فہرست مضامین
یہ زندگی ہے ہماری
حصہ اول: نگارِ صبح کی اُمید میں
عبید اللہ علیمؔ
کمپوزنگ اور پیشکش: آصف محمود ڈار
تعارف
عبید اللہ علیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر ہیں جنہیں شاعری کے مجموعہ "چاند چہرہ ستارہ آنکھیں” پر آدم جی ادبی انعام ملا۔ عبید اللہ علیم 12 جون 1939ء کو بھوپال ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان آ گئے۔ 1969ء میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ پھر پاکستان ٹیلی وژن میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کی مگر حکام بالا سے اختلافات کی وجہ سے 1978ء میں انہوں نے اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ عبید اللہ علیم کا شمار موجودہ دور کے غزل کے بہترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "چاند چہرہ ستارہ آنکھیں ” 1978ء میں شائع ہوا جس پر انہیں آدم جی ادبی انعام بھی ملا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں "ویران سرائے کا دیا” اور "نگارِ صبح کی امید” شامل ہیں۔ ان تینوں مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ان کی کلیات ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ان کی دو نثری تصانیف "کھلی ہوئی ایک سچائی” اور "میں جو بولا” کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ 18 مئی 1998ء کو عبید اللہ علیم کراچی پاکستان میں وفات پا گئے اور کراچی میں اسٹیل مل کے نزدیک رزاق آباد میں باغ احمد نامی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نگارِ صبح کی اُمید میں، 2000ء، مارچ
ویران سرائے کا دیا، 1986، جولائی
چاند چہرہ ستارہ آنکھیں، 1974، جنوری
نگارِ صبح کی اُمید میں
عبید اللہ علیمؔ
انتساب
وہ جس کے نام کی خوشبو سے سانس چلتی ہے
روشنی
شاعر ایک محبت بھری دعا ہے جو سب کے لیے ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ شاعر زمینی زندگی کا سب سے طاقتور استعارہ ہے جو اپنی محبت اور استغراق سے انسانی روح کے ان خوابیدہ تاروں کو چھیڑتا ہے جو زمانی گردشوں میں اپنے لحن کھو دیتے ہیں اور شاعر ایک سرمدی اور ابدی نغمے کی سماعت کے لئے روح کو زندہ کرتا ہے مگر یہ کام مشقِ سخن سے نہیں ہوتا استغراقِ ذات سے ہوتا ہے اور اُس حال سے ہوتا ہے جو چشمے کی طرح شاعر کے اندر ہی پھوٹتا ہے اور خود بخود پھوٹتا ہے۔ چشمے کا بڑا چھوٹا ہونا کوئی مسئلہ نہیں۔ اصل حقیقت وہ لذت اور تکلیف ہے جس کے جاری ہونے میں شاعر کا زیادہ دخل نہیں ہوتا۔ ہاں جب آمد ہوتی ہے تو شاعر اس پانی کے لیے بند بناتا ہے، اسے ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔ سو جس درجہ کا استغراق ذات ہوتا ہے اسی درجہ کا شعر ظہور کرتا ہے۔ شاعر کبھی جانے اور کبھی انجانے پن میں ایسے رموز کا اظہار کر جاتا ہے جو تعقّلِ محض کے لیے ناممکن ہوتے ہیں۔ مگر کبھی کبھی شاعر اپنے روحانی عمل میں خالص نہیں رہتا اور شعر گوئی کی فرضی کاوش میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ ہر چند کے یوں بھی کبھی کبھی اس کے یہاں اپنے خشک چشمے کا پانی کھنچ آتا ہے مگر یہ اس کے اصل سے علیحدہ ایک وجود ہوتا ہے جو نسبتاً ناقص ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل کام ہے مگر شاعر کی مجموعی کیفیت کو سامنے رکھ کر اس ذائقے سے گزرنے والے آسانی سے اندازہ لگا لیتے ہیں۔
شاعری اجتماعی حقیقت کا انفرادی عمل ہے اور یہ عمل عالم حواس کی یکجائی سے ظہور کرتا ہے اور یہ سب کچھ جاننے میں نہ جاننے کی حیرانی ہے کہ صرف زمینی گردشیں آسمانوں کے بھید نہیں کھول سکتیں اور اس جوہر کی شناخت یہ ہے کہ یہ اُن پر کھلتا ہے جو خود پر کھلتے ہیں۔
ادب انسان کی جذبی اور روحانی کیفیت کا نام ہے اور جو شے جذبے اور اور روح کی غیر ہے وہ ادب کے لیے غیر ہے۔ شخصیت ادب ہے اور بے شخصیت کوئی ادب نہیں۔ شخصیت اگر ہے تو زمان و ذات دو نہیں ایک ہیں اور ادب ایک کا نمائندہ ہے اور ایک خیر اعلیٰ ہے مگر انسان کی جبریت اسے مادے اور روح کی تنویت میں مبتلا کرتی ہے۔ شخصیت سے گریز ہو کہ وابستگی اپنے اصل میں دو نہیں ہو سکتی۔ زمان و مکان، داخل خارج اور اصل غیر کسی شخصیت سے ایک ساتھ گزرتے ہیں۔ جیسے سورج سے شعاعیں۔ یہی ادبی کلیت ہے شاعری نہ اوزان کی تکرار کا نام ہے اور نہ کسی شعبدہ بازی کا۔ اس قسم کی ساری بحثیں اور مقدمات ان لوگوں کے ہیں جو شاعر کے احوال سے بے خبر اپنی حالتوں سے لفظوں کی ناپ تول کا کام کرتے ہیں اور یہ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور انہیں کی موجودگی سے شاعر اپنی اعجازی قوت کا اندازہ لگاتا اور خوش ہوتا ہے۔
آج کل روش یہی ہے کہ شاعر کا پہلا مجموعہ دوچار سال کی مشقِ سخن میں آ جاتا ہے۔ داد دینے والے ایک ہی لے میں سب کو داد بھی دے جاتے ہیں۔ اس سے ایک تو خالص ادب کے قاری کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ شاعر کی تخلیقی قوت مصنوعی داد سے بلاوجہ دب کر رہ جاتی ہے۔ الاّ ماشاءاللہ کوئی شاعر خود صاحب ذوق ہو تو اپنے تجربے اور احساس کی منزل دریافت کرتا ہے۔ ورنہ مصنوعی نقاد کی تلوار سے کٹ کر مر جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ باطنی حقیقتوں کا بازار اب سرد پڑ چکا ہے۔ جنہیں سمجھانا ہے وہ سمجھتے نہیں۔ جو سمجھنے کے اہل نہیں ہیں ان سے ہمیں کوئی نسبت نہیں۔ آج کا ادب جن راہوں پر اپنے چراغ جلا رہا ہے اُس کی روشنی ان لوگوں تک بھی بڑی مشکل سے پہنچتی ہے جواس راہ کے مسافر ہیں۔ بے حقیقت اور کم سواد لوگ اقتصادی بنیادوں کی مضبوطی پر کچے ادب پر پاؤں جما کر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کا مسلسل یہ کام ہے کہ اتھلی اور بے مایہ سیاست اور پینترے بازوں کو اپنا گرو قرار دیں اور اس کے ذریعہ اور وسیلہ سے زندگی کی تفہیم رکھنے والوں کو پیچھے دھکیل دیں۔ بہ ظاہر ان کی کامیابیاں معاشرہ میں عام بھی نظر آتی ہیں۔ اخباروں کے صفحات، عامیانہ نام نہاد ادبی رسائل و ڈائجسٹوں کی خرافات اور تشہیری میڈیمز کی بے اوقات ٹیں ٹیں کی مصنوعی چکا چوند ھ نے معنی، ادراک اور عرفان کے حقیقی مفہوم و مطالب کو ایسے روند ڈالا ہے اور اس طرح پامال کر دیا ہے کہ اب کسی بات میں بھی اور کسی بھی حقیقت میں اتنا زور نہیں کہ وہ مادی اور جبلی آدمی کو اس کے حقیقی منصب پر لا کھڑا کرے۔
کسی بھی نظریہ پر ایمان رکھنا بری بات نہیں لیکن اپنے نظریہ کے خلاف اپنی زندگی گزارنا ایک مکروہ عمل ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہماری صدی میں چیزیں اتنی گڈمڈ، الٹ پلٹ اور اتھل پتھل ہو گئی ہیں کہ اصل اور نقل میں امتیاز کرنا مشکل سے مشکل تر ہو گیا ہے اور اتنے جھگڑے اور اتنے ہیر پھیر پڑ گئے ہیں کہ ادب جسے حالتوں کی حالت کہنا چاہئے۔ بے یار و مددگار اور مخدوش ہو کر رہ گیا ہے۔ اب تو بس یہ ہے کہ پیسہ اور طاقت جہاں سے اور جس قیمت پر بھی ملے حاصل کرو خواہ ضمیر داؤ پر لگا ہو یا روح اور جس وقت جس نعرے میں ذرا سا بھی فائدہ ہو اس کے ہمنوا بن جاؤ اور حقیقتاً جو لوگ نیکی، سچائی اور حسن کے قائل ہیں ان کا منہ کالا کرتے چلے جاؤ۔
مذہب کے بعد ادب ایک ایسا داعی رہ جاتا ہے جو انسان کو اس کے باطن میں زندہ کرنے کا ظرف رکھتا ہے۔ اس داعیہ اور نظریہ کے زوال نے معاشرہ میں در و دیوار، لباس، عام زندگی کے مصنوعی کروفر، روپیہ کو آخری قدر اور سرمایۂ افتخار سمجھنے والوں اور مادی سبقتوں کی دوڑنے انسان کو جنگل کا بادشاہ بنا دیا ہے۔
آدمی خوب سمجھتا ہے کہ بے حسی، بے غیرتی اور اندر کا گھناؤنا پن عام ہونے کے کیا اسباب ہیں اور آدمی یہ بھی خوب سمجھتا ہے کہ اس کے کیا علاج ہیں ؟مگر علاج چاہنے والے اور انسانی روح پر بہار لانے والے خود اتنے بیمار اور خزاں رسیدہ ہو چکے ہیں کہ ان کی شخصیتوں کی چھوٹی چھوٹی بہاریں اور چھوٹے چھوٹے اجالے کا کائنات کی گہری اور دبیز تاریکی کو روشن نہیں کر سکتے۔ آسمانی پانی کا تصور اور اس کا اظہار ایک ایسا گردن زدنی جرم ہے کہ نہ "ملاں "سے بچا جا سکتا ہے نہ کہ صوفی سے، نہ نام نہاد دانشوروں سے اور نہ کج نہاد سیاستدانوں سے۔ آدمی بیچارہ جائے تو جائے کہاں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کائنات کے بارہ میں یہ سوچ لیا جائے کہ اس پر روشنیوں کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہو چکے ہیں۔ یہ کیسے فرض کر لیا جائے کہ خالق اپنی مخلوق کو پیدا کر کے بھول چکا ہے۔ مگر یہ باور کرنا پڑے گا کہ اس گھور تاریکی میں کچھ چراغِ آخر شب ابھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ روشن ہیں۔ یہ یقین کرنا پڑے گا کہ یہ چراغ رات کا پورا بوجھ اٹھائے ہوئے اپنے سینے جلا رہے ہیں اور یہ ہم ہیں۔
دوش پر بار شبِ غم لئے گل کی مانند
کون سمجھے کہ محبت کی زباں ہیں ہم لوگ
ہم جو اپنے آپ سے یہ عہد کر چکے ہیں کہ ہم اپنے چہروں کا نور کھودیں گے مگر کائنات کے حسین چہرے کو بہر طور پُر نور کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ شور مچاتے رہیں گے اور جنگ کرتے رہیں گے اور جہاں جہاں بھی جانا پڑا ہم جائیں گے اور لڑیں گے اور یہ تسلیم کروا کے دم لیں گے کہ ہم کائنات میں وحی و الہام کے حقیقی وارث ہیں اور ہماری روشنیوں سے ہی زمانہ اپنے خدوخال سنوارے گا۔
معاشرہ لاکھ مر جائے مگر اتنا کبھی نہیں مرتا کہ وہ اصل حقیقت سے آشنا نہ ہو سکے اور اگر اتنا مر جائے تو سرے سے اس کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے اور اُسے تہذیبی زوال آ جاتا ہے مگر مجھے معلوم ہے کہ یہ معاشرہ اپنے اندر ایک زندگی کی تمنا رکھتا ہے اور اپنے لوگوں کی ایک پہچان بھی رکھتا ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ ہر جگہ بازار نہیں ہے۔ ہر انسان دکاندار نہیں ہے۔ ہر شے بکنے اور خریدنے کے لیے نہیں ہے۔
مگر یہ بھی تو ہے کہ میں، آپ، دوسرے ہم سب اپنے اپنے ذاتی میلانات۔ مذاق اور حوالے میں زندہ ہیں اور الگ الگ ایک اکائی کی صورت میں موجود ہیں۔ ان سب کی ایک اکائی کیسے بنے ؟ہر چند کہ یہ پہلے بھی کبھی ممکن نہ تھا اور نہ ممکن ہو گا مگر اتنا تو تھا کہ ادب کے اچھے برے ہونے کا ایک اجتماعی رویہ موجود تھا۔ مگر آج لکھا لفظ ایک عجیب تنہائی کا شکار ہے۔ مدعی خود لکھنے والا ہے مگر عدالت کوئی نہیں۔ عدالت بنتی بھی تو 5، 5، ۔ 10، 10چھٹ بھئے ادیبوں کے ٹولے کی صورت میں۔ یہ ٹولہ اسے نہیں مانتا اور و ہ اُسے نہیں مانتا۔ ادب کو عوام تک پہچانے والے میڈیمز بھی خود اپنے مفادات کے اسیر ہیں اور لکھنے والے بھی اپنے احتساب میں خود فیل ہو چکے ہیں اور اپنے آپ سے شرمندہ ہیں۔
بات یہ ہے کہ لفظ، لکھا ہوا لفظ کتنا طاقتور ہے۔ اس کا فیصلہ صرف اور صرف مستقبل میں محفوظ ہے اور انسان جب خدا کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے تو زمینی ہار اور ملامت اور سب و شتم سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ وہ اپنے ضمیر کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے اور اپنے اندرون کی عدالت میں کھڑا ہوتا ہے۔ میں آپ میں سے ہوں مگر شاید ان لوگوں میں سے بھی ہوں جو آپ کے بعد آئیں گے اور پھر جوان کے بعد آئیں گے اور پھر جو ان کے بعد آئیں گے۔ میرا وجدان، آپ کے وجدان کا ایک آئینہ ہے۔ مگر آپ اس میں اپنا چہرہ اسی وقت دیکھ سکتے ہیں جب آپ آئینے کے مقابل کھڑے ہونے کی ہمت رکھتے ہوں۔
٭٭٭
نگار صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے
چراغ خود کو نہیں دیکھتا ہے جلتے ہوئے
وہ حسن اس کا بیاں کیا کرے جو دیکھتا ہو
ہر اک ادا کے کئی قد نئے نکلتے ہوئے
وہ موجِ میکدۂ رنگ ہے بدن اس کا
کہ ہیں تلاطم مئے سے سبو اچھلتے ہوئے
تو ذرہ ذرہ اس عالم کا ہے زلیخا صفت
چلے جو دشتِ بلا میں کوئی سنبھلتے ہوئے
یہ روح کھنچتی چلی جا رہی ہے کس کی طرف
یہ پاؤں کیوں نہیں تھکتے ہمارے چلتے ہوئے
اسی کے نام کی خوشبو سے سانس چلتی رہے
اسی کا نام زباں پہ ہو دم نکلتے ہوئے
خیال و خواب کے کیا کیا نہ سلسلے نکلے
چراغ جلتے ہوئے آفتاب ڈھلتے ہوئے
اندھیرے ہیں یہاں سورج کے نام پر روشن
اجالوں سے یہاں دیکھے ہیں لوگ جلتے ہوئے
اتار ان میں کوئی اپنی روشنی یا رب
کہ لوگ تھک گئے ظلمت سے اب بہلتے ہوئے
وہ آ رہے ہیں زمانے کہ تم بھی دیکھو گے
خدا کے ہاتھ سے انسان کو بدلتے ہوئے
وہ صبح ہو گی تو فرعون پھر نہ گزریں گے
دلوں کو روندتے انسان کو مسلتے ہوئے
1998
٭٭٭
چپ رہوں تو عذاب آتا ہے
بولتا ہوں خراب ہوتا ہوں
٭٭٭
تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو
تم مہر ہو مہتاب ہو تم کون ہو
جو آنکھ بھی دیکھے تمہیں سرسبز ہو
تم اس قدر شاداب ہو تم کون ہو
تم لب بہ لب، تم دل بہ دل، تم جاں بہ جاں
اک نشہ ہو اک خواب ہو تم کون ہو
جو دست رحمت نے مرے دل پر لکھا
تم عشق کا وہ باب ہو تم کون ہو
میں ہر گھڑی اک پیاس کا صحرا نیا
تم تازہ تر اک آب ہو تم کون ہو
میں کون ہوں وہ جس سے ملنے کے لیے
تم اس قدر بے تاب ہو تم کون ہو
میں تو ابھی برسا نہیں دو بوند بھی
تم روح تک سیراب ہو تم کون ہو
یہ موسم کمیابی گُل کل بھی تھا
تم آج بھی نایاب ہو تم کون ہو
چھوتے ہو دل کچھ اس طرح جیسے صدا
اک ساز پر مضراب ہو تم کون ہو
دل کی خبر دنیا کو ہے تم کو نہیں
کیسے مرے احباب ہو تم کون ہو
وہ گھر ہوں میں جس کے نہیں دیوار و در
اس گھر کا تم اسباب ہو تم کون ہو
اے چاہنے والے مجھے اس عہد میں
میرا بہت آداب ہو تم کون ہو
1995
٭٭٭
رات اک خواب تھا
دل بہ دل، لب بہ لب
اک قیامت بدن
روح سے لب بہ لب
1989
٭٭٭
کس خواب کی یہ ہم کو تعبیر نظر آئی
زندان نظر آیا، زنجیر نظر آئی
سب اپنے عذابوں میں سب اپنے حسابوں میں
دنیا یہ قیامت کی تصویر نظر آئی
کچھ دیکھتے رہنے سے، کچھ سوچتے رہنے سے
اک شخص میں دنیا کی تقدیر نظر آئی
جلتا تھا میں آگوں میں روتا تھا میں خوابوں میں
تب حرف میں یہ اپنی تصویر نظر آئی
دربار میں حاضر ہیں پھر اہلِ قلم اپنے
کیا حرف و بیاں میں ہے تاثیر، نظر آئی
کچھ خواب گلاب ایسے، کچھ زخم عذاب ایسے
پھر دل کے کھنڈر میں اک تعمیر نظر آئی
اک خواب کے عالم میں دیکھا کیے ہم دونوں
لو شمع کی شب ہم کو شمشیر نظر آئی
آبا کی زمینوں میں وہ کام کیا ہم نے
پھر ان کی زمیں اپنی جاگیر نظر آئی
1988
٭٭٭
غم کا علاج دُکھ کا مداوا کرے کوئی
جب خواب ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
سو سلسلے خیال کے سو رنگ خواب کے
کچھ سوچ کر کسی کی تمنّا کرے کوئی
بُجھتی نہیں ہے پیاس کہ جانے کہاں کی ہے
پیاسی زمیں پہ ابر سا برسا کرے کوئی
آؤں جو ہوش میں تو مئے بے خودی وہ دے
گرنے لگوں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی
یارانِ جان و دل کو کوئی جمع پھر کرے
جو بھی ہو جس کا حال سنایا کرے کوئی
جب دل کو اشک و آہ کے ساماں نہ ہوں بہَم
اس بے کسی میں یاد نہ آیا کرے کوئی
کیا ہیں یہ لوگ اپنے شجر آپ کاٹ کر
دیتے ہیں پھر دُہائی کہ سایہ کرے کوئی
جو تِیرہ بخت ہے نہیں کھلتی ہے اس کی آنکھ
لاکھ آسماں سے روشنی لایا کرے کوئی
اس آدمی کے آپ مسیحا نہ ہوں اگر
کس میں ہے دم کہ اب اسے زندہ کرے کوئی
"ہے امن اس مکانِ محبت سرائے میں ”
جب چاہے آئے شوق سے آیا کرے کوئی
وہ ہے طلسمِ خوابِ نظارہ کہ ایک بار
دیکھے اُسے تو بس اُسے دیکھا کرے کوئی
کر کے سپرد اک نگہِ ناز کو حیات
دنیا کو دین، دین کو دنیا کرے کوئی
چمکیں گے آسمانِ محبت پہ خود علیم
لفظوں کے ٹھیکروں کو ستارا کرے کوئی
1997ء
٭٭٭
کتنا رفو کر لو گے دل کو، کتنا سی لو گے
ایسے جئے تو یار ہمارے کتنا جی لو گے
٭٭٭
چہرہ ایسا شمع جیسے انجمن پہنے ہوئے
جسم ایسا جیسے آئینہ بدن پہنے ہوئے
عرش سے تا فرش اک نظّارہ و آواز تھا
جب وہ اُترا جامۂ نورِ سخن پہنے ہوئے
رات بھر پگھلا دعا میں اشک اشک اس کا وجود
تب کہیں یہ صبح نکلی ہے چمن پہنے ہوئے
اس حجابِ وصل میں اٹھتے ہیں پردے ذات کے
جسم ہوں بے پیرہن بھی پیرہن پہنے ہوئے
اُن کی خوشبو اب وطن کی خاک سے آنے لگی
وہ جو زنداں میں ہیں زنجیرِ وطن پہنے ہوئے
اُٹھ گیا گھبرا کے اور پھر رو پڑا بے اختیار
میں نے دیکھا جب وطن اپنا کفن پہنے ہوئے
گر کرم تم بھی نہ فرماؤ تو پھر دیکھے یہ کون
آئینے ٹوٹے ہوئے گردِ محن پہنے ہوئے
1994
٭٭٭
دل دعا اور دکھ دیا نہ ہوا
آدمی کیا ہے پھر ہوا نہ ہوا
دیکھتے رہئے ٹوٹتے رہئے
کیا یہاں ہو رہا ہے کیا نہ ہوا
لوگ ایسے کبھی دُکھے نہ ہوئے
شہر ایسا کبھی بجھا نہ ہوا
ہائے اس آدمی کی تنہائی
جس کا اس دنیا میں اک خدا نہ ہوا
ہائے وہ دل شکستہ تر وہ دل
ٹوٹ کر بھی جو آئینہ نہ ہوا
جو بھی تھا عشق اپنے حال سے تھا
ایک کا اجر دوسرا نہ ہوا
اس کو بھی خواب کی طرح دیکھا
جو ہمارے خیال کا نہ ہوا
جب سمجھنے لگے محبت کو
پھر کسی سے کوئی گلہ نہ ہوا
دل بہ دل گفتگو ہوئی پھر بھی
کوئی مفہوم تھا ادا نہ ہوا
کربلا کیا ہے کیا خبر اس کو
جس کے گھر میں یہ واقعہ نہ ہوا
اور کیا رشتۂ وفا ہو گا
یہ اگر رشتۂ وفا نہ ہوا
دیکھ کر حسن اس قیامت کا
جو فنا ہو گیا فنا نہ ہوا
کوئی تو ایسی بات تھی ہم میں
یونہی یہ عہد مبتلا نہ ہوا
ایسے لوگوں سے کیا سخن کی داد
حرف ہی جن کا مسئلہ نہ ہوا
اب غزل ہم کسے سنانے جائیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا
1988
٭٭٭
یہ آرزو ہی رہی آنکھ بھر کے دیکھیں گے !!
٭٭٭
سائے میں تیرے دھوپ نہائے بصد نیاز
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز
اے اپنے ربّ کے عشق میں دیوانے آدمی
دیوانے تیرے ہم کہ ہوا تو خدا کا ناز
کیوں کر کھلے خدا جو نہ دیکھو وہ آدمی
سجدہ کرے زمیں پہ تو ہو عرش پر نماز
آیا زباں پہ اسم گرامیؐ کہ بس ادھر
پرنم ہوئی وہ آنکھ وہ سینہ ہوا گداز
اتنی ہی اس چراغ کی لو تیز ہو گئی
جتنی بڑھی ہوائے مخالف میں ساز باز
اس پر ہے ختم اس سے ہی جاری ہے روشنی
اک در خدا نے بند کیا سو کئے ہیں باز
ہر جام عشق اس کے ہی لب سے ہے لب بہ لب
شاید ابھی یہ راز ہے شاید رہے نہ راز
دیتا ہے بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر
ہر دور کو ہے ساقی کوثر پہ اپنے ناز
1994
٭٭٭
سایہ سایہ اک پرچم دل پہ لہرانے کا نام
اے مسیحا، تیرا آنا زندگی آنے کا نام
حسن، اپنے آئینے میں ناز فرمانے کا نام
عشق، ناز حسن پر دیوانہ ہو جانے کا نام
ایک ساقی ہے کہ اُس کی آنکھ ہے میخانہ خیز
دم بہ دم ایک تازہ دم الہام پیمانے کا نام
ہر گھڑی نشوں میں نہلائے جہاں ابرِ شراب
اس کی محفل خواب جیسے ایک میخانے کا نام
حجرۂ درویش کے موسم سے یہ دل پر کھلا
زندگی ہے زندگی پر رنگ برسانے کا نام
لاکھ فریادی رہے دیوارِ گریہ پر ہجوم
جانے والا اب نہ لے گا لوٹ کر آنے کا نام
جس پہ اترا وہ مسیحا دل منارہ دل دمشق
استعارے پھول میں خوشبو کو سمجھانے کا نام
سب نے رشک خاص سے بھیجے اسے کیا کیا سلام
جب بھی آیا اس کے دیوانوں میں دیوانے کا نام
اس کی آنکھیں ہیں شبِ تاریکِ وعدہ کا چراغ
اس کا چہرہ رات میں اک دن نکل آنے کا نام
وہ اندھیروں میں عجب اک روشنی کا خواب ہے
وہ اجالوں میں چراغ نور لہرانے کا نام
جب سے وہ آیا ہے دل کی اور دنیا ہو گئی
ورنہ پہلے دل تھا گویا ایک ویرانے کا نام
کیوں نہ وہ قامت قیامت ہو کہ ہے اس کا وجود
رات کے جانے کا نام اک صبح کے آنے کا نام
1996
٭٭٭
دنیا اک کہانی۔ ۔ ۔ ۔
ساری دنیا ایک کہانی کہتی ہے
چاند نگر میں اک شہزادی رہتی ہے
آدھی رات کو چاند زمیں پر آتا ہے
جھیل کا پانی آئینہ بن جاتا ہے
اک شہزادہ چُپ چُپ دھیان میں جلتا ہے
ایک قدم میں سات سمندر چلتا ہے
شہزادی جب چاند سے باہر آتی ہے
خوشبوؤں میں سکھیوں سنگ نہاتی ہے
شہزادہ جب باغ کے اندر آتا ہے
شہزادی کو چاند بلا لے جاتا ہے
1990
٭٭٭
شاید کسی خواب میں کہا کچھ
کیا میں نے جواب میں کہا کچھ
کیا منزلِ بے وفائی تھی وہ
کم تھا جو جواب میں کہا کچھ
جب صحبتِ غیر یاد آئی
پھر تجھ سے عذاب میں کہا کچھ
یعنی وہ سفر سراب کا تھا
اور دل نے سراب میں کہا کچھ
دنیا کو دکھا سکے گا منہ کیا
گر میں نے جواب میں کہا کچھ
وہ حالِ خراب پر کھلے گا
جو حالِ خراب میں کھلا کچھ
مفہوم ہی کچھ اور لوگ سمجھے
اور اس نے کتاب میں کہا کچھ
کچھ دور تھا ہاتھ ابھی ہوا کا
خوشبو نے گلاب میں کہا کچھ
اس میں بھی حیا کا رنگ بولا
میں نے بھی حجاب میں کہا کچھ
جب آنکھ وہ میکدہ سی دیکھی
نشے نے شراب میں کہا کچھ
قطرے نے سرِ آب کچھ کہا تھا
موجِ تہِ آب میں کہا کچھ
معلوم نہیں کون تھا وہ جس نے
گوشِ گلِ خواب میں کہا کچھ
1994
٭٭٭
وطن کے خواب رکھتے ہیں اور اپنے من میں رہتے ہیں
اِسی مٹی کے شاعر ہیں اسی گلشن میں رہتے ہیں
مگر ہم سے زیادہ محترم ہیں جو سیاسی لوگ
وطن کا ذکر کرنے کے لیے لندن میں رہتے ہیں
٭٭٭
نور سے بھر جائے دل وہ رنگ ہے تحریر کا
آپ کیا ہو گا جب عالم ہے یہ تقریر کا
دو زمانوں میں مسلسل ہے ہماری زندگی
اک زمانہ خواب کا ہے دوسرا تعبیر کا
جب ہوئے ہم گوش بر آواز تو ہم پر کھلا
ہر نئے عالم میں اِک عالم تری تقریر کا
رہ گیا مقتول کی شانِ شہادت دیکھ کر
سینۂ شمشیر کے اندر ہی دَم شمشیر کا
آپ کی اپنی عدالت کیجئے جو فیصلہ
ہاں مگر وہ فیصلہ اِک آخری تقدیر کا
کوئی پابندی نہ چاہے ایسی آزادی کہاں
خود مری خواہش سے نکلا سلسلہ زنجیر کا
دعویِ اَوج سخن اپنی جگہ لیکن علیمؔ
میں بھی تھا غالبؔ کا قائل معتقد تھا میرؔ کا
1994ء
٭٭٭
جب اس کی بدل گئی نگاہیں
شاہوں کو ملی نہیں پناہیں
جب چھاؤں نہ دیں جہاں پناہیں
بانہوں میں سمیٹ لیں وہ بانہیں
دشمن کو خبر نہیں کہ کیا ہیں
یہ اَشک یہ آہ کی سپاہیں
تُو ساتھ نہ دے اگر ہمارا
ہم کیسے یہ زندگی نباہیں
اب کج کلہِ دو جہاں کے آگے
گرنے کو سروں سے ہیں کلاہیں
آخر ترے پا شکستگاں کو
لے آئیں تری طرف ہی راہیں
اے شخص تُو جان ہے ہماری
مر جائیں اگر تجھے نہ چاہیں
سو بار مریں تو تیری خاطر
سو بار جئیں تو تجھ کو چاہیں
اے شخص کہاں چلا گیا تُو
آ جا کہ ترس گئیں نگاہیں
ہر صاحبِ دل کو نذر ہیں یہ
کچھ اپنی کچھ عہد کی کراہیں
1991ء ٭٭٭
ہم نے کھلنے نہ دیا بے سرو سامانی کو
کہاں لے جائیں مگر شہر کی ویرانی کو
صرف گفتار سے زخموں کا رفو چاہتے ہیں
یہ سیاست ہے تو پھر کیا کہیں نادانی کو
کوئی تقسیم نئی کر کے چلا جاتا ہے
جو بھی آتا ہے مرے گھر کی نگہبانی کو
اب کہاں جاؤں کہ گھر میں بھی ہوں دشمن اپنا
اور باہر مرا دشمن ہے نگہبانی کو
بے حسی وہ ہے کہ کرتا نہیں انساں محسوس
اپنی ہی روح میں آئی ہوئی طغیانی کو
آج بھی اس کو فراز آج بھی عالی ہے وہی
وہی سجدہ جو کرے وقت کی سلطانی کو
آج یوسف پہ اگر وقت یہ لائے ہو تو کیا
کل تمہیں تخت بھی دو گے اسی زندانی کو
صبح کھِلنے کی ہو یا شام بکھر جانے کی
ہم نے خوشبو ہی کیا اپنی پریشانی کو
وہ بھی ہر آن نیا میری محبت بھی نئی
جلوۂ حسن کشش ہے مری حیرانی کو
کوزۂ حرف میں لایا ہوں تمہاری خاطر
روح پر اترے ہوئے ایک عجب پانی کو
1993ء
٭٭٭
اک خواب ہے اور مستقل ہے
وہ شخص نہیں وہ میرا دل ہے
وہ رنگ ہے نور ہے کہ خوشبو
دیکھو تو وہ کس قدر سجل ہے
اے میرے بدن خبر ہے تجھ کو
تجھ سے مری روح متصل ہے
جلتا تھا وہ اک چراغ تنہا
اب اس کا ظہور دل بہ دل ہے
کیا دل کو بہار دے گیا ہے
وہ زخم جو آج مندمل ہے
اک عالمِ وصل میں مسلسل
زندہ ہے دل جو منفعل ہے
1995ء
٭٭٭
اب نہ خواہش سے نہ تدبیر سے ہو جو کچھ ہو
بس ترے پیار کی تقدیر سے ہو جو کچھ ہو
دل کے ہر رنگ میں اک عالمِ حیرت دیکھوں
آنکھ میری تری تصویر سے ہو جو کچھ ہو
پھول سے جس طرح پیمانِ ہوا ہے ایسے
نطق میرا تری تقریر سے ہو جو کچھ ہو
کس کو معلوم ہے کس خواب کی تعبیر ہے کیا
خواب میرا تری تعبیر سے ہو جو کچھ ہو
ورنہ یہ لفظ فقط لفظ ہی رہ جاتے ہیں
چاہیے جذبہ و تاثیر سے ہو جو کچھ ہو
ہم بھی لکھتے ہیں مگر دل میں دعا رکھتے ہیں
اے مسیحا تری تحریر سے ہو جو کچھ ہو
کوئی مانے بھی تو کیا اور نہ مانے بھی تو کیا
نام میرا تری توقیر سے ہو جو کچھ ہو
میں یہ کہتا ہوں محبت سے کرو جو بھی کرو
وہ یہ کہتے ہیں کہ شمشیر سے ہو جو کچھ ہو
ربط اک میرؔ سے ہر میرؔ کا رہتا ہے علیمؔ
تم اسی سلسلۂ میرؔ سے ہو جو کچھ ہو
1994۔ 1995
٭٭٭
چہرے میں چراغ جل رہا ہے
آئینے میں دن نکل رہا ہے
اک نور کی صبح میں نہا کر
کپڑے وہ نئے بدل رہا ہے
جتنا وہ سنور رہا ہے اتنا
آئینے کا دل پگھل رہا ہے
وہ قامتِ ناز ہے قیامت
دیدار میں دم نکل رہا ہے
تنہائی کی بے پناہ چپ میں
وہ میرے لہو میں چل رہا ہے
اب صبر کی آنکھ کا یہ آنسو
دامن کے لئے مچل رہا ہے
اک ہاتھ بنا رہا ہے دل کو
اک پاؤں ہے دل مسل رہا ہے
ہر چھاؤں کوئی لے گیا اٹھا کر
اب دھوپ میں شہر جل رہا ہے
اے بھائی یہ عجیب ہے دنیا
کس آگ سے تو بہل رہا ہے
کیا سینۂ خاک ہے کہ اس میں
سورج کوئی روز ڈھل رہا ہے
1995ء
٭٭٭
کل بھی ہم کم کم سہی ملتے تو تھے
جیسے وہ موسم سہی ملتے تو تھے
خواب جیسی صبح کے آغوش میں
ہم گل و شبنم سہی ملتے تو تھے
دھوپ میں دنیا کے دو سائے کہیں
دو گھڑی سہی باہم ملتے تو تھے
دکھ بھی دیتے تھے خوشی کے ساتھ ساتھ
تم نہیں وہ ہم سہی ملتے تو تھے
وہ وداع و وصل کے عالم وہ دن
حشر کے عالم سہی ملتے تو تھے
دین و دنیا سے الجھنے کے لئے
زلف کے وہ خم سہی ملتے تو تھے
اک محبت کا سماں رہتا تو تھا
وہ خوشی یا غم سہی ملتے تو تھے
بے اماں جیسے ہیں اب ایسے نہ تھے
دم بہ دم ماتم سہی ملتے تو تھے
1995ء
٭٭٭
ان دنوں روح کا عالم ہے عجب
جیسے جو حسن ہے میرا ہے وہ سب
جیسے اک خواب میں نکلا ہوا دن
جیسے اک وصل میں جاگی ہوئی شب
دل پہ کھلتا ہے اسی موسم میں
غم کسے کہتے ہیں اور کیا ہے طرب
جس سے ہو جائے جہاں ہو جائے
ہے محبت ہی محبت کا سبب
جاں فزا ہے جو عطا کرتے رہو
بوسۂ لب کی طرح بوسۂ لب
پہلے اک ناز بھرا ربط و گریز
اس نے پھر بخش دیا سب کا سب
تم سا کیا ہو گا یہاں خواب کوئی
مجھ سا کیا ہو گا کوئی خواب طلب
کاش تعبیر میں تم ہی نکلو
جب کوئی خواب ہو تعبیر طلب
اس کے عشاق جہاں بھی دیکھو
ایک ہی نشے میں ڈوبے ہوئے سب
سلسلے اس سے مل جائیں تو ٹھیک
ورنہ جھوٹے ہیں یہ سب نام و نسب
لوگ موجود ہیں اب بھی جن کے
منہ سے جو بات نکل جائے ادب
سایۂ زلف میں مر جاؤں علیمؔ
کھینچ لے گر نہ مجھے سایۂ رب
1991ء
٭٭٭
کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی لاکھ سمندر پی جائے
کوئی لاکھ ستارے چھو جائے
کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی زیست کا ساغر بھرتا ہے
کوئی پھر خالی ہو جاتا ہے
کوئی لمحے بھر کو آتا ہے
کوئی پل بھر میں کھو جاتا ہے
کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے
1990ء
٭٭٭
ہے عمر کی منزل کیا
کہتا ہے مرا دل کیا
ہر خواب کا حاصل ہے
اس خواب کا حاصل کیا
آپ آئے مرے گھر میں
ہے آپ کے قابل کیا
طوفاں کو چھپا لے گا
آغوش میں ساحل کیا
اک دن یہ محبت بھی
ہو جائے گی باطل کیا
اک دن یہ مسیحا بھی
ہو جائے گا قاتل کیا
ہے سایہ طلب میری
یہ ہو کہ وہ منزل کیا
تم اپنی خوشی دیکھو
میں کیا ہوں مرا دل کیا
طے ہو گیا سب کچھ پھر
اس بحث سے حاصل کیا
ساتھی ہو تو سمجھو گے
اب دل کی ہے مشکل کیا
تقریب میں اس دل کی
ہو جاؤ گے شامل کیا
آواز لگاتا ہے
دیکھو کوئی سائل کیا
گر اذن ادھر کا ہو
پھر راہ میں حائل کیا
مشکل ہے تو میری ہے
اس کے لیے مشکل کیا
جب ایسی اداسی ہو
پھر کوئی بھی محفل کیا
٭٭٭
میں نے پہلے کبھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے پہلے کبھی گھر سجایا نہیں
جیسے تم آئے ہو کوئی آیا نہیں
اب ہیں پاتال تک پیار کی بارشیں
میرا جیون کبھی یوں نہایا نہیں
وہ مرے سامنے کس طرح آئیں گے
عشق جن نے کیا اور نبھایا نہیں
1988ء
(نامکمل)
٭٭٭
چھو کے جب خواب سا بدن آیا
شاخِ لب پر گلِ سخن آیا
اس کے قامت پہ زیب دیتا تھا
جو پہن کر وہ پیرہن آیا
ہم اسے روز دیکھنے جائیں
آج کیا اُس میں بانکپن آیا
رنگ تھے اس کے دیکھنے والے
جب بہاروں پہ وہ چمن آیا
ٹوٹ کر رہ گیا ہوں جب میں وہاں
خود گیا اور خود ہی من آیا
کوئی نغمہ نگار کیا جانے
میرے حصّے میں جو وطن آیا
1990ء
٭٭٭
اے رُوح قطرہ قطرہ پگھل آپ کے لئے
اے خامہ سیلِ خواب میں چل آپ کے لئے
ہر شعر ما ورائے سخن ہو کچھ اس طرح
اے دل تو لفظ لفظ میں ڈھل آپ کے لئے
اپنے معاملے میں حساب اس کا اور ہے
سو بار اے زبان سنبھل آپ کے لئے
مرتا ہوں آرزو میں کہ اے کاش لکھ سکوں
جیسے ہیں آپ ایسی غزل آپ کے لئے
مانگے ہے جیسے سجدوں میں دل آج آپ کو
تڑپے سوا یہ آج سے کل آپ کے لئے
اک نشۂ وجود میں پڑھتے رہیں درود
نینوں کے دیپ دل کے کنول آپ کے لئے
دونوں جہاں وہیں ہیں جہاں چھاؤں آپ کی
اے دل مچل تو صرف مچل آپ کے لئے
اس ظرفِ کائنات پہ کتنے کھلیں گے آپ
جب اس کا ایک دور ہو پل آپ کے لئے
اس دشتِ بے اماں سے نکل آپ کے لئے
اے روحِ کائنات بدل آپ کے لئے
1994ء
٭٭٭
ہر آن ایک عالمِ خواب ہو کے رہ گیا
اِک شخص موجِ خوں میں شراب ہو کے رہ گیا
ایسے وہ اک نگاہ ملی، مل کے رہ گئی
پل بھر میں زندگی کا حساب ہو کے رہ گیا
اک انتہائے شوق میں اس سے کیا سوال
وہ ایسے چپ ہوا کہ جواب ہو کے رہ گیا
جب جب میری نگاہ سے وہ چھو گئی نگاہ
موج حیا سے رنگ گلاب ہو کے رہ گیا
کچھ خواب اپنے گھر کے ہیں کچھ اس کے خواب ہیں
باقی تمام جیسے عذاب ہو کے رہ گیا
اس گل کی اور ہے مرے دل میں شگفتنی
یوں تو جو آیا دل میں گلاب ہو کے رہ گیا
میں یہ اٹھاؤں جام کہ میں یہ اٹھاؤں جام
اس میکدے میں، مَیں تو خراب ہو کے رہ گیا
پانی کہیں سے لاؤ کوئی آسمان کا
یہ دہر فلسفوں کا سراب ہو کے رہ گیا
کیا تھی محبتوں میں وہ خواہش کہ ناگہاں
اک شخص درمیاں میں حجاب ہو کے رہ گیا
٭٭٭
آئینے سے رکھے ہیں حرف و حس میں
کب بول پڑے جانے کون کس میں
دیکھے کوئی صبح کے بدن کو
کیا پھول کھلے ہوئے ہیں اس میں
کس شان سے بولتا ہے کوئی
اس عالمِ نیک اور نجس میں
لانا وہ کتابِ نور اس کی
ہر حال لکھا ہوا ہے جس میں
یہ روح کے رنگ سے کھلے گی
اک بات ہے حرفِ ملتمس میں
میں ذرّہ خاک اور وہ سورج
یہ کون سما رہا ہے کس میں
1993
٭٭٭
وہ زمیں غالب ؔ کی لکھوں جس میں ہے تکرارِ دوست
میں بھی کھینچوں قامتِ جاناں یہ ہے اصرارِ دوست
دیکھ کر قدِ قیامت سوچ کر زُلفِ دراز
اپنی ہی رفتار کے نشّے میں ہے رفتارِ دوست
ہاتھ اٹھے ہوں دعا کو اس طرح اس کا بدن
قتلِ عاشق کو بہت ہے قامتِ تلوار دوست
ہائے وہ کاجل بھری آنکھیں وہ ان کا دیکھنا
ہائے وہ نورِ حیا سے آتشیں رخسارِ دوست
جیسے ہم آغوشیِ جاں کے زمانے ہوں قریب
ان دنوں ایسے نظر آتے ہیں کچھ آثارِ دوست
اِک محبت سے محبت ہی جنم لیتی رہی
ہم نے اس کو یار جانا جس کو دیکھا یارِ دوست
روح و تن نے ہر نفس اِک آنکھ چاہی تب کھلا
دیکھنا آساں ہے مشکل ہے بہت دیدارِ دوست
سب سخن کے جام بھرتے ہیں اسی سرکار سے
جس پہ اب جتنا کھلے میخانۂ گفتارِ دوست
بس یونہی موجیں بھریں یہ طائرانِ خدّ و خال
بس یونہی دیکھا کریں ہم گلشنِ گلزارِ دوست
1996ء
٭٭٭
اس عہد میں کرے نہ کوئی بات میرؔ کی
کم ہو گئی ہے لفظ میں طاقت ضمیر کی
سودا نہ کر کہ لفظ میں طاقت ہے بے شمار
ہے چار دن کی بات امیر و سفیر کی
تو صاحب سخن ہے تو خلوت پہ ناز کر
مت جا وہاں جہاں ہو صدارت وزیر کی
ایسا بھی کیا یہ نشّہ دنیا کہ آدمی
فریاد سن نہ پائے خود اپنے ضمیر کی
واں یہ زمانہ کیا ہے یہ ابنِ زمانہ کیا
وہ اور سلطنت ہے خدائے کبیر کی
اے میرے ظرف اور بھی ہو جا کشادہ تر
جب بات دوست کے ہو سرشت و خمیر کی
گر ختم ہو تو کیسے فضا دار و گیر کی
نیت ہی اور کچھ ہے گروہِ شریر کی
ہر آن ایک حشر قیامت ہے زندگی
پہنچے اگر مدد نہ مرے دستگیر کی
تیرا یہ تیر مجھ کو لگے بھی تو میں ہزار
لیکن وہ شست تیری طرف ہے جو تیر کی
قیدِ قفس کو ڈھونڈتی پھرتی ہے ملک ملک
وہ زندگی جو اب ہے وطن کے اسیر کی
روشن ہوا جو ایک نئی زندگی کے نام
لوگوں نے اس دئیے میں بھی ظلمت اسیر کی
وہ شمعِ بزم کون تھا پروانے کون تھے
جو سن رہے تھے رات غزل اس فقیر کی
وہ اوج شاعری ہو کہ ہو موجِ زندگی
تم کو دعائیں خوب لگیں اپنے پیر کی
1997ء
٭٭٭
دیکھنے کو جس کو رہتی ہے تمنّا مستقل
سامنے جب آ گیا وہ نا گہاں کیسا لگا؟
٭٭٭
نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے پاس
اِک عجب چھاؤں میں ہم بیٹھے رہے یار کے پاس
اس کی ایک ایک نگہ دل پہ پڑی ایسی کہ بس
عرض کرنے کو نہ تھا کچھ لبِ اظہار کے پاس
یوں ہم آغوش ہوا مجھ سے کہ سب ٹوٹ گئے
جتنے بھی بت تھے صنم خانۂ پِندار کے پاس
تم بھی اے کاش کبھی دیکھتے سنتے اس کو
آسماں کی ہے زباں یارِ طرحدار کے پاس
یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے
چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس
یونہی دیدار سے بھرتا رہے یہ کاسۂ دل
یونہی لاتا رہے مولا ہمیں سرکار کے پاس
پھر اسے سایۂ دیوار نے اٹھنے نہ دیا
آ کے اک بار جو بیٹھا تیری دیوار کے پاس
تجھ میں ایک ایسی کشش ہے کہ بقولِ غالبؔ
خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس
تیرا سایۂ رہے سر پر تو کسی حشر کی دھوپ
سرد پڑ جائے جو آئے بھی گنہگار کے پاس
تو اگر خوش ہے یہاں مجھ سے تو پھر حشر کے دن
ایک تیری ہی شفاعت ہو گنہگار کے پاس
1992ء
٭٭٭
ربطِ غم اور خوشی ہی ٹوٹ گیا
گھر میں جو تھا سبھی ہی ٹوٹ گیا
جس کے دل ٹوٹنے کی باتیں تھیں
آج وہ آدمی ہی ٹوٹ گیا
جب وہ اک شخص درمیاں آیا
خواب وہ اس گھڑی ہی ٹوٹ گیا
پھر اماں کون دے اسے جس کا
رشتۂ بندگی ہی ٹوٹ گیا
جب سے دیکھا نہیں ہے وہ قامت
نشّۂ زندگی ہی ٹوٹ گیا
کس بھروسے پہ اب جنوں کیجئے
عشوۂ دلبری ہی ٹوٹ گیا
ٹوٹتے ٹوٹتے محبت کا
رقصِ دیوانگی ہی ٹوٹ گیا
1994ء۔ 1995ء
٭٭٭
شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ہے
یہ شہر دل سے زیادہ دکھا سا لگتا ہے
ہر اک کے ساتھ کوئی واقعہ سا لگتا ہے
جسے بھی دیکھو وہ کھویا ہوا سا لگتا ہے
زمیں ہے سو وہ اپنی ہی گردشوں میں کہیں
جو چاند ہے سو وہ ٹوٹا ہوا سا لگتا ہے
مرے وطن پہ اترتے ہوئے اندھیروں کو
جو تم کہو، مجھے قہرِ خدا سا لگتا ہے
جو شام آئی تو پھر شام کا لگا دربار
جو دن ہوا تو وہ دن کربلا سا لگتا ہے
یہ رات کھا گئی ایک ایک کر کے سارے چراغ
جو رہ گیا ہے وہ بجھتا ہوا سا لگتا ہے
دعا کرو کہ میں اس کے لئے دعا ہو جاؤں
وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے
تو دل میں بجھنے سی لگتی ہے کائنات تمام
کبھی کبھی جو مجھے تُو بُجھا سا لگتا ہے
جو آ رہی ہے صدا غور سے سنو اس کو
کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ہے
ابھی خرید لیں دنیا کہاں کی مہنگی ہے
مگر ضمیر کا سودا برا سا لگتا ہے
یہ موت ہے یا کوئی آخری وصال کے بعد
عجب سکون میں سویا ہوا سا لگتا ہے
ہوائے رنگِ دو عالم میں جاگتی ہوئی لَے
علیمؔ ہی کہیں نغمہ سرا سا لگتا ہے
1993ء
٭٭٭
تشکر: آصف محمود ڈار جنہوں نے کلیات ’یہ زندگی ہماری‘ کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید