FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

کشمکش

اور دوسرے افسانے

 

                راجندر سنگھ بیدی

جمع و ترتیب: راغب اختر، اعجاز عبید

 

 

 

 

 

ان کے جُوتے

 

 

دن بھر کام کرنے کے بعد، جب بوڑھا رحمان گھر پہنچا تو بھوک اُسے بہت ستارہی تھی۔ جینا کی ماں، جینا کی ماں، اُس نے چِلاّتے ہوئے کہا … کھانا نکال دے بس جھٹ سے۔ بڑھیا اس وقت اپنے ہاتھ کپڑوں لتّوں میں گیلے کیے بیٹھی تھی اور پیشتر اس کے کہ وہ اپنے ہاتھ پونچھ لے، رحمان نے ایک دم اپنے جوتے کھاٹ کے نیچے اُتار دیے، اور کھدر کے ملتانی تہمد کو زانوؤں میں دبا، کھاٹ پر چوکڑی جماتے ہوئے بولا … بسم اللہ!

بڑھاپے میں بھوک جوان ہو جاتی ہے۔ رحمان کا بسم اللہ بڑھاپے اور جوانی کی اس دوڑ میں رکابی سے بہت پہلے اور بہت دُور نکل گیا تھا اور ابھی تک بڑھیا نے سجّی اور نیل میں بھگوئے ہوئے ہاتھ دوپٹے سے نہیں پونچھے تھے۔ جینا کی ماں برابر چالیس سال سے اپنے ہاتھ دوپٹے سے پونچھتی آئی تھی اور رحمان قریب قریب اتنے ہی عرصے سے خفا ہوتا آیا تھا، لیکن آج یک لخت وہ خود بھی اس وقت بچانے والی عادت کو سراہنے لگا تھا۔ رحمان بولا، جینا کی ماں، جلدی ذرا … اور بڑھیا اپنی چوالیس سالہ، دقیانوسی ادا سے بولی۔ آئے ہائے، ذرا دم تو لے بابا تُو!

سوء اتفاق رحمان کی نگاہ اپنے جوتوں پر جا تھمی، جو اُس نے جلدی سے کھاٹ کے نیچے اتار دیئے تھے۔ رحمان کا ایک جوتا دوسرے جوتے پر چڑھ گیا تھا۔ یہ مستقبل قریب میں کسی سفر پر جانے کی علامت تھی۔ رحمان نے ہنستے ہوئے کہا۔

آج پھر میرا جوتا جوتے پر چڑھ رہا ہے، جینا کی ماں … اللہ جانے میں نے کون سے سفر پہ جانا ہے!

جینا کو ملنے جانا ہے اور کہاں جانا ہے؟ … بڑھیا بولی۔ یونہی تو نہیں تیرے گودڑ دھو رہی ہوں، بڈھے ! دو پیسے ڈبل کا تو نیل ہی لگ گیا ہے تمھارے کپڑن کُو۔ کیا تو دو پیسے روج کی کمائی بھی کرے ہے؟

ہاں ہاں! بڈھے رحمان نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ کل میں نے اپنی اکلوتی بچی کو مِلنے انبالے جانا ہے۔ تبھی تو یہ جوتا جوتے سے نیارا نہیں ہوتا۔ پارسال بھی جب یہ جوتا جوتے پر چڑھ گیا تھا ، تو رحمان کو پرچی ڈالنے کے لیے ضلع کچہری جانا پڑا تھا۔ اس کے ذہن میں اس سال کا سفر اور جوتوں کی کرتوت اچھی طرح سے محفوظ تھی۔ ضلع سے واپسی پر اُسے پیدل ہی آنا پڑا تھا، کیونکہ ہونے والے ممبر نے تو واپسی پر اُس کا کرایہ بھی نہیں دیا تھا۔ اس میں ممبر کا قصور نہ تھا، بلکہ جب رحمان پرچی پر نیلی چرخی کا نشان ڈالنے لگا تھا تو اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور اس نے گھبرا کر پرچی کسی دوسرے ممبر کے حق میں دے دی تھی۔

جینا کو ملے دو سال ہونے کو آئے تھے۔ جینا انبالے میں بیاہی ہوئی تھی۔ ان دو سالوں میں آخری چند ماہ رحمان نے بڑی مشکل سے گزارے تھے۔ اُسے یہی محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی دھکتا ہوا اُپلا اس کے دل پر رکھا ہوا ہے۔ جب اُسے جینا کو ملنے کا خیال آتا تو اسے کچھ سکون، کچھ اطمینان میسّر ہوتا۔ جب ملنے کا خیال ہی اس قدر تسکین دہ تھا تو ملنا کیسا ہو گا؟ … بڈھا رحمان بڑی حیرت سے سوچتا تھا۔ وہ اپنی لاڈلی بیٹی کو ملے گا اور پھر تلنگوں کے سردار علی محمد کو۔ پہلے تو وہ رو دے گا۔ پھر ہنس دے گا، پھر رو دے گا اور اپنے ننھے نواسے کو لے کر گلیوں، بازاروں میں کھلاتا پھرے گا … یہ تو میں بھول ہی گیا تھا، جینا کی ماں! رحمان نے کھاٹ کی ایک کھُلی ہوئی رسی کو عادتاً گھِسا کر کاٹتے ہوئے کہا … بڑھیپے میں یادداش کتنی کمجور ہو جاتی ہے۔

علی محمد، جینا کا خاوند، ایک وجیہ جوان تھا۔ سپاہی سے ترقی کرتے کرتے وہ نائیک بن گیا تھا۔ تلنگے اسے اپنا سردار کہتے تھے۔ صلح کے دنوں میں علی محمد بڑے جوش و خروش سے ہاکی کھیلا کرتا تھا۔ این ۔ ڈبلیو ۔ آر، پولیس مین، برگیڈ والے، یونیورسٹی والے اُس نے سب ہرا دیے تھے۔ اب تو وہ اپنی ایمٹی کے ساتھ بصرے جانے والا تھا ، کیونکہ عراق میں رشید علی بہت طاقت پکڑ چکا تھا… اس ہاکی کی بدولت ہی علی محمد کمپنی کمانڈر کی نگاہوں میں اونچا اُٹھ گیا تھا۔ نائیک بننے سے پہلے وہ جینا سے بہت اچھا سلوک کرتا تھا، لیکن اس کے بعد وہ اپنی ہی نظروں میں اتنا بلند ہو گیا تھا کہ جینا اُسے پانو تلے نظر نہ آتی تھی۔ اس کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ مسز ہولٹ، کمپنی کمانڈر کی بیوی نے تقسیم انعامات کے وقت انگریزی میں علی محمد سے کچھ کہا تھا،جس کا ترجمہ صوبیدار نے کیا تھا… میں چاہتی ہوں تمھاری اسٹک چوم لوں۔ علی محمد کا خیال تھا، لفظ اسٹک نہیں ہو گا، کچھ اور ہو گا۔ بڑا حاسد ہے صوبیدار۔انگریزی بھی تو بس گوہانے تک ہی جانتا ہے۔

رحمان کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے اُسے اپنے داماد سے نہیں بلکہ کسی بہت بڑے افسر سے ملنے جانا ہے۔ اُس نے کھاٹ پر سے جھُک کر جُوتے پر سے جُوتا اُتار دیا، گویا وہ انبالے جانے سے گھبراتا ہو۔ اس عرصے میں جینا کی ماں کھانا لے آئی۔ آج اُس نے خلافِ معمول گائے کا گوشت پکا رکھا تھا۔ جینا کی ماں نے گوشت بڑی مشکل سے قصبے سے منگوایا تھا اور اس میں گھی اچھی طرح سے چھوڑا تھا۔ چھ ماہ پہلے رحمان کو  تِلی کی سخت شکایت تھی، اس لیے وہ تمام مولداتِ سودا، گُڑ ، تیل، بینگن، مسور کی دال، گائے کے گوشت اور چکنی غذا سے پرہیز کرتا تھا۔ اس چھ ماہ کے عرصے میں رحمان نے شاید سیر کے قریب نوشادر چھاچھ کے ساتھ گھول کر پی لیا تھا ، تب کہیں اس کے سانس کی تکلیف دُور ہوئی تھی۔ بھوک لگنے کے علاوہ اس کے پیشاب کی سیاہی سپیدی میں بدلی تھی، لیکن اس کی گردن بدستور پتلی تھی۔ آنکھوں میں گدلاہٹ اور تیرگی ویسے ہی نمایاں تھی۔ پلکوں پر کی بھُربھراہٹ بھی قائم تھی اور جلد کا رنگ سیاہی مائل نیلگوں ہو گیا تھا۔ گائے کا گوشت دیکھ کر رحمان خفا ہو گیا۔ بولا … چار پانچ روز ہوئے تو نے بینگن پکائے تھے۔ جب میں چپ رہا۔ پرسوں مسور کی دال پکائی جب بھی چُپ رہا۔ تُو تو بس چاہتی ہے کہ میں بولوں ہی نہیں … مری مٹی کا ہو رہوں۔ سچ کہتا ہوں تُو مجھے مارنے پہ تُلی وی ہے۔ جینا کی ماں!

بڑھیا پہلے روز سے ہی، جب اُس نے بینگن پکائے تھے، رحمان کی طرف سے اس احتجاج کی متوقع تھی۔ لیکن رحمان کی خاموشی سے بڑھیا نے اُلٹا ہی مطلب لے لیا۔ دراصل بڑھیا نے قریب قریب ایک نکھٹو آدمی کے لیے اپنا ذائقہ بھی ترک کر ڈالا تھا۔ بڑھیا کا سوچنے کا ڈھب بھی نیارا تھا۔ جب سے وہ پیٹ بڑھے ہوئے اس ڈھانچ کے ساتھ وابستہ ہوئی تھی،اس نے سکھ ہی کیا پایا تھا۔ بھلا چنگا رحمان لدھیانے میں سپاہی تھا، لیکن ایک تربوز پر سے پھسل کر گھٹنا توڑ بیٹھنے سے اس نے پنشن پالی تھی اور گھر میں بیٹھ رہا تھا۔ بڑھیا نے کپڑے چھانٹتے ہوئے کہا … تُو نہ کھا بابا … تیری کھاطر میں تو نا مروں، مجھے تو روج دال، روج دال میں کچھ مجا نہیں دکھے۔

رحمان کا جی چاہتا تھا کہ وہ کھاٹ کے نیچے سے جوتا اُٹھا لے اور اس بڑھیا کی چندیا پر سے رہے سہے بالوں کا بھی صفایا کر دے۔ سر کی پشم کے اُترتے ہی بڑھیا کا دائمی نزلہ دور ہو جائے گا۔ لیکن چند ہی لقمے منھ میں ڈالنے کے فوراً بعد ہی اُسے خیال آیا۔تلی ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ کتنا ذائقے دار گوشت پکایا ہے میری جینا کی ماں نے۔ میں تو ناشکرا ہوں پُورا پُورا ، اور رحمان چٹخارے لے لے کر ترکاری کھانے لگا۔ سالن کا تر کیا ہوا لقمہ جب اُس کے منھ میں جاتا تو اُسے خیال آتا، آخر اُس نے جینا کی ماں کو کون سا سکھ دیا ہے؟ وہ چاہتا تھا کہ اب تحصیل میں چپراسی ہو جائے اور پھر اُس کے پُرانے دِن واپس آ جائیں۔

کھانے کے بعد رحمان نے اپنی انگلیاں پگڑی کے شملے سے پونچھیں اور اُٹھ کھڑا ہوا۔ کسی نیم شعوری احساس سے اس نے اپنے جُوتے اُٹھائے اور انھیں دالان میں ایک دوسرے سے اچھی طرح علاحدہ علاحدہ کر کے ڈال دیا۔

لیکن اس سفر سے چھٹکارا نہیں تھا۔ ہرچند کہ اپنی آٹھ روزہ مکّی میں نلائی لازمی تھی۔ صبح دالان میں جھاڑو دیتے ہوئے بڑھیا نے بے احتیاطی سے رحمان کے جُوتے سر کا دیے اور جوتے کی ایڑی دوسری ایڑی پر چڑھ گئی۔ شام کے قریب ارادے پست ہو جاتے ہیں۔ سونے سے پہلے انبالے جانے کا خیال رحمان کے دل میں کچا پکا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ترائی میں نلائی کر چکنے کے بعد ہی وہ کہیں جائے گا، اور نیز کل کی مرغن غذا سے اُس کے پیٹ میں پھر کوئی نقص واقع ہو گیا تھا۔ لیکن صبح جب اُس نے پھر جوتوں کی وہی حالت دیکھی تو اُس نے سوچا اب انبالے جائے بنا چھٹکارا نہیں ہے۔ میں لاکھ انکار کروں ،لیکن میرا دانہ پانی، میرے جوتے بڑے پر دین ہیں۔ وہ مجھے سفر پہ جانے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اس وقت صبح کے سات بجے تھے اور صبح کے وقت ارادے بلند ہو جاتے ہیں۔ رحمان نے پھر اپنا جوتا سیدھا کیا اور اپنے کپڑوں کی دیکھ بھال کرنے لگا۔

نیل میں دھُلے ہوئے کپڑے سُوکھ کر رات ہی رات میں کیسے اُجلے ہو گئے تھے۔ نیلاہٹ نے اپنے آپ کو کھو کر سپیدی کو کتنا ابھار دیا تھا۔ جب کبھی بڑھیا نیل کے بغیر کپڑے دھوتی تھی تو یونہی دکھائی دیتا تھا جیسے ابھی انھیں جوہڑ کے پانی سے نکالا گیا ہو اور پانی کی مٹیالی رنگت ان میں یوں بس گئی ہو جیسے پاگل کے دماغ میں واہمہ بس جاتا ہے۔

جینا کی ماں اوکھلی میں متواتر دو تین دِن سے جو کوٹ کر تُندل بنا رہی تھی۔ گھر میں عرصہ سے پرانا گڑ پڑا تھا جسے دھوپ میں رکھ کر کیڑے نکال دیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ سوکھی مکی کے بھُٹے تھے۔ گویا جینا کی ماں بہت دنوں سے اس سفر کی تیاری کر رہی تھی اور جوتے کا جوتے پر چڑھنا تو محض اس کی تصدیق تھی۔ بڑھیا کا خیال تھا کہ ان تندلوں میں سے رحمان کا زادِ راہ بھی ہو جائے گا اور بیٹی کے لیے سوغات بھی۔

رحمان کو کوئی خیال آیا۔ بولا … جینا کی ماں بھلا کیا نام رکھا ہے انھوں نے اپنے ننھے کا؟

بڑھیا ہنستے ہوئے بولی … ساہق (اسحاق) رکھا ہے نام، اور کیا رکھا ہے نام اُنھوں نے اپنے ننھے کا۔ واہ! سچ مچ کتنی کمجور ہے تیری یادداش۔

اسحاق کا نام بھلا رحمان کیسے یاد رکھ سکتا تھا۔ جب وہ خود بھی ننھا تھا تو اُس کے دادا کو بھی رحمان کا نام بھول گیا تھا۔ دادا کھاتا پیتا آدمی تھا، اُس نے چاندی کی ایک تختی پر عربی لفظوں میں رحمان لکھوا کر اُسے اپنے پوتے کے گلے میں ڈال دیا تھا۔لیکن پڑھنا کسے آتا تھا۔ بس وہ تختی کو دیکھ کر ہنس دیا کرتا تھا۔ ان دنوں تو نام گاموں شیرا، فتو، فجاّ وغیرہ ہی ہوتے تھے۔ اسحاق، شعیب وغیرہ نام تو اب قصباتی لوگوں نے رکھنے شروع کر دیے تھے۔ رحمان سوچنے لگا … ساہق اِب تو ڈیڑھ برس کا ہو چکا ہو گا۔ اب اُس کا سر بھی نہیں جھولتا ہو گا۔ وہ گردن اٹھا میری طرف ٹک ٹک دیکھتا جائے گا اور اپنے ننھے سے دل میں سوچے گا، اللہ جانے یہ بابا، چٹے بالوں والا بوڑھا ہمارے ہاں کہاں سے آ ٹپکا۔ وہ نہیں جانے گا کہ اُس کا اپنا بابا ہے، اپنا نانا، جس کے گوشت پوست سے وہ خود بھی بنا ہے۔ وہ چپکے سے اپنا منھ جینا کی گود میں چھپا لے گا۔ میرا جی چاہے گا جینا کو بھی اپنی گودی میں اٹھا لوں۔لیکن جوان بیٹیوں کو کون گودی میں اٹھاتا ہے … ناحق اتنی بڑی ہو گئی جینا۔ بچپن میں وہ جب کھیل کود کر باہر سے آتی تھی تو اُسے سینے سے لگا لینے سے کتنی ٹھنڈ پڑ جاتی تھی۔ اُن دنوں یہ دل پر سُلگتا ہوا اُپلا رکھا نہیں محسوس ہوتا تھا… اب وہ صرف اُسے دُور سے ہی دیکھ سکے گا۔ اُس کا سر پیار سے چوم لے گا … اور … کیا وہی تسکین حاصل ہو گی؟

رحمان کو اس بات کا تو یقین تھا کہ وہ اِن سب کو دیکھ کر بے اختیار رو دے گا۔ وہ آنسو تھامنے کی لاکھ کوشش کرے گا، لیکن وہ آپی آپ چلے آئیں گے۔ وہ اس لیے نہیں بہیں گے کہ تلنگا اُس کی بیٹی کو پیٹتا ہے۔ بلکہ زبان کے طویل قصوں کی بجائے، آنکھوں سے اِس بات کا اظہار کر دے گا کہ جینا، میری بیٹی، تیرے پیچھے میں نے بہت کڑے دن دیکھے ہیں۔ جب چودھری خوشحال نے مجھے مارا تھا تو اُس وقت میری کمر بالکل ٹوٹ گئی تھی۔ میں مر ہی تو چلا تھا۔ پھر تُو کہاں دیکھتی اپنے ابّے کو؟ لیکن بِن آئی کوئی نہیں مرتا۔ شاید میں تمھارے یا ساہقے یا کسی اور نیک بخت کے پانو کی خیرات، بچ رہا۔

… اور کیا ننھے کا لہو جوش مارنے سے رہ جائے گا؟ وہ ہُمک کر چلا آئے گا میرے پاس، اور میں کہوں گا۔ ساہق بیٹا، دیکھ میں تیرے لیے لایا ہوں تندل، اور گڑ ، اور کھلونے اور … بہت کچھ لایا ہوں۔ ہاں، گانو کے لوگوں کا یہی گریبی دعویٰ ہوتا ہے۔ ننھا مشکل سے دانتوں میں پپول سکے گا کسی ہرے بھٹے کو، اور جب تلنگے سے میری تُو تُو مَیں مَیں ہو گی تو میں اُسے خوب کھری کھری سناؤں گا۔ بڑا سمجھتا ہے اپنے آپ کو۔ کل کی گلہری اور … اور … وہ ناراض ہو جائے گا۔ کہے گا، گھر رکھو اپنی بیٹی کو … پھر میں اُس کے بیٹے کو اٹھائے پھروں گا۔ گلی گلی ، بازار بازار … اور من جائے گا تلنگا۔

رحمان نے نلائی کا بندوبست کیا۔ کھڑی کھیتی کی قسم پر کچھ روپئے ادھار لیے۔ سوغات باندھی۔ زادِ راہ بھی، اور یکے پر پانو رکھ دیا۔ بڑھیا نے اُسے اللہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا … بصرے چلا جائے گا علیا چند روج میں۔ میری جینا کو ساتھ ہی لیتے آنا اور میرے ساہقے کو، کون جانے کب دم نکل جائے!

ملکہ رانی سے مانک پور پہنچتے پہنچتے رحمان نے اسحاق کے لیے بہت سی چیزیں خرید لیں۔ ایک چھوٹا سا شیشہ تھا۔ ایک سیلو لائیڈ کا جاپانی جھنجھنا جس میں نصف درجن کے قریب گھنگھرو ایک دم بج اُٹھتے تھے۔ مانک پور سے رحمان نے ایک چھوٹا سا گڈیرا بھی خرید لیا تاکہ اسحاق اُسے پکڑ کر چلنا سیکھ جائے۔ کبھی رحمان کہتا اللہ کرے، اسحاق کے دانت اِس قابل ہوں کہ وہ بھُٹے کھا سکے۔ پھر ایک دم اُس کی خواہش ہوتی کہ وہ اتنا چھوٹا ہو کہ چلنا بھی نہ سیکھا ہو اور جینا کی پڑوسنیں جینا کو کہیں … ننھے نے تو اپنے نانا کے گڈیرے پر چلنا سیکھا ہے اور رحمان نہیں جانتا تھا کہ وہ ننھے کو بڑا دیکھنا چاہتا ہے یا بڑے کو ننھا۔ صرف اُس کی خواہش تھی کہ اُس کے تندل ، اُس کے بھُٹے، اُس کا شیشہ، اُس کا جاپانی جھنجھنا اور باقی خریدی ہوئی چیزیں سب سپھل ہوں۔ اُنھیں وہ قبولیت حاصل ہو جس کا وہ متمنی ہے۔ کبھی وہ سوچتا ،کیا جینا گانو کے گنوار لوگوں کے اِن تحائف کو پسند کرے گی؟ کیا ممکن وہ محض اُس کا دِل رکھنے کے لیے اِن چیزوں کو پاکر باغ باغ ہو جائے ۔ لیکن کیا وہ صرف میرا جی رکھنے کے لیے ہی ایسا کرے گی؟ پھر تو مجھے بہت دکھ ہو گا۔ کیا میرے تندل سچ مچ اُسے پسند نہیں آسکتے؟ میری بیٹی کو، میری اپنی جینا کو ۔ علیا تو پرایا پیٹ ہے وہ تو کچھ بھی نہیں پسند کرنے کا۔ وہ تو نائیک  ہے۔ اللہ جانے، صاحب لوگوں کے ساتھ کیا کچھ کھاتا ہو گا۔ وہ کیوں پسند کرنے لگا۔ گانو کے تندل، اور مانک پور سے روانہ ہوتے ہوئے رحمان کانپنے لگا۔

رحمان پر جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ کی وجہ سے غنودگی سی طاری ہو گئی۔ رات کے گوشت نے اُس کے پیٹ کا شیطان جگا دیا تھا۔ آنکھوں میں گدلاہٹ اور تیرگی تو تھی ہی، لیکن کچھ سفر، کچھ مرغن غذا کی وجہ سے آنکھوں میں سے شعلے لپکنے لگے۔ رحمان نے اپنے پیٹ کو دبایا۔ تلی والی جگہ پھر ٹھس سی معلوم ہوتی تھی۔ جینا کی ماں نے ناحق گائے کا گوشت پکایا۔ لیکن اُس وقت تو اُسے دوپٹے سے ہاتھ پونچھنا اور گائے کا گوشت دونو چیزیں پسند آئی تھیں۔

رحمان کو ایک جگہ پیشاب کی حاجت ہوئی اور اُس نے دیکھا کہ اُس کا قارورہ سیاہی مائل گدلا تھا۔ رحمان کو پھر وہم ہو گیا۔ بہرحال، اُس نے سوچا، مجھے پرہیز کرنا چاہیے۔ پُرانا مرض پھر عُود کر آیا ہے۔

گاڑی میں، کھڑکی کی طرف سے، شمالی ہوا فراٹے بھرتی ہوئی اندر داخل ہو رہی تھی۔ درختوں کے نظر کے سامنے گھومنے، کبھی آنکھیں بند کرنے اور کھولنے سے رحمان کو گاڑی بالکل ایک پنگورے کی طرح آگے پیچھے جاتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ دو تین اسٹیشن ایک اونگھ سی میں نکل گئے۔ جب وہ کرنال سے ایک دو اسٹیشن ورے ہی تھا تو اُس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کی سیٹ کے نیچے سے گٹھری اٹھا لی گئی تھی۔ صرف اُس کے اپنے گزارے کے لیے تندل اور چادر کے پلّو میں بندھے ہوئے مکی کے بھٹے رہ گئے تھے، یا اُس کے پھیلے ہوئے پانوں میں گڈیرا کھڑا تھا۔

رحمان شور مچانے لگا۔ اس ڈبے میں ایک دو اچھی وضع قطع کے آدمی اخبار پڑھ رہے تھے۔ بڈھے کو یوں سیخ پا ہوتا دیکھ کر چلائے۔ مت شور مچاؤ، اے بڈھے، مت غل کرو ۔ لیکن رحمان بولتا چلا گیا۔ اُس کے سامنے ایک بٹی ہوئی مونچھوں والا کانسٹیبل بیٹھا تھا۔ رحمان نے اُسے پکڑ لیا اور بولا تو نے ہی میری گٹھڑی اٹھوائی ہے، بیٹا! … کانسٹیبل نے ایک جھٹکے سے رحمان کو پرے پھینک دیا۔ اُس کھینچا تانی میں رحمان کا دم پھول گیا۔ بابو پھر بولے۔ تو سو کیوں گیا تھا بابا؟ تو سنبھال کے رکھتا اپنی گٹھڑی کو، تیری عقل چرنے گئی تھی بابا۔

رحمان اس وقت ساری دنیا کے ساتھ لڑنے کو تیار تھا۔ اس نے کانسٹیبل کی وردی پھاڑ ڈالی۔ کانسٹیبل نے گڈیرے کا لٹھا کھینچ کر رحمان کو مارا۔ اسی اثنا میں ٹکٹ چیکر داخل ہوا۔ اس نے بھی خوش پوش لوگوں کی رائے کا پلّہ دیکھ کر رحمان کو گالیاں دینا شروع کیا اور رحمان کو حکم دیا کہ وہ کرنال پہنچ کر گاڑی سے اتر جائے۔ اُسے ریلوے پولس کے حوالے کیا جائے گا۔ چیکر کے ساتھ لڑائی میں ایک لات رحمان کے پیٹ میں لگی اور وہ فرش پر لیٹ گیا۔

کرنال آچکا تھا۔ رحمان، اُس کی چادر اور گڈیرا پلیٹ فارم پر اتار دیے گئے۔ گڈیرے کی لٹھ، جسم سے علاحدہ، خون میں بھیگی ہوئی ایک طرف پڑی تھی اور مکی کے بھٹے کھلی ہوئی چادر سے نکل کر فرش پر لڑھک رہے تھے۔

رحمان کے پیٹ میں بہت چوٹ لگی تھی۔ اُسے اسٹریچر پر ڈال کر کرنال کے ریلوے ہسپتال میں لے جایا گیا۔

جینا ، ساہقا، علی محمد، جینا کی ماں … ایک ایک کر کے رحمان کی نظروں کے سامنے سے گزرنے لگے۔ زندگی کی فلم کتنی چھوٹی ہوتی ہے۔اس میں بہ مشکل تین چار آدمی اور ایک دو عورتیں ہی آسکتی ہیں۔ باقی مرد عورتیں بھی آتی ہیں، لیکن اِن میں سے کچھ بھی تو یاد نہیں رہتا۔ جینا، ساہقا، علی محمد اور جینا کی ماں … یا کبھی کبھار انہی چند لوگوں کے لیے کشمکش کے واقعات ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں، مثلاً گڈیرا پلیٹ فارم پر پڑا ہوا، اور مکی کے لڑھکتے ہوئے بھُٹے جنھیں خلاصیوں، واچ مینوں، سگنل والوں کے آوارہ چھوکرے اُٹھا اُٹھا کر بھاگ رہے ہوں اور اُن کے کالے کالے چہروں میں سفید دانت بالکل اسی طرح دکھائی دیں، جیسے اس تاریک سے پس منظر میں ان کی ہنسی، ان کے قہقہے … یا دُور کوئی پولیس مین اپنی ڈائری میں چند ضروری و غیر ضروری تفاصیل لکھ رہا ہو…

پھر لات ماری …

ایں؟ یہ نہیں ہو سکتا … اچھا، پھر لات ماری۔

اور پھر …

پھر ہسپتال کے سفید بسترے، کفن کی طرح منھ کھولے ہوئے چادریں، قبروں کی طرح چارپائیاں، عزرائیل نما نرسیں اور ڈاکٹر…

رحمان نے دیکھا اُس کی تندلوں والی چادر ہسپتال میں اُس کے سرہانے پڑی تھی۔ یہ بھی وہیں چھوڑ آئے ہوتے۔ رحمان نے کہا۔ اس کی مجھے کیا ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ رحمان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ ڈاکٹر اور نرس اُس کے سرہانے کھڑے ہر لحظہ لٹھے کی سفید چادر کو منھ کی جانب کھسکا دیتے تھے … رحمان کو قے کی حاجت محسوس ہوئی۔ نرس نے فوراً ایک چلمچی بیڈ کے نیچے سرکادی۔ رحمان قے کرنے کے لیے جھکا اور اُس نے دیکھا کہ اُس نے اپنے جوتے بدستور جلدی سے چارپائی کے نیچے اتار دیے تھے اور جوتے پر جوتا چڑھ گیا تھا۔ رحمان ایک میلی سی، سکڑی ہوئی ہنسی ہنسا اور بولا … ڈاک دار جی! مجھے سفر پہ جانا ہے، آپ دیکھتے ہیں میرا جوتا جوتے پر کیسے چڑھ رہا ہے؟

ڈاکٹر جواباً مسکرا دیا اور بولا۔ ہاں بابا، تو نے بڑے لمبے سفر پہ جانا ہے، بابا … پھر رحمان کے سرہانے کی چادر ٹٹولتے ہوئے بولا۔ لیکن تیرا زادِ راہ کتنا ناکافی ہے بابا… یہی فقط تندل اور اتنا لمبا سفر … بس جینا، جینا کی ماں، ساہقا اور علی محمد یا وہ افسوس ناک واقعہ …

رحمان نے زادِ راہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور ایک بڑے لمبے سفر پہ روانہ ہو گیا!

٭٭٭

 

 

 

 

بُکّی

 

 

’’16‘‘؟

’’جی آں … 16، تیسری قطار میں‘‘۔ بُکّی نے ایک ہاتھ سے اپنے بالوں کو دباتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو زحمت اُٹھانے کی نوبت ہی نہ آئے گی صاب، کنڈکٹر آپ کی مدد کرے گا۔‘‘

’’شکریہ، شکریہ‘‘ کہتے ہوئے نوجوان مسکرایا اور مسکراتے ہوئے اُس نے ایک اور چونی کونٹر پر رکھ دی۔ چونی جیب میں ڈالتے ہوئے بُکی نے آنکھیں بند کر لیں، جیسے اُس کا دماغ بہت تھک گیا ہو۔ وہ دن بھر کلکتہ کی ایک بیمہ کمپنی میں ٹائپ کیا کرتی تھی اور رات کو اس عظیم الشان سینمامیں ٹکٹیں بیچا کرتی۔تھوڑی سی تنخواہ کے علاوہ کسی رنگین مزاج نوجوان کے لیے کسی لڑکی کے پہلو میں سیٹ بُک کر دینے کے عوض اسے چونی زیادہ ملتی تھی اور اس کی آمدنی پر ایک بڑا کنبہ پل رہا تھا۔ ایک بوڑھی ہٹیلی ماں تھی جو کھانا ملنے میں ذرا سی دیر ہو جانے پر اپنا منھ آپ ہی نوچ لیتی تھی۔ اس کے علاوہ ایک بیوہ بہن تھی، جسے اُس کے خاوند نے بیوگی سے دو برس پہلے محض اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ آگ جلانے سے پہلے وہ تمام گھر میں دھواں بھر دیتی تھی، اور پھر چھوٹے بھائی تھے اور بھانجے …

کچھ دیر بعد ممولے کی سی سبک رفتاری کے ساتھ وہی نوجوان کونٹر کی طرف آیا اور آتے ہی اُس نے اپنی انگلیاں لکڑی کی کونٹر پر بجائیں اور بولا ۔’’لیکن ما‘م … وہاں تو کوئی لڑکی نہیں۔‘‘

بُکی نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا ’’کہیں باہر ہو گی صا‘ب… اُس نے مجھ سے ٹکٹ خریدا ہے۔ میں ڈرتی ہوں آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘

’’اوف!‘‘ نوجوان نے بیزاری سے کہا۔ ’’ہمیشہ ایسا ہی تو ہوتا ہے مِس … ما‘م،۔ ہمیشہ ایسا ہی تو ہوتا ہے۔‘‘

پھر وہ لڑکا کچھ دُور جا کر ساگوان کے خوبصورت چوکھٹوں میں لگے ہوئے سُلز کو دیکھنے لگا اور ایک اضطراب کے عالم میں اس نے ’آج شب کو‘ کے سُرخ لیبل پھاڑنے شروع کر دیے۔ پھر بُکی کے پاس لوٹتے ہوئے بولا۔ ’’مایوسی سے تو انتظار اچھا ہے۔‘‘

بُکّی نے اس بے صبر نوجوان کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا اور دل ہی دل میں اس کے خوبصورت بالوں کو سراہنے لگی۔ کتنے اچھے ہیں اس کے بال۔ دولت اور فکر میں گھرے ہوئے سیٹھوں کی طرح وہ گنجا نہیں۔ نہ ہی توندیلا ہے اور نہ دُبلا ۔ بس … ٹھیک ہے اور اس کے بال، دھان کے ان کھیتوں کی طرح ہیں جنھوں نے مون سون ہواؤں سے پورا فائدہ اُٹھایا ہو۔ اس کی وضع قطع اور باتوں سے شراب کی بُو آتی ہے، حالاں کہ شاید اس نے شراب نہیں پی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ بہت ہی زیادہ جوان ہے۔ جیسے انگور پک جاتے ہیں تو اُن سے شراب کی بُو آنے لگتی ہے۔

کچھ دیر بعد وہ لڑکا پردے اٹھا کر، بڑے غور سے سینما کی چھت کا معائنہ کرنے لگا۔ چھت میں مصنوعی ستارے چمک رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ جب سینما میں روشنی گل ہو جائے گی، تو یہ ستارے اور زیادہ چمکنے لگیں گے اور بہت خوبصورت دکھائی دیں گے۔ چھت کی طرف نظریں اُٹھانے سے آسمان کا دھوکا ہو گا اور وہ یقیناً اس منظر کو پسند کرے گا اور اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی کو کہے گا … ستارے کتنے خوبصورت ہیں اور … اور یہ سچ ہے۔ کہ اس نے تاروں بھرے آسمان پر کبھی نگاہ بھی نہیں دوڑائی تھی اور نہ قدرت کے اس کلکتہ کو، جو کہ ہر روز رات کو آسمان پر دکھائی دیتا تھا، پسند کیا تھا ۔ لیکن چھت پر چمکتے ہوئے ستاروں کو تو وہ اس لیے پسند کرتا تھا کہ ان پر سچ مچ کے ستاروں کا دھوکا ہوتا تھا اور انسان ہمیشہ اصلیت کی نسبت اُس کے دھوکے کو پسند کرتا ہے۔

پھر وہ نوجوان برآمدے میں ایک دیوار کے سہارے کھڑا ہو گیا۔ بُکّی کو یقین تھا کہ وہ اس بے فکرے نوجوان کو پسند نہیں کرسکتی، البتہ بڑی ہی آسانی سے نفرت کرسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت رحم دل تھی اور شاید اسی لیے وہ اس کے متعلق اپنے تخیل کو محبت کی آلودگی سے علاحدہ رکھنا چاہتی تھی، وگرنہ اُس کے لیے یہ کس قدر آسان تھا کہ شو کے شروع ہو جانے پر بکنگ آفس کے سامنے، ہاؤس فل کا بورڈ لگا کر اُس نوجوان کے ساتھ کی کسی سیٹ پر خود جا بیٹھتی۔

برآمدے کی دیوار پر نیا نیا پالش ہوا تھا ، اس لیے نوجوان کے کپڑے کسی قدر آلودہ ہو گئے۔ لیکن پرے ہٹ کر اُس نے پھر اپنی انگلی سے دیوار کو چھوا، گویا کپڑوں کے آلودہ ہو جانے سے اُسے دیوار کے نئے پالش کیے جانے کا یقین ہی نہ آتا ہو۔ پھر اُس نے آوارہ نگاہوں سے سینما کی گھڑی کی طرف دیکھا ،جو کہ دائیں دیوار سے ہٹا کر منیجر کے کمرہ کے اوپر لگا دی گئی تھی۔ اُس نے گھڑی کو اپنی اصلی جگہ پر دیکھ کر پھر اُسی جگہ کو دیکھا، جہاں سے وہ اُٹھا لی گئی تھی۔ بُکّی سوچنے لگی۔ انسان کی عادت بھی عجیب ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک چیز اس جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ منتقل کر دی گئی ہے، لیکن نہ جانے وہ کیوں ایک بار پھر اُس جگہ کو دیکھتا ہے جہاں سے وہ چیز اُٹھا لی گئی ہو۔ گویا اس کا ادراک اس تبدیلی کو یک بیک قبول نہیں کرتا اور شاید اسی لیے اسے 24 پرگنہ کے دیہات میں گزارے ہوئے زندگی کے دن بار بار یاد آتے تھے۔ وہ دن، جب کہ وہ تہذیب سے دور، دادا کے ہاں آرام و سکون کی زندگی بسر کرتی تھی۔ لیکن اب … کلکتہ کے سے مہذب شہر میں زندگی کے معیار کو قائم رکھنے کے لیے اُسے کیا کچھ کرنا پڑتا تھا۔

بُکّی نے اپنے سامنے پڑے ہوئے سیٹوں کے پلین پر نظر دوڑانی شروع کی۔ آخر ایسے ہی بے صبر نوجوانوں کو کسی لڑکی کے پہلو میں جگہ دینے سے اُسے چونی ملتی تھی۔ اُس کی اُنگلی نقشے میں خالی نشستوں کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگی۔ دور نوجوان کو بُکی کے ناخنوں پر گلابی پالش چمکتا ہوا دکھائی دے رہا تھا اور وہ نوجوان گھور گھور کر اس چمکتے ہوئے پالش کو دیکھنے لگا، جیسے اُسے اُن کے پالش ہونے میں یقین نہ آتا ہو اور وہ اُن ناخنوں کو چھُو کر دیکھنا چاہتا ہو …

چھبیس … ستائیس … تیس ۔ چوتھی قطار … بارہ …

… بُکّی کی نگاہیں ایک سیٹ پر جا رُکیں۔ وہ شاید اس سیٹ پر نشان لگانا بھول گئی تھی۔ اس سیٹ کے لیے بھی تو ایک لڑکی نے ٹکٹ خریدا تھا۔ وہ اس لڑکی کو جانتی بھی تو تھی … مسزدسوز ا … خاہ ! اُس کے ساتھ مسٹردسوزا نہیں تھے۔ وہ تھے یا نہیں تھے، بُکّی ہلکی ہلکی سر درد میں بالکل بھول چکی تھی۔ اُسے تو اُن کی شکل تک یاد نہ رہی تھی۔ بُکی نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر زور ڈالنا شروع کیا حتیٰ کہ وہ اس چونی کو کوسنے لگی جو اُسے اِس کام کے لیے ملتی تھی۔

’’جنٹلمین‘‘ بُکی نے اس نوجوان کو بلاتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے آپ کی سیٹ چوتھی لائن میں تیرہ پر رکھی ہے اور بارہ پر مس دسوزا کی جگہ ہے اور بُکی نے جان بوجھ کر مسز کو مس کہا۔ آخر قدرت نے عورت کے ماتھے پر تو ایسی تخصیص کا کوئی نشان نہیں رکھا، اور پھر بُکّی کو اپنی چونی عزیز تھی۔ اسے اپنی ماں سے بہت محبت تھی اور اپنی بہن پر اسے بہت ترس آتا تھا …

… نوجوان نے اپنا ہیٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’شکریہ‘‘ اور ہال کے اندر داخل ہو گیا۔

بُکی نے ایک سگریٹ سُلگایا اور پھر پلین کا بغور مطالعہ کرنے لگی۔ جب وہ ایش ٹرے کو اپنے نزدیک سرکا رہی تھی تو ایک بدصورت سا لڑکا آیا اور اُس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ بُکی غور سے اُس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ ابھی کمسن تھا۔ اس کی مسیں بھیگ رہی تھیں اور اُس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ عورتوں کے متعلق کچھ نہیں جانتا، البتہ جاننا چاہتا تھا۔ ماں اور بہن کے علاوہ اس نے دُنیا میں کوئی عورت نہیں دیکھی تھی۔ اور اس کے چہرے پر ہلکی ہلکی شرم کے پیچھے ایک شدید سا ڈر دکھائی دے رہا تھا، جو کہ اُس کے چہرے کے بھدے نقوش کو اور بھدا بنا رہا تھا۔

لڑکے نے ٹکٹ کے پیسوں کے علاوہ ایک اور چونی بُکی کی طرف سرکا دی۔ بُکی کا منھ کھلا رہ گیا۔ ’’تم چاہتے ہو … ‘‘ وہ بولی اور چونی کو ایک نظر سے دیکھتے ہوئے اُس نے جیب میں رکھ لیا اور پھر اپنے سامنے پڑے ہوئے پلین پر جھک گئی۔ ہاؤس فل تھا ۔صرف سولہ نمبر کی نشست خالی تھی۔ وہی نشست جو اُس نے خوبصورت نوجوان کے لیے پہلے بک کی تھی ،لیکن ساتھ کی سیٹ میں لڑکی نہ ہونے سے خالی رہ گئی تھی۔ بُکّی نے سوچا اب وہ لڑکی ضرور آ بیٹھی ہو گی۔ کتنی خوبصورت تھی وہ لڑکی … وہ بلانڈ، اور اُس کے بالوں کی لہریں یوں دکھائی دیتی تھیں، جیسے دھان کے کھیت پر سے ہوا سرسراتی ہوئی گزر رہی ہو … شاید اُس نے بال کسی نوجوان کی توجہ کو کھینچنے کے لیے بنائے تھے۔ اُس کے پہلو میں اِس بے وقوف ، بدصورت چھوکرے کو جگہ دینا، اس لڑکی کی توہین کرنا تھا اور یہ چھوکرا نوآموز ہی نہیں تھا، بلکہ بالکل دیہاتی تھا۔ 24 پرگنہ کی طرف کا رہنے والا ہی تو دکھائی دیتا تھا ۔ اُس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ نہ تو وہ چھت کے ستاروں کی تعریف سے سلسلہ کلام شروع کرسکتا ہے، اور نہ ہی اس لڑکی کے بالوں کو دھان کے کھیت سے تشبیہہ دے سکتا ہے۔ وہ گدھا تو اصلی ستاروں کو پسند کرتا تھا اور کہیں سے دھان کاٹتا اٹھ کر کلکتہ چلا آیا تھا۔

نوجوانوں کا ایک غول اُس کی طرف بڑھا آ رہا تھا۔ لیکن سب نشستیں رُک چُکی تھیں۔ پلین سارے کا سارا بُکی کے ہاتھ سے لگائے ہوئے نشانوں سے سرخ ہو رہا تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو بتا دیا کہ اب اس درجہ میں کوئی جگہ نہیں ہے، اور وہ نوجوان اپنے اوور کوٹ تھامے اور پتلون کے پائنچے اٹھائے واپس چلے گئے۔

آسمان سے ننھی ننھی بوندا باندی ہونے پر سینما کے برآمدے پناہ گاہ بن گئے تھے۔ اس کے بعد مون سون کے بڑے بڑے بارانی ریلے آنے لگے اور چند چھوکریاں اپنے گون سنبھالتی ہوئی سینما کی ایکزٹ کی طرف آ کھڑی ہوئیں۔ اُن لڑکیوں کے ریلے دروازے کی طرف دھکیل دیے جاتے تھے اور اُن بارانی ریلوں سے وہ ریلے زیادہ خوبصورت دکھائی دیتے تھے۔

اُس وقت بُکّی کے دل میں اس دیہاتی نوجوان کے لیے ایک عجیب ، مادرانہ جذبہ پیدا ہوا۔ اُس نے اپنے کمرے کے سامنے، ہاؤس فل کا تختہ لٹکا دیا اور خود کھڑکی بند کرتے ہوئے باہر نکل آئی۔ اُس چھوکرے کے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں ٹکٹ دے دیا اور پھر خود اُسے کنڈکٹر تک لے گئی۔ مسلسل کانپتے رہنے سے اُس چھوکرے کی بدصورتی کے حسن میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ کنڈکٹر نے احتیاط سے اِس نوجوان کو سولہ نمبر کی نشست پر بٹھا دیا۔ بُکی دروازے میں کھڑی اُس چھوکرے اور اُس کی رفیقہ کی طرف دیکھتی رہی۔ بلانڈ نے گھبرا کر اپنے دائیں طرف دیکھا اور مضبوطی سے اپنی کرسی کی سلاخوں کو پکڑ لیا۔ اُس لڑکی کو اپنی شام کے تباہ ہو جانے میں کوئی شک نہ رہا۔ بُکی نے سوچا شاید وہ لڑکی بھی میری طرح ربط و حسن کی بجائے اپنی چونی یا دس کے نوٹ کو پسند کرتی ہو۔ اس کے بعد پردے چھٹ گئے اور سینما شروع ہوا۔ انگریزی فلم … ’’میرا نام مجھ سے پہلے سفر کرتا ہے‘‘ شروع ہوئی اور گانا ایک دلفریب ٹیون پر گایا جانے لگا …

تاروں بھری رات کے نیچے

بُکّی نے ایک گہرا، ٹھنڈا سانس لیا اور اپنے دل میں ٹیون کو گنگنانے لگی۔تاروں بھری رات کے نیچے۔ لیکن ابھی دوسرے شو کا پلین بنانا تھا اور اُسے تین ساڑھے تین روپے ہاتھ لگ چکے تھے۔ اب تو وہ بہت ہی تھک گئی تھی۔ اپنی آنکھوں کو شدت کی روشنی سے بچانے کے لیے اُسے ہال کا اندھیرا پسند تھا۔ وہ سوچنے لگی۔ تاروں بھری رات کے نیچے کا دلفریب گانا سُن کر اُس بدصورت نوجوان کو کیا خوبصورت ستاروں سے بھرا ہوا آسمان یاد آئے گا، یا ہال کی چھت؟ یا خوبصورت نشستیں جہاں ہر روز ایک نیا تجربہ ہوتا ہے؟ اس کے بعد بُکّی باہر نکل آئی۔ کنڈکٹر جانتا تھا کہ بُکّی، اسی جگہ کھڑی ہو کر لمحہ دو لمحہ کے لیے پکچر دیکھا کرتی ہے اور پھر فوراً ہی مضطرب ہو کر باہر نکل جاتی ہے۔ گویا پردۂ سیمیں پر کوئی بہت ہی خوفناک منظر دکھایا جا رہا ہو۔ حالاں کہ یہ بات نہ تھی۔ وہ سکون سے ایک گانا بھی نہیں سُن سکتی تھی۔ اُسے یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے اُس کے دل کا برتن چھوٹا ہے اور موسیقی کا ظرف بہت بڑا اور نغمہ اُس کے چھوٹے سے دل میں نہیں سما سکتا۔ وہ اپنا چھلکتا ہوا دِل لے کر باہر نکل آتی اور تاروں بھری رات کے نیچے 24 پرگنہ کے کسی گاؤں کے تالاب کا کنارہ اُسے یاد آ جاتا، جہاں اُس کی محبت پروان چڑھی اور لٹ گئی۔ جہاں سے ہندو عورتیں اپنا گھڑا بھر کر چلی آتی تھیں۔ اس سے زیادہ جگہ اُن کے مٹکوں میں نہ تھی۔ اور اُس مٹکے کے پانی سے وہ کھانا بھی بناتی تھیں اور چوکا بھی کرتیں۔ گائے کے گوبر کو مٹی میں ملا کر وہ چوکے کو بڑی صفائی سے پوتا کرتیں اور بُکی کا جی بھی چاہتا تھا کہ ان بڑے بڑے شاندار ہوٹلوں کو چھوڑ کر کسی ایسے علاحدہ کونے میں صبر و سکون سے پڑ رہے اور ان ہی عورتوں کی طرح چارپائی پر لیٹ کر رات کو تاروں سے بھرے ہوئے آسمان کا تماشا دیکھا کرے۔

وہ منیجر کے کمرہ کے پاس کھڑی ہو کر سگریٹ سلگانے لگی۔ کچھ دیر بعد ہال میں روشنی ہو گئی۔ ہاف ٹائم ہو چکا تھا۔ بُکی نے پھر ایک دفعہ پردوں کے پیچھے سے سولہ اور اُس کے ساتھ کی نشست کی طرف دیکھا۔ وہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے لیے ویسے ہی اجنبی تھے اور اپنی اپنی جگہ پر سمٹ کر بیٹھے تھے۔ اگر وہ چھوکرا طریقے سے اس خوبصورت ٹیون کی تعریف کر دیتا تو کتنی اچھی بات ہوتی۔ لیکن وہ تو گم صم بیٹھا تھا۔

اب ہاف ٹائم میں وہ کوئی بات شروع کرسکتا تھا۔ لیکن وہ باہر چلا آیا۔ اُس کا چہرہ بہت اُترا ہوا تھا۔ وہ بار بار آنکھیں جھپکتا تھا اور اپنے لبوں پر بے تحاشہ زبان پھیرتا اور ان سب حرکتوں سے وہ بالکل ایک اُجڈ دیہاتی معلوم ہوتا تھا۔

’’ہلو مِس … مام‘‘ اُس نے باہر نکل کر ڈرتے ہوئے کہا۔

’’بُکّی نے مسکراتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا اور بولی ’’ہلو … بوائے، انجائیڈ آلرائیٹ(کہو، خوب لطف رہا نا؟)‘‘

اُس لڑکے نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں جواب دیا ‘‘مام … میں تو کلکتہ دیکھنا چاہتا ہوں اور … اور …‘‘ اس کے بعد وہ ہکلانے لگا۔ ’’میرا چچا کدار پور میں دکان کرتا ہے …۔‘‘

بُکّی کا جی چاہا کہ وہ صاف گوئی سے کام لیتی ہوئی کہہ دے کہ کلکتہ بالکل اس ہال کی چھت کاسا ہے۔ لیکن اس نوجوان نے چھت کو بغور دیکھا بھی نہیں تھا اور بُکی بھی یک لخت پریشان اور اُداس ہو گئی۔ اس کے سر میں زیادہ درد ہونے لگا۔ وہ اس دیہاتی نوجوان کو پسند کرنے لگی تھی۔ وہ بہت رحم دل تھی۔ اس کے بعد جب شو ختم ہوا تو بُکی نے منیجر سے چھٹی لے لی۔ اُس وقت وہ دیہاتی، بدصورت نوجوان باہر آیا۔ بُکی اُس کے قریب چلی گئی … بولی۔

’’ہلو بوائے … تم کہاں کا رہنے والا ہے؟‘‘

’’ہرش پور … 24 پرگنہ کا‘‘——۔

’’میں جانتی ہوں ہرش پور … میں ایک دفعہ مسٹر رے کے ہاں ایک ماہ ٹھہری تھی۔‘‘

’’رے؟ ہاں ہاں ’’لڑکے کا چہرہ چمک اُٹھا‘‘ میں رے کو جانتا ہوں وہ ہمیں پڑھاتے رہے ہیں۔‘‘

اس کے بعد کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ پھر وہ لڑکا بولا۔ ’’آپ اتنی مہربان ہیں … کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں؟‘‘

’’نلنی‘‘ بُکی بولی۔ ’’لیکن یہاں سب لوگ مجھے مارگریٹ کہتے ہیں۔ مسٹر رے کا بڑا بھائی میرا باپ تھا۔ اُسے مرے ہوئے دس برس ہو چکے ہیں۔ انھوں نے ایک اینگلوانڈین لڑکی سے شادی کی۔ وہ لڑکی میری ماں ہے … اور کیا تم کلکتہ دیکھنا چاہتا ہے؟‘‘

چھوکرے نے سر ہلا دیا۔ مارگریٹ بولی۔ ’’چلو ہم کافی کی ایک پیالی پئیں گے۔‘‘

اور وہ دونو ’فرپو‘ کی طرف چل دیے۔ ہوٹل کے دروازے پر دو بڑے بڑے دودھیا بلب دور سے چاند کی مانند دکھائی دیتے تھے۔ مارگریٹ نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا … ’’دور سے اصلی چاند کا دھوکا ہوتا ہے۔‘‘ نوجوان نے فوراً ہاں میں ہاں ملا دی۔ مارگریٹ اُن بلبوں کی طرف اشارہ کر کے کہنا چاہتی تھی ۔ بس کلکتہ ایسا ہی ہے۔

پھر وہ ہوٹل میں داخل ہوئے اور کافی پینے لگے۔ اُس نوجوان کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ اُسے کافی کا تلخ ذائقہ پسند نہیں۔ وہ گنوار شاید دودھ کے مٹکے چڑھا جاتا تھا۔ کافی کے بعد مارگریٹ نے کئی چیزوں کا آرڈر دیا۔ لڑکے کو ان میں سے کئی چیزوں کے نام نہ آتے۔ مارگریٹ پوچھتی۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘

’’نا معلوم‘‘

’’ساسیج … کہو ساسیج‘‘

’’ساسیج‘‘

’’یہ کیا ہے‘‘

’’نامعلوم‘‘

کٹلٹس … کہو کٹلٹس‘‘

’’کٹلٹس‘‘

کبھی وہ لڑکا معصومانہ انداز سے کچھ اور کہہ دیتا،تو مارگریٹ اُسے درست کرتی۔ جیسے بچپن میں ماں بچے کو نئے نئے نام لینے سکھاتی ہے، اور جب وہ اُلٹا سیدھا نام لیتا ہے تو اُسے درست کرتی ہے۔ کافی پینے اور کچھ کھا چکنے کے بعد مارگریٹ نے پیسے نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا، لیکن اُس لڑکے نے تھام لیا اور اپنی جیب سے پیسے نکال کر بِل پر رکھ دیے۔ مارگریٹ کا خیال تھا کہ کلکتہ میں عورت کا بِل ادا کرنے کا اخلاق اس نوجوان کو نہ آتا ہو گا، لیکن اُس نے دیکھا کہ وہ اس بات سے تو واقف تھا۔ ایسے ہی جیسے سینما میں چونی زیادہ دے کر عورت کے ساتھ سیٹ بُک کروا لینے کا طریقہ اُسے کسی نے بتا دیا تھا۔ اِسی طرح عورت کے ساتھ کافی پی کر یا کھانا کھا کر اُس کے پیسے ادا کرنے کا اخلاق بھی کسی نے سکھا دیا ہو گا۔

مارگریٹ نے بتایا… کلکتہ بہت مہذب ہو چکا ہے اور تہذیب بھی انگور کے دانوں کی طرح ہے۔جب یہ بہت پک جاتی ہے تو اس سے شراب کی بو آنے لگتی ہے اور جب مارگریٹ کو پتہ چلا کہ وہ لڑکا عورت کے متعلق بالکل کچھ نہیں جانتا، تو اُس نے نوجوان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔

’’بوائے ، کیا تم آج شب میرے مہمان بنو گے؟ … میں آج اپنی ماں کے پاس نہیں جاؤں گی۔ یہاں گھر سے علاحدہ میرے پاس ایک بہت اچھا فلیٹ ہے …

میں تمھیں بتا دوں گی عورت کیا چیز ہے۔ لیکن وہ عورت جس نے تمھیں سینما کے دروازے پر پایا، یا جسے تم نے 24 پرگنہ میں دیکھا، یہاں تم اُسے نہیں پا سکو گے … ہاں، تم اُس عورت کو دیکھ لو گے، وہ عورت جو کلکتہ ہے!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

اغوا

 

 

’’آلی … آلی … ‘‘ دلاور سنگھ نے زور سے پکارا۔

آلی … علی جُو، ہمارے ٹھیکے کا کشمیری مزدور تھا۔ منشی دلاور سنگھ کی آواز سن کر علی جُو ایک پل کے لیے رُکا۔ ڈوبتے ہوئے سورج کی کرنیں ابھی تک لیموں کی طرح تُرش تھیں اور علی جُو کی سُرخ رگوں سے بھری ہوئی آنکھوں نے اِنھیں چکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ منشی جی کی طرف آنکھ اُٹھائے بغیر علی جُو نے نل کا رسّہ تھام کر بقیہ چرخی کو گھومنے سے روک دیا اور جواباً بلند آواز سے بولا… ’’ہو سردار!‘‘

سردار خاموش اور کم گو آدمی تھا۔ آج اُس کا خلافِ معمول اونچی، پُر جوش آواز سے پکارنے کا مطلب یہ تھا کہ کنسو اپنے آبائی گانو، جنڈیالہ گورد سے واپس آ گئی ہے۔ دراصل ٹھیکے پر کام بدھ اور جمعرات کو اِس لیے بھی سست رہا کہ کنسو، رائے صاحب ، اپنے باپ کے ساتھ شہر سے باہر چلی گئی تھی۔ اس کے بعد بنگلے کی فضا ایک ساکن اور گدلے پانی والے جوہڑ کی طرح ہو گئی تھی۔ لیکن اب کنسو کے آتے ہی ہمیشہ کی طرح ٹھیکہ بٹ گیا … دو حصّوں میں … کام کرنے والوں میں اور گھورنے والوں میں۔ کام کرنے والے اُس کی موجودگی میں زیادہ مستعدی سے کام کرتے تھے اور نکمّوں کی کسر پوری کر دیتے تھے۔ مزدوروں کے سربراہ منشی جی تھے۔ ان کے چھوٹے سے دستے میں علی جُو، رحمان جُو، گنّی (غنی) اور علیا وغیرہ شامل تھے، اور یا پھرہئی سا، ہئی سا … مال ملے گا، ہئی ساکی رٹ لگانے والے بھیّن … ’پوربین‘ ۔ ان لوگوں کے جسم میں کنسو کو دیکھتے ہی ایک بجلی سی دوڑ جاتی تھی۔ دوسری طرف گھورنے والوں میں مزدوروں اور کاریگروں کے علاوہ بابو قِسم کے لوگ تھے … جھوٹ کیوں کہوں … اِ ن میںمَیں بھی شامل تھا اور اِن دِنوں ٹھیکے کی چھوٹی موٹی ’بُک کیپنگ‘ کیا کرتا تھا۔ میرے ساتھ دلاّل تھے، مختار تھے اور شیخ جی تھے۔

یہ شیخ جی ساٹھ کے تھے۔ لیکن تھے بڑے کائیاں۔ انھیں زلف پہ شبِ دیجور کی پھبتی سوجھا کرتی تھی۔ زندگی کو تو شیخ جی نے بس پی لیا تھا، لیکن بقولِ دلاور سنگھ ابھی ’’ٹھوٹھا‘‘ ہاتھ میں تھا۔ یعنی تھے کاسہ بدست ۔ کئی مکمل اور نا مکمل رومان اُن کے ذہن کی انتڑیوں میں تپِ محرقہ پیدا کر رہے تھے۔ شیخ جی عموماً بات یوں شروع کرتے ’’جب ہم جوان تھے… ‘‘

… اس کے بعد شیخ جی کی شنوائی نہ ہوتی۔ ہر ایک اپنی جوانی میں مست تھا۔ کم و بیش ہر ایک کی جوانی شیخ جی کی رجعت پسند جوانی سے زیادہ رنگین تھی اور اُسے اُس پر بجا یا بیجا طور پر ناز تھا۔ چنانچہ ’’جب ہم جوان تھے …‘‘ کے ساتھ ہی ایک ہُلّڑ سا مچ جاتا …

کبھی شیخ جی بھی جوان تھے؟

پُرانی ہو گئی اب شیخ جی کی جوانی …

او بے ، بکتا کیوں اے … اے چپ رَو، بے ایمان گنی!

… اور جب آوے گدھی پر جوانی …

قہ قہ قہ !!!

کنسو کو بھی شیخ جی سے بے حد عقیدت تھی۔ دراصل کنسو کو ٹھیکے کے ہر آدمی سے اُنس تھا۔ وہ ایک پھرکی کی طرح گھومتی ہوئی آتی اور کاریگروں، مزدوروں کے اِس ہُلّڑ میں گھومتی پھرتی، فقرے چست کرتی نکل جاتی۔ بڑی ہی جان تھی اِس پھرکی میں اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کسی بہت ہی طاقتور ہاتھ کی چٹکی نے اُسے گھما کر وقت اور مقام کی وسعتوں میں ہمیشہ ہمیشہ آوارہ رہنے کے لیے چھوڑ دیا ہے، اور یہ پھِرکی اِسی گت سے رہتی دنیا تک گھومتی رہے گی اور کبھی دم نہ لے گی… آپ ابھی کنسو سے باتیں کر رہے ہیں اور مارے شرم کے اپنی علی جُو آنکھیں کنسو کے چہرے پر نہیں گاڑسکتے۔ آپ برمے کمانچے سے ساگوان یا دیودار میں سوراخ کیے جاتے ہیں اور پھونکیں مار مار کر برادے کو پرے اُڑاتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کا جی چاہتا ہے کہ ایک پَل، ایک چھن اپنے حسین مخاطب کو دیکھ لیں۔ آپ ذرا گردن پھیرتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ کنسو غائب ہے … غائب ! ہمارے ہاں ایک پہیلی ہے … یہ تھی ، وہ گئی ۔اس کا حل ہے نگاہ، اور ظاہر ہے نگاہ کتنی تیز اور دور رس ہوتی ہے، جو دِل وجود کو بھی چیر جاتی ہے اور جس سے آپ اپنا آپ بھی نہیں چھپا سکتے۔ ابھی وہ یہاں برمے کمانچے اور ساگوانی برادے میں الجھی ہوئی ہے اور اگلے ہی لمحے وہ اس جگہ پہنچ جاتی ہے جہاں زمین اور آسمان ملتے دکھائی دیتے ہیں اور جہاں درختوں کے زمردّیں طاؤس اس ملاپ کی خوشی میں پائل ڈالے، اپنے بھدّے اور کریہہ پانو زمین کی گولائیوں میں چھپائے ناچتے نظر آتے ہیں۔ جہاں آپ کا جسم بھی جانا چاہتا ہے، لیکن جا نہیں سکتا کیونکہ جہاں سلطان خلوت کرتا ہے، وہاں حشم نامحرم ہوتا ہے۔ جس جگہ جان پہنچتی ہے وہاں تن باریاب نہیں ہوتا ۔ کاریگروں کی سہیلی کنسو بھی ایک پہیلی تھی۔ پلک جھپکنے میں وہ اپنے خلوت خانوں میں گُم ہو جاتی اور گنّی ونّی ، علیا، علی جُو اور ہئی سا، ہئی ساکا لاؤ لشکر منھ اُٹھا کر دیکھتا رہ جاتا۔ اگرچہ رائے صاحب نے اُسے بہت آزادی دے رکھی تھی، پھر بھی وہ اپنی اس لاڈلی ’یہ تھی، وہ گئی‘ سے بہت،بہت نالاں تھے۔

ان دِنوں ماڈل ٹاؤن نیا نیا آباد ہوا تھا۔ قطعے بک چکے تھے لیکن تعمیر شروع نہیں ہوئی تھی۔ ہر خریدار میں پہلے تم کو دُو کا جذبہ تھا اور رائے صاحب نے پہل کی تھی۔ زیرِ تعمیر بنگلے کے ساتھ اس بلاک میں صرف ایک چھوٹی سی کوٹھی تھی، جس میں رائے صاحب شہر سے اُٹھ آئے تھے۔ کھلی  آب و ہوا میں رہنے کا خیال آتے ہی رائے صاحب کا شہر میں تعفن سے دم گھٹنے لگا اور وہ اس کوٹھی میں پدھار کر بڑی بے صبری سے بنگلے میں پرویش کا انتظار کر رہے تھے۔ جٹھ کے لیے شہر کے رؤسا کی ایک لمبی چوڑی فہرست میں ہر روز ترامیم ہوتی تھیں۔ ان دنوں کوب، جاپان میں بھونچال آیا تھا اور رائے صاحب اس کی خبریں پڑھنے سے بہت گھبراتے تھے …  بس اسی کوٹھی کے سوا دور تک کوئی مکان نہ تھا۔ کئی ایک ایکڑ زمین میں لونکِ بُوٹی اُگ رہی تھی۔ مجھ سے ازلی مجرد ٹھیکے پر ہی سوجاتے تھے۔ شیخ جی بھی وہیں سویا کرتے۔ اِن کی بیوی وفات پا گئی تھی۔ شیخ اور شیخانی کی زندگی بھر نہیں بنی، کیونکہ شیخ جی ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ شیخانی میری گردن کے نیچے بازو رکھ کر سویا کرتی تھی اور میں نے اُس کی گردن کے نیچے کبھی بازو نہیں رکھا تھا … اور پھر کنسو کو شیخانی کی وفاداری کے قصے سنایا کرتے تھے۔ کنسو ہر ایک کی دُکھتی رگ سے واقف تھی۔ شیخ جی سے باتیں کرتی تو ’بیچاری‘ شیخانی کے متعلق ۔ مجھ سے بات کرتی تو میری شادی کی ناممکن ممکنات پر اور میری ہوائی بیوی کی شکل کے متعلق … جسے وہ بھابی کہہ کر میرے دل میں ہمیشہ ایک گدگدی پیدا کر دیا کرتی ،اور علی جُو سے بات کرتی تو کشمیر کے رومانی مناظر اور فروں کی تجارت کے متعلق … علی جُو درحقیقت مزدور نہیں تھا، لیکن نامساعد حالات اور فروں کی تجارت کی تباہی نے اُسے اِس کام کے لیے مجبور کر دیا تھا۔ اب بھی جب کبھی بارش کے بعد فضا کے خاکی ذرات دھل جاتے، تو اُسے ماڈل ٹاؤن میں پہاڑ دکھائی دینے لگتے …  اور کنسو جانتی تھی کہ ہر ایک کا چور دروازہ ہوتا ہے اور وہ اس چور دروازے سے بلا کسی آہٹ کے داخل ہو جاتی اور اندر سے سب کچھ لُوٹ کھسوٹ کر لے آتی۔ ہم تین چار لوگوں کے سوا ڈیرے میں تین چار، پوربیّن’ بھیّن‘ تھے جو اپنی ’لُگائین‘ کو بھی ساتھ لے آئے تھے۔ انھوں نے عارضی طور پر اینٹوں کی کئی بے ترتیب کوٹھڑیاں بنا ڈالی تھیں اور ماڈل ٹاؤن کے اندر ایک اور ماڈل ٹاؤن آباد کر دیا تھا۔ بلا کی عورتیں تھیں۔ ان کی لُگائین کڑاکے کی سردی میں صرف ایک انگیا یا ایک معمولی سی صدری پہن لیتی تھیں اور چالیس مکعب مکعب فٹ روڑی کوٹ ڈالتیں۔ ان کا دودھ بچے پیتے تھے، لہو ٹھیکیدار پیتا تھا اور ہڈیاں خاوند چچوڑتے تھے۔

بھلا ہو ٹھیکیدار کا جس نے ہمیں ساگوانی برادہ تک جلانے کی اجازت دے رکھی تھی۔ اگرچہ آگ اِن دِنوں افیم کے بھاؤ بکتی تھی … سُنو سنگھ سردار بگھیلا رائے جی ، پالا پوس نہ پالا ماگھ… پالا ٹھنڈی وائے جی … یہ کہاوت ہمیں شیخ جی سنایا کرتے تھے جس کا مطلب تھا کہ ٹھنڈک صرف ہوا سے پیدا ہوتی ہے۔ کہیں دُور چھٹانک چھٹانک کے اولے پڑے تھے۔ شیخ جی نے حجامت کے لیے شہر جانا ملتوی کر دیا اور لگے ابر آلود آسمان کی طرف تکنے اور سر پر ہاتھ پھیر کر ’اللہ خیر‘ کا وظیفہ پڑھنے۔ کوٹھی میں رائے صاحب کی بُوری بھینس نے ناند کے ساتھ جسم رگڑ کر جھول گرا دی تھی۔ شیخ جی جھول کو اوڑھے ہوئے آہستہ آہستہ ہمارے پاس آئے۔ آج اُنھوں نے ایک نئی چیز دریافت کر لی تھی اور وہ یہ کہ لاہور میں رہنے والے لوگ لاہور ہی میں لوگوں کو چٹھیاں ڈالتے ہیں۔ کتنا بڑا شہر ہے لاہور … شیخ جی کی اس دریافت پر مجھے بہت ہنسی آئی ۔ لیکن میں بدستور حساب کتاب میں منہمک رہا اور شیخ جی کی پھبتی کے متعلق سوچتا رہا۔ کچھ دیر بعد شیخ جی دہکتے ہوئے برادے کے قریب آ گئے اور کچھوے کی طرح جھُول میں سے گردن نکال کر بولے۔

’’کنسو بہت ہی جوان ہو گئی ہے۔‘‘

اب یہ بات بھی لاہور کے ایک بڑا شہر ہونے کی طرح ایک’ دریافت‘ تھی۔لیکن کنسو کا نام سنتے ہی علی جُو، رحمان جُو، اور گنّی ونّی کے کان کھڑے ہو گئے۔ دراصل لاہور کی تمہید اسی بم کے گولے کے لیے تھی۔ لیکن تمہید اور حرف مطلب میں اتنی بے تعلقی تھی کہ لاہور کی چٹھیوں کے بعد بے وقوف طبقہ کے سب آدمی اِسے ضمنی بات سمجھ سکتے تھے۔

تین چار آدمیوں کو اکٹھے ہوتے دیکھ کر کاریگروں نے بھی اڈوّں پر دم لیا اور اِدھر چلے آئے۔ دلاور سنگھ نے پھر نل پر بلانے کے لیے دُور سے پکارا ’’… آلی … آلی … رحمے ‘‘ اور اس کے بعد خشت درجہ اول کی تمام پرچیاں اُٹھائے شیخ جی کو طنزیہ سلام جگانے خود بھی اِدھر چلا آیا۔ جمعدار رام آسرے نے بھی زندگی بھر نہ ٹوٹنے والے بیکانیری جوتے سرکائے اور قریب آ گیا۔  علی جُو نے اپنے کشادہ ہاتھ پانو پھیلا کر گِدھ کی طرح ایک لمبی اور بے ڈھنگی سی قلانچ بھری اور گنّی کو اپنے پروں کی لپیٹ میں لے لیا۔گنّی بولا۔ پرے ہٹ ہاتو ۔ علی جُو لفظ ہاتو سے بہت جلتا تھا۔ کیونکہ ٹھیٹ پنجابی اصطلاح میں ہاتو بوجھ اٹھانے والے کشمیری کو کہا جاتا ہے اور علی جُو کوئی لدُّو جانور تھوڑے ہی تھا۔ علی جُو نہ تو مزدور تھا اور نہ ہی مالک۔ وہ تو خوبصورت لفظوں میں لکھا ہوا ایک المیہ ڈراما تھا جو فروں کی تباہی پر ختم ہوتا تھا۔ علی جُو کا جسم ترکستانیوں کی طرح سڈول اور تنومند تھا۔ اِدھر پنجاب میں مختلف کام کر کے اُس نے اچھے پیسے جمع کر لیے تھے اور اب وہ بارہ مولہ پہنچ کر اپنی زندگی کا سفید جبہّ حاصل کرنا چاہتا تھا۔

علی جُو نے گنّی کو پٹخنی دی۔ مارنے والے نے مارا، سہنے والے نے سہ لیا۔ بات جاری رہی جو مارنے اور سہنے سے زیادہ دلچسپ تھی۔ دلاور سنگھ بولا۔

’’بدمعاش ہے سالی۔‘‘

علیا بولا ۔ ’’گجب خدا کا، اسے روکتا بھی کوئی نہیں۔ کئی دفعہ تو بڑی ہی دیر سے گھر آتی ہے۔ جب ہم شام کو گھر جاتے ہیں تو اس کا تانگہ ہمیں نہر پہ ملتا ہے۔‘‘

’’خبر نہیں کتنے یار رکھے وے ہیں اس چھوکری نے۔‘‘

’’مجھے تو بھاگتی دِکھے۔‘‘

’’کِس کے ساتھ دِکھے بھاگتی؟‘‘

’’جو بھی کوئی لے جائے … جوانی آفت پہ آئی دی ہے۔‘‘

اور سب نے مشترکہ طور پر فیصلہ کر لیا کہ کنسو بھاگ جانا چاہتی ہے۔ سب اپنا اپنا تصوّر چمکانے لگے۔ شیخ جی نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرا اور بولے ’’تم سب گلط کہتے ہو۔ وہ نہیں بھاگے کی۔ کم سے کم میرا تو سو بسوے یہی کھیال ہے۔‘‘

کنسو کے طور اطوار سے تو مجھے بھی یہی شک ہوتا تھا کہ وہ چلن کی اچھی نہیں اور اُسے کوئی بھی بھگا کر لے جا سکتا ہے۔ ’’تم کیسے کہہ سکتے ہو، شیخ؟‘‘ میں نے معاً سوال کیا۔

’’کم سے کم اِن دنوں تو اس کی باتوں سے مجھے کوئی سکّ نہیں ہوتا۔‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’جانتا ہوں … بس کہہ جو دیا ’’شیخ نے سر ہلاتے ہوئے ایک بے معنی سا جواب دیا۔ سورج کی شعاعوں میں اس وقت تک شکنجبین کی سی مٹھاس پیدا ہو گئی تھی اور علی جُو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر شیخ جی کے منھ کی طرف دیکھ سکتا تھا اور سوچ سکتا تھا۔ اتنی بھی کیا ٹھنڈک لگ رہی ہے شیخ کو، سالا بھینس کی ہی جھول لپیٹ چلا آیا۔ گنّی اس وقت کچھووں کا شکاری معلوم ہوتا تھا۔ شاید اُس کا جی چاہتا تھا کہ جھول میں سے نکلی ہوئی گردن کو پکڑ کر مروڑ ڈالے۔ کنسو سچ مچ تھوڑے ہی بھاگ چلی تھی۔ ذرا ایسی باتوں سے مزا ہی لے لیتے۔ شیخ جی کی اس بے دلیل قطعیت … بس کہہ جو دیا، پر مجھے بھی غصہ آ رہا تھا … کائیں ، کائیں، کائیں۔ آسمان کے آخری کوّے چھانگے مانگے کے جنگل کی طرف جا رہے تھے اور اپنے پیچھے آوازوں کی غیر مرئی لکیریں چھوڑتے جاتے تھے۔

’’یے بُوبا‘‘ جمعدار رام آسرے کی بیوی رام دئی نے آواز دی اور جب رام آسرے نہ ہلا تو ٹوکری کو پھٹوں میں رکھ کر سَر کے اِنّو ُ کو اُس میں پھینک دیا اور آپ کولھے مٹکاتی ہوئی اپنے ماڈل ٹاؤن کی طرف چلی گئی۔ دلاور سنگھ خشت درجہ اول کی پرچیوں کو میرے تخت پوش کے صندوقچے میں بند کر کے تالا لگاتے ہوئے بولا۔ ’’آج شیخ جی نے ہری تُریاں (بھنگ) پی لی ہیں۔‘‘

’’ہنکارے ہے بڈھا تو‘‘ پوربیا بولا۔

عجیب بات تھی۔ سب کنسو کا بھاگ جانا پسند کرتے تھے۔ میں نے مزدوروں کی وکالت کرتے ہوئے کہا۔ ’’با با! اماں باوا کی اتنی بے پروائی رنگ تو لائے گی ہی۔ یہ جتنی کھُل کھیلنے والی چھوکریاں ہوتی ہیں، یہ سب بدمعاش ہوتی ہیں، ’’لیکن اندر ہی اندر میں شیخ جی کے تجربہ کا قائل تھا۔ عموماً بڈھے لوگ لڑکیوں کو آزاد دیکھ کر اس قسم کے فتوے صادر کرتے ہیں۔ لیکن یہ بڈھا اس کے برعکس باتیں کر رہا تھا اور پھر اُس نے اتنی قطعیت سے اعلان کیا۔ آخر جب دلاور نے مجبور کیا تو شیخ شروع ہوا۔ ’’دیکھو سردار ، جب ہم جوان …‘‘

کائیں، کائیں، کائیں … زمین کے آخری کوّوں نے شور مچا دیا اور گھر جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ سندر سنگھ ترکھان نے اوزار بوری میں ڈالے اور ہو ہو ہو کہتا رام آسرے پر گرپڑا۔ رام آسرے کی پچاس گز لمبی پگڑی کھُل کر گلے میں جا پڑی۔ اُس نے ترکھان کی پگڑی اچھال دی۔ سردار کا جونڈا کھل کر ہوا میں لہرانے لگا … چلو گھر چلیں ۔ شیخ پھر سے جوان ہو ر ہا ہے… راستہ چھوڑ دو وگرنہ زخمی ہو جاؤ گے … آلی … آلی … علی جُو کی بے آواز ہنسی سے صرف فئی … فئی کی آوازیں آئیں۔ اولے نہیں پڑیں گے شیخ جی۔ بناسک حجامت بنوالیں … کوئی بولا اور سب اپنے اپنے چھانگے مانگے کو پدھارے۔

اس وقت اندھیرا میدان اور لونک بوٹی پر رینگ رہا تھا۔ دور ایروڈرام میں ایک     ہوائی جہاز اترتا ہوا دکھائی دیا۔ اُس کی دم کا چمکتا ہوا نقطہ ٹوٹے ہوئے ستارے کی طرح تیزی سے زمین کی طرف آ رہا تھا۔ اس ٹوٹتے ہوئے ستارے کو دیکھ کر اندرونی ماڈل ٹاؤن سے رام دئی یا اُس کی کوئی بہن بولی … رام رام… رام رام … میں سوچنے لگا۔ آج مجھے شب بھر نیند نہیں آئے گی… باتوں باتوں میں اِن سالوں نے آج کیا پٹاخہ چھوڑ دیا۔ کیا کنسو کی شکل اُس کی ہوائی بھابی کی شکل سے تو نہیں ملتی؟ اور میری رگوں میں خون کا دورہ تیز ہو گیا۔ میں نے کہا اب میں متواتر دودھ نہیں پیا کروں گا۔ اس سے میرے جسم میں بہت ہی جان آ جاتی ہے۔ پھر مجھے ہنسی آنے لگی۔ ہی ہی ہی …

صبح اُٹھ کر میں نے پاجامہ بدلا۔ بہت گندہ ہو چکا تھا پاجامہ، اور قمیص بھی میلی ہو رہی تھی۔ ابھی بمشکل دس ہی بجے ہوں گے کہ کنسو پھر گھومتی پھرتی آئی اور شیخ جی کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اُس نے اپنی پاکیزگی کی طرح سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے لیکن میں نے سوچا کہ اِن کپڑوں کے اندر سفیدی کی بجائے سُرخی ہے۔ گرم گرم لہو کی سُرخی ۔ کنسو کے بالوں اور دوپٹے کی متوازی لکیریں اپنی چمکتی ہوئی سیاہیوں اور سفیدیوں کے ساتھ بے پروایانہ انداز سے پشت کی پگڈنڈیوں اور شاہراہوں پر رواں دواں تھیں۔

شیخ جی نے پوچھا ۔’’جنڈیالے سے کب آئیں تھیں تم، بیٹی ؟‘‘

’’کل ہی تو آئی تھی بابا … کنسو بولی ’’جنڈیالے میں میرا چچا مر گیا تھا بابا۔ بات سناؤں تمھیں اس چچا کی، بے چارہ اسٹیشن ماسٹر تھا۔‘‘

شیخ جی نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’میرا داماد اسٹیشن ماسٹر ہے۔‘‘

کنسو نے میری طرف دیکھا۔ شیخ جی کے خلاف میری اور کنسو کی سازش تھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ چُونے کی کھڑی گاڑیاں … بہتر روپے آٹھ آنے …

’’کنسو نے کہا۔ ’’میری بات تو سنو، بابا۔‘‘

بابا سننے لگا … ’’ساری عمر لاہور میں رہا بے چارہ ۔ وہیں کالجوں اسکولوں میں لڑکے پڑھتے تھے۔ دو برس ہوئے چچی مر گئیں۔ شیخانی کی طرح۔ لیکن وہ بچوں کے ساتھ دِل بہلا لیتے تھے۔ اس کے بعد تبدیلی ہو گئی ۔ شورکوٹ روڈ، وہاں کوارٹر ملا تو اتنا بڑا کہ چار کُنبے رہ جائیں۔ رات کو مکان بھائیں بھائیں کرتا۔ اس میں چاچا اکیلے ٹانگیں پسارے پڑے رہتے۔ لیکن وہ زندگی بھر اکیلے نہ رہے تھے۔ بڑے لڑکے کی شادی کے بعد بہو کو رونق کے لیے لے گئے۔ بھابی کو شورکوٹ والوں نے سر پر اُٹھا لیا … بڑے بابو کی بہو، بڑے بابو کی بہو … بہو کو آئے مہینہ بھر نہ ہو پایا تھا کہ بیٹے صاحب آ دھمکے … اب اِن کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور پھر تم جانتے ہو، روٹی کی کتنی تکلیف ہو جاتی ہے۔ بہو بھی اتاولی سی تھی۔ ٹرنک وغیرہ اٹھوا چلی گئی۔ چچا بہت روئے، بہت روئے … خط میں لکھتے ہیں بیٹے کو … بہو کے آ جانے سے مجھے تمھاری ماں کے دِن معلوم ہونے لگے تھے۔ وہی رونق، وہی … لیکن، لیکن تمھارے ہاں تو کوئی بیٹا بھی نہیں ہے جس کی بہو تم لے آؤ… ‘‘

شیخ جی بولے ۔’’بیٹا! … میں بھی زندگی بھر اکیلا نہیں رہا۔ اب یہاں ٹھیکے پر ٹانگیں پسار کر سوتا ہوں تو ساری دنیا بھائیں بھائیں کرتی نظر آتی ہے۔ شیخانی کے دم سے بڑی رونق تھی۔ وہ یوں تو غریب تھی لیکن نیت کی بہت امیر تھی شیخانی… یہ کون ہے … یہ داماد آ رہا ہے؟ یہ کون ہے، اس کے چچیرے بھائی کی بی بی ہے، یہ کون ہے رجالی کی بیوہ ہے … ابھی چائے بن رہی ہے، ابھی اخروٹ منگوائے جا رہے ہیں۔ ابھی دھُنیے نے چار لحاف تیار کر دیے ہیں اور میں کماتا اور کھپتا مر جاتا۔ اب میں کس کے لیے کماتا ہوں۔ کس کے لیے کھپتا ہوں۔ اب میرا کون ہے…؟

اور شیخ جی کا گلا رندھ گیا۔ میں نے آج تک کسی کو نہیں دیکھا جو دُکھ بھرے دِل سے یہ کہے کہ اس سنسار میں میرا کون ہے؟ اور پھر اس سے آگے کچھ کہہ پائے۔ اتنا بدنصیب کم ہی ہوتا ہے کوئی۔ اگر شور کوٹ میں اس کا کوئی نہ ہو، تو لاہور میں ہوتا ہے۔ لاہور میں نہ ہو، تو ماڈل ٹاؤن میں… لیکن شیخ جی کا تو چھانگے مانگے میں بھی کوئی نہ تھا۔

کنسو شیخ جی کو رُلا کر ٹل گئی اور میرے قریب آ کر بولی ۔ ’’دراصل بات یہ ہے، میرا کوئی چچا وچا نہیں ہے۔‘‘

… اور اڈے کے پاس ابھی تک شیخ اپنی پگڑی کے شملے سے آنکھیں پونچھ رہا تھا۔ میں نے اپنے قہقہے کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کے بعد کنسو بولی۔ میں نے جنڈیالے میں بھابی پسند کر لی ہے۔ میں نے کنسو کے تِل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ہاں! اُس کے بائیں گال پر تِل ہے۔ وہ رات کو خواب میں میرا سب مال و متاع لوٹ کر لے گئی۔ کنسو نے مجھ پر برادہ اچھال دیا۔ کوٹھی سے آواز آئی۔ کنسو ! کنسو کی نانی کی آواز تھی جو ہمیشہ کنسو سے بے سود التجا کیا کرتی کہ کنسو اپنے دوپٹے سے سر ڈھانپ لے۔

اس کے بعد کنسو علی جُو کی طرف مخاطب ہوئی۔ علی جُو اُس وقت نل کے رسّہ کو چھوڑا چاہتا تھا۔ ’’ہو سردار‘‘ اُس نے منشی جی کو بلاتے ہوئے شکستہ پنجابی میں کہا۔ ’’اب کتنا چلا گیا اندر؟‘‘

نل پندرہ فٹ کے قریب زمین میں جاچکا تھا۔ دلاور بولا ’’ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا… زمین کچھ پتھریلی ہے۔ کڑ بہت محنت سے ٹوٹے گا۔‘‘

زمین کے اندر سے بہت سے چھوٹے چھوٹے سفید پتھر باہر آ رہے تھے۔ علی جُو رسّے کو کھینچتا تو اُس کے پٹھے تن جاتے تھے۔ کنسو بہت دلچسپی سے اُن کی باتیں سنتی رہی اور علی جُو کے تنومند جسم کو دیکھتی رہی۔ علی جُو اس وقت سورج کی پہلی کرنوں میں تمتما رہا تھا۔ نوزائیدہ بچے کی طرح وہ سر سے پانوں تک خون کا ایک بڑا سا قطرہ دکھائی دیتا تھا۔ ٹوپی کے باہر اُس کے بالوں کی سُرخ، گھنگھریالی اون کے کنارے سنہری ہو رہے تھے۔ چھاتی پر اڑے ہوئے چیتھڑوں میں سے اُس کا نصف، تنا ہوا سینہ دعوت نظارہ دے رہا تھا۔ کنسو نے بغلوں میں ہاتھ دے لیے اور دیکھتی رہی۔ دیکھتی رہی۔ پھر علی جُو سے بولی۔

’’ارے ہاتو! بارہ مولے کب جا رہے ہو؟‘‘

’’جد پیسئے ہو جاندیس (جب بیسے ہو جائیں گے)‘‘

’’جو پیسے میں دے دیندیس (اور جو پیسے میں دے دوں تو؟)‘‘

’’آبھی ، ہونے جاندیس(ابھی اسی وقت چلا جاؤں گا)‘‘

علی جُو نے ہاتو کے لفظ کا بُرا نہیں منایا۔ کنسو چلی گئی۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ کی طرح آتی اور ہر ایک سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتی… ٹھیکہ بٹتا رہا۔ ہم بھی شیخ جی کے نقطہ نگاہ کے قائل ہو گئے اور کہنے لگے۔ کنسو، بہت آزاد لڑکی ہے وہ یونہی ہر ایک سے ہنس کھیل لیتی ہے۔

اس وقت عمارت کھڑکیوں کی کارنس تک پہنچ چکی تھی۔ ہمارا عملہ بھی بڑھتا جاتا تھا۔ کارنسوں سے دو ردّے اوپر اُٹھنے پر ایک خوش پوش نوجوان کسی الیکٹریشن کا بورڈ لے آیا اور اُسے بلاک کے ساتھ والی سڑک کے کنارے شیشم کی چھاؤں اور ارنڈوں کے سامنے گاڑ دیا۔ اس پر لکھا تھا ۔ ’’الکٹرک انسٹالیشن بائی راج اینڈ کمپنی‘‘ اس کے بعد تاروں کے گورکھ دھندے، گٹیاں اور سفید سفید کٹ آوٹ آنے لگے۔

ایک دن پھر شیخ جی میرے پاس آئے۔ آج پھر اُنھوں نے بھینس کی جھول لپیٹ رکھی تھی۔ جب وہ کبھی بہت رازدارانہ لہجے میں بات کرنا چاہتے تھے تو وہ بھینس کی جھول لپیٹ لیتے تھے۔ میرے پاس آتے ہی بولے۔

’’اب کنسو بھاگ جائے گی۔‘‘

میں نے کہا ’’ہیں؟‘‘

’’تم نے کچھ تبدیلی دیکھی ہے؟‘‘

میں سوچنے لگا۔ میں نے کیا تبدیلی دیکھی ہے … کیا تبدیلی؟

’’کیا تبدیلی؟‘‘ میں نے شیخ سے پوچھا۔

’’بس اب دیکھنا۔‘‘

’’بتاؤ تو۔‘‘

’’بس کہہ جو دیا دیکھنا۔‘‘

’’پھر بھی۔‘‘

’’بس کہہ جو دیا میں نے۔‘‘

میں نے سپٹا کر زیادہ کرید نہ کی۔ دوپہر کو جب کنسو باہر نکلی تو وہ قدرے سہمی، شرمائی ہوئی تھی۔ یوں تو اُس نے ہر ایک کے ساتھ باتیں کیں، لیکن آج اُن میں کچھ اکھڑا پن سا تھا۔ دلاورسنگھ ، شیخ جی ، سندر سنگھ، علیا، گنّی، بجلی کے مستری سبھی کے ساتھ وہ بولی۔ لیکن علی جُو کے پاس سے گزر گئی۔

شیخ نے کہا۔ ’’تم نے دیکھا ؟‘‘

میں نے کہا۔’’ہاں شیخ ، میں نے دیکھا۔‘‘

اِس کے بعد ہم شام تک گھبرائے ہوئے اِدھر اُدھر پھرتے رہے۔ شیخ جی اور میں۔ آج کا دِن مبارک تھا۔ آج علی جُو نے زمین کا پتھریلا کڑ توڑ ڈالا تھا اور نل، زمین میں پانی تک چلا گیا تھا۔ نلکے کے مستری نے کڑ ٹوٹنے کی خوشی میں بتاشے تقسیم کروائے … علی جُو فارغ ہو چکا تھا اور آج رات وہ چلا جانا چاہتا تھا۔

شام کے قریب جب زمین کے کوّے گھر جانے لگے،  تو ہمیں رائے صاحب کی تلاش ہوئی۔ اُس وقت اڈوں کی آڑ میں سے شیخ جی نے مجھ کچھ دکھلایا … وہ دیکھو … سامنے علی جُو کھڑا تھا۔ کوٹھی کا ایک دروازہ بالکل معمولی طور پر کھلا ہوا تھا اور کنسو علی جُو کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی!

٭٭٭

 

 

 

 

غلامی

 

 

آخر تیتیس سال کی طویل ملازمت کے بعد پنشن پاکر پولھو رام گھر پہنچا۔ گھر کے سب چھوٹے بڑے اُس کے منتظر تھے اور اُس کی بیوی سرسوں کا تیل لیے کھڑی تھی۔کب پولھو رام آئے اور وہ دہلیز پھاندنے سے پہلے چوکھٹ پر تیل گرا دے اور پھر نوبت ، اپنے بڑے بیٹے کو اشارہ کرے کہ وہ پھولوں کا ہار اپنے بوڑھے باپ کے گلے میں ڈال دے۔ چنانچہ سرسوں کا تیل گرانے کے بعد ہاروں سے لدے پھندے، پولھو رام کے گلے میں نوبت نے بھی ایک ہار پہنا دیا۔

چوکھٹ پر قدم رکھتے ہوئے پولھو رام سوچ رہا تھا، یہ پھول کتنی دُور دُور سے آئے ہوں گے اور پھلیرے نے اِن سب کو ایک تاگے میں پرو دیا ہو گا اور ان پھولوں کی قسمت میں بدا ہو گا کہ وہ میرے گلے کی زینت ہوں … میری عزت افزائی کے لیے یکجا ہوں … اور دفتر میں کتنے بابو اکٹھے ہو رہے تھے۔ کوئی میانوالی کا مہتہ تھا ،کو ئی بھمبر کا بٹ … گویا دُور دُور سے آئے ہوئے پھول تھے اور مقدّر کے پھلیرے نے اُنھیں یکجا کر دیا تھا۔ میری زینت کے لیے، میری عزت افزائی کے لیے۔

پولھو رام کا ریٹائر ہونا بھی ایک ڈراما تھا۔ نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد جب وہ گھر آنے کے لیے سڑک پر ہو لیا تو اُسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ سبکدوش ہو چکا ہے اور اُس سرمئی سیاہ سڑک پر، جس پر سینکڑوں مرتبہ دفتر کو آیا ہے، اب مہینے میں ایک بار آیا کرے گا… پنشن پانے کے لیے… فٹ پاتھ پر پانو رکھتے ہوئے اُس نے پسِ پُشت دفتر کی خوبصورت، گوتھک قوسوں کی طرف دیکھا۔ اسٹیپل میں بڑا کلاک بگڑا ہوا تھا … ’’چھی‘‘! پولھو رام نے کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’سالا روزِ ازل ہی سے بگڑا ہوا ہے۔ کبھی ٹھیک نہیں ہوا۔ جب میں نیا نیا ڈاک کے اس محکمہ میں ملازم ہوا، تب بھی ایک گھڑی ساز گھنٹے کی سوئی کو منٹوں کی سوئی سے نجات دلانے کے لیے کلاک تک پہنچنے والی سیڑھی پر رینگ رہا تھا۔‘‘

سیتو نے سوچ میں مستغرق شوہر کے شانے کے چھوتے ہوئے کہا۔ ’’چھوٹی بہو آئی ہے… اور بدھائی دیتی ہے۔‘‘

پولھو رام مسکرایا اور جذبات کی ایک لطیف رَو میں بہہ گیا ’’چھوٹی بہو بدھائی دیتی ہے … چھوٹی بہو ہئی بڑی اچھی، دونوں بڑی بہوؤں سے اچھی ہے۔ اس کی رگوں میں شرفا کا خون دوڑتا ہے۔ بڑے بیٹوں کی شادی کے وقت میں اتنا متمول ہی کہاں تھا کہ کول خاندان سے رشتہ کی توقع رکھتا۔‘‘

اور جب سیتو نے پولھو رام کو ہار اُتار دینے کے لیے کہا تو پولھو رام گلہری کی سی آواز پیدا کرتے ہوئے ہنسا اور بولا۔’’ہاں، نوبت کی ماں … یہ بھی میری طرح اپنی نوکری سے سبکدوش ہو چکے ہیں … ہی ہی … گویا انھیں بھی اب پنشن مل جانی چاہیے… ہی ہی …‘‘

دِیے جلنے پر لال چوک کے بہت سے آدمی مبارک باد کے لیے آئے۔ پولھو رام کے ہاں ایک کنواں تھا جس کا آدھا حصّہ لال چوک میں کھلتا تھا۔ مسلمانوں اور دلت جاتیوں کے سِوا، لوگ اس میں سے باہر ہی سے پانی لے جاتے تھے۔ جب لال چوک کے آدمی آئے تو پولھو رام کنوئیں کے اندرونی منڈیر کے پاس ایک خالی جگہ کو دھوتے ہوئے اُس میں ٹھاکروں کو استھاپن کر رہا تھا… اب جب کہ وہ نوکری سے فارغ ہو چکا ہے، وہ صبح و شام ٹھاکروں کے سامنے کھڑتالیں بجایا کرے گا اور برہمانند کے بھجن گائے گا۔ تیتیس برس کی طویل ملازمت میں پوجا پاٹ کی فرصت ہی کہاں تھی؟

پھر اُس نے لال چوک کے آدمیوں کو بتایا کہ وہ کسی بڑے سے بڑے صاحب کی دھونس نہیں سہتا تھا۔ ہارڈیکر صاحب سے تو اُس کی لڑائی ہی ہو پڑی۔ اکاؤنٹ کا چھوٹا سا معاملہ تھا۔ اِن دنوں وہ سلیکشن گریڈ کا پوسٹ ماسٹر تھا اور اس گریڈ کے پوسٹ ماسٹر کی بڑی طاقت ہوتی ہے۔

’’میں نے ہارڈیکر صاحب سے کہا۔‘‘ پولھو رام بڑی تمکنت سے اسٹول پر بیٹھتے ہوئے بولا… ’’کیا آپ اس معاملہ میں دخل دے کر میری طاقتوں کو رد کرسکتے ہیں؟ پہلے تو وہ نہ مانا اور معاملہ پوسٹ ماسٹر جنرل تک جا پہنچا۔ جیت مجھی کو ہونی تھی۔ اس کے بعد وہی صاحب میرے دفتر کے معائنہ کو آیا۔ سب لوگوں کا خیال تھا کہ اس مخاصمت کی بنا پر صاحب بہت کچھ میرے خلاف لکھے گا جس سے میری پنشن میں فرق پڑ جائے گا اور کیا عجب جو مجھے ڈی گریڈ یا اَن فٹ ہی کر دے۔ لیکن اُس نے میری غیر معمولی تعریف کی … جناب یہ انگریز لوگ بہت فراخ دل ہوتے ہیں۔ یہ بہادروں کی قدر کرنا جانتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ پُرانے کینہ جھگڑوں کو بھول جاتے ہیں۔ میں نے بچپن میں جغرافیہ یا شاید تاریخ میں پڑھا تھا کہ انگریزی راج میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا … اگرچہ میں اس کا مطلب نہیں جانتا، تاہم میری دعا بھی یہی ہے کہ انگریزی راج میں سورج کبھی غروب نہ ہو … اور دیکھیے ، بخلاف اس کے کہ اگر کہیں دیسی افسر ہوتا تو نہایت کمینگی سے پیش آتا۔ میری زندگی تباہ کر دیتا۔ ایشور کرے اِن دیسی لوگوں کا سورج کبھی طلوع نہ ہو!‘‘

شام کو جب پولھو رام کھانا کھا نے کے لیے بیٹھا تو اُس کے بیٹے، اُس کی بہوویں اُس کے گرد جمع ہو گئیں۔ خدا جانے کس نے یہ ذکر چھیڑ دیا۔ غالباً چھوٹی بہو ہی نے چھیڑا ہو گا۔ وہی کول خاندان کی لڑکی تھی۔ اپنی ننھی بچی کو اون کا کوٹ پہناتے ہوئے بولی۔ ’’اور تو اور، میں حیران ہوتی تھی، پتاجی کیسے کڑاکے کی سردی میں سویرے ہی نہا لیتے تھے۔ سال کے تین سو پینسٹھ میں سے ایک بھی تو ناغہ نہ ہوا۔‘‘

پولھو رام انگلیاں چاٹتے ہوئے بولا۔’’میں اپنی نوکری کا بہت پابند تھا بیٹا! اور اِس تیتیس سال کے لمبے عرصے میں کوئی ہی ایسا موقع ہو گا جب کہ میں نہایا نہ ہوں اور صبح ہی نہا کر دفتر نہ چلا گیا ہوں۔ میرے سب افسر مجھ سے بہت خوش تھے۔‘‘

دمینتی بہو بھی کوئی بات کرنا چاہتی تھی۔ بولی ’’ہم جوانوں سے تو پتاجی اچھے ہیں۔ دیکھو تو ہم اب بھی کیسے کھا پھوٹ کرپڑی رہتی ہیں۔ آٹھ بجے سے پہلے کروٹ نہیں بدلتیں اور آپ ہیں کہ اولے پڑے پر بھی نہا لیا اور جھٹ سے کام پر بھی چلے گئے۔‘‘

پولھورام دمینتی کو اس کے دیر سے اٹھنے کی عادت پر بہت لعن طعن کیا کرتے تھے، لیکن اس وقت وہ نہاتے ہوئے کوّے کی طرح پھول گئے۔ بولے ’’بیٹا! تمھیں کاہے کی پڑی ہے۔ ہمارے جیتے جی خوب ہنسو، کھیلو، سوؤ … جیسے تمھارے ماں باپ میکے میں تھے، ویسے یہاں بھی ہیں۔‘‘

بڑی بہو کی آنکھیں نم ناک ہو گئیں۔ پولھو رام نے پردے کی وجہ سے نہیں دیکھا، لیکن سیتو نے بہو کی ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں دیکھ لیں۔ کہاں تو وہ بڑی بہو سے لڑتی ہی رہتی تھی، کہاں اُس نے برتن مانجھنے چھوڑ کر اپنے راکھ سے آلودہ ہاتھ جھاڑے اور ہاتھوں کو بہو کی کمر میں ڈالتے ہوئے بولی ’’اور تو کیا جھوٹ کہتے ہیں؟ تم کیا جانو ہم تمھیں کتنا پیار کرتے ہیں … بس جرا تمھاری جَبان قابو میں ہو جائے نا … نہ جانے اس وقت کیا ہو جاتا ہے تمھیں؟‘‘

دمینتی بڑی شردھا سے بولی ’’میں تو بنتی کرتی ہوں ایشور سے … کہ آپ کا سایہ سات جنم تک ہمارے سر پر قائم رہے۔ آپ مارتے ہیں۔ پیار بھی تو کرتے ہیں۔ جو پیار کرے وہ مارے، جھڑکے لاکھ بار … ‘‘

جانے چھوٹی بہو کو رشک آیا۔ بولی ۔ ’’پِتا جی نے مجھے پریاگ لے جانے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘

اب تک پولھو رام بابو، دمینتی کے جذبات کو جان چکے تھے۔ ان کی آنکھیں بھی ڈبڈبا آئیں، کہنے لگے ’’چھوٹی بہو کو ضرور پریاگ لے جاؤں گا۔ ہاں، نوبت کی ماں! میں نے اس سے وعدہ کیا ہے اور بڑی کو بھی لے چلوں گا اور منجھلی کو بھی … پھر کیا تم پیچھے رہ جاؤ گی نوبت کی ماں؟ کھُلے موسم میں سبھی کو لے چلوں گا…‘‘

… اور پولھو رام کے لب و لہجے سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ سچ مچ سب کو پریاگ ہی تو لے جائے گا۔ وہ بڑے گھر کی لڑکی اس بات کی حقیقت سے واقف تھی۔ جب وہ نئی نئی بیاہی آئی تھی تب بھی تو پتا جی نے کنگن کا وعدہ کیا تھا اور اب کہاں گیا وہ وعدہ؟

اگلے دن پولھو رام بابو کی آنکھ پانچ بجے کھل گئی۔ اُس نے سوچا وہ اتنی جلدی جاگ کر آخر کیا کرے گا؟ اُس نے ایک ہاتھ سے رنگپوری چھینٹ کا پردہ اٹھایا اور دریچے کے شیشوں میں  لال چوک کی طرف جھانکا۔ کمیٹی کی بتیوں کو بجھانے کے لیے کمیٹی کا ملازم سیڑھی کندھے پر رکھے، آہستہ آہستہ پاٹھ شالا کی طرف جا رہا تھا۔ بتیوں کی بے بضاعت روشنی میں پرے، ایک      بھینسا گاڑی اپنی تمام ہندستانی سُست رفتاری سے رینگ رہی تھی۔ ان گاڑیوں کے لیے نیومیٹک ٹائر بہم پہنچانے کی قرارداد دو برس سے کمیٹی میں پیش ہو رہی تھی، اس کے باوجود کمیٹی اور بھینسا گاڑی دونوں کی خواہش تھی کہ وہ دن ہونے سے پہلے پہلے شہر پناہ سے باہر ہو جائے۔ پولھو رام نے اپنا سر لحاف میں لپیٹ لیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن نیند نہ آئی۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور معمول کی طرح بولا۔ ’’سیتے، اٹھو نا، مجھے چاء بنا دو۔‘‘

سیتو روزمرہ کی طرح چاء بنانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ لیکن جیسے ہی اُس کے پانوں ٹھنڈی کھڑاؤں میں داخل ہوئے، اُسے کچھ یاد آ گیا۔ بولی۔ ’’کدھر جا رہے ہیں آپ؟ … کوئی دفتر تو نہیں جانا ہے پڑے رہیے چپکے سے …۔‘‘

پولھو رام بابو بولا ۔’’کدھر جا رہا ہوں میں؟ … ہاہا؟ اری پگلی! سیرکرنے بھی نہ جاؤں؟‘‘

لیکن سیتو نے تو شاید سوچا تھا کہ ان کے پنشن پانے پر وہ بھی صبح کی چاء کے جھنجھٹ سے چھوٹ جائے گی اور اپنی بہوؤں کی طرح بڑے مزے سے اپنے خاوند کے پہلو میں پڑی رہی گی۔ لیکن اس کا یہ خیال غلط نکلا … پنشن تو صرف مردوں کو ملتی ہے۔ کبھی عورت کو بھی پنشن ملی ہے؟ … گھر میں تو روز نوکری ہوتی ہے اور روز پنشن … اُسے اُٹھنے میں بہت دقت پیش نہ آئی… پولھو رام نے اُسی وقت کپڑے اتارے اور معمول کی طرح جلدی جلدی پانی کے کچھ ڈول نکال کر جسم پر انڈیل لیے۔

چاء پینے کے بعد پولھو رام نے اتنے اونچے سروں میں برہمانند کے بھجن گائے کہ سارا گھر جاگ اُٹھا۔ بہوویں بُڑبڑانے لگیں اور بچے رونے لگے۔ پاٹھ کے بعد پولھورام سیر کے لیے نکلا۔ ایک دو گھنٹہ تک تو وہ ریواز گارڈن کی سڑکوں پر گھومتا رہا۔ لیکن ریواز گارڈن سے بڑا ڈاک خانہ … اُس کا پرانا دفتر دور نہیں تھا۔ پولھو رام کے قدم اُسی طرف اُٹھ گئے۔ اُس کی حالت اُسی سانپ کی مانند تھی جو بہت عرصے کینچلی میں زندہ درگور رہ کر جب اپنی کینچلی کو اتار پھینکتا ہے تو بہت دُور بھاگ جاتا ہے۔ لیکن پھر ایک بار اُسے دیکھنے کے لیے ضرور واپس آتا ہے اور سوچتا ہے … اس کمبخت نے مجھے سست بنا رکھا تھا؟ میری بینائی کمزور کر دی تھی ، میں اچھی طرح سے چل بھی نہ سکتا تھا۔ اِس کینچلی نے … اس جھلّی نے … اِس چمکتی ہوئی حقیر جھلّی نے!

ڈاک خانے کے سامنے پہنچ کر پولھو رام کچھ دیر تک کھڑا رہا۔ اُس کے سامنے گاڑیاں سًرخ وردی پہنے قطار در قطار کھڑی تھیں اور ان پر نیا پالش کیا ہوا ’’جی- آر- آئی‘‘ چمک رہا تھا۔ چٹھیوں کے کمرے میں سارٹنگ پوسٹ مین ایک مشین کی سی سرعت سے چٹھیاں دڑبوں میں پھینک رہے تھے۔ پولھو رام نے کہا۔ انہی چٹھیوں نے تو مجھے بھگوان بھلا دیا تھا۔ یہیں مجھے دمہ کی شکایت شروع ہوئی تھی … آج میں ایک پرندے کی طرح آزاد و بے نیاز ہوں۔ اسی دفتر میں مَیں صبح تاروں کی چھاؤں میں آتا اور رات تاروں کی چھاؤں میں واپس جاتا تھا۔ درمیان میں دو اڑھائی گھنٹے کی چھٹی ہوتی۔ لیکن وہ بھی ایسی کہ نہ تو دفتر رہ سکوں اور نہ گھر جا سکوں۔ اگر گھر جاتا تو شام کی حاضری سے دیر ہو جاتی اور اگر دفتر ہی رہتا تو بھوکوں مرتا۔ اسی لیے تو میں نے روٹی بھی دفتر ہی لے جانے کا معمول بنا لیا تھا … اور شام کے وقت جب کسی بابو کے حساب میں فرق پڑتا تو رات کے دس گیارہ بج جاتے اور پولھو رام ان سب باتوں سے مانوس ہو چکا تھا۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ کام ختم کرنے کے بعد بھی وہ دفتر کی میز پر ٹانگیں دھرے بیٹھا رہتا۔ اس کا خیال تھا کہ دیر تک کام کرنے والے سے صاحب لوگ بہت خوش رہتے ہیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پرندے سارا دن شہر اور اُس کے مضافات میں دانہ دنکا چگنے کے بعد عقل حیوانی سے گھر کی جانب بے تحاشا کھچے جاتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ لیکن پولھو رام نے اپنے تمام قدرتی احساسات کو غیر قدرتی ضرورتوں کے تابع کر دیا تھا اور اس میں گھر جانے کی قدرتی حِس مر چکی تھی۔ جب دفتر کے باقی بابو چلے جاتے اور خاکروب بتیاں بجھانے کے لیے ہال کے دوسرے سِرے سے آتا ہوا دکھائی دیتا تو پولھو رام کو محسوس ہوتا کہ وہاں اس کے پڑ رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور اب اُسے گھر جانے کے سوا چارہ ہی نہیں۔ اس وقت وہ اپنی لوہے کی چھڑی جس پر سے تمام پالش اڑ چکا تھا، تلاش کرتا اور گھر کی سمت چل دیتا اور دفتر سے گھر جانے کی بجائے اُسے یوں محسوس ہوتا جیسے کوئی گھر سے دفتر جا رہا ہے۔

میل موٹروں کا اصطبل بہت پرانا ہو چکا تھا اور لمبی لمبی درزیں اصطبل سے ریکارڈ روم تک چلی گئی تھیں۔ پولھو رام نے سوچا، ابھی کل ہی تو اُس نے مرمت کے سلسلہ میں پوسٹ ماسٹر جنرل کے دفتر کو چوتھا رمیائنڈر دیا تھا۔ شاید اس کا جواب آ چکا ہو۔ اُس کے دل میں اس کیس کا جواب جاننے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن وہ ایک دو قدم چل کر رُک گیا۔ اُسے کیا؟ … اُس کے لیے تو خواہ ایک زلزلہ آ جائے اور سارے کا سارا ریکارڈ روم نیچے آ رہے اور سب ضروری اور غیر ضروری ریکارڈ خراب ہو جائے۔ وہ تو اب اس کینچلی کو اُتار چکا تھا۔

پولھو رام نے سوچا، کام کرنے والے کی قدر اس کے بعد ہوتی ہے۔ میں بارہ گھنٹے کی لگاتار نوکری دیتا تھا۔ اب محکمہ کو مجھ ایسا وفا شعار آدمی کہاں ملے گا؟ جب بھی کبھی صاحب آواز دیتا فوراً میرا جواب آتا … ’’جی حضور‘‘! … اور صاحب مجھ سے کتنا خوش تھا۔ کہتا تھا، پولھو رام کتنا پابند آدمی ہے۔ سب ہندستانیوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ پابند، ہم نے بہت رات گئے اسے کام کرتے دیکھا ہے۔ اس سے دفتر کی ایفیشنسی (Efficiency) بڑھتا ہے۔ ہم اس کی ایکسلریٹڈ پروموشن کی سپارش کرے گا۔

پولھو رام نے سوچا اب کام کرتے ہوں گے اور اپنی جان کو روتے ہوں گے۔ معاً پولھورام کو خیال آیا کہ جس شخص کو اُس نے چارج دیا ہے، وہ تو نرا گاؤدی ہے۔ سیکریٹریٹ آفس کے دو کیس ہیں جنھیں میرے سوا اور کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ اسے میری ضرورت کس شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہو گی۔ ہولے ہولے پولھو رام اس کمرے کی طرف ہو لیا، جہاں وہ ہر روز بیٹھا    کرتا تھا۔

دور کھڑکی میں پولھو رام کو اپنے قائم مقام کا سر نظر آنے لگا۔ وہ کاغذوں پر جھکا ہوا کچھ لکھ رہا تھا۔ اس کے بعد وہ فوراً ہی اُٹھا اور کسی ضرورت سے برآمدے کی طرف چلا آیا۔ پولھو رام نے بھاگ جانا چاہا۔ لیکن وہ بھاگ نہ سکا۔

اچانک اُس کے قائم مقام کی نظر پولھو رام پر پڑی اور اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہلو، ہلو پولھو رام جی … کیا حال ہے آپ کا؟‘‘

’’اچھا ہے‘‘ پولھو رام نے جواب دیا۔

’’کیسے تشریف لائے آپ؟‘‘

’’یونہی … خط ڈالنے چلا آیا تھا۔‘‘

اس کے بعد وہ بابو ہنسا اور قریب ہی کے ایک کمرے میں گم ہو گیا۔ اُس نے فائلوں کے متعلق پولھو رام سے کچھ پوچھا ہی نہیں۔ پولھو رام سخت حیران تھا … ’’مجھے کیا؟ میرے لیے اب فائلیں خواہ برس بھر بنا جواب دیئے پڑی رہیں، بچہ جی کو چارج شیٹ لگے گا۔ ترقی رُک جائے گی، پھر مزہ آئے گا۔‘‘

پولھو رام کے پانوں جو کہ سیر کی وجہ سے تھک گئے تھے۔ اب گھر کی طرف اُٹھنے لگے۔ لیکن اُسے پھر خیال آیا ، کیا عجب جو بابو کو اُن کاغذوں کے متعلق جو کہ میں نے نچلی دراز میں ’خفیہ‘ کا نشان دے کر رکھے تھے ،کچھ پتہ ہی نہ ہو۔ نیکی کر اور کنوئیں میں ڈال۔ اُس نے اگر نہیں پوچھا تو میں ہی بتلا دوں۔ آخر اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ وہ میری جان کو دعائیں دے گا اور پولھو رام اپنے قائم مقام کی طنز آمیز مسکراہٹ کو بھول ہی گیا۔

جب ہمت جمع کر کے پولھو رام نے اپنے قائم مقام کو کاغذوں کے متعلق تاکید کی تو اُسے پتہ چلا کہ اُس نے تمام کاغذ دراز میں سے نکال لیے تھے اور اُن کا مناسب جواب بھی دے چکا تھا۔ پولھو رام نے سوچا غلط سلط جواب دے دیا ہو گا اور پھر پولھو رام اپنے قائم مقام کے ہونے والے حشر پر آنسو بہاتا ہوا گھر لوٹ آیا۔

گھر پہنچتے ہی پولھو رام نے پھر اونچی آواز سے گانا شروع کر دیا اور ہر روز یہی ہوتا رہا۔ بچے پہلے تو ڈر کر اپنی ماؤں کی گودیوں میں چھپ جاتے، پھر اس قسم کی پوجا سے مانوس ہو گئے اور دادا کے ساتھ ہم نوا ہو کر محلہ کو سر پر اٹھانے لگے۔ بہوؤں کو بڑی دقّت پیش آتی تھی۔ پہلے وہ گھر میں آزادانہ گھوما کرتی تھیں، لیکن اب اُنھیں ایک لمبا سا گھونگٹ نکالے اندر باہر جانا پڑتا تھا۔

اور پولھو رام جاتا بھی کہاں؟ گھر کے سوا اس کا ٹھکانا بھی تو کہیں نہ تھا۔ اس کی شہر میں واقفیت تو تھی لیکن ایسی تو کسی کے ساتھ نہ تھی کہ اُس کے پاس سارا دن ہی گزار دے۔ کبھی کبھی وہ گھراؤ رام پان فروش کی دُکان پر جا بیٹھتا اور محلہ کی بد چلن عورتوں کی باتیں کیا کرتا اور کبھی کھانڈ کی دُکان پر کھانڈ کا روز مرہ بدلنے والا بھاؤ پوچھنے چلا جاتا۔ پولھو رام کھانڈ کے نرخ میں اُتار چڑھاؤ سے قومی، بلکہ بین الاقوامی حالات کا اندازہ کر لیتا تھا۔ اس کے سوا اور اُسے کوئی شغل نہ تھا۔ اُس نے چٹھیوں اور منی آرڈروں کے سوا اور سیکھا بھی کیا تھا۔ اس روز مرّہ کے شغل پر ایک ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا اور اگر کہیں اُسے اخبار کا پرچہ مل جاتا تو زیادہ سے زیادہ دو اڑھائی گھنٹے گزر جاتے۔ اس کے بعد گھر جانے کے سوا چارہ ہی نہ تھا اور گھر پہنچتے ہی وہ اپنی دیرینہ عادت کے مطابق ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دیتا … یہ سلائی کی مشین بلا ضرورت بھلا یہاں کیوں پڑی ہے؟ اور یہ تیل کی کپّی، اور ابھی تک کسی نے کھانا بھی نہیں پکایا۔ خدا جانے اس گھر میں چار عورتیں کرتی کیا رہتی ہیں اور ان بچوں کا رونا مجھ سے تو دیکھا نہیں جاتا … غرضِ کہ پولھو رام اتنا چڑچڑا ثابت ہو رہا تھا کہ بہوؤیں تو ایک طرف خود سیتو بھی اسے محسوس کرنے لگی تھی۔

ایک دن پولھو رام دن بھر لڑتا جھگڑتا رہا اور سب کا خیال تھا کہ آج گالی گلوچ ، مار پیٹ ہو کر رہے گی۔ لیکن شام کے قریب نوبت رائے پولھو رام کا بڑا لڑکا آیا تو پولھو رام نے پوچھا۔’’وہ پچیس روپے کا منی آرڈر کروا دیا تم نے؟‘‘

’’کروا دیا پتاجی ۔‘‘ نوبت بولا۔

’’کیا فیس دی؟‘‘

’’چھ آنے۔‘‘

’’ہیں!‘‘ پولھو رام نے ایک دفعہ آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا اور پھر بے تحاشہ ہنسنے لگا۔ ’’ارے نوبت! کتنا بھولا ہے تو، یہ بھی نہیں جانتا۔ پچیس روپے کو چوّنی کمیشن لگے۔ یہ تو بازار کا ایک گنوار بھی جانے ہے اور تو جو پولھو رام ریٹائرڈ اسسٹنٹ پوسٹ ماسٹر کا لڑکا ہے، تجھے اتنا بھی نا مالوم کہ پچیس پر چونی فیس دی جائے … ہاہا … واہ رے واہ … ہاہا … ‘‘

اور پولھو رام کبھی خفا ہوتا اور کبھی ہنسنے لگتا۔ چھوٹی بہو بھی ہنسی میں شریک ہو گئی۔ بولی۔ ’’میرا جیٹھ تو سچ مچ بھولا مہیش ہے۔ دونّی مفت میں زیادہ دے آیا اور اب وہی بھرے دونّی ۔ ہاں بہن! ہم یہ دونّی سانجھے کھاتے میں نہ لکھنے دیں گے … دونّی کا نمک ہی آ جاتا ہے۔ سارا مہینہ چل جاتا ہے دونّی کا نمک۔‘‘

چھوٹی بہو بڑے گھر کی لڑکی تھی نا۔ وہی پولھو رام کے ساتھ ہر بات پر متفق ہوتی تھی۔ دونوں امیر اور فراخ دل واقع ہوئے تھے۔ پولھو رام نے کہا ’’… ہاہا … پچیس پر چھ آنے فیس دے آیا … ای ہی کھی کھی … اور نوبت بھی ساتھ مل کر ایک کھسیانی سی ہنسی  ہنسنے لگا۔

پلٹتے ہوئے پولھو رام نے پوچھا۔ ’’کون تھا بابو؟‘‘

نوبت رائے نے بڑے لمبے چوڑے طریقے سے بابو کی شکل بیان کی … وہ موٹا تھا… لیکن موٹے تو سب ہی بابو ہوتے ہیں … اُس کے نتھنے پھولے ہوئے تھے۔ پولھو رام بولا۔ ’’نتھنے تو کئی بابوؤں کے پھُولے ہوئے ہیں۔‘‘ اُس کی آنکھیں بے تحاشہ تمباکو پینے سے بہت میلی ہو چکی ہیں۔ لیکن آنکھیں تو درجنوں بابوؤں کی میلی ہیں اور آج کل تو ہر ایک بابو بے تحاشہ تمباکو پیتا ہے۔ آخر لنگی سے سمجھ میں آیا کہ بابو روپ کشن نے ہی دونّی زیادہ لے لی ہو گی۔ رسید پر بھی تو اُسی کے دستخط دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ہے ہی پاجی، بڑا کمینہ آدمی ہے، عیاش ہے، فاسق ہے۔ ایک عورت بن بیاہی ڈال رکھی ہے۔ وہ ایسی باتیں نہ کرے تو گزر کیسے ہو اور آخر تان یہاں ٹوٹی۔ ’’ارے! تو اتنے بڑے پوسٹ ماسٹر کا لڑکا ہو کر دونّی زیادہ دے آیا …۔‘‘

نوبت اور اُس کی بیوی دمینتی شرم سے گردن جھکائے رسوئی میں دبکے رہے ۔ نوبت اپنے گھٹنوں میں سر دیے کچھ سوچتا رہا۔ اُس کا جی چاہتا تھا کہ وہ رو دے۔ لیکن وہ اپنی چھوٹی بھاوجوں کے سامنے نہیں روئے گا۔ جب وہ سونے کے لیے جائے گا تو اپنی بیوی کی گود میں سر رکھ بے تحاشا روئے گا اور خوب ہی دل کا بخار نکالے گا۔ اس وقت تو وہ چولھے کے پاس بیٹھا ہوا ایندھن کے چھوٹے چھوٹے تنکے اُٹھا اٹھا کر جوالا میں پھینکتا رہا۔

شام کے قریب دروازہ کھٹکھٹائے جانے کی آواز آئی۔ پولھو رام نے سر باہر نکال کر دیکھا… اس کا قائم مقام تھا۔ پولھو رام کا دل خوشی سے اچھلنے لگا۔ وہ اُسے کچھ کہے بغیر ہی اُلٹے پانوں اندر بھاگ آیا۔ سموسے لانے اور چائے بنانے کا حکم دے کر خود بیٹھک میں چلا گیا اور بڑی عزت و تکریم کے ساتھ اپنے قائم مقام کو اندر بٹھایا۔ اس شخص کو کسی کیس میں پولھو رام سے مشورہ لینا تھا۔ پولھو رام نے فوراً الماری سے پُرانی والیوم 6 نکالی اور اُس خاص موضوع پر تمام رول اُس کے سامنے رکھ دیے اور پھر وعدہ کیا کہ وہ تمام رات بیٹھ کر ان نکتوں کے مطابق ڈرافٹ تیار کرے گا۔ پھر اُس نے بابو روپ کشن کی شکایت کی اور اس کا قائم مقام رخصت ہوا۔

اندر آتے ہی پولھو رام بولا۔’’ وہ سب کہتے ہیں میرے بغیر دفتر چوپٹ ہو رہا ہے۔ یہ بابو بھی میری طرح اڑھائی سو تنخواہ پاتا تھا … ہے ، اور مجھ سے مشورے کے لیے اتنی دُور سے چلا آیا ہے۔ ایک دن کوئی آدمی ملتان سے میری شہرت سن کر آیا تھا۔ صاحب کہتا تھا مجھے پولھو رام پر ناز ہے اور یہ ہے میرا بیٹا جس نے میرے نام کو لاج لگا دی۔‘‘

اور ریٹائر ہونے کے اس چھ ماہ کے عرصے میں آج شاید پہلا دن تھا،جب کہ پولھو رام مسرور نظر آتا تھا۔ آخر اس کا قائم مقام اتنی دُور سے مشورہ لینے کی غرض سے آیا تھا۔ پولھو رام سارا دن گاتا رہا … کچّے تاگے سے کھچی آئے گی سرکار مری … اور اُسے خوش دیکھ کر چھوٹی بہو نے اپنے بچے کو پتاجی کی گود میں دھکیل دیا۔

پتاجی بولے۔’’چھوٹی بہو کتنی اچھی ہے۔ دیکھو اسے سارے گھر کے لیے دونّی کے نمک کا خیال آیا اور تُو کنتو، تُو بڑی خراب ہے۔ تجھے اپنی بیٹی کے سوا اور کچھ سوجھتا بھی نہیں ، اور شانو … شانو ہے بھی تو بہت پیاری۔ بس اسے دیکھتا جائے آدمی … دیکھو کیسے آنکھیں موند لیتی ہے … ہات … چھی … اور میں اُسے لادوں گا ایک ملائم سی گڑیا اور سیتو! کل میں نے سیف میں دو دھیلے بھی رکھے تھے لانا ذرا وہ۔ ایک مُنّے کو دوں گا اور ایک مُنّی کو۔‘‘ اور چھوٹی بہو مسرت کے احساس سے بولی۔ ’’پتاجی! آپ نے مجھ سے رس گلوں کا وعدہ کیا ہے۔‘‘

پولھو رام بولے ’’میں جانتا ہوں تو بہت شوقین ہے رس گلوں کی۔ میں ایک … دو … تین روپئے کے رس گلے لاؤں گا اور بڑی بہو کے لیے مالا لاؤں گا اور منجھلی کوئی دوسری ہے، وہ بھی تو اپنی ہی بیٹی ہے نا۔ ایسے ہی جیسے دمینتی میری بیٹی ہے۔‘‘

دمینتی بڑی بہو اپنے شوہر کی دونّی کو بھی بھول گئی اور دل میں سوچنے لگی۔ پتاجی بھی ایسے بُرے کیا ہیں۔ مارتے ہیں تو پیار بھی تو کرتے ہیں، اور نوبت رائے اپنی بیوی کے اس انحراف پر دل ہی دل میں اُسے کوسنے لگا۔ پولھورام نے سب سے رس گلوں کا وعدہ کر لیا اور چھوٹی بہو سب کچھ سمجھتی تھی اور کہتی تھی۔ بس رس گلے ہی تو آ جائیں گے۔ کنگن بھی آ گئے، پریاگ بھی ہو آئے۔ نوبت کی ماں سمیت … اور فقط رس گلوں کی کسر ہے …

پولھورام نے تمام رات جاگ کر ڈرافٹ تیار کیا اور صبح جب وہ دفتر میں پُر غرور انداز سے داخل ہوا تو اُس کے قائم مقام کے سوا اور کسی نے اُس کی پروا نہ کی۔ صاحب بھی تینوں مرتبہ اس کے سلام کا جواب دیے بغیر گزر گیا۔ پھگو خاکروب  نے بھی اُسے قابل اعتنا نہ سمجھا۔ پولھو رام نے بابو روپ کشن سے دونّی مانگی، مگر وہ صاف مُکر گیا۔

پولھو رام نے سوچا شاید نوبت نے وہ دونّی دمینتی کو کچھ لا دینے کے لیے اڑا لی ہو گی۔ ضرورت تھی تو گدھا صاف مانگ لیتا۔ یہ اچک لینے والی بات اُس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ خیر، گھر چل کر اُس سے پوچھا جائے گا … گھر پہنچا تو نوبت موجود نہ تھا۔ پولھو رام اونچے اونچے برہمانند کے بھجن پڑھنے کے بعد گھر کی عورتوں پر برسنے لگا اور ان سب کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ خود بھی تو پولھو رام اس زندگی سے تنگ آ چکا تھا۔ یکم کی صبح کو جب وہ پنشن لینے گیا تو حسبِ دستور نوٹس بورڈ پڑھنے لگا … ڈاک خانے کو شہر کے ایک گنجان آباد علاقے میں ایک اکسٹرا ڈپارٹمنٹل ڈاک خانے کی ضرورت تھی اور اس کے لیے پچیس روپے مع کرایہ مکان اور اسٹیشنری ملتے تھے۔

اس وقت اپنے قائم مقام کی مدد کام آئی اور پولھو رام نے وہ پچیس روپے کی نوکری کر لی۔ اب وہ صبح آٹھ بجے ہی نکل جاتا تھا اور رات کو دیر سے گھر آتا۔ کام کی کثرت سے اس کا دمہ جو کہ معمولی حالت میں تھا، خوفناک صورت اختیار کر گیا۔ بسا اوقات منی آرڈر بک کرتے ہوئے اُسے دورہ پڑتا تو پیسے، بیمے، رسیدیں سب میز پر بکھر جاتیں۔ اس کا منھ سُرخ ہو جاتا۔ آنکھیں پتھرا جاتیں اور منھ میں سے کف کے چھینٹے اُڑ کر کھڑکی میں سے داخل ہونے والی روشنی کی کرن میں ایک ہیبت ناک قوسِ قزح کا رنگ بھرتے، منھ ، ناک اور آنکھوں سے پانی بہنے لگتا اور اسی حالت میں پولھو رام کھڑکی کے قریب فرش پر لوٹنے لگتا۔ پبلک کے آدمی کونٹر پر بکھرے ہوئے پیسوں کو اس کے لیے سمیٹتے اور بڑے رحم کی نگاہوں سے اس بوڑھے کی طرف دیکھتے اور کہتے۔ ’’ڈاک خانہ کیوں نہیں اس غریب بوڑھے کو پنشن دے دیتا؟‘‘

٭٭٭

 

 

 

ہڈیاں اور پھول

 

 

آٹھ،نو مہینے کے متواتر استعمال سے میرے بوٹوں کے تلے گھِس گئے تھے اور ان میں دو ایک ایسے چھوٹے چھوٹے سوراخ پیدا ہو گئے جن میں سے کیچڑ داخل ہو کر اُنھیں گیلا کرنے کے علاوہ میری طبیعت کی عیاشی کے ثبوت، یعنی ریشمی جرابوں کو خراب کر دیا کرتی۔ ایک قسم کی لچلچاہٹ کی کیفیت میں میرے حواسِ خمسہ، اپنے پانوں اور ان میں لتھڑے ہوئے کیچڑ میں سمٹ آتے۔ میرے دماغ میں کوئی نازک خیال جگہ ہی نہ پا سکتا گویا میرا دماغ ایک ناقابل گزر دلدل بن گیا ہو۔

اس وقت میں ڈرتا ڈرتا ملّم کے پاس گیا۔ ملّم ، جیسا کہ میں اسے بطور ایک پڑوسی کے جانتا تھا، ایک تنہائی پسند، غصیلا موچی تھا۔ وہ کئی بار اپنی بیوی کو پیٹا کرتا، شاید اسی لیے وہ بیمار ہو کر بچوں سمیت میکے بھاگ گئی تھی اور وہاں سے اس نے آج تک رسید کا خط بھی نہ بھیجا تھا… ملّم کی ایک چھوٹی سی فیکٹری تھی، جس میں دو تین کاریگر، ایک مٹی کے تیل کے پرانے لیمپ کے نیچے پتنگوں اور پروانوں کی بارش کے باوجود بہت رات گئے تک بیٹھے کام کیا کرتے تھے اور مجھے اپنے چوبارے پر سے فیکٹری کے ٹوٹے ہوئے روشن دانوں میں سے نظر آیا کرتے۔

ملّم کے علاوہ اس وسیع کالی باڑی میں کوئی اور موچی تھا بھی نہیں اور ملّم بھی عام موچیوں کی طرح کالی باڑی میں سے گزرنے والے ہر راہ رو کے پانو کی طرف دیکھا کرتا اور بوٹ کی پالش کے حساب سے بوٹ والے کی مالی حیثیت کا اندازہ لگاتا۔ حالاں کہ وہ عام موچیوں کی طرح ناسمجھ آدمی تھا اور جہاں تک مجھے علم تھا، وہ کچھ لکھ پڑھ بھی لیتا تھا، اس کے باوجود اُسے بھی بوٹ ہاتھ میں لیتے ہی بیس کے قریب مرمت طلب جگہوں کی طرف اشارہ کرنے کی عادت تھی … یہاں سلائی ہو گی۔ یہاں بھی سلائی ہو گی۔ اس جگہ اسٹار لگیں گے اور یہ سب کچھ ہو چکنے کے بعد ایڑیوں میں لپّا لگے گا اور اس لپّا کے لفظ سے مجھ بہت چِڑ تھی۔

کالی باڑی کے بازار میں ڈونگر محلہ کے سب کُتے اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کی دُم سونگھ رہے تھے اور ملّم اپنی آر کو ایک کھُردرے، خام چمڑے میں دیے، نہایت دلچسپی سے اِن آوارہ کتّوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے اِس سے ایک رازدارانہ لہجے میں صرف اس لیے کلام کیا کہ شاید وہ اس طرح مزدوری کم طلب کرے گا اور کیا معلوم جو وہ لپّے کا ذکر ہی نہ کرے۔

’’اِن کتّوں کا آپس میں متعارف ہونے کا ڈھنگ بھی عجیب ہے۔‘‘ میں نے ضرورت سے زیادہ ہنستے ہوئے کہا۔

ملّم نے بھی اپنے دانت دکھا دیے اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگا۔ گویا وہ کاروباری طور پر مجھ سے افضل ہے اور میری اس رمز کو اچھی طرح پہچانتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ صندوقچی میں سے کیلی ، سُتلی اور موم تلاش کرنے لگا۔ اُس وقت دوپہر کا وقت تھا اور کاریگر روٹی کھانے کے لیے کہیں گئے ہوئے تھے۔ پُرانے اور خام چمڑے کے سینکڑوں ٹکڑے اِدھر اُدھر بِکھرے پڑے تھے۔ ملّم نے آر اُٹھائی، اسے پتھر پر رگڑ ا اور میرے بوٹوں کی سلائی شروع کر دی۔

ملّم کی خاموشی کی وجہ سے میں سلسلۂ گفتگو دراز نہ کرسکا۔ کچھ دیر بعد اپنی روئی دار بنڈی کے سوتی بٹن بند کرتے ہوئے وہ خود ہی بولا۔

’’اِن کتّوں کو دیکھ کر مجھے اپنے گھر کی بات یاد آ گئی، بابوجی۔‘‘

میں تجسّس کی وجہ سے خود ہی ملّم کی بھاگی ہوئی بیوی کے متعلق گفتگو کرنا چاہتا تھا، لیکن جب ملّم نے ہی وہ سلسلہ چھیڑا تو میں نے رسمی طور پر اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’کتّوں سے؟ … گھر کی بات؟‘‘

ملّم کچھ جھینپ سا گیا اور دوسرے بوٹ کے لیے تلا تلاش کرنے کو صندوقچی پر ضرورت سے زیادہ جھک گیا۔ میں نے یہ ظاہر کیا ، جیسے میں اس کی بات بہت دلچسپی سے نہیں سُن رہا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس صورت میں وہ غصیلا موچی اپنے من کی بات کہہ دے گا۔ چنانچہ اُس نے سُتلی پر موم رگڑنے سے پہلے احتیاطاً ایک بار میری طرف دیکھا اور مجھے اپنی دیا سیلائی اور سگرٹ میں نیم متوجہ پاکر بولا۔

’’اِنھیں کتّوں کو دیکھ کر گوری نے ایسی بات کی جو اِن دنوں مجھے بہت ستاتی ہے۔ میں اس سے عموماً جلا کٹا ہی رہتا تھا۔ اُسے ذرا ذرا سی بات پر پیٹا کرتا اور کہتا، ہڈیاں توڑ دوں گا تیری۔ حالاں کہ وہ ایک ہڈیوں کا ڈھانچ ہی تو رہ گئی تھی اور اُس کے منھ پر سرسوں کی سی زردی چھائی ہوئی تھی۔ اس دن بھی ڈونگر محلہ کے سب کتّے کالی باڑی کے اس بازار میں چلے آئے تھے اور ایک بڑا سا کتا ایک کھجلی ماری کُتیا کے سامنے اپنی دُم ہلا رہا تھا، جیسے بڑا پیار رجتا رہا ہو اور گوری تو جانے کاگ بھاشا ہی سمجھتی تھی۔ وہ یہاں، اسی جگہ، اسی دہلیز، اسی دروازے کا سہارا لیے کھڑی مسکراتی رہی۔ پھر سامنے کتّوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔

’’دیکھو تو وہ کیسے دُم ہلا رہا ہے۔‘‘

اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک تنومند کُتّا بھی کُتیا کے بدصورت ہو جانے پر اُس کی محبت کا دم بھرے جاتا ہے، تو کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرسکتے؟ تم جو ایک شرابی اور بدصورت آدمی ہو۔ روگ تو جی کا ساتھ لگا ہی ہوا ہے اور پہلے میں کتنی تندرست ہوا کرتی تھی۔

اس کے بعد وہ کتّا غرانے لگا اور اپنے اگلے پنجوں سے مٹی کرید کر پیچھے کی جانب پھینکنے لگا۔ شاید وہ اپنے رقیبوں کو مقابلے کے لیے اکساتا تھا۔ لیکن میں نے گوری سے کہا۔ ’’دیکھو تو وہ کتنی نفرت کا اظہار کر رہا ہے… اُسے بھی یہ کھجلی ماری، مریل مادہ پسند نہیں۔‘‘

اس کے بعد وہ چپ ہو گئی۔ پھر جیسے کہ اس کی عادت تھی، سامنے چارپائی پر لیٹ گئی۔ اس چارپائی پر جس کے نیچے شراب کے خالی پوّے اور ادھیے اور ان کے چھوٹے چھوٹے کترے ہوئے یا ادھ ٹوٹے کاگ پڑے ہیں۔ وہ ایک گیت گنگنانے لگی، جس میں ایک آدمی اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تُو میرے لیے بلائے جان ہو گئی ہے۔ ایک دفعہ تو مر جا، مجھے رنڈوا ہونے کا شوق ہے۔ بابوجی، اس گیت کا مجھے ایک ایک لفظ یاد ہے۔ میں اس وقت گا کر نہیں سُنا سکتا اور مجھے ابھی دوسرا تلا بھی لگانا ہے … اور ہاں شاید آپ کو بھی ڈاک خانے جانا ہو گا۔

میں نے بوٹ کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔ یہ خاموش طبیعت موچی آج کتنا باتونی ہو گیا ہے اور باتونی مزدور کام اچھا نہیں کرتے۔ پھر بھی میں نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’نہیں تو ملّم … مجھے آج چھٹّی ہے۔‘‘

ملّم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ تو وہ آدمی کہتا ہے، تو اپنے میکے جا کر مرنا۔ پھر میں وہاں تیرے پھول چُننے اور تیری موت پر افسوس کرنے کے لیے آؤں گا۔ وہ جواب دیتی ہے تم ہرگز ہرگز وہاں نہ آنا۔ میں مر گئی … ماں باپ کی چندن کی شہتیری بہ گئی۔ تمھارا کیا گیا اور اس کے بعد قضا کار وہ مر جاتی ہے۔ تو وہ اس کی سمادھ پر جا کر کہتا ہے …

گوری، ایک دفعہ تو بول، دیکھ میں کتنی دھوپ میں، کتنی دُور سے پاپیادہ تیری سمادھ پر آیا ہوں۔ جنڈ کی چتکبری چھاؤں موت کی آواز بن کر کہتی ہے، میں مرے ہوؤں سے انسان کا سا عارضی پیار نہیں کرتی۔ ملّم کہتا ہے گوری ایک دفعہ تو جی لے۔ میں نے رنڈوے ہو کر بہت دُکھ پایا ہے۔

اس کے بعد ملّم نے میرے جوتوں کی سلائی چھوڑ دی۔ اپنی پگڑی سے پَلُّو اُتارا اور اُس سے اپنی آنکھیں پونچھنے لگا۔ جذبات کی رَو میں میری آنکھیں بھی نم ناک ہو گئی تھیں۔ اس وقت میں گیت کی افسانوی قیمت پر غور کر رہا تھا۔ ملّم نے ایک ایسی بات بتائی جو انسانی فطرت پر ایک طنز تھی، وہ یہ کہ جب اُس کی بیوی دلہن بن کر آئی تو ملّم اُس کی جوانی اور خوبصورتی کی بے طرح پاسبانی کرنے لگا۔ وہ اسے دروازے میں بھی کھڑی دیکھتا تو پیٹنے لگتا۔ یہ شک و شبہ کی عادت ابھی تک باقی تھی۔ اس وقت جب کہ گوری کا جسم توانا اور بھرا ہوا تھا، وہ اسے کہتا رہا۔ مجھے ایک پتلی، نازک عورت پسند ہے اور جب وہ دُبلی ہو گئی تو کہنے لگا، مجھے تم سی مریل عورتوں سے سخت نفرت ہے۔ یہ ان ہی دنوں کی بات تھی۔ جب وہ کتّوں والا واقعہ پیش آیا تھا۔

موچی کی ان سب باتوں سے میں نے یہی اخذ کیا کہ گوری آخر میکے جا کر مر گئی ہو گی۔ آخر ملّم کے اتنا جذباتی ہو جانے کا کیا سبب؟ اِس وقت مجھے وہ کہانی نامکمل سی دکھائی دی اور میں نے چونکتے ہوئے کہا۔ ’’پھر اس کے بعد کیا ہوا…؟ تم نے بات تو ختم ہی نہیں کی۔‘‘

ملّم بولا۔ اس تین چار ماہ کے عرصے میں اُدھر سے کوئی خط نہیں آیا۔ وہ پہلے ہی بہت بیمار تھی، مرگئی ہو گی۔ سنتان پور یہاں سے تین چار سو کوس دور پورب دیس میں ہے۔ ایتا تھوک ڈاکخانہ لگتا ہے۔ میں وہاں کیسے پہنچ سکتا ہوں؟ میرے پاس کرایہ تک نہیں ہے۔ میرے غصیلے پن سے سبھی نالاں ہیں۔ کوئی مجھے مانگے کی ایک کوڑی بھی تو نہیں دے ہے۔ یہاں شراب کی کچھ بوتلیں پڑی ہیں اور بس۔ بابوجی میری خواہش ہے، میں ایک دفعہ وہاں افسوس کرنے کے لیے تو چلا جاؤں!

لیکن ملّم کا وہ خیال خام تھا۔ اس چمڑے کی طرح خام ،جو اُس نے باتوں باتوں میں میرے بوٹ کے نیچے لگا دیا تھا اور جو ایک ہی مہینے میں گھِس گیا۔

اس ایک مہینے کے اندر ملّم ایک دن میرے پاس بھاگتا ہوا آیا۔ میں اس وقت چوبارے کے چھجے پر بیٹھا کاٹھ کے جنگلے پر ٹانگیں لٹکائے، پڑھنے کی بجائے کتاب کے ورق اُلٹ رہا تھا۔ ملّم نے ایک ہاتھ اونچا کیا۔

’’خط ہے …… بابوجی ایک خط ہے۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔

میں نے جلدی سے چوبارے پر سے اُتر کر خط پڑھا۔ سنتان پور سے آیا تھا۔ ملّم کو ایک دو لفظوں کی سمجھ نہ آتی تھی۔ اس خط میں گوری کے متعلق لکھا تھا ۔ وہ محض چھاچھ کے استعمال سے تندرست ہو گئی تھی اور چترتی کے بعد واپس آ رہی تھی۔ گنیش چترتی کا چاند دیکھنے سے کوئی الزام لگ جاتا ہے۔ خود کرشن مہاراج، جنھوں نے کسی جانور کے کھُرسے بنے ہوئے گڑھے میں بھرے ہوئے پانی کے اندر چاند کا عکس دیکھ لیا تھا، تہمت سے نہ بچے۔ اس چترتی کو گزار کر آنا ضروری تھا۔

خدا بیکار آدمی کو کام دے! میں ان دنوں اپنے چوبارے میں بیٹھا ملّم کی فیکٹری کے ٹوٹے ہوئے روشن دانوں میں سے ملّم کی سب حرکات دیکھا کرتا۔ جب اُس کے ساتھ کام کرنے والے کاریگر چلے جاتے تو ملّم ایک کھونٹی پر لٹکے ہوئے چٹلے کو اتار لیتا اور بڑے اجڈ اور وحشیانہ انداز سے اُسے پیار کرنے لگتا۔ جیسے کوئی ننھی مُنّی سی لڑکی گڑیا سے کھیل رہی ہو اور اپنے گرد و پیش سے بے خبر اس بے جان گڑیا سے ہزاروں بے معنی باتیں کر لیتی ہو۔ چٹلے کے علاوہ گوری کوئی میلا کچیلا دوپٹہ الگنی پر بھول گئی تھی۔ ملّم اُسے اتار کر اپنی چھاتی کے ساتھ بھینچنے لگتا ۔بیوی اور اُس کے بعد اُس کا چٹلا اور پھر دوپٹہ اور چند پوّے ملّم کی محدود کائنات تھی۔ غصیلا اور لڑاکا ہونے کی وجہ سے کوئی اُس کے پاس تک نہیں پھٹکتا تھا۔ گوری نے میکے جا کر اُسے خوب ہی سزا دی اور اپنی بیماری کا کیا سہل علاج دریافت کر لیا۔ چھاچھ!

میں سوچنے لگا۔ اب ملّم نے گوری کی قدر پہچانی ہو گی اور جب وہ چترتی کے بعد واپس آ جائے گی،تو وہ اس کی پوجا کیا کرے گا۔ اس وقت دھوپ کی معتدل حرارت میں مجھے کچھ نیند سی آنے لگی اور میں گوری کے گیت کے متعلق سوچتا ہوا اُونگھنے لگا۔ اس وقت ایک خیال میرے دماغ میں آیا — جیتے جی انسان کی ہڈیاں ہوتی ہیں اور مرنے کے بعد پھُول ہو جاتے ہیں۔

چترتی کے تیسرے روز ملّم کی بیوی کو آنا تھا۔ اس دن ملّم نے فیکٹری کے تمام مزدوروں کو چھٹی دے کر اپنے احمقانہ پن اور جلد بازی کا ثبوت دیا۔ وہ خود تمام دن گاڑی کے وقت کا انتظار کرتا رہا۔ اس دن ملّم نے روز کے نشے میں سے آدھ سیر جلیبیوں کی گنجائش نکالی اور ایک آب خورے میں آدھ سیر دودھ لا کر چارپائی کے نیچے رکھ دیا اور بلّی کے ڈر سے موری کے منھ پر چھوٹی چھوٹی اینٹیں لگا دیں۔

گذشتہ دنوں میں، ڈونگر محلہ کے چھوکروں اور کالی باڑی کے چیٹرجیوں، مکرجیوں اور باسوؤں کے لڑکوں کی گُلیّاں اور گیند ٹوٹے ہوئے روشن دان سے ملّم کی فیکٹری جا پڑے تھے۔ چھوکروں نے ڈر سے انھیں مانگنے کی جرأت ہی نہ کی تھی۔ اکیلا ملّم ہی اپنی گوری کے آنے کا منتظر نہیں تھا، وہ بچے ّ بھی اس کا انتظار کر رہے تھے اور آج ملّم کے گھر کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔ کب وہ آئے گی اور گُلی دے گی۔پڑوس کے نابینا استاد کی لڑکی ثریا کئی دفعہ پوچھ چکی تھی۔ ’’خالہ کب آئے گی؟‘‘ گوری کا پڑوس کی سب عورتوں سے میل جول تھا۔ وہ ثریا کا سر دیکھ دیا کرتی تھی جس میں پار سال لیکھیں پڑ گئی تھیں۔ فیکٹری کی پشت کی جانب جوالا پرشاد کا گھر تھا۔ وہ ایک بار ایک دن کے نوٹس پر تبدیل ہوا تھا، تو ملّم کی بیوی نے ایک دن میں اس کے تین درجن کے قریب کپڑے دھو ڈالے تھے۔ یہ سب کے سب چترتی سے ، تیسرے روز کا انتظار کر رہے تھے۔ جب وہ بار بار گوری کے متعلق پوچھتے تو ملّم کو اپنی نا مقبولیت کے مقابلے پر گوری کی مقبولیت کا احساس ہوتا۔ کبھی کبھی وہ سوچتا، شاید یہ سب کچھ گوری کی خوب صورتی کی وجہ سے ہو گا۔ عورتیں بھی تو عورتوں پر عاشق ہو جاتی ہیں۔ اس کی سہیلیاں بن جاتی ہیں اور اُس کے اردگرد منڈلاتی ہیں۔ پھر اُس میں حسد و رقابت کا جذبہ پیدا ہو جاتا اور جب کبھی کوئی نوجوان پڑوسی اس کے گھر کے متعلق بات کرتا تو ملّم نہایت شک و شبہ کی نگاہ سے اُس کی طرف دیکھتا۔ اِسی لیے میں نے گوری کے متعلق کسی قسم کی گفتگو کو یادداشت سے احتیاطاً خارج کر دیا تھا۔ حالاں کہ مجھے بھی خواہش تھی کہ میرے چوبارے کے سامنے تھوڑی سی رونق ہو جائے اور اس سونی فیکٹری کے اندر سے ایک پتلی سی خوب صورت آواز آیا کرے۔ ایک دم سے پھول سا چہرہ دکھا دے اور چھُپ جائے۔ گوری کے چلے جانے کے بعد مدت تک میں اس خلا کو محسوس کرتا رہا تھا۔ اس حالت میں یہ کمی ملّم کو کیسے نہ اکھرتی ہو گی۔ ملّم کو، جس کی گوری اپنی ملکیت تھی اور جسے اس پر بجا غرور تھا۔ اس کی مقبولیت کو دیکھ کر آج شاید پہلی دفعہ ملّم میں چڑچڑا پن چھوڑ دینے اور ہر کسی سے میل ملاپ رکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اُس نے بچوں کی گُلیاں اور گیند اُٹھائے اور میدان میں کھیلتے ہوئے بچوں کو دے دیے۔ پھر اُس نے ثریا کو بلایا۔ اُس کے ساتھ دو تین اور چھوٹی چھوٹی لڑکیاں بھی تھیں۔ ملّم نے جیب میں سے اکنی نکالی اور اسے ثریا کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے بزرگانہ شفقت سے بولا۔

’’…… یہ خرچ کر لو، لیکن دیکھو بیٹا! …… تیل کی چیز مت کھانا۔‘‘

اس ’’تیل کی چیز مت کھانا‘‘ میں زندگی ، اچھی زندگی اور اس کی متعلقہ رجائیت سے ایک غیر مشروط صلح کا جذبہ ظاہر تھا۔ اس دن ملّم اسٹیشن پر بیوی کو لینے گیا اور جب شام کو واپس آیا تو اُس کے ساتھ کوئی عورت نہ تھی۔ وہ یوں ہی مغموم اُداس واپس چلا آ رہا تھا۔ سنتان پور سے آنے والی گاڑی میں اُس کی بیوی نہیں آئی تھی۔

اُس دن ملّم نے بچے ہوئے پیسوں سے شراب منگوائی اور خوب پی اور پگڑی کے کھلتے ہوئے پیچوں کو لپیٹ لپیٹ کر گندی گندی گالیاں دیتا رہا۔ شام کے قریب اُس نے دوپٹے کو اُتارا اور اُسے آنکھوں سے لگا کر رونے لگا۔ پھر خودبخود اُس کی ڈھارس سی بندھی، اس کے باوجود کہ وہ نشے میں تھا اور وہ دیوانے کتے کی طرح منھ میں کف پیدا کیے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر گھومنے لگا۔ کبھی کبھی چٹلے کو اتار کر چوم بھی لیتا ۔مجھے ان روشن دانوں میں سب کچھ نظر آ رہا تھا۔ میں نے اپنے کمرے کے ساتھ رہنے والے یٰسین کو بھی ملّم کی حرکات دکھائیں۔

رات کے نو، ساڑھے نو بجے کا وقت تھا۔ میں اور یٰسین چھجے پر کھڑے ملّم کو دیکھ رہے تھے۔ مٹی کے تیل کے لیمپ کی روشنی میں ملّم نے ہمارے دیکھتے دیکھتے سب کپڑے اتار دیے اور ننگا کھڑا ہو گیا۔ پھر اُس نے کہیں سے اپنی بیوی کی سرخ صدری برآمد کی اور اس چارپائی پر جس کے نیچے شراب کی خالی بوتلیں اور ڈھکنے پڑے رہتے تھے، وہ اکیلی صدری پہن کر سو گیا۔

اس کے بعد ایک اور خط آیا جس میں ملّم کی بیوی نے اپنے نہ پہنچنے کی وجہ بتائی تھی۔ کہیں چترتی کے روز بھولے سے اس وہمی عورت کی نظر چاند پر پڑ گئی تھی اور اب وہ اُپائے کروا رہی تھی۔

خط میں اور باتوں کے علاوہ سنتان پور سے واپسی کی مقررہ تاریخ بھی لکھی تھی۔ اس دن حسبِ دستور ثریا اور دوسرے بچّے پوچھنے کے لیے آئے اور ہم نے قصداً اس بات کا تذکرہ نہ کیا۔ اس دن مغل پور کے اسٹیشن پر سے کسی لیڈر کو گزرنا تھا، اس لیے میں اور یٰسین نے بھی اسٹیشن جانے کا ارادہ کر لیا۔

ملّم نے اُس دن بھی حسب معمول فیکٹری کے کاریگروں کو چھٹی دے دی اور آبخورے میں دودھ منگوا رکھا۔ کاریگر بھی ملّم کے اِس اضطراب اور اس کی بیوی کے آنے پر، نہ آنے کا تذکرہ کرتے ہوئے ہنستے تھے اور ایک دوسرے کو آنکھیں مارتے تھے۔

شام کے چھٹ پٹے میں ملّم اسٹیشن کی طرف روانہ ہوا۔ ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ اسٹیشن قصبے سے پون میل کے قریب تھا اور ابھی اتنی روشنی تھی کہ راستے میں شاہ جی کے باغ کے سنگترے اور اُن کا نارنجی رنگ دکھائی دے رہا تھا۔ تین چار آوارہ جانور باڑھ کو توڑ کر باغ کے اندر داخل ہو رہے تھے اور ہمارے سامنے کوئی سو گز کے فاصلے پر ملّم سرِ راہ سنگریزوں کو ٹھوکریں مارتا ہوا اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا۔ اُس نے سر پر ایک سُرخ بنارسی صافہ باندھ رکھا تھا۔ کبھی ملّم گرد و غبار میں ہماری نظروں سے غائب ہو جاتا اور کبھی پھر اُس کا بنارسی صافہ دھندلکے کو چیرتا ہوا ہماری نظروں میں کھُبنے لگتا۔

اُس دن اسٹیشن پر بھیڑ تھی۔ کوئی آدھ گھنٹہ انتظار کے بعد گاڑی آئی۔ اس کے وسط میں ایک زنانہ ڈبہ تھا اور عورتوں کے ہجوم میں دو متجسس ، سہمی ہوئی آنکھیں فکر مندی کے احساس سے پلیٹ فارم پر گھومنے والے خوب صورت سے خوب صورت ، متمول آدمیوں کے گروہ میں ایک بدصورت، قلاش اور چڑچڑے آدمی کی جویاں تھیں۔

ملّم آہستہ آہستہ بھیڑ کو چیرتا ہوا آگے بڑھا۔ اُس نے دیکھا گوری کی صحت پہلے کی نسبت بہت اچھی ہو گئی تھی اور اُس کا چہرہ شگفتہ پھول کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ لمبے سفر کی وجہ سے تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے۔آنکھیں چار ہونے پر وہ بے صبری کی کیفیت نہ رہی، یا شاید وہ اپنی کمزوری کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا۔

ملّم نے دو ایک میلے کچیلے کپڑوں کی گٹھڑیاں، گنوں کی ایک پُولی اور چند اور چیزیں اتاریں اور اس کے بعد گوری بھی نیچے اتر آئی۔

چلتے چلتے بھیڑ میں گوری کسی کے ساتھ بھڑ گئی۔ ملّم نے اس واقعے کو دیکھا۔ اس کے علاوہ پُل کی سیڑھیوں پر چند ایک بے کار نوجوان کھڑے گوری کو دیکھ رہے تھے، جو ایک خاص قسم کی کیفیت میں امڈی سی چلی جا رہی تھی۔ ملّم نے غصے سے پیچھے دیکھا اور بولا۔

’’گوری …… ‘‘

گوری نے کانپ کر ادھر اُدھر دیکھا اور گھونگٹ سر پر ڈال لیا۔

اب اُسے راستہ نہیں دکھائی دیتا تھا۔ ملّم کے دھوکے میں اُس نے اپنا ہاتھ کسی اور شخص کے ہاتھ میں دے دیا۔ یا شاید یہ چترتی کے چاند دیکھ لینے کی وجہ سے تھا کہ ملّم نے غصّے سے ہکلاتے ہوئے کہا۔

’’یہ نئے ڈھنگ سیکھ آئی ہو ——  پھر آ گئیں میری جان کو دُکھ دینے۔‘‘

—— اُس وقت پُل کے پاس، ایک مریل سا کتّا ایک خوبصورت کتیا کے سامنے اظہار محبت میں دُم ہلا رہا تھا!

٭٭٭

 

 

 

 

 

لاروے

 

 

میرے جھونپڑے کے باہر سڑک کے کنارے ایک چھوٹا سا گڑھا ہے، جسے گذشتہ ہفتے کی رات کو بارش نے بھر دیا ہے۔ بالکل ایک چھوٹے سے دل کی طرح، جس میں جذبات کے مد و جزر پیدا ہوتے ہیں۔ اس گدلے پانی والے گڑھے میں بھی لہریں اُٹھتی ہیں، اپنے محدود ساحلوں سے ٹکراتی ہیں، فنا ہو جاتی ہیں۔

کبھی کبھی میں اپنے گھر کے پاس، بانسوں کے ایک ٹھنڈ پر پانو رکھ کر کھڑا ہو جاتا ہوں اور اس گڑھے میں ملیریا کے جراثیم سے بھرے ہوئے گندے پانی کو بڑے غور سے دیکھتا ہوں۔ اسے ہلا کر اس میں کیچڑ کے بادل پیدا کرتا ہوں اور دال بگھارتی ہوئی عزیزہ کو آواز دیتے ہوئے کہتا ہوں۔ ’’عزیزہ! اگر یہ گڑھا ایک خوبصورت جھیل ہوتا تو کیا ہوتا؟‘‘

عزیزہ حسبِ معمول ایک سوکھی سی ہنسی ہنستے ہوئے میری بات کو دہرانے ہی پر اکتفا کرتی ہے اور میں سوچتا ہوں اگر یہ گڑھا نیلے پانی کی ایک خوبصورت جھیل ہوتا تب بھی شاید عزیزہ کے دل کی دھڑکن ویسے کی ویسی رہتی … لیکن اس کے باوجود جھیل کا خیال آتے ہی میرے دل کا تمام، جراثیم سے پٹا ہوا، گدلا پانی متحرک ہو جاتا ہے اور میں جذبات کے ڈونگے پر بیٹھا ہوا پانی میں بہت دور نکل جاتا ہوں۔ غالباً چاندنی رات ہوتی ہے اور میں وحشیانہ انداز سے گاتا ہوں … او مری چاندنی راتوں کے خدا … اس وقت مجھ پر لیؔ پوکی سی مجنونانہ کیفیت طاری ہوتی ہے اور میں خوشی اور روشنی کے ہر پرتو کو خوشی اور روشنی سمجھ کر جھیل کے وسیع پانیوں میں ڈوب جاتا ہوں۔ کاشمیری ڈل کے تمام وہ نظارے میرے ذہن میں پیدا ہو جاتے ہیں، جو میں نے کبھی نہیں دیکھے۔ البتہ ہر سال دیکھنے کا تہیہ کرتا ہوں لیکن یا تو سرکاری حکم کی تعمیل میں بندوقوں والی بارکوں کا ٹھیکہ ختم کرنا ہوتا ہے اور یا میرا مختصر سا اثاثہ عزیزہ کی دھڑکن کے علاج میں ختم ہو جاتا ہے ……

بارش کے بعد چوماسا ہوتا ہے اور چوماسے کے بعد بارش۔ بارش چوماسے کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور چوماسہ بارش کا پیش خیمہ۔ حتیٰ کہ یہ دونوں شوریدہ سر بچّے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے گھر سے بہت دُور نکل جاتے ہیں اور اس کے بعد دھوپ رہ جاتی ہے اور نام اللہ کا۔ کچھ دن تک تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ نام اللہ کا بھی نہیں رہا۔ فقط دھوپ ہی دھوپ رہ گئی ہے اور اس عالم میں ننھّا بھُورا سائیس، بلاّ چاچا، پریتم داس آنریری مجسٹریٹ اور چھپرکھٹ کے پیندے میں لگی ہوئی عزیزہ، کسی کو توقع نہیں ہوتی کہ ذخیرے کے پیپل اور لہسوڑے مل کر تالیاں بجائیں، اور نہ ہی کسی کو شیشم سے گرتے ہوئے پتّوں کے لیے نوحے کی توقع ہوتی ہے۔ نباتات، چرند و پرند خاموش، انسان و حیوان خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جیسے قدرت کے ممتحن نے اِن سے کوئی نصاب سے خارج سوال پوچھ لیا۔ اُس وقت پریتم داس کا ہیبت ناک ڈِنگو (کتّا) اور میں، دونوں زبانیں باہر نکالے ہوئے اس گڑھے کی طرف رجوع کرتے ہیں … گڑھے میں بارش نہیں، اُس کی حسین یاد باقی رہ جاتی ہے جسے دیکھ کر یہ بہشتی خیال آتا ہے … کبھی بارش ہوئی تھی، کبھی بارش ہو گی!

ایک شام، بارکوں کے لیے پھُوس لدو اُچکنے کے بعد جب میں اس گڑھے کے قریب آیا تو میں نے دیکھا کہ گڑھے کے پانی میں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے دُمدار مینڈک اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر تیر رہے تھے اور گڑھے کے ساحلوں پر لاتعداد لاروے چمٹے ہوئے تھے۔ کبھی کوئی لاروا یک لخت اپنے سمندر کے ساحل کو چھوڑ دیتا اور لاپروایانہ، کھلنڈرے پن سے اپنی دُم کو سر کے ساتھ لگاتا، چھوڑتا ہوا بہت دُور تک پانی میں نکل جاتا اور گڑھے کی تہ میں اُگی ہوئی نباتات میں بسنے والے کِرمکوں کے درمیان میں سے ہوتا ہوا پھر اپنے ٹھکانے کو لوٹ آتا۔ دُمدار مینڈک اِن ننھّے منّے جھانجوں کی طرح، بے ڈھنگے انداز سے قلابازیاں کھاتے ہوئے، کبھی سطح پر چلے آتے اور کبھی تہ میں بیٹھ جاتے۔ میں نے اِسی ٹھنڈ پر کھڑے ہو کر اِن جھانجوں کی ناقابل فہم حرکتوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ آخر کیا چیز اُنھیں بظاہر بے مقصد اور بے معنی طور پر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تیرنے کے لیے مجبور کرتی ہے؟ کون سے ریاستی رازوں کو سینے میں لیے، کون سی سیاسی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے یہ اپنی بستی کو چھوڑتے ہیں، پھر لوٹ آتے ہیں؟ پھر خیال آتا ہے شاید یہ لاروے، یہ جراثیم، یہ دُمدار مینڈک پراگندہ خیالات ہیں جو گڑھے کے دِل میں اُٹھتے ہیں۔ جیسے کبھی کبھی بیٹھے بٹھائے مجھے خیال آتا ہے کہ کل ڈھولن کی بڑی  بِٹو میری طرف دیکھ کر مسکراتی تھی، اپنی انگلیوں سے سامنے کے قصاب خانے کی دیوار پر کوئی نشان بناتی تھی…… جی ہاں، اس قسم کا خیال بھی تو ایک لاروا، ایک دُم دار مینڈک ہی تو ہوتا ہے جو اپنے مخصوص کھلنڈرے انداز سے تیرنے کے لیے دل کے ساحل کو چھوڑ دیتا ہے اور پانی میں بہت دُور، موتھے اور فضول نباتات کے آبی مرغزاروں میں ہوتا ہوا پانی کی سطح پر نمودار ہوتا ہے۔ اس کے بعد جب یاد آتا ہے کہ ننھّے بھورے سائیس نے میری گذشتہ ماہ کی اٹھنی مار لی ہے، تو میں اُسے نقصان پہنچانے کے ہزاروں منصوبے گانٹھتا ہوں ،لیکن محسوس کرتا ہوں کہ یہ خیال بھی ایک جھانجا ہے جو کہ تیرتا ہوا دُور پانی میں نکل جاتا ہے، لیکن پھر ساحل کو آ چمٹتا ہے۔ گویا ساحل اُس کے لیے محض ایک منزل نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے۔ بالکل ایک ایسی حقیقت ہے، جیسے میرے منھ پر خشخشی داڑھی ہے اور میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ اس داڑھی کو دیکھ کر ڈھولن کی بڑی بٹو کبھی پسیج نہیں سکتی۔ کبھی قصاب خانے کی دیوار پر اپنی انگلیوں سے نشان نہیں بنا سکتی۔ ایسے ہی جیسے میرا تمام اثاثہ عزیزہ کی ایک فضول، دیرینہ بیماری پر ختم ہو چکا ہے اور اِسی وجہ سے میں کشمیر دیکھنے کے ناپاک ارادے کو دماغ میں گھسنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

جوں جوں دن گزرتے گئے، گڑھے میں اور کثافت پیدا ہوتی گئی اور اس میں مزید انڈے اور لاروے پیدا ہوتے گئے۔ مجھے اِن بد زیب، بے ڈول، نامکمل جھانجوں سے ایک قسم کا اُنس پیدا ہو گیا تھا۔ میں اِن کے لیے اپنے دل کے کسی کونے میں محبت کا جذبہ پانے لگا … ایسا ہی محبت کا جذبہ، جو میرے دل میں، اپنے بڑے بیٹے فخرو کے لیے پیدا ہوتا ہے، یا اپنی شیر خوار بچّی خالدہ کے لیے … اس گڑھے میں ملیریا کے خطرناک جراثیم پل رہے تھے۔ لیکن میرا جی چاہتا تھا کہ نہ صرف آنریری مجسٹریٹ اور ننھے بھورے کو ملیریا ہو جائے بلکہ مجھے، عزیزہ اور میرے سب بچوں کو یہ بیماری لاحق ہو۔

مجھے ان لارووں سے ایسے ہی اُنس تھا، جیسے کہ مجھے اپنے پراگندہ خیالات سے محبت تھی۔ اب بھی جب کبھی صبح کو ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو میں چارپائی پر لیٹا ہوا اپنے پراگندہ خیالات کی مدد سے دنیائے حقیقت کے تمام ناممکنات کو ممکنات سے ہم کنار کر دیتا ہوں۔ مثلاً سوچتا ہوں کہ ٹھیکے کے سامنے کوٹھی میں بسنے والے سیمنٹ کے بادشاہ کی نوجوان لڑکی خود بخود میرے پاس چلی آئی ہے… یا آج میں نے بڑے سردار صاحب کی جیبوں سے نوٹوں کے تمام بنڈل اچک لیے ہیں اور عزیزہ کو ساتھ لیے ایک کار میں بیٹھا کشمیر کی طرف بھاگا جا رہا ہوں۔ اب کشمیر کے نشاط باغ میں ہوں۔ میں اور عزیزہ بڑے بڑے سُرخ ’’گلاس‘‘ جو کہ ڈاکٹر نے اُس کے لیے مفید بتلائے ہیں، کھا رہے ہیں۔ ہماری ٹانگیں پانی میں ہیں اور برفانی پانی ہمارے پانو کو چھوتا ہوا دور کسی نامعلوم جگہ کی طرف جا رہا ہے اور جس طرح میں اپنے دل کو من مانی کارروائیاں کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتا ہوں، اِسی طرح اُس گڑھے میں لارووں کو تیرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اب جب کہ گڑھے کا پانی سوکھتا جا رہا تھا میں سوچنے لگا، ان نرم نرم جھانجوں اور ان مدبّر مینڈکوں کا کیا ہو گا؟ کیا یہ چوماسا کبھی ختم نہ ہو گا؟ ایک دن گڑھے کا پانی سوکھ جانے سے یہ سب ختم ہو جائیں گے۔ جیسے میرے دل کی آبیاری نہیں ہوتی، کیا اس گڑھے کی آبیاری بھی نہ ہو گی؟ میں ہر روز آسمان کے کسی کونے میں لٹکے ہوئے بادل کو دیکھا کرتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک معمولی سا بادل، بادلوں کی ایک فوج کے ہراول میں آتا ہے … لیکن اس دن کمیٹی کا داروغہ اس گڑھے کی طرف آتا دکھائی دیا۔ میں نے قریب پڑے ہوئے کنیر کے پتوں سے اس گڑھے کو ڈھانپنے کی کوشش کی۔ لیکن مکھی کی طرح صفائی کا داروغہ بھی طبعی طور پر غلاظت کے تمام اڈوں سے واقف ہوتا ہے، اور اس داروغہ کو بھی اس گڑھے کا علم تھا۔ اس کے ساتھ رامو کہار، ایک خاکروب، دو نوجوان، نو ملازم ہیلتھ وزیٹر … انسانی تہذیب کے لاروے بھی آ رہے تھے۔ وہ لوگ اس گڑھے میں لال دوائی پھینک کر تمام جراثیم ہلاک کرنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا … اس کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ میرے فخرو کو مار ڈالنا چاہتے ہو، میری خالدہ کو زہر دینے آئے ہو … لاؤ تمھارا کام میں آسان کیے دیتا ہوں۔ میں ملیریا کے تمام اڈوں سے واقف ہوں اور پختہ پُل کے رقبے میں جراثیم کو تباہ کرنے میں مجھ سے زیادہ کوئی بھی آپ کا ممد و معاون ثابت نہ ہو گا۔

نوجوان ہیلتھ وزیٹر نے پُر شکوک نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور بالآخر اُس نے تمام دوائی میرے ہاتھ میں دے دی کہ ہر روز صبح اُٹھتے ہی اُسے تمام گڑھوں میں پھینک کر ان لارووں کا خاتمہ کر دیا کروں گا۔ میں نے اِن سب کو یقین دلایا، جس کے بعد وہ چلے گئے اور میں نے وہ لال دوائی واٹرورکس کی بیس ہزار گیلن والی ٹنکی میں پھنکوا دی۔

میں حسبِ دستور ہریکے کی طرف سے آنے والی سڑک کے پاس پُل پر ٹانگیں لٹکائے اُس گڑھے کے قریب بیٹھا تھا اور مچھّر میرے سر پر سُریلی تانیں الاپتے ہوئے اُڑ رہے تھے۔ میں نہیں جانتا، وہ بے بضاعت پشّے اپنی بھاشا میں کیا اور کون سا راگ الاپ رہے تھے۔ شاید وہ کہہ رہے تھے، اے اللہ کے نیک بندے ! تُو نے ہماری اولاد کی خبرگیری کی ہے، ہم تیری اولاد کی خبرگیری کریں گے، اور انھیں جلد ہی اس دُنیا کے جیل خانے سے نجات حاصل کروا دیں گے۔ یعنی ملیریا کے سب سے زیادہ تندرست جراثیم فخرو اور خالدہ کے جسم میں داخل کریں گے۔ میں نے جواباً کہا، اے میرے عزیز مچھّرو … ! میں نے تمھاری اولاد کو بچا کر تم پر کوئی احسان نہیں کیا ،بلکہ ایک معمولی انسانی فرض ادا کیا ہے۔

گرمیوں کے شروع میں چھاؤنی کے ہیڈ کوارٹر ز ڈلہوزی جا چکے تھے اور انگریزی رجمنٹ کے بھی نصف سے زیادہ سپاہی ڈگشائی اور لوئرٹوپا پہنچ گئے تھے۔ اِن دنوں ننھے بھورے کا بیکار ٹٹو سارا دِن تھان پر بندھا رہتا اور ہر روز دوپہر ایک بجے کے قریب زور زور سے ہنہنایا کرتا۔ شاید وہ اِس ایذا رساں نمدے والے جوئے کو یاد کرتا تھا جو کہ چند دنوں سے اُس کے کندھے پر نہیں ڈالا گیا تھا۔ ننھے بھورے کا ٹٹو ،ان بیکاری کے دِنوں میں یا تو کثرت سے پیشاب کیا کرتا، یا اپنی پچھاڑی سے لید کو چاروں طرف بکھیر دیتا۔ اس کے علاوہ اُسے عزیزہ کی دونوں بکریوں سے خدا واسطے کا بَیر تھا۔ ان بکریوں کے نام گنگی اور جمنی تھے اور اُنھیں عزیزہ غازی آباد سے جہیز میں لائی تھی۔ جب گنگی اور جمنی اپنے گلے کے گھنگروؤں کو بجاتی ہوئی، سبک رفتاری کے ساتھ اُس کے پاس سے گزرتیں تو وہ اپنی ٹانگوں کو ہوا میں اچھالنے لگتا اور رسّا تڑانے لگتا۔ وہ اپنے جسم کو گزند پہنچانے والی مکھیوں کی بجائے ،بے ضرر بکریوں کو اپنا دشمن سمجھ لیتا۔ ٹانگیں ہوا میں اچھالنے سے بکھری ہوئی لید میں بسنے والے تمام مچھّر اڑنے لگتے اور کیہرُو خاکروب ان مچھّروں کو بھگانے کے لیے فوراً املتاس اور شیشم کے سوکھے ہوئے پتّوں میں آگ لگا کر گہرا دھواں پیدا کر دیتا۔ پیشاب اور لید کے تعفن، مچھروں کی گھوں گھوں اور دھوئیں کی کثافت سے عزیزہ کا دل اور بھی ڈوبنے لگتا۔

جب بارش کے خدا نے میری عرض داشت مسترد کر دی اور گڑھا زیادہ سوکھ گیا تو میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ میں نے پچاسی بنگلہ کے مالی سے گینتی مانگی اور ننھے بھورے کے ٹٹو کی ناند سے لے کر اس گڑھے تک ایک نالی بنائی اور صاف اور تازہ پانی کو نالی میں اُنڈیل دیا… گڑھا پھر لبالب بھر گیا۔ میں پھر شام کو تاڑی لے کر گڑھے کے پاس جا بیٹھا اور کھانستے ہوئے ان کی تمام نقل و حرکت کا اندازہ کرنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ اس تازہ اور شفاف پانی نے ایک ہی دِن میں لاروے کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ وہ ڈھاب کے کناروں سے جُدا نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں وہ پہلی سی چُستی اور کھلنڈرا پن رہا ہے۔

اِ ن دِنوں آنریری مجسٹریٹ کشمیر جا رہا تھا اور اس کی چھوٹی بیوی، عزیزہ کو بطور رفیقہ کے ساتھ لے جانا چاہتی تھی۔ میں حقیقت حال سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ وہ عزیزہ کو بطور خادمہ کے ساتھ رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن میں اس بات کے لیے فوراً رضامند ہو گیا۔ محض اسی وجہ سے کہ وہ خواب، جن کی تکمیل میں ابھی تک اپنی زندگی میں نہیں دیکھ سکا، اپنی عزیزہ کی زندگی میں پورے ہوتے ہوئے دیکھ لوں ۔ اس کے علاوہ خنک ہوا اور مصفّا پانی میسر آنے سے عزیزہ کی صحت بھی اچھی ہو جائے گی۔ صرف راستے کی اونچ نیچ کی وجہ سے اس کا دل ڈوبنے کا احتمال تھا۔ لیکن مجسٹریٹ کی اپنی کار تھی۔ مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ لوگ اسے بڑے آرام سے کشمیر لے جائیں گے۔ میں نے ایک نامکمل سی خوشی میں گنگی اور جمنی دونوں کو بیچ دیا اور ان پیسوں سے عزیزہ کے لے کچھ کپڑے لتّے اور ایک کمبل خرید لیا اور ان لوگوں کے ساتھ اسے کشمیر روانہ کر دیا۔

مجھ جیسے لوگ، جو اپنے تخیل کی مدد سے کثیف گڑھوں میں ہی خوبصورت جھیلیں دیکھ لیتے ہیں، قدرت بھی اُنھیں کثیف گڑھوں سے پرے جانے کی طاقت نہیں بخشتی… اس وقت جب کہ عزیزہ کشمیر کی ٹھنڈی ہوا کھا رہی ہو گی، میں اس گڑھے کے قریب بیٹھا ہوں گا۔ کام کے وقت کا بیشتر حصہ اس گڑھے کے پاس ہی گزرتا تھا۔ لیکن صاف پانی کی وجہ سے پہلے جھانجے مر چکے تھے۔ پچاسی بنگلے کے مالی نے مجھے بتایا کہ پانی کے باسی اور گندے ہو جانے سے اور کیڑے پیدا ہو جائیں گے اور دُمدار مینڈکوں میں بھی وہی پہلی سی چُستی عود کر آئے گی۔ ننھے بھورے کے ٹٹو کا پیشاب بھی اُسی نالے کے راستے سے گڑھے میں آنے لگا …

اور ایک دن میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب کہ میں نے پھر مینڈکوں، لارووں کو پانی میں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر اپنے مخصوص، بے ڈھنگے انداز سے تیرتے ہوئے دیکھا۔ پانی کے باسی اور پیشاب وغیرہ کی وجہ سے گندہ ہو جانے سے گڑھے میں پھر ایک بار رونق پیدا ہو گئی اور میں ایک گونہ مطمئن، کھاٹ پر لیٹ کر زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگا۔

دھوپ اتنی تیز ہو چکی تھی اور چوماسا اس آفت کا تھا کہ پُل کے ارد گرد کا سارا رقبہ کھمبیوں سے بھر گیا۔ لیکن اس دن سے میں نے کبھی آسمان کی طرف بارش کے لیے نہیں دیکھا۔ میں جانتا تھا کہ آسمان سے تازہ پانی پڑتے ہی یہ کیڑے ہلاک ہو جائیں گے اور جب تک یہ پانی پھر کثافت سے آلودہ اور باسی نہ ہو گا ،مزید لاروے وجود میں نہیں آئیں گے۔

چوماسے کے دوسرے دن بڑی موسلا دھار بارش ہوئی۔ اس وقت میں تنِ تنہا اپنی جھونپڑی میں بیٹھا، اپنا پھٹا ہوا پاجامہ سی رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ لالہ کا دو ماہ کا بِل کیسے ادا ہو گا کہ باہر کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے فوراً اُٹھ کر دروازہ کھولا۔ میرے سامنے تار کا ہرکارہ تھا۔ عمر تیس پنتیس برس کے قریب ہو گی۔ چہرے کے سیاہ رنگ میں سے دو سرخ ڈوروں سے بھری ہوئی آنکھیں پھٹی پڑتی تھیں۔ اُس کی خاکی وردی تمام بارش میں بھیک چکی تھی اور پانی کے قطرے اُس کی کنپٹیوں سے ہوتے ہوئے داڑھی کے بالوں سے قطرہ بہ قطرہ ٹپک رہے تھے۔ ایک انگلی سے چہرہ پونچھنے کے بعد اس نے خاکی بلوز کے نیچے سے ایک بھیگا ہوا لفافہ نکالا اور بولا۔ ’’میاں عزیز الدین ٹھیکیدار کے مختار آپ ہیں؟‘‘

میں نے بغیر جواب دیے اُس بھیگے ہوئے لفافے کو ہاتھ میں لے کر کھولا۔ تار پریتم داس کی طرف سے تھا۔ لکھا تھا ،’’عزیزہ کو پہاڑ کا تندرست پانی راس نہ آیا۔ اُسے کل ہِل ڈائریا و پیچش کی شکایت ہوئی اور آج اچانک صبح کے سات بجے وہ مر گئی۔ چونکہ تمھارا ایک دن میں پہنچنا مشکل ہے، اِس لیے میں ڈاکٹر کی سند لے کر اُسے دفنا رہا ہوں۔ اپنی رضامندی بذریعہ تار بھیجو۔‘‘

میرے دماغ نے اِس حادثے کی اطلاع کو قبول نہ کیا۔ میں نے فقط دروازے تک پہنچتے ہوئے اتنا کہا۔ ’’اے خدا! تو اپنی بارش کو تھام لے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

گھر میں ، بازار میں

 

 

دیوار  پر لٹکتے ہوئے ’’شیکوشا‘‘ نے صبح کے آٹھ بجا دیے۔ درشی نے آنکھ کھولی اور ایک سوالیہ نگاہ سے نئے آبنوسی کلاک کی طرف دیکھا، جِس کی آٹھ سریلی ضربیں اُس کے ذہن میں گونج پیدا کرتی ہوئی ہر لحظہ مدھم ہو رہی تھیں … ایک گھٹیا سا قالین تھا اور یہی ایک کلاک جو درشی کے استاد نے اُسے شادی کے موقع پر بطور تحفہ دیا تھا۔ شاید وہ چاہتا تھا کہ اس کی شاگرد ایک اچھی بیٹی ہونے کے علاوہ ،ایک اچھی بیوی بھی ثابت ہو جائے … اور ہر روز صبح شیکو شا اپنے مستقل، طنزیہ انداز میں مسکراتا ہوا کہہ دیتا۔

’’میں سب کچھ جانتا ہوں، لیکن اب تو آٹھ بج گئے ہیں، سست لڑکی!‘‘

درشی کا پورا نام تھا پریہ درشنی۔ پریہ کا مطلب ہے پیاری اور درشنی کا مطلب ہے … دکھائی دینے والی، یعنی جو دیکھنے میں پیاری لگے، دل کو لبھائے، آنکھوں میں نشہ پیدا کرے … شاید اسی لیے درشی کو رات بھر جاگنا پڑتا تھا اور شیکوشا سے نظریں چُرانا ہوتیں … درشی بچپن ہی سے عصبی طور پر نحیف اور ضرورت سے زیادہ حساس تھی، اور اب شادی کے بعد محبت کی بے اعتدالیوں سے وہ نسوں کی اور بھی کمزور ہو گئی۔

سسرال میں چند دن کے بعد جو سب سے بڑی دقّت درشی کو پیش آئی، وہ اپنے خاوند رتن لال سے پیسے مانگنا تھی۔ اس سے پہلے وہ اپنے باپ سے بلا تامل پیسے مانگ لیا کرتی تھی اور اگر کبھی وہ اپنے مربعوں کے کام میں چوک بھی جاتے، تو درشی، اُن کی لاڈلی بیٹی ، اُن کے کوٹ کی جیب میں سے ضرورت کے مطابق نکال لیا کرتی، ’’پاپا‘‘ کا کوٹ ہمیشہ زنانے میں کسی پیٹی کوٹ کے اوپر ٹنگا ہوا مل جاتا تھا۔ اپنے میکے سے جتنے پیسے وہ ساتھ لائی تھی، وہ سب شگن کے پیسوں سمیت ایک خوبصورت، طلائی گھڑی پر ختم ہو چکے تھے۔ خرچ کی یہ مد وہ رتن سے چھپانا نہیں چاہتی تھی، البتہ رتن سے ضرورت کے مطابق پیسے مانگتے ہوئے بھی شرماتی تھی۔ جب اُن کی روحوں کا ملاپ ہو گا، تب وہ پیسے مانگ لے گی۔ اس صورت میں وہ پیسے مانگ کر بِکنا نہیں چاہتی۔

کئی دفعہ بازار میں کسی چیز کی خرید ہوتی تو درشی اپنی پتلی پتلی، نازک، کانپتی ہوئی انگلیاں اپنے صابر کے خوبصورت لیکن خالی بٹوے میں ڈال دیتی اور کہتی …

’’چھوڑیے، رہنے دیجیے … پیسے میں دوں گی۔‘‘

رتن لال اسی وقت درشی کا ہاتھ تھام لیتا اور سیلزمین سے نظریں چُراتا ہوا، محبت کے انداز سے درشی کی طرف دیکھتا اور کہتا۔

’’ایک ہی بات تو ہے ، درشی۔‘‘

اس وقت درشی محبت کی ایک پُر لطف ٹیس محسوس کرتے ہوئے چپ ہو جاتی ۔ اُسے یقین تھا کہ رتن کبھی بھی اُسے پیسے ادا کرنے نہیں دے گا۔ کیا وہ اُس کی بیوی نہیں ہے؟ آخر کیا اِس کا فرض نہیں کہ وہ خود ہی اُس کے تمام چھوٹے موٹے خرچوں کا کفیل ہو؟

ان دِنوں برسات شروع تھی اور رتن کا برساتی کوٹ بہت پُرانا ہو چکا تھا۔ بارش کے قطرے اِس میں کسی نہ کسی طرح گھس ہی آتے تھے۔ اُسے خریدنے کے لیے درشی اور رتن بازار گئے۔ سو سٹیکا سٹورز میں انھیں ایک اچھا سا کوٹ مل گیا۔ قیمت طے ہونے سے پہلے ہی درشی نے حسبِ دستور بیگ کے بٹن کھول دیے اور بولی۔’’پیسے میں دیتی ہوں، رہنے دیجیے۔‘‘

رتن لال نے اپنے ہاتھوں میں دس کا نوٹ مسلتے ہوئے کہا۔

’’اچھا، تو تمھارے پاس ریزگاری ہو گی؟‘‘

درشی گھبرا گئی۔ اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ اس نے یونہی کچھ دیر کے لیے بیگ کو ٹٹولا اور زبردستی مسکراتے ہوئے بولی۔

’’اوہ! بھول گئی میں … ریزگاری تو میرے پاس بھی نہیں۔‘‘

رتن لال نے اسی اثنا میں انگلی کے گرد نوٹ کے بہت سے چکر دے ڈالے اور عصبی طور پر کمزور درشی خاموش رہنے کی بجائے کہنے لگی ’’ریز گاری تو گھر ہی رہ گئی … میرے پاس تو پانچ پانچ کے نوٹ ہوں گے۔‘‘

درشی نے غالباً یہی سمجھا کہ رتن لال پھر ایک دفعہ میٹھی نگاہ سے اُس کی طرف دیکھ لے گا اور پھر پیسوں کی ادائیگی کا سوال ہی نہیں اُٹھے گا۔ لیکن وہ یہ بھول ہی گئی کہ شادی کو ایک ماہ سے کچھ زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور اب تکلف کی چنداں بات نہیں رہی۔ رتن نے کوٹ کو اتارتے ہوئے کہا۔

’’تو اچھا ، پانچ پانچ کے دو نوٹ ہی دے دو، یہ لو، رکھ لو دس کا نوٹ۔‘‘

اس وقت درشی کے کان گرم ہو گئے۔ جسم پر چیونٹیاں رینگنے لگیں۔ اس نے بلاوجہ برساتی کو اِدھر اُدھر اُلٹانا شروع کیا۔ برساتی کے ایک کنارے پر سوراخ تھا۔ اس سوراخ میں اُسے نجات کی راہ دکھائی دی جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُس نے نہایت خشمگیں انداز سے کہا۔

’یہ تو پھٹی ہوئی ہے … کوڑی کام کی نہیں یہ۔‘‘

اور پھر دُکاندار کو مخاطب ہوئے اسی لہجے میں بولی۔’’بھلا آپ نے ہمیں کیا سمجھ رکھا ہے جی، جو پھٹاوا کوٹ ہمیں مڑھ رہے ہیں؟‘‘

سیلزمین بالکل گھبرا گیا اور فوراً نئے کوٹ لینے کے لیے دُکان کے اوپر چلا گیا۔ درشی کی برہمی کی وجہ سے رتن بھی سہم گیا اور ایک مصنوعی غصّے سے دُکاندار کی طرف دیکھنے لگا۔ اسی وقت درشی نے رتن کو بازو سے پکڑا اور باہر لے آئی۔ سامنے سیڑھی پر سیلزمین برساتیوں کے بوجھ سے لدا ہوا اسٹاک روم سے نیچے اتر رہا تھا، لیکن اس کی حیرانی کی حد نہ رہی جب اُس نے دیکھا کہ وہ حسین جوڑا نظروں سے غائب ہو چکا تھا …

رتن نے دیکھا درشی کے منھ پر سیاہی بکھر گئی تھی اور ماتھے پر ایک بڑے سے قرمزی دھبے میں سے پسینہ کے قطرے بے تحاشا اُمڈ رہے تھے۔ بازار سے لے کر گھر تک اس کی بیوی لکنت بھری باتیں کرتی رہی … اور رتن اس کی ایک بات کا بھی مطلب نہ سمجھا، اور جب اُس نے تانگے پر سے ہاتھ دے کر درشی کو اتارا تو اُسے معلوم ہوا کہ درشی کے ہاتھ پانو ٹھنڈے ہو رہے تھے … اور چونکہ وہ عورت کے سیدھے سادے تسلسل کی ایک کڑی کھو بیٹھا، اس نے مرد کی دیرینہ عادت کے مطابق کہنا شروع کیا … عورت ایک معمّا ہے۔ شوپنہار کہتا تھا …

اگلے دن درشی سو کر اُٹھی تو آٹھ کی بجائے آٹھ پینتیس ہو چکے تھے اور سورج ان کے دریچہ پر آ گیا تھا۔ اُس کی شعاعیں کلاک کے شیشے میں سے منعکس ہوتی ہوئی درشی کے چہرے پر پڑنے لگی تھیں۔ کلاک کے بڑے بڑے رومن ہندسوں میں خالی سفید جگہ، بڑے بڑے دانت بن گئی تھی۔ یوں دکھائی دیتا تھا جیسے شیکوشا طنز کی حد سے گزر چکا ہے اور کھلکھلا کر ہنس رہا ہے۔

… اور شیکوشا اکیلا ہی نہ تھا۔ اس کے ساتھ ککو کی ماں بھی تو شریک ہو گئی تھی۔ ککو کی ماں رتن کے ہاں ملازمہ تھی۔ وہ ایک بیوہ عورت تھی۔ صبح جب وہ چائے لے کر آئی تو رانی جی کو یوں تھکے تھکے دیکھ کر ’’خی غی … غی خی‘‘ کے انداز سے ہنسنے لگی۔ گویا کہہ رہی ہو ہم بھی بہت دن گئے جاگا کرتے تھے۔ ہماری آنکھوں میں بھی خمار ہوتا تھا اور اب راتوں کو جگانے والے بھگوان کے دوارے ہی چلے گئے، آہ! مجھے وہ دن یاد ہے جب وہ میرے لہنگے کے لیے بہت سندر گوٹا اور کنگری لائے تھے … اس دن تو وہ پہلے اندر ہی نہیں آئے۔ دروازے پر ہی کھڑے مسکراتے رہے اور جب اندر آئے تو اُن کا بات کرنے کا ڈھنگ بھی عجیب تھا اور وہ گوٹا دیکھ کر میری سب تکان اتر گئی تھی۔

درشی نے چلاّتے ہوئے کہا۔ ’’ککو کی ماں!‘‘

ککو کی ماں کے لبوں پر تبسم نہیں رہا۔ صرف اس کا سایہ رہ گیا۔ ہلکی سی سرخی سے اُس کا رنگ سپیدی اور سپیدی سے زردی اور سیاہی مائل ہو گیا اور وہ حیرت سے کلاک کی ٹِک ٹِک کو سننے لگی۔ درشی کے لیے وہ معمولی ٹِک ٹِک ہتھوڑے کی ضربوں سے کم نہ تھی۔ استاد کی عزت ملحوظِ خاطر نہ ہوتی تو وہ پتھر مار کر اس کی ٹِک ٹِک کو روک دیتی… ککو کی ماں سوچ رہی تھی۔ آخر مالکن کیوں خفا ہو رہی ہے۔ حالاں کہ رتن بابو نے اُسے ایک نئی ساڑی خرید کر لادی ہے، جس پر پورا ایک ہاتھ چوڑا طلائی باڈر لگا ہے اور اس کے اندازے کے مطابق اس کی تمام تھکاوٹ دُور کر دینے کے لیے کافی ہے۔

درشی نے کہا۔ ’’آج پھر تو نے چمچہ بھر چائے کے پانی میں دودھ کی گاگر انڈیل دی۔‘‘

ککو کی ماں نے سہمے ہوئے کہا۔ ’’رتن بابو نے کہا تھا ، رانی۔‘‘

’’کیا کہا تھا اُنھوں نے؟‘‘

’’کہا تھا … رانی بیمار ہے۔‘‘

ککو کی ماں نے ٹرے اٹھائی اور آنکھوں سے ایک ہاتھ چوڑے طلائی باڈر کو دیکھتی اور دل میں بھگوان کو کوستی ہوئی چلی گئی۔ درشی سوچنے لگی ،کیا رتن کو اس کی کمزوری کا پتہ چل گیا ہے؟ اسی لیے تو وہ اس قسم کی چائے کو میرے لیے غیر مفید سمجھنے لگا ہے، اور کیا معلوم جو اس نے سوتے میں میرے بیگ کی تلاشی بھی لی ہو۔ اس نے زناٹے سے ایک ہاتھ سرہانے کے نیچے مارا۔ بیگ موجود تھا، اور تھا بھی جوں کا توں بند۔

… بیگ کے ایک کونے میں جھومروں کی ایک جوڑی پڑی تھی۔ درشی جھومروں کی بہت شوقین تھی۔ لیکن اس کے بیاہ میں جتنے بھی زیور دیے گئے تھے، وہ سب کے سب وزنی تھے اور دیہاتی طرز کے بنے ہوئے۔ اکیلے جھومر ہی ڈیڑھ تولہ کے تھے۔ درشی جانتی تھی کہ رتن ان لمبے جھومروں کو پہنے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ وہ خود بھی رتن کو خوش رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن اس بات کا کیا علاج کہ وزنی جھومر پہننے سے اسے اپنے کان ٹوٹتے ہوئے محسوس ہوتے تھے اور وہ انھیں نصف گھنٹہ سے زیادہ دیر تک نہیں پہن سکتی تھی۔

پریہ درشی کی خواہش تھی کہ وہ ہلکے سے جھومر خرید لیتی۔ یہی کوئی سستی سی جوڑی۔ لیکن اُن کے لیے وہ رتن سے پیسے نہ مانگے گی، تا وقتیکہ وہ خود اپنے فرض کو محسوس کرتا ہوا پیسے اس کے ہاتھ میں نہ دیدے۔

معاً اس کا خیال پاپا کی طرف چلا گیا۔ اُن سے تو وہ پیسے لڑ کر بھی مانگ لیتی تھی۔ کسی خیال کے آنے سے درشی اُٹھی اور اپنے ہی کمرے میں جب اُس نے الماری کھولی تو اُس کی جارجٹ کی ساڑی کے اوپر، رتن کا کوٹ ٹنگا ہوا تھا… درشی کے منھ پر ایک سُرخی کی لہر دوڑ گئی۔ اُس نے سوچا تمام مرد ایک ہی سے لاپروا ہوتے ہیں۔ یہی مردوں کا جوہر ہے اور پھر زنانے میں پیٹی کوٹ یا جارجٹ کی ساڑی کے اوپر اپنا کوٹ شاید عمداً بھول جانے کا کیا یہ مطلب نہیں کہ اس کوٹ کے ساتھ جیسا سلوک مناسب سمجھا جائے، کیا جائے ۔گویا کوٹ زبانِ حال سے کہہ رہا ہو ’’میں نے تجھے مسل ڈالا ہے، تو اس کے عوض میں میری جیبیں کاٹ ڈال۔‘‘ درشی نے دروازے پر نظر گاڑے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کے ہاتھ میں دس دس کے چار نوٹ اور کچھ ریزگاری آ گئی۔ اس نے سوچا اگر وہ اس میں سے ضرورت کے مطابق کچھ اڑا لے تو رتن کیا کہے گا … لیکن … چوری تو ایک ذلیل حرکت ہے… ابھی تو روحوں کا ملاپ نہیں ہوا … وہ یوں جیب میں سے پیسے اڑا کر بیسوا، نہ کہلائے گی؟

دو تین دن تک درشی کو ہری پال پور، اپنے مربعوں سے بذریعہ تار سو روپئے آ چکے تھے۔ شگن کے اور روپئے اکٹھے ہو گئے۔ انھوں نے بہت حد تک درشی کی عصبی کمزوری کو آرام پہنچایا۔ ککو کی ماں بھی خوش تھی اور بھگوان کو کم یاد کرتی تھی۔ درشی نے کئی مرتبہ رتن کو کہا کہ بازار جا کر برساتی کوٹ خرید لینا چاہیے۔ برسات کے بعد اس کا کیا فائدہ ہو گا۔ لیکن چند دنوں سے رتن لال اپنے دفتر میں اسمبلی کے لیے ہندسے تیار کر رہا تھا اور اُس کے لیے اُسے بارش، دھوپ، ساڑی کسی چیز کی پروا نہ تھی اور اس بات نے درشی کو بہت غمگین کر دیا تھا۔

ایک شام رتن گھر واپس آیا تو درشی کی حیرانی کی حد نہ رہی۔ اُس کے ہاتھ میں جھومروں کی ایک جوڑی تھی۔ جو تھی بھی بہت ہلکی اور جدید فیشن کی۔ درشی خوش نہیں ہوئی، کیونکہ وہ جھومر اس نے خود نہیں خریدے تھے، رتن نے انھیں اپنی خاطر خریدا تھا۔ وہ خود بھی تو اُسے جھومر پہنے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ مرد کبھی بھی عورت کی فرمائش پر زیور خریدنا پسند نہیں کرتے، بلکہ اُن کو اپنے لیے سجانے کو خریدتے ہیں۔ درشی کو تسکین ہوئی بھی تو محض اسی لیے کہ رتن اُنھیں خودبخود خرید لایا اور ایسا کرنے میں اُس نے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دیا۔

جھومروں کی جوڑی کو ہاتھ میں لیتے ہوئے وہ طنزیہ انداز سے بولی۔

’’ختم ہو گئے آپ کے ہندسے‘‘؟

’’ختم ہو گئے۔‘‘

رتن نے درشی کا ہاتھ پکڑا تو اُس نے جھٹکے سے چھڑا لیا۔ بولی ’’اب میرے ہندسے شروع ہیں۔ سردیاں آنے والی ہیں۔ کم سے کم تین بھتیجوں کے سوئٹر بُننے ہیں۔‘‘

رتن نے پھر ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’تو کیا تمھیں جھومر پسند نہیں؟‘‘

’’جھومر؟… اوہ! ہاں‘‘ درشی منھ پھُلاتے ہوئے بولی۔ ’’آپ نے بہت تکلیف کی۔‘‘

شیکوشا بدستور مسکرا رہا تھا۔ وہ محض ایک کلاک ہی نہیں تھا، چوبیس گھنٹے متواتر ٹِک ٹِک کرنے والا۔ وہ درشی کا استاد بھی تھا، جس کے ڈائل اور سوئیوں نے درشی کو ایک اچھی لڑکی کے طور پر دیکھا تھا اور اب شاید ایک اچھی بیوی کی صورت میں دیکھنا چاہتا تھا۔

رتن پہلی کڑی کھو دینے سے منزل مقصود پر نہ پہنچ سکا۔ وہ درشی کی باتوں میں طنز نہ پا سکا، تو وہ بولی۔

’’آپ تو یونہی میرے لیے پیسے برباد کرتے ہیں … بھلا اور بھی کوئی ایسے کرتا ہے؟‘‘

رتن پھٹی پھٹی آنکھوں سے درشی کے خوبصورت چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ اگر درشی اُسی وقت وہ جھومر اپنے کانوں میں نہ ڈال لیتی تو دنیا کی تاریخ کسی اور ہی ڈھب سے لکھی جاتی۔ اُس نے نہ صرف جھومر پہنے، بلکہ اپنی گردن کو عجب انداز سے اِدھر اُدھر ہلا دیا اور رتن ایک ایماندار آدمی کی طرح ،اُس کی گردن اور اُس کے ہلتے ہوئے جھومروں کے متعلق سوچنے لگا۔

یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے ابھی تک درشی کی تسلی نہیں ہوئی۔ وہ بولی۔

’’کیا لاگت آئی ہے اِس پہ؟‘‘

’’کوئی بہت نہیں۔‘‘

’’تو بھی۔‘‘

’’ساڑھے اکتیس روپئے۔‘‘

درشی نے اپنے صابر کے بیگ کو ٹٹولنا شروع کیا۔ رتن ایک لمحہ کے لیے ٹھٹک گیا۔ وہ شاید اس بات کو مذاق سمجھ کر جانے دیتا۔ لیکن درشی کے چہرے نے اُسے مذاق کی حدود سے بلند و بالا اٹھا دیا تھا… کچھ دیر بعد رتن نے اندھیرے میں اپنے پانو تلے زمین محسوس کی۔ گویا کوئی کھوئی ہوئی کڑی اُس کے ہاتھ آ گئی ہو۔ اُس نے اپنی جیب میں سے تمام نقدی نکالی اور اندھیرے میں درشی کے قدموں پر رکھتے ہوئے بولا ’’تم اُس دن اپنی کسی ضرورت کا ذکر کر رہی تھیں … لو، یہ اپنی مرضی سے خرچ کر لینا۔‘‘

درشی نے ایک ثانیہ کے لیے سوچا۔ رتن نے ایسا کرنے میں عورت کو سب سے بُری گالی دی ہے … ’’بیسوا!‘‘

بیاہ کو ایک دو سال گزر گئے، لیکن دونوں کی روحوں میں کوئی خاص بالیدگی نہیں آئی۔ بلکہ رتن اب کچھ کھچا کھچا سا رہنے لگا۔ اس عرصہ میں درشی بیوی کے تمام ہُنر سے واقف ہو چکی تھی۔ وہ حساس ویسے ہی تھی۔ آج تک اس نے کھلے بندوں رتن سے پیسے نہیں مانگے تھے۔ وہ بسا اوقات اپنی کمزوری پر اپنے آپ کو کوسا کرتی۔ عموماً یوں ہوتا کہ بچے کے فراک یا اُسے کیلشیم دینے کا ذکر ہوتا تو وافر پیسے مِل جاتے اور پھر رتن اس کی ضرورت اور اپنے شوق سے متاثر ہو کر خود بھی اُسے کچھ نہ کچھ لا دیا کرتا۔ ہری پال پور میں بھی آنا جانا بنا ہی ہوا تھا۔ اگرچہ درشی کی ماں سوتیلی تھی،باپ تو سوتیلا نہیں تھا۔ بڑا بھائی ایگزیکٹو انجنیئر ہو چکا تھا اور پھر دفتر اور ہندسوں کے بعد رتن کا کوٹ اس کے پیٹی کوٹ پر ٹنگا ہوتا …

اس ایک دوبرس کے عرصہ میں شیکوشا کا چہرہ قدرے پیلا ہو گیا تھا۔ اس کی نگاہوں میں وہ پہلی سی شرارت اور طنز آمیز مسکراہٹ نہ رہی تھی۔ کبھی کبھی اس کا کوئی پرزہ خراب ہو جاتا تو اس کی مرمت کر دی جاتی۔

ایک دن رتن لال شب کو کسی دوست کے ہاں ٹھہر گیا۔ صبح واپس آیا تو درشی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔

’’آج صبح میں نے ایک واقعہ دیکھا۔‘‘

درشی نے بچے کو اس کی گود میں دیتے ہوئے کہا۔ ’’کیا دیکھا ہے آپ نے؟‘‘

رتن بولا۔ ’’میں کہتا ہوں … یہ بازاری عورتیں کتنی بے حیا ہوتی ہیں۔ آج میں نے ایک ایسی عورت کو دیکھا، جس کے بال اُلجھے ہوئے تھے، جس کی آنکھیں خمار آلودہ تھیں، جسم سے بیمار دکھائی دیتی تھی۔ صبح صبح سرِ بازار اس نے ایک بابو کو کالر سے پکڑا ہوا تھا اور پیسے مانگ رہی تھی۔ وہ بابو بیچارہ کوئی بہت ہی شریف آدمی تھا۔ وہ چیختا تھا، چلاّتا تھا۔ کہتا تھا میں نے اسے ایک خوبصورت ساڑی لا کر دی ہے۔ گرگابی خرید دی ہے اور اب پیسے طلب کرتی ہے …

وہ بے غیرت بھرے بازار میں کہہ رہی تھی کہ وہ تو سب حسن کی نیاز ہے۔ اس نے اپنے لیے مجھے وہ ساڑی پہنوائی تھی۔ اپنے لیے گرگابی، جسے پہن کر میں اس کے ساتھ لارنس باغ کی سیر کو گئی ۔ لیکن مجھے پیسے چاہئیں۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے، مجھے اپنے بچے کے لیے کپڑے چاہئیں، میں نے کرایہ دینا ہے، مجھے پوڈر کی ضرورت ہے …‘‘

اور اس کے بعد رتن ہنسنے لگا۔ بے معنی، بے مطلب ہنسی اور اس عرصہ میں اپنا سِلوٹوں سے بھرا ہوا کالر چھپاتا رہا۔ اس بات کو سُن کر درشی کی ساری طبعی کمزوری واپس آ گئی۔ درشی نے محسوس کیا، اس میں جتنی کمزوریاں تھیں وہ بیسوا میں مفقود تھیں۔ وہ اس کے جسم کا بقیہ حصہ تھی جسے اپنے آپ میں محسوس کرتے ہوئے وہ ایک مکمل عورت ہو گئی تھی۔ درشی نے سر سے پانو تک شعلہ بنتے ہوئے کہا۔

’’وہ بابو، پاجی آدمی ہے … کمینہ ہے … اور وہ بیسوا کسی گرہستن سے کیا بُری ہے؟‘‘

رتن لال کا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ مشکوک نگاہوں سے اُس نے درشی کے چہرے کا مطالعہ کرتے ہوئے کہا۔

’’تو تمھارا مطلب ہے … اِس جگہ اور اُس جگہ میں کوئی فرق نہیں؟‘‘

درشی نے اُسی طرح بپھرے ہوئے کہا۔ ’’فرق کیوں نہیں … یہاں بازار کی نسبت شور کم ہوتا ہے۔‘‘

… کلاک کی ٹِک ٹِک بند ہو گئی۔ رتن لال سوچنے لگا۔ ’’عورت سچ مچ ایک معما ہے اور شوپنہار نے … !‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

دُوسرا کنارہ

 

(ناول سے ملخص)

کھاڑی  کے اس کنارے، ڈھوک عبد الاحد کے ایک سنگلاخ ٹیلے پر کھڑے ہونے سے، دوسرا کنارہ بہت دُور، ایک دھند میں لپٹا ہوا نظر آتا تھا۔ دوسرے کنارے پر اور اس سے پرے کیا ہے، اِس کے متعلق ہم تینوں بھائیوں میں سے ایک بھی نہ جانتا تھا۔ اُس پار، حد نگاہ سے ورے، ایک نقرئی سی لکیر سورج کی شعاعوں میں چمکتی ہوئی نظر آتی تھی، جو کہ فوراً ہی دھند کی لطیف چلمن کے پیچھے غائب ہو جاتی۔ وہ لکیر غالباً پانی کی ایک ندی تھی جو کہ ڈھوک عبد الاحد کے شمال میں کھاڑی سے علاحدہ ہو کر دوسرے کنارے کے ساتھ ساتھ بہہ رہی تھی۔

دوسرا کنارہ ہمیشہ پُراسرار ہوتا ہے اور انسان کا مطمحِ نظر۔ انسان ہمیشہ پہنچ سے باہر چیز کا مشتاق ہے۔ اُس کی زندگی کے بہت سے رومان کا فلسفہ بھی یہی ہے… زندگی کے دوسرے کنارے پر کیا ہے؟ یہ زید جانتا ہے نہ بکر، راستہ میں موت حائل ہے، اور ڈھوک عبد الاحد کے قصبے میں کھڑے ہو کر دکھائی دینے والے دوسرے کنارے پر کیا تھا؟ ہم نہیں جانتے تھے۔ راستہ میں موت کی سی ذخار کھاڑی حائل تھی۔

حق تو یہ ہے کہ اُسی کھاڑی نے ہماری محنت کش، نزع کی سی زندگی میں رومان پیدا کر دیا تھا اور ہمارے تصوّر میں ایک ہلکی سی رنگ آمیزی ہو گئی تھی۔ اُس خوبصورت نیلاہٹ کی مانند، جو سفید براق کفن کی تہوں میں دکھائی دیتی ہے۔ بسا اوقات جب میں بیکری کے دوزخ نما چولھے میں سے آخری ڈبل روٹی نکالتا تو فوراً ڈھوک کے سنگلاخ ٹیلے پر جا کھڑا ہوتا، اور مستفسرانہ نگاہوں سے فیری بوٹ میں سے اُترنے والے مسافروں کے رنگ رُوپ ، چال ڈھال ، وضع قطع کا معائنہ کرتا۔

کبھی کبھی قصبے کے بینکر کے بڑے مرغی خانہ کے لیے دوسرے کنارے کی طرف سے بڑے بڑے لیگ ہارن نژاد مرغ، دیسی مرغیوں سے جفت کرنے کے لیے منگوائے جاتے اور یہاں سے بڑے بڑے وزنی انڈے اس پار لے جانے کے لیے ٹوکریوں میں بند کیے جاتے۔  ہماری بیکری کی روٹیاں بھی اسی فیری بوٹ میں لے جائی جاتی تھیں۔ ہمارے باپ نے فیری کے مالک سے سال بھر کا ٹھیکہ کر رکھا تھا۔ وہ خود کئی دفعہ دوسرے کنارے پر گئے تھے اور اکثر اس پار کے بہت دلچسپ قصے ہمیں سُنایا کرتے تھے۔

ایک دن میں چولھے کے پاس بیٹھا، پسینہ میں شرابور، خمیرے آٹے کی ٹکیاں بنا رہا تھا،  تو سندر، میرا بڑا بھائی آیا۔ وہ غمگین سا دکھائی دیتا تھا۔ اندر آتے ہی اُس نے قریب پڑا ہوا پانی کا ایک گلاس اٹھایا اور پی گیا۔ پھر سنگتروں کے سوکھے ہوئے چھلکے اٹھائے اور کسی گہری سوچ میں مستغرق ، اُن چھلکوں کو خمیری ٹکیوں پر چپکانے لگا۔ کچھ دیر بعد میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

’’تحصیلدار آیا ہے، نیا تحصیلدار…۔‘‘

میں زیادہ تیزی سے ٹکیاں بنانے لگا۔ خمیرے آٹے کے ایک ٹکڑے کو میں نے ہوا میں اچھالا۔ وہ گول گول چکر کاٹتا ہوا میرے ہاتھوں میں گرا۔ یہ میں اس لیے کیا کرتا تھا کہ میرے دوزخی کام میں کچھ دلچسپی پیدا ہو جائے۔ لیکن کیا اس سے بیکری کے چولھے کی تمازت کم ہو جاتی تھی اور آگ میرے لیے اپنی فطرت کو خیرباد کہہ دیتی تھی؟

جب میں نے سُندر کی بات کو نہ سُنا، تو اُس نے چوکی کو میرے قریب سرکایا اور میرے کندھے کو چھوتے ہوئے بولا۔

’’تم نے سُنا ؟ تحصیلدار آیا ہے۔‘‘

میں نے جھلاّ کر سندر کی طرف دیکھا اور پوچھا۔

’’تو پھر بہت سی روٹیاں درکار ہوں گی … ہے نا؟‘‘

سُندر نے اپنے بازو اوپر اٹھائے، قمیص کو اُتار کر بہت دُور کھاٹ پر پھینک دیا اور دو تین خمیری روٹیوں پر سنگترے کا چھلکا چپکاتے ہوئے بولا۔

’’رجّو … تم نہیں جانتے علموکو، وہ میرا لنگوٹیا یار تھا۔ اب اُسے علمو نہ کہنا۔ وہ اب    خاں صاحب علم الدین ہو چکا ہے … اور ڈھوک ہی میں تحصیلدار ہو کر آیا ہے۔ چھ سال ہوئے وہ کھاڑی کے اُس طرف گیا تھا… ۔‘‘

میں نے اُسی وقت خمیرے آٹے کو ملنا چھوڑ دیا اور حیرت سے سندر کی باتوں کو سننے لگا… بہت سی باتیں سُنانے کے بعد سندر اپنے ہاتھوں سے انڈوں کے چھلکے اکٹھے کرنے لگا۔ سندر کی باتوں میں کچھ خلش تھی اور اضطراب … علمو، اب خاں صاحب علم الدین ہو چکا ہے اور سُندر ابھی وہیں بھاڑ جھونک رہا ہے۔ اس بات میں بیکری کی آگ سے زیادہ جلن تھی، سندر کے لیے…۔

دو تین دن تک سُندر بہت خاموش رہا۔ جب وہ بھاڑ کے قریب جھک کر بڑے خونچے سے چولھے میں پڑی خمیری روٹی کو نکالتا تو کچھ سوچ میں غرق ہو جاتا… ایک دن بہت سی ٹکیاں جل گئیں، اُس دن ہمارا باپ بہت غصّے ہوا اور اُس نے ایک پتلی سی بیت کی چھڑی سے سُندر کو پیٹ ڈالا۔ وہ بیت کی چھڑی اسی مطلب کے لیے پانی میں بھگوئی جاتی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ     عبرت ناک سزا دی جا سکے۔ باپو کے برابر کا ہونے کے باوجود سُندر عموماً اُس مار کو خاموشی سے سہہ لیا کرتا تھا۔ باپو سندر کو مارتا تھا اور کہتا تھا۔

’’بڑا تحصیلدار بنا پھرتا ہے … حرام کار۔‘‘

اُس وقت ہم دونوں تینوں بھائیوں کی نگاہیں اُس پار چلی جاتیں، جہاں سے تحصیلدار بن کر آتے تھے، جہاں دن میں مشکل سے دس درجن روٹیاں بنانے والا بیکری کا مالک ہمیں بھیجنے کے اہل نہیں تھا۔ لیکن جب ہم تحصیلدار نہ بنتے تو ہمیں پیٹا کرتا اور اپنے بال بھی نوچ لیتا۔ ہمارے زخموں کو سینکتا اور پھر مار کر زخمی کر دیتا …

ہم بچپن سے سنتے آئے تھے کہ اُس پار بڑی دولت ہے۔ جو کوئی بھی جاتا ہے، مالامال ہو کر آتا ہے۔ وہاں بڑے شہر میں ایک ’’جونابسئی‘‘ ہے جہاں تحصیلدار بنانے کی ایک کل رکھی ہے۔ کلکٹر بھی شاید اُسی میں سے نکالے جاتے ہیں۔ ڈھوک عبد الاحد کا داروغہ صفائی، جو ہر روز ہماری روٹیوں میں نقص بینی کرتا ہے، اُسے ہی چھوکر آیا ہے … جب ہم نے ٹیلے پر سے کھاڑی کی طرف دیکھا تو ہمیں پانوں کے نیچے فیری آہستہ آہستہ پھسلتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ دوسرے کنارے کی طرف جا رہی تھی۔ اُس میں سفید سفید انڈوں کے ٹوکرے ٹیلے پر سے موتیوں کی ڈبیوں کی مانند دکھائی دیتے تھے۔ اس کے علاوہ آنکھ پر ہاتھ رکھنے سے دُور ایک نقرئی سی لکیر نظر آتی تھی جو کہ سورج کی روشنی میں چمکتی ہوئی فوراً ہی ایک دھند کے پیچھے غائب ہو جاتی تھی …

ہر سال پوہ ماگھ کے مہینوں میں ہمیں دو تین سَو کے قریب روٹیاں روزانہ نکالنی پڑتی تھیں۔ بہت سے سنگتروں کے چھلکے ، سکھانے ہوتے۔پان سات بوریاں میدے اور آٹے کی اٹھوانی ہوتیں … پیسے سیجن کے بعد چُکا دیے جاتے تھے۔ ان مہینوں کو باپو سیجن کے مہینے کہا کرتا تھا۔ جس طرح اسقاط اور اٹھرا کی مریضہ مخصوص مہینے کو خوف سے ’’ان گنا‘‘ کہتی ہے، اسی طرح ہم ’’سیجن‘‘ کو ان گنا کہا کرتے تھے… سنتے ہیں کھاڑی کے اُس پار ایک بڑے سے گھنٹہ گھر کے اردگرد سینکڑوں ہزاروں صاحب لوگ رہتے تھے۔ ان دنوں ان کا میلہ ہوتا تھا، جسے وہ لوگ کرسمس کہتے تھے۔ جس میں مرد عورت ننگے ہو کر ناچتے تھے، تب بڑا مزہ ہوتا تھا اور … ہمیں سینکڑوں روٹیاں نکالنی پڑتی تھیں۔

یہ ’’سیجن‘‘ کی بات ہے۔ باپو نے ایک دن ہمیں اس شرط پر چھٹی دے دی کہ فیری کے دوسرے پھیرے پر دن کی تمام روٹیاں وہاں پہنچا دی جاویں۔ ہم نے جلدی جلدی روٹیوں کو بھاڑ میں سے نکالا اور ٹوکریوں میں ڈال کر فیری کی طرف چلے گئے۔

اس دن آسمان پر ایک مٹیالی رنگت چھائی ہوئی تھی۔ ہمیں آندھی کی توقع تھی۔ پوہ ماگھ کے مہینے میں ڈھوک عبد الاحد میں آندھیاں آ جاتی ہیں۔ ذرا سی تیز ہوا یا بگولا چلنے سے کھاڑی کے شمال کی طرف پڑی ہوئی سینکڑوں من ریت آسمان پر چڑھ جاتی ہے … اُس دن تند ہوا پانی میں لہروں کے جذبات پیدا کر رہی تھی۔ کبھی کبھی ایک اچھال سی آتی اور پانی ہمارے گھٹنوں میں لوٹتا ہوا بہت سے گھونگے اور سبز سا جالا چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتا۔ کبھی کبھار اچھال کے ساتھ کوئی مچھلی کنارے پر رہ جاتی اور پانی کے لیے مضطرب، خشک، ریتلی زمین پر تڑپنے لگتی۔ لوگ دوڑ کر اُسے پکڑ لیتے اور وہیں بھون کر کھا جاتے۔

فیری دھیمے دھیمے ہچکولے کھاتے ہوئے کنارے پر آ لگی۔ اُس میں تحصیلدار        جوق در جوق اترنے لگے۔ اُن لوگوں میں کچھ جان پہچان کے تھے اور کچھ ناواقف۔ دو ایک      پٹی نور بیگ کے مَلِک تھے، جو بندوق کا لائسنس لینے کے لیے اُس پار گئے تھے۔ اِس کے بعد ایک بڑا سا ڈربہ اترا۔ جس میں سے کلک کلک ، کُو کُو کی آوازیں آ رہی تھیں۔ غالباً بینکر کے وسیع مرغی خانے کے لیے مزید لیگ ہارن منگوائے گئے تھے۔

اُس وقت باپو بھی آ گیا۔ فیری کے مالک سے سال بھر کے کرایے کا فیصلہ کرنا تھا… ہم سب کی نظریں فیری کے کونے میں بیٹھی ہوئی میم صاحب پر جم گئیں۔ اُس کا حسن سب کو خیرہ کیے دیتا تھا۔ میم صاحب کے سر پر ایک ہلکی سی کالے سلک کی ٹوپی تھی، جسے اُڑ جانے کے خوف سے اُس نے مرمریں بازوؤں سے تھام رکھا تھا۔ کمر میں پڑی ہوئی پیٹی اور اُٹھے ہوئے ہاتھوں کی وجہ سے چھاتی کا ابھار ایک چٹان کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ معاً میرا خیال اپنی بھاوجہ کی طرف چلا گیا جس کی چھاتیاں کسی مروڑے ہوئے مرغ کی گردن کی طرح لٹک رہی تھیں۔ سندر کا بیاہ ہوئے ابھی بمشکل پانچ سال ہوئے ہوں گے کہ تین بچوں کی پیدائش نے بھابی کی صحت کو غارت کر دیا تھا۔

— اور میم صاحب نے ایک ریشمی چھینٹ کا گون پہن رکھا تھا جو کہ اُس کے جسم کے تمام عناصر کی وضاحت کر رہا تھا۔ننگے بازو ڈبل روٹی سے بھی زیادہ نرم تھے اور خوبصورت، سڈول پنڈلیاں ہاتھی دانت کی بنی ہوئی دکھائی دیتی تھیں، یا شاید وہ دو شگفتہ ٹہنیاں تھیں جن کے سرے پر پانوں کے دو گلابی کنول کھلے ہوئے تھے…

معاً فیری کے مالک نے کہا۔

’’خان کی بیوی ہے، ولایت سے … ‘‘

’’کون خان؟‘‘ باپو متحیر ہو کر پوچھا۔

’’تحصیلدار صاحب۔‘‘

سُندر نے پلٹتے ہوئے کہا۔ ’’ارے علمو کی …؟‘‘

باپو نے غصّے سے سُندر کی طرف دیکھا اور دانت پیستے ہوئے بولا ’’چپ رہو … حرامکار۔‘‘

میں نے دل میں سوچا۔ ولایت سے آئی ہے، لیکن ولایت سے تو لیگ ہارن نژاد مرغ آتے ہیں، مگر لیگ ہارن مرغیاں آ جائیں تو کون منع کرتا ہے۔ پھر آج کل میلے کے دن ہیں۔ خانصاحب کو لینے آئی ہو گی اور کرسمس کے میلہ میں یہ لوگ گھنٹہ گھر کے ارد گرد ننگے ناچیں گے۔ یہاں، کم بخت ڈھوک میں ان کو کون ناچنے دے گا۔ان پریوں اور تحصیلدار کے لیے وہی جگہ مناسب ہے، اُس پار، دوسرے کنارے پر …

اُس دن شام کو ہم اداس خاطر ہو کر واپس لوٹے۔ گھر آتے ہی سندر نے اپنی پرانی پگڑی کو پھاڑا، چلم کو صاف کیا، نیا تہمد باندھا اور ڈھوک کے چوپال کی طرف چلا گیا۔ وہاں چوپال میں بہت سے لوگ آ کر بیٹھ جاتے تھے۔ صبح کو باوا کا نوکر پیپل اور بڑ کی گولروں کو صاف کر جاتا اور ایک خستہ سی دیوار کے نیچے بڑی سی کھوہ میں بہت سے اُپلے سلگا کر چلا جاتا۔ اِسے اِس کام کا ثواب خاص خدا کی درگاہ سے ملتا تھا۔ وہاں بیٹھ کر سندر نے تحصیلدار کو جی بھر کے کوسا اور خان صاحب کی بیوی کی بے حیائی کا تذکرہ کیا۔

اُس دن ماں نے بھابی لکھمی کو ہدایت دی کہ خمیرے آٹے میں ڈالے جانے والے انڈوں کو گندے انڈوں سے علاحدہ کر دے۔ اُس دن بھابی لکھمی کو فرصت نہ ملی۔ ننھّے پنجو کے گلے میں ایک بڑا سا پھوڑا نکل آیا تھا جسے دکھانے کے لیے وہ ڈھوک کے سب سے بڑے جراح کے پاس چلی گئی اور جراح کے بے وقت چیر ڈالنے سے وہ پھوڑا نہایت خوفناک شکل اختیار کر گیا۔ لکھمی پنجو کو گودی میں ڈالے سارا دن روتی رہی۔

اگلی صبح جب ہم تینوں بھائی کام کر رہے تھے، تو باپو حسبِ دستور گالیاں دیتا ہوا چلا آیا اور سُندر کو مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔

’’تم نے انڈے دیکھے تھے؟‘‘

’’لکھمی کے سپرد کیے تھے۔‘‘

’’اُس حرام کار کے سپرد؟ … اُس نے پانی میں ہی ڈال کر نہیں دیکھے۔ نصف انڈے گندے رہے ہیں۔ نصف، سُن رہے ہو، میں یہ خسارہ تمھارے باپ سے ، تمھارے دادا سے پورا کروں گا، سور کے بچّے … ‘‘

سندر نے ذرا تیز ہوتے ہوئے کہا۔

’’پنجو مر رہا ہے اور آپ کو انڈوں کی پڑی ہے۔ یہ رہے، لے جائیے اپنے انڈے ونڈے…‘‘

باپو نے سندر کی بات کو نہیں سُنا اور بولتا چلا گیا۔ آخر میں ایک چمٹا اٹھا کر سندر پر پھینک دیا۔ اُس کی آنکھ بال بال بچی۔ باپو بولا۔

’’لکھمی میم ہے نا … اُسے کرسی پر بٹھا چھوڑنا چاہیے، کیوں؟‘‘

سندر کی چھاتی غصّے سے بپھرنے لگی۔ وہ بال بچوں والا ہو چکا تھا، پھر بھی باپو اُسے مارنے سے نہیں چوکتا۔ اُس نے شعلہ فگن آنکھوں سے ایک مرتبہ باپو کی طرف دیکھا اور پھر بڑے چولھے میں دہکنے والی ڈبل روٹیوں کی طرف … اور وہی چمٹا اٹھا کر ڈبل روٹیاں نکالنے لگا۔ کچھ دیر بعد اُس نے انڈوں کے لعاب میں انگلی ڈالی اور معاً ہی اُس کی نظر کھاڑی کے اُس پار اُٹھ گئی … جہاں سے میمیں آتی تھیں، جن کی چھاتیاں چٹان کی طرح ابھری ہوئی ہوتیں۔ جن کے جسم پر پھنس کر آئے ہوئے گون اُن کے جسم کے ایک ایک عنصر کی وضاحت کرتے۔ ننگے بازو ڈبل روٹیوں سے بھی زیادہ نرم ہوتے اور پانوں ہوا کی سی ہلکی سینڈلوں میں کنول کے پھولوں کی طرح…

موٹی موٹی ڈبل روٹیوں، بسکٹوں اور سال میں بارہ مہینے دہکتے ہوئے دوزخ سے فرار کتنا جاں بخش ہوتا ہے۔ سندر کا تخیل بہت زیادہ بیدار ہو چکا تھا۔ فیری کی نِت نئی پیداوار تازیانہ بن جاتی تھی۔وہ اکثر پانی میں ڈوبی ہوئی بیت کی چھڑی اور دوسرے کنارے پر پتلی سی پانی کی لکیر کو بیک وقت دیکھا کرتا۔ آخر ایک دن ایسا آیا جب سندر نے باپو کے سامنے دوسرے کنارے پر جا کر قسمت آزمائی کرنے کا عزم پیش کیا اور آخر ایک دن ہم سب لوگ نئے ’’سیجن‘‘ کے بھاری کام سے فارغ ہو کر کھاڑی کے کنارے پر جا موجود ہوئے۔اُس دن بھی کھاڑی میں طوفانی کیفیت تھی۔ بڑی بڑی لہریں فیری کو تھپیڑے مار رہی تھیں۔ کچھ ماہی گیر اپنے بڑے سے جال کو گھسیٹ کر کشتی کے ابھار پر پھینک رہے تھے۔ اس کے بعد انڈے لادے گئے۔ بڑے بڑے، وزنی انڈے جو دیسی مرغیوں نے لیگ ہارن مرغوں سے جفت ہو کر دیے تھے۔ اس کے بعد ہٹو ہٹو کی آواز آئی اور ہم نے دیکھا، تحصیلدار صاحب کا خانساماں اکرم جو ہمارے ہاں سے روز ڈبل روٹیاں لے جایا کرتا تھا، کسی چیز کو ایک خوبصورت شال میں لپیٹے ہوئے فیری کی طرف لایا۔ کچھ دیر بعد اُس شال میں سے ایک بچے کے رونے کی آواز آئی۔ ہمیں پتہ چلا کہ وہ تحصیلدار کا لڑکا ہے۔ جو تین چار دن ہوئے میم صاحب کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ میں نے اپنے منجھلے بھائی کے کندھے کا سہارا لیتے ہوئے اونچا ہو کر دیکھا ۔ بچّہ نہایت خوبصورت اور تندرست تھا۔ اُس کے منھ پر گلے کے قریب ایک بہت ہلکی سی پھنسی نکل آئی تھی اور اُسے مرہم پٹی کے لیے دوسرے کنارے پر بڑے ہسپتال میں بھیجا جا رہا تھا …

سندر نے فیری میں قدم رکھا۔ اس سے پہلے ہمارے گھر میں سے کوئی بھی آدمی رخصت نہ ہوا تھا۔ چار پانچ مہینے کے لیے بھی نہیں، اور آج یہ بھائی نہ جانے کتنی مدت کے لیے مجھ سے جدا ہو کر اُس پار جا رہا تھا۔ چند روز پیشتر ایک مرمت طلب گھڑی کی بابت سُندر اور مجھ میں بہت سرپھٹول ہوئی تھی اور آخر وہ گھڑی میں نے اُسے نہ دی۔ آج جب میں نے خود ہی وہ مرمت طلب گھڑی اپنے رخصت ہوتے ہوئے بھائی کے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں دے دی تو اُس نے انکار کر دیا۔ بولا۔

’’رجو! بھیّا رکھو اسے تم، … ’’تم مجھ سے چھوٹے نہیں ہو کیا؟‘‘

’’نہیں تم لے لو اِسے، سندر‘‘ میں نے اصرار سے کہا۔

’’جانے بھی دو‘‘ سندر بولا۔ ’’تمھاری کلائی پر کتنی خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔ اے کاش! میرے پاس کچھ اور بھی ہوتا، جسے میں اپنے چھوٹے بھائی کو رخصت ہوتے ہوئے دے دیتا۔‘‘

میں نے زبردستی وہ گھڑی اپنے بھائی کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا۔ ’’اتنے بڑے شہر جا رہے ہو، وہاں قدم قدم پر وقت کی ضرورت ہو گی تمھیں۔ لو، لے لو ، لو …

نہ جانے سندر کے جی میں کیا آئی،اُس کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے اور روتے ہوئے اُس نے میرا ناچیز تحفہ قبول کر لیا۔

بھابی نے حیا کی وجہ سے آنچل منھ کے سامنے کھینچ رکھا تھا۔ جب بھی جذبات اُسے کچھ اجازت دیتے تو وہ سندر کے پاس فیری میں رکھی ہوئی گٹھڑی کی طرف اشارہ کر دیتی، جس میں اُس نے کچھ مٹھیاں باندھ دی تھیں۔ وہ کہتی تھی … تمھارے دو چار دن کے لیے کافی ہوں گی۔ ہاں دیکھنا! انھیں گھی میں بھُون رکھا ہے۔ ان کے کھانے کے بعد پانی نہ پینا۔ کھانسی ہو جائے گی اور اگر پانی کے بغیر نہ بھی رہ سکو تو پینے کے بعد پھر ان میں سے تھوڑا اور کھا لینا۔ گلہ صاف ہو جائے گا۔ تنور کی روٹی نہ کھانا۔ پیٹ میں درد ہو گی۔ اس سے تو آپ ہی تکلیف کر لینا اچھا ہے۔ دُودھ روز نہ میسر آئے تو دوسرے تیسرے ہی سہی۔ مگر پینا ضرور۔ کتنے کمزور ہو رہے ہو۔ تمھارے جسم سے تو کوّا بھی سیر نہیں ہو سکتا۔ اے کاش! تم مجھے ساتھ لے چلتے اور میں تمھاری خدمت کرتی۔ تمھیں بوجھل تو نہ ہوتی۔ پھر دل میں کہتی … اس نا مہر کے دل میں شاید میم کا شوق ہے … اور آنسو ٹپ ٹپ لکھمی کی آنکھوں س بہنے لگے۔

باپ نے رقت بھرے گلے سے کہا۔

’’بیٹا ! میں تمھیں مارا کرتا تھا، بیٹا! … ارے بھُول جانا اِس بڈھے کے پاگل پن کو …‘‘

سندر جو اس وقت تک ضبط کیے ہوئے تھا، رو دیا ۔ بولا ’’باپو! مارتے تو تھے تم، اور پھر خود ہی سینکنے کے لیے روئی بھی تو تلاش کرتے تھے۔ بھُول گئے کیا؟‘‘

’’سچ کہے دیتا ہوں … باپو کو نہ کہیو، مجھ سے یہاں زندہ نہ رہا جائے گا۔‘‘

میں نے خشمگیں ہوتے ہوئے کہا۔

’’تو تمھارا مطلب ہے … میں یہاں اکیلا مرا کروں؟ تنہا ہی بھاڑ جھونکوں؟ واہ رے نواب کے بیٹے!… میں آج ہی کہہ دوں گا باپو کو۔‘‘

سوہنے نے فوراً خوانچہ ایندھن پر پھینک دیا اور جھپٹ کر میری گردن دبوچ لی اور اس زور سے گلا دبایا کہ میری آنکھیں باہر نکل آئیں اور شور بھی میرے گلے میں گھٹ گیا۔ میں نے گھبرا کر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ میں کسی کو نہیں بتاؤں گا اور سوہنے نے میری گردن چھوڑ دی۔لیکن شام کے وقت جب میں نے باپو کو دُور سے دیکھا تو میں بھاگ کر اُس کے پاس چلا گیا اور ہچکیاں لیتے ہوئے سوہنے کی حرکت بیان کی اور اُس کے خوفناک ارادہ سے مطلع کر دیا۔

باپو نے اُسی وقت پانی میں بھگویا ہوا بیت اٹھایا اور اُسے سوہنے کی جسم کے ساتھ پیوست کر دیا۔ سوہنے نے بیت کی چھڑی پکڑ لی اور ایک جھٹکے سے باپو کے ہاتھ سے چھین لی۔ اُسے توڑا، مروڑا اور پھینک دیا۔ باپو کے ہاتھ ایک لمحہ کے لیے لرز اٹھے۔ لیکن یہ دیکھ کر کہ سوہنا پھر اپنے کام میں مشغول ہو گیا ہے۔ وہ ’’حرام کار… حرام کار‘‘ کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے اور فیری کے مالک سے مل آئے اور اُسے کہہ دیا کہ اگر سوہنا تمھیں کھاڑی سے پار جانے کے لیے کہے۔ تو انکار کر دینا۔

سوہنے کو بھی اس واقعہ کا علم ہو گیا۔ اب اس کے پاس سوائے اس بات کے چارہ نہ تھا کہ روز بلا ناغہ خمیرے آٹے کو ہوا میں اچھالے اور وہ گول چکر کاٹتا ہوا اُس کے ہاتھوں میں آ گرے۔

ایک دن میں بھاڑ کے قریب سے اُٹھ کر، پسینہ سے شرابور، ہوا میں چلا گیا، اور مجھے بخار  ہو گیا۔ اُس کے بعد پھیپھڑوں کو ہوا لگ گئی۔ لیکن زندگی کے سانس باقی تھے، دارو درمن سے بچ رہا۔ اُن دنوں سوہنا بیکری میں اکیلا کام کرتا تھا۔ کبھی کبھی باپو ہاتھ بٹا دیتے تھے۔ لیکن اب باپو بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ اُن کا کام کرنا ،نہ کرنے کے برابر ہوتا تھا۔ ان دنوں سوہنا جب بھی میرے پاس تیمار داری کی غرض سے آتا، تو کہتا۔

’’یہ دنیا دکھوں سے بھری پڑی ہے… اس سے تو چھٹکارا ہو جائے تو اچھا ہے۔‘‘

میں خاموشی سے کہتا۔

’’ہاں سوہن… اور دیکھتے ہو، سانس بھی تو نہیں لیا جاتا۔ اِس سے بڑا اور دُکھ کیا ہو گا۔ اِس سے تو یہی اچھا ہے۔ کہ میں … ؟‘‘

سوہنے نے میرے منھ پر ہاتھ رکھ دیا اور بولا۔

’’نہیں بھائی… اچھے ہو جاؤ گے تم۔‘‘

’’شاید پندرہ بیس دن اور تمھیں اکیلے کام کرنا پڑے۔ بڑی مصیبت ہے۔‘‘

’’کوئی نہیں ، تم اچھے ہو جاؤ …‘‘

ابھی میں اچھی طرح سنبھلا بھی نہیں تھا کہ مجھے دو چرواہے اپنے گھر کی طرف بھاگتے ہوئے دکھائی دیے۔ اس کے بعد گھر بھر میں افراتفری پھیل گئی اور ڈھوک عبدالاحد کی دو گوجرانیاں آ گئیں اور بولیں ’’چوپال میں بڑ کے نیچے سوہنا مرا پڑا ہے۔‘‘

میں اپنے آپ میں کچھ سکت پاتے ہوئے چوپال کی طرف دوڑا۔ وہاں قصبہ کے بہت سے لوگ جمع تھے۔ انھوں نے میرے لیے خود بخود راستہ چھوڑ دیا۔ میں نے دیکھا، سوہنے کی دو آنکھیں باہر اُبھر آئیں تھیں اور زبان ڈھیلی ہو کر منھ کے ایک طرف باہر نکل آئی تھی۔ اُس کے قریب ہی ایک رسّہ پڑا تھا جسے وہ دودھ دوہتے وقت اپنی گائے کی پچھلی ٹانگوں میں باندھا کرتا تھا… تو سوہنے نے خودکشی کر لی اور تمام آگ اور خمیرے آٹے سے نجات حاصل کر لی۔ اب وہ تمام دکھوں تکلیفوں سے چھٹکارا پاکر اُس چوپال میں، جہاں وہ بیٹھ کر اپنا حقہ سلگایا کرتا تھا، اپنی گولروں کے بچھونے پر پڑا تھا۔ اُسی جگہ جہاں وہ سندر کے ساتھ بیٹھ کر ناممکن الوجود سُکھ کی زندگی کا تذکرہ کیا کرتا تھا۔

میں نے بہ مشکل ضبط کرتے ہوئے باپو کے شانے کو زور سے پکڑ لیا اور کہا۔

’’باپو۔‘‘

باپو نے میری طرف دیکھا۔ میں نے کہا۔’’باپو، اسے جلانا مت …‘‘

ڈھوک کا اچارج بولا ’’تو سنسکار کیسے ہو گا؟‘‘

میں نے باپو سے کہا ’’آگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہی تو سوہنے نے یہ کیا ہے، باپو۔کیا تم پھر اُسے آگ میں پھینک دو گے؟‘‘

سندر کو کئی خط واپسی کے لیے ڈالے گئے، لیکن اُس نے ایک بھی خط کا جواب نہ دیا۔ میں نے سوچا۔ وہ کہیں اپنی ہی رنگ رلیوں میں مصروف ہو گا۔ ایک دوسال بعد سوہنے کی موت کا غم کچھ ہلکا ہوا تو باپو کی باری آئی اور ایک دن وہ سونے کے لیے گئے تو پھر نہ اُٹھے۔

اس کے بعد بیکری کا کام میرے ذمے پڑ گیا۔ جب میں بہت مایوس ہوا تو پھر سندر کو ایک چٹھی لکھ ڈالی اور حسبِ معمول کوئی جواب نہ ملا۔ میں نے سوچا، سندر اُس پار، عیش و عشرت میں مشغول یہاں کیوں آنے لگے گا۔ اچھا ہوا جو وہ اُدھر چلا گیا۔ اور جب میں نے زیادہ گہری نظر سے جانچا، تو میرے دل نے کہا سوہنے نے بھی اچھا ہی کیا، جو سب دکھوں تکلیفوں سے نجات حاصل کر لی۔

— اور آخر ایک دن ہمیں ایک بوڑھا اپنی دکان کی طرف آتا دکھائی دیا۔ اُس کے منھ پر سینکڑوں جھریاں تھیں۔ میں نے نہیںلیکن میرے لہو نے پہچان لیاکہ وہ سندر ہے۔ میں دوڑ کر اپنے بھائی سے لپٹ گیا۔ ہم سب بہت دیر تک روتے رہے۔ حتیٰ کہ مجھے اُس کی ہیئت کو اچھی طرح سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آخر اُن تاثرات کی بنا پر جو کہ میرے ذہن میں اچھی طرح منقش تھے، میں نے سُندر کو بناتے ہوئے کہا۔ ’’واہ رے، میرے نائب تحصیلدار!…‘‘

سندر مسکرا دیا۔

میں نے پھر تنگ کرنے کی غرض سے پوچھا ’’اور وہ تمھاری میم کہاں ہے؟ یہ پوٹلی اُسی نے دی ہو گی تمھیں؟‘‘

اُس وقت سندر کو ہلکی سی کھانسی آئی اور اُس نے تنور کے قریب ہی تھوک دیا۔ مجھے اُس کے تھوک میں ایک سُرخ دھبہ سا دکھائی دیا …

میں دم بخود کھڑا سوچنے لگا۔ کیا دوسرے کنارے پر یہی کچھ ہے۔یہی جھُریاں، یہی مریل سی ہلکی ہلکی کھانسی جس میں خون کا دھبہ ہو … اور وہ سوہنا کس امید پر مر گیا، کیوں؟ کِس لیے؟ کس کنارے کی تلاش میں؟

اور ایک دن کھاڑی کے کنارے کھڑے ہو کر میں نے سندر سے کہا۔

’’سندر تم نے دیکھا ہے، وہ پانی کی لکیر کتنی آب و تاب سے چمکتی ہے۔‘‘

سندر کھانسنے لگا۔ وہ ایک جگہ دم لینے کے لیے ٹھہر گیا اور بولا۔‘‘ اُس پانی کا بھول کر بھی خیال نہ کرنا رجو! وہ جو تمھیں چمکتا ہوا پانی دکھائی دیتا ہے وہ ریت کے چمکتے ہوئے لاکھوں ذرے ہیں اور اگر یہ نیلی نیلی خوبصورت کھاڑی سوکھ بھی جائے تو وہ پانی نہیں سوکھے گا اور ابد الآباد تک چمکتا چلا جائے گا۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 آلو

 

 

لکھّی سنگھ  سائیکلوسٹائل کے قریب بیٹھا سوچ رہا تھا،اُس وقت نہ تو اُسے ہندستان کی اقتصادی بدحالی کا خیال تھا اور نہ خاکروبوں کی ہڑتال کے متعلق تشویش تھی۔ آج شام کو گھر پکانے کے لیے کیا لے جائے، بس اسی بات نے اسے پریشان کر رکھا تھا۔ گھر میں صحن کا تین چوتھائی حصہ چھوڑ کر باقی میں بسنتو نے پام اور پاراکر اس کے علاوہ ، پودینہ اور بینگن کے پودے لگا رکھے تھے۔ لیکن ابھی تو بینگن کے پودوں نے نیلے نیلے، اودے اودے پھول ہی نکالے تھے۔ ابھی تو ان میں پگمنٹس(Pigments) کی نشو و نما بھی اچھی طرح سے نہیں ہوئی تھی۔ ایسے میں بینگنوں کا خیال کرنا تو محض ایک احمقانہ بات تھی۔

لکھّی سنگھ شروع ہی سے پودوں کی کاشت کے خلاف تھا۔ حالانکہ بسنتو گھر میں ہریاول کو بہت پسند کرتی تھی۔ سبزی آنکھوں کو طراوت دیتی ہے، یہ تو ٹھیک ہے، لیکن لکھی سنگھ نہایت بے صبر انسان تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ آج ہی بیج بو دیا جائے اور آج ہی پھل لگ جائیں۔ہندستان کی آزادی کے متعلق بھی اُس کا کچھ ایسا ہی خیال تھا۔ پودوں کو روزمرّہ پانی دینا، ان کی نگہداشت اور پھر اُنھیں نہایت سست رفتار سے بڑھتے دیکھنا، اس کی تاب و تواں سے باہر تھا۔ اسی لیے تو اس نے بسنتو کو صاف کہہ دیا تھا کہ پودے اُگانے کے بعد میں ولگا چلا جاؤں گا۔ وہاں دو چار ماہ رہوں گا تاکہ میری واپسی پر بینگن پھل رہے ہوں اور یہی محسوس ہو، جیسے میں نے کل ہی انھیں بویا ہے اور آج پھل بھی لے لیے ہیں۔

لکھّی سنگھ نے اُٹھ کر چاروں طرف دیکھا۔ سب کامریڈ جا چکے تھے، لیکن اُس کے کانوں میں اُن کی پُر شور بحث کی گونج باقی تھی۔ پھر اُسے خیال آیا، خاکروبوں کی ہڑتال کس قدر مکمل ہوئی ہے۔ شہر کی تنگ و تاریک گلیوں، گنجان آباد محلّوں، گزر گاہوں اور سڑکوں پر جا بجا کوڑے کے ڈھیر لگ رہے ہیں ۔ شاہ عالمی کے باہر، گھوڑوں کے حوض کے قریب میلے کا پہاڑ پڑا ہے۔ ٹھنڈی سڑک کی طرف جانے والی سڑک پر تین دِن سے ایک بیل مرا پڑا ہے جس کی لاش سے سڑاند اُٹھ کر ہسپتال کے مریضو ں تک پہنچ رہی ہے۔ اُس کے اپنے کوچہ بھولا مصر میں، جہاں شہر کے مُردے جلانے والے اچارج رہتے ہیں، اتنا تعفّن پیدا ہو رہا ہے کہ اچارج باہر نہیں نکلتے اور ہندو کا مُردہ بغیر اچارج کے کیسے جلایا جا سکتا ہے؟ یقیناً بہت سے مُردے گلی محلوں میں پڑے بدبو پھیلا رہے ہوں گے۔ ٹھنڈی سڑک کے قریب مرے ہوئے بیل کی طرح۔

کھڑکی میں سے ایک تیز بدبو آنے سے لکھی سنگھ اُٹھا اور اُس نے تمام دروازے بند کر لیے۔ دائیں طرف گھومنے سے اُس کی نگاہیں سائیکلوسٹائل کے اوپر ایک کھونٹی پر جا پڑیں۔ اس کھونٹی پر کامریڈ بخشی کی ہیٹ ٹنگی رہ گئی تھی، جس کے ایک طرف سُرخ پروں کا ایک خوبصورت پلوم لگا ہوا تھا۔ آخر بخشی نے سرکاری ملازمت کر لی تھی، اس لیے سب کامریڈ مل کر بروننگ کی نظم    ’’وہ چند چاندی کی ٹکلیوں کے عوض ہمیں چھوڑ گیا‘‘ گاتے رہے تھے۔ بخشی رجعت پسند ہو گیا تھا۔ سب نے کامریڈسے محبت کی تھی اور راہبری کے لیے اُس کی طرف دیکھا تھا۔ اُس کے گیت گائے تھے۔ اُس کے افسانوں کی تعریف کی تھی اور اب ؟ …… لیکن سو روپیہ ماہانہ پا لینے پر بھی اُس کا چہرہ اس قدر اترا ہوا تھا۔ وہ بار بار گھبرا کر اپنی پتلون کی کریز ٹھیک کرتا تھا اور بے تحاشا آنکھیں جھپکتا تھا… شروع بحث میں نوبت ہا تھا پائی تک پہنچ گئی تھی اور اُسے پیٹا بھی گیا تھا۔ اُس کی قمیص کا ایک چیتھڑا ابھی تک ایک کرسی کے ابھرے ہوئے کیل میں اڑا ہوا تھا۔ اُس نے پیٹ کی مجبوریوں کا تذکرہ کر کے ہر ایک کے جذبۂ رحم کو اُکسانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہاں سب کی آنکھوں میں نفرت تھی۔ معلوم ہوتا ہے اتنے بڑے نصب العین سے گر جانے کا اُسے خود بھی احساس تھا۔ لیکن وہ ایک حد تک مجبور تھا۔ اُس کی تین بہنیں تھیں، شادی کے قابل۔ ایک بوڑھا باپ … ڈاکٹر، جو کہ کسی ریاست سے ریٹائرڈ ہوا تھا اور جس کی بینائی زیادہ احتیاط کی وجہ سے کم ہو گئی تھی۔ ماں کے علاوہ چار بھائی تھے ،جن میں سے دو مقامی ہائی اسکول میں اور سب سے بڑا شہر سے باہر ایک کالج میں تعلیم پاتا تھا اور ان سب کے پیٹ ایندھن مانگتے تھے۔ بخشی نے ہر ایک کے اعتراض کا فرداً فرداً جواب دینے کی کوشش کی، لیکن کسی نے اُس کی ایک نہ سُنی اور پیٹے جانے کے فوراً بعد ہی وہ کمرہ سے باہر بھاگ گیا اور اس سراسیمگی میں اپنی ہیٹ بھی وہیں چھوڑ گیا۔

لکھی سنگھ نے کہا، کاش ! بخشی کا کوٹ ٹنگا رہ جاتا تو آج کی روٹی سے تو نجات حاصل ہو جاتی۔ پھر اُسے بسنتو کا خیال آیا اور وہ سوچنے لگا۔ بسنتو صحیح معنوں میں کامریڈ ہے۔ اتنی خستہ حالت ہونے کے باوجود اُس نے آج تک مجھے یہ یقین نہیں ہونے دیا کہ میں تم سے قلاش آدمی کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ مجبوری کے دنوں میں وہ میلے کچیلے چیتھڑے، ولگا سے آئی ہوئی گندم کا چھان، ایک گم نام سا پرچہ جس کا لکھی سنکھ ایڈیٹر رہا تھا، اُس کی ردّی بیچ کر کئی کئی دن گزار دیا کرتی تھی۔ وہ نام نہاد عزت کے خیال سے کبھی نہیں ڈری تھی اور اپنے سوشلسٹ خاوند پر بار ثابت نہ ہونے کے لیے اُس نے پڑوس کے لوگوں کی قمیصیں سینی شروع کر دی تھیں۔ ایک دفعہ اس نے کوڑیوں کے مول محلہ کے تمام لوگوں سے پھٹی ہوئی جرابیں خرید لیں۔ اُن کے تار نکالے اور اُنھیں پاپڑ منڈی کے ایک جرابوں کے کارخانے میں بیچ دیا۔ بسنتو بڑی وسیلہ ساز عورت تھی اور لکھی سنگھ مطمئن تھا۔

لکھی سنگھ اُٹھا اور ایک انگڑائی لی۔ وہ کچھ تھک سا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ ہنسے لگا۔ ہنسنے کے سوا چارہ بھی تو نہ تھا اور وہ ہنسی نہ ردِ عمل کی ہنسی تھی اور نہ کوئی درد تھا، جو حد سے گزر کر دوا ہو گیا تھا۔ وہ ایک بے معنی کھوکھلی ہنسی تھی جو کہ آناً فاناً جیب میں پیسے ختم ہو جانے سے پیدا ہوتی ہے اور خیال آتا ہے … بھئی خوب رہی ، چلو ، بڑے دیش بھکت بنتے تھے۔ لیکن ایک کامریڈ کی زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہی رہتے ہیں۔ وہ روس کا میخائلووچ…

… اور آخر رونے سے بنتا ہی کیا ہے۔ یہ بھی تو ایک وجہ ہے کہ ہنسا جائے اور لکھی سنگھ آہستہ آہستہ بیٹھک پر سے اترا اور پریم محل سے نکل کر سرکلر روڑ کی طرف چل دیا۔ بازار میں کتے دہی بڑے کے خالی پتّے چاٹ رہے تھے۔ ایک چھوٹی سی لڑکی کا دودھ سے بھرا ہوا آبخورہ بازار میں گِر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا اور سرمئی سیاہ سڑک پر بکھرا ہوا دودھ اتنا بھیانک دکھائی دیتا تھا جیسے قحط کے دنوں میں گورنر کے فلاور شو کا کوئی بڑا سا کرائی  سینتھیمم سر بازار رکھ دیا جائے … لڑکی حواس باختہ ہو کر آبخورے کے ٹکڑے اکٹھے کرنے لگی، گویا انہی ٹکڑوں کو سمیٹ کر گھر لے جائے گی۔

آسمان پر کاٹن مل کے دھوئیں کی ایک لمبی سی لکیر چیمبر لین روڈ تک چلی آئی تھی۔ اگرچہ گرمی کا موسم شروع ہو چکا تھا ،تاہم فضا میں خنکی باقی تھی اور دھُوئیں کے ٹکڑے آسمان کی سپیدی مائل نیلاہٹ کے خلاف دھبوں کی صورت میں چار سُو بکھرے ہوئے تھے۔ اچانک ایک تیز سی بدبو نے لکھی سنگھ کو ناک پر رومال رکھنے کے لیے مجبور کر دیا اور وہ سوچنے لگا۔ کمیٹی کی طرف سے اس میلے کے نکاس کا خاطرخواہ بندو بست نہیں۔ لوگوں کے گھر غلاظت سے بھرے پڑے ہیں۔ لیکن پھر بھی لوگ برابر ایک پیٹ کی ضرورت سے زیادہ کھائے جاتے ہیں۔

اب تک لکھّی سنگھ سبزی منڈی کے قریب پہنچ چکا تھا۔ منڈی کے دروازے سے کچھ چھکڑے چیں چیں ریں ریں کرتے ہوئے باہر نکل رہے تھے۔ ان کے بیل گردن کے قریب سے زخمی تھے۔ اس کے باوجود نہ تو جوت کو پرے کھسکایا گیا تھا اور نہ ہی لکڑی کے سخت لٹھے اور اس پر زیبائش کے لیے لگائے ہوئے پیتل کے کیلوں کے گرد کوئی چیتھڑا لپیٹا گیا تھا۔ گاڑیبان بیلوں سے گزر کر ا ن کے مالکوں اور رکھنے والوں کو گالیاں دے رہے تھے۔ گوال منڈی چوک کو اکالیوں کے ایک لمبے چوڑے جلوس نے روک رکھا تھا۔ یہ لوگ سرگودھا میں مورچہ لگانے کی بابت سوچ رہے تھے۔ لکھی سنگھ نے اتفاق سے اپنا ہاتھ ایک چھکڑے کے پیچھے رکھا تو اس کے ہاتھ میں ایک آلُو آ گیا… یہ وہی چھکڑے تھے جو کہ ہر روز صبح ساندہ شمس الدین کی طرف سے آلوؤں کی بوریاں لے کر سبزی منڈی کو آتے اور اپنی دانست میں تمام آلو انڈیل کر اپنے گھر لوٹ جاتے۔ پھر بھی دھُرے کے قریب یا کسی گانٹھ اور اونچ نیچ میں کوئی نہ کوئی آلُو اٹکا رہ جاتا۔ لکھّی سنگھ نے تمام چھکڑوں کے پیچھے سے ٹٹول ٹٹول کر سیر بھر کے قریب آلو اکٹھے کر لیے اور اُس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ وہ آنسو نہ تو غم کے تھے اور نہ مسرت کے، بلکہ یونہی خلا میں ایک جذبۂ تشکر و امتنان کا اظہار۔ یا وہ آنسو ایسے تھے جو خالی جیب کے آناً فاناً بھر جانے سے پیدا ہوتے ہیں۔

لکھّی سنگھ نے گھر پہنچ کر تمام آلو بسنتو کے سامنے بکھیر دیے۔ آج بسنتو شام ہی سے لکھّی سنگھ کی راہ تک رہی تھی۔ آج اس وسیلہ ساز عورت کو بھی کامریڈ کے آنے سے پہلے پہلے کوئی چیز پکانے کی ترکیب نہیں سوجھی تھی۔ اچانک اندر سے لکھّی سنگھ کا بڑا لڑکا کرنیل نمودار ہوا اور رسوئی میں بکھرے ہوئے آلوؤں کو ہوا میں اچھالنے لگا۔ لکھّی سنگھ نے زور سے ایک چپت اُس کے منھ پر لگا دی اور آلو سمیٹ کر ایک کونے میں ڈال دیے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی کمائی یونہی برباد کی جائے اور کرنیل رویا نہیں، کیونکہ ایسی باتیں تو ہر روز ہوتی تھیں۔ گھر میں کھانے کو کچھ میسّر نہ آتا تھا اور اس کے بعد جب وہ کسی چیز کی طرف حریصانہ نگاہ سے دیکھتا، تو ماں یا باپ کی طرف سے ایک چپت رسید ہو جاتی ۔ اگرچہ کل کی چپت سے اُس روز کی چپت زیادہ سخت تھی، تاہم اس سے کرنیل کو ایک اور شرارت کا موقع آسانی سے میسّر ہو گیا۔ اُس نے شیشے کے سامنے سے بام اُٹھائی اور نصف سے زیادہ اپنے ماتھے پر مل لی۔ کرنیل کو بام ملنے کا بہت شوق تھا۔ اُسے وہ پیشانی پر ٹھنڈی لگا کرتی تھی۔ وہ بام لکھّی سنگھ نے بسنتو کے لیے خریدی تھی،کیونکہ وہ لیکوریا کی مریضہ تھی اور اُسے ہمیشہ سردرد رہتا تھا۔ لکھّی سنگھ نے بام کو ضائع ہوتے دیکھ کر دوسری گال پر بھی طمانچہ مارنے کی کوشش کی،لیکن وہ سوچنے لگا کہ بام تو پہلے ہی نصف سے زیادہ ختم ہو چکی ہے۔

اس وقت لکھّی سنگھ کو بھوک لگ رہی تھی اور وہ بسنتو سے لڑنا چاہتا تھا۔ اُس نے بات بال بچوں کی تربیت سے شروع کی اور کہنے لگا۔ بچّے تو انگریز عورتوں کو پالنے آتے ہیں۔ ہندستانی عورتوں کو ماں بننے کا کوئی حق نہیں۔ اگرچہ بسنتو اس طور پر انگریزوں کی تعریف نہیں سن سکتی تھی اور عموماً بات یہاں ختم ہوتی تھی… ان لوگوں کے پاس بچوں کو کھلانے کے لیے آیا ہوتی ہیں۔ روٹیاں پکانے کے لیے خانسامے … اور لکھّی سنگھ ایسی باتیں سن کر چپ ہو جایا کرتا تھا۔ سوشلسٹوں کے حلقہ میں وہ گھنٹوں بحث کرسکتا تھا، لیکن اس جگہ وہ پانچ منٹ سے زیادہ نہیں بول سکتا تھا۔ حقیقت اتنی تلخ ہوتی تھی کہ اُسے اپنے چہرے کا عکس دکھائی دینے لگتا۔ لیکن آج اس بات پر بھی بسنتو خاموش رہی۔ اچانک دروازے کی طرف سے سخت سڑاند آئی اور لکھّی سنگھ گرج کر بولا۔

’’تم سے یہ بھی نہ ہو سکا۔ کہ دروازہ بند کر لیتیں… بس نواب زادی ہی بننا چاہتی ہو تم۔‘‘

بسنتو نے اُٹھ کر چپکے سے دروازہ بند کر دیا۔

لکھّی سنگھ اپنی داڑھی کے بکھرے ہوئے بالوں کو سوئی لگا کر صحن میں ٹہلنے لگا۔ بھوک کی وجہ سے اُسے ڈکار آ رہے تھے اور پیٹ میں ناف سے اوپر ایک عجیب طرح کی آواز پیدا ہو رہی تھی،جیسے سیلاب میں دریا کے کنارے ،ایک پُر شور آواز کے ساتھ پانی میں گرتے ہیں۔ اُسے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس کے پیٹ کی دیواروں سے کوئی چیز اندر معدے میں گر رہی ہے۔ یکایک لکھّی سنگھ کو کچھ سوجھ گیا۔ پودوں کو اپنے سامنے پاکر بولا۔

’’بھلا ان بینگن کے پودوں کا فائدہ ہی کیا؟‘‘

’’فائدہ کیوں نہیں‘‘؟ بسنتو نے آلوؤں کو دیگچی میں ڈالتے اور ہاتھ چھانٹتے ہوئے کہا۔ لیکن لکھّی سنگھ اپنے مخصوص، دوآبیہ انداز سے گرجا ’’میرا تو جی چاہتا ہے کہ انھیں ابھی، اسی وقت اکھاڑ کر پھینک دوں۔ دو مہینے سے اوپر ہونے کو آئے ہیں اور ان میں پھل کا نام و نشان تک نہیں۔‘‘

لکھّی سنگھ اور بسنتو میں اس بات پر بہت جھگڑا ہوا کرتا تھا۔ کُڑھتی ہوئی بسنتو بولی۔

’’تبھی تو تمھیں بچوں سے نفرت ہے۔‘‘

’’بچوں سے مجھے کاہے کو نفرت ہو گی؟‘‘

’’اٹھارہ سال کی عمر تک ان کی خدمت کا تم میں صبر کہاں ہے۔ ابھی سے کہہ رہے ہو کہ لکھمیر کو گانا سکھانا چاہتا ہوں، تاکہ وہ بچپن ہی میں کمانے لگے اور اسی عمر سے ہم اُس کی کمائی کھانے لگیں۔‘‘

لکھّی سنگھ خاموش رہا اور مونگی توری کی بیل کے گرے ہوئے سرے کو کیل پر ٹانگنے لگا… بسنتو ماں تھی۔ اس میں بچے اور پودے پالنے اور انھیں آہستہ آہستہ بڑھتے دیکھنے کا حوصلہ تھا۔ وہ ہر روز صبح اُٹھتی اور کہتی … آج بینگنوں کو دو پھول لگے ہیں اور دو کی ڈنڈیاں پھول رہی ہیں اور مونگی توری پر بھی شہد کی مکھیاں بیٹھتی ہیں۔ اب توریاں پھلنے کا موسم آیا ہے نا، اور تم نے آخر  کرنیل سنگھ سے کِس جُگ کا بدلہ لینا ہے؟ آخر ہولے ہولے سمجھ دار ہو جائے گا۔ یونہی اُسے پیٹتے رہتے ہو۔ لکھّی سنگھ کو خیال آیا کہ مونگی توری کی بیل کو جہاں سے کاٹا گیا تھا، وہاں سے زیادہ سرسبز ہے۔ وہاں زیادہ کونپلیں پھوٹی ہیں۔ وہ فوراً بول اُٹھا، یہ پودے کاٹنے چھانٹنے سے زیادہ نشوونما پاتے ہیں، تبھی تو میں کرنیل کو مارتا ہوں۔

جس دن لکھّی سنگھ اور بسنتو کا جھگڑا ہوتا، اُس دن بسنتو وہی ڈھیلا ڈھالا گلابی بلاؤز پہنتی جس سے لکھّی سنگھ کو سخت نفرت تھی ، اور وہ دوپہر تک سر کے بالوں کو سیدھا نہ کرتی۔ اپنے کپڑوں اور اپنی شکل سے وہ یوں سست اور زرد دکھائی دیتی، جیسے وہ حائضہ ہے۔ کبھی کبھی وہ اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ کراہتی اور لکھّی سنگھ آہستہ آہستہ کراہنے سے بہت گھبراتا تھا۔ زور سے رونے کا اس پر کبھی اثر نہیں ہوا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ یہ ہلکی ہلکی چیزیں مثلاً ہلکی کھانسی، ہلکا ہلکا بخار، ہلکا ہلکا ہنسنا ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس وقت بسنتو اسے مزید تنگ کرنے کے لیے کھاٹ پر اوندھی پڑ جاتی اور پائنتی میں پانو اڑا کر یونہی زور لگانے لگتی اور بچہ سفری پنگورے میں نصف دھوپ اور نصف چھاؤں میں ایک ہولناک آواز سے کراہتا رہتا اور پھر یک دم چیخ اُٹھتا۔ جیسے اُسے چیونٹیوں کے کسی دستہ نے یک لخت کاٹ کھایا ہو۔

ہنڈیا میں سے ہلکا ہلکا دھواں اُٹھ رہا تھا۔ آلُو اُبل چکے تھے۔ بسنتو نے اُنھیں سرد پانی میں انڈیلا اور لکھّی سنگھ انھیں چھیل کر کھانے لگا۔ ان آلوؤں کے سِوا گھر میں کچھ بھی نہیں تھا، اور   لکھی سنگھ یہ بھول جانا چاہتا تھا کہ ان سیر آلوؤں میں بسنتو، کرنیل، لکھمیر اور بچے کا بھی حصہ ہے۔ وہ کہتا، ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ آلو پیٹ کو غلیظ کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ نمک مرچ لگا کر اُنھیں چٹخارے لیتا ہوا کھا لیتا ۔گویا کہہ رہا ہو، مجھے اپنے پیٹ کی غلاظت بہت پسند ہے۔

زندگی خوشگوار تھی۔ اس میں آسائش نہ تھی۔ سوہن حلوہ نہ تھا، لیکن آلو تو تھے اور لکھّی سنگھ ہر روز شام کو چیمبرلین روڈ پر سے ہوتا ہوا سبزی منڈی کے قریب جا کھڑا ہوتا اور ساندہ شمس الدین کو لوٹنے والے چھکڑوں پر سے تمام آلو سمیٹ لیا کرتا۔ اٹھارہ تاریخ کو اُسے ہندستان ٹائمز سے ’’گداگروں کے مسائل‘‘ کے مضمون کے پیسوں کی توقع تھی اور آج بارہ تاریخ تھی۔ پیٹ کی آگ کے لیے آلو کافی تھے۔

اچانک کمیٹی کی طرف سے بیل گاڑیوں کے لیے نیومیٹک ٹائروں کا بل پاس ہو گیا۔ یہ سب کچھ غریب گاڑیبانوں کی استطاعت سے باہر تھا۔ وہ سو روپے کے ٹائر کیسے مہیا کرسکتے تھے؟ کامریڈز کے ایک اجلاس نے گاڑیبانوں کی ہڑتال کروانے کا فیصلہ کر لیا اور لکھّی سنگھ نے بھی ہڑتال کو کامیاب دیکھنے میں سرگرمی سے کام کرنا شروع کر دیا۔

ہڑتال کے پہلے ہی روز زندگی آلوؤں سے خالی ہو گئی تھی۔ یکسر خالی۔ ٹیوشن کی تلاش میں سارا دن گھر سے باہر گھومتے رہنے کے بعد لکھّی سنگھ بسنتو کی وسیلہ سازی پر یقین کرتا ہوا ایک مجرم کی طرح گھر کے اندر داخل ہوا ،لیکن بسنتو روزمرہ کی طرح آلوؤں کا انتظار کر رہی تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی لکھّی سنگھ غور سے بینگن کے پودوں کی طرف دیکھنے لگا۔ لیکن ابھی تک تو پودوں کے کلوروفل نے بھی اچھی طرح سے نشوونما نہیں پائی تھی۔

لکھّی سنگھ بسنتو سے لڑنا چاہتا تھا، تاکہ وہ آلوؤں کے متعلق پوچھے ہی نہیں اور لڑنے کے بعد دونو ایک دوسرے سے لڑکر خاموشی سے اپنی اپنی جگہ پر پڑ رہیں۔ لکھّی سنگھ چاہتا تھا کہ اس لڑائی کے بعد ہمیشہ کی طرح بسنتو اپنے میکے چلے جانے کی دھمکی دے اور وہ فوراً رضامند ہو کر اُسے اسٹیشن پر بلا ٹکٹ گاڑی میں سوار کروا دے۔ لیکن آج بسنتو نے وہ گلابی بلاؤز نہیں پہنا ہوا تھا۔ آج اُس نے دیل کی سفید دھوتی باندھ رکھی تھی جس سے لکھّی سنگھ کو عشق تھا۔

اُس وقت لکھّی سنگھ نے بسنتو کو گاڑی بانوں کی ہڑتال کے متعلق بتایا اور آلوؤں کے نہ لانے کی وجہ بیان کی ۔ بسنتو کچھ دیر اپنا سر ہاتھ میں دیے بیٹھی رہی۔ پھر وہ خشمگیں انداز سے  لکھّی سنگھ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’تم نے ہڑتال کی مخالفت کیوں نہ کی؟‘‘

لکھّی سنگھ نے کوئی جواب نہ دیا۔ بسنتو ہڑتال کے محرکوں کو گالیاں دینے لگی۔ ان محرکوں کو جن میں اُس کا اپنا لکھّی سنگھ بھی شامل تھا اور جن میں سے بخشی محض اس لیے نکل چکا تھا کہ وہ آلوؤں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ لکھّی سنگھ سوچنے لگا۔ بسنتو نے ایک اچھے کامریڈ کی طرح ہمیشہ میرا ساتھ دیا تھا، لیکن اب وہ بھی مجھے جواب دے رہی ہے۔ اُس وقت کرنیل گلی میں سے آیا اور باپ کو خالی ہاتھ دیکھ کر رونے لگا۔ بسنتو صبح سے اُسے باپ کی آمد کا انتظار کرنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ اپنے بیٹے کو یوں روتا دیکھ کر بسنتو اور بھی زہر ناک ہو گئی۔

لکھّی سنگھ کو بسنتو سے یہ امید نہ تھی۔ وہ اپنا سر دونوں ہاتھوں میں دے کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔

’’کیا بسنتو رجعت پسند ہو گئی ہے؟‘‘

٭٭٭

 

 

 

معاون اور میں

 

وہ  گنتی میں پانچ تھے، پورے پانچ۔ زرد رُو اور پژمردہ سے چھوکرے … یوں دکھائی دیتا تھا جیسے جان بخش ٹھنڈی ہوا کے ایک جھونکے اور روشنی کی ایک کرن کے لیے ترس گئے ہوں۔ اُن کی آنکھیں دور تک اندر دھنس گئی تھیں اور روشنی کے انحراف پر کھڑے ہونے کی وجہ سے صرف چند تاریک سے گڑھے دکھائی دیتی تھیں۔ اس سے پہلے وہ جہاں کہیں بھی تھے، اُن کے بشرے کہے دیتے تھے کہ لا انتہا کام اور فکر نے اُن کی صحت کو غارت کر دیا تھا۔

بائیں طرف سے چوتھے، چق کے قریب کھڑے ہوئے لڑکے کے چہرے پر کی آڑی ترچھی لکیروں میں مجھے خود اعتمادی کے آثار دکھائی دیے اور جہاں باقیوں کی نظریں ’’آقا‘‘ کی متجسس نگاہوں سے جھینپتی ہوئی، دفتر میں لٹکی ہوئی پرانی کنزلے ریڈ کراس کے پوسٹر پر جم رہی تھیں۔ وہاں وہ اپنا لاغر سا چہرہ اٹھا کر ایک پُر تمکین نگاہ سے میری طرف دیکھتے رہنے کی جسارت کر رہا تھا۔ میں نے ایک چبھنے والی نگاہ سے اُس کے مٹیالے سیاہ رنگ کی اچکن پر لگے ہوئے پیتل کے، زنگ آلودہ بٹنوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’آپ کا کیا نام ہے؟‘‘

’’پتمبر لال۔‘‘

’’تعلیم‘‘؟

’’میٹرک پاس ہوں۔ ٹائپ جانتا ہوں۔ ساٹھ کی اسپیڈ ہے۔‘‘

… اُس کی تعلیم اور ’’اسپیڈ‘‘ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں نے پھر ایک نظر سے     پتمبر لال کے پورے قد کو ماپا اور قدرے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’میرے خیال میں آپ نے پہلے بھی کہیں کام کیا ہو گا۔‘‘

’’اس سے پہلے میں تھوڑی سی مصوری اور پھر بلاک بنانے کا کام کرتا رہا ہوں۔ بلاک بناتے وقت جست پر شورے کا تیزاب لگایا جاتا ہے۔ تیزاب کے دھوئیں نے میرے پھیپھڑوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ میں نے وہ کام چھوڑ دیا۔ ایک دو جگہ اور ملازمت کی اور پھر چھوڑ دی۔

میں حیرانی سے اُن پانچوں کے چہروں کی طرف دیکھنے لگا۔ اُن میں سے کوئی بھی زمانہ کی دست بُرد سے نہیں بچا تھا۔ جیسا کہ مجھے بعد میں پتہ چلا، تیزاب کے دھوئیں نے نہ صرف اُس کا بایاں پھیپھڑا چھلنی کر دیا تھا، بلکہ دنیا کی خوفناک ترین بیماری اُسے لگا دی تھی۔ اس بیماری کا اخفا مصلحت تھی، اس لیے پتمبر لال نے حقیقت کو چھپائے رکھا۔ بہت کچھ استفسار کے بعد مجھے صرف یہ پتہ چلا کہ میرے مقابل کھڑا ہوا لڑکا ایک خود دار انسان ہے۔ کسی کی ناجائز بات کو نہیں مانتا۔ اس لیے دو تین جگہ، جہاں بھی اس نے کام کیا، اپنی خود داری کو ٹھیس لگنے سے، چھوڑ دیا۔ اب وہ عرصہ سے بیکار تھا۔

یسوع کے وہ الفاظ ’’تو منصف مت بن کہ تیرا بھی انصاف کیا جائے گا‘‘ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ جب کہ میں نے پُر شکوہ الفاظ میں پتمبر لال کو کہا ’’آپ کی اچکن کے زنگ آلود بٹن آپ کی صفائی پسند طبیعت کے داد خواہ ہیں ۔معاف کیجیے، مجھے آپ کی ضرورت نہیں‘‘… اس کے بعد مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے میں نے پانچوں کو رخصت کر دیا۔

وہ زینہ سے اترتے جاتے تھے اور ایک پُرحسرت نگاہ سے میری طرف دیکھتے جاتے۔ پتمبر لال نے اپنا وہ چہرہ، جو میرے اظہارِ خیال کے بعد بہت ہی زرد ہو گیا تھا، اُٹھاتے ہوئے ایک جگر سوز نگاہ سے میری طرف دیکھا۔ میرے دِل میں ایک ٹیس سی اُٹھی۔ شاید ایسی درد انگیز ٹیسیں بیسیوں ہی اُٹھتیں اگر میں ذرا نمایاں طور پر اپنی ضرورت کا اعلان کرتا۔ اشتہار چھپوا کر اخباروں میں یا شہر کی مختلف گزر گاہوں پر لگاتا۔ میں نے تو قصداً خفی قلم سے لکھ کر اپنے دفتر کے دروازہ پر چسپاں کر دیا تھا کہ ضرورت ہے ایک محنتی اور قابل کلرک کی جو پندرہ روزہ رسالہ ’’کہانی‘‘ میں کام کرے۔ تنخواہ بلحاظ تجربہ و لیاقت۔

نہ معلوم میرے جی میں کیا آئی کہ میں نے پتمبر لال کو واپس بلا لیا اور سترہ روپئے ماہانہ پر اُسے ’’کہانی‘‘ میں بطور معاون کے لے لیا۔ چند دن کے تجربہ کے بعد میں نے دیکھا کہ پتمبر لال اُن ملازموں میں سے تھا، جنھیں قدرت نے جبلی طور پر آزاد بنایا ہو، لیکن زمانہ کے زیر و زبر نے اُنھیں ’’عبد‘‘ بنا دیا ہو۔ اخلاق جلالی کے مدبر مصنف نے ایسے ملازموں سے اپنے بچوں کاسا سلوک روا رکھنے اور اُنھیں وہی پوشاک پہنانے کی ،جو کہ خود پہنی جائے، تلقین کی ہے۔ مگر میں اس وقت ان آقاؤں سے مختلف نظریہ رکھتا تھا۔حسبِ ہدایت مذکورہ مصنف مجھے پتمبر لال سے ایسا سلوک کرنا چاہیے تھا کہ وہ والہانہ خدمت کرتا۔ مگر میں نے ایسا سلوک نہ کیا ،بلکہ کبھی پتمبر لال کو یہ ذہن نشین نہ ہونے دیا کہ وہ ایک نہایت قابل معاون ہے۔ میں کام کے دوران میں اکثر یہ کہہ دیا کرتا کہ ایک معاون رکھ کر میں نے اپنے رسالے پر ،جو کہ عمر کی اولیں منازل طے کر رہا ہے، ایک ناقابلِ برداشت بوجھ ڈال دیا ہے۔

جس روز بھی میں پتمبر لال سے ایسی باتیں کرتا، یا یُوں قدرے دُرشت کلامی سے پیش آتا تو اُس کا لازمی اثر یہ پڑتا کہ میرا معاون ایک نہ ٹوٹنے والی خاموشی اختیار کر لیتا۔ قلم کا ایک سرا منھ میں رکھ کر غیر حاضر دل سے کسی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا اور سوچتا رہتا۔ جہاں اس سے پہلے وہ لطیف باتیں اور چست فقرے کہتے ہوئے خشک اور بے مزہ کام میں روح پھونک دیتا، وہاں وہ گھنٹوں خاموش رہتا۔ صرف بلانے سے بولتا اور اپنی خامشی میں کبھی کبھار ایک گہری سانس لیتا۔

اس دن دفتر کی حالت بہت ابتر ہوتی فائلیں، الماری یا میز پر اوندھی سیدھی پڑی ہوتیں۔ شمالی دروازے سے جب ہوا کا تند سا جھونکا آتا تو کسی کھلی ہوئی فائل میں سے چند اوراق ’’رسیدیں‘‘ یا یادداشت کے کاغذ اڑ کر فرش پر منتشر ہو جاتے۔ خریداروں کے خطوط کچھ قلمدان کے نیچے، کچھ میز کی درازوں اور کچھ اشتہاری چربوں میں مل جاتے۔ مسوّدات بڑی بے ترتیبی سے رکھے ہوتے غم و غصہ سے کانپتے ہوئے پتمبر بابو کے کمزور ہاتھوں سے تھوڑی بہت سیاہی میز پوش پر گر کر آہستہ آہستہ پھیلنے لگتی۔ کرسیاں، جن پر افسانہ نویس آ کر بیٹھتے، عجب بے ڈھنگے طور پر پڑی ہوتیں۔ اپنے افسانے کی تعریف میں ایک آدھ کلمہ سننے کے عادی افسانہ نویس، دفتر کی خامشی کو دیکھتے اور اپنے شہوانی کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر چل دیتے۔ پھر وہ مہینوں اپنے نادر افکار نہ بھیجتے۔ بعد میں مجھے اُن کے سامنے گڑگڑانا ہوتا۔ بکھرے ہوئے ردی کاغذ جنھیں میرا صفائی معاون عام طور پر اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا کرتا تھا، ویسے ہی بکھرے پڑے رہتے اور دفتر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے یہی معلوم ہوتاجیسے اُس دن ہم غیر معمولی طور پر مشغول رہے ہیں۔ گویا جذباتی ایڈیٹر کسی معرکۃ الآرا کہانی پانے پر میز کے ارد گرد ناچتا رہا ہے اور شاید جذبات سے مغلوب ہو کر کاغذوں، مسودوں، فائیلوں کو اٹھا اٹھا کر چھت کی طرف پھینکتا رہا ہے۔

پتمبر لال کا اشتہار فراہم کرانے کا طریقہ بالکل نیا تھا۔ وہ مارکیٹنگ کے طریقے، اقتصادی حالات، مقامی باشندوں کی معاشرت اور اُن کی خرچ کرنے کی اہلیّت سے واقف تھا۔ نفسیات میں فطری طور پر دخل رکھنے کے سبب وہ ’’کہانی‘‘ کے سے گمنام اور نئے پرچے کے لیے اشتہار فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔ بلاک بنانے اور چھاپہ خانہ میں کام کر چکنے کی وجہ سے وہ طباعت کے عمل اور انگریزی ٹائپ کے رُخ کو بھی جانتا تھا۔ وہ اشتہار کو باقاعدہ دو یا تین حِصّوں میں تقسیم کیا کرتا۔ مصور کے حصہ کا کام وہ ایک خاص مصور کو دے کر دل پسند کام لینے کے علاوہ کمیشن بھی اینٹھا کرتا۔ ایک دفعہ تو اشتہاری مضمون اور تصویر کے پیٹنٹ کروانے کی سر درد بھی اُس نے مول لے لی۔

کسی دوست کی وساطت سے پچھلے ماہ اُس نے چند ماہ کے لیے ریلوے کا مکمل صفحے کا اشتہار لا کر خاصی آمدنی پیدا کر دی تھی اور وہ آمدنی اوائل عمر میں ’’کہانی‘‘ کو ایک بہت بڑی مدد تھی۔ اس بات کی صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا کہ پتمبر لال نے ’’کہانی‘‘ میں جان ڈال دی تھی۔ اُس کی محنت ہی رسالہ کی کامیابی تھی۔ اُس کے استعداد کی وجہ سے مجھے یہی کھٹکا لگا رہتا تھا کہ پتمبر لال کہیں دفتر چھوڑ کر ہی نہ چلا جائے۔ چونکہ وہ خود بھی لکھنا جانتا ہے اور اشتہار بھی فراہم کرسکتا ہے کہیں وہ اپنا ہی کوئی رسالہ نہ نکال لے۔ چنانچہ اسی خوف کے ردِ عمل نے مجھے  پیش قدمی پر مجبور کر دیا۔ میں نے کہا۔

’’بابو پتمبر لال ! تم اپنا ہی کام کیوں نہیں چلا لیتے … میں جانتا ہوں تم کام اچھی طرح سے نباہ سکتے ہو۔ معقول آمدنی کا ذریعہ پیدا کرسکتے ہو اور پھر …… جب کہ تمھاری ساٹھ کی اسپیڈ ہے۔‘‘

پھر میں نے خود ہی کھسیانہ ہوتے ہوتے ہوئے کہا۔

’’اور … … اور …… مجھے ایک معاون کی ضرورت بھی تو نہیں رہی۔‘‘

پتمبر لال اس جملے کو متعدد بار سن کر تنگ آچکا تھا۔ اس لیے سٹپٹاتے ہوئے بولا۔

’’ضرورت نہیں۔ تو مجھے بار بار کیوں سناتے ہیں آپ؟ کیوں نہیں مجھے ……۔‘‘

اور بغیر بات کو مکمل کیے پتمبر لال خاموش ہو گیا۔پھر اُس نے اپنے سر کو ایک جھٹکا دیا۔ جیسے وہ تلخ حقائق سے دوچار ہونا تو کجا، اُس کے تخیل سے بھی گھبراتا ہو۔ میں جو کہ دراصل اُس کی علاحدگی کو بغیر اپنے آپ کو گزند پہنچائے گوارا نہیں کرسکتا تھا یوں کانپ اُٹھا جیسے مجھ پر ایک لخت کسی نے سرد پانی انڈیل دیا ہو۔ میں نے اپنی بات کو بدلتے ہوئے کہا۔

’’آج کل تو ضرورت ہے۔ مگر مستقل طور پر تو نہیں۔ بابو۔ بابو … میرا مطلب سمجھ گئے تم؟‘‘

پھر مجھے یوں محسوس ہوا، گویا میری بات تشنۂ تکمیل ہے۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنے آپ کو کہتے ہوئے پایا۔

’’میرا مطلب ہے، تم کیوں اپنا کام چلا کر ایک معقول آمدنی کا ذریعہ نہیں بنا لیتے؟‘‘

بظاہر میں نے وہی بات دُہرائی تھی، لیکن اُسے کہہ دینے سے میں نے دل پر سے ایک بوجھ سا اٹھا دیا تھا۔

میرے معاون نے اپنا زرد اور فرطِ غم سے گرا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا۔ اُس نے کچھ کہنا چاہا مگر اُسے کھانسی شروع ہو گئی اور ایک کانٹا سا اُس کے گلے میں کھٹکنے لگا۔ اُس نے منھ اور ناک پر رومال رکھ لیا، تاکہ ہوا مجھ تک چھن کر آئے۔ پانچ منٹ تک آہستہ آہستہ مگر لگاتار کھانستے رہنے سے بابو پتمبر لال کراہنے لگا ۔جب ذرا دم سیدھا ہوا تو اُس نے بائیں ہاتھ سے چشمہ اُٹھا کر پیشانی پر سرکا دیا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا۔

’’لیکن کام کے لیے کچھ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

’’میں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’تعجب ہے کہ تم اکیلی جان سترہ روپئے  خرچ کر ڈالتے ہو۔‘‘

’’پتمبر لال نے بات کرنے کے لیے حلق میں کھٹکنے والے کانٹے کو انگوٹھے سے دبائے رکھا اور نتھنے پھُلاتے ہوئے بولا۔

’’آپ کو کس نے بہکا دیا کہ میں اکیلا ہوں۔ میری ایک بہن ہے ، شادی کے قابل، اور ایک بیوہ بوا ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ گو ماں باپ مر چکے ہیں… اور جناب ! شاید آپ یہ نہیں جانتے کہ آٹھ آنے کا تو وہی پالش آتا ہے جو کہ اچکن پر لگے ہوئے بٹنوں میں چمک پیدا کرتا ہے۔‘‘

اور اس بات کو سخت نفرت سے کہنے پر پتمبر لال ذرا بھی نہ جھجکا۔ اس کے بعد اُس نے اپنا دُبلا پتلا چہرہ دوسری جانب پھیر لیا۔ پہلو سے روشنی کے خلاف پتمبر بابو کی پروفائل بہت ہی مہیب دکھائی دیتی تھی۔ اُس نے بات کیا کی، مجھے ایک چپت لگا دی، جس کے سہے بغیر چارہ نہ تھا اور ابھی تو اُس نے ذاتی خرچ کی ایک مد ہی بتائی تھی اور پھر اس کی بہن جو اسکول میں پڑھتی تھی … اور بیوہ بوا…

میں نے دل میں خیال کیا کہ میں نے اس نوعمر چھوکرے سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔اپنی تمام خود داری اور خود اعتمادی کے ساتھ وہ مجھ سے کہیں بڑا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ میں اُس کا نوکر معلوم ہوتا ہوں۔ اُس کے اندازِ گفتگو پر مجھے غصہ محض اس لیے آیا کہ آخر میں آتا تھا۔

اس کے بعد میں نے پتمبر بابو کو کچھ نہ کہنا چاہا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ اُس کے خلاف طبیعت کوئی بھی بات ہونے پر فضا مکدر ہو جائے گی اور میرے دل کا چین اور راحت چند گھنٹوں کے لیے بالکل فنا اور برباد ہو جائے گی۔ پتمبر لال کے تمام دن کبیدہ خاطر رہنے اور کام میں دلچسپی نہ لینے سے تمام فائلیں میز پر کھلی پڑی رہیں گی۔ وصول کرنے والے بل وصول شدہ بلوں میں پروئے جائیں گے۔ نئے آرڈروں والی چھٹیاں تعمیل شدہ آرڈروں کے ساتھ ردی کی ٹوکری میں جا پڑیں گی۔ لکیریں کھینچنے کے لیے فٹ رول، باوجود کوشش کے نہ مل سکے گا۔ ڈاک خانہ میں جانے والے وی-پی پیکٹ پر کوئی رقم اور فارم منی آرڈر پر مختلف رقم لکھے ہونے پر ڈاک خانے کا خبیث سب پوسٹ ماسٹر چپڑاسی کو تمام وی- پی واپس کر دے گا، تاکہ دفتر میں جا کر درست کرالی جائیں۔ ان تمام باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے میں نے چپ ہی مناسب سمجھی۔ یہ نہ صرف پتمبر لال کے لیے اچھا تھا، بلکہ میرے اپنے لیے بھی۔ محض ذاتی مفاد، خود غرضی سے میں خاموش رہا اور میں اتنی دیر چپ رہا کہ مجھے کھجلی ہونے لگی۔

کچھ عرصہ بعد میں نے کہا۔ ’’بابو … جب تک میں نہ کہوں کہ منی آرڈر کے کوپنوں کا اندراج کرو، تب تک تم سوئے رہو گے۔ خودبخود نہ کرو گے کیا؟‘‘

پتمبر لال نے جواب دینا چاہا، مگر اُسے چھینک آ گئی اور پھر ہلکی ہلکی کھانسی شروع ہو گئی۔ پھر اُس نے کچھ نہ کہا۔ وہ تو سانس لینے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ بات کیا کرتا۔

اس بار وہ ہفتہ بھر خاموش رہا۔

پتمبر لال کی شخصیت نے ہی دراصل مجھ میں احساسِ ذات پیدا کر دیا تھا، ورنہ اس سے پہلے زندگی کی مختلف دوڑوں میں مجھے کئی ایک خوشگوار اور ناخوشگوار ملازموں سے پالا پڑا تھا، لیکن کسی کے سامنے مجھ میں آقا پن کی نمود اتنی شدت سے نہ ہوئی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ میرا اپنا ہی احساسِ کمتری تھا جو بہروپیا بن کر مجھے ستاتا تھا۔

کچہریوں کے اشتہار حاصل کرنے کے لیے میں نے پچھلے ماہ چند ایک اضلاع کا دورہ کیا تھا اور منصفوں کے سامنے اشتہار حاصل کرنے کے لیے گڑ گڑایا تھا۔ لیکن اب تک صرف دو اشتہار ملے تھے۔ اُن میں سے ایک سینئر سب جج گورداس پور کا تھا،جو کہ شریف اور خلیق جج نے اُسی وقت دے دیا تھا، اور دوسرا تحصیلدار صاحب موگا کا تھا جنھوں نے عنقریب ہی بھیجنے کا وعدہ دیا۔

دسمبر کا آغاز تھا اور میں جانتا تھا کہ کرسمس کی گیارہ چھٹیاں ہو جانے پر ان سرپرستوں کی طرف سے پھر ہماری طرف کوئی بھی متوجہ نہ ہو گا، اس لیے میں کچھ گھبرا سا گیا۔

ان دنوں پتمبر لال کچھ خوش تھا۔ میں نے احتیاطاً چند دنوں سے اپنے آپ کو اُس کے راستہ میں آنے سے باز رکھا۔ وہ کاغذ کو اوپر نیچے کرتا ہوا سیٹیاں بجاتا تھا۔ شاید اس لیے کہ ’’دتیا‘‘ کی لاٹری سے اُسے تیس روپے آئے تھے۔ لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کا معترف تھا کہ اُن روپوں کے تصرف کے متعلق سینکڑوں خیالوں نے اُس کے ذہن کو پریشان کر دیا تھا اور اُس کی نیند چھین لی تھی۔ اگر کوئی بات صحیح معنوں میں اُسے سکون دیتی تھی، تو وہ یہ کہ اُس کی بہن اسکول سے نکلتے ہی ایک زنانہ صنعتی اسکول میں چھوٹی لڑکیوں کو سلائی اور کروشیا سکھانے پر نوکر ہو گئی تھی اور اس وجہ سے پتمبر بابو کی آمدنی میں معقول اضافہ ہو گیا تھا۔ اُس کی خوشی کو دیکھ کر مجھے عدالتی اشتہاروں کا خیال بھی بھول گیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیوں … کیا بات ہے بابو؟‘‘

’’نہیں … یونہی … ‘‘پتمبر نے گدگدی محسوس کرتے ہوئے کہا۔

اس کے بعد پتمبر نے دو ایک چست باتیں کیں۔ میں نے خوش ہو کر کہا ’’یہ بہت اچھا ہوا جو تمھاری بہن صنعتی اسکول میں جانے لگی ہے۔ کیا مشاہرہ ملے گا؟‘‘

ایک پُر غرور انداز سے پتمبر بولا ’’پچیس روپئے ماہانہ … مجھ سے بھی آٹھ روپئے زیادہ۔‘‘

اُس وقت مجھے یوں دکھائی دیا، گویا فضا میں ایک خلاسا پیدا ہو گیا ہے، جسے پُر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور کمرے کی تصویریں اور کنزلے اپنی اپنی جگہ سے ہٹ گئی ہیں اور میز پر پڑا قلمدان اپنی جگہ سے بہت دور سرک گیا ہے۔ فائلیں قدرے بے ترتیب رکھی ہوئی ہیں اور سب کچھ میرے ایک معمولی اشارے سے اپنی اپنی جگہ پر چلا جائے گا اور پھر میرے دل سے ایک  بوجھ سا اتر جائے گا۔ چنانچہ میں نے اپنے کو کہتے ہوئے پایا۔

’’اب تو تم اپنی مشترکہ آمدنی سے کوئی اخبار جاری کرسکتے ہو۔‘‘

پتمبر لال نے ہنسنا بند کر دیا۔ وہ بہت رنجیدہ بھی نہ ہوا۔ گویا وہ میری ناقابلِ اصلاح طبیعت سے مانوس ہو چکا ہو۔ صرف چند ایک تیور اُس کی پیشانی پر نمودار ہوئے اور وہ کھانستے ہوئے بولا۔

’’کہاں؟ … اس کی تنخواہ تو ہم اس کے بیاہ کے لیے اکٹھی کیا کریں کے۔‘‘

پھر جیسے پتمبر کو کوئی بھولی بسری بات یاد آ گئی ہو۔ وہ کٹ کر اُٹھا اور برآمدے میں جا کر اپنی خفگی کو سگرٹ کے دھوئیں سے پیدا ہوتے ہوئے حلقوں میں جذب کرنے لگا۔ اُس کی میز پر بہت سے کاغذ بکھرے پڑے تھے، گویا وہ ابھی ابھی کچھ لکھتا رہا ہو۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ایک سرسری نظر اُن کاغذوں پر ڈالی اور مجھے یہ دیکھ کر کچھ حیرانی اور کچھ خوشی ہوئی کہ عدالتی اشتہاروں کی بات، جو چند دنوں سے مجھے سراسیمہ کر رہی تھی، پتمبر بھی اُس کا حل سوچنے میں مصروف تھا۔ لیکن وہ چٹھیاں جو اس نے دلیری سے منصفوں کے نام لکھی تھیں، اُن میں دوستانہ طریقہ تخاطب کو میں نے پسند نہ کیا۔ میں نے برآمدے سے پتمبر کو بلاتے ہوئے کہا۔

’’پتمبر بابو! دیکھو نا۔ منصف اور جج کا عہدہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ ان سے ایسا دوستانہ تخاطب کچھ اچھا نہیں لگتا۔‘‘

بابو اس انداز سے میری طرف دیکھنے لگا، گویا اُس کے سامنے کوئی نپٹ گنوار کھڑا ہو، اور بولا۔

’’معلوم ہوتا ہے آپ کو اپنے پر کچھ بھی اعتماد نہیں ہے۔ آپ شاید یہ نہیں جانتے کہ جرنلزم کتنا ارفع پیشہ ہوتا ہے اور سماج کے کتنے بڑے بڑے ارکان اخبار والوں کے دستِ تعاون کے محتاج ہوتے ہیں اور پھر ایک دُکاندار کی حیثیت سے تو یہ لوگ پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتے … ان لوگوں کے سامنے ہمیں غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ان لوگوں سے ایسے ہی تعلقات پیدا کرنے چاہئیں، گویا ہم رتبہ میں اُن سے کسی طرح بھی کم نہیں۔‘‘

’’کچھ بھی ہو‘‘ میں نے اپنی بات کی رٹ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’ میں اس طرز تخاطب کو پسند نہیں کرتا۔ اس کا نتیجہ بھی دیکھ لینا۔‘‘

اس کے بعد میں نے کچھ کہنا چاہا، لیکن پتمبر کا چہرہ سنجیدگی اختیار کر گیا، اس لیے میں ڈر کر خاموش رہا ۔ 26؍ دسمبر تک ہمیں چھ عدالتی اشتہار موصول ہو گئے۔

تمام وہ لوگ جو کسی بھی مفاد کے لیے شب زندہ داری اختیار کرتے ہیں، اُن کی بیویاں اعلانیہ طور پر انھیں کوسنے دیتی ہیں تا وقتِ کہ اپنی محنت کے اجر کا خوبصورت سا تخیل، جس میں خوبصورت ساڑھیاں بھی دکھائی دیں اور بچوں کے لیے گاڑی بھی، اُن کے سامنے پیدا نہ کیا جائے۔ وہ شب زندہ داری سے متفق نہیں ہوتیں۔ میری بیوی کی ناراضگی کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ میں اُسے یہ بھی نہ بتا سکتا تھا کہ صبح فلاں سبزی پکائی جائے اور شام کو فلاں دال اور ہر ایسی بات پر اکثر گھر میں ناخوشگوار سی جھڑپ ہو جایا کرتی تھی۔ آج میں گھر سے ہی جھگڑ کر سونے کے لباس اور سلیپروں میں دفتر چلا آیا تھا اور روٹی بھی وہیں منگوا لی تھی۔

روٹی کھاتے وقت مجھے یہ خیال ستا رہا تھا کہ آٹا بھی ختم ہے اور گھی بھی … اور شام کو کیا سبزی پکائی جائے؟

وائے قسمت آج پتمبر لال پھر خاموش تھا۔ نہ معلوم اُس ذکی الحس شخص کے جذبات کو کس نے ٹھیس لگائی تھی۔ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ کم از کم اُس دن میں نے تو اُسے کوئی رنجیدہ کرنے والی بات نہ کہی تھی۔ آج وہ گھر سے ہی ایسے آیا تھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ پتمبر بابو کی بہن مسلسل بیماری کی وجہ سے صنعتی اسکول کی ملازمت سے علاحدہ کر دی گئی ہے۔ پتمبر کے پاس جو کچھ تھا، وہ سب کچھ دوا دارو پر ختم ہو گیا۔ اب اُس کے پاس علاج معالجہ تو ایک طرف، پیٹ کی آگ خاموش کرنے کے لیے بھی کچھ نہ تھا، اور وہ دو دن سے بھوکا تھا۔ بعض وقت بدنصیب انسان کو قدرت محض اس لیے کچھ دیتی ہے تاکہ پھر اُس سے چھین لے۔ قدرت اپنی حز نیہ تمثیل کو     مقامِ اوج تک پہنچانے کے بہت سے طریقے جانتی ہے۔

اُس دن بھی میں پتمبر لال سے خائف ، ایک کونے میں دبکا ہوا بیٹھا رہا۔ پھر میں نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’میں پتمبر لال سے اتنا خائف کیوں ہوں؟ … آخر وہ میرا نوکر ہی ہے نا۔‘‘

اس کے بعد ایک زبردست ردِ عمل میں مَیں یہ بھی بھول گیا کہ پتمبر دو دن سے بھوکا ہے۔ میں نے مڑ کر کہا۔

’’بابو … آج شام کو کچھ سبزی اور آٹا تو میرے گھر پہنچا آنا … پیسے میں دیتا ہوں۔‘‘

اور میں نے اُس کا جواب سنے بغیر پیسے میز پر رکھ دیے ۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ اگر  پتمبر لال کی جگہ کوئی اور دفتر کا ملازم ہوتا، تو شاید میں اس سے یہ کام کبھی نہ کہتا … پتمبر لال حیرت سے میرے منھ کی طرف دیکھنے لگا۔ آہستہ آہستہ اُس کا رنگ زرد ہونے لگا۔ شانے پھڑکنے لگے۔ وہ بولا ۔

’’لیکن جناب … … آ پ نے دفتر کے کام کے لیے مجھے رکھا ہے … نہ کہ نج کے لیے۔ معاف کیجیے مجھ سے یہ کام نہ ہو سکے گا۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’کام صرف پندرہ منٹ کا تو ہے اور میں تمھیں دفتر کے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے چھٹی دیتا ہوں۔

’’خواہ دو گھنٹہ کی چھٹی دیں، یا دفتر کے وقت کے دو گھنٹہ بعد تک بٹھائے رکھیں، لیکن یہ کام مجھ سے نہ ہو گا۔‘‘

’’آخر اس میں حرج بھی کیا ہے؟‘‘

’’دفتر کے کام اور نج کے کام میں بہت فرق ہے؟‘‘

’’فرق ہے‘‘! میں نے غصے میں کانپتے ہوئے کہا۔ ’’آپ جان بوجھ کر رزق کو دھکا دے رہے ہیں۔‘‘

’’بے شک‘‘ مجھے دلیرانہ جواب ملا۔‘‘

’’کل مہینہ ختم ہوتا ہے۔ براہِ مہربانی اپنا بندوبست کر لیجیے۔‘‘

اس وقت میری نظر ’’کہانی‘‘ کے تازہ ترین شمارے پر پڑی۔ اُس میں آدھا ریڈنگ میٹر تھا اور آدھے اشتہارات اور یہ جو کچھ بھی تھا، پتمبر لال کی محنت کا نتیجہ تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب کہانی کے رنڈاپے کے دن آ گئے۔

اُس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ پتمبر لال کے سامنے اپنے رویّہ پر اظہارِ معذرت کروں اور اُسے کہہ دوں کہ وہ بات صبح کے ناخوشگوار واقع کی وجہ سے ہو گئی ہے لیکن … آقا … نوکر …

میں اس بات کو سوچتے ہوئے برآمدے میں چلا گیا۔ پیچھے سے میں نے قفل لگنے کی آواز سنی اور جب میں نے مڑ کر دیکھا تو مجھے چابی تالے کے قریب پڑی ہوئی دکھائی دی۔ اس وقت پتمبر بابو لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا بازار کی طرف ہو لیا۔

اُس وقت میں کنایتاً بھی نوکری چھوڑنے کا خیال پتمبر کے ذہن میں پیدا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں بآواز بلند پکارا۔

’’پتمبر … پتمبر بابو، چابی لینا بھُول گئے تم۔‘‘

پتمبر چلتا گیا۔ میں نے سوچا، کیوں نہ میں آقا پن کو ہمیشہ کے لیے پامال کر دوں۔ اسی سونے کے کپڑوں اور سلیپروں میں اُس کے پیچھے دوڑ جاؤں اور گڑ گڑا کر معافی مانگ لوں۔ راستہ میں میرا سلیپر کیچڑ میں دھنس کر رہ جاتا ہے، تو رہ جائے۔ کسی کار کے پائدان سے ٹکرا کر پٹڑی پر اوندھا گر پڑتا ہوں اور میرا سر پھٹ جاتا ہے، تو پھٹ جائے۔ آخر آقا پن اس سے کم ذلیل ہونے پر تھوڑے ہی معدوم ہوتا ہے۔

اور جب میں نے دوڑنا چاہا تو میرے پانو زمین میں گڑ گئے۔ موڑ پر پہنچتے ہوئے پتمبر نے صرف ایک دفعہ میری طرف دیکھا۔ گویا کہہ رہا ہو … ’’یہ ٹھیک ہے میں بھوکا مر رہا ہوں، لیکن اپنی جیب میں کسی کی چابی کا بوجھ مجھ سے بھی برداشت نہ ہو سکے گا۔‘‘

٭٭٭

 

 

چیچک کے داغ

 

 

اب وہ ایسی جگہ کھڑا تھا جہاں کسی کی تنقیدی نگاہ نہیں پہنچتی تھی…لوہے کے بڑے کیلوں والے، بلند شہری پھاٹک کے پیچھے، جہاں ڈھور کا سارا گوبر بکھرا پڑا تھا اور اُس کی بدبو، ماگھ کی دھُند کی طرح، سطح زمین کے ساتھ ساتھ تیر رہی تھی۔ جہاں اُس کی بہن ایک بٹھل میں، گلی کی کسی زچہ کے لیے، گائے کا پیشاب لے رہی تھی…لیکن سکھیا نے تو اِن کا منھ بہلی ہی میں دیکھ لیا تھا۔ اس پر چیچک کے بڑے بڑے اور گہرے داغ تھے،جیسے اُس کے میکے ماتن ہیل کی موٹی ریت پر بارش کے بڑے بڑے قطرے پڑے ہوں۔

اس نئے گھر کا رہن سہن کتنا پرانا تھا اور یوں بھی کچھ سوجھ والے ہاتھوں کا محتاج … دیواروں میں رنجیت شاہی چھوٹی اینٹیں، بوڑھے کا کا کے دانتوں کی طرح اپنے مرے ہوئے جبڑوں میں علاحدہ علاحدہ اور باہر ابھری ہوئی تھیں۔ دیواروں کی ٹیپ … سن، ماش اور چونا برس ہوئے اُڑ چکا تھا۔ ایک دیوار پر مٹی اور بھوسہ ملا کر لیپن کیا گیا تھا۔ پھر اس پر چُونا پھیر کر، گیروے رنگ سے، بڑے بڑے اور بد زیب ناگری حروف لکھ دیے گئے تھے۔ بھنڈارے کے قریب، ہنڈیا پر مہریا بیٹھی ایک بے محل اور بے سُر گانا گا رہی تھی … اپجس (گناہ) کی مت باندھو گٹھڑیا … بیچاری مہریا! وہ اُن گناہوں پر نادم ہو رہی تھی، جو اُس نے کبھی نہیں کیے تھے، جو وہ کرنے کے اہل ہی نہ تھی۔ یا شاید وہ یہ گانا اس لیے گا رہی تھی کہ چھوٹے لالا کی شادی پر اُسے بہت تھوڑا لاگ ہوا تھا۔

’’ارے او لالا! تُو کیوں کھڑا ہو رہیا کوبرماں؟‘‘

گھر کی اماں نے آواز دی۔ اس وقت بڑا لالا ناریل کا دم لگائے ہوئے، صحن میں کھڑا اماں پر ہنس رہا تھا …… اب رام نام کے بعد میّا نے کُلی کر دی۔ بھلا کیا لابھ اِ س پوجا پاٹ سے؟ رام نام ہی کُلی کر دیا۔ واہ ری اماں! … چپ رے، گھر کی اماں نے ایک بھونڈی مسکراہٹ سے کہا اور پھر پوجا کی آخری قسط پوری کرنے کے لیے بڑھیا نے پیتل کی ٹوٹی پھوٹی سی لُٹیا اٹھائی اور صحن کے مبہوت برہمن … پیپل کے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے پانو پر برف کا سا ٹھنڈا پانی گرا دیا۔ پیپل کانپ اُٹھا۔ یا شاید یہ پُروا کا جھونکا تھا،پھر پیڑ کے گھیر میں مولی کا سُرخ اور زرد تاگا لپیٹ دیا۔ بڑے لالا کا چھوٹا لالا بہت نٹ کھٹ تھا۔ اُسے چھوٹے بڑے، گلی گواہنڈ کے سب ’’صاحب‘‘ کہتے تھے۔ گھر کے سب لوگوں کے احتجاج کے باوجود اُس نے ایک بیسا پِلّہ پال لیا تھا اور باپ دادا کا جنم بھرشٹ کر دیا تھا۔ صاحب اُٹھا تو پِلّہ بھی ساتھ ہی۔ اُٹھتے ہی پلّے نے انگڑائی لی، منھ کھولا، زبان مچکائی، دھواں سا اڑایا اور صحن کے پیپل کے چرنوں میں پہنچ، ایک ٹانگ اُٹھا، اپنے واحد طریقے سے پوجا کر ڈالی۔

سکھیا کے سر میں رات کے سو میل کے چکر باقی تھے۔ لاری کی گھوں گھوں جھَر، ابھی تک اُس کے کانوں میں گونج رہی تھی اور اُسے گھیرے آ رہے تھے۔ بڑی نند نے چینی کی ایک پلیٹ میں لیموں کا اچار لا رکھا تھا۔ آ، ہا، چھی! سکھیا نے بیزار ہوتے ہوئے کہا۔ یہ لوگ چینی کے ٹِنڈر استعمال کریں۔ انہی جھُوٹے برتنوں میں کھانا کھاویں۔ ملیچھ مسلمانوں کی طرح … چھی! اچھی بہن! جا تو ذرا، سکھیا نے قریب کھڑی، ان کی بھانجی کو کہا۔ کوئی مراد آبادی کٹوریا نہیں تمھارے ہیاں؟ اس میں تو لے آؤ تھوڑی سی چاٹ ۔ متلی رک جائے۔ ذرا میں چینی وینی کے برتن میں نا کھاتی … اور دلہن ناک چڑھا، اُبکائیاں لینے لگی۔ بڑی نند، جی میں خوش ہوئی … اماں تو بوڑھی ہو گئی۔ وہ تو جھوٹے برتنوں اور دوسروں میں فرق کیا دیکھے گی ،لیکن یہ … اب اس نیّا کا کھویا آ گیا گھر ماں!

نند نے آپی پلیٹ اُٹھائی اور ٹل گئی۔ بلند شہری پھاٹک کی اوٹ میں کھڑے وہ سکھیا کو صاف دکھائی دے رہے تھے۔ انگریزی طرز کے بال کٹا رکھے تھے۔ نند کہہ رہی تھی۔ نکھلؤ سے  بی، آپاس کیا جیرام نے۔ گھر سے پرے شہر میں، کنواروں کے مکان (بورڈنگ) میں رہتے تھے۔ جینؤ بھی نا پہنتے، سر پہ چوٹی بھی نا رکھتے۔ سکھیا نے جی میں کہا۔ یہ ملیچھ وِدیا ہے نا … یہ رنگریزی (انگریزی) اور پھر اِن چیچک کے داغوں کا کیا ہو گا؟ جب یہ خوفناک منھ قریب آئے گا تو طبیعت بہت گھبرائے گی اور کوئی لیموں کا اچار کام نہیں آوے گا۔ سب سو رہے ہوں گے، سب کچھ مجھے اکیلے ہی بھگتنا ہو گا۔ کیا دیکھا اِن لوگوں کا چاچا نے؟ مجھے گھور نرک (دوزخ) میں دھکیل دیا اور پلنگ پر پڑی، سکھیا سر زانوؤں میں دبا رونے لگی۔

محلہ ہجاری کی عورتیں ابھی تک دلہن کا کھرا کوٹا پرکھنے آ رہی تھیں۔ دلہن کھری تھی، پانسے کا سونا۔ جس دھرم کانٹے میں کہو تل جائے۔ اُسے منھ بسورے دیکھ کر آپ بھی منھ بسورنے لگیں … سچ ہے، ماں باپ بڑی دولت ہے کیسے چھوٹ جائیں ایک دن میں؟ ایک عورت بولی، جب میری سادی ہوئی تھی تو …… اُس کے بعد وہ عورت سکھیا سے بھی اونچے سسکیاں لینے لگی۔ سکھیا حیران تھی۔ اُس نے اِس وقت تو ماں باپ کو یاد نہیں کیا تھا اور اُس اَدھکڑ عورت کا نچلا ہونٹ، اونٹ کے ہونٹ کی طرح لٹک گیا۔ تھوڑی دیر بعد اُس ادھکڑ کو آپ ہی بیاہ سادی کے گھر رونے کا اشگن محسوس ہونے لگا۔ اپنے دوپٹے سے اُس نے آنکھوں کا سیل پونچھ لیا … دنیا کی یہی ریت چلی آئی ہے، بٹو! تو سکھ یہاں کا مانگ! تمھارے کاکا تو گؤ روپ ہیں اور جے رام تو بیٹیوں جیسا بیٹا ہے۔ جبان کاں ہے منھ میں؟ رات کو رات کہے، دن کو دن … ناچے گا تیرے اِسارے!

آج بڑا شبھ دن ہے، گھر کی اماں بولی۔ گلی میں جو امر تو ہے نا، اُس کے ہاں بالا ہوا۔ تیرہ دِن ہوئے پنجابیوں کے ہاں بیٹا ہوا۔ تبھی وہ آج گؤتر (گائے کا پیشاب) نہلاوے کے لیے لے گئی۔ یہ پھصل بیٹوں کی ہے۔ بیٹوں کی بہار ہے اور سادیوں کی۔ اِدھر بیٹا ہوا، اِدھر سادی ہوئی۔ اری! سُمدری کی ماں۔ کاں رہا تیرا صاحب؟ بڑی بہو گھر آئی تو میں نے تیرا صاحب گودی ڈالا تھا۔ اوپر تلے تین بیٹے ہوئے۔ منجھلی کی گودی میں بٹھایا تو ٹپک پہلے سال لالا اور دوسرے سال بٹو۔ لیکن بٹو کا بُری ہے۔ لالا سے بھی زیادہ موہوے۔ گودی ہری چہئے اور کاں ہے وہ؟ میں اُسے دُلہن کی گود میں بٹھاؤں ہوں۔

سکھیا گٹھڑی ہو گئی …… بیٹا اور چیچک کے داغ!

گوجر ڈھور کھولنے کے لیے آ گیا تھا اور ایک کمین لنگر لنگوٹا کس صحن کو پھاؤڑے سے صاف کر رہا تھا۔ دھُند، شرماتے ہوئے سورج کی کرنوں میں حل ہو رہی تھی اور بدبو کو کمین کے تیج نے سمیٹ لیا تھا۔ دھند کا گھونگٹ اُٹھتے ہی صبح کا چاند سا مکھڑا دکھائی دینے لگا۔ قصبے کے ہیجڑے، بٹ کر پنجابیوں کے ہاں اور اِدھر گانے بجانے چلے آئے۔ اس وقت امرتو کے ہاں جمعدارنی سرس باندھ رہی تھی۔ سکھیا سبھی کچھ دیکھتی تھی، لیکن اُسے سب کچھ کاٹنے کو دوڑتا تھا۔

صحن کے دھوئے جانے سے ’یہ‘ ہلے اور پلے کو چمکارتے ہوئے بڑے بھیّا کے پاس چلے آئے۔ لیکن یہاں بھی یہی دکھائی دیتا تھا جیسے چھپ رہے ہیں اور اپنا چیچک سے بھرا ہوا چہرہ خود ہی دکھانے سے ہچکچاتے ہیں۔ سکھیا کے دل میں کچھ رحم سا پیدا ہو گیا۔ رام کسی کو بدصورت بھی نہ بنائیں۔ اپنے آپ سے شرم آتی ہے۔ مانتی ہوں، اِس میں اِن کا کوئی قصور نہیں، لیکن میرا کیا قصور ہے؟ میری شکل سے تو عورتیں جلتی تھیں اور ان کی شکل سے تو بھوت بھی نا جلیں۔

بڑی نند مرادآبادی برتن میں اچار لے آئی۔ سکھیا نے اپنی پتلی پتلی انگلیاں کشمیری فرد سے باہر نکالیں اور اچار کی طرف بڑھائیں۔ نند نے بھابی کی انگلیاں دیکھیں اور پھر اپنی موٹی گوبھی کے ڈنٹھر کی سی انگلیاں اور بولی ،جیرام نے تو کوئی موتی دان کیے ہیں پچھلے جنم میں۔ سرسوں کی ناڑھ کی سی نازک اور لانبی انگلیاں ہیں، سچ بتا، سکھیا بھابی،کون سانچے میں ڈھالی تھیں تم؟

اتنا پریم؟ سکھیا سوچنے لگی۔ یہ رشتے ہی کچھ ایسے ہوتے ہیں۔ آپی آپ اتنا پیار ہو جاتا ہے۔ اس کی خاطر سب کچھ اچھا لگنے لگتا ہے۔ اس کے لیے ساس، سسر، جٹھانی، دیورانی، نند، نندوئی سبھی کی سہنی پڑتی ہے۔ لیکن جب وہی ایسی صورت کا ہو تو کس کی سہے گا آدمی؟ …… افیم کا گولا کھا ، سو رہے۔

’’تو برتن بٹائے گی؟‘‘ نند نے پوچھا۔

سکھیا چپ رہی۔ وہ اس رسم کو ادا کرنے سے شرماتی تھی۔

نند نے سکھیا کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھا اور منھ کو اوپر اٹھا دیا۔ آنکھیں بند تھیں جیسے بہت رس آ رہا ہو۔ ہونٹ سیپ کی طرح ملے ہوئے تھے۔ اوپر کے ہونٹ کی کمان کتنی اچھی دکھائی دیتی تھی۔ نند نے کہا۔

’’اچھی ! ایک بات بتا۔‘‘

سکھیا نے سوال کی صورت میں آنکھیں کھول دیں۔ نند نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ سب عورتیں اپنے اپنے کام میں مشغول تھیں۔ ’’کیا جیرام نے تجھے دیکھا ہے ؟‘‘ وہ بولی ۔ سکھیا کا جی چاہا کہ وہ پوچھے۔ کون جیرام؟ اور پھر بڑا مزا رہے۔ لیکن اُس نے منھ پرے ہٹا لیا اور گٹھڑی ہونے لگی۔ نند ایک دیہاتن تھی اور زیادہ طاقتور۔ اُس نے دلہن کو سکڑنے نہ دیا اور پھر اپنا سوال دہرا دیا۔ سکھیا نے جان چھڑانے کے لیے ہاں میں سر ہلا دیا۔

اسی شادی کے سلسلے میں کسی رسم کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ شاید وہی برتن بانٹنے تھے۔ پرات میں دودھ اور پانی ملا کر کچھ روپئے بھی رکھ دیے گئے تھے۔ کاکا ہلو ان کی گتھی لے آئے تھے۔ اس میں روپئے ہی روپئے تھے، تاکہ سکھیا ایک مٹھی میں جی بھر کر روپئے نکال لے۔ نند نے بتایا، بہو کا ہاتھ بہت نازک ہے۔ کاکا جی ہی جی میں خوش ہوئے۔ ایک ہاتھ میں بہو زیادہ سے زیادہ ساٹھ روپئے نکال لے گی۔ کاکا کے قریب نندوئی کھڑا تھا۔ وہ گھر کا داماد تھا۔ چھوٹا نندوئی، اُس کا حریف نہیں آیا تھا۔ اس نندوئی نے سر پر ململ کا پورا ایک تھان لپیٹا ہوا تھا۔ نیچے لمبا کوٹ وہ بھی لٹھے کا اور کمر میں آدھی دھوتی نے اُسے بہت مضحکہ خیز بنا دیا تھا۔ گھر کا داماد ہونے کی وجہ سے اس کی بہت پوچھ ہوتی تھی۔ وگرنہ وہ فوراً بگڑ جاتا تھا اور اُس معتبر آدمی کے بگڑنے سے سبھی ڈرتے تھے۔ ایک جیرام اُس سے نہیں ڈرتا تھا۔ اُسے نندوئی کے وجود سے شرم آتی تھی۔

سب اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ سکھیا کے کمرے کی کھڑکی سے دُور زمین کا اونچ نیچ، دوشیزہ کی ان ڈھکی چھاتیوں کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ اُن ٹیلوں کے قریب، کسی کھیت کی پنیری سرکی ہوئی انگیا سی بن گئی تھی۔ زمین اپنی عریانی کو چھپانے کے لیے دھند کی چادر لپیٹتی تھی، لیکن سورج اس کی ساری چادر کو کھینچ لیتا تھا۔ آخر زمین بے بس ہو کر پڑی رہی … ’یہ‘ اب اور قریب آ گئے تھے اور سکھیا انھیں اچھی طرح سے دیکھ سکتی تھی۔ وہ دو منٹ کے قریب ایک ٹک جیرام کو دیکھتی  رہی ۔ جیرام کو ایک اور عادت بھی تھی۔ وہ پل دو پل کے بعد سر کو ایک جھٹکا سا دیتا تھا۔ جیسے کوئی کہہ رہا ہو۔ اِدھر آ جاؤ۔ شاید اسی لیے جیرام عورتوں کے قریب نہیں جاتا تھا۔ دو منٹ دیکھنے سے سکھیا کی نظروں میں چیچک کے داغ گویا دھُل گئے اور جیرام کا چہرہ بے عیب دکھائی دینے لگا۔ سکھیا سوچنے لگی۔ جس طرح دو پل دیکھتے رہنے سے وہ چہرہ صاف دکھائی دینے لگا ہے، ساری عمر ساتھ رہنے سے شاید یہی منھ اتنا مانوس ہو جائے کہ چیچک کے داغ دیکھتے ہوئے بھی دکھائی نہ دیں۔

ہولے ہولے دوپہر ہوئی۔ دِن ڈھلنے لگا۔ سکھیا نے کاکا کی گتھی میں ہاتھ ڈالا۔ اپنے ہاتھ کو پورا پھیلایا اور اسّی پچاسی کے قریب روپئے نکال لیے۔ سب عورتیں ہنسنے لگیں۔ بہو بڑی چالا ک ہے، اے کاکا! سنبھال کے رکھیو اپنی گُتھی کو۔ بہت خرچیلی بہو آئی ہے۔ دوسری بولی۔ اتنا کمایا ہے کاکا نے دُودھ سے، سات پشت تک کافی ہے اور کاکا کیا دھن کو سمادھی میں لے جائے گا؟ گھر کی اماں اپنے کاکا کو بچانے کے لیے نکل آئی۔ میرا جیرام کیا کم کماوے ہے؟ تین بیس سے اوپر ایک پاوے ہے ریلوائی ماں۔ دو جیو ہیں۔ کوئی بوجھ نہیں، باجھ نہیں۔ کھاویں ، موج اُڑا ویں۔

اچھا ہوا، سکھیا کو بھی ان کی آمدنی کا اندازہ ہو گیا۔ تنخواہ تو اتنی بری نہیں تھی۔ آج کل کہاں اکسٹھ روپے ملتے ہیں؟ انھوں نے چودہ جماعتیں پڑھی ہیں۔ تو کون سی بڑی بات کی ہے۔ سکھیا کے چچیرے بھائی نے سولہ پڑھی تھیں۔ اوپر سے ’’کانون‘‘ اور صوبے کا کونہ کونہ چھان مارا۔ آخر ایک ٹھگ کمپنی میں نوکر ہو گیا۔ اس کے بعد برتن بانٹنے تھے لیکن جیرام نہ آئے۔ شاید انھیں سکھیا کی نفرت کا پتہ چل گیا تھا اور وہ اکیلے میں اپنی صورت کو کوس رہے تھے۔ مہریا اپنی ہی ’گجل‘‘ (غزل) گا رہی تھی۔ سکھیا نے کہا … اپجس کی مت … اور جیرام کو یہی محسوس ہوتا تھا جیسے یہ گانا اُس کے حسب حال ہے۔ جو بھی سنتا تھا مہریا کو یہ گانا گانے سے روکنا چاہتا تھا، لیکن روکنے سے پہلے ہر مرد عورت کو اس میں اپنی ہی زندگی دکھائی دیتی تھی اور وہ مہریا کو ڈانٹتے ڈانٹتے آپ اس کے رس میں غرق ہو جاتے۔

سکھیا نے جیرام کی تصور میں اپنے قریب آتے دیکھا۔ اس وقت سکھیا کو کمر سے نیچے سارا جسم جلتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ یا پھر کانوں کی کُنونیاں بھڑک رہی تھی۔ یہ اگن اتنی زبردست تھی کہ اس میں چیچک کے سب داغ بھسم ہو گئے تھے۔ داغ تو ایک طرف اگر چہرہ حبشی کا سا ہوتا تب بھی سکھیا کو کچھ محسوس نہ ہوتا۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور یا پھر آگ کے شعلے تھے جس میں ایک مرد اور عورت کے مجسمے کندن کی طرح دمکنے لگے تھے۔

اِن ہی خیالوں میں سکھیا جیرام کی شکل کو بھول چکی تھی۔ وہ بہت سی باتیں بھول جاتی تھی۔ اُسے رہ رہ کر خیال آتا … وہ رسم پر آئے کیوں نہیں؟ ذرا رونق ہو جاتی۔ اگرچہ دل نفرت سے دگ دگ کرنے لگتا، لیکن اسی نفرت کا اور کیا علاج ہے؟ یہی نا کہ اور قریب ہو جائے آدمی اور کسی کی تمام خامیاں، خوبیوں میں تبدیل ہو جائیں۔

وہ نہیں آئے۔ انھیں کیسے پتہ چل گیا کہ مجھے اُن سے نفرت ہے۔ سکھیا سوچنے لگی۔ جونہی میں نے منھ کے داغ اڑتے دیکھنے چاہے تھے، توں ہی وہ چہرے سے اڑ گئے۔ اب آنگن میں ٹہلنے والے کا منھ پھٹکار کی طرح دکھائی نہ دیتا تھا اور یہ ازدواجی زندگی کا پہلا دن تھا اور چیچک کے داغوں کو اتنا بھول گئی تھی۔ اتنا ……

دودھ رسوئی میں تسلے پر ایک کوڑیالے سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا آگ میں گرنے لگا۔ ہوری اپجس کی گٹھڑیا۔ اماں نے مہریا کو آواز دی۔ کاہو گوا تو کو؟ دودھ اُبلتا وا نا دکھے؟ رانڈ! اور پیسے مانگنے کو سر پر چڑھی چلی آوے۔ پیسے نہ دوں گی۔ راکھ جھونک دوں گی منھ ماں! اور ماں پُپلاتے ہوئے منھ کے ساتھ نہ جانے کیا کچھ کہہ گئی۔

ڈھور شام کے قریب پھاٹک کے اندر داخل ہو چکے تھے۔ دودھ بھی دوہا جاچکا تھا، پیتل کے دوہنے تخت پوش پر رکھے ہوئے تھے۔ کاکا داماد کی مدد سے تخت پوش پر بیٹھے ایک لال جلد والی بہی پر جلدی جلدی کچھ لکھ رہے تھے۔ عینک بار بار منھ پر گرتی تھی۔ عینک کے کنارے ایک کُند سفید رنگ کے ہو گئے تھے۔ کمانی کی جگہ ایک دھاگا کان تک چلا گیا تھا اور ٹوٹے ہوئے شیشے میں سے کبھی کبھی ایک آدمی کے دو دو دکھائی دینے لگتے تھے۔

گھر کی عورتوں میں ہلکی ہلکی کھُسر پھُسر ہو رہی تھی۔ وہ کڑی نگاہوں سے جیرام کی طرف دیکھتی تھیں۔ سکھیا کا ما تھا ٹھنکا۔ وہ کیوں نہ آئے۔ سکھیا نے پھر اپنے آپ سے سوال کیا۔ اور اُس کا دل دھڑکنے لگا۔ اُسے پھر ماتن ہیل یاد آیا۔ پھر جیرام … سبھی عورتیں جیرام کو کچھ کہہ رہی تھیں۔ گھر کی اماں کی طرح سکھیا کو بھی جیرام کی طرفداری کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ لیکن … لیکن … سُندر چہرے پر اگر کالا داغ ہو، تو چہرہ اور بھی زیادہ خوبصورت ہو جاتا ہے۔ مرد کماؤ ہو ، شریف ہو، صحت مند ہو، تعلیم یافتہ ہو تو پھر چیچک کے داغ اُس کی سُندرتا ہو جاتے ہیں، اور سکھیا اب تک اُن چیچک کے داغوں میں خوبصورتی پا لینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

رات ہوئی۔ سر جوڑی کے لیے جیرام کی تلاش ہوئی، لیکن جیرام غائب تھا۔ بڑی نند گھبرائی ہوئی آئی اور بولی۔

’’سکھیا بہن، بُرا نہ ماننا، جوانی میں سبھی ہٹ دھرم ہوتے ہیں۔‘‘

سکھیا بولی’’کیا ہٹ دھرمی ہے؟‘‘

’’یہی بچپنا ہے نا، تھوڑا وقت گزر جائے گا۔ تو آپی آپ سمجھ آ جائے گی۔‘‘

سکھیا حیرت سے نند کے منھ کی طرف دیکھتی ہوئی بولی ’’جیجی! یہ کا باتیں ہیں میری سمجھ میں تو نا آویں۔‘‘

’’کوئی بات بھی ہو‘‘ نند بولی۔ ’’جیرام کالج کا پڑھاوا ہے نا، اُسے کھیال ہے کہ سکھیا کا ناک لمبا ہے … اسی لیے وہ رسم پر نہیں آیا اور اب کہاں لمبا ہے ناک تمھارا؟ … تھوڑا وقت گزر جائے گا تو آپی آپ …

سہاگ رات اپنے تمام دھڑکے کے ساتھ سر پر آ رہی تھی۔ سکھیا نے چیچک کے داغوں کو معاف کرنے کی حد سے پرے جا کر اس میں حسن تلاش کر لیا تھا، ل

یکن جیرام اُس کے ناک کو معاف نہ کرسکا اور رات، سرد، اُداس، بے خواب رات گزرتی گئی … گزرتی گئی ………

٭٭٭

 

 

 

ایوا لانش

 

 

جب میں کچھ پریشان سا ہوتا ہوں اور مجھے اپنا دل ایک ناقابل برداشت بوجھ کے نیچے دبتا اور بیٹھتا ہوا محسوس ہوتا ہے، تو میں اخبار بینی کرتا ہوں …… یہ میرا شغل ہے۔

اخبار میں سکون کو تلاش کرنا ایک بعید الفہم بات ہے۔ لیکن یہ تو درست ہے کہ اس میں قتل، اغوا اور اس قسم کی بیہودہ سی باتیں دلچسپ ہوتی ہیں اور دوسروں کی کمزوریاں اور مصیبتیں پڑھ کر دل پر سے ایک بوجھ سا اتر جاتا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے ہاتھ سے کسی نے کوئی میگنی فائنگ گلاس چھین لیا ہو …… اور پھر کبھی کبھی ہریجن میں سے اقتباسات ہوتے ہیں۔

عجیب عجیب ناموں پر مجھے بہت ہنسی آتی ہے۔ مثلاً اس خبر میں:۔

’’سنگورینی کلائریز (دکن) 15؍دسمبر … کوئلے کی کان میں سخت دھماکا ہونے سے ایک شخص مسمی گوروناتھ وینکٹارمیّہ کی موت واقع ہو گئی۔متوفی … ‘‘

اُس وقت میرے پانو میں سے سلیپر اُتر جاتے ہیں۔ میں بھول جاتا ہوں کہ میں ایک معمّر آدمی ہوں۔ چائے، جو کہ میں نے ابھی ابھی پی ہے، اُسی کے چند قطرے میری داڑھی میں اڑے ہوئے ہیں۔ گوروناتھ وینکٹارمیّہ …… خدا کی قسم، کیسا عجیب نام ہے ہا ہا ہا ہا!! … شیلا… رُقو …

شیلا ، رُقو اور میری بیوی جمنا، تینوں بھاگتی ہوئی آتی ہیں۔کیسا دلچسپ نام ہے۔ تم نے دیکھا؟ … تم نے دیکھا؟ … گوروناتھ دین … کٹا … رمیّہ … ہاہا ہی ہی اور ہم سب بھول جاتے ہیں کہ اُس بیچارے کی موت حادثہ سے واقع ہوئی۔ ایک نہایت افسوسناک حادثہ سے، اور متوفی کی شادی ہوئے ابھی صرف تین ماہ ہی ہوئے تھے۔ جمنا ، میری حسّاس بیوی سوچتی ہے، کس طرح بیچاری کی سُرخ چوڑیاں توڑ دی گئی ہوں گی۔ بھولی! نہیں جانتی دکن میں عورتیں سُرخ چوڑیاں نہیں پہنتیں۔ اگر وہ سوچے کس طرح بیچاری کی مانگ کا سیندور پونچھ دیا گیا ہو گا تو شاید کچھ بات بھی بنے۔ جمنا آنچل سے اپنی نم ناک آنکھوں کو صاف کرتی ہے۔ شیلا اور رُقو کسی گہری سوچ میں غرق ہو جاتی ہیں۔ لیکن وہ تینوں پاگل ہیں۔ ہمیں گورو ناتھ کی موت سے مطلب؟ ایک سانس کے ساتھ دُنیا میں سینکڑوں انسان مر جاتے ہیں اور پھر ان سے کہیں زیادہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ کوئی رشتہ ہے… لیکن میرا دل دبا ہوا ہے اور … اخبار بینی میرا شغل ہے …

’’نندہ دیوی کے قریب ایک چوٹی کو سر کرنے کے لیے بین الاقوامی افراد پر مشتمل ایک پارٹی آ رہی ہے۔ چونکہ آج کل سردی ہے، پہاڑوں پر برف جمی ہوئی ہو گی۔ اس لیے پارٹی کے تمام افراد عنقریب ہی چڑھائی شروع کر دیں گے۔ ان افراد میں دو روسی ہیں، ایک اطالوی اور ایک جرمن عورت ہے۔ نام الیکسی نکولائی کوراٹپکن، سائنورنکلولوپیگننی اور جرمن عورت کا نام فراؤکرپ … ہی ہی … ہی!!

…موضع ہندال میں ایک معزز کھڑدنبہ خاندان کے ہاں برات آئی۔ لڑکی والوں نے جہیز میں پچیس تولے سونا، ایک ہزار روپیہ نقد، فرنیچر ، بھینسیں اور بہت کچھ مال دولت دی۔ پھیرے کے بعد لڑکے نے اپنے سسرال سے کار مانگی …

پھر کیا ہوا؟ اس کے بعد میرا دل کانپنے لگتا ہے۔ ٹانگیں ڈگمگانے لگتی ہیں۔ آنکھوں پر سے عینک گِر پڑتی ہے۔ اخبار چھوٹ چھوٹ جاتا ہے۔ میں اسی طرح بے تحاشا آوازیں دیتا ہوں۔ شیلا، رقو، جمنا… اِدھر آنا … کوئی نہیں آتا۔ یہ لوگ میری دیوانی عادتوں سے واقف ہو چکے ہیں۔ گویا وہ مجھے میرے اخبار کے آخری کالم اور میری زندگی کے آخری سانس تک اکیلا چھوڑ دیں گے، تنِ تنہا، بے یارو مددگار، دیوانہ … کیا کوئی کسی کا ہے؟ … بیوی اور بچے … رقو آ جاتی ہے۔ اُس کی آنکھیں اسی طرح نم ناک ہوتی ہیں۔ وہ اخبار کو پڑھتی ہے اور پھر آہستہ سے میرے کندھے کو چھوتے ہوئے کہتا ہے۔

’’پِتا جی… آپ نے آگے بھی پڑھا؟‘‘

’’نہیں بیٹی۔‘‘

’’پڑھیے… یہاں سے … انکار کر دیا اور آگے … ہاں ہاں یہ یہ ۔‘‘

اور رقو کی چھنگلی سطر کے ساتھ ساتھ دوڑتی جاتی ہے۔ سطر کے الفاظ گم ہو جاتے ہیں۔ کہیں کہیںاعراب ناچنے لگتے ہیں، ضرورت سے زیادہ لمبے ہو جاتے ہیں۔

’’لڑکے نے اپنے سسرال سے کار مانگی۔ لڑکی والوں نے اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے انکار کر دیا اور ڈولی روک لی۔ برات کو ناکام واپس لوٹنا پڑا، اور ندامت سے اپنے تئیں بچانے کے لیے دولہا والوں کو نوشہ کی ضلع جہلم کے ایک گانو میں ایک الّھڑ، جاہل، دیہاتی لڑکی سے شادی کرنی پڑی۔‘‘

اس وقت مجھے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی بہت بڑا راجہ ہے، بہت بڑا فرعون، استبدادی، جس کے ہاتھوں کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں۔ اُس کی رعایا نے اُس کے جور و استبداد سے تنگ آ کر ہتھیار اُٹھا لیے ہیں … لاٹھیاں، گنڈاسے، درانتیاں، ہتھوڑے… بہت ہی اچھا کیا، میں کہتا ہوں، لڑکی والوں نے بہت ہی اچھا کیا۔

میرے مکان کی گھنٹی بجی۔ میں جانتا تھا صاحب رام آتے ہی ہوں گے۔ کپور، اُڑھائی گھر میں بڑی اونچی ذات ہے۔ میں نے دروازہ کھولنے سے پہلے چھجے پر سے جھانک لیا۔ یونہی… وہی تھے … کپور، امرتسری طرز کی سیدھی سی، کشتی نما پگڑی بندھی ہوئی تھی۔ کالا، بند گلے کا کوٹ اور اُریب پاجامہ، شانے پر شال رکھی تھی۔

میں نے جمنا کو بلایا اور پوچھا۔

’’گدے تبدیل کیے ہیں جمنا؟‘‘

’’گدے؟ ہاں تو، کیے ہیں … نہیں کیے، صرف اُن کے غلاف …

’’پھولدان؟‘‘

اس دفعہ رقو آگے آئی ۔ وہ جانتی ہے نا کہ میں اُس کی ماں سے خواہ مخواہ کٹا رہتا ہوں۔ کسی کی بات کا غصہ اس پر نکالتا ہوں … شاید اس لیے کہ میں اُس سے بہت محبت کرتا ہوں اور اُس سے بہت کچھ متوقع ہوں۔

رقو بولی۔ ’’رکھ دیے ہیں پھولدان … اور اپنے کاڑھے ہوئے میز پوش بچھا دیے ہیں۔‘‘

اُس وقت نہ جانے مجھے اپنی بیٹی میں کیا دکھائی دیا۔ میں نے اُسے اپنے پاس بلایا۔ ایک دیوانے کے آشیرواد کے ہاتھ، رقو کے سر پر چھا گئے۔ رقو نے میرے آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں گویا آنکھوں کے راستے سے وہ میرے دل کی گہرائیوں میں اُتر جانا چاہتی ہے۔ اری بھولی لڑکی ! کیا یہ میرے دل کی گہرائیوں میں اترنے کا وقت ہے؟ جب میں اکیلا ہوتا ہوں تو تم تینوں میں سے میرے پاس کوئی نہیں آتا۔ کوئی بھی میرے جذبات کے ساتھ نہیں کھیلتا۔ میری پرواز کے ساتھ نہیں اُڑتا… تم سب مجھے سطحی سمجھتے ہو اور یہی تمھاری بھول ہے… باہر کپور کھڑے ہیں، بازاروں میں سودے ہو رہے ہیں … میں نے رقو سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ ’’تم سب اپنے کمرے میں چلے جاؤ … جاؤ … ‘‘

صاحب رام آئے۔ جسم کے بھاری بھرکم تھے۔ نتھنے ضرورت سے زیادہ فراخ تھے ۔ بھویں زیادہ گھنی تھیں اور کانوں پر لمبے لمبے سخت سے بال اُگ کر پگڑی سے باہر دکھائی دے رہے تھے۔ ما تھا اندر کی طرف دھنسا ہوا تھا۔ بس بالکل کال روپ تھے۔ بار بار شال کو سنبھالتے تھے، گویا اس کا مظاہرہ کرنا کوئی بہت ضروری بات تھی۔ کرسی پر بیٹھنے کے بعد وہ کچھ دیر رقو کے ہاتھ کے کڑھے ہوئے ’’سواگتم‘‘ (خوش آمدید) وغیرہ کو دیکھتے رہے۔ پھر تصویروں پر نظر دوڑائی اور نہایت احتیاط سے کرسی کو میرے قریب سرکاتے ہوئے بولے۔

’’سب سے پہلے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔‘‘

میرے پانو تلے کی زمین نکل گئی۔ میں نے کہا۔ ’’معافی … آپ کا غلام ہوں۔ دیکھیے نا، دست بستہ غلام، آپ ہمارے صاحب ہیں، یہ رشتہ ہی کچھ ……۔‘‘

صاحب رام مسکرائے، جیسے کپور مسکراتے ہیں اور بولے ’’میں نے سنا ہے، آپ کی رقو کی دو مرتبہ سگائی ہوئی تھی۔‘‘

اُس وقت میں نے دروازے کے پیچھے جمنا کی انگلی ہلتی ہوئی دیکھی۔ وہ مجھے اثبات میں جواب دینے سے منع کر رہی تھی۔ پھر اُس کی دھیمی دھیمی آواز سنائی دینے لگی۔ جیسے تھیٹر میں ایک پرامپٹر ہوتا ہے لیکن پرامپٹر کا ہنر اسی بات میں ہے کہ حاضرین کو اُس کے وجود کا پتہ نہ چلے اور صاحب رام سن رہے تھے۔ میں حقیقت سے اتنی جلدی انکار نہ کرسکا۔

میں نے کہا ’’جی ہاں۔‘‘

صاحب رام بڑے مؤدبانہ انداز سے بولے۔ ’’کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ سگائی ٹوٹ کیوں گئی؟‘‘

اُس وقت میرے منھ میں لعاب خشک ہو گیا … رقو نے گلدان اچھی طرح رکھے اور پھول سلیقہ سے کاڑھے تھے… میں نے اپنی ڈاڑھی کو کھجاتے ہوئے بتایا … وہ اس وجہ سے چھوٹ گئی کہ میں ایک غریب واش لائن انسپکٹر ہوں۔ رقو کو میں نے پڑھایا ہے لکھایا ہے۔ اچھی تعلیم دی ہے۔ آپ ایک غریب واش لائن انسپکٹر سے کیا متوقع ہو سکتے ہیں۔ کیا وہ اپنی بیٹی کو تعلیم کے لیے آکسفورڈ بھیج دے گا؟ معاف رکھیے… باقی رہی دینے دلانے کی بات، میں نے رقو کو استطاعت سے زیادہ دینے کے لیے خاکروبوں ، جمعداروں، سب ماتحتوں کے منھ سے نوالے چھینے ہیں۔

غنی محلہ میں نالیاں بنانے کا ٹھیکہ مہتاب سنگھ کو دلوا کر اُس سے کافی بڑی رقم اینٹھی ہے اور اب اس کا پتہ چل چکا ہے۔ میرے بیان ہو چکے ہیں۔ میری نوکری، میری، میرے بچوں کی، میرے دو یتیم بھتیجوں کی زندگی خطرے میں ہے اور چونکہ میں جہیز میں زیادہ دینے کے اہل نہیں تھا… وہ رشتے ٹوٹ گئے، ٹوٹ گئے، سنا آپ نے؟

صاحب رام نے مشکوک نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ مجھے اُن سُرخ ڈوروں سے بھری ہوئی نگاہوں میں ایک رعشہ پیدا کر دینے والے معانی نظر آئے۔ گویا وہ میری رقو کو مشکوک چال چلن کی سمجھتا ہو … رقو … میری بیٹی رقو۔ کیا ایسی بھی ہو سکتی ہے؟… میرے ہاتھ میں ریوالور ہو تو میں صاحب رام کا دماغ پاش پاش کر دوں۔

صاحب رام بولے ’’سردار صاحب، دیکھیے، میں کل بینک میں لڑکے سے ملا تھا۔ وہ اس بات پر بہ ضد ہے کہ ایک ہزار روپیہ بدائیگی میں رکھا جائے ، فرنیچر سب کا سب ساگوانی ہو۔ ریڈیو اور اگر ایک ریفرِجریٹر …‘‘

باقی کا میں نے نہیں سنا ۔ صرف آخری الفاظ صاحب رام کے چلے جانے کے بہت عرصہ بعد تک میرے کانوں میں گونجتے رہے… ’’اجی، با روزگار لڑکے آج کل ملتے کہاں ہیں؟‘‘ … مجھے یاد آیا، میری نوکری، میری زندگی … چھ زندگیاں خطرے میں ہیں اور شاید ایک دفعہ ایک راجہ کے جور و استبداد سے تنگ آ کر رعایا نے بغاوت کی تھی اور محل کے نیچے لاٹھیاں، گنڈاسے درانتیاں، ہتھوڑے … اچھا کیا … اچھا کیا !!

برسات کے دنوں میں دیودار کی لکڑی کے مسام پھیل جاتے ہیں اور دروازے دہلیزوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ میں نے زور سے دروازے کو دھکا دیا۔ دروازے کے پیچھے رقو اُسے پیچھے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ دروازہ پٹ سے کھلا اور رقو کی پیشانی کے ساتھ ٹکرایا۔ اس وقت میرا جی چاہا کہ میں رقو کی خوب لاتوں گھونسوں سے مرمت کروں، خوب ماروں اُسے۔

لیکن ایک اور ہی جذبہ میرے دل میں عود کر آیا۔ انسان اپنے دل اور کردار کے متعلق خود نہیں جانتا کہ فلاں وقت میں کون سا جذبہ ، کون سا عمل سب سے اوپر جگہ پائے گا۔ میں نے رقو کے سر کو سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’رقا، میری بچّی … زیادہ تو نہیں آئی … چوٹ؟‘‘

میں نے دیکھا رقو کو چوٹ کا ذرا بھی خیال نہ تھا۔ وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھی، یا وہ کسی اور ہی چوٹ کو سہلا رہی تھی۔ اُس نے آنکھیں بدستور فرش پر گاڑے ہوئے پوچھا۔’’وہ کیا کہتے تھے؟‘‘ اور پھر وہ کچھ شرما سی گئی۔

… ایک پرامپٹر کے بغیر میں نے سب کچھ چھپا لیا۔ میں نے کہا ، میں رقو کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ میں نے سوچا، کوئی تعجب نہیں کہ رقو خود ہی دروازے کے پیچھے سنتی رہی ہو۔ لیکن میں رقو کو کیوں بتاؤں؟ اُس کی وہی چھُنگلی ایک دن بردوان کی ایک خبر پر دوڑ رہی تھی۔ اس خبر میں لکھا تھا … اپنے باپ کی مجبوریوں کا خیال کرتے ہوئے ایک لڑکی نے اپنے کپڑوں پر تیل چھڑک کر آگ لگا لی ۔ میں نے رقو کو بالکل بچہ سمجھتے ہوئے گودی میں اٹھا لیا۔ پہلے تو وہ شرما دی، پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میرے دل کی گہرائیوں میں اُترنے لگی۔

میں نے کہا۔ ’’وہ کہتے تھے لڑکی تو بہت سوشیل دکھائی دیتی ہے… پوچھتے تھے، یہ پھول اُسی نے کاڑھے ہیں۔ میں نے کہا ، ہاں ۔ کہنے لگے کیا خوب ہیں۔ میں نے کہا۔ ہاں، پھر بولے ، رُقمن بہت اچھے اخلاق اور اطوار کی سنی جاتی ہے … میں نے کہا … ہاں …

اور اس سے زیادہ میں نے کچھ نہ کہا۔ میں کچھ کہہ ہی نہ سکا۔ جانے مجھے کسی نے زور سے گلے سے پکڑ لیا ہو … کچھ دیر بعد اپنے اصل کو چھپانے کے لیے میں نے رقو کو دروازے کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔ ’’جاؤ … رقو جاؤ … جب میں اکیلا ہوتا ہوں ۔ تو تم میں سے کوئی بھی میرے پاس نہیں آتا۔ کوئی بھی میرے دل کی گہرائیوں میں نہیں اُترتا۔ کوئی بھی میری پرواز کے ساتھ … کیا میں سطحی ہوں، بے وقوفو… اور جب میں اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔ تو تم سب میرے پاس آ جاؤ گے۔ جاؤ، مجھے اپنے اخبار کا آخری کالم اطمینان سے پڑھنے دو … ہاں! جمنا سے کہہ دینا ایک انگیٹھی میں بہت سے کوئلے ڈال کر بھیج دے۔ حرامزادی کو میری ذرا پروا نہیں۔ میں اُسے جان سے مار ڈالوں گا۔ آج مجھے بہت سردی لگ رہی ہے …… ہو ہو ہو …… مرا جاتا ہوں مارے سردی کے …‘‘

رقو میری عادت سے واقف تھی۔ چپ چاپ چلی گئی۔ آپ ہی انگیٹھی لے آئی۔ میں نے اخبار کو اٹھایا۔ وہ بین الاقوامی افراد پر مشتمل پارٹی کنچن جنگایا نندہ دیوی کے قریب کسی چوٹی کی بلندیوں کو سر کر رہی تھی۔ چاروں طرف برف ہی برف تھی۔ یکایک برف کا ایک تودہ پھسلا۔ ایک بڑی سی ایوالانش نے انھیں آ لیا۔ پارٹی کے سب ممبر، چند تبتی مزدور، خچرّ، سب دب گئے۔ شاید مر بھی گئے ہوں گے۔

… جب ایوالانش آتی ہے، تو بڑے بڑے درختوں، چھوٹے چھوٹے پودوں، ہر نخل و ثمر کو بہا لے جاتی ہے۔ گانو کے گانو تباہ ہو جاتے ہیں۔ انسان، مویشی، پرند مر جاتے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں … قحط سالی ہوتی ہے …

اُس وقت اُن افراد کے نام پڑھ کر میں نے ہنسنے کی کوشش کی… الیکسی نکولائی کوراپٹکن، سائنورنکلولوپیگننی اور جرمن عورت فراؤکرُپ ، لی ٹن شانگ …لیکن مجھے ہنسی نہ آئی۔

اس کے دو تین بعد بہت سردی پڑی۔ میرا دل بیٹھا جا رہا تھا۔مجھے نوکری سے برطرف کر دیا گیا تھا … رشوت لینے کی وجہ سے … رقو شادی کی انسٹی ٹیوشن کو بڑی طنزیہ نگاہ سے دیکھنے لگی۔ مجھے تو اُس کی عادتوں میں بے اعتدالی دکھائی دینے لگی۔ مجھے تو اُس کے چلن پر بھی شبہ ہونے لگا … جمنا، میری دو بیٹیوں، تین بھتیجیوں کی زندگی خطرے میں تھی… اُسی دن رقو دوڑی دوڑی آئی۔ اُس کے ہاتھ میں اُس روز کا اخبار تھا۔ وہ بولی ’’کیا آپ نے آج کا اخبار دیکھا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں ‘‘… اُس نے ایک کالم میری آنکھوں کے سامنے رکھ دیا۔ لکھا تھا، ایک ہوائی کموڈر کے تحت میں ایک ریسکیوپارٹی نے ایوالانش کی زد میں آئے ہوئے سب آدمیوں کو بچا لیا۔ میں نے تسکین کا ایک گہرا سانس لیتے اور اس برفانی سخت سردی میں اپنے یخ بستہ ہاتھوں کو سینک سینک کر دل پر رکھتے ہوئے پوچھا ۔ ’’کیا کوئی ریسکیو پارٹی آئے گی؟ … رقو! … کیا وہ ہمیشہ آتی ہے؟‘‘

٭٭٭

 

 

 

لمس

 

 

یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی بات ہجوم کے بہت سے آدمیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی ۔ اُن کے سامنے رسّی کے حلقے ہیں۔ پتھّر کے ایک بڑے سے چبوترے پر ایک مجسّمہ بڑی سی چادر میں لپٹا ہوا تھا، جسے وہ بار بار دیکھتے، دیکھ دیکھ کر آنکھیں جھپکتے، بے اطمینانی ظاہر کرتے ہوئے جمائیاں لیتے، اور پھر دیکھ کر اپنی اپنی بساط کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتے۔

ٹھنڈی سڑک روز مرّہ کی طرح دھوپ میں لپٹی ہوئی تھی۔ ایک جگہ دو رویہ پیپل، شیشم، کروٹن چیل اور املتاس کے درخت سڑک پر جھکے ہوئے تھے اور اُن کے خزاں زدہ پتّوں میں سے سورج کی کرنیں چھن چھن کر سڑک کے سُرمئی سیاہ رنگ کو جذامی بنا رہی تھیں۔ آج صبح ہی سے  کول تار و ریت اور پتھر علاحدہ علاحدہ ہو کر ناچنے لگے تھے۔ نقاب کشائی کی رسم دیکھنے کے لیے ایک اچھا خاصا ہجوم اکٹھا ہو گیا، جس کا ایک حصہ زیادہ حرکت میں آ گیا تھا … فضا میں ہو ہوہو کا ایک تکدّر پیدا ہوا، جس میں ایک مبہم سی ہیبت بھی شامل تھی اور ایک صوتی تغزل بھی … پھر پیپل، کلیپ، کلیپ، کلیپ، کلیپ،لا تعداد تالیاں ایک ساتھ بجا رہے تھے اور سڑک کا واحد شیشم اپنی سینکڑوں سیٹیوں کے ساتھ مجمع سے ہم نوا ہو رہا تھا … ہجوم کے وسط میں سے ’’سانپ آیا، سانپ آیا‘‘ کی آواز سے آتش بازی کا سا ایک انار چھوٹا اور بظاہر شیرازہ بکھر گیا ،لیکن دائیں بائیں سے ’’ہاتھی آیا‘‘کے لا یعنی نعروں سے پھر لوگ جمع ہو گئے۔

چبوترے کے سنگِ خارا پر کچھ سنہری کندہ تھیں۔

سرجیو رام

1862 سے لے کر 1931 تک

ایک بڑا سخی اور آدم دوست

…پتھر اور الفاظ ایک دوسرے کو مسلسل گھور رہے تھے… گپت دان کیا کرتے تھے ہمیشہ … سیواسمتی کا ایک رضاکار اپنے سُرخ سکارف کی گرہ کو ڈھیلا کرتے ہوئے بولا… بڈھے نالے کے پار جو ودھوا آشرم ہے نا، اس کی دری اٹھائی گئی اور اس کے نیچے بیواؤں کی مدد کے لیے پانچسو کے نوٹ ملے۔

پھر … تو کیا ہوا … ہجوم میں سے ایک طُرّے باز ٹوانہ بولا۔

’’… بات یہ تھی کہ سخاوت بے طریقہ تھی۔‘‘ اور کسی بابو نے تائید کرتے ہوئے کہا۔’’اس میں عورتوں کی ٹریفکنگ زیادہ ہوئی اور کیا حاصل ہوا؟‘‘

’’لیکن جناب‘‘ … کوئی بولا۔’’آپ کو ان کی نیّت میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ یہ تو منتظمان کی حرامزدگی ہو گی۔‘‘ اور ایک گیانی جی اپنی چنبل سے بھری ہوئی گردن کو کھجاتے ہوئے بولے، ’’گیتا میں صاف لکھا ہے کہ دانی کو اپنے دان کا پھل پراپت کرنے کے لیے پھر جنم دھارن کرنا ہوتا ہے۔‘‘

ہجوم کا شور نسبتاً بلند ہو گیا۔ یونیورسٹی ہال اور اس کے وسیع برآمدے میں طلبا، جیومیٹری کے پرچے دے رہے تھے۔ مثلّث میں دو خطوں کی مجموعی لمبائی تیسرے خط کی لمبائی سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایک طالب علم نے سوچا اور اس کا جی چاہاکہ وہ تمام کاغذ پھاڑ کر سیاہی انڈیل کر سامنے رقصاں و خنداں، لرزاں و حیراں ہجوم میں شامل ہو جائے۔ بڑے زور سے چیخے اور کہے ہمیں اس جومیٹری کا فائدہ ہی کیا۔ شور مچاؤ اے اہلِ وطن… اور فقط شور … اور کان پڑی آواز سُنائی نہ دے۔ صاحب سپرنٹنڈنٹ نے زور زور سے کچھ ہاتھ گھنٹی پر مارے، لیکن گھنٹی کی آواز بھی شور میں حل ہو کر رہ گئی۔ وہ بوکھلا کر اُٹھے اور خود باہر آ کر مجمع سے مخاطب ہوئے… جناب آپ لوگوں کو اس بات کا خیال ہونا چاہیے …

دُبلے پتلے بے بضاعت سپرنٹنڈنٹ کی بقیہ آواز ایک لامتناہی غلغلے میں گم ہو کر رہ گئی… قہ قہ قہ … لوگ ہنسنے لگے۔ اس بات کا خیال ہونا چاہیے، خیال لیے پھرتا ہے… جا بیٹھ اپنی ماں کے پاس، ورنہ ڈھونڈتی پھرے گی اپنی عینک… اپنی ریڑھ کی ہڈی … جاجا۔ … اس کے بعد کا روں کی پوں پوں ، فٹنوں اور یئسی ٹانگوں کی ٹن ٹن سے فضا اور بھی پُر شور ہو گئی۔ ایک سارجنٹ کہیں سے نمودار ہوا۔اس نے لبوں پر زبان پھیری۔ ہیٹ کو اُونچا کیا اور اپنا بیٹن تان کر ہجوم میں یوں گھومنے لگا، جیسے کوئی تیز سی چھُری خربوزے میں پھر جائے۔ کاروں کو اِدھر پارک کرو۔ اے یو انڈین، دائیں طرف۔ سپاہی بولا، آپ کا نمبر کیا ہے۔ پی پی 562 ، اور لائسنس؟ … یہ لائسنس دیکھنے کا وقت ہے ۔

ہو ہو ہو …

راجہ صاحب ہیں کہاں؟

ارے میاں کھینچ دو بُت کی رسّی کو خود ہی۔ آخر اس تکلّف میں کیا دھرا ہے؟

ہونا دیسی وقت…

چہ! … ایک …بڑا… آدم دوست!

کچھ دیہاتی بھائی پھیرو اور اس کے نواح سے شہر کا کوئی میلہ یا عجائب گھر دیکھنے چلے آئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں لکڑی کے لمبے لمبے لٹھ تھے، جن کے سروں پر لکڑی کے ’’چوہے‘‘ بندھے ہوئے تھے۔ ان کی دُموں سے گانو میں باٹی ہوئی سَن کی رسّیاں لٹک رہی تھیں، جنھیں وہ کھینچتے اور کھڑپ کھڑپ کا بے ہنگم، بے معنی، بے تال ساز بجاتے اور گاتے … کھٹن گیاتے کھٹ لیا ندا جھانواں …

راستہ چھوڑ دو ۔ راستہ چھوڑ دو ۔ ہجوم آپ سے آپ پھٹنے لگا، اور ایک کشمیری پنڈت    زار و نحیف، قیصر ولیم کی سی ڈاڑھی چھوڑے، دانتوں سے اپنے ناخن کاٹتا ہوا چبوترے کی طرف بڑھنے لگا۔ اس کے گلے کا سنہری سروپا، اس کے گھٹنوں کو پھانس رہا تھا۔ بار بار وہ جھک کر سروپا کو گھٹنے سے علاحدہ کرتا، مبادا یہ عزت و افتخار کا نشان اُسے سرنگوں کر دے۔

یہ راجہ صاحب تھے جن کے ہاتھوں بُت کی نقاب کشائی ہونا تھی۔ زندگی کے ہر تجربے نے ایک لکیر اُن کے چہرے پر ڈال دی تھی۔ کہیں کہیں خطوط کے مخمصے پڑے ہوئے تھے، جن میں نیلی نیلی وریدیں الجھتی سلجھتی ہوئی ایک بڑی سی گانٹھ کی صورت میں کنپٹی کے قریب نمایاں ہو گئی تھیں۔ جب یہ راجہ، یہ نقاب کشا مرے گا تو اس کا بت بہت حسین بنے گا۔ کسی نے سنگتراش کے نقطۂ نگاہ سے جانچا۔ آج کسی کی نقاب کشائی کرتا ہے، کل کوئی اس کی نقاب کشائی کرے گا… گویا راجہ مہندر ناتھ کوئی بہت بڑا  جُرم کر رہا ہے۔ کسی کی بہو بیٹی کی طرف دیکھتا ہے۔ ہجوم ہمیشہ ہمیشہ ہجوم ہی رہتا ہے … اس وقت دیہاتی اپنے بے ہنگم گیت کا دوسرا مصرعہ گا رہے تھے۔کھٹن گیا تے کھٹ لے لیاندا جھاواں، نے جاندی داری دس نہ گیا میں چٹھیاں … کدھر نو پاواں … اور بدستور چوہوں کی کھٹ کھٹ سے ہجوم کی بے ربط آوازوں میں چند اور کا اضافہ ہو رہا تھا۔

سیوا سمتی والوں نے لٹھوں کو تانے ہوئے ہجوم کے ایک بڑے سے ریلے کو روک دیا۔ راجہ صاحب نے اپنے منھ میں ثعلب مصری کا ایک ٹکڑا اور الائچی ڈالی اور گلے کو ’’اوہوں، اوہوں‘‘ کی متعدد آوازوں سے صاف کرتے ہوئے بولے … ’’حضرات! انیسویں صدی میں ایک معجزہ ہوا اور وہ سرجیوارام کی پیدائش تھی… لوگ معجزے کے متعلق سوچنے لگے… عام آدمیوں کی طرح جیوارام بھی پیدا ہو گیا… ہا ہا ہا … کیا روح القدس آیا تھا؟ … کچھ آدمیوں کے گالوں پر  فی الواقع آنسو بہہ رہے تھے۔ ان کے دل میں سخاوت اور آدم دوستی کا جذبہ اس قدر بلند ہو چکا تھا ، کہ وہ مال اور دولت اور بیوی تک سخاوت میں دے دینے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔

سیوا سمتی کے ایک کارکن نے دو دفعہ نقاب کی رسّی راجہ کے ہاتھوں میں دی اور وہ دونوں دفعہ پھسل گئی، جس کا مطلب تھا کہ راجہ کا جلد ہی مجسمّہ بن جائے گا۔ آخر راجہ نے ایک جھٹکا دیا اور مجسمّہ بے نقاب ہو گیا۔

لوگوں نے تالیاں بجائیں، پھول پھینکے… آخر یہ بات تھی! پھر وہ سوچنے لگے۔ وہ ناحق دو گھنٹے کھڑے رہے۔ لیکن مجسمّہ خوبصورت تھا۔ مرمریں، بالکل روئی کا ایک بڑا سا گالا دکھائی دیتا تھا۔ سنگ مرمر کو کسی اطالوی نے اس قدر صفائی سے تراشا تھا کہ فرغل کی ایک ایک شکن واضح طور پر نظر آ رہی تھی۔ مونچھوں کے بل صاف دکھائی دے رہے تھے۔ یہ مونچھیں، بُت اپنی زندگی میں لب لگا کر باٹا کرتا تھا اور پھر ہاتھ کی رگیں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ یہی محسوس ہوتا تھا جیسے ہاتھ ابھی حرکت میں آ جائے گا، ایسے ہی جیسے نقاب کشا کا ہاتھ بت بن جائے گا۔ بُت اور نقاب کشا میں کوئی رازداری تھی۔ انھیں ایک دوسرے سے کوئی خاص ہی ہمدردی تھی۔

شور اور بھی بلند ہو گیا۔ ہال کا ممتحن منھ پر جھاگ لانے لگا۔ اس نے ایک ہاتھ سے عینک کو سنبھالا، دوسرا ہاتھ ریڑھ کی ہڈی پر رکھا اور حلقے کے تھانے کو ٹیلیفون کرنے کے لیے ایک چھوٹے ممتحن کو اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔

املتاس کے درخت تموّن کی پُتلیاں نچا نچا کر ہنسنے لگے۔ کروٹن چیل سڑک کی سانوری صورت کو چومنے کی خواہش میں سائیں سائیں کرتا ہوا جھک جھک گیا۔ اس وقت سورج کے سامنے ایک بہت بڑا بال آ جانے سے سڑک کا جذام دور ہو چکا تھا۔ ہلکی ہلکی گدگدی کی طرح ایک خوشگوار پھُوار سی پڑنے لگی۔ بُت کے رشتہ دار ’’نیم بُت‘‘ دیوتاؤں کی اس خوشنودی کے اظہار پر بہت خوش ہوئے۔ آخر خدا کو بھی ان کے باپ یا دادا کی سخاوت اور آدم دوستی پسند تھی۔

نقاب کشائی کے بعد بھی ہجوم کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا … لوگ ابھی تک آنکھیں جھپک رہے تھے۔ کیا بس یہی معاملہ تھا؟ کیا وہ صرف اسی بات کے لیے دو گھنٹہ کھڑے رہے تھے؟… مجسمّہ برف کی طرح سفید ہے، برف کی طرح منجمد! … لیکن آخر بات کیا ہوئی؟

1862 سے لے کر 1931 تک … اُونہہ! کیا پتہ وہ کبھی پیدا ہی نہ ہوا ہو۔

’’اس کا مطلب ہوا نا کہ اڑسٹھ سال۔‘‘

’’نا۔ نا … اُنہتّر … سن باسٹھ تیری ماں کے پاس چلا گیا؟‘‘

’’اُلّو کا پٹھا…‘‘

’’تم… ‘‘

’’تم… ‘‘

’’تیرا باب…‘‘

اس کے بعد نہ معلوم کیا ہوا، ایک تیز فلم کی طرح کچھ مناظر آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ ایک دو پگڑیاں زمین پر پڑی تھی۔ یا کبھی کبھار کوئی کرسی ہوا میں اچھلتی اور املتاس کی پتیوں کو چھوتی ہوئی نیچے آ رہتی۔لڑائی ہوئی اور رک گئی۔ اور پھر سب حیرت سے مجسمّے کی طرف دیکھنے لگے اور اُسے سمجھنے کی کوشش کرنے لگے …

ایک ٹٹ پونجیا اپنی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا آگے بڑھا اور آنکھ کے تھیلوں کو دبا کر مجسمے کی طرف دیکھنے لگا۔ ابھی تک سیوا سمتی کے لوگ اپنے ڈنڈے لیے کھڑے تھے، حالاں کہ ان کا مقصد ادا ہو چکا تھا۔ کھینچا تانی میں یا تو ان کے سکارف بالکل کھُل گئے تھے اور یا گلے کا پھندا بن گئے تھے۔ دائیں جیب کا چڑے کے بادشاہ، ایسا ڈھکنا پھٹ رہا تھا جس میں سے چھاتی کا دایاں نپّل ، جس پر بے تحاشا بال اُگ رہے تھے، دکھائی دینے لگا۔ سیناپتی کے منھ میں ایک لمبی سی وسل تھی۔ دھکم پیل میں اوندھے مُنھ گرنے سے وسل اُس کے حلق میں چلی گئی تھی اور دانتوں کو   ناقابلِ علاج ضعف پہنچ گیا تھا۔ آج سیناپتی کو پہلی دفعہ سیوا کا میوہ پراپت ہوا تھا۔ وہ خوش تھا اگرچہ رو رہا تھا۔

ایک افیمی نے اپنی ڈبیہ نکالی۔ ہتھیلی میں رکھ کر گولی کو ملا اور کمیٹی کے نلکے سے پانی کا ایک گھونٹ پی کر اُسے نگل گیا۔ پانی کے قطرے ابھی تک اس کی بے قابو ڈاڑھی میں بہہ رہے تھے۔ پانی پی کر وہ مجسمّے کے قریب آیا اور اپنے ساتھی سے پوچھنے لگا۔ اوئے بنتاں سینہاں! او کیہہ لکھیا ہئی؟ (ارے بنتا سنگھ! یہ کیا لکھا ہے؟( بنتا سنگھ نے جواب دیا لکھا ہے … ’’ایک بڑا سخی اور آدم دوست‘‘… اُونہہ ! بڑا سخی … افیمی بولا …

دراصل کسی کو سرجیوارام کی سخاوت پر یقین نہ آتا تھا۔ ہجوم کے ذہن لاشعور میں کوئی بات تھی۔ ان کی روح کی گہرائیوں میں کوئی ایسا جذبہ تھا جس کے تحت وہ کہہ رہے تھے … کوئی سخاوت نہیں … کوئی آدم دوستی نہیں … سب جھوٹ ہے … سراسر جھوٹ ہے …

مجسمے کی حقیقت کی نسبت انھیں سیواسمتی والوں سے زیادہ نفرت تھی، جو کہ ابھی تک ڈٹ کر کھڑے تھے … افیمی، دیہاتی بابو، طالب علم سب کا خیال تھا کہ سمتی والے ازل تک یہاں نہیں ملیں گے… وہ چاہتے تھے، یہ لوگ اک دم وہاں سے چلے جائیں۔ ان کی موجودگی ہجوم میں ایک خاص قسم کا جذبۂ تنفّر اور بغاوت پیدا کر رہی تھی۔ ان کا جی چاہتا تھا کہ وہ کسی کو مار ڈالیں، کچھ توڑیں پھوڑیں، سڑک پر سے گزرتی ہوئی عورتوں کی عصمت دری کریں اور نہیں تو طفلِ خورد سال کی طرح منھ ہی چڑا دیں۔ وہ منھ چڑانے سے ڈرتے نہ تھے، اگرچہ ان کے چھدرے چھدرے دانتوں پر سے انیمل اڑ چکا تھا اور وہ مکمل طور پر سیاہ پڑ گئے تھے۔ بے احتیاطی اور گوشت خوری نے ان کے دانتوں کو جبڑوں تک کھوکھلا کر دیا تھا اور وہ جبڑوں سے تقریباً علاحدہ ہو چکے تھے۔ لوگ بِنا جانے بوجھے ان مکروہ دانتوں کا مظاہرہ کر کے خوش ہو رہے تھے۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے دانت جتنے بدنما ہوں گے، اتنی ہی سیواسمتی والوں کی تذلیل ہو گی۔

ان میں پتلے لوگ تھے اور موٹے بھی۔ لیکن ان کے جسم گٹھے ہوئے تھے اور تنومند۔ انھیں خود اپنی طاقت کا احساس نہ تھا۔ اور وہ ہمیشہ اس احساس کو جگا دینے والے کی تلاش میں رہتے تھے۔ وہ سمتی والوں کے پاس کھڑے رہے … اور سمتی والے بھی گویا چڑ سے گئے تھے۔ تماشائیوں کی سمجھ میں یہ بات بھی نہ آتی تھی کہ سمتی والے اب نقاب کشائی کے بعد بھلا کیوں کھڑے ہیں؟… ایسے ہی جیسے اپنے وہاں کھڑے ہونے کی وجہ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔

موٹریں، فٹنیں اور تانگے سب جا چکے تھے۔ کہیں کہیں بابو لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے دفتروں کو جا رہے تھے۔ بیشتر دس بجے پہنچ چکے تھے اور کچھ دیر بعد بیکار کھڑے لوگوں نے وہاں کھڑے رہنے کی نسبت گھر اور کام پر چلے جانا مناسب سمجھا۔وہ کچھ دور گئے ،لیکن انھیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ اپنی کوئی چیز مجسمے کے قریب بھول آئے ہوں۔ اس کے بعد ان کے پانو خودبخود واپس اُٹھ گئے۔ انھوں نے اپنے تئیں مجسمے کے سامنے پایا۔

مجسمّہ بالکل سورج کی کرنوں میں الجھے ہوئے بادل کے ایک ٹکڑے کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔

لیکن … اُونہہ ! بیواؤں کو دان دیا ہو گا، عورتیں نکالی ہوں گی پٹھّے نے … ابھی تک اس قسم کی آوازیں آ رہی تھیں۔ عورتوں کی ٹھیکیداری بڑی نفع بخش چیز ہے … اور سیوا سمتی والے بدستور اپنے لٹھ لیے کھڑے تھے!

اسی اثناء میں اپنے گلے کو خون سے صاف کرتے ہوئے سیواسمتی کا سیناپتی آ گیا اور چبوترے کے پاس پہنچ کر اپنی کھدّر کی نِکّر کو عریانی کی حد تک اونچا کرنے لگا۔ پھر اس نے رضاکاروں کو ایکا ایکی قطار میں کھڑے ہونے کا حکم دیا اور قطار میں کھڑے ہونے کے بعد وہ حکم کے مطابق چلنے لگے …

لوگ خوش تھے۔ انھوں نے رضاکاروں کے پیچھے تالیاں بجائیں یہ بہتر تذلیل تھی۔ بدنما دانت اور جبڑے دکھائی نہیں دیتے تھے۔ سینا پتی نے خشم آلود نگاہوں سے پیچھے کی طرف دیکھا۔ گلے کو سہلایااور چل دیا۔ لوگوں نے پتھروں کی طرح کے وزنی قہقہے پھینک کر رضاکاروں کو زخمی کر دیا۔ سیواکا پھل میوہ…

سب جانتے تھے کہ مجسمّہ سنگِ مرمر کا ہے، سفید ہے، سخت ہے، لیکن اتنی بات سے ان کی تسلّی نہیں ہوتی تھی۔ وہ سات آٹھ قدم کے فاصلے پر کھڑے ہوتے، ایک نظر مجسمّے کو دیکھتے، پھر سب کے سب اس تک پہنچ کر اُسے اپنے ہاتھوں سے چھُو دیتے۔

’’میں انگریجی نہیں جانتا‘‘ ایک دیہاتی نے کہا۔

… سرجیوا رام کا  بُت ہے جو 1862 میں پیدا ہوا ، اور 1931 میں مر گیا۔ وہ ایک بڑا سخی اور آدم دوست شخص تھا، اور انیسویں صدی کا سب سے بڑا معجزہ …

اب ہجوم نے اثبات میں سر ہلا دیا اور ایک دفعہ پھر اپنے ہاتھوں کی پہنچ تک بُت کو محسوس کیا۔ کچھ دیر بعد بُت کے پانو سیاہ ہو گئے… لیکن اس کے بعد سب اطمینان کے ساتھ اپنے اپنے کام پر چلے گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کوکھ جلی

 

 

گھمنڈی نے زور زور سے دروازہ کھٹ کھٹایا۔

گھمنڈی کی ماں اس وقت صرف اپنے بیٹے کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ پہلے پہر کی نیند کے چوٗک جانے سے اب اُسے سردیوں کی پہاڑ ایسی رات جاگ کر کاٹنا پڑے گی۔ چھت کے نیچے اور لاتعداد سرکنڈے گننے کے علاوہ ٹڈیوں کی اُداس اور پریشان کرنے والی آوازوں کو سننا ہو گا… دروازے پر زور زور کی دستک کے باوجود وہ کچھ دیر کھاٹ پر بیٹھی رہی ،اس لیے نہیں کہ وہ سردی میں گھمنڈی کو باہر کھڑا کر کے اس کے گھر میں دیر سے آنے کی عادت کے خلاف آواز اٹھانا چاہتی ہے، بلکہ اس لیے کہ گھمنڈی اب آ ہی تو گیا ہے۔

یوں بھی بوڑھی ہونے کی وجہ سے اس پر ایک قسم کا خوشگوار آلکس، ایک میٹھی سی بے حسی چھائی رہتی تھی۔ وہ سونے اور جاگنے کے درمیان معلق رہتی۔ کچھ دیر بعد ماں خاموشی سے اٹھی۔ چارپائی پر پھر سے اوندھی لیٹ کر اس نے اپنے پانو چارپائی سے دوسری طرف لٹکائے اور گھسیٹ کر کھڑی ہو گئی۔ شمعدان کے قریب پہنچ کر اُس نے بتّی کو اُونچا کیا۔ پھر واپس آ کر کھاٹ کے سانگھے میں چھُپائی ہوئی ہلاس کی ڈبیا نکالی اور اطمینان سے دو چٹکیاں اپنے نتھنوں میں رکھ کر دو گہرے سانس لیے اور دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ لیکن تیسری دستک پر یوں معلوم ہوا جیسے کواڑ ٹوٹ کر زمین پر آ رہیں گے۔

’’ارے تھم جا۔ اُجڑ گئے۔‘‘ ماں نے برہم ہو کر کہا۔ ’’مجھے انتظار دکھاتا ہے اور آپ ایک پل بھی تو نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘

کواڑ کے باہر گھمنڈی کے کانوں پر لپٹے ہوئے مفلر کو چیرتے ہوئے ماں کے یہ الفاظ گھمنڈی کے کانوں میں پہنچے۔ ’’اُجڑ گئے‘‘… ماں کی یہ گالی گھمنڈی کو بہت پسند تھی۔ ماں اپنے بیٹے کے بیاہ کا تذکرہ کرتی اور بیٹا بظاہر بے اعتنائی کا اظہار کرتا، جب بھی وہ یہی گالی دیتی تھی۔ ایک پل میں گھر کو بسا دینے اور اُجاڑ دینے کا ماں کو خاص ملکہ تھا۔

اس طور پر اُتاؤلے ہونے کا گھمنڈی کو خود بھی افسوس ہوا۔ اس نے مفلر سے اپنے کان اچھی طرح ڈھانپ لیے، اور جیب سے چُرا ئے ہوئے میکروپولو کا ٹکڑا سُلگا کر کھڑا ہو گیا۔ شاید ’’آگ‘‘ سے قریب ہونے کا احساس اُسے بے پناہ سردی سے بچا لے۔ پھر وہ میکروپولو کو ہوا میں گھما کر کنڈل بنانے لگا۔ یہ گھمنڈی کا محبوب مشغلہ تھا جس سے اس کی ماں اُسے ’’اوگن‘‘ بتا کر منع کیا کرتی تھی۔ لیکن اس وقت کنڈل سے نہ صرف تسکین ملحوظ خاطر تھی،بلکہ ماں کے ان پیارے الفاظ کے غلاف ایک چھوٹی سی غیرمحسوس بغاوت بھی۔

سگریٹ کا آوارہ جگنو ہَوا میں گھومتا رہا۔ گھمنڈی اب ایک اور دستک دینا چاہتا تھا لیکن اُسے خود ہی اپنی احمقانہ حرکت پر ہنسی آ گئی۔ وہ لوگ بھی کتنے احمق ہوتے ہیں، اس نے کہا، جو ہرمناسب اور نامناسب جگہ اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جب انھیں کسی جگہ پہنچنا ہوتا ہے تو وقت کی ساری کسر سائیکل کے تیز چلانے، یا بھاگ بھاگ کر جان ہلکان کرنے میں لگا دیتے ہیں… اور یہ سوچتے ہوئے گھمنڈی نے سگریٹ کا ایک کش لگایا اور دروازہ کے ایک طرف نالی کے قریب دبک گیا۔

دھوبیوں کی کٹڑی میں اُگا ہوا گوندی کا درخت پچھوا کے سامنے جھک گیا تھا۔ جھکاؤ کی طرف، ٹہنیوں میں چاند کی ہلکی سی پھانک الجھی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ ماں نے ضرور آج گلے میں دوپٹہ ڈال کر دوپٹے کی پھوئیں ایکم کے چاند کی طرف پھینکے ہوں گے۔ اس کے بعد ایکا ایکی سائیں سائیں کی بھیانک سی آواز بلند ہوئی۔ ہوا، چاند کی پھانک اور گوندنی کا درخت مل جل کر اُسے ڈرانے والے ہی تھے، کہ ماں نے دروازہ کھول دیا …

’’ماں … ہی ہی … ’’گھمنڈی نے کہا اور خود دروازہ سے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اس سے ایک لمحہ پہلے وہ اپنے دانتوں کو بھینچ رہا تھا۔

’’آ جاؤ…‘‘ماں نے کچھ رُکھائی سے کہا۔ ’’اور پھر بولی۔‘‘ آ جاؤ اب ڈرتے کیوں ہو۔ تمھارا کیا خیال تھا، مجھے پتہ نہیں چلے گا؟‘‘

گھمنڈی کو ایک معمولی بات کا خیال آیا کہ ماں کے منھ میں ایک بھی دانت نہیں ہے، لیکن اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا۔

’’کس بات کا پتہ نہیں چلے گا؟‘‘

’’ہوں … ‘‘ ماں نے دِیے کی بے بضاعت روشنی میں سر ہلاتے اور چڑاتے ہوئے کہا۔ ’’کس کا پتہ نہیں چلے گا…‘‘

گھمنڈی کو پتہ چل گیا کہ ماں سے کسی بات کا چھُپانا عبث ہے۔ ماں … جو چوبیس سال ایک شرابی کی بیوی رہی ہے … گھمنڈی کا باپ جب بھی دروازے پر دستک دیا کرتا، ماں فوراً جان لیتی کہ آج اس کے مرد نے پی رکھی ہے۔ بلکہ دستک سے اُسے پینے کی مقدار کا بھی اندازہ ہو جاتا تھا۔ پھر گھمنڈی کا باپ بھی اسی طرح دبکے ہوئے داخل ہوتا۔ اسی طرح پچھوا کے شور کو شرمندہ کرتے ہوئے … اور یہی کوشش کرتا کہ چپکے سے سوجائے اور اس کی عورت کو پتہ نہ چلے… لیکن … شراب کے متعلق گھمنڈی کے ماں باپ میں ایک ان لکھا اور ان کہا سمجھوتہ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں سمجھ جاتے تھے۔ پینے کے بعد گھمنڈی کا باپ ایک بھی وافر لفظ منھ سے نہ نکالتا اور اس کی ماں اپنے مرد کو پینے کے متعلق کچھ بھی نہ جتاتی۔ وہ چپکے سے کھانا نکال کر اس کے سرہانے رکھ دیتی اور سونے سے پہلے معمول کے خلاف پانی کا ایک بڑا کٹورہ چارپائی کے نیچے رکھ کر ڈھانپ دیتی… صبح ہوتے ہی اپنے پلّو سے ایک آدھ سکّہ کھول کر گھمنڈی کی طرف پھینک دیتی اور کہتی:

’’لے ۔ اَدھ بلویا لے آ…!‘‘

اور گھمنڈی اپنے باپ کے لیے شکر ڈلوا کر اَدھ بلویا دہی لے آتا، جسے پی کر وہ خوش ہوتا، روتا، توبہ کرتا اور پھر ’’ہاتھ سے جنّت نہ گئی‘‘ کو جھُٹلاتا … گھمنڈی نے ماں کے منھ سے یہ بات سُنی اور خفّت کی ہنسی ہنس کر بولا۔

’’ماں! … ماں! تو کِتنی اچھی ہے … ‘‘پھر گھمنڈی کو ایک چکّر آیا۔ شراب پچھوا کے جھونکوں سے اور بھی پُر اثر ہو گئی تھی۔ سگریٹ کا جگنو جو اپنی فاسفورس کھو چکا تھا، دور پھینک دیا گیا اور ماں کا دامن پکڑتے ہوئے گھمنڈی بولا ’’اور لوگوں کی ماں ان کی بیوی ہوتی ہے، لیکن تو میری ماں ہی ماں ہے۔‘‘

اور دونوں مل کر اس احمقانہ فقرے پر ہنسنے لگے۔ دراصل اس چھوکرے کے ذہن میں بیوی کا نقشہ مختلف تھا۔ گھمنڈی سمجھتا تھا، بیوی وہ عورت ہوتی ہے جو شراب پی کر گھر آئے ہوئے خاوند کی جوتوں سے تواضع کرتی ہے۔ کم از کم رولنگ ملز کے مستری کی بیوی، جس کے تحت گھمنڈی شاگرد تھا، اپنے شرابی شوہر سے ایسا ہی سلوک کیا کرتی تھی اور اس قسم کے جو‘تی پیزار کے قصّے آئے دن سننے میں آتے ہیں۔ پھر کوئی ماں بھی اپنے بیٹے کو اس قسم کی حرکت کرتے دیکھ کر اچھّا سلوک نہیں کرتی تھی۔ بخلاف ان کے گھمنڈی کی ماں، ماں تھی۔ ایک وسیع و عریض دل کے مترادف، جس کے دل کی پہنائیوں میں سب گناہ چھُپ جاتے تھے… اور اگر گھمنڈی کے اس بظاہر احمقانہ فقرے کی اندرونی صحت کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کی متناقص شکل میں گھمنڈی کی ماں اپنے شوہر کی بھی ماں تھی۔

بستر پر دھم سے بیٹھتے ہوئے گھمنڈی نے اپنے ربڑ کے جو‘تے اُتارے۔ یہ جو‘تے سردیوں میں برف اور گرمیوں میں انگارہ ہو جاتے تھے۔ لیکن ان جوتوں کو پہنے ہوئے کون کہہ سکتا تھا کہ گھمنڈی ننگے پانو گھوم رہا ہے … گھمنڈی نے ہمیشہ کی طرح جو‘تے اُتار کر گرم کرنے کے لیے چولھے پر رکھ دیے۔ ماں پھر چلاّئی

’’ہے، مرے تیری ماں بھگوان کرے سے … ہے … گور بھوگ لے تُو کو …‘‘

لیکن ہندو دھرم بھرشٹ ہوتا رہتا۔ ماں جُوتے اتار کر دور کونے میں پھینک دیتی۔ پھر بکتی جھکتی اپنے دامن میں ایک چونی باندھ گھمنڈی کے سرہانے پانی کا ایک بڑا سا کٹورہ رکھ، متعفن بستر کی آنتوں میں جا دبکتی۔

حد ہو گئی … ماں نے دو تین مرتبہ سوچا۔ گھمنڈی نے بنواری اور رسید کی سنگت چھوڑ دی ہے۔ اس نے گھمنڈی کو شراب پینے سے منع بھی نہیں کیا اور نہ اپنے اوباش سنگی سنگاتی کے ساتھ گھومنے سے۔ ماں نے سوچا شاید یہ نرمی کے برتاؤ کا اثر ہے۔ لیکن وہ ڈر گئی اور جلد جلد ہلاس کی چٹکیاں اپنے نتھنوں میں رکھنے لگی۔ اپنے آپ کو مارنے کا اس کے پاس ایک ہی ذریعہ تھا۔ ہلاس سے اپنے پھیپھڑوں کو چھلنی کر دینا … لیکن اب ہلاس کا کوئی بھی اثر نہیں ہوتا تھا۔ اسی نرمی سے ماں نے اپنے شوہر کا منھ بھی بند کر دیا تھا… اس کی شخصیت کو کُچل دیا تھا اور وہ بے چارہ کبھی اپنی عورت کی طرف آنکھ بھی نہیں اُٹھا سکتا تھا۔ اسی طرح گھمنڈی بھی اپنی ماں کے ساتھ ہم کلام ہونے سے گھبراتا تھا۔ ماں نے اس بات کو محسوس کیا اور پھر وہی … ’’تیری ماں مرے بھگوان کرے سے‘‘… لیکن اس بات کا اُسے کوئی حل نہ سوجھ سکا۔

آج پھر چھ بجے شام گھمنڈی کارخانے سے لوٹ آیا، حالاں کہ وہ نتھوا چوکیدار کی آواز کے ساتھ محلّے میں داخل ہوتا تھا۔ اس سے پہلے وہ کوئی پُرانی تصویر دیکھنے چلا جاتا۔ وادیا کی مس نادیا کے گیت گاتا اور ایک دو سال سے اس کے پُراسرار طریقے سے غائب ہو جانے کے متعلق سوچتا … آج پھر اتنی جلدی لوٹ آنے سے ماں کے دل میں وسوسے پیدا ہوئے … اس نے بیکار ایک کام پیدا کرتے ہوئے کہا …

لے تو بیٹا… زیرہ لے آ تھوڑا…‘‘

’’زیرہ؟ ‘‘گھمنڈی نے پوچھا ’’دہی کے لیے ماں؟‘‘

’’اور تو کا تمھارے سر پہ ڈالوں گی۔‘‘ ماں نے لاڈ سے کہا اور ضرورت سے وافر پیسے دیتی ہوئی بولی ۔’’لو یہ پیسے، ٹھیٹر دیکھنا۔‘‘

’’میں سینما نہیں جاؤں گا ماں۔‘‘ گھمنڈی نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

’’یہی سیرتماشہ تو ہم لوگوں کو خراب کرتا ہے۔‘‘

’’ماں حیران ہو کر اپنے بیٹے کا منھ تکنے لگی۔ ابھی خیر سے ہاتھ پانو بھی نہیں کھُلے۔‘‘ اتنی دانس کی باتیں کرنے سے نجر لگ جائے گی رے … اور دراصل وہ اپنے بیٹے کو ایک شرابی دیکھنا چاہتی تھی۔ نہیں شرابی نہیں، شرابی سے کچھ کم، جس سے تباہ حال نہ ہو جائے کوئی۔ لیکن یہ      بھل منسیت بھی ماں کو راس نہ آتی تھی۔اس نے کئی عقل مند بچے دیکھے تھے جو اپنی عمر کے لحاظ سے زیادہ عقل مندی کی باتیں کرتے تھے، اور انھیں ایشور نے اپنے پاس بلا لیا تھا۔

گھمنڈی زیرہ لانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ پیسے لے کر دروازے تک پہنچا۔ مشکوک نگاہوں سے اس نے دروازہ کے باہر جھانکا… ایک قدم باہر رکھا، پھر پیچھے کی جانب کھینچ لیا اور بولا ’’باہر چچی کھڑی ہے اور منسی بھی ہے۔‘‘

’’تو پھر کا؟ ‘‘ ماں نے تیوریوں کا ترشول بناتے ہوئے کہا۔

’’پھر کچھ ہے‘‘ گھمنڈی بولا ’’میں ان کے سامنے باہر نہیں جاؤں گا۔‘‘

ماں نے سمجھاتے ہوئے کہا ’’تو نے منسی کا کنٹھا اُتار لیا ہے، جو باہر نہیں جاتا؟‘‘

لیکن گھمنڈی باہر نہ گیا۔ ماں منھ میں دوپٹہ ڈال کر کھڑی ہو گئی ۔ ماں منھ میں دوپٹہ اس وقت ڈالا کرتی تھی جب کہ وہ نہایت پریشان یا حیران ہوتی تھی۔ اور اپنے کلیجے میں مُکّہ اس وقت مارا کرتی تھی جب کہ بہت غمگین ہوتی … اس سے پہلے تو گھمنڈی کسی سے شرمایا نہیں تھا۔ وہ تو محلے کی لونڈیوں میں ڈنڈ پیلا کرتا تھا۔ عورتوں کے کولھوں پر سے بچّے چھین لیتا اور انھیں کھلاتا پھرتا۔ اور اسی اثناء میں عورتیں گھر کا دھندا کر لیتیں اور گھمنڈی کو دعائیں دیتیں … اور آج وہ منسی اور چچی سے بھی جھینپنے لگا تھا۔

گھمنڈی نے واپس آتے ہوئے اپنے باپ کے زمانے کا خریدا ہوا ایک پھٹا پُرانا    موم جامہ نیچے بچھایا، اور ایک ٹوٹا ہوا شیشہ اور رال سامنے رکھ کر ٹانگیں پھیلا دیں۔ٹانگوں پر چند سخت سے پھوڑوں پر اُس نے رال لگائی اور پھر شیشے کی مدد سے منھ پر رسنے والے پھوڑے سے پانی پونچھنے لگا اور پھر اس پر بھی مرہم لگا دی۔ ماں نے اپنی دھُندلی آنکھوں سے منھ والے پھوڑے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا… ’’ہائے، کتنا کھُون کھراب ہو گیا ہے تمھارا‘‘… اور پھر کرنجوا اور نیم کے نسخے گنانے لگی۔

اس وقت تک رات ہو گئی تھی۔ رال لگانے کے بعد گھمنڈی موم جامے پر ہی دراز ہو گیا اور لیٹتے ہی اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ آج ماں کو بھی جلدی سوجانے کا موقع تھا، لیکن وہ اونچے مونڈھے پر جوں کی توں بیٹھی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ بستر میں جا دبکنے پر وہ نسبتاً بہتر رہے گی، لیکن ایک خوشگوار تساہل نے اسے مونڈھے کے ساتھ جکڑے رکھا اور وہیں سکڑتی گئی۔ اس کا بڑھاپا اُس میٹھی نیند کے مانند تھا جس میں پڑے ہوئے آدمی کو سردی لگتی ہو اور وہ اپنی ٹانگیں سمیٹ کر کلیجے سے لگاتا چلا جائے … لیکن پانو میں پڑے ہوئے لحاف کو اُٹھانے کے لیے ہِل نہ سکے۔

ایکا ایکی ماں چونکی۔ اُسے اپنے بیٹے کی خاموشی کا پتہ چل گیا تھا۔ اس نیم خوابی میں بڑے بڑے راز کھُل جاتے ہیں۔ ماں نے کلیجے میں مارنے کے لیے مُکاّ  ہَوا میں اُٹھایا ،لیکن وہ وہیں کا وہیں رک گیا اور وہ پھر ایک حسین غشی میں کھو گئی ۔ لیکن اسے گھمنڈی اور اس کے ساتھ اس کا باپ یاد آتا رہا اور اس کی خشک آنکھوں میں داستانیں چھلکنے لگیں۔ہوا کے ایک جھونکے سے دروازے کے پٹ کھُل گئے اور ایک سرد بگولے کے ساتھ باہر سے گوندی اور بِل کے پتّے، گلی میں بکھرے ہوئے کاغذوں کے ساتھ اڑ کر اندر چلے آئے۔ ایک سوکھا ہوا بِل کہیں سے لڑھکتا ہوا دہلیز میں اٹک گیا۔ گھمنڈی نے اُٹھ کر دروازہ بند کرنا چاہا لیکن بِل کو نکالے بغیر کامیابی نہ ہوئی۔

گوندی کے شور اور جھینگروں کی آواز نے ماں کے خون کو اور منجمد کر دیا۔ شمع دان میں دِیے کا شعلہ اور متوازی ہو رہا تھا۔ گھمنڈی نے کہا ’’بستر پر لیٹے گی ماں؟‘‘ لیکن ماں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ گھمنڈی نے سر ہلا کر ماں کو اپنے بازوؤں میں اُٹھا لیا اور جوں کا توں کھاٹ پر رکھ اوپر لحاف دے دیا۔ ماں کو خود پتہ نہیں تھا کہ اگر وہ وہیں پڑی رہتی تو صبح تک سردی سے اکڑ جاتی۔ پھر وہ کبھی سیدھی نہ ہوتی اور وہیں ختم ہو جاتی۔

ماں کو بازوؤں میں اُٹھائے ہوئے شاید گھمنڈی نے کچھ بھی محسوس نہ کیا، لیکن ماں نے بڑا حظ اُٹھایا اور اس کے بعد لحاف کی گرمی و نرمی نے اس کو حظِ اکبر میں تبدیل کر دیا۔ کبھی ماں نے بیٹے کو گود میں اُٹھا یا تھا۔ ماں نے سوچا اور پھر ہلاس کی ایک چٹکی نتھنے میں رکھ کر اس نے زور سے سانس لیا۔ وہ حظ کی اس سطح پر آ چکی تھی جہاں مر کر انسان اس خوشی کو دوام کرنا چاہتا ہے۔ آج اس کے بیٹے نے اسے گودی میں اٹھایا تھا اور اسے بستر کی قبر میں رکھ دیا تھا۔ وہ بستر جو قبر ہو نہ سکا … دنیا میں کوئی عورت ماں کے سوا نہیں۔ اگر بیوی بھی کبھی ماں ہوتی ہے تو بیٹی بھی ماں … تو دنیا میں ماں اور بیٹے کے سوا، اور کچھ نہیں۔ عورت ماں ہے اور مرد بیٹا … ماں کھلاتی ہے اور بیٹا کھاتا ہے… ماں خالق ہے اور بیٹا تخلیق … اس وقت وہاں ماں تھی اور بیٹا … ماں، بیٹا… اور دنیا میں کچھ نہ تھا۔

ماں بدستور خواب اور بے خوابی کے درمیان معلق تھی۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی، لیکن اس کے تخیّل کی شکلیں بے قاعدہ ہو کر خواب کے ایک اندھیرے جو‘ہڑ میں ڈوب رہی تھیں۔ اس کے گانو کے چند مکان اس کی گلی میں آئے تھے، لیکن کسی پُراسرار طریقے سے ان مکانوں کے پیچھے بھی وہی دھوبیوں کا محلّہ آباد تھا۔ وہاں بھی وہی بِل اور گوندی کے درخت… سائیں سائیں کر رہے تھے۔ اماوس کی رات کاجل ہو رہی تھی اور بیٹے کا چاند ان ظلمتوں کو پاش پاش کر رہا تھا۔ اس کا شوہر، جسے وہ غلطی سے مرا ہوا تصور کرتی تھی، زندہ تھا اور اس سے صبح کے وقت ’’اَدھ بلوئے‘‘ کی کٹوری مانگ رہا تھا۔ اُسے پیاس لگی تھی۔ ایک نہ پی ہوئی شراب کے نشہ سے اسے بری طرح اعضاء شکنی ہو رہی تھی، لیکن اس کا خاوند تو مر چکا تھا۔ دس سال ہوئے مر چکا تھا۔ مرے ہوئے آدمی کو کوئی چیز دینا گھر میں کسی اور متنفس کو خدا کے گھر بھیج دینے کے مترادف ہے ، لیکن وہ انکار نہ کرسکی۔ وہ بیوی تھی اور ماں۔ اس نے اپنے شوہر کے منھ کے ساتھ لگا ہوا کٹورہ چھین لیا، لیکن کیوں؟ اس کا شوہر مرا تھوڑے ہی تھا۔ وہ سامنے کھڑا تھا۔ وہی کٹا ہوا سا ہونٹ جس میں سونے کے کیل والا دانت دکھائی دے رہا تھا۔ بڑی بڑی مونچھیں بھی اس دانت کو ڈھانپنے سے قاصر تھیں۔

دروازے پر دستک سنائی دی اور ماں کو محسوس ہوا، جیسے کسی نے اسے جھنجھوڑ دیا ہو۔ اس وقت اس کی آنکھوں سے ایک غلاف سا اُترا ،لیکن اس پر ایک غلاف تھا جو اس کے سارے بدن کا احاطہ کیے ہوئے تھا۔ وہ پڑی رہی … پڑی رہی … اس کے پانو، جو کچھ دیر پہلے سرد اور لکڑی کی طرح سخت تھے، کچھ گرم ہو گئے تھے۔ شاید گھمنڈی نے ہمیشہ کی طرح رگڑ رگڑ کر اس کے پانو گرم کیے تھے۔ ماں اپنے تخیل میں ہنسی… گھمنڈی بھی اسے مرتا دیکھنا نہیں چاہتا۔ بیوی آ جائے تو کچھ پتہ نہیں… لیکن اب اس گھن لگے ہوئے شریر کا کیا ہے؟ … ہلاس … ہلاس کدھر گئی … ماں سوگئی۔ لیکن دروازے پر دستک کی آواز برابر سنائی دے رہی تھی۔ بنواری اور رشید بھی پھر گھمنڈی کو بُلانے آئے تھے۔ ماں کو ایک گونہ تسکین ہوئی۔ گھمنڈی پھر ٹھیک ہو جائے گا ،لیکن صد گونہ اضطراب ہوا۔ ان کی سنگت پھر گھمنڈی کو بگاڑ دے گی۔ اُس وقت بُڑھیا کو جاگ آئی… جاگتے ہی پہلی بات جو ماں کے ذہن میں آئی، وہ اس بات کی خوشی تھی کہ اس نے گھمنڈی کے باپ کو اَدھ بلوئے کا کٹورہ مُنھ سے لگانے نہیں دیا۔ اگرچہ وہ کس قدر پیاسا تھا اور اس کا عضو عضو ٹوٹ رہا تھا اور وہ بڑی التجا آمیز آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ ایک گھونٹ بھی پی چکا تھا، لیکن ماں نے سمجھنا چاہا کہ اس نے کچھ نہیں پیا، اور وہ سمجھ گئی۔ اس نے دروازے میں کھڑے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا، اور اس قدر دھیمی آواز میں کہا ’’میں صدقے لال‘‘ کہ وہ خود بھی اپنی آواز کو نہ سُن سکا۔ اسی طرح اس نے ایک اَن سُنا بوسہ ہوا کی لہروں میں چھوڑ دیا۔

اپنی ماں کو سوتا دیکھ کر گھمنڈی باہر آ گیا اور بولا۔

’’میں سینماکے علاوہ اور کہیں نہیں جاؤں گا۔ یار کہے دیتا ہوں۔‘‘

’’نکل باہر سالے۔‘‘ رشید نے گالی بکتے ہوئے کہا ’’نکلتا ہے یا ……‘‘

ماں کے دماغ میں ٹڈیوں اور جھینگروں کی آواز دوسری آوازوں کے ساتھ برابر آ رہی تھی، اگرچہ وہ قریب قریب سوئی ہوئی تھی۔ گھمنڈی نے باہر سے دروازہ بند کیا اور چلا گیا۔

کسی خیال کے آنے سے ماں اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اُسے پھر اپنا شوہر یاد آیا… اور بیٹا جو شکل اور عادات کے لحاظ سے اپنا باپ ہو رہا تھا، لیکن کمسنی اور بلوغت کے درمیان ہی تھا۔ چند ہی دنوں میں بالغ ہو جائے گا ،پھر اُسے لُگائی کی ضرورت ہو گی۔ ماں نے دل میں کہا۔ ’’مجھے پتہ ہے اَب گھمنڈی باہر کیوں نہیں جاتا؟‘‘

ماں جانتی تھی گھمنڈی اپنے باپ سے زیادہ حساس واقع ہوا ہے۔ جب وہ پی کر آئے تو اسے جتا دینا بڑی مورکھائی ہے۔ اور پھر اگلی صبح پلّو سے چونّی کھول کر دینا بھی تو ایک چپت ہے … چپت … چپ چاپ چپت … شراب پی کر آئے ہوئے خاوند … بیٹے سے جوتی پیزار کرنا اور چونّی کھول کر دینا، یا سرہانے کے قریب پانی کا کٹورہ رکھ دینا ایک ہی قسم کی بدسلوکی تو ہے۔ بلکہ یہ بات جوتی پیزار سے کہیں زیادہ دل آزار ہے۔ اسی لیے گھمنڈی کے باپ نے اس کے سامنے کبھی آنکھ نہیں اُٹھائی… باپ میں شخصیت کو کُچل دینے کی وہی تو ذمہ دار تھی، اور اب بیٹے کو مار رہی ہے۔… ماں نے دل میں تہیّہ کیا کہ اب وہ کبھی اپنے پلّو میں دہی کے لیے چونّی نہیں باندھے گی اور نہ صراحی، سرہانے کے قریب رکھے گی۔ اور وہ خود کُڑھے گی لیکن بیٹے کو کچھ نہیں کہے گی … اسے یہ پتہ نہیں لگے گا کہ میری ماں سب کچھ جان گئی ہے … گھمنڈی کے باپ کا بھی خیال تھا، کہ اگر گھمنڈی کی ماں واویلا یا احتجاج کرتی، تو اس وقت تو ضرور بُرا معلوم ہوتا لیکن آخر میں کتنی آسانی رہتی۔ پہلے تو اس عادت سے خلاصی ہو جاتی، اور اگر یہ لت رہتی بھی تو اس قدر شرمندگی کا منھ     نہ دیکھنا پڑتا۔ اب جب کہ وہ خاموشی سے پانی کا کٹورہ سرہانے رکھ دیتی ہے اور جلدی جلدی ہلاس نتھنوں میں ڈالتی ہے تو سارا نشہ ہرن ہو جاتا ہے … شاید گھمنڈی اس تازیانے کی چوٹ نہ سہہ سکا تھا اور اس نے شراب پینا اور دیر سے گھر آنا ترک کر دیا تھا… خیر آج سے گھمنڈی پی کر آئے گا تو وہ کچھ نہیں سمجھے گی … کچھ نہیں کہے گی۔

رات کے گیارہ بجے ہوا کے جھونکوں اور گوندنی کے پتّوں کے ساتھ گھمنڈی بھی داخل ہوا۔ آج ہَوا گھمنڈی سے زیادہ شور مچا رہی تھی… ماں بدستور چھت کی کڑیاں گن رہی تھی اور من ہی من میں کوئی بھولا بِسرا بچھوڑا گا کر نیند کو بھگا رہی تھی۔ گھمنڈی نے آتے ہی دونوں ہاتھوں میں پھونک ماری۔ ہاتھوں کو رگڑا اور ماں کے پانو تھامتے ہوئے بولا۔

’’ماں … !‘‘

اور ماں کو جاگتے ہوئے پاکر بولا

’’ارے !… تو سو کیوں نہ گئی ماں؟‘‘

ماں نے وہی مختصر سا جواب دیا

’’اب اِن دیدوں میں نیند کہاں رے گھمنڈی!‘‘

لیکن اس سے آگے وہ کچھ اور نہ کہہ سکی۔ گھمنڈی بالکل ہوش میں باتیں کر رہا تھا۔ آج اس نے ایک قطرہ بھی تو نہیں پی تھی۔ اب جو ماں نے کچھ نہ سمجھنے کا تہیّہ کیا تھا، اس کا کیا ہوا؟ … ماں سچ مچ ہی کچھ نہ سمجھ سکی… وہ کچھ بھی نہ جان سکی۔

پت جھڑ جو ہونی تھی سو ہو چکی تھی۔ اس دفعہ پُروا کے آخری جھونکے اور تو کچھ نہ لائے، ایک مہمان لیتے آئے۔ ماں نے گھمنڈی کو بلاتے ہوئے کہا۔

’’بیٹا! لے یہ چپنی بدل یا… ‘‘

محلّے میں چپنی بدلنے کی رسم خوب چلتی تھی۔ ماں پکی ہوئی سبزی چچی کے ہاں بھیج دیتی اور وہاں سے خالی برتن میں پکی ہوئی ترکاری آ جاتی۔ اس تبادلے میں بڑی بچت تھی۔ دوسری سبزی بنانے کی زحمت نہیں اُٹھانا پڑتی تھی اور کھانے میں وہ بات پیدا ہو جاتی تھی۔ اور چچی سے چپنی چلتی بھی خوب تھی، لیکن گھمنڈی نے یوں ہی گھڑے ایسا سر ہلاتے ہوئے کہہ دیا

’’میں اب بڑا ہو گیا ہوں ماں … میں کہیں نہیں جانے کا۔‘‘

’’لو ایک نئی مصیبت۔‘‘ ماں نے کہا اور خوش ہوتے ہوئے بولی ’’تُو بڑا ہو گیا ہے تو کا؟‘‘

اس وقت مہمان کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ گھمنڈی نے موم جامہ جھلنگے کے قریب بچھا رکھا تھا اور اس پر دہی رال لگا رہا تھا۔ ان پھوڑوں کو آرام آتا تھا پر نہ آتا تھا۔ ماں نے دامن کی ہَوا کرتے ہوئے رِستے ہوئے پھوڑوں پر سے مکھیاں اُڑائیں اور بولی ’’تیرا تو کھون بالکل کھراب ہو گیا ہے۔‘‘

اور دراصل گھمنڈی کا خون خراب ہو گیا تھا۔ اس کے باپ دادا نے اسے پاک پوتِر خون دیا تھا، لیکن بیٹے نے خون میں تیزاب ڈال دیا اور خون پھٹ گیا۔ جسم بھی ساتھ پھٹنے لگا۔ کچھ مجرمانہ نگاہوں سے گھمنڈی نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور بولا

’’ماں! … مجھے گرمی ہو گئی۔‘‘

ماں کے سارے تیور، سوال کی صورت میں اُٹھ گئے۔ اور اُس نے فقط اتنا کہا ’’کاؤ؟‘‘

گھمنڈی نے جھلنگے کی لٹکتی ہوئی رسّیوں کو تھامتے ہوئے کہا ’’یہ رشید کی کرتوت ہے۔‘‘ اور بے اختیار روتے ہوئے بولا۔ ’’اس میں میرا کوئی قصور نہیں ماں!‘‘

ماں نے ایک دفعہ پھر کہا ’’کاؤ؟‘‘ اور گھمنڈی کی حدّت شعلہ بار ہو گئی۔ اس نے ماں کو ایک گالی دینا چاہی، لیکن وہ رُک گیا۔ گھمنڈی اب خود بھی چاہتا تھا کہ ماں کو اس کے آزار کا پتہ چل جائے۔ بیٹے کو روتے دیکھ کر ماں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ روگ تو جی کے ساتھ لگا ہوا ہے، لیکن اتنا خون خراب کبھی کسی کا نہیں ہوا … اور اُس نے سوتے میں اپنے مرحوم خاوند کو اَدھ بلویا پلا دیا تھا…

مجبور ہو کر گھمنڈی پھر بلوغ،گمراہ بلوغ کی داستان رونے لگا۔ آج سے پچاس سال پہلے اس بلوغ کو زندگی کے درخت پر اس قدر پکنے نہیں دیا جاتا تھا کہ وہ سڑ کر اپنے آپ نیچے گر پڑے اور پھر دنیا جہان کو متعفّن کر دے۔ ماں، جس کی شادی دس سال کی عمر میں ہو گئی تھی، اس بات کو نہیں جانتی تھی۔ جس طرح بدن کے علم سے ناواقف لوگوں کے لیے پیٹھ کا ہر حصّہ کمر ہوتا ہے، اسی طرح اس نا واقف… نا سمجھ اور نادان ماں کے لیے یہ خون کی خرابی، گرمی یا کوڑھ سے پرے کچھ نہیں تھی۔ اور یہ سب کچھ کرنجوا، نیم اور اسپغول کے ’’سحر‘‘ کے آگے نہ ٹھہر سکتا تھا۔

اَب ماں ’’کاؤ‘‘ نہیں کہنا چاہتی تھی، اگرچہ اُسے کسی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی۔ وہ جانتی تھی جب سے گھمنڈی کا خون خراب ہوا ہے، وہ بہت متلوّن ہو گیا ہے۔ گھر میں چیزیں پھوڑنے لگتا ہے اور جو بہت کچھ کہو، تو اپنا سر فر ش پر دے مارتا ہے۔

ماں خود ہی چپنی بدلنے چلی گئی۔ گھمنڈی کی چچی نے اپنے ہاں پکی ہوئی ترکاری تو دے دی، لیکن ان کے ہاں کی پکی ہوئی چیز قبول نہ کی۔ ماں کا ما تھا ٹھنکا۔ دس سال سے وہ رنڈاپا اکیلی کاٹ رہی تھی اور اس نے کسی شریک کے سامنے سر نہیں جھکایا تھا۔ آج جب کہ وہ کل کے تمام اسرار سے واقف ہو چکی تھی، بھلا کیوں جھُک جاتی؟ ماں اپنی دیورانی کے ساتھ جی کھول کر لڑی۔ دیورانی نے بھی دھتّا بتایا اور کہا۔’’دیکھا ہے ہم نے، اتنی بڑی ناک لیے پھرتی ہے تو بیٹے کو سنبھالا ہوتا، جو بازار میں جھک مارتا پھرتا ہے۔‘‘

ماں ٹھیک کہتی تھی ، کہ ’’چپنی بدلنے‘‘ سے گھمنڈی کا تعلّق؟ تو جو برتنا نہیں چاہتی تو یوں کہہ دے۔ لیکن دراصل ماں کو کوئی بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ خون خراب گھمنڈی کا ہوا ہے اور وہ گالیاں رشید اور بنواری کو دیتا ہے۔ دیورانی برتنا مجھ سے نہیں چاہتی اور صلواتیں گھمنڈی کو سناتی ہے۔

لیکن محلے کی دوسری عورتیں بھی ماں کو مطعون کرتی تھیں۔ ماں سخت پریشان ہو رہی تھی۔ آخر منشی جی سے لڑائی ہوئی۔ اس نے ڈانٹا کہ اگر گھمنڈی نے ہمارے مکان کے ارد گرد کہیں پیشاب کیا، تو اس سے بُرا کوئی نہ ہو گا۔

آخر مہمان کے سمجھانے سے ماں کو پتہ چل گیا۔ اس نے نہ صرف اپنا سر پیٹا ،بلکہ ایک دو ہتھّڑ بیٹے کے بھی جما دیا۔ ہائے تو نے باپ دادا کا نام ڈبو دیا ہے رے! پڑوسن کے ساتھ پھر لڑائی ہوئی اور ماں نے کھری کھری سُنا دیں۔‘‘ حرام خور تجھے وہ دن یاد ہے جب تیری باہن حرام کروا کے نکلی تھی باوا کے گھر سے … نہ اندھا دیکھا تھا نہ کانا۔ کرنے کی کی تھی … اور وہاں جا کر گھڑا پھوڑ دیا تھا، جانے کس کس کا گریب ایسر کے سر پہ! … اور گھر آ کر ماں گھمنڈی کو کوسنے دیتی۔ گھمنڈی جب سب حکیموں سے مایوس ہوتا تو ماں کی حکمت میں آرام پاتا تھا… لیکن ماں اسے گالیاں دیتی تھی … گور بھوگ لے تو کو … اب دُنیا گھمنڈی کی آنکھوں میں آبلہ تھی۔ ایک بڑا آبلہ جو اُتّر سے دکھن اور پورب سے پچھّم تک پھیلا ہوا تھا اور جس میں پیپ کے دریا رِس رہے تھے۔

‘‘رات ہو گئی۔ ماں جھلنگے میں پڑی ابھی تک ٹھنک رہی تھی۔ یہ بیماری کہاں سے مول لے لی رے میرے دشمن! سارا جسم پھوڑے پھوڑے ہو چکا ہے… یہ بیماری آگ ہے نری آگ۔ یہ امیروں کی دولت ہے۔ میں غریب عورت اس آگ کو کیسے بجھاؤں؟… میں ویدوں کو کیا بتاؤں؟… میں تمھاری ماں ہوں رے گھمنڈی!

شریک مجھے طعنے دیتے ہیں۔ پڑوسی مجھے کھڑا کر لیتے ہیں اور عجیب بے ڈھنگے سوال کرتے ہیں رے۔

گھمنڈی قریب پڑا ہر قسم کی شرم و حیا سے بے نیاز ،ایک ٹک چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چھت میں لگے ہوئے نرکل اس کی آنکھوں میں اُتر آئے تھے اور جھینگر اس کے دماغ میں بولنے لگے تھے۔ اب تک ہوا کے جھونکوں میں تلخی کی نمایاں رمق پیدا ہو کر اس کے جسم کے ایندھن میں اور شعلے پیدا کر رہی تھی۔ کواڑ بھی کھلے ہوئے تھے۔ گوندی، سموم کے جھونکوں میں کراہ رہی تھی اور آسمان پر بدنما داغوں والا آتشک زدہ چاند اپنی یرقانی نظروں سے زمین کی طرف دیکھ رہا تھا… اس کے بعد گھمنڈی کی آنکھوں میں پیٹ کی تخمیر نے ایک غیر مرئی دھُند سی پھیلا دی۔ اس کی پلکیں بوجھل ہونا شروع ہوئیں۔ نرکل چھت پر چلے گئے۔ جھینگروں نے زبان بند کر لی۔ پھوڑے رِسنے بند ہو گئے …

سب دنیا سو رہی تھی لیکن ماں جاگ رہی تھی۔ اس نے بیس کے قریب ہلاس کی چٹکیاں نتھنوں میں رکھ لیں اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ دائیں ہاتھ سے اس نے دِیا اُٹھایا اور گھسٹتی ہوئی اپنے بیٹے کے پاس پہنچی۔ آہستہ آہستہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی۔ گھمنڈی سویا ہوا تھا، لیکن ماں کی شفقت اس کے روئیں روئیں میں تسکین پیدا کر رہی تھی… ماں نے بیٹے کی طرف دیکھا، مسکرائی اور بولی۔

’’میں صدقے، میں واری … دنیا جلتی ہے تو جلا کرے… میرا لال جوان ہو گیا ہے نا؟ اِسی لیے … ہائے مرے تیری ماں بھگوان کرے  سے…‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

نا مُراد

 

صفدر، نقشبندوں کے ہاں کا بڑا لڑکا کالج سے گھر لوٹا، تو کھانا کھا کر قیلولہ کے لیے لیٹ گیا۔سونے سے پہلے اس کے ہاتھ میں اخبار تھا جس میں لکھی ہوئی خبریں پیٹ میں تخمیر کے ساتھ دھُندلی ہوتی گئیں … ہوتی گئیں… صفدر کو پتہ تھا کہ وہ سو رہا ہے، اس کے اعضاء ایک تفریح اور تفرج کے قائل ہو رہے تھے۔ آپ سے آپ یہ خیال بھی اس کے دماغ میں آیا، کہ مرتے وقت بھی تو کچھ اس قسم کا عالم ہوتا ہے۔ جسم کے اعضاء تھک کر چور ہو جاتے ہیں، اور ایک ایسی تفریح اور تفرّج کے قائل، جس کا کوئی انجام نہیں … صفدر سو گیا لیکن وہ مرا نہیں …

تفرج کا احساس کہاں … ابھی اس کے اعضاء نے تفریح بھی نہیں پائی تھی کہ اُسے جھنجھوڑ کر جگا دیا گیا۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں ، لیکن وہ کھُل نہ سکیں۔ پلکوں کے لطیف پردوں میں خواب کی شاہرا ہیں… شریانیں، شرابی ہو رہی تھیں۔ اس نے اپنی آنکھیں دبائیں اور کھولیں۔ وہ اس منظر کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ اس خبر کے لیے تیار نہ تھا جو آج کے اخبار میں نہیں چھپی تھی۔ بڑے نقشبند … امیر علی نقشبند، اس کے والد کھاٹ کے پاس کھڑے تھے اور قریب ہی ماں دروازے میں کھڑی کسی دُکھ کے اظہار میں آنسو بہا رہی تھی۔

’’اُٹھ بیٹا … ارے اٹھ بھی، اس قدر غافل مت ہو۔‘‘

غافل کا لفظ نقشبندوں کے ہاں کثرت سے استعمال ہوتا تھا، اور اس کے معانی بھی مختلف تھے۔ ان معانی سے مختلف جن میں ہم تم اور زید بکر اسے استعمال کرتے ہیں۔ نقشبند تمام کے تمام بڑے متقی اور پرہیزگار لوگ تھے۔ ان کے خیال کے مطابق خدا کی یاد کے علاوہ جو وقت بھی گزرتا تھا، غفلت میں گزرتا تھا۔ کھانا پینا، نصاب رٹنا، سینمادیکھنا، سونا، سب غفلت میں شمار ہوتا تھا۔ صفدر نے اپنے آپ اندازہ کر لیا کہ نماز کے متعلق کچھ کہتے ہوں گے، اور وہ جی چُرا کے سونے لگا۔ جب بڑے نقشبند نماز، تسبیح اور روزہ استغفار کے متعلق کچھ کہتے، تو صفدر جگرؔ کا ایک شعر پڑھ دیتا   ؎

محوِ تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں

زندگی خود ہی عبادت ہے مگر ہوش کہاں

اس شعر میں انسان کے لیے کس قدر آزادی تھی۔ وہ ثواب میں بھی آزاد تھا تو گناہ میں بھی آزاد ، گناہ بھی عبادت تھی … پودوں کے ہوا سے سر ہلانے کا عالمگیر اثبات، پرندوں کے چہچہے، ستاروں کا ایک انجانے مرکز کے گرد طواف، یہ سب کچھ عبادت تھی جو اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ہو رہی تھی۔ بڑی مچھلی کا چھوٹی مچھلی کو کھا لینا، انسان کا انسان کو کُچل دینا، بطلان کا حق پر چھا جانا… یہ سب کچھ عبادت ہی تو تھی۔ لیکن اگر وہ کاہل نہ ہوتا، اگر وہ سُست نہ ہوتا تو اس کی عبادت مکمل ہو جاتی، کیونکہ ماں اور بڑے نقشبند بھی اس شعر کو کاہلی کا ایک جواز سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں زندگی کے دریا میں بہتا ہوا تِنکا ایک ارادہ رکھتا تھا۔ چاہے کس قدر بے بضاعت تھا وہ، لیکن چند لہریں تھیں جو اس سے خوف کھاتی تھیں، اس تنکے سے، اس پر کاہ سے… لیکن ماں کی سسکیاں، یہ محض وہ غفلت نہ تھی، صفدر گویا بجلی کے کسی ننگے تار سے چھو گیا اور اُٹھ کر بیٹھ گیا۔

بڑے نقشبند نے متانت سے کہا ’’بیٹا! اُٹھ کپڑے بدل لے۔ تمھارے سُسرال سے بلاوا آیا ہے۔‘‘

’’میرے سًسرال سے؟‘‘ صفدر نے حیرت سے پوچھا اور ماں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’ماں …!‘‘

ماں نے اپنے جذبات کو دباتے ہوئے کہا ’’نامراد! اُٹھ … جا تجھے میری خوشدامن نے بلایا ہے۔‘‘

’’نامراد‘‘ اور ’’خوشدامن‘‘ کے الفاظ کچھ عجیب طریقے سے استعمال کیے گئے تھے۔ وہ نامُراد کا لفظ اس وقت کہا کرتی تھیں جب وہ گور میں پٹے، خون تھوکے، کی معنوی حد سے ورے، بہت ورے محبت اور نفرت کی الجھنوں میں خفیف سی خفگی کا اظہار کرنا چاہتی تھی۔ لیکن آج اس نے نامراد کچھ اس طرح کہا تھا جیسے اس کا بیٹا صفدر واقعی نامراد ہو … اور اس کی منگیتر کی ماں کو وہ خوشدامن کے نام سے کم ہی پکارا کرتی تھی۔ وہ صرف رابعہ کی ماں کہہ دیتی تھی۔ صفدر کا ما تھا ٹھنکا۔ آج خوشدامن کے لفظ پر زور دینے اور دہلیز پر کھڑے آنسو بہانے کی یہ وجہ تو نہیں کہ ماں کے ہاتھ سے خوشی کا دامن چھوٹ گیا ہے اور رابعہ کی ماں کے ہاتھ سے بھی؟

لیکن کیا مضائقہ ہے؟ صفدر نے پل بھر میں سوچ لیا۔ اس نے اپنے ہاتھ سگریٹ کی طرف بڑھائے ،لیکن بڑے نقشبند کو دیکھ کر رک گیا۔ ان کے سامنے سگریٹ پینا، گھر بدر ہونا تھا۔ لیکن اپنی لاپروائی کا اظہار کسی طرح ممکن نہیں تھا۔ صفدر نے جھک کے چارپائی کے نیچے سے، بوٹ کٹوا کر بنائے ہوئے سلیپر نکالے اور انھیں پہن کر کھڑا ہو گیا اور اپنی ماں کی طرف خالی خولی نگاہوں سے دیکھنے لگا…‘‘ کیا رابعہ کی ماں نے کوئی اور رشتہ دیکھ لیا ہے؟ … یا … ؟‘‘ وہ اپنے آپ کو فریب دینا چاہتا تھا … بالفرض محال اگر رابعہ، رابعہ بے چاری کو کچھ ہو گیاہو، تو پھر اُسے بُلانے کی کیا ضرورت ہے؟

نیچے زینے پر دھم دھم کی آوازیں آنے لگیں۔ سڑک پر کھلنے والی کھڑکی سے گھر کے زینہ کا آخری حصّہ بھی نظر آتا تھا۔ گھر میں کون ہے، یہ دیکھنے کے لیے صفدر نے کھڑکی کو کھولا اور نیچے جھانکا… جمن تھا … رابعہ کا نوکر۔ شاید یہی وہ خبر لایا تھا جسے ایکا ایکی بتا دینے میں بڑے نقشبند اور اس کی ماں ایک قدرتی خوف کی وجہ سے تامل کر رہے تھے… اس وقت ابھی دوپہر ڈھل رہی تھی کہ آسمان پر سلاروں کی قطاریں بڑے بڑے اور سُست پروں کی طرح اُڑنے لگیں۔ شہر کا دھُواں گاڑھا ہو رہا تھا اور شہر کو پیش از وقت اندھیرے میں مبتلا کر رہا تھا۔

ماں ابھی تک کچھ بول نہ سکی تھی۔ یہ اُس کی عادت تھی۔ وہ پیدائش، شادی اور موت، تینوں موقعوں پر اپنے جذبات کو لفظوں سے آسودہ نہیں کرسکتی تھی۔ بڑے نقشبند نے اِرد گرد کوئی کرسی نہ دیکھی تو صراحی والی تپائی لے کر بیٹھ گئے ،جس پر سے عرصہ ہوا صراحی ہٹا دی گئی تھی۔ بولے… ’’بیٹا! یہ بڑی بُری خبر ہے، تمھاری رابعہ چل بسی‘‘ … ماں نے اپنا مُنھ چھپا لیا اور پھر جلدی سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھنے لگی… صفدر اس خبر کے لیے تیار نہ تھا، لیکن اس نے حیرانی سے منھ کھول دینے کے علاوہ اور کچھ نہ کیا۔

نقشبند، زمانے کی دوڑ سے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ صفدر کو اس بات کا شدید گلہ تھا۔ اس لڑکی کے لیے اُسے کیسے افسوس ہو سکتا تھا، جسے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کا چہرہ صاف کہہ رہا تھا کہ رابعہ مر گئی ہے تو کیا ہوا؟ اُسے صرف اس قدر افسوس ہوا جتنا کسی راہ چلتے کو میّت مل جانے سے مرنے والے پر ہوتا ہے۔ شاید اس سے کچھ زیادہ ، کیونکہ رابعہ کا نام اب اس کے نام کے ساتھ لیا جاتا تھا اور اس کے کان رابعہ صفدر، صفدر رابعہ کی گردان سے مانوس ہو گئے تھے۔ جب پہلے پہل وامق عذرا، ہیر رانجھا، رومیو جولیٹ کے نام اکٹھے لیے گئے ہوں گے، تو کانوں کو کس قدر ٹھیس پہنچتی رہی ہو گی۔ لیکن اب یہ نام گھریلو بن گئے تھے … روزمرہ ، اسی طرح رابعہ اور صفدر کے نام روزمرہ تھے۔ آج رابعہ امتحان دے رہی ہے۔ آج صفدر تقریر کر رہا ہے… رابعہ کس قدر خوبصورت ہے اور اتنی اچھّی صحت والی … صفدر … صفدر گورا چٹا ہے … رابعہ سُرخ بہت ہے اور اس لیے کچھ کھولائے ہوئے خون کی طرح سیاہی مائل… صفدر کو کچھ رنج ہوا۔ اس نے سوچا صفدر رشیدہ، صفدر منوّر، صفدر نزہت… لیکن اس کے کانوں کو کچھ بُرا معلوم ہوا۔ اس نے کچھ شرماتے ہوئے کہا۔

’’ابّا جان مجھے افسوس ہے… لیکن میں جا کر کیا کروں گا؟‘‘

اماں جان نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا ’’بیٹا! یہ تو ٹھیک ہے، لیکن تمھاری رابعہ کی ماں نے خواہش ظاہر کی ہے۔‘‘

صفدر کو لفظ ’’تمھاری‘‘ کے دُہرائے جانے پر جی ہی جی میں ہنسی آئی۔ اس سے پہلے بھی وہ اس کی تھی، لیکن کسی نے اس طور پر اسے صفدر کے ساتھ منسوب نہیں کیا تھا۔ اب مر کر وہ اور بھی تمھاری ہو گئی تھی۔ اب جب کہ وہ دراصل کسی کی بھی نہ تھی۔ لیکن وہ مر کیسے گئی، یہ اب تک صفدر نے نہ پوچھا تھا۔ درحقیقت وہ اس خبر سے بھونچکا سا رہ گیا تھا، لیکن نقشبندوں کے ہاں کی جھوٹی حیا کی خاطر اس نے حیرت کا اظہار نہ کیا۔ اس نے بڑی مشکل سے کہا

’’ماں ، کل تو مجھے اس کا بھائی ملا تھا …‘‘

بڑے نقشبند نے اُٹھتے ہوئے کہا

’’بیٹا صفدر! … بے چاری اچانک چل بسی … اچانک … اُسے ایک خاص بیماری تھی۔‘‘

اس خاص بیماری کے متعلق صفدر کچھ نہ پوچھ سکا۔ اس نے کپڑے اُتارنے کے لیے کھونٹی کا رُخ کیا اور اس کے ہاتھ خود بخود لباس میں کالے عنصر والی چیزوں کی طرف اُٹھ گئے… خاص بیماری؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ وہ جانتا تھا کہ عورتوں کو کئی قسم کی کہنے اور نہ کہنے لائق بیماریاں ہوتی ہیں۔ اس کے گھر میں خود اس کی ماں ہر وقت کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا رہتی ہے۔ گھر کے سب طاقچے شیشیوں سے بھرے رہتے تھے۔ جیسے اسے کتابیں سجانے کا شوق تھا، اسی طرح اس کی ماں کو شیشیاں سجانے کا۔ لیکن دوسرے ڈاکٹر کے پاس جاتے وقت کوئی شیشی نہ ہوتی تھی اور بڑے نقشبند سٹپٹایا کرتے تھے۔ وہ جتنا ماں کو اس بیماری کے متعلق پوچھتا، اُتنا ہی اُسے یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا …’’پیٹ درد ہے… سر دُکھ رہا ہے … چھاتی پھُنک رہی ہے … اُبکائیاں آ رہی ہیں۔‘‘وغیرہ وغیرہ… اور اب اس نے عورتوں کی بیماریوں کے متعلق پوچھنا چھوڑ دیا تھا … وہ جانتا تھا کہ عورتوں میں برداشت کا مادّہ زیادہ ہوتا ہے اور وہ عام طور سے بیماریوں سے بچ نکلتی ہیں… لیکن رابعہ مر گئی!

صفدر نے پوچھا ’’میّت کب اُٹھے گی، میاں جی؟‘‘

میاں جی نے جواب دیا ’’آٹھ بجے۔ اس سے پہلے نہ اُٹھ سکے گی۔‘‘

ماں نے کہا ’’ایک بھائی جالندھر میں دکان کرتا ہے، اسے بھی تار دیا گیا ہے۔‘‘

’’آپ بھی شامل ہوں گے؟‘‘ صفدر نے پوچھا۔

’’کسی پہ احسان تھوڑے ہے … ‘‘

صفدر نے اصرار کرتے ہوئے کہا ’’میاں جی،میں بھی آپ کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا۔‘‘

صفدر نے دیکھا، اس قسم کے سوال بڑے نقشبند کو کچھ درست نہیں معلوم ہو رہے ہیں، انھوں نے اپنے ہونٹ کاٹے اور کہا ’’تم میری بات مانو گے یا اپنی کہے جاؤ گے؟‘‘

صفدر نے سر جھکا لیا۔ ماں دخل دیتے ہوئے نرمی سے بولی۔

’’بیٹا، رابعہ کو تمھارے پہنچنے کے بعد نہلایا جائے گا۔‘‘

اور ماں فرطِ غم سے رونے لگی۔ اس نے دیوار کے ساتھ اپنا سر مارتے ہوئے کہا…

’’ہائے میری بیٹی۔ میں تجھے بہو بنا کر لاتی اس گھر میں …‘‘

صفدر کو اور بھی حیرت ہوئی۔ لیکن وہ بغیر مزید سوال کیے چل دیا۔ سیڑھیاں اُترتے ہی اُسے جمن مل گیا۔ جمن بڑی شدّت سے صفدر کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے بھی پتہ چل رہا تھا کہ وہ روتا رہا ہے۔ صفدر نے کہا۔ ’’جمّن!‘‘ لیکن جمن نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ صفدر کو دیکھ کر پھر سے رونے لگا۔ صفدر نے کہا ’’چلو …‘‘ اور جمن روتا ہوا ساتھ ہولیا۔ صفدر چلتا گیا اور سوچتا گیا… اس کے جانے کے بعد ہی رابعہ کو نہلایا جائے گا… کیوں؟ … کیوں؟… رابعہ کے ہاں لوگ سخت پردے کے قائل تھے۔ آج اس کا، اس گھر میں دخل کیسے ہو گا؟… اس گھر میں، جس میں اسے داماد بن کر، سہرے باندھ کر داخل ہونا تھا… وہ اندر کیسے جائے گا؟ اُس نے اپنی ’’تمھاری‘‘ کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ وہ ’’نامراد‘‘ تھا۔ ماں اور خالہ کے کہنے کے مطابق رابعہ خوبصورت تھی، ہزاروں میں سے ایک۔ لیکن اگر وہ شادی کے بعد بدصورت نکلتی تو وہ کیا کر لیتا؟ اس سے کسی نے پوچھا نہیں تھا۔ ممکن ہے لوگ لمبوترہ چہرہ ناپسند کرتے ہوں۔ لیکن اُسے ایسا چہرہ پسند ہے، اور اس نے بچپن سے ہی ایک خاص قسم کے گوشوارے اپنی دلہن کو پہنانے کا ارادہ کر رکھا ہے، جو لمبوترے چہرے پر اچھے دکھائی دیں …

جُمّن بڑی خاموشی سے میلا کچیلا تولیہ کندھے پر ڈالے، ننگے پاؤں صفدر کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے وہ صفدر بابو کے نقوشِ پا پر اپنے پاؤں رکھ کر چل رہا ہے۔ لیکن صفدر نے اس مضروب جذبات والے فرماں بردار نوکر کو باتوں سے آزمانا نہ چاہا۔ اور وہ چلتا گیا۔ اسے دو سے تین فرلانگ شہر کی تنگ و تاریک گلیوں اور بازاروں میں سے، جہاں بہت ہی      شور و شغف تھا، گزرنا تھا۔ ممکن ہے رابعہ کو اپنا منگیتر یاد نہ ہوتا … اور صفدر نے اپنے گورے چٹے ہاتھوں کو دیکھا، اور بازار میں چلتے ہوئے ایک بہانے سے سوڈا واٹر والی دکان میں لگے ہوئے شیشے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس کے بال سلجھے ہوئے نہیں تھے، لیکن اس کے چہرے سے ایک حسین بے نیازی دکھائی دے رہی تھی ،جسے صفدر نے خود بھی محسوس کیا… لیکن یہ تو ’’عطار بگوید‘‘ والی بات تھی … اس وقت دوپہر شام میں ڈھل چکی تھی۔ کبوتروں نے اُڑ اُڑ کر تاروں پر بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔ ایک کبوتر نے ستم ظریفی سے صفدر کے کوٹ پر بیٹ کر دی۔ جمن نے دوڑ کر اُسے تولیہ سے پونچھ دیا۔

’’رہنے دو … ‘‘ صفدر نے کہا۔ ’’میں ایسی ہی ذلّت کے لیے پیدا ہوا ہوں…‘‘

وہمی صفدر نے یہ فقرہ یونہی کہہ دیا۔ لیکن اس سے جمن کو بہت تسلّی ہوئی اور وہ اب تک یہی سوچتا آ رہا تھا کہ صفدر کو رابعہ بی بی کے مرنے کا ذرا بھی افسوس نہیں۔ لیکن صفدر اپنی گتھیاں سلجھا رہا تھا … اسے افسوس تھا ،لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو نہ آسکے۔ اور دکھاوے کے لیے وہ رونا نہیں چاہتا تھا۔ اُسے خیال آیا کہ عجب کیا ،جو اُسے ناپسند کرتے ہوئے رابعہ نے کچھ کھا لیا ہو،اور خوف سے اس کا جسم اور رُوح کانپنے لگے … شاید رابعہ کی ماں نے اپنی اسی حماقت کی طرف توجہ دلانے کے لیے اسے بلایا ہو۔ لیکن ایسی باتیں کہنے کے لیے تو اسے دنیا کے ماں باپ کی طرف رجوع کرنا چاہیے تھا۔

ایک جگہ صفدر نے پیچھے مڑکر جمن کو پکارا۔

جمن نے کہا ’’ہاں سرکار۔‘‘

’’بی بی کو کیا تکلیف تھی؟‘‘

جمن کا گلا پھر رقّت سے بھر آیا۔ اس نے کہا

’’بڑا جُلم ہوا سرکار … بڑا گھور جُلم ہوا —‘‘

’’رابعہ بی بی نے کھا لیا کچھ؟‘‘

’’ہے ہے …‘‘

جمن نے دونوں ہاتھ ہلاتے اور کانوں کو چھوتے ہوئے کہا۔

’’رابعہ بی بی ایسی نہ تھی صفدر بابو … اس ایسی نیک لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ تمھاری نوکرانی نے بتایا ہے۔‘‘

’’ہماری نوکرانی؟‘‘

صفدر نے حیرت سے پوچھا اور پھر کہا

’’اچھا— تمھاری بیوی نے!‘‘

جمن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا

’’کنواری بی بی کے متعلق یہ بات کہنے لائق نہیں ہے۔ جو میں گناہ کرتا ہوں تو … ’’اور یہ کہتے ہوئے جمن نے زمین پر سے مٹّی چھوئی اور کانوں کو ہاتھ لگایا‘‘ تو اللہ بخش دے…       بی نہانے والی تھی کہ اُس نے ٹھنڈے پانی سے نہا لیا اور اس کے بعد وہ بالکل جڑ گئی …‘‘

’’نہانے والی تھی تو نہا لیا۔‘‘ صفدر نے حیرت سے پوچھا اور پھر سمجھتے ہوئے بولا۔‘‘ اُوہ— ہاں — میں سمجھ گیا جمن۔ اس میں گناہ کی کون سی بات ہے؟‘‘

اور پھر دونوں خاموشی سے چلنے لگے۔ صفدر کا بلانا ،اس کے لیے اور بھی معمہ بن گیا۔ اُسے ایک گونہ تسلی ہوئی، کہ رابعہ اپنے منگیتر کی وجہ سے مایوس نہیں ہوئی۔وہ اس قدر اچھی لڑکی تھی، اسی لیے وہ ’’نامراد‘‘ تھا۔ صفدر کو پھر محسوس ہوا کہ وہ رابعہ کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا کر رہا ہے… کوشش سے … محنت سے … دراصل اُسے اپنے آپ کو کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ شاید ماتم کدے میں پہنچ کر اس کا دل پسیج جائے۔ لیکن اگر اس سے رویا نہ گیا تو بُری بات ہو گی، اور اگر وہ رو دیا تو اور بھی بُری بات ہو گی۔

صفدر کے خیالات پیچھے کی طرف دوڑ گئے، جب رابعہ کی ماں لڑکا دیکھنے آئی تھی، جب اس نے صفدر کو دیکھا تھا— مجھے دیکھا تھا اور رابعہ کو کسی نے نہ پوچھا تھا۔ وہ خود رابعہ تھی، ورنہ وہ کس طرح اُسے پسند کرسکتی تھی؟ اس وقت وہ رابعہ کی ماں کا داماد نہیں تھا۔ وہ ایک لڑکا تھا، خوش شکل، متناسب جسم والا … ایک مرد … اور رابعہ کی ماں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ رابعہ کے لیے یہ مناسب بَر ہے۔ اس نے اپنے ذہن میں رابعہ اور صفدر کو اکٹھے کھڑے دیکھ لیا تھا— کیا اچھی جوڑی تھی۔ لیکن اس وقت رابعہ کہاں تھی؟ تخیل میں صفدر کے ساتھ کھڑی رابعہ کی ماں تھی، رابعہ نہیں تھی… اور صفدر کو ان فرسودہ رسموں سے نفرت تھی۔ کیوں نہیں اُسے رابعہ کو دکھایا گیا؟ اور کیوں نہ رابعہ اُسے دکھائی گئی۔ اب رابعہ مر چکی ہے اور وہ اس کے لیے کچھ بھی محسوس نہیں کر رہا۔ وہ کیوں ان کے دکھ درد میں شریک نہیں ہو سکتا؟… اب اُسے کیوں بلایا جا رہا ہے۔ اُسے چڑانے کے لیے؟ ان پابندیوں پر آنسو بہانے کے لیے؟… سر پیٹنے کے لیے؟

’’آفتاب منزل‘‘ کے سامنے پہنچ کر صفدر کھڑا ہو گیا۔ گھر میں خاموشی تھی۔ ایک پُراسرار قسم کی خاموشی، جو عام طور پر ماتم والے گھر میں نہیں ہوتی۔ شاید ماتم کرنے والے صبح سے رو رو کر نڈھال ہو چکے تھے۔ ان کے گلے سوکھ گئے تھے اور اب ان کے جسم کا رواں رواں رو رہا تھا۔ یہ خاموش رونا تھا، جو نالوں سے کہیں زیادہ تھا۔ دکھاوا تو تھا نہیں، جوان بیٹی دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے چلی گئی تھی۔ صفدر رک گیا۔ وہ خود حیران تھا کہ وہ اس گھر میں کس طرح داخل ہو رہا ہے۔ رابعہ کو بھی اس قسم کی تعلیم نہ دی گئی تھی، جس سے وہ یہ حرکت نہ کرتی۔ وہ شرم و حیا کی پُتلی، عفت اور پاکیزگی کا مجسمّہ ایک جھوٹی شرم کا شکار ہو کر رہ گئی۔ کیا اس نے مرنے سے پہلے ایک بار بھی صفدر کے متعلق سوچا؟— نہیں قطعاً نہیں۔ اسے کیا معلوم صفدر کس قسم کا آدمی ہے۔ اس کا کوئی خیالی دولھا ہو گا، جیسے ہر لڑکی کا ہوتا ہے۔ لیکن وہ صفدر نہیں ہو گا۔ وہ کوئی اور ہو گا۔ ایسے ہی جیسے اس کی خیالی دلہن یقیناً رابعہ سے مختلف ہو گی۔ اور وہ رابعہ کے لیے اسی طرح محسوس کرے گا، جیسے اس نے کسی بھی مرنے والی لڑکی کے لیے محسوس کیا ہو۔ وہ اس گھر میں کیا استحقاق رکھتا ہے؟ وہ کیوں داخل ہوا۔ اُسے کیا حق ہے؟— وہ آگے بڑھا۔ ٹھٹکا — بڑھا — اُسے جمن کو بھیج کر بلایا گیا ہے…

رابعہ کی چھوٹی بہن قمر، جو منگنی میں بھی صفدر کے ہاں آئی تھی، دوڑی ہوئی باہر آ گئی۔ اس کے منھ سے چیخ نکل گئی۔ ’’دولھا بھائی آ گئے۔‘‘ صفدر نے اپنی طرف دیکھا۔ وہ دولھا بھائی تھا، کالے کپڑے پہن کر اپنی دلہن کو لینے آیا تھا… اسے سب کچھ عجیب معلوم ہوا، ایک ڈھونگ، ایک نیم سیاسی چال… اُسے یہاں کیوں بلایا گیا تھا؟ … رابعہ کا بھائی آیا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ اس کی قمیص کے بٹن کھُل رہے تھے۔ شلوار کا ایک پائچہ اوپر نیفے میں تھا اور دوسرا زمین پر گھسٹ رہا تھا۔ وہ مادّے کے احساس سے اوپر ، روح کی تکلیف میں مبتلا تھا۔ روح ،جس نے جسم کا حُلیہ بگاڑ دیا تھ، وہ چیخا اور اس نے صفدر کو بازو سے پکڑ لیا۔ گویا وہی ان کا مجرم تھا۔ وہ اسے دولھا بھائی کہنا چاہتا تھا، لیکن اس نے نہ کہا۔ وہ فقط روتا رہا۔ بالغ آدمی کا رونا، جو ہر عمر کے انسان کے رونے سے زیادہ کریہہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ رونا نہیں چاہتا لیکن روتا ہے۔ پھر اس کے چہرے کے تناؤ کسے جاتے ہیں اور وہ انھیں چھُپاتا ہے۔

صفدر گھر میں داخل ہوا۔ گھر میں برتن اور کپڑے اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے۔ رابعہ کی ماں بال بکھیرے بیٹھی تھی۔ وہ جھول رہی تھی۔ فرطِ غم سے وہ ایک جگہ بیٹھ نہ سکتی تھی۔ وہ جیتی تھوڑے ہی تھی۔ وہ مر چکی تھی۔ رابعہ جیتی تھی۔ رابعہ کی ماں مر چکی تھی۔ صفدر کو دیکھتے ہوئے اس نے نہایت خوفناک آواز سے چِلاّنا شروع کیا۔ ایک بند دروازوں والے کمرے کے اندر سے بھی کسی بزرگ آدمی کے رونے کی آواز آئی۔ غالباً یہ رابعہ کے باپ تھے، جو کسی کے سامنے رونا نہیں چاہتے تھے۔ اب صفدر کو رونے کے لیے کوشش کی ضرورت نہ تھی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔

رابعہ کی ماں گرتی پڑتی اٹھی اور وحشیانہ انداز سے صفدر کے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے بولی۔ ’’بیٹا ! تو اس گھر میں سہرے باندھ کر آتا، بیٹا میں تیرے شگن مناتی، میں تیرا سر چومتی، لیکن میں رونے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی۔ اللہ کو میرا رونا منظور تھا…‘‘ صفدر کے سامنے ایک لاش ڈھکی پڑی تھی۔ ماں باپ ، ساس سسر کے ارمانوں کی لاش — رابعہ … صفدر … صفدر کو رونے کے لیے کوئی بھی کوشش نہ کرنا پڑی۔ اس کے دل میں ایک اُبال سا آیا— وقتی اُبال ، جو شاید رابعہ کو سامنے پڑے دیکھ کر نہیں آیا تھا، بلکہ اپنے ارد گرد انسانیت کے دکھ درد کو دیکھ کر آیا تھا۔ رابعہ کی ماں نے کہا۔ ’’بیٹا! تو کیوں روتا ہے؟‘‘… لیکن رابعہ کی ماں نے اس کے رونے میں ایک خوشی، ایک تسکین سی محسوس کی۔ اگر وہ نہ روتا تو… صفدر کو رابعہ کی ماں نے آخر کس لیے بلایا تھا؟ رابعہ کی ماں نے کہا ’’بیٹا! تو کیوں روتا ہے، تیرے لیے دلہنیں بہتیری ۔ میرے لیے بیٹی نہیں کوئی۔ میری رابعہ مجھے کہیں نہیں ملے گی۔‘‘ صفدر نے جی ہی جی میں غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’تمھارے اوہام! تمھاری جھوٹی حیا کا شکار لڑکی شاید اب تمھیں نہ ملے گی۔ شاید تم اس سے اس کھوٹے سکّے کے طلبگار نہ ہو گے … تم لوگ ظالم ہو … بے رحم … میں ظالم ہوں، بے رحم اور سنگ دل… شاید میں دل کی تہ سے آنسو لاتا، لیکن اب رابعہ کون ہے؟… یہ میری دُلہن نہیں …‘‘

رابعہ کی ماں نے صفدر کو روتے دیکھا تو خاموش ہو گئی — نہ جانے کیوں خاموش ہو گئی اور پھر بولی ۔’’بیٹا!، تو مت رو، میں تیرے لیے دُلہن لاؤں گی۔ رابعہ سے بھی زیادہ خوبصورت — اس سے بھی زیادہ لمبے بالوں والی … تیری روتی ہے پیزار … لیکن میری بیٹی نامراد جا رہی ہے اس دُنیا سے۔ اسے ایک بار دیکھ لے۔ اس کی شادی یہی ہے کہ تو اسے ایک نظر دیکھ لے— دیکھ— دیکھ میں تجھے کیا دے رہی تھی۔ نصیبوں جلے!

صفدر اس بات کے لیے تیار نہ تھا۔ اسے اپنے ماحول سے نفرت ہو رہی تھی۔ ایک عجیب طرح کی ہمدردی آمیز نفرت، ان بکھرے ہوئے برتنوں، ان پھٹے ہوئے کپڑوں، اس کفن— اس لاش — سے ایک قسم کی ہمدردی اور نفر ت… وہ یہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ اُسے پورا بھروسا تھا کہ اسے ناحق پریشان کیا جا رہا ہے ۔ اسے یقین تھا کہ مرنے والی کی رُوح کو ناحق اذیت دی جا رہی ہے۔ محض خود غرضی، محض اپنی آسودگی کے لیے وہ اس ماتم والے گھر میں اُس ’’دوسری لڑکی‘‘ کے متعلق کچھ بھی سننے کے لیے اور پھر مرنے والی کی ماں کے منھ سے … اُسے حیرت ہوئی… لیکن وہ  چُپ رہا … وہ بھاگ نہ سکا۔ ایک خاص قسم کا تحیّر اس پر چھا گیا، جو مُردے کو دیکھنے کے لیے ہر زندہ شخص پر چھا جاتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ڈر جائے گا، لیکن وہ رابعہ کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اُسے سہاگن بنانا چاہتا تھا۔ وہ نامراد تھی اور صفدر خود نامراد تھا۔ رابعہ کی ماں نے رابعہ کے مُنھ پر سے کپڑا ہٹا دیا۔ رابعہ خون کے کھولنے کی وجہ سے سیاہی مائل بتائی جاتی تھی۔ لیکن اب اس کا خون کھول نہیں رہا تھا۔ اُس کا خون سرد ہو گیا تھا، جم چکا تھا… سُرخی اور زردی نے مل کر ایک عجیب قسم کی سفیدی پیدا کر دی تھی۔ ہَوا میں اس کے بالوں کی ہلتی ہوئی لٹ سے اس کے زندہ ہونے کا گمان ہوتا تھا — وہ کس قدر خوبصورت تھی — موت میں اور بھی حسین ہو گئی تھی — اس کا لمبوترہ چہرہ، جس پر صفدر کے تخیل میں بسے ہوئے گوشوارے کتنے مناسب دکھائی دیں… لیکن وہ سب غیرمانوس تھا۔ وہ اس گھر کا دولھا تھا، لیکن ایک اجنبی تھا… اور پھر ایک دولھا! — رابعہ کی ماں اُسے کوئی کم درجہ دینے کو تیار نہ تھی۔ اس نے ایک بار پھر چلّا تے ہوئے کہا۔

’’صفدر بیٹا! دیکھ میں تجھے کیا دے رہی تھی — میری بیٹی نامراد جا رہی ہے۔ نہیں، میری بیٹی نامراد نہیں ہے — صفدر! … ‘‘

صفدر نے پھر ایک دفعہ بھاگنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے پانو زمین میں گڑے ہوئے تھے۔ اس کا دماغ چکرا گیا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ رابعہ نامراد ہے یا وہ خود ۔ صفدر — جو دونوں ایک دوسرے کے محرم ہیں — یا رابعہ کی ماں نامراد ہے، جو دونوں کو جانتی ہے!

٭٭٭

 

 

 

جب میں چھوٹا تھا

 

(ایک مُطالعہ)

اُن دنوں ہم جہانگیرآباد میں رہا کرتے تھے۔ہم لوگوں کا وہاں ایک پُرانا لیکن بہت بڑا مکان ہوتا تھا، جسے ہم پرتھوی بل کہا کرتے تھے۔ پرتھوی بل زمین کی طاقت، ہر جگہ بالعموم یکساں ہوتی ہے۔ لیکن شہر کی مٹی میں ہمیں وہ طاقت نہیں ملتی، جو پرتھوی بل میں میسّر آتی تھی۔ وہاں کی کشش ثقل ،ایک چیز ہی علاحدہ تھی —!

قدرت کی ہر اچھی چیز پرتھوی بل کے عین قریب مل جاتی تھی۔ ابھی کروندے کا خیال آیا، باہر آ کر دیکھا تو بُوا دتا اچارج، جو پھل بیچنے کے علاوہ مر جانے والوں کی آخری رسوم ادا کرتا ہے، کروندے اور سنگاڑے بیچ رہا ہے۔ اگر اُڑد یا کمرکھ کے متعلق سوچا تو وہ باہر موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے ہماری سوچ چند ایک کھٹے میٹھے پھلوں اور چند ایک لغو قسم کے کھلونوں تک محدود ہو، تاہم سب کچھ ہم تک اپنے آپ کھنچا چلا آتا تھا ……

ہمارے گھر کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی ندی بہا کرتی تھی جس کے دونوں کناروں پر ایک ذخیرہ تھا۔ ہماری کہانیوں کے جن دیو اور پریاں، سب اس چھوٹے سے ذخیرے میں رہا کرتی تھیں۔ ہماری نگاہ ہمیشہ اس ذخیرے میں الجھ جاتی تھی اور جس طرح گھِر کر آتے ہوئے بادلوں میں بچیّ کو اپنی مرضی کی شبیہ مل جاتی ہے، اسی طرح اُس ذخیرے کی ہر شاخ ، ہر پتّہ ہمارے دل کی کہانی بن جاتا تھا۔ جب ہم بچے پرتھوی بل کے کھلے آنگن میں کبڈی ،بارہ گٹال اور شاہ شٹاپو کھیلتے ہوئے تھک جاتے اور دماغ ایک نیا کھیل ایجاد کر لینے سے عاجز آ جاتا، تو ہم ندی میں نہانے کے لیے چلے جاتے۔ حالاں کہ وہاں جانا منع تھا — لیکن تمام ممنوعہ چیزوں کو آزمانا ،مثلاً سلائی کی مشین کی ہتھی کو گھمانا، عشق پیچاں کو قینچی سے کاٹ ڈالنا، ہمارا محبوب ترین شغل تھا۔

کسی نے کہا ہے چھ سال کی عمر میں بچوں کے جسم خوراک سے، اور دل تجربہ سے بڑے ہوتے ہیں، لیکن ان کا تخیل، ان کا شعور ، مکاشفے سے بڑھتا ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ، نصیحت ان کے لیے بالکل بے معنی ہوتی ہے۔ ان کے شعور کے کسی کونے میں بھک سے اڑ جانے والا ایک جذباتی مادہ ہوتا ہے، جسے معمولی طور پر چھو دینے سے ان کا تصوّر ایک نیا رنگ ، ایک نئی حد، یا دونوں وضع کر لیا کرتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کے سیلاب اُمڈ آتے ہیں … ان کے سپنوں کے رنگ چند نہ مٹنے والے نقوش اختیار کر لیتے ہیں ……

باوا لوگوں کے اس بُرے کنبے میں، سب سے چھوٹا میں تھا ۔جب میں چھ برس کا تھا تو میرے والد کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہو گی۔ میرے والد کو نزلے کی دیرینہ شکایت تھی۔ وہ کچھ گنگنا کر بولتے تھے۔ ان کا دماغ آسانی سے خوشبو یا بدبو میں تمیز نہیں کرسکتا تھا۔ کبھی کبھی ان کی باتوں پر لوگ منھ پھیر کر ہنس دیتے تھے۔ میں ہنسا بھی تھا، اور افسوس بھی کرتا تھا۔ بو باس کے دماغ میں نہ سمانے پر اکثر انھیں خود بھی اپنے آپ پر رحم آیا کرتا تھا۔ نزلے کی وجہ سے ان کے سر اور داڑھی کے بال برف کی طرح سفید ہو چکے تھے، اگرچہ وہ جسمانی لحاظ سے کافی تنومند تھے۔ بیساکھی کے ارد گرد ہمارے گانو میں کسی نہ کسی کے ہاں ضرور بچہ پیدا ہو جایا کرتا تھا ، اور وہ اپنے بچے کا نام رکھوانے کے لیے میرے والد کے پاس آیا کرتے تھے، اور والد صاحب بچے کا نام عمر دین، خیرو دین، نانک چند، فاطمہ وغیرہ رکھ دیا کرتے تھے، اور سب لوگوں کو وہ نام قبول ہوتا تھا۔ یہ نام اکثر بیساکھی کے روز رکھا جاتا تھا اور شیرینی بانٹی جاتی تھی۔ بیساکھی کی ہوا ،جو گندم کو اس کے خوشے سے الگ کرتی ہے، ان کی نرم، ملائم اور سفید ڈاڑھی کو دو گچھوں میں بانٹ کر دونوں شانوں پر پھینک دیتی تھی — اور یہ نظارہ ہمارے دل میں ایک قسم کی ٹھنڈک اور پاکیزگی پیدا کرتا تھا:

میرے والد کنبہ کے سب بچّوں کو اکٹھا کر لیا کرتے تھے، اور ان کے شور و غل سے بچنے کے لیے انھیں کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ ان کی کہانی عام طور پر ان کی زندگی کے کسی خاص واقعہ سے تعلق رکھتی تھی اور اس میں اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتا تھا۔ کہانی عموماً یوں شروع ہوتی تھی۔

’’جب میں چھوٹا تھا تو ……‘‘

میرے خیال میں بہت سے ماں باپ اور بہت سے بزرگ اپنے بچوں کو کہانی سناتے ہوئے اس فقرے سے شروع ہوتے ہیں … جب میں چھوٹا تھا یا چھوٹی تھی … اور انجام کار یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگ بچپن ہی سے مضبوط ارادے کے مالک تھے اور سچائی کے پُتلے تھے۔ انھوں نے کبھی شرم و حیا کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ کبھی جھوٹ نہیں بولا اور بڑوں کے سامنے کبھی گستاخی سے پیش نہیں آئے۔ ان کے اخلاق کی بڑائی ان کے بچپنے کی ہر حرکت سے ظاہر تھی۔ ایسی باتیں سن کر میرا جی بھی یہی چاہتا کہ ان کی مانند نیک بن جاؤں… یہی میرا مطمح نظر تھا۔ مجھے اپنے والد، ایک بہت بڑی شخصیت دکھائی دیتے تھے، یا دوسرے لفظوں میں وہ ایک عظیم طاقت تھے، جس سے ضلع کا بڑے سے بڑا حاکم بھی انکار نہیں کرسکتا تھا۔ جہانگیرآباد کے سب آدمی ان کے سامنے تعظیماً سر جھکا دیتے تھے اور ’’بڑے بابا‘‘ کے سوا اور انھیں کسی لقب سے یاد نہیں کرتے تھے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ میرے ہی باپ ہیں،لیکن وہ ایک تقدس مآب بزرگیت کی وجہ سے قصبہ کے سب لوگوں کے باپ … ایک پتامہا دکھائی دیتے تھے، جیسے خدا کل عالم کا باپ اور ایک پتامہا ہے۔

جہاں تک مجھے یاد ہے، میرے والد نے خود ہی ایک عام پدرانہ سی پُر شفقت روش اختیار کر رکھی تھی۔ کسی چھوٹے کے نزدیک آنے سے ان کا دایاں ہاتھ اپنے آپ آشیرواد کے لیے اُٹھ جاتا تھا۔ یہ کس قدر ظلم تھا کہ اس عام پدرانہ روش میں پہلے جان بوجھ کر اور پھر عادتاً انھوں نے اپنے بہت سے قدرتی رجحانات اور جانب دارانہ جذبات اور خیالات کو کچل دیا تھا۔

ان کے بچپنے کی ایک کہانی ہم سب بچوں کو بہت بھاتی تھی۔ ہم بہت سے بچے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پرتھوی بل کے کھلے صحن میں بیٹھ جاتے اور اپنے بزرگ کی ایک ہی کہانی، ان کی زندگی کا سب سے ضروری واقعہ باربار دُہراتے۔ یہ بات بہت ضروری تھی کہ بالمکند کہانی کہے تو اسی انداز میں … آنکھیں مٹکا کر اور چٹکی بجا کر اور اگر شانتی وہ کہانی دہرائے ، تو ویسے ہی آنکھیں مٹکا کر اور چٹکی بجا کر۔ میرے والد کی کہانی ہم سب بچوں کو اسکول کے پہاڑوں کی طرح ازبر یاد، اور باسی روٹی کی طرح مرغوب تھی۔ اگر میں اس کہانی کا ایک لفظ بھی بدل دیتا تو باقی بچوں کے نزدیک کوئی بہت بڑا جرم کرتا۔ اس وقت میرے چچیرے بھائی، پھپھیرے بھائی ، بہنیں فوراً احتجاج کے لیے اُٹھ کھڑی ہوتیں۔ وہ کہانی چوہوں کے متعلق تھی اور ایک طرح سے ہمارا خاندان میں گیت بن چکی تھی۔

کہانی یوں تھی۔

جب بابا (والد صاحب) اور چچا دیوا، چھوٹے ہوتے تھے تو ان کے دل میں چوہے پکڑنے کا خیال پیدا ہوا۔ اس بڑے سے دیو صورت پرتھوی بل کی جگہ ان دنوں ایک چھوٹا سا ٹوٹا پھوٹا مکان ہوتا تھا، جس میں چوہوں کے بڑے بڑے بل تھے۔ چوہے ہر روز پنیر کی ٹکیہ یا بابا کی مرغوب باسی روٹیاں اٹھا کر لے جاتے، چچا دیو ا نے ایک پنجرہ لگایا، سب چوہے پھنس گئے، ایک چوہا بھاگ کر سرنگ میں گھس گیا۔ اب آپ کو یہ جاننا چاہیے۔ (بچے اس بات کو نہ دہرائے جانے کو کبھی برداشت نہیں کرتے تھے) سرنگ ایک بڑا لمبا چوڑا بل ہوتا ہے،جس میں سے چوہے گزر کر ذخیرے ، اور ذخیرے سے واپس اپنے مکان میں آ جاتے ہیں … بابا نے ایک پنجرے کو سرنگ کے منھ پر رکھ کر اسے شہتوت اور کروندے، توریے کے گودے اور بئے کے گھونسلے سے ڈھک دیا۔ اگلی صبح چچا دیوا کی ہمت نہ پڑی کہ وہ پنجرے تک چلے جائیں، اس لیے بابا اکیلے ہی گئے — اکیلے۔

(دہراتے ہوئے) ’’بابا اس ایک چھو …… ٹے سے بچے تھے …‘‘

’’انھوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پنجرے پر سے پتے ہٹائے تو کیا دیکھتے ہیں وہ — وہاں ایک چوہا تھا۔ شتری رنگ کا، پورے قد کا ——‘‘

’’مٹکتا ہوا اور لٹکتا ہوا —— پٹختا ہوا، اور بھٹکتا ہوا۔‘‘

’’بابا اتنے گھبرائے، اتنے گھبرائے کہ جوتوں سمیت دوڑتے ہوئے چوکے میں چلے گئے‘‘ —— (ہمارے لیے کہانی کا یہ حصّہ سب سے زیادہ سنسنی پیدا کرنے والا تھا ——  ’’جوتوں سمیت دوڑتے ہوئے چوکے میں چلے گئے۔‘‘

وہ بھاگ کر آئے اور چچا دیوا کو آواز دی — دیوا ہو دیوا، دیوا ہو اور آواز دیتے ہوئے وہ دونوں ہاتھ اپنے منھ کے دونوں طرف رکھ لیتے، تاکہ آواز اِدھر اُدھر بکھرنے نہ پائے اور آواز سیدھی چچا دیوا تک پہنچے۔ پھر وہ اتنی زور سے چلاّتے کہ آواز ایک چیخ میں بدل جاتی ،پھر چیخ کھانسی کی صورت اختیار کر لیتی۔ کھونہہ ، کھونہہ ’’کھونہہ کھونہہ کھونہہ !!! پھر بابا اور چچا دیوا مل کر سرنگ تک چلے گئے — جوتے پہنے ہوئے ! اُن کے ہاتھ میں شہتوت کے دو بڑے بڑے مُوگرے۔ بابا نے چوہے کو مار دیا، بالکل مار دیا، اور جہانگیرآباد کے چنڈالوں سے چوہے کی کھال کھنچواکر اُسے چھت پر رکھ دیا۔ جب کھال سوکھ گئی تو پھر انھوں نے اسے پھگو چنڈال کے ہاں بیچ دیا۔ پھگو نے اُسے کسی اور کے ہاں بیچا۔ اس نے کسی اور کے …… اور ایک آدمی نے اس کی فر بنا دی۔ آج کل بڑی بھابی کے سوئٹر کو وہی فر لگی ہوئی ہے۔

’’اب معاملہ برداشت کی حد سے بڑھ جاتا۔ سب بچے جھوٹ جھوٹ، بکواس، بالکل بکواس کا شور مچا دیتے۔ یہ ممکن ، یہ ممکن نہیں کہ مونی جرنیل بھابی کے خوبصورت سوئٹر کو ایک ذلیل چوہے کی فر لگی ہے۔‘‘

آپ نے دیکھا اس واقعہ میں کوئی اصلاح کا پہلو نہیں ہے۔ اپنے والد کی زندگی کا یہی ایک واقعہ تھا جس سے ان کی کمزوری کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ وہ خود کتنے ڈرپوک تھے، حالاں کہ ہمیں ہمیشہ بہادر بننے کی تلقین کرتے تھے۔ بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لیے اس قسم کے واقعات، نام و نہاد ادب، تمیز اور دوسری نصیحت سے پٹی ہوئی کہانیوں سے زیادہ موثر ہوتے تھے، ان سے ہمیں حقیقت کا پتہ چلتا تھا اور ہماری سمجھ میں آتا تھا کہ ہمارے بزرگ بھی کبھی بچے تھے۔ ورنہ دوسری طرز کی کہانیوں میں وہ بچے کی جگہ ہمیں بوڑھے ہی نظر آتے تھے، گویا وہ ناف تک پہنچتی ہوئی داڑھی بچپن ہی سے ان کی ٹھوڑی پر موجود تھی۔

شرارت، لاعلمی، ایک قسم کی زندگی ہے، جس سے بچّے پھلتے پھولتے ہیں۔ قدرت ان چیزوں کو بچوں کی جبلت میں دے کر انھیں بڑھاتی ہے۔ ہم نے اپنے ارتقا میں دیکھا ہے کہ عقل اور علم و ادب کے پیدا ہونے کے بعد جسمانی اور روحانی ترقی رک جاتی ہے۔ بچوں کو عقل اور علم کی ضرورت ہے۔ مگر اسے آہستہ آہستہ گویا مکاشفے کے طور پر آنا چاہیے، نہ کہ اسے جھوٹ، سچ، طور   بے طور ان پر ٹھونسا جائے۔ ان کی زندگی میں سلائی کی ہتھی کو گھمانا، بلا اجازت ندی میں نہانا،  عشق پیچاں کو جڑ سے کاٹ دینا اور اس قسم کے سینکڑوں حادثات پیش آتے ہیں، جن سے ان کو تنبیہ کی جاتی ہے۔ ان کی جبلت کو دبایا جاتا ہے۔ لیکن کیا وہ دب جاتی ہے؟ اور اگر دب جاتی ہے تو کیا اُسے دبا کر خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟

سردیوں کی ایک صبح کو بالمکند نے ایک گھوڑے کو تھان پر سے کھول دیا۔ بابا اسے پکڑنے کے لیے کھیتوں کے اُونچ نیچ میں دوڑتے تھے۔ ان کی ڈاڑھی اڑتی تھی۔ ان کی سُرخ نوکدار ناک سے پانی بہہ رہا ہے … کیا اچھا نظارہ تھا، اور اس سے ایک دن پہلے ہم سب آٹے کی چڑیاں بنانے کے جرم میں پٹ چکے تھے۔

آخر ہمارے اخلاق کو بہتر بنانے اور ہماری عادتوں کو سنوار نے کے لیے ہمارے بزرگوں نے ہمیں ایک استاد رکھ دیا، جو سوائے ہمارے، باقی سب کی عزت کرتا تھا۔ ہمارے استاد نے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر ایک انوکھا طریقہ ایجاد کر لیا۔ ہم میں سب سے زیادہ متابعت کرنے والے لڑکے کو ’با ادب ،با تمیز‘ کا سرخ نشان دے دیا جاتا تھا۔ اس جدت سے ہم بہت متاثر ہوئے لیکن درحقیقت اس امتیازی نشان نے ہماری ذہنیت کو اس طرح غلام بنا دیا جیسے سرکار ہمارے کسی قومی بھائی کو دیوان بہادر یا خان بہادر بنا کر اس کے ہاتھ پانو کو، حرکت اور آزادی کی زندگی کے عمل سے روک دیتی ہے۔

اس قسم کے اعزاز پانے والے لڑکے کو ہم بڑے رشک و حسد کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اکثر با ادب باتمیز کے الفاظ میں سے ’’ادب ‘‘ اور تمیز کے دونوں الفاظ حذف کر کے ایک بکری کے بچے کی طرح  با— با— ممیانے لگتے۔ اگرچہ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ ہماری اس قسم کی حرکت میں انگور کھٹے ہیں، کا جذبہ کار فرما ہوتا تھا، حقیقت اور آزادی کا تجسس کم تھا۔

بہار کے موسمی اعتدال نے آہستہ آہستہ اپنی میانہ روی چھوڑ دی اور اس کی خوش خلقی میں تلخ مزاجی بڑھنے لگی۔ یہ وہ دن تھے جب شہتوت کی کونپلیں پورے طور پر پھوٹ نکلتی ہیں اور اس میں پھل پیدا ہو کر راہ رو کو للچاتے ہیں، اور چنار کے چوڑے چوڑے پتے اپنی گھنی چھانو سے ماں کی گود کا سا سکون دیتے ہیں۔ لمبے لمبے توریوں، اس کے ارد گرد کے پھول پتوں میں زندگی پگمنٹس اور کلوروفل کی صورت میں دوڑ جاتی ہے۔

ایسی ہی ایک شا م میرے ساتھ ایک حادثہ ہوا۔ مجھے بھی وہ امتیازی نشان دے دیا گیا۔ اس وقت مجھے اپنے ہم جولیوں کا ممیانا اور مجھ پر ایک طرح کی غداری کا الزام لگانا بہت بُرا لگا۔ اسی بہار اور گرمی کے درمیانی موسم میں، میں ایک دن پرتھوی بل کی چھت پر جا چڑھا۔ وہاں ایک چھجا تھا، جس کے ایک کونے پر کھڑے ہونے سے سامنے کا نباتاتی ٹیلا اور شور مچاتی ہوئی ندی کی جھاگ پانو میں کلیلیں کرتی ہوئی نظر آتی تھی۔ صرف سر پر لٹکتی ہوئی لمبی لمبی توریوں اور بئے کے گھونسلوں کو پیچھے ہٹانا ہوتا تھا۔

چھجے پر سے مجھے وہ خاردار تار صاف دکھائی دیتی تھی، جس کے باہر با ادب باتمیز لڑکے نہیں جا سکتے تھے۔ وہ سُرمئی کانٹوں سے بھرپور تار ، سبز رنگ کے ستونوں سے لپٹتی ہوئی پرتھوی بل کے بڑے پھاٹک تک پہنچتی تھی اور اس پر ننھی ننھی ، کالی، کالی جھانپلیں اپنا وزن درست کرتی ہوئی صاف دکھائی دیتی تھیں۔ وہ سبزسے ستون دور سے نہایت خوشنما وردی پہنے ہوئے سپاہی نظر آتے تھے، اور وہ تار ہماری اخلاقی قرنطین تھی۔ ہمارے بزرگ نہیں جانتے تھے کہ وہ تار ہماری قرنطین نہیں ہو سکتی تھی۔ انسان بغیر تار کے، بغیر کسی حد کے مقید اور محفوظ رہ سکتا ہے … ضرورت ہے آزادی کی …

میرے دیکھتے دیکھتے میرے تمام ہم جولی آئے اور کپڑے اُتار کر پانی میں داخل ہو گئے…… ننگے دھرنگے! …… کیسی آزادی تھی، جس میں سوچنے کی بھی فرصت نہ تھی! تھوڑا سا خیال، معمولی سی سوچ بھی ایک تباہ کن تہذیب بن سکتی تھی …… بالمکند نے لکڑی کے ایک بڑے سے لٹھے کو پانی میں ڈھکیل دیا اور خود اُس پر منھ کے بل لیٹ گیا۔ اس کے ہاتھ پانو چپو کا کام کرنے لگے۔ میرا تصور چمک اٹھا، کنارے پر شانتی اور سوماں مٹی اور دھول میں کھیل رہی تھیں۔ انھیں مٹی کے ساتھ کھیلنے سے منع کیا جاتا تھا، لیکن وہ مٹی کے ساتھ اپنے رشتے کو سمجھتی تھیں۔ اس رشتے کو جو ماں باپ ، بھائی بہن کے رشتے سے زیادہ گہرا تھا — کہیں زیادہ گہرا اور ابدی!

اسی دن میں نے بابا کو سب کا بلا اجازت ندی میں نہانے اور دھول سے کھیلنے کا واقعہ کہہ سنایا، لڑکیاں اور لڑکے پھر پٹ گئے۔

انسان کی فطرت کتنی آزادی کی طالب ہے۔ ملکی آزادی، جسمانی اور شخصی آزادی، روحانی آزادی… اس کا اندازہ کوئی بااخلاق غلام نہیں لگا سکتا۔ انسان تو چاہتا ہے کہ اسے روٹی کپڑے کی لعنت سے بھی آزاد کر دیا جائے۔

پرتھوی بل نے مجھے ذہین اور بااخلاق بنادیا۔ میرے بزرگ بہت ہی خوش تھے کہ میں دوسرے بچوں کی طرح گستاخ نہیں تھا ۔ لیکن … مجھے معدے کی شکایت رہتی تھی۔ جو بچے جانوروں کی طرح چرتے رہتے، تندرست تھے۔ لیکن میں جو کھانے میں بہت احتیاط سے کام لیتا، ہمیشہ بیمار رہتا۔ ڈاکٹر کہتا تھا نندی کو اینمیا ہے۔

دیوان خانے میں صندل کی صندوقچی کے پاس ایک قلمدان رکھا تھا، اس پر چند پیسے پڑے تھے۔ میں ایک لیمپ جلا کر اس کی مدھم مدھم روشنی میں کتاب پڑھ رہا تھا۔ لیکن میرا دل میری سامعہ، شہتوت اور چنار کے پتوں سے گزرتی ہوئی ہوا کی سیٹیوں کی طرف متوجہ تھی۔ میرا منھ بڑے بڑے اور لمبے شہتوتوں کا ذائقہ لے رہا تھا اور میرے ہاتھ پانو ایک خواب آلود پانی کے اندر چپوؤں کی طرح حرکت کر رہے تھے۔ میں نے کھڑکی میں کھڑے ہو کر ایک توری اور بئے کے گھونسلے کو پرے ہٹا دیا … مجھے محسوس ہوا، انسان کا ارض و سما کی وسعتوں سے بھی ایک رشتہ ہے۔

پرتھوی بل کے باہر بوا دتا اچارج بدستور کروندے اور سنگاڑے بیچ رہا تھا۔ میں نے میز کے قریب کھڑے ہو کر نفرت سے اپنے جسم پر لگے ہوئے سُرخ نشان کو دیکھا۔ پھر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے میں نے قلمدان کی طرف ہاتھ بڑھایا اور وہاں سے پیسے اٹھا لیے اور سرخ نشان کو پھاڑ کر کھڑکی کے باہر پھینک دیا۔

اب میں قرنطین سے باہر تھا۔ وہ سبز خاموش سپاہی، مجھے دیکھ کر مسکراتے تھے۔ میری جراء ت کی داد دیتے تھے۔ میرا دل بے پایاں آسمان کی طرح کھل رہا تھا۔

شام کو مجھے بخار ہو گیا۔ میرا دل اور میرا جسم قدرت کی سخاوت کے قابل نہ رہا تھا۔ پھر میرا ضمیر مجھے برابر سرزنش کرتا رہا۔ میری نبض تیز ہو گئی۔ شام کو بابا آئے۔ ان کا چہرہ مجھے ٹیڑھا معلوم ہو رہا تھا۔ پھر رنگارنگ نقطے بسیط ہونا شروع ہوئے۔ لیکن ان نقطوں اور جلے ہوئے حلقوں کے درمیان مجھے بابا کی دودھیاسقیہ ڈاڑھی بدستور ٹھنڈک پہنچاتی رہی۔ میں نے بابا کو بتایا کہ اماں نے مجھے چوری کے الزام میں بہت پیٹا ہے۔ حالاں کہ میں نے چوری نہیں کی۔ معاً مجھے یاد آیا، بابا نے بھی اپنی زندگی میں ایک چوری کی تھی — لیکن جب انھوں نے چوری کا اقبال دادی اماں کے سامنے کر لیا تھا،اور اس دن اماں جان جو پیسوں کے متعلق پوچھتی رہیں تو میں نے صاف لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ اس وقت مجھے بار بار یہی خیال آتا! کاش میں اپنے بابا کی طرح کشادہ دل انسان ہوتا! اور اپنے جرم کا اعتراف کر لیتا۔

اچانک ایک بہت بُرے درد نے میرے جسم اور ذہن کا احاطہ کر لیا ۔ کچھ دیر بعد مجھے یوں معلوم ہوا جیسے کوئی پُر شفقت ہاتھ میرے سر کی تمام گرمی کو کھینچ رہا ہے۔ میں نے ہولے ہولے آنکھیں کھولیں اور بابا کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا —

’’بابا، آپ کہانی سنائیں ——‘‘

’’کون سی کہانی —— میرے بیٹے؟‘‘

’’جب آپ چھوٹے تھے —— آپ نے ایک بار چوری کی … آپ نے ماں کے سامنے اس بات کو مان لیا —— جب آپ بہت چھوٹے سے تھے نا— ؟‘‘

’’بابا میری ماں کو آواز دیتے ہوئے بولے — ‘‘سیتا ادھر لانا۔ ایک پانی کا گلاس… تم نے نندی کو کیوں پیٹا ہے؟ میں جانتا ہوں وہ کیوں بیمار ہے … لاؤ پانی ، لاؤ گی بھی؟

پانی کا گلاس لے کر ایک گھونٹ نیچے اُتارتے ہوئے بابا بولے۔’’ ہاں نندی: میں نے یہ کہانی تمھیں سنائی تھی۔ میں نے چوری کی تھی اور ماں کے سامنے اس چوری کو مان لیا تھا …‘‘ اس کے بعد بابا نے ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی۔ اس وقت جب کہ وہ پُر شفقت ہاتھ میری تمام مصیبتوں کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا، ان کی آنکھیں نمناک ہو گئیں اور انھوں نے اپنا منھ میرے کان کے قریب کرتے ہوئے کہا — ’’سچ یہ ہے … میں نے چوری کی تھی … جب میں چھوٹا تھا، اور سنو نندی، میرے بیٹے، اُٹھ کر کھیلو —— میں نے آج تک تمھاری دادی کے سامنے اس چوری کا اعتراف نہیں کیا۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کشمکش

 

 

بڈھا موہنا مر رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے کونوں تک وہ مفت کی بِن مانگی ہلدی بکھر گئی تھی۔ چھت ، الگنی، سنڈاس، بچّوں اور سایوں کی طرف دیکھنے کی بے بضاعت، بے سود کوششوں سے ظاہر تھا کہ اس ساون سوکھے، نہ اساڑھ ہرے ،جسم میں زندگی کی حرص و ہَوا ابھی تک باقی ہے۔ بڈھے کی نگاہِ واپسیں سے عزیزوں کو ہمدردی نہیں تھی، نفرت تھی۔ آخر جو آدمی ہفتے بھر سے روز جیتا روز مرتا ہو، خدا جانے اس کی کون سی نگاہ نگہِ واپسیں ہوتی ہے۔

باہر اسلحہ خانے کے برابر ایک تنہا ٹرام، شرابی کی طرح لڑکھڑاتی کھڑکھڑاتی شور مچاتی گزر رہی تھی، یا قریب ایک رکشا قلی زور زور سے اپنے گھنگھرو رکشا کے بموں پر مار رہا تھا۔ اسے اپنے سیپ کا موتی اُگلنے کی جلدی تھی۔ اور وہ یوں تیزی سے بھیڑ کو چیرتا ہوا جا رہا تھا جیسے تیز قصّابی چھُری کراچی کی مچھلی کے گداز جسم میں سے گزر جائے ’’باچو، باچو، ہے پو سے…‘‘ ایک ہجوم ہنستا کھیلتا، روتا، گھر، تھیٹر اور جہنّم کی طرف جا رہا تھا۔ اور موہنا کا بتیس سالہ بیٹا راجہ اپنے دونوں بیٹوں اور آدھی بیٹی یعنی لنگڑی چھوکری کو بچانے کے لیے ایک پھٹے ہوئے ڈھول کی آواز میں چیختا، حتیٰ کہ اس کی رفیقۂ حیات، جو بچّے پیدا کرنے اور پھر انھیں فحش گالیاں دینے کی حد تک ہی راجہ کی رفیقہ تھی، اپنی رفاقت کا پورا حق نبھاتی— ’’اوطوں مارو، ہیضے کے توڑو مت جاؤ دنیا سے، ارے سارے جمانے کی گلٹی نِکل ری، اور ان کے گلٹی بھی تو نا نکلتی… ‘‘ گویا بچے ٹرام کے نیچے آ کر تو نہ مریں،طاعون اور ہیضہ انھیں بھلے ہی لے جائیں!

راجہ نے ایک طویل سی جمائی لی اور آخ — کی ایک آواز کے ساتھ اپنے اُٹھے ہوئے بازوؤں کو نیچے گرا دیا،دو چھوٹے بھائی، ایک بہنوئی اور ایک مسلمان پڑوسی پچھلی رات سے جاگ رہے تھے۔ ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ پٹوال سے پڑے دکھائی دیتے تھے اور پانی بے تحاشہ بہہ رہا تھا، جیسے آنکھوں کی دُکھتی رگوں پر کوٹا ہوا پھُونکا جلا جست باندھ دیا گیا ہو۔ ان لوگوں میں سے جب کوئی تھوڑی دیر کے لیے اُونگھ لیتا، تو یوں محسوس کرتا جیسے جست کے باوجود اس کی آنکھوں پر بالائی باندھ دی گئی ہے۔ سب کی خواہش تھی کہ موہنا ایک طرف ہو۔ اب جب کہ وہ بالٹیوں کا تلہ بھی نہیں لگاتا، کچھ اس لیے کہ بول و براز بھی چارپائی پر ہوتا اور کچھ اس لیے کہ چارپائی پر مرنا بیٹوں کے لیے بھاری ڈنڈ تھا۔ اس ہفتے میں چھ سات بار موہنا کو زمین پر رکھا گیا اور اس کے ہاتھوں پر آٹے کا دِیا رکھ کر اُسے سورگ کا راستہ دکھانے کی کوشش کی گئی۔ ابھی کانوں کی لویں سیاہ اور سُرخ تھیں اور روشنی آر پار چلی جاتی تھی، اور ناک کے قریب کانسی کی تھالی کرنے سے کچھ مرطوب سے بخارات جم جاتے۔ موہنا کے دماغ کے کسی کونے میں امید اور لواحقین پر مایوسی چھا جاتی۔ زمین کچی تھی اور ٹھنڈی۔ اس پر موہنے کو رکھنے سے یوں ہی جان نکل جاتی۔ موہنے کا مرنا تو سب چاہتے تھے، لیکن اذیت دینے سے گھبراتے تھے۔ کچھ گندم اُبال رکھی تھی، کچھ دان کیا تھا، لیکن بے سود۔ ابھی موہنا مرا، ابھی جی اُٹھا۔

راجہ کی جورو نے باہر جھانکا۔ سرطانی سورج صبح سے کھوپڑیاں چٹخا رہا تھا۔ لیکن اب کہیں سے اپنے آپ ہی بادل نمودار ہو گئے۔ ’’اگر بارش ہو گئی تو بڑی مصیبت ہو گی‘‘ وہ سوچنے لگی۔ ننھوا، اس کا بیٹا، جسے گلے کی شکایت تھی اور جس کے حلق کا کوا نیچے گر گیا تھا، چاٹ کھا رہا تھا۔ راجانی نے اسے دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ صرف بازار سے رائی لانے کا حکم دے دیا۔ رائی سرہانے رکھنے سے جان جلد اور آسانی سے نکل جاتی ہے۔ اس وقت ننھوا نے منھ بسورتے ہوئے کہا۔

’’میں ٹرام کے نیچے آ جاؤں گا ماں!‘‘

اور راجانی خشمگیں ہو کر بولی

’’تو؟—  تُو تو مرتا بھی نا، تجھے توڑے سیتلا —  تیرا مر جا باوا — ‘‘

اور پھر اسی سانس میں اسے پچکارتے ہوئی بولی

’’ارے، لے اَدھنّی ۔ دیکھ ہماری سرکار نے نئی اَدھنّی بنائی ہے۔ اب سونے کی ادھنیاں بننے لگی ہیں —  ارے دیکھ، بٹن کی پھانٹ پر پیر نہ رکھ دیجیو۔پھر جائے گی پانو میں تلوار کے ماپھِک۔‘‘

جب راجانی اندر آئی تو ایک دفعہ پھر موہنا کو اتار کر چارپائی سے نیچے رکھ دیا گیا تھا۔ راجہ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے چھوٹے بھائی نے پھر جلدی سے ایک پھٹے ہوئے تکیے سے روئی نکالی۔ ہات میں مل کر جلدی سے بتّی بنائی اور راجانی کے بنائے ہوئے آٹے کے دِیے میں رکھ دی۔ راجانی نے جلدی سے گھی ڈالا اور ایک بناسپتی روشنی کوٹھری کی تاریکی پر غلبہ پانے لگی۔ پھر سے باوا کے ہاتھ پر رکھ دیا گیا۔ مسلمان پڑوسی نے سوجے ہوئے پانو کو ہاتھوں سے چھُوا۔ پہلے وہ ٹھنڈے تھے، اب یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گرم ہو رہے ہیں، اور ٹخنوں پر ایک شریان یک لخت حرکت کرنے لگی — ’’قرآن پاک کی قسم‘‘ وہ بولا ’’موہنا بابا جی رہا ہے۔ میں شرط بدتا ہوں‘‘ اور پھر جیب کے پیسے کھنکارتے ہوئے بولا۔ ’’بولو کتنے کتنے — — ؟‘‘

بیٹے ایک دفعہ پھر ہنس دیے اور پھر ایک پژمردگی سی ان پر چھا گئی۔

راجانی نے جھاڑو اُٹھایا اور سنڈاس اور پھوس کی دیوار کے درمیان کا کچّا حصہ صاف کرنے لگی۔ راجا نے حلقے کے تھانیدار کے لیے ٹین کا حمام بنایا تھا۔ ڈھانچہ گول کیا ہوا کونہ میں پڑا تھا۔ انگیٹھی کی ٹوپی بھی بن گئی تھی۔ اب سب کچھ تپائی پر رکھنا تھا اور لوہے کی ربٹیں لگانی تھیں۔ تپائی چوکی کے قریب انگڑائیاں لے رہی تھی۔ ایک پیادہ سپاہی کئی دفعہ ہو گیا تھا لیکن اس نئی مصیبت سے چھٹکارا حاصل ہوتا تب تو۔ ٹین کی ننھی ننھی کترنیں ہاتھوں سے اٹھا راجانی سنڈاس کے پاس ڈھیر لگانے لگی۔ کھٹیک منڈی کے نواح سے ایک گھاگھ آیا کرتی تھی اور سب بکھرا ہوا ٹین اور    بے کار و مصرف لوہا کسی بیدار ملک کو پہنچانے کے لیے سمیٹ لے جاتی۔

پہلی ٹرام نے مسجد کے قریب اپنے مسافر چھوڑے۔ کچھ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ اس سے بھی پرے جانے والے تھے، اور کچھ سوار ہونے کو تھے۔ ٹرام چلانے والا ہتھی پر ہاتھ رکھے خلاء میں گھور رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے بلا ضرورت گھنٹی بجا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس کے بنانے والے نے خوب اس کا مضحکہ اُڑایا ہے۔ بس سارا دن شہر میں چکّر لگاتے رہنا اور پھر وہیں۔ کبھی ہوتا ہے کہ کوئی کتّا نیچے آ کر مر جاتا ہے اور پھر منتظمان کمیٹی کو ’’نیگلجنٹ ڈرائیونگ‘‘ کے سلسلے میں بیان دینے پڑتے ہیں۔ اس ہموار ساکن زندگی سے موت اچھی ہے۔ کلپ کلپ کلپ، اور چیکر     بے تحاشہ ٹکٹیں مسافروں کے ہاتھ میں ٹھونس دیتا ہے۔ بس اس کا کام ہے ٹکٹیں دینا اور پھر ٹھیک سے دام وصول کر لینا۔ اس کی زندگی کا ارتعاش یہی ہے کہ پانچ سال سے بڑا بچّہ بلا ٹکٹ سفر نہ کرے۔ اور اس کی ساری زندگی میں شاذ ہی کوئی حسین واقعہ پیش آیا ہو گا۔ ایک دفعہ میناری چوک سے ایک کُنبے کا کُنبہ چڑھا، جس میں ایک نوخیز لڑکی بھی چڑھی۔ ماں باپ اس لڑکی کو بلا ٹکٹ لے جانا چاہتے تھے — ’’ارے بھئی یہ تو بچّہ ہے‘‘ ماں باپ چلاّئے ’’دیکھو … دیکھو … بھلا یہ لڑکی جوان ہے؟ … یہ تو ریل میں مفت سفر کرتی ہے۔‘‘ چیکر کہنا چاہتا تھا ’’کیا یہ جوان نہیں ہے؟… دیکھو … دیکھو …‘‘ لیکن وہ جھینپ گیا اور پائیدان اور سیٹوں کے درمیان پانو جمائے کھڑا لوگوں کے فیصلے کا انتظار کرتا رہا۔ ماں باپ نے دو پیسے بچانے کے لیے چھوکری کو دو سیٹوں کے وسط میں کھڑا کر دیا اور نمائش شروع کر دی ’’دیکھو یہ جوان ہے؟ … دیکھو … ‘‘ایک نوجوان نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر اپنے ساتھی سے کہا ’’بھئی اس طرح تو پتہ نہیں چلتا‘‘  اور اس دن چیکر کو زندگی کچھ بامعنی معلوم ہوئی۔ پھر کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا۔ اس کلپ کلپ اور چیکنگ کو اس نے زندگی کا ایک حصہ تو بنا لیا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ اس سے بے طرح غیر مطمئن تھا۔ شاید ایک اور واقعہ بھی پیش آیا تھا۔ ایک عورت اپنے خاوند کو چھوڑنے آئی تھی۔ اتنے مسافروں کے سامنے وہ اپنے راجا سے بات نہیں کرسکتی تھی۔ راجا کسی دوسرے دیس میں جانے کے لیے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو رہا تھا۔ اسباب پہلے پہنچ چکا تھا۔ عورت نے پوچھا ’’اب کب آؤ گے؟‘‘ مرد نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی اور کہا ’’جب بھگوان لائیں گے‘‘  اور ٹرام چل دی۔ اس کے آہنی اور چوبی پشتوں پر کسی کے آنسو دکھائی نہیں دیتے تھے۔ وہ عورت بے بسی کے عالم میں اپنی کھوکھلی بیکار نگاہوں سے سڑک پر بچھی ہوئی لوہے کی چار لکیروں کی لا محدود تنہائی دیکھتی رہی۔

اب رائی بھی سرہانے رکھ دی گئی تھی۔ تین گھنٹے اور بڈھا بے حس و حرکت پڑا رہا۔ اب کنپٹی کے پاس ابھری رگ پھڑکنے لگی۔ موہنا کے منھ میں پانی کا ایک چمچہ ڈالا گیا۔ گڑ گڑ گڑ کی ایک آواز آئی اور اس کے بعد موہنے نے پانی پی لیا۔ راجا نے اپنا ہاتھ اس کی نبض پر رکھا۔ نبض چل رہی تھی اگرچہ ہولے ہولے۔ اس کے بعد یک لخت جیسے سب کچھ ساکن ہو گیا۔ پیشانی گرم تھی اور پھر وہ بانس کی سی ٹانگیں بھی حرکت میں تھیں۔ راجا نے برافروختہ ہو کر کہا

’’بابا کو رکھ دو چارپائی پر۔‘‘

’’کیسے رکھ دیں چارپائی پر‘‘ راجانی بولی۔

’’کیسے رکھ دیں؟‘‘راجا نے کہا ’’جیسے اِسے نیچے رکھ دیا ہے۔ اب یہ نہیں مرے گا—  یہ ساری جندگی نہیں مرے گا۔‘‘

’’اور ڈنڈ کون دے گا جو مر گیا چارپائی پر؟‘‘

راجا نے خشمگیں ہو کر چھاتی پر ہاتھ مارا اور بولا ’’ڈنڈ میں دوں گا۔ دُرگا مائی کی قسم یہ بڈھا کبھی نہ مرے گا۔‘‘

چھوٹے بھائی چاہتے تھے، کہ بابا ٹھنڈے فرش پر محض ٹھنڈک کی وجہ سے نہ مرے ، لیکن چارپائی پر مرنے کے ڈنڈ سے وہ بھی گھبراتے تھے۔ بھائی کے چھاتی ٹھونکنے پر وہ بہت خوش ہوئے۔ راجہ کے جسم پر سے ایک پھٹی پُرانی پیوند لگی چادر علاحدہ کرتی ہوئی راجانی بولی۔

’’ہم تو کبھی ڈنڈ نہیں دینے کے۔ہماری جندگی ہی ڈنڈ دینے میں گجر گئی۔ چھوٹوں کو بڑا کیا، بیاہا، اب آنکھیں دکھاتے ہیں۔ جو کسی سے نیوندہ دھاما لیا ،وہ یہ دینے ہار نہیں۔ اب چارپائی کا ڈنڈ دے، اتنا امیر آیا ہے نا!‘‘

پھر راجانی نے راجا کو چڑاتے ہوئے چھاتی پر ہاتھ مارا — ’’جھٹ چھاتی بج اٹھتی ہے۔‘‘ مسلمان پڑوسی اشارے سے ان کو بک بک جھک جھک سے منع کرنے کے علاوہ منھ میں کچھ وِرد کر رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد اس کی طبیعت اکتا گئی۔ وہ کوئی فرض پورا کر رہا تھا۔ اسے بار بار اپنی زخمی گھوڑی یاد آ جاتی تھی جس کی جان نہیں نکلتی تھی اور اس کی بیوی اور بچّے تھان کے قریب کھڑے رو رہے تھے۔ آخر راجانی نے کسی کو بلا کر گیتا کے اٹھارویں ادھیائے کا پاٹھ کروایا اور جوں ہی پاٹھ کرنے والے آخری شبدوں پر پہنچے، گھوڑی نے جان دے دی۔ اور اب جب کہ موہنا گھوڑا بلکہ گدھا، جس نے ساری زندگی بار برداری اور ٹین کوٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا تھا مر رہا تھا، تو مسلمان پڑوسی کو بھی لازم تھا کہ ان کی مدد کرے۔ لیکن اس بار شلوک بھی کارگر نہ ہوئے۔ رائی سرہانے سے لے کر دروازے تک بکھر گئی۔ آخر بہت دیر بعد جب سب نے مل کر موہنا کو چارپائی پر لٹا دینے کا فیصلہ کیا اور اسے اپنے بازوؤں میں اٹھایا تو اس کی پُتلیاں پھر گئیں اور وہ فرش اور چارپائی کے درمیان ہی مر گیا۔ اس وقت دن تھا نہ رات۔

راجا نے چارپائی کے نیچے گھُس کر ایک بڑا سا سرکنڈہ نکالا۔ اس کو چھلکے سے صاف کیا اور لاش کے برابر کا ناپ کر اسے موہنا کے پاس رکھ دیا تاکہ ماپ رہے اور رات کو مردے کے جسم میں کوئی شیطان روح نہ داخل ہو جائے۔ اس کے بعد وہ خودبخود جھینپ گیا۔

’’کب لائے تھے تم سرکنڈہ راجا بھیّا؟‘‘ چھوٹے بھائی نے پوچھا۔

’’ابھی لایا ہوں‘‘ راجا نے سریحاً جھوٹ بولتے ہوئے کہا ’’میرا مطبل ہے ابھی ننھوا کے ہاتھ منگوایا ہے۔‘‘ سب کھلّی مار کر ہنس پڑے۔ یہ سرکنڈہ دو ہفتے سے یہاں پڑا ہوا ہے۔ اتنی دیر سے ان لوگوں کو موہنا بابا کے مر جانے کی توقع اور خواہش تھی۔ اس کے بعد راجانی ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگی کہ اس کا راجا پھوس کے لیے نمونہ لایا تھا، مگر سب بے سود۔ کھِلّی اور بھی اُونچی ہو گئی۔

اگلی صبح محلے والوں کی رائے سے بابا کو بڑا کرنے کا فیصلہ ہوا۔ آخر پوتوں والا آدمی، زندگی کے سب فرائض سے سبکدوش ہو چکا تھا۔ اس کاجلوس نکالنے ، اسے بڑا کرنے سے بیٹوں ہی کی عزّت تھی۔ بہوؤں کی مانگ میں سیندور ڈالا گیا، حلوان کشمیرے کی چادر، کفن اور جھنڈیوں کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا۔ چھوٹے بھائی نے راجا اور منجھلے کی نسبت زیادہ روپے دیے۔ اس کے بعد چھوٹ کے لیے جٹ، چھوہارے اور میٹھے چنے وغیرہ منگوائے گئے اور صبح بوان اٹھایا گیا — آج پھر ٹرام والوں کے لیے ایک حسین واقعہ تھا۔ ایک بوان شمشان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کے آگے گھنٹیاں بج رہی تھیں اور پیچھے کپڑے رنگے ہوئے سر منڈائے دوتین آدمی تھے۔ اس کے ساتھ دوسرے مرد اور عورتیں مل کر ایک گانا گا رہی تھیں۔ یہ گھنٹی اور یہ سواریاں اور یہ جنازہ بردار! گویا یہ جلوس بھی ایک سست رفتار ٹرام تھی جو کہ بغیر ریل کے ایک معیّن راستہ پر جا رہی تھی اور سارا دن شہر کا چکّر لگانے کے بعد شمشان کے باہر رک جاتی تھی۔ کچھ سائیکل والے اتر پڑے۔ ایک صاحب نے اپنا ہیٹ اٹھایا۔ ایک مسلمان جو بیٹھا تھا کھڑا ہو گیا۔ ٹرام والے نے ایک لمحہ کے لیے بریک لگائی اور خلاء کی بجائے سُرخ حلوان اور کشمیری چادر میں لپٹے ہوئے جسم کی طرف دیکھنے لگا اور سوچنے لگا — اس بوڑھے کے اپنے بچیّ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

اس وقت بوان کے اوپر سے میٹھے چنوں اور باداموں کی چھوٹ ہو رہی تھی۔ کبھی کبھی کوئی بادام ٹرام میں بھی آ گرتا۔ ایک عورت اپنے بچے کو ٹرام میں بٹھا نیچے اتر پڑی اور کچھ میٹھے چنے ہاتھ میں لے آئی اور واپس اپنے بچے کے قریب آتے ہوئے بولی— لے بیٹا، لے کھا لے۔ تیری عمر بھی اتنی لمبی ہو جائے گی۔ اس بڈھے کی عمر سے بھی جیادہ …

ٹرام کے ڈرائیور، چیکر اور زندگی سے بے حد غیر مطمئن و مایوس ایک بابو نے عورت کی اس حرکت کی طرف دیکھا اور پھر تینوں نے ایک دم اچک کر بوان پر سے گری کے جٹ اور چھوہارے اتار لیے اور رغبت سے انھیں کھانے لگے۔ اس کے بعد ’’چل میرے بھائی‘‘ کی آواز آئی اور ٹرام لائنوں کے ایک جال میں الجھنے کے لیے چل دی ……

٭٭٭

ماخذ:

http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید