FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

یادِ رفتگاں

 

احمد علی برقیؔ اعظمی

 

 

ہے ہمارے دل میں یادِ رفتگاں

معترف ہے جن کی عظمت کا جہاں

اہلِ اردو کو نہ کیوں ہو اِن پہ ناز

ہیں یہ برقیؔ زیبِ تاریخِ جہاں

دینی شخصیات

نذرِ عقیدت بحضورِ سیدنا حضرت

امام حسین

 

 

سیدِ شُبّانِ جنت ہیں حسین ابنِ علی

مظہرِ شانِ شجاعت ہیں حسین ابنِ علی

منبعِ رشد و ہدایت ہیں حسین ابنِ علی

نیّرِ چرخِ امامت ہیں حسین ابنِ علی

موجِ خوں میں ڈوب کر بھی وہ رہے ثابت قدم

نازشِ عزمِ شہادت ہیں حسین ابنِ علی

ضو فشاں ہے ذات اُن کی عظمتِ کِردار سے

گوہرِ گنجِ سعادت ہیں حسین ابنِ علی

رزم گاہِ خیر و شر میں وہ رہے سینہ سپر

روحِ صبر و استقامت ہیں حسین ابنِ علی

کارناموں سے جو اپنے زندۂ جاوید ہے

زندگی کی وہ علامت ہیں حسین ابنِ علی

کربلا کے ذرے ذرے سے ہے برقیؔ جلوہ گر

ہر جگہ محوِ عبادت ہیں حسین ابنِ علی

٭٭٭

نذرِ عقیدت بسلسلۂ منقبتی مشاعرہ بیادِ

احمد رضاؔ خان بریلوی

مصرعہ طرح : احمد رضا کی دھوم ہے سارے جہان میں

میں لب کُشائی کیا کروں اب اُن کی شان میں

’’احمد رضا کی دھوم ہے سارے جہان میں ‘‘

سرشار اُن کا قلب تھا حُبِّ رسول سے

اعجازِ نعت خوانی تھا اُن کی زبان میں

پیش آیا جب کبھی حق و باطل کا معرکہ

تھے سُرخرو ہمیشہ ہر اِک امتحان میں

تھا جلوہ گاہِ احمدِ مختار اُن کا دل

اِک ربط، باہمی تھا مکین و مکان میں

ہے بزمِ منقبت جو سجی اُن کی یاد میں

اِک نقشِ جاوداں رہے یہ اُن کی شان میں

زورِ قلم کی اُن کے وہاں تک تھی دسترس

برقیؔ نہیں ہے جو مرے وہم و گُمان میں

٭٭٭

مفسرِ قرآن حضرت مولانا

اسرار احمد

فکرو فن کا چراغ تھا نہ رہا

ایک روشن دماغ تھا نہ رہا

نام تھا جس کا ڈاکٹر اسرار

زندگی کا سراغ تھا نہ رہا

جس سے ہوتے تھے بہرہ ور سب لوگ

پُر ثمر ایسا باغ تھا نہ رہا

اُس کی تفسیر تھی نشاطِ روح

رنج و غم سے فراغ تھا نہ رہا

تیرہ و تار رہگذاروں میں

شمعِ دیں کا سراغ تھا نہ رہا

وہ تھا ایسا مفسرِ قرآن

جس کا روشن دماغ تھا نہ رہا

٭٭٭

امام غزالیؒ

وہ غزالی تھے جو اقصائے جہاں میں انتخاب

علم و حکمت کا نہیں ہے آج تک جن کی جواب

آج ہی کے دن ہوئے تھے طوس میں وہ جاں بحق

ہیں درخشاں کارنامے اُن کے مِثلِ ماہتاب

زیبِ تاریخِ جہاں ہیں اُن کے رشحاتِ قلم

روح پرو ر ہے کتابِ زندگی کا اُن کی باب

لوحِ دل پر نقش ہیں اُن کے نقوشِ جاوداں

ہو رہے ہیں جن سے اربابِ طریقت فیضیاب

اُن کی ہے مرہونِ مِنّت شرحِ اسلامی فقہ

مفتیانِ شرع جس سے کر رہے ہیں اکتساب

تھا علومِ دین و دنیا پر انھیں حاصل عبور

فلسفے میں بھی ہے اُن کی شخصیت عزت مآب

مُنکشف کرتے تھے برقیؔ اس کے اسرارو رموز

ان کے احسانات ہیں علمائے دیں پر بے حساب

٭٭٭

خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ

تھے معین الدین اجمیریؒ جو ولیوں کے ولی

منبعِ رُشد و ہُدیٰ ہے ان کی عملی زندگی

ہے ولایت ان کی لوگوں کے دلوں پر حکمراں

ہیچ جس کے سامنے ہے تخت و تاجِ خُسروی

عرس جو اجمیر میں جاری ہے ان کا آج کل

دیتا ہے سب کو پیامِ امن و صلح و آشتی

جوق در جوق آرہے ہیں لوگ طول و عرض سے

مطلعِ انوار ہیں ان کے فیوضِ باطنی

ہے مشامِ جاں معطر رہروانِ شوق کی

روح پرور ہے یہ گلزارِ ولایت کی کلی

ہے سفیرِ احمدِ مختارﷺ کی یہ بارگاہ

اہلِ دل کی روح کو ملتی ہے جس سے تازگی

مذہب و ملت کی ہے ہر قید سے یہ بے نیاز

ملتا ہے سب کو یہاں آ کر سرورِ معنوی

ہے شرابِ معرفت میخانۂ چشتی میں عام

پھر بھی باقی ہے ابھی تک کیوں نہ جانے تشنگی

ہے تصوف سے شغف جس کو وہ ہے ان کا مرید

عالمِ روحانیت کرتا ہے اُن کی پیروی

سایہ گُستر ان کا روحانی تصرف اس پہ ہے

اُن پہ قرباں ہے متاعِ شوقِ برقیؔ اعظمی

٭٭٭

سید ابو الاعلیٰ مودودی

سید ابولاعلیٰ مودودی تھے اسلام کی شان

اسلامی دنیا میں اُن کی الگ ہے اک پہچان

تفہیم القرآن ہے اُن کی مرجعِ اہلِ فکرو نظر

صفحۂ ذہن پہ ثبت ہیں میرے ان کی کتابوں کے عنوان

دیتی ہے تفسیرِ قرآں اُن کی درسِ فکر و عمل

نسلِ جواں ہے جس سے اب تک جان کے بھی انجان

اُن کے سبھی رشحاتِ قلم ہیں طرزِ فکر کے ان کی شناخت

کر دیتی ہیں تحریریں اُن کی تازہ ایمان

اپنے مشن سے عہدِ رواں میں ذہنوں کو بیدار کیا

جاری و ساری آج بھی اُن کا برقیؔ ہے فیضان

٭٭٭

ڈاکٹر

عمر خالدی

چل بسے اِس جہاں سے عمر خالدی

درسِ حُسنِ عمل جن کی تھی زندگی

ہو گئی آج گُل شمعِ فکرو عمل

جس سے تھی ہر طرف علم کی روشنی

اہلِ دانش کے ذہنوں میں موجود ہے

اُن کی تحریر و تقریر کی دلکشی

اُن کی علمی بصیرت کے ہیں معترف

جن کی فکرو عمل سے ہے وابستگی

عمر بھر تھے حقوقِ بشر کے امیں

خدمتِ خلق تھا حاصلِ زندگی

اپنے شخصی فوائد سے قطعِ نظر

اُن کو ملحوظ تھی قوم کی بہتری

ناگہاں موت ہے اُن کی ایسا خلاء

پُر نہیں ہو سکے گا جو برقیؔ کبھی

٭٭٭

بانیِ جامعۃ الرشاد، اعظم گڑھ، مولانا

مجیب اللہ ندوی

شہرِ اعظم گڈھ میں واقع ہے جو جامعتہ الرشاد

ہے مجیب اللہ ندوی کی وہ زریں یادگار

تھے وہ بحرِ علمِ دیں کی ایک دُرِّ شاہوار

شخصیت اس شہر میں تھی اُن کی وجہِ افتخار

اُن کی اسلامی فقہ پر ہیں جو معیاری کُتُب

اُن کے ذوقِ حق پرستی کی ہیں وہ آئینہ دار

اُن کا نصب العین تھا بیداریِ ملی شعور

زندگی بھر تھے وہ عصری آگہی سے ہمکنار

اُن کی خوئے بے نیازی پر ہے اہلِ دل کو ناز

کیوں نہ گُلہائے عقیدت وہ کریں اُن پر نثار

مردِ میداں تھے وہ اپنے شیوۂ گُفتار سے

اُن کی حق گوئی تھی برقیؔ باعثِ عز و وقار

٭٭٭

مولانا پروفیسر

 

 

محمد عبدالستارخان

شکاگو

ہو گئے خلد آشیاں ستار خاں

ضو فشاں تھی جن سے بزمِ عارفاں

نقشبندی سلسلے کے یہ بزرگ

تھے دلوں پر اہلِ دل کے حکمراں

دی حسنؔ چشتی نے مجھ کو یہ خبر

معترف ہے جن کی عظمت کا نشاں

تھا تصوف سے انہیں بیحد شغف

تھے وہ اسرارِ خودی کے راز داں

تھے شکاگو میں وہ سرگرمِ عمل

بزمِ عرفاء کی تھے وہ روحِ رواں

اہلِ دانش کے تھے منظورِ نظر

تھے وہاں وہ مرجعِ دانشوراں

چوبیس اکتوبر کو وہ رخصت ہوئے

چھوڑ کر دار الفنا سوئے جناں

علم و دانش کے ہیں جو خدمت گذار

اُن کا برقیؔ اعظمی ہے قدر داں

٭٭٭

نامور مستشرق

مریم جمیلہ

مرجعِ تقلید ہے مریم جمیلہ کی حیات

زندۂ جاوید ان کے کام ہیں بعد از وفات

روشنی اسلام کی تھی اُن کے دل میں ضو فگن

ہے فروزاں تا ابد جس سے نظامِ کائنات

کر دیا قربان سب کچھ عظمتِ اسلام پر

اُن پہ ہونی چاہئے سب کی نگاہِ التفات

لکھ دیا بے ساختہ آیا جو میرے ذہن میں

ساتھ اب دیتے نہیں میرا قلم، کاغذ، دوات

دے جزا قربانیوں کی اُن کی رب العالمین

زندگی میں جھیلے ہوں گے کتنے برقیؔ سانحات

٭٭٭

مولانا حمید الدین فراہی

تھے حمیدالدیں فراہی نازشِ ہندوستاں

جن کے رشحاتِ قلم ہیں مرجعِ دانشوراں

اُن کا ہے اصلاح سے رشتہ ہوں جیسے جسم و جاں

زندہ و تابندہ ہیں اُن کے نقوشِ جاوداں

آبروئے شرق تھے وہ شبلی نعمانی کے بعد

تھے سرائے میر میں اصلاح کی روحِ رواں

اُن کو اردو، فارسی، عربی پہ تھا یکساں عبور

ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں اُن کی عظمت کے نشاں

رہتی دنیا تک کریں گے لوگ جن سے کسبِ فیض

اُن کی معیاری کُتُب ہیں ایک گنجِ شایگاں

اُن کا اسلوبِ بیاں ہے اُن کی عظمت کی دلیل

اُن کا علمی مرتبہ اہلِ نظر پر ہے عیاں

اُن کی ہے توضیحِ قرآں کارنامہ بے نظیر

صدق دل سے اُن کا برقیؔ اعظمی ہے قدر داں

٭٭٭

علمی ادبی شخصیات

ابن انشاء

ابنِ انشاءؔ کا نہیں کوئی جواب

اُن کا حُسنِ فکرو فن ہے لاجواب

اُن کی غزلوں میں ہے وہ سوز و گداز

کھا رہے ہیں لوگ جس سے پیچ و تاب

اُن کا طرزِ فکر تھا سب سے جُدا

اُن کا فن روشن ہے مثلِ آفتاب

اُن کا اسلوبِ بیا ں تھا دلنشیں

وہ تھے اقصائے جہاں میں انتخاب

وہ سپہرِ علم کی تھے کہکشاں

ہو رہے ہیں لوگ جس سے فیضیاب

ہے درخشاں جس سے عصری آگہی

زندگی تھی اُن کی وہ روشن کتاب

اُن سے تھا سرسبز گلزارِ سخن

گلشنِ اردو کے تھے برقیؔ گُلاب

٭٭٭

ابن صفیؔ

ابن صفیؔ سپہرِ ادب کے تھے ماہتاب

اردو ادب میں جن کا نہیں ہے کوئی جواب

وہ اپنے دوستوں کے دلوں میں ہیں آج تک

ویب سائٹ اُن کی کیوں نہ ہو عالم میں انتخاب

جاسوسی ناولوں میں جو ہیں اُن کے شاہکار

اپنی مثال آپ ہیں وہ اور لاجواب

کرداروں کی زبان سے اپنے سماج کے

وہ کر رہے تھے تلخ حقائق کو بے نقاب

ناول نگار یوں تو بہت آئے اور گئے

پیدا ہوا نہ آج تک اُن کا کوئی جواب

جو اُن کا حق تھا آج تک ان کو نہ مل سکا

زندہ ہیں اپنے کام سے وہ ہم ہیں محوِ خواب

اہلِ نظر ہیں جو اُنھیں اس کا ہے اعتراف

جاسوسی شاہکار ہے اُن کی ہر اک کتاب

اُن کے نقوشِ جاوداں پھیلے ہیں ہر طرف

احسان اُ ن کے اردو ادب پر ہیں بے حساب

موجود اُن کے سینے میں تھا دردمند دل

ہیں اُن کی شاعری سے عیاں جو تھے اُن کے خواب

برقیؔ جو اُن کا فرض تھا وہ تو نبھا گئے

ہے اقتضائے وقت کریں اُس کا احتساب

٭٭٭

ابن صفی

راشد اشرف کی تازہ ترین تالیف ’’ابن صفی : کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا‘‘ پر منظوم تاثرات

’’ کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا‘‘

دہرائیں اب زبان سے تیرا فسانہ کیا

ابن صفیؔ جو کرنا تھا وہ تو نے کر دیا

تیرے لئے یہ دیکھیں ہے کرتا زمانہ کیا

جاسوسی ناولوں سے تو زندہ ہے آج تک

ہم تجھ کو یاد کرنے کا ڈھونڈیں بہانہ کیا

کیا راشد اشرف آج ہیں بس تیرے خیر خواہ

اب تیرا نام لیوا نہیں یہ زمانہ کیا

اہلِ قلم جو بھول گئے تیرے کام کو

ہے یہ کتاب ان کے لئے تازیانہ کیا؟

حدِّ ادب کا ہے یہ تقاضا زباں نہ کھول

برقیؔ ہے تیری نظم سخن گُسترانہ کیا ٭٭٭

ابن صفی

فکر کا معیار تھے ابن صفی

فن کے خدمتگار تھے ابن صفی

نام کا ہے کام میں اُن کے اثر

محرمِ اسرار تھے ابن صفی

اُن کا ہر ناول ہے ادبی شاہکار

معتبر فنکار تھے ابن صفی

گلشنِ اردو میں تھی جس سے بہار

وہ گُلِ بے خار تھے ابن صفی

مُنتظر تھے ناولوں کے اُن کی لوگ

ہر کسی کا پیار تھے ابن صفی

اردو کو ہر گھر میں وہ لے کر گئے

جس کے خدمتگار تھے ابن صفی

کر رہی ہے جامعہ جو اب ادا

پہلے ہی حقدار تھے ابن صفی

ظلم و جورِ ناروا سے عمر بھر

برسرِ پیکار تھے ابن صفی

ہے منور اُن سے بزمِ علم و فن

مطلعِ انوار تھے ابن صفی

قدر داں ہے جن کا برقیؔ اعظمی

سُرخیِ اخبار تھے ابن صفی

٭٭٭

ز

پروفیسر

احتشام حسین

ادیب و ناقد و شاعر تھے احتشام حسین

شعورِ فکر کا پیکر تھے احتشام حسین

جہانِ نقد و نظر میں نہیں ہے اُن کا جواب

علومِ عصر کا مظہر تھے احتشام حسین

خدا نے اُن کو ودیعت کیا تھا ذہنِ رسا

ذہین لوگوں کے رہبر تھے احتشام حسین

تھی نظم و نثر میں جدت پسندی ان کا شعار

جدید فکر کے خوگر تھے احتشام حسین

نقیبِ مارکسی تنقید تھے وہ اردو میں

ادب کے مہرِ منور تھے احتشام حسین

بجا ہے فکر کرے اُن پہ گر جو اعظم گڈھ

دیار ِ شرق کا جوہر تھے احتشام حسین

رہیں گے یونہی سدا ضو فگن وہ اے برقیؔ

سپہر علم کے اختر تھے احتشام حسین

٭٭٭

احمد فرازؔ

ناگہان زین دارِ فانی درگشت احمد فراؔز

بود اشعارش در اردو ترجمانِ سوز و ساز

او کہ بودہ در جہاں از چہرہ ہای سرشناش

نغمہ ھای جاودانش مظہرِ سوز و گداز

داشت در اردو تبحر شاعرِ پشتو زبان

سبکِ او در شعر اردو بود خیلی دلنواز

بازگو می شد بہ شعرش سرد و گرمِ روزگار

بررسی می کرد روحِ عصر را با ذہنِ باز

او نہ تنھا بود منظورِ نظر در کشورش

شھرتش گستردہ شد در خطۂ دور و دراز

گوی سبقت می ربود از دیگراں درراہِ عشق

بود او در آرمانش حق پرست و راستباز

شعرھایش بود برقیؔ مظہرِ سوزِ دروں

او ہمیشہ بود از سود و زیانش بے نیاز

٭٭٭

 

 

احمد فرازؔ

اگہاں رخصت جہاں سے ہو گئے احمد فرازؔ

جن کی اردو شاعری تھی ترجمانِ سوز و ساز

اپنے اندازِ بیاں سے تھے جہاں میں ناموَر

جاوداں نغمے ہیں ان کے مظہرِ سوز و گداز

ان کو یکساں اردو اور پشتو پہ حاصل تھا عبور

اُن کا طرزِ خاص اردو شعر میں تھا دلنواز

ان کی غزلوں سے عیاں ہے سرد و گرمِ روزگار

کرتے تھے حالات کا وہ تجزیہ با ذہنِ باز

صرف اپنے ہی وطن میں وہ نہ تھے ہر دلعزیز

اُن کی شہرت تھی جہاں میں ہر طرف دور و دراز

تھے وہ راہِ عاشقی میں دوسروں سے تیز گام

وہ اصولی طور پر تھے حق پرست و راستباز

ان کے تھے اشعار برقیؔ مظہرِ سوزِ دروں

جس کے تھے سود و زیاں سے وہ ہمیشہ بے نیاز

٭٭٭

احمد فرازؔ‍

یومِ وصال آج ہے احمد فرازؔ کا

جن کے ہے معترف یہ جہاں امتیاز کا

بزمِ سخن سے دور ہیں وہ چار سال سے

جن کا سخن مرقع تھا سوز و گداز کا

ہے گیسوئے عروسِ سخن آج خم بہ خم

جس کو ہے انتظار کسی کارساز کا

اردو غزل کی عہدِ رواں میں تھے آبرو

دھوکا سخن پہ ہوتا تھا جن کے مجازؔ کا

رونق نہیں ہے محفلِ ناز و نیاز میں

محمود منتظر ہے کسی پھر ایاز کا

مہدی حسن تھے جس پہ ہمیشہ غزل سرا

اب پیرہن دریدہ ہے پردہ وہ ساز کا

برقیؔ غزل سے اس کی جو کرتا تھا کسبِ فیض

محرم نہیں ہے آج کوئی اُس کے راز کا

٭٭٭

اصغرؔ گونڈوی

باغِ اردو کے گلِ بے خار اصغرؔ گونڈوی

بادۂ عرفاں سے تھے سرشار اصغرؔ گونڈوی

سب کا منظورِ نظر ہے اُن کا معیاری کلام

فکرو فن کا تھے حسیں معیار اصغرؔ گونڈوی

شاعری ہے اُن کی نورِ معرفت سے ضو فگن

سربسر تھے مطلعِ انوار اصغرؔ گونڈوی

وہ تھے استادِ جگرؔ جن کا نہیں کوئی جواب

یعنی تھے پروردۂ فنکار اصغرؔ گونڈوی

گلشنِ اردو میں اُن کی ذات تھی مثلِ بہار

رشکِ گل تھے رونقِ گلزار اصغرؔ گونڈوی

رہتی دنیا تک کریں گے اُن سے حاصل وہ خراج

اہلِ دانش کے معین و یار اصغرؔ گونڈوی

اُن کی غزلوں میں ہے برقیؔؔ ایک روحانی سرور

کیونکہ تھے اِک محرمِ اسرار اصغرؔ گونڈوی

٭٭٭

اظہار اثر

ابھی ابھی اک دوست سے مجھ کو ملی ہے یہ جانکاہ خبر

اردو کے ممتاز مصنف نہیں رہے ’’اظہار اثر‘‘

اُن کی تحریروں کا جادو سر پر چڑھ کر بولتا ہے

ناول ہو افسانہ ہو سائنس ہو یا ہو نقد و نظر

اردو میں سائنس پہ اُن کی سبھی کتابیں نادر ہیں

اُن کے ہیں آثار درخشاں چرخِ ادب پر مثلِ قمر

کیا توصیف کروں میں اُن کی ساتھ نہیں دیتے الفاظ

اُن کے سبھی رشحاتِ قلم ہیں مرجعِ اہلِ فکر و نظر

علم و ادب سے جن کو شغف ہے اُن کو ہے اس کا ادراک

اردو میں انمول ہیں اُن کی فکرو نظر کے لعل و گُہر

اردو ادب میں خلاء ہے ایسا ہو گا جو مشکل سے پُر

سوختہ ساماں ہیں برقیؔ کے اُن کی موت سے قلب و جگر

٭٭٭

شاعر مشرق علامہ

اقبالؔ

شاعری اقبالؔ کی ہے فکرو فن کا شاہکار

شہرۂ آفاق ہیں اُن کے یہ دُرِ شاہوار

’’پس چہ باید کرد‘‘ ہو یا اُن کی ہو ’’بانگِ درا‘‘

ہے جہانِ فکرو فن میں اُن کو حاصل افتخار

’’بالِ جبریل‘‘ اور ہیں ’’جاوید نامہ‘‘ بے مثال

اُن کے افکارِ درخشاں کے ہیں جو آئینہ دار

روح پرور ہیں ’پیام مشرق‘‘ اور ’’ضربِ کلیم‘‘

جن کے ہیں مداح اقصائے جہاں میں بے شمار

ہیں وہ یکساں آبروئے سرزمینِ ہند و پاک

جو بھی اربابِ نظر ہیں اُن کے ہیں منت گذار

کھولے ہیں ہم پر اُنھوں نے باب علم و فضل کے

جن کی تہذیبی روایت ہے نہایت شاندار

درسِ عبرت ہے ہمارے واسطے اُن کا کلام

دیتا ہے دادِ شجاعت جو ہمیں مردانہ وار

مشوروں پر اُن کے ہم کرتے اگر لبیک آج

سر پہ ہم سب کے نہ ہوتا اشہبِ دوراں سوار

جنت الفردوس میں درجات ہوں اُن کے بلند

اُن پہ نازل ہو ہمیشہ رحمتِ پروردگار

اُن سا کوئی ہو سکا پیدا نہ ہو گا حشر تک

میرا یہ نذرِ عقیدت اُن پہ ہے برقیؔ نثار

٭٭٭

شاعرِ مشرق علامہ

اقبالؔ

گزرے ہوئے یوں اُن کو ہوئے کتنے مہ و سال

ہر سمت نظر آتے ہیں اقبالؔ ہی اقبالؔ

کب تک رہے یہ ملتِ مظلوم زبوں حال

اب تک نہ ہوا پیدا کوئی دوسرا اقبالؔ

پیتے رہے وہ خونِ جگر اپنا ہمیشہ

ہر وقت انھیں فکر تھی ملت رہے خوشحال

وہ درسِ عمل دیتے تھے اشعار سے اپنے

اُن سا نہ ہوا اہلِ نظر کوئی بھی تا حال

ماضی بھی پسِ پُشت تھا، فردا پہ نظر تھی

تھا ذہن میں اُن کے نہ رہے کوئی بھی بدحال

سب راہِ ترقی پہ رواں اور دواں ہیں

زر دار جو ہیں اُن کو ہے بس فکرِ زر و مال

کرتا ہی نہیں درد کا کوئی بھی مداوا

ہے عہدِ رواں اپنے لئے جان کا جنجال

اسلاف سے ہے نسلِ جواں اپنے گریزاں

برقیؔ ہے یہی وجہ کہ ہم آج ہیں پامال

٭٭٭

امتیاز علی تاج

(جن کی آج برسی ہے)

یاد کرتے ہیں امتیاز علی تاج کو

جن کو اردو ڈراموں سے ہے کچھ شغف

وہ خیالی کہانی امر ہو گئی

جس کے کردار مشہور ہیں ہر طرف

آئیے یاد ہم آج اُن کو کریں

نام جن کا درخشاں ہے مثلِ صدف

پیش کرتے ہیں نذرِ عقیدت اُنھیں

یاد میں اُن کی فنکار سب صف بہ صف

آج ہی کا ہے برقیؔ وہ منحوس دن

تیرِ قاتل کا جب وہ بنے تھے ہدف

٭٭٭

امیر خسروؔ دہلوی

اک شمعِ ضو فشاں تھے حضرت امیر خسرو

مانندِ کہکشاں تھے حضرت امیر خسرو

نقشِ قدم پہ جن کے سب چل رہے ہیں اب تک

وہ میرِ کارواں تھے حضرت امیر خسرو

اردو ہو فارسی ہو، ہندی ہو یا کہ اودھی

معمار ہر زباں تھے حضرت امیر خسرو

لعل و گُہر سے بڑھ کر ہے جس کی قدرو قیمت

وہ گنجِ شائگاں تھے حضرت امیر خسرو

عرضِ ہُنر سے ان کے ظاہر ہے اہلِ دل پر

فطرت کے راز داں تھے حضرت امیر خسرو

حُسنِ عمل سے اپنے تا زندگی دلوں پر

لوگوں کے حُکمراں تھے حضرت امیر خسرو

سرچشمۂ شرف ہے سب کے لئے جو برقیؔ

عظمت کا وہ نشاں تھے حضرت امیر خسرو

٭٭٭

آتشؔ، خواجہ حیدر علی

ہے زمانہ فکر و فن کے معترف اعجاز کا

’’ شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا‘‘

اس تناظر میں اگر دیکھیں گے آتشؔ کا کلام

خودبخود اندازہ ہو جائے گا اس اعجاز کا

اُن کا اندازِ بیاں ہے مظہرِ اوجِ خیال

حوصلہ تو اُن کے دیکھیں ذہن کی پرواز کا

میری باتوں پر نہ جائیں خود ہی دیکھیں پڑھ کے آپ

دیکھنا ہے گر اثر کچھ ان کے سوز و ساز کا

اُن کا ہے ناقابلِ توصیف اندازَ بیاں

اس سے بہتر رنگ کیا ہو گا نیاز و ناز کا

ہے زمانہ گوش بر آواز سننے کے لئے

آج بھی دلکش ترانہ اس مرصع ساز کا

اس سے ہو جائے گی روشن چشمِ باطن آپ کی

ہے مرقعِ حُسنِ فطرت کے یہ برقیؔ راز کا

٭٭٭

آرزوؔ لکھنوی

فخرِ شہرِ سُخن آرزوؔ لکھنؤی

جن کے طرزِ کُہن میں بھی ہے دلکشی

نُدرتِ فکرو فن اور شگفتہ زباں

بخش دی شاعری کو نئی زندگی

ہے بہت دلنشیں اُن کا رنگِ سخن

کیف و مستی سے سرشار ہے شاعری

ہے مئے عشق اشعار میں موجزن

اُن کی غزلوں میں ہے لذتِ میکشی

میرا لکھنے کا مقصد ہے یہ تذکرہ

تا کہ نسلِ جواں کو رہے آگہی

بھولتے جا رہے ہیں مشاہیر کو

آج اردو ہے جن کی زباں مادری

میں ہی اُن کا نہیں ہوں ثنا خواں فقط

قدر داں آج ہیں اُن کے برقیؔ سبھی

٭٭٭

پروفیسر

آفاق صدیقی

دیکھ کر آفاق صدیقی کے دلکش شاہکار

کلمۂ تحسین لب پر آ رہا ہے بار بار

’’صبح کرنا شام کا‘‘ ہے خوبصورت خود نوشت

بحرِ ذخارِ ادب کی ہے جو دُرِّ شاہوار

کرتی ہے ہم کو مشاہیرِ ادب سے آشنا

ہے ’’کلاسیکی ادب‘‘ بھی اُن کی دلکش یادگار

سب کے منظورِ نظر ہیں اُن کے رشحاتِ قلم

’’عدنی بابا‘‘ بھی ہے اک تصنیف اُن کی با وقار

اُن کی ادبی کاوشیں ہیں مرجعِ اہلِ نظر

اس لئے اربابِ دانش ان کے ہیں منت گزار

جنت الفردوس میں اُن کو ملے ابدی سکون

اُن پہ نازل ہو ہمیشہ رحمتِ پروردگار

ان کے فکر و فن کا ہے مداح برقیؔ اعظمی

گُلشنِ اردو میں جن کی ذات تھی مثلِ بہار

٭٭٭

والدِ محترم حضرت

رحمت الٰہی برقؔ اعظمی

میرے والد کا نہیں کوئی جواب

جو تھے اقصائے جہاں میں انتخاب

پھر بھی اُن کو جانتا کوئی نہیں

ذہن میں ہے جس سے پیہم اضطراب

اُن کا مجموعہ ہے ’’تنویرِ سُخن‘‘

جس میں حُسنِ فکرو فن ہے لاجواب

اُن کا ہے مرہونِ منت میرا فن

آج میں جو کچھ ہوں وہ ہے اُن کا خواب

اُن کے تھے استاد نوحِؔ ناروی

داغ سے جن کا سخن تھا فیضیاب

اُن کے خرمن سے ہے برقیؔ خوشی چیں

ہے سخن جس کا اُنہیں کو انتساب

٭٭٭

بہادر شاہ ظفرؔ

سلطنتِ مغلیہ کے آخری تاجدار اور شاعرِ نامدار بہادر شاہ ظفرؔ کے ۱۵۰ ویں یومِ وفات کی مناسبت سے بتاریخ ۲۹ نومبر ۲۰۱۲ کو درسگاہِ بہادر شاہ ظفر کے زیرِ انتظام غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں ہونے والی تقریب پر منظوم تاثرات

ڈیڑھ سو سالہ بہادر شاہ کا یومِ وفات

ذہن میں کرتا ہے تازہ ایک یادوں کی برات

سوز و سازِ زندگی کی تھی علامت اُن کی ذات

روحِ اردو شاعری ہے اُن کی شعری کائنات

گنگا جمنی ہند کی تھے وہ ثقافت کے امین

مرجعِ تقلید ہے سب کے لئے اُن کی حیات

مل سکی اُن کو نہ اپنے ملک میں دو گز زمیں

زندگی تھی تیرہ و تاریک اُن کی جیسے رات

گردشِ حالات کی مظہر ہے اُن کی شاعری

پڑھ کے اُس کو ایسا لگتا ہے ہو جیسے کل کی بات

شخصیت تھی اُن کی اپنے آپ میں اک انجمن

ہے قلم قاصر کرے کیسے بیاں اُن کی صفات

جنگِ آزادی میں ہیں خدمات اُن کی بے مثال

چاہتے تھے وہ غلامی سے ملے سب کو نجات

کر دئے قرباں انھوں نے اپنے برقیؔ تخت و تاج

تھا جہانِ رنگ و بو اُن کی نظر میں بے ثبات

٭٭٭

پروین شاکر

بجھی نا وقت شمعِ زندگی پروین شاکر کی

مگر باقی ہے اب تک روشنی پروین شاکر کی

غزلخواں ہے عروسِ فکر و فن اشعار میں اس کے

نہایت دلنشیں ہے شاعری پروین شاکر کی

غزل بن کر دھڑکتی ہے دلوں میں اہلِ دل کے وہ

نہ ہو گی کم کبھی یہ دلکشی پروین شاکر کی

بنا لیتی ہے اپنے فکرو فن کا سب کو گرویدہ

غزل میں ہے جو عصری آگہی پروین شاکر کی

تر و تازہ ہیں گلہائے مضامیں آج بھی اُس کے

یونہی قایم رہے گی تازگی پروین شاکر کی

علمبردار تھی وہ جذبۂ احساسِ نسواں کی

نمایاں ہے کتابِ زندگی پروین شاکر کی

دلوں پر نقش ہیں برقیؔ نقوشِ جاوداں اس کے

ہے عصری معنویت آج بھی پروین شاکر کی

٭٭٭

پروین شاکر

ہے یہاں آسودۂ خاک آج ایسی شاعرہ

شہرۂ آفاق تھا جس کے سخن کا دایرہ

مرجعِ اہلِ نظر ہے جس کا آفاقی کلام

ناگہانی موت جس کی ہے ادب کا سانحہ

نام تھا پروین شاکر تھی جو ہرسو ضوفگن

منقطع ایسا ہوا وہ روشنی کا سلسلہ

اردو دنیا آج بھی ہے اُس کے غم میں سوگوار

تلخ تھا جس کے لئے یہ زندگی کا ذایقہ

مظہرِ سوزِ دروں ہے اس کا معیاری کلام

جذبۂ نسواں کا جس کی شاعری ہے تجزیہ

فکر و فن کا آج بھی ہوتا جہاں اُس کے اسیر

پیش آتا گر نہ اس کو ناگہانی حادثہ

مل گئے برقیؔ عزائم ساتھ اس کے خاک میں

کر رہی تھی نُدرتِ فکر و نظر کا تجربہ

٭٭٭

ممتاز و معروف اردو شاعرہ

ثمینہ راجہ

ثمینہ راجہ تھیں عہدِ رواں میں مایۂ ناز

تھی اُن کی شاعری اُن کے ضمیر کی آواز

ہیں اُن کے فن کے نشاں گیارہ شعری مجموعے

تھا اُن کے رنگِ تغزل کا منفرد انداز

ہوں ’’بازدید‘‘ ’’پریخانہ‘‘ یا کہ ’’عشق آباد‘‘

ہیں اُن کی ندرتِ فکر و نظر کا یہ اعجاز

شناخت اُن کی تھا اُن کے کلام کا جوہر

تھیں بزمِ شعر و سخن میں وہ شاعرہ ممتاز

کئی رسالوں کی تھیں وہ مدیر اردو کے

شعورِ فکر و نظر کے تھے اُن کے جو غماز

ثمینہ راجہ کی رحلت پہ آج اے برقیؔ

ہے میرا نذرِ عقیدت بصد خلوص و نیاز

٭٭٭

جگرؔ مرادآبادی

تھے شہنشاہِ تغزل شاعرِ اعظم جگرؔ

متفق اِس بات پر ہیں ناقدینِ معتبر

میری نظروں میں تھے وہ اردو غزل کی آبرو

اُن کی غزلوں سے حدیثِ دلبری ہے جلوہ گر

اُن کا اندازِ بیاں مقبولِ خاص و عام ہے

اُن کے گلہائے سُخن ہیں سب کے منظورِ نظر

اُن کی غزلوں میں نہاں ہے زندگی کا سوزوساز

اس لئے اشعار کر لیتے ہیں اُن کے دل میں گھر

اُن کا اُسلو بِ سُخن ہے اُن کی لافانی شناخت

ہو سکا اب تک نہ پیدا دوسرا کوئی جگرؔ

باغِ اردو میں تھی اُن کی شخصیت مثلِ بہار

شعری سرمایہ ہے اُن کا نخلِ دانش کا ثمر

شعر میں اُن کا لب و لہجہ ہے برقیؔ مُنفرد

اُن کا طرزِ فکر تھا آئینۂ نقد و نظر ٭٭٭

جگرؔ مرادآبادی

تھے شہنشاہِ تغزل شاعرِ اعظم جگرؔ

متفق اِس بات پر ہیں ناقدینِ معتبر

میری نظروں میں تھے وہ اردو غزل کی آبرو

اُن کی غزلوں سے حدیثِ دلبری ہے جلوہ گر

اُن کا اندازِ بیاں مقبولِ خاص و عام ہے

اُن کے گلہائے سُخن ہیں سب کے منظورِ نظر

اُن کی غزلوں میں نہاں ہے زندگی کا سوزوساز

اس لئے اشعار کر لیتے ہیں اُن کے دل میں گھر

اُن کا اُسلو بِ سُخن ہے اُن کی لافانی شناخت

ہو سکا اب تک نہ پیدا دوسرا کوئی جگرؔ

باغِ اردو میں تھی اُن کی شخصیت مثلِ بہار

شعری سرمایہ ہے اُن کا نخلِ دانش کا ثمر

شعر میں اُن کا لب و لہجہ ہے برقیؔ مُنفرد

اُن کا طرزِ فکر تھا آئینۂ نقد و نظر

٭٭٭

جگرؔ مرادآبادی

تھے جگرؔ ایک ایسے اہلِ نظر

جن کا لوگوں کے ہے دلوں میں گھر

اُن کا رنگِ سخن تھا سب سے جُدا

دوسرا کوئی ہو سکا نہ جگرؔ

تھے وہ مشاطۂ عروسِ غزل

جس کی زینت ہے ان کا عرضِ ہُنر

اُن کے اشعار میں ہیں جلوہ فگن

اُن کی طبعِ رسا کے لعل و گُہر

٭٭٭

جوشؔ ملیح آبادی

شاعرِ فکرو نظر جوشؔ ملیح آبادی

نخلِ اردو کے ثمر جوشؔ ملیح آبادی

سن بیاسی میں ہوئے بزمِ جہاں سے رخصت

باندھ کر رختِ سفر جوشؔ ملیح آبادی

اُن کے افکار ہیں اِس طرح منور جیسے

مشعلِ شمس و قمر جوشؔ ملیح آبادی

اہلِ دانش میں تعارف کے نہیں ہیں محتاج

دیدہ ور اہلِ نظر جوشؔ ملیح آبادی

صفحۂ ذہن پہ اب نقش ہیں یادوں کے نقوش

دل میں کر لیتے تھے گھر جوشؔ ملیح آبادی

نذر ہیں میرے یہ گلہائے عقیدت اُن کی

سب کی رکھتے تھے خبر جوشؔملیح آبادی

شخصیت شہرۂ آفاق ہے اُن کی برقیؔ

جو تھے مانندِ گُہر جوشؔ ملیح آبادی

٭٭٭

چراغ حسن حسرتؔ و حسرت موہانی

باعثِ اعزاز ہے میرے لئے

فیس بُک پر آپ سے ہوں ہمکلام

دونوں حسرتؔ اپنے اپنے کام سے

ہیں جہانِ فکرو فن میں نیک نام

ایک کلکتہ میں تھا مصروفِ کار

ایک کا موہان میں تھا فیضِ عام

دونوں نظم و نثر میں تھے مُنتہی

شاعری ہے بادۂ عشرت کا جام

دونوں میں ہے ایک قدرِ مشترک

دونوں تھے برقیؔ صحافت کے امام

٭٭٭

حافظ اقبال شاہینؔ

موت برحق ہے اس سے نہیں ہے مَفَر

کام آتا نہیں کوئی بھی چارہ گر

حافظ اقبال شاہین کی موت کا

اُن کے رفقاء کے دل پر ہے بیحد اثر

چل دئے چھوڑ کر عالمِ رنگ و بو

ہو گیا ختم یہ زندگی کا سفر

اُن کے اشعار ہیں سب کے وِردِ زباں

عہدِ حاضر کے شعراء میں تھے معتبر

اُس سے تھی ضو فشاں شمعِ شعر و سخن

رونقِ بزم تھا اُن کا عرضِ ہُنر

چل دئے آج برقیؔ وہ سوئے جناں

ہر کسی کو یہاں غمزدہ چھوڑ کر

٭٭٭

خواجہ الطاف حسین

 

 

حالی

مظہرِ علم و فضل حالیؔ کا

نام اردو ادب میں ہے ممتاز

اُن کی نظمیں ہیں شہرۂ آفاق

اُن کی غزلیں ہیں وقت کی آواز

ہے مُسدّس جو شاہکار اُن کا

اُن کے زورِ قلم کا ہے اعجاز

نقدِشعروسخن تھی متوازن

اُن کے ذوقِ سلیم کی غمّاز

رسمِ جدّت پسندی اردو میں

اُن کی تحریروں سے ہوئی آغاز

نبضِ دوراں پہ تھی گرفت اُن کی

جب تھے حالاتِ حاضرہ ناساز

تھے رفیقوں میں اُن کے سرسید

کارنامے ہیں جن کے مایۂ ناز

کر کے قائم انھوں نے دانشگاہ

درِ دانش کیا ہے ہم پر باز

وقت کی یہ اہم ضرورت ہے

ہم بھی اپنائیں اُن کا ہی انداز

اُن کی فکرِ جمیل میں برقی

ہے کہیں سوز اور کہیں ہے ساز

٭٭٭

حسرتؔ موہانی

حسرتؔ موہانی ہے ایسا اردو ادب میں نام

ہیں تاریخِ ادب کی زینت جس کے زریں کام

ان کا شعری سرمایہ ہے وہ ادبی میراث

جس کے ہیں مداح جہاں میں سبھی خواص و عوام

تھے وہ ایسے مردِ مجاہد دیتے تھے جو درسِ عمل

محو نہ ہونگے صفحۂ ذہن سے ان کے نقشِ دوام

مردِ مجاہد، نڈر صحافی، رونقِ بزمِ شعر و سخن

حسرت موہانی کا سب میں تھا ممتاز مقام

نظم و نثر کی صورت میں تاریخِِ ادب کا حصہ ہیں

اُن کے سبھی رشحاتِ قلم ہیں درسِ عمل کا پیام

آزادی کی جدو جہد میں رہتے تھے سرگرمِ عمل

عمرِ عزیز کے اپنی گذارے جیل میں صبح و شام

قول و عمل میں کبھی نہ دیکھا ان کے کوئی تضاد

احمد علی برقیؔ ہے ان کے حُسنِ عمل کا غلام

٭٭٭

حفیظؔ میرٹھی

حفیظؔ میرٹھی عہدِ رواں میں تھے ممتاز

تھا اُن کا رنگِ سخن اپنے عہد کی آواز

غزل ہو، نعت ہو، نظمیں ہوں یا قصائد ہوں

ہر ایک صِنف میں تھا ان کا منفرد انداز

سب اُن کو پیار سے کہتے تھے شاعرِ اسلام

تھی اُن کی ذاتِ گرامی جہاں میں مایۂ ناز

تھی اُن کی شاعری درسِ عمل سبھی کے لئے

تھا اُن کا رنگِ تغزل ضمیر کی آواز

تھے رزم گاہِ جہاں میں ہمیشہ سینہ سپر

تھی اُن کے ذہنِ رسا کی بلند تر پرواز

جہانِ شعر میں تھے مقصدی ادب کے نقیب

دلوں پہ نقش ہے اُن کے کلام کا اعجاز

تھے اہلِ دل کے دلوں پر وہ حکمراں برقیؔ

تھا اُن کا سوزِ دروں اس لئے اثر انداز

٭٭٭

دلاور فگار

یہ دلاور فگار کا انداز

اُن کے زورِ قلم کا ہے اعجاز

سبق آموز ہے یہ طنز و مزاح

اُن کا طرزِ بیاں ہے مایۂ ناز

درسِ عبرت ہے اُن کا رنگِ سخن

ہے جو اُن کے ضمیر کی آواز

نبضِ دوراں پہ تھی گرفت اُن کی

اپنے ہم عصروں میں تھے وہ ممتاز

تھی زباں سہل ممتنع اُن کی

شاعری میں تھا اُن کی سوز و گداز

اُن کا ذوقِ سلیمِ فکرو نظر

اُن کی طبعِ رسا کا ہے غماز

اُن کی نظموں سے ہیں عیاں برقیؔ

زندگی کے سبھی نشیب و فراز

٭٭٭

راج بہادر گوڑ

راج بہادر گوڑ کی رحلت ہے ایسا نقصان

جس کا نہیں تھا اہلِ نظر کو کوئی وہم و گمان

اردو میں تھیں تین کتابیں اُن کی بہت مقبول

اُن کی ترقی پسند ادیبوں میں تھی الگ پہچان

’’ادبی تناظُر‘‘ ’’ادبی جائزے‘‘ اور دیگر رشحاتِ قلم

اردو ادب میں معیاری ہیں فکرو نظر کے نشان

حلقۂ ذوقِ فکرو نظر تھا اُن کا بہت وسیع

اردو اور ہندی میں اُن کا یکساں تھا سمّان

اُن کی وسیع القلبی کا ہے سب سے بڑا ثبوت

اردو ٹرسٹ کو تین لاکھ کی نقد رقم کی دان

اردو کا سرمایہ ہیں اُن کی ادبی خدمات

قایم و دایم یونہی رہے گا اُن کا یہ فیضان

رہیں گے وہ تاریخِ ادب میں صدیوں تک محفوظ

اردو زبان و ادب پر اُن کے جو بھی ہیں احسان

حیدرآباد کی رونق تھے، اور دہلی کے منظورِ نظر

اردو ادب کے فروغ میں برقیؔ وقف تھی اُن کی جان

٭٭٭

رالف رسل

کیوں وِردِ زباں نام نہیں رالف رسل کا

مغرب میں جو اردو کے تھے بے لوث پرستار

ہیں یاد دہانی کے لئے میرے یہ اشعار

میں اِس لئے کرتا ہوں یہ جذبات کا اظہار

ہیں فرض ہمارا نہ کریں ان کو فراموش

محتاجِ تعارف نہ ہوں اردو کے قلمکار

اردو کے بہی خواہوں سے غفلت نہیں اچھی

بیدار ہوں، بیدار ہوں، بیدار ہوں، بیدار

اردو ہے محبت کی زباں اس لئے برقیؔ

منظورِ نظر سب کے ہوں اردو کے یہ فنکار

٭٭٭

ممتاز اردو ناول نگار مرحومہ

رضیہ بٹ

رضیہ بٹ بھی ہو گئیں ہم سے جُدا

پورا ہو گا اب بمشکل یہ خلا

اُن کے ناول ’’ناجیہ‘‘ اور ’’صاعقہ‘‘

ہیں حقیقی زندگی کا آئینہ

مطلعِ انوار تھی جس سے فضا

وہ چراغِ داستاں گُل ہو گیا

اُن کے اکیاون ہیں ادبی شاہکار

ناولوں کی شکل میں جلوہ نما

دیکھتی تھیں جو بھی گِرد و پیش وہ

کرتی تھیں اظہار اُس کا بَرملا

ان کا مرقد مطلعِ انوار ہو

جنت الفردوس ہو اُن کو عطا

بجھتے جاتے ہیں یہ اردو کے چراغ

روشنی ہے جن کی برقیؔ جانفزا

٭٭٭

ممتاز اردو صحافی، نامور افسانہ نگار اور نقاد

ساجد رشید

مرجعِ دانشوراں ساجد رشید

چل دئے سوئے جناں ساجد رشید

تھا صحافت اُن کا فطری مشغلہ

رکھتے تھے عزمِ جواں ساجد رشید

اردو افسانہ ہو یا نقد و نظر

سب کی تھے روحِ رواں ساجد رشید

نبضِ دوراں پر تھیں اُن کی اُنگلیاں

تھے صحافت کی زباں ساجد رشید

اپنے رفقاء میں تھے وہ ہردلعزیز

تھے دلوں پر حکمراں ساجد رشید

اپنے افکار و عمل سے تھے سدا

بے زبانوں کی زباں ساجد رشید

پیش کرتا ہے اُنھیں برقیؔ خراج

جو تھے سب پر مہرباں ساجد رشید

٭٭٭

سجاد حیدر یلدرم

اردو کی عظمت کے نشاں سجاد حیدر یلدرم

تھے محسنِ اردو زباں سجاد حیدر یلدرم

اُن کا خیالستان تھا آئینۂ عصری ادب

افسانے کی روحِ رواں سجاد حیدر یلدرم

روشن ہے جس سے آج تک علم و ادب کی انجمن

تھے ایک شمعِ ضو فشاں سجاد حیدریلدرم

افسانے کی تاریخ کا وہ ایک روشن باب تھے

تھے بے زبانوں کی زباں سجادحیدر یلدرم

اُن کا شعورِ فکر تھا آئینۂ نقد و نظر

تھے فکرو فن کے پاسباں سجاد حیدر یلدرم

ہیں سب کے منظورِ نظر اُن کے نقوشِ جاوداں

تھے مرجعِ دانشوراں سجاد حیدر یلدرم

افسانوں کے کردار میں کرتے رہے پیہم رقم

عہدِ رواں کی داستاں سجاد حیدر یلدرم

ہیں اپنے حُسنِ خُلق اور حُسنِ عمل سے آج تک

سب کے دلوں پر حکمراں سجاد حیدر یلدرم

اِس بات پر ہیں متفق برقیؔ سبھی اہلِ نظر

تھے چارۂ بیچارگاں سجاد حیدر یلدرم

٭٭٭

ساحرؔ لدھیانوی

شاعرِ سحر آفریں ساحرؔ کا آتا ہے خیال

جن کو گزرے اس جہاں سے ہو گئے بتّیس سال

ہیں دلوں پر اہلِ دل کے آج بھی وہ حکمراں

اُن کے گلہائے سخن ہیں مظہرِ حُسن و جمال

آج ہے پچّیس اکتوبر وہ جب رخصت ہوئے

لوحِ دل پر نقش ہیں اُن کے نقوشِ لازوال

تھے شعور آگہی کے شاعری میں وہ نقیب

اُن کا معیارِ تغزل آپ ہے اپنی مثال

آسمانِ شاعری کا ہو گیا سورج غروب

ہے یہی قانونِ فطرت ’’ہرکمالے را زوال‘‘

آج ہے اور کل بھی ہو گی سب کی منظورِ نظر

اُن کی علمی اور فلمی شاعری ہے بے مثال

شہرۂ آفاق ہیں اُن کے سرودِ سرمدی

شاعری ہے اُن کی برقیؔ فکر و فن کا اتصال

٭٭٭

ساحرؔ لدھیانوی

جب سے ہوا غروب وہ مہتابِ فکر و فن

بزمِ سُخن میں تب سے چراغاں نہ کرسکے

ساحرؔ کے ساتھ لوٹ گئی رونقِ بہار

برقیؔ نشاط و کیف کا ساماں نہ کر سکے

سرسید احمد خان

آج سرسید کا ہے یومِ وفات

کار آمد جن کی تھیں فکری جہات

کچھ نہیں معلوم ہم ہوتے کہاں

ہوتا گر شامل نہ اُن کا التفات

ہم کو دکھلائی صراطِ مستقیم

چاک کر کے پردہ ہائے ممکنات

تھے وہ اپنے آپ میں اک انجمن

جن کی اک شمعِ فروزاں تھی حیات

جاری و ساری ہے اُن فیضِ عام

کر نہیں سکتا بیاں جن کی صفات

خُلد میں درجات ہوں اُن کے بلند

رنج و غم سے دے خدا اُن کو نجات

شخصیت تھی ان کی برقیؔ عہد ساز

زیبِ تاریخِ جہاں ہے اُن کی ذات

٭٭٭

سرسید

یومِ سرسید ہے یومِ احتساب

آئیے پورا کریں ہم اُن کا خواب

ہے یہی اُن کے مشن کا ماحصل

علم کی تحصیل ہے کارِ ثواب

ہے درخشاں اُن کی عملی زندگی

ہو فلک پر جیسے روشن ماہتاب

تھے وہ شمعِ علم و فن کی روشنی

جس سے ابنائے وطن ہیں فیضیاب

ہم کہاں ہوتے اگر ہوتے نہ وہ

آئیے اِس کا کریں اب احتساب

اشہبِ دوراں کی تھے مہمیز وہ

اُن کے رُفقاء بھی تھے اُن کے ہم رکاب

ہیں اُنھیں کے فیض سے بیدار آج

ورنہ ہم رہتے ابھی تک محوِ خواب

ہر طرف ہیں اُن کی عظمت کے نشاں

اُن کے ہیں احسان ہم پر بے حساب

ان کی دانش گاہِ اسلامی کے بعد

جامعہ ہمدرد بھی ہے لاجواب

جس کے خالق تھے حکیم عبدالحمید

ہے کوئی خدمات کا ان کی جواب

کام ہیں اُن کے سبھی تاریخ ساز

تاکہ ہوں آئندہ نسلیں فیضیاب

اُن کا یہ وَن میں شو بھی دیکھئے

اُن کے دہلی میں ہے جو برسوں کا خواب

ہیں وہ برقیؔ زیبِ تاریخِ جہاں

تھے وہ اقصائے جہاں میں انتخاب

٭٭٭

سعادت حسن منٹو

تھے جو فنکارِ زمانہ منٹو

خود میں تھے ایک فسانہ منٹو

کچھ کی نظروں میں تھے بیباک ادیب

کچھ کے تھے زیرِ نشانہ منٹو

رگِ احساس پہ تھی اُن کی گِرفت

اپنے فن میں تھے یگانہ منٹو

نُدرتِ فکر و نظر تھی اُن میں

زندگی کا تھے ترانہ منٹو

کچھ سمجھتے تھے انہیں فحش نگار

تھے کہیں فخرِ زمانہ منٹو

اُن کے افسانوں میں ہے سوزِ دروں

جس سے تھے وِردِ زمانہ منٹو

اُن کا مداح نہ کیوں ہو برقیؔ

فکرو فن کا تھے خزانہ منٹو

٭٭٭

سلیم واحد سلیمؔ

فکرو فن ہے سلیم واحد کا

اُن کے ذوقِ سلیم کا غماز

اُن کا سرمایۂ حیات ہے جو

ہے وہ اُن کے ضمیر کی آواز

اہل دل کے لئے ہے وجہِ سکوں

اُن کی غزلوں میں ہے جو سوز و گداز

اُن کی فکرو نظر ہے روحِ عصر

روح پرور تھی ذہن کی پرواز

اُن کے اسلوبِ نظم و نثر میں ہے

نُدرتِ فکر و فن کا ناز و نیاز

ساتھ اردو کے فارسی میں بھی

تھے وہ اربابِ علم میں ممتاز

میں ہوں مسلم سلیم کا ممنون

اُن کے فرزند ہیں جو مایۂ ناز

دے رہے ہیں وہ آج کل ترتیب

اُن کے افکار کے ہیں جو اعجاز

دلکش و دلنواز ہے برقیؔ

اُن کے تارِ نَفَس کی ہر آواز

٭٭٭

علی محمد

شادؔ عظیم آبادی

قصرِ اردو کے ستوں شادؔ عظیم آبادی

فکرو فن کے تھے فسوں شادؔ عظیم آبادی

خون کے گھونٹ وہ خود پیتے تھے لیکن ہم کو

دیتے رہتے تھے سکوں شادؔ عظیم آبادی

آج ہے نسلِ جواں اردو سے کتنی مانوس

کون تھے کس سے کہوں شادؔ عظیم آبادی

پیروِ شادؔ ہوں خاکم بدہن میں لیکن

کیا کروں کیسے بنوں شادؔ عظیم آبادی

میر کے بعد تھے دنیائے ادب میں برقیؔ

شاعرِ سوزِ دروں شادؔ عظیم آبادی

٭٭٭

شبلی نعمانی

دیارِ شرق کی ہیں آبرو شبلی نعمانی

جہانِ علم و دانش میں نہیں اُن کا کوئی ثانی

وہ شبلی جن کی عظمت کے نشاں ہیں ہر طرف ظاہر

سبھی ہیں قدر داں اُن کے وہ ہندی ہوں کہ ایرانی

رہے وہ عمر بھر کوشاں فلاحِ ملک و ملت میں

مثالی شبلی منزل کے لئے ہے اُن کی قربانی

نہ ہوں مرہونِ منّت کیوں نہ اُن کے اہلِ اعظم گڈھ

ہیں شبلی نیشنل کالج کے وہ اِس شہر میں بانی

نمایاں شخصیت تھی اُن کی سرسید کے رفقا میں

ہے جن کی آج یہ کالج یہاں میراثِ روحانی

چراغِ علم و دانش ہے اُنھیں کے فیض سے روشن

نمایاں سارے ہندوستان میں ہے جس کی تابانی

ادب تحقیق نقدِ شعر اور سیرت نگاری میں

نہیں ہے آج ہندو پاک میں اُن کا کوئی ثانی

ہے حامل عالمی شہرت کی اُن کی سیرتِ نبوی

ہے نقدِ شعر میں شعر العجم اک نقشِ لافانی

جہاں جیسی ضرورت تھی وہاں وہ طرز اپنائی

مقالوں سے عیاں ہے جوہرِ حُسنِ زباں دانی

شعورِ آگہی ظاہر ہے المامون سے اُن کا

ہے الفاروق میں جوشِ عقیدت کی فراوانی

نہیں ہے اُن کو قدرت صرف اردو شعر گوئی پر

ہے اُن کی فارسی غزلوں میں فکر و فن کی جولانی

ہے اُن کا صدق دل سے قدر داں احمد علی برقی

اسے جو کچھ ہے حاصل ہے اُنھیں کا فیضِ روحانی

٭٭٭

شجاع خاورؔ

تھے عہدِ حاضر کے جو سخنور، نہیں رہے وہ شجاع خاورؔ

غزل کی صورت میں ہیں منور، ادب میں ان کے جو لعل و گوہر

تھی اُن سے بزمِ ادب فروزاں، عروسِ اردو تھی اُن پہ نازاں

جنھیں بھی اردو سے کچھ شغف ہے، نمایاں اُن پر ہے اُن کا جوہر

عروسِ شعرو سخن کی زلفیں سنوارتے تھے وہ فکر و فن سے

تھا اُن کا مخصوص اپنا لہجہ، وہ تھے مجسم غزل کا پیکر

تھا ان میں ذوقِ سلیم ایسا، ہیں جس سے اہلِ نظر شناسا

ہمیشہ زندہ رہیں گے جس سے، تھا ان کی تخلیق میں وہ جوہر

تھی ان کی جو خوئے بے نیازی، تھی اس میں اک شانِ امتیازی

شعورِ فکر و نظر کے حامل، شجاع خاورؔ تھے سب سے بڑھ کر

نہیں تھا کوئی بھی اُن کے جیسا، ملیں گے یوں تو بہت سخنور

چلے گئے آج وہ، جہاں سے کوئی بھی آتا نہیں ہے جاکر

اثر تھا کچھ نام کا بھی برقیؔ، کبھی تھے غربی کبھی تھے شرقی

چمک رہے تھے بفضلِ یزداں، سپہرِ دانش پہ مثلِ خاورؔ

٭٭٭

شکیبؔ جلالی

کیوں منائیں نہ یادگارِ شکیبؔ

روح پرور ہیں شاہکارِ شکیب

بجھ گئی شمعِ زندگی پھر بھی

ضو فگن ہے ابھی نگارِ شکیب

وہ جمالی بھی تھے جلالی بھی

فکرو فن اُن کا ہے وقارِ شکیب

کیسے سرزد ہوا یہ کارِ قبیح

خودکُشی تو نہ تھا شعارِ شکیب

گرچہ خود ہو گئے خزاں کے شکار

شاعری اُن کی ہے بہارِ شکیب

جس سے بزمِ ادب کی تھی تزئین

ہو گیا گُم کہاں نگارِ شکیب

شاعرِ معتبر تھے وہ برقیؔ

ختم ہو گا نہ اعتبارِ شکیب

٭٭٭

شکیلؔ بدایونی

رونقِ شہرِ بدایوں تھے شکیل

اُن کا فن ہے اُن کی عظمت کی دلیل

مجھ کو حقانیؔ نے دی اس کی خبر

آج ہے احمد علی یومِ شکیلؔ

اُن کی ہے مرہون اردو شاعری

روح پرور اُن کی ہے فکرِ جمیل

اُن کی غزلیں ہیں حدیثِ دلبری

وہ ستم دیدہ دلوں کے تھے وکیل

اُن کے نغمے ہیں سرودِ سرمدی

فیلمی دنیا میں بشکلِ سلسبیل

عزم تھا اُن کا بہت کچھ وہ کریں

لے کے آئے تھے مگر عمرِ قلیل

دے جزائے خیر انہیں اس کی خدا

کارنامے ان کے ہیں برقیؔ جلیل

٭٭٭

شاعرِ نامدار ڈاکٹر

شہریارؔ

چل بسے شہرِ سخن کے شہریارؔ

شخصیت تھی جن کی فخرِ روزگار

اُن کی ہیں خدمات سب پر آشکار

’’گیان پیٹھ‘‘ اعزاز سے تھے ہمکنار

اُن کے اردو میں نقوشِ جاوداں

ہیں شعورِ فکروفن کے شاہکار

تھے وہ اردو شاعری کی آبرو

اہلِ اردو ہر جگہ ہیں سوگوار

معترف ہے ان کی عظمت کا جہاں

بحرِ دانش کی تھے دُرِّ شاہوار

تھا علی گدھ ان کا میدانِ عمل

گلشنِ اردو میں تھے مثلِ بہار

لوحِ دل پر ثبت ہیں ان کے نقوش

یاد آئیں گے ہمیں وہ بار بار

ہو گئی گل شمعِ بزمِ علم و فن

ہے جہانِ رنگ و بو ناپایدار

ہو گیا شیرازۂ دل منتشر

اہلِ دل ہوں کیوں نہ برقی اشکبار

٭٭٭

عالمی شہرت کے حامل نامور مصور، خطاط، شاعر اور دانشور سید صادقین نقوی کی چوبیسویں برسی پر منظوم تاثرات

صادقین

شاعر و خطاط و دانشور تھے سید صادقینؔ

جن کا ہوتا ہے عظیم الشان لوگوں میں شمار

غالبؔ و اقبالؔ ہوں یا فیض احمد فیضؔ ہوں

ان کے ہیں اشعار خطاطی کے ان کی شاہکار

لوحِ دل پر نقش ہیں اُن کے نقوشِ جاوداں

بحرِ ذخارِ ادب کے ہیں جو دُرّ شاہوار

سرحدوں کی قید سے آزاد ہیں اُن کے فنون

جن کے ہیں مداح اقصائے جہاں میں بیشمار

عالمی شہرت کے حامل تھے وہ اپنے کام سے

اُن کو ہے حاصل جہانِ فکرو فن میں اعتبار

جنت الفردوس میں اُن کو ملے ابدی سکون

اور ہو نازل ہمیشہ رحمتِ پروردگار

صرف برقیؔ ہی نہیں ہے اُن کے فن کا قدر داں

کر رہے ہیں اُن پہ گلہائے عقیدت سب نثار

٭٭٭

صباؔ اکبر آبادی

روح پرور ہے صباؔ کی شاعری

ہے نمایاں جس سے عصری آگہی

فکر و فن پر تھا انھیں حاصل عبور

روح کو ملتی ہے جس سے تازگی

جملہ اصنافِ سخن میں اُن کی ہے

اُن کے حصے کی نمایاں روشنی

ہیں نہایت دلنشیں ’’اوراقِ گُل‘‘

بخشتے ہیں ذہن کو جو تازگی

ہم سخن تھے وہ ’’لسان الغیب‘‘ کے

اُن کی غزلیں ہیں حدیثِ دلبری

نعتوں کا مجموعہ یہ ’’دستِ دعا‘‘

سر بسر ہے مظہرِ حُبِّ نبیﷺ

’’سر بکف‘‘، ’’خوناب‘‘ و ’’قرطاسِ الم‘‘

یہ مراثی ہیں حدیثِ معنوی

اُن کا ’’ذکرو فکر ‘‘ ہے وہ آئینہ

مُنکشف ہے جس سے سوزِ زندگی

ہیں تراجِم اُن کے بیحد کامیاب

اُن کے طرزِ فکر میں ہے دلکشی

نازشِ خیام ’’دستِ زر فشاں ‘‘

ہے چراغِ فکرو فن کی روشنی

اُن کی تخلیقات سے ہے آشکار

تھے وہ معیارِ سخن میں مُنتہی

اُن کی ویب سائٹ ہے بیحد دیدہ زیب

شعر ہیں اُن کے سرودِ سرمدی

تیس اکتوبر کا تھا منحوس دن

ہو گئی گُل اُن کی شمعِ زندگی

تھے وہ غالبؔ سے بھی برقیؔ ’’ ہم کلام‘‘

اُن کا خسروؔ سے تھا ربطِ معنوی

٭٭٭

نظم بسلسلۂ سانحۂ ارتحال

صحبان سید حسنین

فرزندِ ڈاکٹر رضیؔ حسنین

تھا رضیؔ حسنین کا بیٹا جواں

چل بسا جو اس جہاں سے ناگہاں

ہے نہایت روح فرسا یہ خبر

مِٹ گیا صحبان سید کا نشاں

کر کے اہلِ خانداں کو سوگوار

چل دئے صحبان اب سوئے جناں

اِک نہ اِک دن سب کو کرنا ہے سفر

سوئے منزل گامزن ہے کارواں

جس نے کھوئے ہوں نہ اپنے اقربا

کوئی بھی ایسا نہیں ہے خانداں

دے خدا ماں باپ کو صبرِ جمیل

سخت ہے اُن کے لئے یہ امتحاں

لفظ اب دیتے نہیں ہیں میرا ساتھ

گُنگ ہے احمد علی میری زباں

٭٭٭

صلاح الدین پرویز

نہیں ہیں اب صلاح الدین پرویز

تھی ادبی شخصیت جن کی دل آویز

ادیب و شاعرِ ممتاز تھے وہ

عطا اُن کو ہوا تھا ذہن زرخیز

سپہرِ فکر و فن پر تھے درخشاں

قدامت سے انھیں رہتا تھا پرہیز

تھا اُن سے اشہبِ دوران گریزاں

تھی جب سے پاس ان کے اس کی مہمیز

مدیرِ استعارہ تھے وہ برقیؔ

تھے مُندرجات جس کے فکر انگیز

٭٭٭

بابائے اردو مولوی

عبدالحق

کر رہا ہوں پیش میں بابائے اردو کو سلام

اُن کے علمی کارنامے آج ہیں نقشِ دوام

تھے وہ اپنے عہد کی اِک شخصیت تاریخ ساز

اردو کی تاریخ میں روشن رہے گا اُن کا نام

ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں اُن کی عظمت کے نشاں

قایم و دایم رہے گا اُن کا تُزک و احتشام

گلشنِ اردو میں اُن کی ذات تھی مثلِ بہار

اُن کا اربابِ نظر میں ہے بہت اعلیٰ مقام

فکر و فن، اردو لغت، تنقید، تاریخِ ادب

کون سی وہ صنف ہے جس میں نہیں ہے اُن کا نام

اُن کے علمی کارناموں کے سبھی ہیں معترف

اُن کی ادبی شخصیت ہے لایقِ صد احترام

اُردو کی ترویج میں سرگرم تھے وہ عمر بھر

تھا یہی اُن کا مشن اور تھا یہی اُن کا پیام

گلشنِ اردو ادب سرسبز اور شاداب ہو

اِس سے بہتر اُن کی نظروں میں نہیں تھا کوئی کام

مٹ نہیں سکتے کبھی اُن کے نقوشِ جاوداں

جاری و ساری ہے برقی اُن کا اب تک فیضِ عام

٭٭٭

عزمؔ بہزاد

عزمؔ بہزاد ہو گئے رخصت

چھوڑ کر اس جہانِ فانی کو

یہ کسی سے وفا نہیں کرتی

کیا کہیں حیف زندگانی کو

لے گئی ساتھ میہماں بن کر

موت آئی تھی میزبانی کو

سُن رہے تھے بگوشِ ہوش مجھے

اب کہاں جاؤں شعر خوانی کو

بھول سکتا نہیں کبھی ہرگز

مہرباں کی میں مہربانی کو

دے خدا اُن کو جنت الفردوس

آئے رضوان میزبانی کو

ساتھ دیتے نہیں مرا الفاظ

میں لکھوں کیسے اس کہانی کو

پیش کرتا ہوں میں سلام اپنا

عزمؔ کے عزمِ جاودانی کو

مُجھ کو برقیؔ ہے صدمۂ جانکاہ

کیا کہوں اپنی بے زبانی کو

٭٭٭

عزمؔ بہزاد

(جن کی آج پہلی برسی ہے)

عزمؔ بہزاد کو کہاں ڈھونڈیں

تھے جو بزمِ سخن کا عز و وقار

پہلی برسی ہے چار مارچ کو آج

ہے خزاں دیدہ گلشنِ اشعار

دے کے داغِ مفارقت وہ گئے

باغِ اردو میں تھے جو مثلِ بہار

رونقِ محفلِ سخن تھے وہ

بزم تھی ان سے مطلعِ انوار

اُن سے بیزار ہو گئی یہ کیوں

زندگی سے تو وہ نہ تھے بیزار

اُن کے اشعار تھے نشاطِ روح

جِن کے جانے سے اب ہے ذہن پہ بار

دے خدا اُن کو جنت الفردوس

اُنھیں برقیؔ وہاں ہو صبر و قرار

٭٭٭

عزمؔ بہزاد

مُجھ سے ہو گئی کوئی غلطی کیا جانے انجانے میں

اتنی عُجلت عزمؔ نے کیوں کی ساتھ چھوڑ کر جانے میں

اُ نکی ہے تصویرِ تصور آج بھی میرے پیشِ نظر

جانے کتنا وقت لگے اب ذہن سے اُس کے جانے میں

جس سے چمن کی رونق تھی گلچیں نے وہ گل توڑ لیا

وقت لگے گاباغِ سُخن میں تازہ پھول کھلانے میں

آج اسدؔ نے یاد میں اُن کی بزمِ سخن سجائی ہے

فرطِ رنج سے لطف نہیں ہے کوئی شعر سنانے میں

سب سے پہلے دیتے تھے میری کاوش پر دادِ سخن

تھے وہ میرے بہت معاون ذوقِ سلیم بڑھانے میں

اپنی غفلت پر ہوتا ہے مجھ کو گھٹن کا اب احساس

’’میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں ‘‘

ُگُنگ زباں ہے میری برقیؔ ساتھ نہیں دیتے الفاظ

آنکھیں ہیں مصروف ابھی تک میری اشک بہانے میں

٭٭٭

عمر خیامؔ

تھے عمر خیام اقلیمِ سخن کے تاجدار

جن کے ہے صِنفِ رباعی فکر و فن کا شاہکار

شہرِ نیشابور میں دیکھا ہے میں نے وہ دیار

مرجعِ اربابِ دانش ہے جہا ں اُن کا مزار

فلسفہ ہو یا ریاضی ہو کہ ہو علمِ نجوم

اُن کے معیارِ شرف کے ہیں سبھی آئینہ دار

نام روشن اُن سے ہے دنیا میں نیشابور کا

اُن سے قایم اُن کے ابنائے وطن کا ہے وقار

فلسفہ ہے ان کا یہ کھاؤ، پیو اور خوش رہو

شاعری میں اُن کی ہے زندہ دلی اُن کا شعار

ہے زبانِ فارسی سے جن کو تھوڑا بھی شغف

اُن کے علم و فضل کا جوہر ہے اُن پر آشکار

ہے مشامِ جاں معطر رہروانِ شوق کی

اُن کے گُلہائے سخن سے باغِ دل ہے مُشکبار

شخصیت اقصائے عالم میں ہے اُن کی انتخاب

ہر زباں میں ہیں تراجم اُن کے برقیؔ بیشمار

٭٭٭

آبروئے دیارِ شرق نامور ناظمِ مشاعرہ

عمرؔ قریشی

عمرؔ قریشی نظامت کے فن میں تھے ممتاز

دلوں پہ اُن کا تھا حُسنِ بیاں اثر انداز

مشاعروں کی تھے ضامن وہ کامیابی کے

تھے سامعین کے سوزِ دروں کی وہ آواز

وہ بولتے تھے تو ہونٹوں سے پھول جھڑتے تھے

تھا اُن کے طرزِ تکلم کا دلنشیں اعجاز

نہ کوئی ہوتا تھا اپنی جگہ سے ٹَس سے مَس

ہمیشہ رہتے تھے سب لوگ گوش بر آواز

تھی بزمِ شعر میں تمہید اُن کی جانِ سخن

تھا کامیابی کا شاید اسی میں اُن کی راز

مشاعرے میں سبھی لوگ اُن کو دیکھتے تھے

تھا رشکِ اہلِ نظر جیسے اُن کا غمزہ و ناز

سُنی سُنائی نہیں، ہے یہ آنکھوں دیکھا حال

مجھے بھی یاد ہے اُن کا یہ غمزۂ غمّاز

خطاب کرتے تھے بزمِ سخن کو جب برقیؔ

بہت عزیز تھا لوگوں کو اُن کا یہ انداز

٭٭٭

عمر قریشی

مشاعروں میں نظامت عمر قریشی کی

تھی زندگی کی علامت عمر قریشی کی

شریک بزم جہاں تھے وہاں نمایاں تھی

بصیرت اور بصارت عمر قریشی کی

وہ اپنے طرزِ بیاں سے سبھی میں تھے مقبول

جُدا تھی سب سے روایت عمر قریشی کی

پسند کرتے تھے سب سامعین محفل میں

فصاحت اور بلاغت عمر قریشی کی

فروغِ اردو میں سرگرم تھے جہاں بھی رہے

یہ کیا نہیں ہے سعادت عمر قریشی کی

میں ذوق و شوق سے دیتا تھا حاضری اُس میں

جہاں جہاں تھی نظامت عمر قریشی کی

مشاعروں کی تھے رونق وہ عمر بھر برقیؔ

دلوں میں سب کے تھی چاہت عمر قریشی کی

٭٭٭

شہرِ دہلی ہے دیارِ

غالبؔ

شہرِ دہلی ہے دیارِ غالبؔ

یہیں واقع ہے مزارِ غالبؔ

کیوں نہ گلہائے عقیدت اپنے

ہم کریں آ کے نثارِ غالبؔ

وہ تھے اردوئے معلی کا وقار

جس میں ہیں نقش و نگارِ غالبؔ

ہیں یہ تاریخِ ادب کا حصہ

دیکھئے قُرب و جوارِ غالبؔ

آ کے گلزارِ ادب میں دیکھیں

کتنی دلکش ہے بہارِ غالبؔ

ہو گا اقصائے جہاں میں روشن

حشر تک عز و وقارِ غالبؔ

آج تک اردو ادب کے برقیؔ

محسنوں میں ہے شمارِ غالب

٭٭٭

مرزا اسداللہ خان

غالبؔ

مرزا غالبؔ کا نہیں کوئی جواب

تھے وہ اقصائے جہاں میں انتخاب

ہے سخن ان کا سرودِ سرمدی

ان کے مکتوبات بھی ہیں لاجواب

سب پہ غالب تھے وہ اپنے عہد میں

آج بھی قایم ہے ان کی آب و تاب

تھا تسلط ان کا نظم و نثر پر

گلشنِ اردو میں تھے مثلِ گلاب

جس کی خوشبو سے معطر ہے جہاں

ہوتے ہیں محظوظ یکساں شیخ و شاب

ہیں سبھی کے آج وہ وِردِ زباں

کر کے برپا ایک ذہنی انقلاب

اردو میں نوبل پرائز کیوں نہیں

کب ملے گا ان کو آخر یہ خطاب

دو سو چودہ سال کم ہوتے نہیں

جو بھی کرنا ہے اسے کر لیں شتاب

اردو ہے دنیا کی معیاری زباں

اس پہ کیوں نازل ہے آخر یہ عتاب

جن کا ہے اردو ادب منت گذار

ان کو ہے یہ نظم میری انتساب

شخصیت ہے ان کی برقیؔ عہد ساز

ہو رہے ہیں لوگ جس سے فیضیاب

٭٭٭

فراقؔ گورکھپوری

حسبِ فرمائش : مراد جیپوری

’’گُلِ نغمہ‘‘ فراقؔ کی ہے شناخت

’’گُلِ رعنا ‘‘ ہے سوزو سازِ حیات

’’مشعل‘‘ و ’’روپ‘‘ اور ’’سرگم‘‘ میں

ہے عیاں اُن کا حُسنِ ذات و صفات

شعر ہیں اُن کے کائنات کی روح

ہے ’’شبستاں ‘‘ میں سوزِ ہجر کی بات

مختلف اُن کا تھا لب و لہجہ

دے دی جس میں اُنھوں نے سب کو مات

ضو فگن تھے سپہرِ اردو پر

جس سے روشن تھی نظم و نثر کی رات

ہیں ادب میں وہ زندۂ جاوید

ختم ہو گی کبھی نہ ان کی بات

محو ہو گی کبھی نہ وہ برقیؔ

ذہن میں جو ہے یادوں کی بارات

٭٭٭

فیض احمد فیضؔ

فیض احمد فیضؔ کا رنگِ سخن ہے دلپذیر

جن کی عظمت کا ہے شاہد خطۂ بَرِّ صغیر

زیبِ تاریخِ جہاں ہیں ان کے ادبی شاہکار

ان کی تخلیقات ہیں اردو ادب میں بینظیر

شاعری سے ہے نمایاں اُن کی عصری حِسّیت

نُدرتِ فکر و نظر ہے اُن کی مثلِ جوئے شیر

تھے سپہرِ شاعری پر ضو فشاں تا زندگی

وہ جہاں بھی تھے وہاں شہرِ سخن کے تھے امیر

ساتھ دیتے ہی نہیں الفاظ اب میں کیا لکھوں

تھا بصیرت اور بصارت سے بنا اُن کا خمیر

میں ہوں برقیؔ اعظمی ان کے سخن کا قدر داں

ہے عروسِ فکرو فن بھی جن کی زلفوں کی اسیر

٭٭٭

نظم بسلسلۂ فیض صدی

فیض احمد فیضؔ

فیضؔ پر صد سالہ تقریبات کا یہ انعقاد

ہے جہانِ فکر و فن میں اُن کی عظمت کا نشاں

اُن کے ہیں شعر و ادب میں جو نقوشِ جاوداں

آج بھی ہیں اور رہیں گے زیبِ تاریخِ جہاں

اُن کی تخلیقات ہیں اردو ادب کا شاہکار

جو ہیں دنیائے ادب میں مرجعِ دانشوراں

اُن کی غزلیں اور نظمیں شہرۂ آفاق ہیں

ہوتے ہیں محظوظ یکساں جن سے سب پیر و جواں

شخصیت تھی اُن کی اپنے آپ میں اک انجمن

عہدِ نو میں تھے وہ اردو کے امیرِ کارواں

تھے شعورِ فن سے اپنے خسروِ مُلکِ سُخن

فکر سے ہیں اپنی وہ سب کے دلوں پر حُکمراں

فیضؔ اور اردو ادب اب لازم و ملزوم ہیں

باہمی رشتہ ہے اُن کا جس طرح ہوں جسم و جاں

جاری و ساری رہے گا فیضؔ کا یہ فیضِ عام

ہے مُزین فیضؔ سے اردو ادب کی داستاں

تھے وہ برقیؔ آبروئے خطۂ برّ صغیر

اور ہیں اردو ادب کے ایک گنجِ شایگاں

٭٭٭

پروفیسر ڈاکٹر

قمر رئیس

اردو ادب کی روحِ رواں تھے قمر رئیس

عظمت کا فکر و فن کی نشاں تھے قمر رئیس

اُن کے شعورِ فکر کے تھے قدر داں سبھی

تھے سرخرو ہمیشہ جہاں تھے قمر رئیس

اہلِ نظر کو اُن پہ ہمیشہ رہے گا ناز

نورِ نگاہِ دیدہ وراں تھے قمر رئیس

اُن کی نگارشات ہیں میزانِ آگہی

آئینہ دارِ حُسنِ بیاں تھے قمر رئیس

طرزِ بیاں میں اُن کے تھی بیحد شگفتگی

مشاطۂ عروسِ زباں تھے قمر رئیس

گلزارِ فکرو فن کے گُلِ سرسبد تھے وہ

تاریخ سازِ عہدِ رواں تھے قمر رئیس

کرتے تھے کسبِ فیض سبھی اُن کی ذات سے

برقیؔ عزیزِ پیر و جواں تھے قمر رئیس

٭٭٭

کیفؔ بھوپالی

کیفؔ بھوپالی کا فن ہے دلنشیں

اُن کے اعجازِ ہُنر پر آفریں

تھے وہ اقلیمِ سخن کے تاجدار

خم ہے اُن کے سامنے میری جبیں

تھی عروسِ فکر و فن اُن کی غلام

ان کے تھا ملکِ سخن زیرِ نگیں

ان کی غزلوں میں ہے جو سوز و گداز

وہ جگرؔ کے بعد پھر دیکھا نہیں

اپنے حُسنِ فکرو فن کی شکل میں

خانۂ دل میں ہیں وہ سب کے مکیں

روح کو ملتی ہے جن سے تازگی

ان کے گلہائے سخن ہیں عنبریں

خلد میں درجات ہوں ان کے بلند

مہرباں ہو ان پہ رب العالمیں

قدر داں ہے اُن کا برقیؔ اعظمی

اُن کی تخلیقات ہیں بیحد حسیں

٭٭٭

کیفیؔ اعظمی

عندلیبِ گلشنِ گُفتار کیفی اعظمی

اہلِ دانش کے معین و یار کیفی اعظمی

گلشنِ شبلی دیارِ شرق کی ہے آبرو

اُس چمن کے تھے گُلِ بے خار کیفی اعظمی

تھے ستم دیدہ دلوں کے دل کی دھڑکن عمر بھر

چارہ سازِ مُفلس و نادار کیفی اعظمی

اُن کی اردو شاعری ہے مظہرِ سوزِ دروں

دردِ دل کا کرتے تھے اظہار کیفی اعظمی

نقشِ اول سے ہی اپنے ہو گئے ہردل عزیز

شاعرِ مجموعۂ ’’جھنکار‘‘ کیفی اعظمی

اُن کے اعجازِ قلم کا ہے زمانہ معترف

بزم میں تھے مطلعِ انوار کیفی اعظمی

اُن کے علمی اور فلمی کارنامے ہیں عظیم

تھے ادب کے ایک خدمتگار کیفی اعظمی

جیسے ہیں جاوید اختر سب کے منظورِ نظر

ویسے ہی تھے زندہ دل فنکار کیفی اعظمی

دس مئی کو ’’آخرِ شب ‘‘کا مسافر چل بسا

ہیں دلوں میں اب بھی جلوہ بار کیفی اعظمی

ہیں شبانہ اعظمی اُن کی وراثت کی امین

جس کے تھے برقیؔ علمبردار کیفی اعظمی

٭٭٭

اسرارالحق

مجازؔ

آبِ زر سے ثبت ہے تاریخ میں نامِ مجازؔ

اب منائیں فیس بُک پر آئئے شامِ مجازؔ

نظمِ ’’آوارہ‘‘ میں ہے وہ شاعرِ آوارہ گرد

شہرۂ آفاق اردو میں ہے یہ کامِ مجازؔ

پی کے جس کو آج تک مسحور ہیں اہلِ نظر

تھا نشاط و کیف سے سرشار وہ جامِ مجازؔ

اُس کی غزلوں اور نظموں میں حدیثِ دلبری

اہلِ اردو کے لئے ہے ایک انعامِ مجازؔ

مطلعِ انوار ہے اردو میں اس کی شاعری

ہے درخشاں آفتابِ حُسن بَر بامِ مجازؔ

لے گیا پیکِ اجل بے وقت اُس کو اپنے ساتھ

تھا ادب کے کارواں میں تیز تر گامِ مجازؔ

گلشنِ اردو میں اُس کی ذات تھی مثلِ بہار

تھا شگفتہ باغ میں برقیؔ گل اندامِ مجازؔ

٭٭٭

مجروحؔ سلطانپوری

شخصیت مجروحؔ کی ہے نازشِ سلطانپور

جن کے گلہائے سُخن ہیں باعثِ کیف و سرور

ہو گئی ادبی فضا ہموار اُن کی ذات سے

فلمی دنیا کے اُفق پر جب ہوا اُن کا ظہور

فکری اور فنی روایت کے ادب میں تھے نقیب

جلوہ گر اشعار سے ہے اُن کا تخلیقی شعور

بیشتر نظمیں ہیں عصری آگہی سے ہمکنار

سوز و سازِ عشق کا غزلوں میں ہے اُن کی وفور

وہ سپہرِ فکرو فن پر تھے درخشاں اس طرح

مطلعِ انوار ہے رنگِ سخن کا اُن کے نور

لوحِ دل پر مُرتسم ہیں اُن کی یادوں کے نقوش

یاد آئیں گے ہمیشہ اہل دل کو وہ ضرور

جنت الفردوس میں اُن کو ملے ابدی سکون

سایہ گستر ہو ہمیشہ فضلِ رحمٰن و غفور

فکرو فن پر تھی اُنہیں برقیؔ مکمل دسترس

جملہ اصنافِ سخن پر تھا اُنہیں حاصل عبور

٭٭٭

پروفیسر

 

 

محمد حسن

محمد حسن تھے ادیبِ شہیر

نہیں جن کی اردو ادب میں نظیر

کتابیں ہیں اُن کی بہت دلپذیر

جہاں میں تھے نقد و نظر کے سفیر

ڈرامے ہوں ناول ہوں یا نقدِ شعر

سبھی کارنامے ہیں اُن کے خطیر

ہوئے موت کے اُن کی آج ایک سال

جنازے میں تھا اُن کے جمّ غفیر

جنھیں بھی ہے اردو ادب سے شغف

ثنا خواں ہیں اُن کے صغیر و کبیر

ہے کتنوں کو یاد اُن کا یومِ وصال

محبانِ اردو ہیں یوں تو کثیر

زبان و ادب پر اُنھیں تھا عبور

وہ ’’عصری ادب‘‘ کے تھے برقیؔ مدیر

٭٭٭

محمود زکیؔ

’’ سچ کہنا سولی چڑھنا ہے‘‘ کہتے تھے محمود زکیؔ

اپنے قول و فعل پہ قایم رہتے تھے محمود زکیؔ

تھے اُجین میں اردو کے بیباک صحافی برسوں تک

سچ کے لئے ہر رنج خوشی سے سہتے تھے محمود زکیؔ

جاری چشمۂ فیض تھا اُن کا سود و زیاں سے قطعِ نظر

آبِ رواں کی طرح ہمیشہ بہتے تھے محمود زکیؔ

’’ شعلہ اور شبنم‘‘ کی ادارت، ہو یا اُن کا ’’ نیا سماج‘‘

وِردِ زباں اربابِ نظر کے رہتے تھے محبوب زکیؔ

کالی داس کا ایک مطالعہ اُن کی ہے نادر تحقیق

جن کی رچناؤں سے اَمرت مَہتے تھے محمود زکیؔ

قابلِ داد ہے مادھو کالج کرتا ہے جو اُن کو یاد

سب کے قلب و نظر میں یکساں رہتے تھے محمود زکیؔ

احمد علی برقیؔ تھا اُن کا رنگِ تغزل سب سے جُدا

اپنی دُھن میں مَگَن ہمیشہ رہتے تھے محمود زکیؔ ٭٭٭

نامور شاعر، ادیب اور صحافی

محمود زکیؔ

شہرِ اُجین کی پہچان تھے محمود زکی

علم و دانش کے نگہبان تھے محمود زکی

لوگ کہتے ہیں کہ ہے شہرِ نگاراں اجین

جس کے ہر رنگ کی پہچان تھے محمود زکی

اُن کا فیضانِ نظر آج بھی جاری ہے وہاں

ایک سرچشمۂ فیضان تھے محمود زکی

اُن سے روشن تھی وہاں شمعِ شبستانِ غزل

بزمِ اردو کی وہاں شان تھے محمود زکی

راستہ اپنا بناتے تھے وہ آگے بڑھ کر

روشِ عام سے انجان تھے محمود زکی

ّآج بھی وردِ زباں سب کے ہے کل بھی ہو گا

ایسے افسانے کا عنوان تھے محمود زکی

لے گیا پیکِ اجل تین مئی کو ان کو

مرکزِ علم کی جو جان تھے محمود زکی

٭٭٭

شہرِ اجین کے مادھو کالج میں ایک دو روزہ ادبی سیمینار بیادِ

محمود زکیؔ

بتاریخ ۲۰۔ ۲۱ فروری ۲۰۱۲ کی منظوم روداد

تھا نہایت کار آمد یہ دو روزہ سیمینار

گوشہ ہائے زندگی محمود کے ہیں آشکار

ان کی ہے اجین کا دلکش ترانہ یادگار

جس کی تہذیبی روایت ہے نہایت شاندار

کر رہے تھے ان پہ اہلِ علم اظہارِ خیال

شخصیت اجین میں تھی جن کی اک باغ و بہار

جن کے ادبی کارنامے سب کے ہیں وِردِ زباں

کام کالی داس پر جن کا ہے وجہِ افتخار

جن کی غزلیں اور نظمیں ہیں سرودِ سرمدی

ہے جہان فکر و فن میں جن کو حاصل اعتبار

مٹ نہیں سکتے کبھی ان کے نقوشِ جاوداں

ان کی ادبی خدمتیں اجین میں ہیں بے شمار

اک صحافی اور شاعر تھے وہ برقیؔ نامور

محفلِ شعرو سخن کی وہ یہاں کی تھے وقار

٭٭٭

مرزا فرحت اللہ بیگ

کے فن پاروں کی تقریبِ رونمائی پر منظوم تاثرات

فرحت اللہ بیگ تھے طنز و ظرافت کے امام

اردو کی تاریخ میں روشن رہے گا اُن کا نام

لوح دل پر نقش ہیں ان کے نقوشِ جاوداں

تھے وہ دنیائے ادب میں لایقِ صد احترام

شخصیت تھی ان کی اپنے آپ میں اک انجمن

اُن کے رشحاتِ قلم ہیں مرجعِ ہر خاص و عام

اپنی تہذیبی روایت تھی انھیں بیحد عزیز

اُن کے فن پاروں میں ہے اس کا خصوصی التزام

تھے وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے خاکہ نگار

اُن کے ہاتھوں میں تھی رخشِ فکر کی اپنے لگام

رسمِ اجراء ان کے فن پاروں کی امریکا میں ہے

ان کی تحریروں میں امن و آشتی کا ہے پیام

تین جلدوں میں ہو برقیؔ سب کی منظورِ نظر

رونمائی یہ حسنؔ چشتی کے زیرِ اہتمام

٭٭٭

مظفرؔ وارثی

چھوڑ کر ہم کو ہوئے رخصت مظفرؔوارثی

جن کی عملی زندگی تھی مظہرِ حُبِ نبیﷺ

نعت گوئی میں تھے وہ حسانِ ثانی بَرملا

اُن کی غزلیں اور نظمیں تھیں سرودِ سرمدی

گُلشنِ اردو میں اُن کی ذات تھی مثلِ بہار

آ گئی فصلِ خزاں اور چھا گئی پژمُردگی

شخصیت تھی اُن کی اپنے آپ میں اک انجمن

اردو دنیا میں تھے وہ شمعِ ادب کی روشنی

مٹ نہیں سکتے کبھی اُن کے نقوشِ جاوداں

روح کو ملتی تھی اُن کی فکر سے آسودگی

اُن کا اُسلوبِ بیاں تھا امتزاجِ روحِ عصر

تھی نمایاں اُن کے فکر و فن سے عصری آگہی

شہرۂ آفاق تھا اُن کا شعورِ فکرو فن

مرجعِ اہلِ نظر تھی اُن کی برقیؔ شاعری

٭٭٭

امامِ غزلِ آزاد

مظہر امام

شاعر نہ رہا آج وہ ’’آزاد غزل‘‘ کا

مزدور کو دکھلاتا تھا جو خواب محل کا

محرم تھا بصیرت سے وہ اسرارِ ازل کا

اونچا کیا افکار سے معیار غزل کا

مظہرؔ کے سبھی کام زمانے پہ ہیں اظہر

دیتے ہیں جو ہر شخص کو اک درس عمل کا

تھا نشر و اشاعت سے جو دیرینہ تعلق

رکھتا تھا حساب اس لئے اپنے سبھی پَل کا

فطرت سے جوانمرد تھا وہ مردِ کُہن سال

ہے آج کا بھی جس کا سخن، اور ہے کل کا

تھا عصری مسائل سے ہم آہنگ وہ برقیؔ

کہتے ہیں کہ بانی تھا وہ ’’آزاد غزل‘‘ کا ٭٭٭

مظہر امام

چل دئے بزمِ جہاں کو چھوڑ کر مظہر امام

جن کے رشحاتِ قلم ہیں مرجعِ ہر خاص و عام

اردو میں نقد و نظر ہو یا ہوں ادبی تبصرے

سب کے ہیں وِردِ شعرو ادب میں ان کے کام

اُن کی تنقیدی بصیرت کے سبھی ہیں معترف

مِٹ نہیں سکتے کبھی ان کے ہیں جو نقشِ دوام

ان کے غم میں کیوں نہ ہوں اربابِ دانش سوگوار

ان کی علمی شخصیت تھی لایقِ صد احترام

اُن کے خاکوں اور مضامیں کا نہیں کوئی جواب

کارناموں سے تھے اپنے وہ جہاں میں نیکنام

ان کا اسلوبِ سخن تھا ان کی خود اپنی شناخت

ان سے متاثر تھا ان کے عہد کا فکری نظام

جنت الفردوس میں ان کو ملے ابدی سکون

پیش کرتا ہے اُنھیں احمد علی برقیؔ سلام

٭٭٭

مظفر رزمیؔ

چل بسے شاعرِ خود دار مظفر رزمی

بلبلِ گلشنِ گفتار مظفر رزمی

زندگی سے نہ تھے بیزار مظفر رزمی

وقت سے برسرِ پیکار مظفر رزمی

اُن کا تھا رخشِ قلم تا دمِ آخر جولاں

اپنے تھے وقت کی رفتار مظفر رزمی

اُن کے افکارِ گُہر بار تھے سب پر روشن

نہ رہے مطلعِ انوار مظفر رزمی

’’ کی تھی لمحوں نے خطا پائی سزا صدیوں نے‘‘

خوابِ غفلت سے تھے بیدار مظفر رزمی

اُن کے اشعار سے ہے ان کا عیاں سوزِ دروں

نوعِ انساں کے تھے غمخوار مظفر رزمی

خاکِ کیرانہ کی عظمت کا نشاں تھے برقیؔ

بن گئے سُرخیٗ اخبار مظفر رزمی

٭٭٭

پروفیسر

مغنی تبسم

چل دئے مغنی تبسم بھی سوئے ملکِ عدم

اُف شجاعؔ و شہریارؔ و مظہرؔ و مُغنیؔ کا غم

دو مہینے میں ہوئے رخصت ہمارے چار ادیب

ہم کریں اس صدمۂ جانکاہ کو کیسے رقم

ہے یہ یادِ رفتگاں اپنے لئے سوہانِ روح

گُنگ ہے اپنی زباں اور ہو گیا ساکت قلم

کر رہے ہیں پے بہ پے یونہی مشاہیرِ ادب

سامنے پیکِ اجل کے گردنِ تسلیم خَم

ہو گئی گُل آج شمعِ ’’شعرو حکمت‘‘ ناگہاں

مرزا غالبؔ بھی گئے تھے آج ہی سوئے عدم

جنت الفردوس میں اُن کو ملے ابدی سکوں

ہے ہماری التجا رب سے یہی با چشمِ نَم

گلشنِ اردو ادب کو اے خدا محفوظ رکھ

کب تک آخر ہم سہیں برقیؔ یونہی رنج و الم

٭٭٭

ڈاکٹر

ممتاز منگلوری

ڈاکٹر ممتاز منگلوری بھی رخصت ہو گئے

کیوں نہ ہو دنیائے اردو اُن کے غم میں سوگوار

اُن کی تصنیفات ہیں اردو ادب کا شاہکار

اُن کی ہیں خدماتِ ادبی باعثِ صد افتخار

اُن کے جانے سے اچانک آ گئی فصلِ خزاں

گلشنِ اردو میں اُن کی ذات تھی مثلِ بہار

سید عبد اللہؔ سے اُن کا تھا نسبی واسطہ

اُن کی تحریروں سے ہیں خدمات اُن کی آشکار

اُن کا نخلِ فکرو فن سرسبز اور شاداب تھا

ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں جس کے برقیؔ برگ و بار

٭٭٭

منشی پریم چند

اردو ادب کی شان تھے منشی پریم چند

اہل نظر کی جان تھے منشی پریم چند

اردو میں روحِ عصر ہیں ان کی نگارشات

خوش فکر و خوش بیان تھے منشی پریم چند

اجداد اُن کے گرچہ قدامت پسند تھے

پَر فکر سے جوان تھے منشی پریم چند

کرداروں کے وسیلے سے ان کی زبان میں

لوگوں کے ترجمان تھے منشی پریم چند

’’گودان‘‘ ہو ’’غبن‘‘ ہو کہ ’’بازارِ حُسن‘‘ ہو

فنکار اک مہان تھے منشی پریم چند

بیحد عزیز تھی انہیں انسان دوستی

انسان مہربان تھے منشی پریم چند

سینے میں جن کے برقیؔ تھا اک دردمند دل

وہ حامیٔ کسان تھے منشی پریم چند

٭٭٭

منشا یاد

نہیں رہے اب منشا یاد

رکھتے تھے جو سب کو شاد

اُن کے سبھی افسانے تھے

جبرِ زمانہ کی فریاد

اُن کے سبھی کرداروں میں

تھے کچھ شاد تو کچھ ناشاد

لکھتے تھے رودادِ جہاں

نہیں تھا کوئی بُغض و عناد

صفحۂ ذہن پہ ہیں وہ ثبت

اُن کے نقوش رہیں گے یاد

سب کو یہاں سے جانا ہے

شیریں ہو یا ہو فرہاد

موت اسی کی ہے برقیؔ

جس کو کرے زمانہ یاد

٭٭٭

میر تقی

میر

غالب اکیڈمی، نئی دہلی سیمینار: ’’میر کی شعری روایت‘‘:منظوم تاثرات

بتاریخ: ۱۹فروری ۲۰۱۱

’’میرؔ کی شعری روایت‘‘ پر یہ ادبی سیمینار

اُن کی عصری معنویت کا ہے اِک آئینہ دار

ضو فگن ہے جس سے بزمِ علم و دانش آج تک

بحر ذخارِ ادب کی تھے وہ دُرّ شاہوار

تھا یہاں پر میرؔ جیسا صاحبِ فکر و نظر

اہلِ دہلی کے لئے ہے باعثِ صد افتخار

میر کا رنگِ تغزل بن گیا اُن کی شناخت

مرزا غالبؔ کو بھی تھا اُن کے سُخن پر اعتبار

میرؔ کا ثانی نہ تھا کوئی نہ ہو گا حشر تک

میر اقلیمِ سُخن کے تھے حقیقی تاجدار

ہیں نقوشِ جاوداں اُن کے خزاں نا آشنا

باغِ اردو میں ہے اُن کی شخصیت مثلِ بہار

تھی کسی کو بھی نہیں تابِ سُخن اُن کے حُضور

تھے معاصر اُن کے، اُن کے سامنے مثلِ غبار

صرف برقیؔ ہی نہیں اُن کے سخن کا قدر داں

سب مشاہیرِ سُخن میں کرتے ہیں اُن کا شمار

٭٭٭

میر انیسؔ

آبروئے شاعری تھے میر انیسؔ

فکرو فن کی روشنی تھے میرانیس

مرثیہ گوئی میں یکتائے زماں

روحِ عصری آگہی تھے میر انیس

کرتے تھے الفاظ سے بازیگری

شاعرِ بازیگری تھے میر انیس

ختم ہے جس پر شعورِ فکرو فن

شخصیت وہ عبقری تھے میر انیس

اُن کا اعجازِ ہُنر ہے لازوال

افتخارِ انوریؔ تھے میر انیس

جاری و ساری ہے جس کا فیضِ عام

وہ نوائے سرمدی تھے میر انیس

لکھنؤ میں جو ہے اقلیمِ سخن

تاجدارِ خسروی تھے میر انیس

تھے وہ برقیؔ جاں نثارِ اہلِ بیت

عاشقِ ابنِ علی تھے میر انیس

٭٭٭

منظوم تاثرات بسلسلۂ روزِ تولدِ

ناصرؔ کاظمی

آج ہی آئے تھے اس دنیا میں ناصرؔ کاظمی

شہر انبالہ سے چمکی ایک ایسی روشنی

کر دیا جس نے منور محفلِ شعرو سخن

زیبِ تاریخِ ادب ہے ان کا حُسنِ شاعری

سب کا منظورِ نظر ہے اُن کا معیاری کلام

’’ قدرِ گوہر شاہ داند یا بداند جوہری‘‘

لوحِ دل پر ثبت ہیں ان کے نقوشِ جاوداں

مٹ نہیں سکتے کبھی ان کے سرودِ سرمدی

جب بھی سجتی ہے کہیں بھی محفلِ شعر و سخن

ہوتی ہے محسوس سب کو ہر جگہ ان کی کمی

ایک گنجِ شایگاں ہیں ان کے گلہائے سخن

کیوں نہ ہو مرہونِ منت ان کی اردو شاعری

آج طوطی بولتا ہے ان کا ہند و پاک میں

کرتی ہے گرویدہ جس کاسب کو برقیؔ نغمگی

٭٭٭

ناصرؔ کاظمی

یوم وفات: ۲مارچ ۱۹۷۲

گُل ہوئی دو مارچ کو بزمِ ادب کی روشنی

چل دئے سوئے جناں جس وقت ناصرؔ کاظمی

دل کی دھڑکن تھی سبھی کے اُن کی اردو شاعری

دامنِ دل کھینچتی ہے جس کی اب تک دلکشی

عہدِِ حاضر میں تھے عصری آگہی کے وہ نقیب

اُن کی غزلوں میں ہے مُضمِر سوزوسازِ زندگی

مِٹ نہیں سکتے کبھی اُن کے نقوشِ جاوداں

شہرۂ آفاق ہیں اُن کے سرودِ سرمدی

ہے مشامِ جاں معطر اُن کی غزلوں سے ابھی

اُن کے گُلہائے سُخن میں ہے ابھی تک تازگی

ہیں سبھی گرویدہ اُن کے فکر و فن کے آج تک

ہے نشاطِ روح کا ساماں حدیثِ دلبری

’’برگِ نے‘‘ ہو ’’پہلی بارش‘‘ یا ’’نشاطِ خواب‘‘ ہو

اُن کی عصری معنویت کم نہیں ہو گی کبھی

لوحِ دل پر مرتسم ہیں اُن کی یادوں کے نقوش

مرجعِ اہلِ نظر ہے اُن کی برقیؔ شاعری

٭٭٭

گاہے گاہے باز خواں این قصۂ پارینہ را

بیادِ شہیدِ اردو

نرائن پانڈے

عاشقِ اردو زباں قُفلِ سعادت کی کلید

تھے نرائن پانڈے اردو کے وہ پہلے شہید

ہو گئے قربان اردو کے تحفظ کے لئے

قابلِ تقلید ہیں ان کے یہ اوصافِ حمید

اُن کی قربانی ہے اک پیغامِ تجدیدِ حیات

ہے ضرورت یاد رکھے ان کو یہ نسلِ جدید

گنگا جمنی ہند کی تہذیب کا ہے یہ نشاں

ہو رہے ہیں جس سے ابنائے وطن سب مستفید

ہے سبق آموز اُن کی یہ شہادت تا ابد

ہے یہ اک زریں مثالِ جذبۂ شوقِ شدید

کر گئے تھے کوچ وہ دنیا سے ۲۳ مارچ کو

یاد ہے احمد علی برقیؔ کو یہ یومِ شہید

٭٭٭

نظیرؔ اکبرآبادی

تھے نظیرؔ اک شاعرِ جادو بیاں

جا بجا ہیں جن کی عظمت کے نشاں

اُن کی فکرو فن کا دلکش امتزاج

اُن کی اردو شاعری سے ہے عیاں

اُن کی نظموں کے یہ دلکش شاہکار

ہیں سپہرِ فکرو فن پر ضو فشاں

تھے عوامی زندگی کے وہ نقیب

جن کے ہیں مداح سب پیر و جواں

اب کہاں ہیں ایسے شاعر اور ادیب

جن کو حاصل ہے حیاتِ جاوداں

وہ تھے اقلیمِ سُخن کے تاجدار

جو دلوں پر آج تک ہے حکمراں

مٹ نہیں سکتے کبھی احمد علی

اُن کی نظموں کے نقوشِ جاوداں

٭٭٭

نور احمد میرٹھی

چل بسے دار الفنا سے نور احمد میرٹھی

ضو فگن تھی جن کے دم سے شمعِ بزمِ شاعری

ہے خلاء چاروں طرف کچھ بھی نہیں آتا نظر

ہو گئی گل ناگہاں بزمِ ادب کی روشنی

اُن کی تھی تنقید اور تحقیق پر گہری نظر

زندۂ جاوید ہیں اُن کے سرودِ سرمدی

سب کا منظورِ نظر ہے اُن کا معیاری کلام

اُن کے گرویدہ تھے یکساں مبتدی و مُنتہی

اُن کی ہے ’’گلبانگِ وحدت‘‘ فکرو فن کا شاہکار

’’تذکرہ شعرائے میرٹھ‘‘ بھی ہے گنجِ آگہی

نامِ نامی اُن کا ہو گا زیبِ تاریخِ ادب

لکھے گا کوئی مشاہیرِ ادب پر جب کبھی

نعت گوئی میں وہ برقیؔ شہرۂ آفاق تھے

مرجعِ تقلید ہے اُن کی مثالی زندگی

٭٭٭

پروفیسر

وہاب اشرفی

وہاب اشرفی اردو ادب میں تھے ممتاز

رہے گا اہلِ قلم کو ہمیشہ جن پر ناز

تھی ان کی طبعِ رسا ان کی فکر کی غماز

وہ اپنے عہد کی نقد و نظر میں تھے آواز

طویل ان کی کتا بوں کی ایک ہے فہرست

ملے تھے جن کی بدولت انہیں کئی اعزاز

خدا نے اُن کو عنایت کیا تھا ذہنِ رسا

تھا ان کی طرزِ نگارش کا منفرد انداز

خلاء یہ ایسا ہے مشکل ہے جس کا پُر ہونا

ہے طبعِ اہلِ قلم ان کی موت سے ناساز

تھے اپنے آپ میں اک انجمن سجائے ہوئے

جہانِ اردو کی وہ شخصیت تھے مایۂ ناز

جہاں میں نام تھا ان سے بہار کا روشن

عیاں ہے ان کے مضامیں سے ذہن کی پرواز

٭٭٭

ممتاز اردو افسانہ نگار

ہاجرہ مسرور

ہاجرہ مسرور بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں

جن کے افسانے ہیں عصری حسیّت کے ترجماں

تھیں سپہرِ اردو پر روشن وہ مثلِ کہکشاں

ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں اُن کی عظمت کے نشاں

لکھنوی تہذیب کا پروردہ تھا اُن کا قلم

اُن کے رشحاتِ قلم سے یہ حقیقت ہے عیاں

تھا ڈراموں میں بھی اُن کے زندگی کا سوز و ساز

معترف اُن کے شعورِ فکرو فن کا ہے جہاں

سرخرو تھیں اپنے فن سے منٹوؔ اور عصمتؔ کے بعد

سب کا منظورِ نظر تھا اُن کا یہ عزمِ جواں

تھیں حقوقِ نسواں کی ایسی علمبردار وہ

مِٹ نہیں سکتے کبھی جس کے نقوشِ جاوداں

ایسی تاریخِ ادب جس میں نہ اُن کا نام ہو

ہو گی برقیؔ اعظمی اس کی ادھوری داستاں

٭٭٭

ثقافتی شخصیات

نازشِ ہندوستاں

ایم ایف حسین

چل دئے سوئے جناں ایم ایف حسین

نازشِ ہندوستاں ایم ایف حسین

فنِ نقاشی میں ہونگے حشر تک

زیبِ تاریخِ جہاں ایم ایف حسین

ہو گئے لندن میں پیوندِ زمیں

تھے جو مثلِ کہکشاں ایم ایف حسین

کھو دیا ہم نے جنھیں در اصل تھے

فن کی عظمت کا نشاں ایم ایف حسین

ہو گیا ویران گلزارِ ہُنر

جس کی تھے روحِ رواں ایم ایف حسین

تھے جو یکتائے زماں وہ چل بسے

دوسرے ہونگے کہاں ایم ایف حسین

صرف برقیؔ ہی نہیں ہے سوگوار

سب کے تھے آرامِ جاں ایم ایف حسین

٭٭٭

شہرۂ آفاق مزاحیہ اداکار

جانی واکر

جانی واکر جو ہنساتے تھے کبھی

اب نہیں ہیں تو رُلاتے ہیں ہمیں

اُن کے کردار جو ہیں وِردِ زباں

اُن کی اب یاد دلاتے ہیں ہمیں

ذہن میں زندہ دلی کے ہیں نقوش

آج بھی یاد جو آتے ہیں ہمیں

پردۂ فیلم پہ اُن کے افکار

خوابِ غفلت سے جگاتے ہیں ہمیں

بس میں کنڈکٹری کرتے تھے کبھی

اب بھی وہ راہ دکھاتے ہیں ہمیں

ہنستے ہنستے وہ اداکاری میں

قصۂ درد سناتے ہیں ہمیں

اپنی فیلموں میں اشارے کر کے

ایسا لگتا ہے بُلاتے ہیں ہمیں

ایسے فنکار تھے برقیؔ اب بھی

کِھلکِھلا کر جو ہنساتے ہیں ہمیں

٭٭٭

غزل نواز

جگجیت سنگھ

جگجیت سنگھ تھا جو دلآرا چلا گیا

دنیائے دوں سے کر کے کنارا چلا گیا

تھا آبروئے ہند جو سارے جہان میں

فنکار وہ عظیم ہمارا چلا گیا

مشّا طۂ عروسِ غزل بن کے عمر بھر

تھا جو کہ سب کی آنکھ کا تارا چلا گیا

شامِ غزل میں جس کے ترانوں کی دھوم تھی

تھا طرز جس کا سب کو گوارا چلا گیا

شہرت کے آسماں پہ درخشاں تھا عُمر بھر

تھا ضو فشاں جو مثلِ ستا را چلا گیا

اردو غزل کو جس پہ ہمیشہ رہے گا ناز

وہ غمزدوں کے دل کا سہارا چلا گیا

برقیؔ نہ سوگوار ہو کیوں محفلِ غزل

تھا جان و دل سے سب کو جو پیارا چلا گیا

٭٭٭

 

 

راجیش کھنا

کر گئے راجیش کھنا فلمی دنیا کو یتیم

ہو گیا رخصت جہاں سے ایک فنکارِ عظیم

ہندی فیلموں میں ادا کاری تھی ان کی لاجواب

شکل میں ’’آنند‘‘ کی تھے مظہرِ امید و بیم

اپنے میدانِ عمل میں تھے وہ بیحد کامیاب

لے گیا پیکِ اجل آ کر انہیں مثلِ غنیم

فیلمی دنیا کے وہی پہلے سُپر اسٹار تھے

بہتے تھے زندہ دلی کی رو میں وہ مثلِ نسیم

صفحۂ تاریخ پر ہے ثبت ان کی یادگار

پردۂ سیمیں سے رخصت ہو نہیں سکتی یہ سیم

فلمی دنیا کی تھے وہ اک شخصیت ہر دلعزیز

یاد وہ رکھیں گے ان کو جن میں ہے ذوقِ سلیم

زندہ دل فنکار برقیؔ زندۂ جاوید ہے

مر کے بھی رہتا ہے اپنے کارناموں سے عظیم

٭٭٭

شہرۂ آفاق مزاحیہ فلم اداکار

محمود

محمودؔ قہقہوں سے ہنساتے تھے عمر بھر

گُل باغِ زندگی میں کِھلاتے تھے عمر بھر

جن کو سکون قلب نہ تھا اُن کو فلم میں

وہ زندگی کی راہ دکھاتے تھے عمر بھر

طنز و مزاح میں نہ تھا اُن کا کوئی جواب

کیف و سرور دل میں وہ لاتے تھے عمر بھر

فلموں میں اُن کا سب سے تھا انداز منفرد

اپنی ادا سے دھوم مچاتے تھے عمر بھر

کرتے تھے اپنی زندہ دلی سے وہ شادکام

رنج و الم کو دور بھگاتے تھے عمر بھر

کچھ دیر ہی سہی وہ بُھلا کر غمِ حیات

اک ولولہ دلوں میں جگاتے تھے عمر بھر

برقیؔ ہنسی ہنسی میں وہ اپنی اداؤں سے

شمعِ امید دل میں جلاتے تھے عمر بھر

٭٭٭

معین اختر

شعورِ فکرو فن کا خوشنما پیکر معین اختر

درخشاں تھا جو فنکاری سے اوجِ بام شہرت پر

بہت مُشکل ہے ہنسنا اور ہنسانا دورِ حاضر میں

ادا کاری کے تھے اُس میں نہایت خوشنما جوہر

صفِ ماتم بچھی ہے وہ جہاں سب کو ہنساتا تھا

کریں کیسے ادا اُس کو خراج اب اپنا ہنس ہنس کر

ہے اُس کا کام لے جانا سبھی کو دارِ فانی سے

اُسے بھی ساتھ اپنے لے گیا پیکِ اجل آ کر

ہنساتا تھا جو سب کو زندگی بھر اب رُلائے گا

بہت صبر آزما ہوتا ہے برقیؔ موت کا منظر

٭٭٭

مقبول صابری قوال

افسوس آج چل بسے مقبول صابری

حق نے عطا کیا تھا جنھیں صوتِ سرمدی

بر صغیر موت سے ہے جن کی سوگوار

شمعِ ہُنر کی اُن سے فروزاں تھی روشنی

’’ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق‘‘

جن کے کلام سے ہے عیاں عشقِ معنوی

جب سے گئے ہیں چھوڑ کے اس کو یہاں سے وہ

مدھم ہے تب سے بزمِ معارف کی روشنی

عرضِ ہُنر کا اُن کے نہیں تھا کوئی جواب

آواز میں تھا اُن کی نہاں سوزِ زندگی

رہ جاتا ہے کمالِ ہُنر ایک یادگار

جانا ہے سب کو چھوڑ کے دنیائے عارضی

ابدی سکون خُلد میں برقیؔ انھیں ملے

تا عُمر بخشتے رہے جو سب کو تازگی

٭٭٭

غزلخوانِ دلنواز شاد روان

مہدی حسنؔ

طوطیِ شکر فشان از دارِ فانی درگذشت

عندلیبِ گلشنِ شیرین بیانی درگذشت

آنکہ بودہ در صفِ نام آوران مہدی حسنؔ

با ھزاران نغمہ ھای جاودانی درگذشت

روشنیٔ محفلِ اردو غزل خاموش شد

رونقِ بزمِ نشاط و شادمانی درگذشت

قصر موسیقی شدہ خالی زِ فخرِ روزگار

تاجدارِ کشورِ آوازخوانی درگذشت

از صدای دلنوازش آنکہ برقیؔ اعظمی

بود ھمچو چشمۂ راحت رسانی درگذشت

٭٭٭

شہنشاہِ غزل

مہدی حسن

ہو گئے رخصت شہنشاہِ غزل مہدی حسن

جن کی رحلت کا ہے چرچا انجمن در انجمن

آج تیرہ جون موسیقی کا ہے یومِ سیاہ

آیا جب پیکِ اَجَل اُن کے لئے لے کر کفن

جسم میں تھا خاکِ راجستھان کا اُن کے خمیر

اہلِ ہند و پاک کے تھے مشترک وہ ہموطن

فن موسیقی کی دنیا میں تھے وہ روحِ رواں

آج ہے اردو غزل کا روح سے خالی بدن

بحرِ ذخّارِ غزل کی تھے وہ دُرِّ شاہوار

جملہ اقصائے جہاں میں تھی جو ہر سو ضو فگن

باغِ موسیقی میں اُن کی ذات تھی مثلِ بہار

اُن کے جانے سے غزل کا ہے خزاں دیدہ چمن

اب نہ گونجے گا کبھی اُن کا یہ لحنِ دلنواز

اس لئے بے کیف ہے اردو غزل کا بانکپن

صرف وہ برقیؔ نہیں تھے نازشِ بَرِّ صغیر

اُن سے روشن تھی جہاں میں محفلِ شعروسخن

٭٭٭

ملکۂ ترنم

نورجہاں

کانوں میں رس گھول رہی ہے نورجہاں کی وہ آواز

بھول نہیں سکتے اہلِ دل جس کا کبھی بھی سوزوگداز

تھا موسیقی میں وہ جادو سن کر سر دھنتے تھے لوگ

اُن کے گلے میں عطا کیا تھا فطرت نے ایسا اعجاز

آج بھی دنیا کے ہر گوشے میں ہیں اُن کے گرویدہ

تھا اُن کا پُر کیف ترنم اُن کے قبول ِ عام کا راز

سب کے دل کی دھڑکن تھا آواز کا اُن کی زیر و بم

ان کی طرز ادا کا برقیؔ تھا ایسا دلکش انداز

٭٭٭

شہرۂ آفاق موسیقار

نوشاد علی

فنِ موسیقی میں تھے نوشادؔ علی فخرِ جہاں

ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں ان کی عظمت کے نشاں

ان کے نغموں سے عیاں ہے زندگی کا سوز و ساز

مِٹ نہیں سکتے کبھی ان کے نقوشِ جاوداں

تاجدارِ فیلمی دنیا تھے جو نوشادؔ و شکیلؔ

اپنے فن پاروں سے ہیں وہ زیبِ تاریخِ جہاں

ان کے نغموں کا نہیں ہے آج تک کوئی جواب

ہیں یہ گلزارِ سخن کی اک بہارِ بے خزاں

ثبت ہیں تاریخ کے صفحات پر ان کے نقوش

کارناموں سے ہیں اپنے نازشِ ہندوستاں

اپنے فن کے ساتھ سمجھوتا نہ تھا منظور انہیں

اس لئے کوئی بھی فن پارہ نہیں ہے رائیگاں

یہ چمکتے ہیں سپہرِ فن پہ مثلِ کہکشاں

رہتے ہیں فنکار اپنے فن سے برقیؔ جاوداں

٭٭٭

متفرق شخصیات

حکیم ابو علی الحسین ابن عبد اللہ

ابن سیناؒ

ابنِ سینا کا نہیں کوئی جواب

تھے وہ اقصائے جہاں میں انتخاب

اُن کی القانون ہے اک شاہکار

زیبِ تاریخِ جہاں ہے یہ کتاب

طبِّ یونانی کی تھے روحِ رواں

ہو رہے ہیں لوگ جس سے فیضیاب

ضو فگن یونہی رہیں گے تا ابد

وہ سپہرِ طب پہ مثلِ آفتاب

کر نہیں سکتے ہم اُن کا حق ادا

اُن کے ہیں احسان ہم پر بے حساب

اُن کے جو بھی ہیں نقوشِ جاوداں

قایم و دایم ہے ان کی آب و تاب

تھے وہ برقیؔ محسنِ انسانیت

یہ حقیقت ہے نہیں ہے کوئی خواب

٭٭٭

پروفیسر

 

 

امیرحسن عابدی

چل دئے سوئے جناں وہ عابدی

جن سے روشن تھا جہانِ فارسی

ہو گیا ہے آج پیدا وہ خلاء

تا قیامت پُر نہ ہو گا جو کبھی

مرجعِِ اہلِ نظر تھی اُن کی ذات

بزمِ علم و فن کی تھے وہ روشنی

غمزدہ ہے خطۂ برِ صغیر

چھائی ہے چاروں طرف افسردگی

اہلِ اردو فارسی ہیں سوگوار

ہو گئی ناپید ہونٹوں سے ہنسی

جاری و ساری ہے اُن کا فیض عام

علمی سرمایہ ہے اُن کا سرمدی

ہو گئے برقیؔ سپردِ خاک وہ

تھی مثالی جن کی عملی زندگی

٭٭٭

پروفیسر

امیرحسن عابدی

چل دئے سوئے جناں وہ عابدی

جن سے روشن تھا جہانِ فارسی

ہو گیا ہے آج پیدا وہ خلاء

تا قیامت پُر نہ ہو گا جو کبھی

مرجعِِ اہلِ نظر تھی اُن کی ذات

بزمِ علم و فن کی تھے وہ روشنی

غمزدہ ہے خطۂ برِ صغیر

چھائی ہے چاروں طرف افسردگی

اہلِ اردو فارسی ہیں سوگوار

ہو گئی ناپید ہونٹوں سے ہنسی

جاری و ساری ہے اُن کا فیض عام

علمی سرمایہ ہے اُن کا سرمدی

ہو گئے برقیؔ سپردِ خاک وہ

تھی مثالی جن کی عملی زندگی

٭٭٭

جاوید حبیب

نیرِ اوجِ سپہرِ صحافت نہیں رہے جاوید حبیب

ذہنِ جدید کی تھے جو علامت نہیں رہے جاوید حبیب

دانش گاہِ علی گڈھ سے تا عمر انھیں تھا ایک لگاؤ

کرتے تھے اُس کی جو وکالت نہیں رہے جاوید حبیب

سرسید کے خوابوں کی تعبیر تھی اُن کے پیشِ نظر

حلقہ بگوشِ اہلِ سیاست نہیں رہے جاوید حبیب

شعلہ بیاں تقریروں سے اور زورِ قلم کے زیرِ اثر

پیدا کرتے تھے جو حرارت نہیں رہے جاوید حبیب

فکرو نظر کا پیمانہ تھا اُن کے ہفتہ وار ’’ہجوم‘‘

سر پہ تھا جن کے بارِ امانت نہیں رہے جاوید حبیب

جب تک جان میں جان تھی اُن کی رہتے تھے سرگرمِ عمل

تھے جو صاحبِ فہم و فراست نہیں رہے جاوید حبیب

فرزندانِ علی گڈھ کو پڑتی تھی ضرورت جب اُن کی

کرتے تھے ان کی وہ قیادت، نہیں رہے جاوید حبیب

قومی ہمدردی کے جذبے سے اُن کا دل تھا سرشار

برقیؔ تھے جو وجہِ سعادت نہیں رہے جاوید حبیب

٭٭٭

مسیح الملک

حکیم اجمل خاں

فخرِ دوراں حکیم اجمل خاں

علم و حکمت کی تھے جو روحِ رواں

ان کی حاذقؔ ہے یادگارِ عظیم

جس کی عظمت کا معترف ہے جہاں

علمِ طب میں تھے وہ مسیح الملک

کارنامے ہیں ان کے وِردِ زباں

ملک و ملت کے خیرخواہ تھے وہ

ایسے ہمدرد اب ملیں گے کہاں

گامزن تھے رہِ ترقی پر

جس میں حائل ہوا نہ سود و زیاں

کارآمد ہے ان کا درسِ عمل

روح پرور تھا ان کا عزمِ جواں

جامعہ ملیہ میں تھے سرگرم

ثبت برقیؔ جہاں ہیں ان کے نشاں

٭٭٭

والیِ ریاستِ میسور

حیدر علی

یاد ہے حیدر علی کا کیا ہمیں یومِ وفات

دیتی ہے درسِ جوانمردی ہمیں جس کی حیات

اس کی عظمت کے نشاں ہیں زیبِ تاریخِ جہاں

والیِ میسور تھا جس نے کبھی کھائی نہ مات

رزم گاِ زندگی میں تھا وہ سرگرمِ عمل

کیوں نہیں کرتا کوئی عہدِ رواں میں اس کی بات

ٹیپو سلطاں کون تھا یہ اس کا ہی فرزند تھا

شیر خصلت جس کی ہیں وردِ زباں سب کے صفات

عظمتِ کردار کا اُن سے سلیقہ سیکھئے

ہیں سبق آموز وہ اُن پر جو گذرے حادثات

کر دیا قربان سب کچھ ملک و ملت کے لئے

چاہتے تھے وہ غلامی سے ملے سب کو نجات

اقتضائے وقت ہے سب لوگ رکھیں ان کو یاد

ذہن میں ہے میرے برقیؔ ایک یادوں کی برات

٭٭٭

سابق صدرنشین قومی اقلیتی کمیشن جسٹس

سردارعلی خاں

چل بسے سردار علی خاں چھوڑ کر بزمِ جہاں

معترف ہیں جن کے عدل و داد کے پیر و جواں

اُن کی سینے میں دھڑکتا تھا دلِ درد آشنا

اِس لئے تھے اہلِ دل کے وہ دلوں پر حکمراں

تھے وہ اقلیتی کمیشن کے بھی سابق سربراہ

جذبۂ ایثار تھا ہر شخص پر اُن کا عیاں

مجلسِ اقوامِ متحدہ کے بھی وہ رکن تھے

شخصیت ہو کیوں نہ اُن کی نازشِ ہندوستاں

اُن کے تھے پیشِ نظر ہر وقت انسانی حقوق

تھے ستم دیدہ دلوں کے رنج و غم کے ترجماں

تھا حسنؔ چشتی سے ان کا مخلصانہ رابطہ

ہیں شکاگو میں جو اب بھی مرجعِ دانشوراں

اُن پہ نازل ہو ہمیشہ رحمتِ پروردگار

عُمر بھر خلقِ خدا کے جو، رہے راحت رساں

حیدرآبادی ثقافت کے علمبردار تھے

اُن کا ذکرِ خیر ہو برقیؔ نہ کیوں وِردِ زباں

٭٭٭

فائلوں کے لئے شاعر کا تشکر

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید