FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ہند کہانی

 (حصہ دوم)

 

انتخاب و ترجمہ:  عامر صدیقی

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

 

لالی بھُورو صوبہ دار کی

رما ناتھ شرما

 

 

لال چند، بھُورو صوبہ دار صاحب عرف صوبہ دار۔  ودھاتا کی تخلیق کے کچھ ایسے نمونوں میں سے تھے، جنہیں دیکھ کر لوگ مجبوراً کہہ اٹھتے تھے کہ بنانے والا بھی کبھی کبھار اپنے کھلونے سے ہی مذاق کر بیٹھتا ہے۔  پیدا ہوا تھا ہولی کے دن۔  شاید اسی لیے لال لال، چھلی چھلی سی، خون چھلکاتی شفاف چمڑی لے کر پیدا ہوئے تھے۔  کان بڑے بڑے، ناک چمٹی سی، بال بھورے اور ڈھیر کے ڈھیر سارے بدن پر۔  ان سب کے اوپر چمڑی سے بھی کہیں زیادہ شفاف دو بڑی بڑی نیلی آنکھیں۔  لے دے کر بھورے بالوں کی وجہ سے یہی بھورو نام چل پڑا تھا۔  گاؤں کے لئے ایک بہت بڑا عجوبہ بن کر پیدا ہوئے تھے۔  کچھ لوگوں نے تو یہ انفارمیشن بھی دی تھی کہ ودھاتا شیو جی کے یہاں ہولی منانے گئے تھے اور وہیں ڈٹ کر بھنگ پی گئے۔  لوٹتے ہوئے نشے میں گھر واپس جانے کے بجائے فیکٹری پہنچ گئے۔  نشے نشے میں انہوں نے بھُورو کو بنا کر آہستہ سے زمین پر ٹپکا دیا۔  اسی طرح کچھ اور بھی کھسر پھسر سنی گئی تھیں۔  جو بھی ہو، بھُورو کی پیدائش پر تالی نہیں بجی۔  گیت نہیں گائے گئے اور گاؤں، گھر کی عورتوں کے جوؤں بھرے بالوں میں سرسوں کا تیل چپڑ کے سیندور کی سرخ لکیریں بھی نہیں کھینچی گئیں۔  دائی تو شکل دیکھتے ہی بھاگ گئی۔  ماں باپ نے سر پیٹ لیا۔  پر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک بھی تو نہیں سکتے تھے۔  اور نام رکھا لال چند۔  ویسے بھُورو نہ سرخ تھے، نہ چند اور نہ ہی لال چند۔  بھُورو، بھُورو تھے۔  پانچ چھ سال کا ایک چچیرا بھائی تھا، اسی کے نام سے چند لے کر ان کے لال رنگ کے ساتھ شامل کر دیا گیا،۔  بس ہو گئے لال چند۔

بھُورو پلنے اور بڑھنے لگے۔  بغیر کسی کے پالے اور بڑھائے۔  ان کی زندگی کے پہلے پندرہ سال گالی، نفرت اور حقارت میں ہی گز رے۔  نہ اچھا کھانا، نہ پہننا، نہ ہی ماں باپ کی محبت۔  ہر آدمی جیسے انہیں اچھوت سمجھتا تھا۔  ایسا نہیں کہ کوئی ان پر ترس کھانے والا نہیں تھا۔  لیکن صرف ترس کھانے سے ہی تو بھُورو کا جینا آسان نہیں ہو سکتا تھا۔  میلے ٹھیلوں میں ایک دھیلے کی پھلی تک نہیں کھا سکتے تھے۔  جی للچا کر رہ جاتا کہ عام لڑکوں کی طرح وہ بھی کھیلیں۔ پر اڑوس پڑوس کے لڑکوں کو کیا کہیں، جب اپنے ہی گھر کے لڑکے ساتھ کھیلنے کو راضی نہیں ہوتے تھے۔  عمر میں چھوٹے چچیرے بھائی تو اور بھی دشمنی نکالتے تھے۔  بھُورو ہمیشہ للچائی آنکھوں سے سب کو کھیلتے دیکھتے رہتے۔  آخر ترس کر رہ جانے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔  عمر کے پندرہویں سال میں اچانک ایک حادثہ ہوا، جس نے بھُورو کی زندگی کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔  یہ وہی سال ہے جب بھُورو کو پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ اچانک بہت بڑے ہو گئے ہیں۔  ساتھ ہی یہ احساس بھی کہ لوگوں کے ترس بٹور کر جینے کی عادت اب انہیں چھوڑنی ہو گی۔  انہیں اب خود پر ہی انحصار کرنا پڑے گا، پھر آگے جو بھی ہو۔

بھُورو کے گھر کے پیچھے ایک بہت بڑا پیپل کا درخت تھا، سرِ راہ۔  چونکہ راستے کے اس پار برگد کے وسیع درخت کے نیچے چبوترے اور کنوئیں کی جگت پر گاؤں کے بڑے بوڑھے دوپہر کاٹنے کیلئے بیٹھتے تھے۔  اس لیے بچوں کا دَل کا دَل پیپل کے نیچے کھیلتا۔ کھیلنے والوں میں آس پاس کے تیلی، لوہار، بڑھئی، مالی، گونڈ، میاں، نونیاں، اور پنڈت گھرانوں کے بچے ہوتے۔  کبھی کبڈی، کبھی گلی ڈنڈا اور کبھی گولیوں کوڑیوں کا کھیل ہوتا۔  تماش بین، تماشا دیکھنے آتے اور کھیلنے والے کھیلنے۔  روز کی طرح آج بھی کھیل چل رہا تھا۔  گولی کا کھیل۔  ایک سے ایک چھپن چھری چُٹیلی گولیاں اور چمکدار چٹیلے سفید کنچے۔  بھُورو کی گولی کی سادھنا، ایکلویہ کی سادھنا سے کسی معنوں میں کم نہ تھی۔  قسمت بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ تھی۔  کسی درون اچاریہ کو گرو دکشنا میں شہادت کی انگلی یا انگوٹھے دینے کا سوال بھی نہیں اٹھتا تھا۔  رو، گا کر ماں سے ایک آدھ دھیلے گاہے بگاہے لے لئے اور آہستہ آہستہ چار کنچوں اور چھ گولیوں کی چمکیلی جماعت تیار ہو گئی۔  بھُورو کا نشانہ بے مثال تھا اور اس بے مثال نشانے بازی کے پیچھے شدید نوعیت کی پریکٹس چھپی تھی۔  جب دیگر لڑکے ایک ساتھ کھیل رہے ہوتے، تب بھُورو دور کونے میں مختلف زاویوں سے، مسلسل بڑھائے جانے والے فاصلوں سے، اپنے نشانے پر چوٹ کرنے کی اپنی صلاحیتوں کو مزید بڑھا رہے ہوتے۔  کبھی دونوں پاؤں پر اکڑوں بیٹھ کر دائیں ہاتھ کا انگوٹھا زمین پر دبائے یا کبھی ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر دوسرے پاؤں کے مڑے گھٹنے پر انگوٹھے جمائے، پہلی یا دوسری انگلی کی کور پر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور پہلی اور دوسری انگلیوں سے گولی دبائے، دیر تک اپنے ہدف پر وار کرنے کی مشق کرتے رہتے۔  گولی جب بھی چھوٹتی وہ نشانے پر ہی لگتی۔  بھُورو دور دور تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں ماہر ہو چکے تھے۔  مجال ہے کوئی نشانہ چوک جائے۔  سب سے زیادہ خوشی تو انہیں اس وقت ہوتی، جب ان کی مار سے نشانے والی گولی ٹوٹ کر چکنا چور ہو جاتی۔  ویسے بعد میں انہیں بہت افسوس بھی ہوتا ایک گولی کھو دینے کا، پر نشانے کا ٹوٹ کر بکھر جانا، ایک اندرونی اطمینان دے جاتا تھا انہیں۔

گولیوں میں ان کی جان بستی تھی۔  مجال ہے کہ ایک لمحے کیلئے بھی بھُورو ان گولیوں سے دور رہ جائیں۔  کمر کے مضبوط ناڑے سے بندھی ایک لمبی کپڑے کی جھولی میں نہایت جتن سے رکھی جاتی تھیں یہ گولیاں۔  جھولی کا منہ چوڑائی میں آر پار پروئے گئے دو مضبوط دھاگوں کے سروں کو ایک دوسرے سے الٹی جانب کھینچنے پر کھلتا اور بند ہوتا۔  بھُورو چلتے تو گولیوں کا باہمی ٹکرانا، ایک عجیب لے والی آواز پیدا کرتا۔  یہ لے تب کچھ اور ہی تیز ہو جاتی جب وہ تیز چلتے اور جھولی بار بار ان کے گھٹنوں سے ٹکراتی۔  لوگ دیکھ سن کر ہنستے پر بھُورو کیلئے یہ اپنی گولیاں کے صحیح سلامت ہونے کی گارنٹی تھی۔  جب سے انہوں نے دور دور تک صحیح چوٹ کرنے کے فن میں مہارت حاصل کی تھی، اس کے بعد سے، کم از کم گولی کے کھیل سے تو، ان کو اگنور کرنا تقریباً بند سا ہی ہو گیا۔  ہاں کبھی کبھی جب ان کی نشانے بازی حد سے بےحد ہو جاتی تو انہیں سب لونڈے متحد ہو کر کھیل سے باہر کر دیتے۔  اب کون کھیلے ایسے کے ساتھ جس کا کوئی نشانہ ہی خالی نہ جائے۔ ان کی عمر کے پندرھویں سال میں جس دن یہ حادثہ ہوا، اس دن بھی کھیل زوروں پر تھا۔  لیکن بھُورو کو کوئی ساتھ کھلانے کو تیار نہیں تھا۔  آدھے گھنٹے پہلے ہی ان کی درست نشانے بازی کی وجہ سے انہیں باہر بیٹھا دیا گیا تھا۔  پھول چند، سِریا، مگروا تینوں نے انکار کر دیا انہیں کھیل میں واپس لینے سے۔  مگروا نے تو نکلوایا ہی تھا پہلے بھی۔  لے دے کر ہری یا ہی بچ گیا تھا جو شاید بھُورو کی التجا سن سکے۔  بھُورو نے محبت، پیار اور کچھ کچھ عاجزی کی ملی جلی سی آواز میں درخواست کی۔  پر یہ کیا؟ ای سالا ہری یا بولتا ہے کہ لال بندر کے چوتڑ جیسا منہ لے کے پھر کیوں کھڑے ہو۔  بھُورو ایسے دل دُکھانے والے بولوں کی آنچ میں پکنے کے عادی ہو گئے تھے۔  پر آج تو حد ہی ہو گئی۔  آج تک کسی نے بھی ان کے منہ کا موازنہ لال بندر کے چوتڑ سے نہیں کیا تھا۔  بھُورو کے لئے یہ توہین برداشت سے باہر تھی، اس لئے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔  ایک ہی جھپٹے میں انہوں نے چار چھ گولیاں اٹھائیں اور یہ جا وہ جا۔  بچے پیچھے دوڑے۔ لیکن پھر وہی سالا ہری یا۔  دوڑ کر پیچھے سے آیا اور مار دی اڑنگی۔  بھُورو بیچارے منہ کے بل گرے۔  دانتوں کے درمیان پھنس کر زبان کٹ گئی۔  ہونٹ بھی کٹ گیا اور سارا منہ لہولہان۔  کچھ سنبھلے تو دیکھا کہ ہری یا ان کے سینے پر بیٹھا ہوا مٹھیوں سے گولیاں چھین رہا ہے۔  تبھی سِیریا اچانک اپنے ایک پاؤں کا بھرپور وزن ڈال جھٹکے سے ان کے ہاتھ کی بندھی مٹھی پر چڑھ کر کھڑا ہو گیا۔  بھُورو کے منہ سے آہ نکل گئی۔  گولیاں تو چھنی ہی، اوپر سے ہری یا نے دو چار گھونسے بھی جڑ دیے۔  بھُورو کراہتے ہوئے اٹھے۔  سوچا یہاں سے دور نکلوں پر یہ چوٹ سہوں تو کیسے۔  قسمت سے پاس ہی پڑا مل گیا پتھر کا ایک نوک دار ٹکڑا۔  آؤ دیکھا نہ تاؤ تان کر بھُورو نے وہ دے مارا اور ہری یا، باپ باپ کہتا ہوا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔  بھُورو نے جب خون دیکھا تو سر پٹ بھاگے ریلوے لائن کے اس پار کھیرا کے گھنے باغیچوں کی طرف۔  گاؤں سے کچھ دور ریلوے لائن کے پار، یہی وہ باغیچے ہیں جہاں ہمیشہ ہی انہیں سکون ملتا رہا ہے۔

ادھر لونڈوں کی چوکڑی نے ہری یا کو گھر پہنچایا، جہاں اس کی ماں نے سر کا زخم دھویا اور ایک چیتھڑا جلا کر اس کی راکھ سے زخم کو بند کر دیا۔  اب تلاش ہونے لگی بھُورو کی۔  کھیرا پہنچ کر بھُورو نے پہلا کام کسی محفوظ جگہ کو تلاش کرنے کا کیا۔  ایک ایسی جگہ جہاں یہ چنڈال چوکڑی انہیں نہ پکڑ سکے۔  وہ کھیرا کے جنوب مغربی کونے پر، کنوئیں سے دور برنا تال کے شمالی سرے پر، جہاں آج بھی مائی کا باغیچہ ہے، گئے۔  یہاں سے جنوبی گاؤں کا شمشان ہے اور مغرب کی طرف گھنے باغیچے۔  یہاں تو دن میں بھی لوگوں کو بھوت نظر آتے ہیں۔  بھُورو کے ساتھ بھگوان نے چاہے اور جو بھی کیا ہو، انہیں ڈرپوک نہیں بنایا تھا۔  ایسا شاید اس لیے بھی ہو کیونکہ جس ناک نقشے اور قسمت کے بھروسے وہ تھے، اس میں کم از کم اگر کچھ اضافہ کرنے کی گنجائش نہیں تھی تو کمی بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔  ان کا کوئی کیا ٹیڑھا کر سکتا تھا۔  ارے ان کا سیدھا ہی کیا تھا جس کے لئے وہ ہلکان ہوتے۔  ڈر تو انہیں بالکل نہیں لگا پر یہ اکیلا پن بذات خود ایک حادثہ تھا۔  ایسا نہیں کہ کھیرا کے باغیچوں وہ بھٹکے نہیں تھے۔  کئی بار آئے گئے ہیں یہاں۔  اس کے چپے چپے سے واقف ہیں، پر اس بار کا آنا تو کچھ اور ہی ہے۔  اس بار تو یہ نہیں لگتا کہ کب واپسی ہو گی اور کتنے دن تک چوروٕں کی طرح جینا پڑے گا۔  کیا کھائیں گے، کہاں سوئیں گے؟ اور کوئی تو نہیں لیکن ماں ضرور کھوجے گی۔  اے بھگوان، کیسی مصیبت میں جان پھنس گئی۔

چار دن گزر گئے۔  اس دوران بھُورو دن میں اکثر درخت کی ڈال پر چپکے سوتے رہتے۔  رات میں اترتے اور اِدھر اُدھر بھٹکتے۔  کچھ کھانے کی تلاش کرتے۔  پر سبز چنے، مٹر، چقندر، گاجر، بیر اور امرودوں کے علاوہ کچھ خاص حاصل نہیں ہو پایا۔  آفت کی ماری ایک بکری بھٹک کر اپنے میمنے کے ساتھ باغ میں آ گئی تھی۔  بھُورو نے میمنے کو دیکھ کر سوچا بکری ضرور دودھ دینے والے ہو گی اور وہ تھی بھی۔  بھُورو نے بڑی بھاگ دوڑ کے بعد بکری کو پکڑا اور اس کا دودھ پیا۔  پانچویں دن بھُورو نے تھوڑی ہمت سے کام لیا۔ درخت سے اتر کر مشرقی  کنوئیں پر گئے۔  پھر آہستہ آہستہ پنڈتوں کے ڈیرے کی طرف۔  تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ بلرام پنڈت نظر گئے جو فارغ ہو کر آ رہے تھے۔  وہ بولے۔

’’ارے تو کہاں تھا رے بھُورو۔  تیری مہتاری تیرے لئے ہلکان ہو رہی ہے۔  ہری یا ٹھیک ٹھاک ہے اور اس کی مائی اب تجھے کچھ نہیں بولے گی۔  تو اب گھر واپس جا۔ ‘‘

بھُورو کو نہ جانے کیا ہوا کہ گلا پھاڑ کر رو پڑے۔  بلرام پنڈت نے اپنا لوٹا زمین پر رکھا اور لگے بھُورو کو سمجھانے، ’’ارے ای کھیل ہے۔  کھیل میں جھگڑا تو ہو گا ہی رے، تم نے مارا ماری کی تو وہ سب کیا تم کو چھوڑ دے گا۔  اس میں کیا بات ہے رے، جا ا رے، گھر جا۔ ‘‘

گزشتہ چار پانچ دنوں کے خود ساختہ جلاوطنی نے بھُورو کو اچانک ہی بہت خود اعتماد بنا دیا تھا۔  لگتا تو یہ بھی تھا کہ وہ اچانک ہی بہت بڑے ہو گئے ہیں۔  اپنی آنکھوں کے آنسو، گولیوں والی جھولی سے پونچھتے ہوئے بھُورو نے اتنا ہی کہا۔

’’اب کونسا گھر۔  ہم نے تو اب گھر چھوڑ دیا، اگر مہربانی کرو تو ہما دھر ہی خیمے کے ایک کو نے میں رہ جائیں۔  گائے چرائیں گے، کھیتوں میں کام کریں گے اور تمہاری سیوا بھی۔ ‘‘

بلرام پنڈت کو تو کوئی اعتراض نہیں تھا، لیکن بھُورو کے ماں باپ سے پوچھے بغیر وہ ہاں بھی کیسے کر سکتے تھے۔  بولے، ’’ارے تمہارا ماں باپ بولے گا کہ ہمارے بیٹا سے بیگار کراتے ہو تم؟ تم جاؤ پہلے ان لوگوں سے پوچھو۔ ‘‘

بھُورو نے کہا کہ وہ گاؤں نہیں جائیں گے۔  ہاں اگر ماں یہاں آئی تو اس سے ضرور پوچھ لیں گے۔  بلرام پنڈت نے گاؤں جا کر بھُورو کی ماں کو بتا دیا۔  ماں روتی پیٹتی آئی۔  بیٹے کو گھر لے جانے کی اس نے بہت کوششیں بھی کیں، مگر بھُورو ٹس سے مس نہیں ہوئے۔  ہار مان کر ماں نے وہیں رہنے کی ان کی ضد مان لی۔  ایسا نہیں ہے کہ بھُورو اس دن کے بعد گاؤں کبھی گئے ہی نہیں۔  گئے اور بعد میں بھی جاتے رہے۔  پر اس دن کے بعد جانا کچھ مختلف قسم کا ہی جانا تھا۔  بھُورو کو کام ہوتا تبھی جاتے۔  چاہے اپنے گھر یا بلرام پنڈت کے گھر۔  کام پورا ہوا نہیں کہ بھُورو پھر واپس کھیرا۔  یہ ان کے کھیرا میں رچ بس جانے کے بعد کی بات ہے کہ ایک دن بلرام پنڈت اپنے بیٹے نگینہ کو الٹا سیدھا کہہ رہے تھے۔  نگینہ کی شادی ہو گئی تھی اور وہ تھا کہ کچھ کرنے کے نام پر تیار ہی نہیں تھا۔

بلرام پنڈت اس کو کہتے جا رہے تھے، ’’ارے ہم نے تو تمہارا شادی کر کے بڑا غلطی کر دیا رے بھائی۔  تم تو نہ تین کا ہے نہ تیرہ کا۔  کام دھام کوئی نہیں اور سوچ ایسی کہ جیسے تم لاٹ صاحب ہو۔  ارے، کچھ کھیتی باری کا ہی کام کرو۔ ‘‘ نگینہ سنتے رہے اور بلرام پنڈت تھوڑی دیر بعد بڑبڑا کر گاؤں کی طرف چل دیے۔

باپ کے جانے کے بعد نگینہ نے جیب سے بھنگ نکالی اور لگے ملنے۔  جب بھنگ اچھی طرح چھان پھٹک کر نگینہ نے نچلے ہونٹ میں دبا لی تو، بھُورو بولے، ’’ہم یہ تو نہیں جانتے کے لاٹ صاحب کون ہوتے ہیں۔  پر نام بڑا اچھا ہے۔ ‘‘

’’چپ رہو بھُورو۔  ہمارے جلے پر نمک مت چھڑکو۔  ہم لاٹ صاحب لگتے ہیں تجھ کو۔  ارے سالے، لاٹ دہلی میں رہتا ہے۔  انگریز بہادر ہوتا ہے۔  اس کا منہ ہی نہیں سارا بدن ہی لال بندر کی چوتڑ کی طرح لال ہوتا ہے اور اس کا لال لال گال والا میم بھی ہوتا ہے۔  تجھے معلوم ہے کہ وہاں الہ آباد میں ہائی کوٹ کے پاس ایک اور حاکم رہتا ہے۔  صوبہ دار صاحب اور وہ سیدھا بات کرتا ہے لاٹ صاحب سے۔  ایاں غازی پور میں ضلع پر بھی ایک ڈپٹی صاحب رہتا ہے۔ وہ صوبہ دار صاحب سے سیدھا بات کرتا ہے۔  اب تو سنتے ہیں کہ بلیا بھی ضلع بنے گا۔  ایاں بھی ایک ڈپٹی صاحب آئے گا۔  صاحب اُو سب ہیں۔  ارے ہمار جیسا بد نصیب بیٹا۔  وہ لاٹ کیسے ہو گا رے؟ بول تو۔ ‘‘

’’لیکن ایاں کا لاٹ صاحب تو آپ ہیں۔ ‘‘بھُورو کھڑی بولی میں نگینہ کی نقل کرتے ہوئے بولے۔

نگینہ کے پاس اس کے لئے دھیرج تو تھا نہیں، بولے، ’’ارے بھُورو، اگر ہم لاٹ صاحب ہیں تو توں کا صوبہ دار صاحب ہو؟ ایاں اگر توں صوبہ دار ہے تو دیکھ رامگوبن کیا بنا۔  وہ سالا بھی تو کچھ بنے؟ وہ ڈپٹی صاحب ہے؟‘‘ وہ ایک ہی سانس میں بول گئے۔

اب اس کے بعد کیا ہوا کسی کو کچھ نہیں معلوم۔  لیکن گاؤں کے لوگوں نے آہستہ آہستہ نگینہ کو لاٹ صاحب، بھُورو کو صوبہ دار صاحب اور رامگوبن کو ڈپٹی صاحب کہہ کر بلانا شروع کر دیا۔  بعد میں اور بھی کئی صاحب آئے۔  جیسے مکھیا بھی مکھیا صاحب ہو گئے اور علی پور سنٹرل جیل کے جمعدار جمنا پانڈے، جمعدار صاحب ہو گئے۔  بعد میں اس فہرست میں ایک اور نام جڑا۔  سری کانت پانڈے عرف بیرسٹر صاحب کا۔  ان سب میں اکیلے صوبہ دار ہی ایسے تھے جن کے نام سے نہ جانے کب اور کس طرح صاحب لفظ ختم ہو گیا۔  بھُورو صرف صوبہ دار رہ گئے۔  پر انہیں اس کا ملال نہیں تھا۔  اب وہ جوان ہو گئے تھے، اپنے آپ پر مکمل انحصار بھی ہو چلا تھا۔  ان کے لئے ابھی بھُورو کہے جانے سے صوبہ دار کہا جانا کئی معنوں میں کئی گنا بہتر تھا۔  بھُورو اب کھیرا کے مستقل باشندوں میں سے ایک ہو گئے۔  پہلے اکثر گاؤں بھی جاتے تھے پر اب کئی سالوں سے وہ بھی چھوڑ دیا ہے۔  کیا کریں گے گاؤں جا کر؟ گاؤں کی محبت گرہستی کی جانب کھنچتی ہے اور بھُورو شاید گرہستی بنانے کے لئے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔

کون شادی کرتا بھُورو سے اپنی بیٹی کی؟ کوئی بھی نہیں نہ؟ پھر بھُورو ٹھونٹھ بن کر ہی جئے تو کسی کا کیا بگڑتا ہے۔  بھُورو اب یہیں اپنی جھونپڑی میں رہتے ہیں۔  لاٹ صاحب کی کھیتی کرتے ہیں اور کھانے بھر کو پورا مل جاتا ہے اور انہیں چاہئے بھی کیا؟ ارے کوئی آگے پیچھے ہوتا تو کچھ پریشان بھی ہوتے۔  یہاں تو آگے دریا ہے اور پیچھے کنواں۔  بولو بھُورو، کہاں گرو گے۔  خاموش پڑے رہو بچوا، تم کھیرا کے ٹھونٹھ ہو۔  ٹھونٹھ ہو کر ہی رہو۔  تمہاری کنڈلی میں گھر گرہستی نام کی چیز ہے ہی نہیں۔  جس دن تمہارا ٹھونٹھ کھوکھلا ہو کر گر جائے گا۔  اس دن کے بعد تمہارا نام لیوا بھی کوئی نہیں رہے گا۔  لیکن۔  ’’ یہ دھمکوا، یہ سالا بھتیجا ہم سے کیوں چپکا رہتا ہے۔  کیوں؟ کیوں؟ یہ سالا اپنی محبت میں من باندھتا ہے میرا۔ ‘‘

***

 

 

 

 

لڑائی

درگیش گپت راج

 

میں اپنے کمرے میں کھڑکی کی گرل پکڑے سامنے میدان میں لڑتے دو بچوں کو دیکھ رہا ہوں، جن کی عمر چھ سات سال کے آس پاس ہے۔  دونوں کبھی ایک دوسرے کو پیٹنے لگتے ہیں۔  کبھی بال نوچنے لگتے ہیں۔  کبھی آپس میں گتھم گتھا جاتے ہیں۔

لیکن میں ان کو دیکھتا رہتا ہوں۔  انہیں آپس میں لڑتے ہوئے دیکھ کر مجھ پر کوئی رد عمل نہیں ہوتا۔  میں صرف تماشائی بن کر لڑائی کا مزہ لے رہا ہوں۔  مطمئن انداز سے نظریں ٹکائے۔  انہیں چھڑانے کا خیال میرے دماغ کے آس پاس بھی نہیں پھٹکتا۔

تبھی ایک بچہ دوسرے بچے کو زمین پر پٹک دیتا ہے۔  اس کے سر میں چوٹ لگتی ہے۔  لیکن گرتے ہی اس کے ہاتھ میں زمین پر پڑا ایک پتھر آ جاتا ہے۔  وہ اسے اٹھا کر اوپر والے لڑکے کے سر میں ٹھونک دیتا ہے۔  اس کے سر سے بھی خون بہنے لگتا ہے۔

دونوں لہولہان ہو جاتے ہیں۔  لیکن پھر بھی جمے ہوئے ہیں۔  نہ جانے کیا چاہتے ہیں۔  میں اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی پرسکون انداز سے کھڑا انہیں دیکھ رہا ہوں۔  خاموشی سے کسی تماشائی کی مانند۔

میں انہیں چھڑانے نہیں جا رہا۔  پر کیوں؟

یہ مجھے کیا ہو گیا ہے اچانک؟

میری رحم دلی کہاں گئی؟

میری ہمدردی کے تار کیوں نہیں جھنجھناتے؟

تبھی دیکھتا ہوں، دونوں بچوں کے گھر والے آ جاتے ہیں اور اپنے اپنے بچے کو خون میں لپٹا دیکھ کے بغیر کچھ جانے بوجھے۔  آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔  بالکل ایسے جیسے یہ ان کا پہلے سے طے شدہ پروگرام ہو۔

یہ آج اچانک مجھے کیا ہو گیا ہے، میری خود کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔  ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا۔  ذرا سی بھی کسی کو چوٹ لگ جاتی تھی، تو دوڑا دوڑا اس کی مرہم پٹی کروانے کے لئے بھاگتا تھا۔  کوئی گر جاتا، تو دوڑ کر اسے اٹھاتا تھا۔  کوئی لڑائی ہوتی، تو بیچ بچاؤ کر وا کرسمجھوتہ کروا دیتا تھا۔

لیکن آج یہ اچانک تبدیلی دیکھ کر میں خود حیران ہوں۔  میرا دل بے چین ہو اٹھتا ہے۔  ایسا لگتا ہے جیسے میری ساری ہمدردی، ساری دریا دلی مر چکی ہے۔  میں کھڑکی سے ہٹ کر کمرے میں بچھی کھاٹ پر آ کر لیٹ جاتا ہوں۔  تکلیف کم ہو لہذا قریب کے اسٹول پر رکھے ریڈیو کا سوئچ آن کر دیتا ہوں۔  بٹن گھماتا ہوں۔  تبھی اتفاق سے بی بی سی لندن لگ جاتا ہے، جس میں ’’امریکہ عراق جنگ کے بارے میں نیوز بلیٹن نشر ہو رہا ہوتا ہے۔

’’امریکہ عراق جنگ‘‘ عجیب لوگ ہیں آج کی دنیا کے۔  جانے کیا ملتا ہے ان کو جنگ میں۔

جنگ۔۔ ۔  جنگ۔۔ ۔  جنگ۔۔ ۔

آج کے دور میں جیسے جنگ ہی سب باتوں کا حل بن کر رہ گئی ہے۔  کیا اپنی طاقت جانچنے کا ذریعہ یہ جنگ ہی ہے؟

درست ہے رہنماؤں کا جاتا بھی کیا ہے۔

مرتے ہیں تو بے چارے فوجی۔

بیوہ ہوتی ہیں تو ان کی بیویاں۔

بیٹا مرتا ہے تو کسی بد نصیب ماں کا۔

بھائی مرتا ہے تو کسی کرم جلی بہن کا

باپ مرتا ہے تو بدنصیب بچوں کا۔

رہنماؤں کا کیا، انہیں تو ملک کے دفاع کے نام پر جو فوجیں تیار ہیں، انہیں لڑانے سے مطلب۔  اسی وقت کے لیے تو فوجیں بنائی جاتی ہیں۔  کوئی ملک ہماری بات نہیں مانتا تو اتار دو اپنی فوجوں کو میدان جنگ میں، ملک کی سلامتی کے نام پر۔  سچ ہے اتنے دن کھلائی پلائی کا قرض بھی تو ان فوجیوں سے وصول کرنا ضروری ہے۔  ورنہ کیا ضرورت ہے حفاظت کے نام پر ملک کے اتنے زیادہ سرمائے کو برباد کرنے کی۔

پتہ نہیں دنیا  کب ان سب سے نجات پا سکے گی؟ ایسی جنگ سے بھلا کیا فائدہ جو انسانی زندگی کی حفاظت کے نام پر، کسی انسان کو ہی موت سے گلے لگانے کے لئے مجبور کر دے۔  مبارک ہیں وہ جو ملک کے دفاع کے نام پر، انسانی زندگی کی حفاظت کے نام پر خود اپنی زندگی کو داؤ پر لگا دیتے ہیں، بارود کے ڈھیر کے ساتھ۔  لگتا ہے ان جنگوں کا کبھی اختتام نہیں ہو گا۔۔ ۔  کبھی نہیں۔۔ ۔۔

میں اچانک پریشانی کی کیفیت میں آ جاتا ہوں۔

دماغ کو جھٹکتا ہوں۔

یہ باتیں سوچ سوچ کر اور بھاری ہو جاتا ہے سر۔

ریڈیو بند کرتا ہوں۔  کھاٹ سے اٹھ کر کپڑے پہننے لگتا ہوں۔  شاید رات کے پرسکون ماحول میں ٹہلنے سے کچھ سکون آ جائے۔  یہی سوچ میں قدموں میں موزے پہن کر کمرے سے باہر نکلتا ہوں۔  کمرے کا تالا لگا کر جیسے ہی سڑک پر قدم رکھتا ہوں، تبھی ’’رام نام ستیہ ہے ‘‘ کی آواز میرے کانوں میں پڑتی ہے۔  میں ٹھٹھک کر رک جاتا ہوں۔  دماغ ماؤف ہو جاتا ہوں کچھ لمحے کے لیے ار تھی کو دیکھ کر۔

موت جس سے فرار ممکن نہیں۔

پھر چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔

بڑا عجیب ہے زندگی کا مزہ۔

مرتے دم تک انسان اس سے منہ نہیں موڑ پاتا۔

پھر چاہے وہ امیر ہو یا غریب۔

دنیا کے مایا جال میں الجھ کر وہ بھول جاتا ہے کہ کبھی اسے بھی موت کا ذائقہ چکھنا پڑے گا۔  ایسا ذائقہ جو پہلی اور آخری بار ایک ساتھ ہی ہوتا ہے۔

جو کسی کو نہیں چھوڑتا۔

اس کے لئے سب برابر ہیں۔

پھر چاہے وہ کوئی عظیم انسان ہو یا بد ترین گناہگار۔

کچھ سوچ کر میں بھی اس جنازے میں شامل ہو جاتا ہوں۔  ابھی دو دن پہلے ہی اپنے مکان کی تقسیم کو لے کر دو بھائیوں میں لڑائی ہو گئی تھی۔  شہر کے بڑے نامی سیٹھ تھے، مگر ہر حد سے گزر گئے۔  دونوں بری طرح زخمی ہو گئے۔  آج ہسپتال میں ایک موت سے ملاقات کر بیٹھا، اسی کی لاش کی انتم یاترا ہے یہ۔

کافی بھیڑ ہے جنازے میں۔  سیٹھ کی لاش کی انتم یاترا ہے نا۔  کسی غریب کی ہوتی،، تو شاید اتنی بھیڑ نہیں ہوتی۔

میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، کہ ایک لاش کو چیل کوے نوچ رہے تھے۔  یقیناً کسی بھکاری کی رہی ہو گی۔  پتہ نہیں کس جنم کا قرض اتارنے کیلئے پیدا ہوا تھا بیچارا؟ نجات پا گیا۔  یہ سوچ کر میں نے تسلی دی تھی اپنے دل کو۔

انسان۔

عجیب ہے اس کی زندگی بھی۔  مرحلوں میں الجھی ہوئی۔

پہلی بار جب پیدا ہوتا ہے۔

دوسری بار جب بیاہ رچاتا ہے

اور آخری بار جب مر جاتا ہے۔

تمام مراحل ضروری ہیں اس کے لیے۔  مگر پہلی بار کے اور آخری بار کے مرحلے میں کتنی مماثلت ہوتی ہے۔  جہاں پہلا والا اس کو اس دنیا میں لاتا ہے، وہیں آخری والا اس کو اس دینا سے لے جاتا ہے۔

جیسے ان مراحل کے بغیر انسان کو نجات حاصل ہو ہی نہیں سکتی؟

پیدائش سے پہلے اور موت کے بعد کے حالات کون جانتا ہے؟

روح کو کس نے دیکھا ہے؟ کسی نے نہیں۔

پھر یہ سب تام جھام کیوں؟

تبھی میرا دماغ ’’رام نام ستیہ ہے ‘‘ کے جملے میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔  لوگ جنازوں میں یہ جملہ کیوں بولتے ہیں؟ کیا میت کو احساس کرانے کے لئے کہ ’’دیکھ تو جھوٹا تھا، حقیقی تو صرف رام کا نام ہی ہے۔ ‘‘

پر وہ بے چارہ کیا سن پاتا ہو گا؟

لاش کی انتم یاترا پوری ہوتی ہے شمشان گھاٹ پہنچ کر۔  لاش چتا کے حوالے کر کے لوگ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔  چتا جس کی حقیقت چند گھنٹوں میں راکھ کا ڈھیر بننا ہے۔  یعنی کہ پانی میں گندھی مٹی میں ہی ایک کامل زندگی ہے۔  ایسی زندگی جو جد و جہد میں، لڑائی میں آہستہ آہستہ گھستی رہتی ہے۔  اطمینان، غصہ، محبت اور نفرت کی آگ میں جلتی رہتی ہے، مٹی بننے کی چاہ میں۔

سب اداس اداس چہرے لیے لوٹ جاتے ہیں۔  میں بھی سبھی کے ساتھ بجھا بجھا سا لوٹ پڑتا ہوں۔  حقیقت دیکھ کر سبھی کے چہرے سہمے ہوئے سے لگتے ہیں مجھے۔  سبھی کا ذہن تبدیل ہو جاتا ہے، جب چتا دہکتی ہے۔  لیکن کچھ ہی وقت کے لئے۔

تھوڑی دیر بعد سب کچھ بھول جاتا ہے انسان۔

بھول جاتا ہے سچائی کو۔

حقیقت کو۔

اور پھر شروع ہو جاتی ہے اس کی روز کی لڑائی۔۔ ۔۔

اس کی روز کی جد و جہد۔۔ ۔۔ ۔

***

 

 

 

 

آہنی ارادہ

وِینا وِج اُدِت

 

مدن لال کالونی کے پارک میں بیٹھا اپنے ہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا۔  اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔  اس کے ہم عمر دوست تھوڑی گپ شپ مار کے اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔  لیکن آج اس کے پیر نو نو من کے ہو رہے تھے۔  اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔  شام کے دھندلکے میں اس کے سامنے گزشتہ تیس سال کسی فلم کی مانند چل پڑے تھے۔

بینک کی نوکری پھر نرم مزاج بیوی کی آمد ہونا۔  تبھی بینک سے لون لے کر گھر بنوانا۔  نئے گھر میں پہلے بیٹے کا پیدا ہونا۔  لڈو بانٹتے وہ تھکتا نہیں تھا۔  باپ بننے کی خوشی۔  وہ بھی بیٹے کا باپ۔  ہمارے معاشرے میں فخر سمجھا جاتا ہے۔  ابھی دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ دوسرا بیٹا بھی ہو گیا۔  فخر سے سینے اور پھول گیا تھا۔  مدن لال اور اب دو بیٹوں کا باپ۔ خوشی کے مارے مدن لال اور اس کی بیوی کے زمین پر قدم نہیں پڑتے تھے۔  دونوں بیٹوں کا نام کرن بہت دھوم دھام سے کیا تھا۔  شادی کی طرح خرچہ کیا تھا۔

سنیل اور انیل وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے۔  سنیل انجینئر بنا۔ لیکن انیل نے پڑھائی میں دلچسپی نہیں دکھائی۔  صرف بی اے کیا۔  سنیل کی ایک اچھی نامی گرامی کمپنی میں نوکری لگ گئی وہ حیدرآباد چلا گیا۔  اس کی شادی ہوئی۔  پھر اس کے دو پیارے سے بچے۔  مدن لال اپنی بیوی کے ساتھ اس کے گھر تین چار بار ہو آئے تھے۔  لیکن اپنا گھر، اپنا شہر، اپنا پڑوس، اپنے دوست۔  ان سب کو انسان گھر سے دور رہ کر بہت یاد کرتا ہے۔  سو وہ وہاں زیادہ دیر تک نہیں رہ پاتے تھے۔  اپنے گھر واپس آ کر ہی انہیں چین آتا تھا۔

انیل کبھی کہتا کہ اسے ایک وین دلا دو۔  کبھی وہ چلتا پھرتا فاسٹ فوڈ ریستوران کھولنا چاہتا ہے۔  تو کبھی وہ گفٹ شاپ کھولنے کی بات کہتا۔  آخر کار اپنے پراویڈنٹ فنڈ سے لون لے کر مدن لال نے اسے آڈیو ویڈیو کیسٹ کی دکان اپنی کالونی کی ہی مارکیٹ میں کھلوا دی۔  اسی کا فیشن تھا ان دنوں۔  پھر انیل کی شادی ہو گئی۔  مدن لال نے سوچا ’’گنگا نہا گئے۔ ‘‘مناسب طرح سے جیتے جی اپنی ذمہ داریاں نوکری رہتے ہی پوری کر لیں۔

انیل کی دوکان اچھی چل پڑی تھی۔  گھر میں خوشحالی چھا گئی تھی۔  مدن لال نے کبھی بھی انیل سے پیسوں کے متعلق کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی انیل نے اپنے باپ کو کبھی کچھ بتایا۔  سنیل نے بھی کبھی ماں باپ کو ایک پیسہ نہیں بھیجا۔  مدن لال نے ایک بار بیوی سے اس موضوع پر بات کی، تو وہ جھٹ بولی، ’’ہم نے پیسے کیا کرنے ہیں۔  ہمیں کیا کمی ہے۔  بچوں کی اپنی ضروریات ہی پوری ہو جائیں آج کی مہنگائی کے دور میں یہی کیا کم ہے۔ ‘‘

سو بات آئی گئی ہو گئی۔

انیل نے اپنی شادی سے پہلے اپنے مان باپ کا بیڈروم لینے کی ضد کی، تو مدن لال کو یہ بات بڑی بے تکی لگی۔  لیکن تب بھی انیل کی ماں نے منوا لیا کہ بیٹے کی خوشی میں ہی ہماری خوشی ہے۔  بچوں کے کوئی ارمان ادھورے نہ رہ جائیں۔  شادی کے سال کے اندر ہی انیل کی بیٹی ہو گئی۔  ماں کا سارا وقت بہو کی خدمت اور بچی کی نگرانی میں مصروف رہنے لگا۔  بہو گھر کے کام سے جی چراتی تھی۔  اوپر سے کام والی بائی بھی کچھ دنوں کے لئے چھٹی پر چلی گئی۔  ماں دمے کی مریض تھی۔  وہ بے حد تھک جاتی۔  وہ کمزور تھی۔  جلد ہی بستر سے لگ گئی۔  تبھی مدن لال بھی ریٹائر ہو گئے۔  وہ بیوی کی دوا دارو وغیرہ میں لگ گئے۔  پر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔  تین ماہ میں ہی وہ سورگ سدھار گئی۔  بچوں اور باپ کے درمیان ماں پل بنی رہتی تھی۔  سو اب مدن لال ایکدم اکیلے پڑ گئے۔  سنیل ماں کے انتقال پر بیوی بچوں کے ساتھ آیا۔  وہ بہت دکھی تھا۔  لیکن وہ باپ کو ساتھ چلنے کے لئے اوپری دل سے بھی نہیں کہہ سکا۔  مدن لال تو ویسے بھی جانے والے نہیں تھے۔ لیکن خیر۔۔ ۔۔

ہمارے معاشرے میں مرد کا رنڈوا ہونا، عورت کے بیوہ ہونے کے مقابلے میں زیادہ کٹھن ہوتا ہے۔  مرد نے زندگی بھر صرف عورت پر حکم چلایا ہوتا ہے۔  وہ بہو بیٹوں سے سمجھوتہ نہیں کر پاتا۔  جبکہ بیوہ عورت گھر کے کام کاج کر کے۔  پوتے پوتیوں کی دیکھ بھال کر کے اور دو سرے کئی کاموں وغیرہ میں، ذہن لگا کر، وقت کاٹ لیتی ہے۔  مدن لال کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی۔

انیل کی سالی بیرونِ ملک سے دس پندرہ دنوں کے لئے بہن کے گھر آئی تھی۔  انیل نے باپ کو لابی میں کچھ دنوں کیلئے سونے کی درخواست کی۔  وہ مان گئے۔  آج گھر کے مالک سے دونوں ہی بیڈروم چھن گئے۔  وہ لابی میں دیوان پر سونے لگے۔  پر مدن لال کے دل میں ایک گرہ سی پڑ گئی۔

بہو کی ماں بھی آ گئی۔  وہ نواسی کو لے کر مدن لال کے بیڈروم میں سونے لگ گئی۔  کیونکہ بہو کو دوسرا بچہ ہونے والا تھا۔  بیٹا ہونے پر گھر خوشیوں سے بھر اٹھا۔  بہو کے میکے والوں کا میلہ لگا رہا۔  ان دنوں لابی میں بھی بھیڑ لگی رہتی۔  مدن لال کبھی لابی میں لیٹتے، تو کبھی بیڈروم میں۔  رات دیر تک سب بیٹھے گپیں مارتے، ان کی عمر یا ان کے آرام کے بارے میں کوئی بھی نہیں سوچتا۔  بیوی ہوتی تو سوچتی بھی۔  وہ اس کے بغیر بے بس ہو گئے تھے۔  وہ اپنے من کی بات کس سے کہیں۔  انیل اپنا خون تھا۔  پر کتنا بیگانہ۔  دل کی گرہ پر مزید گرہیں پڑ رہی تھیں۔

اس دن مدن لال نے دانت نکلوائے تھے۔  سو اس کو چھوڑ کرسب گھومنے چلے گئے۔  ان کے پیچھے وہ اخبار پڑھتا رہا۔  دوپہر ڈھائی بجے زور کی بھوک لگی، فریج میں دیکھا، کچھ بھی نہیں پکا رکھا تھا۔  ہاں بریڈ رکھی تھی، اسی کے دو تین پیس کھا لئے۔  رات آٹھ بجے سب کی واپسی ہوئی، کسی کو اس کے فکر ہی نہیں تھی۔  ان کے ساتھ ڈھابے کی دال اور تندوری روٹی بھی تھی۔  اپنے دانتوں کی درد کی وجہ مدن لال نے کہا کہ اسے مونگ کی دال اور نرم سی روٹی بنا دو۔  اتنا سننا تھا کہ بہو نے برتن پٹخنے کے ساتھ ساتھ چلانا بھی شروع کر دیا۔  مدن لال بغیر کچھ کھائے پیئے جا کر خاموشی سے لیٹ گئے۔  انیل اس کا اپنا خون۔  سب کچھ دیکھ سن رہا تھا۔ باپ کی حالت بھی سمجھ رہا تھا۔ لیکن، شاید اپنی بیوی سے کچھ کہنے کی ہمت وہ نہیں کرپا رہا تھا۔  مدن لال کے دل پر پھر ایک گرہ پڑ گئی۔

اس کا درد بانٹنے والا کوئی نہیں تھا۔  وہ دن بدن بیوی کی کمی بہت محسوس کرنے لگا تھا۔  سنیل کا فون آئے بہت دن ہو چکے تھے۔  مدن لال نے اسے فون کیا۔  رسمی حال چال پوچھنے کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہو سکی۔ اس نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ پاپا آپ کچھ دنوں کے لئے ہمارے پاس آ کر، گھوم پھر جاؤ۔  مدن لال سوچتا کہ حکومت نے ریٹائر کر کے اسے نکما کر دیا ہے۔  گھر والے اس کو گھر میں دیکھنا نہیں چاہتے۔  سبزی دودھ لانا، مارکیٹ کا کام کرواتے ہیں، جو کام اس نے کبھی نہیں کئے تھے۔  مگر پھر بھی دھتکار، پھٹکار اور نفرت۔  آخر وہ کہاں جائے اپنا گھر چھوڑ کر۔  بہت بڑا سوال تھا اس کے سامنے۔۔ ۔

گزشتہ زخم ابھی خشک بھی نہ تھے کہ اچانک ایک دن صبح، آنکھ جلدی نہ کھلنے کی وجہ سے مدن لال دودھ لینے نہیں جا سکا۔  اصل میں ساری رات کھانسی نے اسے پریشان کیا تو سویرے کہیں جا کر، اس کی آنکھ لگی تھی۔  اس پر بہو نے تو گھر سر پر اٹھا لیا۔  انیل جا کر پیکٹ کا دودھ لے بھی آیا۔  پھر بھی بہو نے جلی کٹی سنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔  مدن لال کے دل پر گرہ پڑنے کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔

ایک دن بہو ٹی وی اٹھا کر اپنے کمرے میں لے گئی.۔ وہاں اے سی میں بیٹھ کر ٹی وی پروگرام دیکھنے ہوتے تھے۔  وہ لوگ کھانا بھی وہیں کھاتے تھے اب۔  مدن لال خبریں بھی نہ سن پاتا تھا اب۔  اپنے لئے اس نے ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی لانے کا ارادہ کیا اور سوچا کہ کرنے دو بچوں کو اپنی خوشی۔

اسکولوں میں چھٹیاں ہو رہی ہیں۔  سنیل ایک ہفتے کے لئے بیوی بچوں سمیت آ رہا ہے۔  مدن لال کو لگا زندگی میں بہار قدم رکھ رہی ہے۔  لیکن تبھی ان پر ایک اور قیامت ٹوٹی۔  اس کا بستر لابی سے اٹھا کر گیراج، جس میں کبھی گاڑی نہیں آ پائی تھی، میں لگا دیا گیا۔  وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے انیل کا منہ دیکھنے لگے۔  جھٹپٹا کر انیل فوراً بولا، ’’پاپا بھیا بھابھی اور بچے آ رہے ہیں۔  بیڈروم میں بھابھی، بھیا اور لابی میں بچے سوئیں گے۔  یہاں سکون ہے۔  آپ چین سے سونا۔  آپ کو تھوڑا ایڈجسٹ تو کرنا پڑے گا نہ۔ ‘‘

رات کی گاڑی سے سنیل کا خاندان آ پہنچا۔  جب رسمی علیک سلیک ختم ہوئی تو مدن لال سونے گئے۔ باپ کو گیراج میں سوتے دیکھ کر فسنیل کا دل دکھا۔  لیکن وہ کس منہ سے کچھ کہتا۔  وہ خود تو پاپا کو لے جا نہیں سکتا تھا۔  اس کا فلیٹ چھوٹا تھا اور بیوی بچوں کو اپنے آپ میں رہنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔  پھر پاپا کی کھانسی کی آواز میں وہ سب رات کو سوئیں گے کس طرح۔  یہاں انیل تو صبح آٹھ بجے اٹھتا ہے اور دس بجے آرام سے دکان پر جاتا ہے۔  جبکہ وہ صبح سات بجے کام پر چلا جاتا ہے۔  سنیل کو پاپا سے محبت تو بہت ہے۔  لیکن اس کی مختلف قسم کی مجبوریاں ہیں۔  سو وہ سب دیکھ کر بھی چپ رہا۔

دبے لفظوں سے ایک دن اس نے اتنا ضرور کہا کہ اس کا گزارا اس چھوٹے سے فلیٹ میں مشکل سے ہو رہا ہے۔  اگر اسے بھی اس کے حصے کے پیسے مل جاتے تو، تو وہ بھی وہیں پر مکان لے لیتا۔ اتنا سنتے ہی انیل اور اس کی بیوی سارا دن منہ پھلائے رہے۔  ویسے وہ لوگ چلے گئے بغیر کسی فیصلے کے۔

ان کے جانے کے کوئی چار ماہ بعد گرمیوں میں انیل مع اہل و عیال اپنے کسی دوست اور اس کے خاندان کے ساتھ پندرہ دنوں کے لئے شملہ چلا گیا۔  ایک بار بھی اس نے اپنے باپ کو ساتھ چلنے کو نہیں کہا۔  اس کا دل رکھنے کو ہی کہہ دیتا۔  بلکہ جاتے ہوئے وہ دونوں بیڈروم بند کر گیا۔  گرمی زوروں پر تھی۔  ہمیشہ کی طرح مدن لال شام کی سیر کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ پارک میں بیٹھے سب یاد کر رہا تھا۔  بڑھتے دھندلکے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ سب دوست اپنے گھروں کو چلے گئے۔  اس کے برعکس مدن لال آج خاموش تھا۔  اس کے اندر کی گانٹھیں اتنی زیادہ ہو گئی تھیں کہ وہ ایک نئی شکل اختیار کرنا چاہ رہی تھیں۔

وہ سوچنے لگا اس نے اتنا بڑا گھر اپنے لئے بنایا تھا۔  اپنے گھر والوں کی خوشی کے لئے۔  آج اسی گھر میں اسی کے لئے جگہ نہیں بچی اور نہ ہی خاندان کے نام پر کوئی شخص۔  تو پھر کیا ہے یہ سب۔  ڈھیر ساری گانٹھوں نے مضبوط ہو کر ایک آہنی ارادے کی شکل اختیار کر لی۔  وہ اسی لمحے وہاں سے ایک پراپرٹی ڈیلر کے پاس گیا۔  اس کو ساتھ لے جا کر اپنا گھر دکھایا۔  اب اس گھر کی قیمت ڈیڑھ کروڑ کے قریب تھی۔  ایک ہفتے میں مدن لال نے گھر بیچ دیا اور پاس ہی کرایہ کے ایک مکان لے کر اس میں سارا سامان رکھوا دیا۔  اس گھر کا ایک سال کا کرایہ ساٹھ ہزار ایڈوانس دے دیا۔  اس کے بعد دکان کے پرانے نوکر کو ایک بند لفافہ پکڑا دیا۔  جس میں نئے گھر کی چابی، کرایہ کی رسید، پانچ لاکھ روپے کا چیک اور ایک خط تھا۔  بڑے بیٹے سنیل کو بھی پانچ لاکھ روپے کا ڈرافٹ بنوا کر رجسٹری بھیج دی۔  اور خود وہ کسی کو بتائے بغیرکسی انجانی منزل کی طرف چل پڑا۔

شملہ سے واپس آ کر اپنے گھر کے باہر کسی اور کے نام کی نیم پلیٹ دیکھ کر ایکبارگی انیل اور اس کی بیوی گھبرا گئے۔  گھنٹی بجانے پر سامنے نئے چہرے آئے، وہ بولے، ’’یہ مکان ہم نے خریدا ہے۔ ‘‘ یہ سنتے ہی انیل بدحواس سا دکان کی طرف دوڑا۔  وہاں نوکر نے اس کے ہاتھ میں وہی لفافہ پکڑا دیا۔  اس میں رکھے خط کو وہ پڑھنے لگا۔

’’پیارے کہلانے کے لائق تم میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔  سو سنو میں اپنی بچی ہوئی زندگی اپنے پیسوں سے آرام سے اپنی طرح گذاروں گا۔  مجھے تلاش کرنے کی کوشش نہ کرنا۔  تم لوگ کرو گے بھی نہیں میں جانتا ہوں۔  میں نے مکان اپنے نام رکھ کر بہت عقل کا کام کیا تھا۔ تم بھی اپنے بڑھاپے کے لئے کچھ سوچ لینا۔  کیونکہ تاریخ خود کو دوہراتی ہے۔  شکریہ

تم لوگوں نے ہی مجھے خود غرضی کا سبق پڑھایا ہے۔  تمہارا باپ مدن لال‘‘

انیل دھم سے وہیں بیٹھ گیا۔  اس کی آنکھوں سے آنسو لڑھک کر زمین پر گر رہے تھے۔

اپنی کرنی کا پھل اس کے سامنے تھا۔

***

 

 

 

 

لوٹ آئے وہ بھروسہ

شوانی کوہلی

 

 

 

 

یادوی پانچ سال کی چھوٹی سی بچی۔  معصوم چہرہ، سارا دن گھر میں بھاگتی دوڑتی رہتی ہے، ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک، دوسرے سے تیسرے تک دوڑ لگاتی رہتی ہے۔  کبھی اوپر تو کبھی نیچے، ان کے گھر آنے والا ہر شخص اس سے بہت محبت کرتا ہے۔  وہ ہے ہی ایسی۔  یادوی کے والد نے ابھی تک اسے دیکھا نہیں تھا۔  وہ بیرون ملک میں رہتے ہیں۔  یادوی کی پیدائش سے کچھ وقت پہلے ہی اس کے والد کا ویزا لگ گیا تھا۔  آج یادوی بہت خوش ہے۔  اس کے والد بیرون ملک سے واپس آ رہے ہیں اور اس کیلئے ڈھیر سارے کھلونے لانے والے ہیں۔

’’سات سمندر پار سے، گڑیوں کے بازار سے

اچھی سی گڑیا لانا، گڑیا چاہے کوئی لانا

پاپا جلدی آ جانا۔

پاپا جلدی آ جانا۔۔ ۔ ‘‘

یہ گانا یادوی کو اس کی ماں نے بچپن میں سکھایا تھا۔  یادوی آج سب کو کہتی پھر رہی ہے، ’’میرے پاپا آئیں گے۔  ڈھیر کھلونے لائیں گے۔  گڑیا، ہوائی جہاز اور میری گڑیا کا گھر بھی۔ ‘‘ ناچتے ہوئے اس کے قدم پورے گھر میں شور شرابہ مچا رہے ہیں۔

دروازے کی گھنٹی بجی۔

’’پاپا آ گئے۔۔ ۔  پاپا آ گئے۔ ‘‘ یادوی کا گیت دوبارہ شروع ہو گیا۔

یادوی کی ماں نے دروازہ کھولا۔

’’آپ آ گئے یادوی دیکھ تیرے پاپا آ گئے۔ ‘‘

یادوی بھاگتے ہوئے آئی اور اپنے پاپا کے گلے لگ گئی۔  اسے ڈھیر سارے کھلونے ملے۔  سارا دن یادوی ان کے ساتھ کھیلتی رہی اور اپنے دوستوں کو گڑیا کے قصے سناتی رہی۔

’’سنندا کیا بات ہے، تم کوئی بات کیوں نہیں کر رہی۔  ناراض ہو کیا مجھ؟‘‘

’’آپ اتنے وقت کے بعد آئے ہیں۔  کیا آپ کو میری یاد نہیں آتی تھی؟‘‘

’’ارے پگلی، ایسی کوئی بات نہیں تھی۔  ہاں بس تمہیں خط بہت دیر کے بعد لکھ پاتا تھا۔  میں بھی کیا کرتا، کام کا بوجھ ہی بہت تھا۔  پر اب تو تمہارے پاس آ گیا ہوں نا۔  اب سارا غصہ نکال لو۔ ‘‘ بانہوں کو پھیلاتے ہوئے وکرم نے سنندا کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھا۔  اس وقت سنندا کے ذہن میں کوئی گلہ شکوہ نہیں رہ گیا تھا۔

جیون ساتھی کے صرف چھونے سے ہی ایک ایسا سکون حاصل ہوتا ہے کہ پھر اور کسی چیز کی خواہش باقی رہتی ہی نہیں۔  دنیا کے سارے سکھ ایک طرف اور شوہر کی محبت ایک طرف۔  دنیا کی ہر عورت اپنے شوہر کے صرف محبت چاہتی ہے، صرف محبت۔  وہ ہر قسم کی الجھن کو حل کرنے کے قابل ہوتی ہے۔  وہ ٹوٹتی تب ہے جب اس کا بھروسہ ٹوٹ جاتا ہے، اس کے اعتماد کو ختم کر دیا جاتا ہے۔  وہ اعتماد جو اسے اپنے جیون ساتھی پر ہوتا ہے۔  زندگی کی ہر مار کو بغیر کسی شکایت جھیل لیتی ہے۔  بشرطیکہ اس کا جیون ساتھی اس کے ساتھ ہو، اس کا بھروسہ اس کے ساتھ ہو اور جب وہ اسے چھوڑ جاتا ہے تو اس کی دنیا ہی ختم ہو جاتی ہے۔  وہ اس کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر پاتی۔  لیکن دھوکہ کس روپ میں، کس چہرے میں نقاب کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔  یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔

ٹھیک ویسا ہی کچھ سنندا کے ساتھ بھی ہوا۔

چند ماہ یوں ہی گزر گئے۔  وکرم نے اپنا کاروبار یہیں شہر میں جما لیا تھا۔  کاروبار اچھا چل رہا تھا۔  گھر میں بھی سب ٹھیک تھا۔  پھر ایک دن اچانک وکرم اندھا دھند شراب پی کر آیا۔  سنندا کو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بری چیزوں کو دیکھنے سے جس شخص کو گھن آتی ہو، وہ انہیں اپنی زندگی میں کس طرح شامل کر سکتا ہے۔  سنندا کو یہ بات کچھ ہضم نہیں ہو رہی تھی۔  وہ ابھی کچھ سوچ ہی رہی تھی کہ وکرم نے گھر میں ہنگامہ مچانا شروع کر دیا۔  یادوی اپنے پاپا کا ایسا برتاؤ دیکھ کر سہم گئی۔  سنندا نے یادوی کو دوسرے کمرے میں جانے کے لئے کہا اور وکرم کو پرسکون کرنے میں لگ گئی۔

’’کیا بات ہو گئی کہ آپ کو شراب کا سہارا لینا پڑا۔  کسی نے زبردستی کی کیا آپ کے ساتھ؟ بتائیے مجھے۔ ‘‘

وکرم طیش میں تھا۔  وہ کچھ بھی سننے کی حالت میں نہیں تھا۔  سنندا کا اس سے کچھ بھی پوچھنا، اس کے لئے بیکار ثابت ہو رہا تھا اور اس رات کو وکرم جو کہتا گیا، سنندا کو ماننا پڑا۔  اور اب یہ روز کا سلسلہ ہو گیا۔  روز وکرم پی کر آتا اور سنندا اس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اس کی ہر بات کو سر جھکا کر ماننے لگی۔  وکرم کے ذہن میں اب سنندا کے لئے ذرا سی بھی محبت ہو، یہ بہت دور کی بات ہو گئی تھی۔  سنندا کو روز روز تکلیف دینے سے اس کا غصہ ٹھنڈا ہوتا۔  ان سب کی وجہ سے یادوی گم سم اور اداس رہنے لگی۔  اب نہ تو وہ اپنی گڑیا کے ساتھ کھیلتی، نہ پاپا کے لئے گانا گاتی اور نہ ہی ان کے پاس جاتی۔  ایک ننھی سی بچی جو اپنے پاپا کو اپنی خوشیوں کا مسیحا مانتی تھی۔  آج وہی مسیحا اس بچی کی آنکھوں کی نمی کا سبب بن گیا۔

’’ممی، پاپا کو کیا ہو گیا ہے۔  وہ اب میرے ساتھ بات بھی نہیں کرتے اور کھیلتے بھی نہیں۔ ‘‘

’’کچھ نہیں بیٹا۔  پاپا تھوڑا پریشان رہتے ہیں آج کل۔  جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ سنندا نے یادوی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’آج مجھے جلدی سونا ہے۔  سارا کام ختم کر کے آ جاؤ۔ ‘‘

’’سنئے، آج یادوی کو بہت تیز بخار ہے۔  وہ شاید آپ کو ایسے دیکھ کر سہم گئی ہے۔  آپ اس سے اچھے طریقے سے بات نہیں کرتے آج کل۔  شکایت کر رہی تھی وہ آپ کی۔ ‘‘ سنندا نے ماحول کا رخ موڑنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہی۔

’’سنا نہیں تم نے میں نے کیا کہا۔ ‘‘ اپنی مردانگی کا پورا پورا رعب دکھاتے ہوئے، دیوار پر زور سے اپنا ہاتھ مارتے ہوئے وکرم چلایا۔

ڈر اور خوف سے بھری سنندا کی آواز جیسے کہیں چلی گئی ہو۔  پھر بھی ہمت کر کے اس نے چند الفاظ جوڑے۔  ’’یادوی بیمار ہے۔  اس کی دیکھ بھال کرنی ہے تو۔ ‘‘

وکرم کو نہ سننے کی عادت نہیں تھی اور سنندا نے تو اسے صاف صاف انکار ہی کر دیا تھا۔  سنندا نے یادوی کے کمرے میں جانے کیلئے ابھی قدم بڑھایا ہی تھا کہ وکرم نے اس کے بالوں کو پیچھے سے کچھ یوں پکڑ کر کھینچا کہ وہ زور سے چیخ اٹھی۔  اپنی ماں کی درد بھری آواز کو سن کر یادوی بھاگ کر باہر آئی۔  اپنے باپ کو ماں پر ہاتھ اٹھاتے اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔  یہ سلسلہ تو کافی عرصے سے چل رہا تھا پر سنندا نے یادوی کے سامنے کبھی نہیں آنے دیا تھا۔  ڈری، سہمی سی وہ پانچ سال کی بچی اپنی ماں کا پلو تھامے کھڑی ہو گئی اور رونے لگی، وکرم نے یادوی کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے سنندا کو اپنے طرف کھینچا اور اس کو اندر کمرے میں لے گیا۔  ایک بیمار بچی اپنی ماں کے آنچل کے لئے تڑپتی رہی۔  پر وکرم کو ذرا بھی رحم نہیں آیا۔  اگلی صبح سنندا جاگی تو اس نے یادوی کو آنگن میں ہی سوتے ہوئے پایا۔  یادوی کو اس حالت میں دیکھ کر اس کے دل پر جیسے کوئی پہاڑ آ گرا ہو۔  اس نے یادوی کو اٹھایا اور اندر کمرے میں لے گئی۔  اسے موٹی چادر میں لٹایا اور اس کی پیشانی پر گیلی پٹیاں رکھنے لگی۔  اس بات سے وکرم کو اب کوئی فرق نہ ہی پڑتا تھا کہ یادوی کیسی ہے، وہ تو اب اس کا چہرہ دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔

’’آخر ایسا کیا ہوا تھا؟‘‘ یہ بات سنندا کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔  کچھ بھی کر کے اسے اس بات کا پتہ تو لگانا ہی تھا۔  اس نے اس دن کے بارے میں سوچا، جب پہلی بار وکرم نے شراب پی تھی اور وقت کی کیسٹ کی ریل کو پیچھے گھمایا۔

’’ہاں شانتی، شانتی سے ہی ملنے گیا تھا وکرم۔  ضرور اسی نے ہی کوئی نہ کوئی بات کہی ہو گی، پر وکرم کو مجھے آ کر بتانا تو چاہئے۔  یوں روز روز گھر میں تماشا کرنا کیا اچھی بات ہے؟ چھوٹی بچی ہے گھر میں۔  اس کے ذہن پر کیا اثر پڑے گا۔  مجھے کچھ بھی کر کے وکرم سے بات کرنی ہو گی۔ ‘‘

سنندا نے وکرم سے پوچھنے کی بھرپور کوشش کی۔  لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی۔  آخر میں وہ شانتی کے گھر پہنچ گئی۔

’’کیوں شانتی کیوں کیا تو نے ایسا، کیا ملا تجھے اپنے ہی بھائی کا گھر اجاڑ کر؟ میں اچھی طرح سے جانتی ہوں۔  یہ سب تیرا ہی کیا دھرا ہے۔ ‘‘

’’جب پتہ ہے تو پھر یہاں کیا کرنے آئی ہے۔  سنبھالو اپنی گھر گرہستی یہاں آ کر اپنا اور میرا قیمتی وقت کیوں برباد کر رہی ہو۔ ‘‘

’’تم نے یہ ٹھیک نہیں کیا۔  اپنے ہی بھائی کا گھر برباد کر دینا چاہتی ہو۔  میں وکرم کو تمہارا اصلی چہرہ دکھاؤ گی۔  اسے بتاؤ گی کہ تم کیا ہو اور کیا بنتی ہو۔ ‘‘

شانتی، وکرم کی سگی بہن تھی وہ اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔  وکرم اور سنندا نے مل کر اس کی شادی کروائی تھی۔  لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔  شانتی کے شوہر نے اس سے اپنا ناطہ توڑ لیا۔  شانتی کا شوہر آخری بار سنندا سے ملا تھا اور یہ شانتی نے دیکھ لیا تھا۔  تاہم سنندا تو اسے سمجھانے کے لیے ہی گئی تھی۔  لیکن اس منظر نے کچھ اور ہی موڑ لے لیا اور آج شانتی اسی بے بنیاد بات کی عمارت کھڑی کر کے بیٹھی ہوئی ہے۔  اس نے وکرم سے یہ کہہ دیا ہے کہ یادوی اس کی اپنی اولاد نہیں ہے۔

پھر کیا تھا۔  یقین کو تتر بتر ہوتے کچھ زیادہ وقت نہیں لگا۔  اعتماد کے گھر کی بنیاد کچھ یوں پھسل گئی جیسے مٹھی سے ریت۔  جس طرح گھر کو کھڑا رکھنے کے لئے ایک مضبوط بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے۔  ٹھیک ویسے ہی تعلقات کی عمارت کو بھی کھڑا رکھنے کے لئے اعتماد کی، بھروسے کی بنیاد کا ہونا بے حد ضروری ہے۔  لیکن بغیر کسی غلطی کے سنندا جو سزا روز بھگت رہی تھی اس کا کیا؟ وہ وکرم کو سمجھا سمجھا کر تھک چکی تھی اور یادوی روز اپنی ماں کے آنسو اپنی آنکھوں میں بھر رہی تھی۔  یادوی کے لئے اب نہ تو اس کے والد کوئی مسیحا تھے اور نہ ہی وہ کبھی ان سے کسی بات کی سفارش کرتی۔  پانچ سے کب وہ پچیس کی ہو گئی، یہ وہ بھی نہیں سمجھ پائی۔  ہاں، اسے یہ ضرور یاد ہے کہ اس کی ماں نے کتنے دکھ سہے ہیں۔  اس کی ماں کے جسم پر کتنے زخم دیے گئے ہیں۔  کتنا ڈر ہے اس کی ماں کے ہر ایک لفظ میں۔  آج ان زخموں کو بھی پچیس سال ہو گئے ہیں۔  وہ اپنے الفاظ کو کسی کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہے۔  ایک بے جان مورت کو لئے وہ ہر دروازے پر دھتکار کی مار سہہ رہی ہے۔

سنندا آج ایک ایسے بے جان جسم کو ڈھو رہی ہے۔  جس کے کسی بھی عضو میں جینے کی کوئی چاہ نہیں رہی ہے، اس کی سانس تو چلتی ہے پر دھڑکن کب اپنی مرضی کر بیٹھے کچھ نہیں پتا۔

بھروسہ آج صرف ایک لفظ بن کر ہی رہ گیا ہے۔  ایک ایسا لفظ جس کے ٹوٹنے سے لمحے میں رشتے بکھر جاتے ہیں۔  ایک ایسے دھاگے میں اس کے کچے موتی پروئے جاتے ہیں جو کبھی بھی ٹوٹ کر بکھر سکتا ہے۔  کاش! واپس آئے وہ بھروسہ دوبارہ جس میں کوئی شرط نہ ہو، کوئی دو پہلو نہ ہوں، کوئی دھڑکن ایسی نہ ہو جو تھمنے کا انتظار کر رہی ہو، کوئی سانس ایسی نہ ہو جو دوسری سانس کے انتظار میں بیٹھی ہو، کوئی کچا موتی کسی دھاگے میں نہ پرویا جائے اور نہ ہی کوئی ایسا جملہ ہو کہ ’’کاش! لوٹ آئے وہ بھروسہ۔‘‘

***

 

 

 

سبق

پریمودا دیوی مشرا

 

جیا نہا دھوکر تیار ہوئی، پیشانی تک گھونگھٹ کیا، سیڑھیاں اتر کر آہستہ آہستہ نیچے آ گئی۔  ممی جی کے پاؤں چھو نے جیسے ہی نیچے جھکی، ویسے ہی ممی جی نے ہاتھ پکڑ کر اوپر اٹھا لیا۔

’’پاؤں چھونا چھوانا پرانی باتیں ہیں، دل میں عزت ہونی چاہیے، اتنا ہی کافی ہے۔  سر پر یہ گھونگھٹ کیوں تان لیا ہے؟‘‘

ماں جی نے جیا کے سر سے گھونگھٹ اٹھا دیا۔

’’میز پر ناشتہ لگ گیا ہے، سب لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں ہیں، چلو ناشتا کر لو اب۔ ‘‘ ممی جی نے پیار سے کہا۔

جیا نے اپنی بھابھیوں کو سسر جیٹھ کے ساتھ، برابر بیٹھ کر کھاتے پیتے نہیں دیکھا تھا، وہ تھوڑی سی جھجکی اور ہچکچاہٹ کے ساتھ جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔  پاپا جی نے ایک پکوڑی کا ٹکڑا منہ میں رکھا اور کہنے لگے، ’’’شمبھو نے پکوڑیاں لجلجی سی کر دیں ہیں۔ ‘‘ جیا کرسی سے اٹھی اور پکوڑیوں کی پلیٹ کچن میں لے گئی۔  کڑھائی چولہے پر چڑھا کر ہلکی آنچ میں کرکری پکوڑیاں سینک لائی۔  پاپا جی خوش ہو گئے۔

’’گھنشیام گھنٹے بھر پہلے فریج سے نکال کر جگ بھر کے رکھ دیتا ہے، جب تک کھاؤ پیو پانی گرم ہونے لگتا ہے۔ ‘‘ وپن نے کہا۔  جیا نے پانی کا جگ اٹھایا اور اس کا پانی بالٹی میں انڈیل دیا پھر فریج سے بوتل نکال کر جگ میں ٹھنڈا پانی بھرا اور اسے میز پر رکھ دیا۔

’’بھابھی اتنے نوکر گھوم رہے ہیں، کسی نوکر کو آواز دے دیتیں، آپ خود کیوں دوڑ رہی ہیں؟‘‘ وِبھا نے ابرو سکوڑ کر کہا۔

سدھیر پہلے دن سے ہی جیا کی فرماں برداری کو مڈل کلاس مینٹلٹی مان کر ناراض تھا اور آج جیا کے بار بار خود اٹھ کر نوکرانی کی طرح بھاگنے سے دل ہی دل میں غصہ ہو رہا تھا، لہذا وِبھا کی بات ختم ہوتے ہی پھوٹ پڑا۔

’’اپنے گھر میں نوکر چاکر دیکھے ہوں، تو نوکروں سے کام لینا آئے۔ ‘‘

جیا سہم گئی، اسے یاد آیا ماں نے چلتے چلتے سمجھایا تھا، ’’گھر میں چاہے کتنے بھی نوکر چاکر ہوں، اپنے خاندان والوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا پروسنے میں پیار بڑھتا ہے، بڑوں کا احترام ہوتا ہے۔ ‘‘ سدھیر کا طعنہ سن کر جیا کے آنسو اتر آئے۔  اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ اس نے کیا کھایا۔  سب لوگ اٹھے تو وہ بھی آہستہ سے اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔

جیا کو بیاہ کر سسرال آئے دو ہفتے ہو گئے تھے، پر وہ اپنے شوہر سدھیر کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر پا رہی تھی۔  ایک دن سدھیر کے کچھ دوست آنے والے تھے، جیا نے کچن میں جا کر مٹھری سینک کر رکھ دی۔  حلوہ بنا کر ہاٹ پاٹ میں رکھ دیا، نوکر سے سموسے باہر سے لانے کو کہہ کر جیسے ہی باہر نکلی، ویسے ہی ایک ساتھ کئی آوازیں سنائی دیں۔

’’بھابھی جی ہم لوگ آپ سے ملنے آئے ہیں، آپ کہاں چھپ بیٹھ گئیں؟‘‘

جیا آہستہ سے باہر نکلی، ہائے کر کے سٹنگ روم میں ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔

’’واہ بھابھی جی، ہم تو یہ سوچ کر آئے تھے کہ کچھ اپنی کہیں گے، کچھ آپ کی سنیں گے۔  مگر آپ تو چھوئی موئی کی طرح سمٹی سمٹائی، چپ چاپ سی بیٹھی ہیں۔ ‘‘ سنیل نے کہا۔

’’ چھوئی موئی تو ہاتھ لگنے سے سکڑتی ہے، بھابھی جی تو ہماری آواز سے ہی سکڑ گئیں۔ ‘‘ جیتن نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’بھابھی جی نئی نویلی دلہن ہیں، اتنی جلدی کیسے کھل جائیں گی؟‘‘ للت ہنس کر بولا۔  اتنے میں گھنشیام چائے ناشتے کی ٹرے لا کر میز پر رکھ گیا۔

’’حلوہ کتنا لذیذ بنا ہے۔ ‘‘ سنیل نے ایک چمچ حلوہ منہ میں رکھتے ہی کہا۔

’’اور یہ مٹھری کتنی خستہ ہے، لگتا ہے سارا سامان بھابھی جی نے ہی بنایا ہے۔ ‘‘ للت نے مٹھری توڑتے ہوئے کہا۔

لیکن سدھیر نے اپنے دماغ کی بھڑاس نکالتے ہوئے جیا کو طعنہ دیا۔  ’’انہیں چوکا چولہے کے سوا اور آتا ہی کیا ہے؟‘‘

’’اچھا بھابھی جی کو چوکا چولہے کے سوا اور کچھ نہیں آتا؟‘‘ کہتے کہتے سب لوگ قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔  جیا کا دل اندر تک جھنجھنا اٹھا۔

ماحول کو معمول پر لانے کے مقصد سے پرینک بولا، ’’ بھابھی جی سنا ہے آپ کے گاؤں کے پاس شاردا ڈیم بن گیا ہے، بہت خوبصورت مقام ہے۔  آپ ہم لوگوں کو بلائیں، ہم لوگ پکنک منائیں گے، ڈیم میں نہائیں گے، سچ بڑا مزا آئے گا، سدھیر چلنے کا پروگرام بناؤ۔ ‘‘

’’ ہاں ان کے والد کے کھیت کھلیان بھی دیکھ لینا۔ ‘‘سدھیر کو جیا پر طنز کرنے کی عادت سی پڑ گئی تھی۔

’’ہاں آپ لوگ ضرور آئیں۔ مگر آپ لوگ بڑے شہروں میں رہتے ہیں، آپ نے گاؤں نہیں دیکھے ہوں گے۔  وہ آپ کو ایک عجیب و غریب چیز لگیں گے۔ ‘‘ جیا کی آواز ہلکی سی سخت ہو گئی تھی۔

’’کیا بھابھی جی کیا آپکے گاؤں میں بیل گاڑی سے آتے جاتے ہیں؟‘‘ سنیل نے کچھ اچنبھے اور کچھ طنزاً پوچھا

’’نہیں بھائی صاحب، ہم لوگ قصبے میں رہتے ہیں، گاؤں میں ہمارا فارم ہے، بابو جی کے پاس جیپ ہے، وہ جیپ سے فارم دیکھنے جاتے ہیں، اگر خود جا کر نہ دیکھیں تو نوکر بھٹہ بیٹھا دیں۔ ‘‘ جیا کے لہجے میں پختگی تھی۔

تھوڑی دیر گپ شپ کر کے دوست احباب چلے گئے، لیکن سدھیر کا عدم اطمینان اس کے چہرے سے ٹپک رہا تھا۔

جیا اپنے کمرے میں چلی گئی، تھوری دیر بعد اس نے سنا، سدھیر ماں کے پاس بیٹھا بڑبڑا رہا تھا۔

’’ماں آپ نے کتنے دقیانوسی خاندان کی لڑکی میرے گلے باندھ دی۔  آخر مجھ میں کیا کمی ہے؟ اسمارٹ ہوں، ہائی پوسٹ پر ہوں، میرے کالج کی کتنی لڑکیوں مجھ سے شادی کرنے کو تیار تھیں۔  لیکن آپ کی ضد کے آگے میں جھک گیا۔  جیا کتنی پسماندہ ہے، نہ اٹھنے بیٹھنے کی تمیز ہے۔  نہ بولنے کا سلیقہ۔  چار افراد آئے تو سمٹ سکڑ کر بیٹھ گئی۔  بولی تو ایسے بولی، گویا پتھر مار رہی ہو۔  اس دن ایک دوست کے بیٹے کی برتھ ڈے میں لے کر گیا، تو سب لڑکیاں تالی بجا کر ہیپی برتھ ڈے گا رہی تھیں اور یہ منہ لٹکائے خاموشی کھڑی تھی۔ اسے تو کپڑے پہننے کی بھی تمیز نہیں ہے۔  سردیوں میں شیفون اور گرمیوں میں سلک پہن کر چل دیتی ہے۔  ہائی ہیل کے سینڈل لا کر دیئے تو پہن کر چلی اور گر پڑی۔  مجھے تو بہت شرم آتی ہے۔  میرے دوست ارون کی شادی ابھی حال میں ہی ہوئی ہے، اس کی بیوی کتنی اسمارٹ ہے، فراٹے سے انگریزی بولتی ہے۔  ارون بتا رہا تھا کہ خواتین کی محفلِ موسیقی میں اُس کی چھوٹی بہن نے اسے زبردستی کھڑا کر دیا۔  اس نے اتنا اچھا ڈانس کیا کہ سارے لوگ واہ واہ کر اٹھے۔ ‘‘

سدھیر غصے میں کہتا چلا جا رہا تھا، ماں نے درمیان میں ٹوکا، ’’بیٹا یہ لڑکیاں فراٹے سے انگریزی بول لیتی ہیں، اچھے ڈانس کر لیتی ہیں۔  لیکن گھر گرہستی کے کام میں اکثر و بیشتر انہیں کچھ نہیں آتا ہے۔  انگریزی بول لینا، ناچ گانا کر لینا تھوڑے دنوں کی چکا چوند ہے، بعد میں گھر گرہستی ہی کام آتی ہے۔  سامنے والے ترپاٹھی جی کی بہو کو دیکھتے ہو۔  ہوشیار ہے، فراٹے کی انگریزی بولتی ہے، سنگیت میں ڈگری لے رکھی ہے۔  لیکن مسز ترپاٹھی دن بھر کام میں اکیلے ہی جٹی رہتیں ہیں۔  بہو رانی کمرے میں پلنگ پر لیٹ کر اسٹیریو سنتی رہتیں ہیں۔  نہ ساس کی لاج، نہ سسر کی عزت۔  جیا خوبصورت ہے، پڑھی لکھی ہے۔  گھریلو ماحول میں پلی بڑھی ہے۔  شہر میں رہ کر سب سیکھ جائے گی۔ ‘‘ ماں نے سدھیر کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’ماں گھر گرہستی تو ایک ان پڑھ لڑکی بھی کر لیتی ہے۔  اتنا تو میں کما ہی لیتا ہوں، جو گھر گرہستی کے کام کے لئے ایک نوکر رکھ سکوں۔  آج کل شہروں میں جگہ جگہ ریستوران اور ہوٹل کھل گئے ہیں۔  بس ایک فون کر دو، من پسند کھانا گھر بیٹھے آ جائے گا۔  کچھ سوشل زندگی بھی تو ہوتی ہے؟‘‘

سدھیر کی باتیں جیا کمرے سے سن رہی تھی۔  اس کا ایک ایک لفظ اس کا دل چیرتا چلا جا رہا تھا۔  جیا کو اپنی ماں پر بھی غصہ آیا کہ انہوں نے کتنے پرانے سنسکاروں میں اسے ڈھال دیا۔  اس نے وومن کالج سے بی اے پاس کیا تھا۔  وہ سائیکالوجی ایم اے کرنا چاہتی تھی۔  لیکن سائیکالوجی صرف کرائسٹ چرچ کالج میں پڑھائی جاتی تھی، جہاں مخلوط تعلیم تھی۔  لڑکے لڑکیوں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔  ماں کتنی مشکل سے کرائسٹ چرچ کالج میں ایڈمشن کے لئے تیار ہوئی تھی۔  جب جیا کالج جا رہی تھی تو ہدایات کی پوری کی پوری فہرست اسے دی تھی۔

’’لڑکوں کے پاس مت بیٹھنا۔  لڑکوں سے بات مت کرنا۔  اگر کچھ پوچھنا ضروری ہی ہو تو نیچی نظر کر کے آہستہ سے پوچھنا۔ ‘‘ ماں نے کتنی ہی مثالیں دے ڈالیں تھی کہ سیدھی سادی لڑکیوں کو کالج کے لڑکے ورغلا کر غلط راستے پر لے جاتے ہیں۔  لائبریری میں لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ماں نے کبھی نہیں دی۔  اسی وجہ سے اس کی ایم اے میں ڈویژن خراب ہو گئی تھی۔  ماں نے گھر سے اکیلے کبھی نکلنے ہی نہیں دیا۔  ایک دن ماں کے ساتھ وہ پکچر دیکھنے گئی تھی۔  اس کے پاس ایک لمبی سی لڑکی بوائے کٹ بالوں میں جینس پہنے بیٹھی تھی۔  اندھیرے میں ماں کو شک ہوا کہ یہ لڑکا ہے۔  ماں اچک اچک کر دیکھنے لگیں، تو اسے تھوڑا غصہ آ گیا۔  ’’ یہ لڑکا نہیں لڑکی ہے۔ ‘‘ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی تھی ایسی کہ آس پاس کے لوگ، انہیں گھور کر دیکھنے لگے تھے۔  ماں تو آرام سے بیٹھ گئی تھیں۔  لیکن اس کا دل پکچر میں پھر نہ لگ سکا تھا۔  اگر اتنے پرانے سنسکاروں میں پالا تھا تو اتنے ایڈوانس گھر میں اس کی شادی کیوں کر دی۔  جہاں شرافت کو حماقت سمجھا جائے۔

ایک دن ماں کہہ رہی تھی، ’’تمہارے بابو جی چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی کی شادی بڑے گھر میں ہو، جہاں نوکر چاکر، کار بنگلا، جاتے ہی مل جائے۔ ‘‘ ماں کی کتنی معصوم سوچ ہے۔  اس طرح کے بڑے گھر کا کیا کرنا، جہاں جسمانی خوشی کی تو ساری ہی سہولیات ہوں۔ مگر دل کو ایک لمحے بھی چین نہ ملے۔

ایک شام کپڑے پہن کر تیار ہو کر سدھیر کہیں جا رہا تھا۔  اس نے اتنا ہی تو پوچھ لیا تھا، ’’کہاں جانے کی تیاری ہے؟‘‘ سدھیر کتنی زور سے بگڑ پڑا تھا، ’’میں کہاں جاتا ہوں، کہاں اٹھتا بیٹھتا ہوں، کس سے بات کرتا ہوں، تم ہر وقت ٹانگ اڑانے والی کون ہوتی ہو؟ تمہیں ہائی سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھنے کی تمیز نہیں ہے، تو کیا میں بھی اٹھنا بیٹھنا بند کر دوں؟‘‘

جیا کی تربیت ضرور روایتی ہوئی تھی، لیکن اس کی شخصیت میں بغاوت تھی۔  روز مرہ کی تحقیر تو وہ کسی طرح برداشت کر لیتی تھی، پر اس طرح کی غیر ضروری ذلت سے اس کے دل میں بغاوت اپنی جگہ بنا رہی تھی، اب اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ خود کو بدل کر سدھیر کو سبق سکھا کر رہے گی۔

اگلے جاڑوں میں دہلی میں اس کی دوست لتا کی بہن کی شادی تھی۔  دعوت نامے کے ساتھ ممی جی کے نام ایک سفارشی خط بھی لکھا تھا کہ جیا کو اس شادی کی تقریب میں لازمی آنے کا کہہ دیں۔ ممی جی نے خط سدھیر کو دکھایا۔  سدھیر کی چھٹی نہیں تھی۔  جیا کیلئے اس کے من میں ایسی کھٹاس تھی کہ اسے جیا سے کچھ دن دوری کی بات راحت والی ہی لگی اور اس نے اسے اکیلے چلے جانے کو فوری طور پر کہہ دیا۔  جانے والے دن سدھیر جیا کو فرسٹ کلاس اے سی ٹرین میں بٹھا کر آیا۔

ٹرین کے چلتے ہی جیا نے بھی ایک سکھ کی سانس لی۔  اس کے دل میں ایک خوشی بھرتی جا رہی تھی۔  راستے کے مناظر اسے بہت سہانے لگ رہے تھے۔  نئی دہلی اسٹیشن پر اس کی دوست لتا اور اس کا شوہر شیلندر اسے لینے آئے تھے۔  جیا کے ٹرین سے اترتے ہی لتا، جیا سے لپٹ گئی۔  کالج چھوڑ نے کے ایک عرصے بعد دونوں دوستیں آپس میں مل رہی تھیں۔  لتا کے گھر پہنچ کر جیا کو لگا کہ وہ کسی دوسری دنیا میں پہنچ گئی ہے۔  شادی کیلئے گھر کی سجاوٹ ایک دم بڑھیا تھی۔  دوسرے دن بارات آنے والی تھی، کیلے کے پتوں اور پھولوں سے منڈپ سجایا گیا تھا۔  باہر پنڈال میں باراتیوں کے بیٹھنے اور کھانے پینے کا بندوبست تھا۔  مہمانوں سے گھر بھرا ہوا تھا۔  بارات میرٹھ سے دہلی آ رہی تھی۔  دوسرے دن شام کو بارات خوب دھوم دھام سے چڑھی۔  لڑکوں اور دلہن کی طرف کی لڑکیوں میں خوب ہنسی مذاق چل رہا تھا۔  ہنسی کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔  جیا اس قسم کے کھلے پن کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔  رات میں شادی ہوئی۔  دوسرے دن شام کو بارات روانہ ہونے والی تھی۔  صبح چائے ناشتے کے بعد دلہا کی طرف سے کی کچھ چلبلی لڑکیوں نے دلہن کی جانب کے کچھ منچلے لڑکوں کو گھیر لیا۔  لچھے دار میٹھی میٹھی باتیں کی اور شہر گھمانے کا پروگرام بنا ڈالا۔  لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ خوب گھومیں، پکچر دیکھی اور ریستوران میں کھایا پیا۔  اور بعد میں لڑکوں کو انگوٹھا دکھا کر بارات میں آ ملیں۔  جیا نے بڑی حیرانگی سے سنا کہ لڑکیاں آپس میں قہقہے لگا رہی تھیں۔

’’ ‘بڑے مجنوں بننے چلے تھے، دو چار ہزار کے چکر میں تو آ ہی گئے ہوں گے۔  سارا دلی پنا بھول جائیں گے۔  یاد رہیں گی میرٹھ کی لڑکیاں۔ ‘‘ اب جیا، سدھیر کی نام نہاد اسمار ٹنس کا مطلب سمجھ رہی تھی۔

بارات رخصت ہونے کے دوسرے دن جیا کا واپس جانے کا پروگرام تھا۔  لیکن لتا نے ممی جی کو فون کر کے جیا کو ہفتے دو ہفتے روکنے کی اپیل کی تو ممی جی مان گئیں۔  دو دن میں سب مہمان رخصت ہو گئے۔

اب جیا کے ذہن میں سدھیر کے طنز رہ رہ کر یاد آنے لگے تھے اور اس کو سبق سکھانے کا احساس بڑھتا ہی جار ہا تھا۔  لتا کے ساتھ جیا نے کناٹ پیلس جا کر جینس، ٹراؤزر، لوکٹ ٹاپ، قمیضیں وغیرہ خریدیں۔  سیلون میں جا کر فیشل کرایا اور بال سیٹ کرائے۔  پھر لتا نے اسے بتایا کہ جینس ٹاپ پہن کر جیا بہت خوب صورت اور ماڈرن لگ رہی تھی۔  شام کو لتا کے ساتھ جیا کلب گئی۔  کلب میں جب عورت مرد ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر ڈانس کرنے لگے تو کچھ لڑکوں نے جیا کے ساتھ ڈانس کرنے کی خواہش ظاہر کی۔  تب سر درد ہونے کا بہانہ بنا کر جیا اپنی کرسی پر بیٹھی رہی۔  مگر وہ ڈانس کرتے ہوئے جوڑوں کے ہاؤ بھاؤ اور حرکات کو بڑی گہری نظر سے دیکھتی رہی۔  ضرورت پڑنے پر وہ سدھیر کے سامنے ڈانس بھی کر سکنے کیلئے خود کو تیار کر رہی تھی۔  یہ معمول تقریباً روزانہ چلتا رہا۔

پہلے دن سے ہی جیا لتا کی فیملی میں گھل مل گئی تھی اور جلد ہی اس کے بھائیوں کے ساتھ اس نے کھل کر بات کرنا سیکھ لیا تھا۔  جلد ہی ماڈرن سوشل لائف لیڈ کرنے کے لئے اس نے خود کو پوری طرح تیار کر لیا۔

دو ہفتے گزر جانے پر لتا کے شوہر شلیندر نے جیا کے لکھنؤ واپسی کیلئے اے سی میں برتھ ریزرو کرا دی۔  لتا اور اس کے شوہر شیلندر جیا کو ٹرین میں بیٹھا آئے۔

جیا نے بادامی ٹراؤزر اور میچنگ ٹاپ پہنا ہوا تھا۔  اس کے گھنگھرالے بال کندھے تک لٹک رہے تھے۔  چہرے پر ہلکا سا میک اپ تھا۔  ان کپڑوں میں جیا نہایت دلکش لگ رہی تھی۔  ٹرین میں برتھ پر ادھ لیٹی سی وہ انگلش کا ایک ناول پڑھنے لگی تھی کہ دوسری برتھ پر ایک نوجوان کب آ گیا۔  اس نے دھیان ہی نہیں دیا۔

’’آپ لکھنؤ میں ہی رہتی ہیں؟‘‘ آواز سن کر جیا چونک گئی۔

’’ ہاں میں گزشتہ کئی سالوں سے لکھنؤ میں ہی ہوں۔ ‘‘ جیا نے پر اعتمادی سے جواب دیا۔

’’میرا نام وجیندر کمار شکلا ہے۔  آپ چاہیں تو مجھے وجے کہہ سکتی ہیں۔  میں آرمی میں کیپٹن ہوں۔  میری پوسٹنگ آج کل دہلی میں ہے۔  ایک ماہ کی چھٹی پر اپنے گھر جا رہا ہوں۔  میرا گھر لکھنؤ میں گومتی نگر میں ہے۔ ‘‘ کہتے کہتے وجے نے اپنا وزیٹنگ کارڈ جیا کے آگے بڑھا دیا۔

’’شکریہ۔ ‘‘ کہہ کر جیا نے کارڈ لے لیا۔  کیپٹن شکلا اسے کچھ باتونی تو لگا۔  لیکن اس کا بے جھجھک اور بے خوف رویہ اچھا بھی لگا۔

’’کیا آپ کا تعارف جان سکتا ہوں؟‘‘ وجے نے پوچھا۔

’’میں سیتا پور کی رہنے والی ہوں، لکھنؤ یونیورسٹی ہوسٹل میں رہ کر میں نے ایم اے پاس کیا ہے۔  اس وقت اپنی بہن کے پاس نرالا نگر میں رہ کر کمپٹیشن کی تیاری کر رہی ہوں۔  اسی سلسلے میں دہلی گئی تھی۔ ‘‘ جیا نے سفید جھوٹ بولا۔  آج اسے اپنی ازدواجی حیثیت چھپانے میں، بچوں جیسا مزا آ رہا تھا۔

’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ‘‘ وجے نے تعظیمی انداز میں کہا۔

’’مجھے بھی۔ ‘‘ جیا من ہی من مسکرائی۔

پھر تمام راستے وِجے باتیں کرتا رہا اور جیا ا سے سکون سے سنتی رہی۔  یہاں تک کے لکھنؤ اسٹیشن آ گیا۔  ٹرین رک گئی، جیا نے سر اُٹھایا تو دیکھا، سدھیر ڈبے کے پاس کھڑا ہے، وہ اسے لینے آیا تھا۔

’’ تمہارے ساتھ راستہ اتنی جلدی طے ہو گیا کے پتا ہی نہیں چلا۔ ‘‘ جیا نے زور سے کہا تاکہ سدھیر بھی سن لے۔

’’ابھی تو ایک مہینے لکھنؤ میں ہی ہوں، ملاقاتیں ہوتی رہنی چاہئیں۔ ‘‘ وجے نے ابھی تک سدھیر کی طرف دھیان نہیں دِیا تھا۔

’’ہاں آپ کا فون نمبر میرے پاس ہے، فون کرتی رہوں گی، اب تو ملنا جلنا ہوتا ہی رہے گا۔ ‘‘ جیا جان بوجھ کر خوب زور زور سے بول رہی تھی۔

اس نے بڑی گرم جوشی سے وجے سے ہاتھ ملایا اور اٹیچی ہاتھ میں لے کر کھٹ کھٹ نیچے اتر گئی۔  سدھیر حیرانگی سے کبھی جیا کو تو کبھی وجے کو دیکھ رہا تھا، اس کے بولنے کی طاقت غائب ہو چکی تھی۔

’’ بھئی جلدی چلو، کیا سوچنے لگے؟ بڑی گرمی ہے۔ ‘‘ پلیٹ فارم پر آتے ہی جیا نے سدھیر کا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا۔

سدھیر کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا، جیا کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر وہ بھونچکا ہو رہا تھا۔  خاموشی سے چل دیا اور جیا کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر گھر آ گیا۔

’’جیا بیٹی دو ہفتے میں تم اتنی بدل گئیں؟‘‘ممی جی نے جیا کو دیکھ کر حیرت سے کہا۔

‘اور ممی ان سے یہ پوچھو کہ ٹرین میں ان کے ساتھ وہ کون نوجوان تھا۔  جس سے یہ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں اور ہاتھ ملا کر پھر ملنے کا وعدہ کر کے آئی ہیں۔ ‘‘ سدھیر غصے سے بولا۔

’’ارے ممی جی وہ وجے بابو تھے۔  آرمی میں کیپٹن ہیں، دہلی میں پوسٹنگ ہے۔  یہاں گومتی نگر میں اپنے گھر ایک ماہ کی چھٹی پر آئے ہیں۔  ممی جی وہ ایک بہترین پینٹر بھی ہیں۔  انہوں نے اپنی بنائی ہوئی کتنی سندر پینٹنگ مجھے پریزنٹ کی ہے۔  وہ باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سوشل بھی ہیں۔  ان کے ساتھ راستہ کتنی جلدی کٹ گیا۔  پتہ ہی نہیں چلا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے جیا نے کناٹ پلیس سے خریدی ہوئی ایک پینٹنگ ممی جی کے سامنے رکھ دی۔

’’اچھا تو اب آپ ان کے پریزنٹ بھی لینے لگیں؟‘‘ سدھیر اپنے غصے کو کنٹرول نہیں کر پا رہا تھا۔

’’ارے بھئی بیوی تو آپ ہی کی رہوں گی۔  گھڑی دو گھڑی کسی سے ہنس بول کر من بہلا لیا تو کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا؟‘‘جیا نے سدھیر کی جانب، اسی کے کبھی کہے ہوئے الفاظ دوہرا دئیے۔

سدھیر غصے سے پاگل ہو رہا تھا، اس سے مزید کچھ بولا نہیں گیا، وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔

’’جیا بیٹی شمبھو نے کھانا میز پر لگا دیا ہے۔  نہا دھوکر کپڑے چینج کر لو۔  پھر کچھ کھا پی لو۔ ‘‘ ممی جی نے اس وقت بات ٹالتے ہوئے کہا۔

جیا باتھ روم میں چلی گئی۔  نہا دھوکر ساڑی پہن کر باہر نکلی۔

تب ممی جی اس کی طرف دیکھ کر بولیں، ’’جیا ساڑی پہن کر تم کتنی سندر لگتی ہو۔  یہ ماڈرن کپڑے اپنی بہو بیٹیوں کو زیب نہیں دیتے۔  اپنے ملک کا پہناوا تو ساڑی ہی ہے۔ ‘‘

’’ممی جی میری سمجھ میں نہیں آتا میں انہیں کیسے خوش کروں؟ اتنے دنوں سے وہ مجھے دقیانوسی اور ان سوشل کہتے رہے اور اب جب میں نے یہ سب سیکھا ہے تو بھی خوش نہیں ہیں۔ ‘‘ جیا نے اپنے دل کی بات کہی۔

سدھیر آج جیا کو وجے کے ساتھ گھل مل کر بولتے دیکھ کرا داس تھا اور اگلے کمرے میں اس کی اور ممی کی بات سن رہا تھا۔  جیا کی بات سن کر وہ وہیں آ گیا اور اپنی صفائی سی دیتا ہوا ممی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

’’ممی میرا مطلب یہ تھوڑا ہی تھا کہ جیا جینس اور لو کٹ ٹاپ پہن کر الٹرا ماڈرن بن جائے اور غیر مردوں کے ساتھ دوستی کرتی پھرے۔ ‘‘

سدھیر کا اترا سا منہ دیکھ کر جیا سمجھ گئی کہ سدھیر کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے۔  ’’اچھا ممی جی مجھے بڑی بھوک لگی ہے۔  تھوڑا سا کھا پی لوں۔  تب بات کریں گے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے جیا کھانے کے کمرے کی طرف چل دی۔  وہ اپنی کامیابی پر دل ہی دل میں پھولی نہیں سما رہی تھی۔

***

 

 

 

 

سچائی سے مڈ بھیڑ

ونیتا شُکلا

 

یوں ہی پڑوسن کے کہنے پر، فیس بک پر پروفائل بنا لی تھی شیفالی نے۔  تصاویر کی وہ دنیا۔  کوئی اپنا فیملی فوٹو گراف پوسٹ کر رہا ہے تو کوئی میوزک ویڈیو۔  طرح طرح کی اداؤں اور لباسوں میں ملبوس، حسین لمحوں کو قید کئے ہوئے۔  ’’عوام‘‘ کو ’’مفت‘‘ میں نین سکھ دیتے ہوئے اور ان پر وہ چھلے دار تبصرے۔  ’’خوبصورت، اوسم، ٹاپ آف دی ورلڈ وغیرہ وغیرہ‘‘ کوئی چالو ٹائپ شاعری پر ہی واہ واہ بٹور رہا ہے تو کوئی سماجی مسائل پر اپنی رائے پروس رہا ہے۔  جسے دیکھو وہی اپنی بقراطی جھاڑ دیتا ہے۔  سیاست پر گرما گرم بحث بھی دیکھی جا سکتی ہے۔  بورنگ تُک بندی کرنے والے بھی فیس بک شاعر / مصنف بن ہی جاتے ہیں۔  ایک عجب سی مقناطیسی کشش ہے اس مجازی دنیا میں۔

اس کی مایا میں، شیفالی جکڑتی جا رہی تھی۔  اپنوں سے تو من اچاٹ ہو چلا تھا۔  اس لئے ’’فیس بکیا‘‘ لفاظی میں ہی، ’’غم غلط‘‘ کر رہی تھی۔  کھوکھلی سوچیں، دکھاوٹی نیک خواہشات، مبارکباد کے پیغامات اور مصنوعی باتوں سے ورغلانا، جہاں کی تہذیب تھی۔  اس ترتیب میں، ناپسندیدہ دوست بھی بن جاتے تھے۔  ’’پرسنل پوسٹوں ‘‘ پر ان کے بے تکلّفانہ تبصرے اور کبھی کبھی نامناسب پیغامات بھی۔  ایک پوجا نام کی ’’پجارن‘‘ بھی گلے پڑ گئی۔  غضب کی سندر نظر آتی تھی، پروفائل فوٹو گراف میں۔  نام اتنا مقدس اور کرتوت۔ چیٹنگ کے دوران پتہ چلا کہ اس کا شوہر، کاروبار کے سلسلے میں باہر رہتا تھا۔  زندگی بور، اکتاہٹ اور یکسانیت سی بھری ہوئی۔  اسی لئے فیس بک میں مصروف رہتی۔  باتوں ہی باتوں میں پوچھا کہ اولادیں کتنی ہیں تو بتایا دو سال ہو گئے شادی ہوئے پر ابھی تک کچھ بھی نہیں ہے۔

مزید کریدنے پر جواب ملا، ’’ پرابلم ہے۔  اسی لئے ممکن نہیں ہو گا۔ ‘‘ ہمدردی سی ہو گئی تھی شیفالی کو اس سے۔  وہ خود بھی تو، بنا جڑ کے پودے جیسی تھی۔  کہیں نہ کہیں پوجا سے وابستگی محسوس کرتی۔  باتوں کا سلسلہ آگے بڑھا۔  پوجا نے اُس کے بارے میں بھی سوالات کئے۔

’’آپ کہاں سے ہیں۔  تصاویر میں تو ’’ینگ‘‘ نظر آتی ہیں۔  پینتیس سے زیادہ کی نہیں۔ ‘‘

’’نہیں رے، چالیس پورے کر لیے ہیں۔ ‘‘

’’اوہ!۔۔  کیا پرسنالٹی ہے آپ کی۔  ملنا چاہتی ہوں آپ سے۔  آپ سے بات کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ‘‘

’’اوکے، کبھی تمہاری طرف آنا ہوا، تو انفارم کروں گی۔ ‘‘

’’مجھے میرڈ عورتوں کو دوست بنانا اچھا لگتا ہے۔ ‘‘

’’؟؟؟‘‘

’’اور بتائیے کچھ اپنے بارے میں؟‘‘

’’تھوڑا بہت پڑھنے لکھنے کا شوق ہے۔  کوکنگ بھی اچھی لگتی ہے۔  تمہاری ہابیز؟‘‘

’’فلم دیکھنے جاتی ہیں؟‘‘ شیفالی کو عجیب لگا۔  اس کو اس کے سوال کا جواب نہیں ملا اور موضوع کو کہیں اور منتقل کر دیا گیا۔  اس نے مختصر سی بات کر کے چیٹ ختم کر دی۔  ذہن میں پوجا کو لے کر کھٹکا ہونے لگا۔  وہ اپنے بارے میں سوال ٹال کر، اس کے بارے میں پوچھتی تھی۔  اسی وجہ سے شیفالی نے اس کے ساتھ گفتگو کو بہت محدود کر دیا۔  پھر بھی جانے انجانے، اپنے بارے میں، کچھ ’’رائے ‘‘دے ہی ڈالی تھی۔  شوہر کس جاب میں ہیں، بچے کتنے ہیں۔۔  وغیرہ وغیرہ‘‘

ایک دن، رات کے دس بجے کی چیٹنگ۔۔ ۔

’’کیا کر رہی ہیں میم؟‘‘

’’انٹرنیٹ پر نیوز دیکھ رہی تھی۔ ‘‘

’’ڈنر ہو گیا؟‘‘

’’جی ہاں۔۔  اور تمہارا؟‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’بیٹیاں کیا کر رہی ہیں؟‘‘

’’ہوم ورک۔ ‘‘

’’اور شوہر؟‘‘

شیفالی نے جان کر، اس کا جواب نہیں دیا۔  اس پر، دوبارہ سوال داغ دیا گیا۔

’’ویئر از یور ہسبینڈ؟‘‘

اپنے شوہر کے بارے میں، ضرورت سے زیادہ پوچھ گچھ اسے اچھی نہیں لگی۔  اس نے لاگ آؤٹ کر لیا۔  کافی دنوں تک نیٹ کا مسئلہ رہا۔  اسی لئے پوجا کی کوئی خیر خبر نہیں ملی۔  کافی ٹائم کے بعد، ایک دوپہر وہ کمپیوٹر لے کر بیٹھی۔  اسے ’’آن لائن‘‘ پا کر، پوجا دوبارہ پیچھے لگ لی۔

’’میم، میں نے پروفائل کی تصویر تبدیل کر دی ہے، آپ نے دیکھا؟‘‘

’’مجھے تو وہی پہلے والی لگ رہی ہے۔ ‘‘

’’نہیں پہلے والی تو چھوٹی تھی۔  آپ کیا کر رہی ہیں؟‘‘

’’لنچ بنانا ہے، ہسبینڈ کے آنے کا وقت ہو رہا ہے۔ ‘‘ شیفالی نے پیچھا چھڑانے کی غرض سے کہا۔

’’کتنے بجے آتے ہیں؟‘‘

’’ساڑھے بارہ بجے۔ ‘‘ اب اس کو چڑ ہونے لگی تھی۔  پر چاہ کر بھی سخت نہ ہو سکی۔  ادھر پوجا کے پاس تو وقت کی فراوانی تھی، سو ’’بکتی‘‘ رہی ’’بیٹیاں اسکول میں ہیں؟‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘ شیفالی نے طے کیا کہ ایک یا دو الفاظ میں ہی جواب دے گی۔  لیکن پوجا کے اگلے سوال کے بعد تو، یہ بھی غیر مناسب لگنے لگا تھا۔

’’ہاؤ واز یور لاسٹ نائٹ؟‘‘

’’میں سمجھی نہیں۔۔؟‘‘

’’رات میں کتنے بجے سوتی ہیں؟ مارننگ میں کب اٹھتی ہیں؟‘‘

شیفالی کو کچھ عجیب طرح سا محسوس ہوا۔  پر بہت دنوں بعد پوجا سے مل رہی تھی۔  لہذا اس کو منع نہ کر سکی۔  یہ سوچ کر کہ شاید اس کی سونے کی روٹین کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا۔  اس نے جواب دیا۔

’’رات میں جلدی سوتی ہوں۔  دن میں جلدی اٹھنا ہوتا ہے۔  صبح بیٹیوں کے لئے لنچ پیک کرتی ہوں، انہیں اسکول بھیجنا پڑتا ہے صبح سویرے۔ ‘‘

’’میں نے نائٹ کے بارے میں پوچھا تو آپ کیا سمجھیں؟‘‘

اس سوال سے گھبرا کر، شیفالی نے خاموشی اختیار کر لی۔  وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس ان چاہے دوست سے پیچھا کیسے چھڑائے۔  اس وقت تک نہ تو اسے چیٹ آف کرنا ہی آتا تھا اور نہ کسی کو بلاک کرنا۔  وہ کشمکش میں تھی اور پوجا سوال پر سوال کرے جا رہی تھی۔

’’بیٹیاں کس کلاس میں ہیں؟‘‘

’’آپ کہاں ہے میم؟‘‘

’’کہاں چلی گئیں میم؟‘‘

شیفالی کا دل خراب ہو گیا۔  اس نے کمپیوٹر آف کر دیا اور کچن کا رخ کیا۔  لنچ کے بعد، اچانک اس کے ذہن میں آیا کہ وہ پوجا کو ’’ان فرینڈ‘‘ تو کر ہی سکتی تھی۔  اسی خیال سے، پھر فیس بک کھولی تو پایا کہ پوجا نے اس کو، ایک بیہودہ سے فوٹو گراف میں ’’ٹیگ‘‘ کر رکھا تھا۔  اس تصویر میں پوجا اور اس کے شوہر، سوئمنگ کاسٹیوم میں چپک کر کھڑے تھے۔  شیفالی فوری طور پر پڑوسن کے پاس جا پہنچی اور اس سے فیس بک میں اپنی ’’پرائیویسی‘‘ برقرار رکھنے کیلئے، ڈھیر ساری ’’ٹپس‘‘ لے ڈالیں۔  جیسے کس طرح کسی تصویر میں ’’ ٹیگز‘‘ ہونے سے بچنا ہے۔  کس طرح چیٹ میں ’’ان ویزیول‘‘ رہنا ہے یا دوستوں کو، اپنی ’’ٹائم لائن‘‘ پر پوسٹ کرنے سے روکنا ہے۔  ساتھ ہی لوگوں کو بلاک کرنا اور کسی تصویر سے خود کو ’’ اَن ٹیگ‘‘ کرنا وغیرہ وغیرہ۔

اس کے بعد تو، اپنے پروفائل سے، پوجا کو ’’دھو پونچھ کر‘‘ نکال پھینکا اور اس کی ’’نام نہاد‘‘ تصویر سے بھی ’’ان ٹیگ‘‘ ہو گئی۔  لیکن تب بھی، کبھی کبھی، ناخوشگوار تجربات ہو ہی جاتے تھے۔  ایک شریف آدمی نے میسج بھیجا۔

’’ہائی شیفالی۔  ناؤ وی کین ٹرائی ویڈیو چیٹ، اٹس سو کول۔ ‘‘ ساتھ میں کوئی ’’ٹول‘‘ تھا ویڈیو چیٹنگ کے لئے۔  شیفالی ابل کر رہ گئی۔  مان نہ مان میں تیرا مہمان۔  اس نے ان حضرت کو، فوراً ان فرینڈ کیا۔  وہ پیغام ’’اسپیم‘‘ میں ڈالا اور رپورٹ کر کے بلاک کر دیا۔  ایک اور نمونے سے پالا پڑا۔  وہ اس کے ریسپیز والے ’’بلاگز‘‘ پر بڑا ہی عمدہ رد عمل دیتا اور ہمیشہ شیفالی جی کے خطاب سے اس کو نوازتا۔  ایک دن اس نے بھی، اپنا رنگ دکھا ہی دیا۔  سندیسے میں لکھ بھیجا۔

’’ہائی ڈارلنگ، سی دی فالوئنگ کلپ آئی ایم شیور، یو ول لائک اٹ۔ ‘‘ کے ساتھ ہی ایک رومانٹک ویڈیو بھی۔  اس کو بھی چلتا کرنا پڑا اپنی فرینڈ لسٹ سے۔  آہستہ آہستہ اس سے نفرت سی ہونے لگی تھی۔

ایک دن کسی میگزین میں پڑھا تھا۔  ’’فیس بک‘‘ جیسی سوشل سائٹس کا غلط استعمال، مایوس ذہنیت والے مرد و خواتین خوب کرنے لگے ہیں۔  خوبصورت لڑکیوں کی بے ہودہ تصاویر اور اس پر ’’سیکسی‘‘ اور ’’قاتل جوانی‘‘ جیسی ناقص تبصرے اکثر دیکھے جا سکتے ہیں۔  ’’فاسٹ جنریشن‘‘ اپنے اقدار کی دھجیاں اڑاتی نظر آتی ہے۔  فحش تصاویر، ویڈیوز وغیرہ پوسٹ کرنا، کئی لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔  ’’لو ان ریلیشن ‘‘کو ’’شوق‘‘ کے طور پر پالنے والے یہ نوجوان، اپنی ذاتی باتوں کو عام کرنے میں بھی نہیں ہچکچاتے۔

مضمون کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا۔

’’خواتین کی تصاویر ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد اسے ’’ ولگر‘‘ کر دیا جاتا ہے۔  وہ بعد میں، یہی تصاویر پوسٹ کر دیتے ہیں۔  اس کی وجہ سے شریف لڑکیاں بھی بدنام ہو جاتی ہیں۔  ایسی بدنامی سے، خود کشی تک کی نوبت آ سکتی ہے۔  خوبصورت لڑکیوں سے دوستی کیلئے مرد، جعلی پروفائل بنا لیتے ہیں ،۔  جس میں ان کی صنف ’’فی میل‘‘ ظاہر کی ہوتی ہے۔  یہی بیمار سوچ عورتوں میں بھی جھلکتی ہے۔  کچھ عورتیں چیٹ کرتے کرتے اپنے مباشرت کے لمحے بھی شیئر کر لیتی ہیں۔  ‘‘

آخری والا جملہ پڑھ کر تو پوجا کا رویہ شیشے کی طرح صاف ہو گیا تھا۔  کیوں وہ شادی شدہ عورتوں سے دوستی کرنا چاہتی تھی اور کیوں ’’رات والی بات‘‘ جاننا چاہتی تھی۔  شیفالی نے سوچا اب وہ فیس بک سے توبہ کر لے گی۔  ہو نہ ہو، اپنا پروفائل ہی ڈیلیٹ کر دے گی۔

لیکن جب یہ سوچ رہی تھی تو فیس بک کے ’’صفحات‘‘ نے اسے دوبارہ جکڑ لیا۔  ان صفحات میں اس کے اسکول گروپ کی رکنیت کی تجویز تھی۔  یہاں اس کے سابق کلاس فیلوز اور گم شدہ سہیلیاں تھیں۔  بجھی ہوئی چنگاری دوبارہ بھڑک اٹھی۔  گروپ میں کسی نے لکھا تھا۔

’’ویلکم لیڈیز اے بگ ہَگ ٹو یو آل۔  اٹس رئیلی تھرلنگ ٹو میٹ آفٹر اے لانگ اسپین آف ٹائم۔  پرانی باتیں یاد کر کے کتنا سکون ملتا ہے۔  کاش ہم پھر سے بچے بن جاتے۔ ‘‘

یہ پڑھ کر مسحور ہو گئی شیفالی۔  سب کچھ دوبارہ دلچسپ لگنے لگا۔  پرانی دوست کا نام ٹائپ کر کے اس کی تلاش۔۔  بھولی ہوئی یادوں کو تازہ کرنا۔۔  کچھ ان کی سننا، کچھ اپنی کہنا۔  جلد ہی پرانی ہم جماعتوں کا ’’ری یونین‘‘ پلان کیا گیا۔  خوش قسمتی سے وہ اس کے پاس والے شہر میں ہی تھا۔  کار سے صرف دو گھنٹوں کا سفر۔  شیفالی نے طے کر لیا کہ چاہے جو بھی ہو۔  وہ وہاں جا کر رہے گی۔  حالانکہ وہ جانتی تھی کہ اپنے ’’خول‘‘ سے باہر آ پانا، ممکن نہیں تھا اس کیلئے۔  عورتوں کا گھر سے اکیلے نکلنا، ان کے خاندان کی روایت نہیں تھی۔  یہ بھی کہ عورتوں کا پرائے لوگوں سے بولنا بیٹھنا اچھا نہیں۔  اسی گھر کے لڑکے رشبھ سے اس نے محبت کی۔  ان سب کی نظروں میں وہ آوارہ تھی۔  پھر بھی ان کی شادی کو من مار کر قبولیت دینی ہی پڑی۔  رشبھ کی بھوک ہڑتال کے آگے جھکنا پڑا۔  شادی کے بعد نہ جانے کتنے پہرے بیٹھا دیئے تھے اس پر۔  اس کا روپ ہی کچھ ایسا تھا۔  جس کو لے کر سسرال والے ہی نہیں، اس کا شوہر رشبھ بھی پریشان رہتا۔

بہت انتظار کے بعد وہ من چاہی گھڑی آئی۔  پرانی ساتھیوں سے ملنا ہو۔  تمام سج دھج کر آئی تھیں۔  ماضی کو یاد کیا گیا۔ ا سکول کا پلے گراؤنڈ، ٹیچروں کے ساتھ دلچسپ تجربات، آپس کی کھٹی میٹھی باتیں وغیرہ وغیرہ۔  بڑی بڑی تقریریں بھی کی گئیں۔  پر وقت کے ساتھ کچھ کھو سا گیا تھا۔  اب ان کے درمیان وہ معصوم بچپنے کا کھلا پن اور خوبصورتی کہیں نہیں تھی۔  وقت نے چہروں پر نقاب چڑھا دیئے تھے۔  سب خوش نظر کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔  اور اپنی حیثیت کا بڑھ چڑھ کر اظہار بھی۔  رشتوں کے سیاہ پہلو، وسیع مسکراہٹ تلے دبے جا رہے تھے، بیٹے بیٹیوں کی تعلیمی کامیابیوں سے لے کر شوہر کے رتبے تک۔  لمبے لمبے قصیدے۔

کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔  سب سے عجیب بات تو تب ہوئی جب سب نے مل کر، اسے ہی نائکا بنا ڈالا، ’’شیفالی جیسے پہلے ہماری اسکول لیڈر تھی ویسے اب بھی ہے۔  اس نے معاشرے کے سامنے ایک مثال قائم کی ہے۔  غیر ذات کے لڑکے سے شادی کر کے ذات برادری کو ٹھوکر مار دی۔ ‘‘

’’اور کیا شان سے رہتی ہے۔ ‘‘ کسی نے پھسپھسا کر یہ بھی کہا۔  ’’اس کے ماں باپ کے پاس پیسہ ہی کہاں تھا جہیز کا۔  کتنی کھاتی پیتی بہترین فیملی ملی ہے۔ ‘‘

’’اسے کہتے ہیں قسمت۔ ‘‘

’’سچی۔ ‘‘

شیفالی وہاں مزید نہیں رک سکی۔  من غبار سے بھر اٹھا تھا اور آنکھیں آنسوؤں سے۔  ان سب کو کیا معلوم کہ ساس اسے بار بار جہیز نہ لانے کا طعنہ دیتی ہے۔ اور پیسہ کمانے والے بیٹا کو مفت میں پھانسنے کا بھی۔  وہ کوستی ہے، ’’ ذات سے باہر شادی کری، تبھی پوتا نصیب نہیں ہوا۔ د و دو لڑکیوں پیدا کر کے بیٹھی ہے۔  ایسے روپ سروپ کو لے کر چاٹیں یا اس کا اچار ڈالیں۔  پھوہڑ گھر سے آئی ہے۔  نہ کسی بات کا سلیقہ نہ شعور۔ ‘‘ اب تو رشبھ بھی اس سے کٹنے لگے ہیں۔  ان کی خاتون دوستوں کے بارے میں جب تب افواہیں اڑا کرتی ہیں۔  ماں باپ کیلئے تو وہ شادی کے بعد ہی مر گئی تھی۔

حقیقت سے فرار کے لیے وہ مجازی دنیا کی پناہ میں آئی تھی۔  آج اسی دنیا نے اسے حقیقت کی زمین پر لا پٹکا۔  اس نے خود سے پکا عہد لیا کہ اس کے چارم میں خود کو اور نہیں پھنسائے گی۔  یوں ہی اپنا وقت ضائع نہیں کرے گی۔  فیس بک میں معتدل سادہ مزاج دوستوں کے علاوہ (جو انگلی پر گننے کے قابل ہیں ) کسی دوسرے کو گھاس نہیں ڈالے گی۔  اگر وہاں کچھ کرے گی تو صرف تخلیقی کام۔  ککری والے بلاگز پر کچھ اور محنت۔  کُکری ہی تو اس کا علاقہ ہے۔  اپنے پیروں کے نیچے کی زمین کو اسے پختہ بنانا ہو گا۔  گھر سے ہی وہ کچن سے متعلق کلاس چلائے گی۔  شوہر جتنا بھی کماتا ہو۔  اپنی کمائی تو پھر اپنی ہی ہوتی ہے۔  شادی کے چکر میں جو پڑھائی چھوٹ گئی تھی۔  پرائیویٹ ایگزام دے کر اسے پورا بھی کرنا ہے، زندگی ایک کٹھور سچائی ہے، سچائی سے مڈ بھیڑ تو کرنا ہی ہو گی۔

***

 

 

مفاد

الکا چترانشی

 

 

میں بھی تو انجن کی مانند ہی سب کو ان کی منزل تک پہچانے کا بس ایک ذریعہ بھر ہوں۔  جس کے پیچھے نہ جانے کتنوں کا قافلہ رہتا ہے پھر بھی وہ اکیلے ہی ہے۔  قافلہ تو اپنی منزل کے آنے تک ہی اس کا ساتھ دیتا ہے، پھر وہ رہ جاتا ہے تنہا اور اکیلا۔  کیا ہر جگہ خود غرضی ہی لوگوں کا ایمان بن گیا ہے۔  کیا ہر کسی کا تعلق صرف خود غرضی پر ہی مبنی ہوتا ہے۔

اب میرے لئے یہ شناخت کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ کون اپنا ہے، کون پرایا ہے۔  کیونکہ سب ہی کی باتوں میں مٹھاس، اپنا پن، ہمدردی، غرض کے سب کچھ ہی جھلکتا ہے۔  لیکن یہ سب واقعی میرے اپنے ہیں یا ان سب کا بھی کوئی نہ کوئی مفاد مجھ سے وابستہ ہے۔  جس اپنے پن کی طلب مجھے بچپن سے آج تک رہی ہے، اب نہیں چاہتی ہوں اسے پانا۔  کیوں سب میری مدد کرنا چاہتے ہیں، شاید میری مدد کرنے سے انہیں راتوں رات معاشرے سے سیوا کی ڈگری مل جائے گی۔  اخبار میں یہ خبر انہیں نامور لوگوں کے زمرے میں لا کھڑا کرے گی۔

میں کوئی آٹھ برس کی تھی، جب ماں کی طبیعت اچانک ایک دن بگڑ گئی۔  تین چار دن تک تو وہ کام پر بھی نہ جا سکیں۔  تھوڑا ٹھیک ہوئیں تو مجھے اپنے ساتھ لے گئیں اپنی مدد کیلئے۔  پھر نہ جانے کب وہ مجھ سے ہی سارا کام کروانے لگیں۔  صبح لے کر جانا اور شام کو واپس لے کر آنا ہی ان کا کام رہ گیا تھا۔

کتابوں، کاپیوں اور بستے کی محبت خود بخود ہی ان حالات کی وجہ سے کم ہو گئی تھی یا پھر ماں کے ساتھ بنگلوں میں جانا اور وہاں کا رہن سہن اور رنگین زندگی دیکھنا اس کا سبب تھا۔  شروع شروع میں جانا تو بڑا متاثر کن لگا۔  ہر مالکن اپنے بچے کی اترن، پرانے کھلونے اور نہ جانے کیا کیا دے دیا کرتی۔  ان چیزوں کو حاصل کرنے کی خواہش میں، میں چھوٹے موٹے کام بڑی خوشی سے کیا کرتی۔  بس اسی درمیان پتہ بھی نہ چلا کہ کب ماں نے اپنے کام کی ذمہ داری میرے اوپر ڈال دی اور اب تو اس کا کام صرف مجھے لانے اور لے جانے کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔  آہستہ آہستہ اس نے مجھے لانا لے جانا بھی کم کر دیا۔  ہاں اس دن ضرور میرے ساتھ جاتی، جس دن مجھے تنخواہ ملنی ہوتی تھی۔  وہاں کی زندگی کبھی بڑی ہی خوشگوار لگتی تھی، وہاں کے کپڑے، کھلونے، کھانے جو مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے تھے، ان کو حاصل کرنے کی خواہش کبھی مجھ میں بھی تھی، لیکن اس طرح حاصل کرنے کا کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔

میرے والدین نے بھی مجھے پڑھانا چاہا اور شاید پڑھایا بھی۔  پھر اچانک یہ تبدیل کیسے ہو گیا۔  جو مجھے پڑھا لکھا کر اچھی نوکری کرانا چاہتے تھے، انہوں نے مجھے ایسی زندگی جینے کے لئے مجبور کیوں کر دیا۔  کبھی کبھی مالکنوں کے بچوں کو پڑھتے دیکھ کر میرا دل بھی کرتا کہ میرے والدین بھی مجھے اسی طرح پڑھائیں۔  کئی بار ماں سے کہا تھا کہ میرا داخلہ اسکول میں دوبارہ کرا دیں۔  لیکن ماں کتنی خود غرضی ہو جاتی تھی تب اور میں دل مسوس کر رہ جاتی تھی۔

اب تو ایسے زندگی بسر کرنا میری قسمت بن چکی تھی، اسی لیے کسی سے کچھ کہنا ہی چھوڑ دیا تھا۔  لیکن شاید میری ایک مالکن میری دماغی کیفیت بھانپ گئی تھیں۔  تبھی تو انہوں نے مجھے پڑھانے کیلئے ماں کو کہا پر ماں تو جیسے مجھے پڑھانا ہی نہیں چاہتی تھی۔  کیونکہ میرے پڑھنے جانے سے اسے پھر بنگلوں میں کام کرنے جانا پڑتا۔  اس نے مالکن کے آگے نہ جانے اپنے کتنے مسئلے شمار کر ڈالے تھے۔  کہ جن کی وجہ سے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھ سے کام کرواتی ہے۔  چاہتی تو وہ بھی ہے پڑھانا پر کیا کرے۔  اس پر مالکن نے میری تعلیم کا سارا خرچ اٹھانے کی بات کی، اب وہ کیا کہتی۔  مالکن نے میرا داخلہ اسکول میں کرا دیا۔  میں کام بھی کرتی رہی اور پڑھنے بھی جانے لگی۔  اسی طرح میں نے دسویں پاس کر لی۔

ایک جلسے میں تمام بچوں کو سرٹیفکیٹ ملنے تھے۔ جس کی تیاری اسکول میں بڑی زور شور کے ساتھ چل رہی تھی۔  مجھے بھی ایک گیت میں حصہ لینا تھا جس کے لئے ایک سفید شلوار سوٹ چاہئے تھا۔  میرے لئے اچانک شلوار سوٹ لے پانا ممکن نہ تھا۔  چنانچہ میں نے اس کی مانگ اپنی مالکن سے ٹھیک اسی طرح کر دی، جس طرح لاڈلے بچے اپنے والدین سے کرتے ہیں۔  کیونکہ مجھے یقین تھا کہ قدم قدم پر مدد کرنے والی میری مالکن ضرور مجھے نیا شلوار سوٹ دلا دیں گی۔  لیکن اس دن جو کچھ بھی ہوا، اس کا تخیل میں نے خواب میں بھی نہیں کیا تھا۔  مالکن کا ایسا روپ میرے لئے غیر متوقع سا تھا۔  مجھے لگا میں نے کوئی جرم کر دیا ہے۔  میں نظریں جھکائے مالکن کی باتیں سنتی رہی، جب لگا کہ اب یہاں کھڑا ہو پانا ممکن نہیں ہے تو میں بغیر کسی تاخیر کے تیزی سے سڑک پر آ گئی۔  میری آنکھوں سے بہتے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اور میرا دل مالکن کے اس روپ کو قبول کرنے کو تیار ہی نہ تھا۔  ذہن میں جتنی تیزی سے اتھل پتھل ہو رہی تھی۔  اتنی ہی تیزی سے میرے قدم بڑھتے جا رہے تھے۔  تبھی اچانک مجھے زور کا دھکا لگا اور میں ایک ٹرک کے سامنے جا گری۔  میں نے اٹھنے کی بے سود کوشش کی، مگر اس وقت تک اس کے پہئے میرے ایک پاؤں کے اوپر سے گزر گئے۔  ہوش میں آنے پر پتہ چلا کہ میرا ایک پاؤں نہیں ہے۔  پاؤں کھونے کا غم شاید کم ہوتا اگر میرے اپنے میرے ارد گرد نظر آتے۔  نرس سے پتہ چلا کہ جس دن ڈاکٹر نے میرے پاؤں کاٹنے کے بارے میں والدین کو بتایا۔  اس دن سے لوٹ کر وہ میری خبر لینے بھی نہ آئے۔

اگر آئے تو صرف وہ لوگ ضرور آئے جن کے لئے میں ایک ذریعے تھی۔  ایک ایسا ذریعہ جس کے سہارے وہ راتوں رات ایک مشہور سماجی کارکن بن کر واہ واہ لوٹنا چاہتے تھے۔  میرے درد کو کم کرنے والے، مجھے اس قصائی سے کم نہیں لگ رہے تھے، جو قربانی دینے سے پہلے بکرے کی خوب خدمت کرتے ہیں۔  میرے ذہن میں ان لوگوں کے تئیں نفرت کے سوا کچھ نہ تھا۔  میں کسی بھی قیمت پر ان لوگوں کی مدد نہیں لینا چاہتی تھی یا یوں کہیں کہ ان مفاد پرست لوگوں کی مدد نہیں کرنا چاہتی تھی۔  اس دوران شاید ایسے بھی لوگ مجھ سے ملنے آئے تھے، جو واقعی میری مدد بے لوث انداز سے کرنا چاہتے تھے۔  پر میرا دل اب کوئی بھی دھوکہ کھانے کو تیار نہ تھا۔  تو ان آنے جانے والے لوگوں میں، میں نے کوئی خاص دلچسپی نہ دکھائی۔  میرے اس رویے سے شاید ہسپتال کے لوگ تھوڑا فکر مند دکھائی دے رہے تھے۔  کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ مکمل طور پر صحت مند ہونے تک کوئی ادارہ یا خاندان مجھے پناہ دینے کو تیار ہو جائے۔  لیکن میرے رویے سے انہیں ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ صحت مند ہونے کے سلسلے میں، میں کسی کی مدد قبول کروں گی۔  میرا دل تو ان آنے جانے والے لوگوں کے درمیان آج بھی اپنی مالکن کو تلاش کر رہا ہے۔  اس لئے نہیں کہ مجھے ان سے مدد درکار ہے۔  صرف یہ جاننے کے لیے کہ میں نے کیا جرم کیا تھا۔  دماغ کے ایک کونے میں آج بھی مالکن کے لئے احترام موجود تھا کیونکہ انہوں نے ہی میری زندگی کو سنوارنے کا عہد کیا تھا، وہ عہد جو والدین کو لینا چاہئے تھا۔  پھر اس دن ایسا کیا ہوا جو ان کا برتاؤ بالکل بدل گیا۔  اس سوال کو جاننے کے لئے میں ایک بار ضرور ان سے ملنا چاہتی تھی۔  ایک دو دن بعد مجھے مصنوعی پاؤں لگایا جائے گا، جس کے سہارے میں پھر سے چل پھر سکوں گی۔  یہ جان کر مجھے نہ جانے کتنی خوشی ہو رہی تھی کیونکہ میں مصنوعی پاؤں لگ جانے کے بعد خود چل کر مالکن سے ملنے جا سکوں گی اور پھر جان سکوں گی، وہ سب جس کی وجہ سے اس دن مالکن نے میرے ساتھ ایسا برتاؤ کیا۔

میں پورے طریقے سے صحت مند ہو گئی تھی، میرا ہسپتال سے چھٹی کا دن تھا۔  نرس نے آ کر مجھ سے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔  وہ مجھے ڈاکٹر کے کمرے کی طرف لے جا رہی تھی۔  پوچھنے پر بتایا کہ ڈاکٹر صاحب مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔  میرے دماغ میں سوچوں کا طوفان گھومنے لگا۔  مفت میں میرا علاج اپنے کسی مفاد کے لئے ان لوگوں نے کیا ہے۔  اب اس مفاد کو بھنانے کا وقت آ گیا ہے۔  جو سوچیں طوفان کی مانند دماغ میں گھوم رہی تھیں۔  وہ الفاظ کے ذریعے سے باہر نکلنے کے لئے تیار تھیں۔  کمرے میں پہنچنے پر ڈاکٹر صاحب نے جیسے ہی کچھ کہنا چاہا، میرا غصہ پورے طور پر پھٹ پڑا، جس کی امید کسی کو بھی نہ تھی۔  تمام لوگ مجھے دیکھتے رہے۔  جب میں کچھ ٹھنڈی ہوئی تب ڈاکٹر صاحب نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔  شاید وہ میری دماغی صورت حال سے پوری طرح واقف ہو چکے تھے۔  تبھی تو اتنا سب کہنے کے بعد بھی انہوں نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔  میں خاموشی سے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔  تب انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے والدین کی طرف سے مجھے ہسپتال میں چھوڑ کر چلے جانے کے بعد میرا علاج میری مالکن نے ہی کرایا۔  آج میں انہی کی وجہ سے چلنے کے قابل ہو پائی ہوں۔  میرے ساتھ ہوئے اس حادثے سے وہ اتنی مجروح ہوئی تھیں کہ میرے علاج کے لئے اور میرے مستقبل کے لئے کچھ رقم ہسپتال آ کر ڈاکٹر صاحب کو دے کر اس شہر کو چھوڑ کر نہ جانے کہاں چلی گئیں اور ہاں جانے سے پہلے میرے لئے ایک خط ضرور چھوڑ گئی تھیں۔  ان کا خط اور چیک ڈاکٹر صاحب نے میرے سامنے رکھ دیا۔  جسے چھو کر دیکھنے کی میری خواہش نہیں ہوئی۔  میں تو صرف اس سوال کا جواب جاننا چاہتی تھی جو شاید اب نا ممکن تھا۔  جس کے لئے ذہن میں بے پناہ احترام تھا۔  آج اس کے لئے دل میں نہ جانے کتنی نفرت بھر گئی تھی۔  کیوں شہر چھوڑ چلی گئیں، میری اس حالت کے لئے شاید وہ ہی ذمہ دار تھیں، تبھی آنکھ ملانے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔  پر میری ٹانگ کی قیمت اندازہ لگا لیا۔  کر لی توبہ۔  ہو گئیں گناہ سے آزاد۔  لیکن میرا کیا ہو گا۔  میں کس سے پوچھنے جاؤں کہ میری کیا غلطی تھی میں کس طرح اس کا کفارہ ادا کروں۔

اچانک نہ جانے کیا ہوا میں نے اس خط اور چیک کو پلک جھپکتے ہی ٹکڑے ٹکڑے کر کے کمرے میں بکھیر دیا۔  میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میں آج پھر تیزی سے قدم اٹھاتی باہر آ گئی، شاید اس دھکے کی چاہ میں جو دوبارہ مجھے کسی ٹرک کے سامنے گرا دے، لیکن آج میں کوئی بے کار کوشش نہیں کروں گی، کروں گی تو ایسی بھرپور کوشش جو مجھے پلک جھپکنے میں میری منزل تک پہنچا دے۔

***

 

 

 

ساتھی ویرانے کا

مینا اے شرما سحر

 

خوبصورت شام تھی۔  ہاتھ میں چائے کی پیالی تھامے برآمدے میں بیٹھی۔  گرتی ہوئی برف دیر تک دیکھتی رہی۔

فطرت کا حیرت انگیز نظارہ۔  ٹھنڈا ہوتا ہوا ماحول۔  میرا من بھی اسی کے ساتھ ٹھنڈا جا رہا تھا۔

اچانک بدن میں کپکپی ہوئی اور ٹھنڈ کا احساس جاگا۔  اندر جا کر گرم شال لپیٹی اور ایک پیالی چائے اور بنا لی۔  پہاڑوں کی ٹھنڈک بھی پہاڑوں کی ہی طرح خوبصورت ہوتی ہے۔  وہ نشتر سا نہیں چبھوتی صرف سردی کا احساس بھر کراتی ہے۔  کوسانی کے اس گیسٹ ہاؤس میں آگ سے گرم ہوتا کمرہ تن اور من کو سکون فراہم کرنے لگا۔

خیالات کے اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتی اترتی، بند کھڑکی کے شیشے سے باہر جھانک رہی تھی۔  یادوں کی اپنی ایک حیرت انگیز دنیا ہوتی ہے۔  کبھی کسی سہانی یاد کا ٹکڑا ہونٹوں پر مسکراہٹ دے جاتا ہے تو اگلے ہی لمحے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیشانی کی جھریوں کا سبب بن جاتا ہے۔

ماضی کی تہیں کھولتی ہوئی اچانک برآمدے میں میری نظر پھر اٹک گئی۔

آج بھی وہ دروازے پر ٹیک لگائے، بغیر ہلے، سوچوں میں مگن سا کھڑا تھا۔  گزشتہ دو دنوں سے میری بے چینی بھی جوں کی توں بنی ہوئی تھی۔  کون ہو گا، خوش ہو گا، یا دکھی ہو گا؟ میری سوچوں کی زنجیر بھی لمبی ہوتی چلی گئی۔  لوگوں کو پڑھنا مجھے تھوڑا بہت پر جوش کر دیتا ہے اور جب صحیح پڑھنے میں کامیاب ہو جاتی ہوں، تب وہیں ایک نئی کہانی سر اٹھانے لگتی ہے۔

لمبے قد کا، تھوڑا دبا ہوا رنگ، سوکھے جسم پر کرتا پاجامہ، مست ملنگ سا شال لپیٹے ہوئے تھا۔  جس کا ایک کونا زمین کو چھو رہا تھا۔  عجیب کشش تھی اس کے شخصیت میں، عجیب لفظ ہی کہنا ٹھیک رہے گا۔

اچانک ہوئے ٹھنڈ کے احساس سے لگا، شاید آتشدان کی آگ کم ہو گئی ہے۔  سو تھوڑی سی لکڑیاں اور ڈال دیں۔  آگ تیز ہوتی دیکھ کر میں وہیں پاس میں رکھی آرام کرسی پر جھولنے لگی۔  کاغذ اور قلم اٹھا کر کچھ لکھنے کا سوچا۔

بہت دنوں سے ذہن تھا کچھ لکھنے کو۔  قلم لینے کھڑکی کے پاس بنی دراز تک پہنچی، پھر ایک بار اپنے آپ کو باہر جھانکتے ہوئے پایا۔  اب وہ وہاں نہیں تھا۔  تھوڑے آہستہ قدموں سے واپس آ کر کرسی پر بیٹھی اور دوبارہ جھولنے لگی۔  وہ ساتھی معلوم ہوا اس ویرانے کا۔

گم صم بنی بیٹھی رہی کچھ دیر۔  پھر لکھنے کا من نہیں بنا۔  خیالات کا چشمہ سوکھ گیا ہو جیسے اور سوچوں نے بھی ساتھ نہیں دیا۔

کھانا کھا کر کچھ دیر پڑھتی رہی شاید بہت دیر۔  نیند سے مجھے نفرت سی ہے بچپن سے ہی۔  کسی نے کبھی کہا تھا مجھ سے ’’شاید آپ کے پاس کام زیادہ ہے اور وقت کم‘‘ ہنس دی تھی میں۔  ہو سکتا ہے یہی سچ ہو۔

اگلے دن صبح چھ بجے گھنٹی کی آواز کے ساتھ چائے کی ٹرے لئے دروازے پر لڑکا کھڑا تھا۔  دروازہ کھولتے وقت نظر سامنے برآمدے میں پھر چلی گئی۔  یہ نظر بھی اپنی طرف سے کہاں کہاں لپک لیتی ہے۔  ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوے وہ بولا، ’’میڈم ناشتا کہاں کریں گی؟ آج باہر اچھی دھوپ کھلی ہوئی ہے۔ لان میں بیٹھ کر چائے پینا آپ کو ضرور پسند آئے گا۔ ‘‘

’’وہ سامنے والے کمرے میں کون ہے؟‘‘ اچانک اکثر پوچھے گئے سوالوں سے میں خود حیران ہوتی تھی۔

’’جی وہ صاحب تین روز سے وہاں پر ہیں۔  کم بولتے ہیں سو زیادہ معلوم نہیں۔ ‘‘ کہہ کر وہ چلا گیا۔

برف گرنے کے بعد، اس پر پڑتی صبح کی نرم دھوپ مجھے بہت طمانیت دیتی ہے۔  کچھ دیر بعد ساڑی کا پلو ٹھیک کرتے ہوئے، شال لپیٹے، بال تھوڑا گیلے تھے، اس لئے انہیں کھلے ہی چھوڑ کر، لان پر چلی گئی۔  کوسانی پر اگر آسمان صاف ہو تو پہاڑوں کی بلندیوں پر آتی جاتی دھوپ چھاؤں مبہوت سا کر دیتی ہے۔

ہوا میں ٹھنڈک تھی، لیکن خوبصورت دھوپ سے سنہری ہوتی حسین وادیوں کو دیکھنے کا لالچ میں نہیں چھوڑ پا رہی تھی۔  شال کو تھوڑا سا مضبوطی سے لپیٹا اور یادوں کے سحر انگیز سمندر میں بادبانی کرنے لگی۔

خشک ہو چکے بالوں کی لٹیں بار بار ہوا کے ساتھ چہرے پر بکھر رہی تھی۔  انہیں سمیٹ کر باندھنے کا سوچ کر ہاتھ اوپر اٹھائے ہی تھے کہ سنائی دیا۔

’’ لہرانے دیجئے انہیں، ایسے ہی چھوڑ دیں۔  اس بندھنے باندھنے کی فطرت سے کب ابھرے گا انسان۔ ‘‘

پلٹ کر دیکھا تھوڑی بڑی ہوئی داڑھی اور چہرے پر لاپرواہی کا تاثر لئے وہ کھڑا تھا۔

’’ بندھن میں ایک الہامی سکون ہوتا ہے۔  تنہائی کے عذاب کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ ‘‘ میں نے تھوڑا سوچ کر کہا۔

’’عورتیں اکیلے اپنی اڑان کیوں نہیں بھرنا چاہتیں؟‘‘

’’شاید ہماری قدیم روایت کی ذہنیت، جس میں ہم پلے بڑے ہیں، لیکن آپ ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟‘‘

’’کیا کرتی ہیں آپ؟‘‘

’’تھوڑا بہت لکھ لیتی ہوں، لکھنا ہم جیسے قنوطی اور حساس مزاج کے لوگوں کے لئے خود کا اظہار کرنے کا آسان ترین اور خوبصورت ذریعہ ہے۔ ‘‘

’’آزاد ہو کر لکھتی ہیں نہ؟‘‘ چہرے پر تھوڑی سی طنز یہ مسکراہٹ لئے، وہ مقناطیسی آنکھیں سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھیں، میں بے چین ہو گئی۔  جواب دینے کا من نہیں ہوا۔

’’کب تک مرد، عورت کو بے بس سمجھنے کی غلطی کرتا رہے گا؟ کیوں اس کے اپنے پن کو بندھن کا روپ دے دیتا ہے وہ۔ ‘‘ میں سمجھنے کی کوشش کرتی ہوئی کچھ لمحے خاموش رہی۔

میرے اس طرح خاموش ہو جانے سے وہ تھوڑا پریشانی میں پڑ گ      یا۔  عورتوں کی خاموشی میں حیرت انگیز طاقت ہوتی ہے، یہ اندازہ تو میں لگا چکی تھی۔

اگلے ہی لمحے وہ تھوڑا سا مسکرا کر بولا، ’’چلئے آپ شاید ایسا نہیں سوچتیں پر عورتوں کی دنیا میں ایسا ہی ہے۔ ‘‘سادہ انداز سے یہ الفاظ کہتے دیکھ کر میں کھلکھلا کر ہنس پڑی، جس کے بعد وہ بھی شامل ہو گیا۔  ساری باتیں بڑی خوبصورت رہیں، تین دن کے اس ویرانے کے ساتھی سے۔

اگلی صبح پرپل رنگ کی اپنی من پسند سلک کی ساری پہن کر، لان پر بکھری کنکناتی دھوپ میں ناشتا کرنے اتری۔  تو وہاں اسے انتظار کرتے ہوئے پایا۔

مسکراتے ہوئے بولی، ’’اس بندھنے باندھنے کی فطرت سے کب ابھرے گا انسان۔ ‘‘

اس قہقہے کے ساتھ ہی میں نے کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف بھی دیکھا۔

میرے جانے کا ٹائم جو ہو رہا تھا

***

 

 

 

 

سوالات کے ڈھیر سے۔۔ ۔۔  دھوئیں کے چھلے

ترُو شری شرما

 

راتیں ہر روز خالی خالی سی رہنے لگی تھیں۔

جیسے ستارے آسمان سے اب چپکتے ہی نہ ہوں اور چاند کی ڈوری آسمان سے لٹکتی ہی نہ ہو۔  رات کا سناٹا جیسے ہوتا ہی نہیں تھا اور اندھیرے کے کاجل کی سیاہی پھیلتی ہی نہیں تھی۔

دن جیسے دن کی طرح نہیں ہوتے تھے۔

سورج کا رتھ دوڑتا ہی نہیں تھا اور دھوپ کے گولے جیسے اترتے ہی نہیں تھے۔  دن کا شور جیسے چِلاتا ہی نہیں تھا اور روشنی کی پیلی کھڑکیاں کھلتی ہی نہیں تھی۔

وہ اس عجیب سے وقت میں گتھم گتھا سوالات کے جال میں کھویا رہتا تھا۔۔ ۔۔ مثلاً۔

یہ دیوار کیوں نہیں چلتی اور چلتی ہوتی تو کہاں تک پہنچ چکی ہوتی؟

کیا یہ مجھ سے تیز چل پاتی اور کیا میری طرح تیز دوڑ پاتی؟

کیا میری غیر موجودگی میں میرے اسکیٹنگ شوز پہن کر گھر میں کہرام مچا دیتی؟

یا کسی کونے میں بیٹھ کر سگریٹ کے کش کا مزا لیتی؟

کبھی دل کرنے پر غالب کے شعر پڑھتی یا میکسم گورکی کے ناولوں سے زندگی کا فلسفہ کھوجتی؟

۔۔ ۔ اور آخر میں یہ سوال کہ۔۔ ۔۔  آہ، میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں۔

خیر نہ دن بدلتے تھے، نہ شامیں اور نہ ہی راتیں۔

وہ کام پر جاتا تھا پر کسی سے بات کرنے میں جیسے اس کی نانی مرتی۔  آس پاس کام کرتی لڑکیوں کو دیکھ کر بوریت ہونے لگتی۔۔ ۔  اور سوالات کی ترتیب شروع ہو جاتی۔

کیوں روز سج دھج کے آتی ہیں؟

کتنا وقت لگاتی ہوں گی؟

اور آخر کیوں؟

کیا موٹے پانڈے کو لبھانے کے لئے؟

یا پان کی پیک سے فرصت نہ پانے والے بنواری سے عشق لڑانے کے لئے؟

اگر دونوں سے نہیں تو اس دفتر میں تیسرا کون؟

میں؟

مجھے پٹانے کے لئے؟

اور اگر ہاں۔۔  تو میں انہیں دیکھ کر خوش کیوں نہیں ہوتا؟

کیوں یہ دیویکا کی طرح۔  اور اوہ۔  دیویکا کا نام آتے ہی جیسے اس کے سارے سوال ختم ہو جاتے۔

یہ ایک ٹوٹی پھوٹی داستان تھی۔  جس کے کسی بھی سرے پر پہنچنے سے اس کے دن رات، حقیقی دن رات جیسے ہو جاتے۔  ابھی جیسے نہیں رہتے۔  سارے سوالوں کو پنکھ لگ جاتے اور وہ اڑ کر اس کی پہنچ سے کہیں دور ہو جاتے۔  اس دن وہ جھومتا گھر آتا۔  کونے میں بیٹھ کر پیٹ کی گہرائی جتنے گہرے سگریٹ کے کش لیتا، اور اپنی پسندیدہ غزل میں کھو جاتا۔

کچی دیوار ہوں۔۔  ٹھوکر نہ لگانا مجھ کو۔۔

اس کی روح صرف موسیقی کو محسوس کر پاتی۔  اس کے دماغ کے لئے تو غزل کے الفاظ اور موسیقی جیسے پہنچ سے بہت پرے کی چیز ہو جاتے۔

ایسے ہی کبھی کسی شاعر کے شعری مجموعے کے پھڑپھڑاتے صفحے پر نظر آتیں چند لائنیں۔

سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے

بے حسی سے بھر جانا

تڑپ کا نہ ہونا

سب کچھ سہہ جانا

گھر سے جانا کام پر

اور کام سے گھر لوٹنا

سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے سپنوں کا مر جانا

اوہ۔  مارکس کی علیحدگی پسندی۔  جیسے اس کے منہ کا ذائقہ کسیلا ہو جاتا۔

دن، ایک بار پھر دن نہیں رہتے۔  راتیں، راتوں کی طرح نہیں رہتیں اور سوالات کے ڈھیر ایک بار پھر اس کے منہ پر دھوئیں کے چھلے اڑنے لگتے۔

***

 

 

 

سزا

ڈاکٹر نریندر شکلا

 

 

’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ کٹہرے میں کھڑے خونخوار سے نظر آنے والے ملزم سے وکیلِ صفائی نے پوچھا۔

’’ وکی استاد۔ ‘‘ملزم نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔

’’تو تم نے کلکٹر صاحبہ پر گولی چلائی؟‘‘

’’جی ہاں چلائی گولی۔ ‘‘ وکی استاد نے سینہ تان کر کہا۔

’’مگر کیوں؟‘‘ صفائی وکیل نے پوچھا۔

وکی جج صاحبہ کو دیکھ رہا تھا۔  کوئی جواب نہیں دیا۔

’’میں پوچھتا ہوں کہ تم نے کلکٹر صاحبہ پر گولی کیوں چلائی؟‘‘ اس بار وکیل صاحب نے تھوڑی سختی سے کہا۔

’’ روکڑا ملا تھا۔ ‘‘ وکی نے بغیر کسی لاگ لپٹ کے آرام سے کہہ دیا۔

’’کس نے دیا پیسہ؟‘‘ وکیل صاحب نے اگلا سوال کیا۔

اس نے کئی جواب نہیں دیے۔  وہ مسلسل جج صاحبہ کو دیکھے جا رہا تھا۔  شاید کچھ پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’میں پوچھتا ہوں کہ کس نے دیا پیسہ؟‘‘ وکیلِ صفائی کے سُر سخت ہو گئے۔  پیشانی پر تیوریاں چڑھ آئیں۔  پر وکی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔  پولیس، وکیل، جج اور سزا وغیرہ جیسے الفاظ اس کے لیے نئے نہیں تھے۔

’’کسی نے دیئے ہوں گے۔  تمہیں کیا۔  اپن کے دھندے کا یہ سیکرٹ ہے۔  اپن اپنے دھندے کو گندا نہیں کر سکتا۔  اپن داغا گولی اس کلکٹر کے سینے پر۔  آپ اپن کو سزا سنا دو۔  اپن زیادہ لفڑے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ ‘‘ وکی نے ایک پیشہ ور مجرم کی طرح بغیر کسی خوف کے دو ٹوک جواب دیا۔

’’تم نے اپنی سگی بہن پر ہی گولی داغ دی۔ ‘‘ اس بار وکیلِ صفائی نے وکی کو توڑنے کے لئے اس کے دل پر گہرا وار کیا۔

’’میری بہن۔۔!‘‘ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں وکیل صاحب۔  اپن نے اپنی بہن پر نہیں، رکاب گنج کی کلکٹر مس پانڈے پر گولی چلائی ہے ‘‘

’’کیا تمہارا اصلی نام وکرم دیش پانڈے نہیں۔  کیا جیوت دیش پانڈے تمہاری بہن نہیں ہے؟ کیا تم وکاس دیش پانڈے کے اکلوتے بیٹے نہیں ہو؟‘‘ وکیل صاحب نے وکی استاد کے خاندانی پس منظر کی پٹاری کھول دی۔

’’ ہاں میں مسٹر وکاس دیش پانڈے کا اکلوتا بیٹا وکرم دیش پانڈے ہوں اور میری بہن کا نام بھی جیوت دیش پانڈے ہے۔  لیکن جیوت کا اس کیس سے کیا تعلق ہے۔ ‘‘ وکی نے حقیقت بیان کرتے ہوئے حیرانی سے پوچھا۔

’’مس جیوت دیش پانڈے کا اس کیس سے گہرا تعلق ہے یور آنر۔  کیونکہ مس جیوت دیش پانڈے ہی وہ کلکٹر ہیں، جن پر اس ملزم وکی نے گولی چلائی ہے۔ ‘‘ وکیل صاحب نے وکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

وکی استاد عرف وکرم دیش پانڈے کو اب بھی یقین نہیں ہو رہا تھا۔  کہ اس نے اپنی بہن، اپنی دیدی جیوت پر گولی چلائی ہے۔  یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ نہیں۔  نہیں۔  وہ جیوت نہیں۔  وہ تو کلکٹر پانڈے تھی۔  لیکن شاید۔۔  ہائے۔  یہ مجھ سے کیا ہو گیا۔  وہ سسک پڑا۔  آنکھوں سے آنسوؤں کی دھارا بہنے لگی۔  وہ کھڑا نہ رہ سکا۔  اپنا سر پکڑ کر وہیں کٹہرے میں بیٹھ گیا۔

ادھر وکی استاد کی خاندانی ہسٹری سن کر جج صاحبہ، جو اب تک کیس کی فائل کے صفحات پلٹ رہی تھیں۔  اچانک چونک گئیں۔  انہوں نے پہلی بار نظریں اٹھا کر ملزم وکی استاد کے چہرے کو غور سے دیکھا۔۔  ار..ے یہ تو سچ مُچ وکی ہے۔  میرا چھوٹا بھائی۔  لیکن ملزم کے طور پر۔  یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ بہت پیارا بچہ تھا، یہ ایک کریمنل کیسے بن سکتا ہے؟ اتنے سالوں بعد بھائی بہن کا یہ کیسا حیرت انگیز ملن ہے۔  ان تمام سوالات نے ان کے من میں کھلبلی مچا دی..۔  انہیں یاد آیا۔۔ ۔۔  جب وکی پیدا ہوا تھا تو گھر میں کتنی خوشیاں منائی گئیں تھیں۔  تمام رشتہ داروں کو بلایا گیا تھا۔  ماں اور پاپا دونوں ہی بہت خوش تھے۔  دو لڑکیوں کے بعد بیٹا پیدا ہوا تھا۔

کملا چاچی ماں سے کہہ رہی تھیں، ’’ بہن دیکھ لینا یہ لڑکا اپنی دونوں بہنوں سے اوپر جائے گا۔ ‘‘

دادی نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا، ’’ اور نہیں تو کیا۔  لڑکیوں کو تو پڑھ لکھ کر بھی گھر داری، چوکا چولہا ہی کرنا ہوتا ہے۔  نام تو لڑکے روشن کرتے ہیں۔ ‘‘ تائی نے دادی کی بات کی حمایت کرتے ہوئے کہا، ’’ تم ٹھیک کہتی ہو دادی۔  لڑکوں سے ہی نسل چلتی ہے۔۔ ‘‘

وکی جب تھوڑا بڑا ہوا تو اسے پڑھنے کے لیے شہر کے سب سے بڑے کانونٹ اسکول ’’سینٹ زیویئر ‘‘ بھیجا گیا۔  وہ تب آٹھویں میں تھی اور جیوت ساتویں میں۔  وہ دونوں بہنیں پاس ہی کے سرکاری اسکول میں پڑھتی تھیں۔  آہستہ آہستہ وکی بڑا ہوتا گیا۔  ماں اور پاپا کے بے پناہ لاڈ پیار نے اسے ضدی اور کند ذہن بنا دیا تھا۔  گھر میں وہ کسی سے طریقے سے بات نہیں کرتا تھا۔  ماں اور پاپا کی تو وہ ہر بات کاٹ دیتا تھا۔  پاپا نے تنگ آ کر اس دہرہ دون کے اسکول بھیج دیا۔  سوچا دور ہاسٹل میں رہے گا تو ٹھیک ہو جائے گا۔  لیکن وہ نہیں سدھرا۔  وکی دسویں کے بورڈ ایگزام میں بری طرح فیل ہو گیا تو اسکول والوں نے اس کو اسکول سے نکالنے کا نوٹس بھیج دیا۔  نوٹس میں اس کے طرز عمل کو لے کر بھی شکایت کی گئی تھی۔  پاپا نے کسی طرح سسٹر لساٹا کے سامنے ہاتھ پیر جوڑ کر وکی کو ایک اور چانس دلوایا۔  لیکن قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔  ایک دن خبر آئی کہ وکی اپنے میتھ کے ٹیچر کو ادھ مرا کر کے اسکول سے بھاگ گیا ہے۔  یہ خبر سن کر ماں کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔  پاپا سے روتے ہوئے بولیں، ’’آپ  کچھ بھی کیجئیے۔  مجھے میرا وکی چاہیے۔۔  میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔  مجھے میرا وکی چاہیے۔  میں اسے سمجھاؤں گی۔  وہ میری بات نہیں ٹالے گا۔  وہ ایک سمجھدار لڑکا ہے وہ ضرور اچھا بنے گا۔ ‘‘

پاپا بھی اداس تھے۔  ہم دونوں بہنیں بھی خوب روئی تھیں۔  جیوت تب سول سروسز کی تیاری کر رہی تھی اور میں جوڈیشل کی۔  پاپا نے وکی کو تلاش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔  ٹی وی، اخبار، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ تمام عوامی مقامات پر، جہاں کہیں بھی پبلک کی نظر جا سکتی تھی، وکی کی تصویریں لگائی گئیں۔  لیکن وکی نہ جانے کہاں چھپ گیا تھا۔  نہ جانے کون سی زمین اسے نگل گئی تھی۔  اس کا کہیں پتہ نہ چلا۔  وکی کے غم میں ماں اور پاپا دونوں بیمار رہنے لگے اور گزشتہ سال۔  پہلے پاپا اور پھر ماں ہم سب کو اکیلا چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔  دونوں کی آنکھیں، آخری سانسوں تک اپنے پیارے بیٹے وکی کے آنے کا راستہ دیکھتی رہیں۔  ماں نے جاتے جاتے مجھے اپنے پاس بلا کر کہا، ’’ساگریکا، وکی کا خیال رکھنا۔  وہ ایک اچھا لڑکا ہے۔ ‘‘ اور آج وکی ملا بھی تو ایک ایسے مجرم کے طور پر، جس پر اس کی اپنی بہن پر گولی چلانے کا الزام ہے۔  جج صاحبہ نے ٹیبل پر پڑی اپنی عینک پہننے ہوئے کہا، ’’دی کورٹ از ایڈجورنڈ ٹل منڈے۔ ‘‘

پیر کو عدالت کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔  آج یہاں ایک ایسے کیس کا فیصلہ ہونے والا تھا، جہاں ملزم اسی جج کا بھائی تھا۔  جسے اسے سزا سنانی تھی۔  حالانکہ ایسے کیسوں میں جہاں ملزم کا جج کے ساتھ کوئی خاندانی رشتہ ہو مدعا علیہ کی درخواست پر کیس کسی دوسرے جج کی عدالت میں ٹرانسفر ہو جاتا ہے۔  لیکن یہاں صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔  جج صاحبہ پورے شہر میں اپنے غیر جانبدار انصاف کیلئے مشہور تھیں۔  لہذا استغاثہ کے وکیل کو اس سلسلے میں کوئی اعتراض نہیں تھا۔  آج وکی استاد عرف وکرم دیش پانڈے، کٹہرے میں سر جھکائے اس ہارے ہوئے جواری کی طرح کھڑا تھا۔  جس نے زندگی کے جوئے میں اپنا سب کچھ گنوا دیا ہو۔  اس کا جسم ڈھیلا پڑ چکا تھا۔  اسے آج احساس ہو گیا تھا کہ اپنوں کے مرنے کا کیا دکھ ہوتا ہے۔  اسے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ سامنے انصاف کی کرسی پر بیٹھی جج صاحبہ اور کوئی نہیں، اس کی بڑی بہن ساگریکا ہے۔

’’کیا تمہاری کوئی اور بہن ہے؟‘‘ وکیل صاحب نے عدالت میں گھر بناتی ہوئی خاموش کو توڑتے ہوئے کہا۔

’’جی ہاں۔  وکیل صاحب میری ایک اور بہن سا۔ گا۔۔ ری۔  کا ہے۔ ‘‘ وکی کی زبان بڑی بہن کے سامنے لڑکھڑا گئی۔  وکیل صفائی نے جج صاحبہ کی طرف کھڑے کر کہا، ’’لیجئے یور آنر، کیس بالکل صاف ہے۔  ملزم وکی خود قبول کر رہا ہے کہ اس نے کلکٹر مس جیوت پر گولی چلائی۔  یہ تو بھگوان کا کرم ہے کہ گولی مس جیوت کے کندھے کو چھوتی ہوئی نکل گئی۔  ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔  لیکن، یور آنر اس سے ملزم وکی کا جرم کم نہیں ہو جاتا۔  ملزم ایک پیشہ ور مجرم ہے۔  اس لئے میری عدالت سے درخواست ہے کہ ملزم وکی استاد عرف وکرم دیش پانڈے کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔  دیٹس آل یور آنر۔ ‘‘

وکیل صاحب سامنے لگی کرسی پر بیٹھ گئے۔  بہن جیوت کے بچنے کی خبر سن کر وکرم کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔  اس کے دونوں ہاتھ اپنے آپ بھگوان کا شکر ادا کرنے کے لیے جڑ گئے۔  اور ہونٹوں سے نکل پڑا، ’’ بھگوان تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔  تو نے اس گنہگار پر رحم کرتے ہوئے دیدی کو بچا لیا۔ ‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

’’اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟‘‘ جج صاحبہ نے ملزم وکی استاد سے پوچھا۔

’’ہاں جج صاحبہ مجھے کچھ کہنا ہے۔  لیکن اپنے دفاع میں نہیں۔  میں ایک مجرم ہوں۔  ایک انتہائی خونخوار مجرم۔  میں نے نہ جانے کتنے گھروں کو اجاڑا ہے۔  لاکھوں لوگ میری وجہ سے بے گھر ہوئے ہیں۔  پیسے لے کر ہر طرح کا کام کرتا ہوں میں۔  یہ کلکٹر کیا نام ہے اس کا مس جیوت دیش پانڈے یہاں رکاب گنج میں قانون کا راج چلانا چاہتی تھی۔  وہ کالونی شہر کے مشہور بلڈر سیٹھ دینا ناتھ کی بنائی کالونی تھی۔  وہی سیٹھ دینا ناتھ۔  جن کے پیسوں سے تمام سیاسی پارٹیوں کے خرچ چلتے ہیں۔  شہر کے کئی افسروں کی عیاشی چلتی ہے۔  ان کے تمام قسم کے اوٹ پٹانگ خرچ چلتے ہیں۔  اسی سیٹھ کی کالونی کو غیر قانونی بتا کر یہ کلکٹر گرانا چاہتی تھی۔  وہ میڈیا کی طرف سے سیٹھ صاحب پر دباؤ بنانے کی کوشش بھی کر رہی تھی۔  میں نے فون پر اسے بہت سمجھایا۔  لیکن اس پر ایمانداری کا بھوت سوار تھا۔  وہ نہیں مانی اور میں نے اسے گولی مار دی۔  معاشرے میں لوگ مجھے غنڈا بد معاش کہتے ہیں۔  پر اپنے ساتھیوں کے لیے میں استاد ہوں۔ وکی استاد۔  لیکن آج تک کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ پورے شہر میں اپنی ایمانداری اور سچائی کے لیے مشہور پولیس انسپکٹر مسٹر وکاس دیش پانڈے کا اکلوتا بیٹا وکی دیش پانڈے، وکی استاد کیسے بنا۔  مجھے مجرم بنانے والے ان تمام لوگوں میں، وہ سب ماں باپ شامل ہیں جو اپنے بیٹوں کو اپنی بیٹیوں سے زیادہ محبت دیتے ہیں۔  جو معاشرے میں اپنے بیٹوں کو اپنی بیٹیوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔  ان کا ہر جائز، نا جائز مطالبہ، ہر غلطی یہ سوچ کر معاف کر دیتے ہیں کہ بچہ ہے۔  بڑا ہو کر ٹھیک ہو جائے گا۔  کل کا چراغ ہے یہ۔۔  اسی سے ہمارا خاندان چلے گا۔  اگر پاپا نے میرے فیل ہونے پر مجھے پھٹکارا ہوتا۔  ماں میرا غلطیوں پر پردہ نہ ڈالتی تو آج یہ وکی، وکی استاد نہ ہوتا۔  آج یہاں، میری ہر ماں باپ سے ہاتھ جوڑ کر التجا ہے کہ وہ بیٹا بیٹی میں کوئی فرق نہ سمجھیں۔  اپنے بیٹے کو اتنا لاڈ نہ دیں کہ وہ اپنی جائز نا جائز خواہش کا غلام بن کر رہ جائے۔  بچپن کی بے لگام بری عادتیں ہی مستقبل میں اس شخص کی ذہنی کجروی کا سبب بنتی ہیں۔ ‘‘

وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔  اس کے آنسوؤں کی بہتی ندی کے سامنے آج دریا اور سمندر بھی چھوٹے پڑنے لگے تھے۔  جج صاحبہ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔  خود کو سنبھالتے ہوئے وہ بولیں، ’’دی کورٹ از ایڈجورن ٹل نیکسٹ ڈے۔ ‘‘

گھر آ کر وکرم کی بڑی بہن ساگریکا بغیر کچھ کھائے پیئے ہی پلنگ پر لیٹ گئی۔  وہ ان ججوں میں سے تھی، جو فرض کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔  اوہ، آج کیسی امتحان کی گھڑی آ گئی ہے۔  ایک طرف اس کا اپنا حقیقی بھائی ہے تو دوسری طرف فرض کی دیوار۔  اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔  فرض اور بھائی کی محبت میں جد و جہد ہونے لگی۔  کبھی فرض، بھائی کی محبت پر چڑھ بیٹھتا تو کبھی بھائی کی محبت فرض کی مضبوط دیوار کو چھید کر اس سے کہہ اٹھتا۔  نہیں ساگریکا آخر وکی تمہارا وہی بھائی ہے۔  جسے بچپن میں تم اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے اسکول بھیجتی تھیں۔  یہ وہی وکی ہے جسے کھلائے بغیر تمہارا پیٹ نہیں بھرتا تھا۔  جس دن وہ تم سے خفا ہو کر، ممی پاپا کے ساتھ سوتا تھا اس دن تم ساری رات کروٹیں بدلتی رہتی تھیں۔  ممی پاپا کے جانے کے بعد تم ہی اس کی ممی پاپا ہو۔  یاد ہے۔  ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا۔  وکی کا خیال رکھنا، آج اسی وکی کی زندگی تمہارے قلم پر منحصر ہے۔  کورٹ میں بیچارا کس طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔  یہی سب سوچتے سوچتے کب اس کی آنکھ لگ گئی پتہ ہی نہ چلا۔

اگلے دن جج کی کرسی پر بیٹھتے ہی وہ سب کچھ بھول گئیں۔  جج صاحبہ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ’’ وکی استاد عرف وکرم دیش پانڈے ایک مجرم ہے۔  اس نے خود اپنا جرم قبول کیا ہے۔  اس نے صاف کہا ہے کہ اس نے کلکٹر مس جیوت دیش پانڈے کو جان سے مارنے کی کوشش کی ہے۔  عدالت وکی کو ملزم مانتی ہے۔  لیکن وکی استاد میں پیدا ہوئے جرم سے نفرت اور توبہ کے احساس کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔  قانون ہر مجرم کو سدھرنے کا موقع دیتا ہے۔  عدالتوں کا کام معاشرے کو درست کرنا بھی ہونا چاہیے، لہذا، عدالت وکی استاد عرف وکرم دیش پانڈے کو پانچ سال کی سخت سزا سناتی ہے۔ ‘‘

اور ایک بہن نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

***

 

 

 

سیمینار

ڈاکٹر مدھو سندھو

 

 

مقامی کالج میں سیمینار تھا۔  پورا محکمہ آ جڑا تھا۔  جڑا نہیں بلکہ چپک گیا تھا۔  کچھ کام کرنے میں، کچھ کام کروانے میں اور کچھ کام رکوانے میں۔

جس وقت انہوں نے فون اٹھایا، رات کے پونے نو بجے تھے۔  وہ جانتے تھے کہ موسم سرما کی رات میں پونے نو کا مطلب آدھی رات ہوتا ہے۔  فشارِ خون انہیں چین نہیں لینے دے رہا تھا۔  تن کانپ رہا تھا۔  دماغ پھڑپھڑا رہا تھا۔  نبض پھٹ جانے کی صورت میں تھی۔  طوفان اٹھ رہے تھے۔  بلڈ پریشر اور نیند کی گولی لے کر وہ لیٹ گئے۔  اتنی توہین انہوں نے کبھی نہیں جھیلی تھی۔

وہ شہر کے محکمہ تعلیم سے منسلک ایک تنظیم تھی۔  اور اچھی خاصی گرانٹ سے وہاں پر سیمینار کر رہی تھی۔  بھنک تو انہیں بہت پہلے لگ گئی تھی، پر ان کی اجازت کے بغیر پتہ بھی ہلے، یہ انہیں منظور نہیں تھا۔  ان کے بغیر بھی اس تنظیم میں کچھ کام ہو سکتا ہے، ایسا تو انہوں نے کبھی سوچا تک نہیں تھا۔  خون کھول رہا تھا۔  وہ جانتے تھے، یہ وقت پریشان ہونے کا نہیں، سوجھ بوجھ سے کام لینے کا ہے۔  مگر سانسیں قابو میں نہیں آ رہی تھی۔  یہ ذلت ان پر ایسڈ بم کی طرح لگ رہی تھی۔  تخت ہلنے جیسا ہو گیا تھا۔  لگا پاؤں تلے کی زمین کھسک گئی ہو۔  بلڈ پریشر اور نیند کی گولی لے کر وہ لیٹ گئے۔  کب سے اس سیمینار میں اپنے تسلط کے لئے بے چین تھے، پر ناک سے اتنی لکیریں نکالنی پڑیں گی، توقع نہیں تھی۔  شکر ہے کہ ہمت ہارنا ان کی عادت میں شامل نہیں تھا۔

وہ چاپلوس شخص تھے یا نہیں۔  چاپلوسی پسند کرتے تھے یا نہیں۔  پر چاپلوسی کو بھُنا بھُنا کر ہی انہوں نے آسمان کو تو نہیں، البتہ بادلوں کو چھونے کی کوشش ضرور کی تھی اور اب تھوڑی اور اونچا چھونے کی ایک آلودہ خیال ہوا میں جھوم رہے تھے۔

کچھ ہچکچاہٹ کے بعد انہوں نے فون نمبر ملا ہی لیا۔  یہ اس ادارے کے صدر کا نمبر تھا، جس میں سیمینار منعقد ہو رہا تھا اور آؤ دیکھا نہ تاؤ پھٹا پھٹ بولنے لگ گئے

’’کیا حال ہے صاحب۔ ‘‘

’’پرنام۔ ‘‘

’’پہلے تو آپ میری مبارک لیجئے۔  آپ کی قیادت میں چلنے والی ہماری تنظیم اتنی بلندیاں چھو رہی ہے۔  مسلسل نئی تکنیک پر سیمینار کروا رہی ہے۔ ‘‘

’’اس بار تو ہم نے بہت اچھا موضوع لیا ہے۔ ‘‘

’’کون سا۔  کس موضوع میں؟‘‘

’’سوشل سائنس میں۔  بڑے اچھے لوگ بلوائے ہیں۔ ‘‘

’’لیکن کسی سازش کے تحت سارے کم علم آ گئے ہیں۔  آپ جیسے کام کے لئے وقف لوگ، تو بہت سی باتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔  میں یونیورسٹی کا سب سے سینئر پروفیسر ہوں اور اس کے باوجود مجھ سے نہ مشورہ کیا گیا ہے اور نہ ہی مجھے بلایا گیا ہے۔  کوئی بڑی سازش ہے صاحب پانی سر سے اوپر جا رہا۔ ‘‘ یہاں ایک زور آزمائی، ایک رسہ کشی تھی اور پنجے لڑانے کے لئے وہ میدان میں اتر چکے تھے۔

صدر صاحب پولیٹکل آدمی تھے۔  اگرچہ اس وقت دونوں پارٹیوں کی مخلوط حکومت چل رہی تھی، لیکن صورتِ حال انہیں پل بھر میں واضح ہو گئی تھی۔  انہوں نے پرنسپل کو فون کیا، اور حکم دیا۔  پرنسپل نے ایڈمن کو فون کیا اور ان کو حکم دیا۔  ایڈمن صاحب نے پروگرام افسر کو بلایا اور ہدایت کی۔  پروگرام آفیسر، کمپیوٹر آپریٹر کے پاس گیا اور دعوت نامہ ٹائپ کروایا۔  پھر تمام ضروری دستخط ہوئے اور یہ سب ہوتے ہوتے پانچ بج گئے۔  ادارے کے تمام ملازمین جا چکے تھے۔  آج دعوت نامہ بھیجا جانا مشکل تھا۔  پرنسپل کو پتہ تھا کہ یہ اس کیٹیگری کا آدمی ہے، جو کسی لاش تک کو ہتھیا کر، پارٹی کے نام پر، جلوس نکال کر شہر میں فسادات کروا سکتا ہے۔  اس کا بس چلتا تو شرمیلا پٹودی، شاہ رخ گوری، سنیل دت نرگس جیسی جوڑیوں کے یہاں بھی آگ لگانے سے باز نہ آتا۔  ان کی کوشش اپنے سیمینارز کو بچانے کی تھی۔  انہوں نے سوچا اگر یہ مصیبت ٹل جائے تو کوئی معجزہ ہی سمجھو، پر معجزہ ہوا نہیں کرتے۔

اگلے دن صبح ساڑھے دس بجے جیسے ہی دعوت ملا، ان کا اعتماد لوٹ آیا۔  غبارے سے ہلکے ہو کر یہاں وہاں اڑنے لگے۔  کوئی بھی فون یا کام کرنے سے پہلے ان کی ہوم ورک کرنے کی سمجھدار عادت رہی تھی۔  انہوں نے لائبریری کا چکر لگایا، پرنسپل کا برسوں پرانا مقالہ نکلوا یا۔  اس کے کردار اور پوسٹ اسکرپٹ پڑھ ڈالا۔  ہاتھ پھر فون کے رسیور پر پڑے۔

’’ہیلو سر میں بول رہا ہوں۔ ‘‘

’’گڈ مارننگ۔ ‘‘

’’آپ کے سیمینار کا دعوت نامہ ملا۔  بڑا اچھا موضوع لیا ہے۔  اس پر میں نے ہی بیس سال پہلے کام کیا تھا۔ ‘‘

’’پر یہ ایپروچ تو دو تین سال ہی پرانی ہے۔  اصل میں یہ تو اب بھی ڈیبیٹ کا موضوع ہے۔  اس کے تو پیرامیٹر بھی ابھی سیٹ نہیں ہوئے۔  میں نے حقیقت کی تہہ تک جانے کے لئے ہی سیمینار منعقد کیا ہے۔ ‘‘ پرنسپل نے حیرت انگیز لہجے میں وضاحت دی۔

’’سر جی آپ کا مقالہ بھی تو اسی موضوع پر تھا۔  اگرچہ اس لفظ کا کہیں استعمال نہیں ملتا۔  خیر تب تو اس لفظ کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔ ‘‘ وہ اتنے مؤثر لہجے میں وہ بولے کہ رفتہ رفتہ پرنسپل صاحب بھی قائل ہو گئے۔

’’ ہاں میں نے پانچ سال کی محنت سے لکھا ہے۔ ‘‘

’’وہ زمانہ اور تھا۔  پر آپ کا مقالہ اپنے وقت سے بیس سال آگے ہے۔  اگرچہ اس کا نوٹس نہیں لیا گیا۔  آپ نے بھی کوشش نہیں کی۔  ہی ہی ہی، آپ کو مصروفیات سے فرصت ہی کہاں ملی ہو گی۔  وقت تو نکالنا پڑتا ہے۔ ‘‘

لہجہ ایسا تھا، مانو ہیرے کی شناخت وہی کر سکتے ہوں، انمول چیزوں کی قیمت وہ ہی جانتے ہیں۔

لوگ سوچتے کہ لباس کے بارے میں وہ بہت لا پرواہ ہیں۔  اکثر وہی سرخ یا قرمزی چیک شرٹ وہ کسی کی موت پر جاتے وقت بھی پہنتے اور ایسی ہی خوشی کے موقع پر بھی۔  مگر اس دن انہوں نے گفٹ میں ملی نئی وی آئی پی شرٹ نکالی۔  چہرے پر ادھر ادھر پڑنے والے ڈائی کے دھبوں سے بچنے کے لئے سیلون سے بچے کھچے بال وغیرہ ڈائی کروائے۔

یہاں آ کر انہیں خاصا برا لگا۔  لگا کہ اتنے سالوں کی محنت سے، زبان کی تیزی سے، جو عزت انہوں نے بنائی تھی وہ انگلیوں سے پھسلتی جا رہی ہے۔  اسٹیج پر ان کے نام کے ساتھ وہ احترام نہیں جڑا تھا جس کی انہیں امید تھی۔  ان کی کرسی وہاں نہیں تھی، جہاں ہونا چاہئے تھی۔  وہ مائیک ان کی پہنچ سے دور تھا، جہاں وہ کہرام مچایا کرتے تھے۔  ادارے کے سربراہ بھی وہاں موجود نہیں تھے۔  ان کو کسی نے نہیں پوچھا۔  وہ اٹھے اور چل دیے۔  وہ اداس تھے۔  آہستہ آہستہ کیمپس سے چھڑی ٹیکتے ہوئے جا رہے تھے کہ ایک صحافی نما نو عمر لڑ کے کو کالج کے حکام کے آگے پیچھے گھومتے دیکھا.۔  تھوڑا سا سرک کر وہ اس کے ساتھ ہو لئے۔ ا سکوٹر پر بٹھا کر اپنے گھر لے گئے، چائے پانی پوچھا اور پھر سیمینار کا خلاصہ اپنی طرف سے موڑ توڑ کر لکھوا دیا۔

اگلے دن اس سیمینار کی ساری خبر اپنے سے شروع اور اور اپنے پر ختم ہوتے دیکھ کر وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔  انہیں اپنی چانکیہ عقل پر مان ہوا۔

***

 

 

 

 

شک

ڈاکٹر پرتبھا سکسینہ

 

 

گھر میں گھستے ہی سدیپ نے پوچھا، ’’کیوں رما وہ کون تھا جو بس میں تمہیں نمستے کر رہا تھا؟‘‘

’’مجھے نہیں پتہ۔ ‘‘

’’اس نے تمہیں نمستے کیا۔  ایسے کوئی کسی کو نمستے کرتا ہے؟‘‘

رما کو ہنسی آ گئی، ’’پتا نہیں کون ہے۔  مجھے خود تعجب ہوا ہے۔ ‘‘

’’ ہاں پچھلی بار بھی کی تھی، میں تو وہیں کھڑا کھڑا دیکھ رہا تھا۔ ‘‘

’’ ہاں مجھے معلوم ہے۔  تم میرے ساتھ ہی تھے۔ ‘‘

’’مجھے تو کبھی کوئی نہیں کرتا۔ ‘‘

’’اچھا۔  ہو سکتا ہے۔  میں نے توجہ نہیں دی۔ ‘‘

کچھ دن بعد پھر وہی۔  وہ بس میں ملا۔  اس نے رما کو دیکھا فوراً نمستے کیا۔

’’آج پھر اس نے تمہیں نمستے کیا؟‘‘

’’ ہاں۔ ‘‘

’’اور تم نے جواب دیا؟‘‘

’’کوئی نمستے کرے تو جواب کیوں نہ دوں؟‘‘

’’ نہ جان نہ پہچان۔  پھر نمستے کا کیا مطلب؟‘‘

’’جب کوئی نمستے کر رہا ہو تو جواب میں اپنے آپ ہی سر ہل جاتا ہے۔  عادت ہی ایسی پڑی ہے۔  نہ کروں تو بڑا عجیب لگے گا۔ ‘‘

’’عجیب کیا؟ اور جب وہ اکیلے تمہیں نمستے کرتا ہے اور میں بس الو سا بنا، کھڑا دیکھتا رہتا ہوں، تب تمہیں عجیب نہیں لگتا؟‘‘

چوتھے پانچویں دن۔  پھر وہی۔

بس میں سوار ہوتے ہی دیکھا کہ وہ بیٹھا ہوا ہے۔

اس نے رما کو ہاتھ جوڑے۔  رما کے پیچھے سدیپ آگے پیچھے ہو رہا تھا، پھر رما کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جتانے کی کوشش کی کہ وہ بھی موجود ہے۔  تب تک وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا تھا۔

بس سے اترتے ہی سدیپ نے کہا، ’’دیکھا؟‘‘

رما نے ادھر ادھر دیکھا، ’’کیا؟‘‘

’’آج پھر اس نے نمستے کیا اور صرف تمہیں۔  جب کہ ساتھ میں، میں بھی تھا۔ ‘‘

’’اچھا کیا ہو گا۔  تم پیچھے تھے۔  میں نے دیکھا نہیں۔ ‘‘

’’اچھا کیا؟ تم بھی تو خوب مسکرا کر جواب دیتی ہو اسے۔  تبھی تو ہمت بڑھ رہی ہے اس کی۔ ‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہو۔  تم تو پیچھے تھے، تم نے کیسے دیکھ لیا میں نے مسکرا رہی ہوں؟‘‘

’’سائیڈ سے پتا نہیں چلتا جیسے۔  کیسے بن رہی ہو جیسے تمہیں پتہ ہی نہیں۔  تمہیں مزا آتا ہے اور مجھے وہ بالکل اچھا نہیں لگتا۔ ‘‘

’’اچھا برا لگنے کا سوال ہی کہاں؟ نہ ہم لوگ اسے جانتے ہیں نہ اس سے کوئی مطلب ہے۔ ‘‘

’’کم از کم میں تو نہیں جانتا۔  اپنی تم جانو اور مطلب کیسے نہیں؟‘‘

پھر اس نے مزید کہا، ’’جانتی نہیں تو اس کی ہمت کیسے بڑھتی؟‘‘

’’ہمت سے کیا مطلب تمہارا؟‘‘

’’کسی انجانی عورت کو اس طرح نمستے کرنا۔ ‘‘

’’ہو سکتا ہے۔  وہ مجھے جانتا ہو، پر مجھے یاد نہ آ رہا ہو۔ ‘‘

’’اور صرف تمہیں! ہر بار تمہارا ہی دھیان ہے اسے، وہ بھی جب شوہر ساتھ میں ہو۔ ‘‘

’’افوہ تم تو تل کا پہاڑ بناتے ہو۔ ‘‘

’’تم تو ایسے کہو گی ہی۔ ‘‘

’’بیکار بات نہ کرو۔  جانتی ہوتی تو چھپانے سے مجھے کیا فائدہ۔  جیسے اور پچاس لوگوں کو جانتی ہوں، اسے بھی جاننے سے کیا فرق پڑتا۔ ‘‘

’’اچھا اچھا رہنے دو۔  اب اتنی بھی وضاحت دینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

سدیپ کچھ دن کھنچا کھنچا سا رہتا ہے اور کافی گھمبیر بھی۔

کچھ دن بعد سب نارمل ہو گیا۔

مگر اس دن پھر۔

سدیپ اور رما خریداری کر رہے تھے کہ سدیپ کے کانوں میں رما کی آواز پڑی، ’’ارے وہ یہاں ہے۔ ‘‘

سدیپ بھی اس کی طرف دیکھنے لگا اور اس نے جھٹ سے رما کی طرف ہاتھ جوڑ دیئے۔ صرف رما کو۔  رما نے جھک کر جواب دیا۔

سدیپ کا چہرہ سخت ہو گیا۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

بس میں جگہ نہیں تھی ایک ہاتھ میں بنڈل پکڑے۔  کہنی میں پرس لٹکائے، دوسرے سے اوپر ہینڈل تھامے رما بار بار ہچکولے کھا رہی ہے۔

دونوں میں سے کسی نے نہیں دیکھا کہ ادھر وہ بیٹھا ہوا ہے۔

وہ فوری طور پر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور رما سے بولا ’’آپ یہاں بیٹھ جائیں۔ ‘‘

رما نے ایک لمحے کے لئے سوچا نہیں بیٹھوں گی تو اس کی توہین ہو گی سب کے سامنے اور ایسے ہچکولے کھاتے لوگوں سے ٹکراتے رہنا۔  یہ تو اول درجے کا تماشا بننا ہے۔

وہ بنڈل سنبھالتے ہوئے ہینڈل کا سہارا لیتی ہوئی، اس کی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی، ’’بہت بہت شکریہ۔ ‘‘

سدیپ کے چہرے پر تناؤ کی لکیریں سی کھنچ گئیں۔

بھیڑ بڑھتی جا رہی ہے۔  پر رما نے سدیپ کی حالت دیکھ لی۔

سوچ رہی تھی کہ ایسے تو نادانستہ کوئی بھی عورتوں کو سیٹ دے دیتا ہے۔  کیا بیٹھنے سے انکار کر دیتی؟ کوئی خاص بات تو ہے نہیں۔  پر سدیپ؟

من میں کیا ہے صاف صاف نہیں کہے گا۔  نگاہوں سے بتا دے گا اور رویے سے جتاتا رہے گا۔

سیٹ دینے والا جانے کہاں اتر گیا۔  سدیپ کو بھی بیٹھنے کو جگہ مل گئی ہے۔

آگے پیچھے لوگ کھڑے ہیں۔  رما اپنی ہی سوچوں میں گم تھی کہ پیچھے سے ترش سی آواز آئی، ’’اترنا بھی بھول ہو گئی ہو کیا؟‘‘

وہ چونک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

خاموشی سے گھر پہنچے، خاموشی سے کھانا کھایا۔

آخر میں سدیپ نے کہا، ’’دیکھو رما بات حد سے آگے جا رہی ہے۔ ‘‘

’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘

’’اب بھی مطلب پوچھ رہی ہو؟ جیسے سمجھتی نہیں ہو۔ ‘‘

’’کیا کہنا چاہتے ہو، صاف صاف کہو۔ ‘‘

’’زیادہ بھولی نہ بنو۔  کس طرح اٹھ کر اس نے جگہ دی، کس محبت سے تم نے شکریہ ادا کیا۔  میں بھی تو کھڑا تھا میری طرف دیکھا بھی نہیں۔ ‘‘

’’ہچکولے کھاتی عورتوں کو بھلے لوگ اکثر اپنی سیٹ دے دیتے ہیں۔ ‘‘

’’تو وہ بھلا لوگ بھی ہو گیا۔  بس میں بھی جب ملتا ہے، اکیلے تمہیں نمستے کہتا ہے۔  بے شرم کہیں کا۔  میں ساتھ میں ہوں پر اس کے لئے تم ہی سب کچھ ہو، میں تو کچھ ہوں ہی نہیں جیسے اور تمہیں اس میں مزا آتا ہے۔ ‘‘

’’بات کا بتنگڑ نہ بناؤ۔  اس کے جگہ دینے کے لئے اٹھنے پر نہ بیٹھنا تو عجیب سی بات ہوتی۔  بس میں تماشا کرنا مجھے ٹھیک نہیں لگا۔ ‘‘

’’اور شکریہ کرنے کے بہانے بولنا بھی ضروری تھا۔  ایک بار انکار کر دیتیں آگے اس کی ہمت نہیں پڑتی۔  نہ نمستے کرنے کی نہ کسی اور چیز کی۔ ‘‘

’’میں کوئی گنوار عورت نہیں ہوں جو ذرا سا اخلاق بھی نہ دکھا سکوں۔ ‘‘

’’ گنوار نہیں ہو شہر کی پڑھی لکھی ہو، اسی لئے تو زیادہ کلا کار بنتی ہو۔ ‘‘

’’بس کرو سدیپ! اس سے زیادہ سننا میرے بس میں نہیں۔ ‘‘

’’تو کیا کرو گی، بلا لو گی اسے، چلی جاؤ گی اس کے پاس؟‘‘

’’بات مت بڑھاؤ۔  جب تک کوئی ثبوت نہ ہو بیکار کی تہمت نہیں لگانا۔ ‘‘

’’تہمت؟ ثبوت؟ سامنے سامنے سب ہو رہا ہے۔ ‘‘

رما کی سمجھ میں نہیں آتا کس طرح سدیپ کو یقین دلائے کہ وہ اسے جانتی تک نہیں۔  وہ بس ہمیشہ نمستے ہی تو کرتا ہے۔  کیا کروں میں؟ جواب میں نظر انداز کرنا اس سے نہیں ہوتا، اپنے آپ سر ہل جاتا ہے۔  کہیں کچھ ایسا نہیں جو من کو کھٹکے۔  وہ خالی رما کو نمستے کرتا ہے تو رما کیا کرے؟ جواب میں کہے کہ انہیں بھی نمستے کرو، یہ میرے شوہر ہیں۔

اور چار دن نکل گئے۔  سدیپ کٹھور رہنے لگا۔  آپس میں بس ضروری باتیں۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ایک دن کام سے لوٹا تو بڑا خوش تھا۔  سیٹی بجاتا گھر میں گھسا اور گنگناتا رہا۔

چلو ٹھیک ہو گیا۔  رما نے سوچا۔

سدیپ نے ہی خاموشی توڑی۔

’’رما تم نے اسے کبھی اپنے گھر میں دیکھا تھا؟ وہی جو تمہیں نمستے کرتا ہے۔ ‘‘

’’اب یہ کیسی بات ہے۔ پتا جی کے پاس کالج کے اتنے لڑکے آتے ہیں۔  میں کسے کسے دیکھتی پھروں۔ ‘‘

‘ ‘ہوں۔  ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’دیکھو میں نے ایک بار کہہ دیا کہ میں اسے نہیں جانتی۔  اب تم نئی نئی باتیں مت نکالو۔ ‘‘

’’ہاں ہاں، تم کیسے جانو گی اسے۔ ‘‘

’’یہ کیسی ٹیڑھی بات کی۔  کیا مطلب ہے سدیپ؟‘‘

رما کو بڑا عجیب لگ رہا تھا۔

سدیپ کہنے لگا، ’’ تمہارے پتا جی کا اسٹوڈنٹ رہا ہے وہ۔  دو ایک بار تمہارے گھر گیا تبھی دیکھا تھا اس نے تمہیں۔ ‘‘

’’اچھا۔ ‘‘

’’آج پتہ چل گیا۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’کہ وہ کون ہے۔ ‘‘

’’کیسے پتہ چلا؟‘‘

’’مجھے مل گیا تھا۔  تمہارے بھائی کے ساتھ تھا۔  اس نے تعارف کرایا۔  گفتگو ہونے لگی۔  میں نے کہا کہ بس میں کئی بار آپ کو دیکھا ہے۔  کون سی بس میں یہ بھی بتایا۔ ‘‘

’’اس نے کہا اس بس سے تو وہ اکثر جاتا ہے۔ ‘‘

’’میں نے کہا، اس بس میں میں بھی ہوتا ہوں کبھی کبھی اپنی بیوی کے ساتھ۔  پر آپ کو کبھی میری طرف دیکھنے کی فرصت ملی ہوتی ہے؟‘‘

’’پر آپ کب ملے مجھے؟‘‘

’’پھر میں نے یاد دلایا، بس کی بات بھی، اپنی سیٹ دے دینے کی بات۔ ‘‘

’’ پھر بتایا۔  وہی ہے میری بیوی رما۔ ‘‘

’’آپ ان کے شوہر ہیں۔ ‘‘

’’پتہ ہوتا رما دیدی کے شوہر ہیں تبھی تو دھیان جاتا۔  آپ کو تو آج دیکھا ہے۔ ‘‘

’’اب وقت آ گیا ہے ملنے کا، اس نے ایک دم کہا۔  میں تو آنے والا تھا دیدی کو دعوت دینے۔ ‘‘

’’میں نے پوچھا کیسی دعوت؟‘‘

پھر اسی نے بتایا مجھے۔  ہاں رما اگلے ہفتے اس کی شادی ہے۔  بہن کا رول تمہیں ہی نبھانا ہے۔ ‘‘

رما بالکل چپ رہی۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

رما بڑی خاموش سی ہے۔  سدیپ بار بار بات نکالتا ہے۔

’’میں نے تو سوچ لیا تھا کسی طرح پتہ کرنا ہے کہ یہ ہے کون۔  پھر موقع بھی خوب لگ گیا.۔ اصل میں کینٹین میں تمہارا بھائی ملا تھا اور یہ اس کے ساتھ تھا۔ ‘‘

’’تو تم نے سب سے پہلے اس سے کیا پوچھا؟‘‘

’’میں نے کہا کہ میں نے کئی بار آپ کو بس میں دیکھا ہے۔  پہلے سوچا کہہ دوں میری بیوی سے شناسائی ہے مجھ سے نہیں، پر کہا نہیں اور اچھا ہوا جو نہیں کہا۔  نہیں تو وہ کیا سوچتا۔ ‘‘

’’ ہاں وہ کیا سوچتا اس کی اتنی فکر ہے اور میں کیا سوچتی ہوں اس کی کچھ پرواہ نہیں تمہیں؟ نہیں تو کیا مجھ سے اتنا کہتے رہتے؟ کبھی سوچا میں کیا سمجھوں گی تمہیں؟‘‘

’’ارے تمہارے سمجھنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اب تمہارے ساتھ بھی سوچ سمجھ کر بولوں؟ صحیح غلط کچھ بھی کہہ سکتا ہوں۔  بیوی ہو میری۔  پر سنو تو جب وکاس نے تعارف کرایا۔ ‘‘

’’تو تم نے کیا کہا؟‘‘

میں نے پوچھا تھا، ’’آپ میری بیوی کو جانتے ہے؟‘‘

وہ بولا، ’’آپ کی؟ آپ کون ہیں میں تو یہ بھی نہیں جانتا۔  تو انہیں کیسے جانوں گا؟‘‘

’’پھر میں نے جب یاد دلایا اور کہا میں بھی وہیں کھڑا تھا۔ ‘‘

اور جانتی ہو اس نے کیا پوچھا؟ پوچھنے لگا۔  ’’آپ رما دیدی کو جانتے ہیں؟‘‘

’’کیسے نہیں جانوں گا، مجھے ہنسی آ گئی، میں نے کہا، اچھی طرح جانتا ہوں۔  پر آپ کیسے؟‘‘

’’وکاس نے بتایا۔  ہاں کیوں نہیں جانے گا۔  میرے ساتھ پروفیسر صاحب کے یہاں کئی بار گیا ہے۔ ‘‘

’’وہ بولا رما دیدی کو جانتا ہی نہیں مانتا بھی ہوں، مجھے ان میں اپنی بہن دکھائی دیتی ہیں۔ ‘‘

’’وہ بھی آپ کو جانتی ہوں گی؟‘‘

’’ایک آدھ بار ان کے گھر گیا تھا، کبھی تعارف یا بات کی نوبت نہیں آئی۔  وہ جانیں چاہے نہ جانیں، میرے استاد کی بیٹی ہیں میرے دوست کی بہن، اتنا کافی نہیں ہے کیا میرے لئے؟ وقت آنے پر وہ بھی جان لیں گی۔ ‘‘

’’مجھے ہنسی آئی، میں نے پوچھ وہ کس طرح؟ آپ تو بسوں ہی میں ملتے ہیں۔  میں نے وکاس سے بھی کہا تھا۔  کسی دن ہمارے گھر پر آؤ ان کو لے کر۔ ‘‘

’’اگر یہ صفائی تم اس سے نہیں مانگتے تو کیا ہو جاتا؟‘‘ رما کی آواز نہ جانے کیسی ہو گئی تھی۔

’’ارے تو کیا فرق پڑ گیا؟‘‘

’’فرق تمہیں نہیں پڑتا، مجھے تو پڑتا ہے ‘‘

’’میں صفائی کیوں مانگتا۔  وہ تو بات پہ بات نکلتی گئی۔  اس کی بہن دو سال ہوئے ایکسیڈنٹ میں مر گئی۔  اسے لگتا ہے وہ تمہارے جیسی تھی۔ ‘‘

’’تو تمہارا مسئلہ حل ہو گیا۔  اب تو تم خوش ہو؟‘‘

’’ارے مطمئن ہو گیا ہوں میں تو۔  خوشی ناراضگی کی بات ہی کیا۔  جب معلوم نہیں ہو تو دل میں کتنی طرح کی باتیں آتی ہے۔  یہ تو آدمی کا دماغ ہے۔ ‘‘

’’ ہاں آدمی کا دماغ۔  شک کرنا بہت آسان ہے۔  ثبوت پا کر یقین کیا تو کیا کیا؟‘‘

’’تم تو بات کا بتنگڑ بناتی ہو۔  پتہ لگانے میں کیا حرج؟‘‘

’’تم نے مجھ میں کوئی کمزوری یا اس میں کوئی ایسی علامت دیکھی جو تمہارے دماغ میں یہ تمام باتیں آئیں۔ ‘‘

’’اب یہ تو دماغ ہے۔  دس طرح کی باتیں ہوتی ہیں دنیا میں۔  سوچنے میں تو آتی ہیں۔ ‘‘

’’آپ کے دماغ میں بد گمانی تھی۔  اُس پر تو تھی ہی جسے جانتے تک نہیں تھے، لیکن مجھ پر بھی۔ ‘‘

’’اب تو سب صاف ہو گیا۔ ‘‘

’’جاسوسی پوری کر لی۔  اور جب کوئی وجہ نہیں ملی تو مجبور ہو کر۔ ‘‘

‘تو کیا ہوا؟ میرا دل بہت ہلکا ہو گیا۔ ‘‘

’’پر وہ بوجھ میرے ذہن پر آ گیا۔  اگر میں کہتی وہ میرا پریمی ہے تو تم مان لیتے؟ یقین کر لیتے کہ وہ میرا پریمی ہے۔ ‘‘

’’یہ میں کب کہہ رہا ہوں پر پچھلی کئی بار سے جو دیکھتا رہا تھا۔  چبھا کرتا تھا مجھے۔ ‘‘

رما خاموش رہی۔

’’اب جب سب ٹھیک ہو گیا تو تم بیکار تماشا کر رہی ہو۔ ‘‘

’’میں تم سے تو کچھ کہہ نہیں رہی۔ ‘‘

’’ تمہارے من میں غصہ ہے، کہتی نہیں تو کیا ہوا۔ ‘‘

پھر وہ رما کو سمجھانے لگا۔

’’ارے کیا فرق پڑتا ہے وہ تو ویسے بھی اپنے گھر آتا۔  اس کی شادی ہونے والی ہے، بہن رہی نہیں تمہیں ہی تو بلائے گا اس نے کہا ہے؟‘‘

سدیپ ہنسنے لگا، ’’اس نے کیا کہا جانتے ہیں، ہم تو آپ کے بلانے سے پہلے ہی دعوت نامہ لے کر آنے والے تھے۔ ‘‘

’’سب کچھ جاننے کے بعد بلایا تھا تم نے نہ؟‘‘

’’ ہاں تبھی تو۔  پہلے بلانے کی کون سی تک تھی۔ ‘‘

’’ شک تمہیں پریشان کرتا تھا اب تمہیں چین پڑ گیا۔  لیکن میں۔۔ ۔ ‘‘

’’لیکن ویکن کیا؟ میں خوش ہوں تو تم بھی خوش رہو۔  فالتو باتوں سے کیا فائدہ۔ ‘‘

رما بالکل خاموش رہی۔

***

 

 

 

 

شراب

اکھلِیش مشرا

 

 

شوہر کی موت بڑی بیا کے لئے ایک بہت بڑا جھٹکا تھا، پر انہوں نے اپنے دو جوان بیٹوں کو دیکھ کر اس صدمے سے کسی طرح خود کو ابھار لیا۔  بیٹے بھی بڑے فرمانبردار اور بغیر کسی عیب کے ہیں۔  بڑے کا نام دُکوڑی اور چھوٹے کا نام پپّو ہے۔  دونوں بھائیوں کی محبت پورے علاقے کے لئے ایک مثال کی مانند ہے۔  لوگ ان کیلئے ہیرا موتی جیسے جواہر کی مثال دیتے ہیں۔

’’بڑی خوش قسمت ہے، بڑی بہو جی۔ ‘‘ سیمرا والی کاکی اکثر سب سے کہتی ہیں۔

سیمرا والی، گاؤں کی سب سے بزرگ عورت، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی ان کو سیمرا والی کاکی ہی کہتے ہیں۔  بڑی بیا رشتے میں ان کی بھاوج لگتی ہیں۔

دونوں بیٹوں کی شادی بڑی بیا کے شوہر نے اپنی حیات میں ہی کر دی تھی۔  دونوں کی بیویاں، بڑی بیا کی خوب خدمت کرتی ہیں۔  ویسے بڑی بیا کا مزاج اور صحت دونوں ایسے ہیں کہ وہ کسی سے خدمت کروانا چاہتی ہی نہیں ہیں، بلکہ الٹا وہ خود سب کا بہت خیال رکھتی ہیں۔

یہ خاندان ایک قصبے سے ملحقہ گاؤں میں رہتا ہے۔  گھر کے چاروں اطراف خوبصورت کھیت اور ہرے بھرے درخت ہیں۔  گاؤں کے تمام ہی گھر ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔  لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے بے پناہ محبت اور لگن کا احساس ہے۔  سب ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔  اگر کسی کے گھر میں کڑھی بنتی ہے تو وہ کم از کم پانچ چھ گھر تک اپنی پہنچ بنا ہی لیتی ہے۔  گڑ کے لڈو جب سارے گھروں میں پہنچتے ہیں تو پتہ لگ جاتا ہے کہ کسی کے گھر میں بچہ ہوا ہے۔  اکثر لوگ ایک دوسرے کے گھر بنا بلائے کھانا کھاتے رہتے ہیں۔  یہ گاؤں بہت بڑا نہیں ہے اور گھر بھی کچھ فاصلے فاصلے میں بنے ہوئے ہیں، گاؤں کے اندر ہی کئی ٹولے ہیں۔  ببھنان ٹولا سب سے بڑا ہے۔

دُکوڑی دیکھنے میں بہت خوبصورت اور ملنسار شخصیت کے ہیں۔  لمبا پتلا جسم، خوبصورت بڑی بڑی آنکھیں، گورا رنگ، اونچی چڑھی مونچھیں، کسی راجہ مہاراجہ سے کم نہیں لگتے۔  کھیل کود میں ان کی بڑی دلچسپی ہے۔  فٹ بال، والی بال، گڑھا گیند، گپّی، گلی ڈنڈے میں دُکوڑی استاد ہیں، والی بال میں اُن کی چلی ہوئی چال کو کوئی نہیں اٹھا پاتا، فٹ بال میں ان کا نشانہ گول پوسٹ کے اندر ہی لگتا ہے۔  لوگ انہیں پیلے کہتے ہیں۔  گڑھا گیند میں ان کی ماری ہوئی گیند اگر کسی کو لگ گئی تو وہ انسان بھرا جاتا ہے گویا اسے کسی بھڑ نے کاٹ لیا ہو۔  گلی ڈنڈے میں وہ سب کو پِداتے ہیں۔  وہ ہیں تو بڑے ملنسار مزاج کے پر، پِدانے میں وہ کسی کو نہیں چھوڑتے۔  وہ اپنی دام ہر حالت میں لیتے ہیں۔

جوان ہو جانے کے باوجود کھیل کود میں دُکوڑی کی دلچسپی اب بھی بچوں جیسی ہی ہے، وہ ہر کھیل کے با قاعدہ کھلاڑی ہیں۔

پڑھنے لکھنے میں وہ بچپن سے ہی ہوشیار نہیں تھے، پر جسمانی پھرتی کی وجہ سے ان کو پولیس میں نوکری مل گئی ہے، پپّو سنجیدہ اور تھوڑا سا سست ہے۔  وہ پڑھنے میں دُکوڑی سے بھی کمزور ہے۔  لہذا وہ گھر میں ہی رہ کر کھیتی باڑی دیکھتا ہے۔  ویسے بھی گھر میں ایک بھائی کا رہنا ضروری ہے۔

دُکوڑی کو نوکری جوائن کرنے کے لئے دوسرے شہر جانا ہے۔  وہ کئی دنوں پہلے سے ہی رونا دھونا شروع کر چکے ہیں۔  گھر سے نکلتے وقت وہ ایسے پھوٹ پھوٹ کر رو رہے ہیں، جیسے کوئی لڑکی سسرال کے لئے پہلی بار رخصت ہوتے وقت روتی ہے۔  وہ کبھی پپّو کو گلے لگاتے ہیں تو کبھی اماں کے دامن میں لوٹ جاتے ہیں۔  وہ تمام گاؤں والوں سے لپٹ لپٹ کر رو رہے ہیں۔  وہ روتے روتے گر پڑتے ہیں۔  کسی طرح سے سمجھا بجھا کر انہیں بس میں بٹھایا گیا ہے۔  وہ بس کی کھڑکی سے واپس مڑ مڑا کر اس وقت تک دیکھتے رہے ہیں، جب تک کہ ان کے گاؤں اور گھر والے انہیں دکھائی دیتے رہے ہیں۔  اب بھی ان کا رونا بند نہیں ہو رہا ہے۔  ان سے آگے بیٹھے ایک بچے نے، جو بچپن سے اپنے ماں باپ سے الگ ہاسٹل میں رہتا ہے، جب ان کو سمجھایا اور ڈھارس بندھائی۔  تب وہ چپ ہوئے ہیں۔  اگرچہ انہوں نے اپنی جھکی جھکی سی نظروں سے سے اس بچے کو دیکھ کر، اپنے دل ہی دل میں اسے شریر اور پیدائشی منحوس کہا ہے پر انہوں نے منہ سے آہستہ سے کچھ بڑبڑایا بھی ہے، جو کہ ممکنہ طور پر گالی ہے، پر کسی کو کچھ سنائی نہیں دیا۔

نوکری میں جانے کے بعد انہیں گھر کی بہت یاد آتی ہے۔  دفتر میں بِتائے وقت کے علاوہ باقی تمام وقت وہ گم صم سے لیٹے ہوئے اپنے کمرے میں بسر کرتے ہیں۔  دن اور رات میں کئی بار ان کا رونا دھونا چلتا رہتا ہے۔  وہ پپُو کو باقاعدگی سے خط لکھتے ہیں۔  ایسا ہی ایک خط مندرجہ ذیل ہے۔

میرے پیارے پپُو

خوب آگے بڑھو۔

میں یہاں ٹھیک ہوں اور بھگوان سے تم سب لوگوں کی بھلائی کے لئے پرارتھنا کرتا ہوں۔  امید کرتا ہوں کہ آپ سب لوگ بخیریت ہوں گے۔  میں دن رات آپ لوگوں کو ایسے ہی یاد کرتا ہوں جیسے بھگت بھگوان کو یاد کرتا ہے۔  پپُو تم میرے بھائی نہیں بلکہ میرا دایاں ہاتھ ہو۔  تمہارے بغیر میں پاگل ہو جاؤں گا۔ تم فکر مت کرنا۔  جب تک میں ہوں تمہیں فکر کی ضرورت بھی نہیں ہے۔  ماں کا خیال رکھنا۔  اس کی خدمت کرنا۔  اس دنیا میں ماں باپ کی سیوا کرنا بھگوان کی سیوا کے برابر ہے۔ میں تو یہ سعادت حاصل نہیں کر سکتا پر تم خوش قسمت ہو۔  گاؤں اور گھر کے لوگوں کا خیال رکھنا۔  سب کو میرا پرنام کہنا۔ میری طرف سے تم ماں کا پاؤں چھو لینا۔

تمہارا بھائی

دُکوڑی کا یہ خط پڑھ کر پورا گاؤں مزہ لیتا ہے۔  سب کو ان کے خط کا انتظار رہتا ہے۔  مگر پورے گاؤں کے لوگ دُکوڑی کے جذبات کی تہہ دل سے عزت بھی کرتے ہیں۔  آج کے دور میں ایسا جذباتی لگاؤ بہت کم ہوتا ہے۔  ان کی زبان میں پختگی بچپن سے ہی کچھ کم ہے، لیکن محبت کے لئے زبان نہیں بلکہ احساس چاہئے۔

دُکوڑی جتنے سادہ مزاج کے ہیں، اتنے ہی اکھڑ اور غصیل بھی ہیں۔  اپنے سے بڑے افسروں سے ان کی پٹ نہیں پاتی ہے۔  ان کا محکمہ ایسا ہے کہ وہاں بولنے میں زبان سے کچھ بد زبانیاں ہو ہی جاتی ہیں پر دُکوڑی اس برتاؤ کو قبول نہیں کر پاتے ہیں۔  ان کے ساتھ والے جب انہیں سمجھاتے ہیں تب وہ کہہ پڑتے ہیں۔

’’ارے افسر ہیں تو اپنے لیے ہیں۔  مجھے کیا دے دیتے ہیں؟ کم سے کم پیار سے بات تو کر سکتے ہیں پر وہ یہ بھی نہیں کرتے، جیسے میں کوئی جانور ہوں۔  میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں پر اپنی عزت نہیں۔ ‘‘

کسی طرح وقت گزر رہا ہے۔  دُکوڑی ساتھ میں کام کرنے والوں اور اد ر ادھر کے کچھ دوسرے لوگوں سے ملنا جلنا شروع کر دیتے ہیں۔  انہوں نے کچھ دوست بھی بنا لیے ہیں۔  انہی دوستوں کے ساتھ اب وہ کھیل کود کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔  اپنے دوستوں کی منڈلی کے لیڈر دُکوڑی ہی ہیں۔

ادھر دُکوڑی کے گھر والے اور گاؤں کے دیگر لوگ ان کو بہت یاد کرتے ہیں۔  ان کے بغیر گاؤں سونا ہو گیا ہے۔  کھیل کود اور دیگر سرگرمیاں بند سی ہو گئیں ہیں۔  ان کے دوست یار اب وقت گزارنے کے لئے یا تو شہر گھومنے جاتے ہیں یا گھمنا کی پان کی دکان میں گپیں اُڑاتے ہیں۔

دُکوڑی کی اعلیٰ افسران سے اکثر کہا سنی ہو جاتی ہے۔  ایک دن بات کچھ زیادہ بگڑ جانے پر، انہیں ڈسپلن کی خلاف ورزی کے چارج پر برخاست کر دیا گیا۔  وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہیں کہ انہیں گھر جانے کا موقع مل رہا ہے اور وہ اب آرام سے چند ماہ گاؤں میں رہیں گے۔  انہیں لگ رہا ہے کہ ہو سکتا ہے اب وہ پوری زندگی ہی گاؤں میں رہیں۔  وہ بہت خوش ہو کر گاؤں واپس آ رہے ہیں۔  گویا کوئی جنگ جیت کر آ رہے ہوں۔

’’ارے دُکوڑی اچانک بغیر کوئی خبر کئے آ گئے؟‘‘

’’کیوں، نہیں آ سکتا کیا؟‘‘ دُکوڑی قہقہہ لگا کر ماں سے بولے۔

’’نہیں۔  میرا مطلب یہ نہیں ہے، میں تو یہ پوچھ رہی تھی کہ سب خیریت تو ہے نا۔ ‘‘

’’سب خیریت ہی ہے، افسر نے بدتمیزی کی تو میں نے اس کی شرٹ کا کالر پکڑ لیا تھا۔  پر تم یہ مت سوچ لینا کہ اس نے بھی ایسا ہی کیا ہو گا۔  ابھی تک کوئی مائی کا لال ایسا پیدا نہیں ہوا ہے۔  جو تمہارے لال سے دادا گیری کرے اور پھر زندہ بچ جائے۔ ‘‘

’’ارے! یہ تم نے کیا کر دیا بیٹا؟‘‘

’’کیوں؟ کیا غلط کر دیا؟ ہا ہا ہا۔ ‘‘

’’ایسا برتاؤ بڑے افسروں سے نہیں کیا جاتا۔ ‘‘

’’تو کیا گالی کھاتا۔  گھر میں کھانے کے لئے اناج نہیں بچا ہے کیا؟‘‘ دُکوڑی دُکھی ہو کر بولے۔

’’میرا مطلب یہ نہیں ہے۔  میں تو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ کام میں تھوڑا جھک کر چلنا پڑتا ہے، اپنے سے بڑے افسران کی عزت کرنی پڑتی ہے، ان کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ ‘‘

’’جھکتا تو ہوں۔  عزت بھی کرتا ہوں پر لات نہیں کھاؤں گا۔ ‘‘

’’لات کھانے کو میں بولوں گی بھی نہیں۔ ‘‘

’’پھر مجھے دوش کیوں دے رہی ہو؟‘‘

’’میں دوش نہیں دے رہی ہوں، بلکہ تمہیں سمجھا رہی ہوں۔  باقی تم اب خود سمجھدار ہو۔ ‘‘

یہ کہہ کر بڑی بیا خاموش ہو گئیں۔  وہ سمجھ رہی ہیں کہ دُکوڑی ابھی تھکا ہوا ہے اور اس کو آرام کی ضرورت ہے۔  سمجھانے کا اس کے اوپر ابھی کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔  دُکوڑی بھی وہاں سے چلے گئے۔  وہ پپُو کا انتظار کرنے لگے۔  آخر کئی ماہ سے بھائی کو انہوں نے دیکھا جو نہیں ہے۔

پپُو کو دیکھتے ہی دُکوڑی چیخ پڑے ہیں۔  پپُو پپُو کہہ کر وہ اس کی طرف بھاگ رہے ہیں۔  وہ بھی بھاگ کر بھائی کے گلے سے جا ملا ہے۔ گلے ملتے وقت وہ ایک دوسرے کو نام سے خطاب کر رہے ہیں پپُو۔  بھیا۔  پپُو۔  میرے بھائی۔  بھیا۔

ملن کے بعد دُکوڑی نے اپنی کہانی پپو کو سنائی، لیکن وہ کچھ خاص خوش نہیں ہوا کیونکہ پپُو کو پتہ ہے کہ گھر چلانے کیلئے پیسے کی ضرورت پڑتی ہے۔

پیسہ زندگی کے تلخ سچائی اور ضرورت ہے۔  صرف جذبات سے پیٹ نہیں بھرا کرتا۔

محبت کی بنیاد جب حقیقت کی زمین پر پڑی ہو تبھی اس پر سچے لگاؤ کی اونچی دیوار بن سکتی ہے۔

دُکوڑی گاؤں میں گھوم گھوم کر سب سے بڑے پیار سے مل رہے ہیں۔  بڑے بوڑھوں کے پاؤں چھوتے ہیں اور چھوٹوں سے گلے ملتے ہیں۔  ایک دوسرے کا حال چال جاننے بوجھنے کے بعد، وہ گھوم پھر کر اپنی کہانی پر آ جاتے ہیں۔  پر گاؤں کے لوگ ان کی اس کہانی کو کھلے دل سے قبول نہیں کر پا رہے ہیں۔  بڑے بوڑھے اور ان کے دوست ان کی ہاں میں ہاں ملا تو دیتے ہیں، لیکن چہرے کے بھاؤ سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ دُکوڑی سے متفق نہیں ہیں۔  لوگوں کی انداز سے دُکوڑی دل ہی دل کچھ اداس ہو رہے ہیں۔  انہیں لگ رہا ہے کہ گاؤں کے لوگ اب کچھ بدل سے گئے ہیں۔

ادھر گاؤں کے بڑے بوڑھے اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کتنے پڑھے لکھے لوگ سڑکوں پر بے روزگار گھوم رہے ہیں اور کسی کو نوکری کی دور تک امید بھی نظر نہیں آ رہی ہے۔  دُکوڑی خوش قسمت ہیں کہ ان کو اچھی نوکری مل گئی، پر وہ اس کی قدر نہیں جانتے۔

’’بچپنا کر رہے ہیں دُکوڑی۔ ‘‘ چھکوڑی کاکا نے فوکالی کا کا سے کہا۔

’’اور کیا بچپنا ہی تو ہے۔ ‘‘’ فوکالی کا کا، بیڑی سلگاتے ہوئے منہ سکوڑ کر بولے۔

’’آج کل کے لڑکوں میں برداشت نام کی چیز ہی نہیں ہے۔ ‘‘ چھکوڑی کا کا جمائی لیتے ہوئے بولے۔

دُکوڑی کسی بھی بات کے تہہ تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ وہ دل سے سوچتے ہیں، دماغ سے نہیں۔  خیر دماغی طور پر انھیں بہت ہوشیار نہیں کہا جا سکتا۔  گاؤں کیا گھر کے لوگ بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔

بڑی بیا نے گاؤں کے بڑے بزرگوں سے درخواست کی ہے کہ وہ دُکوڑی کو سمجھائیں۔

آخر چند مہینے گاؤں میں رہنے کے بعد اور سب کے سمجھانے پر دُکوڑی نے عدالت میں اپنی برخا ستگی کے خلاف کیس کیا۔  وہ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ کام میں بندھی بندھائی تنخواہ مل جاتی تھی اور اسی سے کچھ پیسے وہ گھر بھی بھیج دیتے تھے۔

کھیتی باڑی سے دو وقت کی روٹی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں۔  یہ بات دُکوڑی سمجھنے لگے ہیں۔

یہی بات انہیں کبھی سامنے، تو کبھی پیٹھ پیچھے، اپنے بھائی اور ماں سے بھی سننے کو مل جاتی ہے۔  دُکوڑی باتوں میں چھپی گہرائی سمجھ جاتے ہیں لیکن کچھ دیر کے بعد۔  ان کے گھر میں رہنے کے دوران، ماں اتنی سوچ بچار کرتے پہلے کبھی نہیں نظر آئی تھی۔

’’آخر ماں اتنی فکر مند کیوں نظر آتی ہے؟‘‘ دُکوڑی نے اپنے آپ سے پوچھا۔

جواب بھی انہیں اپنے آپ سے ہی مل گیا۔

دُکوڑی کچھ جد و جہد کے بعد کیس جیت گئے۔  انہیں نئی جگہ ٹرانسفر کر دیا ہے۔  بڑی بیا نے تو آج خوش ہو کر بھجن سندھی کی دکان سے چاروں مغز کے لڈ و خرید کر پورے گاؤں میں دیے ہیں۔

اس بار گھر سے نکلتے وقت وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے تو نہیں پر آنسو ضرور نکلے ہیں۔  آنسو کی بوندیں بڑی بڑی ہیں۔  سچے جذبات چھپ نہیں سکتے ہیں اور باہر کسی نہ کسی طور پر دکھائی دے ہی جاتے ہیں۔

دُکوڑی بہت ملنسار اور صاف دل کے ہیں۔  اسی وجہ سے وہ کئی بار غلط لوگوں کی سنگت میں بھی پڑ جاتے ہیں۔  بچپن میں ددّا نے کئی بار انہیں ایسی سنگت سے بچایا تھا۔  پر اب ددّا زندہ نہیں ہیں، ان کی موت کئی سال پہلے ہو چکی ہے۔  ان کی سانس اچانک ٹوٹ گئی تھی۔

دُکوڑی گھر والوں کو گاؤں میں ہی رکھے ہوئے ہیں، اس لئے اکام والی جگہ میں اکیلے ہی رہتے ہیں۔  وہ روز اپنے دوستوں کے ساتھ کوارٹر کے کمرے میں محفل جماتے ہیں، ان کے ایک دوست کا نام راجو ہے اور وہ کبھی کبھار پی بھی لیتا ہے۔  وہ چاہتا ہے کہ اس کے دوسرے دوست بھی اس کی ہی طرح بھولے بابا کے بھگت بن جائیں۔  دوستی برابری چاہتی ہے۔

’’دُکوڑی تو بھی زندگی کا کچھ مزہ لے لے۔ ‘‘ راجو نے ایک دن کہا۔

’’میں تو ایسے ہی مزہ لے رہا ہوں۔ ‘‘

’’تیرے زندگی میں سب خشک ہی خشک ہے۔  تو صرف پیسے بچانے میں ہی لگا ہوا ہے۔ ‘‘

’’اپنے گھر والوں کے لئے پیسے بچانے میں کیا برائی ہے؟‘‘

’’ارے پیسے بچا پر کچھ اپنے اوپر بھی تو خرچ کر۔  لے ایک پیگ پی لے۔  پھر دیکھ کتنا مزہ آتا ہے۔ ‘‘

’’یار میں شراب نہیں پیوں گا۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’میں اسے اچھی چیز نہیں مانتا ہوں۔ ‘‘

’’مطلب ہم لوگ اچھے نہیں ہے۔  ٹھیک ہے یار۔  آج سے میں تیرے پاس نہیں آؤں گا۔  میں اچھا آدمی نہیں جو ٹھہرا۔ ‘‘

’’یار میں تجھے تو کچھ نہیں کہہ رہا ہوں۔ ‘‘

’’یار تجھے میرے اوپر اعتماد نہیں ہے۔ ‘‘

’’تو اگر میرے بارے میں ایسے ہی سوچتا ہے۔  تو دے میں پوری بوتل ہی پی لیتا ہوں۔  تب تو تجھے میرے اوپر یقین ہو گا کہ میں تیرا سچا دوست ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر دُکوڑی نے آنکھ موند کر آدھی بوتل گھٹ گھٹا کر پی لی۔

یہ دُکوڑی کے لئے ایک نئی زندگی کا آغاز تھا۔  اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر پھر کبھی نہیں دیکھا۔  آگے ہی آگے بڑھتے گئے۔  تیز رفتاری سے۔

بہت جلد دُکوڑی بڑے شرابی بن گئے۔  اتنی تیز رفتار اس سے پہلے وہ کسی دوسرے کھیل میں نہیں تھے۔  پینے پلانے کے اس کھیل میں ان کو شکست دینا تقریباً نا ممکن ہے۔  دس پیگ کے بعد وہ پیگ کی تعداد گننا بھول جاتے ہیں۔  اس کھیل میں (پینے کے میدان میں ) اپنے ساتھیوں کے درمیان وہ ایک نامی گرامی ہستی کے طور پر پہچانے جانے لگے ہیں۔

ان کا جسم اب کچھ تھلتھلا ہونے لگا ہے۔  ان کی مونچھ بھی اب اپنا ہوش کھو دیتی ہے اور بار بار نیچے جھک آتی ہے۔  شراب ان کے انگ انگ سے جھلکتی، چھلکتی اور رقص کرتی۔

وقت، انسان کے لئے مختلف حالات اور چیلنجز دیتا ہے۔  بھگوان شاید دُکوڑی کو سدھرنے کا موقع دینا چاہتا ہے۔  اس لئے ان کی پرانی تحریری درخواست پر ان کا تبادلہ ان کے گاؤں کر دیا گیا۔  تبادلے کی بات سن کر خوشی منانا، وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔

پینے کے بعد وہ بہت جذباتی ہوئے اور اماں۔  اماں کہہ کر رونے لگے۔  آنسوؤں سے ان کی آنکھیں سوج گئی ہیں اور انہیں حرارت بھی ہو گئی ہے۔  اپنی ناک کے دونوں نتھنے بند ہو جانے کی وجہ سے وہ سو نہیں پائے۔  ساری رات کروٹیں بدلتے بدلتے اور ہری رے۔  ہری رے۔  اوہ میرے بھگوان کہتے کہتے ہی گزر گئی۔

صبح اٹھ کر انہوں نے منہ ہاتھ دھویا اور ڈیوٹی پر چلے گئے، وہ فوری طور پر چارج چھوڑنا چاہتے ہیں۔  ان کی خواہش ہے کہ اپنے گاؤں پہنچ کر ہی پوجا اشنان کیا جائے۔

انہوں نے سوچا ہے کہ پپُو آ کر ان کا سارا سامان لے جائے گا۔  ویسے بھی ان کے پاس سامان ہی کتنا ہے۔

مگر اچانک انہیں یاد آیا کہ پورا گھر شراب کی بوتلوں سے بھرا پڑا ہے۔

’’سامان لینے میں ہی آؤں گا، ورنہ پپُو کو سب پتہ چل جائے گا۔ ‘‘ وہ اپنے آپ ہی بڑبڑائے۔

فارمیلٹی مکمل کرنے کے بعد دُکوڑی نے چارج چھوڑ دیا اور ریلیز ہو کر گاؤں کے لئے بس پکڑ لی۔  وہ خوش ہیں اور مطمئن بھی۔  طمانیت کے احساس نے انہیں پینے پر اکسایا اور انہوں نے پی بھی لی ہے۔  لیکن انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ گھر میں کچھ کم باتیں کریں گے، جس سے انہیں کوئی پکڑ نہ پائے۔

راستے بھر دھکے کھانے کے بعد دُکوڑی اپنے قریبی بس اسٹینڈ پہنچے۔  دھکے کھانے کی وجہ سے ان کا نشہ کچھ اتر رہا تھا۔  لہذا یہاں انہوں نے پھر سے بچی ہوئی ایک بوتل سنترے کے رس کی طرح پی لی۔

بس اسٹینڈ سے گھر پہنچتے پہنچتے دُکوڑی جذبات سے بھر گئے۔  یہ جذبات اب چڑھتے دریا کی طرح چاروں طرف بہنا چاہتے ہیں۔  وہ جلد از جلد اپنی ماں اور بھائی سے ملنا چاہتے ہیں۔  ان کی آنکھوں سے محبت کے آنسو بہنے کے لئے بیتاب ہیں۔

دُکوڑی کی محبت۔  بے لوث محبت۔  آج کے دور میں بھی بے لوث محبت۔

کبھی کبھی ایک لمحہ بھی صدیوں کے برابر لگتا ہے۔  گھر پہنچنے پر انہوں نے ایک لوٹے میں پانی بھرا۔  سب نے سوچا کہ وہ بہت پیاسے ہیں۔  لیکن اس پانی سے انہوں اپنی ماں کے پاؤں دھوئے اور پھر اسے پی لیا۔  بڑی بیا کو یہ رویہ تھوڑا عجیب ضرور لگ رہا ہے مگر دُکوڑی کے پر جوش انداز کی وجہ سے انہیں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہو۔

’’پپُو تم بھی پیو۔ ‘‘

’’بھیا آپ پی لیں۔  میں نہیں پیوں گا۔ ‘‘

’’کیوں؟ نالائق۔ ‘‘ دُکوڑی کچھ غصے سے بولے۔

’’ماں دن بھر ادھر ادھر گھومتی رہتی ہیں اور وہ موزے بھی نہیں پہنتی۔ ‘‘

’’مورکھ۔  اگر تم ایسا سوچو گے۔  تو کبھی کسی کو گرو نہیں مان پاؤ گے۔  اور ماں تو بھگوان کا روپ ہے۔ ‘‘

’’بھیا آج آپ کو ہو کیا گیا ہے؟‘‘

’’مجھے کچھ نہیں ہوا ہے تبدیل تو تو گیا ہے۔  مورکھ کہیں کا۔  چل پی۔ ‘‘

پپُو نے آنکھیں موند کر کسی طرح ایک گھونٹ پیا۔

’’اور پی مورکھ۔  پی جلدی۔ ‘‘

’’مجھ سے نہیں پیا جاتا۔ ‘‘ پپُو نے یہ کہہ کرپانی کو دور رکھ دیا۔

دُکوڑی نے پپُو کو کچھ برا بھلا کہا اور پھر وہیں ماں کے قدموں میں سو گئے۔  ان کے منہ سے ایک خاص قسم کی بو آ رہی ہے۔

بڑی بیا بیٹے کی محبت میں اتنی جذباتی ہے کہ اسے دُکوڑی کے منہ سے آتی بو کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہو رہا ہے۔

ماں کے لئے بیٹا ہمیشہ چھوٹا سا بچہ ہی رہتا ہے۔

لیکن پپُو سب سمجھ گیا ہے۔  اس کا دوست پا ٹھیکر جب ٹھرّا چڑھا لیتا ہے، تب اس کے منہ سے بھی ایسی ہی بو آتی ہے۔  اس نے اپنے شک کا اظہار ماں سے کر دیا۔  بڑی بیا سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گئیں اور قسمت کو کوسنے لگیں۔

’’اس سے اچھا تھا کہ اس کی نوکری ہی نہیں لگتی۔  اگرچہ گھر میں نمک روٹی کھاتا پر آنکھوں کے سامنے تو رہتا۔  یہ عادت تو نہیں پڑتی۔ ‘‘

پپُو نے دُکوڑی کو نیند سے اٹھایا اور نہلانے کے لئے کنوئیں پر لے گیا۔  دُکوڑی ایسے لگ رہے ہیں، گویا بہت برسوں سے نہ تو وہ نہائے ہیں اور نہ کپڑے بدلے ہیں۔

شام کو گھر گھر جا کر دُکوڑی سب کے اوپر رعب جما رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے تعلقات کی وجہ سے اپنا تبادلہ کرا لیا ہے۔  اب وہ ایک بڑے سرکاری ملازم ہیں اور ان کی پہنچ بہت اوپر تک ہے۔

گاؤں کے لوگ ان کی باتوں کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔  سب دُکوڑی کو بچپن سے جانتے اور سمجھتے ہیں۔

بڑی بیا اندر ہی اندر ختم ہو رہی ہیں ، انہوں نے ہمت کر کے دُکوڑی سے پوچھا، ’’تم آج کل شراب پینے لگے ہو کیا؟‘‘

’’نہیں۔  بالکل نہیں۔ ‘‘

’’میری قسم کھا کر بولو کہ تم نہیں پیتے ہو؟‘‘

دُکوڑی ہڑبڑا گئے ہیں۔  وہ ماں کی جھوٹی قسم نہیں کھا سکتے۔  پر وہ جانتے ہیں کہ ماں کو جب ان کے پینے کی بات پتہ چلے گی تو وہ بہت غمگین ہوں گی۔  اسی وجہ سے انہوں نے ماں کہ جھوٹی قسم کھا لی۔

’’تم میری جھوٹی قسم نہیں کھاتے۔  اب میں مطمئن ہو گئی ہوں۔ ‘‘

دُکوڑی یہ سن کر اکیلے میں جا کر اماں اماں کہہ کر خوب روئے ہیں۔  آج پہلی بار انہیں ماں کی جھوٹی قسم کھانی پڑی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ دُکوڑی شراب چھوڑنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔  مگر شراب نے انہیں اپنا غلام بنا لیا ہے۔  وہ بہت غم اور دکھ کی حالت سے گزر رہے ہیں۔

’’اے بھگوان میں اس دلدل میں کس طرح پھنس گیا ہوں؟ آج مجھے ماں کی جھوٹی قسم کھانی پڑ رہی ہے۔ ‘‘

انہیں اس حالت سے ان کی بیوی ہی نکال سکتی تھی۔  پر وہ ذہنی طور پر زیادہ ہوشیار نہیں ہے۔

دُکوڑی اس کی وجہ سے بھی کچھ پریشان رہتے ہیں۔  وہ اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں اور بڑے تنہائی کے دور سے گزر رہے ہیں۔

’’آج سے بوتل کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔  مگر پھر جسم کا درد کس طرح جائے گا؟ آج پی لیتا ہوں، کل سے چھوڑ دوں گا پکا۔  خود سے وعدہ کرتا ہوں کہ کل سے نہیں پیوں گا۔  اماں کی قسم کھاتا ہوں کہ کل سے شراب بند، پکا۔  دوبارہ اماں کی قسم کھا لی ہے اور اگر کل سے شراب بند نہیں کیا تو ایک اور جھوٹی قسم۔  اوہ میرے بھگوان۔  مجھ سب کچھ کروا لے، مگر ماں کی جھوٹی قسم مت کھلو۔  اے بھگوان۔  اپنے بھگت کی حفاظت کرو۔  میں کم ہمتی اور کمزوری محسوس کر رہا ہوں۔ ‘‘

ایسی اتھل پتھل اکثر دُکوڑی کے اندر چلتی رہتی ہے۔  وہ خود سے ہی جنگ کرتے رہتے ہیں۔

جنگ۔  شراب سے لڑنے کی جنگ۔  دُکوڑی کی جنگ۔  ضمیر کی جنگ۔

دُکوڑی روز کچھ نہ کچھ ڈرامہ، پینے کے بعد گھر میں کرتے رہتے ہیں۔  پپُو کے اندر غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔  بھائی کی یہ حالت اس سے دیکھی نہیں جاتی ہے۔  وہ اپنے سامنے بڑے بھائی کا مذاق اڑانا نہیں سن سکتا ہے، جو دوسرے لوگ اکثر اڑانے لگے ہیں۔

’’اگر میں پینا شروع کر دیتا ہوں، تو بھیا پینا چھوڑ دیں گے۔ ‘‘ پپُو نے یہ سوچا اور خوش ہو گیا۔

ایک دن دُکوڑی کے سامنے ہی پپُو نے بوتل کھول کر رکھ لی۔

’’یہ کیا ہے پپُو؟‘‘

’’شراب۔ ‘‘

’’شراب کیوں؟‘‘

’’پینے کے لئے اور کس لئے؟‘‘

دُکوڑی نے ایک تھپڑ پپُو کو مارا اور پھر اسے گلے سے لگا لیا۔

’’تم اس کے چکر میں مت پڑو۔  یہ تمہاری زندگی برباد کر دے گی۔ ‘‘

’’ تو آپ کیوں پیتے ہیں؟‘‘

’’میں اس کی لت میں پھنس گیا ہوں اور بہت چاہ کر بھی نہیں نکل پا رہا ہوں۔ ‘‘

’’چاہنے سے انسان کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ‘‘

’’یہ کہنا آسان ہے، پر کر پانا بہت مشکل، پورے گھر کی ذمہ داری تمہارے اوپر ہے پس تم اس سے دور رہو۔ ‘‘

یہ کہہ کر دُکوڑی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔  ان رونے کی آواز سن کر پورا گاؤں اکٹھا ہو گیا۔  کچھ غمگین ہیں تو کچھ اسے نو ٹنکی سمجھ کر لطف لے رہے ہیں۔

پپُو کا غصہ غبارے کی طرح پھول رہا ہے۔  اس کی سمجھ میں کچھ خاص نہیں آ رہا ہے۔  مسلسل شراب کے بارے میں ہی سوچتے رہنے سے، شراب کی بو اسے بھی اچھی لگنے لگی ہے۔  پاٹھیکر اس کا پرانے دوست ہے، اس لئے اس بو سے اس کی پرانی جان پہچان ہے۔

انسان جس چیز کے بارے میں جتنا غور کرتا ہے، وہی چیز اسے پوری قوت سے اپنی طرف کھنچتی ہے۔

چند ماہ میں اسے پینے کی لت پڑ گئی اور وہ بھی دُکوڑی کی طرح چوبیس گھنٹے مد ہوش پڑا رہتا ہے۔  اس نے خود کو پورے علاقے کا سب سے بڑا غنڈا ثابت کر دیا۔  اگرچہ وہ قدرتی طور بہت شریف اور ڈرپوک ہے۔  وہ بھوت پریت سے اتنا ڈرتا ہے کہ رات کو اکیلے اٹھ کر باہر پیشاب کرنے بھی نہیں جا سکتا۔

دونوں بھائی کبھی کبھی ایک ساتھ پیتے ہیں اور بہت جذباتی ہو کر زندگی بھر ایک مشترکہ گھر میں رہنے کی قسم کھاتے ہیں۔  ان کی حرکتیں دیکھ کر بڑی بیا بھگوان سے موت کی خواہش کرتی ہیں۔  پر بھگوان نے شاید انہیں لمبی عمر دی ہے اور وہ ایک بار دی ہوئی چیز کو واپس نہیں لیتا ہے۔

اسی درمیان دُکوڑی کا پھر سے تبادلہ ہو گیا۔  وہ خوش ہیں کہ اب وہ اماں سے دور رہیں گے اور کہہ دیں گے کہ شراب پینا چھوڑ دیا ہے۔  اماں روز روز کے عذاب سے بچ جائیں گی۔

’’اب تو دُکوڑی چوبیس گھنٹے پیتا رہے گا.۔  وہاں تو اسے روکنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ ‘‘ اماں نے دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر سوچا۔

گھر کی حالت دن بدن خراب ہونے لگی۔  تمام پیسہ شراب خریدنے میں ہی نکل جاتا ہے۔  بچوں کی فیس کئی ماہ سے نہیں جمع کی گئی۔  اسکول سے لیٹر آنا ابھی عام سی بات ہو گئی ہے۔  بڑی بیا کا زیادہ تر وقت رونے میں ہی بسر ہوتا ہے۔  بھگوان کی لیلا کو وہ سمجھنے کہ کوشش کرتی ہیں پر سمجھ نہیں پا رہی ہیں۔  غصے میں وہ کبھی کبھی بھگوان کو بھی کوسنے لگتی ہیں۔  اس کے علاوہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتیں۔  کیونکہ وہ بہت بے بس ہیں۔

دُکوڑی کبھی کبھار فون پر بات کر لیتے ہیں۔  وہ ہر بار اماں کے بارے میں ضرور پوچھتے ہیں اور دلاسہ دیتے رہتے ہیں کہ انہوں نے شراب پینا بند کر دیا ہے۔

گھر کے لئے پیسہ وہ اب بہت کم ہی بھیج پاتے ہیں۔  ان کی پوری تنخواہ پینے میں ہی خرچ ہو جاتی ہے۔  وہ اپنے بے روزگار دوستوں کو مفت میں شراب پلاتے ہیں۔  وہ سوچ اور عمل دونوں سے ماورا ہیں، صرف کھیل میں اپنی بچی ہوئی دام لینے کے علاوہ۔

چند ماہ کے بعد ایک دن پولیس کی گاڑی میں کچھ لوگ بڑی بیا کے گھر آئے۔  وہ لوگ سنجیدہ اور غمگین لگ رہے ہیں۔

بڑی بیا نے ان کے بیٹھنے کے لئے کرسیاں لگا دیں پر وہ نہیں بیٹھے۔  وہ کچھ بول بھی نہیں رہے ہیں۔

بڑی بیا نے اندر پپُو کو آواز دی۔  وہ کچھ گھبرا گئی ہیں۔

پپُو کے باہر آنے پر ان لوگوں نے دُکوڑی کی لاش کو گاڑی سے نکال کر زمین پر رکھ دیا۔

’’کل رات دُکوڑی کھانا کھا کر سو گئے تھے اور پھر وہ نہیں اٹھے۔  وہ اپنی ماں اور بھائی کو بہت یاد کر رہے تھے۔  وہ اپنی بیوی اور بچوں کو بھی یاد کر رہے تھے۔  وہ رو رو کر سب سے معافی مانگنے کا کہہ رہے تھے۔  وہ اپنے کسی دوست راجو کو بہت کوس رہے تھے، جس کی وجہ سے ان کو پینے کی عادت پڑی تھی۔ ‘‘ان لوگوں میں سے کسی ایک نے کہا۔

پپُو نشے میں ہے اور اس نے اسی حالت میں راجو کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔

’’اسی سالے نے میرے بھائی کو پینے کی عادت ڈلوائی۔  مار دیا میرے بھائی کو سالے نے۔  ایسے دوست سے دشمن بھلے۔ ‘‘

وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔  اس کا نشہ بھائی کی موت کے غم کے آگے کمزور پڑ گیا۔  بچپن سے لے کر آج تک کی ساری باتیں فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگی ہیں۔

بڑی بیا بیہوش ہو گئیں۔

تھوڑی ہی دیر میں پورا گاؤں جمع ہو گیا۔  سب لوگ رو رہے ہیں۔  دُکوڑی کی لاش کو گھر سے شمشان گھاٹ تک لے جایا گیا۔  سب نے ان کی ار تھی کو کندھا دیا، اپنی چتا پر دُکوڑی ایسے لیٹے ہیں، گویا آج وہ مکمل طور پر آزاد ہو گئے ہوں۔  وہ گزشتہ کئی برسوں سے شراب کی لت سے چھٹکارا پانے کی جد و جہد کر رہے تھے اور تھک کر ہار چکے تھے۔  ان کا چہرہ دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے، گویا وہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ ’’یارو معاف کرنا۔  شراب نے مجھے آپ لوگوں سے جدا کر دیا۔  میں واقعی اتنا جلدی مرنا نہیں چاہتا تھا۔ ‘‘

وقت بڑا بے رحم ہے اور وہ اپنی رفتار سے چلتا ہی رہتا ہے۔  لیکن کچھ حادثوں سے ابھرنے سے کے لئے وقت کا چلنا اور بھی ضروری ہوتا ہے۔

چند سال کے بعد بڑی بیا کے گھر کی ساری زمین بک گئی۔  بچے پڑھائی لکھائی چھوڑ کر نوکری میں لگ گئے ہیں۔  پپُو اپنے دوست پاٹھیکر کے ساتھ شراب پی کر ٹن پڑا رہتا ہے۔  وہ بیچ بیچ میں راجو کو کوستا رہتا ہے۔

بڑی بیا نے بستر پکڑ لیا ہے۔  وہ ہر وقت کچھ بڑبڑاتی رہتی ہیں۔  دھیان سے سننے پر پتہ چلتا ہے کہ وہ شراب اور اس کے بنانے والوں کو کوس رہی ہیں۔

کبھی کبھی وہ سیمرا والی کاکی کو بھی یاد کرتی ہیں اور کہتی ہیں، ’’دیکھو نند پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی میرے نصیب پر۔ ‘‘

***

 

 

 

 

سُنینا

مُراری گپتا

 

 

شادی کے پورے آٹھ سال بعد سائنا اور ونے کے گھر میں کلکاری گونجی، تو جیسے انہیں ایک نئی دنیا مل گئی تھی۔  قصبے کے ہر ایک شخص کو پتہ چل چکا تھا کہ سائنا اور ونے کے گھر میں طویل انتظار کے بعد کوئی مہمان آیا ہے۔  دونوں نے کتنی منتیں مانگی تھیں۔  کتنے دیوی دیوتاؤں کے یہاں ما تھا ٹیکا تھا۔  شادی کے تیسرے سال، جب ڈاکٹر نے سائنا کو کہا کہ زچگی کی خوشی تمہارے نصیب میں نہیں ہے، تو اس رات رو رو کر دونوں کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔  پھر سالوں یہی سوچ کر ہی کہ شاید ہمارے نصیب میں بچے ہے ہی نہیں، انہوں نے قسمت کو قبول لیا تھا۔  مگر دونوں کی دعائیں کام آئیں۔

بچی کا نام انہوں نے سُنینا رکھا۔  موٹی موٹی آنکھوں والی سُنینا اپنے والد ونے کی جان تھی۔  ایک لمحے بھی وہ خود کو اس سے دور نہیں رکھتا۔  سائنا کی سانسیں تو اسے دیکھے بغیر چلتی ہی نہیں تھیں۔  اب ہر ہفتے سُنینا کے لئے نئے کپڑے، کھلونے لانا دونوں کا معمول بن چکا تھا۔  سائنا، سُنینا کی پیدائش کے بعد کبھی میکے نہیں گئی۔  ونے اب تک کئی سرکاری ٹور منسوخ کروا چکا تھا۔  سُنینا تین سال ہو چکی تھی۔  اب وہ چلنے لگی تھی۔  پڑوس کے بچے نزدیک ہی واقع مونٹیسوری اسکول میں پڑھنے جاتے، تو وہ بھی ان کے ساتھ ہو لیتی۔  سائنا اسے ابھی اسکول نہیں بھیجنا چاہتی تھی۔  لیکن ونے کے سمجھانے پر اسے اسکول بھیجا جانے لگا۔

تین افراد کے اس چھوٹے سے خاندان کی گرہستی کے آنگن میں کھلکھلاہٹ ابھی شروع ہی ہوئی تھی۔  مگر جو مقدر میں ہوتا ہے، وہ کبھی نہیں ٹالا جا سکتا۔

ایک دن اچانک اسکول کی ماسی سُنینا کو گود میں اٹھا کر گھر کی طرف دوڑی چلی آ رہی تھی۔  سُنینا کی چلانے کی آواز سن کر سائنا گھر سے باہر نکل کر آئی۔

’’کیا ہوا۔ ‘‘ سائنا کسی نادانستہ خوف سے زور سے چلائی۔  سُنینا کی چلانے کی آواز نے اسے اندر سے گھبرا دیا تھا۔

’’صبح سے پیٹ کو پکڑ کر بیٹھی تھی۔  مگر جب زیادہ درد ہوا تو بھاگ کر آنا پڑا۔  شاید پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ ‘‘ ماسی نے سائنا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔  سائنا نے ماسی کی گود سے سُنینا کو گھسیٹ کر اپنے گلے سے لگا لیا۔  سُنینا کو لے کر سائنا قصبے کے مشہور ڈاکٹر اسیم کے پاس پہنچی، ونے بھی تب تک وہاں پہنچ چکا تھا۔  کافی دیر تک چیک اپ کرنے کے بعد ڈاکٹر باہر آیا، اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔  ڈاکٹر کے چہرے کو دیکھ کر ونے اور سائنا کو کسی خطرے کا احساس ہونے لگا۔  دونوں کی آنکھیں ڈاکٹر کی آنکھوں پر ٹکی تھیں۔  پتہ نہیں ڈاکٹر کیا بتا دے۔

’’لگتا ہے سُنینا کی محبت آپ لوگوں کی قسمت میں نہیں ہے۔ ‘‘ کافی دیر بعد ونے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ڈاکٹر نے کہا۔

’’یہ کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر صاحب؟ سالوں کی دعاؤں کے بعد ہمیں ایک بیٹی ملی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘ اتنا کہہ کر سائنا سسکنے لگی۔

’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ونے صاحب۔ ‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔

سائنا روتے ہوئے چلائی، ’’آپ سیدھے سیدھے کیوں نہیں کہتے ڈاکٹر صاحب کہ آخر بات کیا ہے؟‘‘

’’ونے صاحب۔ ‘‘ ڈاکٹر کی زبان پھر لڑکھڑائی۔

’’ونے صاحب۔، آپ کی بیٹی کے اندر ٹیسٹو سٹیرون کا عمل ہو رہا ہے۔  اس کے اندر مردوں کی علامات تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ ‘‘ اتنا کہہ کر ڈاکٹر نے لمبی خاموشی اختیار کر لی۔

یہ سن سائنا تیزی سے کلینک کے اندر دوڑی اور وہاں کچی نیند میں سوئی سُنینا کو گود میں اٹھا کر زور زور سے سسکنے لگی۔  سُنینا نے سائنا کے آنسوؤں سے بھیگے چہرے کو ہاتھوں میں لے کر معصومیت سے کہا، ’’ماں کیوں رو رہی ہو۔ ‘‘

سُنینا کے اس معصوم سوال پر سائنا دوبارہ پھوٹ پڑی۔  ونے بھی سست قدموں سے اندر آیا۔  وہ ایک دم اجاڑ لگ رہا تھا۔

سُنینا کے چہرے اور سائنا کے آنسوؤں سے بھیگی آنکھوں کو دیکھ کر ونے کو لگا، جیسے اس کی پوری دنیا ہی اجڑ گئی۔  اس کا دل اجاڑ ہو چکا تھا۔  اس کی آنکھوں سے بھی آنسو ٹپک پڑے۔

اس بات کو کئی دنوں تک دونوں نے چھپائے رکھا۔  لیکن آہستہ آہستہ قصبے میں بات پھیلنے لگی۔  اس بات کی کسی کو بھی بھنک نہ لگے، اس لیے سُنینا کا اسکول جانا بھی بند کروا دیا گیا۔  سُنینا کے تو جیسے مزے آ گئے۔  گھر میں اس کے کھیل کود کے باوجود سائنا اور ونے پل پل مر رہے تھے۔  سائنا نے اب آس پاس کے کسی بھی پروگرام میں جانا بند کر دیا تھا۔  وہ سُنینا کو ایک لمحے بھی خود سے دور نہیں ہونے دیتی۔  ونے بھی دفتر سے لمبی چھٹیاں لے کر گھر بیٹھ گیا۔  جب کبھی سُنینا پاپا کے آفس نہ جانے کے بارے میں پوچھتی تو ونے بڑے پیار سے اسے سمجھاتا کہ بیٹا اب ہم آپ کے ساتھ گھر میں ہی کھیلا کریں گے اور وہ خوشی سے اچھل پڑتی۔ سُنینا کی اس خوشی پر دونوں باہر سے خوب ہنستے، مگر راتوں رات گھٹتے رہتے۔

کلینک آنے کے بعد سے لے کر اب تک انہیں جس بات کا ڈر ستا رہا تھا۔  وہ آج سامنے تھا۔  آہستہ آہستہ پھیلتی ہوئی یہ خبر پڑوس سے وہاں تک پہنچ گئی، جس سے بچنے کیلئے دونوں نے سُنینا کو پوری دنیا سے چھپائے رکھا تھا۔  قصبے سے پچیس میل دور منت بائی، جو علاقے کے ہجڑا کمیونٹی کی گرو تھی، تک یہ بات پہنچ چکی تھی۔  اور آج وہ اپنے پانچ چھ ساتھیوں کے ساتھ سائنا اور ونے کے گھر کی چوکھٹ پر تھی۔

’’لا بائی۔  ہمارا مال ہمیں دے دے۔  یہ ہمارے لئے ہے۔ ‘‘ زور زور سے تالیاں پیٹتے ہوئے منت بائی نے پکارا، تو ارد گرد کے لوگ بھی اکٹھے ہو گئے۔

منت بائی نے سائنا کی گود میں چپکی سُنینا کو چھیننے کی کوشش کی۔

سائنا نے پورے طاقت سے سُنینا کو اپنی چھاتی سے چپکا لیا اور دہاڑیں مار کر رونے لگی۔

’’میری سُنینا کو بچا لو۔  میری سُنینا کو بچا لو۔  بھگوان یہ کیسا انصاف ہے تیرا۔ ‘‘ وہ بے سدھ سی اکٹھے ہوئے لوگوں سے مدد کی اپیل کرنے لگی۔

ونے بے بس سا کھڑا تھا۔  وہاں کھڑے بہت سے لوگوں کی آنکھیں بھیگ گئیں۔  کئی لوگوں نے سائنا کو دلاسہ دینے کی کوشش کی۔  سُنینا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔  ماں کو روتے دیکھ کر، وہ بھی زور زور سے رونے لگی۔

’’لا بائی اب اس پر تیرا کوئی حق نہیں ہے۔  یہ ہماری برادری کی ہے۔ ‘‘ منت بائی نے پھر زور زور سے تالیاں پیٹتے ہوئے کہا.۔  منت بائی نے پورا زور لگا کر سائنا سے سُنینا کو چھین کر اپنے ساتھیوں کو پکڑا دیا۔

’’بائی یہ تیرے لئے نہیں بنی ہے۔  اس کی قسمت ہمارے یہاں ہی ہے۔ ‘‘ منت بائی نے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے اسے سمجھانے کی غرض سے کہا۔

سُنینا منت بائی کی ساتھیوں کی گود سے چھوٹنے کے لئے مچلتی رہی۔

’’مما مما مجھے آپ کے پاس رہنا ہے۔ ‘‘مگر انہوں نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا۔

سائنا گلا پھاڑ پھاڑ کر زور سے چیخنے لگی، ’’سُنینا میرے بیٹے میری سُنینا کو چھوڑ دو۔ ‘‘

’’مما مجھے کہاں لے جا رہے یہ لوگ۔ ‘‘ سُنینا کی روتی ہوئی آواز آہستہ آہستہ سست ہوتی جا رہی تھی، اور نیم بیہوش سائنا نیچے گر پڑی تھی۔

***

 

 

 

 

اُس کا آسمان

ڈاکٹر ساریکا کالرا

 

جلدی جلدی قدم بڑھانے کے بعد بھی ابھی ہاسٹل دور تھا۔  آٹو والے نے مین روڈ پر ہی اتار دیا تھا۔  اکیلی لڑکی دیکھ کر بھی اسے اس پر ترس نہیں آیا تھا. مین روڈ سے ہوسٹل کافی اندر تھا۔  آٹو والے کو دل ہی دل گالیاں دیتی وہ اس کے پیسے دے کر بھاگتی ہوئی سی چل رہی تھی۔  جب سارا زمانہ ہی سنگ دل ہے تو پھر یہ آٹو والا کیسے اس کا درد سمجھ سکتا ہے۔  سوچتی ہوئی وہ ہانپتی کانپتی ہوسٹل کے گیٹ تک پہنچی تو چوکیدار دیپالی نے ٹٹولتی نظروں سے اسے دیکھا۔  پھر اس نے اپنی گھڑی دیکھی تو رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے، پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس نے گیٹ کھول دیا۔  چلو کوئی تو اسے سمجھتا ہے، اس نے سوچا۔  ورکنگ وومین ہوسٹل کے سخت قوانین میں یہ اصول بھی شامل تھا کہ رات دس بجے تک سبھی ہوسٹل میں موجود ہوں۔  بڑے شہروں میں جہاں خواتین چھوٹی پرائیویٹ کمپنیوں سے لے کر بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور فرموں میں کام کرتی ہیں اور دیر رات گھر لوٹتی ہیں، وہاں کے ورکنگ وومین ہوسٹل میں شاید یہ اصول لاگو نہیں ہوتے ہوں گے پر اُجیّن جیسا چھوٹا شہر ان قوانین سے متاثر نہیں ہوتا۔

کمرے میں پہنچ کر دیپالی نے نصرت کو کچھ پڑھتے ہوئے پایا، ’’آ گئیں میڈم۔ ‘‘ نصرت چہک کر بولی۔

’’کھانا بھی کھا آئی ہو گی۔ ‘‘ نصرت پھر بولی۔

’’ہاں کھا آئی ہوں۔ ‘‘اس سے پہلے کہ نصرت کچھ اور پوچھتی دیپالی نے ہی جواب دے دیا۔

’’چلو اب فریش ہو کر سو جاؤ، میں بھی سو رہی ہوں۔  صبح میری پریزینٹیشن ہے۔ ‘‘

دیپالی، نصرت سے ابھی باتیں کرنا چاہتی تھی پر نصرت کا موڈ دیکھ کر خاموش رہ گئی۔  نصرت اس کی روم میٹ، حیدرآباد کی رہنے والی ہے۔  یہاں اُجیّن کی ایک مشہور دواساز کمپنی میں مینیجر ہے۔  پانچ سال اسی کمپنی میں مارکیٹنگ ایگزیکٹو رہنے کے بعد اس پوسٹ تک پہنچی ہے۔  مست ملنگ اور ہنس مکھ ہے۔  دیپالی کی اس شہری دنیا میں ایک یہی تو ہے، جو اس کی اپنی ہے۔  اس کا اپنا خاندان تو ہردوار میں ہے۔  ماں، پاپا اور چھوٹا بھائی۔  جن سے اب کبھی کبھار ہی فون پر ہی بات ہوتی ہے۔  ماں بلاتی ہے، چھوٹا بھائی چاپلوسی کرتا ہے بہن آ جاؤ۔  پر وہ نہیں جا پاتی، یا جانا نہیں چاہتی، جب نئی نئی اس شہر میں آئی تھی تو اس کا دل نہیں لگتا تھا یہاں۔  اس نے اسکول کی کتابوں میں پڑھا تھا کہ رقبے کے لحاظ سے مدھیہ پردیش، بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے، نقشہ میں ہی اس ریاست کی حدود کو چھو لیا تھا اس نے۔  آج اسی ریاست کے ایک چھوٹے سے شہر میں سما گئی ہے دیپالی۔  ہردوار جانے کا اس کا دل نہیں کرتا اب۔  وجوہات بہت سی تھیں، پر کون سا وجہ مضبوط تھی اور کون سا کمزور۔  یہی فیصلہ وہ نہیں کر پاتی تھی۔  اس کی نوکری، اس کی محبت پرتیش یا کچھ اور؟ اس کچھ کو وہ آج تک نہیں سمجھ پائی تھی۔

پرتیش کے ساتھ بسر کی گئی شام بھی اسے نیند کے آغوش میں نہیں لے جا سکی۔  وہ صبح سے کتنی خوش تھی کہ آفس کے بعد وہ اور پرتیش فلم دیکھیں گے اور پھر ساتھ ڈنر کریں گے۔  فلم دیکھی، ڈنر کیا، خوب باتیں کیں۔  باتیں، جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔  کبھی تو وہ چہک کر اپنی بات کہتی اور کبھی ناصحانہ انداز میں پرتیش کو زندگی کا فلسفہ دینے کی کوشش کرتی۔  وہی روایتی باتیں، گھر، خاندان، کام، نصرت کی باتیں، پرتیش کے آفس کی باتیں۔  پرتیش کے ساتھ اپنے مستقبل کو لے کر اس نے کوئی بات کبھی نہیں کی۔  یہ کوشش نہ پرتیش کی طرف سے ہوئی نہ اس کی جانب سے، رات زیادہ گہری ہو گئی تھی۔  نصرت گہری نیند میں تھی۔  اس نے بھی سونے کی بیکار سی کوشش کی۔

صبح دیپالی کھِلی ہوئی تھی۔  رات اپنے ساتھ کتنا کچھ بہا کر لے جاتی ہے۔  شاید رات بھی جانتی ہے کہ اگلا دن ہر کسی کی زندگی میں بہت کچھ نیا لے کر آتا ہے۔  اس نئے کے لئے بھی اسے جگہ بنانی ہے اور اسے تو ہر رات کی طرح ہی گزر جانا ہے۔  آفس میں ضروری کام نمٹا کر دیپالی نے ماں کو فون کیا پر ماں کا فون بزی جا رہا تھا۔  پاپا کے موبائل پر بات کر سکتی تھی پر اس نے نہیں کی۔  اس کی انگلیاں پاپا کا فون نمبر دباتے دباتے رہ گئیں۔  پاپا اس کا بہت دھیان رکھتے ہیں، بات ہونے پر حال چال پوچھتے ہیں۔ مگر پھر بھی ماں کی طرح پاپا سے نہیں جڑ پاتی ہے۔  دیپالی بچپن سے ماں کے بہت قریب رہی ہے، پاپا اس کے رول ماڈل ہمیشہ رہے، آج بھی ہیں، پر رول ماڈل کے ساتھ اپنی پرائیویسی ہم کبھی نہیں بانٹ پاتے۔  پاپا کے لئے احترام اس کی نظروں میں بہت ہے۔  اس کیلئے اس کے پاپا، ہر بیٹی کے والد کی طرح سب سے پیارے پاپا ہیں۔  پر ماں شاید اس کی اپنی جیسی ہے۔  اسے لگتا کہ اس کی ماں اور وہ، کسی واقعے، شخص یا کسی مسئلے پر ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں۔  پاپا کسی موضوع کا ایک منطقی نتیجہ دیتے ہیں، مگر تمام تر دلائل سے باہر وہ ماں کے نتائج پر نچھاور ہو جاتی۔  دیپالی اس دن کو آج بھی نہیں بھلا پاتی۔  جب دسویں پاس کرنے کے بعد گیارہویں میں پاس پڑوس کی تمام لڑکیوں نے سائنس کا چناؤ کیا تھا پر وہ سائنس نہیں لینا چاہتی تھی۔  اسے یہ مضمون ہی ڈراؤنا لگتا تھا۔  کیوں کسی کا بدن، کوئی آبجیکٹ کھول کر رکھ دیا جائے، فارمولے رٹ کر ایگزام دو، بورنگ مضمون۔  اسے تو شاعری پسند تھی۔  شاعر نے شاعری لکھ دی اب اس میں نئے نئے معنی ڈھونڈتے رہو۔  وہ بھی نئے نئے معنوں کو ڈھونڈتی۔  کتنی جدّت ہے، دماغ کتنی سمتوں میں دوڑ پڑتا ہے مفہوم کیلئے۔  پاپا کی بھی سخت ہدایت تھی کہ وہ بھی باقی لڑکیوں کی طرح سائنس لے۔  کیریئر اچھا رہے گا۔  ماں کو اس نے اپنی پسند بتائی تھی پر پاپا سے کہنے کی ہمت نہیں جٹا پائی تھی۔  گھر کا ماحول گھمبیر تھا۔  پاپا بیٹی سے سائنس گریجویٹ ہونے کی امید رکھتے تھے اور بیٹی تصور کے پر لگائے دنیائے ادب میں پرواز کے لیے تیار تھی۔  ماں نے ہی رات کو بتایا تھا کہ پاپا مان گئے ہیں۔  کل جا کر وہ آرٹس میں داخلہ لے سکتی ہے۔  پاپا کس طرح مانے، پتہ نہیں۔  ماں پاپا کے درمیان کیا باتیں ہوئیں پتہ نہیں؟ ماں تو کہہ کر چلی گئی۔  دیپالی بہت خوش ہوئی، پر پاپا جو چاہتے تھے وہ نہیں کرنا چاہتی تھی دیپالی۔  آج سائنس میں تو نہیں انگلش میں گریجویٹ ہے دیپالی۔  ایم بی اے ہے اور ایک مشہور کمپنی میں ایچ آر مینیجر ہے۔  بارہ لاکھ کا پیکیج ہے سال بھر کا۔  دیپالی جو چاہتی تھی اس نے وہ کیا۔  دیپالی خوش ہے اور ماں بھی خوش ہے کہ اس کی دیپالی خوش ہے۔

ماں کا ہی فون آیا تھا۔  وہی باتیں اپنا خیال رکھنا، کچھ پڑوسیوں کی باتیں، اس کی کس سہیلی کی شادی ہو گئی، کس کا بیٹا یا بیٹی ہوئی ہے۔  اس سے آگے ماں کچھ نہیں کہتی۔  دیپالی جانتی ہے ان باتوں کا کیا مطلب ہے۔  ماں بھی تو اپنی اٹھائیس سال کی دیپالی کی شادی کی امید لگائے بیٹھی ہے۔  پاپا نے ایک بار اسی وجہ سے بلایا بھی تھا پر وہ نہیں جا پائی تھی۔  اس نے نئی کمپنی جوائن کی تھی، چھٹی نہیں مل پائی تھی، پاپا نے دوبارہ نہیں بلایا۔  نہ ہی گھر جانے پر دوبارہ اس موضوع پر کوئی بات ہی کی تھی۔

اُجیّن آئے چار سال ہو گئے تھے۔  مندروں کا شہر اُجیّن بہت بھلا لگنے لگا تھا اب۔  ہردوار جیسے مقدس شہر میں جہاں مذہب کے نام پر کچھ نام نہاد لوگ ٹھگی جیسے کاموں میں مصروف تھے، وہیں اس نگری میں اسے ابھی تک ایسا محسوس نہیں ہوا تھا۔  ہاں اس کے آفس میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی، گلا کاٹ مقابلہ تھا، سب ایک دوسرے کو روند کر آگے بڑھنا چاہتے تھے۔  دیپالی کا عہدہ اور پیکیج سب کی آنکھوں میں ریت بھر دیتا تھا۔  جے مہتا اور اس کی جوائننگ ساتھ کی تھی، پر وہ اس سے آگے نکل گئی تھی۔  جے کی نظروں میں اس نے کئی بار اپنے لئے پیار دیکھا تھا پر وہ اس کو نظر انداز کر گئی تھی۔ مگر پرتیش کے سحر میں بندھنے سے وہ خود کو نہیں روک پائی تھی، جو روز ہی بس میں آفس جاتے وقت اس سے ٹکرا جاتا تھا۔  آج جے دس ماہ کی بیٹی کا باپ ہے۔  پر دیپالی آج بھی سنگل ہے، پر وہ پرتیش کے ساتھ خوش ہے۔

سب کچھ شاید ایسے ہی چلتا۔  وقت ایسے ہی گزرتا۔  پر جب تک کچھ غیر معمولی نہ ہو زندگی زندگی کیسے ہو سکتی ہے۔  اس دن ہاسٹل واپس پہنچی تو مہمانوں کے کاؤنٹر پر ماں پاپا کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔  نہ کوئی فون، نہ کوئی مسیج۔  کیا وجہ تھی وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔  اچانک انہیں اپنے سامنے دیکھ کر وہ ایک انجانے خدشے سے دو چار ہو گئی تھی۔  کہیں پرتیش کے بارے میں انہیں پتہ تو نہیں چل گیا۔  نصرت، ماں پاپا کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔

’’آپ لوگ یہاں؟‘‘ اس کے منہ سے اچانک ہی نکل گیا تھا۔

پاپا کچھ سنجیدہ سے لگے، پر ماں بہت محبت سے ملی۔  دونوں کو ساتھ لے دیپالی پاس ہی کے ریستوران میں جا بیٹھی۔  دیپالی کا خدشہ سچ نکلا۔  پاپا خاموش ہی رہے، ماں نے ہی شروعات کی، ’’دیپالی بیٹا، کچھ کچھ اندازہ ہے مجھے۔  پر میں تجھ سے سننا چاہتی ہوں۔  تیرا شادی کے بارے میں کیا خیال ہے۔  کوئی تیری پسند کا ہے تو ہمیں بتا دے۔  ہم نے سوچا تو گھر آنے میں اب ٹال مٹول کرتی ہے سو ہم ہی چلیں۔  گھومنا بھی ہو جائے گا اور تیری شادی کی بات۔۔ ۔ ‘‘

پاپا اپنی سنجیدگی ہٹا کر بولے، ’’زندگی اتنی آسان نہیں ہوتی بیٹی، جتنی اوپر سے نظر آتی ہے۔  اس کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔  ایک انسان کو اپنی زندگی میں بہت سے ذمہ داریاں ادا کرنا ہوتی ہیں، اس کے کئی فرائض ہوتے ہیں۔  میری زندگی کا مقصد تھا، تمہاری اور تمہارے بھائی کی اچھی تعلیم، اچھا کیریئر۔  وہ سب تم نے پا ہی لیا ہے۔  اب میں چاہتا ہوں تم شادی کرو۔  مجھے بھی موقع دو کہ میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی ذمے داری سے آزاد ہو جاؤں۔  دیکھو دیپالی زندگی کا ہر رنگ اچھا ہے۔  ہر رنگ میں گھلنے کے لئے تیار رہو، تمہیں یہاں کوئی لڑکا پسند ہے تو ہمیں بتاؤ۔  ورنہ ہم کوشش کرتے ہیں، پہلے بھی کی ہے۔  تم نے تو کوئی رائے نہیں دی اس بارے میں آج تک۔ ‘‘

اپنے پاپا کے منہ سے اتنی واضح باتیں، دیپالی نے اپنے بارے میں پہلی بار سنی تھیں۔  وہ پاپا کو دیکھتی رہ گئی تھی۔  کیا کہے وہ؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اسے۔  پر تیش کے بارے میں بتائے وہ۔  پر آج تک دونوں کے درمیان شادی کی کبھی کوئی بات ہی نہیں ہوئی تھی۔  سو خاموش ہی رہی۔

ماں پاپا بھی اُجیّن کے ہوٹل میں رک کر تھوڑا اُجیّن گھومے پھر چلے گئے۔  دیپالی کی خاموشی کو اس کی خاموش رضامندی سمجھے۔  ان دو دنوں تک دیپالی نے بھی پرتیش سے کوئی بات نہیں کی۔  بس اسے ایک میسج کر دیا۔  ان کے جانے کے بعد دیپالی نے پہلی بار خود کو اس شہر میں تنہا سمجھا۔  اسے لگا واقعی اس کا بچپن اس سے بہت دور نکل گیا ہے۔  اس کے گھر کا آنگن، تہواروں کی دھوم، سہیلیوں کے ساتھ اس کی دھما چوکڑی آج اسے پھر یاد آنے لگی۔

دیپالی کی زندگی پھر اسی پرانے دھڑے پر چلنے لگی۔  آفس، ہاسٹل، نصرت، پرتیش۔  دیپالی پرتیش کے ساتھ دوبارہ گھومنے پھرنے لگی ہے پر اب وہ پرتیش کی آنکھوں میں کچھ تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔  پرتیش اس سے شادی کے بارے میں کیوں نہیں پوچھتا؟ وہ سوچتی۔  ایک دن دیپالی نے ہی کوشش کی تھی۔  پرتیش کی بانہوں کا گھیرا جب اسے سخت لگا تھا تو اس نے ہی اس کی پکڑ سے بچنے کا ڈرامہ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔  ’’کب تک یوں ہی ملتے رہیں گے پرتیش؟ کیا ہم ایک ساتھ ہمیشہ کے لئے۔۔ ۔۔ ‘‘

پرتیش کی پکڑ ڈھیلی ہو گئی تھی۔  اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

تین ماہ گزر گئے تھے۔  ماں کے فون سے ہی صبح دیپالی کی آنکھ کھلی تھی،۔  اگلے ماہ کی اٹھارہ تاریخ کو بلایا تھا۔  کیوں بلایا تھا؟ دیپالی جانتی تھی۔  ماں، لڑکے کے خاندان کی جنم پتری بھی بتانے کو بے چین تھی۔  پر دیپالی سننا نہیں چاہتی تھی۔

’’بعد میں بات کرتی ہوں ماں، ابھی اٹھی ہوں۔ ‘‘

آج جمعہ تھا پرتیش کے ساتھ باہر گھومنے کا دن تھا، آفس کے بعد فلم، شاپنگ، ڈنر۔

آفس کیلئے نکلنے لگی تو نصرت شرارت سے ہنس کر بولی تھی، ’’کب تک آؤ گی آج؟‘‘

دیپالی بغیر جواب دیئے مسکرا کر چل دی تھی۔  ہاسٹل سے آفس کے راستے تک ماں کے فون کے بارے میں ہی وہ سوچتی رہی تھی۔  کیا بات کروں گی ماں سے؟ کیا جواب دوں؟ جانا تو مشکل ہے ہی۔  ماں پاپا کو اندازہ ہے ہی کہ شاید ہی آئے گی؟ سوچتے سوچتے آفس کے دروازے تک پہنچی تو آفس کے ڈائریکٹر مل گئے تھے۔  آج اس سے پہلے ہی آ گئے ہیں کیا؟ اس نے سوچا کہیں وہ لیٹ تو نہیں ہو گئی ہے۔  گھڑی دیکھی، لیکن وہ لیٹ نہیں تھی۔  سوچوں کو قرار آیا۔  سیٹ پر آ کر فائلوں کو دیکھنے لگی، آج کی ملاقاتوں کے شیڈول چیک کرنے لگی۔  آج کافی کام تھا۔  شاید پرتیش کے ساتھ شام کو جلدی نہیں نکل پائے گی۔  اس نے پرتیش کو میسج کر دیا تھا۔

بارہ بجے تک اس نے کافی کام نمٹا دیئے تھے۔  ایک کام اب بھی رہتا تھا، ماں سے ابھی تک بات نہیں ہو پائی تھی۔  صبح سے اس کے فون کے انتظار میں بیٹھی ہو گی۔  ماں اور پاپا دونوں ہی اس کے مستقبل کے لیے سوچ رہے ہوں گے، اس کے دل کو جانے بغیر بہت سی اسکیمیں بنا چکے ہوں گے۔  فون کیا تو ماں ہی تھی۔

’’ہاں دیپالی اگلے ماہ کی اٹھارہ تاریخ کو آ جاؤ۔  لڑکے والے آ رہے ہیں۔  لڑکا تمھارے لائق ہے۔  سرکاری افسر ہے۔  چلی آؤ، ایک بار دیکھ لو۔ ‘‘

دیپالی کاسارا دن مصروف رہا۔  فون، ملاقاتیں، اگلے مہینے ہونے والی بورڈ میٹنگ کے لئے اس نے ڈائریکٹر سے کچھ نوٹس لئے۔  پانچ بجے پرتیش کا بھی فون آیا تھا پر وہ ریسیو نہیں کر پائی تھی۔  اس کی مس کال دیکھا س نے اسے اپنے بزی ہونے کا ایک میسج ڈال دیا تھا۔  اس کے اِن باکس میں پرتیش کے ۱۴۷۳ میسجز ہیں اور اس کے پرتیش کو ۹۷۳ میسجز ہیں۔  تقریباً تین سالوں میں اتنے میسجز کا تبادلہ ہوا۔  سینکڑوں بار ملے اور آج بھی ان دنوں میں ایک دن مزید جڑنے جا رہا ہے۔  ماں کی بات یاد آ رہی تھی، ’’ایک بار چلی آؤ دیکھ لو۔ ‘‘

اس نے سوچا، ’’کیا چلی جاؤں! پرتیش سے کیا کہوں گی۔  پر وہ کیوں کچھ کہے گا۔  میری شادی کی بات چل رہی ہے۔  اس نے تو آج تک اس موضوع پر کبھی کچھ نہیں کہا۔ ‘‘ دیپالی دل ہی دل ان باتوں کو سوچتی رہی، ’’چلی آؤ دیکھ لو۔ ‘‘ ماں کے ان الفاظ پر اس کے اپنی زندگی کے تین سال، اس کے اپنے تین سال، اس کی خود انحصاری، اس شہر کا اپنا پن، پرتیش سب چھوٹنے سے لگے۔  جیون ایک سا تو نہیں رہتا۔  پنچھی بھی لمبی پرواز کے درمیان پل بھر کو ٹھہرتا ہے۔  وہ بھی ایک پنچھی ہے اپنے آسمان کی۔  اس کی بھی اپنی زندگی ہے، اپنی دنیا ہے۔  پر اس اونچے آسمان میں کب تک اڑے گی؟ اونچے آسمان سے نظر آتے نیچے کے خوبصورت منظر کب تک دل کو بہلائیں گے؟ کب تک؟ دیپالی گم صم اپنے لیپ ٹاپ کی سکرین کو مسلسل دیکھ رہی تھی۔  بہت سوچ بچار کے بعد اس نے فیصلہ لیا اور ایک ایپلی کیشن ٹائپ کرنے لگی۔  اگلے ماہ کی رخصت کیلئے۔  اس رخصت میں اٹھارہ تاریخ بھی شامل تھی۔

***

 

 

 

 

واپسی کی راہ

ڈاکٹر رشمی شِیل

 

آج صبح صبح ماں کا خط آیا ہے۔  سب چیزوں کے ساتھ جو اہم بات تھی وہ یہ تھی کہ روپا کی شادی طے ہو گئی ہے، دسمبر کی سترہ تاریخ کو لگن ہے۔  شادی میں بہو اور بچوں کو لے کر آنا، نہیں تو برادری والے طرح طرح کی باتیں کریں گے۔  یوں تو لڑکے والوں کی مانگ بہت ہے، مگر لڑکا اچھا ہے، اس لئے ان کی شرائط ماننی پڑیں۔  یہ تو بھلا ہو تمہارے ماما جی کا، نہیں تو میں اکیلی بوڑھی کہاں کہاں بھاگ دوڑ کرتی؟ انہوں نے بڑا سہارا دیا۔  تُو تو جب سے شہر گیا، وہیں کا ہو کر رہ گیا۔  ایک بار تو مجھے لگا رہا تھا کہ روپا کنواری ہی رہ جائے گی۔  مگر اوپر والے کے فضل سے سب ٹھیک ہو گیا۔

خط پڑھ کر اسی میز پر رکھے ٹیبل لیمپ کے نیچے دبا دیا۔  دل بے چین ہو اٹھا۔  گاؤں کی سوندھی مہک، جو شہر کی بھاگ دوڑ میں نایاب سی ہو گئی تھی، وہ بہت دیر تک ناک میں بھرتی رہی۔  گاؤں کی بہت سی باتیں بھی یاد آنے لگیں۔

لگا کہ میں دوبارہ اسی گاؤں کا ایک شیطان لڑکا بن گیا ہوں۔  اسکول سے آئے دن ٹلّا مارنا۔  منوہر، ہری یا، ستیش سب کیسے کیسے بہانے کر کے آم کی باغ میں جمع ہوتے تھے اور وہیں درخت پر اپنے بستے ٹانگ کر دن بھر گلی ڈنڈا یا کنچے کھیلتے تھے اور جب ایک دن استاد جی نے دیکھ لیا تھا تو وہیں پر گلی ڈنڈے والے ڈنڈے سے دھنائی کر دی تھی۔  مگر کسی کی بھی ہمت گھر میں بتانے کی نہیں ہوئی تھی۔  وقت کے ساتھ سب کچھ کتنا بدل گیا۔  منوہر، ہری یا تو اپنی آبائی کاشت کاری میں لگ گئے۔  ستیش وہیں پرائمری اسکول میں استاد ہو گیا اور میں سینٹرل اسکول ٹیچر ہو کر ادھر ادھر گھومتے گھامتے اس ممبئی نگری میں بس گیا۔

ممبئی شہر بھی کیا شہر ہے۔  اس کی محبت اور نفرت دونوں کے بیچ میں انسان ایک ساتھ پستا رہتا ہے۔  وہ نہ تو اس شہر سے دور ہو پاتا ہے اور نہ ہی اس شہر کے قریب آ پاتا ہے اور جینے کی جوڑ توڑ میں لگا، اپنی زندگی کے لیے ہانپتا کانپتا ہوا شخص یہاں سے کبھی واپس نہیں لوٹ پاتا۔  وہ خود بھی تو جب اس شہر میں آیا تھا تو بی ٹی اسٹیشن پر اترتے ہوئے کتنا گھبرا رہا تھا۔  اتنا بڑا اسٹیشنا تنے سارے لوگ اور اب وہ بھی تو اسی بھیڑ کا ایک حصہ ہے۔  ایک بڑے شہر کی بڑی بھیڑ کا حصہ بھر۔

فیملی کے ساتھ اس شہر میں رہنا کتنا مشکل ہے؟ صرف تنخواہ سے تو گزارا ہونا نا ممکن ہے۔  تھوڑے بہت اخبارات میں مضامین لکھنے سے آمدنی ہو جاتی ہے۔  کچھ ٹیوشن کر لیتا ہوں۔  پھر بھی روزی روٹی چلانے کے بعد بچت کی بات نہیں سوچی جا سکتی ہے۔  وہ تو بیوی کو لانا ہی نہیں چاہتا تھا، لیکن جب کھانے پینے کی پریشانی ہوئی اور وہ بیمار رہنے لگا تو پھر بیوی کو لانا مجبوری بن گئی۔  بہت بار سوچا کہ گاؤں واپس چلیں۔  لیکن پھر وہی مجبوری کہ گاؤں جا کر کریں گے کیا؟ جو تھوڑی بہت کاشت کے قابل زمین تھی۔  وہ تو میری پڑھائی اور رادھا کی شادی میں فروخت ہو گئی تھی، پھر لگی لگائی سرکاری نوکری چھوڑ دینے کا حوصلہ بھی نہیں جٹا پایا۔

پتا جی کا انتقال ہونے پر پچھلی بار جب گاؤں گیا تھا تو گھر کی حالت دیکھ کر دل رو پڑا تھا۔  سوچا تھا کہ ماں اور روپا کو ساتھ لیتے جاؤں، لیکن یہاں کی گھٹن بھری زندگی کا سوچ کر خاموش سادھ لی تھی۔  ایک ہی کمرے میں بیوی اور دو بچوں کے ساتھ مکمل گرہستی کو سمیٹنے والا، صبح کیا آدھی رات سے ہی بیوی کا پانی کیلئے لمبی لائن میں لگنا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر توُ توُ میں میں۔  ان سب کے درمیان میں ماں اور روپا کو کہاں ایڈجسٹ کرتا.۔  ماں کو جھوٹی تسلی دے کر ہی تو میں لوٹ آیا تھا۔  اس کے بعد سے آج تک گاؤں جانا نہیں ہو پایا۔  بیوی کو اس وقت بھی نہیں لے گیا تھا۔  کیوں کہ اس وقت نکتا کی پیدائش ہوئی تھی اس لیے نہ لے جانے کی پختہ وجہ موجود تھی، لیکن اب کی بار تو لے جانا لازمی ہے۔  آخر بہن کی شادی ہے۔  ماں کا کہنا درست ہے۔  انتظام تو کرنا ہی ہو گا۔

اسی فکر میں دن گزر گیا۔

شام کو جب لوٹا تو بیوی اس وقت تک شاید وہ خط پڑھ چکی تھی، چائے کے ساتھ ہی بات چھیڑ دی۔

’’روپا کی شادی کے بارے میں کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

’’سوچنا کیا ہے۔ جانے کا انتظام کرنا پڑے گا۔ ‘‘

’’ انتظام کس طرح ہو گا؟ یہ بھی سوچا ہے؟‘‘

’’ ہاں سوچا ہے، فیوچر فنڈ سے پیسے نکالنے کے لئے عرضی دی ہے، شادی تک پیسے مل جائیں گے۔ ‘‘

مگر کہنا جتنا آسان تھا، پیسے حاصل کرنے کا عمل اتنا ہی پیچیدہ تھا۔  پانچ ہزار آفس کے بابو کو دیئے، تب اس نے فوری کار روائی کر کے پیسے نکالنے میں مدد دی۔  ۷۵ ہزار روپے لے کر گھر پہنچا اور حساب کرنے لگا۔  چار لوگوں کا ممبئی سے لکھنؤ کا ریل کا کرایہ، ٹیکسی کا کرایہ، لکھنؤ سے گاؤں تک کا سفر، شادی کے لئے بچوں اور بیوی کے لئے نئے کپڑے۔  کل ملا کر پچیس، تیس ہزار تو خرچ ہو ہی جائیں گے۔  ماں بھلے ہی نہ کہے، مگر کچھ روپے تو ان کو دینے ہی چاہئیں۔  اس کے علاوہ کچھ پیسے اپنے پاس بھی اخراجات کے لئے ہونے چاہئیں۔  بیوی کو بھی دینے پڑیں گے۔  گاؤں میں جگہ جگہ تو نچھاور دینی پڑتی ہے اور کام کرنے والے بھی کتنے ہوتے ہیں؟ مالی، دھوبن، کہار، نائی، کمہار، باری، پتہ نہیں کون کون؟ سب کو تو وہ جانتا تک نہیں۔  سوچتے سوچتے سر میں درد ہونے لگا۔  مگر فکر اپنی جگہ برقرار تھی۔  سدھا الگ اپنے جوڑ توڑ میں لگی رہی۔  بچے ضرور خوش تھے کیونکہ کتابوں میں پڑھائے گئے گاؤں کو حقیقت میں دیکھنے کا موقع ملا تھا۔

ماں نے مجھے بمعہ اہل و عیال دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔  اسی خوشی نے ان کے چہرے سے تشویش کی لکیروں کو کم کر دیا تھا، یہ واضح نظر آ رہا تھا۔  روپا کی شادی میری سوچ سے کافی اچھی ہوئی تھی۔  لڑکے والے کافی مہذب تھے۔  میں ممبئی سے آیا ہوں۔  اس وجہ سے سب کے دلوں میں میرے لئے اک احترام تھا۔  ان کے ذہنوں میں ممبئی نگری کا جو عکس تھا، وہ وہی تھا جو ٹی وی یا فلم میں دیکھا تھا۔  زندگی کو جینے کی جی توڑ کوششیں اور روز روز پستا آدمی شاید ان کی پہچان میں نہیں تھا۔

میں جب چلنے لگا تو ماں نے کہا کہ بیٹا اب تو گاؤں واپس آ جا۔  یہ پرکھوں کی دہلیز ہے۔  میرا کیا ہے؟ آج ہوں، کل نہیں۔  ماں کی باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اب واپسی کی راہ بہت مشکل ہے۔  مشکل کیا نا ممکن ہے۔  میرے کچھ نہ کہنے پر بھی شاید میرا جواب ان تک پہنچ گیا تھا۔  چنانچہ وہ بہت دیر تک ڈبڈباتی آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہی تھی۔

وہ آنکھیں آج بھی میرا پیچھا کرتی ہیں۔

***

 

 

 

 

وصیت

مہاویر شرما

 

صبح ناشتے کے لیے کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔  اٹھنے لگا تو سیما نے کہا، ’’آپ چائے پئیں، میں جا کر دیکھتی ہوں۔ ‘‘

دروازہ کھولا تو ڈاکیے نے سیما کے ہاتھ میں خط دے کر دستخط کرنے کو کہا۔

’’کس کا خط ہے؟‘‘ میں نے بیٹھے بیٹھے ہی پوچھا۔

خط دیکھ کر سیما ٹھٹھک گئی اور حیرت سے بولی، ’’کسی سالسٹرس کا ہے۔  لفافے پر بھیجنے والے کا نام ’’جان مارٹن۔ سالسٹرس‘‘ لکھا ہے۔ ‘‘

یہ سنتے ہی میں نے چائے کا کپ ہونٹوں تک پہنچنے سے پہلے ہی میز پر رکھ دیا۔  میں انگلینڈ میں جائز طریقے سے آیا تھا۔ مگر پھر بھی اس پینسٹھ سال کی عمر میں وکیل کا خط دیکھ کر دل کو کچھ گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔  بیتابی اور خوف کے تاثرات لئے خط کھولا تو لکھا تھا۔

’’ جیمز وارن، تیس ڈاربی ایونیو، لندن کا رہائشی، پچاسی برس کی عمر میں، اٹھائیس نومبر دو ہزار چار کو انتقال ہو گیا۔  اس وصیت میں دوسروں لوگوں کے ساتھ آپ کا بھی نام ہے۔  جیمز کی وصیت پندرہ دسمبردوہزارچار بعد دوپہر تین بجے، جیمز وارن کی رہائش گاہ پر پڑھی جائے گی۔  آپ سے درخواست ہے کہ آپ مخصوص تاریخ پر وہاں تشریف لائیں یا آفس کے پتے پر ٹیلی فون کے ذریعے مطلع کریں۔ ‘‘

’’یہ جیمز وارن کون ہے؟‘‘ سیما نے بے چینی سے پوچھا، ’’میرے سامنے تو آپ نے کبھی اس شخص کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ‘‘

میں جیسے کسی پرانے ٹائم زون میں پہنچ گیا۔  چائے کا ایک گھونٹ پیتے ہوئے میں نے سیما کو بتانا شروع کیا۔

’’اس وقت میں غیر شادی شدہ تھا اور لندن میں رہتا تھا۔  میں کبھی کبھی دو میل کے فاصلے پر واقع ایونیو پارک میں جاتا تھا۔  وہاں ایک انگریز جس کی عمر تقریباً پچپن ساٹھ سال کی ہو گی، بینچ پر تنہا بیٹھا رہتا اور وہاں سے گزرنے والے ہر شخص کو ہنس کر ’’گڈ مارننگ‘‘ یا ’’گڈ ڈے ‘‘ کہہ کر اس انداز میں سلام کرتا، جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو۔

انگلینڈ میں سورج کی روشنی کھلکھلاتی ہو تو کون اس بوڑھے کی الول جلول باتوں میں وقت گنوائے؟ یہ سوچ کر لوگ اسے نظر انداز کر کے چلے جاتے اور وہ بینچ پر تنہا بیٹھا رہتا۔  میں بھی اوروں کی طرح آنکھیں نیچے کیے کترا کر چلا جاتا۔

ہر روز تاریکی ہونے سے پہلے بوڑھا اپنی جگہ سے اٹھتا اور دھیرے دھیرے چل دیتا۔  میں کبھی غیر ارادی طور پر پیچھے مڑ کر دیکھتا تو وہ ہاتھ ہلا کر ’’ہیلو‘‘ کہہ کر مسکرا دیتا۔  میں بھی اسی طرح جواب دے کر چلا جاتا۔

اس طرح چلتا رہا۔  ایک دن رات کو ٹھیک سے نیند نہیں آ رہی تھی اور خیالوں میں بار بار بوڑھے کی شکل سامنے آتی رہی، پھر آنکھ لگی تو دیر سے سو کر اٹھا۔  روزمرہ کے کاموں کے بعد کچھ کھا پی کر کپڑے بدلے اور اسی پارک میں جا پہنچا۔

بوڑھا اسی بینچ پر منہ نیچے کئے ہوئے بیٹھا ہوا تھا۔  اس بار کترانے کے بجائے میں نے اس سے کہا، ’’ہیلو جینٹل مین۔ ‘‘

بوڑھے نے منہ اوپر اٹھایا۔  اس کی نظریں چند لمحوں کے لئے میرے چہرے پر اٹک گئیں۔  پھر ایک دم سے اس کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔  پھر وہ بڑے پُر تپاک انداز سے بولا۔

’’ہیلو آپ میرے پاس بیٹھیں گے کیا؟‘‘

میں اسی بینچ پر اس کے پاس بیٹھ گیا۔  بوڑھے نے مجھ سے اس طرح ہاتھ ملایا، جیسے کئی سالوں کے بعد کوئی اپنا ملا ہو۔

میں نے پوچھا، ’’آپ کیسے ہیں؟‘‘

جب کوئی دو افراد ملتے ہیں تو یہ ایک ایسا جملہ ہے، جو خود بخود منہ سے نکل جاتا ہے۔  کچھ دیر خاموشی نے ہم کو الگ رکھا تھا، پھر میں نے ہی اسے توڑتے ہوئے پھر پوچھا۔

’’آپ پاس میں ہی رہتے ہیں؟‘‘

میرے اس سوال پر اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہنا شروع کر دیا۔

’’میرا نام جیمز وارن ہے۔ تیس ڈاربی ایونیو، فنچلے میں اکیلا ہی رہتا ہوں۔ ‘‘

میں نے کہا، ’’مسٹر وارن۔ ‘‘

’’نہیں، نہیں جیمز۔  آپ مجھے جیمز کہہ کر ہی پکاریں تو مجھے اچھا لگے گا۔ ‘‘ جیمز میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی بول اٹھا۔

میں جانتا تھا کہ جیمز وارن کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے، جسے اس نے اندر دبا کر رکھا ہے۔  کیونکہ کوئی سننے والا نہیں ہے۔  اس کے اندر موجود پرانی یادیں باہر آنے کے لئے جد و جہد کر رہی ہوں گی۔  مگر کس کے پاس اس بوڑھے کی داستان سننے کے لئے وقت ہے؟ جیمز نے ایک آہ سی بھری اور کہنا شروع کیا۔

’’میں اکیلا ہوں۔  چار بیڈ روم کے مکان کی بھائیں بھائیں کرتی ہوئی دیواروں سے پاگلوں کی طرح باتیں کرتا رہتا ہوں۔ ‘‘ اتنا کہہ کر جیمز نے چشمے کو اتارا اور اسے صاف کر کے دوبارہ بولنا شروع کیا۔

’’ایتھل یعنی میری بیوی، صرف خوبصورت ہی نہیں، فطرت کی بھی بہت اچھی تھی۔  ہم دونوں ایک دوسرے کی سنتے تھے۔  اس کے ساتھ دکھ کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا تو دکھ کی پہچان کیسے ہوتی؟ ‘‘

’’ایک دن میری بیوی نے مجھے جو بتایا۔  اسے سن کر میں پھولا نہ سمایا تھا۔  باپ بننے کی خبر نے مجھے ایسے ہوائی تخت پر بیٹھا دیا جیسے ایک بڑی سلطنت میرے تابع ہو۔  میری ماں نے دادی بننے کی خوشی میں چرچ جا کر پادری سے مل کر، چرچ میں ایک خاص مذہبی سروس کا انتظام کروایا۔  گھر میں جاننے والوں کو بلا کر پارٹی دے ڈالی۔  اس طرح آٹھ مہینے مزے سے گزر گئے۔ ا یتھل نے اپنے آفس سے چھٹی لے لی تھی۔  میں ہر وقت بچے اور ایتھل کے بارے میں سوچتا رہتا۔ ‘‘

’’ ایک رات جب موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ ا یتھل کو ایسا شدید درد ہوا جو اس کیلئے برداشت کرنا مشکل تھا۔  میں نے ایمبولنس منگائی اور ایتھل کو لے کر ہسپتال پہنچ گیا۔ ‘‘

’’ نرسوں نے ایمبولنس سے ایتھل کو اتارا اور تیزی سے اندر لے گئیں۔  ڈاکٹر نے ایتھل کی حالت چیک کر کے کہا کہ جلد ہی آپریشن کرنا پڑے گا۔  اندر ڈاکٹر اور نرسیں ایتھل اور بچے کی زندگی اور موت کے درمیان اپنے اوزاروں سے لڑتے رہے اور باہر میں اپنے آپ سے لڑتا رہا۔  کافی دیر کے بعد ایک نرس نے آ کر بتایا کہ آپ ایک لڑکے کے باپ بن گئے ہیں۔  خوشی میں ایک مد ہوشی سی چھا گئی۔  میں نرس کو پکڑ کر ناچنے لگا۔  تبھی نرس نے مجھے زور سے جھنجھوڑ سا دیا اور میرا ہاتھ زور سے دبا کر کہنے لگی۔

’’مسٹر وارن مجھے بہت ہی دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ڈاکٹروں کی ہر کوشش کے بعد بھی آپ کی بیوی نہیں بچ سکی۔ ‘‘

جیمز نے آنکھوں سے چشمہ اتار کر صاف کیا۔  اس کی آنکھیں آنسوؤں کے بوجھ کو سنبھال نہ پائیں۔  اس نے ایک لمبی سرد سانس چھوڑی اور اپنی اس دکھ بھری کہانی کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔

’’ میری ماں پوتے کی خوشی اور ایتھل کی موت کے غم سے سمجھوتہ کر کے زندگی کو معمول پر لانے کوشش کرنے لگیں۔  میری ماں بڑی بہادر تھیں۔  انہوں نے بچے کا نام ولیم وارن رکھا کیونکہ ولیم بلیک، ایتھل کا پسندیدہ مصنف تھا۔  اسی طرح آٹھ سال گزر گئے۔  ماں بہت بوڑھی ہو چکی تھیں، ایک دن وہ بھی ولیم کو مجھے سونپ کر اس دنیا سے رخصت لے کر چلی گئیں۔  اس دن سے ولیم کے لیے میں ہی ماں، دادی اور باپ کے فرائض کو پوری ذمہ داری سے ادا کرتا رہا۔  اسے صبح ناشتا کرا کر اسکول چھوڑ کر اپنے دفتر جاتا۔  وہاں سے بھی دن کے وقت اسکول میں فون کر کے اس کی ٹیچر اس کا حال پوچھتا رہتا۔  ولیم کی انگلی میں ذرا سی چوٹ بھی لگ جاتی تو مجھے ایسا لگتا جیسے میرے سارے جسم میں درد پھیل گیا ہو۔ ‘‘

’’اتنے لاڈ میں پلتے ہوئے وہ اٹھارہ سال کا ہو گیا۔  اس کے اے لیول میں اے گریڈ میں پاس ہونے کی خبر سن کر میں بہت خوش ہوا تھا۔  جب اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے آنرز کی ڈگری لی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ‘‘

’’ولیم کی گرل فرینڈ جینی جب بھی اس کے ساتھ گھر آتی تو میں خوشی سے ناچ پڑتا۔  جینی اور ولیم کی شادی اسی چرچ میں انجام پائی، جہاں میری اور ایتھل کی شادی ہوئی تھی۔  ایک سال کے بعد ہی ولیم اور جینی نے مجھے دادا بنا دیا۔  اس دن مجھے ماں اور ایتھل کی بڑی یاد آئی اور میری آنکھیں بھر آئیں۔  پوتے کا نام جارج وارن رکھا گیا۔ ‘‘

’’ہنستے کھیلتے ایک سال گزر گیا۔  اتنی جد و جہد بھری زندگی گزارنے کے بعد اب عمر نے بھی جسم سے کھیلنا شروع کر دیا تھا۔ ‘‘

’’ ڈیڈی جینی اور مجھے کمپنی ایک بہت بڑا عہدہ دے کر آسٹریلیا بھیج رہی ہے۔  تنخواہ بھی بہت بڑھا دی ہے، مکان، گاڑی، ہوائی جہاز کے سفر کے ساتھ کمپنی جارج کے اسکول کے خرچ وغیرہ کے ساتھ دیگر سہولتیں بھی دے رہی ہے۔ ‘‘ ولیم نے بتایا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یہ سب سن کر میں دھم سے سوفے پر دھنس گیا تو ولیم میری حالت دیکھ کر مسکرا کر کہنے لگا، ’’ ڈیڈی آپ اکیلے ہو جائیں گے۔  ہم دونوں یہ تجویز مسترد کر دیں گے۔  ویسے تو یہاں بھی سب کچھ ہے۔ ‘‘

’’میں نے خود کو سنبھالا اور کہا کہ واہ، میرا بیٹا اور بہو اتنے بڑے عہدے پر جا رہے ہیں، میرے لئے تو یہ فخر کی بات ہے۔  سچ مجھے اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو گی؟‘‘

’’جانے کی تیاری ہونے لگیں۔  دن تو گزر جاتا پر رات کے وقت نیند نہ آتی۔  کبھی ولیم اور جینی تو کبھی جارج کی صحت کی فکر رہتی۔ وہ دن بھی آ ہی گیا، جب لندن ایئرپورٹ پر ولیم، جینی اور جارج کو رخصت کر کے بھیگے دل سے گھر واپس لوٹنا پڑا۔  ولیم اور جینی نے جاتے جاتے بھی اپنے وعدے کی توثیق کی کہ وہ ہر ہفتے فون کرتے رہیں گے اور مجھ پر زور دیا کہ میں ان سے ملنے کے لئے آسٹریلیا ضرور آؤں۔  وہ ٹکٹ بھیج دیں گے۔ ‘‘

’’ذہن میں ابھرتی ہوئی یادیں میرے آنسوؤں کو سنبھال نہ پائیں۔  جارج کو بار بار چوما۔  ایئرپورٹ سے باہر آنے کے بعد گھر واپس آنے کا دل ہی نہیں کرتا تھا۔  گاڑی کو دن بھر ادھر ادھر گھماتا رہا۔  شام کو گھر لوٹنا ہی پڑا۔  سامنے جارج کی دودھ کی بوتل پڑی تھی، اٹھا کر سینے سے چپکا لی اور ایتھل کی تصویر کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ ‘‘

’’چار دن کے بعد فون کی گھنٹی بجی تو دوڑ کر رسیور اٹھایا، ’’ہیلو ڈیڈی۔ ‘‘

یہ آواز سننے کیلئے میں کب سے بے چین تھا۔  میں نے بھرائے لہجے میں بولا۔

’’تم سب ٹھیک ہو نہ، جارج اپنے دادا کو یاد کرتا ہے کہ نہیں؟‘‘ جینی سے بھی بات کی اور یہ جان کر دل کو بڑا سکون ہوا کہ وہ سب کے سب صحت مند اور خیریت سے ہیں۔ ‘‘

’’ولیم نے ٹیلی فون جارج کے منہ کے آگے کر دیا، تو اس کی آغوں آ غوں کی آواز نے کانوں میں رس سا گھول دیا۔  تھوڑی دیر بعد فون پر وہ آوازیں آنا بند ہو گئیں۔ ‘‘

’’تین ماہ تک ان کے ٹیلی فون مسلسل آتے رہے، مگر اس کے بعد ان کی تعداد کم ہو گئی۔  میں فون کرتا تو وہ اکثر کہہ دیتا کہ دروازے پر کوئی گھنٹی بجا رہا ہے اور فون کاٹ دیتا۔  بات چیت جلد ہی ختم ہو جاتی۔  چھ مہینے اسی طرح گزر گئے اور کوئی فون نہیں آیا تو گھبراہٹ ہونے لگی۔  ایک دن میں نے فون کیا تو پتہ لگا کہ وہ لوگ اب سڈنی چلے گئے ہیں۔  یہ بتانے پر بھی کہ میں اس کا باپ ہوں، نئے کرایہ دار نے اس کا پتہ نہیں دیا۔  اس کی کمپنی کو فون کیا تو پتہ چلا کہ اس نے اس کمپنی کی نوکری چھوڑ دی تھی۔  یہ جان کر تو میری فکر اور بھی بڑھ گئی تھی۔ ‘‘

’’میرا ایک دوست آرتھر چھٹیاں منانے تین ہفتے کے لئے آسٹریلیا جا رہا تھا۔  میں نے اسے اپنا مسئلے سے آگاہ کیا تو وہ بولا کہ وہ دو دن سڈنی میں رہے گا اور اگر ولیم کا پتہ کہیں مل گیا، تو مجھے فون کر کے بتا دے گا۔  آرتھر کا فون نہیں آیا۔  تین ہفتوں کی اندھیری راتیں اندھیری ہی رہیں۔  تین ہفتے بعد جب آرتھر واپس آیا تو امید، دکھ بھری مایوسی میں بدل گئی۔  ولیم اور جینی اسے ایک ریستوران میں ملے تھے، مگر وہ کسی ضروری کام کی وجہ سے جلدی میں تھے اپنا پتہ اور ٹیلی فون نمبر یہ کہہ کر نہیں دے پائے کہ شام کو ڈیڈی کو فون کر کے نیا پتہ وغیرہ بتا دیں گے۔ ‘‘

’’اس کے فون کی امید میں اب اس کی ہر شام ٹیلی فون کے پاس بیٹھ کر ہی گزرتی۔  جس گھنٹی کی آواز سننے کیلئے ان چھ سالوں سے بیزار بیٹھا ہوں، وہ گھنٹی کبھی نہیں سنائی دی۔  ہو سکتا ہے کہ اسے ڈر لگتا ہو کہ کہیں باپ آسٹریلیا نہ آ جائے۔ ‘‘

جیمز نے ایک طویل سانس لی۔  مجھ سے پتہ پوچھا تو میں نے جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر دے دیا اور بولا، ’’ جیمز کسی بھی وقت میری ضرورت ہو تو بغیر ہچکچاہٹ کے مجھے فون کر دینا۔  آئیے میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دیتا ہوں۔  میری کار برابر کی گلی میں کھڑی ہے۔ ‘‘

’’شکریہ میں پیدل ہی جاؤں گا کیونکہ اس طرح میری ورزش بھی ہو جاتی ہے۔ ‘‘

گھر آنے پر دیکھا تو پوسٹ باکس میں کچھ لفافے پڑے تھے۔  میں نے کوربی ٹاؤن کے ایک اسکول میں ریاضی ڈیپارٹمنٹ کے صدر کے عہدے کے لیے انٹرویو دیا تھا۔  لفافہ کھولا تو پتہ چلا کہ میرا تقرر کر لیا گیا ہے۔  نئے اسکول کیلئے اپنی منظوری بھیج دی۔  جانے میں صرف ایک ہفتہ باقی تھا۔  جاتے ہوئے جیمز سے رخصت لینے کے لئے میں اس کے مکان پر گیا پر وہ وہاں نہیں تھا۔  پڑوسی سے پتہ لگا کہ وہ ہسپتال میں داخل ہے۔  اتنا وقت نہیں تھا کہ میں ہسپتال میں جا کر اس کا حال پوچھوں۔

ایک دن کی ملاقات شعور پر زیادہ دیر نہیں ٹکی۔  وقت کے ساتھ میں جیمز کو بالکل بھول گیا۔

وکیل کے خط کے مطابق میں مقر رہ وقت پر جیمز کے گھر میں پہنچ گیا.۔ ا سی دروازے پر گھنٹی کا بٹن دبایا، جہاں اب سے کوئی تیس سال پہلے جیمز سے ملے بغیر ہی لوٹنا پڑا تھا۔  آج بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔  تقریباً پینتالیس سال کے ایک شخص نے دروازہ کھولا۔

میں نے اپنا اور سیما کا تعارف کرایا تو وکیل نے بھی اپنا تعارف کرا کر ہمیں اندر لے جا کر لاؤنج میں ایک سوفے پر بیٹھا دیا، وہاں تین مرد اور ایک عورت پہلے ہی موجود تھے۔

مارٹن نے ہم سب کا تعارف کرایا۔  ایک شریف آدمی دی رائل سوسائٹی فار دی پریوینشن آف کریلٹی ٹو اینملس کی نمائندگی کر رہا تھا۔  دیگر تین ولیم وارن (جیمز وارن کا بیٹا)، اس کی بیوی جینی وارن اور جیمز کا پوتا جارج وارن تھے جو آسٹریلیا سے آئے تھے۔  بائیں جانب مختصر سے نرم گول گدے پر ایک بڑی پیاری سی کالے اور سفید رنگ کی بلی سمٹ کر سوئی ہوئی تھی، جس کا نام ’’ولما‘‘ بتایا گیا۔

مارٹن نے اپنی فائل سے وصیت کے کاغذ نکال کر پڑھنا شروع کئے۔  اپنی جائیداد کی تقسیم کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے جیمز نے اپنی سسکتی زندگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا۔

’’تقریباً چار دہائی پہلے میرے اپنے بیٹے ولیم اور اس کی بیوی جینی نے لندن چھوڑ کر مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔  میں فون پر اپنے پوتے اور ان دونوں کی آواز سننے کو ترس گیا۔  میں فون کرتا تو جلد ہی کسی بہانے سے کاٹ دیتے اور ایک دن اس فون نے خاموشی اختیار کر کے یہ سہارا بھی چھین لیا۔  کسی دوسری جگہ ٹرانسفر ہونے پر میرے بیٹے نے مجھے نئے ایڈریس یا ٹیلی فون نمبر کی اطلاع تک نہیں دی۔  میں اس تنہائی کی وجہ سے تڑپتا رہا۔  کوئی بات کرنے والا نہیں تھا۔  کون بات کرے گا، جب اپنا ہی خون سفید ہو گیا ہو۔

چھ سال تک زبان بغیر ہلے پڑی پڑی بے جان ہو گئی تھی کہ ایک دن ایک نا معلوم شخص راکیش ورما نے پارک میں اسے خاموش حالت میں دیکھا اور سمجھا۔  میرے اندر موجود خاموشی کو اس نامعلوم آدمی نے پہچانا۔  پر بدقسمتی یہ رہی کہ وہ بھی اپنی ذاتی وجوہات سے لندن سے دور چلے گئے۔ ‘‘

راکیش ورما کے ساتھ گزرا ایک دن میری تمام زندگی کا سرمایہ بن کر مجھے سکون دیتا رہا، پھر اس خوفناک تنہائی نے دھیرے دھیرے خوفناک شکل اختیار کر لی۔  عمر اور جسمانی بیماریوں کے علاوہ ذہنی ڈپریشن نے بھی مجھے گھیر لیا۔

اس لعنتی زندگی میں امید کی ایک لہر بن کر، میرے مکان کے باغیچے میں نہ جانے کہاں سے ایک بلی آ گئی۔  کون جانے اس کا مالک بھی ملک چھوڑ گیا ہو اور اسے بھی اس کے قسمت پر میری طرح ہی تنہا چھوڑ گیا ہو۔  بلی کو میں نے ایک نام دیا۔  ’’ولما‘‘

دو تین دنوں میں ہی ولما اور میں ایسے گھل مل گئے جیسے بچپن سے ہم دونوں ساتھ رہے ہوں، میں اسے اپنی کہانی سناتا ہے اور وہ میاؤں میاؤں کی زبان میں ہر بات کا جواب دیتی۔  مجھے ایسا لگتا جیسے میں ننھے جارج سے بات کر رہا ہوں۔

ایک دن وہ جب باہر گئی اور رات کو واپس نہیں لوٹی تو میں بہت رویا، ٹھیک اسی طرح جیسے جارج، ولیم اور جینی کو چھوڑنے کے بعد دل کے درد کو مٹانے کے لئے رویا تھا۔  میں رات بھر ولما کی راہ دیکھتا رہا۔  اگلے دن وہ واپس آ گئی۔  بس یہی فرق تھا ولما اور ولیم میں۔  وہ واپس نہیں لوٹا۔

ولما کے ساتھ رہنے سے میرے ذہنی حالت میں اتنی بہتری آئی جو اچھی سے اچھی ادویات سے نہیں آپا رہی تھی، اس نے مجھے ایک نئی زندگی دی۔  وہ کب کیا چاہتی ہے، میں ہر بات سمجھ لیتا تھا۔  یہ سب بیان سے باہر ہے، صرف احساس میں ہی آ سکتا ہے۔ ‘‘

ولیم، جینی اور جارج، تینوں کے چہروں کے اتار چڑھاؤ ان کے اندر موجود ندامت کو ظاہر کر رہے تھے۔  جیمز نے اپنی وصیت میں صاف طور پر کہا تھا کہ میری تمام پراپرٹی سے سارے ٹیکس اور ہر قسم کے اخراجات اور بل وغیرہ دینے کے بعد باقی بچی رقم کو اس طرح تقسیم کیا جائے۔

’’ مسٹر راکیش ورما، جن کا پرانا پتہ تھا، تیئس ریلے ڈرائیو، ویٹسٹون، لندن این ۲۰، کو دو ہزار پونڈ دیئے جائیں اور ان سے میری طرف سے عاجزی سے کہا جائے کہ یہ رقم ان کے اس ایک دن کی قیمت نہ سمجھی جائے، جس کی وجہ سے میرے زندگی کا معیار ہی بدل گیا تھا۔  ان انمول لمحات کی ادائیگی کی قدرت کسی کے بھی پاس نہ ہو گی۔  یہ چھوٹی سی رقم میرے جذبات کا اظہار بھر ہے۔ ‘‘

میرے مذکورہ بیان سے، واضح رہے کہ ولیم وارن، جینی وارن یا جارج وارن اس پراپرٹی کے مالک بننے کیلئے نا اہل ہیں۔ ‘‘

وکیل کہتے کہتے کچھ لمحات کے لئے رک گیا۔  ولیم، جینی اور جارج کی چہروں پر ایک کے بعد ایک رنگ آ جار ہا تھا۔  وہ کبھی آنکھیں نیچی کرتے ہوئے دانت پیستے تو کبھی اپنے سخت رویے پر توبہ کرتے۔

ولیم اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا اور کھڑے ہو کر سامنے رکھی میز پر زور سے ہاتھ مار کر جانے کے لئے کھڑا ہو گیا تو جینی نے اسے سمجھا بجھا کر بیٹھا لیا۔  وکیل نے دوبارہ وصیت پڑھنی شروع کی تو یہ جان کر سب حیران ہو گئے کہ بقیہ ساری پراپرٹی ولما بلی کے نام کر دی گئی تھی اور ساتھ ہی کہا گیا تھا کہ دی رائل سوسائٹی فار دی پریوینشن آف کریلٹی ٹو اینملس کو ولما کی باقی زندگی کے پالنے پوسنے کا حق دیا جائے اور اسی ادارے کو مینیجر مقرر کیا جائے۔  ساتھ ہی ایک فہرست تھی جس میں ولما کو جیمز کس طرح سے رکھتا تھا، اس کا پورا بیان تھا۔  آگے لکھا تھا۔

’’ ولما کے انتقال پر ایک یادگار بنائی جائے۔  اس کے بعد باقی رقم کو راہ بھٹکے ہوئے، ہراساں کئے جانے والے جانوروں کی حالت بہتر بنانے پر خرچ کیا جائے۔ ‘‘

میں نے مارٹن سے کہا، ’’اگر آپ اجازت دیں تو یہ دو ہزار پونڈ، جو وصیت کے مطابق جیمز وارن مجھے دے رہیں ہیں، اس رقم کو بھی ولما کی وصیت کی رقم میں ہی ملا دیں تو مجھے دلی خوشی مل جائے گی۔ ‘‘

وکیل نے کہا، ’’اس کو وصیت بنانے میں تھوڑی سی رکاوٹ آ سکتی ہے۔  ہاں اسی رقم کا ایک چیک اپنی مرضی سے دینا زیادہ مناسب رہے گا۔ ‘‘

آخر میں رسمی الفاظ کے ساتھ مارٹن نے وصیت بند کر کے بیگ میں رکھ لی۔  بلی جو اب بھی ساری کار روائی سے بے خبر سوئی ہوئی تھی، سوسائٹی کے نمائندے کو سونپ دی گئی۔  اس طرح وکیل کا بھی روزانہ ولما کی نگرانی کا بوجھ ختم ہو گیا۔  سب مکان سے باہر آ گئے۔

میں نے سیما سے کہا کہ میں تمہیں اس مکان پر لے جاتا ہوں جہاں شادی سے پہلے رہتا تھا۔  کار دس منٹ میں تیئس ریلے ڈرائیو کے سامنے پہنچ گئی۔  کار ایک طرف کھڑی کر کے اور نہ جانے کیوں بغیر سوچے سمجھے ہی مکان کی گھنٹی دبا دی۔  ایک انگریز بوڑھے نے چھوٹے سے کتے کے ساتھ دروازہ کھولا۔  کتے نے بھونکنا شروع کر دیا۔  میں نے اسے بتایا کہ تقریباً تیس سال پہلے میں اس مکان میں کرایہ دار تھا۔  بس ادھر سے گزر رہا تھا تو پرانی یاد آ گئی۔  اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہتا، بوڑھے نے بڑے روکھے پن سے کہنا شروع کر دیا۔

’’اگر تم اس مکان کو خریدنے کے خیال سے آئے ہو تو واپس چلے جاؤ۔  ان دیواروں میں کیری اور چارلس کی یادیں بسی ہوئی ہیں۔  چارلس کی ماں، میری بیوی تو مجھے کب کا چھوڑ گئی۔  چارلس امریکہ سے ایک دن ضرور آئے گا۔  ارے کہیں اس کا فون نہ آ جائے؟‘‘

اتنا کہتے ہوئے اس نے دروازہ بند کر لیا۔  اندر سے کتا اب بھی بھونک رہا تھا۔

سیما کی نظریں دروازے پر اٹکی ہوئی تھیں اور کہہ رہی تھیں، ’’ایک اور جیمز وارن۔ ‘‘

***

 

 

 

 

سائبان

زیبا رشید

 

 

’’صرف میں ہی جانتی ہوں کہ یہ گھر ایسا ہو گیا ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔  ہائے اماں تم مجھے اکیلا کیوں گئیں؟‘‘ وہ بڑبڑائی۔  اس کی نظریں آنسوؤں میں دھندلانے لگیں۔

ہاں اماں کی ہر بات میں مداخلت برداشت نہیں ہو تی تھی مجھے۔  ان کی عادت تھی کہ میرے کہیں آنے جانے میں، کھانا پکانے میں، گھر کے حساب کتاب میں، میرے ہر کام میں غلطی نکالنا، نکتہ چینی کرنا۔

’’وہ بچہ کیا مانگنے آیا؟ تیرا بھائی کیوں آیا؟ میکے میں روز روز فون کیوں کیا کرتی ہو؟ یہ بجلی کیا مفت آتی ہے جو دن بھر کمرے میں بلب جلائے رکھتی ہو؟ پانی گرانے کا حساب بھی ہے؟ سبزی میں اتنا تیل کیوں ڈالتی ہو؟ ‘‘۔۔ ۔۔  اور میں جل کر رہ جاتی تھی۔

کیوں دوں میں ان کو بات بات پر صفائی۔  لیکن صفائی دینا میری مجبوری تھی۔  وہ میری ساس تھیں۔  بیٹے کو گھر آتے ہی مکمل رپورٹ دینا، جیسے ان کا بنیادی فرض تھا۔  ہر بات فر فر سناتیں، جیسے کوئی داستان ادھوری نہ رہ جائے اور میں ہاتھ ملتی رہ جاتی۔

صغرا بیگم دیکھنے میں دبلی پتلی، ہڈیوں کا ڈھانچہ تھیں۔  تن کی کمزور لیکن اندر سے مضبوط۔  کئی سال پہلے لگے آنکھوں کے لینس اتنے تیز تھے کے مجال ہے کہ فرش پر چلتی باریک سی چیونٹی بھی ان کی نظر سے بچ جائے۔  اماں ۷۸ سے کچھ اوپر ہی تھیں۔  سننے میں اونچا ہی سنتی تھیں، لیکن ہر بات میں بال کی کھال نکالنے میں ماہر تھیں۔

وسیم اور سمیرا کی شادی اماں کی پسند سے ہوئی تھی۔  گھر میں دیور، نند کا کوئی جھنجھٹ نہیں تھا۔ پر سمیرا کو کیا پتہ تھا کہ فقط ایک ساس کا رشتہ ہی سب رشتوں سے بھاری پڑ جائے گا۔

’’بچے اسکول سے آنے والے ہیں۔  میرے بچے بھوکے رہیں گے کیا؟‘‘ اماں جی زور سے چیخیں۔

واہ اماں یہ بچے میرے تو کچھ لگتے ہی نہیں؟ مجھے تو کوئی فکر نہیں ہے؟ آج کپڑے دھونے میں تھوڑی دیر کیا ہو گئی۔  ان کے بچے بھوکے مریں گے

’’ آئیں گے تب گرم روٹی سینک دوں گی۔ ‘‘ اس نے زور سے جواب دیا۔  پھر آہستہ سے بولی، ’’جانتی ہوں بھوک کے معاملے میں خود کچی ہیں اور سنایا جا رہا ہے بچوں کے نام سے۔ ‘‘

صغرا بیگم بولیں، ’’آج کھانا نہیں پکے گا کیا گھر میں؟ یا پھر ٹی وی میں دیکھ دیکھ کر ہوٹل سے کھانا منگوانے کی عادت پڑ گئی ہے۔  آگ لگے ان موئے ٹی وی والوں کو گھر بیٹھی بہو بیٹیاں بگاڑ رہے ہیں۔  انہیں ہوٹلوں سے کھانا منگوانے کی عادت ڈال رہے ہیں۔ ‘‘

کچھ دن پہلے سمیرا کو بخار تھا۔  وسیم رات کا کھانا بازار سے لے آیا تھا۔  سنایا ابھی تک جا رہا ہے۔

اچانک اماں نے واشنگ مشین کے پاس سرف کی تھیلی زمین پر پڑی دیکھ لی۔  سرف کی تھیلی ہاتھ میں اٹھائے سوالیہ نشان بنی، کھڑی ہو گئیں۔

’’ذرا بھی قدر نہیں ہے میرے بچے کی کمائی کی۔  دیکھو صابن اور پانی دونوں بہائے جا رہے ہے۔ ‘‘

’’اماں کام والی نے چھوڑ دی ہو گی۔  ابھی میں اٹھانے ہی والی تھی۔ ‘‘

’’ارے اُس کا تو یہ گھر نہیں ہے۔  لیکن تیرے میاں کی کمائی تو برباد ہو رہی ہے اور تجھے افسوس نہیں؟ بھئی حد ہے لاپرواہی کی۔ ‘‘

’’قطرے قطرے سے سمندر بنتا ہے بہو۔  یہی دس بیس روپے بھی کم خرچ کرو تو تھوڑی بچت ہو گی. ہم نے بچوں کے لئے بچایا ہے۔  تم کیا بچاؤ گی۔ ‘‘ اماں نے طعنہ دیا۔

’’بے چارہ میرا بیٹا کما کما کر پریشان۔  ادھر بی بی پوری تنخواہ ہی روز کپڑے دھو دھو کر پانی میں بہا رہی ہیں۔  کتنا سرف صابن آتا ہے۔  ہم بھی تو کپڑے دھوتے تھے۔ مگر ہفتے کے ہفتے۔ ‘‘

آٹھ سال کا مونٹو ذرا زیادہ دیر تک باہر کھیلتا رہ جاتا یا کبھی دس سال کی نیلوفر دیر تک سوتی رہ جاتی تو اماں شروع ہو جاتیں۔

’’اری ہمارا خیال تجھے نہیں ہے۔  پر اولاد تو تیری اپنی ہے، ان کی عادتیں تو مت بگاڑ۔  لڑکی ہے لڑکی کی طرح پال۔  یاد رکھ اسے دوسرے گھر جانا ہے۔ ‘‘

’’اماں ابھی یہ چھوٹی بچی ہے۔  اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔  وقت آنے پر سمجھ آ جائے گی۔ ‘‘

’’ ہاں کیوں نہیں۔  جیسی تمہیں سمجھ آئی ہے۔  اللہ کے گھر جب تمیز بٹ رہی تھی تو تم گلیوں کی سیر کرنے نکلی ہوئی تھیں۔  میں ہی تمہارے پیچھے پڑی رہتی ہوں۔  کیا کروں بہو، بیٹے کا درد آتا ہے۔  بڑی مشکل سے کما کر لاتا ہے۔  تمہیں نہیں کہوں تو ایک دن میں ہی تنخواہ اڑا دو گی۔ ‘‘ اماں کا ریکارڈ اب بیٹے کی طرفداری میں بجنے لگا۔

اماں کی چھوٹی بہن خاتون خالہ جے پور سے آئی ہوئی تھیں۔  وہ بھی کچھ کم نہیں تھیں۔

’’اری آپا تمہارے کمرے میں آلتو فالتو سب سامان بھر دیا ہے۔  اس گھر کی مالکن کوا سٹور روم میں رکھتے ہیں؟ میرا دل کرتا ہے کہ بیٹا بہو کی اچھی خبر لوں۔  تو کیا تم بھی گھر فالتو سامان ہو گئی۔  تمہاری دنیا اس کمرے میں بسا دی گئی۔  اسے لائیں تب تمہارے روم روم سے خوشی چھلک رہی تھی۔ کہ اپنی پیاری بہو لائی ہوں۔  آج اسی ساس کے ساتھ ایسا برتاؤ؟ اتنا بے حسی کا رویہ دیکھ کر میرا دل غم سے چھٹپٹا گیا ہے۔ ‘‘

ماضی کی پرچھائیاں من کے آنگن میں اتر آئیں تھیں۔  صغرا اور اس کے شوہر نے شہر کی بھیڑ سے الگ تھلگ، اس پوش کالونی میں گھر بنایا تھا۔  اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ جو سب سے اچھا کمرہ ہوتا ہے، وہ اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔  ماں کے انتقال یا باپ کے ریٹائرڈ ہوتے ہی یا بیٹے کے ہاتھ گھر کی باگ ڈور آتے ہی بیٹے بہو اسی کمرے کو سب سے پہلے ہتھیا لیتے ہیں۔  بہانے تو سو مل جاتے ہیں۔

باپ کی برسی کے اگلے دن وسیم بولا، ’’اماں دیکھو پاپا کہ برسی میں نے کتنے شاندار ڈھنگ سے کری ہے۔ سب تعریف کر رہے ہیں۔ ‘‘

صغرا بیگم بولیں، ’’بیٹا ایسا ہوتا آیا ہے، اگرچہ جیتے جی ہم اپنے ماں باپ کو نہ پوچھیں۔  مگر مرنے کے بعد اپنی ساکھ بنانے کے لئے، ان کی برسی دھوم دھام سے مناتے ہیں، نام ہوتا ہے نا۔ ‘‘

’’ایسا کیوں کہتی ہیں آپ؟‘‘

خاتون خالہ بولیں، ’’اپنی ماں کا کتنا خیال رکھتے ہو؟ سچ تو یہ ہے کہ انہیں احساس کرا رہے ہو کہ تمہاری ہمیں اب ضرورت نہیں۔  آپ بوجھ لگ رہی ہیں۔  کاش تم کیا سمجھ پاتے کہ ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کے لئے بیکار کے دکھاوے کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ جیتے جی ان کی خدمت کی جائے۔  آج اپنی ماں کو نظر انداز کر رہے ہو۔  کل تمہارا بیٹا یہی سلوک کرے گا۔  یہی فطرت کا قانون ہے۔ ‘‘ خاتون خالہ نے کہا۔  ’’نادان ہیں ہم لوگ جو ان لوگوں کی قدر نہیں کرتے، ارے یہ تو وہ درخت ہیں جن کی چھاؤں میں بچپن گزرا، پلے بڑے ہوئے۔  ماں اولاد کے مفاد کے لئے ہر لمحے سوچتی ہے کہ کس طرح ان کا فائدہ کروں؟ اور اولاد؟ ماں کا اپنی گرہستی میں غیر ضروری دخل، مداخلت سمجھا جاتا ہے۔ ‘‘

جس آنگن میں کبھی خوشی کے پھول کھلتے تھے۔  اب وہ جگہ گلے شکووں کا گھر بن جاتا ہے۔

بیٹے کی نوکری دوسرے شہر میں تھی۔  بیٹے کی یاد ستاتی تو ماں فون کرتی، ’’ارے ہمیں بھی وہاں لے جا، تیری جدائی میں میری ہڈیاں گل رہی ہیں۔ ‘‘

’’وہاں جانے سے خرچ بڑھ جائے گا۔ ‘‘ سمیرا سمجھاتی۔

’’تیری بھابھیاں بھی تو کم خرچ میں گھر چلا رہی ہیں۔ ‘‘

’’کہیں سے کہیں بات لے جاتی ہیں۔  اماں نے پتہ نہیں جوانی میں نجانے کتنے بادام پستے کھائے ہوں گے۔  طعنے بازی میں کتنی لمبی دوڑ لگا لیتی ہیں۔ ‘‘ من ہی من وہ بولی۔

’’اماں اپنے شہر کے باہر بچوں کے اسکول کے دس اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ ‘‘

’’سب خرچہ تو تیرا ہے۔ ‘‘

’’اچھا آپ جو ہر پھیری والے کی آواز پر کہتی ہیں کہ ان بچوں کو آئس کریم دلا دو، چاٹ لے کر دو، یہ سب میرا خرچہ ہے؟‘‘ سمیرا دردناک لہجے میں کہتی۔

’’تم نے ہی تو ان کی عادتیں بگاڑی ہیں۔ کہتی رہتی ہو کہ پڑھو تو پزا دوں گی، سبق یاد کرو گے تو دو آئس کریمیں ملیں گی۔  عادتیں تو خود بگاڑ دیں۔  اب بچوں کا قصور گنوانے بیٹھتی ہو۔  سچی باتیں کڑوی لگتی ہیں بہو۔ ‘‘

عجیب سی سچویشن تھی۔  اماں پر تو ہر وقت کسی نہ کسی بات کا دورہ پڑتا ہے۔

جواب تو میں بھی دینا خوب جانتی ہوں۔  لیکن اماں اونچا سنتی ہیں۔  وہ کم سنیں گی۔  ان سے زیادہ پڑوسی سنیں گے۔  ویسے اتنی سچی تو میں بھی نہیں ہوں کہ خاموشی سے سن لوں۔  ان کے کمرے میں جا کر آہستہ آہستہ جواب دے کر اکسانا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔  پھر تو دن بھر کا ریکارڈ چالو۔

پڑوسن نجمہ بھی کبھی ٹماٹر، کبھی چائے، لہسن پیاز کچھ بھی بے جھجک مانگنے آ جاتی۔

’’ا ری اس کو بازار کا راستہ بتا۔  میرا بیٹا پردیس بھگت رہا ہے اور یہ بہو بیگم غیروں کو لٹا رہی ہیں۔ ‘‘

اماں پورے گھر میں نظر رکھتی ہیں، ’’یہاں پنکھا کیوں چل رہا ہے؟ کمرے میں کوئی نہیں ہے تو لائٹ کیوں جلتی چھوڑ دی؟ ٹی وی چلے گا، پنکھا چلے گا، کپڑے مشین سے دھلیں گے۔  یہاں تک کے چٹنی، مسالا بھی بجلی خرچ کر کے ہی پیسے جائیں گے۔  ہزاروں کا بل آتا ہے پر یہاں کسے پرواہ۔ ‘‘

آج دو ماہ ہو گئے۔  اچانک اماں کی طبیعت خراب ہوئی اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔  وسیم واپس نوکری کے لئے روانہ ہو گئے۔  پہلی رات ہی گھر کا سوناپن ڈرانے لگا۔  عجیب سی خاموشی ارد گرد چھا گئی۔  ایسا لگتا ہے کہ اماں کی موجودگی میں ایک حفاظت کا احساس تھا۔  ان کے اٹھنے، بیٹھنے، کھانسنے کی آوازوں سے ڈھارس بنا رہتا اور اب ایک خوف سا پیدا ہو گیا۔  اس نے خوف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔  پوری رات نیند نہیں آئی۔

رات دیر سے سونے کی وجہ سے آنکھ پورے سات بجے کھلی، بچوں کے اسکول کی بس نکل چکی تھی۔

اماں صبح نماز پڑھنے جلدی اٹھتی تھیں۔  اسے بھی اٹھا دیتی تھیں۔  لیکن اب آئے دن اس طرح کے نئے نئے سلسلوں نے پریشان کرنا شروع کر دیا۔  کبھی بچوں کا ٹفن چھوٹ جاتا تو کبھی بس۔

ان دو مہینوں میں اماں کی یاد قدم قدم پر آنے لگی۔

اماں کے ڈر سے کام والی بائی برتن صاف کرنے میں چار ٹکیاں وم کی خرچ کرتی تھی اب چھ بھی کم پڑتی ہیں۔  چھٹی تو جب چاہے کرنے لگی ہے۔

اماں کا ڈر تھا یا کیا تھا۔  دھوبی نے کبھی کپڑے نہیں کھوئے۔  لیکن اب کبھی وسیم کی شرٹ تو کبھی نیلوفر کی فراک نہیں ملتی ہے۔

’’ہائے اماں۔۔  یہ کیا ہو رہا ہے۔ ‘‘ اس کے منہ سے نکلتا۔

’’ ہائے اماں کیسی جادو کی چھڑی تھی آپ کے پاس؟ آپ کے ڈر سے نجمہ کبھی کبھار آتی تھی، پر اب تو اس کے چکر بڑھ گئے ہیں۔  چیزیں دے دے کر مہینے کا حساب ہی بگڑ جاتا ہے۔ ‘‘ وہ بڑبڑائی۔

’’ہائے اماں تم سچ کہتی تھیں۔  صرف تمہاری دخل اندازی سے ہی ہر چیز اتنی کنٹرول میں رہتی تھی۔ ‘‘

دروازہ کھولا تو دیکھا چچا کا بیٹا شفیق تھا۔

’’بیٹھیے۔  میں چائے لاتی ہوں۔ ‘‘

’’ارے ابھی تو آیا ہوں بیٹھو نا۔ ‘‘ اس نے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔  وہ ہاتھ چھڑا کر اندر چلی گئی۔  اس کی سانسیں غصے سے بڑھ گئیں۔

’’مجھے اکیلے دیکھ کر اس کی اتنی ہمت بڑھ گئی؟‘‘ اس نے پڑوسن کو فون کر کے بلا لیا۔  اسے دیکھ کر وہ کام یاد آنے کا بہانہ کر کے چلا گیا۔

’’ ہائے اماں آپ کی موجودگی میں کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔  مجھے گندی نظر سے دیکھنے کی۔ ‘‘

سچ ہے کہ دیکھنے میں کمزور وجود سا ہوتا ہے، لیکن بزرگ اصل میں ایک طاقت ہوتے ہیں۔ وہ اب چاروں طرف کی پریشانیوں میں گھرنے لگی۔  جو بجلی کا بل چار ہزار آتا تھا اب چھ ہزار ہو گیا، کریانہ کا سامان دو ہزار کی جگہ تین ہزار کا ہو گیا۔

’’ ہائے اماں آپ کیوں چلی گئیں؟ ہاں میں پہلے آپ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی دعا کرتی تھی۔  مجھے آپ کا ہر بات میں ٹوکنا اچھا نہیں لگتا تھا۔  لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ آپ کی ہر بات میرے لئے ڈھال کا کام کرتی تھی۔

سچ ہے ہر گھر میں بزرگ ہونے چاہئے۔  خاندان سے بزرگوں کو بے غرض محبت ہو جاتی ہے۔  لیکن ہر نئی نسل سوچتی ہے کہ ہم صحیح ہیں وہ غلط ہیں۔  وہ صوفے پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔  اماں آپ تو میرے لئے سائبان تھیں۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل