فہرست مضامین
کیفِ غم
شیخ سر عبد القادر
ماخوذ: ملفوظات اقبال از ابو اللیث صدیقی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
اقبال کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت اس کا ’’ کیف غم‘‘ ہے اور یہی کیفیت مرحوم کے ذاتی خصائل میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔ جو لوگ ان سے ملتے رہے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی ظرافت اور ہنسنے ہنسانے کی عادت کے ساتھ ان میں یہ عجیب وصف تھا کہ سنجیدگی اور متانت بیٹھے بیٹھے ظرافت پر غالب آ جاتی تھی اور چہرے پر یکایک غم آمیز اثرات نظر آتے تھے۔ آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے، جیسے کوئی درد انگیز خیال دفعتہً دل میں آ گیا ہے۔ یہ رنگ ان کے اشعار میں بہ کثرت پایا جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے کلام میں اثر گداز دل سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ غالب1 ؎ کا یہ شعر اس خیال کی ترجمانی کرتا ہے:
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی!
یہ نظریہ اقبال کے اس مصرعہ میں اس سے بھی بلند مقام پر پہنچ گیا ہے۔
عبادت چشم شاعر کی ہے ہر دم با وضو رہنا
اقبال کے نزدیک شاعری میں غم کا عنصر شامل ہونا مشرقی شاعری کو مغربی شاعری سے ممیز کرنے والی صفت ہے۔ انہوں نے کیا خوب کہا ہے:
پیر مغاں فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر
اس میں وہ ’’ کیف غم‘‘ نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے
یہی فرق مشرق اور مغرب کے اور فنون کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے اور خاص کر دونوں کی موسیقی میں زیادہ واضح ہے۔ مغربی موسیقی جذبات طرب کو ابھارنے کے لیے زیادہ موثر ہے اور مشرقی موسیقی میں عموماً جذبات غم کی تحریک زیادہ ہے۔
شعر سے رغبت کے ساتھ اقبال کو موسیقی2؎ کا بھی بہت شوق تھا۔ ان کو علم موسیقی سے گہری واقفیت پیدا کرنے کا تو موقع نہیں ملا، مگر ان کے کان موسیقی کی اچھی شناخت رکھتے تھے ا ور کوئی گاتا ہو تو وہ اس سے ایسا لطف اٹھاتے تھے جیسے کوئی ماہر فن اٹھائے۔ قدرت نے خود انہیں بھی اچھا گلا عطا کیا تھا، اس لیے کبھی کبھی بے تکلف دوستوں کی صحبت میں اپنا کلام ترنم سے پڑھتے تھے جس سے اشعار کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا۔ وہ ہر بحر کے لیے ایسی موزوں لے چن لیتے تھے کہ سننے والے مسحور ہو جاتے۔ اس ترنم کے وقت ان پر اکثر غم کی حالت طاری ہوتی تھی اور سننے والے بھی اس سے اثر پذیر ہونے سے بچ نہیں سکتے تھے۔
جب انہوں نے بڑے مجمعوں اور قومی جلسوں میں شریک ہونا شروع کیا تو پہلے اپنا کلام تحت اللفظ سناتے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ لوگوں کو خبر ہو گئی کہ وہ خوش آہنگ بھی ہیں تو فرمائشیں ہونے لگیں کہ لے سے پڑھیں۔ دوستوں کے کہنے سننے سے وہ مان گئے۔ پھر تو یہی چرچا ہو گیا۔ جب کبھی وہ تحت اللفظ پڑھنا چاہیں، لوگ انہیں ترنم پر مجبور کر دیں۔
لاہور کی مشہور تعلیمی انجمن ’’ حمایت اسلام‘‘ کے سالانہ اجلاس اکثر ان کے کلام سے مستفید ہوتے تھے۔ پہلے پہل جب ان کا کلام ترنم سے وہاں سنا گیا، تو کئی موزوں طبع طلبا اور بعض دوسرے شعرا کو شوق ہوا کہ وہ ان کے طرز ترنم کا تتبع کریں۔ اب جسے دیکھو وہ اپنا کلام اسی طرز سے پڑھ کر سنا رہا ہے۔ خواجہ دل محمدؐ ایم اے جو اب اسلامیہ کالج میں ریاضیات کے پروفیسر ہیں اور شاعری میں بھی نام پیدا کر چکے ہیں، اس وقت طالب علم تھے اور اقبال کی آواز کا نمونہ پیش کرنے میں بہت کامیاب سمجھے جاتے تھے۔ اب بھی اکثر مجالس میں ان کی لے سننے میں آتی ہے، مگر اس میں وہ ابتدائی رنگ باقی نہیں۔
ان دنوں دہلی کے شاہی خاندان کے ایک نامور فرد مرزا ارشد گورگانی 4؎ مرحوم زندہ تھے وہ بھی انجمن کے سالانہ جلسوں میں اپنی قومی نظمیں سنایا کرتے تھے جو بہت مقبول ہوئی تھیں۔ مرزا صاحب ہمیشہ تحت اللفظ پڑھتے تھے۔ انہوں نے اقبال کی روز افزوں قبولیت کو دیکھ کر محسوس کیا کہ اقبال کی خوش آہنگی اس کی نظم کو پر لگا رہی ہے اور اپنی ایک نظم میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ مصرعہ لکھا۔
نظم اقبالی نے ہر اک کو گویا کر دیا
یہ بات تو درست تھی کہ بہت سے لوگ اقبال کو دیکھ کر ترنم پر آمادہ ہو گئے تھے مگر اس کی قبولیت کی اصلی وجوہ اور تھیں جو اس وقت کے کلام میں بھی موجود تھیں اور بعد کو زیادہ پختہ ہو گئیں۔
انجمن کا ایک اجلاس جس میں اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’ شکوہ‘‘ اپنے انداز خاص میں پڑھی، بہت لوگوں کو یاد ہو گا، جب ’’ کیف غم‘‘ کا سماں جلسے پر چھا گیا تھا۔ان کے بہت سے مداح پھولوں سے جھولیاں بھر کر لائے تھے اور جب وہ پڑھ رہے تھے تو ان پر پھول برسا رہے تھے۔ اس وقت کی ایک اور بات خاص طور پر قابل دید تھی کہ اقبال کا معمر باپ 6؎ اس نظم کے سننے والوں میں موجود تھا۔ باپ کی آنکھوں میں بیٹے کی کامیابی دیکھ کر خوشی کے آنسو تھے، مگر لبوں پر تاثیر کلام سے وہی علامات غم تھیں جو بیٹے کے چہرے پر تھیں۔ در حقیقت یہ خصوصیت بیٹے نے باپ سے ورثے میں پائی تھی۔ اقبال کے والد ایک صوفی منش بزرگ تھے، مگر ان کا رنگ تصوف ایسا نہ تھا کہ ان کو زندگی کے روز مرہ فرائض سے بے پروا کر دے۔ 7؎ ساری عمر اپنی دس انگلیوں کی کمائی سے روزی کمائی۔ ’’دل بہ یار و دست بہ کار‘‘ پر ان کا عمل تھا۔ دل خدا کی طرف اور ہاتھ کام پر لگے رہتے تھے۔
ایک عرصہ تک اقبال اپنی نظمیں ترنم سے پڑھنے کے بعد فرمائشوں کی کثرت سے تنگ آ گئے اور انہوں نے یہ اصول بنا لیا کہ کسی بڑے مجمعے میں ترنم سے نہیں پڑھیں گے۔ بہت سے شائقین کو سخت مایوسی ہوئی، مگر مرحوم جب کوئی ایسا فیصلہ کر لیتے تھے، اس پر قائم رہتے تھے۔ اس لیے ان کی وفات سے برسوں پہلے یہ معمول ہو گیا تھا کہ کسی جلسے میں اگر وہ اپنا کلام پڑھیں تو تحت اللفظ پڑھتے تھے اور دوستوں میں بیٹھے ہوئے بھی ترنم پر بہ مشکل مائل ہوتے تھے۔ اخیر میں انہوں نے خاص صحبتوں میں بھی ترنم سے پڑھنا بند کر دیا تھا۔ اس عرصہ میں ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ مجھے اور دو اور دوستوں کو ان کی نوائے درد انگیز سننے کا موقعہ ملا۔ وہ آواز اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ مجھے رہ رہ کر افسوس آتا ہے کہ جس زمانے میں اقبال لے سے پڑھتے تھے۔ اس وقت آواز کے ریکارڈ بنانے کا رواج نہ تھا اور کسی کو خیال نہ آیا کہ ان کے پڑھنے کی بے نظیر طرز کو مستقل طور پر مقید کر لیا جاتا کیونکہ ایک خاص اثر ان کی آواز میں تھا جو سننے سے تعلق رکھتا تھا اور لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔
جس موقعہ کا ذکر میں نے کیا ہے اس کی تفصیل دلچسپ ہے میں نے دیرینہ اور بے تکلف دوستی کی بنا پر وہ جسارت کی جس سے اقبال اپنا کلام اپنے خاص انداز میں سنانے پر مجبور ہو گئے۔ 1933ء میں سید سر عبد الرؤف صاحب جو لاہور کی ہائیکورٹ کی ججی سے پنشن پا کر الہ آباد چلے گئے تھے، احباب سے ملنے کے لیے لاہور آئے اور جسٹس سید آغا حیدر صاحب کے ہاں ٹھہرے۔ جب وہ لاہور میں تھے تو میرے اور اقبال کے ان سے بہت مراسم تھے۔ ایک دن سید آغا حیدر صاحب نے مجھے اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔ کھانے کے بعد اقبال کی باتیں شروع ہوئیں تو سر عبد الرؤف نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ اقبال اپنی نظموں کو بڑے موثر انداز سے پڑھتا ہے، مگر افسوس کہ میں اتنے برس لاہور میں رہا، اور اقبال سے ملاقات بھی رہی، مگر مجھے ہمت نہ ہوئی کہ میں فرمائش کرتا کہ اپنا کلام لے سے پڑھ کر مجھے سنائیں۔ آغا صاحب نے کہا کہ میں اکثر اقبال سے ملنے جاتا ہوں مگر افسوس کہ آپ ایسے وقت میں لاہور آئے جب اقبال نے اپنے پڑھنے کا انداز بدل دیا۔ دونوں نے مجھ سے کہا کہ تم اقبال کے پرانے دوست ہو، کوئی طریق بتاؤ جس سے ہم ان کا کلام ان کے پرانے انداز سے سن سکیں، میں نے کہا، کوشش کروں گا، گو کامیابی یقینی نہیں کہی جا سکتی۔ تجویز یہ ہوئی کہ اقبال کو اور مجھے پھر کسی دن کھانے پر بلائیں مگر کسی اور کو نہ بلائیں اور کھانے کے بعد سید عبد الرؤف اقبال سے کہیں۔ اقبال ان کا ادب کرتے ہیں، شاید ان کی فرمائش کو نہ ٹالیں۔ اس قرار داد کے مطابق ہم چاروں ایک شب جمع ہوئے میں جانتا تھا کہ سید عبد الرؤف کے کہنے پر اقبال صاف انکار تو نہیں کریں گے، مگر غالباً یہ کہیں گے کہ مجھے اب اپنا کلام یاد نہیں رہتا اور کوئی اشعار یاد بھی ہوں تو مسلسل یاد نہیں۔ اس کا علاج میں نے پہلے ہی سوچ لیا تھا۔ میں گھر سے چلتے وقت ان کی اردو فارسی کتابیں اپنے ساتھ ایک کاغذ میں لپیٹ کر لے گیا تھا تاکہ اگر یہ عذر پیش ہو تو میں کتابیں پیش کر دوں۔ جب ہم سب کھانے سے فارغ ہوئے اور دوسرے کمرے میں جا کر بیٹھے تو عبد الرؤف نے بہت اچھے لفظوں میں اپنی آرزو بیان کی اور کہا کہ مجھے اس لطف سے محروم نہ رکھیے جو آپ کے اور دوست پہلے اٹھا چکے ہیں اور یہ بھی کہا کہ میں بوڑھا آدمی ہوں، معلوم نہیں پھر یہاں آؤں یا نہ آؤں۔ آپ سے یہ میری آخری درخواست ہے اس کا اقبال پر اچھا اثر ہوا، مگر انہوں نے وہی عذر پیش کیا جس کی مجھے توقع تھی۔ میں اٹھ کر وہ کتابیں لے آیا اور ان کے سامنے رکھ دیں۔ اب انہیں انکار کا راستہ نہ رہا اور طبیعت بھی کچھ مائل ہو گئی۔ انہوں نے پڑھنا شروع کیا۔ ان دونوں ججوں کے لیے تو ان کی خوش نوائی ایک نئی چیز تھی، میں جو پہلے سن چکا تھا، میرے لیے بھی ایک گئی ہوئی نعمت واپس آئی۔ ہم اس طرح جھوم جھوم کر سننے لگے کہ اقبال کو بھی مدت کے بعد اس طرح پڑھنے کا مزا آ گیا اور ان کی طبیعت کی وہ خصوصیت بھی اپنا رنگ لائی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ہم تینوں کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ پڑھتے پڑھتے ان کے آنسو بہ نکلے، پھر ہم کیا پتھر تھے کہ ہمارے آنسو تھمے رہتے۔ رات کے کوئی دس بجے تھے جب اقبال نے پڑھنا شروع کیا۔ آدھی رات ہو گئی تو ہم سب کو پتہ چلا کہ اتنی دیر ہو گئی ہے۔ بادل نخواستہ یہ پر کیف صحبت ختم کرنی پڑی۔ دونوں سید بہت ممنون ہوئے۔ اقبال کو ان کی دوستی کا بھی پاس تھا اور سیادت کا بھی۔ اقبال کو بارگاہ رسالت سے ایسی عقیدت تھی کہ وہ ہر سید کا احترام کرتے تھے۔ جب ہم دونوں وہاں سے چلے تو اقبال نے شکایت کی کہ تم نے آج بری طرح مدت کا بندھا ہوا معمول مجھ سے ترک کرایا۔ میں نے کہا کہ سید عبد الرؤف کا دلی شوق ایسا تھا کہ انہیں محروم رکھنا ظلم تھا۔ اگر یہ بات آپ کے خلاف طبع ہوئی ہے تو مجھے معاف کریں۔ اقبال نے کہا، میں بھی اسی خیال سے پڑھنے پر آمادہ ہو گیا، مگر تمہیں اس شرط سے معافی ملتی ہے کہ کل پر یا آئندہ مجھے ایسی فرمائش نہ ہو۔ کل کی تاکید اس لیے کی کہ یہ قرار پایا تھا کہ دوسرے دن شام کو دونوں سید صاحبان نے پھر فرمائش کی مجھے ان کو بتانا پڑا کہ میرے اور اقبال کے درمیان جو معاہدہ ہو چکا ہے، اس کا پابند ہوں اور درخواست میں شریک نہیں ہو سکتا۔
حیف کہ کچھ عرصہ بعد گلے کی بیماری8؎ کی وجہ سے اس آواز کو صدمہ پہنچا کہ مرحوم اپنی عمر کے آخری سالوں میں معمولی بات چیت بھی بہت دھیمی آواز سے کر سکتے تھے۔ 1934ء میں جب میں لاہور سے روانہ انگلستان ہوا تو اقبال بیمار تھے۔ اسی بیماری کی وجہ سے وہ آکسفورڈ نہ آ سکے۔ جہاں انہیں لیکچر دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔ اسی زمانے میں ہزہائی نس نواب صاحب بھوپال9؎ کو جو ان کے خاص قدر دانوں میں تھے، خیال آیا کہ ان کا معالجہ ہونا چاہیے۔ انہیں اپنے ہاں بلا کر مہمان رکھا اور علاج بھی کرایا جس سے قدرے افاقہ ہوا اور گفتگو میں کچھ آسانی پیدا ہو گئی مگر گلا پورا درست نہ ہو سکا۔ میں 1937ء میں چند ماہ کی رخصت لے کر لاہور گیا تھا۔ غنیمت ہے کہ مرحوم سے دو آخری ملاقاتیں نصیب ہو گئیں۔ ایک دن گیا تو وہ علیل تھے اور پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے پاس چند نوجوان طلباء اور دو ایک دوست بیٹھے تھے۔ لیٹے لیٹے مجھے گلے لگایا اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اس کے چند روز بعد صحت کچھ بہتر ہوئی تو مجھے دوپہر کے کھانے پر بلایا اور میرے ساتھ کھانا کھایا۔ دو اور دوست بھی اس دعوت میں شریک تھے۔ اس دن مزاج شگفتہ تھا اور کئی باتوں میں پرانے زمانے کی جھلک نظر آتی تھی۔ مگر کیا معلوم تھا کہ میں انہیں آخری دفعہ دیکھ رہا ہوں اور ان کی دلچسپ باتیں آخری دفعہ سن رہا ہوں۔
ہم ’’ کیف غم‘‘ کے لیے ان کی آواز تو اب نہیں سن سکتے، مگر ان کا کلام اس سے لبریز ہے اور اس کیف میں جوش زندگی ملا ہوا ہے۔
شیخ سر عبد القادر10؎
٭٭٭
تعلیقات و حواشی
ابو للیث صدیقی
1۔ غالب: مرزا اسد اللہ خان غالب فارسی اور اردو کے مشہور شاعر اور نثر نگار ہیں اردو اور فارسی دونوں میں ایک منفرد اسلوب کے بانی ہیں جو اس تہذیب کا ترجمان ہے جو کی حدود وسط ایشیا میں سمرقند اور بخارا سے دہلی اور کلکتہ تک پھیلی ہوئی ہیں َ علامہ اقبال کو مرز اسد اللہ خان غالب سے جو عقیدت تھی اس کا ایک سبب مرزا کا تخیل تھا لیکن اصول ربط کی وجہ یہ تھی کہ جس کا اظہار علامہ نے مرزا غالب کے عنوان سے بانگ درا میں ایک شعر میں کیا ہے:
دید تیری آنکھوں کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
یہ حکیمانہ اور صوفیانہ مشاہدہ ہے جس کی اہمیت پر علامہ اقبال نے اپنے خطابات میں اور مکاتیب میں بار بار اظہار خیال کیا ہے۔ مرزا غالب کا صوفیانہ مسلک وہی تھا جو وحدت الوجود کے ماننے والے صوفیہ کا ہے جسے علامہ اقبال تسلیم نہیں کرتے اور اس کی بجائے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک وحدت شہود کو مانتے ہیں جس میں اعلیٰ ترین منزل ’’عبدیت‘‘ ہے۔ یہ وہ منزل ہے جو علامہ اقبال کے یہاں خودی کے مقام سے گزر کر بیخودی کی منزل ہے۔ مرز ا غالب بھی علامہ اقبال کی طرح صوفی خرقہ پوش نہ تھے لیکن تصوف کے مسائل اور انداز بیان میں صوفی مشرف تھے۔
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
سر عبد القادر لکھتے ہیں کہ مرزا کے یہاں جو گداز دل ہے وہی شاعر کے کلام میں تاثیر کرتا ہے۔
مرزا کا شعر ہے:
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی
علامہ اقبال کے نظریہ فن میں بھی کیف غم کی اہمیت مسلم ہے۔ سر عبد القادر نے جو شعر علامہ کا نقل کیا ہے ا سمیں مغرب کی مے کا اثر نشاط ہے اور خانہ ساز مے میں کیف غم۔ مرزا غالب کے سلسلے میں علامہ اقبال نے ایک نہایت اہم نکتہ بیان کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ ہرچند کہ مرزا غالب بیدل کے اتباع کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے اردو کلام میں غالب بیدل کا اجتماع نہ کر سکے۔ ویسے بھی مرزا غالب اور اقبال اور بیدل میں ایک ذہنی اور فکری رشتہ ملتا ہے۔ یہ تینوں اپنی شاعری میں فکر کی گہرائی اور گیرائی پر زور دیتے ہیں۔ اور شاعری کو محض جذبات یا احساسات کا اظہار نہیں سمجھتے۔ اردو شاعری میں ایسے مضامین مرزا غالب کے کلام سے آئے اور یہی سلسلہ علامہ اقبال تک پہنچا ہے‘‘۔(٭۔ ’’اقبال اور بیدل‘‘ ماہ نو…از ابوللیث صدیقی، استقلال نمبر 1954ء)
۲۔ سر عبد القادر کا یہ بیان اہم ہے کہ علامہ اقبال کو موسیقی کا بھی شو ق تھا۔ شاعری کو بعض حضرات نے موزونی طبع کا نام دیا ہے۔ اگرچہ اس میں بعض اور عناصر بھی شامل ہیں لیکن بنیادی طور پر کلام ناموزوں کو شعر کوئی نہ کہے گا۔ یہی موزونیت موسیقی کی اساس ہے۔ موسیقی کے بارے میں علامہ اقبال کا نقطہ نظر واضح ہے۔ بال جبریل میں پیر و مرشد کے عنوان سے مرید ہندی اور پیر رومی کے سوال جواب میں یہ اشعر اس نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہیں :
دور حاضر مست چنگ و بے سرور
بے ثبات و بے چین و بے حضور
کیا خبر اس کو کہ ہے یہ راز کیا
دوست کیا ہے دوست کی آواز کیا
آہ یورپ ! بافروغ و تابناک
نغمہ اس کو کھینچتا ہے سوئے خاک
اور پیر رومی فرماتے ہیں :
بر سماع راست ہر کس چیر نیست
طعمہ ہر مرغ کے انجیر نیست
صوفیہ نے سماع کے باب میں بہت کچھ لکھا ہے۔ بعض سلسلوں (مثلاً چشتیہ) میں سماع مرغوب اور بعض (مثلاً نقشبندیہ) میں نامحبوب ہے۔ داتا گنج بخش حضرت علی الہجویری نے کشف المحجوب میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے اور ایک واقعہ خواجہ ابو احمد المظفر حمدان کی صحبت کا نقل کیا ہے۔ حضرت علی ہجویری سماع سے خوش ہوئے تو آپ (خواجہ صاحب) نے فرمایا : ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ یہ سماع اور کوے کی کائیں کائیں تمہارے لیے یکسا ں ہو جائیں۔ سماع کی قوت اسی وقت تک ضرورت ہوتی ہے جب تک ’’مشاہدات‘‘ نصیب نہ ہو:
’’چون مشاہدات حاصل آمد ولایت سمع ناچیز شد‘‘۔
جو بات مولانا روم نے کہی ہے حضرت علی ہجویری نے ایک اور ’’امام اہل حدیث‘‘ کے حوالے سے یوں بیان فرمائی ہے:
’’اگر تاثیر اندر دل حلال بود، سماع حلال بود، و اگر حرام حرام، و اگر مباح مباح‘‘۔
گویا تمام انحصار اس پر ہے کہ دل میں اس سے تاثیر کیا پیدا ہوتی ہے۔
3۔ خواجہ دل محمد: لاہور کے ایک ممتاز استاد، ماہر ریاضی، شاعر بچپن سے علامہ کے کلام کے شیدائی تھے اور ان کے انداز کلام سے بھی متاثر ہوئے۔ اسلامیہ کالج لاہور میں استاد تھے۔ ریاضی میں ان کی مرتبہ کتابیں عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل رہیں۔
4۔ مرزا ارشد گورگانی: مرزا عبد الغنی ارشد گورگانی خاندان مغلیہ کی یادگار تھے۔ 1850ء میں قلعہ معلی دہلی میں پیدا ہوئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد پنجاب آ کر محکمہ تعلیم سے منسلک ہو گئے شاعری میں مرزا قادر بخش صابر کے شاگرد تھے۔ مولانا حالی اور آزاد بھی ان دنوں لاہور میں تھے۔ حالی سے ارشد گورگانی کا قریبی تعلق رہا اور جب حالی نے نظم جدید کے مشاعروں میں نئی نظمیں لکھیں تو ارشد بھی اس تحریک میں شامل ہو گئے۔ 21فروری 1906ء کو ملتان میں انتقال ہوا۔
5۔ اقبال کی مشہور نظم شکوہ اور اس کا دوسرا حصہ جواب شکوہ دونوں بانگ دار میں شامل ہیں۔ مولانا حالی کی مسدس کے بعد اگر کوئی نظم خاص و عام میں یکساں طور پر مقبول ہوئی اوراس کی مقبولیت اب بھی قائم و باقی ہے۔ تو وہ یہ نظم ہے۔ مسد مدو جذر اسلام کی طرح یہ دونوں نظمیں بھی مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان پیش کرتی ہیں مسد س میں صرف صورت حال بیان کی گئی تھی۔ گویا یہ ایک آئینہ تھا جس میں قوم کو اپنی صورت نظر آتی تھی۔ اس تباہی اور بربادی کے اسباب اور اس کے علاج کی طرف مسدس میں اشارہ نہ تھا۔ اور نظم کا پورا تاثر انتہائی مایوسی اور محرومی و ناکامی کا تھا۔ چنانچہ حالی نے ایک ضمیمہ ’’امید‘‘ لکھ کر اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش کی۔ علامہ اقبال کی نظموں میں جوش اور ولولہ ایسا تھا کہ اپنے عروج و زوال کی اس تصویر کو دیکھنے والے مایوس ہونے کے بجائے عمل کی طرف راغب اور مائل ہوں اور پورا تاثر قنوطی ہونے کے بجائے رجائی تھا۔
6۔ سر عبد القادر نے علامہ کے والد کا ذکر کیا ہے۔ علامہ کے دیگر ناقدین اور سوانح نگاروں نے بھی ان کا تذکرہ کیا ہے۔ بالخصوص علامہ کی طبیعت میں جو سوز و گداز اور مزاج میں جو درویشی اور قلندری پیدا ہوئی ا س کا سرچشمہ ان ہی کی ذات تھی۔ علامہ نے بار بار اس کا ذکر کیا ہے۔ خصوصاً یہ واقعہ کہ بچپن میں انہوں نے کسی درویش کو غصہ میں آ کر مارا پیٹا یا سخت سست کہا۔ اس پر والد صاحب بے حد مغموم ہوئے اور بیٹے سے کہا خدارا غور کرو قیامت کے دن جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا ہو گا اور مجھ سے پوچھا جائے گا کہ ایک جوان صالح کی تربیت تیرے سپرد کی تھی تو اسے بھی سرانجام نہ دے سکا اس وقت ندامت اور شرمندگی سے میرا کیا حال ہو گا!
(حق جوانے مسلمے با تو سپرد
کو نصیبے از دبستانم نبرد
از تو ایں یک کار آساں ہم نشد
یعنی آں انبار گل آدم نشد
(اسرار خودی))
علامہ نے اس واقعہ کو جس موثر انداز میں لکھا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ والد کا اسم گرامی شیخ نور محمد تھا۔ لیکن اعزاز و اقربا میاں جی کہہ کر مخاطب کرتے۔ آخر عمر تک سیالکوٹ میں مقیم رہے اور 17 اگست 1930ء کو وہیں انتقال فرمایا۔ علامہ اپنے والد محترم کے فیض روحانی کے جس قدر قائل تھے اس کا اندازہ ایک خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے اپنے بھتیجے اعجاز احمد صاحب کو لکھا ہے:
’’برخوردار اعجاز کو بعد دعا واضح ہو کہ میں نے تمہارے دونوں خط پڑھ لیے ہیں۔ والد مکرم کی طبیعت پہلے بھی رقیق تھی، اب یہ سبب ضعف پیری کے اور بھی رقیق ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ عمر کا آدمی کوئی رفیق اپنا نہیں دیکھتا۔ اس کو دنیا نئی معلوم ہوتی ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو تنہا پاتا ہے۔ جس سے اس کی طبیعت اور گھبرا جاتی ہے۔ اس واسطے میرا مشورہ تم کو یہ ہے کہ دن میں ایک دفعہ وقت نکال کے ایک آدھ گھنٹہ ان کے پا س بیٹھا کرو اور جن باتوں میں ان کو دلچسپی ہے اس کے متعلق ان سے گفتگو کیا کرو، خواہ وہ گفتگو بہ تکلف سی کیوں نہ ہو۔ تم اس با ت کو زندگی کے دیگر فرائض کی طرح لازم کر لو اور ایک دن بھی اس فرض کی انجام دہی سے غافل نہ ہو۔ غالب گمان ہے کہ اس سے تم کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ کیا عجیب ہے کہ جو بات ان سے … کو حاصل نہیں ہو سکی وہ تم کو مل جائے اور اگر یہ بات ہو گئی تو زندگی بھر ان کے احسان کو فراموش نہ کر سکو گے اگرچہ اس وقت تم کو اس کا احساس نہ ہو کیونکہ جوانی کے خیالات کا رخ اور طرف ہے۔ مجھے خود جو فائدہ ان کی ذات سے ہوا، اس کا احساس اب ہوا ہے۔ ور میں اس کو ہر قسم کے علم اور دنیوی وجاہت پر ترجیح دیتا ہوں۔ تم ان کے مذاق کا مطالعہ کرو۔ اور پھر خواہ بہ تکلف ہی کیوں نہ ہو تھوڑی دیر کے لیے اس مذاق میں رنگین ہو جایا کرو تاکہ وہ تمہیں محرم تصور کریں۔ اس میں تمہارے لیے بڑے بڑے فائدے مستور ہیں جن کو مین اب بیان نہیں کر سکتا اور اگر بیان کروں بھی تو شاید تم ان کو اچھی طرح سمجھ بھی نہ سکو گے۔ اس فائدے کے علاوہ دنیوی فائدے کا بھی امکان غالب ہے۔ کسی وقت خوش ہو کر ایک کبیر الحسن آدمی کے منہ سے دعا نکل جائے تو اسے دنیا کے تجربے نے نہایت پر تاثیر بنایا ہے‘‘۔
(خطوط اقبال، رفیع الدین ہاشمی، مکتبہ خیابان ادب لاہور 1976ء ص 144-145)
جس فائدے کی طرف علامہ کے اشارہ کیا ہے وہ وہی مشاہدہ اور صوفیانہ تجربہ ہے جس کو علامہ اقبال تصوف اسلام اور عین روح اسلام کے مطابق سمجھتے تھے اور روایت ان کی خاندانی تھی۔ اپنے برادر مکرم شیخ عطا محمد کو ایک اور مکتوب میں اپنے جد اعلیٰ حضرت بابا لول حج کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کشمیر کے مشہور مشائخ میں تھے(بحوالہ خطوط اقبال محولہ بالا)ترک دنیا کر کے گھر سے نکل گئے تھے۔ بارہ سال کشمیر سے باہر رہے۔ واپس آنے پر بقول علامہ ’’اشارہ غیبی‘‘ پا کر حضرت بابا نصر الدین کے مرید ہوئے جو حضرت نور الدین ولی کے مرید تھے اور بقیہ عمر مرشد کی صحبت میں گزاری اور مرشد کے جوار میں موضع چرار شریف میں ، جو سر ی نگر سے جنوب مغرب میں بیس میل کے فاصلے پر ہے، مدفون ہیں۔ علامہ نے جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے اسی خاندانی مذاق کا عارفانہ کا ذکر کیا ہے:
جس گھر کا مگر چراغ تو ہے
ہے اس کا مذاق عارفانہ
7۔ سر عبد القادر نے لکھا ہے کہ ان کے والد کا رنگ تصوف ایسا نہ تھا کہ ان کو زندگی کے روز مرہ فرائض سے بے پرواہ کر دے۔ تصوف کے بار ے میں خود علامہ اقبال کا بھی نقطہ نظر یہی تھا۔ وہ اس تصوف کو خالص اسلامی مانتے تھے جس کی بنیاد قرآن حکیم، احادیث نبوی، اقوال و افعال صحابہ اور صوفیائے کبار کے عمل پر تھی۔ جس میں ترک دنیا اور رہبانیت کی بجائے زندگی کا ایک حرکی تصور تھا۔ اور جس میں زندگی ایک ارتقا پذیر قوت سمجھی جاتی تھی۔ اقبال صوفیہ کے وحدت وجود کے مسلک کے خلافت تھے اور حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے مسئلہ وحدت شہود کو تسلیم کرتے تھے اور ان کے خیال میں اعلیٰ ترین مقام ’’عبدیت‘‘ کا تھا۔ وحدت کی ضد علامہ کے نزدیک کثرت نہیں بلکہ شرک ہے۔ علامہ حالت صحو کو حالت سکر پر ترجیح دیتے تھے۔ بعض حضرات شریعت اور طریقت دو الگ الگ راستے بتاتے ہیں ، اس بات میں علامہ کا عقیدہ یہ تھا: ’’حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے اور شریعت اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ جب احکام الٰہی خودی میں اس حد تک سرایت کر جائیں کہ خود ی کے پرائیویٹ امیال و عواطف باقی نہ رہیں اور صرف رضائے الٰہی اس کا مقصود ہو جائے تو زندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابر صوفیائے اسلام نے فنا لکھا ہے۔ بعض نے اسی کا نام بقا رکھا ہے۔ لیکن ہندی اور ایرانی صوفیہ میں سے اکثر نے مسئلہ فنا کی تفسیر فلسفہ و یدانت اور بدھ مت کے زیر اثر کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ :
’’مسلمان اس وقت عملی اعتبارسے ناکارہ محض ہے۔ میرے عقیدہ کی رو سے یہ تفسیر بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی اور ایک معنی میں میری تمام تحریریں اسی تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہیں ‘‘۔
(مکتوب بنام ظفر احمد صدیقی بحوالہ اقبال نامہ جلد دوم طبع 1951ء ص 46)
8۔ گلے کی بیماری: یہ سلسلہ 10جنوری 1934ء کو عید کے موقع پر سوئیاں اور دہی کھانے سے شروع ہوا۔ پہلے خیال ہوا صرف انفلوئنزا ہے۔ پھر ڈاکٹروں نے بتایا کہ گلے کے نیچے جو آلہ صوت (Larynx)ہے اس کا تار ڈھیلا ہو گیا ہے۔ (یہ غلط فہمی تھی جنہیں وتران صوت یا Vocal Chordsکہتے ہیں وہ اصلاً تار یا تار کی شکل نہیں ہونٹوں کی صورت میں جن کے کھلنے یا بند ہونے سے صدائی (Voiced) یا بے صدا (Voiceless) اصوات پیدا ہوتی ہیں ) اس کی وجہ سے آواز بیٹھ گئی ہے۔ ایک قیاس یہ تھا کہ نقرس کی شکایت کبھی کبھی ہو جاتی تھی اور بعض ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ نقرس کا اثر بھی آواز پر ہو سکتا ہے۔ پھر ایکسرے کرایا گیا اور تشخیص یہ ہوئی کہ دل کے اوپر کی طرف ایک نئی Growth ہو رہی ہے جس کے دباؤ سے ووکل کارڈ (Vocal Chord)متاثر ہیں۔ اس کے لیے یورپ بجلی سے علاج کرانے کے لیے جانے کا مشورہ دیا تھا لیکن ایک تو علامہ اس پر آمادہ نہ تھے کیونکہ بقول خود وہ مغربی اطبا کا امتحان کر چکے تھے، نہ تھے دوسرے یورپ کے علاج پر روپیہ خرچ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ خود علامہ نے ایک خط میں نذیر نیازی کے نام لکھا ہے۔ افسوس کہ اقبال کی عظمت کا شاعر اپنی زندگی کے اس دور میں بھی جب ان کی شاعری اور فلسفہ کا شہرہ ہو چکا تھا۔ اور ان کے مداحوں میں زندگی کے ہر شعبہ اور ہر سطح کے ہزاروں قدردان موجود تھے، ان کی مالی حالت ایسی نہ تھی جو یورپ کا سفر اور معمولی علاج کرا سکتے۔ شاید ان کے فقر غیور نے کبھی کسی سے مالی امداد کی توقع نہ کی۔ سوائے اس وظیفہ کے جو دور آخر میں پانچ سو روپیہ مہینہ کا نواب حمید اللہ خاں والی بھوپال نے پیش کیا تھا اور اسے بھی محض ایک والی ریاست کے وظیفہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک صاحب نظر کے ہدیہ کے طور پر، حمید اللہ خاں کے لیے یہ اشعار کسی قصیدہ کے نہیں ہیں ، ضرب کلیم کے انتساب کے ہیں :
زمانہ با امم ایشیا چہ کرد و کند
کسے نہ بود کہ ایں داستاں فروخواند
تو صاحب نظری آنچہ در ضمیر من است
دل تو بیند و اندیشہ تو می داند
بگیر ایں ہمہ سرمایہ بہار از من
کل گل بدست تو از شاخ تازہ تر ماند
غرض حکیم نابینا صاحب دہلوی کا علاج ہوا۔ کبھی معلوم ہوتا تھا کہ کچھ افاقہ ہے۔ کبھی صورت حال پھر بگڑ جاتی۔ ادھر علامہ کی شریک حیات جاوید اقبال کی والدہ علیل ہو گئیں َ اور 23مئی 1935ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ علامہ کی علالت کا سلسلہ جاری رہا اور 1938ء میں ان کی وفات کا ختم ہوا۔ آواز کے اس بیٹھ جانے کی طرف اشارہ اس دور کے کلام میں جگہ جگہ ہے۔ یہ آخری زمانے کے دور شعر ہیں۔ پہلا مصرعہ بھی اسی کی طرف نازک اشارہ ہے:
سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
اس بیماری اور علاج کی بڑی تفصیل مکتوبات اقبال بنام سید نذیر نیازی (اقبال اکیڈمی کراچی 1957ء
ال ہو گا! ٭) میں موجود ہے۔
9۔ نواب صاحب بھوپال: ہز ہائنس نواب سر حمید اللہ خاں والی بھوپال جن کا ذکر سابقہ حاشیہ میں موجود ہے۔ سلطان جہاں بیگم کے بعد بھوپال کی ریاست کے وارث ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم رہ چکے تھے ارباب علم و فن کے قدر دان تھے اور بہت سے قومی ادارے ان کی فیاضی سے زندہ تھے۔ ملک کی تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں میں عملی حصہ لیتے تھے۔ آخر زمانہ میں نواب سر راس مسعود (جنہوں نے اپنی کوششوں سے حیدر آباد میں جامعہ عثمانیہ کے قیام کا منصوبہ پیش کر کے اردو میں اعلیٰ تعلیم کی روایت کومستحکم کیا اور اردو جدید علمی زبانوں کے حلقہ میں ان کی کوششوں سے شریک ہوئی) علی گڑھ سے مایوس ہو کر بھوپال چلے گئے تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ راس مسعود مرحوم نے ہی علامہ اقبال کو بھوپال بلوایا اور ان کا قیام ریاض منزل دولت کدہ سر راس مسعود میں رہا۔ ضرب کلیم کی کئی کئی نظمیں ریاض منزل میں ہی لکھی گئیں۔ مثلاً مقصود، حکومت، نگاہ، امید، اور بعض شیش محل بھوپال میں مثلاً ابلیس کا فرمان، اپنے سیاسی فرزندوں کے نام، جمعیت اقوام مشرق، مسولینی، اقبال اور بھوپال کے تعلق کی تفصیل صہبا لکھنوی نے اقبال اور بھوپال میں گزاریں اور قرآن حکیم کے بعض مطالب کی تفسیر اپنے نقطہ نظر سے لکھیں اور اسی لیے انہوں نے نواب صاحب کا نظریہ قبول کر لیا تھا، لیکن بیماری نے اس کو مہلت نہ دی۔ علامہ اقبال نے جشن حالی کے موقع پر یہ اشعار نواب حمید اللہ خاں کے لیے لکھے تھے:
مزاج ناقہ را مانند عرفی نیک می بینم
چو محمل را گراں بینم حدی را تیزتر خوانم
حمید اللہ خاں اے ملک و ملت را فروغ از تو
ز الطاف تو موج لالہ خیزد از خیابانم
طواف مرقد حالی سزد ارباب معنی را
نوائے او بجانہا افگند شورے کہ می دانم
بیا تا فقر و شای در حضور او بہم سازم
تو بر خاکش گہر افشان و من برگ گل افشانم
10۔ سر عبد القادر: سر شیخ عبد القادر سرزمین پنجاب کے نامور فرزند، علمی ادبی ، تعلیمی، اور تہذیبی سرگرمیوں میں نمایاں علامہ اقبال کے رفیق دیرینہ باند دار میں عبد القادر کے نام جو نظم ہے اس سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے۔ کہ علامہ عبد القادر کو اپنا راز دار اور راز داں سمجھتے تھے۔ ملت کی تہذیبی سیاسی نشاۃ الثانیہ کے باب میں دونوں ہم خیال تھے۔ لندن کے قیام کے دوران تحریک اتحاد بین المسلمین سے دونوں کو بہ یک وقت دلچسپی ہوئی وہیں ایک دور ایسا گزرا کہ علامہ نے شعر گوئی ترک کرنے کا ارادہ کیا تو شیخ عبد القادر نے ہی انہیں آمادہ کیا کہ وہ گیسوئے اردو کو سنوارنے کی کوشش جاری رکھیں۔ اقبال کی پہلی نظم کوہ ہمالہ سے خطاب، جو شائع ہوئی تو وہ شیخ عبد القادر کے مشہور علمی اور ادبی رسالے مخزن میں شائع ہوئی۔ اسی رسالے میں اقبال کی ا س دور کی اکثر نظموں کے نقش اول موجود ہیں جن میں بعد میں اصلاح ہوئی۔ بانگ درا پر شیخ صاحب کا مقدمہ اقبال کی شاعری کی اہمیت اور اس کے امکانات دونوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے کا دوسرا مضمون رموز بیخودی ے جو مخزن ستمبر 1918ء میں شائع ہوا تھا۔ یہ ایک تفصیلی ریویو یا تبصرہ تھا، جس میں رموز بیخودی کے مضامین کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ سرعبد القادر اور علامہ کے پر خلوص تعلقات کا سلسلہ قیام انگلستان سے شروع ہو کر 1937ء تک جار ی رہا۔ جب شیخ صاحب کی علامہ سے آخری ملاقات ہوئی۔
شیخ عبد القادر لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قصور میں پائی اور لاہور سے بی اے پاس کر کے منٹگمری کے ایک سکول میں ملازمت شروع کی۔ 1898ء میں پنجاب آبزرور کے عملہ میں بطور ایڈیٹر شریک ہوئے۔ 1901ء میں مخزن جاری کیا اور 1904ء میں انگلستان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے گئے۔ 1907ء میں واپس آ کر دہلی میں بطور بیرسٹر پریکٹس شروع کی۔ پھر لاہور چلے آئے اور کچھ عرصہ لائل پور میں سرکاری وکیل رہے۔ 1921ء میں لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور 1925ء میں پنجاب میں وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔ 1934ء میں وزیر ہند کی کونسل کے ممبر ہو کر لندن چلے گئے اور 1939ء تک وہاں قیام کیا۔ 1942ء میں بہاولپور کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ آخر عمر میں بیمار رہنے لگے تھے۔ 9فروری 1950ء کو لاہور میں وفات پائی۔
علامہ اقبال اور سر عبد القادر کے خیالات و نظریات میں ہم آہنگی کا اظہار بانگ درا کی اس نظم سے ہوتا ہے۔ جو علامہ نے سر عبد القادر کے نام لکھی ہے۔ اس زمانے میں تحریک تجدد اسلام اور تحریک اتحاد بین المسلمین کی جو تحریکات مختلف ممالک کے مسلمان نوجوانوں میں مقبول تھیں دونوں اس سے وابستہ تھے۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/2153.txt
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید