FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

فہرست مضامین

یہ زندگی ہے ہماری

 

حصہ دوم : ویراں سرائے کا دیا

 

 

عبید اللہ علیمؔ

 

کمپوزنگ اور پیشکش: آصف محمود ڈار

 

 

 

تعارف

 

عبید اللہ علیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر ہیں جنہیں شاعری کے مجموعہ "چاند چہرہ ستارہ آنکھیں” پر آدم جی ادبی انعام ملا۔ عبید اللہ علیم 12 جون 1939ء کو بھوپال ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان آ گئے۔ 1969ء میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ پھر پاکستان ٹیلی وژن میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کی مگر حکام بالا سے اختلافات کی وجہ سے 1978ء میں انہوں نے اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ عبید اللہ علیم کا شمار موجودہ دور کے غزل کے بہترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "چاند چہرہ ستارہ آنکھیں ” 1978ء میں شائع ہوا جس پر انہیں آدم جی ادبی انعام بھی ملا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں "ویران سرائے کا دیا” اور "نگارِ صبح کی امید” شامل ہیں۔ ان تینوں مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ان کی کلیات ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ان کی دو نثری تصانیف "کھلی ہوئی ایک سچائی” اور "میں جو بولا” کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ 18 مئی 1998ء کو عبید اللہ علیم کراچی پاکستان میں وفات پا گئے اور کراچی میں اسٹیل مل کے نزدیک رزاق آباد میں باغ احمد نامی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ۔

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

 

 

 

 

نگارِ صبح کی اُمید میں، 2000ء، مارچ

ویران سرائے کا دیا، 1986، جولائی

چاند چہرہ ستارہ آنکھیں، 1974، جنوری

 

 

 

 

 انتساب

 

اُس کے نام

جس کا نام

دیا جلائے

صبح و شام

 

 

 

 دئیے کی کہانی

 

چاند چہرہ ستارہ آنکھیں 1974ء میں پہلی بار رونما ہوا تھا۔ آپ نے اُسے جس محبت اور شوق سے ہجوم در ہجوم دیکھا اور دیکھ رہے ہیں۔ اُس کے لیے جہاں میں اپنے رب کا شکر گزار ہوں وہاں آپ کے لیے بھی میرا سینہ دعائے خیر سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے یقین ہوا کہ سچے جذبوں اور خوابوں کی نمو پذیری کا عمل اُس طرح دوسری روحوں میں پھلتا اور پھولتا چلا جاتا ہے جس قوت اور محبت سے اُس نے روحِ شاعر میں جلوہ گری کی ہو۔ طبیعتوں کے فرق اور مزاج اور ذوق کی بلندی و پستی سے اکتسابی اور جذبی فرق ضرور پیدا ہوتا ہے، مگر یہ اور بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ محسوس کرنے والے کو محسوس کرنے والے محسوس کر ہی لیتے ہیں۔

ویران سرائے کا دیا دو استعاروں کا ایک گہرا اور بلیغ استعارہ ہے۔ ویران سرائے انسان ہے، اُس کا وجود ہے، گھر ہے، کائنات ہے اور ہر وہ شے اور ہر وہ قدر ہے جس کا اندرون اور بیرون اپنے دائرے اور مرکزئیے سے ہٹ گیا ہے اور اُس کا ہونا ہونے کی طرح نہیں ہے۔ دیا اللہ نور السمٰوات والارض ہے، دیا اس کا نور علیٰ نور آدمی ہے، دل ہے، عشق ہے، حسن ہے، عقل ہے، ایک طاقت اور اکائی ہے۔ دیا روشنی اور توانائی ہے، دیا قامت کی قیامت بھی ہے اور اُس کی ادائے حیا بھی۔ دیا حسنِ ظاہر کا ایک دلپذیر تماشا بھی ہے اور حسنِ باطن کا ایک جاں گداز کشف بھی۔ یہ ایک شاعر کی وجدانی اور وارداتی کہانی کا مثالیہ بھی ہے اور اشاریہ بھی۔ یہ زمینی اور ماورائی حقیقتوں اور رشتوں سے جڑنے اور ہم آہنگ ہونے کی ایک والہانہ کہانی ہے۔ یہ میری کہانی ہے اور اس طرح یہ ہر اُس آدمی کی کہانی ہے جو دل میں کوئی دیا جلائے ہوئے مسلسل کسی حسن میں گم ہوتے رہنے کا تمنائی ہے۔

میرا ایمان ہے کہ شاعر اگر حقیقتاً شاعر ہو اور اندر باہر زندہ ہو تو کوئی لفظ نہ مردہ ہوتا ہے اور نہ واماندہ۔ لفظ کا نور ظہور شخصیت اور ذات کی شنیدنی، دیدنی اور چشیدنی حالتوں، کیفیتوں اور ذائقوں سے اپنے اپنے دائروں، سطحوں اور منطقوں سے ماورائیت کی جانب جست خیز ہوتا ہے۔ جتنے گہراؤ میں یہ اضافت لگتی ہے اُتنے ہی گہراؤ میں لفظ بولتا ہے اور اپنے سیاق و سباق اور اپنی روایت میں بظاہر وہی ہونے کے باوجود بہ باطن وہی نہیں ہوتا بلکہ ایک نئی شان، ایک نئی قدرت اور نئے جہانِ معنی کا مظہر ہو جاتا ہے، اور جب یوں ہوتا ہے تو بولنے والا اپنے لفظ سے پہچانا جاتا ہے اور لفظ بولنے والے کی شناخت بن جاتا ہے۔ ایسی حالت میں فطری شاعر کو زبان و بیان اور اسلوب و ہیئت کے گورکھ دھندوں میں الجھنے کی ضرورت نہیں پڑتی، کیونکہ وہ خود اپنی جگہ زبان و بیان اور اسلوب و ہیئت کا منہ بولتا آئینہ بن جاتا ہے اور ہر سانچے کو بظاہر وہی رکھتے ہوئے اپنی باطنی تجلی کے انکشاف سے اُسے اور سے اور بنا دیتا ہے اور یہی اصل شاعر کا منصب ہے او یہی مقصود ہے۔

میرا یہ بھی ایمان ہے کہ کسی بھی نظرئیے یا خیال کا محض رسمی تکراری عمل، نظرئیے یا خیال کی شہادت کے لیے کافی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ انسانی وجود میں اپنی مسلسل اور متواتر یقینی پیدائش کا عملی ثبوت نہ کرتا چلا جائے۔ وہم اور وسوسے کی اپنی تنہائیاں ہیں۔ علم اور یقین کی اپنی محفل آرائیاں ہیں۔ خودی اور انا، صحرائے وجود کی خواب سراب بھُول بھُلیّاں ہیں۔ سپردگی اور فنا گلزارِ وجود کی مہتاب گلاب رونمائیاں ہیں۔ جب ذرے کی کائنات اپنی قوتوں میں یکجائی، وحدت، تعاون و توازن اور سپردگی کے فعلی اعلان کی حد میں پہنچ گئی ہے تو پھر اس جوہر کامل کی تسلیم میں اب جھگڑا کیا رہ جاتا ہے جس نے بہت پہلے ایک زندہ، توانا اور زبردست خدا کے ہمیشہ ہونے کا حتمی اور آخری یقین دیا اور وہ تعاون و توازن، فدائیت و  فنائیت اور سپردگی کے راستے سے اپنے رب میں ایسے پیوند ہوا کہ مقامِ عبدیت کی انتہا ہو گیا۔ اُس آخری انسان کی جستِ آخر پر ذرے کی فعلی گواہی، اس جوہر کامل کی قولی اور فعلی شہادت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی تصدیق کے سوا اور ہو بھی کیا سکتی تھی سو مادی اور ماورائی زبان سے یہ طے ہوا کہ انا نہیں بلکہ فنا، خودی نہیں بلکہ سپردگی ہی بقائے ذات و حیات کا محورِ اصل اور دائمی منشور ہے۔

ذرے کی اثباتیت نے ابلیسی قوتوں کو اپنے اندر توڑ دیا ہے، مگر ٹوٹتے ٹوٹتے یہ قوتیں ایک آخری جنگ کا الاؤ بھڑکا رہی ہیں ان کے غصے اور نفرتیں آتشیں ذروں کی صورت کسی دم پھٹنے ہی والے ہیں اور یہ انسان کو دوبارہ غار کی جانب دھکیلنا چاہتی ہے، مگر اس اسفل آدم کی شکست ہمیشہ کی طرح اس کی قسمت ہے۔ میں افضل مگر مظلوم آدم کے لشکر کا بہادر سپاہی ہوں۔ میں ابلیسی خودی اور انا کے مقابلے پر آدم کا یقین، سپردگی اور دعا کا زادِ سفر لے کے نکلا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ رحمت کے بادل اسی ابلیسی آگ کو پھر ٹھنڈا کرنے کے لیے تلے کھڑے ہیں۔ میرا چاند چہرہ اب دعا دعا چہرہ ہو گیا ہے، میری ستارہ آنکھیں اب حیا حیا آنکھیں ہو گئی ہیں۔ میں کسی نظرئیے یا خیال کے رسمی و تکراری عمل کا شاعر نہیں۔ میں اپنے مسلسل ظہور اور اپنی متواتر یقینی پیدائش کا شاعر ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ایسے شاعر کے لیے فنا کا قانون منسوخ ہو جاتا ہے۔

 

 

 

ویران سرائے کا دیا ہے

جو کون و مکاں میں جل رہا ہے

 

یہ کیسی بچھڑنے کی سزا ہے

آئینے میں چہرہ رکھ گیا ہے

 

خورشید مثال شخص کل شام

مٹی کے سپرد کر دیا ہے

 

تم مر گئے حوصلہ تمھارا

زندہ ہوں یہ میرا حوصلہ ہے

 

اندر بھی زمیں کے روشنی ہو

مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے

 

میں کون سا خواب دیکھتا ہوں

یہ کون سے ملک کی فضا ہے

 

وہ کون سا ہاتھ ہے کہ جس نے

مجھ آگ کو خاک سے لکھا ہے

 

رکھّا تھا خلا ء میں پاؤں میں نے

رستے میں ستارہ آ گیا ہے

 

شاید کہ خدا میں اور مجھ میں

اِک جست کا اور فاصلہ ہے

 

گردش میں ہیں کتنی کائناتیں

بچہ مرا پاؤں چل رہا ہے

1978ء

٭٭٭

 

 

کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا

میں کیسا زندہ آدمی تھا اِک شخص نے مجھ کو وار دیا

 

اِک سبز شاخ گلاب کی تھی اِک دنیا اپنے خواب کی تھا

وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لئے سب کچھ ہار دیا

 

یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں

اے کاش کبھی تم جان سکو جو اس سُکھ نے آزار دیا

 

میں کھلی ہوئی ایک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں

میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا

 

وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی

اُس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پِندار دیا

 

میں روتا ہوں اور آسمان سے تارے ٹوٹتے دیکھتا ہوں

اُن لوگوں پر جن لوگوں نے مرے لوگوں کو آزار دیا

 

وہ یار ہوں یا محبوب مرے یا کبھی کبھی ملنے والے

اِک لذّت سب کے ملنے میں وہ زخم دیا یا پیار دیا

 

مرے بچوں کو اللہ رکھے ان تازہ ہوا کے جھونکوں نے

میں خشک پیڑ خزاں کا تھا مجھے کیسا برگ و بار دیا

1976ء

٭٭٭

 

 

 

 

خوشبو تھا اور بدن سے تنگ تھا میں

جب شعلۂ رنگ رنگ تھا میں

 

سائے پہ پڑا ہوا تھا سایہ

تعبیر پہ اپنی دنگ تھا میں

 

میں اپنی دلیل لانے والا

ہارا تو عجب ترنگ تھا میں

 

تم نے مجھے اُس طرح نہ جانا

جو عالمِ خواب رنگ تھا میں

 

ہاتھوں سے کچھ اپنے دوستوں کے

وہ پھول پڑے کہ سنگ تھا میں

 

گزری ہوئی رات کی کہانی

وہ شمع تھی اور پتنگ تھا میں

 

پھر دہر پہ کیوں نہ پھیل جاتا

قامت پہ جب اپنے تنگ تھا میں

 

ترسی ہوئی روح پر زمیں کی

برسی ہوئی اِک امنگ تھا میں

 

اے موسمِ ذات تو بتانا

انسان کی کیسی جنگ تھا میں

1974ء

٭٭٭

 

 

 

 

تم ایسی محبت مت کرنا

 

مرے خوابوں میں چہرہ دیکھو

اور میری قائل ہو جاؤ

تم ایسی محبت مت کرنا

مرے لفظوں میں وہ بات سنو

جو بات لہو کی چاہت ہو

پھر اس چاہت میں کھو جاؤ

تم ایسی محبت مت کرنا

یہ لفظ مرے یہ خواب مرے

ہر چند یہ جسم و جاں ٹھہرے

پر ایسے جسم و جاں تو نہیں

جو اور کسی کے پاس نہ ہوں

پھر یہ بھی تو ممکن ہے، سوچو

یہ لفظ مرے، یہ خواب مرے

سب جھوٹے ہوں

تم ایسی محبت مت کرنا

گر کرو محبت تو ایسی

جس طرح کوئی سچائی کی رَو ہر جھوٹ کو سچ کر جاتی ہے

1974ء

٭٭٭

 

 

 

 

عجیب تھی وہ عجب طرح چاہتا تھا میں

وہ بات کرتی تھی اور خواب دیکھتا تھا میں

 

وصال کا ہو کہ اُس کے فراق کا موسم

وہ لذّتیں تھیں کہ اندر سے ٹوٹتا تھا میں

 

چڑھا ہوا تھا وہ نشّہ کہ کم نہ ہوتا تھا

ہزار بار اُبھرتا تھا ڈوبتا تھا میں

 

بدن کا کھیل تھیں اس کی محبتیں لیکن

جو بھید جسم کے تھے جاں سے کھولتا تھا میں

 

پھر اس طرح کبھی سویا نہ اس طرح جاگا

کہ رُوح نیند میں تھی اور جاگتا تھا میں

 

کہاں شکست ہوئی اور کہاں صلہ پایا

کسی کاعشق کسی سے نباہتا تھا میں

 

میں اہلِ زر کے مقابل میں تھا فقط شاعر

مگر میں جیت گیا لفظ ہارتا تھا میں

1976ء

٭٭٭

 

 

 

 

باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے

ہر دھُوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ گھر میں ہے

 

پاتال کے دُکھ وہ کیا جانیں جو سطح پہ ہیں ملنے والے

ہیں ایک حوالہ دوست مرے اور ایک حوالہ گھر میں ہے

 

مری عمر کے اِک اِک لمحے کو میں نے قید کیا ہے لفظوں میں

جو ہارا ہوں یا جیتا ہوں وہ سب سرمایہ گھر میں ہے

 

تو ننّھا مُنّا ایک دیا میں ایک سمندر اندھیَارا

تو جلتے جلتے بجھنے لگا اور پھر بھی اندھیرا گھر میں ہے

 

کیا سوانگ بھرے روٹی کے لئے عزّت کے لئے شہرت کے لئے

سنو شام ہوئی اب گھر کو چلو کوئی شخص اکیلا گھر میں ہے

 

اِک ہجر زدہ بابل پیاری ترے جاگتے بچوں سے ہاری

اے شاعر کس دنیا میں ہے تُو تری تنہا دنیا گھر میں ہے

 

دنیا میں کھپائے سال کئی آخر میں کھلا احوال یہی

وہ گھر کا ہو یا باہر کا ہر دکھ کا مداوا گھر میں ہے

1977ء

٭٭٭

 

 

 

 

کوچۂ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے

تھے گدا تحفۂ نایاب اٹھا کر لے آئے

 

کون سی کشتی میں بیٹھیں ترے بندے مولا

اب جو دنیا کوئی سیلاب اٹھا کر لے آئے

 

ہائے وہ لوگ گئے چاند سے ملنے اور پھر

اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خواب اٹھا کر لے آئے

 

ایسا ضدی تھا مرا عشق نہ بہلا پھر بھی

لوگ سچ مچ کئی مہتاب اٹھا کر لے آئے

 

سطحِ ساحل نہ رہی جب کوئی قیمت ان کی

ہم خزانوں کو تہہِ آب اٹھا کر لے آئے

 

جب ملا حسن بھی ہرجائی تو اس بزم سے ہم

عشقِ آوارہ کو بیتاب اٹھا کر لے آئے

 

اس کو کم ظرفی رندانِ گرامی کہیئے

نشّے چھوڑ آئے مئے ناب اٹھا کر لے آئے

 

انجمن سازیِ اربابِ ہنر کیا لکھیے ٔ

ان کو وہ اور اُنھیں احباب اٹھا کر لے آئے

 

ہم وہ شاعر ہمیں لکھنے لگے جب لوگ تو ہم

گفتگو کے نئے آداب اٹھا کر لے آئے

 

خواب میں لذّتِ یک خواب ہے دنیا میری

اور مرے فلسفی اسباب اٹھا کر لے آئے

1978ء       ٭٭٭

 

 

دعا دعا وہ چہرہ

 

حیا حیا وہ آنکھیں

صبا صبا وہ زلفیں

چلے لہو گردش میں

رہے آنکھ میں دل میں

بسے مرے خوابوں میں

جلے اکے لیے پن میں

ملے ہر اک محفل میں

دعا دعا وہ چہرہ

کبھی کسی چلمن کے پیچھے

کبھی درخت کے نیچے

کبھی وہ ہاتھ پکڑتے

کبھی ہوا سے ڈرتے

کبھی وہ بارش اندر

کبھی وہ موج سمندر

کبھی وہ سورج ڈھلتے

کبھی وہ چاند نکلتے

کبھی خیال کی رو میں

کبھی چراغ کی لو میں

دعا دعا وہ چہرہ

کبھی بال سکھائے آنگن میں

کبھی مانگ نکالے درپن میں

کبھی چلے پون کے پاؤں میں

کبھی ہنسے دھوپ میں چھاؤں میں

کبھی پاگل پاگل نینوں میں

کبھی چھاگل چھاگل سینوں میں

کبھی پھولوں پھول وہ تھالی میں

کبھی دئیوں بھری دیوالی میں

کبھی سجا ہوا آئینے میں

کبھی دعا بنا وہ زینے میں

کبھی اپنے آپ سے جنگوں میں

کبھی جیون موج ترنگوں میں

کبھی نغمہ نور فضاؤں میں

کبھی مولا حضور دعاؤں میں

کبھی رکے ہوئے کسی لمحے میں

کبھی دکھے ہوئے کسی چہرے میں

وہی چہرہ بولتا رہتا ہوں

وہی آنکھیں سوچتا رہتا ہوں

وہی زلفیں دیکھتا رہتا ہوں

دعا دعا وہ چہرہ

حیا حیا وہ آنکھیں

صبا صبا وہ زلفیں

1984ء

٭٭٭

 

 

یہ جیون باندھ لیا تم سے اب اور کہیں ہمیں جانا نہیں

کسی اور کو حال سنانا نہیں کِسی اور کو دل یہ دِکھانا نہیں

٭٭٭

 

 

تو اپنی آواز میں گم ہے میں اپنی آواز میں چپ

دونوں بیچ کھڑی ہے دنیا آئینۂ الفاظ میں چپ

 

اوّل اوّل بول رہے تھے خواب بھری حیرانی میں

پھر ہم دونوں چلے گئے پاتال سے گہرے راز میں چپ

 

خواب سرائے ذات میں زندہ ایک تو صورت ایسی ہے

جیسے کوئی دیوی بیٹھی ہو حُجرۂ رازو نیاز میں چپ

 

اب کوئی چھو کے کیوں نہیں آتا اُدھر سرے کا جیون انگ

جانتے ہیں پر کیا بتلائیں لگ گئی کیوں پرواز میں چپ

 

پھر یہ کھیل تماشہ سارا کِس کے لئے اور کیوں صاحب

جب اس کے انجام میں چُپ ہے جب اس کے آغاز میں چپ

 

نیند بھری آنکھوں سے چوما دیئے نے سورج کو اور پھر

جیسے شام کو اب نہیں جلنا کھینچ لی اس انداز میں چپ

 

غیب سمے کے گیان میں پاگل کتنی تان لگائے گا

جتنے سُر ہیں ساز سے باہر اس سے زیادہ ساز میں چپ

1979ء

٭٭٭

 

 

 

 

وہ میرا خواب اگر خواب کے برابر ہے

تو یعنی مہر بھی مہتاب کے برابر ہے

 

وفا کی بات کہاں بات تھی مروّت کی

سو اب یہ جنس بھی نایاب کے برابر ہے

 

کوئی نہیں ہے کہیں صرف میں ہی میں زندہ

یہ ذائقہ مجھے اسباب کے برابر ہے

 

خود اپنی قامتِ زیبا ہے میرا اِک اِک یار

ہر اِک رقیب کے احباب کے برابر ہے

 

طوافِ ذات میں جو شمع تھا وہ پروانہ

بُجھا تو شعلۂ بے تاب کے برابر ہے

 

جو عشق کھول نہ پائے قبائے ذات کے بند

زمانہ ساز ہے آداب کے برابر ہے

 

اگر ہوں کچّے گھروندوں میں آدمی آباد

تو ایک ابر بھی سیلاب کے برابر ہے

 

شکستۂ ناؤ ہو اور لوگ بھی شکستہ ہوں

تو ایک لہر بھی گرداب کے برابر ہے

 

یہ ساحلوں سے خزانہ چُرانے والے لوگ

سمجھ رہے ہیں تہہِ آب کے برابر ہے

1978ء

٭٭٭

 

 

 

 

تُمہارے بعد بھی کچھ دن ہمیں سہانے لگے

پھر اُس کے بعد اندھیرے دیئے جلانے لگے

 

چمک رہا تھا وہ چاند اور اس کی محفل میں

سب آنکھیں آئینے چہرے شراب خانے لگے

 

خلاء میں تھا کہ کوئی خواب تھا کہ خواہش تھی

کہ اس زمین کے سب شہر شامیانے لگے

 

نہ جانے کون سے سیّارے کا مکیں تھا رات

کہ یہ زمین و زماں سب مجھے پرانے لگے

 

فضائے شام، سمندر، ستارہ جیسے لوگ

وہ بادبان کھلے، کشتیاں چلانے لگے

 

بس ایک خواب کی مانند یہ غزل میری

بدن سنائے اسے روح گنگنانے لگے

 

ہزاروں سال کے انساں کا تجربہ ہے جو شعر

تو پل میں کیسے کھلے وہ جسے زمانے لگے

 

سیاہ رات کی حد میں اگر نکل آئے

دیئے کے سامنے خورشید جھلملانے لگے

 

ہر اک زمانہ زمانہ ہے میرؔ صاحب کا

کہا جو ان نے تو ہم بھی غزل سنانے لگے

1978ء

٭٭٭

 

 

 

پل

 

سب چھاؤں دھوپ کی آنکھیں ہیں کچھ جلی ہوئی کچھ بجھی ہوئی

اِدھر اُدھر بس ایک دیا اور چپ چادر سی تنی ہوئی

 

باطن ظاہر، ظاہر باطن اصل میں ایک ہی لمحہ ہے

کچھ ہونے والا ہو گزرا کچھ ہونے والا ہونا ہے

 

عکس بھی زندہ اور ہماری آوازیں بھی زندہ ہیں

اس مرنے سے کیا ہوتا ہے آگے ہم پائندہ ہیں

 

پیچھے کتنا رستہ چھوڑا آگے کتنا رستہ ہے

سمے میں بہتے آئے ہیں اور سمے میں بہتے رہنا ہے

 

اس سمے کے چھ پل بیت گئے اس سمے کا اِک پل باقی ہے

بس یہ اِک پل جو بیت گیا تو پھر ہستی آفاقی ہے

1980ء

٭٭٭

 

 

 

 

ایک میں بھی ہوں کُلہ داروں کے بیچ

میرؔ صاحب کے پرستاروں کے بیچ

 

روشنی آدھی اِدھر آدھی اُدھر

اِک دیا رکھّا ہے دیواروں کے بیچ

 

میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا

آئنہ خانے تھے نظّاروں کے بیچ

 

ہے یقیں مجھ کو کہ سیّارے پہ ہوں

آدمی رہتے ہیں سیّاروں کہ بیچ

 

کھا گیا انسان کو آشوبِ معاش

آ گئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ

 

میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر

اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ

 

اپنی ویرانی کے گوہر رولتا

رقص میں ہوں اور بازاروں کے بیچ

 

کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے

گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ

 

اہلِ دل کے درمیاں تھے میرؔ تم

اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ

 

آنکھ والے کو نظر آئے علیمؔ

اِک محمدؐ مصطفے ٰ ساروں کے بیچ

1978ء       ٭٭٭

 

 

 

اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبوب آئے

جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب آئے

 

اس سے کہنے کو گئے تھے کہ محبّت ہے بہت

اس کو دیکھا تو شکستہ دل و محجوب آئے

 

آگے کیا ہو یہ سخن آج تو یوں ہے جیسے

اپنے نام اپنا ہی لکّھا ہوا مکتوب آئے

 

ایک دربار کی تصویر میں کچھ اہلِ قلم

وقت کی آنکھ نے دیکھا کہ بہت خوب آئے

 

دُکھ سے پھر جاگ اُٹھی آنکھ ستارے کی طرح

اور سب خواب ترے نام سے منسوب آئے

 

ہم نے دل نذر کیا اہلِ محبت کے حضور

اُن نے قامت یہ بڑھایا ہے کہ مصلوب آئے

 

میں تری خاک سے لپٹا ہوا اے ارضِ وطن

ان ہی عشّاق میں شامل ہوں جو معتوب آئے

1980ء

٭٭٭

 

 

 

 

جب لفظ کبھی ادب لکھو گے

یہ لفظ مرا نسب لکھو گے

 

لکھا تھا کبھی یہ شعر تم نے

اب دُوسرا شعر کب لکھو گے

 

جتنا بھی قریب جاؤ گے تم

انساں کو عجب عجب لکھو گے

 

ہر لمحہ یہاں ہے ایک ’ہونا‘

کس بات کا کیا سبب لکھو گے

 

انسان کا ہو گا ہاتھ اس میں

اللہ کاجو غضب لکھو گے

 

جب رات کو نیند ہی نہ آئے

پھر رات کو کیسے شب لکھو گے

 

بچے کے بھی دل سے پو چھ لینا

کیا ہے وہ جسے طرب لکھو گے

 

صدیوں میں وہ لفظ ہے تمہارا

اک لفظ جو اپنا اب لکھو گے

 

میں اپنے وجود کا ہوں شاعر

جو لفظ لکھوں گا سب لکھو گے

1978ء

٭٭٭

 

 

 

 

چہرہ ہوا میں اور مری تصویر ہوئے سب

میں لفظ ہوا مجھ میں ہی زنجیر ہوئے سب

 

بنیاد بھی میری درو دیوار بھی میرے

تعمیر ہوا میں کہ یہ تعمیر ہوئے سب

 

بتلاؤ تو یہ آب و ہوا آئی کہاں سے

کہنے کو تو تم لہجہ و تاثیر ہوئے سب

 

ویسے ہی لکھو گے تو مرا نام ہی ہو گا

جو لفظ لکھے وہ مری جاگیر ہوئے سب

 

مرتے ہیں مگر موت سے پہلے نہیں مرتے

یہ واقعہ ایسا ہے کہ دلگیر ہوئے سب

 

وہ اہلِ قلم سایۂ رحمت کی طرح تھے

ہم اتنے گھٹے اپنی ہی تعزیر ہوئے سب

 

اس لفظ کی مانند جو کھُلتا ہی چلا جائے

یہ ذات و زماں مجھ سے ہی تحریر ہوئے سب

 

تنا سخن میرؔ نہیں سہلِ خدا خیر

نقّاد بھی اب معتقدِ میر ہوئے سب

1978ء

٭٭٭

 

 

 

 

جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے

تو دل میں گزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے

 

ہرے بھرے میرے خوابوں کو روندنے والو

خدائے زندہ زمیں پر اتر بھی آتا ہے

 

وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا میرا وجود

کب آئے گا جو کوئی ابر تر بھی آتا ہے

 

کبھی جو عشق تھا اب مکر ہو گیا میرا

سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے

 

ابھی چلا بھی نہ تھا اور رک گئے پاؤں

یہ سوچ کر کہ میرا ہمسفر بھی آتا ہے

 

ملے گا اور مرے سارے زخم بھر دے گا

سنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے

 

یہ میرا عہد یہ میری دکھی ہوئی آواز

میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے

 

کوئی چرا کے مجھے کیسے چھپ سکے کہ علیمؔ

لہو کا رنگ میرے حرف پر بھی آتا ہے

1975ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں کیسے جیوں گر یہ دنیا ہر آن نئی تصویر نہ ہو

یہ آتے جاتے رنگ نہ ہوں اور لفظوں کی تنویر نہ ہو

 

اے راہِ عشق کے راہی سن چل ایسے سفر کی لذّت میں

تری آنکھوں میں نئے خواب تو ہوں پر خوابوں کی تعبیر نہ ہو

 

گھر آؤں یا باہر جاؤں ہر ایک فضا میں میرے لیے

اک جھوٹی سچی چاہت ہو رسموں کی کوئی زنجیر نہ ہو

 

جیسے یہ مری اپنی صورت مرے سامنے ہو اور کہتی ہو

مرے شاعر تیرے ساتھ ہوں میں مایوس نہ ہو دلگیر نہ ہو

 

کوئی ہو تو محبت ایسی ہو مجھے دھوپ اور سائے میں جس کے

کسی جذبے کا آزار نہ ہو کسی خواہش کی تعزیر نہ ہو

1975ء

٭٭٭

 

 

 

 

جو اُس نے کیا اُسے صلہ دے

مولا مجھے صبر کی جزا دے

 

یا میرے دیئے کی لو بڑھا دے

یا رات کو صبح سے ملا دے

 

سچ ہوں تو مجھے امر بنا دے

جھوٹا ہوں تو نقش سب مٹا دے

 

یہ قوم عجیب ہو گئی ہے

اس قوم کو خوئے انبیاء دے

 

اترے گا نہ کوئی آسماں سے

اک آس میں دل مگر صدا دے

 

بچوں کی طرح یہ لفظ میرے

معبود انہیں بولنا سکھا دے

 

دکھ دہر کے اپنے نام لکھوں

ہر دکھ مجھے ذات کا مزا دے

 

اک میرا وجود سن رہا ہے

الہام جو رات کی ہوا دے

 

مجھ سے مرا کوئی ملنے والا

بچھڑا تو نہیں مگر ملا دے

 

چہرہ مجھے اپنا دیکھنے کو

اب دستِ ہوس میں آئینہ دے

 

جس شخص نے عمرِ ہجر کاٹی

اس شخص کو ایک رات کیا دے

 

دُکھتا ہے بدن کہ پھر ملے وہ

مل جائے تو روح کو دُکھا دے

 

کیا چیز ہے خواہشِ بدن بھی

ہر بار نیا ہی ذائقہ دے

 

چھونے میں یہ ڈر کہ مر نہ جاؤں

چھو لوں تو وہ زندگی سوا دے

1975ء

٭٭٭

 

ستارہ و ماہتاب لکھنا کہ گرمیِ آفتاب لکھنا

ہمیں تمہارے ہی نام لکھنا عذاب لکھنا کہ خواب لکھنا  ٭٭

 

آوارگی پہ ہم نے بہت دن گزر کیا

جب تھک گئے تو پھر اسی صحرا کو گھر کیا

 

رنجِ خزاں سے موجِ ہوائے بہار تک

وہ خواب سلسلہ تھا کہ آنکھوں کو تر کیا

 

اس کا بدن تھا جامِ شراب اور لب بہ لب

ہم تشنۂ لب تھے ہم نے بھی عالم دگر کیا

 

تھی ایک زندگی کے برابر وہ ایک رات

اس رات کو بسر کیا اور تا سحر کیا

 

ہم پہ تھا ایک عشق کا سایا کہ ساری عمر

اپنی ہی روشنی میں کیا جو سفر کیا

 

تم لوگ وہ کہ چھوڑ گئے کربلا کے بیچ

ہم لوگ وہ کہ جن نے تمھیں معتبر کیا

 

کچھ کم نہیں تھا پہلے بھی پامال میرا شہر

یہ کس کے پاؤں نے اسے پامال تر کیا

 

کیسی ہوا میں نکلا تھا یہ کاروانِ گل

آخر خزاں کے ہاتھ لگا رخ جدھر کیا

 

ہم شمعِ حرف پر مٹے اور کیمیا ہوئے

تب دوسروں کے دل پر سخن نے اثر کیا

 

لکھی ہے میرؔ درد کے مصرعے پہ یہ غزل

اور اس غزل کو ہم نے اسی نام پر کیا

1981ء

٭٭٭

 

 

آزادی

 

 

میری قید میں رہنے والوں کا

میں نے خود دروازہ کھولا تھا

انجانے اور جانے پن کی بات نہیں

بس یونہی

شاید گہری نیند سے اٹھنا آزادی ہے

آزادی کے ہاتھ کی طاقت

اور سبھی ہاتھوں سے بڑی ہے

کتنی رات پڑی ہے

صبح تلک اک دو شاید اور نہ ہوں

جتنی دیر تلک جینا ہے

اتنی دیر تلک

کوئی شام دھنک

اسی ایک زمیں پر کئی فلک

سایوں کی طرح

ماؤں کی طرح

اِک ٹھنڈک دیں

اور جب آنکھ کھلے

تو آزادی کے نام کھلے

میں جب قید میں ہوں تو میں نے

اپنی قید میں رہنے والوں کا

دروازہ کیسے کھولا تھا

1978ء

٭٭٭

 

 

 

 

دل کی پاتال سرا سے آئی

دولتِ درد دعا سے آئی

 

ہے یہ ایمان کے اس کی آواز

سلسلہ وار خدا سے آئی

 

ایسا لگتا ہے کہ اس کی صورت

عالمِ خواب نما سے آئی

 

چلتے ہیں نقشِ قدم پر اس کے

جس کو رفتا صبا سے آئی

 

یونہی قامت وہ قیامت نہ ہوا

ہر ادا ایک ادا سے آئی

 

حسن اس کا تھا قیامت اس پر

وہ قیامت جو حیا سے آئی

 

ہر صدا آئی پر اس کی آواز

صرف تسلیم و رضا سے آئی

 

دل وہ آنسو کے پلک سے ٹپکا

غم وہ بارش کے گھٹا سے آئی

 

اب کے پامال زمینوں پہ بہار

اور ہی آب و ہوا سے آئی

 

جان بیمار میں اس کے آخر

اس کے ہی دستِ شفا سے آئی

 

ہم میں اک اور بقا کی صورت

ہم پہ اک اور فنا سے آئی

 

ہم نے ہر شے کو الگ سے دیکھا

ہم میں یہ بات جدا سے آئی

 

چاک کرتے تھے گریباں اپنا

روشنی بندِ قبا سے آئی

 

یہ ادا عشق و وفا کی ہم میں

اک مسیحا کی دعا سے آئی

 

آئی جو لہر نئی دل میں علیمؔ

اس کی بخشش سے عطا سے آئی

1983ء

٭٭٭

 

 

جس میں لہو کی آگ نہ آئے لفظ وہ کیسے زندہ ہو

میرے خواب چُرانے والو میرے دکھوں سے بھی گزرو

٭٭

 

 

اک شخص سماں بدل گیا ہے

مٹی کا جہاں بدل گیا ہے

 

بندہ وہ خدا نہیں تھا لیکن

ہر جسم میں جاں بدل گیا ہے

 

وہ آخری آدمی خدا کا

سب لفظ و بیاں بدل گیا ہے

 

پاؤں میں تھی آدمی کے کب سے

زنجیرِ گراں بدل گیا ہے

 

ہر نام و نسب کے دور میں وہ

سب نام و نشاں بدل گیا ہے

 

کہتے ہیں شہید کربلا کے

مفہومِ زیاں بدل گیا ہے

 

ہر زندہ چراغ ہے اسی کا

وہ نور کہاں بدل گیا ہے

 

پروانے کہاں یہ سننے والے

اب دور میاں بدل گیا ہے

 

آواز یہ اس مکاں سے آئی

وہ شخص مکاں بدل گیا ہے

 

نیچے سے زمیں نکل گئی ہے

اوپر سے زماں بدل گیا ہے

 

کس خلوتِ خاص میں گیا وہ

کپڑے بھی یہاں بدل گیا ہے

1978ء

٭٭٭

 

 

 

 

 جتنی دیر ملوں میں اس سے

 

جتنی دیر ملوں میں اس سے

اتنی دیر تو یوں لگتا ہے

سمے سے لے کر انت سمے تک

سارا جیون میرے پاس

٭٭٭

 

 

 

 

مٹی میں تھا خمیر ترے ناز سے اٹھا

پھر ہفت آسماں مری پرواز سے اٹھا

 

انسان ہو کسی بھی صدی کا کہیں کا ہو

یہ جب اٹھا ضمیر کی آواز سے اٹھا

 

صبحِ چمن میں ایک یہی آفتاب تھا

اس آدمی کی لاش کو اعزاز سے اٹھا

 

سو کبوتروں سے سے لکھا گیا ایک ایک لفظ

لیکن یہ جب اٹھاکسی اعجاز سے اٹھا

 

اے شہسوارِ حسن یہ دل ہے یہ میرا دل

یہ تیری سرزمیں ہے قدم ناز سے اٹھا

 

میں پوچھ لوں کہ کیا ہے میرا جبرو اختیار

یارب یہ مسئلہ کبھی آغاز سے اٹھا

 

وہ ابر شبنمی تھا کہ نہلا گیا وجود

میں خواب دیکھتا ہوا الفاظ سے اٹھا

 

شاعر کی آنکھ کا وہ ستارہ ہوا علیمؔ

قامت میں جو قیامتی انداز سے اٹھا

1980ء

٭٭٭

 

 

 

 

کمال آدمی کی انتہا ہے

وہ آئندہ میں بھی سب سے بڑا ہے

 

کوئی رفتار ہو گی روشنی کی

مگر وہ اس سے بھی آگے گیا ہے

 

جہاں بیٹھے صدائے غیب آئی

یہ سایہ بھی اسی دیوار کا ہے

 

مجسم ہو گئے سب خواب میرے

مجھے میرا خزانہ مل گیا ہے

 

حقیقت ایک ہے لذّت میں لیکن

حکایت سلسلہ در سلسلہ ہے

 

یونہی حیراں نہیں ہیں آنکھ والے

کہیں اک آئینہ رکھا ہوا ہے

 

وصالِ یار سے پہلے محبت

خود اپنی ذات کا اک راستہ ہے

 

سلامت آئینے میں ایک چہرہ

شکستہ ہو تو کتنے دیکھتا ہے

 

چلو اب فیصلہ چھوڑیں اسی پر

ہمارے درمیاں جو تیسرا ہے

 

رکھو سجدے میں سر اور بھول جاؤ

کہ وقتِ عصر ہے اور کربلا ہے

 

کسی بچے کی آہیں اٹھ رہی ہیں

غبار اک آسماں تک پھیلتا ہے

 

اندھیرے میں عجب اک روشنی ہے

کوئی خیمہ دیا سا جل رہا ہے

 

ہزاروں آبلے پائے سفر میں

مسلسل قافلہ اک چل رہا ہے

 

جدھر دیکھوں میری آنکھوں کے آگے

اُنہی نورانیوں کا سلسلہ ہے

 

یہ کیسے شعر تم لکھنے لگے ہو

عبید اللہ تمہیں کیا ہو گیا ہے

1978ء

٭٭٭

 

بتا ہی دے گا کہ میں کون تھا کہاں گزرا

وہ میرا صاحب وحی کتاب ہو گا ہی

٭٭

 

 

جب اپنا سُر پاتال ہوا

تب وحیِ نفس انزال ہوا

 

اک وصل کے خواب میں کھو جانا

یہ وصل ہوا کہ وصال ہوا

 

تھا دکھ اپنی پیدائش کا

جو لذت میں انزال ہوا

 

کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں

کن قدموں سے پامال ہوا

 

بِن عشق اسے کیونکر جانو

جو عشق سراپا حال ہوا

 

اس وقت کا کوئی انت نہیں

یہ وقت تو ماہ و سال ہوا

 

وہی ایک خلش نہ ملنے کی

ہمیں ملتے دسواں سال ہوا

 

ہر اچھی بات پہ یاد آیا

اک شخص عجیب مثال ہوا

 

ہر آن تجلی ایک نئی

لکھ جانا میرا کمال ہوا

 

کس بات کو کیا کہتا تھا مَیں

تم کیا سمجھے یہ ملال ہوا

 

تم کیسی باتیں کرتے ہو

اے یار صغیر ملال ہوا

 

کل رات سمندر لہروں پر

دیوانوں کا دھمّال ہوا

 

اک رانجھا شہر کراچی میں

اک رانجھا جھنگ سیال ہوا

1978ء

٭٭٭

 

 

 

میں ایک دریا میں وسطِ دریا تھا

دوسرے میں کنارِ دریا

٭٭

 

 

 

وہ رات بے پناہ تھی اور میں غریب تھا

وہ جس نے یہ چراغ جلایا عجیب تھا

 

وہ روشنی کہ آنکھ اٹھائی نہیں گئی

کل مجھ سے میرا چاند بہت ہی قریب تھا

 

دیکھا مجھے تو طبع رواں ہو گئی میری

وہ مسکرا دیا تو میں شاعر ادیب تھا

 

رکھتا نہ کیوں میں روح و بدن اس کے سامنے

وہ یوں بھی تھا طبیب وہ یوں بھی طبیب تھا

 

ہر سلسلہ تھا اس کا خدا سے ملا ہوا

چپ ہو کہ لب کشا ہو بلا کا خطیب تھا

 

موجِ نشاط و سیلِ غمِ جاں تھے ایک ساتھ

گلشن میں نغمہ سنج عجب عندلیب تھا

 

میں بھی رہا ہوں خلوت جاناں میں ایک شام

یہ خواب ہے یا واقعی مَیں خوش نصیب تھا

 

حرفِ دعا و دستِ سخاوت کے باب میں

خود میرا تجربہ ہے وہ بے حد نجیب تھا

 

دیکھا ہے اس کو خلوت و جلوت میں بار ہا

وہ آدمی بہت ہی عجیب و غریب تھا

 

لکھو تمام عمر مگر پھر بھی تم علیمؔ

اُس کو دکھا نہ پاؤ وہ ایسا حبیب تھا

1983ء

٭٭٭

 

 

 

 

سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا

یہ زندگی ہے ہماری سنبھال کر رکھنا

 

کھلا کہ عشق نہیں ہے کچھ اور اس کے سوا

رضائے یار جو ہو اپنا حال کر رکھنا

 

اسی کا کام ہے فرشِ زمیں بچھا دینا

اسی کا کام ستارے اچھال کر رکھنا

 

اسی کا کام ہے اس دکھ بھرے زمانے میں

محبتوں سے مجھے مالا مال کر رکھنا

 

بس ایک کیفیتِ دل میں بولتے رہنا

بس ایک نشے میں خود کو نہال کر رکھنا

 

بس ایک قامت زیبا کہ خواب میں رہنا

بس ایک شخص کو حدّ مثال کر رکھنا

 

گزرنا حسن کی نظارگی سے پل بھر کو

پھر اس کو ذائقہ لازوال کر رکھنا

 

کسی کہ بس میں نہیں تھا کسی کہ بس میں نہیں

بلندیوں کو سدا پائمال کر رکھنا

1982ء

٭٭٭

 

 

 

 

ایسی تیز ہوا اور ایسی رات نہیں دیکھی

لیکن ہم نے مولا جیسی ذات نہیں دیکھی

 

اس کی شانِ عجیب کا منظر دیکھنے والا ہے

اِک ایسا خورشید کہ جس نے رات نہیں دیکھی

 

بستر پر موجود رہے اور سیرِ ہفت افلاک

ایسی کسی پر رحمت کی برسات نہیں دیکھی

 

اس کی آل وہی جو اس کے نقشِ قدم پر جائے

صرف ذات کی ہم نے آلِ سادات نہیں دیکھی

 

ایک شجر ہے جس کی شاخیں پھیلتی جاتی ہیں

کسی شجر میں ہم نے ایسی بات نہیں دیکھی

 

اِک دریائے رحمت ہے جو بہتا جاتا ہے

یہ شانِ برکات کسی کے سات نہیں دیکھی

 

شاہوں کی تاریخ بھی ہم نے دیکھی ہے لیکن

اس کے در کے گداؤں والی بات نہیں دیکھی

 

اس کے نام پہ ماریں کھانا اب اعزاز ہمارا

اور کسی کی یہ عزت اوقات نہیں دیکھی

 

صدیوں کیا س دھوپ چھاؤں میں کوئی ہمیں بتلائے

پوری ہوتی کون سی اس کی بات نہیں دیکھی

 

اہلِ زمیں نے کونسا ہم پر ظلم نہیں ڈھایا

کون سی نصرت ہم نے اس کے ہات نہیں دیکھی

1983ء

٭٭٭

 

 

 

گزرتی ہے جو دل پر دیکھنے والا فقط تو ہے

اندھیرے میں اجالا دھوپ میں سایہ فقط تو ہے

 

گدائے دہر کا کیا ہے اگر یہ در نہیں وہ ہے

ترے در کے فقیروں کی تو کل دنیا فقط تو ہے

 

تو ہی دیتا ہے نشّہ اپنے مظلوموں کو جینے کا

ہر اِک ظالم کا نشّہ تو ڑنے والا فقط تو ہے

 

وہی دنیا وہی اک سلسلہ ہے ترے لوگوں کا

کوئی ہو کربلا اس دیں کا رکھوالا فقط تو ہے

 

ہواؤں کے مقابل بجھ ہی جاتے ہیں دئیے آخر

مگر جس کے دئیے جلتے رہیں ایسا فقط تو ہے

 

عجب ہو جائے یہ دنیا اگر کھل جائے انساں پر

کہ اس ویراں سرائے کا دیا تنہا فقط تو ہے

 

ہر اِک بے چارگی میں بے بسی میں اپنی رحمت کا

جو دل پر ہاتھ رکھتا ہے خداوندا فقط تو ہے

 

مرے حرف و بیاں میں آئینوں میں آبگینوں میں

جو سب چہروں سے روشن تر ہے وہ چہرہ فقط تو ہے

1984ء

٭٭٭

 

 

 

 

پڑھ اس طرح اسم اپنے رب کا

سینے میں رکھا ہو درد سب کا

 

پلکوں سے کہو کہ خاک اٹھائیں

بھائی یہ مقام ہے ادب کا

 

دنیا کے جو خواب دیکھتا تھا

وہ شخص تو مر چکا ہے کب کا

 

میں سجدے میں رات رو رہا تھا

پوچھا نہیں اس نے کچھ نسب کا

 

تجھ کو تو خبر ہے میرے معبود

کب ہاتھ بڑھا کہیں طلب کا

 

مولا میں ترا اداس شاعر

پیسہ کوئی بھیک میں طرب کا

 

بے لفظ گیا تھا مانگنے میں

اِک ملک مجھے دے دیا ادب کا

 

سینے پہ اسی نے ہاتھ رکھا

جب کوئی نہیں تھا جاں بلب کا

 

میں اس کا کلام پڑھ رہا ہوں

اُمّی ہے جو علم کے لقب کا

 

جاتا نہیں شعر کی طرف میں

مقتول ہوں اس کے حرفِ لب کا

 

اِک تو کہ بلند ہر سبب سے

ورنہ تو سبب ہے ہر سبب کا

1978ء

٭٭٭

 

 

یہ خواب ہے تو کوئی اصل خواب ہو گا ہی

ہر اک سوال کا آخر جواب ہو گا ہی

٭٭

 

 

 

منظرِ ہفت سما آنکھ میں جب خوب آیا

شور عالم میں ہوا پھر کوئی مجذوب آیا

 

یہ زمیں غیر کو آباد نہیں کرتی ہے

جب بھی اس دل میں آیا تو کوئی محبوب آیا

 

اتنا دنیا میں کہاں تھا قدِ بالا وہ شخص

ہم تو عاشق ہوئے جب سامنے مصلوب آیا

 

اس میں کیا ہے نہیں معلوم، مگر دیکھتے ہیں

جو گیا اس کی طرف اس سے ہی منسوب آیا

 

کھل گئی آنکھ مگر خواب نہ ٹوٹا پھر بھی

کوئی بتلائے کہ یہ عاشق ہے کہ محبوب آیا

1979ء

٭٭٭

 

 

 

 

اپنا احوال سنا کر لے جائے

جب مجھے چاہے منا کر لے جائے

 

میں نہ جاؤں جو وہاں تو مجھ کو

میری تنہائی اٹھا کر لے جائے

 

وہ مجھے بھول گیا ہے شاید

یاد آ جاؤں تو آ کر لے جائے

 

ہوں خفا اس سے مگر اتنا نہیں

خود نہ جاؤں گا بلا کر لے جائے

 

خالی ہاتھوں کو ملے گی خوشبو

جب ہوا چاہے چرا کر لے جائے

 

در خزانے کا کہیں بند نہیں

یہ خزانہ کوئی آ کر لے جائے

 

دھوپ میں بیٹھوں تو ساتھی میرا

اپنے سائے میں اٹھا کر لے جائے

 

تجھ کو بھی کوچۂ عشّاقاں میں

اپنے مولا سے دعا کر، لے جائے

 

کوئی قاتل نہیں گزرا ایسا

جس کو تاریخ بچا کر لے جائے

 

اِک دیا ایسا بھی دیکھا میں نے

ظلمتِ شب کو ہٹا کر لے جائے

 

کون محبوب ہوا ہے ایسا

اپنے عاشق کو بلا کر لے جائے

 

پھر سے آ جائے کوئی چپکے سے

کہیں باتوں میں لگا کر لے جائے

 

اس کے ہمراہ چلا جاتا ہوں

جو مرے دل کو دکھا کر لے جائے

 

کوئی عیسیٰ مرے معبود کہ جو

تیرے مردوں کو جِلا کر لے جائے

 

ایسی دیوانگی و حیرانی

آئینہ کوئی دکھا کر لے جائے

 

سامنے سب کے پڑی ہے دنیا

ذات میں جو بھی سما کر لے جائے

 

ایسے ملتا نہیں مٹی کو دوام

بس خدا جس کو بنا کر لے جائے

 

ہو سخن ور کوئی ایسا پیدا

جو سخن میرا چرا کر لے جائے

1978ء

٭٭٭

 

 

 

 

ملے ہو تم تو بچھڑ کر اداس مت کرنا

کسی جدائی کی ساعت کا پاس مت کرنا

 

محبتیں تو خود اپنی اساس ہوتی ہیں

کسی کی بات کو اپنی اساس مت کرنا

 

کہ برگ برگ بکھرتا ہے پھول ہوتے ہی

برہنگی کو تم اپنا لباس مت کرنا

 

بلند ہو کہ ہی ملنا جہاں تلک ملنا

اس آسماں کو زمیں پر قیاس مت کرنا

 

جو پیڑ ہو تو زمیں سے ہی کھینچنا پانی

کہ ابر آئے گا کوئی یہ آس مت کرنا

 

یہ کون لوگ ہیں کیسے یہ سربراہ ہوئے

خدا کو چھوڑ کر ان کے سپاس مت کرنا

1978ء

٭٭٭

 

 

 

 

اگلی محبتوں کے فسانے کہاں تلک

گزرے ہوئے گزاروں زمانے کہاں تلک

 

آئے ہو تم تو اب نئے خواب و خیال دو

لکھوں وہی میں لفظ پرانے کہاں تلک

 

میرے لہو میں جن کا کوئی ذائقہ نہیں

دیکھوں وہی میں خواب سہانے کہاں تلک

 

ہر روز ایک عشق نیا چاہتا ہے دل

بولوں میں جھوٹ سچ کے بہانے کہاں تلک

 

ایسی زمیں جس کا کوئی آسماں نہیں

ایسی زمیں کے گاؤں ترانے کہاں تلک

 

اک نام ہے کہ جس کے بنے ہیں ہزار نام

روشن رہے وہ نام نہ جانے کہاں تلک

 

آؤ کہ ان میں پھر کوئی چہرہ اتار لیں

ترسیں گے اب یہ آئینہ خانے کہاں تلک

 

دُکھتا ہوں میں کہ ہے ہوسِ آدمی بہت

اُگلے گی یہ زمیں خزانے کہاں تلک

 

کہتا ہے مجھ سے لکھا ہوا میرا حرف حرف

سچّا ہوں میں تو کوئی نہ مانے کہاں تلک

1975ء

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی ملیں پھر

 

اُسی طرح

اُسی جگہ

اُنھی لوگوں

اُنھی گلیوں، بازاروں میں

اُنھی لمحوں میں

اور اُنھی لمحوں کی لذّت میں

آئینہ وار

اِک عکس سے دوسرا عکس لپٹتا جائے

وہی خوش گمانیوں کے چاند

وہی بد گمانیوں کے بھنور

وہی مدّ و جزر رفاقتوں کے

وہی عذاب رقابتوں کے

میں کسی سے کوئی کہانی کہوں

تم کسی سے کوئی کہانی کہو

اور اصل میں ایک کہانی ہو

جو اپنی ہو

وہیں ملیں پھر اُسی طرح اُسی جگہ

٭٭٭

 

 

 

آغاز کرو بدن سے اور پھر

جاں تک مری جاں نچوڑ جاؤ

 

یہ کیا کہ ملو تو ایک پل کو

صدیوں میں اکیلا چھوڑ جاؤ

 

رستوں میں قدم قدم ملوں گا

تم عشق کے جس بھی موڑ جاؤ

 

آئینہ پگھل کہ جڑ رہا ہے

آؤ مجھے پھر سے توڑ جاؤ

 

میں خواب ہوں اصل ڈھونڈتا ہوں

تم اصل سے خواب جوڑ جاؤ

1980ء       ٭٭٭

 

 

یاد

 

کبھی کبھی کوئی یاد

کوئی بہت پرانی یاد

دل کے دروازے پر

ایسے دستک دیتی ہے

شام کو جیسے تارا نکلے

صبح کو جیسے پھول

جیسے دھیرے دھیرے زمیں پر

روشنیوں کا نزول

جیسے روح کی پیاس بجھانے

اُترے کوئی رسول

جیسے روتے روتے اچانک

ہنس دے کوئی ملول

کبھی کبھی کوئی یاد کوئی بہت پرانی یاد

دل کے دروازے پر ایسے دستک دیتی ہے

1984ء

٭٭٭

 

 

وصالیہ

 

سب بارشیں ہو کہ تھم چکیں تھیں

روحوں میں دھنک اتر رہی تھی

میں خواب میں بات کر رہا تھا

وہ نیند میں پیار کر رہی تھی

 

احوال ہی اور ہو رہے تھے

لذّت میں وصال رو رہے تھے

بوسوں میں دھلے دھلائے دونوں

نشّوں میں لپٹ کر سو رہے تھے

 

چھوٹا سا حسین سا وہ کمرہ

اِک عالمِ خواب ہو رہا تھا

خوشبو سے گلاب ہو رہا تھا

مستی سے شراب ہو رہا تھا

 

وہ چھاؤں سی چاندنی  وہ بستر

ہم رنگ نہا رہے تھے جس پر

یوں تھا کہ ہم اپنی ذات اندر

تھے اپنا ہی ایک اور منظر

 

سیراب محبتوں کے دھارے

باہم تھے وجود کے کنارے

موضوعِ سخن، سخن تھے سارے

عالم ہی عجیب تھے ہمارے

 

جاگے وہ لہو میں سلسلے پھر

تن من کے وہی تھے ذائقے پھر

تھم تھم کے برس برس گئے پھر

پاتال تک ہو گئے ہرے پھر

 

جاری تھا وہ رقصِ ہمکناری

نکلی نئی صبح کی سواری

ایسا لگا کائنات ساری

اِس آن تو ہے فقط ہماری

 

جب چاند مرا نہا کے نکلا

میں دل کو دیا بنا کے نکلا

کشکولِ دعا اٹھا کے نکلا

شاعر تھا صدا لگا کے نکلا

 

دریا وہ سمندروں سے گہرے

وہ خواب گلاب ایسے چہرے

سب زاویوں ہو گئے سنہرے

آئینوں میں جب وہ آ کے ٹھہرے

1985ء       ٭٭٭

 

 

دیئے کا کام ہے جلنا جلتے جلتے جل جانا

اُس کے بعد بھی رات رہے تو اور کسی کے نام

٭٭

 

 

وحشت اسی سے پھر بھی وہی یار دیکھنا

پاگل کو جیسے چاند کا دیدار دیکھنا

 

اس ہجرتی کو کام ہوا ہے کہ رات دن

بس وہ چراغ اور وہ دیوار دیکھنا

 

پاؤں میں گھومتی ہے زمیں آسماں تلک

اِس طفلِ شیر خوار کی رفتار دیکھنا

 

یارب کوئی ستارۂ امید پھر طلوع

کیا ہو گئے زمیں کے آثار دیکھنا

 

لگتا ہے جیسے کوئی ولی ہے ظہور میں

اب شام کو کہیں کوئی مے خوار دیکھنا

 

اس وحشتی کا حال عجب ہے کہ اُس طرف

جانا بھی اور جانبِ پندار دیکھنا

 

دیکھا تھا خواب شاعرِ مومن نے اس لیے

تعبیر میں ملا ہمیں تلوار دیکھنا

 

جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر

ہر صبح اِک عذاب ہے اخبار دیکھنا

 

میں نے سنا ہے قُربِ قیامت کا ہے نشاں

بے قامتی پہ جُبّہ و دستار دیکھنا

 

صدیاں گزر رہی ہیں مگر روشنی وہی

یہ سر ہے یا چراغ سرِ دار دیکھنا

 

اس قافلے نے دیکھ لیا کربلا کا دن

اب رہ گیا ہے شام کا بازار دیکھنا

 

دو چار کے سوا یہاں لکھتا غزل ہے کون

یہ کون ہیں یہ کس کے طرفدار دیکھنا

1980ء

٭٭٭

 

اِک آنکھ ابھی ٹپکی مجھ میں اِک چہرہ بلند ہوا

اِس روز و شب کی چادر میں دن عید کا بھی پیوند ہوا

٭٭

 

 

اور سب زندگی پہ تہمت ہے

زندگی آپ اپنی لذت ہے

 

میرے اور میرے اس خدا کے بیچ

ہے اگر لفظ تو محبت ہے

 

اک سوال اور اک سوال کے بعد

انتہا حیرتوں کی حیرت ہے

 

عہد شیطان کا خدا کے ساتھ

سرکشی ہے مگر عبادت ہے

 

بھید جانے کوئی مگر کیسے

یار کو یار سے جو نسبت ہے

 

خواب میں ایک شکل تھی میرے

تُو تو اُس سے بھی خوبصورت ہے

 

پہلے مجھ کو تھی اور اب تیری

میری تنہائی کو ضرورت ہے

 

گھٹتا بڑھتا رہا میرا سایہ

ساتھ چلنے میں کتنی زحمت ہے

 

زندگی کو میری ضرورت تھی

زندگی اب مری ضرورت ہے

 

لکھنے والے ہی جان سکتے ہیں

لفظ لکھنے میں جو قیامت ہے

 

تھی کبھی شاعری کمال مرا

شاعری اب مری کرامت ہے

1978ء

٭٭٭

 

 

 

 

قید ہی شرط ہے اگر یہ بھی مری سزا کرو

وصل کی قید دو مجھے ہجر سے اب رہا کرو

 

بات کسی سے بھی کرو بات کسی کی بھی سنو

بیٹھ کے کاغذوں پہ تم نام وہی لکھا کرو

 

یار ہمارا ایلیا ہم سے اٹھا لیا گیا

بیٹھے اب اپنی ذات میں ایلیا ایلیا کرو

1979ء

٭٭٭

 

 

 

ایک کہانی ختم ہوئی انجام سے پہلے  ہی

یعنی ایک ستارہ ٹوٹا شام سے پہلے ہی

 

چلی ہوا کے دوش پہ لیکن دُکھوں کی ماری لہر

ساحل سے پھر لوٹ گئی آرام سے پہلے ہی

 

وقت کے آذر ہاتھ اٹھا اصنام تراشی سے

دبی ہوئی ہے یہ دنیا اوہام سے پہلے ہی

 

مولا ہمّت دیتا ہے تو چلتے ہیں ورنہ

کھڑی ہوئی ہے اِک گردش ہر گام سے پہلے ہی

 

یا میخانے پی جاتے تھے شاعر رند ترے

یا نشّے سے چور ہوئے ہیں جام سے پہلے ہی

 

1981ء

٭٭٭

 

گیت

 

ایک لکیر اجالے کی تن سے من تک پھیل گئی

سب سونی آنکھیں چراغ ہوئیں سب خالی چہرے گلاب ہوئے

اپنا ہی تو ہے جیون اپنا

تاروں سے سجا آنگن اپنا

خوشیوں سے بھرا دامن اپنا

اس رُت کو آؤ سلام کریں جس رُت میں ہم مہتاب ہوئے

ایک لکیر اجالے کی تن سے من تک پھیل گئی

سب سونی آنکھیں چراغ ہوئیں سب خالی چہرے گلاب ہوئے

پتّوں پہ ہنسے شبنم جیسے

خوشبو کا کھلے پرچم جیسے

کچھ بول اٹھے موسم جیسے

پل بھر کو سہی پر دیدہ و دل سیراب ہوئے، شاداب ہوئے

ایک لکیر اجالے کی تن سے من تک پھیل گئی

سب سونی آنکھیں چراغ ہوئیں سب خالی چہرے گلاب ہوئے

جو کھلے نہیں وہ کھِل جائیں

سب بچھڑے ساتھی مل جائیں

یارب یہ زخم بھی سل جائیں

ہم کہہ تو سکیں اس موسم میں سب پورے اپنے خواب ہوئے

سب سونی آنکھیں چراغ ہوئیں سب خالی چہرے گلا ہوئے

ایک لکیر اجالے کی تن سے من تک پھیل گئی

1972ء

٭٭٭

 

 

 

گیت

 

ہم راہی ایسی راہوں کے جن کی کوئی منزل ہی نہیں

یہ جیون پیاس کا صحرا ہے اور سر پہ کوئی بادل ہی نہیں

جانے کے لئے ہر رُت آئی، رہنے کو ہے بس یہ تنہائی

اِک عمر کا روگ نہ ہو جائے یہ پل دو پل کی سچّائی

سدا یہ آنکھیں سپنے دیکھیں آنے والے زمانوں کے

ہم راہی ایسی راہوں کے

جو چہرہ آنکھوں میں آئے سو خواب نئے دکھلا جائے

جو ساتھ چلے وہ ملے نہیں جو بچھڑ گئے وہ یاد آئے

منزل منزل ڈھونڈ رہے ہیں خواب اپنے ارمانوں کے

ہم راہی ایسی راہوں کے جن کی کوئی منزل ہی نہیں

یہ جیون پیاس کا صحرا ہے اور سر پر کوئی بادل ہی نہیں

1976ء

٭٭٭

 

گیت

 

ہری ہری مہندی کے نیچے سرخ گلاب

تیرے خواب، تیری آنکھوں جیسے

اِنھی گلابوں جیسے

چومے تیرے ہاتھ مہندی والی رات

ہری ہری مہندی کے نیچے سرخ گلاب

اِک اِک بوند میں جیون رکھ دیں

برکھا رکھ دیں ساون رکھ دیں

آ جا ترے ہاتھوں میں مہندی لگائیں ہری ہری

ہری ہری مہندی کے نیچے سرخ گلاب

اس خوشبو میں ایک کہانی

کچھ جانی سی، کچھ انجانی

آ جا ترے ہاتھوں میں مہندی لگائیں ہری ہری

ہری ہری مہندی کے نیچے سرخ گلاب

تیرے خواب، تیری آنکھوں جیسے

اِنہی گلابوں جیسے

چومے تیرے ہاتھ مہندی والی رات

1976ء

٭٭٭

 

 

 

گیت

 

مرے گھر کیسا بادل برسنے آیا

جیون اگن کو اور بڑھایا اور بڑھایا

بولے گا تو میرے لہو میں ہریالی آ جائے گی

چھو لے گا تو یہ مٹّی پھر زندہ ہو جائے گی

پر میں نے ایسا کب پایا

مرے گھر کیسا بادل برسنے آیا

ایک دیا میں جلاؤں گی تو ایک دیا وہ جلائے گا

دیئے کی لَو سے لَو مل جائے گی گھر روشن ہو جائے گا

بٹ گیا لیکن سایا سایا

مرے گھر کیسا بادل برسنے آیا

اک دو سچّے سُر لگ جائیں تو جیون سکھی ہو جاتا ہے

کتنی دیر کا سوکھا ساگر سایوں میں کھو جاتا ہے

ایسا بادل کوئی نہ آیا

مرے گھر کیسا بادل برسنے آیا

جیون اگن کو اور بڑھایا اور بڑھایا

1976ء

٭٭٭

 

 

 

چہرے

 

کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں

پل بھر کو آنکھ میں آتے ہیں

اور برسوں دل میں رہتے ہیں

 

چھاؤں چھاؤں جیسے چہرے

سچّے خوابوں جیسے چہرے

ننّھے بچّوں جیسے چہرے

 

چہرے موم کی گڑیوں جیسے

اوس نہائی پریوں جیسے

شاخ پہ بیٹھی چڑیوں جیسے

(نامکمل)

1984ء

٭٭٭

 

تن مٹّی، من مٹّی، جیون مٹّی

جیون سے آگے جیون کا درپن مٹّی

٭٭

 

 

 

 

چاند جب دیکھا سمندر کے کنارے ہم نے

اور پھیلا دیئے کچھ اپنے کنارے ہم نے

 

اِک عجب شور مچائی ہوئی تنہائی کے ساتھ

خود میں دُہرائے سمندر کے اشارے ہم نے

 

اتنے شفّاف کے تھے روح و بدن آئینہ

اصل کے اصل میں دیکھے تھے نظّارے ہم نے

 

رات کیا ٹوٹ کے آئی تھی کہ اُس دامن سے

جھولیوں بھر لئے آنکھوں میں ستارے ہم نے

 

لَوٹ آنے سے ڈریں اور نہ لَوٹیں تو دُکھیں

وہ زمانے جو ترے ساتھ گزارے ہم نے

 

کھُلتا جاتا ہے کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے

آئینے سامنے رکھیں ہیں ہمارے ہم نے

1980ء

٭٭٭

 

 

 

ہجر کرتے یا کوئی وصل گوارا کرتے

ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے

 

ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم

خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے

 

اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر

اتنی دُور آ گئے دُنیا سے کنارا کرتے

 

محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام

آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظاراکرتے

 

ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے

کس سے کرتے جو کوئی عشق دوباراکرتے

 

جب ہے یہ خانۂ دل آپ کی خلوت کے لئے

پھر کوئی آئے یہاں کیسے گوارا کرتے

 

کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا، آنکھ میں خواب

تیری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے

 

ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حُسن کہاں

ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے

1986ء

٭٭٭

 

 

 

 

پہلا شاعر میرؔ ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں

پہلے وہ تقدیر ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں

 

اکیلا اکیلا میں چاہوں تو کیسے رہائی ہو

پہلے وہ زنجیر ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں

 

اُس کا چہرہ دیکھ رہے تھے آئینہ اور میں

پہلے وہ تصویر ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں

 

صرف انا ہی لکھواتی ہے ذات کی ہر سچّائی

میں پہلے تحریر ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں

 

آگے آگے بھاگنے کا ہے ایک سبب یہ بھی

پہلے پیدا تیر ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں

 

حُسن کو اک شمشیر بناتے میں نے عمر بِتائی

تب قامت شمشیر ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں

 

سات سمندر سے گہری ہے شاعر کی گہرائی

کہتے ہیں اِک میرؔ ہوا اور اس کے بعد ہوں میں

 

مجھ سے آگے جانے والی میری ہی تنہائی

اس سے وہ تعمیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں

 

بات بڑے ہی دکھ کی لیکن کتنی سچّی اچھی

پہلے آیا میرؔ ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں

 

جس کا ماننے والا ہوں وہ خوب ہے جاننے والا

لیکن کیا تشہیر ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں

1978ء

٭٭٭

 

 

 

سمجھنے والے سمجھ لیں گے استعارۂ ذات

کھلا ہے قِبلا نما پرچم ستارۂ ذات

 

چھلک کے جائے تو جائے کہاں وجود مرا

ہر ایک سمت ہے پھیلا ہوا کنارۂ ذات

 

بس ایک عشق تجلّی دکھائے جاتا ہے

نکل رہا ہے مسلسل مرا شمارۂ ذات

 

وہ کم نظر اسے آشوبِ ذات کہتے ہیں

کہ ایک ذات تلک ہے مرا گزارۂ ذات

 

بنانے والے نے اس شان سے بنایا اُسے

جہاں سے دیکھو نظر آئے ہے منارۂ ذات

 

ہے ایک شمع سے روشن یہ آئینہ خانہ

تو کیا ہے آئینہ خانہ بجز نظارۂ ذات

 

اُتر رہا ہے مرے قلب پر وہ عالمِ حرف

کہ جیسے وحیِ خفی ہو مرا شرارۂ ذات

1978ء

٭٭٭

 

 

 

 

ملتا جلتا تھا حال میر ؔ کے ساتھ

میں بھی زندہ رہا ضمیر کے ساتھ

 

ایک نمرود کی خدائی میں

زندگی تھی عجب فقیر کے ساتھ

 

آنکھ مظلوم کی خدا کی طرف

ظلم اِک ظلمتِ کثیر کے ساتھ

 

جرم ہے اب مری محبت بھی

اپنے اس قادرو قدیر کے ساتھ

 

اُس نے تنہا کبھی نہیں چھوڑا

وہ بھی زنداں میں ہے اسیر کے ساتھ

 

کس میں طاقت وفا کرے ایسی

اپنے بھیجے ہوئے سفیر کے ساتھ

 

سلسلہ وار ہے وہی چہرہ

عالمِ اصغر و کبیر کے ساتھ

 

آنے والا ہے اب حساب کا دن

ہونے والا ہے کچھ شریر کے ساتھ

 

تیرے پیچھے ہے جو قضا کی طرح

کب تلک جنگ ایسے تیر کے ساتھ

 

شب دعاؤں میں تر بتر میری

صبح اِک خوابِ دلپذیر کے ساتھ

 

اہل دل کیوں نہ مانتے آخر

حرف روشن تھا اس حقیر کے ساتھ

1985ء

٭٭٭

 

 

ہے شعر لفظ مرا لفظ اِک کہانی ہے

کبھی ملو تمہیں تازہ غزل سنانی ہے

 

مزا ہے آج بھی زندہ چراغ بجھنے کا

وہی دیئے سے جلاتی ہوئی جوانی ہے

٭٭

 

 

 

 

زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لئے

تو آسمان سے اُترا خدا ہمارے لئے

 

اُنہیں غرور کے رکھتے ہیں طاقت و کثرت

ہمیں یہ ناز بہت ہے خدا ہمارے لئے

 

تمہارے نام پہ جس آگ میں جلائے گئے

وہ آگ پھول ہے وہ کیمیا ہمارے لئے

 

بس ایک لَو میں اسی لَو کے گرد گھومتے ہیں

جلا رکھا ہے جو اس نے دیا ہما رے لئے

 

وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے

وہ ایک شخص دُعا ہی دُعا ہمارے لئے

 

وہ نور نور دمکتا ہوا سا اِک چہرہ

وہ آئینوں میں حیا ہی حیا ہمارے لئے

 

درُود پڑھتے ہوئے اس کی دید کو نکلیں

تو صبح پھول بچھائے صبا ہمارے لئے

 

عجیب کیفیتِ جذب و حال رکھتی ہے

تمہارے شہر کی آب و ہوا ہمارے لئے

 

دیئے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے

تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے

 

زمین ہے نہ زماں نیند ہے نہ بیداری

وہ چھاؤں چھاؤں سا اک سلسلہ ہمارے لئے

 

سخن وروں میں کہیں ایک ہم بھی تھے لیکن

سخن کا اور ہی تھا ذائقہ ہمارے لئے

1985ء

٭٭٭

 

 

ابھی خرید لیں دنیا کہاں کی مہنگی ہے

مگر ضمیر کا سودا برا سا لگتا ہے

٭٭

 

 

 

 

آئینہ

 

میں آئینہ ہوں

اور ہر آنے والے کو وہی چہرہ دکھاتا ہوں

جو میرے سامنے لائے

مگر اب تھک گیا ہوں

چاہتا ہوں

کوئی مجھ کو اس طرح دیکھے

کہ چکنا چور ہو جاؤں

1975ء

٭٭٭

 

 

 

بناؤ طاق گڑیوں کے لیے کچھ

تمہارے گھر میں بھی آئی ہے لڑکی

 

سمندر اس کے سینے سے بہت کم

سمندر سے بھی کچھ گہری ہے لڑکی

٭٭

 

 

 

 

دُکھ

 

رائے گاں جانے کا دکھ

ہر نیا لمحہ گئے لمحے کا دکھ

جو گزشتہ ہے وہ آئندہ نہیں

اور آئندہ کبھی پایا نہیں

کچھ اگر پایا فقط تو رائیگاں جانے کا دکھ

1975ء

٭٭٭

 

 

کہیں تو چہرہ گل آفتاب ہو گا ہی

٭٭

 

 

 

 

دل ہی تھے ہم دُکھے ہوئے تم نے دُکھا لیا تو کیا

تم بھی تو بے اماں ہوئے ہم کو ستا لیا تو کیا

 

آپ کے گھر میں ہر طرف منظر ماہ و آفتاب

ایک چراغِ شام اگر میں نے جلا لیا تو کیا

 

باغ کا باغ آپ کی دسترسِ ہوس میں ہے

ایک غریب نے اگر پھُول اٹھا لیا تو کیا

 

لُطف یہ ہے کہ آدمی عام کرے بہار کو

موجِ ہوائے رنگ میں آپ نہا لیا تو کیا

 

اب کہیں بولتا نہیں غیب جو کھولتا نہیں

ایسا اگر کوئی خدا تم نے بنا لیا تو کیا

 

جو ہے خدا کا آدمی اُس کی ہے سلطنت الگ

ظلم نے ظلم سے اگر ہاتھ ملا لیا تو کیا

 

آج کی ہے جو کربلا کل پہ ہے اس کا فیصلہ

آج ہی آپ نے اگر جشن منا لیا تو کیا

 

لوگ دکھے ہوئے تمام رنگ بجھے ہوئے تمام

ایسے میں اہلِ شام نے شہر سجا لیا تو کیا

 

پڑھتا نہیں ہے اب کوئی سنتا نہیں ہے اب کوئی

حرف جگا لیا تو کیا شعر سنا لیا تو کیا

1986ء

٭٭٭

 

 

 

مانا کہ میں جل جل کہ راکھ ہوا دنیا میں اجالا ہے کہ نہیں

٭٭

تشکر: آصف محمود ڈار جنہوں نے  کلیات ’یہ زندگی ہے ہماری‘ کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید