FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

کماؤں کے آدم خور

 

 

 حصہ دوم

     جم کاربٹ/ مترجم: محمد منصور قیصرانی

 

 

 

 

میرے خوابوں کی مچھلی

 

 

مہاشیر مچھلیوں سے بھرے ہوئے پہاڑی دریا پر مچھلی کا شکار کھیلنا میرے نزدیک تمام شکاروں کا سردار ہے۔ ہمارا ماحول جہاں ہم اس سے شاید آگاہ بھی نہیں ہوتے، ہر قسم کے شکار کے لطف کو دوبالا کرتا ہے۔ غیر دلچسپ ماحول میں مچھلی کا بہترین شکاری اپنی بہترین مچھلی پکڑنے پر ویسا ہی محسوس کرے گا جیسا کہ صحرائے صحارا میں منعقد ڈیوس کپ جیتنے والا ٹینس کا کھلاڑی۔

یہ دریا جہاں میں مچھلیاں پکڑ رہا تھا، چالیس میل طویل تھا اور خوبصورت وادی سے گذرتا تھا جہاں جنگل میں ہر قسم کے جانور اور پرندے پائے جاتے تھے۔ ایک بار میں نے ارادہ کیا کہ پورے دن میں دکھائی دینے والے پرندوں اور جانوروں کی انواع کی نمبر شماری کروں گا۔ دن کے اختتام پر میں نے سانبھر، چیتل، کاکڑ، گڑھل، سور، لنگور اور سرخ بندر جانوروں کی فہرست میں جبکہ پرندوں کی کل پچھتر اقسام شمار کیں۔

اس کے علاوہ میں نے پانچ اود بلاؤں کے ایک غول کے علاوہ کئی چھوٹے مگرمچھ اور ایک اژدھا بھی دیکھا۔ یہ اژدھا ایک ساکن تالاب کے پانی میں لیٹا ہوا تھا اور اس کے سر کا اوپری حصہ اور آنکھیں پانی سے باہر تھیں۔ میں نے اس طرح لیٹے ہوئے اژدھے کی تصویر کھینچنے کی خواہش جانے کب سے دل میں پال رکھی تھی۔ تاہم اس کے لئے مجھے تالاب کے اوپر والے دریا کو عبور کر کے مخالف سمت کی پہاڑی چڑھنا تھا تاہم بدقسمتی سے اژدھا مجھے دیکھ چکا تھا اور جونہی میں واپس مڑا، اژدھا فوراً ہی تالاب کے کنارے پر موجود پتھروں میں اپنی رہائش کو چل پڑا۔

یہ وادی چند جگہوں پر اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ چند جگہوں پر اس کے دوسرے کنارے پر پتھر پھینکا جا سکتا ہے۔ بعض جگہوں پر اس کی چوڑائی ایک میل سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ کھلی جگہوں پر املتاس کے درخت اگے ہوئے ہیں جن کے دو دو فٹ لمبے پھولوں کے گچھے، کروندے اور دیگر جھاڑیوں پر مختلف خوبصورت پھول اس وادی کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان پھولوں کی خوشبو مجموعی طور پر فضاء کو انتہائی خوشگوار بنا دیتی ہے اور پرندوں کی چہچہاہٹ ماحول کو انتہائی خوشگوار بنا دیتی ہیں۔ اس طرح کے مقام پر مہاشیر کا شکار کرنا بادشاہوں کو زیب دیتا ہے۔ تاہم اس جگہ میری آمد کا مقصد مہاشیر کا شکار نہیں تھا بلکہ دن کی روشنی میں شیر کی متحرک فلم بنانا تھا تاہم جب روشنی مناسب نہ رہی تو میں نے کیمرہ رکھ کر بنسی اٹھا لی۔

میں علی الصبح سے ہی گھر سے نکل آیا تھا۔ شیرنی اور اس کے دو بچوں کی متحرک فلم بنانے کے لئے میں نے گھنٹوں خرچ کئے تھے۔ یہ شیرنی نوعمر تھی اور ہر نوعمر ماں کی طرح پریشان تھی اور جونہی میں اس کے قریب ہوتا تو وہ فوراً ہی گھنی جھاڑیوں میں بچوں سمیت چھپ جاتی۔ تاہم بچوں کے ساتھ موجود ہر شیرنی کو تنگ کرنے کی ایک حد ہوتی ہے چاہے وہ نوعمر ہو یا بوڑھی۔ جونہی یہ حد پوری ہوئی تو میں نے اپنا طریقہ بدل دیا اور گھاس کے کھلے میدانوں کے کنارے درختوں پربیٹھا۔ اسی طرح لمبی گھاس میں کھڑے پانی کے تالاب کے کنارے چھپا رہا جہاں سے شیرنی اور اس کے بچے اکثر پانی پیتے تھے تاہم ناکامی ہوئی۔

تاہم جب ڈھلے سورج کی روشنی گھاس کے ان قطعوں سے ہٹی تو میں نے کوشش ترک کر دی اور اس دن کو سینکڑوں ایسے دنوں میں شمار کیا جو میں نے اسی طرح شیروں کی فلم بنانے کی ناکام کوششوں میں خرچ کئے تھے۔ میرے ساتھ دو آدمی بھی تھے جو دریا کے دوسرے کنارے درخت کی چھاؤں میں بیٹھے تھے۔ انہیں بلا کر میں نے کیمرہ انہیں دیا اور بنسی اٹھا لی۔ انہیں میں نے ہدایت کی کہ جنگل میں پگڈنڈی کے راستے وہ کیمپ کو لوٹ جائیں۔ میرا ارادہ تھا کہ دریا پر جا کر رات کے کھانے کے لئے مچھلی پکڑوں۔

حالیہ برسوں میں مچھلی کے شکار میں استعمال ہونے والی بنسیوں میں تبدیلی آئی ہے اور یہ تبدیلی اتنی ہی بڑی ہے جیسا کہ خواتین کے لباسوں میں آنے والی تبدیلی۔ کون جانے کہ وہ اٹھارہ فٹ لمبی بنسیاں جن کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے مختلف چیزیں لگائی جاتی تھیں، جنہیں استعمال کرنے کے لئے طاقتور پٹھوں کی ضرورت پڑتی تھی اوران کی جگہ اب ایک ہاتھ سے استعمال ہونے والی ہلکی بنسیاں آ چکی ہیں۔

میرے پاس گیارہ فٹ طویل ٹورنامنٹ ٹراؤٹ والی بنسی تھی۔ ریل میں پچاس گز طویل کاسٹنگ لائن اور ۲۰۰ گز طویل ریشمی ڈوری تھی۔ اس کے سرے پر ایک انچ جتنی گھر پر بنائی ہوئی سپون تھی۔

جب شکار کرنے کے لئے بہت ساری جگہ موجود ہو تو بندہ خود بخود پریشان ہو جاتا ہے۔ کسی تالاب کو جانے والا راستہ دشوار لگتا ہے اور کسی جگہ ڈوری کے پھنس جانے کا اندیشہ ستانے لگتا ہے۔ اس بار بھی میں نے نصف میل چلنے کے بعد اپنی مرضی کی جگہ دیکھی۔ یہاں شفاف پانی پتھروں سے ہوتا ہوا ۸۰ گز تک سیدھا چلا جاتا ہے اور پھر سیدھا ۲۰۰ گز لمبے اور ۷۰ گز چوڑے تالاب میں جا گرتا ہے۔ اس جگہ میں نے رات کے کھانے کے لئے مچھلی پکڑنے کا ارادہ کیا۔

پانی کے بالکل قریب کھڑے ہو کر میں نے چارہ پھینکا اور ابھی میں نے چند ہی گز ڈوری ڈالی تاکہ بہاؤ کے ساتھ ساتھ کانٹا دور چلا جائے کہ کنارے کے پاس جہاں میں کھڑا تھا، اچانک ایک مچھلی نے چارہ اور کانٹا نگل لیا۔ خوش قسمتی سے بقیہ ڈور ریل سے آسانی سے نکلتی گئی۔

مچھلی کانٹے کے ساتھ بہاؤ کی سمت بھاگی اور ریل سے ڈوری نکلنے کی مسحور کن آواز آتی رہی۔ پچاس گز کاسٹ لائن کے بعد سو گز جتنی ڈوری بھی جا چکی تھی اگرچہ ان کے جانے سے میرے بائیں ہاتھ کی انگلیاں جل رہی تھیں۔ جتنی تیزی سے یہ دوڑ شروع ہوئی تھی، اتنی ہی تیزی سے اچانک ڈوری ڈھیلی پڑ گئی۔

ایسے مواقع پر اکثر منفی خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ تاہم میں نے ان منفی خیالات کو ذہن سے جھٹک دیا۔ کانٹا مچھلی کے منہ میں اچھی طرح گڑ چکا تھا۔ کاسٹ پائلٹ گٹ کمپنی کی بنی ہوئی ڈوری سے میں نے خود احتیاط سے بنا کر آزمائی تھی۔ آخری سوچ یہی تھی کہ پچھلے شکاروں کے دوران رنگ کے پتھر پر لگنے سے اس میں خراشیں آتی رہی تھیں جن کی وجہ سے اب یہ ٹوٹ گیا تھا۔

۶۰ گز جتنی ڈوری واپس ریل میں آ چکی تھی کہ اچانک ہی ڈوری بائیں جانب مڑتی دکھائی دی۔ اگلے ہی لمحے ڈوری بہاؤ کی مخالف سمت گھوم گئی۔ ظاہر ہے کہ مچھلی ابھی تک کانٹے میں ہی پھنسی ہوئی تھی اور اب اس کا رخ تیز بہاؤ والے پانی کی طرف تھا۔ میں نے بار بار ڈوری کو بہاؤ کی اور اس کے مخالف سمت کھینچا تاہم ڈوری اسی جگہ ہی رکی رہی۔ وقت گذرتا گیا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ شاید کسی وجہ سے کانٹا مچھلی کے منہ سے نکل کر پتھر یا کسی اور چیز میں اٹک گیا ہے۔ ابھی میں نا امید ہونے ہی والا تھا کہ اچانک ہی ڈوری پہلے ڈھیلی پڑی اور پھر دوبارہ سے تن گئی۔ اگلے ہی لمحے مچھلی بہاؤ کے ساتھ انتہائی تیزی سے چل پڑی۔

بظاہر اس کا ارادہ یہی تھا کہ وہ اب دریا سے نکل کر نیچے موجود تالاب میں جا داخل ہو۔ ایک ہی دوڑ میں وہ تالاب کے آخری سرے تک پہنچ گئی۔ یہاں پانی ساکن ہو کر اتھلا ہو گیا تھا۔ یہاں چند لمحے رک کر اس نے دوبارہ تالاب کا رخ کیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں نے پہلی بار اسے پانی کی سطح سے تھوڑا سا اوپر نکلتے دیکھا۔ چونکہ ڈور بالکل سیدھی اسی سمت تھی جہاں مچھلی نے پانی سے سر باہر نکالا تھا تاہم یہ یقین کرنا دشوار ہو رہا تھا کہ یہ اتنی بڑی مچھلی کہ جس کا ایک پر پانی کی سطح سے پانچ انچ جتنا نکلا ہوا ہے، مجھ سے ایک یا دو گز کے فاصلے سے کانٹا نگل سکتی ہے۔

تالاب کی گہرائی میں واپس پہنچنے کے بعد میں نے اسے انچ انچ کر کے اوپر کھینچنا شروع کیا۔ بڑی مچھلی کو ٹراؤٹ والی بنسی سے ایک ہاتھ کی مدد سے خشکی پر لانا کوئی آسان کام نہیں۔ چار بار میں اسے گھسیٹ کر کنارے پر اتنی دور لایا کہ اس کا اوپری حصہ پانی سے باہر تھا اور ہر بار میری آمد سے خبردار ہو کر وہ دوبارہ تالاب کا رخ کرتی اور ہر بار اسے دوبارہ سے میں اتنی محنت کر کے گھیسٹ لاتا۔ پانچویں بار میں نے بنسی کو ہاتھ میں اس طرح پکڑا کہ ڈوری راستے میں نہ آئے اور پھر میں نے پہلے ایک پھر دوسرا ہاتھ اس کے گلپھڑوں میں ڈالنے کے بعد اسے آسانی سے پانی سے نکال کر خشکی پر ڈال دیا۔

ایک مچھلی پکڑنے کی نیت سے میں نکلا تھا اور ایک ہی مچھلی میں نے پکڑی تھی۔ تاہم اس مچھلی کو آج رات کے کھانے میں استعمال کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہاں سے کیمپ تک تقریباً ساڑھے تیل میل کا دشوار گذار راستہ تھا جس کا نصف حصہ ہر حال میں مجھے تاریکی میں ہی طے کرنا تھا۔

۱۱ پاؤنڈ وزنی کیمرہ واپس بھیجتے وقت میں نے وہ سوتی دھاگہ اپنے پاس ہی رکھ لیا تھا جس کی مدد سے میں درخت پر چڑھنے کے بعد کیمرہ اوپر کھینچتا تھا۔ اس دھاگے کا ایک سرا میں نے مچھلی کے گلپھڑے سے داخل کر کے منہ سے نکالا اور گرہ دے دی۔ پھر میں نے دوسرا سرا درخت کی شاخ سے باندھ دیا۔ اس طرح مچھلی ایک بڑے پتھر کے پیچھے نسبتاً پرسکون پانی میں رک گئی۔ مجھے اود بلاؤں سے خطرہ تھا اس لئے میں نے اپنے رو مال سے جھنڈی سے بنائی اور مچھلی سے کچھ نیچے اسے گاڑ دیا۔

اگلی صبح سورج ابھی پہاڑوں سے بلند ہو ہی رہا تھا کہ میں نے مچھلی کو وہیں پایا جہاں چھوڑ کر گیا تھا۔ سوتی دھاگے کو شاخ سے کھولنے کے بعد میں نے اپنے ہاتھ میں لپیٹ لیا اور نیچے اترا۔ میری آمد سے ڈر کر یا پھر ڈوری میں ارتعاش محسوس کر کے مچھلی اچانک تڑپی اور دریا کے بہاؤ کی مخالف سمت کا رخ کیا۔ مچھلی کی یہ حرکت اتنی غیر متوقع تھی کہ میں پھسلوان پتھر پر اپنے پیر نہ جما سکا اور مچھلی کے پیچھے پیچھے پانی میں گرا۔

ان پہاڑی دریاؤں میں میں اپنے قد سے زیادہ گہرے پانی میں جانے سے گریز کرتا ہوں کیونکہ مجھے کسی بھوکے اژدھے کے ہاتھوں مرنا قبول نہیں۔ خوش قسمتی سے وہاں کوئی انسان قریب نہیں موجود تھا ورنہ جتنی عجلت میں میں پانی سے باہر نکلا، اگر کوئی دیکھ پاتا تو ہنستے ہنستے بے حال ہو جاتا۔ جونہی میں دریا کے دوسرے کنارے پر نکلا تو مچھلی میرے ہاتھ سے بندھی ہوئی تھی اور اسی وقت میرے ساتھی آن پہنچے۔ انہیں مچھلی پکڑا کر میں نے ہدایت کی کہ اسے کیمپ لے جائیں اور خود کپڑے بدلنے اور کیمرہ تیار کرنے ان سے پہلے چل پڑا۔

اس وقت میرے پاس مچھلی کو تولنے کا کوئی پیمانہ نہیں تھا لیکن میرا اور میرے ساتھیوں کا اندازہ ۵۰ پاؤنڈ تھا۔

مچھلی کے وزن کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ انہیں کوئی یاد نہیں رکھتا۔ تاہم جس ماحول اور جس گرد و نواح میں مچھلی کا شکار ہوا ہو، ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ چمکدار نیلے پانی جس میں فرن موجود تھے اور جہاں پانی پتھروں پر بہتا ہوا ایک تالاب سے دوسرے کو جاتا ہے جہاں ہر تالاب دوسرے سے زیادہ خوبصورت ہے، جہاں کنگ فشر مچھلی کی تلاش میں پانی میں غوطہ لگا کر موتیوں جیسے پانی کے قطرے گراتا ہوا چہکتا ہوا اڑتا ہے، جہاں سانبھر دور سے بول رہا ہو اور چیتل صاف آواز میں جنگل کو اس شیر کی آمد کی خبر دے رہا ہو کہ جس نے چند منٹ قبل دریا عبور کیا تھا اور اب خوراک کی تلاش میں نکلا ہے۔ یہ باتیں کبھی نہیں بھول سکتیں اور ہمیشہ ذہن میں تازہ رہیں گی۔ ایسی جگہ جہاں انسان نے ابھی تک فطرت کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

کانڈا کا آدم خور

 

 

بے شک ہم لوگ دوسروں کی توہم پرستی کا جتنا بھی مذاق اڑا لیں مثلاً کھانے کی میز پر تیرہ افراد کا اکٹھا ہونا، کھانے میں شراب آگے بڑھانا، سیڑھیوں کے نیچے چلنا وغیرہ وغیرہ، تاہم ہماری ذاتی توہم پرستی ہمارے لئے بہت اہم ہوتی ہے۔

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا شکاری عام افراد کی نسبت زیادہ توہم پرست ہوتے ہیں یا نہیں۔ لیکن میرے علم میں یہ ہے کہ وہ شکاری اپنے توہمات کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ میرا ایک دوست جب بھی شیروں کے شکار پر جاتا ہے، ہمیشہ پانچ کارتوس لے کر جاتا ہے۔ نہ پانچ سے کم نہ پانچ سے زیادہ۔ ایک اور دوست سات کارتوس لے جاتا ہے۔ ایک اور دوست جو شمالی ہندوستان کا شیر وغیرہ کا بہترین شکاری کہلاتا ہے، شکار کے سیزن کا آغاز ہمیشہ مہاشیر مچھلی کے شکار سے کرتا ہے۔ میرا ذاتی تجربہ سانپوں سے متعلق ہے۔ یہ میرا بہت لمبا تجربہ ہے کہ چاہے میں آدم خور کے پیچھے کتنا ہی خوار کیوں نہ ہو لوں، اگر میں پہلے ایک سانپ نہیں مار لیتا، میں آدم خور کو مارنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

ایک بار مئی کے گرم دنوں میں صبح سے بے شمار میل پہاڑوں پر اوپر نیچے پھرا۔ گھنی جھاڑیوں سے گذرا اور اپنے گھٹنے اور کہنیاں چھلوائیں۔ کسی گدھے کی طرح تھکا ہارا بنگلے کی طرف واپس لوٹا۔ دو کمروں کا یہ فارسٹ بنگلہ ان دنوں میری قیام گاہ تھا۔ یہاں آ کر میں نے کچھ مقامی لوگ دیکھے۔ انہوں نے یہ خوش خبری سنائی کہ آج آدم خور ان کے گاؤں کے پاس دیکھا گیا ہے۔ اس وقت اندھیرا ہو رہا تھا اور کچھ کرنا بیکار ہوتا۔ انہیں لالٹین دے کر میں نے واپس بھیجا۔ انہیں سختی سے یہ بھی تاکید کر دی کہ اگلے دن کوئی بھی شخص گھر سے باہر کسی بھی صورت نہ نکلے۔

یہ گاؤں اس چٹانی چھجے کی دوسری طرف تھا جہاں بنگلہ تھا۔ اکیلا گاؤں ہر طرف سے گھنے جنگلات سے گھرا ہوا تھا اور آدم خور کا سب سے زیادہ یہی نشانہ بنا۔ آدم خور کے حالیہ شکار دو عورتیں اور ایک مرد تھے۔

اگلی صبح میں نے گاؤں کے گرد چکر لگایا۔ دوسرے چکر کا بڑا حصہ بھی طے ہو چکا تھا جو پہلے چکر سے چوتھائی میل دور تھا۔ ایک ڈھلوان سامنے آئی جو پتھروں اور چکنی مٹی سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے بعد ایک برساتی نالہ ملا جو پہاڑی سے سیدھا نیچے اترتا تھا۔ میں نے نالے میں اترنے سے قبل دونوں کناروں کا بغور جائزہ لیا تاکہ شیر کی عدم موجودگی کا اطمینان ہو۔ اچانک پچیس فٹ دور میں نے کچھ حرکت سی محسوس کی۔ یہاں باتھ ٹب سائز کا تالاب موجود تھا۔ اس کے دوسرے کنارے ایک سانپ پانی پی رہا تھا۔ اس نے سر اٹھایا تھا جو میری توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کا سبب بنا۔ اس نے دو یا تین فٹ بلند ہو کر پھن پھیلایا تو معلوم ہوا کہ ہی کنگ کوبرا ہے۔ میں نے آج تک اتنا خوبصورت سانپ نہیں دیکھا تھا۔ اس کا گلا میری طرف تھا جو خوبصورت گہرے نارنجی رنگ کا تھا اور بتدریج سرخ ہوتا ہوا باقی بدن سے جا ملتا تھا۔ اس کی پشت زیتونی سبز رنگ کی تھی۔ اس پر چاندی جیسے چانے بنے ہوئے تھے۔ یہ چانے دم سے چار فٹ اوپر کی طرف تھے۔ بقیہ پشت ساری کی ساری چمکدار کالے رنگ کی تھی۔ اس کی لمبائی تیرہ سے پندرہ فٹ کے لگ بھگ رہی ہو گی۔

اکثر لوگ قصے سنتے ہیں کہ کنگ کوبرا کو اگر چھیڑا جائے تو وہ کتنے خطرناک ہو جاتے ہیں اور ان کی رفتار بھی۔ اگر یہ سچ ہوتا تو میرے پاس بھاگنے کے لئے اوپر یا نیچے خطرہ ہی خطرہ تھا۔ میں نے اس پانی کے تالاب کے دوسرے کنارے پر ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے چھوٹی تھالی کے برابر پھن پر گولی چلا کر میں اس کا خاتمہ کر سکتا تھا لیکن اس طرح بھاری رائفل کے دھماکے سے خطرہ تھا کہ آدم خور ڈر کر بھاگ جاتا۔ منٹ بھر توقف کے بعد جس دوران سانپ اپنی زبان مسلسل اندر باہر کرتا رہا، سانپ نے پھن گرایا اور سڑک پر چل پڑا۔ اس سے نگاہیں ہٹائے بغیر میں نے ٹٹول کر زمین سے ایک پتھر اٹھایا جو کرکٹ کی گیند کے برابر حجم کا ہو گا۔ سانپ ابھی بمشکل ڈھلوان کے سرے تک پہنچا ہو گا کہ پوری طاقت سے پھینکا ہوا میرا پتھر اس کے سر پر لگا۔ کسی بھی دوسرے سانپ کو مارنے کے لئے یہ کافی ہوتا لیکن یہ سانپ پتھر کھاتے ہی مڑا اور میری طرف لپکا۔ میں نے دوسرا اور بڑا پتھر اٹھایا اور اس کی گردن پر مارا۔ اس دوران سانپ آدھا فاصلہ طے کر چکا تھا۔ دوسرا پتھر لگتے ہی سانپ وہیں تڑپنے لگا۔ اب اسے مارنا بہت آسان تھا۔ اب میں نے انتہائی مطمئن ہو کر دوسرا چکر پورا کیا۔ یہ بھی لاحاصل نکلا چونکہ میں سانپ کو مار چکا تھا، میرا حوصلہ بہت بلند تھا اور بہت دن کے بعد مجھے اب اپنی کامیابی کا یقین ہو چکا تھا۔

اگلے دن میں نے پھر اس گاؤں کے گرد چکر لگایا اور گذشتہ شام کے وقت شیر کے پگ ایک تازہ ہل چلے کھیت میں دیکھے۔ اس گاؤں کے کل باشندے سو کے لگ بھگ ہوں گے اور وہ سب کے سب پوری طرح خبردار تھے۔ انہیں اگلے دن واپسی کا کہہ کر میں نکلا اور فارسٹ بنگلے تک چار میل کے اکیلے سفر پر نکل کھڑا ہوا۔

جنگل سے یا ویران سڑکوں سے آدم خور کی موجودگی کے دوران گذرنا بہت زیادہ مشکل اور احتیاط طلب کام ہے۔ اس دوران بہت سارے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنا چاہئے۔ آدم خوروں کا تجربہ کار شکاری ان اصولوں کو بخوبی جانتا ہے۔ اس کی تمام تر صلاحیتیں مرکوز ہو جاتی ہیں۔ اس دوران کوئی بھی غلطی اسے آدم خور کا تر نوالہ بنا سکتی ہے۔

قارئین پوچھ سکتے ہیں کہ میں اکیلا ہی سفر پر کیوں نکلا جبکہ میرے پاس کافی آدمی بھی تھے۔ میرا جواب یہ ہے کہ اگر بندہ اکیلا نہ ہو تو وہ دوسروں پر انحصار کرنے لگتا ہے اور اس طرح غیر محتاط ہو جاتا ہے۔ دوسرا شیر سے مڈبھیڑ اکیلے ہو تو اسے مار لینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اگلی صبح میں گاؤں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ جمع ہیں۔ جب میں کچھ قریب ہوا تو وہ سب کے سب چلائے "شیر ایک بھینس لے گیا ہے۔ ” شیر نے بھینس کو گاؤں میں ہی مارا اور پھر اٹھا کر وادی کے نچلے سرے میں داخل ہوا۔ میں نے اندازے سے اس کا پیچھا کر کے اس جگہ پہنچنے کا سوچا جہاں بھینس کی لاش ہو سکتی تھی۔

میں نے ایک ابھری ہوئی چتان سے وادی کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ وادی میں شیر کے راستے سے گھسنا خطرناک ہے۔ اس کی بجائے بہتر یہ تھا کہ میں ایک لمبا چکر کاٹ کر دوسری طرف سے پہنچتا اور پھر نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا۔

میں چکر کاٹ کر کامیابی سے دوپہر کے وقت اس جگہ پہنچا جہاں میں نے اوپر کھڑے ہو کر جائزہ لیا تھا۔ یہاں وادی سو گز متوازی تھی اور پھر تین سو گز جتنی بلند ہو گئی تھی۔ میرے اندازے کے مطابق اس ہموار جگہ کے اوپری سرے پر شکار اور ممکن تھا کہ شیر بھی موجود ہوتا۔ اس تنگ اور دشوار وادی میں جھاڑیوں اور بانس کے جھنڈوں سے گذر کر میں پسینے میں شرابور ہو چلا تھا۔ جب فائر کرنے کا وقت نزدیک ہو تو پسینے والے ہاتھوں سے گولی چلانا غلط ہے۔ اس لئے میں پسینہ سکھانے اور سیگرٹ پینے کے لئے بیٹھ گیا۔

میرے سامنے کی زمین پر بڑے بڑے پتھر موجود تھے اور ان سے گذرتی ہوئی ندی جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے تالاب بناتی تھی۔ ان پتھروں پر چلتے ہوئے جانا ہی میرے لئے بہتر رہتا کیونکہ میں نے نہایت باریک ربر سول کے جوتے پہن رکھے تھے۔ جب میں پسینہ سکھا چکا تو آگے بڑھا کہ شاید سوتے ہوئے شیر پر نظر پڑ جائے۔ جب میں تین چوتھائی فاصلہ طے کر چکا تو میری نظر بھینس کی لاش پر پڑی جو جھاڑیوں میں موجود تھی۔ اس سے پچیس گز دور پہاڑی اچانک بلند ہوتی گئی تھی۔ شیر سامنے نہ تھا اور میں نے رک کر بہت احتیاط سے سامنے موجود ہر چیز کا جائزہ لیا۔

بڑھتے ہوئے خطرے کے اچانک پیدا ہونے والے احساسا سے تو سب ہی واقف ہیں۔ میں یہاں تین چار منٹ تک بالکل آرام سے رکا رہا۔ پھر اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ شیر بہت نزدیک سے مجھے دیکھ رہا ہے۔ میری چھٹی حس نے مجھے شیر کی اور شیر کی چھٹی حس نے اسے نیند سے جگا کر میری موجودگی کا احساس دلایا۔ میری بائیں جانب کچھ گھنی جھاڑیاں ایک ہموار جگہ پر اگی ہوئی تھیں۔ میری تمام تر توجہ ان جھاڑیوں پر مرکوز ہو گئی۔ یہ جھاڑیاں میری جگہ سے کوئی پندرہ یا بیس فٹ ہی دور رہی ہوں گی۔ جھاڑیوں میں اچانک معمولی سی حرکت ہوئی اور اگلے لمحے مجھے شیر پوری رفتار سے بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔ اس سے پہلے کہ میں رائفل سیدھی کر پاتا، شیر ایک گھنے درخت کے پیچھے گم ہو گیا۔ دوبارہ مجھے شیر ساٹھ گز دور دکھائی دیا جب وہ جست لگا کر ایک پتھر پر چڑھ رہا تھا۔ میں نے نشانہ لے کر گولی چلائی اور گولی لگتے ہی شیر گر کر نیچے کی طرف لڑھکنے لگا۔ اس کے ساتھ بے شمار چھوٹے بڑے پتھر بھی لڑھک رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ شیر کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ جب چند لمحوں بعد شیر اور یہ سب پتھر وغیرہ میرے قدموں میں آ کر رکیں گے تو مجھے کیا کرنا چاہیئے، اچانک ہی شیر کی غراہٹیں بند ہو گئیں۔ اگلے لمحے وہ بظاہر ٹھیک ٹھاک بھاگتا ہوا پہاڑی پر چڑھ گیا۔ ایک لمحے کے لئے ہی وہ دکھائی دیا اور پھر اتنی تیزی سے گم ہو گیا کہ میں گولی نہ چلا سکا۔

بعد ازاں میں نے دیکھا کہ میری پچھتر ڈگری کے زاویے پر چلائی ہوئی گولی شیر کی بائیں کہنی پر لگی۔ اس جگہ سے ہڈی کا چھوٹا سا ٹکڑا ٹوٹ کر گرا۔ اسے انگریزی میں "فنی بون” کہتے ہیں۔ پھر گولی پتھر سے ٹکرا کر واپس پلٹی اور اس کے جبڑے کے سرے پر لگی۔ دونوں زخم تکلیف دہ تو ضرور تھے مگر مہلک نہیں ثابت ہو سکتے تھے۔ اس کے زخم سے بہتے ہوئے خون کی دھار کا پیچھا کرتے ہوئے میں اگلی وادی میں گھسا تو کانٹے دار جھاڑیوں کے ایک قطعے سے شیر کی غراہٹیں آنے لگیں۔ ان جھاڑیوں میں گھسنا خود کشی کے مترادف ہوتا۔

میری چلائی ہوئی گولی کی آواز گاؤں تک پہنچ گئی تھی اور لوگ جمع ہو کر چٹانی سرے پر میرے منتظر تھے۔ وہ یہ جان کر مجھ سے بھی زیادہ مایوس ہوئے کہ اتنی احتیاط اور مہارت دکھانے کے باوجود میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

اگلی صبح لاش کی طرف جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ شیر گذشتہ رات واپس آیا تھا اور اس نے لاش کو مزید کچھ کھایا بھی تھا۔ اب میرے لئے مچان پر بیٹھ کر گولی چلانے کا امکان پیدا ہو گیا تھا۔ مشکل یہ آن کھڑی ہوئی کہ اس جگہ آس پاس کوئی بھی مناسب درخت نہ تھا۔ سابقہ تجربے کے باعث آدم خور کا انتظار زمین پر بیٹھ کر کرنا ہی ممکن نہیں تھا۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ نیچے وادی سے شیر کی دھاڑ سنائی دی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں میں کل گیا تھا۔ اس آواز سے مجھے وہ طریقہ سوجھ گیا جو شیروں کو مارنے کے لئے کار آمد ہو سکتا ہے۔ شیر کو جن صورتوں میں اپنی طرف بلایا جا سکتا ہے وہ کچھ یوں ہیں : ۱۔ جب وہ ملاپ کے لئے ساتھی کی تلاش میں ہوں، ۲۔ جب وہ معمولی زخمی ہوں۔ یہ کہنا ضروری نہیں کہ شکاری شیر کی آواز کی بخوبی نقالی کر سکتا ہو۔ دوسرا یہ آواز کسی ایسی جگہ سے نکالی جائے جہاں شیر کو دوسرے شیر کی موجودگی کا امکان بھی محسوس ہوا، مثلاً گھنی جھاڑیاں یا گھنی گھاس کا قطعہ۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ شکاری کو بہت ہی کم فاصلے سے گولی چلانے کے لئے مکمل طور پر تیار رہنا چاہیئے۔ مجھے معلوم ہے کہ کچھ شکاری اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے کہ معمولی زخمی شیر اس طرح کی آواز پر آ سکتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ جب تک وہ خود نہ آزما لیں، اس سے انکار نہ کریں۔ موجودہ صورتحال میں اگرچہ شیر نے میری ہر آواز کا جواب دیا تھا اور گھنٹے بھر سے ہم آوازوں کا تبادلہ کر رہے تھے، شیر ذرا سا بھی نزدیک نہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ شیر شاید اس وجہ سے کترا رہا ہے کہ کل وہ اسی جگہ پر معمولی زخمی ہوا تھا۔ میں نے آخر کار ڈھلوان کے کنارے ایک درخت چنا اور اس کی آٹھ فٹ بلند شاخ پر بیٹھ گیا۔ یہاں میں نالے کی تہہ سے تیس فٹ بلند تھا جہاں میرے اندازے کے مطابق شیر نمودار ہوتا۔ درخت کا مسئلہ حل ہوا تو میں نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ صبح ناشتے کے ساتھ آئیں۔

شام چار بجے میں آرام سے بیٹھ گیا۔ مین نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ اگلی صبح نالے کے دوسرے کنارے سے "کووئی” کی آواز نکال کر مجھے مطلع کریں۔ اگر جواب میں تیندوے کی آواز آئے تو وہ وہیں رک جائیں اور اگر میری طرف سے جواب نہ ملے تو فوراً بھاگ کر گاؤں جائیں اور زیادہ سے زیادہ افراد جمع کر کے میری تلاش میں نکلیں۔ ساتھ ہی شور مچاتے اور پتھر پھینکتے آئیں۔

میں نے خود کو ہر طرح کی حالت میں سونے کے لئے عادی کیا ہوا ہے۔ چونکہ میں تھکا ہوا تھا، اس لئے نیند میں شام ڈھلنے کا پتہ بھی نہیں چلا۔ ڈوبتے سورج کی روشنی اور پھر لنگور کی آواز سن کر میں مکمل طور پر بیدار ہو گیا۔ میں نے فوراً ہی اس لنگور کو دیکھ بھی لیا۔ وہ وادی کے دوسرے سرے پر درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر بیٹھا میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں سمجھا کہ وہ مجھے تیندوا سمجھ کر شور مچا رہا ہے۔ یہ آواز چند ہی بار آئی اور پھر سورج ڈوبنے کے فوراً بعد ہی ختم ہو گئی۔

گھنٹوں پر گھنٹے گذرتے گئے اور اچانک پتھروں کا سیلاب سا بہتا ہوا میرے درخت سے آ ٹکرایا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے بھاری جسامت اور نرم گدیوں والے جانور کی آواز سنی جو بلا شبہ شیر ہی تھا۔ پہلے میں نے سوچا کہ اتفاقاً شیر نیچے نالے سے آنے کی بجائے اوپر سے آ رہا ہے۔ جلد ہی یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی جب شیر نے میرے بالکل عقب سے غرانا شروع کر دیا۔ بظاہر شیر اس وقت یہاں پہنچا جب میں اپنے بندوں سے باتیں کر رہا تھا اور یہیں چھپ گیا۔ اسے دیکھ کر ہی لنگور چلا رہا تھا۔ شیر نے مجھے درخت پر چڑھتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ اب اس صورتحال کے لئے میں بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ خاصی احتیاط کی ضرورت تھی۔ روشنی میں تو یہ شاخ بہت آرام دہ تھی لیکن اندھیرا چھاتے ہی اس پر حرکت کرنا مشکل ہوتا گیا۔ میں ہوائی فائر کر کے شیر کو بھگا سکتا تھا لیکن اس طرح شیر اتنا خوف زدہ ہو جاتا کہ پھر شاید ہی اس سے دوبارہ مڈبھیڑ ہوتی۔ میری رائفل اعشاریہ ۴۰۰/۴۵۰ بور کی بھاری رائفل تھی۔

مجھے معلوم تھا کہ شیر چھلانگ نہیں لگائے گا کہ اس طرح وہ تیس فٹ گہرے کھڈ میں گر سکتا تھا۔ لیکن اسے چھلانگ کی ضرورت بھی کیا تھی۔ آرام سے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر وہ مجھے دبوچ سکتا تھا۔ رائفل کو اٹھا کر الٹا پکڑا اور نالی کو پیروں کے بیچ لے آیا اور سیفٹی کیچ ہٹا دیا۔ اس بار زیادہ زور سے غراہٹ کی آواز آئی۔ اب اگر شیر حملہ کرتا تو وہ پہلے رائفل کی نال سے ٹکراتا۔ اس وقت میں انگلیاں لبلبیوں پر تھیں۔ اگر اس کے حملے پر گولی چلا کر میں اسے مار نہ بھی سکتا تو بھی میرے پاس اتنا وقت ہوتا کہ میں مزید اوپر چڑھ سکتا۔ وقت انتہائی سستی سے گذرتا رہا۔ آخر کار شیر نے چھلانگ لگا کر میری بائیں جانب ایک چھوٹی کھڈ عبور کی اور جلد ہی میں نے ہڈیوں کے چبائے جانے کی آواز سنی۔ میں کافی مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔ بقیہ رات شیر کے کھانے کی آواز آتی رہی۔

سورج نکلے ہوئے ابھی چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے اور وادی ابھی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی کہ میرے آدمیوں کی "کووئی” کی آواز آئی۔ اسی وقت شیر نے میری بائیں جانب چھلانگ لگائی اور بھاگنے لگا۔ کم روشنی اور تھکے ہوئے اعصاب کے ساتھ میں نے اس پر گولی چلائی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ گولی اسے لگی۔ زور سے دھاڑ کر وہ مڑا اور سیدھا میری طرف پلٹا۔ ابھی وہ درخت کے ساتھ پہنچ کر چھلانگ لگانے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ میری دوسری گولی اس کے سینے میں لگی۔ بھاری گولی کھاتے ہی اس کا رخ بدلا اور مجھ سے ذرا نیچے تنے سے ٹکرا کر گرا۔ گرتے ہی وہ پھر اٹھا اور چھلانگ لگا کر بھاگا۔ چند ہی گز دور جا کر وہ ایک تالاب کے کنارے گرا۔ وہ پانی اچھالتا رہا اور پورا تالاب دیکھتے ہی دیکھتے خون سے سرخ ہو گیا۔ پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

شاخ پر پندرہ گھنٹے ایک ہی انداز میں بیٹھے رہنے سے میرے سارے پٹھے اکڑ گئے تھے اور نیچے اترتے ہوئے میرے کپڑے خون میں تر ہو گئے۔ شیر جہاں تنے سے آ کر ٹکرایا تھا، اس جگہ خون کے کافی نشانات چھوڑ گیا تھا۔ اب میں نے اپنے پٹھوں کو ہلایا جلایا اور پھر اس کے پیچھے لپکا۔ وہ تھوڑی دور ہی جا سکا تھا اور ایک اور تالاب کے کنارے مردہ پڑا ہوا تھا۔

میرے احکامات کے برعکس میرے ساتھیوں نے گولی کی آواز اور شیر کی دھاڑ سنی اور پھر دوسری گولی کی آواز سن کر بھاگے بھاگے آئے۔ خون سے لت پت درخت کے نیچے آ کر انہوں نے میرا ہیٹ پڑا دیکھا تو انہوں نے سوچا کہ شیر مجھے لے گیا ہے۔ ان کے چلانے کی آوازیں سن کر میں نے انہیں آواز دی۔ میرے کپڑوں پر خون دیکھ کر پھر ان کی ہمت پست ہو گئی۔ پھر میں نے انہیں بتایا کہ یہ خون شیر کا ہے میرا نہیں۔ پھر انہوں نے ایک چھوٹا درخت کاٹا اور اس پر شیر کو لاد کر خوشی سے ناچتے گاتے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔

ان دور دراز علاقوں میں جہاں آدم خور طویل عرصے سے سرگرم ہو، بعض اوقات بہادری کے نایاب نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ واقعات ان دیہاتیوں کے لئے معمولی بات ہوتے ہیں اور بیرونی دنیا ان کے بارے کبھی بھی نہیں جان پاتی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ جو کانڈا کے آدم خور سے متعلق ہے، میں بیان کرتا ہوں۔ یہ اس آدم خور کے آخری انسانی شکارسے متعلق ہے۔ میں اس جگہ واقعے کے رونما ہونے کے کچھ ہی دیر بعد پہنچا تھا۔ مجھے کچھ معلومات گاؤں والوں سے اور کچھ معلومات جائے وقوعہ کے بغور معائنے سے ملی تھیں۔ یہ کہانی کچھ اس طرح سے تھی۔

جہاں میں نے کانڈا کے آدم خور کو ہلاک کیا، اس کے پاس ہی ایک گاؤں میں ایک بوڑھا شخص اپنے نوجوان بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ ۱۹۱۴ سے ۱۹۱۸ کے دوران تک باپ نے رائل گڑھوال رائفلز میں خدمات سر انجام دی تھیں۔ ان دنوں یہ کام اتنا آسان نہیں تھا اور نہ ہی آج کل کی طرح چند ملازمتیں اور بے شمار امیدوار۔ باپ کا خیال تھا کہ وہ بیٹے کو اسی فوج میں بھرتی کرائے۔ لڑکے اٹھارہ سال کا ہوتے ہی لانس ڈاؤن کی ایک جماعت ادھر سے گذری۔ لڑکا ان کے ساتھ ہو لیا اور سیدھا بھرتی دفتر پہنچ کر پیش ہو گیا۔ اس کے باپ نے بیٹے کو فوجی انداز میں سلام کرنا اور افسر کے سامنے پیش ہونے کے سارے آداب سکھا دیئے تھے۔ اس لئے بغیر کسی دقت کے وہ فوراً ہی منتخب ہو گیا۔ نام لکھے جانے کے بعد اسے اجازت دی گئی کہ وہ گھر جا کر اپنے کام وغیرہ نمٹا لے۔

لڑکا اس روز دوپہر کو گھر پہنچا۔ اسے گئے ہوئے پانچ دن ہو گئے تھے۔ اسے دوستوں نے فوراً گھیر لیا اور اسے بتایا کہ اس کا باپ کھیت میں ہل چلا رہا ہے اور مغرب سے قبل نہ لوٹے گا۔ (یہ وہی کھیت تھا جہاں میں نے شیر کے نشانات دیکھے تھے اور اسی دن کنگ کوبرا مارا تھا)۔

لڑکے نے مویشیوں کو چارہ وغیرہ ڈالا اور دوپہر کا کھانا ہمسائے کے گھر سے کھا کر دیگر بیس افراد کے ساتھ پتے جمع کرنے نکل کھڑا ہوا۔

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، یہ گاؤں چٹانی سرے پر بنا ہوا ہے اور اس کے ہر طرف جنگل ہی جنگل ہیں۔ انہی جنگلوں میں حالیہ واقعات میں دو عورتیں ماری گئی تھیں اور کئی ماہ سے مویشیوں کو پتے وغیرہ کھلا کر گذارا کیا جا رہا تھا۔ ہر روز عورتوں کو زیادہ دور جا کر پتے لانا پڑتے تھے۔ اس روز اکیس بندے مزروعہ زمین کو عبو ر کر کے ایک گہری کھائی میں چوتھائی میل اندر گئے۔ یہ وادی شرقاً غرباً آٹھ میل تک پھیلی ہوئی ہے اور تاریک جنگلوں سے گذرتی ہے۔ ڈھکالہ جا کر یہ رام گنگا دریا سے جا ملتی ہے۔

وادی کا سرا کم و بیش متوازی زمین ہے اور ہر طرف گھنی گھاس اور بڑے درختوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ ہر شخص یہاں الگ ہو کر اپنی مرضی کے درخت پر چڑھ گیا اور مطلوبہ مقدار میں پتے توڑ کر اور رسیوں سے ڈھیریاں بنا کر گاؤں کی طرف دو دو یا تین تین کی ٹولیوں میں چلا جاتا۔

آنے اور جانے کے وقت یہ تمام افراد زور زور سے چلاتے اور شور کرتے رہے تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں اور شیر کو پاس آنے کا موقع نہ ملے۔ اسی طرح درختوں پر چڑھے ہوئے بھی وہ برابر شور کرتے رہے۔ معلوم نہیں کس وقت ان کے شور سے خبردار ہو کر ہو کر شیر بیدار ہوا جو اس وقت یہاں سے نصف میل دور جنگل میں سو رہا تھا۔ یہاں سے جہاں اس نے چار روز قبل ایک سانبھر ہلاک کر کے کھایا تھا، نکلا اور ندی عبور کر کے پگڈنڈی پر چلتا ہوا ان لوگوں کی طرف آیا۔ (شیر کے پچھلے اور اگلے پنجوں سے بننے والے پگوں کے بغور مشاہدے سے اس کی رفتار کا جائزہ لیا جا سکتا ہے )

اس مذکورہ لڑکے نے بیری کے ایک درخت کا انتخاب کیا تھا۔ یہ درخت اس پگڈنڈی سے بیس گز دور تھا اور اس کی اوپری شاخیں ایک کھڈ میں جھکی ہوئی تھیں جہاں دو بڑے پتھر موجود تھے۔ اس پگڈنڈی کے ایک موڑ سے شیر نے اس لڑکے کو دیکھا۔ شیر چند منٹ تک اس لڑکے کا جائزہ لیتا رہا پھر پگڈنڈی سے ہٹ کر کھڈ سے تیس گز دور ایک اور گرے ہوئے درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ لڑکے نے پتے توڑے اور انہیں اکٹھا کر کے باندھنے لگا۔ اس جگہ وہ بالکل محفوظ تھا۔ اچانک اس کی نظر ان دو شاخوں پر پڑی جو کھڈ میں گر گئی تھیں۔ وہ کھڈ میں داخل ہوا اور اس طرح اس نے اپنی قسمت پر خود ہی مہر لگا دی۔ جونہی وہ شیر کی نظروں سے اوجھل ہوا، شیر نے اپنی جگہ چھوڑی اور رینگتا ہوا کھڈ میں پہنچا۔ جونہی لڑکا شاخیں اٹھانے جھکا، شیر نے جست لگائی اور اسے ہلاک کر ڈالا۔ یہ بتانا ممکن نہیں کہ شیر کے حملے کے وقت دیگر افراد ادھر درختوں پر موجود تھے یا گاؤں چلے گئے تھے۔

سورج غروب ہوتے وقت باپ گاؤں پہنچا۔ اسے لوگوں نے گھیر لیا اور یہ خوش خبری سنائی کہ کس طرح اس کا بیٹا فوج کے لئے منتخب ہو چکا ہے اور یہ بھی کہ اسے مختصر چھٹی ملی ہے اور وہ گھر آیا ہوا ہے۔ باپ نے پوچھا کہ لڑکا کہاں ہے تو جواب ملا کہ وہ دیگر افراد کے ہمراہ مویشیوں کے لئے پتے توڑنے گیا ہوا تھا۔ لوگوں نے الٹا حیرت سے سوال کیا کہ کیا اسے بیٹا گھر پر نہیں ملا؟ اس نے باری باری ان تمام لوگوں سے پوچھا جو لڑکے کے ساتھ جنگل میں گئے تھے۔ سب نے ایک ہی جواب دیا کہ وادی کے سرے پر سب ایک دوسرے سے الگ الگ ہو گئے تھے۔ کسی کو بھی یاد نہیں کہ اس کے بعد لڑکا کہاں گیا۔

باپ مزروعہ زمین عبور کر کے کنارے پر گیا اور بار بار لڑکے کو آواز دی۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

اندھیرا چھانا شروع ہو چکا تھا۔ بیچارہ باپ گھر لوٹا اور چھوٹا سا لالٹین جلا کر باہر نکلا۔ لالٹین دھوئیں کے باعث بالکل دھندلا چکا تھا۔ لوگوں نے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں جا رہا ہے۔ گاؤں والے سکتے میں آ گئے اور اسے یاد دلایا کہ آدم خور آس پاس ہی کہیں موجود ہو گا۔ اس نے جواب دیا کہ آدم خور کے ادھر ہونے کے سبب اسے ڈر لگ رہا ہے کہ اسے بیٹے کی تلاش کے لئے نکلنا چاہیئے۔ شاید وہ درخت سے گر کر زخمی ہو گیا ہو اور آدم خور کے ڈر سے کوئی آواز نہ نکال رہا ہو۔

نہ اس نے کسی سے ساتھ چلنے کو کہا اور نہ ہی کسی نے خود سے حامی بھری۔ یاد رہے کہ یہ وہی وادی ہے جہاں آدم خور کے ظہور کے بعد سے کوئی شخص قدم رکھنے کی بھی جرأت نہیں کرتا تھا۔ میں نے اس کے قدموں کے نشان سے دیکھا کہ اس رات چار مرتبہ وہ بیچارہ مویشیوں کی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے اس جگہ سے دس فٹ دور گذرا جہاں شیر اس کے بیٹے کو کھا رہا تھا۔

کانپتے ہوئے اور کمزور دل کے ساتھ وہ دو چٹانوں پر چڑھا۔ روشنی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ وہ کچھ دیر کے لئے دم لینے کو رکا۔ اس جگہ سے کھڈ کے اندر تک صاف دکھائی دے رہا تھا۔ سورج نکلنے پر اس نے کھڈ میں پتھروں کے درمیان خون دیکھا۔ بھاگتا ہوا نیچے اترا تو اس نے اپنے بیٹے کی باقیات دیکھیں۔ اس نے انہیں احتیاط سے جمع کیا اور گھر لایا۔ لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے اس کی مدد کی۔ انہوں نے باقیات کو دریائے منڈل کے کنارے شمشان گھاٹ میں جلا دیا۔

میرا اندازہ ہے کہ یہ سمجھنا درست نہیں ہو گا کہ یہ اشخاص ان خطرات سے واقف نہیں ہوتے جو انہیں لاحق ہوں۔ یہ لوگ بہت حساس ہوتے ہیں اور ہر پہاڑی موڑ، ہر چٹان، غار وغیرہ کو انہوں نے کسی نہ کسی بد روح سے منسوب کیا ہوتا ہے۔ یہ ان کی توہم پرستی ہے۔ یہ تمام بد روحیں شیطانی اور اندھیرے کی پیداوار سمجھی جاتی ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں پلا بڑھا شخص جو آدم خور کی موجودگی سے سالوں سے خوف زدہ ہو، اکیلا اور نہتا ان جگہوں سے گذرے، رات بھر گھومتا رہے جہاں پر قدم قدم سے آدم خور سے مڈبھیڑ ہونے کا امکان ہو، میرے نزدیک اتنا نڈر شخص لاکھوں میں ایک ہی ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے بیٹے کی تلاش میں ساری رات گھنے اور تاریک جنگل میں گھومتے رہنا ذرا سا بھی بہادری کا کارنامہ نہ لگا۔ جب میں نے اسے آدم خور کی لاش کے پاس بیٹھ کر تصویر کھینچوانے کا کہا تو اس نے مضبوط لہجے اور پر سکون آواز میں کہا "میں اب مطمئن ہوں۔ صاحب آپ نے میرے بیٹے کا بدلہ لے لیا ہے۔ ”

کماؤں کی ضلعی کانفرنس میں میں نے جن تین آدم خوروں کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، اس آدم خور کی ہلاکت کے ساتھ پورا ہوا۔

٭٭٭

 

 

 

 

پیپل پانی کا شیر

 

 

یہ شیر گہری کھائی میں پیدا ہونے والے تین شیروں میں سے ایک تھا، سے زیادہ میں اس کے بارے کچھ نہیں جانتا۔

جب یہ شیر ایک سال کا ہوا تو چیتل کی آواز سن کر میں اس کے پگوں کی طرف متوجہ ہوا۔ یہ پگ ریتلی ندی میں ثبت تھے اور یہ ندی مقامی سطح پر پیپل پانی کہلاتی تھی۔ پہلے پہل تو میں یہ سمجھا کہ شاید یہ شیر اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہے تاہم جب ہفتوں پر ہفتے گذرتے گئے اور اس کے پگ مجھے باقاعدگی سے دکھائی دیتے رہے تو میں نے اندازہ لگا لیا کہ ملاپ کا موسم نزدیک ہونے کی وجہ سے اس کی ماں نے اسے دور ہٹا دیا ہے۔ قدرت کا عجیب قانون ہے کہ ایک دن ماں اپنے اسی بچے کی حفاظت کے لئے جان تک دے سکتی ہے اور اگلے دن اس سے اس طرح اجنبی ہو جائے گی۔ تاہم اس طرح قدرت والدین اور بچوں کے مابین افزائش نسل روکتی ہے۔

ان سردیوں میں اس شیر کا گذارا مور، کاکڑ، چھوٹے موٹے سور اور اکا دکا چیتل پر تھا۔ اس کی رہائش ایک بہت بڑے درخت کے گرے ہوئے کھوکھلے تنے میں تھی جو بظاہر کسی وجہ کے بغیر ہی گر گیا تھا۔ اسے کھوکھلا کرنے کا کام وقت اور سیہہ نے سرانجام دیا تھا۔ اپنے زیادہ تر شکار وہ یہیں لاتا تھا اور سرد دنوں میں یہیں وہ دھوپ سینکتا تھا۔ اس سے پہلے یہی کام اسی جگہ بہت سارے تیندوے بھی کر چکے تھے۔

جنوری کے اواخر میں میں نے اس شیر کو پہلی بار قریب سے دیکھا۔ ایک شام میں بغیر کسی خاص مقصد کے سیر پر نکلا ہوا تھا کہ میں نے ایک جگہ ایک کوے کو زمین سے اڑ کر درخت پر بیٹھتے اور پھر اپنی چونچ صاف کرتے ہوئے دیکھا۔ کوے، گدھ اور نیل کنٹھ ایسے پرندے ہیں جو ہندوستان اور افریقہ میں ہمیشہ درندوں کے شکار کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس بار کوے نے میری نشان دہی گذشتہ رات کے واقعے کی طرف مبذول کرائی۔ ایک چیتل کو شکار کیا گیا تھا اور شیر نے اسے کھایا بھی تھا۔ میری ہی طرح کچھ اور راہگیر بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے کیونکہ سڑک یہاں سے پچاس گز ہی دور تھی۔ انہوں نے باقی بچے چیتل سے گوشت کاٹ لیا تھا۔ اب یہاں محض چند ہڈیاں اور جمے ہوئے خون کے کچھ لوتھڑے ہی باقی بچے تھے۔ انہی سے کوا اپنا پیٹ بھر رہا تھا۔ چونکہ یہ چیتل سڑک سے اتنا نزدیک اور کھلے میدان میں موجود تھا، مجھے یقین تھا کہ شیر نے ان لوگوں کو گوشت کاٹتے نہیں دیکھا اور جلد ہی آتا ہو گا۔ اس لئے میں آلو بخارے کے درخت پر چڑھ کر ہر ممکن طریقے سے آرام سے بیٹھ گیا۔

اگر آپ قارئین شکار کئے گئے جانوروں پر چھپ کر بیٹھنے کے سلسلے میں مجھ سے اتفاق نہ کریں تو مجھے کوئی شکایت نہیں۔ تاہم میری یادداشت میں موجود شکار کی چند بہترین یادیں اسی سے وابستہ ہیں۔ ان کی ابتداء تب ہوئی تھی جب میرے پاس مزل لوڈر بندوق تھی جس کے کندے اور ٹوٹی ہوئی نالی کو تانبے کی تاروں سے باندھا گیا تھا اور میں شیر کے شکار کردہ لنگور کے پاس موجود درخت پر چھپ کر بیٹھا تھا اور اب سے چند دن قبل جدید ترین رائفل ہاتھ میں لئے میں نے شیرنی اور اس کے دو جوان بچوں کو شکار کردہ سانبھر کھاتے دیکھا۔ مجھے ہر بار ایک جتنی خوشی ہوئی۔

یہ سچ ہے کہ اس بار میرے سامنے نیچے کوئی شکار کردہ جانور نہیں تھا تاہم موجودہ حالات کی روشنی میں میرے لئے شیر پر گولی چلانے کا مناسب موقع تھا۔ جنگلی جانوروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے یہاں کافی مقدار میں خون مٹی میں جذب ہو چکا تھا۔ اس کا تجربہ بھی فوراً ہی ہو گیا کہ ایک بوڑھا سور جو کچھ فاصلے پر جھاڑیوں میں آرام سے چل رہا تھا، اچانک ہی ہوا کے رخ بدلنے سے خون کی بو سونگھ کر اپنی جگہ رک گیا تھا۔ تھوتھنی اوپر اٹھائے خون کی بو سونگھ رہا تھا۔ اسی طرح چلتے ہوئے وہ ہر چند گز بعد دائیں یا بائیں مڑتا اور پھر ہوا کے رخ پر آ جاتا۔ زمین پر پگ نہ ہونے کی وجہ سے سور مجھ سے کہیں زیادہ آسانی سے تحقیق کر رہا تھا۔ اس نے آسانی سے معلوم کر لیا کہ شیر نے چیتل کو مارا تھا۔ ایک بار پھر اس نے تسلی کی کہ کھانے کو کچھ نہیں بچا، سور بھاگ کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ مخملی سینگوں والے دو چیتل ہوا کے مخالف رخ سے سیدھے اسی جگہ پہنچے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے رات کو شیر کو شکار کرتے دیکھا تھا۔ باری باری زمین کو سونگھنے کے بعد جب ان کی تسلی ہو گئی تو واپس لوٹ گئے۔

تجسس محض انسانی فطرت نہیں بلکہ بہت سارے جانور محض تجسس کی بدولت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ برآمدے میں موجود کتا کسی سائے پر بھونکتا ہے، ہرن اپنے جھنڈ سے الگ ہو کر ایسی گھاس کو دیکھنے بڑھتا ہے جو ہوا چلنے کے باوجود نہیں ہل رہی اور شکار کی تلاش میں بیٹھا ہوا تیندوا موقعے سے فائدہ اٹھا لیتا ہے۔

سرمائی سورج ابھی غروب ہونے کے قریب تھا کہ سامنے دائیں جانب کسی حرکت سے میں متوجہ ہوا۔ دو جھاڑیوں کے درمیان سے ہوتا ہوا کوئی جانور تیس گز دور سیدھا میرے درخت کی سمت چلتا آیا۔ پھر میرے نزدیک موجود جھاڑیاں الگ ہوئیں اور ان سے شیر اتنی لاپرواہی سے نکلا کہ اس نے دائیں بائیں دیکھنے کی زحمت تک نہ کی۔ وہ سیدھا اسی جگہ پہنچا جہاں اس کا شکار تھا۔ جونہی اسے احساس ہوا کہ اس کا اتنی محنت سے مارا ہوا شکار غائب ہو چکا ہے، اس کی مایوسی قابل دید تھی۔ اس چیتل کو شاید اس نے گھنٹوں کی محنت کے بعد مارا ہو۔ چیتل کی بچی کھچی ہڈیوں اور خون سے ہٹ کر اس کی توجہ اب درخت کے اس تنے کی جانب مبذول ہو گئی جہاں دیہاتیوں نے چیتل کو رکھ کر کاٹا تھا۔ اس پر گوشت کے چند ریزے لٹک رہے تھے۔ میں اکیلا آدمی نہیں تھا جو ان جنگلوں میں بھرے ہوئے ہتھیار لئے پھرتا تھا اور اگر اس شیر نے جوان ہو کر بڑا شیر بننا تھا تو اسے دن کی روشنی میں بغیر مناسب دیکھ بھال کئے کھلے میں نکلنے کے خطرے سے آگاہ کرنا لازم تھا۔ عام طور پر بندوق سے چلائے گئے چھوٹے چھروں سے یہ کام بخوبی ہو جاتا تاہم اب یہی کام میری رائفل کو سر انجام دینا تھا۔ جونہی اس نے سر اٹھا کر ان ریشوں کو سونگھنا شروع کیا، میری رائفل کی گولی اس کی ناک سے ایک انچ دور لکڑی میں دھنس گئی۔ ساری زندگی میں ایک بار مزید اس شیر نے یہ غلطی دہرائی۔

اگلی سردیوں میں میں نے اس شیر کو کئی بار دیکھا۔ اب اس کے کان اتنے بڑے نہیں دکھائی دیتے تھے اور اس کی کھال اب جوان شیر کی کھال میں بدل چکی تھی۔ اس نے اپنی رہائش گاہ بدل دی تھی اور تیندوے اس کی پرانی رہائش گاہ میں آ چکے تھے۔ یہ شیر اب پہاڑ کے دامن میں موجود گھنی پٹی میں رہنے لگا تھا اور کم عمر سانبھر اس کا شکار بننے لگے تھے۔

ہر سال کی طرح اس بار بھی جب ہم سردیوں میں پہاڑ سے نیچے اترے تو اس کے پگ مجھے کہیں دکھائی نہ دیئے۔ کئی ہفتوں تک تو مجھے یہ خیال رہا کہ شاید یہ شیر اب کہیں اور چلا گیا ہے۔ تاہم ایک دن ایسا ہوا کہ اس کے پگوں دوبارہ دکھائی دینے لگے اور اس کے ساتھ ہی ایک شیرنی کے پگ بھی موجود تھے۔ شاید اسی ساتھی کی تلاش میں شیر نکلا ہوا ہو گا۔ ایک بار میں نے ان شیروں کو اکٹھے بھی دیکھا۔ اس دن میں سورج نکلنے سے پہلے سے ایک سراء گائے کی تلاش میں نکلا ہوا تھا جو پہاڑ کے دامن میں رہتی تھی۔ واپسی کے راستے پر میں نے ایک گدھ دیکھا جو سال کے درخت پر بیٹھا ہوا تھا۔

اس گدھ کی پشت میری جانب تھی اور اس کا رخ سامنے موجود گھاس کے چھوٹے قطعے کی جانب تھا جس کے پیچھے گھنا جنگل شروع ہو جاتا تھا۔ جنگل میں ابھی تک شبنم موجود تھی اور بغیر کسی آواز کے میں درخت تک پہنچا اور تنے کی اوٹ سے دوسری جانب دیکھنے لگا۔ چھوٹی جھاڑیوں سے ایک نر سانبھرکی لاش دکھائی دی۔ لاش اس لئے کہ کوئی بھی زندہ سانبھر اس طرح نہیں لیٹ سکتا۔ پاس موجود کائی سے ڈھکے ایک پتھر پر چڑھ کر میں نے پورا سانبھر دیکھا۔ اس کی پچھلی ٹانگیں کھائی جا چکی تھیں اور اس کے دونوں اطراف دونوں شیر لیٹے ہوئے تھے۔ نر شیر دوسری جانب تھا جہاں اسے اس کی صرف ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ دونوں ہی شیر سو رہے تھے اور ان کا درمیانی فاصلہ محض دس فٹ رہا ہو گا۔ یہاں سے دس فٹ آگے اور تیس فٹ بائیں جانب جا کر میں شیر کی گردن پر گولی چلا سکتا تھا۔ تاہم یہ منصوبہ بناتے وقت میں گدھ کو بھول گیا۔ جہاں میں کھڑا تھا وہاں سے گدھ مجھے نہیں دیکھ سکتا تھا تاہم جونہی دس فٹ آگے بڑھا، اس نے مجھے دیکھ لیا۔ اتنے قریب دیکھ کر اس نے چیخ ماری اور اڑا۔ تاہم اس کے اوپر ایک بیل موجود تھی جس سے ٹکرا کر شور مچاتا ہوا گدھ زمین پر گرا۔ ایک لمحے کے اندر ہی شیرنی بیدار ہو کر غائب ہو گئی تھی جبکہ شیر بھاگنے میں کچھ سُست تھا۔ بعجلت گولی چلانا ممکن تو تھا لیکن آگے موجود گھنے جنگل میں زخمی جانور کو تلاش کرنا بے کار ہوتا۔ آپ میں سے وہ افراد جنہوں نے شیروں اور تیندوؤں کے شکار کردہ جانور پر گھات لگا کر ان کا شکار کرنے کی کوشش نہیں کی، میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ایک بار آزمائیں۔ شکار کا بہترین طریقہ ہے۔ تاہم گولی چلاتے ہوئے پوری احتیاط کرنی ہو گی کہ یا تو جانور مارا جائے یا پھر شدید زخمی ہو کہ حرکت کے قابل نہ رہے، ورنہ انجام بہت خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔

ایک ہفتے بعد شیر نے دوبارہ سے اکیلا رہنا شروع کر دیا۔ اب تک اس نے اپنے شکار کردہ جانوروں پر میری آمد کا برا نہیں منایا تھا تاہم جونہی اس کی ساتھی الگ ہوئی، اس نے مجھ پر واضح کر دیا کہ اب کے بعد وہ مجھے اپنے شکار پر برداشت نہیں کرے گا۔ نزدیک موجود شیر کی غصیلی غراہٹ سے زیادہ خطرناک آواز جنگل میں نہیں ہوتی۔

اگلے مارچ میں اس شیر نے پہلی بار پوری طرح جوان ایک بھینس ماری۔ اس شام میں پہاڑ کے دامن کے پاس ہی تھا جب میں نے بھینس اور شیر کی کشمکش کی آوازیں سنیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ یہ آوازیں چھ سو گز دور کھائی سے آ رہی ہیں۔ راستہ بہت دشوار تھا اور زیادہ تر جگہوں پر پتھر اور کانٹے دار جھاڑیاں موجود تھیں۔ جب میں اس جگہ پہنچا جہاں سے کھائی کا نظارہ ممکن تھا تو بھینس کی کشمکش دم توڑ چکی تھی تاہم شیر کہیں دکھائی نہ دیا۔ ایک گھنٹے تک میں رائفل کی لبلبی پر انگلی رکھے لیٹا رہا تاہم شیر نہ دکھائی دیا۔ اگلی صبح پو پھٹنے پر میں جب اسی جگہ لوٹا تو بھینس اسی طرح پڑی تھی جیسا کہ میں چھوڑ کر گیا تھا۔ نرم زمین پر کھروں اور پنجوں کے نشانات تھے جس سے پچھلی شام کی کشمکش کی شدت کا اندازہ ہو سکتا تھا۔ جب تک شیر نے بھینس کی ٹانگوں کے پٹھے نہیں کاٹ دیئے، اسے گرانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ یہ کشمکش دس سے پندرہ منٹ تک جاری رہی ہو گی۔ شیر کے پگوں پر چلتے ہوئے میں نے کچھ دور ایک پتھر پر خون کے دھبے دیکھے۔ سو گز آگے جا کر گرے ہوئے ایک درخت پر خون کے مزید نشانات دکھائی دئیے۔ بظاہر شیر کو یہ زخم بھینس کے سینگوں سے سر پر لگا تھا۔ یہ زخم اتنا کاری تھا شیر اب بھینس کو بھلا کر چل پڑا تھا اور دوبارہ واپس نہ لوٹا۔

میرے دیئے ہوئے سبق کو تین سال بعد شیر نے بھلاتے ہوئے ایک بار اپنے شکار کردہ جانور پر بے احتیاطی سے لوٹا۔ شاید اس کے پاس یہ بہانہ ہو کہ شیر کے شکار کا موسم ختم ہو چکا تھا۔ اس بار اس کا سامنا کرنے ایک مقامی زمیندار اپنے مزارعوں کے ہمراہ درخت پر موجود تھا۔ زمیندار کی گولی شیر کے شانے میں لگی اور شانے کی ہڈی توڑ گئی۔ اس کا پیچھا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور ۳۶ گھنٹے بعد اس شیر کے شانے پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں جب یہ انسپکشن بنگلے کے احاطے سے ہوتا ہوا پل عبور کر کے نوکروں کے کوارٹروں سے ہوتا ہوا خالی گودام کی چار دیواری میں جا بیٹھا۔ ان کوارٹروں کے سب مکینوں نے اسے گذرتے ہوئے دیکھا۔ چوبیس گھنٹوں بعد آس پاس کے دیہاتوں سے جمع ہونے والے لوگوں کے شور سے گھبرا کر یہ شیر وہاں سے نکلا اور ہمارے گیٹ سے ہوتا ہوا ہمارے گاؤں کے زیریں حصے کو چل دیا۔ گذشتہ روز ہمارے مزارعوں میں سے کسی کا ایک بیل مر گیا تھا جسے لوگوں نے گھسیٹ کر وہاں جھاڑیوں میں ڈال دیا تھا۔ شیر نے اسے دیکھ لیا اور اگلے چند روز اس نے اسی بیل کو کھا کر گذارا کیا۔ پینے کے لئے پاس موجود آبپاشی کی نالی اس کے کام آئی۔

دو ماہ بعد جب ہم پہاڑ سے نیچے اترے تو یہ شیر بچھڑوں، بھیڑوں اور بکریوں وغیرہ پر زندہ تھا جو وہ گاؤں کے کناروں سے پکڑ لیتا تھا۔ مارچ تک اس کا زخم بھر گیا تھا تاہم اس کا پنجہ اندر کی جانب مڑ گیا تھا۔ جس جنگل میں وہ زخمی ہوا تھا، وہاں واپس پہنچ کر شیر نے دیہات کے مویشیوں سے بھاری خراج وصول کرنا شروع کر دیا۔ تاہم اس بار اپنی حفاظت کے خیال سے یہ شیر ہر شکار سے محض ایک بار ہی کھاتا۔ اس طرح اس کی ہلاکت خیزی پانچ گنا بڑھ گئی تھی۔ جس زمیندار نے اسے زخمی کیا تھا، کے پاس سب سے زیادہ مویشی تھے اور شیر سے سب سے زیادہ نقصان بھی اسے ہی پہنچ رہا تھا۔ اس کے پاس تقریباً چار سو گائیں اور بیل تھے۔

آنے والے برسوں میں شیر کی شہرت اور اس کی جسامت یکساں انداز میں بڑھتے چلے گئے۔ کئی شکاریوں اور مقامی افراد نے اسے ہلاک کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔

ایک بار نومبر کی شام کو ایک دیہاتی جو ایک نالی بندوق مزل لوڈر بندوق لے کر سور مارنے کی نیت سے بیس گز چوڑی نالی میں موجود اکیلی جھاڑی میں چھپ کر بیٹھا۔ یہاں زمین مستطیل شکل کی تھی اور لمبے کناروں پر کھیت جبکہ چھوٹے کناروں میں سے ایک پر سڑک جبکہ دوسرے پر آبپاشی کی ایک نالی گذرتی تھی۔ اس کے پیچھے گھنی جھاڑیاں اور سامنے چار فٹ بلند پگڈنڈی تھی جہاں سے مویشی وغیرہ گذرتے تھے۔ ۸ بجے رات کو اس پگڈنڈی پر ایک جانور نمودار ہوا۔ ہر ممکن نشانہ لے کر اس نے گولی چلائی اور وہ جانور الٹ کر دوسری جانب گرا۔ یہ آدمی فوراً ہی اپنا کمبل پھینک کر دو سو گز دور اپنے گاؤں چلا گیا۔ وہاں لوگ جمع ہوئے اور جب انہوں نے شکاری کی کہانی سنی تو افسوس ظاہر کیا کہ اگر اس سور کو فوراً نہ لیا گیا تو گیدڑ اور لگڑ بگڑ کھا جائیں گے۔ لالٹین جلا کر یہ چھ افراد سور کو اٹھانے چل پڑے۔ میرے ایک مزارع نے تجویز پیش کی کہ وہ لوگ کم از کم ایک بندوق ساتھ لے جائیں۔ بعد ازاں اس نے مجھے بتایا کہ اسے بھی شامل ہونے کو کہا گیا تھا لیکن گھنی جھاڑیوں میں زخمی سور کو تلاش کرنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔

تاہم اس کی تجویز کے مطابق بندوق میں ڈھیر سارا بارود ڈالتے وقت لکڑی کی سلاخ ٹوٹ گئی۔ بظاہر اس حادثے نے ان چھ افراد کی جان بچا لی۔ آخر کار لکڑی کو نکال کر چھرے وغیرہ ڈال کر بندوق بھری گئی اور یہ لوگ چل پڑے۔

موقع پر پہنچ کر انہوں نے سور کی تلاش شروع کی تو انہیں خون دکھائی دیا۔ تاہم پورا علاقہ چھان مارنے کے بعد انہیں اپنی کوششیں ترک کرنی پڑیں۔ اگلی صبح وہ لوگ پھر لوٹے۔ اس بار میرا متذکرہ بالا مزارع بھی ان کے ساتھ تھا۔ یہ بندہ جنگل کے بارے دیگر افراد کی نسبت زیادہ معلومات رکھتا تھا اور جہاں انہوں نے ڈھیر سارا خون دیکھا، وہاں سے اس نے خون سے سنے ہوئے کچھ بال بھی اٹھائے اور میرے سامنے پیش کئے۔ بال دیکھتے ہی میں پہچان گیا کہ یہ شیر کے بال ہیں۔ اس وقت میرے ساتھ ایک اور شکاری بھی تھا چنانچہ ہم دونوں اس طرف چل پڑے۔

زمین پر موجود نشانات کی مدد سے جنگل میں وقوع پذیر ہوئے کسی واقعے کی تفصیلات جاننا میرے لئے ہمیشہ سے دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ بے شک کئی بار لگائے جانے والے اندازے غلط بھی ہوتے ہیں تاہم کئی بار وہ درست بھی نکلتے ہیں۔ اس بار میں نے درست اندازہ لگایا کہ شیر کو زخم دائیں اگلی ٹانگ کی اندرونی جانب لگا ہے۔ تاہم میرا یہ اندازہ کہ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے اور یہ شیر اس علاقے میں اجنبی ہے، غلط تھے۔

جہاں سے بال ملے تھے، سے آگے خون کے نشانات یکسر ختم ہو گئے تھے۔ زمین اس نوعیت کی تھی کہ اس پر نشانات کو تلاش کرنا کارے وارد تھا۔ اس لئے میں نے ندی عبور کر کے مویشیوں کی ایک پگڈنڈی کا رخ کیا جو ریتلے نالے سے گذرتی تھی۔ یہاں پگوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ شیر نوعمر نہیں بلکہ میرا پرانا دوست پیپل پانی کا شیر ہے۔ یہ شیر گاؤں سے ہو کر گذرنے کے چکر میں تھا کہ اس شکاری نے اندھیرے میں اسے سور سمجھ کر اس پر گولی چلا دی۔

پہلی بار زخمی ہونے کے بعد وہ آبادی میں انسانوں اور جانوروں کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر گذرا تھا تاہم اب یہ شیر اب بڑا ہو چکا تھا اور اگر تکلیف یا بھوک نے اسے مجبور کیا تو بہت نقصان پہنچائے گا۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت ہی نقصان ہو جاتا کیونکہ یہ علاقہ گنجان آباد تھا۔ مجھے ایک ہفتے کے اندر اندر ایک انتہائی ضروری کام کے لئے جانا پڑتا جو ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

تین دن تک میں نے ندی اور پہاڑی کے دامن تک جنگل میں ایک ایک انچ چھان مارا۔ یہ علاقہ چار مربع میل بنتا تھا۔ تاہم شیر کہیں دکھائی نہ دیا۔ چوتھے روز دوپہر کو جب میں دوبارہ تلاش شروع کر ہی رہا تھا تو مجھے ایک بوڑھی عورت اور اس کا بیٹا جنگل سے بعجلت نکلتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے بتایا کہ پہاڑ کے دامن میں ایک شیر بول رہا تھا اور جنگل میں موجود سارے مویشی گھبرائے ہوئے تھے۔ رائفل ساتھ ہو تو میں اکیلا جنگل میں جانا پسند کرتا ہوں۔ اکیلا بندہ جنگل میں زیادہ خاموشی سے پھر سکتا ہے اور دوسرا کسی بھی دشواری میں اکیلا بندہ زیادہ آسانی سے نکل سکتا ہے۔ تاہم اس بار یہ لڑکا مجھے وہ جگہ دکھانے کے لئے بے قرار ہو رہا تھا جہاں اس نے شیر کو بولتے سنا تھا۔

پہاڑی کے دامن میں پہنچ کر لڑکے نے گھنی جھاڑیوں کی طرف اشارہ کیا جو آگ سے بچاؤ والے راستے کے دوسری جانب پیپل پانی ندی کے پاس تھا۔ ندی سے سو گز دور اور اس کے متوازی ایک بیس فٹ لمبا نشیب تھا جو میری جانب تقریباً خالی جبکہ دوسری جانب گھنی جھاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ ایک پگڈنڈی اس نشیب سے زاویہ قائمہ بناتے ہوئے گذرتی تھی۔ اگر شیر اس طرف آتا تو مجھے پوری طرح یقین تھا کہ وہ جھاڑیوں سے نکل کر رکے گا جہاں اس پر گولی چلائی جا سکے گی۔ میں نے یہیں کھڑے ہونے کا سوچا اور لڑکے کو ایک درخت پر اس طرح بٹھا دیا کہ اس کے پیر میرے شانوں کو لگ رہے تھے۔ اسے میں نے ہدایت کی کہ جونہی وہ بلندی سے شیر کو دیکھے تو پیر کی حرکت سے مجھے آگاہ کرے۔ پھر میں نے درخت سے پشت لگائی اور شیر کی آواز نکالی۔

آپ میں سے وہ لوگ جو جنگل میں بہت عرصہ گذار چکے ہیں، کو جوڑے کی تلاش میں نکلی شیرنی کی آواز کے بارے بتانا فضول ہے۔ تاہم جو افراد نہیں جانتے، انہیں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ آواز سمجھنے کے لئے بہت بار قریب سے سننا پڑتی ہے اور اس کی نقالی کرنے کے لئے بہترین گلے کا ہونا ضروری ہے، تاہم الفاظ میں یہ آواز بیان نہیں کی جا سکتی۔

مجھے انتہائی سکون ملا جب میں نے فوراً ہی شیر کی طرف سے جوابی آواز سنی کیونکہ تین روز سے میں مسلسل جنگل میں ہر جگہ اسے تلاش کر رہا تھا۔ شیر کی آواز تقریباً ۵۰۰ گز دور سے آئی تھی اور تقریباً نصف گھنٹے تک ہم دونوں میں آوازوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ ایک طرف تو جنگل کا بادشاہ اپنی ملکہ کو فوری طور پر حاضر ہونے کا کہہ رہا تھا اور دوسری جانب شیرنی اسے اپنی طرف بلا رہی تھی۔ دو بار لڑکے نے مجھے اشارہ کیا تاہم مجھے شیر دکھائی نہیں دیا۔ تاہم جب ڈھلتے سورج کی کرنیں جنگل پر پڑیں تو شیر اچانک نکل کر سامنے آ گیا۔ تاہم جھاڑیوں سے نکلتے وقت اس نے کوئی دھیان نہیں دیا اور تیزی سے سیدھا چلا آیا۔ جب وہ نشیب کے وسط میں تھا تو میں نے رائفل اٹھائی اور اسی وقت اس نے رخ بدلا اور سیدھا ہماری طرف آنے لگا۔

جگہ کا انتخاب کرتے وقت مجھے شیر سے اس حرکت کی توقع نہیں تھی جس کے باعث وہ میرے اندازے سے زیادہ نزدیک پہنچ گیا۔ اس طرح کم فاصلے سے مجھے اس کے سر پر گولی چلانی تھی جس کے لئے میں تیار نہیں تھا۔ تاہم ایک پرانے نسخے کو آزمانے پر شیر بغیر کسی پریشانی کے رک گیا۔ ایک پاؤں اٹھائے ہوئے اس نے آہستگی سے اپنا سر اٹھایا۔ اس طرح اس کا گلا اور سینہ سامنے آ گئے۔ بھاری گولی کھاتے ہی وہ لڑکھڑاتے ہوئے جنگل میں بھاگا۔ جہاں پہلی بار میں نومبر میں نے چیتل کی آواز سن کر اس کے پگ دیکھے تھے، اس جگہ سے چند گز کے فاصلے پر وہ گرا اور دم توڑ دیا۔

تاہم اس کے بعد ہی مجھے علم ہوا کہ میں نے اسے غلط فہمی میں ہلاک کیا ہے۔ اس کی ٹانگ کا زخم جس کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ خطرناک ہو گا، وہ تقریباً بھر چکا تھا اور یہ زخم ایک چھرے سے لگا تھا جس سے اگلی دائیں ٹانگ کی ایک چھوٹی رگ کٹ گئی تھی۔

۱۰ فٹ اور ۳ انچ لمبے شیر جس کی کھال بہترین حالت میں تھی، کا شکار میرے لئے خوشی کے ساتھ ساتھ دکھ کا باعث بھی تھا کیونکہ اب جنگل کے جانور اور میں اس کی آواز دوبارہ نہ سن پائیں گے اور نہ ہی اس کے پگ مجھے دوبارہ ان را ہوں پر دکھائی دیں گے جو میں اور یہ شیر گذشتہ پندرہ سالوں سے استعمال کر رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ٹھاک کا آدم خور

 

(۱)

 

لدھیا وادی میں سکون بحال ہوئے کئی ماہ گذر چکے تھے کہ اچانک ستمبر ۱۹۳۸ء کے ایک دن نینی تال میں اطلاع پہنچی کہ شیر نے کوٹ کندری میں ایک بارہ سالہ لڑکی کو ہلاک کر دیا ہے۔ یہ اطلاع مجھے فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈونلڈ سٹیورٹ سے ملی جو اس بارے مزید کچھ تفصیل نہ بتا سکے۔ چند ہفتے بعد جب میں اس گاؤں پہنچا تو میں نے اس بارے حقائق جمع کئے۔ بظاہر دن دوپہر کا وقت تھا اور لڑکی گاؤں کے بالکل سامنے ایک آم کے درخت کے نیچے گرے ہوئے آم جمع کر رہی تھی جب اچانک شیر نمودار ہوا۔ قبل اس کے کہ نزدیکی کھیتوں میں کام کرنے والے افراد اس کی کوئی مدد کر سکیں، شیر اسے اٹھا لے گیا۔ شیر کے پیچھا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور میری آمد سے بہت پہلے ہی خون اور دیگر نشانات ختم ہو چکے تھے۔ اس لئے میں باقیات تلاش کرنے سے معذور تھا۔

کوٹ کندی چکا سے چار میل جنوب مغرب میں ہے اور ٹھاک سے مغرب کی طرف تین میل دور۔ یہ جگہ کوٹ کندری اور ٹھاک کے درمیان اس جگہ وادی میں تھی جہاں گذشتہ اپریل چکہ کا آدم خور مارا گیا تھا۔

۱۹۳۸ء کی گرمیوں میں محکمہ جنگلات نے اس علاقے کے تمام درختوں کو گرانے کے لئے نشان لگا دیئے۔ اندیشہ تھا کہ اگر نومبر سے پہلے پہلے آدم خور کا قصہ پاک نہ کیا گیا تو ٹھیکے دار مزدوروں کو اکٹھا نہ کر سکیں گے اور اس طرح انہیں دوبارہ ٹھیکے کی رقم ادا کرنی ہو گی۔ نومبر میں کٹائی شروع ہونی تھی۔ ڈونلڈ سٹیورٹ نے مجھے اسی وجہ سے لڑکی کے مار جانے کے فوراً بعد اطلاع بھجوائی تھی۔ جب میں نے کوٹ کندری جانے کا ان سے وعدہ کیا تو مجھے یہ بتانے میں کوئی تامل نہیں محسوس ہوتا کہ میری روانگی کا مقصد ٹھیکے داروں کو نقصان سے بچانے سے زیادہ علاقے کے لوگوں کو آدم خور سے بچانا تھا۔

کوٹ کندری تک جانے کا براہ راست راستہ ٹرین سے بذریعہ تنگ پور تھا جہاں سے ہم پیدل کل ڈھنگہ اور چکا سے ہو کر جاتے۔ تاہم اس راستے پر چلتے ہوئے اگرچہ میں سو میل کا پیدل سفر بچا لیتا لیکن مجھے شمالی ہندوستان میں ملیریا کی مہلک پٹی سے گذرنا پڑتا۔ اس سے بچنے کی خاطر میں نے مورنالہ کی پہاڑیوں کے ذریعے جانے کا سوچا۔ یہاں سے ہم متروک شدہ شیرنگ روڈ پر چلتے جس کا اختتام کوٹ کندری پر ہوتا۔

ابھی اس لمبے سفر کے لئے میں تیاریاں کر ہی رہا تھا کہ سیم میں دوسری ہلاکت کی اطلاع بھی نینی تال آ ملی۔ سیم لدھیا کے دائیں کنارے پر چھوٹا سا گاؤں تھا اور چکا سے نصف میل دور۔

اس بار متوفیہ ایک ادھیڑ عمر کی خاتون اور سیم کے نمبردار کی ماں تھی۔ یہ بدقسمت عورت دو کھیتوں کی درمیانی انتہائی ڈھلوان منڈیر سے لکڑیاں کاٹنے گئی تھی۔ اس نے پچاس گز لمبی منڈیر کے پرلے سرے سے کام شروع کیا۔ لکڑیاں کاٹتے کاٹتے وہ اپنے جھونپڑے سے گز بھر دور رہ گئی تھی کہ اوپر والے کھیت سے شیر نے اس پر جست لگائی۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ متوفیہ صرف ایک چیخ مار سکی اور شیر نے اسے ہلاک کر دیا تھا۔ پھر اسے لے کر شیر بارہ فٹ اونچے کنارے پر چڑھا اور اوپر والے کھیت کو عبور کر کے اس کے پار جنگل میں گم ہو گیا۔ اس کا بیٹا جو بیس سال کا تھا، اس جگہ سے چند گز دور ایک اور کھیت میں کام کر رہا تھا۔ اس نے یہ سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ اتنا خوفزدہ ہو چکا تھا کہ مدد نہ کر سکا۔ لڑکے کی درخواست پر پٹواری دو دن بعد سیم پہنچا۔ وہ اپنے ساتھ اسی افراد اکٹھے کر کے لایا تھا۔ شیر کی روانگی کی طرف تلاش شروع کرتے ہوئے انہوں نے متوفیہ کے کپڑے اور ہڈیوں کے چند ریزے ہی پائے۔ یہ ہلاکت دن دیہاڑے دو بجے ہوئی تھی اور شیر نے متوفیہ کو اس کے گھر سے ساٹھ گز دور بیٹھ کر کھایا تھا۔

دوسری ہلاکت کی اطلاع ملنے پر میں نے ایبٹسن کے ساتھ مل کر صلاح مشورہ کیا۔ ایبٹسن الموڑہ، نینی تال اور گڑھوال کے تین اضلاع کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ اس صلاح مشورے کے بعد ایبٹسن جو کہ تبت کی سرحد کے نزدیک زمین کے کسی تنازعے کا فیصلہ کرنے جا رہے تھے، نے اپنا پروگرام بدلا۔ وہ باگاشور کی بجائے میرے ساتھ سیم چلتے اور پھر وہاں سے اسکوٹ۔

جو راستہ میں نے چنا تھا، چڑھائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہم نے آخر کار یہ فیصلہ کیا کہ ہم پہلے نندھور وادی جا کر نندھور اور لدھیا کے درمیان دریا کو عبور کریں اور پھر لدھیا دریا کے ساتھ ساتھ اتر کر سیم پہنچیں۔ ایبٹسن بارہ اکتوبر کو نینی تال سے روانہ ہوئے۔ اس سے اگلے دن میں انہیں چار گلیا میں جا ملا۔

نندھور دریا کے ساتھ ساتھ اوپر جاتے اور مچھلیاں پکڑتے ہوئے گئے۔ ہمارا ایک دن کا ریکارڈ ایک سو بیس مچھلیاں تھا۔ پانچویں دن ہم درگا پیپل پہنچے۔ یہاں ہم دریا سے الگ ہو کر اور ایک انتہائی سخت چڑھائی کے بعد رات کو دریا کے کنارے جا رکے۔ اگلے دن جلدی روانہ ہو کر ہم نے اپنا کیمپ لدھیا کے بائیں کنارے لگایا جو چلتی سے بارہ میل دور تھا۔

مون سون اس بار قبل از وقت ہی ختم ہو گئی تھیں۔ یہ ہمارے لئے اچھا تھا۔ بلند چوٹیوں سے نیچے بہتا ہوا دریا ہر چوتھائی میل پر عبور کرنا پڑتا تھا۔ انہیں میں سے ایک جگہ میرا پانچ فٹ کا باورچی بہہ گیا اور ایک آدمی جو میرے کھانے کی ٹوکری لے کر جا رہا تھا، نے اسے بچایا۔

چراگلیا سے روانہ ہونے کے دسویں دن ہم نے سیم کے ایک بنجر کھیت میں کیمپ لگایا۔ یہاں سے آدم خور کی پہلی شکار والا جھونپڑا دو سو گز دور تھا اور یہ جگہ لدھیا اور سردا دریاؤں کے سنگم سے سو گز دور تھی۔

محکمہ پولیس کے گل وڈل سے ہماری ملاقات آتے ہوئے ہوئی جب وہ واپس جا رہے تھے۔ انہوں نے سیم میں کئی دن کیمپ لگایا اور محکمہ جنگلات کے میک ڈونلڈ کی طرف سے دیئے گئے بھینسے بھی باندھے۔ انہوں نے از راہ کرم ہمیں وہ تمام بھینسے دے دیئے۔ اگرچہ وڈل کے قیام کے دوران آدم خور نے کئی بار ان کے باندھے ہوئے بھینسوں کی طرف چکر لگایا لیکن انہیں ہلاک نہیں کیا۔

ہماری آمد کے اگلے دن جب ایبٹسن پٹواریوں، فارسٹ گارڈوں اور نمبرداروں سے سوال جواب کر رہے تھے، میں پگ دیکھنے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ کیمپ اور سنگم کے درمیان اور لدھیا دریا کے دونوں کناروں پر نرم ریت موجود تھی۔ اس ریت پر میں نے ایک شیرنی، ایک نوجوان تیندوے اور ایک نوعمر نر شیر کے پگ دیکھے۔ شاید یہ انہی میں سے ایک بچہ تھا جو پچھلے اپریل میں نے دیکھا تھا۔ شیرنی نے دریا کو گذشتہ دنوں کئی بار عبور کیا تھا اور پچھلی رات بھی ہمارے خیموں کے سامنے سے گذری تھی۔ اسی شیرنی کو گاؤں والے آدم خور کے شبہے میں دیکھتے تھے۔ نمبردار کی ماں کی ہلاکت کے بعد سے یہی شیرنی مسلسل سیم کا چکر لگا رہی تھی، میرا خیال تھا کہ کسی حد تک وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہیں۔

اس شیرنی کے پگوں کا بغور جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ درمیانی جسامت کی حامل شیرنی اور بھرپور جوان ہے۔ اس نے آدم خوری کا کیوں چناؤ کیا، اس کا جواب تو وقت ہی دیتا۔ لیکن ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس نے چکا کے آدم خور کے ساتھ پچھلے ملاپ کے موسم میں رہتے ہوئے انسانی گوشت کو چکھا ہو۔ اب چونکہ اس کا ساتھی زندہ نہ تھا، اسے خود آدم خور بننا پڑا۔ اگرچہ یہ صرف ایک اندازہ تھا اور بعد ازاں غلط نکلا۔

نینی تال سے روانہ ہونے سے قبل میں نے تنک پور کے تحصیلدار کو خط لکھا تھا کہ وہ میرے لئے چار نو عمر بھینسے خرید کر سیم بھجوا دے۔ ان میں سے ایک راستے میں مر گیا جبکہ باقی کے تین چوبیس تاریخ کو پہنچ گئے۔ ہم نے انہیں میک ڈونلڈ کے دیئے ہوئے ایک بھینسے کے ساتھ باندھا۔ اگلی صبح ان بھینسوں کے جائزے کے لئے جب میں نکلا تو دیکھا کہ چکا کے باشندے بہت پر جوش ہیں۔ گاؤں کے گرد کھیتوں میں تازہ ہل چلے ہوئے تھے اور گذشتہ رات شیرنی ان تین خاندانوں کے پاس سے گذری جو اپنے مویشیوں کے ساتھ کھیت کے باہر سو رہے تھے۔ خوش قسمتی سے ہر خاندان کے مویشیوں نے شیرنی کی آمد کو محسوس کر کے اپنے مالکان کو بروقت خبردار کر دیا۔ ان کھیتوں سے نکل کر شیرنی کوٹ کندری کی طرف گئی اور ہمارے دو بھینسوں کے پاس سے انہیں کچھ بغیر گذری۔

پٹواری، فارسٹ گارڈ اور دیہاتیوں نے ہمارے پہنچنے پر ہمیں بتایا تھا کہ بھینسے باندھنا محض وقت کا ضیاع ہو گا کیونکہ آدم خور انہیں ہلاک نہیں کرے گی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس طریقے سے کئی شکاریوں نے آدم خور کو مارنے کی کوشش کی تھی اور ہر شکاری کی ناکامی کے بعد اگر شیرنی بھینسے کھانا چاہتی تو وہ جنگلوں میں چرتے ہوئے مویشی بھی مار سکتی تھی۔ اس نصیحت کے باوجود میں نے بھینسے بندھوانا جاری رکھا اور اگلی دو راتوں میں شیرنی ان میں سے کسی نہ کسی کے پاس سے گذری لیکن انہیں کچھ کہا نہیں۔

۲۷کی صبح جب ہم نے ناشتہ ختم کیا ہی تھا کہ ٹھاک کے نمبردار کا بھائی تیواری ہمارے کیمپ کئی دیگر افراد کے ساتھ پہنچا اور اطلاع دی کہ ان کے گاؤں کا ایک آدمی گم ہو گیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ آدمی دوپہر کے وقت بیوی کو یہ بتا کر گاؤں سے نکلا کہ وہ اپنے مویشیوں کو واپس لانے جا رہا ہے تاکہ وہ بھٹک کر گاؤں کے باہر نہ نکل جائیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ مویشیوں کو واپس نہ لایا تو ہو سکتا ہے کہ آدم خور انہیں کھا جائے۔

جلدی جلدی ہم تیار ہو گئے اور دس بجے ایبٹسن اور میں ٹھاک کے لئے روانہ ہو گئے۔ ہمارے ساتھ تیواری اور اس کے دیگر ہمراہی بھی تھے۔ فاصلہ اگرچہ دس میل ہی تھا لیکن چڑھائی بہت زیادہ تھی۔ چونکہ ہم وقت نہ ضائع کرنا چاہتے تھے، ٹھاک کے قریب جب ہم پہنچے تو ہمارے سانس بے قابو اور پسینے میں شرابور بھی تھے۔

جونہی ہم جھاڑ جھنکار سے نکل کر قدرے صاف جگہ پہنچے، ہم نے ایک عورت کے بین کی آواز سنی۔ اس جگہ کے بارے میں آگے چل کر مزید بتاؤں گا۔ ہندوستانی عورت کے اپنے مرے ہوئے شوہر کے لئے بین کی آواز ایسی نہیں کہ پہچانی نہ جا سکے۔ ہم جنگل سے نکل کر اس غم زدہ عورت تک پہنچے جو کہ گم شدہ بندے کی بیوی تھی، کوئی دس یا پندرہ افراد بھی اس کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ان کے گھروں کے اوپر کی جانب انہوں نے سفید رنگ کی کوئی چیز دیکھی ہے۔ یہ چیز بظاہر مرحوم آدمی کے کپڑے کا کوئی حصہ لگتا تھا۔ جہاں ہم کھڑے تھے، سے یہ جگہ تیس گز دور گھنی جھاڑی میں تھی۔ ایبٹسن، تیواری اور میں اس سفید چیز کو دیکھنے چل پڑے جبکہ مسز ایبٹسن نے اس خاتون کو ساتھ لیا اور دیگر افراد کے ساتھ گاؤں کو چل دیں۔

یہ کھیت جو کئی سال سے غیر آباد تھا، مختلف قسم کی کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا اور جب تک ہم اس سفید چیز کے بالکل نزدیک نہ پہنچ گئے، تیواری اسے نہ پہچان پایا کہ یہ گم شدہ فرد کی دھوتی تھی۔ اس کے پاس ہی اس کی ٹوپی بھی پڑی ملی۔ اس جگہ کچھ جد و جہد کے آثار تھے لیکن خون کا کوئی قطرہ نہ دکھائی دیا۔ حملے کی جگہ اور اس سے کچھ دور تک خون کے نشانات کا نہ ملنا اس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ شیرنی نے اپنی پہلی گرفت نہیں بدلی۔ اس طرح کی صورتحال میں جب تک جانور اپنی پہلی گرفت نہ تبدیل کرے، خون نہیں نکلتا۔

ہمارے اوپر پہاڑی پر تیس گز دور جھاڑیوں کا گچھا سا تھا جس پر کچھ بیلوں نے گھنا سایہ کیا ہوا تھا۔ گھسیٹنے کے نشانات کا پیچھا کرنے سے قبل اس جگہ کو دیکھ لینا بہتر رہتا ورنہ ہو سکتا تھا کہ شیرنی ہمارے پیچھے ہوتی۔ اس جگہ نرم مٹی میں شیرنی کے بیٹھے اور پھر حملے کے لئے گھات لگانے کے نشانات تھے۔

نکتہ آغاز پر پہنچ کر ہم نے یہ منصوبہ تیار کیا۔ ہماری پہلی ترجیح گھات لگا کر شیرنی کو اس کے شکار کے پاس ہی ہلاک کرنے کی کوشش تھا۔ اس لئے میں نے ان نشانات کا پیچھا کرنے اور سامنے کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ تیواری مجھ سے ایک گز پیچھے اور نہتا دائیں بائیں دیکھتا چلتا اور ایبٹسن اس سے مزید ایک گز پیچھے اور عقب کا دھیان رکھتے ہوئے چلتے۔ ہم نے طے کیا کہ اگر ایبٹسن کو یا مجھے شیرنی کا بال بھی نظر آ جاتا تو ہم گولی چلا دیتے۔

ایک دن قبل اس جگہ سے مویشی چر کر گئے تھے اور انہوں نے زمین پر موجود نشانات کو مٹا دیا تھا۔ اب شیرنی کے گذرنے کے راستے پر کوئی خون نہیں تھا اور محض الٹا ہوا پتا، کچلی ہوئی گھاس ہی اس کی نشان دہی کرتی تھی۔ اس آدمی کو دو سو گز دور لے جانے کے بعد شیرنی نے اسے نیچے ڈالا اور ہلاک کر کے چلی گئی۔ کئی گھنٹے بعد وہ واپس آئی اور اسے اٹھا کر چل دی۔ مارنے کے فوراً بعد ہی وہ متوفی کو کیوں اٹھا کر نہ لے گئی، شاید اس کی وجہ مویشی ہوں جنہوں نے اسے آدمی کو ہلاک کرتا دیکھا اور اسے بھگا دیا ہو۔

اس جگہ خون کا بڑا سا تالاب بنا ہوا تھا جہاں اس نے متوفی کو ڈالا تھا۔ چونکہ اب اس کے جسم سے خون بہنا بند ہو چکا تھا، شیرنی اسے دوبارہ اٹھا کر لے گئی۔ اس بار اس نے متوفی کو کمر سے پکڑا ہوا تھا۔ پہلے اس نے گلے سے متوفی کو اٹھایا ہوا تھا۔ اب پیچھا کرنا مزید مشکل ہو گیا تھا۔ شیرنی نے پہاڑی کے متوازی حرکت جاری رکھی اور چونکہ اس جگہ گھاس وغیرہ بہت گھنی تھی اور چند گز سے زیادہ دور دکھائی نہ دیتا تھا، ہماری پیش قدمی بہت سست ہو گئی۔ دو گھنٹوں میں ہم بمشکل نصف میل چل پائے اور اس کنارے پر پہنچے جہاں موجود وادی مین چھ ماہ قبل ہم نے چکا کے آدم خور کا پیچھا کر کے اسے ہلاک کیا تھا۔ اس جگہ پتھر کی بہت بڑی سلیب تھی جو ہمارے سمت سے اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ شیرنی کے نشانات اسی طرف گئے اور مجھے یقین تھا کہ شیرنی اسی کے نیچے یا پھر اس کے آس پاس ہی کہیں موجود ہو گی۔

ایبٹسن اور میرے پیروں میں ہلکے ربر سول کے جوتے تھے جبکہ تیواری ننگے پاؤں گا اور ہم چٹان تک بغیر کسی آواز کے پہنچ گئے۔ دونوں ساتھیوں کو اشارے سے بتاتے ہوئے کہ وہ خاموشی سے ارد گرد کڑی نظر رکھیں، میں نے چٹان پر پیر رکھا اور انچ بہ انچ آگے بڑھا۔ چٹان کی دوسری طرف تھوڑی سی مسطح زمین تھی اور جونہی زیادہ حصہ میرے سامنے آتا گیا، شیرنی کے اس چٹان کے نیچے موجود ہونے کا شبہ مزید تقویت پکڑتا گیا۔ ابھی مجھے مزید ایک یا دو فٹ اور اوپر جانا تھا کہ میں نے بائیں جانب حرکت محسوس کی۔ ایک سنہرا سپرنگ جیسے دب کر کھلا ہو اور دوسرے لمحے جھاڑیوں کے پیچھے ہلکی سی حرکت دکھائی دی اور جھاڑیوں کے دوسرے سرے پر ایک بندر بولا۔

شیرنی نے بلاشبہ اپنے سونے کے لئے بہت عمدہ جگہ چنی تھی۔ ہماری بدقسمتی کہ شیرنی ابھی سوئی نہ تھی۔ چونکہ میں نے ہیٹ اتارا ہوا تھا تو جونہی شیرنی نے میرے سر کا اوپری حصہ ابھرتا دیکھا، اس نے ایک طرف ہٹتے ہوئے جست لگائی اور بلیک بیری کی جھاڑی میں گھس گئی۔ اگر وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ ہوتی جہاں وہ ابھی تھی، میرے گولی چلانے سے قبل اس کا فرار ہونا ناممکن ہوتا۔ ہماری اتنی محنت سے کی گئی کوشش عین آخری لمحے میں بے کار ہو گئی اور اب ہمارے پاس لاش کو تلاش کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اگر لاش میں کچھ گوشت باقی بچا ہوا ہوتا تو ہم اس پر مچان باندھ سکتے تھے۔ اس جھاڑی کے پیچھے شیرنی کا پیچھا کرنا بے کار ہوتا اور بعد میں اس پر گولی چلانا بھی دشوار تر ہو جاتا۔

شیرنی جہاں لیٹی تھی،  اس کے نزدیک ہی لاش کو کھایا تھا۔ یہ کھلی جگہ تھی اور گدھوں سے بچانے کے لئے شیرنی نے اسے اٹھایا اور ایسی جگہ چھپا دیا جہاں گدھ اسے نہ دیکھ پاتے۔ اب خون کے نشانات موجود تھے اور لاش کو تلاش کرنا مشکل نہ تھا۔ اس لکیر کی مدد سے چلتے ہوئے پچاس گز دور ہم نے لاش کو پا لیا۔

میں اس لاش کی تفصیل بتا کر آپ کے جذبات مجروح نہیں کروں گا کیونکہ متوفی کے کپڑے لیر لیر اور اس کا جسم کھایا جا چکا تھا۔ چند گھنٹے قبل یہ شخص دو بچوں کا باپ اور خاندان کا کفیل تھا۔ اب اس کی بیوی کی قسمت میں ہندوستانی بیوہ کہلایا جانا تھا۔ میں نے اس سے ملتی جلتی بے شمار لاشیں دیکھیں ہیں۔ میں بتیس سال سے آدم خوروں کا پیچھا اور ان سے مقابلہ کر رہا ہوں اور ہر بار جب میں کسی لاش پر پہنچتا ہوں تو میرا پہلا رد عمل یہی ہوتا ہے کہ لاش کو آدم خور کے لئے ہی چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہے۔ یہ ادھ کھائی لاش ایک ڈراؤنے خواب کی طرح لواحقین کے اعصاب پر سوار رہتی ہے۔ خون کا بدلہ خون اور بدلے کی آگ جلتی رہتی ہے۔ اس قاتل آدم خور سے جان چھڑانے کے لئے بے تابی بڑھتی جاتی ہے۔ تاہم ہر بار یہ موہوم سی امید ہوتی ہے کہ شاید متوفی ابھی زندہ ہو اور اسے کسی مدد کی ضرورت ہو۔

کسی ایسے جانور، جو کہ پہلے ہی اسی طرح کی صورتحال میں زخم کھا کر آدم خور بنا ہو، اس کے بعد ہونے والی ہر ناکام کوشش، چاہے اس کی وجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، جانور کو مزید سے مزید محتاط اور ہوشیار کرتے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک وقت آتا ہے کہ وہ جانور یا تو شکار لاش پر لوٹنا ہی چھوڑ دیتا ہے یا پھر اتنی خاموشی سے آتا ہے کہ جیسے وہ نظر نہ آنے والی پرچھائیں ہو، ہر پتے، ہر جھاڑی کو اچھی طرح چھان پھٹک کر گذرتا ہے کہ نہ جانے کہاں اس کا قاتل چھپا بیٹھا ہو، کی تلاش میں اس کے کئے گئے شکار پر بیٹھ کر گولی چلانے کے امکانات چاہے لاکھوں یا کروڑوں میں ایک ہی کیوں نہ ہو، ہم میں سے کون ہے جو پھر بھی اپنی قسمت نہ آزمانا چاہے گا۔

یہ جھاڑی جہاں شیرنی چھپی ہوئی تھی، قریب چالیس مربع گز کی تھی اور شیرنی دوسرے سرے پر بیٹھے بندر کو خبردار کئے بغیر اس جھاڑی سے نہ نکل سکتی تھی۔ ہم پشت سے پشت ملا کر بیٹھ گئے اور سیگرٹ پینے اور جنگل میں موجود کسی بھی آواز کو سننے اور اپنی اگلی حرکت کے بارے سوچنے لگے۔

مچان بنانے کے لئے لازمی تھا کہ ہم گاؤں جاتے اور ہماری غیر موجودگی میں شیرنی شکار کو لازماً اٹھا کر کہیں اور لے جاتی۔ جب وہ پورے انسان کو لے کر جا رہی تھی تو اس کا پیچھا کرنا اتنا مشکل تھا تو جب لاش کافی حد تک کھائی جا چکی تھی اور شیرنی محتاط بھی ہو چکی ہو، پیچھا کرنا کتنا مشکل ہو جاتا۔ شیرنی لاش کو میلوں دور لے جاتی اور ہم اسے کبھی دوبارہ نہ پا سکتے۔ ہم میں سے ایک ادھر ہی رکتا اور دوسرے دو افراد گاؤں جا کر رسیاں وغیرہ لاتے۔

ایبٹسن نے حسب معمول خطرے کو اہمیت دیئے بغیر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ اور تیواری یہاں سے براہ راست نیچے اترے تاکہ مشکل راستے سے بچ سکیں، میں ایک چھوٹے درخت پر چڑھ گیا جو لاش کے پاس ہی تھا۔ زمین سے چار فٹ اوپر جا کر یہ درخت دو شاخہ ہو جاتا تھا اور ایک شاخ پر کمر اور دوسرے پر پیر ٹکا کر میں جم گیا۔ اس جگہ سے میں شیرنی کی حرکات کو دور سے دیکھ سکتا تھا چاہے وہ لاش پر آتی چاہے وہ مجھ پر حملہ کرتی۔ میں اسے نزدیک پہنچنے سے قبل ہی دیکھ لیتا۔

ایبٹسن کو گئے پندرہ یا بیس منٹ گذرے ہوں گے کہ میں نے ایک چٹان کے اوپر اٹھنے اور پھر نیچے گرنے کی آواز سنی۔ بظاہر یہ چٹان ایسی جگہ تھی جہاں ہلکا سا وزن بھی اسے متحرک کر دیتا۔ شیرنی نے جب اس پر اپنا پیر رکھا تو یہ اٹھ گئی۔ اسے اٹھتا محسوس کر کے شیرنی نے فوراً پیر ہٹا لیا اور چٹان واپس بیٹھ گئی۔ آواز میرے سامنے بائیں جانب بیس گز دور سے آئی تھی۔ یہ واحد سمت تھی جہاں میں گولی چلاتے وقت درخت سے نہ گرتا۔

منٹ گذرتے گئے اور میری امیدیں اوپر نیچے ہوتی رہیں۔ جب میرے اعصاب پر دباؤ اور ہاتھوں پر رائفل کا بوجھ ناقابل برداشت ہونے لگا تو میں نے اس جھاڑی کے اوپری سرے پر ہلکی سی آواز سنی جیسے کوئی خشک لکڑی چٹخی ہو۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شیر جنگل میں کتنی خاموشی سے چلتے ہیں۔ جس لمحے شیرنی نے چٹان پر پیر رکھ کر آواز پیدا کی، مجھے اس کے بالکل درست مقام کا علم ہو گیا۔ میں نے اس طرف اپنی نگاہیں جما دیں اور پھر بھی شیرنی نہ صرف آئی، چند لمحے رک کر مجھے دیکھا اور پھر واپس بھی چل دی اور مجھے ایک تنکا یا گھاس کا پتہ تک نہ حرکت کرتا دکھائی دیا۔

جب اعصابی تناؤ دور ہو اور تھکے ہوئے پٹھے فوری آرام مانگتے ہیں۔ ابھی مجھے صرف ہاتھ نیچے کر کے رائفل کو گھٹنوں پر رکھنا تھا، لیکن میں بتا نہیں سکتا کہ اس معمولی سی حرکت سے میرے پورے جسم کو کتنا سکون ملا۔ اس کے بعد شیرنی کی کوئی آواز نہ آئی۔ ایک یا دو گھنٹے بعد میں نے ایبٹسن کی آمد کی آواز سنی۔

میں نے جتنے بھی افراد کے ساتھ شکار کھیلا ہے، ایبٹسن ان میں سے سب سے الگ اور نمایاں ہیں۔ نہ صرف وہ شیر کا کلیجہ رکھتے ہیں بلکہ انہیں ہر چیز کا بھی خیال رہتا ہے۔ شاید وہ سب سے زیادہ مخلص شکاری ہیں۔ ابھی گئے تو وہ مچان کے لئے رسیاں لانے تھے لیکن واپسی پر ان کے پاس کمبل، تکیئے اور گرم چائے بھی تھی اور گرم کھانا بھی۔ جب میں شکار سے ہٹ کر اس طرح بیٹھا کہ اس سے اٹھنے والی بو مجھے تنگ نہ کرے، ایبٹسن نے ایک آدمی کو چالیس گز دور ایک درخت پر چڑھا دیا تاکہ وہ شیرنی کی توجہ اپنی جانب مبذول رکھے، خود وہ درخت پر چڑھ کر مچان باندھنے لگے۔

جب مچان تیار ہو گئی تو ایبٹسن نے لاش کو گھسیٹ کر چند فٹ دور کر دیا اور اسے ایک نو عمر درخت کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا تاکہ شیرنی اسے نہ لے جا سکے۔ چاند سورج ڈوبنے کے کم از کم دو گھنٹے بعد نکلتا۔ آخری کش لگا کر میں مچان پر چڑھا اور جب آرام سے بیٹھ گیا تو ایبٹسن نے دوسرے آدمی کو درخت سے اتارا اور ٹھاک روانہ ہو گئے تاکہ مسز ایبٹسن کو لے کر سیم میں کیمپ کو جا سکیں۔

ابھی یہ لوگ بمشکل نظروں سے اوجھل ہوئے تھے لیکن ان کی آوازیں آ رہی تھیں کہ میں نے کسی بھاری جسامت والے جانور کو پتوں پر چلتے سنا۔ اسی وقت جھاڑیوں کے پرلے سرے سے بندر بھی چیخا جو اس سارے وقت خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ ہمیں توقع سے زیادہ کامیابی ہوئی تھی۔ دوسرے درخت پر ایک بندے کو چڑھا دینے سے شیرنی کی توجہ یقیناً اس کی طرف مبذول ہو گئی تھی۔ ایسا ایک بار پہلے بھی ہو چکا تھا۔ تناؤ بھرا ایک منٹ گذرا، پھر دوسرا اور پھر تیسرا۔ اس کے بعد ایک کاکڑ دیوانہ وار بھونکتا ہوا اس جانب سے آیا جہاں میں اس بڑی پتھر کی سلیب پر چڑھا تھا۔ شیرنی شکار پر آنے کی بجائے ایبٹسن کا پیچھا کر رہی تھی۔ اب مجھے شدت سے ان لوگوں کی فکر ہو گئی کیونکہ بظاہر اب شیرنی پہلے شکار کو بھول کر نئے شکار کی تلاش میں جا رہی تھی۔

روانگی سے قبل ایبٹسن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر ممکن احتیاط کریں گے۔ تاہم میری طرف سے بھونکتے کاکڑ کی آواز سن کر قدرتی طور پر وہ کچھ غیر محتاط ہو جاتے کہ شیرنی لاش پر جا رہی ہے تو شیرنی کو موقع مل سکتا تھا۔ دس منٹ بہت مشکل سے گذرے کہ ایک کاکڑ کی آواز ٹھاک کی جانب سے آئی۔ یقیناً شیرنی ابھی تک پیچھا کر رہی تھی لیکن اس جگہ زمین کچھ صاف تھی اور شیرنی کے حملے کے امکانات کم ہی تھے۔ تاہم ایبٹسن وغیرہ کو لاحق خطرہ ابھی دور نہیں ہوا تھا کیونکہ انہیں ابھی دو میل مزید گھنے جنگل سے ہو کر کیمپ تک جانا تھا۔ اسی طرح اگر وہ سورج ڈوبنے تک گولی کی آواز کا انتظار کرنے ٹھاک میں رک جاتے، جیسا کہ مجھے خطرہ تھا اور انہوں نے ایسا کیا بھی، انہیں واپسی کے راستے پر بہت بڑے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا۔ تاہم خوش قسمتی سے ایبٹسن کو خطرے کا احساس ہو گیا تھا اور انہوں نے ہر ممکن احتیاط جاری رکھی۔ اگلے دن پگ دیکھنے سے پتہ چلا کہ شیرنی نے پورا راستہ ان کا پیچھا جاری رکھا تاہم وہ لوگ کیمپ تک بخیریت پہنچ گئے۔

کاکڑ اور سانبھر کی آوازوں سے مجھے شیرنی کی حرکات کا بخوبی اندازہ ہوتا رہا۔ سورج غروب ہونے کے ایک گھنٹے بعد شیرنی دو میل دور وادی کے نچلے سرے پر تھی۔ ابھی پوری رات پڑی تھی کہ وہ اپنے شکار پر واپس لوٹ سکتی تھی اور اگرچہ اس کی واپسی لاکھوں میں ایک امکان ہی رکھتی تھی۔ میں نے اس امکان کو بھی ضائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نہایت سرد رات تھی اور اپنے گرد کمبل لپیٹ کر میں ایسی آرام دہ حالت میں بیٹھ گیا کہ گھنٹوں تک حرکت کی ضرورت نہ پڑتی۔

میں مچان پر چار بجے شام کو بیٹھا اور دس بجے رات کو میں نے دو جانوروں کو آتے سنا۔ درختوں کے نیچے اتنی گہری تاریکی تھی کہ مجھے کچھ نہ دکھائی دیا۔ جب وہ نزدیک پہنچے تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ سیہی ہیں۔ کانٹوں کی حرکت سے پیدا ہونے والی آواز اتنی منفرد ہے کہ کوئی اور جانور یہ آواز نہیں نکال سکتا۔ وہ لاش تک پہنچے اور اس کے گرد کئی چکر لگا کر اپنی راہ چل دیئے۔ ایک گھنٹہ بعد، جب چاند نکلے کچھ وقت ہو چلا تھا، میں نے نیچے وادی میں کسی جانور کی آواز سنی۔ یہ کی حرکت مشرق سے مغرب کی جانب تھی اور جب وہ شکار سے ہو کر گذرتی ہوا کے راستے میں پہنچا، یہ جانور کافی دیر تک رکا رہا اور پھر احتیاط سے لاش کی طرف بڑھا۔ ابھی یہ کچھ دور تھا کہ میں نے اس کے سونگھنے کی آواز سنی، مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ ریچھ ہے۔ خون کی بو اسے بلا رہی تھی اور انسانی بو اسے دور بھاگنے پر مجبور کر رہی تھی اس لئے وہ بہت محتاط ہو کر بڑھ رہا تھا۔ ریچھ کی سونگھنے کی طاقت جنگل کے جانوروں میں سب سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ ابھی وہ وادی میں ہی تھا کہ اسے علم ہو گیا کہ یہ شکار شیر کا ہے۔ ہمالیہ کے ریچھ کسی سے نہیں ڈرتے اور میں نے بہت بار انہیں شیر کو اس کے شکار سے بھگاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسے شیر کی بو سے نہیں بلکہ انسان، خون اور شیر کی بوؤں کی وجہ سے جھجھک ہو رہی تھی۔

مسطح زمین پر پہنچ کر وہ پچھلے پیروں پر لاش سے چند گز دور ہو کر بیٹھا اور جب اس نے محسوس کیا کہ انسان کی بو سے اسے کوئی خطرہ نہیں، وہ پچھلے پیروں پر کھڑا ہوا اور اس نے ایک لمبی چیخ ماری۔ میں نے یہ خیال کیا کہ یہ چیخ اس نے اپنے ساتھی کو بلانے کے لئے ماری ہے۔ یہ آواز وادی میں گونجتی رہی۔ پھر وہ بغیر کسی جھجھک کے لاش تک پہنچا اور جب وہ اسے سونگھ رہا تھا، میں نے رائفل سے اس کا نشانہ لے لیا۔ مجھے صرف ایک واقعہ معلوم ہے جب کسی ہمالیائی ریچھ نے انسانی گوشت کھایا تھا۔ یہ ایک عورت کی لاش تھی جو اونچی چوٹی پر گھاس کاٹتے ہوئے پیر پھسلنے سے گری اور مر گئی۔ اس کی لاش کو ریچھ اٹھا کر لے گیا اور اسے کھا گیا۔ میں نے اس ریچھ کے شانے کا نشانہ لیا ہوا تھا، تاہم ریچھ لاش کو چکھے بغیر واپس اپنے راستے پر مغرب کو چل دیا۔ جب اس کے جانے کی آوازیں ختم ہو گئیں تو صبح تک میں نے کوئی آواز نہ سنی۔ سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد ایبٹسن پہنچے۔

ایبٹسن کے ساتھ متوفی کا بھائی اور دیگر رشتہ دار بھی آن پہنچے۔ انہوں نے ادھ کھائی لاش کو صاف سفید کپڑے میں لپیٹا اور دو درختوں کو کاٹ کر انہوں نے سٹریچر بنایا اور اس پر رکھ کر ساردا دریا کے کنارے یہ کہتے ہوئے چل دیئے "رام نام ست ہے ” جواب میں یہ سنائی دیتا تھا "ستے بول گت ہے "۔

اس سخت سرد رات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا تھا لیکن ایبٹسن کی لائی ہوئی گرم گرم چائے اور کھانے نے رات کا تاثر زائل کر دیا۔

 

 

 

 

(۲)

 

ستائیس کی رات کو ایبٹسن کا چکا تک پیچھا کرنے کے بعد شیرنی رات کو کسی وقت لدھیا کو عبور کر کے ہمارے کیمپ کے پیچھے موجود جنگل میں گھس گئی۔ اگرچہ اس جنگل میں باقاعدہ راستہ موجود تھا جسے دیہاتی استعمال کرتے تھے، تاہم آدم خور کے ظہور کے بعد سے یہ راستہ ویران تھا اور اسے خطرناک شمار کیا جاتا تھا۔

اٹھائیس کو دو ہرکارے ایبٹسن کی ڈاک لے کر تنگ پور تاخیر سے روانہ ہوئے۔ وقت بچانے کے لئے انہوں نے اس جنگل سے گذرنے کا فیصلہ کیا۔ خوش قسمتی سے جو ہرکارہ آگے چل رہا تھا، بہت ہوشیار تھا اور اس نے شیرنی کو راستے میں چھپ کر بیٹھتے دیکھ لیا۔

ایبٹسن اور میں اسی وقت ٹھاک سے واپس آئے تھے کہ یہ دونوں افراد پہنچ گئے۔ رائفلیں ساتھ لئے ہم جائزہ لینے دوڑے۔ ہم نے پگوں کو دیکھا کہ شیرنی نے ان دونوں کا کچھ دور تک پیچھا بھی کیا تھا۔ تاہم جنگل بہت گھنا تھا اور ہم کچھ نہ دیکھ پائے اور ایک جگہ کسی جانور کے بھاگنے کی آواز سنی۔

انتیس کی صبح کو ٹھاک سے ایک گروہ آیا کہ ان کا ایک بیل گذشتہ رات باڑے میں واپس نہ لوٹا تھا۔ تلاش کرنے پر جہاں اسے آخری بار دیکھا گیا تھا، خون ملا۔ دو بجے ایبٹسن اور میں اس جگہ پر تھے اور ایک نظر دیکھنے سے پتہ چل گیا کہ شیر نے بیل کو مارا اور پھر اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کیا ہے۔ بعجلت دوپہر کا کھانا کھا کر ایبٹسن اور میں بمع دو آدمیوں کے گھیسٹنے کے نشانات کے پیچھے چلے۔ یہ دو آدمی مچان کے لئے رسیاں لا رہے تھے۔ سو گز تک یہ نشانات سیدھا پہاڑ کے درمیان متوازی چلے۔ یہ نشانات سیدھے اسی کھائی میں جا رہے تھے جہاں گذشتہ اپریل میں نے ایک بڑے شیر پر نشانہ خطا کیا تھا۔ چند سو گز بعد یہ بیل جو کہ بہت بڑی جسامت کا تھا، دو چٹانوں کے درمیان پھنس گیا۔ شیر جب اسے اٹھا کر آگے نہ لے جا سکا تو وہیں کچھ حصہ کھا کر اسے چھوڑ گیا۔ شیر کے پنجے اس بیل کے وزن سے اتنے پھیل گئے تھے کہ فرق کرنا مشکل تھا کہ آیا یہ عام شیر ہے یا آدم خور شیرنی۔ تاہم چونکہ ہم نے اس علاقے کے ہر شیر کو آدم خور سمجھ کر اس کا پیچھا کرنا تھا، میں نے یہاں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں لاش سے مناسب فاصلے پر ایک ہی درخت تھا اور جونہی آدمی مچان کے لئے رسیاں باندھنے اوپر چڑھے، نیچے وادی میں شیر نے بولنا شروع کر دیا۔ عجلت میں چند الٹی سیدھی رسیاں باندھ کر ایبٹسن نگرانی کو کھڑے ہوئے جبکہ میں مچان پر چڑھ گیا۔ یہ مچان جس پر میں اگلے چودہ گھنٹے بیٹھا رہا، میری زندگی کی سب سے بری اور سب سے خطرناک مچان تھی۔ درخت پہاڑی کے مخالف سمت جھکا ہوا تھا اور تین غیر متناسب رسیوں سے بنی ہوئی مچان پر میں بیٹھے ہوئے کھائی کے بالکل اوپر سو فٹ اوپر تھا۔

جب میں درخت پر چڑھ رہا تھا تو شیر نے کئی بار آوازیں نکالیں اور لمبے وقفے کے بعد شام کو دوبارہ بولا اور اس کی آخری آواز چٹان کے سرے سے نصف میل دور سے آئی۔ بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ شیر شکار کے قریب ہی لیٹا ہوا تھا اور اس نے ہمیں آتا اور پھر آدمیوں کو درخت پر چڑھتے دیکھا۔ سابقہ تجربے سے اسے معلوم تھا کہ اس کا کیا مطلب ہو گا، اس نے دور جا مداخلت پر ناراضگی ظاہر کی۔ چودہ گھنٹے بعد جب اگلے دن صبح کو ایبٹسن آئے، میں نے نہ تو کچھ دیکھا اور نہ ہی کچھ سنا۔

چونکہ یہ کھائی گہری اور درختوں سے ڈھکی تھی، گدھ لاش کو کبھی بھی نہ دیکھ پاتے۔ بیل اتنا بڑا تھا کہ شیر کے لئے کئی بار خوراک فراہم کر سکتا تھا، ہم نے فیصلہ کیا کہ اس پر تب تک دوبارہ نہ بیٹھیں جب تک کہ شیر اسے مزید کھا کر ہلکا نہ کر دے۔ جب شیر اسے یہاں سے منتقل کرے تو نئی جگہ گولی چلانے کے لئے بہتر موقع مل سکے گا۔ ہماری قسمت کہ شیر دوبارہ لاش پر واپس نہ آیا۔

دو راتوں کے بعد وہ بھینسا مارا گیا جو ہمارے کیمپ کے پیچھے سیم میں بندھا ہوا تھا۔ چونکہ میرا دل اس وقت جانے کو نہیں چاہ رہا تھا، آدم خور کو مارنے کا ایک سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔

جو آدمی بھینسے کو دیکھنے گئے تھے، نے بتایا کہ رسی ٹوٹی ہوئی تھی اور شیرنی شکار کو اسی کھائی میں نیچے لے گئی ہے جہاں وہ بندھا ہوا تھا۔ یہ وہی کھائی تھی جہاں میک ڈونلڈ اور میں نے اپریل میں شیرنی کا پیچھا کیا تھا اور اس وقت شیرنی اپنے شکار کو لے کر کھائی میں کچھ دور گئی تھی۔ اس بار نہایت بے وقوفی سے میں نے فرض کر لیا کہ اس بار بھی شیرنی شکار کو وہیں لے جائے گی۔

ناشتے کے بعد ایبٹسن اور میں بھینسے کی لاش کو ڈھونڈنے نکلے تاکہ اس پر مچان باندھنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے۔

جس گہری کھائی میں بھینسا مارا گیا تھا، پچاس گز چوڑی اور سیدھی پہاڑ کے دامن تک چلی جاتی تھی۔ دو سو گز تک یہ کھائی سیدھی جاتی ہے اور پھر بائیں مڑتی ہے۔ موڑ کے فوراً بعد بائیں جانب نو عمر درختوں کا ایک جھنڈ ہے اور اس کے پیچھے سو فٹ چٹان ہے جس پر گھنی گھاس اگی ہوئی ہے۔ کھائی میں ان درختوں کے قریب پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب ہے۔ میں اپریل میں اس جگہ سے کئی بار گذرا تھا لیکن اندازہ نہ لگا سکا کہ یہ درخت کسی شیر کے لیٹنے کے لئے مناسب جگہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے مڑتے وقت میں نے کوئی احتیاط نہیں کی۔ نتیجتاً شیرنی جو اس تالاب سے پانی پی رہی تھی، نے ہمیں پہلے دیکھا۔ اس کے پاس فرار کا ایک ہی راستہ تھا جو اس نے استعمال کیا۔ یہ راستہ درختوں کے پیچھے چٹان پر چڑھ کر سرے کو عبور کر کے پیچھے گھنے سال کا جنگل تھا۔

پہاڑی ہمارے لئے ناقابل عبور تھی، سو ہم نے کھائی میں اوپر کی طرف سفر جاری رکھا جہاں ہمیں سانبھروں کی گذرگاہ ملی۔ اس راستے سے ہم سرے تک پہنچ گئے۔ شیرنی اب اس تکون جگہ میں تھی جس کا ایک سرا یہ کنارہ، دوسرا لدھیا اور تیسرا وہ چوٹی تھی جہاں سے کوئی جانور نہ گذر پاتا۔ یہ علاقہ زیادہ بڑا نہ تھا اور اس میں بہت سارے ہرن چر رہے تھے۔ وقتاً فوقتاً ان کی آوازوں سے ہمیں شیرنی کی حرکت کا اندازہ ہوتا رہا لیکن بدقسمتی سے اس جگہ بہت ساری گہری کھائیاں بھی تھیں اور شیرنی انہی میں سے ایک میں گم ہو گئی۔

ابھی ہم نے بھینسے کو نہیں دیکھا تھا اس لئے دوبارہ سانبھروں کا راستہ لے کر کھائی میں پہنچے اور انہی نوعمر درختوں کے جھنڈ میں لاش پوشیدہ تھی۔ یہ درخت چھ انچ سے لے کر فٹ تک موٹے تنے والے تھے اور مچان کا بوجھ نہ سہار پاتے۔ اس لئے ہم نے مچان کا خیال دل سے نکال دیا۔ دھاتی سلاخ کی مدد سے ہم کسی بڑے پتھر کو اس کی جگہ سے نکال کر بیٹھ سکتے تھے لیکن آدم خور کے لئے یہ طریقہ خطرناک ہوتا۔

گولی چلانے کے امکانی موقع کو ضائع نہ کرنے کے خیال سے ہم نے سوچا کہ خود کو بھینسے کی لاش کے پاس گھاس میں چھپا دیں تاکہ اگر شیرنی اندھیرا ہونے سے قبل آئی اور ہم اسے پہلے دیکھ سکے تو اسے گولی مار سکیں گے۔ اس میں دو خامیاں تھیں۔

۱۔ اگر ہمیں گولی چلانے کا موقع نہ ملا اور شیرنی نے ہمیں دیکھ لیا تو باقی دو مواقع کی طرح اس بار بھی لاش پر دوبارہ نہیں آئے گی۔

۲۔ لاش اور کیمپ کے درمیان کا راستہ گھنے جنگلات سے بھرا ہوا تھا۔ اگر ہم تاریکی چھانے کے بعد واپس ہوتے تو شیرنی کے رحم و کرم پر ہوتے۔

اس لئے ہم نے بہت ہچکچاہٹ کے ساتھ اس رات لاش کو شیرنی کے لئے چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اور اگلے دن کے لئے بہتری کی امید رکھی۔

اگلے دن واپس آئے تو ہم نے دیکھا کہ شیرنی لاش کو لے گئی ہے۔ تین سو گز تک وہ کھائی کی تہہ میں پتھروں پر پھدکتی بڑھتی چلی گئی اور کوئی گھسیٹنے کا نشان نہ چھوڑا۔ جہاں سے اس نے لاش کو اٹھایا تھا، سے تین سو گز دور اس جگہ ہم دھوکہ کھا گئے۔ یہاں گیلی زمین پر بہت سارے پگ تھے لیکن کوئی بھی پگ ایسا نہیں تھا کہ جو لاش کو اٹھائے ہوئے بنا ہوتا۔ آخر کار دائروں میں تلاش کرتے ہوئے ہم نے وہ جگہ تلاش کی جہاں وہ کھائی سے نکل کر بائیں جانب کی پہاڑی پر چڑھی تھی۔

یہ پہاڑی جس پر شیرنی اپنے شکار کو لے کر چڑھی تھی، اس پر فرن اور گولڈن راڈ بکثرت اگی ہوئی تھی اور کھوج لگانا مشکل نہ تھا۔ تاہم چڑھائی بہت سخت تھی اور کئی جگہوں پر ہمیں لمبا چکر کاٹ کر دوبارہ کھوج جاری رکھنی پڑی۔ ہزار فٹ کی سخت چڑھائی کے بعد ہم ایک چھوٹے سے میدان تک آ پہنچے جس کے بائیں جانب ایک میل چوڑی چوٹی تھی۔ اس چوٹی کے نزدیک یہ میدان سیم کا شکار اور کٹا پھٹا تھا اور ان کٹی پھٹی جگہوں پر دو سے چھ فٹ اونچے سال کے بہت زیادہ درخت اگے ہوئے تھے۔ شیرنی اپنے شکار کو لے کر سیدھا اسی گھنے ذخیرے میں آئی تھی۔ یہ ذخیرہ اتنا گھنا تھا کہ جب تک ہم بھینسے کی لاش پر نہ پہنچ گئے، ہم اسے نہ دیکھ پائے۔

ابھی ہم یہ دیکھنے کو رکے ہی تھے کہ بھینسے کی لاش میں کتنا کچھ بچا ہوا ہے، ہمارے دائیں جانب سے ہلکی سی غراہٹ سنائی دی۔ رائفلیں اس طرف اٹھائے ہم نے منٹ بھر توقف کیا اور پھر جہاں سے آواز آئی تھی، سے ذرا آگے ہم نے حرکت کی آواز سنی۔ ہم ابھی ان گھنے درختوں میں دس گز ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ ایک نسبتاً خالی قطعہ دکھائی دیا جہاں نرم گھاس پر شیرنی لیٹی ہوئی تھی۔ اس گھاس کے دوسرے سرے پر پہاڑی بیس گز بلند ہو کر ایک دوسرے میدان پر ختم ہوتی تھی۔ یہ آواز اسی میدان کی جانب سے آئی تھی جو ہم نے کچھ دیر قبل سنی تھی۔ اس چڑھائی پر ہر ممکن احتیاط اور خاموشی سے چڑھتے ہوئے ہم اوپر والے میدان تک پہنچے جو پچاس گز لمبا تھا۔ اسی وقت شیرنی اس میدان کے دوسرے سرے سے نیچے کھائی میں اتری اور چند کالے تیتر اور کاکڑ بولے۔ اس کا مزید پیچھا کرنا بے سود ہوتا۔ اس لئے ہم واپس شکار پر پہنچے اور دیکھا کہ ابھی بھی اس میں کافی گوشت باقی تھا۔ بیٹھنے کے لئے دو درخت چن کر ہم کیمپ کو واپس لوٹے۔

قبل از وقت دوپہر کا کھانا کھا کر ہم دونوں اس جگہ واپس لوٹے اور رائفلوں سمیت بمشکل تمام اپنے منتخب کردہ درختوں پر چڑھے۔ پانچ گھنٹے تک ہم نے انتظار کیا تاہم شیرنی نہ لوٹی۔ دھندلکے کے وقت ہم نیچے اترے اور کٹی پھٹی اور ناہموار زمین سے ہوتے ہوئے جب ہم کھائی میں پہنچے تو تاریکی گہری ہو چکی تھی۔ ہم دونوں کو ہی احساس تھا کہ ہمارا تعاقب کیا جا رہا ہے تاہم ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہم بغیر کسی حادثے کے کیمپ رات کو نو بجے پہنچ گئے۔

ایبٹسن اس سے زیادہ سیم میں نہ رک سکتے تھے اور اگلی صبح وہ لوگ بارہ روزہ پیدل سفر پر ایسکوٹ کو روانہ ہو گئے۔ جانے سے قبل ایبٹسن نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں آدم خوروں کے تعاقب میں مزید اکیلا نہیں جاؤں گا اور سیم میں ایک یا دو روز سے رک کر اپنی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالوں گا۔

ایبٹسن اور ان کے پچاس ہمراہیوں کی روانگی کے بعد گھنے جنگل سے گھرے اس کیمپ میں میں اور میرے دو ملازم باقی بچ گئے۔ میرے قلی پہلے سے ہی نمبردار کے گھر رہ رہے تھے۔ سارا دن ہم لوگوں نے مل کر خشک لکڑیاں جمع کرنے پر لگا دیا۔ ساری رات آگ جلائے رکھنے کے لئے موسم کا سرد ہونا ہی کافی بہانہ تھا۔

شام کے وقت جب میرے آدمی بحفاظت کیمپ واپس لوٹ آئے تو میں نے رائفل اٹھائی اور لدھیا کی جانب چل پڑا تاکہ اگر شیرنی نے دریا عبور کیا ہو تو اس کے نشانات مل جائیں۔ ریت پر مجھے بہت سارے پگ دکھائی دئیے تاہم ان میں سے کوئی بھی تازہ نہیں تھا۔ دھندلکے کے وقت میں واپس لوٹا اور مجھے یقین تھا کہ شیرنی ہماری والی طرف ہی موجود ہے۔ گھنٹے بعد جب تاریکی پوری طرح چھا چکی تھی تو ہمارے کیمپ کے پیچھے ایک کاکڑ مسلسل نصف گھنٹے تک بولتا رہا۔

میرے ساتھیوں کے ذمے بھینسوں کو باندھنے کا کام لگ گیا تھا جو اب تک ایبٹسن کے ساتھی ہی کرتے آئے تھے۔ اگلی صبح جب وہ بھینسے واپس لانے گئے تو میں ان کے ساتھ تھا۔ اگرچہ ہم کئی میل چلے تاہم ہمیں کہیں بھی شیرنی کا نشان نہ ملا۔ ناشتے کے بعد میں نے بنسی اٹھائی اور دریا کے سنگم کو چل دیا۔ اس دن میں نے اپنی زندگی بھر میں مچھلی کا بہترین شکار کیا۔ اس جگہ بڑی مچھلیاں بے شمار تھیں اور میری بنسی بہت مرتبہ ٹوٹی تاہم میں نے اتنی مچھلیاں شکار کر لیں جو پورے کیمپ کے لئے کافی تھیں۔

ایک بار پھر گذشتہ شام کی مانند میں نے لدھیا کو عبور کیا تاکہ راستے پر جھکی ہوئی چٹان پر لیٹ کر شیرنی کو دریا عبور کرتے ہوئے دیکھ سکوں۔ جونہی میں دریا عبور کر کے پانی کے شور سے دور ہوا تو میں نے بائیں جانب پہاڑی سے سانبھر اور بندر کے بولنے کی آوازیں سنیں۔ جونہی میں اس چٹان کے قریب پہنچا تو میں نے شیرنی کے تازہ پگ دیکھے۔ ان پر چلتا ہوا میں جب دریا کی جانب گیا تو دیکھا کہ جن پتھروں پر شیرنی چل کر آئی تھی، وہ ابھی تک گیلے تھے۔ کیمپ میں چند منٹ زیادہ رک کر ڈوری کو خشک کرنے اور چائے کا کپ پینے کے سبب ایک آدمی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا اور کئی ہزار افراد کے لئے کئی ہفتوں تک اضافی پریشانیاں، میرے لئے کئی دن کی اضافی تکلیف اس پر مستزاد تھیں۔ اگرچہ میں مزید تین دن رکا تاہم شیرنی کو ہلاک کرنے کا دوسرا موقع نہیں مل سکا۔

۷ تاریخ کی صبح کو جب میں کیمپ کو ختم کر کے اور تنک پور کو بیس میل کے پیدل سفر کو تیار ہو رہا تھا تو آس پاس کے تمام دیہاتوں سے بے شمار افراد جمع ہو کر میرے پاس آئے اور درخواست کی کہ میں انہیں شیرنی کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہ جاؤں۔ انہیں ہر ممکن احتیاط کا بتا کر میں نے وعدہ کیا جتنا جلد ممکن ہوا، واپس لوٹوں گا۔

اگلی صبح میں نے تنک پور سے ٹرین پکڑی اور ۹ نومبر کو نینی تال واپس پہنچا۔ اس بار میں تقریباً ایک ماہ گھر سے دور رہا تھا۔

 

 

 

 

(۳)

 

۷ نومبر کو میں سیم سے چلا تھا اور ۱۲ کو شیرنی نے ٹھاک میں ایک بندہ ہلاک کیا۔ اس ہلاکت کی خبر مجھے ہلدوانی کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر سے اس وقت ملی جب ہم لوگ اپنے سرمائی گھر کو منتقل ہو چکے تھے۔ ہر ممکن تیزی سے چلتے ہوئے ہم ۲۴ تاریخ کو سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد چکہ پہنچے۔

میرا ارادہ تھا کہ چکہ میں ناشتہ کر کے ٹھاک کو اپنا روانہ ہو جاؤں اور اسے اپنا مستقر بناؤں تاہم ٹھاک کے نمبردار نے جو کہ خود بھی چکہ منتقل ہو چکا تھا، بتایا کہ ۱۲ تاریخ والی ہلاکت کے بعد ٹھاک سے تمام مرد و عورتیں نکل چکے ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ اگر میں ٹھاک میں رکنے کا ارادہ رکھتا ہوں تو شاید میں اپنا تحفظ تو کر سکوں لیکن اپنے ساتھیوں کی جان بچانا میرے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ اس کے دلائل میں کافی وزن تھا۔ جتنی دیر میں میرے ساتھی وہاں پہنچتے، نمبردار کی مدد سے میں نے چکہ میں کیمپ لگانے کے لئے جگہ چن لی۔ یہاں میں میرے ساتھی شیرنی سے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ ان ہزاروں افراد سے کچھ الگ تھلگ رہ سکتے جو جنگلات کی کٹائی کے لئے پہنچ رہے تھے۔

ڈویژنل فارسٹ آفیسر کا تار ملتے ہی میں نے تنک پور کے تحصیل دار کو تار بھیج دیا تھا کہ وہ میرے لئے تین کم عمر نر بھینسے چکہ بھیج دے۔ اس نے میری درخواست پر فوری طور پر عمل کیا اور پچھلے دن شام کو تین بھینسے چکہ پہنچ چکے تھے۔

ناشتے کے بعد میں نے ایک بھینسا منتخب کیا اور اسے ساتھ لے کر ٹھاک کو چل دیا۔ میرا ارادہ تھا کہ اس بھینسے کو اس جگہ باندھوں جہاں ۱۲ تاریخ کو شیرنی نے آخری انسانی شکار کیا تھا۔ نمبردار نے مجھے اس دن کے واقعے کے بارے بہت تفصیل سے بتایا تھا بلکہ اس دن وہ خود شیرنی کا لقمہ بنتے بنتے بچا تھا۔ بظاہر دوپہر کے لگ بھگ نمبردار اپنی ۱۰ سالہ پوتی کے ہمراہ گھر سے ۶۰ گز دور کھیت میں ادرک اکھاڑنے گیا تھا۔ یہ کھیت نصف ایکڑ رقبے کا تھا اور اس کے تین اطراف میں گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ چونکہ یہ کھیت ڈھلوان پہاڑی پر واقع تھا، اس لئے گھر سے کھیت کو دیکھا جا سکتا تھا۔ جب نمبردار اور اس کی پوتی کو ادرکیں اکھاڑتے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کی بیوی جو کہ چاول چھٹک رہی تھی، نے چلا کر نمبردار کو خبردار کیا کہ کیا وہ بہرہ ہو گیا ہے ؟ کیا اسے تیتروں اور دیگر پرندوں کی آوازیں نہیں سنائی دے رہیں جو اس کے بالکل پیچھے جنگل میں شور و غل مچا رہے ہیں ؟ خوش قسمتی نے اس نے فوراً ہی درانتی پھینکی اور پوتی کا ہاتھ پکڑ کر گھر کی طرف بھاگا۔ اس کی بیوی نے اسے خبردار کیا کہ کھیت کے دوسرے کنارے کی جھاڑیوں میں اسے سرخ رنگ کا کوئی جانور دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے نصف گھنٹے بعد شیرنی نے نمبردار کے گھر سے ۳۰۰ گز دور ایک شخص کو ہلاک کیا جو اس وقت درخت سے شاخیں کاٹ رہا تھا۔

نمبردار کی بیان کردہ تفصیل سے مجھے اس درخت کو تلاش کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ یہ ایک چھوٹا سا درخت تھا جو دو کھیتوں کے درمیان واقع تین فٹ بلند منڈیر پر اگا ہوا تھا۔ ہر سال اس درخت سے مویشیوں کے چارے کے لئے شاخیں کاٹی جاتی تھیں۔ وہ آدمی اس وقت تنے پر کھڑا ایک شاخ پکڑے دوسری کو کاٹ رہا تھا کہ شیرنی نے عقب سے حملہ کیا۔ شیرنی اس آدمی کو گھسیٹ کر ہلاک کیا اور پھر کھیتوں کے کنارے موجود گھنی جھاڑیوں میں گھس گئی۔

ٹھاک کا گاؤں چاند راجاؤں کا عطا کردہ تحفہ تھا۔ چاند راجا سینکڑوں سالوں سے گورکھوں سے قبل کماؤں پر حکومت کرتے آئے تھے۔ انہوں نے ٹھاک کے موجودہ باشندوں کے آباء و اجداد کو پناگری کے مندروں میں ان کی خدمات کے عوض یہ زمین تحفہ دی تھی۔ (چاند راجاؤں نے ٹھاک اور اس سے ملحقہ دو دیہاتوں کو ہمیشہ کے لئے خراج سے مستثنیٰ قرار دے دیا تھا۔ اس وعدے کی پاسداری انگریز حکمرانوں نے ایک سو سال تک کی۔ ) گھاس پھونس سے بنے چند جھونپڑوں نے وقت کے ساتھ ساتھ علاقے کے انتہائی متمول آبادی کا درجہ اختیار کر لیا جہاں سلیٹ کی چھتوں والی پختہ عمارات نے لے لی تھی۔ نہ صرف یہاں کی زمین انتہائی زرخیز تھی بلکہ مندروں سے بھی بے پناہ چڑھاوے آتے تھے۔

کماؤں کے دیگر دیہاتوں کی مانند ٹھاک بھی ان سینکڑوں سالوں میں کئی بار اجڑا تاہم جیسا اجاڑ اب آیا تھا، ویسا اجاڑ پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ پچھلی بار جب میں یہاں آیا تھا تو یہ جگہ ایک طرح سے صنعتی مرکز تھی۔ تاہم اب جب میں بھینسا یہاں باندھنے آیا تو اس دوپہر پورے گاؤں پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ پورے گاؤں کے سو سے زیادہ رہائشی اپنے مال مویشیوں کے ہمراہ یہاں سے جا چکے تھے۔ پورے دیہات میں مجھے صرف ایک بلی دکھائی دی جو میری آمد سے کافی خوش دکھائی دے رہی تھی۔ آبادی کا انخلاء در حقیقت اتنی عجلت میں ہوا تھا کہ گھروں کے دروازے تک کھلے ہوئے تھے۔ صحنوں اور گلیوں میں ہر جگہ مٹی پر مجھے شیرنی کے پگ دکھائی دیئے۔ ہر کھلا دروازہ ایک خطرہ تھا جس کے پیچھے شیرنی کی صورت میں موت چھپی ہو سکتی تھی۔

گاؤں سے ۳۰ گز اوپر مویشیوں کے لئے چھپر بنے ہوئے تھے۔ ان چھپروں کے آس پاس میں نے اتنے تیتر، فیزنٹ، بلبل، جنگلی مرغیاں اور دیگر پرندے دیکھے جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ جس اعتماد کے ساتھ ان پرندوں نے مجھے اپنے درمیان سے گذرنے دیا وہ اس بات کا مظہر تھا کہ ٹھاک کے باشندے اپنے مذہبی رجحان کے باعث کسی کی جان لینے سے احتراز کرتے تھے۔

ان چھپروں کے اوپر موجود کھیتوں سے پورے گاؤں کا طائرانہ منظر دکھائی دیتا تھا۔ یہاں سے نمبردار کی بتائی ہوئی تفصیل سے وہ درخت تلاش کرنا مشکل نہ تھا جہاں شیرنی نے آخری انسانی شکار کیا تھا۔ درخت کے نیچے نرم مٹی پر شیرنی اور اس کے شکار کے درمیان ہونے والی جد و جہد کے آثار ابھی تک موجود تھے۔ یہاں جمے ہوئے خون کے چند خشک لوتھڑے بھی دکھائی دیئے۔ یہاں سے شیرنی اسے اٹھا کرتا زہ ہل چلے ۱۰۰ گز کھیت سے ہوتی ہوئی کنارے والی جھاڑیوں میں لے گئی۔ گاؤں سے لے کر درخت تک قدموں کے نشانات سے ظاہر ہوتا تھا کہ پوری آبادی یہاں تک آئی تھی۔ لیکن درخت سے آگے صرف شیرنی کے نشانات تھے جہاں وہ اپنے شکار کو لے کر گئی تھی۔ اس آدمی کی لاش کو تلاش کرنے اور واپس لانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی۔

اس درخت کے نیچے کچھ مٹی کھود کر میں نے درخت کی ایک جڑ نکالی اور بھینسا باندھ دیا اور پاس موجود بھوسے کے ڈھیر سے اس کے سامنے ڈھیر سارا چارہ ڈال دیا۔

گاؤں پہاڑی کے شمالی سرے پر تھا اور اب یہاں چھاؤں آ چکی تھی۔ اگر میں ابھی روانہ ہو جاتا تو اندھیرا ہونے سے قبل کیمپ پہنچ جاتا۔ کھلے دروازوں سے بچتے ہوئے اور گاؤں کے کنارے سے چکر کاٹ کر میں گاؤں کے نیچے راستے پر پہنچا۔

گاؤں سے نکل کر یہ راستہ آم کے ایک بہت بڑے درخت کے نیچے سے گذرتا تھا۔ اس درخت کی جڑوں سے ٹھنڈے اور شفاف پانی کا ایک چشمہ پھوٹتا تھا۔ آگے جا کر یہ چشمہ پتھر کی سلیب سے گذرتا ہوا ایک گڑھے میں گرتا تھا۔ یہاں سے پانی گڑھے کے کناروں سے نکل کر آس پاس کی زمین کو گیلا کرتا تھا۔ آتے وقت میں نے یہاں سے پانی پیا تھا اور اس کیچڑ میں میرے قدموں کے نشانات بن گئے تھے۔ واپسی پر میں دوبارہ پانی پینے رکا تو دیکھا کہ شیرنی کے پگ میرے قدموں کے نشانات کے اوپر لگے ہوئے تھے۔ اپنی پیاس بجھانے کے بعد شیرنی نے عام راستہ چھوڑ کر ایک ڈھلوان کنارے پر چھلانگ لگائی تھی۔ اس جگہ کانٹے دار جھاڑیاں بکثرت تھیں۔ یہاں سے ہو کر شیرنی گاؤں پہنچی اور شاید کسی گھر میں چھپی مجھے دیکھتی رہی جب میں بھینسا باندھ رہا تھا۔ شاید اسے امید ہو کہ میں عام راستے سے واپس لوٹوں گا۔ شکر ہے کہ میں نے کھلے دروازوں کے سامنے سے دوبارہ گذرنے کے خطرے کا بروقت احساس کر لیا اور لمبا راستہ اختیار کر کے اپنی جان بچا لی۔

چکہ واپس لوٹتے وقت میں نے ہر ممکن احتیاط اختیار کی تھی اور اچھا ہی ہوا کہ میں پوری طرح محتاط رہا۔ اب واپس ٹھاک جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ شیرنی نے میرا تعاقب ٹھاک سے لے کر چکہ کی مزروعہ زمین تک کیا تھا۔

میرے ساتھ جو روشنی کا انتظام تھا، اس کے ساتھ کچھ پڑھنا ممکن نہیں تھا۔ اس لئے رات کا کھانا کھا کر میں آگ کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کی حرارت بہت اچھی لگ رہی تھی اور ساتھ ہی حفاظت کا احساس بھی ہو رہا تھا۔ میں نے ساری صورتحال کا جائزہ لیا اور منصوبے بنایا کہ شیرنی کو کیسے ہلاک کیا جائے۔

۲۲ تاریخ کو گھر سے نکلتے وقت میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں دس دن میں واپس لوٹ جاؤں گا اور یہ بھی کہ آدم خور شیروں کے تعاقب کے سلسلے میں یہ میری آخری مہم ہو گی۔ سالہا سال تک آدم خور شیروں کے تعاقب اور گھر سے میری غیر حاضری بالخصوص چوگڑھ کی شیرنیوں اور ردر پریاگ کے آدم خور تیندوے کے تعاقب میں گذرے مہینوں نے جتنا برا اثر میرے گھر والوں پر ڈالا تھا اس سے کہیں زیادہ میں متاثر ہوا تھا۔ اگر اب میں ۳۰ نومبر تک شیرنی کو ہلاک نہ کر سکا تو میں واپس چلا جاؤں گا اور کسی اور کو میری جگہ لینی ہو گی۔

اب ۲۴ تاریخ کی رات تھی اور میرے پاس پورے چھ دن باقی تھے۔ شیرنی کے رویے سے ظاہر تھا کہ وہ اس وقت شکار کے لئے بے چین ہو رہی ہے اور ان چھ دنوں میں میرے لئے مشکل نہ تھا کہ شیرنی کو پا لیتا۔ اس سلسلے میں میرے پاس بہت ساری طریقے تھے اور ہر طریقہ باری باری استعمال ہو سکتا تھا۔ پہاڑی علاقوں میں شیر کے شکار کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شیر کے مارے ہوئے جانور پر مچان پر بیٹھا جائے۔ اگر شیرنی نے ٹھاک والے بھینسے کو نہ مارا تو میں ہر رات بقیہ دو بھینسے ان جگہوں پر باندھنے کا منصوبہ بنا چکا تھا جو میں نے اس مقصد کے لئے پہلے سے ہی منتخب کی ہوئی تھیں۔ مجھے امید تھی کہ پہلے کی طرح جب شیرنی انسانی شکار نہ کر پائے گی تو بھینسے پر توجہ لازمی دے گی۔ اپریل میں جب ایبٹسن اور میں شیرنی کا پیچھا کر رہے تھے تو شیرنی نے ایسے ہی کیا تھا۔ آگ میں اتنی لکڑیاں ڈالنے کے بعد جو کہ پوری رات جلتی رہیں، میں خیمے کے پیچھے کاکڑ کے بھونکنے کی آواز سنتے سنتے سو گیا۔

ابھی ناشتہ تیار ہو ہی رہا تھا کہ میں نے رائفل اٹھائی اور دریا کے دائیں کنارے کی نرم ریت پر شیرنی کے پگ تلاش کرنے نکل گیا۔ یہ جگہ چکہ اور سیم کے درمیان واقع ہے۔ مزروعہ زمین سے نکل کر راستہ کچھ فاصلے تک چھدرے جنگل سے گذرتا ہے اور یہاں مجھے ایک نر تیندوے پگ دکھائی دیئے۔ شاید اسی تیندوے کو دیکھ کر کاکڑ رات بھونکتا رہا تھا۔ پچھلے ہفتے کے دوران ایک چھوٹے نر شیر نے لدھیا کو بار بار عبور کیا تھا۔ میری آمد سے ذرا قبل ایک بڑا ریچھ بھی یہاں سے گذرا تھا۔ جب میں کیمپ واپس پہنچا تو ٹھیکیداروں نے میرا استقبال کیا اور بتایا کہ آج کام کی تقسیم کے دوران ایک بڑا ریچھ دکھائی دیا جس نے بہت جارحانہ انداز اختیار کیا۔ نتیجتاً مزدوروں نے اس علاقے میں کام کرنے سے یکسر انکار کر دیا جہاں ریچھ دکھائی دیا تھا۔

کئی ہزار مزدور جو ٹھیکیداروں کے مطابق ۵۰۰۰ سے زیادہ تھے، اب چکہ اور کمایا چک کے درمیان جمع ہو گئے تھے تاکہ جنگل کو کاٹ کر اس کی لکڑی کو نیچے بننے و الی نئی سڑک تک پہنچائیں۔ سارا وقت جب یہ افراد کام کرتے تھے تو ساتھ ہی ساتھ پوری طاقت سے شور و غل کرتے رہتے تھے تاکہ حوصلے بلند رہیں۔ وادی میں کلہاڑوں اور آریوں کا شور، بڑے درختوں کا ڈھلوان پر گرنا، وزنی ہتھوڑوں سے پتھروں کا توڑا جانا اور ان ہزاروں افراد کا شور و غل کیسا محسوس ہوتا ہو گا، یہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں جب افراد گھبرائے ہوئے ہوں تو فطری بات ہے کہ پتہ بھی کھڑکے تو وہ بھڑک جاتے تھے۔ اگلے چند روز میں اسی طرح کے مسائل سے دوچار ہو کر وقت ضائع کرتا رہا۔ کئی بار لوگوں نے بتایا کہ شیرنی ان کے کسی ساتھی کو ہلاک کر گئی ہے۔ تاہم تحقیق پر یہ خبر غلط نکلتی۔ یہ سارا علاقہ لدھیا کی وادی، سردا، کالا ڈھنگا سے لے کر کھائی تک تقریباً پچاس مربع میل بنتا تھا۔ اس علاقے میں ۱۰۰۰۰ مزید افراد بھی کام کر رہے تھے۔

کس طرح ایک جانور نے اتنے بڑی تعداد میں نہ صرف مزدوروں بلکہ علاقے کے رہنے والے عام افراد کو متاثر کیا ہوا تھا۔ ان عام افراد میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو مزدروں کے لئے کھانا لاتے، پہاڑی پھل اور میوے جیسا کہ سنگترے (بارہ آنے کے سو عدد)، اخروٹ اور مرچیں تنک پور لے جاتے تھے۔ اگر اس کا باقاعدہ سرکاری اندراج نہ ہوتا تو یہ یقین کرنا دشوار ہو جاتا کہ یہ شیرنی ساؤ کے آدم خوروں کے برابر دہشت پھیلائے ہوئے تھی۔ ساؤ کے دو نر آدم خور شیروں نے یوگنڈا کی ریلوے لائن کی تعمیر کو لمبے عرصوں تک روکے رکھی۔

اب کہانی کی طرف واپس آتے ہیں۔ ۲۵ کی صبح کو ناشتے کے بعد میں نے دوسرا بھینسا لیا اور تھاک کو چل پڑا۔ چکہ کی مزروعہ زمین سے نکل کر راستہ پہاڑی کے دامن سے ہوتا ہوا نصف میل بعد دو شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ایک شاخ سیدھا پہاڑی پر چڑھتی ہوئی ٹھاک کو جاتی تھی اور دوسری شاخ دامن سے ہوئی نصف میل بعد کمایا چک اور کوٹ کنڈری کو جاتی تھی۔

اس دو شاخے پر میں نے شیرنی کے پگ دیکھے جو ان کا پیچھا کرتے ہوئے ٹھاک تک پہنچا۔ گذشتہ رات جب وہ میرے پیچھے آئی تھی تو یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اس نے بھینسا ہلاک نہیں کیا۔ اگرچہ یہ حقیقت بہت دل شکن تھی تاہم شیروں کے سلسلے میں ایسی اچنبھے کی بات نہیں۔ بعض اوقات شیر گارے کا چکر کئی راتوں تک لگاتے رہتے ہیں پھر جا کر اسے ہلاک کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیر صرف اس وقت شکار کرتا ہے جب اسے واقعی بھوک لگی ہو۔

دوسرے بھینسے کو آم کے درخت کے نیچے باندھا۔ اس جگہ کافی سبز گھاس موجود تھی۔ پھر میں نے گھروں کے گرد چکر لگایا اور دیکھا کا پہلا بھینسا رت جگے اور پھر پیٹ بھرنے کے بعد اب سو رہا تھا۔ پگوں سے پتہ چلا کہ شیرنی گاؤں کی جانب سے آئی اور بھینسے سے چند فٹ کے فاصلے پر رکی۔ پھر الٹے قدموں واپس ہو گئی۔ بھینسے کو کھول کر میں چشمے کے پاس لایا تاکہ ایک یا دو گھنٹے تک وہ گھاس چرے اور پانی بھی پی لے۔ اس کے بعد میں نے اسے واپس لے جا کر وہیں باندھ دیا۔

دوسرا بھینسا میں نے آم کے درخت سے پچاس گز دور اس جگہ باندھا جہاں بین کرتی ہوئی عورت اور دیہاتی ہمیں ملے تھے اور جہاں سے ایبٹسن اور میں شیرنی کے اس انسانی شکار کو تلاش کرنے گئے تھے۔ یہاں چند فٹ گہری نالی راستے سے گذرتی ہے۔ اس نالی کے ایک کنارے پر خشک درخت جبکہ دوسرے پر بادام کا درخت تھا جہاں مچان باندھی جا سکتی تھی۔ دوسرا بھینسا میں نے اسی جگہ باندھا اور اس کے سامنے اتنا بھوسہ ڈال دیا جو کئی دن کے لئے کافی ہوتا۔ اب چونکہ ٹھاک میں میرا کام ختم ہو گیا تھا، میں کیمپ کو لوٹا اور تیسرا بھینسا لے کر لدھیا کو عبور کیا اور اس کو سیم کے پیچھے اس کھائی میں باندھ دیا جہاں اپریل میں شیرنی نے ہمارے ایک بھینسے کو ہلاک کیا تھا۔

میری درخواست پر تنک پور کے تحصیلدار نے تین فربہ ترین کم عمر اور نر بھینسے منتخب کئے تھے۔ اب یہ تینوں بھینسے ان جگہوں پر بندھے تھے جہاں سے شیرنی عموماً گذرتی تھی۔ ۲۶ کی صبح کو جب میں ان بھینسوں کو دیکھنے نکلا تو مجھے یقین تھا کہ شیرنی نے ایک بھینسا لازماً ہلاک کیا ہو گا اور مجھے اس طرح شیرنی پر گولی چلانے کا موقع مل جائے گا۔ سب سے پہلے میں نے سیم کے عقب والے بھینسے سے شروع کیا اور باری باری سب کو زندہ پایا۔ گذشتہ روز کی طرح آج بھی شیرنی کے پگ ٹھاک جانے والے راستے پر دکھائی دیئے تاہم اس بار دو مختلف پگ تھے۔ ایک بار آنے کے اور ایک بار جانے کے۔ دونوں بار ہی شیرنی راستے سے ہوتے ہوئے بادام کے درخت کے نزدیک والے بھینسے سے چند فٹ کے فاصلے سے گذری۔

جب میں چکہ پہنچا تو ٹھاک کے دیہاتیوں کا ایک گروہ نمبردار کے ساتھ میرے خیمے کے پاس موجود تھا۔ انہوں نے درخواست کی کہ میں ان کے ساتھ ٹھاک تک چلوں تاکہ وہ اپنے لئے خوراک وغیرہ لے سکیں۔ دوپہر کے وقت میں نمبردار اور اس کے مزارعوں کے ساتھ نکلا۔ ہمارے ساتھ میرے چار ساتھی بھی تھے جنہوں نے میری مچان کے لئے رسیاں اور میری خوراک اٹھائی ہوئی تھی۔ جتنی دیر یہ لوگ اپنا سامان وغیرہ اکٹھا کرتے رہے، میں رائفل لئے نگران رہا۔

دونوں بھینسوں کو پانی پلانے کے بعد میں نے دوسرا بھینسا اسی جگہ دوبارہ باندھا اور پہلے بھینسے کو نصف میل نیچے لے جا کر راستے کے کنارے باندھ دیا۔ ہمراہیوں کو چکہ واپس پہنچا کر میں دوبارہ واپس آیا اور جتنی دیر میں میرے ساتھی مچان باندھتے، میں نے تھوڑا بہت کھانا کھایا۔

بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ شیرنی کو میرے بھینسوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تین دنوں میں ٹھاک کے راستے پر شیرنی کے پانچ مرتبہ پگ دکھائی دیئے تھے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ اس راستے پر بیٹھ کر شیرنی کی آمد کا انتظار کروں۔ شاید مجھے اس پر گولی چلانے کا موقع مل جائے۔ شیرنی کی آمد کو جاننے کے لئے میں نے ایک بکری باندھی جس کے گلے میں گھنٹی لٹکی ہوئی تھی۔ ۴ بجے میں درخت پر چڑھا۔ اپنے ساتھیوں کو میں نے کہہ دیا کہ وہ اب صبح ۸ بجے ہی آئیں۔ اس طرح رت جگا شروع ہو گیا۔

سورج ڈوبتے ہی سرد ہوا چلنے لگی اور ابھی میں اپنا کوٹ پہن ہی رہا تھا کہ ایک جانب کی رسیاں پھسل گئیں۔ میری نشست انتہائی تکلیف دہ ہو گئی۔ گھنٹے بعد طوفان آیا اور اگرچہ زیادہ دیر تک بارش نہیں ہوئی، پھر بھی میں پوری طرح بھیگ گیا۔ اس طرح میری بے آرامی مزید تکلیف دہ ہو گئی۔ ان ۱۶ گھنٹوں میں میں نے نہ تو کچھ دیکھا اور نہ ہی کچھ سنا۔ میرے آدمی ۸ بجے واپس آئے۔ میں کیمپ واپس لوٹا اور گرم غسل اور ناشتے کے بعد پھر ۶ ساتھیوں کے ہمراہ ٹھاک کو چل پڑا۔

رات کی بارش سے راستے پر موجود تمام پرانے پگ دھل گئے تھے۔ جہاں میں رات بیٹھا تھا، اس سے ۲۰۰ گز اوپر کی جانب شیرنی کے تازہ پگ دکھائی دئیے۔ یہاں شیرنی جنگل سے نکل کر ٹھاک کے راستے پر آئی۔ انتہائی محتاط انداز میں میں پہلے بھینسے تک پہنچا تاہم وہ سو رہا تھا۔ شیرنی اس کے پاس سے راستہ چھوڑ کر گذری تھی اور چند گز آگے دوبارہ راستے پر آ گئی۔ ان پگوں کا پیچھا کرتے کرتے میں دوسرے بھینسے تک پہنچا۔ جونہی میں نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ دو نیل کنٹھ زمین سے اڑے اور شور مچاتے دامن کی جانب اڑ گئے۔

ان پرندوں کی موجودگی سے مجھے یقین ہوا کہ: الف) بھینسا مر چکا ہے، ب) اسے شیرنی نے وہیں جزوی طور پر کھایا ہے، تاہم وہیں چھوڑ گئی ہے، ج) شیرنی نزدیک موجود نہیں۔

اس جگہ پہنچ کر میں نے دیکھا کہ شیرنی نے بھینسے کو گھسیٹ کر راستے سے اتار دیا تھا اور جزوی طور پر کھایا بھی تھا۔ معائنہ کرنے پر پتہ چلا کہ اسے شیرنی نے نہیں مارا۔ شاید کسی سانپ کے ڈسنے سے مرا ہو۔ یہاں کنگ کوبرا بکثرت تھے۔ جب شیرنی نے اسے راستے پر مرا ہوا دیکھا تو اسے کھایا اور پھر اٹھا لے جانے کی کوشش کی۔ تاہم جب رسی نہ ٹوٹی تو شیرنی نے اسے گھاس پھونس سے کچھ ڈھکا اور پھر ٹھاک کو چل دی۔

عام طور پر شیر مردار نہیں کھاتے تاہم بعض اوقات دوسروں کے مارے ہوئے جانور کو کھا لیتے ہیں۔ مثلاً ایک بار میں نے ایک تیندوا شکار کیا اور اس کی کھال اتار کر لاش کو کھلی زمین پر چھوڑ گیا۔ اگلی صبح میں جب اپنا گمشدہ چاقو تلاش کرنے آیا تو دیکھا کہ شیر نے لاش کو ۱۰۰ گز دور لے جا کر اس کا دو تہائی حصہ کھا لیا تھا۔

چکہ سے آتے ہوئے میں نے مچان اتار لی تھی۔ چونکہ بادام کا درخت ابھی کم عمر تھا، اس پر مچان باندھنا ممکن نہیں تھی۔ دو آدمی اس پر میرے لئے ہلکی پھلکی نشست بنانے لگے اور بقیہ چار افراد چشمے سے پانی لا کر میرے لئے چائے بنانے لگے۔ ۴ بجے بسکٹ اور چائے سے پیٹ بھرنے کے بعد میں نے اپنے آدمیوں کو واپس کیمپ بھیج دیا۔ انہوں نے درخواست کی کہ میں انہیں ٹھاک میں ہی کسی گھر میں رکنے کی اجازت دوں لیکن میں نے سختی سے انکار کیا۔ ٹھاک میں رکنے کی نسبت کیمپ واپس جانے میں کہیں کم خطرہ تھا۔

اس بار میری نشست کئی رسیوں پر مشتمل تھی جو دو سیدھی شاخوں پر باندھی گئی تھیں۔ دو رسیاں نیچے بھی موجود تھیں جہاں میں اپنے پیر رکھ سکتا۔ جب میں آرام سے بیٹھ گیا تو میں نے سامنے والی شاخیں رسی کی مدد سے اس طرح باندھیں کہ دیکھنے اور گولی چلانے کے لئے ایک چھوٹا سا سوراخ باقی بچ گیا۔ جلد ہی اس کا امتحان بھی ہو گیا کہ میری نشست کتنی "خفیہ” ہے۔ آدمیوں کے جاتے ہی دونوں نیل کنٹھ واپس لوٹ آئے اور تھوڑی ہی دیر میں وہاں ۹ نیل کنٹھ جمع ہو گئے اور اندھیرا چھانے تک پیٹ بھرتے رہے۔ ان پرندوں کی موجودگی کی وجہ سے مجھے کچھ دیر سونے کا موقع مل گیا۔ اگر شیرنی اس دوران آتی تو ان پرندوں کے شور سے میں جاگ جاتا۔ تاہم ان کے جاتے ہی میرا رت جگا شروع ہو گیا۔

ابھی اتنی روشنی باقی تھی کہ میں گولی چلا سکتا کہ میری عقبی جانب سے نیپال کی پہاڑیوں سے ۱۳ویں کا چاند نمودار ہوا اور پوری وادی میں اس کی روشنی پھیل گئی۔ گذشتہ رات کی بارش سے گرد و غبار اور دھواں وغیرہ دھل گئے تھے اور ابھی چاند نکلے چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے کہ روشنی اتنی ہو گئی کہ میں ۴۵۰ گز دور گندم کے کھیت میں چرتی مادہ سانبھر اور اس کے بچے کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔

مردہ بھینسا میرے بالکل سامنے اور بیس گز دور تھا۔ جس راستے سے شیرنی کی آمد متوقع تھی، وہ دو یا تین گز نزدیک تر تھا۔ اگر شیرنی اس راستے سے گذرتی تو اس پر گولی چلانے کا انتہائی آسان موقع ملتا۔ اتنے نزدیک سے نشانے کا خطا جانا ناممکن امر تھا۔ بظاہر ایسی کوئی وجہ نہیں تھی کہ شیرنی نہ آتی۔

چاند نکلے دو گھنٹے ہو گئے تھے اور مادہ سانبھر اور اس کا بچہ چرتے چرتے میرے درخت سے ۵۰ گز دور آ چکے تھے کہ گاؤں کے اوپر سے ایک کاکڑ بھونکنے لگا۔ کاکڑ کو بولتے ہوئے چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے اچانک گاؤں کی جانب سے ایک طویل انسانی چیخ سنائی دی۔ یہ چیخ اتنی غیر متوقع تھی کہ میں اپنی نشست پر کھڑا ہو گیا تاکہ درخت سے چھلانگ لگا کر گاؤں کو بھاگوں۔ پہلی سوچ یہی تھی کہ شیرنی میرے کسی ساتھی کو ہلاک کر رہی تھی۔ تاہم فوراً ہی میں نے سوچا کہ میں نے اپنے تمام ساتھیوں کو کیمپ واپس جاتے گنا تھا اور جہاں تک راستہ دکھائی دیتا تھا، وہ اکٹھے ہو کر کیمپ ہی واپس جا رہے تھے۔

یہ چیخ ایسی ہی تھی جیسا کہ کوئی شخص انتہائی تکلیف دہ انداز میں مر رہا ہو۔ میری عقل نے فوراً ہی سوال کیا کہ غیر آباد گاؤں سے ایسی چیخ کیسے آ سکتی ہے ؟ یہ چیخ میرے تخیل کی پیداوار نہیں تھی کیونکہ اسے سنتے ہی کاکڑ نے بولنا بند کر دیا تھا اور سانبھر اپنے بچے کے ساتھ فوراً ہی بھاگ گئی تھی۔ دو روز قبل جب دیہاتیوں کے ساتھ میں ٹھاک آیا تو میں نے برسبیل تذکرہ کہا تھا کہ وہ لوگ اپنے سامان کی حفاظت کے سلسلے میں کتنے پراعتماد تھے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، ان کے گھروں کے دروازے تک کھلے ہوئے تھے۔ نمبردار نے فوراً ہی جواب دیا تھا کہ اگر ان کا گاؤں سالوں بھی غیر آباد رہے تو بھی کوئی ان کے سامان کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔ وہ لوگ پناگری کے پنڈت ہیں اور کوئی انہیں لوٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مزید برآں جب تک شیرنی زندہ ہے، وہ سو چوکیداروں سے زیادہ ان کے سامان کی حفاظت کرے گی۔ آس پاس کا کوئی بھی بندہ گھنے جنگلوں سے گھری اس بستی میں بغیر معقول حفاظت کے نہیں جا سکتا۔

دوبارہ چیخ نہیں سنائی دی اور بظاہر سب ٹھیک ہی تھا، میں دوبارہ بیٹھ گیا۔ ۱۰ بجے کم عمر گندم کے کھیت میں چرتا ہوا کاکڑ اچانک بھونکتا ہوا بھاگا۔ اس کے ایک منٹ بعد شیرنی دو بار بولی۔ شیرنی گاؤں سے نکل کر اب کہیں جا رہی تھی۔ اگر شیرنی کا پیٹ بھرا ہو اور وہ ابھی بھینسے پر واپس نہ بھی آتی تو بھی اسے اسی راستے سے گذرنا تھا۔ گذشتہ چند دنوں سے شیرنی ہر روز دو بار اسی راستے سے گذرتی تھی۔ رائفل کی لبلبی پر انگلی رکھے اور آنکھوں پر زور دیتے میں گھنٹوں راستے کو تکتا رہا حتیٰ کہ چاندنی کی جگہ سورج کی روشنی نے لے لی لیکن شیرنی نہ آئی۔ سورج نکلے گھنٹہ ہو چلا تھا کہ میرے آدمی پہنچ گئے۔ میرے لئے وہ خشک لکڑیوں کا گٹھا ساتھ لائے تھے اور چند ہی منٹوں میں چائے تیار تھی۔ ہو سکتا ہے کہ شیرنی کہیں نزدیک جھاڑی سے ہمیں دیکھ رہی ہو یا پھر ہم سے میلوں دور ہو، کوئی نہیں جانتا تھا۔ دس بجے کے بعد سے جنگل بالکل خاموش تھا۔

جب میں کیمپ واپس لوٹا تو میرے خیمے کے پاس کئی آدمی بیٹھے تھے۔ ان میں کچھ تو یہ جاننے آئے تھے کہ رات کیسی گذری اور کچھ لوگ یہ بتانے آئے تھے کہ شیرنی نصف رات سے سورج طلوع ہونے سے ذرا قبل تک پہاڑی کے دامن میں بولتی رہی تھی۔ جنگل میں موجود مزدور اور سڑک بنانے والے مزدور بھی اب انتہائی خوفزدہ ہو چکے تھے اور کام پر نہیں جانا چاہتے تھے۔ اپنے آدمیوں سے میں شیرنی کے بارے پہلے ہی جان چکا تھا۔ میرے آدمی اور دیگر ہزاروں مزدوروں نے رات جاگ کر گذاری تاکہ الاؤ روشن رکھے جا سکیں۔

خیمے کے پاس موجود افراد میں ٹھاک کا نمبردار بھی شامل تھا۔ جب دیگر افراد چلے گئے تو میں نے اس سے پوچھا کہ ۱۲ تاریخ شیرنی نے جب انسانی شکار کیا تو وہ کیسے بال بال بچا تھا۔

ایک بار پھر سے نمبردار نے مجھے انتہائی باریکی سے بتایا کہ کیسے وہ اپنی پوتی کے ہمراہ اپنے کھیتوں سے ادرک اکھاڑنے گیا تھا اور کس طرح اس نے سنا کہ اس کی بیوی اسے بعجلت بلا رہی تھی کہ وہ اپنے کان کھلے کیوں نہیں رکھتا اور اپنی اور اپنی پوتی کی جان خطرے میں ڈال رہا ہے اور کس طرح وہ بھاگم بھاگ اپنی پوتی کے ہمراہ گھر واپس پہنچا اور اس کے چند ہی منٹ بعد شیرنی نے اس کے گھر کے اوپری جانب کھیت میں درخت سے شاخیں کاٹتا ہوا ایک بندہ ہلاک کیا تھا۔

نمبردار کی کہانی کا یہ حصہ میں پہلے بھی سن چکا تھا اور اب میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس نے شیرنی کو شکار کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا تو اس نے جواب دیا کہ نہیں، اس نے سنا تھا۔ مزید سوالوں کے جواب میں نے بتایا کہ مقتول نے مدد کے لئے نہیں پکارا تھا بلکہ صرف چیخا تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا ایک بار چیخ سنائی دی تھی تو اس نے بتایا کہ نہیں، تین بار چیخ سنائی تھی۔ میری درخواست پر اس نے اس چیخ کی نقل کرنے کی کوشش کی۔ یہ چیخ بالکل ویسی ہی تھی جیسی میں نے گذشتہ رات سنی تھی تاہم فرق صرف آواز کا تھا۔

پھر میں نے اسے بتایا کہ رات کو میں نے کیا سنا تھا اور پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ رات کو کئی بندہ اتفاقیہ طور پر ادھر نکل آیا ہو؟ اس کا جواب فوری طور پر منفی میں تھا۔ ٹھاک کو جانے کے دو ہی راستے تھے اور ان راستوں پر بسنے والے دیہاتوں کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ ٹھاک اب اجڑ چکا ہے اور کی وجہ بھی جانتا تھا۔ پورے ضلع میں مشہور ہو چکا تھا کہ ٹھاک میں دن کو جانا بھی خطرے سے خالی نہیں کجا کوئی بندہ رات کو آٹھ بجے ادھر کا رخ کرے۔

جب میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس کے ذہن میں ان چیخوں سے متعلق کوئی توجیہہ آتی ہے تو اس نے کہا کہ نہیں۔ میں نے سوچا کہ بہتر ہے کہ میں نے اس رات کچھ نہیں سنا اور نہ ہی کاکڑ نے اور نہ ہی مادہ سانبھر اور اس کے بچے نے کچھ سنا تھا۔

 

 

 

 

(۴)

 

جب میرے تمام مہمان بشمول نمبردار چلے گئے اور میں ناشتہ کر رہا تھا کہ میرے ملازم نے بتایا کہ سیم کا نمبردار پچھلی شام کو آیا تھا اور میرے پیغام چھوڑ گیا ہے کہ اس کی بیوی نے اپنے گھر کے پاس گھاس کاٹتے ہوئے خون کی لکیر دیکھی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں اس کی ماں ماری گئی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ آج صبح دریا کے کنارے وہ میرا انتظار کرے گا۔ ناشتے کے بعد میں اس جانب چل پڑا۔

جب میں دریا عبور کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ چار آدمی میری طرف بھاگم بھاگ آ رہے ہیں۔ جونہی میں کنارے پر پہنچا تو انہوں نے بتایا کہ وہ سیم کے اوپر والی پہاڑی سے اتر رہے تھے کہ انہوں نے شیر کی آواز سنی ہے۔ یہ آواز چکہ اور ٹھاک کے درمیان موجود پہاڑی کے دامن سے آ رہی تھی۔ انہیں بتا کر کہ میں ابھی سیم جا رہا ہوں اور جلد ہی چکہ واپس لوٹوں گا، آگے بڑھ گیا۔

نمبردار اپنے گھر کے پاس میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی بیوی مجھے اس جگہ لے گئی جہاں اس نے گذشتہ شام خون کی لکیر دیکھی تھی۔ کھیتوں سے ہو کر یہ لکیر بڑے بڑے پتھروں سے گذری تھی جہاں میں نے کاکڑ کے بال ایک پتھر پر لگے دیکھے۔ آگے چل کر مجھے تیندوے کے پگ دکھائی دیئے۔ ابھی میں انہیں دیکھ ہی رہا تھا کہ میں نے شیر کی آواز سنی۔ انہیں خاموشی سے وہی رکنے کا کہہ کر میں نے شیر کی آواز پر توجہ دی تاکہ اس کے محل وقوع کا اندازہ لگاؤں۔ فوراً ہی میں نے یہ آواز دوبارہ سنی اور دو دو منٹ کے وقفے وقفے سے یہ آواز آتی رہی۔

یہ شیرنی کی آواز تھی اور میرا اندازہ تھا کہ یہ شیرنی اس وقت یہاں سے ۵۰۰ گز دور ٹھاک کے نیچے اور گہری کھائی میں ہے۔ یہ کھائی آم کے درخت سے شروع ہو کر راستے کے متوازی چلتی ہے۔ آگے جا کر جہاں یہ راستہ کمایا چک کے راستے سے ملتا ہے، وہاں یہ کھائی راستے کو کاٹتی گذرتی ہے۔

نمبردار کو یہ بتا کر کہ تیندوے کو ابھی مرنے کی ضرورت نہیں، میں کیمپ کی طرف ہر ممکن تیزی سے چل پڑا۔ راستے میں ان چار افراد کو بھی ساتھ لیتا گیا۔

کیمپ پہنچ کر میں نے دیکھا کہ میرے خیمے کے آس پاس ہجوم جمع ہے جن میں اکثریت دہلی سے آئے ہوئے لکڑ ہاروں کی ہے۔ تاہم ان میں کلرک، کارندے، چھوٹے ٹھیکے دار، چوکیدار اور گینگ مین بھی شامل تھے۔ یہ سارے افراد میرے قیام کے بارے بات کرنے آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بہت مقامی افراد کام چھوڑ کر گھروں کو جا چکے ہیں اور جیسا کہ انہوں نے سنا ہے کہ میں یکم دسمبر کو واپس جا رہا ہوں تو یہ سارے مزدور وغیرہ میرے ساتھ ہی کام چھوڑ کر واپس چلے جائیں گے۔ یہ افراد اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ سونا یا کھانا پینا تک چھوٹ چکا تھا۔ ابھی ۲۹ نومبر کی صبح تھی اور میں نے انہیں بتایا کہ ابھی میرے پاس دو دن اور دو راتیں مزید موجود ہیں۔ اس دوران بہت کچھ ممکن ہے۔ تاہم اس کے بعد میرے یہاں مزید رکنا بالکل بھی ممکن نہیں۔

اس وقت تک شیرنی چپ ہو گئی تھی اور جب میرے ملازم میرے لئے کھانے کو کچھ لائے تو اسے کھا کر میں ٹھاک کو چل پڑا۔ میرا ارادہ تھا کہ اگر شیرنی اس دوران بولی تو میں اس کے مقام کا اندازہ لگا کر اس پر گھات لگاؤں گا اور  اگر وہ دوبارہ نہ بولی تو پھر بھینسے کی لاش پر بیٹھوں گا۔ راستے پر میں نے اس کے پگ دیکھے اور وہ جگہ بھی جہاں وہ راستے سے ہٹ کر کھائی میں داخل ہوئی تھی۔ اگرچہ میں جگہ جگہ رکتا رہا تاہم مجھے شیرنی کی آواز دوبارہ نہ سنائی دی۔ سورج غروب ہونے سے ذرا قبل میں نے ہمراہ لائے ہوئے بسکٹ کھا کر چائے پی اور درخت پر چڑھ کر رسیوں سے بنی اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ چونکہ اس بار نیل کنٹھ غائب تھے، میرے لئے سونا ممکن نہیں تھا۔

اگر شکار کردہ جانور پر شیر پہلی رات نہ لوٹے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ شکار پر کبھی نہیں لوٹے گا۔ ایک بار میں نے ایک ایسے ہی شکار پر شیر کو دسویں دن لوٹتے دیکھا۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دس دن بعد شکار کا گوشت کتنا "تازہ” ہو گا۔ تاہم اس بار یہ شکار شیرنی کا اپنا شکار کردہ جانور نہیں تھا بلکہ اس بھینسے کو مردہ پا کر شیرنی نے اس سے کچھ گوشت کھایا تھا۔ اگر یہ شیرنی آدم خور نہ ہوتی تو مجھے قطعاً یہ رات درخت پر گذارنے کی ضرورت نہ محسوس ہوتی۔ اگرچہ اب سورج ڈوبنے سے سورج نکلنے تک شیرنی کے لوٹنے کے امکانات کم ہی تھے اور میں گذشتہ رات کی نسبت کم وقت اپنی نشست پر بیٹھا تاہم اس بار مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی۔ رسیاں میرے جسم کو کاٹ رہی تھیں اور چاند نکلنے کے بعد سرد ہوا چلنا شروع ہوئی اور ساری رات چلتی رہی۔ اس ہوا سے میری ہڈیوں کا گودا تک جم گیا۔ اس بار مجھے کسی قسم کی آواز نہ سنائی دی اور نہ ہی مادہ سانبھر اور اس کا بچہ دکھائی دیئے۔ ابھی سورج نکل ہی رہا تھا کہ میں نے کافی فاصلے سے آواز سنی جو شیرنی کی لگ رہی تھی۔ تاہم یہ اندازہ کرنا ممکن نہ تھا کہ یہ آواز کس جانب سے آئی ہے اور آیا کیا یہ واقعی شیرنی کی ہی آواز تھی۔

جب میں کیمپ لوٹا تو میرے ملازم نے میرے لئے چائے اور گرم غسل تیار کر رکھا تھا۔ تاہم قبل اس کے کہ میں غسل کر سکوں، مجھے ان لوگوں سے پیچھا چھڑانا تھا جو گذشتہ رات کے بارے بتانے آئے تھے۔ چاند طلوع ہونے کے فوراً بعد سے ہی شیرنی نے چکہ کے پاس سے بولنا شروع کیا اور دو گھنٹے تک بولنے کے بعد مزدوروں کے کیمپ کی طرف چل دی۔ مزدوروں نے اسے آتے سنا تو شور مچا کر اسے بھگانے کی کوشش کی تاہم اس سے شیرنی کا غصہ مزید بڑھ گیا۔ جب تک یہ مزدور چپ نہ ہوئے، شیرنی کیمپ کے بالکل سامنے شور کرتی رہی۔ اس کے بعد شیرنی چکہ اور مزدوروں کے کیمپ کے درمیان رہی۔ صبح ہونے کے بعد شیرنی ٹھاک کو چل دی۔ ان لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ میں نے شیرنی کو نہیں دیکھا۔

آدم خوروں کے شکار کے سلسلے میں یہ میرا آخری دن تھا۔ اگرچہ مجھے اس وقت نیند اور تھکن نے بے حال کر رکھا تھا تاہم میں نے فیصلہ کیا کہ شیرنی کے تعاقب کی آخری بار کوشش کروں۔

چکہ اور سیم کے لوگ بلکہ آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ بشمول تلہ دیس (جہاں کئی سال قبل میں نے تین آدم خور شیر مارے تھے )، نے مجھے مشورہ دیا کہ میں زندہ بکری باندھ کر اس پر مچان باندھ کر بیٹھوں۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ سارے پہاڑی شیر بکریاں کھاتے ہیں اور چونکہ آدم خور شیرنی بھینسے نہیں کھا رہی تو بکری پر قسمت آزمائی میں کیا حرج ہے ؟ حقیقتاً کسی کامیابی کی توقع کے بغیر انہیں خوش کرنے کے لئے میں نے ہاں کہہ دی۔ اس مقصد کے لئے میں نے دو بکریاں پہلے سے ہی خریدی ہوئی تھیں۔

مجھے پورا یقین تھا کہ شیرنی رات بھر چاہے جہاں بھی ہو، دن کو وہ آرام کرنے ٹھاک چلی جاتی ہے۔ دوپہر کے وقت میں دونوں بکریوں اور چار آدمیوں کو ساتھ لے کر تھاک کے لئے چل پڑا۔

چکہ سے ٹھاک کا راستہ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں، ایک انتہائی ڈھلوان پہاڑی سے گذرتا ہے۔ ٹھاک سے چوتھائی میل پہلے یہ راستہ پہاڑی سے ہٹ کر تقریباً مسطح زمین سے گذرتا ہے جو آم کے درخت تک پھیلا ہوا ہے۔ تاہم یہ سارا حصہ گھنی جھاڑ جھنکار سے بھرا ہوا ہے۔ درمیان میں دو تنگ سی کھائیاں بھی اسے عبور کرتی ہیں۔ دونوں کھائیوں کے درمیان اور جہاں میں دو راتیں قبل بیٹھا تھا، سے ۱۰۰ گز دور بادام کا ایک بہت بڑا درخت تھا۔ کیمپ سے نکلتے وقت میرے ذہن میں یہی درخت تھا۔ یہاں راستہ سیدھا درخت سے نیچے سے گذرتا ہے اور میں نے سوچا کہ اگر میں اس درخت پر آدھی بلندی تک چڑھ کر بیٹھ جاؤں تو نہ صرف دونوں بکریوں بلکہ مردہ بھینسے کی لاش کو بھی دیکھ سکوں گا۔ پہلی بکری کو بڑی کھائی اور دوسری کو دائیں جانب کی پہاڑی کے دامن میں باندھا جانا تھا۔ یہ تینوں نقطے میری موجودہ نشست سے کچھ فاصلے پر تھے اس لئے میں اپنے ہمراہ اعشاریہ ۲۷۵ کی رائفل لایا تھا جس کا نشانہ بہترین تھا۔ ساتھ ہی کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے میرے پاس ۴۵۰/۴۰۰ بور کی رائفل بھی تھی۔

اس آخری دن چکہ کی چڑھائی میرے لئے بے حد تھکا دینے والی تھی اور ابھی میں اس جگہ پہنچا ہی تھا جہاں راستہ پہاڑی سے اتر کر مسطح زمین کو جاتا تھا کہ میرے بائیں جانب ڈیڑھ سو گز دور سے شیرنی بولی۔ یہاں زمین پر ہر جگہ گھنی جھاڑیوں اور خود رو پودوں کی بھرمار تھی اور جگہ جگہ بڑے بڑے پتھر بھی موجود تھے۔ آدم خور کے شکار کے لئے یہ جگہ انتہائی ناموزوں تھی۔ تاہم کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری تھا کہ آیا شیرنی لیٹی ہوئی ہے کیونکہ ابھی دن کے ۱ بج رہے تھے یا کہ حرکت میں ہے ؟ اگر شیرنی چل رہی ہے تو کس جانب جا رہی ہے۔ اپنے ہمراہیوں کو میں نے خاموش ہو کر بیٹھے رہنے کا کہا اور شیرنی کی آواز سننے لگا۔ بظاہر شیرنی کی اگلی آواز پچاس گز مزید دور سے آئی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے شیرنی ٹھاک کو جانے والی کھائی سے اوپر کو جا رہی ہے۔

میرے حوصلے بلند ہو گئے۔ جو درخت میں نے چنا تھا وہ کھائی سے ۵۰ گز دور تھا۔ ساتھیوں کو ہدایت کرتے ہوئے کہ خاموشی سے میرے پیچھے پیچھے چلے آئیں، میں راستے پر آگے چل پڑا۔ ہمیں مزید ۲۰۰ گز جانا تھا اور ابھی ہم نے نصف فاصلہ ہی طے کیا ہو گا کہ ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں دونوں اطراف گھنی جھاڑیاں تھیں۔ یہاں سے اچانک کالے تیتروں کا جھنڈ شور مچاتا ہوا اڑا۔ فوراً ہی میں گھٹنوں کے بل جھک گیا اور چند منٹ تک اسی طرح جھکا رہا۔ تاہم کچھ تبدیلی نہ ہوئی۔ ہم لوگ احتیاط سے چلتے ہوئے درخت تک پہنچ گئے۔ ہر ممکن خاموشی سے ہم نے بکری کو کھائی کے کنارے جبکہ دوسری کو دائیں جانب کی پہاڑی کے دامن میں باندھ دیا۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کو مزروعہ زمین کے کنارے تک لے گیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ لوگ نمبردار کے گھر کے بالائی برآمدے میں رک کر میرا انتظار کریں۔ پھر میں واپس درخت کی جانب دوڑا۔ درخت پر میں تقریباً ۴۰ فٹ چڑھا اور پھر ڈوری کی مدد سے رائفلیں اوپر کھینچ لیں۔ نہ صرف دونوں بکریاں اب مجھے دکھائی دے رہی تھیں بلکہ مردہ بھینسے کا کچھ حصہ بھی مجھے دکھائی دے رہا تھا۔ ایک بکری مجھ سے ۶۰ جبکہ دوسری ۷۰ گز دور تھی۔ چونکہ میرے پاس اعشاریہ ۲۷۵ بور کی رائفل بھی تھی، مجھے پورا یقین تھا کہ اگر شیرنی میرے دائرہ نگاہ میں کہیں بھی دکھائی دی تو اس کی ہلاکت یقینی ہے۔

جب سے یہ دونوں بکریاں خریدی گئی تھیں، دونوں ایک ساتھ رہ رہی تھیں۔ اب دونوں بکریاں ایک دوسرے سے الگ باندھی گئی تھیں تو انہوں نے بہت زور زور سے ایک دوسرے کو بلانا شروع کر دیا۔ عام حالات میں بکری کی آواز ۴۰۰ گز تک سنائی دیتی ہے تاہم اس وقت حالات عام نہیں تھے کیونکہ بکریوں کو پہاڑی کی ایک جانب باندھا گیا تھا اور تیز ہوا چل رہی تھی۔ اگر شیرنی اس جگہ کو چھوڑ بھی چکی ہو جہاں اس کی آخری آواز سنائی دی تھی تب بھی شیرنی انہیں لازماً سنتی۔ اگر شیرنی بھوکی ہوتی، جیسا کہ مجھے پورا یقین تھا، مجھے اس پر گولی چلانے کا بہت عمدہ موقع مل سکتا تھا۔

ابھی مجھے درخت پر بیٹھے ہوئے دس منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ اس جگہ کے پاس سے کاکڑ بولنے لگا جہاں سے کالے تیتر اڑے تھے۔ ایک یا دو منٹ تک تو میری امیدیں آسمان کو چھوتی رہیں تاہم جب کاکڑ صرف تین بار بول کر چپ ہو گیا تو مجھے پتہ چل گیا کاکڑ اور تیتروں نے کسی سانپ کو دیکھا ہے۔

چونکہ میری نشست کافی آرام دہ تھی اور سورج کی روشنی بھی حدت پہنچا رہی تھی، میں اگلے تین گھنٹے تک آرام سے بیٹھا رہا۔ ۴ بجے جب سورج ٹھاک کے پیچھے والے بڑے پہاڑ کی اوٹ ہوا تو اچانک ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ اگلا ایک گھنٹہ میں نے انتہائی بے آرامی سے گذارا۔ پھر جب سردی سے مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی تو میں نے سوچا کہ اب اگر شیرنی آئی بھی تو اس پر گولی چلانا ممکن نہیں ہو گا۔ ڈوری سے رائفلیں باندھ کر میں نے نیچے اترا اور اپنے آدمیوں کو واپس لانے چل پڑا۔

 

 

 

 

(۵)

 

میرا خیال ہے کہ شاید معدودے چند ہی ایسے بندے ہوں گے جو کسی اہم کام کی تکمیل میں ناکامی پر مایوسی کا شکار نہ ہوتے ہوں۔ جب ایک شکاری دن بھر کے شکار کے بعد چکوروں سے بھرا ہوا تھیلا لے کر کیمپ واپس جا رہا ہو اور دوسرا شکاری سارا دن پتھروں سے سر ٹکرانے کے بعد خالی ہاتھ جا رہا ہو تو اس کی نا امیدی کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تاہم یہ محض چکوروں کے شکار کی بات تھی۔ تاہم میری ناکامی صرف ایک دن پر محیط نہ تھی اور نہ ہی میری ناکامی کا اثر صرف مجھ تک محدود رہتا۔ آدمیوں کو واپس لا کر بکریوں کو کھولنے کے بعد جب کیمپ کو واپسی کے دو میل کے سفر پر روانہ ہوئے تو میری مایوسی انتہا پر تھی۔

سفر میں گذرے دنوں کے علاوہ ۲۳ اکتوبر سے لے کر ۷ نومبر تک اور پھر ۲۴ سے ۳۰ نومبر تک میں شیرنی کی تلاش میں سرگرداں رہا تھا۔ آپ میں سے وہ لوگ جو آدم خوروں کے شکار کا تجربہ رکھتے ہیں، بخوبی جانتے ہیں کہ آدم خور کی سلطنت میں اٹھنے والا ہر قدم آخری بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس خطرے کا اثر مجھ سے زیادہ میرے گھر والوں پر ہوتا رہا تھا۔ اس مہم میں ناکامی بہت مایوس کن تھی۔

دوسرا میرا مقصد آدم خور شیرنی کا شکار تھا اور میری ناکامی سے نہ صرف یہاں موجود مزدوروں کو پریشانی ہوتی بلکہ وہ تمام لوگ بھی متائثر ہوتے جن کے گھر اس علاقے میں تھے۔ پہلے ہی جنگل میں کام مکمل طور پر رک چکا تھا اور ضلعے کے سب سے بڑے دیہات کی آبادی اپنے گھروں کو چھوڑ چکی تھی۔ صورتحال بہت خراب تھی لیکن اگر شیرنی کو نہ مارا گیا تو ہر روز یہ بد سے بدتر ہوتی چلی جائی گی۔ سارے کے سارے مزدور ہمیشہ کے لئے کام چھوڑ کر نہیں رہ سکتے تھے اور نہ ہی آس پاس کے تمام دیہاتوں کے لوگوں کے لئے اپنے گھروں اور اپنی فصلوں کو چھوڑنا ممکن تھا۔

چونکہ شیرنی کے دل سے انسانی خوف دور ہو چکا تھا۔ شیرنی پاس کام کرتے کئی آدمیوں کی موجودگی کے باوجود آم چنتی ایک لڑکی کو اٹھا لے جانا، ایک عورت کو اس کے گھر کی دہلیز پر ہلاک کرنا، گاؤں کے عین وسط میں ایک آدمی کو درخت سے گھیسٹ کر لے جانا اور پچھلی رات ہزاروں آدمیوں کو خاموش کرا دینا اس بات کے بین ثبوت تھے۔ دوسری طرف مجھے پوری طرح علم تھا کہ شیرنی کی موجودگی سے علاقے کے مستقل اور عارضی باشندوں اور یہاں سے گذرنے والے افراد پر کیا بیتے گی۔ کیمپ سے نکلتے وقت میں میں نے سب کو بتا دیا تھا کہ آدم خوروں کے تعاقب میں یہ میرا آخری دن ہے۔ یہ ناکامی زندگی بھر میرے دل میں تازہ رہتی۔ اگر کوئی مجھ سے آدم خوروں کے شکار کی ساری کامیابیاں واپس لے کر مجھے اس شیرنی پر اطمینان سے صرف ایک گولی چلانے کا موقع فراہم کر دیتا تو مجھ سے زیادہ خوش اور کوئی نہ ہوتا۔

میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس دوران میں نے شیرنی کی ہلاکت کے لئے کیا کیا جتن کئے۔ تاہم ان کے علاوہ بھی میں نے ہر وہ طریقہ اپنایا جو میں نے آدم خوروں کے تعاقب میں سیکھا تھا۔ ہر بار جب میں کیمپ سے نکل کر ٹھاک کو جاتا اور واپس آتا تو مجھے بخوبی احساس تھا کہ شیرنی مجھے دیکھ رہی ہے۔ تاہم مجھے ایک اطمینان تھا کہ میں نے اپنی سے پوری کوشش کی ہے اور کوئی جتن ایسا نہیں جو میں نے شیرنی کی ہلاکت کے لئے نہ کیا ہو۔

 

 

 

 

(۶)

 

جب میرے آدمی میرے ساتھ روانہ ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ کاکڑ کے بولنے کے ایک گھنٹے بعد انہوں نے شیرنی کی آواز سنی تاہم وہ سمت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ شیرنی کو میرے بھینسوں اور میری بکریوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ تاہم یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کہ اپنی کمین گاہ کو چھوڑ کر شیرنی اس وقت کہیں اور کیوں چل دی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے کوئی ایسی آواز سنی ہو جو میں نہ سن پایا ہوں ؟ خیر وجہ جو کچھ بھی ہو، شیرنی یہاں سے جا چکی تھی اور ہم کیمپ کو روانہ ہو گئے۔

جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ ٹھاک سے چوتھائی میل بعد راستہ پہاڑی سے ہوتا ہوا گذرتا ہے اور جب میں واپسی کے سفر پر یہاں پہنچا جہاں راستہ محض چند فٹ چوڑا تھا اور جہاں سے دونوں کھائیوں کا نظارہ ممکن تھا، میں نے بائیں جناب وادی کے سرے سے شیرنی کی آواز دو بار سنی۔ میرا اندازہ تھا کہ شیرنی کمایا چک کی بالائی اور بائیں جانب ہے۔ یہ جگہ کوٹ کنڈری سے کی پہاڑی سے چند سو گز اوپر ہے جہاں اس علاقے میں کام کرنے والے مزدوروں نے اپنے لئے گھاس کے چھپر بنائے ہوئے تھے۔

میرے لئے ایک اور موقع پیدا ہو گیا۔ تاہم یہ موقع چاہے جتنا ہی امکانی کیوں نہ ہو، اس آدم خور شیرنی کو مارنے کے سلسلے میں میرا آخری موقع ہوتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ میں اس موقعے سے فائدہ اٹھاؤں یا نہیں۔

جب میں درخت سے نیچے اترا تو میرے پاس ایک گھنٹہ باقی بچا تھا جس میں ہمیں کیمپ واپس پہنچنا تھا۔ آدمیوں کو واپس لانے، ان کی بات سننے، بکریوں کو کھولنے اور پھر واپسی کا سفر، سب مل ملا کر نصف گھنٹہ بنتا تھا۔ سورج کے موجودہ مقام اور نیپال کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بنتے رنگوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ ہمارے پاس محض نصف گھنٹہ روشنی باقی ہے۔ یہ وقت یا یوں کہہ لیں کہ یہ روشنی سب سے اہم تھی۔ اگر میں شیرنی کے شکار کے اس آخری موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں تو ہم پانچ افراد کی جانیں اس نصف گھنٹے سے جڑی ہوئی ہیں۔

شیرنی ہم سے ایک میل دور تھی اور ہمارے درمیان موجود فاصلہ کٹی پھٹی زمین، گھنی جھاڑیوں اور ڈھیروں گہرے نالوں سے اٹا ہوا تھا۔ تاہم اگر شیرنی چاہے تو یہ فاصلہ نصف گھنٹے میں طے ہو سکتا تھا۔ مجھے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا میں شیرنی کو اپنی طرف بلاؤں یا نہیں ؟ اگر میں شیرنی کو بلاؤں اور وہ میری طرف آئے اور جب وہ یہاں پہنچے تو ابھی روشنی باقی ہو اور میں اس پر گولی چلاؤں تو سب ٹھیک ہے۔ تاہم اگر شیرنی آئے تو سہی پر مجھے اس پر گولی چلانے کا موقع نہ ملا تو ہم میں سے ایک یا شاید کئی افراد کیمپ واپس کبھی بھی نہ پہنچ پاتے۔ یہاں سے کیمپ کا فاصلہ تقریباً دو میل تھا اور سارا کا سارا راستہ گھنے جنگلوں سے ہو کر گذرتا تھا جہاں بعض جگہوں پر بڑے بڑے پتھر بھی موجود تھے۔ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنا بے کار تھا کیونکہ یہ سب کے سب پہلی بار جنگل میں کسی مہم پر آئے تھے۔ جو بھی فیصلہ ہو، مجھے ہی کرنا تھا۔

میں نے شیرنی کو بلانے کا فیصلہ کیا۔

ایک ساتھی کو رائفل پکڑاتے ہوئے میں نے انتظار کیا کہ شیرنی کی دوبارہ آواز سنائی دے۔ جب شیرنی دوبارہ بولی تو میں نے ہاتھوں سے بھونپو سا بنایا اور پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے میں نے شیر کی آواز نکالی۔ فوراً ہی شیرنی کا جواب آیا۔ کئی منٹ تک ہمارے درمیان آوازوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ شیرنی کو آنا ہی تھا اور در حقیقت وہ ہماری طرف چل پڑی تھی۔ اب اگر شیرنی روشنی ختم ہونے سے قبل پہنچ جاتی تو بازی ہمارے ہاتھ رہتی کیونکہ میرے پاس مناسب جگہ کے انتخاب کے لئے وقت تھا۔ عام طور پر نومبر میں شیروں کے ملاپ کا وقت ہوتا ہے اور بظاہر شیرنی پچھلے دو روز سے نر کی تلاش میں نکلی ہوئی تھی۔ اب چونکہ اس نے نر کی آواز سنی تو مزید وقت ضائع کرنا اس کے لئے ممکن نہ رہا۔

جہاں راستہ پہاڑی سے نیچے اترتا ہے، وہاں سے ۴۰۰ گز دور راستہ ۵۰ گز جتنا فاصلہ مسطح زمین سے گذرتا ہے۔ اس مسطح قطعے کے انتہائی دائیں جانب راستہ ایک بڑے پتھر کے پاس سے ہو کر اچانک نیچے جاتا ہے۔ یہاں سے آگے بہت سارے موڑ آتے ہیں۔ اسی بڑے پتھر پر میں نے شیرنی کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس پتھر تک جاتے ہوئے بھی میں بار بار آوازیں نکالتا رہا تاکہ ایک تو مجھے شیرنی کی موجودہ حرکات کا اندازہ ہوتا رہے تو دوسرا شیرنی بھی میرے موجودہ مقام سے آگاہ ہو جائے۔

اب میں آپ کو تفصیل سے بتاتا ہوں تاکہ آپ اپنے ذہن میں اس جگہ کی تصویر بنا سکیں اور پیش آنے والے واقعات کو بہتر سمجھ سکیں۔ فرض کریں کہ چالیس گز لمبا اور اسی گز چوڑا ایک مستطیل قطعہ جس کے سرے پر عمودی چٹان کھڑی ہے۔ ٹھاک سے آنے والا راستہ اس قطعے کے چھوٹے یعنی جنوبی سرے سے اس میں داخل ہوتا ہے اور ۲۵ گز تک سیدھا جانے کے بعد دائیں مڑ کر اس قطعے کے مشرقی سرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ اس جگہ چار فٹ بلند پتھر موجود ہے۔ جہاں یہ راستہ دائیں مڑتا ہے، سے تین فٹ بلند چٹانی چھجا شروع ہوتا ہے جو قطعے کے شمالی سرے تک چلا جاتا ہے۔ چھجے کے راستے والی طرف گھنی جھاڑیاں موجود ہیں جو اس چار فٹ بلند پتھر سے دس فٹ دور ہیں۔ اس قطعے کا باقی حصہ درختوں، اکا دکا جھاڑیوں اور چھوٹی گھاس سے ڈھکا ہوا ہے۔

میرا ارادہ تھا کہ اسی چٹان کے پاس راستے کے ساتھ میں لیٹ جاؤں اور جونہی شیرنی وہاں پہنچے، اسے گولی کا نشانہ بنا سکوں۔ تاہم جب میں یہاں پہنچ کر لیٹا تو پتہ چلا کہ یہاں سے شیرنی تب تک نہیں دکھائی دے گی جب تک کہ وہ محض دو یا تین گز دور نہ ہو۔ دوسرا اگر شیرنی اس چٹان کے عقب یا پھر اطراف کی جھاڑیوں سے آتی تو میں اسے بالکل بھی نہ دیکھ پاتا۔ اس چٹان کے کنارے جہاں سے شیرنی کی آمد متوقع تھی، ایک چھوٹا سا چھجا سا تھا۔ اگر میں اس پر ترچھا ہو کر بیٹھتا اور اگر بائیاں ہاتھ پھیلا کر اس گول پتھر پر رکھتا اور دائیں ٹانگ کو پھیلا کر پنجے کو زمین پر رکھتا تو میں اس جگہ رہ سکتا تھا۔ اپنے ساتھیوں اور بکریوں کو میں نے اپنے پیچھے دس یا بارہ فٹ نیچے چھپا دیا۔

شیرنی کے استقبال کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ اس دوران شیرنی اب ۳۰۰ گز کے فاصلے پر پہنچ چکی تھی۔ اپنے محل وقوع سے آگاہ کرنے کے لئے میں نے آخری آواز نکالی اور مڑ کر دیکھا کہ سب ٹھیک ہے۔

کسی بھی دوسرے موقع پر میرے ساتھی جس طرح بیٹھے تھے، انتہائی مزاحیہ ہوتا۔ تاہم اس وقت یہ انتہائی افسوس ناک تھا۔ بکریاں درمیان میں لئے ہوئے چاروں افراد ایک تنگ سے دائرے میں اپنے سر گھٹنوں میں دبائے بیٹھے تھے۔ ان کے چہروں پر موجود آثار ایسے ہی تھے جیسے تماشائی کسی توپ کے چلنے کا انتظار کر رہے ہوں۔ چھجے پر شیرنی کی پہلی بار آواز سننے کے بعد سے میرے ساتھی اور بکریاں بالکل خاموش تھے۔ ایک بار ان میں سے ایک ہلکا سا کھانسا تھا۔ شاید خوف نے انہیں جکڑ دیا ہو، پھر بھی میں ان کی جرأت کو سلام کرتا ہوں۔ اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو کبھی بھی ایسا نہ کرتا۔ سات دن تک وہ شیرنی کے بارے لرزہ خیز داستانیں سنتے رہے تھے اور دو راتوں سے شیرنی نے انہیں سونے نہ دیا تھا اور اب تاریکی چھا رہی تھی اور لمحہ بہ لمحہ شیرنی ہمارے قریب ہوتی جا رہی تھی۔ جہاں وہ بیٹھے تھے وہاں سے وہ شیرنی کو دیکھ نہ سکتے تھے لیکن ہر وقت شیرنی کی قریب ہوتی ہوئی آواز سن رہے تھے۔ اس سے زیادہ اعتقاد اور اس سے زیادہ حوصلہ شاید کوئی اور نہ دکھا سکے۔

حقیقت یہ تھی کہ میں اپنی اعشاریہ ۴۵۰/۴۰۰ بور کی دو نالی رائفل کو بائیں ہاتھ سے نہیں پکڑ سکتا تھا کیونکہ اس ہاتھ سے میں نے ایک پتھر کو پکڑا ہوا تھا۔ میں نے اپنا رو مال تہہ کر کے اس گول پتھر پر رکھ دیا تھا تاکہ رائفل پھسل نہ جائے۔ مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اس صورتحال میں ایک ہاتھ سے بھاری رائفل چلانے پر کتنے زور سے دھکا لگے گا۔ رائفل کا رخ اس جانب تھا جہاں راستے میں ایک ابھار تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ جونہی شیرنی کا سر اس ابھار سے دکھائی دے، میں گولی چلا دوں گا۔ یہ جگہ چٹان سے بیس فٹ دور تھی۔

تاہم شیرنی نے آتے ہوئے اپنا راستہ بدل دیا۔ اگر وہ سیدھی آتی تو راستہ اسی ابھار تک پہنچتا تھا جہاں میں نے رائفل سے نشانہ لیا ہوا تھا۔ شیرنی نے ایک کھائی عبور کر کے براہ راست اس جانب کا رخ کیا جہاں اس نے میری آواز سنی تھی۔ یہ جگہ ہلکی سی دائیں جانب تھی۔ اس طرح ہمارے درمیان ایک چھوٹی سی چٹان آ گئی اور میں شیرنی کو نہ دیکھ سکا۔ میری آواز سے شیرنی نے میری سمت کا بالکل درست اندازہ لگایا تھا تاہم فاصلے کے بارے اس نے کچھ غلطی کی تھی۔ اب جب اس نے متوقع جگہ پر نر کو نہ دیکھا تو غصے سے پاگل ہو گئی۔ اب میں آپ کو یہاں ایک مثال سناتا ہوں کہ ساتھی کی تلاش میں نکلی ہوئی شیرنی جب غصے میں ہو تو کیا کر سکتی ہے۔ ایک بار ہمارے گھر سے چند میل دور شیرنی نے ایک بار ایک سڑک کو ہفتے بھر کے لئے بند کر دیا تھا۔ جو کوئی بھی بشمول اونٹوں کی قطار کے سڑک سے گذرتی، شیرنی اس پر حملہ کر دیتی۔ جب تک شیرنی کو نر نہ ملا، اس نے سڑک بند رکھی۔

دکھائی نہ دینے والے نزدیک موجود شیر کی آواز سے زیادہ انسانی حوصلے کو پست کر دینے والی اور کوئی آواز نہیں۔ مجھے یہ سوچتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا تھا کہ اس آواز کا میرے ہمراہیوں پر کیا اثر ہو رہا ہو گا کیونکہ میرا اپنا دل چاہ رہا تھا کہ جیسے میں خود بھی چیخ رہا ہوں۔ حالانکہ میرے پاس بہترین اور طاقتور رائفل بھی تھی۔

تاہم اس آواز سے زیادہ دہشتناک ایک اور چیز بھی تھی اور وہ تھی کم ہوتی ہوئی روشنی۔ چند اور سیکنڈ، زیادہ سے زیادہ ۱۰ یا ۱۵ سیکنڈ اور پھر اتنی تاریکی ہو جاتی کہ میں رائفل کے دید بان بھی نہ دیکھ سکتا۔ اس کے بعد ہم آدم خور شیرنی اور نر کی تلاش میں نکلی ہوئی شیرنی کے رحم و کرم پر ہوتے۔ فوری طور پر مجھے کچھ نہ کچھ کرنا تھا ورنہ ہمارا عبرتناک حشر ہوتا۔ اس صورتحال میں میرے پاس سوائے شیر کی آواز نکالنے کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔

شیرنی اب اتنی نزدیک تھی کہ جب وہ دھاڑنے کے لئے سانس لیتی تو وہ بھی صاف سنائی دیتا تھا۔ جونہی اس نے دوبارہ سانس بھرا تو میں نے بھی اس کے ساتھ ہی سانس بھرا۔ پھر ہم دونوں ایک ہی وقت بولے۔ اس کا فوری اثر ہوا۔ ایک لحظے کی تاخیر کے بناء شیرنی سوکھے پتوں پر تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی سیدھی میری جانب آئی۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ شیرنی سیدھی میرے سر پر آ رہی ہے کہ شیرنی رک گئی۔ اگلے ہی لمحے اس کی دھاڑ اور سانس سیدھی میرے منہ پر آئی۔ اگر میرے سر پر ہیٹ ہوتا تو وہ اڑ جاتا۔ ایک سیکنڈ رکنے کے بعد شیرنی دوبارہ چلی اور میں نے دو جھاڑیوں کے درمیان اس کی جھلک حرکت کرتے دکھائی دی۔ پھر شیرنی جھاڑیوں سے نکل کر سیدھا میرے منہ کو دیکھی ہوئی رک گئی۔

میری خوش قسمتی کہ شیرنی نے آخری چھ قدم جو اٹھائے تھے وہ اسے سیدھا میری رائفل کے سامنے لے آئے۔ اگر وہ آخری آواز کے بعد سے اپنا رخ نہ بدلتی تو اگر میں کبھی یہ کہانی لکھتا بھی تو بہت مختلف کہانی ہوتی کیونکہ موجودہ حالت میں میرے لئے رائفل کو حرکت دینا ناممکن تھا۔ شیرنی کے قریب ہونے اور مدھم ہوتی ہوئی روشنی کی وجہ سے مجھے شیرنی کا صرف سر دکھائی دے رہا تھا۔ میری پہلی گولی اسے دائیں آنکھ کے نیچے لگی اور دوسری گولی جو ارادے کی بجائے غلطی سے چلی، اس کے گلے میں لگی۔ شیرنی سیدھا چٹان سے ٹک کر رک گئی۔ دائیں نال سے چلنے والی گولی کے دھکے سے رائفل پر میری گرفت کمزور پڑ گئی تھی پیچھے سیدھا اسی جگہ گرا جہاں میرے ہمراہی بیٹھے ہوئے تھے۔ دوسری گولی اس وقت چلی جب میں ابھی فضاء میں ہی تھا اور رائفل کا کندہ میرے جبڑے پر لگا اور سر کے بل اپنے ساتھیوں پر جا گرا۔ ایک بار پھر میں اپنے ساتھیوں کی ہمت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ یہ دیکھے بغیر کہ کیا شیرنی بھی میرے پیچھے ان پر چھلانگ تو نہیں لگا رہی، انہوں نے مجھے پکڑ کر سیدھا کھڑا کر دیا۔ اس طرح میں چوٹ اور رائفل کسی بھی نقصان سے بچ گئی۔

جب میں ان کی گرفت سے آزاد ہوا تو میں نے اپنے ساتھی سے اپنی اعشاریہ ۲۷۵ بور کی رائفل لے کر اس میں میگزین چڑھایا اور وادی کے اوپر نیپال کی جانب پانچ گولیاں چلائیں۔ وادی میں موجود ہزاروں افراد کے لئے دو گولیاں کوئی بھی معنی پیش کر سکتی تھیں جو بے چینی سے گولی کی آواز سننے کے لئے تیار تھے۔ تاہم ان دو گولیوں کے بعد پانچ گولیاں جو پانچ پانچ سیکنڈ کے وقفوں سے چلائی گئی تھیں، کا ایک ہی مطلب تھا کہ آدم خور شیرنی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔

چٹان پر جب میں نے شیرنی کی آواز سنی تو اس وقت سے اب تک میں نے اپنے ساتھیوں سے بات نہیں کی تھی۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ شیرنی مر چکی ہے اور ہمیں اب اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں تو انہیں اس پر یقین نہیں آیا۔ میں انہیں کہا کہ اوپر جا کر خود اپنی آنکھوں سے شیرنی کو مرا ہوا دیکھ لیں اور میں نے سیگرٹ جلا لیا۔ انتہائی احتیاط سے میرے ہمراہی چٹان پر چڑھے۔ جیسا کہ میں نے انہیں بتایا تھا، انہیں شیرنی کو دیکھنے کے لئے زیادہ دور نہیں جانا پڑا۔ چٹان کے دوسرے سرے پر شیرنی مردہ حالت میں پڑی تھی۔ رات کو کیمپ میں آگ کے گرد بیٹھے ہوئے جب میرے ساتھی ہماری مہم کی تفصیلات بتا رہے تھے تو اپنی بات کا اختتام اس بات پر کرتے تھے کہ شیرنی جس کے ڈر سے ہمارے پتے پانی ہو چکے تھے، نے جب ہمارے صاحب پر حملہ کیا تو اس نے صاحب کے منہ پر ٹکر ماری جس سے صاحب ہمارے اوپر آن گرے۔ اگر آپ کو یقین نہیں تو جا کر صاحب کا چہرہ دیکھ لیں۔ عموماً کیمپ میں آئینہ رکھنا بد شگونی سمجھا جاتا ہے تاہم اگر آئینہ ہوتا بھی تو میرا چہرہ اتنا سوجا ہوا نہ دکھائی دیتا جتنا مجھے تکلیف ہو رہی تھی۔

جتنی دیر میں درخت کاٹے جاتے، لدھیا وادی اور اس کے آس پاس کے دیہاتوں میں روشنیاں جلنے لگی تھیں۔ میرے چاروں ہمراہی اس فکر میں تھے کہ وہ اکیلے ہی شیرنی کو کیمپ تک لے جائیں۔ ان کے نزدیک یہ بہت بڑا اعزاز ہوتا۔ تاہم یہ کام ان کے بس سے باہر تھا۔ اس لئے میں کیمپ سے ان کے لئے مدد لانے کو چل پڑا۔

پچھلے آٹھ ماہ کے دوران چکہ میں میں نے اس راستے کو صرف دن کی روشنی میں ان گنت بار عبور کیا تھا اور ہر بار بھری ہوئی رائفل میرے ہاتھوں میں ہوتی تھی۔ اب اندھیرے نہتے اسی راستے پر چلتے ہوئے میرے ذہن میں صرف ایک ہی فکر تھی کہ کہیں ٹھوکر کھا کر گر نہ جاؤں۔ اگر کسی شدید درد سے ملنے والی نجات کسی انسان کے لئے سب سے بڑی خوشی ہو تو دوسری بڑی خوشی کسی بہت بڑے خوف اور ڈر سے اچانک ملنے والی نجات ہے۔ محض ایک گھنٹہ قبل مقامی لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کے لئے کسی بہت بڑی بلا کی مدد لینا پڑتی اور اب وہی افراد گاتے بجاتے اور ناچتے ہوئے ایک ایک یا دو دو کی صورت میں گھروں سے نکل کر ٹھاک والے راستے کو جا رہے تھے۔ یہ لوگ اب ایک بڑے گروہ کی صورت میں جمع ہو رہے تھے۔ ان میں کچھ افراد راستے پر آگے جا کر شیرنی کو کیمپ لانے کے کام میں مدد دینے کے لئے روانہ ہو گئے جبکہ بقیہ افراد میرے ساتھ کیمپ کو چل پڑے۔ اگر میں نے انہیں اجازت دی ہوتی تو وہ مجھے اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے۔ چونکہ پیش قدمی کافی سست تھی اور ہمیں بار بار راستے میں نئے آنے والے افراد کے لئے رکنا پڑتا جو اپنی عقیدت اور تشکر پیش کرنا چاہتے تھے۔ اس سے شیرنی کو لانے والے افراد کو اتنا وقت مل گیا کہ وہ بھی ہمیں کیمپ سے قبل آن ملے۔ گاؤں میں ہم سب اکٹھے داخل ہوئے۔ چونکہ میری زندگی کا بڑا حصہ جنگلوں میں گذرا ہے اس لئے میں لفظوں سے تصویر کشی نہیں کر سکتا کہ چکہ میں مجھے کتنی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ تاہم اس کی تفصیل مرتے دم تک میرے دل میں تازہ رہے گی۔

فوری طور پر بھوسے کا ایک گٹھڑ کھول کر پھیلانے کے بعد شیرنی کو اس پر رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد آس پاس سے خشک لکڑیاں جمع کر کے بہت بڑا الاؤ روشن کر دیا گیا کیونکہ رات بہت تاریک تھی اور شمال سے چلنے والی یخ بستہ ہوا اسے مزید تاریک اور سرد بنا رہی تھی۔ نصف شب کے قریب میرے ملازم نے ٹھاک کے نمبردار اور کنور سنگھ کی مدد سے مجمع کو گھروں لوٹ جانے کو کہا اور بتایا کہ اگلی صبح ان کے پاس شیرنی کو دیکھنے کا بہتر موقع ہو گا۔ روانہ ہونے سے قبل ٹھاک کے نمبردار نے مجھے بتایا کہ صبح کو وہ ٹھاک کے تمام باشندوں کو بلا بھیجے گا کہ ٹھاک اب محفوظ ہے۔ اس نے اپنی بات پر عمل بھی کیا اور دو دن ہی میں ٹھاک کی ساری آبادی واپس لوٹ گئی۔

نصف رات کو کھانا کھانے کے بعد میں نے کنور سنگھ کو بلا کر بتایا کہ اپنے گھر والوں سے کیے گئے وعدے کے مطابق مجھے چند گھنٹوں میں روانہ ہونا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ صبح کو لوگوں کو بتا دے کہ میں علی الصبح کیوں چلا گیا تھا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کرے گا۔ پھر میں نے شیرنی کی کھال اتارنا شروع کی۔ جیبی چاقو سے شیر کی کھال اتارنا بہت طویل اور کٹھن کام ہے تاہم اس سے مردہ جانور کے بارے ایسی تفاصیل دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے جو کسی اور طرح ممکن نہیں۔ یہ بات آدم خور جانور کے بارے بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے یہ جانور آدم خور کیوں بنا۔

یہ شیرنی نسبتاً نوعمر تھی اور ہر طرح سے تندرست تھی۔ اس کی کھال کے رنگ شوخ اور بے داغ تھی۔ اگرچہ شیرنی نے میرے باندھے ہوئے بھینسوں کو کھانے سے انکار کر دیا تھا تاہم اس کی کھال کے نیچے بہت چربی تھی۔ شیرنی کے جسم پر دو جگہوں پر بندوقوں کے زخم تھے جو کھال کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔ پہلا زخم اس کے بائیں شانے پر تھا جہاں گھر میں تیار کئے گئے چھرے لگے ہوئے تھے۔ یہ زخم خراب ہو کر پھر ٹھیک ہوا تھا۔ یہ زخم شیرنی کی حرکات و سکنات پر کس حد تک اثر انداز ہوا تھا، یہ کہنا مشکل ہے۔ تاہم اس کو بھرنے میں بہت وقت لگا ہو گا۔ شاید اسی کی وجہ سے شیرنی نے آدم خوری شروع کر دی ہو۔ دوسرا زخم اس کے دائیں شانے پر تھا اور یہ بھی دیسی چھروں سے لگا تھا۔ تاہم یہ زخم بغیر خراب ہوئے بھر گیا تھا۔ یہ دونوں زخم شیرنی کو اس کے شکار کردہ جانور پر مچان سے لگے تھے۔ یہ زخم شیرنی کی آدم خوری کی عادت سے قبل لگے تھے اور اسی وجہ سے شیرنی دوبارہ اپنے شکار کردہ جانور پر واپس نہ آئی تھی۔

شیرنی کی کھال اتارنے کے بعد میں نے غسل کیا اور کپڑے تبدیل کئے ٍ۔ اگرچہ میرا چہرہ سوجا ہوا تھا اور تکلیف بھی ہو رہی تھی تاہم میرے سامنے ۲۰ میل کا دشوار سفر تھا اور جب چکہ اور آس پاس ہزاروں افراد سکون کی نیند سو رہے تھے تو میں روانہ ہوا۔

جنگل اور اس سے متعلق کہانیاں جو میں نے اس کتاب میں آپ کو بتانی تھیں، اب ختم ہو گئی ہیں اور اس کے ساتھ ہی میرا آدم خوروں کے شکار کا سلسلہ بھی ختم ہوا۔

میں ٹھاک اور علاقے میں بہت دن رہا اور میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ دیگر افراد کی طرح میں یہاں سے کھاٹ پر سوار ہو کر نہیں نکلا۔

بہت بار ایسا ہوا ہے کہ جب زندگی کی ڈوری کٹتے کٹتے بچی ہے اور کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ مسلسل دباؤ کے سبب پیدا ہونے والی بیماریاں اور ان کے علاج کے لئے مناسب رقم کا نہ ہونا زندگی دشوار بنا دیتا ہے تاہم اگر میرے شکاروں سے ایک بھی انسان کی جان بچ گئی ہے تو میں اس کے لئے خود کو پوری طرح تیار پاتا ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

صرف شیر

 

 

میرا خیال ہے کہ ہر وہ شکاری جو شیروں کے شکار اور ان کی تصویر کھینچنے کے مشغلے آزما چکا ہے وہ یہی کہے گا کہ دونوں مشغلوں میں بہت فرق ہے۔ یہ فرق ایسا ہی ہے کہ جیسا ہلکی بنسی کی مدد سے کسی برفیلی ندی میں ٹراؤٹ کا شکار کرنا اور کسی تالاب کے کنارے چلچلاتی ہوئی دھوپ میں مچھلی پکڑنا۔

قیمت کے علاوہ بھی تصویر بنانے اور گولی چلانے میں یہ فرق ہے کہ تیزی سے کم ہوتی ہوئی شیروں کی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے شیروں کی کھال سے زیادہ ان کی تصویر اہم ہے۔ کھال صرف اس بندے کے لئے دلچسپی کا سبب ہے جو اس جانور کو مارتا ہے جبکہ تصویر سے ہر کوئی لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر فریڈ چیمپئن کو لے لیں۔ انہوں نے بہت سالوں سے رائفل کو چھوڑ کر کیمرے سے شیروں کا "شکار” کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے رائفل سے شکار جاری رکھا ہوتا تو ان کے شکار کردہ جانوروں کی تقریباً تمام ہی کھالیں وقت کے ساتھ ساتھ خراب ہو کر پھینک دی جاتیں جبکہ اب ان کے کھینچی ہوئی تصاویر پوری دنیا کے لئے دلچسپی کا سبب ہیں۔

انہی کی کھینچی ہوئی تصاویر کو ان کی کتاب "ود کیمرہ ان ٹائے گر لینڈ” میں دیکھ رہا تھا کہ میرے دل میں بھی شیروں کی تصویر کھینچنے کا شوق پیدا ہوا۔ ان کی کھینچی ہوئی تصاویر عام کیمرے سے فلیش کی مدد سے لی گئی تھیں۔ میرا ارادہ یہ ہوا کہ میں شیروں کی متحرک تصاویر یعنی فلمیں سورج کی روشنی میں بناؤں۔ میرے ایک بہت سخی دوست نے مجھے بیل اینڈ ہاول کمپنی کا بنا ہوا ۱۶ ملی میٹر کا وڈیو کیمرہ دیا تھا۔ یہ کیمرہ میری ضروریات کے لئے بالکل بہترین تھا۔ حکومت کی جانب سے مجھے کھلی اجازت تھی کہ میں ہتھیاروں کے ساتھ کسی بھی جنگل میں جا سکتا تھا اور کیمرے کی مدد سے میرے لئے نئے جہاں کھل گئے تھے۔ دس سال تک میں ان شیروں کے جنگلوں میں سینکڑوں کلومیٹر پھرتا رہا۔ کئی بار مجھے شیروں نے اپنے شکار کردہ جانوروں کے پاس جانے سے روکا اور شیرنی نے اپنے بچوں سے دور رکھنے کے لئے مجھے جنگل سے نکالا۔ اس عرصے میں میں نے شیروں اور ان کی عادات کے بارے تھوڑا بہت جانا۔ اگرچہ میں نے کم از کم ۲۰۰ مرتبہ شیروں کو نزدیک سے دیکھا تاہم ایک بار بھی میں تسلی بخش فلم نہ بنا سکا۔ بہت بار میں نے فلم بنانے کی کوشش کی لیکن نتائج خوشگوار نہ نکلے۔ کئی بار فلم میں روشنی کی مقدار بہت کم یا بہت زیادہ ہو جاتی اور کئی بار شیشوں پر گھاس پھونس یا مکڑی کے جالے لگنے کی وجہ سے فلم درست نہ بن پاتی۔ ایک بار فلم دھوتے وقت فلم جل کر پگھل گئی۔

۱۹۳۸ء میں بالآخر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ پوری سردیوں میں کم از کم ایک اچھی فلم بنانی ہے۔ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی سے میں نے یہ جان لیا تھا کہ چلتے چلتے کہیں بھی شیروں کی فلم بنانا ممکن نہیں۔ اس لئے میں نے پہلے ایک عمدہ جگہ چنی۔ یہ ایک ۵۰ گز چوڑی کھائی تھی جہاں ایک چھوٹی سی ندی درمیان سے گذرتی تھی اور دونوں اطراف گھنے درخت اور گھاس وغیرہ تھیں۔ کم فاصلے سے فلم بنانے کے دوران کیمرے کی آواز کو چھپانے کے لئے میں نے چند انچ اونچائی کی بہت ساری آبشاریں بنائیں۔ پھر میں نے شیروں کو گھوم پھر کر تلاش کیا اور ہر روز انہیں اپنے جنگلی سٹوڈیو کی طرف مائل کرنا شروع کیا۔ چونکہ اس علاقے میں شیروں کا شکار زوروں پر تھا اس لئے شیروں کو نظروں سے اوجھل رکھتے ہوئے میں انہیں مطلوبہ مقام تک لانے میں کامیاب ہو گیا۔ بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر ایک شیرنی اگلے ہی دن چلی گئی تاہم باقی کے چھ شیر ایک ساتھ رہے اور میں نے تقریباً ایک ہزار فٹ جتنی فلم بنائی۔ تاہم اس بار موسم سرما میں بہت بارشیں ہوئی تھیں اور کئی سو فٹ جتنی فلم بیکار گئی۔ پھر بھی کم از کم چھ سو فٹ جتنی فلم میں نے بنائی جس پر مجھے فخر ہے۔ اس میں چار نر شیر اور دو مادہ شیرنیاں جنگل میں اپنی فطری حرکات و سکنات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے دو نر شیر دس فٹ سے زیادہ لمبے تھے۔ا یک شیرنی سفید رنگ کی تھی۔ ان شیروں سے میرا فاصلہ ۱۰ فٹ سے ۶۰ فٹ تک رہا تھا۔

یہ سارا کام ساڑھے چار ماہ میں پورا ہوا اور اس دوران اپنی آبشاروں کے کنارے سے میں نے یہ فلم بنائی اور ایک بار بھی کسی شیر نے مجھے نہیں دیکھا۔

دن کی روشنی میں چھ شیروں کی نظروں سے بچ کر ان سے چند فٹ کے فاصلے پر آ کر چھپنا ممکن نہیں۔ا س لئے میں صبح روشنی ہونے سے قبل ہی آ کر چھپ جاتا تھا۔ سردیوں کی شبنم کی وجہ سے میری حرکات سے آواز نہیں پیدا ہوتی تھی اور جب بھی روشنی مناسب ہوتی میں فلم بنانا شروع کر دیتا تھا۔

۱۶ ملی میٹر کی فلم چاہے کتنی ہی صاف نہ دکھائی دے، ان سے تصاویر کو بڑا نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ساتھ موجود تصاویر سے آپ کو اس کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ میرا جنگلی سٹوڈیو کس نوعیت کا تھا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://shikariyat.blogspot.in/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید