FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

یوگا کی شرعی حیثیت

ابو العزم

 

1۔ تمہید

انسا ن کی صحت اور تندرستی کے لئے کھیل کود اور  ورزش بیحد ضروری ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں کئی قسم کی قدیم و جدید ورزش کے طریقے رائج ہیں۔ڈاکڑس کا کہنا ہے کہ شیر خوار بچے سے لے کر معمر افراد تک کو صحت مند زندگی گذارنے کے لئے جسمانی ورزش کرنا ضروری ہے۔قدیم زمانے میں بدھیسٹ اور راہب ورزش اور لڑائی کی ترکیبوں میں مہارت رکھتے تھے۔ مشرق بعید کے ممالک جیسے تھائی لینڈ، کوریا، چین اور جاپان میں مارشل آرٹس جیسے کراٹے، کنفو، جوڈو وغیرہ مقبول عام ہیں اوراسی طرح ہندوستان کے قدیم اکھاڑوں میں ورزش کے ساتھ ساتھ کشتی لڑنے کی ماہرانہ تربیت دے کر پہلوانوں کو تیار  کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں ایک اور قدیم طریقہ ورزش  ’’یوگا‘‘  ہے۔  جس کی مضبوط جڑیں ہندو دھرم میں پائی جاتی ہیں۔ ہندوؤں کی مقدس کتابوں،ویدوں اور بھگوت گیتا میں یوگا کی تعلیمات ہمیں ملتی ہیں۔ یوگا کو ہندوؤں کے مذہبی پیشوا، رشی منی، سادھو، سنت اپنے مٹوں میں ہندو مذہبی عقیدہ کے مطابق اپنے چیلوں کے ساتھ بطور فریضہ کے روزانہ انجام دیا کرتے تھے۔

دنیا میں یوگا کو مقبول عام کرنے کے لئے مغربی ممالک کے ساتھ عرب اور مسلم ممالک کی نئی نسل میں بھی ’’یوگا‘‘ کا شوق پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی جا رہی ہے۔

یوگا کے مہاگرو  یوگی بڑے ہی جاذب اور دلکش انداز سے اس کی تبلیغ و ترویج میں لگے ہوئے ہیں۔مہا یوگی اکثر یوگا کے تین اہم باتوں کی پر زور تبلیغ کرتے ہیں۔

      ۱۔  یوگا جسمانی ورزش اور کسرت کا واحد قدیم کامیاب طریقہ ہے۔

      ۲۔  یوگا امراض کے علاج کے لئے مفید ہے۔

      ۳۔  یوگا سے روحانی ارتقاء میں اضافہ ہوتا ہے۔

ہندو احیاء پسند تحریکات کی جانب سے یوگا کے متعلق انگریزی، عربی اور دیگر زبانوں میں جاذب نظر لٹریچر کی نشر و اشاعت کا کام بڑے پیمانے پر جاری  ہے۔بعض عرب ممالک میں یہ دیکھ کر تعجب ہو تا ہے کہ حکومت کے بعض دفاتر اور مشہور و اہم تعلیمی و تجارتی اداروں کے دیواروں پر ’’یوگا‘‘ کے پوسٹر س و ملصقات چسپاں نظر  آتے ہیں۔عربی چیانلس پر بھی عربی میں یوگا کے فضائل بیان کئے جا رہے ہیں۔ جس سے نوجوانوں میں یوگا کے متعلق شوق بڑھتا جا رہا ہے۔

اس کتاب میں یوگا کا مختلف پہلوؤں سے مطالعہ اور تجزیہ پیش کیا گیا ہے اور یوگا کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ یوگا کے متعلق اسلامی مفکرین کے نئے نئے علمی تحقیقات و مباحث مستقبل میں انشاء اللہ آتے رہیں گے۔اس کتاب میں جو حق بات دلیل کے ساتھ اخذ کی گئی ہے وہ قارئین کے استفادہ کے لئے قلمبند کر دی گئی ہے۔ اس کتاب کو فتوے کی حیثیت سے نہیں بلکہ یوگا کے متعلق ایک مکمل خالص اسلامی موقف کی حیثیت سے دیکھنے اور مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ سے امید ہے کہ یہ کتاب داعیان، مصلحین، تعلیم یافتہ نوجوانوں اور خواتین کے لئے انشاء اللہ کارآمد ہو گی۔اللہ سے دعاء ہے کہ اس حقیر سی کوشش کو قبول فرمائے۔

     وما علینا الا البلاغ

٭٭٭

 

2۔ اسلام میں  جسمانی ورزش اور کھیل کود کی اجازت !

اسلام نے عقل و روح کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ جسمانی  طاقت و قوت میں اضافے کے لئے جسمانی ورزش اور کھیل کود Sports, Games & Physical Exerciseکی اجازت دی ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اہل حق کو ایک طاقتور قوم و ملت بننے کا حکم دیا اورساتھ ہی انفرادی قوت و طاقت کی اہمیت کی طرف اشارہ دیا۔

 حضرت موسیٰ ؑ کے قصے میں فرمایا گیا کہ

ان خیر من استاجرت القوی اٰ لا مین   O  ’’اچھا نوکر آپ رکھیں جو مضبوط اور امانتدار ہو۔‘‘ ( ۲۸:قصص :۲۶)

ویزدکم قوۃ الی قوتکم    O              ’’تمہاری طاقت پر اور طاقت و قوت بڑھا دے‘‘ ( ۱۱:ھود : ۵۲)

ثم جعل من بعد ضعف قوۃ   O     ’’پھر اس کو کمزوری کے بعد قوت بخشی۔‘‘ ( ۳۰:روم : ۵۴)

احادیث

      امام مسلم ؒ نے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

’’المومن القویٰ خیر واحب الی اللہ من       المومن من الضعیف وفی کل خیر۔     احرض علی ماینفعک واستعن باللہ      ولا تعجر۔

     ’’طاقتور مومن بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ کو کمزور مومن سے       زیادہ محبوب ہے۔ ہر ایک میں خیر ہے۔’’ایسے کاموں کے حریص بنو جو تمہیں فائدہ پہنچانے والے  ہوں۔ اللہ سے مدد مانگو عاجزی و مجبور نہ بنو!‘‘  (مسلم)

نبی کریم ﷺ نے جب مسجد میں اہل حبشہ کو نیزوں سے کھیلتے دیکھا تو فرمایا:

دونکم یا بنی ارقدۃ تعلم الیہود ان فی دیننا فسحۃ

’’اے بنو ارقدہ تم اسے مضبوطی سے تھام لو تاکہ یہود کو معلوم    ہو جائے کہ ہمارے دین میں آسانی و گنجائش ہے۔‘‘

ابن اسحق ابن ہشام ؒ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

     رحم اللہ امرا اراھم الیوم من نفسہ قوۃ

’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو آج دشمنوں کےسامنے اپنے آپ کو طاقتور ظاہر کرے‘‘

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

وادموا وارکبو وان ترمواجب الی من ان ترکبو

’’اور تم تیر اندازی اور شہسواری سیکھو‘‘

نسائی، ترمذی اور طبرانی کے احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ نبی کریم ؑ کو گھوڑسواری، تیراکی، تیر اندازی جیسے کھیل sports بہت پسند تھے۔

اسلامی شریعت میں physical exercise  جسمانی ورزش، کسرت اور کھیل کود کی مختصر وقت میں مکمل اجازت ہے۔جیسے کرکٹ،  فٹبال، باکسنگ، رسلنگ وغیرہ کا راست یا ٹی وی و نیٹ پر دیکھنا جائز ہے۔جسمانی صلاحیتوں کے لحاظ سے اچھے پیشہ وارانہ کھلاڑی بننے میں بھی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تقریباً بہت سے کھیل فی نفسہ جائز ہے۔ جبکہ قرآن واسلامی شریعت  میں کئی مقامات پر لہو و لعب کی ممانعت آئی ہے اور اس میں مبتلا ہونے والوں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے۔

کھیلوں کی نوعیت کے اعتبار سے7 زمروں کے کھیل ایسے ہیں جو ممنوع اور ناجائز قرار پاتے ہیں جو حسب ذیل ہیں:

1۔  ایسے کھیل جس کے میدان اسٹیڈیم اور کورٹ کا ماحول منکرات سے بھرا ہوا ہو  اور برائیاں و سیاًت اس کا احاطہ کئے ہوئے ہوں۔

2۔  ایسے کھیل جسمیں شائقین کی دلچسپی جنون کی حد تک بڑھ جائے۔ دن و      رات گھنٹوں کھیل بینی میں وقت سرف کر رہے ہوں جس سے نجی اوقات،     ملازمت،کاروبار اور تعلیم پر اثر پڑھ رہا ہو اور روز مرہ کے معمولات، گھر و      دفتر کے ماحول پر غلط اثرات مرتب ہو رہے ہوں۔

3۔   ایسے تمام کھیل جس میں شرط جوا، منشیات، عریانیت اور فحش شامل ہوں۔

4۔  ایسے تمام کھیل جس سے عقیدہ،اخلاق اور آداب مسلم بگڑنے کا قوی امکان  ہو اور کھیل و ورزش میں کفر و شرک طاغوت کے عناصر کی آمیزش ہو۔

5۔  بچوں کے تمام الکٹرانک گیمس جس میں Barbi  باربی ڈال کو نیم عریاں لباس میں دکھایا جا تا ہے۔ ہائی ٹیک Hi-tech  ماڈرن ڈالس اور    کارٹون فلموں میں بھی عریاں لباس کے ساتھ مکالموں میں کئی بے حیاء باتیں شامل ہوتی ہیں۔ جس کے کھیلنے اور دیکھنے سے بچوں کے اخلاق میں بگاڑ      پیدا ہو سکتا ہے۔

6۔  ایسے تمام بچوں کے کھیل جس میں بچے کھیلتے کھیلتے آزاد اور شرم و حیاء سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں اور مغربی تہذیب کا رنگ ان پر چڑھنے لگتا ہے۔

7۔    ایسے تمام کھیل جس میں جانی نقصان یا ذہنی و جسمانی طور پر معذور و مفلوج ہو جانے کا خدشہ ہو جیسے Free fall, bugee Jumping,  یا موذی بری بحری آبی آدم خور جنگلی جانوروں کے ساتھ کھیل کھیلنا شدید خطرہ اور خوفناک انجام سے خالی نہیں ہوتا۔ شریعت اسلامی اس کی اجازت ہر گز نہیں دیتی کہ محض کھیل و کرتب کے خاطر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالیں۔

مسلم معاشرہ میں عوام کی سرگرمیوں و دلچسپیوں پر اسلامی دانشوروں کی گہری نظر ہوتی ہے۔ خیر امت کو کسی بھی عنوان سے تضیع الاوقات،  لہو لعب اور اسراف اور لا یعنی مصروفیات سے روکنا اور بچانا زعماء،داعیان و مصلحین کا کام ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثال ام المومنین حضرت عائشہؓ  کے ایک واقعہ میں ہمیں ملتی ہے۔

حضرت عائشہؓ  کے ایک گھر میں کرایہ دار رہتے تھے ان کے متعلق معلوم ہوا کہ نرد کھیلتے ہیں۔ سخت ناراض ہوئیں اور کہلا بھیجا کہ اگر نرد کی گوٹیوں کو میرے گھر سے باہر نہ پھینک دو گے تو میں اپنے گھر سے نکلوا دوں گی۔

 (ادب الفرد :امام بخاری و اخراج اھل الباطل)

عہد عثمانی میں مسلمانوں اور ایرانیوں میں اختلاط شروع ہوا۔ مسلمانوں میں عجمیت کے سماجی و روایتی جراثیم سرایت کر نے لگے۔ کبوتر بازی، شطرنج بازی، نرد بازی یہ تمام لہو و لعب اور تضیع اوقات کے طریقے اس زمانے میں پھیلنے لگے۔ صحابہ اکرام زندہ تھے۔ انھوں نے سخت داد گیر شروع کر دی۔ایک عظیم کام کے لئے مبعوث امت کو گوٹیوں، نرد جیسے لغویات سے بچانا ضروری تھا۔ حضرت عائشہؓ کی وارننگ اور صحابہ اکرام کا لہو و لعب کے معاملے میں داد گیر کرنا مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔اس سے کھیلوں کے سلسلے میں اسلام کے مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

عام اور مذہبی کھیلوں پر ایک نظر

کھیل کود کی اسلام میں کھلی اجازت ہے۔ لیکن بعض کھیل sports & games جو اسلامی احکامات سے راست یا بالواسطہ ٹکراتے ہیں ممنوع قرار دئیے جاتے ہیں۔

عصر حاضر میں مقامی و عالمی سطح پر جتنے کھیل Games  کھیلے جاتے ہیں بہت سے کھیلوں میں sports men کھلاڑیوں کے ستر کھل جاتے ہیں جس سے ستر کے تمام حدود و قیود ٹوٹ جاتے ہیں۔ اسلام شرعی حدوں کو توڑنے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ اس کے لئے بندہ مومن اللہ کے پاس جوابدہ ہے۔ مہنگے مہنگے ٹکٹ خرید کریا دو دو مہینوں تک کرکٹ، باسکٹ بال،  رسلنگ وغیرہ کے لیگ اور سیریل میاچس کو پابندی سے دیکھتے رہنا مناسب نہیں ہے۔ اس سے تماشہ بینوں کی زندگی کے سینکڑوں گھنٹے راست یا ٹی وی پر دیکھنے سے خراب ہو رہے ہیں۔بعض صورتوں میں فقہا نے کھیل تماشے کو ممنوع قرار دیا ہے۔ جیسے ستر کھلی رکھی جائے، نمازوں کے اوقات زائل کر دئیے جائیں یاجس کھیل سے عورتوں کے موجبات حجاب ٹوٹ رہے ہوں، یا پھر آزادانہ اختلاط مر د و زن ہوں۔ایسے تمام کھیل جس میں وقت، پیسہ اور صلاحیتیں برباد ہوتے ہیں منع کیا گیا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کھیل کے میدان میں بعض مسلم لڑکیاں عالمی مقابلوں میں امتیازی کامیابی حاصل کر کے عالمی شہرت تو حاصل کر لیتی ہیں۔ لیکن ہماری اکثر نامور خاتون کھلاڑی کھیل کے دوران حجاب و ستر کی حدوں کو مختصر اور عریاں لباس پہن کر توڑ ڈالتی ہیں۔اور یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جیتنے کی خوشی میں اپنے نامحرم کھلاڑی ساتھیوں یا کوچ سے اسکور بناتے ہی بغلگیر ہو جاتی ہیں۔اس پر علماء اور مصلحین نے اسلامی نکتہ نظر کا کئی مرتبہ دو ٹوک اور واضح انداز میں اظہار کیا اور کہا کہ یہ عمل سراسر ناجائز ہے۔اسطرح کی کھلی بے حیائی پر اللہ کا حکم  ’’الفواحش الیٰ ما ظھر ا منھا وما بطن ‘‘ کے تحت کھل کر تنقید کرنا اور اسے حرام قرار دینا ایک دینی فریضہ ہے تاکہ نو خیز مسلم نسل کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ اسلام میں اس طرح کے اعمال کی سخت ممانعت ہے۔ اسلامی اقدار کی حفاظت کی ذمہ داری داعیان اور مصلحین کے ساتھ ساتھ ملت کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔ خواتین اگر پردہ و حجاب کے حدود کو توڑ کر کھیلتی ہیں تو اسلام اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ اگر وہ حجاب میں رہ کر مردوں سے علیحدہ اوقات اور علیحدہ گراؤنڈ میں کھیلتیں ہیں تواسلام میں اس کی پوری اجازت ہے۔اسلامی سماج اس بات کی قطعی اجازت نہیں دے سکتا کہ کھیل کے مقابلوں کے نام پر حرام، ممنوع و معیوب کام کریں۔اگر اس پر تنقید نہ کی جائے، اس کی اصلاح نہ کی جائے اور اسے گوارہ کر لیا جائے تو پھر ہماری اسلامی سوسائٹی پر اس کے مضر اثرات مرتب ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔

    کمسن بچوں کے کھیل

بچوں کے کھیلوں میں خاص کر کارٹون فلموں میں جو لباس، تعلقات اور مکالمے اور جو تہذیب و تمدن پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ عریاں مغربی تہذیب کا حصہ ہے۔ بچپن میں ہی بچوں کی شرم و حیاء ختم کر دی جا رہی ہے۔ شعور کو پہنچنے سے پہلے پہلے بچے وہ سب باتوں کے شوقین اور عادی ہو جا رہے ہیں۔ جس سے بڑے بھی شرما جائیں۔ اس وقت امریکہ اور یورپی سوسائٹی میں مفکرین و عمرانیات کے ماہرین کے درمیان بڑے پیمانے پر مباحث چل رہے ہیں کہ آخر بچوں کو کتنی آزادی دینی چاہئیے۔ اور والدین کو اخلاقی طور پر بچوں سے کتنی احتیاط و سختی برتنی چاہئیے۔بچے جب والدین کو کھیل کے نام پر فضول،بے مقصد مصروفیات اور دلچسپیوں میں دیکھتے ہیں تو پھر و ہ خود بھی ویسی ہی حرکتوں کو انجام دیتے ہیں۔جس کی تباہی و بربادی کا ان معصوموں کو نہ ادراک  ہوتا ہے اور نہ ہی سمجھ۔بچوں اور بڑوں کی فلموں نے یورپ اور امریکہ کے معصوم ننھے بچوں کا بچپن چھین لیا ہے اور نوجوانوں کو کھیل کے نام پر مقصد زندگی سے برگشتہ کر دیا ہے۔

٭٭٭

 

3۔ جدید مسائل میں شریعت اسلامی کے رہنمایانہ اصول

دنیا میں کسی بھی مذہب اور قوم و سوسائٹی کے پاس خالق کائنات کا نازل کردہ کلام بلا تحریف اور آمیزش کے خالص حالت میں موجود نہیں ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے پاس اللہ رب العالمین کا نازل کردہ کلام، قرآن کریم اصلی حالت میں موجود ہے اور وہ ایک ایسا دستور حیات ہے۔ جو انفرادی، عائلی، اجتماعی اور ملکی قوانین کا سر چشمہ اور مصدر ہے۔ جس کا منتہائے مقصود بنی نوع انسان کو نور ہدایت سے روشناس کرانا اور انسانیت کو تہذیب و تمدن کی بلندیوں تک پروان چڑھانا ہے۔

قرآن عقیدہ و فکر،تعلیم و عمل،اصلاح و تذکیر، اتحاد و اجتماعیت کے ذریعہ ایسے نفوس تیار کرتا ہے جو دوسروں سے بالا تر اور فائق ہوں۔ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی سیر ت تاریخ کے ہر موڑ اور زندگی کے ہر قدم پر انسانیت کو مؤثر دعوت دے کر اس کی رہنمائی کرتی ہے اور فرد سے لے کر مملکت کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل و مشکلات کا حل پیش کرتی ہے۔مخالفتوں اور چیالنجس کا دو ٹوک جواب قرآن و سنت اور حدیث کی تعلیمات میں موجود ہے۔ جو معقول اور سمجھ میں آنے والی ہوتی ہیں۔

     اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے

شرع لکم من الدین ماوصٰی بہ نوحا و الذین اوحینا   الیک وما وصینا بہٓ ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ   O

’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح ؑ کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی)ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا، کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘       (۴۲:شوریٰ: ۱۳)

ثم جعلنٰک علی شریعۃ من الامر فاتبعھا و لا تتبع اھوآءَ الذین لا یعلمون    O

’’پھر ہم نے آپ کو دین کی راہ پر قائم کر دیا، سو آپ اسی پر لگے رہیں   اور نادانوں کی خواہشوں کی پیروی میں نہ پڑیں۔‘‘ (۴۵:جاثیہ)

قرآن کریم ایک ایسا نظام حیات ہے جو دنیا کی کامیابی اور آخرت کی فلاح کا ضامن ہے۔ قرآن کریم کو بطور بار امانت کے عطاء کیا گیا۔ جس کے نفاذ کے ذریعہ امت وسط حق، خیر، امن و سلامتی، نیکی و تقویٰ اور ترقی کی علمبردار بنی رہے گی۔اگر ملت اسلامیہ زندگی کے گمبھیر مسائل اور الجھنوں میں مبتلا ہو جائے اورکسی مسئلے پر آپسی اتفاق رائے سے کوئی ایک بات طئے نہ کرسکے تو قرآن کریم نے ان امور و مسائل کو اللہ و رسول اللہﷺ  کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے۔

     قرآن کریم نے اس کا بہترین طریقہ سکھایا۔

الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ،اولئک الذین ھدٰھم اللہ و اولئک ھم الو الباب   O

’’جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔پھر جو بہترین بات ہو،اس کی اتباع کرتے ہیں۔یہی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں ‘‘ (۳۹:الزمر:۱۸)

وہ خلفاء راشدین اور علماء و صحابہ اکرام اور تابعین کی سیرت اور اقوال سے بعد کے دور کے مفسرین و محدثین و فقہاء سے جو اس کی تفہیم و تشریح کا عظیم کام انجام دے چکے ہیں اخذ کئے جاتے ہیں۔ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

واللہ واسع علیم، یؤتی الحکمۃ من یشآء ومنیؤت الحکمۃ فقد او تی خیرا کثیرا وما یذکر الا اولوا الالباب    O

’’اور اللہ وسعت والا ہے۔ جاننے والا ہے، وہ جس کسی کو چاہتا ہے حکمت دے دیتا ہے۔ اور جس کو حکمت ملی اس کو بڑی دولت مل گئی۔ اور نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔‘‘   (۲: البقرہ : ۲۶۹)

اولو الباب اور اہل الذکر میں خلفاء راشدین و صحابہ اکرام کے بعد ائمہ اکرام، مفسرین، محدثین، مفکرین،مجددین،فقہا اور اسکالرس،مفتیان و علماء حق بھی شامل ہیں۔

لیکن جزئیات،فروعات میں زمان و مکاں کی تبدیلی،حالات اور وقتی ضروریات کے لحاظ سے پیچیدہ و عصری مسائل کو حل کرنے کے لئے صاحب عقل و بصیرت اور دانشمند افراد کو اس بات کی کھلی اجازت دی گئی کہ وہ ضمنی مسائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں حل کرے۔

فاسئلو ا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون   O

’’پس اگر تم جانتے تو اہل علم سے دریافت کر لو۔‘‘ (النحل:۴۳۔۲۱:الانبیاء:۷)

    مزید فرمایا

فسئل بہ خبیرا    O         (۲۵:فرقان:۵۹)

’’آپ اس کے بارے میں کسی خبردار سے پوچھ لیں۔‘‘

ولا ینبئک مثل خبیر   O(۳۵:فاطر:۱۴)

’’آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا۔‘‘

اسلامی قوانین،اصول شریعہ اور اس کی تشریحات میں جو گہرا علم و مہارت رکھتے ہیں ان کا اسلام میں بڑا مقام ہے۔

دین میں تفقہ،سمجھ بوجھ،علم و حکمت اور دانش اور تدبر و غور و فکر کی صلاحیتیں اللہ نے بندوں کو عطا کی ہیں وہ دنیا کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑھ کر نعمت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابن عباسؓ کو ایک مرتبہ دعا ء دی تھی۔

اللھم تفقھہ فی الدین ولہ التاویل

’’اے اللہ انھیں دین کی سمجھ بوجھ دے اور تفسیر سکھا۔‘‘

معاشرہ سے جہالت کے خاتمہ اور ملت کے عام لوگوں کے انفرادی،عائلی و اجتماعی مسائل و تنازعات کے حل کے لئے اور انھیں ضلالت و گمراہی، حرام و گناہ کے کاموں سے بچانے کے لئے ائمہ، فقہا،مفسرین، مجددین و اسکالرس نور ہدایت کے مطابق ان کی رہنمائی کرتے،اور شریعت کے تحفظ اور شریعت کو غیر اسلامی چیزوں کی آمیزش سے پاک رکھنے کی تا قیامت کوشش کرتے رہتے۔عامۃ المسلمین کو ان کی علمی تحقیقاتی،تجزیاتی،تجددی کاوشوں سے فقہ اسلامی کی درجہ بندی کرنے اور نئے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے اور نئے چیالنجس کا سامنا کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے اور عامۃ المسلمین مختلف امور حیات میں عہد نبوی ؑ کے بعد سے اس سے مستفید ہوتے آرہے ہیں۔

فقہ اسلامی کی تحریر و تدوین کا کام نبی کریمﷺ کے حیات طیبہ میں ہی شروع ہو چکا تھا۔ خود نبی کریم ﷺ نے بھی متعدد مواقع پر ضروری احکام و ہدایات کو قلمبند کروا دیا تھا۔

نبی کریم ﷺ کے عہد کے بعد سے علمی، شرعی فقہی تحقیقات کا کام علماء اور صحابہ اکرام نے شروع کر دیا تھا۔ چونکہ عہد نبوی ؑ اور خلافت راشدہ کا دور ایک دوسرے سے مربوط تھا۔ اسی لئے وہ قرآن و سنت کی روشنی میں باریک بینی اور گہرے مطالعہ و جائزے کے بعد جائز و ناجائز کے مدلل فیصلے، فتوے جاری کیا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے سیاسی،معاشی، معاشرتی حالات بدلتے گئے اور غیر متوقع گمبھیر مسائل اٹھنے لگے تو فقہاء و صحابہ اکرامؓ  نے اپنے علم و دانش و بصیرت کی روشنی میں زبردست تاریخی فیصلے و رائے دئیے۔

نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد علماء و مفتی صحابہ کو دو طبقوں میں تقسیم کیا جا تا ہے۔

طبقہ اول میں حضرت عمرؓ  ،حضرت علیؓ  ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ   حضرت زید بن ثابتؓ  ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  ،  حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  ، اور زوجہ رسول ﷺ ام المومنین حضرت عائشہؓ   شامل ہیں ام المؤمنین کے فتاویٰ اس کثرت میں مذکور ہیں کہ اگر ایک جگہ جمع کئے جائیں تو ایک مستقل دفتر تیار ہو جائے۔ اول دور سے اکابر و صحابہ اکرام کی زندگی ہی میں وہ افتاء کا منصب حاصل کر چکی تھیں۔ بڑے بڑے صحابہ کبار مختلف امور و مسائل کو ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔جامع ترمذی میں ہے:

         حما اشکل علینا اصحاب محمد ﷺ حدیث قط فسالنأ عائشہ الا وجدنا عندھا علما۔ 

’’ہم اصحاب محمد ﷺ کو کبھی کوئی مشکل مسئلہ پیش نہیں آیا۔ لیکن عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس اس کا علم موجود پایا۔‘‘

حضرت عثمانؓ  کے عہد تک اکثر اکابر بزرگ صحابہ نے وفات پا لی تھی۔ ان کے بعد نوجوان صحابہ کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ جن میں خاص کر حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ ، حضرت ابو سعید خدریؓ ، حضر ت جابر بن عبد اللہؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ  شامل تھے۔

عباسی دور میں فقہ اور نظام القضاء Judiciary system  کی بڑے پیمانے پر ترقی ہوئی۔ یہ ترقی فوری اور تیز رفتاری سے اچانک نہیں ہوئی بلکہ بنی امیہ 41 ھ کے دور سے جو حقیقی و طبعی، عقلی بنیادوں پر پانے جانے والے اختلافات، حق سے محروم حقداروں کے حقوق کی پابجائی، تنازعات، آپسی جھگڑوں اور کمزور اور طاقت ور کے درمیان التسویہ کے لئے طریقہ و نہج کو وضع کیا اور دار القضاء و عدلیہ کو منظم کیا گیا۔بنی امویہ) ۴۱ھ تا۱۳۰ھ)مطابق

661ء تا749ء   اور بنی عباسیہ( ۱۳۰ھ تا ۲۷۸ھ) مطابق749ء تا 892ء  کے دور کے فقہاء و دانشوروں و قانون دانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باضابطہ قانونی شکل دی گئی۔ اس 237 سالہ طویل دور میں ایک یا دو مسالک مروج نہیں تھے۔ بلکہ اس دور میں مختلف مروجہ مسالک اور مذاہب ہوا کرتے تھے۔ جیسے کہ مسلک الحسن بصری، مسلک ابوحنیفہ ؒ ،مسلک سفیان ثوریؒ ،  مسلک للیث بن سعدؒ ،  مسلک بن عنیبہ و شافعی ؒ ،  اس کے بعد کے دور میں اسحاق بن داھویہ ؒ ،  ابی ثور ابن حنبلؒ ،  ابن جریر و طبریؒ  وغیرہ شامل ہیں۔ بعد کے دور میں باضابطہ طور پر 4  مسالک کی فقہ تحریری طور پر باقی رہ گئی۔ان چاروں ائمہ اکرام نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ہمارا مسلک ہی حق پر ہے۔ دوسرے تمام باطل ہیں یا اس بات کا بھی اعلان نہیں کیا کہ یہ چاروں مسالک ہی کی قیامت تک پیروی کرنا لازمی ہے اور کوئی دوسرا مسلک شاہراہ رشد و نور ہدایت دوبارہ وجود میں نہیں آسکتا۔  شریعت اسلامی میں شرعی و فقہی اور علمی تحقیقات و تجزیات اور اجتہاد  کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔

فقہ اسلامی میں ہر نئے مسئلے کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا جا تا ہے۔ بنیادی حقوق و فرائض  روایات،تقالید،زمان و مکاں اور حالات کی تبدیلی، ضروریات و احتیاجات کے معاملے میں رائے اور فیصلے تک پہنچنے کے لئے جو فقہاء قاضیوں اور مفتیوں کی صدیوں سے متواتر محنتیں اور تجربات ہیں وہ فقہ اسلامی کی تفہیم،تشریح اور تنفیذ کا حصہ بن گیا ہے اوراسے زندگی کے مختلف میدان حیات کے امور و مسائل کی درجہ بندی اور ابواب میں تقسیم کر کے اصول شریعہ کا مفصل و مستقل علم قرار دیا گیا ہے۔جس سے مسلمان کے بھٹکنے اور گمراہ ہونے کے خدشات معدوم ہو جاتے ہیں اور اس سے حق تلفی و اختلافات کے خاتمہ میں بڑی مدد ملتی ہے۔انفرادی، عائلی و اجتماعی مسائل کا حل ان 4 اصولوں کے تحت تلاش کیا جاتا ہے۔

اسلام فقہ کے ذریعہ ایک ایسا فعال میکانزم دیتا ہے جس سے دین اللہ کی حفاظت کے ساتھ معاشرہ میں اختلافات،تنازعات کا خاتمہ، حقوق و انصاف کی رسائی،  عامۃ المسلمین کی رہنمائی و رہبری، عصری مسائل میں افراط و تفریط سے انھیں بچانا اور اتحاد و اتفاق کی راہیں ہموار کرنا ہے۔ فقہ اسلامی کی اساس حسب ذیل نقاط پر مشتمل ہے۔

       ۱۔ اصلین    Origin     ۲۔  اجماع Ijma

       ۳۔قیاس  Analogy     ۴۔استحسانEquity

       ۵۔المصالح و المرسلہ   The link of clear text & analogous precedents

  عصر جدید کے تمام مسائل کا حل شریعت کی روشنی میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اجتہاد کا باب کبھی بند نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ بڑی بھاری ذمہ داری اور عظیم مسؤلیت کا کام ہے۔ جس کو فقہاء و مجتہدین اکرام ہی انجام دیتے ہیں۔فقہاء و مجتہدین اکرام کو کئی طبقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہاں صرف تین اہم طبقوں کے سلسلے کا ذکر کیا جائے گا۔

     ۱۔ایک طبقہ وہ ہے جو مجتہدین فی المذہب کہلاتا ہے جو صرف اپنے مسلک اور مذہب میں رہ کر اجتہاد کرتا ہے یہ طبقہ مسلکی حدود و قیود میں رہ کر صرف اپنے مسلک کے مطابق اجتہاد کرتا ہے۔

    ۲۔دوسرا طبقہ مجتہدین فی المسائل کا ہے جو صرف مسئلہ کی حد تک اجتہاد کرتا ہے جیسے بند ڈبوں کا گوشت، اہل کتاب کے ہاتھ کا ذبیحہ یا پھر غیر اسلامی ممالک یا حکمرانوں کے تحت بسنے والے مسلمانوں کے لئے انشورنس،شیرز اور عدد کی قلت و حرمت جیسے مسائل پر اپنے موقف،رائے اور فیصلے کا اظہار کرتا ہے۔

    ۳۔تیسرا طبقہ ان فقہاء اکرام کا ہے جو شریعت اسلامی کی دی گئی سہولتوں اور اجازتوں اور اختیارات کو آزادی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے مسائل کا حل نکالتے ہیں یہ مجتہدین کا وہ طبقہ ہے جو مسلک،سلف و سابقہ ائمہ و فقہا کے روایتی فیصلے کے خلاف حلال و حرام  کے حدود اور قوانین میں فقہا کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے جدید ذہن کے ساتھ نئے انداز میں راستہ کا حل پیش کرتے ہیں۔

اجتہاد کا معاملہ نہ اتنا آسان ہے اور نہ ہی اتنا معمولی کہ ہر اہل علم اس کام کو انجام دے سکیں۔دور اندیشی، تجربے اور علمی خدمات کی بنیاد پر اجتہاد کا کام قطعی انجام نہیں دے سکتے۔ یہ کام وہ عظیم مفکرین، ائمہ اکرام، شیوخ انجام دیتے ہیں۔ جن کے متعلق قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے۔

ومن شرح صدرہ علیٰ الاسلام وھو اعلیٰ نور ربہ

’’اور جس کا سینہ اسلام پر کھول دیا جائے اور وہ اللہ کے نور پر ہے۔‘‘ (۳۹:زمر:۲۲)

مجتہدین،مجددین اور ائمہ کے ساتھ ساتھ فقہاء و مفتیان اکرام کی بھی اہمیت ہے۔جو مسلم سوسائٹی میں مختلف درجوں اور حیثیتوں میں اپنی قابل قدر و گراں خدمات انجام دیتے اور معاشرے میں بار بار اٹھنے والے آپسی تنازعات اور زندگی کے بیشمار پیچیدہ مسائل میں رہنمائی کرتے اور شریعت کے مطابق حل نکالنے میں تجربہ رکھتے ہیں۔مسئلہ صرف جامد کوتاہ نظر،چھوٹے قلب و ذہن، نا تجربہ کار مفاد پرست حضرات سے ہے۔ جو حقیر مفاد اور ذاتی منفعت کی خاطر فتوے جاری کرتے رہتے ہیں اور ملت کو اپنے فرسودہ روایتی، سماجی خیالات پر شریعت کا پردہ ڈال کر اپنا اسیر بنانا چاہتے ہیں۔

کسی عمل کے عناصر ترکیبی میں کفر، شرک اور گناہ کی مقدار کا تعین کرنا ممکن نہیں Value content is not measurable  ہے۔اسے صرف قیاس ظاہر patent analogy    کی بنیاد پر مشروع قرار دیا گیا ہے اور مسئلہ کے استنباط inference کا معترف علیہ طریقہ چھوڑ کر آزادی سے کام لیا گیاتواس سے اصول فقہ کی بنیادیں دہل جاتی ہیں۔ فقہا و مفتیان کا آخر الذکر طبقہ یوگا میں کفر خفی، حرام، مشتبہ، ناجائز عناصر کی موجودگی کی بناء پر دلائل کے ساتھ اسے ناجائز و ممنوع قرار دیتا ہے۔   اسی لئے اول الذکر کی رائے و فیصلے کو ابطال و استحسان کے تحت کالعدم قرار دیا جائے گا اور اول الذکر طبقہ کی رائے وقیاس فاسد قرار پائے گی یا اسے قیاس بالرائے Analogy based on personal opinion  تک محدود رکھا جائے گا۔ آخر الذکر فقہا کی بات اس لئے زیادہ صحیح، حق پر مبنی اور قابل قبول اور ناقابل رد ہو گی کیونکہ انھوں نے اصول، رائے اور فیصلے کے تمام شرعی بنیادی تقاضوں کو پورا کیا اور کسی بھی جھول کی قطعی گنجائش باقی نہیں رکھی اور حکم شرعی کے صادر کرنے میں سیاسی، سماجی، معاشرتی، حکومتی، عسکری دباؤ کا شکار نہیں ہوئے۔ اور اپنی اپنی علمی تحقیقات کی تخریج و شرعی نیابت صرف تخیلات  Vicarious Responsibility  کی بنیاد پر نہیں رکھی۔

یہی وجہ ہے کہ بعض کمزور اہل علم عجلت میں علمی پہلوؤں کو نظر انداز کر کے صرف تخیلات کی بنیاد پر ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور اپنا کوئی علمی موقف پیش نہیں کرتے۔

دین آسان اور کشادہ ہے!

ہر دور میں مسلمانوں کے انفرادی و اجتماعی ضروریات، چیالنجس، مواقع، مصائب و مشکلات اور عصری مسائل اور  امور میں فقہا،  علماء،مفکرین اور ائمہ کو رائے، فیصلے اور فقہی احکام کے وضع کرنے کی پوری اجازت دی گئی ہے۔ اسلام کو ہمیشہ آسان سہل و با عمل بنائے رکھنے کے لئے اجتہادات کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔

اللہ تعالیٰ نے اسلام کو آسان و سہل بنایا تاکہ عامۃ الناس کو غیر ضروری کی پابندیوں اور تحدیدات کے ذریعہ مشکلات، شک و تردد اور تذبذب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

      وما جعل علیکم فی الدین من حرج O

’’اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔‘‘  (۲۲: الحج : ۷۸)

یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر    O

’’اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے،سختی کا نہیں۔‘‘ (۲:بقرہ:۱۸۵)

یہ وہ دلیل ہے جو اجتہاد اور احکام و مصالح کے کام کو بنیادی طور پر آسان اور قابل عمل بنا دیا۔ مفاد عامہ، منافع، خیر، فلاح و ترقی کو کفر و شرک جیسے نقصان دہ عناصر و فاسد شرور و منکرات، فتنہ و فساد سے پاک کر کے دو ٹوک انداز میں اجتہاد کی پوری اجازت دی ہے۔

دین میں وسعت، کشادگی اور آسانیاں ہیں۔ دانشور اور علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ سہل پسندی سے کام لیں۔ نبی کریم ﷺ کے احادیث ملاحظہ کریں :

یسرو ولا تعسرو ا و بشروا ولا تنفروا

’’آسانیاں پیدا کرو، مشکلیں اور سختیاں نہیں، اور ایسی باتیں بتاؤ جن سے دل میں اسلام کے لئے رغبت پیدا ہو۔ ایسی باتیں نہ بتاؤ جن سے اسلام سے دوری اور تنفر پیدا ہو۔‘‘     (بخاری و مسلم)

انما بعثتم میسرین ولم تبعثوا مفسرین’’تمہیں آسانیاں فراہم کرنے والا بنا کر بھجا گیا ہے نہ کہ سختیاں  اور مشکلیں بتانے والا بنا کر۔‘‘(بخاری و ترمذی)

قرآنی آیات اور متعدد احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ دین سختی، تنگی اور تشدد کو ہر گز پسند نہیں کرتا۔ بعض اہل علم اور مسالک کے نمائندے ذیلی و جزوی امور و مسائل میں سختی اور تشدد سے کام لیتے ہیں اور ان کا رجحان ان کے مزاج کے مطابق زور زبردستی اور اپنی بات کو مسلط کرنے کا ہو تا ہے۔ اس سے لوگوں  میں یہ بات مشہور ہو جاتی ہے کہ اسلام بڑا سخت و پر تشدد مذہب ہے۔ انہی باتوں کو لے کر دشمنان اسلام میڈیا میں پروپگنڈہ کرتے ہیں۔ جس سے تعلیم یافتہ مسلمانوں کا بھی اسلام اور دین داروں کے خلاف ایک تصور بن جاتا ہے۔اور میڈیا میڈ مائنڈ media made mind فکر و نظر سے اسلام اور مسلمانوں کو جانچنے لگتے ہیں۔ اور حقائق سے بہت دور نکل کر گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سب سے پہلے ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ جائز و مباح چیزوں کو بلاکسی شرعی اختیار کے پابندیوں Restrictions کے زمرے میں شامل نہیں کرنا چاہئیے۔ ممنوعات و سختیوں کا بوجھ بڑھانے سے مسلمانوں کی عام سیدھی سادھی زندگی غیر ضروری پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ اور اس سے نیکی و ثواب، خیر و شر کے قطب نما کا رخ بدلنے لگتا ہے۔ ایک مدت کے بعد پھر اصلاح مشکل ہو جاتی ہے۔

زندگی کے مختلف امور میں جن باتوں کے جائز ہونے کی گنجائش موجود ہے۔جسکی اجازت میں مسلمانوں کے ایک طبقہ یا پوری ملت کا فائدہ مضمر ہے۔ تو پھر اس کو زبردستی ممنوعات کے زمرے میں شامل رکھنا زیادتی اور مسلمانوں کے بنیادی حقوق حریت Right of freedomسے محرومی قرار پائے گی۔

ایسا اجتہاد یا فقہی اجازت جس سے کفر و شرک، فسق و فجور اور آئندہ قریب و بعید مستقبل میں فتنہ و فساد، شر اور گناہ و معاصیات کے پیدا ہونے کے قوی اندیشے ہوں۔ جس میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ، ثواب کم اور عذاب زیادہ اور خیر کم شر کی مقدار زیادہ ہوا ور ان کے آپس میں یہ خلط ملط ہونے کے خطرات واضح ہوں تو ایسے اجتہاد و وضع کئے جانے والے اصول و فیصلوں کا شریعت اسلامی میں کوئی اعتبار نہیں اوراسطرح کے اجتہاد کو دوسرے مفکرین، مجتہدین، ائمہ و فقہا کے ادارے اور دارالافتاء کو رد کرنے کا پورا شرعی حق و اختیار حاصل ہے۔

تمباکو اور سگریٹ کے مسئلے کو لیجئے کہ اگر کسی مفتی نے تمباکو اور سگریٹ کو مکروہ و ممنوع اشیاء سے خارج کر کے مکمل جائز اور مباح قرار دیا ہے۔اور اس کو جائز قرار دینے کے لئے جس بات کو دلیل بنایا۔وہ ہے روزگار۔ ہزاروں لوگ تمباکو اور سگریٹ کی صنعت سے منسلک ہیں۔ اگراسے ممنوع قرار دے دیا جائے تو تمباکو کی کاشت کرنے والے کسان اور سگریٹ کی صنعت سے وابستہ ملازمین اور ان کے خاندانوں کے لاکھوں افراد متاثر ہوں گے اور سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کرنے سے بہت بڑا حقیقی تجارتی نقصان ہو گا۔ آج تمباکو و سگریٹ نوشی سے سالانہ لاکھوں افراد کینسر اور دوسرے مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اصل مسئلے سے اعراض کر کے عمومی، مبہم باتوں کو بنیاد بنا کر سگریٹ نوشی کے حق میں اگر کوئی مفتی صاحب نے بے اصول فیصلہ صادر کر دیا اور جن اشیاء اور عادتوں سے لوگوں کی زندگیوں کومسلسل خطرہ لاحق ہو اور اس کے نتائج بھی ہلاکت خیز ہوں تو یہ فیصلہ جب تدقیق اور تنقیح کے مراحل سے گذرے گا تو اسے کالعدم قرار دیا جائے گا۔

ہندوستان میں چند سالوں سے گھٹکا کھانے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ گھٹکا دراصل پان، سپاری، کتھے کا سوکھا پوڈر ہوتا ہے۔ جسمیں نشہ آور ادویاء، کیمیکل کی تھوڑی سی مقدار  کی آمیزش کر دی جاتی ہے۔ لوگ اس کو منہ میں رکھ کر کئی گھنٹوں تک اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں جس سے انھیں  منہ کا کینسر ہو جا تا ہے۔ ہزاروں افراد ہر سال اس بری مہلک عادت کی بناء پر منہ کے کینسر سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح کی عادت یمن میں پائی جاتی ہے۔

یمن میں اکثر لوگ’’ القات‘‘  (ایک پتہ ہوتا ہے جس کو)پان کی طرح چباتے اور تھوکتے رہتے ہیں۔ القات بہت مہنگا پتہ ہوتا ہے۔ دن و رات دیر گئے تک اکثر لوگ کام کاج چھوڑ کر القات چباتے  اور تھوکتے ہوئے گھنٹوں گپ شپ کرتے ہیں۔ ایک عرصہ پہلے تک علماء کی ایک بڑ ی تعداد اس کی عدم ممانعت کے قائل تھی۔ پیسہ اور قیمتی اوقات کی بربادی اور اس کے یمنی سوسائٹی پر شدید ہونے والے نقصانات کو دیکھتے ہوئے اب علماء اکرام جیسے یمن کے مشہور عالم دین علامہ محمد سالم البیجانی اور عالم اسلام کے مشہور فقہی علامہ شیخ یوسف القرضاوی نے اسے ناجائز قرار دیا ہے۔

گھٹکے کے سلسلے میں ابھی تک علماء ہند کی جانب سے کوئی واضح فیصلہ یا فتویٰ جاری نہیں ہوا ہے۔ اسمیں پائے جانے والے نشہ آور اجزاء کی بناء پر اس مہلک پوڈر کو فی نفسہ جائز قرار دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔سادہ پان مسالہ اس حکم میں شامل نہیں ہے۔

جب کسی حرام و جرم میں کوئی شہادت نہ ملے بلکہ شبہ ہو اور اس کی علامتیں بھی ظاہر ہوں اور صاحب ثقہ لوگ اس کی تصدیق کر رہے ہوں تو پھر قاضی وقت و مفتی صاحب کو فتویٰ جاری کرنے یا کسی جرم کی بناء پر حد و سزا جاری کرنے کا اختیار ہو تا ہے۔

شریعت اسلامیہ میں کوئی شئے محض مشتبہ ہونے کی بناء پر مباح و حلت کے درجے میں شامل نہیں ہو جاتی بلکہ شکوک و مشتبہ چیزوں پر نوعیت، حالت، نتائج و دلائل، وجوہات و اسباب کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔جب کسی  گنا ہ، حرام و جرم میں ٹھوس قابل قبول گواہی نہ ملے لیکن علامتیں دستیاب ہوں تو یہ علامتیں خود شہادت بن جاتی ہیں۔ غلط تاویل سے اس کے خلاف حکم شرعی اور مقرر کردہ سزائیں معاف نہیں ہوسکتیں۔

 شریعت اسلامی میں حیات انسانی کی بقاء اور ایمان کے تحفظ سے بڑھ کردوسرے ذیلی و وقتی فائدوں کو ترجیح نہیں دی گئی ہے۔

بعض ذیلی عصری مسائل میں فائدے اور نقصان کی مقدار اور تعداد دیکھی جاتی ہے۔ مثلاً ہوائی جہاز کے سفر کو دیکھیں۔ عصر حاضر میں دنیا کے سب سے تیز رفتار اور آرام دہ سہولت بخش سفر پلین سے ممکن ہے۔ اس کی تفصیلات میں جائیں تو دو باتیں خلاف شریعت ملتی ہیں۔ ہوائی جہاز میں ایک کھلے عام شراب نوشی، دوسرے ایر ہوسٹس کی عریانیت اور میوزک و فلمیں وغیرہ سفر کے دوران شامل ہوتی ہیں۔ بحیثیت مسافر ایک شخص ان منکرات پر کوئی پابندی عائد نہیں کرسکتا۔ مسافر ایک گاہک ہے اس کا ہوائی کمپنی اور ہوائی جہاز پر حکم اور نظم نہیں چل سکتا اور نہ اس کا وہ مکلف ہے۔ فقہا نے متفقہ طور پر ہوائی سفر کی افادیت اور اس کے بڑے فائدے کے سامنے ان چھوٹے منکرات کو دوران سفر برداشت کرنے کو گنا ہ قرار نہیں دیا ہے۔

شریعت اسلامی نے جدید مسائل میں بحث و تمحیص اور تنقید،رد و قبول کے دروازوں کو بند نہیں کیا۔ بلکہ تحقیق، بحث، مناقشہ اور استنباط کے ذریعہ اس کے حل کا طریقہ سکھایا۔ جس سے مسائل کو سلجھانے میں مدد ملتی ہے۔

محض جذباتی ذہنی وابستگی اور گروہی، جماعتی اختلاف کی بناء پر کوئی فکر، نہج و طریقہ کار اور طرز عمل کو ممنوع یا مشروع قرار نہیں دیا جا سکتا۔

یوگا کی عدم ممانعت کے قائل حضرات کی فکر و استدلال اور غور و تدبر کی سطح اتنی بلند نہیں کہ وہ شریعت کے معین فطری اصولوں کی گہرائی اور حکمتوں کو سمجھ سکیں اور صبر و تحمل کے ساتھ تعقدی خباثتوں پر بھی نظر ڈالیں جو یوگا سے پیدا ہو سکتی ہیں۔

ایسا بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بعض علماء جو اسے پہلے نا جائز قرار دے چکے تھے۔ پھر کچھ دن بعد عوامی دباؤ میں آ کر اس کے جائز ہونے کا خیال ظاہر کرتے اور خود یوگا کے سلسلے میں شک اور تردد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فقہ اسلامی کے چند اہم بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھ کر اصلین سے استنباط  Inference کریں تو انھیں یوگا کی ممانعت اور عدم ممانعت کی باتیں سمجھنے میں آسانی ہو گی۔

اس کے علاوہ مسئلہ کی پیچیدگیاں، ممانعت، عدم ممانعت، اجازت، حلت و حرمت، حدود، تعداد مقدار، وقت، زمان و مکاں، حساب کتاب کو لازمی طور پر بنیاد بنا کر غور و فکر کیا جاتا ہے۔

1۔     مبادیات کی تحقیق:-   یوگا کے مبادیات کی تحقیق کریں تو اس کی دو بنیادی باتیں راست کفر اور ہندو مذہب سے جا ملتے ہیں۔ اس کا مصدر گیتا کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ دوسرے یہ کہ یوگا پر رشیوں  اور آچاریوں کا مکمل کنٹرول ہے اور بطور عبادت اس کی مشق کی جاتی ہے۔ یوگا کے مبادیات کی تحقیق(تخریج مناط)   Means to derivation of the basis or   pacification of the basic Characteristics سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایک ہندو تہذیب کے عقائد کا اہم حصہ ہے۔

2۔    سدباب الذرائع :-   ا لف: شریعت ہر دو زاویوں سے مسئلہ کا تجزیہ کرتی ہے ایک اگر کسی امر کے سلسلے میں اس کے سد باب ذرائع         closing of the gate of mean سے کفر و شرک، برائی و منکرات اور لادینیت اور طواغیت کا خاتمہ ہو سکتا ہے تو سب سے پہلے ان ذرائع کے باب الداخلہ کو بند کر دیا جا تا ہے۔ تا کہ بندہ مومن اللہ کی فرمانبرداری، اطاعت، اور تقویٰ و پرہیزگاری میں کوئی خلل نہ پیدا کرے اور نہ وہ کفر کے قریب پہنچ سکے۔

    ب: فتح الباب ذرائع      Opening of the gate of means

  اگر کسی مسئلہ میں ایسے ذرائع کے ابواب کھول دئیے جائیں۔جن سے توحید، حق، خیر، ثواب،نیکی و تقویٰ کو تقویت ملے اور شرک، شر،برائی کے پیدا ہونے کا کوئی خدشہ باقی نہ رہے اور تمام بند دروازوں کو کھول دینا جس سے لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پر مستفید ہوں اور اپنی ضرورت کے مطابق منفعت حاصل کریں اور کوئی گنا ہ اور برائی ہونے کا خدشہ نہ ہو تو وہ فتح الباب ذرائع کہلا تا ہے۔جبکہ یوگا کے تمام ذرائع ہندو مذہب کی تعلیمات کفر و شرک سے بھرپور اور عقیدہ اسلامی کے خلاف ہیں اور یوگا کی بنیادی تعلیمات سے راست ٹکراتے ہیں اور ان ذرائع کے ابواب کھولنے سے اسلامی عقائد، ایمانیات اور تہذیب و تمدن پر راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کسی بھی نیکی،بر،اور خیر کی آخری امید بھی ختم ہو جاتی ہے۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا یوگا کی اجازت سے ہندو مذہبی بنیادی تعلیمات سے راست تعلق یا بالواسطہ تعلق پیدا ہو سکتا ہے۔؟اگر پیدا ہو بھی رہا ہے تو اس کی مقدار اس کی گہرائی کہاں تک پہنچے گی؟ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔

3۔   اصل کے اعتبار سے جائز ہونا:-

کھیل اور تندرستی کے لئے ورزش اور کسرت حقیقت اور اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز ہے۔ جب تک کہ کوئی منکر، شر اور گناہ کی بات اس میں شامل نہ ہو جائے اور کوئی شرعی دلیل حرمت اس میں نہ پائی جائے۔ اس وقت تک وہ شرعی اصول کے مطابق کھیل ورزش   الاصل فی الاشیاء الاباحۃ  The Basic presumption in the things in permissible         میں شامل ہے۔

کسی شئے کو مباح قرار دینے سے قبل حسب ذیل چندسوالات کے تشفی بخش جوابات کا حاصل کرنا ضروری ہے۔

 ۱۔  جائز قرار دینے والی اصل شئے کون سی ہے؟۔

 ۲۔  اسے مباح قرار دینے کے لئے کن باتوں پر انحصار کیا جا رہا ہے؟۔

 ۳۔ کیا تحقیق و تجزیہ کے تمام مراحل طئے کئے جا چکے ہیں ؟جو مشروع قرار   دینے کے لئے لازمی ہے۔

 ۴۔ کیا صرف قیاس analogy ، مفروضاتassumption ، ظاہر پسندیFormalism  کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی شئے کی عدم ممانعت کا فیصلہ کر لیں ؟

یوگا کا مسئلہ عام کھیلوں اور ورزش سے مختلف ہے۔ یوگا کو کھیلوں کے عام زمرے میں شامل رکھ کر اسے جائز قرار دینے سے کئی تقعدی مسائل پیدا ہوں گے۔ کیونکہ اس طریقہ ورزش میں  ایسی کفریہ و مشرکانہ باتیں شامل ہیں جو اسے ناجائز قرار دینے کے لئے کافی ہے۔

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ نجی، عائلی، اجتماعی زندگی کو آفاقی دستور، روحانی، قانونی و اخلاقی ڈسپلن سے جوڑ رکھا ہے۔ ہر قدم اور موڑ پر چک اینڈ کنٹرول قائم ہے۔ شریعت اسلامی کی وسعت و آسانیوں کا استحصال کرنے یا تاویلات کے ذریعہ زندگی کے بڑے حصے کو اسلامی احکامات سے مستثنیٰ کر لینے کی کوئی عقل مند آدمی ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔

4۔   کسی عمل کو گناہ و جرم سے مبرا قرار دینا:-

ایسے تمام افعال و اعمال جس کے ظاہر و باطن میں کوئی ممنوع اور خلاف شرعی بات نہ ہو اور اس کے کرنے اور اسمیں شامل ہونے سے کسی گناہ، شر اور منکر کے پیدا ہونے، پھیلنے کا کوئی شبہ نہ ہو۔ فقہ میں ایسے اعمال کو گناہ و جرم سے مبرا قرار دیا جا تا ہے۔ جسے فقہ کی اصطلاح میں ارتفاع المسؤلیہ الجنائیہ کہتے ہیں۔ عام کھیل کود اور ورزش، مارشل آرٹس بھی اسی زمرے میں شامل ہیں۔ لیکن وہ کھیل و ورزش جس سے تعقدی اور اخلاقی مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو پھر ایسے کھیل و ورزش وغیرہ اس اصول سے مبرا عام میں خارج ہو جاتے ہیں اور ممانعت کے درجے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف عدم ممانعت کا جواز قائم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

بعض دانشور اور آزاد خیال تہذیب غیر سے متاثر حضرات کا یہ اصرار ہے کہ ’’ تمام اسپورٹس اور گیمس اور تفریحات کو بشمول یوگا کے مستقل طور پر مستثنیٰ قرار دینا چاہئیے تاکہ مبرا عام کے تحت مسلمان اپنے تعقد پسند ی کے مطابق حصہ لیں۔ غیر ضروری کی پابندیاں روک ٹوک ان لوگوں کے نجی فیصلوں اور زندگی کی لذتوں و مشغولیات میں رکاوٹ نہ بنے۔‘‘

5۔   نصوص صریحہ  Clear text

یوگا کے سلسلے میں ہندو مذہبی کتابوں میں مستند مواد میں نصوص صریحہ  clear text موجود ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ یوگا کی بنیاد خالص کفر و شرک پر ہے۔ بھگوت گیتا میں یوگا کی سند موجود ہے اور یوگا میں پڑھے جانے والے سنسکرت کے اشلوک اس بات کی دلیل کے لئے کافی ہیں۔

خالق کائنات کا انکار، خودی، زندگی، عبادت وجود، کون و مکاں کا انکار، انسانی خداؤں کا اقرار یہ سب یوگا میں شامل ہے۔یوگا کے متعلق ارجن و سری کرشنا نے جو تعلیم دی ہے کہ ’’روحانی ارتقاء اور خواہشات ورگیا vargiya سے چھٹکارا و آزادی کے لئے یوگا ضروری ہے۔‘‘

(ملاحظہ ہو صفحہ نمبر: light of yoga 1)

اسی طرح یوگا کے متعلق اگر شریعت اسلامی نصوص صریحہ کے متعلق سوال کیا جائے تو اس کی حرمت کا کوئی واضح حکم اصلین میں ہمیں نہیں ملتا اور نہ ہی  فقہاء نے کسی دور میں اس پر تحدیدات عائد کی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ گذشتہ صدیوں میں یہ مسائل ملت کے سامنے درپیش نہ تھے اور لوگ یوگا سے لا علم تھے۔

ایک مرتبہ کفر کی مقدس کتابوں سے دلیل ثابت ہو جانے کے بعد یوگا کے خلاف شریعت اسلامی میں واضح نصوص صریحہclear text  کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ بلکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بلا کسی اختلاف کے مذکورہ حقائق کی موجودگی میں ’’یوگا‘‘ جسمانی ورزش کے طریقہ کار کا بڑا حصہ غیر اسلامی قرار پاتا ہے۔ اس میں راست کفر اور انکار رب و اللہ جل شانہ پایا جا تا ہے۔

اگر یوگا کے متعلق من حیث کل شریعت اسلامی کا حکم معلوم کریں تو پھر یہ ناجائز اور ممنوع قرار پاتا ہے۔کیونکہ یہ ورزش و کسرت ایک مخصوص مذہب کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ اس طریقہ ورزش کا نہج اور طریقہ کار اور اجزاء ترکیبی کفر خفی سے بھرے ہوئے ہیں۔ یوگا کی کسرت محض صحت کی تندرستی کے لئے نہیں کی جا تی بلکہ روحانی و ہندو تہذیب کو پروان چڑھانے کے لئے کی جاتی ہے۔یوگا دراصل کفر و شرک کا علمبردار ہے۔

یوگا کی تمام بنیادی باتیں اور اصول راست اسلامی عقائد سے ٹکراتے ہیں۔

  ۱۔توحید، رسالت، کتاب اللہ اور یوم آخرت کا انکار۔

 ۲۔ مخلوق کا خالق میں حلول کر جانے کا عقیدہ و یقین۔

 ۳۔ تشبہ بالکفار۔

 ۴۔ہندو مذہبی کتابوں اور انسانی خداؤں کے ارشادات کی اطاعت اور فرمانبرداری۔

 ۵۔اپنے وجود و مخلوق کی پیدائش موت کا سراسر انکار۔

یوگا میں ہندو عقائد کے مطابق روحانی و جسمانی تربیت دی جاتی ہے۔ یوگا کی کسرت کا اصل نصب العین و مقصد ’’پر ماتما ‘‘خالق کل کی ذات میں اپنے آپ کو ضم کر دینا ہے۔ جسمانی صحت و تندرستی کا حصول ذیلی و ثانوی ہے۔

ایک مومن کا مضبوط عقیدہ یہ ہے کہ تمام صفات و کمالات، قدرت، طاقت اور کائنات کا مالک حکمراں و فرمانروا اللہ جل شانہ ہے۔ وہ زمین و آسمان، مشرق و مغرب کا رب ہے۔ وہ ابتداء سے ابد تک رہے گا۔ اس کا کوئی شریک نہیں، نہ اس کا کوئی ہمعصر اور نائب اور جز ہے۔

انسان کو ہدایت دینے کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے۔ نہج و ضابطے حیات، طریقہ زندگی کا اختیار صرف اللہ و رسول ؑ کو حاصل ہے۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ پیدائش سے لے کر موت تک اس کی اتباع و اطاعت کی جائے۔اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی طاقت و قوت جمادات و نباتات اور کسی شئے و مافوق الفطرت ذات اور مخلوق پر عقیدہ رکھنا سراسر کفر ہے۔ یوگیوں کا عقیدہ اور فکر اسلام کے عقائد و تعلیمات کے خلاف ہے۔

یوگا کی افادیت کو اگر قبول بھی کر لیا جائے تو یوگا کیندر و کیمپوں کے موقع و محل کو دیکھیں تو  ماحول Atmosphere غلبہ کفر Domination of kufr  اور کافرانہ اعمال حرکات و سکنات سے بھرا نظر آئے گا۔

یوگی گرو مہاراج زعفرانی کپڑوں میں ملبوس جٹو و بٹو کے ساتھ تربیت کا آغاز پرنام و نمسکار سے کرتے ہیں۔ یوگا کرنے والے افراد کا ڈریس کوڈ زعفرانی ہو تا ہے۔ تدریب کروانے والے گرو جی منتر اور اشلوکوں کو پڑھنے کے بعد دوران مشق بار بار اوم ہر ی اوم کی آوازیں حلق کی گہرائیوں سے نکالتے ہیں۔ اس کے علاوہ وقفہ وقفہ سے کئی طرح کے سری طور پر اشلوک INCANTATI   ONپڑھے جاتے ہیں۔ جس سے کفر کا ایک سماں بن جا تا ہے اور پھر سانس کو بار بار روک کر گیان و مراقبہ کروایا جا تا ہے۔

 یوگا کے متعلق سنجیدگی سے تین سوالات پوچھے جائیں تو اس کے جوابات سے یہ بات بآسانی سمجھ میں آ جائے گی۔

   ۱۔یوگا کی تعلیمات اورسند کس مذہب کی ہیں ؟؟

   ۲۔یوگا کے مدرس اور داعی کون ہیں ؟

   ۳۔یوگا کی تحریک کے علمبردار اور اصل محرک و زعماء کون ہیں ؟

ان تینوں سوالات کے جوابات واضح ہیں۔ یوگا کے علوم، اس کے مدرس اور دعوت دینے والے علمبرداروں کی بنیادیں خالص ہندو شاستروں اور ویدوں پر ہے اور وہ سری کرشنا کی تعلیمات کے مطابق یوگا کی تبلیغ کا کام تیزی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

جو بنیادی باتیں ایمان سے ٹکراتی ہیں وہ یوگا پر کفر کا غلبہ ہے۔یوگا کے عقیدہ اور تصورات میں صرف شرک کی ہی آمیزش نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر یوگا کی تمام تعلیمات کی عمارت کفر و باطل پر کھڑی ہیں۔

اضطراری و استثنائی صورتحال:-    جن باتوں میں شدید جان و مال کے نقصانات کا خطرہ لاحق ہو۔ بھوک، افلاس، امراض شدید، غربت، ظلم و بربریت یا آفات سماوی جیسے طوفان، زلزلے، سیلاب، آتش فشاں اور متعدی امراض کا پھوٹ پڑنا، مصائب، ایمرجنسی میں ظالمانہ قوانین  و دہشت گردی، نقل مقامی کی اگر صورتحال پیدا ہو جائے تو ان حالات میں شریعت اسلامی میں اضطراری و استثنائی صورتحال میں فرائض، محرمات، ممنوعات اور ناجائز باتوں میں ضرورتوں کے مطابق کسی قدر چھوٹ دی جاتی ہے۔ اور کئی احکامات، اصول و ضوابط وقتی طور پر غیر نافذ اور غیر عمل ہوتے ہیں۔

عصری اور جدید بعض امور جو شرعی اعتبار سے مشتبہ ہوں جس میں ہلکے سے فرق سے جائز اور ناجائز کے احکام تبدیل ہوسکتے ہیں۔ فقہاء مصلحت  عامہInterest of the common goodکو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ شرعی فیصلہ صادر کرتے ہیں۔

ایسی کوئی اضطراری و استثنائی صورتحال نہ ہی درپیش ہے اور نہ ہی مصلحت عامہ کے تحت یوگا کو جائز قرار دیا  جا سکتا ہے۔ کیونکہ عامۃ الناس کو کوئی بڑا فائدہ یا نقصان اس ورزش کو کرنے یا نہ کرنے سے ہونے و الا نہیں ہے۔ صرف چند لوگوں کے شوق اور عادت کی خاطر یوگا کو مباح قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ یہ کبھی مسلم معاشرہ کی اجتماعی ضرورت نہیں رہی۔

14صدیوں سے امت اسلامیہ الحمد اللہ بغیر یوگا کی ورزش کے صحت مند ہشاش بشاش، فعال اور متحرک ہے۔ تاریخ میں کبھی نہ یوگا کی ضرورت پڑی اور نہ مستقبل کبھی پڑھے گی۔

معروف و معترف علماء دین اپنے اختیار شرعی کو اختیار کر کے اس ورزش کو جائز قرار نہیں دے سکتے۔ جس میں کفر کی قدم قدم پر ملاوٹ و رہبری ہو۔

توحید خالص اور عبادت الٰہی

قرآن کریم میں کثرت کے ساتھ توحید اور معبود واحد کی تعلیم دی  گئی ہے۔ انبیاء اکرام ؑ حضرت آدمؑ،  حضرت نوح ؑ،  حضرت ابراہیم ؑ،  حضرت ہودؑ،  حضرت ثمود،  حضرت شعیبؑ ؑ،  حضرت موسیؑ،  حضرت عیسیؑ اور پیغمبر حضرت محمڈ ﷺ نے اپنی اپنی قوم کو صرف اللہ کی عباد ت کی دعوت دی اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا۔

   ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا

والی عاد اخاھم ھودا، قال یقوم اعبدو اللہ  مالکم من الٰہ غیرہ، ان انتم الاً مفترونِ    O

’’اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو ہم نے بھیجا، اس نے  کہا اے میری قوم والو! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا  کوئی معبود نہیں، تم تو صرف بہتان باندھ رہے ہو۔     (۱۱:ھود :۵۰)

نوح ؑ نے اپنی قوم سے کہا

یاقوم اعبدو اللہ مالکم من الہ غیرہ، انًی اخاف علیکم عذاب عظیم    O

’’اے میری قوم تم اللہ کی بندگی کیا کرو۔ اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، میں ڈراتا ہوں ایک بڑے دن کے عذاب سے۔‘‘ (۷:اعراف: ۵۹)

     اللہ تعالیٰ نے جو شریعت نازل فرمائی ہے وہ مکمل اور مفصل ہے۔ ہر زمانے اور علاقے کے لئے ہے۔ زماں و مکاں کی وسعت کے ساتھ اس کا دائرہ بھی وسیع ہوتا ہے۔ شریعت کے نزول کے بعد مزید غیر مذاہب کی بعض جزوی یا کلی باتوں کے حصول کی ضرورت نہیں ہے۔

اللہ کے قوانین کبھی تبدیل نہیں ہوتے!

شریعت اسلامی ایک مکمل نظام حیات ہے۔ عقائد، عبادات، معاملات، معمولات اور مامورات میں اس کے احکامات و قوانین واضح اور صاف صاف ہیں۔ ایسے تمام امور اور معاملات حیات جو کہیں نہ کہیں راست یا بالواسطہ شریعت اسلامی کی ان تمام باتوں سے ٹکراتے ہوں تو ایسے اعمال چاہے قدیم ہوں یا جدید، وقتی ہوں یا مستقل ان سے اجتناب کرنے میں بھلائی ہے۔

اللہ کا دستور کبھی بدلتا نہیں  ’’لا تبدیلا بکلمات اللہ ‘‘ اور نہ اس میں تبدیلی کی کسی کو اجازت ہے۔

فلن تجد لنست اللہ تبدیلا، ولن تجدلسنت         اللہ تحویلا  O

 ’’سو آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے، اور آپ اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے۔‘‘         (۳۵:فاطر: ۴۳)

زمانے کی تبدیلی کے اعتبار سے اور اسے ہم آہنگ بنانے کے لئے جزئیات میں تبدیلی کی گنجائش ممکن ہے۔

جہاں تک کھیل کود sports & games   اور تفریحات Excursion  کا معاملہ ہے۔شریعت اسلامی نے شرائط کے مطابق ایک حد تک مشروع اور جائز قرار دیا ہے۔ اگر کوئی اپنی زندگی کو صرف کھیل کود، تماشہ اور لہو و لعب، عیش و عشرت کے مزے لوٹنے میں لگا دے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بڑے واضح انداز میں تنبیہ کرتا ہے۔

اسلام نے بنیادی باتوں میں پسند، ناپسند اور رد کا اختیار مومن کو نہیں دیا۔بلکہ وہ خود پسند اور من مانی زندگی کے راستوں کو کاٹ دیتا ہے۔ جو کوئی نفس کی خواہشات کی پیروی کرے گا اس کے لئے ہدایت کی تمام راہیں ختم ہو جائیں گی۔ کسی بھی زمانے کے رائج کردہ ایسے ا لعاب sports & games  یا کسی بھی فیلڈ میں حصہ لینا جو اسلامی عقائد کے منافی ہیں۔ اسلام میں اس سے احتیاط اور اجتناب کو ترجیح دی گئی ہے۔

ومن اضل ممن اتبع ھوٰئہ بغیرھدی من اللہ، ان اللہ لا یھدی القوم الظالمین    O

’’اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے  پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے، بیشک اللہ تعالیٰ ظالم

   لوگوں ں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (۲۸:قصص : ۵۰)

 کمزوری اور طاقت کا بخشنا اللہ کے ہاتھ میں ہے!

     قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ

اللہ الذی خلقکم من ضعف ثم جعل من ؑبعد ضعف قوۃ ثم جعل من ؑ بعد قوۃ ضعفا و شیبہ، یخلق ما یشآء     O

’’اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جس نے تم کو کمزور حالت میں پیدا کیا۔ پھر کمزوری کے بعد طاقت بخشی۔ پھر طاقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا  دیا۔‘‘      (۳۰:روم: ۵۴)

کسی خاص قسم کی ورزش سے جسمانی قوت حاصل بھی ہو جائے تو کل اس کا زوال اور کمزوری و بڑھاپے سے دوچار ہونا فطری و یقینی ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یوگا کی پراکٹس محض صحت مندی، بلڈ پریشر، ذیابطیس وغیرہ جیسے امراض کو دور کرنے کے لئے کی جا تی ہے تو ایک بندہ مومن کے لئے یہ سزاوار نہیں کہ وہ مشکوک عمل اور مشرکانہ طریقہ علاج کو اختیار کرئے۔بلکہ وہ کسی متبادل علاج کو اختیار کرے۔ توکل اور صبر سے کام لے اور اللہ پر کامل یقین رکھے کہ

واذامرضت فھو یشفین     O     (شعراء: ۸۰)

’’اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفاء عطا کرتا ہے۔‘‘

ہوائے نفس کی اتباع مت کرو!

وما ھذہ الحیوۃ الدنیا الا لھو العب ان دار الآخرۃ لھی الحیوان، لو کانو یعلمون    O

’’اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشہ ہے۔ البتہ سچی زندگی تو آخرت کا گھر ہے، کاش!یہ جانتے ہوتے۔‘‘     (۲۹:العنکبوت ۶۴)

 مومن کی زندگی کا مقصد دنیا میں کھیل تماشہ اور تفریح نہیں ہے بلکہ ایک نصب العین کے تحت دنیا و آخرت کی بھلائی کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔

دنیا میں انسان کی زندگی عارضی ہے۔ انسان دنیا میں لازوال بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ پیدائش سے لے کر موت تک کی مدت اتنی مختصر ہوتی ہے کہ پیڑیوں پر پیڑیاں، نسلوں پر نسلیں تیزی سے گذرتی چلی جاتی ہیں۔ لیکن زندگی کے ان چند سالوں میں ہی  ’’بماقدًمت لغد ‘‘ کل یعنی آخرت کے لئے زاد راہ (توشہ) تیار کرنا ہوتا ہے۔

 مومن کا مقصدِ زندگی صرف کسرت اور ورزش کے ذریعہ بہت بڑے Body Builder  بننا یا عظیم کھلاڑی بننا نہیں ہے۔ بلکہ اسلام انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو ایکدوسرے سے مربوط کر کے ایک طاقتور امت بنانا چاہتا ہے جو اللہ کی رضاء کے لئے حق کو غالب کرئے،کفر و شرک، باطل سؤ و منکرات کا خاتمہ کرئے اور اصلین، کتاب و سنت کے مطابق مضبوط معاشرہ تیار کرے۔   نبی ؑ کریم کے فرمایا:

      ’’جسمانی بیماری سے زیادہ مہلک کفر و شرک اور تشکیک قلب کی بیماری ہے۔‘‘

 جب کسی پر کفر کا رعب چھا جائے اور ان کے دل و دماغ میں مشرکانہ دلکش باتیں جاگزیں ہو جائیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان کے قلب و ذہن کو نفاق،  کفر و شرک کے مرض میں مبتلا کر دیتا ہے۔

جسمانی ظاہری امراض کے کئی طر ح کے علاج ممکن ہیں۔لیکن تعقدی امراض کا علاج ممکن نہیں ان کے دل و بدن میں ٹیڑ ھ پیدا ہونے لگتی  ہے۔ لوگ باوجود افہام و تفہیم کے اسے غیر اسلامی سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔

اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق سورہ بقرہ آیت   ۱۰میں  فرمایا:

فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا    O

’’ان کے دلوں میں بیماری تھی تو اللہ نے اس میں اور اضافہ کر دیا۔‘‘(۲:البقرہ:۱۰)

فتری الذین فی قلوبھم مرض یسارعون فیھم   O

’’ پھر تم دیکھتے ہو ان کو جن کے دلوں میں مرض ہے دوڑ دوڑ کر ان میں گھستے ہیں۔‘‘(۵:المائدہ ۵۲)

ان کے اوصاف، ان کے طرز و نہج کے مختلف پہلوؤں میں دلچسپی و محبت پیدا ہو جا تی ہے۔

 کفر،طغیان، شرک اور سوء و شر کے منظم و غیر منظم دائروں، اداروں، کیندروں اور کیمپوں و مندروں میں کچھ سیکھنے اور حاصل کرنے کے لئے بار بار جانا بھی دل کے مرض کی علامت ہے۔ حق و خیر سے دور باطل و شرک  سے زیادہ قریب ہونا ایمان و عمل صالح کو خطرہ میں ڈالنا اور اللہ کی ناراضگی کو مول لینا ہے۔

٭٭٭

 

4۔ یوگا

ہر فن اور علم کے پیمانوں کا تعین اس کے مستند قوانین، اس کے شارحین، اس کی ماہیت، دائرہ کار اور ہدف سے ہو تا ہے۔ یوگا پر تحقیقاتی نظر ڈالیں تو تمام دلائل و شواہد ہمیں مل جاتے ہیں۔

لیکن ہمیں سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرنا چاہئیے کہ کیا یوگا ہندو مت کا حصہ ہے؟ اور کیا یوگا ہندو مذہبی عقیدہ کے مطابق ایک مقدس مذہبی عمل ہے یا نہیں ہے؟۔۔۔

ہندوؤں کی مذہبی مقدس کتاب بھگوت گیتا کا چھٹا باب فلسفہ یوگا کے لئے مختص ہے۔ جس میں سری کرشنا نے ارجن کو یوگا کے سلسلے میں تفصیل سے سمجھایا اور کہا کہ یوگا درد و الم سے چھٹکارہ دلاتا ہے۔ اور یوگا کی مشق کرنے والا یوگی روحانی الٰہیہ کی نعمت سے نفس کا اطمینان پا لیتا ہے۔

        ’’کرشنا آپ نے کہا کہ یوگا برہمن (آفاقی روح) کے ساتھ اپنے خیالات و احساسات کا تبادلہ ہے۔

ارجن نے سری کرشنا سے پوچھا تم نے یوگا کے متعلق بتا یا،روح کے متعلق بتایا۔لیکن انسان کی عقل ہمیشہ بے چین اور مضطرب رہتی ہے۔ عقل مضبوط، ضدی اور پر مقصد ہوتی ہے۔اس کو ہوا کی طرح نہیں خارج کیا جا سکتا ہے۔کرشنا نے جواب دیا یقیناً عقل مضطرب ہو تی ہے اور اس پر گرفت مشکل ہو تی ہے۔ لیکن اس کی تربیت ابھیاسا (Abhyasa) کے ذریعہ کی جا سکتی ہے اور خواہشات اور ورگیا Vargayaسے چھٹکارا اور آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘

      (صفحہ نمبر light of yoga 20)

ہندو نظریات کے مطابق اگر ایک شخص اپنی عقل پر کنٹرول نہیں رکھ سکتا ہے تو وہ خالق و آفاق میں ضم نہیں ہو سکتا لیکن اگر وہ نفس پر کنٹرول کرنے اور صحیح رخ پر سخت جدوجہد کرنے والا ہو تو اس کو پا لیتا ہے۔

 پتنگلیpatangali  کے مطابق یوگا کے 8  مدارج ہیں۔

۱۔یاماYAMA  عمومی اخلاقی احکامات

۲۔نیاماNIYAMA  ذاتی نفس کی تطھیر اور ڈسپلن

۳۔آسناASNA  جسم کی ساخت

۴۔پرانیماPRANAYAMA روح پر گرفت

۵۔پرتیھاراPRATYAHARA  احساسات کے غلبہ سے اجتناب کرنا

۶۔دھراناDHARANA  توجہ مرکوز کرنا

۷۔دھیانا DHAYANA  مراقبہ

۸۔سمادھیSAMADHI  گہرے غورو فکر اور مراقبہ جس کا مقصد پرماتما  آفاقی روح میں ضم ہو جانا۔

یوگا کی تشریح میں بھگوت گیتا میں ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ :   ’’کرما یعنی یوگا وہ جو عمل کے ساتھ ہو۔یوگا ذاتی خواہشات و  خود غرضی سے چھٹکارا دلاتا ہے۔کامیابی و ناکامی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہو تا۔‘‘

یوگا سنسکرت لفظ ’’یوج ‘‘سے نکلا ہے۔ جسکے معنی شامل ہونے و متحد ہونے کے ہیں۔یوگا کی تقریباً 185 ورزش کی ترکیبی ہیں۔ یوگا کرنے والے شخص کو یوگی کہا جا تا ہے۔ یوگا کرنے والے اصل مشاق یوگی ابتداء میں، دوران یوگا اور ختم پر کئی اشلوک ورد کرتے اور گاتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم اور طویل ترین روحانی و مقدس اشلوک جوسنسکرت میں ہے اس کا اختصار کے ساتھ ترجمہ حسب ذیل ہے۔

   ۰’’ میں نہ آقا ہوں اور نہ وجبہ، میں نہ عقل ہوں نہ سونچ،  میں نہ سن سکتا ہوں اور نہ الفاظ میں بول سکتا ہوں، نہ سونگھ سکتا ہوں اور نہ   دیکھ سکتا ہوں،  میں روشنی اور ہوا میں اپنے آپ کو پاتا ہوں، نہ زمین پر، نہ آسمان میں، خیالات اور مسرت دوبارہ پیدا ہوتے ہیں،نعمتوں کا نعمت ہوں، میر ا کوئی نام نہیں، میری کوئی زندگی نہیں، میں سانس نہیں لیتا،       کسی شئے نے مجھے ڈھالا نہیں، میرا کوئی جسمانی اخراج نہیں،ذہانت و حقیقت اور مزہ و درد میری میراث نہیں، نہ مقدس کلمات، نہ عبادت، نہ مقدس سفر،میں نہ غذا ہوں اور نہ کھانا اور کبھی میں نے کھایا ہے،خیالات اور مسرت ہوں اور میں آخر میں کرم میں مل جاؤں گا،نہ معلوم ہے اور نہ علم ہے، اور نہ کبھی علم رکھتا تھا میں غیر مجسم ہوں   میں احساسات میں رہتا ہوں، لیکن وہ میرا مسکن نہیں۔‘‘

ان روحانی اشلوک میں خودی اور خودی کا انکار اور تمام عبادات و مقدس کلمات کا انکار،  علم اور تعلیم کا انکار شامل ہے۔ اس میں اپنے آپ کو نعمت و کرم قرار دیا جا تا ہے اور آفاقی روح میں ضم ہو جانے کا اقرار کیا جا تا ہے۔ یوگا میں پڑھے اور کہے جانے والے سینکڑوں اشلوک اور سنسکرت کے الفاظ و جملوں کا اس مختصر مضمون میں ذکر ممکن نہیں ہے۔

سوامی پربھاننداPrabhananda  کی کتاب ’’  پتنجلی یوگا سوتراس  ‘‘   Patanjali Yoga Sutras   ویدانتا سوسائٹی ساؤتھ کیلیفورنیا امریکہ کے توسط سے سری رام کرشنا مٹ چینائی کی جانب سے شائع کی گئی۔ جس میں سوامی جی نے بھگوت گیتا سے یوگا کے 143 سوتراؤں کی تشریح کی ہے۔جس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جسمانی ورزش کے ہر آسن اور حرکت کے ساتھ مکمل طور پر کفر کو شامل کیا گیا ہے۔

وال اسٹریٹ جنرل نیو یارک کی ایک ہندوستانی نژاد مسلم خاتون صحافی اسریٰ نعمانی نے اپنے دوسرے امریکی ساتھیوں کے ساتھ ہمالیہ کے دامن میں موجود مشہور آشرموں اور مٹوں و مندروں میں ہندوازم و بدھ مت کے مہارشیوں، آچاریوں اور یوگیوں سے اعلیٰ روحانی تعلیمات کے حصول  کے لئے کئی دن قیام کیا اور تربیت حاصل کی تھی۔ ہندو مذہبی روحانی تربیت پانے کے بعد اس نے ایک کتاب  تحریر کی۔اس نے ہندو راہبوں کے ساتھ فحش اور شیطانی حیوانی حرکات کو متبرک قرار دیتے ہوئے تمام چھوٹی بڑی تفصیلات درج کیں۔ شیوا لنگ کی پوجا اور شیوا اور شکتی کی آپسی محبت، ان کی کائنات میں روح کے حلول کر جانے کے متعلق لکھا ہے۔۔

اسریٰ کا شمار نہ ماہرین علوم ہندو مت میں ہوتا ہے اور نہ ہی یہ ہندو مت کی اسکالر تسلیم کی جاتی ہے۔ لیکن اس کی تحریروں کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔۔؟  جو کچھ اس نے اپنے گروؤں و برہنہ مہارشیوں، یوگیوں سے ہندو مذہبی تعلیمات اور ان کی صحبت میں رہ کر تجربات حاصل کئے ان کے حوالے سے اس نے بڑی بے شرمی اور بیباکی کے ساتھ بہت سی باتیں تحریر کر دیں۔ اس سے ہمیں یوگا کے تصور،  شکلوں اور مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ :

 ’’یوگا کے معنی ذہنی گہری سونچ کے ذریعہ وحدت کائنات کے پر اسرار رازوں تک پہنچنا ہے۔‘‘

’’ شیوا ہندوستان کے جنگلوں میں یوگی کی حیثیت میں رہا کرتا تھا۔ وہ یوگا کی مشق کرتے کرتے کائنات کا عظیم خدا بن گیا۔‘‘ـ ( تانتریکا: صفحہ نمبر 5  )

ان دلائل و شواہد کی موجودگی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یوگا ایک خالص ہندو مذہب کا جز ہے۔ اس کی جڑیں ہندو تعلیمات سے جڑی ہو ئی ہیں۔

 ایسی سینکڑوں کتابیں  ا س وقت مطالعہ اور تجزیہ کے لئے مارکٹ میں دستیاب ہیں۔ جن کے حوالہ جات کی یہاں گنجائش نہیں۔ ان واضح اور کھلے عام ثبوتوں کے باوجود اگر کوئی سکیولر ذہن ہندو مذہبی وثائق کو توڑ موڑ کر اسے محض ایک جسمانی ورزش کا طریقہ قرار دیتا ہے۔ تو یہ سراسر لاعلمی، دروغ گوئی اور حقائق سے اعراض کا نتیجہ ہے۔

یوگا کا باضابطہ طور پر ایسا زبردست پروپگنڈہ کیا گیا کہ اب ہر شخص اپنے یوگی ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ Space technology میں پہلے روس کو برتری حاصل تھی۔ پھر امریکہ نے فوقیت حاصل کر لی۔ 1984 اپریل میں روس کے اسپیس مشن میں ایک ہندوستانی  اسٹروناٹ Astronaut  راکیش شرما  بھی شامل تھے۔ انھوں نے 25 سال کے بعد اپریل 2009 میں یہ حیرت انگیز دعویٰ کیا کہ وہ فضاء میں 0 ڈگری  مقناطیسی کششgravity  پر رہنے میں اس لئے کامیاب ہوئے کہ وہ یوگا کی مشق مسلسل کرتے تھے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ ’’انھوں نے اس کی تربیت روسی اسٹروناٹ کو بھی دی تھی۔ جس سے تمام اسٹرونائٹس کا فضائی سفر بھی آسان ہو گیا تھا۔‘‘اس بات کا دعویٰ اور اظہار نہ کبھی روسی اور نہ کبھی امریکی اسٹرونائٹس نے کیا کہ وہ  فضاء میں جانے سے قبل یوگا کی مشق کیا کرتے تھے۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ قطر ایرویز کی جانب سے  /20جون2009 کے تیسرے ہفتے میں مسافرین کی صحت اور تندرستی اور آرام دہ پرسکون سفر کے لئے Fly Healthy, Fly Fit   نام سے پروجکٹ انچارج دیپک چوپڑا نے یوگا کی ایک خصوصی گائیڈ جاری کی۔ دیپک نے اپنی گائیڈ میں یوگا کے آسان اور موثر طریقے بتائے تاکہ طیارے کے اندر دوران سفر مسافر خود کو پرسکون محسوس کرسکیں اور تھکاوٹ، ذہنی دباؤ و تناؤ کو دور کرسکیں۔ یہ گائیڈ انگریزی عربی دونوں زبانوں میں تحریر کی گئی ہے۔ دنیا کی یہ پہلی ایر لائن ہے۔ جس نے فلائیٹ میں یوگا گائیڈ کو متعارف کروایا اور اسے مقبول عام کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ خود ہندوستان میں جہاں کی اکثریت ہندوؤں و غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔ جہاں درجنوں ایر لائنز مختلف سیکٹرس پر ایروپلین چلاتے ہیں وہاں ایک بھی ایسی ایر لائنز نہیں جس نے مسافرین کے لئے خصوصی یوگا گائیڈ کو جاری کیا ہو۔ قطر جیسے عرب ملک کی قطر ایر لائنز کو آخر یوگا نے اتنا کیوں متاثر کر دیا یا پھر کسی دوست نے انھیں اتنا مجبور کر دیا کہ یوگا گائیڈ کو    On board متعارف کروائیں۔ اب تو سیاستداں، سائنسداں، حکومت کے اعلیٰ عہدیدار، ماہرین اور فلمی ستارے یوگا کرنے کو فخر سمجھتے ہیں ا ور اس کی تائید میں وقتاً فوقتاً بیان دیا کرتے ہیں۔

ہندوستان کے ضعیف العمر سیاستداں نفیسہ علی سابقہ مس انڈیا نے انکشاف کیا کہ وہ ہندو عقیدہ کرما پر یقین رکھتی ہیں اور پکی یوگی ہیں۔گذشتہ چند سالوں سے آئے دن نامور شخصیتوں کا بھرپوراستعمال کرتے ہوئے یوگا کے متعلق مسلسل بیانات الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوگیوں کی تحریک اب کافی منظم پیمانے پر کام کر رہی ہیں۔

مسلم سوسائٹی کے با شعور تعلیم یافتہ با اثر اور دین دار و اسلام پسند لوگوں کے درمیان یوگا موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بعض تعلیم یافتہ مسلمان یہ سوال پیش کرتے ہیں کہ

۱۔  یوگا صحت کے لئے فائدہ مند ہے تو پھر اس کی ممانعت کے سلسلے میں اسلامی حلقوں سے کیوں آوازیں بلند کی جاتی ہیں۔؟

۲۔  کیا اسلام اتنا تنگ نظر ہے کہ اپنے پیروؤں کو جسمانی ورزش و کسرت  سے منع کر کے ان پر تحدیدات عائد کرتا ہے۔؟

بعض گوشوں سے یوگا کے متعلق فتوؤں پر تنقیدیں بھی کی جا رہی ہیں۔ جب ملیشیاء کے مفتی نے یوگا کے خلاف فتویٰ جاری کیا تو وہاں کے بادشاہ ناراض ہو گئے اور کئی آزاد خیال مسلم سیاست داں اور اسکالرس نے بھی اس طرح کے فتاویٰ کی مخالفت کی۔ اگر عام شخص صرف یوگا و ورزش کے چند طریقوں کے متعلق اصل سے علیٰحدہ کر کے شریعت کا حکم جاننے کی کوشش کرے تو یقیناً جواب صرف ورزش کے زمرے کی حد تک ملے گا اور اسے جائز قرار دیا جائے گا۔

یوگا کے ظاہر ی فائدوں کو پیش نظر رکھ کر مجرد حکم شرعی و اجازت نامہ  صرف کسرت کی حد تک فنی بنیادوں پر حاصل بھی کر لیا جائے تو پھر بھی بیشمار مخفی، مشتبہ، مشکوک باتوں اور مبین واضح دلائل کی موجودگی میں اس طرح کی عدم ممانعت کا حکم مہمل اور ناقص ثابت ہو گا اور ایسے تمام خود ساختہ اجازت نامے ہلکے و بے بنیاد قرار پائیں گے۔

سنسکرت میں موجود قدیم مذہبی کتابوں کا مختلف زبانوں میں ترجمے کئے جا رہے ہیں۔احتیاط کے ساتھ اس کی طباعت اور اشاعت بھی عمل میں لائی جا رہی ہے۔  یوگا کو عالمی سطح پر ایک عام کامیاب قدیم ورزش و کسرت ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے دھارمک بنیادی باتوں کو ملفوف و مخفی رکھ کراسے غیر ہندو و دوسرے مذاہب کے ماننے والے عام آدمی کے لئے سکیولر بنا کر اسمیں جاذبیت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کوانسانیت کے لئے مفید و کارآمد قرار دیا جا رہا ہے۔

موجودہ دور میں ہندو ازم کی تعلیمات کوانسانیت کی بھلائی کے لئے  عام کرنے میں بڑی رکاوٹیں اور اندرونی طبقاتی مسائل درپیش ہے۔ انسانیت کی بقاء و ترقی اور بھلائی کے لئے خود ہندومت میں کوئی خاص باتیں نہیں ملتی۔ ذہین آچاریہ اور تجربہ کار مہارشیوں و پنڈتو ں نے دنیا میں یوگا کا پرچار کر کے مقبولیت حاصل کر لی۔وہ غیر ہندوؤں میں 5 باتوں کی تعلیمات کو عام کرنے میں متحدہ طور پر لگے ہوئے ہیں اور یہ ثابت کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سب سے ترقی یافتہ و قابل عمل مذہب ہندومت ہے۔

 ۱۔  نباتاتی غذاVegetarian food  کا استعمال، اور گوشت خوری کی ممانعت۔

۲۔  واستو کے لحاظ سے گھر کی تعمیر اور کمروں،دالان، باورچی خانہ، حمام،    ابواب و کھڑکیوں کا رخ اور پوزیشن کی ہندو تعلیمات۔

۳۔  علم نجوم  Astrology

۴۔  علاج معالجہ کے لئے ایورویدک و کیرلا ومہارشیوں اور اطباء کے قدیم طبی      نسخے۔

۵۔  یوگا،ورزش و کسرت و صحت مندی کا ایک ویدک طریقہ کار۔

 ہندو اسکالرس کا کہنا ہے کہ ہندو مت کی یہ 5 باتیں انسانیت کی فلاح   و بہبود کے لئے ہیں۔ ان 5   باتوں کے علاوہ ا نسان تحقیق کرتے کرتے تھک جائے تب بھی ہندو مت کے لٹریچر میں کوئی اہم مفید اصول و ضوابط نہیں ملتے سوائے دیومالائی ناقابل فہم کہانیوں اور قصوں کے اور دوسروں کے لئے کوئی پیغام و دعوت اس میں نہیں پایا جاتا۔ انسانی بنیادی حقوق،  سماجی و جنسی مساوات کی پامالی اسمیں جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ طبقاتی کشمکش، نسلی تفریق، برہمن طبقے کی فوقیت، تضادات، عدل، حق و انصاف کے مغائر بہت سی باتیں ملتی ہیں۔ ہندو مذہب میں بعض ایسے جابرانہ و ظالمانہ مذہبی رسم و رواج پائے جاتے ہیں جس سے انسانیت شرمندہ ہو جائے۔ہندو مصلحین Reformers کی مسلسل کوششوں سے ہندو معاشرہ میں بڑی خوش آئند تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ہندو احیاء پسند تحریک آر ایس ایسS.S. R.  کا کہنا ہے کہ ہندو مت کوئی مذہب نہیں ہے۔ یہ تہذیب و تمدن کا نام ہے۔ ان خیالات سے مہارشی اور آچاریہ اتفاق نہیں کرتے۔ اس طرح کے بیانات محض غیر ہندو اپنی شبیہ درست کرنے کے لئے دیتے ہیں۔یہ سیاسی نوعیت کے بیانات ہوتے ہیں جس کا ذکر یہاں بے محل ہو گا۔

ہندومت کی دھارمک شخصیتیں و مذہبی پیشوا ا ور ہندو احیاء پسند تحریکات دراصل ورن آشرم کی نشاط ثانیہ کرنا چاہتے ہیں اور نسلی طبقاتی تفریق کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ ہندومت کو قومی و عالمی سطح پر ایک عظیم کامیاب نظام زندگی کے طور پر غالب کرنے کی کوشش میں ہے۔ہندو کلچر میں حقوق کی اہمیت نہیں ہے۔ بلکہ پوجا پاٹ اور چند رسوم کی اہمیت ہے۔

ہمارے بعض روشن خیال تعلیم یافتہ اور نیم پڑھے لکھے لوگ اور نوجوان یوگا کے سلسلے میں سطحی معلومات رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ انھیں یوگا کی معلومات ہی نہیں تو بیجا نہ ہو گا۔ بغیر مطالعہ اور تجزیہ کے وہ یوگا کو صرف  Method of physical exercise  یا ایک کسرت و ورزش کا طریقہ  قرار دیتے ہیں جو سراسر ایک مغالطہ اور لا علمی کا نتیجہ ہے۔

شریعت اسلامی میں حیات انسانی کے لئے بڑے واضح اور صاف دو ٹوک اصول دئیے گئے ہیں اور انسانیت کی فلاح و بہبود اور نشو نما و ترقی کے لئے وسعتیں فراہم کی گئیں۔ دنیا کے تمام بر اعظموں، قطعوں اور طبقات و اقوام کو زماں و مکاں، نسل و طبقات کی قیود سے نکال کر ایک اعلیٰ بلند و برتر زندگی کا بنیادی اصول اور نظام فراہم کیا گیا ہے۔

اسلام عقائد، معاملات، مامورات، مامولات میں تمام کلی و جزوی طور پر کفر و شرک کے عناصر کا باریک بینی سے خاتمہ کر تا ہے اور کسی بھی تہذیب و تمدن کے اجزاء کو کفر سے صاف و پاک کر کے ضم کرنے کی اپنے اندر وسعت رکھتا ہے۔اسلام دنیا کے مختلف قطعوں میں پھیلا اور جہاں بھی پہنچا وہاں کے مقامی معاشرہ کے تمام باطل لغو طور طریقوں اور عادات و اطوار کا خاتمہ کر کے مقامی سماج کو اپنے اندر ضم کر لیا۔

اسلام دور حاضر کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے اور قلب و ذہن کو متاثر کر دینے والی کسی بھی قدیم و جدید تہذیب کو اپنانے اوراس پر عمل کرنے سے مسلمانوں کو منع کرتا ہے۔کیونکہ اس سے ایمان کی بنیادیں دہل جاتیں ہیں اور اسلامی تعلیمات و شریعت سے راست یا بالواسطہ ٹکراتی ہیں۔

مراقبہ، دھیانا Meditation 

یوگا میں مراقبہ کی بڑی اہمیت ہے۔ یوگا کے ماہرین بغیر مراقبہ کے یوگا کی مشقوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا یہ استدلال ہے کہ ’’مراقبہ کے ذریعہ آپ میں اور آپ کے نفس میں ایسا روحانی تعلق پیدا ہو جاتا ہے جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور یہ جسمانی اور روحانی نظام کے توازن کو بگڑنے نہیں دیتا بلکہ ہم آہنگی پیدا کر کے آپ کو بے پناہ سکون اور توانائی ملتی ہے۔دھیانا  و مراقبہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر روزانہ مقررہ وقت پر کیا جائے،صبح کا وقت سب سے بہتر ہوتا ہے اس کی ابتداء دس تا پندرہ منٹ سے کریں۔ اس کے بعد انھیں قوت اور برداشت کے مطابق بڑھاتے چلے جائیں۔

یوگا کے تائیدی حضرات کو اس بات سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ جسمانی ورزش اور کسرت کے ساتھ ساتھ بڑ ٰی حد تک ’’دھیانا‘‘ مراقبہ اور روحانی ارتقاء پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔مہایوگیوں کا دعویٰ ہے کہ اس کے علاوہ یوگا سے مدرا (گہراسکون) اور یوگا ندرا(جسمانی و ذہنی، جذباتی سکون) ملتا ہے۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کو ان مراقبوں کی کبھی ضرورت رہی ہے؟

اسلام کی عبادتیں خود اس طرح کی ہیں کہ ہر مومن لازمی طور پر روزانہ اور سال میں کئی مرتبہ مراقبہ کرتا ہے۔ صوم و صلوٰۃ، قیام الیل، حج و عمر ہ، اعتکاف میں بندہ اللہ سے لو لگاتا ہے۔۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر دن فرض، سنت اور نفل نمازوں میں قیام، رکوع و سجود و قاعدہ میں نمازی دھیان لگاتا ہے اور عقل کے مطابق گیان بھی کرتا رہتا ہے۔ نماز کا پابند شخص روزانہ فرض، سنت، نفل نمازوں میں ایک گھنٹے سے زیادہ تک مراقبہ میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ماہ صیام کے فرض روزوں اور اعتکاف مسجد، اور حج و عمرہ میں جو تلاوت اور تسبیح و اذکار پڑھے جاتے ہیں وہ بہترین اسلامی مراقبہ ہے۔ اس کے علاوہ احتساب نفس، توبہ و اوستغفار، اذکار اسمائے حسنیٰ کا ورد اور رجوع الیٰ اللہ کی کوشش، قرآن کریم کی تلاوت، کتاب اللہ و سیرت رسول  ؑ پر غورو فکر وغیرہ تمام خالص اسلامی مراقبہ و مراجعہ میں شامل ہیں۔

انبیاء ورسل اور اولیاء اللہ، سلف صالحین مراقبہ کیا کرتے تھے۔ لیکن و ہ مراقبے حب اللہ میں کئے جاتے تھے۔اسلام نے مراقبہ کو کھیل کود اور لہو لعب سے پاک رکھا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:

واذکر ربک فی نفسک تضرعا و خفیہ و دون الجھر من القول بالغد وًالاصال ولا تکن منالغافلین   O

’’اور اے شخص!اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی اور خوف کیساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ،صبح و شام اور اہل غفلت میں شمار مت ہونا۔‘‘(۷:اعراف:۲۰۵)

ان فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھار لآیت الاولی الالباب   O

’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘(۳:ال عمران :۱۹۰)

الذین یذکرون اللہ قیٰما و قعودا وعلیٰ جنوبھم و یتفکرون فی خلق السموات والارض۔ ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار   O

’’جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں و زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار !تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘(۳:ال عمران:۱۹۱)

مومن کا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے۔ دنیا کی تمام آلائشوں اور تعلقات کو منقطع کر کے صرف اس کی طرف رخ اور توجہ کرنا مسلمان کا اولین کام ہے۔

ان صلاتی و نسکی و محیای مماتی للہ رب العالمین، لا شریک لہ و بذالک امرت انا من المسلمین   O

’’آپ فرما دیجئے کہ با لیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لئے ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے۔‘‘(۶:انعام:۱۶۲)

پچھلے صفحات میں اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ یوگا کا اصل مقصد جسمانی ورزش سے روحانی ارتقاء حاصل کرنا ہے۔ اس کی کرشنا نے ارجن کو تعلیم دی اور اس بات پر زور دیا کہ روحانی ارتقاء کے لئے یوگا کرتے رہو۔

ہمارے بعض مسلمان عقلمند یوگی مراقبہ میں خاموشی اختیار کرتے ہیں اور تصور کرتے ہیں کہ انھوں نے شرک کو ترک کیا ہے۔ یہ حضرات الٹے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اسلام میں مراقبہ نہیں ہے؟

اسلام کا مراقبہ کا تصور بھگوت گیتا اور یوگا کے مراقبہ کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بار بار اہل عقل، اولو الالباب، اور دانشمند لوگوں کو انفس و آفاق، خالق و کائنات اور ان کے پیدا کردہ نظام کائنات پر غور و فکر و تدبر کرنے کا بار بار حکم دیتا ہے۔

بندہ مومن آخر ت کے خوف اور اپنے رب کی رحمت کی امید میں راتوں کو اٹھ کر قیام اور سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا

امن ھوقانت اٰنآء الیل ساجدا وقآئماًیحذر الا ٰخرۃ ویرجوا رحمۃربہ    O

’’کیا راتوں کو اٹھ کر سجدہ اور قیام کرتا ہے آخرت کے دن سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید کرتا ہے۔‘‘(۳۹:الزمر:۹)

اللہ نزل احسن الحدیث کتٰباًمتشابھاًمثانی، تقشعر منہ جلودالذین یخشون ربھم، ثم تلین جلودھم و قلوبھم الیٰ ذکر اللہ   O

’’اللہ نے ایسا اچھا کلام نازل کیا ہے جس کی آیات بار بار باہم ملتی جلتی ہیں۔ یا بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کے دل اور بدن نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔‘‘(۳۹:الزمر:۲۳)

انا اخلصنھم بخالصۃ ذکری الدار،وانھم عندنا لمن المصطفین الاخیار   O

’’ہم نے ان کو خاص بات کے ساتھ مخصوص کیا تھا کہ وہ آخرت کو یاد کریں یہ سب ہمارے نزدیک برگزیدہ اور سب سے بہترین لوگ تھے۔ ‘‘(۳۸:ص:۴۶)

یوگا راہبوں کی ورزش

مہارشی منی، آچاریہ، سنیاسی دراصل یہ سب ہندو راہب ہیں اور تپسیا میں رہبانیت کی زندگی گذارتے ہیں۔ یوگا ان رشیوں اور راہبو ں کی خصوصی، لازمی ورزش و کسرت کا نام ہے۔ جس کے ذریعہ وہ روحانی ارتقاء کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

اسلام نے رہبانیت، ترک دنیا، اور تپسیا والی زندگی کا خاتمہ کیا اور عائلی و دنیوی زندگی کو اسلام کا لازمی حصہ قرار دیا۔ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ ؑ کی قوم کے سلسلے میں فرمایا گیا:

ورھبانیۃ ا بتدعوھا ما کتبنٰھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللہ   Oفما رعوھا حق رعایتھا، فاٰتینا الذین آمنوا منھم اجرھم و کثیر منھم فٰسقون   O

’’ہاں رہبانیت تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کر لی تھی۔ہم نے ان پراسے واجب نہ کیاتھاسوائے اللہ کی رضا جوئی کے۔ سو انھوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی، پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے تھے انھیں ان کا اجر دیا اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں۔‘‘            (۵۷:الحدید:۲۷)

کسی بھی قسم کی رہبانیت کو شریعت اسلامی میں قبول نہیں کیا گیا۔ نبی کریم ﷺ کا اسوۃ اور زندگی دنیا کے تمام انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے جو رہبانیت سے دور ایک عائلی، معاشرتی، اجتماعی زندگی اور مکمل کامیاب نظام حیات ہے۔ اب اسمیں سنیاسیوں اور رشی منی او ردوسرے مذہبی رہنماؤں کے تعلیمات اور روایت و طور طریقوں کو کسی بھی عنوان سے اہل اسلام کے درمیان داخل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

یوگا ندرا     YOGA NIDRA     

یوگا میں مختلف آسنوں کے وقت مختلف اشلوک کے ورد پڑھے جاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے جملوں کی تکرار کی جاتی اور بار بار دہرائے جاتے ہیں جیسے میں طاقتور ہوں، میں کامیاب ہوں گا، میں قائد ہوں، حاملہ عورتوں کو ورد کرایا جاتا ہے کہ میں ماں بنوں گی، میری زچگی آسانی سے ہو گی،  میرا بچہ صحت مند ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔ یوگیوں کا کہنا ہے کہ اس میں یوگا کرنے والا خود اپنے آپ کو ذہنی بیداری اور توانائی کے لئے ہدایت دیتا ہے۔ Auto suggestion  آپ کے لاشعور کے دروازے کھول دیتا ہے۔

یوگیوں کے مطابق یوگا ندرا Yoga Nidra   بیداری اور ہوشیاری کا عمل ہے۔ یوگیوں کا یہ پختہ یقین ہے کہ اسطرح کے ورد سے ذہنی، جسمانی اور جذباتی سکون اور راحت ملتی ہے۔یوگا میں اسے سنکلپا Sanklapa کہا جاتا ہے۔ اس میں یوگی خود اپنے آپ کو ہدایتیں دیتا رہتا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو اسلام کی تعلیمات کے سراسر منافی اور خلاف ہیں، نہ خالق پر یقین ہے اور نہ ہی اللہ کی ذات پر بھروسہ کر کے خود اعتمادی پیدا کی جاتی ہے۔ بندہ عاجز اور کمزور ہے وہ نہ خیر اور شر کا، نہ اپنی پیدائش اور موت کا یا کسی بھی عمل کا مختار ہے۔بلکہ اللہ ہی ہر چیز کا قادر مطلق و مالک کل اور حکمراں و فرمانروا ہے۔ سب کچھ اس کی مہربانی اور توفیق پر منحصر ہے۔

اسلام ایسے تمام تصورات کو باطل قرار دیتا ہے جس میں مخلوق، خالق سے بڑھ کر اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگے اور اپنے لا شعور کے دروازے کھول کر خود کو Auto Suggestion  دینے لگے۔ اور اپنے جنم و وصال کو بھول کر خودی کو اتنابلند کرے کہ ’’وایاک نستعین‘‘  (ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں )

جیسی دعاء کو بھلا دے، استعانت باللہ، خشیت الیٰ اللہ، انکساری و تواضع کو چھوڑ کر کبر و  فخر کا ورد کرنے لگے۔

 اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کی مکمل طمانیت دے دی۔

فسیکفیکھم اللہ، واللہ السمیع العلیم   O

’’پس تمہارے لئے اللہ کافی ہے، وہی تمہاری بات کو خوب سنتا اور جانتا ہے۔‘‘(۲:البقرہ:۱۳۷)

 اس طرح اسلام تمام ملحدانہ ورد اور تکرار کو سخت ناجائز قرار دیتا ہے۔اسلام میں مرد و حاملہ خواتین کو کفر یہ INCANTATION  کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔قرآن نے ماؤں کی فریاد، امنگ اور نذر کی بہترین مثال حضرت بی بی مریم  ؑ کی والدہ کی دی۔قرآن میں فرمایا گیا ہے

اذ قالت امرأت عمران رب انی نذرت لک  ما فی بطنی محررا فتقبل منی   O

’’جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے میرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی، تو اسے قبول فرما۔‘‘(۳:العمران:۳۵)

وانی سمیتھا مریم وانی اعیذھا بک و ذریتھا من الشیطٰن الرجیم   O

’’اور میں نے اس کا نام مریم رکھا،میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔‘‘(۳:العمران:۳۶)

فقولی انی نذرت للرحمن صوما   O

’’تو کہہ دینا کہ میں نے اللہ رحمن کے نام کے روزہ کی منت مانی ہے۔(۱۹:مریم: ۲۶)

     حضرت ابراہیم نے اولاد کے لئے دعاء فرمائی تھی

رب ھب لی من الصالحین   O

’’اے میرے رب مجھے نیک اولاد عطا فرما۔‘‘   (۱۰۰:صافات:۳۷)

قرآن کریم میں مومن کو توکل علیٰ اللہ، انشاء اللہ  و ماشاء اللہ کہنے کی تاکید کی گئی ہے۔قرآن کریم میں سورہ اعراف، سور ہ یونس، سورہ کہف اور متعدد آیتوں میں الا ما شاء اللہ   ’’ جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔‘‘ کا درس دیا گیا۔ جس میں اللہ کی حمد نہ ہو اور اللہ کا ذکر اور شکر نہ ہوں۔ منت عجز و انکساری نہ ہو اور خفت کے ساتھ اللہ سے مانگنے اور دعاء کرنے کا طریقہ اور اسلوب نہ ہو اور کوئی مستقل و آئندہ کام کرنے کا ارادہ بغیر انشاء اللہ کے کیا جائے وہ فضول اور قابل رد و شیطانی عمل قرار پائے گا۔ انسان کا بیکار بکواس اور خود ستائی،جھوٹی خود اعتمادی میں اپنے آپ کو اتنا اونچا کر لینا کہ حمد،ذکر اللہ اور تسبیح کو بھول جانا سراسر کفر و ظن کی پیروی کرنا ہے۔

روحانی اشلوک  SPITRITUAL INCANTATION

(یوگا کے موقع پر پڑھے جانے والے اشلوک)

۔  میں نہ انا ہوں اور نہ وجہ ،  میں نہ عقل ہوں اور نہ سونچ۔

۔  میں نہ سن سکتا ہوں، اور نہ الفاظ میں تبدیل کر سکتا ہوں، نہ اونگ سکتا ہوں نہ دیکھ سکتا ہوں۔

۔  میں روشنی اور ہوا میں اپنے آپ کو نہیں پاتا ہوں، نہ زمین پر نہ آسماں میں۔

۔  میر ے خیالات اور مسرت دوبارہ پیدا ہوئی، میں نعمتوں کا نعمت ہوں۔

۔  میرا کوئی نام نہیں، میری کوئی زندگی نہیں، میں سانس نہیں لیتا ہوں۔

۔  کسی شئے نے مجھے ڈھالا نہیں، جسمانی اخراج نہیں۔

 (Light of yoga: pg32,33)

شنکر آچاریہ و یوگیوں نے روحانی ارتقاء (ATMA SATKAM)  کے لئے سنسکرت کے گیت کو ضروری قرار دیا ہے۔سنسکرت کے ان اشلوکوں میں تمام باتیں ایمانیات اور اسلامی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں اور خالق و مخلوق کی تفریق کو مٹا دیتی ہے۔ اس میں خودی کا انکار، حلول، تجسیم، ان کار رب جیسے کفریہ کلام شامل ہے۔

مسلمہ بن کذاب اپنے اوپر وحی کے نزول کا دعویٰ کیا کرتا تھا۔ جنگ یمامہ میں مرتدین کا یہ سردار مارا گیا۔ اس کے بعد بنو جہینہ کا ایک وفد حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا :’’افسوس تمہارے حال پر تم کس طرح مسلمہ کذاب کے فریب میں آ گئے!‘‘

حضرت ابوبکر صدیق ؓ  نے دریافت کیا کہ آخر اس کی تعلیم کیا تھی؟

انھوں نے کہا کہ اس کی وحی کا نمونہ یہ ہے

یا ضفدع نقی نقی لا الشارب یمشعین ولا المائ تکدرین۔ لنا فصف الارض والقریش نصف الکن قریۃ قوم یعتدون۔

’’اے مینڈک تو پاک ہے، نہ پانی پینے والوں کو روکتا ہے اور نہ پانی کو گدلا کرتا ہے۔ آدھا ملک ہمارا اور آدھا قریش کا لیکن قریش تو ایک ظالم قوم ہے۔‘‘

حضرت ابو بکر صدیقؓ  نے یہ خرافات سن کر فرمایا

’’سبحان اللہ تمہارے حال پر افسوس یہ کلام جس میں مطلق شان ربانی نہیں، تم کو کہاں کھینچ لے گیا۔۔۔‘‘

یوگا کے روحانی اشلوک کے سلسلے میں بھی خلیفہ اول حضر ت ابو بکر صدیقؓ کی یہ بات صادق آتی ہے۔

ایک عام عاقل، نیم پڑھا لکھا مسلمان بھی اشلوک کے ان سطور کو پڑھ کر اس کے متن کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ یہ سارا اشلوک لغو، بے معنی بکواس ہے اور بنیادی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔پورے اشلوک میں لفظ بہ لفظ،سطر بہ سطراللہ وحدہ۔ لا شریک کا انکار کیا جاتا ہے۔

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یوگا کرتے وقت منتر پر دھیان نہ دیں بلکہ تسبیح اور قرآنی آیات کی تلاوت کرتے رہیں۔ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ہمیشہ ممکن ہوسکتا ہے کیونکہ یوگا کرتے وقت یوگی گیتا کے پار ٹ لاؤڈاسپیکر پر پڑھتے رہتا ہے تو کیا اس وقت ہم اپنی زبانوں پر قرآنی آیات کا ورد جاری رکھ سکتے ہیں۔عملی طور پر تواتر کے ساتھ ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

یوگا کلاس میں جو ماحول بن جاتا ہے اس کے خلاف تنہا کب تک سری تسبیح ہم پڑھتے رہیں گے۔ایک شخص تلاوت قرآن کے لئے اگر میوزک اور ساؤنڈ تھیٹر کا انتخاب کر لے اور گانے بجانے،شور و غل کے درمیان تلاوت کرنے کی کوشش کرتا رہے تو اس میں وہ کتنا کامیاب ہو سکتا ہے۔ اگر تلاوت و تسبیح کے لئے غلط مقام کا تعین کیا جائے تو اس سے الٹا قرآن کریم کے احترام میں فرق آئے گا۔ تسبیح کرنے یا تلاوت کرنے سے یوگا اور وہاں پڑھے جانے والے منتر جائز قرار نہیں دیئے جا سکتے۔

ایک شخص اپنی مرضی سے ایسا مقام، کیندر و آشرم چنتا ہے اوراس میں بڑی رغبت اور دلچسپی سے یوگا میں شرکت کرتا ہے اور پھر اپنی دینداری کو بھی برقرار رکھنے کے لئے تلاوت و تسبیح جاری رکھتا ہے تو اس کے یہ تمام اعمال ثواب بے محل اور بے وقت ہوں گے۔ایسے موقع پر مسلمانوں کو چاہئیے کہ جسمانی صحت و تندرستی سے بڑھ کر ایمان کی حفاظت اور اس کی تندرستی کی جانب توکل کے ساتھ اپنی توجہ مبذول کریں۔

    اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:

وھم یکفرون بالرحمن قل ھو ربی لا الہ    الا ھو علیہ توکلت واللہ متاب      O

’’وہ خدا رحمان کا انکار کر رہے ہیں، کہہ دو کہ وہی میرا رب  ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس پر میں نے بھروسہ کیا اور اس کی طرف مجھے لوٹنا ہے۔‘‘(سورہ رعد آیت:۳۰)

اسلام نے اللہ واحد کی عبادت اور اسی سے مدد و استعانت طلب کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی اور کی بندگی کرنا، پرارتھنا کرنا، ورد  و ذکر کرنا، مالا جپنا سب شرک اور ظلم عظیم ہے۔

قرآن کریم میں مومن بندوں کو دعاء کا بہترین طریقہ سکھایا گیا۔ قرآنی علوم میں دعاؤں کا  ایک مستقل باب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء اکرام کو اور ہم سب مسلمانوں کو قرآن کریم کے ذریعہ دعائیں سکھلائی ہیں۔

اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ آیت 186 میں فرماتا ہے:

اذ اسالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداعی اذا دعان    O

’’جب بندہ مجھے پکارتا ہے،میں اس کے قریب ہی ہوں، اس کی   پکار کو سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔‘‘

واللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بھا    O

’’اور اللہ تعالیٰ کو اس کے بہترین ناموں سے پکارو۔‘‘   (۷:اعراف :۱۰۸)

وہ مربی، خالق، رزاق، حامی و مددگار اور ہدایت دینے والا ہے۔

قرآن کریم کی آیات اور مسنون دعاؤں و اذکار کے علاوہ جتنے بھی ورد، sutras ،  منتر،  اشلوک Incantation، گیت گانے اور مالا جپنے کے طور طریقے ہیں سب سراسر باطل اور کفر ہیں۔ مشرکانہ مناجات اور ایسے روحانی ارتقاء اور دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے والے گیتوں اور نظمو ں و اشلوکوں کو پڑھنے کی اسلام میں گنجائش نہیں۔؟

ایسی ورزش اور صحت مندی سے کیا فائدہ جو ایمان کو بیمار ڈال کر کفر کا مرض لگا دے۔مسلم یوگیوں کی بڑی تعداد اس بات کی قائل ہے کہ یوگا سے ان کے روحانی یا نفسانی امراض کا کامیاب علاج ہوا ہے اور اب یوگا کے بغیر صحت مند زندگی دوسرے طریقے ورزش Physical Exercise   کو اختیار کر کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگر ان کے اس استدلال کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ معمولی سی منفعت کے لئے کیا مسلمان کفر خفی سے سودا کر لے گا اور اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈال کر کمزور کر لے گا؟۔اگر مسلم یوگی چاہے تو مضبوط ایمان اور عقیدہ کی پاکیزگی اور فکر کی پختگی کے ساتھ یوگا کو چھوڑ سکتا ہے۔

 اکثر یوگی غیر ہندوؤں میں یوگا کی دلچسپی کو بڑھانے کے لئے ابتدائی تدریب اور مشقوں میں خاموش رہتے ہیں اور بہت محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں۔ تاکہ مضبوط ایمان والے زیر تربیت لوگ یوگا کی پراکٹس کونہ چھوڑ دیں۔

ہندوستان کے یوگا کیندروں میں جائیں تو وہاں روحانی اشلوکوں کے ورد کی گونج سنائی دے گی۔ اب کئی مسلمان مرد و خواتین یوگی بن کر یوگا کے تربیتی کلاسس لے رہے ہیں یا اسے با ضابطہ اپنا پیشہ بنا رہے ہیں۔ یہ صرف جہالت، کم علمی ہے کہ وہ فوری آمدنی، سستی شہرت اور فیشن کے خاطر بلا سونچے سمجھے یوگی بننے کو ترجیح دے رہے ہیں۔اس طرح کے مسلمان کی یوگا کے اجزاء میں پائے جانے والے کفر خفی پر نگاہ نہیں جاتی۔ دور دراز مقامات پر رہنے والے، مساجد اور منظم مسلم معاشرہ سے کٹے ہوئے تعلیم یافتہ مسلمان جن کا کبھی علماء، اہل اللہ، داعیان دین اللہ سے کبھی ربط و تعلق نہیں رہا ہو وہ یوگا کے کفر خفی سے ناواقف ہوتے ہیں۔ ایسے مسلمان ظاہری افادیت دیکھ کر بڑے انہماک اور پر جوش طریقہ پر یو گا کرنے میں جٹ جاتے ہیں۔ ان کی عورتوں اور بچوں کے لئے بھی یہ عمل محبوب مشغلہ بن گیا۔

     اللہ تعالیٰ نے فرمایا

ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس   O

’’یہ لوگ تو گمان اور ظن کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘    (۵۳:انجم: ۲۳)

ام اللسان ماتمنیٰ   O

’’کیا انسان جس چیز کی آرزو کرتا ہے وہ اسے ملتی ہے۔‘‘

فللًہ آخرۃ والاولیٰ   O

’’پس اللہ ہی کے اختیار میں ہے آخرت اور دنیا۔‘‘    (۵۳:النجم:۲۵)

اللہ تعالیٰ نے گمان اور ظن ہوا ء نفس پر چلنے سے منع فرمایا۔ اس لئے کہ یہ تمام باتیں گمراہی، ضلالت اور شر کی طرف لے جاتی ہیں۔

قرآن کریم میں انبیاء اکرام اور صالحین کو یہ لکھایا گیا کہ نفع و نقصان، تکلیف و راحت کا تمام تر انحصار اللہ کی مرضی پر ہے۔

 جب تک اللہ کی مشیت،مرضی،حکم، خوشنودی اور ناراضگی پر ٹھوس یقین کامل پیدا نہیں ہوتا اس کا ایمان کمزور ہو گا اور کبھی بھی کفر کا ہلکا سا جھٹکا اسے اپنے رخ پر اڑا لے جا سکتا ہے۔

سنکلپا کی افادیت کی تعریفیں کتنی بھی کر لی جائیں اور یہ جواز نکالنے کی کوشش کی جائے کہ ہم گیتا کے یہ منتر نہیں بولتے، فلاں اشلوک نہیں دہراتے، یہ تمام باتیں سراسر ناقابل قبول ہیں۔ کیونکہ ذہنی بیداری، توانائی کے لئے ہدایت میں Auto suggestion وغیرہ جیسے نظریات ہندوؤں کے مقدس ویدوں اور مذہبی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ اس کے جملہ صفات اور اسلوب کفر، شرک اور الحاد پر مبنی ہیں۔اور انہی سے متعلق منتروں کا مسلسل ورد کرایا جا تا ہے۔

قل ادعو الذین زعتم من دون اللہ لا یملکون مثقال ذرۃ فی السموات ولا فی الارض وما لھم فبھماوما لھم فیھمامن شرک وما لہ منھم من ظھیر   O

’’آپ کہہ دیجئے ان کو بلاؤ جس کو تم اللہ کے سوا معبود خیال کرتے ہو۔وہ آسمانوں اور زمینوں میں ذرہ برابر چیز کے مالک نہیں ہیں اور نہ ان دونوں میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا  مددگار ہے۔‘‘(۳۴: سبا:۲۲)

ومن یدع مع اللہ الٰھا آخر لا برھان لہ بہ فانما حسا بہ عند ربہ،انہ لا یفلح الکفرون    O

’’اور جو اللہ کے ساتھ اور معبود کو پکارتے ہیں اس پر اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے تو اس کا حساب اس کے رب کے ہاں ہو گا یقیناً کافر لوگ فلاح نہ پائیں گے۔‘‘(۲۳:المومنون:۱۷ ۱)

مسلمان یوگی یہ کہتے ہیں کہ اوم شری رام، اوم ہری رام کا ورد ہم تو نہیں کرتے بلکہ یوگا کے وقت ہم خاموش رہتے ہیں۔ جس مجلس کو انھوں نے چنا ہے وہاں پردستور کفر رائج ہے۔ یہ اگر پڑھتے اور دہراتے نہیں ہیں تو کم از کم اطمینان کے ساتھ سن تو لیتے ہیں۔ پڑھنے اور سننے میں بہت کم فرق ہے۔ جس طرح قرآن کریم پڑھنا اور سننا دونوں ذریعہ ہدایت و ثواب ہے۔ ٹھیک اسی طرح کفریہ کلام کا پڑھنا یا اس کا پابندی سے سننا خلاف شریعت اور گناہ و عذاب کا موجب ہے۔

موسیقی،گانوں، ڈسکو اور ڈانس میں بھی یہ ہو تا ہے کہ گانے بجانے اور رقص کرنے والے ایک یا چند ہوتے ہیں لیکن سامعین و ناظرین جو ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں راست،ٹی وی،نیٹ کے ذریعہ دیکھ کر سن کر محظوظ ہوتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے ایسی مجالس کی مذمت کی اور لعنت بھی کی ہے جس میں مسلم معاشرہ کے مختلف لوگ جمع ہوں اور اللہ کا ذکر نہ کریں۔ بندہ مومن کے لئے کوئی ایسا قانونی جبر نہیں کہ یوگا کی کلاس میں شرکت کریں۔

مسلم معاشرہ کے نمائندوں و ارکان کا قصداً یا  ارادۃً باضابطہ ایسے اجتماعات و کلا سس میں شرکت کرنا جہاں نہ اللہ کا ذکر کیا جاتا ہو اور نہ ہی نبی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجا جاتا ہو تو ایسی مجالس و کلاسس میں شرکت پر بھی اللہ کی رحمتیں نازل نہیں ہوتیں۔ بالکل ایسے کھلے کفریہ کلاسس کل کے دن اللہ کے پاس حجت بن سکتے ہیں۔

حمد و ثنا ء، ذکر اللہ، درود و سلام کو صرف دینی مجالس و اجتماعات تک محدود کر کے اپنے ذاتی شوق و ذوق کے مطابق یوگا کی مشقوں میں انہماک کے ساتھ شرکت کرنا جس میں پورا ماحول کفر و شرک سے بھرا ہوا ہو اور بیکار بکواس اور معیوب ورد جاری ہوں اس کے جائز ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ بلکہ یہ شریعت اسلامی کے مطابق لغو اور باطل قرار پاتے ہیں۔

انبیاء، صدیقین، صالحین و شہداء نور ہدایت، برکت و رحمت، نعمت و مغفرت اور جنت کے لئے اللہ سے دعائیں مانگا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایما ن کو قرآن کے ذریعہ تواتر کے ساتھ مختلف انداز میں دعائیں سکھائیں۔

٭٭٭

 

5۔  سوریا پراناما

یوگا کے مشق میں سوریا پراناماSurya Pranayama  بہت اہم ہے۔ یوگی کے لئے ضروری ہے کہ مشق کی ابتداء یا اختتام پر مشرق کی جانب آنکھیں بندھ کر کے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر سورج کو پراناما (آداب و سلام) بجا لائے۔

یہ سورج کی پرستش کی ایک شکل ہے۔

بی کے ایس اینگر نے ویدوں کے حوالے سے اس کی تعریف میں لکھا ’’پراناما سے جسم اور عقل کی تمام ناپاک چیزیں خارج ہو جاتی ہے اور مقدس آگ کے شعلے انہیں توانائی اور رعنائی کے ساتھ پاک کر دیتے ہے۔ تب ایک شخص دھرانا Concentration اور دھیاناDhyana Meditation   کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے طویل مدت درکار ہوتی ہے۔

(صفحہ:۴۶۱:Light of yoga )

ہندو مذہب کے عقائد میں سوریا پوجا کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ زندگی کے بیشتر کام طلوع شمس کے رخ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں۔ہر روز سورج کی پوجا و پرستش کی جاتی ہے۔ تمام مندروں کے دروازے مشرق کی طرف کھلتے ہیں۔ سورج، چاند،ستارے اور زمین، بحر،پہاڑوں و دریاؤں کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔

تاریخ انسانی میں جن اقوام نے انبیاء و رسل کی لائی ہوئی نور ہدایت کا انکار کیا اور جہالت و گمراہی میں ڈوبے رہے ان میں کفر و شرک اپنی انتہاء کو تھا۔ وہ سورج کے علاوہ نظام شمسی میں پائے جانے والے تمام سیاروں اور ستاروں و کہکشاؤں کی بھی پرستش کیا کرتے تھے۔

نظام شمسی میں سورج کا حجم 99۔85% ہے اور باقی سیاروں کا صرف 0۔14%  فیصد ہے۔ زمین سے 149۔8 ملین کلو میٹر دوری پر 4۔5  بلین سال سے اپنی روشنی کی کرنیں بکھیر رہا ہے۔ 15۔4ملین ڈگری حرارت سے ذرے ذرے کو شمسی توانائی Solar Energy  مہیا کر رہی ہے۔

ہزاروں سال قبل ہندو مہاگروؤں میں مشہور ماہرین نجوم و فلکیات گذرے ہیں۔ عقل قدیمہ نے نظام شمسی کی کارکردگی کو دیکھ کر دھوکہ کھا یا اور اسے اپنا رب اکبر سمجھ بیٹھے ہیں۔ اور یہ ہندو عقیدہ کی بنیاد کا بڑا حصہ بن گیا۔

اللہ تعالیٰ نے تمام بد عقیدگیوں اور مشرکانہ و کافرانہ تصورات کی نفی کر کے ان کی حقیقت کو قرآن کریم میں تفصیل سے بیان فرمایا۔ قرآن اور سائنس کے نظام شمسی کے تصور میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ یہ سورج،مخلوق حیات، توانائی،قوت اور صحت کے ساتھ رات اور دن،مہینوں،سالوں کے حساب کے لئے ہیں۔ تمام جاندارسورج،چاند، ستارے اور سیارے مخلوق ہیں۔ سب اپنے خالق و رب العالمین کا حکم بجا لاتے ہیں۔

    قرآن میں فرمایا گیا:

وسخر لکم الیل والنہار والشمس والقمر والنجوم مسخرات بامرہ   O

’’اس نے تمہارے لئے رات و دن سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے اور اس کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘ (۱۶:نحل:۱۲)

سخر الشمس والقمر کل یجری الاجل مسمی   O

’’سورج و چاند کو مسخر کیا اور حکم کے مطابق کام میں لگا دیا۔‘‘   (۱۳:رعد:۲)

خالق الاصباح وجعل الیل سکنا والشمس والقمر حسبانا   O

’’وہی صبح کا نکالنے والا ہے اس نے رات کو آرام کے لئے اور سورج و چاند کو حساب کے لئے بنایا۔(۶:انعام:۹۶)

سابقہ اقوام اور ان کے رہبر بھی اکثر سورج کو اپنا رب اور خالق تصور کر لیتے تھے۔ جب نور ہدایت سے سرفراز ہوتے تو سورج کی حقیقت سامنے آ جاتی۔حضرت ابراہیم ؑ ابتدا میں جب توحید خالص کے مراحل طئے کر رہے تھے تو وہ ابتداء میں کنفیوژن کا شکار ہو گئے تھے۔

فلما رأی الشمس بازغۃ قال ھذا ربی اکبر   O

’’پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو کہا یہ میرا سب سے بڑا رب ہے۔‘‘ (۶:الانعام : ۷۸)

حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے شمس و قمر کی حقیقت عیاں کی۔ ظلمت و کفر اور تشکیک و ترددسے نکال کر نور ایمان کی ہدایت سے سرفراز فرمایا۔ انبیاء و رسول نے توحید کے راز انسانوں پر کھولے۔ جو ان پر کبھی نہیں کھلے تھے۔ وہ اقوام جن پر صدیوں سے شرک و جہل سایہ فگن تھا۔ جن کی کئی سابقہ گذری ہوئی نسلوں کو تاریکی نے گھیر رکھا تھا۔جن پر ایک طویل عرصے سے ایمان اور بھلائی کا پرتو بھی نہیں پڑا تھا۔ وہ وحدانیت کے علمبردار بن گئے اور ادیان عالم کے رہنماؤں کے استاد بن گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹے خداؤں کا انکار کیا اور بت پرستی و شرک و کفر پر کھلے عام ضرب کاری کی اورسرکشی کرنے والے باغیوں کے بیجا اعتراضوں کی مطلق پرواہ نہ کی اور نہ ان سے خائف ہوئے بلکہ ان کو انجام سے باخبر کیا۔ تاریخ انسانی میں حضرت ابراہیم ؑ  نے ایک ایسا توحید خالص کا انقلاب برپا کیاجس سے حق، ایمان اور خیر کی حامل ملت، ملت ابراہیمی تیار ہوئی۔قرآن نے کفر و باطل، جہل و ظلمت سے بھرپور اقوام کو اللہ کے ناپسندیدہ بندے قرار دیا۔

انی وجھت وجھی للذی فطر السموات والارض حنیفاً وما انا من المشرکین    O

’’میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘(۶:انعام:۷۹)

حضرت ابراہیم ؑ نے کافروں کو ایک مرتبہ چیلنج کرتے ہوئے کہا۔

قال ابراہیم فان اللہ یاتی الشمس من المشرق فان بھا من الغرب   O

’’ابراہیم نے کہا میرا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے۔ تو اس کو مغرب سے نکال دے۔‘‘(۲:بقرہ:۲۵۸)

سورج سے کسی بھی قسم کی عقیدت یا اس کی قوت، توانائی، حرارت اور حجم و کارکردگی کی بنیاد پر اس کی عظمت اور اس کی گہرائی و احترام کو دل و دماغ میں بٹھانے کو شرک قرار دیا گیا۔

ایک مومن کے ایمان کو ضائع ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ سورج و چاند اور جمادات و نباتات کا احترام دل میں پیدا کرے۔

 قرآن کریم نے واضح حکم کے ذریعہ کسی بھی چیز کے آگے سجدہ ریز ہونے کو حرام قرار دیا ہے۔

لاتسجدو والشمس والقمر و اسجدواللہ الذی خلقھن   O

’’تم نہ سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو، بلکہ اس اللہ کو سجدہ کروجس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘(۴۱:فصلت:۳۷)

اس آیت کی روشنی میں کسی بھی قسم کی سورج سے عقیدگی، سورج کا تصور اور سورج سے ذرہ برابر کی دلی وابستگی بندہ کو کافرو مشرک بنا دیتی ہے۔ سورج اور چاند کی جانب احتراماً جھکنا، رکوع کرنا یا سجدہ کرنا،نمسکار و سلام بجا لانا سب سخت ممنوع اور حرام ہے۔ سجدہ اور عبادت تو اللہ رب العالمین ہی کو کرنا چاہئیے۔ جس نے ان تمام چیزوں کو پیدا کیا۔

اللہ تعالیٰ کے ان احکامات کے مطابق سوریا پراناما Surya Pranayama  ناجائز اور حرام قرار پاتا ہے۔ اس کے جائز ہونے کی کوئی گنجائش ہمیں شریعت میں نہیں ملتی۔ یہ سو فیصد کافرانہ عمل ہے۔ اس کی حرمت مدلل اور مبین ہے۔ اسمیں تبدیلی اور آزادی کی کوئی راہ نہیں نکالی جاس کتی۔

میڈیکل سائنس اور یوگا

یوگا کے ماہرین جسمانی کسرت کے علاوہ اسے میڈیکل سائنسMedical Science  قرار دے کر کہنہ امراض کے علاج کا ادعاء بھی پیش کر رہے ہیں۔

ماہرین یوگا کا یہ دعویٰ ہے کہ امراض کا علاج یوگا کی جسمانی ورزش اور مشقوں میں ہے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ یوگی، بی کے یس اینگر IYENGER  .K.S B.  نے اپنی کتاب( (light of yoga میں 182 ایسے امراض کی طویل فہرست شامل کی ہے۔ جس کا علاج یوگا آسنا کے ذریعہ ممکن ہے۔

سیوا آنند آشرم گجرات کے مہا گرو سوامی سری اریاتھا نندا جی مہاراج نے جنوری 2009ء میں 3431 ویں یوگا کیمپ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ یوگا بے چینی، ڈپریشن، بے خوابی، منفی خیالات، ذیابطیس، کمر درد، دمہ اور پریشر وغیرہ کے لئے مفید ہے۔ لیکن دنیا کے بڑے بڑے با اختیار طبی تحقیقات کے اداروں وMedical Research Centres   سے اس بات کی توثیق ابھی نہیں ہونے پائی ہے کہ یوگا سے واقعی امراض کا علاج ممکن ہے یا نہیں ؟۔

 انڈین میڈیکل کونسل Medical Council of India  اور امریکہ و برطانیہ کے با اختیار میڈیکل کونسلوں نے بھی یوگا کے ذریعہ امراض کے علاج کی تصدیق نہیں کی ہے۔

ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ یوگا میں بہت سے آسن ایسے ہیں جو علاج کے بجائے مریض کی صحت کے لئے سخت نقصان دہ ہیں اور جوں جوں یوگا کرتے جائیں گے مرض میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یوگا سے چند مریضوں کو بعض امراض کے علاج میں ہوسکتا ہے کہ فائدہ ہوا ہو۔ لیکن بحیثیت ایک مکمل سائنسی طریقہ علاج کے کوئی ادنیٰ ڈاکٹر بھی قبول نہیں کرسکتا کہ ’’یوگا امراض کے علاج کے لئے مؤثر ذریعہ ہے۔‘‘

ہمارے ضعیف بیمار مریض میڈیا میں پرکشش اشتہارات دیکھ کر اور یوگا کیندروں و پروگرامس ولکچرس سے متاثر ہو کر یوگا کلاسس کو جائن کر رہے ہیں۔ یوگا کلاسس میں تربیت حاصل کرنے کا ہر عمر کے لوگوں میں آئے دن شوق بڑھ رہا ہے۔ یہ تمام دعوے کھوکھلے، بے بنیاد اور بد عقیدگی پر مبنی ہیں۔ فیشن اور ٹرینڈ ایک متعدی مرض کی طرح ہوتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعہ جب شہرت پا جاتے ہیں تو کوئی پھر پلٹ کر دیکھنا گوارہ نہیں کرتا کہ اس کا دعویٰ کرنے والے لوگ کون ہیں اوراس کی حقیقت کیا ہے۔؟

٭٭٭

 

6۔ تشبہ بالکفار

اسلا م نے کفار کے مخصوص طرز زندگی، نہج اور طور طریقے کی تقلید کرنے کی سختی سے ممانعت کی ہے۔تقلید کفر چاہے وہ کلی ہو یا جزوی تشبہ بالکفار میں شامل ہے۔

یوگا کی مشق کرتے وقت اگر بھگوت گیتا کے پاٹ نہ پڑھے  جا رہے ہوں تو یقیناً فوری ایمان و عقیدہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن یوگا میں کفار کے مخصوص مذہبی طریقہ العاب Games اور یوگا کے گیرو رنگ کے لباس، سر پر جٹو اور دوران یوگا پراکٹس کرتے وقت دونوں ہاتھ جوڑ کر پرنام و نمستے کرنا اور رشیوں کی طرح آنکھیں بند کر کے دھیانا یا مراقبہ کرنا رشیوں و یوگیوں سے تربیت پانا تشبہ بالکفار میں شامل ہے۔اس طرح ہندومت کے کسی بھی جز یا کل کی تقلید تشبہ بالکفار میں شامل ہو گی۔ چاہے وہ کتنی ہی مفید اور منفعت بخش کیوں نہ ہو۔

چونکہ یوگا دوسرے مذاہب جیسے عیسائیت، یہودیت، سکھ مت کے ماننے والے نہیں کرتے۔ ان کی مذہبی کتابوں اور معاشرہ کا یہ حصہ نہیں ہے۔   یوگا ہندو مت کی مقدس کتاب بھگوت گیتا کی خاص تعلیم کے تحت  ایک ذہنی، جسمانی ورزش و روحانی پراکٹس ہے۔  یہ جسمانی ورزش کا طریقہ کار سکیولر نہیں ہے۔ بلکہ ہندو مذہب کا ایک اہم حصہ ہے۔ اسی لئے اس کے سکیولر ہونے کا احتمال باقی نہیں رہتا۔اگر یوگا کو صرف غیر ممنوع قرار دے دیا جائے تو کفر،معصیت و ذنوب کے باب الداخلے کھل جائیں گے اور اس کا بند کرنا مشکل ہو جائے گا۔اسی لئے یہ مکمل ناجائز کے درجے میں شامل ہے۔

نبی کریم ﷺ نے تین باتوں سے منع فرمایا ہے۔ ایک تشبہ بالکفار، دوسرے مردوں کا تشبہ بالنساء،  تیسرے عورتوں کا تشبہ بالرجال۔

        ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ  نے’’ ایک دفعہ ایک عورت کو دیکھا جس کی چادر میں صلیب کے نقش و نگار بنے

       تھے۔ دیکھنے کے ساتھ ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو آنحضرت ﷺ ایسے کپڑوں کو دیکھتے تو پھاڑ ڈالتے۔‘‘(مسند احمد)

کفار کے طور طریقے، نہج اور رسم و رواج، مامولات، مخصوص مذہبی اسٹائل و انداز کی تقلید کرنا اور اس کی کفر سے بھری اصلی نوعیت کو بغیر تحلیل و زائل کئے کہ ایک یا کئی باتوں کی پیروی کرنا تشبہ بالکفار ہے۔

یوگیوں کے لباس کے رنگ، روپ اور طریقہ کار پر ہر کسی کو اعتراض کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ یہ ان کے اپنے مذہب کا اندرونی معاملہ ہے۔ لیکن  مسلمان جو محض یوگا جیسی جسمانی ورزش Physical Excercise   کی خاطر اس کی نقل و تقلید کرتے ہیں۔ ان پر تنقید کرنے، گرفت کرنے اور روک لگانے اور ان کی اصلاح کرنے کا پورا پورا استحقاق مسلم سوسائٹی کے مصلحین، مبلغین کو حاصل ہے کیونکہ یوگا کی مخصوص طرح کی جسمانی ورزش تشبہ بالکفار میں شامل ہے۔

کفار و مشرکین کے عقائد و افکار، عبادات،عادات و اطوار، تہذیب و تمدن اور رہن سہن کی نقل اور تقلید کی جائے تو یہ تشبہ بالکفار کہلائے گا۔ایک مثال سے یوگا کی ممانعت اور عدم ممانعت کی بحث کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔

شریعت اسلامی اہل کتاب کی عورت سے نکاح کو جائز قرار دیتی ہے۔ اس اجازت کے تحت ایک شخص کتابیہ سے نکاح کرتا ہے اور خاندان کے تشکیل پا جانے کے بعد یہ اہلیہ گھر کے بڑے اور بچوں کے سامنے دستر پر ہر روز خنزیر کا گوشت اور حرام مشروبات رکھتی ہے اور شوہر مسلمان ہوتے ہوئے دوران طعام دسترپر ان محرمات کو رکھنے سے منع نہیں کرتا۔ معصوم مسلم بچے اگر بچپن ہی سے ان اشیاء کو دیکھتے رہیں تو پھر ان کے اندر حلال و حرام چیزوں کی تمیز،ان  سے دوری، اجتناب اور نفرت کا جذبہ ختم ہو جائے گا۔یہ برادر اسلام اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ میں اور میرے بچے شراب تو نہیں پیتے اور نہ خنزیر کا گوشت تناول کرتے ہیں۔ لہذا ہر گناہ سے پاک ہیں۔ لیکن جب اس مسئلہ کو کسی اہل علم اور فقہی کے پاس رجوع کیا جائے گا تو وہ نبی کریمﷺ ؑ کی یہ حدیث پیش کرے گا۔ جس میں آپؑ نے ’’اس دسترخوان پر کھانا کھانے سے منع فرمایا جس پر شراب پی جا رہی ہو۔‘‘      (مسند احمد جلد۱/۲۱۰/ ۲۱۵)

اس حدیث نبوی ؑسے شریعت اسلامی کا راست حکم سامنے آ جائے گا اور اس شخص کے لئے لازم ہو جائے گا کہ وہ کتابیہ زوجہ کی فوری اصلاح کرے۔اور دسترخوان سے شراب کو برخواست کر دے۔ حدیث سننے کے بعد اصلاح کی جانب توجہ نہ دی گئی تو بندہ مومن گناہگار ہو گا۔کسی معاملے میں بغیر علم کے خوش فہمی میں رہنے سے جرم و گناہ ساقط نہیں ہوتا۔

 اسطرح اگر کوئی شخص بحیثیت مسلم شوہر اور گھر کے سربراہ کے اپنے اندر اتنی قوت و صلاحیت نہیں رکھتا ہے کہ وہ خود اپنے اہل خاندان کو حرام سے بچا لے۔اہل کتاب عورت سے نکاح کی اجازت کا غلط مفہوم اخذ کرنا اور اس کا استحصال کرنا قابل گرفت ہے۔ شریعت اسلامی میں ایک حلال کے لئے کئی حرام و غیر مرغوب کاموں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ گھر کے رہن سہن اور تہذیب مسلم میں اہل کتاب، مشرکین و کفار کے طرز زندگی اور تہذیب سے خلط ملط نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی تشبہ بالکفار کا حصہ ہے۔فقہا اور اسلامی دانشور یہ مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں کہ ایک شئے کی عدم ممانعت و حلت سے کتنے حرمت اور ناجائز باتوں کے دروازے کھل جانے کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں اور آگے چل کر یہ چھوٹی بدی و برائی کتنی بدیوں اور منکرات کو پروان چڑھانے کا سبب بن سکتی ہے۔

ایک صحیح العقیدہ مومن کو مولانا صاحب اپنی لا علمی کی وجہ سے اس شرط کے ساتھ یوگا کی ورزش کی اجازت عنایت کر دیتے ہیں کہ یوگا کی ورزش میں ہری اوم کے بجائے اللہ کا ذکر اور سبحان اللہ و الحمد اللہ کا ورد کریں تو وہ جائز ہو جائے گا۔ مولانا صاحب کی اس اجازت سے شریف، پابند صوم و صلوٰۃ مسلم نوجوان اور خواتین میں یوگا سے دلچسپی بڑھ جائے گی اور اگرمسلمانوں میں بڑے پیمانے پراس کی رغبت پیدا ہو جائے اور وہ یوگا کی جماعتوں کے ماحول سے متاثر ہو کر یوگیوں کو دئیے جانے والے گیتا و ویدوں کے درس میں پابندی سے شامل ہونے لگیں تو آج نہیں تو کل نوخیز نسل کے صاف ستھرے ذہنوں پر مشرکانہ تعلیمات کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسلامی تعلیمات سے ناواقف بیشمار نوجوانو ں کے قلب کی گہرائیوں اور دماغ کے گوشوں سے ایمان نکل جائے گا اور ان پر کفر کی تعلیمات کا گہرا اثر پڑھے گا۔ اسطرح یوگیوں و رشیوں کے کافرانہ و مشرکانہ واعظ و نصیحت نوجوانوں کو راہ حق اور صراط مستقیم سے مزید گمراہ کر سکتی ہے اور جس سے ایمان کی عظیم نعمت چھن جانے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

ایک مومن کفر کی باریکیوں کو سمجھنے میں غلطی کر کے چند فائدوں کی خاطر قلب و ذہن کو بند کر کے دھوکہ کھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ایسی نازک صورت حال میں اہل ایمان کو وارننگ دی ہے۔

لو تکفرون کما کفروافتکونون سواء    O

’’اگر تم کفر کرو گے جیسے انھوں نے کیا تو تم بھی ہو جاؤ گے ان جیسے۔؟‘‘ (۴: النساء : ۸۹)

بعض اہل علم حضرات اس بات پر ایک بحث کرسکتے ہیں کہ قیاس Analogy  کی بنیاد پر کہ مستقبل میں، کفر و شرک کے دریچے کھلنے کے ڈر سے یوگا جیسی ورزش پر ہرگز پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ہے۔ ان حضرات کو اس بحث میں حصہ لینے سے پہلے اچھی طرح معلوم ہو جانا چاہئیے کہ کفر خفی اور اس کے اجزاء کی موجودگی کی ہندو مذہبی کتابوں سے کھلی دلیل کے بعد مزید نص صریح کی تلاش بے سود ثابت ہو گی۔

مائکروگرام کا جو تخم بویا جائے گا اس کے پودے اگیں گے اور درخت، پیڑ، شاخ اور پتے تیار ہوں گے اوراسی کے پھول اور پھل کی فصل بھی تیار ہو گی اسی طرح کفر کی تخم ریزی سے خیر کی فصل اگ نہیں سکتی، شرک کے جراثیم germs سے نیکی اور ثواب کے کام پنپ نہیں سکتے۔

 جس طرح باطل تہذیب و تمدن کے گارے سے اسلامی تہذیب و تمدن کی پر شکوہ عمارت تعمیر ہو نہیں سکتی۔ ٹھیک اسی طرح کفر کی کوکھ سے جنم لینے والا یوگا، مسلم یوگیوں کو رشد و ہدایت، نیکی و تقویٰ کی اور صراط مستقیم کی پرنور شاہراہ پر زیادہ عرصے تک گامزن رہنے نہیں دے گا۔

جو جس کی صحبت، معیت میں رہے گا اس کا معاملہ اور انجام بھی اسی کی طرح ہو گا۔ نبی کریم کی دو احادیث اسی ضمن میں ہے۔

      نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

المرء مع من احب

’’وہ اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔‘‘

ایک اور حدیث میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:

انت مع من احببت

’’تو اس کے ساتھ ہے۔ جس سے تو محبت کرتا ہے۔‘‘

 نوجوان اگر مدرسین کفر کے ساتھ پابندی سے اپنا قیمتی وقت گذاریں گے تو ان کی معیت اور صحبت میں شرک کا رنگ چڑھنا اور ان سے محبت ہونا ایک عام انسان کا فطری عمل ہے۔

قرآن کریم نے حرام کاموں کے تدارک کے لئے ابتدائی مراحل میں ہی بندش کی اور ڈانٹ کے ذریعہ پابندی عائد کی۔

کفر و شرک، حق و باطل ایمان کے درمیان حد فاصل اور اہل ایمان کو بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز میں تحذیر اور انذار کے ساتھ مخاطب فرمایا:

ولا تقربوا،  ’قریب مت پھٹکو،   وجتنبوا ’اور اجتناب کرو، جو دعوت اور ترغیب اللہ نے اپنے پسندیدہ بندوں کو دی۔ فرمایا:

  الم بان الذین امنوا  ’’کیا ایمان والوں کے لئے ابھی وقت نہیں آیا۔‘‘    ففروا الی اللہ    ’’دوڑو اللہ کی طرف‘‘   وسارعوا الی مغفرۃ من ربک ’’دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف‘‘     ان ھذہ صراطی المستقیما فاتبعوہ ’’ یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس اسی کی اتباع کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے دعوت، ترغیب، ترہیب،تنبیہ اور نداء کا ولولہ انگیز مشفقانہ انداز اختیار کیا۔لہو و لعب کی چھوٹی بڑی، لغو طاغوتی حرام بے فیض باتوں کا خاتمہ کرنے کا دو ٹوک فیصلہ کن طریقے پر حکم دیا اور رجوع الی اللہ، توبہ و اصلاح،تقویٰ اور مغفرت کی طرف بلا تاخیر و توقف کے لپکنے، دوڑنے اور کھڑے ہو جانے کی ترغیب دی۔

اسلام کے علمبرداروں کو چاہئے کہ خیر و شر کے تمام مراحل اور مراتب کو پوری سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔

  کفار و منافقین کی اتباع کی ممانعت

اللہ تعالیٰ نبی اکرم کو حکم فرمایا کہ کافروں اور منافقوں کی اتباع و تقلید نہ کرو۔

یایھا النبی اتق اللہ ولا تعطع الکافرین والمنٰفقین

’’اے نبی اللہ سے ڈرتے رہو اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانو۔‘‘ (احزاب:آیت:۱)

واتبع ما یوحیٰ الیک من ربک

’’اور آپ کو جو آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اس کی پیروی کرو۔‘‘ (۷:الاعراف:۲۰۳)

چاہے عہد نبوی کے کافر و منافقین ہوں یا موجودہ و آئندہ دور کے ہوں۔ سب کا حکم قطعی اور ثابت ہے۔ سیاسی معاشی صورتحال، اکثریت و اقلیت کی بناء پر یہ حکم ممکن الزول  subject to change  کے زمرے میں شامل نہیں۔

دوسری آیت میں حکم کی مزید وضاحت کر دی گئی کہ اتباع صرف اس حکم کی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جاتی ہے۔

٭٭٭

 

 7۔ تاریخ سے سبق حاصل کریں

اسلام نے حصول علوم اور سائنسی تحقیقات و ایجادات سے کبھی نہیں روکا۔ جس چیز سے فائدہ ہے اور جو انسانی زندگی کی بقاء، تحفظ و ترقی میں مدد دیتی ہے وہ مباح و جائز ہے۔لیکن مسلمانوں کی ایسی باتیں جو عقائد اور احکامات و فرائض سے ٹکراتی ہیں اسے یکسر رد کرتا ہے اور وہ ناقابل قبول ہیں۔

مسلمانوں کا سب سے روشن پہلو وہ تحقیقات اور تجارب کا میدان ہے جسکا دائرہ بہت وسیع ہے اور مسلمانوں نے اس میں اپنی کافی خدمات دی ہیں۔ چونکہ یوگا سائنسی علوم میں شامل نہیں ہے اسی لئے اس موضوع پر انھوں نے اپنا وقت برباد نہیں کیا۔

مسلمانوں نے دوسری و تیسری صدی ہجری میں مختلف علوم جیسے ریاضیات، کیمسٹری،  علوم طب، ادویات اور علوم الہیت پر تحقیقاتی کام کئے اس کے بعد نئے انکشافات اور ایجادات کا کئی صدیوں تک سلسلہ جاری رہا۔ ہندو یونان کے ماہرین علوم نے اس سے کھل کر استفادہ کیا۔

خلیفہ ابو جعفر منصور(136-158ھ)  اور ہارون رشید(160-193ھ) کے دور میں ہندوستان کے قدیم سائنسدانوں اور ماہرین علوم کو بڑی عزت بخشی گئی اور طب ایورویدک و Dhanwanthari اور علوم نجوم Astrology اور علم فلکیات کے سنسکرت اسنادات و تحقیقات و کتب کا بڑے پیمانے پر عربی میں ترجمے کروائے گئے اور بغداد و دمشق و بلاد اسلامیہ نے لباریٹریز (دار التجزیہ) کے قیام کے علاوہ ہندوستانیوں سے سائنس اور دیگر علوم کے سلسلہ میں تعاون حاصل کیا۔ عرب اسکالرس نے بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے ہندو مذہبی عقائد اور تعلیمات سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ کسی قسم کی آمیزش کی اجازت نہیں دی۔ لیکن بعد میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا دور شروع ہوا اور طویل عہد حکومت کے دور ان ہندو مذہبی روایات و رسومات جاہل مسلمانوں کے درمیان جاگزیں ہو گئے۔

جب ہندوستان میں اسلام کی دعوت پھیلنے لگی اور محمد بن قاسم نے ہندوستان کو فتح کیا تو مسلمان حکمرانوں نے سائنسی و تحقیقاتی علوم و فنون کی سرپرستی کی۔ مسلمان8 سو سال سے زیادہ عرصہ تک ہندوستان میں اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی کامیاب حکومت کرتے رہے۔لیکن مختلف مسلم بادشاہوں کے دور میں سیاست، معیشت، تعلیم کے میدان میں مسلم دانشوروں اور اہل علم کو مقامی ہندو اکثریت پر انحصار کرنا پڑتا تھا اور وہ سنسکرت پنڈتوں اور ماہرین علم سے استفادہ حاصل کرتے تھے۔

مغلیہ سلطنت کے زوال کے دور میں ملک میں بڑی افراتفری اور بدامنی پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔ہندو مسلم اہل علم اور مذہبی پیشواؤں و دانشوروں کا آپس میں ربط و تعلق مضبوط ہو چکا تھا۔ اکبر بادشاہ نے ہندومت اور اسلام و دیگر مذاہب ملا کر ایک نیا مذہب ’’دین الٰہی‘‘  بنایا۔ اور درباری، شاہی کے اماموں اور پنڈتوں نے مل کر اسلامی مذہبی تعلیمات کی بنیادوں کو ڈھانے کی کوشش کی اور کئی کافرانہ رسم و رواج کو حکومت کی سر پرستی میں مسلمانوں کے درمیان پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت کے علمائے حق اور بزرگان دین نے دعوتی، اصلاحی کوششوں میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔

اہل اللہ اور مولوی سحر، جادو، آسیب، بھوت پریت، جنات کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے اور عامۃ الناس کے مصائب کے حل اور آفتوں کو دور کرنے کے لئے ذکر و دعاء کیا کرتے تھے۔ اس وقت کے بعض مولویوں کے ذہن میں یہ بات ذہن نشین کروا دی گئی کہ پرانے ڈھب پر صرف قرآنی آیت اور ذکر و دعاؤں سے عوام کے باطنی امراض و مصائب کا حل فوری حاصل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ سنسکرت کے اشلوکوں، ہندوؤں کے مقدس رسم و رواج اور طور طریقوں اور شرک و پوجا پاٹ کے ذریعہ امراض و مصائب کا حل ممکن ہے۔

اس زمانے میں مسلمانوں میں ایک شخص اسماعیل تھا۔ جس نے آچاریوں، رشی، سادھوں سے جادو، بھانامتی اور ہندو عملیات کی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ وہ اسے سیکھ کر باطل شیطانی کافرانہ  سفلی عملیات کا ماہر ہو گیا اور اشلوکوں کو قرآنی آیات اور اذکار کے ساتھ خلط ملط کر کے سفلی عملیات کا ایک نیا مستقل علم تیار کیا۔ ہندو تیوہاروں جیسے دیوالی، ناگ پنچھی اور دسہرہ کے موقع پر مورتی پوجا کے ساتھ ساتھ مخصوص اوقات میں عملیات کرنے کا ایک مفصل طریقہ ایجاد کیا۔ اس کے عملیات کی شہرت ہونے سے وہ اسماعیل جوگی ہو گیا۔ جس کی وجہ سے کئی نئے مولویوں میں اس کا ذوق بڑھنے لگا۔ اس طرح توحید اور کفر کی آمیزش کے ذریعہ سفلی عملیات کا سلسلہ ملت اسلامیہ ہند میں چل پڑا۔ ان علوم،اور جنتر منتر کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا واقعی مسلمان ان کافرانہ باتوں کو ماننے لگا اور ا ن پر عقیدہ رکھتا ہے؟۔

ورد کئے جانے والے کلام پر غور فرمائیں

  انسخات للہ کی ڈھال ہوئی سی عطا  الم تر کیف فعل ربک تحشیر نی لگا

  لا یلاف قریش کٹارسان لگا  قل ھو اللہ احد کا نیزہ دست میں پڑا

  داؤں متندر شاہ شرف کو بانھ لا  جسرتھ گو روگورکھ ناتھ بوعلی کافرا

  کفاک جہل کاف پکڑ رام کو بلا  سیتا کو لاؤپکڑ رام کے سوا

   جوگی اسماعیل رام چندر کو قید کر دیا   دھنت بھیم سین غیر ماہو کو پکڑا

رضا کو کہو، الحمد للہ، رب العالمین، آمین آمین

(عامل کامل/ صفحہ۱۳۳)

اس طرح کے سینکڑوں سفلی جنتر منتر ہیں۔ کفر سے بھرے ان منتروں اور سفلی عملیات کی کتابیں بازاروں میں کھلے عام آج بھی فروخت ہوتی ہیں۔ گمراہ عامل نہ صرف عملیات کرتے ہیں بلکہ اپنے معتقدین کو ہندوؤں کے مخصوص تیوہاروں کے موقعوں پر مندر میں جا کر پوجا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دیوالی اور ناگ پنچھی،پونم،اماوس کے موقعوں پر بعض جاہل مسلم خواتین کی بڑی تعداد مندروں کے قریب نظر آتی ہے۔ نام نہاد مسلم عامل سفلی عملیات کے لئے چھپا کر چھوٹی چھوٹی مورتیاں اپنے گھروں اور کاروباری مقامات پر رکھتے ہیں اور اپنے مریدوں کو خفیہ طور پر مورتی پوجا کا حکم دیتے ہیں۔

کیا سحر، جادو، بھوت پریت، شیطان کے باطنی امراض و اثرات کا علاج کفر و شرک و سفلی عمل کے ذریعہ کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا پھر دین خالص اور ایمان باللہ پر یقین کامل، اللہ پر توکل، مصائب پر صبر زیادہ اہم ہے۔ ایمانیات کی بنیادوں کو ڈھا کر محض اپنے اور دوسروں کے مصائب کے علاج کے لئے کفر و شرک اختیار کرنا سراسر گمراہی اور طاغوت و باطل ہے۔ ایسے بدترین افراد کے خارج اسلام ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔

یوگا کا معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح سے ہے محض صحت و تندرستی کی خاطر ایک ایسا عمل اور طریقہ کار استعمال کرنا جس کی جڑیں کفر سے ملتی ہیں۔ صرف نیک نیتی کی بنیاد پر ناجائز کو جائز اور ممنوعات و منھیات کو مباح قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

مسلم جوگیوں اور مسلم یوگیوں میں گٹھ جوڑ ہو جائے تو پھر بڑے پیمانے پر غلو و گمراہی کا ایک نئے دور کا آغاز ہو گا اور مسلمانوں میں جوگیوں اور یوگیوں کا علیحدہ طبقہ جنم لے گا۔ جو آنے والی نسلوں کے لئے درد سر بن سکتا ہے۔ یوگا کے تعقدی خباثتوں کے متعلق شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

یوگا کو جائز قرار دینے والوں کو یہ غور کرنا چاہئے۔ یوگا واضح و صریح کفر کے راستہ  پر پہلا قدم ہے۔ جلد یا دیر سے یوگا کا یہ راستہ کفر کی سمت جاتا ہے اور  پھر لوگ جب اس راستہ پر دور تک نکل جائیں گے تو ایمان اور اصلاح اور توبہ کے تمام راستے ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے۔اوراس وقت نہ کوئی داعی، عالم اور مصلح کی بات اثر کرے گی اور نہ خود کا ضمیر ملامت کرے گا۔ قلب و ذہن پر کفر کے دبیز پردے پڑ جائیں گے۔

           ایک شخص جب اپنے مشکلات اور تکالیف اور آفتوں کو دور کرنے اور نعمتوں کو پانے کے لئے عاملوں سے رجوع ہوتا ہے تو اکثر عامل حاجت مند کو کثرت سے ایک ہفتہ کی مدت تک کے یا وہاب کا ذکر و رود کرنے کو کہتے ہیں۔اس کے بعد اپنی منتوں کی تکمیل کے لئے مریدوں سے ایک دعوت کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ جو دعوت اسم وہاب کہلاتی ہے۔

دعوت اسم وہاب کے عنوان کے تحت لکھا ہے!

    ’’جس روز دعوت کرنا ہو علی الصبح جنگل کو چلا جائے۔ اس کو جنگل میں سکشا ملے گا۔     اس سے کہہ دے آج شام کو بعد نماز مغرب ہمارے ہاں آپ کی دعوت ہے۔ آپ تشریف لائیں۔ پھر پلٹ کر اس کی طرف نہ دیکھے۔ چلا آئے، کھانا اس اندازسے پکایا جائے کہ بعد مغرب تیار ہو جائے۔ایک فرش پر چاروں آدمی بٹھا دیں اور کتے کا انتظار کریں۔ انشاء اللہ وہ ضرور آئے گا۔ نمازی جہاں بیٹھیں اس جگہ رکابی میں موافق حصہ رسد کھانا علیٰحدہ کر دیں۔ جس وقت کتا کھانا کھا کر چلا جائے اس     کے ایسے اسباب پیدا ہوں گے کہ عامل اپنے مقصد کو پہنچے گا۔۔۔‘‘(عامل کامل صفحہ:۱۱۵)

نبی کریمؑ نے کتے کو نجس قرار دیا اور یہ فرمایا کہ جہاں کتا ہوتا ہے وہاں فرشتے نہیں آتے۔ اب رسم وہاب کے وظیفہ کے ساتھ کتے کی دعوت کا اہتمام سوائے جہالت اور گمراہی و ضلالت کے کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ نعوذ باللہ کیا مسلمان اتنی حد تک گر چکا ہے کہ اپنے مصائب و مشکلات کے حل کے لئے اللہ کے ساتھ کتے کو بھی بھی شامل کر لے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ:

’’جس گھر میں اور جس قافلہ میں گھنٹہ بجتا ہے اور کتا رہتا ہے وہاں فرشتے نہیں آتے۔‘‘ (مسند احمد)

آپسی مسلکی اختلاف سے زیادہ سنگین معاملہ فرقوں کی ضلالتوں کا ہے۔ ہمارے پاس جتنے بھی گمراہ فرقے پیدا ہوئے۔ان میں اکثر نے قرآنی سورتوں کی مدد لی اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے جیسا چاہا معنی و مطالب کو توڑا موڑا اور کسی سے بھی منسلک کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ قرآنی آیات کے ساتھ جنتر منتر اور اشلوکوں کو ملا کر ورد کرنے اور اپنے مریدوں کو اس کی تلقین کر نے کا کیا جواز ہے۔ اس بدترین گمراہی نے سفلی عمل کرنے والے عاملوں کے ایک نئے گرو ہ کی تخلیق کی۔

کفر کے دساتیر سے مشرکانہ،ملحدانہ طور طریقوں کو شریعت اسلامی میں داخل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے سرزمین ہند زندگی کے کئی حصوں کو کفر و شرک اور باطل سے خلط ملط کر دیا۔

اگر زہر کو آہستہ آہستہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں ہی کیوں نہ لیتے رہیں وہ اپنا مہلک اثر ضرور دکھائے گا اور جسم میں خاموشی سے سرایت کرتے ہوئے موت کے منہ میں ڈھکیل دے گا۔

یہی معاملہ ایمان و کفر کا ہے۔ لاعلمی اور انجانے میں ایک اہل ایمان اگر کفر کی چند یا بعض باتوں کو قبول کرتے کرتے رد کفر کے جذبہ کو کھو بیٹھے اور ایمان و کفر کے فرق کو اپنی فکر و نظر سے اوجھل کر دے تو پھر ایمان پر کفر پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے اوراس سے مسلمان کو ہر کافرانہ دعوت و عمل جاذب نظر آنے لگتی ہے۔

یوگا کی وکالت کرنے والے حضرات کی ہوسکتا ہے کہ آج نیت بہت اچھی ہے۔ لیکن اگر اس کا شوق بڑھنے لگا اور نوجوان نسل میں یہ رجحان وسعت اختیار کر لے گا تو اسلام اور ملت اسلامیہ میں ایک نئی گمراہی کی آمد کو کوئی نہیں روک سکتا۔ بے شمار فاسدنظریات، بدعات اور لغو ابلیسی کاموں کو ملت اسلامیہ میں دین کے نام پر داخل کر دیا گیا ہے۔ جس سے وحدانیت اور اسلام کی دو ٹوک روشن صاف ستھری شاہراہ میں رخنے پڑھنے لگے ہیں۔

ایک مسلمان کثرت اور جسمانی ورزش کے عنوان پر اگر یوگا کر رہا ہے تو وہ آگے چل کر یوگیوں کی تعلیمات میں دلچسپی لینا بھی شروع کر دے گا اور یوگا کوسری کرشنا کی تعلیمات کے مطابق روحانیت کے حصول کا ذریعہ بھی تصور کرنے لگے گا۔ اس طرح کفر و شرک اور شیطان ایک مومن کو اپنے گرفت میں جکڑ لے گا اور ہوسکتا ہے کہ یوگا کرنے والے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

’’ہمارے مشاہدے میں کئی افسوسناک واقعات آئے ہیں  جن کمزور ایمان اور عقل والوں نے یوگا کیندروں کا رخ کیا۔ اور مہایوگیوں کی تعلیمات سے متاثر ہو کر انھوں نے ایمان کھو دیا اور بعض تو ہندو ہو گئے اور بعض اپنی شکل و صورت اور لبادہ سادھوں جیسا بنا لیا۔ یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ وسعت اختیار کر رہا ہے۔‘‘

تاریخ گواہ ہے گذشتہ صدیوں میں ایسا کئی مرتبہ ہوتا رہا اور ملت کے لئے ہمیشہ ایک نیا اعتقادی مسئلہ کھڑا ہوتا رہا۔کیا کوئی ادنی درجہ کا مسلمان بھی کفر و شرک اور شیطانی کلمات سے بھر پو ران باتوں پر عقیدہ رکھ سکتا ہے۔؟

ملت اسلامیہ کو اس کا شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اس طرح کے عقیدہ و تہذیبی بگاڑ کی اصلاح کے لئے کئی نسلوں تک کوششیں کرنا پڑھتا ہے۔

٭٭٭

 

8 ۔اسلام کا کوئی رنگ نہیں !

 ہر قوم و ملک کے ٹیم کے اپنے پسندیدہ رنگ و Coloursہو تے ہیں۔ کارپوریٹ کمپنیوں اور کھیل کی ٹیموں کا اپنا مخصوص ڈریس اور کلر ہوتا ہے۔ جس سے کھلاڑی اور ٹیم کی پہچان ہوتی ہے۔ بعض کھیلوں میں کلر مختص نہیں۔ پیشہ کے اعتبار سے ساری دنیا میں ایک مخصوص ڈریس کوڈ ہو تا ہے۔ اس میں کوئی قباحت و اعتراض کی بات نہیں ہے۔ لیکن اگر مخصوص رنگوں کا استعمال کسی اعتقاد اور توہم پرستی اور مذہبی لزوم کی بناء پر ہوتا ہے تو ایسے رنگوں کے لباس اور اشیاء کے استعمال پر شریعت اسلامی پابندی عائد کرتی ہے۔

یوگا جیسی جسمانی ورزش کے لئے بھی ایک مخصوص رنگ کا ڈریس استعمال ہوتا ہے۔ ٹرینرس، گرو اور مہاراج و زیر تربیت و پراکٹس کرنے والے بھی زعفرانی رنگ کا لباس استعمال کرتے ہیں۔

گیرو و زعفرانی، زرد اور گلال رنگ ہندو مذہب میں متبرک اور قابل تقدیس مانا جاتا ہے۔ دیوی دیوتاؤں، آشرموں، مندروں، مٹوں میں اور عید بارات، تقاریب، تیوہاروں اور شادی بیاہ و موت کے وقت بھی ان ہی رنگوں کا مختلف انداز میں استعمال ہوتا ہے۔ اسلئے یوگا کا گیرو رنگ کا ڈریس بھی ہندو عقیدہ کے مطابق بابرکت اور قابل تقدیس ہے۔ سنتوں، آچاریوں، پجاریوں کے لباس بھی گیرو رنگ کے ہوتے ہیں۔اگر گیرو رنگ کو تمام یا چند مذاہب والے عام طور پر بغیر کسی عقیدہ و تعلق اور مذہب کے استعمال کرتے ہیں تو پھر اس کے استعمال کی کھلی اجازت ہو گی۔ جیسے سفید رنگ اکثر مذاہب کے ماننے والوں کے لئے پسندیدہ ہے۔لیکن جب اس بات کی دلیل مل جائے کہ ہندو مذہب اور ہندو معاشرہ میں گیرو و زرد رنگ کا بطور عقیدہ اور تقدیس استعمال  ہو تا ہے تو پھر یہ رنگ و روپ تشبہ بالکفار میں شامل ہو گا۔

ابتداء میں یوگا کے مبلغین نے یوگا کے ڈریس کے گیرو رنگ کی قید یورپ، امریکہ اور بعض مسلم ممالک میں نہیں رکھی۔ لیکن ان ممالک میں مسلسل  اس بات کی کوشش کی جاتی رہی کہ لوگوں میں یوگا کا اتنا شوق پیدا کر دیا جائے کہ وہ دیوانہ وار یوگاسے منسلک ہر چیز کو بآسانی قبول کر لیں۔اسی لئے کمزور عقیدہ رکھنے والے مسلم یوگی بڑے اہتمام سے ہندو یوگیوں ہی کی طرح گیرو رنگ کا یوگا کا ڈریس زیب تن کرتے ہیں۔

جبکہ اسلام میں کوئی مخصوص رنگ نہیں رکھا گیا ہے۔ نبی کریم ؑ اور سلف صالحین کو سفید رنگ بہت پسند تھا۔ سیاہ اور سبز رنگ بھی کبھی کبھی لباس کے کچھ حصوں میں نظرآتا تھا اور یہ معاملہ ذاتی پسند کا ہوا کرتا تھا۔

قرآن کریم نے رنگوں کو اسلام سے نہیں جوڑا ہے۔ ۵مختلف سورتوں میں رنگ کے متعلق جو ذکر آیا ہے۔ وہ اللہ کی پیدا کردہ چیزوں کے نباتات، جمادات، حیوانات اور انسانوں کے رنگوں کے متعلق ہے۔ قصص القرآن میں موسیٰ ؑ اور ان کی قوم کے مباحثے کا ذکر آیا ہے۔ جس میں قوم موسیٰ ؑ نے مطالبہ کیا کہ بیل زرد رنگ کا اور خوش نما ہو۔

دین اللہ کا نہ کوئی رنگ ہے اور نہ مخصوص شیڈ ہے۔

     اللہ تعالیٰ نے بندہ مومن کے متعلق فرمایا:

صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ و نحن      لہ عابدین۔O

’’ ہم نے تو اللہ کا رنگ اختیار کر لیا ہے اور اللہ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے ہیں۔‘‘     (البقرہ:۱۳۸)

اس کی بندگی کرنے والے بندے جو رنگ اختیار کرتے ہیں اس کا اشارہ دراصل خشیت الی اللہ، حب الی اللہ، تعلق باللہ، اطاعت الی اللہ اور تقویٰ و پرہیزگاری اور رضاء الہیہ کی جانب ہے۔

قرآن نے اسلام کو رنگ برنگا بنانے پر روک لگا دی۔جہاں تک یوگا کے گیرو رنگ کا تعلق ہے یہ رنگ شریعت میں حرام تو نہیں قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ یہ گیرو رنگ کفار ہند کا مقدس و مذہبی رنگ ہے اور ہندو اس رنگ کو اپنے لئے شان امتیاز سمجھتے ہیں۔

ہندو مذہبی تہواروں یا مختلف موقعوں پر گیرو، زعفرانی اور زرد رنگ کے لباس پہنتے ہیں اسی لئے مسلمان اگر ان رنگوں کا خصوصیت کے ساتھ استعمال کریں تو تشبہ بالکفار کے زمرے میں شامل ہو جائیں گے۔ عصر حاضر میں مسلمانوں کے لئے ان رنگوں کے استعمال کی اجازت باقی نہیں رہتی اور یہ اب ممانعت کے درجے میں سر فہرست ہے۔

یہود و نصاریٰ بھی اس رنگ کو استعمال نہیں کرتے بلکہ اس کا استعمال صرف بدھ اور ہندو مذہب کے ماننے والے ہی کرتے ہیں۔

مسلمانان ہند پر ہندو سماج کے کہیں نہ کہیں اثرات نظر آتے ہیں۔ رنگوں سے عقیدت کی بدعت اور ضلالت کئی صدیوں سے مقامی طور پر پائی جاتی ہے۔ ہندوستان کے بعض علاقوں اور مسلمانوں کے بعض طبقات میں خوشیوں،خاص کر شادی بیاہ کے جاہلانہ رسومات کے موقعوں پر ان رنگوں کا کھلے عام آج بھی استعمال ہوتا ہے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایک چھوٹا سا دینی حلقہ بھی کمزور لغو  دلیل کو بنیاد بنا کر زردی مائل لباس اور زرد رنگ کے استعمال کو بابرکت قرار دے رہا ہے۔ مساجد میں گیرو اور لال و زرد رنگ کی ٹوپیاں اور لباس نظر آتے ہیں جو مخصوص طبقے کی نشاندہی کرتی ہیں۔

 مسلمانوں کو چاہئیے کہ قرآن کے حکم کے مطابق صرف اللہ کا رنگ اختیار کریں اور اللہ سے بہتر رنگ کسی کا نہیں ہو سکتا ہے۔گیرو رنگ کے لباس کو استعمال کرنا کفر و شرک کی علامت ہے۔ اس سے اجتناب ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔

رسومات، تقریبات، شادی بیاہ، تولید اور تدفین، نشست و برخواست، لباس، رنگ و روپ، جٹو بٹو، رہن سہن، رشتے ناطے، معاملات، واستو، کے مطابق گھروں کی ڈیزائیں گ و تعمیر، مخصوص حیوانات، حشرات الارض، پھول و پھل، پتے، پودے، درخت، کوہ و دریا، آگ و پانی، شمس و قمر، ستارے و سیارے، معبد، کتب و ائمۃ الکفر کی تقدیس و تعلیم، لمحوں و اوقات،  نیک و بد کا فال و کنڈلی، کالی ماتا، راکشس، شیطان و بھوت کا خوف، کچی پوڑی، بھرتناٹیم جیسے رقص، ڈانڈیا جیسے کھیل، یوگا جیسی ورزش اور اس کے تمام مدارج اور اسی طرح کے کئی سو باتیں ہیں جو تشبہ بالکفار میں شامل ہیں۔

ہمارے اکثر تعلیم یافتہ لوگ دین کی وسعت، حریت، کشادگی اور کفر کی تقلید و تشبہ بالکفار میں خلط ملط کر دیتے ہیں۔ دونوں کے درمیان پائے جانے والے واضح مبین فرق کو بھول جاتے ہیں۔ اور دین کو کفر کی مشنری کے کل پرزوں کی طرح کہیں بھی سٹنگ اور فٹنگ کے لئے سرگرداں رہتے ہیں۔ کفار سے محبت اور ان کی دلجوئی میں غلو کر جاتے ہیں۔ اور ان کی فاش غلطیاں مسلمانوں کے لئے رسوائی کا سبب بن جاتی ہیں۔

٭٭٭

 

9۔ غلط فہمیوں کا ازالہ

ہمارے بعض تہذیب غیر سے متاثر روشن خیال لوگوں کا خیال ہے۔ جامد فکر و ذہن رکھنے والے مولوی اور دیندار حضرات یوگا سے سؤظن رکھتے ہیں اور خائف ہیں کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس سے متاثر ہو کر گمراہ نہ ہو جائے۔؟

علماء اور دینداروں پر یہ الزام ہے کہ یوگا کے سلسلے میں سؤظن سے کام لیا جاتا ہے۔ اگر حسن ظن سے کام لے کر اپنا زاویہ نگاہ بدل بھی ڈالیں تو کیا قطعی یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کیا مسلمانوں کی نئی نسل پر یوگا سے پہلے اور بعد میں گروؤں،مہارشیوں کے گیتا اور ویدوں کے پارٹ اور درس کے مضر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔اس بات کی ضمانت نہ کوئی امام وقت اور نہ مفتی اعظم دے سکتا ہے۔ حسن ظن سے ایک نجی عارضی مسئلہ میں تو کام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن جس مسئلہ میں ملت کے ایک خاص فعال حصہ کا اجتماعی رجحان،  معمول،طریقہ عمل اور دلچسپی،مشتبہ اور فاسد رخ پر گامزن ہو جائے تو یہ جھل مرکبcompound ignorance  قرار پاتا ہے۔

یوگا سے متاثر اور مستفید ہونے والے لوگوں کا یہ استدلال ہوتا ہے کہ ہندو عقائد کی نفی اور اشلوک کے ورد و درس کو ترک کر کے ہم صرف جسمانی ورزش  physical exercise  کرتے ہیں۔ یوگا کتنا ہی ممنوع ہو لیکن صرف ورزش کی حد تک یہ ضرور جائز ہونا چاہئیے کہ اسلام علاقائی، بیرونی مفید کارآمد باتوں کو اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کسی پیچیدہ مسئلہ کو کانٹ چھانٹ کر اس کے ٹکڑوں کے ٹکڑے اور ذروں کے ذرے کر کے خفیف سے عنصر کو لے کر بغیر شرعی اختیار کے جائز قرار دینا ایک خود ساختہ قیاس بالرائے پر مبنی نجی فیصلہ قرار پائے گا۔

فقہ کے اصولوں میں کوئی ایسا پیمانہ نہیں ہے جو ایک حصہ کو کفر دوسرے حصہ کو مشتبہ،تیسرے حصے کو مستحب اور واجب قرار دے۔

مبین، واضح،مسائل میں طول و عرض اور من حیث الکل بحث ہو گی اور فیصلہ صادر ہو گا۔ اپنی دلچسپی اور وقتی منفعت کی خاطر تنکوں particles پر انحصار کر کے مشروع عام قرار دینا سراسر زیادتی اور من مانی کہلائے گی۔

مثلاً غیر اللہ و غیر مسلموں کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام ہے۔ اسی طرح حرام جانوروں کا اسلامی طریقہ پر ذبیحہ بھی حرام کے زمرے میں شامل ہو گا اور یہ سو فیصد حرام ہے۔ ہر دو صورتوں میں ایسے جانوروں کا کوئی ایک حصہ یا ایک گرام گوشت بھی کبھی حلال قرار نہیں پاسکتا۔ اس پر مزید حجت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

فرض کیجئے ایک شخص شراب کو بنیاد بنا کر یہ حجت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اتنی کم مقدار میں شراب نوشی کرتا ہوں کہ جس سے نشہ کا غلبہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ شراب کا حکم نشہ سے متعلق ہے اور میں اس سے مبرا ہوں۔ ایک مرتبہ شراب کی حرمت کے بعد پھر مقدار کے تعین، حالات،موسم،رواج،روایات و فیشن کے تمام جواز یک لخت ختم ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف شراب نوشی اور نشیلی ادویات مخدرات drugs  بلکہ اسے بنانے،لانے لے جانے،پیش کرنے اور شراب و مخدرات کی پارٹیوں کا اہتمام وغیرہ جیسے تمام کام حرام قرار پاتے ہیں۔ اس میں گنجائش نکالنے کے لئے کسی بھی قسم کی گفتگو اور کوشش سراسراسلام سے فرار اور بغاوت ہے۔

خلیفہ دوم سید نا عمر فاروقؓ  کے عہد خلافت میں قدامہؓ  بن مظعون بحرین کے گورنر مقرر کئے گئے۔ بعض رومیوں نے حضرت جارودؓ  کو بتا یا کہ ہم نے قدامہ کو شراب پیتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت جارودؓ  گورنر کی اس لغزش کو برداشت نہیں کرسکے۔

جارودؓ  امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ   کی خدمت میں حاضر ہو کر گورنر کی شراب نوشی کی شکایت کی اور شراب نوشی کی بناء پر قدامہ پر حد شرعی جاری کرنے کی درخواست کی۔

جارودؓ   نے حضرت ابو ہریرہؓ  کا نام لیا اور کہا کہ وہ زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں۔ جب حضرت ا بوہریرہؓ کو بلا کر پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا۔ میں نے تو  قدامہؓ  کو خود شراب پیتے ہوئے نہیں دیکھا البتہ نشہ کی حالت میں قئے کرتے ہوئے دیکھا۔

حضرت جارودؓ بار  بار حضرت عمرؓ  سے حد جاری کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔حضرت عمرؓ  نے فرمایا:’’صرف اتنی شہادت پر جرم ثابت نہیں ہوتا۔‘‘ مزید تحقیقات کے لئے انھوں نے حضرت قدامہ کو بحرین سے طلب کیا۔ جب وہ آئے تو حضرت جارودؓ  نے حد جاری کرنے کے لئے اصرار کیا۔ حضرت عمرؓ  کو یہ اصرار ناگوار گذرا اور فرمایا:

جارودؓ  تم تو مدعی بنے جاتے ہو حالانکہ شہادت صرف ایک ہے۔ اس پر حضرت جارودؓ  نے کہا کہ امیر المومنین میں آپ کو خدا کی قسم دلاتا ہوں، حد جاری کرنے میں دیر نہ کیجئے۔ اس اصرار پر حضرت عمرؓ  کو شبہ ہوا اور انھوں نے فرمایا، جارودؓ  تم اپنی زبان پر قابو رکھو ورنہ سختی سے پیش آؤں گا۔ اس تنبیہ پر حضرت جارودؓ  جو ش میں آ گئے اور کہا:امیر المومنین حق یہ نہیں ہے کہ آپ کے چچا کا بیٹا شراب پئیے اور آپ الٹے مجھ کو سختی کی دھمکی دیں۔ اس موقع پر حضرت ابوہریرہؓ  نے حضرت عمرؓ  کو مشورہ دیا کہ آپ کو شک ہو تو قدامہ کی بیوی کو بلا کر پوچھ لیں۔ حضرت عمر نے قدامہ کی بیوی کو بلا کر پوچھا تو انھوں نے حضرت ابوہریرہؓ  کی بات کی تصدیق کی۔ حضرت قدامہ نے عرض کیا امیر المومنین اگر بالفرض میں نے ان لوگوں کی شہادت کے مطابق شراب پی بھی تو آپ کو مجھ پر حد جاری کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔۔ حضرت عمرؓ  نے پوچھا وہ کیسے؟  حضرت قدامہ نے سورہ المائدہ کی آیت ۹۳ کی تلاوت کی۔  یایھا الذین امنوا لیبلونکم اللہ بشیء من الصید تنالہ ایدیکم ورماحکم لیعلم اللہ من یخافہ بالغیب فمن اعتدی بعد ذالک فلہ عذاب الیم   O

’’ جو لوگ ایمان لائے وہ نیک عمل کرتے رہے۔ ان پر  ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھا چکے ہیں جبکہ انھوں  نے پرہیز کیا اور ایمان لائے اور نیک کام کئے۔ پھر پرہیز کیا اور ایمان لائے پھر پرہیز کیا اور نیکو کاری کی۔‘‘

حضرت عمرؓ  نے فرمایا: تم تاویل میں غلطی کر رہے ہو۔ تم کو قطعی حرام چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے تھا۔اس کے بعد حضرت عمرؓ  نے حضرت قدامہ پر حد شرعی جاری کرائی اور حضرت جارودؓ  مطمئن ہو کر وطن واپس لوٹ گئے۔

ٹھیک یہی حال ایسے جدید افعال کا ہے جسمیں کفر کی خباثتیں مخفی ہوں اور فاسد و مشتبہ عناصر کی آمیزش ہو تو جائز ہونے کے تمام بودہ اجازتیں کالعدم قرار پاتے ہیں۔یوگا کے تائیدی حضرات کا مذکورہ خیال کے اسلام مقامی و بین الاقوامی مفید کارآمد باتوں اور روایات کو اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ بات بالکل درست ہے لیکن شریعت اسلامی میں کبھی کسی عنوان اور نیک نیتی سے کفر اور منکر کی آمیزش نہیں کی جا سکتی۔ شریعت میں منکرات و مفسدات کو ٹھونس کر ایک ایسی فضاء تیار کر لیں بس جو ان کے خواہشات اور آوارہ دل و دماغ کو مطمئن کرسکے چاہے اللہ تعالیٰ کتنا ہی ناراض ہو جائے۔خواہش اور مزاج کے مطابق شوق بھی پورا ہو اور پھر سچے مسلمان بھی کہلائیں ایسا ممکن نہیں۔

٭٭٭

 

10۔ کیا یوگا کا کوئی دوسرا متبادل نہیں !

یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا انسان کی صحت اورجسمانی تندرستی  Physical fitnessکے لئے دنیا میں صرف یوگا کا ہی طریقہ ورزش موجود ہے یا کوئی اور بھی طریقہ اس کے متبادل پا یا جاتا ہے۔؟

 مغربی اور ایشیائی ممالک میں درجنوں مختلف انداز کے کسرت کے عام و سکیولر طریقے موجود ہیں۔ جیسے کسرت، ورزش کے عصری طریقے جمیں، آلات و مشینس استعمال کی جاتی ہیں۔ یا پھر چین اور مشرق بعید کے ایشیائی ممالک کے کامیاب گیمس games  جیسے  مارشل آرٹس، kunfu, Karate,Tai chal, Judu وغیرہ۔ جو قدیم زمانے میں بدھ راہبوں نے شروع کیا تھا۔ بعد میں یہ دنیا کے عام سخت اور کامیاب games میں شامل ہو گیا۔ اب بدھ مت سے ان کھیلوں کا تعلق نہیں رہا۔

 قدیم طریقہ ورزش کے ساتھ اور کسرت کے کئی جدید طریقہ کار اور ٹکنکس مقبول عام ہیں۔ جس کا کسی مخصوص مذہب اور عقیدہ سے تعلق نہیں۔ دوسرے کئی کامیاب متبادل کھیلوں کی موجودگی میں کفر سے بھرپور ’’یوگا، کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

یوگا میں صرف جسمانی ورزش کے ذریعہ رگ پھٹے، مضبوط بنانے اور جوڑوں کو فعال بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ جوڈو و کنفو و کشتی کی طرح دوبدو لڑنے اور    One to One fight کا کوئی ہنر و فن نہیں ہے۔گیتا و ویدوں میں اسے روحانی ارتقاء کے ذرائع قرار دیا گیا ہے۔

یوگا کو مشروع قرار دینے والے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ قرآن و حدیث اور اسلامی احکامات کی روسے جسمانی ورزش کے اس طریقہ کار میں کیا کیا نقائص اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ سابقہ اقوام کے واقعات سے ہمیں اس کوسمجھنے میں آسانی ہو گی۔

یہودیوں کو ہفتہ کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا گیا تو من و عن قبول کرنے کے بجائے الٹا انھوں نے نافرمانی اور روگردانی کی۔انھوں نے تدبیر اسطرح کی کہ سبت میں رات کو ہی دریا میں جال ڈال دیا کرتے تھے اور ایک دن بعد شکار نکالا کرتے تھے تاکہ سبت کے دن شکار بھی نہ کرنا پڑے اور مچھلیاں بھی جال میں آ جائیں۔

دین اللہ اور شریعت اسلامی کے بارے میں حیلہ جوئی کو قرآن نے سخت ناپسند کیا اور اسے حدسے تجاوز قرار دیا ہے۔

ولقد علمتم الذین اعتدوامنکم فی السبت   O ’’اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہیں جنھوں نے ہفتے کے دن مچھلی کے شکار کرنے میں حد سے تجاوز کیا۔‘‘( ۲:بقرہ :۶۵)

اس آیت کے پس منظر سے پتہ چلتا ہے کہ احکامات الٰہی کی صرف رسمی تکمیل کافی نہیں ہے بلکہ نفاذ کے حکم میں وہ کیا بدلی، بدنیتی اور چال و چکر ہے۔ جس سے مقصد حکم رب ہی فوت ہو جائے۔ حکم کے نفاذ میں بددلی، بدنیتی اور چال و چکر سے کام لیا جائے۔

یوگا کے ہمنواؤں میں ایک نقطہ نظر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ہم اس میں کافرانہ روحانی عمل کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ انکار کے ساتھ خالص جسمانی تندرستی کے نقطہ نظر سے پراکٹس کرتے ہیں۔افسوس کہ اللہ کے بندوں میں خاموشی سے روحانی، معاشرتی، اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ عقیدہ، تصورات اور فکر و نظر طرح طرح کی گمراہی نے ان کو بگاڑ رکھا ہے۔ جو معاشرے کی اجتماعی تباہی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔

٭٭٭

 

11۔یوگا اور بین مذہبی تعلقات !

ہندوستان کی قوم ہمہ لسانی، ہمہ طبقاتی، ہمہ مذاہب پر مشتمل ہے۔ ان کی اپنی مشترک اور متفرق و جداگانہ تہذیب ہے۔ انسانی اقدار کی قدردانی اور ایک دوسرے کے مذہب کا احترام آج بھی ہندوستانی سوسائٹی میں پایا جا تا ہے۔ جمہوری و سکیولر ملک میں ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی دستور کے تحت بڑی حد تک مذہبی آزادی حاصل ہے۔

ہندوستان میں ہندو،مسلم آپس میں مل جھل کر ایکدوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ مخلوط بستیوں اور علاقوں میں کروڑوں ہندو مسلم ایک ساتھ رہنے اور زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ جانتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر آبادی کا 90%ہندو طبقہ مسلمانوں کو گوارہ نہیں کرتا تو کئی صدیوں تک مسلمان کیسے اتنے بڑے ملک پر حکمرانی کرسکتے تھے۔غیر مسلموں کی زندگیوں میں آج بھی مسلم تہذیب و تمدن اور ثقافت کے نمایاں اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔

مسلمانوں کی تعلیم، تجارت، میڈسن، انتظامیہ اور سیاست جیسے زندگی کے تمام اہم شعبوں میں ہندو و مسلمان ایک دوسرے سے مضبوط تعلقات اور ربط رکھتے ہیں۔ہندوؤں سے یگانگت، سکیولرازم، مذہبی رواداری اور بین مذہبی تعلقات کو صحت مند اور خوشگوار بنانے کے لئے بہت سے مشترکہ باتوں میں ایک دوسرے سے اتفاق و ہمدردی کا بھر پور خیال رکھا جا تا ہے۔

یوگا کے تائیدی مسلمانوں کے ذہن کے گوشے میں یہ بات ابھر رہی ہے کہ یوگا کی ممانعت سے مذہبی منافرت اور فرقہ ورانہ تعصب میں اضافہ ہو گا۔؟اور مسلمانوں کا سکیولر کردار متاثر ہو گا اور ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ مسلمانوں سے متنفر ہو جائے گا۔یوگا کی ممانعت سے ہو سکتا ہے ائمۃ الکفر، یوگیوں اور ہندو احیاء پسند جماعتوں اور چند مسلم دشمن مذہبی و سیاسی قائدین کو یہ بات سخت ناگوار ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عام ہندوؤں کو اس سے کچھ سروکار نہیں ہے۔؟؟

محض مذہبی رواداری، خوشگوار تعلقات اور سکیولرازم کو پروان چڑھانے کی خاطر ہندوؤں کے مذہبی طور طریقے، اسلوب و طرز زندگی اختیار کر لینا مذہبی تہواروں، مذہبی کھیل کود و ورزش میں شمولیت اختیار کر لینا اور عقیدہ و تہذیب مسلم کی پراگندگی کو برداشت کر لینا اسلامی تعلیمات سے اعراض و بغاوت ہے۔جن باتوں میں ایمان سے ٹکرانے اور کمزور کرنے کا اندیشہ اور خطرہ ہو تو بندہ مومن کا اولین فریضہ ہو تا ہے کہ وہ اس سے دوری اختیار کرے۔

مذہبی یگانگت اور رواداری کے طور پر غیر مسلموں کی عام دعوت، شادی بیاہ کی تقاریب اور غم و ملال میں شریک تو ہوسکتے ہیں لیکن وہاں جاری پوجا پاٹ اور مذہبی رسوما ت سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ غیر مسلموں سے خوشگوار تعلقات ملک و ملت کی بقاء و ترقی اور دعوت الی اللہ کے لئے ضروری ہے۔ لیکن اس میں اگر غلو کیا جائے تو یہ بات قابل گرفت قرار پاتی ہے۔

ہندوؤں اور غیر مسلموں کو بغیر اپنا دشمن بنائے ملت اسلامیہ ہند کو اپنی بقا ء و حفاظت اور ترقی و ترویج کی راہیں خود تلاش کرنا ہے۔ بہت سے اہم حساس معاملوں میں بڑا ہی محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

ملک کی بڑی اسلامی و دینی جماعتیں، گروپس، ادارے اور قیادت ایک جانب اسلام کی سربلندی، مسلمانوں کی حفاظت و صیانت، دعوت و تبلیغ، اصلاح و خدمت کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب ہندوؤں سے پر امن روابط و خوشگوار تعلقات بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شمالی ہند میں 1992 میں 480 سالہ قدیم تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف نفرت، عداوت اور عصبیت و ظلم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان کے جائز حقوق سے محرومی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں سخت نا انصافی کا شکار ہیں۔

غیر مسلموں سے حد سے تجاوز کر کے تعلقات کو مضبوط کرنے کی فکر میں ایک چھوٹا سا طبقہ پریشان و پشیمان ہے۔ ہمارے ان برادران کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئیے کہ جب آپ ہندو نہیں ہیں تو پھر آپ ان کے مذہبی رسم و رواج اور تقریبات میں شرکت کرنے کے قانونی اور اخلاقی طور پر بھی پابند نہیں ہے۔ اور نہ کوئی برا مانتا ہے۔ ہندوؤں کی راست مذہبی تقریبات، پوجا پاٹ،یگنہ اوریوگاکلاسس میں شرکت کی کوئی شرعی گنجائش نہیں ہے۔ اور نہ فقہاء اس کی  اجازت دے سکتے ہیں۔

اسلام میں غیر مسلموں کا دل جیتنے اور مؤلفۃ القلوب کے بھی چند بنیادیں و اصول ہیں۔

ایک مسلمان بیک وقت دوسرے کئی مذاہب کے ماننے والوں کا دل جیتنے کے لئے کتنے مذہبی باتیں سیکھ سکتا ہے اور کتنے غیر اسلامی تہذیبوں کو اپنا سکتا ہے۔ ایمان کو محفوظ رکھتے ہوئے اس پر زندگی میں عمل کرسکتا ہے۔

  جو اہل ایمان یورپ، امریکہ اور عیسائی و یہودی علاقوں میں رہتے ہیں کیا وہ محض عیسائیوں اور اہل کتاب کا دل جیتنے اور انسیت بڑھانے اور یگانگت پیدا کرنے کے لئے خنزیر کا گوشت نوش کر سکتے ہیں ؟۔ یا شراب پی سکتے ہیں ؟  دوسرے مذاہب اور طبقات کا احترام اس وقت تک گوارہ ہے۔ جب تک کہ حرمت، منہیات کے حدود نہ ٹوٹے اور رب کائنات کی ناراضگی کا خطرہ نہ پیدا ہو جائے۔دنیا میں مسلمان اس لئے نہیں مبعوث کئے گئے ہیں کہ محض غیر اقوام اور غیر مسلموں کا دل جیتنے کے لئے للہ کی ناراضگی مول لیں۔

 آج بھی کروڑوں مسلمان ایسے ہیں جو ہندوؤں کی مذہبی تقاریب و رسومات اور یوگا میں حصہ لئے بغیر ہندوؤں کے ساتھ بہترین تعلقات و روابط رکھتے  ہیں۔

یہ ہمیں سوچنا چاہئیے کہ مسلمانوں  پر  یوگا کے سلسلے میں کوئی جبر ہے نہ ظلم و زیادتی بلکہ مکمل کھلی آزادی حاصل ہے۔یوگا کی طرف لپک کر جانا اور یوگی بن جانا دراصل کمزور عقیدہ و فکر کا نتیجہ ہے۔  ہم پر یہ اولین ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خوش اخلاقی کے ساتھ ایمان، عقیدہ اور اسلامی تہذیب و تمدن کا تحفظ کرتے ہوئے کفر خفی کا تدارک کریں اور مسلم یوگیوں کی نئی کھیپ کی اصلاح کریں اور انھیں غیر مسلموں کے ساتھ انداز و آداب تعلقات سکھائیں۔

بین الاقوامی بین مذاہب اور بین فرقے جاتی تعلقات اور انسانی فلاح و بہبود و ترقی کے لئے مشترکہ اجتماعی امور میں ایک دوسرے سے اتفاق رائے کے ساتھ معاملت اور تعاون و مدد کرنے کی اسلام پوری اجازت دیتا ہے۔

٭٭٭

 

12۔ یوگا عالمی مذاہب کی نظر میں !

دنیا کے مشہور مذاہب عیسائیت اور یہودیت کے مذہبی دیوتاؤں کا یوگا کے متعلق واضح موقف یہی ہے کہ یوگا ہندو مذہبی تعلیمات کا حصہ ہے۔ انگلیکین چرچس Anglican۔churches۔  اور Catholic churches  کے رہنماؤں نے کئی مرتبہ دو ٹوک انداز میں اس سلسلے میں نہ صرف اظہار خیال کیا بلکہ اپنے مذہب کے پیروکاروں کو ’’یوگا‘‘ سے منع کیا ہے وہ اسے صرف صحت و تندرستی اور جسمانی ورزش کی سائنس ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ حتی کہ ہندوستان میں ہندو سے قربت رکھنے والا طبقہ سکھ بھی اس سے اختلاف کرتے  ہیں اور ان کے مذہبی رہنما بھی اپنی برادری کے لوگوں کو یوگا کی پراکٹس سے منع کرتے ہیں۔

جب بین الاقوامی مذاہب کے مذہبی رہنماء بھی ’’یوگا‘‘ کو خالص ہندو مذہبی کفر سے بھر پور عمل قرار دیتے ہیں اور اسے ہندو مذہبی رہنماؤں کے مہارشیوں کے طریقہ عبادت کا ایک جز قرار دیتے ہیں تو ان تمام حقائق کی موجودگی میں ہمارے چند مٹھی بھر دانشور حضرات ذہنی انتشار اور فکری انحطاط کا  شکار ہو کر  ’’یوگا‘‘  کی عدم ممانعت کی وکالت اور نمائندگی کرتے ہیں اور ہماری نوجوان نسل کواس معاملے میں گمراہ کر رہے ہیں۔

٭٭٭

 

13۔عصر حاضر میں مسلمانوں کو کھیل کے میدان میں درپیش چیالنجس

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کھیل کے میدان سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کھیل کود، ہنسی مذاق، خوشی،دل لگی اور تفریح اسلام کی ضد ہے۔ مسلمان اپنے ہاتھ پیر باندھ کر یا تو دانش گاہوں اور خانقاہوں میں مقید رہے یا فرائض، کاروبار کے علاوہ زندگی کے دوسرے میدانوں سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ ایک غلط اور فاسد تصور ہے۔ زندگی کے ہر میدان میں اسلام مسلمانوں سے برتری، ترقی اور فوقیت کا مطالبہ کرتا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اسلام مسلمانوں کو کھیل کے میدان سے خارج کر کے دور کر دے۔عصر حاضر میں جس طرح ہر میدان میں مسلمانوں کے لئے چیالنجس درپیش ہیں۔ اسی طرح عالمی و مقامی سطح کے کھیلوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ کھیل کود Sports & Games  میں بھی سب سے پیچھے، اور آخری درجے میں مسلمان ہیں۔

1896 سے 2008 تک جملہ27اولمپک گیمس منعقد ہوئے۔ پہلا اولمپک گیم ایتھنز میں منعقد ہوا تھا۔ جس میں صرف 14 ممالک نے اپنی ٹیمیں کھیل کے میدان میں اتاری تھیں۔ اولمپک 2008 بیجنگ میں منعقد ہوا جس میں 191ممالک کی ٹیموں نے مقابلوں میں حصہ لیا۔ اسی طرح 1951 سے 2006 تک 15ایشین گیمس منعقد ہوئے۔

اولمپکس 2008 بیجنگ میں چین نے 51گولڈ میڈل حاصل کر کے امریکہ کو دوسرے نمبر پر کر دیا۔امریکہ نے 36 اور روس نے 23 گولڈ میڈل حاصل کئے۔ جبکہ گولڈ، سلور اور براؤنس کے چین نے کل 100 اور امریکہ نے 110 میڈلس حاصل کیا۔چینی ٹیم کی ٹکنیکل تربیت،  جمناسٹک میں مہارت عزائم، اور مہارت نے دنیا کے سوپر پاور ٹیموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔گذشتہ 50 سالوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ جاپان، کوریا اور چین کئی کھیلوں میں اپنی برتری مسلسل برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

اگر ہم مسلم ممالک اور اولمپکس گیمس کا تقابلی مطالعہ کریں تو افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ دنیا کے تمام مسلم ممالک کی ٹیموں نے بیجنگ 2008   اولمپکس میں مجموعی طور پر صرف 8گولڈ میڈل حاصل کئے۔ ترکی اور نئے وجود میں آنے والے مسلم ممالک آزربائیجان، خازکستان، ازبکستان کی پوزیشن ٹھیک رہی۔ ترکی نے 8 میڈلس اور آزربائیجان نے 13 میڈلس حاصل کئے۔ تونس، الجیریا، مراقش،سوڈان، مصر، بحرین، ایران، انڈونیشیا،  اور افغانستان نے ایک ایک میڈل حاصل کیا۔ ٹینس، ہاکی، فٹ بال، والی بال اور باسکٹ بال، باکسنگ، جمناسٹک، رسلنگ یا کشتی میں آج تک کوئی مسلم ملک اپنا مضبوط مقام نہیں بنا سکا۔عرب ممالک میں فٹ بال کا بڑا شوق ہے لیکن بین الاقوامی مقابلوں میں وہ پہلے ہی راؤنڈ میں شکست سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔اور پاکستان، بنگلہ دیش کی دلچسپی صرف کرکٹ کی حد تک محدود ہے۔

کشتی، باکسنگ، ویٹ لفٹنگ اور بھاگ دوڑ کے مقابلوں میں کبھی کبھار انفرادی طور پر ایک مسلمان کا نام آ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ واٹر اسپورٹس، ایر اسپورٹس، آئس اسپورٹس اور اسپورٹس ٹورازم میں بھی مسلمان بہت پیچھے اور پسماندہ ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ایک بلین نفوس پر مشتمل یہ ملت اپنے لئے صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور زندگی کے مختلف میدانوں میں دوسرے اقوام سے مقابلوں کے لئے دروازے بند کر لئے ہیں۔ مالدار، متوسط اور غریب تمام مسلم ممالک کی صورتحال ایکدوسرے سے مختلف نہیں ہے۔ایسا محسوس ہو تا ہے کہ دنیا  کی مسلم کمیونٹی اچھے ہنر مند ممتاز کھلاڑی تیار کرنے کی اپنے اندر صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کامیاب کھلاڑیوں کی ٹیمیں تیار کرنے کے بجائے امت اسلامیہ ایک تماشہ بین قو م بن چکی ہے۔ ان کے نوجوان میدان میں مقابلے کے لئے اترنے اور کھیلنے کے نام سے ڈر و خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔بلکہ بوڑھوں، مریضوں، عورتوں اور بچوں کی طرح ٹی وی پر کھیلوں کے مقابلے کو دیکھ کر مسرور ہو جاتے ہیں۔مسلم ممالک کے پاس اپنے کھلاڑیوں کو معیاری تربیت دینے کا نہ کوئی مبسوط پروگرام ہے اور نہ ہی نوجوان نسل میں ایسا جذبہ پایا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی بہترین ٹیم بنکر دوسرے اقوام کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے ذریعہ شکست دے دیں۔تماشہ بین اقوام دنیا میں گیمس میں اپنا کبھی نام پیدا نہیں کرسکتے۔ تماشہ بین بننے سے زیادہ افضل کھلاڑی بننا ہے۔ V T   و  نیٹ پر تماشہ بینی سے ملت کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ سوائے اس کے کہ ٹی وی کمپنیاں اس کے ذریعہ ترقی کریں اور ہماری قیمتی اوقات ضائع ہوں۔

اسپورٹس کی دنیا بھی اب سستی نہیں رہی بلکہ اس کا بھی کئی بلین کا بجٹ ہوتا ہے اور اچھے عالمی معیار کے کھلاڑیوں اور ٹیم کو تیار کرنے کے لئے کروڑہا ڈالر کا خرچ آتا ہے۔ اگر کھلاڑیوں میں جیتنے کے لئے درکار صلاحیتیں موجود ہوں تو پھر پیسہ کوئی مسئلہ نہیں رہتا۔ بڑے بڑے کارپوریٹ کمپنیاں ان پر سرمایہ کاری کرتیں ہیں۔ اگر عالمی سطح پر کھلاڑی ٹیموں نے نام بنا لیا تو پھر یہ کھلاڑی سرمایہ دار بن جاتے ہیں۔گیمس اور اسپورٹس دنیا کی بہت بڑی تجارت بن چکی ہیں۔

  a۔   سابق اولمپک کھیلوں کے موقعوں پر بعض اسلامی ممالک نے مسلم  خاتون کھلاڑیوں کے ستر اور حجاب کے سلسلے میں کسی بین الاقوامی دباؤ کو قبول نہیں کیا۔ بلکہ اولمپکس کے انتظامیہ کو خصوصی اجازت دینی پڑی تھی کہ ستر و حجاب کا مسئلہ اس وقت آسانی سے حل طلب ہو سکتا ہے جب ہمارے یہاں اچھے ممتاز تیار خاتون کھلاڑی موجود ہوں۔

سعودی عربیہ کے مختلف شہروں میں صر ف خواتین کے لئے مخصوص       جمس کو زبردست مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ سعودی علماء نے کھلیوں میں حصہ لینے والی عورتوں پر سخت تنقید کی تھی۔ جس کے بعد حکومت نے تکنیکی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ عورتوں کو اپنے گھروں سے باہر ورزش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

  b۔  میں ایک ٹی وی انٹر ویو میں سعوی عرب کے مفتی اعظم عبد العزیز نے کہا       تھا ’’ خواتین کو خانہ داری میں مصروف رہنا چاہئیے۔ انھیں کھیل میں مصروف ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘سعودی مفتیان اکرام نے اصلاحی کوششوں کے درمیان کھیلوں میں کھلے عام حصہ لینے والی عورتوں پر جو سخت تنقید کی تھی وہ حق بجانب ہے۔ کیونکہ مردوں کے مجموعہ یا شائقین کے اجتماع کے روبرو مغربی طرز کے مختصر  Sports Track suit میں   ہماری عورتیں کھیلیں اور اسے راست ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ کیا جائے۔یقیناً یہ کھلی بے حیائی ہے۔ جہاں تک خواتین کے جمس پر پابندی

      کا مسئلہ ہے یہ قابل بحث موضوع ہے۔ مفتی اعظم شیخ عبد العزیز نے ٹی  وی انٹرویو میں خواتین کے کھلے عام کھیلوں پر تنقید کرتے ہوئے  اسےبے شرمی اور بے حیائی قرار دیا تھا۔ مفتی اعظم کے فتویٰ کا کوئی تحریری متن ابھی تک سامنے نہیں آیا جس میں انھوں نے خواتین کے جمس پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا ہے۔  خواتین کو ان کا اپنا ذاتی حق ملنا چاہئے اگر   خواتین کے علیحدہ خصوصی جمس ہوں اور وہاں کے ٹرینرس بھی عورتیں ہیں تو اس کی ممانعت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ جبکہ یہ جمس خواتین کی تندرستی میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔اس  موضوع پر فتوی جاری کرنے سے قبل مزید تجزیہ اور تحقیقاتی و تنقیدی مطالعہ کے بعد فیصلے پر پہنچنا چاہئیے۔

اس سے زیادہ افسوسسناک حال مسلمانوں کی نجی تندرستی اور صحت کا ہے۔ مسلمانوں کی کروڑوں بستیاں اور آبادیاں صبح و شام بیکار ہوتیں ہیں۔ صحت مندی اور تندرستی کے لئے روزانہ کی کسرت اور ورزش میں ان کی قطعی کوئی دلچسپی نہیں پائی جاتی۔ روزانہ چہل قدمی، ہلکی دوڑ بھی ان کے لئے بار اور سخت پریشانی اور تھکن کا سبب بن جاتی ہے۔مغربی طرز کی زندگی، طعام، نوم، لیل و النہار میں آرام و استراحت، چلنے سے اجتناب،ٹھوس، سخت مضبوط طریقہ زندگی سے دوری اور ناپسندیدگی نے ان میں کئی قسم کی بیماریاں پیدا کر دیں۔ موٹاپا، بی پی، زیابطیس، امراض قلب، امراض تنفس، معدے اور بواسیر، نیورو، جیسے امراض کو جنم دیا ہے۔ڈاکٹر یمون کونگلی Dr۔ Eamann Quigley صدر World Gastroenterology Organisation  کا کہنا ہے کہ مغربی سہل پسندی اور آرام دہ زندگی نے دنیا میں سینکڑوں امراض میں اضافہ کر دیا اور اس سے اپاہج و معذور لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ہمارا  دین دار اور عام طبقہ سالوں آرام کرتا رہتا ہے۔ وقت بے وقت آرام کرتے رہنے کو بہت بڑا نیک کام سمجھتے ہیں۔ ان کو اس بات پر فخر بھی ہو تا ہے کہ ہم کوئی برا اور گناہ کا کام نہیں کرتے بلکہ آرام کرتے رہتے ہیں۔ مزدور طبقے کو چھوڑ کر ہمارا فی فرد working hours کا تناسب صرف تین  گھنٹے یومیہ ہے۔ کام چوری اور کام پر آرام و بیکاری کو فوقیت دینے کا ایک متعدی مرض مسلم معاشرہ کو لاحق ہو گیا ہے۔گناہوں سے بچنے کا بہترین طریقہ گھروں، فارم ہاؤزس،گیسٹ ہاؤزس، خانقاہوں و جماعت خانوں میں تعطیلات کے دوران ہفتوں اور مہینوں آرام کر تے رہنا ہے۔

بعض سرمایہ دار مسلمانوں کا عالم یہ ہے کہ ہر دو تین ماہ میں دور دراز مقامات کا سفر کر کے جنگلوں، کوہساروں، وادیوں میں شکار کے لئے کئی کئی ہفتے لاؤ لشکر کے ساتھ کیمپ کئے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی مجہول فکر اور بے عملی مسلمانوں کو ہر میدان میں شکست سے دوچار کر رہی ہے۔ اس غفلت سے مسلمانوں کو جاگنا ہے۔ اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا ایک لائحہ عمل ترتیب دے کر ہر شعبہ حیات میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے اور اپنی زندگی کو متحرک و فعال بنا کر ملت اسلامیہ اور ملک و قوم کی خدمت کرنا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کفر و شرک سے پاک ورزش و کھیلوں میں دلچسپی لے کر ایک مضبوط صحت مند کامیاب مسلم سوسائٹی بنانے کO،لنے سے اجتنا  نے کے تما ت قرا ی کوشش کریں تاکہ اولمپکس اور دوسرے بین الاقوامی کھیلوں کے میدان میں برتری حاصل کرسکیں۔کھیل کے میدان کے باہر رہ کر صرف مطالبات سے مسائل کا حل ممکن نہیں۔جب ہر میدان میں ہمارے نوجوان اپنے ہنر کے جوہر بتلانے لگیں گے۔بچوں اور نوجوانوں کی جسمانی، ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے منظم پیمانے پر گیمس و اسپورٹس میں  اعلیٰ ترین تربیت کا انتظام کریں۔ تاکہ آئندہ دہوں میں کھیل کے میدان میں ہماری نوخیز نسل اپنا لوہا منوا سکے۔

٭٭٭

 

14۔اسلام کی روح و مزاج!

عصر حاضر میں سیاسی اقتدار، عسکری طاقت،سائنس و ٹکنالوجی کی فوقیت مغربی افکار، تہذیب و تمدن، معاشی و معاشرتی نظام میں انسان کی بنیادی ضرورتیں،احتیاجات،مطلوبات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ ہنگامی حالا ت بدلتے ہوئے معیارات اور ابھرتے ہوئے چیالینجس نے فرد و سوسائٹی اور اقوام عالم کو پریشان کر رکھا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دین سے ناواقف ایک عام آدمی کے لئے یہ آسان کام نہیں ہے کہ دنیا کے ہنگاموں،انقلابات و تیز رفتار ترقی میں اپنے آپ کو صراط مستقیم پر قائم رکھتے ہوئے زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کی روح و مزاج کی حفاظت کرے۔

افسو س کی بات ہے کہ اکثر دین داروں کی فکر بھی اتنی مجہول ہو گئی ہے کہ وہ خود اصول دین سے برگشتہ ہو گئے ہیں اور متدّین اور غیر دینداروں میں کوئی بہت زیادہ فرق باقی نہیں رہا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر نئی چیز اور ٹرینڈ، نظریہ و تھیوری سرعت کے ساتھ مسلمانوں کی نئی نسل کو متاثر کر تی جا رہی ہے۔ اور غلامانہ ذہن کی ایک عام فضاء تیار ہو چکی ہے۔ ان نازک حالات میں یوگا جیسی قدیم جسمانی ورزش کو اپنانا اس بات کی دلیل ہے کہ ہندوانہ طرز زندگی کے حصے کو خندہ پیشانی سے قبول کر کے مسلمان اپنی زندگی کو ان کے زیر نگیں کر چکے ہیں۔ تہذیبی ارتداد اور کفر خفی کا پھر ایک مرتبہ طوفان اٹھ رہا ہے۔ جس سے مسلمانوں کے طرز زندگی اور اسلامی مزاج میں فرق رونما ہو رہا ہے۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ عبادات و فرائض کی پابندی تو کریں لیکن مستحبات،سنن،خیر و حق کو رد کر کے زندگی کے دیگر معاملات،اخلاق و عادات،نشست و برخواست، حفظان صحت اور مصیبت و آلام میں قدیم یا مروجہ و جدید باطل و کفر کے طریقوں کو اپنائیں۔ اس قسم کی روش سے مسلم سوسائٹی سے اسلام کی زندہ روح نکل جاتی ہے اور معاشرہ میں ایک لادینی مزاج بننے لگتا ہے اور غیر اسلامی طرز زندگی گذارنا  بڑوں،عورتوں اور بچوں و نوجوانوں کو مطلوب و محبوب ہو جاتا ہے۔

حلت Permissibles  حریت Liberty & Freedom  اور توسیع    Openness    کی عصری من مانی توجیہات و تشریحات اور اس کے غلط استعمال اور استحصال کی شریعت اسلامی میں اجازت نہیں ہے۔ ایسے نہج، طریقہ کار اور روش و رجحان کو انفرادی و اجتماعی طور پر اختیار کرنا جس سے اسلام کی چند بنیادیں اور حدود تو قائم اور ثابت رہیں۔لیکن اسلام کی روح اور مزاج میں تبدیلی واقع ہو تو، توحید و شرک، حق و باطل کے درمیان کی نہ نظر آنے والی باریکیوں میں خلط ملط سے اس بات کا قوی اندیشہ ہوتا ہے کہ اس سے گمراہی، ضلالت کے نئے باب کھل جائیں گے اور ایک بندہ مومن یہود و نصاریٰ اور مغربی و ہندی تہذیب و تمدن سے مرعوب ہو کر شریعت اسلامی کی روشن شاہراہ سے کہیں بھٹک جائے گا۔

دو مثالوں سے اس مسئلے کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اسلام میں نکاح کے لئے کو ئی موقع اور محل کی قید نہیں ہے۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر اگر ایک شخص بت کدہ و مندر یا ہندو  و عیسائی دھارمک استھانوں میں اسلامی اصولوں کی سخت پابندی کے ساتھ نکاح کرتا ہے تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں۔ لیکن اس کی نقل میں بعض دوسرے مسلمان اس مکروہ طرز عمل کو اپنانے لگیں اور اسے ایک فیشن بنا لیں جس سے اسلام کی روح متاثر ہو تی ہے۔ تو پھر ائمہ، مفتیان و مجددین کو آگے بڑھ کر اس طرح کے نکاح کو غیر مشروع و ممنوع قرار دینے کا پورا حق حاصل ہو جا تا ہے۔

اسی طرح اگر کوئی مسلمان ذکر اللہ، مناجات و تسبیحات کے لئے ایسی جگہ منتخب کرے جو مرکز کفر و شرک ہو یا ا سکا ایک حصہ ہو جیسے مندر، آشرم، مٹ وغیرہ۔ آج کل کے آشرم اور مٹ بڑے خوبصورت، کشادہ اور بعض مقامات پر ایر کنڈیشن بھی بنے ہوئے ہیں۔ روحانیت کے متلاشی مختلف لوگ یہاں تپسیاً، کیولا کومبھکا پرناماkevela kumbhaka paranayama   کرتے ہیں۔ بعض بھٹکے ہوئے کمزور نام نہاد مسلم دانشور اور تعلیم یافتہ نوجوان مرد و خواتین وہاں روزانہ پابندی سے جا کر رب سے تعلق بڑھانے کی کوشش میں دھیان لگائے ہوئے گیان و تپسیاً کرتے ہیں۔

 کیامسلمانوں کا روحانی ارتقاء کے لئے مسجدوں کو چھوڑ کر مٹوں، آشرموں اور کیندروں میں حلقہ کفر کے درمیان بیٹھ کر مراقبہ کرنا اسلامی روح کے سخت خلاف قرار نہیں پائے گا ؟۔اسطرح کے تمام اعمال و حرکات اسلامی روح و مزاج سے قطعی میل نہیں کھاتے اور یہ غیر شرعی اور سخت ممنوع ہے۔

 موجبات تقویٰ میں فرض، نفل نماز، روزے، قیام الیل، تلاوت قرآن، اعتکاف مسجد، عمرہ، اذکار و تسبیحات،خدمت خلق، اصلاح و دعوت کے کام شامل ہیں۔ تقوی ٰ اور پرہیز گاری کے یہ ذرائع معروف ہیں۔ذرا سی بدعت، خرافات، لغویات اور طواغیت کی آمی سے جاکر ربً و رحجزش سے اسلام کی روح تباہ ہو جاتی ہے اور پھر اسلامی مزاج کے خلاف کام کرنے میں کوئی ملامت اور ندامت بھی نہیں ہوتی۔

ایک مسلمان کا ‎٭٭مصادر کفر، منادر، آشرموں اور یوگا کیندروں سے دلی وابستکی پیدا کر لینا اور اپنا ربط و تعلق بڑھا کر ایسا طرز عمل یا معمول اختیار کر لینا جو ہندو مت اور کفر میں پسندیدہ اور اشرف ہے اور پھر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے فخر کرنا سراسر اسلام کے ساتھ کھلواڑ ہے۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہئیے کہ ایک مسلمان کس اقدام اور عمل سے کفر کے قریب ہو رہا ہے یا اسلام اور تقویٰ و پرہیزگاری سے قریب ہو رہا ہے۔

ایسے تمام افکار و رجحانات  اور طرز عمل جو مسلمانوں کو کفر کے قریب کرتے ہیں اس پر تنقید اور تنقیص کرنا اور ان کی فوری اصلاح کرنا اسلامی اسکالرس و مصلحین و داعیان حق کی اولین ذمہ داری ہے۔بے حسی، بے غیرتی، غلامانہ ذہنیت، جی حضوری، اغیار کی اقتداء اسلامی روح واسپرٹ کے منافی ہے۔

اسلامی روح و مزاج کی برقراری کے لئے جو بات بنیادی طور پر اہمیت کی حامل ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

و الذین اجتنبوا الطاغوت ان یعبدو ھا     وانابوالی اللہ لھم البشریٰ، فبشر عباد   O

’’اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور اللہ کی طرف متوجہ رہے وہ خوش خبری کے مستحق ہیں، میرے بندوں کو خوش خبری سنا دیجئے۔‘‘(۳۹: زمر: ۱۷)

جہاں اسلام کی روح اور مزاج پر اثر پڑھتا ہے وہاں احکامات بھی مختلف ہو جا تے ہیں۔

اسلام کی روح اور مزاج کی سالمیت، صیانت اور حفاظت عصر جدید کا تقاضا ہے۔ محض جسمانی ورزش، بیماریوں کے علاج کے نام پر یوگا کی پراکٹس کو اپنا کر اسلامی روح کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔بلکہ ان تمام فرسودہ طریقوں اور طاغوت کے راستے کو ترک کر کے صرف مضبوط ایمان و موجبات تقویٰ کے ذریعہ اسلامی روح کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔

اسلام اور مسلمانوں کا تشخص بغیر اسلامی روح کے باقی نہیں رہ سکتا۔ ایسا طور طریقہ،نہج و سلوک،لباس و لبادہ،فیشن زدہ طرز زندگی و رجحان کو اختیار کرنا جو من حیث کل  مجموعی طور پر اسلامی مبادیات اور تعلیمات کے منافی ہوں۔ایمان و جذبہ اسلامی کے زوال کا سبب بنتے ہیں۔

یورپ و امریکہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان ایسی دوکانوں اور سوپر مارکٹس اور ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں جہاں کھلے عام شراب اور خنزیر کا گوشت فروخت ہوتا ہے۔اگر کوئی فاقہ کشی کا شکار ہے تو ایسی ملازمت کے سوا کوئی چارہ نہیں تو استثنائی صورت میں وقتی اجازت تو مل سکتی ہے۔ لیکن یہ اسلامی مزاج کے خلاف بات ہے کہ حرام اشیاء کی خرید و فروخت میں بحیثیت ملازم رول ادا کریں۔نگاہ مومن سے کفر خفی،نفاق و بغی اور خباثت چھپ نہیں سکتے۔ شرور اور مفسدات سے بھری باتوں اور اعمال و حرکات کو سمجھنے اوراس کی نشاندہی کو وقت نہیں لگتا۔مومن کے اندر حق کو حق،باطل کو باطل،خیر کو خیر قرار دینے کی بہترین صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اس کا شعور بلند اور ضمیر اتنا چاق و چوبند ہوتا ہے کہ وہ فوری فرق جان جاتا ہے۔ یہ کفر کی خباثتیں ہیں۔ مشکوک، مشتبہ، خفی کفر کو پہچان لینے کا  اس میں ادراک ہوتا ہے۔ مومن مشرکانہ باتوں کے سلسلے میں بڑا حساس ہوتا ہے۔ یہ صفت ہی اسلامی اسپرٹ کو زندہ و متحرک رکھتی ہے۔ اور وہ کفر و باطل اور منکرات کے تدارک کے لئے پوری طاقت و قوت کو بروئے کار لاتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان توہمات کے قائل ہوتے ہیں۔ اپنے گھروں اور کاروباری مقامات پر گنڈے پلیتے لٹکاتے،ہاتھ،کمر اور پیر میں کالے پیلے دھاگے باندھتے اورمنحوس و متبرک شب دنوں کی تخصیص کرتے ہیں۔ مرد نوجوان سر پر جٹو رکھنے،کان میں بالیاں پہننے اور خوشی کے موقع پر پیلا رنگ لگانے اور ناریل پھوڑنے کو باعث فضیلت و برکت سمجھتے ہیں۔یہیں سے ان کی بد عقیدگی اور شرک کی ابتدا ء ہو جاتی ہے اور وہ بگاڑ،گمراہی اور ضلالتوں کی گہری کھائی میں گر پڑتے ہیں۔

جن لوگوں کے قلب میں ایمانی حرارت ہوتی ہے وہ کفر کرنا تو درکنار کفر کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ وہ ایسے موحد ہوتے ہیں کہ توحید پرستی ان کی زندگی کا عظیم قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔

کفر و شرک، نفاق جیسے گناہ انھیں چھو بھی نہیں سکتے۔ و ہ شیطان کی چال بازیوں اور نٹ ورک سے بچنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایک شخص کو اندر سے جو چیز طاقتور بناتی ہے وہ پختہ عقیدہ، توحید اور اعلیٰ کردار کو اعلیٰ و خشیت الٰہی کے ذریعہ نفس کو مطمئن بنائے رکھتی ہے۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایک مکمل مسلمان ہوتا ہے۔ یہی وہ اسلامی اسپرٹ ہے جو ہمیں اللہ کا محبوب بندہ اور دنیا میں بلند و مشرف و مکرم بناتی ہے۔

شریعت اسلامی میں دی گئی رخصتوں،اجازتوں،حیلوں اور نظریاتی تاویلات Conceptional interpretation  پر زندگی کا انحصار کرنا، پر شکوہ عصری مادی جگمگاتی تہذیب و کلچر میں گھل مل جا نا۔ دراصل مسلمان کے لئے خودسپردگی اور شکست خوردگی کی علامت ہے۔

یہ نام نہاد روشن خیالی،کھلے دماغ اور آزاد فکر کی سوغات ہیں۔ جس کی بناء پر اسلام اور مسلمان دونوں کمزور ہو کر مغلوب ہو جاتے ہیں۔ان کی اسی تساہلی، غفلت اور اسلام سے عدم دلچسپی کی وجہ سے دنیا کے مسائل اور چیالنجس میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔اور  حا  باطل طاقتوں و مخالفتوں کی ایک سونامی سب کچھ اپنے کوہ کی چوٹیوں کو چھوتے ہوئے تیز تموج میں بہا لے جاتی ہے۔ اسلام سے عاری و ناواقف مسلمان ادیان باطلہ و افکار فاسدہ سے مرعوب ہو کر جب تعقدی اور تہذیبی یلغار سے مقابلے کے لئے اٹھتا ہے تو ایمانی کمزوری کی بناء پراس خاموش جنگ کو ہار جاتا ہے جس سے اسلام کی روح فنا ہو جاتی ہے اور اسلامی مزاج کے خاتمہ میں چند لمحے بھی نہیں لگتے۔

اسلام کی اسپرٹ اور مزاج کا انحصار قرآن اور منہج رسول ؑ و صحابہ اکرام پر ہے۔ اس کے علاوہ جواسپرٹ ابھر رہی ہے وہ قابل رد ہے۔

یوگا کو بطور عقیدہ یا پھر صرف ہندوستانی قدیم طریقہ و کھیل تصور کیا جائے تو ہر دو صورتوں میں ایمان کی حفاظت کا مسئلہ درپیش رہے گا۔یوگا کی پراکٹس کرنے سے اہل ایمان کے عقل، حسب نسب اور پھر وقار کے تحفظ کا مسئلہ پیدا ہو گا اور تعقدی کمزوریوں اور غیر مذہب کی اتباع ملت کے تمام حصوں کو نقصان پہنچائے گی اور اس کا اثر آنے والی نسلوں تک جاری رہے گا۔

٭٭٭

 

15۔ اختتامی کلمات

عصر حاضر میں ملت اسلامیہ کے لئے کئی چیالینجیس میں ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ کافرانہ نظریات و افکار، طور طریقوں اور طرز زندگی سے مسلمانوں کو بچایا جائے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر گلوبل کلچر Global Culture کے نام پر جو تہذیب مسلط کی جا رہی ہے۔ ہمارے بڑوں اور نوجوانوں کی اکثریت آنکھوں کو چکا چوند کر دینے والی تہذیبی یلغار کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہے۔ خود ہمارے خاندان اور سوسائٹی نے اسلامی تہذیب و ثقافت کے ہاتھ پاؤں توڑنے میں دشمنان اسلام کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اور جو لوگ اسلام کے محض علمبردار ہیں ان میں اسلامی تہذیب کی صیانت و حفاظت کے لئے لڑنے مرنے کی تاب نہیں ہے۔

ان میں گلوبل کلچر کے ان تابڑ توڑ حملوں سے بچنے کی قوت نہیں پائی جاتی۔ دین دار طبقے کی اکثریت خود سپردگی اور بے چارگی اور شر و منکرات، باطل ظالم کے ساتھ ہر قدم پر سمجھوتوں میں اپنی بقاء تلاش کر رہے ہیں۔ جو ایک تباہ کن مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔یوگا کو مشروع و جائز قرار دینے والوں کی نظر صرف صحت مندی اور قدیم طریقہ ورزش پر ہوتی ہے۔

ملت میں اب یوگا کی پراکٹس کا اجتماعی شوق ابھر رہا ہے۔ تعلیم یافتہ، فیشن پرست لوگوں کے علاوہ کئی مسلم اداروں، شاپنگ مالس،دفاتر اور کارخانوں میں یوگا کے کلاسس کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اور یوگا کے لئے کونسلنگ سنٹرس لگائے جا رہے ہیں۔

دینداروں کی جانب سے یوگا کی مقبولیت اور اسمیں دلچسپی دراصل ایک مشرکانہ طریقہ ورزش وکسرت کو شریعت اسلامی میں خاموشی سے داخل کر نا ہے۔اگر چک و کنٹرول check & control علماء و فقہا اور دانشوروں کی جانب سے نہیں رہے گا تو یہ سلسلہ چل پڑے گا اور عجب نہیں کہ مسلمان اسے اپنی زندگی کا ایک لازمی حصہ بنا لیں۔جو خود طالب علم کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ عقلی اور فقہی مباحث میں محض جذباتی وابستگی کی بناء پر دعوت دیتے ہیں اور قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ شریعت میں ممنوع نہیں ہے۔ یوگا پنڈتوں اور گروؤں کی تعلیمات سے متاثر ہو کر بھجن، اشلوک کے ورد اور منترا پڑھنے کا ابلیسی جواز بھی تلاش کر لیں گے۔ اور مسلم یوگیوں کی تعداد میں چند سالوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ اور یہ ہوسکتا ہے کہ مسلم یوگی مستقبل میں اسلام کے لئے روگی بن جائیں گے۔

عقائد و اخلاق، تہذیب و معاشرت، سیاست، امور معاش، نظام تعلیم پر اگر غلبہ کفر اسی انداز پر جاری رہا تو مسلمان اسلامی تعلیمات اور مبادیات کو فراموش کر دیں گے اور چند ہی سالوں میں ملت اپنی اصلیت کھودے گی اور اسلام اور غیر اسلام میں تمیز نہ کر سکے گی۔

یوگا کی افادیت اور کارآمد باتوں سے بڑھ کر اسلام کی تعلیمات میں بہت کچھ موجود ہے۔ اہل ایمان اگر قرآن و حدیث میں دلچسپی لیں۔ اس کے معنی و مطالب اور تقاضوں کو سمجھیں تو اس کے احکامات، وعدہ، ترغیب اور ترہیب کے ذریعہ ایک مضبوط محاسن سے بھر پور بہترین اسلامی شخصیت تعمیر ہو سکتی ہے۔ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے یقین محکم پیدا کر سکتے ہیں۔ جس سے مشکل حالات میں غیرت و حمیت اور کفاح کے ساتھ حبل اللہ متین کو تھامے رکھنے جذبہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ اور دین اور اسلامی وقار و تشخص کی حفاظت کے لئے کوشش میں لگ جائیں گے۔

نبی کریم ﷺ کے زمانے میں جو مومنین جہالت کے سبب کوئی برا کام کر دیا کرتے تھے تو اس کے متعلق آیت نازل ہوتی جس میں ہمارے لئے سبق ہے۔

اذا جائک الذین یؤمنون بآیٰتنا فقل سلم علیکم کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ انہ من عمل منکم سوء ا بجھالۃ،ثم تاب من بعدہ واصلح فانہ غفور رحیم   O

’’اور جب یہ مومن جو ہماری آیات پر پورا یقین رکھتے ہیں اور آپ   کے پاس آیا کریں تو آپ یہ کہا کریں کہ تم پر سلامتی ہو، تمہارے    رب نے اپنی رحمت اپنے پر لازم کر لیا ہے کہ جو تم میں سے جہالت    کے سبب برا کام کرے، پھر وہ توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے     تو اللہ کی شان ہے کہ اللہ معاف کر دیتا ہے اور وہ بڑی مہربانی    کرنے والا ہے۔(۵۴ :انعام :۶)

ہر مسلمان کو یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ آخر وہ کسی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔دین اللہ، خیر و حق کے نمائندے کبھی اغیار کے عقائد، تہذیب و تمدن، معاشرت سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ اپنے کردار عمل سے انھیں متاثر کر دیتے ہیں۔ مسلمان ہر سطح پر اسلام کے بہترین تشخص مشابہ Ideal representation پیش کریں۔ غلامانہ، مغلوب، کمزور ذہنیت کا خاتمہ کریں۔ عزت،وقار اور فخر کے ساتھ اسلام کے علمبردار بن کر آخر ی سانس تک قائم رہیں۔یہی ہماری انفرادی و اجتماعی فلاح و کامیابی ہے۔

وما علینا الا البلاغ

٭٭٭

تشکر: مسلم گرلز اسوسی ایشن، حیدر آبادجس ذریعے سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید