فہرست مضامین
یادوں کے دریچے
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
جامعہ کراچی میں میرا زمانہ طالبِ علمی
(گزرے دنوں کی کچھ یادیں )
یوں تو طالب علمی کا پورا زمانہ کسی بھی انسان کی زندگی کا ایک یادگار اور خوش گوار دور ہوا کرتا ہے لیکن یونیورسٹی میں طالب علم کی حیثیت سے گزارے ہوئے دنوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اس کی ایک وجہ بہ طور طالب علم اس کا یہ دور شباب کا دور ہوتا ہے اوراس کی حیثیت بہ طور طالب علم اختتام پذیر ہو رہی ہوتی ہے، وہ طالب علمی کو خیر باد کہنے اور عملی زندگی میں داخل ہونے جا رہا ہوتا ہے۔ علم حاصل کرنے کا عمل کسی مرحلے پر بھی اختتام نہیں ہوتا، یہ عمل تو ساری زندگی جاری و ساری رہتا ہے۔ اسکول اور کالج کے دور سے گزر کر انسان میں سوچنے سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہو تی ہے، یونیورسٹی کے تجربات اس کی اس صلاحیت کو نکھار اور سنوار کر زندگی کے دھارے میں بہنے کے قابل بنا دیتے ہیں۔ جامعہ میں گزارے ہوئے شب و روز تمام زندگی ذہن پر نقش رہتے ہیں، اساتذہ اور ساتھیوں کے ساتھ بیتا ہوا دور ایک یاد گار بن کر انسان کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے۔ میَں نے اول جماعت سے ایم اے تک ریگولر تعلیم حاصل کی، سولہ سال کے اس تعلیمی عمل میں کوئی گیپ نہیں آیا، میرے والدین کی مالی حیثیت معمولی تھی لیکن چاہتے تھے کہ ان کی اولاد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو اور ایسا ہی ہوا۔ میَں نے گھر پر قرآن کریم پڑھا، اسکول اور کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ کراچی کا رخ کیا، لائبریری سائنس میں پھر علم سیاسیات میں ایم اے کیا، حصول تعلیم کا عمل جاری رکھتے ہوئے ۲۰۰۹ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ترکی زبان، سندھی زبان، کمپیوٹر، انتظامیات اور دیگر کئی موضوعات کے کورسیز بھی کیے۔
میَں جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس کیسے پہنچا؟ اس کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ میَں ۱۹۷۰ میں بی اے کرنے کے بعد معاشیات میں ایم اے کرنے کی خواہش لیے جامعہ کراچی پہنچا۔ مجھے معلوم تھا کہ جامعہ کے شعبہ لائبریری سائنس میں اکرم صاحب ہوتے ہیں۔ اکرم صاحب اور میرے والد حقیقی ماموں، پھوپھی زاد بھائی ہیں اس رشتہ سے آپ میرے چچا ہوئے، نجی زندگی میں ہم انہیں اکرم چچا کہتے ہیں، ان سے بہتر رہ نمائی کون کر سکتا تھا۔ چنانچہ میَں سیدھا ان کے شعبے میں چلا گیا، شعبہ لائبریری سائنس اس وقت جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری کی پانچویں منزل پر تھا۔ ایک کمرے میں تین لوگ بیٹھے تھے، ایک میز کرسی اکرم صاحب کی تھی، ایک پر سید جلال الدین حیدر اور ایک پر اظہار الحق ضیاء براجمان تھے، بعد میں تینوں علیحدہ علیحدہ کمروں میں بیٹھنے لگے تھے۔ مدعا بیان کیا کہ میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینے کی خواہش رکھتا ہوں تا کہ اکنامکس میں ایم اے کر سکوں، ارادہ بینکر بننے کا ہے۔ اکرم صاحب جو شعبے کے ایک سینئر استاد اور انتظامی امور سے بھی وابستہ تھے، محبت اور پیار سے بٹھایا، خوش ہوئے کہنے لگے کہ میں کلاس میں جا رہا ہوں واپس آ کر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ کلاس سے واپس آئے دائیں بائیں، اِدھر اُدھر کالے گاؤن پہنے ہوئے کئی طلبہ اور طالبات تھے اپنے کمرے میں آئے کچھ دیر ان سے باتیں کر کے انہیں فارغ کیا۔ اب میری جانب متوجہ ہو کر گویا ہوئے ہاں میاں تو آپ اکنامکس میں ایم کرنا چاہتے ہیں، بہت خوب اچھا خیال ہے، کیا تم نے فارم لے لیا میں نے کہا کہ نہیں ، ابھی نہیں لینا ہے۔ پھر گویا ہوئے کہ بھئی یہ جو ہمارا سبجیکٹ ہے لائبریری سائنس یہ بھی ایک پروفیشنل اور ٹیکنیکل مضمون ہے اور خاصا اسکوپ ہے اگر تمہیں لکھنے پڑھنے اور کتابوں سے دلچسپی ہے تو اس کے بارے میں بھی سوچومیرا خیال ہے کہ یہ مضمون بھی تمہارے لیے بہتر رہے گا۔ مختصر سی گفتگو کے بعد کہنے لگے چلو گھر چلتے ہیں باقی باتیں گھر پر ہوں گی۔ کیمپس میں رہا کرتے تھے دس منٹ میں گھر پہنچ گئے۔ محترمہ چچی صاحبہ(بیگم ڈاکٹر سبزواری ) سے تعارف کرا یا کہنے لگے کہ یہ انیس بھائی کے بڑے صاحبزادے ہیں ماشا ء اللہ بی اے کر لیا ہے اور اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینا چاہتے ہیں۔ چچی بھی خوش ہوئیں خیریت پوچھی امی ابا اور بہن بھائیوں کے بارے میں دریافت کیا۔ کچھ دیر میں کھانا میز پر لگ گیا۔ کھانے کے دوران شعبہ لائبریری سائنس میں داخلہ لینے کی پھر بات کی، محسوس ہوا کہ ان کی یہی خواہش ہے کہ میں اسی شعبہ میں داخلہ لوں۔ میرے خاندان کے سب ہی لوگ اکرم صاحب سے بہت متاثر تھے، نجی محفلوں میں آپ کا ذکر بہت ہی اچھے الفاظ میں ہوا کرتا تھا اور اب بھی یہی صورت حال ہے میں بھی اکرم صاحب سے بہت متاثر تھا۔ ہمارے خاندان میں اکرم صاحب پہلے فرد تھے جو امریکہ پڑھنے گئے اور یونیورسٹی میں استاد ہوئے۔
میں نے اکرم صاحب کے گھر ہی میں فیصلہ کر لیا کہ میں معاشیات میں نہیں بلکہ لائبریری سائنس میں داخلہ لوں گا۔ لا ئبر یرین شپ میں داخل ہونے کی یہ اولین گھڑی تھی چنانچہ ایک داخلہ فارم اکنامکس میں اور ایک لائبریری سائنس میں جمع کرا دیا گیا۔ شعبہ لائبریری سائنس کے انتظامی معاملات میں اس وقت اکرم صاحب ہی کرتا دھر تا تھے چنانچہ داخلہ فہرست میں نام آنا لازمی تھا ایسا ہی ہوا۔ میں نے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ جا کر دیکھا بھی نہیں کہ وہاں کی داخلہ فہرست میں نام آیا یا نہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ میں یہ فیصلے کر چکا تھا۔ اس فیصلہ پر میرے والد صاحب خوش اور مطمئن تھے۔ کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ میں اکرم صاحب کی نگرانی میں بہتر طور پر تعلیم حاصل کر سکوں گا اور شاید ایسا ہی ہوا۔ میں اس وقت تک درمیانہ درجے کا طالب علم ہی تھا جامعہ میں دو سال کے دوران میری صلاحیتوں کو جلا ملی حتیٰ کہ مجھ میں لکھنے کا ذوق پیدا ہواجواُسی ماحول، تر بیت اور سر پرستی کا نتیجہ ہے۔
پاکستان میں جامعہ کی سطح پر لائبریری سائنس کی تعلیم و تربیت کا آغاز۱۹۵۶ء میں جامعہ کراچی سے ہوا پھر دیگر جامعات نے اس کی تقلید کی۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید پاکستان میں لائبریری سائنس کی تعلیم و تربیت کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے ڈاکٹر محمود حسین کی کاوشوں سے جامعہ کراچی میں پو سٹ گریجویٹ ڈپلو مہ کورس کی تدریس کے لیے ملک کا پہلا شعبہ، ۱۰ اگست، ۱۹۵۶ء میں قائم کیا۔ ابتدائی طور پر شعبہ جامعہ کے سٹی کیمپس واقع پرنسز اسٹریٹ کی کیمسٹری بلڈنگ میں قائم ہوا۔
۱۹۶۳ء میں یہ جامعہ کراچی کے موجودہ کیمپس میں جامعہ کے مرکزی کتب خانہ کی پانچویں منزل پر منتقل ہوا، ۱۹۸۲ء میں اسے کلیہ فنون کے تیسرے بلاک کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ اب یہ وہیں پر قائم ہے۔
تعلیمی سال۱۹۷۱ء کے ابتدائی دنوں میں سے کوئی دن تھا، شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کی پانچویں منزل پر واقع تھا۔ تمام کمروں کے چاروں اطراف کھلی ہوئی جگہ نے کلاس روم کو ضرورت سے زیادہ روشن کر دیا تھا بلکہ چبھتی ہوئی روشنی کا احساس نمایاں تھا۔ کلاس روم میں کل۷۷ طلباء جن میں ۴۴ طلباء اور ۳۳ طالبات تھیں۔ یہ ایم اے سال اول (لائبریری سائنس) کی کلاس تھی۔ تمام طلباء نے جامعہ کے شوق میں کالے رنگ کے گاؤن ذیب تن کیے ہوئے تھے (اُس زمانے میں جامعہ کے ہر طالب علم کے لیے کالا گاؤن پہننا لازمی تھا)۔ کلاس روم میں مکمل خاموشی، پہلے دن کے خوف نے ماحول کو کچھ زیادہ ہی خاموش بنا دیا تھا۔ پہلی کلاس تعارفی کلاس تھی شعبے کے صدر پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری(مشیر امور طلبہ)، ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر اور اظہار الحق ضیاء کلاس میں موجود تھے۔ صدر شعبہ ڈاکٹر عبدالمعید صاحب نے تمہیدی کلمات کہے، شعبے کا تعارف کرایا، اساتذہ کے بارے میں بتا یا، ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سے صاف ظاہر تھا کہ کو ئی عالم فاضل شخص گفتگو کر رہا ہے۔ گندمی رنگ، قد میں چھوٹے، گٹھا ہوا جسم، روشن آنکھیں، سیاہ بال، کلین شیو، کالے رنگ کے چشمے نے ان کی شخصیت کو حسین بنا دیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے ایک استاد اور بھی ہیں جو بیماری کے باعث اوپر نہیں چڑھ سکتے وہ تھے پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید۔
ڈاکٹر عبدالمعید میرے ان اساتذہ میں سے تھے جن کی شخصیت، علمیت اور قابلیت نے میری پیشہ ورانہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، میں نے آپ سے بہت کچھ حاصل کیا۔ معید صاحب کو پہلی بار دیکھ کر میرا تاثر یہ تھا کہ یہ ایک عام انسان نہیں بلکہ علمیت اور قابلیت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ان چند انسانوں میں سے ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کا حافظہ زبر دست تھا، کتب خانوں کی تاریخ کے حوالے سے آپ کو تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ تاریخیں بھی یاد تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک کہنہ مشق اور قابل استاد اور ایک اچھے مقر ر بھی تھے۔ تقریر کے فن سے خوب واقف تھے البتہ آپ کا تحریری سرمایہ مختصر ہے۔ ڈاکٹر عبدالمعید نے بنگال لائبریری ایسو سی ایشن، کلکتہ سے لائبریری سائنس میں سر ٹیفیکیٹ کورس، مشیگن یونیورسٹی، امریکہ سے لائبریری سائنس میں ایم ایل ایس، یونیورسٹی آف ایلونائے، امریکہ سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی تھی۔
۱۹۸۱ء میں شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی کی سلور جوبلی کے موقعے پر ایک کتاب بعنوان ’’ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید اور پاکستان لائبریرین شپ ‘‘ شائع کی تھی، کتاب کی تعارفی تقریب ۲۹ اگست ۱۹۸۱ء کو لیاقت میموریل لائبریری آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی، اس وقت کے صوبائی وزیر تعلیم جسٹس سید غوث علی شاہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر عبد المعید صاحب بھی اس تقریب میں شریک تھے جو نائجیریا سے بطور خاص شعبے کی سلور جوبلی میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر عبدالمعید نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ حضرات نے میری جس قدر قدردانی کی ہے معلوم نہیں میں اس کا مستحق ہوں یا نہیں مقر رین نے جو کچھ میرے متعلق کہا میں ان کا بے حد مشکور ہوں۔ کتاب کے بارے میں کئی مقر رین نے اظہار خیال کیا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی کا کہنا تھا کہ ’’ ڈاکٹر عبدالمعید بڑے خوش نصیب استاد ہیں کہ ان کی خدمت میں تحریری تاثرات کا انمٹ یہ ہدیہ عقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ یہ کتاب در اصل وہ جذبہ عقیدت و خلوص ہے جو نئی نسل نے پرانی نسل کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ یہ ڈاکٹر عبدالمعید صاحب کی خدمت عملی کا اعتراف ہی نہیں بلکہ اس شرف سعادت کا اعتراف ہے جو علم اور اہل علم کی خصوصیت ہوتا ہے ‘‘۔ میَں نے ڈاکٹر صاحب کا خاکہ بھی تحریر کیا جو میری کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ میں شامل ہے۔ آپ ۱۳ جنوری ۱۹۸۴ء کو کراچی میں اس دنیائے فانی سے رحلت کر گئے۔ آپ جامعہ کراچی کے قبرستان میں مدفون ہیں، مجھے تجہیز و تدفین میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔
ڈاکٹر عبدالمعید کو پاکستان میں لائبریری سائنس میں سب سے پہلے پی ایچ ڈی کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ڈاکٹر صاحب جب امریکہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر وطن لوٹے تو پروفیسر محمد واصل عثمانی صاحب نے ایک نظم کہیں جس کے چند اشعار یہاں پیش ہیں ؎
ہو گئے ہیں ڈاکٹر عبدالمعید
علم ہے ان کا کتاب اندر کتاب
ان کے آنے سے سب ہی مشتاق تھے
ہو گئیں آخر دعائیں مستجاب
اور ان ہی کی سعی سے عبدالمعید
ہو گئے ہیں مستند اہل کتاب
پروفیسرڈاکٹر انیس خورشید کم گفتار، دھیمہ لہجہ، اکثر پیچھے بیٹھے ہوئے طلباء آپ کے لیکچر سے محروم ہی رہا کرتے، اللہ نے آپ کو قلم کی طاقت سے نوازا، میَں نے ڈاکٹر صاحب کو مسلسل لکھتے دیکھا، آپ نے بہت لکھا اور خوب لکھا، اپنی بیماری، کمزوریِ صحت کے باوجود قلم کی روانی کو کم نہ ہونے دیا، لکھتے رہے اور چھپتے رہے۔ آپ کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جسمانی کمزوری انسان کے بلند مقاصد کے آڑے نہیں آ سکتی ؎
ارادے جن کے پختہ ہوں نگاہ جن کی بلند ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کر تے
ڈاکٹر انیس خورشید صاحب نے کراچی لائبریری ایسو سی ایشن کے سر ٹیفکیٹ کورس (۱۹۵۲ء) سے پیشہ ورانہ تعلیم کا آغاز کیا، ۱۹۵۷ء میں جامعہ کراچی سے لائبریری سا ئنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ اور امریکہ سے ۱۹۵۹ میں ایم ایل آئی ایس کیا۔ امریکہ کی(University of Pittsburgh) سے ۱۹۶۹ء میں لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان لائبریرین شپ کی وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں ’’صدارتی تمغہ حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا جو پاکستان لائبریرین شپ کے لیے بھی ایک اعزاز ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے میری ایک کتاب کے بارے میں اپنے ایک خط(۱۸ مئی ۱۹۹۷ء )بہ نام اختر صدیقی مرحوم اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ’’مجھے خوشی ہے کہ تم نے اپنے بارے میں شائع ہونے والی Bio-Bibliographical Study کی ایک کاپی مجھے عنایت فر مائی ورنہ میں ایک اچھی کتاب سے شاید محروم رہتا۔ میں نے سر سری طور پرہی اسے دیکھا ہے مجھے کتاب اچھی لگی، presentation بہت ہی اچھے طور پر کی گئی ہے اور نہایت عمدگی سے dataکو پیش کیا گیا ہے۔ کتاب سے آپ کی بھر پور شخصیت اپنی طرح داری کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے۔ تدوین اور ترتیب بھی اچھی ہوئی ہے یوں کہنا چاہئے کہ اختر ایچ صدیقی کی متنوع اور سدا بہار شخصیت اپنی پوری کتا بیاتی سر گرمیوں کے ساتھ اس کتاب کے ذریعہ بھر پور طور پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ اپنے ایک اور خط مورخہ ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ء میں آپ نے تحریر فر مایا، ’’تمہارا گیارہ اکتوبر کا خط ملا، محمد عادل عثمانی (سرکار) کی سوانحی کتابیات کی خوبصورت جلد ملی اور مجلہ ’’روایت‘‘ بھی، خوشی ہو ئی، پڑھ تو نہ سکا ہوں لیکن خوشی ہو ئی تم جیسے دھن کے پکے لائبریرین نے مر تب کیا ہے ‘‘۔ ڈاکٹر صاحب اب اس دنیا میں نہیں، پروفیسرڈاکٹرسید جلال الدین حیدر شعبے کے با صلاحیت اور محنتی استادتھے۔ لانبا قد، بھاری جسم، کتا بی چہرہ، گندمی رنگ، گھنے سیاہ بال، داڑھی مونچھیں صاف یعنی کلین شیو، ستواں ناک، آنکھیں چھو ٹی اور کسیِ قدر اندر کی جانب، مضبوط ہاتھ پیر، ہونٹ قدرِے بڑے ہنستے ہوئے ایک جانب زیادہ ہو جا یا کرتے، زیادہ تر پینٹ شرٹ اور کوٹ پتلون لیکن کبھی کبھی شیروانی اور علی گڑھ کاٹ کے پیجامے میں بھی ہوا کرتے تھے، جوانی میں بھی وضع دار تھے تمام زندگی اسی وضع داری میں گزار دی، وقت اور اصولوں کے سخت پابند۔ کلاس میں کبھی دیر سے نہیں پہنچے کلاس میں آئے راسٹرم کے پیچھے کھڑے ہو کر مخصوص انداز سے اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر کلائی کی جانب وقت دیکھا ساتھ ہی کلاس پر ایک معنی خیز نظر دوڑائی انداز بتا رہا ہوتا کہ دیکھو میں بالکل وقت پر کلاس میں آ گیا ہوں۔ جو کچھ پڑھاتے عالمانہ اور فنی انداز سے پڑھاتے البتہ لہجے میں قدرِے کرختگی ضرور تھی۔ آپ نے ۵۶ سال کی عمر میں ۱۹۹۴ء میں لفبرویونیورسٹی، برطانیہ (Loughborough University, UK)سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اب اس دنیا میں نہیں۔ میَں نے ان کا خاکہ تحریر کیا جو میری کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ میں شامل ہے۔ ان کا انتقال ۱۷ نومبر ۲۰۰۸ء بروز پیر کراچی میں ہوا، سپر ہائی وے پر قائم قبرستان وادیِ حسین میں تدفین ہوئی۔
ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری شعبے کے مقبول استاد تھے۔ ایک اچھے استاد کی طرح خود بھی محنت کرتے اور طلباء سے بھی محنت لیا کرتے تھے۔ جی جان سے پڑھا یا کرتے تھے، آپ نے اپنے اور طلباء کے درمیان کبھی فاصلہ نہیں رکھا ان سے ہمیشہ پیار، محبت، ہمدردی سے پیش آیا کرتے، آپ نے سعو دی عرب میں قیام کے دوران ۱۹۸۳ء میں سینچری یونیورسٹی کیلی فورنیا، امریکہ سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی، لائبریری سائنس کے موضوع پر شائع ہونے والے رسالہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل گزشت۴۲ سال سے شائع ہو رہا ہے آپ اس کے بانی مدیر اعلیٰ ہیں۔ امریکن انفارمیشن سینٹر کراچی، شعبہ لائبریری سائنس، جامعہ کراچی اور جامعہ اُم القرا، مکہ المکرمہ میں خدمات انجام دینے کے بعد اب امریکہ، کنیڈا اور پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں اور تصنیف و تالیف و اشاعت میں وقت گزارتے ہیں۔ لمبا قد، دبلے پتلے ( اب چھوٹی سی توند اور جسم بھی بھاری )، گورا رنگ، گھنی بھنوئیں، کھڑے خوبصورت نقش، کلین شیو(اب سفید چھوٹی داڑھی)، روشن پیشانی، کتا بی چہرے پر وجاہت، شرافت، آنکھوں میں چمک، شائستہ اور شگفتہ لہجہ، مزاج میں بڑی معصومیت، گفتگو میں سوجھ بوجھ اور علمیت کا امتزاج و سنجیدگی اور بردباری، سر تا پا انکسار، چہرے مہرے اور وضع قطع سے مضبوط ارادے اور قوت فیصلہ کے حامل، دیکھنے والے ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، عام طور پر پینٹ اور شرٹ گھر میں ڈھیلے پائچے کا پیجامہ پہنتے ہیں۔ ساری زندگی وضع داری میں گزاری۔ وقت اور اصولوں کے پابند، کلاس میں کبھی دیر سے نہیں آئے، شادی و دیگر تقریبات میں وقت مقر رہ پر پہنچتے ہیں۔ متعدد کتابوں اور مضامین کے مصنف و مولف ہیں۔ میَں نے ان پر ایک سوانحی کتاب ’ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری : شخصیت و علمی خدمات ،بھی تحریر کی اس کے علاوہ ان کا خا کہ میری کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ میں شامل ہے۔
سبزواری صاحب نے اپنی آپ بیتی ’’کیا بیت گئی؟ قطرہ پہ گہر ہونے تک ‘‘ میں میرے بارے میں لکھا ’’رئیس میاں ماشاء اللہ تقریر و تحریر میں ماہر القادری ہیں۔ سوانح نگاری میں کمال حاصل کیا ہے۔ اختر صدیقی صاحب، محمد عادم عثمانی صاحب، میری اور کئی حضرات کے سوانحی خاکے اور مضامین کی شکل میں شائع کر چکے ہیں۔ اپنے پر دادا شیخ محمد ابرہیم آزادؔ صاحب کا دیوان اپنے چچا مغیث احمد صمدانی صاحب کی خواہش پر دوبارہ شائع کیا ہے۔ شاعرانہ مزاج رکھتے ہیں جو اُن کو ورثہ میں ملا ہے۔ غالباً شاعری کرتے ہیں لیکن باقاعدہ ابھی منظر عام پر نہیں لا رہے ہیں۔ حال ہی میں جامعہ ہمدرد سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کر کے اب ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی بن گئے ہیں ‘‘۔
ڈاکٹر سبزواری کی بڑائی تو دیکھیے کہ اپنی اس آپ بیتی میں مجھ کم تر سے ’ اظہاریہ ، لکھوایا۔ کیوں کہ استاد کا حکم تھا اس لیے تعمیل کی اور اس آپ بیتی کے بارے میں لکھا ’’یہ آپ بیتی ڈاکٹر سبزواری کی ۷۳ سالہ زندگی کی یادوں، ذاتی تاثرات و مشاہدات اور تجربات کی ایک حسین، دلچسپ، تاریخی و سماجی واقعات کی دستاویز ہے۔ اس میں مصنف کے حوالہ سے واقعات بھی ہیں، تاثرات بھی، ، تجربات بھی ہیں مشاہدات بھی، شخصیات بھی ہیں ادارے بھی، والدین بھی ہیں بہن بھائی بھی، شریک سفر بھی ہے بچے بھی، دوست بھی ہیں رشتے دار بھی، استاد بھی ہیں شاگرد بھی، محبوب بھی ہیں محبان بھی، الغرض اس آپ بیتی کی صورت میں ڈاکٹر سبزواری کی یادوں کی بارات چھم چھم کرتی چلی آئی ہے ‘‘۔
استادوں میں اظہار الحق ضیاء بھی تھے۔ ابتدا میں سندھ مسلم کالج کے لائبریرین تھے، یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز، آسٹریلیا سے لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلو مہ کر کے واپس آئے تو شعبے میں استاد ہو گئے، پھر نائیجیریا چلے، آج کل ریٹائر لائف امریکہ میں گزار رہے ہیں۔ لمبا قد، گورا رنگ، بھاری گٹھا ہوا مضبوط جسم، چوڑا سینہ، کالے بال، کشادہ پیشانی، تیکھے نقوش، ستواں ناک جس کے نیچے قینچی استرے کی دسترس سے محفوظ سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، بھر بھرا چہرہ، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، طلباء ان سے خوش رہا کرتے تھے کیونکہ یہ طلباء سے دوستانہ مراسم رکھنے کے قائل تھے۔ تعلق بہار شریف سے تھا، ڈاکٹر عبد المعید صاحب کے دور پرے کے عزیزوں میں سے تھے۔ بہت سالوں سے انہیں نہیں دیکھا، ای میل پر رابطے میں رہتے ہیں۔
ممتاز بیگم جزو وقتی استاد تھیں اور اسپیشل لائبریری کا کورس پڑھایا کرتی تھیں۔ ان کی اس کلاس میں سائنس گریجویٹ یا پڑھا ئی میں ذہین طلباء ہی ہوا کرتے تھے، میرے پاس بھی یہ کورس تھا۔ ممتاز بیگم کراچی یونیورسٹی سے بوٹنی میں ایم ایس سی اور لندن سے لائبریری و انفارمیشن سائنس میں ایم اے تھیں۔ اس سے پہلے جامعہ کراچی سے لائبریری سائنس میں ایم اے کر چکی تھیں، پینسڈاک (PANSDOC)جو بعد میں پاسٹک(PASTIC) بن گیا سے وابستہ تھیں، پھر لیاقت میموریل لائبریری کی ڈپٹی ڈائریکٹر /پرنسپل لائبریرین بھی رہیں، خوش مزاج، خوش گفتار، پر خلوص، ملن سار، شائستہ اور مہذب۔ درمیانہ قد، دبلی پتلی، کالا رنگ، جاذبِ نظر نقوش، کھڑی ناک، آنکھوں میں سوجھ بوجھ کی چمک، کالے بال اب سفیدی نمایاں، سفید موتی جیسے دانت جو مسکراتے وقت زیادہ حسین لگا کرتے، سنجیدہ طرز گفتگو، صورت شکل، وضع قطع، چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار اور مشرقیت کا اعلیٰ نمونہ۔ ادبی ذوق کی مالک، شاعرہ بھی۔ کار از خود ڈرائیو کر کے آیا کرتی تھیں، عام طور پر کلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی شعبہ میں آ جایا کرتیں لیکن کلاس کے وقت کا انتظار اپنی کار میں بیٹھ کر کیا کرتیں۔ محنت سے بڑھا یا کرتیں۔ میرے زمانہ طالب علمی میں شعبہ میں تمام ہی اساتذہ اپنے اپنے طور پر قابل اور موضوع پر مکمل گرفت رکھتے تھے۔ مجھے اپنے تمام ہی اساتذہ پر فخر ہے۔
محمد عادل عثمانی صاحب جامعہ کی لائبریری میں اس وقت ڈپٹی لائبریرین اور شعبے میں جزوقتی استاد بھی تھے لیکن جب میں نے داخلہ لیا تو آپ بہ سلسلہ ملازمت سعودی عرب آ چکے تھے جس کے باعث میں ان کی براہِ راست شاگردی سے محروم رہا۔ جب میں نے ایم اے کر لیا تو عثمانی صاحب واپس آ گئے، میں ایم اے مکمل کر کے فارغ ہوا ہی تھا ابھی نتیجہ آئے ہوئے مہینہ بھی نہ ہوا تھا کہ سبزواری صاحب نے کہا کہ آپ یونیورسٹی لائبریری میں عادل عثمانی صاحب کے پاس چلے جائیں، میں نے ان سے بات کر لی ہے۔ میں پہلی فرصت میں لائبریری چلا گیا، میں نے اپنا نام بتا یا اور اکرم صاحب کا حوالہ دیا۔ بہت ہی شفقت اور محبت سے بیٹھنے کو کہا۔ عثمانی صاحب کو پہلی مر تبہ اتنے قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ انتہائی بردبار، مہذب، با اخلاق، درمیانہ قد، مناسب جسم، کتا بی چہرہ، گندمی رنگ، گھنے سیاہ بال، کلین شیو، ستواں ناک، روشن پیشانی، کتا بی چہرہ، روشن آنکھیں، وضع دار، وقت اور اصولوں کے سخت پابند۔ گفتگو میں شگفتگی، شائستگی، دھیمہ پن اور عالمانہ انداز گفتگو جیسی صفات آپ میں نمایاں تھیں۔
ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ایک فارم دیا کہ اسے بھر دیجیے اور متعلقہ آفس میں جمع کرا دیں کل سے آپ کی نوکری شروع۔ یہ میری زندگی کی اولین ملازمت تھی جو ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے شروع ہوئی۔ کاغذی کاروائی کے بعد مجھے لائبریری کے ریسرچ ریڈنگ روم میں بھیج دیا گیا یہ دور ذوالفقار علی بھٹو کا تھا انہوں نے تعلیم یافتہ افراد کے لیے ایک اسکیم کا آغاز کیا تھا جو NDVPکہلاتی تھی میرا یہ تقر ر بھی اسی پروگرام کے تحت تھا جو صرف چار ماہ قائم رہا کیوں کہ میرا تقرر حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم کے ایک کالج میں گریڈ ۱۷ میں ہو گیا۔ اس طرح عثمانی صاحب کے ساتھ میرا آفیسر اور ماتحت کا تعلق قائم ہوا۔ عثمانی صاحب سے بعد میں بھی تعلق قائم رہا۔ میَں نے ۲۰۰۴ء میں عادل عثمانی صاحب پر انگریزی میں ایک سوانحی کتاب بھی مرتب کی تھی، عثمانی صاحب کا خاکہ بھی لکھا جو میری کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ میں شامل ہے۔ عثمانی صاحب کافی عرصے بیمار رہے، سعودی عرب میں ۶ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو حکم الٰہیٰ کو لبیک کہا، جنت المعلیٰ میں جگہ پائی۔ آپ کی رحلت پر میرا منظوم نظرانہ عقیدت ؎
بے مثال ، روشن چراغ تھا نہ رہا
لائبریری پروموشن بیورو کا دماغ تھا نہ رہا
کیا خوب سیرت انسان تھا نہ رہا
میرا ایک اور مہر باں، دنیا میں نہ رہا
پروفیسرواصل عثمانی نے عادل عثمانی صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ؎
تری نگاہ نے بخشی خرد کو تابانی
ترے کرم سے بڑھی زندگی میں جولانی
رہے ہمیشہ میرے سر پہ سایۂ عادل
مرے قریب نہ آئے کوئی پریشانی
جامعہ کراچی میں سمسٹر نظام رائج نہیں ہوا تھا بلکہ سالانہ طریقہ امتحان ہی پر عمل ہو رہا تھا۔ لائبریری سائنس ہم تمام طلباء کے لیے بالکل ہی نیا موضوع تھا۔ ہم نے کیٹلاگ یا کیٹلاگنگ، ببلو گرافی، ڈیوی دیسیمل کلاسیفیکشن، ریفرنس سر وس جیسے الفاظ پہلی بار ہی سنے تھے۔ یہ ہمارے اساتذہ کا کمال ہی تھا کہ نئے موضوعات کو اس خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ سمجھا یا اور سکھا یا کہ ہماری دلچسپی اس مضمون سے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ راقم الحروف کیوں کہ یہ ارادہ لیے جامعہ میں داخل ہوا تھا کہ اس سبجیکٹ میں ماسٹر کرنا ہے چنانچہ تمام تر سرگرمیوں سے دور رہتے ہوئے پڑھائی کی جانب توجہ مرکوز رکھی۔ ایک وجہ چچا کا خوف اور ڈر بھی تھا۔ میں تو اسکول سے گریجویشن تک درمیانے درجے کا طالب علم رہا تھا لیکن شعبہ لائبریری سائنس میں تعلیم کے دوران زیادہ محنت کی، مضمون میں حد درجہ دلچسپی لی، غیر نصابی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ نہیں لیا شرکت کی حد تک شامل ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ میری فرسٹ ڈویژن آئی اور لکھنے اور پڑھنے کی جانب بھی مائل ہو گیا۔ ایم اے فائنل میں تھیسس لکھنا اس وقت لازمی تھا چنانچہ میں نے بھی مقالہ تحریر کیا، مقالہ کا عنوان تھا ’اردو میں سائنسی و فنی ادب ؛ منتخبہ کتابیات ۱۹۴۷ء۔ ۱۹۷۱ء‘‘ اسی مشقت اور محنت نے مجھے کتابوں کے زیادہ قریب کر دیا اور مجھ میں لکھنے کا شوق اور لگن پیدا ہوئی۔
فائنل ایر کے امتحانات نزدیک آئے تو کلاس کے چند ساتھیوں نے زیادہ محنت کرنے اور اچھے نمبروں سے پاس ہونے کی حکمت عملی یہ اختیار کی کہ وہ ساتھی جو کیمپس سے با ہر رہا کرتے تھے کیمپس میں کچھ دن کے لیے کوئی جگہ لے لیں اور وہاں منتقل ہو جائیں، تاکہ پڑھائی میں یک سوئی پیدا ہو سکے، اب جگہ کی تلاش شروع ہوئی، ہاسٹل میں جگہ نہیں ملی، میرے دوست عابد قریشی نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے پولٹری فام کے نزدیک ایک کمرہ حاصل کر لیا اب میَں، عابد قریشی اور عزیز خان اس کمرے میں منتقل ہو گئے، سبزواری صاحب کیمپس میں رہا کرتے تھے انھیں ہمارے اس منصوبے کا علم ہوا، اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ہم پولٹری فارم کے کسی کمرہ میں منتقل ہو گئے ہیں تو پہلے تو انھوں نے ہمیں اپنے گھر منتقل ہونے کو کہا، جب ہم سب نے معذرت چاہیں تو وہ خاموش ہو گئے لیکن ہر روز رات میں ہمارے کمرہ میں آ جایا کرتے اور ہماری رہنمائی کیا کرتے۔ اس حکمت عملی کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہم تینوں دوست اچھے نمبروں سے پاس ہوئے اس وقت ڈویژن ہوا کرتی تھی ہماری فرسٹ ڈویژن آئی۔
جامعہ میں میرے یہ دو سال بہت ہی یاد گار تھے، جب میں جامعہ میں داخل ہوا، شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب تھے، جب میں فائنل ایر میں آیا تو ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ریٹائر ہو گئے اور پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین نے شیخ الجامعہ کی حیثیت سے ذمے داریوں کا آغاز کیا، ہمارے شعبے کی جانب سے دونوں شخصیات کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جو ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کے لیے الوداعیا تھا جب کہ ڈاکٹر محمود حسین صاحب کے لیے ویلکم پارٹی تھی۔ جامعہ کراچی میں شعبہ لائبریری سائنس کا قیام ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے دور میں ہی عمل میں آیا، انھوں نے شعبے کے قیام کی حوصلہ افزائی بھی کی جب کہ ڈاکٹر محمود حسین جو پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے اولین صدر تھے اور لائبریرینز کی بہت حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے۔ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کی پہلی کانفرنس جو ۱۹۵۸ء میں کراچی میں منعقد ہوئی تھی کی صدارت اس وقت کے صدر مملکت میجر جنرل اسکندر مرزا نے کی تھی، یہ ڈاکٹر محمود حسین کی کوششوں سے ہی یہ ممکن ہو سکا تھا۔
ایم اے سال دوم کی کلاس ۶۰ اور فائنل کی ۷۰ طلباء و طالبات پر مشتمل تھی، طالبات کی تعداد زیادہ تھی۔ ویسے تو تمام ہی ساتھیوں سے تعلقات اچھے تھے لیکن عام طور پر کلاس میں چھوٹے چھوٹے گروپ لازمی تشکیل پاتے ہیں، ایک طالبہ عطیہ عباس تھی، وہ برقعہ پہنا کرتی تھی، اس کا ظاہری روپ، عادات و اطواراس کی سادگی اور ذہین ہونے کا کا پتا دیتی تھیں۔ فارغ وقت میں انگریزی ناول پڑھتی نظر آیا کرتی تھی، بعد میں معلوم ہوا کہ اس کی زندگی میں ایسا تغیر آیا کہ وہ زمانہ طالب علمی سے بالکل مختلف ہو گئی تھی، برقعہ اتر گیا تھا، بال کٹ گئے تھے، ماڈرن ہو گئی تھی، پھر پتا چلا کہ وہ کسی ایسے ماحول میں پھنس گئی کہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی، ایک اور طالبہ یاسمین شفیع بھی تھی، پڑھنے میں تو عام سی تھی لیکن اس کی آواز میں سریلا پن تھا، سر و تار سے آشنا تھی، غزلیں اچھی گایا کرتی تھی، اس کے بارے میں بھی معلوم ہوا کہ وہ بھی ایسے ماحول میں پھنسی کہ اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی۔ جبار اور منظور کی منفرد جوڑی تھی، یہ دونوں ایک ساتھ رہتے، مزاحیہ جملوں کا استعمال خوب کیا کرتے تھے۔ منظور کو اللہ نے جلد اپنے پاس بلا لیا۔ یہ پہلے ملک سے باہر چلے گئے واپس آ کر این ای ڈی یونیووسٹی لائبریری سے وابستہ رہے۔ غلام اقبال الدین کو ہم کمانڈر کہا کرتے تھے، یہ بنگلہ دیش سے آئے تھے، کالج لائبریرین رہے، بہار کالونی میں رہائش تھی، اکثر میرے گھر آ جایا کرتے، یہ بھی جلد اللہ کے گھر چلے گئے۔ دیگر کلاس فیلوز میں عذرا قریشی کلاس کی قابل اور ذہین طالبہ میں سے تھی، یہ ملک سے باہر رہی تھی، انگریزی روانی سے بولا کرتی تھی، امریکہ کی کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی، اوہی او سے بھی لائبریری سائنس میں ایم اے کیا، انٹر نیشنل اسکول بنکاک، امریکن سینٹرکراچی، کنگ عبد العزیز یونیورسٹی، جدہ اور ۲۰۰۹ء میں آغا خان یونیورسٹی کی چیف لائبریرین کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں، آجکل میرے ساتھ اسکول آف لائبریرین شپ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ مختار اشرف اردو یونیورسٹی کی ڈاکٹر مولوی عبد الحق لائبریری سے وابستہ رہے، عابد قریشی پی آئی اے کی ٹیکنیکل لائبریری سے منسلک تھے۔ یامین قریشی برٹش کونسل میں تھے، پھر باہر چلے گئے اب واپس آ کر کسی لائبریری سے منسلک ہیں۔ جاوید سلطانہ ملک سے باہر چلی گئی تھیں اب شاہ ولایت اسکول کی لائبریری سے منسلک ہیں۔ امتہ الا شمیم، عائشہ نگہت، سید اکبر علی اکبر بھائی کہے جاتے تھے، کالج لائبریرین رہے، غلام سرور، ارجمند بانو، محمد اسلم، محمد ایوب، عزیز خان جامعہ کراچی کے کتب خانے سے وابستہ تھے، فرخندہ جبیں، سید ہدایت اللہ ہادی، عربی اور اسلامیات میں بھی ایم اے ہیں، لیاقت میموریل لائبریری سے وابستہ رہے، کنیڈا میں مقیم ہیں، اس وقت جامعہ احمدیہ کنیڈا کے اعزازی فیکلٹی ممبر ہیں، محمد ادریس، سید افتخار حسین، جہان خان، عذرا جمیل، کالج لائبریرین رہیں، محمد جمیل حسین مرحوم پریمئر کالج میں تھے، خوشنود قیصر برٹش کونسل میں تھے بھر ملک سے باہر چلے گئے، خالدہ اختر، بائیے جمشید مالی، بشارت حسین مرزا، مفتی مقصود احمد، سید محمد احمد مرحوم، مختار اختر جامعہ کراچی کی لائبریری سے منسلک تھیں، ریٹائر ہو گئیں، مظفر احمد، ظفر حسین نقوی، نسرین اختر، سید ناظر علی ڈی جے کالج سے وابستہ تھے، قمر جہاں، قمر قاضی، عذرا نسرین قریشی، رابعہ سلطانہ، رفعت، محمد رشید، شبنم سلطانہ رضوی، کالج لائبریرین رہیں، سمیع اللہ مرحوم، کالج لائبریرین رہے، سائرہ بانو، ثروت جہاں، جمیلہ شکور، مسرت شمس الدین، شمس القمر، طیبے شیرازی، ادیبہ بانو صدیقی، فرزانہ طلعت صدیقی، عبد الکریم، طلعت نسرین، کالج لائبریرین رہیں، تنورحسین، حبیب جہاں وارثی، محمد یعقوب، محمد یاسین خان اور محمد یوسف کالج لائبریرین تھے، اب امریکہ میں ہیں شامل تھے۔
شعبے میں نصابی سرگرمیوں کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں پر بھی بھر پور توجہ دی جاتی تھی۔ کتب خانوں کے مطالعاتی اور تفریحی دورے ہر سال ترتیب پاتے، کراچی سے پشاور، اسلام آباد، لاہور، ملتان، بہاولپور، کوئٹہ عام سے بات تھی۔ ۱۹۷۱ء میں کوئٹہ، زیارت کا تعلیمی پروگرام ترتیب دیا گیا۔ تقریباً ۶۰ طلبا کا قافلہ کراچی سے بذریعہ ٹرین کوئٹہ کے لیے روانہ ہوا، کوئٹہ میں تمام طلباء ریلوے اکیڈمی کے بڑے آڈیٹوریم میں ٹھرے جب کہ اساتذہ اور طالبات برابر گیسٹ روم میں تھے۔ افتخار خواجہ(اب ڈاکٹر افتخار خواجہ ہیں ) جو ایک سال قبل اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس کوئٹہ میں اپنی ملازمت شروع کر چکے تھے اور آبان رستم جی اپنے اساتذہ اور شعبے کے طلباء کے میزبان تھے۔ رات کے کھانے سے فارغ ہو کر تمام لوگ بشمول اساتذہ کے آدیٹوریم میں بیٹھ گئے اور پروگرام یہ بنا کہ ہر ایک کچھ نہ کچھ سنائے گا۔ اس پر مکمل طور پر تو عمل نہ ہو سکا لیکن کئی طلباء نے اپنے جوہر دکھائے۔ اساتذہ میں صرف اکرم صاحب نے طلباء کا ساتھ دیا ایک غزل ترنم کے ساتھ سنائی۔ بعض اچھے گانے والے بھی تھے ان میں ایک طالبہ یاسمین شفیع (مرحومہ ) کی آواز اور طرز بہت اچھی تھی۔ اس پروگرام کو خاموشی سے ریکارڈ بھی کیا جا رہا تھا۔ پروگرام ختم ہوا سب لوگ سو گئے۔ کسی کو یہ شرارت سوجھی صبح سویرے ابھی پوری طرح روشنی بھی نہیں ہو ئی تھی البتہ پرندوں نے چہچہانا شروع کر دیا تھا۔ آڈیٹوریم میں مائک موجود تھا اکرم صاحب کی گائی ہوئی غزل’ آہ یہ دور زند گی،۔ ۔ تیز آواز میں لگا دی گئی اب تمام لوگ حیران و پریشان کہ صبح ہی صبح اکرم صاحب کو کیا ہو گیا حتیٰ کہ اکرم صاحب خود بھی آ موجود ہوئے سب کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے ٹیپ بند کرایا۔
کوئٹہ سے زیارت کا پروگرام بھی تھا ہم تمام طلباء و طالبات دو بسوں میں کوئٹہ سے زیارت کے لیے روانہ ہوئے، صبح سویرے سب نے ڈٹ کر ناشتہ کیا، کسی کو یہ احساس نہیں تھا کہ ہم نے بلندی پر جانا ہے، آدھے سے زیادہ سفر آرام سے گزر گیا، بسیں تیز رفتاری سے اوپر کی جانب دوڑے چلی جا رہی تھیں، انڈے اور پراٹھوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا، کسی ایک کو متلی شروع ہوئی، آہستہ آہستہ متلی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، مجبوراً بسوں کو روکنا پڑا، اب یہ منظر قابل دید تھا، سڑک کے کنارے میدان ہی میدان، تمام طلبہ و طالبات بسوں سے اتر کر اِدھر اُدھر کھڑے متلی کر رہے تھے۔ جب تمام کے انڈے اور پراٹھے باہر آ گئے، سب نے سکون کا سانس لیا، سفر دوبارہ شروع ہوا، زیارت پہنچ کر قائد اعظم محمد علی جناح کی بیماری کے دنوں کی آخری آرام گاہ کو دیکھا، یہاں سے کافی فاصلے پر کسی بزرگ کا مزار ہے، پروگرام میں اس مزار پر جانا بھی تھا تمام طلباء و طالبات کا قافلہ اساتذہ کی سربراہی میں آگے پیچھے اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پر خطر راستے سے ہوتے ہوئے اس مزار پر پہنچے، ڈاکٹر عبد المعید مرحوم، ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری، ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر مرحوم اور اظہار الحق ضیاء ہمارے ساتھ تھے، یہ ایک یاد گار سفر تھا، کوئٹہ میں موجود شعبے کے سابق طلباء خاص طور پر ڈاکٹر خواجہ افتخار ہمارا خوب خیال رکھا، خواجہ افتخار جو اب پروفیسر ڈاکٹر خواجہ افتخار ہیں، شعبہ ایجویشن سے صدر شعبہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے انتہائی سنجیدہ، برد بار ہیں زمانہ طالب علمی میں اتنے ہی شوخ و چنچل ہوا کرتے تھے، کوئٹہ اکیڈمی میں طلباء کے قیام کے دوران ان کا سائیکل چلانا، کلو پیٹرا کی حیثیت کا روپ اختیار کرنا، غلام اقبال الدین کا پریشان کرنا، اس زمانہ کی یادگاریں ہیں۔
ایم اے سال سال دوم میں اسلام آباد جانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا، سفر ٹرین سے کرنا تھا، ریل کی ۶۵ افراد کی بو گی ریزرو کرانے کی ذمہ داری میری تھی، میرے والد صاحب کے ایک جاننے والے ریزرویشن میں تھے میَں نے ان کے توسط سے ریل کی بو گی کراچی سے لاہور میں قیام کے بعد راولپنڈی جانے اور واپسی تک وہ بو گی ہمارے زیر استعمال رہی، کئی اسٹیشنز پر شعبے کے سابق طلباء جنہیں اس پروگرام کا علم ہوا آتے رہے اور اپنے اساتذہ کی خدمت میں مختلف قسم کی چیزیں لاتے، لاہور میں پنجاب یونیورسٹی میں قیام رہا، اسلام آباد میں قائد اعظم یونیوورسٹی جو تعمیر کے مراحل میں تھی میں قیام تھا۔ ایک دن کے لیے مری بھی گئے۔
شعبے کے تمام طلبا پکنک منانے ساحل سمندر گئے شعبہ کے اساتذہ میں ڈاکٹر عبدالمعید، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزوری (اس وقت ڈاکٹر نہیں تھے )، ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر(اس وقت ڈاکٹر نہیں تھے )، اختر حنیف، اظہار الحق ضیاء اور ممتاز بیگم بھی تھیں۔ چند طلباء جن میں افتخار خواجہ( اب ڈاکٹر افتخار الدین خواجہ ہیں )بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سائنس کے بانی صدر شعبہ ہوئے بعد از آں شعبہ تعلیم سے ریٹائر ہوئے، رموز احمد خان(اس وقت شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور کے صدر شعبہ ہیں )، عبدالجبار اور منظور الکریم (مرحوم) اس تماشے کے بنیادی کردار تھے۔
رموز احمد خان کو سر سے پیر تک سفید چادر ڈال کر زمیں پر لٹا دیا گیا اور افتخار خواجہ نے ان سے سوالات دریافت کرنا شروع کیے۔ ان کے چاروں جانب طلباء اور اساتذہ کھڑے تھے۔ پہلے ڈاکٹر عبد المعید کی جانب اشارہ کیا اور پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب دیا گیا کہ ڈاکٹر عبد المعید، پوچھا کہ یہ اس وقت کہاں ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں جواب دیا گیا کہ یہ اس وقت آشور بنی پال کے کتب خانے میں ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ میں اس کتب خانے کی کتابیں جو مٹی کی تختیاں ہیں کس طرح اپنے ساتھ لے جاؤں۔ (زور دار قہقہہ اور تالیاں )، پھر سبزواری صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ کون ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں ؟ جواب دیا کہ یہ سر اکرم ہیں اور اس وقت سوچ رہے ہیں کہ پکنک پر آئے ہوئے جن طلباء نے چندہ نہیں دیا ان سے کیسے وصول کیا جائے اس کے بعد تماشہ گر نے جلال صاحب کی جانب اشارہ کیا اور پوچھا کہ یہ کون ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں ؟ جواب دیا یہ سر جلال ہیں اور اس وقت سوچ رہے ہیں کہ ۲۵ نمبر میں سے کس کس کو زیرو نمبر دوں اس جواب پر تمام لوگوں نے زور دار قہقہہ لگایا(واضح رہے کہ جلال صاحب دوران لیکچر ۲۵ نمبروں کا خوف بہت زیادہ دلایا کرتے تھے یہاں تک کہ بعض طلبہ نے انہیں سر ۲۵ نمبر بھی کہنا شروع کر دیا تھا)، اسی طرح اختر حنیف صاحب مرحوم کے لیے بھی ان کی خصوصیات کی مناسبت سے مزاحیہ جملہ کہا گیا۔
شعبے میں منظر اور اسلام الدین دو دفتری تھے، منظر کو طلباء ڈاکٹر منظر بھی کہا کرتے تھے، یہ تمام ہی اساتذہ کا چہیتا تھا خاص طور پر ڈاکٹر عبدالمعید اور سبزواری صاحب کا بہ اعتماد خدمت گزار، اس نے شعبے میں چائے خانہ بھی قائم کیا ہوا تھا جو ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کے اوپر کی منزل پر تھا، ایک طرح سے اس کا قہوہ خانہ مخصوص طلباء کے ملاپ اور وقت گزارنے کی جگہ بھی تھی، اکثر طلباء جب آئندہ ملنے کا پروگرام طے کرتے تو دن اور وقت طے کر کے یہ کہا کرتے کہ ’’ٹھیک ہے پھر ڈاکٹر منظر کے پاس ملتے ہیں ‘‘، منظر کا قہوہ خانہ طلباء و طالبات سے ہر وقت بھرا رہتا تھا۔
ڈاکٹر انیس خورشید صاحب اپنی ٹانگوں کی تکلیف کے باعث اوپر نہیں جا سکتے تھے، ان کا کمرہ لائبریری کی زمینی منزل پر تھا، اسلام الدین ڈاکٹر انیس خورشید کا خدمت گزار تھا، یہ زیادہ تر نیچے ہی رہا کرتا تھا، سنجیدہ، برد باراور اچھی عمر کا انسان تھا، ایک دن ہم ڈاکٹر انیس خورشید صاحب کی ببلوگرافی کی کلاس جو نیچے ہی ہوا کرتی تھی لے کر نکلے ہی تھے کہ اسلام الدین شیخ ڈاکٹر انیس خورشید صاحب کے کمرہ کے سامنے دھڑام سے نیچے گر گیا، ہم اس کے قریب ہی تھے ایک دم اس کی جانب لپکے، دیکھتے ہی دیکھتے اس کا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا، ایسا لگتا تھا کہ کسی نے اس کے اوپر پانی کی بالٹی الٹ دی ہے، ہم اپنی کتابوں سے اسے ہوا کرتے رہے، محسوس ہوا کہ اسےد ہوئیل کا دورہ پڑا ہے، اُسے اٹھا کر جامعہ کی ڈسپنسری لے جانے کی نوبت ہی نہیں آئی، میرا ایک ہاتھ اس کی نس پر تھا، دیکھتے ہی دیکھتے اس کی نس ڈوبتی ہی چلی گئی اور وہ ہمارے ہاتھوں اور نظروں کے سامنے اللہ کو پیارا ہو گیا، ملیر میں رہا کرتا تھا، ہم اس کے جسد خاکی کو جامعہ کی ایمبو لینس میں لے کر اس کے گھر ملیر گئے اور اس کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی، اسلام الدین کے بیٹے کو جامعہ میں ملازمت دیدی گئی، وہ جامعہ کے انتظامی یونٹ میں کام کرتا ہے، جب کبھی اسے دیکھتا ہوں تو اسلام الدین یاد آ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کرے۔
جامعہ کراچی میں طالب علم کی حیثیت سے گزارے ہوئے دو سال میری زندگی کا قیمتی سرمایا ہیں۔ انھی دو سالوں میں میَں نے زندگی کو صحیح معنوں میں برتنے کا سلیقہ سیکھا، عملی زندگی میں قدم رکھنے کے طور طریقے سیکھے۔ جامعہ کراچی میں گزارے ہوئے انھی دوسالوں کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ مجھ میں زندگی کو سمجھنے، برتنے اور گزارنے کا ڈھنگ آ گیا، آج میں جو کچھ بھی ہوں، میَں نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے اور اپنے علم، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر نئی نسل کو تحریر کی صورت میں کچھ بھی دے سکا ہوں اسی مادر علمی کے طفیل ممکن ہوا۔
کراچی ۱۶ نومبر ۲۰۱۱ء
جامعہ سرگودھا میں میرے شب و روز
کچھ یادیں کچھ باتیں
زندہ دلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر
سب کی آنکھوں کا تارہ ہے سرگودھا میرا شہر
ناصرؔ کاظمی
شاہینوں کے شہر سرگودھا تو رہے تا ابد آباد
تیرے حسین کھیتوں کی ہوا کھینچ لائی مجھے
میں ۲۵مارچ ۲۰۰۹ء کو گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد کراچی سے ریٹائر ہو چکا تھا، ڈاکٹر محمد فاضل صاحب جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز کے چیِر مین تھے جن سے میرے مراسم کی نوعیت برادرانہ تھی، ان کے توسط سے میرا تقر ر بہ حیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر کے شعبہ لائبریری
و انفارمیشن سائنس میں ہو گیا، یہ ڈاکٹر فاضل کی عنایت اور مجھ سے محبت تھی، میں نے بھی سرگودھا جانے کا فیصلہ کر لیا۔ مئی ۲۰۱۰ء کے ابتدائی دنوں میں مجھے سرگودھا یونیورسٹی کی جانب سے تقرر نامہ موصول ہوا، اس کے لیے میں پہلے سے تیار تھا چناں چہ میں نے کراچی سے رختِ سفر باندھا، ۱۰ مئی کو شاہین ایر لائن سے لاہور کے لیے سیٹ ریزرو کرالی، یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا لیکن ایک بڑے مقصد کے لیے کیا گیا تھا۔ کراچی کے تمام معاملات کو تیزی سے سمیٹا، گھروالوں کو اپنے اس فیصلے پر تیار کیا جس کے لیے مجھے کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی البتہ میری شریک سفر شہناز زیادہ فکر مند اور پریشان تھیں، لیکن اس بنا پر کہ مجھے جو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے مجھے اس کو لبیک کہنا چاہیے وہ بھی خوشی سے مجھے خدا حافظ کہنے پر تیار ہو گئیں۔ میری بیٹی جو لاہور میں کئی سالوں سے مقیم ہے اس خبر پر خوش تھی کیونکہ اس فیصلے پر عمل کی صورت میں اس کے والدین مستقبل میں اس کے نزدیک ہو رہے تھے۔ پیر ۱۰ مئی نے دستک دی، تیاری مکمل ہوئی، خوشی خوشی ایر پورٹ پہنچ گیا۔ شہناز، مہوش (میری بڑی بہو)، ڈاکٹر نبیل، ڈاکٹر ثمرہ (میری چھوٹی بہو) میرا ہر دلعزیز پوتا صائم عدیل مجھے ائر پورٹ پر خدا حافظ کہنے میرے ساتھ تھے۔ بعد از آں میرا بڑا بیٹا عدیل بھی اپنے آفس سے ایر پورٹ آ گیا۔ جیسے جیسے اپنوں سے رخصت ہونے کا وقت قریب آ رہا تھا، میں اندر ہی اندر اپنے آپ کو کمزور محسوس کر رہا تھا۔ جذبات کو قابو رکھنا مشکل ہو رہا تھا، میں کسی سے کچھ بھی نہ کہہ سکا، محسوس ہوا جیسے میری آواز بند ہو گئی ہے، کوشش کی کہ کچھ بات کر سکوں مگر الفاظ نہ نکل سکے۔ مشکل سے آنسوؤں کو روک سکا پھر بھی انھوں نے میرا ساتھ نہ دیا، بند گلے، بھیگی آنکھوں اور افسردہ چہرے کے ساتھ خاموشی سے اپنوں کو ایک ایک کر کے گلے لگا یا، اپنے پوتے صائم کو ایک سے زیادہ بار پیار کیا، دل چاہ رہا تھا کہ اسے اپنے سینے سے جدا نہ کروں، مجھے سب سے زیادہ صائم سے بچھڑ نے کا افسوس تھا اور رہے گا۔ سامان کی ٹرالی کو دھکا دیتا ہوا، نیچی نگاہ کیے اپنی آئندہ منزل کی جانب چل دیا۔ بورڈنگ کارڈ لے کر لاؤنج کی جانب چلا، دل بیٹھا جا رہا تھا، سر بوجھل تھا، پھر بھی بھاری قدموں سے لاؤنج کی طرف بڑھا، ایر پورٹ کے مرکزی دروازے کے ساتھ رنگین شیشے کے پیچھے لائن سے میرے جگر گوشے کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے، میں نے بھی ان کی جانب دیکھا، لیکن نظر نیچے کر کے ہاتھ ہلا تا رہا، مجھ میں انہیں دیکھنے کی تاب نہ تھی، میرا پوتا صائم اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے مجھے خدا حافظ کر رہا تھا۔ اس کی اس ادا نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا، میں نے سوچا کہ کہیں میں نے غلط فیصلہ تو نہیں کیا، میں نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر سب کو غور سے دیکھا ایک ایک کر کے سب کو دعا دی، خدا حافظ کہا اور آگے کی جانب بڑھ گیا۔
جنت نگاہ شہر کراچی کہ جہاں میرا سنہرا بچپن گذرا، رسیلی جوانی کی بہاریں پھلی پھولیں اور بڑھاپے کی دہلیز پر بھی اسی شہر میں قدم رکھا۔ اس کی رونقوں کو، بہاروں اور محفلوں کو، دوستوں کو، عزیزوں کو، پیاروں کو الغرض ہر ایک کو چھوڑنے پر آمادہ ہو گیا۔ یوں محسوس ہوا کہ شہر سرگودھا میں کچھ خاص کشش تھی جس نے مجھے اتنے بڑے فیصلے پر آمادہ کر لیا
ہے عجب کشش اے سرگودھا تیری شام و سحر میں
کہ میں کراچی کی حسین رنگینیوں کو چھوڑ آیا
جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھا، بیلٹ کسی، موبائل پر ایک بار پھر شہناز کو خدا حافظ کہا، اسی دوران لاہور سے میری بیٹی فاہینہ کا بھی فون آیا اسے بھی اپنے پہنچنے کی اطلاع دی۔ راستے میں فلائٹ نا ہموار ہوئی اور جہاز ڈولنے لگا، اس کیفیت کو میں نے الگ سے اپنی ایک تحریر ’’میَں نے موت کو قریب سے دیکھا‘‘ کے عنوان سے قلم بند کیا ہے، ہوائی سفر کے دوران میَں اپنے ذہن کو دوسری جانب مائل کرنے کے لیے مضامین کی پروف ریڈنگ میں مصروف ہو گیا، میرے اس عمل نے میرے خیالات کو مختلف سمت منتقل کر دیا، بیش تر وقت مضامین کی پروف ریڈنگ میں گزر گیا۔
ذہن میں بار بار تمام لوگوں کے افسر دہ چہرے آ رہے تھے، آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کو خاموشی سے پونچھتا رہا، اپنے آپ کو یہ تسلی دیتا رہا کہ یہ میرا اپنا فیصلہ ہے اور اپنی خوشی سے کیا ہے۔ یہ فیصلہ میں نے ایک عظیم مقصد کے لیے کیا، اس کے لیے میں اپنے بسے بسائے اور ہر طرح کی سہولتوں سے مزین گھر کو خیر باد کہہ رہا ہوں۔ میرے پیش نظر ملازمت کا حصول یا اس سے ملنے والی رقم ہر گز ہرگز نہیں تھی۔ میں تمام زندگی قناعت پسند رہا ہوں اور اس اصول پر عمل پیرا بھی کہ انسان کو اتنے ہی پیر پھیلانے چاہیں جتنی بڑی چادر ہو۔ الحمد للہ میری تمام زندگی بہت خوش گوار اور مطمئن رہی۔ میں تو اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری کی لاج رکھنا چاہتا ہوں جو قدرت نے مجھے انتھک محنت اور کوششوں کے بعد عطا کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ابھی مجھ میں اتنی ہمت اور حوصلہ ہے کہ میں اپنے علم سے دوسروں کو فیض یاب کر سکوں۔ جامعہ سر گودھا میں میرا بحیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر تقر ر میرے لیے ایک اعزاز تھا، میں اس اعزاز کی ہر صورت میں تکریم چاہتا تھا۔ باوجود اس کے کہ سرگودھا جو شاہینوں کا شہر کہلاتا ہے، عوام الناس کے لیے ایر پورٹ کی سہولت سے بھی محروم ہے۔ جب کہ میں اپنی کمر کی تکلیف کے پیش نظر ریل یا بس کے ذریعے طویل سفر نہیں کر سکتا، یہ بات بھی میرے علم میں تھی کہ مجھے لاہور یا فیصل آباد تک ہوائی سفر، اس کے بعد بذریعہ بس (ڈیووDaewo ) تقریباً ڈھائی گھنٹے کا سفر اور بھی کرنا ہو گا۔ ان سب قباحتوں کے باوجود میں نے اس اعزاز کے حصول کو اپنا مقصد بنایا۔ میں اپنی سیٹ پر بیٹھا کبھی افسر دہ ہو جاتا اور کبھی اپنے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتا۔ میری آنکھیں بار بار آنسوؤں سے بھر جاتیں اور میں راز داری سے انہیں پونچھ لیتا، بار بار آنسوؤں کو سمجھاتا رہا لیکن انھوں نے میری ایک نہ سنی۔ بقول میر دردؔ ؎
کرتا رہا میں دیدہ ٔ گریہ کی احتیاط
پر ہو سکی نہ اشک کے طوفان کی احتیاط
۱۲ مئی کی خوش گوار صبح سر گودھا میں ہوئی۔ ڈیوو بس اسٹاپ پر سرگودہا یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسزکے چیر مین پروفیسر ڈاکٹر محمد فاضل اور شعبے کے ایک سینئر استاد میاں محمد اسلم بھٹی جو میرے ایم اے کے کلاس فیلو بھی تھے مجھے لینے آئے ہوئے تھے۔ بس اسٹاپ سے جامعہ مشکل سے دس منٹ کے فاصلے پر ہے۔ ، فیصلہ ہوا کہ پہلے شیخ الجامعہ سے ملاقات کی جائے، چنانچہ ہم تینوں شیخ الجامعہ کے دفتر پہنچے، شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر چودھری محمد اکرم سے ملاقات ہوئی، خوش ہوئے اور خوش اخلاقی سے ملے۔ فاضل صاحب کو میرے قیام کے بارے میں کچھ ہدایات دیں، پھر ہم نے ایڈیشنل رجسٹرار چودھری اظہارالحق صاحب سے ملاقات کی، انھیں جب یہ معلوم ہوا کہ میرا تعلق پنجاب کے شہر میلسی سے ہے تو انہوں نے خوشی کا اظہار کیا، اس ملاقات کے بعد ہم اپنے شعبے میں آ گئے اور دیگر ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔
۲۰۰۲ء میں سر گودھا گورنمنٹ کالج نے جامعہ سرگودھا کا روپ اختیار کیا، ایک سو ایکڑ سے زیادہ پر مشتمل ہے اس کا وسیع و عریض سر سبز و شاداب رقبہ جامعہ کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔ گورنمنٹ کالج سرگودھا ایک قدیم تاریخی درس گاہ ہے۔ یہ پاکستان کے قیام سے قبل عمل میں آیا تھا۔ سر گودھا شہر کی اہمیت اور وسعت کے پیش نظر حکومت نے اسے جامعہ کا درجہ دیا۔ اس کے اولین وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ریاض الحق طارق تھے، ان کے بعد پروفیسر ڈاکٹر چودھری محمد اکرم شیخ الجامعہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ جامعہ سرگودھا کی خوش قسمتی تھی کہ اُسے ڈاکٹر اکرم چودھری جیسا علم پرور، ادیب و محقق اور عربی زبان کے عالم کی سربراہی نصیب ہوئی۔ آپ نے جامعہ سرگودھا کو بہت جلد پاکستان کی دیگر نامور جامعات کی صف میں لا کھڑا کیا۔ ایچ ای سی کی رپورٹ برائے سال ۲۰۱۰ء کے مطابق علم و تحقیق میں جامعہ سرگودھا پاکستان بھر کی تمام جامعات میں آٹھویں نمبر پر تھی۔ ڈاکٹر چودھری محمد اکرم وہ ایک نفیس اور محنت پر یقین رکھنے والے انسان ہیں۔ بقول عطاء الحق قاسمی ’وہ صرف اس کالر ہی نہیں بلکہ نہایت خلیق اور منکسر المزاج انسان بھی ہیں۔
شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز کا قیام ۲۰۰۸ء میں عمل میں آیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد فاضل خان شعبہ کے اولین سربراہ تھے، شعبہ جامعہ کی مرکزی لائبریری کی عمارت میں قائم ہوا، چیَر مین کا آفس پہلی منزل پر ہے، اُس وقت کلاس تیسری منزل پر ہوا کرتی تھی، میری واپسی سے چار ماہ قبل میڈیکل کالج کے لائبریری بلڈنگ سے منتقل ہو جانے کے نتیجے میں شعبہ کُلی طور پر لائبریری کی زمینی منزل پر منتقل ہو گیا، اساتذہ کے لیے علیحدہ کمرے، کشادہ کلاس روم، درجہ بندی و کیٹلاگ سازی کی لیب اور آفس پر مشتمل شعبہ ہر اعتبار سے کشادہ، روشن اور دیدہ زیب ہو گیا۔ اس وقت شعبہ میں صرف چار لوگ تھے، فاضل صاحب پروفیسر اور صدر شعبہ بھی تھے، میاں محمد اسلم بھٹی، ڈپٹی لائبریرین اور شعبے میں جزوقتی استاد تھے، نور مصطفیٰ خان اور صفیہ کوکب لیکچر ر تھی، میرا تقرر ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے ہوا تھا۔ مستقبل قریب میں ایم فل بھی شروع کرنے کا منصوبہ تھا، میرے تقرر کی ایک وجہ بھی یہی تھی۔ بد قسمتی سے میری موجود گی میں اس منصوبے پر عمل در آمد شروع نہ ہو سکا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد فاضل خان صاحب کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں، یہ دوستوں کے دوست، یاروں کے یار ہیں۔ لائبریرین شپ کے پیشے میں انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مجلسی آدمی ہیں، ان کی موجودگی میں کوئی دوسرا بول ہی نہیں سکتا، بات سے بات، قصے سے قصہ، کہانی سے کہانی نکالنے کا فن انہیں خوب آتا ہے اور خوبصورت انداز سے سنانے کا ملکہ بھی حاصل ہے۔ کھانے کے بہت شوقین ہیں، کھانا دل سے کھاتے ہیں، شروع شروع میں مجھے اکثر کھانے پر بلا لیا کرتے تھے، دل کے مریض بھی ہیں، ان کے دل کی ایک شریان میں بھیا سٹینٹ ڈلا ہوا ہے۔ کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہو گی کہ یہ مرض انہیں کراچی میں اس وقت لگا تھا جب یہ جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں ایم اے کرنے گئے تھے، اس راز سے انہوں نے اس وقت پردہ اٹھا یا جب میں سرگودھا سے واپس کراچی چلا گیا اور دل کی تکلیف میں مبتلا ہوا۔ میرے دل کی تکلیف میں گرفتار ہونے کا قصہ کچھ اس طرح ہے کہ میَں یکم مارچ ۲۰۱۰ء کو جامعہ سرگودھا سے رخصت ہو کر واپس اپنے گھر کراچی چلا گیا، پروگرام کے مطابق مجھے اپنے بیٹوں کے پاس سعودی عرب جانا تھا، میرا ویزا آ چکا تھا۔ اپریل ۲۰۱۰ء کے پہلے ہفتے میں اچانک میرے الٹے ہاتھ میں درد ہوا، جس نے شدت اختیار کر لی، نوبت عام ڈاکٹر سے کارڈک سینٹر تک پہنچ گئی۔ ۱۲ اپریل کوانجو گرافی(Angiography) اور فوری طور پر انجو پلاسٹی (Angioplasty)بھی ہوئی اور دل کی ایک شریان Arteryمیں ا سٹینٹ(stent)ڈالا گیا، اس طرح آناً فاناً میں میَں عام انسان سے کارڈک پیشنٹ بن گیا۔ اس بات کی اطلاع جب فاضل صاحب کو ہوئی تو انہوں نے میری مزاج پرسی کے لیے کراچی فون کیا اور تفصیل معلوم کی، اس وقت انھوں نے بتا یا کہ وہ بھی اس صورت حال سے دو چار ہو چکے ہیں۔ اب میں بہت اچھی طرح محسوس کر سکتا ہوں کہ وہ کس قدر حوصلہ مند اور زندہ دل انسان ہیں۔ ان کی قربت میں مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیاوی بیماریوں سے تو محفوظ ہی رکھے لیکن دل کی اِن تین بیماریوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے جن کے بارے میں نبی آخری الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ اِن تین چیزوں سے بچو پہلی ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے پیٹھ نہ کرو یعنی ایک دوسرے سے منہ موڑ کر اِدھر ادھر نہ ہو جاؤ۔
یہ راز مجھ پر سرگودھا آ کر اَفشا ہوا کہ فاضل صاحب کے اندر ایک شاعر بھی موجود ہے، جو اب تک دبکا بیٹھا تھا، جب سے وہ سرگودھا آئے ہیں اس نے اٹھکھیلیاں شروع کر دی ہیں، میَں جوں ہی کلاس لے کر انھیں سلام کرنے حاضر ہوتا، یہ کھٹ سے اپنا تازہ کلام سنانے کی فرمائش کیا کرتے، مجھ سے پہلے یہ اپنے تازہ کلام پر میاں صاحب سے خوب خوب داد وصول کر چکے ہوتے تھے۔ میَں بھی انہیں لمبی لمبی داد دیا کرتا تھا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کرتا تھا کہ فاضل صاحب کسی استاد شاعر کو اپنا کلام دکھائیے، ہو سکے تو مشکل الفاظ کی جگہ سہل اور عام فہم الفاظ استعمال کیجیے۔ انھوں نے پہلے پہل عشقیہ شاعری کی، ایک دو غزلیں بھی مجھے سنائیں، لیکن جلد تائب ہو گئے اور حمد، نعت اور مناجات کی جانب مائل ہوئے۔ میَں نے اپنے دوست پروفیسرڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب جو میرے ہاسٹل کے ساتھی بھی تھے اور شعبہ اردو کے چیرٔ مین بھی ،سے سفارش بھی کی کہ وہ فاضل صاحب کے کلام کو دیکھ لیں، فاضل صاحب نے از خود بھی تونسوی صاحب سے درخواست کی تھی لیکن وہ جامعہ سرگودھا سے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد چلے گئے۔ فاضل صاحب نے جب سے ہوش سنبھا لا پہلے تو تعلیم پھر کسب معاش کے لیے گھر سے دور ضرور رہے لیکن غافل نہیں۔ ماشاء اللہ سات بیٹے اور ایک بیٹی ان کی زندگی کا اثاثہ ہیں، کرکٹ کی ٹیم کی خواہش تھی جو پوری نہ ہو سکی، ان کامستقل ٹھکانہ رحیم یار خان ہے لیکن یہ کراچی، بہاولپور، ملتان، اسلام آباد ہوتے ہوئے دو دریاؤں کے بیچ واقع سرگودھا پہنچ چکے ہیں، یہاں بھی انھیں قرار نہیں، اضطرابی کیفیت طاری ہے۔ بس بلاوے کے منتظر ہیں، جامعات میں لائبریری و انفارمیشن سائنس شعبے کے قیام کی ہیٹرک کر چکے ہیں، انھیں ماہر’قیامِ شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ میَں فاضل صاحب سے ایک عرصے سے واقف ہوں اور بغیر تکلف کے کھلے دل سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی علمی گفتگو، ذوق سلیم، غیر معمولی حافظہ، تاریخی شعور قابل تعریف ہے۔ ان کی باغ و بہار شخصیت بے شمار خوبیوں سے مزین ہے۔ ان کی زندگی لگے بندھے انداز سے نہیں گزری، نہ ہی یہ اکہرے اور سپاٹ لوگوں میں سے ہیں، ان کی زندگی کے بے شمار پہلو ہیں، کچھ حسین خواب پورے ہو چکے، کچھ کے لیے امید سے ہیں، ان کی ہشت پہلو زندگی کسی بھی خاکہ نگار کا موضوع بن سکتی ہے، زندگی نے وفا کی تو انشاء اللہ فاضل صاحب کا خاکہ قلم بند کروں گا۔ احمد فرازؔ کا خوبصورت شعر ؎
ہوا ہے تجھ سے بچھڑ نے کے بعد اب معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی
فاضل صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ جب سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاوپور، شعبہ لائبریری وانفارمیشن سائنس کے سربراہ بنے اس وقت سے آج تک وہ مختلف جامعات میں بیک وقت صدر شعبہ اور یونیورسٹی لائبریری کے سربراہ بھی رہے، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور، بہاء الدین زکریا یو نیورسٹی، ملتان اور جامعہ سرگودھا میں لائبریری و انفارمیشن سائنس کے شعبہ جات کھولنے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے، بعض وجوہات کے باعث ملتان میں شعبہ بند ہو چکا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس اور مرکزی لائبریری کی سربراہی کا اعزاز بھی انھیں حاصل ہو چکا ہے۔ سادگی ان کا شعار ہے، عاجزی وانکساری ان پر ختم ہے، ان کا ایک وصف جو میَں نے محسوس کیا کہ یہ بڑوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنوں سے چھوٹوں کے ساتھ بھی انکساری، عاجزی، عزت اور محبت سے ملا کر تے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ زندہ ہی ان کے لیے ہوں، گھمبیر سے گھمبیر اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو خوبصورتی سے نمٹانا انہیں خوب آتا ہے۔ بشری کمزوریاں اور خامیاں کس انسان میں نہیں۔ بہ قول الطاف حسین حالیؔ ؎
ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا
خاک ساری اپنی کام آئی بہت
میاں محمد اسلم بھٹی نام ہے ایک باغ و بہار شخصیت کا، انہوں نے جامعہ کراچی سے ۱۹۷۱ء میں لائبریری سائنس میں ایم اے کیا تھا، امریکہ سے بھی ایک ایم اے کی سند حاصل کر چکے ہیں، ان کی زیادہ ملازمت پاکستان سے باہر کی ہے، یہ لائبریری میں اور شعبہ میں فاضل صاحب کے قریبی معاون ہیں، میاں صاحب کا تعلق سرگودھا سے ہے، یہ یہاں کے مقامی رہائشی ہیں، میاں صاحب کی پہلی شریک حیات انتقال کر گئی تھیں، آپ نے پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر لائبریرین سر ور خان صاحب کی بیٹی سے عقد ثانی کیا، لگتا ہے سر ور خان صاحب کوان کے سفید بالوں پر ترس آ گیا تھا۔ زندہ دل، نیک، سادہ طبیعت، ہمدرد اور اخلاص کا مجموعہ، مناسب قد، بھاری جسم، پُرو جا ہت، کتا بی چہرہ، کشادہ پیشانی، آنکھوں میں چمک، لہجے میں معصومیت، گورا رنگ، سر پر بچے کچے بالوں میں سفیدی، داڑھی مونچھوں میں چاندی، گھنی بھنویں، ستواں ناک، آنکھیں چھو ٹی، مضبوط ہاتھ پیر، گھر سے باہر شلوار قمیض، گھر میں دھوتی اور کرتا، سر پر ٹوپی، ان کی شخصیت شہر اور دیہات کی ملی جلی فضا لیے ہوئے ہے۔ دوسروں کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ مجھ پر ان کی خصوصی عنایت تھی، ان کے دیئے ہوئے بعض مفید مشورے میرے بہت کام آئے۔ ان کی گفتگو میں مزا اور رچاؤ اس قدر رچا بسا ہوا ہے کہ یہ ہر بات کے جواب میں لطف کی آمیزش کر لیتے ہیں، ان کے شاگردوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ میاں صاحب لیکچر کے دوران بھی مزا سے بہت کام لیتے ہیں۔ فاضل صاحب انھیں ہر وقت اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے، میاں صاحب انگریزی اچھی لکھتے ہیں۔ فاضل صاحب اس سے خوب خوب استفادہ کیا کرتے ہیں۔ انگریزی فاضل صاحب کی بھی برُی نہیں، میاں صاحب فاضل صاحب کے ساتھ اور فاضل صاحب میاں صاحب کے ساتھ اس قدر رہا کرتے تھے کہ کچھ کچھ یاجوج و ماجوج والی کیفیت تھی، ایک دن جب کہ وہ تنہا تھے کسی نے فاضل صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ’ کیا یونیورسٹی نے آپ کو گاڑی اور ڈرائیور بھی دیا ہوا ہے ؟ یہ بات فاضل صاحب نے ہی بتائی تھی۔ میاں صاحب اچھے اور نیک آدمی ہیں۔ میرے سرگودھا پہنچنے کے بعد میری پہلی دعوت انھوں نے ہی اپنے گھر پر کی تھی اور میری واپسی پر بھی کھانے کا اہتمام کیا۔ ان کی بیگم بہت اچھے کھانے پکاتی ہیں، ہاتھ میں ذائقہ بھی ہے، مجھے تو حیرت ہوئی کہ پختون خواہ سے تعلق رکھنے والی خاتون دہلی اور یوپی والوں کے ذائقے دار کھانے پکا لیتی ہیں۔ میاں صاحب خوش نصیب ہیں کہ انہیں دوسری بار بھی ایک سگھڑ اور سلیقہ مند خاتون ملیں۔ میاں صاحب کا گاؤں ’’جھاوریاں ‘‘ سر گودھا میں رانجھے کے گاؤں کے آس پاس ہی ہے، جی ہاں ہیر ،والا رانجھا، میَں نے میاں صاحب سے کئی بار کہا کہ آپ تو رانجھے کے گاؤں ’’تخت ہزارہ‘‘ سے اچھی طرح واقف ہیں، اس کے کچھ کچھ اثرات بھی آپ پر نظر آتے ہیں، مجھے بھی اس گاؤں کی زیارت کرا دیں تاکہ میَں کراچی جا کر یہ کہہ سکوں کہ میَں نے ہیر والے رانجھے کا گاؤں تخت ہزارہ دیکھا ہے، کہتے ہیں ہیر اور رانجھا جھنگ جاتے ہوئے لبِ سڑک ابدی نیند سو رہے ہیں۔ ہیر جھنگ کے کسی گاؤں سے تعلق رکھتی تھی، میاں صاحب اپنی صحت اور مصروفیات کے باعث اس پروگرام پر عمل نہ کر سکے اور میَں رانجھے کا گاؤں ،تخت ہزارہ نہ دیکھ سکا۔
شعبہ میں نور مصطفی خان ایک کہنا مشق استاد تھے، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم کیا، سندھ یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس سے ایم فل کر رہے ہیں۔ نوجوان ہیں، فاضل صاحب کے ساتھ ہی شعبے سے منسلک ہو گئے تھے، میں نے محسوس کیا کہ شعبے کے زیادہ تر کام نور مصطفی ہی انجام دیتے ہیں، یہ فاضل صاحب کے داماد بھی ہیں، یہ انفرادیت انھیں ممتاز کرتی ہے۔ میَں تو کہا کرتا تھا کہ شعبے کو نور مصطفی نے اپنے کاندھوں پر اٹھا یا ہوا ہے۔ ، پڑھانے کے علاوہ یہ طلباء کی ہم نصابی سرگرمیوں کے انچارج بھی ہیں، داخلے کے مراحل کی نگرانی، امتحانات لینا، رزلٹ ترتیب دینا، ٹائم ٹیبل بنا نا، میٹنگ کی روداد قلم بند کرنا، طلباء کے اسٹڈی ٹور ترتیب دینا، کھیلوں کے مقابلوں میں طلباء و طالبات کی شرکت کو یقینی بنا نا الغرض شعبے کا ہر کام نور مصطفی ہی کو کرنا ہوتا ہے۔ اس قدر کام کرنے والا ہر ایک کو خوش نہیں رکھ سکتا، یہی حال ان کا بھی ہے، کام بھی کرتے ہیں اور تنقید کا نشانہ بھی بنا یا جاتا ہے، فاضل صاحب سے رشتہ داری کا طعنہ بھی انہیں سننے کو ملا کرتا ہے۔
میَں شعبے سے منسلک ہوا تو صفیہ کوکب جزوقتی لیکچر ر تھی، صفیہ نے ایک سال قبل ہی پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری و انفارمیشن سائنس میں ایم اے کیا تھا۔ میَں نے ایک تقدس و پاکیزگی کا ہالہ اس کے گرد محسوس کیا، نقاب کیا کرتی تھی، اس کی بڑی بڑی روشن آنکھیں خوش بختی اور زندگی کا پتا دیتی تھیں۔ صورت میں سیرت کا عکس نمایاں تھا، دیہات کی فضاء میں پروان چڑھی لیکن خود اعتمادی، مضبوط اعصاب اور مضبوط کردار نمایاں تھا، خوش مزاج، خوش گفتار، پر خلوص، ملنسار، شائستہ اور مہذب تھی۔ اس کا رنگ روپ بتاتا تھا کہ یہ افسانے آسانی سے گھڑ سکتی ہے اور اچھی شاعرہ بھی ہو سکتی ہے۔ شعبے میں اس کے لیے کمرہ تو کجا بیٹھنے کو میز کرسی بھی نہیں تھی، میاں صاحب اور نور مصطفی کے کمرے میں مہمانوں والی کرسیوں پر ہی بیٹھی رہا کرتی تھی۔ اُس وقت میری کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی، میَں نے لائبریری کے عملے کے ذریعے اسی کمرے میں اس کے لیے ایک چھوٹی سی میز اور کرسی کا بندو بست کرا دیا، بعد میں میاں صاحب الگ کمرے میں چلے گئے اور مجھے میاں صاحب کی میز کرسی مل گئی۔ صفیہ کوکب اچھا پڑھاتی تھی، طلباء بھی اس سے خوش تھے، اگر وہ شعبے میں اپنی ذمے داریاں جاری رکھتی تو اچھا تھا۔ اس کے چلے جانے سے شعبہ ایک اچھی استاد سے محروم ہو گیا۔ در اصل اس کی شادی ایک سال قبل ہی ہوئی تھی، شوہر، حیدر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے منسلک تھے، اس طرح اس کا میکہ(والدین کا گھر) سرگودھا کی نواحی بستی ’سلاں والی، میں، شوہر اسلام آباد میں اور یہ خود جامعہ سرگودھا کے ہاسٹل میں اور شادی کو صرف ایک سال ہوا تھا، یقیناً یہ ایک مشکل وقت تھا۔ دونوں میاں بیوی نے مل کر اس مشکل کو آسان بنا دیا اور اس نے شعبہ کو خدا حافظ کہا اور اسلام آباد کو مستقل آباد کر لیا جہاں اس کا شوہر حیدر اس کے انتظار میں فرش راہ کیے ہوئے تھا۔ اب تواس کے آنگن میں ایک پھول کا اضافہ بھی ہو گیا ہے، خوشی کی بات ہے۔
شعبے میں دو نوجوان بھی تھے ایک عابد اور کامران، عابد خورشید کہنے کو تو آفس کلرک تھا لیکن اردو میں ماسٹر اور ایم فل بھی کر رہا تھا، شاعر بھی اچھا تھا، چلتے چلتے اس نے مجھے اپنا شعری مجموعہ ’’ لمس ‘‘ دیا اور تبصرہ لکھنے کی فرمائش بھی کی، میَں نے کراچی جا کر اس پر تبصرہ لکھا اور اسے بھیج دیا، یہاں اس کے بارے میں وہی باتیں نقل کر رہا ہوں جو میَں نے تبصرہ میں لکھی تھیں۔ ’ میَں نے عابد خورشید کو ۱۱ مئی ۲۰۱۰ء کو اس وقت دیکھا جب میں شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز، جامعہ سرگودھا میں بحیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر منسلک ہوا، شعبے سے منسلک ہوتے وقت جس کاغذی کاروائی کی ضرورت ہوتی ہے عابد خورشید نے اس میں نہ صرف میری مدد کی بلکہ بہت ہی خوش اسلوبی سے تمام کاروائی کو تکمیل تک پہنچایا۔ ایک اجنبی کے ساتھ جب کہ اس کے ساتھ صرف سلام دعا ہی ہوئی تھی مثالی کارکردگی کا اظہار قابل تعریف تھا۔ اس کا یہ عمل ظاہر کر رہا تھا کہ عابد خورشید ایک نیک، سچا، ہمدرد اوردوسروں کی مدد کرنے والا انسان ہے۔ عابد میرے شعبے میں میرا رفیق کار تھا۔ مجھے یہ پہلی ہی نظر میں بھلا معلوم ہوا، تفصیلی تعارف نہیں ہوا تھا لیکن میرا گمان تھا جو بعد میں یقین میں بدل گیا کہ کسی بھلے خاندان کا ایک ایساثپوت ہے جس کی پرورش اس کی ماں نے بہت ہی احتیاط سے کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے اندر ایکا یسا انسان موجود ہے جس میں دکھ بھی ہے سکھ بھی، خوشی بھی ہے غمی بھی، آنسو بھی ہیں تبسم بھی، یہ ہنستا ہے تو اس کے دکھ کا سایہ بھی جھلک دکھا رہا ہوتا ہے، جب یہ افسردہ ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر ہلکی سی اداسی نمایاں ہوتی ہے۔ عابد خورشید کا مجموعہ کلام ’لمس، اپنے تجربات و مشاہدات کی رعنائی کے اعتبار سے شاعر کے احساسات کا خوبصورت عکس ہے ہی نہیں بلکہ اس میں آپ بیتی کا حسن بھی جھلک رہا ہے۔ یہ رومانیت اور حقیقت پسندی کی خوبصورت کاوش ہے۔ عابد خورشید کا تعلق شاہینوں کے شہر سرگودھا سے اور یہ نوجوان شاعر سرگودھا کے شعراء کے اس قبیل سے ہے جو مداحین ڈاکٹر وزیر آغا ہی نہیں بلکہ سرگودھا اسکول جس کے بانی ڈاکٹر وزیر آغا ہی تھے کا سرگرم کارکن ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا بلاشبہ اردو زبان کی ایک قد آور شخصیت کا نام ہے۔ آپ ان دانشوروں میں سے تھے جو بیک وقت ہفت پہلو یعنی شاعری، تحقیق، تنقید، فلسفہ سائنس، تاریخ، اساطیر اور اردو انشا پردازی کے شہسوار تصور کیے جاتے تھے۔ انھوں نے اردو انشائیہ کو عام کرنے میں جو کام کیا وہ نا قبل فراموش ہے۔ وہ یقیناً ہمارے عہد کی ایک اہم اور معتبر ادبی شخصیت تھے۔
عابد خورشیدؔ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے مجموعہ کلا ’لمس، کا فلیپ ڈاکٹر وزیر آغا نے تحریر کیا۔ یہ تبصرہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل کی جلد ۴۲، شمارہ ۳ ستمبر ۲۰۱۱ء میں شائع ہوا۔ عابد خورشید کے اشعار دیکھیے ؎
کسی کی آنکھ کے بھیگے ہوئے منظر میں رہتے ہیں
ہمارا گھر نہیں ہے ہم کسی کے گھر میں رہتے ہیں
ہمارے دل میں آ کر آپ سے دو دن نہیں نکلے
ہم اِک مدت سے اِس ٹوٹے ہوئے مندر میں رہتے ہیں
کامران رعنا بھولا بھالا اور سیدھا سادھا دیہاتی بابو، یہ عابد خورشید کا نائب تھا، ہر ایک کے کام آنا اس کی عادت تھی، میَں کراچی سے سعودی عرب آ گیا پر اس نے مجھ سے ناطہ قائم رکھا، پاکستان سے سعودی عرب فون کرنا ایک مہنگا سودا ہے پریہ اکثر فون کرتا ہے اور میری خیریت پوچھتا ہے۔ حسنین دفتری تھا لیکن مہذب اور شائستہ، حافظ قرآن بھی، میَں نے اسے بہت ترغیب دی کہ وہ میٹرک ضرور کر لے، مجھے جب کبھی کیمپس سے باہر جانا ہوتا حسنین مجھے اپنی موٹر بائیک پر لے جاتا، اس نے کبھی ان کار نہیں کیا، سرگودھا شہر کی مرکزی سڑکوں اور شاپنگ سینٹرز کو میَں نے اِسی کے ہمراہ دیکھا۔ تابع دار اور نیک فرید ایک ایسا نوجوان تھا جو تھا تو نائب قاصد لیکن بڑوں بڑوں کو اپنے پیچھے لگائے رکھتا تھا، فاضل صاحب کے آفس کے باہر ٹِک کر نہیں بیٹھتا تھا جب دیکھوں لائبریری کے مرکزی کاؤنٹر پر جھرمٹ میں گھِرا نظر آتا تھا۔ خوش پوس و خوش لباس، فاضل صاحب کا تابعدار، ذرا ذرا سی بات پر لڑنے کو تیار، میری عزت کیا کرتا تھا، اچھا نوجوان تھا۔
میَں جب شعبے سے رخصت ہو رہا تھا تو شعبے کے لیے ایک بات بہت اچھی ہوئی وہ یہ کہ ڈاکٹر شمشاد احمد شعبہ سے بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر منسلک ہو گئے۔ ڈاکٹر شمشاد نے جامعہ کراچی سے لا ئبر یری و انفارمیشن سائنس میں پی ایچ ڈی کیا، ان کا تعلق سر گودھا کے شہر ’فاروقہ، سے ہے اس اعتبار سے ان کا شعبہ میں آ جا نا شعبے کے لیے خوش گوار اضافہ تھا۔ نوجوان، مستعد اور پرجوش استاد ہیں۔ افسوس وہ بھی مختصر وقت ہی شعبے میں رہ سکے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور چلے گئے۔ ان سے جو اچھی امیدیں تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں۔
میَں نے شعبے میں رہتے ہوئے اس بات کی کوشش کی کہ شعبے کے جونئیر اساتذہ نور مصطفی خان اور صفیہ کوکب پڑھانے کے ساتھ ساتھ لکھنے کی جانب بھی توجہ دیں۔ ہم تینوں نے مشترکہ طور پر ایک مضمون انگریزی میں جامعہ سرگودھا کی مرکزی لائبریری پر تحریر کیا، یہ مضمون اپنے موضوع پر اولین کوشش تھی، اس سے قبل سرگودھا یونیورسٹی لائبریری پر کوئی مضمون نہیں لکھا گیا تھا، ہم نے لائبریری کے بارے میں معلومات جمع کیں، اسٹاف، طلباء اور عام قارئین سے انٹر ویوز بھی کیے، یہ مضمون پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل کی جلد ۴۱، شمارہ ۳، ستمبر ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا۔ اس کاوش کا بنیادی مقصد سرگودھا یونیورسٹی لائبریری کے بارے میں اعداد و شمار اور حقائق سامنے لانا تھا اور اپنے دونوں جونئیر ساتھیوں کو لکھنے کی ترغیب دینا بھی تھا۔ میری خواہش اور کوشش تھی کہ پروفیشن سے منسلک ساتھیوں کو تصنیف و تالیف اور چھپنے کی سہولتیں زیادہ سے زیادہ میسر آئیں، میری سوچ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام لائبریری اسکول اپنے اپنے طور پر تحقیقی جریدہ شائع کریں، اس کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے، پاکستان میں صرف شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ پنجاب لاہور واحد لائبریری اسکول ہے جو سالانہ بنیاد پر ایک تحقیقی جریدہ’ پاکستان جرنل آف لائبریری و انفارمیشن سائنس، شائع کر رہا ہے، دوسرا جریدہ کراچی سے لائبریری پروموشن بیورو’پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل، شائع کرتی ہے، یہ سہہ ماہی جریدہ ہے جو گزشتہ ۴۲ سال سے مستقل شائع ہو رہا ہے۔ مجھے اس جریدہ کا چیف ایسو سی ایٹ ایڈیٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، میَں نے کوشش کی کہ سرگودھا میں قائم لائبریری اسکول سالانہ بنیاد پر ہی سہی ایک جریدہ شائع کرے۔ فاضل صاحب کو جب یہ تجویز دی تو فوری تیار ہو گئے، میاں صاحب نے حسب عادت تحفظات کا اظہار کیا پھر وہ بھی تیار گئے، نور مصطفی اور صفیہ کوکب نے اس تجویز کو لبیک کہا۔ شعبہ کے چیِر مین کے توسط سے یہ تجویز شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری صاحب کو ارسال کی گئی، شیخ الجامعہ نے فاضل صاحب کو اس پر تبادلہ خیال کے بلایا، شاید وہ ان کی زبانی اس تجویز کی تفصیلات جاننا چاہتے تھے، انہوں نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا اوراس کی باقاعدہ منظوری دیدی، اس تجویز کے مطابق سر گودھا لائبریری اسکول سالانہ بنیاد پر ایک تحقیقی جریدہ شائع کرے گا، جریدہ کا نام ’’سرگودھا جرنل آف لائبریری و انفارمیشن سائنس‘‘تجویز کیا گیا تھا، سرپرست عالیٰ شیخ الجامعہ اور سرپرست چیِر مین شعبہ اور مجھے اس جریدہ کا چیف ایڈیٹر مقر ر کیا گیا تھا، افسوس مجھے بعض مجبوریوں کے باعث شعبہ کو خیر باد کہنا پڑا، یہ تجویز شیخ الجامعہ سے باقاعدہ منظور شدہ ہے، شعبہ کے ذمہ داران کو اس تجویز پر عمل کرنے کی سعی کرنا چاہیے، میرا تمام تر تعاون اب بھی ان کے ساتھ ہو گا۔
اس موقع پر سر گودھا جو ایک تاریخی شہر ہے ، کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا، سر گودھا کی تاریخ پر صاحبزادہ پروفیسرصاحبزادہ عبدالرسول صاحب نے ایک عمدہ کتاب بعنوان (History of Sargodha)تحریر کی ہے، مصنف کے مطابق ’’سرگودھا کی بنیاد ۲۲ فروری ۱۹۰۳ء کو سر میلکوم ھیلے (Sir Malcolm Hailey) نے رکھی جو بعد میں پنجاب کا گورنر بنا۔ سرگودھا دو دریاؤں چناب اور جہلم کے بیچ میں واقع ہے۔ سرگودھا دو لفظوں ’سر، اور’ گودھا،کا مرکب ہے۔ ’سر، کا مطلب ہے ’’پول‘‘ (Pool or Pond) اور گودھا ایک ہندو جو گی کا نام تھا۔ ایک اور روایت کے مطابق جو گی کا اصل نام ’’لالو‘‘ تھا، گودھا اس کے قبیلے کا نام تھا۔ یہ جو گی ، تالاب کے کنارے پر رہتا تھا۔ جب نیا شہر وجود میں آیا تو اس نے خود بخود سرگودھا کا نام اختیار کر لیا۔ لفظ ’گودھا، سنسکرت زبان کے لفظ ’’یودھا‘‘ (Yoddha)سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ’’لڑنے والے ‘‘ (Fighters)۔ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگ میں سرگودھا میں پاکستان ائر فورس نے دشمن کو جس بہادری اور دلیری سے پسپا کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ پاک فضائیہ کی بہادری کے نتیجے میں اس شہر کو ’’شاہینوں کا شہر‘‘(City of Eagle)کا خطاب دیا گیا۔ آج یہ شہر اسی نام سے معروف ہے۔ سرگودھا شہر کی ایک خوبی اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہاں کی زرعی زمین سنتروں اور کینوؤں کی پیداوار کے حوالے سے دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ یہاں کے سرسبز کھیتوں میں کینوؤں کے بے انتہا درخت اپنا ثانی نہیں رکھتے، کینوؤں کے موسم میں یہ درخت جب کینوؤں سے لدے ہوئے ہوتے ہیں تو خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ بہترین اقسام کے کینوؤں کی پیداوار کی وجہ سے اس شہر کو کینوؤں کا شہر (Kinoo Capital of the World)یا پاکستان کا کیلی فورنیا (California of Pakistan)بھی کہا جاتا ہے۔
سر گودھا ایک مردم خیز سرزمین ہے جس نے علمائے دین، صوفیائے اکرم، اہل دانش، شاعروں، سیاسی مدبروں کی ایک بڑی جماعت پیدا کی، جن کے خیالات، خدمات اور تصنیفات سے ہمارے کتب خانے مالا مال ہیں۔ ان کی خدمات کو قومی اور عالمی سطح پر معتبر حیثیت حاصل ہے۔ ان میں بعض احباب کے نام فخر سے لیے جا سکتے ہیں۔ فیروز خان نون معروف سیاست دان جو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ معروف شاعر و دانش ور احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سدید، اور دیگر سرگودھا شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ عشق، محبت اور قربانی کے لازوال کردار ہیر اور رانجھا کا تعلق بھی اسی سر زمین سے رہا، رانجھا کا گاؤں ’’تخت ہزارہ‘‘ سرگودھا شہر سے بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جب کہ ہیر جھنگ سے تعلق رکھتی تھی۔
ڈاکٹر وزیر آغا سرگودھا اسکول کے روح رواں تھے، ڈاکٹر انور سدید نے اس گروپ کو اور زیادہ پروان چڑھایا۔ ، بعض لکھنے والوں نے اسے ’’دبستان سرگودھا‘‘ اور بعض نے سرگودھا گروپ بھی کہا ہے۔ شاہد حنائی نے اپنی خاکوں کی کتاب ’چہرہ نما، میں عذرا اصغر کا خاکہ بعنوان ’’رنگ، خوشبو، روشنی‘‘ میں لکھا عذرا اصغر ابھی گروپ بندی کے خلاف ہے۔ تاہم تعلق خاطر کی بنا پر سرگودھا گروپ کی سرگرم کارکن ہے۔ جب تک ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انور سدید کی ڈاک نہ پہنچ جائے ’’تجدید نو‘‘ کی اشاعت میں تاخیر ممکن ہے۔ دونوں بزرگوں میں سے جو بھی اسلام آباد آئے۔ عذرا اصغر دعوت کا اہتمام ضرور کرے گی۔ خود اپنے افسانے بھی وزیر آغا گروپ کے رسائل کو ہی بھجوائے گی۔ ’’تجدید نو‘‘ میں چھپنے والوں کی اکثریت بھی اسی گروپ کی حامی ہے۔ پروفیسر صابر لودھی نے اپنی خاکوں کی کتاب ’’بھلایا نہ جائے گا‘‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا کا خاکہ بعنوان ’’وزیر آغا۔ نظریہ ساز راوین‘‘ میں لکھا ’’وہ کسی گروہ سے وابستہ نہیں، حالانکہ ان کے نکتہ چینوں نے ان کے ادبی جریدے ’’اوراق‘‘ میں لکھنے والوں کو ’’دبستان سرگودھا‘‘ کے ارکان کہا ہے اور وزیر آغا کو اس دبستان کا بانی قرار دیا ہے۔ در اصل دانشوروں کا حلقہ ہی ان کا دبستان ہے ‘‘۔
جامعہ میں کل وقتی پڑھانے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا، اس سے قبل میں جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں جزوقتی پڑھا چکا تھا، اس کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے گریجویٹ پروگرام کے علاوہ ایم اے کا ٹیوٹر بھی رہ چکا تھا۔ میرے لیے پوسٹ گریجویٹ کلاس کو پڑھانا کوئی مشکل نہ تھا، مئی میں سیمسٹر اپنے اختتام پر تھا، پھر بھی میَں نے جونیئر اور سینئر کے دو دو مضامین کے باقی ماندہ کورس کو مکمل کرانے کی ذمہ داری لے لی۔ سینئرز کا آخری سیمسٹر تھا انہیں دو مضامیں Archives Managementاور Human Resource Managementاسی طرح جونیئرز کی کلاس کو Applied Cataloguingکے کورسز مکمل کرائے۔ اس سیمسٹر کے اختتام کے بعد گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئیں اور میَں کراچی آ گیا، چھٹیوں کے بعد ایم اے سال اول کی نئی کلاس آئی، سیمسٹراول اور فائنل کی کلاس کا تیسراسیمسٹر شروع ہوا، اس سیمسٹرز میں مجھے دو دو مضامین پڑھانا تھے ان میں جونیئر کو Introduction to Classificationاور Bibliography: Theory & Practiceجب کے فائنل کلاس کو Marketing of Library and Information Servicesاور Literature on Social Sciences پڑھایا۔ میَں نے بھی محنت کی اور میرے طلبہ و طالبات نے بھی میرے ساتھ محنت سے پڑھا، یہی وجہ تھی کہ جب میَں نے جامعہ سے رخصت ہونے کا فیصلہ کیا تو میرے طلبہ میرے اس فیصلہ پر سب سے زیادہ رنجیدہ اور پریشان تھے، ہر ایک نے فرداً فرداً مجھ سے اپنا فیصلہ واپس لینے کی درخواست کی، میَں اپنے طلبہ کی اس خواہش پر بار بار فیصلہ بدلنے کا سوچاکرتا تھا لیکن میری مجبوریاں میرے آڑے آ جایا کرتیں اور میں اپنے فیصلہ پر قائم رہا۔ میرے طلبہ اب بھی فون پر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں دوبارہ سرگودھا کب آ رہا ہوں۔ طلبہ کی مجھ سے اس قدر محبت اور عقیدت ہی میری زندگی کا حاصل ہے۔
پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن، فیڈرل برانچ نے اسلام آباد میں کانفرنس منعقد کی، سرگودھا سے فاضل صاحب، میاں اسلم، نور مصطفی اور اس ناچیز نے شرکت کی، کراچی سے ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری صاحب جو امریکہ سے آئے ہوئے تھے نے بطور خاص شریک ہوئے، صمد انصاری ان کے ساتھ تھے۔ کانفرنس کے اختتام کے بعد سبزواری صاحب کو شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز، جامعہ سرگودھا آنے کی دعوت دی گئی، طے پایا کہ وہ ہمارے ساتھ ہی سرگودھا چلیں، اس موقع پر میاں صاحب ہی ہمارے کام آئے، انہوں نے اپنے بھائی کی کار کا انتظام کر لیا، اب ہم سب یعنی سبزواری صاحب، فاضل صاحب، میاں صاحب، صمد انصاری، نور مصطفی اور میَں سرگودھا کے لیے اسلام آباد سے روانہ ہوئے، رات گئے سرگودھا پہنچے، میاں صاحب نے سبزواری صاحب اور صمد انصاری صاحب کو اپنا مہمان بنا یا، میَں بھی ساتھ ہی تھا، گھر پہنچے کمرہ میں تین بستر لگے ہوئے تھے، گویا مہمانوں کے لیے پہلے سے اہتمام کیا جا چکا تھا، میاں صاحب نے راستے ہی میں بیگم کو ہدایات جاری کر دی تھیں، ناشتہ کے بعد شعبہ میں ڈاکٹر سبزواری صاحب کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام تھا۔ طلبہ و طالبات نے مہمانوں کا استقبال کیا، تقریریں ہوئی، فاضل صاحب نے استقبالیہ کلمات کہے، سبزواری صاحب، صمد صاحب اور میَں نے بھی تقریر کی۔ سبزواری صاحب نے اپنی تقریر میں کہا ’’لائبریری اور لائبریری سائنس کی تعلیم و تربیت کو دوام حاصل ہے، جدید انفارمیشن کے پھیلاؤ کے باوجود کتاب کی اہمیت مسلمہ ہے اور لائبریری کی اہمیت و ضرورت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے، لائبریری سائنس کے طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اپنی صلاحیتوں کو زیادہ مضبوط و مستحکم کریں، کتب خانوں میں کمپیوٹر کا استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے ‘‘۔ اس موقع پر ڈاکٹر فاضل خان صاحب نے فرمایا کہ ’’مجھے ڈاکٹر سبزواری کی شاگردی پر فخر حاصل ہے، ڈاکٹر صاحب دنیائے لائبریرین شپ کا ایک ایس رخشندہ ستارہ ہیں کہ جن کی علمی خدمات آج بھی جا ری و ساری ہیں، آپ نے ڈاکٹر سبزواری کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں ہماری دعوت قبول کرتے ہوئے سرگودھا تشریف لائے۔ سبزواری صاحب اور صمد انصاری نے ایک رات ہاسٹل میں گزاری، کمرے میں دوہی بیڈ تھے، میَں نے ایک گدہ فرش پر ڈال لیا تھا خیال تھا کہ میَں اس پر سو جاؤں گا، سبزواری صاحب نے جب یہ دیکھا تو وہ بیڈسے اٹھ کر نیچے آ گئے، کہنے لگے میں نیچے لیٹوں گا، ہم دونوں نے بہت منت سماجت کی لیکن انہوں نے ایک نہ سنی، بڑائی تو دیکھئے کہ دونوں شاگرد ایک دائیں دوسرا بائیں بیڈ پر اور استاد درمیان میں زمین پر، اس لمحہ شرمندگی تو دامن گیر تھی ہی لیکن استاد کی خواہش زیادہ مقدم تھی۔
طلبہ کی حوصلہ افزائی اور ان میں مقابلہ کا رجحان پیدا کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو انعامات، اس کالر شپ، میڈل، شیلڈ اور نقد انعامات دئے جا نے کی روایت قدیم ہے، پاکستان کی مختلف جامعات کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں بھی بہتر تعلیمی کارکردگی کے حامل طلبہ کے لیے میڈل اور اس کالر شپ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم کے لیے ’اسپل گولڈ میڈل،(SPIL Gold Medal)جاری ہوا، انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات، ’اسپل(Society for the Promotion & Improvement of Libraries, SPIL) ،پاکستان میں کتب خانوں کے فروغ و ترقی کے لیے ۱۹۶۰ء میں قائم کی گئی، کتاب اور کتب خانوں کا درد رکھنے والی معروف شخصیت حکیم محمد سعید شہید اس سوسائیٹی کے بانی صدر تھے جو اپنی شہادت تک اس کے صدر رہے۔ اسپل گولڈ میڈل کے لیے حکیم محمد سعید نے اس وقت مبلغ ایک لاکھ روپے جامعہ کراچی کو فراہم کیے تھے۔ اسپل گولڈ میڈل کے اجراء کے بعد لائبریری سائنس کے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ دیگر اداروں میں بھی میڈل اور ایوارڈ جاری ہوئے، یہ ایوارڈ لائبریری سائنس کی معروف شخصیات کے ناموں سے منسلک نظر آتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر عبدالمعید گولڈ میڈل، پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر گولڈ میڈل اور ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری ایوارڈ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسپل گولڈ میڈل کے بعد دوسرا گولڈ میڈل ’’ڈاکٹر عبد المعید گولڈ میڈل‘‘ ۱۹۸۱ء میں پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کے زیر اہتمام چلنے والے ادارے اسکول آف لائبریرین شپ میں جاری ہوا، جو ہر سال لائبریری سائنس کے ہائر سرٹیفیکیٹ کورس میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم کا دیا جاتا ہے۔ تیسرا گولڈ میڈل ’’پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر گولڈ میڈل‘‘ شعبہ لائبریری و انفارمیشن، جامعہ پنجاب، لاہور میں جاری کیا گیا۔ اس گولڈ میڈل کے لیے مبلغ ایک لاکھ روپے جامعہ پنجاب کو پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر نے ہی فراہم کیے تھے۔ ’’ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری ایوارڈ‘‘ (Dr. Ghaniul Akram Sabzwari Award)۲۰۱۰ء میں شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز، جامعہ سرگودھا میں جاری ہوا۔ یہ ایوارڈ پاکستان لائبریرین شپ کی معروف استاد، مصنفہ و محققہ پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ کی تحریک پر جامعہ سرگودھا میں جاری کیا گیا، اس مقصد کے لیے ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے جامعہ سرگودھا کو پچاس ہزار روپے کی رقم فراہم کی۔ یہ ہر سال اس طالب علم کو دیا جاتا ہے جس نے تحقیق کے میدان میں نمایاں کار کر دگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز میں ایم ایل آئی ایس کا پہلا سیشن مکمل ہو چکا تھا، آٹھ طلبہ و طالبات نے مقالات تحریر کیے تھے۔ صدر شعبہ ڈاکٹر محمد فاضل خان صاحب نے فیصلہ کیا کہ’ ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری ایوارڈ، شعبہ کے اس طالب علم کو دیا جائے گا جس کا تحقیقی مقالہ سب سے بہترین ہو گا۔ بہترین مقالہ کے انتخاب کی ذمہ داری صدر شعبہ نے مجھے سونپ دی، منصف کی حیثیت سے مجھے ان مقالات میں سے بہترین مقالہ کا انتخاب کرنا تھا، شعبہ کی ایک طالبہ آنسہ صائمہ روحی نے (College Libraries of Sargodha)کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا تھا، میری رائے میں وہ دیگر مقالات میں بہتر تھا، چنانچہ ۲۰۱۰ء میں پہلے ’ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری ایوارڈ، کی حقدار صائمہ روحی قرار پائیں۔
شعبہ میں بہت اچھا وقت گزرا، شعبے اور لائبریری کے تمام ساتھی میرا بہت خیال کیا کرتے تھے، انہوں نے مجھے جو عزت دی میَں اسے کبھی بھلا نہیں سکوں گا، لائبریری کے تمام ساتھی خاص طور پر ناصر گجر، محمد احمد شاہ، راجہ غلام مصطفی، آسیہ، آفس کے ساتھی عابد خورشید، کامران رانا، محمد حسنین، فرید اور دیگر جن کے نام مجھے اب یاد نہیں سب ہی میری بہت عزت کیا کرتے اور خلوص کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے انہوں نے کبھی میرے کسی کام سے ان کار نہیں کیا۔ ناصر گجر سینئر لائبریرین، یہ ڈاکٹر خالد محمود کے کلاس فیلو بھی ہیں، اچھا اور نیک انسان ہے، میں نے کوشش کی کہ یہ شعبہ میں پڑھا نے پر آمادہ ہو جائے لیکن نہیں معلوم کیا مجبوری تھی کہ اس نے میری ایک نہ سنی، محمد احمد شاہ صاحب بھی سینئر لائبریرین ہیں، انٹر کے طلبہ کو لائبریری سائنس پڑھا تے ہیں، میرے بہت ہی مہرباں رہے، انہوں نے مجھے سرگودھا نہ چھوڑنے کی بہت ترغیب دی، مجھے کرایہ کا گھر دلوانے کے لیے بھی بہت تگ و دوکی، اپنے گھر بھی لے گئے، کھانا بھی کھلایا، ان کی بیٹی میری شاگرد بھی رہی۔ ایک بچی آسیہ بھی تھی، ہنستی مسکراتی ہر وقت کام میں مصروف نظر آیا کرتی تھی، یہ اردو ٹائپ بھی جانتی تھی، تھی تو کلرک لیکن علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے لائبریری و انفارمیشن سائنس میں ایم اے کر چکی تھی، اللہ تعالیٰ اس کا مستقبل اچھا کرے۔
فاضل صاحب کے دو بیٹے سرگودھا میں اُن کے ساتھ تھے ایک حافظ صاحب اور دوسرا عمران۔ عمران، فاضل صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا، شاید میٹرک کر رہا تھا، عمران میرا بہت خیال رکھتا تھا، جب بھی اپنے ہاسٹل سے نیچے اتر تا میرے پاس آ کر پوچھا کرتا انکل کوئی کام تو نہیں۔ کبھی مجھے کچھ منگوانا ہوتا تو اس سے منگوا لیا کرتا، اکثر میرے کمرہ میں آ جاتا اِدھر اُدھر کی باتیں کیا کرتا، ایک موبائل ہاتھ میں اور ایک جیب میں ہوا کرتا تھا۔ اس کا ہم عمر لڑکا فاروق ہمارے ہاسٹل میں ہمارے کک کا اسسٹنٹ تھا، اسے ہاسٹل سیکریٹری ڈاکٹر شاہد راجپوت صاحب نے نذر حسین کی مدد کے لیے رکھ لیا تھا، یہ ہمارے کام بھی کر دیا کرتا تھا۔ اچھا لڑکا تھا، والدین بہت غریب تھے، سرگودھا کے کسی گاؤں میں رہا کرتے تھے۔ فاروق بھی میرا بہت خیال کیا کرتا تھا، ہم سب لوگ اس کی مدد کیا کرتے، میرا کمرہ ڈائننگ روم کے برابر میں تھا، جس سے منسلک کچن تھا، اس وجہ سے بھی میرا تعلق ان سے زیادہ رہا کرتا تھا۔ عمران ویسے تو چھوٹا تھا، ابھی میٹرک بھی پاس نہیں کیا تھا، اسکول میں پڑھا کرتا تھا، بہت شوخ اور شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ مہذب، شائستہ اور عزت کرنے والوں میں سے تھا۔ موبائل کا تو آجکل بچوں کو کریز ہے، اسے بھی تھا۔ جیسا میَں نے کہا کہ ایک موبائل جیب میں اور ایک ہاتھ میں، سمیں ان کے علاوہ، موبائل میں اس قسم کا سافٹ ویئر بھی آتا ہے کہ جس کے ذریعہ آواز تبدیل ہو جاتی ہے، مرد کی آواز نسوانی ہی نہیں ہوتی بلکہ عمر کے اعتبار سے تبدیل کی جا سکتی ہے، جیسے ۱۶ سال کی لڑکی کی آواز، ۴۰ سال کی عورت کی آواز، مجھے کبھی اس کا تجربہ نہیں ہوا، یہ بات میں نے عمران کی زبانی ہی سنی تھی۔ فاروق عمران کا دوست بھی بن گیا تھا، کیونکہ یہ ہم عمر بھی تھے۔ عمران نے آواز بدلنے والا سافٹ ویئرا ستعمال کرتے ہوئے فاروق کو لڑکی آواز میں فون کیا اور عشق و محبت کی باتیں بھی کیں، فاروق کم عمر ضرور تھا لیکن جوانی کا خمار آنا شروع ہو گیا تھا، پھر ہاسٹل کے سامنے سے دن بھر طالبات کا ادھر سے ادھر آنا جانا، فاروق عمران کے بہکاوے میں آ گیا، عمران اکثر رات میں آتا مجھ سے کہتا انکل جی دیکھیں ابھی فاروق موبائل کی آواز سنتے ہی ایک طرف کونے میں چلا جائے گا، واقعی ایسا ہی ہوا بھی کرتا، اس طرح عمران نے فاروق کو بہت پریشان کیا، ابھی یہ تماشا چل ہی رہا تھا، کہ عمران نے سکیورٹی گارڈ کے ساتھ جھگڑا کر لیا اور ایسا جھگڑا کیا کہ اس سیکیورٹی گارڈ کو جو اس سے عمر میں کافی بڑا بھی تھا ایک عدد تھپڑ رسید کر دیا، بات فاضل صاحب تک پہنچی انہوں نے اسی میں عافیت جانی کے عمران کو واپس اپنے گھر رحیم یار خان بھیج دیا جائے اور عمران کو بہت عجلت میں گھر بھیج دیا گیا، وہ مجھے بہت عرصہ تک یاد آتا رہا، میَں نے فاضل صاحب سے اسے واپس بلوانے کو کہا بھی لیکن وہ واپس نہیں آیا، اللہ اس بچے کو ہمیشہ خوش رکھے۔
شعبہ کے طلبہ نے مجھے جو عزت دی وہ میری زندگی کا قیمتی سرمایا ہے۔ میَں شعبہ سے منسلک ہوا تو فائنل سیمسٹر کے طلبہ کو مشکل سے دو ماہ ہی پڑھایا ہو گا اس کے بعد وہ اس شعبہ سے فارغ ہونے گئے اور عملی زندگی میں مصروف عمل بھی، وہ تمام میرے ساتھ جس خلوص، محبت اور اپنائیت سے پیش آیا کرتے قابل تعریف ہے، بعض طلبہ جن میں ذیشان راؤ، عبدالرحیم، صائمہ روحی، سمیعہ روحی، سمیرا بانو، سمعیہ جبار، اسما حسن، حافظہ ماریہ شیریں شامل تھے نے میرے اعزاز میں الوداعی دعوت کا اہتمام بھی کیا۔ شعبہ کے اولین سیشن کے بعض طلبہ و طالبات اب بھی مجھ سے رابطے میں ہیں اور اکثر مجھے فون کر لیتے ہیں ان میں صائمہ روحی، سیمرا حیدر، شاہد، رحیم، عدیلہ وڑائچ اور ماریہ شامل ہیں۔ دوسرے سیشن کے طلبہ کو میَں نے دو سیمسٹرپڑھا یا، میرا ایک شاگرد ارشد سجرا جسے میَں کلاس میں ارشد بھٹی کہا کرتا تھا حالانکہ وہ بھٹی نہیں تھا، اسی کلاس کا ایک طالب علم عرفان گوندل تھا، یہ ارشد کا قریبی دوست تھا، اس نے ایک کارنامہ انجام دیا، پہلے سیمسٹر کا امتحان تھا، مجھے چھٹی پر کراچی جانا پڑا، اپنا پرچہ بنا کر نور مصطفی کو دے دیا، جس دن میرے مضمون کا امتحان تھا سنا ہے کہ عرفان نے اپنی جگہ کسی دوسرے لڑکے کو امتحان دینے کے لیے بٹھا دیا اور وہ پکڑا بھی گیا، اس کے بعد سے عرفان گوندل نے کلاس میں آنا ترک کر دیا، میَں جب واپس سرگودھا آیا تو یہ قصہ معلوم ہوا، اب میَں نے ارشد کو اس کے دوست کی دوستی کی بنا پر ارشد بھٹی کہنا شروع کر دیا۔ کیونکہ عرفان بھٹی کے نام سے معروف تھا۔ ارشد نے مجھے اپنے گاؤں ’جھال چکیاں لے جانے اور وہاں کی مشہور دال ’’دال جھال چکیاں دی‘‘ کھلانے کی دعوت دی، اس کا گاؤں سرگودھا شہر سے بارہ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے، میں نے قبول کر لی، مقر رہ وقت ارشد موٹر بائیک پر مجھے جھال چکیاں لے گیا، راستے میں بارش بھی ہوئی لیکن یہ مجھے موٹر بائیک پر سر پٹ دوڑاتا ہوا اس مشہور ہوٹل لے گیا جہاں کی یہ دال سرگودھا ہی میں نہیں بلکہ پورے پنجاب میں مشہور ہے، ایسا ہی ہے کہ جیسے کراچی میں اسٹوڈنٹ بریانی، ملتان کا سوہن حلوہ، خوشاب کا ڈوڈا، کراچی میں کبھی عبدالخالق کے رس گلے بہت مشہور ہوا کرتے تھے، فریسکو کی میٹھا ئی بہت مشہور تھی، برنس روڈ کی نہا ری بہت پسند کی جاتی تھی، ہوٹل بڑا تھا، لوگ جوق در جوق چلے آ رہے تھے، صفائی کا فقدان تھا، ہوٹل میں دال روٹی کا ریٹ فکس تھا یعنی ڈیڑ سو روپے میں ایک شخص جس قدر دال اور جس قدر روٹی کھا سکتا ہے کھا لے، خوش خوراکوں کے تو وارے نیارے اور ہم جیسوں کے لیے ایک وقت کی دال روٹی ڈیڑھ سو روپے میں، لیکن یہ عام دال نہیں بلکہ سرگودھا کی مشہور و معروف ہے دال ہے، دال گرینڈ کی ہوئی تھی، کچھ کچھ کراچی کے حلیم کا مزہ تھا لیکن یہ دال ہی تھی، ۔ ارشد نے بھی مجھ سے ناتا جوڑا ہوا ہے، اکثر فون کر لیتا ہے۔
میر۱ ایک شاگرد افتخار احمد سینئر کلاس میں تھا، اس کا چھوٹا بھائی مختار احمد بھی ایک سال قبل میرا شاگرد رہ چکا تھا، یہ سرگودھا شہر سے دور ایک گاؤں ’ للیانی، میں رہتے ہیں، کینوؤں کا موسم تھا، سرگودھا تو ہے ہی کینوؤں کا شہر، اس نے اپنے گاؤں لے جانے کی دعوت دی، جس دن اس کے گاؤں جانا تھا میَں نے اپنی بیٹی جو لاہور میں رہتی ہے کو بھی بلا لیا، وہ بھی اپنی کار میں آ گئی، اب ہم افتخار کے بتائے ہوئے راستہ پر چل دئے، عاصم کار ڈرائیو کر رہے تھے، میری نواسی نہا اور نواسہ ارحم بھی ساتھ تھے، کچھ دیر میں ہم افتخار کے گاؤں ’للیانی، پہنچ گئے، چاروں طرف زرعی زمین جس میں مختلف اشیاء کاشت کی ہوئی تھیں، تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر کینوؤں کے درخت کینوؤں سے لدے ہوئے تھے، خوبصورتی کا بے مثال منظر، درمیان میں افتخار کا گھر تھا، فاھینہ اور بچے اندر چلے گئے، باہر ایک جانب گائیں، بھیسیں، بکریاں بندھی تھیں، چارہ کاٹنے کی مشین لگی ہوئی تھی، ٹریکٹر بھی ایک جانب کھڑا تھا، دو عدد چارپائیاں جن پر صاف ستھری چادریں بچھی ہوئی تھیں، افتخار کے والد اور چچا نے ہمارا استقبال کیا، سادگی، خلوص و محبت کا لازوال اظہار، سلام دعا اور تعارف ہوا، تھوڑی دیر سستانے کے بعد افتخارنے ہم سب کو اپنے کینوؤں کے باغ میں چلنے کو کہا، افتخار کا بھائی مختار اور اس کی چھوٹی بہن سمینہ بھی ہمارے ہمراہ تھے، کینوؤں کے درختوں کے درمیاں پہنچ کر دونوں بچوں نے کینوں توڑنا شروع کر دیے، ہم نے بھی اپنے ہاتھوں سے کینوں توڑ کر اسی وقت کھائے، کراچی کے رہنے والوں کے لیے دیہات کے قدرتی نظاروں کا میسر آ جانا ایک نعمت سے کم نہیں۔ ہم نے خوب خوب کینوں توڑے اور کھائے بھی، کچھ سبزیاں بھی لگی ہوئی تھیں وہ بھی توڑیں، بڑا لطف آیا، واپس گھر آئے، شام ہو رہی تھی، افتخار کے والد نے گدھا کھولا اور زرعی زمین کی جانب چل دئے، تھوڑی ہی دیر میں گدھے پر جانوروں کا چارا لاد کر واپس آئے، چارا اُتارا اور پھر سے واپس چلے گئے، اس طرح انہوں نے کافی چارہ جمع کر لیا، اب گدھے کو اپنی جگہ باندھا اور چارہ کاٹنے والی مشین چلا ئی اور جو چارا وہ لائے تھے اسے کاٹنا شروع کیا، کچھ ہی دیر میں سارا چارا کٹ گیا، اب انہوں نے یہ چارہ جانوروں کے سامنے ڈالنا شروع کیا، تھوڑی دیر میں مختار نے ٹریکٹر اسٹارٹ کیا اور ٹریکٹر لے کر اپنی زمین کی جانب چلا گیا، یقیناً یہ شام کے وقت زمین پر حل چلا نے گیا ہو گا۔ اب ہم گھر میں گئے جہاں پر گرما گرم کھانا ہمارا منتظر تھا، لذیذ و مزیدار کھانا کھا یا، گھر والوں سے اجازت چاہی، افتخار کی امی اور بہن سے سلام دعا ہوئی اور واپسی کا سفر شروع ہوا، افتخار نے گاڑی کی ڈگی میں ڈھیروں کینوں اور سبزیاں رکھ دیں، اسے ہم نے منع بھی کیا لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ دیہات کی زندگی اب بھی بناوٹ اور دکھاوے سے پاک ہے۔ اس میں حسن ہے، سادگی ہے، پیار ہے، محبت ہے، حالانکہ یہ گاؤں اب شہروں کا روپ دھار چکے ہیں، یہاں شہر کی تمام سہولتیں اور آسائشیں فراہم ہیں اس کے باوجود یہاں بناوٹ اور ریاکاری کا عنصر نہیں پایا جاتا۔ افتخار نے بتا یا کہ وہ دونوں بھائی اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے گاؤں میں ایک اسکول بھی کھولا ہوا ہے جہاں پر وہ دونوں بھائی صبح کے وقت مصروف رہتے ہیں۔ افتخار کی بہن میری بیٹی فاھینہ کی دوست بن گئی ہے، گو عمر میں اس چھوٹی ہے یہ اکثر اسے فون کر کے خیریت معلوم کر لیتی ہے، افتخار بھی رابطہ میں رہتا ہے۔
جونیئر کلاس کے ایک اور طالب علم حماد نے بھی دعوت دی، اس کا شادی ہال تھا، دوپہر کی دعوت تھی، میرا ایک شاگرد ارشد مجھے اپنی موٹر سائیکل پر لے گیا، گاڑی ایک شادی ہال کے سامنے روکی میَں نے کہا کہ کیا شادی کا کھانا کھلاؤ گے، اندر گئے تو استقبالیہ پر حماد موجود تھا، پتا چلا کہ یہ شادی ہال اسی کا ہے، اس نے ہماری دعوت اسی شادی کے کھانے میں کی ہے، راجہ مصطفی صاحب کی رہائش شادی ہال کے نزدیک ہی تھی انہیں بھی مدعو کیا تھا وہ بھی آ گئے۔ فاضل صاحب نے، نور مصطفی نے، میاں صاحب نے، ڈاکٹر شمشاد احمد نے الگ الگ الوداعی دعوتوں کا اہتمام کیا۔ شعبہ کی جانب سے الوداعیہ بھی ہوا۔ میری دو شاگرد بہنوں صائیمہ اور سمیۂ نے اپنے گھر دعوت پر بلا یا، اس کی امی اور بھائی بہت خلوص سے ملے۔ واپسی پر صائمہ کے بھائی نے ہاسٹل بھی چھوڑا۔ سب لوگوں کی محبت، خلوص اور عقیدت کو میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔
جامعہ سر گودھا کا ٹیچرز ہاسٹل کا کمرہ نمبر ۵ میرے لیے مختص کیا گیا تھا۔ میَں بائیالوجی کے استاد ڈاکٹر ظفر اقبال کا روم میٹ تھا، ڈاکٹر ظفر اچھے انسان تھے، تحقیق کے آدمی تھے، لکھنا اور چھپنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، ہاسٹل میں ٹیچر کو نیٹ کی سہولتیں میسر تھیں، ظفر صاحب جتنی دیر کمرہ میں ہوتے لیب ٹاپ پر سرچنگ کرتے اور مضامین لکھتے رہتے، میَں اپنے لیب ٹاپ پر مصروف رہا کرتا، دونوں اپنے اپنے بیڈ پر لیب ٹاپ پر مصروف عمل رہا کرتے۔ خاموش طبع تھے، کم سے کم گفتگو کیا کرتے تھے، اتفاق سے میَں بھی ان کا ہم مزاج تھا، ہم دونوں کے درمیان بہت کم جملوں کا تبادلہ ہوا کرتا، لیکن دونوں کو ایک دوسرے سے کبھی شکایت نہیں ہوئی، وہ اردو کم سرائیکی زیادہ بولا کرتے تھے، ان کی فیملی جھنگ میں تھی۔ وہ ہر جمعہ کی دوپہر اپنے گھر چلے جایا کرتے اور پیر کی صبح واپس آیا کرتے تھے، اس دوران میَں کمرہ میں تنہا ہی ہوا کرتا۔ شہر نیا، لوگ نئے، ماحول اجنبی، البتہ خالصتاً علمی۔ زندگی کا پہلا تجربہ تھا گھر سے باہر رہنے کا وہ بھی ہاسٹل لائف۔ اکثر احباب سے سنا کرتا تھا کہ ہاسٹل لائف عام زندگی سے مختلف ہوتی ہے۔ میَں شام پانچ بجے تک شعبہ میں رہتا، عصر کے وقت شعبہ سے واپس ہاسٹل آتا اور عصر کی نماز کے لئے مسجدچلا جاتا اور پھر کیمپس کے پر فضا ماحول میں کھو جایا کرتا۔ جامعہ سرگودھا کا عین وسطی حصہ خوبصورت منظر پیش کرتا ہے ، اس میں وسیع و عریض سر سبز کھیل کے میدان، جن کے گرد لہلہا تے درخت حسین نظارہ پیش کرتے اور شام کے اوقات میں ان میدانوں میں طلبہ ہر قسم کے کھیلوں میں مصروف نظر آتے۔ ان میدانوں کے چاروں اطراف صاف ستھری سڑکیں صبح و شام جاگنگ ٹریک بنی ہوتی تھیں ،جہاں ہر عمر کے لوگ دوڑتے اور چہل قدمی کر تے نظر آتے۔ میَں بھی اس حسین منظر نامے کا حصہ بن گیا تھا۔ ٹیچرز ہاسٹل میں زمینی منزل پر ہمارے علاوہ کمرہ نمبر ۲ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب رہتے تھے، ڈاکٹر صاحب شعبہ اردو کے چیِر مین تھے، اردو کے معروف ادیب، شاعر اور دانشور بھی، کمرہ نمبر۳ میں ڈاکٹر ارشد جن کا تعلق عارف والا سے تھا، رہا کرتے تھے۔ پہلی منزل پر ڈاکٹر شاہد راجپوت، ڈاکٹر دانش اور دیگر احباب تھے، ہمارے برابر میں ’’فارن فیکلٹی ہاسٹل‘‘ تھا جس میں فاضل صاحب اور نور مصطفی، ڈاکٹر عبدالرشید رحمت، ڈاکٹر ڈوگر اور دیگر کی رہائش تھی۔ میَں مغرب کی نماز پڑھ کر واپس ہاسٹل کا رخ کیا کرتا تو باہر کھلی فضا میں کرسیاں رکھی ہوا کرتیں اور ایک کرسی پر عام طور پر ایک صاحب کو مستقل بیٹھا ہوا دیکھا کرتا، میرے ہی ہم عمر تھے۔ میَں انہیں دور ہی سے سلام کر دیا کرتا وہ مجھے اسی طرح جواب دے دیا کرتے۔ اکثر احباب ان کے پاس آ کر بیٹھتے اور چلے جاتے ، لیکن یہ مستقل مزاجی سے اپنی نشست پر براجمان رہتے۔ ایک دن ڈائینگ ٹیبل پر ناشتہ کرتے ہوئے تفصیلی تعارف ہوا۔ جب میَں نے انھیں یہ بتا یا کہ میرا تعلق کراچی سے ہے اور میَں ڈاکٹر محمد فاضل کے شعبہ میں استاد کی حیثیت سے آیا ہوں، عمر تو کراچی میں گزری، لیکن پنجاب کا شہر میلسی میری جنم بھومی ہے۔ انہوں نے بھی اپنا تعارف کرایا کہ میرا نام طاہر تونسوی ہے شعبہ اردو کا چیئر مین ہوں۔ اب ہم ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ گئے۔ دور دور کے سلام قربتوں کے سلاموں میں بدل گے ، ساتھ ہی میَں باقاعدگی سے ان کی شام کی محفل کا مستقل حصہ بن گیا اور گرمیوں کی شامیں ایک ساتھ گزرنے لگیں ، حتیٰ کہ گرم شامیں سرد شاموں میں تبدیل ہو گئیں اور یہ بھی فرق ہوا کہ یہ محفل کھلی فضاء کے بجائے میرے کمرے میں سجنے لگی۔ اس محفل میں ہمارے شریک ڈاکٹر ظفر اقبال اور ڈاکٹر عبدالرشید رحمت بھی ہوتے، ڈاکٹر ظفر بائیالوجی میں اور ڈاکٹر عبدالرشید رحمت، ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرنگ تھے، ڈاکٹر صاحب کے رفیق کار ڈاکٹر خالد ندیم بھی اس محفل کے شریک ہوتے۔ کبھی کبھار ڈاکٹر شاہد راجپوت جو ہمارے ہا سٹل کے میں سیکریٹری تھے شریک محفل ہو جا یا کرتے۔ سردیاں اپنی بہاریں دکھا رہی تھی، سوچتا ہوں کہ اگر کمرہ میں ھیٹر نہ ہوتا تو ہمارا کیا حال ہوتا، میَں اور تونسوی صاحب مغرب کی نماز کے بعد سے رات گئے تک محفل سجائے رکھتے، ڈاکٹر ظفر عام طور پر رات کا کھانا کھانے کے بعد دوسرے ہاسٹل میں اپنے دوستوں کے پاس چلے جاتے، ڈاکٹر عبدالرشید رحمت نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ وہ مغرب کی نماز پڑھ کر ہمارے کمرہ میں آ جایا کرتے اور مختلف موضوعات پر گفتگو جاری رہتی، آج بھی جب کبھی وہ دن یاد آتے ہیں تو ایک فلم ذہن میں چل جاتی ہے اور ساری باتیں، سارے واقعات اور وہ حسین لوگ ایک ایک کر کے نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ ترکی کے انقلابی شاعر نا ظمؔ حکمت کا شعر فیض احمد فیضؔ نے ترجمہ کیا:
مری جاں تجھ کو بتلاؤں ، بہت نازک یہ نکتہ ہے
بدل جاتا ہے انسان، جب مکاں اس کا بدلتا ہے
جامعہ کے ٹیچرز ہاسٹل میں میس کا انتظام ہاسٹل کے مکینوں کو از خود کرنا ہوتا تھا، جامعہ کی طرف سے ڈائننگ روم، کچن اور ایک عدد کک کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ نذر حسین ہمارا کک تھا، سابق فوجی تھا، برد بار اور اچھی عمر تھی، کھانا ٹھیک ہی پکا یا کرتا تھا۔ خاص طور پر مکس سبزی، کڑھی، کریلے جن میں کڑواہٹ نام کو بھی نہ ہوتی تھی اور آلو بھرے پراٹھے، میس سیکریٹری شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر شاہد راجپوت تھے، ان کا گھر اسلام آباد میں تھا۔ وہ اکثر جمعرات کو اپنے گھر اسلام آباد چلے جاتے، اسی طرح وہ احباب جن کی فیمیلیز سرگودھا کے قرب و جوار میں تھیں وہ بھی اپنے اپنے گھروں کو سدھار جاتے، ہاسٹل میں میرے اور ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب کے علاوہ شاید ہی کوئی اور ہوا کرتا۔ شاہد راجپوت صاحب کی غیر موجودگی میں ہمارا کک یہ سمجھتا کہ اب اس کی بھی چھٹی ہے وہ ان احباب سے پہلے اپنے گھر روانہ ہو جاتا، گویا ہفتہ کے تین دن جمعہ، ہفتہ اور اتوار ہمارے میس میں کھانے کی چھٹی ہونے لگی، ہمارے لیے یہ مشکل تھا کہ کیمپس کے باہر کھانا کھانے جایا کریں وہ بھی سخت سردی میں۔ اس حوالہ سے ڈاکٹر خالد ندیم اور طارق کلیم کی محبت اور خبر گیری کو کبھی بھلا یا نہیں جا سکتا، سخت سردی میں یہ دونوں صاحبان موٹر سائیکل پر رات گئے کھانا لیے آیا کرتے، ان کے مزیدار کھانے بہت یاد آتے ہیں، خاص طور پر ساگ کا لطف میَں آج بھی محسوس کر سکتا ہوں۔
ڈاکٹر خالد ندیم شعبہ اردو، جامعہ سرگودھا میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، تخلیقی سوچ رکھتے ہیں، لکھنا پڑھنا ان کا محبوب مشغلہ ہے، متعدد مضامین ادبی رسائل میں شائع ہو چکے ہیں، ان کی ایک کتاب بھی منظر عام پر آ چکی ہے، لکھاریوں کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ سر گودھا میں قیام کے دوران خاکہ نویسی پر میری خاص توجہ رہی، شاید ماحول کا اثر تھا، ڈاکٹر طاہر تونسوی اور عبد الوہاب خان سلیم پر ہاتھ صاف کیا اور ان کے خاکے قلم بند کیے، دونوں خاکے شائع ہو چکے ہیں۔ تیسرا خاکہ اپنی ہم پیشہ فرخندہ لودھی کا لکھنا شروع کیا، جو اردو و پنجابی ادب کی معروف لکھاری بھی تھیں، مجھے فرخندہ لودھی پر مواد درکار تھا، یونیورسٹی کے مرکزی لائبریری سے مجھے کچھ نہ مل سکا، ایک دن میَں نے ڈاکٹر خالد ندیم کو فون کیا اور مدعا بیان کیا، لمحے بھرکو سوچا اور گویا ہوئے، کچھ کچھ ذہن میں آ رہا ہے، میں آپ کو ابھی تھوڑی دیر میں فون کرتا ہوں۔ مشکل سے پانچ منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے میرے موبائل پر گھنٹی بجی، ڈاکٹر خالد ندیم گویا ہوئے آپ کا مطلوبہ مواد مجھے مل گیا، میں کچھ ہی دیر میں آپ کے ہاسٹل آتا ہوں۔ میں نے کہا میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ فروری کا مہینہ، سردی اپنی بہاریں دکھا رہی تھی، سورج غروب ہونے کے بعد تو سردی زیادہ ہی شدید ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سردی کی پروا نہ کرتے ہوئے میرے کمرہ میں آ موجود ہوئے۔ کہنے لگے لیجئے آپ کی مشکل انشاء اللہ آسان ہو جائے گی، یہ کہہ کر انہوں نے بڑے سائز کا ایک ضخیم مجلہ میرے ہاتھ میں تھمایا، یہ تھا ’’مجلہ راوی ۲۰۱۰ء‘‘جی سی یونیورسٹی لاہور کا خصوصی مجلہ، اس مجلہ میں گوشہ میر تقی میرؔ، گوشہ ن۔ م۔ راشدؔ، گوشہ ڈاکٹر عبدالوحید قریشی، گوشہ ڈاکٹر وزیر آغا کے علاوہ ’’گوشہ فرخندہ لودھی ‘‘ بھی تھا۔ اس لمحہ میری خوشی کی انتہا نہ رہی، میری ایک ہم پیشہ کے بارے میں یہ گوشہ مرحومہ کی علمی و ادبی خدمات کا کھلا اعتراف تھا،ا سی لمحہ مجھے احساس ہوا کہ اب میَں یقیناً فرخندہ کو خراجِ تحسین پیش کر سکوں گا اور ایسا ہی ہوا، میَں نے فرخندہ پر اپنا خاکہ مکمل کر لیا۔ ڈاکٹر خالد ندیم کی عنایتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔
اس موقع پر طارق کلیم اور اس کی محبتوں اور عنایتوں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی، یہ ڈاکٹر تونسوی صاحب کے ایم فل کے شاگرد تھے انہوں نے تونسوی صاحب کے ساتھ ساتھ میرا اتنا ہی خیال رکھا جتنا وہ ڈاکٹر تونسوی کا رکھا کرتے تھے، گویا’ تمہیں چاہیں تمہارے چاہنے والوں کو چاہیں والی صورت تھی ،۔ خوب اچھے اچھے اور لذیز کھانے کھلائے، یہ بھی سخت سردی میں موٹر سائیکل پر رات گئے آیا کرتے تھے، اسکول میں استادتھے، اکیڈمی میں بھی پڑھاتے تھے، صحافت سے بھی منسلک تھے، شاید اے آر وائی سے وابستہ تھے، مصروفیات کے با وجود اس قدر خیال، طارق کلیم کے ایک اور عمل کو میَں کبھی بھلا نہیں سکوں گا، اپنے استاد ڈاکٹر تونسوی کے فرمانبردار تو تھے ہی اپنے استاد کے دوست کے ساتھ بھی ان کی مہربانیاں اس بات کا واضع ثبوت ہیں کہ ان کی تربیت اچھے ہاتھوں میں ہوئی ہے، ہوا یہ کہ سرگودھا میں قیام کے دوران میرے دانت میں تکلیف شروع ہو گئی جو بڑھتی ہی گئی، تونسوی صاحب نے طارق کلیم سے کہا کہ وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں، طارق کلیم نے اگلے ہی دن آنے کے لیے کہا، وہ طے شدہ وقت پر آ گئے مجھے اپنے ہمراہ ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے، ڈاکٹر صاحب نے دانت دیکھا اور کہا کہ اس کا علاج یہی ہے کہ اسے نکال دیا جائے ورنہ یہ آپ کو مسلسل پریشانی میں مبتلا رکھے گا، تین دن کی دوا لکھ دی، اب مجھے تین دن بعد پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس جانا تھا، طارق کلیم پھر طے شدہ وقت پر میرے شعبہ میں آ موجود ہوئے، وہ مجھے پھر اُن ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے، میرا دانت نکال دیا گیا، ڈاکٹر صاحب نے نہ تو پہلے فیس لی اور نہ ہی دوبارہ حالانکہ میَں نے طارق کلیم کو اشارہ بھی کیا جسے ڈاکٹر صاحب نے محسوس کر لیا کہنے لگے اشارے نہیں چلیں گے، بس ٹھیک ہے، ڈاکٹر صاحب طارق کلیم کے دوستوں میں سے تھے، جماعت اسلامی سے تعلق تھا، طارق کلیم نے بتا یا کہ انہوں نے گزشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر سرگودھا سے الیکشن بھی لڑا تھا اور کم ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ اچھے ڈاکٹر تو ہیں ہی ساتھ ہی نیک انسان بھی ہیں، انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ جامعہ سرگودھا میں استاد ہوں تو زیادہ محبت سے ملے۔
گرمیاں تھیں، میَں اور ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب ہاسٹل کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے تھے، مغرب کے بعد کا وقت رہا ہو گا، فضاء میں زور دار دھماکہ ہوا، ساتھ ہی آسمان پر آگ کا گولا بھی ایک جانب سے دوسری جانب جاتا ہوا دکھا ئی دیا، ہم دوڑ کر اپنے کمرہ میں چلے گئے، ان دنوں پورا ملک دھماکوں اور خودکش حملوں کی لپیٹ میں تھا، سب لوگ پریشان تھے کہ یہ کس قسم کا دھماکہ ہوا ہے، اتنے میں کراچی سے فون آیا کہ ٹیلی ویژن پر پٹی چل رہی ہے کہ سرگودھا میں بم بلاسٹ ہوا ہے، میَں نے بتا یا کہ تا حال یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ دھماکہ کس قسم کا ہے البتہ دھماکہ ضرور ہوا ہے، ہم خیریت سے ہیں۔ رات میں اطلاع ملی کے دھماکے کی وجہ بم بلاسٹ نہیں تھا بلکہ سرگودھا ایئر بیس سے ایف ۱۶ طیارے نے اپنی رفتار کو آواز سے تیز تر کیا یعنی (Sound barrier)عبور کیا جس کے باعث فضاء میں زور دار دھماکہ ہوا۔ یہ بات میرے علم میں پہلی بار آئی تھی کہ جب جہاز ساؤنڈ بیرئیر کراس کرتا ہے تو زور دار دھماکہ ہوتا ہے۔
حیات ہوٹل سرگودھا کے شاعروں اور دانشوروں کا مرکز بھی ہے، غالباً اس کے مالک ادبی ذوق رکھتے ہیں اور ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے قدر داں ہیں، یہاں ادبی محفلوں کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔ ایک دن ڈاکٹر تونسوی صاحب نے کہا کہ آج محفل مسالمہ ہے اس میں جانا ہے، کہنے لگے کہ اگر آپ نے امام حسین کی شان بھی کچھ کہا ہے تو آپ کو بھی موقع مل سکتا ہے، میَں نے کہا کہ میَں صرف آپ کو اور دیگر احباب کو سنوں گا، مغرب کی نماز کے بعد ہم حیات ہوٹل پہنچ گئے، ایک چھوٹے سے کمرہ میں محفل مسالمہ کا اہتمام کیا گیا تھا، شاعر حضرات پہنچ گئے تھے، سب نے امام عالی مقام کی شان میں نذرانہ عقیدت پیش کیا، ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب، عابد خورشید نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ دیگر شعراء میں مرتضیٰ حسن، ذوالفقار احسن، طارق حبیب، آصف راز، اخلاق عاطف کے علاوہ صاحبزادہ پروفیسرعبدالرسول صاحب بھی موجود تھے انہیں پہلی بار قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، سرگودھا کی تاریخ پر ان کی تحریر کردہ کتاب سے میَں استفادہ کر چکا تھا۔
جامعہ سرگودھا سے میری واپسی ایک ماہ قبل ہی طے ہو چکی تھی، کنٹر کٹ کے مطابق میَں نے ایک ماہ قبل انتظامیہ کو مطلع کر دیا کے ۲۸ فروری ۲۰۱۱ء جامعہ میں میرا آخری ورکنگ ڈے ہو گا، ایسا ہی ہوا، یہ بات عام ہوئی کہ میَں جامعہ چھوڑ کر جا رہا ہوں تو میرے کرم فرماؤں نے مجھے روکنے کی کس کس طرح درخواست نہیں کی، میرے دل میں ان سب کے لیے بہت احترام ہے، میرے عزیز طلبہ نے اجتماعی طور پر اور فرداً فرداً مجھ سے کہا کہ میَں اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کروں، میَں ان سب کو اپنی مجبوریاں بتا تا رہا۔ میرے بعض طلبہ نے پروگرام بنا یا کہ وائس چانسلر صاحب کے پاس جا کر احتجاج کیا جائے، یہ بات میرے علم میں آئی تو میَں نے ان طلبہ کو بہت سمجھا یا اور انہیں ایسا نہ کرنے کی تاکید کی، یہ مجھ سے محبت تھی، جمعہ کی نماز میں وائس چانسلر صاحب کے پی اے جناب مقصود صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے فرمایا کے میرے پاس بعض لوگوں کے فون آئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم صمدانی صاحب کو نہ جانے دیں اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں فیملی رہائش فراہم کریں، یہ میرے چاہنے والوں کی مجھ سے محبت تھی، احمد شاہ صاحب جو لائبریری میں تھے انہوں نے بھی مجھے بار ہا فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کی، جب میَں نے انہیں اپنی مجبوری بتائی تو وہ مجھے سرگودھا شہر میں کئی مکان کرائے کے دکھانے کے لیے لے گئے، میَں ان کی اس محبت کو کبھی نہ بھلا سکوں گا، میَں نے وائس چانسلر صاحب کے پی اے مقصود صاحب سے کہا کہ یہ مجھ سے محبت کرنے والوں کی مجھ سے چاہت ہے، میَں اس کی قدر کرتا ہوں، میرا نوٹس پیریڈ چل رہا تھا، وائس چانسلر صاحب اچانک لائبریری اور شعبہ میں آ گئے، فاضل صاحب چھٹی پر تھے اور میَں قائم مقام چیِر مین تھا، وائس چانسلر صاحب نے شعبہ کے مختلف حصے اور وہ کمرے دیکھے جو میڈیکل کالج کے لائبریری بلڈنگ سے منتقل ہو جانے کی صورت میں خالی ہوئے تھے، میَں وائس چانسلر صاحب کو تفصیل بتا تا رہا، وائس چانسلر صاحب کے علم میں یہ بات تھی کہ فاضل صاحب چھٹی پر بہاولپور گئے ہوئے ہیں۔ جب وائس چانسلر صاحب واپس جانے کے لیے لائبریری سے باہر آئے تو میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گئے، کہنے لگے ۲۸ فروری کو آپ جا رہے ہیں، اگر آپ رہائش کی وجہ سے جا رہے ہیں تو ہم آپ کو یہ رہائش فراہم کر دیتے ہیں، پھر انہوں نے اپنے پی اے کو اشارہ کیا اور کہا کہ صمدانی صاحب کو رہائش فراہم کریں، جب وہ یہ سب کچھ کہہ چکے تو میَں نے احترام سے عرض کیا کہ سرمجھے بعض مجبوریوں کے باعث جانا ہی ہو گا، آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے موقع فراہم کیا کہ میَں جامعہ میں آ سکا، آپ کی اس عنایت کا بھی شکریہ۔
جامعہ سرگودھا کے شعبہ اردو نے سر گودھا جیسے شہر میں عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں پاکستان ہی نہیں ، ہندوستان، بنگلہ دیش، مصر، امریکہ سے دانشوروں نے بھر پور شرکت کی۔ کراچی سے سحر انصاری اور جامعہ کراچی کے ڈاکٹر ظفر اقبال نے شرکت کی، ان احباب سے ملاقات بھی ہوئی، سرگودھا کہنے کو تو شاہینوں کا شہر ہے ،لیکن عوام الناس کے لیے ائر پورٹ کی سہولت سے محروم ہے، یہاں پہنچنے کے لیے اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد سے تین گھنٹے کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ اس مشکل کے باوجود عالمی اردو کانفرنس میں مندوبین نے بھر پور شرکت کی، مجھے بھی اس کانفرنس میں شریک ہونے کا موقع ملا، کئی سیشنز ہوئے جن میں ماہرین نے مقالات پیش کیے، مشاعرہ بھی ہوا، شاعروں نے خوبصورت کلام پیش کر کے داد وصول کی۔ پروفیسرڈاکٹر محمد اسلمؔ انصاری کے دو خوبصورت شعر یاد رہ گئے ؎
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھُلا یا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں
اپنے دوست ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب کی فرمائش پر میں نے اس کانفرنس کی تفصیلی روداد قلم کی، یہ روداد کراچی سے شائع ہوئے والے ادبی جریدہ ’’نگار پاکستان‘‘ کی اشاعت فروری ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی۔
میَں نے جامعہ سرگودھا کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا، میرے سامنے دو راستے تھے ایک یہ کہ دو ماہ کی چھٹی لے لی جائے یا پھر استعفیٰ دے دوں، مجھے وزٹ ویزا پر سعودی عرب جانا تھا، چھ ماہ سے پہلے میری واپسی ممکن نہیں تھی، چھٹیاں لینے کی صورت میں مجھے بار بار اپنی چھٹی بڑھوانا پڑتی، اس صورت میں طلبہ کا بھی نقصان ہوتا اور فاضل صاحب سے تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ تھا، فاضل صاحب لاکھ دوست صحیح مگر آفیسر پھر آفیسر ہوتا ہے، میں ان کے لیے مشکلات پیدا کرنا نہیں چاہتا تھا چنانچہ فیصلہ کیا کہ استعفیٰ دے دیا جائے، یکم فروری کو میں نے ایک ماہ کا نوٹس دے دیا، مجھے ۲۸ فروری کے بعد میں جامعہ سے رخصت ہونا تھا۔ میرے دوست ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب یکم فروری کو سرگوددھا سے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد چلے گئے، ایک ماہ ہاسٹل میں گزارنا میرے لیے مشکل ہو گیا۔ اس دوران میَں الوداعی دعوتیں کھاتا رہا جن کا ذکر اوپر کر چکا ہوں۔ میں یکم مارچ کو واپس کراچی آ گیا۔ سرگودھامیں گزرے میرے شب و روز میری زندگی کا قیمتی اور یادگار سرمایہ ہیں۔ انہیں میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔ اپنی ان یادوں کو سعودی عرب کی سر زمین میں جمع کرنے کا موقع ملا، یہ میرے لیے اور بھی اعزاز ہے۔
جدہ، سعودی عرب ۲۰ اکتوبر۲۰۱۱ء، ۲۲ذیعقد ۱۴۳۲ء
میں نے موت کو قریب سے دیکھا
(رپور تاژ)
مئی ۲۰۱۰ء کے ابتدائی دنوں میں مجھے سرگودھا یونیورسٹی کی جانب سے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے تقر ر نامہ موصول ہوا، میں اس کے لیے پہلے سے تیار تھا چنانچہ میں نے کراچی سے رخت سفر باندھا، ۱۰ مئی کے لیے شاہین ائر لائن سے لاہور کے لیے سیٹ ریزرو کرالی، یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا لیکن ایک بڑے مقصد کے لیے کیا گیا۔ کراچی کے تمام معاملات کو تیزی سے سمیٹا، گھروالوں کو اپنے اس فیصلہ پر تیار کیا جس کے لیے مجھے کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی البتہ میری شریک سفر شہناز زیادہ فکر مند اور پریشان تھیں، لیکن اس بنا پر کہ مجھے جو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے مجھے اس کو لبیک کہنا چاہیے وہ بھی خوشی سے مجھے خدا حافظ کہنے پر تیار ہو گئیں۔ میری بیٹی جو لاہور میں کئی سالوں سے مقیم ہے اس خبر پر خوش تھی کیونکہ اس فیصلہ پر عمل کی صورت میں اس کے والدین مستقبل میں اس کے نزدیک ہو رہے تھے۔ پیر ۱۰ مئی نے دستک دی، تیاری مکمل ہوئی، خوشی خوشی ائر پور پورٹ پہنچ گیا۔ شہناز، مہوش (میری بڑی بہو)، ڈاکٹر نبیل، ڈاکٹر ثمرہ (میری چھوٹی بہو) میرا ہر دلعزیز پوتا صائم عدیل مجھے ائر پورٹ خدا حافظ کہنے میرے ساتھ تھے، بعد از آں میرا بڑا بیٹا عدیل بھی اپنے آفس سے ائر پورٹ آ گیا۔ جیسے جیسے اپنوں سے رخصت ہونے کا وقت قریب آ رہا تھا، میں اندر ہی اندر اپنے آپ کو کمزور محسوس کر رہا تھا۔ جذبات کو قابو رکھنا مشکل ہو رہا تھا، میں کسی سے کچھ بھی نہ کہہ سکا، محسوس ہوا جیسے میری آواز بند ہو گئی ہے، کوشش کی کے کچھ بول سکوں مگر الفاظ نہ نکل سکے۔ مشکل سے آنسوؤں کو روک سکا پھر بھی انہوں نے میرا ساتھ نہ دیا، بند گلے، بھیگی آنکھوں اور افسردہ چہرے کے ساتھ خاموشی سے اپنوں کو ایک ایک کر کے گلے لگا یا، اپنے پوتے صائم کو ایک سے زیادہ بار پیار کیا، دل چاہ رہا تھا کہ اسے اپنے سینے سے جدا نہ کروں، مجھے سب سے زیادہ صائم سے بچھڑ نے کا افسوس تھا اور رہے گا۔ سامان کی ٹرالی کو دھکا دیتا ہوا، نیچی نگاہ کیے اپنی آئندہ منزل کی جانب چل دیا۔ بورڈنگ کارڈ لے کر لاؤنج کی جانب چلا، دل بیٹھا جا رہا تھا، سر بوجھل تھا، پھر بھی بھاری قدموں سے لاؤنج کی طرف بڑھا، ائر پورٹ کے مرکزی دروازہ کے ساتھ رنگین شیشے کے پیچھے لائن سے میرے جگر گوشے کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے، میں نے بھی ان کی جانب دیکھا، لیکن نظر نیچے کر کے ہاتھ ہلا تا رہا، مجھ میں انہیں دیکھنے کی تاب نہ تھی، میرا پوتا صائم اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے مجھے خدا حافظ کر رہا تھا۔ اس کی اس ادا نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا، میں نے سوچا کہ کہیں میں نے غلط فیصلہ تو نہیں کیا، میں نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر سب کو غور سے دیکھا ایک ایک کر کے سب کو دعا دی، خدا حافظ کہا اور آگے کی جانب بڑھ گیا۔
جنت نگاہ شہر کراچی کو جہاں میرا سنہرا بچپن گذرا، رسیلی جوانی کی بہاریں پھلی پھولیں اور پھر بڑھاپے کی دہلیز پر بھی اسی شہر میں قدم رکھا۔ اس کی رونقوں کو، بہاروں اور محفلوں کو، دوستوں کو، عزیزوں کو، پیاروں کو الغرض ہر ایک کو چھوڑنے پر آمادہ ہو گیا۔ وسیم فاضلی کے یہ اشعار میرے جذبات کی کچھ عکاسی کر رہے تھے ؎
مجھ کو مت روک کہ ترے لیے جانا ہے مجھے
تجھ سے جو سیکھا ہے، دنیا کو سیکھا نا ہے مجھے
اپنا غم کیا ، غمِ دوراں کو مٹانا ہے مجھے
اب میں جاتا ہوں میرے گلشنِ امید سلام
جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھا، بیلٹ کسی، موبائل پر ایک بار پھر شہناز کو خدا حافظ کہا، اسی دوران لاہور سے میری بیٹی فاھینہ کا بھی فون آیا اسے بھی اپنے پہنچنے کی اطلاع دی۔ فضائی میزبان نے سفر کی دعا پڑھی اور اعلان کیا کہ ہم انشاء اللہ ۳۳ ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے ایک گھنٹہ چالیس منٹ میں لاہور پہنچیں گے۔ کیپٹن اسد بھٹ ہمارے جہاز کا ناخدا تھا۔ میں ذہن کو دوسری جانب مائل کرنے کے لئے مضامین کی پروف ریڈنگ میں مصروف ہو گیا، میرے اس عمل نے میرے خیالات کو مختلف سمت منتقل کر دیا، بیشتر وقت مضامین کی پروف ریڈنگ میں گزر گیا۔
جہاز کی پرواز ہموار ہوئی تو ہوائی میزبانوں نے تواضع کا اہتمام شروع کیا، طبیعت کھانے کی طرف بالکل مائل نہیں تھی، بس منزل پر پہنچنے کی جلدی تھی۔ ذہن میں بار بار تمام لوگوں کے افسر دہ چہرے آ رہے تھے، آنکھ میں آئے ہوئے آنسوؤں کو خاموشی سے پونچھتا رہا، اپنے آپ کو یہ تسلی دیتا رہا کہ یہ میرا اپنا فیصلہ ہے اور اپنی خوشی سے کیا ہے۔ یہ فیصلہ میں نے ایک عظیم مقصد کے لیے کیا اسی کے لیے میں اپنے بسے بسائی اور ہر طرح کی سہولتوں سے مزین گھر کو خیر باد کہہ رہا ہوں۔ میرے پیش نظر ملازمت کا حصول یا اس سے ملنے والی رقم ہر گز ہرگز نہیں تھی۔ میں تمام زندگی قناعت پسند رہا ہوں اور اس اصول پر عمل پیرا بھی کہ انسان کو اتنے ہی پیر پھیلانے چاہیں جتنی بڑی چادر ہو۔ الحمد للہ میری تمام زندگی بہت خوش گوار اور مطمئن رہی۔ میں تو اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری کی لاج رکھنا چاہتا ہوں جو قدرت نے مجھے انتھک محنت اور کوششوں کے بعد عطا کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ابھی مجھ میں اتنی ہمت اور حوصلہ ہے کہ میں اپنے علم سے دوسروں کو فیض یاب کر سکوں۔ جامعہ سر گودھا میں میرا بحیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر تقرر میرے لیے ایک اعزاز تھا، میں اس اعزاز کی ہر صورت میں تکریم چاہتا تھا۔ باوجود اس کے کہ سرگودھا جو شاہینوں کا شہر کہلاتا ہے، عوام الناس کے لیے ائیر پورٹ کی سہولت سے بھی محروم ہے۔ جب کہ میں اپنی کمر کی تکلیف کے پیش نظر ریل یا بس کے ذریعہ طویل سفر نہیں کر سکتا، مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ مجھے لاہور یا فیصل آباد تک ہوائی سفر کرنا ہو گا اس کے بعد بذریعہ بس (ڈیووDeawo )تقریباً ڈھائی گھنٹے کاسفر کرنا ہو گا۔ ان سب قباحتوں کے باوجود میں نے اس اعزاز کے حصول کو اپنا مقصد بنا یا۔ میں اپنی سیٹ پر بیٹھا کبھی افسر دہ ہو جاتا اور کبھی اپنے فیصلہ پر اطمینان کا اظہار کرتا رہا۔ میری آنکھیں بار بار آنسوؤں سے بھر جاتیں اور میں راز داری سے انہیں پونچھ لیتا، بار بار آنسوؤں کو سمجھاتا رہا لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی۔ بقول میر دردؔ ؎
کرتا رہا میں دیدۂ گریا کی احتیاط
پر ہو سکی نہ اشک کے طوفاں کی احتیاط
کیپٹن اسد بھٹ پرواز کی انتہائی بلندی پر ہوائی جہاز کو اپنی منزل کی جانب تیزی سے لیے جا رہا تھا، فضاء میں سکوت تھا، خاموشی چھائی ہوئی تھی، مسافرکھا پی کر غنودگی میں چلے گئے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ فضائی میز بان اعلان کرے گی کہ خواتین و حضرات ہم تھوڑی ہی دیر میں لاہور کے علامہ اقبال انٹر نیشنل ائر پورٹ پر اترنے والے ہیں، وقت قریب آ رہا تھا، ہوائی جہاز کی کھڑکیوں سے نیچے کی جانب بہت ہی معمولی معمولی روشنیاں محسوس ہو رہی تھیں، محسوس ہوا کہ جہاز نے بلندی سے نیچے کی جانب رخ کیا، گویا لینڈنگ کی ابتدا کی، اس کے ساتھ ہی فضاء میں شدید شور بپا ہو گیا، جہاز کبھی دائیں اور کبھی بائیں ڈولنے لگا، ہوائی جہاز کی کھڑکیوں سے باہر کی جانب آسمانی بجلی شدید طریقے سے اپنے جوہر دکھا رہی تھی، ہوا انتہا ئی تیز چل رہی تھی، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ہم کسی ایسی گاڑی میں سفر کر رہے ہیں جو انتہائی تیز چل رہی ہو اور وہ گاڑی بغیر ٹائر کے ہو، تمام مسافر اس صورت حال میں بوکھلا کر رہ گئے، اللہ ہو اکبر، کلمہ طیبہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں، چند ہی لمحوں میں کپتان جہاز کو بلندی جانب لے گیا، اس نے محسوس کیا کہ فضاء نا ہموار ہے، اس عمل سے غیر یقینی کی کیفیت ختم ہو گئی، لیکن چند لمحوں بعد ہی جہاز کو دوبارہ لیڈنگ کی غرض سے نیچے لا یا گیا، وہی کیفیت دوبارہ شروع ہو گئی، نا معلوم کیوں کپتان نے اس عمل کوتیسری بار بھی دھرایا، ایسا لگتا تھا کہ وہ ہر صورت میں ہوائی جہاز کو لاہو رہی میں لینڈ کرنا چاہتا ہے۔ تیسری بار جب یہی صورت حال ہوئی تو مسافروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، ہر ایک کی زبان پر کلمہ طیبہ تھا، آنکھیں بند کر کے بلند آواز سے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا، یہ وہ وقت تھا جب ہم نے موت کو بہت نزدیک سے دیکھا، جہاز میں انتہائی شور برپا تھا، لوگوں نے چلانا شروع کر دیا، کپتان سمیت عملے کی بے حسی کا یہ عالم کہ کوئی کچھ بتا نے کو تیار نہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ بالا آخر کپتان جہاز کو لاہور شہر پر بلندی پر لے گیا، جس کے باعث جہاز کی استقراری کیفیت میں ٹھہراؤ آ گیا، مسافروں نے شکر کا سانس لیا، فلائٹ نارمل ہو گئی، جہاز کی رفتار وہی تھی، جو روشنیاں نظر آئی تھیں وہ نظر آنا بند ہو گئیں، اب فضائی میزبان نے اعلان کیا کہ خواتین و حضرات لاہور میں موسم خراب ہونے کے باعث پرواز نا ہموار ہو گئی تھی، تاہم یہ صورت حال غیر متوقع نہیں تھی، پریشانی کی کوئی بات نہیں، اب بھی اس نے یہ نہیں بتا یا کہ اب ہمارا سفر کس جانب ہے۔ یہ اعلان کر کے وہ خاموش ہوئی، جہاز مسلسل مائل با پرواز تھا، اب تک تو جہاز کو لاہور میں اتر جانا چاہیے تھا، لیکن نہیں معلوم ہم کہاں جا رہے ہیں، سفر طویل ہوتا جا رہا تھا، رات کے ۱۰ بج چکے تھا، جہاز اندھیری فضاء میں مسلسل دوڑے چلے جا رہا تھا، ساڑے دس بجے محسوس ہوا کہ جہاز کسی شہر کے اوپر پرواز کر رہا ہے، روشنیاں نظر آنے لگیں، خیال تھا کہ لاہور کا موسم کچھ بہتر ہو گیا ہے اور ہم جلد اپنی منزل کو پا لیں گے۔ جہاز نے لینڈنگ کی ابتدا کی، کسی قسم کی کوئی بات محسوس نہیں ہوئی، اس دور ان فضائی میزبان نے اپنا مائیک کھولا اور بناوٹی آواز سے گویا ہوئی’ خواتین و حضرات ہم بے نظیر بھٹو انٹر نیشنل ائر پورٹ پر اتر نے والے ہیں ـ،۔ سب مسافر حیران و پریشان کہ ہم لاہور کے بجائے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اللہ کا شکر بھی ادا کیا کہ اللہ نے ہمیں دوسری زندگی دی، اکثر عورتیں یہ کہتی ہوئی سنائی دیں کہ اس جہاز میں کوئی نیک انسان سفر کر رہا ہے، بے شک کچھ اسی قسم کا معاملا رہا ہو گا، اللہ نے ہم سے ابھی کچھ کام لینا ہوں گے، کہتے ہیں کہ موت کا ایک دن معین ہے، آج ہمارے لیے وہ دن نہیں آیا تھا، یہ تو ایک جھٹکا تھا، جو قدرت نے دیا، یہ ہمارے لیے ایک پیغام تھا کہ اب بھی وقت ہے ہم اپنے برے اعمال سے توبہ کر لیں۔ اللہ نے بڑا کرم کیا، تھوڑی دیر تو مسافروں کو جہاز ہی میں رکھا گیا ، جب یہ فیصلہ ہوا کہ فوری طور پر لاہور جانا مناسب نہیں تو ہمیں جہاز سے لاؤنج میں منتقل کر دیا گیا جہاں پر اکثر مسافر سجدہ شکر ادا کرتے نظر آئے۔
اسلام آباد ائر پورٹ لاؤنج میں رات کے بارہ بج رہے تھے، منزل کی جانب سفرکے آثار دور دور نظر نہیں آ رہے تھے، تمام ہی مسا فر پریشانی کی کیفیت میں تھے، ہر ایک کو اپنی منزل پر پہنچنے کی فکر تھی، ائر لائن کی انتظامیہ کی جانب سے جب کسی بھی قسم کا تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا، مسافروں کو اپنے ذرائع سے لاہور کا موسم بہتر ہو جانے کی اطلاعات مل چکی تھیں، وہ باد و باراں، شدید گرج و چمک جو عین اس وقت شروع ہوئی تھی جب ہمارا جہاز لاہور کی سرزمین کو چھو لینے جا رہا تھا، قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ ہم اس وقت لاہور کی سرزمین پر قدم رکھتے، انتظامیہ کے رویہ کے خلاف چند احباب نے احتجاج شروع کر دیا، اس احتجاج میں خواتین بھی شامل ہو گئیں جس سے احتجاج میں گرمی آ گئی جو کار گر ثابت ہوئی، رات ساڑے بارہ بجے اعلان ہوا کہ مسافر لاہور جانے کے لیے جہاز پر تشریف لے چلیں۔ سفر دوبارہ شروع ہوا، ڈیڑھ بجے ہم لاہور پہنچ گئے، میں شروع ہی میں اپنی بیٹی فاھینہ اور عاصم کو ائر پورٹ آنے کے لیے منع کر چکا تھا، بیٹی کے گھر پہنچا، اس وقت رات کے دو بج رہے تھے، میری بیٹی میری منتظر تھی، صبح سات بجے کے لیے ڈیوو میں میری سیٹ بک ہو چکی تھی، وقت مقر رہ پر سر گو دھا کا سفر شروع ہوا، صبح کاوقت اور پنجاب کے خوبصورت لہلہاتے سر سبز علاقے حسین نظارہ پیش کر رہے تھے، دو دریاؤں کے بیچ واقع سر گودحا خوبصورت شہر ہے جو شاہینوں کا شہر کہلاتا ہے، ۹ بجے سر گودہ پہنچا، بس اسٹاپ پر سرگودہ یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفامیشن سائنس کے چیر مین پرفیسر ڈاکٹر محمد فاضل اور شعبہ کے ایک سینئر استاد میاں محمد اسلم بھٹی جو میرے ایم اے کے کلاس فیلو بھی ہیں مجھے لینے آئے ہوئے تھے۔ فیصلہ ہوا کہ پہلے شیخ الجامعہ سے ملاقات کی جائے، چنانچہ ہم تینوں شیخ الجامعہ کے دفتر پہنچے، شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹرچودھری محمد اکرم سے ملاقات ہوئی، خوش ہوئے اور خوش اخلاقی سے ملے، فاضل صاحب کو میرے قیام کے بارے میں کچھ ہدایات دیں، پھر ایڈیشنل رجسٹرار چودھری اظہارالحق صاحب سے ملاقات کی، انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ میرا تعلق پنجاب کے شہر میلسی سے ہے تو انہوں نے خوشی کا اظہار کیا، اس ملا قات کے بعد ہم اپنے شعبہ میں آ گئے، احباب سے تعارف ہوا، ٹیچرز ہاسٹل کا کمرہ نمبر ۵ میرے لیے مختص کیا گیا تھا۔ دوری اورتنہائی کا احساس ایک قدرتی عمل تھا لیکن جس راستہ کا انتخاب اپنی خوشی سے کیا جائے اس کے راستہ میں آنے والی مشکلات اور پریشانیاں اتنا دکھ نہیں پہنچاتیں کیوں کہ ہم انہیں برداشت کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ گھر سے باہر تنہا رہنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا، اپنے خیالوں میں گم بہت دیر تک مختلف باتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ اللہ سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے اس مقصد میں کامیاب کرے، راستے میں آنے والی مشکلات کو برداشت کرنے کی ہمت اور طاقت دے اور مجھے ثابت قدم رکھے۔ آمین۔ ۱۹ مئی ۱۲۰۱، سرگودھا
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی تصنیف ’یادوں کی مالا‘
پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رائے
’’یادوں کی ما لا‘‘ لفظی اور معنوی ہر اعتبار سے ایک قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ یہ کتاب مشہور قلم کار ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی تصنیف ہے اور ان کے ذاتی تجربوں اور یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتاب صرف لائبریرین شپ سے متعلق حضرات کے لیے نہیں بلکہ استفادۂ عام کا حق ادا کرتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے تبصرہ نما اور خاکوں پر مشتمل ہے۔ لیکن جو کچھ ہے وہ قدر و قیمت میں بلند پایہ ہے۔ صمدانی صاحب ایک مدت سے لکھ رہے ہیں اور اب بھی ان کا قلم رواں دواں ہے۔
کتاب بلحاظ زبان و بیان معتبر ہے اور مصنف نے جو کچھ لکھا ہے پورے غور و فکر کے بعد لکھا ہے۔ کم سے کم لفظوں میں زیادہ لکھا ہے اور مختصر نویسی کا حق ادا کیا ہے۔ یقین ہے کہ کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ رئیس احمد صمدانی کے نام اور کام کو بلند و بالا کرے گی۔ کتاب نہایت صاف ستھرے انداز میں شائع ہوئی ہے اور قاری کو متوجہ کرتی ہے۔ مضامین کی فہرست میں کچھ تو مختصر خاکے ہیں کچھ تنقیدی جائزے ہیں اور کچھ مختصر تذکرے، مگر اختصار میں بھی وہ سب کچھ آ گیا ہے جو موضوع پر اظہارِ خیال کے لیے ضروری تھا۔
مختصراً یوں کہنا چاہیے کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر جامع کتاب ہے جس میں لائبریرین شپ کی تقریباً تمام ہی معروف اور اہم شخصیات کا قابل توجہ احاطہ کیا گیا۔ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب سارے علمی ادبی حلقوں میں مقبول ہو گی اور شخصیات پر لکھنے والوں کی رہنمائی کرے گی۔
٭٭٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی تصنیف ’’یادوں کی مالا‘‘ ایک جائزہ
اکرام الحق
لائبریرین، آرمڈفورسز پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ، راولپنڈی
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی کتاب ’’ یادوں کی مالا‘‘ مختلف شخصیات کے بارے میں ان کے تاثرات، افکار اور انعکاسات کا مجموعہ ہے اس کتاب کوالفیصل ناشران و تاجران کتب، لاہور نے جولائی۲۰۰۹ء میں شائع کیا کتاب پر۳۵۰روپے قیمت درج ہے۔ کتاب میں ۲۵ شخصیات پر مشتمل ابواب ۲۴۴صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پندرہ شخصیات کا تعلق براہ راست لائبریرین شپ کے پیشے سے ہیں۔ جو اس مقدس پیشے کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ مصنف نے اعتراف کیا ہے کہ یہ مضامین گذشتہ تیس برس میں لکھے گئے اور وقتاً فوقتاً مختلف رسائل و جرائد کی زینت بنتے رہے۔ مصنف ایک کہنہ مشق لائبریرین اور منجھا ہوا لکھاری ہے۔ ۱۵مارچ ۱۹۴۹ء کو ضلع وہاڑی کے علاقے میلسیـ میں پیدا ہوئے ان کے والد انیس احمد صمدانی اسی سال بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ مصنف نے حاجی عبداللہ ہارون کالج سے ۱۹۷۰ء میں بی اے کیا۱۹۷۲ء میں کراچی یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۸۵ء میں اسی یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ حکیم محمد سعید کی لائبریری خدمات پر تحقیقی مقالہ لکھنے پر ۲۰۰۹ء میں مصنف کو ہمدرد یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ )پی ایچ ڈی(کی ڈگری سے نوازا۔ ان کی یہ تحقیق پروفیسر نعیم الدین زبیری اور پروفیسر غنی الاکرم سبزواری کی زیر نگرانی تکمیل کو پہنچی۔ پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ۱۹۷۳ ء میں گور نمنٹ سپیرئیر کالج کراچی سے بطور لائبریرین کیا۔ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۹۷ء تک حاجی عبداللہ ہارون کالج کراچی میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ۱۹۹۷ء میں بطور سنئیرلائبریرین (BPS-19)گور نمنٹ کالج فار مین ناظم آباد کراچی میں آئے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔ لائبریرین شپ کے ساتھ مختلف تعلیمی اداروں میں لائبریری سائنس مضمون کے طور پر بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ ۹۷۔ ۱۹۹۵ء کے دوران کراچی یونیورسٹی میں شعبہ لائبریری سائنس میں جزوقتی تدریس کے فرائض سرانجام دئیے۔ پاکستان ببلیوگرافیکل ورکنگ گروپ کے لائبریری سکول میں بھی ایک عرصے تک تدریس کرتے رہے۔ آجکل یونیورسٹی آف سرگودھا کے شعبہ لائبریری سائنس میں ایسو سی ایٹ پروفیسر تعینات ہیں۔
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب دو درجن سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں بیشتر کا تعلق لائبریرین شپ سے ہیں۔ ان کے ۸۰سے زیادہ مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ پاکستان لائبریری انفارمیشن سائنس جرنل کے ایسوی ایٹ چیف ایڈیٹر ہے۔ بے شمار پیشہ وار، تعلیمی اور سماجی تنظیموں کے نہ صرف ممبر رہے بلکہ ان میں انتظامی عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ پاکستان لائبریری ایسوی ایشن سندھ برانچ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ پروفیسرانیس خورشید نے صمدانی صاحب کو ’’ دھن کے پکے لائبریرین ‘‘کے خوبصورت الفاظ سے نوازا ہے۔ یہ بات تو صاحب کتاب کی تھی اب آتے ہیں کتاب کی طرف جس میں مصنف نے یاد کے ایک ایک موتی کو لفظوں کی مالا میں پرو یا ہے۔
کتاب کا پہلا مضمون حکیم محمد سعید شہید کی قد آور شخصیت پر لکھا گیا ہے جنہیں مصنف کتاب اور کتب خانوں کا شیدائی قرار دیتے ہیں۔ دوسرا مضمون عالم اسلام کے نامور ماہر تعلیم ڈاکٹر طلحہ حسین پر ہے۔ جنہوں نے بصارت سے محروم ہونے کے باوجود تعلیم کے میدان میں عظیم کارنامے سرانجام دیئے۔ تیسرا مضمون حاجی سر عبداللہ ہارون پر لکھا ہے، جو قائد اعظم کے قریبی ساتھی ہونے کے ساتھ سندھ کی معروف سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں۔ چوتھا مضمون شیح محمد ابراہیم آزاد کی محترم شخصیت پر ہے۔ اس مضمون میں آزادؔ کے سوانحی خاکے کے ساتھ ان کی نعتیہ شاعری پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ کتاب میں موجود تیرھواں مضمون آزاد صاحب کے پوتے اور نعت گو شاعر تابش صمدانی صاحب پر لکھا گیا ہے جس میں ان کے عشق رسولﷺ اور نعتیہ شاعری کی تفصیل درج ہے مصنف نے کتاب میں اُن قابل توجہ مگر گمنام لوگوں کو اپنے قلم کی تحریرسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا ہے جنہوں نے مصنف کو کسی نہ کسی طرح متاثر کیا۔ جس میں محبوب احمد سبزواری جو مصنف کے ماموں ہے۔ مشکور احمد صاحب، یہ بھی مصنف کے رشتہ دار ہے مگر انتہائی خود دار اور ہمت والے انسان۔ ایک درویش صفت اور ولی کامل سیدامام کا تذکرہ بھی موجود ہے جو عملیات کے ذریعے جنات کا توڑ کرتے تھے۔ مصنف نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ لکھا ہے جس میں کسی جن سے ملاقات کا حوالہ بیان کیا گیا ہے۔ ، شیخ لئیق احمد مصنف کے قریبی رشتہ دار ہے جن کی زندگی نشیب و فراز کی داستان ہے۔ منظور احمد بٹ، ایک مخلص سماجی کارکن، جن کی زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ہے۔ ان شخصیات پر لکھے گئے یہ اولین مضامین ہیں۔ مصنف نے اپنے قلم کی طاقت اور جذبے کی حرارت سے ان شخصیات کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا ہے۔
بحیثیت ایک شاگرد کے اپنے استاد پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید کوزبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں دنیائے لائبریرین شپ کی ایک عہد ساز شخصیت کہا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید، صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے خطوط، یاداشتیں اور تاثرات کو بھی کتاب کی زینت بنایا۔ نرم دل، ہمدرد اور صلہ رحمی کرنے والے کراچی یونیورسٹی کے سابق لائبریرین جناب عادل عثمانی سے اپنی محبت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری )مصنف کے چچا اور مصنف کو لائبریرین شپ میں لانے والے بھی (۔ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ ’’ ڈاکٹر حیدر تہذیب کے ایک یادگار نمائندے ہیں ایسے پر وقار نمائندے اب معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کی گفتگو میں شائستگی، دھیما پن بدرجہ اتم پایا جاتا ہے سادہ طبیعت پائی ہے رہن سہن سادہ ہے دکھاوے اور بناوٹ کے قائل نہیں ‘‘۔ جمیل نقوی صاحب جو علی گڑھ یونیورسٹی کی لٹن لائبریری اور امپیریل لائبریری کلکتہ میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ لائبریرین شپ کے موضوع پر اردو زبان میں ان کے مضامین جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے رسالے ’’کتاب نما‘‘ میں ۱۹۳۸ء میں شائع ہوتے رہے۔ ڈاکٹر انیس خورشید نے ان کے بارے میں لکھا کہ ’’کتاب ہی ان کا مسلک رہا ہے اوراس حوالے سے انہوں نے جو بھی کام انجام دئیے اتنے سلیقے اور رچاؤ کے ساتھ کئے کہ خود ہی لوگوں کی نگاہ کے مرکز بنے رہے ‘‘۔ جمیل صاحب ۲۵کتابوں کے خالق ہیں۔ لائبریرین اور مصنف کے ساتھ ساتھ جمیل صاحب نعت گو شاعر بھی ہیں ان کی کئی نعتیں ذوق و شوق اور عقیدت سے پڑھی اور سنی جاتی ہیں۔
مصنف نے پنجاب لائبریری ایسوی ایشن کے بابا جی میاں الطاف شوکت کو بھی نہایت خوبصورت انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ پاکستان میں لائبریری تحریک کے خاموش مجاہد ابن حسن قیصرسے اپنی محبت اور عقیدت کو بھی قلم بند کیا۔ اس مضمون میں وہ تفصیل موجود نہیں جو باقی مضامین میں شامل ہیں۔ پروفیسر اختر حنیف کا تذکرہ بھی ہے جو۱۹۵۴ء میں میرٹھ کالج سے بی اے کر کے ۱۹۵۶ء میں پاکستان ہجرت کر آئے۔ کراچی یونیورسٹی میں لائبریری سائنس میں ایم اے کیا اور اسی شعبہ کے صدر کی حیثیت سے ۱۹۹۳ء میں ریٹائر ہوئے اور ۱۹۹۵میں اس جہان رنگ وبو کو چھوڑ کر دار البقاء کے لئے کوچ کر گئے۔ ایک طویل عرصے تک پاکستان لائبریری بلیٹن کے انگریزی شعبہ کے ایڈیٹر رہے۔ مصنف نے محمد زبیر صاحب سے اپنی وابستگی اور رفاقت کو دلنشیں انداز میں پیش کیا۔ ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے لائبریرین رہے۔ اسلامی کتب خانوں پر ان کی کتاب کسی اتھارٹی سے کم نہیں اگرچہ انہوں نے ایک درجن کے قریب کتابیں لکھیں۔ اپنی تحریر سے لائبریری سائنس کے دامن کو مالا مال کیا۔ لائبریرین شپ کے نامور ستاروں میں مولانا محمد عارف الدین جو لائبریری تحریک کے فروغ میں شہید حکیم محمد سعید کے دست راست تھے۔ ہارڈنگ پبلک لائبریری دہلی اور خیر پور پبلک لائبریری کے لائبریرین فرحت اللہ بیگ، برٹش کونسل والے سید امتینان علی شاہ بخاری اور ہمدرد یونیورسٹی والے رشید الدین احمد سے صمدانی صاحب نے اپنی محبت اور رفاقت کا ذکر بڑے پیارے انداز میں کیا ہے۔
صمدانی صاحب کا اسلوب تحریر دلکش اورسلیس ہے۔ اشعار کا استعمال بھی شاندار اور موقع کی مناسبت سے ہے۔ ہر مضمون میں شخصیات کی مختصر سوانح عمری، ان کے عادات اور خصائل اور مصنف کے ساتھ ان کا برتاؤ خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ بہت سے مضامین کا آغاز بڑے ہی موثر انداز میں کیا گیا ہے اور عموماً شعر پر مضمون ختم کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں ایک رپورتاژ بھی شامل ہے جو مصنف نے اپنی ۳۹دن کی بیٹی کے غم میں لکھی۔ جس میں دل سوزی اور اداسی کی لہر چھائی ہوئی ہے۔ بڑے لوگوں کی زندگیاں عام لوگوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ان کے کارنامے ہماری ہمت بڑھاتے ہیں اور ہمیں بے لوث خدمت کرنے پر ابھارتے ہیں۔ عظیم لوگ خدا کا عطیہ ہوتے ہیں۔ انہیں لوگوں کی وجہ سے دنیا ترقی کی منازل تیز تر طے کرتی ہے۔ صمدانی صاحب نے کتاب لکھ کر جہاں ان عظیم شخصیات سے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا وہیں یہ بھی ثابت کر دیا ہے آپ کہنہ مشق لائبریرین اور مشفق استاد ہی نہیں ایک اچھے ادیب بھی ہیں۔
(شائع شدہ، پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل، جلد ۴۲، شمارہ ۱، مارچ ۲۰۱۱ء )
٭٭٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی علم و فن کی پذیرائی کی ایک تقریب
پاکستان لائبریرین شپ کے حوالہ سے سال نو کی ابتدا علم و فن کی پذیرائی سے ہوئی۔ لائبریری مواد کی تدوین و اشاعت میں لائبریری پروموشن بیورو اور پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل کا تاریخی کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس ادارے سے منسلک شخصیات نے نہ صرف خود علم و فن کی خدمت کی بلکہ دوسروں کو لکھنے اور چھپنے کی راہ دکھا تے رہے۔ ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری کے بعد ڈاکٹر نسیم فاطمہ اور اب رئیس احمد صمدانی نے علم کتب خانہ کی اعلیٰ ترین سند پی ایچ ڈی کے حصول کو ممکن بنایا۔ یہ تقریب ڈاکٹر صمدانی کے اس علمی کارنامہ کی پذیرائی کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کے اسکول آف لائبریرین شب واقع لیاقت میموریل لائبریری بلنڈنگ کے سبزہ زار پر منعقد ہونے والی تقریب یکم جنوری ۲۰۱۱ء کو منعقد ہوئی جس میں لائبریرین شپ سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کسی تعارف کے محتاج نہیں، گزشتہ ۳۵ سال سے لائبریرین شپ کے پیشے سے وابستہ رہتے ہوئے علم کتابداری کے فروغ و ترقی میں ان کے کردار کو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ استاد، لائبریرین، مصنف و مولف اور پروفیشن کی ترقی کے لیے وہ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن اور دیگر انجمنوں سے منسلک رہتے ہوئے انہوں نے جو عملی جد و جہد کی وہ مثالی ہے۔ متعدد کتابیں، بے شمار مضامین ان کے قلم سے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ اس وقت شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ سرگودھا میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اسکول آف لائبریرین شپ، پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کے ڈائریکٹر اور پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل کے ایسو سی ایٹ چیف ایڈیٹر ہیں۔
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، سید ناظر حسن نے تلاوت کی سعادت حاصل کی، نظامت کے فرائض اپنے مخصوص انداز سے جناب عبدالصمد انصاری نے انجام دئے۔ صدارت مغیث احمد صمدانی ایڈووکیٹ نے کی، مہمان اعزاز پروفیسر صادق علی خان صاحب تھے۔ ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری صاحب جو اس تقریب کے روح رواں تھے نے خطبہ صدارت پیش کیا۔ خیالات کا اظہار کرنے والوں میں عذرا قریشی صاحبہ، سید احمد نقوی، پروفیسر صادق علی خان اور دیگر شامل تھے۔ تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر غنی الا کرم سبزاری:
خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر غنی الا کرم سبزاری نے مہمانان کو خوش آمدید کہا، انہوں نے کہا کہ الحمد اللہ لائبریری پروموشن بیورو سال نو کا آغاز علم و فن کی پذیرائی سے کر رہی ہے۔ یہ ادارہ گزشتہ ۴۷ سال سے لائبریرین شب کی خدمت کر رہا ہے۔ اس ادارے کے تحت شائع ہونے والا رسالہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل اپنی اشاعت کے ۴۱ برس مکمل کر چکا ہے یعنی اس کی اب تک ۴۱ جلدیں شائع ہو چکی ہیں، پاکستان لائبریرین شپ کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں۔ یہ ایک ایسا منفرد کارنامہ ہے جسے تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھا جائے گا۔ ۵۰ سے زیادہ کتب یہ ادارہ شائع کر چکا ہے۔ اس ادارے نے نئے لکھنے والوں کی تربیت کا جو فریضہ سر انجام دیا ہے وہ بھی قابل تعریف ہے۔ جن لوگوں کا اولین مضمون اس رسالہ میں چھپا اور پھر وہ مسلسل اس میں چھپتے رہے حتیٰ کہ وہ پروفیسر کے مرتبے پر پہنچنے میں بھی کامیاب ہو گئے، کتنے ہی پائے کے لکھاری اسی ادارے کے تربیت یافتہ ہیں۔ لیکن مجھے یہ بات افسوس سے کہنا پڑ رہی ہے کہ ہمارے پیشے سے تعلق رکھنے والے لائبریرینز کی اکثریت نہ ہی ہمارے رسالے کو خریدتی ہے، نہ ہی کتابوں کی خریداری پر توجہ دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ رسالہ ان کا اپنا ہے، یہ ادا رہ ان کا اپنا ہے۔ اس ادارے پر مشکل وقت بھی آیا لیکن الحمد اللہ رسالہ ہر صورت نکلتا رہا۔ میری اپنے ہم پیشہ ساتھیوں سے یہی درخواست ہے کہ اس جانب توجہ دیں۔
جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ میں ۳۷ برس مکہ المکرمہ میں، میری غیر موجودگی میں یہ ادارہ فعال رہا، رسالہ اور کتب شائع ہوتی رہیں اور یہ ذمہ داری ڈاکٹر نسیم فاطمہ اور ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہے۔ اس ادارے سے منسلک لوگوں میں سے میرے بعد نسیم فاطمہ نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور اب رئیس میاں کو یہ اعزاز حاصل ہو ا۔ میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
پروفیسر صادق علی خان:
شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی کے سابق استاد پروفیسر صادق علی خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی زندگی کی کہانی کہ وہ کس طرح شعبہ لائبریرین شپ میں آئے اور کس طریقہ سے شعبہ میں استاد مقر ر ہوئے کی تفصیل بیان کی۔ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کو مبارکباد دیتے ہوئے پروفیسر صادق علی خان نے کہا کہ شعبہ میں آنے کے بعد مجھے اس نوجوان کے بارے میں علم ہوا، یہ بہت ہی محنتی، با صلاحیت اور کو آپریٹو انسانوں میں سے ہے۔ اچھا بولتا ہے، اچھا لکھتا ہے۔ خاموشی سے اتنا بڑا کام کر ڈالا۔ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن جس کا میں صدر اور سیکریٹری بھی رہا اس دوران صمدانی مسلسل ہمارے ساتھ رہا اور ہم ایک ساتھ کام کرتے رہے۔ میں اس کی کامیابی پر دلی مبارک باد۔
عذرا قریشی:
پاکستان لائبریرین شپ کی معروف شخصیت آغا خان یونیورسٹی کے سابق چیف لائبریرین محترمہ عذرا قریشی صاحبہ نے ڈاکٹر صمدانی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ محنت کسی کی رائے گاں نہیں جاتی، اس کامیابی پر میرا پہلا رد عمل یہ تھا کہ محنت رنگ لاتی ہے۔ صمدانی میرے کلاس فیلو ہیں، ہم ایم اے لائبریری سائنس کی کلاس میں ایک ساتھ تھے، اس وقت تو یہ بالکل مختلف ہو ا کرتے تھے، خاموش، بلکہ اپنے کام سے کام رکھنے والوں میں سے تھے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ بیک بنچرز میں سے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ تبدیلی آتی گئی، پھر صحبت نے بھی کام کیا، اکرم صاحب کی سرپرستی بھی رنگ لائی۔ بہر کیف میں دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
سید احمد نقوی:
ضیاء الدین میڈیکل یونیورسٹی کے چیف لائبریرین سید احمد نقوی نے اپنے خوبصورت انداز میں صمدانی صاحب سے اپنے دیرینہ تعلق کے حوالہ دلچسپ گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایم کالج میں ایک سیمینار تھا میں نے بھی اس میں پیپر پڑھنا تھا، میں نے دیکھا کہ یہ شخص مسلسل بولے چلے جا رہا ہے کبھی لکھے ہوئے کاغذات سے کبھی زبانی، یہ میرا پہلا تعارف تھا صمدانی سے، پھر تو ہم اکثر تقریب میں بولنے والے ہوا کرتے تھے۔ اچھا بولتا ہے، تقریر کے فن سے واقف ہے، لکھتا بھی بہت ہے، اچھا بھی لکھا ہے۔ میں تو اسے کراچی کے لائبریرینز کا میر تقی میرکہتا ہوں، میر نے بھی بہت کہا، خوب بھی کہا اور عام بھی۔ جامعہ کراچی میں ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کے تحت سیمینار کا اہتمام کیا گیا، اس موقع پر ایک سووینئر بھی شائع ہونا تھا، خورشید عالم جو اس وقت لائبریرین تھے انہوں نے مجھ سے ڈاکٹر انیس خورشید صاحب پر لکھنے کو کہا اور صمدانی صاحب کو جناب عادل عثمانی صاحب پر لکھنے کا ٹاسک دیا، مجھے خوشی ہوئی صمدانی نے عثمانی صاحب پر بہت اچھا لکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی صلاحیتوں میں اور اضافہ کرے۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کر کے واقعی بڑا کام کیا ہے۔ میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
مغیث احمد صمدانی:
جناب مغیث احمد صمدانی نے صدارتی تقریر کرتے ہوئے منتظمین کا شکریہ ادا کیا کہ انہیں علم و فن کی پذیرائی کی اس تقریب میں نہ صرف مدعو کیا بلکہ صدارت بھی مجھے سونپ دی۔ در اصل یہ حق تو رئیس میاں کے استادڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری کا تھا۔ مجھے بے انتہا خوشی اس بات کی ہے کہ ڈاکٹر سبزواری جو میرے ماموں زاد بھائی ہیں نے اپنے شاگردوں سے حق استادی کس خوبصورتی اور مثالی طریقہ سے نبھا یا ہے۔ اس زمانے میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں کہ ہم اپنے سے چھوٹوں کو اپنے سے آگے جاتا دیکھ کر نہ صرف خوش ہوں بلکہ اس مرحلہ میں ان کی رہنمائی بھی کر تے ہیں۔ استاد اور شاگرد ایک راستے کے مسا فر بن گئے ہیں۔ رئیس میاں میرے بھتیجے ہیں۔ انہوں نے جو کام کر دکھایا ہے وہ واقعی قابل ہے۔ پروفیسر صاحب نے سچ کہا کہ انہوں نے خاموشی سے بہت بڑا کام کر دیا ہے۔ پی ایچ ڈی کے دوران میں بھی جب ان سے استفسار کرتا کہ تمہارا کام کس مرحلے میں ہے تو یہ صرف یہ کہہ دیا کرتے کہ ہو رہا ہے، ایک دن اچانک یہ خبر دی کہ انہیں پی ایچ ڈی ڈگری تفویض ہونے جار ہی ہے۔ اللہ انہیں اور ترقی دے۔
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی :
تقریب کے مرکزی کردار ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب میرے علم میں یہ بات آئی کے میرے محبان دوست میرے اعزاز میں اس قسم کا کوئی پروگرام ترتیب دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، میں نے ہر ممکن مزاحمت کی کہ ایسا نہ ہو میں اپنے دوستوں کو تو قائل کر لیتا لیکن اپنے استاد جن کی وجہ سے میں یہ مقام حاصل کر سکا کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔ میرے نزدیک سب سے مشکل کام سامنے بیٹھ کر اپنے کرم فرماؤں کی زبان سے اپنی تعریف سننا اور پھر اپنے بارے میں اظہار خیال کرنا ہے۔ کوئی ایک گھنٹے سے میرے بارے میں جو باتیں آپ کے کانوں کو سنائی دے رہی تھیں ان میں حقیقت پچاس فیصد بھی نہیں۔ میرے کرم فرماؤں کی محبت ہے، یہا حباب عام زندگی میں مجھ سے جس قدر انسیت رکھتے ہیں میں دل سے ان کی عنایت کا قائل ہوں۔ میں نے اس سے پہلے بھی اس بات کا اعتراف کیا اور اب پھر کرتا ہوں کہ میں نے اپنے استاد ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری صاحب کو اپنا آئیڈٖیل بنا یا، جو انہوں نے کہا اس پر عمل کرنے کی کوشش کی، انہوں حکم دیا لکھو، تنقید کی پروا مت کرنا، میں نے ایس ہی کیا، لکھتا رہا اور چھپتا رہا، البتہ پی ایچ ڈی کا معاملہ یہ ہو کہ میرے دل میں یہ خواہش تو تھی کہ ایسا کرنا ہے، لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس کام کے لئے کسی بھی جامعہ کے متعلقہ شعبہ کے اعلیٰ حکام کی رضامندی کا بنیادی دخل ہوتا ہے۔ جامعہ کراچی کے دروازے ہمارے لے بند تھے۔ جب میں ۵۰سے اوپر ہو گیا قدرت کی جانب سے اس جانب روشنی دکھائی دی، جامعہ ہمدرد میں معاملات طے پا گئے، اس مرحلہ میں بھی میری رہنمائی میرے استاد ڈاکٹر سبزواری نے کی وہ میرے معاون سپروائیزر تھے جب کہ جامعہ ہمدرد کے لائف پروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری صاحب میرے سپروائیزر تھے، میں مقالہ تو دو سال میں لکھ لیا تھا اور جمع بھی کرا دیا تھا لیکن بعد کی کاروائی میں ہمدردیونیورسٹی کراچی یونیورسٹی سے کم ثابت نہیں ہوئی۔ الحمد اللہ کامیابی ہوئی۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کے لیے مواقع کا میسر آنا اور ٹیکنیک نیز محنت بنیادی عناصر ہیں۔ بہر کیف یہاں بیٹھے ہوئے ساتھیوں کو مجھ سے کسی قسم کی مدد، رہنمائی کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ اپنے ساتھیوں کا، لائبریری پروموشن بیورو کا انتہا ئی ممنون ہوں کہ انہوں نے اس تقریب کا اہتمام کیا۔
عبدالصمد انصاری :
لائبریری پروموشن بیورو کے سیکریٹری جنرل جناب عبدالصمد انصاری جنہوں نے نظامت کے فرائض بھی انجام دئے۔ تقریب کی غرض و غایت بیان کی۔ آپ نے ہر مقر ر کے بعد اپنے جگری دوست جناب صمدانی صاحب کے بارے میں اپنے خیالات بیان کرتے رہے۔ صمد اور صمدانی کی دوستی لائبریری پروفیشن میں مثالی سمجھی جاتی ہے۔ اکثر لوگ صمد کو صمدانی اور صمدانی کو صمد بھی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز اور خوبصورت الفاظ میں تقریب کے اختتام کا اعلان کیا۔
تقریب کے اختتام پر راقم کو مہمانوں کا شکریہ ادا کرنے کے فرائض سونپے گئے جس کی ادائیگی کرتے ہوئے میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور انہیں چائے کی دعوت دی۔ اس طرح یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔
آمنہ خاتون
(شائع شدہ، پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل، جلد ۴۲، شمارہ (۱) مارچ ۲۰۱۱ء )
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید