FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

کلیم احسان بٹ کی ادبی خدمات

 

 

 

عمارہ لطیف

 

سیشن: ۱۷-۲۰۱۵ء

یہ مقالہ ایم۔ فل اُردو کی جزوی تکمیل اور حصولِ سند کے لیے شعبۂ اُردو میں جمع کرایا گیا۔

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

مقدمہ

 

موضوع کا تعارف

 

کلیم احسان بٹ جدید شعر و ادب کا ایک اہم نام ہیں۔ ان کے تخلیقی سفر کا آغاز تحقیق سے ہوتا ہے تاہم ان کی وجہِ شہرت شاعری ہے۔ ان کا تعلق گجرات کے نواحی علاقے جلال پور جٹاں سے ہے۔ اپنی تعلیم کی تکمیل اور ملازمت کا آغاز انھوں نے اِسی علاقے سے کیا۔

کلیم احسان کی دلچسپی کا مرکز شاعری ہے۔ اب تک شاعری کے حوالے سے ان کی تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا ان کی شاعری کے موضوعات بھی اسی طبقے کے گرد گھومتے ہیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ تحقیق کے حوالے سے بھی کلیم ادب میں اپنا الگ مقام بنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی پہلی تصنیف ’’گجرات میں اُردو شاعری‘‘ ہے جو گجرات کے علاقے میں اُردو شاعری کی ۴۴۴ سالہ تاریخ کے تحقیقی جائزے پر مشتمل ہے۔ اس میں انھوں نے ضلع گجرات کی ۴۰۰ سالہ علمی و ادبی خدمات کا جائزہ لیا ہے اور اُردو زبان خاص طور پر اُردو شاعری کے حوالے سے اس علاقے کی خدمات کو بڑے محققانہ انداز سے پیش کیا ہے۔ ضلع گجرات میں سینکڑوں ایسے شعراء موجود ہیں جنھوں نے نہ صرف علاقائی سطح پر بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی قابلیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اِس طرح اِس علاقے میں اُردو زبان کے فروغ اور اِرتقاء میں اِن کا حصہ قابلِ قدر ہے۔

کلیم احسان نے سوانح نگاری کے فن میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ اس حوالے سے ان کی تصنیف ’’ماں بیتی‘‘ قابلِ قدر کام ہے۔ اس کتاب کے موضوع سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اِس میں اپنی والدہ کی حیات کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ یہ سوانح جہاں ان کی والدہ کی حیات سے جڑے واقعات کو بیان کرتی ہے وہاں خود کلیم کی زندگی کے بھی بہت سے در وَا کرتی ہے۔

شاعری اور سوانح کے ساتھ ساتھ کلیم کی دلچسپی کا دوسرا بڑا موضوع تحقیق ہے۔ اپنے فنی سفر کا آغاز بھی انھوں نے تحقیق سے ہی کیا۔ ان کی پہلی تصنیف ’’گجرات میں اُردو شاعری‘‘ کے نام سے ہے، جو ان کے ایم۔ اے کی سطح کا مقالہ تھا مگر اپنی نوعیت اور موضوع کی بدولت ادبی حلقوں میں اِس تصنیف نے کافی پذیرائی حاصل کی۔ یہ کتاب ۱۹۹۴ء میں شائع ہوئی۔ تحقیق پر ان کی دوسری کتاب ’’ابر رحمت‘‘ تھی جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب در اصل تحقیق و ترتیب پر مبنی کتاب ہے۔ تصوّف کے موضوع پر مبنی اِس کتاب کے مصنف شیخ غلام محی الدین ہیں۔ کلیم احسان کے تحقیقی و تنقیدی ذوق نے اسے پردۂ گمنامی سے نکال کر منصہ شہود پر لانے کی خدمت سرانجام دی۔ یہ تحقیق کی طرف ان کے ذہنی اور قلبی میلان کا ہی نتیجہ تھا کہ انھوں نے اس مشکل کام کو نہ صرف کامیابی سے سر کیا بلکہ اُردو ادب میں ’’ابر رحمت‘‘ کے نام سے صوفیانہ تحریر بھی شامِل کی۔ تحقیق کے حوالے سے اب تک ان کی آخری شائع شدہ کتاب ’’تفہیم و تحسین‘‘ ہے۔ یہ کتاب در اصل ان تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے مختلف موضوعات پر لکھے اور مختلف جرائد و رسائل نے انھیں اپنی اشاعت کا حصہ بنایا۔ انھوں نے اپنے تمام مضامین میں سے کچھ موضوعات چُن کر اِس کتاب میں جمع کر دیئے ہیں جنھیں پڑھ کر کلیم کے ادبی و تحقیقی ذوق کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

 

سببِ انتخاب

 

اُردو ادب اپنے آغاز و اِرتقا کے سفر میں ان تمام لوگوں کا ممنون رہا ہے جنھوں نے کسی نہ کسی طور اس کے پیرایۂ اظہار کو اپنے خیالات و احساسات کی ترسیل کا ذریعہ بنایا۔ ان میں سے کچھ شخصیات بہت اہم ہیں لیکن بوجوہ پردۂ گمنامی میں ہیں۔ کچھ مشہور و معروف ہیں تو اکثر ابھی اس راستے پر اپنے سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔ جہاں تخلیق کا کام ایک مسلسل عمل ہے وہاں اس پر ہونے والی تحقیق بھی تسلسل کی متقاضی ہے۔ ادب سے تعلق رکھنے والے نامور اور منجھے ہوئے لوگوں پر جہاں کام ہو رہا ہے وہاں اِس کا حصہ بننے والے نئے لوگوں کو بھی موضوعِ تحقیق بنانا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ ادب کے خزانے میں شامِل ہونے والے جواہر پاروں سے بھی عوام الناس کو واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی نقطۂ نظر کے تحت راقمہ نے اُردو ادب کے اُبھرتے ہوئے ستارے پروفیسر کلیم احسان بٹ کو اپنے ایم۔ فل کے تحقیقی کام کا موضوع بنایا ہے۔ میرے مقالے کا عنوان ہے ’’کلیم احسان بٹ کی ادبی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘

پروفیسر کلیم احسان بٹ آج کل گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج راولپنڈی میں بحیثیت معلم اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے شاعری، سوانح نگاری اور تحقیق کے حوالے سے جتنا بھی کام کیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے، چنانچہ اُردو ادب میں شامِل ہونے والا نیا کام ادب کی کئی جہات سے روشناس کرواتا ہے۔ اس میں شامِل ہونے والے نئے لوگ تازہ خون کی مانند ہوتے ہیں جو ادبی سرگرمیوں کو توانا رکھنے میں ممّد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی بدولت جہاں ادبی سرگرمیوں کو فروغ ملتا ہے وہاں نئے لوگوں کو بھی اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ملتا ہے، چنانچہ اُردو کے اس نئے اُبھرتے ہوئے ستارے کی ادبی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے میری کوشش ہو گی کے ان تمام پہلوؤں کو اُجاگر کروں جن کی بدولت اُردو ادب کو ترقی نصیب ہوتی ہو اور ادب کی جن اصناف کو انھوں نے موضوع بنایا ہے ادب کو اس سے حاصل ہونے والے ثمرات کا قابلِ قدر تجزیہ کیا جا سکے۔

 

فریضۂ تحقیق

 

اُردو ادب میں نئے لوگوں کی شمولیت صحت مندانہ رویہ ہے۔ اس عمل سے ادب میں جمود کی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ تخلیق کے عمل میں تسلسل ہی زندگی ہے۔ اس سے نہ صرف ادبی سرگرمیوں کو فروغ ملتا ہے بلکہ اس کی نئی جہات بھی تخلیق کاروں کی دسترس میں آتی ہیں۔ یہی اِس کی خوبصورتی ہے اور یہی اس کے فروغ کا وسیلہ بھی۔ خاص طور سے جب کوئی نیا کام ادب کا حصہ بنے اور کوئی نئی شخصیت اس کام کو سرانجام دے تو علم و ادب سے شغف رکھنے والوں کے لیے لازمی ٹھہرتا ہے کہ وہ اس کے تمام پہلوؤں کے تجزیے اور توضیح میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ تحقیقی کام کے سلسلے میں نئے لوگوں کو موضوعِ بحث بنانا ادب کے لیے بہت سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلیم احسان بٹ جو اپنے تخلیقی اور تحقیقی کام کی بدولت اُردو ادب میں اپنا منفرد نام بنانے میں سرگرداں ہیں۔ ان کی شخصیت اور فنی کاوشوں کا جائزہ نہ لیا جانا خود ادب کے دامن کی وسعت پر سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔ انھوں نے جن اصناف میں کام کیا ہے وہ ادب میں ایک معیاری اور اچھا اضافہ گردانا جا رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً ان کا جو کام منصہ شہود پر آتا رہا اسے پذیرائی نصیب ہوتی رہی۔ لہٰذا ضروری معلوم ہوتا تھا کہ ان کے تخلیقی و تحقیقی کام پر مناسب بحث کی جائے تا کہ ان کی فنی کاوشوں کا بہتر انداز سے تجزیہ کیا جا سکے تاکہ تحقیق کے نئے راستے کھلیں اور اہلِ نقد و نظر ادب کی نئی جہات سے متعارف ہوں جس سے تحقیق کے نئے دَر وَا ہوں، چنانچہ کلیم احسان کی ادبی و فنی کاوشوں کا تجزیہ کرنے سے جہاں ان کی شخصیت اور کام کو سمجھنے میں مدد ملے گی وہاں یہ تجزیہ ادب میں تحقیق کے حوالے سے نئے مباحث کو جنم دینے کا باعث بن سکے گا۔

 

سابقہ کام کا جائزہ

 

کلیم احسان کی توجہ کا بنیادی مرکز شاعری ہے۔ اگرچہ تحقیق کے حوالے سے بھی وہ اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ اس سے پہلے ان پر نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (Numl) میں ایم۔ اے کی سطح کا تحقیقی مقالہ لکھا جا چکا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے:

چوہدری عثمان علی، کلیم احسان بٹ کی غزل گوئی کا تجزیاتی جائزہ، ایم۔ اے، شعبۂ اُردو، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد، جون، ۲۰۱۵ء

اس مقالے میں صرف ان کی شاعری کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے، جب کہ ان کے دوسرے پہلو جن میں نقد و نظر کو خصوصی اہمیت حاصل ہے موضوعِ بحث نہیں بنایا گیا۔ تحقیق کے حوالے سے ان کا کام ادب میں اپنا اہم مقام بنا رہا ہے۔ وہ مختلف جہات میں تحقیقی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایک طرف وہ مضامین کی صورت میں نئے اور پرانے شعراء اور ادباء کی فنی اور شخصی پہلوؤں کو اُجاگر کر رہے ہیں جن پر اس سے پہلے تحقیق کا کام نہیں ہوا یا پھر کچھ پہلو تشنہ ملتے ہیں تو دوسری طرف وہ ترتیب و تحقیق کا دقیق کام بھی سرانجام دے رہے ہیں جو ان کے تحقیق کی طرف قلبی و ذہنی رُجحان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سوانح نگاری کی صنف میں طبع آزمائی کر کے انھوں نے اپنے ایک اور فنی پہلو کو اُجاگر کیا ہے۔

اس سے بیشتر ان پر جو کام ہوا ہے اس میں ان کی شاعری کے فکری اور فنی پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ لہٰذا ’’کلیم احسان بٹ کی ادبی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ایم۔ اے، ایم۔ فل یا پی ایچ۔ ڈی کی سطح پر کام نہیں ہوا، چنانچہ شاعری کے فکری اور فنی پہلو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ لازمی ہے کہ کلیم احسان کی فنی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی زیرِ بحث لایا جائے۔ اس میں تمام میسر مواد زیرِ بحث لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس موضوع پر مزید کام کی گنجائش بہرحال باقی رہے گی۔

 

منہجِ تحقیق

 

تحقیقی کام آبِ رواں کی مانند ہے جس میں ٹھہراؤ اور جمود کا تصوّر بھی محال ہے۔ اس کا رواں دواں رہنا زندگی کی علامت ہے۔ تحقیقی کام کا جاری و ساری رہنا ہی تخلیقی کام کی پرورش اور پرداخت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسے کسی بھی تحقیقی کام کو آخری نہیں مانا جا سکتا۔ اس میں مزید تحقیق کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ اس مقالے میں میری تحقیق کے پہلوؤں میں کلیم احسان کی شخصیت کا تجزیہ اس کے ساتھ ساتھ سوانح نگار اور محقق کی حیثیت سے ان کی فنی کاوشوں کا جائزہ شامِل ہے۔

 

ابواب بندی

 

یہ مقالہ پانچ ابو اب پر مشتمل ہے: پہلا باب کلیم احسان کی سوانح اور شخصیت کے جائزے پر مشتمل ہے جس میں ان کی زندگی کے حالات و واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان حالات سے ان کی شخصیت و فن پر پڑنے والے اثرات پر تبصرہ شامِل ہے۔

دوسرے باب میں کلیم احسان پر بطور شاعر بحث کی گئی ہے۔ اس میں ان کی شاعری کے فکری اور فنی پہلوؤں کا بحیثیت مجموعی جائزہ لیا گیا ہے۔

تیسرا باب کلیم احسان کی سوانح نگاری پر مشتمل ہے۔ اس باب میں ان کے فن کا بطور سوانح نگار جائزہ لیا گیا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ ان کی سوانح کس حد تک سوانح نگاری کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔

چوتھے باب میں کلیم احسان کو بطور محقق موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ بحیثیت محقق ان کی تین کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں جن میں پہلی کتاب ’’گجرات میں اُردو شاعری‘‘ ہے جس میں ضلع گجرات کی ۴۴۴ سالہ ادبی و علمی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۹۴ء میں منظرِ عام پر آئی۔ اس کے بعد ان کی تحقیق و ترتب پر مبنی کتاب ابر رحمت کا جائزہ لیا گیا ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ یہ در اصل شیخ غلام محی الدین کی تصنیف ہے مگر کلیم احسان نے تحقیق و ترتیب کے ذریعے اسے جدید قاری کی تفہیم کے قابل بنایا ہے۔ اس کے بعد ان کی تحقیقی و تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب تفہیم و تحسین کے نام سے شائع ہوئی۔ لہٰذا ان کتابوں کی روشنی میں ان کے تحقیقی و تنقیدی پہلوؤں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

 

مشکلات و مصائب

 

اس مقالے کی تیاری میں درپیش مسائل میں سے اہم موضوع کے حوالے سے متعلقہ مواد کی فراہمی اور کتابوں کی دستیابی تھا چنانچہ کچھ کتابیں پروفیسر کلیم احسان بٹ نے خود مہیا کر دیں جب کہ کچھ کتب گجرات کے پبلشرز سے بذریعہ ڈاک حاصل کی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی لائبریری سے بھی اس حوالے سے اِستفادہ کیا گیا اور وہاں دستیاب کتب سے حتی المقدور متعلقہ مواد کا حصول ممکن بنایا گیا۔ اس سلسلے میں جناب طارق محمود ہاشمی صاحب نے بھی موضوع کا احاطہ کرتی بہت سی کتابیں حوالے کے لیے بروقت مہیا کر دیں جس سے کافی رہنمائی حاصل ہوئی۔ لہٰذا ان تمام وسائل کی مدد سے مقالے کے حوالے سے درپیش مسائل پر قابو پانے کی ہر ممکن سعی کی گئی۔

 

طریقۂ تحقیق

 

راقمہ نے اس مقالے کی تیاری میں ان تمام اصول و ضوابط کی پابندی کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے جنھیں جامعہ کی جانب سے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ابو اب بندی، مواد کی پیش کش کا انداز اور حوالہ جات کے اِندراج میں جامعہ کی طرف سے تفویض کردہ طریقۂ کار کی بہرطور پیروی کی گئی ہے۔

 

اظہارِ تشکر

 

سب سے پہلے میں خدائے ذوالجلال کی بے حد ممنون و مشکور ہوں جس کی رحمتوں اور برکتوں کے سبب مجھے اس مقالے کو پایۂ تکمیل تک پہچانے کا موقع نصیب ہوا۔ اس کے بعد میں محترم پروفیسر ڈاکٹر طارق محمود ہاشمی صاحب کی بے حد ممنون ہوں جن کی مشفقانہ رہنمائی اِس مقالے کے آغاز سے اِختتام تک میری ممد و معاون رہی اور مجھے اپنی غلطیوں کی اِصلاح کا بخوبی موقع میسر آیا۔ ان کی بصیرت افروز رہنمائی کے بغیر اس مقالے کی بروقت اور بخوبی تکمیل میرے لیے خواب کا سا تھا۔

میں پروفیسر کلیم احسان بٹ صاحب کا بھی شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتی ہوں جنھوں نے مواد کی فراہمی میں میری ہر ممکن رہنمائی فرمائی اور تمام میسر مواد بغیر حیل و حجت مقالے کی تیاری کے لیے مہیا کیا۔ بعد ازاں پروفیسر اطہر قسیم صاحب کی بھی ممنون ہوں جن کی بدولت موضوع تک رسائی اور مناسب رہنمائی میسر آ سکی۔

بعد ازاں میں اپنے ہم سفر محمد کیف حمید کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جنھوں نے نہ صرف اس تحقیقی کاوش کے آغاز کے لیے میری حوصلہ افزائی کی بلکہ اس کی تکمیل کے تمام مراحل میں ہر پہلو سے میری مکمل معاونت کی جس سے میں اس مقالے کی تکمیل میں کامیاب ہو سکی اور اپنی پیاری بیٹی سارہ کیف کی جس کے ننھے ہونٹ میری کامیابی کے لیے ہر دم دُعاگو رہے۔ تمام عزیز و اقارب اور دوستوں کا جن کی حوصلہ افزائی میرے اندر ہر موڑ پر بلند حوصلگی پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی رہی۔

اپنی ساری گفتگو کو سمیٹتے ہوئے میں صرف اتنا عرض کروں گی کہ میں اپنے اِس تحقیقی مقالے کے ضمن میں کوئی بلند بانگ دعویٰ کرنے کی ہرگز اہل نہیں ہوں۔ یہ میری حقیر سی طالب علمانہ کاوش ہے مجھے قوی اُمید ہے کہ اہلِ نقد و نظر اس میں میری طرف سے سرزد ہونے والی لغزشوں اور کوتاہیوں کو مثبت انداز سے دیکھتے ہوئے اِصلاح کے نقطۂ نظر سے میری رہنمائی فرمائیں گے۔ میں ان تمام لوگوں کی ممنون ہوں گی جو اس مقالے کو پڑھیں گے اور اس کے معیار کے حوالے سے اپنی آراء سے مطلع فرمائیں گے۔

 

عمارہ لطیف

 

 

 

 

باب اوّل

 

 

کلیم احسان بٹ۔ سوانح و شخصیت

 

ادب کے میدان میں روز افزوں ایسی شخصیات کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جن کی بدولت ادب کو نیا رنگ و روپ نصیب ہوتا ہے اور اس کا دامن، نت نئی تصانیف سے بھرتا جاتا ہے۔ ان کی حیثیت جسم میں شامل ہونے والے نئے خون کی مانند ہوتی ہے۔ جس سے اُسے توانائی اور تازگی ملتی ہے۔ ان نئی شامل ہونے والی شخصیات میں ایک نام ’’کلیم احسان بٹ‘ ‘کا بھی ہے۔

’’کلیم احسان بٹ‘‘ علمی و ادبی حلقوں میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ ان کی شاعری اور تحقیق و تنقید کے میدان میں ان کی صرف سے کی جانے والی مختلف کاوشیں ہیں۔ ان سب حیثیتوں کے ساتھ ساتھ وہ زیرک ماہر تعلیم بھی ہیں۔

 

خاندانی پس منظر

 

کلیم احسان بٹ کا خاندان کشمیر سے ہجرت کر کے پنجاب آ کر آباد ہوا جہاں انھوں نے کشمیری مصنوعات کا کاروبار شروع کر دیا۔ اُن کے دادا کا نام قمردین بٹ تھا۔ جنھوں نے قلعہ اسلام گڑھ جلال پور جٹاں میں سکونت اختیار کی تھی۔ اُن کے نانا کا نام شیخ خان محمد تھا۔ انھوں نے بھی کشمیر سے آ کر محلہ شیخاں جلال پور جٹاں میں رہائش اختیار کی۔

شیخ کرم دین جلال پور جٹاں میں کشمیری مصنوعات کے ایک بہت بڑے تاجر تھے ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ ان میں سے ایک بیٹی کا نام ’’جیواں بی بی‘‘ اور دوسری بیٹی کا نام ’’آمنہ بی بی‘‘ تھا۔ جیواں بی بی کی شادی قمر دین بٹ سے طے ہوئی اور شادی کے بعد قمر دین بٹ جلال پور جٹاں میں اس مکان میں چلے آئے جو انھیں شیخ کرم دین نے جہیز میں دیا تھا۔ قمر دین بٹ کی واحد اولادِ نرینہ احسان اللّٰہ بٹ تھی۔ وہ خاطر خواہ تعلیم حاصل نہ کر سکے اس کی وجہ ان کا اکلوتا پن تھا۔ جس کی وجہ سے انھیں بے پناہ لاد پیار ملا مگر حد سے بڑھے ہوئے لاڈ پیار اور ضرورت سے زیادہ توجہ نے انھیں خراب کر دیا اور یوں وہ تعلیم مکمل نہ کر سکے۔

شیخ کرم دین کی دوسری بیٹی آمنہ بی بی کی شادی کے معزز کشمیری خاندان کے چشم و چراغ شیخ جان محمد سے ہوئی شیخ جان محمد کی آمنہ بی بی سے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوا۔ ان میں سب سے چھوٹی بیٹی نشاط افزاء کی شادی احسان اللّٰہ بٹ سے ہوئی۔

احسان اللّٰہ بٹ اور نشاط افزاء کی پانچ اولادیں ہوئیں۔ گجرات ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کلیم احسان بٹ اپنے بہن بھائیوں کے بارے میں کچھ یوں بتاتے ہیں:

’’میرے والد اور والدہ آپس میں خالہ زاد تھے۔ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، اس کے باوجود انھوں نے ہم بہن بھائیوں کی تعلیم کے لیے بہت کوششیں کی۔ میرے والد تمام عمر مختلف قسم کے چھوٹے موٹے کاروبار اور محنت مزدوری کرتے رہے۔ والدہ کا خاندان بہت پڑھا لکھا تھا۔ اس لیے انھوں نے بچوں کی تعلیم کا زیادہ شوق تھا۔ ہم پانچ بہن بھائیوں میں میرے علاوہ تین بہنیں اور ایک بھائی مجھے خوشی ہے کہ سب بہن بھائیوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں اپنی والدہ کے لیے عزت اور فخر کا باعث بن سکا۔ ‘‘(۱)

 

پیدائش

 

کلیم احسان بٹ ۵دسمبر ۱۹۶۴ء میں پیدا ہوئے۔ ان سے متعلقہ تمام کاغذات میں یہی تاریخ پیدائش درج ہے۔ کلیم احسان اپنی کتاب ’’گجرات میں اُردو شاعری‘‘ میں اپنے تعارف کے سلسلہ میں اپنی تاریخ پیدائش ۵ دسمبر ۱۹۶۴ء لکھتے ہیں:

روزنامہ گجرات ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وہ اپنی تاریخ پیدائش کے حوالے سے کچھ یوں بتاتے ہیں:

’’کاغذات میں تاریخ پیدائش ۵ دسمبر ۱۹۶۴ء ہے مگر اصل درست تاریخ ۵ دسمبر ۱۹۶۵ء ہے۔ ‘‘(۲)

مسرور انور نے مجلہ شاہین میں کلیم احسان بٹ کا خاکہ لکھتے ہوئے تاریخ پیدائش کا ذکر کچھ یوں کیا ہے:

’’اسم با مسمی ہیں یعنی بہت بولتے ہیں ۵ دسمبر ۱۹۶۵ء کو اس دنیا میں آئے لیکن کاغذات میں ایک سال پہلے پیدا ہوئے ان کی پیدائش پر پاکستان اور ہندوستان نے مل کر آتش بازی کی‘‘(۳)

لیکن چونکہ ان سے متعلقہ تمام کاغذات میں ان کی تاریخ پیدائش ۵ دسمبر ۱۹۶۴ء میں لہٰذا وہ بھی اسی تاریخ پر اصرار کرتے ہیں۔

 

تعلیم

 

کلیم احسان بٹ نے اپنی تعلیم کا آغاز روایتی انداز سے کیا۔ انھوں نے معاشرتی رسم و رواج کے مطابق مقامی سکول اور مدرسے سے تعلیم کا آغاز کیا اور ترقی کرتے کرتے کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم حاصل کی اور اس میں امتیازی مقام پیدا کیا۔ اس سلسلے میں وہ اپنی والدہ کے بے حد ممنون ہیں جنھوں نے کلیم احسان کی تعلیم میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ مشکل حالات سے گزر کر آج اس مقام تک پہنچنے میں ان کی والدہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے جس کا اعتراف وہ اپنی تصانیف میں بڑی عقیدت اور محبت سے کرتے ہیں۔

گجرات ٹائمز کو انٹرویو میں انھوں نے کہا:

’’والدہ کا خاندان بہت پڑھا لکھا تھا اس لیے انھیں بچوں کی تعلیم کا زیادہ شوق تھا۔۔ ۔ مجھے خوشی ہے کہ سب بہن بھائیوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں اپنی والدہ کے لیے عزت و فخر کا باعث بن سکا۔ ‘‘(۴)

اسی طرح وہ اپنی کتاب ’’ماں بیتی‘‘ میں اپنی والدہ کی کاوشوں کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

’’ہم بہن بھائیوں نے زندگی میں کیا کھویا اور کیا پایا اس سے در کنار ایک بات طے ہے کہ امی نے تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ وہ اس پرانے مقولے پر عمل پیرا تھیں کہ کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے۔ ‘‘(۵)

انھوں نے میٹرک ۱۹۸۲ء میں گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول نمبر ۲ جلال پور جٹاں سے کیا۔ گجرات ٹائمز میں اپنی سکول کی زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے انھوں نے کہا:

’’شعر کہنا میں چھٹی سا تویں جماعت سے شروع کر دیا تھا۔ اور سکول کے مابین ہونے والے مختلف مقابلوں میں شعر سنایا بھی کرتا تھا۔ میرے مقابلے میں کوئی شاعر نہیں ہوتا تھا اور مجھے ننھا منھا شاعر کہہ کر اسٹیج پر بلایا جاتا تھا۔ ‘‘(۶)

وہ مزید کہتے ہیں:

’’اپنے اُردو کے استادوں سے شعر کی اصلاح بھی لیتا مگر ان میں کوئی بھی شاعر نہ تھا بہر حال ان کی اصلاح سے میری حوصلہ افزائی کافی ہوتی تھی۔ ‘‘(۷)

میٹرک کے بعد کلیم احسان بٹ نے پنجاب کی معروف علمی درسگاہ زمیندار کالج گجرات میں داخلہ لیا۔ ۱۹۸۷ء میں زمیندار کالج سے بی۔ اے کا امتحان پاس کرنے کی بعد انھوں نے ایم۔ اے اُردو میں زمیندار کالج میں داخلہ لے لیا اور ۱۹۸۹ء میں ایم۔ اے اُردو کا امتحان امتیاز حیثیت سے پاس کیا اور اس میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔

دورانِ تعلیم انھیں بہت مخلص اور پیار کرنے والے دوست نصیب ہوئے جنھوں نے تعریف و تحسین کے ساتھ ساتھ تعمیری تنقید کے ذریعے ان کی بہت ہمت افزائی کی۔ سکول کے دوستوں میں شیخ عامر اسلام، ظہیر احمد، صابر نسیم، چوہدری سعید احمد، میر عمران شاہ، میاں امتیاز احمد اور منیر احمد میر وغیرہ شامل تھے۔ یہ تمام دوست احباب مختلف مجلسوں میں کلیم احسان بٹ کی شاعری کو متعارف کرواتے اور سراہتے بھی تھے۔ زمیندار کالج میں اکثر دوست ان کے ہم جماعت تھے اور اُن کے ساتھ ساتھ مزید نئے رفقاء بھی اس مجلس میں شامل ہوئے جن میں سید عقیل عباس اور رشید حسین شاہ زیادہ اہم ہیں۔

رشید حسین شاہ جو کہ خوش گلو تھے وہ ان کی غزلیں گایا کرتے تھے جس کی بدولت کلیم احسان کے کلام اور خود ان کو کافی شہرت ملی اور ادبی حلقوں میں انھیں جانا جانے لگا۔

کالج کے زمانہ میں علمی اور ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حوالے سے گجرات ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے بتایا:

’’جی ایک ادبی تنظیم طارق محمود احسن صاحب نے بنائی تھی۔ جس کے باقاعدہ اجلاس ہوتے تھے۔ آج کل وہ لاہور میں ماڈل ٹاؤن لائبریری میں ہوتے ہیں۔ زمیندار کالج میں پروفیسر منیر الحق کعبی نے طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے تنظیم پروگریسو رائٹرز فورم بنائی تھی اس میں شرکت کرتا تھا۔ مگر میرا عمومی رویہ ادبی تنظیموں میں شرکت سے اجتناب کا ہی رہا ہے اور آج بھی بہت سے ادبی گروہوں میں اچھے تعلقات کے باوجود میں کسی ادبی گروہ یا تنظیم کا حصہ بننے سے گریز کرتا ہوں۔ ‘‘(۸)

چنانچہ سکول کے زمانہ میں طارق محمود احسن صاحب کو ادبی تنظیم نے ان کی ذہنی پرداخت میں بڑا اہم کردار ادا کیا اور شاعری کا ننھا سا بیج جو ان کے معصوم ذہن میں بن چکا تھا اسے تنا آور اور پھل دار درخت بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ کالج میں پروفیسر طارق محمود، پروفیسر الرحمان سیفی، پروفیسر منیر الحق کعبی ادب کی ترقی میں بہت فعال ارکان کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔

کالج کی سطح پر بزمِ اقبال اور شاعری کے حوالے سے مختلف تقاریب اور مقابلہ جات ہوتے جن میں کلیم احسان بٹ کو شریک ہو کر اپنی ادبی استعداد میں خاطر خواہ اضافہ کا موقع میسر آتا۔

 

ذریعہ معاش

 

کلیم احسان بٹ اپنی کتاب ’’ماں بیتی‘‘ میں واضح الفاظ میں بتاتے ہیں کہ نامساعد گھریلو حالات کے باوجود ان کی والدہ نے تعلیم جاری رکھنے میں ان کی خاطر خواہ مدد کی۔ اس کے برعکس ان کے والد نے انھیں بیچلرز کی ڈگری کے بعد کوئی ملازمت تلاش کرنے پر اکسایا۔

مگر انھوں نے اس وعدے کے ساتھ کہ ’’جیسے ہی نوکری ملی تعلیم چھوڑ دوں گا۔ ‘‘اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت لے لی۔

’’میں نے ابا سے وعدہ کیا کہ آپ میری نوکری کے لیے کوشش کر کے دیکھو۔ جب بھی نوکری کا بندوبست ہو گیا میں تعلیم ادھوری چھوڑ دوں گا۔ ‘‘(۹)

تعلیم کے میدان میں اعلیٰ کار کردگی کی بدولت انھیں دوبارہ تعلیم چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ مگر وہ ایک احساس انسان ہونے کی بدولت اپنے گھر کی مسائل سے بخوبی آشنا تھے۔ اس لیے انھوں نے ایم۔ اے اُردو کا نتیجہ آنے سے قبل گورنمنٹ عبدالحق اسلامیہ کالج جلال پور جٹاں میں اعزازی طور پر پڑھانا شروع کر دیا۔ ۱۹۹۱ء میں اسی کالج میں کنٹریکٹ پر ان کی بھرتی ہو گئی مابعد ۱۹۹۴ء میں پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ زمیندار کالج گجرات میں تعلیمی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے۔ اسی کالج میں وہ دسمبر ۲۰۱۰ء تک تعلیمی خدمات میں معروف رہے یہاں تک کہ بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر ترقی کرتے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج راولپنڈی میں تعینات ہوئے اور فی الوقت اسی کالج میں اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں بر سر پیکار ہیں۔

 

ادبی سفر

 

کسی بھی ادیب یا شاعر کے ادبی سفر کے آغاز کے حوالے سے حتمی طور پر نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے کس سال، مہینے، دن یا گھنٹے میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ کیونکہ تخلیق کا عمل ایک مسلسل ارتقاء کا نام ’’جو نا معلوم وقت پر شروع ہوتا ہے اور پھر اپنی بساط کی مطابق آگے بڑھتا رہتا ہے۔

کلیم احسان کے ادبی سفر آغاز کے حوالے سے بھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی لیکن ان کی سوانح، اور انٹرویو اور دوسری کتابوں کی مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے سکول کے زمانے سے ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ وہ چھٹی سا تویں، جماعت میں تھے جب انھوں نے شعر کہنا شروع کر دیئے تھے۔ یہ ارتقائی سفر جس عمر سے شروع ہوا وہ بھی نا پختہ تھی اور پھر انھیں ایسے لوگ بھی میسر نہیں تھے جو اصلاح کر سکیں لیکن اتنا ضرور تھا کہ ان کی حوصلہ افزائی بہت ہوئی اور ان کے مطابق انھیں سکول کے مختلف پروگراموں میں ننھا منھا شاعر کہہ کر سٹیج پر بھلایا جاتا تھا۔

ان باتوں سے ان میں لکھنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ البتہ وہ بتاتے ہیں کہ سکول کے زمانے میں وہ رئیس امروہوی کو اپنی غزلیں اصلاح کے لیے بذریعہ ڈاک بھیجتے تھے مگر ان کی وفات کے ساتھ یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔

زمیندار کالج گجرات میں انھیں شاعری کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع میسر آیا۔ یہاں ایسے اساتذہ موجود تھے جنھوں نے اصلاح کا کام بھی کیا اور ساتھ ساتھ حوصلہ بھی بڑھایا۔ دوستوں کے سلسلے میں بھی وہ خود کو خوش قسمت گردانتے ہیں۔ جنھوں نے تعریف و تحسین کے ذریعے ان کی ہمت بندھائی ان کے حلقہ اربابِ میں ایک دوست رشید حسین شاہ بھی تھے جو خوش گلو تھے۔ وہ ان کی غزلیں کمپوز کر کے کالج کی مختلف مجالس میں گایا کرتے تھے۔

کلیم احسان اپنی ادبی زندگی میں ادبی تنظیموں، جرائد اور رسائل سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ زمیندار کالج گجرات کے ادبی مجلہ ’’شاہین‘‘ کے مدیر رہے مابعد گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج راولپنڈی کے ادبی مجلہ ’’اورنگ‘‘ کی مجلس ادارت کا حصہ بن گئے۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ان کی پہلی غزل اسلام آباد سے شائع ہونے والے رسالے ’’مکتب‘‘ میں شائع ہوئی یہ ۸۳۔ ۱۹۸۲ء کی بات ہے۔

اس ادبی سفر میں انھیں مصائب بھی برداشت کرنا پڑے۔ اوّل اوّل کتاب چھپوانے کے لیے وسائل موجود نہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا دوستوں کے ساتھ مل کر کوئی راستہ نکالا جاتا۔ اپنے دوست پروفیسر ارشد محمود( شعبہ پنجابی) کے مشورہ سے پہلی کتاب اپنی سلامی کے پیسوں سے چھپوائی۔ دوسری کتاب کے لیے کالج سے قرضہ لیا۔ ’’ابر رحمت‘‘ کی اشاعت کے لیے شیخ محی الدین کے مریدین نے اخراجات برداشت کیے۔

اس طرح کلیم احسان بٹ نے بہت پہلے جس ادبی سفر کا آغاز کیا اس میں آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ یہ سفر اب بھی جاری ہے۔ ان کی بہت سی کتابیں زیرِ تکمیل ہیں جن میں تنقیدی مضامین، طنز و مزاح اور افسانوی مجموعہ شامل ہے۔

 

تصانیف

 

کلیم احسان بٹ کی جو کتابیں اب تک منظرِ عام پر آ چکی ہیں ان میں سب سے پہلی کتاب ’’گجرات میں اُردو شاعری‘‘ ہے۔

یہ کتاب گجرات کے اُردو شعراء کا تذکرہ ہے۔ اس میں گجرات کی ۴۴۴ سالہ علمی ادبی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اسے ناوک پبلشرز نے جلال پور جٹاں سے ۱۹۹۶ء میں شائع کیا۔ اس کا انتساب ان کی والدہ اور نانی اماں کے نام ہے۔

ان کی دوسری کتاب کا نام ’’موسم گل حیران کھڑا ہے ‘‘ یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ۱۳۷ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ غزلیات کا مجموعہ ہے جس میں ایک حمد، ایک نعت، ایک سلام اور کچھ جزویات بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ایک نظم بھی اس کتاب کا حصہ ہے کلیم احسان نے اس میں ’’اپنی تلاش کا سفر‘‘ کے نام سے ایک مضمون لکھا ہے۔ ان کے علاوہ طارق محمود، سیف الرحمان سیفی، شیخ عبدالرشید، شاہین مفتی، شریف کنجاہی کی آراء بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔ اس کا انتساب ان کے بھانجے منیب زیب کے نام ہے۔

تحقیق کے حوالے سے ان کی کتاب ۲۰۰۴ء میں منظرِ عام پر آتی ہے۔ اس کتاب کا نام ’’ابرِ رحمت‘‘ ہے۔ اسے روزن پبلشرز نے شائع کیا۔ اس کا انتساب ان کی والدہ کے نام ہے۔

۲۰۰۵ء میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا۔ ’’چلو جگنو پکڑتے ہیں ‘‘ کے نام سے یہ کتاب روزن پبلشرز نے شائع کی اس کا انتساب ان کی اہلیہ کرن کلیم کے نام ہے۔

۲۰۰۶ء میں انھوں نے اپنی تحقیق کے حوالے سے کتاب ’’ابرِ رحمت‘‘ کا دوسرا حصہ لکھا جسے روزن پبلشرز نے ہی شائع کیا۔

تحقیقی و تنقیدی مقالات کے حوالے سے ان کی کتاب ’’تفہیم و تحسین‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آئی جسے روزن پبلشرز نے گجرات سے ۲۰۰۸ء میں شائع کیا۔

کلیم احسان بٹ کی شاعری کا تیسرا مجموعہ تھا ’’حیرت باقی رہ جاتی ہے ‘‘ یہ اب تک کا آخری شعری مجموعہ ہے جسے روزن پبلشرز نے ۲۰۱۱ء میں گجرات سے شائع کیا۔

مجموعی طور پر اب تک شائع ہونے والی ان کتابوں میں آخری کتاب ’’ماں بیتی‘‘ ہے۔ یہ ایک سوانح ہے۔ اسے بھی روزن پبلشرز نے ۲۰۱۴ء میں شائع کیا۔

 

ازدواجی زندگی

 

کلیم احسان بٹ کی ازدواجی زندگی کا آغاز کرن کلیم احسان کے ساتھ ۲۴ دسمبر ۱۹۹۶ء کو رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے سے ہوتا ہے۔ کرن کے ساتھ ان کا یہ سفر بارہ سالوں پر محیط ہے مگر اس سفر میں انھیں ایک بڑے دکھ کا سامنا کرنا پڑا اور وہ تھا اولاد کا نہ ہونا۔ اس بات کا ذکر وہ کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

’’سب کے ہاں اولاد ہوئی صرف میں بچا تھا۔ حالانکہ امی کرن کو اس امید کے ساتھ بیاہ کے لائی تھیں کہ وہ جلد ہی ہمارے گھر کو اولاد کے معاملے میں خوشیوں سے بھر دے گی۔ ‘‘(۱۰)

اسی کتاب میں ایک اور جگہ انھوں نے لکھا ہے:

’’میں نے امی اور کرن سے بات کی کیوں نہ ہم یتیم بچوں میں سے کسی کو پال لیں۔ نیکی کی نیکی ہو جائے گی اور ہمارا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا کسی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ سب کا خیال تھا کہ اگر کسی بچے کو پالنا ہی ہے تو وہ اپنے خاندان سے ہونا چاہیے۔ ‘‘(۱۱)

اس حوالے سے وہ مزید لکھتے ہیں:

’’۹؍جولائی ۲۰۰۵ء کو اسماء(بہن) کے گھر دوسری بیٹی حفصہ پیدا ہوئی اسما نے بھی کرن کو پیش کش کی کرن کے دل کو بھی یہ بات بھائی۔ حفصہ ابھی دو تین مہینے کی تھی اور اسے اپنے طرز سے پالنا آسان تھا۔۔ ۔ سوچ بچار اور بحث و تمحیص کے بعد میں نے حفصہ کو گود لینا منظور کر لیا۔ ‘‘(۱۲)

اولاد کا دکھ کچھ کم ہوا ہی تھا کہ کلیم احسان کی زندگی کو ایک اور بڑا دھچکا لگا کرن کلیم احسان کے ساتھ بارہ سالہ رفاقت کا سورج ایک دن اچانک ۹ جولائی ۲۰۰۹ء کو ان کی وفات کی ساتھ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔

حالات سے لڑتے، خود کو سنبھالتے کلیم احسان نے ۷؍اگست ۲۰۱۰ء کو ثمینہ کلیم سے دوسری شادی کر لی۔ جس سے ان کے ہاں ایک بیٹی نشاط کلیم پیدا ہوئی۔ اس طرح اب ان کی دو بیٹیاں ہیں حفصہ کلیم احسان اور نشاط کلیم احسان۔

 

اعزازات

 

انھیں اب تک جن اعزازات سے نوازا گیا ان میں نشانِ گجرات، روزن انٹرنیشنل ایوارڈ، اسلام گڑھ لائبریری ایوارڈ، شریف کنجاہی ایوارڈ، سفینہ ادب ایوارڈ، گوجرانوالہ اور انٹرنیشنل ایوارڈ لاہور وغیرہ شامل ہیں۔ ادب کی دنیا میں وہ جس لگن اور جذبے کے ساتھ محو سفر ہیں توقع بعید کی جا سکتی ہے کہ وہ جلد ہی قومی سطح پر بھی اعزازات سے نوازے جائیں گے۔

ان کی شخصیت، عادات اور اخلاق کے بارے میں مسرور انور لون اپنے خاکہ میں لکھتے ہیں:

’’ان کی باتیں اور اشعار با وزن ہوتے ہیں۔ ان کی آواز اور ارادے بلند ہیں، کھرے آدمی کو پسند کرتے ہیں، خود بھی کھرے ہیں۔ سگریٹ اور دو غلے لوگوں سے نفرت ہے۔ سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ کبھی سٹیٹس کے چکروں میں نہیں پڑے۔ استاد ہونے کے علاوہ استاد آدمی بھی ہیں۔ بات کو پیار ہی سے منوا لیتے ہیں۔ ‘‘(۱۳)

وہ سیدھے اور کھرے غرض کہ نرم مزاج انسان ہیں جو دکھاوے اور ریاکاری سے دور بھاگتے ہیں۔ اپنے طبقے میں رہتے ہوئے اپنے جیسے لوگوں کے دکھوں اور مسائل کو اپنی شاعری اور تحریروں میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ حساس طبیعت کے مالک ہیں۔ اپنی شاعری میں معاشرتی مسائل کا کھل کر اظہار کرتے ہیں اور ہر اس پہلو پر نظر ڈالتے ہیں جسے عام انسان نظر انداز کر دیتا ہے۔ انسانی رویوں کی تلخیوں اور معاشرتی اقدار کی پامالی کا اظہار ان کی شاعری میں جا بجا ملتا ہے۔ وہ ایک درد مند دل رکھنے والے انسان ہیں۔ اسی لیے وہ مسائل کے بیان کے ساتھ ساتھ ان کے حل پر بھی زور دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ہمیں ان کی شخصیت کے تمام پہلو واضح انداز میں نظر آتے ہیں۔

 

شخصیت

 

کسی شاعر اور تخلیق کار کی شخصیت کا اندازہ لگانے کے لیے اس کے کام خاص طور پر اس کی شاعری کو بنیاد بنایا جاتا ہے اور اسی شاعری کے توسط سے اس کے لکھنے والے کو سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے کیونکہ کوئی بھی تحقیق اپنے خالق کا کسی نہ کسی حد عکس ضرور ہوتی ہے۔ مگر کسی بھی انسان کی شخصیت کے ہزار ہا پہلو ہوتے ہیں جو پرت در پرت غلاف کی مانند ہوتے ہیں کہ جس قدر وا ہوتے جاتے ہیں نئے سے نئے پہلو منظرِ عام پر آتے جاتے ہیں۔

کلیم احسان بٹ صرف شاعری ہی نہیں بلکہ ایک دانشور، محقق اور ماہر تعلیم بھی ہیں۔ اس لحاظ سے ان کی شخصیت ہمیشہ جہت ہے۔ مگر ان سب کے باوجود کلیم احسان سے مل کر ان کی شخصیت کا جو مجموعی تاثر ابھرتا ہے وہ تحمل، بردباری اور سادگی ہر مبنی ہے۔

مجلہ شاہین میں انعام الرحمان ان کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’میں اس شعری مجموعے (موسم گل حیران کھڑا ہے ) کے خالق سے ذاتی طور پر واقف ہوں اس لیے بات ان کی شخصیت سے شروع کروں گا۔ میری ناقص رائے کے مطابق شعر کہنے کے لیے بنیادی چیز طبیعت اور مزاج میں سادگی اور (Originality)ہے۔ شاعر کی شخصیت پرتوں کا ملغوبہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایسا شاعر حقیقی شاعر نہیں ہو سکتا بلکہ اس نے شاعری اپنے اوپر مسلط کی ہوتی ہے۔ بلا سبہ کلیم کے مزاج میں سادگی ہے اور یہ سادگی بھی اس نے زبردستی نہیں اوڑھی بلکہ فطری ہے۔ ‘‘(۱۴)

مجلہ شاہین ہی کے ایک اور شمارے میں مسرور انور لون کلیم احسان کا خاکہ لکھتے ہوئے ان کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’ان کا قد چھوٹا اور کردار بلند ہے۔ لوگ دولت کمانے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں اور یہ صرف نیک نامی کمانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ‘‘(۱۵)

وہ اپنے آپ میں مگن رہنے والے انسان ہیں۔ انھوں نے اپنی کوئی بھی تصنیف مشہور ہونے یا نام بنانے کو نہیں لکھی بلکہ یہ ان کے اندر سے اُٹھنے والی آواز تھی جس کو دبانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ شہرت سے دور بھاگنے والے اور اپنی دنیا میں مگن رہنے والے انسان ہیں۔ ان کی اس سادگی اور کھرے پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ادبی تنظیموں میں شرکت سے گریز کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے وہ گجرات ٹائمز کو انٹرویو کو دیتے ہوئے کہتے ہیں:

’’میرا عمومی رویہ ادبی تنظیموں میں شرکت سے اجتناب کا ہی رہا ہی۔ اور آج بھی بہت سے ادبی گروہوں میں اچھے تعلقات کے باوجود میں کسی ادبی گروہ یا تنظیم کا حصہ بننے سے گریز کرتا ہوں۔ ‘‘(۱۶)

وہ ظاہر داری بناوٹ دکھاوے سے دور رہنے والے انسان ہیں۔ وہ جیسے اندر سے ہیں ویسے ہی باہر سے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے طبقے اور معاشرتی مقام سے بخوبی واقف ہیں اور اس میں رہتے ہوئے اپنا مقام بنانا جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ادبی تنظیموں میں ہونے والی کھینچا تانی کی بدولت کسی مخصوص تنظیم سے منسلک ہونا اپنی ادبی کاوشوں کے لیے کسی حد تک مضر تصور کرتے ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا:

’’کالج میں دوسری تنظیموں کے احباب کو بھی شرکت کی دعوت دینے لگا اور وہ مجھے اپنی تنظیموں کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دینے لگ گئے۔ ان تنظیموں میں حلقۂ اربابِ ذوق، سخن ور، صرف اکادمی، اور دیگر تنظیمیں شامل تھیں۔ لیکن ان کی آپس میں کھینچا تانی سے میں کنارہ کش ہو گیا اور غیر جانب دار سطح برقرار رکھے ہوئے ہوں۔ ‘‘(۱۷)

کلیم احسان کی شخص کا اہم جزو ان کا زندگی اور اس کی حقیقتوں کی طرف متجسس رویہ ہے۔ وہ ایک عام انسان کی طرح زندگی کے راستوں سے نہیں گزرتے بلکہ تجسس اور حیرت اس سفر میں ان کے ہم قدم ہیں۔ اس لیے ایم۔ زیڈ کنول نے اپنے ایک مضمون میں انھیں ’’طلسم حیرت کا جوئندہ‘‘ قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’کلیم نے حیرت کا سفر شاید اب ارنی نے کیا۔ تبھی تو اس کا حیرت پر بس نہیں چلتا، یہ لمحہ تو اس پر خود وارد ہوتا ہے بالکل کسی الہام کی طرح، نئے پرت کھولتا ہوا۔ ‘‘(۱۸)

کلیم احسان بٹ حساس طبیعت کے مالک انسان ہیں۔ انہوں نے اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرے کا ہمیشہ تنقیدی نگاہ سے دیکھا اور بے ضابطگیوں اور خرابیوں پر بے بانگ دہل تنقید کی ہے۔ معاشرتی مسائل جو ایک ناسور کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ دیمک کی طرح معاشرتی اقدار کا کھا رہے ہیں۔ جس سے معاشرہ زوال کا شکار ہو گیا ہے ہر طرف ظلم، جبر اور بربریت کا راج ہے۔ معاشرے کی اس حالت کا ذکر کلیم کے کلام میں ملتا ہے۔ کلیم اس کا خود بھی اعتراف کرتے ہیں۔ گجرات ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں:

’’باقاعدہ نکتۂ نظر رکھ کر شعر کہنا میرے لیے ممکن نہیں۔ تاہم شعر میں آپ کی شخصیت اور معاشرہ دونوں عکس فگن ہوتے ہیں۔ اس لیے معاشرتی اقداروں کے انحطاط، استحصالی رویوں سے نفرت اور آمریت کے خلاف بغاوت کے جذبات میری شاعری میں تکرار کے ساتھ موجود ہیں۔ میری زندگی میں انسانی رشتوں کی جو اہمیت ہے وہی میری شاعری میں بھی نظر آئے گی۔ شریف کنجاہی صاحب نے مجھے یاد اور خواب کا شاعر قرار دیا تھا۔ ذ‘‘(۱۹)

کلیم کی شاعری کو پڑھ کر اس بات کا بھرپور احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے معاشرے کا درد برے پر زور انداز سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے زندگی کے مسائل کو بھی ذکر کیا ہے۔ ہر روز زندگی ایک نئے درد سے آشنا ہوتی ہے۔ عہد حاضر کا انسان عجیب و غریب رویے کا مالک ہے۔ منافقت نے آج کے انسان کی سوچ و فکر کا جکڑ لیا ہے۔ بعض اور کینہ نے انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا دیا ہے اور وہ مادیت کا شکار ہو گیا ہے۔ رشتوں میں بھی منافقت اور مفاد پرستی ایک عام رویہ بن چکا ہے۔

یہ سب وہ باتیں ہیں جو کسی بھی حساس انسان کو ذہنی اور فکری طور پر متاثر کرتیں ہیں۔ کلیم احسان نے اپنی شاعری میں اسی صورتِ حال کا ذکر کیا ہے۔ یہ کلیم کی حساس طبیعت کا خاصہ ہے کہ وہ معاشرتی مسائل پر تنقید نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے اور ان مسائل کی تشخیص کی ہے جو اس کے زوال کا سبب بن رہے ہیں۔

کلیم کی یہی حساس طبیعت ان کی شاعری کے ذریعے عیاں ہوتی ہے۔ وہ حساس دل کے مالک ہیں اور انسانی رویوں میں معاشرتی بگاڑ کے سبب آنے والی تبدیلیوں سے بھی آشنا ہیں

کلیم احسان بٹ کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ وہ تقلید پرستی سے گریز کرتے ہیں۔ انہوں نے اردو ادب سے تعلق رکھنے والے تمام ہی ادیبوں اور شاعروں کو ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھا ہے اور ان کے کام کو دل کھول کر سرا ہا ہے۔ مگر انہوں نے خود بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ تقلید پرست ہیں۔ وہ اس بات سے خوب واقف ہیں کہ جہاں اہلِ ادب اپنا رنگ چھوڑ کر کسی دوسرے ادیب کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتا ہے وہاں اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے یوں وہ ادب میں اپنی شناخت کبھی بھی نہیں بنا سکتا۔

انہوں نے کلام میر تقی میر اور ناصر کاظمی کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے۔ ان کے بلند پایہ مقام کی بدولت انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ ان کے کلام کی گہرائی اور گیرائی نے انہیں بہت متاثر کیا۔ موضوعات زندگی سے قریب تر ہیں مگر ان سب کے باوجود کلیم نے اپنے کلام کو ان کے اثر سے بچانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ چنانچہ کلیم تقلیدی رویے سے از حد پرہیز کرتے ہیں اور بیباکانہ اس کا اظہار اپنے اشعار میں بھی کرتے ہیں۔

اک بنائے تازہ رکھی میں نے فن کے باب میں

حرف و صوت و رنگ و حرکت سارے حیرت آشنا(۲۰)

کلیم ایک با شعور انسان ہیں۔ وہ زندگی کی اونچ نیچ سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ حالات کی جس غلام گردش سے گزرے ہیں اس نے انہیں زندگی کا مکمل شعور عطا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے شعروں کے توسط سے عوام الناس کو بھی شعور اور ادراک دینے کی کوشش کرتے ہیں اور معاشرتی ناہمواریوں سے انہیں آگاہ کرتے ہیں۔

کلیم اپنے آپ میں محو رہنے والے انسان ہیں۔ ان کا حلقۂ ارباب محدود ہے مگر وہ دوستی کے معاملے میں کھلے دل کے مالک ہیں اور خلوص اور سچائی پر اصرار کرتے ہیں۔ آج کے دور میں دوستی کے رشتے میں جو منافقت اور کج روی آتی ہے۔ یہ اُن کے لیے ناقابل برداشت ہے کہ دوستی جیسے عظیم اور مخلص رشتے میں بھی مادہ پرستی دو آئے۔ انہوں نے اپنے کلام میں بھی بار ہا اس معاشرتی المیے کا ذکر کیا ہے۔

وہ سچے اور کھرے انسان ہیں اسی ناطے سے وہ اپنی زندگی کی تمام پرتوں کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بیان کرتے ہیں۔ اپنی کتاب ماں بیتی میں انہوں نے اپنے اور اپنے خاندان کے حالاتِ زندگی کو جوں کا توں بیان کیا ہے۔ جو پڑھنے والے کو اپنی سچائی کی بدولت اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور یوں وہ اس حقیقت پسندانہ انداز یس متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ یہی کلیم احسان کا انداز ہے کہ وہ دکھاوے، ظاہرداری اور بناوٹ سے اعراض کرتے ہیں اور حقیقت کو اپنی تحریروں میں اہمیت دیتے ہیں۔

آپ بہت ملنسار شخصیت کے مالک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت خوش مزاج اور نرم طبیعت کے مالک ہیں اور معاملاتِ زندگی کو فہم و فراست سے طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

وہ نڈر انسان ہیں اور وقت کے حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں حکومت وقت پر بھی کڑی تنقید کی ہے اور بے باکانہ ان کے ظلم و جبر پر آوازِ حق بلند کی ہے۔

کلیم احسان مذہبی رجحان رکھنے والے انسان ہیں۔ مذہب سے ان کے لگاؤ کا انداز ان کے کلام میں حمد و نعت اور سلام کے علاوہ ان کی تحقیق کے حوالے سے کتاب ’’ابرِ رحمت‘‘ سے بھی ہوتا ہے۔ وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ یہ کام وہ کسی دنیاوی منفعت کے لیے نہیں کر رہے بلکہ اس کا مقصد خدا کی رضا کا حصول ہے۔ لہٰذا مذہب سے ذہنی قلبی وابستگی بھی کلیم کی شخصیت کا اہم جزو ہے۔

وہ ایک خوددار انسان ہیں جو اپنی عزتِ نفس کا ہر حال میں قائم رکھنا فرضِ عین جانتے ہیں۔ وہ کسی کا دستِ نگر بننے کو جرم تصور کرتے ہیں۔ ان کی کتاب ماں بیتی میں بھی بہت سے واقعات سے ان کے اس ذہبی رجحان کا پتہ ملتا ہے۔ کہ وہ اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرنے والے انسان ہیں۔ اپنی شاعری میں بھی انہوں نے اسی رویے کا اظہار کیا ہے۔

کلیم احسان یوں تو سنجیدہ طبیعت کے مالک ہیں مگر ہمیں ان کی تخلیقات میں طنزیہ اور مزاحیہ مضامین بھی ملتے ہیں جو ان کی شخصیت کے شگفتہ پن کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ تحقیق کے میدان میں بھی ان کا خاصہ کام ہے۔ غرض یہ کہ کلیم احسان ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔

غرضیکہ کلیم احسان بٹ، شگفتہ، نرم، دھیمے، رچے ہوئے علمی و ادبی مزاج کے حامل انسان ہیں۔ ادبی میدان میں ان کا وشوں کا اعتراف مختلف انداز سے مختلف سطحوں پر کیا گیا ہے جو ان کی صلاحیتیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بحیثیت استاد بھی ان کا مقام قابل ستائش ہے۔

 

 

حوالہ جات

 

۱۔                             کلیم احسان بٹ، گجرات ٹائمز سے گفتگو، ’’مطبوعہ ادبی ایڈیشن‘‘ گجرات، جمعرات، ۱۱؍ستمبر۲۰۱۴ء، ص ۵

۲۔                             ایضاً، ص ۵

۳۔                             مسرور انور لون، طنز و مزاح، مشمولہ: شاہین گورنمنٹ زمیندار کالج گجرات، سالانہ اشاعت ۹۷۔ ۱۹۹۶ء، ص۱۰۹

۴۔                              ادبی ایڈیشن، گجرات، ص ۵

۵۔                             کلیم احسان بٹ، ماں بیتی، گجرات: روزن پبلشرز، مارچ ۲۰۱۴ء، ص۳۵

۶۔                             ادبی ایڈیشن، گجرات ٹائمز، ص ۵

۷۔                             ایضاً، ص ۵

۸۔                             ایضاً، ص ۵

۹۔                             کلیم احسان بٹ، ماں بیتی، ص۴۲

۱۰۔                    ایضاً، ص۵۳

۱۱۔                     ایضاً، ص ۶۲

۱۲۔                     ایضاً، ص ۶۳

۱۳۔                     مسرور انور لون، شاہین، ص۱۱۰

۱۴۔                      میاں انعام الرحمن، ہجر بھی تو وصال ہوتا ہے، مشمولہ: شاہین، گورنمنٹ زمیندار کالج گجرات، سالانہ اشاعت ۹۹۔ ۱۹۹۸، ص۱۸۴

۱۵۔                     مسرور انور لون، شاہین، ص۱۱۰

۱۶۔                     ادبی ایڈیشن، گجرات ٹائمز، ص ۵

۱۷۔                     ایضاً، ص ۵

۱۸۔                     ایم۔ زیڈ کنول، طلسم حیرت کا جوئندہ، مشمولہ: ادب لطیف، جلد نمبر ۸۱، ماہنامہ، شمارہ نمبر ۱۔ ۲، مدیر: مظہر سلیم مجوکہ، لاہور، مکتبہ جدید پریس، جنوری۔ فروری، ۲۰۱۶ء، ص ۲۸

۱۹۔                     ادبی ایڈیشن، گجرات ٹائمز، ص ۵

۲۰۔                    کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے، گجرات: روزن پرنٹرز، دسمبر ۲۰۱۱ء، ص ۹۶

 

 

 

 

 

باب دوم

 

 

کلیم احسان بٹ بحیثیت شاعر

 

 

انسان نے اپنے شعوری ارتقاء کے ساتھ الفاظ کی دُنیا سے واقفیت حاصل کی ہے اس لیے وہ اپنے جذبات احساسات اور خیالات کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ پاتا اس کے لیے وہ مختلف طریقے اور انداز اپناتا ہے۔ ایک ذی شعور انسان دنیا میں ہون والے عوامل اور تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ انسان اپنے الفاظ و انداز سے ان کا اظہار کرتا ہے۔ کہیں سیدھے سپاٹ الفاظ سے، کہیں خبر کی مانند، کبھی کہانی کی صورت میں۔ مگر ان سب میں ایک انداز وہ ہے جو ان سب سے اچھوتا اور بلند مقام رکھتا ہے اور وہ ہے شاعری۔ شاعری لفظوں کا وہ کھیل ہے جس میں الفاظ کا ہیر پھیر اور اتار چڑھاؤ بات کو ایک نیا رنگ بخشا ہے۔ ایک سیدھی سی بات کو ذو  معنی الفاظ اور ترنم و موسیقیت سے بھرا تاثر کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے۔

سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے

ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں (۱)

شاعری میں ایسا جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے یہ لفظوں کو ایسا لباس پہنا دیتی ہے کہ تلخ سے تلخ بات بھی سننے والے کو بری نہیں لگتی۔ خالق سے گلا ہو، خلقِ خدا کے دیئے ہوئے دکھ، حکومتِ وقت کو کوسنا ہو یا پھر ظالم محبوب کے ظلم پر ماتم ہو، کائنات کے حسین مناظر کی تصویر کشی ہو، وطن سے محبت و یگانگت کا اظہار ہو غرض کہ اس کے لکھنے میں کوئی بھی جذبہ کار فرما ہو، اندازو الفاظ پڑھنے والے کے دل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔

شاعری اگر بیہودہ اور ہیجان انگریز جذبات و احساسات سے دور ہے تو یہ معاشرے میں بہتری لانے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ یہ انتشار پیدا کرنے کی بجائے شیرازہ مندی کا سبب بنتی ہے۔ جب افرادِ معاشرہ اپنے خیالات و احساسات کا اظہار اتنے خوبصورت پیرایۂ اظہار میں دیکھتے ہیں تو انہیں ذہنی آسودگی میسر آتی ہے اور یوں شاعری فرد اور معاشرے کی خوشی، اصلاح اور تسکین کا ذریعہ ہے۔ لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ شاعر کو اپنی انفرادیت کا خیال ضرور رکھنا چاہیے۔

کلیم الدین احمد اپنی کتاب ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:

’’شاعری صرف جذبات کی ترجمانی نہیں ایک فن ایک صناعی بھی ہے۔ شاعر الفاظ کی مدد سے اپنے حسیات و تخیلات، ولولوں اور امنگوں، اپنے تجرباتِ زندگی کو ایک تعمیری عمل کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اسے زبان میں تناسب، موزونیت اور توازن کا اسی قدر خیال رکھنا ہوتا ہے جیسا کہ ایک بت تراش کو مجسمہ بنانے میں۔۔ ۔ اسی طرح ہر شاعر کو اپنے راہِ نجات نکالی ہوتی ہے وہ دوسروں کا اتباع کر کے صرف بھٹکتا رہے گا۔ ‘‘(۲)

لہٰذا شاعری کو احساسات و جذبات کو ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی حالات کا بھی عکس پیش کرنا چاہیے۔ شاعری معاشرے کے ہر طبقے اور مسلک کے افراد کی ذہنی، جسمانی، معاشی اور معاشرتی رویوں کا عکس ہوتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوتا ہے کہ شاعر اپنی انفرادیت کو قائم رکھے۔ اور تعمیری عمل میں اس کی انفرادیت کی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔

اردو ادب کی تاریخ ایسے ناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اردو کو بیش بہا خزانوں سے نوازا ہے اور ایسے لوگ نئے آنے والوں کی رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہے جن سے سیکھ کر نووارد اپنے فن کی نوک پلک سنوارتے ہیں۔ دائرہ ادب میں داخل ہونے والے ان نئے لوگوں میں ایک نام کلیم احسان بٹ کا بھی ہے۔ ویسے تو کلیم احسان نے سوانح اور تحقیق کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی ہے مگر ان کا فطری رجحان شاعری کی طرف ہے اور شاعری پر ان کی اب تک تین کتابیں منصۂ شہود پر آ چکی ہیں۔

کلیم احسان کا تعلق گجرات کے علاقے جلال پور جٹّاں سے ہے۔ یہ علاقہ علم و ادب اور شعر و سخن کے حوالے سے اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ محمد اشفاق ایاز اس حوالے سے لکھتے ہیں:

’’کلیم احسان بٹ ادبی و شعری تاریخ کا وہ ستارہ ہے جس نے جلال پور جٹاں کو اس کی پہچان دی۔ کلیم نے ۵ دسمبر ۱۹۶۴ء کو اس عالمِ نا پائیدار میں آنکھ کھولی تھی کہ ننھیال اور ددھیال کو علمی و ادبی خزانے سے مالا مال پایا۔ ننھیال میں معروف روحانی شخصیت بابا قادر شاہ کے گدی نشین غلام محی الدین کلیم کی والدہ کے تایا تھے۔ انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ اپنے وقت کے معروف صاحب دیوان شاعر عبد الطیف رشتے میں ان کے ماموں تھے۔ ددھیال میں گنہ گار ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ شاعری کلیم کے حمیر میں تھی۔ ‘‘(۳)

چنانچہ انہوں نے خاندانی پسِ منظر میں اور جائے پیدائش کے ساتھ ساتھ مزاج بھی شاعرانہ پایا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سکول کے زمانہ سے ہی شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔ خوش قسمتی سے انہیں ایسے لوگ بھی میسر آتے رہے جنہوں نے اس میدان میں ان کی مناسب راہنمائی کی۔

شاعری کی سوجھ بوجھ اور طبعیت کی حساسیت جب ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں تو شعر آپ ہی آپ صفحہ قرطاس پر اپنا جادو جگاتے جاتے ہیں۔ کلیم احسان کی شاعری میں معاشرے کا درد اور تلخیاں واضح طور پر محسوس ہوتی ہیں۔ ان کے کلام کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ان کا معاشرے سے بہت قریب کا رشتہ ہے۔ ان کے حالاتِ زندگی سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ براہ راست زندگی کی اونچ نیچ کو برداشت کرتے رہے ہیں۔ وہ معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں زندگی اپنی پوری عریانیت کے ساتھ عیاں ہوتی ہے۔ معاشرتی ناہمواریوں، نا آسودگیوں اور مسائل کے انبار کا ذکر ان کی شاعری کا مرکزو محور ہے۔ گل و بلبل، غازہ و غمزہ، عشوہ و ادا اور حسن و عشق کے جذبات کا اظہار ایک ساعت کا بیان تو ہو سکتا ہے۔ مگر ان کی شاعری کا لب و لباب یہی مسائلِ زندگی ہیں۔ انہوں نے زندگی کے حقیقی رنگوں کو لفظوں میں بھرنے کی سعی کی ہے۔ وہ عام آدمی کے دل و دماغ میں اٹھنے والے مسائل کے جوار بھاٹے کو شعر کی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک عجیب سی خلش ہے جو ان کی شاعری میں نظری آتی ہے۔

احسان فیصل کنجابی ’’مضباچے ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ہو گئی ہے شام یادوں کے مزاروں پر خلش

پھر جلانے آ گئی ہے میری چشمِ تر دیئے

اس شعر کی طرح بعض اور اشعار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کلیم صاحب نے اس لفظ کو اپنے تخلص کے لیے چنا تھا اور یہ انتخاب ہمیں ان کے انداز کو سمجھنے میں کافی مدد دیتا ہے اور نا آسودگی کی علامت ہے۔ چنانچہ ہمیں ان کے اشعار میں چشمِ پرنم، موجہ بے تاب، قطرۂ خونناب اور دیدۂ بے خواب، ایسی ترکیبیں جگہ جگہ ملتی ہیں جو کسی خلش ہی کی غماز ہیں۔ ایسے خلش آشنا لوگوں کو خوابوں سے تقریباً مستقل اور مسلسل سا تعلق ہوتا ہے اور اس مجموعہ میں آپ کو خوابوں سے حوالے بھی ملیں گے لیکن کوئی خواب بھی خوشگوار نہیں۔ ‘‘(۴)

وہ مزید لکھتے ہیں:

’’یوں کلیم صاحب کی شاعری کو خلش، خواب اور یاد کی شاعری کہہ سکتے ہیں اور اپنی گزشتہ شب و روز کو وہ اسی لیے چراغ دیوار کہتے ہیں ایک ایسی دیوار جس کے دروازے کو کھٹکھٹائے جانے کی توقع ہے۔ ‘‘(۵)

ان کی شاعری میں تنہائی کا تصور پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا نظر آتا ہے جو اسے درد و کرب کی شاعری بناتا ہے۔ انہوں نے شاعری کا آغاز بچپن سے ہی کر دیا تھا۔ وہ چھٹی یا سا تویں جماعت میں تھے جب انہوں نے شعر و شاعری کا آغاز کیا اور اس کی اصلاح کے لیے رئیس امروہوی سے بھی خط و کتابت کا سلسلہ جاری تھا جو رئیس کی وفات پر آ کر منقطع ہوا۔ مگر شاعری کا ذوق اور اس کا سلیقہ پیدا کرنے میں حالات کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ دردِ دل رکھنے والا انسان جو الفاظ کی قدر و قیمت جانتا ہو شعر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کلیم احسان بٹ بھی ایک حسّاس ذہن رکھنے والے انسان ہیں۔ جنہوں نے زمانے کی اونچ نیچ کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور الفاظ کا جامہ پہنایا۔

اب تک ان کی تین کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ ان کتابوں میں تلاش، حیرت اور اچھے دنوں کے تعاقب کا تصور ملتا ہے۔ کسی نے جگنو پکڑنے کی خواہش پر انہیں روشنیوں کا متوالا سمجھا۔ کہیں زندگی کے مختلف مدارج سے گزر کر ان کے پاس بس حیرت باقی رہ جاتی ہے۔

ان کتابوں کے مطالعہ سے شاعر کے جو رویے سامنے آئے ہیں ان سے کلیم کی شخصیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے شاعری اور نثر اپنے لکھنے والے کی ذہنی رجحان اور فکرو عمل کا کافی حد تک اظہار ہوتی ہے جس سے اس کے تخلیق کار کے رویے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

 

فکری جائزہ

 

۱۔ میر اور ناصر کی طرف فطری لگاؤ

 

کلیم کی شاعری کو پڑھ کر ان کے جس رویے کا سامنا ہوتا ہے ان میں ایک یہ ہے کہ وہ ماضی کے اعلیٰ پائے کے شاعروں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اپنی شاعری میں ان کا ذکر کر کے ان کے اعلیٰ مقام کا اعتراف کرتے ہیں۔ جن شعراء کا بطور خاص ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے ان میں میر تقی میر اور احد ناصر کاظمی کے نام سر فہرست ہیں ان شعراء کے کلام میں درد، کرب، محبوب کے جور و جبر، حالات کی ستم ظریفی اور سیاسی انتشار جیسے تصورات ملتے ہیں۔

میر تو سرتاج شعرائے اردو ہیں۔ اپنے کلام میں ان کا ذکر کرنا ہر شاعر اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا ہے۔ وہ چاہے غالب ہو، ذوق ہو یا مومن یا پھر اکیسویں صدی کا نووارد شاعر ہو میر صاحب سب کو شاعری کی سوجھ بوجھ دیتے ہیں۔ موضوعات کا تنوع فراہم کرتے ہیں۔ میر سے فیض یاب ہونا ہر شاعر کی خواہش ہے۔ کلیم احسان بٹ میر کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:

میں بار بار پلٹتا ہوں میر کی جانب

سخن میں رنگ نیا اختیار کرتے ہوئے (۵)

میرؔ کے کلام کی خاصیت یہ ہے کہ وہ دردو غم کی کیفیات سے بھرا پڑا ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ غم و حزن کا بیان تخریبی نہیں بلکہ تعمیری ہے۔ وقت بدلتا رہتا ہے۔ مگر دلوں کی کیفیت غم اور خوشی ہر دور میں ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ اس لیے آج بھی جب میرؔ کو پڑھا جاتا ہے۔ تو یوں لگتا ہے جیسے کہ میرؔ اسی دور کا ہے اس لیے ہر شاعر خود کو میر سے مقابلے اور موازنے کے لیے پیش کرتا ہے مگر ادب کے دائرہ میں رہتے ہیں۔ کلیم احسان لکھتے ہیں:

بس زبان میرؔ سی نہیں آتی

حال دل کا تو میرؔ جیسا ہے (۷)

وہ میرؔ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں استادِ سخن کہتے ہیں:

وہی استادِ سخن میرؔ کی نمناک سی لے

حرف کو اشک بنانے کا ہنر جانتا ہے (۸)

یہی غم و حزن کی کیفیت ہے کہ ہر کوئی میرؔ کی طرف کھینچا چلا آتا ہے۔ یہاں تک کہ کلیم میرؔ کے مرشد ہونے کا اعلان کرتے ہیں جس کے ہاتھ پر بیعت کیے بغیر شاعر شعراء کے حلقہ میں داخل ہو ہی نہیں سکتا۔

حق نے اسے کبھی بھی مجدّد نہیں کیا

جس نے سخن میں میرؔ کو مرشد نہیں کیا(۹)

محمد اشفاق ایاز اس حوالے سے لکھتے ہیں:

’’کلیم احسان کی شاعری، شہنشاہِ غزل میر تقی میر کی غزل اور زندگی سے کافی متاثر ہے اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتا ہے۔ حالانکہ اس کے موضوعات اور اسلوب میرؔ سے کافی حد تک جدا ہیں۔ اس کی شاعری میں جہاں میر کا ذکر آیا ہے وہاں اس کا سر عقیدت سے جھک جاتا ہے۔ مگر وہ سر جھکائے وہاں سے گزر جاتا ہے۔ گھبراتا نہیں۔ ‘‘(۱۰)

میر کی شاعری میں دردو غم اور حزن ملال کے تصورات کی موجودگی ان کی شاعری کو زندگی سے قریب تر بناتی ہے۔ سوزو گداز کے عناصر حقیقی زندگی کے اہم ترین عناصر ہیں۔ جنہیں میر نے لفظوں کا لبادہ پہنا کر امر کر دیا ہے۔ عشق انسان کا جو حال کرتا ہے کلیم میر کی حالتِ زار کو بنیاد بنا کر بیان کرتے ہیں:

عشق پھر اختیار کرتے ہو

حال کیا میرؔ کا نہیں دیکھا(۱۱)

زندگی کے مسائل، غم و حزن، آنسوؤں اور دکھوں کا تذکرہ کلیم کے کلام میں جا بجا ملتا ہے۔ جس میں میر تقی میر کے ساتھ ساتھ ناصر کاظمی کے رنگِ سخن کا اثر بھی واضح نظر آتا ہے۔ ناصر کی طرح تنہائی کا تصور کلیم کے کلام میں بھی بہرطور ملتا ہے۔ ان کی کتاب ’’موسمِ گل حیران کھڑا ہے ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے احسان فیصل کنجابی لکھتے ہیں:

’’ہمیں اس مجموعے (موسمِ گل حیران کھڑا ہے ) میں احساسِ تنہائی سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ اور ایک قسم کی Isolation سے بھی۔

انجان سی شکلوں کا مرے گرد ہے مجمع

اک شخص بھرے شہر میں اپنا نہیں ملتا

اس شہر کی گلیوں میں کسے ڈھونڈ رہے ہو

ٹوٹے ہوئے خوابوں کو مسیحا نہیں ملتا‘‘(۱۲)

میر کے ہاں سوزو گداز کا عنصر ملتا ہے یہی بات کلیم کے شعروں میں بھی موجود ہے وہ بھی آنسو، فراق، ہجر اور تنہائی کے تصورات کو بیان کرتے ہیں:

اشک اشعار کی صورت ہی نکالے کوئی

درد اظہار کی صورت ہی نکالے کوئی(۱۳)

______

زخم کھاتا ہوں مسکراتا ہوں

تم نے دیکھا نہیں میرا جینا(۱۴)

______

دکھ درد کے عالم سے گزرتا ہوا میں ہوں

اک گریۂ پیہم سے گزرتا ہوا میں ہوں (۱۵)

______

میری آنکھوں میں آنسو تو نہیں ہے

دلِ نم ناک سے رس کھینچتا ہوں (۱۶)

وہ بڑی عقیدت کے ساتھ ناصر کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے مجموعۂ کلام دیوان سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں:

ناصرؔ پڑھ کے روتا جاؤں

ہاتھوں میں دیوان اور بارش(۱۷)

دوسری جگہ لکھتے ہیں:

راہ میں ناصرؔ پڑھتے جانا

لے جانا دیوان سفر پر(۱۸)

گویا میر کے بعد ناصر کے پیرایہ اظہار نے کلیم کو متاثر کیا مگر ایسا بھی نہیں کہ وہ تتبع میں اسی ڈگر پر چل نکلے ہوں۔ وہ ان شعراء سے متاثر ضرور ہیں مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ شاعر کی شخصیت کی انفرادیت اور اچھوتا پن ہی اس اُسے شاعر بناتا ہے۔ سیکھنے کے لیے راستے ضرور کھلے ہوتے ہیں۔ مگر کورانہ تقلید سوائے پستیوں کے اور کچھ نہیں دیتی۔ کلیم اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں اس لیے انہوں نے شاعری میں اپنا الگ مزاج برقرار رکھا ہے اور تقلید پرستی سے بہرطور دامن بچایا ہے۔

حیدر قریشی کی رائے اس حوالے سے کچھ یوں ہے:

’’جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں کلیم احسان بٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تقلیدی رویے سے بچنا چاہتے ہیں۔ لیکن کسی کی نفی بھی نہیں کرنا چاہتے۔ بس اسی کشمکش کے باعث وہ ایک دائرے میں سفر کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ فی الوقت ان کے اندر کی یہی کشمکش ان کی شاعری میں ایک رویہ بن کر ابھر رہی ہے۔۔ ۔ جب وہ اس کشمکش سے آگے کو سفر شروع کر پائیں گے تب ان کا شعری رویہ زیادہ نکھر کر سامنے آ جائے گا۔۔ ۔ یہ رویہ اردو شاعری میں ایک نئے ذائقے کے اضافے کا موجب بھی بنے گا۔ ‘‘(۱۹)

سماج میں بکھرے ہوئے لاتعداد مسائل اور الجھنوں پر کلیم کی گہری نظر ہے۔ جنہوں نے عوام الناس کا جینا دوبھر رکھا ہے اس کے ساتھ ساتھ سیاسی صورتِ حال بھی شدید ابتری کا شکار ہے۔ حکمران طبقہ غریب عوام کا خون چوسنے پر لگا ہوا ہے۔ انہی عوامی مسائل اور حکومت کی غلط پالسیوں کی نتیجہ میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی بدولت غریب، غریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور امیر، امیر تر۔ جس سے معاشرے میں بے ضابطگیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور سیاست پر عوام کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔

کلیم احسان بٹ کی شاعری میں بے شمار اشعار ایسے ہیں جن میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کا بیشتر کلام سماجی، اخلاقی اور سیاسی جیسے کئی دوسرے موضوعات پر گفتگو کا معتبر حوالہ بن سکتے ہیں۔

انہوں نے اپنے فن کے توسط سے معاشرے کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا ہے اور کسی خوف کے بغیر ان پر تنقید بھی کی ہے۔ راشد اللّٰہ بٹ ان کی کتاب ’’حیرت باقی رہ جاتی ہے ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’حالات کی تبدیلی جن طبقات کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے وہ ان اہلِ سیاست سے بیزار ہیں ان پر شدید حملے بھی کرتے ہیں کتاب کا بڑا حصہ محروم معاشرے اور محرومی کو انگیخت کرنے پر تلے ہوئے نام نہاد رہبروں کا پردہ چال کرتا ہے۔ کلیم کی یہی معروفیت موضوعاتی گہرائی کا باعث بنتی ہے۔ ‘‘(۸)

حالات کی شکست و ریخت اور تنزلی نے مجبور اور بے بس لوگوں کو اپنی بے بسی اور خستہ سامانی پر بین کرنے پر مجبور نہیں کر دیا ہے لوگ ہر طرف لوگ نوحہ کناں ہیں۔

سر بریدہ، شکستہ، برہنہ بدن

چیختے بین کرتے ہوئے لوگ ہیں (۲۱)

______

بے فصیل شہروں میں بے امان بستی میں

کس طرف نکل آئے بے دھیان بستی میں

ہر کسی کے ہونٹوں پر درد کی کہانی ہے

کس سے اپنا دکھ کرتے ہم بیان بستی میں (۲۲)

حالات کے ستائے ہوئے لوگ بے امان و خانماں خراب پھر رہے ہیں مگر کہیں جائے پناہ نہیں ملتی سب کا سب اجڑا پڑا ہے لوگ بے بس اور مجبور ہو گئے ہیں۔ ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ان حالات سے نجات حاصل کر سکیں۔ کلیم نے معاشرے کی بے ہنگم زندگی کا نقشہ پر اثر انداز سے کھینچنے کی کوشش کی ہے۔ (حیرت باقی رہ جاتی ہے، ص۱۳۸)

مجبوریوں کے ہاتھ میں اولاد بیچ دی

یہ شہر تھا عجیب تجارت کمال تھی

زندگی جتنی تیز رفتار ہو گئی ہے اتنی ہی پیچیدہ بھی ہو گئی ہے۔ یہاں ذاتی مفادات ہر چیز پر فوقیت رکھتے ہیں۔ آج کا انسان ابن الوقت کا روپ دھار چکا ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر کسی کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ روز افزوں بڑھتے ہوئے انہی حادثات و واقعات نے لوگوں کو عجیب ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔

بارود بھر گیا ہے کوئی ہر دوکان میں

ہوتا ہے روز شہر میں اک حادثہ نیا(۲۳)

______

شہروں میں ایک خیال کے سائے سے بھر گئے

گلیوں کے اک گمان کے اندر ہیں آہٹیں (۲۴)

ایسے ہی رویے اور حالات آہستہ آہستہ معاشرے کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ خوف اور بے چینی نے لوگوں کو ذہنی اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ لوگوں کی صلاحیتیں سلب ہو چکی ہیں۔ اک انجانا خوف انہیں ہر وقت اپنی گرفت میں لیے رکھتا ہے۔ یہی انجانا خوف انسان کو منفی رویہ اپنانے پر اکساتا ہے جو بلا آخر معاشرے کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔ کلیم نے اشارۃً اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

اس بستی میں دھوپ اترنے والی ہے

بوڑھا برگد ہم کو یہ سمجھاتا ہے (۲۵)

 

۲۔ حسن کا تصور

 

اردو غزل میں محبوب کے حسن و جمال اور دل کشی کا بیان بڑی لجاجت اور جوش و خروش سے کیا جاتا رہا ہے۔ ابتدائی شاعری سے لے کے دورِ جدید کی شاعری تک تذکرہ حسن و جمال شعراء کا مقبول و محبوب موضوع رہا ہے۔ اردو دیوان انہی تصورات سے بھرے پڑے ہیں۔ جہاں دیکھو حسن جلوہ افروز نظر آتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انداز بدلتے رہے ہیں مگر یہ حسن ہی ہے جس نے سب کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حسن کا ذکر شاعری میں نہ کر کے شاعر اپنے آپ کو شاعری سے نابلد ظاہر کرتا ہے کوئی بھی شاعر حسن کے اثر سے محفوظ نہیں رہا۔

یہ کیسے ممکن تھا کہ کلیم اس پر زور، پر اثر رویے اور ہر دل عزیز موضوع سے اپنی شاعری کا دامن بچا کر رکھتے۔ ہر بڑے اور اچھے شاعر کی طرح تصورِ حسن نے کلیم کو بھی متاثر کیا ہے۔ کلیم کے ہاں بھی ہمیں حسن اپنی رعنائیوں اور فتنہ سامانیوں کے ساتھ جھلملاتا نظر آتا ہے۔

اس لہجے کی خوشبو سے بسا رہتا تھا آنگن

وہ بولے تو پھر لفظ بھی پھولوں کی طرح تھے (۲۶)

______

پھول سے برستے تھے اس کی ساری باتوں سے

خوشبوؤں کا ڈیرا تھا اس کے نرم لہجے میں (۲۷)

______

وہی اندازِ سرخیِ لب ہے

رنگ میں آپ پر گیا ہے لہو(۲۸)

______

ہم نے دیکھا ہے چاند کا چہرہ

تیرے رنگِ جمال سے اترا(۲۹)

______

حسن کو کون جانتا تھا یہاں

نقش تیری مثال سے اترا(۳۰)

غرض کہ کلیم احسان بٹ نے حسن کے بیان میں ان تمام لوازمات کا بڑی خوبی اور فراوانی کے ساتھ استعمال کیا ہے جو اردو غزل میں جا بجا ملتا ہے۔ مگر ان کا انداز اچھوتا ہے اور جدید رویوں سے میل کھاتا ہے۔ کلیم نے حسن کے بیان میں تشبیہ اور استعارات کا بھی خوب استعمال کیا ہے۔ جس نے اس تصور کو چار چاند لگا دیئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ غزل کی روایت میں مقدور بھر حصہ بھی ڈالا ہے۔

 

۳۔ عشق کی روایت

 

اردو غزل شروع سے جن تصورات اور موضوعات میں گھری رہی۔ ان میں سب سے زیادہ زیرِ بحث آنے والا موضوع عشق ہی تھا۔ عشق ایک ہمہ جہت موضوع ہے اسے کسی بھی دور میں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کائنات کی تخلیق عشق ہی کی بنیاد پر ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ سراسر عشق ہے۔ عشقِ حقیقی ہو یا عشقِ مجازی، یہ موضوع ہر دو پہلوؤں میں شاعری کے ہر دور میں جلوہ افروز رہا ہے۔

عشق مکاں سے لا مکاں تک، کن سے فیکون تک پھیلا ہوا ہے، اس کے وجود سے انکار ممکن نہیں۔ ابتدائی ادوار میں شاعری میں غزل کا مطلب ہی عشق و محبت کے تصورات کا پرچار تھا۔ محبت میں ناکامی، محبوب کے سنگدلانہ رویے پر عاشق کا واویلا اور آہ بکا غزل کا موضوع رہا ہے۔ جب عاشق محبوب کے ظلم و ستم سے تھک جاتا ہے تو پھر وہ اپنے اشعار میں ان کا ذکر کر کے محبوب کو خوب خوب کوستا ہے۔ بہت عرصہ تک غزل ایسے ہی موضوعات کے گرد گھومتی رہی۔ مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شعراء نے اس کے موضوعات میں تنوع پیدا کیا اور یوں غزل حسن و عشق کی زنجیروں سے نکل کر معاشی، معاشرتی، سماجی اور سیاسی مسائل کو زیر بحث لانے لگی۔ بدلتے وقت نے بھی یہ رنگ قبول کیا اور غزل کو ان موضوعات کے ساتھ اور بھی قدر و منزلت میسر آئی۔

کلیم اس دوڑ سے پیچھے کیسے رہ سکتے تھے۔ جدید دور کے شاعر کے باوجود عشق کا قدیم رنگ بھی کہیں کہیں نظر آ جاتا ہے۔ اور اسی رنگ کو کلیم نے جدے دیت کے ساتھ ملا کر پیش کیا ہے جو پڑھنے والوں کو بالکل نیا محسوس ہوتا ہے۔ اور یہی ایک اچھے شاعر کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ بدلتی قدروں کے ساتھ قدیم کا لحاظ بھی رکھے اور انہیں ابدی موت سے بچائے۔ کلیم کے کلام میں عشق کا تصور اچھوتے انداز میں نظر آتا ہے۔

تیرے کوچے سے لوٹنے والے

کون کہتا ہے عشق کرتے تھے (۳۱)

______

عشق کرنے سے بیشتر بھی کلیمؔ

ہم تو روتے تھے آہ بھرتے تھے (۳۲)

______

پھر حسنِ مجسم میں بدل جاتے ہیں منظر

اس عشق میں اک دل کا زیاں ہے تو سہی ہے (۳۳)

______

پھرتا ہے پھر نظر میں مری خارزار عشق

وہ پیش کر رہا ہے مجھے مسکرا کے پھول(۳۴)

گویا عشق سے منسلک تمام جذبے اور مصائب کا ذکر کلیم کے ہاں بھی ملتا ہے۔ عشق کی اب بھی وہی کارگزار یاں ہیں جو صدیوں سے غزل کا موضوع رہی ہیں۔ رونا، آہیں بھرنا، دل کا کھو جانا اور محبوب کا بچھڑ جانا یا پھر رقیب کے ساتھ وقت گزار کر عاشق کا دل جلانا۔ یہ سب عشق کا لازمی نتیجہ ہیں جو اردو غزل میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے۔ کلیم احسان بٹ نے عشق کے اسی تصور کو نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش کیا ہے۔

 

۴۔ دوستوں کی کج روی

 

کلیم آج کے دور میں انسانی رویوں کی منافقت اور ریاکاری کا اظہار بے بانگِ دہل کرتے ہیں۔ آج کا انسان جذبوں کی سچائی کو مصلحتوں کے پیش نظر ذاتی اپنے مقاصد کے حصول میں اندھا دھند لگا ہوا ہے۔ پیار، محبت اور دکھ سکھ بانٹنے کے جذبے جو پہلے کبھی انسانیت کا خاصا تھے اب ناپید ہو چکے ہیں۔ ہر کوئی ذاتی مفادات کی دھن میں اپنوں کا ہی گلا کاٹنے میں معروف ہے۔ رشتوں اور جذبوں کی سچائی مفقود ہو چکی ہے۔ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے دوسروں کا نقصان کرنا آج ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ خاص طور پر دوستی کے رشتے میں جو مطلب پر ستی اور ریاکاری آ گئی ہے۔ وہ جا بجا اس کا اظہار اپنی شاعری میں کرتے ہیں:

میرے دشمن شکست کیا دیتے

اس میں کچھ دوستوں کی سازش تھی(۳۵)

______

میرے یاروں نے میرے زخم کا مرہم ڈھونڈا

سب کی جیبوں سے مسالہ سا نکل آیا ہے (۳۶)

______

تھا میرے سامنے دشمن میرا

تیر پھر کس کی کمان سے نکلا(۳۷)

______

عشق کرنے سے بیشتر بھی کلیم

ہم تو روتے تھے، آہ بھرتے تھے (۳۸)

______

میرے پیچھے چل رہا تھا اک ہجوم دوستاں

مڑ کے دیکھا اور پھر حیرت سے پتھر ہو گیا(۳۹)

دوستوں کی ریاکاری پر کلیم ماتم کناں ہیں:

ہم اسے دوست بن کے ماریں گے

دشمنوں میں ہوا ہے سمجھوتا(۴۰)

______

دوستوں کے پہرے میں رات میں تو سویا تھا

جانے کس طرح آیا دشمنوں کے نرغے میں (۴۱)

______

تو اگر ہے دوست میرا آستین مت چھپا

تو اگر دشمن ہے تو کھل کے آ جا سامنے (۴۲)

______

یوں تو کوئی اجنبی بستی نہیں لیکن کلیم

ڈھونڈتا ہوں شہر بھر میں کوئی صورت آشنا(۴۳)

______

وہ میرا دوست نہ ہوتا میرا دشمن ہوتا

وار کرتا تو میرے سامنے آ کر کرتا(۴۴)

یہاں ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ ایسا بھی نہیں سب ہی ریاکار اور منافق ہوتے ہیں۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو مخلص اور سچے ہوتے ہیں۔ کلیم احسان کا سامنا ایسے لوگوں سے بھی ہوا جنہوں نے آج کے مطلب پرست دور میں بھی دوستی کا حق ادا کر دیا اور پھر اس میں نفع نقصان کی بھی پرواہ نہیں کی۔

ایسا مخلص تھا دوستوں کو ہجوم

اک حماقت تھی آزمانا بھی(۴۵)

______

ہم سدا دوستوں کے ساتھ رہے

اپنا اچھا برا نہیں دیکھا(۴۶)

 

۵۔ شوخ انداز

 

شاعری دراصل جذبات و احساسات کے اظہار کا نام ہے ایک شاعر کہیں معاشرے کی اقدار، مسائل اور الجھنوں کا ذکر کرتا ہے تو کہیں محبوب کی فریب کاریوں پر آنسو بہا کر واویلا کرتا ہے مگر جب کبھی محبوب کا مزاج اچھا ہو اور شاعر کو محبت کے دو بول سننے کو مل جائیں وہاں وہ شوخی اور بے باکی پر اتر آتا ہے۔ تقریباً تمام ہی شعراء ہی کے ہاں یہ عنصر ملتا ہے۔ قدیم شعراء میں یہ رنگ زیادہ شدت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اور وہ بیباکانہ انداز سے اپنے پیار محبت کا اظہار کرتے ہیں اور اکثر حد بندیوں کا لحاظ بھی نہیں کرتے۔ ان میں جعفر زٹلی اور پھر جرأت کو نام خاص طور سے لیا جاتا ہے۔ مگر جیسے جیسے غزل نے وقت کے ساتھ سفر کیا اور مسائل و افتاد کے اژدحام میں سے گزری ہے ویسے ویسے اس میں سنجیدگی آتی گئی۔ آج کے دور کی غزل محبوب کے سراپا نگاری تک محدود نہیں بلکہ یہ اس موضوع سے کہیں آگے نکل گئی ہے۔ موجودہ دور کے شعراء میں شوخی اور رومانویت کا پہلو ملتا ہے۔ مگر اس بے باکی کے ساتھ نہیں جو دورِ قدیم کے شعراء کے ہاں تھا۔ اس کی وجہ معاشرتی قدغن بھی ہو سکتی ہے۔ اور معاشی مسائل کی بھیڑ بھی۔ بس کہیں کہیں قلم ذرا سا چوک جاتا ہے اور خیالات کچھ بہک سے جاتے ہیں تو ہلکی سی بے باکی اور شوخی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ مگر وہ بھی بہت لطف دیتی ہے۔

اس کو چھوتے ہی میری پوروں سے

دھوپ سارے بدن میں پھیلے گی(۴۷)

______

آج ملبوس سے بیگانہ اسے دیکھا ہے

آج کیا ریشم و کم خواب مقابل آتے (۴۸)

______

یوں جسم پھسلتا ہے تیرے جسم کے اوپر

جیسے کسی ریشم سے گزرتا ہوا میں ہوں (۴۹)

______

وہ بدن تختۂ گل کی مانند

وہ مہک نامہ آہو مہکے (۵۰)

______

اس کے بدن کو ہاتھ لگاتے ہی کھل اٹھے

چہرے پہ سرخ رنگ کے شرم و حیا کے پھول(۵۱)

کلیم احسان بٹ نے شوخ جذبات کے اظہار میں بھی لفظوں کا چناؤ بہت احتیاط سے کیا ہے۔ یا پھر یہ شاید زمانے کی تلخیاں اور حدتیں ہیں جنہوں نے مد ہوش کر دینے والے جذبات کو بھی گہنا دیا ہے۔ پھر بھی رومانویت کا رنگ خوب خوب جما ہے۔ اور پڑھنے والوں کو مسائل کے انبار سے نکال کر لطف عطا کرتا ہے۔

 

۶۔ مظاہرِ فطرت سے اُنسیت

 

اس کائنات میں جس طرف بھی نظر دوڑائیں ہر طرف خدا کی قدرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔ مناظرِ فطرت ہمارے چاروں اور اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ جن میں قدرت کی رعنائیاں دیکھنے والوں پر سحر طاری کر دیتی ہے۔ فطرت سے پیار ہراس انسان کو ہو گا جو حساس اور دردمند دل کا مالک ہو گا۔ شعراء حضرات تو پھر معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو حساسیت کے اونچے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ قدرت کے رنگوں سے شعراء حضرات کا ان سے لاتعلق رہنا ناقابلِ یقین امر ہوتا ہے۔ فطرت کی عکاسی تقریباً تمام ہی شعراء کے کلام میں نظر آتی ہے۔ ویسے بھی فطرت کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ہر شخص براہِ راست اس کے اثر میں ہے اور اس سے متاثر ہوتا ہے بس فرق یہ ہوتا ہے کہ ہر انسان اسے اپنے زاویۂ نگاہ سے دیکھتا ہے اور اپنی سوچ کے مطابق اس سے اثر لیتا ہے۔

کلیم احسان بٹ نے جو رنگ صفحۂ قرطاس پر اتارا ہے وہ فطرت کے وہ دکھ جن کی طرف عموماً دھیان نہیں جاتا۔ شعراء اکرام عموماً فطرت کی خوبصورتیوں، رعنائیوں اور حشر سامانیوں کو زیر بحث لاتے ہیں۔ وہ صرف اس کی دلکشی کو دیکھتے ہیں اور محبوب کے نازو ادا اور شوخی اور شرارت سے جوڑتے ہیں۔ مگر وہ یہ نہیں دیکھتے فطرت بدلتے وقت کے جبر کا بھی شکار ہو سکتی ہے۔ وہ ان پرا گندگیوں کا ذکر بھی نہیں کرتا جنہوں نے فطرت کے حسن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

کلیم نے پھول، پرندے، پودے، چڑیا، برگد، گل و نسترن، چنبیلی، پیڑ، پتے سب کا ذکر کیا ہے مگر انہوں نے دوسرے شعراء کے  تتبع میں ان کی خوبصورتیوں اور رعنائیوں کا تذکرہ چھیڑنے کی بجائے ان کے اجڑنے کا منظر پیش کیا ہے۔ منظر وہ انسان کی طرف سے فطرت کے ساتھ روا رکھے جانے سلوک پر ماتم کناں ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے فطرت نے کلیم سے اسی بدسلوکی کی عکاسی کی اپنی شاعری کے ذریعے کرنے کو کہا ہو۔

کلیم احسان لکھتے ہیں:

تمہارا کھیل تھا نادان بچو!

مگر چڑیا کو دیکھو مر رہی ہے (۵۲)

______

چھت میں اک گھونسلہ تھا چڑیا کا

گھر میں رونق تھی چہچہانے کی(۵۳)

______

اس کو پچھتانے پڑے گا یہ ہوا سے کہہ دو

پیڑ تو پتوں پرندوں سے حسین لگتا ہے (۵۴)

وقت کا طوفان فطرت پر کیا کیا ظلم ڈھاتا ہے اس کا ذکر و ان الفاظ میں کرتے ہیں:

کتنے معصوم پرندوں کا کلیمؔ

ایک طوفان نے گھر چھین لیا(۵۵)

______

اب تو برگد ہے نہ وہ پیڑ ہے شیشم کو کلیم

اب پرندوں کو بسیرا بھی یہاں کیسے ہو(۵۶)

______

پرندے کیا چمن میں چہچہاتے

یہاں تو رنگ و خوشبو تک نہیں ہیں (۵۷)

 

۷۔ غم اور آنسو

 

غم اور آنسوؤں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ غم کو قہقہوں میں چھپا بھی لیں تب بھی آنکھیں بھر آتیں ہیں۔ دنیا ایسا گورکھ دھندا ہے جہاں خوشیاں ہمیشہ آہو کے سائے میں پلتی ہیں اور کسی دریا کی طرح بہتے بہتے غموں کے سمندر میں جا ملتی ہیں۔ شاعر یوں بھی عام آدمی سے زیادہ حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے اس لیے وہ غموں اور دکھوں کو زیادہ محسوس کرتا ہے اور پھر نوکِ قلم میں ایسی روانی آتی ہے کہ سب کا سب ضبط تحریر میں آتا جاتا ہے کلیم نے اپنی شاعری میں اپنی زندگی کے دکھ درد سمیٹے ہیں تبھی آنسو اتنی روانی سے بہہ رہے ہیں۔ کلیم یوں بھی خاموش طبع کے مالک ہیں۔ ایسے لوگ اپنی اندرونی کیفیات کے ساتھ ساتھ دوسروں کے جذبات و احساسات سے بھی واقف ہوتے ہیں اور انہیں زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کھلے اور واضح انداز میں اپنی ذات پر گزرنے والے رنج و الم کا ذکر کیا ہے اور ان سب کے اظہار کا سب سے اچھا ذریعہ شاعری کے علاوہ اور ہو بھی نہیں سکتا تھا۔

شیخ عبدالرشید اس حوالے سے لکھتے ہیں:

’’انہی حیات کے خارزار میں سفر کرتے ہوئے انہوں نے جو دکھ جھیلے انہیں شعروں کی صورت دی ہے۔ کلیم احسان کی غزلوں کے جائزے سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حیاتِ انسانی کے مسائل کی تہہ در تہہ پیچیدگیوں کو نئے لہجے اور نئی سوچ کے ساتھ کس طرح تغزل کے سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ ‘‘(۵۸)

کلیم احسان لکھتے ہیں:

اشک بہائے جی بھر کے یا شعر کیے

یوں بھی دل کا بوجھ اتارا جا سکتا ہے (۵۹)

گویا کلیم کا عقیدہ ہے کہ شاعری در اصل دل کی حالتِ زار کا عکس ہوتی ہے اور شعر در اصل وہ آنسو ہیں جو لفظوں کی صورت اختیار کر کے آنکھوں کی بجائے زبان سے ٹپکتے ہیں۔

ہم جلائیں گے آنسوؤں کے چراغ

آج پھر دشتِ غم میں میلا ہے (۶۰)

______

ہمارا غم سے رشتہ مستقل ہے

ہمارے ہاتھ میں رونا لکھا ہے (۶۱)

ہماری زندگی آہوں اور آنسوؤں سے لبریز ہے۔ کلیم کی زندگی میں آنے والے اتار چڑھاؤ، نارسائی کی اذیت اور کچھ نہ کر سکنے کی تکلیف نے شاعری کو رنگ و آہنگ بخشا ہے۔

مائیں بیٹے نہ پالتی ہوں گی

ہم نے جیسے غموں کو پالا ہے (۶۲)

آنسوؤں کا ایک یہ بھی پہلو ہے کہ وہ خاموش احتجاج کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔

یہ بزدلی ہے یا پھر احتجاج جو کچھ ہے

ہمارے بس میں مگر چشمِ تر! یہی کچھ تھا(۶۳)

کہیں آنسو چراغ معلوم ہوتے ہیں۔

اس رات ستاروں کی بھی آنکھوں میں نمی تھی

اس رات تو آنسو بھی چراغوں کی طرح تھے (۶۴)

۸۔ حکمران طبقے پر تنقید

 

ابتداء میں غزل محبوب کے گیسو و رخسار، خم و کاکل، عشوہ و ادا میں الجھی ہوئی تھی۔ غزل کا بنیادی و مرکزی مقصد صرف حسن و عشق کے تصورات کا پرچار تھا۔ بلکہ غزل تھی ہی محبوب سے اظہارِ عشق کا نام۔ مگر جیسے جیسے غزل وقت کے تھپیڑے کھاتے آگے بڑھنے لگی اس کے موضوعات میں بھی تنوع آتا گیا۔ پہلے تو صرف غزل شاہوں کی قصیدہ نگاری پر اکتفا کرتی تھی۔ مگر پھر زمانے نے کروٹ لی اور غزل بے معنی قصیدہ نگاری سے نکل کر ایوانوں اور سلطنتوں کے مظالم کا پول کھولنے لگی۔ شعراء نے اب قصیدے لکھنے چھوڑ دیئے تھے۔ اب وہ عوام الناس کے غموں کا مداوا ڈھونڈنے کی سعی کر رہے تھے۔ لہٰذا شعراء نے کہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں تو کہیں بے بانگِ دہل حکمرانوں کی چیرا دستیوں اور بے انصافیوں پر تنقید کی ہے۔ یوں غزل اپنے نام نہاد خول سے آزاد ہو گئی اور نئے رنگ ڈھنگ کے ساتھ منظر عام پر آئی۔ غزل کی وضع قطع نہیں بدلی مگر اس کے موضوعات میں وسعت پیدا ہو گئی ہے۔

کلیم نے بھی جہاں معاشرتی مسائل اور زندگی کی نا آسودگیوں پر ماتم کیا ہے وہاں حکمران طبقے پر کڑی تنقید بھی کی ہے۔ انہوں نے بے خوف ہو کر ظالم حکمرانوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی نصیحت کی ہے۔

رات دن کی محنت سے بھوک ہے رعایا کو

بے شمار دولت ہے شاہ کے خزانے میں (۶۵)

______

اس کو تو چھوڑیئے جو عبارت کمال تھی

لہجے میں شہنشاہ کے حقارت کمال تھی(۶۶)

______

ہر بار میں توڑوں گا تیرے جبر کا دستور

ہر بار میرے واسطے زندان کھلا رکھ(۶۷)

وہ صرف حکمرانوں پر ہی تنقید نہیں کرتے بلکہ وہ ان شعراء پر بھی تنقید کرتے ہیں جو شاعری کو پانے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور اسے شاہوں اور با اثر لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ جو سراسر شاعری جیسے مقدس طریقے کی توہین ہے۔ وہ شعراء کی منافقت ہر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اک نئے قصیدے کی پڑ گئی ضرورت پھر

ایک اور خر زادہ آ گیا کرسی پر(۶۸)

وہ حکمرانوں اور شعراء کے ساتھ ساتھ عوام سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی منافقت سے باز آ جائیں اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف پر زور انداز میں کلمہ حق کہیں۔ وہ عوام سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی عزتِ نفس کو بچانے کے لیے ضرور کچھ کریں گے۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنے سے مشکلات کبھی بھی حل نہیں ہوتیں۔ لہٰذا لوگوں کو کسی مسیحا کے انتظار کی بجائے اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرنا ہو گا۔

کوئی تو کاسہ و کشکول توڑے

کوئی تو صاحبِ توقیر نکلے (۶۹)

______

ہر ظلم پر خاموش ہے مخلوقِ خدا کی

دیکھو تو ذرا منہ میں زباں ہے تو سہی ہے (۷۰)

وہ لوگوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں کہ ہمت اور ولولہ ہی منزل تک پہنچنے کا اصل ذریعہ۔ یہی وہ سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر انسان اپنے مقصد کو پا سکتا ہے اس کے پانے کے لیے چاہے سر ہی کیوں نہ کٹانا پڑے۔

تھکنے والا ہے دستِ قاتل اب

سب چلو با وضو سرِ مقتل(۷۱)

 

۹۔ داستانوی ماحول

 

کلیم احسان نے جا بجا اپنی شاعری میں داستانوی کرداروں کا ذکر کیا ہے۔ ہر انسان کے اندر مافوق الفطرت عناصر کی طرف دلچسپی اور رغبت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ وہ ان چیزوں کا ذکر کر کے اپنے پر تجسس رویے کو سکون بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔ بچپن میں سنی جانے والی کہانیوں کا عکس بڑی عمر تک ذہن پر نقش رہتا ہے اور انسان بچوں کی طرح ان میں دلچسپی لیتا ہے۔ اور ان کے ذکر میں خوشی محسوس کرتا ہے۔

الف لیلوی کہانیوں میں جسے آج سے صدیوں پہلے کے لوگ دلچسپی لیتے تھے جدید دور کا انسان بھی اسی دلچسپی اور انہماک کے ساتھ ان داستانوں اور قصّوں کو سنتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔

کلیم احسان بٹ کے کلام میں بھی ایسے کرداروں کا ذکر کافی ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں جا بجا ایسے شعر ملتے ہیں جن میں داستانوی اور غیر مرئی مخلوق کا ذکر کیا گیا ہے۔ چند مثالیں پیش ہیں:

پھر اس کو کچھ چڑیلوں نے مسکن بنا لیا

مدت تک رہا تھا وہ خالی مکان بند(۷۲)

______

شہزادے کو کسی حربے سے کالا کر دیا

اس نے کانے دیو کو پریوں کا راجا کر دیا(۷۳)

______

ایک سایہ ہمارے آنگن میں

رات سونے کے تھال سے اترا(۷۴)

______

جب گزر کے آگے ہوں سامری کی بستی سے

اک شہزادی کھڑی ہے زندگی کے رستے میں (۷۵)

______

نہ پری کی تھی اور نہ جادو کی

یہ کہانی تھی ایک جگنو کی(۷۶)

______

تھا کوئی پریت وہ سایہ تھا یا چھلاوہ تھا

کوئی ضرور یہاں پر میرے علاوہ تھا(۷۷)

______

جادوگر، چڑیلیں اور دیو، جن، پریزادے

دست بستہ حاضر تھے اس کی ایک تالی پر(۷۸)

______

شہزادہ جب چوتھی سمت کو جاتا ہے

سبز پرندہ اس کو راہ دکھلاتا ہے (۷۹)

غرض کے ایسے بے شمار اشعار ہیں جو کہ اپنے اندر ماورائی کہانیاں چھپائے بیٹھے ہیں۔

 

۱۰۔ شاعرانہ تعلّی

 

اردو شعراء کے ہاں اپنی تعریف کا عنصر بھی اکثر جگہوں پر ملتا ہے۔ شاعرانہ تعلی اکثر شعرا کے کلام کا حصہ ہے۔ وہ اپنی شاعرانہ قابلیت کو مختلف انداز و تصورات کے تحت بیان کرتے ہیں۔ قدیم شعراء بھی اس فکر میں مبتلا تھے اور جدید شاعر بھی اس سے محفوظ نظر نہیں آتے۔ یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ شاعری آورد نہیں آمد کی بات ہے۔ یہ سیکھنے سے نہیں آتی۔ یہ تو خدا کی ودیعت کی ہوئی صلاحیت ہے جو وقت کے ساتھ نکھاری تو جا سکتی ہے۔ مگر کسی منصوبے کے تحت پیدا نہیں کی جا سکتی۔ شاعری چونکہ آمد کا نام ہے اس لیے تھوڑا بہت تعلی تو شاعر کا حق بنتا ہے اور ویسے بھی یہ شاعری کا لطف بڑھا دیتا ہے۔

ہمیں تمام ہی شعراء کے ہاں اپنی اور اپنے کلام کی تعریف پڑھنے کو ملتی ہے۔ کلیم احسان بھی اس مقابلے میں پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے بھی بعض مقامات پر شاعرانہ تعلی سے کام لیا ہے مگر اس سے ہرگز ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کسی قسم کی شیخی بگھار رہے ہیں۔ بلکہ ایسا ہر اظہار فطری معلوم ہوتا ہے جس میں سچائی پورے خلوص سے جلوہ فگن ہے۔

کہاں تاثیر ہوتی ہے غزل میں

دلِ صد چاک سے رس کھینچتا ہوں (۸۰)

______

ہو گی نہ میرے شعر کی تمثیل کسی روز

اترے گا میرے نطق میں جبریل کسی روز(۸۱)

______

اس کو سخن میں کیوں نہ ہم استاد مانتے

جو یوں ردیف باندھ کے لائے ہزار دست(۸۲)

کلیم اپنے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فن کے باب میں نئی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ جس سے پورا کا پورا ادب حیرت زدہ ہے۔

اک بنائے تازہ رکھی میں نے فن کے باب میں

حرف و صوت و رنگ و حرکت سارے حیرت آشنا(۸۳)

اپنے شاعر ہونے کے بارے میں وہ بڑے خوبصورت انداز میں کہتے ہیں:

نہ جانے کیسے خبر تھی اسے میں شاعر ہوں

کلیمؔ جس نے بھی بچپن میں نام رکھا تھا(۸۴)

کلیم احسان تنہائی پسند انسان ہیں اور مجلسی زندگی سے خود کو دور رکھتے ہیں مگر ان کے اشعار ہر جگہ انہیں پہچان دیتے ہیں۔ وہ اس کا ذکر یوں کرتے ہیں:

ہم اپنے لفظوں سے لوگوں میں معتبر ٹھہرے

وگرنہ اپنی تو کم کم سے آشنائی تھی(۸۵)

اپنی شاعری کے بارے میں وہ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں کہ ان کی شاعری آمد کی شاعری ہے اس کی دلیل میں وہ یوں کہتے ہیں:

مجھے الہام ہوتے ہیں مضامین

کمایا ہے یہی اتنے برس میں (۸۶)

ڈاکٹر سعید اقبال اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’پروفیسر کلیم احسان بٹ کو مضامین واقعی الہام ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری جدّت اور روایت کا ایک خوبصورت سنگم ہے جس میں جدّت کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں حسن و عشق کی دل آویزیاں لب و رخسار کے افسانے اور ہجر و وصال کے مضامین بہت کم نظر آتے ہیں۔ لیکن جہاں ان کا ذکر ہے وہاں ان کا اپنا انداز اور رنگ ہے۔ ‘‘(۸۷)

 

۱۱۔ مذہبی رجحان

 

کلیم احسان جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس طبقے کے لوگ روحانی طور پر مذہب سے بہت قریب ہوتے ہیں۔ اور دینی معاملات میں رسوم و قیود کی پابندی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی تیسری شاعری کی کتاب کا انتساب بھی خدائے ذوالجلال کے نام لکھا ہے۔

’’اس قادر مطلق کے نام جس نے نہ صرف مجھے نعمتوں سے نوازا بلکہ ہر غم برداشت کرنے کا حوصلہ بھی دیا۔ ‘‘

کلیم کی شاعری کی تینوں کتابوں میں ان کے مذہبی رجحان کا بھر پور اظہار ملتا ہے ان کی کتابوں کا آغاز حمد و نعت سے ہوتا ہے۔ جس کے بعد سلام بھی ملتا ہے۔ گویا مذہب سے اپنے لگاؤ کا اظہار غزل کی ہیئت میں بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں۔

نمونے کے چند شعر پیش ہیں:

بادل بھیجنے والے تیرا نام ہے سچ

جل تھل بھیجنے والے تیرا نام ہے سچ

جسم کے اندر باہر میری سانسوں کو

پل پل بھیجنے والے تیرا نام ہے سچ(۸۸)

نعت کے چند اشعار یوں ہیں:

ہم نے کھینچے لاکھ نقشے نعت کے

ہو سکے ہیں چند مصرعے نعت کے (۸۹)

______

تیری ثناء کا حساب و شمار کیا رکھنا؟

تیرے درود پہ قیدِ عدد نہیں ہو گی(۹۰)

______

تیری عطا سے ملے جس قدر کسی کو ملے

بس ایک جام غلامانِ زر خرید میں لکھ(۹۱)

کلیم احسان نے سلام بھی لکھا ہے اس کی ہیئت بھی غزل کے اندازو اطوار میں ہے۔

حوصلہ، صبر، استقامت کا

کربلا نام ہے قیامت کا

اس نے سجدے میں سر کٹا ڈالا

حق ادا کر دیا امامت کا(۹۲)

انہوں نے اپنی غزلوں میں بھی اکثر جگہوں پر حضرت امام حسین کی بہادری اور شجاعت کا ذکر کیا ہے کیونکہ اُنہی کے دم سے دین کو حیاتِ نو نصیب ہوئی ہے۔

میں جانتا تھا مجھے پیاس مار ڈالے گی

میں بس حسینؓ کی سنت میں جنگ کرتا رہا(۹۳)

______

پہلے تو قتلِ آلِ پیغمبرؐ کیا گیا

پھر کربلا کی شام پر ماتم کیے گئے (۹۴)

______

منصور ہو حسین ہو یا ہو کلیم تم

ہوتے سر بلند چنیدہ سے جنگ میں (۹۵)

 

۱۲۔ بدلتے انسانی رویوں پر تنقید

 

دنیا میں نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ ان ایجادات نے جہاں انسان کی زندگی پر مثبت اثرات ڈالے ہیں وہاں مادیت پرستی کو بھی فروغ دیا ہے۔ کوئی بھی چیز جو تصور کا حصہ بنتی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے حقیقت کا روپ دھار کر ہمارے سامنے موجود ہوتی ہے۔ وقت کی اس جدت اور تیزی نے جہاں ہماری زندگیوں پہ مثبت اثرات مرتب کیے ہیں وہاں منفی اثرات بھی پڑے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان انسانی رویوں میں مادہ پرستی کے شامل ہونے کا ہے۔ انسان آپس کے رشتوں ناطوں کو ضروریات اور مقاصد کی کسوٹی پر پرکھنے لگ گیا ہے۔ جذبوں کی سچائی اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ اب انسان ذاتی مفادات کے حصول کے لیے دوسروں کا گلا کاٹنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ رشتے اپنا تقدّس کھو چکے ہیں۔ ہر طرف کھینچا تانی کی سی فضا ہے جس نے اپنوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔

کلیم نے ایسے ہی انسانی رویوں پر تنقید کی ہے۔ بڑے مدلل اور پر زور الفاظ میں وہ اپنے شعروں میں اس کا اظہار کرتے ہیں:

مجبوریوں کے ہاتھ میں اولاد بیچ دی

یہ شہر تھا عجیب، تجارت کمال تھی

بچوں کو جب حلال کھلاتے تھے والدین

بستی کی لڑکیوں میں طہارت کمال تھی(۹۶)

______

شہر مردوں سے بھر گیا ہے کلیمؔ

کوئی زندہ نہیں کہیں دیکھا(۹۷)

محمد اشفاق ایاز اس بارے میں رقم طراز ہیں:

’’کلیم کی شاعری تہذیبی اور سماجی شعور کی گہری چھاپ لیے ہوئے ہیں۔ انسان جس معاشرے میں جیتا ہے سانس لیتا اور زندگی بسر کرتا ہے وہاں اسے مختلف لوگوں اور رویوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کہیں ان کا انداز مثبت ہوتا ہے اور کہیں منفی۔ ان رویوں سے کہیں بے حسی جنم لیتی ہے تو کہیں نفسا نفسی، کہیں افراتفری تو کہیں اخلاقی اقدار کی پامالی، کلیم احسان اپنے اردگرد کے ماحول ہر گہری نظر رکھے ہوئے معاشرے کے ان سارے انسانی رویوں کا بغور تجزیہ کرتا ہے۔ ان سے گہرا تاثر قبول کرتا ہے۔ ‘‘(۹۸)

آج کا انسان ابن الوقت کا روپ دھار چکا ہے۔ اور خالص، سچے اور مخلص لوگ اب تقریباً ناپید ہو چکے ہیں۔

اغراض نے اخلاص کی صورت ہی بدل دی

اب کوئی کسی سے کبھی بے جا نہیں ملتا(۹۹)

______

تم نے پوچھا ہے ہم کون ہیں دوستو

وہ جو ناپید ہوتے ہوئے لوگ ہیں (۱۰۰)

 

۱۳۔ فلسفیانہ اندازِ فکر

 

کلیم کی شاعری کا ایک اور رنگ ان کی شاعری میں تصوف کے عنصر کی موجودگی ہے۔ فلسفیانہ اندازِ فکر کے حوالے سے اردو غزل میں خواجہ میر درد کا نام سب سے نمایاں ہے مگر تقریباً تمام ہی شعراء کے ہاں یہ تصور ملتا ہے۔ کلیم نے بھی اپنی شاعری میں تصوف اور عشقِ حقیقی کا تصور پر زور انداز میں بیان کیا ہے۔ زندگی کی لایعنیت، بنی نوع انسان میں بڑھتی ہوئی مادہ پرستی، دنیاداری، لالچ، حرص، مذہب سے لاتعلقی اور روحانیت سے دوری نے ان گنت مسائل کو پیدا کیا ہے۔ اپنی ذات کا احساس ہو جانا انسان کو خدا سے ملا دیتا ہے۔ اگر اس فانی دنیا کی حقیقت کا ادراک انسان کو ہو جائے تو پھر زندگی سے نبرد آزما ہونا آسان ہو جاتا ہے۔

کلیم کی شاعری میں بیش بہا ایسے اشعار ملتے ہیں جو ان کی روحانی مسائل سے آگہی ہر استدلال کرتے ہیں۔

آدمی سے کہتا ہے ڈوبتا ہوا سورج

ہر خوشی تو آدھی ہے زندگی کے رستے میں (۱۰۱)

______

میں اپنی ذات میں الجھا ہوا تھا

مجھے مشکل مرا ہونا ہوا تھا(۱۰۲)

______

میری آنکھوں میں چمکتا ہو آنسو

کسی مسجد میں دیا ہے شاید(۱۰۳)

______

اک شہنائی بج رہی ہے کلیمؔ

جو عدم تک سنائی دیتی ہے (۱۰۴)

______

میرے اندر ہیں کبوتر اتنے ہیں

کوئی دربار بنا ہے شاید(۱۰۵)

______

میرے باہر خموشی چھا گئی ہے

میرے اندر کبوتر بولتے ہیں (۱۰۶)

خدائے ذوالجلال کی قدرتوں اور حکمتوں کے جلوے جو کائنات میں چاروں طرف بکھرے پڑے ہیں در اصل اس کی ذاتِ کن فیکون کا پتہ دیتے ہیں۔ جو بظاہر کہیں نظر نہیں آتی مگر ہر جگہ جلوہ افروز ہے۔

کلیم اسی تصور کو یوں پیش کرتے ہیں:

ہر کسی میں اسی کا جلوہ تھا

گو بظاہر خدا نہیں دیکھا(۱۰۷)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

وہ مجھے دید کیوں نہیں دیتا

خود کو جانے کہاں چھپا آیا(۱۰۸)

محمد اشفاق ایاز لکھتے ہیں:

’’کلیم کی شاعری میں تصوف کا رنگ بھی ہے اور یہی اس کی حیرت کا منبع بھی ہے وہ تصوف کے روایتی مضامین بیان نہیں کرتا بلکہ اپنی اس وجدانی کیفیت اور حیرت کا اظہار کرتا ہے جو دید کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘(۱۰۹)

زندگی ایک بے معنی اور ناقابلِ اعتبار چیز ہے انسان تمام عمر اس کی تلاش میں صرف کر دیتا ہے اسے اسی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ زندگی تا حیات سرابوں کا تعاقب ہے اور انسان جانتے ہوئے بھی اس کا پیچھا کرنے پر مجبور ہے۔ زندگی کے اسی فلسفے کو کلیم نے بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے:

سرابوں ہی سرابوں کا تعاقب زندگی نکلی

حقیقت کے فسانوں کا میں پیچھا کیا کروں یارب(۱۱۰)

 

۱۴۔ رشتوں کا ذکر

 

رشتے انسانی زندگی کا اہم ترین جزو ہیں۔ ان کے بغیر زندگی بے رنگ اور بے کیف ہوتی ہے۔ انسان معاشرتی حیوان ہے۔ تنہا زندگی گزارنا اس کے لیے نا ممکن ہے۔ انسان کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما میں جو ضروری عوامل کارفرما ہوتے ہیں ان میں قریبی رشتوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ رشتوں میں بگاڑ معاشرے میں افراتفری اور بے چینی کا باعث بنتا ہے۔ جو معاشرے کو تنزلی کی طرف لے جاتا ہے اور بالآخر معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔

’’کلیم نے اپنی شاعری میں رشتوں ماں، باپ، بہن، بھائی کو خاص اہمیت دی ہے۔ ان سے منسوب احساسات و جذبات کو گہرائی اور عقیدت سے پیش کیا ہے۔ کلیم خونی رشتوں کی خوشگوار مہک کو بخوبی محسوس کرتا ہے۔ خونی رشتے معاشرتی سطح پر اخلاقی اقدار کے امین ہیں۔ جہاں رشتوں کا احترام ختم ہو جاتا ہے وہاں اخلاقی زوال پورے معاشرے کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ ‘‘(۱۱۱)

کلیم نے جس انداز میں رشتوں کو ذکر کیا ہے اس سے معاشرے اور انسانی زندگی میں ان کی اہمیت اور خود کلیم احسان کی ان سے جذباتی وابستگی اور انسیت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ وہ یقیناً اپنے رشتوں سے گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ان کا ذکر اپنے کلام میں کر کے جذباتی سکون حاصل کرتے ہیں۔

بارش کے ساتھ ٹھنڈی ہوا، جنوری کے دن

اور ماں کے گرم گود سے کوسوں کی دوریاں (۱۱۲)

______

مجھے عزیز ہے بھائی کسی بھی صورت میں

کسی بھی طور میں قابیل ہو نہیں سکتا(۱۱۳)

______

باندھا ہوا ہے ماں کی محبت نے گھر میں مجھے

ورنہ میں اک مسافت بے جا میں شاد تھا(۱۱۴)

رشتوں کی نزاکت سے وہ خوب واقف ہیں اور اسی حساب سے انہیں نبھانے کو ہنر بھی بتاتے ہیں۔ وہ بہت باریک بینی سے ہر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

تم گھر کی منڈیروں کو ذرا اور بڑھا لو

روکو گے بھلا کیسے کسی بہن کے قد کو(۱۱۵)

انہیں اپنی اولادِ نرینہ کے نہ ہونے کا غم بہت تھا اور اس کا ذکر انہوں نے اپنی شاعری میں بھی کیا ہے:

کون اب ہاتھ اٹھائے کو دعا کے لیے

میں کہ لا ولد مرا دنیا سے بے نام اٹھا(۱۱۶)

 

۱۵۔ ہجرت کا تصور

 

کلیم کی شاعری میں ہجرت کا تصور جگہ جگہ بکھرا ہوا ملتا ہے۔ انہیں اپنی تعلیمی مصروفیات سے لے کر حصولِ روزگار اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہوں پر جا کر رہنا پڑا۔ ان کا آبائی گاؤں جلال پور جٹاں (گجرات) ہے مگر روزگار کے سلسلے میں راولپنڈی میں رہائش ہیں۔ اپنے گھر سے دوری اور اپنوں کی جدائی انسانی سوچ اور جذبات پر اثر انداز ضرور ہوتی ہے۔ شاعر حضرات تو ویسے بھی عام لوگوں سے زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ اب باتوں کا زیادہ اثر لیتے ہیں۔ کلیم کے ہاں یہ دکھ ہمیں دوسروں شعراء سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ شاید اس لیے کہ و اپنے ساتھ ساتھ آج کے دور کے ہر انسان کا دکھ بھی بیان کر رہے ہیں۔ کلیم جا بجا اس دکھ کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں:

ہمیشہ ہجرتوں کی زد میں رہنا

ہماری خاک کی قسمت یہی ہے (۱۱۷)

______

یعنی سفرِ تمام سرِ نوکِ خار ہے

یاں رقص پا فگار ہے خمیازۂ سفر(۱۱۸)

دور بیٹھے ہوئے اپنوں کی یاد کس طرح رات تڑپاتی ہے کلیم اس حوالے سے بہت سادہ مگر پر اثر انداز میں لکھتے ہیں:

ہجر میں آنکھ بھی نہیں لگی

دیر تک جاگنا بھی مشکل ہے (۱۱۹)

______

بہارِ صحنِ چمن میں ہے سوگوار کھڑی

کہ پیڑ پیڑ پہ ہجرت تھی اور کچھ بھی نہ تھا(۱۲۰)

______

اس سے بچھڑے دو برس اب ہو گئے مجھ کو کلیمؔ

میرے گھر ہجر کا میلا تھا پچھلی شام کو(۱۲۱)

انسان بہرحال انسان ہے وہ کتنا بھی مضبوط اور بلند حوصلہ کیوں نہ ہو۔ حالات کی ستم ظریفی سے بالآخر گھبرا ہی جاتا ہے۔ کلیم بھی ان ہجرتوں سے گھبرا گئے ہیں اور بالآخر سوچتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ٹھکانہ ضرور ہونا چاہیے جہاں مستقل ٹھہر کر زندگی سکون کے ساتھ بیتائی جائے۔ دیکھا جائے تو یہ ان کی اپنی سوچ ہی نہیں آج کی دنیا کا انسان اسی دھن میں پوری زندگی گزار دیتا ہے کہ کبھی نہ کبھی تو ٹھکانہ میسر آئے گا۔ اور ہجرتوں سے نجات ملے گی۔

پھر رہا ہوں یوں دربدر کب سے

کسی بستی میں اب ٹھکانہ کر(۱۲۲)

 

۱۶۔ عہدِ حاضر کی منافقت ہر ملال

 

جب سے غزل حسن و عشق، گل و بلبل، روٹھنے اور منانے کے قصے چھوڑ کر حقیقی دنیا کی باتیں کرنے لگی ہے۔ اس کی رعنائی اور دلکشی میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اردو غزل اب ماورائی اور تصوراتی دنیا سے نکل کر مسائل اور آلام اور آسائش کی چکی میں پستی ہوئی دنیا میں نکل آئی ہے۔ اس لیے اب غزل میں ہر طرح کے موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ہر لحظہ بدلتے ہوئے رویے جدید ترقی یافتہ دنیا کی پیداوار ہیں۔ بظاہر لوگ بہت اچھے اور مخلص نظر آتے ہیں۔ مگر حقیقت میں اس سے قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ رشتوں، محبتوں، رویوں غرض کہ منافقت نے ہر جگہ ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ ہر چہرہ اپنے اندر ایک اور چہرہ چھپا کے بیٹھا ہے۔ جو بہت خوفناک ہے۔ حقیقت اپنا توازن کھو چکی ہے۔ ہر طرف منافقت اور دیا کاری کا راج ہے۔ کلیم اسی منافقت پر نوحہ کناں ہیں:

زباں پر ہوتی ہیں اکثر حلال کی باتیں

اگرچہ ہاتھ میں لقمے حرام ہوتے ہیں (۱۲۳)

______

میں اسے کیسے جان سکتا تھا

ایک چہرہ تھا اس کے چہرے پر(۱۲۴)

______

جس شخص کو سالار بنا رکھا تھا میں نے

وہ شخص میرے سامنے لشکر میں کھڑا ہے (۱۲۵)

______

مجھ کو لے آئے ہیں جو غیر کے نرغے میں یہاں

وہ میرے قافلۂ سالار میرے قاتل تھے (۱۲۶)

آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ یہ منافقت شخصی جگہ سے لے کر سیاسی اور حکومتی سطح تک ہر جگہ موجود ہے۔

امیرِ شہر کے قاتل کا کل سے

فصیلِ شہر پہ پہرا لگا ہے (۱۲۷)

______

شہر کی بنیاد میں پانی بھرا جس کے سبب

آپ نے اس کے حوالے شہر سارا کر دیا(۱۲۸)

یہ منافقت ہمارے معاشرے کو بری طرح تباہ کر رہی ہے جو آخر کار کسی بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کو بہت ہی موثر استعارے میں کلیم نے یوں بیان کیا ہے۔

کھا رہی ہے وہ گھر کا دروازہ

صاف دیمک سنائی دیتی ہے (۱۲۹)

 

۱۷۔ موسیقی سے آشنائی

 

فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے لوگ موسیقی سے خوب دلچسپی رکھتے ہیں۔ امیر خسرو اس حوالے سے خوب جانے جاتے ہیں جنہوں نے سر اور تال سے مہمیز شاعری کی۔ جو آج بھی لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ کلیم احسان بٹ بھی موسیقی سے گہری رغبت رکھتے ہیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کون سا راگ کون سے وقت اور کس قسم کے جذبے کا عکاس ہوتا ہے۔

ہمارا درد کا رشتہ تھا بھیرویں سے کلیمؔ

ہماری سُر سے نہ سرگم سے آشنائی تھی(۱۳۰)

______

دیپک سنتا رہتا ہے وہ

جس کے من میں سلگا دکھ(۱۳۱)

محبوب کی نظرِ التفات سے عاشق کی خوشی مضراب کی مانند چہکنے لگتی ہے۔

ادھر اس نے جبیں پہ ہاتھ رکھا

ادھر بجنے لگے مضراب کتنے (۱۳۲)

______

چلو ناصر کو پڑھتے ہیں

پہاڑی راگ سنتے ہیں (۱۳۳)

 

۱۸۔ داخلیت اور خارجیت

 

کوئی بھی شاعر اور ادیب اپنے ماحول اور معاشرتی حالات و واقعات سے الگ تھلگ رہ کر نہیں جی سکتا۔ حالات جہاں اس کی زندگی پر اثرات مرتب کرتے ہیں وہاں اس کا فن بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ شعراء اکرام کے ہاں معاشرتی ناہمواریوں اور مسائل کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ وہ وزن طر کی پابندیوں میں ان کا ذکر کا کے قاری کے ذوق کو بھی تسکین بہم پہنچاتے ہیں یہی اچھے شاعر کی نشانی ہوتی ہے۔

اشفاق ایاز ان کی کتاب ’’حیرت باقی رہ جاتی ہے ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’کلیم کی شاعری محض اپنے ذات کا اظہار نہیں بلکہ عوام و خواص کی زندگی کے متنوع پہلوؤں کی ترجمان ہے اسے کسی خاص طبقہ یا فکر کا شاعر نہیں کہا جا سکتا۔ وہ ہر قسم کے انسانی جذبات کو اپنی شاعری کا موضوع بناتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا شعر معیار کی کسوٹی پر ہی پورا نہیں اترتا ہے بلکہ اثر انگیز بھی ہوتا ہے۔ ‘‘(۱۳۴)

کلیم لکھتے ہیں:

رات دن کی محنت سے بھوک ہے رعایا کو

بے شمار دولت ہے شاہ کے خزانے میں (۱۳۵)

______

خوف سے شہر کے چہرے پہ دھواں اڑتا ہے

پھر بھڑکتی ہے کوئی آگ کہیں لگتا ہے (۱۳۶)

داخلیت کے تصور کے ضمن میں ان کے چند اشعار درج ہیں:

خون رویا تھا میری آنکھوں نے

میں نے جب حرفِ تمنا لکھا(۱۳۷)

______

شہروں میں اک خیال کے سائے سے بھر گئے

گلیوں کے اک گمان کے اندر ہیں آہٹیں (۱۳۸)

______

کل رات میری آنکھ نے گریہ کیا غضب

میں روبرو تھا غم کے مرے رُوبرو تھا غم(۱۳۹)

______

اب تو دوزخ میں جل رہے ہیں کلیمؔ

بعد مرنے کے دیکھئے کیا ہو؟(۱۴۰)

 

۱۹۔ مسائلِ زندگی کا اظہار

 

انسان کو خدا نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ وہ کبھی بھی ایک دوسرے سے لاتعلق رہ کر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ شعراء حضرات اپنی حساسیت کے بل بوتے پر عوام الناس کے مقابلے میں زندگی کو دیگر زاویوں سے پر رکھتے ہیں۔ کلیم نے زندگی کی ویرانیوں اور نا آسودگیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ معاشرے میں بکھرے تضادات، تعصبات اور تشدد کے رویے نے انہیں شعوری طور پر بہت متاثر کیا ہے۔

شیخ عبدالرشید اس حوالے سے لکھتے ہیں:

’’اس کے مجموعۂ کلام کے مطالعے کا حاصل یہ ہے کہ آج ہم قدروں کے انحطاط معیاروں کے نراج اور اصولوں کی طوائف الملوکی میں زندہ ہیں۔ ہمارے عہد کے لخت لخت معاشرے اور ادھڑتی، اجڑتی تہذیبی تھکن نے اقدار کا نظام چٹخ دیا ہے۔ سچائی کا سبو چور چور ہے۔ تشدد اور تعصب کی مہیب کروٹوں نے تحفظ کی چادر تار تار کر دی ہے اور ہنگامہ من و تو میں زندگی مسائل کی صلیب پر لٹک کر جھول رہی ہے۔ ‘‘(۱۴۱)

کلیم کے ہاں غمِ زیست جا بجا دکھائی دیتا ہے۔ یہ اتنا شدید ہے کہ غمِ عشق بہت پیچھے رہ گیا ہے۔

گر گئی ہے مشکلوں میں زندگی کچھ اس طرح

اب تمہارے ساتھ نہ ہونے کا غم جاتا رہا(۱۴۲)

کتنی آسان زندگی تھی کلیمؔ

کتنا دشوار ہو گیا جینا(۱۴۳)

______

ہم جلائیں گے آنسوؤں کے چراغ

آج پھر دشتِ غم میں میلہ ہے (۱۴۴)

کلیم احسان نے سماجی ناہمواریوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ انسان جو ضروریات اور مصائب کی چکّی میں پس رہا ہے۔ وہ ان کے لیے اب برداشت سے باہر ہے۔

مستقل آزار سے جی بھر گیا ہے

ان درو دیوار سے جی بھر گیا ہے (۱۴۵)

ان مصائب اور آلام نے انسان کو اتنا زچ کر دیا ہے کہ وہ ہر حد تک جانے کو تیار ہو گیا ہے۔ یہاں تک کے کبھی وہ خود کو اور کبھی اپنی اولاد کو فروخت کے لیے پیش کر دیتا ہے۔

مجبوریوں کے ہاتھ میں اولاد بیچ دی

یہ شہر تھا عجیب، تجارت کمال تھی(۱۴۶)

______

آج عزت کو بیچ آیا ہے

اور بھوکا کسان کیا کرتا(۱۴۷)

______

اس شخص سے اس شہر کے حالات نہ پوچھو

جو چاکِ قبا، خار بپا، خاک بسر ہے (۱۴۸)

غرض یہ کہ جیون کی جس چکّی میں انسان پس رہا ہے اور مسائل کے جس گرداب میں روزبروز ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔ کلیم نے ان کا تذکرہ اپنے شعروں میں کر کے نشان دہی کر دی ہے۔ تا کہ ان کا ازالہ کیا جا سکے۔

 

۲۰۔ یادیں اور خواب۔۔ ۔ سرمایۂ زندگی

 

یادیں ہر ذی شعور انسان کا قیمتی سرمایہ ہوتیں ہیں اور خواب کے بغیر زندگی بے مقصد ہوتی ہے۔ انسان جیسے ہی شعور کی سیڑھیوں پر قدم رکھتا ہے خواب اسے آ دبوچتے ہیں۔ وہ چاہتے ہوئے بھی ان سے رہائی نہیں پا سکتا۔ یہ اگر نا آسودہ رہ جائیں تو زندگی کا روگ بن جاتے ہیں۔ ہر صورت میں خواب حیاتِ انسانی کا جز لاینفک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلیم کی شاعری بھی خواب اور یادوں کے حصار سے باہر نہیں آئی۔ ان کے ہاں یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

ان کی شاعری نا آسودہ اور بکھرے خوابوں کا منبع معلوم ہوتی ہے۔ جہاں ہر آن درد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

لہو رونے سے فرصت ہی نہیں ہے

یہ آنکھیں دیکھتی تھیں خواب کتنے (۱۴۹)

اک عمر ایسی ہوتی ہے کہ خواب ہی سب کچھ معلوم ہوتے ہیں۔ انسان خوابوں کی دنیا میں اپنی ایک الگ ہی بستی بسا کر بیٹھ جاتا ہے۔ اور پھر اس میں گزرتے شب و روز میں سانس لیتا ہے۔ وہ خواب بننے کی عمر ہوتی ہے مگر جیسے ہی حقیقت کی دنیا پوری تلخیوں اور شدت کے ساتھ اسے جھنجھوڑتی ہے تو خوابوں کا شیش محل پٹاخ سے زمین پر آ گرتا ہے۔ جس کی کرچیاں آنکھوں کو لہو رونے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ رفتہ رفتہ انسان حقیقت کے ساتھ سانس لینے لگتا ہے اور خوابوں میں گزارے دن میں بھی خواب ہو جاتے ہیں۔

اک وقت وہ گزرا ہے کہ خوابوں پہ یقین تھا

اک وقت یہ آیا ہے کہ وہ دن بی ہوئے خواب(۱۵۰)

______

میں کتنے خواب تیرے پاس لے کے آیا تھا

اے آسمان! تیری خاک پر یہی کچھ تھا(۱۵۱)

خانگی زندگی کی الجھنیں اور مصروفیات خوابوں کو بے رنگ اور بے کیف کر دیتی ہیں۔ انسان ان میں الجھ کر اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے۔ بس ذمہ داریاں ہی رہ جاتی ہیں جو آکٹوپس کی طرح اسے اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہیں۔

کھا گئی ہیں پھر سارے گھر کی جاگتی آنکھیں

کتنے خواب رکھے تھے میں نے آج بٹوے میں (۱۵۲)

______

وہ یادیں جو مجھ کو میری ہستی کا نشان تھیں

وہ خواب جو مجھ کو میری آنکھوں کی طرح تھے (۱۵۳)

(چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۳۴)

پھر وقت کے ساتھ ساتھ انسان ہمت کرتا ہے اور ٹوٹے ہوئے خوابوں کو پھر سے جوڑ کر ان میں نئی زندگی کی رمق پھونکنے تگ و دو میں لگ جاتا ہے کہ شاید زندگی میں ان کی تعبیر انہیں مل جائے اور وہ اپنے دکھوں اور اذیتوں کا مداوا کر سکے۔ کلیم نے اسی جذبے کو شعر میں ڈھالا ہے۔

اس طور حقیقت سے گریزاں نہ رہا کر

کیا ہو گا کسی وقت اگر ٹوٹ گئے خواب(۱۵۴)

ٹوٹے ہوئے خوابوں کو جوڑنے اور منزل تک پہچانے کے لیے انسان کو خود ہی کوشش کرنی پڑتی ہے مگر اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا۔

اس شہر کی گلیوں میں کسے ڈھونڈ رہے ہو ۹۰

ٹوٹے ہوئے خوابوں کا مسیحا نہیں ملتا(۱۵۵)

______

خواب بھی خواب ہوئے اب تو یہاں پر یارو

زخم بھی دیدہ بے خواب کی ایک صورت ہے (۱۵۶)

 

۲۱۔ اکیلا پن

 

انسان اپنی ذہنی اور جسمانی ساکت، فطری اور جذباتی میلان کے باعث تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسے اپنے آس پاس اپنے ہی جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جن سے وہ بات کر سکے میل ملاپ رکھ سکے اور تنہائی سے اپنے آپ کو بچا سکے۔ اکیلا پن اسے ذہنی کرب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ رشتے، ناطے، دوستیاں، تعلق سب زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ جہاں انسان تنہا ہوتا ہے وہاں وہ وحشت اور کوفت کا شکار ہوتا ہے۔ داخلی طور پر بھی وہ تنہائی سے خوف کھاتا ہے اسے ہر وقت اپنے اردگرد اپنے احباب اور عزیز و اقارب کا مجمع چاہیے وگرنہ دوسری طرف تنہائی اسے نیم پاگل کر دیتی ہے۔ تنہائی صرف ظاہری یا خارجی ہی نہیں ہوتی بلکہ اردگرد ہجوم دوستاں کے باوجود انسان تنہائی کے کرب میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایسا رشتوں کی دوری اور لاتعلقی کی وجہ سے ہوتا ہے جو انسان کو جذباتی طور پر تنہا کر دیتے ہیں۔

کلیم احسان کے ہاں تنہائی کا تصور ویسا ہی ہے جیسا ایک جیتے جاگتے اور با شعور انسان کے اندر ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ شاعر ہونے کے ناطے اسے شدت سے محسوس کرتے ہیں اور پھر اشعار کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔

جب بھی تنہا ہوتا ہوں

کتنا تنہا ہوتا ہوں (۱۵۷)

______

حال ہی دل کا مرے ایسا تھا پچھلی شام کو

میں اکیلے میں بہت رویا تھا پچھلی شام کو(۱۵۸)

انسان بھرے مجمع میں بھی تنہا ہی ہوتا ہے اس کی وجہ انسان کی اپنی اپنی مصروفیات ہیں جنہوں نے انسان کو تنہا کر دیا ہے۔

یوں تو کوئی یوں اجنبی بستی نہیں لیکن کلیمؔ

ڈھونڈتا ہوں شہر بھر میں کوئی صورت آشنا(۱۵۹)

 

۲۲۔ خود داری

 

کلیم کے کلام کا گہرا مطالعہ کرنے سے جو رویے سامنے آتے ہیں ان میں ایک رویہ خود داری کا بھی ہے۔ کلیم خدائے ذوالجلال کے بعد اپنی ذاتی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے والے انسان ہیں۔ ان کے مجموعۂ کلام کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ کسی کا دستِ نگر بننا تو درکنار ایسا سوچنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے کلام میں بھی اس سوچ کو پروان چڑھاتے نظر آتے ہیں۔ خود داری کا یہ پہلو کلیم کی شخصیت کا اہم عنصر ہے۔ کلیم اپنے اندر اتنی جرأت رکھتے ہیں کہ وہ ظالم حاکم کے سامنے کلمۂ حق بلند کر سکیں اگر انسان کے ارادے مضبوط ہوں تو کوئی بھی چیز اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ حالات کیسے بھی ہوں سچ کا ساتھ کبھی بھی نہیں چھوڑا جا سکتا۔

زبان بندی کے موسم میں بھی ہم کو

جہاں تک ہو سکے سچ بولنا ہے (۱۶۰)

تنہا بھی اگر لڑنا پڑے تو حالات کا خوف کسی صورت بھی اعصاب پر غالب نہیں آنا چاہیے۔ کلیم میں اکیلے لڑنے کا حوصلہ ہے اور ایسے میں وہ باقیوں کی ہمت بھی بندھاتے ہیں۔

میں اکیلا لڑوں کا دشمن سے

میں قیادت کروں گا لشکر کی(۱۶۱)

وہ حالات سے بالکل نہیں گھبراتے اور بڑے قویٰ ارادہ ہیں۔

میرے قاتل کے بازو تھک چکے ہیں

ابھی سینے میں دم ہے اور میں ہوں (۱۶۲)

 

۲۳۔ تقلید پرستی سے گریز

 

کلیم احسان کی شاعری میں اہم بات جو کہ متاثر کن ہے وہ یہ ہے کہ کلیم قدیم شعراء سے عقیدت بھی رکھتے ہیں۔ اور اپنی شاعری میں اس عقیدت و محبت کا بے بانگِ دہل اقرار بھی کرتے ہیں۔ مگر اس عقیدت کے باوجود وہ تقلید پرستی سے گریز کرتے ہیں۔

کلیم اپنی ذاتی صلاحیتوں پر انحصار کو بہت اہمیت دیتے ہیں مگر کورانہ تقلید سے گریز کرتے ہیں۔ جس سے انسان کی اپنی حیثیت پر حرف آتا ہو۔

سعید اقبال اس حوالے سے لکھتے ہیں:

’’وہ میر کے معتقد اور پیروکار ہونے کی وجہ سے روایت سے استفادہ ضرور کرتے ہیں مگر جو کچھ کہتے ہیں وہ اپنے مشاہدے اور مطالعے کی بنا پر جدید لہجے میں لکھتے ہیں۔ وہ روایت سے اپنے اشعار کو مہکارتے ضرور ہیں مگر اس میں بھی اپنی فنی مہارت سے انفرادیت بھر دیتے ہیں۔ ‘‘(۱۶۳)

کلیم احسان لکھتے ہیں:

عشق کی راہ چل پڑے ہو تم

کتنی سنسان ہے خبر ہے تمہیں (۱۶۴)

______

اک بنائے تازہ رکھی میں نے فن کے باب میں

حرف و صوت و رنگ و حرکت سارے حیرت آشنا(۱۶۵)

 

۲۴۔ ثقافت کا اظہار

 

کلیم احسان روایت پسند طبقے سے تعلق رکھنے والے انسان جو اپنی ثقافت سے گہری انسیت رکھتے ہیں۔ وہ کسی طرح بھی اپنی مذہبی روایات کو پامال ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ وہ جانتے ہیں کہ روایت کی پاسداری میں ہی معاشرے کی فلاح چھپی ہے۔ وہ قومیں جو اپنی روایات اور ثقافت کو چھوڑ کر دوسروں کی محتاج ہو جاتیں ہیں وہ اپنا نام و نشان کھو بیٹھی ہیں۔

برصغیر پاک و ہند کا علاقہ روایات و اقدار کے حوالے سے دنیا میں اپنا خاص مقام رکھتا ہے۔ پھر مذہبی رجحان کے باعث بہت سی مذہبی روایات ہیں جو یہاں کے لوگوں کا خاصہ بن چکی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی روایات ہیں جو ثقافت کا حصہ بن چکی ہیں۔ قدیم ادوار میں تو ان کی پاسداری میں جان کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی تھی۔ مگر جوں جوں معاشرہ جدے دیت کی طرف گامزن ہو رہا ہے۔ ثقافتی اقدار آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ ایک قسم کا معاشرتی زوال بھی ہے۔ جو بعد ازاں نسلوں کی تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

کلیم احسان کی شاعری کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس چنگاری کا پتہ چلایا ہے جو راکھ میں دھیمے دھیمے سلگ رہی ہے۔ مختلف شعروں میں مختلف انداز سے اس کا ذکر کر کے انہوں نے لوگوں اور خاص طور پر با شعور طبقہ کی توجہ اس طرف پھرانے کی کوشش کی ہے تا کہ اس کا تدارک کیا جا سکے ان کے شعروں کو پڑھ کر اس فکر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

تیز رفتار زندگی نے لوگوں سے جہاں سکون اور ذہنی آسودگی چھین لی ہے وہاں انہیں خلوص اور سچائی کے جذبوں سے بھی عاری کر دیا ہے۔ گزرے وقتوں میں لوگ ایک دوسرے کا بازو بن کر مشکلات کا مقابلہ کرتے مگر آج مطلب پرستی اور ذاتی مفادات نے انسان کو کچھ سے کچھ بنا دیا ہے۔

اغراض نے اخلاص کی صورت ہی بدل دی

اب کوئی کسی سے کبھی بے جا نہیں ملتا(۱۶۶)

کبھی وہ بھی زمانہ تھا جب لوگ بھوک کو حرام پر ترجیح دیتے تھے۔ تب لوگوں میں ایمان اور خلوص کی بھی فراوانی تھی۔ مگر جیسے جیسے یہ نکتہ تبدیل ہو گیا اور ضروریات کو ہر جائز اور ناجائز ذریعے سے پورا کرنے کا نظریہ پروان چڑھا معاشرے میں برائی اور بدی نے ڈیرے ڈال دیے۔

بچوں کو جب حلال کھلاتے تھے والدین

بستی کی لڑکیوں میں طہارت کمال تھی(۱۶۷)

______

مجھے حرام سے بچنے کی کر کے تلقینیں

مری کمائی سے اب خوش نہیں ہیں گھر والے (۱۶۸)

جب تک دہشت اور خوف نے ذہنوں کو غلام نہیں بنایا تھا لوگ بے خوف و خطر گھروں کی چھتوں، محلے کی گلیوں میں سو جایا کرتے تھے۔ مگر آج یہ سوچ دیوانے کا خواب ہی معلوم ہوتی ہے۔

اب اک خوف سا ہے تمام کمروں میں

وہ دن گئے کہ چھتوں پر بھی لوگ سوتے تھے

 

لسانی و فنی جائزہ

 

۱۔ سادہ و پُرکار زبان

 

اپنی بات کو دوسروں تک پہچانے کے بہت سے ذرائع ہوتے ہیں۔ ہر کوئی وہی طریقہ ڈھونڈتا ہے جس سے بات دوسرے کو سمجھانے میں آسانی رہے اور پیغام آسانی سے منتقل ہو جائے۔ زبان بہترین ذریعہ اظہار ہوتی ہے جس سے آسانی سے پیغام رسانی کی جاتی ہے مگر اس میں ایک اہم بات یہ ہوتی ہے کہ زبان کا معیار کیا ہے ؟ الفاظ کا چناؤ کیسا ہے ؟ انداز کیا اختیار کیا گیا ہے ؟ غرض کہ پیغام کی ترسیل آسان ہو گئی۔

کلیم احسان کی شاعری میں ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس میں الفاظ کا گورکھ دھندہ نہیں ملتا۔ بہت سادہ اور عام فہم لفظوں کے استعمال کو ترجیح دی گئی ہے۔ مگر اس کے باوجود بات میں اثر ہے۔ کلیم سیدھے سادھے الفاظ میں ہی اتنی خوبصورت بات کہہ جاتے ہیں کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ دیکھنے میں بات عام سی لگتی ہے مگر غور کرنے پر وہ دل میں اتر جاتی ہے۔

چند مثالیں یوں ہیں:

آپ سا اور جیسے کوئی نہیں

آپ نے آئینہ نہیں دیکھا(۱۷۰)

______

نور پھیلا تھا اس کے چہرے پر

چاند نکلا تھا اس کے چہرے پر(۱۷۱)

______

عشق تو اس قدر مقدس ہے

یہ گناہ گار کر نہیں سکتا(۱۷۲)

______

دشمنِ جاں کو سامنے دیکھا

ہاتھ تلوار تک نہیں آیا(۱۷۳)

______

خون رویا تھا میری آنکھوں نے

میں نے جب صرف تمنا لکھا(۱۷۴)

سیدھے سادھے لفظوں میں اپنا منشا و مقصد بیان کر دینا کوئی آسان کام نہیں اردو میں اس سے ملتی جلتی اصطلاح سہل ممتنع کی ہے۔ کلیم معلوم ہوتا ہے کہ وہ جلد اس میدان کے سرخیل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 

۲۔ تلمیحات کا استعمال

 

نثر یا نظم میں کسی تاریخی واقع یا شخصیت کا ذکر کرنا مقصود ہو تو پورا کا پورا واقع بیان نہیں کیا جاتا بلکہ اشارۃً ایک یا دو لفظ ایسے بیان کر دیئے جاتے ہیں جن سے وہ شخصیت یا واقع پوری طرح یادداشت میں آ جاتا ہے۔ اسے تلمیح کہتے ہیں۔ تمام اردو شعراء نے تلمیحات کا استعمال اپنے کلام میں کیا ہے۔ تاریخی واقعات کا شاعری میں ذکر جہاں شاعر کے تاریخی شعور پر دلالت کرتے ہیں۔ وہاں وہ پڑھنے والے کے علمی اور تاریخی ذوق کو بھی تراوٹ بخشتے ہیں۔

کلیم احسان کے کلام میں تلمیحات کا استعمال نہایت مہارت اور مناسب انداز سے کیا گیا ہے۔ ان کے کلام میں مذہبی تلمیحات زیادہ ملتی ہیں۔ انہوں نے تاریخی واقعات کو بہت خوبصورت انداز سے اپنے کلام میں سمویا ہے۔

اک خبر تھی پھر ابابیلوں کا لشکر آئے گا

سب فصیلوں پر کڑا پہرا تھا پچھلی شام کو(۱۷۵)

______

دیکھ! نہر فرات دیکھا ذرا

کون پیاسا ہے ؟ کون پیاسا ہے ؟(۱۷۶)

______

میری زبان پہ فقط وردِ اسمِ موسیٰ تھا

پھر آج پیچھے تھا لشکر تو آگے دریا تھا(۱۷۷)

______

فطرت نے جسے وصفِ کلیمی سے نوازا

وہ وقت کے فرعون کی تردید کرے گا(۱۷۸)

______

منصورؓ ہو حسینؓ ہو یا ہو کلیمؔ تم

ہوتے ہیں سربلند چنیدہ سے جنگ میں (۱۷۹)

کلیم نے تاریخی واقعات کو جس انداز سے موجودہ حالات کے ساتھ جوڑا ہے یہ مماثلت دیکھنے اور سننے میں بہت متاثر کرتی ہے۔

ہر گھر سے نکل آتے ہیں یوسف کے برادر

اب موسیٰؑ و ہارونؑ نہیں ہوتے مرے مرشد(۱۸۰)

______

پھر وہی پیاس کی کہانی تھی

جب میں نہر فرات سے گزرا(۱۸۱)

 

۳۔ محاورات کا استعمال

 

شاعری میں الفاظ کا استعمال بہت احتیاط اور مہارت سے کرنا پڑتا ہے۔ الفاظ کا چناؤ اور پھر شعروں میں ان کا استعمال بقول آتش ’’نگوں کے جڑنے ‘‘ کے مترادف ہے۔ شاعری میں محاورات کا استعمال شاعر کی تخلیقی اپج اور فنی پختگی کی علامت ہوتا ہے۔ جو بات سیدھے سپاٹ لفظوں میں کہہ دی جائے وہ اثر بھی کم چھوڑتی ہے۔ اس حوالے سے کلیم کے کلام میں ہمیں محاورات کا استعمال بڑی مہارت سے ملتا ہے۔ ایسے اشعار قاری پر اپنا الگ ہی اثر چھوڑتے ہیں۔ یہ نا صرف شاعر کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ہوتے ہیں بلکہ قاری کی علمی و ادبی استعداد میں اضافے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ نمونے کے چند اشعار:

یہ بزدلی ہے یا پھر احتجاج جو کچھ ہے

ہمارے بس میں مگر چشمِ تر! یہی کچھ تھا(۱۸۲)

______

اڑتی تھی خاک شہر میں اتنا تو یاد تھا

مشتِ غبار تھی کہ کوئی گرد باد تھا(۱۸۳)

______

افلاک کو چھونے کی ہوس بھی ہے اسی میں

ہر چند کفِ خاک کو جانا ہے تہِ خاک(۱۸۴)

______

یعنی سفر تمام سرِ نوکِ خار ہے

یاں رقص پا فگار ہے خمیازۂ سفر(۱۸۵)

______

لہو رونے سے فرصت ہی نہیں ہے

یہ آنکھیں دیکھتی تھی خواب کتنے (۱۸۶)

______

برگِ گل کا کاٹ کھا جاتا ہے

اس کے لہجے کی تلخیاں دیکھیں (۱۸۷)

ان کے کلام میں اور بھی ایسے اشعار ہیں جن میں محاورات کا استعمال فکری، گہرائی اور مہارت سے کیا گیا ہے۔

 

۴۔ تشبیہات کا استعمال

 

تشبیہ سے مراد کسی ایک چیز کو خوبی یا خامی کی بنیاد پر دوسری کی مانند قرار دینا۔ کلام میں تشبیہات کا استعمال اس میں جان ڈال دیتا ہے اور قاری کو بھی متاثر کرتا ہے۔

یہ خاک ہے یا میں ہوں کسی خاک کی صورت

یہ تو ہے کہ اک چاند کا ٹکڑا ہے تہِ خاک(۱۸۸)

______

آنکھوں کو کر گیا کوئی جلتے ہوئے چراغ

کب تک انہیں بھی دیکھئے لیکن ہوا ملے (۱۸۹)

______

اس رات ستاروں کی بھی آنکھوں میں نمی تھی

اس رات تو آنسو بھی چراغوں کی طرح تھے (۱۹۰)

(چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۳۸)

 

۵۔ استعارات

 

استعارے سے مراد نظم یا نثر میں الفاظ کا ایسا استعمال کہ وہ اپنے حقیقی معنوں کی بجائے مجازی معنی پیش کرے۔ شاعری میں ان کا استعمال ایک قدیم روایت ہے جس سے کلام میں تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اور پڑھنے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ ان کا استعمال اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ شاعر کو اپنی زبان پر مکمل دسترس حاصل ہے۔

پھر مری پلکوں پہ موتی سے لرز آئے ہیں

پھر میری آنکھ میں اس روپ کے منظر چمکے (۱۹۱)

______

اجاڑ بستی میں بیٹھا ہوا ہوں مدت سے

نگار خانہ فن ہے نہ وہ قدِ زیبا(۱۹۲)

 

۶۔ سفر کا استعارہ

 

ویسے تو کلیم کے کلام میں استعارات کا استعمال جا بجا ملتا ہے مگر ہجرت اور سفر کا استعارہ بڑی شدت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے۔ کلیم کی ساری زندگی اپنے مسکن سے دور حالتِ سفر میں گزاری ہے۔ اس کا بار بار اظہار ان کی شاعری میں ملتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ قدرت سے اس مسلسل سفر کا گلا کر رہے ہیں۔

مجھ کو تا دیر سفر کرنا ہے

میرے ہاتھوں میں لکھا ہے شاید(۱۹۳)

______

میں تو سمجھا تھا کہ پھر لوٹ کے آنا ہے مجھے

یہ سفر دیس نکالا سا نکل آیا ہے (۱۹۴)

______

میں اسی شہر کا مسافر ہوں

وہ جو حدِ سفر سے باہر ہے (۱۹۵)

______

میں مسافر مزاج رکھتا ہوں

میرا ہوتا بھی گھر تو کیا ہوتا(۱۹۶)

______

اب سفر میرے لیے اور بھی دشوار ہوا

تم نے آواز مجھے دقتِ سفر دی کیوں تھی؟(۱۹۷)

ماہنامہ روزن نے اس حوالے سے لکھا ہے:

’’شاعر کا سفر اپنی ذات کی تلاش کا سفر ہے جس میں شاعر نے رہبر بھی اپنے آپ کوچنا، منزل تک پہنچنے کے لیے اسے کئی راستے بدلنے پڑتے ہیں اور ایسے سفر میں بہت سی چیزیں آنکھوں کا مقدر بن جایا کرتی ہیں۔ ‘‘(۱۹۸)

 

۷۔ ایجاز و اختصار

 

بات کو مختصر مگر موثر انداز سے بیان کرنا فنی خوبی ہے اور یہ صلاحیت کم کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ اردو کے بیشتر شعراء اکرام کے ہاں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس لیے ان کے کلام کا مزہ بھی دوچند ہو جاتا ہے۔

کلیم کی اب تک شاعری پر تین کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان کے کلام میں کثرت سے ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں تفصیلی واقعات و حالات کو مختصر مگر جامع انداز سے بیان کیا گیا ہے اور پڑھنے والے کو لطف بخشا ہے۔

کلیم لکھتے ہیں:

مشکل میں یوں بھی سہنا ہو گا

لیکن تنہا سہنا ہو گا(۱۹۹)

______

داستان مرے غم کی یارو

غم مگر داستان نہیں یارو(۲۰۰)

______

جس کے دیکھے تھے خواب آنکھوں نے

اس نے آنکھوں سے نیند بھی لے لی(۲۰۱)

______

گلی میں راہ گم کردہ مسافر

گلی کے بطن میں پوشیدہ گلیاں (۲۰۲)

 

۸۔ علامت نگاری

 

شعراء کرام عموماً اپنے کلام میں معاشرتی مسائل، معاشی عروج زوال اور سیاسی ناہمواریوں کو بیان کرنے کے لیے علامتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسا اکثر تب ہوتا ہے جب حکومتِ وقت کی طرف سے ادب پر کسی قسم کی کوئی قدغن لگا دی گئی ہو۔ ایسی صورت میں علامتیں شاعر کو کیموفلاج کر لیتی ہیں۔ اور بات ارباب اقتدار تک بھی پہنچ جاتی ہے۔

بہرحال ایسی صنعتوں کا کلام میں استعمال جہاں خوبصورتی کا موجب ہوتا ہے وہاں خود شاعر کی فنی قابلیتوں اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت بھی ہوتا ہے۔ کلیم احسان نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے جو تاثر لیا اسے کلام میں استعمال کیا۔ ملکی حالات، سیاسی مد و جزر اور عوام کو درپیش مشکلات نے جو نقش ان کے ذہن پہ ثبت کیا انہوں نے علامتوں کی زبان میں ان کا خوب اظہار کیا ہے۔ ہوا، باغ، چڑیا، روشنی، سفر، پتھر اور جگنو وغیرہ کو انہوں نے علامتوں کے طور پر برتا ہے۔

تمہارا کھیل تھا نادان بچو!

مگر چڑیا کو دیکھو مر رہی ہے (۲۰۳)

______

اس گھر میں ایک چڑیا تھی

جس کا رستہ کھڑکی تھا(۲۰۴)

______

یعنی سفرِ تمام سرِ نوکِ خار ہے

یاں رقص پا فگار ہے خمیازۂ سفر(۲۰۵)

 

۹۔ اختراعِ تراکیب

 

شاعری میں تراکیب کا استعمال اس میں حسن اور جدت پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن ان کا استعمال تناسب سے ہونا چاہیے وگرنہ شاعری کا مزہ کر کرہ ہو جاتا ہے۔ کلیم کی شاعری میں ہمیں معیاری تراکیب کا استعمال نظر آتا ہے یہ ان کی اپنی اختراع ہے۔ تیغ شکستہ، قدِ زیبا، دستِ بریدہ، گلشن افلاک وغیرہ خوبصورت تراکیب ہیں۔

غالب کے ہاں جدتِ تراکیب کی خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ویسے تو تمام شعراء کے ہاں اس کا رنگ ملتا ہے۔ مگر بعد کے شعراء میں فیض احمد فیض کا نام سر فہرست ہے۔ فیض نے بھی شاعری میں غالب کی طرح نت نئی تراکیب کا شامل کیا۔ ایسا در اصل ادب پر سیاسی قدغنوں کی وجہ سے بھی ہوا مگر جو بھی ہے فیض کا نام اس سلسلے میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ کلیم نے اس وراثت میں اپنا خاطر خواہ حصہ ڈالا ہے۔ اور اس روایت کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار نبھانے کی بھرپور سعی کی ہے۔ یہ ابھی ان کا آغاز ہے امید ہے ان کے اگلے مجموعہ کلام اس میں مزید وسعت اور جدت دیکھنے کو ملے گی۔

کلیم کی تراکیب کا استعمال بہت خوب ہے۔

تیغِ شکستہ، تیر خمیدہ سے جنگ میں

لڑتا ہے کون دستِ بریدہ سے جنگ میں (۲۰۶)

______

سر بریدہ، شکستہ، برہنہ بدن

چیختے بین کرتے ہوئے لوگ ہیں (۲۰۷)

 

۱۰۔ منظر کشی

 

منظر کشی کی خصوصیات کو غزل میں اہم مقام حاصل ہوتا ہے۔ گِنے چنے مگر معتبر اور پر اثر الفاظ سے پورا نقشہ کھینچ لینا ایک فن کا درجہ رکھتا ہے۔ غزل میں اس فن کا استعمال اس کے آغاز ہی سے ملتا ہے اور ہر دور میں اس میں نکھار دیکھنے میں آیا ہے۔

شاخوں میں اڑی دھوپ ہے اے ظلِ الٰہی

اک دھول پڑی دھوپ ہے اے ظلِ الٰہی

یا ایک سیاہ رات مقدر ہے ہمارا

یا سوکھی سڑی دھوپ ہے اے ظلِ الٰہی(۲۰۸)

______

اس شخص سے اس شہر کے حالات نہ پوچھو

جو چاک قبا خار بپا خاک بسر ہے (۲۰۹)

______

بارش کے ساتھ ٹھنڈی ہوا، جنوری کے دن

اور ماں کی گرم گود سے کوسوں کی دوریاں (۲۱۰)

 

۱۱۔ صنعتوں کا استعمال

 

کلیم نے اپنی شاعری میں مختلف صنعتوں کا استعمال کیا ہے۔ ان صنعتوں کے استعمال سے شاعری کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ اور شاعر کی تخلیقی ایج اور مہارت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

i۔ صنعتِ تضاد

متضاد الفاظ یا اشیاء کو شعروں میں بیان کرنا صنعتِ تضاد کہلاتا ہے۔ مثلاً دن، رات، صبح و شام، آج اور کل وغیرہ۔

زبان پہ ہوتی ہیں اکثر حلال کی باتیں

اگرچہ ہاتھ میں لقمے حرام ہوتے ہیں (۲۱۱)

ii۔ صنعتِ حسنِ تعلیل

تعلیل علل سے ہے جو کہ علت سے نکلا ہے جس نے معنی سبب یا وجہ کے ہیں۔ صنعت حسنِ تعلیل سے مراد کسی چیز کی ایسی وجہ بیان کرنا جو حقیقت میں اس کی وجہ نہ ہو۔

فائدہ اتنا ہوا دستِ بریدہ کا مجھے

کسی مشکل میں کبھی ہاتھ نہ پھیلا میرا(۲۱۲)

iii۔ صنعتِ مراعات النظیر

اس صنعت میں شاعر ایک مصرعے میں ایک چیز کا ذکر کرتا ہے پھر اگلے مصرعے میں اس سے متعلقہ دیگر اشیاء کا ذکر کرتا ہے۔ لیکن ان اشیاء کا باہم تعلق کسی تضاد یا تقابل کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ ان سب میں اس کے علاوہ کوئی نسبت ہوتی ہے۔ اسے صنعتِ مراعاتُ النظیر کہا جاتا ہے۔

اک بنائے تازہ رکھی میں نے فن کے باب میں

حرف و صوت و رنگ و حرکت سارے حیرت آشنا(۲۱۳)

iv۔ صنعتِ تکرار

گفتگو میں اکثر اوقات ایک لفظ کا بار بار دہرانا ناگوار محسوس ہوتا ہے اور بات کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر اسے توازن کے ساتھ برتا جائے تو یہ ایک فن کی حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔ اسے صنعتِ تکرار کہتے ہیں۔ شاعری میں اس کا استعمال بات پر زور دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ کلیم کے ہاں بھی اس کا استعمال نہایت خوبی سے ملتا ہے۔

روتے روتے پوچھ لیا تھا

ہنستے ہنستے بولا دکھ(۲۱۴)

______

یوں دل نے ڈھونڈ رکھا ہے اک مشغلہ نیا

کرتا ہے ایک ایک سے اک مشورہ نیا(۲۱۵)

______

میں پھیر پھیر کر وہیں لاتا تھا گفتگو

اس کو بھی ٹالنے میں مہارت کمال تھی(۲۱۶)

کلیم احسان بٹ کی شاعری کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے معاشرے کا درپیش مسائل کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ ایک طاقت ور وسیلے کی مدد سے عوام و خواص کو اس سے متعارف کروانے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کی شاعری میں جو خصوصیات دیکھنے کو ملتی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت جلد اردو ادب میں اپنی الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

غرض یہ کہ کلیم احسان بٹ کے کلام کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کے اندر وہ رمق موجود ہے۔ جس سے وہ اردو شاعری میں اہم مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ کلیم کی تمام کی شاعری آمد کا نتیجہ ہے۔ ان کے موضوعات منفرد اور حقیقی دنیا سے کشید کیے ہوئے ہیں۔ ان کا انداز جداگانہ ہے۔ یہ سب وہ باتیں ہیں جو انہیں بلند پایہ شاعر بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوں گی۔ آنے والا وقت اپنے دامن میں کیا لائے گا کوئی نہیں بتا سکتا مگر اتنی پیش گوئی ضرور کی جا سکتی ہے کہ اردو ادب خصوصاً ً ً اردو غزل کے منظر نامے ہر ایک نفیس، عمدہ اور نغز گو شاعر سامنے آنے والا ہے۔

 

 

حوالہ جات

 

۱۔                             سیف الدین سیف، خمِ کاکل، لاہور: الحمد پبلی کیشنز، اپریل ۱۹۹۲ء، ص: ۴۹

۲۔                             کلیم الدین احمد، اردو شاعری پر ایک نظر، پٹنہ: عظیم پبلشنگ ہاؤس ۱۹۸۵ء ص: ۵

۳۔                             محمد اشفاق ایاز، حیرت کا سفر، مشمولہ، حیرت باقی رہ جاتی ہے، از کلیم احسان بٹ، روزن پبلشرز گجرات: طبع اول، دسمبر ۲۰۱۱ء ص: ۱۵

۴۔                             شریف کنجاہی، اجلے دکھوں کی شاعری۔ مشمولہ: شریف کنجاہی کے مضباچے، اول، از احسان فیصل کنجاہی گجرات: المیرٹرسٹ لائبریری ۲۰۰۸ء، ص: ۱۲۳

۵۔                             ایضاً، ص: ۱۲۸

۶۔                             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے، گجرات: روزن پرنٹرز، دسمبر ۲۰۱۱ء، ص: ۱۱۲

۷۔                             ایضاً، ص: ۱۸۸

۸۔                             ایضاً، ص: ۸۸

۹۔                             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران گھڑا ہے، لاہور: سخن پبلشرز، طبع اول ۱۹۹۹ء، ص: ۱۰۹

۱۰۔                    محمد اشفاق ایاز، حیرت باقی رہ جاتی ہے، ص: ۱۹

۱۱۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے، ص: ۸۵

۱۲۔                     شریف کنجاہی، شریف کنجاہی کے مضابچے، ص: ۱۲۴

۱۳۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۶۶

۱۴۔                     ایضاً، ص: ۱۳۱

۱۵۔                     ایضاً، ص: ۱۰۶

۱۶۔                     ایضاً، ص: ۱۲۳

۱۷۔                     ایضاً، ص: ۷۲

۱۸۔                     کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے، ص: ۹۶

۱۹۔                     حیدر قریشی، کلیم احسان بٹ کی شاعری، مشمولہ، چلو جگنو پکڑتے ہیں، از کلیم احسان بٹ، طبع اول، ۲۰۰۵ء، ص: ۱۴

۲۰۔                   راشد اللّٰہ بٹ، کلیم کی شاعری، مشمولہ، حیرت باقی رہ جاتی ہے، از کلیم احسان بٹ، ص: ۲۵

۲۱۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں، ص: ۷۵

۲۲۔                     ایضاً، ص: ۸۳

۲۳۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے، ص: ۶۶

۲۴۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں، ص: ۱۳۴

۲۵۔                     کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے، ص: ۷۶

۲۶۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں، ص: ۳۵

۲۷۔                     ایضاً، ص: ۴۱

۲۸۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے، ص: ۱۲۴

۲۹۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں، ص: ۴۱

۳۰۔                    ایضاً، ص ۴۱

۳۱۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۷۶

۳۲۔                     ایضاً، ص ۱۷۶

۳۳۔                      ایضاً، ص ۱۷۹

۳۴۔                     ایضاً، ص ۱۵۳

۳۵۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۲۶

۳۶۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۴۷

۳۷۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۷۶

۳۸۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۷۶

۳۹۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۸۵

۴۰۔                    کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۳۳

۴۱۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۴۲

۴۲۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۵۸

۴۳۔                     ایضاً، ص ۶۷

۴۴۔                     ایضاً، ص ۱۳۹

۴۵۔                     ایضاً، ص ۱۴۰

۴۶۔                     ایضاً، ص ۸۴

۴۷۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۲۹

۴۸۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۸۶

۴۹۔                     ایضاً، ص ۱۰۴

۵۰۔                    کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۵۵

۵۱۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۵۳

۵۲۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۳۰

۵۳۔                     ایضاً، ص ۲۹

۵۴۔                     ایضاً، ص ۴۷

۵۵۔                     ایضاً، ص ۵۸

۵۶۔                     ایضاً، ص ۱۰۵

۵۷۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۹۴

۵۸۔                     شیخ عبدالرشید، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۳۳

۵۹۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۰۰

۶۰۔                    ایضاً، ص ۱۸۸

۶۱۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۳۲

۶۲۔                     کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۱۲۵

۶۳۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۳۷

۶۴۔                     ایضاً، ص ۳۵

۶۵۔                     ایضاً، ص ۴۳

۶۶۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۳۷

۶۷۔                     ایضاً، ص ۹۹

۶۸۔                     ایضاً، ص ۱۳۰

۶۹۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۱۰۳

۷۰۔                    کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۷۸

۷۱۔                     ایضاً، ص ۱۰۸

۷۲۔                     ایضاً، ص ۱۴۹

۷۳۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۳۶

۷۴۔                     ایضاً، ص ۴۱

۷۵۔                     ایضاً، ص ۸۸

۷۶۔                     ایضاً، ص ۱۱۴

۷۷۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۳۴

۷۸۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۱۲۹

۷۹۔                     کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۱۰۳

۸۰۔                    کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۲۳

۸۱۔                     ایضاً، ص ۱۲۳

۸۲۔                     ایضاً، ص ۹۶

۸۳۔                     ایضاً، ص ۶۷

۸۴۔                      ایضاً، ص ۱۰۳

۸۵۔                     ایضاً، ص ۱۱۴

۸۶۔                     ایضاً، ص ۱۷۵

۸۷۔                     ڈاکٹر سعید اقبال سعدی، کلیم احسان بٹ صاحب، ایک فطری شاعر، مشمولہ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۴۰

۸۸۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۸۲

۸۹۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۲۰

۹۰۔                    ایضاً، ص ۲۱

۹۱۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۵۳

۹۲۔                     ایضاً، ص ۵۴

۹۳۔                     ایضاً، ص ۶۲

۹۴۔                     کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۱۰۴

۹۵۔                     کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۶۰

۹۶۔                     ایضاً، ص ۱۳۱

۹۷۔                     ایضاً، ص ۱۳۶

۹۸۔                     محمد اشفاق ایاز، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۲۱

۹۹۔                     کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۳۸

۱۰۰۔           کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۷۴

۱۰۱۔            ایضاً، ص ۸۹

۱۰۲۔            ایضاً، ص ۱۶۵

۱۰۳۔            کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۶۴

۱۰۴۔            ایضاً، ص ۱۲۱

۱۰۵۔            ایضاً، ص ۱۶۵

۱۰۶۔            کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۹۴

۱۰۷۔            کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۸۴

۱۰۸۔            ایضاً، ص ۱۵۹

۱۰۹۔            محمد اشفاق ایاز، حیرت باتی رہ جاتی ہے ، ص ۱۸

۱۱۰۔            کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۸۵

۱۱۱۔             محمد اشفاق ایاز، حیرت باتی رہ جاتی ہے ، ص ۲۱

۱۱۲۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۵۱

۱۱۳۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۱۲۰

۱۱۴۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۵۷

۱۱۵۔             ایضاً، ص ۷۲

۱۱۶۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۲۷

۱۱۷۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۳۰

۱۱۸۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۰۷

۱۱۹۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۶۴

۱۲۰۔            ایضاً، ص ۶۷

۱۲۱۔             ایضاً، ص ۶۳

۱۲۲۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۴۲

۱۲۳۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۱۱۵

۱۲۴۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۹۸

۱۲۵۔             ایضاً، ص ۱۵۴

۱۲۶۔             ایضاً، ص ۱۶۳

۱۲۷۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے،

۱۲۸۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۳۶

۱۲۹۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۲۰

۱۳۰۔            ایضاً، ص ۱۱۴

۱۳۱۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۶۲

۱۳۲۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۶۱

۱۳۳۔             ایضاً، ص ۸۱

۱۳۴۔             محمد اشفاق ایاز، حیرت باتی رہ جاتی ہے ، ص ۱۸

۱۳۵۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۴۳

۱۳۶۔             ایضاً، ص ۴۶

۱۳۷۔             ایضاً، ص ۷۷

۱۳۸۔             ایضاً، ص ۱۳۴

۱۳۹۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۸۲

۱۴۰۔            ایضاً، ص ۱۶۷

۱۴۱۔             شیخ عبدالرشید، حیرت آشنا شاعری، مشمولہ، ماہنامہ غنیمت، از اکرم کنجابی، حماد پرنٹنگ پریس کراچی: اگست ۲۰۱۳ء ص ۱۳

۱۴۲۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۲۷

۱۴۳۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۳۱

۱۴۴۔             ایضاً، ص ۱۸۸

۱۴۵۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص

۱۴۶۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۳۸

۱۴۷۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۹۹

۱۴۸۔             ایضاً، ص ۱۰۰

۱۴۹۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۶۰

۱۵۰۔            ایضاً، ص ۵۳

۱۵۱۔             ایضاً، ص ۳۷

۱۵۲۔             ایضاً، ص ۴۳

۱۵۳۔             ایضاً، ص ۳۴

۱۵۴۔             ایضاً، ص ۵۳

۱۵۵۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۳۸

۱۵۶۔             ایضاً، ص ۳۹

۱۵۷۔             ایضاً، ص ۸۹

۱۵۸۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۶۲

۱۵۹۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۶۷

۱۶۰۔            کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۱۳۴

۱۶۱۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۸۶

۱۶۲۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۳۹

۱۶۳۔             ڈاکٹر سعید اقبال سعدی، کلیم احسان بٹ صاحب، ایک فطری شاعر، مشمولہ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۴۰

۱۶۴۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۷۷

۱۶۵۔             ایضاً، ص ۱۳۷

۱۶۶۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۳۸

۱۶۷۔             ایضاً، ص ۱۳۷

۱۶۸۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۵۲

۱۶۹۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۵۴

۱۷۰۔            کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۸۵

۱۷۱۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۸۹

۱۷۲۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۵۷

۱۷۳۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۱۱۱

۱۷۴۔             ایضاً، ص ۷۱

۱۷۵۔             ایضاً، ص ۶۲

۱۷۶۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۸۷

۱۷۷۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۱۳۸

۱۷۸۔             ایضاً، ص ۱۲۸

۱۷۹۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۶۰

۱۸۰۔            کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۷۹

۱۸۱۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۸۳

۱۸۲۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۳۷

۱۸۳۔             ایضاً، ص ۵۷

۱۸۴۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۰۵

۱۸۵۔             ایضاً، ص ۱۰۷

۱۸۶۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۶۰

۱۸۷۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۱۱۷

۱۸۸۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۰۵

۱۸۹۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۸۱

۱۹۰۔            کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۳۸

۱۹۱۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۴۹

۱۹۲۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۷۶

۱۹۳۔             ایضاً، ص ۱۶۴

۱۹۴۔             ایضاً، ص ۱۴۶

۱۹۵۔             ایضاً، ص ۱۵۶

۱۹۶۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۱۰۹

۱۹۷۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۴۵

۱۹۸۔             نرگس آرا، موسمِ گل حیران کھڑا ہے، مشمولہ، ماہنامہ روزن انٹرنیشنل، از محمد افضل راز، روزن پبلشرز گجرات: ستمبر ۲۰۰۴ء ص۳۷

۱۹۹۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۶۲

۲۰۰۔           ایضاً، ص ۸۹

۲۰۱۔            کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۲۸

۲۰۲۔            کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۱۶

۲۰۳۔            کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۳۰

۲۰۴۔ کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۱۲۸

۲۰۵۔            کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۰۷

۲۰۶۔            ایضاً، ص ۵۹

۲۰۷۔            کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۷۵

۲۰۸۔            ایضاً، ص ۹۴

۲۰۹۔            کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۹۹

۲۱۰۔            کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۵۱

۲۱۱۔             کلیم احسان بٹ، چلو جگنو پکڑتے ہیں ، ص ۱۱۵

۲۱۲۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۳۷

۲۱۳۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۱۶

۲۱۴۔             کلیم احسان بٹ، موسمِ گل حیران کھڑا ہے ، ص ۶۲

۲۱۵۔             کلیم احسان بٹ، حیرت باقی رہ جاتی ہے ، ص ۱۱۶

۲۱۶۔             ایضاً، ص ۱۳

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل