FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

کلام آبروؔ

 

 

شاہ مبارک آبرو

ؔ

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

اگر انکھیوں سیں انکھیوں کو ملاؤ گے تو کیا ہو گا

نظر کر لطف کی ہم کوں جلاؤ گے تو کیا ہو گا

 

تمہارے لب کی سرخی لعل کی مانند اصلی ہے

اگر تم پان اے پیارے نہ کھاؤ گے تو کیا ہو گا

 

محبت سیں کتا ہوں طور بد نامی کا بہتر نہیں

اگر خندوں کی صحبت میں نہ جاؤ گے تو کیا ہو گا

 

تمہارے شوق میں ہوں جاں بلب اک عمر گزری ہے

اگر اک دم کوں آ کر مکھ دکھاؤ گے تو کیا ہو گا

 

مرا دل مل رہا ہے تم سوں پیارے باطنی ملنا

اگر ہم پاس ظاہر میں نہ آؤ گے تو کیا ہو گا

 

جگت کے لوگ سارے آبروؔ کوں پیار کرتے ہیں

اگر تم بھی گلے اس کوں لگاؤ گے تو کیا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

انسان ہے تو کبر سیں کہتا ہے کیوں انا

آدم تو ہم سنا ہے کہ وہ خاک سے بنا

 

کیسا ملا ہے ہم سیں کہ اب لگ ہے انمنا

سن کر ہماری بات کوں کرتا ہے ہاں نہ نا

 

مکھڑے کی نو بہار ہوئی خط سے آشکار

سبزہ نہ تھا یہ حسن کا بنجر تھا پر گھنا

 

مردا ہے بے وصال رہے گو کہ جاگتا

سوتا ہوں یار ساتھ سو زندوں میں جاگنا

دونی بیماری جب سیں بتاتے ہیں فاحشہ

مل مل کے جس قدر کہ گھناتے ہیں ابٹنا

 

یوں دل ہمارا عشق کی آتش میں خوش ہوا

بھن کر تمام آگ میں کھلتا ہے جوں چنا

 

نہیں آب و گل صفت ترے تن کے خمیر کی

کرتا ہوں جان و دل کوں لگا اس کی میں ثنا

 

جب آبروؔ کا بیاہ ہوا بکر فکر سیں

تب شاعروں نے نام رکھا اس کا بت بنا

٭٭٭

 

 

 

 

آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا

جامہ گلے میں رات کے پھولوں بسا ہوا

 

کم مت گنو یہ بخت سیا ہوں کا رنگ زرد

سونا وہی جو ہووے کسوٹی کسا ہوا

 

انداز سیں زیادہ نپٹ ناز خوش نہیں

جو خال حد سے زیادہ بڑھا سو مسا ہوا

 

قامت کا سب جگت منیں بالا ہوا ہے نام

قد اس قدر بلند تمہارا رسا ہوا

 

زاہد کے قد خم کوں مصور نے جب لکھا

تب کلک ہاتھ بیچ جو تھا سو عصا ہوا

 

دل یوں ڈرے ہے زلف کا مارا وہ پھونک سیں

رسی سیں اژدہے کا ڈرے جوں ڈسا ہوا

 

اے آبروؔ اول سیں سمجھ پیچ عشق کا

پھر زلف سیں نکل نہ سکے دل پھنسا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پلنگ کوں چھوڑ خالی گود سیں جب اٹھ گیا میتا

چتر کاری لگی کھانے ہمن کوں گھر ہوا چیتا

 

بنائی بے نوائی کی جوں طرح سب سے چھڑے ہم نیں

تجھ اوروں کو لیا ہے ساتھ اپنے اک نہیں میتا

 

سرت کے تار ابجد ایک سر ہو مل کے سب بولے

کہ جس کوں گیان ہے اس جان کوں ہر تان ہے گیتا

 

جدائی کے زمانے کی سجن کیا زیادتی کہیے

کہ اس ظالم کی جو ہم پر گھڑی گزری سو جگ بیتا

 

مقرر جب کہ جاں بازوں میں اس کا ہو چکا مرنا

ہوا تب اس قدر خوش دل گویا عاشق نے جگ جیتا

 

لگا دل یار سیں تب اس کو کیا کام آبروؔ سیتی

کہ زخمی عشق کا پھر مانگ کر پانی نہیں پیتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تیرہ رنگوں کے ہوا حق میں یہ تپ کرنا دوا

تیرگی جاتی رہی چہرے کی اور اپچی صفا

 

کیا سبب تیرے بدن کے گرم ہونے کا سجن

عاشقوں میں کون جلتا تھا گلے کس کے لگا

 

تو گلے کس کے لگے لیکن کنھی بے رحم نے

گرم دیکھا ہوئے گا تیرے تئیں انکھیاں ملا

 

بو  الہوس ناپاک کی ازبسکہ بھاری ہے نظر

پردۂ عصمت میں تو اپنے تئیں اس سیں چھپا

 

اشک گرم و آہ سرد عاشق کے تئیں وسواس کر

خوب ہے پرہیز جب ہو مختلف آب و ہوا

 

گرم خوئی سیں پشیماں ہو کے ٹک لاؤ عرق

تپ کی حالت میں پسینا آؤنا ہو ہے بھلا

 

دل مرا تعویذ کے جوں لے کے اپنے پاس رکھ

تو طفیل حضرت عاشق کے ہو تجھ کوں شفا

 

ترش گوئی چھوڑ دے اور تلخ گوئی ترک کر

اور کھانا جو کہ ہو خوش کا تری سو کر غذا

 

بو علیؔ ہے نبض دانی میں بتاں کی آبروؔ

اس کا اس فن میں جو نسخہ ہے سو ہے اک کیمیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جلتے ہیں اور ہم سیں جب مانگتے ہو پیالہ

ہوتے ہیں داغ دل میں جوں جوں کتے ہو لا لا

 

بکسا ہے تمام ظالم تجھ چشم کا دنبالا

لاگا ہے اس کے دل میں دیکھا ہے جن میں بھالا

 

اس شوخ سرو قد کوں ہم جانتے تھے بھولا

مل اوپری طرح سیں کیا دے گیا ہے بالا

 

اے سرد مہر تجھ سیں خوباں جہاں کے کانپے

خورشید تھرتھرایا اور ماہ دیکھ ہالا

 

جب سیں ترے ملائم گالوں میں دل دھنسا ہے

نرمی سوں دل ہوا ہے تب سوں روئی کا گالا

 

فوجاں سیں بڑھ چلے جوں یکا کوئی سپاہی

یوں خال چھوٹ خط سیں مکھ پر رہے نرالا

 

کیوں کر پڑے نہ میرے گریے کا شور جگ میں

امڈا ہے مجھ نین سیں انجھواں کے ساتھ نالا

 

جو گی ہوا پے ناتا لالچ کا چھوڑتا نہیں

کہتا ہے سب کوں بابا جپتا پھرے ہے مالا

 

جھمکی دکھا نگہ کی دل چھین لے چلی ہیں

یہ کس تری انکھیوں کوں سکھلا دیا چھنالا

 

اشعار آبروؔ کے رشک گہر ہوئے ہیں

داغ سخن سیں اس کو لولو ہوا ہے لالا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

خدا کے واسطے اے یار ہم سیں آ مل جا

دلوں کی کھول گھنڈی غنچے کی طرح کھل جا

 

جگر میں چشم کے ہوتیاں ہیں داغ تب پتلیاں

نظر سیں اوٹ ترا گال جب کہ اک تل جا

 

جنوں کے جام کوں لے شیشۂ شراب کو توڑ

خرد گلی سیں پری پیکراں کی بیدل جا

 

انکھیوں سیں جان بچانا نظر تب آتا ہے

تڑپھ میں چھوڑ کے بسمل کو جب کہ قاتل جا

 

حیا کوں غیر سوں مت گرم مل کے دے برباد

نہ ہو کہ آبروؔ اس طرح خاک میں مل جا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رتا ہے ابرواں پر ہاتھ اکثر لاوبالی کا

ہنر سیکھا ہے اس شمشیر زن نے بید مالی کا

 

ہر اک جو عضو ہے سو مصرع دلچسپ ہے موزوں

مگر دیوان ہے یہ حسن سر تا پا جمالی کا

 

نگیں کی طرح داغ رشک سوں کالا ہوا لالا

لیا جب نام گلشن میں تمہارے لب کی لالی کا

 

رقیباں کی ہوا ناچیز باتاں سن کے یوں بد خو

وگرنہ جگ میں شہرا تھا صنم کی خوش خصالی کا

 

ہمارے حق میں نادانی سوں کہنا غیر کا مانا

گلا اب کیا کروں اس شوخ کی میں خورد سالی کا

 

یہی چرچا ہے مجلس میں سجن کی ہر زباں اوپر

مرا قصہ گویا مضموں ہوا ہے شعر حالی کا

 

تمہارا قدرتی ہے حسن آرائش کی کیا حاجت

نہیں محتاج یہ باغ سدا سر سبز مالی کا

 

لگے ہے شیریں اس کو ساری اپنی عمر کی تلخی

مزہ پایا ہے جن عاشق نیں تیرے سن کے گالی کا

 

مبارک نام تیرے آبروؔ کا کیوں نہ ہو جگ میں

اثر ہے یو ترے دیدار کی فرخندہ فالی کا

٭٭٭

 

 

 

رکھے کوئی اس طرح کے لالچی کو کب تلک بہلا

چلی جاتی ہے فرمائش کبھی یہ لا کبھی وہ لا

 

مجھے ان کہنہ افلاکوں میں رہنا خوش نہیں آتا

بنایا اپنے دل کا ہم نیں اور ہی ایک نو محلا

 

رہی ہے سر نوا سنمکھ گئی ہے بھول منصوبہ

تری انکھیوں نیں شاید مات کی ہے نرگس شہلا

 

کیا تھا غیر نیں ہم رنگ ہو کر وصل کا سودا

تمہارا دیکھ مکھ کا آفتاب اس کا تو دل دہلا

 

کف پا یار کا ہے پھول کی پنکھڑی سے نازک تر

مرا دل نرم تر ہے اس کے ہوتے اس سے مت سہلا

 

جوابوں میں غزل کے آبروؔ کیوں کہل کرتا ہے

تو اک ادنیٰ توجہ بیچ کہہ لیتا ہے مت کہلا

٭٭٭

 

 

 

 

 

قیامت راگ ظالم بھاؤ کافر گت ہے اے پنّا

تمہارے حسن سو دیکھے سو اک آفت ہے اے پنّا

 

سگھڑ جتنے ہیں یہ یہ سب تجھی کو پیار کرتے ہیں

سیانے سو ہے پر ان سو کی اک ہی مت ہے اے پنّا

 

لگا جاتی ہے اپنا داؤں اور میرا بچا جاتی

تو اپنے کام میں بانکیت اور راوت ہے اے پنّا

 

تری کنچن برن سی دیہہ جس کی گود میں ہووے

اسے دنیا کے عیاشوں میں کیا دولت ہے اے پنّا

 

نہیں لیتی ہمارا نام ہم کوں یاں تلک بھولی

تجھے ہم اور کچھ اب کیا کہیں رحمت ہے اے پنّا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کماں ہوا ہے قد ابرو کے گوشہ گیروں کا

تبا ہے حال تری زلف کے اسیروں کا

 

ڈھلے ہے جس پہ دل تس کا کیا ہے ظاہر اسم

وہی ہے وہ کہ جو مرجع ہے ان ضمیروں کا

 

ہر ایک سبز ہے ہندوستان کا معشوق

بجا ہے نام کہ بالم رکھا ہے کھیروں کا

 

مرید پیٹ کے کیوں نعرہ زن نہ ہوں ان کا

برا ہے حال کہ لاگا ہے زخم پیروں کا

 

برہ کی راہ میں جو کوئی گرا سو پھر نہ اٹھا

قدم پھرا نہیں یاں آ کے دست گیروں کا

 

وہ اور شکل ہے کرتی ہے دل کو جو تسخیر

عبث ہے شیخ ترا نقش یہ لکیروں کا

 

سیلی میں جوں کہ لٹکا ہو آبروؔ یوں دل

سجن کی زلف میں لٹکا لیا فقیروں کا

٭٭٭

 

 

 

کہیں کیا تم سوں بے درد لوگو کسی سے جی کا مرم نہ پایا

کبھی نہ بوجھی یتھا ہماری برہ نیں کیا اب ہمیں ستایا

 

لگا ہے برہا جگر کوں کھانے ہوئے ہیں تیروں کے ہم نشانے

دیویں ہیں سوتیں ہمن کوں طعنے کہ تجھ کو کبہوں نہ منہ لگایا

 

رکھے نہ دل میں کسی کی چنتا گلے میں ڈالے برہ کی کنٹھا

درس کی خاطر تمہارے منتا بھکارن اپنا برن بنایا

 

لگی ہیں جی پر برہ کی گھاتیں تلف تلف کر بہائیں راتیں

تمہاری جن نیں بنائیں باتیں اکارت اپنا جنم گنوایا

 

گلا ممولا یہ سب عبث ہے اپس کے اوچھے کرم کا جس ہے

ہمارا پیارے کہو کیا بس ہے تمہارے جی میں اگر یوں آیا

 

جو دکھ پڑے گا سہا کروں گی جسے کہو گے رہا کروں گی

تمن کوں نس دن دعا کروں گی سکھی سلامت رہو خدایا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کیا شوخ اچپلے ہیں تیرے نین ممولا

جن کوں نرکھ جلے ہیں سب من ہرن ممولا

 

بر میں خیال کے بھی کیوں کر کے آ سکے دل

نازک ہے جان سیتی تیرا بدن ممولا

 

جو اک نگہ کرو تم کرتے ہو کام سو تم

سیکھے کہاں سیں ہو تم یہ مکر و فن ممولا

 

آزاد سب جگت کے آ کر غلام ہوویں

جب بودلی بناوے اپنا برن ممولا

 

قد سرو چشم نرگس رخ گل دہان غنچہ

کرتا ہوں دیکھ تم کوں سیر چمن ممولا

 

ہر رات شمع کے جوں جلتی ہے جان میری

جب سیں لگی ہے تم سیں دل کی لگن ممولا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا

پنجرے میں بولتا ہے گرم آج اگن ہمارا

 

پیری کمان کی جوں مانع نہیں اکڑ کوں

ہے ضعف بیچ دونا اب بانکپن ہمارا

 

چلتا ہے جیو جس پر جاتے ہیں اس کے پیچھے

سودے میں عشق کے ہے اب یہ چلن ہمارا

 

ملنے کی حکمتیں سب آتی ہیں ہم کو اک اک

گو بو علی ہو لونڈا کھاتا ہے فن ہمارا

 

مجلس میں عاشقوں کی اور ہی بہار ہو جا

آوے جبھی رنگیلا گل پیرہن ہمارا

 

اس وقت جان پیارے ہم پاوتے ہیں جی سا

لگتا ہے جب بدن سے تیرے بدن ہمارا

 

یہ مسکراؤنا ہے تو کس طرح جیوں گا

تم کو تو یہ ہنسی ہے پر ہے مرن ہمارا

 

عزت ہے جوہری کی جو قیمتی ہو گوہر

ہے آبروؔ ہمن کوں جگ میں سخن ہمارا

٭٭٭

 

 

 

نہ پاوے چال تیرے کی پیارے یہ ڈھلک دریا

چلا جاوے اگرچہ روؤ تا محشر تلک دریا

 

کہاں ایسا مبکی ہو کہ جاوے تا فلک دریا

نہیں ہم چشم میرے اشک کا مارے ہے جھک دریا

 

ہوا ہے چشم حیرت دیکھ تیری آب رفتاری

کنارے نہیں رہا ہے کھول ان دونوں پلک دریا

 

بھر آوے آب حسرت اس کے منہ میں جب لہر آوے

اگر دیکھے ترے ان نرم گالوں کے تھلک دریا

 

نہیں ہیں یہ حباب آتے ہیں جو نظروں میں مردم کی

جلن مجھ اشک کی سیں دل میں رکھتا ہے پھلک دریا

 

اگر ہو کوہ تو ریلے سیں اس لشکر کے چل جاوے

کہاں سکتا ہے مجھ انجھواں کی فوجاں سیں اٹک دریا

 

اثر کرنے کا نہیں سنگیں دلاں میں روونا ہرگز

کرارے سخت ہیں بے جا رہا ہے سر پٹک دریا

 

یقیں آیا کیا جب اس کے تئیں پانی سیں بھی پتلا

ہمارے اشک کی گرمی میں کچھ رکھتا تھا شک دریا

 

نہیں ممکن ہمارے دل کی آتش کا بجھا سکنا

کرے گر ابر طوفاں خیز کوں آ کر کمک دریا

 

نہ ہووے آبروؔ خانہ خرابی کیوں کہ مردم کی

کیا انجھواں میں میرے اب سما سیں تا سمک دریا

٭٭٭

 

 

 

ہوا ہوں دل سیتی بندا پیا کی مہربانی کا

فدا کرتا ہوں ہر دم جی کوں اپنے یار جانی کا

 

دیے میں جوں بتی ہو یوں دہکتی ہے زباں مکھ میں

کروں جس رات کے اندر بیاں سوز نہانی کا

 

انجہو انکھیاں کے روغن ہیں ہمارے شعلۂ دل کوں

بجھانا عشق کی آتش نہیں ہے کام پانی کا

 

اثر کرتا ہے نالہ آبروؔ کا سنگ کے دل میں

ہنر سیکھا ہے شاید کوہ کن سوں تیشہ رانی کا                              ٭٭٭

 

 

ہے ہمن کا شام کوئی لے جا

کہ مجھے آ کے ٹک درس دے جا

 

بو الہوس کوں ہوا ہے تب سیں مغز

جب سیں تم نے اسے بلا بھیجا

 

تم سوا ہم کوں اور جاگہ نہیں

اے سجن ہم سیں مت لڑو بے جا

 

آبروؔ چاہتا ہے تو مت اڑ

بو الہوس اس گلی سیں سن بے جا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یاد خدا کر بندے یوں ناحق عمر کوں کھونا کیا

حق چاہا سوئی کچھ ہو گا ان لوگوں سیں ہونا کیا

 

کوئی شاہ کوئی گدا کہاوے جیسا جس کا بنا نصیب

جو کچھ ہوا تسی پے خوش رہ ناں ان لوگوں سیں ہونا کیا

 

سیر سفر کر دیکھ تماشا قدرت کا سب عالم کا

گھر کوں جھونک بھاڑ کے بھیتر عاشق ہو کر کونا کیا

 

جان ممولا جگت پیارا جن دیکھا سو ٹھٹھک رہا

چنچل نپٹ اچیلے نیناں تن کے آگے مرگ چھونا کیا

 

داغ کے ہیکل انجہواں کی مالا زینت عشق کی یہی نشانی

پھریں مست جو برہ کے تن کوں موتی لال پرونا کیا

 

آج آبروؔ دل کوں ہمارے شوق نے اس کے مگن کیا ہے

جاگ اناڑی دیکھ تماشا عشق لگا تب سونا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ سبزہ اور یہ آب رواں اور ابر یہ گہرا

دوانہ نہیں کہ اب گھر میں رہوں میں چھوڑ کر صحرا

 

اندھیری رات میں مجنوں کو جنگل بیچ کیا ڈر ہے

پپیہا کو کلا کیوں مل کے دے ہیں ہر گھڑی پہرا

 

گیا تھا رات جھڑ بدلی میں ظالم کس طرف کوں تو

تڑپ سیں دل مرا بجلی کی جوں اب لگ نہیں ٹھہرا

 

وہ کاکل اس طرح کے ہیں بلا کالے کہ جو دیکھے

تو مر جا ناگ اس کا آب ہو جا خوف سیں زہرا

 

ایسی کہانی بکٹ ہے عشق کافر کی جو دیکھے

تو روویں نہ فلک اور چشم ہو جاں ان کی نو نہرا

 

رواں نہیں طبع جس کی شعر تر کی طرز پانے میں

نہیں ہوتا ہے اس کوں آبروؔ کے حرف سیں بہرا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل نیں پکڑی ہے یار کی صورت

گل ہوا ہے بہار کی صورت

 

کوئی گل رو نہیں تمہاری شکل

ہم نے دیکھیں ہزار کی صورت

 

تجھ گلی بیچ ہو گیا ہے دل

دیدۂ انتظار کی صورت

 

حسن کا ملک ہم نیں سیر کیا

کہیں دیکھی نہ پیار کی صورت

 

اب زمانہ سبھی طرح بگڑا

کیا بنے روزگار کی صورت

 

وصل کے بیچ ہجر جا ہے بھول

جوں نشے میں خمار کی صورت

 

اس زمانے کی دوستی کے تئیں

کچھ نہیں اعتبار کی صورت

 

کچھ ٹھہرتی نہیں کہ کیا ہو گی

اس دل بے قرار کی صورت

 

مبتذل اور خراب ہو کر کے

اپنی لونڈے نیں خوار کی صورت

 

آبروؔ دیکھ یار کا برو دوش

دل ہوا ہے کنار کی صورت

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کوئل نیں آ کے کوک سنائی بسنت رت

بورائے خاص و عام کہ آئی بسنت رت

 

وہ زرد پوش جس کوں بھر آغوش میں لیا

گویا کہ تب گلے سیں لگائی بسنت رت

 

وہ زرد پوش جس کا کہ گن گاوتے ہیں ہم

شوخی نیں اس کی ناچ نچائی بسنت رت

 

غنچے نیں اس بہار میں کڈوایا اپنا دل

بلبل چمن میں پھول کے گائی بسنت رت

 

ٹیسو کے پھول دشنۂ خونی ہوے اسے

برہن کے جی کوں ہے یہ کسائی بسنت رت

 

گائے ہنڈول آج کلاونت کھلس کھلس

ہر تان بیچ کیا کے پھلائی بسنت رت

 

بلبل ہوا ہے دیکھ سدا رنگ کی بہار

اس سال آبروؔ کوں بن آئی بسنت رت

٭٭٭

 

 

 

شوق بڑھتا ہے مرے دل کا دل افگاروں کے بیچ

جوش کرتا ہے جنوں مجنوں کا گلزاروں کے بیچ

 

عاشقاں کے بیچ مت لے جا دل بے شوق کو

شیشۂ خالی کو کیا عزت ہے مے خواروں کے بیچ

 

رو بہ رو اور آنکھ اوجھل ایک ساں ہو جس کا پیار

اس طرح کا کم نظر آتا ہے کوئی یاروں کے بیچ

 

آبروؔ غم کے بھنور میں دل خدا سیتی لگا

ناخدا کچھ کام آتا نہیں ہے منجدھاروں کے بیچ

٭٭٭

 

زندگانی سراب کی سی طرح

باد بندی حباب کی سی طرح

 

تجھ اوپر خون بے گناہوں کا

چڑھ رہا ہے شراب کی سی طرح

 

کون چاہے گا گھر بسر تجھ کو

مجھ سے خانہ خراب کی سی طرح

 

ٹک خبر لے کہ تیرے ہاتھوں سیں

جل رہا ہوں کباب کی سی طرح

واعظ کے ساتھ مل لے شیخ

کھول آپس کے بیچ کلے شیخ

 

تیر سا قد کمان کر اپنا

کھینچ فاقوں کے بیچ چلے شیخ

 

چھوڑ تسبیح ہزار دانوں کی

ہاتھ میں اپنے ایک دل لے شیخ

 

بھونک مت غیر پر نہ کر حملہ

مرد ہے نفس پر تو پل لے شیخ

 

خال خوباں سیں تجھ کوں کیا نسبت

بس ہیں بکرے کے تجھ کو تلے شیخ

 

اس سے سنگیں دلاں کا شوق نہ کر

مت تو سینے پہ اپنے سل لے شیخ

 

چھوڑ دے زہد خشک یہ پیالہ

خوش ہو کر آبروؔ سے مل لے شیخ

٭٭٭

 

 

 

سانپ سر مار اگر جو جاوے مر

نہ کرے زلف کے تیری سر بر

 

نام لیلیٰ کا دم بدم لے لے

مارتا ہے جنگل میں مجنوں بڑ

 

عاشقاں دیکھ تیری سنگ دلی

جان دیتے ہیں دم بدم مر مر

 

آبروؔ جیو ڈوب جاتا ہے

بے خودی کی جب آوتی ہے لہر

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہار آئی گلی کی طرح دل کھول

گلوں کی بھانت ہنس بلبل کے جوں بول

 

پیا تیرے زنخ میں چاہ کر کے

ہوئے سب عاشقاں کے دل ڈواں ڈول

 

ہمارے جان و دل سیں غم نیں ضد کی

ہوا دل تنگ و جامے میں پڑا جھول

 

بلا ہے راہ بہکانے کوں یہ زلف

گیا ہے بیچ اس کے دیکھ مرغول

 

بکائی ہاتھ اس کے آپ زر دے

بھلا یوسف زلیخا نیں لیا مول

٭٭٭

 

 

 

 

مگر تم سیں ہوا ہے آشنا دل

کہ ہم سیں ہو گیا ہے بے وفا دل

 

چمن میں اوس کے قطروں کی مانند

پڑے ہیں تجھ گلی میں جا بہ جا دل

 

جو غم گزرا ہے مجھ پر عاشقی میں

سو میں ہی جانتا ہوں یا مرا دل

 

ہمارا بھی کہاتا تھا کبھی یہ

سجن تم جان لو یہ ہے مرا دل

 

کہو اب کیا کروں دانا کہ جب یوں

برہ کے بھاڑ میں جا کر پڑا دل

 

کہاں خاطر میں لاوے آبروؔ کوں

ہوا اس میرزا کا آشنا دل

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جلتے تھے تم کوں دیکھ کے غیر انجمن میں ہم

پہنچے تھے رات شمع کے ہو کر برن میں ہم

 

تجھ بن جگہ شراب کی پیتے تھے دم بدم

پیالے سیں گل کے خون جگر کا چمن میں ہم

 

لاتے نہیں زبان پے عاشق دلوں کا بھید

کرتے ہیں اپنی جان کی باتیں نین میں ہم

 

مرتے ہیں جان اب تو نظر بھر کے دیکھ لو

جیتے نہیں رہیں گے سجن اس یتھن میں ہم

 

آتی ہے اس کی بو سی مجھے یاسمن میں آج

دیکھی تھی جو ادا کہ سجن کے بدن میں ہم

 

جو کوئی کہے گا آپ کوں رکھتا ہے آپ عزیز

یوسف ہیں اپنے دل کے میاں پیرہن میں ہم

 

کیوں کر نہ ہووے کلک ہمارا گہر فشاں

کرتے ہیں آبروؔ یے تخلص سخن میں ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

دلی کے بیچ ہائے اکیلے مریں گے ہم

تم آگرے چلے ہو سجن کیا کریں گے ہم

 

یوں صحبتوں کوں پیار کی خالی جو کر چلے

اے مہربان کیونکہ کہوں دن پھریں گے ہم

 

جن جن کو لے چلے ہو سجن ساتھ ان سمیت

حافظ رہے خدا کے حوالے کریں گے ہم

 

بھولو گے تم اگرچہ سدا رنگ جی ہمیں

تو ناؤں بین بین کے تم کو دھریں گے ہم

 

اخلاص میں کتا ہے تمہیں آبروؔ ابھی

آئے نہ تم شتاب تو تم سیں لڑیں گے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تمہاری جب سیں آئی ہیں سجن دکھنے کو لال انکھیاں

ہوئی ہیں تب سیں دونی خوش نما صاحب جمال انکھیاں

 

قیامت آن ہے اس وقت میں ان پر نزاکت کی

دیکھو آئی ہیں دکھنے کس جھمک سیں یہ چھنال انکھیاں

 

ایسے کیوں ٹوٹ آئیں جوش سیں پیارے حرارت کے

لگی تھی گرم ہو کر اس قدر یہ کس کے نال انکھیاں

 

علاج ان کا ہے پیارے عاشقوں کے سنگ کی ہلدی

رنگیں اس میں کہو کپڑا کریں اپنا رو مال انکھیاں

 

مرا دل پوٹلی کی طرح ان پر لے کے ٹک پھیرو

مجرب ٹوٹکا ہے اس میں آ جاں گی بحال انکھیاں

 

ضرر ہے تند ہو کر دیکھنا بیمار کوں پیارے

ٹک اک پرہیز کر عاشق پے دو دن مت نکال انکھیاں

 

مرا دکھتا ہے جی یہ انمناہٹ دیکھ کر ان کا

ابلتا ہے بہت جب دیکھتا ہوں میں ملال انکھیاں

 

نذر بدتا ہوں اپنی جان و جی کو میں کروں صدقے

اگر دیویں مجھے اپنی شفا ہونے کی فال انکھیاں

 

سزا ہے ان کے تئیں یہ درد تھوڑا سا کہ کرتی تھیں

ہمیشہ چشم پوشی آبروؔ کا دیکھ حال انکھیاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

حسن پر ہے خوب رویاں میں وفا کی خو نہیں

پھول ہیں یہ سب پے ان پھولوں میں ہرگز بو نہیں

 

حسن ہے خوبی ہے سب تجھ میں پے اک الفت نہیں

اور سب کچھ ہے پے جو ہم چاہتے ہیں سو نہیں

 

گھر اجالا تم کوں کرنا ہو اگر احسان کا

تو دیا جو کچھ کے ہو پھر نام اس کا لو نہیں

 

بات جو ہم چاہتے ہیں سو تو ہے تم میں سجن

بے دہن کہتے ہیں تو کیا ڈر کہ تم کو گو نہیں

 

آبروؔ ہے اس کوں کیوں کر اس طرح کا جانیے

تم تو کہتے ہو پر ایسا کام اس سیں ہو نہیں

٭٭٭

 

 

 

دل ہے ترے پیار کرنے کوں

جی ہے تجھ پر نثار کرنے کوں

 

اک لہر لطف کی ہمیں بس ہے

غم کے دریا سوں پار کرنے کوں

 

چشم میری ہے ابر نیسانی

گریۂ زار زار کرنے کوں

 

چشم نیں انجہواں کی بستی کی

ظلم تیرا شمار کرنے کوں

 

رشک سیں جب کوئی چھوئے وہ زلف

دل اٹھے مار مار کرنے کوں

 

اس ادا سوں لٹک لٹک مت آ

دل مرا بے قرار کرنے کوں

 

ناؤں کوں گرچہ تو ممولا ہے

باز ہے دل شکار کرنے کوں

 

کیا کروں کس سے جا لگاؤں گھات

آبروؔ اس کے یار کرنے کوں

٭٭٭

 

 

 

دیکھ تو بے رحم عاشق نیں تجھے چھوڑا نہیں

کس قدر بے روئیاں دیکھیں پہ منہ موڑا نہیں

 

ایک چسپاں ہے تجھی پر خوش نمائی کی قبا

دوسرا کوئی جامہ زیبوں میں ترا جوڑا نہیں

 

لٹ پٹے سج نیں ترے دل کوں کیا ہے لوٹ پوٹ

ورنہ عالم بیچ ٹک بندوں کا کچھ توڑا نہیں

 

دیکھنا شیریں کا اس کوں سخت لاگا سنگ میں

بے سبب فرہاد نیں پتھر سیں سر پھوڑا نہیں

 

آدمی درکار نہیں سرکار میں حیوان ڈھونڈھ

کون بوجھے یاں سپاہی کے تئیں گھوڑا نہیں

 

جیو نے مرنے میں حق اوپر توکل ہے اسے

آبروؔ نیں زخم کے کھانے میں ہاتھ اوڑا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سرسوں لگا کے پاؤں تلک دل ہوا ہوں میں

یاں لگ ہنر میں عشق کے کامل ہوا ہوں میں

 

سینکوں نگاہ گرم سیں خوش چشم کی مجھے

شمشیر اس بھواں کے سیں گھائل ہوا ہوں میں

 

مانند آسماں ہے مشبک مرا جگر

کس کی نگہ سیں آج مقابل ہوا ہوں میں

 

بھاری ہے دیکھنا مرا تجھ کن رقیب کوں

چھاتی پے اس کی آج بجرسل ہوا ہوں میں

 

زلف مطول و دہن مختصر کوں دیکھ

تیرے درس کے علم میں فاضل ہوا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سیر بہار حسن ہی انکھیوں کا کام جان

دل کوں شراب شوق کا ساغر مدام جان

 

طرز نگاہ عجز یہی عرض حال ہے

اے رمز داں ہمن کے انکھیوں کا کلام جان

 

رسوا کریں گے تجھ کوں جگت میں نہال اشک

انجھواں کوں دشت اور صف مژگاں کو شام جان

 

تیری گلی میں دیدہ و دل فرش راہ ہیں

آہستہ ٹک قدم کوں رکھ اے خوش خرام جان

 

وحدت میں بے خودی کا عبادت ہوا ہے نام

مے خانے کوں ادب سیتی بیت الحرام جان

 

تیغ اجل سوں کس کا سلامت رہا ہے جیو

شوخی سیں جب نگاہ کریں قتل عام جان

 

اس کوں شرف ہے جس کی کریں بندگی قبول

جو آبروؔ طلب ہیں سو اپنا غلام جان

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شب سیاہ ہوا روز اے سجن تجھ بن

مثال شمع جلے اہل انجمن تجھ بن

 

ہوئی ہے جان مجھے زندگی مرن تجھ بن

کفن ہوئی ہیں بدن کے اوپر بسن تجھ بن

 

نہ شہر بیچ مرا دل لگے نہ صحرا میں

کچھ آوتی نہیں اے ماہ مجھ سیں بن تجھ بن

 

ہوا ہے آگ کا شعلہ شراب پیالے میں

لگا ہے جان لباں کوں مرے دہن تجھ بن

 

اداس دل پہ ہمارا کہیں نہ جا پرچا

کٹھن ہوا ہے مجھے شہر میں بسن تجھ بن

 

کبھی تو یاد کر اخلاص فاتحہ کہنا

کہ آبروؔ کا ہوا ہجر سیں مرن تجھ بن

٭٭٭

 

 

 

عاشق بپت کے مارے روتے ہوئے جدھر جاں

پانی سیں اس طرف کی راہیں تمام بھر جاں

 

مر کر ترے لباں کی سرخی کے تئیں نہ پہنچے

ہر چند سعی کر کر یاقوت و لعل و مرجاں

 

جنگل کے بیچ وحشت گھر میں جفا و کلفت

اے دل بتا کہ تیرے مارے ہم اب کدھر جاں

 

اک عرض سب سیں چھپ کر کرنی ہے ہم کوں تم سیں

راضی ہو گر کہو تو خلوت میں آ کے کر جاں

٭٭٭

 

 

 

عشق ہے اختیار کا دشمن

صبر و ہوش و قرار کا دشمن

 

دل تری زلف دیکھ کیوں نہ ڈرے

جال ہو ہے شکار کا دشمن

 

ساتھ اچرج ہے زلف و شانے کا

مور ہوتا ہے مار کا دشمن

 

دل سوزاں کوں ڈر ہے انجہواں سیں

آب ہو ہے شرار کا دشمن

 

کیا قیامت ہے عاشقی کے رشک

یار ہوتا ہے یار کا دشمن

 

آبروؔ کون جا کے سمجھاوے

کیوں ہوا دوست دار کا دشمن

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

فجر اٹھ خواب سیں گلشن میں جب تم نے ملی انکھیاں

گئیں مند شرم سوں نرگس کی پیارے جوں کلی انکھیاں

 

نظر بھر دیکھ تیرے آتشیں رخسار اے گل رو

مرے دل کی برنگ قطرۂ شبنم گلی انکھیاں

 

خراماں آب حیواں جوں چلا جب جان آگے سیں

انجہو کا بھیس کر پیچھوں سیں پیارے بہہ چلی انکھیاں

 

تمہیں اوروں سیں دونا دیکھتی ہیں خوش نمائی میں

ہنر جانے ہیں اپنا آج عیب احولی انکھیاں

 

پکڑ مژگاں کے پنجے سوں مروڑا یوں مرے دل کو

تری زور آوری میں آج رستم ہیں بلی انکھیاں

 

ترا ہر عضو پیارے خوش نما ہے عضو دیگر سیں

مژہ سیں خوب تر ابرو و ابرو سیں بھلی انکھیاں

 

تحیر کے پھندے میں صید ہو کر چوکڑی بھولے

اگر آہو کوں دکھلاؤں سجن کی اچپلی انکھیاں

 

ہوئی فانوس گردوں کے سیہ کاجل سوں سر تا پا

شب ہجراں میں تیری شمع ہو یاں لگ جلی انکھیاں

 

زباں کر اپنے مژگاں کوں لگی ہیں ریختے پڑھنے

ہوئی ہیں آبروؔ کے وصف میں تیری ولی انکھیاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کس کی رکھتی ہیں یہ مجال انکھیاں

کہ دیکھیں مکھ ترا سنبھال انکھیاں

 

سرمہ سیتی بنا سیاہ برن

آج دل کوں ہوئی ہیں کال انکھیاں

 

رقص انجھواں کا بے اصول نہیں

کف مژگاں سوں دے ہیں تال انکھیاں

 

جب اٹھاتی ہیں گریہ سیں طوفاں

کف دریا کریں رو مال انکھیاں

 

صید کرنے کوں دل کے مژگاں سوں

روپتے ہیں بنا کے جال انکھیاں

 

دل کوں اک تل نہیں مرے آرام

لگی ہیں جب سوں تیرے نال انکھیاں

 

دل کی خونیں اگر نہیں تو کیوں

اس قدر ہیں تمہاری لال انکھیاں

 

تیر مژگاں کمان ابرو سیں

مارتی ہیں جگر میں بھال انکھیاں

 

آبروؔ جب کبھی نگاہ کریں

تب لے جاں تن سیں جی نکال انکھیاں

٭٭٭

 

 

 

کنھیا کی طرح پیارے تری انکھیاں یہ سانوریاں

کریں گی ہند میں دعویٰ خدائی کا ہم اٹکلیاں

 

ہوا ہے ہم کوں دنیاں میں میسر سیر جنت کا

ملیں ہیں ذوق سیں پھرنے کوں اپنے یار کی گلیاں

 

میاں کہنے سیں ان کتے رقیبوں کے تم عاشق پر

اتے جو غرفشی کرتے ہو یہ باتیں نہیں بھلیاں

 

ایسی کیوں رسمسی مرجان اور کیوں لال ہیں انکھیاں

اگر تم نیں کری نہیں غیر سیں مل رات رنگ رلیاں

٭٭٭

 

کہو تم کس سبب روٹھے ہو پیارے بے گنہ ہم سیں

چرانے کیوں لگی ہیں یوں تری انکھیاں نگہ ہم سیں

 

اتی نامہربانی کیوں کری ناحق غریبوں پر

کیا کیا ہم نیں ظالم اپنے جی کی بات کہہ ہم سیں

 

کیا تھا نقد جاں اپنا نثار اس واسطے تم پر

کہ بے تقصیر یوں دل میں رکھو گے تم گرہ ہم سیں

 

تغافل چھوڑنا ظالم بے تکلف ہو ستم مت کر

کپٹ کی آشنائی یہ نہیں سکتی نبہ ہم سیں

 

تمہاری طرح ملنا چھوڑ کر بے درد ہو رہنا

کہو کیوں کر یہ سکتا ہے جیتے جیو یہ گنہ ہم سیں

 

لگے ہیں غیر فرزیں کی طرح مل کج روی کرنے

ہمیشہ جو کہ کھا جاتے ہیں سب با توں میں شہ ہم سیں

 

میں اپنی جان سیں حاضر ہوں لیکن آبروؔ تو رکھ

خدا کے واسطے ایتا بھی روکھا تو نہ رہ ہم سیں

٭٭٭

 

 

 

گرچہ اس بنیاد ہستی کے عناصر چار ہیں

لیکن اپنے نیست ہو جانے میں سب ناچار ہیں

 

دوستی اور دشمنی ہے ان بتاں کی ایک سی

چار دن ہیں مہرباں تو چار دن بیزار ہیں

 

جی کوئی منصور کے جوں جان کرتے ہیں فدا

وے سپاہی عاشقوں کی فوج کے سردار ہیں

 

یہ جو سجتی ہے کٹاری دار مشروع کی ازار

مارنے کے وقت عاشق کے ننگی تروار ہیں

 

دوستی اور پیار کی با توں پے خوباں کی نہ بھول

شوخ ہوتے ہیں نپٹ عیار کس کے یار ہیں

 

جو نشہ جوانی کا اترے گا تو کھینچیں گے خمار

اب تو خوباں سب شراب حسن کے سرشار ہیں

 

کس طرح چشموں سیتی جاری نہ ہو دریائے خوں

تھل نہ پیرا آبروؔ ہم وار اور وے پار ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گلی اکیلی ہے پیارے اندھیری راتیں ہیں

اگر ملو تو سجن سو طرح کی گھاتیں ہیں

 

بتاں سیں مجھ کوں تو کرتا ہے منع اے زاہد

رہا ہوں سن کہ یہ بھی خدا کی باتیں ہیں

 

ازل سیں کیوں یہ ابد کی طرف کوں دوڑیں ہیں

وہ زلف دل کے طلب کی مگر براتیں ہیں

 

رقیب عجز سیں معقول ہو سکے ہیں کہیں

علاج ان کا مگر جھگڑیں ہیں و لاتیں ہیں

 

کرو کرم کی نگاہاں طرف فقیروں کی

نصاب حسن کی صاحب یہی زکاتیں ہیں

 

رہیں فلک کے سدا ہیر پھیر میں نامرد

یہ رنڈیاں ہیں کہ چرخا ہمیشہ کاتیں ہیں

 

لکھوں گا آبروؔ اب خوش نین کوں میں ناما

پلک قلم ہیں مری مردمک دواتیں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مت غضب کر چھوڑ دے غصہ سجن

آ جدائی خوب نئیں مل جا سجن

 

بے دلوں کی عذر خواہی مان لے

جو کہ ہونا تھا سو ہو گزرا سجن

 

تم سوا ہم کوں کہیں جاگا نہیں

پس لڑو مت ہم سیتی بے جا سجن

 

مر گئے غم سیں تمہارے ہم پیا

کب تلک یہ خون غم کھانا سجن

 

جو لگے اب کاٹنے اخلاص کے

کیا یہی تھا پیار کا ثمرا سجن

 

چھوڑ تم کوں اور کس سیں ہم ملیں

کون ہے دنیا میں کوئی تم سا سجن

 

پاؤں پڑتا ہوں تمہارے رحم کو

بات میری مان لے ہاہا سجن

 

تنگ رہنا کب تلک غنچے کی طرح

پھول کے مانند ٹک کھل جا سجن

 

آبروؔ کوں کھو کے پچھتاؤ گے تم

ہم کو لازم ہے اتا کہنا سجن

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مت مہر سیتی ہاتھ میں لے دل ہمارے کوں

جلتا ہے کیوں پکڑتا ہے ظالم انگارے کوں

 

چہرے کو چھڑکیاؤ کیا ہے انجہو نیں یوں

پانی کے دھارے کاٹتے ہیں جوں کرارے کوں

 

معقول کیوں رقیب ہو منت سیں خلق کی

کوئی خوب کر سکے ہے خدا کے بگاڑے کوں

 

مرتا ہوں لگ رہی ہے رمق آ درس دکھاؤ

جا کر کہو ہماری طرف سے پیارے کوں

 

میں آ پڑا ہوں عشق کے ظالم بھنور میں آج

ایسا کوئی نہیں کہ لگاوے کنارے کوں

 

سینے کو ابرواں نیں ترے یوں کیا فگار

تختے اوپر چلاوتے ہیں جونکہ آرے کوں

 

اپنا جمال آبروؔ کوں ٹک دکھاؤ آج

مدت سے آرزو ہے درس کی بچارے کوں

٭٭٭

 

 

 

نازنیں جب خرام کرتے ہیں

تب قیامت کا کام کرتے ہیں

 

گل پہ جوں اوس یوں ترے مکھ پر

ٹوٹ دل اژدحام کرتے ہیں

 

تم نظر کیوں چرائے جاتے ہو

جب تمہیں ہم سلام کرتے ہیں

 

کیا تماشا ہے جب کہ دو معشوق

مل کے باہم کلام کرتے ہیں

 

مومنوں کے دلوں کو یہ بد کیش

کافری کر کے رام کرتے ہیں

 

عشق کی صف منیں نمازی سب

آبروؔ کو امام کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ہمارے سانولے کوں دیکھ کر جی میں جلی جامن

لگا پھیکا سواد اس کا نہیں لگتی بھلی جامن

 

سراپا آج نمکینی و نرمی و گدازی سوں

ہوا یہ سانولا گویا نمک میں کی گلی جامن

 

لگے ہے ترش ظاہر میں پے ہے یہ سانولا میٹھا

مزے داری میں ہے گویا یہ مصری کی ڈلی جامن

 

تمہارے رنگ کی تمثیل اس کوں دوں تو کھل جاوے

خوشی سیں سانوری ہو کر کے کوئل کی کلی جامن

 

کیا رم سانورے نیں آبروؔ کوں دیکھ کر پانی

لگا برسات کا موسم دیکھو یارو چلی جامن

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یار روٹھا ہے ہم سیں منتا نہیں

دل کی گرمی سیں کچھ او پہنتا نہیں

 

تجھ کو گہنا پہنا کے میں دیکھوں

حیف ہے یہ بناؤ بنتا نہیں

 

جن نیں اس نوجوان کو برتا

وہ کسی اور کو برتتا نہیں

 

کوفت چہرے پہ شب کی ظاہر ہے

کیوں کے کہیے کہ کچھ چنتا نہیں

 

شوق نہیں مجھ کوں کچھ مشیخت کا

جال مکڑی کی طرح تنتا نہیں

 

تیرے تن کا خمیر اور ہی ہے

آب و گل اس صفا سیں سنتا نہیں

 

جیو دنیا بھی کام ہے لیکن

آبروؔ بن کوئی کرنتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

بڑھے ہے دن بدن تجھ مکھ کی تاب آہستہ آہستہ

کہ جوں کر گرم ہو ہے آفتاب آہستہ آہستہ

 

کیا خط نیں ترے مکھ کوں خراب آہستہ آہستہ

گہن جوں ماہ کوں لیتا ہے داب آہستہ آہستہ

 

لگا ہے آپ سیں اے جاں ترے عاشق کا دل رہ رہ

کرے ہے مست کوں بے خود شراب آہستہ آہستہ

 

دل عاشق کا کلی کی طرح کھلتا جائے خوش ہو ہو

ادا سیں جب کبھی کھولے نقاب آہستہ آہستہ

 

لگا ہے آبروؔ مجھ کوں ولیؔ کا خوب یہ مصرع

سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کیوں ملامت اس قدر کرتے ہو بے حاصل ہے یہ

لگ چکا اب چھوٹنا مشکل ہے اس کا دل ہے یہ

 

بے قراری سیں نہ کر ظالم ہمارے دل کوں منع

کیوں نہ تڑپے خاک و خوں میں اس قدر بسمل ہے یہ

 

عشق کوں مجنوں کے افلاطوں سمجھ سکتا نہیں

گو کہ سمجھاوے پہ سمجھے گا نہیں عاقل ہے یہ

 

کون سمجھاوے مرے دل کوں کوئی منصف نہیں

غیر حق کو چاہتا ہے کیوں ایتا باطل ہے یہ

 

کون ہے انساں کا کوئی دوست ایسا جو کہے

موت اس کی فکر میں لاگی ہے اور غافل ہے یہ

 

عاشقی کے فن میں ہے دل سیں جھگڑنا بے حساب

کچھ نہیں باقی رکھا اس علم میں فاضل ہے یہ

 

ہم تو کہتے تھے کہ پھر پانے کے نہیں جانے نہ دو

اب گئے پر آبروؔ پھر پائیے مشکل ہے یہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس زلف جاں کوں صنم کی بلا کہو

افعی کہو سیاہ کہو اژدہا کہو

 

قاتل نگہ کوں پوچھتے کیا ہو کہ کیا کہو

خنجر کہو کٹار کہو نیمچا کہو

 

ٹک واسطے خدا کے مرا عجز جا کہو

بیکس کہو غریب کہو خاک پا کہو

 

عاشق کا درد حال چھپانا نہیں درست

پرگھٹ کہو پکار کہو برملا کہو

 

اس تیغ زن نیں دل کوں دیا ہے مرے خطاب

بسمل کہو شہید کہو جاں فدا کہو

 

شاہ نجف کے نام کوں لوں آبروؔ سیں سیکھ

ہادی کہو امام کہو رہ نما کہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یا سجن ترک ملاقات کرو

یا ملو دو میں سے اک بات کرو

 

سب بتاں رشک سیں ہو جاں مال

ناز کا اسپ اگر لات کرو

 

پاؤں پڑنے کوں سعادت سمجھو

یار کے دل کوں اگر ہات کرو

 

جنگ کا وقت نہیں یہ پیارے

گھر میں آئے ہیں مدارات کرو

 

جن کو مضمون کا دعویٰ ہے انہیں

آبروؔ سیں کہو دو ہات کرو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے

راگ ہے مے ہے چمن ہے دل ربا ہے دید ہے

 

دل دیوانہ ہو گیا ہے دیکھ یہ صبح بہار

رسمسا پھولوں بسا آیا انکھوں میں نیند ہے

 

شیر عاشق آج کے دن کیوں رقیباں پے نہ ہوں

یار پایا ہے بغل میں خانۂ خورشید ہے

 

غم کے پیچھو راست کہتے ہیں کہ شادی ہووے ہے

حضرت رمضاں گئے تشریف لے اب عید ہے

 

عید کے دن رووتا ہے ہجر سیں رمضان کے

بے نصیب اس شیخ کی دیکھو عجب فہمیدہ ہے

 

سلک اس کی نظم کا کیوں کر نہ ہووے قیمتی

آبروؔ کا شعر جو دیکھا سو مروارید ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آشنائی بزور نئیں ہوتی

مت کرو شر و شور نئیں ہوتی

 

دوستی جو کہ بے طمع ہو ہے

زر اگر دو کرور نئیں ہوتی

 

ایک مرتا ہوں تس پے تو مت مر

گور پر اور گور نئیں ہوتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اگر دل عشق سیں غافل رہا ہے

تو اپنے فن میں نا قابل رہا ہے

 

دل و دیں سے تو گزرا اب خودی چھوڑ

گھر اس مہ کا اب اک منزل رہا ہے

 

جدائی کے کرے تدبیر اب کون

یہ دل تھا سو اسی سیں مل رہا ہے

 

نہ باندھو صید رہنے کا نہیں باز

دل اپنی حرکتوں سیں ہل رہا ہے

 

مثل برق دنیا سے گزر جا

ایتا کیوں اس میں بے حاصل رہا ہے

 

نہیں تضمین کا ذوق آبروؔ کو

کہاں اس کوں دماغ و دل رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تمہارے لوگ کہتے ہیں کمر ہے

کہاں ہے کس طرح کی ہے کدھر ہے

 

لب شیریں چھپے نہیں رنگ پاں سیں

نہاں منقار طوطی میں شکر ہے

 

کیا ہے بے خبر دونوں جہاں سیں

محبت کے نشے میں کیا اثر ہے

 

ترا مکھ دیکھ آئینا ہوا ہے

تحیر دل کوں میرے اس قدر ہے

 

تخلص آبروؔ بر جا ہے میرا

ہمیشہ اشک غم سیں چشم تر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جال میں جس کے شوق آئی ہے

اس کے دل کوں تڑپھ کماہی ہے

 

جگ کے خوباں ہیں تجھ پے سب مفتوں

تن میں یوسف بھی ایک چاہی ہے

 

داغ سیں کیوں نہ دل اجالا ہو

چشم کی روشنی سیاہی ہے

 

اب تلک کھینچ کھینچ جور و جفا

ہر طرح دوستی نباہی ہے

 

طور کیا پوچھتے ہو کافر کا

شوخ ہے بانکہ ہے سپاہی ہے

 

ہاتھ میں کہربا کی سمرن دیکھ

رنگ عاشق کا آج کاہی ہے

 

حال عاشق کا کیا بیاں کیجے

خوار ہے خستہ ہے تباہی ہے

 

آبروؔ کیوں نہ ہو رہے خاموش

درد کہنے کی یاں مناہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چنچلاہٹ میں تو ممولا ہے

جھلجھلاہٹ میں در امولا ہے

 

دیکھ تجھ مکھ کوں یوں چھپے یوسف

جوں کبوتر کنویں میں کولا ہے

 

سیر کرتا ہوں بیٹھ کر اس بیچ

دل ہمارا اڑن کھٹولا ہے

 

سرو سیں قد ہے یار کا موزوں

میں نے میزان لیں کے تولا ہے

 

سرد مہری سیں بے وفا کا حال

ہے خنک اس قدر کہ اولا ہے

 

جان کر کے اجان ہوتا ہے

تم نہ جانو کہ جان بھولا ہے

 

ہم سوں سب مل کہو مبارک باد

کہ ٹک اک ہنس کے آ کے بولا ہے

 

آبروؔ ہائے کیوں گلے نہ لگا

میرے دل میں یہی ملولا ہے

٭٭٭

 

 

 

خورشید رو کے آگے ہو نور کا سوالی

کانسا لیے گدا کا آیا ہے چاند خالی

 

سناہٹا جدا ہے اور بے خودی نرالی

ہے میرے جی کے حق میں یہ ابر برس گالی

 

مجنوں تو باؤلا تھا جن راہ لی جنگل کی

سیانا وہی کہ جس نیں کہ شہر کی ہوا لی

 

لوہو میں لوٹتا ہے بخت سیہ کا برجا

کالی گھٹا میں زیبا لاگے شفق کی لالی

٭٭٭

 

 

 

دشمن جاں ہے تشنۂ خوں ہے

شوخ ہے بانک ہے نکت بھوں ہے

 

تجھ کوں لیلیٰ بھی دیکھ مجنوں ہے

دل رباؤں کا دل ربا توں ہے

 

دل کے چھلنے کوں یہ لٹک چلنا

سحر ہے ٹوٹکا ہے افسوں ہے

 

خال مشکیں ہے لال لب ہا پر

یا مے سرخ بیچ افیوں ہے

 

آن ہے درد کے ضعیفاں پر

آہ دل کی الف ہے قدنوں ہے

 

درگزر کر رقیب سیں اے دل

بے حیا ہے رجالا ہے دوں ہے

 

درد سر کا علاج کیوں نہ کرے

یار کا رنگ صندلی گوں ہے

 

شیخ خرقے میں جب مراقب ہو

گربہ مسکین ہے مری جوں ہے

 

گر وفادار کش نہیں وہ شوخ

آبروؔ ساتھ دشمنی کیوں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دیکھو تو جان تم کوں مناتے ہیں کب سیتی

بولو خدا کے واسطے ٹک لال لب سیتی

 

مکھڑا ترا ہے جان یہ اچرج ترا کا چاند

روزانہ اور خوب جھلکتا ہے شب سیتی

 

زلفاں کوں کہہ کہ دل کوں کریں آپ میں سیں دور

یہ پیچ و تاب ان کوں ہے اس کے تعب سیتی

 

دست سلام سر کے اوپر نقش پا ہے اب

ہر چند خاک راہ ہوا ہوں ادب سیتی

 

پانی میں ڈوب آگ میں جل کر مرو پہ ایک

عاشق نہ ہو پکار کے کہتا ہوں سب سیتی

 

ہرجائیو ہر ایک سیں لالچ نہیں ہے خوب

ہے بھیک مانگ کھانا بھلا اس کسب سیتی

 

باندھا ہے برگ تاک کا کیوں سر پے سیہرہ

کیا آبروؔ کا بیاہ ہے بنت العنب سیتی

٭٭٭

 

 

طوفاں ہے شیخ قہریا ہے

جو حرف ہے تس کے تہریا ہے

 

دل کیوں نہ بھنور ہو آج میرا

چیرا ترے سر پے لہریا ہے

 

تجھ حسن کے باغ میں سریجن

خورشید گل دوپہریا ہے

 

اب دین ہوا زمانہ سازی

آفاق تمام دہریا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا بری طرح بھوں مٹکتی ہے

کہ مرے دل میں آ کھٹکتی ہے

 

زلف کی شان مکھ اوپر دیکھو

کہ گویا عرش میں لٹکتی ہے

 

اب تلک گرچہ مر گیا فرہاد

روح پتھر سیں سر لٹکتی ہے

 

دل کبابوں میں کون کچا ہے

عشق کی آگ کیوں چٹکتی ہے

 

آبروؔ جا پہنچ کہ پیاسی زلف

ناگنی کی طرح بھٹکتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کیوں بند سب کھلے ہیں کیوں چیر اٹپٹا ہے

کیا قتل کوں ہمارے اب ٹھاٹھ یوں ٹھٹھا ہے

 

اس وقت میں پیارے ہم کوں شراب دیجے

دیکھو تو کیا ہوا ہے ریجھو تو کیا گھٹا ہے

 

برہن کے نین رو رو جو گی برن ہوئے ہیں

کاجر بھبھوت انجھو مالا پلک جٹا ہے

 

خواہ لاٹھیوں سیں مارو خواہ خاک میں لتھاڑو

عاشق کا دل پیارے چوگان کا بٹا ہے

 

لب کوں انکھیوں کوں مکھ کوں بر کوں کمر کوں قد کوں

ان سب کو چاہتا ہے ٹکڑے ہو دل بٹا ہے

 

سامان عیش ہم کوں اسباب غم ہوئے ہیں

خون جگر ہے صہبا بخت سیہ گھٹا ہے

 

کیا رنگ ہے تمہارے رخسار کا سریجن

جس پر نظر کرے سیں گل کا جگر پھٹا ہے

 

عاشق کی آبروؔ ہے خواری میں جان دینا

نامرد وہ کہاوے جو عشق سیں ہٹا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گناہ گاروں کی عذر خواہی ہمارے صاحب قبول کیجے

کرم تمہارے کی کر توقع یہ عرض کیتے ہیں مان لیجے

 

غریب عاجز جفا کے مارے فقیر بے کس گدا تمہارے

سو ویں ستم سیں مریں بچارے اگر جو ان پر کرم نہ کیجے

 

پڑے ہیں ہم بیچ میں بلا کے کرم کرو واسطے خدا کے

ہوئے ہیں بندے تری رضا کے جو کچھ کے حق میں ہمارے کیجے

 

بپت پڑی ہے جنہوں پے غم کی جگر میں آتش لگی الم کی

کہاں ہے طاقت انہیں ستم کی کہ جن پہ ایتا عتاب کیجے

 

ہمارے دل پہ جو کچھ کہ گزرا تمہارے دل پر اگر ہو ظاہر

تو کچھ عجب نہیں پتھر کی مانند اگر یتھا دل کی سن پسیجے

 

اگر گنہ بھی جو کچھ ہوا ہے کہ جس سیں ایتا ضرر ہوا ہے

تو ہم سیں وہ بے خبر ہوا ہے دلوں سیں اس کوں بھلائے دیجے

 

ہوئے ہیں ہم آبروؔ نشانے لگے ہیں طعنے کے تیر کھانے

ترا برا ہو ارے زمانے بتا تو اس طرح کیوں کہ جیجے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

محبت سحر ہے یارو اگر حاصل ہو یک روئی

یہ افسوں خوب اثر کرتا ہے لیکن جبکہ جادوئی

 

خیال ماسوا سیں صاف کر تو اپنے سینے کوں

کہ دل کے رشتۂ اخلاص کوں لازم ہے یکسوئی

 

لباس پنبئی بن کیونکے گزرے موسم سرما

قیامت ہے یہ تیری سرد مہری تس پے یہ سردی

 

اندھیرا آ گیا آنکھوں کے آگے خشم سوں میری

جبھی اس چھوکرے کی بو الہوس نیں زلف ٹک چھوئی

 

پسینے سیں ترے اے شوخ بو آتی ہے دارو کی

ایتی اے فتنہ گر سیکھی کہاں سیں تو نیں بد خوئی

 

مقابل دختر رز کی جبھی وہ مغبچہ بولا

اب اس کے دیکھ مارے شوق کے پانی ہو کرچوئی

 

ہوئے پھرتے ہو دشمن آبروؔ کے اے سجن اب تو

کہو الفت دلی اور دوستی جانی وہ کیا ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

نپٹ یہ ماجرا یارو کڑا ہے

مسافر دشمنوں میں آ پڑا ہے

 

رقیب اپنے اوپر ہوتے ہیں مغرور

غلط جاناں ہے حق سب سیں بڑا ہے

 

جو وہ بولے سوئی وہ بولتا ہے

رقیب اب بھوت ہو کر سر چڑھا ہے

 

خدا حافظ ہے میرے دل کا یارو

پتھر سیں جا کے یہ شیشہ لڑا ہے

 

برنگ ماہیِ بے آب نس دن

سجن نیں دل ہمارا تڑپھڑا ہے

 

رقیباں کی نہیں فوجاں کا وسواس

ادھر سیں عاشقاں کا بھی دھڑا ہے

 

کرے کیا آبروؔ کیوں کر ملن ہو

رقیباں کے صنم بس میں پڑا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نگہ تیری کا اک زخمی نہ تنہا دل ہمارا ہے

جگت سارا تری ان شوخ دو انکھیوں کا مارا ہے

 

ہوئے ہیں عاشقاں کی فوج میں ہم صاحب نوبت

بجایا آہ کے ڈنکے سیتی دل کا نقارا ہے

 

ہمارا دین و مذہب اے سجن تیری اطاعت ہے

خدا کا کیوں نہ ہو بندا کہ جن تجھ کوں سنوارا ہے

 

بجھا اے بے وفا پانی سوں اپنی مہربانی کے

دہکتا دل منیں میرے ترے غم کا انگارا ہے

 

خجل ہو کر مری انجھواں کی جھڑ سیں ابر پانی ہو

تڑپنا دیکھ کر دل کا ہمارا برق ہارا ہے

 

ہمیں تو رات دن دل سیں تمہاری یاد ہے پیارے

تمن نیں اس قدر پیارے ہمن کوں کیوں بسارا ہے

 

نظر کرنا کرم سیں آبروؔ پے تم کوں لازم ہے

کسی لائق نہیں تو کیا ہوا آخر تمہارا ہے

٭٭٭

 

 

 

نہیں گھر میں فلک کے دل کشائی

کہاں ہوتی ہے یہاں میری سمائی

 

کرے جو بندگی سو ہو گنہ گار

نیاری ہے یہاں کی کچھ خدائی

 

ذبح کرنے کوں ناحق بے کسوں کے

بتا تیری کمر یہ کن کسائی

 

تم اپنی بات کے راجا ہو پیارے

کہیں سیں ضد تمہیں ہو ہے سوائی

 

چمن کوں جیت آئے ناز بو جب

تمہارے سبزۂ خط نیں ہرائی

 

سپیدی قند کی پھیکی لگی جب

تمہارے رنگ کی دیکھی گرائی

 

بہا خون جگر انکھیوں سیں پل پل

سجن بن رات ہم کوں یوں بہائی

 

نہیں ٹکنے کا پاؤں آبروؔ کا

گلی کی راہ اس کے ہات آئی

٭٭٭

 

 

ہم نیں سجن سنا ہے اس شوخ کے دہاں ہے

لیکن کبھو نہ دیکھا کیتا ہے اور کہاں ہے

 

ڈھونڈا ہزار تو بھی تیرا نشاں نہ پایا

لشکر میں گل رخاں کے تیری مثل کہاں ہے

 

اب تشنگی کا روزہ شاید کھلے ہمارا

شام و شفق سجن کا مسی و رنگ پاں ہے

 

دل میں کیا ہے دعوا انکھیاں ہوئی ہیں منکر

تیری کمر کا جھگڑا ان دو کے درمیاں ہے

 

رہتا ہوں اے پیارے قدموں تلے تمہارے

جس راہ آوتے ہو عاجز کا وہیں مکاں ہے

 

تجھ خط پشت لب میں تس کا سخن ہوا سبز

اس کی زباں دہن میں مانند برگ پاں ہے

 

پیری سیں قد کماں ہے ہر چند آبروؔ کا

اس نوجواں کی خاطر دل اب تلک کشاں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ باؤ کیا پھری کہ تری لٹ پلٹ گئی

ناگن کی بھانت ڈس کے مرا دل الٹ گئی

 

بیکل ہوا ہوں اب تو تری زلف میں سجن

شب ہے دراز نیند ہماری اچٹ گئی

 

نادان تو نیں غیر کوں کیوں درمیاں دیا

الفت تری کی ڈور اسی مانجھے سیں کٹ گئی

 

مجھ باؤلے کا شور اٹھا دیکھ کر کے فوج

بادل کی بھانت ڈر سیں رقیباں کی پھٹ گئی

 

توڑی پریت ہم سیں پیارے نے آبروؔ

لاگی تو تھی یہ بیل پہ آخر اوکھٹ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

یہ تری دشنام کے پیچھے ہنسی گل زار سی

خوب لگتی ہے گنہ کے بعد استغفار سی

 

یار کی انکھیوں سیتی جب سیں لگا ہے میرا دل

طبع میری تب سیتی رہتی ہے کچھ بیمار سی

 

حسن کی چڑھتی کبھی ہو ہے کبھی بڑھتی کلا

چاند کی ہوتی نہیں گنتی میں دن ہر بار سی

٭٭٭

ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل