادری، اکبر حمیدی، محمد منشا یاد، حیدر قریشی، محمد اسد اللّٰہ، رام لعل نابھوی، پرویز عالم، طارق جامی، جان کاشمیری، محمد اقبال انجم، انجم نیازی محمد ہمایوں، سلمان بٹ، رشید گریجہ، رعنا تقی، اظہر ادیب، سعشہ خان، فرح سعید رضوی، یونس بٹ، امجد طفیل، تقی حسین خسرو، حامد برگی، بشیر سیفی، راجہ ریاض الرحمن، خالد پرویز، شمیم ترمذی اور راغب شکیب کے علاوہ بہت سے سینئر ادبا مثلاً جو گندر پال، احمد جمال پاشا، غلام الثقلین نقوی، شہزاد احمد اور ارشد میر بھی انشائیہ نگاری کی طرف راغب ہو گئے اور مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ انشائیہ کو طنزیہ مزاحیہ مضامین نیز دیگر معلوماتی مضامین سے ایک بالکل الگ صنف قرار دیتے تھے۔ ’’اوراق‘‘ میں انشائیہ نگاری کو فروغ ملا تو دوسرے رسائل اور بعد ازاں اخبارات نے بھی انشائیہ کو اپنے دامن میں جگہ دے دی۔ حتیٰ کہ رسالہ ’’فنون‘‘ بھی انشائیہ کو اپنی فہرست میں شامل کرنے پر مجبور ہو گیا۔ لیکن اسے نئے انشائیہ نگاروں کا تعاون حاصل نہ ہو سکا۔
انشائیہ کے یکایک اس قدر مقبول ہو جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے خلاف محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس محاذ آرائی نے کئی واضح صورتیں اختیار کیں۔ پہلی تو یہ کہ کسی ایسی شخصیت کی تلاش کی جائے جسے اردو میں انشائیہ نگاری کا بانی اور منتہی قرار دیا جا سکے۔ دوسری یہ کہ اردو انشائیہ کے بارے میں یہ تاثر دیا جائے کہ انشائیہ تقسیم کے بعد وجود میں نہیں آیا بلکہ سر سید کے زمانے سے (بعض کے نزدیک ملا وجہی کے زمانے سے ) لکھا جاتا رہا ہے اور اس لئے انشائیہ نگاری کی جس تحریک کی آج کل پبلسٹی ہو رہی ہے وہ صرف پرانی شراب ہے جو نئی بو تلوں میں پیش کی جا رہی ہے۔ تیسری یہ کہ خود صنف انشائیہ کی مذمت کی جائے۔ انشائیہ اور انشائیہ نگاری کا مذاق اڑایا جائے۔ نیز یہ تاثر عام کیا جائے کہ صنف انشائیہ کی کوئی جامع و مانع تعریف نہیں ہے۔ ہر قسم کی نثر پر انشائیہ کا لیبل لگ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں انشائیہ خود مغرب میں دم توڑ چکا ہے۔ اب اردو والے اس مردے کو دوبارہ کیسے زندہ کر سکتے ہیں ؟
پچھلے چالیس سالوں میں انشائیہ کے بارے میں بہت سی بے پرکی اڑائی گئی ہیں مثلاً ایک یہ کہ انشائیہ ایسے معمولی اور بے مصرف موضوعات پر اظہار خیال کرتا ہے جن کی معاشرتی اور سیاسی حتیٰ کہ مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر سے بھی اہمیت نہیں ہے۔ مثلاً ایک صاحب نے کہا کہ بھلا بال کٹوانا یا آئس کریم کھانا بھی کوئی موضوع ہے جس پر انشائیہ تحریر کیا جائے اور اس بات کو فراموش کر دیا کہ انشائیہ تو دنیا کی کسی شے کو بھی معمولی قرار نہیں دیتا۔ اس کی نظروں میں ذرہ بھی اتنا ہی اہم ہے جتنی کہ کل کائنات۔ بیسویں صدی میں Microcosm کی لا محدودیت کا تصور عام ہو رہا ہے اور شیئیت بھی محض روابط کی ایک صورت متصور ہونے لگی ہے۔ بڑے اور چھوٹے موضوعات کی تخصیص کیا معنی رکھتی ہے ؟ کسی زمانے میں کہانی شہزادوں اور شہزادیوں، جنوں اور پریوں کے بارے میں لکھی جاتی تھی یا پھر بڑی بڑی مہمات سر کرنے والوں کے بارے میں قلم کی جولانیاں دکھائی جا تی تھیں۔ جاگیردار، سرمایہ دار اور پوش سوسائٹی کے کردار فکشن کا موضوع بنے مگر آج کہانی اونچے اونچے میناروں اور محلوں سے اتر کر بازار میں ننگے پاؤں چل رہی ہے۔ یہی حال شاعری کا ہے جو کبھی مثنوی اور قصیدہ کے ذریعے معاشرے کے اونچے طبقوں کی عکاسی کرتی تھی، اب عام شہری کے محسوسات کو مس کر رہی ہے۔ ایسی صورت میں انشائیہ کا یہ کمال ہے کہ اس نے اپنی ابتدا ہی زمین سے کی ہے۔ اس نے بڑے بڑے محلوں، مقتدر کرداروں، گونجتے ہوئے نظریوں اور عقیدوں اور نعروں کو اپنا موضوع بنانے کی بجائے سامنے کی اشیا مثلاً کرسی، اونگھنا، مکان، واشنگ مشین، جھوٹ، دسمبر اور فائل ایسے موضوعات کو چھوا ہے لیکن ان بالکل معمولی موضوعات کے ایسے غیر معمولی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے کہ معمولی چیزوں کے سامنے نام نہاد غیر معمولی چیزیں بالکل معمولی نظر آنے لگی ہیں۔ یہی نہیں انشائیہ نے ایک اور کام یہ کیا ہے کہ وہ موضوعات اور کردار اور ادارے جنہیں معاشرے نے محض عادتاً یا احتراماً جملہ نقائص اور اسقام سے ماورا سمجھ رکھا تھا، خود ان پر ایک نئے زاویے سے نظر ڈال کر ان کے معمولی پن کو اجاگر کر دیا ہے۔ مثلاً جب کوئی انشائیہ نگار Ignorance of the Learned پر انشائیہ لکھتا ہے یا کائنات کی لا محدودیت کو دل کے اندر کار فرما دیکھتا ہے یا سچ کی منافقت اور شرافت کی بزدلی اور بہادری کی حادثاتی نوعیت کو سامنے لاتا ہے تو وہ قاری کو اس نظریاتی، اخلاقیاتی اور معاشرتی خول سے باہر نکالتا ہے جس میں اس نے خود کو محبوس کر رکھا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو انشائیہ اکڑی ہوئی گردنوں اور انانیت میں مبتلا لوگوں کو جھنجھوڑنے اور انہیں بیدار کرنے کا نام ہے۔ اس قسم کی صنف نثر کو جو انسان کے باطن کو اجلا کرنے، اسے جگانے اور معمولات کی میکانکی تکرار سے اسے نجات دلانے کے لیے کوشاں ہو، اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ سیاسی، نظریاتی یا معاشرتی سطح کے اخباری موضوعات کو عصری آگاہی کے نام پر حرز جاں بنائے، بالکل ایسے ہی ہے جیسے گھر کے صحن میں چھوٹا سا گڑھا کھودنے کے لیے ایٹم بم چلا دیا جائے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اہل نظر ابھی تک انشائیہ کی بے پناہ قوت سے واقف نہیں ہو سکے۔ انہیں شاید معلوم نہیں کہ جس طرح ایک مجدد معاشرے کی تجدید کرتا ہے، اسی طرح جب انشائیہ کسی ادب میں نمودار ہوتا ہے تو پورے ادب کی تجدید ہو جاتی ہے۔ ابھی سے اردو انشائیہ نے اردو افسانہ، نظم اور سفر نامے پر اپنے اثرات مرتسم کرنے شروع کر دیے ہیں۔ بلکہ اہم بات یہ ہے کہ اس نے نئی پود کو آنکھیں میچ کر پرانی باتیں تسلیم کرنے کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا ہے اور انہیں سوال کرنے اور بنے بنائے نظریات اور رویوں پر نظر ثانی کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔ انشائیہ ایک نئے زاویہ نگاہ کا نام ہے۔ زندگی کو دوسرے کنارے سے دیکھنے کی ایک روش ہے۔ انشائیہ ایک مثبت طرز کی بغاوت ہے جو شخصیت پر چڑھے ہوئے زنگ کو اتارتی ہے، تشنج کو رفع کرتی ہے اور انسان کو جذباتی اور نظریاتی جکڑ بندیوں سے نجات دلا کر آزادہ روی کی روش پر گامزن کر دیتی ہے۔ ایسی دلآویز امکانات کی حامل اور لطافت سے مملو صنف نثر کو پیش پا افتادہ اخباری موضوعات پر خامہ فرسائی کی دعوت دینا ایک قومی المیہ نہیں تو اور کیا ہے ؟
انشائیہ پر ایک اور اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تبسم زیر لب کا اہتمام کرتا ہے لیکن کھل کر قہقہہ لگانے کی اجازت نہیں دیتا اور یوں انسانی مسرت کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے۔ اس کا نہایت عمدہ جواب مشتاق قمر نے یہ کہہ کر دیا ہے کہ آپ کس قسم کی مسرت کے جو یا ہیں ؟ کیا ایسی مسرت کے جو لطیفے سن کر ایک بھر پور قہقہہ لگانے کے بعد غبارے کی طرح پھٹ جاتی ہے یا ایسی مسرت کے جو آپ کے دل کے اندر موم بتی کی طرح سلگتی ہے اور تا دیر سلگتی رہتی ہے۔ دونوں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ طنز یا مزاح سے پیدا ہونے والا قہقہہ فاضل اسٹیم کے اخراج کا اہتمام کرتا ہے اور قہقہہ لگانے کے بعد انسان کی حالت اس کارتوس کی سی ہو جاتی ہے جس میں سے چھرے نکل چکے ہوں۔ چنانچہ اس کے لیے اردگرد کے ماحول کو بے معنی نظروں سے دیکھنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا یا پھر وہ عادی نشہ باز کی طرح مزید لطائف کی فرمائش کرتا ہے تاکہ مزید جمع شدہ سٹیم کا اخراج کر سکے۔ اس کے برعکس انشائیہ کا مقصد ہنسی کو تحریک دینا نہیں۔ اس کا مقصد ذہن کو تازہ دم کرنا ہے اس کے لیے وہ بقدر ضرورت تبسم زیر لب کا اہتمام کرتا ہے یا اس تبسم کا جسے شاعرانہ مزاح Humour Poetic کہا گیا ہے اور جو غالبؔ کی شاعری کے علاوہ مشکل ہی سے کسی دوسرے اردو شاعر کے ہاں نظر آتا ہے۔ یہ مزاح کی وہ قسم ہے جس میں آنسو اور تبسم ایک دوسرے میں جذب ہو جاتے ہیں۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تبسم زیر لب کسی لطیفے کو سن کر برانگیخت نہیں ہوتا بلکہ معنی کے پرتوں کے اترنے پر متحرک ہوتا ہے۔ جب انشائیہ نگار ایک معمولی سی شے میں مضمر معنی کو سامنے لاتا ہے تو قاری یا تو زندگی کی بے معنویت کا یا پھر معنویت کی معنویت کا عرفان حاصل کر کے ایک معنی خیز مسکراہٹ سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ یہ مسکراہٹ اصلاً ایک عارفانہ مسکراہٹ ہے جو سدھارتھ کے ہونٹوں پر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب اس پر اچانک کائنات کا راز فاش ہو جاتا ہے اور مونا لیزا کے ہونٹوں پر اس وقت جب اسے اپنی تخلیقی حیثیت کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ سو انشائیہ نگار کو معنی خیز تبسم عطا کرنے کے اہم کام سے روک کر محض فقرہ بازوں اور لطیفہ گویوں کی صف میں لا کھڑا کرنا کفران نعمت نہیں تو اور کیا ہے ؟
انشائیہ پر ایک یہ پھبتی بھی کسی گئی ہے کہ انشائیہ نگار جھک کر ٹانگوں میں سے سمندر کو دیکھنے کا مشورہ دیتا ہے۔ پس منظر اس پھبتی کا یہ ہے کہ میں نے انشائیہ فہمی کے سلسلے میں ابتداءً جو مضامین تحریر کئے ان میں اس بات پر زور دیا تھا کہ انشائیہ سامنے کی چیزوں یا مناظر کو ایک نئے زاویہ سے دیکھنے کا نام ہے۔ اس کے لیے یا تو وہ چیزوں اور مناظر کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے تاکہ ان کے چھپے ہوئے پہلو نظر کے سامنے آ جائیں یا پھر خود اپنی جگہ سے ہٹ کر ان چیزوں اور مناظر کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ موخر الذکر بات کو میں نے کئی مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی جن میں ایک مثال بچپن کے اس تجربے سے لی جب لڑکے بالے کھیل کود کے دوران جھک کر ٹانگوں میں سے منظر کو دیکھتے ہیں اور یوں انہیں ہر روز کا دیکھا بھالا منظر انوکھا نظر آنے لگتا ہے۔ میں نے دوسری مثال دریا کے کنارے کے سلسلے میں دی اور کہا کہ اگر آپ دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کو دیکھنے کے عادی ہیں اور آپ کو ہر روز ایک ہی اکتا دینے والا منظر نظر آتا ہے تو آپ کسی روز دوسرے کنارے پر جا نکلیں اور وہاں سے پہلے کنارے کو دیکھیں تو آپ کو سارا منظر ایک نئے روپ میں نظر آئے گا۔ لہٰذا انشائیہ ’’دوسرے کنارے ‘‘ سے دیکھنے کا نام ہے۔ مراد یہ کہ ہم عادت اور تکرار کے دائرے سے باہر آئیں، شخصیت کی آہنی گرفت سے آزاد ہوں اور خود پر سے معاشرتی دباؤ کو ہٹائیں تو ہمیں ہر شے ایک نئے تناظر میں نظر آئے گی اور اس کے چھپے ہوئے مفاہیم ابھر کر سامنے آ جائیں گے۔ یہ عمل ہمیں سوچ کی غذا مہیا کرے گا اور ہمارے اندر کی اس ’’حیرت‘‘ کو جگائے گا جس کے بغیر ادب کی تخلیق ممکن نہیں ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ اعصابی تناؤ کا شکار ہیں جو معاشرتی، نظریاتی اور اخلاقیاتی دباؤ کا نتیجہ ہے اور انسان کو ایک تنگ دائرے میں مقید رکھتا ہے۔ انشائیہ نگار جب انشائیہ لکھتا ہے تو خود بھی اس اعصابی تناؤ سے آزاد ہوتا ہے اور اپنے قاری کو بھی ’’آزاد‘‘ ہونے کی راہ دکھتا ہے۔ ’’ آزادہ روی‘‘ کا یہ عمل ہی انشائیہ کا محرک بھی ہے اور اس کا ثمر شیریں بھی۔ وہ لوگ جو بھاری بھر کم لبادوں میں ملبوس ہیں۔ جنہوں نے خود کو معاشرتی اور اخلاقیاتی پابندیوں میں کچھ زیادہ ہی محبوس کر رکھا ہے۔ وہ نہ تو انشائیہ لکھنے پر ہی قادر ہو سکتے ہیں اور نہ انہیں انشائیہ سے لطف اندوز ہونے کی سعادت ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ ایسے لوگ جو ہمہ وقت اپنی دستار کو سنبھالنے کے شبھ کام پر مامور ہیں، ان کے لیے جھک کر ٹانگوں میں سے منظر کو دیکھنا یا درخت پر چڑھ کر اس پر ایک نظر ڈالنا یا پھر ہر روز کے دیکھے بھالے کنارے کو چھوڑ کر دوسرے کنارے پر جا نکلنا ناقابل برداشت ہے۔ وجہ یہ کہ وہ ’’آزاد‘‘ نہیں ہیں۔ وہ در اصل اس اعصابی خوف میں مبتلا ہیں کہ زمانہ انہیں دیکھ رہا ہے۔ اگر انہوں نے بنی بنائی کھائیوں سے باہر آنے کی کوشش کی تو زمانہ ان کا مذاق اڑائے گا یا انہیں سزا دے گا۔ لہٰذا وہ جسمانی اور ذہنی دونوں سطح پر ساری زندگی لکیر کے فقیر بن کر گزار دیتے ہیں۔ انشائیہ در اصل زنگ آلود معاشرے پر سے زنگ کو کھرچنے کا نام ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کو اپنے معمولات سے اوپر اٹھنے کی تحریک ملتی ہے اور عادت اور تکرار کے زندان سے باہر آنے کا موقعہ ملتا ہے۔
آخر میں محض ایک اور بات کا ذکر کروں گا وہ یہ کہ انشائیہ ایک ایسی غیر افسانوی صنف نثر ہے جو قاری کو بیک وقت فکری لطف اندوزی، جسمانی تسکین اور جمالیاتی حظ مہیا کرنے پر قادر ہے۔ اسی لیے میں اسے امتزاجی صنف کا نام دیتا ہوں جس میں کہانی کا مزہ، شعر کی لطافت اور سفر نامے کا فکری تحرک یکجا ہو گئے ہیں۔ تاہم انشائیہ محض ان اوصاف کی ’’حاصل جمع‘‘ کا نام نہیں ہے وہ ان سب کو اپنے اندر جذب کر کے خود ایک ایسی اکائی بن کر نمودار ہوتا ہے جس کی انفرادیت ان جملہ اوصاف کی حاصل جمع سے کچھ ’’زیادہ‘‘ ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے انشائیہ کا ایک اپنا سٹرکچر ہے جو سٹرکچرنگ Structuringکے عمل کو بروئے کار لا کر سدا نئے نئے امکانات کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔
ہمارے ہاں بعض اصناف ادب پر دیگر فنون کا غلبہ صاف محسوس ہو رہا ہے۔ مثلاً شاعری پر موسیقی کا اور کہانی پر فلم کا لیکن انشائیہ وہ واحد صنف ہے جو اپنی انفرادیت کو بر قرار رکھے ہوئے ہے۔ اس میں اختصار کا دامن وسیع ہے اور خود اس کے اندر امکانات کا یہ عالم ہے کہ اسے کسی اور فن لطیف کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
مجھے یقین ہے کہ آنے والی صدیوں میں انشائیہ وہ واحد صنف نثر ہے جو اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گی اور اپنی ہیئت اور مواد دونوں میں ایجاز و اختصار کو ملحوظ رکھنے کے باعث آنے والے زمانوں کے قدموں سے قدم ملا کر چلنے میں کامیاب ہو گی۔ اپنے انشائیہ Going on a Journey میں ہیزلٹ نے ایک جگہ لکھا ہے۔
Give me a clear blue sky over my head,
A green turf beneath my feet,
A winding road before me,
And three hour’s march to dinner and then to thinking.
یہی انشائیہ نگار کا اصل منصب بھی ہے کہ وہ شاہراہ سے اپنے لئے عمدہ پگڈنڈی نکالتا ہے۔ پھر اس پر، اکیلا زمین کی سبزی اور آسمان کی نیلاہٹ کے عین درمیان ایک تخلیقی سفر کا اہتمام کرتا ہے۔ پھر رات کے کھانے سے لطف اندوز ہوتا ہے اور کھانے کے بعد وہ سوچ کے اس لا متناہی سلسلہ سے متعارف ہوتا ہے جو ازل اور ابد کے درمیان ایک سنہری زنجیر کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ لہٰذا انشائیہ نگار بیک وقت ایک فن کار بھی ہے، دنیا دار بھی اور صوفی یا مفکر بھی! وہ پگڈنڈی پر سفر کرتے ہوئے جمالیاتی حظ حاصل کرتا ہے تو ساتھ ہی رات کے کھانے سے لطف اندوز ہونے کو بھی ضروری سمجھتا ہے مگر کھانے کے بعد لطیفہ گوئی میں وقت صرف کرنے کے بجائے سوچ کی تازگی میں جذب ہو جاتا ہے گویا وہ بیک وقت جمالیاتی تسکین بھی حاصل کرتا ہے، جسمانی لذت اور فکری تسکین بھی! اگر کوئی صنف انسان کو بیک وقت ان تینوں سطحوں پر مسرت مہیا کرنے پر قادر ہو تو اس سے بڑی صنف ادب اور کون سی ہو سکتی ہے ؟
( بحوالہ: انشائیہ کے خد و خال، وزیر آغا، لاہور، ۱۹۹۰)
٭٭٭
۲۔ انشائیہ اور عصری آگہی
انور سدید
بظاہر یہ بات تعجب انگیز نظر آتی ہے کہ مختلف اصناف ادب کے فروغ و ارتقاء کا سلسلہ مخصوص ادوار اور زمانوں کے ساتھ بھی متعلق ہوتا ہے تاہم اگر ادب کا تجزیہ کیا جائے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نظر نہیں آتا کہ بعض اصناف مخصوص زمانے میں فروغ و ترقی کی منزل طے کرتی ہیں۔ اردو غزل کی روایت قدیم اور بہت مضبوط ہے لیکن ترقی پسند تحریک کے عروجی دور میں غزل کا فروغ و ارتقاء رک سا گیا اور اس دور میں نظم کو زیادہ اہمیت ملی۔ ایک زمانے میں افسانے کی صنف صرف صورت واقعہ کے بیان تک محدود تھی لیکن گذشتہ دو دہائیوں میں کہانی کا فریم ٹوٹ پھوٹ گیا اور علامتی اور تجریدی افسانے کو زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ اس پہلو کو مد نظر رکھیں تو یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ اچھا انشائیہ ہر زمانے میں پیدا نہیں ہوتا۔ ہر چند انشائیہ آزاد ماحول کا تقاضا کرتا ہے اور پابندی و محبوس فضا کو قبول نہیں کرتا۔ تاہم امر واقعہ یہ بھی ہے کہ انشائیہ صرف اس دور میں پنپ سکتا ہے جب ماحول اور حالات سے فرد ایک شدید بے اطمینانی کے احساس میں مبتلا ہو۔ (۱)
ڈاکٹر جانسن نے سٹیل کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’وہ غیر مطمئن عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے ‘‘ ایسّے ‘‘ لکھتا رہا اور اس نے نثر میں غیر جارحانہ اور سرد رویے کی عکاسی کر کے سیاست کی پیدا کردہ گرمی کو معتدل بنانے کی کاوش کی ہے۔ ‘‘ (۲)
اس زاویے سے بر صغیر کو اس کے سیاسی اور سماجی پس منظر میں دیکھئے تو آزادی سے پہلے کا زمانہ شدید سیاسی تحرک اور نعرہ بازی کا زمانہ نظر آتا ہے۔ اس قسم کا ماحول انشائیہ نگاری کے لئے سازگار نہیں، آزادی کے بعد فرد نئے معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں مصروف ہو گیا۔ اس دور میں اس نے نہ صرف آسودگی کے ایک خود ساختہ تصور کی پرورش کی بلکہ مستقبل کے بارے میں بعض مافوق الحقیقت امیدوں کی افزائش بھی کی۔ اسے ماحول سے بے اطمینانی کا احساس تو اس وقت ہوا جب اس کے خیالی مستقبل کے خواب چکنا چور ہو گئے اور سیاسی و معاشرتی مطلع ابر آلود ہو گیا۔ شاید یہی وقت تھا جب انشائیہ کی تخلیق عمل میں آسکتی تھی۔ چنانچہ اسی دور میں اردو انشائیہ وجود میں آیا اور اس نے زندگی کی نا آسودگی کو کم کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا۔ پاکستان کے اطراف و جوانب فضا قدرے مختلف تھی۔ چنانچہ اردو زبان کے دوسرے مسکنوں میں انشائیہ کو فروغ حاصل نہیں ہوا۔
انشائیہ اس لحاظ سے ایک غیر مقصدی صنف ادب ہے کہ یہ فرد کو نہ تو انقلاب کے منفی انداز کے عمل پر آمادہ کرتی ہے اور نہ اسے عرفان کی کسی منزل سے ہمکنار کرنے کی دعویدار ہے۔ لیکن انشائیہ چونکہ فرد کو حقیقت کے ایک نئے مدار سے آشنا کرتا اور اس کو بہجت کی ایک نئی کیفیت سے متعارف کراتا ہے اس لئے یہ اپنی ایک افادی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ انشائیہ اندھیرے کے جگنو کی طرح ہے جو منزل کی امید تو دلاتا ہے لیکن خود منزل نہیں بنتا۔ انشائیہ ہمیں تھوڑی سی دیر کے لئے اس معصوم بچے کی سطح پر لے آتا ہے جو سنگریزوں سے جھولی بھر کر اتنا خوش ہو جاتا ہے جتنا کہ ایک شہنشاہ جواہرات کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر بھی خوش نہیں ہوتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انشائیہ کو ایک صنف ادب کے طور پر کسی مقصد کا آلہ کار نہیں بنایا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیہ کوان ممالک میں زیادہ فروغ ملا ہے جہاں ادب کو مقصد کا غلام نہیں بنایا جاتا اور بعض ایسے ممالک میں جہاں ادب کو نظریاتی پروپیگنڈے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے وہاں انشائیہ کی کونپل پھوٹ نہیں سکی۔ یوں دیکھیں تو ترقی پسند ادبا کے ہاں انشائیہ کو قبول کرنے کا میلان بھی نظر نہیں آتا۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انشائیہ میں اپنے عہد کی آہٹ موجود نہیں ہوتی، ایمی دی گارماں کے مطابق ’’فن کار اپنی ذات کے بارے میں لکھتے ہوئے بھی اپنے زمانے کے بارے میں لکھتا ہے۔ ‘‘ (۳)
چنانچہ انشائیہ میں بھی ادیب انکشاف ذات کرتا ہے تو وہ اپنے زمانے کو نظر انداز نہیں کرتا۔ انشائیہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں عصری آگہی کے آثار تخلیق کی سطح کے ساتھ چپکے ہوئے نظر نہیں آتے۔ بلکہ یہ ایک مخصوص عمل سے گزرنے اور منقلب ہونے کے بعد ہی قاری کے سامنے آتے ہیں، انشائیہ میں عصری آگہی معروضی نہیں بلکہ انشائیہ عصری آگہی کو بھی ایک نئی نوع کے تاثر میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ اس خوشبو کی مانند ہے جو مشام جاں کو معطر کر دیتی ہے لیکن جسے چھونا ممکن نہیں۔
انشائیہ کے جنم میں اس حقیقت کا عمل دخل زیادہ ہے کہ جب مونتین نے اپنی عصری آگہی اور ذاتی تجربے کو زمانے کے سامنے آزادہ خیالی سے پیش کرنے کا ارادہ کیا تو غیر منضبط تحریروں سے انشائیہ وجود میں آگیا۔ مونتین فطری طور پر داخلیت پسند تھا، اسے زندگی کی بیشتر دنیاوی آسائشیں میسر تھیں۔ اس کا عہد فکری تموج کا عہد تھا، زندگی اور مابعد الطبیعیات کی جنونی جستجو نے ہر خاص و عام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، سماجی سچ پر شدید بد اطمینانی موجود تھی۔ اس دور میں مونتین نے ایسی تحریریں پیش کیں جن میں نہ صرف مونتین خود موجود تھا بلکہ ان تحریروں میں اس دور کا فرانس بھی سانس لے رہا تھا۔
بلاشبہ مونتین نے زیادہ تر اپنی ذات کو منکشف کیا لیکن اس عمل میں اس نے اپنے زمانے سے اغماض نہیں برتا۔ چنانچہ مونتین کے نثر پاروں سے اس کی سوانح عمری تو مرتب نہیں ہو سکتی لیکن ان سے فرانس کی تہذیبی زندگی کے نقوش اور اس عہد کی سرگرمیوں کا احوال مرتب کیا جا سکتا ہے۔ وجہ یہ کہ مونتین نے متعدد تجربات سے ایک کلی حقیقت کا استنباط کیا اور وہ روح عصر جسے فرانس کے فکری انتشار میں سمیٹنا مشکل تھا اس کے افکار پریشاں میں یوں سمٹ آئی کہ پورا فرانس اس آئینے میں اپنی فطرت کا مشاہدہ کرنے لگا۔ چنانچہ مونتین کی اس خدمت سے انکار ممکن نہیں کہ اس نے فرد کو عصری حقیقت کا ایک نیا اور انوکھا روپ دکھانے کی کاوش کی۔ بیکن نے اپنے عہد کے متصادم میلانات اور برسرپیکار تصورات کو عصری آگہی کی نئی تعبیر سے ایک مثبت جہت دینے کی کاوش کی اور فرد کو ممنوعات کے ازدحام سے نکال کر فطری سطح پر زندگی گزارنے کی دعوت دی، انشائیہ کی یہ ابتدابے حد معنی خیز تھی تاہم اسے عصری آگہی سے براہ راست متعلق کرنے میں ایڈیسن اور سٹیل نے زیادہ گر انقدر خدمات سر انجام دیں۔ یہ انشائیہ نگار چونکہ اخبارات کے ساتھ وابستہ تھے اس لئے ان دونوں نے انشائیہ کو تہذیبی اصلاح کا وسیلہ بنانے کی کاوش کی۔ چنانچہ ایڈیسن نے انشائیہ کو ایسی مقراض قرار دیا ہے جس سے باغ کی روشوں کی شاخ تراشی کی جاتی ہے۔
انشائیہ میں عصری آگہی اپنے تصور کو جامد صورت میں پیش نہیں کرتی بلکہ اس کا مدار بھی ہمہ وقت گردش میں رہتا ہے۔ کبھی انشائیہ نگار اپنی ذات کے ایک نکتے کے انکشاف سے زمانے کو گرفت میں لے لیتا ہے اور کبھی زمانہ کائنات کے زینے سے ذات کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے، دونوں صورتوں میں انشائیہ نگار کسی تیز یا ترش رد عمل کا اظہار نہیں کرتا بلکہ وہ زمانے کی خلوت میں داخل ہونے کے لیے ہمارے سامنے اپنی شخصیت کا دریچہ کھول دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر انشائیہ معاشرے کے اعمال و افعال کی ہر حرکت کو دیکھتا ہے اور اس کی ہر لرزش کو مہکے ہوئے پھول کی طرح اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے اور یوں انشائیہ نگار کی لوح دل سے جو نقش بھی ابھرتا ہے اس میں زمانے کی روح موجود ہوتی ہے۔
اردو کے بیشتر انشائیہ نگاروں نے بھی لمحے کی چاپ کو بگوش ہوش سننے اور عصری آگہی کو مختلف زاویوں سے پیش کرنے کی کاوش کی ہے، مثال کے طور پر انشائیہ ’’چوری سے یاری تک‘‘ از وزیر آغا میں انشائیہ نگار نے چوری کے پیشے پر انشائی نظر ڈالی اور نہ صرف تاریخ و تہذیب کی بعض معروف کروٹوں کو سمیٹ لیا بلکہ مویشیوں کی چوری سے لے کرثقافت کی نقالی تک سرقے کے بہت سے زاویوں کی طرف خوش طبعی سے اشارہ بھی کر دیا۔ کامیابی حاصل کرنا ایک صحت مند عمل ہے، لیکن موجودہ دور میں کامیابی کا ناجائز حصول ایک عصری حقیقت بن چکا ہے۔ انشائیہ ’’کامیابی‘‘ از اکبر حمیدی میں انشائیہ نگار اس عصری حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے لیکن جراحت پیدا کئے بغیر قاری کی زمام فکر ایک نئی اور صحت مند ڈگر پر ڈال دیتا ہے۔ انشائیہ ’’تمباکو نوشی‘‘ از جمیل آذر میں انشائیہ نگار کا مقصد اس قبیح عادت کی ضرر رسانیوں کی طرف توجہ دلانا نہیں لیکن اس حوالے سے عصر حاضر میں پلنے والی انائے کاذب اور تکبر بے جا کو بڑی خوبی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ انشائیہ ’’جال‘‘ از سلیم آغا قزلباش میں غیر ملکی امداد سے پیدا ہونے والی ذہنی غلامی کی طرف بالواسطہ اشارے ملتے ہیں۔ انشائیہ ’’کرسی‘‘ از سلیم آغا میں انشائیہ نگار نے عصری آویزش اور سماجی کشمکش کا ایک زاویہ کرسیوں کی جنگ میں دیکھا ہے۔ وہ اس موضوع پر ایک حساس ادیب اور آسودہ انسان کی نظر ڈالتا ہے اور پست مقاصد میں ملوث ہوئے بغیر بلند تر مقاصد کی طرف پرواز کر جاتا ہے۔
مندرجہ بالا مثالوں کے اجمال سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انشائیہ نگار اپنے عہد کے اعمال و افعال، سیاسی و سماجی تموج، فکر و نظر کے طغیان اور تہذیبی و معاشرتی کروٹوں پر ایک حساس اور تجربہ کار ادیب کی نظر ڈالتا ہے اور عصری حقیقتوں کو نئے نئے زاویوں سے اجاگر کرتا چلا جاتا ہے اور یہ تمام عمل کچھ اس طرح سے ظہور پذیر ہوتا ہے کہ انشائیہ نگار زمانے کے مواج سمندر میں گہرا غوطہ لگانے کے لئے ہر وقت بے تاب رہتا ہے اور جب زمانہ اس پر اپنے اسرار چھوٹے چھوٹے جگنوؤں کی صورت میں کھولنے لگتا ہے تو انشائیہ نگار انہیں صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتا بلکہ انشائیہ کی تخلیقی صورت دے کر دوستوں میں تقسیم کر دیتا ہے چنانچہ میری نظر میں انشائیہ لکھنا محض اظہار ذات ہی نہیں بلکہ یہ ایک کریمانہ عمل بھی ہے۔
(مطبوعہ: جدید اردو انشائیہ، مرتبہ اکبر حمیدی، اکادیمی ادبیاتِ پاکستان، اسلام آبا د، ۱۹۹۱ء )
حواشی:
۱۔ غلام جیلانی اصغر ’ انشائیہ‘، ’ادبی دنیا ‘، دور پنجم، شمارہ نہم
۲۔ بحوالہ: ’ پہلا پتھر ‘مقدمہ ’ ہم ہیں مشتاق ‘ ص: ۲۰
۳۔ بحوالہ: ’ایلیٹ کے مضامین ‘، مترجم: ڈاکٹر جمیل جالبی
٭٭٭
۳۔ انشائیہ بطور ایک اصطلاحِ ادب
پروفیسر مشکور حسین یاد
مجھے اپنے اس مختصر سے مضمون میں یہ نہیں بتانا کہ انشائیہ کا لفظ سب سے پہلے کب ظہور میں آیا۔ اسے کس نے عربی کے لفظ انشا سے انشائیہ کی صورت بخشی، محمد حسین آزاد یا مہدی افادی نے سب سے پہلے اپنی تحریر میں استعمال کیا یا ’’ترنگ‘‘ کا دیباچہ لکھتے وقت ۱۹۴۰ء میں اختر اورینوی نے اسے خاص معنی میں برتا، ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۷ء تک اردو میں اس لفظ نے انگریزی کے لفظ ایسّے کی جگہ استعمال ہونے کا رواج نہیں پایا تھا۔
انشائیہ کو ایسّے کے لئے ۵۹۔ ۱۹۵۸ء ہی میں مختص کیا گیا۔ بہر حال انشائیہ کے لفظ کی اس طرح تحقیق کرنا میرا کام نہیں یہ کسی محقق کے لئے چھوڑتا ہوں۔
میں تو صرف یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اردو والوں نے جو لفظ انشائیہ ’ایسّے ‘ کی جگہ استعمال کرنا شروع کیا ہے اپنے معنی کے اعتبار سے ’ایسّے ‘کے لفظ سے کہیں زیادہ مناسب اور موزوں ہے بلکہ سچ پوچھئے تو مناسب اور موزوں کے الفاظ بھی لفظ انشائیہ کی وسعت اور ہمہ گیری کو واضح نہیں کرتے۔ ’ ایسّے ‘ کے معنی تو محض کوشش کرنے یا قدم اٹھانے کے ہیں اور یہ معنی کسی طرح بھی ان کے عمق اور افق کا احساس نہیں دلاتے جو لفظ انشائیہ کے معنی میں پوشیدہ ہیں۔
یہ درست ہے کہ جب کوئی لفظ ایک اصطلاح کی صورت اختیار کرتا ہے تو اپنے معنی میں محدود ہو جاتا ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ لفظ ایک اصطلاح بن جانے کے بعد بھی اپنے اصل معنی یعنی لغوی معنی سے اصطلاحی حوالے کے ساتھ بالکل قطع تعلق نہیں کر لیتا بلکہ سچ ہوچھئے تو اس کے لغوی معنی ہی کے باعث اس کے اصطلاحی معنی پر صحیح طور پر روشنی پڑتی ہے۔ اصطلاح تو محض اس لفظ کے ظاہر کو محدود کرتی ہے۔ لفظ کے باطن کی وسعت اور گہرائی جوں کی توں رہتی ہے، لہٰذا کسی لفظ کو اصطلاح بنانے سے پہلے اس کے اصل معنی کو پیش نظر رکھنا از بس ضروری ہے۔ اس بات کو دوسری طرح سے یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی لفظ کا بطور اصطلاح تجزیہ کرنا مقصود ہو تو ہمیں پہلے اس لفظ کے اصل معنی پر غور کرنا چاہئے تاکہ ہم یہ پتہ لگاسکیں کہ اس لفظ کو اصطلاح کا رتبہ دینے سے قبل کہاں تک دقّتِ نظر سے کام لیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر لفظ غزل کو لیجئے۔ سب جانتے ہیں یہ غزال سے نکلا ہے اور اس کے لغوی معنی ہرن کی اس درد بھری آواز کے ہیں جو اس کے منہ سے اس وقت نکلتی ہے جب شکاری کتے اسے شکار کے لئے دبوچ لیتے ہیں۔ غزل کے ان لغوی معنی کو سامنے رکھ کر جب ہم غزل کے اصطلاحی معنی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اس صنف سخن کے لئے یہ لفظ نہایت سوچ سمجھ کر منتخب کیا گیا ہے۔ غزل کے لغوی معنی میں غزل کے اصطلاحی معنی کی روح پوشیدہ ہے اور جس چیز کو ہم تغزل کہتے ہیں وہ اس لفظ کے رگ وپے میں سمائی ہوئی ہے۔ جیسے ہی غزل کا لفظ ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو جہاں ہرن ایسا خوبصورت جانور صحرا کی وسعتوں میں قلانچیں بھرتا دکھائی دیتا ہے وہاں ہمیں اس کی گردن پر چھری چلتی بھی دکھائی دیتی ہے۔ گویا ہمیں بیک وقت زندگی کی رعنائی کا احساس بھی ہوتا ہے اور اس کے درد و کرب کی شدت کا بھی۔ بس یوں سمجھئے ہم غزل کے لفظ کو کیا دیکھتے ہیں، تغزل کے جملہ مفاہیم مجسم ہو کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔
فرانسیسی ادیب مونتین کو ہم اس بات کی داد تو ضرور دیں گے کہ اس نے سب سے پہلے ۱۵۷۱ء میں ایسے کا لفظ ایک ادبی اصطلاح کے طور پر پوری دنیائے ادب کو دیا، لیکن میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بطور اصطلاح یہ لفظ اپنا مفہوم بطریق احسن ادا نہیں کرتا اور اس کی اولین وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ اس لفظ کے لغوی معنی اس وسعت اور گہرائی کے حامل نہیں ہیں جن کا تقاضا کہ اس کے اصطلاحی معنی کرتے ہیں، لیکن یہاں ہم لفظ ایسّے کو قصور وار نہیں ٹھہراسکتے۔ قصہ در اصل یہ ہے کہ مونتین نے ادب کے سرچشمہ کو محسوس تو کر لیا، لیکن وہ پوری طرح اس کی وسعتوں اور گہرائیوں کا احساس نہ کر سکا۔ اگر مونتین کو یہ بھی احساس ہو جاتا کہ جس طریق اظہار کو اس نے ایسے کا نام دیا ہے وہ محض ایک صنف ادب نہیں بلکہ ادب کے اظہار کامنبع و مصدر اور سرچشمہ ہے تو مجھے یقین ہے وہ اس کا نام ایسّے ہر گزنہ رکھتا۔ جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں اور آپ جانتے بھی ہیں ایسّے کے معنی کوشش، سعی یا اقدام کے ہیں۔ ذرا غور فرمائیے یہ معنی انسان کے اس بے ساختہ فطری اور تخلیقی ادبی اظہار کی روانی کا ساتھ کہاں دے رہے ہیں جو اس طریق اظہار کی جان ہے، اس لئے میرا کہنا یہ ہے کہ لفظ انشائیہ فرانسیسی زبان کے لفظ ایسّے سے کہیں زیادہ مناسب اور موزوں ہے۔ انشائیہ میں تو تخلیقی کیفیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ میرا مطلب ہے انشائیہ کا لفظ تو بناہی انشا سے ہے جس کے معنی تخلیق کرنے کے ہیں۔ دوسری طرف ایسے کے لغوی معنی کوشش یا اقدام کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے یہاں اس خلاقانہ فطری بہاؤ کا دور دور بھی نشان نظر نہیں آتا، جس فطری بہاؤ کو ایک انشائیہ یا ایسّے کی بنیادی خصوصیت کہا جاتا ہے۔ کوشش یا اقدام میں تو ارادہ کا دخل ہوتا ہے یعنی جب تک انسان ارادہ نہ کرے اس کے کسی عمل کو کوشش کا نام نہیں دیا جا سکتا اور جو کام اس سے از خود سرزد ہوتے ہیں وہ کوشش کے زمرے میں شامل نہیں کئے جا سکتے۔ ادھر ادب کے جس طریق اظہار کو ایسّے کہا جاتا ہے وہ ہر تخلیقی عمل کی طرح ارادہ سے زیادہ عمل کا متقاضی ہے، گویا کوشش میں جو تکلف شامل ہوتا ہے وہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میرے اس کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انشائیہ کسی کوشش کے بغیر وجود میں آ جاتا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب تو یہ ہے کہ انشائیہ کو یا اس کی تخلیق کو کوشش کا نام دینا مناسب نہیں۔ اگر انشائیہ کو محض ایک کوشش کا درجہ دیتے ہیں (جیسا کہ ایسّے کے لفظ سے ظاہر ہے ) تو ہمارے لئے اس کے تخلیقی عمل کی صحیح تعریف کرنا ممکن نہیں رہتا۔ تخلیقی عمل کے لئے بے تکلفی بے حد ضروری ہے اورکوشش خواہ کتنی بھی آزادی سے کی جائے اس میں تکلف کسی نہ کسی طور درآتا ہے۔ کہا جاتا ہے مونتین نے انکسار کے کے طور پر اپنی اس ادبی کاوش کو ایسّے کا نام دیا تھا۔ ممکن ہے یہ بات صحیح ہو، لیکن یہاں میں پھر یہی گذارش کروں گا کہ اگر مونتین نے انکسار میں آ کر یہ نام رکھ لیا تھا تو انکسار کا تعلق محض انکسار کرنے والے کی ذات سے ہوتا ہے۔ ایک ادبی اصطلاح کو وضع کرتے وقت اگر اس کو وضع کرنے والا فقط اپنی ذاتی چیز سمجھتا ہے اس حد تک تو ہم اس نام کو درست سمجھ سکتے ہیں، لیکن اگر یہ اصطلاح عام ہو جاتی ہے تو پھر ہمیں اس کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو پس منظر میں رکھ کر گفتگو کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جیسا کہ آپ جانتے ہیں ایسے کا لفظ فرانسیسی زبان میں عربی سے لیا گیا ہے، عربی میں سعی کوشش کو کہتے ہیں اور اس میں ’’ال‘‘ لگا کر یعنی السعی کہہ کر اس کوشش کو خاص کوشش کے معنی دئیے گئے ہیں۔ گویا ایسّے کے معنی خاص کوشش کے ہوئے۔ اس طرح غور کیا جائے تو کوشش کہہ کر اسے معنوی اعتبار سے عام کوشش سے جدا کر دیا گیا ہے اور یوں جیسا کہ سطور بالا میں بیان ہوا ہے یہ کوشش سپاٹ اور بے کیف نہیں رہ جاتی۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوشش کو خاص کہہ کر اس میں ادبی رنگ پیدا کر دیا گیا ہے۔ گویا یہ کوشش عام کوشش نہیں ہے، بلکہ ایک ادیب کی کوشش ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسے کے لفظ کو بطور اصطلاح اپنانے کے حق میں جو سب سے بڑی بات کہی جا سکتی ہے وہ یہی ہے کہ ادیب کی کوشش صرف فرانسیسی ادیب مونتین کی کوشش نہیں بلکہ تمام ادیبوں کی کوشش ہے اور یوں جہاں اس لفظ میں ایک وسعت پیدا ہوتی ہے وہاں انکسار کی شمولیت بھی محض کسی ایک ادیب کا انکسار کہلانے کی حد کو پھلانگ جاتی ہے۔ تخلیقِ ادب کے لئے ادیب کا منکسر المزاج ہونا از بس ضروری ہے۔ انکسار خصوصیت کے ساتھ ایک ادیب کا انکسار اس کی خلاقانہ صلاحیتوں ہی کا آئینہ دار نہیں ہوتا، اس کے تخلیقی امکانات کا بھی پتہ دیتا ہے۔ میں لفظ ایسے کے حق میں بطور اصطلاح اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن اس لفظ کی ان جملہ خوبیوں کے باوجود میں یہ کہنے کی جرات کروں گا کہ انشائیہ کا لفظ ایسّے کے لفظ سے پھر بھی زیادہ واضح المطالب ہے اور کوشش کو خاص کوشش کہنے کے باوصف ہم اس میں سے انسانی ارادہ کو خارج نہیں کر سکتے، اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ انشائیہ کے لفظ میں جو ایک تخلیقی اضطرار کی کیفیت پائی جاتی ہے وہ ہمیں ایسّے کے لفظ میں پھر بھی نظر نہیں آتی۔ انشائیہ کا لفظ تو ہمیں براہ راست تخلیقی اضطرار کا احساس دلاتا ہے اور بڑے بھر پور انداز میں دلاتا ہے، چنانچہ اگر آپ میری ان چند معروضات کی روشنی میں لفظ انشائیہ پر بطور اصطلاح ادب غور فرمائیں گے تو یقیناً ہمارے اس اردو کے لفظ کو فرانسیسی اور انگریزی کے ایسّے کے لفظ سے بہتر پائیں گے۔
(مطبوعہ: ممکناتِ انشائیہ، مشکور حسین یاد، لاہور۱۹۸۳ء)
٭٭٭
۴۔ انشائیہ۔ مبادیات
ڈاکٹر سلیم اختر
انشائیہ پر مختلف نقادوں کی تحریروں سے اس کی تکنیک کے بارے میں بہت کچھ پڑھ کر مندرجہ ذیل امور ذہن میں ابھرتے ہیں:
۱۔ اختصار۲۔ غیر رسمی طریق کار۳۔ اسلوب کی شگفتگی۴۔ عدم تکمیل کا احساس
۵۔ شخصی نقطہ نظر۶۔ عنوانات کا موضوع یا نقطہ نظر سے ہم آہنگ نہ ہونا
گویا ان تمام اجزا کے حسین اور فنکارانہ امتزاج سے جنم لینے والا فن پارہ انشائیہ ہو گا۔
انشائیہ تحلیل نفسی سے پہلے کی چیز ہے، لیکن انشائیہ کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں اکثر اس نفسی مریض کا خیال بھی آتا ہے جو تحلیل نفسی کے معالج کے سامنے ایک آرام دہ کوچ یا ’’دیوان‘‘ پر لیٹا ہوا اپنے الٹے سیدھے خیالات کا ربط یا بے ربطی کے ساتھ بے تکلف اظہار کئے جا رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انشائیہ نگار کوئی ذہنی مریض ہوتا ہے یا انشائیہ ذہن کے مریضانہ رجحانات کی پیداوار ہوتا ہے اور یہ بھی نہیں ہے کہ انشائیہ قاری کے ذہن میں مریضانہ رجحانات کی تقویت کا باعث بنتا ہو۔
تحلیل نفسی کا کلاسیکی انداز یہ ہے: مریض آرام اور سکون سے معالج کے سامنے کوچ یا گدے، ورنہ کسی آرام وہ بستر پر لیٹا معالج کے کہنے کے بموجب وہ سب کچھ ظاہر کرتا چلا جاتا ہے جو اس کے ذہن میں بے ساختہ آرہا ہے۔ آغاز بالعموم گزری ہوئی شب کے خواب سے ہوتا ہے، یا ایسے ہی کسی اور قصہ یا واقعہ سے تلازمہ خیال کے باعث چراغ سے چراغ جلنا شروع ہوتا ہے، ایک بات سے دوسری بات نکلتی ہے، دوسری سے تیسری بات کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ اس کی تمام باتیں بے ربط اور بے مقصد معلوم ہوتی ہیں، لیکن ان غیر مربوط، غیر منطقی، بلکہ لایعنی با توں اور ظاہر اطور پر احمقانہ با توں سے بھی بہت کچھ معلوم کیا جا سکتا ہے کیونکہ پس پردہ لاشعور کا طوطی بولتا ہے کوئی پنہاں مقصد، کوئی نا آسودہ خواہش سامنے آ جاتی ہے اسے ہڈسن نے ’’داخلیت‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور لارڈ برکن ہیڈ ’’افشائے ذات‘‘ کہتے ہیں۔ یوں نفسیات میں علاحدہ اس کی کوئی واضح اصطلاح نہیں ملتی، لیکن مریض اور معالج کی ۵۰ منٹ کی ایسی ملاقات کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ مریض کی شخصیت میں جھانکا جائے، مریض کی اکھڑی اکھڑی با توں اور عام انداز گفتگو سے ہٹا ہوا طریقہ گفتار بہت سے گوشوں پر سے پردہ ہٹا دیتا ہے۔ انشائیہ کا بھی کچھ ایسا ہی مقصد نظر آتا ہے۔ لارڈ برکن ہیڈ کی طرف رجوع کیجئے:
’’ اس عنوان( ایسّے ) سے در اصل اس کی کیا مراد تھی؟ میرے خیال میں تو مانتین اپنی ان تحریروں کو نثر نگاری کی سعی قرار دیتے ہوئے در اصل ذات کے انکشاف کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ ‘‘
واضح رہے کہ مانیتن نے خود اپنے ان انشائیوں کو بھی مصنف کے ساتھ ’’ہم وجود‘‘ قرار دیا تھا۔
بہر نوع اپنی دوسری خصوصیات کے لحاظ سے انشائیہ تحلیل نفسی کی اس تکنیک سے مشابہ ہے جو انکشاف ذات کے لئے کام میں لائی جاتی ہے۔ سب سے پہلے اختصار کے وصف کو لیجئے۔ پہلے فرانسیسی انشائیہ نگار مانتین (۹۲۔ ۱۵۳۲ء) کی ایک تالیف سامنے آتی ہے جو ۱۵۸۰ء میں طبع ہوئی اور اسے ’’ایسے ‘‘ کا عنوان دیا گیا۔ لفظی معنی ’’سعی‘‘ یعنی ادبی کاوش سمجھ لیجئے۔ اس کوشش سے لے کر انگلستان کے بیکن یا اپنے ہاں ڈاکٹر وزیر آغا اور نظیر صدیقی تک سب ہی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انشائیہ کی روح اختصار میں پوشیدہ ہے۔ بیکن نے دس انشائیوں پر مشتمل ۱۵۹۳ء میں ایک مجموعہ شائع کیا۔ یہ تحریریں اتنی مختصر ہیں کہ کسی طویل مقالے کے نکات معلوم ہوتے ہیں۔ یوں بعد میں طویل انشائیے بھی لکھے گئے اور اب اختصار کا معاملہ ایک نزاعی مسئلہ بن چکا ہے، تاہم بیشتر اہل نظر اختصار پسندی کی طرف ہی مائل ہیں۔
انشائیوں میں ’’تشہیر ذات‘‘ کرنے والے لوگ ایسے نظر آتے ہیں جیسے وہ کوئی مخصوص تاثر پیدا کرنا چاہتے ہوں۔ یہ تاثر محض اسلوب کا پیدا کردہ نہیں ہوتا بلکہ ایک برتر وجود کے اس تصوراتی ہیولیٰ سے روشنی اخذکرتا ہے جسے ہر انسان اپنے ذہن کے صنم کدہ میں سب سے اونچے استھان پر متمکن کر لیتا ہے۔ اس طرح وہ پگملیون بنا ہوا اس کی پرستش کرتا رہتا ہے۔ اس نوع کے انشائیوں میں سب سے بڑی قباحت یہ ہوتی ہے کہ ابلاغ ذات اگر غیر فنکارانہ انداز سے ہو تو قاری کچھ چڑ جاتا ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے برتر وجود کے ہمزاد سے کہے کہ کبھی کبھی وہ اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔ ایسا سلوک کرتے ہوئے اسے چاہیے کہ وہ اپنی ذات کے صرف انہی پہلوؤں کو سامنے لائے جو انسانی دلچسپی کی بناء پر سدا بہار ثابت ہو سکیں۔ ورنہ انشائیہ نگارکا یہ ہمزاد قاری کے لئے ایک پیر تسمہ پابن جائے گا۔ یہ درست ہے کہ اولاد کی مانند ہر انسان کو اپنی شخصیت کے تمام (اچھے ) برے پہلو بھی ’’آرٹ‘‘ ہی نظر آتے ہیں مگر بد تمیز بچوں کو پڑوسی کس طرح پسند کریں ؟ اسی طرح کے غیر دلچسپ پہلوؤں کو انشائیہ کا قاری بھی پسند نہیں کر سکتا۔ ظاہر ہے کہ ہر انشائیہ نگار لیمب تو ہونے سے رہا۔ لیکن خشک و تر سے احتراز کرنے پر بڑے خوبصورت انداز سے افشائے ذات کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں میرا ذہن ’’نظیر صدیقی مرحوم‘‘ کی طرف جاتا ہے۔ اگر اس میں طنز کی خاطر بعض با توں کا اضافہ نہ کیا جاتا تو یہ انشائیہ میرے خیال میں بہت خوب ہو جاتا لیکن مصنف نے ’’میں ‘‘ کی لے اتنی زیادہ بڑھا دی ہے کہ یہ انشائیہ اس فنکارانہ حسن توازن سے محروم ہو گیا ہے جو اس نوع کے انشائیوں کی اصل اساس و روح ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ اس پر متفق ہیں کہ انشائیہ میں ایجاز و اختصار بہت ضروری ہے۔ وجہ یہی کہ قاری طول کلام سے اکتانہ جائے اور لکھنے والے سے ہمدردی ضائع نہ ہو جائے۔ بعض اوقات طنز کی ترشی یا مزاح کی چاشنی سے ایک چیزے دیگر پیش کی جاتی ہے یہ گویا قاری کو جیتنے کے لئے ایک رشوت یا چاٹ ہے اور یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اظہار ذات کے لئے انشائیہ نگار بالواسطہ طریق بھی اختیار کر سکتا ہے بلکہ بیشتر انشائیہ نگار اسی طریقے کو اپناتے ہیں۔ ایسے ادب پارے میں انشائیہ نگار اپنی ’’میں ‘‘ کو یوں سامنے لاتا ہے کہ قاری کو اس کا احساس تک نہیں ہونے دیتا۔ اس مقصد کے لئے زندگی میں سے (بظاہر) غیر اہم پہلوؤں کو لیتے ہوئے اپنی با توں کو فنی اہمیت بخشا ہے جس کے لئے وہ منفرد اور بعض اوقات انوکھے یا چونکا دینے والے زاویہ ہائے نگاہ سامنے لاتا ہے۔ مسلم الثبوت اقدار اور معیاروں کا ایسے انداز سے تجزیہ کرتا ہے کہ ڈھول کا پول کھل جائے۔ الغرض وہ زندگی اور اس کے متنوع مظاہر کو نت نئے معانی بخشتا ہے اس نوعِ کے انشائیوں میں مصنفین سے قارئین کی رائے کا اتفاق ضروری نہیں ادھر یہ بھی ہے کہ انشائیہ نگار اپنے قاری کو قائل کرنے کا بھی کوشاں نہیں ہوتا کیونکہ قائل کرنے کے لئے دلیل و استدلال ضروری ہے مگر انشائیہ کی لطافت و تازگی ٹھوس دلائل و براہین کی متحمل نہیں۔
انشائیہ نگار کی حالت تو اس شخص کی سی ہوتی ہے جو کسی عمدہ و خوشگوار موڈ میں بیٹھا ہے اور اپنے کسی بے تکلف دوست سے ایسے ہی خوشگوار لہجہ میں باتیں کئے جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے ہم اسے کسی حد تک ڈرامائی خود کلامی سے بھی مشابہ قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن انشائیہ نگار ڈرامہ نگار کی طرح پابند نہیں۔ خود کلامی صرف ایک کردار کے احساسات اور رد عمل کے لئے ہوتی ہے۔ مگر انشائیہ بظاہر غیر منطقی اور غیر عقلی بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ سب کچھ دوسروں کے خیال میں ہو گا۔ خود انشائیہ نگار اس باب میں بالکل سنجیدہ ہوتا ہے وہ ان با توں کو درست اور جائز سمجھتا ہے ویسے بھی یہ فرد واحد کے خیالات ہیں۔ ایسے خیالات جن سے وہ اپنی شخصیت کے بعض گوشوں کو بے نقاب کرنے کی دھن میں ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ انشائیہ میں اصل چیز موضوع نہیں (کیونکہ ہر موضوع اپنایا جا سکتا ہے ) بلکہ اصل چیز شخصیت کا حسن ہے۔ مصنف کے تاثرات ذاتی ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں مگر وہ ہونے چاہئیں اس کے اپنے ذہن کی تخلیق انشائیہ کے حسن کا انحصار تو ان تاثرات اور خیالات کے حسن اظہار پر ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ انشائیہ ذہن کی ترنگ سہی مگر یہ مجذوب کی بڑ نہیں ہوتی۔ اسی لئے نقادوں کی اکثریت نے اس کے لئے ہلکے پھلکے انداز اور لطیف مزاج کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ انشائیہ میں اس عنصر سے خوبی پیدا ہوتی ہے اور قاری کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ مصنف اپنی انفرادیت بھی منواتا جا رہا ہے ایک اور خصوصیت جس کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے یہ ہے کہ بعض اوقات انشائیہ کے عنوان نفس موضوع سے لا تعلق ہی نہیں ہوتے بلکہ سرے سے اس کی تکذیب کرتے نظر آتے ہیں اور ایسے عنوانات سے موضوع کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس طرح مصنف قاری کو ایک دلچسپ نفسیاتی مغالطہ میں مبتلا کر کے حیرت زدہ کر دیتا ہے، چونکا دیتا ہے اور ایسے خیالات سے اپنی شخصیت کا ایک اثر اس کے ذہن پرچھوڑتا ہے، اس ڈھب سے فنی حظ بھی حاصل ہوتا ہے کیونکہ عنوان کی پیدا کردہ توقعات کے برعکس قاری مضمون میں کچھ اور ہی پاتا ہے اگر وہ کوئی انوکھی بات ہو تو یقیناً اس سے ایک لطیف مسرت کا احساس ضرور جنم لے گا مگر یہ خصوصیت ہر انشائیہ میں نہیں ہوتی، لیکن اگر ہو تو قند مکرر کا لطف دیتی ہے۔ انگریزی میں اس کی کئی بڑی اچھی مثالیں ملتی ہیں۔ یہاں سو فٹ کے ’’اے موڈیسٹ پروپوزل‘‘ کا ذکر کیا جا سکتا ہے جس میں بچہ فروخت کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
تکنیکی اعتبار سے ہم اسے افسانہ کے اچانک اختتام جیسا بھی قرار دے سکتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ وہاں افسانہ میں ایک خاص فضا سے توقعات ابھارنے کے بعد ان کے برعکس اختتام لایا جاتا ہے، لیکن اس نوع کے انشائیوں میں عنوان سے موضوع کے بارے میں پیدا ہونے والی توقعات فنی رعنائی سے باطل کر دی جاتی ہیں۔ اس کا ایک نفسیاتی فائدہ یہ ہے کہ موضوع کی مذمت کے لئے ’’موضوع‘‘ جیسا عنوان دیا جس کے تلازمہ سے قاری کے ذہن میں عنوان سے وابستہ تمام خیالات و نظریات اور احساسات ابھر آئے اور یوں ان سب کی فرد اًفرداًخامیاں اجاگر کئے بغیر ہی ہلکے پھلکے انداز سے موضوع سے وابستہ تصور کے بارے میں قاری کے ذہن میں ایک ہل چل ڈال دی۔ وہ سوچنے پر مجبور ہو گیا اور یہی انشائیہ کا مقصد ہونا چاہیے۔
نیاز فتح پوری نے اپنے ایک مقالہ ’’اردو کا پہلا اور آخری انشائیہ نگار‘‘ میں انشائیہ کے فن پر جو بحیثیت مجموعی تبصرہ کیا ہے وہ خاصے کی چیز ہے ان کے بقول:
’’ اس فن لطیف کا تعلق صرف سلاست زبان سے نہیں بلکہ تخیل شاعرانہ اور شعور ناقدانہ سے بھی ہے اور حکیمانہ نکتہ رسی سے بھی، اس کے لئے نہ صرف اعلیٰ درجہ کی ژرف درکار ہے جو صرف وسیع مطالعے اور دقیق مشاہدے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ بلکہ فلسفیانہ انداز تفکر، جدت و اختراع یعنی Original Thinkingبھی ضروری ہے جو ایک فطین و ذہین دماغ، متوازن سلیم طبیعت اور ایک کشادہ پاکیزہ قلب ہی کو میسر آتی ہے ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ سادہ اور شگفتہ و دل نشین انداز بیان! ‘‘ (۱)
وہ اس ضمن میں مزید رقم طراز ہیں:
’’یہ صنف در اصل تنقید ہی کی ایک صورت ہے لیکن نہایت لطیف و خوشگوار اس کا انداز بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہم اگر تبادلہ خیال کریں اور لطف و تفریح کا عنصر ہاتھ سے نہ جانے دیں ظاہر ہے کہ اس نوع کی صحبتوں میں جو گفتگو کی جاتی ہے وہ کسی علمی تقریر کی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ محض خشک و دقیق مسائل ہی سے کام لیا جاتا ہے لیکن ہوتی ہے وہ بہر حال تنقید ہی، اس لئے کسی مقصود سے خالی نہیں ہوتی اور اس کے اظہار کے لئے جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ بڑی شیریں، بے ساختہ اور بے تکلف ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ظرافت اور مزاح سے بھی خالی نہیں ہوتی۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ ایک اچھا انشائیہ نگار در اصل ماہر نفسیات بھی ہوتا ہے اور حقائق کا بیان وہ شاعرانہ فکر و تخیل اور ادبیانہ لب و لہجہ میں کرتا ہے اور اس لئے سننے والا جلد متاثر ہو جاتا ہے اور اس کی عملی مسائل سے متعلقہ اکثر الجھنیں بھی دور ہو جاتی ہیں۔ ‘‘ (۲)
گو ہمارے ہاں انگریزی نصاب کی کتابیں زیادہ تر انشائیوں پر مشتمل ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں بھی یہ صف ایسی ہی مقبول ہے جیسی مثلاً افسانوی ادبِ کی صنف ہے ہمارے ہاں ابھی تک اتنے انشائیے لکھے بھی نہیں گئے کہ ہم ان سے کوئی شائستہ قابلِ اعتنا نصابی مجموعہ مرتب کر سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انشائیہ ہر مزاج کے مصنف یا قاری کے بس کا روگ بھی نہیں۔ اچھا، برا افسانہ یا غزل تو کسی نہ کسی طرح لکھ لی اور اس کے ’’قدردان‘‘ بھی میسر آگئے مگر انشائیہ ’’اچھا برا انشائیہ‘‘ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ یا کوئی کامیاب نمونہ فن ہو گا ورنہ ایک بے تکی تحریر۔ در اصل انشائیہ ایک مہذب ذہن کی پیداوار ہے اور مہذب قاری ہی اس کا لطف اٹھاسکتا ہے۔ یہ انفرادیت کا اظہار تو ہے۔ ابلاغ ذات بھی ہے نرگسی میلانات کا حامل بھی۔ مگر یہ سب چیزیں جس لطافت سے انشائیہ کی شکل میں جلوہ پیرا ہوتی ہیں وہ بڑا ریاض چاہتی ہے اگر اس انداز سے انشائیہ کا جائزہ لیں تو غالب کے خطوط میں سے بعض خطوط یقیناً انشائیہ قرار پاتے ہیں۔ ان خطوط میں ابلاغ ذات کی فنکارانہ سعی کار فرما ملتی ہے اس پر مستزاد غالبؔ کا زیر لب تبسم بھی ہے۔ اگر بعد میں یہی انداز شعوری طور پر اپنایا جاتا تو آج یقیناً انشائیہ ہمارے ہاں بھی ایک مقبول و معتبر صنف ادب بن جاتا اسی طرح مولانا ابو الکلام آزاد کی ’’غبار خاطر‘‘ میں بھی ہمیں انشائیہ کی جھلک ملتی ہے۔ خاص طور پر چائے کے سلسلے کی چیزیں یا چڑے چڑیوں والا خط۔
انشائیہ کی جھلک دیکھنے کے لئے تلاش وجستجو کی یہ سعی ہے۔ اتنی دور تک جانے کا مقصد اس کی ’’قدامت‘‘ ثابت کرنا نہ تھا۔ بلکہ یہ عرض کرنا تھا کہ میرے نزدیک مہذب ذہن کی مثال کیا ہے۔ غالب ؔاور آزادؔ کا سوانحی مواد موجود ہے اور انھیں مہذب ذہن قرار دینے کے لئے مزید بحث کی بھی ضرورت نہیں مگر ہم انہیں انشائیہ نگار بھی نہیں کہہ سکتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خطوط محض خطوط ہی تھے، بلکہ ’’غبار خاطر‘‘ کے خطوط کے طور پر لکھے بھی نہیں گئے تھے۔
انشائیہ کے ضمن میں بہت سی الجھنیں اصطلاحات کی پیدا کردہ ہیں۔ اگر انشائیہ کی حدود متعین کر کے اسے طنزیہ یا مزاحیہ مضامین سے ممیز کرنے کی کوشش کی جاتی تو بات اتنی نہ الجھتی۔ انشائیہ میں …..مضامین کے برعکس….دیگر تکنیکی خصوصیات کے علاوہ اصل چیز ذات کا ابلاغ ہے، جو ’’تشہیر‘‘ تک بن سکتا ہے اور صرف ایسے ہی نثر پارے کو انشائیہ قرار دینا چاہیے۔ اگر اس میں یہ اساسی صفت نہ ہو تو اسے عام مضمون کہنا چاہیے۔ انشائیہ کی تکنیک سے وابستہ تمام خصوصیات مضمون میں بھی مل سکتی ہیں اور مضمون کیا بعض اوقات تو ’’تاثراتی افسانہ‘‘ میں بھی نظر آتی ہیں، تو کیا ان فن پاروں کو بھی انشائیہ سمجھا جائے ؟ مگر ہم انہیں افسانہ ہی شمار کرتے ہیں جب ایسا ہے تو پھر ’’مضمون‘‘ اور ’’انشائیہ‘‘ کو بھی خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔
سب سے بڑی الجھن طنز و مزاح سے پیدا ہوئی۔ بالعموم طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کو بھی انشائیہ سمجھ لیا گیا۔ اس ضمن میں ایک بڑے کام کی بات یہ کہی گئی ہے کہ طنز اور مزاح ادب کی صنف نہیں، اسلوب کی صفت ہیں اور اسلوب کی یہ صفات ادب کی ہر صنف میں دیکھی اور برتی جا سکتی ہیں۔ ‘‘ (نظیر صدیقی)
یہ تجزیہ بڑی حد تک درست ہے۔ مگر اس رائے میں مقصد اور نقطہ نظر کی اہمیت فراموش ہو گئی۔ ہمیں تمام اصنافِ ادب میں ہلکا یا گہرا طنز یا مزاح مل سکتا ہے مگر ہم ان کے مصنفوں کو طنز نگار یا مزاح نگار نہیں کہتے کیونکہ جب کسی افسانہ یا ڈرامے میں کسی کردار کی شخصیت کی ناہمواریوں سے مزاح کا رنگ لایا جاتا ہے، یا کسی واقعہ پر طنزیہ انداز سے چھینٹا پھینکا جاتا ہے۔ تو اس کا بنیادی مقصد مزاح یا طنز نہیں ہوتا بلکہ مقصد تخلیق اور نقطہ نظر کی صراحت کے لئے ثانوی مواد ہوتا ہے جبکہ مزاح نگار انسانی معاشرہ اور انسانی زندگی کی ناہمواریوں، خامیوں اور پیچیدگیوں پر خود بھی ہنستا ہے، یہی مزاح ہے، لیکن اگر انسان اور انسانی زندگی کی ناہمواریوں، خامیوں اور پیچیدگیوں کو بدلنے کی خاطر قلم میں زہر ناکی، تلخی یا آتش بھر لی جائے تو یہ طنز ہے اول الزکر میں طنز و مزاح سے نقطہ نظر کی وضاحت کا کام لیا جاتا ہے اور موخرالذکر میں طنز و مزاح ہی کو اولیت یا تقدم حاصل ہے۔ یہ بے مقصد بھی ہو سکتے ہیں اور با مقصد بھی۔ لیکن یہ صحیح ہے کہ انشائیہ کا یہ عالم نہیں۔ یہاں مصنف اپنی ذات کا کوئی پہلو قاری کے سامنے لانا چاہتا ہے یا تو وہ بلاواسطہ طریقے سے ایسا کرے گا یعنی سوانحی مواد سے کام لیتے ہوئے اپنی سائیکی کی گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع دیتا ہے۔ ورنہ (بالعموم) وہ بالواسطہ طور سے ہی ’’ذاتی‘‘ اور ’’نجی‘‘ خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ ایسے خیالات جن کا منطقی ہونا تو ضروری نہیں مگر ہم انہیں لایعنی، بیہودہ اور غلط بھی نہیں کہہ سکتے۔ انشائیہ نگار اس مقصد کے لئے طنز و مزاح سے بھی کام لے سکتا ہے، لیکن صرف اسلوب میں شگفتگی اور اظہار میں تازگی پیدا کرنے کے لئے۔ اس طرح قاری کو اکتاہٹ سے محفوظ رکھا جاتا ہے کبھی یہ ایک نوع کا ’’سیفٹی والو‘‘ بن جاتا ہے۔ پطرس، شفیق الرحمن یا شوکت تھانوی کے ناموں سے ہمارے ذہن میں مزاح کا خیال ہی آتا ہے۔ کنھیا لال کپور، فکر تو نسوی اور ابراہیم جلیس سے طنز کی طرف دھیان جاتا ہے لیکن مثلاً وزیر آغا کے نام سے طنز یا مزاح کا تصور ذہن میں نہیں ابھرتا، حالانکہ انہوں نے تو اس موضوع پر پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے اور یہ اس لئے کہ وہ خالص انشائیہ نگار ہیں۔
میری دانست میں اس تقسیم سے اصطلاحات کا مفہوم معین کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور اگر ہم طنزیہ مضمون، مزاحیہ مضمون و اصلاحی مضمون کے موضوع اور مقصد کو الگ الگ سمجھ لیں تو دیگر اقسام کو انشائیہ کے ساتھ خلط ملط کرنے کی بحث پیدا نہیں ہو گی، بہر نوع انشائیہ کے لئے ہمیں انکشاف ذات اور ابلاغ ذات کے وصف کو بنیادی شرط ماننا پڑے گا۔
اور آخر میں ایک ہدایات نامہ انشائیہ نگار کے لئے:
۱۔ غیر ضروری طوالت سے بچو!
۲۔ کہنے کو نئی بات نہیں تو انشائیہ سے دور رہو۔
۳۔ اسلوب انشائیہ کی جان ہے۔
۴۔ مشاہدہ کے لئے رنگین نہیں بلکہ سفید شیشوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
۵۔ انشائیہ کا سنگھار۔ ذاتی سوچ
۶۔ انشائیہ میں خوش طبعی کا جوہر شخصیت سے عیاں ہوتا ہے۔
۷۔ افراط و تفریط سے بچو!
۸۔ بور مت کرو۔
۹۔ ذات کے بغیر انکشاف ذات کیسے ممکن ؟
۱۰۔ خود سوچو اور دوسروں کو سوچنے کا موقع دو۔
۱۱۔ انشائیہ آزاد بندوں کی دنیا ہے۔
۱۲۔ کبھی یہ بھی سوچا کہ تم انشائیہ کی صنف کے لئے باعث خطرہ ثابت ہوسکتے ہو۔
۱۳۔ ناکام ادیب کا میاب انشائیہ نگار نہیں ہوسکتا !
( مطبوعہ : انشائیہ کی بنیاد ،ڈاکٹر سلیم اختر،لاہور ،۱۹۸۶ء)
٭٭٭
انشائیے
۱۔ دستر خوان
وزیر آغا
ایک زمانہ تھا کہ اہل وطن فرش پر دستر خوان بچھاتے، آلتی پالتی مار کر بیٹھتے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھانا کھاتے۔ پھر جو زمانہ بدلا تو ان کے نیچے کرسیاں اور سامنے میز بچھ گئی جس پر کھانا چن دیا جاتا۔ پہلے وہ سرجوڑ کر کھاتے تھے اب سروں کے درمیان فاصلہ نمودار ہوا اور روبرو بیٹھا ہوا شخص مدّ مقابل نظر آنے لگا۔ مگر زمانہ کبھی ایک حالت میں قیام نہیں کرتا۔ چنانچہ اب کی بار جو اس نے کروٹ لی تو سب سے پہلے پلیٹ کو ہتھیلی پر سجا کر اور سر و قد کھڑے ہو کر طعام سے ہم کلام ہونے کی روایت قائم ہوئی۔ پھر ٹہل ٹہل کر اس پر طبع آزمائی ہونے لگی۔ انسان اور جنگل کی مخلوق میں جو ایک واضح فرق پیدا ہو گیا تھا کہ انسان ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا تھا جبکہ جنگلی مخلوق چراگاہوں میں چرتی پھرتی تھی اور پرندے دانے دُنکے کی تلاش میں پورے کھیت کو تختہ مشق بناتے تھے، اب باقی نہ رہا اور مدتوں کے بچھڑے ہوئے سینہ چاکانِ چمن ایک بار پھر اپنے عزیزوں سے آملے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کیا ہماری تہذیب کا گراف نیچے سے اوپر کی طرف گیا ہے تو میں کہوں گا کہ بے شک ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے کیونکہ ہم نے فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھنے کی روایت کو ترک کر کے کھڑے ہو کر اور پھر چل کر کھانا کھانے کے وطیرے کو اپنا لیا ہے جو چرنے یا دانہ دنکا چگنے ہی کا ایک جدید روپ ہے۔ کسی بھی قدم کے اوپر جانے یا نیچے آنے کا منظر دیکھنا مقصود ہو تو یہ نہ دیکھئے کہ اس کے قبضہ قدرت میں کتنے علاقے اور خزانے آئے یا چلے گئے۔ فقط یہ دیکھئے کہ اس نے طعام اور شرکائے طعام کے ساتھ کیا سلوک کیا!
بچپن کی بات ہے۔ ہمارے گاؤں میں ہر سال کپڑا بیچنے والے پٹھانوں کی ایک ٹولی وارو ہوتی تھی۔ یہ لوگ سارا دن گاؤں گاؤں پھر کر اُدھار پر کپڑا بیچنے کے بعد شام کو مسجد کے حجرے میں جمع ہوتے اور پھر ماحضر تناول فرماتے۔ وہ زمین پر کپڑا بچھا کر دائرے کے انداز میں بیٹھ جاتے۔ درمیان میں شور بے سے بھری ہوئی پرات بحر الکاہل کا منظر دکھاتی، جس میں بڑے گوشت کی بوٹیاں ننھے منے جزیروں کی طرح ابھری ہوئی دکھائی دیتیں۔ وہ ان بوٹیوں کو احتیاط سے نکال کر ایک جگہ ڈھیر کر دیتے اور شوربے میں روٹیوں کے ٹکڑے بھگو کر ان کا ملیدہ سا بنانے لگتے جب ملیدہ تیار ہو جاتا تو شر کاء طعام پوری دیانت داری کے ساتھ آپس میں بوٹیاں تقسیم کرتے اور پھر اللّٰہ کا پاک نام لے کر کھا نے کا آغاز کر دیتے۔ وہ کھانا رُک رُک کر، ٹھہر ٹھہر کر کھاتے، مگر پشتو ابغیر رُکے بے تکان بولتے۔ مجھے ان کے کھانا کھانے کا انداز بہت اچھا لگتا تھا۔ چنانچہ میں ہر شام حجرے کے دروازے میں آکھڑا ہوتا، انھیں کھانا کھاتے ہوئے دیکھتا اور خوش ہوتا۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر خوش ہوتے اور کبھی کبھی برادرانہ اخوت میں لتھڑا ہوا ایک آدھ لقمہ یا گوشت کا ٹکڑا میری طرف بھی بڑھادیتے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ان پٹھانوں کی پیش کش کو اگر کوئی مسترد کر دے تو اس کی جان کی خیر نہیں۔ اس لیے میں بادلِ نخواستہ ان کے عطا کردہ لقمہ ترکو کلّے میں دبا کر آہستہ آہستہ جگالی کرتا اور تاویر انھیں کھانا کھاتے دیکھتا رہتا۔ عجیب منظر ہوتا۔ وہ کھانے کے دوران میں کمال سیر چشمی کا مظاہرہ کرتے۔ ان میں سے جب ایک شخص لقمہ مرتب کر لیتا تو پہلے اپنے قریبی ساتھیوں کو پیش کرتا اور ادھر سے جَزَاکَ اللّٰہ کے الفاظ وصول کرنے کے بعد اسے اپنے منہ میں ڈالتا۔ اخوت، محبت اور بھائی چارے کا ایک ایسا لازوال منظر آنکھوں کے سامنے ابھرتا کہ میں حیرت زدہ ہو کر انھیں بس دیکھتا ہی چلا جاتا اور تب میں دستر خوان پر کھانا کھانے کے اس عمل کا اپنے گھر والوں کے طرزِ عمل سے موازانہ کرتا تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی کیونکہ ہمارے گھر میں صبح و شام ہانڈی تقسیم کرنے والی بڑی خالہ کے گرداگرد بچوں کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے جب بڑی خالہ کھانا تقسیم کر رہی ہوتیں تو ہماری حریص آنکھیں ہانڈی میں ڈوئی کے غوطہ لگانے اور پھر وہاں سے بر آمد ہو کر ہمارے کسی سنگی ساتھی کی رکابی میں اترنے کے عمل کو ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھتیں۔ اگر کسی رکابی میں نسبتاً بڑی بوٹی چلی جاتی تو بس قیامت ہی آ جاتی ایسی صورت میں خالہ کی گرجدار آواز کی پروا نہ کرتے ہوئے ہم بڑی بوٹی والے کی تکابوٹی کرنے پر تیار ہو جاتے اور چھینا جھپٹی کی اس روایت کا ایک ننھا سا منظر دکھاتے جو نئے زمانے کے تحت اب عام ہونے لگی تھی۔
اسی زمانے میں کبھی کبھار ایک انگریز افسر بھی والد صاحب سے گھوڑے خریدنے کے لئے آ جاتا۔ والد صاحب اس کے لیے میز کرسی لگواتے، انگریزی کھانا تیار کرواتے اور پھر گھنٹوں اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ چونکہ ہم بچوں کو انگریز افسر کے سامنے جانے کی اجازت نہیں تھی اور ویسے بھی ہمیں اس سے بہت ڈرلگتا تھا۔ اس لئے ہم اکثر کھڑکی کی جالی کے ساتھ چہرہ لگا کر اسے کھانا کھاتے ہوئے دیکھتے اور حیران ہوتے کہ صاحب بہادر کھانا کھا رہا ہے یا اپریشن کر رہا ہے۔ وہ اپنی پلیٹ میں ایک ابلا ہوا آلولے کر بیٹھ جاتا اور پھر چھریوں اور کانٹوں سے گھنٹوں اس کے پرخچے اڑاتا رہتا۔ یوں لگتا جیسے وہ میدان جنگ میں کھڑا ہے۔ آلو اس کا دشمن ہے جسے وہ اپنے اسلحہ کی مدد سے زیر کرنے میں مصروف ہے۔ وہ جو کھانے کے معاملے میں رواداری، مفاہمت اور لطف اندوزی کا رویہ ہوتا ہے، اس انگریز افسر میں مجھے قطعاً نظر نہ آیا۔ بعد ازاں جب انگریز قوم کی عادات و اطوار سے آگا ہی حاصل ہوئی تو معلوم ہوا کہ چونکہ ان لوگوں کو اپنی اس سلطنت کی حفاظت کے لئے جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا، جنگی مشقیں کرنے کی اشد ضرورت ہے، اس لئے وہ کھانے کی میز پر بھی اس سلسلے کو جاری رکھتے ہیں۔ سو ان کے لئے کھانا جسم کو بر قرار رکھنے کا بہانہ نہیں بلکہ دشمن کو زیر کرنے کا ایک شاخسانہ ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی روایت ہمارا عزیز ترین ثقافتی ورثہ تھا جس کے ساتھ ہم نے عزیز ان مصر کا سا سلوک کیا اور اب یہ روایت اول تو کہیں نظر ہی نہیں آتی اور کہیں نظر آجائے تو مارے شرمندگی کے فی الفور خود میں سمٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں شرمندہ ہونے کی قطعاً کوئی بات نہیں۔ بلکہ میں کہوں گا کہ دستر خوان پر بیٹھنا ایک تہذیبی اقدام ہے جب کہ کھڑے ہو کر کھانا ایک نیم وحشی عمل ہے۔ مثلاً یہی دیکھئے کہ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو دائیں بائیں یا سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے آپ کے براورانہ مراسم فی الفور استوار ہو جاتے ہیں۔ آپ محسوس کرتے ہیں جیسے چند ساعتوں کے لئے آپ دونوں ایک دوسرے کی خوشیوں، غموں اور بوٹیوں میں شریک ہو گئے ہیں۔ چنانچہ جب آپ کے سامنے بیٹھا ہوا آپ کا کرم فرما کمال دریا دلی اور مروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پلیٹ کا شامی کباب آپ کی رکابی میں رکھ دیتا ہے تو جواب آں غزل کے طور پر آپ بھی اپنی پلیٹ سے مرغ کی ٹانگ نکال کر اسے پیش کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا کھانے کے دوران لین دین کی وہ خوشگوار فضا ازخود قائم ہو جاتی ہے جو ہماری ہزار رہا برس کی تہذیبی یافت کی مظہر ہے۔ ایک لحظہ کے لئے بھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوتا کہ سامنے بیٹھا ہوا شخص آپ کا مدّ مقابل ہے اور اگر آپ نے ذرا بھی آنکھ جھپکی تو وہ آپ کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کر جائے گا۔ دستر خوان کی یہ خوبی ہے کہ اس پر بیٹھتے ہی اعتماد کی فضا بحال ہو جاتی ہے اور آپ کو اپنا شریک طعام حددرجہ معتبر، شریف اور نیک نام دکھائی دینے لگتا ہے۔ دوسری طرف کسی بھی بوفے ضیافت کا تصور کیجئے تو آپ کو نفسا نفسی خود غرضی اور چھینا جھپٹی کی فضا کا احساس ہو گا اور ڈارون کا جہد البقا کا نظریہ آپ کو بالکل سچا اور برحق نظر آنے لگے گا۔
دستر خوان کی ایک اور خوبی اس کی خود کفالت ہے۔ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ آپ کی جملہ ضروریات کو بے طلب پورا کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ سامنے دستر خوان پر ضرورت کی ہر چیز موجود ہے حتیٰ کہ اچار چٹنی اور پانی کے علاوہ خلال تک مہیا کر دئے گئے ہیں۔ دستر خوان پر بیٹھنے کے بعد اگر آپ کسی کو مدد کے لئے بلانے پر مجبور ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو میزبان نے حق میزبانی ادا نہیں کیا یا مہمان نے اپنے منصب کو نہیں پہچانا۔ خود کفالت در اصل ہماری ثقافت کا ایک امیتازی وصف ہے اور اس کا ہماری قناعت پسندی بلکہ تقدیر پرستی سے گہر اتعلق ہے۔ اپنے دیہات ہی کو لیجئے جو ہماری ثقافت کی صحیح ترین نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ اب تو خیران میں پہلی سی بات نہیں رہی ورنہ صدیوں تک انھوں نے نمک اور حملہ آور کے علاوہ شاید ہی کبھی کوئی چیز در آمد کی ہو۔۔ ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسان اپنے لئے خوراک زمین سے حاصل کرتا ہے جو اس کے جسم کی ساخت اور تعمیر میں حصہ لیتی ہے مگر جب اس کا اپنا بدن زمین کا رزق بن جاتا ہے تو کچھ عرصے کے بعد زمین اسے دو بارہ غذا میں منتقل کر کے آئندہ نسلوں کو پیش کر دیتی ہے۔ اور یہ بات انسان تک ہی محدود نہیں۔ دیہات میں تو پرندوں، حیوانوں، پودوں اور انسانوں کی نسلیں سدا ایک دوسرے میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ یک جانی اور ہم مزاجی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ انھیں محسوس ہوتا ہے جیسے گاؤں بجائے خود ایک دستر خوان ہے جو کھیتوں کے عین درمیان بچھا دیا گیا ہے جس پر وہ نسل در نسل بیٹھتے اور اٹھتے رہتے ہیں۔ ایک نسل جب کھانے سے فارغ ہو جاتی ہے تو دوسری نسل دستر خوان پر آبیٹھتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ گو جانے والی نسل، آنے والی نسل کے لیے غذا بن کر دستر خوان پر سج جاتی ہے مگر آنے والی نسل کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کس رغبت سے اپنے ہی بزرگوں کی ہڈیاں چبا رہی ہے۔
دستر خوان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ آپ کو زمین سے قریب کر دیتا ہے۔ جب کہ میز کرسی پر آتے ہی آپ زمین کے لمس سے محروم ہو جاتے ہیں اور چرنے چگنے کا عمل تو آپ کو زمین سے بالکل منقطع ہی کر دیتا ہے۔ زمین ایک زندہ، دھڑکتی اور پھڑکتی ہوئی شے ہے جس کی تحویل میں ایک پُر اسرار قوت بھی ہے۔ پرانے زمانے کے لوگوں کو نہ صرف اس قوت کی موجودگی کا علم تھا بلکہ وہ قدم قدم پر اس کے لمس سے بھی آشنا ہوتے تھے۔ وہ کہتے کہ یہ قوت زیر سطح قوسوں، دائروں اور لکیروں کی صورت رواں دواں رہتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی انجانے میں بھی ان میں سے کسی لکیر کو چھولیتا ہے تو اسے زمین کی قوت ایک برقی جھٹکے کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ تب وہ زمین کے فیوض و برکات کے حصول کے لئے ان لکیروں اور کھائیوں کی تلاش کرتے اور جس مقام پر یہ لکیریں یا کھائیاں ایک دوسری کو کاٹتی ہوئی ملتیں وہیں اپنے پگوڈے یا مندر تعمیر کرتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ مقام در اصل زمین کی پراسرار قوت کے سرچشمے ہیں۔۔ ۔۔ مگر پھر یوں ہوا کہ انسان بتدریج زمین سے منقطع ہو کر پہلے چو باروں پھر میناروں پر چڑھ گیا اور زمین سے جو اس کی ماں بھی تھی اور اَن داتا بھی کٹتا اور دور ہٹتا چلا گیا۔ دستر خوان کی خوبی یہ ہے کہ وہ زمین کے سینے سے چمٹا دیتا ہے تاکہ وہ براہ راست زمین سے اس کی پراسرار قوت کو کشید کر سکے۔ دستر خوان در اصل زمین کالباس ہے اور دستر خوان پر بنی ہوئی قوسیں، دائرے اور لکیریں زمینی قوت کی گزر گاہوں کے مماثل ہیں۔ چنانچہ جب آپ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں تو اس کی غذائیت ہزارگنا بڑھ جاتی ہے، جب کہ میز کرسی پر یا چل پھر کر کھانا کھائیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس کھانے میں وہ برقی رو موجود نہیں جو زمین کی شریانوں سے دستر خوان کی قوسوں اور پھر وہاں سے اور انسان کی رگوں میں بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچتی ہے۔
دستر خوان آپ کو زمین کے لمس ہی سے آشنا نہیں کرتا بلکہ انگلیوں کے لمس سے بھی متعارف کرواتا ہے۔ چھری کانٹے یا چمچے سے کھانا کھانے میں وہ لطف کہاں جو ہاتھ سے کھانے میں ہے۔ اس میں دوہرا لطف ہے ایک تو اس چیز کا لطف جو کھائی جا رہی ہے دوسرے انگلیوں کے لمس کا لطف! ممکن ہے آپ کہیں کہ میز کرسی پر بیٹھ کر یا چل پھر کر بھی تو انگلیوں کا کام میں لایا جا سکتا ہے۔ جی ہاں یہ ممکن تو ہے مگر ایسے ہوتا نہیں۔ وجہ یہ کہ ہاتھ سے کھانا کھانے کے لئے آپ کے جسم کا ایک جگہ ڈھیر ہونا ضروری ہے اور یہ بات دستر خوان کے بغیر ممکن نہیں۔ ڈائننگ چیئر پر بیٹھنا سرکس کی رسّی پر کھڑا ہونے کے مترادف ہے۔ چنانچہ کرسی سے پھسل جانے کا خطرہ ہمہ وقت سوہان روح بنا رہتا ہے۔ ایسے میں کوئی انگلیوں کے لمس سے کیسے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ یہی حال بوفے ضیافت کا ہے۔ وہاں دو مسئلے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کس طرح ہتھیلی پر بیک وقت پلیٹ، چمچہ، روٹی اور نیپکن کو بیلینس کیا جائے۔ یہ ایک خاصا مشکل کام ہے بلکہ اسے آرٹ کہنا چاہئے جو ولیمے کی سینکڑوں ضیافتوں سے گزرنے کے بعد ہی آتا ہے۔ دوسرا مسئلہ ٹریفک کا ہے جب آپ بوفے ضیافت کے جملہ مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں تو آپ کو ہر قسم کی ٹکروں، دھکوں اور خلاف ورزیوں سے خود کو اور اپنی رکابی کو بچانا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر آپ انگلیوں کی مدد سے کچھ کھانے کی کوشش کریں بھی تو اس کا کچھ فائدہ نہیں کیونکہ اس ہنگامہ دارو گیر میں آپ کو اپنی خوبصورت انگلی بھی ایک مڑا ہوا بدوضع کانٹا ہی نظر آتی ہے۔
دستر خوان لامسہ ہی کو تسکین نہیں دیتا، شامہ، سامعہ اور باصرہ کو بھی سیراب کرتا ہے جب مہمان دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو مختلف کھانوں کی خوشبو آنِ واحد میں ان تک جاپہنچتی ہے اور جب پہنچتی ہے تو اس فراوانی کے ساتھ کہ وہ اسے نہ صرف اک مشروب کی طرح پیتے ہیں بلکہ اس کی مختلف اقسام میں تمیز بھی کر لیتے ہیں۔ مثلاً نان کی سوندھی سوندھی باس، پلاؤ کی گرم خوشبو سے مختلف شے ہے اور متنجن کی تیز مہکار، فرنی کی ٹھنڈی سگندھ سے ایک جدا مزاج رکھتی ہے۔۔ ۔ یہ انکشاف دستر خوان پر اطمینان سے بیٹھنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ بوفے ضیافت میں تو کھانوں، مہمانوں، بیروں اور قنا توں کی ملی جلی خوشبو ایک ایسی بھاری بوجھل شے بن جاتی ہے کہ اسے خوشبو سے ہم رشتہ کرنا بھی بد مذاقی کی دلیل ہے۔ سامعہ کی تسکین کا پہلو بھی دستر خوان پر ہی ممکن ہے یہاں کھانے والے کے دہن سے ہڈیوں کے کڑ کڑانے اور لقمے کے دانتوں میں پسنے کی آواز ایک شیریں نغمے کی طرح آپ کے کانوں سے ٹکراتی ہے اور آپ پر کیف و سرور کی بارش کر دیتی ہے۔ دستر خوان پر ہی آپ کو پہلی بار اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہر کھانے والے کی زبان، دانت، تالو اور ہونٹ کھانے کے دوران مل جل کر ایک ایسی مخصوص آواز نکالتے ہیں جو نہ صرف دوسری آوازوں سے مختلف ہوتی ہے بلکہ جس میں کھانے والے کی ساری شخصیت سمائی ہوتی ہے۔ کسی شخص کے اصل کردار سے آشنا ہونا ہو تو کھانے کے دوران اس کے منہ سے برآمد ہونے والی آوازوں پر کان دھریں کیونکہ ہر شخص کے اندر کی ساری شرافت یا خباثت اس کے کھانے کی آواز ہی میں مضمر ہوتی ہے۔
رہا باصرہ کا معاملہ تو اس بارے میں کچھ زیادہ کہنے سننے کی گنجائش نہیں۔ دستر خوان پر آرام اور سکون سے بیٹھنا نصیب ہو تو کھانے کو نظر بھر کر دیکھنے کی فرصت بھی ملتی ہے۔ ورنہ دوسرے موقعوں پر کس بدبخت کو کبھی معلوم ہوا ہے کہ جس شے پردہ دندانِ طمع تیز کئے ہوئے ہے وہ دیکھنے میں کیسی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر پوری دلجمعی سے بیٹھ کر کھانا کھانے اور بوفے ضیافت میں انتہائی سراسیمگی کے عالم میں کھانا زہر مار کرنے میں وہی فرق ہے جو محبت اور ہوس میں ہے، خوش بو اور بد بو میں ہے، صبح کی چہل قدمی اور سوگز کی دوڑ میں ہے ! !
٭٭٭
۲۔ بلاوجہ
مشتاق قمر
مجھے اس امر کا پہلے کبھی احساس نہیں ہوا تھا کہ انسان اس قدر عقلیت پسند ہو گیا ہے کہ چائے کی ایک پیالی بھی بلاوجہ پی پلا نہیں سکتا۔ چند دن قبل مجھ سے ایک غلطی سرزد ہو گئی جس کے نتیجے میں مجھ پر زندگی کا یہ بھیانک راز منکشف ہو گیا۔ ہوا یوں کہ میں نے اپنے چند احباب کو ایک کپ چائے پر مدعو کر لیا تھا۔ وجہ کچھ بھی نہیں تھی….تقریب بہر ملاقات بھی نہیں تھی……بس یوں ہی عرصہ دراز سے میرے ذہن میں ایک خیال پک رہا تھا کہ کبھی کبھی ہمیں کوئی ایک آدھ بات بلاوجہ بھی کر لینی چاہئے۔ مثلاً چلتی ہوئی گاڑی سے چھلانگ لگانا…..سڑک کے کنارے لیٹ جانا۔ اپنے بٹوے کو کسی چورا ہے پر خالی کر دینا…..کسی راہگیر کے پیچھے کتالگا دینا….. یا یوں ہی چور، چور پکارتے ہوئے سڑک پر بگٹٹ بھاگتے چلا جانا!
بس اسی خیال بلکہ ’’خام خیالی‘‘ کو عملی شکل میں دیکھنے کے لئے میں نے بلا سبب اور کسی حد تک بلا ارادہ اپنے احباب کو چائے پر مدعو کر لیا اور یہی میری غلطی تھی۔ میں نے اس سے قبل چائے کی پیالی میں اتنا بڑا طوفان اٹھتے کبھی نہیں دیکھا تھا…. مجھ پر جو گزری سو گزری۔ میرے دوستوں کی حالت دیدنی تھی۔ انہوں نے مختلف قسم کی قیاس آرائیاں شروع کر دیں …. بعض کا خیال تھا کہ میں (طویل عرصہ بعد ہی سہی)بالآخر تدریس کے پیشہ کو خیرباد کہنے کا درست فیصلہ کر کے ٹھیکیداری کرنے لگا ہوں اور چائے کی یہ دعوت بھی کسی کنٹریکٹ وغیرہ کی خوشی میں تھی۔ چند احباب نے چائے کی دعوت کو میرے باقاعدہ سیاست میں داخل ہونے کے اعلان سے منسلک کر دیا۔ بعض دوستوں کا جنہیں میرے دانت گننے کی ضرورت نہیں تھی۔ پختہ خیال تھا کہ میں اس بہانے خاندانی نو ادرات یا مشرق وسطیٰ سے تحفتہََ وصول ہونے والی قیمتی اشیاء کی نمائش کرنے والا ہوں ….خوش قسمتی سے میرے احباب اس سے زیادہ سوچنے کی استطاعت نہیں رکھتے …ورنہ… خیر میں انہیں اتنا سوچنے پر بھی مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔ در حقیقت جب سے ہمارے معاشرے پر ٹی۔ وی ڈراموں کی یلغار ہوئی ہے نہ صرف ہماری سوچیں محدود ہو گئی ہیں بلکہ ہماری زندگیاں بھی چندStock Situations میں تبدیل ہو گئی ہیں …. پہلے چند احباب مل کر بیٹھتے تھے تو محو گفتگو ہوتے تھے۔ اب مکالمے بولتے ہیں۔ جب تک ٹی۔ وی پروگرام صرف تفریح طبع کے لئے مخصوص تھے۔ یعنی ان میں ’سوچ بچار‘ اور ’’معاشرہ سدھار‘‘ کا عنصر کچھ زیادہ نہیں تھا… صورتحال اتنی زیادہ خطرناک نہیں تھی۔ ہمارے معاشرے کے موجود بیشتر مسائل بالکل ناپید تھے۔ تقریباً ہر لڑکی کی بڑے آرام سے شادی ہو جاتی تھی۔ جہیز کی فہرستیں پیش کرنے کا بہت کم رواج تھا۔ ہمارے محنتی اور جفاکش عوام انتہائی اطمینان کے ساتھ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر بیرون ملک روزگار کی تلاش میں جاتے تھے۔ انہیں یہ خلش نہیں تھی کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے بچے بگڑ جائیں گے یا Father Fixation کا شکار ہو جائیں گے۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ عام آدمی کا خیال تھا کہ اس ملک میں قانون نافذ کرنے والے کچھ ادارے بھی ہیں جن کی موجودگی میں کوئی آدمی جب بھی چاہے اتنی آسانی سے کسی دوسرے کو ذلیل نہیں کر سکتا۔ تاہم میں اپنے احباب کی برہمی کا باعث ٹی وی کے ڈراموں کو Problem Plays ہی نہیں گردانتا…ٹی وی ڈراموں میں بہت سی بلکہ ساری باتیں ہی بلاوجہ ہو جاتی ہیں۔
اس سے قبل میرا خیال تھا صرف دوسری شادی کے لئے ہی آپ کو قانواً یا اخلاقاً کسی قابل قبول وجہ کی ضرورت پڑسکتی تھی حتیٰ کہ قتل جیسا سنگین جرم بھی بلاوجہ سرزد ہو جانے سے کچھ قانونی رعایت مل جاتی ہے۔ اب صور تحال یہ ہے کہ اپنے جگری یاروں کو بلا سبب ایک کپ چائے پلانے پر بھی بے شمار الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک الزام یہ بھی ہے کہ دعوت کی اصل وجہ کو پوشیدہ رکھ کر میں اپنے احباب کو ذہنی تکلیف پہچانے کا مرتکب ہوا ہوں۔ سلام رونمائی تو ضرب المثل ہے ہی۔۔ اب کسی سے ہاتھ ملاتے ہوئے بھی کھٹکا لگا رہتا ہے۔ وہ صاحب چیں بجبیں ہو کر نہ کہہ دیں۔۔ ۔ ’’خیریت! اتنی گرم جوشی سے ہاتھ ملانے کی اصل وجہ؟ ‘‘
میں وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس انتہائی درجہ عقلیت پسندی کے دور کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ انسانی زندگی کا وہ سنہرا دور جس کا آغاز بلاوجہ شجر ممنوعہ کا پھل کھانے سے ہوا تھا۔ اب اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے، شجر ممنوعہ کا پھل چکھنے سے قبل انسان ایک عقلیت پسند مخلوق تھا۔۔ ۔ وہ صرف مفید اشیاء سے ہی استفادہ کرتا تھا۔ اس نے ابھی غیر مفید اشیاء سے لطف اندوزی کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ لیکن اس بار اس تجربے سے گزرنے کے بعد وہ ’’خالص‘‘ انسان بن گیا۔۔ ۔ ایک ایسی مخلوق جس کی لغت میں ’’جواز‘‘ یا ’’معقول جواز‘‘ جیسے الفاظ معدوم تھے۔ اس نے تعقل کی ٹھنڈی یخ بستہ چٹانوں کو خیر باد کہہ کر جذبوں کی گر مجوشی کو گلے لگایا۔۔ ۔ اب اس کی زندگی حواس کے گرد گھومنے لگی۔۔ ۔ وہ کوئی بات اس لئے نہیں کرتا تھا کہ ایسا کرنا ضرورت تھا یا ایسا کرنے کے لئے اس کے پاس معقول جواز تھا۔ بلکہ اس لئے کرتا تھا کہ وہ ایسا کرنا چاہتا تھا۔۔ ۔ چنانچہ اس نے جنت کو دنیا میں تبدیل کر دیا۔ اپنی دنیا۔۔ ۔ اور اپنے حواس کی تشفی اس کا منشائے مقصود ٹھہرا۔۔ ۔ وہ تھا اور اس کے سامنے آغوش کشا طویل و عریض دھرتی۔۔ ۔ اپنی تمام تربو قلمونیوں کے ساتھ۔ ’’پھول توڑنا منع ہے ‘‘، ’’تھوکئے مت‘‘ ’’نو پارکنگ‘‘، ’’سپیڈلِمٹ‘‘… کہیں ’’امرونہی‘‘ کا کوئی ایک بوڑد بھی آویزاں نہیں تھا۔۔ ۔ یہ سارے بورڈ وہ اپنے بہت پیچھے چھوڑآیا تھا۔ اس کے لئے اب کوئی چیز بھی ممنوع نہیں تھی۔ اگر کچھ ممنوع تھا تو وہی جو اس کے حواس خمسہ کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا تھا۔۔ ۔ وہ کچھ کھانے سے قبل اس میں حیا تین اور لحمیات کی مقدار کو تلاش نہیں کرتا تھا۔ اس کا معیار ذائقہ اور ذوق و شوق تھا۔ پھر اس نے فطری ذائقوں کو ترقی دے کر تہذیب و تمدن کو بام عروج تک پہنچا دیا اور اس طرح طویل عرصہ تک اپنی دنیا کو عقلیت پرستی کے اثرات سے محفوظ رکھا۔ لیکن بد قسمتی سے تعقل ایک بار پھر جذبوں پر حاوی ہو گیا ہے۔ کچھ عقلیت پسند بڑے بڑے بورڈ اٹھائے دنیا کو از سر نو جنت میں تبدیل کرنے کے لئے کوشاں ہو گئے ہیں۔ ان کا ایک مسئلہ زندگی کو امر بنانے کی وہی فرسودہ خواہش ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ اوسط عمر میں اضافہ اور شرح اموات میں کمی کرنے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ مگر اس کے لئے ہمیں جو روح فرسا قربانیاں دینی پڑ رہی ہیں وہ بذات خود دائمی موت سے کم نہیں۔۔ ۔ گھی، شکر، گوشت، پکی ہوئی سبزیاں …تو شجر ممنوعہ بن گئی ہیں۔۔ ۔۔ علی الصبح بسترا ستراحت کو خیر باد کہہ کر ہونقوں کی طرح تین چار کلو میڑ سر پٹ بھاگنا قطعاً غیر انسانی فعل ہے۔۔ ہم انسان ہیں۔۔ ۔۔ ہمیں زندہ ہی رہنا ہے تو انسانوں کی طرح زندہ رہنا چاہیے ورنہ ایسی زندگی کا فائدہ ہی کیا ؟
چند دن ہوئے میرا ایک دوست بیمار پڑ گیا۔۔ ۔ حکیم صاحب نبض پر ہاتھ رکھ کر کوئی آدھ گھنٹہ تک پرہیز کی تفصیل بتاتے ہوئے بولے۔۔ ۔ ’’کیوں میاں ! پھر کیا خیال ہے۔ پرہیز کر لو گے ؟ ‘‘
میرے دوست نے انتہائی مایوسانہ انداز میں جواب دیا۔۔ ۔ ’’رہنے دیجئے حکیم صاحب! پرہیز سے موت بہتر ہے۔ ‘‘
اصل بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ صرف ’’سانس‘‘ لینا چاہتے ہیں۔۔ ۔ ’’زندہ‘‘ رہنا نہیں جانتے اور یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا کو جنت میں تبدیل کرنے کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں جنت میں انسان کے لئے کچھ چیزیں ممنوعہ ہیں اور کچھ غیر ممنوعہ۔۔ ۔ اور جہاں ممنوع اور غیر ممنوع کی تفریق پیش نظر ہو وہاں ہر بات کے لئے کسی نہ کسی جواز کا ہونا لازمی بن جاتا ہے۔
میں اتنا غیر معقول بھی نہیں کہ ہر قسم کے جواز کو زندگی سے خارج کر دوں۔۔ کسی چیز کے لئے کوئی جواز بھی میسر آجائے تو یہ بری بات نہیں لیکن جواز کو مقصود بالذات سمجھ لینے سے بہت سی برائیاں جنم لینے لگتی ہیں اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ نہ صرف شادیاں بھی ہم جہیز کی خاطر کرنے لگتے ہیں بلکہ انتہائی خلوص سے پیش کی جانے والی چائے کی ایک پیالی کو بھی شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہر چیز اور ہر بات کے لئے جواز کی تلاش معقول رویہ نہیں۔۔ ۔ آخر اس دنیا میں خود انسان کی موجودگی کا کیا جواز ہے ؟
٭٭٭