FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ہر تصویر ادھوری ہے

 

 

 

(مکمل، اردو لائبریری ڈاٹ آرگ کی ’برقی کتابیں‘ کی فائل پر اضافے اور درستی کے ساتھ)

               مہتاب حیدر نقوی

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

جو ہم نے خواب دیکھے ہیں دولت اسی کی ہے

تنہائی کہہ رہی ہے رفاقت اسی کی ہے

 

کب کوئی شہر شب کی حدیں پار کر سکا

یوں مفت جان کھونے کی عادت اسی کی ہے

 

کارِ جنوں میں اپنا کوئی دخل ہی نہیں

صحرا اسی کا اور یہ وحشت اسی کی ہے

 

نظارہ درمیان رہے، رت جگا کریں

قامت اسی کا اور قیامت اسی کی ہے

 

ہم بھی اداس رات کے پہلو میں ہیں مگر

ٹھہری شب فراق جو ساعت اسی کی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

باب رحمت کے منارے کی طرف دیکھتے ہیں

دیر سے ایک ہی تارے کی طرف دیکھتے ہیں

 

جس سے روشن ہے جہانِ دل و جاں چاروں  سمت

سب اسی نور کے دھارے کی طرف دیکھتے ہیں

 

رخ سے پردہ جو اٹھے وصل کی صورت بن جائے

سب ترے ہجر کے مارے کی طرف دیکھتے ہیں

 

موج زن ایک سمندر ہے بلا کا جس میں

ڈوبنے والے کنارے کی طرف دیکھتے ہیں

 

آنے والے ترے آنے میں ہے کیا دیر کہ لوگ

کس و نا کس کے سہارے کی طرف دیکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یاد محل کے ویرانے میں باقی بھی اب کیا ہوگا

دیکھیں ان آنکھوں کے آگے اب کس کا چہرہ ہوگا

 

دور بہت دریا سے جس کو خیمے نصب کرانے ہیں

اس کو پہلے اپنے آپ کے لشکر سے لڑنا ہوگا

 

اس کے نام سے جلنے لگے ہیں دیکھو کن یادوں کے چراغ

تنہائی کے منظر میں کچھ دیر ابھی رہنا ہوگا

 

ہجرت کا دستور یہی ہے گھر چھوڑو تو رات گئے

ورنہ ان آنکھوں کو دہلیزوں میں دفنانا ہوگا

 

اس کے رستے میں آگے پیچھے مہتاب کھڑے ہوں گے

یہی وقت ہے اس کے آنے کا دیکھو، آتا ہوگا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

زمیں کا خوف نہ ڈر آسمان کا ہوتا

تو اس سے کیا یہ زمانہ بدل گیا ہوتا

 

اگر کمان سے سارے نکل گئے تھے تیر

تو پھر نہ کوئی نشانہ خطا ہوا ہوتا

 

ان آندھیوں کا بھروسہ نہیں کہاں لے جائیں

کوئی تو راستہ اپنا بنا لیا ہوتا

 

میرے جنوں کا مداوا تو خیر کیا ہوتا

تمہارا فرض تو سر سے ا تر گیا ہوتا

 

کہوں زباں سے بھی اے میرے دوست آشفتہ٭

جو تم نہ ہوتے تو میں کب کا مر گیا ہوتا

٭٭٭

٭آشفتہ چنگیزی، مفقود الخبر شاعر

 

 

 

 

 

 

کسی گھر میں،نہ ماہ وسال میں، موسم میں رہتے ہیں

کہ ہم ہجر و وصال یار کے عالم میں رہتے ہیں

 

وہی گل گوں قبائے یار ہے نظارۂ حیرت

اسی نا مہرباں کے گیسوئے  پر خم میں رہتے ہیں

 

وہی پیاسی زمیں ہے حلقۂ زنجیر کی صورت

وہی ایک آسماں جس کے تلے شبنم میں رہتے ہیں

 

ہمیں یہ رنگ و بو کی بات اب اچھی نہیں لگتی

برا کیا ہے جو ہم اپنی ہی چشمِ نم میں رہتے ہیں

 

گزر ہی جائے گی عمر رواں آہستہ آہستہ

اگرچہ علم ہے، ہم اک دم بیدم میں رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اسے سنائیں کہ خود ہی سنے ترانۂ دل

ہمیں تو یاد رہے گا سدا زمانۂ دل

 

لگا رہے ہیں مضامین نو کے جو انبار

چلا رہے تھے یہی لوگ کار خانۂ دل

 

جو پوچھنا ہے غزالان شہر سے پوچھو

خطا ہوا نہ کسی سے کبھی نشانۂ دل

 

کسی کے نغمۂ آشفتگی سے شور انگیز

یہی خرابہ جو پہلے کبھی تھا خانۂ دل

 

ہمیشہ دانہ و  در پر نگاہ تھی لیکن

تمام ہی نہیں ہوتا تھا شاخسانۂ دل

 

کوئی دعا، کوئی سجدہ،کوئی جنوں، کوئی شوق

فراق یار میں کب سے ہے آستانۂ دل

 

یہی کہ ہوتے رہیں پھر نئے جہاں آباد

یہی کہ سنتے سناتے رہیں فسانۂ دل

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جب بھی اس سے حال دل کہہ آئے ہیں

واپس آ کر ہم کتنا پچھتائے ہیں

 

تیرا چہرہ بالکل یاد نہیں آتا

بیچ میں جانے کیسے کیسے سائے ہیں

 

تو اپنی راہوں کی مسافت کم کر دے

تیری آہٹ کی ہم آس لگائے ہیں

 

تھک کر واپس آنے کی جب بات چلی

سب سے پہلے ہم گھر واپس آئے ہیں

 

کتنی راتیں جاگتی آنکھوں سے کاٹیں

راز مگر خوابوں کے سمجھ نہ پائے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اپنی آنکھوں سے ترا چہرہ ہمیشہ دیکھوں

تیری آنکھوں سے مگر سارا زمانہ دیکھوں

 

کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے کہ منظر ہیں بہت

تاب نظارہ ملے مجھ کو تو کیا کیا دیکھوں

 

دور تک راہ میں اب کوئی نہیں، کوئی نہیں

کب تلک بچھڑے ہوئے لوگوں کا رستہ دیکھوں

 

آنکھ باہر کسی منظر پہ ٹھہرتی ہی نہیں

گھر میں آؤں تو وہی حال پرانا دیکھوں

 

رات تو اس کے تصور میں گزر جاتی ہے

کوئی صورت ہو کہ میں دن بھی گزرتا دیکھوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

معلوم ہے تاریکی شب کم نہیں ہوگی

سو آنکھ ہماری بھی کبھی نم نہیں ہوگی

 

جب اس نے جلائی ہے ،تو یہ شمع جلی ہے

اب روشنی اس کی کبھی مدھم نہیں ہوگی

 

پھر وصل کے اسباب بھی بنتے ہی رہیں گے

پھر ہجر کی مدت بھی مگر کم نہیں ہوگی

 

جب یاد رہے گا کسی دیوار کا سایہ

سو دھوپ کی شدت بھی کبھی کم نہیں ہوگی

 

کیا دیکھتا رہتا ہے، ان آنکھوں میں کہ اب کے

برسات کوئی دم، مرے ہمدم نہیں ہوگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ زمیں وہ آسماں ایسا نہ تھا

اس طرح دریا کبھی بہتا نہ تھا

 

زخم بھی اتنے ہرے پہلے نہ تھے

یہ چمن گل رنگ بھی ایسا نہ تھا

 

سر برہنہ سورجوں کے بیچ تھے

یوں خیالِ یار بے سایا نہ تھا

 

اک ستارہ دل میں روشن تھا مگر

آنکھ نے اس کو کبھی دیکھا نہ تھا

 

اس طرف ہی دیکھتا رہتا تھا میں

وہ دریچہ دیر تک کھلتا نہ تھا

 

ایک ہی صحرا کے باسی تھے سبھی

کوئی اپنا، کوئی بیگانہ نہ تھا

 

ہر طرف تاریک تھی دنیا مگر

اک چراغ دل کبھی بجھتا نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مثال صحرا اداس آنکھیں

ہیں کس قدر بے لباس آنکھیں

 

اسی کے حصے میں حیرتیں ہیں

ہیں جس قدر جس کے پاس آنکھیں

 

اداسیوں سے بھرے بدن میں

مہکتے خوابوں کی آس آنکھیں

 

ہم اپنا چہرہ بھی ڈھونڈ لیں گے

ابھی تو ہیں اس کے پاس آنکھیں

 

کسی کی آمد کی منتظر ہیں

بچھی ہوئی آس پاس آنکھیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیکھنا ہو تو بلندی پہ پہنچ کر دیکھو

چارسو چھائے ہوئے شہر کے منظر دیکھو

 

گھر میں بیٹھو تو کئی سائے پریشان کریں

اور نکلو تو کڑی دھوپ کو سر پر دیکھو

 

گوش اگر ہیں تو سنوں دل کے دھڑکنے کی صدا

جوئے خوں چشم تیر سے بہا کر دیکھو

 

روشنی اس کے خیالوں میں کچھ ایسی ہے کہ بس

دھیان آئے تو ہر اک راہ منور دیکھو

 

چھوڑ آئے تھے جنہیں اگلے زمانے میں کبھی

موسم گل میں سبھی چہرے برابر دیکھو

 

ہم نے کیا صرف کیا خون جگر شربوں میں

ہم سے بہتر نہیں کوئی بھی سخن ور دیکھو

٭٭٭

 

 

 

 

 

کس و نا کس ہیں یہاں دست طلب کے آگے

سر پندار جھکا جاتا ہے سب کے آگے

 

مجھ سے وابستہ ازل سے ہے کوئی موج سراب

کب سے میں تشنہ دہن ہوں ترے لب کے آگے

 

اپنے سورج کے بھلا کس کے مقابل رکھیے

ماند پڑ جاتے ہیں سب تاب کے تب کے آگے

 

آج بھی ہوں میں اسی گریۂ شب میں محصور

جن کو جانا تھا وہ سب جا چکے کب کے آگے

 

بس اسی واسطے روشن ہے یہ  غم خانۂ دل

اک سحر بھی ہے کہیں ہجر کی شب کے آگے

 

اور کیا دولت پرویز ملے گی تجھ کو

ہیچ ہے دولت کل شرا و ادب کے آگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آئینہ بھی اب دیکھ کے حیراں نہیں ہوتے

یہ لوگ کسی طور پریشاں نہیں ہوتے

 

پلکوں کے لئے دھوپ کے ٹکڑوں کی دعا ہو

سائے کبھی خوابوں کے نگہباں نہیں ہوتے

 

ہم حرمتِ دامان قبا کے نہیں قائل

وحشت میں مگر چاک گریباں نہیں ہوتے

 

کہہ دو کہ یہی آخری ہجرت ہے ہماری

ہر شہر میں یوں صاحب ایماں نہیں ہوتے

 

ہوتے ہیں کئی کام محبت میں بھی ایسے

مشکل جو نہیں ہیں مگر آساں نہیں ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تجھ سے مل بیٹھیں ترا سودا کریں

اے شب ہجراں ! ترا ہم کیا کریں

 

یہ بگولا راہ سے ہٹ جائے پھر

تشنہ ان ہونٹوں کو اک دریا کریں

 

جی میں آتا ہے کبھی پچھلے پہر

ایسا کچھ ہو جائے بس رویا کریں

 

دوست تو سارے یہیں پر جمع ہیں

کس کی غیبت اور کسے رسوا کریں

 

ہے ہجوم آرزو مندی بہت

اب اسے کچھ دیر کو تنہا کریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یوں کارِ جہاں سے کبھی فرصت نہیں ہوگی

یہ سچ ہے کہ اب ہم سے محبت نہیں ہوگی

 

سب اپنی تمناؤں کے نرغے میں گھرے ہیں

ان میں سے کسی سے بھی بغاوت نہیں ہوگی

 

یہ تازہ ہوائیں تو پرندوں کے لئے ہیں

پر اونچی اڑانوں کی اجازت نہیں ہوگی

 

سب کچھ وہی ہوگا جسے ہم دیکھ چکے ہیں

پر دن سے سیہ رات کو نسبت نہیں ہوگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ایک طوفان کا سامان بنی ہے کوئی چیز

ایسا لگتا ہے کہیں چھو ٹ گئی ہے کوئی چیز

 

سب کو اک ساتھ بہائے لئے جاتا ہے یہ سیل

وہ تلاطم ہے کہ اچھی نہ بری ہے کوئی چیز

 

ایک میں کیا کہ مہ و سال اڑے جاتے ہیں

اے ہوا! تجھ کو زمانے میں بچی ہے کوئی چیز

 

عشق نے خود رخ گلنار کو بخشا ہے فروغ

ورنہ کب اپنے بنائے سے بنی ہے کوئی چیز

 

یعنی زخموں کے گلستاں پہ بہار آئی کبھی

یعنی میری بھی یہ آشفتہ سری ہے کوئی چیز

 

شاعری کیا ہے مجھے بھی نہیں معلوم مگر

لوگ کہتے ہیں کہ یہ دل کی لگی ہے کوئی چیز

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم بھلا کیسے خود اپنا ہی نشاں ڈھونڈیں بتاؤ

جسم سے باہر کہاں اپنی جاں ڈھونڈیں بتاؤ

 

تم تو اپنی روشنی میں ڈھونڈتے ہو گے کبھی

اپنی تاریکی  میں ہم تم کو کہاں ڈھونڈیں بتاؤ

 

ایک بے سمتی کا عالم ہے، کوئی تو ہو سراغ

یہ گلی وہ شہر یا سارا جہاں ڈھونڈیں بتاؤ

 

تم گزرتے تھے جہاں سے چھوڑ جاتے تھے نشاں

وہ نشاں تو ثبت ہیں دل پر کہاں ڈھونڈیں بتاؤ

 

تم  سدا موجود رہتے ہو ہمارے آس پاس

پھر بھلا تم کو کہاں اے جان جاں ڈھونڈیں بتاؤ

 

گر نہیں دیتے ہو تم اپنا ہمیں کوئی پتہ

ہم بھی اپنے واسطے شہر گماں ڈھونڈیں بتاؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

الفت میں تمناؤں کا سودا نہیں کرتے

سائے کی ضرورت ہو تو سایہ نہیں کرتے

 

کیوں غور سے سنتے ہیں سب آواز جرس کو

منزل کی طرف قافلے جایا نہیں کرتے

 

آنکھوں سے کہو کوئی نیا خواب نہ دیکھیں

پلکوں پہ بہت بوجھ اٹھایا نہیں کرتے

 

کم مایگی ذوق طلب ہم میں ہے ورنہ

پیاسے کبھی دریا پہ بھروسہ نہیں کرتے

 

وحشت کے سبق ہم کو سبھی یاد ہیں اب تک

جز عشق کوئی کام بھی سیدھا نہیں کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہجر کی منزل ہمیں اب تک پسند آئی نہیں

ہم اکیلے ہیں مگر ہمراہ تنہائی نہیں

 

ایک دن چھن جائے گا آنکھوں سے  سارا رنگ و نور

دیکھ لو ان کو کہ یہ منظر ہمیشائی نہیں

 

اک جنوں کے واسطے بستی کو وستک دی گئی

ایک وحشت کے لئے صحرا میں پہنائی نہیں

 

کون سے منظر کی تابانی اندھیرا کر گئی

ایسا کیا دیکھا کہ اب آنکھوں میں بینائی نہیں

 

جب کبھی فرصت ملے گی دیکھ لیں گے سارے خواب

خواب بھی اپنے ہیں یہ راتیں بھی ہرجائی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نہ اس گلی میں نہ اس رہگزر میں دیکھتے ہیں

اسے فسانۂ شام و شہر میں دیکھتے ہیں

 

وہ ایک خواب پرانا کہ جس کو ہم اکثر

کسی مفارقتِ تازہ تر میں دیکھتے ہیں

 

طویل شب کی سیاہی میں اک ستارۂ شوق

اسی کی زندگی مختصر میں دیکھتے ہیں

 

کبھی کبھی تو بہت ہی عجیب لگتا ہے

کہ لوگ اس کو جہان دگر میں دیکھتے ہیں

 

یہی کہ حوصلے سب پست ہوتے جاتے ہیں

یہی کہ اب اسے خواب و خبر میں دیکھتے ہیں

 

وہ خاک خاک کا پیوند ہو نہ جائے کہیں

سو ہم بھی اس کو فریب سحر میں دیکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آؤ یہ خاموشی توڑیں آئینے سے بات کریں

تھوڑی حیرت آنکھ میں بھر لیں، تھوڑی سی خیرات کریں

 

ہجر و وصال کے رنگ تھے جتنے تاریکی میں ڈوب گئے

تنہائی کے منظر میں اب کون سا کار حیات کریں

 

دیکھو! اس کے بعد آئے گی اور اندھیری کالی رات

دھوپ کے ان ٹکڑوں کو چن لیں جمع یہی ذرات کریں

 

پیاسوں کے جھرمٹ ہیں اور اتنا سوچ رہے ہیں ہم

آنکھوں کے اس بوجھل پن کو کیسے نہرِ فرات کریں

 

پانی پانی کہنے والے دریا دریا ڈوب گئے

کس منھ سے ساحل والوں سے تشنہ لبی کی بات کریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نشے میں سفر کے ایسا حال ہو گیا

دوڑتا رہا کہ بس نڈھال ہو گیا

 

ان کا ذکر کیا ہے جو کہ غیر سے ملے

میں بھی تو اسیر ماہ و سال ہو گیا

 

دوستوں کا ساتھ چھوٹنے سے کیا ہوا

اس قدر نڈھال ٹھا، نہال ہو گیا

 

دھوپ کی شدت سے اور کچھ نہیں ہوا

بس سفید سر کا بال، بال ہو گیا

 

ایسے لمحوں پر فدا ہوں جن میں اس کا حسن

قید کیا ہوا کہ لازوال ہو گیا

 

خشک مٹیوں میں بھی اگائی کیسی فصل

میرے دوست! میں بھی با کمال ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اور ہونا ہے ابھی بے سر و ساماں کتنا

رنج اٹھائے گا مگر اے دل ناداں کتنا

 

درد تو دل کی رفاقت کے لئے ہوتا ہے

بے سبب لوگ کیا کرتے ہیں درماں کتنا

 

حاکم شہر کو کچھ اس کی خبر ہے کہ نہیں

شہر کی حد میں در آیا ہے بیاباں کتنا

 

جو بھی ہونا ہے وہ سب ہو چکا، اب دیکھتے ہیں

کس کے حصے میں ہے زخموں کا گلستاں کتنا

 

اب کوئی دشت میں آئے تو یہی سوچ کے آئے

وحشت دل سے زیادہ ہے گریباں کتنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دشت میں بیٹھ کے گھر دیکھتے ہیں

ہم بھی اب اپنا ہنر دیکھتے ہیں

 

دیکھنے کے لئے دنیا ہے بہت

ہم ابھی تجھ کو مگر دیکھتے ہیں

 

ایک اک روز کا کرتے ہیں حساب

ایک اک شب کی سحر دیکھتے ہیں

 

بیٹھے بیٹھے ہی کٹی جاتی ہے عمر

سفررخت سفر دیکھتے ہیں

 

تیرے منظر تو وہی ہیں سارے

پھر بھی ہم بار دگر دیکھتے ہیں

 

دیکھنا ہے تو اسی کو دیکھیں

کیوں ادھر اور ادھر دیکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دھوپ کی وادی میں اپنی کون سا منظر نہیں

شہر و صحرا اب ہمارے ہیں مگر اک گھر نہیں

 

میں بھی شامل ہو رہا ہوں خواہشوں کی بھیڑ میں

میرے شانوں پر جو رکھا ہے وہ میرا سر نہیں

 

اے ہوا! میں چن رہا ہوں ریت کے ذرے ابھی

میری آنکھوں میں کوئی بھی خواب کا منظر نہیں

 

میری مٹی میں مری خوشبو ہے، میرا رنگ ہے

میں در و دیوار کی تہذیب سے باہر نہیں

 

پچھلی رت میں جو سرابوں کے سفر میں ساتھ تھے

اس برس اس دھوپ میں، یادوں کے وہ لشکر نہیں

 

فاصلوں کے رنگ گہرے ہیں کہ مٹتے ہی نہیں

اور مرے منظر فصیل جسم سے باہر نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم سفر کے واسطے پوری طرح تیار تھے

دور تک پھیلے ہوئے لیکن در و دیوار تھے

 

لوگ کہتے ہیں اسے پریاں اٹھا کر لے گئیں

وہ مرا ہم زاد جس کے کھیل بھی دشوار تھے

 

دھند میں لپٹی لکیروں سے بہت ڈرتے تھے ہم

غور سے دیکھا تو سارے راستے ہموار تھے

 

بے حسی نے سارے روشن نقش دھندلے کر دئیے

ورنہ کیا کیا مسئلے دل کے لئے آزار تھے

 

ایک مدت ہو گئی وہ خواب بھی دیکھے نہیں

اجنبی سی آہٹوں کے جن میں کچھ آثار تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اگر کوئی خلشِ جاوداں سلامت ہے

تو پھر جہاں میں یہ طرزِ فغاں سلامت ہے

 

ابھی تو بچھڑے ہوئے لوگ یاد آئیں گے

ابھی تو درد دل رائگاں سلامت ہے

 

اگرچہ اس کے نہ ہونے سے کچھ نہیں ہوتا

ہمارے سر پہ اگر آسماں سلامت ہے

 

ہمارے سینے کا یہ زخم بھر گیا ہے تو کیا

عدو کے تیر عدو کی کماں سلامت ہے

 

جہاں میں رنج سفر ہم بھی کھینچتے ہیں مگر

جو گم ہوا ہے وہی کارواں سلامت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ منظر دیکھ کے ہم کو پریشانی نہیں ہوتی

طبیعت  میں اگر تھوڑی سی نادانی نہیں ہوتی

 

یہ سب کار جنوں کار تمنا میں بدل جاتا

جو ان دشواریوں میں ایک آسانی نہیں ہوتی

 

ہمارے دن ہمارے واسطے اک بوجھ بن جاتے

اگر راتوں پہ خوابوں کی نگہبانی نہیں ہوتی

 

ادھر، اس پار سارا جسم غرق آب ہے لیکن

ادھر اس پار اب دریا میں طغیانی نہیں ہوتی

 

کس و نا کس کے آگے کیوں سر پندار جھکتا ہے

کبھی سجدوں سے تو خالی یہ پیشانی نہیں ہوتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمام مرحلے اس نام سے ہیں سر ہونا

کہ اس کے نام پہ لکھا ہے معتبر ہونا

 

وہ جس کی خاک مری پتلیوں میں چبھتی ہے

اسی زمین پہ لکھا ہوا ہے گھر ہونا

 

کسی کی آنکھ میں اترے ہیں خواب کے منظر

کہو ہوا سے کہ اس کو ہے تیز تر ہونا

 

تمہارے واسطے لکھا گیا ہے دنیا میں

تمہیں کسی کا اسے تیرا منتظر ہونا

 

مری زمین مرے ساتھ ساتھ چلتی ہے

وگرنہ میرے لئے تھا تو در بدر ہونا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اک روز بچھڑ جائیں گے دن سورجوں والے

پھر دن نہ کبھی آئیں گے خوش فہمیوں والے

 

ان پا سی زمینوں کی تمنائیں سوا ہیں

تم کون سے اس شہر میں ہو وحشتوں والے

 

تنہائی مری پوچھتی ہے مجھ سے کہ اے دوست

کس سمت گئے قافلے پرچھائیوں والے

 

یہ آنکھ مری ہو گئی مانوس جہاں سے

یا کھو گئے منظر وہ سبھی حیرتوں والے

 

میں اپنی تمناؤں کے نرغے سے گھرا ہوں

دے راستہ مجھ کو بھی کوئی راستوں والے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک پل میں دمِ گفتار سے لب تر ہو جائے

تجھ سے جو بات بھی کر لے وہ سخن ور ہو جائے

 

اب یہاں صرف پری چہرہ رہیں گے آ کر

اور کوئی ان کے علاوہ ہے تو باہر ہو جائے

 

ہو گیا رشتۂ جاں  پھر دل نادان کے ساتھ

اس سپاہی کی تمنا ہے کہ لشکر ہو جائے

 

اب کے ٹھہرائی ہے ہم نے بھی یہی شرط وفا

جو بھی اس شہر میں آئے وہ ستمگر ہو جائے

 

یعنی اے دیدۂ تر !تیری عنایت ہے کہ بس

ورنہ میدان سخن آج بھی بنجر ہو جائے

 

ہم نے آشوب کے عالم میں کہی ہے یہ غزل

سو یہ خواہش ہے کہ ہر شعر گل تر ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

حوصلہ اتنا ابی  یار نہیں کر پائے

خود کو رسوا سر بازار نہیں کر پائے

 

دل میں کرتے رہے دنیا کے سفر کا ساماں

گھر کی دہلیز مگر پار نہیں کر پائے

 

ہم کسی اور کے ہونے کی نفی کیا کرتے

اپنے ہونے پہ جب اصرار نہیں کر پائے

 

ساعتِ وصل تو قابو میں نہیں تھی لیکن

ہجر کی شب کا بھی  دیدار نہیں کر پائے

 

یہ تو آرائش ملف  کے لئے تھا ورنہ

علم و دانش کا ہم اظہار نہیں کر پائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بس ایک در پہ نظر آ کے رک گئی کیوں ہے

فریب خوردہ طبیعت میں بے حسی کیوں ہے

 

ہر ایک سمت سے دنیا بلا رہی ہے مجھے

ہر ایک موڑ پہ رستوں کی بھیڑ سی کیوں ہے

 

ڈرا رہے ہیں مجھے دور پاس کے منظر

مری زمین میرا ساتھ چھوڑتی کیوں ہے

 

نہ کوئی بات ہی ہوتی نہ مسئلہ ہوتا

قصوروار ہے یہ آنکھ دیکھتی کیوں ہے

 

وہی وصال کے موسم وہی بہار کے دن

خلوص یار میں پھر ان دنوں کمی کیوں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل کے بہلانے کو ساماں چاہئیے

میری وحشت کو بیاباں چاہئیے

 

ہجرتیں ہونی تھیں جتنی ہو چکیں

پاؤں میں زنجیر جاناں چاہئیے

 

خواب تو دیکھے ہیں آنکھوں نے بہت

پر کوئی ان کا نگہباں چاہئیے

 

اپنے ویرانے میں دم گھٹنے لگا

کوئی صورت کوئی امکاں چاہئیے

 

کاروبار عشق ہے مشکل بہت

مجھ کو کوئی کام آساں چاہئیے

٭٭٭

 

 

 

 

محوِ نظارۂ حیرت ہے ہوا پہلی بار

مجھ پہ دروازۂ مہتاب کھلا پہلی بار

 

اب نہ احسان کریں مجھ پہ یہ کالی راتیں

اس اندھیرے میں جلا کوئی دیا پہلی بار

 

اب دھنک رنگ بہت صاف نظر آتے ہیں

اپنے آئینے میں آئی ہے جلا پہلی بار

 

اک حقیقت نے کیا خواب سا جادو مجھ پر

اور میں دیر تلک سوتا رہا پہلی بار

 

اور پھر دستِ جنوں مجھ کو بہت یاد آیا

چاکِ داماں جو ابھی میں نے سیا پہلی بار

٭٭٭

 

 

 

 

 

خود کو جتنا وہ جمع کرتا ہے

اس سے بڑھ کر کہیں بکھرتا ہے

 

آنسوؤں کی جھڑی لگی ہے یہاں

کون اس باڑھ میں ٹھہرتا ہے

 

ہے حقیقت بھی دل فریب بہت

خواب کا سا گماں گزرتا ہے

 

آسمانوں سے جس کا ہو رشتہ

وہ زمینوں پہ کب اترتا ہے

 

جانے والے چلے گئے آخر

کون کس کے لئے ٹھہرتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

رنگ میں ڈوبی ہوئی، خوشبو بھری لگتی ہے دھوپ

تو اگر ہمرہ ہے تو چاندی بھری لگتی ہے دھوپ

 

ایک دن وہ تھا کہ تھی اس سے شناسائی بہت

آج تیرے شہر میں بھی اجنبی لگتی ہے دھوپ

 

سارے دروازے مقفل ہیں، سبھی راہیں خموش

سایۂ دیوار سے چپ کی لگتی ہے دھوپ

 

کیسی یہ آنکھیں ہیں، ان کے رنگ ہی کچھ اور ہیں

ان جھرونکوں سے کوئی دیکھے بھلی لگتی ہے دھوپ

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس بزم کے آداب سے انجان رہیں گے

پر ان کی ہر اک بات پر قربان رہیں گے

 

دنیا کے طریقے ہمیں اچھے نہیں لگتے

نادان اگر ہم ہیں تو نادان رہیں گے

 

کچھ اور بدل جائے گی اک روز یہ دنیا

کب تک ہم اسی بات پہ حیران رہیں گے

 

بس آنے ہی والے ہیں وہ اگلے زمانے

آباد گلی کوچے بھی سنسان رہیں گے

 

ہم کو بھی بھرم رکھنا ہے اب اہل جنوں کا

ہاتھوں میں ہمارے ہی گریبان رہیں گے

 

اک ایسا دن آئے گا کہ مر جائیں گے سب لوگ

چڑھتے ہوئے دریا میں نہ طوفان رہیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جینے کا حساب لکھ رہا ہوں

دریا کو سراب لکھ رہا ہوں

 

یہ شہر ہے کتنے سورجوں کا

چہرے پہ گلاب لکھ رہا ہوں

 

آنکھوں کے چراغ جل رہے ہیں

یادوں کا نصاب لکھ رہا ہوں

 

جیسے وہ اتر رہا ہے دل میں

الفت کی کتاب لکھ رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ دشت اور نہ گھر راس آ رہا ہے مجھے

نہ جانے کون سا منظر بلا رہا ہے مجھے

 

میں آ گیا ہوں بہت دور اپنے ساحل سے

کوئی قریب سے دریا دکھا رہا ہے مجھے

 

حصار تشنہ لبی سے ملے مفر کیسے

کہ سطحِ آب پہ کوئی بہا رہا ہے مجھے

 

خیال تک نہیں آتا کہ تجھ سے پہلے بھی

کسی سے اور کوئی واسطہ رہا ہے مجھے

 

نزولِ شب ہے یہاں خواب کے دریچوں میں

کہانیوں کا خدا یاد آ رہا ہے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس کی یادوں میں دن گزر جائیں

عمر یوں ہی تمام کر جائیں

 

دل یہ کہتا ہے ایک اور سفر

پاؤں کہتے ہیں اپنے گھر جائیں

 

وہ نہیں ہیں تو اب رہا کیا ہے

کیوں نہ دنیا سے اب مکر جائیں

 

یاد آتی ہے بچھڑے لوگوں کی

یہ شب و روز کچھ ٹھہر جائیں

 

راستہ، راستوں نے کاٹ دیا

کس کو آواز دیں کدھر جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

نہ کوئی سایہ، نہ صورت اداس رہتا ہوں

ترے خیال کے منظر میں بھی اکیلا ہوں

 

مسرتوں کے درختوں پہ پھول آتے تھے

متاع درد نہیں تھی خرید لایا ہوں

 

غریب شہر کو دیکھوں تو گھر نہ یاد آئے

وطن سے دور ہوں اب کے بہت اکیلا ہوں

 

مرے خدا مری وحشت میں کچھ کمی کر دے

رگ گلاب سے سنگ گراں اٹھاتا ہوں

 

میں تیرے نام سے روشن کروں گا شہر تمام

تیرے لئے میں حسیں   ماہتاب لایا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی کو کیا پڑی ہے یہ ضرورت کس کو ہوتی ہے

محبت کرنے والوں سے محبت کس کو ہوتی ہے

 

جو ہوتا ہے اسی پر غمزدہ یہ لوگ رہتے ہیں

جو ہوتا ہی نہیں اس کی شکایت کس کو ہوتی ہے

 

زمیں پر پاؤں رکھنے کی جگہ مل جائے پھر دیکھیں

جہاں میں  آسمانوں کی ضرورت کس کو ہوتی ہے

 

تمہیں معلوم ہے باغ تمنا کیسے پلتا ہے

اٹھائیں رنج پھر دیکھیں کہ راحت کس کو ملتی ہے

 

اگر کچھ دیر کو سارے حوالے ختم ہو جائیں

تو پھر یہ زندگی جینے کی حسرت کس کو ہوتی ہے

 

بہت آسان ہے جینا بہت آسان ہے مرنا

مگر معلوم ہے اتنی مہارت کس کو ہوتی ہے

 

کوئی تنکا ہی مل جائے تو پھر اس پار ہو جائیں

جو کہتے تھے سہارے کی ضرورت کس کو ہوتی ہے

 

خوشا وہ لوگ جو مصروف ہیں کار محبت میں

بھلا کارِ جہاں سے اتنی فرصت کس کو ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ دیکھو شام پھر سے آ رہی ہے

مری آنکھوں پہ بدلی چھا رہی ہے

 

ابھی تاریک ہو جائے گی دنیا

کہ سورج کی سواری آ رہی ہے

 

ادھر اس سمت اک خالی مکاں سے

صدائے  سازِ گریہ آ رہی ہے

 

کہیں عشق وہوس کچھ بھی نہیں ہے

کوئی صورت مگر بھرما رہی ہے

 

کہیں سوز نہانی بے اثر ہے

کہیں گرد ملالی چھا رہی ہے

 

کہا کرتے تھے جس کو شام سی شام

وہی اب شام غم کہلا رہی ہے

 

مگر کچھ دیر کی ہے شام فرقت

وصال یار کی شب آ رہی ہے

 

ابھی مہتاب آئے گا سر بام

ابھی اس کی کرن شرما رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ دن مری آنکھوں میں یہ طوفان رہے گا

پھر شہر رہے گا نہ بیابان رہے گا

 

یہ بوند لہو کی یوں ہی ہنگامہ کرے گی

آباد یوں ہی خانۂ  ویران رہے گا

 

کب غنچۂ امید کھلائے سے کھلا ہے

یہ خواب پریشان، پریشان رہے گا

 

اب وہ بھی بچھڑتا ہے، بچھڑ جائے، بلا سے

کچھ نفع کا سودا ہے جو نقصان رہے گا

 

اس تعب الفاظ پہ مہ تاب کی صورت

بلقیس سنع تیرا سلیمان رہے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ تجھ سے اور نہ دل زار سے الجھتا ہوں

مگر میں عشق کی بیگار سے الجھتا ہوں

 

کھڑا ہوا ہوں اسی رہگزر پہ برسوں سے

نہ تیرے در سے، نہ دیوار سے الجھتا ہوں

 

کبھی تو مول لگاتا ہوں اپنا بھی لیکن

کبھی میں گرمی بازار سے الجھتا ہوں

 

بڑے بڑوں کو بھی خاطر میں میں نہیں لاتا

کبھی تو اپنے ہی معیار سے الجھتا ہوں

 

میں روز روز غزل اس لئے نہیں کہتا

خیال خام کے اظہار سے الجھتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

جب سے ترے بدن کے گلاب آس پاس ہیں

لگتا ہے سب خزانۂ خواب آس پاس ہیں

 

جیسے دھلے دھلائے کھڑے ہوں حضور یار

دل آئنے کے چشمۂ آب آس پاس ہیں

 

اپنے خیال و خواب کے انبار کے تلے

خوش ہیں کہ سب ہمارے سراب آس پاس ہیں

 

اب بھی ہم اپنے آپ سے کچھ دور دور ہیں

اب بھی وہی سوال و جواب آس پاس ہیں

 

یا ہم ہی ہو گئے ہیں تہی دست ان دنوں

یا زندگی کے سارے حساب آس پاس ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

وہ بستیاں، وہ بام، وہ در کتنی دور ہیں

مہتاب، تیرے چاند نگر کتنی دور ہیں

 

وہ خواب جو غبار گماں میں نظر نہ آئے

وہ خواب تجھ سے دیدۂ تر کتنی دور ہے

 

بام خیال یار سے اترے تو یہ کھلا

ہم سے ہمارے سشام وسحر کتنی دور ہیں

 

اے آسمان ان کو جہاں ہونا چاہئیے

اس خاک سے یہ خاک بسر کتنی دور ہیں

 

بیٹھے بٹھائے دل کے سفر پر نکل تو آئے

لیکن وہ مہربان سرے کتنی دور ہیں

 

یہ بھی غزل تمام ہوئی، شام ہو چکی

افسون شاعری کے ہنر کتنی دور ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہزاروں ظلم ہم سہتے رہیں گے

تمنائے دلی سہتے رہیں گے

 

یوں ہی باقی رہے گی خشک سالی

یہ دریا بھی یوں ہی بہتے رہیں گے

 

مکان دل کئی خالی تھے لیکن

جہاں رہتے تھے ہم رہتے رہیں گے

 

نئی تعمیر ہو گی اور پرانے

در و دیوار بھی ڈھہتے رہیں گے

 

کوئی رُت ہو مگر آنکھوں سے آنسو

سدا بہتے ہیں، اور  بہتے رہیں گے

 

رہیں دائم ہمارے پڑھنے والے

غزل کے شعر ہم کہتے رہیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

گلی کوچے، محلے، شہر ویراں ہوتے رہتے ہیں

پس خواب تمنا ہم پشیماں ہوتے رہتے ہیں

 

لڑا کرتے تھے پہلے آسمانوں سے، زمینوں سے

اب اپنے آپ سے دست و گریباں ہوتے رہتے ہیں

 

کہیں بادِ خزانی بستیوں میں رقص کرتی ہے

کہیں آباد بھی شہر و بیاباں ہوتے رہتے ہیں

 

یہی تو زخم دل کی سرخروئی کا زمانہ ہے

اسی موسم میں یہ گل سے گلستاں ہوتے رہتے ہیں

 

ہمیں منظور ہے بس اس لیے دنیا سے یاری ہے

یہاں مہر و مہ و اختر درخشاں ہوتے رہتے ہیں

 

کہ جس کے نام سے یہ شاعری پروان چڑھتی ہے

اسی کے نام سے ہم بھی نمایا ںہوتے رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہونے کو میری جان یہاں کیا نہیں ہوا

پورا مگر یہ خواب تمنا نہیں ہوا

 

بس ایک غم ہے جس کو لئے پھر رہے ہیں ہم

بس ایک غم ہے جس کا مداوا نہیں ہوا

 

جیسے کہ اپنے آپ سے بیگانہ ہو گئے

جیسے کہ اپنے آپ سے ملنا نہیں ہوا

 

آتی ہے یاد اب بھی کسی کی کسی کے ساتھ

خوش ہوں کہ کوئی زخم پرانا نہیں ہوا

 

وہ جس کو جو بھی ہونا تھا ہوتے رہے مگر

پر یوں ہوا کہ اپنا ہی ہونا نہیں ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مطلب کے لئے ہیں نہ معانی کے لئے ہیں

یہ شعر  طبیعت کی روانی کے لئے ہیں

 

وہ چشم اگر سحر بیانی کے لئے ہے

یہ لب تو مری تشنہ دہانی کے لئے ہیں

 

جو میرے شب و روز میں شامل بھی نہیں تھے

کردار وہی میری کہانی کے لئے ہیں

 

یہ داغ محبت کی نشانی کے علاوہ

اے عشق تری مرثیہ خوانی کے لئے ہیں

 

آتی ہے سکوت سحر و شام کی آواز

دراصل تو ہم نقل مکانی کے لئے ہیں

 

جو رنگ گل و لالہ ونسریں سے تھے منسوب

وہ رنگ اب آشفتہ بیانی کے لئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

گئی دل سے یوں بیقراری گئی

کہ جیوں جان، تن سے ہماری گئی

 

جو تھا درد سینے سے غائب ہوا

جو چھائی تھی، وہ سوگواری گئی

 

چلی ایسی بادِ خزانی چلی

کہ موج ہوائے بہاری گئی

 

اسی ہار میں جیت کی بات ہے

سو بازی محبت کی ہاری گئی

 

ہے پیشہ سخن کا سمجھ سے پرے

رہی کچھ کہ عزت ہماری گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس کی پیشانی پہ بوسوں کے بھرم بڑھتے رہے

میرے سینے پہ ادھر جنگل کوئی اگتا  گیا

 

وہ محبت  بھی تری تھی، یہ عداوت بھی تری

درمیاں میں تھا کہ بس بیکار کا مارا گیا

 

اس کی آنکھیں، اس کے لب، اس کے بدن کا ہر خیال

دن بدن اس ذہن میں اس کا خلل بڑھتا گیا

 

یاد آتے ہیں مجھے وہ شہر وہ منظر سبھی

روشنی کے رقص میں سب کچھ مگر دھندلا گیا

 

ڈوبتے چہرے، اداسی کے بدن، بے رنگ و نور

یہ برس بھی ہجر کا دامن بہت پھیلا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

ہمیں تجھ سے محبت ہے ہمیں دنیا سے یاری ہے

یہ  دنیا بھی ہماری ہے وہ دنیا بھی ہماری ہے

 

ہم اہل درد ہیں، ہر وقت مصروف تمنا ہیں

ہمیں کو ہوشیاری ہے، ہمیں کو بیقراری ہے

 

جہاں کے کھیل میں سب ایک جسےا ہم کو لگتے ہیں

یہ بازی کس نے جیتی ہے یہ بازی کس نے ہاری ہے

 

کھلی آنکھوں سے دیکھو تو، یہ دنیا خوبصورت ہے

حسیں تو ہے، جواں ہم ہیں، کہاں کی سوگواری ہے

 

یہ سب سچ ہے مگر اہل وفا کے واسطے لوگو !

ازل سے یہ جہان رنگ و بو کچھ ہم کو بھاری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھ کو اس سمت کے منظر نظر آئیں گے کیا

آنسووؤں کی باڑھ سے یوں ہی گزر پائیں گے کیا

 

کر لیا محسوس خوابوں کے دریچے سے اسے

وہ تو خوشبو ہے، بھلا خوشبو کو چھو پائیں گے کیا

 

آسمانوں سے وہی آنے کا موسم ہے مگر

اس زمیں کے لوگ اتنا بوجھ سہہ پائیں گے کیا

 

آستینوں میں ہمارے بت ابھی محفوظ ہیں

ہم تو زندہ ہیں تو پھر ان سے مفر پائیں گے کیا

 

رات کے پہلو میں  رہ کر ہو گئے ان کے اسیر

چاند تارے اب بھلا دن میں نظر آئیں گے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر صورت پہچانی سی

لگتی ہے بیگانی سی

 

ہم تھے اور دیار عشق

جینے کی آسانی سی

 

ہلچل رہتی تھی دل میں

دریا کی طغیانی سی

 

اک تصویر اجالوں کی

نیلی، پیلی، دھانی سی

 

وہ صورت بھی بھول گئے

’گڑیا ایک جاپانی سی‘

 

لیکن اب بھی زندہ ہیں

ہوتی ہے حیرانی سی

 

برسوں بعد ملی کوئی

اک صورت انجانی سی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دیار شوق وحشت کا اب ساماں نہیں ہوگا

سمندر کے لئے اگلے برس طوفاں نہیں ہوگا

 

بہت مشکل پڑے گی کار دنیا سے سشاسائی

سفر جو پاؤں سے لپٹا ہے اب آساں نہیں ہوگا

 

فراق و وصل کی چادر پہ بوسوں کے نشاں ہوں گے

مقدس شب کی رخ تحریر کا عنواں نہیں ہو گا

 

اکیلا پھر رہا ہوں درد کی تاریک گلیوں میں

سنا کرتا تھا یہ کوچہ کبھی ویراں نہیں ہوگا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تم نے بھی میری جان بھلا کب کیا ہے عشق

ہم تو یوں ہی اداس رہے جب کیا ہے عشق

 

سب کو رہیں گی یاد یہی خوش بیانیاں

منہ سے ہمارے پھول جھڑے جب کیا ہے عشق

 

اب تک تو ہم سے لوگ کسی کام کے نہ تھے

اب کام مل گیا ہے میرے رب، کیا ہے عشق

 

پہلے تو تھیں ہر ایک سے شکوے شکایتیں

اب کیو ں رہے گا کوئی گلا، جب کیا ہے عشق

 

واعظ کو اعتراض اگر ہے تو ہونے دو

پہلے نہیں کیا تھا مگر اب کیا ہے عشق

٭٭٭

 

 

 

 

پہلے آہٹ کا سایہ محسوس کیا تھا سانسوں نے

پھر تیرا چہرہ محسوس کیا تھا میری آنکھوں نے

 

لوگوں نے جب پہلے پہل اس بستی کو آباد کیا

سب سے پہلے شور مچایا تھا شائد سناٹوں نے

 

کس کے حصے میں آئیں گے تشنہ لبی کے یہ لمحے

رخ دریا کے سمت کیا ہے دیکھو چند سواروں نے

 

میں اک حرف غلط تھا اپنی صوت و صدا سے بے بہرا

مجھ کو ہونے کا احساس دلایا تیری باتوں نے

 

تیری پیشانی پر لکھے کتنے لفظ محبت کے

تیرے چہرے پر مہتاب بنائے کتنے بوسوں نے

٭٭٭

 

 

 

 

اکیلے ہی ہمیں دنیا کے ہر منظر میں رہنا ہے

ابھی کچھ دن یونہی دیوار و بام و در میں رہنا ہے

 

نہ جانے کس ہوس کے خواب دکھلاتا ہے وہ مجھ کو

ابھی کچھ اور ہی سودا ہمارے سر میں رہنا ہے

 

ہماری خواہشیں اپنی جگہ پر سچ سہی  لیکن

وہ مورت ہے، اسے یوں ہی سدا پتھر میں رہنا ہے

 

بھلا معلوم ہے کس کو دلِ بیتاب کی منزل

کبھی اس در پہ رہنا ہے کبھی اس گھر میں رہنا ہے

 

بجز مشق ستم کچھ کام بھی اپنا نہیں شاید

سو اب تا عمر ہم کو بس اسی چکر میں رہنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

گر تجھ سے مجھے اتنی محبت نہیں ہوتی

یوں رنج اٹھانے میں بھی لذت نہیں ہوتی

 

کیوں وصل کے اسباب بنا کرتے ہیں ہر شب

کیوں ہجر کی پوری کبھی مدت نہیں ہوتی

 

اب اس کی کوئی بات بھی دل کو نہیں بھاتی

اب اس کی کسی بات میں شدت نہیں ہوتی

 

یہ دل ہے کہ جو ٹوٹ گیا، ٹوٹ گیا بس

شیشے کی کسی طور مرمت نہیں ہوتی

 

پھر کون تجھے مانتا یکتائے زمانہ

اشعار میں تیرے جو یہ جدت نہیں ہوتی

٭٭٭

 

 

 

 

بند دروں کو دستک دیں، کچھ لوگ بلائیں

رات رات بھر رونے کا ماحول بنائیں

 

نئے خیالوں کے دروازے بند ہوئے

اس کی باتیں پھر اس کی یادیں بن جائیں

 

اب تو اس خالی پن سے دم گھٹتا ہے

جلدی سے چھٹی ہو جائے، گھر جائیں

 

اب کے برس شہر دل میں سناٹا ہے

ہر دم کرتا رہتا ہے سائیں سائیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنی وحشت کا کچھ اندازہ لگایا جائے

پھر کسی شہر کو ویرانہ بنایا جائے

 

کب تلک صورت تصویر رہیں گے ہم لوگ

اس کی دیوار کا سر سے کبھی سایہ جائے

 

پہلے اس شوخ کو گمراہ کیا کرتے ہیں

پھر یہ کہتے ہیں اسے راہ پہ لایا جائے

 

عقل کہتی ہے کہ شانوں پہ یہ سر بھاری ہے

دل کی ضد ہے کہ یہی بوجھ اٹھایا جائے

 

پوچھتے رہیے یوں ہی اس کے جنوں کو سب سے

جو کبھی دشت و جبل میں نہ پایا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیرے جمال میں گم ہیں، تیرے خیال میں گم

ہمیں بھی دیکھتے رہتے ہیں کس کمال میں گم

 

کوئی کسی کی طرف دیکھتا نہیں ہے یہاں

ہوئی ہے خلق خدا اپنے ہی جمال میں گم

 

یہ درد دل کوئی کار جنوں نہیں کرتا

کہ ہو گیا ہے کسی ساعتِ جمال میں گم

 

ہمیں تو دور کی اب سوجھتی نہیں بھائی

کہ ہو گئے ہیں فقط ماضی اور حال میں گم

 

کوئی کہیں پہ بھی محفوظ اب نہیں شائد

سو لوگ ہو گئے تیغ سناں میں، ڈھال میں گم

٭٭٭

 

 

 

 

 

مہرباں آج مجھ پر ہوا کون ہے

تو نہیں ہے تو پھر یہ بتا کون ہے

 

اب بھی بیدار ہے میرا شہر ہوس

دل بیابان میں بولتا کون ہے

 

سب حکایات ماضی بھلا دی گئیں

تیرے غم کو مگر بھولتا کون ہے

 

اس کی صورت کی تمثیل ممکن نہیں

موج آب رواں آئینہ کون ہے

 

گا رہا ہے کوئی طائر خوش بیاں

سب بھلے ہیں یہاں پر، برا کون ہے

 

غم نہ کر جس کو جانا ہے، جائے گا وہ

دل جہاں میں ہمیشہ رہا کون ہے

 

وہ بھی خاموش ہیں، میں بھی خاموش ہوں

درمیاں آج پھر آ گیا کون ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دنیا سے نہ کچھ اس کی محبت سے ملا ہے

یہ رنج مجھے تیری عنایت سے ملا ہے

 

غم ہے تو اسی بات کا، اب غم نہیں کوئی

یہ زخم بھی غم خانۂ الفت سے ملا ہے

 

پہلے تو کسی نے کبھی پوچھا نہیں احوال

اب جو بھی ملا ہے وہ شرافت سے ملا ہے

 

اب کس کو بتائے گا بھلا راز کی باتیں

آئینہ جو اس شخص کی صورت سے ملا ہے

 

کچھ بھی نہیں ملتا تو نہ ہوتا کوئی افسوس

اب جو بھی ملا ہے مری قسمت سے ملا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اسے بھلائے ہوئے مجھ کو اک زمانہ ہوا

کے اب تمام میرے درد کا فسانہ ہوا

 

ہوا بدن میرا دشمن عدو ہوئی میری روح

میں کس کے دام میں آیا ہوس نشانہ ہوا

 

یہی چراغ جو روشن ہے بجھ بھی سکتا تھا

بھلا ہوا کے ہواؤں کا سامنا نہ ہوا

 

کہ جس کی صبح مہکتی تھی شام روشن تھی

سنا ہے وہ در دولت غریب خانہ ہوا

 

وہ لوگ خوش ہیں کہ وابستۂ زمانہ ہیں

میں مطمئن ہوں کہ در اس کا مجھ پہ وا نہ ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تجھ سے شکوہ نہ کوئی رنج ہے تنہائی کا

تھا مجھے شوق بہت انجمن آرائی کا

 

کچھ تو آشیب ہوا اور ہوس کی ہے شکار

اور کچھ کام بڑھا ہے میری بینائی کا

 

آئی پھر نافۂ امروز سے خوشبوئے وصال

کھل گیا پھر کوئی در بند پذیرائی کا

 

میں نے پوشیدہ بھی کر رکھا ہے در پردۂ شعر

اور بھرم کھل بھی گیا ہے میری دانائی کا

 

یعنی اس بار بھی وہ خاک اڑی ہے کہ مجھے

ایک کھٹکا سا لگا رہتا ہے رسوائی کا

 

شاعری کام ہے میرا سو میں کہتا ہوں غزل

یہ عبث شوق نہیں قافیہ پیمائی کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیرا چہرہ نہ مرا حسن نظر ہے سب کچھ

ہاں مگر درد دل خاک بسر ہے سب کچھ

 

میرے خوابوں سے الگ میرے سرابوں سے جدا

اس محبت میں کوئی وہم مگر ہے سب کچھ

 

بات تو تب ہے کہ تو بھی ہو مقابل میرے

جان من پھر ترا خنجر مرا سر ہے سب کچھ

 

تیری مرضی ہے اسے چاہے تو سیراب کرے

اس بیاباں کو تری ایک نظر ہے سب کچھ

 

مثل مضمون گ کچھ نہیں یہ ہجر و وصال

ہاں وہی یار طرح دار مگر ہے سب کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

نئے سفر کی لذتوں سے جسم و جاں کو سر کرو

سفر میں ہوں گی برکتیں ،سفر کرو سفر کرو

 

اداس رات کے گداز جسم کو ٹٹول کر

کسی کی زلف سایہ دار کی گرہ میں گھر کرو

 

جو آنکھ ہو تو دیکھ تو سراب ہی سراب ہے

نہ اعتبار تشنگی میں موج آب پر کرو

 

پرانی آستین سے پرانے بت کرو رہا

نئی زمین پر نئے خدا کو معتبر کرو

 

جمال یار سے کرو کبھی نظر کو پاک بھی

خیال یار سے کبھی کبھی شبیں سحر کرو

٭٭٭

 

 

 

 

 

مختصر سی زندگی میں کتنی نادانی کرے

ان نظاروں کو کوئی دیکھے کہ حیرانی کرے

 

دھوپ میں ان آبگینوں کو لئے پھرتا ہوں میں

کوئی سایہ میرے خوابوں کی نگہبانی کرے

 

ایک میں ہوں اور دستک کتنے دروازوں پہ دوں

کتنی دہلیزوں پہ سجدہ ایک پیشانی کرے

 

رات ایسی چاہئیے مانگے جو دن بھر کا حساب

خواب ایسا ہو جو ان آنکھوں میں ویرانی کرے

 

ساحلوں پر میں کھڑا ہوں تشنہ کاموں کی طرح

کوئی موج آب میری آنکھ کو پانی کرے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کن موسموں کے یارو ہم خواب دیکھتے ہیں

جنگل پہاڑ دریا تالاب دیکھتے ہیں

 

اس آسماں سے آگے اک اور آسماں پر

مہتاب سے جدا اک مہتاب دیکھتے ہیں

 

کل جس جگہ پڑا تھا پانی کا کال ہم پر

آج اس جگہ لہو کا سیلاب دیکھتے ہیں

 

اس گل پہ آ رہی ہے سو طرح کی بہاریں

ہم بھی ہزار رنگوں کے خواب دیکھتے ہیں

 

دریا حساب و حد میں اپنی رواں دواں ہے

کچھ لوگ ہیں کہ اس میں گرداب دیکھتے ہیں

 

اے بے ہنر سنبھل کر چل راہ شاعری میں

فن سخن کے ماہر احباب دیکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمیں تو اب کے بھی آئی نہ راس تنہائی

تمھیں بتاؤ کہ ہے کس کے پاس تنہائی

 

اسے بھی اب کے بہت رنج نارسائی ہے

کھڑی ہے شہر کی سرحد کے پاس تنہائی

 

اسی لئے تو نہ صحرا میں ہے نہ بستی میں

کہ ہو نہ جائے کہیں بے لباس تنہائی

 

طویل ہجر نے دونوں کو یوں خراب کیا

کہ اس کے پاس نہ اب میرے پاس تنہائی

 

اندھیری رات میں آنکھوں میں خواب کی صورت

کبھی کبھی نظر آئی اداس تنہائی

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل تو اک شخص کو نخچیر بنانے میں گیا

ساز دل نغمۂ دل گیر بنانے میں گیا

 

رات اک خواب جو دیکھا تو ہوا یہ معلوم

دن بھی اس خواب کی تصویر بنانے میں گیا

 

پرتو خانۂ موہوم  غنیمت تھا مگر

وہ بھی اک نقشۂ تعمیر بنانے میں گیا

 

روح تو روح ہے کچھ بس نہیں اس پر لیکن

یہ بدن خاک کو اکسیر بنانے میں گیا

 

یار تو درہم و دینار بنانے میں گئے

اور میں عشق کی جاگیر بنانے میں گیا

 

شعر تاثیر سے خالی ہوا وقت تعبیر

نفس مضمون بھی تقریر بنانے میں گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اہل دنیا دیکھتے ہیں کتنی حیرانی کے ساتھ

زندگی ہم نے بسر کر لی ہے نادانی کے ساتھ

 

اک تمناؤں کا بحر بے کراں تھا اور ہم

کشتی جاں کو بچا لائے ہیں آسانی کے ساتھ

 

اب کسے دل کے دھڑکنے کی صدائیں یاد ہیں

یہ بھی ہنگامہ گیا اس گھر کی ویرانی کے ساتھ

 

اے ہوا تو نے تو سارے معرکے سر کر لئے

صبح فردا پاس بیٹھی ہے پشیمانی کے ساتھ

 

دشت وحشت سے بھلا کرتا ہے آنکھیں چار کون

شہر بڑھتے جا رہے ہیں اپنی عریانی کے ساتھ

 

تو نہیں آتا نہ آ اے دوست اب تیری طرح

ہم بھی چل نکلے ہیں اپنے دشمن جانی کے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

 

ابھی رسوائیوں کا اک بڑا بازار آئے گا

پھر اس کے بعد ہی وہ کوچۂ دل دار آئے گا

 

وطن کی ایک تصویر خیالی سب بناتے ہیں

خبر لیکن نہیں کیا اس میں کوئی یار آئے گا

 

گل شاخ محبت پر لہو کا رنگ کھلتا ہے

کہ اب رنگ حنا ذکر لب و رخسار آئے گا

 

ہمارے واسطے بھی ساعت ہموار ٹھہرے گی

کہ راہِ شوق میں جس دم وہ نہ ہموار آئے گا

 

ابھی آب و ہوائے جسم کے اسرار کھلتے ہیں

ابھی وہ توڑنے اس جسم کی دیوار آئے گا

 

کرو اہل جنوں کچھ تو کرو سامان دل داری

کہ شہر عشق میں وہ شوخ پہلی بار آئے گا

٭٭٭

ماخذ:

http//www.saysrijan.com/search/label/महताब%हैदर%नक़वी

http://kavitakosh.org

دیوناگری سے رسم الخط کی تبدیلی کا ذریعہ

http://uh.learnpunjabi.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید