FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

یہ میرا بلتستان

 

 

 

 

سلمیٰ اعوان

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

اُن شہیدوں کے نام

 

جنہوں نے بلتستان کی جنگ آزادی میں حیرت انگیز کارنامے سر انجام دئیے اور شہید ہوئے

 

اُن غازیوں کے نام

 

جنہوں نے صرف اور صرف جذبہ ایمانی کے زور پریہ جنگ جیتی، پاکستان میں شامل ہوئے اور آج بھی اس کی محبت سے سرشار ہیں

 

 

 

 

 

حرفِ آغاز

 

یہ سکر دو میں میرے قیام کی آخری شام تھی، اس وقت جب قراقرم اور ہمالیائی سلسلوں کی چوٹیوں کو سورج کی آخری کرنیں بوسے دے رہی تھیں۔ میں وادئ سکر دو کے دانشوروں کے ساتھ محو گفتگو تھی۔ دفعتاً سکر دو ڈگری کالج کے پرنسپل خواجہ مہر داد خان نے مجھ سے کہا۔

’’آپ اگر بلتستان پر ایک دستاویزی کتاب تیار کریں تو ہم اس کی اشاعت کا بندوبست نہ صرف اردو زبان میں کریں گے بلکہ اس کا جرمن زبان میں ترجمے کا اہتمام بھی ہو گا، بون یونیورسٹی کا بلتی ڈیپارٹمنٹ اس ضمن میں آپ کو موزوں رائلٹی دے گا۔‘‘

محفل میں بون یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر کلازسیگا سٹر بھی موجود تھے۔ وہ بلتی زبان پر تحقیقی سلسلے میں میرے ساتھ ہی اسلام آباد سے سکر دو پہنچے تھے۔ اس تجویز پر ان کا سِلور گرے بالوں والا سر تیزی سے اثبات میں ہلا تھا۔ میں ہنس پڑی تھی۔

در اصل پیسہ کمانا ہی مقصود ہوتا تو پھر یہاں آنے اور ان وادیوں میں خاک چھاننے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ یہ کام تو اُلٹے سیدھے ناول لکھنے سے حاصل ہو سکتا تھا۔ خواجہ صاحب میں چاہتی ہوں میرے ملک کے عام لوگ اپنے وطن کے ان دشوار گزار گوشوں کے بارے میں جانیں۔ میں کتاب کو اتنا بوجھل اور ثقیل بنانا نہیں چاہتی ہوں کہ عام قاری اس کے چند اوراق پڑھنے کے بعد اسے پرے پھینکتے ہوئے خود سے کہے۔

’’ہٹاؤ یار کیا بور شے ہے۔‘‘

میری خواہش ہے کہ میں اس کے تاریخی پس منظر میں جھانکتے ہوئے اس کے مسائل، اس کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کو اس انداز میں بیان کروں کہ قاری پڑھتا جائے اور جب وہ اسے پڑھ لے تو یہ جان لے کہ بلتستان کیا ہے؟ تب شاید ایسا ممکن ہو کہ کسی خوبصورت سی محفل میں کوئی پڑھی لکھی عورت سکر دو یا خپلو کے نام پر یہ نہ کہے۔

’’ارے سکر دو۔ مائی گاڈ، وہ کہاں ہے؟ آپ دعا کریں میں اس مقصد میں کامیابی حاصل کروں۔‘‘

اور غلام وزیر مہدی سابق رکن مجلس شوریٰ مسکرائے اور میرے شانے محبت سے      تھپتھپاتے ہوئے بولے۔

’’آپ کا جذبہ قابل صد ستائش، ہم آپ کے لئے دعا گو ہیں۔‘‘

میں جناب مہر داد خان کی شکر گزار ہوں جنہوں نے بلتستان میں میرے قیام کو ہر طرح مفید بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ جناب غلام وزیر مہدی کا بہت شکریہ کہ جنہوں نے قدیم تاریخ کے بہت سے باب میرے اوپر کھولے، طاہر، عباس کاظمی، روزی خان اور جناب حاتم خان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔ مجھے جناب محمد یوسف حسین آبادی کا خصوصی شکریہ ادا کرنا ہے۔ سچی بات ہے انہوں نے اس کتاب کے لئے جس طرح میری قلمی معاونت کی۔ میرے شکریے کے چند الفاظ میرے دلی جذبات کی ترجمانی کرنے سے قطعی معذور ہیں۔

ڈاکٹر کریم ڈرافس مین، علی کاظم اور اس پیارے سے شگری لڑکے عمران کی تہہ دل سے مشکور ہوں۔ مجھے پاک فضائیہ لاہور بیس کے ان افسروں کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے جو بیس کے بلتی لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر میرے گھر بھیجتے تھے۔

میں اپنی دوست مریم، اس کے بھائی محمد ارشاد شاہ اور اس کے دوست کے خلوص کی شکرگزار ہوں۔ جنہوں نے وائرلیس کے رابطے کے ذریعے مجھے میرے بچوں کی عافیت سے مطلع رکھا۔

 

سلمیٰ اعوان

 

 

 

باب نمبر ۱

 

 

سچ تو یہ تھا کہ بن باس لینے والی بات ہو گئی تھی، رام چندر جی کی طرح۔ پر دکن کے ڈونڈوک بن میں نہیں، بلتستان کی حسین اور جنت نظیر وادیوں میں۔ چندر جی کو ایک رانی کیکئی کا سامنا تھا پر یہاں تو بہت سی رانیاں اور راجے تھے۔ جن کی آنکھوں میں وہ ہمہ وقت ایک نوکیلے کانٹے کی طرح چُبھتی تھی۔ یوں اس کے اندر کا دکھ بھی پھنکارے مارتا رہتا تھا۔ اس کی انا بھی من راجہ دسترتھ کو قائل کرتی رہتی تھی کہ گوشت پوست کا اس کا یہ وجود بن باس ہی ہو جائے، تو بہت اچھا ہے۔

اس وقت بھی بات تو چھوٹی سی تھی، پر آناً فاناً بڑی بن گئی تھی۔ وقت کا وہ لمحہ تو ظالم تھا پر پس منظر ظالم ترین تھا۔

اس نے کمرے کی ساری کھڑکیاں کھولی تھیں۔ نیچے لان کی کیاریوں میں اُگی رات کی رانی کی بوجھل اور مسحور کن خوشبو ہوا سے اٹکھیلیاں کرتی اس کے نتھنوں سے آ ٹکرائی۔ جون کی رات کے اِس پہر کی فضا بہت گرم تھی۔ کمرہ دہ میں ائر کنڈ یشنڈ چلتے رہنے کی وجہ سے ابھی تک ٹھنڈا تھا۔

پھر سٹیوری ونڈوزکی دلکش آواز ’’آئی جسٹ کال ٹو سے آئی لو یو۔‘‘ اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے سر دیوار سے ٹیک کر آنکھیں ابھی بند کی ہی تھیں کہ گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز پر فوراً کھول ڈالیں۔ نیچے گاڑی میں اس کا دیور اور دیورانی بیٹھے گیٹ سے نکل رہے تھے۔ اس کے مرحوم شوہر کی گاڑی پر اس کے دیور، جیٹھ کس ڈھٹائی سے قابض ہو گئے تھے۔ وہ تو بس تصویر حیرت بنی یہ سب دیکھتی تھی اور جلتی کڑھتی تھی۔

تبھی وہ دہلیز میں آ کھڑا ہوا تھا۔ پینتالیس انچ چوڑی چھاتی والا اس کا جیٹھ ایک پٹ والے دروازے کے بیچوں بیچ کھڑا یوں جیسے زمین میں بجلی کا کھمبا گڑا ہو۔

بخدا اس نے نہیں دیکھا تھا کہ اس کا گندم کے پکے خوشے جیسا رنگ، دہکتے کوئلوں جیسا ہو رہا تھا۔ اس کی پیشانی کی دو مستقل لکیریں پانچ میں بدلی ہوئی تھیں۔ اس کی ناک کے نتھنے پھڑپھڑا رہے تھے۔ چار سال ایک گھر میں رہنے سے اتنا تو وہ جانتی تھی کہ یہ پھڑپھڑاہٹ ہمیشہ اضطرابی کیفیت کی آئینہ دار ہوتی تھی۔ پر وہ تو اس وقت جلن اور حسد کے کھولتے کڑا ہے میں پاؤں ڈالے بیٹھے تھی۔ ’’آئی جسٹ کال ٹو سے آئی لو یو‘‘ جیسا گیت بھی اپنی رعنائی کھو بیٹھا تھا۔ اب ایسے میں اس کا چہرہ دیکھ کر صورت حال کو جان لینا بہت مشکل کام تھا۔

اور اُس نے کہا۔

’’تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ لان کی غربی دیوار پر کپڑے نہیں پھیلانے اور تم نے پھر پھیلائے۔‘‘

وہ تلملا اُٹھی۔ ’’کمال ہے یہ نادر شاہی حکم صرف میرے لئے کیوں؟ سب وہاں پھیلاتے ہیں۔‘‘

’’میں صرف تمہاری بات کرتا ہوں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ اس کی آنکھیں حیرت سے خوفناک حد تک پھٹ گئی تھیں۔

’’ابا جان کپڑوں کی وجہ سے شام کو وہاں بیٹھ نہیں سکتے۔‘‘

وہ اب غصے کے کھولتے کڑاہے میں پوری طرح گر گئی تھی۔ عین اس کی ناک کی سیدھ میں آ کر کھڑی ہوئی اور بولی۔

’’تمہارا تو وہ حال ہے کہ آٹا گوندھتے میں ہلتی کیوں ہوں۔ بھئی میرا وجود تمہاری برداشت سے باہر ہے۔ سیدھی طرح کہو کہ گھر چھوڑ دو اور کہیں چلی جاؤ۔ اُلٹے سیدھے اعتراضات سے پریشان کرنے کا فائدہ؟ مشترکہ گھر میں بات فرد کی نہیں افراد کی ہوتی ہے۔ حکم اجتماعی طور پر دو، انفرادی حیثیت میں، میں اُس نہیں مانتی۔‘‘

زناٹے کا ایک تھپڑ اس کے گال پر پڑا۔

’’زبیر غریب ٹھیک واویلا کرتا تھا۔ اس کمبخت ایم۔ اے پاس نے ناک میں دم کر دیا تھا۔ ہمہ وقت دلائل، ہمہ وقت تاویلات، تمہاری اس چخ چخ نے اسے قبر میں اُتار دیا ہے۔‘‘

داہنا گال داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کے سائے میں آ گیا تھا۔ وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ اور دید کا یہ انداز اس مجروح شیر کی مانند تھا جو اچانک کسی شکاری کی گولی کا نشانہ بن جائے اور کچھ یوں ناکارہ ہو جائے کہ محض آنکھوں سے ہی غیظ و غضب کے شعلے برسانے پر اکتفا کرے۔

’’زبیر تو قبر میں اُتر گیا ہے۔ پر تم تو سلامت پھرتے ہو۔‘‘

’’ہاں ہاں اب ہم پر تمہاری نظریں ہیں۔ تم خدا سے چاہتی ہو کہ گھر خالی ہو اور تم جائیداد کی مالک بنو۔‘‘

’’لعنت ایسی جائیداد پر جو انسان سے انسانیت چھین لے اور اس کی آنکھوں پر حرص کی پٹیاں باندھ دے۔‘‘

’’بکواس بند کرو۔‘‘ اُس کی آواز میں جنگلی جانور جیسی غراہٹ تھی۔ ’’ابھی جاؤ اور سب کپڑے اُتار کر لاؤ۔‘‘

’’نہیں جاؤں گی۔ سب کو بلاؤ اور سب سے کہو۔‘‘

اور پھر کوروکیشتر کے میدان میں گھمسان کا رن پڑا۔ اُس نے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی اپنی سعی تو کی پر ناکام رہی۔ پانڈو شہزادے نے اس کی گردن اپنے آ ہنی ہاتھ میں دبوچ کر اسے دھکا دیا اور بولا۔

’’نکل جاؤ ابھی اور اسی وقت۔ ایس اکڑ اور خود سری ہمیں نہیں قبول۔ اس کی زندگی جہنم بن گئی تھی اور اب ہماری بن رہی ہے۔‘‘

وہ ریس میں حصہ لینے والے گھوڑے کی طرح ہانپتی تھی اور اسے خونخوار آنکھوں سے دیکھتی تھی۔ جب وہ پھر گرجا۔

’’تم نے سنا نہیں، گھر خالی کر دو چار سال سے تم جیسی بانجھ عورت کو برداشت کر رہے ہیں۔ مقابلے کرتی ہے دیورانیوں کے جو بعد میں بیاہ کر تین تین بچوں کی مائیں بن گئی ہیں۔‘‘

اس نے بیگ اُٹھایا۔ بغل میں دبایا۔ چادر اوڑھی اور گھر سے نکل آئی۔

اس نے ایک بار پلٹ کر اس گھر کو نہیں دیکھا جس کے چپے چپے کو اس نے جی جان سے سنوارا تھا، سجایا تھا۔ گزشتہ ایک سال سے اسے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ گھر اس کا عارضی ٹھکانا ہے۔ وہ کسی وقت بھی یہاں سے نکالی جا سکتی ہے۔

زمین کے سینے کو اس کے اشتعال بھرے پاؤں کوٹتے رہے۔ وہ چلتی رہی۔ بلا مقصد گلیوں گے موڑ کاٹی رہی۔ اپنے آپ سے باتیں کرتی رہی۔

پھر جیسے اس کے اندر کا دکھ بے چارگی کی پھوار میں بھیگ گیا۔ وہ نڈھال سی ایک نیم تاریک ویران سی گلی کے ایک ویران سے مکان کے ایک ٹوٹے پھوٹے تھڑے پر بیٹھ گئی۔ آنسو پرنالے کی صورت اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔

بڑی لاڈلی بیٹی تھی اپنی ماں کی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن، پڑھنے لکھنے میں ذہین، شکل و صورت میں حسین۔ ماں نے اونچے گھر میں بیاہا۔ بہت خوبصورت لڑکے کو داماد بنایا۔ لوگوں نے بھی اس جوڑی کو رشک سے دیکھا۔

زبیر کے گھر آ کر اسے احساس ہوا کہ وہ کچھ عجیب سی عادتوں کا مالک ہے۔ ایک تو وہ شکی مزاج تھا دوسرے اپنی بڑی بھاوج کا کہنے کار تھا۔ شادی کے تھوڑے دنوں بعد پہلا نزلہ تو اس کی ملازمت پر گرا۔ اس کی جیٹھانی کو اس کا بن سنور کر کالج جانا سخت ناپسند تھا۔ زبیر نے جب ملازمت چھوڑنے کی بات کی تو وہ بولی۔

’’ارے مفت کا پیسہ آتا کیا برا لگتا ہے۔ دس بجے جاتی ہوں اور ایک بجے واپس آ جاتی ہوں۔‘‘

زبیر نے بالوں میں تیزی سے کنگھا چلاتے ہوئے کہا۔

’’میں مفت خور انہیں۔ گھر بیٹھو اور گھر داری سیکھو۔ تمہیں تو روٹی بنانی نہیں آتی۔‘‘

اس نے حالات کا جائزہ لے کر نوکری چھوڑ دی۔ نہ چھوڑتی تو گھریلو حالات کے بگڑنے کا ڈر تھا۔ پر جب پہلی بار ان کے درمیان کسی چھوٹی سی بات پر تو تکار کی صورت حال پیدا ہوئی تو وہ گنگ سی رہ گئی۔

ایسا پڑھا لکھا وجیہہ ذمہ دار افسر جو بڑا کلچرڈ اور مہذب نظر آتا تھا، فوراً ہی گالی گلوچ پر اُتر آیا اور پھر گھر سے نکل جانے کا بھی کہنے لگا۔

زخمی کوڑیالے ناگ کی مانند وہ تڑپ کر بولی۔

’’کیوں نکل جاؤں۔ کوئی بھاگ کر آئی ہوں۔ ڈیڑھ فٹ اونچے لہراتے شملوں اور پگوں والے لائے تھے مجھے، اکٹھا کرو انہیں پہلے، پھر ایک بار ہی نکلوں گی۔‘‘

اور جب اُس نے اپنی ماں سے اس دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس کے شانے پر محبت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

’’بچی! میاں بیوی کسی غریب کاشتکار کی بیلوں کی اس جوڑی کی طرح ہیں۔ جو اکٹھے زمین کا سینہ چیرتے ہیں۔ اکٹھے سہاگہ اور کراہی کا عمل سرانجام دیتے ہیں۔ لڑتے مرتے بھی ہیں اور پھر ایک ہی کھرلی پر پٹھے (چارہ) کھانا بھی اُن کا مقدر ہے۔‘‘

سو جب لڑنے مرنے کے عمل سے فارغ ہو کر انہوں نے کھرلی میں اکٹھے پٹھے کھانے شروع کئے تو اس نے شاکی لہجے میں کہا۔

’’زبیر کیا تم عورت کو کرائے دار سمجھتے ہو کہ جب چاہا اسے نکال دیا، یا تمہاری نظر میں وہ پاؤں کی جوتی ہے کہ جسے جس وقت چاہا اُتار پھینکا۔ دو برتنوں کا ایک جگہ رہنے سے ٹکراؤ تو ضروری ہے۔ لڑائی کرو، پر یہ کیا کہ گھر سے نکالنے کے درپے ہو۔‘‘

اور اس نے اسے بازوؤں میں سمیٹ کر اس کے گھنے سیاہ بالوں پر پیار کیا اور تاسف بھرے لہجے میں بولا۔

’’یار! معاف کر دو۔ پر خدا کے لئے یہ بھی یاد رکھا کرو کہ میں ہسٹری میں ایم۔ اے پاس سے بیاہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ پر مقدر زور آور تھا۔ مجھے ’’گیلڈ سٹیون‘‘ کی خارجہ پالیسی پر لکچر سننے سے ڈر لگتا تھا اور تم مجھے وہ لکچر پلاتی ہو۔ خدا کے لئے لکچر نہ پلایا کرو۔‘‘

پر دوسری بار جب ایسی ہی صورت حال نے جنم لیا تب بھی بعد میں وہ بہت چیخی۔

’’تم آخر مجھے گھر سے نکل جانے کا کیوں کہتے ہو؟ تمہاری یہ بات مجھے ہوا میں معلق کر دیتی ہے۔‘‘

وہ بولا: ’’ دیکھو مشرق کا مرد کتنا بھی ایڈوانس کیوں نہ ہو، عورت کی زبان درازی برداشت نہیں کر سکتا۔ تم نے میرے غصے کو اپنی زبان سے مشتعل کیا۔‘‘

’’تم شاید مجھے پتھر کی طرح دیکھنا چاہتے ہو، جو ممکن نہیں۔ میں گوشت پوست کا ایک جیتا جاگتا انسان ہوں جسے ناجائز اور غلط بات پر احتجاج کا پورا حق حاصل ہے۔‘‘

گھر کی سیاست سے وہ بہت دیر میں شناسا ہوئی تھی۔ بڑی بھابھی کا ذہن کتنا پراگندہ تھا اس کا اندازہ اسے اب ہوا تھا۔ چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر جب زبیر ان کے سکھانے پر بولتا تو گھر کا سکون درہم برہم ہو جاتا۔ وہ اپنی ماں سے جب جلے دل کے پھپھولے پھوڑتی تو وہ متانت سے کہتیں۔

’’صبر میری بچی! اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

صبر کا یہ درس دینے والی اچانک شہر خموشاں کی شہری بن گئی۔ چھ ماہ بعد ابا بھی اُکتا کر ان کے پاس جا سوئے۔ دونوں کے اس جہان سے جانے کی دیر تھی۔ اس کی بڑی بھابھی نے وہ پر پرزے نکالے کہ وہ دنگ رہ گئی۔ اس کی جیٹھانی سے مل کر اس کے بارے میں ایسی خوفناک باتیں کہیں کہ جب اس نے سنیں تو سینہ کوٹ لیا۔

زبیر نے جس سرد مہری اور بے حسی کا مظاہرہ کیا اس نے اسے ریزہ ریزہ کر دیا۔

اس وقت اس کے بیاہ کو چار سال بیت گئے تھے اور اس کی گودی ہنوز خالی تھی۔

اور پھر زبیر کا روڈ ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

چار سال کے عرصے میں اس نے سبھی مزے چکھ لئے۔ زبیر جیسا بھی تھا، زندگی کا ساتھی تھا۔ پر اس ساتھی نے اس کے پر کاٹ کر پنجرے میں بند کر دیا تھا۔ اس کی انشورنس، پروویڈنٹ فنڈ اور گریجوایٹی سب اس کے والد کے نام تھیں۔ کسی نے اس سے یہ تک پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اس کے پاس کچھ ہے یا نہیں۔

اور آج اس کی عدت کو پورا ہوئے صرف دو دن اوپر ہوئے تھے۔

ایسا تو ایک دن ہونا ہی تھا۔ خدا جانے عدت تک کیسے صبر کیا۔

اب وہ اس ویران گلی کے ویران سے تھڑے پر بیٹھی چھم چھم روتی تھی اور اپنے آپ سے پوچھتی تھی کہ کہاں جائے۔

اور یہ ’’کہاں‘‘ ایک ایسا اندھیرا غار تھا جو منہ پھاڑے اس کے سامنے کھڑا تھا۔

بڑا بھائی اپنے بیوی بچوں کا تھا۔ کبھی اس کے گھر جھانکا تک نہیں تھا۔ کبھی پوچھا نہیں تھا کہ وہ کس حال میں ہے۔ چھوٹا دو سال سے کینیڈا میں تھا۔ اسے وہ کیا لکھتی۔ بقیہ رشتہ داروں اور عزیزوں کے اطوار بھی سامنے تھے۔

تب اس نے آنسوؤں کا سارا پانی اپنے حلق میں اُتار لیا تھا۔ وہ کھڑی ہوئی خط مستقیم کی طرح اور اس نے اپنے آپ سے کہا۔

’’دُکھ کی یہ صلیب میں تنہا اپنے کندھوں پر اُٹھا کر چلوں گی۔ ہونٹوں پر ٹانکے لگا لوں گی اور جی داروں کی طرح جیوں گی۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

باب نمبر ۲

 

 

بس تو یوں لگتا تھا جیسے آفتاب اس کے ماتھے میں سے پھوٹ نکلا ہو۔ چادر سے پھسلی جاتی تھی اور سارے جسم کے مساموں سے ڈھیروں پانی بہتا تھا۔ وہ چلتی جا رہی تھی۔ رات کا کچھ حصہ گاڑی میں گزرا تھا۔ آخری پہر ریلوے اسٹیشن پر صبح کے انتظار میں اور اب پی۔ آئی۔ اے راولپنڈی مال والے دفتر نے اسے ناردرن ایریا کے آفس میں دھکیل دیا تھا۔ ہنس راج کی طرح زمین کے سینے پر یہ دودھیا عمارت تیرتی نظر آتی تھی۔ وہ پہلے گیٹ سے دائیں ہاتھ مڑی اور کشادہ کمرے میں داخل ہوئی۔ کمرہ بلتستان جانے والے مقامی لوگوں اور غیر ملکی سیاحوں سے بھرا پڑا تھا۔ کاؤنٹر پر بیٹھے نو عمر لڑکے سے اس نے سکر دو کے ٹکٹ کے لئے کہا۔ اس نے ہجوم میں گھرے گھرے دفعتاً اس کی آواز پر گردن اُٹھا کر دیکھا اور بولا۔

’’ذرا بیٹھئے! میں فارغ ہو کر آپ کی بات سنتا ہوں۔‘‘

وہ دیوار کے ساتھ ٹکے صوفے پر بیٹھ گئی۔ کاؤنٹر پر سفید براق وردیوں میں دو مرد کھڑے تھے۔ منگولی نقش و نگار والا اور آریائی خد و خال والا۔

وہ سیاہ ریکسین کے صوفے والے بازو پر کہنی ٹکائے اور اس کہنی پر کھڑی ہتھیلی کے پیالے میں داہنا گال جمائے سوچ رہی تھی۔

کہ اے کاش وہ ’’چارلس ڈوج سن‘‘ کی ’’ایلس ان ونڈر لینڈ‘‘ بن سکتی۔ زمین کے کسی گہرے سوراخ میں گر جاتی نیچے بہت نیچے کسی اور دنیا میں چلی جاتی۔

جب وہ ’’کہاں جائے‘‘ جیسی استفہامیہ علامت کو اثبات میں بدلنے کی تگ و دو میں مصروف تھی۔ روح اللہ اسے ایسے ہی یاد آیا تھا جیسے گھپ اندھیرے میں بجلی چمک جائے وہ اس کے بھائی کا دوست تھا۔ انجنیئرنگ کالج میں اس کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پہلی بار جب اس کے ساتھ ان کے گھر آیا تو یہ جاننے پر کہ سکر دو سے ہے، اماں نے اس کا سینہ اور ماتھا چوماتھا۔ اماں کا مرحوم بڑا بھائی دس سال سکر دو میں رہا تھا اور اماں سکر دو کے پھلوں اور سوغاتوں کی نمک خوار تھی۔ روح اللہ نے ایک بار اس سے بھی کہا۔

’’کبھی آئیے نا وہاں۔ بلتستان کی وادیاں فطرت کی شاہکار، اس کے نظارے روح پرور، وہاں کے لوگ محنتی، جفا کش، مخلص اور پاکستان سے ٹوٹ کر پیار کرنے والے اور وہ علاقہ وسیع تہذیبی ورثے کا مالک۔‘‘

اور اس نے مدھم سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر کہا۔

’’اپنا وطن ہے کبھی انسان آ ہی جاتا ہے۔‘‘

وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

’’اپنا وطن ارے! کہاں جانتے ہیں لوگ وطن کے ان حصوں کے بارے میں۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے میرے ساتھی لڑکے یورپ کی خوبصورت جگہوں کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ میں نے کہا باہر کی بات کرتے ہو۔ اپنی طرف کیوں نہیں دیکھتے۔ خپلو اور شگر خوب صورت ترین وادیاں وادیاں جنہیں بیرونی سیاحوں نے اس دنیا پر جنت کہا ہے۔‘‘

چند ایک بولے۔

’’یہ کہاں ہیں؟‘‘

’’یقیناً آپ کو بھی نہیں پتہ ہو گا۔‘‘

اس نے خجالت تو محسوس کی پر حقیقت کا صاف گوئی سے اعتراف بھی کیا۔

’’واقعی روح اللہ! ہم کیسے پاکستانی ہیں۔ پاکستان کا ہر چوتھا لکھاری انگلینڈ، امریکہ یاترا کی داستانیں قلم بند کرتا ہے، پر یہ کیسا ستم ہے کہ انہیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنے ملک کے گوشہ ہائے دور دراز کے چہروں پر پڑی نقاب سرکا کر ان کے رُخ روشن بھی عام لوگوں کو دکھا سکیں۔‘‘

اور اب وہ بیٹھی سوچتی تھی کہ وہ کے۔ ٹو، ماشہ بروم، رگشہ بروم اور براڈپیک کی چوٹیوں کو سر کرنے جا رہی ہے یا انہیں زیر کرنا چاہتی ہے۔ جنہوں نے اس کی محبت اور خلوص کو مٹی میں روند دیا ہے۔ بچہ نہیں ہوا، مشیت کی مرضی، اس کا کیا دوش۔

اس وقت دُکھ اور جلن کی ایک ایسی آگ اس کے اندر بھڑکی ہوئی تھی۔ جس نے اسے بے کل کر رکھا تھا۔

اور پھر جب کافی بھیڑ چھٹ چھٹا گئی تب اسے بلایا گیا۔ خصوصی رعایت کرتے ہوئے اسے بلڈنگ کے دوسرے حصے سے اوپن ٹکٹ لانے کو کہا گیا اور جب وہ اس سارے عمل سے فارغ ہوئی، اس کے ہاتھ میں فوکر طیارے کی جو اگلی صبح چھ بج کر پچپن منٹ پر پرواز کر رہا تھا، ٹکٹ تھما دی گئی۔

دوپہر اور شام کا بیشتر حصہ بازار میں کٹا۔ کلائی کی چھ طلائی چوڑیاں بیچیں اور اہم چیزوں کی خریداری کی۔ رات اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر گزاری۔ ائیر پورٹ صبح کے ملگجے اندھیرے میں پوری آب و تاب سے جگمگا رہا تھا۔ چیکنگ وغیرہ کے سب مراحل سے فارغ ہو کر وہ اب وسیع و عریض انتظار گاہ میں بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے تین دیو ہیکل جرمن زور شور سے باتیں کر رہے تھے۔ دائیں طرف ایک نیا نویلا جوڑا آ کر بیٹھ گیا۔ لڑکی نے نہایت خوبصورت سرخ جوڑا پہن رکھا تھا۔ کٹے بالوں کے درمیان مُنے مُنے نقوش والا چہرہ چمبیلی کے پھول کی طرح ہنستا تھا۔ سرخ جوڑا اور بازو سے بازو جوڑے بیٹھا ایک دل کش مرد۔ اس نے دانت ہونٹوں میں گاڑ دئیے اور آنکھوں کا رُخ پھیر لیا۔ بائیں طرف ایک عورت ڈیڑھ دو سالہ بچے کو گود میں اُٹھائے دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے دانت ہونٹوں میں مزید گہرے چلے گئے تھے۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھی۔ آنکھوں کے عین سامنے ’’نماز کے لئے جگہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ بیگ کو کندھے سے لٹکایا اور تیز تیز قدم اُٹھانے لگی۔

اور جب اس نے سجدے میں سر جھکایا، اسے احساس ہوا تھا جیسے آنکھوں سے آنسوؤں کا نہیں، خون کا فوارہ اُبل پڑا ہو۔

سکر دو کی پہلی پرواز کی تختی اُبھری اور اناؤنسر نے اعلان کیا۔ لوگ انتظار گاہ کے سامنے کھڑی گاڑی میں سوار ہونے لگے۔

ایک نو عمر، خوش شکل سا لڑکا اپنی ہی عمر کے ایک غیر ملکی لڑکے کے ساتھ ٹہلتا ٹہلتا اس کے سامنے آ کر رک گیا۔

’’دعا کرو فریڈرک آج نارمل روٹ کی پرواز نہ ہو۔ انڈس ویلی کے روٹ کا تھرل۔۔ ۔ مائی گاڈ‘‘ اس نے اپنا ہاتھ فضا میں لہرایا۔

’’دنیا کا خوبصورت اور خطرناک ترین روٹ۔‘‘

آدھ گھنٹے بعد فوکر طیارے کی دوسری پرواز کے لئے وہ بھی باہر آ گئی۔ خوش شکل سٹیورڈ نے بورڈنگ کارڈ پر سے سیٹ نمبر دیکھ کر اسے بٹھایا۔ چھوٹا سا فوکر، بے چارہ بوئنگ جیسی شان و شوکت سے محروم، دروازے بند ہو گئے تھے۔ دو منٹ، تین، چار، پانچ اور پھر دس منٹ تب اعلان ہوا کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے پہلا طیارہ ابھی راستے میں ہی ہے۔ بیس منٹ بعد بتایا گیا کہ جہاز فی الحال پرواز سے قاصر ہے۔ مسافر ایک ایک کر کے اُٹھے۔ باہر نکلے اور ایک بار پھر اسی ہال میں آ کر بیٹھ گئے۔ پہلے طیارے کے مسافر بھی ہنستے مسکراتے واپس آ گئے تھے۔ پتہ چلا کہ کاغان ناران تک تو خیریت تھی پر جگلوٹ پر اتنی دھند تھی کہ جہاز کے آگے بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ معاملہ اگلے دن پر ملتوی ہو گیا تھا۔

اب پھر پی۔ آئی۔ اے کے ناردرن ایریا کا دفر تھا۔ وہ تھی اور لوگوں کا جم غفیر، ٹکٹ پر اگلے دن کی تاریخ پڑی اور اس نے پوچھا۔

’’کیا کل بھی ایسا ہی ہو گا؟‘‘

اور وہ منگولی خدو خال والا نوجوان مسکرایا۔

’’گھبرائیے نہیں، کل بوئنگ کی باری ہے۔ وہ زیادہ بلندی پر پرواز کر سکتا ہے۔ کل آپ انشاء اللہ سکر دو کا پانی ضرور پئیں گی۔‘‘

پی۔ آئی۔ اے نے بلتستان کے لوگوں کے لئے ہوٹل والوں سے ٹھیکہ کر رکھا ہے۔ پروازوں کی معطلی کے سلسلے میں انہیں وہاں ٹھہرایا جاتا ہے۔ جب اس نے کاؤنٹر کلرک سے بات کی تو وہ بولا۔

’’یہ رعایت صرف غریب مقامی لوگوں کے لئے ہے۔‘‘

’’میں کیا آپ کو امیر نظر آتی ہوں؟‘‘

اس نے اسے مسکرا کر یوں دیکھا جیسے کہتا ہو۔ میرے خیال میں تو آپ اونچی شے ہیں۔

’’در اصل‘‘ وہ پھر بولا۔

’’ان علاقوں کی ترقی و خوشحالی کے لئے کرائے کی شرح بہت کم رکھی گئی ہے۔ ان کی رہائش کا انتظام پروازوں کی معطلی میں پی۔ آئی۔ اے کی ذمہ داری ہے۔ ایک کمرے میں چار افراد ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اب آپ بتائیے میں آپ کو کہاں ایڈجسٹ کروں۔ ایک کمرہ میں ایک فرد کو الاٹ نہیں کیا جا سکتا؟‘‘

’’کچھ کیجئے۔ رات میں نے ائیر پورٹ پر گزاری ہے۔ ایک پل آنکھ نہیں جھپک سکی۔‘‘

پھر اسے ایک فارم دیا گیا اور بتایا گیا کہ کھانا اسے اپنی گرہ سے کھانا پڑے گا چھ بجے پرواز ہے۔ گاڑی آپ کو وہیں سے پک کر لے گی۔‘‘

اور شمع ہوٹل کے کمرے میں اس نے اپنے آپ کو بیڈ پر گرا کر آنکھیں موند لیں۔ اس کے آگے پیچھے، دائیں بائیں ہر سُو اندھیرے ہی اندھیرے تھے۔

جہاز نے اونچی اڑان لے لی تھی۔ قد آور درخت بوٹے بن گئے تھے۔ مارگلہ کی پہاڑیاں مٹی کی ڈھیریاں لگ رہی تھیں۔ اسلام آباد کے گھر گڑیوں کے گھروندوں میں منتقل ہوئے۔ کھیت جیومیٹری کے ڈیزائن لگنے لگے۔ ایبٹ آباد کی سر سبز پہاڑیاں اور ان کے دامنوں میں بنے ٹین کی چھتوں والے گھر سورج کی اولین روشنی میں یوں چمکتے تھے جیسے کسی نے سبزے پر جستی چادر کے چھوٹے چھوٹے ڈبے یہاں وہاں لڑھکا دئیے ہوں۔ کہیں کہیں یہ بچوں کی کھلونے گاڑیاں سی دکھائی دیتیں۔ مانسہرہ، کاغان، ناران جھیل، سیف الملوک۔

اس کی ناک شیشے کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔ بوئنگ کی پرواز اس درجہ آرام دہ کہ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے انسان فضا میں معلق ہو گیا ہو۔ بادل جیسے کھیتوں کے کھیت اُگے ہوئے، کہیں برف کے گالوں کا روپ دھارا ہوا، کہیں یوں بکھرے ہوئے جیسے کسان نے اپنے کشادہ آنگن میں روئی دھنک کر ڈال دی ہو۔

اب سر سبز و شاداب پہاڑوں کی جگہ سیاہ ننگی چٹانیں اُبھر آئی تھیں۔ دامنوں میں برف کی چاندی سمیٹے کہیں کہیں چاندی ندی نالوں کی صورت میں بہتی نظر آتی تھی۔

معاون پائلٹ نانگا پربت کے بارے میں بتا رہا تھا۔ نانگا پربت کے پہاڑ سر سے پاؤں تک برف کے پیرہن پہنے اس طمطراق سے بیٹھے تھے جیسے جنگل کا بادشاہ اپنے ہالی موالیوں کے سامنے بیٹھا ہو۔ ایک جگہ بادلوں کی صورت گری کچھ ایسی تھی کہ جیسے کوئی محبوبہ دلنواز، عاشق صادق سے کہتی ہو۔

’’کر چھتری دی چھاں میں چھاویں بہنی آں۔‘‘

آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز جاری تھی۔ جب اس نے سنا ہم شگر کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔ پروں نے حرکت کی تھی۔ نیچے دریائے سندھ ایک چھوٹی سی ندی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ دائیں بائیں پر ہیبت سیاہ پہاڑ، نیچے دریائے سندھ کی ریت تجریدی آرٹ کے ایسے نادر شاہکار کہ وہ بس دیکھا کئے۔

بس تو جیسے انسان آنکھ جھپک لے۔ سکر دو کے بلند و بالا درخت نمایاں ہو گئے۔

صرف ایک گھنٹہ پانچ منٹ میں وہ ایک ایسی جگہ کھڑی تھی جو ننگے بُچھے پہاڑوں میں گھری ہوئی تھی۔ جہاں سورج کی چڑھتی جوانی دلآویر تھی۔ سرمئی سڑکیں اور لان چمکتے تھے۔ سامنے کریم رنگی چھوٹی سی عمارت خوش آمدید کہنے کو بے تاب تھی۔ بائیں طرف ٹاور کسی حسین البیلی نار کی مانند لشکارے مار رہا تھا۔ ہوا خوشگوار تھی۔ شاہ بلوط جھومتے تھے اور ٹاور سے ذرا پیچھے شنگریلا ریسٹورنٹ چائے کے لئے بلا رہا تھا۔

’’میں نے اب تک کی زندگی میں کیوں، کب، کہاں اور کیسے کی اہمیت کو نہیں سمجھا تھا۔ پر آج سمجھی ہوں اور یہ جان پائی ہوں کہ انسان ان ڈرامائی موڑوں کو جو اچانک سامنے آ جاتے ہیں۔ ان چاروں سوالیہ علامتوں کے ساتھ کیوں نتھی نہیں کر پاتا ہے۔‘‘

پھر جب وہ دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے حسن کو جی بھر کر دیکھ چکی تب وہ کریم رنگی عمارت میں داخل ہوئی اور باہر نکلی۔ یہاں سوزوکیوں اور ویگنوں والے کھڑے تھے۔ جو سکر دو شہر کے لئے سواریاں بٹھا رہے تھے۔

سامنے شنگریلا ریسٹورنٹ کے شیشوں والے دروازے اور کھڑکیاں ایک کپ چائے کے لئے اسے شد و مد سے بلانے لگے تھے۔ اسے کون سی جلدی تھی۔ وقت وافر، جگہ اجنبی اور منزل لا پتہ۔ لہٰذا وہاں بیٹھنے اور ایک کپ چائے پینے میں کیا حرج تھا۔

زہر مہرہ کے کپ میں گھونٹ گھونٹ چائے پی۔ دروازے کھڑکیوں کے شیشوں کو پھاڑتی سورج کی آتشیں کرنیں اب اس کا چہرہ جلانے لگی تھیں۔ اُٹھنے میں عافیت تھی۔

روح اللہ کے بارے میں اس نے سول سکیورٹی کے دو لڑکوں سے پوچھا۔ ان کے چہروں پر لا علمی کے اثرات تھے۔ کسی نے کہا۔

’’بڑے صاحب سے پوچھئے۔‘‘

اور وہ بڑے صاحب کے حضور پہنچ گئی۔ یہ بڑا صاحب حاتم خان تھا۔ سچ مچ کا حاتم خان جس نے اس کے چہرے کو دیکھا۔ اس کی مشکل کو سمجھا اور فی الفور سکر دو میں جگہ جگہ ٹیلی فون کھڑکا دئیے، اور بالآخر جب وہ روح اللہ کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔ تب دھیرے سے سر اُٹھایا۔ دھیمی سی مسکراہٹ چہرے پر لایا اور دھیرج سے بولا۔

’’لیجئے آپ کے میزبان پہنچ رہے ہیں۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب نمبر ۳

 

 

جیپ سکر دو ائیر پورٹ روڈ پر تیزی سے بھاگی جاتی تھی۔ روح اللہ کبھی اس کو طرف دیکھتا، مسکراتا اور کہتا۔

’’تو پھر آپ آ ہی گئیں بلتستان۔ پر میں حیران ہوں آپ اکیلی کیسے چلی آئیں؟‘‘

اُس نے چہرہ باہر کیا۔ روح اللہ کو شا ید ابھی تک اس کے وجود کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ ریت کے لمبے چوڑے میدان شروع ہو گئے تھے۔ عناب کے دو رویہ درخت پیچھے رہ گئے تھے۔ اوائل بہار میں یہ درخت بہت محسور کن خوشبو فضا میں بکھیرتے ہیں گمبہ سکر دو اور امام باڑہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ جب اُس نے اپنا رُخ اندر کیا اور بولی۔

’’ارے میرا وطن ہے یہ روح اللہ! مجھے تو یہاں آنا ہی تھا۔ رہی بات تنہا آنے کی۔ بتاؤ تم لوگ نہیں ہو کیا یہاں۔ بھلا شبیر اور تم میں کوئی فرق ہے۔‘‘

وہ ہنسی تھی اور ہنسی میں اُس کی ذات سے متعلق سب کچھ چھپ گیا تھا۔ تبھی روح اللہ کامیاب داستان گو کی طرح شروع ہوا۔

بلتستان کو چینی لوگوں نے بلور، لداخیوں نے اسے بلتی یل یا سری بتان (خوبانیوں کی سر زمین) خلیجی ممالک نے اسے تبت خورد اور یہاں کے باشندوں کو تبتی کہا ہے۔ ایرانی مبلخین کی اس علاقہ میں آمد کے بعد اس کا نام تبتی زبان کے لفظ ’’بلتی‘‘ اور فارسی کے لفظ ’’ستان‘‘ سے بلتستان بنا اور یہی اس کا آج کا نام ہے۔

ریت کا میدان ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ ہوا گرم تھی۔ روح اللہ نے ساری گرم ہوا اپنے چہرے پر لینے کی کوشش کی اور پھر بولا۔

’’گیارہویں صدی عیسوی میں یوں ہوا کہ رینگمو گلیشئر اپنی جگہ سے ذرا سا سرک گیا تھا دریائے شیوق میں زبردست طغیانی آئی۔ اس کی تباہ کاریوں نے اس عظیم سلطنت بلور کو  تباہ کر دیا۔ سینکڑوں دیہات نیست و نابود ہو گئے۔ لاکھوں انسان اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس سیلاب نے اپنے راہ میں آنے والی ہر وادی کو کاٹ کر گہری اور رتیلی وادیوں میں بدل دیا۔ اس طوفان کا زیادہ نشانہ بلور کا دارالحکومت جو مقامی روایات کے مطابق ’’ رگیا یل‘‘ (بڑی اور بادشاہ کی جگہ) کہلا تا تھا، برسوں ایک رتیلے اور پتھریلے میدان کی صورت میں پڑا رہا۔ جس کی وجہ سے تبتی لوگوں نے اسے سکرم دو یعنی خشک اور ویران جگہ کا نام دیا۔ سکرم دو بعد میں کثرت استعمال سے سکر دو بن گیا۔‘‘

جیپ کی رفتار بڑی سُست تھی۔ کہیں کہیں ننگے بُچھے پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف یوں چمکتی تھی جیسے کسی کالے کلوٹے چہرے پر برص کے دھبے۔

شگری کلاں گزرا۔ جیپ اس نے دائیں جانب موڑ لی۔ نصف کلو میٹر پر شگری بالا تھا۔ پھر جیپ ایک جگہ رُک گئی۔ روح اللہ باہر آ گیا۔ وہ بھی اُتر آئی۔

باہر دھوپ تیز ضرور تھی۔ پر ہوا کی تیزی تپش کو محسوس نہیں ہونے دیتی تھی۔

یہ جگہ شگری بالا تھی۔ سامنے ایک بڑے سے ٹیلے پر زمانہ قدیم کے رہائشی محل کے آثار پائے جاتے تھے۔ روح اللہ نے ایک پتھر کے پاس جا کر کہا۔

’’اسے دیکھئے ہم اسے اپنی بلتی زبان میں بردو سنساس (چکی کے پاٹ کا سرہانہ) کہتے ہیں۔ یہ پتھر آج بھی تاریخ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ ایک خوبصورت داستان وابستہ ہے۔‘‘

اب وہ ایک بڑے سے پتھر کی اوٹ میں بیٹھ گیا تھا۔ اس نے عینک اُتار دی تھی اور ابھی یہ الفاظ اسے کے ہونٹوں سے نکلے ہی تھے کہ ’’ ہاں تو جب یہ وادی سکر دو۔‘‘

جب اس نے جو اس سے ذرا فاصلے پر کھڑی تھی، اُس کی بات کاٹ دی۔

’’روح اللہ! میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ تاریخ کا یہ عظیم سرمایہ مجھے اتنی جلدی جلدی نگلوانے کی کوشش مت کرو۔ میں اسے ہضم نہ کر پاؤں گی اور مجھے بد ہضمی ہو جائے گی۔ میں کوئی دنوں کے لئے تھوڑی آئی ہوں۔ مہینوں رہوں گی۔ چپہ چپہ کونا کونا چھانوں گی۔ وادی وادی گھوموں گی۔ چلو اُٹھو مجھے گھر لے چلو۔ بیوی بچوں سے ملاؤ اور جب شام ڈھلے گی تو یہاں آئیں گے اور پھر اسی ٹیلے پر بیٹھ کر میں تم سے یہ تاریخی داستان سنوں گی۔‘‘

روح اللہ شرمندہ سا ہو گیا۔ معذرت کرتے ہوئے بولا۔ ’’در اصل میں بھی عجیب سر پھرا آدمی ہوں۔‘‘

اس کا چہرہ ابھی بھی معصوم تھا۔ اس کا جسم ابھی بھی زمانہ طالب علمی جیسا دبلا پتلا

تھا۔ اس نے عینک آنکھوں پر چڑھائی اور جیپ کی طرف بڑھا۔

اب پھر سکر دو ائیر پورٹ روڈ پہیوں کے نیچے تھی۔ ویران سڑک مقپون پل یعنی ہر گیسہ نالہ آیا اس میں سدپارہ جھیل کا پانی رواں دواں تھا۔

سکر دو ڈگری کالج کے ساتھ ہی سکر دو بازار شروع ہوتا ہے۔ دوکانوں کے اندر بیٹھے باریش مرد۔ دوکانوں سے باہر باتیں کرتے لوگ۔ چلتے پھرتے بچے غیر ملکی سیاحوں کی ٹولیاں بازار میں ایک بھی عورت نظر نہیں پڑتی تھی اور جب جیپ یادگار شہداء کے پاس سے گزرنے لگی اُس نے کہا۔

’’روح اللہ رُکو ذرا۔ میں فاتحہ پڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘

وہ اُتری۔ اُن شہداء کی یادگار جنہوں نے بلتستان کو پاکستان میں مدغم کرنے کے لئے آزادی کی جنگ لڑی اور شہید ہوئے۔ اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

پھر چشمہ بازار گزر گیا۔ سکمیدان کی گلیوں میں سے ہوتے ہوئے وہ اب سٹیلائٹ ٹاؤن کی طرف بڑھ رہے تھے۔ خوبانی کے درخت پھلوں سے بوجھل تھے۔ پر پھل ابھی کچا تھا۔ توت بھی کہیں کہیں نظر آتا تھا۔ در اصل یہ مئی کے آخری ہفتے کا پھل تھا گھروں میں سیبوں کے درختوں پر پھل ابھی موٹے بیروں جیسا تھا۔ گیلاس اور شوغون پک چکے تھے۔ صرف دو درختوں پر اسے آلو بخارا نظر آیا تھا۔

اور جیپ ایک آہنی گیٹ سے اندر داخل ہو گئی۔ گھر زیر تعمیر لگتا تھا۔ صحن میں بجری اور پتھر پڑے تھے سارا کنبہ بڑے کمرے میں جمع تھا۔ ایک مشترکہ گھر جو وہ پیچھے چھوڑ کر آئی تھی، ایک اور مشترکہ گھر جو اس کا استقبال کر رہا تھا۔ روح اللہ کا بڑا بھائی ایم۔ ڈی خان سکر دو کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کا سربراہ تھا۔ ان کی لاہوری بیوی بہت اُلفت سے ملی۔

پر روح اللہ کی بیوی سیماں! تبریز کی پیداوار، سکر دو کا قیمتی فیروزہ جسے دیکھ کر اس نے سوچا۔

’’تبریز کا سارا حسن سمیٹ لائی ہے اور یقیناً پیچھے ایک قطرہ تک نہیں چھوڑ کر آئی ہو گی۔‘‘

سیماں کے ڈیڑھ سالہ بیٹے کو جب اس نے اپنے سینے سے لگایا۔ تب یوں لگا جیسے ابھی اس کی چیخیں نکل جائیں گی۔ آنسوؤں کی بارش شروع ہو جائے گی۔ پر وہ بڑے مضبوط اعصاب کی مالک تھی۔ آنسوؤں کو پلکوں کی چلمن میں چھپانا جانتی تھی۔ آہوں کا گلا گھونٹنے کا اسے سلیقہ تھا۔

نشست کا سارا انتظام قالین پر تھا جس نے پورے کمرے کو اپنے سرخ رنگ میں سمیٹا ہوا تھا۔ یوں اطراف میں صوفے بھی پڑے تھے۔ پر وہ تو شاید بے کار ہی جگہ گھیرے بیٹھے تھے۔ خاتون خانہ نے دستر خوان بچھایا۔ ملازم آفتابہ لایا۔ خواتین نے داہنے ہاتھوں کے بس چپے دھوئے۔

تبھی ایک بوڑھی عورت مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ سارے میں وادی جواری کا شور مچ گیا۔ آنے والی کا چہرہ چاند کی کرنوں جیسا ٹھنڈا اور ملائم تھا۔ وہ سبزاونی کپڑے کی گن مو (قمیض) پہنے ہوئے تھی۔ سیاہ ٹوپی جو بلتی مردانہ ٹوپی سے ملتی جلتی تھی (جس پر چاندی کے منقش زیورات جنہیں طومار کہتے ہیں سلے ہوئے تھے) سر پر رکھے اور اس پر سیاہ چادر اوڑھے ہوئے تھی۔ اس نے گلے میں فلا پہنا ہوا تھا۔ (کپڑے کی پٹی پر بڑے بڑے فیروزے چاندی کے فریم میں جڑا کر سی دئیے جائے ہیں ) ہاتھوں میں فیروزے کی انگوٹھیاں اور پاؤں میں ہلم تھا۔ جس پر اتنی نفیس اور حسین و جمیل کڑھائی تھی کہ بہت دیر تک اس کی نظریں جوتی پر مرکوز رہیں۔ سیماں نے اس کی نظریں جوتوں پر گڑی دیکھ کر کہا۔

’’یہ چھور بٹ کی خاص چیز ہے۔ آپ کے لئے منگائیں گے۔‘‘

’’ارے نہیں سیماں۔‘‘ اس نے تکلف کرنا شاید ضروری سمجھا تھا۔

دستر خوان پر اُبلے ہوئے سفید چاول، پالک آلو کی بھجیا، بھنا ہوا گوشت، اچار اور سلاد سج گئے۔ دادی جواری روح اللہ کے منجھلے بھائی سے اپنے اس بیٹے کی باتیں کرتی تھی۔ جو ٹیقشی میں رہتا تھا پر ’’ٹیقشی‘‘ ۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ میں تورتوک اور چولونکھا کے ساتھ دشمن کے قبضے میں چلی گئی تھی۔ ٹیقشی جیسی حسین وادی، اس وادی میں رہنے والا پہلوٹھی کا بیٹا، اس بیٹے کے بچے، بیوی ڈھور ڈنگر کھیت کھلیان سبھی دادی جواری کو مضطرب رکھتے تھے۔

اور چاولوں کا نوالہ اس کے حلق میں پھنس گیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ مسز گاندھی اپنی وفات سے قبل فاروق عبد اللہ کے ساتھ تورتوک تک آئی تھیں، اور ان وادیوں کے باشندوں کو بے شمار مراعات دے کر گئی تھیں۔ لوگ اپنی موجودہ حالت سے مطمئن ہیں۔

’’صاحب اقتدار نے تاریخ سے سبق حاصل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اپنی چیزیں دوسروں کو دے کر بھلا یوں خاموش بیٹھا جاتا ہے۔‘‘

اس نے بہت لمبی آہ سینے سے نکالی تھی اور پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگا یا تھا۔ کھانے کے بعد رکابیوں میں گیلاس اور شوغون آئے۔ اس نے جی بھر کر ان پھلوں کو کھایا پھر وہاں شور مچا۔ وہ لوگ دادی جواری سے گیت سننے کی فرمائش کرنے لگے۔ للی نے ڈوہر محلے فزا اور آسیہ کے گھر فون کیا۔ فزا کا بیٹا اور آسیہ کا بھائی ڈیانگ اور ڈامن بجانے کے ماہر تھے۔ پر فزا اور اس کا بیٹا ’’کھرمنگ‘‘ گئے ہوئے تھے۔

اور پھر اس کمرے میں راگ و رنگ کی محفل جمی۔ دادی جواری بلتستان کی موسیقی پر ایک پورا مکتب تھی۔ روح اللہ کا چھوٹا بھائی ڈاکٹر سیف اللہ کمرے میں آیا اور بولا۔

’’ملکہ بلتستان تشریف لاتی ہیں۔‘‘

اور یہ ملکہ بلتستان آسیہ تھی۔ اتنی خوبصورت اور تیکھی کہ واقعی ملکہ کہلانے کی

حقدار۔

آسیہ کے بھائی نے ’’ڈانگ شنگ‘‘ (بجانے والی چھڑی) کے ساتھا س مہارت سے ڈامن بجایا اور دادی جواری نے حزنیہ لے میں ’’شنگشیرپا‘‘ کا گیت گایا۔

سکر دو کا نوجوان شنگشیرپا جسے گلاب سنگھ والئی جموں نے قیدی بنا لیا تھا۔ اس کی دلاری بیوی کے جذبات واحساسات کا گیت۔

بیوی:       جموں کشمیر سے آنے والے پیارے ماموں آپ کو میری جان شنگشیرپا کی خبر ہو تو مجھے بتائیں۔

ماموں:      ماموں کی عزیز بھانجی میں نے اسے دیکھا تو نہیں۔ سنا ہے کہ وہ جموں کے قید خانے میں ہے۔

بیوی:       ہاں ہاں وہ جو جموں کے قید خانے میں ہے وہی میرے بچپن کا ساتھی ہے۔

یہ خشک بنجر اور سنگلاخ چٹانوں والا علاقہ در حقیقت اتنا دلچسپ رنگین بلند پایہ فنون لطیفہ اور اعلیٰ تہذیبی روایات کا حامل ہو گا، یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب نمبر ۴

 

 

رگیالمو (شہزادی) شکری کی شادی ایک گمبھیر مسئلہ بن گئی تھی۔ یہ حسن کی مورت دنیا کی دو قدیم ترین تہذیبوں کا سنگم تھی۔ اس کے خد و خال اور صبیح رنگت میں اگر ایک طرف یونان جھلکتا تھا تو دوسری طرف اس کی شخصیت پر تبت کی چھاپ تھی۔

یہ شگری بالا کی شام تھی۔ سورج بس دیو قامت پہاڑوں کے پیچھے ڈبکی لگانے ہی والا تھا۔ اس وقت سطح مرتفع دیوسائی کی طرف سے آنے والی ہوائیں بہت تیز تھیں۔ وہ اس ٹیلے پر بیٹھی تھی۔ جس پر شکری خاندان کے رہائشی محل کے آثار کہیں کہیں نظر آتے تھے۔ روح اللہ سیماں کی طرف محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے تاریخ کا یہ عظیم ورثہ اسے سونپ رہا تھا۔

ہاں تو میں رگیالمو (شہزادی) شکری کے بیاہ کے قضیئے کو ابھی چھوڑ کر پیچھے لوٹتا ہوں اس زمانہ میں جب یہ میرا پیار ابھی سکرم دو تھا۔ اس مہیب طوفان کے بعد آباد ہونا شروع ہوا تھا۔ اسی دوران مغرب کے دردستان کے اطراف سے بہت سے قبائل کے ساتھ ایک ایسا قبیلہ بھی آیا جو یونانیوں کی اولاد تھا اور سکندر اعظم کی طوفانی یلغار کے دوران ہندوکش کے پہاڑوں میں رہ گیا تھا۔ یہ لوگ شگری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ دلیر، جری اور تنومند تھے۔ بہت جلد سارے علاقے پر چھا  گئے اور ان کا سردار پورے علاقے کا رگیالفو (بادشاہ) بن گیا۔ مقامی آبادی پر تبتی رنگ غالب تھا۔ حاکم اور محکوم نے ایک دوسرے کے رنگ میں اپنے آپ کو ڈبو دیا۔ اس خاندان کے آخری رگیالفو (بادشاہ) کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ صرف ایک بیٹی رگیالمو شکری تھی۔ وہی تاج شاہی کی وارث تھی۔

وزراء اور امراء جھگڑتے تھے۔ بالتی یل (بلتستان کا قدیمی نام) کے مقامی راجے بھی اس شہزادی کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے لئے مرے جاتے تھے۔

تب یہ محل جس کے کھنڈرات پر ہم اس وقت بیٹھے ہیں۔ نہایت عالی شان تھا۔

شاید وہ بھی کوئی ایسی ہی شام ہو گی۔ اس شام بھی دیوسائی سے ہوائیں بہت تیز چلی ہوں گی۔ اپی چوشگری کے محل کی چھت پر شہزادی شکری اپنی سہیلیوں کے ساتھ چہل قدمی کرتی تھی ان کے درمیان چہلوں کا سلسلہ جاری تھا۔ رگیالمو شکری کی بے تکلف دوست کہتی تھی کہ اس کے لئے کوئی شہزادہ ادھر سے آئے گا۔ ادھر کا یہ اشارہ دیوسائی کے پہاڑوں سے تھا۔ ٹہلتے ٹہلتے اچانک اس کی نگاہ اس سیاہ پتھر پر پڑی۔ روح اللہ نے اپنے داہنے ہاتھ سے ایک پتھر کی طرف اشارہ کیا جو وادی جواری کے قریب ہی پڑا تھا۔

رگیالمو شکری کی چیخ سی نکل گئی۔ ایک جوان رعنا اس پتھر کے سا تھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ وہ ایسا وجیہہ کہ جیسے سورج دیوتا ہو۔ شہزادی پلکیں جھپکنا بھول گئی تھی۔ وہ فقیر سا لگتا تھا۔ پر اس کے ایک ہاتھ میں سونے کی تسبیح اور پاس تھیلا پڑا تھا۔ یہی پتھر بردوسناس (چکی کے پاٹ کا سرہانہ) اس کے سر کے نیچے تھا۔

وہ دیکھتی رہی۔ نوجوان نے مغرب کی سمت دیکھا۔ سورج ڈوب گیا تھا۔ وہ اُٹھا اور نماز پڑھنے لگا۔ بدھ مت کی پیرو شہزادی کے لئے یہ سب بہت عجیب تھا۔ وہ نیچے بھاگتی آئی، اور اس کے پاس پہنچی۔ اس نے سلام پھیرا، السلام علیکم کہا۔ پر وہ تو ٹکر ٹکر اسے دیکھتی تھی۔ زمانہ شاید ساکت ہو گیا تھا۔ بہت دیر بعد اس نے اپنی زبان میں پوچھا۔

’’کون ہو تم اور کہاں سے آئے ہو؟‘‘

وہ جوان رعنا مقامی زبان نہیں جانتا تھا۔ بس اس سوال کے جواب میں مسکراتا رہا۔ پھر اس نے ہاتھ سے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا۔ یہ اشارہ دیوسائی کی طرف تھا اور اپنا نام ابراہیم بتایا۔

وہ تو اسے کوئی دیوتا سمجھی تھی۔ بھاگم بھاگ باپ کے پاس پہنچی۔ پھولتی سانسوں کے ساتھ اسے بتایا کہ ایک دیوتا ان کے دوارے آیا ہے، رگیالفو (بادشاہ) اپنے مصاحبوں کے سا تھ اس وقت بیٹی کے معاملے پر ہی بات چیت کر رہا تھا۔ جب بیٹی نے دامن کھینچا کہ تم اُٹھو اور چل کر اپنی آنکھوں سے تو دیکھو۔

اور رگیالفو بھی اسے دیکھتے ہی اپنے دل سے ہار گیا۔ اس کی صورت میں کچھ ایسی نرالی کشش کہ اس نے اس کے پاؤں چھوئے اور بصد منت وہاں سے اُٹھا کر مہمان خانے میں لائے۔

اور رگیالمو شکری کے بیاہ کا مسئلہ حل ہو گیا۔ اسے وہ یوں بھایا تھا کہ لخت جگر کو اس اجنبی انجان اور ناواقف کے حوالے کرنے میں اسے عین راحت محسوس ہوئی۔ بیٹی سے بھی رائے لی گئی اور وہ بھی گھائل ہی نکلی۔

یوں وہ سلطنت بلتی یل کی شہزادی سے شادی کر کے یہاں کا داماد بنا۔ تبتی زبان میں گھر داماد کو مقپا کہتے ہیں۔ وہ ابراہیم مقپا جو بروئے آداب مقپون ہو گیا۔ در حقیقت یہ پہلا مسلمان تھا جو اس علاقے میں پہنچا اور مرتے دم تک اپنے مذہب پر قائم رہا۔

مستند تاریخی روایات کے مطابق یہ نوجوان رعنا مصر کے شاہی خاندان کا مفرور شہزادہ تھا جو پہلے کشمیر آیا تھا۔ وہاں کی خانہ جنگی سے اس نے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن مقامی لوگوں نے بغاوت کر دی اور اس کی جان کے درپے ہو گئے۔ وہ کشمیر سے بھاگتا ہوا براستہ دیوسائی سکر دو پہنچا اور اس شہزادی سے ٹکرایا۔ جس کے بیاہ کے مسئلے نے باپ کی نیندیں اُڑا رکھی تھیں۔

اور یوں اس خاندان کی ابتداء ہوئی جس نے بائیس پشتوں تک نہایت کر و فر سے حکومت کی۔ اس خاندان کے بادشاہ بوغا نے موجودہ سکر دو شہر بسایا۔ ناقابل تسخیر قلعہ کھرفوچو بنایا اور یہی وہ زمانہ تھا جب حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی ان کے خواہر زادے حضرت سید محمد نور بخش اور دوسرے ایرانی مبلغین یہاں آئے۔ ان کی تبلیغ سے متاثر ہو کر بوغا کا بیٹا شیر شاہ مشرف بہ اسلام ہوا۔

’’ اُف توبہ روح اللہ‘‘ سیماں نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔

’’تمہیں مکینکل انجینئرنگ کی بجائے آثار قدیمہ کی ہسٹری پڑھنی چاہیے تھی۔ بس کرو۔ اب کہف الوریٰ آپا پریشان ہو گئی ہوں گی۔‘‘

’’احمق بلتستان کی تاریخ علی شیر خان انچن (عظیم) کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ نامکمل ہے۔ اس تک پہنچنے کے لئے ماضی کے گڑے مردوں کی اُکھاڑ پچھاڑ تو ضروری ہے۔‘‘

’’ہاں تو وہ اولو العزم فرمانروا جس کی عظیم فتوحات اور اصلاحات نے اسے تاریخ میں انچن (عظیم) بنایا۔ شیر شا کا پڑ پوتا علی شیر خان انچن تھا۔ جس پر بلتستان کی تاریخ نازاں ہے۔‘‘

پہاڑوں کی شام، دل کش شام جہاں ٹھنڈی ہوائیں دامنوں سے چمٹی جاتی تھیں۔ جہاں خاموشی اور سناٹے کا حسن تھا۔ ریت کے ذرے اُڑتے تھے اور دھوپ کی زرگری آنکھوں کو بھاتی تھی۔

ایسے میں گرم چائے کا کپ کیسی بڑی نعمت تھی۔ سیماں پتھروں پر بیٹھی، گھونٹ گھونٹ چائے پیتی کیسی پیاری لگتی تھی۔ دادی جواری بھی اپنے ہلم (جوتے ) اُتارے بیٹھی تھی۔ سیاہ چادر میں لپٹا اس کا سرخ و سفید چہرہ، جوان گنت لکیروں کے جال میں پھنسا ہوا تھا۔ جس کی ہر لکیر ایک دہائی کی داستان سناتی تھی۔ ذرا دور سیاہ پر ہیبت پہاڑوں کے سلسلے پھیلے ہوئے تھے۔

روح اللہ نے بلتی میں شاید جواری دادی سے کچھ کہا تھا۔ ان کی آواز ان ویرانوں میں گونج اُٹھی تھی۔

’’ان ایام میں، ان ایام میں جب میرا یہ مادر وطن سکر دو دودھ کے تالاب کی مانند ہوا کرتا تھا۔ ان ایام میں، جب یہ سیاہ ریگستان سرسبز و شاداب ہوا کرتا تھا۔ میرے علی شیر خان انچن نے دنیا کو زیر کیا۔

ارے!

میرے علی شیر خان انچن نے دنیا کو زیر کیا۔ دنیا کو زیر کیا۔ دنیا کو زیر کیا۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

باب نمبر ۵

 

 

وہ بہت دن چڑھے تک سوتی رہی۔ رات کے پہلے پھر خوابوں میں علی شیر خان انچن کے گھوڑے پہاڑوں پر دوڑتے رہے تھے۔ دوسرے پہر وہ زبیر کے ساتھ اپنے گھر میں تھی، اس سے گلے شکووں میں اُلجھی ہوئی۔ تیسرے پہر ایک ننھا سا بچہ اس کی چھاتی پر لیٹا کلکاریاں مارتا تھا اور جب اس کی آنکھ کھلی، ساری کائنات اُلٹی ہوئی تھی۔

سیماں دروازے میں کھڑی کہتی تھی۔

’’آپ جلدی سے تیار ہو جایئے۔ روح اللہ نے چھٹی لے رکھی ہے۔ سد پارہ جھیل اور دیوسائی چلنا ہے۔‘‘

اور جب وہ دانت صاف کرتی تھی تو اس سے بھی باتیں کئے جاتی تھی۔ جو اس کے دل میں بستا تھا۔

’’پروردگار! اب میں اپنے ہی فیصلوں کی کسوٹی پر نہیں پرکھ سکتی۔ جانبداری کا دامن ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ پر میں چاہتی ہوں تو بھی میری طرح جانبدار بن جا۔ تو جانتا ہے اچھی طرح جانتا ہے۔ میں اپنے آپ سے مجبور تھی اور مزید سمجھوتا میرے بس کا روگ نہیں تھا۔ بس تجھ سے اتنی سی التجا ہے کہ میرا دل پتھر کا کر دے۔‘‘

وہ باورچی خانے میں ہی آ گئی۔ بڑی بھابھی سارا کچن صاف کئے بیٹھی تھی۔ نوکرانی نے مٹی کے چولہے لیپ دئیے تھے۔ فرش پر جو ملگجی سی دری بچی تھی وہ اس پر ہی بیٹھ گئی۔ للی نے پلیٹ میں گھر کا بنا ہوا کلچہ، جس پر خشخاس لگی ہوئی تھی، رکھ دیا۔ نمکین چائے کا پیالہ بھی آ گیا تھا۔

جب تک بڑی بھابھی آئیں۔ وہ کلچے پر سجے خشخاس کے سارے دانے چڑیا کی طرح ٹھونگ ٹھونگ کر کھا بیٹھی تھی۔

ناشتے سے فارغ ہو کر وہ اخبار لے کر بڑے کمرے میں آ گئی۔ ابھی پہلی خبر پر نظریں جمی ہی تھیں جب باہر سے روح اللہ کی آواز کانوں میں پڑی۔

’’سیماں ڈاکٹر ابراہیم آئے ہیں۔‘‘

سیماں شاید اس کی طرف آ رہی تھی غالباً دہلیز پر کھڑی تھی جب اس کی پر مسرت آواز سماعت سے ٹکرائی۔

’’اللہ کیسا خوبصورت دن کتنا پیارا اور بھاگ بھرا مہمان آیا ہے۔‘‘

’’بھاگ بھرا‘‘۔ اس نے زیر لب کہا اور پھر خود ہی اپنے آپ سے بولی۔

’’ہو گا کوئی بختاور، ہم جیسے نصیبوں جلے۔۔ ۔‘‘

اس کی تلخ سوچوں کا سلسلہ فی الفور ٹوٹ گیا جب چھ فٹی کشیدہ قامت پر متناسب وجود والا ایک مرد متانت سے قدم اُٹھاٹا سیماں کے ساتھ اس کمرے میں داخل ہوا جہاں وہ بیٹھی تھی۔ آنے والے پر سرسری سی ایک نظر ہی یہ بتانے کے لئے کافی تھی کہ چہرے کا ہر نقش اپنی جگہ بلا کی جاذبیت رکھتا ہے اور نکھری ہوئی شفاف آنکھیں اپنے اندر شفقت اور نرمی سموئے ہوئے ہیں۔

غربی دیوار کے ساتھ ایک گز چوڑا اور تقریباً تین گز لمبا پھولدار ریشمی روئی سے بھرا گدیلا جو کشمیری طرز معاشرت کا ایک اہم جز ہے بچھا تھا۔ ڈاکٹر ابراہیم نے اسی پر بیٹھ کر اس کی طرف توجہ کی تھی۔ اس کا تعارف کتنا مختصر تھا۔ پل لگا تھا۔ پر ڈاکٹر ابراہیم سیماں نے اسے آدمی سے انسان اور انسان سے فرشتوں کی صف میں لا کھڑا کیا تھا اور وہ خجل سے نادم سے ’’سیماں آپ شرمندہ کرتی ہیں‘‘ کہتے کہتے سر جھکائے جاتے تھے۔

’’آپ ہمارے ساتھ دیوسائی چلئے مزہ آئے گا۔‘‘

’’نہیں سیماں بی بی میں سکر دو اسپتال میں کچھ اہم آپریشنز کے سلسلے میں آیا ہوں۔‘‘

اور اس نے سوچا کہ وہ جو زندگی میں کوئی اہم مشن پیش نظر رکھتے ہیں ان کے پاس وقت اور فرصت کہاں۔ گھنٹہ بھر بعد وہ چلے گئے۔

سیماں نے چائے کے برتن سمیٹتے ہوئے دھیرے دھیرے کہنا شروع کیا تھا۔

’’محرومیاں جونکوں کی طرح ساتھ چمٹی ہوئی ہیں۔ ماں باپ تو بچپنے میں ہی چھوڑ گئے تھے۔ کس لگن اور ہمت سے پڑھا۔ شادی ہوئی تو بیوی کا بھی ساتھ نصیب نہ ہوا۔ چھ ماہ بعد فوت ہو گئی۔ اب بلتستان کے دکھوں کو سینے سے لگا لیا ہے۔ اس کے رگ و پے میں چبھے کانٹوں کو نکالنے میں دن رات جتے ہوئے ہیں۔‘‘

’’سیماں جلدی کرو۔‘‘ روح اللہ نے آواز دی۔

’’میری سب تیاری مکمل ہے بس چیزیں رکھنی ہیں۔‘‘

اس نے پراٹھے، کباب، اچار اور چائے کے لئے کپ سب ٹوکری میں ڈال لئے تھے۔ شیبہ گلاب کا پھول بنی جیپ کے گرد منڈلاتی تھی۔ اس نے اسے گود میں اٹھایا اور اندر جا بیٹھی۔ للی بھابھی طاہرہ سب سوار ہو گئے۔ سیماں روح اللہ کے ساتھ آگے جا بیٹھی اور گاڑی سٹیلائیٹ ٹاؤن سے درہ سد پارہ میں داخل ہو گئی۔

دائیں بائیں آگے پیچھے گہرے چاکلیٹی اور سیاہ رنگے خوفناک قسم کے پہاڑ، اوپر تھوڑا سا نیلا آسمان نیچے مٹیالا سندھ، سرمئی سڑک اور اِدھر اُدھر بکھرے پتھر، بس یہی کچھ نظر آتا تھا۔

سد پارہ جھیل سکر دو سے کوئی آٹھ کلو میٹر جنوب میں ہے۔ یہی کوئی آدھ پون گھنٹہ لگا ہو گا جھیل آ گئی تھی۔ وہ سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔ اس کے قدموں کے عین نیچے سد پارہ جھیل کا پانی ہواؤں کے جھونکوں سے مچلتا پھرتا تھا۔ بائیں طرف ایک ریسٹ ہاؤس جو ناردرن ایریا ورکس ڈیپارٹمنٹ کے زیر انتظام تھا۔ اب محکمہ سیاحت پی۔ ٹی۔ ڈی۔ سی دیکھ بھال کرتا ہے۔ سبز شیشے کی بلوریں، پیالی جیسی صورت والی اس جھیل کے عین درمیان ایک ٹاپو ہے۔ اس پر بھی دو کمروں کا ایک ریسٹ ہاؤس بنا ہوا ہے۔ پر بے چارہ ریسٹ ہاؤس ہانپتا ہوا لگتا تھا۔

جھیل کے سبز پانی میں دخانی کشتیاں چلتی تھیں۔ ایک میں غیر ملکی چھوکرے اور چھوکریاں بیٹھے ہوئے تھے۔ خدا کا شکر تھا ان کے وہ رُک سیک ان کے جسموں سے الگ تھے۔ دوسری کشتی میں چند میدانی علاقوں کے لوگ تھے۔ دو شادی شدہ جوڑے سامنے ٹاپو کے کمروں سے نکل کر اب اِدھر اُدھر گھوم پھر رہے تھے۔

پھر وہ سڑک سے نیچے سیڑھیاں اُترتی گئی۔ بہت نیچے اور پھر عین جھیل کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ اور جب وہ بیٹھی پانی سے کھیلتی تھی۔ روح اللہ نے اس کی آنکھوں سے دوربین لگا دی اور ساتھ ہی بولا۔

’’اوپر دیکھئے اوپر۔‘‘

یہی کوئی پانچ سو فٹ اوپر، ادھر سد پر گاؤں کی طرف روح اللہ اس کے عقب میں کھڑا اشارے دیتا تھا اور اب کسی پروفیسر کی طرح لیکچر پر اُتر آیا تھا۔

’’رگیالفو (بادشاہ) علی شیر خان انچن کا سب سے بڑا تعمیری کارنامہ وہ دفاعی دیوار ہے۔‘‘

اُس نے غور سے دیکھا۔ اسے ٹوٹی پھوٹی شکستہ فصیل کے ٹکڑے نظر آئے تھے۔ یہ دفاعی دیوار کر تخشہ اور کرگل کے درمیانی پہاڑ سے لے کراستور تک پہاڑی سلسلے کے اوپر بنائی گئی ٹھی۔ کم و بیش سو میل لمبی اس دیوار میں مناسب جگہوں پر صدر دروازے اور ان دروازوں پر پہرے دار متعین تھے۔ تھورگو پر بھی ایسی ہی فصیل بنوائی گئی۔ تھورگو دروازے سے پہاڑ کے اوپر سدپارہ جھیل تک۔ سدپارہ جھیل پر بند باندھ کر اسے ایک ڈیم کی شکل دی گئی۔ جس سے اب تک سکر دو کی نصف آبادی سیراب ہوتی ہے۔ اسی جھیل میں سے ایک اور چوڑی نہر نکال کر اسے ’’نالہ خوشبو‘‘ میں ڈال دی گئی۔ اس نہر سے مغر بی سکر دو سیراب ہوتا تھا۔

تبھی سیماں چیخی۔ ’’پلیز! روح اللہ ہسٹری چھوڑ دو۔ کشتی خالی ہو گئی ہے۔ ہمیں سیر کراؤ۔‘‘

سدپارہ جھیل ایک کلو میٹر لمبی اور تین بٹا چار کلو میٹر چوڑی ہے۔ اس سیر میں پورا گھنٹہ لگا وہ اور سیماں ٹاپو پر چڑھ گئے۔ وہاں جا کر اسے عجیب سے دکھ نے گھیر لیا۔

فضول ناس مارا ہوا ہے اس اتنی پیاری جگہ کا جگہ جگہ پتھر پڑے تھے۔ جھاڑیاں گھاس پھونس یہاں وہاں اُگا ہوا تھا۔

’’کتنے پھوہڑ ہیں ہم لوگ قیمتی چیزوں کو سنبھالنے کا بھی سلیقہ نہیں۔‘‘

جھیل کے کنارے ’’سدپارہ ان‘‘ میں شادی شدہ جوڑے صوفوں پر بیٹھے۔ شیشوں سے تاکا جھانکی بھی کرتے جاتے اور ساتھ چائے بھی پیتے جاتے۔

’’اس جھیل کے پانی سے سکر دو اور اس کے گرد و نواح میں بجلی کی فراہمی کے لئے دو بجلی گھر چل رہے ہیں اور مزید قائم کرنے کے منصوبے زیر غور ہیں۔‘‘

بڑی بھابھی شاید اُکتا گئی تھیں۔ اونچی آواز میں بولیں۔

’’بس کرو۔ اب آگے بھی چلنا ہے۔‘‘

کھانا دیوسائی میں کھانے کا پروگرام تھا۔

روح اللہ شیشے کے گلاس میں چشمے کا پانی لایا، اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔

’’اسے پئیں۔ یہ سونے کے ذرات والا پانی ہے۔‘‘

وہ ہنسی کہ شاید یہ مذاق کرتا ہے۔ لیکن جب وہ سنجیدگی سے بولا کہ میں حقیقت کہتا ہوں تب اس نے غور سے پانی کو دیکھا اور واقعی اسے دو تین سنہری ذرے نظر آئے تھے اور اس نے گلاس یوں منہ سے لگا لیا جیسے وہ آب حیات ہو۔

اب چڑھائی نہایت عمودی ہو گئی تھی۔ سڑک تنگ اور ٹوٹی پھوٹی تھی۔ گو روح اللہ کی جیپ بالکل نئی تھی مگر ہر چار چھ فرلانگ پر ریڈی ایٹر کا پانی ابل جاتا تھا۔ سیماں کین کا ڈبہ اُٹھائے جب سڑک کے اوپر بہتے کسی چشمے سے اسے بھرنے نکلتی، تب پیچھے بیٹھی للی ہنستی۔

’’ارے شکر ہے سیماں آنٹی کہیں میں آپ کے ساتھ نہیں بیٹھی۔ وگرنہ تو میری آپ نے پریڈ کروا دینی تھی۔‘‘

جیپ ایک جگہ رُک گئی۔ روح اللہ نے اعلان کر دیا۔

’’ہم دیوسائی پہنچ گئے ہیں۔‘‘

بارہ سے چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع سطح مرتفع دیوسائی کا میدان اس کے سامنے تھا۔ روح اللہ نے جیپ جس جگہ روکی تھی وہاں گوجر بکر وال والوں نے اپنے کیمپ لگا رکھے تھے۔ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ چرتے پھرتے تھے۔ درخت نہیں تھے۔ بس کہیں کہیں جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔

سیماں کے بچے بھوک سے بے تاب ہو رہے تھے۔

چٹانوں کے پاس اس نے دستر خوان بچھا کر سب کو آواز دی۔

اور جب وہ کھانا کھاتی تھی، اُس نے کہا۔

’’روح اللہ تمہاری اس دیوسائی نے مجھے ذرا متاثر نہیں کیا۔‘‘

اُس نے مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائی۔ اُس کی طرح دیکھا اور بولا۔

’’پہلی بات تو یہ ہے کہ دیوسائی جتنی میری ہے، اسی قدر آپ کی بھی ہے۔ رہی بات متاثر ہونے کی تو ابھی آپ نے دیکھا ہی کیا ہے۔ آتے ہی تو کھانے پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ ارے صاحب صبر سے۔‘‘

کھانے سے فارغ ہو کر اُس نے ظہر کی نماز پڑھی۔ سب جیپ میں بیٹھے اور جیپ دیوسائی کے کھلے میدانوں میں بھاگنے لگی۔ سنہری مائل سبز گھاس کے میدان۔ ان میدانوں میں کھِلے پھول دور کناروں پر ایستادہ سرمئی پہاڑ جن کی چوٹیاں برفوں سے ڈھنپی ہوئی تھیں۔ راستہ کیا تھا رنگوں اور نظاروں کی دنیا ساتھ لئے چلتا تھا۔

ہم دیوسائی کی خوبصورت ترین جگہ بڑا پانی پہنچنے والے ہیں۔ روح اللہ کی جیپ چڑھائی چڑھتے چڑھتے اب ایک دم نیچے اُترنے لگی تھی۔ نیچے کا منظر کسی جادو نگری کا تاثر دیتا تھا۔ سرسبز گھاس پھول شفاف نیلے پانیوں والا دریا۔ چوبی پُل۔

اُترائی خوفناک تھی۔ اس سے بھی خوفناک چوبی پُل پر جیپ کا چلنا تھا۔ وہ جیپ سے اُتر گئی تھی۔ چند قدم چلی لیکن ایسے جیسے خواب میں چلتی ہو۔ پھولوں سے لدے پھندے یہ فردوسی ٹکڑے جن کی دید نے اس کی مُومُو کو سجدہ ریز کر دیا تھا۔ اُس کی آنکھوں کو بھگو دیا تھا۔ لگتا تھا اُس کی آنکھیں پھٹ جائیں گی۔ نظروں کی ہر سمت پھولوں کا دریا بہتا تھا۔

’’ پروردگار یہ تیری قدرت کا چھوٹا سا ادنیٰ سا ذرہ ہے مجھے بتا تو خود کیا ہو گا؟‘‘

اُس نے نماز یہیں پڑھی۔

روح اللہ نے برجی لا کی متعلق بتایا۔ برجی لا دیوسائی کی بلند ترین ٹاپ۔ جیپ کا تو راستہ نہیں بس ہائی کنگ ہی وہاں سے جا سکتی ہے۔ کیا بات ہے اس جگہ کی۔

اب وہ جھیل یشو سر پر پہنچے۔ سبز گھاس کے میدانوں اور برف پوش پہاڑوں میں گھری یہ جھیل پر یوں کا مسکن ہی تو معلوم ہوئی تھی۔ یہی وہ جگہ ہے۔ روح اللہ نے فضا پر نظروں کے زاویے دائیں بائیں گھماتے ہوئے کہا۔

’’جسے برطانوی مورخ جی۔ ٹی وین نے Detosoh کہا ہے۔ ہم لوگ ہم لوگ غبیارسہ (گرمیوں میں رہنے کی جگہ ) کہتے ہیں۔ سردیوں میں یہاں گزوں کے حساب سے برف پڑتی ہے۔ مئی میں جب برف پگھلتی ہے تو برف کے نیچے دبے پودے پھوٹ نکلتے ہیں۔ جس شام جب ہم شگری بالا میں بیٹھے باتیں کرتے تھے۔ سیماں نے روح اللہ کی بات اُچک لی تھی اور آپ پوچھتی تھیں اتنی تیز ہوائیں، تو ان ہواؤں کی وجہ بھی یہی دیوسائی ہے۔‘‘

اور اب روح اللہ پھر شروع ہو گیا تھا۔

دن ڈھلنے کے بعد، بستیوں میں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ لیکن یہاں موسم خوشگوار رہتا ہے۔ یہاں کی ٹھنڈی ہوائیں تھنگ برگے سد پارہ اور حسین آباد کے نالوں سے وادی کی طرف بڑھتی ہیں، جو اکثر آندھی کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔

تبھی وہاں ایک جیپ آ کر رُکی۔ چند غیر ملکی اُترے۔ وہ تو اُترتے ہی تصویر کشی میں مصروف ہو گئے۔ سیماں اور روح اللہ بھی ایک پتھر پر بیٹھ کر تصویریں اُتروانے لگ گئے اور وہ کھڑی تھی۔ بس یوں کہ بس نہ چلتا تھا کہ کیوں کر اس نظارے کو آنکھوں میں جذب کر لے۔ یہیں ڈیرہ ڈال لینا چاہتی تھی۔ پھولوں کی اس سیج پر ہمیشہ کے لئے سوجانا چاہتی تھی۔

غیر ملکیوں کی جیپ کا ڈرائیور اس کی محویت کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے پاس آیا اور وہ ٹوٹی پھوٹی اُردو میں بولا۔

’’دیوسائی پر ہی عاشق ہو گئی ہیں۔ وقت اور حالات نے کبھی اجازت دی تو گلتری جانا۔ اسی سے آگے کا علاقہ ہے۔ علاقائی خاصیت اور ماحول اور موسمی حالات کے لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ سال کے آٹھ مہینے برف باری کی زد میں رہنے والا یہ علاقہ دنیا کی حسین ترین جگہ ہے۔ میں اسی علاقے کا ہوں تم یقین نہیں کرو گی۔ زندگی جتنی کٹھن اور دشوار وہاں ہے شاید دنیا کے کسی خطے میں نہ ہو۔‘‘

وہ سنتی رہی۔ پھولوں کے سمندرمیں آنکھوں کو غوطے دیتی رہی اور پھر اسے خدا حافظ کہہ کر جیپ میں بیٹھ گئی۔ یہ کہتے ہوئے کہ اگر وہاں کا دانہ چگنا ہو گا تو کوئی روک سکے گا۔ یہاں کا کب سوچا تھا؟

٭٭٭

 

 

 

 

باب نمبر ۶

 

 

تیاری کے سب مراحل سے فارغ ہو کر جب اس کی مرمریں لا بنی گردن اوپر اُٹھی، اور اُس نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا۔ سیماں پیچھے کھڑی عنابی ہونٹوں کے ساتھ مسکراتی نظر آئی تھی۔ اس نے دو قدم آگے بڑھائے اور عین اس کے بالمقابل آ کر بولی۔

’’آپ میندوق کھر (پھول محل) اور عظیم تاریخی قلعہ کھر پو چو دیکھنے جا رہی ہیں اور میندوق رگیا لمو(پھول شہزادی) کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ بتائیے تو ذرا اگر علی شیر خان انچن کی روح نے آپ کو جپھی ڈال لی تو میں کیا کروں گی۔‘‘

اس نے سیماں کے گال پر پیار کیا اور بولی۔

’’اگر ایسا ہوا تو مجھے وہیں چھوڑ آنا۔ ایسا عظیم فرمانروا مجھ پر فریفتہ ہو جائے، تو بھلا اس سے بڑھ کر خوشی کی اور بات کیا ہو گی۔‘‘

اور دونوں کا قہقہہ کمرے میں گونج اُٹھا۔

وہ اس وقت سبز بلتی گن مو (قمیض) پہنے کھڑی تھی۔ لابنے بالوں کی دو چوٹیاں اس کے سینے پر شیش ناگوں کی طرح پڑی تھیں۔ اس کے سر پر سیندوری ٹوپی تھی۔ جس کی پیشانی پر سجے طومار (چاندی کے منقش زیورات) جھلمل جھلمل کرتے تھے۔ فلو (گنگھرو) اس کے ماتھے پر جھومر کی طرح پڑے تھے۔ سیماں نے اس کے گلے میں اپنا فلا بھی پہنا دیا تھا۔ تنگ مہری کی گھیر دار شلوار کے نیچے اس کے پاؤں میں چھوربٹ کا حسین و  جمیل کشیدہ کاری کا ہلم (جوتا) بھی تھا۔ بلتی گن مو، ٹوپی اور ہلم تینوں چیزیں روح اللہ اس کے لئے کل شام لایا تھا۔

اس نے چادر اوڑھی اور بولی۔

’’اب چلنا چاہیے۔‘‘

اور سیماں کمرے سے باہر نکلتے نکلتے کہتی گئی۔

’’میں تو سوچتی ہوں آپ کا یہیں کسی بلتی سے نکاح پڑھوا دیں۔‘‘

اس نے یک دم اپنے کلیجے پر ہاتھ رکھ لیا۔ رُخ پھیر کر آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا اور خود سے کہا۔

’’نکاح تو پڑھا تھا۔ بور کے یہ لڈو کھائے بیٹھی ہوں۔‘‘ پھر جیسے زبیر اندر سے چھلانگ لگا کر اس کے عین سامنے آ کھڑا ہوا اور اُسے اپنی بانہوں میں جکڑتے ہوئے بولا۔

’’تم ایک اور نکاح کرو گی۔ مجھے چھوڑ کر۔‘‘

اور اس کے اندر کا دکھ بلبلا کر چیخا۔

’’مجھ جیسی بانجھ سے کسی کو کیا سروکار؟‘‘

اور اس نے آنسو پلکوں پر جھلملانے نہیں دئیے۔ چادر سنبھالتی باہر بھاگی۔

سیماں نے بچے بڑی بھابھی کے حوالے کئے۔ ٹوکری اُٹھائی۔ اپنے ملازم جذبہ کو ساتھ لیا اور تینوں سٹیلائٹ ٹاؤن کی سڑکوں سے نیچے اُترتی گئیں۔ سکمیدان کی گلیوں سے بازار میں آئیں اور سیماں نے بس ذرا سی آنکھیں ننگی رکھ کر بھاگتے ہوئے بازار پار کیا۔

امام باڑہ کلا میں ترکھان کام کر رہا تھا، وہ ٹھہر گئی۔ چوب کاری میں وہ پنجرے کی کوئی قسم بنا رہا تھا۔ اس کے سراہنے پر سیماں بولی تھی۔

در اصل یہ اتنا مہنگا پڑتا ہے کہ اجتماعی تعمیرات کے سوا عام آدمی انہیں بنوانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وہ آگے بڑھنے لگی تھی۔ جب جذبہ نے اس کے بڑھتے قدموں کو روک دیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے کہ بلتستان جب اپنی جنگ آزادی لڑ رہا تھا تو اسی جگہ اور اسی مقام سے قلعہ کھرپوچو تک پہنچنے کے لئے سرنگ کھودی گئی تھی۔

اس نے وہاں ٹھہر کر اک ذرا سی دیر کے لئے ان مناظر کو تصور کی آنکھ سے دیکھنا چاہا پر سیماں تیز رو پر سوار تھی۔ دامن کھینچ کر بولی۔ ’’چلی آؤ یہاں تو ہر تیسرے قدم پر تاریخی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ انہیں سننے لگو تو پہنچ چکیں کھرپوچو۔‘‘

پولو گراؤنڈ کے نزدیک سیزر گر کھور کا علاقہ تھا۔ یہاں وہ سنار رہتے تھے جو کشمیر سے آئے تھے۔ اب وہ چھنیا کھور میں داخل ہو گئی تھیں۔ یہ جگہ ان کا شتکاروں کی ہے جو راجہ کے مزارع تھے۔ راج گیری نظام ختم ہوا تو انہوں نے زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ اب مقدمے درج ہیں۔ حاکم اور محکوم دونوں عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے ہیں۔

سامنے چھومک کا علاقہ نظر آتا تھا اور آگے دریائے سندھ موجیں مارتا پھرتا تھا۔

’’بے چارہ چھومک‘‘ جذبہ نے زبان تالو سے لگا کر زوردار چچ چچ کیا۔ سندھ جب چڑھا، چھومک پھنسا۔

اب انہوں نے میندوق کھر (پھول محل) کے لئے چڑھنا شروع کر دیا تھا۔ چڑھائی میں سانس بہت جلدی پھولتا ہے۔ ایک جگہ وہ رُک گئی۔ اُس نے نیچے دیکھا۔ وادی سکر دو اس البیلی شہزادی کی مانند نظر آئی تھی جو دیو قامت جنوں کی قید میں پڑی ہو۔

میندوق کھر شکستہ دیواروں کی صورت میں کھڑا تھا، اور سیماں بول رہی تھی۔ علی شیر خان انچن کی محبوب ملکہ گل خاتون کا میندوق کھر۔ یہ مغل اور تبتی طرز تعمیر کا ایک خوبصورت مرقع جس کے فرش اور چوکھٹیں سب سنگ مرمر سے بنے ہوئے تھے۔

’’تم لوگ بھی عجیب ہو، اس عظیم تاریخی ورثہ کو بھی نہ سنبھال سکے۔ اب مجھے بتاتی ہو کہ مغل اور تبتی طرز تعمیر کا دل کش مرقع ہے۔‘‘

اور سیماں نے بے چارگی سے کہا۔

’’میری جان ہم تو اپنے آپ کو بھی نہ سنبھال سکے تھے۔‘‘

وہ دونوں پتھروں پر جوتے اُتار کر بیٹھ گئی تھیں۔ اس نے ٹوپی اور چادر اُتار دی سیماں نے اپنے پُونی جیسے انگشت شہادت بلند کرتے ہوئے کہا۔

وہ سیزر گر کھور کا علاقہ ہے جہاں سے ہم آئے ہیں۔ یہیں مقپون بادشاہوں کا ہلال باغ تھا۔ ہلال باغ میں غوڑی ہل چنگڑا کا چبوترہ ابھی تک اسی طرح قائم دائم ہے۔ چھومیک کی طرف رگیہ ژہر کا شاہی باغ تھا جو اب دریا برد ہو چکا ہے۔ ہلال باغ کے قریب شاہی قبرستان ریت کے ٹیلے کی صورت میں موجود ہے۔

سیماں نے نوکر کو چھتری کھول دینے کا کہا تھا اور پانی کا گلاس اس کے ہاتھوں میں تھما دیا تھا۔

عین سامنے سد پارہ درہ تھا۔ نیچے چھومیک کا علاقہ جہاں عورتیں گھاس کاٹتی تھیں چھتوں پر خوبانیاں اور توت پڑے سوکھتے تھے۔

سکر دو چھاؤنی میں کہیں کہیں ٹین کی چھتیں سورج کی روشنی میں چمکتی نظر آتی تھیں۔ اس نے گردن اُٹھا کر اپنے اوپر پھیلے تین سو فٹ اونچے کھرپوچو کو دیکھاجس کی چوٹی پر انہیں پہنچنا تھا۔ اس کے پاؤں ان راہوں سے نا آشنا کہیں جو ذرا سا پیر پھسلا اور نیچے سنگے چھو (دریائے سندھ کا مقامی نام) کی جولانیاں اپنے آپ میں سمیٹنے کے لئے مشتاق۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اُس نے جھر جھری لی۔

دھیرے دھیرے رک رک کر جگہ جگہ ٹھہرتے ہوئے وہ ڈونگس کھر تک پہنچیں۔ یہ را ستہ جس پر سے ہم چل کر یہاں تک پہنچے ہیں، علی شیر خان انچن کی محبوب ملکہ میندوق رگیالمو (پھول شہزادی) نے ہی بنایا تھا۔

وہ ڈونگس کھر کی شکستہ اور نوکیلی دیواروں کے پاس بیٹھ گئیں۔ اس کی سانس بری طرح پھول رہی تھی اور جذبہ نے روح اللہ کی کرسی سنبھال لی تھی۔

یہاں ایک حفاظتی چوکی بنی ہوئی تھی، جس پر پہرے دار متعین رہتے تھے۔ اسے مزید آگے بڑھنے سے اس نے یہ کہتے ہوئے روک دیا۔

’’خدا کا کچھ خوف کرو، جذبہ پہلے چائے تو پلا دو۔‘‘

اور جب چائے کا مگ اس کے ہاتھ میں آیا، اس نے اوپر نیچے اور اپنے دائیں بائیں دیکھا۔ اس وقت آسمان شفاف اور نیلا تھا۔ کائنات بس ہمالیائی اور قراقرم کی دیواروں میں سمٹی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔

تازہ دم ہو کر پھر اُٹھے۔

گیٹ امتداد زمانہ کے ہاتھوں رنگ و روپ کھوئے بیٹھا تھا۔

اس قلعہ کے بیرونی دروازے پر شیر کا مجسمہ نصب تھا۔ دروازے کے سامنے ایک بڑا چوپال تھا۔

ڈوگرہ فوج نے آخری مقپون بادشاہ کو گرفتار کر کے اسی چوپال میں لا کر قالین پر بٹھایا تھا۔ شہزادیوں اور بیگمات کو بھی گرفتار کر کے لایا گیا۔ یہ کیسا اندوہناک منظر تھا۔

اور اس نے دکھ اور کرب کے سمندر میں غوطہ مارتے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔

’’صرف اندوہناک نہیں، انسان تو جیتے جی قبر میں اُتر جاتے ہیں۔ آن بان شان عزت و جاہ و حشمت سب کچھ منوں مٹی کے نیچے دب جاتا ہے۔ پلٹن میدان ڈھاکہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا تھا۔ سقوط دہلی اور سقوط بغداد تو کتابی المیے تھے۔ سقوط ڈھاکہ تو اس کی روح، اس کے جسم و جان کا المیہ تھا۔

جذبہ نے اونچے اونچے گانا شروع کر دیا۔

میری خچیا اشچونگ دشمنی چدے کھیریدے چو امیر حیدر

فوژے سنگے ژوخ یورپی کھیودپودرنگ بانی فیونی لے چو امیر حیدر

ترجمہ:       اے راجہ امیر حیدر! تمہاری عزیز شہزادیوں کو دشمن اسیر کر کے لے جا رہے ہیں اے راجہ تم میں جو شیر کی طاقت ہے، وہ آج دکھاؤ۔

یہ محل کی اس معمر عورت کی فریاد تھی۔ جو یہ ستم برداشت نہ کر سکی اور اس نے اسی قلعہ کھر پوچو میں ہی موت کی نیند سونے والے شہزادے امیر حیدر کو پکارنا شروع کر دیا تھا۔

اس عظیم قلعہ کھر پوچو کو مقپون راجہ بوغا نے تعمیر کروایا تھا اور اس کے پڑ پوتے غازی میر کے بیٹے علی شیر خان انچن نے اسے فوجی نقطہ نظر سے وسعت دی۔

پر وہ تو وہاں کھڑی صرف یہ سوچتی تھی کہ وہ جنہوں نے اسے تعمیر کیا جن تھے یا دیو، منوں وزنی پتھر سینکڑوں فٹ بلندی پر لائے اور اسے یوں بنایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ماورا ہاتھوں کی کاریگری کا گمان پڑتا ہے۔

دائیں ہاتھ آٹھ بڑے مورچے تھے۔ ان مورچوں پر چھت نہیں تھی، اور جب اس نے ان سوراخوں میں جھانکا۔ آدھا سکر دو نظر آتا تھا۔ سارا قلعہ ایک چبوترے پر بنا ہوا ہے۔ فصیل کے ساتھ ساتھ دو منزلہ عمارت اردگرد تعمیر تھی۔ میں گیٹ کے قریب مسجد بنی ہوئی تھی۔ ڈوگرہ وزیر لکھپت رائے نے مسجد کے سوا سب کچھ جلا ڈالا تھا۔ مہتہ سنگھ نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا۔ قلعے کے بیچ میں چٹان کھود کر ایک حوض بنایا گیا ہے جس کا سائز تقریباً بارہ ضرب بارہ فٹ ہے۔ اس میں پانی جمع رکھا جاتا تھا۔ قلعہ میں پانی لانے کے لئے شمالی جانب سے دریائے سندھ کے کنارے تک زمیں دوز راستہ موجود تھا۔ مسجد کے قریب دیوار میں موجود ایک کالے پتھر پر اشعار کندہ تھے۔ اس کے پوچھنے پر جذبہ نے بتایا کاسنہ ہے۔

مغربی حصے میں ایک اونچی جگہ پر راجہ صاحب کا محل بھی تھا۔ پر اس کا کوئی نام و نشان موجود نہیں تھا۔ ایک گول کمرے کے جھروکوں میں سے تازہ ہوا کے جھونکے اور دریائے سندھ نظر آتا تھا۔

وہ گھومتے رہے، چپ چاپ روحوں کی طرح۔ پھر چلتے چلتے اس دروازے تک آ گئے۔ جو نانگ ژھوق کی طرف تھا اور اپی چوئے سو کے نام سے مشہور تھا۔ دیواریں نیم خستہ تھیں۔ جذبہ بول رہا تھا اور اس کی انگلی بندوق کی نال کی طرح کسی جگہ کا نشانہ لے رہی تھی۔

’’وہ دیکھئے جہاں دریائے شگر دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ وہیں ننگ ژھوق کی بستی ہے۔ جس کے معنی ہیں کانٹوں کا گھر۔ کبھی یہ گاؤں بہت اہمیت کا حامل تھا۔ لیکن دریائے سندھ کے کٹاؤ سے بیشتر حصہ دریا برد ہو گیا۔ دریا جس جگہ بہہ رہا ہے، اس کے عین درمیان راجہ سکر دو کا تفریحی محل بھی تھا۔ یہ جگہ سکر دو اور باہر سے آنے والوں کے لئے ایک پُر لطف سیر گاہ ہے۔ یہاں بڑے بڑے چناروں تلے ایک چشمہ بہتا ہے۔ منچلے چاقو اور چھریوں سے ان تناور چناروں پر اپنے نام کھود کھود کر لکھتے ہیں۔‘‘

’’کہیں بیٹھ جاؤ اب سیماں پلیز! میں تھک گئی ہوں۔ میندوق کھر کی خستہ حال دیواروں کے گلے لگ کر مجھے وہ کہانی سننا قبول نہیں۔ کیونکہ میری ٹانگیں بے جان ہیں۔‘‘

جذبہ نے وہیں صاف سی جگہ پر دستر خوان بچھاتے ہوئے اپنی گلابی اردو میں کہا۔

’’لیجئے ابھی سے ڈھیر ہو گئیں۔ اتنی نازک تو نہیں دکھتیں، جتنا ظاہر کرتی ہیں۔‘‘

’’کمبخت‘‘ وہ غصے سے چلّائی۔

’’تیرا کلیجہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا چوتھے آسمان پر تو تو مجھے لے آیا ہے۔‘‘

اور اس نے پوری بتیسی کھولتے ہوئے کہا۔

’’کھانا کھائیے اب۔‘‘

اور جب وہ آسمان کی وسعتوں اور زمین کی پہنائیوں کو دیکھ رہی تھی۔ سیماں نے تاریخ کے ورق اُلٹ دئیے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

باب نمبر ۷

 

 

اس وقت پولو گراؤنڈ میں ستغرا موسیقی بج رہی تھی۔ اس نے ڈفوق (گول ہونے کے بعد گیند کو پہلی ہٹ مارنا) مارا تھا۔ جو مقدر کا سکندر تھا۔ جس کی فراخ اور پر عزم پیشانی پر اس کے اندر اور باہر کی شجاعت اور دلیری رقم تھی۔ اس کے چہرے کا ایک ایک نقش اور خم اس کی طاقت اور سختی کا نمائندہ تھا۔

اب تاجور دھن بج رہی تھی۔ اس دھن کے ساتھ قرنا (ایک بہت بڑا اور لمبا بِگل) کی آواز نے فضا کو بہت پر ہیبت بنا دیا تھا۔ اس وقت پیڑوں کے سائے لمبے ہو رہے تھے اور بالتی یل کا تاجدار اور عظیم فرمانروا علی شیر خان انچن پولو کھیل رہا تھا۔

پھر وہ رُک گیا۔ اس نے ہاتھ اُٹھا کر موسیقی بند کرنے کا اشارہ کیا۔ فضا کو سونگھا اور گھوڑا دوڑتا ہوا وہاں جا کھڑا ہوا۔ جہاں خدمت گار سرجھکائے مودب ایستادہ تھے۔ اسے خبر ملی تھی کہ دلّی میں اس کی بیٹی شہزادہ سلیم کی پہلی ملکہ سخت بیمار ہے۔

اس نے ماتھے کا پسینہ دائیں ہاتھ کی پہلی پور سے صاف کیا۔ ایک ثانیہ کے لئے اُفق کو دیکھا اور گھوڑے کو سرپٹ بھگا تا محل میں آیا۔

پھر وہ ننگے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھا اور پڑاؤ ٹھہراتا دلّی پہنچا۔

اور جب وہ شہ نشینوں اور غلام گردشوں میں سے گزرتا ہوا محل کے اس حصے میں پہنچا۔ جو تبتی شہزادی کے لئے مخصوص تھا اس وقت فانوس جل اُٹھے تھے۔

کنیزیں آداب بجا لائی تھیں۔ اس نے قدم اندر رکھا تھا اور دیکھا تھا کہ بیٹی چھپر کھٹ پر آنکھیں موندے پڑی ہے اور پاس کوئی کھڑا ہے۔ اس کی ایک نظر بیٹی پر اور دوسری بے اختیار ہو کر اس وجود پر پڑی تھی جو ایستادہ تھا۔ نظر کا ٹھہراؤ زیادہ دیر نہیں رہا۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔ اُلجھ گیا کہ کوئی جیتا جاگتا انسان دیکھ رہا ہے یا کوئی ماورائی شے ہے۔

بیٹی نے آنکھیں کھولیں۔ ہاتھ بڑھایا۔ باپ نے اُسے تھاما اور بوسہ دیا۔ پھر جھکا اور اس کے قریب بیٹھا۔

وہ چلی گئی تھی اور بالتی یل کے تاجدار کو محسوس ہوا تھا جیسے کمرے میں جلتے سارے فانوس آناً فاناً بُجھ گئے ہوں۔

وہ بیٹی سے باتیں کرتا رہا، بالتی یل (بلتستان) اور خاندان کی۔ اور اس نے نہیں پوچھا کہ وہ کون تھی۔ پھر یہ اسے جلد ہی معلوم ہو گیا۔ وہ اگلی سہ پہر بیٹی کے پاس گیا۔ دونوں کے درمیان ابھی گفتگو کا آغاز ہوا ہی تھا۔ جب وہ آئی اور اس نے کہا۔

’’تم نے سیب کا جوس نہیں پیا۔ کیوں؟ یوں کھانے پینے سے منہ موڑ رہی ہو۔ کمزوری بہت بڑھ جائے گی۔‘‘

تبتی شہزادی نے کہا۔

’’میں نے بہتیرا چاہا، پر میرا اندر اسے قبول کرنے سے انکاری تھا۔‘‘

اُس نے چند لمحے اُسے دیکھتے رہنے کی بعد کہا تھا۔

’’ آؤ بیٹھو۔‘‘

وہ خود بیٹھنا چاہتی تھی، پر رانی ماں سے خوفزدہ تھی۔ رانی ماں کی خادمائیں اسے محل کی رتی رتی خبر پہنچاتی تھیں اور اسے اپنی تکا بوٹی کروانا پسند نہ تھا۔ لیکن مصیبت تو یہ تھی کہ کچھ معاملات اختیار سے باہر ہو جاتے ہیں۔

بیٹی نے تھکان کے باعث آنکھیں موند ھ لی تھیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا تھا یوں گویا جیسے اپنے آپ کو دیکھا ہو اور یہی وہ لمحے تھے کہ بس یوں لگتا تھاجیسے پہچان کا سارا سفر طے ہو گیا ہو۔

اس سہ پہر وہ بہت دیر تک علی شیر خان انچن سے بالتی یل، کشمیر اور لداخ کی باتیں کرتی رہی۔ رانی ماں کا ڈراؤنا بھوت دماغ کے کسی کونے کھدرے میں پڑا رہا اور وہ وجاہت اور شجاعت کے اس پیکر سے ایک نیا رشتہ استوار کرتی رہی۔

اور تب دفعتاً اس نے کہا۔

’’آپ آئیے نا بالتی یل۔‘‘

اس وقت اُس کی آنکھوں میں وارفتگی کا جنون تھا اور وہ دونوں شانے جھکائے پوری طرح اس کی اور متوجہ تھا۔

تب باغ میں تیز ہوائیں چلتی تھیں۔ جامن اور آم کے پیڑ وں کے پتے تالیاں بجاتے تھے اور دل بھی کسی کو پا لینے کی خوشی کی تال پر رقصاں تھا۔

پھر اگلی شب خواجہ سرا آیا۔ اس نے جھک کر تعظیم دی اور کانوں میں سرگوشی کی کہ شہزادی گل خاتون اسے پائیں باغ میں ملنا چاہتی ہے۔

اس نے اس پیغام کو سنا۔ اس وقت کمرہ فانوسوں کی روسنی سے بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ وہ چند لمحوں تک اس روشنی کو غور سے دیکھتا رہا۔ پھر بڑی ٹھوس آواز میں بولا۔

’’کہنا چوروں کی طرح رات کی تنہائی میں ملنا بالتی یل کی تاجدار علی شیر خان انچن کو زیب نہیں دیتا۔ میں اسے دن کے اُجالوں میں لینے آؤں گا اور بالتی یال کی رگیالفو چھمنو (ملکہ خاص) بناؤں گا۔‘‘

اور خواجہ سرا نے کمرے سے باہر نکل کر اپنے آپ سے کہا تھا۔

’’اس آواز اور لہجے کا دبدبہ اور گونج کسی طور بھی ظلِّ سبحانی سے کم نہیں۔‘‘

وہ اس کی بیمار بیٹی کی دنیا میں آخری شب تھی۔ اسے لحد میں اُتار کر وہ واپس آ گیا۔ جہاں اس کے ساتھ ایک دکھ آیا تھا، وہیں ایک جگمگاتی کرن بھی آئی تھی جو اس کی بند آنکھوں میں گھُس گھُس جاتی تھی۔

پھر اُس نے شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر کی خدمت میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا جو اسے بے کل بنائے ہوئی تھی اور شہنشاہ نے کمال شفقت اور محبت سے اس کی خواہش کی تکمیل کی اور یوں وہ جلال الدین اکبر کی چچا زاد بہن گل خاتون کو جاہ و جلال اور شان و شوکت سے بیاہ کر لے گیا اور اسے میندوق رگیا لمو کا خطاب دیا۔

بس وہ ایسے ہی دن تھے جب پہاڑوں پر جمی برف پگھل جاتی ہے اور دریائے سندھ اپنے شباب پر آ جاتا ہے۔ ان دونوں وہ ننگژ ہوق میں اسی جگہ جہاں اب دریائے سندھ بہتا ہے، اپنے تفریحی محل میں آئی ہوئی تھی۔ سنہری شاموں میں اس کے دراز گیسو علی شیر خان انچن کے شانوں پر بکھر جاتے۔ وہ آسمان کی نیلاہٹوں کو دیکھتے دیکھتے کھڑ پوچو پہاڑ پر آ رُکتی، قلعہ دیکھتی اور کہتی۔

’’میں وہاں جانا چاہتی ہوں۔‘‘

اور وہ اس کے بالوں پر بوسہ دیتے ہوئے کہتا۔

’’میندوق رگیالمو! تمہارے پاؤں پھولوں سے زیادہ نازک ہیں۔ قلعے کا راستہ بہت ٹیڑھا اور اُلجھا ہوا ہے۔ بھلا تم وہاں کیسے جا سکو گی؟‘‘

اور پھر ایک دن اس نے اپنے دل سے کہا۔

’’میں اس پراسرار، اُلجھے ہوئے پیچیدہ اور دشوار گزار راستے کو سیدھا سادا اور سہل بناؤں گی۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

باب نمبر ۸

 

 

’’یقیناً میں جدت کی خواہاں ہوں یا یہ بھی ممکن ہے کہ میں ان محلات کے یکساں طرز تعمیر سے اُکتا گئی ہوں۔ پر یہ بھی حقیقت ہے کہ میں ان فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں اپنے ماضی کی کوئی چیز دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘

میندوق رگیالمو (پھول شہزادی) اس وقت محل کی بالکونی میں بیٹھی بہت دور پہاڑوں پر نظریں جمائے، اپنے آپ سے باتیں کرتی تھی۔ پہاڑوں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ فضا بہت خشک تھی۔

ان دونوں وہ تنہا تھی۔ اس کا محبوب علی شیر خان انچن تین ماہ ہوئے گلگت اور چترال کو فتح کرنے گیا ہوا تھا۔

اس صبح جب وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔ چھو غولمنہ کی دھنیں بج رہی تھیں۔ لشکر کوچ کے لئے تیار کھڑا تھا۔ باہر سیاہ ننگے پہاڑوں پر سورج کی کرنوں میں برف کی چاندنی مسکراتی تھی، اور اندر اس کی گھنی سیاہ پلکوں میں اٹکے آنسوؤں کے برف جیسے موتی، اس کے ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹوں کی کرنوں سے ہنستے تھے۔

اس نے اس کی ناکے چہار گل (کوکا) کے قیمتی جھلملاتے پتھر کو اپنی انگلی سے چھوا پھر اس کی پیشانی پر طویل بوسہ دیا اور کہا۔

‘ ’’علی شیر خان انچن ہمیشہ تمہیں خود سے قریب پائے گا۔‘‘

او رجب وہ سرپٹ بھاگتے گھوڑوں کی آوازیں سنتی تھیمقپون ستن لہ شخفہ      کی خاص دھن ان آوازوں میں دب سی گئی تھی۔ اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے دونوں ہاتھ دعائیہ انداز میں کھول دئیے تھے اور کہا تھا۔

’’اے اللہ! میں اسے غازی کی صورت میں دیکھوں۔‘‘

پھر اس کے شب و روز اس محل کو بنانے کی تگ و دو میں گزرنے لگے جو وہ اپنے ذوق اور مزاج کے مطابق بنانا چاہتی تھی۔ سارا سکر دو اس نے چھان مارا۔ تب جا کر میندوق کھر کے لئے جگہ منتخب ہوئی۔ کاریگروں اور ماہرین فن کا انتخاب ہوا اور یوں سنگ مرمر سے بنا ہوا یہ محل اور اس سے ملحقہ باغ جب تیار ہوا، علی شیر خان انچن گلگت کو فتح کرتا ہوا چترال کی طرف رواں دواں تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوئے دو سال بیت گئے تھے۔ وہ خوش تھی کہ اس نے ایک خوبصورت چیز تعمیر کروائی۔ مگر اب اسے ایک نئی فکر لاحق تھی۔ باغ کی شادابی کے لئے پانی درکار تھا اور سکر دو کی کسی عام کوہل سے اس تک پانی پہنچنا مشکل تھا۔ اس کی دل تمنا تھی کہ جب وہ فاتح بن کر لوٹے تو عظیم الشان میندوق کھر دلکش اور خوش نظر باغ، اہل سکر دو کے ساتھ ساتھ اسے خوش آمدید کہے۔ طویل سوچ و بچار کے بعد اس نے دہلی سے گنگو نامی ماہر معمار بلایا۔

ہنر مند کاریگر سکر دو پہنچا اور خدمت عالیہ میں حاضر ہوا۔

میندوق رگیالمو نے کہا۔

’’ میں چاہتی ہوں یہ نہر باغ کو زندگی دینے کے ساتھ ساتھ سکر دو شہر کی زرعی زندگی کی بھی جان بنے۔‘‘

پھر اس معمار نے تفصیلی معائنہ کیا، صورت حال کو دیکھا۔ اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور ملکہ کی خدمت میں عرض کی۔

’’مطمئن رہیے، آپ کی خواہش کے عین مطابق یہ نہر تعمیر ہو گی۔ مگر ایک درخواست کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔‘‘

اور میندوق رگیالمو ہنس پڑی تھیں کہ معمار نے کہا تھا کہ یہ نہر اس کی نام پر ہو گی۔

’’چلو ہمیں تمہاری یہ شرط منظور۔‘‘

اور گنگو پی آداب بجا لاتے ہوئے اُٹھ گیا تھا۔

دفعتاً سیماں ماضی سے چھلانگ مار کر حال میں آواد ہوئی۔ گنگو پی نہر ابھی آپ نے نہیں دیکھی۔ دیکھیں گی تو پتہ چلے گا کہ ایسے وزنی پتھر اس میں استعمال ہوئے ہیں کہ بس یوں لگتا ہے جیسے یہ جنات نے جمع کئے تھے۔ حالانکہ اس نہر کو بنانے میں جن مزدوروں نے کام کیا وہ علی شیر خان انچن کے فوجی معیار کے مطابق نا اہل اور کمزور تھے اور اسی بناء پر وہ انہیں اپنی مہم میں ساتھ لے کر نہیں گیا تھا۔ آپ اب خود سوچ لیں کہ جب کمزور اور نا اہل لوگوں کی جسمانی طاقت کا یہ عالم تھا تو فوجی معیار پر پورے اُترنے والے لوگ کیسے ہوں گے۔

اور پھر وہ گنگو پی نہر بنی۔ سیماں غڑاپ سے پھر ماضی کے دریا میں کود گئی تھی۔

نہر کیا بنی، باغ شاداب ہوا۔ سکر دو کے کھیت شاداب ہوئے پانی کی فراوانی ہوئی۔ غلّہ اور چارے کی بہتات ہوئی اور لوگوں نے بے اختیار کہا۔

’’ملکہ میندوق کھر ہمارے سروں پر سلامت رہے۔‘‘

اور ایک رات جب وہ سونے کے لئے جا رہی تھی۔ اسے دفعتاً یاد آیا کہ اُس نے ابھی ایک اور اہم کام بھی کرنا ہے اور وہ قلعہ کھر پوچو تک پہنچنے کا آسان اور سیدھا راستہ ہے۔

معتمد درباریوں نے اس کا ارادہ جان کر کہا۔

میندوق رگیالمو چھمنو (پھول شہزادی یا پھول ملکہ خاص) یہ خواہش جانے دیجئے۔ رگیالفو انچن اسے پسند نہیں کریں گے۔ قلعے کا راستہ ہمیشہ عام پیروں کی دسترس سے پوشیدہ ہونا چاہیے۔

اور اس نے کسی قدر غصے سے کہا۔

’’یہ صرف میرا اور رگیالفو (بادشاہ) کا معاملہ ہے۔ آپ لوگ حکم کی تعمیل کریں۔‘‘

اور حکم کی تعمیل ہوئی۔ کھرپوچو تک پہنچنے کا وہ راستہ بنا، جس پر ہم ابھی چڑھ کر آئے ہیں۔ ان دنوں وہ مجسم انتظار بنی ہوئی تھی۔ سارے کام ختم ہو گئے تھے۔ وہ تھک چکی تھی۔ تنہائی کا جان لیوا احساس اب اسے تڑپانے لگا تھا۔ میندوق کھر کے جھروکوں سے سندھ کے نظارے اسے بہت بے کل کرتے تھے، اور جب ایک اُداس سی شام وہ دور پہاڑوں کے پیچھے ڈوبتے سورج کو دیکھتی تھی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا تھا۔

’’پروردگار! میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔ اسے کے بازوؤں میں سونا چاہتی ہوں۔ میرا اس لا محدود انتظار کو اب ختم کر دے کہ مجھ میں ضبط کا یارا نہیں رہا۔‘‘

اور بس وہ لمحہ قبولیت کا تھا۔

خادماؤں نے اطلاع دی کہ ’’ محاذ سے ایلچی آئے ہیں۔ قدم بوسی کی اجازت چاہتے ہیں۔ چترال کی فتح کی نوید اپنی زبان سے آپ کو سنانا چاہتے ہیں۔‘‘

اور پیغامبر حاضر خدمت ہوئے۔ ملکہ گل خاتون پردوں کے پیچھے ان کی آوازیں سنتی تھی۔ دل کی دھڑکنیں اپنے عروج پر تھیں۔ وہ بتا رہے تھے۔

’’قابل تعظیم رگیالمو! چترال کو زیر کرنا صرف علی شیر خان انچن جیسے دلیر اور جری رگیالفو کے ہاتھوں ہی ممکن تھا۔ ہم ان مناظر کی منظر کشی سے قاصر ہیں جو فتح کی یاد میں وہاں منعقد ہوئے۔

پولو گراؤنڈ میں چھوغو پراسول کی بارہ دھنیں بجیں۔ شہزادے گھوڑوں سے چھلانگیں لگاتے ہوئے گراؤنڈ میں اُترے اور انہوں نے رقص کیا۔ ڈیانگ والے نے ایسا ڈیانگ بجایا کہ مقامی آبادی بھی سردھنتی رہ گئی۔‘‘

اور جب اس نے یہ جانا کہ رگیالفو کا لشکر واپسی کے لئے چل پڑا ہے۔ اس کا دل فضا میں اُڑتے پرندے کی مانند چہچہایا۔

سارا سکر دو استقبال کے لئے دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ میندوق کھر جگمگاتا تھا اور میندوق کھر کی رگیالمو بھی آنکھوں میں شوق اور وارفتگی کے دیئے جلائے، ہونٹوں پر مسکراہٹوں کی کلیاں سجائے مجسم انتظار بنی بیٹھی تھی۔

وہ دوپہر معمول سے زیادہ روشن اور حسین نظر آتی تھی۔ سازندوں نے ’’شادیاں‘‘ دھن بجانی شروع کر دی تھی کہ فاتح اپنے لشکر کے ساتھ شہر میں داخل ہو گیا تھا۔ اس نے گنگو پی شہر کو دیکھا اس نہر سے متاثر شاداب سکر دو پر گہری نظر ڈالی۔ معتمد درباریوں کے ساتھ قلعے کے نئے راستے کا معائنہ کیا، باغ دیکھا اور پھر میندوق کھر داخل ہوا۔

امراء وزراء جرنیل اور درباری بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ مغل اور تبتی طرز تعمیر کے اس محل کو اوپر نیچے دائیں بائیں سے دیکھتا وہ آگے بڑھتا چلا آیا۔ حتیٰ کہ وہاں آ کر رک گیا جہاں میندوق رگیالمو سولہ سنگار کئے اس کے استقبال کے لئے چشم براہ تھی۔ ملکہ کے اونٹوں اور آنکھوں سے چھنتی خوشی کی چاندی اس پر برسنے لگی اور وہ اس میں نہاتا ہوا آگے بڑھا۔ پھر اس کے شانے اس کے فولادی ہاتھوں تلے آ گئے۔ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکا اور یوں گویا ہوا۔

’’گنگوپی نہر بنانے پر تم انعام کی مستحق ہو۔ میں انعام نہیں دوں گا۔ کھر پو چو قلعے کے لئے جو راستہ بنایا ہے، اس کے لئے سزا کی حق دار ہو۔ پر میں سزا نہیں دوں گا۔‘‘

جیسے فضاؤں میں قلانچیں بھرتی لقی کبوتری کے دل پر کسی شکاری کا کوئی تیر لگ جائے اور پل جھپکتے میں وہ پھڑ پھڑا کر زمیں پر گر جائے۔ بس تو ایسا ہی اس وقت ہوا۔ اور اس نے ان فولادی بانہوں میں بس صرف ایک بار آنکھیں کھولیں اور پھر ہمیشہ کے لئے موند لیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب نمبر ۹

 

 

کوئی دروازے پڑ کھڑا تھا۔ فوجی کٹ بالوں والا نو عمر لڑکا جس کے رخسار صحت کی لالی سے دہکتے تھے اور جس کی آنکھیں ہیروں کی طرح چمکتی تھیں۔ وہ کمرے میں بیٹھی سیماں کی بیٹی شیبہ کا فراک کاڑھ رہی تھی۔

عین اسی وقت سیماں ساتھ والے کمرے سے نکل کر چیخی۔

’’ارے طاہر! تم کب آئے، اور ہاں آگے آؤ نا۔ وہاں کیوں کھڑے ہو؟‘‘

’’یہ طاہر ہے۔‘‘ وہ متعارف کرواتے ہوئے بولی۔

’’ان کی امی بڑے بھیا کی بہن بنی ہوئی ہیں۔ ان کے دادا کشمیر سے نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔ بلتستان کے تمدن پر ایرانیوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کا بھی بہت اثر ہے۔‘‘

طاہر معصومانہ انداز میں مسکراتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا۔

’’میں آپ کو لینے آیا ہوں۔ ایک تو کل دس اسد ہے۔ دوسرے ہمارے ہاں ایک آسٹریلین جوڑا مسٹر شاور اور مسز کیتھی شاور ٹھہرا ہے۔ وہ دونوں کوہ پیما ہیں اور کے۔ ٹو پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘

وہ ہنس پڑی۔ ’’چلو یہ تم نے اچھا کیا جو مجھے لینے آ گئے۔‘‘

واقعہ کربلا کے موسم کی مناسبت سے بلتستان میں شمسی حساب سے ماہ اسد کا پہلا عشرہ شہدائے کربلا کی یاد میں مجالس عزا کے لئے مخصوص ہے۔ یوں تو یکم اسد سے ہی سارے سکر دو میں، عزاداری اور سوز خوانی کی مجالس جاری تھیں۔

اس نے سیاہ چادر اوڑھی اور طاہر کے ساتھ چل پڑی۔ طاہر کا گھر سکمیدان میں تھا خوبانیاں، توت، اخروٹ، بادام اور سیبوں کے درختوں کے پتوں اور پھلوں کو پہچانتی وہ گلیوں میں چلتی گئی۔ لوگ ماتمی لباس میں گھوم پھر رہے تھے۔ مختلف گھروں سے درُود و صلوات پڑھنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سوز خوانی کی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔

طاہر کا گھر چوب کاری کے کام کا خوبصورت نمونہ تھا۔ کشادہ اور روشن کمروں میں دریاں بچھی تھیں۔ گھر کے پچھلی طرف زمین کا وسیع قطعہ جس میں مختلف پھلدار درخت آن بان سے کھڑے تھے۔ انگوروں کی بیلیں دیواروں تک چڑھی ہوئی تھیں اور ان میں ابھی چنے کے دانے جتنا پھل آیا تھا۔ ایک طرف چارے کا کھیت تھا، اور دوسری طرف سبزیوں کی بیلیں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ سارا گل و گلزار طاہر کی حسین والدہ کے خوبصورت ہاتھوں کا مرہون منت تھا۔ گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ ہی پہاڑ عمودی صورت میں کھڑے تھے اور اندر نشست گاہ میں قالین پر پھسکڑا مارے مسز کھیتی شاور اور مسٹر شاور یوں سرنہیوڑائے بیٹھے تھے جیسے چوروں اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں لُٹ لُٹا گئے ہوں یا کسی عزیز کو سپرد خاک کر کے آئے ہوں۔

باہر گلی میں دیگوں، کڑچھوں اور لوگوں کی باتوں کا ٹکراؤ تھا۔

وہ کیتھی کے عین سامنے دو زانو ہو کر یوں بیٹھی کہ کیتھی کی کھڑی ناک اور کانچ کی گولیوں جیسی آنکھیں، اس کی مُنی سی ناک اور بھونرا سی آنکھوں سے ٹکرائیں اور دونوں کے ہونٹ مسکراہٹوں کی بارش میں نہا گئے۔

اور واقعہ یہ تھا کہ اسلام آباد ائیر پورٹ پر نیوزی لینڈ کے ایک منچلے نے اس جوڑے سے کہیں یہ کہہ دیا۔

’’زمین پر اگر جنت کو دیکھنا چاہتے ہو تو شنگریلا میں ایک دو راتیں ضرور گزار لینا وہ دو راتیں زندگی بھر کی آسائشوں کا نعم البدل ہوں گی۔‘‘

اور کیتھی سکر دو ائیر پورٹ پر ہی مچل گئی کہ وہ شنگریلا ہر قیمت پر جائے گی۔ لیکن وہاں پر ایک رات اور آدھے دن کے قیام کے بعد سامان وہیں چھوڑ کر کسی سستے سے ہوٹل کی تلاش میں نکلے۔ چشمہ بازار میں ماڈرن سٹیشنری مارٹ کی دکان پر طاہر اس کا ماموں عباس کاظمی اور روزی خان باتیں کرتے تھے۔ ظاہر کو بے چاروں پر ترس آ گیا، اور وہ انہیں گھر لے آیا۔ ماں نے کہا بھی۔

’’عجیب ہو تم بھی۔ ایک تو عشرہ اسد کی مذہبی تقریبات اوپر سے تم غیر مسلموں کو ہانکے لئے آتے ہو۔‘‘

اور اُس نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’چھوڑو بھی ماں، خیر صلّا سب چلتا ہے۔‘‘

اب وہ عباس کاظمی کی سوزوکی وین میں شنگریلا سے سامان لانے کے لئے چلے گئے۔ طاہر رات کے خیراتی کھانے کے اہتمام میں پھنسا ہوا تھا۔ وہ البتہ ان کے ساتھ رہی کہ چلو میں بھی جنت کی سیر کر آتی ہوں۔ اگلے جہان کی جنت تو شاید نصیبوں میں نہ ہو۔‘‘

ڈرائیور چھوکرا بہت تیز گاڑی چلاتا تھا۔ ائیر پورٹ سے آگے سڑک دریائے سندھ کے ساتھ شروع ہو گئی۔ کچورہ سکر دو سے کوئی بتیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ راستے میں گندم پکی کھڑی تھی۔ ابھی کٹائی شروع نہیں ہوئی تھی۔

گلگت سکر دو روڈ پیچھے رہ گئی تھی۔ چند موڑ اور کٹے تھے۔ اب وہ وہاں آ کر رُکے تھے جسے دنیا میں جنت کا نام دیا گیا تھا۔

یہاں جھیل کے کنارے پگوڈا ایسے سرخ چھتوں والے نئے نویلے کاٹیج یوں سجے بنے کھڑے تھے جیسے نوخیز لڑکیوں پر زوردار جوانی آئی ہو۔ جھیل کے سبز پانی میں بجرے اور کشتیاں چلتی تھیں ان کشتیوں میں نئے نویلے جوڑے جن کے قہقہے پل بھر کو روکنے مشکل تھے، سیر کرتے تھے۔ پانی میں ٹراؤٹ مچھلیاں ناچتی پھدکتی پھرتی تھیں۔ اس نے کیتھی اور شاور سے کہا تھا کہ وہ واجبات وغیرہ کی ادائیگی سے فارغ ہو کر سوزوکی کے پاس آ جائیں وہ وہیں ہو گی۔

وہ اس وقت تنہائی چاہتی تھی، کیوں؟ اس کیوں کا جواب اس کے پاس تھا پر وہ یہ جواب اپنے آپ کو بھی نہیں دینا چاہتی تھی۔

پھر جہاں للی کے پھول ہنستے تھے وہیں وہ بیٹھ گئی۔ سارے جوڑے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ بس زبیر اور وہ ہی رہ گئے تھے۔ پر یہ یاد کسیلے تمباکو کے کش جیسی تھی جس نے گلے میں اُچھّو لگا دیا تھا۔

چیری کا پھل سے لدا درخت اس کے سر پر تمکنت سے کھڑا تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے، ایک نظر درخت پر ڈالی، دوسری نظر زمین پر اور تیسری نظر سامنے پہاڑوں پر جہاں ابرق چمکتی تھی، اور پھر اُس نے خود سے کہا۔

’’چلو، جو ہوا اچھا ہی ہوا۔ ایک دو سال بعد بھی تو اسی صورت نے جنم لینا تھا جینا ہی ہے نا۔‘‘

پھر وہ اُٹھی۔ پژمردگی اور دل گرفتگی جو ایکا ایکی اس پر سوار ہو گئی تھی، اُس نے یوں جھاڑی جیسے کپڑوں پر پڑی گرد اور مٹی کو جھاڑا جاتا ہے۔

چیری کے سرخ پھل نے قیامت ڈھا رکھی تھی۔ خوبانی، آلوچہ اور آلو بخارا کے درخت پھلوں سے جھکے ہوئے تھے۔ لیکن جا بجاDO NOT TOUCH THE FRUIT کی تختیاں لگا کر انہیں اشجار ممنوعہ بنا دیا گیا تھا۔

سامنے ہی وہ ORIENT SKY LINERکھڑا تھا۔ ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مر کر سوا لاکھ والی بات تھی۔ پاک بھارت جنگ کا گرا ہوا یہ جہاز، جس کی اعلیٰ پوشش نے اسے عروسی جوڑوں کے ماہ عسل منانے کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔ یہاں ایک وقت میں تین جوڑے رہنے کا لطف اُٹھا سکتے تھے۔ جہاز کی سرخ سیڑھیاں اوپر چڑھنے کی دعوت دیتی تھیں۔ لیکن وہ اسے قبول کرنے سے قاصر تھی۔ سو مجبوریاں تھیں۔ بس وہاں کھڑی خالی نظروں سے کام لیتی رہی۔ سکائی لائز کے پاس ہی رنگ رنگیلی کرسیوں پر ملکی اور غیر ملکی لوگ بیٹھے گپیں لگاتے اور چائے پیتے تھے۔

سیب ابھی بلوغت میں داخل ہو رہے تھے۔ پر اٹھان اس غضب کی تھی کہ اس نے بے اختیار سوچا کہ عالم شباب میں پہنچ کر کیا غضب ڈھائیں گے۔ انگوروں کے گُچھے اور آڑو ابھی پکنے کے مرحلے سے کافی دور لگتے تھے۔ جھیل کے اندر پگوڈار ریسٹورنٹ میں کھانے کا اہتمام ہوتا تھا۔ دروازہ بند تھا اور اس پر لگی پیتل کی تختی پر صبح دوپہر اور شام کے کھانے کے اوقات درج تھے۔ اس نے دو پل وہاں ٹھہر کر تصور میں ان نظاروں سے محظوظ ہوتے ہوئے کھانے کا لطف اُٹھایا اور روک لاؤنج میں داخل ہو گئی۔ یہاں ایک دیو ہیکل پتھر کو شیشے کی دیواروں میں مقید کیا ہوا تھا۔ اس کی چوٹی پر ابرق چمکتی تھی اور چشمے پھوٹتے تھے۔ فرش پر مار خور بکرے کی کھال بچھی ہوئی تھی، اور دیوار پر حنوط شدہ ریچھ کا سر اور دھڑ لٹکا ہوا دعوت خوف دیتا تھا۔

گاڑی میں بیٹھ کر وہ بولی۔

’’اب آئے ہیں، چلو نا کچورہ جھیل بھی دیکھتے چلیں۔‘‘

دونوں نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔

کچورہ جھیل خوب صورتی میں اپنی مثال آپ تھی۔ یہ سد پارہ جھیل سے چھوٹی اور کم گہری ہے۔ کناروں پر اُگی سبز گھاس میں جھیل کا ہلکورے لیتا سبز پانی کسی نازنین کی آنکھوں میں انگڑائیاں لیتے خوابوں کی مانند تھا۔ جھیل کے کنارے پی۔ ٹی۔ ڈی۔ سی کا بنا ہوا ایک ریسٹ ہاؤس بھی ہے۔

اس وقت شام ہو رہی تھی اور جھیل کے کنارے پر صرف ایک جوڑا بیٹھا تھا۔ لڑکی شکل و صورت اور لباس سے سو فیصد پاکستانی اور لڑکا اسی ڈھب سے سو فیصد غیر ملکی نظر آتا تھا۔ اس نے بہتیرا چاہا کہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے زرّیں اصول پر کاربند رہے۔ پر کبھی کبھی اندر کی کمینگی نچلا نہیں بیٹھنے دیتی۔ تب بھی یہی ہوا۔ قریب جا کر پوچھ ہی بیٹھی اور سرکے عین بیچوں بیچ خالصہ سٹائل والے جوڑے والی نے اسے تیکھی نظروں سے گھور کر کہا۔

’’میں تو پاکستانی ہوں اور یہ آسٹریا سے ہے۔ کلاس فیلو ہیں ہم دونوں۔‘‘

اسے تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ کیتھی اور شاور لڑکے سے باتیں کرنے لگے۔ پر ان دونوں کو بھی جلد ہی احساس ہو گیا کہ وہ اپنی تنہائی میں مداخلت کرنے والوں کو کچھ ایسا نہیں سمجھ رہے ہیں۔ تینوں واپسی کے لئے چلے۔ اس کا جی ریسٹ ہاؤس کے کنارے بیٹھ کر چائے کا ایک کپ پینے کو چاہ رہا تھا۔ لیکن اس وقت تو اس کے پاس پائی بھی نہیں تھی۔

اور یہ بھی بس حسن اتفاق ہی تھا کہ جب وہ ابھی ایک ڈیڑھ فرلانگ چلے ہوں گے، اُس نے روح اللہ کی جیپ دیکھی۔ وہ یقیناً اس وقت ڈیوٹی پر کچورہ میں اس پاور ہاؤس کا معائنہ کرنے آیا ہو گا۔ جو کچورہ گاؤں اور شنگریلا ریسٹورنٹ کو بجلی سپلائی کرتا ہے۔

وہ ہنسا اور کھڑکی میں سے سر نکال کر بولا۔

’’تو آپ یہاں پہنچی ہوئی ہیں۔‘‘

وہ بھی ہنسی اور بولی۔

’’تم تو فرشتے کی طرح مدد کے لئے آ گئے ہو۔ مجھے کہیں سے چائے پلاؤ۔ سر پھٹا جا رہا ہے۔‘‘

اور اُس نے بلتی زبان میں ڈرائیور چھوکرے سے کچھ کہا۔

پھر آگے پیچھے دونوں جیپیں پاور ہاؤس پر آ گئیں۔ مشینیں زور شور سے کام میں مصروف تھیں۔ اوپر کوہل سے پانی شراٹے مارتا نیچے آ رہا تھا۔ نیچے کچورہ کا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ ملازم لڑکا چائے بنانے لگا تھا۔

روح اللہ اندر پاور ہاؤس میں چلا گیا۔ کیتھی اور شاور بھی مشینوں کی کار کردگی کا جائزہ لینے لگے۔ بس وہ وہاں بیٹھی پہاڑوں اور کچورہ کے جنگل کو دیکھتی رہی۔ درختوں پر عنبری سیب لٹک رہے تھے۔

’’کچورہ کے عنبری سیب ذائقے، خوشبو، رنگت اور سائز کے اعتبار سے پوری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔‘‘

روح اللہ اُس کے قریب آ کر بولا۔

’’چھوڑو روح اللہ مت بتاؤ مجھے یہ سب۔ میرے لئے تو ابھی انگور کھٹے ہیں۔‘‘

واپسی پر آتے آتے روح اللہ انہیں فرق ژھو جھیل بھی دکھانے لے گیا۔ یہ بھی کچورہ کے علاقے میں ہی تھی۔ اس کے تین طرف پہاڑ اور ایک طرف قدرتی طور پر بند بندھا ہوا ہے۔ لیکن اس جھیل کے پانی سے علاقے کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ یہ آبادی کی سطح سے کافی نیچے واقع ہے۔ یوں یہ جھیل ایک خوبصورت تفریح گاہ ضرور ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب نمبر ۱۰

 

 

لمبے چوڑے غائبانہ تعارف کی تو کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بس دو جملے ہی کافی تھے۔ ایک تو یہ گھر والی سے بچہ نہ ہونے کے باوجود پیار نہیں عشق کرتا ہے، اور دوسرا ایسا جیالا ایسا شہ زور اور ایسا دلیر تھا کہ ڈوگرہ راج کے خلاف سرکشی پر اُتر آیا تھا۔ کھلے عام بغاوت کر کے سکر دو بھاگ آیا اور بلتستان کی جنگ آزادی میں جی جان سے لڑا۔

پر سیماں تھی کہ بولے چلی جا رہی تھی۔ سکسہ چھور بٹ میں دادی جواری کا ہمسایہ ہے۔ مگر عزیزوں سے بڑھ کر ہے۔ بچوں سے بہت پیار کرتا ہے۔ لڑ لگنے والی کی گود خالی ہونے کے باوجود دوسرا بیاہ نہیں رچایا۔

’’سیماں میری جان اس سلور گرے بالوں والے معمر مرد کے لئے جو ابھی رات سکسہ سے آیا ہے اور اس وقت تمہاری نشست گاہ میں بیٹھا دادی جواری اور ڈاکٹر سیف اللہ سے باتیں کرتا ہے، اس کے لئے بھلا تم کیوں ہلکان ہوئی جاتی ہو۔ بندہ تو اپنے منہ سے آپ بولتا ہے۔ آؤ چلو! ناشتہ کریں۔ مجھے زور کی بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

اُس نے سیماں کا ہاتھ پکڑ کر اسے کچن کی طرف گھسیٹ لیا تھا، اور جب وہ کھا پی کر فارغ ہو گئی۔ تب اُٹھی اور نشست گاہ میں اس کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئی۔ تعارف شاید دادی جواری پہلے ہی کروا بیٹھی تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے محبت بھرا ہاتھ اس کے شانے پر رکھا تھا اور شفقت بھری آواز میں بولا تھا۔

’’میں پنجاب کے مشہور شہر سیالکوٹ میں چار سال رہا ہوں۔ اس وقت جب ابھی پاکستان نہیں بنا تھا۔‘‘

’’کچھ اُس دور کی باتیں سنائیے نا جب بلتستان پر ڈوگرہ راج تھا۔ جب اُس نے اپنی جنگ آزادی لڑی۔‘‘

وہ ہنس پڑا۔ ہنسنے میں اُس کے دانت نمایاں ہوئے تھے جو اِس عمر میں میں بھی موتیوں کی طرح چمکتے تھے۔

’’میں نہیں جانتا میری بچی! کہ تم اس امر سے آگاہ ہو یا لاعلم کہ بلتستان کے غیور عوام نے بغیر کسی فوجی تربیت کے، بغیر سامان حرب کے اور بغیر کسی بیرونی امداد کے صرف اور صرف اپنے جذبہ ایمانی پر ڈوگرہ فوج سے آزادی حاصل کی۔ ان کے کارنامے ان سینکڑوں محیر العقل شجاعت کے کارناموں سے کسی طرح کم نہیں، جو تم نے تاریخی کتابوں میں پڑھے ہوں گے۔ فرق صرف اتنا سا ہے کہ یہ کارنامے بلند و بالا پہاڑوں کی اوٹ میں انجام دیئے گئے اور انہیں پبلسٹی نہیں ملی۔ میری بچی! شاید تمہیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ آزادی حاصل کرنے کے بعد ہم لوگوں نے صرف اسلام سے محبت کی بناء پر غیر مشروط طور پر پاکستان کی مملکت میں شمولیت کی۔‘‘

اس نے صوفے کی سیٹ پر پھیلا اس کا بوڑھا ہاتھ جس کی پھولی رگیں گھنے بالوں میں چھپ سی گئی تھیں، اپنے ہاتھوں میں تھاما، اسے چوما اور کہا۔

’’اُن جذبوں کو ہمارا سلام ہے۔‘‘

اور اُس نے محبت و شفقت سے اش کا سر تھپتھپایا اور بولا۔

’’میں گنگوپی محلہ میں راجہ صاحب کے گھر کی طرف جا رہا ہوں۔ تم اگر میرے ساتھ چلو تو میں تمہیں وہ جگہ دکھاؤں گا۔ جہاں سے قلعہ کھر پوچو تک پہنچنے کے لئے سرنگ کھودی گئی تھی۔ وہ فوراً کھڑی ہو گئی۔ اندھے کو کیا چاہیے تھا، دو آنکھیں۔‘‘

جوتے پہن کر غلام حیدر کے ساتھ باہر نکلنے لگی تو سیماں عقب سے چلائی۔

’’کمبخت میں تیرے لئے مرغی روسٹ کرنے والی تھی اور تو بھاگی جا رہی ہے۔ عجیب پھراوندو ہے تو بھی۔‘‘

اور اس نے شوخی سے سیماں کو گھورتے ہوئے رک کر کہا۔

’’میرا حصہ اپنے نئے وارد ہونے والے منے کو کھلانا۔‘‘

گنگوپی نہر کو دیکھ کر اسے سیماں کی بات یاد آئی کہ منوں وزنی پتھر اُٹھانے والے لوگ نکمّے اور نا اہل تھے، تو اہل لوگ کیسے ہوں گے؟

راجہ سکردنو کا پرانا محل گو ابھی کھنڈر نہیں بنا تھا پر پندرہ بیس برسوں میں کھنڈر بننے کی سو فیصد توقع ہے۔ نئی عمارت کے سامنے درخت کی گھنی چھاؤں تلے راجہ سکر دو کھڑا تھا۔ یوں جیسے سورج دیوتا کھڑا ہو۔ اُردو کے شعراء نے انسانی حسن و خوبصورتی سے متعلق ساری تشبیہیں اوراستعارے صرف صنف نازک کے لئے ہی مخصوص کر دئیے ہیں اور صنف طاقت ور کو صرف وجیہہ پر ہی ٹرخایا جاتا ہے۔

پر اس وقت اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ حسن اور جوانی کے اس مجسمے کو کیا نام دے جو درخت کے نیچے کھڑا لشکارے مارتا تھا۔

غلام حیدر نے مصافحہ کیا۔ احوال پرسی کی۔ اس کا تعارف کروایا اور چائے کی پیش کش سے معذرت کرتے ہوئے دائیں طرف مڑ گیا۔ پھر ایک جگہ رکا اور بولا۔

یہ ہے وہ تاریخی جگہ جہاں سے سرنگ کھودی گئی۔

پھر غلام حیدر ایک صاف ستھری جگہ پر اخروٹ کے پھیلے ہوئے درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گیا تھا۔ وہ بھی پاس ہی پڑے ایک چھوٹے سے پتھر پر ٹک گئی۔

’’در اصل جب برصغیر میں مسلمان پاکستان کے لئے جد و جہد کر رہے تھے۔ اس وقت جموں میں میجر محمد دین، کیپٹن حسن (مرحوم کرنل مرزا حسن)، میجر احسان علی اور مہاراجہ کی فوج کے بعض مسلمان افسروں نے ایک خفیہ میٹنگ میں طے کیا تھا کہ وہ جہاں جہاں تعینات ہو جائیں وہاں کا مسلح بغاوت کے ذریعے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا جائے گا۔

اسی وقت محمد یوسف وہاں سے گزرا، غلام حیدر کو بیٹھے دیکھ کر حیرت زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوسی سے بھی چلایا۔

’’ کمال ہے یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘

’’میرے دوست کا بیٹا ہے اور ان دنوں کی پیداوار ہے جب سکر دو میں مارٹر، مشین گن، برین گن اور رائفلوں کی آوازوں کے سوا کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ یہ ذہین نوجوان اب کتابیں لکھتا ہے۔‘‘

محمد یوسف حمید گڑھ جا رہا تھا۔ وہ انہیں بھی اپنے ساتھ گھسیٹ کر لے گیا۔

ایک بڑی سی عمارت کے پاس پہنچ کر محمد یوسف بولا۔

’’یہاں وزیر وزارت (ڈپٹی کمشنر) لالہ امر ناتھ کو گولی مار کر جہنم رسید کیا گیا تھا۔ بڑی دلچسپ تفصیل ہے۔ اس وقت منصوبے کے مطابق مجاہدین نے چھاؤنی میں فائرنگ شروع کر دی تھی۔ جمعدار رحیم دادا اپنی پلاٹون کے ساتھ حمید گڑھ کی طرف روانہ ہوا کہ خزانے کی کنڈیاں توڑ کر رقوم سکمیدان پہنچائی جائیں۔ خزانے کو توڑ لیا گیا۔ جب دفعتاً وزیر وزارت لالہ امر ناتھ اپنی رہائش گاہ سے خزانے کی طرف آیا۔ اس وقت سپاہی سرفراز خان خزانے کے سامنے دروازے پر پہرہ دیتا تھا۔ امر ناتھ نے پوچھا۔ ’’یہ نیچے چھاؤنی کی طرف سے فائرنگ کی آواز کیسی آ رہی ہے؟‘‘ سرفراز خان نے نہایت ہوشیاری سے فی الفور جواب دیا۔

’’صاحب کل شام جو نئی نفری کرگل سے پہنچی ہے، وہ اپنے ہتھیاروں کی صفائی کے بعد انہیں ٹیسٹ کر رہی ہے۔‘‘

امر ناتھ بحث پر اُتر آیا تھا۔ سرفراز خان جواب پر جواب دئیے جا رہا تھا۔ جب اچانک اُسے شک گزرا۔ اُس نے پستول نکالا۔ فائرنگ کرنے ہی لگا تھا۔ جب سرفراز خان پیچھے کی طرف جھپٹا اور اسے گردن سے دبوچ کر گھسیٹا ہوا سٹرانگ روم میں لے گیا۔ اسی کے پستول سے پل بھر میں اس کا کام تمام کر دیا۔

حمید گڑھ میں محمد یوسف کی بہن کے گھر کھانا کھاتے ہوئے، غلام حیدر نے کہا۔

’’میری بیٹی! میں تمہیں اس بلتستان کی ایک جھلک ضرور دکھاؤں گا، جو ڈوگرہ راج میں تھا۔‘‘

٭٭٭

 

 

باب نمبر۱۱

 

 

حماقت تھی اس کی جب مر چھا آنا ہی تھا تو زخ (مشکوں اور لکڑی کے ڈنڈوں سے بنی ہوئی کشتی) میں آ جاتا۔ اب ہلچو کزم( توت کے درختوں کی جڑوں کے چھلکے سے بنی ہوئی رسیوں کا پل)کے رسے پر چلتے ہوئے آدمی پریشان کن سوچوں میں گھرا ہو تو نیچے دریائے شیوق کے یخ پانیوں میں گرتے کیا دیر لگتی ہے ان دنوں سلتورہ کی برفانی چوٹیوں سے یخ نالوں میں بہنے لگی تھی اور شیوق کا پاٹ چوڑا ہو رہا تھا۔

وادی سکسہ کا غلام حیدر تین سال قبل کشمیر کے راستے مغربی پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں مزدوری کرنے آیا ہوا تھا۔ گو کہ برصغیر کے حالات مخدوش تھے۔ محنت مزدوری میں پیسہ کم تھا۔ پھر بھی اس نے جی جان سے محنت کی۔ ان دنوں سیالکوٹ کے پاکستان میں شامل ہونے کا بھی شور تھا۔ مسلمان ہونے کے ناطے اس کی ساری ہمدردیاں اس نئے دیس کے ساتھ تھیں۔ جب وہ دن بھر کی کڑی مشقت کے بعد سونے کے لئی لیٹتا تو ایک سوال اپنے آپ سے ضرور کرتا۔

’’کیا میرا بلتستان پاکستان میں شامل ہو سکے گا؟ یا اللہ! میرے بلتستان کو بھی ڈوگرہ غلامی سے نجات دے۔‘‘

یہ دعائیہ جملے کہہ کر وہ فی الفور اپنی آنکھیں بند کر لیتا۔

ان تین چار سالوں میں اسے کل پانچ خط ملے۔ پہلے خط میں اس کی اکلوتی بہن کی بیوگی کی اطلاع تھی۔ اس کے باپ نے لکھا تھا۔  زینب کو ان لوگوں نے میکے بھیج دیا ہے۔ اس کے خاوند نے اس کے لئے کوئی وصیت ہی نہیں لکھی تھی۔

دوسرے سال دوسرے خط میں سلتورہ گلیشیئر کے تودے ٹوٹ کر شیوق میں گرنے سے ان کے کھیت اور وادی کا کچھ حصہ بہہ جانے کی خبر تھی۔ اس نے یہ لکھا تھا۔ میرا خیال تھا میں اس بار کنگنی، ترمبہ اور چینا بوؤں گا۔ زینب نے میرا ارادہ جان کر کہا بھی۔

’’چھوڑو ابا! کنگی اور ترمبہ کو کیا بوتے ہو۔ ایسی بد ذائقہ روٹی ہوتی ہے ان کی۔‘‘

پر میں تو ڈھیر سارا اناج اُگانے کے منصوبوں میں غرق تھا۔ بیج بھی ڈال دیا تھا پر نہیں جانتا تھا کہ یہ پانچ کھیت بہہ جائیں گے۔ پر بچہ یہ نقصان تو ہوا۔ اب تمہیں اس کے متعلق کیا لکھوں کہ اوپر والے وہ چار کھیت جسے تم نے اور میں نے جان مار کر آباد کیا تھا اور ان کے انتقال کے لئے پٹواری کو بھی رپورٹ کر رکھی تھی۔ پر اس کی حرامزدگی تو دیکھو، اس نے اعتراض لگا دیا کہ زمین کو نو توڑ کئے جانے سے پہلے اجازت کیوں نہیں ملی۔ زمینی انتقال کی ساری تاریخ میں ایسے اعتراض کی ایک مثال نہیں ملی۔ پر بچہ انہیں کون کہے۔ ستم یہ کہ نقد مالیہ اور جنس لگان بھی ہمارے ذمہ لگا دی۔

اوپر سے راجہ کے خدمت گار اپنا لگان وصول کرنے آ گئے۔ ابھی ان مصائب سے کمر سیدھی نہ کرنے پایا تھا کہ کنگ سکن (نائب نمبر دار) کا پیغام آیا کہ تحصیلدار (نائب وزیر) لداخ سے آتا ہے۔ ’’پیون‘‘ پڑاؤ پر جانا ہے حکم حاکم مرگ مفاجات والا معاملہ تھا سمجھ نہیں آتی تھی، کہ تھب ستد (باورچی کا نذرانہ) کے لئے کیا پیش کروں گا۔ بچہ ’’ بیگار سسٹم‘‘ بلتی قوم کے نحیف و نزار جسم پر وہ جونک بن کر چمٹ گئی ہے جو اس کا رہا سہا خون پی پی کر کپا ہوئی جاتی ہے۔

ہاں علی حسین کے کھیت بھی بہہ گئے ہیں۔ وہ بھی میری طرح پریشانیوں کی چکی میں پس رہا ہے۔ بلکہ یہ کہوں کہ پچاس کے پچاس کرائے کے ٹٹو ایسی ہی مجبوریوں سے دو چار تھے، غلط نہیں۔ بس تو اس دن میں نے سوچا کہ میں ہل چنگرا (چوپال جا کر کہے دیتا ہوں کہ یا تو مجھے آدھا کھل (۲من ۲۰ سیر یعنی ۱۰ ٹوپے ) دیں کہ میرے تھب ستد (باورچی کا نذرانہ) کا بندوبست ہو سکے یا پھر میرا نام کاٹ دیا جائے۔ جب میں نے ہل چنگرا (چوپال) اس کا اعلان کیا۔ سرپنج مجھے کھانے کو دوڑا۔

میں نے گائے کھونٹے سے باندھی اور پڑاؤ پر پہنچا۔ اس دن شام بہت جلدی ہو گئی تھی۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ گھر میں زینب اس کے بچوں اور تمہاری ماں کے لئے گندم یا چاول یا ترمبہ کا ایک ٹوپہ تک نہ تھا۔ صبح زینب نے بچوں کو خشک خوبانیوں کا رس پلایا۔ تو انہوں نے کہا۔

’’ماں تم اب کتنے دن ہمیں یہی پلاتی رہو گی۔‘‘ اور زینب نے پلّو سے آنکھیں پونچھ کر کہا۔

’’میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ جو نصیب میں ہے بھگتنا ہو گا۔‘‘

بس ایک بکری تھی جو دودھ دیتی تھی چاہے وہ اس کا دودھ پئیں اور چاہے اس کا گوشت کھائیں۔ اب یہ ان کی مرضی تھی۔ مجھے تو چالیس دن پڑاؤ پر رہنا تھا۔

’’یہ گوتب (کاشت کا پہلا وقت) کے دن تھے، اور میں گھر سے غائب ہو رہا تھا۔ تم شاید میرے جذبات کا اندازہ نہ لگا سکو۔ کتنا یاد آئے تھے تم مجھے۔‘‘

میں نے پڑاؤ پر پہنچ کر کنگ سکن (نائب نمبردار) کو بتایا کہ میرے پاس خشک تھب ستد (باورچی خانہ) نہیں ہے۔ اس نے زوردار لات میرے کولہے پر ماری اور ناک چڑھا کر بولا۔

’’نہیں ہے تو میں کیا تیری بوٹیاں انہیں کھلاؤں گا۔‘‘

نوٹ:

بلتستان کے طول و عرض میں ہر پڑاؤ پر اُسی کے گرد و نواح کے دیہاتوں میں سے پچاس قلی اور پانچ گھوڑے ہمہ وقت حاضر رکھے جاتے تھے۔ یہ سرکاری مہمانوں کے لئے تھا۔ کہ ایک پڑاؤ سے انہیں دوسرے پڑاؤ تک پہنچایا جائے۔ ہر گھرانے کو سال میں چالیس روز تک پڑاؤ ’’بیگار‘‘ کی ڈیوٹی دینی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے کھانے پینے کا اہتمام بھی اپنی گرہ سے کرنا پڑتا تھا۔

اور اس نے پھر کارندوں کو حکم دیا کہ میرے گھر جا کر گائے کھول لائیں اور وہ اکلوتی گائے جس میں میری جان پھنسی ہوئی تھی، وہ لوگ لے گئے۔ میری آنکھوں کے سامنے اس کا سودا ہوا اور وہ اونے پونے بکی تحصیل دار کی بارہ من پکے بوجھ والی بیوی، اس کے موٹے موٹے بچے اور دو کتے پالکیوں میں بیٹھے اُٹھائے نہیں جاتے تھے۔ لگتا تھا جیسے پالکیاں ان کے بوجھ سے ٹوٹ جائیں گی۔ غم نے مجھے ادھ موا کر دیا تھا۔ جی چاہتا تھا پالکی کسی کنکر کی مانند ہوا میں اُچھال دوں۔ جو بل کھاتی، ہوا کے دوش پر لہراتی، دریائے شیوق میں گرے اور یہ بھاری بھر کم وجود کہیں کنارے پر بتیسی نکالے پڑا ہو۔

پر بچہ تصورات کا کیا ہے۔ تصورات میں تو میں اپنے بلتستان کو اسی عروج پر دیکھتا ہوں جس پر یہ کبھی تھا۔ اس کا وہ ترقی یافتہ تہذیب و تمدن، جس پر یہ نازاں تھا۔ اس کی فوجیں جو یلغار کرتی ہوئی تبت اصلی سے ہندوکش کے پار تک چلی گئی تھیں۔ یہ میرا بلتستان جس کی عظمت نے مغلیہ شاہوں کو بھی اس کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یوں کہ اکبر اعظم اپنے بیٹے سلیم کے لئے پہلی ملکہ کا انتخاب بلتی شاہی خاندان سے کرتا ہے۔

ارے بیٹے! میرا جی چاہتا ہے میں صور اسرافیل بن جاؤں اور ہر بلتی ماں کے کانوں میں یہ پھونک دوں کہ وہ ایک اور علی شیر خان انچن جن دے۔ صرف ایک اور علی شیر خان انچن جو اس طوق کو ہمارے گلوں سے اُتار پھینکے کہ اس نے سارے سریر میں کوڑھ پھیلا دیا ہے۔

اور جس دن غلام حیدر کو یہ خط ملا تھا وہ تکیے میں منہ دے کر بہت رویا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ صبح کے روشن ستارے کی طرح سکینہ خط میں سے نکل کر اس کے سامنے نہیں بیٹھی تھی۔ وہ روتا رہا۔ پھر اس نے آنسو پونچھے اور اپنے آپ سے کہا۔

مسلمان قوم کبھی غداروں سے پاک نہیں ہو گی۔ بنگال ہو یا غرناطہ، میسور ہو یا بلتستان، اب بھلا مقپون شہزادے محمد خان اور شیر خان باہم مل کر اس قوم کی غیرت کا دیوالیہ نکالنے کے درپے نہ ہوتے تو کئی بلتیوں کو غلامی کی زنجیریں پہنا سکتا تھا۔ ڈوگرہ وزیر زور آور سنگھ چے چے تھنگ آ کر رک گیا تھا۔ دریا پار کرنے کی کوئی سبیل نہیں تھی۔ چے چے تھنگ کے بالمقابل ونگو اور تھمو خان میں بلتی فوج کے مورچے تھے۔ سردی زوروں پر تھی۔ شیر خان غدار نے دریا کے بیچوں بیچ بلیاں پھنسوائیں۔ بہہ کر آنے والے یخ کے ٹکڑے رک گئے اور ڈوگرہ فوج دندناتی سر پر پہنچ گئی۔

بس اس طرح سکر دو کے کھر پوچو قلعے پر قبضہ ہو گیا۔ مقپون خاندان کے آخری بادشاہ، احمد شاہ سے اسی بدبخت شیر خان نے قسم کھا کر کہا۔ زور آور سنگھ کا اس ملک پر قبضہ جمانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ وہ تو تمہارے بیٹے کی تم سے صلح کروانے آیا تھا۔

بس تو اتنی سی بات تھی قسم پر اعتبار کیا اور ملک گنوا بیٹھا۔

اور جب وہ اُٹھا، وہ ایک بار پھر اپنے آپ سے بولا تھا۔

’’ جب حاکم کمزور ہو جائیں تو غدار پیدا ہوتے ہیں اور وہ ملک کی قسمت کو محض اور محض اپنے مفاد کے لئے داؤ پر لگاتے ہیں۔‘‘

چوتھا خط سکینہ کے بارے میں تھا۔ اس کا باپ مر گیا تھا۔

اور جب چار سال پورے ہونے میں کوئی دس دن باقی تھے، وہ دیس آ گیا تھا۔

کل کوئی گیارہ بجے پہنچا تھا۔ ہل چنگرام میں سارا گاؤں اکٹھا ہو گیا تھا۔ اس نے جوش و خروش سے بر صغیر کی صورت حال کے بارے میں بتایا۔

پاکستان بس انشاء اللہ ایک دو ماہ میں وجود میں آنے والا ہے۔ اس کی اس بات پر لوگوں کے چہرے خوشی سے کھل گئے تھے۔

پر اس خوشی کا چہرہ ماند پڑ گیا تھا۔ جب انہوں نے سکھوں اور ہندوؤں کے ہاتھوں نہتے بے گناہ مسلمانوں پر ظلم و ستم سنے۔

خدا انہیں غارت کرے۔ خدا مسلمانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

ڈیڑھ بجے ’’مرچھا‘‘ کے لئے چلا۔ اسے سکینہ سے ملنے کی بہت جلدی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب نمبر ۱۲

 

پتھروں کے تین پائیدان چڑھ کر وہ انگنائی میں داخل ہوا تھا کچے آنگن کے مشرقی کونے میں بید مجنوں کی ٹہنیوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ انگنائی کے ساتھ ہی دھوئیں کی سیاہی سے لپا پتا باورچی خانہ جس کی غربی دیوار پر منجھے ہوئے سلور کے برتنوں کی چھوٹی سے قطار تھی۔ وہ اب دہلیز پر کھڑا تھا۔ چھوٹے سے کمرے میں بچھی چٹائی پر سکینہ کی ماں ظہر کی نماز پڑھتی تھی۔ اس نے سلام پھیرا اور دروازے میں اسے کھڑے دیکھا۔ وہ آگے بڑھا۔ جھکا دولت بی بی نے اس کا ہاتھ چوما اور اپنے پاس چٹائی پر بٹھا لیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ قریبی پہاڑ پر جا رہا تھا۔ جہاں سکینہ بھیڑ بکریوں کو چرانے گئی ہوئی تھی۔ سکینہ وادی مرچھا میں صبح کے ستارے کی مانند چمکتی تھی۔ غلام حیدر اوپر جا کر بہت دیر تک اِدھر اُدھر دیکھتا رہا یہاں پانی تھا۔ گندم کے بوٹوں نے سرنکال رکھے تھے۔ سبزہ پھوٹا ہوا تھا۔ سارے میں ہریالی کا راج تھا۔

بکریاں کھیتوں کی طرف آ گئی تھیں۔ جنہیں ہٹانے کے لئے سکینہ یک دم بغلی پہاڑ سے برآمد ہوئی اور اسے سامنے کھڑے پا کر مبہوت سی ہو گئی۔ وہ واقعی غلام حیدر ہے یا اس کا کوئی ہیولا۔

اور جب اس کا وہم یقین میں بدلا تب اس کے ہونٹوں پر بڑی دلکش سی ہنسی پیدا ہوئی۔ اس نے سر جھکایا اور انگوٹھے کے ناخنوں سے زمین کھرچتے ہوئے بولی۔

’’ مجھے یقین نہیں آتا یہ حقیقت ہے یا وہ خواب جو میں ہر روز دیکھتی ہوں۔‘‘

آسمان کا سورج عین اس کے ماتھے پر چمک رہا تھا اور زمین کا سورج عین اس کی آنکھوں میں روشنیاں بکھیر رہا تھا۔

زمین کا سورج آگے بڑھا۔ اس کے شانوں پر اس نے اپنے ہاتھ رکھے اور بولا۔

’’ہاں یہ میں ہوں۔ تمہارا غلام حیدر کیا بیٹھنے کے لئے نہیں کہو گی؟‘‘

اور جب وہ دونوں ایک جھاڑی کے پاس بیٹھ گئے تو سکینہ نے پوچھا تھا۔

’’کہو کیسے رہے، نیچے کے لوگوں کا کیا حال تھا؟‘‘

اس نے بالکل اپنے پاس پھیلی چھر چھو (کانٹے دار جھاڑی) کو بغور دیکھا اور بولا۔

’’نیچے حالات خراب ہیں۔ ہندوؤں مسلمانوں اور سکھوں میں دنگا فساد ہوتا ہے۔ مسلمانوں نے اپنا الگ وطن پاکستان بنا لیا ہے۔‘‘

’’پاکستان‘‘۔ سکینہ نے کہا۔

’’ ہمیں بھی اس کا فائدہ ہو گا۔‘‘

’’فائدہ۔‘‘

غلام حیدر نے اس کی خوبصورت آنکھوں میں یوں جھانکا جیسے کوئی دانا کسی احمق کی آنکھوں میں جھانکتا ہے۔

’’ہم بھی آزاد ہوں گے۔ پاکستان ہمارا بھی وطن ہو گا۔‘‘

’’ہاں تو سکینہ مجھے بتاؤ گی کہ تم نے مجھے کتنا یاد کیا؟‘‘

اور سکینہ کی آنکھوں میں فوراً نمی اُتر آئی۔ اس نے نیلے نکھرے روشن آسمان کو دیکھا۔ چاکلیٹی پہاڑوں پر اس کی نظریں تیرتی پھریں۔ پھر وہ غلام حیدر کی طرف مڑی۔ اس کا شہابی چہرہ اور شہابی ہو گیا تھا۔ جب اس نے کہا۔

’’ یہ بتانا کس قدر مشکل ہے مجھے لکھنا نہیں آتا تھا ورنہ تمہیں ضرور لکھتی مجھے تو گانا آتا ہے اور میں گاتی تھی یہیں اِن جگہوں پر ان ہی پہاڑوں پر میری آواز گونجتی تھی یہی میرا دُکھ درد سنتے تھے۔‘‘

’’سکینہ مجھے وہ گیت نہیں سناؤ گی؟‘‘

چولی چن لہ گوانا منگمو سے سمنے یود

نی رے چی بیور چن مید پنا چولی جیسم شید

تورے خان چو

ترجمہ:       میں جب خوبانی کے باغ میں گئی تو (دیکھا) بہت ساری خوبانیاں پکی ہوئی ہیں۔ میرے گھبرو کے نہ ہونے سے یہ خوبانیاں بے ذائقہ لگتی ہیں۔

اے حیدر خان!

میں جب گلاب کے باغ میں گئی تو (دیکھا) بہت سارے گلاب کھلے ہوئے ہیں۔ میرے گھبرو کے نہ ہونے سے یہ گلاب بد رنگ لگتے ہیں۔

اے حیدر خان راجہ۔

سکینہ تم اس راجہ حیدر خان کو جانتی ہو جس کے لئے کوئی یہ گیت گاتا ہے۔

وہ ذرا ہنسی اور بولی۔

’’کوئی ہو گا پر میں تو یہ جانتی ہوں کہ کسی نے شاید یہ گیت میرے لئے اور صرف میرے لئے اور صرف میرے لئے ہی کہا ہے۔‘‘

اور غلام حیدر نے اپنے ہاتھوں کے پیالے میں اس کا سیندوری چہرہ تھاما۔ اس کی آنکھوں میں جھانکا اور بولا۔

’’اے کاش! ایسا کوئی گیت تم میرے لئے بھی کہو اور وہ گیت تمہارے ہونٹوں سے پھسلتا لوگوں کی زبانوں پر آ جائے۔ سکینہ یہ گیت تو اس دل کی پکار تھی۔ جسے حیدر خان اماچہ راجہ شگر سے پیار تھا۔ عشق تھا۔ یہ گیت تو ایک نوحہ ہے جس میں اس کی سسکیاں اور آہیں سنائی دیتی ہیں۔‘‘

حیدر خان اماچہ بلتستان کا وہ مایہ ناز بیٹا، جس پر بلتی قوم کو فخر ہے۔ اس کا دم گھٹتا تھا۔ جب وہ اپنی قوم کو ڈوگرہ غلامی میں دیکھتا تھا۔ اس کا خون کھولتا تھا کہ ہر سو غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کا راج تھا۔ اس کی محبوبہ تمہاری ہی طرح تھی۔ نوخیز کلی جو ابھی پوری طرح کھِلی بھی نہ تھی۔ اسے پیار تھا حیدر خان سے۔ اسے عشق تھا اس کی شہ زوری سے۔ اس کی آنکھوں کے جگنو اسے دیکھ کر ٹمٹماتے تھے۔ اس کے رخسار اسے اپنے سامنے پا کر دہک اُٹھتے تھے۔ پر یہ کیسا پیار تھا؟ جس کی زبان نہیں تھی؟ یہ کیسی آگ تھی جس میں حرارت نہیں تھی؟

حیدر خان تو تن من دھن قوم کے لئے وقت کئے بیٹھا تھا۔ اسے کہاں فرصت تھی کہ وہ دیکھتا کہ کسی کی خاموش آنکھیں اسے کوئی پیغام دیتی ہیں۔ اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں صرف ایک خواب جھلملاتا تھا، جو آزادی کا تھا۔

اس کے شب و روز کاظم بیگ راجہ سکر دو، علی خان راجہ روندو اور خورم خان راجہ کیریس کے ساتھ صلاح مشوروں میں گزرتے۔ وہ آندھی کی طرح محل میں داخل ہوتا اور بگولا بن کر نکل جاتا۔

یہ ۱۸۴۲ء کا آغاز تھا۔ جب اس نے زوردار جنگ لڑی اور غلامی کے اس طوق کو اُتار پھینکا۔ درختوں پر شگوفے مسکرائے ہی تھے۔ پہاڑوں کی برف نے تشکر کے آنسو بہا نے شروع کئے تھے۔ بلتستان کے لوگوں نے سجدہ شکر سے سر ابھی اُٹھایا ہی تھا کہ قیامت پھر ٹوٹ پڑی۔

یہ وہ دن تھے جب پوریگ اور لداخ میں بھی آزادی کی جد و جہد عروج پر تھی۔ اس بار مہاراجہ گلاب سنگھ نے دیوان ہری چند کو تین ہزار فوجیوں کے ساتھ بلتستان بھیجا اور وہ، ننگ دین اور ننگ ملت شیر خان غداری کے لئے پھر تیار تھا اس غدار نے دیوسائی چور دروازوں سے فوج کو سکر دو میں داخل ہونے کو کہا۔ پہرے داروں نے لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے۔ لیکن جب سیندھ لگ جائے تو دیواریں کب مضبوط رہتی ہیں۔ جب گھر کو گھرکے چراغ سے آگ لگے تو تباہی ہی مقدر بنتی ہے۔ حیدر خان قلعہ کھرپوچو میں محصور ہوا۔ ان غداروں نے قلعے کے بڑے محافظ وزیر محمد علی ہلچہ فٹ پاکو لالچ دے کر قلعے کا پھاٹک کھلوا دیا۔

کیسی قیامت تھی۔ ایک ایک کو پکڑ کر قتل کیا۔ بس وہ بھی کہیں بھاگ نکلی۔ ایک معمر عورت نے بارود خانے کو آگ لگا دی تاکہ نوخیز لڑکیاں جل مریں۔ حیدر خان گرفتار ہو کر جموں قید ہوا اور وہیں قید میں ہی فوت ہو گیا۔

اور وہ پاگلوں کا روپ دھارے قریہ قریہ گاؤں گاؤں گھومتی گاتی پھرتی۔ بس تو یہ گیت اسی کے دل کی پکار تھی۔

’سکینہ تم یہ گیت پھر گاؤ۔‘‘

وہ پتھروں پر نیم دراز ہو گیا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ سکینہ کی لوچدار رسلی آواز پہاڑوں سے ٹکر ا کر اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔

دیر بعد جب اس نے آنکھیں کھولیں۔ اُٹھ کر بیٹھا اور بولا۔

’’سکینہ اگر میں بھی بلتستان کو آزاد کرانے کی جد و جہد میں شہید ہو جاؤں، تو تم ایسا ہی گیت میرے لئے گایا کرو گی۔‘‘

’’غلام حیدر! تم شہادت کا ہی کیوں سوچتے ہو؟ کیا غازی بننا تمہارے مقدر میں نہیں۔‘‘

اور اُس نے فی الفور اپنا رُخ اس کی طرف پھیرتے ہوئے اک وارفتگی سے کہا۔

’’میں حیران ہوں تو اتنی خوب صورت سوچ رکھتی ہے۔‘‘

اور پھر دونوں ریوڑ کو لے کر نیچے اُترے۔ اس نے کھانا کھایا اور واپسی کے لئے چلا، اور ابھی وہ دریائے شیوق کے کنارے پر کھڑا تھا۔ جب اس کنگ سکن (نائب نمبردار) کے کارندے نے پیغام دیا کہ اس کے گھر کے ایک آدمی کو پڑاؤ پر جانا ہے۔ شام سے پہلے وہ تھب ستہ (باورچی کا نذرانہ) کے ساتھ پہنچ جائے۔

اور ہلچو کزم کے رسوں پر پاؤں رکھتے ہوئے اس کی سوچیں پریشان کن ہونے کے ساتھ ساتھ باغیانہ بھی تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

باب نمبر ۱۳

 

برف پوش پہاڑوں کی وہ صبح بہت ٹھنڈی تھی۔ ہوائیں رگ رگ کو برچی کی طرح کاٹتی تھیں۔ دراز قامت وجہیہ رعنا جوان وادی روند کا تاجدار اپنے سرکاری امور کی بجا آوری کے لئے ’’گائنیچی‘‘ آیا ہوا تھا۔ اس وقت آگ کی طرح دہکتی بخاری نے پورے کمرے میں حرارت پھیلا رکھی تھی۔ وہ نمکین چائے کا پیالہ لبوں سے لگاتا، گھونٹ بھرتا اور قالین پر رکھی چھوٹی میز پر پڑی فائل پر نظریں جما دیتا۔ اس فائل میں وہ کاغذات تھے جو مہاراجہ کشمیر کی طرف سے موصول ہوئے تھے۔ جن میں راجاؤں کے لئے پرانی مراعات کے علاوہ نئی مزید اور پُر کشش مراعات کا اعلان تھا۔

ملازم کمرے میں داخل ہوا۔ آداب بجا لاتے ہوئے بولا۔

’’جناب: حراموش کا ایک نوجوان آیا ہے۔ بولتا ہے اسے آپ سے بہت ضروری کام ہے۔‘‘

محمد علی خان نے فائل بند کی۔ پیالہ خالی کیا اور بولا۔

’’بھیجو!‘‘

ایک نوجوان اندر آیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ آنے والے کے آنکھوں میں چیتے جیسی چمک تھی۔ اس کا کرخت با رعب چہرہ اس کے فولادی عزم کو ظاہر کرتا تھا۔ مقامی کھڈی کے بنے ہوئے پٹو کی شلوار قمیض، پاؤں میں پھوشو (خاص قسم کے چمڑے کا جوتا) اور ہاتھ میں ۳۰۳ کی رائفل۔

راجہ روندو کی عقابی آنکھوں نے آنے والے نوجوان کو چند لمحے بغور دیکھا۔ نوجوان نے کہا۔

’’اجازت ہو تو آپ کے قریب آ جاؤں۔‘‘

’’آؤ یہاں بیٹھو۔‘‘

وہ بیٹھا اور بولا۔

’’شاید آپ کو معلوم نہ ہو گلگت میں انقلاب آ چکا ہے۔ یکم نومبر کی صبح کو پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج میں گورنر ہاؤس پر ڈوگرہ پرچم کی جگہ پاکستان کا ہلالی پرچم لہرا دیا گیا ہے۔ بونجی چھاؤنی۔‘‘

راجہ روندو کے چہرے پر یک لخت حیرت و مسرت کے جذبات نمودار ہوئے۔ انہوں نے بات کاٹ کر پوچھا۔

’’ کس کی کمان میں؟‘‘

’’کیپٹن (اس وقت کیپٹن بعد میں کرنل) مرزا حسن کی زیر قیادت۔‘‘

راجہ روندو مسکرایا۔

یہ آتش بجان جو ان کشمیر ہی سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرتا ہوا آیا تھا۔

’’ہاں آگے بولو۔‘‘

’’تین، چار نومبر کو بونجی چھاؤنی کا کامیاب آپریشن ہوا ہے۔ ایک پلاٹون نے رام گھاٹ پل کو مسدود پا کر روندو کے راستے سکر دو کا رخ کیا ہے۔ مجھے مرزا حسن خان نے اسی کی سرکوبی کے لئے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں آپ کے تعاون سے اس پلاٹون کو راستے میں ہی واصلِ جہنم کروں۔‘‘

’’اپنے بارے میں کچھ بتاؤ۔ ‘ ‘ راجہ محمد علی خان نے استفہامیہ نگاہیں اس کے چہرے پر گاڑ دیں۔

’’میں حراموش کھلتا رو کا بختاور شاہ ہوں۔ میں قاتل ہوں۔ مفرور ہوں۔ حکومت ہند کو مطلوب ہوں۔ جہاد کے لئے بونجی پہنچا تھا۔ وہیں میں نے اپنے آپ کو اس اہم کام کے لئے پیش کر دیا۔

’’ تم باہر انتظار کرو۔‘‘

اور اس کے جانے کے بعد وہ وجیہہ جوان اُٹھا جس کی عمر کا ایک حصہ جاگیرداری روایات میں گزرا تھا۔ اس نے کمرے میں چند چکر لگائے اور تب اپنے آپ سے کہا۔

’’میں کبھی یہ نہیں چاہوں گا کہ مستقبل کا مورخ یہ لکھے کہ راجہ روندو نے اپنے مفادات کی خاطر قوم کے پاؤں میں پڑی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی بجائے ان میں مزید قفل لگا دئیے۔ میری یہ حقیر سی جان اسلام پر قربان۔‘‘

میندی کے پل پر بختاور شاہ کا سامنا بونجی چھاؤنی سے بھاگی ہوئی سکھ پلاٹون سے ہوا۔ جنگی چالوں سے ناواقف ہونے کے باوجود وہ شیر دل ان سب پر حاوی ہوا اور اس نے انہیں شدید نقصان پہنچا کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔

اور وادی روندو کا تاجدار اپنے قریب و جوار میں ڈوگرہ فوج کی موجودگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دیوانہ وار اس جنگ میں کود پڑا۔ تین سو رضاکاروں پر مشتمل ایک رضا کاردستہ مرتب کیا۔ جن کے پاس سکھوں سے حاصل کی ہوئی رائفلوں کے علاوہ پرانی ماشہ دار اور ٹوپی دار بندوقیں تھیں اس دستہ نے بڑی جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے گربی داس تو نگرس اور باغیچہ کے سوا روندو کا باقی سارا علاقہ ڈوگرہ فوج سے آزاد کرا لیا۔

مزید آگے بڑھنے سے قبل انہوں نے مرزا حسن خان کا تعاون مانگا۔

سکر دو میں حالات بہت نازک تھے۔ وادی روندو کے واقعات نے ڈوگروں کے ساتھ بلتیوں کی عدم وفاداری بالکل بے نقاب کر دی۔ لیکن مسلح جد و جہد کے لئے گلگت کی طرح یہاں مقامی سکاؤٹس نہیں تھے۔ چند سابق فوجی اور وہ بھی غیر مسلح۔ ڈوگرہ انتظامیہ نے راجہ روندو کو گرفتار کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ لیکن وہ قابو نہ آئے۔ اس دوران انہوں نے سکر دو کے سر کردہ لوگوں جن میں غلام وزیر مہدی، حکیم محمد لطیف اور راجہ محمد حسین شامل تھے کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

ان حالات میں میجر احسان علی آزاد فورس کے ساتھ بلتستان پہنچ گئے۔

انہوں نے فوج کی تنظیم نو کے بعد رنگروٹوں کی تربیت شروع کر دی۔ سکر دو میں ڈوگرہ چھاؤنی تھی۔ سابق سکستھ جموں اینڈ کشمیر انفنٹری بٹالین کو پھر سے منظم کیا جار ہا تھا۔ سری نگر بھی زیادہ دور نہیں تھا۔ جہاں تربیت یافتہ ریاستی فوج تباہ کن ہتھیاروں سے لیس کھڑی تھی۔ اس کی پشت پر انڈین آرمی اور ائیر فورس بھی تھی۔ دشمن کے حملوں کی صورت میں پاکستان سے فوری امداد بھی نا ممکن تھی۔ کیونکہ کوئی آسان زمینی راستہ موجود نہ تھا ہوائی سروس کے لئے پاکستان کے پاس ہوائی جہازوں کی سخت کمی تھی۔ پاکستان اس وقت یوں بھی اپنے مسائل میں گھرا ہوا تھا۔ ہوائی راستہ خطرناک ترین راستوں میں سے تھا اور سب سے بڑھ کر موسم ناقابل اعتبار تھا۔

ان حالات میں سکر دو چھاؤنی کا پہلا محاصرہ کیا گیا اور وہ ناکام ہوا۔ ڈوگرہ فوج مورچوں سے نکلی اور سارے سکر دو میں قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا۔

اب لوگوں کے لئے صرف دو صورتیں باقی رہ گئی تھیں کہ یا تو اپنے تئیں ڈوگروں کے حوالے کر دیں یا پھر ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہاں تک کہ لڑتے لڑتے ان سے آزادی حاصل کر لیں یا پھر شہادت کے درجہ پر فائز ہو جائیں۔

بس تو دوسرا راستہ اختیار کیا گیا اس میں دینی جذبے کی تسکین کا سامان بھی تھا۔ اب یہی صورت تھی کہ پسپائی اختیار کرنے والی فوج کو واپسی پر مجبور کیا جائے۔ اسے ہر تعاون کا یقین دلایا جائے چنانچہ راجہ سکر دو نے اٹھارہ رکنی وفد اپنے بیٹے کی سر کردگی میں فورس کے تعاقب میں روانہ کیا جو میجر احسان علی سے قمراہ میں ملا۔ میجر احسان اور میجر بابر خان دونوں قمراہ میں آغا سید علی کے گھر میں تھے اور روندو کی جانب واپسی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ان کی فوج دا سوتک تتر بتر ہو چکی تھی۔ میجر احسان علی نے مقامی لوگوں کی عدم شمولیت کا بھی گلہ کیا۔ بڑی بحث تکرار کے بعد میجر احسان واپسی کے لئے رضامند ہوئے۔

۹ فروری کو پرکشاق پر متعین ڈوگرہ فوج سے جھڑپ ہوئی۔ پر کشاق پر متعین میجر کرشن سنگھ میجر احسان علی کا واقف تھا۔ وہ اور اس کے ساتھی کئی دنوں سے کئی فٹ برف میں بھوکے غاروں میں چھپے بیٹھے تھے۔ اس نے بہتیرے طرے مارے کہ اسے زندہ میجر احسان کے سامنے پیش کیا جائے پر بپھری ہوئی فوج نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو چنار پڑی پر گولی سے اڑا دیا۔

بارہ فروری کو شگر میں پاکستان کا پرچم لہرا دیا گیا۔ شگر کے راجہ نے آزاد فورس کی مدد کے لئے رضا کاروں کے دستے بھیجے اور اشیائے خورد و نوش کی فراہمی کا سلسلہ جنگ بندی تک جاری رہا۔ لیفٹنینٹ بابر خان نے وادی روندو کے راجہ محمد علی خان کو لکھا کہ وہ انہیں ہتھیار بند، کلہاڑے اور تلواروں وغیرہ کے ساتھ پانچ سو سرفروشوں پر مشتمل ایک لشکر فوراً بھیجیں۔

سکر دو چھاؤنی کا محاصرہ فروری سے شروع ہوا اور اگست تک جاری رہا۔ اس دوران آزاد فوج پوریگ میں لڑی۔ دراس اور زوجی سر فتح ہوا۔ لیہ اور نوبرہ میں پیش قدمی کی گئی اور جون کے دوسرے ہفتے میں کرنل متاع اُلملک دو سو چترالی رضاکاروں کے ساتھ سکر دو پہنچ گئے۔ ہزارہ اور سوات سے بھی ایک سو رضا کاروں کا ایک لشکر براہ شغر تھنگ سکر دو پہنچ گیا تھا۔ اس لشکر نے زنبیر گڑھ (موجودہ حمید گڑھ) اور پرتاب گڑھ کی طرف مورچے سنبھال لئے۔

مسلسل کئی ماہ سے محصورین کو اشیائے خوردنی کی قلت محسوس ہونے لگی تھی۔ بھارتی طیاروں نے راشن وغیرہ ڈراپ کرنا شروع کیا مگر ان اشیاء کا زیادہ حصہ مجاہدین کے ہاتھ آتا۔

اس وقت سکر دو مجاہدین کی باقاعدہ اور تربیت یافتہ فوج سے یکسر خالی تھا۔ یہ فوج سکر دو سے دور محاذوں پر دشمن سے برسرپیکار تھی۔ پر دشمن کے طیاروں کی سکر دو میں آمدورفت کے ساتھ ہی یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ دشمن سکر دو کے اردگرد میدانوں میں چھاتہ بردار فوج اُتار کر دوبارہ قبضہ نہ کر لے۔ ایسی صورت میں دشمن کا مقابلہ متاع اُلملک اور اس کے مٹھی بھر ساتھیوں کے بس کا روگ نہ تھا۔ چنانچہ چھاؤنی پر فیصلہ کن حملے کے لئے استورسے دو ۱۱۰۷ توپیں لانے کا فیصلہ ہوا۔

۱۲ اگست کی صبح ساڑھے چھ بجے دونوں توپوں نے چھاؤنی، کھرپوچو قلعہ مڈل سکول راجہ کے محل اور پرانے قلعے پر گولہ باری شروع کی جو ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔ ۱۲ اگست کو دشمن کے ٹھکانوں پر شدید گولہ باری ہوئی اور اس کے ساتھ ہی چھاؤنی پر بھرپور حملہ کر دیا گیا۔ ۱۳ اگست کا پورا دن طرفین کے درمیان سخت فائرنگ کا تھا۔ یہ بہت بڑی خوش قسمتی تھی کہ اب تک موسم خراب رہا تھا وگرنہ بمباری سے مجاہدین کے ٹھکانے تباہ کر دئیے جاتے اور محصورین کو رسد کی فراہمی جاری رہتی تو جنگ اور طوالت پکڑ لیتی۔

چودہ اگست ۱۹۴۸ء کی صبح کرنل تھا پا کیپٹن گنگا سنگھ، کیپٹن ہلال سنگھ اور دیگر فوجی افسر وردیوں میں فوجی ڈسپلن کے ساتھ چھاؤنی سے باہر نکل آئے۔ کیپٹن محمد خان نے انہیں کرنل متاع اُلملک کے پاس پہنچایا۔

اس وقت سکر دو چھاؤنی پر پاکستان کا ہلالی پرچم لہرا دیا گیا۔

۲۶ اگست کو سکر دو کے پولو گراؤنڈ میں تقریب آزادی کا جشن منایا گیا۔ فوجی اور سول حکام اور عوام نے شرکت کی۔ یہ کیسا روح پرور نظارہ تھا۔ تلاوت کلام پاک کے بعد اللہ کے حضور شکرانہ پیش کیا گیا۔ پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد اور آزاد کشمیر زندہ باد کے نعروں میں پاکستانی پرچم لہرایا گیا۔ سکاؤٹوں اور بلتستان نیشنل گارڈز کے دستوں نے پاکستانی پرچم کو سلامی دی۔

٭٭٭

 

 

 

باب نمبر ۱۴

 

 

روح اللہ بس اس کے بھائی شبیر کی طرح مچلے بیٹھا تھا اور اس کی ہر دلیل کو گاجر مولی کی طرح کاٹے جاتا تھا۔ وہ کیتھی اور شاور کے ساتھ شگر جانا چاہتی تھی اور بار بار کہے جاتی تھی۔

’’تم تو سارادن ڈیوٹی کے چکروں میں اُلجھے رہتے ہو۔ بڑے بھائی تعلیمی میدان کے مصروف بندے، سیماں کے بچے چھوٹے۔ ایسے میں تم مجھے کہاں لے جاتے پھرو گے۔ کچھ لوگ جا رہے ہیں، ان کی کمپنی بھی رہے گی۔‘‘

پر اس کی تو ایک ہی رٹ تھی۔ ’’میں آپ کو اچھے اور ذمہ دار ہاتھوں میں سونپنا چاہتا ہوں۔‘‘ زِچ ہو کر اس نے ہتھیار ڈال دئیے۔

’’چلو بابا ٹھیک ہے، جیسا تم چاہتے ہو کر لو۔‘‘

اور اُس نے وہیں کھڑے کھڑے سیماں کو شگر چلنے کا حکم دے دیا۔ سیماں کو سیر سپاٹے اللہ دے۔ اس نے پل بھی نہ لگایا اور بقچی تیار۔ بڑے بھیا اور بھابھی بھی ساتھ ہو لئے کہ چلو ہم بھی تھوڑا سا گھوم پھر آئیں۔

دونوں بھائی آگے بیٹھ گئے۔ شیبہ اس کی گود میں آ گئی۔ جیپ میں لدلدائی ہو گئی۔ سیماں سرخ چینی اوڑھنی جسے وہ ابھی کل خرید کر لائی تھی اوڑھے غضب ڈھا رہی تھی۔

شگر کی پوری وادی قراقرم کے دامن میں ہے۔ اسے بلتستان کی حسین ترین وادی کہا جا سکتا ہے۔ یہ چوڑائی میں کم اور لمبائی میں زیادہ ہے۔ مشہور زمانہ چھوغو بروم، رگاشا بروم بلتورہ اور بیافو گلیشیئر اس وادی کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔

وہ تھور گو پل پر سے گزر رہے تھے کوئی پندرہ کلو میٹر کا فاصلہ طے ہو گیا تھا۔ دریائے سندھ کا مٹیالا پانی زوروں پر تھا۔ جیپ اب سہ تھنگ کے علاقے میں داخل ہو گئی تھی۔ روح اللہ پھر شروع ہونے والا تھا۔ جب بڑی بھابھی نے اس کی بات کاٹ دی۔

’’روح اللہ! تم گاڑی ٹھیک سے چلاؤ اور ہسٹری چھوڑو۔ اب اگر یہاں ہزاروں فٹ نیچے دریا نہیں بہتا۔ تب بھی منوں وزنی پتھر تو ہیں جو تمہارے دائیں بائیں پڑے ہیں۔ پہاڑی درّے بھی شروع ہونے والے ہیں۔ میں چھ بچوں کی ماں ہرگز ہرگز سہ تھنگ کے اس ریتلے میدان میں مرنا نہیں چاہوں گی۔‘‘

بنجر اور خشک پہاڑوں سے سورج کی آتشیں کرنیں ٹکرا ٹکرا کر سارے میں دوزخ کی آگ بکھیر رہی تھیں۔ ان کے سر منہ ریت اور دھول سے اٹ گئے تھے۔

سہ تھنگ اور سرفہ رانگا کے ریتلے میدان کو دریائے سندھ پر پمپ لگا کر لفٹ ٹینکی کے ذریعے آباد کرنے کی سکیم زیر غور ہے۔

کوتھنگ پائین اور کوتھنگ بالا کی وادیاں صحرا میں کسی نخلستان کی طرح نمودار ہوئیں۔ بلند و بالا اور ہریالے درختوں نے جلتی آنکھوں کو طراوت اور ٹھنڈک کا احساس دیا۔ یہ وادی شگر کا پہلا گاؤں تھا۔ اس گاؤں کو یہ شرف بھی حاصل تھا کہ یہاں کے جیالے لوگوں نے راجہ شگر کے ساتھ شرگوٹوق کے مقام پر میٹنگ کی اور سکھوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا۔

تقریباً تین میل تک دروں کا راستہ تھا۔ بلند و بالا پر ہیبت آگ کی طرح تپتے پہاڑوں کو دیکھ دیکھ کر طبیعت بوجھل ہو گئی تھی۔ مرہ پی کی سرسبز وادی آئی اور پھر شگر کا علاقہ شروع ہو گیا۔

درختوں کے لمبے چوڑے سلسلے نشیب میں پھیلے نظر آتے تھے۔ جیپ دور رویہ درختوں سے گزرتی جا رہی تھی۔ گھنے درختوں میں سے جھانکتی کرنوں کے مختلف عکس زمین پر مختلف صورتوں میں ڈھلے ہوئے تھے۔ دو تین مسجدیں گزریں۔ نمازی کھڑے باتیں کرتے تھے۔ گندم کے کھیت بسنتی لباس پہنے قربان ہونے کے لئے صف بستہ تھے۔ شگر نالہ پر واقع ریسٹ ہاؤس کے کمپاؤنڈ میں روح اللہ نے جیپ روک دی۔ بڑے بھیا بولے۔

’’تم لوگ جلدی سے منہ ہاتھ دھو لو۔ اسسٹنٹ کمشنر داؤد صاحب کھانے پر انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

ان تینوں نے منہ اور ہاتھوں کی گرد اُتاری۔ کنگھی کی اور جیپ میں بیٹھ مسٹر داؤد کے ہاں جا اُتریں۔ ہرے بھرے کھیتوں میں گھرا ان کا سرکاری بنگلہ اندر سے مکین کی سادہ اور درویشانہ طبیعت کا پتہ دیتا تھا۔ نگر کے داؤد صاحب کی شخصیت متین اور بردبار نظر آتی تھی۔ خوبصورت اور بوٹے سے قد کی ان کی بیگم ان سے بھی زیادہ حلیم تھیں۔

میز پر اُبلے چاول، گوشت اور آلو کا شوربا، پالک کا ساگ، سلاد اور اچار ان کے انتظار میں تھا۔ کھانے سے فارغ ہوئے اور جب وہ قہوہ پی رہے تھے، روح اللہ بولا تھا۔

’’یہ میری بہن ہیں۔ شگر میں کچھ دن رہنا چاہتی ہیں۔‘‘

اور داؤد صاحب ہنستے ہوئے بولے۔

’’میاں اگر یہ آپ کی بہن ہیں تو ہماری بہن بھی ہو سکتی ہیں۔ باقی آپ انہیں یہاں لے آئے ہیں تو بس اطمینان رکھئے۔‘‘

سب کا قہقہہ کمرے میں گونج اُٹھا۔

داؤد صاحب کو کسی ضروری کام سے ایک گھنٹہ کے لئے دفتر جانا پڑا۔ ان کی عدم موجودگی میں شگر کے چند سر کردہ لوگ آئے۔ گفتگو شمالی علاقہ جات، خصوصی طور پر بلتستان کی آئینی حیثیت پر ہونے لگی تھی۔ ایک نامی گرامی ایڈووکیٹ ہنستے ہوئے کہنے لگے۔

’’میں سمجھتا ہوں، حکومت پاکستان کو ۴۸۔ ۱۹۴۷ء میں نظم ونسق سنبھالنے کے ساتھ ہی الحاق کے متعلق وضاحت کر دینی چاہیے تھی۔ مقامی لوگوں کو انتظام حکومت میں شریک کرنا چاہیے تھا پر ۱۹۷۰ء تک یہ علاقے ایک ریزیڈنٹ کے ماتحت رہے جو بیک وقت لوکل گورنمنٹ، مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، انسپکٹر جنرل پولیس اور بلا شرکت غیرے جج ہائی کورٹ ہوتا تھا۔ ۱۹۷۲۔ ۱۹۷۱ء میں وزیر اعظم بھٹو نے پہلی دفعہ یہاں سیشن کورٹ کا اجراء کیا۔ ایف سی آر ختم کیا۔ راج گیری نظام ختم کر کے مالیہ معاف کیا۔ یہ سب تو ہوا پر آئینی حیثیت پھر بھی متعین نہ ہو سکی۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ گلگت و بلتستان میں کوئی دستور پاکستان بھی نافذ نہ ہوا۔ اس سے قبل جتنی بار بھی مارشل لاء لگا، اسے اس علاقے تک نہیں بڑھایا گیا تھا۔ پھر ۱۹۷۷ء کے مارشل لاء میں گلگت بلتستان پاکستان کا پانچواں زون E بنا۔ لوگوں نے سکون کا سانس لیا چونکہ مارشل لاء صرف اندرون ملک لگتا ہے۔ اس لئے ان علاقوں کی اب کوئی متنازعہ حیثیت باقی نہیں ہے۔ ضلع گلگت کی ایک فوجداری لاہور ہائی کورٹ میں دائر ہوئی تو ایک ڈویژن بنچ نے فیصلہ دیا کہ گلگت بلتستان، پاکستان کے قانونی حصے نہیں۔ اس لئے جس نے بھی یہاں مارشل لاء نافذ کیا وہ علاقے کی آئینی پوزیشن سے نابلد ہو گا۔

شمالی علاقہ جات کے لوگ محب وطن، پر امن اور نیک نیت ہیں۔ اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ ۳۷ سال گزارنے کے بعد بھی کوئی تحریک چلا کر پاکستان کے مسائل میں اضافہ کرنا نہیں چاہتے۔

جنرل محمد ضیاء الحق نے بھی اپنے دورہ گلگت کے دوران غیر مبہم الفاظ میں کہا تھا کہ شمالی علاقہ جات پاکستان کے حصے ہیں، اور انہیں آئندہ اسمبلی میں باقاعدہ نمائندگی دی جائے گی۔

کوئی بھی قوم اتنے طویل عرصے تک بغیر کسی آئین کے اور بغیر بنیادی انسانی حقوق کے نہیں رہ سکتی۔ اگر گلگت دیا مر بلتستان کے چھ لاکھ عوام کو بنیادی حقوق سے نوازا جائے تو یہ ان پر احسان عظیم ہو گا۔ ایک ایسی وفادار قوم کو خواہ مخواہ مایوس، بد دل بے چین اور غیر یقینی حالت، میں رکھنا مفاد عام میں نہیں۔

اور وہ بیٹھی کھلے کھانوں سے یہ سنتے ہوئے باہر دیکھتی اور سوچتی تھی۔

اللہ نے اسے کتنا بے دست و پا بنایا ہے۔ بھلا وہ کہیں صاحب اقتدار ہوتی تو۔۔ ۔

اور اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکی۔ اس کے ہونٹوں پر ہنسی بکھر گئی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب نمبر ۱۵

 

 

 

وہ جب منہ ہاتھ دھو کر کمرے میں آئی میز پر ایک پلیٹ میں بسکٹ، چینی مگ اور ٹی پوٹ ٹرے میں رکھے ہوئے تھے۔ اس نے چائے پینی شروع کی اور جب وہ خالی مگ میز پر رکھ رہی تھی۔ داؤد صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور مدھم مسکراہٹ کے ساتھ بولے۔

’’مجھے امید ہے کہ آپ کی رات اچھی گزری ہو گی۔‘‘

اور اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

’’رات تو واقعی اچھی گزری، پر صبح کا آغاز اچھا نہیں ہوا۔ اگر آپ یوں مجھے اچھوتوں کی طرح ناشتہ اور کھانا دیں گے تو میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی۔‘‘

اور داؤد صاحب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

’’اگر ایسی بات ہے تو بسم اللہ، میں دفتر جار ہا ہوں۔ آپ بیگم اور بچوں کے ساتھ ناشتہ کریں، اور وہاں آپ کا پروگرام۔‘‘

وہ باہر جاتے جاتے رُکے۔

’’کہیں جانا چاہتی ہیں آج۔‘‘

’’ایک تو میں فونگ کھر (چٹانی محل) دیکھنا چاہتی ہوں۔ دوسرے راجہ فیملی سے بھی ملنے کا ارادہ ہے اور تیسرے میں آپ پر واضح کرنا چاہتی ہوں کہ میری موجودگی کو اپنے معمولات میں کوئی رکاوٹ نہ سمجھئے۔ سارادن آوارہ گردی کے بعد میں شام کو اپنے ٹھکانے پہنچ جایا کروں گی۔‘‘

داؤد صاحب کا قہقہہ ایک بار پھر فضا میں گونجا۔

’’یہ علاقہ پر امن اور یہاں کے لوگ انسان دوست ہیں۔ آپ کو تنہا گھومتے ہوئے کوئی خوف و  خطر نہیں جہاں آپ کو سواری کی ضرورت محسوس ہو بتا دیں، اور ہاں یہ بات میں آب کے گوش گزار کروں گا کہ جب راجہ فیملی سے ملنے جائیں تو انہیں مناسب عزت و تکریم دیں۔ گو راجگی نظام اب ختم ہو چکا ہے اور جاگیر داری روایات دم توڑ رہی ہیں۔ پر ہم لوگ پھر بھی ان روایات کی تھوڑی بہت پاسداری کرتے ہیں۔‘‘

داؤد صاحب کی جیپ سٹارٹ ہو کر گیٹ سے باہر نکل گئی اور وہ کمرے سے نکل کر باورچی خانے کی طرف آ گئی۔

مسز داؤد اُردو نہیں بول سکتی تھیں۔ ان کی مادری زبان بُروششکی تھی لیکن بچے ٹھیک ٹھاک اُردو بول رہے تھے۔ چٹائی پر بیٹھے سب نمکین چائے کے ساتھ چوکور پر اٹھے کھا رہے تھے۔ وہ بھی ان کے ساتھ چوکڑے مار کر بیٹھی اور ہنستے ہوئے اس نے پورا پراٹھا کھایا اور چائے کا پیالہ پیا۔

پھر وہ فونگ کھر دیکھنے نکلی۔ اونچی نیچی راہوں پر پھلدار درختوں کی چھاؤں میں سستائے اور چشموں کا شور سنتے سنتے وہ شگر بازار میں جا پہنچی۔ بمشکل بارہ تیرہ دوکانیں تھیں۔ دو پٹ کے چوڑے دروازوں کے اندر دکاندار بیٹھے مکھیاں مارتے تھے۔ کوئی کوئی گاہک کھڑا کچھ خریدتا تھا۔ اِکا دُکا لوگ آتے جاتے تھے۔ ان لوگوں میں کچھ منگولی خد و خال والے بھی تھے۔

در اصل ابن کٹولہ بکتوریہ خاندان کا آخری شہزادہ پانچویں صدی قبل مسیح میں جب مردان کے شنواریوں اور خیبر کے آفریدیوں سے شکست کھا کر بالائی وادی سندھ میں پناہ لینے پر مجبور ہوا تو اس کا قافلہ جلکوٹ پر پہنچ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک وادی شگر میں آیا اور دوسرا گریگرت چلا گیا۔ وادی شگر کے جو لوگ منگولی یا گلگتی لگتے ہیں، بکتوریہ اصل ہیں۔

کھیت کٹائی کے لئے تیار کھڑے تھے۔ کہیں کہیں کوئی عورت کمر پرچورونگ کَسی نظر پڑتی۔ وہ ذرا دم لینے ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔ ماحول پر الوہی سکون برستا تھا۔ چشموں کا شور یا پرندوں کی چہچہاہٹ بس اس سناٹے کو توڑتی تھی۔ اللہ وہ اپنے آپ سے بولی تھی۔

’’یہ دنیا اس شور شرابے پکڑ دھکڑ، مار دھاڑ اور ہنگامہ خیز دنیا سے کس قدر مختلف ہے۔ روح اللہ پر اسے شدید غصہ آیا تھا۔ بلا وجہ اس کا ساتھ کیتھی اور شاور سے چھڑوا دیا ان کی کمپنی یقیناً سیاحت کے اس لطف کو دوبالا کرتی۔‘‘

اب وہ پھر چل پڑی تھی۔ گھروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ کم عمر پاؤں سے ننگے، خوب صورت چہروں والے بچے ایک جگہ جگہ (جدید کرکٹ کی ایک قدیمی شکل) کھیل رہے تھے۔ ایک گھر کے سامنے گائے بندھی تھی۔ ایسی خوب صورت کہ بے اختیار اس نے کسی سے اس کی نسل کے بارے میں پوچھا۔

یہ گائے اور یاک کی مشترکہ نسل سے تھی۔ زومو جو بہت زیادہ دودھ دیتی ہے۔ بہت خوب صورت اور بہت شریف ہے۔ کہیں کسان فصل خریف کے لئے کھیت تیار کر رہے تھے۔ زو ہل چلانے میں جتے ہوئے تھے۔ کسان پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ وہ ایک کھیت کی منڈیر پر بیٹھ گئی۔ پالک توڑتی ایک عورت سے اس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کھیتوں میں کیا بویا جائے گا۔

لیکن ’’زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم‘‘ والا معاملہ تھا۔ دس بارہ سال کا ایک بچہ دور سے بھاگتا ہوا آیا اور ترجمانی کے فرائض انجام دینے لگا۔ اس زمین میں چٹا، کنگنی، ترنبہ اور باجرہ بویا جانے والا ہے۔

فونگ کھر کے لئے اس نے کوئی دس آدمیوں سے پوچھا ہو گا۔ اب وہ منزل پر پہنچ گئی تھی، اور اسے اس راستے پر مڑنا تھا۔ جس پر چند گز چل کر فونگ کھر آتا تھا۔ راستہ تنگ اور خاصہ دشوار تھا۔ صرف ایک آدمی بمشکل چل سکتا تھا۔ نیچے دریائے شگر بے ہنگم شوز مچاتا تھا۔ چار قدم چلی تو داہنے ہاتھ لکڑی کی ایک مسجد نظر آئی۔ سیڑھیاں چڑھتی اندر داخل ہوئی۔ ایک آدمی چادر لپیٹے بیٹھا تھا۔ پتہ چلا کہ نو سو سال پرانی مسجد ہے۔ مسجد کیا تھی، چوب کاری کا ایک شاہکار تھی۔ یہ ہفت در ہے، اسے ہشت در کہتے ہیں، اور یہ موج دریا ہے۔

ادھیڑ عمری کی حدوں کو پاٹتا ہوا مرد اسے انگشت شہادت سے کھڑکیوں، دروازوں اور جھروکوں پر لکڑی کی جوڑ جوڑ کر بنائی گئی فنی کاریگری کو دئیے گئے مختلف ناموں کے بارے میں بتا رہا تھا۔

آدھ گھنٹہ بعد وہ سیڑھیاں اُتر آئی۔ سامنے چنار کا بوڑھا درخت پر پھیلائے کھڑا تھا۔ سائے میں چند مرد اور عورتیں بیٹھی تھیں۔ چنار کے بارے میں اس نے یہاں آ کر سنا تھا کہ پانچ سو سال کی عمر پوری کرنے کے بعد، درخت کو اپنے آپ آگ لگ جاتی ہے۔ حیرت کی بات تھی۔

سامنے دو منزلہ نیا محل نظر آ رہا تھا۔ اس کے پیچھے پرانا محل، فونگ کھر اور داہنے ہاتھ بلند و بالا کھری ڈونگ (پہاڑ کا نام) پر ٹوٹے پھوٹے قلعے کے آثار نظر آتے تھے۔ بارہ دری اور باغ ویران تھے۔

اور جب وہ پرانے محل کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ ایک خوبصورت سا نوجوان سامنے آیا۔ پتہ چلا کہ راجہ شگر مرحوم کا صاحبزادہ اعظم خان ہے۔ اسلامیہ کالج سول لائنز میں بی۔ اے کا طالب علم ہے۔

گائیڈ کے فرائض اس نے سنبھال لئے تھے۔ سارا محل ایک چٹان پر بنا ہوا ہے۔ جس کا ایک کونہ سیڑھیوں کی طرف تھا اور دوسرا دریائے شگر کی طرف نکلا ہوا تھا۔

ٹوٹے پھوٹے شکستہ محل کے کمرے جانوروں کے اصطبل بنے ہوئے تھے۔ جاروق میں پتلی سی چٹائی پر سیندوری رنگ کی خوبانیاں پڑی سوکھتی تھیں۔ دیوان عام اور دیوان خاص انتظار گاہ، راجہ کی نشست گاہ سب ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے دوچار ہو کر ویرانی کی گود میں پڑے تھے۔

اس کے سارے سریر میں دکھ یاس اور بے ثباتی کی ٹھنڈی لہریں اُترنے لگیں۔

اعظم اسے لے کر نئے گھر کی طرف بڑھا۔ ڈرائنگ روم میں جدید وضع کے صوفے رکھے تھے کارنس پر چارسوتی کا انگیٹھی پوش جس پر نیلے پیلے دھاگوں کی بد وضع کڑھائی نظر پر گراں گزرتی تھی۔ دیواروں پر چیتے اور بھیڑئیے کے حنوط شدہ چہرے لٹک رہے تھے۔

اور پھر رانی ماں بیٹے کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں۔ وہ کھڑی ہوئی۔ اس نے دو سلام کئے۔ سلام کے ساتھ ہی قدرے جھک کر دائیں ہاتھ کو پیشانی تک لے گئی۔ یہ یہاں کی قدیم تہذیب تھی۔

پھولدار پاکستانی فلیٹ کے فیروزی سوٹ اور سفید ملگجے چکن کے دو پٹے میں لپٹی دبلی پتلی رانی شگر اس کے پاس بیٹھ گئی۔ چہرے کی جھریاں ابھی زیادہ گہری نہیں ہوئی تھیں۔ ملائمت اور نقوش کا تیکھا پن آریائی نسل سے تعلق کا پتہ دیتا تھا۔ شگر کا راجہ خاندان اماچہ آریائی نسل سے بتایا جاتا ہے۔

ذرا دوپٹہ سرکا تو ان کے گلے میں اس نے لداخ کے قیمتی فیروزوں کا حلقہ بند دیکھا۔ جو سونے کے پتروں میں جڑا ہوا تھا۔ فیروز اتنا خوبصورت اور قیمتی نظر آتا تھا کہ بے اختیار اس کی نگاہیں اس پر جم گئیں۔

اوپر تلے کی دو بچیاں ننگے پاؤں بھاگتی آئیں اور رانی شگر سے لپٹ گئیں۔ یہ اعظم کی بچیاں تھی، اس کی بیوی چھوٹے بچے کے ساتھ گلگت گئی ہوئی تھی۔

وہ اسے سر تا پا ایک ٹوٹی ہوئی شخصیت نظر آئیں۔ اداسی اور دکھ کی چادر میں لپٹی ہوئی۔ ملازم نے ٹھنڈی رسیلی خوبانیاں اور آلو بخارا کر تپائیوں پر رکھا۔ وہ خوبانیاں کھاتی گئی اور ان کی باتیں سنتی گئی۔ ان وقتوں کی جب رعایا دم بھری تھی۔ نوکروں کی فوج ظفر موج دست بستہ حاضر رہتی تھی۔ ان گزرے دنوں کی باتیں جب یہ محل اتنے ویران نہیں ہوتے تھے۔ جب زندگی حسین اور رعنائیوں سے پر تھی۔

اور اب۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

اس نے چاہا کہ پوچھے پر رک گئی۔ ضرورت ہی کیا تھی؟ سب کچھ تو عیاں تھا۔ خواہ مخواہ کھرنڈ کھرچنے سے فائدہ۔

٭٭٭

 

 

 

باب نمبر ۱۶

 

 

خانقاہ معلی کی طرز تعمیر اور کشادگی کا سارا حسن، کشمیری فنکاروں کی دل کش کشیدہ کاری و پچی کاری کا فسوں اس کے چاند کی مانند چمکتے گنبد کی خیرہ کن دمک سب اس محاورے کی نذر ہو گئے تھے۔ جسے نشہ ہرن ہونا کہتے ہیں۔

ان چار ستونوں میں سے ایک کہ جن پر یہ عمارت ایستادہ تھی۔ وہ تیس فٹ اونچے اور کم و بیش چھ فٹ چوڑے ستون کو جپھا مارے یوں کھڑی تھی جیسے پوہ ماگھ کی چاندنی رات ہو۔ اسے دیکھ کر خانقاہ معلی کی ساری تاریخ کہ یہ ساڑھے چار سو سالہ پرانی خانقاہ سید میر یحییٰ نے تعمیر کروائی۔ سید یحییٰ جید کشمیری عالم ابو سعید کا بیٹا اور سید مختار کا بھائی تھا۔ جنہوں نے شگر میں سات خانقاہیں اور چودہ مسجدیں تعمیر کروائیں اوریہ کہ اس خانقاہ میں بیک وقت بارہ سو آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اس کی تعمیر میں سب سے زیادہ مدد وزیر شگر مہا سلطان نے کی۔

یہ سب دماغ کے کسی دور دراز گوشے میں یوں جاگرے جیسے کوئی سلیقہ شعار محتاط عورت زیورات کی پوٹلی جستی پیٹی کے کسی کونے میں پھینک دے۔

وہ دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھی اور جب ان کی خاموش آنکھوں نے کئی بار ایک دوسرے کو دیکھ لیا تب پوہ ماگھ کی اُداس چاندنی نے فضا کا سکوت توڑا۔

’’تم کون ہو؟‘‘

اور اسے خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ اُردو بول سکتی ہے۔

’’یہی سوال میں تم سے پوچھنا چاہتی تھی۔‘‘

’’ میں تو بدنصیب ہوں۔‘‘ اُس کے اندر کا سارا دکھ آنکھوں کے کونوں میں جمع ہو گیا تھا۔

’’مجھے بھی ایساہی سمجھ لو۔ ان وادیوں میں سکون دل ڈھونڈتی پھرتی ہوں۔‘‘

دکھ کی سانجھ کا رشتہ بہت نرالا اور بہت انوکھا ہوتا ہے۔ اس خاموش اور پرسکون جگہ میں جیسے پل بھر میں ان کے درمیان ایک رشتہ استوار ہو گیا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور چلنے لگیں۔

پاشا یوں تو شگر خاص میں پیدا ہوئی لیکن بعد میں باپ کے ساتھ کافی عرصہ پنجاب میں رہی۔ اس کا باپ فوج میں لانس نائیک تھا۔ مختلف شہروں کے مختلف اسکولوں سے اُس نے مڈل پاس کیا تھا۔ اس کی چال ڈھال میں متانت اور بردباری تھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پہلی ملاقات میں ہی اپنا آپ کھول دیتے ہیں۔ پاشا بھی ایسی ہی تھی۔

’’ہمارے یہاں نئی فصل پکنے کے قریب ’’ستروب لہ‘‘ کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ گندم کی کٹائی کل شروع ہونے والی ہے اور آج گھر میں قریبی عزیز کھانے پر آ رہے ہیں۔

کبھی کبھی ہنگامے بہت تکلیف دہ محسوس ہوتے ہیں۔ غم اور دکھ تازہ ہو جاتے ہیں۔ جی چاہتا تھا بھاگ جاؤں کہیں۔ رو دھو آؤں۔ اپنے آپ کو ہلکا کر آؤں۔‘‘

دونوں کچھ اوپر جا کر ایک ہموار جگہ پر بیٹھ گئیں۔ یہاں سے وادی شگر درختوں میں گھری سرسبز و شاداب نظر آتی تھی۔

’’میرا خیال ہے تم نے ابھی رونا دھونا تھا۔ خانقاہ معلی کے ستونوں سے لپٹ کر گریہ زاری کرنی تھی۔ پر میں کسی بلائے ناگہانی کی طرح وارد ہوئی اور وہ سب جسے تم باہر نکالنا چاہتی تھی۔ تمہارے اندر ہی رہا۔ لو اب مجھے وہ سب سنا دو تاکہ ہلکی تو ہو سکو۔‘‘

جیسے بارش میں دھوپ نکل آئے۔ بس ایسے ہی اس کے ہونٹوں پر ٹوٹی پھوٹی ہنسی اُبھری تھی۔ اس نے کچھ کہے بغیر گیت گانا شروع کر دیا تھا۔ درد بھری اس کی آواز پتہ نہیں پہاڑوں کا جگر چھلنی کر رہی تھی یا نہیں پر اس کا کلیجہ ضرور چھلنی ہو رہا تھا۔

برق مقپون پی ہلال باغنگسو ہالوے میندوق یسے تھویند

ہالوے میندوق منتخ میں سوک دو انچن علی شیر خان ان سوک

ترجمہ:       چٹان جیسے (مضبوط) مقپون کے ہلال باغ میں ہلو کا پھول کھلا نظر آتا ہے۔ یہ ہلو کا پھول نہیں، یہ تو علی شیر خان انچن تھا۔

آپ تو ملکہ کو سینکڑوں انسانوں اور گھوڑوں کی معیت میں لائے تھے اور اب واپس بھیجتے وقت ایک آدمی اور ایک گھوڑا بھی اس کے ساتھ نہیں۔

آپ جب ملکہ کو (سکر دو) لائے تو ہر قدم پر اس کے پیروں کے نیچے فیروزہ کی سلیں بچھا دیں اور اب (لداخ) واپس بھیجتے وقت اسے ننگے پاؤں بھیج رہے ہیں۔

یہ گیت میں نے اس وقت سنا تھا جب میری عمر یہی کوئی پانچ چھ سال کی ہو گی۔ بوجھل اور سوگوار سی اس دوپہر کو جب میں اپنے بڑے ماموں کے ساتھ گلاب پور جانے کے لئے مچل رہی تھی۔ ماں مجھے گود میں اُٹھا کر اندر لائی تھی اور اس نے مجھے اپنے سامنے سفید اور سیاہ اون سے بنے چھرے پر بیٹھایا اور یہ گیت گانے لگی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ میری ماں کے اوپر ہلہ ہلنو (ایک بابرکت جنس) کا سایہ ہے۔ وہ گیتوں کی ایسی رسیا تھی کہ میرا خیال ہے جب درد زہ کی تکلیف جھیل کر اس نے مجھے جنا ہو گا تو میرے چہرے کو دیکھتے ہی اس نے گانا شروع کر دیا ہو گا۔ ہمہ وقت گنگنانے کی عادت کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ابھی وہ زیادہ وقت میدانی علاقوں میں گزارتا تھا۔ دو تین بار اس کی ماں سے اس بات پر زور دار جھڑپ بھی ہوئی تھی۔ اس نے غصے سے چیخ کر کہا تھا۔ میں تمہارے اور اپنے رشتے کو دائمی بنانے کا سوچ رہا ہوں (میری ماں اور باپ کا نکاح ’’ انقطاعی‘‘ تھا) پر تمہاری یہ مراثیوں اور بھانڈوں جیسی حرکتیں مجھے ماتھے سے دکھتی ہیں۔

اور ماں نے دھیرج سے کہا تھا۔

’’اسے کیسے چھوڑ دوں۔ بھلا کوئی جیتے جی کھانا پینا بھی چھوڑ سکتا ہے۔‘‘

اور اس دوپہر جب ماں نے گانا شروع کیا تھا۔ میں نے پوچھا تھا۔

’’ماں علی شیر خان انچن کون تھا؟ ماں ملکہ کے ساتھ گھوڑے اور آدمی کیوں نہیں تھے۔ ماں ملکہ کے قدموں میں فیروزے کیوں بچھائے تھے؟‘‘

ماں نے میرے کسی بے تکے سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔ شاید اس لئے کہ میں اب رونا دھونا بھول چکی تھی۔ ماں کی طرح گیت میری بھی رگ رگ میں سما گئے تھے۔ میری بھوک پیاس، رونا دھونا سب انہیں سنتے ہی ختم ہو جاتے تھے۔

یہ راز میدانی علاقوں میں اُتر کر مجھ پر منکشف ہوا کہ ماں اپنے دل و دماغ میں علی شیر خان انچن جیسے ایک جیالے کو بٹھائے ہوئے تھی۔ جس نے اس کے قدموں تلے فیروزے تو نہیں، پر قیمتی چھرے ضرور بچھائے۔۔ ۔ البیلی شہزادی اور شہزادہ جو بالی عمر یا کے دور میں ہی تھے کہ ایک دوسرے سے بچھڑ بھی گئے۔ ماں کو طلاق ہو گئی تھی۔ ماں کا دوسرا بیاہ بھی دائمی نہیں تھا۔

پھر یہ گیت میں نے بار بار سنا۔ علی شیر خان انچن کا پیکر میرے دل و دماغ میں بس گیا تھا اور پھر جب پڑھنے لکھنے لگی۔ تو اس گیت کے پس منظر میں جھانکنے کے قابل ہوئی۔

اس وقت جب پہاڑوں پر جمی برف پگھل رہی تھی اور وادیوں میں سبزہ پھیل رہا تھا پتھروں کے گھروں میں مقید سکڑی سکڑائی اور ایک طرح سے مفلوج زندگی انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی تھی۔ وادیوں کے کھیتوں میں کاشت کا آغاز تھا۔

ایسے میں بلندیوں پر فلک بوس چوٹیوں کو چھونے والے پر ہیبت قلعے کھرپوچو میں بلتستان کا عظیم شہنشاہ علی شیر خان انچن جھروکے میں کھڑا سنہری دھوپ میں رنگی وادی سکر دو کو دیکھتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں فولادی عزم ہلکورے لے رہا تھا۔ ان میں آگے بڑھنے پھیلنے اور چھا جانے والی خواہشوں کی اُٹھان رقصاں تھی۔

وہ اس وقت تنہا تھا۔ رات جب عالم میں سناٹا تھا۔ تاریکی اور اندھیرا خوفناک تھا۔ اس لمحے چوب چراغوں کی روشنی قلعے کے خاص کمرے میں اس کے معتمد وزراء کا گروپ سامنے دیوار پر ٹنگے لکڑی کے بڑے تختے پر تیز دھار کے چاقو سے کھرچے گئے اس راستے کو دیکھ رہا تھا جو اس کے جنگی ماہرین اور سراغ رساں ٹولے نے دریائے شیوق کے ساتھ ساتھ لداخ تک بنا یا تھا۔ گہری کھدی ہوئی رنگ آمیز موٹی لکیر پر دیودار کی نوکیلی چھڑی سے اس کے کمانڈر انچیف نے راستے کی عمیق تنگ گھاٹیوں عمودی چڑھائیوں خطرناک موڑوں منہ زور آبشاروں بالائی پہاڑوں سے حملے اور سلائیڈز کے امکانات، پڑاؤ کے مقامات لداخیوں کی طرف سے مزاحمت کے کامیاب اور ناکام امکان ان کی فتح اور شکست کے امکانات کا تناسب ایک ایک نقطہ مکمل شب بھر کے طویل صلاح مشورے کے بعد اس کے کمانڈر جنرل شمشیر علی کناپا نے کہا تھا کہ بس اب لداخ فتح ہونا چاہیے اور کوچ کے لئے یہی موسم مناسب ہے۔ تیاریاں شروع کی جائیں یہ عظیم بلتستان اب عظیم تر ہو۔

وہ خوش نصیب تھا۔ کامیابیوں کا ہما اس کے سر پر سایہ فگن تھا۔ جس مہم کا ارادہ کرتا جس علاقے پر اس کی نظریں جمتیں وہ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھتا پورے ہوم ورک کے ساتھ گھوڑے کی باگ ادھر موڑ دیتا اور پھر اس کی فتح کے پھریرے اُڑنے لگتے۔ چترال سے کافرستان تک وہ شجاعت کے جھنڈے گاڑ بیٹھا تھا اور اب لداخ اور تبت اس کی نظروں میں آ گئے تھے۔

گزشتہ ایک سال سے اس مہم کے لئے دن رات کام ہو رہا تھا۔ اس کے جاسوس ان علاقوں میں مقیم تھے اور ایک ایک بات کی خبر لائے تھے۔

دفعتاً اس کی نظریں نیچے گریں۔ پھول محل دھوپ میں چمکتا تھا اور ہلال باغ میں خوابیدہ بہاریں انگڑائیاں لے رہی تھیں۔ اس نے دور اُفق کی طرف دیکھا اور محسوس کیا کہ سینے میں کہیں درد اُبھرا ہے۔ اس درد کی نوعیت سے وہ بخوبی آگاہ تھا۔ پر مصیبت تو یہ تھی کہ اسے اپنے آپ کو پل بھر کے لئے بھی کمزور محسوس کرنے سے نفرت تھی۔ شاید اسی لئے وہ برق رفتاری سے مڑا اور دیوان خاص میں داخل ہوا۔ چند لمحے وہاں ٹھہرا۔ دیواروں پر آنکھوں سے نکل کر جو کچھ ابھرا اس میں کرب تھا۔ پھر باہر آ نکلا۔ بالکونی سے نیچے جھانکا۔ چہار باغ میں فوارے چلتے تھے اور سنگ مرمر کی بارہ دریاں ویران تھیں۔ پل بھر میں چھم چھم کرتی پھول شہزادی نے فضا سے اُتر کر بارہ دریوں کی ویرانیوں کو ماند کر دیا۔

اس نے لمبا سانس بھرا اور اپنے آپ سے بولا۔

گل خاتون میں تمہیں بھول جانا چاہتا ہوں پر تم کبھی رینگ کر اور کبھی کدکڑے لگاتی میرے اندر سے باہر کیوں آ جاتی ہو۔ وہ درد جو اس کے سینے میں کہیں اُٹھا تھا۔ اب آنکھوں میں اُترنا چاہ رہا تھا۔ شاید اسی لئے اس نے اپنے گورنر علی عباس گیجاپا کو بلایا اور اس کے ساتھ مصروف ہو گیا۔

اب جب بہاریں اپنے عروج پر تھیں اور فطرت کے حسین مناظر دامن دل کو کھینچتے تھے اس نے لداخ فتح کیا اور لداخ کے مہاراجہ جمیا نگ نگمیل کو گرفتار کیا۔ دار الخلافہ لیہ میں اپنی فوج کا ایک حصہ چھوڑ کر طوفان کی طرح آگے بڑھا اور بُدھا کے سٹوپے اور بڑے بڑے چوٹی مجسمے تہہ تیغ کرتا بہت آگے نکل گیا۔ جھیل مانسرور اور نیپال کے درمیان پورا انگ قصبے تک۔

وہ تبت کو چھونا چاہتا تھا۔ پر اس کی فوج تھک گئی تھی۔ واپس لوٹ جانے کی خواہش ان کے پیشانیوں پر رقم تھی۔ اس نے یہ سب دیکھا محسوس کیا اور لوٹا لداخ کے دار الخلافہ لیہ میں دربار سجا کر اس نے راجہ لداخ کو طلب کیا۔ تبتی اور آریائی حسن کی آمیزش کی حامل شہزادی جس کے انداز میں درُدوں جیسی بے باکی اور دلیری تھی اپنے باپ مہاراجہ جمیانگ نگمیل کا بازو تھامے اس کے حضور حاضر ہوئی تھی۔ اس حسین شاہکار نے گھٹنوں کے بل جھک کر اسے مقامی رواج کے مطابق آداب کیا پھر سیدھی کھڑی ہوئی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔

’’مجھے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ بات غیرت کے منافی ہے۔ مگر مجبور ہوں اور چاہتی ہوں کہ ہم سے حسن سلوک ہو۔‘‘

علی شیر خان انچن کو اس کے لہجے میں کھٹکتی اعتماد اور یقین کی جھنکار پسند آئی تھی۔ اس نے اس بات سے لطف اُٹھایا۔ اس کے چہرے پر پھیلی معصومیت کو شوق و دلچسپی سے دیکھا تھا اور کہا تھا۔

’’اگر میں فیصلہ کا اختیار آپ کو دوں؟‘‘

اس نے فی الفور نفی میں سر ہلایا اور بولی۔

’’یہ حق آپ کا ہے فاتح ہیں آپ۔‘‘

وہ کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا سوچتا رہا اور پھر گویا ہوا۔

’’آپ میری ملکہ بننا پسند کریں گی۔‘‘

شہزادی کے ہونٹوں پر گویا بارش کے بعد نمودار ہونے والی قوس قزح جیسی مسکراہٹ بکھری۔ جھکی اسے تعظیم دی اور بولی۔

’’آپ جیسے جیالے شاہ کی ملکہ بننا میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہو گا۔‘‘

یوں یہ لداخی شہزادی علی شیر خان انچن کی زندگی میں آئی۔ سکر دو کے لئے واپسی ہمیشہ کی طرح بڑے کرّ و فر سے ہوئی۔ اہل سکر دو نے اپنے فاتح بادشاہ اور بہادر افواج کا استقبال بہت گرمجوشی سے کیا۔ شاہی خاندان نے بادشاہ کی ہدایت پر ملکہ کو بہت دل پذیر انداز میں خوش آمدید کہی۔ ہلال باغ سے پھول محل تک اس کی گزرگاہ کے راستے میں فیروزے کی سلیں بچھائیں جس پر دھرے اس کے ہر قدم پر اشرفیاں لٹائی گئیں۔

شب کو چراغاں ہوا۔ محل موسیقی سجی جمالیاتی ذوق رکھنے والی اس شہزادی نے خود سے چند گز کے فاصلے پر نیم دائرے میں بیٹھے اپنے سامنے آلات موسیقی سجائے بے خود فنکاروں کے ٹولے کو بے حد دلنواز اور مدھر دھنیں بجاتے دیکھا تو اسے اپنا سانس رکتا محسوس ہوا۔ وہ تو سوچ بھی نہ سکتی تھی یہ علاقہ تہذیبی اور فنی لحاظ سے اتنے عروج پر ہو گا۔

اس نے اپنے دائیں ہاتھ بیٹھے شجاعت کے اس پیکر کو جو اس وقت شاہانہ لباس میں تمکنت سے بیٹھا ساز اور آواز میں گم تھا دیکھا اس کی آنکھوں میں سوال بھی تھے اور ان کے فن کو خراج عقیدت کا خاموش اظہار بھی تھا۔ شاہ نے آنکھوں کو پڑھا مسکرایا اور اسے پر وقار چہرے پر غرور کا ہلکا سا غبار پھیلا اور اس نے کہا۔

’’یہ دہلی کے درباری موسیقاروں کے تربیت یافتہ ہیں۔ کلاسیکی اور مقامی سازوں کے سنگم سے انہوں نے بہت خوبصورت موسیقی تخلیق کی ہے۔‘‘

’’میرے خوش نصیب ہونے میں کوئی شک ہے۔‘‘ ملکہ نے یہ بات اپنے آپ سے کہی تھی۔

اور جب مہاراجہ لداخ اور علی شیر خان انچن کے درمیان سکر دو میں عہد نامہ طے پا گیا جس کے تحت مفتوح نے فاتح کا باجگذار رہنا منظور کیا۔ لداخ کا کچھ علاقہ بھی فاتح کو دینا قبول کیا، اور اپنی مملکت کی طرف روانہ ہونے سے قبل وہ بیٹی سے ملنے آیا۔ غلام گردشوں میں چلتی ملکہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی جب اس کے روبرو آئی تو مہاراجہ نے دیکھا تھا اس کی آنکھوں میں حزن کے سائے لرزاں ہیں اور جب وہ بولی تھی اس میں ملال گھلا ہوا تھا۔

’’لداخ کے پہاڑ ان پہاڑوں پر چمکتا سورج دھوپ میں ہلکورے لیتا جھیلوں کا پانی سرو قد پیڑ اور بدھا کے بچے کھچے سٹوپے آپ کو خوش آمدید نہیں کہیں گے کیونکہ آپ نے ان کی آبرو ریزہ ریزہ کر دی۔ بھلا عزتوں کے سودے کرنے والے کے لئے دلوں کے دروازے تھوڑی کھلتے ہیں۔ جائیے اپنے لوگوں کو عزت دیجئے۔‘‘

ملکہ تو بہت ذہین تھی۔ شاہ کی آنکھ کو پڑھنا جانتی تھی۔ اس پر دل و جان سے عاشق بھی تھی۔ پھر کیا ہوا تھا کہ دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔ کچھ نہیں بتاتی ہے۔ شاہ اگر ملکہ کی کسی بات پر ناراض ہوا تو صلح کیوں نہ ہوئی۔ طلاق تک نوبت کیوں پہنچی۔ ملکہ شاہ کے اس فیصلے پر کس قدر دُکھی تھی۔ وہ کیسا قیامت کا سماں تھا جب اسے لداخ بھیجا جا رہا تھا۔ سکر دو سے رخصت ہوتے وقت اس نے ایک نظر ہلال باغ پر ڈالی جہاں اس کا محبوب علی شیر خان انچن اپنے قلعے کھرپوچو سے نکل کر آیا تھا اور ٹہل رہا تھا۔ اس وقت ملکہ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اس کے اندر کا درد اشعار کی صورت میں زبان سے نکل رہا تھا۔

چٹان جیسے (مضبوط) شاہ کے باغ میں ہلو کا پھول کھلا نظر آتا ہے۔ یہ ہلو کا پھول نہیں۔ یہ تو علی شیر خان اعظم تھا۔ چٹان جیسے (مضبوط) شاہ کے ہلال باغ میں سرخ گلاب کھلا نظر آتا ہے۔ یہ سرخ گلاب کا پھول نہیں تھا یہ تو علی شیر خان انچن تھا۔

آپ جب ملکہ کو سکر دو لائے تو ہر قدم پر اس کے پیروں کے نیچے فیروزے بچھائے اور اب اسے ننگے پاؤں واپس بھیج رہے ہیں۔

میں نے اس وقت یہ کتاب اُٹھا کر فرش پر ماری اور بھاگتی ہوئی جا کر ماں سے چمٹ گئی۔ علی شیر خان انچن کے ترشے پیکر میں دراڑیں پڑ گئی تھیں۔ میں ماں سے یہ جاننا چاہتی تھی کہ اس نے ملکہ کا محبت بھرا دل کیوں توڑا۔ کیا وہ اسے معاف نہیں کر سکتا تھا۔

ماں نے میرا ماتھا چوم کر کہا تھا۔

’’دنیا ہمیشہ سے مرد کی ہے اور میری بچی! یہ ہمیشہ مرد کی ہی رہے گی۔‘‘

اور میں نے کھڑے ہو کر اپنے پاؤں فرش پر مارے اور کہا۔

’’نہیں میں دل کے معاملے میں ایسا ظلم کبھی نہیں ہونے دوں گی۔‘‘

اور پھر علی اصغر میری زندگی میں آیا۔ جیالا، شہ زور، خوبصورت اور امیر باپ کا بیٹا۔ وہ دریائے شگر کے دائیں ہاتھ ایجواڑی کے بڑے کھاتے پیتے زمیندار کا بیٹھا تھا۔ گھوڑے پر سوار وہ ہمارے گھر جس شام اُترا تھا۔ میں باغیچے میں کھڑی سبزیوں کی کانٹ چھانٹ میں لگی ہوئی تھی۔ دو چوٹیاں میرے سینے پر سانپوں کی طرح پھنکارے مارتی تھیں۔ میدانی علاقوں میں رہنے کے باعث میرے اوپر مقامی رنگ کی بجائے جدے دیت کا اثر غالب تھا۔ اس نے باگ کھینچ کر مجھے غور سے دیکھا اور پھر جست لگا کر فرش پر کودا تھا۔

اور مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے کھرپوچو قلعے سے علی شیر خان انچن ہمارے گھر آیا ہو۔ آنکھوں سے دلوں کا فاصلہ طے ہونے میں بہت وقت نہیں لگا تھا۔ جسمانی فاصلے بھی اس کی کاوشوں سے جلد طے ہو گئے۔

شگر کی تاریخ میں میَں وہ پہلی لڑکی تھی جس نے بیاہ کے دن سفید لباس کی بجائے سرخ جوڑا پہنا۔ وہ مجھے سینکڑوں لوگوں کے ساتھ اپنے گھر لے کر گیا۔ کیونکہ میں نے دو باتوں کا اعلان کر دیا تھا۔

ایک تو میرا نکاح انقطاعی(ایک مخصوص مدت کے لئے) نہیں ہو گا۔ دوسرے میں مقامی رواج کے مطابق خود اس کے گھر نہیں جاؤں گی بلکہ وہ مجھے لینے آئے گا۔

اور میری یہ دونوں شرطیں مانی گئیں۔

دائمی نکاح ہوا اور وہ مجھے خود لینے آیا۔ شاید یہی میری بد قسمتی کی ابتداء ثابت ہوئی۔ کیونکہ رسم و رواج سے ٹکرانا بھی کش مکش کو جنم دیتا ہے۔

آنسو اب اس کی آنکھوں سے یوں بہنے لگے تھے جسے نل سے پانی کی دھار۔

’’بچے کتنے ہیں۔‘‘ اُس نے پوچھا۔

’’تین۔‘‘ جلتی آہ اس کے سینے سے نکلی تھی۔

’’تم تو پھول پھولوں سے لدا پھندا درخت تھیں۔ مجھ جیسے ٹنڈ منڈ درخت سے تو کوئی پیچھا چھڑا سکتا ہے پر تم کیوں ویران ہوئیں۔‘‘

’’مجھے زعم تھا اپنے آپ پر۔ میں اپنے ماحول اور مرد کی فطرت کو بھول بیٹھی تھی۔ مجھے گھمنڈ تھا اپنے سرخ گلاب پر۔‘‘

پھر اس نے اس سرخ گلاب کی ایک ایک پتی کو اپنے قدموں تلے مسل ڈالا۔

’’ہمارے یہاں کثیر الازدواجی رائج ہے۔ پیسے والوں کو نوعمر لڑکیوں کا جنون ہوتا ہے۔ میں تو ڈھل گئی تھی۔ ہمارے یہاں طلاق تو یوں بھی خلع کے بغیر نا ممکن ہوتی ہے۔ ارے عورت یہاں کتنی مظلوم ہے۔ شاید تمہیں اس کا اندازہ نہ ہو۔‘‘

اس نے وادی پر چھائے الوہی سکون کو اپنے رگ و پے میں اتارتے ہوئے کہا۔

’’عورت تو ہر جگہ مظلوم ہے۔ میری جان خواہ پڑھی لکھی ہو یا اَن پڑھ۔ بس روپ ذرا سا بدل جاتا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

باب نمبر ۱۷

 

چھتستن (باجرے کے ڈنٹھلوں سے بنی ہوئی چٹائی) پر دو رویہ قطاروں میں عورتیں اور مرد بیٹھے ہوئے تھے۔ عورتوں نے سبز اور سیاہ گن مون (قمیض) پہن رکھی تھیں۔ جن کے گھیرے اور گلے سیاہ فیتوں سے سجے ہوئے تھے۔ سروں پر ٹوپیاں اور ٹوپیوں پر چادریں۔ مردوں نے سفید ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے کلکاریاں مارتے پھرتے تھے۔ عورتوں کی اپنی زبان میں زور و شور سے باتیں اور بچوں کا شور مل جل کر ایک ہنگامے کا پتہ دیتے تھے۔

وہ دونوں جب دو گھنٹوں تک ایک دوسرے کا دکھ سکھ سننے کے بعد اپنی دنیا میں واپس آئیں۔ اس وقت دوپہر ڈھل رہی تھی۔ کہف الوریٰ ابھی اس اُلجھن میں ہی تھی کہ اپنے قدموں کو کس طرف موڑے۔ جب پاشا بیگم نے اس کے دائیں ہاتھ کو پکڑا۔ اس کی انگلیوں کو محبت سے دبایا اور کہا۔

’’تم میرے ساتھ چلو۔ دو تین دن ہمارے ساتھ رہو اور گندم کی کٹائی کی تقریب اپنی آنکھوں سے دیکھو۔‘‘

اس سیلانی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ ہاں البتہ اسے مسٹر و مسز داؤد کے تفکر کا احساس ضرور ہوا۔ جو شام تک اس کے گھر نہ پہنچنے کی صورت میں انہیں ہو سکتا تھا اور جب اس نے اس بارے میں اپنے خدشے کا اظہار کیا۔ پاشا فوراً بولی۔

’’تم گھبراتی کیوں ہو؟ ہمارے ہمسایوں کے گھر سے فون پر بات کر لینا۔‘‘

نالہ شگر پل کے ذریعے پار کیا اور ’’ہلپہ پہ‘‘ محلے میں داخل ہو گئیں۔ یہاں ساٹھ ستر گھروں پر مشتمل آبادی تھی۔ بلتستان میں دو منزلہ گھروں کا رواج ہے۔ سردیوں میں گھر کی نچلی منزل استعمال ہوتی ہے اور گرمیوں میں اوپر کے مویشی وغیرہ بھی نچلی منزل میں رکھے جاتے ہیں۔ یہ سارا پتھروں کا بنا ہوا تھا۔ پاشا اسے نشست گاہ میں لے آئی چھرا (بکری کے بالوں سے بنی ہوئی ڈیزائن دار دری) پورے کمرے میں بچھا ہوا تھا۔ سفید گاؤ تکیے دیواروں سے لگے ہوئے تھے۔ نشست گاہ کی سجاوٹ میں پاشا کے ذوق اندازہ ہوتا تھا۔

اس نے گاؤ تکیے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لی تھیں اور صرف یہ سوچے جا رہی تھی کہ گھر کیسی عافیت کی جگہ ہے۔ لیکن اس کا گھر کہاں تھا۔ اس خطہ زمین پر شاید کہیں بھی نہیں۔

کھڑکی کی آئینی سلاخوں کے عقب سے پاشا کا چہرہ ابھرا۔ آؤ ’’مرزن‘‘ پکنے لگا ہے تم بھی دیکھو۔

وہ اُٹھی اور باہر آ گئی۔ باورچی خانے میں زمینی چولہوں پر بڑے سے پتیلے میں پکنے کے لئے سادہ پانی رکھا ہوا تھا۔ پاشا کی بڑی بھاوج گل بانو بڑی سی سلور کی پرات میں بھنے ہوئے جو کا آٹا لئے پانی کے اُبلنے کا انتظار کر رہی تھی جونہی پانی اُبلا اس نے سارا آٹا اس میں ڈال دیا اور چمچے سے اسے ہلانے لگی۔ یہ حلوے کی مانند بنتا جا رہا تھا۔ پر اس میں میٹھا نہیں تھا۔ نمک تھا۔ اب اس نے اسے بڑی سینیوں میں ڈال کر ٹھنڈا ہونے کے لئے رکھ دیا۔ دیسی گھی گرم کیا اور اسے بھی کٹوروں میں ڈال لیا۔

پاشا نے ایک پلیٹ میں مرزن نکالا اور اسے کھانے کی دعوت دی۔ اس نے گھی میں ڈبو ڈبو کر کھا اور لطف اُٹھایا۔

ساری شام ہنگامے کی نظر ہوئی۔ چار چار پانچ پانچ عورتوں نے ایک ایک سینی خالی کر دی۔ ساتھ میں بچے بھی ہاتھ کچولتے رہے۔

اگلی صبح سویرے ہی اُس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ دیر تک لوہے کی سلاخوں والی کھڑکی سے باہر پہاڑوں کو دیکھتی رہی۔ بلتستان کے پہاڑ ننگے بچے روئیدگی کے بغیر بہت پر ہیبت لگتے ہیں۔ سبزہ صرف وادیوں میں یا جہاں پانی ہو ملتا ہے۔ وہ باغیچے میں اُگے سیبوں کے درختوں پر لٹکے سیبوں کو دیکھتی رہی۔ سرخ ٹماٹروں کو پودوں میں سے جھانکتے دیکھ کر مسکراتی رہی۔ صبح کیسی پر نور اور خوشگوار تھی۔ پاشا کے گول مٹول چہروں والے بچے کمبل اوڑھے سوتے تھے۔ تینوں کے سیبوں جیسے رخسار پھٹے ہوئے تھے۔

وہ باہر نکلی بیت الخلا زمینی تھی۔ منہ ہاتھ دھو کر فارغ ہوئی اور باورچی خانے میں جھانک کر دیکھا۔ گل بانو پراٹھے بنا رہی تھی۔ پاشا کی چھوٹی بہن دوغما ( لکڑی کا لمبا سا ڈبہ) میں دہی بلور ہی تھی۔ اس نے بلو نے کی کوشش کی پر ہانپ کر جلد ہی بیٹھ گئی۔ بے چاری کو ڈنڈا اوپر نیچے لے جانے میں پسینہ پسینہ ہونا پڑ رہا تھا۔

’’چائے کا پیالہ پیو۔‘‘ گل بانو نے بالوں کو کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے کہا۔

پاشا نے پیالے میں نمکین چائے ڈالی اور ساتھ ہی تازہ مکھن بھی ڈال دیا۔ پیالہ اس کے ہاتھ میں آیا اور وہ اسے دیکھتے ہی گھبرا کر بولی۔

’’پاشا یہ تم نے کیا کیا؟ میں اِسے نہیں پی پاؤں گی۔‘‘

گل بانو زور سے ہنسی۔ پاشا بھی ہنس پڑی۔

’’ارے تم اِسے پیو تو سہی۔ یہ اتنا لذیذ لگے گا کہ تم ایک اور مانگو گی۔‘‘

واقعی پاشا جو کہہ رہی تھی درست تھا۔ اس نے مزے مزے سے پیا پر دوسرا نہیں مانگا۔ پاشا کے کھیت عطویٰا سے ذرا آگے تھے۔ چنار، بید مجنوں اور چیڑ کے درختوں کی ہریالیوں میں بسنتی بالیوں والے پودے کیسے دلکش لگتے تھے۔ بہت سے مرد عورتیں اور بچے تھے وہاں۔ گل بانو نے بچوں اور بڑوں کو میٹھے پراٹھوں کا چپہ چپہ دیا۔ بچوں نے تالیاں بجائیں۔ بڑی بہو کو مبارکباد دی اور گیت گائے۔

تیرا گھر سدا آباد رہے۔

تیرے کھیت کھلیان سدا پھل دیتے رہیں۔

اور تو سدا میٹھی روٹیاں بانٹتی رہے۔

وہاں موجود معمر مرد نے کٹائی کی ابتداء کی اور اس کے ساتھ ہی کٹائی کا عمل شروع ہو گیا۔ تب پاشا بولی۔

’’آؤ چلیں۔ اسکول کا بھی چکر لگا آتے ہیں اور مسجد امبوڑک اور چھ برونجی بھی دیکھ آتے ہیں۔‘‘

دو میٹھے پراٹھے جو بچ گئے تھے وہ انہوں نے رو مال میں لپیٹے اور چل پڑیں۔ راستے میں اس نے چند ایسے لوگوں کو دیکھا جن کی گردنوں کی ایک طرف پھولی ہوئی تھی۔ یقیناً یہ ’’گلہڑ‘‘ تھا۔ اس کے استفسار پر پاشا نے اس کی تائید کی اور بتایا کہ

’’ شگر کا پانی صحت کے لئے ناموزوں ہے۔ چند علاقے ایسے ہیں جن میں پانی کی اس خرابی کی بناء پر یہ بیماری عام ہے۔ در اصل طبی نقطہ نگاہ سے اس پانی میں آیوڈین کی کمی ہے۔‘‘

اس کے اس سوال پر کہ آیا انتظامی سطح پر اس خرابی کو دور کرنے کے لئے کچھ کاوشیں بھی ہوئی ہیں یا نہیں۔ پاشا فی الفور بولی تھی۔

’’ارے کیوں نہیں، جگہ جگہ ڈسپنریاں اور اسپتال کھولے گئے ہیں۔ اس بیماری کی خصوصی روک تھام کے لئے ایک میڈیکل سنٹر الگ سے قائم کیا گیا ہے۔ آزادی کی فضاء میں سانس لینے والی نوجوان نسل پرانی نسل کی نسبت زیادہ قد آور اور خوبصورت ہے اور اس بیماری سے بھی محفوظ ہے۔

مسجد چھ برونجی میں ایک بار پھر وہ چوب کاری اور پچی کاری اور کشید کاری کے اعلیٰ نمونے دیکھ رہی تھی۔ اس مسجد میں شرقی دروازے سے بسم اللہ شروع کر کے سورہ مزمل جلی حروف میں سفیدی سے تحریر کی گئی ہے۔ یہ مسجد بھی خانقاہ معلی کے ساتھ تعمیر ہوئی تھی۔

یہاں بیٹھ کر انہوں نے وہ دونوں پراٹھے کھائے۔ چشمے کا ٹھنڈا ٹھار پانی پیا چند کچے سیب توڑے اور پھر مسجد امبوڑک کی طرف روانہ ہوئیں۔

یہ مسجد سید امیر کبیر ہمدانی کی یادگار ہے۔ انہوں نے ۷۸۲ء میں اس کی بنیاد رکھی۔ یہی مسجد ان کا مسکن تھی۔ اسی میں رہ کر انہوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی پھیلائی۔ مسجد کا گنبد اب قبلہ کی طرف جھک گیا ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل حضرت سید امیر کبیر کا عصائے مبارک اس مسجد میں تھا جو اب لا پتہ ہے لوگوں کو اس مسجد سے والہانہ لگا ؤ ہے۔

یہاں انہوں نے وضو کیا۔ نفل پڑھے اور جب وہ دونوں ہاتھ اُٹھائے دعا مانگتی تھیں پاشا نے بند آنکھیں اچانک کھولتے ہوئے ہنس کر پوچھا۔

’’بھلا بتاؤ تم نے کیا مانگا ہے؟‘‘

وہ بھی ہنستے ہوئے بولی۔

’’پاشا دعائیں خالق اور مخلوق کا ذاتی معاملہ ہوتی ہیں۔ یہ بتائی تو نہیں جاتیں۔‘‘

تین دن وہ پاشا کے گھر رہی۔ گندم کی گہائی دیکھی۔ سانڈ جیسے پلے ہوئے آٹھ زومو (بیلوں کی ایک قسم) کی گردنوں کو رسوں سے باندھ کر رسے کا آخری سرا ذرا فاصلے پر گڑے رنگ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ پول میں لگا رنگ گھومتا ہے اور اس کے ساتھ ہی زومو بھی گھومتے ہیں۔

’’یہ زومو بڑا عیار جانور ہے۔ ذرا نگران آدمی سر سے غائب ہوا اور اس نے کام کرنا بند کر دیا۔‘‘

’’ارے انسان بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ آخر کو صحبت کا اثر ہونا ضروری ہے۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔

بھوسہ الگ کر کے گندم کو تھیلوں میں ڈالنے کا عمل بھی بڑا پر لطف تھا۔ کام کرنے والوں نے ہونٹوں کو سی لیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا خیال تھا کہ باتیں کرنے سے ان کے درمیان شیطان اور بد روحیں آ جاتی ہیں۔ اناج میں سے برکت اُڑ جاتی ہے۔

اسی شام داؤد صاحب کا ڈرائیور اسے لینے آیا۔ ساتھ چھوٹا سا رقعہ بھی لایا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا۔ آپ کریم صاحب کے ہاں جا کر بیٹھ گئی ہیں۔ گھر آ جائیے سکر دو سے فون پر فون آ رہے ہیں۔ سیماں بات کرنا چاہتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب نمبر ۱۸

 

 

رات کے دس بجے سیماں فون پر تھی۔ اس کی کھنک دار رسیلی آواز اس کے کانوں میں یوں ٹپ ٹپ گرتی تھی۔ جیسے قطرہ قطرہ شہد حلق میں گرتا ہو۔ وہ کہتی تھی ’’آپ کو تو شگر نے معلوم ہوتا ہے جپھی ڈال لی ہے۔ شیبہ بہت اداس ہو رہی ہے۔ للی اور بڑی بھابھی بھی بہت مس کر رہی ہیں۔ پلیز فوراً سکر دو آ جائے۔‘‘

اور اُس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

’’ارے ابھی آ جاؤں۔ سیماں میری جان ابھی تو میں چھپن کلو میٹر طویل بلتر و گلیشیئر کو دیکھنے جانے والی ہوں۔ وہاں سے واپسی پر وادی شگر کے آخری گاؤں ارندو کے سامنے واقع ہسپر گلیشیئر پر سے وہ راستہ دیکھنا چاہتی ہوں۔ جس پر سے لوگ گلگت کے علاقہ نگر کو جاتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے میری گردن پر خارش کا دورہ پڑا ہوا ہے۔ موٹے موٹے کھرنڈ بن گئے ہیں۔ میں چشمہ چھوترون کے گرم پانی سے اپنی گردن اور سر کو غسل بھی دینا چاہتی ہوں۔ سننے میں آیا ہے چشمہ چھوترون اور اسے کچھ فاصلے پر چشمہ بلیسل جلدی بیماریوں کے لئے نہایت مفید سمجھے جاتے ہیں۔ میں کے۔ ٹو کی چوٹی کو بھی سر کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں اور ہاں سیماں میری جان! کل مجھے داؤد صاحب کے ساتھ ’’ہشوپی‘‘ میں زراعت کا فارم دیکھنے جانا ہے اور ہاں ابھی میں ابھی قلعہ کھری ڈونگ کے دہشت ناک محل وقوع کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ڈرنا چاہتی ہوں۔ بھلا سیماں میری جان! اتنے اہم اور ضروری کام جب کرنے والے ہوں تو انہیں ادھورا چھوڑ کر سکر دو کیسے آیا جا سکتا ہے۔‘‘

اور اب ریسور روح اللہ نے پکڑ لیا تھا۔ وہ بول رہا تھا۔ ’’میں چاہتا ہوں آپ خپلو کا چکر لگا لیں۔ ڈاکٹر سیف اللہ اور اس کی فیملی چند ماہ کے لئے وہاں جا رہے ہیں۔ رہیں شگر کی باقی جگہیں، تو میرا شگری دوست سکندر جو قصور میں ڈی۔ سی ہے۔ وہ دو ماہ بعد اپنے بھانجے کی شادی میں شرکت کے لئے آنے والا ہے۔ یہ سب جگہیں اس کی رہائش گاہ سے زیادہ دور نہیں۔‘‘

اور اب ’’چلو ٹھیک ہے‘‘ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

وہ کوئی ڈھائی بجے سکر دو پہنچی۔ اس وقت نشست گاہ میں گھر کے سب افراد بیٹھے کھانا شروع کرنے والے تھے۔ جب اس نے السلام علیکم کہا۔ سیماں کا چہرہ اسے دیکھتے ہی قندھار کے چیرے ہوئے انار کی طرح کھل گیا۔ شیبہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ للی نے بازو اس کے گردن میں حمائل کر دئیے۔ کمرے میں تین افراد اور بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر اسماعیل جو خپلو اسپتال میں ڈینٹل سرجن تھے۔ ان کی نوعمر خوب صورت بیوی اپنے دونوں چھوٹے بچوں کے ساتھ، اور خپلو اسپتال کے ایم۔ ایس ڈاکٹر ابراہیم۔

اس گھر کے مکینوں نے جس وارفتگی اور والہانہ پن سے اس کا استقبال کیا تھا۔ اس کے پور پور میں سرشاری کی لہر دوڑ گئی تھی۔ سفر کی ساری تھکاوٹ جو آنکھوں میں اور چہرے پر بکھری ہوئی تھی۔ پل بھر میں اڑنچھو ہو گئی اور جب وہ شیبہ کو سینے سے لگائے قالین پر بیٹھی۔ ڈاکٹر ابراہیم اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔

’’ہم خپلو میں آپ کے منتظر تھے۔‘‘

اس نے ایک نظر اُن پر ڈالی اور سوچا۔

’’یہ کیسا چہرہ ہے نرمی اور متانت کی پھوار میں بھیگا ہوا۔ یہ کیسی آواز ہے حلاوت اور محبت کی خوشبو میں رچی ہوئی آپ کو اپنائیت کا احساس دیتی ہوئی۔

وہ ہلکا سا مسکرائی اور بولی۔

’’وہیں جانے کے لئے تو آئی ہوں۔‘‘

شام کو چائے کے بعد وہ لوگ چلے گئے اور جاتے جاتے اسے خپلو آنے کی پر زور دعوت بھی دیتے گئے۔

رات کو اس نے سیماں کو زہر مہرہ کا خوبصورت ٹی سیٹ دیا جو وہ اس کے لئے شگرسے لائی تھی۔ سیماں نے اس کا گال چومتے ہوئے کہا۔

’’کمال ہے، اس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔‘‘

’’لو میری تمنا تھی۔۔ ۔ سچ سیماں زہر مہرہ پتھر کی چیزیں۔ قسم سے میرا دل تو سب کچھ سمیٹ لانے کو چاہتا تھا۔ لوگ بتاتے تھے کہ یہ پتھر زہر کا بہترین توڑ ہے۔‘‘

وہ دن بعد ڈاکٹر سیف اللہ اور اس کی بیوی خپلو کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔ شگر سے آئی تو وہ اسی نیت سے تھی پر یہاں سیماں ’’ رپھڑ‘‘ ڈال بیٹھی تھی کہ نہیں ابھی کل آئی ہیں اور آج چلی جائیں، دیکھا جائے گا۔

سیماں کی محبت اس کے پاؤں کی بھی زنجیر بن گئی تھی۔

شام کو طاہر آیا۔ اسے آنگن میں بیٹھے دیکھا تو قریب آ کر اس کی پاس ہی بیٹھے ہوئے بولا۔

’’سنائیے پھر شگر کا دورہ کیسا رہا؟‘‘

’’بس ٹھیک ہی رہا۔ وہ کیتھی اور شاور تو روح اللہ نے یہیں سے جدا کر دئیے تھے۔ میرے خیال میں ان کا ساتھ ہوتا تو زیادہ لطف رہتا۔‘‘

طاہر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

’’ارے شکر کیجئے کہ ساتھ چھٹ گیا۔ ورنہ انہوں نے تو چلا چلا کر آپ کی ٹانگیں تڑوا ڈالنی ہیں اور ’’صرفے‘‘ کر کر کے آپ کو فاقوں مار دینا تھا۔ اول درجے کی نہنگ ملنگ جوڑی تھی وہ۔‘‘

وہ روح اللہ سے کہنے آیا تھا کہ کل سے پولو ٹورنامنٹ شروع ہو رہے ہیں۔ روندو کے کھلاڑی اس بار پھر دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ یہ مقابلے جیتیں گے۔

سیماں بولی۔

’’طاہر تم کسی طرح ہم دونوں کو لے جاؤ۔ کہف الوریٰ دیکھ لیں۔‘‘

کچھ دیر وہ سوچتا رہا پھر بولا ’’اچھا دیکھوں گا۔‘‘

اگلے دن وہ لمبی چوڑی چادروں میں لپٹی ناک منہ ڈھانپے پولو گراؤنڈ میں پہنچ گئیں کیا رونق تھی۔ سارا سکر دو یہاں سمٹا ہوا معلوم ہوتا تھا۔

پہلے چند نوجوان سفید شلوار قمیض، سفید ٹوپیاں، کمر میں سرخ پٹکے باندھے اور ہاتھوں میں تلواریں پکڑے میدان میں اترے۔ لوک دھں ’’گاشوپہ‘‘ پر انہوں نے تلواروں کے ساتھ ایسا دلفریب رقص کیا کہ مجمع کے ساتھ وہ بھی بے خود سی تالیاں بجانے لگی اور اس وقت رکی جب سیماں نے ٹہو کا دے کر متنبہ کیا۔

پھر پولیو کا کھیل شروع ہوا۔ دونوں اطراف پر پانچ پانچ کھلاڑی تھے۔ کھیل بینڈ کی تیز موسیقی اور مجمع کے ولولہ انگیز نعروں کے ساتھ شروع ہوا۔ گیند کو مخالف ٹیموں کے درمیان پھینکا گیا۔ ایک سڑاکے کی آواز آئی۔ اس کے پیچھے تیزی سے گھوڑے دوڑاتے ہوئے سوار گیند کو گول کی طرف لے جانے لگے۔ کیسا سنسنی خیز کھیل تھا۔ وہ سانس روکے بیٹھی تھی۔ زمین ملیریا کے مریض کی طرح کانپتی تھی۔ بینڈ چیخا۔ ستغرا موسیقی کی گلا وردھن بجی۔ لوگوں کے واہ واہ کے نعروں سے کانوں کے پردے پھٹے جاتے تھے۔

کھیل خطرناک رفتار سے کھیلا جا رہا تھا۔ اسے خوف محسوس ہو رہا تھا بس یوں لگتا تھا جیسے ابھی کوئی گر جائے گا اور گھوڑوں کے سم اس کا قیمہ کرتے ہوئے گزر جائیں گے۔ طاہر نے اس کی کپکپاہٹ کو محسوس کیا اور بولا۔

’’لیجئے ابھی تو روندو کے کھلاڑیوں نے میدان میں اترنا ہے۔ آپ کہیں ان کا کھیل دیکھ لیں تو غش کھا کر گر جائیں۔

’’باز آئی بابا میں انہیں دیکھنے سے۔‘‘ اس نے سہم کر کہا۔

’’ارے یہ گھوڑا پولو تو بہت آداب و ضوابط کے ساتھ کھیلے جانے والی کھیل ہے۔‘‘

اور جب وہ گھر آ رہے تھے، طاہر بولا۔

’’ہمیں بہت شدت سے احساس ہے بلکہ یہ کہتے ہوئے دکھ بھی ہے کہ قومی مظاہروں میں بلتستان کی مصنوعات، رقص وموسیقی اور کھیل نظر انداز کئے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ یہ خون کھولا دینے والا ولولہ انگیز شمشیر رقص اور سنسنی خیز پولو کا کھیل کیا اس قابل نہیں ہیں، کہ انہیں قومی سطح پر روشناس کروایا جائے۔

اور اسے محسوس ہوا تھا جیسے کوئی اس کا دل مٹھی میں بھینچ رہا ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب نمبر ۱۹

 

 

اُس کا حال پنجرے میں بند کبوتر جیسا ہو رہا تھا جو آزاد ہونے کے لئے طیش میں آ کر بار بار اپنی چونچ لوہے کی سلاخوں پر مارتا ہے۔ ان دنوں وہ اور سیماں کبوتر اور پنجرہ بنی ہوئی تھیں۔ وہ اڑان لینا چاہتی تھی اور سیماں اسے مقید کرنے پر بضد تھی۔ اسے شگر سے آئے ہوئے پندرہ دن ہو رہے تھے۔ ان پندرہ دنوں میں اس نے سیماں کے ساتھ مل کر اس کی سردیوں کی ساری تیاری مکمل کروا دی تھی۔

باغ کے سارے ٹماٹر اتار کر چار چار ٹکڑوں کی صورت میں چھت پر ڈال کر سکھائے تھے۔ سیبوں کو دھو کر سٹورمیں بچھی توڑی پر پھیلا دیا تھا۔ دونوں نے سٹور میں ہی وہ جگہ بھی بنا لی تھی جہاں مولیوں اور گاجروں کو دبانا تھا۔ ساگ اور پالک سوکھ گئی تھیں اور انہیں پولیتھین کے لفافوں میں پیک کر لیا تھا۔ سوکھے ٹماٹروں کو بھی ایک دن دونوں نے مل کر پیس لیا۔ یہ سب کام کرتے ہوئے کبھی کبھی اس کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ اسے اپنا گھر یاد آتا۔ اپنا کچن جس کے لئے وہ مہینے کی اولین تاریخوں میں ایسے ہی چیزوں کو سینتنے میں پوری گرہستن بنی ہوئی ہوتی۔ دل سے اک ہوک سی اٹھتی اپنے گھر کی آرزو تڑپانے لگتی پھر جیسے یکدم وہ اس آرزو کے گلے میں پھندا ڈال کر اس کا گلا گھونٹ دیتی اور اپنے آپ سے کہتی۔

’’بھلا جس راہ نہیں چلنا اس کے کوس کیا گننے۔‘‘

ان دنوں سکر دو کی ہر گھر دار عورت سردیوں کی آمد کے سلسلے میں تیاریوں میں پھنسی ہوئی تھیں۔

ایک شام اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

’’سنو میں کل خپلو جا رہی ہوں۔ نہیں جانے دو گی تو چوری سے نکل جاؤں گی۔‘‘

’’اچھا بابا اچھا میں ہاری تم جیتیں۔‘‘

روح اللہ نے ویگن کی فرنٹ سیٹ اس کے لئے ریزرو کروا دی تھی۔ سیماں نے چھوٹی سی باسکٹ میں تھرموس اور بسکٹوں کا ڈبہ رکھ دئیے۔ اس نے کون سے بل بیل جو تنا تھے۔ چند جوڑی کپڑے شامل اور پل اوور بیگ میں گھسیڑ لئے۔ سیماں نے اپنا کوٹ زبردستی اس کے سامان میں رکھ دیا۔ اس نے بہتیرا نہ نہ کیا پر وہ بولی ’’احمقوں والی باتیں مت کرو بہت سردی ہو گی وہاں۔‘‘

حسین آباد کی پرائمری سکول میں بچوں کو پڑھتے دیکھ کر اسے اپنا بچپن یاد آیا۔ بچپن جو پل جھپکتے میں گزر جاتا ہے اور پھر ساری زندگی یادوں کے جھروکوں سے جھانک جھانک کر اپنے وجود کا پتہ دیتا ہے۔

مردوں سے لدی پھندی ایک گاڑی کھر منگ جار ہی تھی۔ تھور گو پڑی کی خطرناک پہاڑیاں جن کے نیچے دریائے سندھ بہتا تھا۔ کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا تھا۔ گھبرا کر اس نے پیچھے دیکھا۔ ایک معمر مرد اس سے مخاطب تھا۔

بیٹی تم نیچے سے آئی ہو اور میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ان سامنے نظر آنے والی تھور گو پڑی کی پہاڑیوں پر بلتستان نے اپنی جنگ آزادی کی فیصلہ کن جنگ لڑی تھی اور اس لڑائی میں میں خود بھی شامل تھا۔

اس نے رخ پھیرا۔ عقیدت و احترام کے گہرے جذبات کے ساتھ اسے دیکھا اور کہا۔

’’کیا کچھ تفصیل نہیں بتائیں گے؟‘‘

’’بریگیڈئیر فقیر سنگھ عیار دشمن تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کا معتمد خاص اور بہت تجربہ کار فوجی افسروہ خود میجر کو ٹس اور تین سو پچاس فوجیوں اور بے شمار اسلحہ کے ساتھ سکر دو پر فیصلہ کن حملے کے لئے آ رہا تھا۔ یہ کمک اگر سکر دو پہنچ جاتی تو مجاہدین کے لئے مقابلہ بہت مشکل ہو جاتا۔ مقابلے کے لئے یہی جگہ منتخب کی گئی تھی۔ یہاں وادی بہت تنگ ہے۔ وہ دیکھو اس نے انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔ اونچے پہاڑ کی کمر سے گزرنے والے راستے پر ایک وقت میں صرف ایک گھوڑا بوجھ اٹھائے گزر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ نر بوچونگ کا گاؤں واقع ہے۔ بیٹی اس وقت مجاہدوں کی کمی نہ تھی۔ پورا بلتستان اپنے آپ کو خاک و خون کرنے پر تلا ہوا تھا۔ پر اسلحہ نہیں تھا۔ کیپٹن عالم اور کیپٹن محمد خان نے عمدہ پلاننگ کی فقیر سنگھ ۱۹ مارچ کو دن کے گیارہ بجے میجر کوٹس کے ہمراہ گھوڑوں پر سوار بمعہ فوج قلی گھوڑے اسلحہ تھورو گوپڑی کے پہلو میں واقع میدان میں آ پہنچے۔ انہوں نے دوربینیں آنکھوں پر چڑھائیں۔ صورت حال کو موافق پا کر اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ دوپہر کے کھانے کے لئے دستر خوان سجایا کھانا کھایا۔ شراب سے شغل کیا۔ پھر ہر اول دستہ آگے اور پیچھے باقی فوج ترتیب میں چلنے لگی۔ جب ساری فوج پڑسی کے پیچ در پیچ راستوں میں آ گئی تو مجاہدین نے ان پر فائرنگ کھول دی۔ پہاڑی کی چوٹیوں سے پتھر برسائے گئے۔ کچھ بھاگے کچھ دریا میں گرے کچھ چوٹیوں سے گر کر ہلاک ہوئے۔ پوری فوج کا صفایا ہوا۔ اسلحہ اور ایمونیشن کا اتنا بڑا ذخیرہ ہاتھ لگا کر مجاہدین کی ساری مشکلات رفع ہو گئیں۔

نر اور غوڑو کے گاؤں جنگ آزادی کی داستان سنتے گزر گئے۔ نر گاؤں میں ذرائع آمدورفت کے لئے اب بھی زخ (مشکوں اور لکڑی کی ڈنڈوں سے بنی ہوئی کشتی) استعمال ہوتی ہیں۔ دریائے سندھ پر گول کا معلق پل نمودار ہوا۔ یہ معلق پل کر پس سے ہوشے تک جانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

گول وادی بہت خوب صورت اور دل کش تھی۔ امام باڑہ ایسی شان والا تھا کہ نظر لگنے کا ڈر محسوس ہوتا تھا۔ دریا کا پاٹ کہیں زیادہ چوڑا اور کہیں کم تھا۔ سڑک بدل گئی تھی۔ روکھے خشک اور بنجر پہاڑوں کے درمیان سے اچانک سبز وادیاں نکل آئیں۔ زندگی اور اس کی رعنائی کا احساس ابھر آیا۔ ستمبر کا دوسرا ہفتہ تھا۔ ہریالی بتدریج کم ہوتی جاتی تھی۔

کریس سے دریائے شیوق شروع ہو جاتا ہے۔ کریس میں پہنچ کر ویگن چائے پانی کے لئے رک گئی۔ اس کے دائیں ہاتھ کریس کی شاداب کشادہ چکنی مٹی والی وادی پھیلی ہوئی تھی۔ فصل ربیع کٹ چکی تھی۔ گندم کے کھیت خالی پڑے تھے۔ دور دو ٹریکٹر نظر آئے تھے۔ وہ ویگن سے اتری اور کھیتوں کے بیچوں بیچ پگڈنڈیوں پر چلتی سادات کا لونی محلہ میرپی پہنچ گئی۔ چھوٹی سی کھال پر ایک عورت کپڑے دھو رہی تھی۔ ذرا آگے کھلا سا میدان تھا۔ نوجوان لڑکے کنگ پولو (موجودہ فٹ بال قدیمی شکل) کھیل رہے تھے۔ سامنے خانقاہ نظر آتی تھی۔ مرادوں کی بارہ آوری کے نمائندہ رنگ برنگے رو مال ہوا سے لہرا رہے تھے۔

وہ ایک دومنزلہ کچے گھر میں جھانکی۔ گھر والی جھاڑو بہارو سے فارغ ہو کر باورچی خانے میں کچھ پکانے میں مشغول تھی۔ دھوپ کریس کی وادی پر خوب چمک رہی تھی۔ پر خفیف سی خنکی کا احساس پھر بھی تھا۔ اسے دروازے میں کھڑے دیکھ کر پل بھر کے لئے اس کے آنکھوں میں اجنبیت کی لہرا بھری۔ پھر اس کے حلیے سے اندازہ لگاتے ہوئے کہ کوئی نیچے سے آئی ہے وہ مسکراد ی۔ وہ بلتی میں بولی تھی۔ آگے آؤ۔

وہ کچھ سمجھی اور چولہے کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ ایک بڑی سی طشتری میں اس نے اخروٹ بادام، دھنیا، نمک مرچ وغیرہ کا آمیزہ تیار کر رکھا تھا۔ باجرے کے آٹے کے چھوٹے چھوٹے پیڑے جنہیں تین انگلیوں سے اٹھایا گیا تھا۔ وہ ابالے ہوئے رکھے تھے۔ اب وہ سب کو ملا رہی تھی۔ اس کھانے کو وہ پڑوپو بتاتی تھی۔ دشواری یہ تھی کہ دونوں ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھتی تھی۔ گھر کا مرد آیا اور اس نے اس مشکل کو حل کیا۔ ایک گاؤں چھوڑ کر اگلے گاؤں اس کی بھانجی کے یہاں ولادت ہوئی تھی، اسے مبارک باد دینے جانا تھا اور یہ کھانے دستور کے مطابق ساتھ لے کر جانے تھے۔

ایک دوسرے تھال میں میٹھے ارزق (سموسے) رکھے تھے۔

اس نے گھڑی دیکھی اور معذرت کرتے ہوئے بھاگی اور جب وہ سڑک پر پہنچی وہاں کچھ نہ تھا۔ سامنے چھوٹے سے ہوٹل میں بیٹھے دو مردوں نے بتایا کہ ویگن والا لڑکا بولتا تھا۔ پتہ نہیں کہاں جا کر بیٹھ گئی ہیں۔ اب میں کہاں تلاش کرتا پھروں؟

اس کا بیگ اور کوٹ ہوٹل والوں کے پاس تھا۔

’’کمبخت کہیں کا۔ دیکھو تو کیسا ذلیل ہے۔ اب رات کا کیا بنے گا۔ یہاں کون سی گاڑیوں کی ریل پیل ہے کہ ایک چھت گئی تو دوسری مل جائے گی۔‘‘

لیکن اب ’’قہر درویش برجان درویش‘‘ والی بات تھی۔ وہ پلٹی کھیتوں کے عین بیچوں بیچ بیٹھ کر اس نے چائے پی اور بسکٹ کھائے اور اسی گھر کی طرف پھر چلی گھر والے کو اس نے اپنی مشکل بتائی۔ اس نے خلوص بھرے لہجے میں کہا۔

’’آپ پریشان کیوں ہیں؟ ہمارا گھر حاضر ہے۔ آپ کریس میں گھومیے پھرئیے۔ دوپہر کو ہم لوگ کونیس جا رہے ہیں، ہمارے ساتھ چلئے۔‘‘

اور اب اس کے ہونٹوں پر اطمینان بھری مسکراہٹ دوڑی تھی۔

اس نے پڑوپو کھایا۔ ارزق بھی چکھا۔ ارزق کی نسبت اسے پڑوپو زیادہ مزیدار لگا۔ سیب کھائے اور پھر گھومنے پھرنے نکل گئی۔

کریس کے کھیت بہت کشادہ معلوم ہوتے تھے۔ وادی بھی بہت کشادہ نظر آتی تھی۔ چلتے چلتے وہ اس مشہور خانقاہ تک پہنچی۔ جسے کشمیری راہنما سید مختار نے بنایا تھا۔ ٹیڑھے میڑھے درختوں کے سائے میں شکستہ سی خانقاہ اپنی زبوں حالی کی داستان سناتی تھی۔ وہ اندر گئی اور پھر فوراً باہر نکل آئی۔ سامنے ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر وہ بہت دیر تک اردگرد کے ماحول کو دیکھتی رہی۔ پہاڑوں پر برف جمی تھی۔ دروازے ٹوٹے ہوئے تھے۔ پتھروں کا ڈھیر سامنے پڑا تھا۔ اور چاروں طرف ویرانی اور اداسی سے بھری ہوائیں چلتی تھیں۔

کریس کی جامع مسجد بھی دیکھی جو سید مختار کے والد ابو سعید نے تعمیر کی تھی۔ ایک گھر کے سامنے ایک بوڑھی عورت کنالی میں خوبانیوں کی پھوٹی ہوئی کڑوی گریاں سوس(پتھر کی زمینی کونڈی) میں کوٹ رہی تھی۔ اس میں سےا سے چولی مار (تیل) نکالنا تھا۔

یہاں لوگوں کی اکثریت نور بخشی مسلک سے منسلک ہے۔

ایک چھوٹے سے گھر میں بہت سے لوگ جمع تھے۔ وہ بھی اندر چلی گئی۔ یہاں مرگ ہو گئی تھی۔ ساتواں دن تھا۔ رشتہ دار اور میل ملاپ والی خواتین گھر کی عورتوں کا سر دھلانے اور ان میں کنگھی کرنے آئی تھیں۔ گھر کے مرد نے داڑھی اور سر کے بال منڈوائے ہوئے تھے۔

مرگ ہو یا ولادت، عزیز و اقارب پکے ہوئے کھانوں کے ساتھ حاضری دیتے ہیں۔ پر جب اس نے میر مختار متوفی کا مقبرہ دیکھا وہ دنگ رہ گئی۔ اس کی چوب کاریاں یقیناً قابل دید تھیں۔

گھومتے گھومتے جب اسے یہ یاد آیا کہ روح اللہ یقیناً شام تک خپلو فون کر کی اس کے پہنچنے کے بارے میں جاننے کی کوشش کرے گا اور یہ معلوم ہونے کے بعد کہ وہ خپلو نہیں پہنچی۔ پریشان ہو گا۔ وہ پبلک کال آفس کی طرف بھاگی۔ آپریٹر نے بہت تعاون کیا اور سیماں سے اس کی بات کروا دی۔

اب وہ پھر اسی گھر میں پہنچ گئی تھی۔

ایک ٹوٹی پھوٹی جیپ گھر کے سامنے کھڑی تھی۔ شاید اس میں ہی انہیں جانا تھا۔

’’میرے خدایا، ایسا پر خطر راستہ۔ بھلا اگر کہیں اس کی بریکیں فیل ہو جائیں تو پھر۔ تب اس نے اپنے آپ سے کہا ’’میری جان زیادہ قیمتی ہے یا ان کی جن کے ساتھ کئی جانیں ہیں۔‘‘

اور اس گھر والی نے جس کے گال سیبوں کی طرح دہکتے تھے، اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ بچے بھی لد گئے۔ گھر والا ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھ گیا اور جیپ اچھل اچھل کر چلنے لگی۔

نیچے دریائے شیوق بہہ رہا تھا۔ اوپر سورج چمک رہا تھا۔ دائیں بائیں ننگے پہاڑ جھانکتے پھرتے تھے اور جیپ کھرڑ کھرڑ کرتی چلی جا رہی تھی۔

آگے گون کا گاؤں آیا۔ گھر والا جو عبد الرحیم تھا، اس نے گاڑی ایک طرف رکوائی بیوی سے بلتی میں کچھ بولا اور ایک طرف چلا گیا۔ اس نے پانچویں جماعت میں پڑھتے ان کے بیٹے ناصر سے پوچھا کہ گاڑی کیوں رکی ہے اور اس کا باپ کہاں گیا ہے؟ بچہ بولا تھا۔ گون کے خربوزے اور تربوز بہت شہرت رکھتے ہیں۔ یہ جولائی کا پھل ہے یہاں ایک دکاندار انہیں دو تین ماہ تک رکھتا ہے ہم اگر ان دنوں اس طرف آئیں تو ابا سے فرمائش کر کے ضرور کھاتے ہیں۔

آدھ گھنٹہ بعد جب وہ آیا اس کے ہاتھ میں خربوزہ تھا۔ خربوزہ کم و بیش تین چار کلو سے کم تو کیا ہی ہو گا۔ اس نے ناصر سے غالباً آ کر یہ کہا تھا کہ تربوز مل نہیں سکا۔ بچے کا منہ اتر گیا تھا۔

عبد الرحیم نے اسے پتھر پر مارا۔ بیچ میں سے توڑا۔ ٹکڑے کئے اور ایک ایک ٹکڑا سب کو تھما دیا۔

اس نے چکی کاٹی۔ ایسا ذائقہ دار کہ جنت کے پھل کا گمان گزرا۔ اس میٹھی میٹھی دھوپ میں کھلے آسمان تلے شیوق کے بہتے پانیوں اور پہاڑوں کو دیکھتے ہوئے یہ سب کھانا اسے بہت اچھا لگا تھا۔

گون کی وادی کے سارے کھیت ایک تناسب کے ساتھ چوکور تھے۔ دریا پر غلبہ کھر کا گاؤں تھا۔ اور تھوڑی دیر میں وہ کونیس پہنچ گئے۔ سڑک سے کوئی بیس گز پر گھر تھے۔ پتھر کی سیڑھیاں چڑھ کر برآمدے میں آئے۔ گھر میں دو عورتیں تھیں۔ جنہوں نے حیرت سے اسے دیکھا پر جب بلتی کھٹ پٹ ہوئی تو ان کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ نمکین چائے کے ساتھ بسکٹ آئے۔ کھانے پینے سے فراغت پا کر اس نے عبد الرحیم سے بات کی کہ اب اس کے پہنچنے کا کیا بندوبست ہو گا۔ اس نے بتایا کہ کل صبح جو گاڑی سکر دو سے خپلو کے لئے آئے گی اس پر اسے بٹھا دیں گے۔

اب وہ وہاں بیٹھ کر کیا کرتی۔ بچے کو دیکھا چھوٹا سا بچہ جس پر نظر پڑتے ہی اسے اپنا اندر ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔ دس کا ہرا نوٹ اس نے اس کی گردن پر رکھا اور یہ کہتے ہوئے کہ وہ ذرا گھوم پھر آئے، باہر نکل آئی۔ عبد الرحیم کی آواز اسے اپنے تعاقب میں آتی سنائی دی تھی کہ ’’گھر تو یاد رہے گا نا۔‘‘

’’گھر تو یاد رہتا ہے۔ کوئی بھولنے والی شے تھوڑی ہے یہ کیسا بھی کیوں نہ ہو؟‘‘

یہ سب اس نے سیڑھیوں سے نیچے اتر کر گویا اپنے آپ کو سناتے ہوئے کہا۔

سڑک کے عین اوپر ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کے باہر کھلی جگہ پر رکھے تھک شا (کمبل ٹپو بنانے کا ڈھانچہ) پر ایک نورانی صورت والا بوڑھا ٹپو بنا رہا تھا، وہ قریب جا کر کھڑی ہو گئی۔ دونوں کے ہونٹوں نے دوستانہ مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ یہ محمد رسول تھا۔ گھر والی خدیجہ بی بی اندر تھی۔ اس نے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ کام چھوڑ کر اٹھا اور اس کے ساتھ ہولیا۔ گھر کے ایک طرف چھوٹا سا باڑہ تھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر چھوٹا سا صحن آیا۔ دھوئیں سے کالا چھوٹا سا برآمدہ جس کی دیواروں میں گڑے تختوں پر سلور کے برتن دھرے تھے۔ خوبانیوں کا ڈھیر باورچی خانے کے ایک کونے میں پڑا تھا۔ کمرے میں بندھی تار پر گندی مندی رضائیاں لٹک رہی تھیں۔ لکڑی کی چھوٹی سی ڈولی میں چند برتن دھرے تھے کمرہ غربت وافلاس کی دلدل میں سالم دھنسا ہوا تھا۔ گھر والی سیاہ ملگجے کپڑوں میں خستہ حال جائے نماز پر ظہر کی نماز پڑھ رہی تھی۔ محمد رسول نے تھوڑی سی خوبانیاں ڈولی میں سے نکالیں انہیں پلیٹ میں رکھا۔ پھر سلورکا کٹورہ نکالا، اس کے سامنے رکھا۔ خوبانی کے دو ٹکڑے کئے اور ان ٹکڑوں کو جو کے خشک آٹے میں لتھیڑ کر کھانے کا عمل اسے سمجھایا اور مزید کھانے کی دعوت دی اور جب وہ کھاتی تھی وہ سوچے چلی جا رہی تھی۔

’’پروردگار تو نے میرا دل کیسا بنا دیا ہے ایسے اور اس جیسے سینکڑوں خستہ حال گھروں کو دیکھ کر جلتا ہے۔ کڑھتا ہے، لیکن کچھ نہیں کر پاتا۔‘‘

اپنی بے مائے گی کا احساس سانپ کے زہر کی طرح رگ و پے میں اترنے لگتا ہے نس نس جلنے لگتی ہے اور روح تڑپتے تڑپتے نڈھال ہو جاتی ہے۔

اس نے چھ سات خوبانیاں کھائیں اور پھر وضو کے لئے کہا۔ نماز کے لئے جب وہ کھڑی ہوئی۔ تو جانے درد کا ایک ریلا اس کے اندر سے کیوں پھوٹ نکلا۔ ٹپ ٹپ آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ دونوں کے ساتھ باتیں کرنے لگیں۔ محمد رسول کا ایک بیٹا تھا جو لاہور محنت مزدوری کرتا تھا۔ اس ایک بیٹے کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے تھے اور اس کے اس استفسار پر کہ وہ لوگ کہاں ہیں۔ محمد رسول نے بتایا کہ اوپر پہاڑوں پر ہمارے کھیت ہیں۔ گندم کی کٹائی سے فارغ ہو کر اب کھیتوں میں دوسری فصل بوئی گئی۔

اس نے چھوٹی سے کھڑکی سے جھانک کر سامنے سینکڑوں فٹ اونچے پہاڑوں کو دیکھا اور حیرت سے پوچھا بھلا ان پہاڑوں پر۔

’’ہاں ہاں وہاں پانی ہے۔ زمین ہموار ہے۔ کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ میری بچی ہماری آبادی خوش قسمتی سے سردی کے تین مہینوں میں دھوپ سے محروم نہیں ہوتی۔ اکثر جگہوں پر ترچھی دھوپ اور آبادی کے درمیان اونچے پہاڑ حائل ہو جاتے ہیں جس سے زمین کی زرخیزی متاثر ہونے کے علاوہ اکثر کمزور پودے سوکھ جاتے ہیں۔ یہاں زندگی کس قدر کٹھن ہے تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتی ہو۔ آب پاشی کا دارو مدار چشموں، قدرتی اور مصنوعی گلیشیئر اور برفانی پانی پر ہے۔ جس کا حصول تیز دھوپ پر ہے۔‘‘

خدیجہ بی بی کہیں جانے کی تیاری میں تھی شاید۔ اس نے پوچھا تو جواب ملا۔ یہ اب اوپر جا رہی ہے۔ بہو نے چارہ کاٹ کر رکھا ہو گا نیچے لانا ہے۔

’’میں بھی ان کے ساتھ جاؤں گی۔‘‘ وہ کھڑی ہو گئی تھی۔

خدیجہ بی بی نے کمر پر چورونگ (تیلیوں سے بنی ہوئی لمبوتری ٹوکری) کَسی اور ڈاک کے گھوڑے کی مانند تازہ دم نظر آنے لگی۔ وہ بھی اس کے پیچھے چل پڑی۔ پہاڑ کے سینے پر تھوڑا سا چڑھتی اور سانس پھول جاتا خدیجہ بیگم ہنستے ہوئے رک جاتی۔

’’خدایا یہ زندگی کس قدر کٹھن، کیسی پر آشوب اور کتنی تلخ ہے۔ سامنے دریائے شیوق ایک پتلی سی لکیر کی صورت میں بہتا نظر آتا تھا۔

کہیں ڈیڑھ گھنٹے میں جب وہ اوپر پہنچی تو دنگ رہ گئی۔ پہاڑوں کے سینے پر سبزہ وگل کے جنگل اُگے ہوئے تھے۔ آدھا کونیس اوپر تھا۔ گندم کٹ چکی تھی۔ کھیتوں میں باجرہ اور کنگنی کے چھوٹے چھوٹے سبز پودے سر اٹھائے کھڑے تھے۔ جھونپڑیاں جن میں دو چار برتن اور ضرورت کی چند چیزیں دھری تھیں۔ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کھیتوں سے پرے ان پہاڑوں پر جہاں سبزہ تھا اور جھاڑیاں تھیں، چرتی پھرتی تھیں۔ خدیجہ کی بہو اور پوتے پوتیاں اسے دیکھ کر حیرت زدہ سے تھے۔ خدیجہ بیگم کی بہو پھر سے ماں بننے والی تھی۔

اور جب سورج ڈوب رہا تھا۔ وہ سب قلانچیں بھرتے ہوئے نیچے اتر رہے تھے۔ اس نے سورج کے آتشیں گولے کو دیکھتے ہوئے دو باتیں سوچیں۔ شہر والیوں کے تو کھیر کھاتے پائچے اترتے ہیں اور یہاں اتنے بڑے پیٹ کے ساتھ اتنی چڑھائی اترائی، جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔

اب لاکھ اس عورت کو مادی وسائل حاصل نہیں، پر اولاد جیسا خزانہ تو ہے نہ اس کے پاس۔

٭٭٭

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل