FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

کچھ احادیث

پروفیسر عبدالرحمن لدھیانوی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

فہرست

 TOC \o "1-1” \h \z \u استقبال رمضان کے روزے… PAGEREF _Toc369339432 \h 3 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330032000000

آزادی کا مفہوم. PAGEREF _Toc369339433 \h 5 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330033000000

انسان کی تخلیق….. PAGEREF _Toc369339434 \h 7 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330034000000

مومن کی حالت… PAGEREF _Toc369339435 \h 9 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330035000000

تین مساجد کی فضیلت اور آداب.. PAGEREF _Toc369339436 \h 11 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330036000000

اللہ پر بھروسہ.. PAGEREF _Toc369339437 \h 13 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330037000000

نذر کا کفارہ PAGEREF _Toc369339438 \h 15 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330038000000

خلع. PAGEREF _Toc369339439 \h 17 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330039000000

عقیدہ توحید کی فضیلت.. PAGEREF _Toc369339440 \h 19 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340030000000

دنیا سے بے نیازی. PAGEREF _Toc369339441 \h 21 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340031000000

اللہ کا بندوں پر اور بندوں کا اللہ پر حق… PAGEREF _Toc369339442 \h 23 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340032000000

تین بہترین اموال. PAGEREF _Toc369339443 \h 25 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340033000000

سب سے بڑا گناہ PAGEREF _Toc369339444 \h 27 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340034000000

ایام قربانی. PAGEREF _Toc369339445 \h 29 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340035000000

اللہ کا صبر… PAGEREF _Toc369339446 \h 31 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340036000000

استقبال رمضان کے روزے

(( عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یتقدمن احدکم رمضان یصوم یوم او یومین الا ان یکون الرجل کان یصوم صوما فلیصم ذالک الیوم )) ( متفق علیہ )

’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایک دن یا دو دن رمضان سے آگے نہ بڑھے ہاں وہ شخص جو ان ایام کے روزے رکھتا ہے اسے اس دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے۔ ‘‘

رمضان المبارک اپنی تمام برکات کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے جس کے لئے ہر مسلمان تیاری کر رہا ہے تا کہ وہ سحری و افطار اور دیگر عبادات میں پورے انہماک کے ساتھ مصروف ہو جائے۔ اسی طرح بعض لوگ رمضان کے استقبال کے سلسلے میں روزے رکھتے ہیں جنہیں استقبالی روزے کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سے ایک یا دو دن قبل روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ شعبان کے بعد عام لوگوں کو نفلی روزے رکھنے سے روکا ہے اس لئے کہ کہیں نفلی روزے رکھ کر کمزور نہ ہو جاؤ اور فرض روزے چھوٹ جائیں جبکہ خود رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم پورا شعبان روزے رکھا کرتے تھے اس کا سبب بھی بیان فرما دیا کہ شعبان میں لوگوں کے اعمال اللہ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ کے سامنے پیش ہوں تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔ اس فضیلت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس مہینے میں پندرہ شعبان کے بعد روزے رکھنے سے منع فرما دیا اور خصوصاً رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزے رکھنے سے روکا ہے مگر اس شخص کو اجازت ہے جو باقاعدگی سے ہر ماہ نفلی روزے رکھتا ہو مثلاً ایک شخص ہر سوموار کو روزہ رکھتا ہے رمضان سے ایک یا دو دن قبل سوموار آجائے تو وہ اس سوموار کا روزہ رکھ لیتا ہے وہ استقبال رمضان کا نہیں بلکہ اس کے معمول کا روزہ ہے اسی طرح جو شخص باقاعدہ کسی بھی دن کا روزہ رکھتا ہے یعنی ایک دن روزہ ایک دن افطار کا معمول ہو تو اسے اپنا معمول جاری رکھنے کی اجازت ہے۔ کچھ لوگ دین کے نام پر بدعات پر عمل پیرا ہیں اپنے خیال کے مطابق محترم و مقدس مہینے کا استقبال روزے رکھ کر کرتے ہیں جو کہ خلافِ سنت ہے اس قسم کی بدعات سے بچنے کی کوشش کی جائے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 35

جلد نمبر 39      19 شعبان تا 25 شعبان 1429      23 تا 29 اگست 2008 ء

 

آزادی کا مفہوم

(( عن نعمان بن بشیر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثل المدھن فی حدود اللہ والواقع فیھا مثل قوم استھموا السفینۃ فصار بعضھم فی اسفلھا وصار بعضھم فی علاھا۔ فکان الذی فی اسفلھا یمر بالماء علی الذین فی اعلاھا فتاذوا بہ فاخذ فاسا فجعل ینقر اسفل السفینۃ فاتوہ فقالوا مالک ؟ قال تاذیتم بی ولا بدلی من الماء فان اخذوا علی یدیہ انجوہ ونجو انفسھم وان ترکوہ اھلکوہ واھلکوا انفسھم )) ( رواہ البخاری )

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی حدوں میں سستی کرنے والے اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جو ایک ( بحری جہاز ) کشتی پر سوار ہوتے ہیں اور انہوں نے قرعہ اندازی کے ذریعے اپنی اپنی جگہ متعین کر لی کچھ لوگ کشتی کے نچلے حصے میں اور کچھ اوپر والے حصے میں چلے گئے وہ لوگ جو نچلے حصے میں تھے وہ اوپر سے پانی لے کر اوپر والوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں اس کی تکلیف ہوتی ( جس کی بناء پر اوپر والوں نے نیچے والوں کو اوپر آنے سے روک دیا ) جس پر نیچے والوں نے کلہاڑا لے کر کشتی میں سوراخ کرنا چاہا تا کہ سمندر ( دریا ) کا پانی حاصل کر لیں۔ اوپر والوں نے کہا تم کیا کر رہے ہو انہوں نے جواب دیا تمہیں میرے آنے سے تکلیف ہوتی ہے اور پانی کی مجھے بھی ضرورت ہے۔ اگر وہ اس کا ہاتھ روک لیں تو اسے بھی بچالیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے تو اسے بھی ہلاک کر ڈالیں گے اور خود بھی ہلاک ہو جائیں گے۔ ( بخاری باب الامر بالمعروف، مشکوٰۃ ) اسلام کسی کی آزادی سلب نہیں کرتا مگر اسے آزاد بھی نہیں چھوڑتا کہ جو چاہے کرتا رہے۔ اپنی حدود میں رہتے ہوئے ہر چیز کو بڑھنے پھولنے کی اجازت ہے لیکن اگر تمام حدود کو پھلانگ کر اپنی مرضی کی جائے تو تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور برائی سے روکنا یہ آزادی کے منافی نہیں ہے۔ روشن خیال اور بے غیرتی کو آزادی سمجھ لیا ہے جو کہ درست نہیں ایسی آزادی جس میں کوئی پابندی نہ ہو وہ نقصان اور تباہی کا باعث بنتی ہے ان حدود کی پابندی کرنا لازم ہے جو شریعت نے متعین کی ہیں۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 34

جلد نمبر 39      12 شعبان تا 18 شعبان 1429      16 تا 22 اگست 2008 ء

 

انسان کی تخلیق

 

 

(( عن عمر بن حفص رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصادق المصدوق ان احدکم یجمع فی بطن امہ اربعین یوما ثم یکون علقۃ مثل ذالک ثم یبعث اللہ الیہ ملکا باربع کلمات فیکتب عملہ واجلہ ورزقہ وشقی او سعید ثم ینفخ فیہ الروح فان الرجل یعمل بعمل اھل النار حتی ما یکون بینہ وبینھا الا ذراع فسبق علیہ الکتاب فیعمل بعمل اھل الجنۃ فیدخل الجنۃ وان الرجل یعمل بعمل اھل الجنۃ حتی ما یکون بینہ وبینھا الا ذراع فیسبق علیہ الکتاب فیعمل بعمل اھل النار فیدخل النار )) ( رواہ البخاری )

’’ حضرت عمر بن حفص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے اور جو آپ سے وعدہ کیا گیا وہ بھی سچ ہے۔ ‘‘ تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک بطور نطفہ قائم رہتا ہے پھر وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے ( چالیس دن تک اسی طرح رہتا ہے ) پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتہ بھیجتا ہے جو چار چیزیں لکھ دیتا ہے، وہ اس کے کام اس کی موت، اس کا رزق اور اس کا نیک یا بد ہونا لکھ دیتا ہے، پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ پس ایک آدمی دنیا میں آگ میں لیجانے والے اور لوگوں کے طریقے پر چلتا رہتا ہے حتیٰ کہ جب اس کے اور آگ کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے اس پر تحریر غالب آ جاتی ہے تو وہ جنت میں جانے والے اعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے اور ایک آدمی جنت والوں کے کام کرتا ہے حتیٰ کہ جب اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر غالب آ جاتی ہے اور وہ دوزخیوں والے کام کرنے لگ جاتا ہے اور دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے۔ ‘‘

انسان کی پیدائش کے مختلف مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ نطفہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کے حکم سے رحم مادر میں جگہ ملتی ہے۔ اللہ کا حکم نہ ہو تو کوئی طاقت نطفے کو رحم میں نہیں پہنچا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ ہر قسم کا علاج کروانے کے باوجود اولاد کی نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ اس نطفے میں چالیس دن تک قدرتی عمل جاری رہتا ہے حتیٰ کہ وہ منجمد خون بن جاتا ہے پھر اس میں چالیس دن تک اللہ کی طرف سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اس میں روح ڈال کر اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے جس کے متعلق اللہ خوب جانتا ہے۔ دنیا میں آ کر انسان ویسے ہی عمل کرتا ہے یہ اللہ کا انصاف ہے وہ انسان کی طبیعت سے خوب آگاہ ہے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 32

جلد نمبر 39      28 رجب تا 4 شعبان 1429 ھ      02 تا 08 اگست 2008 ء

 

مومن کی حالت

(( عن ابي سعيد الخدري وابي ھرير رضي اللہ عنہما انھما سمعا رسول اللہ يقول ما يصيب المومن من وصب، ولا نصب، ولا سقم ولا حزن حتي الھم يھمہ الا کفر بہ من سيئاتہ )) ( صحیح مسلم، البر والصلۃ، باب ثواب المومن…. حدیث : 2573 )

’’ ابو سعید خدری، اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب بھی کسی ایماندار شخص کو کوئی بیماری آتی ہے یا تکلیف پہنچتی ہے یا کوئی مشکل پیش آتی ہے یا کوئی غم لاحق ہوتا ہے یا دنیا کے مصائب سے پریشان ہوتا ہے تو اس کے بدلے ( اللہ تعالیٰ ) اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ ‘‘

مسلمان کے لئے ہر حالت میں بھلائی ہے اگر اسے کوئی خوشی ملتی ہے اس پر وہ اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے تو اسے اجر ملتا ہے اور اگر اسے کوئی ناگواری پیش آتی ہے جس پر وہ صبر کرتا ہے، تب بھی اسے ثواب ملتا ہے۔ دنیا کی زندگی ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں رہتی، کبھی خوشی اور کبھی غمی، کبھی تندرستی اور کبھی بیماری، کبھی غربت ہے تو کبھی دولت کی ریل پیل ہے، کبھی غم اور پریشانیاں ہیں اور کبھی آرام و آسائش، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے ’’ تلک الایام نداولھا بین الناس ‘‘ ان حالات میں جب کسی مومن کو کسی نوعیت کی تکلیف یا پریشانی لاحق ہو تو وہ اس پر صبر کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیتا ہے۔

یہ ثواب صبر کرنے کی صورت میں عطا کیا جاتا ہے۔ اور جب اسے کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اس پر بھی اسے ثواب ملتا ہے، مشکلات پر صبر کرنا، مشکل کام ہے مگر جو صبر کا دامن تھام لے اسے اللہ کا فضل نصیب ہو جاتا ہے، جسے اللہ کا فضل مل جائے وہ کتنا خوش نصیب ہے۔ لہٰذا دنیا کی زندگی میں کسی پریشانی سے گھبرا کر اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہئیے اور نہ ہی اللہ کی دی ہوئی نعمت پر اترا کر تکبر یا ناشکری کی جائے اگر کوئی بیماری یا تکلیف یا کوئی پریشانی آ جائے تو گھبرانے کے بجائے توبہ استغفار کی جائے، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ مشکل بھی دور کر دیتا ہے اور ثواب بھی عطا کرتا ہے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 14

جلد نمبر 39      20 رجب تا 26 رجب 1429 ھ      29 مارچ تا 4 اپریل 2008 ء

 

تین مساجد کی فضیلت اور آداب

(( عن سعید بن المسیب عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد المسجد الحرام ومسجدی ھذا والمسجد الاقصیٰ )) ( رواہ البخاری )

حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ کہ تین مساجد کی زیارت کے علاوہ کسی بھی مقام کی زیارت کے لئے باقاعدہ اہتمام کر کے نہ جایا جائے۔ مسجد حرام اور میری مسجد یعنی مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ ‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے بیان کیا۔

اپنے گھر سے تیار ہو کر باقاعدہ اہتمام کے ساتھ صرف تین مساجد میں زیارت کی نیت سے جانے کی اجازت ہے۔ دیگر مساجد میں بھی انسان اہتمام کے ساتھ جاتا ہے لیکن وہاں جانا مسجد کی زیارت کے لئے نہیں ہوتا بلکہ نماز کی ادائیگی کے لئے ہوتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ کسی مزار کی زیارت یا کسی عرس وغیرہ میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے کسی مقام پر جانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ ان مساجد کی زیارت کے علاوہ کسی بھی مقام پر زیارت کے لئے جانا درست نہیں۔ اس سفر پر اٹھنے والے اخراجات اور پہنچنے والی تکلیف کا کوئی اجر و ثواب نہیں ہو گا بلکہ قیامت کے روز سوال کیا جائے گا کہ یہ سفر کیوں اختیار کیا۔ جن مقامات پر جانے سے انسان کو فائدہ ہو گا وہ مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسجد اقصیٰ ہیں، بیت اللہ میں حج کے دو ارکان ادا ہوتے ہیں ایک طواف دوسرے سعی صفا اور مروہ۔ بیت اللہ میں داخل ہونے کے بعد پہلا کام جو کیا جائے وہ طواف ہے اور دیگر دونوں مساجد میں جا کر سب سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کی جائیں۔ دنیا میں سب سے پہلے مسجد حرام یعنی بیت اللہ کی تعمیر کی گئی اس کے بعد مسجد اقصیٰ تعمیر ہوئی جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات سے تعمیر کروایا ان دونوں مساجد کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد مسجد نبوی تعمیر کروائی۔ بیت اللہ میں نماز ادا کرنے کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔ جبکہ مسجد نبوی میں جو ایک نماز ادا کریں تو اسے ایک ہزار نمازوں کے برابر ثواب ملتا ہے اور مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا پانچصد نمازوں کے ثواب کے برابر ہوتی ہیں۔ مسجد نبوی میں داخل ہونے والا با ادب اور عاجزی کے انداز میں داخل ہو۔ عمدہ لباس پہنے، خوشبو لگائے ہوئے ہو، مسجد میں داخل ہو کر دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کرے پھر بیت اللہ کی طرف پشت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف منہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھے۔

 

اللہ پر بھروسہ

عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما قال کنت خلف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا غلام انی اعلمک کلمات احفظ اللہ یحفظک، احفظ اللہ تجدہ تجاھک اذا سالت فاسال اللہ واذا استعنت فاستعن باللہ واعلم ان الامۃ لواجتمعت علی ان ینفعوک بشیء لم ینفعوک الابشی ء قد کتبہ اللہ تعالی لک وان اجتمعوا علی ان یضروک بشیء لم یضروک الابشیء قدکتبہ اللہ تعالی علیک رفعت الاقلام وجفت الصحف ( رواہ الترمذی )

’’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں کسی سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا اے لڑکے میں تجھے کچھ باتیں سکھاتا ہوں اللہ کا لحاظ کرو اللہ تمہارا لحاظ کرے گا۔ اللہ کا لحاظ کرو تم اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے جب بھی سوال کریں تو اللہ سے سوال کریں اورجب کبھی امداد طلب کریں تو اللہ ہی سے مدد مانگیں اور خوب جان لیں کہ اگر پوری قوم تجھے کچھ فائدہ پہنچانے کے لئے جمع ہو جائے تو وہ تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتی، سوائے اس کے جو اللہ نے تیرے لئے رکھا ہوا ہے اور اگر اس بات پر جمع ہو جائے کہ تیرا کچھ نقصان کردے تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتی سوائے اس نقصان کے جو اللہ نے پہلے ہی لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھا لئے گئے ہیں اور رجسٹر خشک ہو گئے ہیں ‘‘۔ ( ترمذی )

اس حدیث پاک میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جانور پر سوار دوران سفر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ایک پر مغز اور پرتاثیر نصیحت فرمائی۔ پہلی بات یہ فرمائی کہ ہر وقت یہ تصور رکھو کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اس کی نظروں کے سامنے ہوں جس طرح انسان کسی چیز کی حفاظت کرتے ہوئے ہر وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھتا ہے۔ ایسے ہی ہر انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ میرا مالک میری نگرانی کر رہا ہے تو وہ گناہ سے محفوظ رہ سکے گا۔ دوسری نصیحت یہ فرمائی کہ اللہ کے سوا کسی سے سوال نہ کرو اور اس کے سوا کسی سے مدد نہ مانگو اس لئے کہ سب کچھ دینے والا بھی وہی اللہ ہے اور حاجتیں بھی وہی پوری کرتا ہے۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ پوری کائنات کے لوگ جمع ہو کر نہ تمہارا کچھ نقصان کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ جب لوگ نفع و نقصان کے مالک ہی نہیں تو ان سے امیدیں وابستہ کرنا بے کار ہے۔ نفع و نقصان اور دیگر معاملات کو لکھ کر قلمیں اٹھائی گئی ہیں اور جن کتابوں پر لکھا گیا ان کی سیاہی بھی خشک ہو چکی ہے یعنی معاملہ مکمل ہو گیا ہے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 29

جلد نمبر 39      07 رجب تا 13 رجب 1429 ھ      12 جولائی تا 18 جولائی 2008 ء

 

نذر کا کفارہ

عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من نذر نذرا لم یسمہ فکفارتہ کفارۃ الیمین ومن نذر نذرا فی معصیۃ فکفارتہ کفارۃ یمین ومن نذر نذرا لا یطیقہ فکفارتہ کفارۃ یمین ومن نذر نذرا اطاقہ فلیف بہ ( رواہ ابوداود )

’’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے کوئی نذر مانی جس کا نام نہیں لیا تو اس کا کفارہ قسم کے کفارے جتنا ہے، اور جس شخص نے ایسی منت مانی جس سے نافرمانی ہوتی ہو اس کا کفارہ بھی قسم کے کفارہ کے برابر ہے اور جس کسی نے ایسی نذر مانی جسے پورا کرنے کی اس میں طاقت نہیں ہے اس کا کفارہ بھی قسم کے کفارہ جتنا ہے اور جس نے منت مانی جس کو پورا کرنے کی اس میں ہمت ہے تو اسے پورا کرے۔ ‘‘

بعض اوقات لوگ اپنی کسی حاجت کے پورا ہونے کے لئے منت مان لیتے ہیں۔ نذر یعنی منت ماننا جائز ہے لیکن اگر منت بے نام ہو تو پورا کرنا مشکل ہو گا اسی طرح گناہ یا نافرمانی کی منت ہو تب بھی پورا کرنے کی اجازت نہیں ہے یا ایسی نذر مانی جس کے پورا کرنے کی طاقت نہیں ہے ان تمام صورتوں میں کفارہ ادا کر دیا جائے تو انسان گنہگار نہیں ہو گا ان تمام قسم کی نذر میں قسم کا کفارہ ہی ادا کرنا ہوتا ہے۔

تلاوت کردہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار قسم کی نذر کا ذکر فرمایا ہے پہلے یہ کہ نذر تو مانی مگر کوئی کام متعین نہ کیا جب کوئی کام ہی متعین نہیں تو اسے پورا کیسے کرے گا لہٰذا اس کا کفارہ ادا کرے، دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے خلاف عمل کرنے کی نذر مانی اسے بھی پورا نہ کرے اور کفارہ ادا کر دے تیسرے یہ جو نذر مانی ہے اسے پورا کرنے کی طاقت نہیں ایسی صورت میں بھی کفارہ ادا کر دے ان تینوں قسم کی نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم توڑنے کا کفارہ ہے اور قسم کے کفارے میں چار اختیار دئیے گئے ہیں جن میں سے ایک پر تو موجودہ دور میں عمل کرنا ممکن نہیں وہ غلام آزاد کرنا ہے دس مساکین کا لباس یا دس مساکین کا ایک وقت کا کھانا یا تین روزے رکھے جائیں۔ لہٰذا نذر پوری نہ کرنے والے پر لازم ہے کہ قسم کے تین قسم کے کفارے میں سے ایک کفارہ ادا کر دے اور جو کوئی ایسی نذر مانے جس کا پورا کرنا ممکن ہو تو کفارہ ادا کرنے کے بجائے نذر پوری کرے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 28

جلد نمبر 39      30 جمادی الثانی تا 06 رجب 1429 ھ      05 جون تا 11 جولائی 2008 ء

 

خلع

عن عائشۃ رضی اللہ عنہ ان حبیبۃ بنت سھل کانت عند ثابت بن قیس بن شماس فضربھا فکسر بعضھا فاتت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد الصبح فاشتکتہ الیہ فدعا النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثابتا فقال خذ بعض مالھا وفارقھا فقال ویصلح ذالک یا رسول اللہ ؟ قال ! نعم ! قال فانی اصدقتھا حدیقتین وھما بیدھا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خذھما فغارقھا ففعل ( رواہ ابوداود )

’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سہل کی بیٹی حبیبہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے نکاح میں تھیں۔ انہوں نے حبیبہ کو مارا یہاں تک کہ اس کا کوئی عضو ٹوٹ گیا تو وہ صبح کے فوراً بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کے پاس شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت کو بلایا اور فرمایا اس سے کچھ مال لے کر اسے چھوڑ دے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ درست ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! حضرت ثابت نے کہا میں نے دو باغ اسے مہر میں ادا کئے جو کہ اس کے پاس ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دونوں باغ واپس لے لو اور اسے چھوڑ دو تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ‘‘

میاں بیوی کے حقوق فرائض کی اسلام نے تعلیم دے کر انہیں ادا کرنے کی تلقین بھی کی ہے۔ اگر ایک فرد دوسرے کے حقوق ادا نہیں کرتا تو شریعت نے انہیں الگ الگ زندگی گزارنے کی اجازت دی ہے۔ مرد کو طلاق کا حق دیا کہ اگر خاوند اپنی تمام کوشش کے باوجود اپنی بیوی کو خوش نہ رکھ سکے اور وہ اپنی ضد پر قائم رہے تو خاوند کو اجازت ہے کہ اپنی منکوحہ کو طلاق دے کر فارغ کر دے۔ اسی طرح اگر خاوند اپنی بیوی کے حقوق پورے نہیں کرتا۔ وفا شعار اور فرمانبردار بیوی کو بلاوجہ تنگ کرتا ہے تو بیوی کو اجازت ہے کہ عدالت کے ذریعے اپنے خاوند سے چھٹکارا حاصل کر لے۔

حضرت حبیبہ کو ان کے خاوند نے اتنا مارا کہ اس کا کوئی عضو ٹوٹ گیا وہ فجر طلوع ہوتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں جب آپ نماز فجر کے لئے گھر سے باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندھیرے میں کسی کو گھر کے باہر کھڑے دیکھا اور فرمایا کون ہے تو حضرت حبیبہ نے اپنی کہانی سنائی نماز فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہر ثابت بن قیس کو بلایا۔ ان کی باتیں سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنا مال اس سے لے لو اور اسے آزاد کر دو پھر پوچھا کیا یہ درست ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، تو انہوں نے عرض کیا میں نے دو باغ انہیں حق مہر کے طور پر دئیے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ واپس لے لو تو انہوں نے دونوں باغ واپس لے کر اپنی بیوی کو آزاد کر دیا۔ خلع کی عدت ایک ماہ ہے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 27

جلد نمبر 39      23 تا 29 جمادی الثانی 1429 ھ      28 جون تا 04 جولائی 2008 ء

 

عقیدہ توحید کی فضیلت

(( عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من شھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ وان عیسی عبداللہ ورسولہ وکلمتہ، القاھا الی مریم و روح منہ والجنۃ حق والنار حق ادخلہ اللہ الجنۃ علی ما کان من العمل )) ( رواہ البخاری و مسلم )

’’ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا اور اس کی طرف سے روح ہیں اور جنت برحق ہے دوزخ بھی برحق ہے اللہ اسے جنت میں داخل کر دے گا خواہ وہ کیسے ہی عمل کرتا رہا۔ ‘‘

اس حدیث میں پانچ امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس کسی نے ان امور کا خیال رکھا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ پہلا کام یہ ہے کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اللہ کی طرف سے عائد کردہ احکام کی پابندی اور منع کردہ کاموں سے رک جانا ہے۔ دوسرے اس بات کی گواہی دینا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں اللہ نے انہیں تمام جن و انس کی طرف مبعوث فرمایا ہے آپ کی آمد سے پہلے تمام ادیان ختم ہو گئے۔ اور قیامت تک کے لئے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور یہ یقین رکھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے ہیں اللہ نے انہیں تمام کائنات کی طرف رسول بنا پر بھیجا ہے اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ برحق ہے اور دین کے ہر معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے۔ تیسرے یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے ہیں نہ وہ اللہ ہیں اور نہ ہی اللہ کے بیٹے ہیں اور نہ ہی تینوں خداؤں میں سے ایک خدا ہیں اور انہیں اللہ نے بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا اور اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو کلمہ کن سے پیدا کیا اور آپ ان روحوں میں سے ایک روح ہیں جنہیں اللہ نے پیدا کیا ہے۔

چوتھا یہ کہ جنت حق ہے یعنی یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ نے جنت اپنے عبادت گزار بندوں کے لئے تیار کی ہے اس میں کوئی شک نہیں وہ جنت مومنوں کے لئے ہمیشہ رہنے والا آخری ٹھکانہ ہے۔ پانچواں یہ کہ جہنم بھی برحق ہے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ جہنم کی آگ جسے اللہ نے کافروں اور منافقوں کے لئے تیار کیا ہے برحق ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ جو رب کی نافرمانی کرے یا اس کا انکار کرے ان کا آخری ٹھکانہ ہے۔ ان پانچ امور کی پابندی کرنے والا جو شخص اللہ پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی وہ جنت میں داخل ہو گا خواہ اس کے اعمال تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں عقیدہ توحید اختیار کرنے کا معنیٰ یہ ہے کہ دل سے تصدیق کرے، زبان سے اقرار کرے اور اس کے مطابق عمل کرے اس کا ایمان قابل اعتبار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ توحید اختیار کرنے سے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ معلوم ہوا کہ نجات کے لئے عقیدہ توحید و رسالت پر ایمان اور اعمال صالحہ کی پابندی اور جنت و دوزخ پر یقین ضروری ہے۔

ناخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 9

جلد نمبر 39      15 تا 21 صفر 1429 ھ      23 فروری تا 29 فروری 2008 ء

 

دنیا سے بے نیازی

(( عن سھل بن سعد قال: کنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذی الحلیفۃ۔ فاذا ھو بشاۃ میتۃ شائلۃ برجلھا فقال: اترون ھذہ ھینۃ علی صاحبھا؟ فوالذی نفسی بیدہ للدنیا اھون علی اللہ، من ھذہ علی صاحبھا، ولو کانت الدنیا تزن عند اللہ جناح بعوضۃ، ما سقی کافرا منھا قطرۃ ابدا )) ( سنن ابن ماجہ، الزھد، باب مثل الدنیا، حدیث:4110 )

’’ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم ذوالحلیفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مردہ بکری دیکھی جو اپنا پاؤں اوپر اٹھائے ہوئے پڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیا سمجھتے ہو؟ یہ بکری اپنے مالک کے لئے بیکار ( ذلیل ) ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک جتنی حقیر ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کی حیثیت اور قدر و قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو اس دنیا سے کبھی بھی ایک قطرہ پینے کو نہ دیتا۔ ‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دنیا کی قدر و منزلت کی مثال مردہ بکری سے دی ہے۔ جس طرح بکریوں کا مالک مردہ بکری کو بے کار سمجھ کر اپنے ریوڑ سے باہر نکال کر پھینک دیتا ہے اسی طرح اللہ کے ہاں اس دنیا وما فیھا کی قدر ہے۔ اگر اس دنیا کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس دنیا میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ دیتا اور اپنے ایماندار بندوں کو اس دنیا کے فائدے عطا کرتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے لہٰذا دنیا کی نعمتیں ہر فرمانبردار اور نافرمان بندے کو عطا کرتا ہے لیکن آخرت صرف مومنوں کے لئے رکھی گئی ہے۔ دنیا کا مال درحقیقت آزمائش ہے کہ کون شکر ادا کرتا ہے اور کون ناشکری کرتا ہے، اسی طرح ایک اور مرتبہ آپ نے سفر کے دوران بکری کے مردہ بچے کو دیکھا جسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا تم میں سے کوئی ہے جو اسے ایک درہم کے بدلے خرید لے سب نے عرض کیا یہ تو مردہ ہے ہمارے کس کام کا ہے جو ہم ایک درہم خرچ کریں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً یہ دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔

اس کے باوجود لوگ دنیا کے مال اور شہرت کی طلب میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ دنیا کی زندگی کتنی ہی حسین کیوں نہ ہو بالآخر ختم ہو جاتی ہے مگر آخرت کی زندگی جیسی بھی ہو ہمیشہ رہنے والی ہے۔ لہٰذا دنیا کے بجائے آخرت بہتر بنانے کی فکر کی جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول یہی تھا کہ ہر وقت اسی فکر میں رہتے کہ کس طرح آخرت کو بہتر بنا لیں کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے کہ ہم کونسا عمل کریں جو ہمیں جنت میں داخل کروا دے اور دوزخ سے نجات دلا دے کبھی یہ پوچھتے کہ کونسے عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہیں۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس دنیا کی قدر اللہ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر اور نافرمان بندے کو پانی کا ایک قطرہ بھی عنایت نہ کرتا، لہٰذا دنیا سے بے نیازی اور آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 8

جلد نمبر 39      08 تا 14 صفر 1429 ھ      16 فروری تا 22 فروری 2008 ء

 

اللہ کا بندوں پر اور بندوں کا اللہ پر حق

(( عن معاذ رضی اللہ عنہ قال: کنت ردف النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی حمار یقال لہ: عفیر، فقال: یا معاذ! وھل تدر حق اللّٰہ علی عبادہ؟ وما حق العباد علی اللّٰہ؟ قلت: اللّٰہ ورسولہ اعلم، قال: فان حق اللّٰہ علی العباد ان یعبدوہ ولا یشرکوا بہ شیئا، وحق العباد علی اللّٰہ ان لا یعذب من لایشرک بہ شیئا۔ فقلت: یا رسول اللّٰہ! افلا ابشر بہ الناس؟ قال: لاتبشرھم فیتکلوا )) ( صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب اسم الفرس والحمار، حدیث: 2856)

’’ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں ( ایک سفر میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک گدھے پر سوار تھاجس کا نام عفیر تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ کے اپنے بندوں پر کیا حقوق ہیں؟ اور بندوں کے اللہ پر کیا حق ہیں؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ بنائیں، اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بناتے انہیں عذاب نہ دیں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اس بات کی لوگوں کو اطلاع نہ دے دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو مت بتاؤ وہ بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے۔ ‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بنی نوع انسان کی تخلیق کا مقصد بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ یہ اللہ کا بندوں پر حق ہے، جو کوئی اس حق میں کوتاہی کرتا ہے اس نے اپنی تخلیق کے مقصد کو بھلا دیا ہے، یہ ایک ایسا حق ہے جس میں اللہ کا کوئی بھی شریک نہیں۔ جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو بھی کسی نوعیت کا شریک بناتا ہے اس نے اللہ کے حق میں کوتاہی کی جس کی سزا جہنم کے سوا کچھ نہیں۔

جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا: جو بندے اللہ کا یہ حق درست انداز میں ادا کریں گے انہیں اللہ تعالیٰ عذاب سے محفوظ فرمائے گا۔ انہیں جہنم کے عذاب سے بچا کر نعمتوں والی جنت میں داخل کرے گا۔ اس بات کو جان کر ایک مومن بندے کو انتہائی خوشی ہوتی ہے اسی بنا پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ لوگوں کو خوشخبری دینے کی اجازت طلب کی تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت پر رحم کھاتے ہوئے منع فرما دیا کہ کہیں لوگ یہ بشارت پا کر عمل کرنا بند نہ کر دیں اور جنت میں اعلیٰ درجات کے حصول میں ناکام ہو جائیں۔ وہ جنت میں داخلے کے اس وعدے پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں اور نیک اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جائے اور وہ بہت سی بھلائیوں اور بڑے ثواب سے محروم ہو جائیں۔

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کاجو انداز اختیار فرمایا کہ سوال کر کے اپنے ساتھی کو توجہ دلائی تا کہ بات اچھی طرح واضح ہو جائے اور سننے والا توجہ سے سن کر بات سمجھ سکے۔ اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک اور سادگی کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چھوٹے جانور پر سواری کرنے میں بھی عار محسوس نہیں فرماتے تھے اور اپنے صحابی کو بھی اپنی سواری پر بٹھا لیتے۔ اس حدیث میں جانوروں کے نام رکھنے کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ اصل بات جس کی طرف اس حدیث میں توجہ دلائی گئی ہے وہ توحید ہے کہ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا اور نہ ہی قیامت کے دن نجات ہو سکے گی یہ بھی وضاحت ہے کہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ نیک اعمال کرتے رہنا چاہیے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 7

جلد نمبر 39      01 تا 07 صفر 1429 ھ      9 فروری تا 15 فروری 2008 ء

 

تین بہترین اموال

(( عن ثوبان رضی اللہ عنہ قال لما نزلت الذین یکنزون الذھب والفضۃ، کنامع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی بعض اسفارہ فقال بعض اصحابہ نزلت فی الذھب والفضۃ، لو علمنا االمال خیر فتتخذہ۔ فقال افضلہ لسان ذاکر وقلب شاکر وزوجۃ مومنة تعینہ علی ایمانہ )) ( رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ )

’’ ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ( جس کا ترجمہ ہے ) جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں تا آخر آیت اس وقت ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں شریک تھے اس آیت کو سن کر بعض صحابہ کرام نے کہا یہ آیت سونے اور چاندی ( کی مذمت ) میں نازل ہوئی ہے۔ کاش ہمیں پتہ چل جائے کہ کونسا مال بہتر ہے ہم ( سونے چاندی کے بجائے ) وہ مال حاصل کر لیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بہترین مال وہ زبان ہے جو اللہ کے ذکر میں مشغول رہتی ہے اور وہ دل ہے جو شکر ادا کرتا ہو اور وہ ایمان دار بیوی ہے جو دینی معاملات میں خاوند کی مددگار بنتی ہے۔ ‘‘ ( احمد، ترمذی، ابن ماجہ )

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ہر وقت یہی کوشش ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح نیکیاں حاصل کر لیں اور ایسا عمل کریں جو دنیا و آخرت کے لئے نفع بخش ہو۔ جب سفر کے دوران والذین یکنزون الذھب والفضة تا آخر سورہ نازل ہوئی تو انہیں فکر لاحق ہوئی کہ سونا چاندی جمع کرنا تو جہنم کی آگ کو دعوت دینا ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی ایسے مال کا علم ہو جائے جو ہمارے لئے نفع بخش ہو۔ ہم وہ مال جمع کر لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن کر فرمایا تین چیزیں بہترین مال ہیں۔

پہلی چیز وہ زبان ہے جس پر ہمیشہ اللہ کا ذکر جاری رہتا ہو۔ اسلام نے زبان کی حفاظت کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے سچی زبان، عمدہ کلام اور خوش گفتاری بہترین مال ہے اور دوسری بہترین چیز جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدہ مال قرار دیا ہے وہ ایسا دل ہے جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہو۔ شکر گزار بندہ ہمیشہ صاف دل والا ہوتا ہے اور جو دل اللہ کی یاد سے غافل ہو وہ شکر ادا نہیں کرتا اور تیسری چیز ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدہ مال قرار دیا وہ ایمان دار بیوی ہے جو نیکی کے کاموں میں اپنے خاوند کا ہاتھ بٹائے۔

نیک کاموں کی ادائیگی کے لئے اسے فارغ رکھے، ہمیشہ اپنے ہی معاملات میں نہ پھنسائے رکھے بلکہ نیکی کا سبق بھی دے اور نیکی کرنے کے لئے اسے وقت بھی دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ وہ جوڑا انتہائی خوش بخت جو ایک دوسرے کو نماز کے لئے جگائے اور نیکی میں معاونت کرے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4

جلد نمبر 39      9 تا 15 محرم الحرام 1429 ھ      19 تا 25 جنوری 2008 ء

 

سب سے بڑا گناہ

عن عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من اکبر الکبائر ان یلعن الرجل والدیہ قیل یا رسول اللہ وکیف یلعن الرجل والدیہ؟ قال یسب الرجل ابا الرجل فیسب اباہ ویسب امہ فیسب امہ (رواہ البخاری )

’’ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔ آپ سے عرض کیا گیا والدین پر کوئی کیسے لعنت کر سکتا ہے آپ نے فرمایا وہ اس طرح کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے وہ اس کے جواب میں اس کے باب کو گالی دیتا ہے ایک شخص کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے نیتیجاً وہ اس کی ماں کو گالی دے گا ‘‘ ( بخاری )

مکافات عمل کا دستور مسلمہ حقیقت ہے اور بدلہ لینے کا رجحان بھی غالب ہوتا ہے بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو برائی سن کر بھلائی کریں ہر کوئی بدلہ لنیے کی کوشش کرتا ہے اسی اصول کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے یا ان پر لعنت کرے۔ صحابہ کرام نے یہ سن کر تعجب کیا کہ ایسا کون سا بد نصیب ہے جو اپنی ماں یا باپ کو گالی دے یا ان پر لعنت کرے آج کے دور میں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اس لئے کہ لوگ والدین کے مقام کو پہچانتے نہیں جائیداد یا کسی معمولی سی بات پر اپنے والدین کو برا بھلا کہتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو قتل بھی کر دیتے ہیں مگر اس دور میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ کوئی انسان اپنے والدین پر لعنت کرے گا اسی تعجب کی بنا پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ ایک انسان کسی سے ناراض ہو کر اسے اور اس کے والدین کو گالی دیتا ہے وہ اس غلیظ گفتگو کو سن کر اس کے بدلے میں اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اسی طرح کسی نے کسی کی ماں کو گالی دی جس کے عوض وہ اس کی ماں کو گالیاں دیتا ہے اس طرح وہ کسی کے والدین کو گالی دے کر اپنے والدین کو گالیاں نکالنے کا سبب بنتا ہے گویا کہ اس نے خود اپنے والدین کو گالی دی ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ جو کام کسی گناہ کا سبب بنے اس سے بھی بچنے کی کوشش کی جائے۔ تاکہ کوئی انسان ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سزا کا حق دار نہ بنے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 1

جلد نمبر 39      24 ذوالحجہ 1428 ھ      4 جنوری 2008 ء

 

ایام قربانی

ہمارے ہاں عام طور پر یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ قربانی کے صرف تین دن ہیں مگر صحیح روایات کے مطابق قربانی کے چار ایام ہیں ایک قربانی کا دن اور تین ایام تشریق۔

تفسیر ابن کثیر‘ فتح الباری اور ابن حبان میں حضرت جبیر بن مطعم رحم اللہ علیہم سے روایت ہے ایام التشریق کلھا ذبح یعنی ایام تشریق سارے کے سارے قربانی کے دن ہیں۔

ایام تشریق کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عرب ان ایام میں قربانی کے گوشت کو محفوظ کرنے کے لیے دھوپ میں سکھا لیتے تھے۔ اسی مناسبت سے گیارہ بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو ایام تشریق کہا جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ایام التشریق اربعة ایام یوم النحر و ثلاثہ بعدہ

یعنی ایام تشریق چار دن ہیں ایک قربانی کا دن اور تین دن اس کے بعد۔

اگرچہ قربانی کا جانور ذی الحجہ کو ذبح کرنا انتہائی پسندیدہ عمل ہے لیکن اگر کوئی شخص دس تاریخ کو کسی مجبوری کے پیش نظر قربانی نہ کر سکے تو وہ دوسرے تیسرے یا چوتھے دن کر لے اگر چوتھے دن سنت نبوی کو زندہ کرنے کی نیت سے قربانی کر لے تو قربانی کے ثواب کے ساتھ ساتھ سنت نبوی کو زندہ کرنے کا ثواب بھی ملے گا جو کہ سو شہید کے ثواب کے برابر ہے۔

پس صحیح مذہب کے مطابق چار دن قربانی کرنا جائز ہے یہ بات بھی محل نظر رہے کہ قربانی کا جانور یا گائے اور اونٹ کا ایک حصہ گھر کے تمام افراد کی طرف سے ہوتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام افراد خانہ کی طرف سے ایک جانور ذبح کیا کرتے تھے۔ اور حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے ایک سو جانور بھی قربان کیے لہٰذا استطاعت کے مطابق ایک سے زیادہ قربانیاں بھی کی جا سکتی ہیں بلکہ امر مستحسن اور مستحب ہے۔ جو لوگ قربانی کا جانور یا گائے اور اونٹ کا حصہ گھر کے ایک فرد کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ان کی قربانی تو ہو جاتی ہے مگر اپنے اس عمل سے وہ گھر کے دیگر افراد کو ثواب سے محروم کر دیتے ہیں اور اگر قربانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق تمام افراد خانہ کی طرف سے ایک قربانی کی جائے تو سب کو پورا پورا ثواب ملتا ہے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 48

جلد نمبر 38      3 تا 9 ذوالحجہ 1427 ھ      15 تا 21 دسمبر 2007 ء

 

اللہ کا صبر

عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما احد اصبر علی اذی سمعہ من اللہ یدعون لہ الو لد ثمی یعا فیہم ویرزقہم ( رواہ البخاری )

حضرت ا بو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تکلیف دہ بات سن کر صبر کرنے والا اللہ سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہے مشرک کہتے ہیں اللہ کی اولاد ہے مگر وہ ان کی ان باتوں کے باوجود انہیں عافیت میں رکھتا ہے اور روزی عطا فرماتا ہے۔ ( بخاری )

اللہ تعالیٰ بلند حوصلے اور عظیم مرتبے والا ہے بندوں کے بڑے بڑے گناہوں پر انہیں معاف کر دیتا ہے ان کے عیب چھپاتا ہے قرآن پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے بہت سے گناہوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ان سے در گزر کرتا ہے اور فرمایا جو کوئی تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے وہ تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے لیکن جب اس کے بندے اس کی ذات میں کسی کو شریک بناتے ہیں توا سے یہ سخت ناگوار ہوتا ہے وہ ارشاد فرماتا ہے کہ انسان مجھے جھٹلاتا بھی ہے اور مجھے گالیاں بھی دیتا ہے۔ حالانکہ اسے یہ حق نہیں پہنچتا۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد زندہ کر کے اٹھایا نہیں جائے گا حالانکہ یہ کام میرے لئے مشکل نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میری اولاد ہے حالانکہ نہ میری اولاد ہے نہ والدین۔

بخاری شریف کی اس روایت میں بھی اللہ نے یہی فرمایا ہے کہ اللہ سے زیادہ کوئی بھی صبر کرنے والا نہیں ہے۔ اللہ کا شریک بنانے کے باوجود وہ صبر کرتا ہے اور اس کا حوصلہ بہت ہی بڑا ہے۔ بندے فرشتوں کو اللہ کی اولاد سمجھتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی اولاد نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قدر مہربان ہے کہ یہ سن کر بھی انہیں عافیت دیتا ہے اور انہیں رزق دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی شخص اگر کسی کی نافرمانی کی بنا پر ناراض ہو جائے تو وہ تمام وسائل روک لیتا ہے اور جس حد تک وہ تکلیف دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اپنے مخالف کو تکلیف دینے سے گریز نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ ہر شخص کی خبر گیری بھی کرتا ہے۔ انہیں رزق بھی دیتا ہے اس کی اس عنایت پر غفلت کا شکار ہونے کے بجائے اس کی بندگی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے اور قیامت کے روز عذاب سے بچا لے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 47

جلد نمبر 38      26 ذیقعدۃ تا 2 ذوالحجہ 1427 ھ      8 تا 14 دسمبر 2007 ء

٭٭٭

ماخذ:

http://www.ahlehadith.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

کچھ احادیث

پروفیسر عبدالرحمن لدھیانوی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

فہرست

 TOC \o "1-1” \h \z \u استقبال رمضان کے روزے… PAGEREF _Toc369339432 \h 3 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330032000000

آزادی کا مفہوم. PAGEREF _Toc369339433 \h 5 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330033000000

انسان کی تخلیق….. PAGEREF _Toc369339434 \h 7 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330034000000

مومن کی حالت… PAGEREF _Toc369339435 \h 9 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330035000000

تین مساجد کی فضیلت اور آداب.. PAGEREF _Toc369339436 \h 11 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330036000000

اللہ پر بھروسہ.. PAGEREF _Toc369339437 \h 13 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330037000000

نذر کا کفارہ PAGEREF _Toc369339438 \h 15 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330038000000

خلع. PAGEREF _Toc369339439 \h 17 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400330039000000

عقیدہ توحید کی فضیلت.. PAGEREF _Toc369339440 \h 19 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340030000000

دنیا سے بے نیازی. PAGEREF _Toc369339441 \h 21 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340031000000

اللہ کا بندوں پر اور بندوں کا اللہ پر حق… PAGEREF _Toc369339442 \h 23 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340032000000

تین بہترین اموال. PAGEREF _Toc369339443 \h 25 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340033000000

سب سے بڑا گناہ PAGEREF _Toc369339444 \h 27 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340034000000

ایام قربانی. PAGEREF _Toc369339445 \h 29 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340035000000

اللہ کا صبر… PAGEREF _Toc369339446 \h 31 08D0C9EA79F9BACE118C8200AA004BA90B02000000080000000E0000005F0054006F0063003300360039003300330039003400340036000000

استقبال رمضان کے روزے

(( عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یتقدمن احدکم رمضان یصوم یوم او یومین الا ان یکون الرجل کان یصوم صوما فلیصم ذالک الیوم )) ( متفق علیہ )

’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایک دن یا دو دن رمضان سے آگے نہ بڑھے ہاں وہ شخص جو ان ایام کے روزے رکھتا ہے اسے اس دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے۔ ‘‘

رمضان المبارک اپنی تمام برکات کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے جس کے لئے ہر مسلمان تیاری کر رہا ہے تا کہ وہ سحری و افطار اور دیگر عبادات میں پورے انہماک کے ساتھ مصروف ہو جائے۔ اسی طرح بعض لوگ رمضان کے استقبال کے سلسلے میں روزے رکھتے ہیں جنہیں استقبالی روزے کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سے ایک یا دو دن قبل روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ شعبان کے بعد عام لوگوں کو نفلی روزے رکھنے سے روکا ہے اس لئے کہ کہیں نفلی روزے رکھ کر کمزور نہ ہو جاؤ اور فرض روزے چھوٹ جائیں جبکہ خود رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم پورا شعبان روزے رکھا کرتے تھے اس کا سبب بھی بیان فرما دیا کہ شعبان میں لوگوں کے اعمال اللہ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ کے سامنے پیش ہوں تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔ اس فضیلت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس مہینے میں پندرہ شعبان کے بعد روزے رکھنے سے منع فرما دیا اور خصوصاً رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزے رکھنے سے روکا ہے مگر اس شخص کو اجازت ہے جو باقاعدگی سے ہر ماہ نفلی روزے رکھتا ہو مثلاً ایک شخص ہر سوموار کو روزہ رکھتا ہے رمضان سے ایک یا دو دن قبل سوموار آجائے تو وہ اس سوموار کا روزہ رکھ لیتا ہے وہ استقبال رمضان کا نہیں بلکہ اس کے معمول کا روزہ ہے اسی طرح جو شخص باقاعدہ کسی بھی دن کا روزہ رکھتا ہے یعنی ایک دن روزہ ایک دن افطار کا معمول ہو تو اسے اپنا معمول جاری رکھنے کی اجازت ہے۔ کچھ لوگ دین کے نام پر بدعات پر عمل پیرا ہیں اپنے خیال کے مطابق محترم و مقدس مہینے کا استقبال روزے رکھ کر کرتے ہیں جو کہ خلافِ سنت ہے اس قسم کی بدعات سے بچنے کی کوشش کی جائے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 35

جلد نمبر 39      19 شعبان تا 25 شعبان 1429      23 تا 29 اگست 2008 ء

آزادی کا مفہوم

(( عن نعمان بن بشیر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثل المدھن فی حدود اللہ والواقع فیھا مثل قوم استھموا السفینۃ فصار بعضھم فی اسفلھا وصار بعضھم فی علاھا۔ فکان الذی فی اسفلھا یمر بالماء علی الذین فی اعلاھا فتاذوا بہ فاخذ فاسا فجعل ینقر اسفل السفینۃ فاتوہ فقالوا مالک ؟ قال تاذیتم بی ولا بدلی من الماء فان اخذوا علی یدیہ انجوہ ونجو انفسھم وان ترکوہ اھلکوہ واھلکوا انفسھم )) ( رواہ البخاری )

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی حدوں میں سستی کرنے والے اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جو ایک ( بحری جہاز ) کشتی پر سوار ہوتے ہیں اور انہوں نے قرعہ اندازی کے ذریعے اپنی اپنی جگہ متعین کر لی کچھ لوگ کشتی کے نچلے حصے میں اور کچھ اوپر والے حصے میں چلے گئے وہ لوگ جو نچلے حصے میں تھے وہ اوپر سے پانی لے کر اوپر والوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں اس کی تکلیف ہوتی ( جس کی بناء پر اوپر والوں نے نیچے والوں کو اوپر آنے سے روک دیا ) جس پر نیچے والوں نے کلہاڑا لے کر کشتی میں سوراخ کرنا چاہا تا کہ سمندر ( دریا ) کا پانی حاصل کر لیں۔ اوپر والوں نے کہا تم کیا کر رہے ہو انہوں نے جواب دیا تمہیں میرے آنے سے تکلیف ہوتی ہے اور پانی کی مجھے بھی ضرورت ہے۔ اگر وہ اس کا ہاتھ روک لیں تو اسے بھی بچالیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے تو اسے بھی ہلاک کر ڈالیں گے اور خود بھی ہلاک ہو جائیں گے۔ ( بخاری باب الامر بالمعروف، مشکوٰۃ ) اسلام کسی کی آزادی سلب نہیں کرتا مگر اسے آزاد بھی نہیں چھوڑتا کہ جو چاہے کرتا رہے۔ اپنی حدود میں رہتے ہوئے ہر چیز کو بڑھنے پھولنے کی اجازت ہے لیکن اگر تمام حدود کو پھلانگ کر اپنی مرضی کی جائے تو تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور برائی سے روکنا یہ آزادی کے منافی نہیں ہے۔ روشن خیال اور بے غیرتی کو آزادی سمجھ لیا ہے جو کہ درست نہیں ایسی آزادی جس میں کوئی پابندی نہ ہو وہ نقصان اور تباہی کا باعث بنتی ہے ان حدود کی پابندی کرنا لازم ہے جو شریعت نے متعین کی ہیں۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 34

جلد نمبر 39      12 شعبان تا 18 شعبان 1429      16 تا 22 اگست 2008 ء

انسان کی تخلیق

 

 

(( عن عمر بن حفص رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصادق المصدوق ان احدکم یجمع فی بطن امہ اربعین یوما ثم یکون علقۃ مثل ذالک ثم یبعث اللہ الیہ ملکا باربع کلمات فیکتب عملہ واجلہ ورزقہ وشقی او سعید ثم ینفخ فیہ الروح فان الرجل یعمل بعمل اھل النار حتی ما یکون بینہ وبینھا الا ذراع فسبق علیہ الکتاب فیعمل بعمل اھل الجنۃ فیدخل الجنۃ وان الرجل یعمل بعمل اھل الجنۃ حتی ما یکون بینہ وبینھا الا ذراع فیسبق علیہ الکتاب فیعمل بعمل اھل النار فیدخل النار )) ( رواہ البخاری )

’’ حضرت عمر بن حفص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے اور جو آپ سے وعدہ کیا گیا وہ بھی سچ ہے۔ ‘‘ تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک بطور نطفہ قائم رہتا ہے پھر وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے ( چالیس دن تک اسی طرح رہتا ہے ) پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتہ بھیجتا ہے جو چار چیزیں لکھ دیتا ہے، وہ اس کے کام اس کی موت، اس کا رزق اور اس کا نیک یا بد ہونا لکھ دیتا ہے، پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ پس ایک آدمی دنیا میں آگ میں لیجانے والے اور لوگوں کے طریقے پر چلتا رہتا ہے حتیٰ کہ جب اس کے اور آگ کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے اس پر تحریر غالب آ جاتی ہے تو وہ جنت میں جانے والے اعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے اور ایک آدمی جنت والوں کے کام کرتا ہے حتیٰ کہ جب اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر غالب آ جاتی ہے اور وہ دوزخیوں والے کام کرنے لگ جاتا ہے اور دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے۔ ‘‘

انسان کی پیدائش کے مختلف مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ نطفہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کے حکم سے رحم مادر میں جگہ ملتی ہے۔ اللہ کا حکم نہ ہو تو کوئی طاقت نطفے کو رحم میں نہیں پہنچا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ ہر قسم کا علاج کروانے کے باوجود اولاد کی نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ اس نطفے میں چالیس دن تک قدرتی عمل جاری رہتا ہے حتیٰ کہ وہ منجمد خون بن جاتا ہے پھر اس میں چالیس دن تک اللہ کی طرف سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اس میں روح ڈال کر اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے جس کے متعلق اللہ خوب جانتا ہے۔ دنیا میں آ کر انسان ویسے ہی عمل کرتا ہے یہ اللہ کا انصاف ہے وہ انسان کی طبیعت سے خوب آگاہ ہے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 32

جلد نمبر 39      28 رجب تا 4 شعبان 1429 ھ      02 تا 08 اگست 2008 ء

مومن کی حالت

(( عن ابي سعيد الخدري وابي ھرير رضي اللہ عنہما انھما سمعا رسول اللہ يقول ما يصيب المومن من وصب، ولا نصب، ولا سقم ولا حزن حتي الھم يھمہ الا کفر بہ من سيئاتہ )) ( صحیح مسلم، البر والصلۃ، باب ثواب المومن…. حدیث : 2573 )

’’ ابو سعید خدری، اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب بھی کسی ایماندار شخص کو کوئی بیماری آتی ہے یا تکلیف پہنچتی ہے یا کوئی مشکل پیش آتی ہے یا کوئی غم لاحق ہوتا ہے یا دنیا کے مصائب سے پریشان ہوتا ہے تو اس کے بدلے ( اللہ تعالیٰ ) اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ ‘‘

مسلمان کے لئے ہر حالت میں بھلائی ہے اگر اسے کوئی خوشی ملتی ہے اس پر وہ اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے تو اسے اجر ملتا ہے اور اگر اسے کوئی ناگواری پیش آتی ہے جس پر وہ صبر کرتا ہے، تب بھی اسے ثواب ملتا ہے۔ دنیا کی زندگی ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں رہتی، کبھی خوشی اور کبھی غمی، کبھی تندرستی اور کبھی بیماری، کبھی غربت ہے تو کبھی دولت کی ریل پیل ہے، کبھی غم اور پریشانیاں ہیں اور کبھی آرام و آسائش، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے ’’ تلک الایام نداولھا بین الناس ‘‘ ان حالات میں جب کسی مومن کو کسی نوعیت کی تکلیف یا پریشانی لاحق ہو تو وہ اس پر صبر کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیتا ہے۔

یہ ثواب صبر کرنے کی صورت میں عطا کیا جاتا ہے۔ اور جب اسے کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اس پر بھی اسے ثواب ملتا ہے، مشکلات پر صبر کرنا، مشکل کام ہے مگر جو صبر کا دامن تھام لے اسے اللہ کا فضل نصیب ہو جاتا ہے، جسے اللہ کا فضل مل جائے وہ کتنا خوش نصیب ہے۔ لہٰذا دنیا کی زندگی میں کسی پریشانی سے گھبرا کر اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہئیے اور نہ ہی اللہ کی دی ہوئی نعمت پر اترا کر تکبر یا ناشکری کی جائے اگر کوئی بیماری یا تکلیف یا کوئی پریشانی آ جائے تو گھبرانے کے بجائے توبہ استغفار کی جائے، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ مشکل بھی دور کر دیتا ہے اور ثواب بھی عطا کرتا ہے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 14

جلد نمبر 39      20 رجب تا 26 رجب 1429 ھ      29 مارچ تا 4 اپریل 2008 ء

تین مساجد کی فضیلت اور آداب

(( عن سعید بن المسیب عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد المسجد الحرام ومسجدی ھذا والمسجد الاقصیٰ )) ( رواہ البخاری )

حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ کہ تین مساجد کی زیارت کے علاوہ کسی بھی مقام کی زیارت کے لئے باقاعدہ اہتمام کر کے نہ جایا جائے۔ مسجد حرام اور میری مسجد یعنی مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ ‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے بیان کیا۔

اپنے گھر سے تیار ہو کر باقاعدہ اہتمام کے ساتھ صرف تین مساجد میں زیارت کی نیت سے جانے کی اجازت ہے۔ دیگر مساجد میں بھی انسان اہتمام کے ساتھ جاتا ہے لیکن وہاں جانا مسجد کی زیارت کے لئے نہیں ہوتا بلکہ نماز کی ادائیگی کے لئے ہوتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ کسی مزار کی زیارت یا کسی عرس وغیرہ میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے کسی مقام پر جانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ ان مساجد کی زیارت کے علاوہ کسی بھی مقام پر زیارت کے لئے جانا درست نہیں۔ اس سفر پر اٹھنے والے اخراجات اور پہنچنے والی تکلیف کا کوئی اجر و ثواب نہیں ہو گا بلکہ قیامت کے روز سوال کیا جائے گا کہ یہ سفر کیوں اختیار کیا۔ جن مقامات پر جانے سے انسان کو فائدہ ہو گا وہ مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسجد اقصیٰ ہیں، بیت اللہ میں حج کے دو ارکان ادا ہوتے ہیں ایک طواف دوسرے سعی صفا اور مروہ۔ بیت اللہ میں داخل ہونے کے بعد پہلا کام جو کیا جائے وہ طواف ہے اور دیگر دونوں مساجد میں جا کر سب سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کی جائیں۔ دنیا میں سب سے پہلے مسجد حرام یعنی بیت اللہ کی تعمیر کی گئی اس کے بعد مسجد اقصیٰ تعمیر ہوئی جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات سے تعمیر کروایا ان دونوں مساجد کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد مسجد نبوی تعمیر کروائی۔ بیت اللہ میں نماز ادا کرنے کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔ جبکہ مسجد نبوی میں جو ایک نماز ادا کریں تو اسے ایک ہزار نمازوں کے برابر ثواب ملتا ہے اور مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا پانچصد نمازوں کے ثواب کے برابر ہوتی ہیں۔ مسجد نبوی میں داخل ہونے والا با ادب اور عاجزی کے انداز میں داخل ہو۔ عمدہ لباس پہنے، خوشبو لگائے ہوئے ہو، مسجد میں داخل ہو کر دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کرے پھر بیت اللہ کی طرف پشت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف منہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھے۔

اللہ پر بھروسہ

عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما قال کنت خلف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا غلام انی اعلمک کلمات احفظ اللہ یحفظک، احفظ اللہ تجدہ تجاھک اذا سالت فاسال اللہ واذا استعنت فاستعن باللہ واعلم ان الامۃ لواجتمعت علی ان ینفعوک بشیء لم ینفعوک الابشی ء قد کتبہ اللہ تعالی لک وان اجتمعوا علی ان یضروک بشیء لم یضروک الابشیء قدکتبہ اللہ تعالی علیک رفعت الاقلام وجفت الصحف ( رواہ الترمذی )

’’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں کسی سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا اے لڑکے میں تجھے کچھ باتیں سکھاتا ہوں اللہ کا لحاظ کرو اللہ تمہارا لحاظ کرے گا۔ اللہ کا لحاظ کرو تم اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے جب بھی سوال کریں تو اللہ سے سوال کریں اورجب کبھی امداد طلب کریں تو اللہ ہی سے مدد مانگیں اور خوب جان لیں کہ اگر پوری قوم تجھے کچھ فائدہ پہنچانے کے لئے جمع ہو جائے تو وہ تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتی، سوائے اس کے جو اللہ نے تیرے لئے رکھا ہوا ہے اور اگر اس بات پر جمع ہو جائے کہ تیرا کچھ نقصان کردے تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتی سوائے اس نقصان کے جو اللہ نے پہلے ہی لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھا لئے گئے ہیں اور رجسٹر خشک ہو گئے ہیں ‘‘۔ ( ترمذی )

اس حدیث پاک میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جانور پر سوار دوران سفر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ایک پر مغز اور پرتاثیر نصیحت فرمائی۔ پہلی بات یہ فرمائی کہ ہر وقت یہ تصور رکھو کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اس کی نظروں کے سامنے ہوں جس طرح انسان کسی چیز کی حفاظت کرتے ہوئے ہر وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھتا ہے۔ ایسے ہی ہر انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ میرا مالک میری نگرانی کر رہا ہے تو وہ گناہ سے محفوظ رہ سکے گا۔ دوسری نصیحت یہ فرمائی کہ اللہ کے سوا کسی سے سوال نہ کرو اور اس کے سوا کسی سے مدد نہ مانگو اس لئے کہ سب کچھ دینے والا بھی وہی اللہ ہے اور حاجتیں بھی وہی پوری کرتا ہے۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ پوری کائنات کے لوگ جمع ہو کر نہ تمہارا کچھ نقصان کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ جب لوگ نفع و نقصان کے مالک ہی نہیں تو ان سے امیدیں وابستہ کرنا بے کار ہے۔ نفع و نقصان اور دیگر معاملات کو لکھ کر قلمیں اٹھائی گئی ہیں اور جن کتابوں پر لکھا گیا ان کی سیاہی بھی خشک ہو چکی ہے یعنی معاملہ مکمل ہو گیا ہے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 29

جلد نمبر 39      07 رجب تا 13 رجب 1429 ھ      12 جولائی تا 18 جولائی 2008 ء

نذر کا کفارہ

عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من نذر نذرا لم یسمہ فکفارتہ کفارۃ الیمین ومن نذر نذرا فی معصیۃ فکفارتہ کفارۃ یمین ومن نذر نذرا لا یطیقہ فکفارتہ کفارۃ یمین ومن نذر نذرا اطاقہ فلیف بہ ( رواہ ابوداود )

’’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے کوئی نذر مانی جس کا نام نہیں لیا تو اس کا کفارہ قسم کے کفارے جتنا ہے، اور جس شخص نے ایسی منت مانی جس سے نافرمانی ہوتی ہو اس کا کفارہ بھی قسم کے کفارہ کے برابر ہے اور جس کسی نے ایسی نذر مانی جسے پورا کرنے کی اس میں طاقت نہیں ہے اس کا کفارہ بھی قسم کے کفارہ جتنا ہے اور جس نے منت مانی جس کو پورا کرنے کی اس میں ہمت ہے تو اسے پورا کرے۔ ‘‘

بعض اوقات لوگ اپنی کسی حاجت کے پورا ہونے کے لئے منت مان لیتے ہیں۔ نذر یعنی منت ماننا جائز ہے لیکن اگر منت بے نام ہو تو پورا کرنا مشکل ہو گا اسی طرح گناہ یا نافرمانی کی منت ہو تب بھی پورا کرنے کی اجازت نہیں ہے یا ایسی نذر مانی جس کے پورا کرنے کی طاقت نہیں ہے ان تمام صورتوں میں کفارہ ادا کر دیا جائے تو انسان گنہگار نہیں ہو گا ان تمام قسم کی نذر میں قسم کا کفارہ ہی ادا کرنا ہوتا ہے۔

تلاوت کردہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار قسم کی نذر کا ذکر فرمایا ہے پہلے یہ کہ نذر تو مانی مگر کوئی کام متعین نہ کیا جب کوئی کام ہی متعین نہیں تو اسے پورا کیسے کرے گا لہٰذا اس کا کفارہ ادا کرے، دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے خلاف عمل کرنے کی نذر مانی اسے بھی پورا نہ کرے اور کفارہ ادا کر دے تیسرے یہ جو نذر مانی ہے اسے پورا کرنے کی طاقت نہیں ایسی صورت میں بھی کفارہ ادا کر دے ان تینوں قسم کی نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم توڑنے کا کفارہ ہے اور قسم کے کفارے میں چار اختیار دئیے گئے ہیں جن میں سے ایک پر تو موجودہ دور میں عمل کرنا ممکن نہیں وہ غلام آزاد کرنا ہے دس مساکین کا لباس یا دس مساکین کا ایک وقت کا کھانا یا تین روزے رکھے جائیں۔ لہٰذا نذر پوری نہ کرنے والے پر لازم ہے کہ قسم کے تین قسم کے کفارے میں سے ایک کفارہ ادا کر دے اور جو کوئی ایسی نذر مانے جس کا پورا کرنا ممکن ہو تو کفارہ ادا کرنے کے بجائے نذر پوری کرے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 28

جلد نمبر 39      30 جمادی الثانی تا 06 رجب 1429 ھ      05 جون تا 11 جولائی 2008 ء

خلع

عن عائشۃ رضی اللہ عنہ ان حبیبۃ بنت سھل کانت عند ثابت بن قیس بن شماس فضربھا فکسر بعضھا فاتت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد الصبح فاشتکتہ الیہ فدعا النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثابتا فقال خذ بعض مالھا وفارقھا فقال ویصلح ذالک یا رسول اللہ ؟ قال ! نعم ! قال فانی اصدقتھا حدیقتین وھما بیدھا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خذھما فغارقھا ففعل ( رواہ ابوداود )

’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سہل کی بیٹی حبیبہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے نکاح میں تھیں۔ انہوں نے حبیبہ کو مارا یہاں تک کہ اس کا کوئی عضو ٹوٹ گیا تو وہ صبح کے فوراً بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کے پاس شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت کو بلایا اور فرمایا اس سے کچھ مال لے کر اسے چھوڑ دے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ درست ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! حضرت ثابت نے کہا میں نے دو باغ اسے مہر میں ادا کئے جو کہ اس کے پاس ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دونوں باغ واپس لے لو اور اسے چھوڑ دو تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ‘‘

میاں بیوی کے حقوق فرائض کی اسلام نے تعلیم دے کر انہیں ادا کرنے کی تلقین بھی کی ہے۔ اگر ایک فرد دوسرے کے حقوق ادا نہیں کرتا تو شریعت نے انہیں الگ الگ زندگی گزارنے کی اجازت دی ہے۔ مرد کو طلاق کا حق دیا کہ اگر خاوند اپنی تمام کوشش کے باوجود اپنی بیوی کو خوش نہ رکھ سکے اور وہ اپنی ضد پر قائم رہے تو خاوند کو اجازت ہے کہ اپنی منکوحہ کو طلاق دے کر فارغ کر دے۔ اسی طرح اگر خاوند اپنی بیوی کے حقوق پورے نہیں کرتا۔ وفا شعار اور فرمانبردار بیوی کو بلاوجہ تنگ کرتا ہے تو بیوی کو اجازت ہے کہ عدالت کے ذریعے اپنے خاوند سے چھٹکارا حاصل کر لے۔

حضرت حبیبہ کو ان کے خاوند نے اتنا مارا کہ اس کا کوئی عضو ٹوٹ گیا وہ فجر طلوع ہوتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں جب آپ نماز فجر کے لئے گھر سے باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندھیرے میں کسی کو گھر کے باہر کھڑے دیکھا اور فرمایا کون ہے تو حضرت حبیبہ نے اپنی کہانی سنائی نماز فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہر ثابت بن قیس کو بلایا۔ ان کی باتیں سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنا مال اس سے لے لو اور اسے آزاد کر دو پھر پوچھا کیا یہ درست ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، تو انہوں نے عرض کیا میں نے دو باغ انہیں حق مہر کے طور پر دئیے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ واپس لے لو تو انہوں نے دونوں باغ واپس لے کر اپنی بیوی کو آزاد کر دیا۔ خلع کی عدت ایک ماہ ہے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 27

جلد نمبر 39      23 تا 29 جمادی الثانی 1429 ھ      28 جون تا 04 جولائی 2008 ء

عقیدہ توحید کی فضیلت

(( عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من شھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ وان عیسی عبداللہ ورسولہ وکلمتہ، القاھا الی مریم و روح منہ والجنۃ حق والنار حق ادخلہ اللہ الجنۃ علی ما کان من العمل )) ( رواہ البخاری و مسلم )

’’ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا اور اس کی طرف سے روح ہیں اور جنت برحق ہے دوزخ بھی برحق ہے اللہ اسے جنت میں داخل کر دے گا خواہ وہ کیسے ہی عمل کرتا رہا۔ ‘‘

اس حدیث میں پانچ امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس کسی نے ان امور کا خیال رکھا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ پہلا کام یہ ہے کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اللہ کی طرف سے عائد کردہ احکام کی پابندی اور منع کردہ کاموں سے رک جانا ہے۔ دوسرے اس بات کی گواہی دینا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں اللہ نے انہیں تمام جن و انس کی طرف مبعوث فرمایا ہے آپ کی آمد سے پہلے تمام ادیان ختم ہو گئے۔ اور قیامت تک کے لئے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور یہ یقین رکھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے ہیں اللہ نے انہیں تمام کائنات کی طرف رسول بنا پر بھیجا ہے اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ برحق ہے اور دین کے ہر معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے۔ تیسرے یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے ہیں نہ وہ اللہ ہیں اور نہ ہی اللہ کے بیٹے ہیں اور نہ ہی تینوں خداؤں میں سے ایک خدا ہیں اور انہیں اللہ نے بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا اور اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو کلمہ کن سے پیدا کیا اور آپ ان روحوں میں سے ایک روح ہیں جنہیں اللہ نے پیدا کیا ہے۔

چوتھا یہ کہ جنت حق ہے یعنی یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ نے جنت اپنے عبادت گزار بندوں کے لئے تیار کی ہے اس میں کوئی شک نہیں وہ جنت مومنوں کے لئے ہمیشہ رہنے والا آخری ٹھکانہ ہے۔ پانچواں یہ کہ جہنم بھی برحق ہے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ جہنم کی آگ جسے اللہ نے کافروں اور منافقوں کے لئے تیار کیا ہے برحق ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ جو رب کی نافرمانی کرے یا اس کا انکار کرے ان کا آخری ٹھکانہ ہے۔ ان پانچ امور کی پابندی کرنے والا جو شخص اللہ پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی وہ جنت میں داخل ہو گا خواہ اس کے اعمال تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں عقیدہ توحید اختیار کرنے کا معنیٰ یہ ہے کہ دل سے تصدیق کرے، زبان سے اقرار کرے اور اس کے مطابق عمل کرے اس کا ایمان قابل اعتبار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ توحید اختیار کرنے سے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ معلوم ہوا کہ نجات کے لئے عقیدہ توحید و رسالت پر ایمان اور اعمال صالحہ کی پابندی اور جنت و دوزخ پر یقین ضروری ہے۔

ناخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 9

جلد نمبر 39      15 تا 21 صفر 1429 ھ      23 فروری تا 29 فروری 2008 ء

دنیا سے بے نیازی

(( عن سھل بن سعد قال: کنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذی الحلیفۃ۔ فاذا ھو بشاۃ میتۃ شائلۃ برجلھا فقال: اترون ھذہ ھینۃ علی صاحبھا؟ فوالذی نفسی بیدہ للدنیا اھون علی اللہ، من ھذہ علی صاحبھا، ولو کانت الدنیا تزن عند اللہ جناح بعوضۃ، ما سقی کافرا منھا قطرۃ ابدا )) ( سنن ابن ماجہ، الزھد، باب مثل الدنیا، حدیث:4110 )

’’ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم ذوالحلیفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مردہ بکری دیکھی جو اپنا پاؤں اوپر اٹھائے ہوئے پڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیا سمجھتے ہو؟ یہ بکری اپنے مالک کے لئے بیکار ( ذلیل ) ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک جتنی حقیر ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کی حیثیت اور قدر و قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو اس دنیا سے کبھی بھی ایک قطرہ پینے کو نہ دیتا۔ ‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دنیا کی قدر و منزلت کی مثال مردہ بکری سے دی ہے۔ جس طرح بکریوں کا مالک مردہ بکری کو بے کار سمجھ کر اپنے ریوڑ سے باہر نکال کر پھینک دیتا ہے اسی طرح اللہ کے ہاں اس دنیا وما فیھا کی قدر ہے۔ اگر اس دنیا کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس دنیا میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ دیتا اور اپنے ایماندار بندوں کو اس دنیا کے فائدے عطا کرتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے لہٰذا دنیا کی نعمتیں ہر فرمانبردار اور نافرمان بندے کو عطا کرتا ہے لیکن آخرت صرف مومنوں کے لئے رکھی گئی ہے۔ دنیا کا مال درحقیقت آزمائش ہے کہ کون شکر ادا کرتا ہے اور کون ناشکری کرتا ہے، اسی طرح ایک اور مرتبہ آپ نے سفر کے دوران بکری کے مردہ بچے کو دیکھا جسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا تم میں سے کوئی ہے جو اسے ایک درہم کے بدلے خرید لے سب نے عرض کیا یہ تو مردہ ہے ہمارے کس کام کا ہے جو ہم ایک درہم خرچ کریں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً یہ دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔

اس کے باوجود لوگ دنیا کے مال اور شہرت کی طلب میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ دنیا کی زندگی کتنی ہی حسین کیوں نہ ہو بالآخر ختم ہو جاتی ہے مگر آخرت کی زندگی جیسی بھی ہو ہمیشہ رہنے والی ہے۔ لہٰذا دنیا کے بجائے آخرت بہتر بنانے کی فکر کی جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول یہی تھا کہ ہر وقت اسی فکر میں رہتے کہ کس طرح آخرت کو بہتر بنا لیں کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے کہ ہم کونسا عمل کریں جو ہمیں جنت میں داخل کروا دے اور دوزخ سے نجات دلا دے کبھی یہ پوچھتے کہ کونسے عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہیں۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس دنیا کی قدر اللہ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر اور نافرمان بندے کو پانی کا ایک قطرہ بھی عنایت نہ کرتا، لہٰذا دنیا سے بے نیازی اور آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 8

جلد نمبر 39      08 تا 14 صفر 1429 ھ      16 فروری تا 22 فروری 2008 ء

اللہ کا بندوں پر اور بندوں کا اللہ پر حق

(( عن معاذ رضی اللہ عنہ قال: کنت ردف النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی حمار یقال لہ: عفیر، فقال: یا معاذ! وھل تدر حق اللّٰہ علی عبادہ؟ وما حق العباد علی اللّٰہ؟ قلت: اللّٰہ ورسولہ اعلم، قال: فان حق اللّٰہ علی العباد ان یعبدوہ ولا یشرکوا بہ شیئا، وحق العباد علی اللّٰہ ان لا یعذب من لایشرک بہ شیئا۔ فقلت: یا رسول اللّٰہ! افلا ابشر بہ الناس؟ قال: لاتبشرھم فیتکلوا )) ( صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب اسم الفرس والحمار، حدیث: 2856)

’’ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں ( ایک سفر میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک گدھے پر سوار تھاجس کا نام عفیر تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ کے اپنے بندوں پر کیا حقوق ہیں؟ اور بندوں کے اللہ پر کیا حق ہیں؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ بنائیں، اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بناتے انہیں عذاب نہ دیں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اس بات کی لوگوں کو اطلاع نہ دے دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو مت بتاؤ وہ بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے۔ ‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بنی نوع انسان کی تخلیق کا مقصد بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ یہ اللہ کا بندوں پر حق ہے، جو کوئی اس حق میں کوتاہی کرتا ہے اس نے اپنی تخلیق کے مقصد کو بھلا دیا ہے، یہ ایک ایسا حق ہے جس میں اللہ کا کوئی بھی شریک نہیں۔ جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو بھی کسی نوعیت کا شریک بناتا ہے اس نے اللہ کے حق میں کوتاہی کی جس کی سزا جہنم کے سوا کچھ نہیں۔

جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا: جو بندے اللہ کا یہ حق درست انداز میں ادا کریں گے انہیں اللہ تعالیٰ عذاب سے محفوظ فرمائے گا۔ انہیں جہنم کے عذاب سے بچا کر نعمتوں والی جنت میں داخل کرے گا۔ اس بات کو جان کر ایک مومن بندے کو انتہائی خوشی ہوتی ہے اسی بنا پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ لوگوں کو خوشخبری دینے کی اجازت طلب کی تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت پر رحم کھاتے ہوئے منع فرما دیا کہ کہیں لوگ یہ بشارت پا کر عمل کرنا بند نہ کر دیں اور جنت میں اعلیٰ درجات کے حصول میں ناکام ہو جائیں۔ وہ جنت میں داخلے کے اس وعدے پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں اور نیک اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جائے اور وہ بہت سی بھلائیوں اور بڑے ثواب سے محروم ہو جائیں۔

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کاجو انداز اختیار فرمایا کہ سوال کر کے اپنے ساتھی کو توجہ دلائی تا کہ بات اچھی طرح واضح ہو جائے اور سننے والا توجہ سے سن کر بات سمجھ سکے۔ اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک اور سادگی کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چھوٹے جانور پر سواری کرنے میں بھی عار محسوس نہیں فرماتے تھے اور اپنے صحابی کو بھی اپنی سواری پر بٹھا لیتے۔ اس حدیث میں جانوروں کے نام رکھنے کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ اصل بات جس کی طرف اس حدیث میں توجہ دلائی گئی ہے وہ توحید ہے کہ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا اور نہ ہی قیامت کے دن نجات ہو سکے گی یہ بھی وضاحت ہے کہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ نیک اعمال کرتے رہنا چاہیے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 7

جلد نمبر 39      01 تا 07 صفر 1429 ھ      9 فروری تا 15 فروری 2008 ء

تین بہترین اموال

(( عن ثوبان رضی اللہ عنہ قال لما نزلت الذین یکنزون الذھب والفضۃ، کنامع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی بعض اسفارہ فقال بعض اصحابہ نزلت فی الذھب والفضۃ، لو علمنا االمال خیر فتتخذہ۔ فقال افضلہ لسان ذاکر وقلب شاکر وزوجۃ مومنة تعینہ علی ایمانہ )) ( رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ )

’’ ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ( جس کا ترجمہ ہے ) جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں تا آخر آیت اس وقت ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں شریک تھے اس آیت کو سن کر بعض صحابہ کرام نے کہا یہ آیت سونے اور چاندی ( کی مذمت ) میں نازل ہوئی ہے۔ کاش ہمیں پتہ چل جائے کہ کونسا مال بہتر ہے ہم ( سونے چاندی کے بجائے ) وہ مال حاصل کر لیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بہترین مال وہ زبان ہے جو اللہ کے ذکر میں مشغول رہتی ہے اور وہ دل ہے جو شکر ادا کرتا ہو اور وہ ایمان دار بیوی ہے جو دینی معاملات میں خاوند کی مددگار بنتی ہے۔ ‘‘ ( احمد، ترمذی، ابن ماجہ )

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ہر وقت یہی کوشش ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح نیکیاں حاصل کر لیں اور ایسا عمل کریں جو دنیا و آخرت کے لئے نفع بخش ہو۔ جب سفر کے دوران والذین یکنزون الذھب والفضة تا آخر سورہ نازل ہوئی تو انہیں فکر لاحق ہوئی کہ سونا چاندی جمع کرنا تو جہنم کی آگ کو دعوت دینا ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی ایسے مال کا علم ہو جائے جو ہمارے لئے نفع بخش ہو۔ ہم وہ مال جمع کر لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن کر فرمایا تین چیزیں بہترین مال ہیں۔

پہلی چیز وہ زبان ہے جس پر ہمیشہ اللہ کا ذکر جاری رہتا ہو۔ اسلام نے زبان کی حفاظت کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے سچی زبان، عمدہ کلام اور خوش گفتاری بہترین مال ہے اور دوسری بہترین چیز جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدہ مال قرار دیا ہے وہ ایسا دل ہے جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہو۔ شکر گزار بندہ ہمیشہ صاف دل والا ہوتا ہے اور جو دل اللہ کی یاد سے غافل ہو وہ شکر ادا نہیں کرتا اور تیسری چیز ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدہ مال قرار دیا وہ ایمان دار بیوی ہے جو نیکی کے کاموں میں اپنے خاوند کا ہاتھ بٹائے۔

نیک کاموں کی ادائیگی کے لئے اسے فارغ رکھے، ہمیشہ اپنے ہی معاملات میں نہ پھنسائے رکھے بلکہ نیکی کا سبق بھی دے اور نیکی کرنے کے لئے اسے وقت بھی دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ وہ جوڑا انتہائی خوش بخت جو ایک دوسرے کو نماز کے لئے جگائے اور نیکی میں معاونت کرے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4

جلد نمبر 39      9 تا 15 محرم الحرام 1429 ھ      19 تا 25 جنوری 2008 ء

سب سے بڑا گناہ

عن عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من اکبر الکبائر ان یلعن الرجل والدیہ قیل یا رسول اللہ وکیف یلعن الرجل والدیہ؟ قال یسب الرجل ابا الرجل فیسب اباہ ویسب امہ فیسب امہ (رواہ البخاری )

’’ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔ آپ سے عرض کیا گیا والدین پر کوئی کیسے لعنت کر سکتا ہے آپ نے فرمایا وہ اس طرح کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے وہ اس کے جواب میں اس کے باب کو گالی دیتا ہے ایک شخص کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے نیتیجاً وہ اس کی ماں کو گالی دے گا ‘‘ ( بخاری )

مکافات عمل کا دستور مسلمہ حقیقت ہے اور بدلہ لینے کا رجحان بھی غالب ہوتا ہے بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو برائی سن کر بھلائی کریں ہر کوئی بدلہ لنیے کی کوشش کرتا ہے اسی اصول کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے یا ان پر لعنت کرے۔ صحابہ کرام نے یہ سن کر تعجب کیا کہ ایسا کون سا بد نصیب ہے جو اپنی ماں یا باپ کو گالی دے یا ان پر لعنت کرے آج کے دور میں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اس لئے کہ لوگ والدین کے مقام کو پہچانتے نہیں جائیداد یا کسی معمولی سی بات پر اپنے والدین کو برا بھلا کہتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو قتل بھی کر دیتے ہیں مگر اس دور میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ کوئی انسان اپنے والدین پر لعنت کرے گا اسی تعجب کی بنا پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ ایک انسان کسی سے ناراض ہو کر اسے اور اس کے والدین کو گالی دیتا ہے وہ اس غلیظ گفتگو کو سن کر اس کے بدلے میں اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اسی طرح کسی نے کسی کی ماں کو گالی دی جس کے عوض وہ اس کی ماں کو گالیاں دیتا ہے اس طرح وہ کسی کے والدین کو گالی دے کر اپنے والدین کو گالیاں نکالنے کا سبب بنتا ہے گویا کہ اس نے خود اپنے والدین کو گالی دی ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ جو کام کسی گناہ کا سبب بنے اس سے بھی بچنے کی کوشش کی جائے۔ تاکہ کوئی انسان ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سزا کا حق دار نہ بنے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 1

جلد نمبر 39      24 ذوالحجہ 1428 ھ      4 جنوری 2008 ء

ایام قربانی

ہمارے ہاں عام طور پر یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ قربانی کے صرف تین دن ہیں مگر صحیح روایات کے مطابق قربانی کے چار ایام ہیں ایک قربانی کا دن اور تین ایام تشریق۔

تفسیر ابن کثیر‘ فتح الباری اور ابن حبان میں حضرت جبیر بن مطعم رحم اللہ علیہم سے روایت ہے ایام التشریق کلھا ذبح یعنی ایام تشریق سارے کے سارے قربانی کے دن ہیں۔

ایام تشریق کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عرب ان ایام میں قربانی کے گوشت کو محفوظ کرنے کے لیے دھوپ میں سکھا لیتے تھے۔ اسی مناسبت سے گیارہ بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو ایام تشریق کہا جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ایام التشریق اربعة ایام یوم النحر و ثلاثہ بعدہ

یعنی ایام تشریق چار دن ہیں ایک قربانی کا دن اور تین دن اس کے بعد۔

اگرچہ قربانی کا جانور ذی الحجہ کو ذبح کرنا انتہائی پسندیدہ عمل ہے لیکن اگر کوئی شخص دس تاریخ کو کسی مجبوری کے پیش نظر قربانی نہ کر سکے تو وہ دوسرے تیسرے یا چوتھے دن کر لے اگر چوتھے دن سنت نبوی کو زندہ کرنے کی نیت سے قربانی کر لے تو قربانی کے ثواب کے ساتھ ساتھ سنت نبوی کو زندہ کرنے کا ثواب بھی ملے گا جو کہ سو شہید کے ثواب کے برابر ہے۔

پس صحیح مذہب کے مطابق چار دن قربانی کرنا جائز ہے یہ بات بھی محل نظر رہے کہ قربانی کا جانور یا گائے اور اونٹ کا ایک حصہ گھر کے تمام افراد کی طرف سے ہوتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام افراد خانہ کی طرف سے ایک جانور ذبح کیا کرتے تھے۔ اور حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے ایک سو جانور بھی قربان کیے لہٰذا استطاعت کے مطابق ایک سے زیادہ قربانیاں بھی کی جا سکتی ہیں بلکہ امر مستحسن اور مستحب ہے۔ جو لوگ قربانی کا جانور یا گائے اور اونٹ کا حصہ گھر کے ایک فرد کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ان کی قربانی تو ہو جاتی ہے مگر اپنے اس عمل سے وہ گھر کے دیگر افراد کو ثواب سے محروم کر دیتے ہیں اور اگر قربانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق تمام افراد خانہ کی طرف سے ایک قربانی کی جائے تو سب کو پورا پورا ثواب ملتا ہے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 48

جلد نمبر 38      3 تا 9 ذوالحجہ 1427 ھ      15 تا 21 دسمبر 2007 ء

اللہ کا صبر

عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما احد اصبر علی اذی سمعہ من اللہ یدعون لہ الو لد ثمی یعا فیہم ویرزقہم ( رواہ البخاری )

حضرت ا بو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تکلیف دہ بات سن کر صبر کرنے والا اللہ سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہے مشرک کہتے ہیں اللہ کی اولاد ہے مگر وہ ان کی ان باتوں کے باوجود انہیں عافیت میں رکھتا ہے اور روزی عطا فرماتا ہے۔ ( بخاری )

اللہ تعالیٰ بلند حوصلے اور عظیم مرتبے والا ہے بندوں کے بڑے بڑے گناہوں پر انہیں معاف کر دیتا ہے ان کے عیب چھپاتا ہے قرآن پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے بہت سے گناہوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ان سے در گزر کرتا ہے اور فرمایا جو کوئی تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے وہ تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے لیکن جب اس کے بندے اس کی ذات میں کسی کو شریک بناتے ہیں توا سے یہ سخت ناگوار ہوتا ہے وہ ارشاد فرماتا ہے کہ انسان مجھے جھٹلاتا بھی ہے اور مجھے گالیاں بھی دیتا ہے۔ حالانکہ اسے یہ حق نہیں پہنچتا۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد زندہ کر کے اٹھایا نہیں جائے گا حالانکہ یہ کام میرے لئے مشکل نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میری اولاد ہے حالانکہ نہ میری اولاد ہے نہ والدین۔

بخاری شریف کی اس روایت میں بھی اللہ نے یہی فرمایا ہے کہ اللہ سے زیادہ کوئی بھی صبر کرنے والا نہیں ہے۔ اللہ کا شریک بنانے کے باوجود وہ صبر کرتا ہے اور اس کا حوصلہ بہت ہی بڑا ہے۔ بندے فرشتوں کو اللہ کی اولاد سمجھتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی اولاد نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قدر مہربان ہے کہ یہ سن کر بھی انہیں عافیت دیتا ہے اور انہیں رزق دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی شخص اگر کسی کی نافرمانی کی بنا پر ناراض ہو جائے تو وہ تمام وسائل روک لیتا ہے اور جس حد تک وہ تکلیف دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اپنے مخالف کو تکلیف دینے سے گریز نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ ہر شخص کی خبر گیری بھی کرتا ہے۔ انہیں رزق بھی دیتا ہے اس کی اس عنایت پر غفلت کا شکار ہونے کے بجائے اس کی بندگی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے اور قیامت کے روز عذاب سے بچا لے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 47

جلد نمبر 38      26 ذیقعدۃ تا 2 ذوالحجہ 1427 ھ      8 تا 14 دسمبر 2007 ء

٭٭٭

ماخذ:

http://www.ahlehadith.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید