فہرست مضامین
گرداب
ناول
حصہ اول
شموئل احمد
E.mail: shamoilahmad@gmail.com
E.mail: shamoilahmad@yahoo.com
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
1
سر شام افق پر اُگے تنہا ستارے کی بھی اپنی ایک اداسی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!
اس کی آنکھوں میں اداسی کا کچھ ایسا ہی رنگ تھا اور اگر دھند کا کوئی چہرہ ہوتا ہے تو اُس کا چہرہ بھی۔۔۔۔۔
وہ خوب صورت نہیں تھی۔ خط و خال بھی تیکھے نہیں تھے۔ پھر بھی ہونٹوں کے خم دلگیر تھے اور آنکھوں میں تنہا ستارے کی جھلملاتی سی اداسی تھی۔ بالائی ہونٹوں کا مرکزی حصّہ دبیز تھا جو کنارے کی طرف اچانک باریک ہو گیا تھا اور نچلا اندر کی طرفا ک ذرا دھنسا ہوا۔۔۔۔ وہ خاموش رہتی تو لگتا صدیوں سے لب وا نہیں ہوئے اور باتیں کرتی تو جیسے تتلیاں پکڑتی تھی۔ دانت ہم سطح اور سفید تھے۔ آ گے کے دو دانتوں کے درمیان ہلکا سا شگاف تھا۔ یہ راہو کا اثر تھا۔۔۔۔۔۔
اور مجھ میں یہی خرابی ہے۔۔۔۔۔ آدمی میں فوراً اس کے ستارے ڈھونڈنے لگتا ہوں۔ ایک نقص اور ہے جب کوئی قصّہ بیان کرتا ہوں تو واقعات کا تسلسل ہاتھ سے پھسل جاتا ہے۔ مجھے چاہیے تھا کہ پہلے ساجی کی بابت بتاتا کہ کون تھی اور یہ کہ اس سے تعلّقات کی نوعیت کیا تھی؟
اصل میں میرا تبادلہ ہمیشہ چھوٹے شہر میں ہوتا ہے جہاں ڈھنگ کے اسکول نہیں ہوتے لیکن سیفی اور کیفی کا پٹنہ کے اچھے اسکول میں داخلہ ہو گیا ہے۔ نصیب بچّوں کو لے کر پٹنہ میں رہتی ہے اور میں آتا جاتا رہتا ہوں۔ اکثر چھٹّیوں میں سب میرے پاس چلے آتے ہیں۔
میری پوسٹنگ ان دنوں لال گنج میں تھی۔ کچھ دن آفس کے کمرے میں گذارہ کیا۔ پھر معلوم ہوا کہ چوک کے قریب ایک فلیٹ خالی ہے تو دیکھنے چلا آیا۔
فلیٹ پسند آیا۔ دو کمروں کا فلیٹ تھا۔ ایک چھوٹی سی بالکنی بھی تھی جو میدان کی طرف کھلتی تھی۔ میدان کے آخری سرے پر برگد کا ایک پیڑ تھا۔ مجھے حیرت ہوئی۔ گھنی آبادی والے شہر میں عموماً ایسے پیڑ نظر نہیں آتے۔ پیڑ گھنا تھا اور اس کی لٹیں نیچے تک جھول رہی تھیں۔ تنے پر سیندور کے گہرے نشانات تھے جو بالکنی سے صاف نظر آ رہے تھے۔ تنے سے لگ کر کچھ مہابیری جھنڈے رکھے ہوئے تھے۔ پیڑ کی پوجا ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ تیزی سے بڑھتے ہوئے اس شہر میں پیڑ ابھی بھی سلامت تھا۔
بالکنی اچھی لگی۔ وہسکی پینے کے لیے یہ جگہ مناسب تھی۔ مکان مالک نے کرایہ پانچ ہزار بتایا تھا۔ کرایہ معقول تھا اور میرے بجٹ سے زیادہ نہیں تھا لیکن ایک جو فطرت ہوتی ہے مول تول کی۔۔۔۔۔ تو میں نے فوراً اپنی رائے ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھا ورنہ وہ کرایہ کم نہیں کرتا۔ جس بالکنی کی وجہ سے فلیٹ پسند آیا تھا، اسی پر اعتراض کیا۔
’’بالکنی چھو ٹی ہے۔‘‘
’’آپ اسے چھوٹی کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’بالکل۔‘‘
’’دس فٹ لمبی بالکنی چھوٹی نہیں ہوتی۔‘‘
’’چوڑائی میں کم ہے۔‘‘ میں نے شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’اب آپ کو مکان نہیں پسند ہے تو اور بات ہے۔‘‘ مکان مالک جھنجھلا گیا۔ اس کی جھنجھلا ہٹ پر مجھے لطف آیا۔
’’اس لحاظ سے کرایہ زیادہ ہے۔‘‘
’’سو روپے کم دیجیے گا۔‘‘
’’چار ہزار۔‘‘
وہ چپ ہو گیا۔ مجھے لگا اس پر حاوی ہو رہا ہوں۔ امید بندھی کہ راضی ہو جائے گا۔
’’چار ہزار کم ہوتے ہیں۔‘‘
’’مناسب ہے۔ ٹو لیٹ کا بورڈ دیکھ کر یہاں آ گیا ورنہ دفتر کے قریب ہی کوئی مکان دیکھتا۔‘‘
’’اب میں کیا کہوں؟‘‘ اس کے لہجے میں احتجاج تھا۔ میں مسکرایا اور رقم اس کی طرف بڑھاتے ہوئے خوش دلی سے بولا۔
’’پیشگی رکھ لیجیے۔۔۔۔!‘‘ ایک لمحے کے لیے سوچا کہ چار ہزار میں راضی نہیں ہوا تو ساڑھے چار ہزار میں ہو جائے گا۔
آدمی سادہ لوح تھا۔ راضی ہو گیا۔ میں جب اس کی طرف رقم بڑھا رہا تھا تو اچانک محسوس ہوا کوئی دروازے کی اوٹ سے جھانک رہا ہے۔ ادھر نظر ڈالی۔ چہرہ فوراً چھپ گیا پھر بھی پیشانی کی چمکتی ہوئی بندیا صاف جھلک گئی۔
وہاں سے نکل کر نصیب کو فون پر بتایا کہ مکان مل گیا ہے، کرایہ چار ہزار ہے اور یہ کہ کل شفٹ کر جاؤں گا۔ نصیب نے سب کی خیریت سے آ گاہ کیا اور پوچھا کہ میں گھر کب آ رہا ہوں؟ میں نے اگلے اتوار کی تاریخ بتائی۔ دوسرے دن ساز و سامان کے ساتھ فلیٹ میں شفٹ کر گیا۔
یہ تین منزلہ عمارت تھی جس میں تین فلیٹ تھے۔ ایک فلیٹ نچلی منزل پر تھا جس میں کوئی وکیل صاحب رہتے تھے۔ بیچ والی منزل پر میں آ گیا تھا اور مکان مالک اوپری منزل پر تھا۔ نیچے جو مشترکہ سیڑھی اوپر کی طرف گئی تھی، وہ بیچ کی منزل پر ایک چورس سطح پر ختم ہو گئی تھی۔ میرے فلیٹ کے دونوں کمرے کے صدر دروازے اسی سطح پر کھلتے تھے۔ بیڈ روم کا ایک دروازہ اندر سائبان میں کھلتا تھا جس کے نصف حصّے میں مکان مالک کا کچن تھا۔ سائبان کا باقی حصّہ میرے تصرّف میں تھا۔ شاید مکان کی تعمیر ایک بار نہیں ہوئی تھی۔ میں جس حصّے میں رہتا تھا۔ وہ غالباً پہلے بنا تھا۔ مکان مالک نے اسے سہولت کے مطابق وقتاً فوقتاً بنایا ہو گا۔ کچن سے ہوتی ہوئی ایک دوسری سیڑھی اوپر کی طرف گئی تھی جہاں بیڈ روم تھے۔ اس کا بیڈ روم میرے بیڈ روم کے عین اوپر واقع تھا۔ مکان مالک سیدھا سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوتا جس کا پتا مجھے اس کے قدموں کی چاپ سے ہوتا تھا۔
میرے کمرے میں سامنے کی دیوار پر ایک چھوٹا سا روشن دان تھا جس سے لگ کر سیڑھی اوپری منزل کی طرف گئی تھی۔ روشن دان میں سیمنٹ کی جالی لگی ہوئی تھی جس میں پرانا اخبار چسپاں تھا۔ اخبار گرد آلود تھا اور اس میں جگہ جگہ سوراخ ہو گئے تھے اور رنگ پیلا ہو گیا تھا۔ کمرے میں پنکھا چلتا تو اخبار کا کونا پھڑپھڑانے لگتا۔ کچن کی سیڑھیاں طے کرتا ہوا کوئی اوپری منزل پر جاتا تو اس کا سر روشن دان کی جالیوں سے نظر آتا۔ میں جب بھی بستر پر ہوتا نظر ادھر اٹھ جاتی۔۔۔۔۔ لگتا کوئی جھانک رہا ہے ور ایک دن سامنا بھی ہو گیا۔ میں سیڑھیاں پھلانگ رہا تھا اور وہ خراماں خراماں اتر رہی تھی۔ سیڑھی جہاں اندر کی طرف مڑی تھی، وہاں اس سے اچانک ٹکرا گیا۔ میرے ہاتھ اس کے کولہے سے چھو گئے۔۔۔۔۔ وہ ٹھٹھک گئی اور میں گھبرا گیا۔ در اصل میرا ہاتھ بہت غلط انداز سے اس کے کولہے سے مس ہوا تھا۔ یہ ٹکّر ایک دم غیر متوقع تھی۔
’’اوہ۔۔۔۔ ساری۔۔۔۔!‘‘ میں نادم تھا۔
جواب میں اس نے پلکیں اٹھا کر میری طرف دیکھا، آہستہ سے مسکرائی اور نیچے اتر گئی۔۔۔۔ میں اسی طرح سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اپنے کمرے میں آیا۔
وہ کس طرح مسکرائی تھی۔۔۔۔؟ میں نے گدگدی سی محسوس کی۔ میرے ہو نٹوں پر بھی مسکراہٹ رینگ گئی۔ میں بستر پر لیٹ گیا اور اس خوشگوار ٹکّر کے بارے میں سوچنے لگا۔ دفعتاً میں نے محسوس کیا کہ کوئی دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ قدموں کی ہلکی سی چاپ صاف سنائی دی۔ لگا وہی ہو گی۔ چاہا اٹھ کر دیکھوں لیکن بستر پر ہی پڑا رہا۔ وہی تھی۔ اس نے اچانک آخری سیڑھی پر چھلا نگ لگائی اور ہنستی ہوئی کاری ڈور میں گھس گئی۔ میں مسکرائے بغیر نہیں رہا۔ اس کی ہنسی میں کھنک تھی۔ زہرہ والی عورتیں اسی طرح ہنستی ہیں۔ اس دن شام کو یہ دیکھنے کا موقع بھی مل گیا کہ ستارہ زہرہ اس کے زائچے میں کہاں واقع ہے؟
وہ ستاروں کا حال جاننے آئی تھی۔ ساتھ میں درجات یعنی شوہر نامدار بھی تھا۔ اس کے ہاتھ میں جنم کنڈلی تھی۔ کنڈ لی پولی تھین میں لپٹی ہوئی تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ بات انہیں کیسے معلوم ہوئی کہ میں نجومی بھی ہوں۔ درجات نے بتایا کہ یہ انکشاف میرے ہیڈ کلرک نے کیا تھا۔ میں نے کنڈلی پھیلائی۔ وہ برج سرطان میں پیدا ہوئی تھی۔ زہرہ اور راہو ساتویں خانے میں تھے۔ زحل دوسرے خانے میں مشتری کے ساتھ بیٹھا تھا۔
’’آپ کھانا دیر سے ختم کرتی ہیں؟‘‘ میں نے پو چھا۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’آپ کو آنولے کا مربّہ پسند ہے؟‘‘
اس کی آنکھوں میں حیرت کا رنگ گھل گیا۔
’’کنڈلی میں یہ بھی ہوتا ہے؟‘‘
’’پوری زندگی کی چھاپ ہوتی ہے۔‘‘
’’آپ بہت پڑھتے ہیں؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’میں دیکھتی ہوں آپ ہر وقت پڑھتے رہتے ہیں۔‘‘
’’آپ نے کیسے دیکھ لیا؟‘‘
’’دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔‘‘
’’جھوٹ۔‘‘
’’کیوں؟ جھوٹ کیوں۔۔۔؟‘‘
’’آپ روشن دان سے دیکھتی ہیں۔‘‘
وہ جھینپ گئی۔ اس نے کنکھیوں سے درجات کی طرف دیکھا۔ وہ ہنسنے لگا۔ اس کی ہنسی بہت مدھم اور بہت عجیب تھی۔۔۔۔۔۔ غٹ۔۔۔۔ غٹ۔۔۔۔ غٹ۔۔۔۔۔ جیسے حلق میں کچھ انڈیل رہا ہو۔ اس کا دہانہ پھیل گیا تھا۔ بتیسی جھلک گئی تھی اور حلق سے غٹ غٹ کی آواز نکل رہی تھی۔ اس طرح ہنستے ہوئے وہ ہونّق معلوم ہوا۔
’’کچھ اور بتایئے۔‘‘
’’کنڈلی مکمّل نہیں ہے۔‘‘
’’گاؤں کے پنڈت نے بنائی ہے۔‘‘
’’میں خود بناؤں گا اور آگے کا حال بتاؤں گا۔‘‘ میں نے پیچھا چھڑانے کے لیے کہا۔
اصل میں مجھے درجات سے الرجی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھ میں یہ عیب ہے۔ میں اکثر کسی شخص سے خوا ہ مخواہ بھی الرجی محسوس کرنے لگتا ہوں۔ خاص کر اُن سے جن کا آئی کیو کم ہے۔ درجات گرچہ آدمی سادہ لوح تھا لیکن آنکھیں عجیب مند مند سی تھیں۔ آنکھیں روح کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ درجات کی آنکھوں سے نہ روح کا اضطراب جھلکتا تھا نہ انبساط کی کوئی آتی جاتی سی لہر اُن میں تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک مکروہ قسم کی آسودگی تھی جیسے تالاب میں ٹھہرے ہوئے پانی کا سکوت۔۔۔۔۔۔
ایسا لگتا تھا یہ شخص زندگی میں کبھی کسی کرب سے نہیں گذرا۔ اس کی ہنسی جیسے کہرے میں لپٹی ہوئی تھی۔ آواز اتنی مدھم تھی کہ کمرے میں بھی مشکل سے سنائی دیتی تھی۔
وہ اٹھ گئی۔ جاتے جاتے اس نے حسرت سے کتابوں کی شیلف کی طرف دیکھا۔
جو آنکھیں خواب بنتی ہیں ان میں دھند ہوتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں بھی دھند تھی۔ دھند سے پرے انتظار تھا۔ ایک تلاش تھی۔۔۔۔۔ آخر شیلف کی طرف اس طرح دیکھنے کا کیا مطلب تھا اور پھر روشن دان سے مجھے گھورتے رہنا۔۔۔۔؟ مجھے حیرت ہوئی کہ چالیس کی دہلیز سے گذرتی ہوئی عورت آخر کس مقام میں اپنے لیے راحت ڈھونڈ رہی تھی؟ روح میں اگر ایک بار سنّاٹا قائم ہو جائے تو کبھی نہیں بھرتا۔ اس کی روح میں یقیناً کوئی خلا تھا جس کی تکمیل میں وہ سرگرداں تھی۔ مجھے یقین تھا کہ تنہائی میں ملاقات ہوئی تو راز افشا ہو گا اور یہ موقع بھی جلد ہی مل گیا۔
اس بار وہ رینو کی کنڈلی دکھانے آئی تھی۔ درجات ساتھ نہیں تھا لیکن سات سال کی رینو کو لے کر آئی تھی۔ اس کی چار بیٹیاں تھیں بلکہ پانچ۔۔۔۔۔ پانچویں کا پتا مجھے بعد میں چلا۔ رینو سب سے چھوٹی تھی۔ اس کے ہاتھ میں رینو کی کنڈلی تھی لیکن اس کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔ وہ صرف اپنے ہی بارے میں باتیں کر رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا وہ ایک بہانے سے آئی ہے۔
’’میری کنڈلی بنی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
کچھ بتایئے نہ۔۔۔!‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کچھ بھی۔‘‘
’’آپ کی زندگی کا باب ختم ہو گیا۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’شادی ہو گئی۔ گھر بس گیا۔ بچّے ہیں۔‘‘
’’دوست۔۔۔۔!‘‘
’’دوست۔۔۔۔؟‘‘ میں چونکے بغیر نہیں رہا۔
وہ دور خلا میں تکنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں اداسی کا رنگ گہرا گیا تھا۔
اچانک وہ چہکی۔ ’’وہ دیکھیے۔‘‘
میں نے بالکنی سے باہر دیکھا۔ برگد کی اوپری شاخ پر ایک بگلا تنہا بیٹھا تھا۔ اس نے چونچ گردن میں چھپا رکھی تھی۔
’’کیسا لگ رہا ہے؟‘‘ وہ اسی طرح چہک کر بولی۔ اس کا چہرہ ایک معصوم سی خوشی سے دمک رہا تھا۔ یہ بات ایسی تھی جیسے کسی بچّے کو کوئی عجوبہ نظر آئے اور وہ خوشی سے تالیاں بجائے۔
’’جی چاہتا ہے چپکے چپکے جاؤں اور بگلے کے سفید پروں کو آہستہ سے چھوتی ہوئی گذر جاؤں۔‘‘
میں اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
’’برسات کے دنوں میں جب بادل گھر آتے ہیں تو یہاں سفید بگلوں کی قطار ہوتی ہے۔ میں گھنٹوں بیٹھی تکا کرتی ہوں۔‘‘یہ بات اس نے بے ساختہ کہی تھی۔ اس کی بے ساختگی بہتے جھرنے کی طرح مترنّم تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ پا نچ بچّے جننے کے بعد بھی ایک عورت اس طرح معصوم ہو سکتی ہے۔ وہ اپنی داخلیت میں مری نہیں تھی۔ وہ محسوسات کی اسی سطح پر تھی جہاں پچیس سال قبل رہی ہو گی۔ میں نے اس منظر کو اس کے ساتھ شیئر کیا۔
’’واقعی بہت پیارا لگ رہا ہے۔‘‘
’’ہے نا۔۔۔۔؟‘‘ وہ اور خوش ہو گئی۔
میں مسکرایا۔ منظر جیسا بھی تھا، اس کے احساسات کا پاس ضروری تھا۔ وہ تنہا ان لمحوں کو جی رہی تھی۔ درجات نے ایسے احساسات کبھی شئیر نہیں کیے ہوں گے۔ اس کی امید بھی اس جیسے گاؤدی شخص سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ ان لمحوں کو جینے کی آرزو اُس کی روح میں تھی اور اس آرزو نے اس کی معصومیت کو برقرار رکھا تھا۔ مجھے چاہیے تھا کہ اس کے قریب بیٹھ جاتا اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر آہستہ سے دباتا اور دونوں ایک ٹک لگائے پرندے کو دیکھتے۔ مجھے یقین تھا وہ برا نہیں مانتی لیکن میں نے خود پر قابو رکھا اور مجھے چاہیے بھی تھا۔ پانچ بچوں والی ماں سے رشتہ استوار کرنا مناسب نہیں تھا۔ میں خود شادی شدہ تھا دو بچّوں کا باپ۔۔۔۔! نصیب پر کیا اثر ہو گا۔۔۔۔؟ پرائی عورتوں کی بو بہت جلد سونگھتی ہے۔ قیامت ڈھا دے گی۔۔۔۔۔ کہتی ہے ترین قبیلے کی ہوں۔ میں نے ترین عورتوں کا غصّہ دیکھا ہے۔
بالکنی سے اٹھ کر ہم کمرے میں آئے۔
’’آپ کیا پڑھتے ہیں؟‘‘ اس نے شیلف پر ایک نظر ڈالی۔
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’آپ کی دلچسپی کس موضوع سے ہے؟‘‘
’’میری دلچسپی آثارِ قدیمہ میں ہے۔‘‘
’’میں آپ کو آثارِ قدیمہ نظر آتا ہوں؟‘‘ میں شرارت سے مسکرایا۔
نہیں تو۔۔۔۔!‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور دیر تک ہنستی رہی۔ یہاں تک کہ اُس کا آنچل ڈھلک گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کی چھاتیاں ابھی بھی۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ تو رئیس ہیں۔‘‘ وہ آ نچل سنبھالتی ہوئی بولی۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’آپ کو پڑھتے ہوئے دیکھتی ہوں۔۔۔۔۔ بستر پر دراز۔۔۔۔ ہاتھوں میں کتاب۔۔۔۔ انگلیوں میں سگریٹ دبی ہوئی۔۔۔۔ خدمت گذار پاؤں دباتے ہوئے۔۔۔۔۔ اچھا لگتا ہے آپ کا یہ روپ۔۔۔۔!‘‘
میں خاموش رہا۔ وہ پھر کہیں کھو گئی۔ ایک ٹک فرش کو تکنے لگی۔
’’آپ کہیں کھو گئیں۔‘‘ میں نے ٹوکا۔
اس نے پھیکی سی مسکرا ہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اور حسرت بھرے لہجے میں بولی کہ وہ چھٹی جماعت تک پڑھی ہوئی ہے۔ گاؤں کے اسکول میں پڑھتی تھی کہ شادی ہو گئی۔ اس نے پہلا تلخ تجربہ بیان کیا۔ وہ یہ کہ اسے بتایا گیا تھا کہ سسرال میں لوگ بہت پڑھے لکھے ہیں۔ یہاں آئی تو معلوم ہوا سبھی مڈل فیل ہیں۔ خود درجات نے کہا تھا اُس کے پاس کتابوں سے بھری الماری ہے لیکن ایک اخبار تک اس گھر میں نہیں آتا۔
’’شادی کے بعد پڑھتیں؟‘‘
’’کیسے پڑھتی۔ یہاں ماحول نہیں تھا اور میری عمر اس وقت محض پندرہ سال تھی۔‘‘
اس کا لہجہ اداس تھا اور مجھے لگا اس کی پلکیں بھی نمناک ہیں۔ میں نے غور سے دیکھا۔ آنکھوں کے گوشے میں پلکوں پر آ نسو کا ننھا سا قطرہ لرز رہا تھا۔ مجھ میں ہلچل سی ہوئی۔ میرے جی میں آیا اس کی بھیگی پلکوں پر اپنے ہونٹ رکھ دوں۔ اصل میں میری ایک کمزوری ہے، عورت کے آنسو مجھے بر انگیختہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔ خصوصاً سسکی لیتی ہوئی عورت۔۔۔۔۔۔ اس کے سکڑتے اور پھیلتے ہونٹ۔۔۔۔۔! شاید یہ میری سادیت پسندی ہے۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ میرے لیے اس عورت کو چھونا آسان ہے۔ ہر عورت اپنے لا شعور کے نہاں خانوں میں ایک مثالی مرد کی تصویر سجائے رکھتی ہے۔ وہ اس شخص سے قربت محسوس کرتی ہے جس میں مثالی شبیہ نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے درجات میں یہ خوبیاں برائے نام بھی نہیں تھیں اور مجھ میں۔۔۔۔۔؟ میرے پاس کتابوں سے بھری شیلف تھی۔ میں اس کی نظر میں ہیرو تھا۔۔۔۔۔ اعلا درجے کا رئیس۔۔۔۔۔ ایک ہاتھ میں کتاب۔۔۔ انگلیوں میں سگریٹ۔۔۔۔ خدمت گذار پاؤں دباتے ہوئے اور جالیوں سے تکتی ہوئی وہ۔۔۔۔!
جس لہجے میں اس نے یہ منظر بیان کیا تھا وہ معنی رکھتا ہے۔ اس میں حسرت تھی۔۔۔۔۔ اس منظر نامے کا حصّہ بن جانے کی حسرت جو اُس کی زندگی میں سراب کی طرح ابھرا تھا اور یہی وہ مقام تھا جہاں میں اس کی مثالی شبیہ میں بہت حد تک موجود تھا۔
میں نے اس کی دلجوئی کی۔ ’’آپ ابھی بھی پڑھ سکتی ہیں۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’پرائیویٹ سے امتحان دیجیے۔۔۔۔ میں پڑھا دوں گا۔‘‘
جواب میں ایک پھیکی سی مسکراہٹ اس کے ہو نٹوں پر پھیل گئی۔ کچھ بولی نہیں۔ تھوڑی دیر بیٹھی پھر جاتے جاتےتا کید کر گئی کہ میں اس کی کنڈلی ضرور بنا دوں۔
نصیب کے کچھ اپنے الفاظ بھی ہیں۔۔۔۔۔ ’’او ٹکّر لیس۔‘‘، ’’انترا‘‘ اور ’’سین کی دھوپ۔‘‘
اگلی اتوار کو جب میں گھر پہنچا تو نصیب سین کی دھوپ میں گرم کپڑے سکھا رہی تھی۔ پہلے یہ بات میری سمجھ سے پرے تھی کہ نصیب ستمبر کی دھوپ کو سین کی دھوپ کیوں کہتی ہے لیکن جب علم نجوم سے شغف ہوا تو جانا کہ یہ اس کا اجتماعی شعور ہے۔ ۱۴؍ اگست کو شمس برج اسد میں داخل ہوتا ہے یعنی سنگھ راشی میں پرویش کرتا ہے اور وہاں تیس دن قیام کرتا ہے۔ سنگھ راشی سورج کی اپنی راشی ہے جہاں اس کو شرف حاصل ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سورج کی کرنیں اس ماہ میں زیادہ نوکیلی محسوس ہوتی ہیں اور نصیب بھی اسی ماہ گرم کپڑے سکھاتی ہے اور اسے سین کی دھوپ کہتی ہے۔ سنگھ کا لفظ صدیوں کے لسانی سفر میں سین میں بدل گیا، لیکن نصیب کچھ پریشان تھی۔ فروزی کہیں بھاگ گئی تھی اور گھر میں کام کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ گھر فروزی پر منحصر ہے۔ وہ ہم سب کی کمزوری ہے لیکن کمبخت رہ رہ کر بھاگ جاتی ہے اور نصیب اسے پکڑ پکڑ کر لاتی رہتی ہے۔ پچھلی بار کالونی میں کسی کے یہاں رہ گئی تھی۔ اس گھر کی مالکن سے نصیب کی اچھی خاصی تکرار ہو گئی تھی لیکن اس بار اس کا کہیں اتا پتا نہیں تھا۔
’’اپنی خالہ کے یہاں گئی ہو گی۔‘‘ میں نے اندازہ لگایا۔
’’نہیں! خالہ سے تو وہ لڑ کر آئی تھی۔‘‘
’’پھر۔۔۔۔۔؟‘‘
’’وہ ضرور کسی کے یہاں زیادہ اجرت پر کام کر رہی ہے۔‘‘
نصیب کے لیے اس کو ڈھونڈ نکالنا مشکل نہیں ہے۔ وہ جاسوس رکھتی ہے۔ رحیمن بوا۔۔۔ مینی بوا۔۔۔۔ سونی۔۔۔! اصل میں کالونی کی نوکرانیوں کا پورا کنبہ اُس کے تابع ہے لیکن نصیب بھاگل پور دسہرے کی تعطیل میں جانا چاہ رہی تھی۔ میں خوش ہوا۔۔۔۔ نہیں چاہتا تھا وہ ابھی لال گنج جائے۔ نصیب میں سونگھنے کا مادّہ ہے۔
میں نے کسی طرح دو دن گذارے۔ گھر کا ایک دو چھوٹا سا کام کیا۔ جیسے بجلی بل کی ادائگی۔۔۔۔۔ ٹیبل فین کی مرمّت۔۔۔۔! نصیب سے بہانا بنایا کہ آفس میں ضروری کام ہے اور لال گنج چلا آیا۔ فلیٹ میں داخل ہوا تو ساجی بالکونی میں تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اندر چلی گئی شاید مسکرائی بھی تھی اور یہ معنی خیز تھا۔ اس کو توقع تھی کہ میں جلد ہی واپس آؤں گا اور جس بے نیازی سے وہ اندر گئی تھی تو جتا رہی تھی کہ مجھے کیا۔۔۔۔؟ آ ؤ۔۔۔۔یا۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔!
میں کمرے میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ رینو آئی۔
’’انکل! چائے لیں گے۔۔۔۔۔؟‘‘
یعنی وہ میرے انتظار میں تھی۔ میں خوش ہوا۔ مجھے چائے کی طلب بھی تھی۔ اکبر اس وقت موجود نہیں تھا۔
چائے لے کر وہ خود آئی۔ اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی جیسے کہہ رہی ہو ’’کیوں۔۔۔؟ دل نہیں لگا نا۔۔۔؟‘‘
میں جھینپ رہا تھا لیکن فوراً خیال آیا اسے بھی شرمندہ کروں۔ میں نے شرارت سے پو چھا۔
’’ایک بات بتایئے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’آپ کو میرا انتظار تھا؟‘‘
ارے نہیں۔۔۔!‘‘
’’آپ جس طرح بالکونی میں۔۔۔۔؟‘‘
’’میں کمار کا انتظار کر رہی تھی۔‘‘
’’کمار۔۔۔۔؟‘‘
’’میں انہیں کمار کہتی ہوں۔‘‘
میں نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ اعتراف کروں گا کہ ایک جلن سی محسوس ہوئی۔ اس گا ؤدی کو وہ کمار کہہ رہی تھی۔۔۔۔ اس مڈل فیل کو۔۔۔!
’’کہاں گئے آپ کے کمار؟‘‘ میرے ہونٹوں پر تضحیک آمیز مسکرا ہٹ تھی۔
’’بابا دھام گئے ہیں۔‘‘
کب گئے؟‘‘
’’جس دن آپ گئے۔‘‘
’’ابھی تو دو دن بھی نہیں ہوئے۔ بھلا آپ کے کمار آج کیوں آئیں گے۔ سوموار تو پرسوں ہے۔‘‘
وہ سٹپٹا گئی لیکن جواب کے لیے جیسے تیّار تھی۔
’’وہ باہر جاتے ہیں اور میں انتظار کرنے لگتی ہوں۔ ان کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگتا۔ بھوک پیاس مر جاتی ہے۔ کچھ کھایا پیا نہیں جاتا۔‘‘
’’جھوٹ۔۔۔۔!‘‘ میں نے دل میں کہا۔
وہ یقیناً جھوٹ بول رہی تھی۔ یہ پروجیکشن کا عمل تھا۔ جو بات تھی نہیں وہ بات پرو جیکٹ کرنا چاہ رہی تھی۔ اس کو درجات کا انتظار نہیں تھا۔ کوئی سوال نہیں اٹھتا ہے۔ اس کو معلوم تھا کہ درجات سوموار کو جل چڑھانے کے بعد آئے گا۔ وہ میری راہ دیکھ رہی تھی۔ اس وقت اس کے چہرے پر جو خوشی تھی میری قربت کی خوشی تھی، اس کے ہونٹوں پر پر اسرار مسکرا ہٹ تھی، یہ فاتحانہ مسکراہٹ تھی کہ تم بھاگ کر آ گئے۔ درجات گھر پر نہیں تھا۔ وہ تنہا تھی اور آزاد تھی اور مجھ سے گھنٹوں بات کر سکتی تھی۔
چند ساعت پہلے جو جذبۂ رقابت محسوس کر رہا تھا وہ ترّحم میں بدل گیا۔۔۔۔۔۔۔ بے چاری جتا رہی ہے کہ پتی ورتا ہے اور شوہر کا انتظار کر رہی ہے۔ اس گاؤدی شخص کو کمار کہہ کر خوش ہو رہی ہے۔ کمار اُس کا آئڈیل ہے جو درجات میں مجروح ہوا ہے اس لیے نام بدل دیا۔۔۔۔ کیا نام بدل دینے سے شخصیت بدل گئی؟ کس قدر بھرم میں جی رہی ہے وہ۔۔۔۔؟
’’آپ کھانا کھائیں گے؟‘‘
کیوں تکلّف کر رہی ہیں؟‘‘
’’تکلّف کی کیا بات ہے۔ آپ کا ملازم تو ہے نہیں۔‘‘
’’ہوٹل تو ہے۔‘‘
’’اچھا نہیں لگے گا۔‘‘
’’او کے۔۔۔!‘‘ میں مسکرایا۔ اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔
وہ اپنے فلیٹ میں گئی تو میں نے بھی غسل کیا اورتا زہ دم ہو کر بالکنی میں بیٹھا۔ وہ کھانا لے کر وہیں آ گئی۔ اس نے کھانا اپنے لیے بھی لایا تھا۔ مٹر پلاؤ بنایا تھا اور دال مکھانی کے ساتھ آلو پرول کی سبزی۔
’’یہ گنگا جمنی کلچر ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’پلاؤ کے ساتھ دال اور سبزی۔‘‘
’’گوشت چاہیے؟‘‘
’’ایران میں گوشت رو ٹی اور ہندوستان میں دال روٹی۔‘‘
پو چھا کہ وہسکی پی سکتا ہوں تو اُس نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے الماری سے بو تل نکالی۔ اس نے میرے لیے پیگ بنایا۔ میری نظر اس کی انگلیوں پر پڑی۔۔۔۔ انگلیاں لانبی اور مخروطی تھیں۔۔۔۔ جوڑ پر کوئی گرہ نہیں تھی۔۔۔۔۔ ناٹ لیس جوائنٹس۔۔۔۔ ایسے ہاتھ کو کیرو نے فلاسفک ہینڈ بتایا ہے۔ ایسے لوگ بہت حسّاس ہوتے ہیں۔ انہیں کوئی سمجھ نہیں پاتا لیکن میں سمجھ رہا تھا۔ وہ اوّل درجے کی ہیپو کریٹ تھی۔ کچھ دیر پہلے کہہ رہی تھی کہ کمار کے بغیر کھایا پیا نہیں جاتا اور اب مٹر پلاؤ لے کر آئی تھی لیکن میری سوچ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ میں کیوں بھول جاتا ہوں کہ کمار اس کا آدرش پرش ہے جو درجات نہیں ہے۔ کمار میں ہوں اور میرے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے گویا کمار کے ساتھ کھا رہی ہے۔
’’کمار کے نام۔‘‘ میں نے پہلے پیگ کی پہلی چسکی لی۔
’’تھینکس۔‘‘
وہ مسکرائی۔ ایک نوالہ منھ میں ڈالا اور بالکنی سے باہر دیکھنے لگی۔ باہر ملگجا اندھیرا تھا۔ برگد کا پیڑ پر اسرار نظر آ رہا تھا۔ جھینگر کی آواز مستقل گونج رہی تھی۔ میں نے غور کیا، وہ واقعی آہستہ کھاتی تھی۔۔۔۔۔ پہلے دن زائچہ دیکھ کر کہا بھی تھا۔ اصل میں دوسرے خانے میں برج اسد تھا جو غیر متحرّک برج ہے۔ زحل اور مشتری وہاں موجود تھے۔ دونوں آہستہ رو ستارے ہیں اور زائچے کا دوسرا خانہ خوردنی سے وابستہ ہے۔
میں وہسکی کی چسکیاں لیتے ہوئے اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اچانک زلفوں کی ایک لٹ اس کے رخسار پر لہرا گئی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اس لٹ کو پیچھے کر دیا۔ اس نے آنکھ کے گوشے سے میری طرف دیکھا۔ میری یہ حرکت غیر متوقع تھی۔ شاید وہسکی رنگ لا رہی تھی۔
’’وہ لٹ اٹھکھیلیاں کر رہی تھی۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ زور سے ہنس پڑی۔ آنچل ڈھلک گیا لیکن اس نے آنچل برابر نہیں کیا۔ اسی طرح ہنستی رہی۔ پھر اس کا لہجہ یکایک بدل گیا۔
’’آپ پچیس سال قبل کیوں نہیں ملے؟‘‘
میں نے اسے حیرت سے دیکھا۔
وہ خاموش ہو گئی۔ ہو نٹوں کے خم نے کچھ عجیب انداز اختیار کر لیا۔ نچلا ہونٹ اک ذرا اندر دھنس گیا اور بالائی حصّہ کچھ اور محراب نما ہو گیا۔
میرے ذہن میں وہی بات گونجی۔۔۔۔ اس عورت کو چھونا آسان ہے۔۔۔۔!
اور وہ گھڑی آ گئی۔
ساون کی جھڑی تھی۔ قمر منزل شرطین سے گذر رہا تھا۔ شیو بھکتوں کا مہا کمبھ شروانی میلہ شروع ہو چکا تھا۔ ہر ہر گنگے اور بول بم کے نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔ سلطان گنج پر کیسریا خمار چھانے لگا تھا۔ گھنگھروؤں کی رن جھن سے فضا مترنّم تھی۔ بھگت جن جوق در جوق امنڈے چلے آ رہے تھے۔ شیو بھگتوں نے سلطان گنج میں گنگا جل بھرا۔ کنوریا کا ایک جتّھا ہنومان اور بے تال کا روپ دھارن کیے چل رہا تھا۔ کچھ گلال اور ابیر اڑاتے چل رہے تھے۔ کچھ جتّھے ایسے بھی تھے جن کے افراد پہلے پہنچ گئے تھے اور گھاٹ کنا رے باقی ساتھیوں کا انتظار کر رہے تھے۔ مل ماس ہونے کی وجہ سے ایک ماس تک چلنے والا میلہ اس بار دو ماس چلے گا۔
مہا پنڈت راون پہلے کانوریا تھے جنہوں نے بابا دھام کا گنگا جل ابھیشیک کیا تھا۔ لنکا ادھی پتی کی ارادھنا سے خوش ہو کر بھگوان بھولے شنکر کیلاش سے لنکا جانے کے لیے راضی ہو گئے تھے مگر آریا ورت کے بھگتوں کا موہ تیاگ نہیں سکے اور داروک بن میں استھاپت ہو گئے۔ داروک بن میں ناگیش جیوتی لنگ کے وجود کا ذکر پران میں آیا ہے۔ سمندر منتھن کے بعد دیوتاؤں نے شری ناگیش نا تھ جیوتی لنگ کو باسکی ناگ کو سونپ دیا جس سے ناگیش ناگ کا نام باسکی ناتھ پڑا اور یہ دھام باسکی ناتھ دھام کہلانے لگا۔ پورا علاقہ گھنے جنگلوں سے بھرا پڑا تھا۔ یہاں داروکا نام کی راکشسی بھی رہتی تھی۔
بھگوان بھولے ناتھ کو راون داروک سے نہیں لے جا سکا اور وہیں ان کی پوجا ارچنا شروع کی۔ لنکا ادھی پتی با قاعدہ ہری دوار سے گنگا جل کانوریہ میں ڈھو کر بابا وید ناتھ کا مستک ابھیشیک کرتے تھے۔ کانوریہ پتھ اور ارد گرد کے درجنوں استھل دیو نام سے جانے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ شیو لوک۔۔۔۔ بھوت ناتھ۔۔۔۔ بھول بھلیاں۔۔۔ گیرو پربت۔۔۔ رنگیشور۔۔۔۔ مہیش مارا۔۔۔۔ شیشو بن۔۔۔۔ لچھمن جھولا۔۔۔۔۔ اندر بن۔۔۔۔! کانوریہ پتھ کا زرّہ زرّہ شیو ہے اور ہر شے بم۔۔۔ بم۔۔۔۔!
فضا میں بول بم کے مہا منتر کی گونج ہے۔۔۔۔ بابا مندر کے ٹھیک پورب میں تری پورہ کا مندر ہے جسے پاروتی کے روپ میں جانا جاتا ہے۔ تری پورہ کے بائیں پہلو میں ماں جے درگا کی مو رتی ہے۔ بابا مندر شکھر پر پنچ پھول لگے ہوئے ہیں۔
بھولے ناتھ نشہ کرتے ہیں اور بھوت پریت بھی۔۔۔۔ بھو لے ناتھ وش پی گئے تھے۔۔۔۔ بھگت جن کو بھی کچھ پینا چاہیے۔۔۔۔ گانجے اور بھنگ کے نشے میں چور۔۔۔۔ روحانیت سے سر شار۔۔۔۔ بھگت جن کانوریہ پتھ پر بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔۔۔۔ گیروا رنگ میں شرابور۔۔۔۔ اپنے بابا وید ناتھ کے درشن کو بے قرار۔۔۔۔۔
درجات کے کندھے سے کانوریہ جھول رہی تھی۔ قدم مسلسل بابا دھام کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن عین مندر کے قریب اس کو ٹھو کر لگی۔ کانوریہ کے ساتھ اوندھے منھ گرا۔۔۔۔ اور سارا جل زمین پر الٹ گیا۔۔۔۔!!
ساجی اداس تھی۔ یہ خبر اس کو موبائل پر معلوم ہوئی۔
’’یہ اپ شگون ہے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’بھولے ناتھ نے جل قبول کر لیا۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’بھگوان نیت دیکھتے ہیں۔‘‘
’’لیکن جل تو الٹ گیا۔‘‘
یہ شیطانی حرکت تھی۔ درجات کا کیا قصور۔۔۔۔؟ اور بھولے ناتھ کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ سب کے ہیں جن کلّیان کے لیے وش پی گئے۔۔۔۔!‘‘
’’آپ ہیں تو مجھے سہارا ہے۔‘‘ اس کی پلکوں پر آ نسو کا ننھا سا قطرہ لرز رہا تھا۔ میں نے اچانک اس کے چہرے کا کٹورہ سا بنایا اور پلکیں چوم لیں۔ وہ میرے سینے سے لگ گئی۔۔۔۔۔ جیسے اس کو اسی پل کا انتظار تھا۔ میں نے اسے بازوؤں میں بھینچا اور چومنے کی کوشش کی۔ مجھے اپنے رخسار پر اس کی گرم سانسوں کا لمس محسوس ہوا اور نتھنوں میں عجیب سی مہک گھل گئی۔۔۔۔ اوس میں بھیگے ہوئے جنگلی گھاس کی سی مہک۔۔۔۔۔۔ میں بے قرار ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ اس کے لب و رخسار پر اپنے ہونٹ ثبت کرتا، وہ تڑپ کر میرے بازوؤں سے نکل گئی اور اندر کاری ڈور میں گھس گئی۔ میں اپنے کمرے میں چلا آیا۔ وہ اس دن پھر نہیں آئی۔
میں نے بھی چھٹّی لی اور گھر چلا آیا۔ فروزی مل گئی تھی۔ نصیب نے اسے ڈھونڈ نکالا تھا۔ پوچھا کہاں تھی تو بپھر گئی۔
’’یار کے پاس تھی۔‘‘
’’یار۔۔۔۔؟‘‘
’’ایک ٹمپو والے سے آنکھیں لڑا رہی تھی۔‘‘
’’اب تم اس کے دل کی دھڑکنوں پر تو قابض نہیں ہو سکتیں۔‘‘
’’آپ کی یہی اٹکّر لیس بولی مجھے پسند نہیں ہے۔‘‘
’’ا ٹکّر لیس۔‘‘ نصیب کو وہ ہر بات اٹکّر لیس لگتی ہے جو اس کے اصول کے خلاف ہے۔ فروزی کا موڈ آف تھا لیکن میں ہمیشہ اس کی دلجوئی کرتا ہوں۔ گھر میں ایک آدمی گرم ہو تو دوسرے کو نرم ہونا چاہیے۔ نصیب جب جھلّاتی ہے تو لطف آتا ہے۔ ایسے میں وہ خوب صورت لگتی ہے اور میں بات کو طول دیتا ہوں۔
’’اس کی شادی کرا دو۔‘‘
’’کلموہی سے کون شادی کرے گا۔‘‘
’’ٹمپو والا۔‘‘
’’وہ اس کے ساتھ کھیلے گا شادی نہیں کرے گا۔‘‘
نصیب فکر مند تھی۔ رات بستر پر آئی تو پھر فروزی کا ذکر چھیڑا۔
’’اس کی پرگنینسی ٹیسٹ کراؤں گی۔‘‘
’’ایسا کیوں سو چتی ہو؟‘‘
’’اب آپ سے کیا کہوں؟ وہ دو رات اسی کے پاس رہی۔‘‘
نصیب واقعی تناؤ میں تھی۔ اس کا تناؤ میری بانہوں میں ہی ختم ہوتا ہے۔ میں نے اسے سینے سے لگا کر بھینچا۔۔۔۔۔۔۔ نصیب نے آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے ساجی کی یاد آئی۔۔۔۔۔ جنگلی گھاس کی سی مہک۔۔۔۔ لیکن نصیب کی سانسوں میں مہدی کی مہک ہے۔ یہ مشتری کا اثر ہے۔
میں لال گنج لوٹا تو درجات بابا دھام سے آ چکا تھا۔
مسکراہٹ بھی شخصیت کی غمّاز ہوتی ہے۔ نچلی منزل پر کوئی جھا جی رہتے تھے۔ ان کی مسکراہٹ میں برفیلی ہواؤں کا لمس تھا۔ وہ اس طرح مسکراتے جیسے کوئی ترکش سے تیر نکالتا ہے۔ وہ سی بی آئی میں کلرک تھے۔ آنکھیں ہلکی بھوری اور مونچھیں باریک۔۔۔۔۔ وہ خواہ مخواہ بے تکلّف ہونے کی کوشش کرتے اور میں دامن بچاتا۔ ان سے ہی معلوم ہوا کہ درجات کی پا نچ بیٹیاں ہیں لیکن وہ پانچویں کا ذکر نہیں کرتا۔
’’ایسا کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا تھا۔
’’شرم۔۔۔!‘‘
’’کس بات کی شرم؟‘‘
’’یہی کہ بیٹا ایک بھی پیدا نہیں ہوا۔‘‘
’’اس میں شرم کی کیا بات ہے؟‘‘ میں چڑ گیا۔
وہ مسکرایا اور ایک آنکھ دبائی۔ ’’آ خر کہتی کیوں نہیں کہ پانچ بیٹیاں ہیں؟‘‘
’’پانچویں کہاں ہے؟‘‘
’’بھائی نے گود لی ہے۔‘‘
جاتے جاتے اس نے ایک بات اور بتائی۔ وہ یہ کہ درجات کی ماں تاڑی پیتی ہے اور ایک تیر مجھ پر بھی چلایا۔ ’’آپ تو یہاں مستی میں ہوں گے۔‘‘
میں خاموش رہا۔ اس شخص سے دامن بچانا بہتر تھا۔
ساجی سے رو بہ رو ہونے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ اس کے یہاں مہمان آئے ہوئے تھے۔ وہ بہ ظاہر مصروف تھی۔ سیڑھیاں چڑھتے اترتے ایک دو بار درجات سے علیک سلیک ہوئی۔ وہ کچھ بجھا بجھا سا نظر آیا لیکن ساجی چہک رہی تھی۔ اس کے قہقہے فلیٹ میں گونج رہے تھے۔ درجات بھی ہنستا ہو گا لیکن وہ تو ہنستا ہے غٹ۔۔۔۔۔ غٹ۔۔۔۔۔ غٹ۔۔۔۔۔۔!
خدا شکّر خورے کو شکّر دیتا ہے۔ آخر مہمان گئے۔ درجات بھی گیا۔
’’میری ماں تھی۔‘‘ ساجی نے بتایا۔
وہ خوش نظر آ رہی تھی۔ گلے میں سونے کا لاکٹ جھول رہا تھا۔ اس نے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا لاکٹ کے سرے میں پھنسا رکھا تھا۔
’’درجات کہاں گئے؟‘‘
’’ماں کو پہنچا نے گئے ہیں۔‘‘
’’بہت خوش ہیں آپ؟‘‘
’’ماں نے لاکٹ دیا۔‘‘
’’ماں کے آنے کی خو شی نہیں ہے لاکٹ ملنے کی خوشی ہے۔‘‘ میں مسکرایا۔
’’آپ ہر بات کا غلط مطلب کیوں نکالتے ہیں؟‘‘
’’اور کیا حال ہے؟‘‘
’’اپنی کتا بیں دکھائیے نہ۔‘‘
میں اسے شیلف کے پاس لے گیا۔
’’مجھے تو انگریزی نہیں آتی۔‘‘
’’ہندی پڑھیے۔‘‘
’’یہ کون سی کتاب ہے؟‘‘ اس نے جھک کر ایک کتاب کی طرف اشارہ کیا۔ اس طرح جھکنے میں اس کا شانہ میری پیٹھ سے چھو گیا۔
اکبر کواڑ کی اوٹ سے دیکھ رہا تھا۔ نصیب کے مائکے کا ہے۔ اکثر اس طرح دیکھتا ہے اور مجھے اس کی آنکھوں میں نصیب کی آنکھیں نظر آتی ہیں۔ میں نے اسے سگریٹ لانے بھیج دیا۔ ساجی نے شیلف سے کتاب نکالی۔ ’’یوگ کتھا امرت۔‘‘
’’پڑھیے۔ دلچسپ کتاب ہے۔‘‘
وہ کتاب الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ وہ میرے قریب کھڑی تھی۔ میں نے اضطراب کی ہلکی سی لہر محسوس کی۔
’’آ یئے! بالکونی میں بیٹھتے ہیں۔‘‘
’’چلیے۔‘‘ وہ خوش ہو گئی اور پھر چہک کر بولی۔
’’مجھے بالکونی میں بیٹھنا اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’اور کیا کیا اچھا لگتا ہے؟‘‘
’’آپ کا ساتھ۔۔۔!‘‘
’’شکریہ۔‘‘
’’ایک بات کہوں؟‘‘
’’کہیے۔‘‘
’’میں صرف دوستی چاہتی ہوں۔۔۔۔ اور بس۔۔۔!‘‘
میں مسکرایا تو وہ بھی مسکرائی اور میری طرف ایک ادا سے دیکھا۔ مجھے لگا اس کی نظریں کہہ رہی تھیں میں تو دوستی چاہتی ہوں تم کیا چاہتے ہو۔۔۔؟ کچھ چاہتے ہو تو آگے بڑھو۔۔۔۔! میں نے ایک پل بھی تامّل نہیں کیا اور اچانک اس کو اپنی بانہوں میں بھر کر زور سے بھینچا۔۔۔۔۔ اس کی ایڑیاں زمین سے معلّق ہو گئیں۔۔۔۔۔ وہ میری بانہوں کے شکنجے میں جھولنے لگی۔۔۔۔ وہ جیسے سکتے میں تھی۔۔۔۔ اس کا بدن ڈھیلا تھا۔۔۔ وہ ذرا بھی مزاحمت نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔۔ میں اسے اسی طرح اٹھائے بستر تک لایا۔
’’دھب۔۔۔۔ دھب۔۔۔۔۔۔‘‘ سیڑھیوں پر کسی کے قدموں کی آواز۔۔۔۔۔ اکبر۔۔۔۔۔؟؟
میں فوراً اس سے الگ ہو گیا اور زور زور سے بولنے لگا۔
’’دیکھیے۔۔۔۔ یہ کتاب بہت دلچسپ ہے۔۔۔۔ پڑھ کر بتایئے۔‘‘
اکبر سگریٹ لے کر آیا۔ اس وقت وہ بستر سے اٹھ رہی تھی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اکبر نے اس کی طرف اس طرح دیکھا جس طرح نصیب ہوتی تو دیکھتی۔ میں نے اکبر سے آنکھیں نہیں ملائیں۔
وہ کتاب لے کر چلی گئی۔
اصل میں عورت سے تعلّق استوار ہوتا ہے تو بیچ میں لچھمن ریکھا بھی ہوتی ہے جو فوراً عبور نہیں ہوئی تو وقت کے ساتھ گہری ہونے لگتی ہے اور عمر بھر قائم رہتی ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے اس لکیر کو مٹا دینا تھا ورنہ یہ تعلّق محض دوستی تک محدود رہتا۔ گرچہ میں نے پہل اسی دن کی تھی جب درجات کو بابا دھام میں ٹھو کر لگی تھی لیکن اس کی نوعیت کچھ اور تھی۔ اس دن اس کی کانور الٹ گئی تھی۔ یہ نیک فال نہیں تھا۔ وہ تناؤ میں تھی اور اسے ایک پیار بھرے لمس کی ضرورت تھی اور میں نے آہستہ سے اس کی پلکیں چومی تھیں لیکن آج وہ خوش تھی اور مجھ سے دوستی کی خواہش مند تھی اور مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھا تھا۔ میں اس کی نظروں میں کمار تھا۔ ایسے میں تقاضا یہی تھا کہ کمار اُسے اپنے بازوؤں کے شکنجے میں۔۔۔۔۔۔۔
مجھے امید تھی وہ آئے گی۔ درجات گھر سے باہر تھا اور مجھے رات کا انتظار تھا لیکن رات نے ابھی گیسو بھی نہیں بکھیرے تھے کہ اس کے فلیٹ میں خاموشی چھا گئی۔۔۔۔۔ کہیں ہلکی سی سرسراہٹ بھی نہیں تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ اس کی چاروں لڑکیاں کہاں مر گئیں؟ وہ ہر وقت چہکتی رہتی تھیں۔ گرچہ بڑی والی منصوبہ کچھ خاموش طبیعت تھی اور پڑھائی میں لگی رہتی تھی لیکن منجھلی شبّو چنچل تھی اور دھم دھم کرتی ہوئی سیڑھیاں اترتی تھی۔ رینو اور مینو بھی باتونی تھیں۔ ان کی آواز نیچے تک سنائی دیتی تھی لیکن اس وقت فلیٹ میں سوئی کی نوک بھی گرتی تو آواز ہوتی۔ مجھے لگا شاید سب کہیں باہر ہیں لیکن دروازہ اندر سے بند تھا اور کہیں مدھم سا بلب روشن تھا جس کی روشنی دروازے کی دراڑ سے چھن کر آ رہی تھی۔
میں صحن میں ٹہلنے لگا۔ یہاں سے اس کے بیڈ روم کی کھڑکی نظر آتی تھی۔ کمرے میں نیم تاریکی تھی۔ کھڑکی کا پردہ ہوا میں آہستہ آہستہ ہل رہا تھا۔ یقیناً کمرے میں پنکھا چل رہا تھا۔۔۔۔ سب سو گئے کیا۔۔۔۔؟ میں کمرے میں آیا۔ روشن دان پر نظر ڈالی۔ جالیوں کے پیچھے بھی خاموشی تھی۔ رات کے نو بج گئے۔ کھانے کے بعد اکبر حسب معمول میرے پاؤں دبا نے لگا۔ میں نے اوڈ کی ’’بک آف لو‘‘ ہاتھ میں لے لی لیکن میرا دل پڑھنے کی طرف مائل نہیں تھا۔ میری نظر رہ رہ کر روشن دان کی طرف اٹھ رہی تھی۔ جالیوں کے پیچھے اندھیرا تھا۔
دس بج گئے۔ اکبر نیچے سونے چلا گیا۔ میری بے قراری بڑھ گئی۔ مجھے امید تھی وہ آئے گی۔ میں کمرے سے صحن اور صحن سے کمرے تک چہل قدمی کر رہا تھا۔ نظر کبھی کھڑکی پر جاتی کبھی روشن دان پر۔ وہسکی کا ایک پیگ بنایا اور صحن میں بیٹھ کر چسکیاں لینے لگا۔ رات عجیب سہانی تھی۔ آسمان میں تارے چھٹکے ہوئے تھے۔ ہوا مند مند سی چل رہی تھی۔ پیڑ کے پتّوں میں ہلکی ہلکی سی سرسراہٹ تھی جو خامشی کا حصّہ تھی۔ سیاہ رات کی خاموشی ڈراؤنی ہوتی ہے لیکن سہانی رات کی خاموشی پر اسرار ہوتی ہے۔ میں صحن کے فرش پر بیٹھا سگریٹ پھونک رہا تھا اور اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے انتظار میں لطف آ رہا تھا کبھی کھڑکی کی طرف دیکھتا کبھی آسمان کی طرف۔ تاروں بھرا آسمان شہر میں نظر نہیں آتا لیکن یہاں کہکشاں تک نظر آ رہی تھی۔
بارہ بج گئے۔۔۔۔ اب آئے گی۔۔۔۔ یہی وقت ہے آ نے کا۔۔۔۔ میں نے وہسکی کا آخری گھونٹ بھرا اور اپنے پاؤں پھیلائے۔۔۔۔ اچانک لگا کوئی دبے پاؤں چل رہا ہے۔ مجھے دل کی دھڑکن تیز سی ہوتی محسوس ہوئی۔ کمرے میں آیا۔۔۔۔ کرسی کھینچ کر روشن دان کے نیچے رکھی اور اس پر کھڑے ہو کر پرے جھانکنے کی کوشش کی۔۔۔۔ ادھر اندھیرا تھا۔۔۔ میں نے کان بھی دھرے۔۔۔۔ قدموں کی کہیں کوئی چاپ نہیں تھی۔
مجھے عجیب لگا۔ میں آخر اُس کا اس طرح انتظار کیوں کر رہا تھا۔۔۔۔؟ اور مجھے امید کیوں تھی کہ آئے گی۔۔۔؟ اپنے آپ پر جھنجھلا ہٹ محسوس ہوئی۔ روشنی گل کی اور بستر پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر کروٹیں بدلتا رہا پھر اچانک جی میں آیا ٹیرو کے پتّے دیکھوں۔۔۔۔؟ کیا کہتے ہیں ٹیرو کارڈ۔۔۔۔ Tarot Card۔۔۔۔۔۔
میں نے پھر روشنی کی۔ ٹیرو کی گڈّی ہا تھ میں لی۔ چند ساعت کے لیے آنکھیں بند کر یکسوئی قلب حاصل کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔ گڈّی پھینٹی۔۔۔۔ اور ایک پتّا کھینچا۔
Arcane v…..The lover آرکین سکس دی لور۔۔۔۔! آدم اور حوّا شجر ممنوعہ کے قریب اور کیوپڈ نشانہ باندھتا ہوا۔۔۔۔ مسئلہ یہی تھا۔۔۔۔ میں اسی منزل میں تھا۔۔۔۔ لیکن انجام کیا تھا۔۔۔۔؟
میں نے دوسرا کارڈ کھینچا۔
’’کوئن آف سورڈ۔۔۔۔۔‘‘ میں نے تصویر کی معنویت پر غور کیا۔ خاتون پر وقار کے ہاتھ میں شمشیر۔۔۔۔ شمشیر کی نوک اوپر اٹھی ہوئی۔۔۔۔۔!
یہ مداخلت کا اشارہ تھا۔ ساجی اب آنے والی نہیں تھی۔ اسے کوسا۔۔۔۔ روشنی گل کی اور بستر پر لیٹ گیا۔۔۔۔ نیند آ ہی گئی۔
آپ کہیں کمرے میں ہوں اور اچانک سامنے دیوار پر پھول اُگ آئے۔۔۔۔؟
میں صبح دم حیران تھا۔۔۔۔۔!
ملکہ شمشیر۔۔۔۔!
مہدی کی خوش بو سے میری آنکھ کھلی۔۔۔۔۔۔
نصیب مجھ پر جھکی میرے رخسار تھپتھپا رہی تھی۔ اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ ہونٹوں پر دل آویز مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں رنگین قمقمے جگمگا رہے تھے۔۔۔۔۔
’’تم۔۔۔۔؟‘‘ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’اچانک۔۔۔۔!‘‘
’’سوچا آپ کو سر پرائز دوں۔‘‘ وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی۔ میں نے اسے بانہوں میں کس لیا۔ وہ کسمسائی اور کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے ادھر دیکھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا لیکن روشن دان میں بندیا چمک رہی تھی۔ میں نے نصیب کا بوسہ لیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’بچّے۔۔۔۔؟‘‘
’’بالکنی میں ہیں۔‘‘
’’فروزی بھی آئی ہے؟‘‘
’’نہیں۔ خالہ کے گھر چھوڑ دیا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’یہاں اکبر جو ہے۔‘‘
’’شیر اور بکری۔۔۔۔؟‘‘ میں مسکرایا۔ نصیب بھی مسکرائی۔
نصیب کے مسکرانے کا انداز کلیوں کے چٹکنے جیسا ہے۔ اس کے ہونٹ شگفتہ ہیں۔ نصیب مسکراتی ہے تو عارض بھی مسکراتے ہیں۔ آنکھیں بھی ہنستی ہیں۔ ہونٹ ایک ذرا خم لیے پھیلتے ہیں، گالوں میں خفیف سا گڈھا پڑ جاتا ہے، آنکھوں میں قمقمے سے روشن ہو جاتے ہیں۔ اس کی مسکراہٹ کے پس پردہ دھوپ کا اجالا ہوتا ہے۔ شاید اُس کے باطن میں بہت ساری دھوپ ہے جس کی تمازت اس کی شخصیت میں جذب سی محسوس ہوتی ہے۔
یہ نصیب کا شفّاف باطن ہے کہ وہ اکثر ٹیلی پیتھی کے تجربے سے گذرتی ہے۔ اس نے بتایا وہ بھاگلپور جانے کے لیے اسٹیشن پہنچی تو اُس کا دل گھبرانے لگا۔ اسے لگا جیسے میں بیمار ہوں۔ اس نے فوراً لال گنج کی ٹرین پکڑی اور آ گئی۔
سب سے پہلے اس نے روشن دان پر نیا اخبار چپکایا اور میں نے وہسکی کی بوتل چھپائی۔
اکبر خوش نظر آ رہا تھا۔۔۔۔ روشن دان کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھتا اور مسکراتا۔ میں یہ سوچ کر دل ہی دل میں مسکراتا کہ چند دنوں کی بات ہے، اخبار میں پھر سوراخ ہوں گے۔
ساجی کے کمرے میں کوئی سن گن نہیں تھی۔ حیرت ہوئی کہ کبھی کبھی سب کہاں مر جاتے ہیں۔ نصیب غسل کرنے گئی تو سیڑھیوں پر کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میری نظریں روشن دان کی طرفا ٹھ گئیں۔ لگا کاغذ کا کونا آہستہ سے پھڑپھڑایا ہے۔۔۔۔۔ اور اچانک ساجی گلیارے میں نظر آئی۔ وہ کسی مورتی کی طرح بے جان کھڑی تھی۔ چہرہ سیاہ ہو رہا تھا جیسے قبر سے اٹھ کر آئی ہو۔ وہ بے جان نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ لب سلے تھے۔ اکبر اس وقت سودا سلف لانے گیا ہوا تھا۔ سیفی اور کیفی بالکونی میں وی ڈی او گیم میں مگن تھے اور نصیب باتھ روم میں تھی۔۔۔۔ میں نے اسے ایک لمحہ غور سے دیکھا اور پھر نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ اس میں کٹھ پتلی کی طرح حر کت ہوئی۔ میرے پیچھے پیچھے آئی۔ میں نے نیچے کا دروازہ بند کیا اور اس کی طرف مڑا اور سینے سے لگا کر زور سے بھینچا۔۔۔۔ آہستہ سے اس کی پلکیں چومیں۔ وہاں آنسو کا ایک قطرہ لرز رہا تھا، ہونٹ کپکپا رہے تھے اور بدن کانپ رہا تھا۔ ایک بار پھر چوما، گال تھپتھپائے اور تیز تیز سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے کمرے میں آ گیا۔
یہ عمل ضروری تھا۔ اب اسے اطمینان ہو گا کہ اس کی گرفت میں آئی ہوئی کوئی چیز آزاد ہونا نہیں چاہتی۔
نصیب کو فلیٹ پسند نہیں آیا۔ باتھ روم کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا۔ ایک کاغذ اس نے وہاں بھی چپکایا۔ صحن میں ایک بویام میں مرچ کا اچار سوکھ رہا تھا۔ نصیب کو اعتراض تھا کہ صحن مالک مکان کے استعمال میں بھی ہے۔ صحن کے پیراپیٹ کی اونچائی کم تھی جس سے بے پردگی ہوتی تھی۔ سامنے مکانوں کے بیڈ روم تک نظر آتے تھے لیکن نصیب نے زیادہ نکتہ چینی نہیں کی۔ وہ یہاں رہنے نہیں آئی تھی اور میرے لیے فلیٹ برا نہیں تھا۔
ساجی شام کو ملنے آئی۔ وہ بہ ظاہر خوش نظر آ رہی تھی۔ سیفی اور کیفی کو اس نے پیار کیا اور چاکلیٹ کا پیکٹ دیا۔ نصیب سے بے تکلّف ہونے کی کوشش کی لیکن نصیب برج قوس کی ہے۔ قوسین عورتیں جلدی گھاس نہیں ڈالتیں۔ ساجی سرطان ہے۔ قوس آتشی ہے اور سرطان آبی، پانی اور آگ میں ہم آہنگی نہیں ہو سکتی۔ پانی آگ کو بجھا دے گا یا آگ پانی کو بھاپ بنا کر اڑا دے گی۔
ساجی چلی گئی تو نصیب نے تبصرہ کیا کہ عورت باتونی ہے۔ میں نے تبصرے پر تبصرہ کیا کہ عورت تو باتونی ہوتی ہی ہے۔ اتنا نصیب کو اکسانے کے لیے کافی تھا۔ وہ برہمی کے انداز میں بولی۔ ’’اب ایسا بھی کیا کہ بات بات پر اپنے پتی کا ذکر۔۔۔۔ میرے پتی ایسے ہیں تو میرے پتی ایسے ہیں۔۔۔۔۔! اس کا مطلب ہے کہ اس کا پتی ناقص ہے اور یہ دکھاوا کر رہی ہے کہ بہت پتی ورتا ہے۔‘‘
’’خطرہ۔۔۔۔!‘‘
ملکہ شمشیر کی خاصیت ہے معاملے کی تہہ تک پہنچنا۔۔۔۔۔۔
دونوں کا زیادہ ملنا جلنا منا سب نہیں تھا۔
دوسرے دن نصیب کے تیور تیکھے ہو گئے۔
وجہ یہ ہے کہ اس کی ناک میں پکھراج کی کنّی والی لونگ ہے جو میں نے بہت پہلے دی تھی۔ اصل میں مشتری اس کا پیدائشی ستارہ ہے۔ پکھراج مشتری کا منا سب نگینہ ہے۔ ساجی دوسرے دن آئی تو اس نے ٹھیک ویسی ہی لونگ پہن رکھی تھی۔۔۔۔ لیکن وہ زیادہ دیر نہیں بیٹھی۔ اس کے جانے کے بعد نصیب فور اً مجھ سے مخاطب ہوئی۔ ’’عجیب عورت ہے۔ اس نے ویسی ہی لونگ پہنی۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟‘‘
’’کل تک اس کے پاس ایسی لونگ نہیں تھی۔ اس نے میری نقل کی۔‘‘
’’جس کو عقل نہیں ہوتی ہے وہ نقل کرتی ہے۔‘‘
’’آج وہ زیادہ دیر بیٹھی بھی نہیں۔۔۔۔۔ وہ دکھانے ہی آئی تھی۔‘‘
’’عجیب بات ہے۔‘‘
’’مجھ سے اپنا مقابلہ کر رہی ہے۔‘‘ نصیب کا موڈ خراب تھا۔
مجھے فکر ہوئی۔ ساجی خود کو نصیب سے آئی ڈینٹی فائی کر رہی تھی۔ کیا عجب اس جیسا لباس بھی زیب تن کرے۔ اگر ایسا ہوا تو نصیب بات کی اصلیت تک پہنچ جائے گی اور مجھے فلیٹ بدلنا پڑے گا۔ میں فوراً بازار گیا اور ہیرے کی کنّی والی لونگ خریدی۔
’’یہ لو۔۔۔۔!‘‘ میں نے لونگ اس کی ہتھیلی پر رکھ دی۔
اس نے مجھے حیرت سے دیکھا۔
’’اگر اس نے پھر نقل کی تو سمجھ لو احمق ہے۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ نصیب خوش ہو گئی۔
میں نے محسوس کیا کہ ساجی نصیب سے اپنائیت بڑھا نے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ بھجواتی رہتی۔ کبھی مکئی کی بالیاں۔۔۔۔۔ کبھی امرود۔۔۔ کبھی گجر۔ نصیب کو برا لگتا کہ وہ اتنا کیوں کر رہی ہے۔ ساجی کہتی تھی ’’اس کے کھیت کا ہے۔‘‘حد تو یہ ہے کہ اس نے ایک بار سنیما کا پاس بھی بھجوایا۔ معلوم ہوا اس کا کوئی دیور بسو شری ٹاکیز کا منیجر ہے۔ اسی سے کہہ کر اس نے پاس منگوایا ہے لیکن نصیب نے یہ کہہ کر پاس واپس کر دیا کہ وہ بچوں کی عادت بگاڑنا نہیں چاہتی۔
’’آپ نے تو پاس نہیں مانگا تھا؟‘‘
’’میں کیوں مانگنے لگا۔‘‘
’’آ خر یہ مہربانیاں کیوں۔۔۔۔۔؟ اس کے تیور چڑھے ہوئے تھے۔
یہ ضروری تھا کہ میں ساجی کو برا بھلا کہتا ورنہ نصیب اور چڑ جاتی۔
’’احمق عورت ہے۔‘‘
’’وہ ہماری نظروں میں اچھا بننے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘
’’یعنی وہ اچھی ہے نہیں۔‘‘ میں مسکرایا۔
’’میاں کیا کرتا ہے؟‘‘
’’میاں دوائی بیچتا ہے۔‘‘
’’اور دیور گیٹ کیپری کرتا ہے۔‘‘ نصیب کے لہجے میں حقارت تھی۔
’’گیٹ کیپر نہیں منیجر ہے۔‘‘
’’اکبر کہہ رہا تھا گیٹ کیپر ہے۔‘‘
’’جانے دو۔۔۔۔۔ ہمیں کیا؟‘‘
’’گھرانا معمولی ہے۔‘‘
’’لیکن مہذّب ہے۔ زور سے بولنے کی آواز نہیں آتی۔ کوئی جھگڑا سنائی نہیں دیتا۔ بچّے بھی شور نہیں مچاتے۔‘‘
نصیب چپ رہی۔
’’ہو سکتا ہے مخلص ہو۔ اپنے طور پر تمہاری خاطر کر رہی ہے۔ اپنے کھیت کی سبزیاں کھلا رہی ہے۔‘‘
نصیب نے نفی میں سر ہلایا۔ میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’دکھاوا کر رہی ہے۔ جتانا چاہ رہی ہے کہ صاحب حیثیت ہے جب کہ ہے نہیں۔‘‘
’’ایسا کیوں سوچتی ہو؟‘‘
’’اکبر کہہ رہا تھا سبزیاں بازار سے خرید کر بھجواتی ہے۔‘‘
کو ئن آف سورڈ۔۔۔۔ کبھی تو تلوار میان میں رکھا کرو۔۔۔! مجھے ساجی پر غصّہ آ رہا تھا۔۔۔۔۔ ا حمق عورت۔۔۔ پکھراج والی لونگ کیوں پہنی۔۔۔؟
ساجی سے بات کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا ورنہ سمجھاتا کنارے رہو۔۔۔۔ نصیب جیسی عورتیں سونگھ کر سب سمجھ جاتی ہیں۔
مجھے موقع مل گیا۔ وہ تیج کا دن تھا۔ بھادوں ماس میں بڑھتے چاند کی تیسری تاریخ جب چاند ہست نچھتّر سے گذرتا ہے۔ اس دن شادی شدہ عورتیں شوہر کی لمبی عمر اور خیر و عافیت کی دعائیں مانگتی ہیں۔ کہتے ہیں پاروتی نے شنکر کو حاصل کرنے کے لیے گنگا تٹ پر بارہ ورش گھور تپ کیا۔ تپ میں ہوا پیتی، دھوپ کھاتی اور پتّے چباتی۔ پتّے چبانے سے ہی پاروتی کا نام ’’ارپنا‘‘ پڑا۔ نارد نے پربت راج سے دونوں کے بیاہ کی سفارش کی۔ پربت راج راضی ہوئے تو سکھیاں اسے لے کر جنگل چلی گئیں۔ وہاں پاروتی کھوہ میں رہنے لگی اور ریت کا شیو لنگ بنا کر ارادھنا کی۔ پاروتی کے کٹھور تپ سے خوش ہو کر شیو نے بیاہ کا وچن دیا۔ پربت راج کو خبر ملی تو خوشی خوشی دونوں کا بیاہ رچایا۔
ساجی مجھے سیڑھیوں پر مل گئی۔ وہ کریپ سلک کی ساری میں زیور سے لدی تھی۔ آنکھوں میں گہرا کا جل تھا۔ ماتھے پر جھومر اور ناک میں نتھ چمک رہی تھی۔ ہاتھوں میں قمقمے والی چوڑیوں کے ساتھ جڑاؤ کنگن کھنک رہے تھے۔ اس روپ میں میں نے اسے پہلے نہیں دیکھا تھا۔
’’کس کے قتل کا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے پو چھا۔
’’آج تیج ہے۔‘‘ وہ بھی مسکرائی۔
’’روزہ ہو۔۔۔؟‘‘
اس نے اثبات میں سر ہلایا تو جھومر ہل گیا۔ پھر آہستہ سے بو لی۔
’’ایک دیا آپ کے نام کا بھی جلاؤں گی۔‘‘
اور مسکراتی ہوئی اوپر چلی گئی۔ میں نے ایک لہر سی محسوس کی۔۔۔۔ میرے نام کا دیا۔۔۔۔؟ کمار کے نام کا۔۔۔!
رات تقریباً نو بجے پرشاد لے کر آئی۔۔۔۔۔ طرح طرح کے پکوان۔۔۔۔۔ پھل۔۔۔۔۔ مٹھائیاں۔۔۔۔۔ ساتھ میں چوڑی اور سیندور کی ڈبیا بھی۔ وہ اسی طرح سجی سنوری ہوئی تھی۔ نصیب اس کو دیکھ کر مسکرائی۔
’’اللہ خیر کرے۔‘‘
ساجی شرما گئی۔ پھر ہنستی ہوئی بولی۔ ’’آج تیج ہے نہ۔۔۔۔۔‘‘
’’آپ تو دلہن بنی ہوئی ہیں۔‘‘
’’آج کے دن ہر عورت سجتی ہے اور اپنے سہاگ کے لیے نرجلا ورت رکھتی ہے۔‘‘
کیفی اور سیفی اس دلہن کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ ساجی نے دونوں کے گال چھوئے اور سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’میں بچپن سے ہی ورت رکھتی آ رہی ہوں۔‘‘
’’یہ ہرتا لیکا ورت ہے۔ بتایئے کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں جانتی۔‘‘ وہ جھینپ گئی۔
ہرتا لیکا۔۔۔۔۔ یعنی ہرت جوڑا لیکا۔۔۔۔ ہرت معنی ہرن یعنی لے کر بھاگ جانا۔۔۔۔۔ ا لیکا معنی سہیلی۔۔۔۔ سہیلیاں پاروتی کا ہرن کر جنگل میں لے گئی تھیں اور وہاں پاروتی نے شیو کے لیے ورت رکھا۔ اس لیے اس ورت کو ہرتا لیکا ورت کہتے ہیں۔‘‘
وہ خاموش رہی۔
پتی لوگ تو نہیں رکھتے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ تو رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں تم بھوکی ر ہو گی تو میں کیسے کھاؤں گا۔‘‘
’’بہت پیار کرتے ہیں آپ سے۔‘‘ میں مسکرایا۔ جواب میں اُس نے میری طرف خاموش نظروں سے دیکھا۔
’’یہ رواج اب مردوں میں ہو گیا ہے۔‘‘
’’باغبان میں امیتابھ بچّن نے رکھا تھا۔‘‘ سیفی بول پڑا۔
’’کاجول نے بھی شاہ رخ خان کے لیے رکھا تھا۔‘‘ کیفی بھی بول پڑا۔
’’یعنی ٹی وی کلچر کا اثر ہے۔ اگر امیتابھ نہیں رکھتا تو آپ کے پتی مہاراج بھی نہیں رکھتے۔‘‘ میں نے اُسے چھیڑا۔
’’ایسی بات نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ سے میرا ساتھ دیتے ہیں۔ بہت پیارے پتی ہیں۔ میں خود ایک سیکنڈ بھی ان کے بغیر نہیں رہ پاتی۔‘‘
’’خدا کرے آپ کی جوڑی سلامت رہے۔‘‘
’’یہ کیا ہے؟‘‘ کیفی نے ایک پکوان کی طرف اشارہ کیا۔
’’ٹھکوا ہے۔ خالص گھی کا بنا ہے۔ کھاؤ۔‘‘
’’گھی آپ کے کھیت سے آیا ہو گا۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
نصیب نے مجھے گھور کر دیکھا۔ اس کی نگاہیں کہہ رہی تھیں۔ ’’یہ اٹکّر لیس بو لی۔۔۔۔۔‘‘
میں ہنسنے لگا۔ ساجی بھی مسکرائی۔ پھر اس نے ڈبّے سے چوڑی نکالی اور نصیب سے مخاطب ہوئی۔
’’پہن لیجیے۔‘‘
’’ابھی رہنے دیجیے۔‘‘
’’ارے نہیں۔۔۔۔۔ تیج کے دن سہاگن کو نئی چوڑی پہننی چاہیے۔‘‘
ساجی نے اپنے ہا تھ سے چوڑی پہنائی۔ نصیب انکار نہیں کر سکی۔ وہ خوش نظر آ رہی تھی۔ پھر اس نے ہاتھ اٹھا کر سلام کیا اور ہنس کر بولی۔
’’ہمارے یہاں نئی چوڑی پہنتے ہیں تو سلام کرتے ہیں۔‘‘
’’یہ ہے گنگا جمنی کلچر۔ تیج کے دن چوڑی پہن کر سلام کرنا۔‘‘ میں نے کہا۔
ساجی کے جانے کے بعد نصیب نے اکبر کو کھانا کاڑھنے کے لیے کہا۔ کھانے کے دوران ساجی سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی لیکن نصیب بستر پر آئی تو بولی۔ ’’چوڑیاں خوب صورت ہیں۔ اب مجھے بھی کچھ دینا پڑے گا۔‘‘
’’ایک ایسی ہی لونگ دے دو۔‘‘ میں نے شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ ناک کی طرف اشارہ کیا۔
نصیب نے مجھے گھور کر دیکھا۔ ’’شروع ہو گئے آپ۔۔۔؟‘‘
میں ہنسنے لگا۔
’’آپ اس کو بھی چھیڑ رہے تھے۔‘‘
’’نہیں تو۔۔۔۔!‘‘
’’آپ لوگ عورتوں کی بڑی خوشیاں سہہ لیتے ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی خوشیاں گراں گذرتی ہیں۔‘‘
’’کیا بات ہوئی؟‘‘
وہ بہت خوش خوش آئی۔ بہت خلوص سے پرشاد دیا اور آپ اس کا کلاس لینے لگے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’ہرتا لیکا ورت کے معنی پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ بے چا ری شرمندہ ہو گئی کہ خود اپنے پرب کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔‘‘
’’مجھے کیا معلوم کہ وہ اتنا بھی نہیں جانتی۔‘‘
نصیب میری طرف مڑی۔ ہتھیلی پر رخسار ٹکایا اور کہنی کے بل ادھ لیٹی ہو گئی اور میری آنکھوں میں جھانکتی ہوئی مسکرائی۔
’’اور جناب گھی کا کھیت سے کیا تعلّق؟‘‘
میں ہنسنے لگا۔
’’آپ ہیں شیطان۔‘‘ نصیب بھی ہنسنے لگی۔
نصیب کی یہ ہنسی میں خوب پہچانتا ہوں اور اس طرح بستر پر اس کے نیم دراز ہونے کا انداز بھی۔۔۔۔ یہ خود سپردگی کا اشارہ تھا۔
میں نے روشنی گل کی۔
’’انترا نہیں مل رہا ہے۔‘‘ نصیب آہستہ سے بولی۔
انترا۔۔۔۔ نصیب کا خاص لفظ۔۔۔۔ کسی کام میں آہنگ محسوس نہیں کرتی تو یہی کہتی ہے۔ وہ جب دائیں طرف ہوتی ہے تو انترا نہیں ملتا۔
اسے لپٹائے ہوئے میں نے بائیں طرف کھینچا اور نصیب رسپانسو تھی۔
صبح صبح جھا جی ٹپک پڑے۔۔۔۔۔۔
مجھے الجھن ہوئی۔۔۔۔۔ اس وقت آنے کا مقصد کیا تھا۔۔۔۔؟
’’سوچا آپ کو بدھائی دے دوں!‘‘
’’کس بات کی بدھائی؟‘‘
’’آپ فیملی لائے۔‘‘ وہ مسکرائے۔۔۔۔۔ مسکرانے کا وہی انداز۔۔۔۔ ترکش سے تیر نکالنے جیسا۔۔۔۔ مجھے عجیب لگا۔۔۔۔۔ اس میں بدھائی دینے کی کیا بات تھی؟
’’ابھی تو بھابھی جی رہیں گی نا۔۔۔۔؟‘‘ اس کے پوچھنے کا انداز بھی مجھے طنزیہ معلوم ہوا۔
’’کچھ دن۔۔۔۔ جب تک بچّوں کا اسکول بند ہے۔‘‘
اس نے ایک لمحے کے لیے مجھے گھور کر دیکھا۔ پھر ایک آنکھ دبائی اور اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ ’’اور ان کا کیا حال ہے۔۔۔؟ خوب کنڈلی دیکھی جا رہی ہے۔‘‘
مجھے نفرت کا احساس ہوا۔ نشانہ کہیں اور تھا۔۔۔۔۔!
اور آخر اس نے تیر چلایا۔
’’میرے ڈائرکٹر صاحب اکیلے رہتے ہیں۔ فیملی ساتھ نہیں رکھتے لیکن میم صاحب سرپرائز چیکنگ کرتی رہتی ہیں۔ جیسے بھابھی جی اچانک پہنچ گئیں تو وہ بھی اسی طرح اچانک پہنچ جاتی ہیں اور خالی کمروں میں جھانک جھانک کر دیکھتی ہیں۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ باتھ روم میں بھی۔۔۔!‘‘ اور پھر اس نے زور کا قہقہہ لگایا۔ ’’ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔‘‘
قہقہہ لگاتے ہوئے اس کا منھ مگرمچھ کے دہانے کی طرح کھل گیا تھا اور سارے دانت نمایاں ہو گئے تھے۔
وہ دیر تک نہیں بیٹھا۔ میں نے بھی چائے کے لیے نہیں پوچھا۔
مجھے کیا معلوم تھا ساری گفتگو ساجی روشن دان کے پیچھے سے سن رہی ہے۔ نصیب غسل کرنے گئی تو ساجی کو مجھ سے بات کرنے کا موقع مل گیا وہ بہت غصّے میں تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بولی۔
’’جھا جی کیا کہہ رہا تھا؟‘‘
’’ہم پر شک کرتا ہے۔‘‘
’’یہ کیا شک کرے گا؟ خود اُس کی بیوی اپنے جیٹھ سے پھنسی ہوئی ہے۔‘‘
میں مسکرایا۔ ساجی غصّے میں حسین لگ رہی تھی۔ لطف لینے کے لیے میں نے آگ میں تیل چھڑکا۔
’’کہتا تھا درجات کی ماں تاڑی پیتی ہے۔‘‘
ساجی تلملا گئی۔ ’’نرک میں جائے گا سالا۔۔۔۔۔‘‘
میں ہنسنے لگا۔
سیڑھیوں پر کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ ساجی کاریڈور میں چلی گئی۔ میں اندر کمرے میں آ گیا۔
نصیب کا دل یہاں لگ نہیں رہا تھا گرچہ ساجی اس کو لبھانے کی کوشش کرتی تھی۔ سیفی اور کیفی کی بھی دلجوئی کرتی رہتی لیکن نصیب کو یہ سب پسند نہیں تھا۔ وہ یوں بھی کسی سے ملتی ہے تو احتیاط کے ساتھ کہ فاصلہ مٹتا بھی ہے اور قائم بھی رہتا ہے۔ سیفی اور کیفی کو ساجی کی لڑکیوں سے زیادہ گھلنے ملنے نہیں دیتی تھی۔ کیرم کھیلنے کبھی اوپر جاتے تو کچھ دیر میں ہی انہیں نیچے بلا لیتی۔
چھٹّیاں ختم ہو گئیں۔ جانے سے ایک دن قبل ساجی نے شام کھانے پر بلایا۔ اس کے فلیٹ میں جانے کا یہ پہلا اتّفاق تھا۔ اوپر کی سیڑھی جس چوکور سطح پر ختم ہوتی تھی۔ وہ بیٹھک کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ وہاں ایک پرانا صوفہ پڑا تھا۔ دو چار کرسیاں بے ترتیب رکھی تھیں۔ ان کے درمیان ایک چھوٹی سی میز بھی تھی جس کا پالش اڑ گیا تھا۔ ساجی کی لڑکیاں اندر کہیں چھپ کر بیٹھی ہوئی تھیں۔ شاید بڑی والی کچن میں تھی۔ کبھی کبھی اس کے بولنے کی آواز سنائی دے جاتی۔ درجات بات بات پر اندر جاتا اور پھر آ کر کھڑا ہو جاتا۔ وہ ایک بار بھی میزبان کی حیثیت سے ہمارے درمیان بیٹھا نہیں تھا۔ نصیب اور میں صوفے پر تھے اور سامنے والی کرسیوں پر سیفی اور کیفی بیٹھے تھے۔ ساجی بار بار انہیں دلار کر رہی تھی جس سے وہ اکتاہٹ محسوس کر رہے تھے۔ مشکل یہ تھی کہ ہمارے پاس بات کرنے کے لیے کوئی موضوع نہیں تھا۔ آخر کھانا لگا تو سوچا کم سے کم کھانے کی تعریف ضرور کروں گا۔
کھانے میں زیادہ اہتمام نہیں تھا۔ مٹر پنیر کی سبزی۔۔۔۔ مچھلی کا سالن، زیرہ رائس اور دال مکھانی۔۔۔۔۔۔۔
مجھے مچھلی کھانے میں ہمیشہ کوفت ہوتی ہے۔ اب کانٹا کون نکالے؟ میں نے اپنی مشکل کا اظہار کیا تو درجات نے ایک پلیٹ میں مچھلی کا سالن لیا اور کانٹا نکال کر مجھے پروسا۔ میں نے محسوس کیا، نصیب کو درجات کا یہ عمل اچھا نہیں لگا۔
میں نے کھانے کی تعریف کی۔۔۔۔۔۔
لیکن گڑ کھا کر پیندی کڑوی ہو گئی۔۔۔۔۔۔
واقعہ ناگوار ہے۔ کھانا ختم ہوا تو ساجی نے نصیب کو نذرانہ پیش کیا۔۔۔۔۔ چوڑیاں۔۔۔۔۔ کپڑے اور سونے کا لاکٹ۔۔۔۔۔ کیفی اور سیفی کو بھی کپڑے دیے۔۔۔۔۔!
کہنے لگی۔ ’’ہمارے یہاں کی ریت ہے۔۔۔۔۔ گھر سے وداع ہوتے وقت نذرانہ دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
لاکٹ دیکھ کر نصیب کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔۔۔۔۔!
آپ کیوں اتنا مجھ پر خرچ کر رہی ہیں؟‘‘
’’خرچ کی بات نہیں ہے۔ یہ تو وداعی کی رسم ہے۔‘‘
’’معاف کیجیے گا۔۔۔۔۔ میں آپ کے گھر سے وداع نہیں ہو رہی ہوں۔ میں اپنے ہی گھر سے اپنے گھر جا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘ نصیب کا لہجہ ترش ہو گیا۔
ساجی چپ ہو گئی۔ میں نے محسوس کیا فضا میں تناؤ سا ہے۔
’’میں چوڑیاں رکھ لیتی ہوں لیکن کپڑے اور لاکٹ نہیں لوں گی۔۔۔۔۔ یہ غلط ہے۔ آپ مجھ پر کیوں اتنا خرچ کریں گی۔۔۔۔؟‘‘
ساجی کچھ نہیں بولی۔ درجات بھی خاموش کھڑا دیکھتا رہا۔
بہت بد مزگی لیے ہم وہاں سے لوٹے۔ اپنے کمرے میں آ کر نصیب کا غصّہ پھٹ پڑا۔
’’یہ دو کوڑی کی عورت میری جگہ خود کو دیکھ رہی ہے۔ اس دن مجھے دکھانے کے لیے پکھراج والی لونگ پہن کر آ گئی۔ گھر میں کھانے کے لیے نہیں ہے اور بیس ہزار کا لاکٹ گفٹ کر رہی ہے۔
’’احمق ہے۔‘‘ میں بھی بھلا برا کہنے لگا۔
’’آج مجھے میرے ہی گھر سے وداعی دے رہی ہے۔ یہ آخر چاہتی کیا ہے؟‘‘
’’ایڈیٹ ہے کمبخت!‘‘
’’میاں کیسا بھڑوا ہے؟ کھڑا کھڑا ہونّق کی طرح دیکھتا رہتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے یہ ایک دن اپنی بیوی آپ کے حوالے کر دے گا۔‘‘
مجھے دونوں ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ میں ہنسنے لگا۔
’’مجھے ان کی نیت ٹھیک نہیں معلوم ہوتی۔ آپ مکان خالی کیجیے۔‘‘
نصیب کا موڈ دیر تک خراب رہا۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ مکان بدل لوں گا بلکہ یہاں سے تبادلہ ہی کرا لوں گا۔
صبح ہم پٹنہ کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ نصیب اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ گھر سے نکلتے وقت کوئی ناگوار بات ہو جائے تو سفر بھی خراب گذرتا ہے۔ دونوں میاں بیوی الوداع کہنے نیچے آئے تو نصیب خوش دلی سے پیش آئی۔ ساجی کے چہرے پر خفّت کے آثار تھے اور مجھ سے آنکھیں چرا رہی تھی اور وہ گاؤدی تو ہمیشہ کی طرح چپ چاپ کھڑا تھا۔
پٹنہ آ کر میں نے ایک ماہ کے لیے چھٹّی بڑھا دی۔ اکبر کو بھی بلوا لیا۔
مجھے حیرت ہوئی۔۔۔۔۔۔! یہاں مجھے کوئی کام نہیں تھا۔۔۔۔ پھر چھٹّی کیوں بڑھائی۔۔۔۔۔؟ مقصد کیا تھا۔۔۔۔؟ کیا نصیب کو یقین دلانا چاہتا تھا کہ لال گنج جانے سے میری دلچسپی نہیں ہے؟ یا ساجی کو جتانا چاہتا تھا کہ میری اپنی مصروفیات ہیں۔ میں گھرکو ترجیح دیتا ہوں۔۔۔؟
پھر بھی مجھے یہ سوچ کر لطف آیا کہ اس کو میرا انتظار ہو گا۔۔۔ وہ بے قرار ہو گی۔۔۔؟ اس کے پاس میرا پتا نہیں تھا۔ میں نے اپنا فون نمبر بھی اسے نہیں دیا تھا اور اکبر کو بھی بلوا لیا تھا۔ وہ میری خیریت بھی کسی سے دریافت نہیں کر سکتی تھی نہ ہی مجھ تک کوئی پیغام پہنچا سکتی تھی۔۔۔۔۔ وہ کوفت میں مبتلا ہو گی کہ میں کہاں گم ہو گیا۔۔۔؟
میں اعتراف کروں گا کہ یہ میری سادیت پسندی تھی کہ اسے کوفت میں مبتلا کر کے میں خوش ہو رہا تھا۔ چھٹّی ختم ہونے سے ایک دن قبل میں نے اکبر کو بھیج دیا کہ گھر کی صفائی کرا دے۔ دوسرے دن میں شام تک وہاں پہنچا۔ بالکونی میں سنّاٹا تھا۔ اندر فلیٹ میں بھی کوئی شور نہیں تھا۔ میں نے اکبر سے اس بابت کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں کبھی اس قسم کی بات اس سے کرتا بھی نہیں تھا۔ میں تھکا ہوا تھا۔ دو پیگ وہسکی لی اور کھانا کھا کر سو گیا۔
دوسرے دن وہ صبح صبح چائے لے کر آئی۔ میز پر چائے رکھ کر خاموشی سے بیٹھ گئی۔ اداسی اس کی آنکھوں سے صاف ظاہر تھی۔ ہونٹ دائرہ نما ہو رہے تھے۔ نچلا حصہ اندر کی طرف ایک ذرا بھینچا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ ساری اداسی جیسے ہونٹوں کے خم میں آ کر ٹھہر گئی تھی۔ میں نے کوئی توجہ نہیں دی بلکہ خشک رویہ اپنایا۔
’’چائے میں نے پی لی ہے۔‘‘
میں نے چائے نہیں پی تھی۔ اکبر سگریٹ لانے گیا ہوا تھا۔ میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔
پھر پی لیجیے۔‘‘ وہ آہستہ سے بولی اور ساری کا پلّو مروڑنے لگی۔
’’نہیں!‘‘ میں نے اسی طرح خشک لہجے میں کہا اور پھر یہ سوچے بغیر نہیں رہا کہ کیا میں واقعی ایسا ہوں۔۔۔؟ یہ سوانگ میں کیوں رچ رہا تھا۔ اس نے میری طرف عجیب نظروں سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں زخمی پرندے کی سی تڑپ تھی۔۔۔۔۔
’’میں جانتی ہوں آپ میرے دوست نہیں ہو سکتے۔‘‘ لہجے میں بلا کی حسرت تھی۔ ہونٹ ایک ذرا خم لیے کچھ اور سکڑ گئے۔ پلکوں پر آنسوؤں کا قطرہ لرز اٹھا۔۔۔۔ اور یہی چیز میری جبلّت کو ہوا دیتی ہے۔ اذیت میں سکڑے ہوئے ہونٹ۔۔۔ اور لرزتے آنسو۔۔۔۔۔۔ میں نے اسے بازوؤں میں بھینچا۔۔۔۔۔۔ میرے نتھنوں میں اس کی سانسوں کی تیز بو سرایت کر گئی۔۔۔۔۔ وہی جنگلی گھاس کی سی مہک۔۔۔ مجھ پر جنون سا سوار ہو گیا۔۔۔۔ اس کے شانوں پر انگلیاں سختی سے گڑائیں۔۔۔۔۔ وہ درد سے بلبلا اٹھی۔۔۔۔۔ اسے بازوؤں میں دبوچے بستر تک آیا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔۔ آنسوں کا قطرہ ڈھلک کر رخسار پر رک گیا تھا۔ ہونٹ وا ہو گئے تھے اور جسم پر لرزہ طاری تھا۔ میری وحشت بڑھ گئی۔ اس کے ہونٹوں پر اس شدّت سے اپنے ہونٹ ثبت کیے کہ وہ کراہ اٹھی۔ ہونٹوں کا نچلا کنارا زخمی ہو گیا اور خون کی ایک پتلی سی لکیر اُبھر آئی۔ میری زبان پر نمک کا ذائقہ رینگ گیا۔۔۔۔ اسی وقت سیڑھیوں پر کسی کے قدموں کی آہٹ۔۔۔۔۔ میں اسے چھوڑ کر ہٹ گیا۔ وہ اب بھی کانپ رہی تھی۔ ایک بار اُس نے نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کاری ڈور میں چلی گئی۔
اکبر ہی تھا۔ میں نے اسے کینہ توز نظروں سے دیکھا۔ وہ خالی ہاتھ آیا تھا۔ جب اس نے کہا کہ سگریٹ کی دکان بند تھی تو میرا غصّہ اُبل پڑا۔
میں زور سے چیخا۔ ’’آگے کیوں نہیں بڑھ گیا حرام زادہ۔۔۔؟‘‘
اکبر گھبرا کر نیچے اتر گیا۔
اس کے جانے کے بعد بھی میرا غصّہ کم نہیں ہوا۔ میں اندر ہی اندر کھول رہا تھا۔ کمبخت کو اسی وقت آنا تھا۔ وہ دوسری بار مخل ہوا تھا۔
اس دن سویرے ہی دفتر چلا گیا۔ مجھے اپنے روّیے پر افسوس ہو رہا تھا۔ میں نے ساجی کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ کبھی کبھی مجھے کیا ہو جاتا ہے؟ میں شام کو دفتر سے لوٹا تو فلیٹ میں کوئی چہل پہل نہیں تھی۔
رات دس بجے اکبر نیچے سونے گیا تو میری آنکھیں روشن دان پر ٹک گئیں لیکن وہاں سنّاٹا تھا۔
صبح رینو پوچھنے آئی کہ میں چائے پیوں گا یا نہیں۔ میں نے خوش دلی سے کہا کہ کل نہیں پی تھی۔ اس لیے آج دو پیالی چائے پیوں گا۔۔۔۔۔۔
مجھے امید تھی کہ چائے لے کر وہ خود آئے گی۔ اور وہ آئی۔ اسے دیکھتے ہی میں نے معذرت طلب کی۔
’’کل کے روّیے پر میں نادم ہوں۔‘‘
’’میں صرف دوستی چاہتی ہوں۔‘‘ اس نے وہی راگ الاپا۔
’’میں کب دشمنی چاہتا ہوں؟‘‘ میں بھی مسکرایا۔
’’آپ حد سے گذرنا چاہتے ہیں لیکن میں شادی شدہ ہوں۔‘‘
’’شادی شدہ تو میں بھی ہوں۔‘‘
’’ہم دوست بن کر ہی رہ سکتے ہیں۔‘‘
’’دوستی اگر دل سے ہو تو اس میں جسم بھی شامل ہو جاتا ہے۔‘‘
وہ خاموش رہی۔
’’جسم کے خلوص سے بڑھ کر کوئی خلوص نہیں ہے۔‘‘
وہ کرسی کے ہتّھے پر انگلی سے آڑی ترچھی سی لکیریں کھینچ رہی تھی۔ مجھے لگا وہ شش و پنج میں ہے۔
اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر آہستہ سے دبایا۔ ’’وعدہ کرتا ہوں ساتھ نبھاؤں گا۔‘‘
اس نے پلکیں اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ میں نے اس کو چہرے کا کٹورہ سا بنایا اور پلکیں چوم لیں۔
’’تم میری ہو۔۔۔۔۔‘‘ میں جذباتی ہو رہا تھا۔
اس طرح نہیں۔‘‘ وہ بھی جذباتی لہجے میں بولی۔
’’پھر کس طرح۔۔۔۔؟‘‘
اس طرح مجھے گناہ کا احساس ہونے لگتا ہے۔ میں شادی شدہ ہوں۔‘‘
’’پھر کیا کروں۔۔۔۔؟‘‘
’’مجھے سیندور لگاؤ۔‘‘
سیندور۔۔۔!!!میں نے چونک کر اُس کو دیکھا۔
وہ سنجیدہ تھی۔
’’بھگوان کو حاضر ناظر جان کر مجھے سیندور لگاؤ۔ تب میں تمہاری ہو سکتی ہوں۔‘‘
میں خاموش رہا۔
سیندور دان کے بعد مجھے پاپ بودھ نہیں ہو گا۔ میں خود کو دروپدی سمجھوں گی۔‘‘
میں مسکرایا۔ ’’کہاں ہے سیندور۔۔۔۔؟‘‘
’’رات دس بجے میرے کمرے میں آنا۔۔۔۔‘‘
وہ چلی گئی۔ میں نے گدگدی سی محسوس کی۔۔۔۔۔۔ وقت مناسب تھا۔ اکبر بھی نیچے چلا جائے گا۔۔۔۔۔ لڑکیاں بھی کھا پی کر سو رہی ہوں گی۔
یعنی آج شب وصل کی زلفیں سنواروں گا۔
میں نے سارا دن بے قراری میں گذارا۔ شام ہوئی تو بے چینی بڑھ گئی۔ ایک انجانا سا خوف بھی محسوس ہو رہا تھا۔ عمر کے اس حصّے میں اس قسم کے تعلقات۔۔۔۔؟ بات کبھی تو طشت از بام ہو گی۔ نصیب پر کیا اثر ہو گا؟
کیا کہتے ہیں ٹیرو کے پتّے۔۔۔۔۔؟
میں نے ذہن کو ایک نقطے پر مرکوز کیا۔ ٹیرو کی گڈّی ہاتھ میں لی۔ سائل کی نمائندگی کے لیے میجر آرکین سے لورز کارڈ کا انتخاب کیا۔ گڈّی پھینٹی اور پتّے پھیلائے۔ مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہوا آخری پتّا بھی میجر آرکین سے تھا۔ دی ڈیول۔۔۔۔! میں ڈیول کی معنویت پر غور کرنے پر مجبور ہوا۔۔۔ کیا محبت اپنے پہلو میں شیطان بھی رکھتی ہے۔۔۔۔؟
رات کے دس بج گئے۔ اکبر نیچے سونے چلا گیا۔ اس کے فلیٹ میں مکمّل خاموشی تھی اور میری نگاہیں روشن دان پر ٹکی تھیں۔ ساڑھے دس بج گئے لیکن اس کا کہیں پتا نہیں تھا۔ شاید سو گئی ہو۔۔۔؟ مجھے یاد آیا۔ اس نے بتایا تھا کہ بہت تناؤ میں اسے نیند آ جاتی ہے۔ وہ یقیناً تناؤ میں ہو گی اور اب نیند میں ہے۔۔۔! میں باہر آیا۔ سیڑھی کے پاس کا صدر دروازہ بند تھا۔ چاہا دستک دوں لیکن پھر سوچا مصلحت اسی میں ہے کہ خاموش رہوں۔ یہ بات چبھ رہی تھی کہ اُس نے دس بجے کمرے میں آنے کے لیے کہا تھا اور خود چین کی نیند سو رہی تھی اور میں ماہی بے آب ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ صبح اس سے سمجھ لوں گا۔ غصّے میں دروازہ بند کیا اور کمرے میں آ کر سگریٹ سلگائی اور روشن دان کی طرف دیکھتے ہوئے دھویں کے مرغولے بنانے لگا۔ وہ اب نہیں آئے گی۔۔۔۔۔ سگریٹ کا آخری کش لیتے ہوئے میں نے سوچا اور روشنی گل کرنے کے لیے آگے بڑھا لیکن پھر رک گیا۔ سوئچ بورڈ کے قریب کرسی رکھی تھی۔ وہاں سے کرسی اٹھا کر روشن دان کے نیچے رکھا اور اس پر چڑھ کر پرے جھانکنے کی کوشش کی۔ وہاں اندھیرا تھا۔ یہاں تک کہ سیڑھی کی دیوار تک نظر نہیں آ رہی تھی اور مجھ کو اپنی حماقت پر غصّہ آ گیا۔ خود کو ملامت کرتے ہوئے کرسی سے نیچے اترا۔ روشنی گل کی لیکن بستر پر لیٹنے کے بجائے میں نے دوسری سگریٹ سلگائی آخر کیوں نہیں آئی۔۔۔۔؟ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ سوا گیارہ بجے تھے۔ ابھی وقت ہے۔۔۔۔۔ وہ آدھی رات کے قریب آئے گی۔۔۔ اور اگر نہیں آئی تو۔۔۔۔؟ اور اگر آ گئی تو۔۔۔۔؟ میں مسکرایا اور سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسل کر آنگن میں آیا۔ گرد سے اٹے آسمان میں ستارے دور دور تک نہیں تھے۔ تنہا چاند آسمان کے وسط میں لہک رہا تھا۔ اگر آ گئی تو بھری چاندنی میں۔۔۔۔۔۔ اچانک کلک کی آواز ابھری۔۔۔۔ اس کے کمرے میں روشنی ہوئی تھی۔ میں کمرے میں آیا اور روشن دان پر نظر کی۔ ہیرے سی اگلتی آنکھیں۔۔۔۔۔ میرے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔
کاری ڈور میں چٹخنی گرنے کی آواز آئی۔ میں نے دروازہ کھولا اور حیران رہ گیا۔ وہ سج دھج کر کھڑی تھی۔ بنارسی ساری میں زیب تن۔۔۔۔۔ زیور سے لدی ہوئی۔۔۔۔ ایک دلہن کی طرح۔ میں اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ وہ خاموش کھڑی تھی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
وہ چپ رہی۔
’’اس روپ میں۔۔۔؟ کہیں پارٹی سے آ رہی ہو؟‘‘
وہ پھر بھی خاموش رہی۔ میں مسکرایا اور اس کے نیکلس پر انگلی پھیری۔
’’اس طرح سج دھج کر۔۔۔؟‘‘
اس نے ایک بار پلکیں اٹھا کر دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔
’’بتاؤ نا کیا بات ہے؟ میں نے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔
اس نے اپنے کمرے میں چلنے کا اشارہ کیا۔ میں پیچھے پیچھے کمرے میں آیا۔ یہاں مدھم روشنی تھی۔ بستر پر نئی چادر بچھی ہوئی تھی۔ کمرے میں آ کر بھی وہ خاموش تھی اور سب کچھ پر اسرار معلوم ہوا۔ وہ بس مجھے تکے جا رہی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی الجھن میں مبتلا ہے۔ تب میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’خوب صورت لگ رہی ہو۔‘‘
اس نے پلکیں جھکا لیں اور رندھے ہوئے گلے سے بولی۔
’’مجھے سیندور لگاؤ۔‘‘
’’سیندور؟؟؟؟‘‘
میں مسکرایا۔ ’’اتنی سی بات۔۔۔؟‘‘
’’اتنی سی بات۔۔۔۔؟ تم اسے اتنی سی بات کہتے ہو؟‘‘ وہ تقریباً رو پڑی۔
میں نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی تھرتھراہٹ تھی اور آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے۔ اس فیصلے تک پہنچنے میں وہ یقیناً کرب سے گذر رہی ہو گی۔ مجھے اس کی خود فریبی پر ترس آ رہا تھا۔ میں سوچے بغیر نہیں رہا کہ یہ عورت یا تو انتہائی چالاک ہے یا بالکل بیوقوف۔ سیندور کے بہانے وہ مجھے متأثر کرنا چاہ رہی ہے کہ اس کے جذبات سچّے ہیں لیکن ایک عدد شوہر والی عورت کے لیے سیندور دان کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا اس کے بعد وہ گناہ سے بری ہو جائے گی؟ لیکن میری سوچ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ میں کیوں بھول جاتا ہوں کہ میں کمار ہوں۔ صدیوں سے اس کی روح کی پنہائیوں میں بسا ہوا کمار جو آج اچانک سامنے آ گیا ہے۔ اسے وہ کسی قیمت پر نہیں کھو سکتی۔ اسے حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ مجھے اس سے عجیب سی ہمدردی محسوس ہوئی۔ ٹھوڑی پکڑ کر میں نے اس کا چہرہ اوپر اٹھایا۔
’’جان من! بتاؤ کہاں ہے سیندور؟‘‘
اس نے طاق کی طرف اشارہ کیا۔ طاق میں بھگوان شیو کی چھوٹی سی مورتی رکھی ہوئی تھی۔ وہاں پر سیندور کی ایک ڈبیا بھی پڑی تھی۔
’’بھگوان کو حاضر ناظر جان کر مجھے سیندور لگاؤ۔‘‘
میں نے سیندور کی ڈبیا اٹھا لی۔
’’چلو صحن میں کھلے آسمان کے نیچے سیندور دان کرتا ہوں۔‘‘
’ ’نہیں۔ یہاں۔۔۔۔ بھگوان کے سامنے۔‘‘
’’بھگوان تو ہر جگہ ہے۔ کہیں بھی لگائیں کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘
وہ خاموش رہی۔ ہاتھ پکڑ کر اُسے صحن میں لایا۔ چاند آسمان کے وسط میں لہک رہا تھا۔ مجھے یاد آ گیا پبلو نرودا نے چاند کو گواہ بنا کر شادی کی تھی۔
ہم چاند کو گواہ بنائیں گے۔‘‘ میں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔
’’چاند ازل سے پیار کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
اس نے چاند کی طرف دیکھا۔
میں نے اس کی پلکیں چومیں۔ ’’آؤ۔۔۔۔ ہم بھی عہد کریں اور چاند کو اپنا گواہ بنائیں۔‘‘
میں نے آسمان کی طرف دونوں ہاتھ پھیلائے۔ ’’اے چاند! تو گواہ ہے۔ میں اس عورت کو اپناتا ہوں۔۔۔۔!‘‘ اور میں نے چٹکی بھر سیندور اس کی مانگ میں بھر دی۔ اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
’’میں تو دروپدی ہو گئی۔‘‘
اس نے اپنا سر میرے سینے پر رکھ دیا۔
مجھے احساس ہوا کہ میری وحشت کہیں کافور ہو چکی ہے۔۔۔۔۔ چند لمحے پہلے میں جس آگ میں جھلس رہا تھا، اس کی آنچ تک باقی نہیں تھی۔ وہ میرے سینے سے لگی کانپ رہی تھی اور میں سرد کھڑا سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی وہ احساس گناہ میں مبتلا تھی اور اب دروپدی ہو گئی۔۔۔۔؟ لیکن وہ دروپدی نہیں ہو سکتی۔ دروپدی ایک بہادر عورت تھی۔ اس نے مرد کی جارحیت کے خلاف جنگ کی تھی لیکن اس نے میری جارحیت کو گلے لگایا تھا اور خود چل کر میرے پاس آئی تھی۔ پا بجولاں۔۔۔۔ طلائی زنجیروں میں لپٹی ہوئی۔ یہ زیور نہیں تھے جن سے وہ لدی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ یہ زنجیریں تھیں جن میں وہ جکڑی ہوئی تھی۔ نکلس۔۔۔ چق۔۔۔ کنگن۔۔۔ جھمکے۔۔۔ لونگ۔۔۔ پائل۔۔۔ یہ بیڑیاں ہیں جنہیں عورت مرد کی غلامی میں خوشی سے قبول کرتی ہے۔ مرد کی فطرت میں ہے غلام بنانا اور عورت کی فطرت میں ہے غلام ہونا۔ غلامی کے بیج عورت کے اجتماعی شعور میں پنہاں ہیں۔ وہ کبھی بھی مرد کی بالا دستی سے آزاد نہیں ہو سکتی۔
میں اسے بازوؤں میں لیے ہوئے فرش پر بیٹھ گیا۔ گلے میں نکلس چمک رہا تھا۔ جگہ جگہ سرخ نگینے جڑے ہوئے تھے۔ میں اسے ایک ٹک دیکھتا رہا۔
’’کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔؟‘‘ اس نے اپنے بازو میری گردن میں حمائل کر دیے۔ میں خاموش رہا۔
’’تم مجھے مل گئے ہو۔۔۔۔۔ مجھے کچھ اور نہیں چاہیے۔‘‘ وہ میری گود میں اور سمٹ گئی۔
میں اس پر جھکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دونوں ہاتھ چھاتیوں پر باندھ لیے اور آنکھیں بند کر لیں۔ میں نے محسوس کیا اس کی چھاتیاں ابھی بہت سوکھی نہیں ہیں۔ چاند آسمان کے وسط میں آ گیا تھا۔ ہر طرف گہری خامشی تھی۔ چاند کی کرنیں اس کے نیم برہنہ جسم سے لپٹ رہی تھیں۔ اس کا گندمی رنگ مٹ میلی چاندنی میں اور بھی گندمی ہو گیا تھا۔ گلے میں زیور کی چمک بڑھ گئی تھی۔ نکلس کے سرخ نگینوں سے چنگاریاں سی پھوٹتی محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے بے اختیار نکلس پر ہاتھ پھیرا عجیب سی تپش کا احساس ہوا۔ ایک بار آسمان کی طرف نظر کی۔ لگا چاند آگ برسا رہا ہے اور اس کا سارا وجود جیسے چاندنی میں تپ رہا ہے۔
اور مجھے اسی جنگلی گھاس کی سی مہک کا احساس ہوا۔ یہ صرف سانسوں میں نہیں تھی۔ یہ جسم کے مساموں سے بھی پھوٹ رہی تھی اور میری سانسوں میں گھل رہی تھی۔ آہستہ سے اس کے رخساروں کو ہونٹوں سے برش کیا۔ اس کے لب و رخسار آگ میں دہک رہے تھے اور مجھ پر نشہ سا طاری ہو رہا تھا۔ اچانک وہ میری طرف متحرّک ہوئی تھی اور پھر میرے کان کی لوؤں کو اپنے دانتوں میں آہستہ سے دبایا تو میں نے سہرن سی محسوس کی۔ مجھے لگا بھری تپش میں میں چیڑھ کے درختوں سے ہو کر گذر رہا ہوں۔ وہ سرگوشیوں میں کچھ بولی جو سن نہ سکا۔ اس کی آواز خواب میں کہیں پکارتی سی محسوس ہوئی۔۔۔۔ آنکھیں کھولیں۔ ایک نظر اس کو دیکھا۔ چاندنی میں دہکتا ہوا اُس کا نیم برہنہ جسم بہت پر اسرار معلوم ہو رہا تھا اور تب اس کو پوری طرح برہنہ دیکھنے کی خواہش نے انگڑائی لی۔ چاند کی روشنی میں طلائی زنجیروں سے آراستہ ایک عورت کا برہنہ جسم۔۔۔۔۔۔
میں نے اسے کپڑوں سے بے نیاز کرنا چاہا۔ وہ مزاحمت کرنے لگی۔
’’نہیں۔۔۔۔ پلیز نہیں۔۔۔۔!‘‘
لیکن میں بہ ضد تھا۔
’’پلیز نہیں۔۔۔ میں کولڈ ہو جاتی ہوں۔‘‘
’’ضد مت کرو۔‘‘ مجھے غصّہ آ گیا۔ ایک جھٹکے میں اس کی ساری الگ کی، پھر بلوز۔۔۔۔۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔
’’پلیز۔۔۔۔۔ مجھے اور عریاں مت کرو۔ میں پوری طرح برہنہ نہیں ہو سکتی۔‘‘وہ روہانسی ہو گئی۔
’’بے کار کی ضد مت کرو۔‘‘ میں نے چاہا اسے سایہ سے بھی بے نیاز کر دوں۔ وہ گگھیانے لگی۔
’’ایسا مت کرو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میں کولڈ ہو جاتی ہوں۔‘‘
’’کیوں کولڈ ہو جاتی ہو۔۔۔۔۔؟ کیا پاگل پن ہے؟‘‘ میرا لہجہ سخت ہو گیا۔
’’پلیز۔۔۔ نہیں۔۔۔ پلیز۔۔۔!‘‘ اس نے چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا لیکن مجھ پر جنون سوار تھا۔
تم نہیں مانو گی تو میں چلا جاؤں گا۔‘‘ بے حد ترش لہجے میں میں نے دھمکی دی۔
وہ سسک سسک کر رونے لگی۔ میں نے اسے سایے سے بھی بے نیاز کر دیا۔
وہ چاروں خانے چت لیٹی تھی۔ بھری چاندنی میں برہنہ۔۔۔۔ زیور سے آراستہ۔۔۔۔۔ میں نے محسوس کیا وہ آہستہ آہستہ کانپ رہی ہے۔ اس نے چہرہ دونوں ہاتھوں سے اس طرح چھپا لیا تھا کہ دونوں چھاتیاں کہنی سے ڈھک گئی تھیں۔ پیٹ پر ناف کے قریب زچگی کے نشانات بہت واضح تھے۔ جی میں آیا انہیں چھو کر دیکھوں۔ وہاں پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔ وہ لرز اٹھی۔ انگلیوں کے پوروں پر مجھے نمی کا احساس ہوا۔ اس کا جسم ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ بدن پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں تھیں۔ وہ مستقل کانپ رہی تھی۔ اچانک اس کی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی۔
’’کمار۔۔۔۔ کمار۔۔۔۔ مجھے ننگا مت کرو۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔!‘‘
اور چاندنی دھندلا گئی۔ صحن میں روئے زمین کا سب سے کریہہ منظر چھا گیا۔ خوف سے کانپتا ہوا ایک عورت کا برہنہ جسم۔۔۔۔۔۔!
میں نے اس کے کپڑے سمیٹے اور اُسے گود میں اٹھا کر کمرے میں لایا اور بستر پر لٹا دیا۔ وہ اب بھی کانپ رہی تھی۔ میں نے سر سے پاؤں تک اسے چادر سے ڈھک دیا اور سر جھکائے کمرے سے باہر نکل گیا۔
صبح دیر سے آنکھ کھلی۔ سر بھاری محسوس ہو رہا تھا۔ کھڑکی کھولی تو موسم بدلا سا لگا۔۔۔۔ مغربی کناروں پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اس طرف سے آنے والی ہواؤں میں دور کہیں کہرے کا لمس تھا۔ میں نے خنکی سی محسوس کی اور کھڑکی بند کر دی۔
موبائل بج اٹھا۔۔۔۔ نصیب۔۔۔۔۔؟ دیکھا تو اُسی کا فون تھا۔۔۔ کوئی ٹیلی پیتھی تو نہیں ہوئی۔۔۔؟ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوچا لیکن فروزی کا مسئلہ تھا۔ کسی درزی کے لڑکے نے اسے پسند کیا تھا۔ نصیب کو لڑکا پسند تھا۔ وہ چاہتی تھی میں بھی دیکھ لوں اور بات پکّی ہو جائے۔ میں نے بتایا کہ فرصت ملتے ہی آ جاؤں گا۔
موبائل بند کیا تو رات کا منظر نگاہوں میں گھوم گیا۔ خوف سے کانپتا اُس کا برہنہ جسم اور شیطان کی طرح اکڑوں بیٹھا ہوا میں۔۔۔۔ مجھے یاد آ گیا۔ وہ پسینے سے تر تھی اور میں نے زچگی کے نشان کو چھو کر دیکھا تھا۔ مجھے اسی لج لجے پن کا احساس ہوا۔ لگا پسینے کی نمی میری انگلیوں کے پوروں پر اب بھی موجود ہے۔ میرے اندر اُداسی کثیف دھویں کی طرح پھیل گئی۔ کھڑکی پھر کھولی۔ بادل کچھ اور سیاہ ہو گئے تھے۔ خنکی بڑھ گئی تھی۔ خنک ہواؤں کے جھونکے کچھ دیر چہرے پر محسوس کرتا رہا۔ پھر چادر لپیٹ کر بیٹھ گیا اور اکبر کو چائے بنانے کے لیے کہا۔ اتنے میں منصوبہ خود چائے لے کر آ گئی۔ وہ پہلی بار میرے کمرے میں آئی تھی۔
اس نے بتایا کہ ناشتہ مجھے اوپر ہی کرنا ہے۔ میرا ذہن تعطّل کا شکار تھا۔ میں اس وقت اوپر جانا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے چائے کی پیالی اس کے ہاتھ سے لے لی لیکن ناشتے سے انکار کیا۔ منصوبہ گئی اور ساجی دندناتی ہوئی کمرے میں آ گئی۔ گلابی رنگ کی ساری میں تھی جس پر ریشم سے کام کیا ہوا تھا۔ مانگ میں سیندور کا گہرا نشان تھا لیکن زیور سے لدی نہیں تھی۔ گلے میں فقط وہ لاکٹ تھا جو اُس کی ماں نے دیا تھا۔ اس کے بال کھلے تھے۔ شاید اس نے ابھی ابھی غسل کیا تھا، اس کی آنکھوں میں تفکّر کے ہلکے بادل سے تھے۔
’’ناراض ہو۔۔۔؟‘‘
میں نے نفی میں سر ہلایا۔
’’پھر ناشتہ کیوں نہیں کرو گے؟‘‘
’’طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ وہ میرے پہلو میں بیٹھ گئی اور پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دیکھا۔
’ ’ کچھ نہیں۔ بس طبیعت بھاری ہے۔‘‘
’’غسل کر لو۔ طبیعت بحال ہو جائے گی۔‘‘
میں خاموش رہا۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’میں نے تمہیں ننگا کیا۔‘‘
’’اس طرح کیوں سوچتے ہو؟‘‘
’’عورت ہمیشہ اسی طرح ننگی کی گئی۔‘‘
’’کمار پلیز۔۔۔!‘‘
’’میں تمہارا کمار نہیں ہوں۔ میں دوشاسن ہوں۔‘‘
’’پلیز۔۔۔۔۔ اس طرح نہیں سوچو۔ فریش ہو کر اوپر آ جاؤ۔‘‘وہ میرے پہلو سے اٹھ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ اکبر کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔
اکبر چائے لے کر آیا۔ وہ اکبر سے مخاطب ہوئی۔
’’صاحب کا ناشتہ بن رہا ہے۔‘‘
اکبر نے میری طرف دیکھا۔ میں خاموش رہا۔
وہ یہ کہتی ہوئی چلی گئی کہ میں تیّار ہو کر آ جاؤں لیکن میں اسی طرح بیٹھا رہا۔ دل غسل کرنے کو بھی نہیں چاہ رہا تھا۔ دو چار سگریٹ پھونکے۔ ایک پیالی چائے اور پی۔ آخر اس نے مینو کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا۔ آفس کا وقت بھی ہو چلا تھا۔ کچھ دیر بعد تازہ دم ہو کر اوپر پہنچا۔ مجھے دیکھ کر وہ خوش ہو گئی لیکن اداسی مجھ پر اسی طرح غالب تھی۔ اس نے بیڈ روم میں بٹھایا۔ میں نے سگریٹ نکالی۔
’’ابھی نہیں۔۔۔۔۔‘‘ اس نے سگریٹ ہاتھ سے لے لی۔
’’ناشتے کے بعد پینا۔‘‘
ساجی اور نصیب میں یہی فرق ہے۔ میں نصیب کے سامنے سگریٹ نہیں پی سکتا۔ اسے دھویں کی بو بہت بری لگتی ہے۔ میلوں فاصلے پر بھی وہ سگریٹ کی بو سونگھ لیتی ہے۔ سگریٹ پینے کے بعد میں اس کے سامنے کلّی کرتا ہوں لیکن ساجی کے ساتھ مجھے آزادی کا احساس ہوتا ہے۔ میں لمبے لمبے کش لگا سکتا ہوں۔ اس کے منھ پر دھویں کے مرغولے چھوڑنے میں لطف آتا ہے۔
کچن سے رہ رہ کر چھن چھن کی آواز آ رہی تھی۔ مینو پانی کا گلاس رکھ گئی۔ پھر شبّو آ کر پلیٹ سجا گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ سبھی لڑکیاں ناشتے کی تیاری میں لگی ہیں۔ ساجی ایک بار بھی نیچے کچن میں نہیں گئی۔ کبھی کبھی وہ سیڑھی کے پاس سے جھانک کر نیچے دیکھتی اور وہیں سے ہدایتیں دیتی۔
ناشتے کے لوازمات وہی تھے جس سے نصیب کو پرہیز ہے۔ نصیب کبھی گھی کے پراٹھے نہیں تلتی۔ یہاں گھی سے تر پراٹھے تھے۔ بھونی کلیجی، بیسن کا حلوہ، دہی اور ادرک کا اچار۔۔۔۔۔
’’تم یہیں کھایا کرو۔ اکبر کا جھمیلا کیوں؟‘‘
میں خاموش رہا۔
اس نے مجھے شانے سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ ’’کچھ بولو تو۔۔۔۔۔۔‘‘
کیا بولوں؟ میں نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’کیا اب بھی دوری ہے؟‘‘
’’کیا چاہتی ہو؟‘‘
یہ گھر تمہارا ہے۔ یہیں کھایا کرو۔ الگ کیوں کھاؤ گے؟‘‘
’’درجات کو اعتراض ہو گا۔‘‘
’’کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔‘‘
’’میں مناسب نہیں سمجھتا۔‘‘
’’کیا میں ابھی بھی غیر ہوں؟‘‘ اس کے لہجے میں واقعی تڑپ تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
’’تم نے مجھے سیندور لگایا۔ اب کیا دوری رہی؟‘‘
’’کیا چاہتی ہو نصیب کو فراموش کر دوں؟‘‘
’’میں نے کب کہا؟ تم اگر نصیب کے نہیں ہو سکتے تو میرے بھی نہیں ہو سکتے۔‘‘
’’پہلے اسی کا ہوں۔‘‘ میرا لہجہ اچانک خشک ہو گیا۔
’’جانتی ہوں۔‘‘ وہ رو پڑی۔ پھر اس نے فوراً ہی ساری کے پلّو سے آنکھیں خشک کیں اور پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
’’میں تمہیں نصیب سے دور نہیں کر رہی لیکن میرا حق تو تم پر بنتا ہے نا۔۔۔۔؟‘‘
میں خاموش رہا۔
منصوبہ چائے لے کر آئی۔
ساجی چپ تھی۔ مجھے ماحول میں ہلکے سے تناؤ کا احساس ہو رہا تھا۔ اچانک وہ اٹھی اور پانی سے لبالب کٹورہ لے کر آئی۔ پانی کی سطح پر ایک ننھا سا پھول تیر رہا تھا۔
میں نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’میں جانتی ہوں اس کٹورے کی طرح تمہاری زندگی نصیب کے وجود سے لبریز ہے۔ اس میں مزید پانی کی گنجائش نہیں لیکن میں کٹورے میں پھول کی طرح تیر تو سکتی ہوں۔‘‘ اس کے لہجے میں بلا کی حسرت تھی۔ میں اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ جملہ اس کم علم عورت کے منھ سے ادا ہوا ہے۔
’’اتنا گیان تم میں کہاں سے آیا؟ یہ تصوف کی باتیں۔۔۔۔۔؟‘‘
’’محبت سب کچھ سکھا دیتی ہے۔‘‘
محبت۔۔۔۔؟ کیا واقعی وہ میری محبت میں گرفتار تھی؟ میں بس اسے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں اس کی محبت پر ایمان کیوں نہیں لاتا؟
اس نے اپنے بازو میری گردن میں حمائل کر دیے۔ ’’مجھے اپنے قدموں سے دور نہیں کرنا کمار۔‘‘ اس کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی سنائی دی۔
’’درجات کب آئے گا؟‘‘
’’کل رات۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کا لہجہ خواب ناک ہو گیا۔
ناشتے کے بعد نیچے اپنے کمرے میں آنے لگا تو بولی۔
’’مینو کو بھیج رہی ہوں۔ میلے کپڑے دے دینا۔‘‘
’’کس لیے؟‘‘ میں نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔‘‘
دھلنے کے لیے!‘‘
’’اکبر ہے نا۔۔۔۔؟‘‘
’’اکبر۔۔۔۔؟‘‘ وہ بڑی ادا سے مسکرائی۔
’’یہ ذمہ داری اب میری ہے۔ مجھے دیکھنا ہے کہ تمہاری تمام چیزیں درست رہتی ہیں۔‘‘
میں مسکرا کر رہ گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ تعطّل ایک حد تک زائل ہوا ہے۔ کمرے میں آیا تو مینو آ کر میلے کپڑے لے گئی۔ تھوڑی دیر بعد دفتر کے لیے نکل رہا تھا تو ساجی ٹفن کا ڈبّا لے کر آئی۔
’’کیا ہے یہ؟‘‘
’’ٹفن۔۔۔۔۔‘‘
’’اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’ضرورت ہے۔ تم دیر تک دفتر کرتے ہو۔‘‘
میں کبھی ٹفن نہیں لے گیا۔‘‘
’’اس لیے نہیں لے گئے کہ کسی نے دیا نہیں۔‘‘ اور اس نے مسکراتے ہوئے ڈبّا میرے آفس بیگ میں رکھ دیا۔
اکبر سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔!
میں دفتر سے ذرا تاخیر سے لوٹا۔
مجھے معلوم تھا کہ آج وصل کی دوسری رات ہے۔
وہ رات گیارہ بجے بہت خاموشی سے میرے کمرے میں داخل ہوئی۔ میں نے دروازہ کھلا رکھا تھا۔ اس کے آنے کا پتا نہیں چلا۔ وہ شاید پنجوں کے بل چل کر آئی تھی۔ اس نے نائٹی پہن رکھی تھی۔ حسب معمول گلے میں لاکٹ نہیں تھا۔ وہ آتے ہی بستر پر لیٹ گئی۔ پائنچے کے قریب نائٹی ایک ذرا اوپر اٹھ گئی۔ ٹخنے نمایاں ہو گئے۔
میں نے دیکھا پاؤں میں پائل بھی نہیں تھے۔
’’آج باتیں کریں گے۔‘‘
’’کیسی باتیں؟‘‘
’’ڈھیر ساری۔ کچھ اپنے بارے میں بتاؤ۔‘‘
’’آج پائل نہیں پہنی؟‘‘
’’شور مچاتی۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔
’’اور نندیا جاگ اٹھتی۔‘‘ میں نے بے ساختہ کہا اور وہ زور سے ہنس پڑی۔
’’ارے۔۔۔۔؟‘‘ میں نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’جھا جی سن لے گا۔‘‘
’’وہ منھ میں پلّو رکھ کر ہنسنے لگی۔‘‘
’’ہمیشہ ٹوہ میں رہتا ہے۔‘‘
’’تم نے کنگن بھی نہیں پہنا ہے۔‘‘
’’آدھی رات کو بج اٹھا تو۔۔۔۔۔؟‘‘
اس پر پھر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔
’’نندیا تو ہے نہیں۔ لڑکیاں ہی سنتیں۔‘‘
’’لڑکیوں کی نیند بہت پکّی ہے۔ کبھی بیچ رات میں نہیں اٹھتیں۔‘‘
’’خیر کوئی سنے یا نہ سنے ہماری باتیں چاند تو سنے۔‘‘ میں نے کھڑکی کھولی۔ چاند پیڑ کے پیچھے شاخوں میں اٹکا تھا۔ اس میں وہی چمک تھی۔
’’چاند ہمیں چھپ کر دیکھ رہا ہے۔‘‘
تم کسی سے چھپ کر ملنے کہیں جاؤ گے تو چاند سے پوچھوں گی۔‘‘ وہ پیٹ کے بل لیٹ گئی اور ہتھیلی پر ٹھڈی ٹکا کر ایک ٹک چاند کی طرف دیکھنے لگی۔
’’یہ شاردا کا گیت ہے۔ بتاؤ چاند کیکرا سے کہاں ملے جالا۔۔۔۔!‘‘ میں نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھتے ہوئے رکھا۔
’’تمہیں شاردا کے گیت پسند ہیں۔ مجھے بھی پسند ہے۔ خاص کر وہ گیت۔‘‘
’’کون سا؟‘‘
میری طرف ہنستی ہوئی نگاہوں سے دیکھا۔ ’’پٹنہ سے ویدا بلائی دے۔۔۔۔۔‘‘
پھر اچانک اس نے اپنا منھ میرے سینے میں چھپا لیا اور جذباتی لہجے میں بولی۔ ’’میرا وید تو پٹنہ سے آ گیا۔‘‘
’’تمہیں کیا بیماری تھی؟‘‘ میں نے اسے بازوؤں میں بھینچا۔
’’میں پچھلے جنم سے بیمار تھی۔‘‘
اور اس نے وہی بات بتائی جو پہلے بتا چکی تھی۔ وہ یہ کہ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن اس کی شادی پندرہ سال کی عمر میں ہی ہو گئی۔ اسے بتایا گیا تھا کہ سسرال میں سبھی پڑھے لکھے ہیں۔ یہاں کتابوں سے بھری الماریاں ہیں لیکن یہاں آئی تو معلوم ہوا سبھی مڈل فیل ہیں۔ گھر میں ایک اخبار تک نہیں آتا۔
’’میں تمہیں پڑھا دوں گا۔‘‘
’’اب کیا پڑھوں گی۔ شوق مر گیا لیکن میری بیٹی کو پڑھا دو۔‘‘
’’کون؟ منصوبہ؟‘‘
’’ہاں۔ اس کا سائنس کمزور ہے۔ وہ میٹرک میں ہے۔ تم پڑھا دو گے تو اچھے نمبروں سے پاس کر جائے گی۔‘‘
’’آج منصوبہ چائے لے کر آئی۔ پہلے کبھی نہیں آئی۔‘‘
’’میں نے بھیجا تھا، بچّوں کو اب تم سے گھلنا ملنا بھی چاہیے۔‘‘
’’تمہاری ایک بیٹی اور ہے۔‘‘
اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
’’تم سے کس نے کہا؟‘‘
’’جھا جی نے۔‘‘
’’تم اس سے بات کیوں کرتے ہو؟‘‘
’’اگر ایک بیٹی اور ہے تو کیا ہوا؟ اس میں چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’جو چیز اب میری نہیں ہے اس پر دعویٰ کیسے کر سکتی ہوں؟‘‘
’’یعنی؟‘‘
’’میرے بھائی نے اسے گود لے لی۔ ان کو اولاد نہیں تھی۔‘‘
’’پھر بھی تم کہہ سکتی ہو کہ تمہیں پانچ بیٹیاں ہیں۔‘‘
’’میں کیسے کہہ سکتی ہوں۔ جب وہ ان کی ہو گئی تو میری بیٹی کہاں رہی؟ جب میں نے دے دیا تو دے دیا۔ اب کیوں سوچوں کہ میری پانچ بیٹیاں ہیں۔‘‘ اس کا لہجہ کچھ بھنّایا ہوا تھا۔
’’تم نے پیدا تو پانچ کیے۔‘‘
’’تم بھی اوروں کی طرح سوچتے ہو۔‘‘
جھا نے یہ نہیں بتایا کہ بھائی نے گود لی ہے۔‘‘
’’وہ فتوری ہے۔ پتا نہیں اور کیا کیا کہتا ہو گا؟‘‘
’’مارو گولی۔ وہ اب میرے پاس آتا بھی نہیں ہے۔‘‘
’’اس سے نہیں ملا کرو۔‘‘
’’نہیں ملوں گا۔‘‘ میں نے اسے لپٹاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں کمار۔ نہیں ملنا پلیز۔ وہ ہمارا دشمن ہے۔‘‘
’’دوسرا صدمہ کیا گذرا؟‘‘
’’مت پوچھو۔ اس کا اثر تو اَب تک ہے۔‘‘
’’بتاؤ نا۔۔۔۔؟‘‘
میں کولڈ ہو جاتی ہوں۔‘‘ ’’کیوں؟‘‘
اس نے بتایا کہ اس کے ساتھ وحشیانہ سلوک ہوا۔ شادی کی پہلی رات وہ بھول نہیں سکتی۔ مرد کے ہاتھوں کا پہلا لمس۔۔۔۔۔ درجات نے جب اسے پہلی بار چھوا تو وہ عجیب سی لذت سے ہمکنار ہوئی لیکن اچانک درجات ننگا ہو گیا۔ وہ ڈر گئی۔ وہ کسی وحشی کی طرح نظر آ رہا تھا۔ وہ اسے بھی برہنہ ہونے پر مجبور کرنے لگا۔ وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگی۔ اس نے بہت منّت کی کہ ایسا نہ کرے لیکن وہ بہ ضد تھا۔ اس کو ننگا کر کے ہی دم لیا اور وہ خوف سے بے ہوش ہو گئی۔ وہ ہوش میں آئی تو درجات نے اسے نارمل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ مردے کی طرح بے حس و حرکت پڑی رہی۔ پسینے سے بھیگی۔۔۔۔۔ تھر تھر کانپتی ہوئی۔ درجات نے پھر اسے عریاں کرنے کی کوشش نہیں کی۔
’’اب مجھے تم ملے ہو تو میں خوش ہوں۔ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔‘‘
میں دیر تک خاموش رہا۔
’’کیا سوچنے لگے؟
’’میں نے بھی تمہارے ساتھ زیادتی کی۔‘‘
’’تم نے تو مجھے چادر سے ڈھک بھی دیا۔ مجھے میرے کمرے میں پہنچایا۔‘‘
’’تم دو بار ننگی کی گئی۔ پہلی بار تمہارے مجازی خدا نے اور دوسری بار محبوب نے۔‘‘
’’ختم کرو یہ سب۔ بس ہم چاند کی باتیں کریں۔‘‘ اس نے ایک نظر چاند کی طرف دیکھا اور پھر سینے سے لگ گئی۔
چاند تھوڑا اور نیچے جھک گیا تھا۔ مکتی بودھ کے لفظوں میں چاند کا منھ ٹیڑھا تھا۔
اس نے یہ بھی بتایا کہ درجات کی ایک ہی کڈنی ہے۔ پہلی خراب ہو گئی تو نکلوانی پڑی۔ علاج میں اس کے نام جو زمین تھی، بک گئی۔ اس دن اس نے خود کو ایک دم بے سہارا محسوس کیا تھا۔ ایک دم بے بس۔۔۔۔۔ اگر درجات کو کچھ ہو گیا تو وہ کہاں جائے گی۔ اس کا کیا حشر ہو گا؟ وہ پڑھی لکھی بھی نہیں ہے کہ کہیں نوکری کر لیتی۔ عدم تحفّظ کے گہرے احساس سے وہ بھر گئی تھی۔
میں سوچ رہا تھا کہ ساجی مجھ تک میری محبت میں نہیں پہنچی ہے۔ عدم تحفّظ کا احساس اسے میری بانہوں تک کھینچ لایا ہے۔ میرے بازوؤں میں وہ محفوظ ہے لیکن کیا میں بھی اس کے پہلو میں محفوظ ہوں؟
چاند گواہ ہے کہ میں نے اس رات اسے برہنہ نہیں کیا۔
اس نے ایک بات اور بتائی تھی۔ وہ یہ کہ درجات خرنبسہ ہے اور اس کو ہمیشہ اذیت ہی پہنچی ہے۔
دوسرے دن مجھے پٹنہ جانا پڑا۔ ہیڈ کوارٹر سے فیکس موصول ہوا تھا۔ وہاں ارجنٹ میٹنگ تھی۔ مجھے پروجیکٹ رپورٹ کے ساتھ بلایا گیا تھا۔ میری اچانک روانگی سے ساجی پریشان ہوئی۔ اس نے شکایت کی کہ درجات آج واپس آ رہا ہے اسی لیے میں جا رہا ہوں۔ اسے سمجھایا کہ معاملہ سرکاری ہے اور میں دو دنوں بعد واپس آ جاؤں گا۔ راستے کے لیے وہ سبزی اور پراٹھے دینا چاہتی تھی لیکن میں نے سختی سے منع کیا۔ نصیب کو اس کی مہک لگ سکتی تھی۔ کوئن آف سورڈ ٹفن کا خالی ڈبّا بھی سونگھتی ہے۔
میں گھر پہنچا تو مجھے اچانک دیکھ کر نصیب خوش ہو گئی لیکن فروزی اداس تھی۔ وجہ پوچھی تو نصیب بھڑک اٹھی۔ پہلے فروزی کو برا بھلا کہا پھر مجھ سے مخاطب ہوئی۔
’’اب کیا بتاؤں کس قدر بیوقوف ہے یہ؟‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘
’’درزی کے لڑکے نے اس کو پسند کر لیا تھا لیکن ایک دن یہ کالا چشمہ چڑھائے بن ٹھن کر دکان والی گلی میں پہنچ گئی۔ لڑ کا دکان پر تھا۔ اس کو دکھا دکھا کر کسی سے موبائل پر باتیں کرنے لگی کہ لڑکے کی بہن نے دیکھ لیا۔ پھر وہیں گلی میں کھڑے کھڑے چومنگ بھی کھائی کمبخت نے۔ بس بہن نے رشتہ کاٹ دیا کہ ایسی بے شرم لڑکی سے اپنے بھائی کی شادی نہیں ہونے دے گی۔‘‘
میں ہنسنے لگا۔
’’امپریشن بنانے چلی تھی کہ بہت اسمارٹ ہے۔ لڑکے والے کہتے ہیں کہ بوائے فرینڈ سے بات کر رہی تھی۔‘‘
فروزی بلک پڑی۔ ’’میں خالہ سے بات کر رہی تھی۔‘‘
’’چپ کمبخت! خالہ سے چشمہ چڑھا کر بات کرتی ہے؟‘‘ نصیب نے ڈانٹا۔
میں نے نصیب کو سمجھایا کہ فروزی میں زندگی بہت ہے اور زندگی ایسی حماقتوں کے لیے ورغلاتی ہے۔
میٹنگ دو دن چلی لیکن مجھے کچھ دن رکنا پڑا۔ سیفی اور کیفی کے امتحانات شروع ہو گئے تھے۔ مناسب تھا کہ میں کچھ پڑھا دیتا۔ گرچہ وہ ٹیوشن لیتے تھے لیکن امتحان کے دنوں میں میں بھی انہیں لے کر بیٹھتا تھا۔ امتحان ختم ہوا تو ایک دن تفریح بھی ضروری تھی۔ اس دن فلم دیکھی گئی۔ ریستوراں میں کھانا کھایا گیا۔ تھوڑی بہت شاپنگ بھی ہوئی۔ نصیب گھر میں کفائت شعاری سے کام لیتی ہے لیکن باہر کھل کر خرچ کرتی ہے۔ اس نے سب کے لیے کپڑے خریدے۔ اپنے لیے گلابی پرنٹ والی ریشمی نائٹی لی۔
گھر رات دس بجے پہنچے۔ نصیب نے وہی نائٹی پہنی۔
’’نائٹی خوبصورت ہے اور تم پر کھل رہی ہے۔‘‘
نصیب مسکرائی۔ میں نے سرگوشیوں میں کہا۔
’’اور مجھ سے کچھ کہہ رہی ہے۔‘‘
’’شروع ہو گئے آپ؟‘‘
’’رسم اجرا۔‘‘
’’نائٹی نہ ہوئی کسی شاعر کی کتاب ہو گئی۔‘‘ اس نے میری طرف ادا سے دیکھا اور میں اُس کی یہ نظر خوب پہچانتا ہوں۔
میں بستر پر آیا تو کمبخت سیفی اور کیفی بھی اچھل کر میرے پاس آ گئے۔
’’آج ابّو کے پاس سوئیں گے۔‘‘
اپنے کمرے میں جاؤ۔‘‘ میں نے پھٹکارا۔
دونوں اغل بغل لیٹ گئے۔
’’نہیں۔ کہانی سنایئے۔‘‘
ہو گئی رسم اجرا۔‘‘ نصیب ہنسنے لگی۔ میں مسکرایا لیکن دونوں تھکے ہوئے تھے۔ جلد ہی سو گئے۔ میں نے باری باری سے دونوں کو گود میں اٹھا کر اُن کے بستر تک پہنچایا۔
مشتری والی عورتیں بستر پر بھی نفاست سے پیش آتی ہیں۔ نصیب کے زائچے میں مشتری قمر کے مرکز میں ہے۔ بستر خوشبوؤں سے معطّر تھا۔ وہ اسپرے نہیں عطر استعمال کرتی ہے۔ خس اس کا محبوب عطر ہے۔
میں ایک دن اور رکا۔ دوسرے دن شام کو لال گنج پہنچا۔ باہر کی بالکنی میں درجات نظر آیا۔ جھا بھی وہاں موجود تھا۔ دونوں چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ میں نے کپڑے بھی نہیں تبدیل کیے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ درجات چائے کا پیالہ لیے حاضر تھا۔ خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کیا۔ پوچھا کہ پچھلے دنوں کہاں غائب تھے؟ کہنے لگا کسی عزیز کے ساتھ دلّی گیا تھا اور آج دو پہر کی فلائٹ سے لوٹا ہوں۔ اس نے ایر لائن سروس پر تبصرہ بھی کیا۔ وہ یہ کہ گو ایئر کی اڑان ایر انڈیا سے بہتر ہے۔ ایر انڈیا والے اب لنچ پیکٹ بھی نہیں دیتے ہیں۔ یہ بات اس نے اس لہجے میں کہی گویا فلائٹ سے آنا جانا اس کے روز کا معمول ہے۔ میں نے کوئی پرخاش محسوس نہیں کی۔ مثلاً میں نے اس طرح نہیں سوچا کہ ’’سالا۔۔۔ گاؤدی ہے تو مڈل فیل لیکن۔۔۔۔۔‘‘
چائے میں شکّر کم تھی۔ میں نے حسن طلب سے کام لیا۔
’’شکّر بہت مہنگی ہو گئی ہے شاید۔۔۔۔؟‘‘
’’ہاں! مہنگائی تو بڑھ گئی ہے۔‘‘ درجات نے سرہلاتے ہوئے کہا تو مجھے ہنسی آ گئی۔ جھا بھی ہنس پڑا اور بولا۔
’’ارے چائے میں شکّر کم ہے۔ یہ شکّر مانگ رہے ہیں۔‘‘
درجات جلدی سے اندر گیا۔ جھا اور میں دیر تک ہنستے رہے۔ پھر اس نے اپنا منھ میرے کان کے قریب لایا۔
’’اس کی اوقات ہے پلین میں چلنے کی۔۔۔؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
گنیش جی جھن جھن والا اپنے علاج کے لیے دلی جا رہا تھا۔ اس کو ایک نوکر کی ضرورت تھی۔ ساتھ اس کو لے گیا۔ وہاں دوڑ دھوپ کون کرتا؟‘‘
’’آپ کو سب خبر رہتی ہے۔‘‘
’’میں اس کی نس نس سے واقف ہوں۔ ہر وقت اپنی جھوٹی بڑائی کرتا رہتا ہے۔‘‘
’’آپ باہر کی خبر رکھتے ہیں۔ کچھ اپنے گھر کی خبر بھی رکھا کیجیے۔‘‘ میں نے کچھ چڑ کر کہا۔
جھا نے ناگوار نظروں سے مجھے دیکھا۔
’’آپ کا بھائی ہے نہ گاؤں میں؟ کبھی گاؤں بھی جایا کیجیے۔‘‘
ساجی نے بتایا تھا کہ اس کی بیوی اس کے بھائی سے پھنسی ہے۔ اس کے پاس رہنا نہیں چاہتی۔
جھا کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ وہ زیادہ دیر نہیں بیٹھا۔ درجات کے آنے سے پہلے چلا گیا۔
مینو شکّر کی کٹوری لے کر آئی۔ اس کے پیچھے درجات بھی تھا۔ درجات بہت عاجزی سے بولا۔ ’’آپ کا کھانا ہمارے یہاں بن رہا ہے۔‘‘
’’میں دو دنوں سے آپ کے یہاں ہی کھا رہا ہوں۔‘‘ میں مسکرایا۔
’’اچھی بات ہے۔‘‘ وہ بھی مسکرایا۔
’’مفت خوری کوئی اچھی چیز تو نہیں۔۔۔۔؟‘‘
’’آپ ایسی بات کرتے ہیں۔ یہ آپ کا گھر ہے۔ آپ یہیں کھایا کیجیے۔‘‘
’’یعنی پیئنگ گیسٹ۔۔۔۔؟‘‘
’’آپ جو سمجھیں۔‘‘
ساجی بھی آ گئی۔ اس کے ساتھ منصوبہ بھی تھی۔ میں نے پرس سے ایک ہزار کی رقم نکالی اور ساجی کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔
’’یہ رکھ لیجیے۔‘‘
’’بھلا کیوں؟‘‘ وہ ذرا حیران ہوئی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کی یہ حیرانی مصنوعی ہے۔
’’میں پیئنگ گیسٹ بن گیا ہوں۔‘‘
’’تو اس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’ضرورت ہے۔‘‘ میں نے رقم اس کی ہتھیلی پر رکھ دی۔
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ کچھ پس و پیش کے بعد ساجی نے پیسے رکھ لیے۔
’’میں یہ کہنے آئی تھی کہ منصوبہ کو پڑھا دیجیے۔ اس کا سائنس کمزور ہے۔‘‘
میں نے منصوبہ کی طرف دیکھا۔ وہ نظریں جھکائے کھڑی تھی۔
’’اچھی بات ہے۔ فرصت ملے گی تو پڑھا دوں گا۔‘‘
شام کے کھانے میں بہت کچھ تھا۔ مچھلی بھی تھی اور ریڈ لیبل وہسکی بھی۔۔۔۔۔ بوتل آدھی سے زیادہ خالی تھی۔۔۔۔ یعنی جھن جھن والا کی بچی ہوئی شراب۔
ساجی نے مچھلی کا ایک بڑا سا قتلہ میری پلیٹ میں رکھا۔
’’کانٹا نکال دو۔۔۔۔!‘‘ درجات نے ساجی سے کہا۔
ساجی کے ہونٹوں پر زیر لب مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں بھی مسکرایا۔ ساجی کانٹا نکالنے لگی۔ درجات نے پیگ بنایا۔ ایک پیگ کے بعد ہی اس کی آنکھیں لال ہو گئیں۔ میں نے محسوس کیا وہ عادی نہیں ہے۔ بس ساتھ دے رہا ہے۔ اسی طرح جھن جھن والا کا بھی ہم پیالا بنا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔
’’یہ ریڈ لیبل آپ کے لیے ہی رکھی ہوئی تھی۔‘‘ درجات نے دوسرا پیگ بناتے ہوئے کہا۔ اس کی زبان میں ہلکی سی لڑکھڑاہٹ تھی۔
’’میرے لیے رکھی ہوئی تھی؟ اچھا؟‘‘ میں نے درجات کو گھورتے ہوئے کہا اور ایک نظر ساجی پر ڈالی۔ ساجی نے نظریں چرا لیں۔
’’اس بار دلّی سے جانی واکر لے کر آؤں گا۔ یہاں تو یہ چیز ملے گی نہیں۔‘‘
مجھ میں غصّے کی ایک لہر سی اٹھنے لگی۔ یہ گاؤدی مجھے سمجھتا کیا ہے جھن جھن والا کی جوٹھی شراب پر اترا رہا ہے۔ ساجی نے مچھلی کا دوسرا قتلہ رکھا۔ اس بار کانٹا خود درجات نے نکالا۔
’’کب جا رہے ہیں آپ دلّی۔۔۔؟‘‘
’’ایک دو دن میں پھر جانا ہے۔ اس بار جٹ ایر ویز سے جائیں گے۔‘‘
میں نے غصّے کو دبانے کی کوشش کی۔ وہ بڑے انہماک سے مچھلی کا کانٹا نکال رہا تھا پھر میرے لیے پیگ بنایا۔ وہ دو پیگ پر رک گیا۔ میں نے تیسرا ختم کیا۔ کھانے کے بعد میں اٹھنا ہی چاہتا تھا کہ کسی نے نیچے سے آواز دی۔ ساجی نے بالکنی سے سڑک کی طرف جھانکا۔
’’منشی جی ہیں۔‘‘
درجات نے بھی جھانک کر دیکھا۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوا۔
’’سگریٹ ہے یا لے کر آؤں؟‘‘
’’بس ایک ہی ہے۔‘‘
’’ابھی لے کر آتا ہوں۔‘‘
یہ منشی کون ہے؟‘‘ درجات کے جانے کے بعد میں نے ساجی سے پوچھا۔
’’جھن جھن والا کا منشی ہے۔ اس نے بلا بھیجا ہے۔ جانے کا پروگرام بنائے گا۔‘‘
میرا دبا ہوا غصّہ ابھرنے لگا۔ ’’یہ درجات مہاشے اس طرح بات کیوں کرتے ہیں؟‘‘
’’کس طرح؟‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’جھن جھن والا کی جوٹھی شراب لے کر دلّی سے آئے اور جتا رہے ہیں کہ میرے لیے خریدی ہے۔‘‘
وہ چپ رہی۔
’’ائر انڈیا اور جٹ ائر ویز کی باتیں اس طرح کرتے ہیں جیسے روز ہی ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں۔‘‘
اس کے چہرے پر خفگی کے آثار نمایاں ہوئے۔
’’مجھے کیا نہیں معلوم ہے کہ جھن جھن والا اپنے علاج کے لیے دلّی گیا۔ اسے ایک خدمت گار کی ضرورت تھی۔ وہ انہیں اپنا اٹینڈینٹ بنا کر لے گیا۔‘‘
’’بس۔۔۔۔ ہو گیا۔۔۔۔ اب چپ ہو جایئے۔‘‘ اس نے احتجاج کیا۔
’’یہ حضرت اپنے کو وہی دکھاتے ہیں جو ہیں نہیں۔ بھلا مجھ سے دکھاوا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’یہ جیسے بھی ہیں میرے پتی ہیں۔ بس۔ میں کوئی شکایت سننا نہیں چاہتی۔‘‘ ساجی پھٹ پڑی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
میں چپ ہو گیا۔ وہ ساری کے پلّو سے اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔۔۔۔!میں نے اس کو اپنی بانہوں میں کھینچا۔
’’مجھ سے کہتی ہو جھا سے پرہیز کروں اور خود انہیں بالکنی میں بٹھا کر چائے پلاتی ہو؟‘‘
’’میں نے نہیں بٹھایا۔ میرے پتی نے بٹھایا۔‘‘
’’ان کو منع کیوں نہیں کرتیں۔‘‘
’’نہیں کروں گی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’مجھے جو کہنا ہے تم سے کہوں گی۔‘‘
’’واہ! کوئی زبردستی ہے؟‘‘
’’ہاں! تمہارے ساتھ ہے زبردستی۔ میں تم سے جھگڑوں گی۔ کسی اور سے نہیں۔‘‘
’’اپنے پتی سے بھی جھگڑو۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔ میں صرف تم سے جھگڑوں گی۔ مجھے جو کہنا ہے تم سے کہوں گی۔ بس!‘‘
میں خاموش رہا۔
’’تم یہ نہیں دیکھتے کہ وہ تمہارا کتنا خیال رکھتے ہیں؟ مچھلی سے کانٹا نکالا۔۔۔۔۔ سگریٹ لانے گئے۔۔۔۔‘‘ اس کی آواز پھنسی پھنسی سی تھی۔ میں اسے بانہوں میں جکڑے ہوئے تھا۔ میں نے سرگوشیوں میں کہا۔
’’آئیں گے کس وقت۔۔۔۔؟‘‘
کم سے کم بیس منٹ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’لڑکیاں کدھر ہیں۔۔۔۔؟‘‘ میں نے پھر سرگوشی کی۔
’’سو گئیں۔ یہاں کوئی نہیں آئے گا۔‘‘ اس کا لہجہ خواب ناک تھا۔
۔۔۔۔۔۔ اور بپس منٹ بہت تھے لیکن نیچے کا دروازہ کھلا تھا۔۔۔۔۔ پھر خیال آیا کہ کوئی سیڑھیاں چڑھے گا تو قدموں کی چاپ سنائی دے گی۔۔۔۔
اور تب وہیں فرش پر۔۔۔۔۔۔۔
اور جبلّت اپنے رنگ نفیس بستر سے زیادہ میلے فرش پر نمایاں کرتی ہے۔
میں اب مزید رکنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے بھی روکنا مناسب نہیں سمجھا۔
وہاں سے چلے آنے کے کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ درجات سگریٹ لے کر موجود تھا۔
’’سب دکانیں بند تھیں۔ اسٹیشن سے لیا ہے۔‘‘
’’شکریہ!‘‘ میں مسکرایا اور یہ سوچے بغیر نہیں رہا کہ بے چارے کو کیا پتا کہ ابھی ابھی اس کی بیوی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے نہیں معلوم درجات سے مجھے الرجی کیوں ہے؟
دوسرے دن مجھے اچانک دفتری ضروریات کے تحت پٹنہ جانا پڑا۔ اس بار ساجی سے مل بھی نہیں سکا اور اکبر کو بھی ساتھ لے کر چلا گیا۔ دفتر کے ہی کام سے مجھے پٹنہ سے دلّی بھی جانا پڑ گیا۔ لال گنج میری واپسی کوئی دس دنوں بعد ہوئی۔
فلیٹ میں داخل ہوتے ہی میں نے سوچا ساجی ضرور ناراض ہو گی۔ اتنے دنوں تک اس کی کوئی خبر نہیں لی تھی۔ فون سے بھی نہیں بتایا تھا کہ کہاں ہوں، کب آؤں گا۔ مینو سیڑھی پر ہی مل گئی۔ معلوم ہوا ممی بیمار ہیں۔ میں دیکھنے گیا۔ وہ بستر پر پڑی تھی۔ درجات دوائیاں لانے گیا ہوا تھا۔ لڑکیوں نے بتایا کہ جس دن میں پٹنہ گیا تھا، اسی دن اس نے بستر پکڑا تھا۔ میری آواز سن کر ساجی نے آنکھیں کھولیں۔ میری طرف نقاہت سے دیکھا اور کروٹ بدل لی۔
’’کیا ہوا۔۔۔۔؟ اچانک بیمار۔۔۔؟‘‘ میں نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پو چھا۔
لڑکیاں ہٹ گئیں۔ میں ساجی کے ساتھ اکیلا رہ گیا۔
میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر آہستہ سے دبایا۔ کیسی ہے طبیعت؟
وہ خاموش رہی۔ میں نے محسوس کیا اس کی آنکھیں نم ہو گئی ہیں۔
’’مجھے ایک ضروری کام سے جانا پڑا۔ کیا بتاؤں سرکار کی غلامی میں مجبور ہوں۔‘‘
وہ پھر بھی خاموش رہی۔ میں نے اس کے رخسار پر ہاتھ پھیرا اور اس کا چہرہ اپنی طرف گھمایا۔ چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے بہت بڑھ گئے تھے۔ وہ نحیف نظر آ رہی تھی۔ اس پر لرزہ سا طاری تھا۔ ساجی کی یہ کیفیت مجھ میں شہوت جگا رہی تھی۔ اس وقت وہ دکھ اور نقاہت سے بھری ہوئی تھی اور مجھ میں سمندر شور کر رہا تھا۔ شاید جبلّت کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ جبلّت کے کان بھی نہیں ہوتے۔ میں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ لڑکیاں کبھی بھی آ سکتی ہیں۔ خود درجات آ سکتا ہے کہ وہ شہر میں ہی تھا اور کچھ دیر کے لیے ہی گھر سے باہر گیا تھا۔ میں نے اُسے بازوؤں میں کس لیا اور پہاڑوں پر جیسے مسلسل بارش کے بعد اچانک دھوپ نکل آئی تھی۔ تیز دھوپ میں نم جھاڑیوں سے اٹھتی ہوئی مہک۔۔۔۔ شاید جبلّت حواس شامّہ میں سانس لیتی ہے۔ ساجی کے لب و رخسار سے یہ کیسی مہک اٹھتی ہے کہ ہوش و حواس کھونے لگتا ہوں۔ میں کسی انجانی قوت کی گرفت میں تھا۔ کسی نے صحرا سے مجھے پکارا اور میں نے اس کے کپکپاتے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ ثبت کر دیے۔ وہ میرے سینے میں جیسے ایک دم سمٹ گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میری انگلیاں زینہ زینہ اس کے جسم پر سرکنے لگیں۔ وہ ذرا بھی مزاحمت نہیں کر رہی تھی۔ شاید اُسے اس وقت میری ضرورت تھی۔ تپتے صحرا میں وہ جیسے صدیوں سے بھٹک رہی تھی۔ ازل سے پیاسی اس کی روح۔۔۔۔ میں گھنے بادل کی طرح اس پر برسا تھا۔ اس کے لب و رخسار۔۔۔۔۔ اس کی گردن۔۔۔۔۔ پیٹ۔۔۔۔۔۔!!
تیز بارش۔۔۔
اور قدرت مجھ پر مہربان تھی۔ میں اس سے الگ ہوا ہی تھا کہ درجات کمرے میں داخل ہوا۔ ایک ساعت بھی پہلے اگر آ گیا ہوتا تو۔۔۔۔۔۔
درجات نے مجھے دیکھ کر حیرت ظاہر کی۔ پھر سلام کیا اور بتایا کہ جس دن میں گیا تھا اسی دن ساجی بیمار پڑی۔ ساجی سرہانے تکیہ ٹیک کر نیم دراز ہو گئی تھی۔
’’ابھی تو اچھی لگ رہی ہیں۔‘‘ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ شرما گئی۔ اس کی طبیعت واقعی بحال لگ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد میں نیچے اتر آیا۔ میں نے غسل کیا اور آفس جانے کی تیاری کرنے لگا۔ ساجی ٹفن دینا نہیں بھولی۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں