فہرست مضامین
- کچھ نیک اور بد بیبیاں
- مقدمہ
- کچھ بری عورتیں
- عنق کا ذکر
- واعلہ کا ذکر
- صدوف کا ذکر
- اربیل کا ذکر
- نائلہ کا ذکر
- بلعم باعور کی بیوی کا ذکر
- حضرت یحیی علیہ السلام کو قتل کرنے والی عورت کا ذکر
- شمسون کی بیوی کا ذکر
- جریج کو تہمت لگانے والی عورت کا ذکر
- بنی اسرائیل کی ایک بے رحم عورت کا ذکر
- بنی اسرائیل کی ایک مکار عورت کا ذکر
- جو عورتیں مکہ کے فتح ہونے کے دن ماری گئیں ان کا ذکر
- لبید یہودی کی بیٹیوں کا ذکر
- قطامہ کا ذکر
- جعدہ بنت اشعب کا ذکر
- وہ بیبیاں جو سدھر گئیں
- کچھ بری عورتیں
- نیک بیبیوں کے بیان میں
- حضرت حوا علیہا السلام کا ذکر
- حضرت نوح علیہ السلام کی والدہ کا ذکر
- حضرت سارہ علیہا السلام کا ذکر
- حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا ذکر
- حضرت اسمعیل علیہ السلام کی دوسری بی بی کا ذکر
- حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹیوں کا ذکر
- حضرت لیا یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کی خالہ کا ذکر
- حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا ذکر
- حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سالی کا ذکر
- حضرت آسیہ کا ذکر
- حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لشکر کی ایک بڑھیا کا ذکر
- حیسور کی بہن کا ذکر
- حیسور کی ماں کا ذکر
- حضرت سلیمان علیہ السلام کی والدہ کا ذکر
- حضرت بلقیس کا ذکر
- بنی اسرائیل کی ایک لونڈی کا ذکر
- بنی اسرائیل کی ایک عقلمند دیندار بی بی کا ذکر
- حضرت مریم علیہما السلام کی والدہ کا ذکر
- حضرت مریم علیہما السلام کا ذکر
- حضرت زکریا علیہ السلام کی بی بی کا ذکر
- حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت زینب خزیمہ کی بیٹی رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت زینب جحش کی بیٹی رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت حلیمہ سعدیہ کا ذکر
- حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا ذکر
- حضرت ام حرام کا ذکر
- حضرت ام عبد کا ذکر
- حضرت ابوذر غفاری کی والدہ کا ذکر
- حضرت ابوہریرہ کی والدہ کا ذکر
- حضرت اسماء بنت عمیس کا ذکر
- حضرت حذیفہ کی والدہ کا ذکر
- حضرت فاطمہ بنت خطاب کا ذکر
- ایک انصاری عورت کا ذکر
- حضرت ام فضل لبابہ بنت حارث کا ذکر
- حضرت ام سلیط کا ذکر
- حضرت ہالہ بنت خویلد کا ذکر
- حضرت ہند بنت عتبہ کا ذکر
- حضرت ام خالد کا ذکر
- حضرت صفیہ کا ذکر
- حضرت ابو الہثیم کی بی بی کا ذکر
- حضرت اسماء بنت ابی بکر کا ذکر
- حضرت ام رومان کا ذکر
- حضرت ام عطیہ کا ذکر
- حضرت بریرہ کا ذکر
- امام حافظ ابن عساکر کی استاد بیبیاں
- حفید بن زہرا طبیب کی بہن اور بھانجی
- امام یزید بن ہارون کی لونڈی
- ابن سماک کوفی کی لونڈی
- امام ربیعۃ الرائی کی والدہ
- امام بخاری کی والدہ اور بہن
- قاضی زادہ رومی کی بہن
- حضرت رابعہ عدویہ کا ذکر
- حضرت ماجدہ قرشیہ کا ذکر
- حضرت عائشہ بنت جعفر صادق کا ذکر
- رباح قیسی کی بی بی کا ذکر
- حضرت رابعہ یا رابعہ شامیہ بنت اسمعیل کا ذکر
- حبیب عجمی بی بی بی حضرت عمرہ کا ذکر
- حضرت امتہ الجلیل کا ذکر
- حضرت شعوانہ کا ذکر
- حضرت منہ رملیہ کا ذکر
- حضرت سیدہ نفیسہ بنت حسن بن زید بن حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہم کا ذکر
- حضرت میمونہ سوداء کا ذکر
- حضرت سری سقطی کی ایک مریدنی کا ذکر
- حضرت شاہ بن شجاع کرمانی کی بیٹی کا ذکر
- حضرت حاتم کی ایک چھوٹی سی لڑکی کا ذکر
- حضرت ست الملوک کا ذکر
- حضرت حوا علیہا السلام کا ذکر
کچھ نیک اور بد بیبیاں
ماخوذ از اصلاح النساء
مرتب: اشرف علی تھانوی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
مقدمہ
عرض ہے کہ جب بہشتی زیور کا آٹھواں حصہ لکھا جاتا تھا اسی کے جزو بنانے کی غرض سے جس طرح صالح بیبیوں کی کچھ حکایتیں جمع کی گئی تھیں اسی طرح بنظر عبرت و مصلحت تعرف الاشیاء باضدادھا بعض غیر صالح اور بعض تائب عورتوں کے بعضے قصے بھی جمع کیے گئے تھے مگر مجموعہ کی مقدار بڑھ جانے کے سبب سے صرف اول قسم کی حکایتوں کو جزو بنایا گیا اور دوسری قسم کی حکایتوں کی جگہ اس حصہ کے بالکل اخیر میں ایک جامع مضمون آیات و احادیث سے آیا اور ان حکایتوں کا مضمون حالت تسوید میں رکھا رہا کبھی کبھی اس پر نظر پڑتی تو اس کی اشاعت کے لیے موقع کا انتظار ہوتا تھا اتفاق سے اس اثناء میں میرے ایک محلہ دار تجربہ کار صاحب نے ایک یادداشت عورتوں کے بعضے عیوب کی لکھی ہوئی بغرض اصلاح اپنے تجربہ کے مجھ کو دی مطالعہ جو کار تو اس کی مناسب ان حکایتوں سے پا کر خیال ہوا کہ اگر ان سب کو مجتمع کر کے بطور ضمیمہ حصہ ہشتم بہشتی زیور کے قرار دے کر اشاعت کر دی جائے تو امید ہے کہ ایسی عورتوں کے لیے موجب عبرت ہو اور اس عبرت سے امید ہے کہ توفیق توبہ کی ہو جائے اور چونکہ وہ یادداشت مذکور بوجہ اس کے کہ حالت غصہ میں لکھی گئی ہے کسی قدر تیز اور عنوان میں مطلق تھی اس لیے اس تیزی اور اطلاق کی تلافی کے لیے اس کے شروع میں بعنوان تنبیہ ایک منصفانہ فیصلہ میں نے اضافہ کر دیا ہے اور اس مجموعہ کو اس طرح ترتیب دیا گیا کہ اول حکایات شریر عورتوں کی پھر توبہ کرنے والیوں کی پھر وہ تنبیہ جو میری اضافہ کی ہوئی ہے پھر وہ یادداشت لکھی گئی پس گویا یہ مجموعہ بہشتی زیور کے حصے ہشتم کے اخیر اور جامع مضمون مذکورہ بالا کی شرح ہے اور اس کا نام اصلاح النساء رکھا گیا
فقط اشرف علی تحریر تاریخ محرم1330 ھ15
کچھ بری عورتیں
عنق کا ذکر
یہ عورت حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں تھی سب سے پہلے برا کام کر کے اس نے اپنا منہ کالا کیا اللہ تعالی نے دنیا میں اس کو یہ سزا دی کہ بڑے بڑے سانپ جو کہ ہاتھی کے برابر تھے اور بڑے بڑے بھیڑیئے جو کہ اونٹ کے برابر تھے اور بڑے بڑے کرگس یعنی گدھ جو کہ گدھے کی برابر تھے غبی سے پیدا کر دیئے وہ اس کو لپٹے اور سب مل کر اس کو کھا گئے۔ فائدہ دیکھو اس برے کام کا کیا نتیجہ ملا اور کوئی یوں نہ سمجھے کہ اب تو کسی کو بھی ایسی سزا نہیں ہوتی یاد رکھو فقط ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا طفیل ہے جو دنیا میں ایسی سزا نہںو ملتی لیکن آخرت میں سب اکٹھی سزا مل جائے گی۔ اور جب آخرت کا آنا یقینی ہے پھر بے فکری کیسے ہو سکتی ہے اور کوئی یوں بھی نہ سمجھے کہ خاص منہ کالا کرنے ہی کو برا کام کہتے ہیں بلکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا ہے کہ آنکھیں اور کان اور زبان اور ہاتھ اور پاؤں اور دل سب سے برا کام ہو سکتا ہے تو اگر کسی نے غیر مرد کو یا دولہا کو یا برات کو جھانکا تاکا یہ آنکھ کا برا کام ہو گیا اگر بدون لاچاری کے غیر مرد سے گھل مل کر باتیں بناتیں یہ زبان کا برا کام ہو گیا اگر جی خوش کرنے کو اس کی باتیں سنیں یا اس کی زبان سے کوئی غزل یا مناجات سنی یہ کان کا برا کام ہو گیا اسی طرح جس سے شرع میں پردہ ہے اس سے ہاتھ ملانا یا اس کی کمر اور سر پر ہاتھ رکھ دینا یہ ہاتھ کا برا کام ہے اور ایسے آدمی سے ملنے کو گھر سے جانا یا اس کے سامنے آنے کے لیے پاؤں اٹھا کر چلنا یہ پاؤں کا برا کام ہے اور دل سے اس کو یاد کرنا اس کے دھیان میں رہنا یہ دل کا برا کام ہے تو جو وبال اور گناہ برے کام کا ہوتا ہے وہ ان باتوں سے بھی ہو جاتا ہے خدائے تعالی کے قہر اور غضب سے ڈرنا چاہیے اور ان سب باتوں سے بچنا چاہیے۔
واعلہ کا ذکر
یہ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی ہے مگر ایمان نہیں لائی جب طوفان شروع ہوا اور زمین سے پانی ابلنے لگا اور نوح علیہ السلام ایمان والوں کو کشتی میں سوار کرنے لگے اپنے بیٹے کو اور اس عورت کو بھی ہر چند سمجھایا کہ ایمان قبول کر کے کشتی میں جاؤ مگر نہ تو ایمان قبول کیا اور نہ کشتی میں آئے بلکہ خود طوفان ہی کا یقین نہ تھا اس لیے حضرت نوح پر ہنستے تھے غرض جب طوفان بڑھا اسی میں دونوں ڈوب گئے۔ فائدہ اس عورت کا ذکر قرآن شریف میں بھی اس طرح آیا ہے کہ باوجودیکہ ایک مقبول بندے کی بیوی تھی لیکن چونکہ دین کی راہ پر نہ تھی اس لیے ان کی بیوی بننا اس کے کچھ کام نہ آیا اور دوزخ میں بھیج دی گئی۔ بیبیو خوب سمجھ لو اور اپنے خاوند کے یا کسی باپ بھائی یا بٹےط کے بزرگ ہونے کے بھروسہ نہ رہیو جب تک تمہارا دین ایمان درست نہ ہو گا تمہارے کسی رشتہ دار کا بزرگ ہونا تمہارے کام نہ آئے گا۔
حضرت لوط کی بیوی کا ذکر
یہ بھی کافرہ تھی اور بری باتوں میں کافروں کو مدد دیتی تھی جب حضرت لوط علیہ السلام کی امت کے کافروں پر خدائے تعالی کا عذاب آنے کو ہوا تو خدائے تعالی نے فرشتوں کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ اب صبح کو اس بستی پر عذاب آنے والا ہے آپ ایمانداروں کو اپنے ساتھ لے کر راتوں رات اس بستی سے باہر چلے جائیں اور کوئی پچھے پھر کر نہ دیکھے غرض حضرت لوط حکم الٰہی کے موافق بستی سے نکل کر باہر کو چلے اس وقت یہ عورت بھی اپنی جان بچانے کو ساتھ ہو لی جب وہ وقت آیا تو بستی والوں پر عذاب کے پتھر برسنا شروع ہوئے اور شور و غل مچنے لگا سب ایمان دار تو مارے خوف کے گردن جھکائے اپنی راہ چلے جا رہے تھے اور کوئی ادھر ادھر نہ دکھتا تھا مگر اس عورت کی ان کافروں میں رشتہ داری بھی تھی اور طریقہ بھی اس کا کافروں کا تھا اس واسطے اس نے پیچھے پھر کر دیکھا کہ ان لوگوں پر کیا گزر رہی ہے بس پیچھے پھر کر دیکھنا تھا کہ ایک پتھر اس کے بھی آ کر لگا اور کام تمام ہوا۔ فائدہ قرآن شریف میں جس جگہ اور جس طرح نوح علیہ السلام کی بیوی کا ذکر آیا ہے جس کا بیان ابھی اوپر لکھا گیا ہے اسی جگہ اور اسی طرح اس عورت کا بھی ذکر آیا ہے کہ پیغمبر کی بیوی ہونے سے اس کو کچھ فائدہ نہ ہوا کیونکہ یہ خود دین کی راہ پر نہ تھی بیبیو اس بات کو پھر اچھی طرح سمجھ لو اپنا ہی دین و ایمان کام آتا ہے بیض عورتیں اپنے رشتہ داروں کی خاطر اپنے دین کو غارت کرتی ہیں اور بد دین رشتہ داروں سے علاقہ اور میل جول رکھتی ہیں دیکھو یہ عورت اپنے رشتہ داروں کی محبت مں برباد ہو گئی اور جان اور ایمان دونوں کھوئے اور اگر ایمان لے آتی اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھتی تو سب بلاؤں سے بچی رہتی یاد رکھو جو خدا و رسول کا نہ ہو تم بھی اس سے کچھ واسطہ مت رکھو۔
صدوف کا ذکر
حضرت صالح پیغمبر کے زمانہ میں یہ ایک کافر عورت تھی اور اس کا چال چلن اچھا نہ تھا اور ایسی ہی ایک اور بھی تھی اور ان کے گھر بکریاں وغیرہ دودھ کے جانور بہت سے تھے حضرت صالح کے معجزہ سے اللہ نے پتھر سے اونٹنی نکالی اور اس گاؤں میں زیادہ پانی ایک ہی کنوئیں میں تھا سب جانوروں کو اسی سے کھینچ کھینچ کر پانی پلایا کرتے تھے جب سے یہ اونٹنی پیدا ہوئی خدائے تعالی کے حکم سے اس طرح باری مقرر ہو گئی کہ ایک دن تو سب جانوروں کے پانی پینے کے واسطے رہے اور ایک دن فقط یہ اونٹنی پیا کرے چونکہ وہ اونٹنی بہت زبردست تھی اتنا پانی پی جاتی تھی کہ اس کی باری کے دن میں دوسرے جانوروں کے لیے نہیں بچتا تھا یہ بات کافروں کو سب ہی کو ناگوار تھی اس میں ایک واہیات قصہ یہ ہو گیا کہ یہ دونوں عورتیں جن کا یہ ذکر ہو رہا ہے چال چلن تو ان کا خراب ہی تھا ایسے ہی کمبخت دو مرد بھی تھے ان عورتوں نے ان سے شکایت کی کہ ہمارے گھر سے زیادہ جانور ہیں اور ایک دن سب کو پیاسا رہنا پڑتا ہے اس کا کچھ علاج کر دو تو ہم تم سے خوش ہوں اور ہر طرح تمہاری تابعداری میں رہیں ان دونوں پاجیوں نے کیا کیا کہ اور بھی اپنے ساتھیوں کو لے کر اونٹنی کے رستے میں چھپ کر بیٹھ رہے وہ اونٹنی پانی پینے جا رہی تھی جب ان کے برابر پہنچی سب نے نکل کر تلواروں سے اس پر حملہ کیا اور اس کے پاؤں کاٹ ڈالے اونٹنی گر گئی پھر انہوں نے تلواروں سے بالکل اس کا کام تمام کر ڈالا اس پر حق تعالی کا غضب نازل ہوا اور پہلے دن سب کافروں کا منہ زود ہو گیا اور دوسرے دن سرخ ہو گیا اور تیسرے دن کالا پڑ گیا اور چوتھے دن اول بڑے زور سے ہالن آیا اور آسمان سے آگ برسنا شروع ہوئی پھر حضرت جبرئیل نے ایسے زور سے ایک چیخ ماری کہ سب کے کلیجے پھٹ گئے اور جان نکل گئی اور آگ سے سب کی لاشیں راکھ ہو گئیں۔
فائدہ دیکھو وہ عورتوں کی بد ذاتی کا وبال سب پر پڑا اور ان دونوں کو یہ شرارت مال کی محبت میں سوجھی۔ بیبیو مال و متاع کی محبت دل سے نکالو اللہ بچائے جانے کہاں سے کہاں اس کا وبال پہنچتا ہے اور ایسی بد ذات عورتوں سے جہاں تک ہو سکے دل سے نفرت رکھنا چاہیے اور بولنے میں یا ملنے میں کبھی ایسوں کے ساتھ نرمی نہ کرنا چاہیے ایسوں کے ساتھ ڈھیلا پن کرنے سے یہ ڈر ہے کہ جو عذاب اور وبال اس بد ذات پر آئے ویسا ہی اس پر بھی آ جائے اور اگر ناراضی اور نفرت رکھے تو گناہ سے اور خدا کے قہر سے حفاظت رہتی ہے۔
اربیل کا ذکر
حضرت الیاس پیغمبر علیہ السلام کے زمانہ میں یہ عورت ایک بت پرست بادشاہ کی بیوی تھی اور یہ خود بھی بڑی ظالمہ و بے رحم تھی اور اس نے بہت سے پیغمبروں کو مار ڈالا تھا اور اس کے پڑوس میں ایک نیک بخت آدمی رہتا تھا اس کے پاس ایک باغ تھا اسی باغ سے اس کا گذر تھا چونکہ وہ باغ بہت اچھا تھا اور سب آدمی اس کی تعریف کیا کرتے تھے اس لیے یہ عورت جلتی تھی اور اسی فکر میں رہا کرتی تھی کہ کوئی بہانہ نکال کر یہ باغ اس شخص سے چھیننا چاہیے اور اس شخص کو قتل کرنا چاہیے اتفاق سے اس کا شوہر تو کسی بڑے دور کے سفر میں چلا گیا اور جب وہ کہیں جاتا تھا اپنی اس بیوی کو سب کام بادشاہی کے سپرد کر جاتا تھا اس دفعہ بھی اس دستور کے موافق سب بادشاہی کے کام اس کے اختیار میں دیئے گئے اس نے یہ شرارت کی کہ کئی آدمیوں کو سکھلایا کہ تم دربار میں یہ جھوٹی گواہی دینا کہ اس شخص نے بادشاہ کو گالیاں دی ہں اور اس بادشاہ کا قانون تھا کہ جس شخص پر یہ بات ثابت ہو جاتی کہ اس نے بادشاہ کو گالیاں دی ہیں وہ شخص قتل کر دیا جاتا تھا اس عورت نے اس نیک بخت آدمی کو گرفتار کر بلایا اور کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ تو نے بادشاہ کو گالیاں دی ہیں اس نے انکار کیا اس نے ان ہی آدمیوں کو بلا کر گواہی دلوا دی۔
انہوں نے گواہی دے دی کہ اس نے بادشاہ کو گالیاں دی ہیں اس پر اس عورت نے اس بیچارے کو قتل کر ڈالا اور اس کا وہ باغ ضبط کر لیا جب بادشاہ سفر سے لوٹ کر آئے ا اللہ تعالی نے حضرت الیاس پر وحی نازل فرمائی کہ اس بادشاہ سے کہہ دو کہ ایک بے گناہ مسلمان پر اس قدر ظلم کیا گیا کہ اس کو مار ڈالا اور اس کا باغ چھین لیا اگر دونوں میاں بیوی توبہ کر لیں اور اس کے وارثوں کو باغ لوٹا دیں تو بہتر ہے نہیں تو ان کو ہلاک کر دوں گا جب حضرت الاشس نے اس سے جا کر یہ بات کہی بڑا غصہ ہوا اور توبہ تو کیا کرتا اور الٹا حر ت الیاس علیہ السلام کا دشمن ہو گیا آخر حضرت الیاس علیہ السلام بحکم خدائے تعالی وہاں سے اور کہیں چلے گئے اور تھوڑے دنوں میں اس بادشاہ کا ایک لڑکا بیمار ہو کر مر گیا یہ صدمہ ختم نہ ہوا تھا کہ ایک اور بادشاہ اس پر چڑھ آیا اور ملک چھین لیا اور اس کو اور اس کی ساری کافر قوم کو تلوار کا لقمہ بنایا۔ فائدہ دیکھو ظالم کا کیا نتیجہ ہے۔ بیبیو کسی کی چیز پر نیت رکھنا یا کسی کو ناحق زبان سے کچھ کہنا یا کسی کو مارنا تکلیف پہنچانا یا طعن و تشنیع سے کسی کا دل دکھانا یا کسی کی غیبت کرنا سب ظلم ہے اور ظلم کا وبال تم نے سن لیا ان سب باتوں سے ہمیشہ اپنے آپ کو خوب بچائیو
نائلہ کا ذکر
ایک قوم تھی جرہم جو مکہ میں سب سے پہلے آ کر حضرت اسمعیل کے بچپن کے زمانہ میں آباد ہوئی تھی ان میں ایک عورت نائلہ نام کی تھی اس کمبخت نے خاص کعبہ شریف کے اندر اپنا منہ کالا کیا خدائے تعالی کا غضب دونوں مرد عورت پر نازل ہوا اور دونوں پتھر کے ہو گئے اس مرد کا نام اساف تھا لوگو نے دونوں کو اٹھا کر صفا مروہ جو مکہ میں دو پہاڑیاں ہیں ان پر ایک ایک کو رکھ دیا تاکہ لوگ دیکھ کر خدا کے غضب سے ڈریں بہت دنوں تک دونوں وہاں رکھے رہے جب ایک زمانہ گزر گیا جاہل لوگوں نے بیوقوفی سے ان کا پوجنا شروع کر دیا اس واسطے ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ان کو اٹھوا کر پھنکوا دیا گیا تھا۔ فائدہ خدائے تعالی اپنے غضب سے بچائے خدا کی نافرمانی کا یہی انجام ہوتا ہے اگر یہاں کوئی بچ گیا تو آخرت میں کیسے بچے گا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ پاک موقع میں گناہ کرنا اور زیادہ گناہ ہے اسی طرح پاک وقت میں گناہ کرنا زیادہ گناہ ہے بعضے آدمی رمضان وغیرہ میں بھی گناہ کرنا نہیں چھوڑتے اس کا اور زیادہ وبال پڑتا ہے چاہے کوئی گناہ ہو غبتر اور ظلم کرنا اور ناجائز پیسہ خرچ کرنا گناہ ہیں یہ سب باتیں آ گئیں۔
بلعم باعور کی بیوی کا ذکر
یہ شخص بڑا عابد زاہد تھا شام کے ملک میں رہتا تھا جب حضرت موسیٰ کی امت کے مسلمان خدائے تعالی کے حکم سے حضرت یوشع علیہ السلام کے ساتھ ملک شام مںج بیت المقدس کو کافروں کے ہاتھ سے چھڑانے گئے وہاں کے لوگ اس کے پاس آئے اور کہا کہ تم ان مسلمانوں کے لیے بددعا کر دو کہ یہ ہار جائیں اس نے انکار کیا اور کہا کہ پیغمبر کے لیے اور جو پیغمبر کے ساتھ ہوں ان کے لیے بددعا کرنی بڑی سخت بات ہے میں ہرگز ایسا نہ کروں گا لوگوں نے اس کی بیوی کو بہت سا مال و زر دے کر کہا کہ تو کسی ڈھپ سے اپنے مارں کو بہکا اس ناپاک گندی نے لالچ میں آ کر اس طرح میاں کو پٹی پڑھائی کہ وہ بددعا کرنے کو تیار ہو گیا اور جب بددعا شروع کرنے کا ارادہ کیا اسی وقت ایمان تو جاتا ہی رہا زبان بھی چھاتی پر لٹکی اور جب مسلمانوں کو فتح ہوئی بلعم باعور کو بھی قتل کر دیا گیا۔ فائدہ دیکھو لالچ کیسی بری چیز ہے کہ مال اور زر کے لالچ میں آ کر اس عورت نے اپنا بھی دین خراب کیا اور خاوند کو بھی برباد کیا کہ ایمان بھی گیا اور جان بھی گئی۔ بیبیو اب بھی بہت عورتیں لالچ میں گرفتار ہو کر میاں سے رشوت لواتی ہیں اور خوش ہوتی ہیں کہ ہمارے پاس ایسا زیور ہے اتنا روپیہ یہ نہیں سمجھتیں کہ ماکں بیوی دونوں دوزخی بن رہے ہیں۔
حضرت یحیی علیہ السلام کو قتل کرنے والی عورت کا ذکر
اس زمانہ میں ایک بادشاہ تھا اس کی بیوی کی ایک لڑکی پہلے خاوند سے تھی جب وہ بیوی بڑھیا ہو گئی اس کو یہ خیال ہوا کہ شاید بادشاہ کو اور کسی طرف رغبت ہو جائے اس لیے اس نے یہ سوچا کہ اپنی اس لڑکی کو اپنے اس خاوند کی جورو بنائے اور اس بد ذات نے اپنی لڑکی کو بھی اس بات پر آمادہ کر دیا وہ بے حیا بھی اس کی فکر کرنے لگی اور طرح طرح سے بادشاہ کا دل اپنی طرف کرنے لگی اس کمبخت کا بھی دل آ گیا۔ حضرت یحیی علیہ السلام کو جو یہ خبر ہوئی انہوں نے اس کو منع کیا یہ سب ناپاک آپ کے دشمن ہو گئے یہاں تک کہ آپ کو گرفتار کر کے بلایا اور سر مبارک تن سے جدا کر دیا اور گناہ کرنے کا ارادہ کیا حضرت یحیی علیہ اسلام کا کٹا ہوا سر آواز دیتا تھا کہ اے کمبخت یہ تیرے لیے حلال نہیں مگر اس پاجی نے ایک نہ سنی حضرت یحیی علیہ السلام کے سر مبارک سے خون جوش کھانے لگا اور کسی طرح جوش تھمتا نہ تھا اس زمانہ کے عالموں نے کہا کہ جب تک ان کے قتل کرنے والوں کا خون نہ بہایا جائے گا اس خون کا جوش کم نہ ہو گا اس زمانہ میں کوئی اور نیک بادشاہ تھا اس کو جو یہ خبر پہنچی اس نے اپنا لشکر لے کر چڑھائی کی اور یہ جتنے قتل میں شریک تھے ان سب کو اور ستر ہزار کافروں کو قتل کیا تب اس خون کو قرار ہوا۔
فائدہ اللہ بچائے شیطانی کام سے دیکھو نفس کی پیروی کرنے سے کہاں سے کہاں بات پہنچی ایک پیغمبر قتل ہوئے پھر دوسرا گناہ کا کام ہوا اور پھر بھی نفس کی خوشی نصیب نہ ہوئی جلدی ہی ظلم کا نتیجہ مل گیا اور جتنے آدمی سن کر خاموش ہو گئے تھے اور بادشاہ کی اس حرکت اور ظلم سے ناراض نہ ہوئے تھے وہ سب بھی اس وبال میں گرفتار ہوئے اس سے معلوم ہوا کہ نفس کی اصلاح پر عمل کرنا اور اسی طرح ظلم کرنا اور جو خلاف شرع کام کرتا ہو اس سے نفرت نہ کرنا یہ سارے کام بڑے سخت ہیں ان سے بہت بچنا چاہیے نفس جو ایسی صلاح دے کہ شرع کے خلاف ہو ہرگز اس کا کہنا مت مانو اور شرع کو مت چھوڑو اور کسی پر کسی طرح کا ظلم اور زیادتی مت کرو نہ تو ناحق کسی کا دل دکھاؤ نہ کسی کی آبرو کو بٹہ لگاؤ نہ کسی کا کچھ حق دباؤ یہ سب ظلم ہے اور جو شخص خلاف شرع کچھ کام کرے اس سے دل میں نفرت رکھو اور اگر وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے تو ظاہر میں بھی اس سے کھنچ جاؤ کیونکہ ایسے آدمی سے محبت اور میل جول رہنے سے ڈر ہے کہ یہ بھی اس کے وبال میں پکڑا جائے۔
شمسون کی بیوی کا ذکر
جب حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گے اس زمانہ میں یہ شمسون ایک عابد زاہد آدمی تھے اور خدائے تعالی نے ان کو بہت زور دیا تھا اس وقت کوئی بادشاہ تھا کافر وہ ان کا دشمن تھا اس نے ان کی بیوی سے کہلا بھیجا کہ اگر تو شمسون کو کسی طرح گرفتار کرا دے تو میں تجھ کو اپنے نکاح میں لے آؤں اس بدبخت نے جب یہ سو گئے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر کافروں کے حوالہ کر دیا وہ لوگ ان کو اس بادشاہ کے پاس لے گئے بادشاہ نے منادی کرا دی کہ شمسون کو سولی پر چڑھایا جائے گا جس کو دیکھنا ہو آ کر دیکھے ہزاروں خلقت جمع ہو گئی اس وقت شمسون نے حق تعالی سے دعا کی اس بادشاہ کا مکان گر پڑا اور بادشاہ دب کر مر گیا لوگ اس کے نکالنے میں لگ گئے شمسون صحیح سلامت اپنے گھر پہنچے اور اس بیوی کو طلاق دے دی۔ فائدہ اس کمبخت عورت کو دنیا کے لالچ نے گھیرا کیسے اچھے نیک خاوند کے ساتھ کیسی بیوفائی کی مگر مراد بھی پوری نہ ہوئی اور خاوند بھی چھوٹ گیا بد اعمالی کی ایسی ہی سزا ملا کرتی ہے لالچ سے بہت بچنا چاہیے۔
جریج کو تہمت لگانے والی عورت کا ذکر
حضرت عیسی علیہ السلام اور ہمارے حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کے زمانے میں ایک بزرگ آدمی تھے جریج ان کا نام تھا تھوڑی سی عمر میں وہ اللہ تعالی کی عبادت میں لگ گئے تھے اور خلقت سے الگ ہو کر جنگل میں ایک عبادت خانہ بنا لیا تھا ایک دفعہ وہ نفل نماز میں مشغول تھے اتنے میں ان کی والدہ نے دروازہ پر آ کر ان کو پکارا وہ نماز کی وجہ سے نہ بول سکے ان کی ماں کو یہ خبر نہ تھی وہ ان کے جواب نہ دینے سے ناراض ہوئی اور ان کو یہ کوسنا دیا کہ الٰہی اس کو بدچلن عورتوں سے پالا پڑنا نصیب ہو چونکہ ماں باپ کا بڑا حق ہوتا ہے اور اسی واسطے یہ مسئلہ ہے کہ اگر نفل نماز میں ماں باپ پکاریں اور ان کو اس نفل نما زپڑھنے کی خبر نہ ہو تو نفل نماز توڑ کر بول پڑنا چاہیے مگر جریج عالم نہ تھے اس واسطے وہ نہیں بولے اور ماں کے حق میں کوتاہی ہوئی اس واسطے ماں کا کوسنا لگ گیا اور بیچارے پر یہ مصیبت پڑی کہ حسد کرنے والے لوگوں نے ایک بدچلن عورت کو سکھلایا کہ کسی طرح جریج کو بدنام کرے اس کو کہیں واہی تباہی پیٹ رہ گیا تھا اس نے بچہ ہونے کے بعد غریب جریج کا نام لے دیا لوگ عبادت خانہ پر چڑھ آئے اور بالکل اس کو ڈھاگرایا اور جریج پر سختی کرنے لگے کہ دیکھ یہ عورت کیا کہتی ہے جریج نے اس کے دودھ پیتے بچے کی طرف منہ کر کے کہا کہ بتلا تیرا باپ کون ہے اس نے ایک چرواہے کا نام لیا پھر تو تمام لوگ بڑے معتقد ہوئے اور لگے ہاتھ پاؤں جوڑنے اور کہنے لگے کہ ہم تمہارا عبادت خانہ سونے کا بنا دیں انہوں نے فرمایا کہ نہیں بس مٹی کا بنا دو جیسا پہلے تھا چنانچہ ویسا ہی بنا دیا۔
فائدہ دیکھو وہ عورت ایک نیک آدمی پر تہمت لگا کر کیسی ذلیل ہوئی اور اللہ تعالی نے اس کو کیسا رسوا کیا دیکھو کبھی کسی بے گناہ پر تہمت کسی طرح مت دھرنا بعضی عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ ذرا سے شبہ میں کسی کو بد چلنی کی تہمت لگا دی کہیں کسی کے سر چوری رکھ دی یہ سب باتیں بہت گناہ ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اولاد کو ہر وقت کوسنا اچھا نہیں جانے کون سی گھڑی قبولیت کی ہو پھر خواہ مخواہ اولاد کو بھی پریشانی ہو اور ان کی پریشانی دیکھ کر اپنے کو بھی صدمہ ہو اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ماں باپ کا بڑا حق ہے آج کل اس بات کا بہت کم خیال کرتے ہیں بیبیو اس میں کبھی غفلت اور کوتاہی مت کرنا۔
بنی اسرائیل کی ایک بے رحم عورت کا ذکر
بخاری شریف میں ایک حدیث ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل میں کا ایک قصہ بیان فرمایا کہ ایک عورت تھی اس نے ایک بلی کو پکڑ کر باندھ دیا نہ تو اس کو کچھ کھلایا نہ پلایا اور نہ اس کو چھوڑ ہی دیا کہ چوہے وغیرہ کھا کر اپنا گزر کرتی وہ بلی اس حالت میں تڑپ تڑپ کر مر گئی اللہ تعالی نے اس عورت کو دوزخ میں داخل کیا اور ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ دوزخ میں وہی بلی اس عورت کی چھاتی پر سوار ہے اور ناخن اور پنجوں سے اس کو نوچ رہی ہے۔ فائدہ تم نے بے رحمی کا نتیجہ سن بھی لیا کسی پر بے رحمی مت کرو چاہے آدمی ہو چاہے جانور ہو البتہ بلی کتا اگر بہت ستائے تکلیف دے تو اس کو مارنا درست ہے لیکن ترسانا بڑا گناہ ہے بعضے سنگ دل آدمی طوطا مینا اور کوئی جانور پال لیتے ہیں اور پنجرہ میں ڈال کر ان کے کھانے پینے کی خبر لیتے ہیں نہ ان کے دھوپ اور سایہ میں رہنے کا خیال رکھتے ہیں نہ ان کو آزاد کرتے ہیں ایسے ترسانے کا انجام دنیا میں بھی برا ہے اکثر ایسے آدمی دنیا میں بھی طرح طرح کی تکلیفوں میں گرفتار رہتے ہیں ان کو چین نصیب نہیں ہوتا اور آخرت میں تم نے سن ہی لیا کہ وہ عورت دوزخ میں پہنچی بوبی بے رحمی سے بہت بچتی رہو۔
پہلی امتوں کی ایک بد ذات عورت کا ذکر
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ پہلی امتوں میں ایک شخص عابد زاہد تھا ایک بد ذات عورت اس کے پیچھے پڑی اور اپنی ایک لونڈی کو اس کے پاس بھیجا کہ ہمارا کسی سے لین دین کا کچھ معاملہ ہوتا ہے بڑا معاملہ ہے گواہوں کے روبرو کرنا ہے اللہ کے واسطے گواہ ہو جانا ثواب کا کام ہے ذرا کھڑے کھڑے تم بھی ہو جاؤ یہ بیچارے سیدھے بھولے اس کے یہاں چلے گئے جب وہ گھر کے اندر ہو گئے اس لونڈی نے سب دروازے بند کر لیے جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ وہی بد ذات عورت بیٹھی ہے اور شراب بھی رکھی ہے اور ایک لڑکا بھی موجود ہے اس وقت اس نے ظاہر کیا میں نے گواہی کے لیے نہیں بلایا بلکہ تمہاری پرہیزگاری توڑنے کو بلایا ہے تم مجھ سے منہ کالا کرو یا شراب پیو یا اس لڑکے کو قتل کر ڈالو وہ عابد بیچارہ جان کے خوف سے بہت پریشان ہوا اور اپنے جی میں ان تینوں باتوں میں شراب کو اوروں سے ہلکی سمجھ کر شراب پی لی شراب پینا تھا کہ عقل گم ہو گئی اور اسی حالت میں وہ دونوں گناہ بھی اس سے ہو گئے۔
فائدہ گناہوں میں آپس میں کچھ ایسا علاقہ ہے کہ جہاں ایک گناہ ہوا پھر دوسرے گناہ بھی ہوتے چلے جاتے ہیں اس واسطے گناہ چاہے بڑا ہو یا چھوٹا سب سے بہت بچنا چاہیے نہیں تو دوسرے گناہوں کا بھی دروازہ کھل جاتا ہے چنانچہ اکثر دیکھا ہے کہ کسی نے رسم و رسوم کے موافق اپنی اولاد کے بیاہنے کا ارادہ کیا اور یوں سمجھا کہ خلاف شرع تو ہے مگر کوئی زیادہ بھاری گناہ نہیں ہو گا اور جتنے خرچ کا تخمینہ کیا ہے وہ اپنے پاس بھی ہے اور ان سب باتوں کو سوچ کر کام شروع کر دیا اب ایسے ایسے پیچ پڑتے ہیں کہ ضرور ہی اور گناہ بھی بڑے بڑے ہو جاتے ہیں کبھی تخمینہ سے زیادہ خرچ ہو جاتا ہے اور سودی قرض لینا پڑتا ہے کبھی نابالغ یتیم بچوں کا حق اپنے روپیہ میں ملا ہوا ہوتا ہے اس کو خرچ کر لیتی ہیں جس کا خرچ کرنا حرام ہے اور وہی حرام کھانا اپنے سب مہمانوں کو بھی کھلاتی ہیں دیکھو کہاں سے کہاں گناہ کا اثر پہنچ گیا اسی طرح سب گناہوں کا قاعدہ ہے۔
بنی اسرائیل کی ایک مکار عورت کا ذکر
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک حوض پانی سے بھروا کر اس میں کوئی ایسی دعا کر دی تھی کہ اس پانی میں یہ اثر ہو گاں تھا کہ اگر کوئی بدکار عورت وہ پانی پی لیتی تو اسی وقت اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا اور فورا مر جاتی موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی اس حوض میں یہ تاثیر تھی۔ ایک دفعہ ایک شخص کو اپنی بیوی پر شبہ ہوا اور وہ شبہ سچا تھا جب خاوند نے اس کا چرچا کیا اور اس زمانہ کے حاکموں سے فریاد کی تو انہوں نے اسی پانی کا فیصلہ تجویز کیا اور اس عورت کو بلا بھیجا اس عورت کی ایک بہن تھی وہ دونوں بہنیں اس قدر ہم شکل تھں کہ بڑی مشکل سے دونوں کی پہچان ہوتی تھی اس عورت نے کیا چلاکی کی کہ خدا جانے کیا جھوٹ سچ ملا کر اپنی اس بہن کو کسی طرح بہکا کر اپنی جگہ بھیج دیا اس نے جا کر سب کے سامنے پانی پی لیا وہ تو پاک تھی اس کو کچھ نہ ہوا لوگوں کو تعجب ہوا غرض وہ پانی پی کر جب اپنے گھر آئی اور اس ناپاک بہن سے ملی بس اس کا سانس لگنا تھا کہ اس کا تمام چہرہ سیاہ ہو گیا اور فورا مر گئی اس وقت سب کو چالاکی کا حال معلوم ہوا۔ فائدہ دھوکا اور چال چھپا نہیں رہتا اللہ تعالی رسوا کر ہی دیتے ہیں بیبیو بات میں اور برتاؤ میں دل کو صاف اور زبان کو سچا رکھنا چاہیے۔
ام جمیل کا ذکر
یہ ابولہب کافر کی بیوی ہے قرآن مجید میں بھی اس کی برائی سورہ تبت میں آئی ہے ہمارے پبرمچا صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں تک دشمنی رکھتی تھی کہ کانٹے دار لکڑیاں جنگل سے لا کر رات کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ میں بچھا دیا کرتی تھی تاکہ آتے جاتے آپ کے پاؤں میں چبھیں ایک دفعہ لکڑیوں کا گٹھا اپنے سر پر لادے ہوئی تھی اور اس کی رسی تھوڑی کے نیچے سے نکال کر اٹکا رکھی تھی کہ گٹھا سنبھلا رہے اچانک وہ گھٹا پیچھے کو گر گیا اور وہ رسی اس کے گلے میں آ گئی اور گلا گھٹ کر مر گئی۔ فائدہ اللہ بچائے دین اور دینداروں سے دشمنی کرنے کا انجام دنیا میں بھی برا اور آخرت میں بھی برا ہے بعض عورتیں مولویوں کے مسئلوں کو جھٹلایا کرتی ہیں اور جو کوئی مسئلہ پر چلے اس کو طعنہ دیا کرتی ہیں خاص کر شادی غمی میں جو شرع کے موافق کرے یا کہے اس سے بہت برا مانتی ہیں یہ بھی دین کے ساتھ دشمنی رکھنا ہے اور اس دشمنی کا وبال دونوں جہان میں جو کچھ ہو گا ابھی سن چکی ہو ان سب باتوں سے توبہ کرو اور بچو
جو عورتیں مکہ کے فتح ہونے کے دن ماری گئیں ان کا ذکر
مکہ شریف پہلے کافروں کے قبضہ میں تھا ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کافروں کو نکالا اس کو مکہ فتح ہونا کہتے ہیں ان کافروں میں کئی عورتیں ایسی تھیں جو دین اسلام کی ہجو اور برائی کے گیت گایا کرتی تھیں ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ان عورتوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو ان میں سے یہ چار ماری گئیں قریہ اور فرتنہ اور راریت اور ام سعد فائدہ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اول تو رحیم کریم بڑے تھے پھر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے قتل کرنے سے لڑائی میں بھی منع فرمایا ہے مگر ان عورتوں نے برائی ہی اتنی بڑی کی تھی جس سے خدا تعالی کا حکم ان کے قتل کا ہو گیا کیونکہ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدوں خدا کی اجازت کے کوئی کام نہ کرتے تھے اور وہ برائی یہی تھی کہ دین کو برا کہتی تھیں اور اس کے گیت جوڑ رکھے تھے اب بھی بعض عورتوں میں یہ روگ ہے کہ شرع کو جو چاہتی ہیں کہہ دیتی ہیں اور بعض عورتیں مولویوں کی برائی میں گیت بھی جوڑ لیتی ہیں ان کو ڈرنا چاہیے۔
زینب بنت حارث کا ذکر
ایک بستی تھی خیبر وہاں کافر یہودی لوگ رہتے تھے ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی لڑائی ہوئی تھی اور مسلمانوں کی فتح ہو گئی تھی فتح ہونے کے بعد حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ ایک یہودی عورت جس کا نام زینب تھا ہمارے حضرت صلی اللہ علہح وسلم کی خدمت میں بطور تحفہ کے کچھ کھانا لائی اس میں کمبخت نے زہر ملا دیا تھا۔ آپ نے اور آپ کے بعضے صحابیوں نے کھا لیا پھر خدائے تعالی کی قدرت سے آپ کو معلوم ہوا آپ نے ہاتھ کھینچ لیا اور سب کو منع کر دیا۔ لیکن ایک صحابی تو اس میں ختم ہو گئے اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مدت کے بعد اس کا اثر ہوا اور وفات کی بما ری اسی کے اثر سے تھی۔ بعضی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب ان صحابی کا انتقال ہو گیا تو اس عورت سے پوچھا اس نے اقرار کیا اور سزا میں وہ بھی قتل کی گئی۔ فائدہ اس کمبخت عورت کو بھی دین اسلام کی دشمنی نے غارت کیا بیبیو دین اسلام اور شرع کی بات سے کبھی دل میں برائی مت لاؤ خوشی خوشی اس کو مان لیا کرو۔
لبید یہودی کی بیٹیوں کا ذکر
ان سب نے صلاح کر کے ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کو جادو کیا تھا ہلاکت کے صدمے سے تو آپ بچے رہے لیکن اتنا اثر ہوا کہ آپ کے مزاج میں کچھ بھول سی ہو گئی وہ بھی دین کی باتوں میں نیںل بلکہ کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کی عادتوں میں پھر اللہ تعالی نے قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برالناس الخ یہ دونوں سورتیں اتاریں ان کی برکت سے اس جادو کا اثر بالکل جاتا رہا۔ فائدہ ان لوگوں کو بھی دین کی دشمنی نے خراب کیا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کا ارادہ کیا دین اور دین والوں سے کبھی دل میں رنج اور دشمنی مت رکھنا۔
سلمی بنت مالک کا ذکر
یہ پہلے ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمان ہو گئی تھی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے کہ یہ مسلمان نہیں رہے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب حضرت کی وفات ہو گئی اس کو حکومت کا خبط سوجھا اور دین سے پھر گئی اور بہت سے گمراہ آدمی اس کی حکومت میں گئے۔ آخر مسلمانوں کا لشکر وہاں پہنچا اور اس عورت کا اور اس کے ساتھیوں کا تلوار سے مار کر خاتمہ کیا۔ فائدہ جیسے مال کی محبت بری چیز ہے اسی طرح سردار بننے کی بھی ہوس آدمی کو غارت کرتی ہے دیکھو اس عورت کی دنیا اور دین دونوں خراب ہوئے بیبیو اپنے آپ کو سب سے کمتر سمجھو اور عاجزی اختیار کرو۔ اسی سے خدا تعالی تم کو دونوں جہان میں بڑائی بخشیں گے۔
قطامہ کا ذکر
ایک گروہ ہے وہ خارجی کہلاتے ہیں یوں اپنے کو مسلمان کہتے ہیں مگر ان کے بہت سے عقیدے دین کے خلاف ہیں وہ لوگ حضرت علی کے وقت میں شروع ہوئے ہیں اور حضرت علی سے ان کی بڑی بڑی لڑائیاں بھی ہوئی ہیں اس واسطے حضرت علی کے بڑے دشمن تھے اسی گروہ کے تین آدمی ایک دفعہ مکہ میں اکٹھے ہو گئے حضرت علی اس زمانہ میں شہر کوفہ میں رہا کرتے تھے۔ ان تینوں میں یہ صلاح ٹھہری کہ حضرت علی اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابی اور تھے ان دونوں کو بھی قتل کر دینا چاہیے۔ حضرت علی کے قتل کرنے کے واسطے ایک شخص تیار ہوا اس کا نام عبدالرحمن ابن ملجم تھا اور اس ارادہ سے کوفہ کو چلا وہاں یہ عورت کمبخت مل گئی اس کی صورت و شکل دیکھ کر اس نے اس عورت کو نکاح کا پیغام دیا اس عورت نے کہا کہ اگر میرا مہر دے سکو تو نکاح منظور ہے اس نے مہر پوچھا اس نے کہا کہ میرا مہر یہ ہے کہ علی کو قتل کر دو وہ عورت بھی خارجی تھی اور حضرت علی کے ہاتھ سے اس کا باپ اور بھائی اور چچا اور خاوند لڑائی میں مارے گئے تھے یہ سب بھی خارجی تھے اس لیے اس نے یہ فرمائش کی غرض اس شخص نے اس بات کو قبول کیا اور صبح کی نماز سے پہلے مسجد کے دروازے میں چھپ کر کھڑا ہو گیا۔ جب حضرت علی نماز کے واسطے مسجد کے اندر آنے لگے اس نے یکبارگی نکل کر آپ کے سر پر ایک تلوار کا ہاتھ مارا اور بھاگا اسی زخم سے حضرت علی نے وفات فرمائی اور وہ نالائق پکڑا گیا اور مارا گیا۔ فائدہ دیکھو اس عورت کو دین سے محبت ہوئی تو اپنی بد دین رشتہ داروں کی وجہ سے حضرت علی سے دشمنی نہ کرتی مگر خود بھی بد دین تھی اس واسطے اتنا بڑا گناہ سمیٹا بیبیو دین کی محبت دل میں پیدا کرو۔ نہیں تو بڑے بڑے گناہ بد دینی سے پیدا ہو جاتے ہیں۔
جعدہ بنت اشعب کا ذکر
یہ حضرت امام حسن کی بیوی ہے یہ ایسی ڈوبی کی یزید جو حضرت امام حسن کا دشمن تھا اس کے بہکانے سے اپنے ایسے پیارے مقبول خاوند کو زہر دیا یزید کمبخت نے اس بدبخت عورت کو یہ چقمہ دیا تھا کہ تجھ سے نکاح کر لوں گا اور ایک لاکھ درہم دوں گا جس کی قیمت قریب تیس ہزار روپے کے ہوتی ہے جب زہر دیا گیا اس کی تیزی سے امام حسن کی نتیں اور کلیجہ کٹ کٹ کر دستوں کی راہ نکل گیا اور چالیس روز یہی تکلیف اٹھا کر انتقال فرمایا۔ اس وقت اس عورت نے یزید کو کہلا بھیجا کہ اب وعدہ پورا کرو۔ اس نے صاف جواب دیا کہ میں تجھ کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ غرض بدنصیب کو گناہ کا گناہ ہوا اور دنیا کی مراد بھی پوری نہ ہوئی۔ بیبیو یہ ساری خرابی دنیا کے لالچ سے ہوئی لالچ میں جو کچھ بھی ہو جائے تھوڑا ہے اس بیماری کو دل سے نکالو اور مال و متاع زیور پوشاک کی ہوس اور محبت سے دل کو پاک کرو یہ بیس قصے بری عورتوں کے تھے
اب چند قصے ان عورتوں کے لکھتے ہیں جو اول بری راہ پر تھیں پھر خدا تعالی نے ان کو نیک ہدایت کی
٭٭٭
وہ بیبیاں جو سدھر گئیں
بی بی زلیخا کا ذکر
ان کی شادی اول مصر کے وزیر سے ہوئی تھی اس نے یوسف علیہ السلام کو مول لے کر ان کے سپرد کیا تھا کہ اولاد کی طرح ان کو رکھو ان کو برے برے خیال پیدا ہو گئے مگر یوسف علیہ السلام کو خدائے تعالی نے بچایا پھر اسی وزیر نے مصلحت سمجھ کر یوسف علیہ السلام کو قید کر دیا۔ پھر ایک مدت کے بعد جب یوسف علیہ السلام کو مصر کے بادشاہ نے قید خانہ سے چھوڑ دیا تو یوسف علیہ السلام نے اس سے کہلا بھیجا کہ اول میرا حال عورتوں سے پوچھ لو۔ پوچھنے پر زلیخا نے کہا وہ پاک ہیں میری ہی خطا تھی۔ آخر جب یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ ہو گئے اور وہ وزیر مر گیا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے ان سے نکاح کر لیا اور ان سے دو لڑکیاں افرائیم اور میشائیم پیدا ہوئیں۔ فائدہ دیکھو سچ کیسی اچھی چیز ہے جس زمانہ میں انہوں نے جھوٹی تہمت یوسف علیہ السلام پر لگائی اس کا یہ وبال ہوا کہ ان کی پریشانی اور مصیبت بڑھتی رہی اور جب انہوں نے سچ بول دیا اللہ تعالی نے ان کی مصیبت کاٹ دی اور ان کی مراد حاصل ہونے کا سامان اس طرح ہو گیا کہ ان کا خاوند یوسف علیہ السلام کو بادشاہی ملی اور ان سے نکاح کر لیا۔ بیبیو ہمیشہ سچ بولو اگر کوئی خطا قصور ہو جائے توبہ کر لو اور اس پر اڑو مت اور اپنی خطا کا اقرار کرنے میں شیخی مت کرو
قارون کی بہکائی ہوئی عورت کا ذکر
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں قارون ایک بڑا مالدار اور بخیل تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو اس سے زکوٰۃ دینے کو فرمایا اس کو بہت ناگوار ہوا اور آپ کا دشمن ہو گیا اور کمبخت نے یہاں تک ارادہ کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آبرو کا لاگو ہو گیا۔ اور ایک بد چلن عورت کو بہت کچھ مال زیور جواہرات دے کر بہکا یا کہ توبہ توبہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اپنے ساتھ تہمت دھر دیجیؤ وہ راضی ہو گئی ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام وعظ فرما رہے تھے یہ مسئلہ بھی بیان کیا کہ جو کوئی برا کام کرے اس کو ایسی ایسی سزا ہو گی۔ کمبخت قارون اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور پکار کر کہنے لگا کہ آپ ایسا کام کریں تو کیا ہو۔ آپ نے فرمایا کہ میری بھی یہی سزا ہو گی۔ اس پر وہ نالائق بولا کہ فلانی عورت آپ کا نام اپنے سے لگاتی ہے وہ عورت بھی وہاں موجود تھی آپ نے اس کی قسم دے کر فرمایا کہ سچ بولنا وہ خدا سے ڈر گئی اور کہنے لگی اے نبی اللہ کے آپ پاک ہیں اور اس نے مجھ کو اتنا زیور اور مال دے کر سکھلایا تھا کہ آپ کا نام لے دوں اب میں توبہ کرتی ہوں اور مسلمان ہوتی ہوں۔ اس وقت آپ کو بہت غصہ آیا اور حق تعالی سے بددعا کی۔ قارون اپنے مال و دولت سمیت زمین میں دھنس گیا اور جہنم رسید ہوا۔ فائدہ خدائے تعالی جب ہدایت دیتا ہے توبہ کرنے کا اور نیک راہ اختیار کرنے کا یوں ہی سامان ہو جاتا ہے اور ہدایت اور توبہ کی جڑ خدائے تعالی کا ڈر ہے۔ بیبیو اس کو دل میں پیدا کرو سب کام درست ہو جائیں گے
اپنے گناہ کا اقرار کرنے والی عورت کا ذکر
ہمارے حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی شیطان کے بہکانے سے کہیں اس سے برا کام ہو گیا تھا شرع میں یہ مسئلہ ہے اگر کسی کے میاں یا بیوی سے ایسی حرکت ہو جائے تو پتھروں سے مار مار کر اس کو بالکل مار ڈالتے ہیں۔ وہ عورت یہ مسئلہ جانتی تھی اور سمجھتی تھی کہ میری جان نہ رہے گی لیکن آخرت کے عذاب کا ڈر ایسا غالب ہوا کہ آ کر حضرت صلی اللہ علہم وسلم کے روبرو سارا قصہ بیان کر دیا کہ سزا دے کر پاک کر دیں۔ شرع کا یہ بھی حکم ہے کہ جو اپنی زبان سے اقرار کر لے اس کو ٹال دینا چاہیے ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ٹالا بھی لیکن ایسی ہمت کی بی بی تھی کہ پھر بار بار آ کر اقرار کیا اور چاہا کہ سزا دی جائے۔ اس وقت اس کو پیٹ تھا اس واسطے بچہ ہونے تک اس کو مہلت دی گئی۔ بچہ جن کر بے بلائے پھر موجود ہوئی اور چاہا کہ اب سزا کر دی جائے آخر وہی سزا شرع کے موافق اس کو دی گئی۔ کسی نے اس کو کچھ برائی کی بات کہہ دی۔ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو کچھ مت کہو اس کی توبہ اللہ کے نزدیک اتنی بڑی ہے کہ اگر ستر گنہگار آدمیوں میں بانٹ دی جائے تو سب کی بخشش ہو جائے بھلا اس سے زیادہ اور کیا ہو گا کہ اللہ کے واسطے اپنی جان دے دی۔ فائدہ حقیقت میں خدائے تعالی کا ڈر عجیب نعمت ہے۔ اللہ اکبر کتنی بڑی تکلیف کی اس بی بی نے سہار کی۔ اللہ تعالی ہم کو بیخ گناہوں کے چھوڑنے کی اور توبہ کرنے کی توفیق دیں۔ اب شرع کی عملداری نہیں ہے۔ جو گناہ خدا کے ہیں خدا کے سامنے توبہ کر لینا چاہیے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی توبہ کر لے پھر اس کو حقیر نہ سمجھے اس کو پرانی باتوں کا طعنہ نہ دے یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
چوری سے ایک توبہ کرنے والی عورت کا ذکر
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے باان کاو ہے کہ ہمارے حضرت صلی اللہ علہ وسلم نے ایک عورت کا ہاتھ چوری کی سزا میں کاٹ دیا تھا پھر وہ عورت ہمارے گھر آیا کرتی اور وہ جو بات حضرت سےکہنا چاہتی مںا اس کی طرف سے کہہ سن دیا کرتی غرض اس نے دل سے اچھی طرح توبہ کر لی تھی۔ (ف) دیکھو کسےھ اچھے دل کی تھی کہ اتنی بڑی تکلفر اٹھا کر شرع سے اور حضرت سے اس کا جی برا نہ ہوا۔ پس ایمان اور توبہ ایسی ہونا چاہےد تاکہ شرع کے حکم سے دل پر ملل نہ لاوے اگر گناہوں کی سزا میں کوئی وبال آ جاوے تو خدا تعالی کی شکایت نہ ہو اپنی خطا کو یاد کر کے شرمندہ ہونا چاہیے۔
سجاح کا ذکر
اس کو بٹھے بٹھلائے یہ خبط سوجھا کہ ہمارے حضرت صلی اللہ علہی وسلم کی وفات کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کر بیٹھی اور بہت سے بو قوف اس کے ساتھ ہو گئے،اس کے بڑے بڑے قصے ہوئے،آخر مسلمانوں کے لشکر کے مقابلہ سے عاجز ہو کر پھر مسلمان ہو گئی اور اپنے اس خبط سے توبہ کی۔ (ف) سبحان اللہ توبہ بھی کاٹ چز ہے بھلا پغمبر ی کے جھوٹے دعوی کرنے سے بڑا گناہ کون سا ہو گا مگر جب توبہ کر کے مسلمان ہو گئی تو وہ بھی معاف ہو گاا،بویات توبہ میں دیر مت کان کرو اور یہ بیل معلوم ہوا کہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا بڑی آفت کی چزب ہے اسی روگ نے تو پغمبرر ی کا جھوٹا دعوی کرایا تھا کہ بہت سے آدمو ں پر مر ی سرداری ہو جاوے گی،اللہ بچاوے بس اپنے کو سب سے کم سمجھنا اسی میں خرہ ہے فقط یہ توبہ کرنے والو ں کے پانچ قصے ہوئے اور بد عورتوں کے بسو ہوئے تھے یہ سب ملا کر پچسی ہوئے اب آگے تنبہو مع یادداشت کے جس کا ذکر دیباچہ میں ہے لکھی جاتی ہے۔
٭٭٭
نیک بیبیوں کے بیان میں
حضرت حوا علیہا السلام کا ذکر
یہ حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی بی بی اور تمام دنیا کے آدمیوں کی ماں ہیں اللہ تعالی نے ان کو اپنی کامل قدرت سے حضرت آدم علی نبینا وعلیہ والصلوۃ والسلام کی بائیں پسلی سے پیدا کیا اور پھر ان کے ساتھ نکاح کر دیا اور جنت میں رہنے کو جگہ دی اور وہاں ایک درخت تھا اس کے کھانے کو منع کر دیا۔ انہوں نے غلطی سے شیطان کے بہکانے میں آ کر اس درخت سے کھا لیا اس پر اللہ تعالی کا حکم ہوا کہ جنت سے دنیا میں جاؤ۔ دنیا میں آ کر اپنی خطا پر بہت روئیں۔ اللہ تعالی نے ان کی خطا معاف کر دی۔ اور پہلے حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام سے الگ ہو گئیں تھیں اللہ تعالی نے پھر ان سے ملا دیا پھر دونوں سے بے شمار اولاد پیدا ہوئی۔ فائدہ بیبیو دیکھو حضرت حوا نے اپنی خطا کا اقرار کر لیا توبہ کر لی۔ بعضی عورتیں اپنے قصور کو بنایا کرتی ہیں اور کبھی اپنے اوپر بات نہیں آنے دیتیں اور ایسی تو بہت ہیں جو گناہ کر رہی ہیں ساری عمر کرتی رہتی ہیں اس کو چھوڑتی نہیں خاص کر غتبی اور رسموں کی پابندی بیبیو اس خصلت کو چھوڑ دو جو خطا و قصور ہو جائے اس کو فورا چھوڑ کر توبہ کر لیا کرو۔
حضرت نوح علیہ السلام کی والدہ کا ذکر
قرآن شریف میں ہے کہ حضرت نوح علی نبینا وعلیہ السلام نے اپنے ساتھ اپنی ماں کے لیے بھی دعا کی۔ تفسیروں میں لکھا ہے کہ آپ کے ماں باپ مسلمان تھے۔ فائدہ دیکھو ایمان کی کیا برکت ہے کہ ایماندار کے واسطے پیغمبر بھی دعا کرتے ہیں۔ بیبیو امان کو مضبوط رکھو۔
حضرت سارہ علیہا السلام کا ذکر
یہ حضرت ابراہیم پیغمبر علیہ السلام کی بی بی اور حضرت اسحاق پیغمبر علیہ السلام کی ماں ہیں۔ ان کا فرشتوں سے بولنا اور فرشتوں کا ان سے یہ کہنا کہ تم سارے گھر والوں پر خدا کی رحمت اور برکت ہے۔ قرآن میں مذکور ہے ان کی پارسائی اور ان کی دعا قبول ہونے کا ایک قصہ حدیث میں آیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہجرت کر کے شام کو چلے یہ بھی سفر میں ساتھ تھیں راستے میں کسی ظالم بادشاہ کی بستی آئی اس کمبخت سے کسی نے جا لگایا کہ تیری عملداری میں ایک بی بی بڑی خوبصورت آئی ہے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلا کر پوچھا کہ تمہارے ہمراہ کون عورت ہے آپ نے فرمایا کہ میری دین کی بہن ہے۔ بیوی اس لیے نہیں فرمایا کہ وہ ان کو خاوند سمجھ کر مار ڈالتا جب وہاں سے لوٹ کر آئے تو حضرت سارہ سے کہا کہ دیکھو میری بات جھوٹی مت کر دینا اور ویسے تم دین میں میری بہن ہی ہو۔ پھر اس نے حضرت ساراہ کو پکڑوا بلایا۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ اس کی نیت بری ہے انہوں نے وضو کر کے نماز پڑھی اور دعا کی اے اللہ اگر میں تیرے پیغمبر پر ایمان رکھنے والی اور ہمیشہ اپنی آبرو بچانے والی ہوں تو اس کافر کا مجھ پر قابو نہ چلنے دیجئے۔ بس اس کا یہ حال ہوا کہ لگا ہاتھ پاؤں دے دے مارنے پھر تو خوشامد کرنے لگا اور کہا کہ اللہ سے دعا کرو میں اچھا ہوں جاؤں میں پختہ عہد کرتا ہوں کہ کچھ نہ کہوں گا۔ ان کو بھی یہ خیال آیا کہ اگر مر جائے گا تو لوگ کہیں گے کہ اسی عورت نے مار ڈالا ہو گا غرض اس کے اچھا ہونے کی دعا کر دی فورا اچھا ہو گیا۔ اس نے پھر شرارت کا ارادہ کیا آپ نے پھر بددعا کی اس نے پھر منت سماجت کی۔ آپ نے پھر دعا کر دی۔ غرض تین بار ایسا ہی قصہ ہوا۔
آخر جھلا کر کہنے لگا کہ تم کس بلا کو میرے پاس لے آئے ان کو رخصت کر دو اور حضرت ہاجرہ جن کو اس نے ظلم سے باندھی بنا رکھا تھا قبطیوں کی قوم سے تھیں اور اسی طرح خدا نے ان کی عزت بھی بچا رکھی تھی خدمت کے لیے ان کے حوالہ کیں ماشاء اللہ عزت آبرو سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس گئیں۔ فائدہ بیبیو دیکھو پارسائی کیسی برکت کی چیز ہے ایسے آدمی کی کس طرح اللہ تعالی نگہبانی کرتے ہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز سے مصیبت ٹلتی ہے اور دعا قبول ہوتی ہے جب کوئی پریشانی ہوا کرے بس نفلوں میں لگ جایا کرو اور دعا کیا کرو۔
حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا ذکر
جس ظالم بادشاہ کا اوپر قصہ ہو چکا ہے اس نے حضرت ہاجرہ کو بطور باندی رکھ چھوڑا تھا جیسا ابھی بیان ہوا ہے۔ پھر اس نے ان کو حضرت سارہ کو دے دیا اور حضرت سارہ نے ان کو اپنے شوہر حضرت ابراہیم علہک السلام کو دے دیا اور ان سے حضرت اسمعیل علیہ السلام پیدا ہوئے ابھی حضرت اسمعیل دودھ پیتے بچے ہی تھے کہ اللہ تعالی کو منظور ہوا کہ مکہ شریف کو حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد سے آباد کریں اس وقت اس جگہ جنگل تھا اور کعبہ بھی بنا ہوا نہ تھا۔ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ حضرت اسمعیل اور ان کی ماں باجرہ کو اس میدان میں چھوڑ دو ہم ان کے نگہبان ہیں۔ خدا کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام ماں اور بچہ دونوں کو لے کر اس جنگل بیاباں میں جہاں اب مکہ آباد ہے پہنچا آئے اور ان کے پاس ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک تھیلا خرمہ کا رکھ دیا۔ جب پہنچا کر وہاں سے لوٹنے لگے تو حضرت ہاجرہ علیہا السلام ان کے پیچھے چلیں اور پوچھا کہ ہم کو یہاں آپ اکیلے چھوڑے جاتے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے کچھ جواب نہ دیا۔ تب انہوں نے پوچھا کہ کیا خدائے تعالی نے تم کو اس کا حکم فرمایا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بولے ہاں کہنے لگیں تو کچھ غم نہیں وہ آپ ہی ہماری خبر رکھیں گے۔ اور اپنی جگہ جا کر بیٹھ گئیں چھوہارے کھا کر پانی پی لیتیں اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتیں۔ جب مشک کا پانی ختم ہو گیا تو ماں بیٹوں پر پیاس کا غلبہ ہوا۔ اور حضرت اسمعیل کی تو یہ حالت ہوئی کہ مارے پیاس کے بل کھانے لگے ماں اس حالت میں اپنے بچے کو نہ دیکھ سکیں۔ اور پانی دیکھنے کو صفا پہاڑ پر چڑھیں ور چاروں طرف نگاہ دوڑائی شاید کہیں پانی نظر آئے۔
جب کہیں نظر نہیں پڑا تو اس پہاڑ سے اتر کر دوسرے پہاڑ مروہ کی طرف چلیں کہ اس پر چڑھ کر دیکھیں گے بیچ میدان میں ایک ٹکڑا زمین کا گڑھا سا تھا جب تک برابر زمین پر رہیں تو بچے کو دیکھ لیتیں جب اس گڑھے میں پہنچیں تو بچہ نظر نہ پڑا اس لیے دور کر اس ٹکڑے سے نکل کر برابر میدان میں گئیں غرض مروہ پہاڑ پر پہنچیں اور اسی طرح چڑھ کر دیکھا وہاں بھی کچھ پتہ نہ لگا اس سے اتر کر بیتابی میں پھر صفا پہاڑ کی طرف چلیں اسی طرح دونوں پہاڑوں پر سات پھیرے کیے اور اس گڑھے کو ہر بار میں دوڑ کر طے کرتیں تھیں اللہ تعالی کو یہ عمل ایسا پسند آیا کہ حاجیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کو اسی طرح حکم کر دیا کہ دونوں پہاڑوں کے بیچ میں سات پھیرے کریں اور پھر اس ٹکڑے میں جہاں وہ گڑھا تھا اور اب وہ بھی برابر زمین ہو گئی ہے دوڑ کر چلا کریں غرض اخیر کے پھیرے میں مروہ پہاڑ پر تھیں کہ ان کے کان میں ایک آواز آئی اس کی طرف کان لگا کر کھڑی ہوئیں وہی آواز پھر آئی آواز دینے والا کوئی نظر نہیں آیا حضرت حاجرہ نے پکار کر کہا کہ میں نے آواز سن لی ہے اگر کوئی شخص مدد کر سکتا ہو تو مدد کرے اسی وقت جہاں آب زمزم کا کنواں ہے وہاں فرشتہ نمودار ہوا اور اپنا بازو زمین پر مارا وہاں سے پانی ابلنے لگا انہوں نے چاروں طرف مٹی کی ڈول بنا کر اس کو گھیر لیا اور مشک میں بھی بھر لیا اور خود بھی پیا اور بچے کو بھی پلایا فرشتے نے کہا کچھ اندیشہ نہ کرنا اس جگہ خدا کا گھر یعنی کعبہ ہے یہ لڑکا اپنے باپ کے ساتھ مل کر اس گھر کو بنا دے گا اور یہاں آبادی ہو جائے گی چنانچہ تھوڑے دنوں میں سب چیزوں کا ظہور ہو گیا۔
ایک قافلہ ادھر سے گزرا وہ لوگ پانی دیکھ کر ٹھہر گئے اور وہیں بس پڑے اور حضرت اسمعیل کی شادی ہو گئی پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام خدائے تعالی کے حکم سے تشریف لائے اور دونوں باپ بیٹوں نے مل کر خانہ کعبہ بنایا اور وہ زمزم کا پانی اس وقت زمین کے اندر اتر گیا تھا پھر مدت کے بعد کنواں بن گیا۔ فائدہ دیکھو حضرت ہاجرہ کو خدائے تعالی پر کیسا بھروسہ تھا۔ جب ان کو یہ معلوم ہو گیا کہ جنگل میں رہنا خدائے تعالی کے حکم سے ہے پھر کیسی بے فکر ہو گئیں اور پھر اس بھروسہ کرنے کی کیا کیا برکتیں ظاہر ہوئیں۔ بیبیو اسی طرح تم کو خدا پر بھروسہ رکھنا چاہیے انشاء اللہ تعالی سب کام درست ہو جائیں گے۔ اور دیکھو ان کی بزرگی کی دوڑی تو تھیں پانی کی تلاش میں اللہ کے نزدیک وہ حرکت کیسی پیاری ہو گئی کہ حاجیوں کے واسطے اس کو عبادت بنا دیا۔ جو بندے مقبول ہوتے ہیں۔ ان کا معاملہ ہی دوسرا ہو جاتا ہے۔ بیبیو کوشش کر کے خدائے تعالی کے حکم مانا کرو تاکہ تم بھی مقبول ہو جاؤ پھر تمہارے دنیا کے کام بھی دین میں شامل ہو جائیں۔
حضرت اسمعیل علیہ السلام کی دوسری بی بی کا ذکر
خانہ کعبہ بنانے سے پہلے دو دفعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بھی مکہ میں آئے ہیں مگر حضرت اسمعیل دونوں دفعہ گھر میں نہیں ملے اور اور زیادہ دیر ٹھہرنے کا حکم نہ تھا سو پہلی بار جب تشریف لائے اس وقت حضرت اسمعیل کے گھر میں ایک بی بی تھیں اس سے پوچھا کہ کس طرح گزر ہوتا ہے کہنے لگی کہ بڑی مصیبت میں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جب تمہارے خاوند آئیں ان سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دو چنانچہ جب حضرت اسمعیل گھر آئے تو سب حال معلوم ہوا آپ نے فرمایا وہ میرے والد تھے اور چوکھٹ تو ہے وہ یوں کہہ گئے ہیں کہ تجھ کو چھوڑ دوں اس کو طلاق دے کر پھر ایک اور بی بی سے نکاح کیا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام دوبارہ آئے ہیں تو یہ بی بی گھر میں تھیں انہوں نے بڑی خاطر کی آپ نے ان سے بھی گذران کا حال پوچھا انہوں نے کہ خدائے تعالی کا شکر ہے بہت آرام میں ہیں آپ نے ان کے لیے دعا کی اور فرمایا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو قائم رکھیں چنانچہ حضرت اسماعلم کو آنے کے بعد یہ حال معلوم ہوا آپ نے بی بی سے فرمایا کہ یہ میرے باپ تھے یوں کہہ گئے ہیں کہ تجھ کو اپنے پاس رکھوں۔ فائدہ دیکھو ناشکری کا پھل پہلی بیوی کو کیا ملا ایک نبی ناراض ہوئے دوسرے نبی نے اپنے پاس سے الگ کر دیا اور شکر و صبر کا پھل دوسری بیوی کو کیا ملا کہ ایک نبی نے دعا دی دوسرے نبی کی خدمت میں رہنا نصیب ہوا۔ بیبیو کبھی ناشکری نہ کرنا جس حالت میں ہو صبر و شکر سے رہنا۔
نمرود کافر بادشاہ کی بیٹی کا ذکر
نمرود وہ ظالم بادشاہ ہے جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا تھا اس کی یہ بیٹی جن کا نام رعفہ ہے اوپر کھڑی دیکھ رہی تھیں دیکھا کہ آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کچھ اثر نہیں کیا پکار کر پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے آپ نے فرمایا کہ خدائے تعالی نے ایمان کی برکت سے مجھ کو بچا لیا کہنے لگیں کہ اگر اجازت ہو تو میں اس آگ میں آؤں آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ ابراہیم خللآ اللہ کہہ کر چلی آ وہ کلمہ پڑھتی ہوئی بے دھڑک آگ کے اندر چلی گئی اس پر بھی آگ نے کچھ اثر نہیں کیا اور وہاں سے نکل کر اپنے باپ کو بہت برا بھلا کہا اس نے ان کے ساتھ بہت سختی کی مگر وہ اپنے ایمان پر قائم رہیں۔ فائدہ سبحان اللہ کیسی ہمت کی بی بی تھیں کہ تکلیف میں بھی ایمان کو نہ چھوڑا بیبیو تم بھی مصیبت کے وقتوں میں ہمت مضبوط رکھا کرو اور بال برابر بھی دین کے خلاف مت کیا کرو۔
حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹیوں کا ذکر
جب اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کے پاس فرشتے بھیجے اور انہوں نے آ کر خبر دی کہ اب آپ کی قوم پر جنہوں نے آپ کو نہیں مانا عذاب آنے والا ہے تو اللہ تعالی نے یہ بھی کہلا بھیجا تھا کہ اپنے مسلمان کنبے کو راتوں رات اس بستی سے نکال لے جاؤ اس مسلمان کنبے میں آپ کی بیٹیاں بھی تھیں یہ بھی عذاب سے بچ گئی تھیں۔ فائدہ دیکھو ایمان کیسی برکت کی چیز ہے کہ دنیا میں جو خدا کا قہر نازل ہوتا ہے ایمان اس سے بھی بچا لیتا ہے بیبیو ایمان کو خوب مضبوط کرو اور وہ مضبوط ہوتا ہے اس طرح کہ سب حکم بجا لاؤ اور سب گناہوں سے بچو۔
حضرت ایوب علیہ السلام کی بی بی کا ذکر
ان کا نام رحمت ہے جب حضرت ایوب علیہ السلام کا تمام بدن زخمی ہو گیا اور سب نے پاس جانا چھوڑ دیا یہ بی بی اس وقت خدمت گزاری میں مصروف رہتیں اور ہر طرح کی تکلیف اٹھاتیں ایک بار ان کو آنے میں دیر ہو گئی تھی حضرت ایوب علیہ السلام نے غصہ میں قسم کھائی۔ اچھا ہو جاؤں تو ان کو سو لکڑیاں ماروں گا جب آپ کو صحت ہو گئی تو اپنی قسم پورا کرنے کا ارادہ کیا اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے یہ آسان حکم کر دیا کہ تم ایک چھاڑو لو جس میں سو سینکیں ہوں اور ایک دفعہ مار دو فائدہ دکھو کیسی صابر بی بی تھیں کہ ایسی حالت میں بھی برابر اپنے خاوند کی خدمت کرتی رہیں اور بیماری میں ان کی قسم سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مزاج نازک ہو گیا تھا وہ اس کو بھی سہتی تھیں اسی خدمت اور صبر کی برکت تھی کہ اللہ میاں نے ان کو لکڑیوں سے بچوا لیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی بہت ہی پیاری تھیں کہ خدائے تعالی نے حکم کو کیسا آسان کر دیا۔ اب یہ مسئلہ نہیں ہے کہ اس طرح اگر کوئی قسم کھائے تو جھاڑو مارنے سے قسم پوری نہ ہو گی بلکہ ایسی قسم کو توڑ کر کفارہ دینا ہو گا۔ بیبیو خاوند کی تابعداری اور اس کی نازک مزاجی کو خوب سہار کیا کرو تم بھی ایسی ہی پیاری بن جاؤ گی۔
حضرت لیا یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کی خالہ کا ذکر
ان کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ ہوئے اور قحط پڑا اور سب بھائی مل کر اناج خریدنے ان کے پاس گئے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے آپ کو پہنچوا دیا اس وقت اپنا کرتہ اپنے والد یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں پر ڈالنے کے لیے دیا اور یہ بھی کہا کہ سب کو یہاں لے آؤ چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی پھر درست ہو گئی اور اپنے وطن سے چل کر مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام سے ملے تو یوسف نے اپنے والد اور اپنی ان خالہ کو تعظیم کے واسطے بادشاہی تخت پر بٹھلایا اور یہ دونوں صاحب اور سب بھائی اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے سجدہ میں گر پڑے اس زمانہ میں سجدہ سلام کی جگہ درست تھا اب درست نہیں رہا اللہ تعالی نے ان خالہ کو ماں فرما دیا ہے ان کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا اور یعقوب علیہ السلام نے ان سے نکاح کر لیا تھا اور بعضوں نے کہا ہے کہ جن کا یہ قصہ ہے یہ ماں تھیں حضرت راحیل ان کا نام تھا حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بچپن کے خواب کی یہ تعبیر ہے انہوں نے خواب دیکھا تھا کہ چاند سورج اور گیارہ ستارے مجھ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ فائدہ دیکھو کیسی بزرگ ہوں گی جن کی تعظیم نبی نے کی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر
ان کا نام یوخاند ہے جس زمانہ میں فرعون کو پنڈتوں نے ڈرایا تھا کہ بنی اسرائیل کی قوم میں ایک لڑکا ایسا پیدا ہو گا جو تیری بادشاہی کو غارت کرے گا اور فرعون نے حکم دیا کہ جو لڑکا بنی اسرائیل میں پیدا ہو اس کو قتل کر ڈالو چنانچہ ہزاروں لڑکے قتل ہو گئے ایسے نازک وقت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اس وقت خدائے تعالی نے ان بی بی کے دل میں یہ بات ڈالی جس کو الہام کہتے ہیں کہ تم بے فکر ان کو دودھ پلاتی رہو۔ اور جب اس کا اندیشہ ہو کہ کسی کو خبر ہو جائے گی تو اس وقت ان کو صندوق کے اندر بند کر کے دریا میں ڈال دینا پھر ان کو جس طرح ہم کو منظور ہو گا تمہارے پاس پہنچا دیں گے چنانچہ انہوں نے بے دھڑک ایسا ہی کیا اور اللہ تعالی نے اپنے سب وعدے پورے کر دیئے۔ فائدہ بیبیو دیکھو ان کو خدائے تعالی پر کیسا بھروسہ اور اطمینان تھا اور اس بھروسہ کی برکتیں بھی کیسی ظاہر ہوئیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا ذکر
ان کا نام بعضوں نے کہا ہے کہ مریم ہے بعضوں نے کہا ہے کہ کلثوم ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ان کو دریا میں ڈال دیا تو ان سے کہا کہ ذرا تم کھوج لگاؤ کہ انجام کیا ہوتا ہے غرض وہ صندوق نہر میں ہو کر فرعون کے محل میں پہنچا اور نکالا گیا تو اس کے اندر ایک خوبصورت بچہ ملا اور فرعون نے قتل کرنا چاہا مگر فرعون کی بی بی نے کہ نیک بخت اور خدا ترس تھیں کہہ سن کر جان بچائی اور دونوں میاں بی بی نے اپنا بیٹا بنا کر پالنا چاہا تو اب موسیٰ علیہ السلام کسی انا کا دودھ ہی منہ میں نہیں لیتے سب حیران تھے کہ کیا تدبیر کریں۔ اس وقت یہ بی بی یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن اس کھوج میں وہاں پہنچ گئیں تھی کہنے لگیں کہ میں ایک دودھ پلانے والی بتلاؤں جو بہت خیر خواہ اور شفیق ہے اور دودھ بھی اس کا بہت ستھرا ہے آخر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا پتہ بتلایا وہ بلائی گئیں اور موسیٰ علیہ السلام ان کے سپرد کیے گئے اور اللہ تعالی کا جو وعدہ تھا کہ ہم ان کو تمہارے پاس پہنچا دیں گے وہ اس طرح سے پورا ہوا۔ فائدہ دیکھو عقل بھی کیا چز ہے کس طرح پتہ بھی لگا لیا اور کیسی جان جوکھوں میں اپنی ماں کی خیر خواہی اور تابعداری بجا لائں اور دشمنوں کو خبر بھی نہ ہوئی بیبیو ماں باپ کی تابعداری اور عقل تمیز بڑی نعمت ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بی بی کا ذکر
ان کا نام صفورا ہے اور یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی بڑی بیٹی ہیں جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے مصر شہر میں ایک کافر ہے بے ارادہ مارا گیا اور فرعون کو خبر ہوئی۔ اس نے اپنے سرداروں سے صلاح کی کہ موسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دینا چاہیے موسیٰ علیہ السلام یہ خبر پا کر پوشیدہ طور پر مدین شہر کی طرف چل دیئے جب بستی کی حد پر پہنچے تو دیکھا بہت سے چرواہے کنویں سے کھینچ کھینچ کر اپنی بکریوں کو پانی پلا رہے ہیں اور دو لڑکیاں اپنی بکریوں کو پانی پر جانے سے ہٹا رہی ہیں ان دونوں لڑکیوں میں ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بی بی تھیں اور ایک سالی آپ نے ان سے اس کی وجہ پوچھی انہوں نے کہا کہ ہمارے گھر کوئی مرد کام کرنے والا ہے نہیں اس لیے ہم کو خود کام کرنا پڑتا ہے لیکن چونکہ ہم عورتیں ہیں اس واسطے مردوں کے چلے جانے کے منتظر رہتے ہیں۔ سب کے چلے جانے کے بعد ہم اپنی بکریوں کو پانی پلا لیتے ہیں آپ کو ان کے حال پر رحم آیا اور خود پانی نکال کر بکریوں کو پلا دیا ان دونوں نے جا کر اپنے والد بزرگوار سے یہ قصہ بیان کیا انہوں نے بڑی بیٹی کو بھیجا کہ ان بزرگ کو بلاؤ وہ شرماتی ہوئی آئیں اور موسیٰ علیہ السلام کو ان کا پیغام پہنچا دیا آپ ان کے ہمراہ ہو لیے اور حضرت شعیب علیہ السلام سے ملے انہوں نے ان کی ہر طرح سے تسلی کی اور فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان میں سے ایک لڑکی تم سے بیاہ دوں مگر شرط یہ ہے کہ آٹھ برس یا دس برس میری بکریاں چراؤ آپ نے منظور کر لیا اور بڑی بیٹی سے آپ کا نکاح ہو گیا آپ ان کو لے کر وطن چلے تھے کہ راستہ میں سردی کی وجہ سے آگ کی ضرورت ہوئی طور پہاڑ پر آگ نظر آئی وہاں پہنچے تو خدا کا نور تھا وہیں آپ کو پیغمبری مل گئی۔
فائدہ دیکھو اپنے گھر کا کام کیسی محنت سے کرتی تھیں اور غیر مرد سے لاچاری کو بولیں تو کیسی شرماتی ہوئی بیوی تم بھی گھر کے کاموں میں آرام طلبی اور سستی مت کیا کرو اور شرم و حیا ہر وقت لازم سمجھو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سالی کا ذکر
ان کا ذکر ابھی اوپر ہو چکا ہے ان کا نام صفیرا ہے یہ بھی اپنی بہن کے ساتھ گھر کا کاروبار بڑی محنت سے کرتی تھیں اور باپ کی تابعداری اور خدمت بجا لاتی تھیں۔ فائدہ بیبیو اس طرح تم بھی ماں باپ کی خدمت اور گھر کے کام میں محنت مشقت کیا کرو جیسے کام غریب لوگ کیا کرتے ہیں ان کو ذلت مت سمجھو دیکھو پیغمبر زادیوں سے تو زیادہ تمہارا رتبہ نہیں ہے۔
حضرت آسیہ کا ذکر
فرعون مصر کا بادشاہ جس نے خدائی کا دعوی کیا تھا یہ اس کی بی بی ہیں خدا کی قدرت خاوند شیطان اور بی بی ایسی ولی جن کی تعریف قرآن میں آئی اور جن کی بزرگی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی کہ مردوں میں بہت کامل ہوئے ہیں مگر عورتوں میں کوئی کمال کے رتبہ کو نہیں پہنچی سوا حضرت مریم اور آسیہ کے انہوں نے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جان بچپن میں ظالم فرعون سے بچائی تھی جیسا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کے ذکر میں گذرا ان کی قسمت میں موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا لکھا تھا شروع میں بچپن ہی سے ان کے دل میں ان کی محبت پیدا ہو گیں تھی جب موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبری ملی فرعون تو ایمان نہیں لایا مگر یہ ایمان لے آئیں فرعون کو جب ان کے ایمان لانے کی خبر ہوئی تو ان پر بڑی سختی کی اور طرح طرح سے تکلیف پہنچائی مگر انہوں نے اپنا ایمان نہیں چھوڑا اسی حالت میں دنیا سے اٹھ گئیں۔ فائدہ دیکھو کیسی ایمان کی مضبوط تھیں کہ بد دین خاوند بادشاہ تھا سب کو کچھ اس نے کیا مگر اس کا ساتھ نہیں دیا اب ذرا ذرا سی تکلیف میں کفر کے کلمے بکنے لگتی ہیں۔ بیبیو ایمان بڑی دولت ہے کیسی ہی تکلیف پہنچے دین کے خلاف کوئی کام نہ کرنا اگر کسی کا خاوند بد دینی کا کام کرے کبھی اس کا ساتھ نہ دے اور اس زمانہ میں کافر مرد سے نکاح ہو جاتا تھا مگر ہماری شرع میں اب یہ حکم ہے کہ اگر خاوند کافر ہو تو نکاح درست نہیں ہوتا اور اگر کافر ہونے سے پہلے ہو گیا ہو تو ٹوٹ جاتا ہے۔
فرعون کی بیٹی کی خواص کا ذکر
روضۃ الفصا ایک کتاب ہے اس مںا لکھا ہے کہ فرعون کی بیٹی کی ایک خواص تھی جو اس کی کار مختار تھی اور اس کی کنگھی چوٹی بھی وہی کرتی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتی تھی مگر فرعون کے خوف سے ظاہر نہ کرتی تھی ایک بار اس کے بال سنوار رہی تھی کہ اس کے ہاتھ سے کنگھی چھوٹ گئی اس نے بسم اللہ کہہ کے اٹھا لی لڑکی نے پوچھا یہ تو نے کیا کہا یہ کس کا نام ہے خواص نے کہا یہ اسی کا نام ہے جس نے تیرے باپ کو پیدا کیا اور اس کو بادشاہی دی لڑکی کو بڑا تعجب ہوا کہ میرے باپ سے بھی کوئی بڑا ہے دوڑی ہوئی فرعون کے پاس گئی اور سارا قصہ بیان کیا فرعون نہایت غصہ میں آیا اور خواص کو بلا کر ڈرایا دھمکایا مگر اس نے صاف کہہ دیا کہ جو چاہے سو کر میں ایمان نہ چھوڑوں گی اول اس کے ہاتھ پاؤں میں کیلیں جڑ کر اس پر انگارے اور بہوبل ڈالی جب اس سے بھی کچھ نہ ہوا تو اس کی گود میں ایک لڑکا تھا اس کو آگ میں ڈال دیا لڑکا آگ میں بولا کہ اماں صبر کریں خبردار ایمان نہ چھوڑیں غرض وہ اپنے ایمان پر جمی رہی یہاں تک کہ اس بیچاری کو بھی پکڑ کر جلتے تنور میں جھونک دیا عم کے پارہ میں سورہ بروج میں کھائیوں والوں کا قصہ آیا ہے اس میں بھی اسی طرح ایک عورت کا اور اس کے بچہ کا قصہ ہوا تھا۔ فائدہ دیکھو ایمان کی کیسی مضبوط تھی بیبیو ایمان بڑی نعمت ہے اپنے نفس کی خوشی کے واسطے یا کسی لالچ کے سبب یا کسی مصیبت تکلیف کی وجہ سے کبھی اپنے ایمان دین میں خلل مت ڈالنا خدا اور رسول کے خلاف کوئی کام مت کرنا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لشکر کی ایک بڑھیا کا ذکر
جب فرعون نے مصر میں بنی اسرائیل کو بہت تنگ کرنا شروع کیا ان سے طرح طرح کی بیگاریں لیتا ان کو مارتا اور دکھ پہنچاتا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدائے تعالی کا حکم ہوا کہ سب بنی اسرائیل کو راتوں رات مصر سے نکال لے جاؤ تا کہ فرعون کے ظلم سے ان کی جان چھٹے موسیٰ علیہ السلام سب کو لے چلے جب دریائے نیل پر پہنچے راستہ بھول گئے اور بھی کسی کی پہچان میں راستہ نہ آیا آپ نے تعجب کیا اور پکار کر فرمایا کہ جو شخص اس بھید سے واقف ہو وہ آ کر بتلا دے ایک بڑھیا نے حاضر ہو کر عرض کا کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کا انتقال ہونے لگا تھا تو انہوں نے اپنے بھائی بھتیجوں کو وصیت فرما دی تھی کہ اگر کسی وقت میں تم لوگ مصر کا رہنا چھوڑ دو تو میرا تابوت جسمیں میری لاش ہو گی اپنے ساتھ لے جانا تو جب تک آپ وہ تابوت ساتھ نہ لیں گے راستہ نہ ملے گا آپ نے تابوت کا حال پوچھا کہ کہاں دفن ہے اس کا واقف بھی بزا بڑھیا کے کوئی نہ نکلا اس سے جو پوچھا تو اس نے عرض کیا کہ میں یوں نہ بتلاؤں گی مجھ سے ایک بات کا اقرار کیجئے اس وقت بتلاؤں گی آپ نے پوچھا وہ کیا بات ہے کہنے لگی وہ اقرار یہ ہے کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو اور جنت میں جس درجہ میں آپ ہوں اسی درجہ میں مجھ کو رہنے کی جگہ ملے آپ نے اللہ تعالی سے عرض کیا کہ اے اللہ یہ بات تو میرے اختیار کی نہیں حکم ہوا کہ تم اقرار کر لو ہم پورا کر دیں گے آپ نے اقرار کر لیا اس نے تابوت کا پتہ بتلا دیا کہ دریا کے بیچ میں دفن تھا اس تابوت کا نکالنا تھا اور راستہ کا ملنا فورا راستہ مل گیا فائدہ دیکھو یہ بڑی بی کیسی بزرگ تھیں کہ کوئی دولت دنیا کی نہیں مانگی اپنی عاقبت کو درست کیا بیبیو تم بھی دنیا کی ہوس چھوڑ دو۔ وہ تو جتنی قسمت میں ہے ملے ہی گی اپنے دین کو سنوارو۔
حیسور کی بہن کا ذکر
قرآن شریف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے قصہ میں ذکر ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک چھوٹے بچے کو خدائے تعالی کے حکم سے مار ڈالا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گھبرا کے پوچھا کہ بھلا اس بچہ نے کیا خطا کی تھی جو اس کو مار ڈالا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ لڑکا جوان ہوتا تو کافر ہوتا اور اس کے ماں باپ ایماندار تھے اولاد کی محبت میں ان کے بھی بگڑنے کا ڈر تھا اس واسطے یہی مصلحت ہوئی کہ اس کو قتل کر دیا جاوے اب اس کے بدلے اللہ تعالی ایک لڑکی دیں گے جو برائیوں سے پاک ہو گی اور ماں باپ کو زیادہ بھلائی پہنچانے والی ہو گی چنانچہ اور کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک لڑکی ایسی ہی پیدا ہوئی اور ایک پیغمبر سے ان کا نکاح ہو اور ستر پیغمبر اس کی اولاد میں ہوئے اور اس لڑکی کا نام حیسور تھا یہ لڑکی اس کی بہن تھی فائدہ جس کی تعریف میں اللہ تعالی فرمائیں کہ برائیوں سے پاک اور ماں باپ کو بھلائی پہنچانے والی ہو گی وہ کیسی اچھی ہو گی دیکھو گناہ سے پاک رہنا اور ماں باپ کو سکھ دینا کیسا پیارا کام ہے۔ جس سے آدمی کا ایسا رتبہ ہو جاتا ہے کہ خدائے تعالی اس آدمی کی تعریف کریں بیبیو ان باتوں میں خوب کوشش کیا کرو۔
حیسور کی ماں کا ذکر
حیسور وہی لڑکا ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے یہ بھی پڑھ چکی ہو کہ قرآن مجید میں اس کے ماں باپ کو ایماندار لکھا ہے جسکو اللہ تعالی ایماندار فرما دیں وہ ایسا کچا پکا ایماندار تو ہو گا نہیں خوب پورا ایماندار ہو گا اس سے معلوم ہوا کہ حیسور کی ماں بھی بہت بزرگ تھیں۔ فائدہ دیکھو ایمان میں پختہ ہونا ایسی دولت ہے جس پر اللہ تعالی نے تعریف کی۔
بیبیو ایمان کو مضبوط کرو اور وہ اسی طرح مضبوط ہوتا ہے کہ شرع کے حکم خوب بجا لاؤ سب برائیوں سے بچو۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی والدہ کا ذکر
قرآن شریف میں ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے دعا میں یہ کہا کہ اے اللہ آپ نے میرے ماں باپ پر انعام کیا ہی معلوم ہوا کہ آپ کی ماں بھی بزرگ تھیں کیونکہ بڑا انعام ایمان اور دین ہے فائدہ دیکھو ایمان ایسی چیز ہے کہ ایماندار کا ذکر پیغمبروں کی زبان پر بھی خوبی کے ساتھ آتا ہے۔ بیبیو ایمان کو خوب رونق دو۔
حضرت بلقیس کا ذکر
یہ ملک سبا کی بادشاہ تھیں حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہد ہد جانور نے خبر دی تھی کہ میں نے ایک عورت بادشاہ دیکھی ہے اور وہ آفتاب کو پوجتی ہے آپ نے ایک خط لکھ کر ہد ہد کو دیا کہ اس کے پاس ڈال دیجیو۔ اس خط میں لکھا تھا کہ تم لوگ مسلمان ہو کر یہاں حاضر ہو اس خط کو پڑھ کر امیروں وزیروں سے صلاح کی بہت بات چیت کے بعد خود ہی یہ صلاح قرار دی کہ میں ان کے پاس کچھ چیزیں سوغات کے طور پر بھیجتی ہوں اگر لیکر رکھ لیں تو سمجھوں گی کہ دنیا دار بادشاہ ہیں اگر نہ رکھیں تو سمجھوں گی کہ پیغمبر ہیں جب وہ چیزیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچیں آپ نے سب لوٹا دیں اور کہلا بھیجا کہ اگر مسلمان نہ ہو گی تو لڑائی کے لئے فوج لاتا ہوں یہ پیغام سنکر یقین ہو گیا کہ بیشک پیغمبر ہیں اور مسلمان ہونے کے ارادہ سے اپنے شہر سے چلیں ان کے چلنے کے بعد سلیمان علیہ السلام نے اپنے معجزے سے ان کا ایک بڑا بھاری قیمتی بادشاہی تخت تھا وہ اپنے د ربار میں منگا لیا تھا تا کہ بلقین معجزہ بھی دیکھ لیں اور اس کے موتی جواہر اکھاڑ کر دوسری طرح جڑوا دئیے جب بلقیس یہاں پہنچیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ان کی عقل آزمانے کو پوچھا گیا کہ دیکھو یہ تمہارا تخت تو نہیں ہے غور سے دیکھ کر کہا کہ ہاں ویسا ہی ہے اس طرح یوں کہا کہ کچھ صورت شکل بدل گئی تھی اس جواب سے معلوم ہوا کہ بڑی عقلمند ہیں پھر سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو یہ بات دکھلانی چاہی کہ ہمارے خدا کی دی ہوئی بادشاہی تمہاری دنیا کی بادشاہی سے ویسے بھی زیادہ ہے یہ بات دکھلانے کے واسطے حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا کہ ایک حوض پانی سے بھر کر اس کے اوپر ایسے صاف شفاف کانچ کا فرش بنایا جاوے کہ وہ نظر نہ آوے اور سلیمان علیہ السلام ایسی جگہ جا بیٹھے کہ جو آدمی وہاں پہنچنا چاہے حوض راستے میں پڑے اور بلقیس کو اس جگہ حاضر ہونے کا حکم دیا بلقیس جو حوض کے پاس پہنچیں کانچ تو نظر
نہ آیا یوں سمجھیں کہ مجھکو پانی کے اندر جانا پڑے گا تو پائینچے چڑھانے لگیں فورا انکو کہہ دیا گیا کہ اسپر کانچ کا فرش ہے۔ ویسے ہی چلی آؤ جب بلقیس نے تخت کے منگا لینے کا معجزہ دیکھا اور اس کاریگری کو بھی دیکھا جس سے یہ سمجھیں کہ ان کے پاس ویسے بھی بادشاہی کا سامان میرے یہاں کے سامان سے زیادہ ہے فورا کلمہ پڑھ ڑھ ڑھکر مسلمان ہو گئیں پھر بعض عالموں نے تو یہ کہا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کیساتھ خود نکاح کر لیا اور بعضوں نے کہا کہ یمن کے بادشاہ سے نکاح کر دیا اللہ ہی کو معلوم ہے کیا ہوا۔ فائدہ دیکھو کیسی بے نفس تھیں کہ باوجود امیر اور بادشاہ ہونے کے جب دین کی سچی بات معلوم ہو گئی فورا اس کو مان لیا اس کو قبول کرنے میں شیخی نہیں کی نہ باپ دادا کی رسم کو پکڑ کر بیٹھیں۔ بیبیو تم بھی اپنا یہی طریقہ رکھو کہ جب دین کی بات سنو کبھی عار یا شرم یا خاندان کے رسم کی پیروی مت کرو ان میں سے کوئی چیز کام نہ آوے گی فقط دین ساتھ چلے گا۔
بنی اسرائیل کی ایک لونڈی کا ذکر
حدیث میں ایک قصہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک عورت اپنے بچہ کو دودھ پلا رہی تھی اتنے میں ایک سوار بڑی شان و شوکت سے سامنے کو گزرا ماں نے دعا کی کہ اے اللہ میرے لڑکے کو ایسا ہی کر دیجئے بچہ ماں کی چھاتی چھوڑ کر بولنے لگا اے اللہ مجھکو ایسا مت کیجیو اور پھر دودھ پینے لگا پھر سامنے سے کچھ لوگ گذرے جو ایک لونڈی کو پکڑے ذلت اور خواری سے لئے جاتے تھے ماں نے دعا کی اے اللہ میرے لڑکے کو ایسا مت کیجیو وہ بچہ پھر بولا اے اللہ مجھکو ایسا ہی کر دیجیو ماں نے پوچھا یہ کیا بات ہے بچہ نے کہا کہ وہ سوار تو ایک ظالم شخص تھا اور لونڈی کو لوگ تہمت لگاتے ہیں کہ یہ چور ہے بد چلن ہے اور وہ غریب اس سے پاک ہے۔ فائدہ مطلب یہ کہ اس سوار کی مخلوق کے نزدیک تو قدر ہے مگر اللہ تعالی کے نزدیک کچھ قدر نہیں اور یہ لونڈی مخلوق کے نزدیک تو بے قدر ہے مگر اللہ کے نزدیک اس کی بڑی قدر ہے تو قدر خدا کے نزدیک چاہئے مخلوق کیسا ہی سمجھے اور اگر خدا کے نزدیک قدر نہ ہوئی تو مخلوق کی قدر کس کام آوے گی دیکھو یہ اس لونڈی کی کرامت تھی اس کی پاکی ظاہر کرنے کے لئے دودھ پیتا بچہ باتیں کرنے لگا۔ بیبیو بعضی عورتوں کی عادت ہے کہ غریبوں کو بہت حقیر سمجھتی ہیں اور ذرا سے شبہ سے ان پر عیب اور چوری لگا دیتی ہیں یہ بری بات ہے شاید وہ اللہ کے نزدیک تم سے بھی اچھی ہوں۔
بنی اسرائیل کی ایک عقلمند دیندار بی بی کا ذکر
محمد بن کعب کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص بڑا عالم اور بڑا عابد تھا اس کو اپنی بی بی کے ساتھ بہت محبت تھی اتفاق سے وہ مر گئی اس عالم پر ایسا غم سوار ہوا کہ دروازہ بند کر کے بیٹھ گیا اور سب سے ملنا جلنا چھوڑ دیا بنی اسرائیل میں ایک عورت تھی اس نے یہ قصہ سنا اور اس کے پاس گئی اور گھر میں آنے جانے والوں سے کہا کہ مجھ کو ایک مسئلہ پوچھنا ہے اور وہ زبانی ہی پوچھ سکتی ہوں اور دروازہ پر جم کر بیٹھ گئی آخر اس کو خبر ہوئی اور اندر آنے کی اجازت دی آ کر کہنے لگی مجھ کو ایک مسئلہ پوچھنا ہے اس نے کہا بیان کر کہنے لگی میں نے اپنی پڑوسن سے کچھ زیور مانگے کے طور پر لیا تھا اور مدت تک اس کو پہنتی رہی پھر اس نے آدمی بھیجا کہ میرا زیور دے دو تو کیا وہ اس کا زیور دے دینا چاہئے عالم نے کہا بیشک دے دینا چاہئے وہ عورت بولی کہ وہ تو میرے پاس مدت تک رہا ہے تو کیسے دے دوں عالم نے کہا تب تو اور بھی خوشی سے دینا چاہئے کیونکہ ایک مدت تک اس نے نہیں مانگا یہ اس کا احسان ہے عورت نے کہا خدا تمہارا بھلا کرے پھر تم کیوں غم میں پڑے ہو خدائے تعالی نے ایک چیز مانگی دی تھی پھر جب چاہا لے لی اسی کی چیز تھی یہ سنکر اس عالم کی آنکھیں اسی کھل گئیں اور اس بات سے اس کو بڑا فائدہ پہنچا۔ فائدہ دیکھو کیسی عورت تھی جس نے مرد کو عقل دی اور مرد بھی کیسا عالم بیبیو تم کو بھی چاہئے کہ مصیبت میں یہی سمجھا کرو دوسروں کو بھی سمجھایا کرو۔
حضرت مریم علیہما السلام کی والدہ کا ذکر
ان بی بی کا نام حنہ ہے عمران ان کے میاں کا نام ہے جو والد ہیں حضرت مریم علیہ السلام کے انکو حمل رہا تو انہوں نے اللہ میاں سے منت مانی کہ جو بچہ میرے پیٹ میں ہے اس کو مسجد کی خدمت کے لئے آزاد چھوڑ دوں گی یعنی دنیا کے کام اس سے نہ لوں گی ان کا گمان یہ تھا کہ لڑکا پیدا ہو گا کیونکہ مسجد کی خدمت لڑکا ہی کر سکتا ہے۔ اس زمانہ میں ایسی منت درست تھی جب بچہ پیدا ہونے کا وقت آیا تو لڑکی پیدا ہوئی افسوس سے کہا کہ اے اللہ یہ تو لڑکی ہوئی حکم ہوا کہ یہ لڑکی لڑکوں سے بھی اچھی ہو گی اور خدا نے اس کو قبول کیا غرض حضرت مریم انکا نام رکھا اور انہوں نے ان کے لئے یہ دعا کی کہ انکو اور انکی اولاد کو شیطان سے بچائیو چنانچہ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان سب بچوں کو پیدا ہوتے وقت چھیڑتا ہے مگر حضرت مریم اور ان کے بیٹے حضرت عیسی علیہما السلام کو نہیں چھیڑ سکا۔ فائدہ دیکھو ان کی پاک نیت کی کیسی برکت ہوئی کہ خدائے تعالی نے کیسی پاک اولاد دی اور خدائے تعالی نے انکی دعا بھی قبول کی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو انکی بڑی خاطر منظور تھی۔ بیبیو پاک نیت کی ایسی برکتیں ہوتی ہیں ہمیشہ اپنی نیت خالص رکھا کرو جو نیک کام کرو خدا کے واسطے کو تمہاری بھی اللہ میاں کے دربار میں قدر ہو جاوے گی۔
حضرت مریم علیہما السلام کا ذکر
ان کے پیدا ہونے کا قصہ ابھی گذر چکا ہے جب یہ پیدا ہو چکیں تو ان کی والدہ اپنی منت کے موافق انکو لیکر بیت المقدس کی مسجد میں پہنچیں اور وہاں کے رہنے والے بزرگوں سے کہا کہ یہ منت کی لڑکی لو چونکہ بڑے بزرگ خاندان کی تھیں سب نے چاہا کہ میں لے کر پالوں ان میں حضرت زکریا علیہ السلام بھی تھے وہ حضرت مریم کے خالو ہوتے تھے یوں بھی انکا حق زیادہ تھا مگر پھر بھی لوگوں نے ان سے جھگڑا کرنا شروع کیا جس فیصلہ پر یہ سب راضی ہوئے تھے اسمیں بھی یہی بڑھے رہے آخر حضرت زکریا علیہ السلام نے انکو لے کر پرورش کرنا شروع کیا ان کے بڑھنے کی یہ حالت تھی کہ اور بچوں سے کہیں زیادہ بڑھتی تھیں یہاں تک کہ تھوڑے دنوں میں سیانی معلوم ہونے لگیں اور ویسے بھی بچپن ہی سے مادر آزاد بزرگ اور ولی تھیں اللہ تعالی نے انکو قرآن میں ولی فرمایا ہے اور ان کی کرامت بیان فرمائی ہے کہ بے فصل میوے غیب سے ان کے پاس آ جاتے۔ حضرت زکریا علیہ السلام پوچھتے کہ یہ کہاں سے آئے تو جواب دیتیں کہ اللہ میاں کے یہاں سے غرض انکی ساری باتیں اچنبھے کی تھیں یہاں تک کہ جب جوان ہوئیں تو محض خدائے تعالی کی قدرت سے بدوں مرد کے ان کو حمل ہو گیا اور حضرت عیسی علیہ السلام پیغمبر پیدا ہوئے یہودیوں نے بے باپ کے بچہ پیدا ہونے پر واہی تباہی بکنا شروع کیا اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کو پیدا ہونے ہی کے زمانہ میں بولنے کی طاقت دی انہوں نے ایسی اچھی اچھی باتیں کیں کہ انصاف والوں کو معلوم ہو گیا کہ ان کی پیدائش خدا کی قدرت کا نمونہ ہے بے شک بے باپ کے پیدا ہوئے ہیں اور ان کی ماں پاک صاف ہیں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بزرگی بیان فرمائی ہے کہ عورتوں میں کوئی کامل نہیں ہوئی بجز دو عورتوں کے ایک حضرت مریم دوسری حضرت آسیہ یہ مضمون حضرت آسیہ کے ذکر میں بھی ہو چکا ہے۔
فائدہ دیکھو ان کی ماں نے ان کو خدا کے نام کر دیا تھا کیسی بزرگ ہوتیں اور خود اللہ کی تابعداری میں لگی رہتی تھیں جس سے آدمی ولی ہو جاتا ہے۔ اس کی برکت سے خدا نے کیسی تہمت سے بچا لیا۔ بیبیو خدا کی تابعداری کیا کرو۔ سب آفتوں سے بچی رہو گی اور اپنی اولاد کو دین میں زیادہ لگا رکھا کرو۔ دنیا کا بندہ مت بنا دیا کرو۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی بی بی کا ذکر
ان کا نام ایشاع ہے یہ حضرت حنہ کی بہن اور حضرت مریم علیہا السلام کی خالہ ہیں ان کے لیے اللہ تعالی نے یوں فرمایاہے کہ ہم نے زکریا کی بی بی کو سنوار دیا ہے اس کا مطلب بعضے عالموں نے یہ لکھا ہے کہ ہم نے ان کی عادتیں خوب سنوار دیں۔ حضرت یحیی پیغمبر علیہ السلام ان کے بڑھاپے میں پیدا ہوئے تو حضرت عیسی علیہ السلام رشتے میں حضرت یحیی علیہ السلام کی خالہ کے نواسے ہیں نواسہ بھی بیٹے کی جگہ ہوتا ہے اس واسطے ہمارے پیغمبر علیہ السلام نے ایک کو دوسرے کی خالہ کا بیٹا فرما دیا ہے۔ فائدہ دیکھو اچھی عادت ایسی اچھی چیز ہے کہ اللہ تعالی نے بھی ان کی تعریف فرمائی بیبیو اپنی عادتیں ہر طرح کی خوب سنوار دو جس کا طریقہ ہم نے ساتویں حصہ میں اچھی طرح لکھ دیا ہے یہ پچیس قصے پہلی امتوں کی نیک بیبیوں کے تھے اب تھوڑے سے اس امت کی نیک بیبیوں کے بھی سن لو۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی بی بی ہیں ان کی بڑی بڑی بزرگیاں ہیں ایک دفعہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام خدائے تعالی کا سلام تمہارے پاس لائے ہیں اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تمام دنیا کی بیبیوں میں سے اچھی چار بیبیاں ہیں ایک حضرت مریم دوسری حضرت آسیہ فرعون کی بیوی تیسری حضرت خدیجہ چوتھی حضرت فاطمہ اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ کافروں کے برتاؤ سے پریشانی ہوتی آپ ان سے آ کر فرماتے یہ کوئی ایسی تسلی کی بات کہہ دیتیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی جاتی رہتی اور آپ کو ان کا خیال ایسا تھا کہ بعد ان کے انتقال کے بھی کوئی بکری وغیرہ ذبح کرتے تو ان کی ساتھنوں سہیلیوں کو بھی ضرور گوشت بھیجتے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ان کا اور نکاح ہوا تھا ان کے پہلے شوہر کا نام ابو ہالہ تمیمی ہے۔ فائدہ اللہ اور رسول کے نزدیک ان کی قدر ایمان اور تابعداری سے تھی بیبیو تم بھی اس میں خوب کوشش رکھو اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خاوند کی پریشانی میں اس کی دلجوئی اور تسلی کرنا نیک خصلت ہے اب بعضی عورتیں خاوند کے اچھے بچھے دل کو اور الٹا پریشان کر ڈالتی ہیں کبھی فرمائشیں کر کے کبھی تکرار کر کے۔ اس عادت کو چھوڑ دو۔
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ بھی ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی ہیں انہوں نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ کو دے دیا تھا۔ اور حضرت عائشہ کا قول ہے کہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھ کو یہ حرص نہیں ہوئی کہ میں بھی ویسی ہی ہوتی سوا حضرت سودہ کے ان کو دیکھ کر مجھ کو حرص ہوتی تھی کہ میں ایسی ہی ہوتی جیسی یہ ہیں ان کے پہلے شوہر کا نام سکران بن عمرو تھا۔ فائدہ دیکھو حضرت سودہ کی ہمت کہ اپنی باری اپنی سوتن کو دے دی آجکل خواہ مخواہ بھی سوتن سے لڑائی اور حسد کیا کرتی ہیں اور دیکھو حضرت عائشہ کا انصاف کہ سوتن کی تعریف کرتی ہیں آجکل جان جان کر اس پر عیب لگاتی ہیں بیبیو تم کو بھی ایسی ہی ہمت اور انصاف اختیار کرنا چاہیے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت چہیتی بی بی ہیں ان سے کنواری سے حضرت کا نکاح ہوا ہے عالمہ اتنی بڑی تھیں کہ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے صحابی ان سے مسئلے پوچھا کرتے تھے ایک بار ہمارے حضرت سے ایک صحابی نے پوچھا کہ سب سے زیادہ آپ کو کس کے ساتھ محبت ہے فرمایا عائشہ کے ساتھ انہوں نے پوچھا اور مردوں میں فرمایا ان کے باپ یعنی حضرت ابوبکر کے ساتھ اور بھی ان کی بہت خوبیاں آتی ہیں۔ فائدہ دیکھو ایک یہ عورت تھیں جن سے بڑے بڑے عالم مسئلے دین کے پوچھتے تھے ایک اب ہیں کہ خود بھی عالموں سے پوچھنے کا یا دین کی کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں بیبیو دین کا علم خوب محنت اور شوق سے سیکھو۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ بھی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی اور حضرت عمر کی بیٹی ہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات پر ان کو ایک طلاق دے دی تھی پھر جبرائیل علیہ السلام کے کہنے پر آپ نے رجوع کر لیا حضرت جبرائیل نے یوں فرمایا کہ آپ حفصہ سے رجوع کر لیں کیونکہ وہ دن کو روزہ بہت رکھتی ہیں راتوں کو جاگ کر عبادت بہت کرتی ہیں اور وہ بہشت میں آپ کی بی بی ہوں گی انہوں نے اپنے بھائی عبداللہ بن عمر کو وصیت کی تھی کہ میرا اتنا مال خیرات کر دو اور کوئی زمین بھی انہوں نے وقف کی تھی اس کے بندوبست کے لیے بھی وصیت کی تھی ان کے پہلے خاوند کا نام خنیس بن حذافہ تھا۔ فائدہ دینداری کی برکت دیکھی کہ اللہ میاں کے یہاں سے طرفداری کی جاتی ہے فرشتے کے ہاتھ خاطر داری کا حکم ہوتا ہے کہ اپنی طلاق کو لوٹا اور ان کی سخاوت دیکھو کہ اللہ کی راہ میں کس طرح خیرات کا بندوبست کیا اور زمین بھی وقف کی بوبی دینداری اختیار کرو اور مال کی حرص اور محبت دل سے نکال ڈالو۔
حضرت زینب خزیمہ کی بیٹی رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ بھی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی ہیں اور یہ ایسی سخی تھیں کہ غریبوں کی ماں کے نام سے مشہور تھیں ان کے پہلے شوہر کا نام عبداللہ بن جحش تھا۔ فائدہ دیکھو غریبوں کی خدمت کیسی بزرگی کی چیز ہے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ بھی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی ہیں ایک بی بی قصہ بیان کرتی ہیں کہ میں ایک بار حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی اتنے میں بہت سے محتاج آئے جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں اور آ کر جم گئے سر ہو گئے میں نے کہا چلو یہاں سے لمبے بنو۔ ام سلمہ بولیں ہم کو یہ حکم نہیں اری چھوکری سب کو کچھ کچھ دے دے چاہے ایک ایک چھوارا ہی ہو ان کے پہلے شوہر کا نام حضرت ابو سلمہ ہے۔ فائدہ دیکھو محتاجوں کی ہٹ باندھنے سے تنگ نہیں ہوئیں اب ذرا سی دیر میں دور دبک کرنے لگتی ہیں بلکہ کوسنے کاٹنے لگتی ہیں بیبیو ایسا ہرگز مت کرو۔
حضرت زینب جحش کی بیٹی رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ بھی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی ہیں حضرت زید ایک صحابی ہیں ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنا بیٹا بنایا تھا۔ پہلے بیٹا بنایا شروع میں دوست تھا جب وہ جوان ہوئے حضرت کو ان کی شادی کی فکر ہوئی۔ آپ نے انہی زینب کے لیے ان کے بھائی کو پیغام دیا۔ یہ دونوں بھائی بہن حسب نسب میں حضرت زید کو برابر کا نہ سمجھتے تھے۔ اس واسطے اول اول رکے مگر خدائے تعالی نے آیت بھیج دی کہ پیغمبر کی تجویز کے بعد پھر مسلمان کو کوئی عذر نہ چاہیے دونوں نے منظور کیا اور نکاح ہو گیا مگر کچھ میاں بی بی میں اچھی طرح نہ بنی نوبت یہاں تک پہنچی کہ حضرت زید نے طلاق دینے کا ارادہ کر لیا اور حضرت صلی اللہ علہل وسلم سے آ کر صلاح کی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا اور سمجھایا مگر انداز سے آپ کو معلوم ہو گیا کہ بے طلاق دیئے رہیں گے نہیں اس وقت آپ کو بہت سوچ ہوا کہ اول ہی ان دونوں بھائی بہنوں کا دل اس نکاح کو گوارا نہ تھا مگر ہمارے کہنے سے قبول کر لیا اب اگر طلاق ہو گئی تو اور بھی دونوں بھائی بہنوں کی بات ہلکی ہو گی اور بہت دلشکنی ہو گی ان کی دلجوئی کی کیا تدبیر کی جائے آخر سوچنے سے یہ بات خیال میں آئی کہ اگر میں اپنے سے نکاح کر لوں تو بے شک ان کے آنسو پونچھ جائیں گے ورنہ اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی لیکن اس کے ساتھ ہی دنیا کی زبان کا یہ بھی خیال تھا کہ بے ایمان لوگ طعنے ضرور دیں گے کہ بیٹے کی بیوی کو گھر میں ڈال لیا اگرچہ شرع سے منہ بولا بیٹا سچ مچ کا بیٹا نہیں ہو جاتا مگر خلقت کی زبان کو کون پکڑے پھر ان میں بھی بے ایمان لوگ جن کو طعنہ دینے کے واسطے ذرا سا نکتہ بہت ہے آپ اس سوچ بچار ہی میں تھے ادھر حضرت زید نے طلاق بھی دے دی عدت گزرنے کے بعد آپ کی زیادہ رائے اسی طرف ٹھہری کی یہ پیغام بھیجا چاہیے چنانچہ آپ نے پیغام دیا۔
انہوں نے کہا میں اپنے پروردگار سے کہہ لوں اپنی عقل سے کچھ نہیں کرتی ان کو جو منظور ہو گا آپ ہی سامان کر دیں گے یہ کہہ کر وضو کر کے مصلے پر پہنچ نماز میں لگ لگیں اور نماز کے بعد دعا کی اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر پر آیت نازل کر دی کہ ہم نے ان کا نکاح آپ سے کر دیا آپ ان کے پاس تشریف لے آئے اور آیت سنا دی۔ وہ اور بیبیوں پر فخر کیا کرتیں کہ تمہارا نکاح تمہارے ماں باپ نے کیا اور میرا نکاح اللہ تعالی نے کیا اور پہلے پہل جو پردے کا حکم ہوا ہے وہ ان ہی کی شادی میں ہوا اور یہ بی بی بڑی سخی تھیں۔ دستکار بھی تھیں اپنی دستکاری کی آمدنی سے خیرات کیا کرتیں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سب بیبیوں نے مل کر ہمارے حضرت سے پوچھا کہ آپ کے بعد سب سے پہلے کون بی بی دنیا سے جا کر آپ سے ملے گی آپ نے فرمایا جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے عربی بول چال میں لمبے ہاتھ والا کہتے ہیں سخی کو مگر بیبیوں کی سمجھ میں نہ یا وہ سمجھیں اسی ناپ کے لمبان کو سب نے ایک لکڑی سے اپنے اپنے ہاتھ ناپنے شروع کےج تو سب سے زیادہ لمبے ہاتھ نکلے حضرت سودہ کے مگر مریں سب سے پہلے حضرت زینب کو اسی وقت سمجھ میں آیا کہ اوہو یہ مطلب تھا غرض ان کی سخاوت اللہ و رسول کے نزدیک بھی مانی ہوئی تھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ میں نے حضرت زینب سے اچھی کوئی عورت نہیں دیکھی دین میں بڑی کامل خدا سے بہت ڈرنے والی بات کی بڑی سچی رشتہ داروں سے بڑی سلوک کرنے والی آخر رات بہت کرنے والی خیرات کرنے کے واسطے دستکاری میں بڑی محنت ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں فرمایا کہ دل میں بہت عاجزی رکھنے والی۔ خدا کے سامنے گڑ گڑانے والی۔ فائدہ بیبیو تم نے سن لی سخاوت کی بزرگی اور دستکاری کی خوبی اور ہر کام میں خدا سے رجوع کرنا دیکھو کبھی اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو ذلت مت سمجھنا ہنر پیشہ کو کبھی عیب مت جاننا۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ بھی ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی ہیں جب مکہ میں کافروں نے مسلمانوں کو ستایا اور مدینے جانے کا اس وقت تک حکم نہ ہوا تھا۔ اس وقت بہت سے مسلمان حبشہ کے ملک کو چلے گئے تھے وہاں کا بادشاہ جس کو نجاشی کہتے ہیں نصرانی مذہب رکھتا تھا مگر مسلمانوں کے جانے کے بعد وہ مسلمان ہو گیا غرض جو حبشہ گئے تھے ان ہی میں حضرت ام حبیبہ بھی تھیں یہ بیوہ ہو گئیں تو نجاشی بادشاہ نے ایک خواص جس کا نام ابرہہ تھا ان کے پاس بھیجی کہ میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیغام دیتا ہوں انہوں نے منظور کیا اور انعام مںک ابرہہ کو چاندی کے دو کنگن اور کچھ انگوٹھی چھلے دیئے ان کے پہلے شوہر کا نام عبیداللہ بن جحش تھا۔ فائدہ کیسی دیندار تھیں کہ دین کی حفاظت کے لیے گھر سے بے گھر ہوئیں آخر اللہ تعالی نے ان کو محنت کے بدلے کیسی راحت اور کیسی عزت دی کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا اور بادشاہ نے اس کا بندوبست کیا۔ بیبیو دین کا جب موقع آ جائے کبھی دنیا کے آرام کا یا نام کا یا مال کا یا گھر باہر کا لالچ مت کرنا سب چیزیں دین پر قربان ہیں۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ بھی ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی ہیں یہ ایک لڑائی میں جو بنی مصطلق کے نام سے مشہور ہے۔ کافروں کے شہر سے قید ہو کر آئی تھیں اور ایک صحابی ثابت ابن قیس یا ان کے کوئی چچا زاد بھائی تھے یہ ان کے حصے میں لگی تھیں انہوں نے اپنے آقا سے کہا کہ میں تم کو اتنا روپیہ دوں اور تم مجھ کو غلامی سے آزاد کر دو انہوں نے منظور کیا وہ حضرت صلی اللہ علہے وسلم کے پاس آئیں کہ کچھ روپے کا سہارا لگا دیں آپ نے ان کی دینداری اور غریبی پر رحم کھایا اور فرمایا کہ اگر تم کہو تو روپیہ سب میں ادا کر دوں اور تم سے نکاح کر لوں انہوں نے جی جان سے قبول کر لیا۔ غرض نکاح ہو گیا۔ جب لوگوں کو نکاح کا حال معلوم ہوا تو ان کے کنبے قبیلے کے اور بھی بہت قیدی دوسرے مسلمانوں کے قبضے میں تھے۔ سب نے قیدیوں کو غلامی سے آزاد کر دیا کہ اب ان کا ہمارے حضرت سے سسرالی رشتہ ہو گیا اب ان کو غلام بنانا بے ادبی ہے۔ حضرت عائشہ کا قول ہے کہ ہم کو ایسی کوئی عورت معلوم نہیں ہوئی کہ جس سے اس کی برادری کو اتنا بڑا فائدہ پہنچا ہو ان کے پہلے شوہر کا نام مسباح بن صفوان تھا۔ فائدہ دیکھو دینداری عجیب نعمت ہے کہ اس کی بدولت باوجود لونڈی ہونے کے حضرت کی بی بی بنیں۔ بیبیو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی عزت دار نہیں جب آپ نے لونڈی کو بی بی بنایا عیب نیںر سمجھا تو اگر کوئی گھٹیا جگہ کسی مصلحت سے نکاح کر لے یا پردیس سے کسی کو لے آئے تو تم بھی اس کو حقیر مت سمجھو یہ بہت برا مرض ہے اور گناہ بھی ہے دیکھو صحابہ کا ادب کہ ان بی بی کی عزت کتنی بڑی کی ان کی برادری کی ذلت بھی گوارا نہیں کی آج کل کیسی جہالت ہے کہ خود ایسی بی بی کی بھی عزت نہیں کرتیں چاہے کیسی ہی دیندار ہو بھلا اس کی برادری تو کیا خاک عزت کرنے کی امید ہے
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ بھی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی ہیں ایک بہت بڑے حدیث کے جاننے والے عالم یوں کہتے ہیں کہ ان کا نکاح حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح ہوا کہ انہوں نے یوں عرض کیا تھا کہ میں اپنی جان آپ کو بخشتی ہوں۔ یعنی بدون مہر کے آپ کے نکاح میں نا منظور کرتی ہوں اور آپ نے قبول فرما لیا تھا۔ اس طرح کا نکاح خاص ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو درست تھا۔ اور ایک بہت بڑے تفسیر کے جاننے والے عالم یوں کہتے ہیں کہ جس آیت میں ایسے نکاح کا حکم ہے وہ اول انہی بی بی کے لیے اتری ہے ان کے پہلے شوہر کا نام حویطب تھا۔ فائدہ دیکھو کیسی دین کی عاشق بیبیاں تھیں کہ حضرت کی خدمت کو عبادت سمجھ کر مہر کی بھی پرواہ نہیں کی۔ حالانکہ اس زمانہ میں مہر نقدا نقد ہی مل جایا کرتا تھا۔ ہمارے زمانہ کی طرح قیامت یا موت کا ادھار نہ تھا۔ بیبیو بس دین ہی کو ہمیشہ اصلی دولت سمجھو دنیا سے ایسی محبت مت رکھو کہ اپنے وقت کو اپنے خیال کو اسی میں کھپا دو رات دن اسی کا دھندا رہے مل جائے تو باغ باغ ہو جاؤ چاہے ثواب ہو چاہے گناہ نہ ملے تو غم سوار ہو جائے شکایت کرتی پھرو ہوت والوں پر حسد کرنے لگو نیت ڈانوا ڈول کرنے لگو۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ بھی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی ہیں۔ خیبر ایک بستی ہے وہاں یہودیوں سے مسلمانوں کی لڑائی ہوئی تیا یہ بی بی اس لڑائی میں قید ہو کر آئی تھیں اور ایک صحابی کے حصے میں لگ گئی تھیں حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مول لے کر آزاد کر دیا اور ان سے نکاح کر لیا یہ بی بی حضرت ہارون پیغمبر علیہ السلام کی اولاد میں ہیں اور نہایت بردبار عقل مند خوبیوں کی بھری ہیں ان کی بردباری ایک قصہ سے معلوم ہوتی ہے کہ ان کی ایک لونڈی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے جھوٹ موٹ ان کی دو باتوں کی چغلی کھائی ایک تو یہ کہ ان کو اب تک سینچر کے دن سے محبت ہے یہ دن یہودیوں میں بڑی تعظیم کا تھا مطلب یہ تھا کہ ان میں مسلمان ہو کر بھی اپنے پہلے مذہب یہودی ہونے کا اثر باقی ہے تو یوں سمجھو کہ مسلمان پوری نہیں ہوئیں۔ دوسری بات یہ کہی کہ یہودیوں کو خوب دیتی لیتی ہیں۔ حضرت عمر نے حضرت صفیہ سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ پہلی بات تو بالکل جھوٹ ہے جب سے میں مسلمان ہوئی ہوں اور جمعہ کا دن خدائے تعالی نے دے دیا ہے سینچر سے دل کو لگاؤ بھی نہیں رہا۔ رہی دوسری بات وہ البتہ صحیح ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ لوگ میرے رشتہ دار ہیں اور رشتہ داروں سے سلوک کرنا شرع کے خلاف نہیں پھر اس لونڈی سے پوچھا کہ تجھ کو جھوٹی چغلی کھانے کو کس نے کہا تھا۔ کہنے لگی شیطان نے آپ نے فرمایا جا تجھ کو غلامی سے آزاد کیا۔ ان کے پہلے شوہر کا نام کنانہ بن ابی الحقیق تھا۔ فائدہ بیبیو دیکھو بردباری اسے کہتے ہیں تم کو بھی چاہیے کہ اپنی ماما نوکر چاکر کی خطا اور قصور معاف کرتی رہا کرو بات بات میں بدلہ لینا کم حوصلگی ہے اور دیکھو سچی کیسی تھیں کہ جو بات تھی صاف کہہ دی اس کو بنایا نہیں جیسے آج کل بعضوں میں عادت ہے کہ کبھی اپنے اوپر بات نہیں آنے دیتیں۔ ہیر پھیر کر کے اپنے کو الزام سے بچاتی ہیں بات کا بنانا بھی بری بات ہے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ بی بی ہمارے حضرت پبرمہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہیں اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بہت محبت تھی ان کا نکاح حضرت ابو العاص بن الربیع سے ہوا تھا۔ جب یہ مسلمان ہو گئیں اور شوہر نے مسلمان ہونے سے انکار کیا تو ان سے علاقہ قطع کر کے انہوں نے مدینہ کو ہجرت کی تھوڑے دنوں پےچھد ان کے شوہر بھی مسلمان ہو کر مدینہ آ گئے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انہی سے نکاح کر دیا اور وہ بھی ان کو بہت چاہتے تھے جب یہ ہجرت کر کے مدینہ چلی تھیں راستے میں ایک اور قصہ ہوا کہ کہیں دو کافر مل گئے ان میں سے ایک نے ان کو دھکل دیا یہ ایک پتھر پر گر پڑیں اور ان کو کچھ امید تھی وہ بھی جاتی رہی اور اس قدر صدمہ پہنچا کہ مرتے دم تک اچھی نہ ہوئیں آخر اسی میں انتقال کیا فائدہ دیکھو کیسی ہمت اور دینداری کی بات ہے کہ دین کے واسطے اپنا وطن چھوڑ دیا خاوند کو چھوڑ دیا کافروں کے ہاتھ سے کییا تکلیف اٹھائی کہ اس مںس جان گئی مگر دین پر قائم رہیں بیبیو دین کے سامنے سب چیزوں کو چھوڑ دینا چاہیے اگر تکلیف پہنچے اس کو جھیلو اگر خاوند بد دین ہو کبھی اس کا ساتھ مت دو۔
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ بھی ہمارے حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہیں ان کا پہلا نکاح عتبہ سے ہوا جو ابو لہب کافر کا بیٹا تھا جس کی برائی سورۃ تبت میں آئی ہے جب یہ دونوں باپ بیٹے مسلمان نہ ہوئے اور باپ کے کہنے سے اس نے ان بی بی کو چھوڑ دیا تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہا سے کر دیا جب ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی لڑائی میں چلے ہیں اس وقت یہ بیمار تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کی خبر لینے کے واسطے مدینہ چھوڑ گئے تھے اور فرمایا تھا کہ تم کو بھی جہاد والوں کے برابر ثواب ملے گا اور جہاد والوں کے ساتھ ان کا حصہ بھی لگایا جس روز لڑائی فتح کر کے مدینہ میں آئے ہیں اسی روز ان کا انتقال ہو گیا۔ فائدہ دیکھو ان کی کیسی بزرگی ہے کہ ان کی خدمت کرنے کا ثواب جہاد کے برابر ٹھہرا۔ یہ بزرگی ان کے دیندار ہونے کی وجہ سے ہے بیبیو اپنے دین کو پکا کرنے کا خیال ہر وقت رکھو کوئی گناہ نہ ہونے پائے اس سے دین میں کمزوری آ جاتی ہے۔
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ بھی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہیں ان کا پہلا نکاح عتیبہ سے ہوا تھا جو اسی کافر ابولہب کا دوسرا بیٹا ہے ابھی رخصت نہ ہونے پائی تھی کہ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبری مل گئی وہ دونوں باپ بیٹے مسلمان نہ ہوئے اور اس نے بھی باپ کے کہنے سے ان بی بی کو چھوڑ دیا جب ان کی بہن حضرت رقیہ کا انتقال ہو گیا تھا تو ان کا نکاح حضرت عثمان سے ہو گیا اور جب حضرت رقیہ کا انتقال ہو گیا تھا اتفاق سے اسی زمانہ میں حضرت حفصہ بھی بیوہ ہو گئیں تھیں ان کے باپ حضرت عمر نے ان کا نکاح حضرت عثمان سے کرنا چاہا ان کی کچھ رائے نہ ہوئی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ حفصہ کو تو عثمان سے اچھا خاوند بتلاتا ہوں اور عثمان کو حفصہ سے اچھی بی بی بتلاتا ہوں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ سے نکاح کر لیا اور حضرت عثمان کا حضرت ام کلثوم سے کر دیا۔ فائدہ آپ نے ان کو اچھا کہا اور پیغمبر کسی کو اچھا کہیں یہ ایمان کی بدولت ہے بیبیو ایمان اور دین درست رکھو۔
حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ عمر میں سب بہنوں سے چھوٹی اور رتبہ میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ پیاری بیٹی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی جان کا ٹکڑا فرمایا ہے اور ان کو سارے جہان کی عورتوں کا سردار فرمایا ہے اور یوں بھی فرمایا ہے کہ جس بات سے فاطمہ کو رنج ہوتا ہے اس سے مجھ کو بھی رنج ہوتا ہے اور جس بیماری میں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات فرمائی ہے اس بیماری میں آپ نے سب سے پوشیدہ صرف ان ہی کو اپنی وفات نزدیک ہو جانے کی خبر دی تھی۔ جس پر یہ رونے لگیں آپ نے پھر ان کے کان میں فرمایا کہ تم رنج مت کرو ایک تو سب سے پہلے تم میرے پاس چلی آؤ گی دوسرے جنت میں سب بیبیوں کی سردار ہو گی یہ سن کر ہنسنے لگیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں نے کتنا ہی پوچھا کہ یہ کیا بات تھی انہوں نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ بھید بتلایا اور حضرت علی سے ان کا نکاح ہوا ہے اور بھی حدیثوں میں ان کی بڑی بڑی بزرگیاں آئی ہیں۔ فائدہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ساری محبت اور خصوصیت اس لیے تھی کہ یہ دیندار اور صابر شاکر سب سے زیادہ تھیں بیبیو دین اور صبر اور شکر کو اختیار کرو تم بھی خدا اور رسول کی پیاری بن جاؤ۔ فائدہ جہاں سب سے پہلے پہل پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا حال آیا ہے وہاں بھی ان سب بیبیوں اور سب بیٹیوں کے نام چکے ہیں۔ فائدہ بیبیو ایک اور بات سوچنے کی ہے تم نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ بیبیوں اور چار بیٹوں کا حال پڑھا ہے اس سے تم کو یہ بھی معلوم ہوا ہو گا کہ بیبیوں میں بجز حضرت عائشہ کے سب بیبیوں کا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسرا نکاح ہوا ہے اور بیٹیوں میں بجز حضرت زینب اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے باقی دو کا حضرت عثمان سے دوسرا نکاح ہوا ہے۔ یہ بارہ بیبیاں وہ ہیں کہ دنیا میں کوئی عورت عزت اور رتبے میں ان کے برابر نہںہ۔
اگر دوسرا نکاح کوئی عیب کی بات ہوتی تو یہ بیبیاں توبہ توبہ کیا عیب کی بات کرتیں افسوس ہے کہ بعضے کم سمجھ آدمی اس کو عیب سمجھتے ہیں بھلا جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کی بات کو عیب سمجھا تو ایمان کہاں رہا یہ کیسے مسلمان ہیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو عجیب اور کافروں کا طریقہ کو عزت کی بات سمجھیں کیونکہ یہ طریق بیوہ عورت کو بٹھلائے رکھے کا خاص ہندوستان کے کافروں کا ہے اور بھی سنو تم سے پہلے وقتوں کی بیواؤں میں بڑا فرق ہے ان کمبختی کی ماریوں میں جہالت تو تھی مگر اپنی برو کی بڑی حفاظت کرتی تھیں اپنے نفس کو مار دیتی تھیں ان سے کوئی بات اونچ نیچ کی نہیں ہونے پاتی تھی اور اب تو بیواؤں کو سہاگنوں سے زیادہ بناؤ سنگار کا حوصلہ ہوتا ہے اس لیے بہت جگہ ایسی نازک باتیں ہونے لگیں جو کہنے کے لائق نہیں اب تو بالکل بیوہ کے بٹھلانے کا زمانہ نہیں رہا کیونکہ نہ عورتوں میں پہلی سی شرم و حیا رہی اور نہ مردوں کی پہلی سی غیرت اور بیواؤں کے رنڈا پا کاٹنے اور ہر طرح سے ان کے کھانے کپڑے کی خبر لینے کا خالل رہا اب تو بھول کر بھی بیوہ کو بٹھلانا نہ چاہیے۔ اللہ تعالی سمجھ اور توفیق دیں۔ پہلی امتوں کی بیبیوں کے بعد یہاں تک حضرت کی گیارہ بیبیوں اور چار بیٹیوں کل پندرہ بیبیوں کا ذکر ہو گیا۔ اور ایسی بیبیوں کا ذکر آتا ہے جو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تھیں۔ ان میں بعضوں کو حضرت سے خاص خاص تعلق بھی ہیں۔
حضرت حلیمہ سعدیہ کا ذکر
ان بی بی نے ہمارے پیغمبر صلی اللہ علہق وسلم کو دودھ پلایا ہے اور جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف شہر پر جہاد کیا ہے اس زمانہ میں یہ بی بی اپنے شوہر اور بیٹے کو لے کر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تھیں آپ نے بہت تعظیم کی اور اپنی چادر بچھا کر اس پر ان کو بٹھلا دیا اور وہ سب مسلمان ہوئے۔ فائدہ دیکھو باوجودیکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا بڑا علاقہ تھا۔ مگر یہ جان گئیں کہ بدون دین ایمان کے فقط اس علاقہ سے بخشش نہ ہو گی اس لیے کر دین قبول کیا۔ بیبیو تم اس بھروسے مت رہنا کہ ہم فلانے پیر کی اولاد ہیں یا ہمارا فلانا بیٹا یا تو عالم حافظ ہے۔ یہ لوگ ہم کو بخشوا لیں گے یاد رکھو اگر تمہارے پاس خود بھی دین ہے تو یہ لوگ بھی کچھ اللہ میاں سے تمہارے واسطے کہہ سن سکتے ہیں نہیں تو ایسے علاقے کچھ بھی کام نہ آئیں گے۔
حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کا ذکر
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ان کے پاس ملنے جایا کرتے ایک بار حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے انہوں نے ایک پیالے میں کوئی پینے کی چیز دی خدا جانے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس وقت جی نہ چاہتا تھا یا آپ کا روزہ تھا آپ نے عذر کر دیا چونکہ پالنے رکھنے کا ان کو ناز تھا ضد باندھ کر کھڑی ہو گئیں اور بے جھجک کہہ رہی تھیں پینا پڑے گا اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم یوں بھی فرمایا کرتے کہ میری حقیقی ماں کے بعد ام ایمن میری ماں ہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کبھی کبھی ان کی زیارت کو جایا کرتے ان کو دیکھ کر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کر کے رونے لگتیں وہ دونوں صاحب بھی رونے لگے۔ فائدہ دیکھو کیسی بزرگی کی بات ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس جائیں ایسے بڑے بڑے صحابہ ان کی مدارات کریں یہ بزرگی اس وجہ سے تھی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی اور دین میں کامل تھیں بیبیو اب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت یہی ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت کرو اور عورتوں کو نیک باتیں بتلاؤ ان کو دین سکھاؤ اپنی اولاد کو نیکی کی تعلیم دو اور خود بھی دین میں مضبوط رہو انشاء اللہ تعالی تم کو بھی بزرگی کا حصہ مل جائے گا اور زیارت سے یوں مت سمجھ جائیو کہ یہ سب زیارت کرنے والوں کے سامنے بے پردہ ہو جاتی ہوں گی کسی کے پاس ارادہ کر کے جانا ور پاس بیٹھنا اگرچہ درمیان میں پردہ بھی ہو اور اچھی اچھی باتیں کہنا سننا بس یہی زیارت ہے۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا ذکر
یہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ ہیں اور ایک صحابی ہیں ابو طلحہ ان کی یہ بیوی ہیں اور ایک صحابی ہیں حضرت انس جو ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص خدمت گزار ہیں یہ ان کی ماں ہیں ایک طرح سے ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ ہیں اور ان کے ایک بھائی تھے صحابہ وہ ایک لڑائی میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شہید ہو گئے تھے ان سب باتوں کے سبب ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بہت خاطر کرتے تھے اور کبھی ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت میں بھی دیکھا تھا اور ان کا ایک عجیب قصہ آیا ہے کہ ان کا ایک بچہ تھا وہ بیمار ہو گیا اور ایک دن مر گیا رات کا وقت تھا اب ان کا صبر دیکھو یہ خیال کیا کہ اگر خاوند کو خبری کروں گی ساری رات بے چین ہوں گے کھانا دانہ نہ کھائیں گے بس چپ ہو کر بیٹھ رہیں آئے خاوند اور پوچھا بچہ کیسا ہے کہنی لگی آرام ہے اور جھوٹ بھی نہیں کہا مسلمان کے واسطے اس سے سے بڑھ کر کیا آرام ہو گا کہ اپنے اصلی ٹھکانے پر چلا جائے وہ سمجھے نہیں غرض ان کے سامنے کھانا لا کر رکھا انہوں نے کھانا کھایا پھر ان کو ان کی طرف خواہش ہوئی خدا کی بندی نے اس سے بھی عذر نہیں کاا جب ساری باتوں سے فراغت ہو چکی تو خاوند سے پوچھتی ہیں کہ اگر کوئی کسی کو مانگی چیز دے اور پھر اپنی چیز مانگنے لگے تو انکار کرنے کا کچھ حق خاص ہے انہوں نے کہا نہیں کہنے لگیں تو پھر بچہ کو صبر کرو وہ بڑے خفا ہوئے کہ مجھ کو جب ہی کیوں نہ خبر کی انہوں نے یہ سارا قصہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر بیان کیا آپ نے ان کے لیے دعا کی خدا کی قدرت اسی رات حمل رہ گیا اور بچہ پیدا ہوا عبداللہ اس کا نام رکھا گیا اور یہ عبداللہ عالم ہوئے اور ان کی اولاد میں بڑے بڑے عالم ہوئے۔
فائدہ بیبیو صرف ان سے سیکھو اور خاوند کو آرام پہنچانے کا سبق ان سے لو اور یہ جو مانگی ہوئی چیز کی مثال دی کیسی اچھی بات ہے اگر آدمی اتنی بات سمجھ لے تو کبھی بے صبری نہ کرے دیکھو اس صبر کی برکت کہ اللہ میاں نے اس بچے کا عوض کتنی جلدی دے دیا اور کیسا برکت کا عوض دیا جس کی نسل میں عالم فاضل ہوئے۔
حضرت ام حرام کا ذکر
یہ بھی صحابیہ ہیں اور حضرت ام سلیم جن کا ذکر ابھی گذرا ہے ان کی بہن ہیں یہ بھی ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی طرح کی خالہ ہیں ان کے یہاں بھی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جایا کرتے تھے ایک بار آپ نے ان کے گھر کھانا کھایا پھر نیند آ گئی سو گئے پھر ہنستے ہوئے جاگے انہوں نے وجہ پوچھی آپ نے فرمایا کہ میں نے اس وقت خواب میں اپنی امت کے لوگوں کو دیکھا کہ جہاد کے لیے جہاز میں سوار ہوئے جا رہے ہیں اور سامان لباس میں امیر اور بادشاہ معلوم ہوتے ہیں انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ دعا کیجیے خدائے تعالی مجھ کو بھی ان میں سے کر دے آپ نے دعا فرما دی پھر آپ کو نیند آ گئی تو اسی طرح پھر ہنستے ہوئے اٹھے اور اسی طرح کا خواب پھر بیان کیا اس خواب میں اسی طرح کے اور آدمی نظر آئے تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ دعا کر دیجیے اللہ تعالی مجھ کو ان میں سے کر دے آپ نے فرمایا کہ تم پہلو میں سے ہو۔ چنانچہ ان کے شوہر جن کا نام عبادہ تھا دریا کے سفر کے جہاد میں گئے یہ بھی ساتھ گئیں جب دریا سے اتری ہیں یہ کسی جانور پر سوار ہونے لگںد اس نے شوخی کی یہ گر گئیں اور جاں بحق ہوئیں۔ فائدہ حضرت صلی اللہ عیہن وسلم کی دعا قبول ہو گئی کیونکہ جب تک گھر لوٹ کر نہ آئے وہ سفر جہاد ہی کا رہتا ہے۔ اور جہاد کے سفر میں چاہے کسی طرح مر جائے اس میں شہید ہی کا ثواب ملتا ہے دیکھو کیسی دیندار تھیں کہ ثواب حاصل کرنے کے شوق میں جان کی بھی محبت نہیں کی خود دعا کرائی کہ مجھ کو یہ دولت ملے بیبیو تم بھی اس کا خیال رکھو اور دین کا کام کرنے میں اگر تھوڑی بہت تکلیف ہوا کرے اس سے گھبرایا مت کرو۔
حضرت ام عبد کا ذکر
ایک صحابی ہیں بہت بڑے حضرت عبداللہ بن مسعود یہ بی بی ان کی ماں ہیں اور خود بھی صحابیہ ہیں ان کو ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے کاموں میں ایسا دخل تھا کہ دیکھنے والے یوں سمجھتے تھے کہ یہ بھی گھر والوں میں ہی ہیں۔ فائدہ اس قدر خصوصیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ وسلم کے گھر میں یہ فقط دین کی بدولت تھی۔ بیبیو اگر دین کو سنوارو گی تو تم کو بھی قیامت میں حضرت صی اللہ علیہ وسلم کی نزدیکی ہو گی۔
حضرت ابوذر غفاری کی والدہ کا ذکر
یہ ایک صحابی ہیں جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبر ہونے کی خبر مشہور ہوئی اور کافروں نے جھٹلایا تو یہ بزرگ اپنے وطن سے مکہ میں اس بات کی تحقیق کرنے کو آئے تھے یہاں کا حال دیکھ بھال کر مسلمان ہو گئے جب لوٹ کر اپنے گھر گئے ان کی ماں نے سارا قصہ سنا کہنے لگیں مجھ کو تمہارے دین سے کوئی انکار نہیں میں بھی مسلمان ہوتی ہوں۔ فائدہ دیکھو طبیعت کی پاکی یہ ہے کہ جب سچی بات معلوم ہو گئی اس کے ماننے میں باپ دادا کے طریقہ کا خیال نہیں کیا۔ بیبیو تم بھی جب شرع کی بات معلوم ہو جایا کرے اس کے مقابلہ میں خاندانی رسموں کا نام مت لیا کرو۔ خوشی خوشی دین کی بات مان لیا کرو اور اسی کا برتاؤ کیا کرو۔
حضرت ابوہریرہ کی والدہ کا ذکر
یہ ایک صحابی ہیں اپنی ماں کو دین قبول کرنے کے واسطے سمجھایا کرتے ایک دفعہ ماں نے دین ایمان کو کوئی ایسی بات کہہ دی کہ ان کو بڑا صدمہ ہوا یہ روتے ہوئے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ حضرت میری ماں کے واسطے دعا کیجیے کہ خدا اس کو ہدایت کرے آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت کر یہ خوش خوش گھر پہنچے تو دروازہ بند تھا اور پانی گرنے کی آواز رہی تھی جیسے کوئی نہاتا ہو ان کے آنے کی آہٹ سن کر ماں نے پکار کر کہا وہاں ہی رہیو نہا دھو کر کواڑ کھولے اور کہا اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمدا رسول اللہ۔ ان کا مارے خوشی کے یہ حال ہو گیا کہ بے اختیار رونا شروع کیا اور اسی حال میں جا کر سارا قصہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا آپ نے اللہ تعالی کا شکر کیا انہوں نے کہا یا رسول اللہ اللہ میاں سے دعا کر دیجئے کہ مسلمانوں سے ہم ماں بیٹوں کو محبت ہو جائے اور مسلمانوں کو ہم دونوں سے محبت ہو جائے آپ نے دعا فرما دی۔ فائدہ دیکھو نیک اولاد سے کتنا بڑا فائدہ ہے۔ بیبیو اپنے بچوں کو بھی دین کا علم سکھاؤ ان سے تمہارا دین بھی سنورے گا۔
حضرت اسماء بنت عمیس کا ذکر
یہ بی بی صحابی ہیں جب مکہ میں کافروں نے مسلمانوں کو بہت ستایا اس وقت بہت مسلمان ملک حبشہ کو چلے گئے تھے ان میں یہ بھی تھیں پھر جب حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لے آئے تو وہ سب مسلمان مدینہ گئے تھے ان میں یہ بھی تھیں آپ نے ان کو خوشخبری دی تھی کہ تم نے دو ہجرتیں کی ہیں تم کو بہت ثواب ہو گا۔ فائدہ دیکھو دین کے واسطے کس طرح گھر سے بے گھر ہوئیں تب تو ثواب لوٹے۔ بیبیو اگر دین کے واسطے کچھ محنت اٹھانا پڑے اکتائیو مت۔
حضرت حذیفہ کی والدہ کا ذکر
حضرت حذیفہ صحابی ہیں یہ فرماتے ہیں کہ میری والدہ نے ایک بار مجھ سے پوچھا تم کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے ہوئے کتنے دن ہوئے میں نے بتلایا اتنے دن ہوئے مجھ کو برا بھلا کہا میں نے کہا اب جاؤں گا اور مغرب آپ ہی کے ساتھ پڑھوں گا اور آپ سے عرض کروں گا کہ میرے لیے اور تمہارے لیے بخشش کی دعا کریں چنانچہ میں گیا اور مغرب پڑھی عشاء پڑھی جب عشاء پڑھ کر آپ چلے میں ساتھ ہو لیا۔ میری آواز سن کر فرمایا حذیفہ ہے میں نے کہا جی ہاں فرمایا کیا کام ہے اللہ تمہاری اور تمہاری ماں کی بخشش کریں۔ فائدہ دیکھو کیسی اچھی بی بی تھیں اپنی والدہ کے لیے ان باتوں کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے یا نہیں بیبیو تم بھی اپنی اولاد کو تاکید رکھا کرو کہ بزرگوں کے پاس جا کر بیٹھا کریں ان سے دین کی باتیں سیکھا کریں اچھی صحبت کی برکت حاصل کیا کریں۔
حضرت فاطمہ بنت خطاب کا ذکر
یہ حضرت عمر کی بہن ہیں حضرت عمر سے پہلے مسلمان ہو چکی ہیں ان کے خاوند بھی سعید بن زید مسلمان ہو چکے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے یہ دونوں حضرت عمر کے ڈر کے مارے اپنا اسلام پوشیدہ رکھتے تھے ایک دفعہ ان کے قرآن پڑھنے کی آواز حضرت عمر نے سن لی اور ان دونوں کے ساتھ بڑی سختی کی لیکن بہنوئی تو بھلا مرد تھے ہمت ان بی بی کی دیکھو کہ صاف کہا کہ بے شک ہم مسلمان ہیں اور قرآن پڑھ رہے تھے چاہے مارو چاہے چھوڑو حضرت عمر نے کہا مجھ کو بھی قرآن دکھلاؤ بس قرآن کا دیکھنا تھا اور اس کا سننا تھا فورا ایمان کا نور ان کے دل میں داخل ہوا اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوئے۔ فائدہ بیبیو تم کو بھی دین اور شرع کی باتوں مںی ایسی ہی مضبوطی چاہیے یہ نہیں کہ ذرا سے روپے کے واسطے شرع کے خلاف کر لیا برادری کنبے کے خیال سے شروع کے خلاف رسمیں کر لیں اور جو بات بھی شرع کے خلاف ہو کسی طرح اس کے پاس مت جاؤ۔
ایک انصاری عورت کا ذکر
ابن اسحاق سے روایت ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خدا کی لڑائی میں ایک انصاری بی بی کا خاوند اور باپ بھائی سب شہید ہو گئے جب اس نے سنا تو اول پوچھا کہ یہ بتلاؤ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں لوگوں نے کہا خیریت سے ہیں کہنے لگیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح سالم ہیں پھر کسی کا کیا غم۔ فائدہ سبحان اللہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیسی محبت تھی بیبیو اگر تم کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کرنی منظور ہے تو آپ کی شرع کی پوری پوری پیروی کرو اس سے محبت ہو جائے گی اور محبت کی وجہ سے بہشت میں حضرت کے پاس درجہ ملے گا
حضرت ام فضل لبابہ بنت حارث کا ذکر
یہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی ہیں اور حضرت عباس کی بی بی اور عبداللہ بن عباس کی ماں ہیں قرآن میں جو آیا ہے کہ جو مسلمان کافروں کے ملک میں رہنے سے خدا کی عبادت نہ کر سکے اس کو چاہیے کہ اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور جا بسے اگر ایسا نہ کرے گا تو اس کو بہت گناہ ہو گا البتہ بچے اور عورتیں جن کو دوسری جگہ کا رستہ معلوم نہ اتنی دلیری اور ہمت وہ معاف ہیں تو حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ان ہی کم ہمتوں میں میں اور میری ماں ہیں وہ عورت تھیں اور میں بچہ تھا۔ فائدہ دیکھو یہ ان کی نیت کی خوبی تھی کہ دل سے کافروں میں رہنا پسند نہ تھا لیکن لاچار تھیں اس واسطے اللہ میاں کی ان پر رحمت ہو گئی کہ گناہ سے بچا لیا بیبیو تم بھی دل سے ہمیشہ دین کے موافق عمل کرنے کی پکی نیت رکھا کرو پھر تمہاری لاچاری کے معاف ہونے کی امید ہے اور جو دل ہی سے دین کی بات کا ارادہ نہ کیا تو پھر گناہ سے نہیں بچ سکتیں۔
حضرت ام سلیط کا ذکر
ایک دفعہ حضرت عمر مدینہ کی بیبیوں کو کچھ چادریں تقسیم کر رہے تھے ایک چادر رہ گئی آپ نے لوگوں سے صلاح پوچھی کہ بتلاؤ کس کو دوں لوگوں نے کہا حضرت علی کی بیٹی ام کلثوم جو آپ کے نکاح میں ہیں ان کو دے دیجئے آپ نے فرمایا نہیں بلکہ یہ ام سلیط کا حق ہے یہ بی بی انصار میں کی ہیں اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت ہیں حضرت عمر نے فرمایا کہ احد کی لڑائی میں ان کا حال یہ تھا کہ پانی کی مشکیں ڈھوتی پھرتی تھیں مسلمانوں کے پینے کھانے کے واسطے اسی طرح ایک بی بی تھیں خولہ وہ تو لڑائی میں تلوار لے کر لڑتی تھیں۔ فائدہ دیکھو خدا کے کام میں کیسی ہمت کی تھیں جب ہی تو حضرت عمر نے اتنی قدر کی۔ اب کم ہمتوں کا یہ حال ہے کہ نماز بھی پانچ وقت کی ٹھیک نہیں پڑھی جاتی۔
حضرت ہالہ بنت خویلد کا ذکر
یہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی اور حضرت خدیجہ کی بہن ہیں یہ ایک بار حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور دروازے سے باہر کھڑے ہو کر آنے کی اجازت چاہی چونکہ آواز اپنی بہن کی سی تھی اس واسطے آپ حضرت خدیجہ کا خیال کر کے چونک سے گئے اور فرمانے لگے اے اللہ یہ ہالہ ہو۔ فائدہ اس دعا سے معلوم ہوا کہ آپ کو ان سے محبت تھی یوں تو سالی کا رشتہ بھی ہے مگر بڑی وجہ آپ کی محبت کی صرف دینداری ہے بیبیو دین دار بن جاؤ تم کو بھی اللہ اور رسول چاہنے لگیں۔
حضرت ہند بنت عتبہ کا ذکر
حضرت معاویہ جو ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سالے ہیں یہ ان کی ماں ہیں انہوں نے ایک بار ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مسلمان ہونے سے پہلے میرا یہ حال تھا کہ آپ سے زیادہ کسی کی ذلت نہ چاہتی تھی اور اب یہ حال ہے کہ آپ سے زیادہ کسی کی عزت نہیں چاہتی آپ نے فرمایا میرا بھی یہی حال ہے۔ فائدہ اس سے ایک تو ان کا سچا ہونا معلوم ہوا دوسرے یہ معلوم ہوا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کو محبت تھی اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ محبت تھی بیبیو تم بھی سچ بولا کرو۔ اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھو اور ایسے کام کرو کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے محبت ہو جائے۔
حضرت ہند بنت عتبہ کا ذکر
حضرت معاویہ جو ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سالے ہیں یہ ان کی ماں ہیں انہوں نے ایک بار ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مسلمان ہونے سے پہلے میرا یہ حال تھا کہ آپ سے زیادہ کسی کی ذلت نہ چاہتی تھی اور اب یہ حال ہے کہ آپ سے زیادہ کسی کی عزت نہیں چاہتی آپ نے فرمایا میرا بھی یہی حال ہے۔ فائدہ اس سے ایک تو ان کا سچا ہونا معلوم ہوا دوسرے یہ معلوم ہوا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کو محبت تھی اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ محبت تھی بیبیو تم بھی سچ بولا کرو۔ اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھو اور ایسے کام کرو کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے محبت ہو جائے۔
حضرت ام خالد کا ذکر
جب لوگ حبشہ کو ہجرت کر کے گئے تھے ان میں یہ بھی تھیں اس زمانہ میں بچی تھیں وہاں سے لوٹ کر جب مدینہ کو آئیں تو ان کے باپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور یہ بھی ساتھ آئیں ایک زرد کرتہ پہنے ہوئے تھیں آپ کے پاس ایک چھوٹی سی چادر بوٹے دار رکھی تھی آپ نے ان کو اڑھا دی اور فرمایا بڑی اچھی ہے بڑی اچھی ہے پھر یہ دعا کی کہ گھس گھس پرانی ہو اس دعا کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ تمہاری بڑی عمر ہو لوگوں کا بیان ہے کہ جتنی عمر ان کی ہوئی ہم نے کسی عورت کی نہیں سنی۔ لوگوں میں چرچا ہوا کرتا تھا کہ فلانی بی بی کی اتنی زیادہ عمر ہے یہ بچی تو تھیں ہی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت سے کھیلنے لگیں پاب نے ڈانٹا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رہنے دو کیا ڈر ہے۔ فائدہ بڑی خوش قسمت تھیں بیبیو دین کی چادر یہی نبی کی چادر ہے۔ جیسا کہ قرآن میں پرہیزگاری کو لباس فرمایا ہے اگر اس دولت کو لینا چاہتی ہو تو دین اور پرہیزگاری اختیار کرو۔
حضرت صفیہ کا ذکر
یہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہیں جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ احد کی لڑائی میں شہید ہو گئے آپ نے یہ فرمایا کہ مجھ کو صفیہ کے صدمہ کا خیال ہے ورنہ حمزہ کو دفن نہ کرتا درندے کھا جاتے اور قیامت میں درندوں کے پیٹ میں سے ان کا حشر ہو گا۔ فائدہ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا بہت خیال تھا کہ اپنے ارادے کو ان کی خاطر سے چھوڑ دیا۔ بیبیو یہ خیال ان کی دینداری کی وجہ سے تھا تم بھی دیندار بنو تا کہ تم بھی اس لائق ہو جاؤ کہ پغمبرر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تم سے بھی راضی رہیں۔
حضرت ابو الہثیم کی بی بی کا ذکر
یہ ایک صحابی ہیں ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے حال پر ایسی مہربانی تھی کہ ایک بار آپ پر فاقہ تھا جب بھوک کی بہت شدت ہوئی آپ ان کے گھر بے تکلف تشریف لے گئے میاں تو گھر تھے نہیں میٹھا پانی لینے گئے تھے ان بی بی نے آپ کی بہت خاطر کی۔ پھر میاں بھی آ گئے تھے وہ اور بھی زیادہ خوش ہوئے اور سامان دعوت کیا۔ فائدہ اگر ان بی بی کے اخلاص پر آپ کو اطمینان نہ ہوتا تو جیسے میاں گھر نہ تھے آپ لوٹ آتے معلوم ہوا کہ آپ جانتے تھے کہ یہ بھی خوب خوش ہیں کسی کا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے خوش ہونا اور پیغمبر کا کسی کو اچھا سمجھنا یہ تھوڑی بزرگی نہیں ہے بیبیو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مہمان تھے تم بھی مہمانوں کے آنے سے خوش ہوا کرو تنگ دل مت ہوا کرو۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر کا ذکر
یہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی اور حضرت عائشہ کی بہن ہیں جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ کو چلے ہیں جس تھیلی میں ناشتہ تھا اس کے باندھنے کو کوئی چیز نہ ملی انہوں نے فورا اپنا کمر بند بیچ سے چیڑ ڈالا ایک ٹکڑا کمر بند رکھا دوسرے ٹکڑے سے ناشتہ باندھ دیا۔ فائدہ ایسی ہمت بڑی دیندار کو ہوتی ہے کہ اپنے ایسے کام کی چیز آپ کے آرام کے لیے ناقص کر دی بیبیو دین کی محبت ایسی ہی چاہیے کہ اس کے سنوارنے میں اگر دنیا بگڑ جائے کچھ پروانہ کریں۔
حضرت ام رومان کا ذکر
یہ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساس اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ماں ہیں حضرت عائشہ پر ایک منافق نے توبہ توبہ تہمت لگائی تھی جس میں بعض بھولے سیدھے مسلمان بھی شامل ہو گئے تھے اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے کچھ چپ چپ ہو گئے تھے پھر اللہ تعالی نے حضرت عائشہ کی پاکی قرآن شریف میں اتاری اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ آیتیں پڑھ کر گھر میں سنائیں اس وقت حضرت ام رومان نے حضرت عائشہ کو کہا اٹھو اور حضرت کی شکر گزاری کرو اور اس سے پہلے بھی حالانکہ ان کو اپنی بیٹی کا بڑا صدمہ تھا مگر کیا ممکن ہے کہ کوئی ذرا سی بات بھی ایسی کہی ہو جس سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت ٹپکتی ہو۔ فائدہ عورتوں سے ایسا تحمل اور ضبط بہت تعجب کی بات ہے ورنہ ایسے وقت میں کچھ نہ کچھ منہ سے نکل ہی جاتا ہے مثلاً یہی کہہ دیتیں کہ افسوس میری بیٹی سے بے وجہ کھینچ گئے خاص کر جب پاکی ثابت ہو گئی اس وقت تو ضرور کچھ نہ کچھ غصہ اور رنج ہوتا کہ لو ایسی پاک پر شبہ تھا رنج و تکرار کے وقت بیٹی کو بڑھاوے مت دیا کرو اس کی طرف ہو کر سسرال والوں سے مت لڑا کرو۔ اس قصہ میں ایک اور بی بی کا ذکر کیا ہے جن کے بیٹے ان ہی تہمت لگانے والوں میں بھولے پن سے شامل ہو گئے تھے ان بی بی نے ایک موقع پر ایک بیٹے ہی کو کوسا اور حضرت عائشہ کی طرف دار رہیں یہ بی بی ام مسطح کہلاتی ہیں دیکھو حق پرستی یہی ہوتی ہے کہ بیٹے کی بات کی پچ نہیں کی بلکہ سچی بات کی طرف رہیں اور بیٹے کو برا کہا۔
حضرت ام عطیہ کا ذکر
یہ بی بی صحابہ ہیں اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ لڑائیوں میں گئیں اور وہاں بیماروں زخمیوں کا علاج اور مرہم پٹی کرتی تھیں اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر محبت تھی کہ جب کبھی آپ کا نام لیتیں تو یوں بھی ضرور کہتیں کہ میرا باپ۔ آپ پر قربان۔ فائدہ بیبیو دین کے کاموں میں محنت کرو اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی محبت رکھو۔
حضرت بریرہ کا ذکر
یہ ایک شخص کی لونڈی تھیں پھر ان کو حضرت عائشہ نے خرید کر آزاد کر دیا یہ انہی کے گھر رہتیں اور حضرت عائشہ اور ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتیں ایک بار ان کے واسطے کہیں سے گوشت آیا تھا ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مانگ کر نوش فرمایا تھا۔ فائدہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنا کتنی بڑی خوش قسمتی ہے اور ان کی محبت پر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا بھروسہ تھا جب ہی تو ان کی چیز کھا لی اور یہ سمجھے کہ یہ خوش ہوں گی بیبیو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت یہی ہے کہ دین کی خدمت کرو اور یہی محبت ہے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔
فاطمہ بنت ابی حبیش اور حمنہ بنت ابی جحش اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی بی بی زینب کا ذکر ان بیبیوں کا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلے پوچھنے کے لیے گھر سے آنا حدیثوں میں آیا ہے اور اسی واسطے ہم نے تینوں کا نام ساتھ ہی لکھ دیا کہ ان کا حال ایک ہی سا ہے۔ پہلی بی بی نے استحاضہ کا مسئلہ پوچھا دوسری بی بی ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی اور حضرت زینب کی بہن ہیں انہوں نے بھی استخاصہ کا مسئلہ پوچھا تھا اور تیسری بی بی نے صدقہ دینے کا مسئلہ پوچھا تھا عبداللہ بن مسعود ایک بہت بڑے صحابی ہیں یہ ان کی بی بی ہیں۔ فائدہ بیبیو دین کا شوق ایسا ہوتا ہے تم کو بھی جو مسئلہ معلوم نہ ہوا کرے ضرور پرہیز گار عالموں سے پوچھ لیا کرو اگر کوئی شرم کی بات ہوئی ان عالموں کی بیویوں سے کہہ دیا انہوں نے پوچھ لیا۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں اور بیٹیوں کے بعد یہاں تک ان پچیس عورتوں کے ذکر ہوئے جو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھیں اور بھی ایسی بہت بیبیوں کے حالات کتابوں میں لکھے ہیں مگر ہم نے اتنا ہی لکھا ہے کہ کتاب بڑھ نہ جائے گے ان بیبیوں کا ذکر آتا ہے جو حضرت صلی اللہ علہی وسلم کے بعد ہوئی ہیں۔
امام حافظ ابن عساکر کی استاد بیبیاں
یہ امام حدیث کے بڑے عالم ہیں جن استادوں سے انھوں نے یہ علم حاصل کیا ہے۔ ان میں اسی سے زیادہ عورتیں ہیں۔ فائدہ افسوس ایک یہ زمانہ ہے کہ عورتیں دین کا علم حاصل کر کے شاگردی کے درجہ کو بھی نہیں پہیںتںا۔
حفید بن زہرا طبیب کی بہن اور بھانجی
یہ ایک مشہور طبیب ہیں ان کی بہن اور بھانجی حکمت کا علم خوب رکھتی تھیں اور ایک بادشاہ تھا خلیفہ منصور اس کے محلات کا علاج ان ہی کے سپرد تھا۔ فائدہ یہ علم تو عورتوں میں سے بالکل جاتا رہا اس علم میں بھی اگر اچھی نتد ہو اور لالچ اور دغا نہ کرے کوئی حرام دوا نہ کھلائے دین کے کاموں میں غفلت نہ کرے تو بڑا ثواب ہے اور مخلوق کا فائدہ ہے اب جاہل دائیاں عورتوں کا ستیاناس کرتی ہیں اگر علم ہوتا تو یہ خرابی کیوں ہوتی جن عورتوں کے باپ بھائی میاں حکیم ہیں وہ اگر ہمت کریں تو ان کو اس علم کا حاصل کرنا بہت آسان ہے۔
امام یزید بن ہارون کی لونڈی
یہ حدیث کے بڑے امام ہیں اخیر عمر میں نگاہ بہت کمزور ہو گئی تھی کتاب نہ دیکھ سکتے تھے ان کی یہ لونڈی ان کی مدد کرتی خود کتابیں دیکھ کر حدیثیں یاد کر کے ان کو بتلا دیا کرتی۔ فائدہ سبحان اللہ اس زمانہ میں لونڈیاں باندیاں عالم ہوتی تھیں اب بیبیاں بھی اکثر جاہل ہیں خدا کے واسطے اس دھبہ کو مٹاؤ۔
ابن سماک کوفی کی لونڈی
یہ بزرگ اپنے زمانے کے بڑے عالم ہیں انہوں نے ایک دفعہ اپنی لونڈی سے پوچھا کہ میری تقریر کیسی ہے اس نے کہا تقریر تو اچھی ہے مگر عیب اتنا ہے کہ ایک بات کو بار بار کہتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں بار بار اس لیے کہتا ہوں کہ کم سمجھ لوگ بھی سمجھ لیں کہنے لگی جب تک کم سمجھ سمجھیں گے سمجھدار گھبرا چکیں گے۔ فائدہ کسی عالم کی تقریر میں ایسی گہری بات سمجھنا عالم ہی سے ہو سکتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لونڈی عالمہ تھی بیبیو لونڈیوں سے تو کم مت رہو خوب کوشش کر کے علم حاصل کرو گھر میں کوئی مرد عالم ہو تو ہمت کر کے عربی بھی پڑھ لو پورا مزہ علم کا اسی میں ہے تم کو تو لڑکوں سے زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ کمانا دھمانا نہیں اطمینان سے اسی میں لگی رہو رہا سینا پرونا وہ ہفتوں میں سیکھ سکتی ہو ساری عمر کیوں برباد کرتی ہو۔
ابن جوزی کی پھوپھی
یہ بزرگ بڑے عالم ہیں ان کو بچپن میں عالموں کے پڑھنے پڑھانے کی جگہ لے جایا کرتیں بچپن ہی سے جو علم کی باتیں کان میں پڑتی رہیں ماشاء اللہ دس برس کی عمر میں ایسے ہو گئے کہ عالموں کی طرح وعظ کہنے لگے۔ فائدہ دیکھو اپنی اولاد کے واسطے علم دین سکھلانے کا کتنا بڑا خیال تھا وہ بڑی بوڑھی ہوں گی خود لے گئیں تم اتنا تو کر سکتی ہو کہ جب تک وہ دین کا علم نہ پڑھ لیں انگریزی میں مت پھنساؤ بڑی صحبت سے روکو اس پر تنبیہ کرو مکتب میں مدرسے میں جانے کی تاکید کرو اب تو یہ حال ہے کہ اول تو پڑھانے کا شوق نہیں اور اگر ہے تو انگریزی کا کہ میرا بیٹا تحصیلدار ہو گا ڈپٹی ہو گا چاہے قیامت میں دوزخ میں جائے اور ماں باپ کو بھی ساتھ لے جائے یاد رکھو سب سے مقدم دین کا علم ہے یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
امام ربیعۃ الرائی کی والدہ
یہ بھی بڑے عالم ہوئے ہیں امام مالک اور حسن بصری جو آفتاب سے زیادہ مشہور ہیں وہ دونوں انہی کے شاگرد ہیں ان کے والد کا نام فروخ ہے بنی امیہ کی بادشاہ ہی کے زمانہ میں وہ فوج میں نوکر تھے بادشاہی حکم سے وہ بہت سی لڑائیوں پر بھیجے گئے اس وقت یہ اپنی والدہ کے پٹں میں تھے ان کو ستائیس برس اس سفر میں لگ گئے یہ پیچھے ہی پیدا ہوئے اور پیچھے ہی اتنے بڑے عالم ہوئے چلتے وقت ان کے والد نے اپنی بی بی کو تیس ہزار اشرفیاں دی تھیں اس عالی ہمت بی بی نے سب اشرفیاں ان کے پڑھانے لکھانے میں خرچ کر دیں جب ان کے باپ ستائیس برس پےچھ لوٹ کر آئے تو بی بی سے اشرفیوں کو پوچھا انہوں نے کہا کہ سب حفاظت سے رکھی ہیں اس عرصہ میں حضرت ربیعہ مسجد میں جا کر حدیث سنانے میں مشغول ہوئے۔ فروخ نے جو یہ تماشا اپنی آنکھ سے دیکھا کہ میرا بیٹا ایک جہان کا پیشوا ہو رہا ہے مارے خوشی کے پھولے نہ سمائے جب گھر لوٹ کر آئے بی بی نے پوچھا بتلاؤ تیس ہزار اشرفیاں زیادہ اچھی ہیں یا یہ نعمت وہ بولے اشرفیوں کی کیا حقیقت ہے جب انہوں نے کہا کہ میں نے وہ اشرفیاں اسی نعمت کے حاصل کرنے میں خرچ کر ڈالیں انہوں نے نہایت خوش ہو کر کہا کہ خدا کی قسم تو نے اشرفیاں ضائع نہیں کیں۔ فائدہ دیکھا کیسی بیبیاں تھیں علم دین کی کیسی قدر جانتی تھیں کہ تیس ہزار اشرفیاں اپنے بیٹے کے علم حاصل کرنے میں خرچ کر ڈالیں بیبیو تم بھی خرچ کی پرواہ مت کرنا جس طرح ہو اولاد کو علم دین حاصل کرانا۔
امام بخاری کی والدہ اور بہن
امام بخاری کے برابر حدیث کا کوئی عالم نہیں ہوا ان کی عمر چودہ سال کی تھی جب انہوں نے علم حاصل کرنے کو سفر کیا تو ان کی والدہ اور بہن خرچ کی ذمہ دار تھیں۔ فائدہ بھلا ماں تو ویسے بھی خرچ دیا کرتی ہے مگر بہن جس کا رشتہ ذمہ داری کا نہیں ہے ان کو کیا غرض تھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں بیبیوں میں علم دین کا نام لیا اور یہ اپنا مال و متاع قربان کرنے کو تیار ہو گئیں۔ بیبیو تم کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔
قاضی زادہ رومی کی بہن
یہ ایک بڑے مشہور فاضل ہیں جب یہ روم کے استادوں سے علم حاصل کر چکے تو ان کو باہر کے عالموں سے علم حاصل کرنے کا شوق ہوا اور چپکے چپکے سفر کا سامان کرنا شروع کیا۔ ان کی بہن کو معلوم ہوا تو اپنا بہت سا زیور اپنے بھائی کے سامان میں چھپا کر رکھ دیا اور خود ان سے بھی نہیں کہا۔ فائدہ کیسی اچھی بیبیاں تھیں نام سے کوئی غرض نہ تھی یوں چاہتی تھیں کہ کسی طرح علم قائم رہے بیبیو علم کے قائم رکھنے کی مدد کرنا بڑا ثواب ہے جو دین کے مدرسے ہیں جس قدر آسانی سے مدد ممکن ہو ضرور خیال رکھو حضرت کے زمانے کی بیبیوں کے بعد یہ ان عورتوں کے قصے بیان ہوئے جن کو علم حاصل کرنے کا شوق تھا اب ان بیبیوں کا حال لکھا جاتا ہے جن کا دل فیرعی کی طرف تھا۔
حضرت معاذہ عدویہ کا ذکر
ان کا عجیب حال تھا جب دن آتا کہتیں شاید یہ وہ دن ہے جس میں مر جاؤں اور شام تک نہ سوتیں کہ کہیں وقت خدا کی یاد سے غافل نہ مروں اسی طرح جب رات آتی تو صبح تک نہ سوتیں اور یہی کہتیں اگر نیند کا زور ہوتا گھر میں دوڑی دوڑی پھرتیں اور نفس کو کہتیں کہ نیند کا وقت آگے آتا ہے مطلب یہ تھا کہ مر کر پھر قیامت تک سوئیو رات دن میں چھ سو نفلیں پڑھا کرتیں کبھی آسمان کی طرف نگاہ نہ اٹھاتیں جب سے ان کے شوہر مر گئے پھر بستر پر نہیں لیٹیں یہ حضرت عائشہ سے ملی ہیں اور ان سے حدیثیں سنی ہیں۔
حضرت رابعہ عدویہ کا ذکر
یہ بہت رویا کرتیں اگر دوزخ کا ذکر سن لیتی تھیں تو غش آ جاتا کوئی کچھ دیتا تو پھیر دیتیں اور کہہ دیتں کہ مجھ کو دنیا نہیں چاہیے اسی برس کی عمر میں یہ حال ہو گیا تھا کہ چلنے میں معلوم ہوتا تھا کہ اب گریں کفن ہمیشہ اپنے سامنے رکیںیں سجدے کی جگہ آنسوؤں سے تر ہو جاتی اور ان کی عجیب و غریب باتیں مشہور ہیں اور ان کو رابعہ بصریہ بھی کہتے ہیں۔ فائدہ بیبیو کچھ تو خدا کا خوف اور موت کی یاد تم بھی اپنے دل میں پیدا کرو دیکھو آخر یہ بھی تو عورت ہی تھیں۔
حضرت ماجدہ قرشیہ کا ذکر
یہ کہا کرتںش کہ جو قدم رکھتی ہوں یہ سمجھتی ہوں کہ بس اس کے بعد موت ہے اور فرمایا کرتیں تعجب ہے دنیا کے رہنے والوں کو کوچ کی خبر دے دی ہے اور پھر ایسے غافل ہیں جیسے کسی نے کوچ کی خبر سنی نہیں ہے یہیں رہیں گے اور فرماتیں کوئی نعمت جنت کی اور خدا تعالی کی رضا مندی کی بے محنت نہیں ملتی۔ فائدہ بیبیو کیسے کام کی نصیحتیں ہیں اپنے دل پر ان کو جماؤ اور برتو۔
حضرت عائشہ بنت جعفر صادق کا ذکر
ان کا رتبہ ناز کا تھا یہ یوں کہا کرتیں اگر مجھ کو دوزخ میں ڈالا میں سب سے کہہ دوں گی کہ میں اللہ کو ایک مانتی تھی پھر مجھ کو عذاب دیا 145ھ میں ان کا انتقال ہوا اور باب قرانہ مصر میں ہے۔ فائدہ بیبیو یہ رتبہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے اور جن کو ہوا ہے پوری تابعداری کی برکت سے ہوا ہے۔ اس کو اختیار کرو اور یاد رکھو کہ اللہ کو ایک ماننا پورا پورا یہ ہے کہ نہ اور کسی کو پوجے نہ کسی سے امید رکھے نہ کیو سے ڈرے نہ کسی کے خوش کرنے کا خیال ہو نہ کسی کے ناراض ہونے کی پرواہ ہو کوئی اچھا کہے خوش ہو کوئی برا کہے غم نہ کرے کوئی ستائے تو اس پر نگاہ نہ کرے یوں سمجھے کہ اللہ کو یوہی منظور تھا میں بندہ ہوں ہر حال میں راضی رہنا چاہیے تو جو شخص اس طرح خدا کو ایک مانے گا اس کو دوزخ سے کیا علاقہ یہ مطلب تھا ان بی بی کا گویا اللہ کے اس طرح ایک ماننے کی برکت اور بزرگی بیان کرتی تھیں۔
رباح قیسی کی بی بی کا ذکر
یہ ساری رات عبادت کرتیں جب ایک پہر رات گزر جاتی تو شوہر سے کہتیں کہ اٹھو اگر وہ نہ اٹھتے تو پھر تھوڑی دیر کے بعد ان کو اٹھاتیں پھر آخر شب میں کہتیں اے رباح اٹھو رات گزرتی ہے اور تم سوتے ہو کبھی زمین سے تنکا اٹھا کر کہتیں کہ خدا کی قسم دنیا میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ بے قدر ہے عشاء کی نماز پڑھ کر زینت کے کپڑے پہن کر خاوند سے پوچھتیں کہ تم کو کچھ خواہش ہے اگر وہ انکار کر دیتے تو وہ کپڑا اتار کر رکھ دیتیں اور صبح تک نفلوں میں مشغول رہتیں۔ فائدہ بیبیو تم نے دیکھا کہ خدا تعالی کی کیسی عبادت کرتی تھیں اور ساتھ ہی خاوند کا کتنا حق ادا کرتی تھیں اور خاوند کو دین کی رغبت بھی دیتی تھیں یہ ساری باتیں کرنے کی ہیں۔
حضرت فاطمہ نیسابوری کا ذکر
ایک بزرگ ہیں بڑے کامل ذوالنون مصری وہ فرماتے ہیں کہ ان بی بی سے مجھ کو فیض ہوا ہے وہ فرمایا کرتیں جو شخص اللہ تعالی کا ہر وقت دھیان نہیں رکھتا وہ گناہ کے ہر میدان میں جا گرتا ہے جو منہ میں آیا بک ڈالتا ہے اور جو ہر وقت اللہ تعالی کا دھیان رکھتا ہے وہ فضول باتوں سے گونگا ہو جاتا ہے اور خدائے تعالی سے شرم و حیا کرنے لگتا ہے۔ اور حضرت ابو یزید کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ کے برابر کوئی عورت نہیں دیکھی ان کو جس جگہ کی جو خبر دی وہ ان کو پہلے ہی معلوم ہو جاتی تھی عمرہ کے راستے میں مکہ معظمہ میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ فائدہ دیکھو دھیان رکھنے کی کیا اچھی بات کہی اگر اسی کو نباہ لو تو سارے گناہوں سے بچ جاؤ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان بی بی کو کشف ہوتا تھا اگرچہ یہ کوئی بڑا رتبہ نہیں ہے لیکن اگر اچھے آدمی کو ہو تو اچھی بات ہے۔
حضرت رابعہ یا رابعہ شامیہ بنت اسمعیل کا ذکر
یہ ساری رات عبادت کرتیں اور ہمیشہ روزہ رکھتیں اور فرماتیں کہ جب اذان سنتی ہوں قیامت کے دن کا پکارنے والا فرشتہ یاد آ جاتا ہے اور جب گرمی کو دیکھتی ہوں تو قیامت کی گرمی یاد آ جاتی ہے اور ان کے خاوند بھی بڑے بزرگ ہیں ابن ابی الحواری یہ ان سے کہتیں مجھ کو تمہارے ساتھ بھائیوں کی سی محبت ہے مطلب یہ کہ میرے نفس کو خواہش نہیں ہے اور فرماتیں کہ جب کوئی عبادت میں لگ جاتا ہے اللہ تعالی اس کے عیبوں کی اس کو خبر دیتے ہیں اور جب اس کو اپنے عیبوں کی خبر ہو جاتی ہے پھر وہ دوسروں کے عبویں کو نہیں دیکھتا اور فرماتیں کہ میں جناب کو آتے جاتے دیکھتی ہوں اور مجھ کو حوریں نظر آتی ہیں۔ فائدہ بیبیو عبادت اس کو کہتے ہیں اور دیکھو تم جو دوسروں کے عیبوں کا ہر وقت دھند رکھتی ہو اس کا کیا اچھا علاج بتلایا کہ اپنے عیبوں کو دیکھا کرو پھر کسی کا عیب نظر ہی نہ آئے گا اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کو کشف بھی ہوتا تھا کشف کا حال اوپر کے قصہ میں کیا ہے۔
حضرت ام ہارون کا ذکر
ان پر خدا کا خوف بہت غالب تھا اور بہت عبادت کرتیں اور روکھی روٹی کھایا کرتیں اور فرماتیں کہ رات کے آنے سے میرا دل خوش ہو جاتا ہے اور جب دن ہوتا ہے غمگین ہوتی ہوں ساری رات جاگتیں اور تیس برس سر میں تیل نہیں ڈالا مگر جب سر کھولتیں تو بال صاف اور چکنے ہوتے تھے ایک دفعہ باہر نکلیں کسی شخص نے خدا جانے کس کو کہا ہو گا کہ پکڑو ان کو قیامت کا دن یاد گیا اور بے ہوش ہو کر گر گئیں ایک دفعہ جنگل میں سامنے سے شیر گیا آپ نے فرمایا کہ اگر میں تیرا رزق ہوں تو مجھ کو کھا لے وہ پیٹھ پھیر کر چل دیا۔ فائدہ سبحان اللہ خدا کی یاد میں کیسی چور تھیں اور خدا سے کس قدر ڈرتی تھیں اور شیر کی بات ان کی کرامت ہے جیسا ہم نے کشف کا حال لکھا ہے وہی کرامت کا سمجھو بیبیو تم بھی خدا کی یاد اور خدا کا خوف دل میں پیدا کرو آخر قیامت بھی آنے والی ہے کچھ سامان کر رکھو۔
حبیب عجمی بی بی بی حضرت عمرہ کا ذکر
یہ ساری رات عبادت کرتیں جب اخیر رات ہوتی تو خاوند سے کہتیں قافلہ آگے چل دیا تم پیچھے سوتے رہ گئے ایک بار ان کی آنکھ دکھنے لگی کسی نے پوچھا کہنے لگیں میرے دل کا درد اس سے بھی زیادہ ہے۔ فائدہ بیبیو خدا کی محبت کا ایسا درد پیدا کرو کہ سب درد اس کے سامنے ہلکے ہو جائیں۔
حضرت امتہ الجلیل کا ذکر
یہ بڑی عابد زاہد تھیں ایک بار کئی بزرگوں میں گفتگو ہوئی کہ ولی کیسا ہوتا ہے سب نے کہا کہ آؤ امتہ الجلیل سے چل کر پوچیںل غرض ان سے پوچھا فرمایا ولی کی کوئی گھڑی ایسی نہیں ہوتی جس میں اس کو خدا کے سوا کوئی اور دھندا ہو جو کوئی اس کو دوسرا دھندا بتلا دے وہ جھوٹا ہے۔ فائدہ کیسی شان کی بی بی تھیں کہ بزرگ مردان سے ایسی باتیں پوچھتے تھے اور انہوں نے کیسی اچھی پہچان بتلائی بوبی تم بھی اس کی حرص کرو اور اپنے سارے دھندوں سے زیادہ خدا کی یاد کا دھندا کرو۔
حضرت عبیدہ بنت کلاب کا ذکر
مالک ابن دینار ایک بڑے کامل بزرگ ہیں یہ بی بی ان کی خدمت میں آتی جاتی تھیں بعضے بزرگ ان کا رتبہ رابعہ بصریہ سے زیادہ بتلاتے ہیں ایک شخص کو کہتے سنا کہ آدمی پورا متقی جب ہوتا ہے کہ جب اس کے نزدیک خدا کے پاس جانا سب چیزوں سے پیارا ہو جائے یہ سن کر غش کھا کر گر پڑیں۔ فائدہ خدا کے پاس جانے کا کیسا شوق تھا کہ ذکر سن کر غش آ گیا اب یہ حال ہے کہ موت کا نام سننا پسند نہیں اس کی وجہ صرف دنیا کی محبت ہے کہ جانے کو جی نہیں چاہتا اس کو دل سے لگا لو جب خدا کے یہاں جانے کو جی چاہے گا۔
حضرت عفیرہ عابدہ کا ذکر
ایک روز بہت سے عابد لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ ہمارے لیے دعا کیجیے آپ نے فرمایا کہ میں اتنی گنہگار ہوں کہ اگر گناہ کرنے کی سزا میں آدمی گونگا ہو جایا کرتا تو میں بات بھی نہ کر سکتی یعنی گونگی ہو جاتی لیکن دعا کرنا سنت ہے۔ اس لیے دعا کرتی ہوں پھر سب کے لےگ دعا۔ فائدہ دیکھو ایسی عابد زاہد ہو کر بھی اپنے کو ایسا عاجز گنہگار سمجھتی تھیں اب یہ حال جو کہ ذرا دو تین تسبیحیں ہر حالت میں بھرے رہتے ہیں پھر عبادت کے ساتھ ان کو بھی دیکھے تو کبھی بڑائی کا خیال نہیں آئے
حضرت شعوانہ کا ذکر
یہ بہت روتیں اور یوں کہتیں کہ میں چاہتی ہوں کہ اتنا روؤں کہ آنسو باقی نہ رہیں پھر خون روؤں اتنا کہ بدن بھر میں خون نہ رہے ان کی خادمہ کا بیان ہے کہ جب میں نے ان کو دیکھا ہے ایسا فیض ہوا ہے کہ کبھی دنیا کی رغبت مجھ کو نہیں ہوئی اور کسی مسلمان کو حقیر نہیں سمجھا حضرت فضیل بن عیاض بڑے مشہور بزرگ ہیں وہ ان کے پاس جا کر دعا کراتے۔ فائدہ خدا کے خوف سے یا محبت سے رونا بڑی دولت ہے اگر رونا نہ آئے رونے کی صورت ہی بنا لیا کرو اللہ میاں کو عاجزی پر رحم آ جائے گا اور دیکھو بزرگوں کے پاس بیٹھنے سے کیسا فیض ہوتا ہے جیسا ان کی خادمہ نے بیان کیا تم بھی نیک صحبت ڈھونڈا کرو اور برے آدمی سے بچا کرو۔
حضرت منہ رملیہ کا ذکر
ایک بزرگ ہیں بشر بن حارث وہ ان کی زیارت کو آئں ایک دفعہ حضرت بشر بیمار ہو گئے۔ یہ ان کو پوچھنے گئیں احمد بن حنبل جو بہت بڑے امام ہیں وہ بھی پوچھنے گئے معلوم ہوا کہ یہ منہ ہیں رملہ سے آتی ہیں امام احمد نے بشر سے کہا کہ ان سے ہمارے لیے دعا کراؤ بشر نے دعا کے لیے کہا انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ بشر اور احمد دوزخ سے پناہ چاہتے ہیں ان دونوں کو پناہ دے امام احمد کہتے ہیں کہ رات کو ایک پرچہ اوپر سے گرا اس میں بسم اللہ کے بعد لکھا ہوا تھا کہ ہم نے منظور کیا اور ہمارے یہاں اور بھی نعمتیں ہیں۔ فائدہ سبحان اللہ کیسی دعا مقبول ہوئی بیبیو یہ سب برکت تابعداری کی ہے جو خدا کا حکم پورا کرتا ہے۔ اللہ تعالی اس کا سوال پور ا کرتے ہیں بس حکم ماننے میں کوشش کرو۔
حضرت منفوسہ بنت زید ابی الفوارس کا ذکر
جب ان کا بچہ مر جاتا اس کا سر گود میں رکھ کر کہتیں کہ تیرا مجھ سے آگے جانا اس سے بہتر ہے کہ مجھ سے پیچھے رہتا مطلب یہ کہ تو آگے جا کر مجھ کو بخشوا دے گا اور خود بھی بچہ بھی بخشا جائے گا اور اگر میرے پیچھے زندہ رہتا تو بھی سینکڑوں گناہ کرتا اور خدا جانے بخشوانے کے قابل ہوتا یا نہ ہوتا اور فرماتیں کہ میرا صبر بہتر ہے بے قراری سے اور فرماتیں کہ اگرچہ جدائی کا افسوس ہے لیکن ثواب کی اس سے زیادہ خوشی ہے۔ فائدہ بیبیو کسی کے مرنے کے وقت اگر یہی باتیں کہہ کر جی کو سمجھایا کرو تو انشاء اللہ تعالی کافی ہیں۔
حضرت سیدہ نفیسہ بنت حسن بن زید بن حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہم کا ذکر
یہ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ہیں کیونکہ حضرت علی کے جو پوتے ہیں زید یہ ان کی پوتی ہیں میں مکہ میں پیدا ہوئیں عبادت ہی میں اٹھان ہو امام شافعی بہت بڑے امام ہیں جب وہ مصر میں آئے تو ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ فائدہ بیبیو علم اور بزرگی وہ چیز ہے کہ اتنے بڑے امام ان کی خدمت میں آتے تھے تم بھی دین کا علم حاصل کرو۔ اس پر عمل کرو تاکہ بزرگی حاصل ہو۔
حضرت میمونہ سوداء کا ذکر
ایک بزرگ ہیں عبدالواحد بن زید ان کا بیان ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ سے دعا کی اے اللہ بہشت میں جو شخص میرا رفیق ہو گا مجھ کو اسے دکھلا دیجئے حکم ہوا کہ تیری رفیق بہشت میں میمونہ سوداء ہے۔ میں نے پوچھا وہ کہاں ہے جواب ملا وہ کوفہ میں ہے فلاں قبیلے میں میں نے وہاں جا کر پوچھا لوگوں نے کہا کہ وہ دیوانی ہے بکریاں چراتی ہے میں جنگل میں پہنچا تو دیکھا کھڑی ہوئی نماز پڑھ رہی ہیں اوربھیڑیئے اور بکریاں ایک جگہ ملی جلی پھر رہی ہیں جب سلام پھیرا تو فرمایا کہ اے عبدالواحد اب جاؤ ملنے کا وعدہ بہشت میں ہے مجھ کو تعجب ہوا کہ میرا نام کیسے معلوم ہو گیا کہنے لگیں تم کو معلوم نہیں جن روحوں میں وہاں جان پہچان ہو چکی ہے ان میں الفت ہوتی ہے میں نے کہا کہ میں بھیڑیئے اور بکریاں ایک جگہ دیکھتا ہوں یہ کیا بات ہے کہنے لگیں جاؤ اپنا کام کرو میں نے اپنا معاملہ حق تعالی سے درست کر لاا اللہ تعالی نے میری بکریوں کا معاملہ بھڑیوں کے ساتھ درست کر دیا۔ فائدہ ان بی بی کے کشف و کرامات دونوں اس سے معلوم ہوتے ہیں یہ سب برکت پوری تابعداری بجا لانے کی ہے بیبیو خدا کی تابعداری میں مستعدد ہو جاؤ۔
حضرت ریحانہ مجنونہ کا ذکر
ابو الربیع ایک بزرگ ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن المنکدر اور ثابت بنانی کو یہ دونوں بھی بزرگ ہیں ایک دفعہ سب کے سب ریحانہ کے گھر مہمان ہوئے وہ آدھی رات سے پہلے اٹھیں اور کہنے لگیں کہ چاہنے والی اپنے پیارے کی طرف جاتی ہے اور دل کا خوشی سے یہ حال ہے کہ نکلا جاتا ہے۔ جب آدھی رات ہوئی کہنے لگیں ایسی چیز سے جی لگانا نہ چاہیے جس کو دیکھنے سے خدا کی یاد میں فرق آئے اور رات کو عبادت میں خوب محنت کرنا چاہیے تب آدمی خدا کا دوست بنتا ہے جب رات گزر گئی تو چلائیں ہائے لٹ گئی میں نے کہا کیا ہوا کہنے لگیں رات جاتی رہی جس میں خدا سے خوب جی لگایا جاتا ہے۔ فائدہ دیکھو رات کی ان کو کیسی قدر تھی اور جس کو عبادت کا مزہ چاہتا ہو گا اس کو رات کی قدر ہو گئی۔ بیبیو تم بھی اپنا تھوڑا حصہ رات کا اپنی عبادت کے لیے مقرر کر لو اور دیکھو خدا کے سوا کسی سے جی لگانے کی کیسی برائی انہوں نے بیان کی تم بھی مال و متاع پوشاک زیور اولاد جائیداد اور برتن مکان سے بہت جی مت لگانا۔
حضرت سری سقطی کی ایک مریدنی کا ذکر
ان بزرگ کے ایک مرید بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پیر کی ایک مریدنی تھی ان کا لڑکا مکتب میں پڑھتا تھا استاد نے کسی کام کو بھیجا وہ کہیں پانی میں جا گرا اور ڈوب کر مر گیا استاد کو خبر ہوئی اس نے حضرت سری کے پاس جا کر خبر کی آپ اٹھ کر اس مریدنی کے گھر گئے اور صبر کی نصیحت کی وہ مریدنی کہنے گی کہ حضرت آپ یہ صبر کا مضمون کیوں فرما رہے ہیں انہوں نے فرمایا کہ تیرا بیٹا ڈوب کر مر گیا تعجب سے کہنے لگی میرا بیٹا انہوں نے فرمایا کہ ہاں تیرا بیٹا کہنے لگیں کہ میرا بیٹا کبھی نہیں ڈوبا اور یہ کہہ کر اس جگہ پہنچیں اور جا کر بےٹم کا نام لے کر پکارا اے ظار اس نے جواب دیا کہ کیوں اماں اور پانی سے زندہ نکل چلا آیا حضرت سری نے حضرت جنید سے پوچھا یہ کیا بات ہے انہوں نے فرمایا اس عورت کا ایک خاص ایسا مقام اور درجہ ہے کہ اس عورت پر جو مصیبت آنے والی ہوتی ہے اس کو خبر کر دی جاتی ہے اور اس کی خبر نہیں ہوئی تھی اس لیے اس نے کہا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ فائدہ ہر ولی کو جدا درجہ ملتا ہے کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ درجہ ایسے ولی سے بڑا ہے جس کو پہلے سے معلوم نہ ہو کہ مجھ پر کیا گزرنے والا ہے اللہ تعالی کو اختیار ہے جس کے ساتھ جو برتاؤ چاہیں رکھیں مگر پھر بھی بڑی کرامت ہے اور یہ سب برکت اس کی ہے کہ خدا و رسول کی تابعداری کرے اس میں کوشش کرنا چاہیے پھر خدائے تعالی چاہے یہی درجہ دے دیں چاہے اس سے بھی بڑا دے دیں۔
حضرت تحفہ کا ذکر
حضرت سری سقطی کا بیان ہے کہ میں ایک بار شفا خانہ میں گیا دیکھا کہ ایک جوان لڑکی زنجیروں میں بندھی ہوئی رو رہی ہے اور محبت کی شعریں پڑھ رہی ہے میں نے وہاں کے داروغہ سے پوچھا کہنے لگا یہ پاگل ہے یہ سن کر وہ اور روئی اور کہنے لگی میں پاگل نہیں ہوں عاشق ہوں میں نے پوچھا کسی کی عاشق ہے کہنے لگی جس نے ہم کو نعمتیں دیں اور جو ہمارے ہر وقت پاس ہے یعنی اللہ تعالی اتنے میں اس کا مالک گیا داروغہ سے پوچھا تحفہ کہاں ہے اس نے کہا اندر ہے اور حضرت سری اس کے پاس ہںہ اس نے میری تعظیم کی میں نے کہا مجھ سے زیادہ یہ لڑکی تعظم کے لائق ہے اور تو نے اس کا یہ حال کیوں کیا ہے کہنے لگا کہ میری ساری دولت اس میں لگ گئی بیس ہزار روپے کی میری خرید ہو مجھ کو امید تھی کہ خوب نفع سے بیچوں گا مگر یہ نہ کھاتی ہے نہ پیتی ہے رات دن رویا کرتی ہے میں نے کہا میرے ہاتھ اس کو بیچ ڈال کہنے لگا آپ فقرخ آدمی ہیں اتنا روپیہ کہاں سے دیں گے میں نے گھر جا کر اللہ تعالی سے خوب گڑ گڑا کر دعا کی ایک شخص نے دروازہ کھٹکھٹایا جا کر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص بہت سے توڑے روپیوں کے لیے کھڑا ہے میں نے کہا تو کون ہے کہنے لگا میں احمد بن المثنی ہوں مجھ کو خواب میں حکم ہوا کہ آپ کے پاس روپیہ لاؤں میں خوش ہوا اور صبح کو شفا خانہ پہنچا اتنے میں مالک بھی روتا ہو آیا میں نے کہا رنج مت کر میں روپیہ لایا ہوں دوگنے نفع تک اگر مانگے گا دوں گا کہنے لگا اگر ساری دنیا بھی ملے نہ بیچوں گا میں اس کو اللہ کے واسطے آزاد کرتا ہوں میں نے کہا یہ بات ہے کہنے لگا خواب میں مجھ پر خفگی ہوئی ہے اور تم گواہ رہو میں نے سب مال اللہ کی راہ میں چھوڑا میں نے جو دیکھا تو احمد بن المثنی بھی رو رہا ہے میں نے کہا تجھے کیا ہوا کہنے لگا میں بھی سب مال اللہ کی راہ میں خیرات کرتا ہوں میں نے کہا سبحان اللہ بی بی تحفہ کی برکت ہے کہ اتنے آدمیوں کو ہدایت ہوئی تحفہ وہاں سے
اٹھیں اور روتی ہوئی چلیں ہم بھی ساتھ چلے تھوڑی دور جا کر خدا جانے وہ تو کہاں چلی گئیں اور ہم سب مکے کو چلے احمد بن المثنی کا تو راہ مںی انتقال ہو گیا اور میں اور وہ مالک مکے پہنچے ہم طواف کر رہے تھے کہ ایک دردناک آواز سنی پاس جا کر پوچھا کون ہے کہنے لگیں سبحان اللہ بھول گئے میں تحفہ ہوں میں نے کہا کہو کیا کیا ملا کہنے لگیں اپنے ساتھ میرا جی لگا دیا اوروں سے اٹھا دیا میں نے کہا احمد بن المثنی کا انتقال ہو گیا۔ کہنے لگی اس کو بڑے بڑے درجے ملے ہیں میں نے کہا تمہارا مالک بھی آیا ہے انہوں نے کچھ چپکے سے کہا دیکھتا کیا ہوں کہ مردہ ہیں مالک نے جو یہ حال دیکھا بیتاب ہو کر گڑ پڑا ہلا کر دیکھا تو مردہ تھا میں نے دونوں کو کفن دے کر دفن کر دیا۔ فائدہ سبحان اللہ کیسی اللہ کی عاشق تھیں۔ بیبیو حرص کرو اس قصہ کو ہمارے پیر حاجی امداد صاحب مہاجر مکی قدس سرہ نے اپنی کتاب تحفۃ العشاق میں زیادہ تفصیل سے لکھا ہے۔
حضرت جویرہ کا ذکر
یہ ایک بادشاہ کی لونڈی تھیں اس بادشاہ نے آزاد کر دیا تھا اس کے بعد ابو عبداللہ ترابی ایک بزرگ ہیں ان کی عبادت دیکھ کر اس سے نکاح کر لیا تھا اور عبادت کیا کرتی تھیں ایک دفعہ خواب میں بڑے اچھے اچھے خمےد لگے ہوئے دیکھے پوچھا یہ کس کے لیے ہیں معلوم ہوا جو لوگ تہجد میں قرآن پڑھتے ہیں اس کے بعد رات کا سونا چھوڑ دیا اور خاوند کو جگا کر کہتں کہ قافلے چل دیئے۔ فائدہ بیبیو خود بھی عبادت کرو اور خاوند کو بھی سمجھایا کرو۔
حضرت شاہ بن شجاع کرمانی کی بیٹی کا ذکر
یہ بزرگ بادشاہی چھوڑ کر فقیر ہو گئے تھے ان کی ایک بیٹی تھیں ایک بادشاہ نے پیغام دیا مگر انہوں نے منظور نہیں کیا ایک غریب نیک بخت لڑکے کو اچھی طرح نماز پڑھتے دیکھ کر اس سے نکاح کر دیا جب وہ رخصت ہو کر شوہر کے گھر آئیں ایک سوکھی روٹی گھڑے پر ڈھکی ہوئی دیکھ کر پوچھا یہ کیا ہے لڑکے نے کہا یہ رات بچ گئی تھی روزہ کھولنے کے لیے رکھ لی یہ سن کر وہ الٹے پاؤں ہٹیں لڑکے نے کہا کہ میں پہلے ہی جانتا تھا کہ بھلا بادشاہ کی بیٹی میری غریبی پر کب راضی ہو گی وہ بولیں بادشاہ کی بیٹی غریبی پر ناراض نہیں ہے بلکہ اس سے ناراض ہے کہ تم کو خدا پر بھروسہ نہیں ہے اور مجھ کو باپ سے تعجب ہے کہ مجھ سے یوں کہا کہ ایک پارسا جوان ہے بھلا جس کو خدا پر بھروسہ نہ ہو وہ پارسا کیا۔ وہ جوان عذر کرنے لگا وہ بولیں عذر تو میں جانتی نہیں یا تو گھر میں رہوں گی یا یہ روٹی رہے گی۔ اس جوان نے فورا وہ روٹی خیرات کر دی اس وقت وہ گھر میں بیٹھیں۔ فائدہ بیبیو یہ بھی عورت تھیں تم کچھ تو صبر سیکھو اور مال و متاع کی ہوس کم کرو۔
حضرت حاتم کی ایک چھوٹی سی لڑکی کا ذکر
یہ ایک بڑے بزرگ ہیں کوئی امیر چلا جا رہا تھا اس کو پیاس لگی ان کا گھر رستے میں تھا پانی مانگا اور جب پانی پی لیا تو کچھ نقد پھینک کر چلا گیا سب کا توکل پر گزر تھا سب خوش تھے اور گھر میں ان کے ایک چھوٹی سی لڑکی تھی وہ رونے لگی گھر والوں نے پوچھا کہنے لگی کہ ایک ناچیز بندے نے ہمارا حال دیکھ لیا تو ہم غنی ہو گئے اور خدائے تعالی تو ہر وقت ہم کو دیکھتے ہیں افسوس ہم اپنا دل غنی نہیں رکھتے۔ فائدہ کیسی سمجھ کی بچی تھیں افسوس ہے کہ اب بوڑھیوں کو بھی اتنی عقل نہیں کہ خدا پر نظر نہیں رکھتیں خلقت پر نگاہ کرتی ہیں کہ فلانی سے نفع ہو جائے گا فلانا مدد کرے گا۔ خدا کے واسطے دل کو ٹھیک کرو۔
حضرت ست الملوک کا ذکر
یہ ملک عرب کی رہنے والی ہیں ان کے زمانہ میں تمام ولی اور عالم ان کی تعظیم کرتے تھے ایک بار بیت المقدس کی زیارت کو آئیں تھیں اس زمانہ میں وہاں ایک بزرگ تھے علی بن علبس یمانی ان کا بیان ہے کہ میں اسی مسجد میں تھا میں نے دیکھا کہ آسمان سے مسجد کے گنبد تک ایک نور کا تار بندھ رہا ہے میں نے جا کر دیکھا تو اس گنبد کے نیچے یہ بی بی نماز پڑھ رہی ہیں اور وہ تار ان سے ملا۔ فائدہ یہ نور پرہیزگاری کا تھا دل میں تو سب پرہیزگاروں کے پیدا ہوتا ہے اللہ تعالی کبھی ظاہر میں بھی دکھلا دیتے ہیں لیکن اصل جگہ اس نور کی دل ہے۔ بیبیو پرہیزگاری اختیار کرو نیک کاموں کی پابندی کرو جو چیزیں منع ہیں ان سے بچو۔
ابو عامر واعظ کی لونڈی کا ذکر
ان کا بیان ہے کہ میں نے ایک لونڈی بہت ہی بے حقیقت داموں کو بکتی دیکھی جس کا رنگ تو زرد ہو گیا تھا اور پیٹ پیٹھ ایک ہو گیا تھا اور بال میل سے جم گئے تھے مجھ کو اس پر ترس آیا میں نے مول لے لیا میں نے کہا بازار میں جا کر رمضان کا سامان خرید لا کہنے لگی خدا کا شکر ہے میرے لیے بارہ مہینے برابر ہیں اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتی اور رات کو عبادت کرتی پھر جب عید آئی تو میں نے اس کے لیے سامان خریدنے کا ارادہ کیا۔ کہنے لگی تمہارے مزاج میں دنیا کا بڑا بکھیڑا ہے پھر اپنی نماز میں لگ گئیں ایک آیت پڑھی جس میں دوزخ کا ذکر تھا بس ایک چیخ مار کر گر گئیں اور مر گئیں۔ فائدہ دیکھو خدا کا خوف ایسا ہوتا ہے خیر یہ حال تو اختیار سے باہر ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ گناہ سے رک جایا کریں چاہے کسی طرح کا گناہ ہو ہاتھ پاؤں کا ہو یا دل کا ہو یا زبان کا ہو۔ فائدہ اس حصہ میں کل سو قصے نیک بیبیوں کے بیان ہوئے اس طرح سے کہ پہلی امتوں کی بیبیوں کے اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں بیٹیوں کے اور حضرت کے زمانے کی اور بیبیوں کے اور حضرت کے زمانے کے بعد کی بیبیوں میں علم والی بیبیوں کے اور درویش بیبیوں کے یہ سب مل کر سو ہو گئے کتابوں میں اور بھی بہت قصے ہیں مگر نصیحت ملنے والیوں کے واسطے اتنی ہی بہت ہیں۔ تمت
٭٭٭
تشکر: اردو محفل کے رکن اسد، جن سے بہشتی زیور کی مکمل فائل کا حصول ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید