FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

فہرست مضامین

کاغذ پہ دھری آنکھیں

فرح دیبا ورک

اس کتاب کا پہلا ایڈیشن پہلے یہاں شائع ہو چکا ہے۔

ناکامی

میں اس میں

شاعر تلاش کرتی رہی

اور وہ مجھ میں

ایک دوست

اپنی اپنی کوشش میں

ہم دونوں ناکام رہے

۱۸ اگست ۲۰۱۱

٭٭٭

ریت کا گھر

ریت کا ایک گھر بنا کے

بیٹھی سوچ رہی ہوں

جانے کب ہوا کا  جھونکا

ساری ریت اڑائے

جانے کب بارش کا پانی

گھر کو ریت بنائے

۸ اگست ۲۰۱۱

٭٭٭

وہ عورت

وہ عورت،

جس کا ننگا پن کوئی کپڑا نہیں چھپا سکتا

جس کے تن کا میل سمندروں کا پانی بھی نہیں دھو سکتا

جس کے بدن کی بد بو دنیا کا کوئی عطر ختم نہیں کر سکتا

وہ عورت

مچھلی نہیں کھاتی

کیونکہ اسے بو آتی ہے

۱۸ جنوری ۲۰۱۲

٭٭٭

شکایت

وہ پھول  توڑ لیتا ہے

کیونکہ اسے پھول اچھے لگتے ہیں

اپنے من پسند پرندے

اس نے پنجرے میں قید کر رکھے ہیں

پھر بھی

اسے مجھ سے شکایت ہے

کہ میں اس کی محبت  کا یقیں نہیں کرتی

۵  فروری ۲۰۱۲

٭٭٭

تجاہل

مجھے پانی سے ڈر لگتا ہے

میں کنویں میں نہیں جھانک سکتی

کسی نہر یا دریا کے پل سے

جب گاڑی گزرتی ہے

تو مارے خوف کے میں اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہوں

وہ جانتا ہے

وہ یہ سب جانتا ہے

پھر بھی

نجانے کیوں

اس نے میرے لیے گھر

ساحل پر بنایا ہے

۲۷ فروری ۲۰۱۲

٭٭٭

الزام

جس دیس میں محبتیں ناپید ہیں

عبادت گاہوں میں

نفرتیں برہنہ ناچتی ہیں

اپنوں کے خون سے

ہولی کھیلی جاتی ہے

جہاں بارود اور دھوئیں کی بو کے علاوہ

کچھ نہیں

کچھ بھی نہیں

اس دیس میں

کسی پر

ایک پردیسی سے

محبت کا الزام لگا ہے

۹ فروری ۲۰۱۲

٭٭٭

جس تن لاگے

گاڑی میں بجتے ہوئے بے ہنگم میوزک کو

دھیما کرنے کی ضرورت محسوس کی

نہ کبھی اندر آتے جاتے

لوگوں کے اداس چہروں پر غور کیا

میں نے کبھی

وہاں

خامشی اختیار نہیں کی!

اب وہاں سے گزرتے ہوئے

میری زبان گنگ ہو جاتی ہے

گاڑی میں بجتا دھیما میوزک بھی

میرے کانوں کے پردے پھاڑنے لگا ہے

اور اندر آتے جاتے چہروں میں

مجھے اپنا چہرہ نظر آتا ہے!

کیونکہ

اب میرے پیارے بھی

قبرستان میں جا بسے ہیں !…

۱۱ فروری ۲۰۱۲

٭٭٭
المیہ

اس کی لاش

بے گور و کفن پڑی ہے

مگر سب چپ ہیں

وہ بچے بھی

جو اس پگلی

کو تنگ کر کے خوش ہوتے تھے

وہ عورتیں بھی

جو ایک روٹی کے بدلے

کئی کام نکلوا لیتی تھیں

اور وہ مرد بھی

جو اس کے ساتھ

دن بھی رات کی طرح

بسر کر نے میں

کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے

سبھی چپ ہیں

کیونکہ ان میں سے کوئی نہیں جانتا

کہ اس پگلی کا

مسلک کیا تھا

۱۱ فروری ۲۰۱۲

٭٭٭

فرق

اپنی ہڈیوں کا گودا جلا کے جمع  پونجی

اس  کے آرام و آسائش پہ نچھاور کرنے والی

جاڑوں  کی ظالم طویل  راتیں جاگ کر

ٹھٹھرتے ہاتھوں سے

اپنے بچے کی غلاظتیں دھونے والی

لاچار  اور بیمار بوڑھی ماں سے

اس کا لخت جگر

پوچھتا ہے

جانتی ہو

تمہارے ایک نیپی کی قیمت کیا ہے؟

۱۵ فروری  ۲۰۱۲

٭٭٭

سہیلی

اسے میری جو بھی  شے

پسند آ جاتی

بلا جھجک استعمال کر لیتی

مگر بتا ضرور دیتی

ایک د ن اسے

میرا شوہر بھا  گیا

مگر اس بار اس نے

بتانا

ضروری نہیں سمجھا

۸ مارچ ۲۰۱۲

٭٭٭
بازی

چاہتی ہوں

کہ تمہارے جاگنے سے پہلے

میں اپنی شاہکار نظم مکمل کر لوں

مگر

ابھی میرے قلم میں طاقت ہے

نہ ہی تمہاری نیند اتنی گہری ہے

۱۰ مارچ ۲۰۱۲

٭٭٭

آزمائش

صحرا کی دہکتی رہت پر میرے پاؤں جھلس رہے ہیں

آگ برساتا سورج

میرے بدن کو جلا رہا ہے

اور

وہ  جاننا چاہتا ہے

کہ میرے لیے زیادہ اہم کیا ہے

اس کا ساتھ

یا

درخت کی گھنی چھاؤں

۱۱ مارچ ۲۰۱۲

٭٭٭

انگوٹھی

میرے ہاتھوں پہ نظر پڑتے ہی

وہ کچھ کہتے کہتے رک جاتا

یا بات بدل دیتا

مگر آج اس نے ایسا کچھ نہیں کیا

کیونکہ

میں اپنی انگوٹھی پہننا بھول گئی تھی

۲۴ اپریل ۲۰۱۲

٭٭٭

انتظار

پنجرے کے چاروں طرف خون آشام درندے

اس کے منتظر ہیں

لیکن

اس کی نگاہیں

پنجرے میں موجود بھیڑیے پر جمی ہیں

۲۹ اپریل ۲۰۱۲

٭٭٭

سانپ

ساری زندگی

اسے یہی گمان رہا

کہ

اس سے نظر ملتے ہی

اس کا شکار گھائل ہو جاتا ہے

مگر

اس کا نیا شکار تو

بصارت سے ہی محروم ہے

۳ مئی ۲۰۱۲

٭٭٭

زعم

مردانگی  کے غرور کا نشہ

اسے یہ کب سوچنے دیتا ہے

کہ جس کمزور وجود کا

وہ مالک بنا بیٹھا ہے

اس کا دل

کسی اور کے لیے بھی

دھڑک سکتا ہے

۴ مئی ۲۰۱۲

٭٭٭

نیل

بچے جب بھی

اس کے چہرے پہ پڑے

نیل کا سبب پوچھتے

تو وہ

یہ کہہ کے انہیں بہلا دیتا

کہ

ان کی ماں کو

گرنے سے چوٹ آئی ہے

مگر

اپنی نو بیاہتا بیٹی  کے چہرے  پہ

پڑے نیل کی وجہ جاننے کے باوجود

وہ اپنے دل کو

بہلا نہیں پا رہا

۸ مئی ۲۰۱۲

٭٭٭

تحفہ

اکثر راتیں

دوسری عورتوں کی آغوش میں

بسر کرنے والا

ایک رات باہر گزارنے پہ

اپنی بیوی کو

طلاق دے رہا ہے

۴ا مئی ۲۰۱۲

٭٭٭

بلاوے کی موت

بے شمار  راستے ہیں

جو اپنی طرف بلاتے ہیں

میرا دل بھی

ان راہوں پہ چلنے کو

مچلتا ہے

مگر میرے قدم

کبھی ادھر کا رخ نہیں کرتے

کیونکہ

وہاں سے

واپسی کا

کوئی راستہ نہیں ہے

۲ جون ۲۰۱۲

٭٭٭

حساب

اس کی ماں میت پر

پاگلوں کی طرح

بین کر رہی ہے

چھوٹے بہن بھائی

زار و قطار رو رہے ہیں

مگر

اس کی پرسکون آنکھوں میں

نمی تک نہیں

کیونکہ

وہ اپنے سوتیلے باپ

کے قاتل کو جانتی ہے

۳ جون ۲۰۱۲

٭٭٭

معاوضہ

بم دھماکے میں جھلسی ہوئی لاش

صحن میں پڑی ہے

بہن کے بین

سینہ چھلنی کر رہے ہیں

اور

وہ اپنے لرزتے ہاتھوں کی

مٹھیاں بھینچے

کھڑا سوچ رہا ہے

وہ اپنے جس مشن سے

کامیاب لوٹا ہے

اس کا جشن منائے

یا

ماتم!

۴ جون ۲۰۱۲

٭٭٭

ریل کی پٹری

ہمارا رشتہ

ریل کی پٹریوں جیسا ہے

مگر

تمہیں محض ساتھ چلنا

اچھا نہیں لگتا

جبکہ

تم اچھی طرح جانتے ہو

ریل کی پٹریاں

جب بھی آپس میں ملتی  ہیں

تو صرف جان لیتی ہیں

۲۴ جون ۲۰۱۲

٭٭٭

وقت

اس کا دعوی ہے

کہ وہ  مجھ سے محبت کرتا ہے

میری ہر شے پر

اس کا حق ہے

اور وہ میری  خاطر

آسمان سے  تارے  بھی توڑ کر

لا سکتا ہے

بشرطیکہ

اس کے پاس وقت ہو

۸ اگست ۲۰۱۲

٭٭٭

کنگن

بخار سے نڈھال

وہ بستر میں پڑی ہے

اس کا بیٹا اپنے کام پر جا چکا ہے

بے خیالی میں

کنگن  اپنی کلائی میں

گھماتے ہوئے

اچانک

اس کی نظر

اپنی بہو پر پڑی

تو اس نے

یک لخت

اپنے کنگن اتار کر

تکیے کے نیچے سرکا دئیے

شاید

وہ جانتی ہے

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے

۸ اگست ۲۰۱۲

٭٭٭

غیر تحریر شدہ نظم

مجھے اک نظم لکھنی ہے

سر سبز وادیوں کی

بہتے پانیوں کی

چہچہاتے پنچھیوں کی

اور ان ادھورے سپنوں کی

جو ہم نے مل کے دیکھے تھے

مجھے اک نظم لکھنی ہے

دشوار راستوں کی

بل کھاتی پگڈنڈیوں کی

سنسان گلیوں کی

اور ان گنت مسافتوں کی

جو ہم نے مل کے طے کی تھیں

مجھے اک نظم لکھنی ہے

ننھی منی شرارتوں کی

چھوٹی چھوٹی راحتوں کی

اور ان آزمائشوں کی

جو ہم نے اک ساتھ جھیلی تھیں

میں نے اک نظم لکھنی ہے

مگر میں لکھ نہیں پاتی

کیونکہ

شاید میں تمہیں لکھنا چاہتی ہوں

۲۹ اگست ۲۰۱۲

٭٭٭

خمیازہ

وہ عورت کو ہمیشہ بے بس اور لاچار  سمجھتا رہا

مگر آج

جب تنہائی نے

اسے ہر طرف سے گھیر لیا ہے

تو

وہ ایک عورت کے سامنے

مجرم کی طرح  سر جھکائے کھڑا ہے

لیکن وہ عورت

اس کی موت کے پروانے پر

دستخط کر کے

اپنا قلم توڑ چکی ہے

۶ ستمبر ۲۰۱۲

٭٭٭

کرامت

خود سے باتیں کرنا

چھوڑ دیا ہے میں  نے

جب سے

آپ ملے ہیں

۱۸ ستمبر ۲۰۱۲

٭٭٭

خطبہ

ایک ادھوری عورت

اپنی چاہت و قربت سے

ایک ادھورے مرد کا

ادھورا پن

کیا دور کرتی

وہ

قریبی مسجد کے

لاؤ ڈ سپیکر سے بلند ہونے والا

خطبہ

سن رہی تھی

۲۲ ستمبر ۲۰۱۲

٭٭٭

کرائے کی عورت

منبر پہ بیٹھا

وہ اخلاقیات پہ درس دے رہا ہے

اور وہ

بیتی رات کے زخم چھپائے

کبھی اس کو دیکھتی ہے اور  کبھی

اپنی مٹھی میں بھینچے

اس کے دئیے  ہوئے نوٹ کو

۲۲ ستمبر ۲۰۱۲

٭٭٭

کایا پلٹ

میرا بچپن

جن بیریوں کے  جھنڈ سے

بیر  چننے

آموں کے باغ  سے

امبیاں چراتے

اور

برگد کے پیڑ تلے

گڑیا گڈے کی شادی کرتے  گزرا

آج

جانے کیوں

اس بستی کی مائیں

اپنی بچیوں کو

وہاں جانے سے روکتی ہیں

کیا بیروں کو پھپھوندی لگ چکی ہے

آموں  کے باغ  میں

سانپوں کا بسیرا ہے

یا

برگد کے پیڑ پر

کسی آسیب کا سایا؟؟

۲۵ ستمبر ۲۰۱۲

٭٭٭

خوش گمان

جہاں روحوں کے ملنے پر

پابندی ہو

مگر

جسم مل رہے ہوں

وہاں تم یہ امید لگائے بیٹھے ہو

کہ

کوئی عورت

کسی مسیحا کو

جنم دے گی

۲۸ ستمبر ۲۰۱۲

٭٭٭

بابا سے بیٹی تک

لوگوں نے بابا کو کیوں مارا؟

آپا نے کنویں میں چھلانگ کیوں لگائی؟

ہم نے اپنا گاؤں کیوں چھوڑا؟

بچپن میں ان سوالوں کے جواب میں

ماں کی بلکتی خاموشی

آج اس کی سمجھ میں آ ئی

جب اس کا مسلک جاننے کے بعد

اس کی چار دیواری کے محافظوں نے

اس کی چادر کو

تار تار کر دیا

۱۵ اکتوبر ۲۰۱۲

٭٭٭

آنسو

پوچھتے ہو کیا

جانتے نہیں

پھر سے کیا کہوں

۲۹

 اکتوبر ۲۰۱۲

٭٭٭

بند گلیوں کے مسافر

تیرا کوئی راستہ

میرے گھر تک

نہیں آتا

میرے چاروں طرف بھی

بند گلیاں ہیں

پھر

یہ انتظار کیسا ؟

۲۱ اکتوبر ۲۰۱۲

٭٭٭

ڈر

اگر چاہوں

تو جب چاہوں

تمہارے ساتھ میں

ہر راستے میں چل بھی سکتی ہوں

مگر ڈرتی ہوں

پھر  تم کو

مری عادت نہ پڑ جائے

۲۲ اکتوبر ۲۰۱۲

٭٭٭

چیخ

نجانے کیسا رشتہ ہے

ہر اک لمحہ یہ لگتا ہے

کہ دوری سے اداسی بڑھتی جاتی ہے

قریب آؤ تو کچھ بھی کہہ نہیں سکتی

۲۴  اکتوبر ۲۰۱۲

٭٭٭

جشن مرگ کی ایک نظم

ثمینہ راجہ کے نام

کھول آنکھ ذرا تو دیکھ سکھی

سب تجھ پر رونے آئے ہیں

جو تجھ سے محبت کرتے ہیں

وہ آنکھیں بھر بھر لائے ہیں

جو تجھ سے عداوت رکھتے ہیں

وہ ہنسی دبا کر آئے ہیں

کھول آنکھ ذرا تو دیکھ سکھی

سب تجھ پر رونے آئے ہیں

جو تجھ سے بچ کر چلتے تھے

اب تیرے آگے پیچھے ہیں

جو تجھ سے آگے رہتے تھے

کندھوں پہ تجھے اٹھائے ہیں

کھول آنکھ ذرا تو دیکھ سکھی

سب تجھ پر رونے آئے ہیں

۳۱ اکتوبر ۲۰۱۲

٭٭٭

پہلا سوال

تمہیں مجھ سے محبت ہے

چلو یہ مان لیتی ہوں

مگر کیا تم سمجھتے ہو

کہ میرے مان لینے سے

امر ہو جائے گی پہلی ہی منزل پر محبت؟

۳ نومبر ۲۰۱۲

٭٭٭

میرا بھائی اور میں

میرا بھائی

زندگی کے اس موڑ پر

آج بھی ویسا ہی ہے

مگر اب وہ میرے لئے

جگنوؤں کے پیچھے نہیں بھاگ سکتا

کیونکہ اسے

اپنے بچوں کے لیے

جگنو پکڑنا ہیں

۱۴ نومبر  ۲۰۱۲

٭٭٭

ناممکن میں ممکن کا خوف

مجھے

کس رسوائی سے ڈراتے ہو؟

کوئی خوف

موت سے بڑا نہیں ہوتا

اور میں ہر پل

موت سے گلے ملتی ہوں

اگر

مجھے ڈرانا چاہتے ہو

تو  اُس محبت سے ڈراؤ

جو تمہارے لئے

ممکن نہیں

رہی

۵ دسمبر ۲۰۱۲

٭٭٭

دسمبری

تم پھر لوٹ کے آنے والے ہو

سنو

مری مانو۔۔۔۔تو

اس بار دسمبر میں

مت آنا

کیونکہ

برفانی ہوا سے

ہاتھ ٹھٹھر جاتے ہیں

اور میں

دسمبر پر کچھ لکھنا نہیں چاہتی

۱۷ دسمبر ۲۰۱۲

٭٭٭

تضاد

کوئی کافر تو کوئی واجب  القتل

جرم

توہین قرآن تو کہیں توہین رسالت

مگر

یہ جرم

تم دن میں کتنی بار کرتے ہو؟

تمہیں ہر مسئلے پہ حدیثیں یاد آتی ہیں

مگر جب تمہارے پڑوس میں

بیوہ کا بچہ

بھوک سے بلکتا ہے

تمہاری سماعتیں اور زبانیں

خاموشی کیوں اوڑھ لیتی ہیں؟

۱۷ دسمبر ۲۰۱۲

٭٭٭

فوٹو گرافر

ہر طرف

جھلسی ہوئی  لاشیں ہیں

چیخ پکار ہے

کچھ درد سے کراہ رہے ہیں

کچھ آخری سانسیں گن رہے ہیں

وہ ان کی  بے بسی

اور  جلتی ہوئی لاشوں کو

کیمرے میں محفوظ کر رہا ہے

کیونکہ

اس کا چولہا

خون سے جلتا ہے

۱۳ جنوری ۲۰۱۳

٭٭٭

لولی پوپ

اچھا

جو خود کسی محمد بن قاسم کی

آس لگائے بیٹھے ہیں

اور

اپنی داستان رقم کرانے کے لیے

کسی وارث شاہ کے منتظر ہیں

تمہیں ان پر گمان ہے

کہ

وہ تمہارے لئے

انقلاب کی لولی پاپ

رکھ کر لائیں گے

اپنے خودغرض طشت میں

۱۸ جنوری ۲۰۱۳

٭٭٭

یقین

تمہارے بنا

وقت تھم سا جاتا ہے

سانسیں رک سی جاتی ہیں

مگر

یہ سب کہنے کی باتیں ہیں جاناں

تم بھی جانتے ہو

مجھے بھی یقین ہے

وقت کبھی نہیں تھمتا

اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔سانسیں

وقت سے پہلے

کبھی نہیں رکتیں

۲۴ فروری ۲۰۱۳

٭٭٭

شکستگی

وہ ایسے رستے پہ آ نکلی ہے

جہاں ہر موڑ پہ سانپ اور بچھو ہیں

سانپ اسے ڈس چکے

اور

بچھوؤں کو پاؤں تلے مسلتے

اس کے جوتے پھٹ چکے ہیں

۲۷ فروری ۲۰۱۳

٭٭٭

اس سے پہلے کہ

اس سے پہلے

کہ

اس بندھن کو

کوئی نام دوں

اک انجانا خوف

کیوں ہے میرے دل میں

تم ہی کہو

اس کا سبب کیا ہے؟

میری محبت

یا

تمہارا ماضی

۵ مارچ ۲۰۱۳

٭٭٭

نارسائی

زندگی کی راہوں میں

بانہوں کی پناہوں میں

راستے تو کٹتے ہیں

راحتیں تو ملتی ہیں

زندگی نہیں ملتی

۷ مارچ ۲۰۱۳

٭٭٭

نیم پلیٹ

ایک گھر کے

جس باغیچے میں

وہ سارا دن

ادھم مچائے رکھتی

پھولوں کے ہار

اور کبھی گجرے بناتی

کچے پکے پھل توڑتی

آج

اسی باغیچے سے

ایک پھول توڑ کر

اپنی بیٹی کی

ضد پوری کرنے کی

ہمت نہیں جٹا پاتی

اس گھر کی نیم پلیٹ بدل چکی ہے

۱۳ مارچ ۲۰۱۳

٭٭٭

جادو

گلی گلی بھیک مانگتے

جب

وہ گرین ایریا میں پہنچتی

تو

خوبصورت بنگلوں کو

بڑی حسرت سے دیکھتی

ایک دن بھیک مانگتے ہوئے

وہ ریڈ ایریا میں جا نکلی

جہاں

قدم پڑتے ہی

کشکول

اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر

ایک مرمریں  بنگلے میں ڈھل گیا

۱۸ مارچ ۲۰۱۳

٭٭٭

یادگار

جناب خالد احمد کے نام

چھوڑ جانے والے

تمہارے آنسو دیکھ سکتے ہیں

نہ تمہارے بین سن سکتے ہیں

دنیا

ہر رشتے کا ثبوت چاہتی ہے

اس سے پہلے

کہ پھر

دیر ہو جائے

کچھ تصویریں

اکھٹے

بنوا لو

۱۹ مارچ ۲۰۱۳

٭٭٭

بیچاری

گھر میں اکیلا پا کر

شوہر کا چچیرا بھائی

اس کی عزت کو

داغدار کر چکا ہے

وہ اپنے تار تار ہوئے دامن کو سمیٹے

زار و قطار رو رہی ہے

اس کی ساس

اسے صلواتیں سنا رہی ہے

کلموئی!!

اس سے بہتر تھا

کہ خود مر جاتی یا اسے مار دیتی

عورت کی مرضی کے بنا

کوئی مرد اسے چھو بھی نہیں سکتا

یہ سنتے ہی

بجلی کی طرح کوند کر

اس نے ساس کے کندھے جھنجھوڑ دئے

کیا واقعی؟؟؟

شیر کی طرح دھاڑتی ساس

بھیگی بلی بن چکی تھی

۲۶ مارچ ۲۰۱۳

٭٭٭

سوال

تمہیں ماش کی دال پسند ہے

اور مجھے چنے کی

مجھے بارش میں بھیگنا اچھا لگتا ہے

مگر بادل تمہیں  ڈیپریس کر دیتے ہیں

مجھے کافی سے الرجی ہے

اور تمہیں چائے نہیں بھاتی

میں دھیمی آواز میں میوزک سنتی ہوں

اور تم کانوں کے پردے پھاڑتی آواز میں

ہماری کوئی  عادت  نہیں ملتی

پھر بھی ہم برسوں سے

ایک ہی چھت  کے تلے

اکٹھے

رہتے ہیں

کیا یہی محبت ہے

یا

سمجھوتہ

۲۶ مارچ ۲۰۱۳

٭٭٭

اس کے بعد

ہوائیں

جھوم جھوم کے آتی ہیں

آوارہ بادل

اڑتے پھرتے ہیں

چاند بھی ویسا ہی ہے

ٹریفک کا شور بھی

کم نہیں ہوا

تمہارے جانے سے

کچھ بھی نہیں بدلا

کچھ بدلا ہے

تو صرف

ہمارا تمہارا رشتہ

۲۱ اپریل ۲۰۱۳

٭٭٭

سنجیدگی سے ایک غیر سنجیدہ مشورہ

چلو اک کام کرتے ہیں

ذرا ہم بھول جاتے ہیں

کہ جو تم کو نہیں کرنا

کہ جو مجھ کو نہیں کرنا

وہی ہم کر گزرتے ہیں

۲۲ اپریل ۲۰۱۳

٭٭٭

تحفۃ الملوک

اس نے کبھی

ان عورتوں کی بابت نہیں سوچا

جن کے ساتھ

وہ اکثر اپنی شامیں گزارتا تھا

مگر آج

اُس کی سالگرہ کے کارڈ پر

کسی کے ہاتھوں

پیاری دوست  لکھا دیکھ کر

وہ اسے آوارہ و بد چلن کہہ رہا ہے

تو

وہ سوچ رہی ہے

کہ وہ

ان عورتوں کو کیا نام دے

۲۸ اپریل ۲۰۱۳

٭٭٭

منکوحہ

قرآن کو پڑھا جائے یا نہ پڑھا جائے

مگر خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر

اونچی جگہ ضرور رکھا جاتا ہے

سسی بھی ایسا ہی کرتی ہے

مگر

اس کی وجہ کچھ اور ہے

۲۹ اپریل ۲۰۱۳

٭٭٭

لا الٰہ الا اللہ

آپ کیسے گھر میں رہتی تھیں

آپ کا کمرہ کیسا تھا

آپ مجھے

وہاں کب لے کے جائیں گی؟

روزانہ

ایسے ان گنت سوال

اس کی معصوم بیٹی کرتی ہے

اور

وہ اپنے آنسو روکتے ہوئے

اپنی بانہوں میں

اُسے یوں چھپا لیتی ہے

جیسے

اس آگ سے بچانے کی کوشش کر رہی ہو

جس میں برسوں پہلے

اس کے گھر اور والدین کو

جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا

تب

وہ مذہب کے بارے میں

صرف اتنا جانتی تھی

کہ

اللہ ایک ہے

۳ مئی ۲۰۱۳

٭٭٭

ان چاہا جھوٹ

میرے اندر کی تنہائی سے

تم کیوں خوف زدہ ہو

تم بھی تو تنہا ہو

فرق صرف اتنا ہے

کہ

مجھے تمہاری طرح

جھوٹ بولنا نہیں آتا

۲۰ مئی ۲۰۱۳

٭٭٭

زندہ خواب

خونخوار بھیڑیا ہرنی پہ بھر پور وار کر کے

اسے اپنی گرفت میں لے چکا ہے

وہ خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے

اور بے بسی سے اپنے ساتھیوں کو بھاگتے ہوئے دیکھ رہی ہے

پرندے اپنے گھونسلوں میں دبکے بیٹھے ہیں

موت کے خوف سے ا س پر کپکپی طاری ہے

اچانک کوئی بجلی کی تیزی سے بھیڑیے پہ جھپٹتا ہے

اور اس کی آنکھیں نوچ کر جنگل میں گم ہو جاتا ہے

بھیڑیا درد سے چلا رہا ہے

ہرنی اس کی گرفت سے آزاد ہو چکی ہے

اس کے ساتھی ہرن بھی لوٹ آئے ہیں

اور اسے پچکار رہے ہیں

مگر وہ ان سب سے بے نیاز اپنے محسن کو تلاش کر رہی ہے

اب اسے موت کا خوف ہے نہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑنے کا

۲۷ جون ۲۰۱۳

٭٭٭

کتے

گلی کی نکڑ پہ کھڑا وہ ہر آنے جانے والے پر بھونکتا ہے ،

کچھ اسے دیکھ کر اور کچھ دیکھے بنا گزر جاتے ہیں

کبھی کبھار کوئی دھتکار بھی دیتا ہے ،

مگر

کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی

کہ وہ بھونکتا کیوں ہے،

شاید سبھی یہ سمجھتے ہیں

کہ بھونکنا کتے کی خصلت ہے

۱۵ جولائی ۲۰۱۳

٭٭٭

بے سبب رقابت

تیری میری راہ الگ

نہ تیری میری ذات ہی ایک

تو میری دیورانی نہ جیٹھانی

نہ میں تیری سوت

پھر

کیوں مجھ سے جلتی ہے ؟

۲۰ اگست ۲۰۱۳

٭٭٭

شکوہ

دیکھو

تمہیں دیکھنا نہیں آتا

مان لو

تمہیں سمجھانا نہیں آتا

ورنہ اب تک

میری ہتھیلی پر

کوئی نئی لکیر

ابھر چکی ہوتی

۲۵ اگست ۲۰۱۳

٭٭٭

کاغذ پہ دھری آنکھیں

میں اس سے گھنٹوں باتیں کرتی ہوں

مگر ایک وہی بات

کہہ نہیں پاتی

جسے کہنے کے لئے

ایک دن

میں نے

اپنی آنکھیں

کاغذ پر رکھ دیں

۲۸ اگست ۲۰۱۳

٭٭٭

شاعرہ کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

OOOOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل