فہرست مضامین
- ہوشِ نعت
- انتخاب اور پیشکش: محمد محبوب
- ہوش عقیدت سے انتخاب
- نمود شے کے ہے پن سے عیاں اللہ ہی اللہ ہے
- شافع محشر حبیب کبریا ہیں مصطفیٰ
- نور احمد کا بول بالا ہے
- ہے ہستیٔ عالم نشانِ محمدؐ
- سید الانبیاء آنے والے ہیں !
- روشن چراغ محفل امکاں بنا دیا
- اگر ملتا نہ اس در کا سہارا یا رسول اللہ
- نور مطلق کے رنگیں نظارے کہاں
- تمہاری صورت زیبا پہ نازاں حق کی قدرت تھی
- عرشِ اعلیٰ پہ ہے حضرت کا قدم آج کی رات
- دل سے گنبدِ خضرا جب قریب ہوتا ہے
- جاگے نظروں کا مقدر تو مزہ آ جائے
- نور حق رب کا منشا مدینے میں ہے
- دن رات ہے رحمت کی برسات مدینے میں
- شکل ظاہر پہ کسے آپؐ کا ہمسر سمجھوں
- جنت کی فضا مانگ نہ جینے کی دعا مانگ
- طیبہ کی طرف احباب چلے پھر یاد مدینہ آئی ہے
- تم دو عالم کے ہو مختار رسولِ عربی
- ہوش عبدیت سے انتخاب
- نعت لکھنی ہے حضورؐ آپ کو کیا کیا لکھوں
- رئیس الانبیاء آئے شفیع المذنبین آئے
- رحمت مجسم ہے بات ان کی پیاری ہے
- شب اسریٰ کی راہوں میں جو اقصیٰ کا مقام آیا
- وہی ہیں یقیں و گماں دینے والے
- عطا کر دو خدارا یا نبی مٹی مدینے کی
- آپ نبیوں کے بھی ہیں نبیؐ
- وہ وحدت کا سر نہاں ہیں محمدؐ
- نورِ نبیؐ ہی نورِ خدا ہے، نورِ نبیؐ کی بات نہ پوچھو
- ہیں ارض و سما مظہر انوارِ محمدؐ
- مزمل و مدثر و طٰہ نہیں کوئی
- تزئین گلستاں ہے گفتار محمدؐ سے
- جلوہ مرے سرکار کا ایسا نظر آئے
- کُنْتُ نبیاً کا ارشاد حبّذا اچھا لگا
- جب فکر و نظر کے مدِّ نظر سرکار کی سیرت ہوتی ہے
- میرے آقا کی ایک اک ادا معجزہ
- حضورؐ آئے کسی کے منہ سے گر پیہم نکل جائے
- ہیں مدینے میں سب یہ کہتے ہیں
- ہیں آنکھوں میں طیبہ کے جب سے نظارے
- دل میں پھر طیبہ نگر کی آرزو ہے دوستو
- صدیق اکبر
- سلام
- بے ہوشؔ محبوب نگری کے غیر مطبوعہ دکنی کلام سے انتخاب
ہوشِ نعت
بے ہوشؔ محبوب نگری کے کلام کا انتخاب
(یہ برقی کتاب در اصل محمد حبوب کی کتاب ’بے ہوشؔ محبوب نگری کی نعتیہ شاعری‘ کے چھٹے باب سے الگ کر کے شائع کی جا رہی ہے)
انتخاب اور پیشکش: محمد محبوب
ہوش عقیدت سے انتخاب
نمود شے کے ہے پن سے عیاں اللہ ہی اللہ ہے
وجود کُل زمین و آسماں اللہ ہی اللہ ہے
قسم اللہ کی بندہ سو بندہ، رب سو رب لیکن
ہر اک بندے کی صورت سے عیاں اللہ ہی اللہ ہے
تمیز حق و باطل معرفت کی جان ہے لیکن
یہ رہبر راہِ منزل کارواں اللہ ہی اللہ ہے
وہ مستغنی بھی ہے عالم سے رب العالمین بھی ہے
کفیل احتیاج انس و جاں اللہ ہی اللہ ہے
سنا تھا میں وجوداً عین ہوں اور غیر ہوں ذاتاً
جو دیکھا غور سے سب بے گماں اللہ ہی اللہ ہے
ثبوت و اعتبار ذات سے ہے تفرقہ پیدا
مگر ازروئے ہستی جسم و جاں اللہ ہی اللہ ہے
عدم میری حقیقت اور وجود اُس ذات کا واجب
تو ہر موجود بے ریب و گماں اللہ ہی اللہ ہے
خودی اپنی مٹا کر خود کو دیکھا تو ہوا ظاہر
کہ ہر رازِ نہاں، عینِ عیاں اللہ ہی اللہ ہے
صفات اُس کے وجود اس کا، شہود اس کا، نمود اس کا
تو پھر بے ہوشؔ کے وردِ زباں، اللہ ہی اللہ ہے
٭٭
شافع محشر حبیب کبریا ہیں مصطفیٰ
رحمت عالم امام الانبیا ہیں مصطفیٰ
آپ کا ہر نقش پا ہے جادۂ حق کا چراغ
آپ کے پیرو بھی منزل آشنا ہیں مصطفیٰ
علم مطلق یا کلام حق سے ممکن ہے ثنا
ورنہ اپنی مدح کی حد سے سوا ہیں مصطفیٰ
عظمت و شانِ شہِ لولاک کیا کیجئے بیاں
خلقتِ ارض و سما کا مدعا ہیں مصطفیٰ
ذرے سے خورشید تک ہر شئے کی علت آپ ہیں
مرتبت کی حد یہ ہے بعد از خدا ہیں مصطفٰے
قلب مومن آپ کے احسان سے بیہوشؔ ہے
حق نہیں لیکن سراپا حق نما ہیں مصطفیٰ
٭٭
نور احمد کا بول بالا ہے
اُس نے کونین کو سنبھالا ہے
ہر نبی ہر رسول برحق سے!
تیرا رُتبہ بلند و بالا ہے
کالی کملی میں ہے سراج منیرؐ
جس کا اب ہر جگہ اُجالا ہے
میرا ساقی ہے، ساقیِ کوثر
دل مرا عشق کا پیالا ہے
مرحبا، تاجدارِ او ادنیٰ
طالب دید عرش والا ہے
جمع اصحاب یوں ہیں گردِ نبیؐ
چاند کے گرد جیسے ہالا ہے
حبذا گیسوئے شہ لولاکؐ
ذرّے ذرّے پہ جال ڈالا ہے
مظہر حق، وقار خلق عظیم
دشمنوں کو بھی تم نے پالا ہے
حکم سجدہ ملا، ملائک کو
تم نے آدمؑ کو یوں اُچھالا ہے
کون جلوے کی تاب لا سکتا
خیر گزری کہ کملی والا ہے
اس مسرت سے ہو گیا بے ہوشؔ
نزع میں کوئی آنے والا ہے!
٭٭
ہے ہستیٔ عالم نشانِ محمدؐ
ثبوتِ دو عالم ہے جانِ محمدؐ
ظہور کمالات حق دیکھنا ہے
تو دیکھئے کوئی عز و شان محمدؐ
سمجھ لے جو اس ربط کو وہ ہے عارف
کلامِ خدا اور زبانِ محمدؐ
کرے عقل محدود مدح و ثنا کیا
ہے قرآن سارا بیان محمدؐ
ہے مولائے کل اور شکم پر ہیں پتھر
بہت سخت ہے امتحان محمدؐ
رواں تھا رواں ہے روانہ رہے گا
زمانہ ہے اک کاروانِ محمدؐ
ہے معراج ان کے لئے زندگی کی
جو پہنچے سرِ آستانِ محمدؐ
حقیقت کا دروازہ کھلتا ہے جس پر
وہ پہچان لیتا ہے شانِ محمدؐ
یہ عاصی ہو کس طرح مایوس رحمت
کہ بے ہوشؔ ہے مدح خوان محمدؐ
٭٭
سید الانبیاء آنے والے ہیں !
مالکِ دوسرا آنے والے ہیں
لے کے حق کی ضیاء آنے والے ہیں
معنی والضحیٰ آنے والے ہیں
خازنِ کبریا آنے والے ہیں
دستِ جود و سخا آنے والے ہیں
ان کی خاطر سے پیدا خدائی ہوئی
مقصد کبریا آنے والے ہیں
جن کا علم و عمل دینِ اسلام ہے
وہ رسولِ خدا آنے والے ہیں
آپ اول بھی ہیں آپ آخر بھی ہیں
مبتدیٰ منتہیٰ آنے والے ہیں
دھوم تھی قدسیوں میں شبِ اسریٰ
عرش پر مصطفیٰ آنے والے ہیں
عرش پر منتظر تھا خدا جن کا
وہ حبیبِ خدا آنے والے ہیں
ظلمت کفر جن کے قدم سے چھٹی
وہ ظہور ہدیٰ آنے والے ہیں
کیا نکیرین پوچھیں گے بے ہوشؔ سے
قبر میں مصطفیٰ آنے والے ہیں
٭٭
روشن چراغ محفل امکاں بنا دیا
انسانیت کا آپ کو عنواں بنا دیا
تاریک دل کو کعبہ ایماں بنا دیا
جس پر نگاہ کی اسے انساں بنا دیا
تنویر صبح کر دیا صورت کے حُسن کو
سیرت کو نورِ جادۂ عرفاں بنا دیا
سورج پلٹ کے آیا کبھی شق ہوا قمر
یوں مہر و مہ کو تابع فرماں بنا دیا
اللہ رے جمالِ محمدؐ کی تابشیں
یوسف کو جس نے دیدۂ حیراں بنا دیا
ملتا ہے لا الہ سے توحید کا شعور
ہر شرک سے نجات کا ساماں بنا دیا
ہر پیر و رسول ہے مقبول کبریا
نسبت کو اپنی نازشِ ایماں بنا دیا
ظلمت کدہ تھا عالم امکاں ترے بغیر
نقش قدم نے جس کو درخشاں بنا دیا
بے ہوشؔ کو عطا ہوا حب نبی کا جام
قسمت نے مور کو بھی سلیماں بنا دیا
٭٭
اگر ملتا نہ اس در کا سہارا یا رسول اللہ
تو ہر ذرّے کا مشکل تھا گزارا یا رسول اللہ
کسی کے ہم نہ کوئی ہے ہمارا یا رسول اللہ
یہ سب کچھ آپ ہی کا ہے نظارا یا رسول اللہ
زمانہ اس کی خوش بختی پہ ہر دم رشک کرتا ہے
میسر جس کو ہے دامن تمہارا یا رسول اللہ
جو وابستہ ہوا تم سے وہ گویا پا گیا سب کچھ
بہت کافی ہے نسبت کا سہارا یا رسول اللہ
نگہباں آپ بن جائیں گے جس ٹوٹے سفینے کے
بنے ہر موج خود اس کا سہارا یا رسول اللہ
خلا میں چاند دو ٹکڑے ہوا تھا جس اشارے سے
ہو باطل کی طرف بھی وہ اشارا یا رسول اللہ
نہ جانے ملتجی ہے کب سے اذنِ باریابی کا
یہی بے ہوش یہ قسمت کا مارا یا رسول اللہ
٭٭
نور مطلق کے رنگیں نظارے کہاں
روئے احمدؐ کہاں چاند تارے کہاں
مل سکیں گے یہ دونوں کنارے کہاں
عشق اپنا کہاں حق کے پیارے کہاں
چاند شق ہو گیا آبرو پا گیا
یہ کہاں اور ان کے اشارے کہاں
سبز گنبد حجاب نظر بن گیا
سچ تو یہ ہے محمدؐ سدھارے کہاں
ہم کو لے دے کے اس در کا ہے آسرا
اُٹھ کے جائیں نگاہوں کے مارے کہاں
کالی کملی نہیں بحر رحمت ہے یہ
منہ چھپائیں گے عصیاں کے دھارے کہاں
آپ کے ہوتے اے سرورِ انبیاء
ڈھونڈنے جائے اُمت سہارے کہاں
بجلیاں تاک میں ہیں مدد کیجئے
اک نشیمن کہاں، سو شرارے کہاں
خاکِ نعلین ملنا بھی معراج ہے
اتنے اونچے مقدر ہمارے کہاں
یاد فرمایئے اپنے بے ہوش کو
ہجر میں زندگانی گزارے کہاں
٭٭
تمہاری صورت زیبا پہ نازاں حق کی قدرت تھی
جہانِ آب و گل میں نور کی یہ ایک صورت تھی
یہ مانا اُن کے آنے کی زمانے کو ضرورت تھی
مگر یہ بھیجنے والے کی بھی ہم پر عنایت تھی
تمہارے چاہنے والے نہ پلٹے جادۂ حق سے
اذیت جسم پر لب پر احد دل میں صداقت تھی
مسلسل سنگ باری پر دعائیں دی ہیں طائف میں
خدا شاہد ہے امت سے تمہیں کتنی محبت تھی
دیا درسِ عمل اُمت کو پہلے خود عمل کر کے
کہ دن بھر کارِ اُمت رات بھر حق کی عبادت تھی
نکوکارانِ اُمت کا صلہ جنت سہی لیکن
گنہگاروں کی قسمت میں تو حضرت کی شفاعت تھی
تعجب کیا اگر ٹپکا کمر سے آ گیا باہر
یہ نوری جسم پر پتھر بندھا تھا اس پہ حیرت تھی
حنین و بدر و خیبر ہو کہ خندق کا غزوہ ہو
تمہارا سامنا کرتا کوئی یہ کس میں ہمت تھی
فرشتے دیکھ کر بے ہوش کو محشر میں بول اُٹھے
کہ آخر وقت بھی اس کے لبوں پر مدح حضرت تھی
٭٭
عرشِ اعلیٰ پہ ہے حضرت کا قدم آج کی رات
کھل گیا طائرِ سدرہ کا بھرم آج کی رات
امتی جتنا کرم لوٹیں ہے کم آج کی رات
سامنے حق کے ہیں سلطان اُمم آج کی رات
عبد و رب میں نہ رہا پردۂ حائل کوئی
مٹ گیا فرقِ حدوث اور قدم آج کی رات
قاب قوسین کی روداد کا اجمال ہے یہ
ہو گئے عاشق و معشوق بہم آج کی رات
کھل گیا راز الیٰ عبدہٖ ما اوحیٰ سے
ذاتِ حق خود ہوئی مائل بہ کرم آج کی رات
دیکھ کر نازشِ آدم کی یہ شان پرواز
گھٹ گیا سینے میں ابلیس کا دم آج کی رات
آپ کے صدقے میں اُمت نے بھی پایا ہے عروج
خیرِ اُمت کا لقب پا گئے ہم آج کی رات
سن کے اعلان کہ مومن کی ہے معراج نماز
رقص کرنے لگے خود لوح و قلم آج کی رات
نسبت نقشِ قدم ہی کو سمجھ لے بیہوشؔ
تجھ کو نعلین محمدؐ کی قسم آج کی رات
٭٭
دل سے گنبدِ خضرا جب قریب ہوتا ہے
اُن کی یاد کا لمحہ کچھ عجیب ہوتا ہے
جو مدینہ دیکھی ہے اُس نگاہ کے قرباں
خواب میں بھی یہ منظر کب نصیب ہوتا ہے
اُن کا چاہنے والا کیوں نہ ہو حق کو پیارا
جو حبیب کو چاہے وہ حبیب ہوتا ہے
کس قدر مجرب ہے ہر مریض غم اُن کا
سنتے ہیں مسیحا کا وہ طبیب ہوتا ہے
یہ نبیؐ کی چاہت بھی کم نہیں معیت سے
دل پہ فیض نسبت بھی کچھ عجیب ہوتا ہے
خود براق بنتا ہے عشق صاحب اسریٰ
عاشقِ محمدؐ سے رب قریب ہوتا ہے
شان ہی نرالی ہے طیبہ جانے والے کی
جا کے جو نہیں آتا خوش نصیب ہوتا ہے
رشک سے سلاطیں بھی تاج پھینک دیتے ہیں
دامنِ محمدؐ میں جب غریب ہوتا ہے
اپنی محویت کا بھی ہوش ہے مجھے بے ہوشؔ
بے خودی کے عالم میں دل نقیب ہوتا ہے
٭٭
جاگے نظروں کا مقدر تو مزہ آ جائے
دیکھوں طیبہ جو مکرر تو مزہ آ جائے
سیرتِ پاک کا ہر سانچہ ہے تیار مگر
آئے مومن کوئی ڈھل کر تو مزہ آ جائے
دل میں یاد ان کی زباں پر بھی ہے ان کے اذکار
بزم ہو جائے منور تو مزہ آ جائے
ان کی تعلیم میں ملت کی ہے تعمیر کا راز
بولنے والے عمل کر تو مزہ آ جائے
لا الہ میں تو ہے تاثیر وہی اب بھی مگر
کلمہ پڑھنے لگیں پتھر تو مزہ آ جائے
فتح مکہ پہ وہ سرکار کی نیچی نظریں
دیدہ ور دیکھ لے منظر تو مزہ آ جائے
وہ محمدؐ ہی تھے سدرہ سے پرے جا بھی سکے
دیکھیں جبریل بھی بڑھ کر تو مزہ آ جائے
وہ محمدؐ ہی تھے سدرہ سے پرے جا بھی سکے
دیکھیں جبریل بھی بڑھ کر تو مزہ آ جائے
دیدِ محبوب خدا کا تو ہے ارماں سب کو
آئیں پردے سے نکل کر تو مزہ آ جائے
سوئے بیہوشؔ سرِ حشر سراپا رحمت
اک نظر ڈالیں جو ہنس کر تو مزہ آ جائے
٭٭
نور حق رب کا منشا مدینے میں ہے
حق کے بندوں کا آقا مدینے میں ہے
ذاتِ مطلق کا جلوہ مدینہ میں ہے
کنت کنزاً کا پردہ مدینے میں ہے
اپنی پرسش کی پروا نہیں حشر میں
عاصیوں کا سہارا مدینے میں ہے
کوئی مایوس اس در سے لوٹا نہیں
دونوں عالم کا داتا مدینے میں ہے
جس کے دامن میں رحمت ہی رحمت چھپی
وہ مرا کملی والا مدینے میں ہے
دونوں عالم ہی کیا جگمگا جائیں دل
ایک ایسا اُجالا مدینے میں ہے
جس کا ادنیٰ سا پرتو ہیں شمس و قمر
وہ سراجاً منیرا مدینے میں ہے
صورت عبد میں ڈھل کے جو آ گیا
نور کا اک تماشا مدینے میں ہے
ہوش آ جائے گر دیکھے بے ہوشؔ اُسے
اس کرامت کا چہرہ مدینے میں ہے
٭٭
دن رات ہے رحمت کی برسات مدینے میں
اک عمر سے بہتر ہے اک رات مدینے میں
اقصیٰ بھی مقدس ہے کعبہ بھی مقدس ہے
پر سب سے نرالی ہے اک بات مدینے میں
ہر زائر طیبہ کی پیشانی ملک چومے
بڑھ جاتے ہیں انساں کے درجات مدینے میں
خوش بخت ہے وہ جس کو دیدار محمدؐ ہو
کھل جاتی ہے آنکھوں کی اوقات مدینے میں
جس نور سے روشن ہیں یہ شمس و قمر دونوں
اس نور کے دیکھے ہیں ذرات مدینے میں
جنت کا تصور تھا دیکھا جو وہاں جا کر
جنت سے بھی بہتر ہیں حالات مدینے میں
بے ہوشؔ کے دامن میں کچھ اشک کے موتی ہیں
پہونچا دے خدارا یہ سوغات مدینے میں
٭٭
آپؐ محبوبِ خدا، نورِ خدا، شانِ خدا
شکل ظاہر پہ کسے آپؐ کا ہمسر سمجھوں
کسی انسان میں یہ وصف یہ قدرت بھی ہے
جسم سے ٹپکا نکل آئے لطافت بھی ہے
اک اشارے سے قمر شق ہو یہ ہمت بھی ہے
مظہر ذات قدم، ماریں نہ دم لوح و قلم
کیوں نہ میں آپؐ کو خود ذات کا مظہر سمجھوں
دونوں عالم کی نگاہوں میں ہے معراج کی رات
نکلی آغوشِ حرم سے سوئے اقصیٰ یہ ذات
پیچھے صف باندھے کے حاضر تھی رسولوں کی برات
آپؐ کی شانِ امامت پہ فدا تھے آدمؑ
کیا خطا ہے جو رسولوں کا بھی افسر سمجھوں
٭٭
جنت کی فضا مانگ نہ جینے کی دعا مانگ
مومن ہے تو عشق شہ لولاک لما مانگ
اللہ سے اے واقف اسرار خدا مانگ
اتنا ہے محمدؐ کو خدا سے نہ جدا مانگ
تو حشمت یوسف نہ سلیماں کی عطا مانگ
ہر وقت اویس قرنی ہی کی ادا مانگ
لا تدرک الابصار کو سن کر نہ ہو مایوس
اے طالب حق دیدِ پیمبر کی دعا مانگ
تو چاہے کہ حضرت کا کرم تجھ پہ ہو فوراً
اے دست طلب آلِ محمدؐ کی ولا مانگ
وہ اپنے کرم سے جو تجھے اذنِ طلب دیں
کچھ اور نہ اُن سے بھی کبھی ان کے سوا مانگ
قسمت سے جو مل جائے تجھے درد محبت
بد بخت نہ بن درد کی ہر گز دوا نہ مانگ
خود جنت رضواں کو تمنا ہے اسی کی
اے مانگنے والے تو مدینے کی ہوا مانگ
وہ شافع محشر بھی ہیں اور رحمت کُل بھی
ہر چیز وہ دے سکتے ہیں چل ہاتھ اُٹھا مانگ
سرکار مرے ہاشمی و مُطَلِّبی ہیں
وہ خود ہیں سخی ابن سخی سامنے آ مانگ
تقدیر سے ہاتھ آئی ہے بے ہوشؔ یہ ساعت
وہ سامنے ہیں ہوش کا انداز نیا مانگ
٭٭
طیبہ کی طرف احباب چلے پھر یاد مدینہ آئی ہے
پھر گنبد خضرا کی سبزی آنکھوں میں مری لہرائی ہے
اے قافلے والو شام و سحر مسعود ہو یہ طیبہ کا سفر
پہنچا دو وہاں تک یہ بھی خبر پھر دید کی حسرت چھائی ہے
یاد آتی ہے رہ رہ کر وہ فضا وہ داخلہ باب رحمت کا
دن رات یہاں محسوس ہوا حضرت کی سواری آئی ہے
اللہ رے روضے کا عالم افلاک کا سر ہے اس جا خم
ہے عرش بھی جس کے زیرِ قدم اس نور کی یہ چھانی ہے
آقائے دو عالم کا مسکن قرباں ہیں جس پر جان و تن
فردوس نے یہ نزہت یہ پھبن صدقے میں اسی کے پائی ہے
کس طرح کہے دکھڑا سارا ہے مہر بلب غم کا مارا
سرکار پہ روشن ہے سب کچھ جو دل کی مرے گہرائی ہے
مانا کہ وہ غرقِ عصیاں تھا بے ہوشؔ پہ فضل یزداں تھا
محبوبِ خدا کا ثنا خواں تھا یہ بات خدا کو بھائی ہے
٭٭
تم دو عالم کے ہو مختار رسولِ عربی
رحمت عام کے گلزار رسول عربی
ہیں شہادت میں اگر انا فتحنا کی ضیاء
غیب میں معدن اسرار رسولِ عربی
آپ کے نور سے رخشاں ہوئی کعبے کی زمیں
کعبے کے قبلۂ انور رسول عربی
ہاں وہی قبلۂ اول وہ حریم اقصیٰ
تیری معراج کا شہکار رسول عربی
جس میں نبیوں نے ترے ساتھ ادا کی تھی نماز
اے امامت کے سزاوار رسول عربی
اب اسی مسجدِ اقصیٰ کے بہ آواز بلند
چیختے ہیں در و دیوار رسولِ عربی
چاہنے والے ترے زندہ بھی جل سکتے ہیں
ہے یہ ایمان کا معیار رسول عربی
ہے جو داؤد کی منزل جو سلیمان کا تخت
ہے جو موسیٰ کا بھی گلزار رسولِ عربی
تیری اُمت کو ہے درکار سہارا تیرا
ہم تو ہیں مرنے کو تیار رسول عربی
پار دریا جو ہوئے تھے جو بنی اسرائیل
تیری رحمت کا تھا اظہار رسول عربی
عرض بے ہوشؔ کی ہے فتح عدو پر ہو عطا
اپنی اُمت کے طرفدار رسول عربی
٭٭
ہوش عبدیت سے انتخاب
نعت لکھنی ہے حضورؐ آپ کو کیا کیا لکھوں
پر تو ذات لکھوں، ذات کا پردہ لکھوں
دونوں عالم کی ہر اک شئے کی تمہیں ہو بنیاد
یدِ بیضاء دم عیسیٰ کہو اب کیا لکھوں
مرتبہ آپ کا قرآں سے سمجھ میں آیا
تمہیں یٰسین لکھوں یا تمہیں طٰہ لکھوں
آپ کی دید سے ظاہر ہوا حق کا منشا
رُخِ زیبا کو میں قرآن کا پارہ لکھوں
واصلِ ذات بھی ہو شاملِ مخلوق بھی ہو
تمہیں با خطِ جلی برزخ کبریٰ لکھوں
ان کے جلوؤں سے ہے معمور مرا دل تنہا
کیوں نہ میں دل کو مرے گنبد خضریٰ لکھوں
ارض طیبہ تری آغوش میں ہیں ختم رسل
مجھ سے پوچھے کوئی جنت تو مدینہ لکھوں
منزل قرب کی ہر ایک ادا یاد تو ہے
قاب قوسین، لکھوں یا فتدلی لکھوں
آپ بے ہوشؔ کے آقا بھی ہیں ہوش کل بھی
ذات مطلق کی انا کا تمہیں منشا لکھوں
٭٭
رئیس الانبیاء آئے شفیع المذنبین آئے
گنہگارو! مبارک رحمۃ للعالمین آئے
شہِ لولاک مقصودِ ازل دُرِّ ثمیں آئے
مبارک کنت کنزا مخفیا کے دل نشیں آئے
بصارت کیا بصیرت لوٹ آئے فیضِ پنہاں سے
جو نابینا کے خوابوں میں وہ چشمِ سرمگیں آئے
نہ ہو مرہون رحمت کیوں نہ اب عالم کا ہر ذرّہ
مرے سرکار بن کر رحمۃ للعالمین آئے
نہ جانے کب سے یہ بے ہوشؔ تھا عشق و محبت میں
مقدر دیکھئے خود ہوشِ کل اس کے قریں آئے
٭٭
رحمت مجسم ہے بات ان کی پیاری ہے
آخری نبی ہیں یہ فیض ان کا جاری ہے
بحر ہیں مرے آقا ہر نبیؐ ہے اک قطرہ
مہر و ماہ ہر تارا در کا اک بھکاری ہے
یہ حبیب داور ہیں اور شفیعِ محشر ہیں
ان ہی کا یہ صدقہ ہے جنت اب ہماری ہے
مرکز شریعت ہیں مصدر طریقت ہیں
ہر کلی ولایت کی آپ نے نکھاری ہے
نور لا الہ سے حق کی راہ دکھلائی
اس صدا سے باطل پر اب بھی لرزہ طاری ہے
صدقہ کیا کرے بے ہوشؔ اب تمہارے قدموں پر
جان کس طرح وارے جان بھی تمہاری ہے
٭٭
شب اسریٰ کی راہوں میں جو اقصیٰ کا مقام آیا
ملائک چیخ اٹھے خوش ہو کے نبیوں کا امام آیا
دکھا دی حق نے عظمت انبیاء کو اس تعارف سے
یہی ہیں وہ تمہارے لب پہ اکثر جن کا نام آیا
نبی وہ ہے مقلد ہے جو آئین محمدؐ کا
ولی وہ ہے کہ جس کو آپ کا ربطِ دوام آیا
جو گزرے یاد میں ان کی حیات معتبر وہ ہے
وہ مومن ہے جسے ان کا تصور صبح و شام آیا
نگاہِ ساقیٔ کوثر نے بخشی ہے جنھیں مستی
پلٹ کر بھی نہ دیکھیں گر انھیں کوثر کا جام آیا
تصدق چشمِ مازاغ البصر کے دیکھ کر جلوہ
نہ ٹھٹکی اور نہ جھپکی جب مقامِ انضمام آیا
میں بیخود ہی سہی بے ہوشؔ لیکن فیض نسبت سے
مرا ہوش عقیدت ہر قدم پر میرے کام آیا
٭٭
وہی ہیں یقیں و گماں دینے والے
زمانے کو حق کا نشاں دینے والے
غلاموں کو باغ جناں دینے والے
مدینے میں ہیں دو جہاں دینے والے
اگر آپ چاہیں تو پتھر ہو گویا
کہ ہیں بے زباں کو زباں دینے والے
وہ جذبہ صحابہؓ کا اللہ اکبر
نبیؐ کے اشارے پہ جاں دینے والے
جو پیرو ہے ان کا وہ حق کا ہے پیارا
مکاں کیا یہ ہیں لامکاں دینے والے
ادھر بھی ہو لطف و کرم شاہِ والا
نہاں دینے والے عیاں دینے والے
ہیں اب بھی زمانے میں پوشیدہ ایسے
سبق معرفت کا نہاں دینے والے
غلامانِ حضرت کا رتبہ تو دیکھو
ہیں کعبے کی چھت پر اذاں دینے والے
گنہگار بے ہوشؔ کا ہیں سہارا
وہ بے گھر کو ہیں آستاں دینے والے
٭٭
عطا کر دو خدارا یا نبی مٹی مدینے کی
تمنا ہے بنے مٹی مری مٹی مدینے کی
مرے خالق کی نظروں میں جچی مٹی مدینے کی
جہاں میں ہے بعنوانِ جلی مٹی مدینے کی
نبیؐ کے سجدوں سے جو مل گئی مٹی مدینے کی
منور ہو گئی ہے دائمی مٹی مدینے کی
لئے پھرتی ہے اپنے دوش پر بادِ صبا اکثر
نبیؐ کے قدموں سے مہکی ہوئی مٹی مدینے کی
ہیں رشکِ طور یہ ذرات سارے ارض طیبہ کے
زمانے کی بنی ہے روشنی مٹی مدینے کی
درِ اقدس پہ اک میلہ لگا ہے جاں نثاروں کا
مقدر اس کا جس کو مل گئی مٹی مدینے کی
سوئے فردوس جانے سے نہ روکا مجھ کو رضواں نے
مرے ماتھے پہ شاید دیکھ لی مٹی مدینے کی
مبارک ہو تجھے خلد بریں کی آرزو زاہد
مری قسمت میں ہے لکھی ہوئی مٹی مدینے کی
مرے سرکار کے قدموں کا یہ اعجاز تو دیکھو
اُجالے بانٹتی ہے آج بھی مٹی مدینے کی
شہہِ لولاک کے جلوے بسے ہیں میری آنکھوں میں
مری آنکھوں کا سرمہ بن گئی مٹی مدینے کی
ابھی اک آن میں بے ہوشؔ کو بھی ہوش آئے گا
سنگھادے گر اسے لا کر کوئی مٹی مدینے کی
٭٭
آپ نبیوں کے بھی ہیں نبیؐ
اقتدا سب نے کی آپ کی
چاند سورج کی کیا روشنی
اک جھلک ہے حضورؐ آپ کی
پاس اُمت رہا ہر گھڑی
لب پہ تھا امتی امتی
ان کے صدقے میں پلتے ہیں سب
کوئی عاصی ہو یا متقی
نام احمد میں ہے وہ اثر
ہر بلا ہر مصیبت ٹلی
وجہ تخلیق عالم ہو تم
تم سے ہے زندگی زندگی
گلشن مصطفی ہے سجا
مدح کرتی ہے اک اک کلی
آپ مثل بشر کیا بنے
آئی صورت میں بے صورتی
پائے سرور پہ بے ہوشؔ ہوں
میری قسمت ہے کتنی بڑی
٭٭
وہ وحدت کا سر نہاں ہیں محمدؐ
کہ خود راز ہیں راز داں ہیں محمدؐ
زمیں ہیں محمدؐ زماں ہیں محمدؐ
مکانوں سے تا لامکاں ہیں محمدؐ
محمدؐ کے جلوے ہیں ارض و سما میں
نظر ہے تو سب میں عیاں ہیں محمدؐ
محمدؐ، محمدؐ وظیفہ ہے میرا
مری جان کیا جان جاں ہیں محمدؐ
نہ بھٹکا کوئی راہرو راہ حق میں
شریعت کے خود پاسباں ہیں محمدؐ
کبھی فرش پر ہیں کبھی عرش پر ہیں
یہاں ہیں محمدؐ وہاں ہیں محمدؐ
محمدؐ کے لہجے میں رب بولتا ہے
مشیت کی گویا زباں ہیں محمدؐ
نہ ہوتا کبھی ربط بندے کا رب سے
خدا کی قسم درمیاں ہیں محمدؐ
وہ پردہ اٹھا دیں تو بے ہوشؔ ہوں میں
رہے ہوش تو ہوش جاں ہیں محمدؐ
٭٭
نورِ نبیؐ ہی نورِ خدا ہے، نورِ نبیؐ کی بات نہ پوچھو
جس کے صفات آئیں نہ سمجھ میں، اس کا مقام ذات نہ پوچھو
لفظ نہیں اظہار کے قابل، قلب کے احساسات نہ پوچھو
بولتا قراں ہیں جو محمدؐ، ان کے ارشادات نہ پوچھو
نور کی بارش آٹھوں پہر ہے، رات یہاں کی مثل سحر ہے
شہر مدینہ خلد نظر ہے، کیسے ہیں دن رات نہ پوچھو
زندگی میری عشق نبیؐ ہے، ہجر میں لیکن جاں پہ بنی ہے
ایک اک لمحہ اک اک صدی ہے، کیسے کٹے لمحات نہ پوچھے
ذات خدا بے مثل و غنی ہے، اس کے یہاں کس شئے کی کمی ہے
دینے والا سب کو وہی ہے، لیکن ہے کس کا ہاتھ نہ پوچھو
جود و سخا کا بہتا ہے دریا، سب کو بلا کر دیتے ہیں آقا
کس کا دامن کتنا بھرا ہے، کتنی ملی خیرات نہ پوچھو
سب کچھ ہے اک نسبت سرور، قلب منور روح منور
ناز ہے مجھ کو کس کے کرم پر، کون ہے میرے ساتھ نہ پوچھو
بے ہوشؔ ان کا ہوں میں سگ در، جن کی نظر ہے میرا مقدر
مجھ کو ازل سے ناز ہے اس پر، ورنہ میری اوقات نہ پوچھو
٭٭
ہیں ارض و سما مظہر انوارِ محمدؐ
ہیں کون و مکاں منظر آثارِ محمدؐ
کیا عرض کریں گرمیِ بازار محمدؐ
خود رب محمدؐ ہے خریدار محمدؐ
محدود نہیں وسعت دربار محمدؐ
جب فرش سے تا عرش ہے گلزار محمدؐ
ملتا ہے اسے حق کی عبادت کا سلیقہ
جو بندۂ مخلص ہے پرستار محمدؐ
ایوانِ قدم کس کی تجلی سے ہے روشن
خود سوچئے ہے کون طلبگار محمدؐ
خاکِ در والا کا ہے جس آنکھ میں سرمہ
زیبا ہے اسی آنکھ کو دیدارِ محمدؐ
سدرہ پہ ہوئی ختم جو جبریل کی پرواز
طے کر گئی ہر فاصلہ رفتارِ محمدؐ
ہے اس کی نظر پردہ کشائے دم عیسیٰ
بڑھ کر ہے مسیحا سے بھی بیمار محمدؐ
ہے ہوشِ خودی حائل ادراکِ حقیقت
بے ہوشؔ پر کھل جاتے ہیں اسرار محمدؐ
٭٭
مزمل و مدثر و طٰہ نہیں کوئی
کونین میں اس شان کا آقا نہیں کوئی
سجدے ہیں زمیں پر تو قدم عرش بریں پر
سرکار مرے آپ سا بندہ نہیں کوئی
ائے طالب دیدارِ نبیؐ ہوش میں رہنا
طیبہ ہے یہ برق سر سینا نہیں کوئی
قوسین کی منزل میں کھلیں راز کی باتیں
محبوب کا محبوب سے پردہ نہیں کوئی
کلمے میں اذانوں میں بھی ہے نام تمہارا
کیا شان تمہاری ہے یہ سمجھا نہیں کوئی
محتاجِ مسیحا نہیں بیمار محمدؐ
یہ درد وہ ہے جس کا مداوا نہیں کوئی
جو نقش کف پائے نبیؐ پر نہ ادا ہو
سجدہ مری نظروں میں وہ سجدہ نہیں کوئی
پھر جاتے ہیں دامن یہاں سب شاہ و گدا کے
خالی در سرکار سے جاتا نہیں کوئی
جیتا ہوں میں سرکار کی رحمت کے سہارے
جینے کا مرے اور سہارا نہیں کوئی
ہے منزل حق پر جو پہنچنے کی تمنا
طیبہ کے سوا دوسرا رستہ نہیں کوئی
بے ہوشؔ یہ سب فیض ہے اس نور ازل کا
مجھ کو تو کسی بات کا دعویٰ نہیں کوئی
٭٭
تزئین گلستاں ہے گفتار محمدؐ سے
تخلیق بہاراں ہے رفتار محمدؐ سے
کونین کی ہر شئے ہے آثار محمدؐ سے
خود عرش کی زینت ہے انوار محمدؐ سے
وہ رحمت عالم ہے وہ خیر مجسم ہے
ہر خیر اُبھرتا ہے کردار محمدؐ سے
اللہ کا سرمایہ اور داد و دہش ان کی
خالی نہ پھرا کوئی دربار محمدؐ سے
ان پھولوں کی برکت سے فردوس کی عظمت ہے
جو پھول نکلتے ہیں گلزار محمدؐ سے
میخانہ وحدت کی رونق ہے تو اس سے ہے
اچھی نہیں گستاخی سرشار محمدؐ سے
خود اپنی ہی ہستی سے بے ہوشؔ نہیں واقف
یہ رمز بھی ہے شاید اسرار محمدؐ سے
٭٭
جلوہ مرے سرکار کا ایسا نظر آئے
میں بند کروں آنکھ وہ چہرہ نظر آئے
انوارِ الٰہی کا تماشا نظر آئے
سب کچھ نظر آئے جو مدینہ نظر آئے
آنکھوں میں جہاں اشک کے دریا نظر آئے
مائل بہ کرم صاحب اسریٰ نظر آئے
کونین کی تخلیق کا منشا ہوا پورا
جب روئے زمیں پر مرے آقا نظر آئے
وہ روشنی قلب و نظر دے مجھے یا رب
جب یاد کروں گنبدِ خضریٰ نظر آئے
انساں تو پھر انساں ہے شجر اور حجر بھی
اک فیض نظر سے ترے گویا نظر آئے
اللہ کا دیرا ہے پردے میں نبیؐ کے
پردہ اگر اٹھ جائے تو پھر کیا نظر آئے
کوثر ہو کہ قوسین ہو یا عرش معلیٰ
محبوب خدا ہر جگہ تنہا نظر آئے
بے ہوشؔ مکمل جو ترا ہوش نظر ہے
ہر ذرے میں وہ نور سراپا نظر آئے
٭٭
کُنْتُ نبیاً کا ارشاد حبّذا اچھا لگا
آپ کے انوار کا یہ سلسلہ اچھا لگا
وہ مقام لی مع اللہ آپ کا اچھا لگا
سرور کونین کا یہ مرتبہ اچھا لگا
مسجد اقصیٰ کا نظارہ بڑا اچھا لگا
انبیاء میں وہ امام الانبیاء اچھا لگا
جب گئے نعلین پہنے عرش اعظم پر حضورؐ
آپ کی نعلین کا وہ ارتقا اچھا لگا
عرش پر سرکار کا اسم مبارک دیکھ کر
حضرت آدم کو اس کا واسطہ اچھا لگا
ہیں صحابہ جو مرے سرکار کو گھیرے ہوئے
ہم تو کیا خالق کو بھی یہ دائرہ اچھا لگا
نور اول عبد کامل بن کے جو ظاہر ہوا
یا نبیؐ اس عبدیت کا معجزہ اچھا لگا
کی ثنا قرآن میں اللہ نے سرکار کی
آپ کا یہ تذکرہ صلِّ علیٰ اچھا لگا
نقش پا پر ماہ و انجم کہکشاں قربان ہیں
شاہ طیبہ کا مجھے ہر نقش پا اچھا لگا
٭٭
جب فکر و نظر کے مدِّ نظر سرکار کی سیرت ہوتی ہے
اس آنکھ میں عبرت ہوتی ہے اس دل میں بصیرت ہوتی ہے
اخلاص بھری جن آنکھوں میں سرکار کی عظمت ہوتی ہے
ہر گام پہ ان کے پیش نظر تعمیل شریعت ہوتی ہے
مانا بھی جو ان کو کیا مانا تعمیل سے دل ہے بیگانہ
تعمیل مکمل سے حاصل ایمان کی دولت ہوتی ہے
دعوائے محبت عام تو ہے عرفانِ محمدؐ عام نہیں
ہر نقش قدم سے وابستہ اللہ کی رحمت ہوتی ہے
کچھ اور تڑپ اے ذوق طلب کچھ اور بڑھا دے رنج و تعب
طیبہ وہی جاتے ہیں جن کو حضرت کی اجازت ہوتی ہے
اس ختم رسل کا کیا کہنا محبوب خدا ہے صلِّ علیٰ
ہر نقش کف پا سے روشن اک شمع ہدایت ہوتی ہے
اللہ محبت کرتا ہے محبوب کے ہر دیوانے سے
اس دل کا مقدر جس دل میں حضرت کی محبت ہوتی ہے
بے پردہ جو آئیں کیا ہو گا اک محشر نو برپا ہو گا
جب ان کے تصور سے اتنی روشن شب فرقت ہوتی ہے
بے ہوشؔ کو ان کی راہوں میں کچھ اس کے سوا اب ہوش نہیں
جو ترک خودی کر دیتا ہے بس اس کی شفاعت ہوتی ہے
٭٭
میرے آقا کی ایک اک ادا معجزہ
چلنا پھرنا بھی ہے آپ کا معجزہ
زیست کا لمحہ لمحہ رہا معجزہ
ابتداء معجزہ انتہا معجزہ
نور مطلق کی صورت کہاں ہے کوئی
شکل انساں میں آنا بنا معجزہ
انگلیوں سے جو چشمے رواں ہو گئے
یہ بھی ہے میرے سرکار کا معجزہ
معجزہ معجزہ ہے ہر اک حال میں
کوئی چھوٹا نہ کوئی بڑا معجزہ
علم کا شہر ہیں جب کہ آقا مرے
ہے یہ اُمی لقب آپ کا معجزہ
عقل عاجز ہے ادراک سے آپ کے
آپ کا ہے ہر اک مرتبہ معجزہ
نورِ حق پر تقید کا اطلاق کیا
سبز گنبد میں چھپنا بنا معجزہ
اُلفت ہوش کل میں میں بے ہوشؔ ہوں
میرا جینا ہے سرکار کا معجزہ
٭٭
حضورؐ آئے کسی کے منہ سے گر پیہم نکل جائے
تو استقبال کو سینے سے میرا دم نکل جائے
زلیخا دیکھ لے سرکار کے گیسو اگر اک دن
تو دل سے حسنِ یوسف کا بھی پیچ و خم نکل جائے
اگر اس حسنِ عالم سوز کے رُخ سے نقاب اُٹھے
نہ جانے بیخودی میں کس طرف عالم نکل جائے
نگاہِ مست احمد آنکھ بھر کر دیکھ لی جس نے
سراپا وجد کے عالم میں جام جم نکل جائے
تجلی مصحف رُخ کی اگر پڑ جائے کافر پر
بھلا کر کفر لے کر دین کا پرچم نکل جائے
یہ ڈر ہے عشق احمد میں نہ اُٹھے نوح کا طوفاں
اگر حسرت تری اے دیدۂ پُرنم نکل جائے
نکل سکتا نہیں بے ہوشؔ کے دل کا اگر ارماں
تمہارے آستاں پر دم ہی کم سے کم نکل جائے
٭٭
ہیں مدینے میں سب یہ کہتے ہیں
میرے دل میں حضورؐ رہتے ہیں
جو ہیں ان کے رہیں گے ان کی طرف
کب زمانے کے ساتھ بہتے ہیں
ہم کو طوفاں ڈرا نہیں سکتے
ان کے در سے چمٹ کے رہتے ہیں
حوصلہ ہے فقط حضورؐ کا یہ
کہ دعا دے کے ظلم سہتے ہیں
مرتبت یہ ہیں انبیاء کے امام
سب سے آگے حضورؐ رہتے ہیں
جو بھی آیا وہ تشنہ لب نہ رہا
یہاں دریا کرم کے بہتے ہیں
ہوش سے بے نیاز ہے بے ہوشؔ
ہوشِ کل ساتھ ساتھ رہتے ہیں
٭٭
ہیں آنکھوں میں طیبہ کے جب سے نظارے
نظر میں سماتے نہیں چاند تارے
بدلتے ہیں رُخ تو بدل دیں کنارے
سفینہ ہے اپنا نبیؐ کے سہارے
انھیں کی شفاعت ہے ضامن ہماری
ہمیں بخشوائیں گے آقا ہمارے
نہیں خوف طوفاں کا دینِ نبیؐ کو
یہ کشتی پہنچ کر رہے گی کنارے
منور ہے ہر گوشہ سیرت کا اتنا
کہ روشن ہیں خود اس سے قرآں کے پارے
مقید نہیں نور شاہ مدینہ
نظر آئے ہر شئے میں ان کے نظارے
پڑے گی کہاں سرد خاکستر دل
ابھی عشق سرور کے ہیں کچھ شرارے
خود اپنی مثال آپ ہے نور آقا
یہاں کام دیتے نہیں استعارے
وہاں حشر تک رحمتیں ہیں خدا کی
جہاں عمر کے دن نبیؐ نے گزارے
ہے بے ہوشؔ ہاتھوں میں آقا کا دامن
خدا کی قسم ہم نہیں بے سہارے
٭٭
دل میں پھر طیبہ نگر کی آرزو ہے دوستو
گنبدِ خضریٰ نظر کے روبرو ہے دوستو
آج بھی کون و مکاں کا ذرہ ذرہ ہے گواہ
روئے زیبا کی تجلی چار سو ہے دوستو
چل رہا ہے جن کے صدقے میں نظامِ کائنات
ذکر ان کا ان کی شہرت کو بہ کو ہے دوستو
جو کتابی شکل میں قرآں سے موسوم ہے
وہ خدا کی اور نبیؐ کی گفتگو ہے دوستو
سامنے سرکار کے اونچی نہ ہو آواز تک
حکم حق قرآن میں لاترفعوا ہے دوستو
ہم تو کیا حور و ملک کرتے ہیں روضے کا طواف
گنبدِ خضریٰ بھی کتنا خوبرو ہے دوستو
دوجہاں جن کے پسینے کی مہک سے مست ہیں
طیبہ کی گلیوں میں اب بھی ان کی بو ہے دوستو
کیا کرے کوئی شمار آقا کے احسانات کا
ان کے صدقے میں تو خلقت سرخرو ہے دوستو
ہوں غلام مصطفی میری جبین شوق کو
شاہ دیں کے نقش پا کی جستجو ہے دوستو
ہو غلام مصطفی میری جبین شوق کو
شاہ دیں کے نقش پا کی جستجو ہے دوستو
نعت گوئی کا شرف اس کو ملا سرکار سے
کہتے ہیں بے ہوشؔ شاعر خوش گلو ہے دوستو
٭٭
صدیق اکبر
خلافت کی ہے جن کی ابتداء صدیق اکبر ہیں
کہ پہلے جانشین مصطفی صدیق اکبر ہیں
شعار دنیوی میں ہیں نمونہ رحمت حق کا
اُمور دین میں شمشیر خدا صدیق اکبر ہیں
زکوٰۃِ مال کا جب مسئلہ اُٹھا ہے ملت میں
ہوا ظاہر اصولی رہنما صدیق اکبر ہیں
نبیؐ کے نام پر معراج کی تصدیق فرما دی
صداقت کا عروج و منتہا صدیق اکبر ہیں
نبوت سے خلافت متصل ہے آپ کی حد تک
مسلم ہے کہ بعد انبیاء صدیق اکبر ہیں
مٹے فتنے چھٹی ظلمت اُجالا ہو گیا آخر
رہِ دینِ محمدؐ کی ضیاء صدیق اکبر ہیں
نہ بھولے گا زمانہ جرأت بے باک کا منظر
فضائے کفر میں حق کی صدا صدیق اکبر ہیں
بنی ہیں بے سرو سامانیاں ساماں خلافت کا
امیر صاحب واحد قبا صدیق اکبر ہیں
سنو بے ہوشؔ کیا کہتے ہیں اہل ہوش حضرت کو
سفینہ دین ہے اور ناخدا صدیق اکبر ہیں
٭٭٭
سلام
شافع روزِ محشر پہ لاکھوں سلام
مالک حوضِ کوثر پہ لاکھوں سلام
ظلمت کفر میں جو درخشاں ہوا
حق کے اس ماہِ انور پہ لاکھوں سلام
ہو کے مجروح طائف میں دی ہے دعا
رحمت حق کے مظہر پہ لاکھوں سلام
رات بھر کی نمازوں سے سوجھے ہیں پاؤں
عبد کامل کے پیکر پہ لاکھوں سلام
جس کی خوشبو سے دنیا معطر ہوئی
اس کی زلف معنبر پہ لاکھوں سلام
فکر اُمت میں جو سر بہ سجدہ رہا
اس علو مرتبت سر پہ لاکھوں سلام
ہے جو خیرالرسل خاتم الانبیاء
نازش ہر پیمبر پہ لاکھوں سلام
شکم اطہر پہ فاقوں میں باندھا جسے
سنگ کے اس مقدر پہ لاکھوں سلام
راہِ حق کا جو تنہا اُجالا بنا
اس چراغ منور پہ لاکھوں سلام
ساری مخلوق میں جس کا ہمسر نہیں
حق سے کم سب سے بہتر پہ لاکھوں سلام
پڑھئے بے ہوشؔ پیش حبیب خدا
حق تعالیٰ کے دلبر پہ لاکھوں سلام
٭٭
بے ہوشؔ محبوب نگری کے غیر مطبوعہ دکنی کلام سے انتخاب
ان کا رتبہ جو دکھایا تو تڑپ کو مر گئیں
پڑ کو قرآن سنایا تو تڑپ کو مر گئیں
باتاں نسبت کے سنایا تو تڑپ کو مر گئیں
رستہ طیبہ کا بتایا تو تڑپ کو مر گئیں
اہل سنت کے سوا کون نبی کو سمجھیا
حق کا جب سکہ جمایا تو تڑپ کو مر گئیں
جو بھی دیتا ہے خدا ہمنا ہے صدقہ ان کا
سب کو یہ راز بتایا تو تڑپ کو مر گئیں
دور تھے حب رسول عربی سے لوگاں
سو کو تھے جا کو جگایا تو تڑپ کو مر گئیں
جس نے دیکھا منجے اللہ کو اس نے دیکھیا
قول سرکار سنایا تو تڑپ کو مر گئیں
ہم کو جب دیتا ہے محبوب کو کیا کچھ نہ دیا
ان کا درجہ جو دکھایا تو تڑپ کو مر گئیں
ان کی خاطر سے تو پیدا ہوئے دونوں عالم
یاد لولاک دلایا تو تڑپ کو مر گئیں
نجدی سائے میں بے ہوشؔ تھے اکثر ہولے
جا کو مئیں ہوش میں لایا تو تڑپ کو مر گئیں
٭٭
رحمتوں پو رحمتاں لارئیں کتے
اب محمد مصطفی آرئیں کتے
آپ کے آتیچ دنیا میں بتاں
ہوندے منہ کعبے میں گر جا رئیں کتے
کیسی پیاری ہوں گی صورت آپ کی
چان تارے آنے شرما رئیں کتے
کیا سخاوت ہے مرے سرکار کی
جھولیاں بن مانگے بھر جا رئیں کتے
سارے نبیاں دیکھنے کو آئے ہیں
عرش پو سرکار اب جا رئیں کتے
عاصیو کیوں دم نکل را حشر میں
اپنے سرکار آ کو بخشا رئیں کتے
ساتھ گئے تو جل کو جائیں گے سب پراں
سدرہ پو جبرئیل رک جا رئیں کتے
اک جرا دیکھے تو بیڑا پار ہے
اس لئے بے ہوشؔ الڑا رئیں کتے
٭٭
حشر میں ادھر ان کی امت کھڑی ہے
ادھر خود ہیں کھاندے پو کملی پڑی ہے
وہ ہونٹاں ہیں رحمت کے یاقوت جسے
وہ دانتاں ہیں یا موتیاں کی لڑی ہے
یہ ہاتاں ہیں یا اس کی قدرت کا نقشہ
یہ انگلیاں ہیں یا پنجتن کی گڑی ہے
نہ آرے سے کٹتی نہ عصیاں سے گھٹتی
کہ یہ اپنی نسبت کی پکی کڑی ہے
میں راتاں کو فرقت میں روتوں تڑپ کو
رکی آہ تو آنسوؤں کی لڑی ہے
سنیا ہوں مصیفت میں آ کو بچاتئیں
چلے آؤ مجھ پو مصیفت پڑی ہے
اسی دن سے بے ہوشؔ کہتی ہے دنیا
نجر جب سے ان کی نجر سے لڑی ہے
٭٭٭
تشکر: ڈاکٹر اسلم فاروقی جنہوں نے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید