فہرست مضامین
چور لمحہ
روحی طاہر
ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
میرا اعزاز صرف اتنا ہے
خواب کے ساتھ جی رہی ہوں مَیں
خواب کنکر اور مَیں
میں روحی طاہر ایک لمبے سفر کی مسافر۔ میں نے یہ قلم کا سفر کیوں اختیار کر لیا یہ ایک لمبی داستان ہے۔ جب خواب سے آنکھ کھلی تو مَیں زندگی کے اس راستے پر تھی جہاں ادراک کی آہٹ تھی اور میرے ہاتھ میں راستے سے چنے چند کنکر، ان کنکروں کو میں نے اپنے ادراک کی مدد سے ہیروں کی طرح تراشا اور ’’چور لمحہ‘‘ کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش کر دیا کیونکہ آپ تحفے میں کسی کو کنکر تو پیش نہیں کر سکتے نا!
ان میں کچھ کنکر میرے پیروں میں چبھے اور کچھ نے آپ کے قدموں کو بھی چبھن کا احساس دلایا ہو گا لیکن میرا خیال ہے کہ مسافت میں راستے کی چوٹ بھول بھی جاتی ہے شاید ’’چور لمحہ‘‘ کا کوئی افسانہ پڑھ کر آپ کو اپنے راستے کی کوئی چبھن یاد آئے جو ماضی کی گرد میں کھو چکی ہے۔
میرا لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آئیں مل کر ان راستوں پر کچھ پھول اُگائیں تاکہ آنے والے زمانوں میں اگر کسی کو کوئی کنکر یا کانٹا چبھے بھی تو ان پھولوں کی مہک اس کی چبھن کو کم کر دے۔
روحی طاہر
لاہور
31مارچ 2014ء
e-mail: roohee@g.mail.com
’’چور لمحہ‘‘ اور نئے افسانوی رجحانات
زندگی کے ارتقا کے ساتھ کہانی اور افسانہ بھی ارتقا پذیر رہا۔ کہنے کو تو زندگی کی روانی کے ساتھ کردار بدلتے رہے اور کہانی دہرائی جاتی رہی مگر دیکھنے والی آنکھ اور لفظوں کے اظہار میں ہر کہانی کو نیا رنگ دیا۔ ترقی پسند تحریک اور علامتی افسانے ہماری افسانوی تاریخ کا حصہ ہیں اور اس خوبصورتی میں رنگ بھرنے میں بہت سے نام شامل رہے۔ عصمت چغتائی، خالدہ حسین، کشور ناہید، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور کے نام اردو افسانے کی تاریخ میں خواتین افسانہ نگاروں کے اہم نام ہیں گو کہ، مرد و زن کی تخصیص افسانے اور افسانے کی تکنیکی خوبیوں سے دوری کا باعث ہو سکتی ہیں مگر یہ امر طے ہے کہ عورت ہی عورت کے جذبات کی بہتر عکاسی کرتی ہے۔ جدید افسانہ نگاروں میں روحی طاہر ایک ایسا نام جس نے عورت کے جذبات کو نیا رنگ بھی دیا اور ان حقوق تک رسائی کی امید بھی دلائی جو Woman ACT 2011 میں دیے گئے۔ وکالت اور نوکری سے کشید کیے گئے نسوانی جذبات اور روحانیت سے لبریز روحی طاہر کے افسانے، عورتوں کے حقوق کے حوالے سے زیرِ طبع مجموعہ ’’چور لمحہ‘‘ ایسے ہی افسانوں کا مجموعہ ہے۔
روحی طاہر کردار اور تعارف کے علاوہ ماحول پر گہری نظر رکھتی ہیں اور خاص طور پر دفتری ماحول کی عکاسی، مردانہ فرسٹریشن کا اظہار بہت باکمال طریقے سے کرتی نظر آتی ہیں۔ روحی کے افسانے صرف عورتوں کے حقوق کے حوالے تک محدود نہیں بلکہ بہت سے معاشرتی مسائل اور اپنے تجربات سے کشید کیے گئے نظر آتے ہیں۔ ابن خلدون نے ایک جگہ لکھا ہے کہ انسانی روح کی فطری خواہش ایک ایسے لمحے کے لیے ہوتی ہے جو پلک جھپکنے میں گزر جاتا ہے مگر اس لمحے انسان جب انسانی فطرت سے دست کش ہو کر ملکوتی فطرت کا لباس زیب تن کر لیتا ہے۔ روحی نے بھی ایک ایسے لمحے کو افسانے کا موضوع بنایا مگر اُسے نام ’’چور لمحے‘‘ کا دیا، چور لمحہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو زنانہ ڈائجسٹ پڑھتی ہے اور ہر خواہش پوری ہونے کے باوجود محبت کے گداز سے محروم رہتی ہوئی شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہے اور شادی کے کئی سال بعد جو وہ ایک لمحہ اس کی زندگی میں آتا ہے تو مشرقی عورت کے لیے وہ لمحہ بھی چور لمحہ بن جاتا ہے اور روحی نے بڑی چابک دستی سے اس لمحے کو صفحہ قرطاس پر اتارا ہے۔۔ ۔ افسانے اور روحی کا اظہار ایک طویل موضوع ہیں مگر یہاں دو اور افسانوں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ یاد رہے کہ چور لمحہ اور یہ دو افسانے جن میں ’’لاٹری‘‘ اور ’’کیمیا گری‘‘ افسانوں کے مجموعے ’’چور لمحہ‘‘ کا حصہ ہیں۔۔ ۔ لاٹری پیروں فقیروں اور ان کے مختلف رنگوں کی عکاس ہے زینب کی بیوگی اور بچوں کی کفالت کا احاطہ کرنے کے علاوہ روحی نے ان عوامل کا تجزیہ بھی خوب کیا جو عورت کو زندگی میں دور تک دیکھنے کی صلاحیت دیتے ہیں زینب یوں تو سارے شہر کے لیے پیر صاحب کی کرامتوں کی قائل ہوتی ہے مگر اپنی بیٹی زلیخا کی بار پیر صاحب کی منشا کے خلاف شرفو سے شادی مناسب سمجھتی ہے۔۔ ۔ سوچ میں فکری نفاذ کے علاوہ روحی نے اس افسانے میں منظر نگاری اور کردار نگاری پر زور نہیں دیا بلکہ رویوں کو کہانی کا جزو خاص بنایا ہے جو یقیناً ایک مشکل عمل ہے۔ کیمیا گری کہانی ہی نہیں روحی کی لفظی جادوگری اور بذلہ سنجی کی مثال بھی ہے۔ ایک جگہ لکھتی ہیں کہ یہ دلوں کا نہیں دو ملوں کا ملاپ تھا اسی لیے امید تھی کہ کامیاب ثابت ہو گی کیونکہ سیٹھ انجم کی فیکٹری کے دھاگے کی شمائلہ کی باپ کی مل میں ہمیشہ ضرورت رہتی۔ یہ کہانی شمائلہ کی ہے جو محبت ٹھکرا کے ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے نسوانیت کی معراج سے گر گئی۔ روحی نے محبت، حالات اور رومانس کو بہت جگہ یکجا کیا ہے روحی معاشرتی اور معاشی فرق کو محبت کے سانچے میں ڈھلتا قبول نہیں کرتی ایک جگہ لکھتی ہیں ’’وہ عدیل کو یاد تو کرتی تھی مگر انجم کی مرسڈیز میں بیٹھ کر غالب کی غزلیں سننا اور اداس رہنا اس بہت رومانٹک لگتا تھا‘‘ ۔
’’چور لمحہ‘‘ کی اشاعت یقیناً اردو ادب کے لیے ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ یہ مجموعہ افسانہ نگاری میں جدت اور نئی جہتیں تلاش کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو گا۔
ڈاکٹر حبیب الرحمن
ہراس منٹ ایکٹ
رضیہ کا آج دفتر میں پہلا دن تھا۔ اُنیس سالہ ایف- اے پاس رضیہ کو یہ نوکری اس کے والد کی کام کے دوران حادثاتی وفات کی وجہ سے ملی تھی اور وہ کیا کرتی ماں تو گاؤں سے صرف شادی کر کے جہیز میں چارہ کاٹنے اور دودھ دوہنے کی صلاحیت لے کر آئی تھی۔ چار چھوٹے چھوٹے بہن بھائیوں کی واحد کفیل صرف رضیہ ہی تھی۔ ماں نے دوپہر کے کھانے کو آلو کی بھُجیا اور ایک روٹی چھوٹے سے پلاسٹک کے ڈبے میں ڈال کر ساتھ کر دی تھی۔ اس کے علاوہ کرایہ کے نام پر بیس روپے اس کے پرس میں تھے اور آنے والی تنخواہ ایک ماہ کی دوری پر تھی۔
تیس گھورتی ہوئی آنکھوں کے درمیان اس کی میز دھری تھی اور اس پر فائلوں کا پہاڑ کھڑا تھا۔ جس میں ہر گزرتے پل کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔ اردو ادب اور سوِکس کے مضامین میں ایف- اے پاس رضیہ کو بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس ڈھیر میں کیسے کمی کرے۔
وہ اپنی کرسی پر سرجھُکائے اور دوپٹہ کو سر پر پھیلائے اس طرح سے بیٹھی تھی کہ کسی مزار پر فاتحہ پڑھ رہی ہو۔
اسی لمحہ دفتر کے اسسٹنٹ صاحب اس کے سر پر فرشتہ اجل کی مانند کھڑے ہو گئے اور اسے بڑے صاحب کے پاس لے جانے کا مژدہ سنایا۔ اس نے سلیقے سے اوڑھی ہوئی چادر کو مزید سلیقے سے اوڑھا اور سرجھُکائے بڑے صاحب کے سامنے حاضر ہو گئی۔ ٹھنڈے ٹھار کمرے میں بھی اس کے پسینے چھوٹے ہوئے تھے۔ بڑے صاحب نے سر سے پیر تک اس کو گھورا اور چھوٹی سی ہنکار لے کر اس کی آمد کی منظوری دے دی پھر گویا ہوئے۔ بی بی اگر کوئی مسئلہ ہو تو مجھے ضرور بتانا اور سر کے اشارہ سے اسے جانے کی اجازت دے دی۔
وہ تقریباً بھاگی ہوئی اپنی سیٹ پر آئی اور ایک گلاس پانی پی کر سوچنے لگی کہ شاید اس کی مشکلات کا حل اس AC والے کمرے سے وابستہ ہے جہاں اس کے والد سے بڑی عمر کے بزرگ اس کی داد رسی کے لیے موجود ہیں۔
اس دن سارا دن تیس آنکھیں جوڑا جوڑا ہو کر اس سے تعارف کرواتی رہیں اور چپراسی فرداً فرداً ایک ایک کا عہدہ بتاتا رہا۔ یہ ڈائری کلرک یہ اسسٹنٹ اور یہ ٹائپسٹ۔ اس کے ذمہ ڈاک نکالنے کا کام لگا دیا۔
چند ایک دن اسے کام سمجھنے اور دوسروں کو اسے سمجھنے میں لگے جب کچھ کچھ کام کی سمجھ آنے لگی تو کام کی تعداد بڑھنے لگی۔ ’’اسلم صاحب کے دوست آ گئے۔ پلیز یہ فائلیں میڈم جی کو دیں ’’ دیکھ لیں گی‘‘ ۔ ’’خادم صاحب کا بچہ بیمار ہے وہ آج جلدی چلے گئے‘‘ ۔ ان کا کام رضیہ تم دیکھ لو ’’شام کے چار بج گئے اور رضیہ کی ٹیبل یوں کی یوں ہی رہی۔ رضیہ سارا دن دوسروں کا کام کرتی اور اپنا کام گھر لے جا کر کرنا پڑتا۔ جب رضیہ کام میں محو ہو گئی تو ایک دن دفتر کے سلیم صاحب کی اپنی بیگم سے لڑائی ہو گئی۔ سلیم صاحب آنکھوں میں آنسو بھر کر رضیہ کی ٹیبل پر آئے اور رو رو کر بیگم کے میکے جانے کی کہانی رضیہ کے گوش گزار کی، ساتھ میں اس سے مشورہ کے طالب ہوئے وہ لڑکی جو ابھی خواتین ڈائجسٹ کے اسرار سے ہی باہر نہ نکلی تھی وہ بیچاری کیا جواب دیتی پھر اظہر صاحب کے خانگی مسائل اور اس کے بعد امجد صاحب کی بیگم کی زنانہ بیماریاں ابھی رضیہ اس چنگل سے نکلنے کی کوشش میں مصروف تھی کہ ایک دم رضیہ کے بہت سارے ہمدرد پیدا ہو گئے۔ اسلم صاحب کو امجد صاحب کی نظر خراب محسوس ہوئی اور اختر صاحب نے اس کے خانگی معاملات میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔ پھر ایک دم اس کے پاس نئی نکور سموٹرسائیکل آ گئی اور وہ رضیہ کو بسوں کے دھکوں سے بچانے میں پیش رہنے لگے۔ رضیہ کے سر میں درد رہنا شروع ہو گیا۔ اب رضیہ کو ہر طرف سے نت نئے مشورے ملنے شروع ہو گئے۔ ’’آپ پر یہ رنگ اچھا لگتا ہے‘‘ ۔ ’’آپ ہر وقت سر پر دوپٹہ کیوں رکھتی ہیں‘‘؟ رضیہ جو باپ کے سامنے چند لفظ مشکل بول پاتی تھی نت نئے مشوروں سے گھبرا سی گئی۔ ماں سے بات کرنی چاہی تو ماں کی آنکھوں میں آنسو اور چھوٹی بہن بھائیوں کی آنکھوں میں خواہشوں کے جگنو دیکھ کر چُپ سی ہو گئی۔
مسئلہ تو اس دن ہوا جب اکرم صاحب جو کہ ’’ صاحب‘‘ کے بہت نزدیک تھے اور صاحب کے ملنے والوں کو ڈیل کرتے تھے اور جن کی جیبیں نوٹوں سے بھری رہتی تھیں اکثر دفتر میں رضیہ کے آنے کے بعد سموسوں کی پارٹی کرتے تھے۔ اپنی ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی میں دفتر آئے اور آتے ہی رضیہ کو ڈراپ کرنے کی آفر کر دی۔ ابھی اختر صاحب کی موٹر سائیکل کی رننگ پوری نہ ہوئی تھی کہ یہ پھڈا ہو گیا۔
شنید ہے کہ دونوں میں خوب لڑائی ہوئی اور ہاتھا پائی تک نوبت آ گئی۔ رضیہ کے کانوں میں اُڑتی اُڑتی یہ بھی سنائی دی کہ اختر صاحب نے تو اسے کئی بار لفٹ دی ہے اور اکرم صاحب چھ بچوں کی موجودگی میں اس سے شادی کا پروگرام بنائے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی زوجہ کی بیماری کی وجہ سے دوسری شادی کا شرعی جواز پورا ہو رہا تھا۔
صاحب تک خبر گئی تو دوسرے دن رضیہ کی ٹیبل بڑے صاحب کے کمرے میں کمپیوٹر کے سامنے آ گئی۔ رضیہ کو فضول بک بک سے نجات مل گئی۔ آرام سے ٹھنڈے کمرے میں صاحب کی موجودگی میں ان کے بعد ان کے فون سنتی اور آرام سے تمام دن تاش کی گیم کھیلتی اور صاحب کے آنے پر سرجھکائے صاحب کی بے تکی باتوں پر ہوں ہاں کرتی رہتی۔
اور ہاں جب صاحب کے احباب آتے تو چائے بنانا بھی اس کی ڈیوٹی میں شامل ہو گیا۔ صاحب اپنے چھوٹے موٹے کام اس سے کروانے لگے۔ ’’نمبر ملا دو‘‘ ، ’’چیک بُک دراز سے نکال دو‘‘ ۔ یا سر درد کی گولی بازار سے منگوا دو۔ اس کے بدلے صاحب نے اپنا لنچ اسے بھی کرنے کی اجازت دے دی۔ پہلے تو الگ پھر صاحب کی عنایت سے وہ صاحب کے ساتھ ہی لنچ کرنے لگی۔ باہر کی دنیا ایک دم بدل گئی۔ تیس آنکھیں اب اس کے لباس پر اس کی چال ڈھال پر تبصرے کرنے لگیں۔ اس کے صاحب کے کمرے سے نکلنے کے بعد دبی دبی ہنسی اور معنی خیز سرگوشیاں دوچند ہو گئیں۔ مگر وہ بھی اس ’’ٹھنڈے کمرے‘‘ کی عادی ہو گئی۔
صاحب کے چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہوئے اسے محسوس ہوتا کہ وہ اپنے والد کے کام کر رہی ہے۔ اب اگر بے خیالی میں اس کے سر کی چادر سرک بھی جاتی تو صاحب کا اس کے بالوں کے رنگ پر تبصرہ برا نہ لگتا اس کے بالوں کا رنگ قدرتی سنہرا تھا۔ اس کا باپ بھی اس کو سنہرے تاج والی بیٹی کہہ کر بلاتا تھا۔ کئی بار صاحب اس کے کسی رنگین جوڑے کو دیکھ کر ایک دم واہ کا لفظ اپنی زبان سے نکالتے تو وہ اپنے والد کے چہرے کی مسکراہٹ یاد کرنے لگتی جو ان کے کسی نئے پیرہن کو دیکھ کر ان کے ہونٹوں پر آ جاتی تھی اور وہ آبدیدہ ہو جاتی۔
ہولے ہولے صاحب نے اس سے اس کے حالات اور اس کی تعلیم پر بات شروع کر دی، اس کے احساسِ ذمہ داری کی تعریفیں کرنے لگے جن میں گاہے بگاہے اس کی ذاتی تعریف بھی شامل ہونے لگی۔ ایک دن وہ چھٹی کے وقت گھر جانے کے لیے اپنا سامان سمیٹ رہی تھی کہ اچانک صاحب باہر سے اندر آئے اسے تیاری کرتے دیکھ کر بولے ابھی ٹھہرو ایک ضروری کام ہے تھوڑی دیر رُکو۔
وہ اس کی عادی تو نہیں تھی مگر خاموشی سے ٹیبل پر بیٹھ گئی۔ صاحب اِدھر کی فائل اُدھر اور اُدھر کی فائل اِدھر کرتے رہے۔ اس نے ایک آدھ بار اجازت چاہی تھی تو ایک نگاہ غلط نے اسے خاموش کروا دیا۔ سارا دفتر آہستہ آہستہ خالی ہو گیا وہ اپنی سیٹ پر بیٹھی قلم سے لکیریں کھینچے یا اپنی چوڑیوں کو گنے جا رہی تھی۔ چپراسی اسلم دفتر کی چابیاں صاحب کے حوالے کر کے ایک معنی خیز مسکراہٹ اس کی طرف اچھالتا ہوا کب کا جا چکا تھا۔ اچانک صاحب کی آواز آئی ’’رضیہ ذرا اِدھر تو آنا۔ میرے سر میں اچانک درد ہو گیا ہے ایک کپ چائے بناؤ‘‘ ۔ وہ چائے لے کر جب واپس پلٹی تو صاحب کی نگاہیں اسے اپنے آر پار محسوس ہوئیں۔ صاحب کا ایک نیا حکم نامہ اس کے سامنے تھا کہ ’’ میرے سر میں درد ہے میرا سر دبا دو‘‘ ۔ عورت کی چھٹی حِس نے اسے آگاہی دی اور وہ میز پر سے اپنا پرس اُٹھا کر سرپٹ کمرے سے باہر نکل گئی۔ ڈھلتی شام میں جب دُگنا کرایہ دے کر وہ رکشے پر گھر آئی تو اس کو ماں کی آنکھوں میں چھپی ہوئی ناراضگی صاف نظر آ گئی وہ ماں کو نظرانداز کر کے اپنے کمرے میں بند ہو گئی اور سوچنے لگی کہ دوسروں کی شکایت تو صاحب سے کرنی تھی صاحب کی شکایت کس سے کرے؟
اگلے دن وہ بحالت مجبوری بس میں لٹکتی ہوئی جب دفتر آئی تو اس کی میز پہلے کی طرح تیس آنکھوں کے درمیان لگی ہوئی تھی اور وہ تیس آنکھیں پہلے سے زیادہ بے باکی سے اسے تک رہی تھیں اور ٹھنڈے کمرے میں اس کی جگہ ’’جواز‘‘ کے طور پر فوٹو کاپی مشین پڑی تھی اور صاحب ٹیلی فون پر اپنے کسی کولیگ کو اس کی مثالیں دے کر کام کرنے والی خواتین کی عزت کرنے کے متعلق بھاشن دے رہے تھے۔
نئی ڈاک میں 2010 کا ہراس منٹ Act پڑا تھا جس کے تحت جنسی طور پر ہراساں کرنے کی سزائیں درج تھیں۔
رضیہ سوچ رہی تھی کہ اس کے پاس تو کوئی ثبوت ہی نہیں۔ اس نے مسکرا کر چپراسی کو دیکھا اور کام میں جُت گئی۔
٭٭٭
بیوہ کے حقوق
جس دن سے نوراں کا شوہر اپنی بہن کی عزت بچاتے ہوئے قتل ہوا تھا اس دن سے نوراں اپنے تینوں بچوں کی کفالت کر رہی تھی۔ ماں باپ کے مرنے کے بعد ایک بھائی اور بھابھی ہی اس کے کل رشتہ دار تھے۔ بھائی اسے اپنے گھر میں پناہ تو دینے کو تیار تھا مگر اس کی بھابھی اپنے بچوں کے اناج میں اس کے بچوں کی شراکت گوارہ نہیں کر رہی تھی۔ خوش قسمتی سے اس کے جہیز کی بھینس اور بکریاں اس کی ساس نے اپنے پوتے پوتیوں کی خاطر اس کے حوالے کر دی تھیں۔ بھائی کے گھر آتے ہوئے اس کی وہ نند جس کی عزت بچاتے ہوئے اس کا شوہر قتل ہوا تھا اس کے ہاتھ سے چاندی کی وہ چوڑیاں بھی چھین لینے کو تیار تھی جو اس کے شوہر کی نشانی تھیں۔
کیونکہ جرگہ کے فیصلے کے مطابق نند کا رشتہ اسی لڑکے سے طے پایا تھا جس نے اس کے خاوند کو قتل کیا تھا جبکہ نند نے بھی گواہی دی تھی کہ اس کا شوہر افضل چوری کی نیت سے ان کے گھر گیا تھا اور صغراں اس کی نند اپنے بھائی کو کھو کر من چاہے رشتہ کے لیے بے تاب تھی۔ اس کے معصوم خاوند کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ عزت تب تک آپ کی عزت ہے جب تک اس کا دل آپ کے لیے دھڑکتا ہے۔ جب دوسرے کے لیے دھڑکے تو وہ عزت دوسرے کی ہو جاتی ہے۔
بھائی کے گھر نوراں کو باڑے کے ساتھ ایک کمرہ مل گیا اور برتن اور چولہا کے لیے ایک چھوٹی سی کوٹھری اس نے بچوں کو ساتھ ملا کر خود بنا لی۔
باڑے میں بھینس اور بکریوں کو بھی جگہ مل گئی۔ یہ تھی نوراں کی کل کائنات۔ اسی میں بچوں کو پالنا بھی تھا اور کچھ تعلیم بھی دلانی تھی کیونکہ وہ خود آٹھویں تک پڑھی تھی اور وہ اپنے ماسٹر صاحب کے اس خیال کی حامی تھی کہ یہ لڑائی جھگڑے جہالت کی پیداوار ہیں۔ اس لیے سرکاری اسکول میں بچے داخل کروانے کے بعد اس نے محنت کرنے کی ٹھانی۔
بھینس کھانے کو چارہ مانگتی تھی اور بچے دودھ کے ساتھ روٹی بھی۔ اس نے بھینس کا دودھ تو بیچنے کو لگا دیا اور بچوں کو بکری کے دودھ کا عادی کر دیا۔ اب بھینس اور بکریوں کے چارے کا بندوبست بھی اسے ہی کرنا تھا۔ اس کے علاوہ اس کا خیال تھا کہ کچھ مرغیاں وغیرہ پال لے جس سے اس کی آمدنی میں اضافہ ہو جائے۔ وہ بچوں کو دھول بھرے اسکول میں چھوڑ کر بکریاں کھول کر گھر سے نکل جاتی۔ جس کھیت میں اُسے چارہ ملتا کاٹ لیتی اور کچھ بھینس کو چرا کر اس کی بھوک مٹا لیتی۔ بھینس بھی کم بھرے پیٹ پر اس سے لڑتی اور وہ بھینس سے اُلجھتی کیونکہ جب دودھ پورا نہ کرتی تو اس کی کئی ضرورتیں ادھوری رہ جاتیں۔ رات کو اکثر چارپائی پر لیٹ کر وہ افضل سے شکوہ کرتی کہ بہن کی عزت بچانے کے لیے اس نے اس کی عزت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
کئی دن سے بھینس بھی خوش تھی اور وہ بھی کیونکہ کرم دین جو دو مربعوں کا مالک تھا اسے اپنے کھیت سے چارہ کاٹنے کی اجازت دے رہا تھا۔ اس کے بدلے میں وہ کرم دین کے گھر کے چھوٹے موٹے کام کر دیا کرتی تھی۔ کبھی اس کی رضائی میں ڈورے ڈال دیے تو کبھی ان کے بستروں کو دھوپ لگا دی۔ کرم دین کے دونوں بیٹے شہر جابسے تھے اور اس کی جوان بیٹی دوسرے گاؤں میں بیاہی ہوئی تھی۔ کرم دین کی بیوی کرم دین سے بھی زیادہ بوڑھی اور بیمار تھی۔ شام میں جب جاڑوں کے دن ہوتے وہ سرشام رضائی میں لیٹ کر نوراں سے چھوٹے موٹے کام کرواتی رہتی۔ نوراں کام سے فارغ ہو کر بچوں کے لیے بچی ہوئی روٹی اور بھینس کا چارہ سر پر رکھے گھر جا رہی ہوتی تو کرم دین اپنے باڑے کے سامنے کھڑا اسے تکے جاتا۔ وہ گاؤں کی عورت تھی اور کئی سال کی بیاہی۔ کرم دین کی نگاہ پہچانتی تھی مگر وہ طرح دے جاتی کیونکہ اسے کام کرنا تھا گھر چولہا جلانا تھا۔ بے سائیں ہو کر بچوں کو ایک مستقبل دینا تھا۔
ایک جاڑے کی شام جب وہ کرم دین کی بیوی کا کام ختم کر کے گھر واپس آ رہی تھی تو باڑے کے اندر سے آواز آئی۔ نوراں کے قدم رک گئے کرم دین اسے پکار رہا تھا۔ چارپائی پر لیٹا ہوا کرم دین بالکل ایک لکڑی کے گٹھے کی ماند پڑا ہوا۔ نوراں سے اپنی ٹانگ دبانے کی فرمائش کر رہا تھا۔ نوراں نے چارے کے ڈھیر کو سر پہ اُٹھایا روٹی کی پوٹلی ہاتھ میں لٹکائی اور دروازے سے باہر نکل گئی گاؤں میں اس کے سب باپ اور بھائی تھے کس سے کرم دین کا گلہ کرتی شام کو اس کا بھائی کھیتوں سے واپس آیا تو بھائی کے پاس گئی۔ اس کی بھابھی نجمہ چار بچوں کے ساتھ چنگیر میں روٹیاں رکھے کھانا برتا رہی تھی۔ اس کا شیر بھائی پیار بھری نظروں سے اپنی بیوی اور بچوں کو دیکھ رہا تھا۔ نجمہ کا سنہری رنگ خاوند کی چاہت دیکھ کر گلابی ہوا جا رہا تھا۔ بھائی نے بہن کی طرف پیار سے دیکھا اور بولا نوراں تیری بھابھی ساگ بہت اچھا بناتی ہے بالکل اماں جیسا تو بھی روٹی کھا لے۔ وہ اپنے غم میں گم ہلکے سے بولی نہ بھیا بچوں کو کھلا کر میں نے بھی کھا لی تھی۔ وہ اُٹھی اور اُلٹے پاؤں واپس پچھواڑے اپنی کوٹھری میں آ گئی۔ اسے اپنے اندر بھائی، نجمہ اور چار بچے نظر آئے وہ غیرت کے نام پر قتل کروا کر ایک اور نوراں کا گاؤں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
صبح بھینس کھول کر جب وہ کرم دین کے کھیت کی طرف جانے لگی تو ایک دم کرم دین اس کے آگے آ گیا۔ ’’بی بی یہ کھیت تو میں نے فروخت کر دیے ہیں اب دوسرا تیار ہو گا تو چارہ ملے گا‘‘ ۔ وہ بھینس کو کھونٹے سے باندھ کر اِدھر اُدھر سے چارہ اکٹھا کرنے لگی۔ شام کو کرم دین کی بیوی کے کام کے لیے وہ جب کنڈا کھٹکا رہی تھی تو کرم دین کی آواز آئی ’’آج تو بھاگ بھری اپنی بیٹی کے پاس دوسرے گاؤں گئی ہے اور میرے ٹانگ میں درد ہے اس لیے تو چلی جا‘‘ ۔ نوراں کو ایک دم اپنی بھوکی بھینس اور بھوکے بچے یاد آئے ’’چِلا کر بولی‘‘ کرم دین جی آپ کنڈی کھولیے میں چھوٹے موٹے کام کر کے دو روٹی آپ کے لیے بھی ڈال دیتی ہوں اور کیا ہوا آپ کی ٹانگ کو؟ میں کوارگندل سینک کر لگا دیتی ہوں۔ کنڈی کھٹ سے کھل گئی۔
واپسی پر گاؤں کی مسجد سے مولوی صاحب عشاء کے بعد درس میں یتیموں اور بیواؤں کے حقوق بتا رہے تھے اور تمام گاؤں والے سرجھُکائے سبحان اللہ کی آوازیں نکال رہے تھے۔
٭٭٭
گملہ اور گلدان
ملائم رنگت اور جگنو سی چمکتی ہوئی آنکھوں والی آٹھ سالہ ملوکاں اپنی والدہ کا پلو پکڑے بڑی سی کوٹھی کے بڑے سے برآمدے میں کھڑی بیگم صاحب کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کا بھائی اس دفتر میں مالی تھا جہاں صاحب کا تبادلہ ہوا تھا۔ بیگم صاحب اور صاحب لاہور سے اس چھوٹے سے گاؤں میں ایک ہفتہ پہلے ہی تبدیل ہو کر آئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کا چھ ماہ کا گول مٹول خوبصورت بچہ بھی تھا اور صاحب نے اس کے بھائی کو حکم دیا تھا کہ بچے کے لیے ایک لڑکی کی ضرورت ہے جو کہ بچے کے ساتھ کھیل سکے۔ مالی کے دس بہن بھائیوں میں ملوکاں کا نمبر کونسا تھا یہ تو اسے معلوم نہیں تھا مگر مالی کو اس کام کے لیے اپنی یہ جگنو آنکھوں والی بہن بہت پسند آئی ویسے بھی وہ اس کے بدلے میں تھی اور ابھی نابالغ ملوکاں کو رخصتی میں دیر تھی۔
یونیورسٹی کی پڑھی ہوئی بیگم صاحبہ اندر سے برآمد ہوئی اُلجھے بالوں کو ہاتھوں سے سلجھاتی ہوئی چھبیس ستائس سالہ بیگم کو یہ لڑکی اپنے بیٹے کی کھلائی کے طور پر بہت مناسب لگی مگر اس کے میلے لباس سے اُلجھتی ہوئی بیگم نے اسے سوروپیہ ماہوار پر ملازم رکھ لیا۔ سب سے پہلے تو اس کی جوؤں کی صفائی ہوئی اور فوراً دو سوٹ بیگم نے اپنے نکال کر درزن سے اس کے ناپ کے کروا کر اس کے حوالے کیے۔ اگلے دن جب وہ علی کو اُٹھائے اپنے سرونٹ کواٹر میں کھلاتی ہوئی آئی تو اس کی ماں کو بھی ایک دم نکھری نکھری اور معتبر سی محسوس ہوئی آخر بڑے صاحب کی اکلوتی اولاد کی وہ امین تھی۔
علی بھی اس سے بہت جلدی مانوس ہو گیا اور بیگم صاحبہ کو بھی اس آٹھ نوسالہ لڑکی میں ایک ایسا رستہ میسر آ گیا جس کے ذریعہ وہ اردگرد کے حالات اور ماحول کی خبر رکھ سکتی اور ساتھ ساتھ اسے اردو سکھانے کے اس سے مقامی زبان میں شد بد رکھنے کی کوشش کرنے لگیں۔ صبح جب ناشتہ کرنے لگیں تو ملوکاں کو اپنے سامنے بٹھا کر کبھی جام ٹوسٹ اور کبھی انڈا پراٹھا کا ناشتہ کرواتیں۔ ملوکاں بھی نیک دل بیگم کی سنگت میں اپنے ساریوں کی روٹی اور پلی کا ساگ کب کی بھول چکی تھی۔ فرفر اردو بولتی ملوکاں اب علی کو صاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ خود کو بھی صاف ستھرا رکھنا سیکھ چکی تھی۔ وہ دن ہوا ہوئے جب وہ پرال پرالی اوڑھ کر سویا کرتی تھی۔ اب تو وہ بڑے ٹھسے سے بیگم صاحب کے ساتھ کبھی پارٹی اور کبھی کلب جایا کرتی تھی اور بیگم صاحب کو اکثر صاحب کے دوستوں سے گپ شپ کرتے دیکھ کر سوچا کرتی تھی کہ شاید ان بڑے لوگوں میں کالا کالی کی کوئی لعنت نہیں۔ وہ بھی باورچی خانہ میں جا کر کبھی خانساماں کبھی ڈرائیور سے کھلم کھلا بات کرنے لگی تھی اکثر اس کا بھائی نذیر بھی وہاں آ جاتا اور وہ دونوں بہن بھائی اپنے گھر کی سیاست پر گفتگو کرتے جس میں ڈرائیور اور خانساماں کھل کر حصہ لیتے۔ ان کی گفتگو کا موضوع عام طور پر نذیر کی بیوی رہنے لگی تھی جو کہ اپنے بچے کا خیال نہیں رکھ رہی تھی نہ ساس کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی قائل تھی۔ ملوکاں اپنی بھابھی کا بچاؤ بھی کرتی تھی کیونکہ اس کا مستقبل بھی اس کی بھابھی کا گھر تھا۔ ایک دن صبح ملوکاں کی ماں نذیراں پھر برآمدے میں کھڑی تھی بیگم صاحب نے محسوس کیا کہ وہ شاید ملوکاں کی تنخواہ ایڈوانس لینے آئی ہے۔ وہ باہر نکلی تو نذیراں کو روتے ہوئے پایا۔
احوال سے معلوم ہوا کہ نذیر کی بیوی کیونکہ گھر سے بھاگ گئی ہے اس لیے اسے کالی قرار دے دیا گیا ہے۔ وہ اپنا دو سالہ بچہ بھی چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ وہ بیگم صاحب سے منت کرنے آئی تھی کہ جب تک جرگہ کا کوئی فیصلہ نہ ہو ملوکاں کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ بیگم صاحبہ کو کچھ کچھ حالات کی سنگینی کا احساس تھا انہوں نے ملوکاں کی ماں کو رخصت کرتے ہی ناشتہ کی میز پر تمام قصہ صاحب کے گوش گزار کر دیا۔ اسی اثناء میں مالی نذیر بھی ہاتھ باندھ کر صاحب کے سامنے دادرسی کے لیے کھڑا ہو گیا۔
کافی دن یہ معاملہ اٹکا رہا ملوکاں روزبروز پیلی پڑنے لگی کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ اس کے بدلے کی عورت اِن کے گھر سے چلی گئی ہے اب اگر وہ اس گھر میں بیاہ کر جاتی ہے تو اس سے جانوروں سے بدتر سلوک کیا جائے گا۔
ایک دن جب بیگم علی کی توتلی باتوں میں مشغول تھیں تو ایک دم علی نے اپنی توتلی زبان میں کہا امی ’’پوکاں‘‘ نہیں جائے گی۔ بیگم نے حیران نظروں سے ملوکاں کی طرف دیکھا اور پوچھا بھئی تم کہاں جا رہی ہو تو وہ بے چارگی سے بولی جرگہ نے میرا فیصلہ دے دیا ہے اور میری بھابھی کے بدلے میرے ماں اور بھائی نے پیسہ وصول کر لیا ہے اب کل وہ دوسری کالی لڑکی جس کا ایک بچہ ہے خریدنے جا رہے ہیں مجھے تو اب ہر حال میں اپنے بدلے میں جانا ہو گا۔ اس کی جگنو جیسی آنکھیں ڈبڈبا اُٹھیں اور علی حیرانی سے اپنی ’’پوکاں‘‘ کی آنکھوں میں آنسو دیکھنے لگا۔ بیگم کو علی کی دل آزاری گوارہ نہیں تھی وہ ایک بار پھر صاحب کی کچہری میں پیش ہو گئیں۔
صاحب کی سرکاری حیثیت اس قابل تھی کہ وہ اثرو رسوخ سے اس جرگہ کے فیصلے کو ختم کروا سکتے تھے۔ صاحب نے ملوکاں کی وہ منگنی تڑوا دی اس دن ملوکاں کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا۔ وہ سارے کام چھپ چھپ کر کر رہی تھی اور کسی مور کی طرح بیگم کے آگے پیچھے جاتی تھی۔ اس کی دوسری بھابھی بکری کی طرح سیدھی گھر آ چکی تھی۔ ملوکاں کو اس سے کوئی غرض نہ تھی وہ اپنے پیچھے رہ جانے والے بچے کو بھول کر اس گھر کے بچے کو سنبھال رہی تھی۔
وہ ایک مرتبہ پھر بیگم کے پاس آئی بھی مگر زبان نا آشنا ہونے کی وجہ سے ملوکاں ہی مترجم کے فرائض انجام دیتی رہی۔
چند دن بعد ملوکاں نے بیگم سے پورے ایک دن کی چھٹی مانگی۔ علی جو اب پاؤں پاؤں چلنا شروع ہو گیا تھا بالکل ملوکاں کا سایہ بن چکا تھا۔ بیگم نے سوال کیا تو جواب آیا کہ دوسرے گوٹھ سے ملوکاں کی خالہ کئی سالوں کے بعد ان سے ملنے آئی ہیں اور اس کے بچے بھی ساتھ ہیں۔
اس کی یہ خالہ اندرون سندھ میں کسی وڈیرے کی زمینوں پر کام کرتی تھی اور پورا خاندان ایک طرح سے وڈیرے کا ملازم تھا۔ شام کو ملوکاں خالہ اور اس کے بچوں کو بیگم صاحبہ سے ملوانے لائی۔ ملوکاں سے تقریباً چار پانچ سال بڑا لڑکا باہر آ کر نذیر کے پاس ٹھہر گیا۔ کان میں سونے کی بالی اور قدرے صاف کپڑوں میں وہ ملوکاں کا خالہ زاد تھا۔ کبھی خانساماں اور کبھی ڈرائیور کو کینہ پرور آنکھوں سے دیکھتا ہوا وہ لڑکا بیگم کو بس ٹھیک ہی لگا۔ اگلے دن ملوکاں کی ماں نے بتایا کہ اس کی بہن ملوکاں کا رشتہ لینے آئی تھی کیونکہ ان کے پاس بدلہ دینے کو نہیں تھا اس لیے اس نے قرآن کا واسطہ دے کر ملوکاں کا رشتہ لے لیا ہے۔ بیگم جو حقوق نسواں کی عَلم بردار تھیں، نے الگ سے ملوکاں سے اس کی مرضی پوچھی مگر آج ملوکاں کی آنکھوں میں دگنی چمک تھی۔ بولی باجی میں وہاں خوش رہوں گی۔ میرا خالہ کا بیٹا بہت امیر ہے اس کے کان میں سونے کی بالی ہے اور وڈیرے نے اسے ڈیرے کی حفاظت کے لیے بندوق لے کر دے رکھی ہے۔ بیگم نے کچھ اپنے پرانے کپڑے ٹھیک کروا کر، ایک نیا جوڑا اور چاندی کا کچھ زیور دے کر ملوکاں کو رخصت کر دیا۔ اگلے دن ملوکاں کی بیوہ کزن علی کی خدمت کے لیے حاضر تھی۔ سمجھدار عورت نے علی کو تو سنبھال لیا مگر ملوکاں جیسی چہک اور پھرتی اس میں نہ تھی۔ علی بھی اب ماں کے ساتھ زیادہ رہنے لگا کیونکہ اُجلی ملوکاں کے مقابلے میں یہ گندی اماں اس کے نازک مزاج کو بالکل نہ بھائی۔ بیگم نے سوچا ڈھائی سال تو گزر گئے ہیں نئی پوسٹنگ آنے والی ہے کام چل رہا ہے چلنے دو۔
دو ماہ گزرے، مارچ اپریل کا مہینہ کٹائی کا سیزن ملوکاں کی ماں ایک بار پھر برآمدے میں کھڑی آنکھیں آنسوؤں سے بھری سر پر خاک چادر زمین پر، بیگم کو آتے دیکھ کر ایک دم بین کرنے لگی۔ علی کو گود میں اُٹھائے اُونچی اُونچی کہنے لگی علی تیری ’’پوکاں‘‘ چلی گئی۔
بیگم کے سوال پر بولی، ملوکاں کو اس کے خاوند نے قتل کر دیا بیگم نے ہڑبڑا کر پوچھا کیا ہوا؟ تو بولی کچھ نہیں جی کٹائی کے دوران ٹرالی والے ڈرائیور گوٹھ میں آئے ان میں سے ایک ڈرائیور کو ملوکاں پانی پلا رہی تھی اس کے خاوند کو شک ہو گیا اس نے وڈیرے کی دی ہوئی بندوق سے ملوکاں کو قتل کر دیا۔ بیگم نے قاتل کا پوچھا تو ماں بولی وڈیرے نے اس کو بچا لیا ہے اور کہا کہ غلطی سے گولی چل گئی تھی۔ بیگم کے سوال پر اس کی ماں پھر بولی میری بہن کا اکلوتا بیٹا تھا میں نے بھی معاف کر دیا۔
حیران پریشان سی بیگم، علی کو گود میں بٹھائے سوچ رہی تھی کہ اس کا قاتل اس کا شوہر نہیں میں ہوں۔ میں نے اس کی بڑھتی عمر میں کیوں اس کو اس کے رسم و رواج کے خلاف چلایا۔
سارا دن وہ فرج سے پانی نکال کر کبھی ڈرائیور اور کبھی خانساماں کو پلاتی تھی۔ میں نے کیوں نہ ٹوکا کہ یہ ’’تیرے نامحرم ہیں‘‘ ۔ میں اس کے سامنے بے تکلفی سے نامحرم لوگوں سے بات کرتی تھی اور اس کے لاشعور میں یہ بات پلتی رہی کہ اگر اس قدر اونچی عورت کالی نہیں ہو سکتی تو اس نے تو زندگی گزارنے کے طریقے ہی بیگم سے سیکھے ہیں۔ وہ پانی پلانے پر کس طرح کالی ہو سکتی ہے۔ آج بھی بیگم جب کسی کے گھر گاؤں سے آئی ہوئی بچی کو دوڑ دوڑ کر کام کرتے دیکھتی ہے تو سوچتی ہے کہ اس نے واپس اپنے گوٹھ جانا ہے کیا وہ دوبارہ وہاں رہ پائے گی اور چھوٹا علی جو اب خود بچوں کا باپ ہے آج بھی اپنی پوکاں کو یاد کرتا ہے۔
٭٭٭
شہر کا راستہ
صائمہ ایک چھوٹے سے قصبے کی رہنے والی لڑکی تھی۔ اس نے ساتھ والے شہر سے C.T. کا امتحان پاس کیا جس کے فوراً بعد ہی اس کی تعیناتی اس کے قریب کے گاؤں کے اسکول میں پرائمری ٹیچر کے طور پر ہو گئی۔ دوسرے دن وہ اُجلے کپڑے پہنے ٹانگہ پر بیٹھ کر اپنا اسکول کو دیکھنے گئی۔ اس کو بچپن سے ہی استانی بننے کا شوق تھا۔ اس کے ماں باپ اس کے شوق کے آگے بندھ نہ باندھ سکے کیونکہ اس کی بڑی دو بہنوں کی مڈل کے بعد کی اپنے ہی خاندان میں شادیاں ہو چکی تھیں اور ابا اور بھائی منڈی میں آڑھتی کے پاس کام کرتے تھے۔ ابا آڑھتی کے ہاں مزدوری اور میٹرک پاس بھائی منشی گری کرتا تھا۔ گھر کا گزارہ بس ٹھیک ہی چل رہا تھا۔ اس کے باپ کی کمائی سے چولہا جل جاتا اور بھائی اپنے پیسے اس کی شادی کے لیے آڑھتی کے پاس جمع کرتا۔ گھر ان کے دادا کا تھا جس میں اوپر کی منزل کے نام پر اس کی اماں نے ایک کمرہ اور ایک برآمدہ اپنی اَن دیکھی بہو کے چاؤ میں بنوا رکھا تھا۔ اس کی نوکری لگی تو اماں کو آس ہوئی کہ ایک تو وہ اپنے بیاہ کے لیے کچھ پیسے جوڑے گی دوسری سرکاری نوکری دیکھ کر اس کو ’’بر‘‘ بھی بہتر مل جائے گا کہ خاندان کی سب سے پڑھی لکھی لڑکی کا جوڑ ان کے خاندان میں کوئی نہیں تھا۔
ٹانگہ ایک لکڑی کے ٹوٹے ہوئے گیٹ والے احاطہ کے سامنے کھڑا تھا۔ سامنے اسکول کے نام پر دو شکستہ کمرے کھڑے تھے جن کی کھڑکیاں تو سلامت نہیں تھیں مگر دروازے اور چھتیں گزارہ لائق تھیں۔ چوکیدار کے نام پر ایک جھُریوں بھرا ہاتھ احاطے سے بکری کھول کر گیٹ کی طرف لے جا رہا تھا۔ سرکاری نوکری کی شرط، ساٹھ سال کو وہ ہاتھ ایسے لگتا تھا کہ ساٹھ بار مزید گزار چکا تھا۔ صائمہ نے ایک ہاتھ سے سفید چادر کو سنبھالا اور دوسرے سے بیگ کو اور دھیرے سے ٹانگہ سے اُتری۔ آہستہ آہستہ اِدھر اُدھر جائزہ لیتی ہوئی قدرے بہتر حالت والے کمرے میں کھڑی ہو کر اس نے چوکیدار سے حال دریافت کیا تو پتہ چلا اس اسکول میں اس کے علاوہ ایک کلرک اور ایک دوسری استانی بھی ہے جو کہ اس کلرک کی رشتہ دار ہے۔ کلرک کی گاؤں میں کریانہ کی دوکان ہے اس لیے وہ اسکول میں کم ہی تشریف لاتے ہیں اور سلمہ بی بی کیونکہ اکیلی اسکول کی مالک ہے اس لیے وہ بھی دوسرے گاؤں اپنے گھر سے کم کم ہی نکلتی ہیں۔ صائمہ نے چوکیدار سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے اسکول کے بچوں کی تعداد کے بارے میں دریافت کیا تو جواب ملا کہ پہلے تو کچھ بچے یہاں داخلہ لے کر پڑھتے تھے مگر سلمہ بی بی نے اپنا انگریزی اسکول دوسرے گاؤں میں کھول رکھا ہے اور جو بچے پڑھنے کے شوقین ہیں وہ اِدھر چلے گئے ہیں اور باقی یا تو گاؤں کی گلیوں کی رونق بڑھا رہے ہیں یا پھر اپنے جانوروں کو چارہ کھلا رہے ہیں۔
صائمہ اس صورتِ حال سے کافی مایوس ہوئی مگر ایک تو نئی نئی نوکری دوسرے قائد کے فرمان اور اقبال کے شعر اس کے حواس پر سوار تھے۔ پہلے تو چوکیدار کو دوڑا کر کلرک صاحب کو گاؤں سے بلایا۔ پھر گاؤں کے وہ بچے جو تماشا دیکھنے آ گئے تھے ان کو ساتھ ملا کر اسکول کو بیٹھنے کے قابل بنایا۔ تختہ سیاہ جو کہ مٹیالا ہو چکا تھا کو ایک بچے نے کچھ پانی سے اور کچھ تھوک سے دوبارہ سیاہ بنانے کی کوشش کی۔ کچھ بچوں نے ٹوٹے ہوئے ڈیسکوں اور مس کی تین ٹانگوں والی کرسی کی اسکول کی دیوار کی اینٹوں سے چوتھی ٹانگ بنانے کی کوشش کی میز کے نام پر بھی ایک کمرے میں پڑی ایک چیز مل گئی جس کے دراز بکری کی مینگنیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ بہرحال صائمہ نے کھینچ تان کر ان دو کمروں کو اسکول جیسی کوئی چیز بنانے کی کوشش کر ہی ڈالی۔
اِتنے میں چوکیدار کے ساتھ اس اسکول کا اکلوتا راز دار کلرک خراماں خراماں چلتا ہوا آ گیا۔ آتے ہی صائمہ کو دیکھ کر زیرِ لب مسکرایا اور اسکول کی حالت دیکھ کر پیلے دانتوں سے کھل کر ہنسا پھر گویا ہوا میڈم جی welcome آپ اس اسکول کی نئی مِس ہو جی۔ آپ کہاں یہاں آ گئیں شہر کے اسکول میں آپ جیسی استانیوں کی عزت ہے۔ غریب لوگ تو خود روٹی کو ترستے ہیں وہ کہاں آپ کو وہ مان سب مان دے سکتے ہیں بہرحال آ گئی ہیں تو کل سے اسکول شروع کر دیں گے۔ میری تو جی دوکان ہے صبح صبح ایک گھنٹہ آ جایا کروں گا اور حاضری رجسٹر وغیرہ صحیح کر دوں گا۔ ویسے بھی میرا کام کونسا پڑھائی کروانا ہے۔
جب صائمہ نے ہلکے سے سلمہ کا پوچھا تو بولا ارے سلمہ جی وہ بہت اچھی ہیں۔ ساتھ والے گاؤں میں انگریزی اسکول چلاتی ہیں اور سچ پوچھیں جی خدمت بھی وہی کر رہی ہیں۔ یہ بھی کوئی پڑھائی ہے۔ ہاں یہاں وہ کم ہی آتی ہیں۔ اب اتنے غریب اور بدتمیز بچوں سے مغزماری کون کرے؟ جی اور ویسے بھی یہ پڑھ لکھ کر کیا کریں گے اور اگر اسکول آ گئے تو اِن کے جانوروں کو کون دیکھے گا۔ صائمہ چپ چاپ اس کی باتیں سنتی رہی اور پاؤں سے گندے فرش کی مٹی کریدتی رہی۔
جب اس کی تقریر ختم ہوئی تو بولی بابوجی (اسے اس شاطر قسم کے آدمی کے لیے یہی نام اچھا لگا) کل سے تو اسکول لگے گا آپ گاؤں میں بتا دو اور بچوں سے بھی کہو کہ وہ اسکول آئیں۔ میں کل خود گھر گھر جا کر لوگوں کو اسکول کھلنے کا بتاؤں گی۔ یہ کہہ کر اس نے اسی ٹانگہ پر اپنا پاؤں رکھا اور قصبے کی واپسی کا راستہ طے کرنے لگی۔
اگلے دن وہ ٹھیک وقت پر اسکول کی چاردیواری میں موجود تھی۔ شرفو بابا بھی بابو جی کے ساتھ کل سے بہتر حلیہ میں اسکول کے اندر نظر آئے۔ ایک عدد ٹوٹی پٹری کا ٹکڑا بھی گھنٹی کی صورت میں صحن کے اکلوتے نیم کے درخت سے لٹکا ہوا نظر آیا بہرحال اسکول کی گھنٹی بجی اور وہ لنڈے سے خریدے ہوئے جوگروں میں گاؤں کی جانب چل دی۔ ایک دو ماؤں نے تو اپنے بچوں کو پھٹے پرانے قاعدے پکڑا کر اس کے ساتھ اسی وقت کر دیا مگر جب اس نے مولوی صاحب سے ملاقات کی تو انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ نماز کے بعد لوگوں سے اس بارے میں بات کر لیں گے۔ مہینے کے آخر تک بچوں کا شمار 22/20 تک چلا گیا اور وہ خود کو کچھ کچھ معتبر محسوس کرنے لگی۔
سلمہ صاحبہ سے اس کی ملاقات اب تک نہ ہو سکی تھی۔ 30 تاریخ کو شوخ کپڑے اور چمکتے زیور والی ایک چالیس سالہ خاتون نے کلاس کے اندر جھانکا اور ایک دم اسے گلے لگا لیا 20 بچوں کی کلاس ایک دم کھڑی ہو گئی اور سلام میڈم کے شور سے کمرہ گونج سا گیا۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ سلمہ ہے۔ سلمہ نے اس کے محنت سے کام کرنے کی تعریف کی اور کہا کہ وہ ہیڈآفس سے اپنی تنخواہ وصول کرنے بابوجی کے ساتھ جا رہی ہے۔ ساتھ ہی بابوجی کی تعریف میں ایک جملہ بھی کہ ’’بابوجی کی پہنچ اوپر تک ہے‘‘ اس لیے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ صائمہ نے سلمہ کو بابوجی کو آنکھ مارتے دیکھا اور ان کے درمیان کی رشتہ داری کا خیال کیا۔ صائمہ نے کہا کہ بابوجی ہیڈ آفس سے میری تنخواہ کا بھی پتہ کرتے آئیے گا اور بابوجی سلمہ کے پیچھے پیچھے دانتوں کا لشکارہ مارتے ہوئے چلے گئے۔
پہلی تاریخ آ کر بھی چلی گئی صائمہ کی تنخواہ کا کچھ پتہ نہ تھا۔ اس نے ایک دو بار ہیڈ آفس فون بھی کیا مگر کوئی شنوائی نہ تھی اگلی پہلی پھر وہی حالات تھے۔ بچوں کی تعداد میں اس کی محنت کی وجہ سے اضافہ ہو رہا تھا اور وہ بغیر تنخواہ کے تن کی سفید پوشی قائم رکھنے سے بھی قاصر تھی۔ چپکے چپکے اماں کے رکھے ہوئے کپڑوں میں سے کسی کا دوپٹہ اور کسی کی شلوار چُرا کر سفید پوشی کا بھرم رکھ رہی تھی۔ ہر پہلی پر سلمہ اور بابوجی اپنی تنخواہ کا چیک لے آتے اور اس کو اگلے ماہ پر ٹال دیتے۔ گھر میں ایک نیا طوفان کھڑا ہو گیا تھا اس کا ابا بوری ڈھوتے ہوئے گر کر زخمی ہو چکا تھا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی پر زخم آیا تھا۔ وہ چلنے پھرنے سے رہ گیا تھا بھائی نے اس کے نام پر رکھے پیسے آڑھتی سے لیے اور چاچے کی بیٹی جو اس کے بچپن کی ’’منگ‘‘ تھی کو بیاہ کر چوبارے پر لے آیا۔
آتے ہی ان کا چولہا چوکا الگ ہو گیا۔ باپ کی دوائی کے لالے پڑ گئے۔ اب صرف اس کی نوکری کی آس تھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کچھ پیسے تنخواہ کی آس پر بابوجی سے مانگے تو وہ جھٹ دینے کو راضی ہو گئے۔ اگلے دن اس نے کچھ راشن ڈلوایا اور ابا کی دوا خریدی۔
بابوجی کئی بار اسے سلمہ کی مثال دے چکے تھے کہ سلمہ کے بڑے افسران سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور صائمہ تو سلمہ کے مقابلے میں خوبصورت بھی ہے۔ وہ چاہے تو اس کا تبادلہ گھر کے قریب بھی ہو سکتا ہے اور اسے بل پاس کروانے والے کلرک کو مٹھائی بھی نہیں دینے پڑے گی۔ بس بڑے افسر کی نگاہ کرم چاہیے اس کے ہر کام جادو کی چھڑی سے ہوں گے۔ اب وہ تھک چکی تھی ٹانگے والا کب تک اسے کل کی آس پر اسکول لاتا۔ اس نے بھی بہانے بنانے شروع کر دیئے تھے۔ اماں بھی اس کو سلائی مشین سنبھالنے کا مشورہ دے چکی تھیں۔ بابوجی نے بھی کئی بار مال ڈالنے کی خاطر اُس سے پیسے مانگے تھے۔ کئی کئی دن چائے جو اس کو پسند تھی بغیر پیئے ہوئے گزر جاتے۔
پھر پہلی سر پر تھی۔ سلمہ اپنا ریشمی برقعہ پہنے ایک بار پھر سب ہتھیاروں سے لیس بابوجی کے ہمراہ شہر جانے کو تیار کھڑی تھی۔ آج وہ آدھا راستہ پیدل طے کر کے اسکول آئی تھی۔ آنکھوں سے آنسو اور جوگر سے انگوٹھا جھانک رہا تھا۔ اس نے سلمہ سے اس کا ریشمی برقہ مستعار لیا اور بابوجی کے ساتھ جا کر بس کی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ بابوجی نے سلمہ کی تنخواہ لانے کی حامی بھرتے ہوئے سلمہ کو آنکھ ماری اور بس فراٹے بھرتی شہر کی طرف روانہ ہو گئی۔
٭٭٭
دو کام
نرگس شہر کے ایک انگریزی اسکول میں پاکستان لٹریچر پڑھانے والی ٹیچر تھی۔ اس نے چار سال پہلے پولیٹیکل سائنس میں ایم-اے مقامی یونیورسٹی سے کیا تھا اس لیے اُسے اس اسکول میں اس کو نوکری با آسانی مل گئی تھی۔ گھر کا ماحول بھی کچھ پڑھا لکھا تھا۔ ابا اندرون شہر ایک مشنری اسکول میں انگریزی کے استاد تھے اور پکی بنیاد کے باعث اس کی کافی بہتر انگریزی نے امراء کے بچوں کے لیے اسکول کے دروازے کھول دیے تھے۔ نک سک سے درست نرگس کو پہننے اوڑھنے کاسلیقہ بھی خوب تھا۔ تین بہنوں میں سب سے بڑی نرگس اپنی ماں کے ساتھ مل کر سستے کپڑے سے بھی بہترین لباس تیار کر لیتی کیونکہ سلائی کا سلیقہ اس کی ماں میں خداداد تھا اور یہ ہنر کچھ وراثت میں کچھ ٹیلی ویژن کی بدولت نرگس میں در آیا تھا۔ نرگس کی دونوں بہنوں نے گھر کے قریب مقامی کالج سے بی-اے کے بعد دو پرائیویٹ اسکولوں میں نوکری کر لی تھی۔ ان کی تنخواہ اگرچہ کم تھی مگر ماں کو آسرا تھا کہ محلے کا اسکول ہے بچیاں نظر کے سامنے ہیں اور اسکول کا ہیڈ ماسٹر بھی ابا کا کولیگ ہے اس لیے دیر سویر کا خیال کرتا ہے۔ ابا ابھی نوکری پر جاتے تھے اور انگریزی کے استاد ہونے کی وجہ سے گھر پر بھی کئی لڑکے ٹیوشن پڑھنے آ جاتے تھے۔ بیٹا نہ ہونے کی کمی اماں ان بچوں سے پورا کیا کرتیں کسی کے ہاتھ بجلی کا بل پکڑا دیتیں کبھی بازار سے کچھ منگوا لیتیں اماں خود قرآن کی حافظہ تھیں۔ محلے کی اکثر لڑکیاں استانی جی سے سبق سیکھنے آ جاتیں اور گھر میں چہل پہل سی رہتی۔ لڑکیاں سبق بھی پڑھتی جاتیں اور ہاتھوں ہاتھ گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی نبٹ جاتے کوئی آٹا گوندھ دیتی تو کوئی فرش پر پوچا لگا دیتی ان کو استانی جی کے کام ویسے بھی برے نہ لگتے کہ استانی جی میٹھی زبان میں ان کے زخموں پر کچھ ایسا مرہم رکھتیں کہ وہ اپنے گھر جانا ہی بھول جاتیں۔ بہرحال نرگس اِن سب کی آئیڈیل تھی وہ دونوں بہنوں میں خوبصورت شیمپو سے دھُلے ریشمی بال اور فرفر بولتی انگریزی۔ اس اسکول میں جا کر اُس میں بلا کا اعتماد آ گیا تھا۔ کیونکہ وہ گھر بھی ذرا دیر سے آتی تھی اس لیے اس کے آنے سے پہلے اس کو والدہ کسی لڑکی سے کہہ کر کھانا گرم کرواتی اور خود اپنے چوبارہ کے جھروکہ سے جھانک جھانک کر اس کا انتظار کرتیں۔ گرمیوں کی لمبی دوپہر میں اس کی بہنیں خواتین ڈائجسٹ پڑھ کر گزارہ کر رہی ہوتیں تو رضیہ دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر آتی جتنی دیر میں وہ چادر تہہ کرتی اس کی ماں کی کوئی شاگرد اس کے لیے کھانا لگا دیتی اور رضیہ پنکھے کی گھوں گھوں میں شان سے کھانے کی میز پر آ جاتی۔ اس کے ریشمی بال اس کی گردن کے گرد ہالہ کرنے لگتے وہ کلپ میں بالوں کو سمیٹنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کھانے میں نقص نکالے جاتی۔ اماں پھر آلو، آپ کو پتہ ہے آلو موٹا کرتے ہیں اور آج آپ نے میرے لیے سلاد نہیں رکھی میں تو سلاد کے بغیر کھانا کھا ہی نہیں سکتی بس کل سے صرف سلاد ہی ہو۔ اماں دھیرے دھیرے مسکراتے ہوئے صفائیاں پیش کئے جاتیں۔ شام میں رضیہ چھت پر جا کر دیر تک اسکول کی کاپیاں چیک کرتی یا پھر زیر لب گنگناتے ہوئے چھوٹی چھوٹی انگریزی نظمیں لکھا کرتی۔ یہ نظمیں جو کہ چھوٹے چھوٹے جملوں اور چھوٹے چھوٹے خوبصورت خیالات میں بٹی ہوئی ہوتیں۔ اس کے اسکول کے بچوں میں بہت مقبول تھیں۔
اسکول میں اس کی وضع قطع کی وجہ سے وہ پرنسپل کی ہر دل عزیز تھی۔ جب بھی اسکول کا کوئی فنکشن ہوتا تو نرگس پیش پیش ہوتی دبلی پتلی سمارٹ سی نرگس مائک کے سامنے کسی بڑے ٹی وی چینل کی ماڈل لگتی۔ ہر سال ایڈمیشن کے موقع پر والدین کو امپریس کرنے میں نرگس کا بہت ہاتھ ہوتا۔ فر فر انگریزی بولتے ہوئے جب وہ والدین کا انٹرویو کر رہی ہوتی تو تصور میں اکثر بچوں کے والد یہ سوچ رہے ہوتے کہ اگر انہوں نے اس جیسی کسی ماہ وش سے شادی کی ہوتی تو وہ کم از کم اس بدیسی زبان میں تو خود کفیل ہوتے۔
غرض یہ کہ نرگس کی زندگی میں رنگ ہی رنگ تھے ابا کا وہ فخر تھی کیونکہ اس کی تنخواہ ابا سے زیادہ تھی اور وہ ابا سے زیادہ پڑھی لکھی تھی۔ اماں کو وہ ویسے ہی پیاری تھی کیونکہ ہر دوسرے دن اس کے لیے کبھی دوبئی اور کبھی شارجہ سے رشتہ چلا آتا تھا۔ مائیں تو نہیں البتہ بہنیں اور ان کے باہر گئے ہوئے بھائی نرگس جیسی بہو کے خواب ضرور دیکھتے تھے۔ مگر نرگس کی ضد تھی کہ لڑکا کم از کم اس کے برابر پڑھا ہو۔ آج کل اس کی ایک کولیگ مسز افضل کی اس کے ساتھ بہت دوستی تھی۔ مسز افضل کا ماحول بھی اس سے ملتا جلتا تھا مگر کیونکہ وہ ایم ایس سی میتھ تھیں اس لیے بہت زیادہ انگریزی ان کی ضرورت نہیں تھی مگر شادی کے بعد وہ اپنے بزنس میں شوہر کی آشیرباد سے نوکری جاری رکھے ہوئے تھیں۔ ان کے شوہر کی اندرون شہر برتنوں کی دوکان تھی۔ گھر چھوٹی بڑی نندوں سے بھرا ہوا تھا شوہر صبح جا کر رات گئے گھر آتے ساس نے ان کا کوئی مصرف نہ پا کر انہیں آزادی سے نوکری کرنے کی اجازت دے دی۔ نرگس کو مسز افضل کی باتیں بہت اچھی لگنے لگیں مگر اپنی شادی کے بعد مسز افضل پریشان تھیں بقول ان کے ان کا شہزادہ بھائی سرکاری محکمہ میں افسر تھا اور ماں اکیلی، بھائی کو کوئی لڑکی نہیں بھا رہی تھی۔ ایم اے پاس بھائی تصور میں کوئی ٹی وی ماڈل بسائے ہوئے انہیں ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی ڈھونڈنے کا مشورہ دے رہا تھا۔ ماں گھر کے کھانے پکانے سے تنگ بیٹی کو فون پر بھابھی ڈھونڈنے کا حکم صادر کرتی۔ مسز افضل نے نرگس کے بارے میں سوچا اور ایک دن اپنے بھائی کو گیٹ پر بلا کر نرگس کا تعارف بھی کروا دیا۔ نرگس کو بھی وحید مراد سٹائل کے بالوں والا لڑکا برا نہ لگا۔ اس نے تمیز سے بات کی تو نرگس نے سوچا یہ شارجہ دبئی کے ڈرائیور اور الیکٹریشن سے تو بہتر ہے۔ اسے ایک دم اپنے یونیورسٹی کے کلاس فیلو یاد آ گئے اس نے دبی زبان میں مسز افضل کو ok دیا تو اگلے دن ہی مسزافضل اپنی والدہ کے ہمراہ چوبارہ کی سیڑھیاں چڑھ کر اس کا رشتہ لے کر آ گئی۔
ابا نے لڑکے کو بیٹھک میں چائے پر بلایا اور سرکاری نوکری کا سن کر مطمئن ہو گئے۔ بہنوں کو بھی ہونے والے بہنوئی میں وحید مراد نظر آیا۔ حالانکہ سوائے بالوں کے ندیم کا کچھ بھی ہیرو والا نہیں تھا۔ شادی کے خرچے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ نرگس کی تنخواہ آدھی سے زیادہ جمع ہوتی تھی۔ نرگس بی بی نے اسکول سے پندرہ چھٹیاں لیں اور اس کی شادی ندیم کے ساتھ با عزت طریقے سے ہو گئی۔ وہ ایک چوبارے سے نکل کر اندرونِ شہر دوسرے چوبارے میں آ گئی۔ ندیم کو فلموں کا کافی شوق تھا اور کچھ فلموں کے رومانی ڈائیلاگ اسے یاد بھی تھے اس لیے سولہ گریڈ کا یہ ہیرو مسٹریس کو پندرہ دن لاہور گھمانے اور ڈائیلاگ سنانے میں گزارنے کے بعد دوبارہ دفتر جانے کی تیاری کرنے لگا۔
نرگس کو اس کے سنگ شاہی قلعہ اور شالامار باغ چوتھی بار بھی دیکھنا برا نہ لگا۔ ہاں باہر کھانا کھانے سے ندیم کو چِڑ تھی کہ اماں گھر پر انتظار کرتی ہوں گی یا تو وہ کسی ریڑھی سے حلیم نان اور بند کباب پیک کروا کر لاتے یا نرگس خود ہی کوئی چھوٹا موٹا سالن بنا لیتی کیونکہ ساس ولیمہ والے دن کے بعد کچن کا راستہ بہو کو دکھا کر خود بھول گئی تھی۔
ہنی مون ختم ہوا اور دونوں کام پر جانا شروع ہوئے۔ نرگس نے دبی زبان میں کہا بھی کہ اسکول کی نوکری کافی مشکل ہے مگر ندیم نے ایک جملے میں اس کی بات کاٹ دی کہ کب تک اس چوبارے میں رہیں گے یہ تو ویسے بھی اماں کے نام ہے نیچے دوکان کا کرایہ سے اماں کا پاندان چلتا ہے ہم دونوں محنت کریں گے تو اپنا مکان بنے گا اور تمہاری اچھی خاصی تنخواہ ہے کیوں کفران نعمت کرتی ہو۔ نرگس دل میں خوش ہوئی کہ ندیم کس قدر آزاد خیال ہے۔ کم از کم گھر کی گھٹن سے تو نجات ملے گی جلدی جلدی تیار ہونے لگی۔ ندیم نے اسے اپنے سنگ موٹرسائیکل پر بٹھانے سے پہلے ایک چھوٹی سی فرمائش کر ڈالی دیکھو کل سے تم برقعہ اوڑھ لو، بس کی بات اور تھی مگر موٹرسائیکل پر تمہاری چادر اگر پھس و نس گئی تو مشکل ہو گی بات مناسب تھی مگر انگریزی اسکول میں برقعہ والی ٹیچر، وہ گھبرا گئی بالا آخر عبائے پر بات ختم ہوئی اس کے بعد ندیم کی فرمائشوں میں اضافہ ہونے لگا۔ تم لِپ اسٹک کیوں لگاتی ہو؟ مجھے سادگی پسند ہے اور یہ بال بھی باندھ لیا کرو روز کھانے میں سے نکلتے ہیں۔ اس کی زندگی کچھ عجیب سی ہو گئی۔ ماڈل کی طرح رہنے والی نرگس اب گھر کی ماسی لگتی۔ صبح اُٹھ کر ناشتہ، برتن جھاڑو، ساس کے لیے گرم چائے، میاں کے لیے شیو کا پانی، کپڑے استری اور جوتوں کی چمک میں وہ اپنا شیمپو اور اپنی گرومینگ بھی بھول گئی۔ کئی کئی دن سے ان دھلے بالوں کو جب وہ کَیچر سے جکڑ کر اسکول جاتی تو مسز افضل ہی اسے قاعدے قانون بتانے بیٹھ جاتیں کہ کچھ اپنا خیال رکھو۔ اسکول والے ’’ڈل‘‘ ٹیچرز کو پسند نہیں کرتے۔ پھر وہ امید سے ہو گئی ایک کے بعد ایک بچہ دو بچے تو اماں نے کسی طور پال دیے مگر تیسرے کی دفعہ اماں کے گھٹنوں میں بھی درد رہنے لگا۔ ساس سے امید ہی فضول تھی اور میاں اس کی بچت سے گاڑی خرید کر اور بھی شہزادہ بن گیا تھا اول تو دفتر سے آتا ہی دیر سے تھا۔ شنید ہے کہ اپنے دفتر کی خواتین کولیگ کے ٹرانسپورٹ کے مسائل حل بھی کرتا تھا یا گھر آ کر ٹی وی کے آگے بیٹھ کر چینل پر چینل بدلے جاتا۔ رات کو وہ تھکن سے چُور مندی آنکھوں سے سونے جاتی تو وہ اپنے اعلیٰ درجے کے موبائل پر یا تو فیس بک کھولے بیٹھا ہوتا یا ایس ایم ایس کیے جاتا۔
نرگس کی زندگی نرگس کے پھول کی مانند ہو چلی تھی۔ چہرے پر چھائیاں آنکھوں میں کم نیند کی پرچھائیاں وہ دن میں بچوں کو نظریہ پاکستان بتاتے بتاتے اونگھنے لگتی۔ رات میں اونگھتے اونگھتے اس کے کانوں میں اسکول کی گھنٹی کی آواز آتی تو چونک چونک جاتی۔ بچے الگ پریشان اس کی دونوں بہنیں کب کی بیاہ کر شارجہ اور دبئی میں خوش و خرم زندگی بسر کر رہی تھیں۔ اماں کے گھٹنوں کا درد چوباروں کی وجہ سے مستقل ہو گیا تھا اور ابا کا سارا دن بیٹھک میں گزرنے لگا تھا۔ اس کے بچے کیونکہ ابھی اسکول جانے کی عمر میں نہ تھے اس لیے کبھی اماں کے پاس تو کبھی لڑھکتے ہوئے ابا کے پاس ہوتے۔ ساس کی ہمسائیوں سے دوستی زیادہ تھی۔ تیسرے بچے کے لیے مجبوراً اسے ایک لڑکی کا بند و بست کرنا پڑا وہ بچی اور ساس کو گھر چھوڑ کر اپنے دوسرے بچے اماں کے پاس چھوڑتی لڑھکتی ہوئی بس میں سوار ہوتی اور اسکول کی راہ لیتی۔ مسلسل مشقت سے اس کے سر میں مستقل درد رہنے لگ گیا تھا۔ اس کے شیمپو بال مستقل جکڑے رہنے پر مجبور تھے۔ آج کل تو اس کے بڑے بیٹے کا بازو بھی ابا کی بیٹھک میں جاتے ہوئے ٹوٹ گیا تھا۔ اماں نے اس کی دیکھ بھال سے معذرت کر لی تھی۔ پرنسپل الگ اس سے ناراض تھیں کہ اب وہ اسکول کی سرگرمیوں میں کھل کر دلچسپی نہیں لیتی اور ویسے بھی دو تین نئی لڑکیاں انگلش میڈیم سے ان کے اسکول میں آئی تھیں وہ پڑھائی میں نہ سہی مگر باقی معاملات میں اپ ٹو ڈیٹ تھیں۔ نرگس کو نیا فیشن دیکھے ہوئے کئی سال ہو جاتے۔ میاں نے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی مہنگائی کا رونا رو کر واپس لے لی تھی۔ پھر بسوں کے دھکے تھے۔ اس کا آج تیسرا پیریڈ فری تھا اسٹاف روم میں کاپیاں چیک کرتے کرتے اسے بڑے بیٹے کے ٹوٹے بازو کا خیال آ گیا۔ اسے یاد آ گیا کہ کیسے اس کا بیٹا بِلک بِلک کر اُس سے نہ جانے کی ضد کر رہا تھا۔ پرنسپل نے بھی اس کا اُجڑا حلیہ دیکھ کر جھاڑا تھا کہ ایڈمیشن کا وقت قریب ہے اسے کچھ خیال کرنا چاہیے۔ ایک دم اُٹھی پرنسپل سے سر درد کی وجہ سے چھٹی لی اور اپنے روٹ کی بس میں بیٹھ کر گھر آ گئی۔ اماں کے گھر سے دونوں بچوں کو پکڑا اور جب اپنی گلی کے نکڑ پر آئی تو اسے اپنے میاں کی گاڑی دکھائی دی ایک دم دل میں ہول اُٹھا کہ کہیں چھوٹی بیٹی کی طبیعت نہ خراب ہو۔ اس نے جلدی جلدی پہلی منزل کی سیڑھیاں عبور کیں اور ساس کے کمرے میں جھانکا حسبِ معمول کمرہ خالی تھا۔ یہ وقت ساس کا ہمسائیوں کے گھر جانے کا تھا۔ بچی کے بے تحاشہ رونے کی آواز اس کے کانوں میں آ رہی تھی اور ساتھ ہی شمو کے ہلکے ہلکے قہقہے بھی اسے سنائی دیئے اوپر جا کر دیکھا تو کچن میں شمو انڈے کا حلوہ بنا کر ندیم کو چمچ سے کھلا رہی تھی۔ اندر کمرے میں بچی بھوک سے بلک رہی تھی اور شمو کے بھیگے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک ٹپک کر فرش بھگو رہے تھے۔ ندیم کے چہرے پر شادی کے ابتدائی دنوں جیسی تازگی تھی۔ اس نے لپک کر بچی کو گود میں اُٹھایا اور ندیم کو نظرانداز کر کے شمو کو فرش پر پونچا پھیرنے کا حکم دیا۔ ندیم نے ندامت کے بغیر رموٹ ہاتھ میں لیا اور چینل چینج کرنے لگا۔ اگلی صبح جب ندیم دفتر جانے لگا تو نرگس نے ایک کاغذ اسے پکڑاتے ہوئے کہا۔ دفتر جانے سے پہلے میرا استعفیٰ پرنسپل کو دے دیجئے گا۔ مجھ سے دو دو کام اب نہیں ہوتے۔
٭٭٭
سیڑھیاں
عبائے میں لپٹی ماہ جبین اپنی حسین آنکھوں کو کالے چشمہ سے چھپائے بس اسٹاپ پر کھڑی آنے جانے والی بسوں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے روٹ کی بس آ کر ہی نہیں دے رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر آج بھی اسے رکشہ یا ٹیکسی میں جانا پڑا تو خوامخواہ تین سو روپے برباد ہو جائیں گے۔ پتہ نہیں آج بھی اسے چیک ملتا ہے کہ نہیں اور گھر میں خرچہ کے لیے یہی پانچ سو روپے تھے۔ ماہ جبین اپنی بیوہ ماں کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اس کے دو بھائی اور تھے بڑا نشہ کی وجہ سے ذہنی اور چھوٹا پولیو کی وجہ سے جسمانی معذور تھا۔ باپ دو سال پہلے ہی بندرگاہ سے واپسی پر اندھی گولی کا شکار ہو چکا تھا۔ باپ کی زندگی میں زندگی اتنی مشکل نہ تھی وہ بھی اسکول جاتی تھی اور بھائی بھی۔ ماں چھوٹے بھائی کے نخرے اُٹھانے میں مگن رہتی تھی۔ چھوٹی سی کھولی میں کبھی کبھی سکون کے چند لمحے اُتر ہی آتے تھے کبھی کبھی گھر میں مچھلی کا سالن اور اُبلے چاول دعوت کا سماں کر دیتے تھے۔ اس دن ان کا باپ ان کے ساتھ چٹائی پر بیٹھ کر کھانا کھاتا اور چھوٹے چھوٹے کانٹے نکال کر بڑا سا نوالہ اپنے چھوٹے بیٹے کے منہ میں دے کر بڑا سا قہقہہ لگاتا۔ وہ خود اپنی ماں کے ساتھ لگ کر سر جھکائے ہوئے مسکراتی کھانا کھائے جاتی۔ محلے سے آ کر اس کی سکھیاں کہتیں کہ ماہ جبین تم اتنا نہ مسکرایا کرو تمہاری مسکراہٹ سمندر میں مد و جزر پیدا کر سکتی ہے اور لہریں کنارے کا راستہ بھول کر بیچ سمندر میں کہیں کھو سکتی ہیں۔
زندگی گزر رہی تھی باپ کو آسرا تھا کہ بیٹا جوں ہی میٹرک کرے گا اس کو گودی پر کہیں نوکر کروا دے گا۔ پھر ماہ جبین کی شادی دھوم دھام سے کرے گا اس نے بندرگاہ میں ہی کئی شریف لڑکے نظر میں رکھے ہوئے تھے کیونکہ اس کا اپنے حلقے میں کافی اثر و رسوخ تھا۔ قیامت تو اس دن برپا ہوئی جس دن گھر میں اس کے بجائے اس کی لاش آئی۔ اس کے بندرگاہ کے ساتھی اور چند اخباری فوٹوگرافر ان کے ساتھ تھے۔ چھوٹے سے کچے احاطے میں لاش رکھ کر بین کرتی ہوئی خواتین کی تصویریں بناتے بناتے نجانے کب ذیشان نے ماہ جبین کی بھی ایک تصویر بنا ڈالی۔ آنکھوں میں آنسو کھلے بال اور چہرے پر بلا کی معصومیت تصاویر ڈویلپ کرتے ہوئے ایک دم ذیشان کی نظر ٹھہر سی گئی اس نے بے ارادہ ہی وہ تصویر بڑی کر لی اور اپنے اسٹوڈیو میں نمایاں جگہ پر لگا دی۔
ماہ جبین کے گھر میں چند ہی ماہ بعد خاک اُڑنی شروع ہو گئی۔ سکون و آشتی اِس گھر کا راستہ بھول سی گئی۔ ماں نے جب بیٹے کو کام پر بھیجنا چاہا تو اس نے نشہ میں پناہ ڈھونڈ لی جو کچھ کماتا نشہ میں اُڑا دیتا۔ باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے اسے کسی روک ٹوک کا ڈر نہ تھا۔ چھوٹا بھائی اکثر کھانا نہ ہونے کی وجہ سے یا تو روتا رہتا یا ماہ جبین کو گالیاں دیتا کہ وہ کیوں روٹی کھاتی ہے۔ ماں کو بمشکل دو گھروں میں جھاڑو پوچے کا کام ملا وہ بھی کسی محلہ کی عورت کی وساطت سے جس سے ایک ٹائم کی روٹی کا آسرا ہو گیا۔ کھولی کا کرایہ ابھی غور طلب تھا۔ اس کے مالک نے بھی ماہ جبین کی جھلک دیکھ کر ابھی تک کرایہ نہیں مانگا تھا کیونکہ طلب عطا سے زیادہ تھی اس لیے وہ انتظار کے فارمولے پر عمل پیرا تھا۔
ذیشان کیونکہ صحافت کے پیشے سے وابستہ تھا اس لیے اکثر اشتہاری کمپنیوں کے لوگ اس سے دعا سلام یا کوئی فوٹوگرافی کی انسٹالمنٹ کے لیے آتے رہتے تھے۔ ایک دن بابر صاحب جو کہ ایک اشتہاری ایجنسی چلاتے تھے اس کے اسٹوڈیو چلے آئے انہیں کچھ تصویریں ڈویلپ کروانی تھیں۔ ذیشان کام میں مصروف تھا بابر صاحب اس کی اجازت سے وہاں ہی بیٹھ گئے اور ذیشان سے ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگے۔ اچانک ان کی نظر ماہ جبین کی تصویر پر پڑی۔ ایک دم چونک سے گئے اور ذیشان سے پوچھا کہ یہ کس کی تصویر ہے ذیشان نے ایک نظر ہٹا کر تصویر کی طرف دیکھا اور بولا کچھ خاص نہیں میں نے اس کو کم کیمرے سے زیادہ دیکھا ہے۔ بابر صاحب نظرشناس رکھتے تھے بولے یار اس لڑکی میں سپارک ہے تم اس کا پتہ کرو مجھے آج کل ایک اشتہار کے لیے تقریباً ایسی ہی لڑکی کی ضرورت ہے۔ ذیشان نے کچھ زیادہ دلچسپی نہ دکھائی تو بابر صاحب نے اسے کچھ زیادہ کمیشن کا لالچ دیا۔ ذیشان کے گھر بھی نئے مہمان کی آمد تھی اس نے آنے والے خرچے کا سوچ کر بابر صاحب سے حامی بھر لی۔
اگلے دن ذیشان ڈھونڈتا ڈھونڈتا اس کھولی تک جا پہنچا اسے گھر کا پتہ تو یاد تھا مگر اس طرح کے محلے روز اپنا نقشہ بدل لیتے ہیں۔ کبھی چھجا ٹوٹ گیا اور کبھی دروازہ اکھڑ گیا۔ بہرحال ذیشان ابھی دروازے کے باہر ہی تھا کہ ایک دم اس کے کانوں میں دھواں دار گالیوں کی آوازیں آئیں اور ایک سترہ اٹھارہ سال کا لڑکا منہ میں کچھ چباتا ہوا باہر کو نکلا اور ذیشان کو دیکھے بغیر سامنے سے گزر گیا۔ ذیشان نے دروازے پر دستک دی۔ آدھی ادھوری جھری سے ماہ جبین نے دیکھ کر سوال کیا جی کس سے ملنا ہے؟ جی آپ سے۔
اور یوں وہ پھسلتے پھسلتے ذیشان کے اسٹوڈیو تک آ گئی۔ دو ضرورتیں ساتھ مل کر ایک اکائی بن گئیں چھوٹی چھوٹی کمرشل میں ماہ جبین چھوٹے موٹے رول کرنے لگی۔ کبھی ہیروئن کی سہیلی اور کبھی بھیا سے مٹھائی مانگتی ہوئی بہن اور بہت سے اشتہاروں میں ہجوم میں ایک چہرہ ماہ جبین کا ہونے لگا۔
بھائی کے نشے کی رقم کے لیے محنت کی شرط ختم ہو گئی۔ چھوٹا روٹی کے علاوہ پھل بھی کھانے لگا اماں بھی گھر گھر پھرنے سے بچ گئی اور ہاں کھولی کا اسٹیٹس بلڈنگ میں دو کمروں کے فلیٹ کا ہو گیا۔ غسل خانہ باتھ روم میں بدلا تو ماہ جبین کے عبائے کا نقاب بھی نگینوں سے جگ مگ کرنے لگا۔
ماں اب فخر سے لوگوں کو بتاتی کہ ماہ جبین ایک بہت بڑی ماڈل ہے محلے والے زبان سے کچھ نہ کہتے مگر اپنی بہو بیٹیوں کو دبی زبان میں اس سے کم تعلق رکھنے کا حکم دیتے۔ محلہ کے لڑکے ماہ جبین کی ایک جھلک دیکھنے کو اس کے کبھی سوئے کبھی جاگے بھائی سے خواہ مخواہ حال چال دریافت کرنے لگے۔
ماہ جبین اپنا عبایہ ذیشان کے اسٹوڈیو میں اُتار کر مختلف ماڈلنگ ایجنسیوں میں چکر لگانے لگی۔ پھر ایک دن وہ ہوا جس کا ماہ جبین کو کافی عرصہ سے انتظار تھا۔ اس کا ایک ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار کلک کر گیا۔ اس کی جان لیوا مسکراہٹ اس کے مستقبل کا سہارہ بن گئی۔ بڑی بڑی کمپنیوں سے اسے اشتہار کی آفر آنے لگی۔ وہ بھی کچھ کچھ سیانی ہو گئی ذیشان جو اب تک اس کے سرپرست کا کردار ادا کر رہا تھا اس ڈیوٹی سے باہر ہو گیا اور سمارٹ سا امجد سائے کی طرح اس کے ساتھ رہنے لگا۔ اماں کے فلیٹ میں اب وہ ہفتہ میں ایک بار ہی جاتی اس نے اپنا ایک ذاتی فلیٹ پوش علاقے میں لے لیا اور ایک چھوٹی گاڑی بھی، امجد اس کے ساتھ اس کے باڈی گارڈ ڈرائیور اور سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دیتا تھا اور لوگوں میں اس کی تعریفوں میں پیش پیش رہتا تھا۔
حسن نے جینے کے ڈھنگ سیکھ لیے تھے۔ ماضی کو چھپانا اور حال کو خوشحال بنانا اب ماہ جبین کو اچھی طرح آ گیا تھا۔ ماہ جبین ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اور ماں گھر کے حالات بدل رہی تھی بڑے اور چھوٹے دونوں بیٹوں کا علاج بڑے کو موبائل شاپ پھر اس کی دور پرے کے جاننے والوں میں شادی ماں اپنے تمام فرائض سے فارغ ہو چکی تھی۔ ہاں ماہ جبین کا چیک وصول کرنے میں اسے کوئی تامل نہیں تھا۔ ماہ جبین آجکل سیٹھ غفار کی ایجنسی میں کام کر رہی تھی اور ان کی بہت سی پروڈکٹس کی ماڈل ہونے کے علاوہ ان کے دل کی ہیروین بھی وہ ہی تھی۔ مگر آج کل وہ تھکی تھکی سی رہنے لگی تھی اور سیٹھ غفار بھی اس کی روز روز کی تھکن سے بے زار سے تھے ہاں امجد تھا جو کسی دیکھ بھال کے ساتھ اس کے کام کا خیال بھی رکھ رہا تھا وہ دل ہی دل میں اسے پسند کرنے لگا تھا مگر اس کی ہر دم کی مصروف زندگی میں امجد کی جگہ مشکل تھی اسی لیے امجد نے اچھی تنخواہ پاتے ہی آپ اپنی بچپن کی منگیتر کا دامن تھام کر اسے بہت سے اَن دیکھے اندیشوں سے نجات دلا دی تھی۔ ایک دن جب سیٹھ غفار اپنے دفتر کی نئی ماڈل کے ہمراہ دبئی کی فلائٹ پر جانے لگے تو ماہ جبین کو کال کر کے ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کی ہدایت کی۔ ماہ جبین جو خود بھی روز روز کی تھکن سے بے زار تھی گاڑی لے کر ڈاکٹر کے کلینک پر چلی گئی۔ فائیو سٹار ہوٹل کی طرح سجے کلینک میں اس کا تفصیلی چیک اپ ہوا۔ رپورٹ ملنے کی تاریخ کل کی تھی وہ اُٹھی اور بے ارادہ اماں کی طرف چلی گئی گھر میں بہت چہل پہل تھی۔ بھابھی کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تھی۔ بھابھی کے میکے والے اور مہمان گھر پر تھے چھوٹا ٹریک سوٹ پہنے اپنے کمرے سے نکلا اور بہن کو اشارے سے اپنے کمرے میں بلایا اس کی حالت بہت بہتر تھی۔ بہتر علاج اور خوراک کی وجہ سے وہ کافی حد تک چل لیتا تھا۔ وہ بھی آج کل دوکان پر بیٹھتا تھا ان کی دوکان کافی بڑی ہو چکی تھی۔ ماہ جبین اس کے کمرے میں لگی Exercise کی مشینیں دیکھ رہی تھی جو اسی کی کمائی سے خریدی گئیں تھیں تو ایک دم بھائی نے سرگوشی میں کہا کہ باجی تم بغیر بتائے یہاں نہ آیا کرو بھائی تھوڑے پُرانے خیالات کے ہیں اور اب تو بھائی کے گھر بیٹی پیدا ہو گئی ہے وہ لوگ تم پر اعتراض کرتے ہیں۔ ویسے بھی اماں میرے لیے بھی بھابھی کی خالہ زاد کا سوچ رہی ہیں۔ اماں سے تم فون پر بات کر لیا کرو۔
ماہ جبین نے اپنا بیگ اُٹھایا اور واپس گھر کی طرف چل دی۔ فلیٹ کا تالا کھول کر نڈھال سی اپنے پلنگ پر گر گئی۔
دوسرے دن اسے ہلکا ہلکا بخار بھی تھا اس نے امجد کو فون کر کے اپنی رپورٹیں لانے کو کہا اور خود رات کے لباس میں چائے لے کر لانچ میں آ گئی۔ ابھی اس نے چائے کا پہلا گھونٹ ہی لیا تھا کہ بیل بجی اس نے دروازہ کھولا تو سامنے امجد کھڑا تھا اس کے چہرے سے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی بھیانک خواب دیکھتے ہوئے اچانک اُٹھ گیا ہو وہ امجد کے ہاتھ سے رپورٹیں پکڑ کر صوفے تک آئی اور امجد کے الفاظ ’’آپ کو ایڈز ہے‘‘ سنتے ہی ساکت سی ہو گئی نہ جانے کب سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے وہ ساتھ ساتھ بیماری کی منزلیں بھی طے کر رہی تھی۔ اس کو چکر سا آ گیا امجد اس کے لیے پانی لے کر آیا تو وہ ابھی تک سکتے کی کیفیت میں تھی۔ پانی پی کر اس نے امجد کی آنکھوں میں جھانکا اور ہلکی سی مسکراہٹ سے بولی دیکھو امجد مارکیٹ میں اس بات کا پتہ نہیں چلنا چاہیے اور ہاں میرے بنک اکاؤنٹ میں کچھ رقم ہے کچھ میں کما لوں گی تم برائے مہربانی کسی ایسے ڈاکٹر کا پتہ کرو جو راز کو راز رکھ سکے تم بدستور میرے سیکرٹری ہو۔ فون کی گھنٹی بجی سکرین پر سیٹھ غفار کا نام جگمگا رہا تھا۔ ہیلو بولے کیسی طبیعت ہے سر موسمی بخار تھا اب بہتر ہوں کل میں آپ کو آفس میں ملوں گی۔ ’’اور … اور… اورسر آپ کے بغیر تو یہ شہر سُونا سُونا لگتا ہے‘‘ ۔
٭٭٭
شاطر عورت
پراپرٹی ڈیلر حشمت جان کی دوسری شادی کے بعد فاطمہ کے ہاتھ تین بچے اور گھر کی ٹیلی فون لگی بیٹھک ہی اثاثے میں ہاتھ آئی تھی۔ اچھا بھلا کاروبار چل رہا تھا۔ حشمت خان بہت کھلے دل کا تو نہیں تھا مگر گھر کا خرچہ اور بچوں کے اسکول کی فیس اسے پوری دیتا تھا۔ برا ہو اس دن کا جس دن نرگس کا مکان کرائے کے لیے خالی ہوا وہ ادھا کانا پردہ کیے حشمت خان کے پاس کسی نئے کرایہ دار کا کہنے آئی۔ بیٹھک میں بیٹھ کر اس نے اس ادا سے حشمت خان سے بات کی کہ حشمت خان خود کرایہ دار بن کر اس کے گھر کے خالی حصہ میں منتقل ہو گیا۔ ایک بیٹھک پر مشتمل دفتر دوسرے گھر کی بیٹھک تک پھیل گیا اور خود بیوہ نرگس سے نکاح پڑھا کر اسی کے گھر اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔
فاطمہ کافی روئی چلائی بچوں کے واسطے دیے مگر حشمت خان کو کالے برقعے میں نرگس کی آنکھوں نے ایسا اسیر کیا کہ اس نے فاطمہ اور بچوں کی طرف سے بالکل آنکھیں پھیر لیں۔ دو دن وہ روتی رہی کیونکہ خرچہ سے بچائے ہوئے کچھ پیسے اس کے پاس تھے۔ تیسرے دن جب بچوں نے اسکول کی فیس کے نام پر رقم مانگی تو فاطمہ کو ایک دم جھٹکا سا لگا۔ سرپر باندھا ہوا دوپٹہ اُتارا اور بیٹھک میں آ کر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر تک ایک نظر ٹیلی فون کو دیکھتی رہی پھر چھوٹے کو بھیج کر بازار سے تازہ اخبار منگوایا اور ضرورت رشتہ کا صفحہ نکال کر ایک نمبر ملا دیا۔ اس کو بات چیت کرنے کا بچپن سے شوق تھا۔ لوگوں سے ایسی ہمدردی سے بات کرتی کہ لوگ اس کے دیوانے ہو جاتے اور فاطمہ آپا سے ہر وقت مشورہ کے طلب گار رہتے تھے۔ آواز سے گاگر یں چھنک جاتی تھیں۔ پہلی ہی ہیلو پر ایک خاتون نے فون اُٹھایا اور فاطمہ نے بہت دلنشیں لہجے میں ان سے ان کی ڈیمانڈ دریافت کی وہ لڑکے کی والدہ تھیں انہیں بہو کے نام پر اسم بامسمیٰ لڑکی کی ضرورت تھی۔ فاطمہ نے بات چیت سے اندازہ لگا لیا کہ لڑکے کی آمدنی واجبی سی ہے مگر لڑکا شکل و صورت سے بہتر معلوم ہوتا تھا۔ فاطمہ نے خاتون سے دوسرے دن کا وقت مانگا اور اپنی فیس بتا دی۔ پھر اس نے اخبار کے اشتہار پر نظر ڈالی ایک بڑی عمر کی لڑکی کے والدین اپنی بہت اچھی نوکری والی لڑکی لے لیے کوشاں تھے فاطمہ نے یہاں بھی نمبر گھمائے اور بات چیت میں فاطمہ سے بھلا کون جیت سکتا تھا۔ ایک ہفتہ کے اندر ہی فاطمہ لڑکے والوں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ خوبصورت کی بجائے کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی ان کی ضرورت ہے اور لڑکی اگر کام بھی کرتی ہے تو سونے پہ سہاگہ والی بات ہے۔ ادھر لڑکی والوں کو باور کروا دیا کہ اگر لڑکا خوبصورت ہے تو کام تو وہ کر ہی لے گا اور عام سی لڑکی کو اگر کچھ محنت بھی کرنی پڑے تو کیا مضائقہ ہے۔ اس کے جوڑ توڑ سے دو ماہ کے اندر رشتہ پکا ہو گیا۔ رشتہ پکا ہونے میں اس کی بیٹھک بہت کام آئی لڑکے کو لڑکی سے ملانے میں اس کی بیٹھک اور رانی کے ہاتھ کی چائے کا بہت ہاتھ تھا۔ رانی رضیہ کی اکلوتی بیٹی تھی جو کہ ابھی گیارھویں جماعت میں تھی اور پڑھائی سے زیادہ فیشن میں اپ ٹو ڈیٹ تھی۔ اس نے تو لڑکا دیکھ کر ابھی سے فرمائش کر دی تھی کہ ماں لڑکا تقریباً ایسا ہی ہو۔ مگر ماں کو پتہ تھا کہ دو غریب اگر مل جائیں تو زندگی اُجاڑ بن جاتی ہے۔ رشتہ پکا ہوا لڑکے والوں سے اور لڑکی والوں سے فیس کے علاوہ جوڑے اور کان کی بالیاں فاطمہ کے ہاتھ آئیں۔ اور یوں فاطمہ کا کاروبار چمکنے لگا رات گئے تک وہ اپنی کاپی کھولے فون کرتی اور صبح ہوتے ہی کالی چادر کالے بوٹ پہنے بغل میں پرس دبا کر اپنے دورے پر نکل جاتی۔ اس کی پہنچ محلے سے نکل کر محلوں تک چلی گئی تھی۔ ہاں بیٹھک کی صفائی باقاعدگی سے ہوتی اور اکثر لوگ اس کے گھر کو بر دکھانے کے لیے بہتر تصور کرتے تھے۔ رانی کے ذمہ چائے بنانا اور چھوٹے بھائیوں پر نظر رکھنے کا کام تھا۔ دونوں ابھی چھوٹی جماعتوں میں تھے اور حشمت خان کے زمانے سے ہی محلے کے انگریزی اسکول جاتے تھے۔ کبھی کبھار حشمت خان ان سے ملنے اسکول چلا جاتا تو اسے بھی اس کی خیر خبر مل جاتی مگر وہ اپنے کاروبار میں اس قدر محو تھی کہ اس نے اس کی پرواہ کرنا بھی چھوڑ دی تھی۔
بیگم شکیل کی بیٹی کا رشتہ نہیں ہو رہا تو بیگم اسلم کا عقیل کس دن کام آئے گا ہاں بھئی ذات برادری کا فرق ہے تو کیا ہوا سید اور علوی تو ایک ہی گوت کے ہیں نا۔ پرنسپل صادق صاحب کا اختر باہر سے پڑھ کر آیا ہے تو خالدہ بہتر ہے نا، اچھی یونیورسٹی کی پڑھی ہے بس چشمہ ہی لگاتی ہے، مگر جب فاطمہ کی بیٹھک میں نیلے لنز لگا کر آئی تو اختر کو لنڈن کی کسی یونیورسٹی کی ماڈرن لڑکی دکھائی دی، رانی نے اچھے بیوٹی پارلر میں داخلہ لے کر گرومینگ کا کورس کر لیا۔ بیٹھک میں آنے سے پہلے ہر لڑکی اس کے مشّاق ہاتھوں سے ہو کر گزرتی۔ بیٹھک بھی چھوٹے موٹے ڈرائنگ روم میں بدل گئی۔ چائے کا معیار اونچا ہو گیا اور فاطمہ کے چھوٹے لڑکے شام میں ٹریک سوٹ پہن کر انگریزی کارٹون دیکھتے اور انگریزی بولتے۔ فاطمہ اپنی مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائے بیٹھک میں نمبر ملائے جاتی۔ ’’ہاں جی بیگم صاحبہ اپنی شہلا تو ان کو بہت پسند آئی ہے بس ذرا اس کو صبح دم کرائیں اور اس رشتہ کو چھوڑیں لڑکا ذرا مغرور سا لگتا ہے۔ شہلا کے لیے ایک باہر کا رشتہ ٹرائی کر رہی ہوں‘‘ ۔ دو اک دن میں لڑکا آنے والا ہے ‘۔ تب تک شہلا بیٹی اور سمارٹ ہو جائے گی اور ہاں فہد کے لیے میں نے چار پانچ لڑکیاں دیکھی ہیں سب کی سب خوبصورت۔ بس جس دن بیٹھک آئے ذرا بالوں کو رنگ کرے اور اپنی عمر نہ بتائے چالیس میں لڑکا کون سا بوڑھا ہوتا ہے اور اگر ڈالر کی کمائی بھی ہو تو‘۔
وہ کسی ماہر ڈاکٹر کی طرح نبض پر ہاتھ رکھے درد کی دوا بتائے جاتی کچھ زبان کچھ نصیب فاطمہ کا کاروبار حشمت خان کے کاروبار کو پیچھے چھوڑ گیا۔ سات سال میں فاطمہ کہاں سے کہاں چلی گئی۔ کل ہی مسز امجد کا اسے فون آیا ان کی بہن امریکہ سے آ رہی تھیں۔ لاکھوں کا کاروبار تھا اور بیٹے کے لیے مشرقی اطوار والی سگھڑ بہو کی ضرورت تھی۔ بیگم امجد کی بہن چار کنال کی کوٹھی ڈیفنس میں بنا رہی تھیں اور بیٹے اور بہو کو یہاں ہی سیٹ کر کے اس کے ساتھ رہنا چاہتی تھیں۔ خوبصورت آنکھوں والا رضا ان کے ساتھ ہی تھا۔ فاطمہ نے رضا کو دیکھا اور ایک دم بولی بیگم صاحبہ اتنے خوبصورت بیٹے کی بہو بھی اسی کی طرح ہونی چاہیے آپ کو گھرانے کا کوئی تو مسئلہ نہیں سالوں سے باہر بیگم امجد کی بہن جو اونچ نیچ کی قائل نہیں تھیں جی بس لڑکی ایسی ہو کہ رضا کو پسند آ جائے رضا کا نمبر لے کر وہ وہاں سے اُٹھی تو اس کی آنکھوں میں ایک سوچ تیر رہی تھی۔ گھر آ کر رانی کو بیٹھک کو صاف کرنے کا کہہ کر رضا کو فون کرنے لگیں۔ اگلے دن رضا کو بلا کر لڑکی دکھانے کا کہا بیگم امجد اور ان کی بہن بھی منظر سے باہر تھیں رانی کو جواب پچیسواں پار کر رہی تھی حکم دیا کہ آج اپنے تمام حربے اپنے اوپر آزمائے پٹھان باپ کی بیٹی رانی ویسے ہی گلاب کا کھلا پھول تھی۔ گلابی سوٹ میں واقعی گلاب کی کلی لگ رہی تھی۔ رضا کو دھوپ چھاؤں جیسی روشنی والی بیٹھک میں بیٹھا کر رانی کو چائے کی ٹرے دے کر بھیجا اور رضا سے لڑکی والوں کو فون کرنے کے بہانے وہاں سے اٹھ گئی۔ آدھے گھنٹے بعد جب وہ کمرے میں داخل ہوئی رضا کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر مطمئن انداز میں گویا ہوئی بیٹا لڑکی والوں کا کوئی رشتہ دار فوت ہو گیا ہے آج ان کی طرف سے معذرت۔ رضا ایک مطمئن سی مسکراہٹ رانی پر ڈال کر گھر چل دیا۔
ایک ماہ کے بعد فائیو سٹار ہوٹل میں رانیہ عرف رانی کا نکاح دھوم دھام سے رضا سے ہو رہا تھا۔ فاطمہ اپنے جاننے والوں کے جھرمٹ میں خوش خوش کھڑی تھی۔ حشمت خان اپنی بیوی نرگس کے ہمراہ چور کی سی شکل بنائے سٹیج کے پاس بیٹھا تھا۔ نرگس نے برا سا منہ بنا کر حشمت خان کو دیکھا اور بُڑبڑائی خان تمہاری پہلی بیوی توبہ کس قدر شاطر عورت ہے کیا مالدار آسامی پھنسائی ہے۔
٭٭٭
جوزفین
نرس جوزفین کا بچپن اسی ہسپتال کے باغیچوں میں کھیل کر گزرا تھا۔ اس کا باپ اسی ہسپتال کا سنیٹری ور کر تھا وہ اور اس کی بیوی مار تھا دونوں اس بڑے سرکاری ہسپتال میں بہت عرصے سے نوکری کر رہے تھے۔ ہسپتال کے احاطہ کے اندر ہی عملے کے قطار در قطار کواٹروں میں ایک کواٹر ان کا بھی تھا ماشکی غفور چوکیدار عبدل اور ڈسپنسر خالد کے بچوں کے ساتھ جوزفین کا بچپن بھی گزر گیا مگر ان بچوں اور جوزفین میں ایک فرق تھا کہ یہ اپنے ماں باپ کی اولاد صرف دو بہنیں ہی تھیں اس لیے دونوں کمانے والے ماں باپ کی آنکھ کا تارہ تھیں جیمز کا باپ بھی اسی ہسپتال میں سنیٹری ور کر تھا۔ جوزفین اور اس کی بہن روزلین دن میں مشنری اسکول جاتیں اور واپس آ کر ہسپتال کے لمبے لمبے برآمدوں میں بھاگتیں یا مالی غفور کی چھماں اور عبدل کے شکورے کے ساتھ مل کر جامن توڑتیں۔ ان کی ماں دوپہر کو آ کر کواٹر میں تھک کر بے ہوش پڑی ہوتی اور جیمز مہندی کی باڑ کے کنارے دوسرے سنیٹری ورکروں کے ساتھ بِیڑی کے کش لیتے ہوئے تاش کی بازی لگائے جاتا۔ شام میں جب جوزی اور روزی اپنے منہ جامنوں سے کالے کئے کواٹر آتیں تو ماں پکڑ کر دھموکے مار مار کر پڑھنے بیٹھا دیتی۔ ماں سارا دن گائنی وارڈ میں نرسز کو سفید یونیفارم میں دیکھ کر اپنی بیٹیوں کے بھینرسز بننے کے خواب دیکھنے لگی تھی۔
چند ہی گرمیاں گزریں کہ جوزی اور روزی پتھر کی بجائے ہاتھ سے جامن توڑنے لگیں اور مالی کی چھمو بیاہ کر گاؤں چلی گئی۔ شکورا میٹرک پاس کر کے فوج میں چلا گیا اس نے ابا کا وہ خواب پورا کر دیا جو کہ اس کے باپ نے جہلم کے کسی گاؤں سے آتے دیکھا تھا۔ جوزی کے میٹرک کے پرچے اچھے ہوئے تھے۔ وہ ویسے بھی سیدھی سادی تھی اور اسے ماں باپ کے ہاتھ میں پکڑی جھاڑو سے خجالت نہیں ہوتی تھی۔ اس کے برعکس روزی کچھ اور طرح کی تھی اسے ایک دم بڑے ہونے کا شوق تھا یہ کواٹر اسے برا لگتا تھا۔ وہ خود سے پیروں پر کھڑی ہونے کی شوقین تھی۔ اس نے چھٹیوں میں ہی شارٹ ہینڈ اور ٹائپ کا کورس کر لیا تھا۔ نتیجہ آتے ہی اس نے ایک بڑے دفتر میں ملازمت کر لی اس کی تصویروں میں اس کے تیکھے نقوش کے ساتھ ساتھ اس کے مغربی لباس کا بھی دخل تھا۔ وہ اپنی پتلی کمر پر فٹ اسکرٹ اور اونچی ہیل والے جوتے پہن کر جب کوارٹر سے نکل کر دفتر کی طرف جاتی تو تمام کواٹروں والوں کے دل کی دھڑکن اس کی ٹک ٹک کے ساتھ بجنا شروع ہو جاتی۔
جوزفین کے نمبر بہت اچھے آئے اس نے ماں کی خواہش پوری کرنے کے لیے نرسنگ میں داخلہ لے لیا اور اپنا چار سالہ کورس پورا کرنے لگی۔ ماں کا جھاڑن اور باپ کا جھاڑو بدستور اکیلے صحن میں پڑا رہا روزی نے دفتر کی دوری کا بہانہ کر کے ایک سہیلی کے ساتھ رہائش کر لی مگر وہ سنڈے کے سنڈے آ کر چرچ ضرور ماں باپ کے ساتھ جاتی اور آتے ہوئے اپنے برادری کے اُن لڑکوں سے خوش گپیاں کرتی رہتی جو کہیں ویٹر اور کہیں اپنی انگریزی کی وجہ سے نوکری کر رہے تھے۔
چار سال گزر گئے جوزی اب پوری نرس تھی اس کا خواب جو کہ ماں کی آنکھ نے دیکھ رکھا تھا پورا ہونے جا رہا تھا۔ اسے ہمیشہ سے نرس اور فرشتہ میں کوئی خاص فرق نہیں لگتا تھا۔ اس کے اپنے ہسپتال کی سٹاف نرسیں ہوسٹل آتے جاتے جوزی کے کبھی بال بگاڑ دیتیں یا کبھی اس کو کوئی ٹافی پکڑا دیتیں۔ ہاں ڈاکٹر ایک ایسی چیز تھے جو جوزی کے لیے شجرِ ممنوعہ تھے ان کے بڑے بڑے بنگلے اور ان میں ان کی سجی سنوری بیگمات اور گاڑیوں پر اسکول جاتے بچے جوزی کو وہ کانچ کے کھلونے لگتے جن کو وہ صرف شوکیس میں دیکھ سکتی تھی۔
پہلے دن جب اس نے سفید لباس پہن کر ڈیوٹی جوائن کی تو اس کی ماں نے چرچ میں مٹھائی تقسیم کی اور مقدس مریم کی تصویر کے آگے اگر بتیاں جلائیں۔ باب بھی خوش تھا کہ جس ہسپتال میں سارا دن وہ اسٹاف نرسوں کی جھاڑیں کھاتا تھا اسی ہسپتال میں وہ ایک سٹاف نرس کا باپ ہے۔
روزی کب کی اپنے دفتر کی طرف سے دبئی جا چکی تھی اور ہر ماہ اس کے ابا اور اماں کی تنخواہ سے بڑا چیک ان کے نام بھیجا کرتی تھی۔ اس کے اسٹاف نرس بنتے ہی ماں نے اپنا حساب کر لیا۔ ابا تو پہلے ہی ریٹائر ہو چکا تھا۔
پہلے دن کی ڈیوٹی اسے بہت پُر لطف لگی کیونکہ ٹریننگ کے دوران وہ ہسپتال آتی جاتی رہتی تھی اس لیے یہاں کے ماحول سے نا آشنا نہیں تھی مگر وہ اعتماد جو ایک با اختیار ادارے میں تھا اسے یہاں آ کر مل گیا۔ ایک تو دل کی ہمدرد دوسرے کام میں یکتا بہت جلد ہسپتال میں اس کا نام گونجنے لگا۔ اس کی ڈیوٹی زچہ بچہ وارڈ میں تھی۔ دن میں کئی کئی بار اس کو مبارک وصول ہوتی کہ خدا کی طرف سے جو کیس اس کے سپرد ہوتا وہ سرخرو فارغ ہوتی۔ ڈاکٹریں اس سے خوش تھیں کہ سسٹر جوزی اپنے مریضوں کے لیے رحمت ہے مشکل سے مشکل کیس میں بھی وہ اپنے حواس قائم رکھتی تھی۔ ایک سے دوسرے، دوسرے سے تیرے وارڈ اس کے وارڈ بدلتے گئے اور ساتھ میں شہرت بھی۔ پڑھنے والے ڈاکٹر اس سے راہ نمائی لیتے اور بڑے ڈاکٹر اس کی موجودگی میں بڑے سے بڑا اوپریشن بھی بغیر کسی پریشانی کے کر لیتے۔ وہ مریضوں کی ہمدرد اور ڈاکٹروں کی ہمسفر بن گئی۔ مگر ایک جھجک جو شروع سے اس کے ذہن میں ڈاکٹروں کے متعلق تھی نہ نکل سکی اسے ڈاکٹر کے سامنے اپنا آپ مٹی کی گڑیا کی طرح محسوس ہوتا جو صرف ڈاکٹر کو دیکھ سکتی ہے۔ اگر کسی دن ڈاکٹر نے اسے چھو لیا تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ آج کل اس کی ڈیوٹی ڈاکٹر احسان کے وارڈ میں تھی ڈاکٹر احسان دل کے امراض کے ماہر تھے اور جوزی ڈاکٹر احسان سے بہت امپریس تھی۔ ڈاکٹر احسان بہت ہمدرد تھے اور اس کے اور ڈاکٹر احسان کے درمیان یہ اکائی ایک عجیب طرح کے بندھن کا پیش خیمہ ثابت ہوئی تھی جوزفین کے ماں باپ چند سال پہلے اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ بہن نے دبئی میں اپنے کرسچن کولیگ سے شادی کر لی تھی اب بس کبھی کبھی دبئی سے اس کا فون آتا تھا۔ جوزفین اپنے کواٹر کو چھوڑ کر نرسنگ ہوسٹل منتقل ہو گئی تھی۔ ہسپتال میں بھی اب وہ سینئر نرس کے طور پر مانی جاتی تھی۔
ڈاکٹر احسان اپنے گاؤں میں اکلوتے پڑھے لکھے شخص تھے جن کی شادی ان کی چچازاد پروین سے ہوئی تھی۔ پروین اور ان میں خیالات کا بہت فرق تھا مگر خداپرست احسان کو پروین سے کچھ خاص شکایت نہیں تھی۔ وہ جب کبھی شہر سے گھر آتے تو بے خوف پروین کو اس کے ماموں کے گھر چھوڑ دیتے جہاں اس کا ماموں زاد کھیتوں کی بنیر پر اس کا انتظار کر رہا ہوتا کیونکہ پروین اور وہ ایک جگہ کھیل کر جوان ہوئے تھے ویسے بھی پروین کی شہر میں دھوئیں سے بھری آنکھیں گاؤں جا کر جگمگ جگمگ کرنے لگتیں۔
ایک دن جب والد کے کہنے پر ڈاکٹر احسان خود ہی پروین کے ماموں کے گھر گئے تو انہوں نے عجب منظر دیکھا ڈاکٹر وہ تھے اور پروین اپنی دھڑکنیں ماموں زاد سے چیک کروا رہی تھی۔ انہوں نے وہاں ہی پروین کو آزادی کا پروانہ دیا اور خود اچھا دل کا ڈاکٹر بننے کے لیے برطانیہ کی راہ لی۔
واپسی پر جوزفین کا ہسپتال جوائن کرتے وقت ان کو شائبہ بھی نہ تھا کہ وہ ہسپتال ان کی زندگی میں کوئی نیا موڑ لے کر آئے گا۔ انہیں سسٹر جوزی پر اعتبار بہت تھا مگر دل کی دھڑکن میں سسٹر جوزی کا کوئی آہنگ نہیں تھا۔ وہ تو صرف اپنے کام میں مصروف تھے۔ ان کی عام سی شکل پر ان کے پیشے کا وقار ایک نور بن کر چھا رہا تھا۔ کچھ دن سے وہ دیکھ رہے تھے کہ جوزفین ایک مریض پر بہت توجہ دے رہی تھیں۔ نوجوان وسیم کو دل کا دورہ پڑا تھا اور ماں بیٹے کو لے کر ہسپتال آئی تھی۔ ماں کی آنکھوں میں انہونی کا خوف اور بیٹے کی آنکھوں میں جینے کی حسرت نے جوزفین کو جکڑ لیا تھا۔ وہ رات کی ڈیوٹی میں وسیم کی ماں کو سونے کا کہہ کر وسیم سے چھوٹی چھوٹی باتیں کئے جاتی۔ وسیم میں اسے وہ ان دیکھا بھائی نظر آتا تھا جس کا اس کی ماں مار تھا اور باپ جمیز کی باتوں میں اکثر ذکر سنتی جو پیدائش کے چند گھنٹوں بعد فوت ہو گیا تھا۔
رات ابھی شروع ہوئی تھی اس کی نائٹ ڈیوٹی تھی ڈاکٹر کا راؤنڈ ابھی باقی تھا کہ اچانک اسے وسیم کی ماں کی چیخ سنائی دی وہ ایک دم مڑی تو دیکھا وسیم کی سانس اٹک اٹک کر آ رہا ہے۔ اس نے دیکھا وسیم کو دوبارہ دل کا دورہ پڑا تھا اور اس کی سانسیں بند ہو رہی تھیں۔ وہ بے ارادہ وسیم پر جھک گئی وارڈ بوائے کے ساتھ مل کر اس نے وسیم کے سینے کو دبایا پھر اس کے منہ سے منہ ملا کر اسے سانس دلانے کی کوشش کرنے لگی۔ وہ پاگلوں کی طرح اسے مصنوعی سانس دینے کی کوشش کر رہی تھی کہ اسے ایک قے آئی جوزفین کا سارہ دہانہ قے سے بھر گیا اور وسیم کی سانس قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ڈاکٹر احسان ابھی ہی راؤنڈ کے لیے آئے تھے انہوں نے جوزفین کی حالت دیکھی تو وسیم کی نبض سے ہاتھ اُٹھا کر وسیم کے منہ پر چادر دیتے ہوئے اسے اپنے کمرے میں لے آئے۔ جوزفین بلک بلک کر رو رہی تھی پہلے تو وہ اسے دلاسا دیتے رہے۔ جوزفین نے غسل خانے میں جا کر اپنا چہرہ صاف کیا اور واپس کمرے میں آئی ڈاکٹر احسان اس کی مریض کو موت کے منہ سے لانے کی تگ و دو دیکھ چکے تھے۔ آہستہ آہستہ اس کے کاندھے کو دباتے رہے اور اس کا دل اتنے سالوں کے بعد آپ ہی آپ جوزفین کے گھٹا جیسے بالوں میں آ گیا۔
اگلے مہینے ڈاکٹر ایک اور ڈپلومہ کرنے ملک سے باہر جا رہے تھے تو جوزفین ان کے ساتھ عائشہ کے نام سے جہاز میں سوار تھی۔ عائشہ نے باقاعدہ اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد اسلام قبول کیا تھا کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے خیال کے مطابق کیونکہ جوزفین اہلِ کتاب تھی اس لیے اس سے نکاح میں کوئی برائی نہیں تھی مگر عائشہ کو اسلام میں برابری کی تعلیم نے متاثر کیا تھا۔ امریکہ جا کر اس نے اسلامی سنٹر میں داخلہ لیا اور اسلام پڑھنے لگی اور خود کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے لگی۔ ڈاکٹر صاحب کو اس کے مسیحا ہاتھوں کی رفوگری کی ضرورت تھی وہ اس سے بہت مطمئن تھے۔ زندگی خواب کی مانند گزرنے لگی ان کے خاندان میں تین سالہ سدرہ اور دوسالہ جویریہ کا اضافہ ہو گیا۔ ان جگمگ جگمگ کرتی آنکھوں والی بچیوں پر ماں باپ دونوں نثار تھے۔ ڈاکٹر صاحب بھی اور بڑے ڈاکٹر بن کر اسی ہسپتال میں دوبارہ آئے۔ بڑی سی ڈاکٹروں والی رہائش میں جوزی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس کو آج اپنی دونوں بچیاں شیشے کی گڑیا لگ رہی تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ ٹہلتی ہوئی اپنے پرانے کواٹروں کی طرف چل دی کواٹر مرمت نہ ہونے کے باعث پہلے سے بھی زیادہ حالت میں تھے۔ بچیاں مالی اور چوکیدار کے بچوں کو حسرت سے دیکھ رہی تھیں۔ اپنے گھر کے سامنے وہ اس طرح کھڑی تھی جیسے اندر آنے کی اجازت لے رہی ہو اچانک ساتھ والے گھر سے عبدل مالی کی بوڑھی بیوی برآمد ہوئی اسے دیکھ کر ایک دم بولی ’’اوہ تو جوزی ہے نا؟ میں نے تجھے پہچان لیا‘‘ اور یہ جیمز چوٹرے کی نواسیاں ہیں؟ بھئی اب تو تم لوگ پہچانے ہی نہیں جاتے۔ جوزی سن سی کھڑی سوچ رہی تھی کہ اماں حمیدہ کو عائشہ اور جوزی کے فرق کا شاید ابھی تک پتہ نہیں چلا۔
٭٭٭
دسترخوان
پانچ ستارہ ہوٹل جیسے آفس میں انیلا اپنے کمرے میں بہت مصروف نظر آ رہی تھی۔ ایک پرائیویٹ ادارے میں ہیومن ریسورس منیجر انیلا خوبصورت اور پراعتماد تھی اس کے اُوپر سونے پر سہاگہ اس کی غضب کی ڈریسنگ۔ جی ایم اس کو ادارے کا اثاثہ کہتا تھا۔ بورڈ میٹنگ میں فائلیں اُٹھائے جب انیلا داخل ہوتی تھی تو ایک دم بورڈ روم سج سا جاتا اور وہ اپنی فائلوں پر انہماک سے پین چلاتے ہوئے ایک دم کسی انگریزی فلم کی ہیروئن کی مانند نظر آتی۔ انیلا کو اس ادارے میں کام کرتے سات سال ہو گئے تھے۔ 32 سالہ انیلا کی پانچ سال پہلے شادی ہوئی تھی اور دو پیارے بچوں کی ماں تھی۔ دونوں بچے انگریزی اسکول میں نرسری اور پریپ میں پڑھتے تھے۔ شاہد جس سے اس نے بہت پیار سے شادی رچائی تھی دو سال پہلے امریکہ پرواز کر گیا تھا۔ وہ دو سال سے اس کے آنے کی منتظر تھی اور باقی زندگی امریکہ میں گزارنے کی متمنی۔ دفتر کا ماحول ٹھیک ہی تھا۔ ایک تو انیلا کی کام میں مہارت دوسرے با رعب حسن، لوگوں کو اس سے زیادہ فری ہونے کا حوصلہ نہ ہوتا۔ وہ بھی بس سر کے علاوہ کسی سے فالتو بات نہ کرتی۔ جس شام گھر جاتی تو آیا شہزا اور شائم کے ساتھ اس کا استقبال بلڈنگ کے گیٹ پر کرتی۔ وہ دونوں بچوں کی انگلی تھامے سیڑھیاں چڑھتی تو آیا اپنا تھیلا پکڑے گھر کی راہ لیتی جہاں اس کے دو بچے اس کے گھر اس کا انتظار کر رہے ہوتے۔
انیلا گھر آتے ہی بچوں میں محو ہو جاتی اور ان کے ہوم ورک چیک کرتی ان کو کھانا کھلاتی۔ صبح کے لیے اپنے کپڑوں کی تیاری کرتی ہوئی بار بار فون کی طرف تکے جاتی۔ شاہد کے فون کرنے کا یہی وقت تھا جب یہاں سورج ڈوبتا تو وہاں دھوپ بکھیرنے چلا جاتا شاہد اپنے کام پر جانے سے پہلے فون ضرور کرتا۔ اسے ابھی تک یہ پتہ نہیں تھا کہ شاہد وہاں کرتا کیا ہے۔ بس پہلے پہل جو چند ایک تصاویر اس نے بھیجی تھیں ان میں ڈانگری پہنے کسی سروس اسٹیشن کے باہر کھڑا نظر آیا تھا۔ اس کا فون اکثر اور ڈرافٹ بہت کم آتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں انیلا کی تنخواہ ان کے اخراجات کے لیے کافی تھی ہاں اس کے والدین کو اس کے بھیجے ہوئے پیسے بخوبی مل رہے تھے اور وہ کبھی کبھی انیلا کو کفایت کی تلقین کرتے بھی نظر آتے تھے۔ بہرحال انیلا اپنی زندگی سے ٹھیک گزارہ کر رہی تھی۔ دفتر میں اس کی عزت تھی ہاں کبھی کوئی چھوٹی موٹی بات ہو جاتی تو وہ پریشان سی ہو جاتی کہ اپنی بات کس کو بتائے شاہد کے فون بھی گھٹتے گھٹتے ہفتہ میں ایک دن رہ گئے تھے۔ کیونکہ شاہد اس کا یونیورسٹی فیلو تھا اس لیے اسے اُس سے چھوٹی چھوٹی بات شیئر کرنے کی عادت تھی۔ اب سردیوں کی لمبی راتوں میں بچوں کو سلا کر وہ یا تو پرانے گانے سنتی رہتی یا پھر دل ہی دل میں شاہد سے باتیں کرتی رہتی ’’اس نے اتنی دور کیوں اپنا ٹھکانا بنا ڈالا‘‘ ۔ وہ دونوں محنت کرتے تو فلیٹ سے بنگلہ تک آ سکتے تھے اگر نہ بھی آتے تو کم از کم زندگی اتنی بے رنگ تو نہ ہوتی بچوں کو پارک میں سیر کراتے ہوئے اکثر اسے گمان گزرتا کہ بال کے پیچھے شائم اور شائم کے پیچھے شاہد بھی بھاگ رہا ہے یا شہزا غبارے اُٹھائے شاہد کی انگلی پکڑے ہوئے چلی آ رہی ہے۔ کبھی کبھی تو اچانک دفتر میں اس کے کان میں شاہد کی ہنسی گونج جاتی اور کبھی کچن میں کام کرتے ہوئے اسے محسوس ہوتا کہ شاہد نے اس کے شانوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ہو وہ مڑ کر دیکھتی ایک پھیکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آ جاتی اور وہ دوبارہ بچوں کے لیے پیزا بنانے میں مصروف ہو جاتی۔
آج کل دفتر میں اسے ایک نئی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس کے باس اختر صاحب جو کہ کسی برانچ آفس سے پوسٹ ہو کر آئے تھے اس کے لیے اچھی خاصی سردرد بنے ہوئے تھے۔ برسوں سے کرتے ایک کام میں اس کی غلطیوں کی تعداد ایک دم زیادہ ہو گئی تھی۔ وہ جو بورڈ روم میں فارن ڈیلی گیشن کو پرزنٹیشن دینے کی ماہر تھی ایک دم اس کا معیار گر گیا تھا۔ اختر صاحب نے اس کے کام میں بے تحاشہ غلطیاں نکالنا شروع کر دی تھیں۔ وہ ساری ساری رات بیٹھ کر کام کرتی صبح ہوتے ہی وہ کام دوبارہ اس کی میز پر ہوتا اسے کچھ سمجھ نہ آتی کہ اب کہاں اس سے غلطی ہوئی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اختر صاحب نے اسے اپنے آفس بہت زیادہ بلانا شروع کر دیا تھا۔ وہ اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرتے اس کے ڈریس کی اس کے مینرازم کی تعریف کرتے مگر جہاں ان کے دفتر میں کوئی دوسرا داخل ہوتا اس کی شامت آ جاتی۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے اختر صاحب خواہ مخواہ ایک دم اس کی غلطیاں نکالنا شروع کر دیتے۔ کبھی اس کو سپیلنگ صحیح کرنے کا کہتے اور کبھی اس کی انگریزی غلط ہوتی۔ یہ تمام باتیں صرف دوسروں کے سامنے ہی ہوتیں اکیلے میں اختر صاحب اس سے بغیر پروں کے فرشتے جیسا برتاؤ کرتے۔
گھبرا کر وہ اور پریشان ہو جاتی شاہد تو تھا نہیں جو اسے اس مسئلے کا حل بتاتا۔ بچوں کی ضرورتیں اور فرمائشیں عمر کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی تھیں وہ ان کو پورا کرتے کرتے چڑ چڑی سی ہونے لگی تھی وہ مسکراہٹ جس پر پوری یونیورسٹی قربان تھی اب کم کم اس کے ہونٹوں پر نظر آتی۔ شاہد سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس نے ’’اپنے مسائل خود حل کرو‘‘ کا امریکی فارمولا اسے بتا دیا۔ ناچار ایک دن جب وہ اختر صاحب کے ہاتھوں اچھی خاصی بے عزتی کروا کر اپنے کمرے میں آئی ہی تھی اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں خرم اس کے کمرے میں ہلکی سی دستک دے کر آ گیا۔ خرم اس کے دفتر میں ہی اس سے ایک سینئرپوسٹ پر کام کرتا تھا اور چند دن پہلے ہی اس کے دفتر میں آیا تھا۔ بے تحاشا امپریسو پرسنیلٹی اور فرفر انگریزی بولتا ہوا خرم خواہ مخواہ ہی ہر جگہ چھا جاتا تھا۔ انیلا اس کی شخصیت سے مرعوب تو تھی مگر وہ خود اپنے رنگوں سے بھی آشنا تھی اس لیے کبھی اس سے دبی نہ تھی مگر اس دن اس نے خرم کی آنکھوں میں اپنے لیے ہمدردی دیکھی تو ایک دم تمام بندھ ٹوٹ گئے۔ وہ اختر صاحب کی برائیاں کرتے کرتے نہ جانے کیوں خود کو خرم کے قریب محسوس کرنے لگی ہمدردی کے بول جو کب سے اس نے سنے نہ تھے اس کے کانوں میں میٹھا میٹھا رس گھولنے لگے اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب یہ ہمدردی محبت اور کب عشق میں تبدیل ہو گئی۔ اس کی خالی زندگی کا جو خانہ شاہد کے جانے سے خالی تھا خرم نے پورا کر دیا۔
اس کی طبیعت پھر سے رنگوں میں لگنا شروع ہو گئی تھی۔ گاڑی غزلوں کی سی ڈی سے بھر گئی۔ دل ہوا میں اُڑنے لگا اور خرم حواس پہ چھانے لگا۔ کام کرتے سمے بھی کبھی چونک کر دروازے کو دیکھتی اور کبھی بے ارادہ خرم کا نمبر ملا کر فون بند کر دیتی۔ خرم بڑی باقاعدگی سے اس کے دفتر آتا اس کی بے معنی گفتگو بہت سے رنگ دکھانے لگی۔ اس کے چہرے پر چمک اور اس کی آنکھوں میں دمک آ گئی۔ شاہد کے فون کا انتظار اسے کم کم ہونے لگا۔ فون آتا بھی تو بچوں کی شرارتوں کے قصوں سے شروع ہو کر خاندان کی لڑائیوں پر ختم ہو جاتی۔ اپنے بارے میں کچھ کہنے کی فرصت تھی نہ ضرورت۔
انیلا ایک دم ست رنگ کی گوٹی بن گئی خرم کی خوبصورت باتوں اس کی توجہ اور اس کے پیار نے انیلا کو آسمان کا مکین بنا دیا تھا۔ اختر صاحب خرم کی وجہ سے مزید خائف رہنے لگے جو جام وہ خود پینا چاہ رہے تھے ان کے ہاتھوں سے کسی نے چھین لیا تھا۔ پورے دفتر میں عشق مشک بن کر پھیل گیا تھا۔ انیلا نیلے پروں والا مور بن گئی تھی۔ دفتر میں افسران سے لے کر سٹاف تک انیلا کے رنگ دیکھ رہا تھا۔ خرم کے کمرے سے جاتے ہی کبھی ساجد صاحب کبھی اکرم صاحب اور کبھی عقیل صاحب اس سے گپ لگانے آنے لگے تھے۔ سب خود کو خرم سے زیادہ با وفا ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے۔ انیلا کو خرم کی وجہ سے ان کی میزبانی بھی کرنی پڑتی۔ اگر اس سمے خرم اس کے کمرے میں آتا تو اس کا منہ بن جاتا تھا۔ وہ کوئی طنزیہ جملہ کہتے ہوئے کمرے سے چلا جاتا۔ وہ ذہنی طور پر خرم سے اس قدر قریب ہو گئی کہ ایک دن اس نے خرم کو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ شاپنگ مال میں دیکھ کر عجیب طرح کا دکھ محسوس کیا۔ گھر آ کر وہ دیر تک روتی رہی اسے خرم کا خوش و خرم وجود اور بیوی پر والہانہ نثار ہونے کی ادا بالکل ہضم نہیں ہوئی خرم نے وہاں اسے اس طرح نظرانداز کر دیا کہ جیسے وہ کسی جنم میں آشنا ہی نہ تھے۔ جب دفتر کی سرگوشیاں طعنوں میں تبدیل ہونے لگیں تو خرم کو ہوش آیا۔ وہ تو خرم کے پیار میں اس قدر گُم تھی کہ خرم سے ایک دن کی جدائی کا سوچ کر اس کی سانس رُکنے لگتی۔ وہ سارا دن آنسو بھری آنکھوں سے بولائی بولائی سی پھرتی خرم اس کا پہلا عشق بن گیا دوسرا عشق بہرحال اس کے بچے ہی تھے۔ وہ ان سے غافل نہیں تھی۔ شاہد ایک چکر لگا کر پھر چلا گیا تھا اس نے شاہد کے پاؤں تک پکڑے کہ وہ نہ جائے کم از کم اسے ساتھ لے جائے یہ شاید اس کی شادی بچانے کی آخری کوشش تھی مگر شاہد کے ماں باپ کا مکان تعمیر کے آخری مرحلے پر تھا اور شاہد کے دل کے مکان کا مکین شاید کوئی اور ہو چکا تھا۔ اس کے بعد اس نے شاہد کا خیال دل سے نکال دیا اس نے کیا نکالا اس کا دل تو اس کا رہا ہی نہیں تھا۔ وہ تو صرف خرم کی تان پر رقص کرتا تھا۔ اسی کی پوجا کرتا ہر دم اس پر نثار رہتا محبت شاہد سے بھی کی تھی مگر وہ محبت صرف محبت تھی ہوش و حواس سے بے گانہ نہیں تھی اس میں اس نے اپنی شرائط پر شاہد سے شادی کی تھی خسارے کا سودا نہیں کیا تھا۔ شادی سے پہلے ان کے صرف دل ملے تھے ناز اٹھوانے کے سارے انداز اُس نے شاہد کو سکھائے تھے۔ جسم کی محبت نکاح کے بندھن کے ساتھ شروع ہوئی اور ایک احترام کے ساتھ چلی تھی مگر یہاں تو وہ اپنی رہی ہی کب تھی۔ اس کے اندر کا خلا اور خرم کی سحرانگیز شخصیت نے اس کا پندار تہہ و بالا کر ڈالا تھا وہ ہوش میں ہوتی تو اپنا اچھا برا سوچتی وہ تو بس جیسے خرم کی غلام تھی۔ خرم کہتا اس سے نہ ملو وہ اس کی دشمن ہو جاتی خرم کہتا اس کی عزت کرو وہ اس کے پیروں میں بچھ جاتی۔ نہ جانے وہ کون سا جذبہ تھا جس میں اس نے اپنی محبت اپنی عزت اپنا پندار سب کا سودا کر لیا تھا۔ نہ اسے خرم سے کسی بندھن کی تمنّا تھی نہ کوئی وعدے کے سنہری پنجرے میں جکڑنے کی خواہش بس دیوانگی۔ دفتر میں خرم نے ملنا کم کر دیا تھا۔ باہر وہ جہاں بلاتا اس کے پاس اُڑ کر جاتی ہاں خرم کی دیکھا دیکھی بہت سے لوگوں نے اس سے وہ رعایتیں مانگتا شروع کر دیں تھیں جو صرف خرم کے نصیب میں تھیں۔ اُڑتی اُڑتی خبریں یہ تھیں کہ خرم نے اس کی بابت کافی منفی خیالات رکھنا شروع کر دیے تھے اس کے سٹاف کے کچھ لوگ اس کو یہ خبریں بتاتے تو وہ ملنے پر خرم کی سحرانگیز آنکھوں میں ان کی سچائی تلاش کرنے کی کوشش کرتی سارے آفس کے لیے وہ ایک ایسا دسترخوان بن گئی جہاں دعوت عام تھی۔ افسران تو افسران کلرک تک اس کو پک ڈراپ کی سہولیات دینے کی کوششوں میں معروف رہنے لگے۔ خفیہ ملاقاتیں اب اتنی بھی خفیہ نہ رہیں۔ پارک میں یا کسی ریسٹورنٹ یا ہوٹل کے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے انہیں کوئی نہ کوئی دیکھ لیتا اور دوسرے دن یہ خبر چٹخارہ بن کر پورے دفتر میں پھیل جاتی۔ وہ صفائی دیتے ہوئے خود کو چور سا محسوس کرتی۔ اس نے اپنے آپ کو گوشہ نشین کر لیا تھا۔ شاہد سے تعلق واجبی سا رہ گیا تھا نہ اس کے فون پر اب دل دھڑکتا تھا اور نہ اس کی آواز کا سحر اس کے کانوں میں کوئی رس بکھیرتا تھا۔ بچے پوری طرح اس کی ذمہ داری ہو گئے تھے ہاں شاہد کے ڈرافٹ بدستور اس کے والدین کے نام آتے تھے۔ ماں باپ ایک کنال کی کوٹھی میں آسودہ زندگی گزار رہے تھے۔ اس کی کمپنی سے ملا فلیٹ اب ان کی نظر میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اس کا فلیٹ جو اب بقول ساس سسر کے کواٹر کہلاتا تھا اس کے لیے صرف وہی جائے پناہ تھا۔ ہاں وہ اس عشق بے لذت میں پوری طرح ڈوبی ہوئی خرم کی خواہشوں کی غلام بنی ہوئی تھی۔ اس کی آدھی تنخواہ خرم کے چونچلوں پر خرچ ہوتی تھی خرم کی برتھ ڈے پر مہنگا سا پرفیوم سونے کے کف لنک یا خوبصورت سا امپورٹڈ سویٹر جس کو پہن کر خرم دوسرے دن دفتر بھی جاتا۔ لوگوں کے استفسار پر اپنی امریکہ سیٹل بہن کا تحفہ بتاتا اس کی کسی برتھ ڈے پر خرم گلاب کے پھول یا کارڈ سے آگے نہ بڑھتا۔ ہاں ایک بار صرف اس کی فرمائش پر اس کے لیے کانچ کی ہری چوڑیاں لایا تھا جو اب ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی تھیں۔ ایک دن خرم کا پی اے اس کے پاس آیا وہ انیلا کے رعب اس کی عزت اور سب سے بڑھ کر اس کے خلوص سے بہت متاثر تھا۔ اس کے لیے ایک خبر لایا کہ صاحب عنقریب کینیڈا جانے والے ہیں۔
وہ ایک دم پریشان ہو گئی اس نے سوچا کہ جس کے بغیر وہ سانس ہی نہیں لے سکتی اس کی دوری کیسے برداشت کرے گی وہ اٹھی اور کسی کی پروا کیے بغیر خرم کے کمرے میں چلی گئی۔ خرم کے چہرے پر خوشی سے روشنی کی لہریں اٹھ رہی تھیں جہاز کا ٹکٹ اس کی میز پر دھرا تھا اور وہ اپنے اکاؤنٹ چیک کر رہا تھا۔
انیلا کی آنکھوں میں ایک دم آنسوؤں کی برسات اُمڈ آئی بھیگی آنکھوں سے اس نے سوال کیا کہ اتنی راز داری؟ تو خرم نے اسی دلنشین لہجے میں جواب دیا جاناں یہ سب تو تمہارے لیے ہے۔ یہاں کے لوگ، رسم و رواج سب کچھ ہمارے خلاف ہیں میں پہنچ کر تمہیں بھی بلا لوں گا۔ وہاں پر عشق کی کوئی حد نہیں کوئی پابندی نہیں۔ ہم کم از کم کھلی ہوا میں تو سانس لیں گے۔
خرم کتنی دیر اسے دلاسے دیتا رہا نئی دنیا کی سیر کراتا تھا اور اُٹھتے سمے اس کو ہاتھوں میں اپنا فون نمبر دے کر اسے Touch میں رہنے کا کہا وہ ابھی اس کے کمرے میں ہی تھی کہ خرم نے اپنا بریف کیس اُٹھایا اور کہا اوکے، جاناں! بہت سے کام ابھی باقی ہیں پرسوں میری فلائٹ ہے۔ جوں جوں خرم اپنی بلڈنگ کی سیڑھیاں اُتر رہا تھا توں توں اس کا دل بیٹھ رہا تھا۔ ’’پرسوں‘‘ برسوں پر محیط ہو گئی۔ خرم سے آخری ملاقات واقعی آخری ثابت ہوئی۔ دفتر اس کی ضرورت تھی عشق میں خود تو نہ مر سکی کہ دو بچوں کو اس کی ضرورت تھی مگر دل خود ہی چپ چاپ مر گیا۔ اپنے کمرے میں گوشہ نشین ہو گئی کام میں اور دل لگا لیا لوگوں کو جوگن کی ضرورت نہ تھی اور اس نے جوگ لے لیا تھا ترقی کا خیال دل سے نکال کر اپنی روزی کی تگ و دو میں لگ گئی۔ کئی برسوں بعد بھی کبھی دل کی کسک مجبور کرتی تو اُس نمبر پر فون کرتی ہے جس نمبر سے کبھی جواب نہیں ملتا تھا۔
٭٭٭
پہلی محبت آخری خط
سجاول۔
تمہارے نام یہ میرا پہلا اور شاید آخری خط ہے۔ ٹھہرو! خط شروع کرنے سے پہلے میں تمہیں اپنا تھوڑا سا تعارف کروا دیتی ہوں۔ میں بشریٰ یعنی کرموں نائی کی بیٹی جسے تم اور گاؤں کے سارے لوگ صرف بشی کے نام سے جانتے تھے۔ بہت پرانی بات تو نہیں مگر اگر گزاروں گی تو بیس صدیاں لگیں گی اور ان بیس صدیوں کی کہانی آج مجھے تجھے سنانی ہے۔
میرا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ میں تمہیں یہ کہانی سناؤں مگر تمہارے بھلے کو یہ کہانی سنانے پر مجبور ہوں۔ تمہیں وہ دن یاد ہے؟ جب چھوٹے سے قصبہ کی بڑی سی حویلی میں تمہاری بہن کی شادی تھی گاؤں سے تمہارے رشتہ دار تمہارے دوست احباب سب اس حویلی میں اکٹھے تھے اندر ڈومنیاں اور باہر رقاصائیں رقص کر رہی تھیں۔ میں اور میری ماں زنانے میں اور میرا باپ مردانہ میں کام کر کے ہلکان ہوئے جا رہے تھے۔ باہر کرموں اور اندر لڑکیوں میں ’’بُشی‘‘ کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ اور میں میرے پیروں میں جیسے پھرکی بندھی ہوئی تھی۔ تمہاری بہن کے پرانے جوڑے میں میری نئی چھب ہر ایک کو بھا رہی تھی سترہ سالہ بشی جگنو کی مانند کبھی ایک کونے سے لشکارہ مارتی کبھی دوسرے کونے سے چمکتی۔ ’’بشی مجھ کو پانی پلائیو‘‘ ۔ ’’ارے بشی چائے بن گئی کہ نہیں‘‘ ۔ ’’مٹھائی کا تھال دالان میں لے آ‘‘ اور تم اور تمہارے رشتہ کے بھائی بند بہانے بہانے سے اندر آتے اور دلہن کو دعائیں دیتے ہوئے اپنے لیے دلہنیں تاڑتے۔ اسی سمے نہ جانے تمہاری نظر کیوں مجھ بدنصیب پر پڑ گئی تم جانو سن سے ہو گئے قصور تمہاری نظر کا بھی نہیں تھا اور نہ میری چھب کا میں تمہیں کرنسی کا وہ نوٹ لگی جو تم اپنی کتاب میں رکھ کر بھول چکے تھے۔ ’’ ارے کرموں کی بیٹی ہاتھ کا مال پہ رنگ اور میں ابھی تک بے رنگ‘‘ یہ وہ احساس تھا جو مجھے دیکھتے ہی تمہارے ذہن میں آیا اور میں جو اب تک جوٹھے کھانے اور پرانے کپڑے پہن کر ہی اتراتی تھی۔ اِس نئی نکور نظر کی ایک دم اسیر ہو گئی۔ سجاول مجھے یاد ہے تمہارے مہندی رنگ کے کرتے کا گریبان کھلا تھا اور تمہارے ہونٹوں پر بہت ہی اچھوتا سا نغمہ تھا جو کہ میں نے کبھی ڈھولکی پر نہیں گایا تھا۔ شاید وہ نغمہ باہر رقص کرنے والی مغنیہ کے ہونٹوں سے نکلا تھا۔ تم نے مجھے ایک نا محسوس سا اشارہ کیا اور صحن کی طرف چلے گئے۔ حویلی کا صحن ویسی ہی پونم کے چاند کی روشنی میں چاندنی کا بنا ہوا دکھائی دے رہا تھا اور ہاں تم کھڑے کسی مسجد کے نئے نئے چونا ہوئے گنبد کی مانند چمک رہے تھے۔ میں اپنے ہاتھ کی چوڑی کی کھنکھناہٹ دباتی ہوئی ہولے ہولے تمہارے پاس آئی تھی اور سرگوشی میں پوچھا کہ سائیں کیا چاہیے؟ تم بالکل ہولے سے بولے ’’بہت پیاس ہے ٹھنڈے کنوئیں کا پانی‘‘ ۔ بس اُس دن سے میں کنواں بن گئی میں تمہارے چھوٹے چھوٹے وعدوں میں سرشار تمہارے لیے پانی بن گئی۔ تمہاری ماں کا دل اپنی خدمت گزاری سے میں نے جیت لیا اور مالکانی کو میری اماں کی بجائے میرا چسکا پڑ گ یا۔ اماں نے کھاٹ اور میں نے تمہاری حویلی سنبھال لی مالکن کو جسم کا آرام اور مجھے روح کا آرام مل گیا۔ ’’بشی سجاول کی قمیص استری کر دے‘‘ میں سجاول کے ڈھیر سارے کپڑے استری کر دیتی کرید کرید کر تمہاری پسند پوچھتی اور تمہیں پکا کر کھلاتی تم ذو معنی باتیں کر کے میری حوصلہ افزائی کرتے رہتے۔ تمہارے لمس کی خوشبو اور سرشاری کی لذت کبھی جانوروں کے باڑے میں اور کبھی صحن اور دالان میں میرے نصیب میں آتی۔ اماں میری شادی کی بات چوہدراہن سے کرتی تو وہ ایک مسکراہٹ سے کہتی ’’اتنی جلدی کیا ہے سجاول کے بیاہ کے ساتھ اس کا بیاہ کر دیں گے‘‘ اور اسماء بی بی کو تو آنے دو وہ میرا گھر سنبھال لے گی۔
تمہاری منگیتر اسما بی بی کو ایک آدھ بار میں نے دیکھ رکھا تھا وہ مجھے اپنی محبت کے آگے کچھ بھی نہ دکھائی دیتی اور تم بس زیر لب مسکرائے جاتے اور گہری نظروں سے مجھے دیکھے جاتے۔ کبھی کبھی میں اپنے گھر جاتی تو وہاں ساجی سے ملاقات ہوتی۔ دینو میراثی کا بیٹا ساجی باتیں بہت مزے کی کرتا تھا۔ ہم لوگوں کے گھر ساتھ ساتھ تھے۔ وہ اکثر کسی بات پر مجھے ہنسا کر نثار ہونے والی نگاہوں سے دیکھا کرتا تھا مگر میں جب سے تمہارے بے تاب نگاہوں کے حصار میں تھی اس کی نگاہیں بس بے بس سی لگتی تھیں وہ میرے قریب تھا میں اُس سے دور چاند کی جانب چکور کی مانند جس دن مالکن نے گہنے اجلوانے کو سنار کو گھر بلایا اور بڑے صندوق سے سامان نکال کر اسما بی بی کا ناپ منگوایا اسی شام تم نے مجھے کراچی لے جانے کا پروگرام بنایا۔ مجھے کسی سے کوئی غرض نہیں تھی تمہارے اور تمہارے دوستوں کے سنگ ہم رات ہوتے ہی کراچی پہنچ گئے۔ تمہارا کراچی والے بنگلے کی باتیں سنی اور دیکھا، باتیں تو باتیں تھیں وہ بنگلہ تو کسی محل سے کم نہیں تھا۔ سوچ آئی کہ تم لوگ گاؤں میں کیوں رہتے ہو مگر سمجھ اب آئی کہ کراچی والے بنگلہ کی بتیاں جلانے کو گاؤں کے لوگوں کے خون کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ خون ہماری شاہ رگ سے نکلتا تھا۔
قصہ مختصر کراچی کے حالات سے تم واقف تھے تم اپنی شادی کی خریداری کرنے آئے تھے اور میں تمہاری اور تمہارے دوستوں کی تجربہ گاہ۔ تم تینوں کا کھانا بھی بناتی اور دل بھی بہلاتی۔ یہاں آ کر میرے سر سے محبت کا بھوت فوراً ہی اُتر گیا جب تم نے راستے میں مجھے بھی فرنٹ سیٹ اور کبھی بیک سیٹ پر تبدیل کیا۔ بہرحال تم پندرہ دن بعد کراچی سے چلے گئے اور میرے دل سے بھی۔ شکیل اور شمائل نے مجھے کچھ دن استعمال کیا اور وہ بھی اِدھر اُدھر ہو گئے گاؤں میں تمہاری اماں نے چوری کا الزام لگا کر میرے گھر والوں کی اشک شوئی کر دی کہ وہ تمہارے ان کرتوتوں سے کب کی واقف تھیں۔ اب میں تمہارے شہر کے کواٹر میں چوکیدار عبدل کے زیرِاستعمال چیز تھی۔ عبدل صرف استعمال کرتا اور میرا کوئی خیال نہ کرتا۔ ایک دن جب عبدل کو پیسوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو اپنے جیسے دو تین اور لوگوں کو لے کر آ گیا۔ اس اثناء میں مجھے اپنا آپ بھی دو محسوس ہونے لگا۔ پتہ نہیں اب یہ کون تھا جو کہ اس بچے کا باپ تھا۔ تم تمہارا کوئی دوست یا پھر عبدل اور اس کے جاننے والے۔ یہ فیصلہ صرف رب کی ذات ہی کر سکتی ہے۔ جس دن عبدل کے دوست واپس گئے اسی دن میں نے ایک فیصلہ کر لیا کہ میرا جسم ہے اس سے میں کماؤں گی۔ ساجی کا نمبر میرے پاس تھا کسی خوش کن لمحے میں یہ نمبر میرے بٹوے میں پڑا رہ گیا تھا۔ میں نے ساجی کو کراچی بلایا اور اس کے ساتھ عبدل کی کوٹھری سے نکل گئی۔ ساجی کو کام کی عادت تو نہیں تھی مگر میری حالت دیکھتے ہوئے اس نے مزدوری کا کام پکڑ لیا اور اس کی یہ عنایت اسے تمام عمر کی روٹیوں سے فراغت دے گئی۔ ہاں تم نے جو مجھے پہلی عید پر سونے کے بُندے دیے تھے وہ میری کھولی کا آسرا بن گئے اس ہی کھولی میں میں نے شاید تمہاری بیٹی عالیہ کو جنم دیا اور باپ کے خانے میں ساجی میراثی کا نام لکھوایا۔ وہ ساجی جو شاید زندگی بھر باپ کے نام سے نا آشنا ہی رہے گا۔ بہرحال تم نے روزی کمانے کا جو راستہ دکھایا تھا عالیہ کے بعد میں تن بدن سے اس پر چل پڑی۔ جب میں نے اس کام کو پیشہ کے طور پر اختیار کیا تو کاروبار کے سارے گُر سیکھے۔ کھولی سے شروع ہونے والا کاروبار ایک کوٹھی پر جا کر ختم ہوا۔ ساجی اچھا نگران ثابت ہوا اُسے صرف اپنے کمیشن اور نشے سے رغبت تھی۔ وہ اپنی لچھے دار باتوں سے دو نمبر مال کو بھی پورے داموں بیچنے کا گُر جانتا تھا۔ اس کے اندر ایک پیدائشی فنکار تھا۔ اس نے مجھے تصویر بنا دیا۔ بچی کے لیے ایک اچھی آیا کے فرائض انجام دیتا اور جلد ہی کھولی سے دو کمرے والے گھر میں آ گئے۔ عالیہ اب اس کی پوری ذمہ داری تھی اور میں سارا دن کمرے میں مختلف فیشن آزماتی اور خود کو خریدار کے سامنے بہترین انداز میں ڈھالنے کے انداز سیکھتی۔
گانے گنگنانے اور ناچنے کے انداز ٹی وی نے سکھائے اور اردو انگریزی بول چال کے لیے ایک استاد صاحب کی خدمات حاصل کیں۔ در اصل اُستاد تو وہ عالیہ کے تھے مگر میرے پاس بیٹھنے کے شوق نے میری انگریزی اور اُردو بھی بہتر کروا دی کہ چھوٹا موٹا لکھنا اور بولنا میرے لیے کوئی مسئلہ نہ رہا۔ میری شکل تو تم نے دیکھ رکھی ہے، مگر اُس کو سنبھالنا، بنانا اور سجانا ساجی میراثی کی کار کردگی ہے وہ اس ڈھنگ سے میری سج دھج کراتا ہے کہ بڑی بڑی اشرافیہ میرے آگے مات ہے۔ عالیہ کو میں نے بورڈنگ ہاؤس میں داخل کروا دیا اس لیے نہیں کہ میں اُسے اس ماحول سے نجات دلانا چاہتی تھی بلکہ اس لیے کہ میں اسے یہ کام اس سیڑھی سے شروع کروانا چاہتی تھی جہاں میرے قدم رکیں۔ اس کی اس بہترین تربیت میں میرے علاوہ ساجی کا بہت ہاتھ ہے تم کو پتہ ہے ہم کمی کمین لوگ فطرتاً کمینے ہوتے ہیں۔ بے مروتی اس نے میرے سے اور بے شرمی اُس نے ساجد سے لی ہے۔ خوبصورتی کچھ تو اس کو شاید تمہارے خاندان سے ملی ہے یا تمہارے اُن اعلیٰ خاندان کے سپوتوں سے جنہوں نے پندرہ دن میرے ساتھ گزارے بہرحال میں تمہاری شکرگزار ہوں۔ چند سال پہلے یہ دھندا میں نے چھوڑ دیا ہے۔ آخر عمر بھی کوئی چیز ہے۔ مال کی ٹھیک قیمت نہ ملے تو دوکان بند کر دینی چاہیے۔ تمہارے کرم اور عنایت سے ڈیفنس میں کوٹھی ہے تمہارے جتنی بڑی تو نہیں مگر کافی ہے۔ بنک بیلنس ہے اور ساجی کی مہربانی سے ایک چھوٹی سی کمرشل بلڈنگ ہے۔ عالیہ وہ تو شطرنج کی گوٹی ہے ساتوں رنگ اس کے پورے ہیں۔ تم شاید غائب ہو گئے ہو یا تمہاری طنابیں اب اسما بی بی کے ہاتھ میں ہیں، نہیں تو ضرور جان جاتے کہ ’’بشریٰ بی بی‘‘ کی بیٹی عالیہ عرف عینی ایک بہت بڑی ماڈل ہے اچھے کالج سے تعلیم، فرفر بولتی انگریزی باہر سے وکالت بھی پاس کر آئی ہے۔ اس کو اپنے حقوق کی حفاظت کا پتہ ہے۔ اس کا دل بھی اس پیشے میں لگتا ہے وہ وہاں سے شروع کر رہی ہے جہاں سے میں نے ختم کیا ہے۔ ظاہر ہے اس کی منزل کا تو تم سوچ ہی نہیں سکتے۔ گاؤں میں دھوبی نائی کی خوبصورت بیٹی کا انجام تو یہ ہی ہے۔ مجھے تم سے کوئی گِلہ نہیں مگر بجائے اس کے نہ تم مجھے کراچی لاتے نہ میں اپنی حیثیت پہچانتی۔ آج میری زندگی بھی تمہاری بلیک میلنگ اور تمہارے کسی کامدار کے ساتھ گزر رہی ہوتی۔ تمہاری اس نیکی کے عوض تمہیں ایک راز کی بات بتانا چاہتی ہوں۔
کل عینی کے ساتھ تمہارا معصوم سا بیٹا بلاول دیکھا اس کے انگ انگ سے نئے عشق کی خوشبو پھوٹ رہی تھی وہ عینی کے لیے دیوانہ ہوا جا رہا تھا اور عینی بھی اپنی معصوم آنکھیں جھپکا جھپکا کر اس سے کئی بار سنی ہوئی عشق کی واردات میں گم تھی جب بلاول چلا گیا تو مجھے اس میں تمہاری بہت جھلک نظر آئی۔ عینی کہہ رہی تھی ’’بشی مام یہ نیا مرغا ہے کافی امیر ہے کہو تو سوپ بنائیں‘‘ ۔ وہ اسی طرح گھما پھرا کر بات کرتی ہے۔ ویسے تو وہ آج کل کینیڈا کے ایک شہریت یافتہ کے ساتھ نکاح کر کے جانے والی ہے۔ صرف وہاں کی شہریت لینے کے لیے تم تو جانتے ہو ہمارے پیشے میں سو دشمن سو سجن مگر رہنا اُس نے اُن کے ساتھ بھی نہیں۔ اس کا اگلا ٹارگٹ کوئی اس سے بھی بڑی آسامی ہو گا۔ کیونکہ اپنے کام میں وہ ہر ہتھیار سے لیس ہے۔
تمہیں میں نے صرف اس لیے خط لکھا ہے کہ بلاول کو روک لو شاید عینی تمہاری کچھ لگتی ہو۔ مجھے یقین تو نہیں مگر شاید!!؟
بشی عرف بشریٰ
٭٭٭
فیک بُک
میں پینسٹھ سال کا گہرے بالوں والا ایک گریس فل آدمی ہوں۔ ساری زندگی گریڈ سولہ کی نوکری کر کے سترہ میں ریٹائر ہوا ہوں۔ پانچ سال پہلے میں نے کچھ پنشن سے ملنے والے پیسے سے جنرل سٹور کھول لیا تھا۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ یہ سٹور صرف حلال کی کمائی کا ہے کچھ پیسے میری اپنی ’’محنت‘‘ کے بھی ہیں جو سرکاری نوکری کی شاخوں سے جمع کیے۔ بہرحال پانچ سالوں میں وہ سٹور کہاں سے کہاں چلا گیا اس میں میرے سب سے چھوٹے بیٹے کا بھی ہاتھ ہے۔ وہ خوبصورت سمارٹ اور ذہین لڑکا ہے۔ خوش اخلاقی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اپنے بڑے دو بھائیوں کی نسبت میرا ہمدرد بھی ہے اور گاہے بہ گاہے میرے ساتھ بیٹھ کر مجھ سے بات بھی کر لیتا ہے۔ دونوں بھائی نوکری کرتے ہیں اور الگ رہتے ہیں۔ اِن سب کی ماں یعنی میری زوجہ ساٹھ سال کی عمر میں ’’ستری بہتری‘‘ دکھائی دیتی ہے۔ مجھ سے اکثر ناراض اور بچوں کی وجہ سے اکثر پریشان رہتی ہے۔ کئی کئی دن اپنے دونوں بیٹوں کے گھر جا کر ان کے گھر کا نظام ٹھیک کرتی رہتی ہے جو کہ بقول اس کے پھوہڑ بہوئیں ٹھیک نہیں کر سکتیں۔ اسی وجہ سے میرے بچے اکثر گلہ کرتے ہیں کہ میں ماں کا خیال نہیں رکھتا اور وہ ماں کے قدموں کی جنت ایک دوسرے کو تلاش کرنے کا حکم دیتے ہیں کیونکہ ان کی بیویاں جو کہ خود مائیں ہیں اپنے قدموں کی جنت کی زیادہ حفاظت کرتی ہیں۔ ایک برس بیشتر مجھے ہلکا سا انجائنا کا دورہ پڑا تھا مگر ورزش ٹھیک خوراک اور باقاعدہ علاج سے اب میں بہت بہتر ہوں بس ایک چیز ہے جو بڑھاپے کا احساس دلاتی ہے وہ ہے تنہائی۔ بیگم کے لیے یہ بات فضول ہے اس نے اپنے بڑے بیٹوں کے آنگنوں میں پناہ ڈھونڈ لی ہے اور میرے پاس ہوتے ہوئے بھی اس کے پوتوں پوتیوں کی آواز اس کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔
جب مجھے انجائنا کا اٹیک ہوا چھوٹے نے اسٹور سے فارغ کر دیا۔ ماں کا خیال انھوں نے مجھے گھر کے سٹور میں ڈالنے کا ارادہ کیا مگر میں کیونکہ سرکاری آفیسر تھا میں نے کوئی راستہ نکالا اور گھر میں چھت پر ایک اضافی کمرہ اپنے لیے بنوا کر اسے اپنے ذوق کے مطابق سیٹ کر لیا کیونکہ پیسے میرے اپنے تھے اس لیے کسی کو کوئی اعتراض بھی نہ ہوا۔ ہاں ایک جدید ماڈل کا لیپ ٹاپ میرے کمرے کی زینت بن گیا۔ میں اکثر اس پر بیٹھ کر لہو کی گردش رواں رکھا کرتا تھا۔ سیڑھیوں پر کسی کی آواز سن کر دوسرے پروگرام پر کلک کر دیتا تھا۔ میری بیوی آنے میں بھی وقت لگاتی تھی۔ تب تک میں کوئی اسلامی آرٹیکل پڑھ رہا ہوتا تھا یا اخبار کی سرخیاں دیکھ رہا ہوتا تھا۔ وہ بیچاری پرانے زمانے کی بی اے فیل تھی اسے پڑھنا تو آتا تھا مگر جدید لیپ ٹاپ وغیرہ اس کی سمجھ سے باہر تھے۔ اکثر کہتی تھی کہ آپ اب گھر پر بھی کام کرتے ہیں۔ اسے کیا معلوم کہ میں جس دنیا کی سیر کر رہا ہوتا تھا وہ میرے سے زیادہ میرے دل کے لیے فائدہ مند تھی۔ ایک دن جب میں شام کے وقت اپنے کمرے میں بیٹھا اپنے مشغلہ میں مصروف تھا اچانک ایک دم فہد میرے چھوٹے بیٹے کی آواز سنائی دی۔ میں ابھی ماہ رخوں کے جلووں میں کھویا ہوا تھا کہ وہ سر پر آ گیا۔ زیرِ لب مسکراتے ہوئے کن انکھیوں سے کمپیوٹر کی طرف دیکھا اور بولا۔ آپ سارا دن بور ہوتے ہیں کیوں نہ آپ کا فیس بک اکاؤنٹ بنا دیا جائے۔ آج کل ہر ایک فیس بک پر ہے۔ آپ سب سے کہیں جائے بغیر ملاقات کر لیں گے۔ میں نے کہا یار بنا دو اور وہ شریر آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے اکاؤنٹ بنانے لگ گیا ساتھ ساتھ مجھے بتانے لگا کہ اس طرح چیٹ ہوتی ہے اس طرح پروفائل چیک ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ وہ چلا گیا تو میرے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آ گیا میں فیس بک کا اتنا عادی ہو گیا کہ اکثر اپنے کمرے میں لوگوں سے بات کرتا میں نے اپنے عام فون کو سمارٹ فون میں بدل لیا تھا کیونکہ میں ہر وقت فیس بک پر رہنا چاہتا تھا۔ زوجہ کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالنے کا گُر بھی آ گیا تھا کیونکہ فیس بک پر مصروف رہنے کی وجہ سے اس بات پر بھی توجہ کم ہی ہوتی تھی۔ ایک دن میں نئے دوست بنانے پر سرچ کر رہا تھا ایک دم ایک فرینڈ کی ریکویسٹ آئی ایک خاتون رخسانہ نے مجھے فرینڈ ریکویسٹ بھیجی اور ساتھ میں میسج کیا کہ اسے ایڈ کر لوں۔ میں نے پروفائل چیک کیا تو اچھی خاصی دلکش عورت مگر تھوڑے بھرے جسم والی خاتون تھی۔ کمپیوٹر پر سرچ کرتے ہوئے مجھے بھی کافی اندازہ ہو گیا تھا اس خاتون کی عمر مجھے پینتالیس اور پچاس کے درمیان لگی۔ بہرحال میں نے چیٹ شروع کر دی وہ آہستہ آہستہ کھلنے لگی۔ اپنے گھر کے حالات بتاتے ہوئے اس نے بتایا کہ اس کا شوہر دبئی میں ہوتا ہے اور اس کو گھر کا خرچ وغیرہ ارسال کرتا ہے۔ وہ گھر پر اکیلی ہوتی ہے اس کی دو بچیاں ہیں جو کہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ایک یونیورسٹی میں دوسری کسی کالج میں ہے۔ بہرحال بات چیت کرتے کرتے ہم دونوں بہت فرینک ہو گئے۔ میں نے اس سے ریٹائرمنٹ کی بات چھپا لی اور اپنی نوکری میں ایک اور گریڈ کا اضافہ کر کے اسے بتایا۔ وہ خاصی امپریس ہو گئی تھی۔ اکثر میں اس سے اشارہ کنائیوں میں کوئی فرینک بات کرتا تو وہ جواب دینے میں نہ ہچکچاتی۔ ہم دونوں اس قدر قریب آ گئے تھے کہ ہم نے فون پر بھی باتیں شروع کر دیں تھیں۔ میں نے رات کو بھی اپنے کمرے میں سونا شروع کر دیا تھا۔ بیگم کے گھر سے جانے پر میں حوصلہ افزائی کرتا تھا اور خود گھر میں خوش خوش پھرا کرتا۔ دن میں کم از کم دو دفعہ اس سے بات کرتا اور بات کرنے کی خواہش میں اس کو بیلنس بھی بھجواتا۔ اس کی کھنک دار ہنسی مجھے اپنے دل میں جلترنگ بجاتی محسوس ہوتی۔ چہرے پر سرخی دوڑنا شروع ہو گئی تھی۔ بیمار دل اب بیمار نہیں رہا تھا۔ خوشی میری انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی بس ڈیڑھ مہینہ ہی گزرا تھا کہ مجھے یہ رفاقت ڈیڑھ صدی پر محیط دکھائی دیتی تھی۔ اس کی خوشی میری اس کے غم میرے ہو گئے تھے۔ میں بالکل نوجوانوں جیسی حرکتیں کرنے لگا تھا۔ اپنے کپڑوں اپنی صحت اور جسم کا پہلے سے زیادہ خیال کرنے لگا تھا۔ محبت اپنی پوری سرشاری سے مجھ پر طاری تھی۔ ایک دن سارا دن اس کا فون کوئی پیغام نہیں آیا۔ میں سارا دن گم سم سا رہا وہ نہ نیٹ پر تھی فون بند جا رہا تھا۔ میں ایسے پھر رہا تھا جیسے بغیر روح کا پرندہ اچانک دوسرے دن رات گیارہ بجے کے قریب وہ آن لائن ہوئی۔ سلام دعا کے بعد میں نے گلہ کیا کہ تم کہاں تھیں بولی بڑی کا یونیورسٹی کا داخلہ اور چھوٹی کی کالج کی فیس دینی ہے اور شوہر نے ڈرافٹ نہیں بھیجا وہ وہاں پر بیمار ہے کام پر نہیں جا رہا۔ میں اس کی پریشانی میں پریشان ہو گیا اور کہا جانِ من تم کیوں پریشان ہوتی ہو میں نے پوچھا تو ایک لاکھ اکیس ہزار کا بتایا اور کہا کہ ڈرافٹ آنے پر فوراً ارسال کر دے گی میرے بنک میں اتنی رقم موجود تھی میں نے اس کے فون نمبر پر Easy Paisa کے ذریعے دو قسطوں میں رقم اسے ارسال کر دی۔ وہ دن اور آج کا دن وہ آن لائن کبھی نظر نہیں آئی۔ وہ پونجی جو میں نے دوا دارو کے لیے رکھی تھی میں نے اس کے حوالہ کر دی ہے۔ میں پھر بیمار اور اس سے زیادہ بے قرار رہنے لگا ہوں۔ بیٹا شاید کچھ جان گیا ہے وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہے اور کچھ رقم میری جیب میں ڈال دیتا ہے اور اب کبھی کبھی میں سٹور پر چلا جاتا ہوں۔ بے مقصد خواتین کو دیکھتا رہتا ہوں شاید رخسانہ نظر آ جائے اب اس کا نمبر موبائل پر ملانے پر یہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں کا میسج آ جاتا ہے۔
٭٭٭
مٹی کی گڑیا
چھماں کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ کون تھی۔ پانچ سالہ چھماں کو صرف اپنے ارد گرد مٹی کے تودے نظر آتے تھے۔ ہوش سنبھالتے ہی اس نے اپنے چار بڑے بھائیوں اور اماں ابا کو دیکھا تھا وہ سب اس مٹی کے بڑے ڈھیر میں واحد حرکت کرتی چیزیں تھیں جن کی زندگی کا محور مٹی تھی۔ وہ سب اور ان سے ملتے جلتے بہت سے لوگ سارا دن مٹی کھودتے، مٹی گوندھتے اور مٹی کی اینٹیں بناتے۔ وہ بچپن سے مٹی سے کھیل رہی تھی جب جب اس کے بھائی مٹی ڈھوتے وہ ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے مٹی ان کی ٹوکریوں میں ڈالتی۔ جب وہ مٹی گوندتے وہ بھی کیچڑ میں چھلانگیں لگاتی اور ہاں جب اماں اور ابا اینٹیں تھاپتے وہ بھی کھلونے بنانے کی بجائے چھوٹی چھوٹی اینٹیں بنائے جاتی۔
جی ہاں وہ پتھاروں کے خاندان کی چھوٹی سی پتھاری تھی۔ سارا دن مٹی سے کھیلتے ہوئے بالکل مٹی کی گڑیا لگتی بھورے بھورے بالوں میں مٹی کی چمکتی ہوئی کرنیں مٹی کا گھر مٹی کے برتن مٹی کی چھت اور مٹی کا ہی روزگار۔ سارا خاندان دن کو کام کرتا اور شام میں ایک آدھ روٹی کھا کر سوجاتا۔ گرمیوں میں باہر سردیوں میں کوٹھری کے اندر وہ مٹی کی گڑیا اکثر اپنی ماں کے پہلو میں اور سب بھائی زمین پر پرالی پر سوتے ہاں جس دن اس کی ماں شام میں چارپائی کھڑی کر کے ہاتھ کے نلکے سے پانی نکالتی اور نہا دھو کر قدرے صاف کپڑے پہنتی وہ اُداس سی ہو جاتی کیونکہ اس رات وہ ماں کے ساتھ نہیں سو سکتی تھی۔ اس رات ماں شام سے غائب ہو جاتی تھی اور اسے با دلِ ناخواستہ ابا کے ساتھ سونا پڑتا تھا کیونکہ کوٹھری کی اکلوتی چارپائی ابا کی ملکیت ہو جاتی تھی۔ صبح کو جب اس کی ماں سوجے ہوئے ہونٹ اور آنسو بھری آنکھوں سے کچے صحن میں آتی تھی تو چند نوٹ ابا کی طرف بڑھا کر کہتی تھی کرموں قرضہ بڑھ گیا ہے یہ پیسے ٹھرّے میں نہ اُڑائیو آتے جاڑے لڑکوں کو قمیضیں دلانی ہیں۔ کرموں کھسیانی سی ہنسی ہنس کر کہتا زیناں تو پھکر مت کر اس بار کو بچوں کے کپڑے لے ہی آویں گے۔ مگر چار دن بعد ابا رات کو گھر سے غائب ہوتا اور اماں ساری رات اسے گلے سے لگائے سسکیاں لے رہی ہوتی۔
بھائیوں کا حال اس سے بھی بدتر تھا سارا دن کام اور رات کو آدھے بھرے پیٹ کے ساتھ جب سوتے تو صبح تڑکے ہی اُٹھ جاتے۔ اماں سے دو کی بجائے تین روٹی کی فرمائش کرتے اماں روٹیاں پکائے جاتی اور روٹی والی ٹوکری نہ بھرتی۔ ساتھ میں ابا آ کر چائے بناتا بڑا پیالہ اپنے لیے بھرتا اور چھوٹی چھوٹی پیالیاں چاروں لڑکوں کو پکڑا دیتا۔ ان کو جاڑوں میں بھی کام کرنا ہوتا اور گرمیوں میں بھی۔ چلچلاتی دھوپ کی گرمی میں اینٹیں تھاپنا اور جاڑوں میں ننگے بدن گارا بنانا صبر کا کام تھا۔ اس کی اماں اور دوسری عورتیں ساتھ ساتھ کام کیے جاتیں اور باتیں بھی۔ وہ بھی تو بھائیوں سے نئی نئی گالیاں سیکھتی کبھی اماں کے پاس جا کر تمام بھٹے کی عورتوں کے کرتوت سنتی۔ ہفتے میں جب مالک حساب کتاب کرنے آتا تو ایک آدھ کو حساب پورا کرنے اس کے پاس جانا ہی پڑتا اس کی اماں کیونکہ قدرے رنگ کی گوری تھی اور دوسری مزدور عورتوں سے بہتر تھی۔ اس لیے اس کا حساب زیادہ نکل آتا تھا اور اکثر دس بیس روپے فالتو مل جاتے تھے جو وہ ابا سے چھپا لیتی تھی۔ مگر باقی عورتیں گاہے بگاہے مالک کے پاس جانے کو نوکری کا حصہ ہی سمجھا کرتی تھیں۔ مگر آپس میں اگر کسی نے کسی کو چوڑی یا کنگن لے دیا تو سب سے پہلے تو لے کے دینے والے کی بیوی کو خبر ہوتی تھی اور سب سے آخر میں تحفہ قبول کرنے والی کے شوہر کو۔ اس رات تھکا ہوا شوہر خوب ٹھرّا پی کر آتا اور سارا غصہ بیوی پر اُتار کر اس کا کنگن یا چوڑی توڑ کر سوجاتا۔ چھماں کے گھر پہ ڈرامہ ذرا کم ہوتا کیونکہ ایک تو اس کی اماں کسی اور سے تحفہ وغیرہ نہیں لیتی تھی دوسرے وہ بھٹہ مزور کی بیٹی نہیں تھی اسے کرم دین کسی دوسرے گاؤں سے عشق کا جھانسا دے کر بھگا لایا تھا اور اس بھٹہ میں وہ پناہ گزین تھے یہاں کے منشی غلام کے بیٹے جو کہ کرم دین کا بیلی تھا اور پانچوں جماعت میں اس کے ساتھ پڑھتا تھا نے اس کے عشق کو پناہ دی تھی۔ وہ بھٹہ پر آ تو گیا مگر جانے کے سارے راستے بند تھے۔ کیونکہ جب چھماں کی ماں کو بھٹہ مالک نے دیکھا اس نے کرموں پر کرم کی بارش کر دی اسے ٹھرّے کی عادت ڈالی اُدھار کی لت لگائی اور پھر اُدھار چکانے کے عوض اس کے تمام خاندان کو مزدور بنا لیا یہ بہت پرانی بات تھی۔ اب تو چھمو کی ماں کو بھی لگتا تھا کہ وہ مٹی گوندھنے والے مٹی کی عورت ہے۔ مہینہ دو مہینہ بعد جب وہ عورت کے جون میں آتی ہے تو اصل میں وہ اس مٹی کی عورت کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کرموں کو یہاں آ کر ٹھرا پینے کا بہانہ مل گیا تھا کیونکہ جب چھموں کی ماں چارپائی کی اوٹ میں نہاتی وہ بازار سے ٹھرے کی بوتل لاتا اسے چڑھاتا اور ساری رات ہیر گا کر گزارتا۔ اسے ابھی تک چھموں کی ماں سے عشق تھا۔ وہ آہستہ آہستہ آواز میں زینب زینب کہتا رہتا۔ زینب جو کب کی جیناں ہو چکی تھی۔ کسی کو پتہ نہ چلتا کہ کس زینب کے فراق میں کرموں ساری رات روتا رہتا ہے۔ ہاں چھموں کے لیے عید کا دن اس دن ہوتا جس دن دادی آتی۔ کرموں کی بیوہ ماں کرموں کے بھٹے میں کام کرنے کے بعد شہر چلی گئی تھی وہاں وہ کسی بیگم کی کوٹھی میں کام کرتی تھی۔ دادی کے آتے ہی ان کی کوٹھری سج سی جاتی۔ دادی اپنے ساتھ آتے جاڑوں کے سب سامان لیتے آتی۔ پوتوں کے نئے لنڈے کے سویٹر کپڑے پوتی کے لیے نئی فراک چوڑیاں اور چھوٹی سی پلاسٹک کی گڑیا جو چھمو کے ساتھ آتے ہی مٹی کی بن جاتی۔ ہاں زیناں کے لیے اپنی مالکن کے ایک دو پرانے جوڑے دادی کی پوٹلی میں ہوتے جو کہ زیناں کوٹھری کے اکلوتے جہیز کے صندوق میں چھپا کر رکھ لیتی کیونکہ پتہ نہیں ابھی سال میں کتنی بار مالک کے پاسقرضہ لینے جانا ہے۔ ہاں کرموں جب بازار جاتا اپنے لیے کرتہ دھوتی لے آتا جو کہ عید کے بعد پھر مٹی کی ہو جاتی۔ زیناں اپنے بچائے ہوئے پیسے دادی کو دیتے ہوئے صرف چھماں کی چیزیں منگوائے جاتی۔ سردیاں گرمیوں میں اور گرمیاں برساتوں میں بدلنے لگیں۔ چھمو اب دوپٹہ اوڑھتی تھی اس نے ابھی بھٹہ پر برابر کام کرنا شروع نہیں کیا تھا۔ اماں کا بلاوا کم کم آتا تھا۔ بھائی بڑے ہو گئے تھے وہ ابا کا پورا ہاتھ بٹاتے تھے مگر قرضہ کم ہونے کی بجائے بڑھ گیا تھا کیونکہ بڑا بیٹا دوسرے بھٹہ مزدور کی جواں سال بیٹی کو بھگا کر لے گیا تھا۔ وہ کسی دوسرے بھٹہ پر چلے گئے تھے۔ دادی آئی ہوئی تھی زیناں چائے کے ساتھ پراٹھے بنا رہی تھی۔ گھی کا ڈبہ دادی لائی تھی کیونکہ بیگم نے رمضان کے شروع میں راشن دیا تھا۔ پراٹھوں کی خوشبو آدھی کوٹھریوں تک پھیلی ہوئی تھی کہ اتنے میں بھٹہ کا مالک ان کے گھر کی طرف آ نکلا۔ چھمو جو اب مٹی سے کانچ کی گڑیا بن چکی تھی دادی کی لائی ہوئی چوڑیاں ہاتھ میں پہنے پراٹھے بنا رہی تھی۔ افضل نے چھمو کو پراٹھے بناتے دیکھا تو وہاں چارپائی پر بیٹھ گیا۔ ایک پراٹھا کھا کر اُٹھا اور جاتے سمے کرموں کو بول گیا کہ اب تو تیری بیٹی بھی کام کے قابل ہے رات کو اسے میرے کمرے میں بھیج دینا روٹی بنا دے گی اور صبح سے میں اس کا ناوا بھی لکھ لوں گا بلا جو گیا ہے اس کی کمی پوری ہو جائے گی۔ دادی نے جو یہ سنا تو اس کے کان کھڑے ہو گئے آدھی روٹی چنگیر میں چھوڑ کر اُٹھ گئی۔ کرموں کو بولی میں شہر جا رہی ہوں تو سامان باندھ رکھ شام میں تجھے لے جاؤں گی۔
وہ جس بیگم کے پاس ملازم تھی وہ وکیل اور انسانی حقوق کی بحالی کا ادارہ چلاتی تھی اس کے پاس جا کر روئی حالات بتائے اور شام تک پولیس کی مدد سے اپنے بیٹے بہو اور بچوں کو وہاں سے نکال لائی۔ چھمو کو وہاں سے آنا بالکل نہ بھایا شکیل جو کہ اس بھٹہ پر کام کرتا تھا اس کے ساتھ اس کی آنکھ مچولی کافی عرصہ سے چل رہی تھی۔ شکیل کا وعدہ تھا کچھ پیسے جمع کر کے وہ اس سے باقاعدہ نکاح کر لے گا۔ اسے نکاح وغیرہ کا نہ کوئی شوق تھا نہ پتہ مگر شکیل کا شوق بہرحال اسے تھا۔ کبھی مٹی کے تودے کے پیچھے اور کبھی کسی خالی کوٹھری میں شکیل اسے جو شعر سنایا کرتا تھا وہ کسی کتاب میں ابھی نہیں چھپے تھے ہاں کبھی کوئی بالی کوئی کنگن یا گال کی لالی اس داستان کا کوئی باب کھول دیتی تھی تو چھمو بالکل نہ شرماتی کیونکہ اس کی سب سکھیاں اس تجربے سے گزرتی رہتی تھیں۔
سرونٹ کواٹر میں دو بندوں کی جگہ جب چھے بندے سمائے تو نازک مزاج بیگم بھی خود کو کوسنے لگی کہ اخباری بیان کے شوق میں کی گئی نیکی گلے میں پڑ گ ئی ہے۔ بہرحال دادی نے ایک دو دن سے کام بھی تن دہی سے کرنا شروع کیا اور بیگم کو بھی دلاسہ دیا کہ سب مزدوری ڈھونڈ لیں گے۔ زیناں کو ساتھ والے بنگلے پر کام دلوایا مگر اینٹیں تھاپنے والے ہاتھ روٹی نہ تھاپ سکے دیہاتی عورت شہری کام کا سلیقہ کیا جانے۔ دوسرے دن جواب مل گیا یہی حال باپ اور بھائیوں کا ہوا انہیں شروع سے ایک ہی کام آتا تھا مزدوری اور وہ بھی شہر کی ان کے بس کا روگ نہیں تھا۔ وہ صرف مٹی سے کھیلنا جانتے تھے۔ شہر کے کھلاڑیوں سے کیا کھیلتے ایک ہفتہ میں تھک ہار کر بیٹھ گئے۔
ایک رات جب دادی جگہ کی تنگی کے باعث بیگم کی کوٹھی میں سوئی ہوئی تھی سب نے مشورہ کیا اور اپنا سامان باندھ کر راتوں رات دوسرے بھٹے پر چلے گئے۔ یہاں کرموں کا ایک بیٹا پہلے سے رہ رہا تھا۔ دن چڑھے وہاں گئے تو ابا نے منشی سے رابطہ کیا۔ بیٹے نے باپ کی سفارش کی اور منشی کے چھمو کے دیدار سے معاملہ پکا ہو گیا۔ مالک کی جگہ یہاں چھمو کو منشی صاحب کی روٹی پکانے کا کام ملا۔ چھمو نے منشی کو دیکھا نئے فیشن کا پتلون والا منشی چھمو کو برا نہیں لگا بس ایک لمحہ کو شکیل یاد آیا تو دل نے کہا کام تو ہر جگہ ایک ہی ہے بھٹے بدلنے کا کیا فائدہ اور چارپائی کی اوٹ کر کے نہانے چلی گئی۔
٭٭٭
پانچ سال سے پانچ ماہ تک
گلنار باپ اور ماں کے ساتھ شیراز کی چھت پر سے گزری گرمیوں کی پونم کی رات سفید لباس کالے بالوں والا شیراز ایک دم گلنار کے دل میں کھب سا گیا۔ باپ کا ہاتھ پکڑ کر نیچے اتر آئی ماں بھی پیچھے ہی اُتر گئی۔ تینوں اس کی چھت کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ حیران ہونے کی بات نہیں گلنار کا باپ طالوت اور چنار جنات کی نسل سے تھے اور رات کے وقت کوہ قاف سے دنیا کی سیر کو نکلے تھے۔ گلنار ان کی اکلوتی بیٹی تھی بیٹی کو دنیا اور دنیاداری بہت پسند تھی۔ یہاں اترنے کی بھی یہی وجہ تھی کچھ دن سے ان کا راستہ شیراز کی چھت تھی۔ تینوں منڈیر پر بیٹھ کر شیراز کے متعلق بات کیا کرتے تھے۔ در اصل گلنار کو شیراز پسند آ گیا تھا۔ پسند کیا آتا وہ اِس آدم زاد پر عاشق ہو گئی تھی اور اس کو پانا چاہتی تھی۔ اکلوتی بیٹی کی ضد طالوت کو بھی مائل کیے دے رہی تھی مگر چنار کیونکہ ایک عورت تھی اس کو انسان کے لالچ کا کچھ کچھ اندازہ تھا۔ ٹال مٹول کئے جا رہی تھی۔ اس نے آج ایک فیصلہ کن میٹنگ بلائی تھی۔ شیراز بہت وجیہہ تھا اور جنات کی برادری میں اس کے جوڑ کا مشکل ہی تھا۔ دوسرے گلنار میں بھی ایک انوکھی ادا تھی۔ اس کی خوبصورت شکل ہر موسم کے ساتھ نئی چھب دکھاتی تھی۔ وہ سردیوں کی شاموں میں دھوپ کی طرح چمکتی تھی اور گرمیوں کی دوپہر میں ٹھنڈی چھاؤں جیسی ہو جاتی تھی۔ ہر موسم میں اس کی چھب انوکھی ہوتی تھی اس وقت شیراز کی خوابناک شکل کو دیکھتے ہوئے وہ لالہ کے پھول کی مانند لگ رہی تھی۔ باپ کا اس کی ہیرے جیسی آنکھوں کی چمک پر قربان جانے کو دل چاہتا تھا۔ ماں نے بھی اپنی لخت جگر کی شکل دیکھی تو بولی ایک بات میں بتا دوں تیرے باپ کے ساتھ میں پانچ سو سال سے ہوں اور ہم جنات میں بے وفائی کا تصور نہیں تجھے میں پانچ سال دیتی ہوں اگر یہ آدم زاد دل سے پانچ سال تیرے ساتھ وفا کرے گا تو میں تجھے معاف کر دوں گی بس ایک شرط ہے کہ اس کے گھر جا کر تو اپنی جنات والی طاقت استعمال نہیں کرے گی۔ گلنار بہت خوش ہو گئی باپ بیٹی کی خوشی دیکھ کر ویسے ہی نہال ہو گیا۔ سب سے پہلے تو انہوں نے شیراز کے محلے میں سب سے بہتر مکان تلاش کیا اور اسے خالی کروایا ایک دن طالوت ان کے گھر گیا اور بات کرتے کرتے اپنی اصل شکل میں آ گیا دوسرے دن گھر والے گھر خالی کر گئے۔ اِس خاندان نے اس گھر میں رہائش اختیار کر لی اور شیراز کے گھر سے رابطہ کیا۔ شیراز پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ گھر میں چوہوں سے زیادہ غربت ناچتی تھی۔ گھر کا واحد اثاثہ شیراز تھا۔ دن میں کسی دفتر میں کلرکی کرتا اور شام میں بوڑھے باپ کی کریانہ کی دوکان پر رہتا۔ بہت مشکل سے دو بڑی بہنوں کی منگنی ہوئی تھی۔ مگر شادی کا خرچہ نہ ہونے کے باعث ابھی بات ٹل رہی تھی۔ ماں کچھ عرصے سے پریشانی کی وجہ سے گھنیٹیا کی مریض تھی۔ بہرحال طالوت اور چنار دونوں نے دوسرے دن اس کے گھر اعلیٰ درجہ کی مٹھائی بھجوائی۔ محلے کا حلوائی پریشان تھا کہ پانچ کلو کا ٹوکرا کدھر گیا۔ اسی طرح گھر میں کوئی کمی نہ رہی۔ چند دن بعد گھر میں دعوت کی اور شیراز کے سارے خاندان کو بلایا بھرپور خاطر خدمت کی سارا گھر چاندی اور گلنار سونے کی چھب دکھا رہی تھی۔ اماں کا دل تو گھر کو دیکھ کر اور شیراز کا دل گلنار کو دیکھ کر اتھل پتھل ہو گیا۔ بہنوں کو کبھی اس کے بال سنہری تو کبھی آنکھیں شربتی اور بڑے میاں کو طالوت کا سونے کا کاروبار متاثر کر رہا تھا۔ یہ سمجھ نہیں آئی تھی کہ طالوت صاحب درمیانے درجے کے لوگوں کے محلہ میں کیا کر رہے ہیں۔ بہرحال گلنار کی شیراز سے پہلے منگنی اور پھر شادی ہو گئی۔ شادی خوب دھوم دھام سے ہوئی اتنا جہیز ملا کہ دونوں منگنی شدہ بہنوں کی شادی کی تاریخ اگلے ماہ ہی دھوم دھام سے مقرر کر دی گئی جہیز میں کافی کچھ نقد بھی ملا تمام جنات جو شادی میں شریک تھے گلنار کو سونے سے پیلا کر گئے۔ بھلا جنات کے لیے یہ سب چیزیں کیا مسئلہ تھیں۔ ہاں شہر کا کافی سونا ٹھکانے لگ گیا۔ شادی کے تیسرے دن ہی طالوت اور چنار حج بیت اللہ کا کہہ کر واپس کوہ قاف چلے گئے اور گلنار اپنے پانچ سال پورے کرنے کے لیے شیراز کے سنگ رہ گئی۔ پہلے مہینے ہی شیراز نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور گلنار کے تمام زیورات بیچ کر کاروبار میں پیسہ لگا دیا۔ اپنی دوکان کو جنرل سٹور میں بدلنے کے ساتھ ساتھ خود بھی کافی بدل گیا۔ صبح کا گیا شام کو گھر آتا اور گلنار بہشتی زیور پڑھ کر اچھی بیوی بننے کے جتن کرتی رہتی۔ تمام نندوں کو ایک دن ہی میکے کی یاد ستاتی۔ گلنار کا باورچی خانہ ڈھابہ بن جاتا۔ اگر وہ اپنی اصلی جون میں ہوتی تو اس کے لیے وہ کام چٹکی بجاتے کرنے والے تھے مگر ماں کی شرط کہ اپنی جون میں پانچ سال سے پہلے نہیں آنا۔ وہ عام لڑکیوں کی طرح کام کئے جاتی اور سوچتی کہ کیا واقعی انسان لڑکی اس قدر کام بھی کر سکتی ہے۔ ساس کو خوشنودی نندوں کی خوشی اور پھر بابا جی جو اب بابو صاحب ہو گئے تھے گلہ پر بیٹھتے تھے ان کی خدمت۔ ساس تو گویا جنت میں آ گئی تھی۔ سارا دن حکم چلاتی گھر کی صفائی کھانا نندوں کے کپڑے کی سلائی پھر بابا کی خدمت اور وہ بھی اکیلے کمرے میں۔ وہ جب کبھی بھی بابا جی کا کھانا لے کر جاتی یا صفائی کرتی بابا جی کے ایل سہگل کا گانا گائے جاتے اور اُس پر شفقت پدری کی بھرمار۔ کبھی اس کی کمر ناپتے تو کبھی سر پہ ہاتھ پھیر کر بالوں کی لمبائی۔ وہ بیچاری طرح دیے جاتی کیونکہ اگر ایک دن بھی بابا جی کا روشندان ہاتھ سے کھول دیتی تو بابا جی کے ہوش ٹھکانے آ جاتے۔ باہر آتی تو نندیں اپنے محلے کے لڑکوں کے لکھے ہوئے خط چھپاتیں حالانکہ وہ اندر کا مضمون بخوبی پڑھ سکتی تھی۔ مگر وہ کیا کہتی اس گھر کا مزاج ہی نرالا تھا ہر لڑکی ہر وقت عشق کے موڈ میں ہوتی اور عشق کے رنگ بھی برساتی چنریا کی طرح کچے پکے ہوتے تھے۔ آج عامر کا خط آیا تو کل آفاق کو اشارہ کیا۔ جب سے دونوں نندوں کو پیٹ بھر کے جہیز ملا تھا اور شیراز کی دوکان چل نکلی تھی باقی تینوں نندوں کے بھی وارے نیارے ہو گئے تھے روز محلے سے کوئی نہ کوئی رشتہ چلا آتا تھا۔ ساس کی نظر انٹرنیشنل ہو گئی تھیں۔ خدمت گلنار کرتی اور اماں مشاطہ کو باہر کے لڑکوں کے آرڈر دیے جاتی تین چار جماعتیں پڑھی نندوں کی پسند انگریزی فلمیں ہو گئی تھیں ماں کو جھانسا کہ کل کو باہر جانا ہے انگریزی اچھی ہونی چاہیے۔ ہاں رات گیارہ بجے سے صبح سات بجے کا وقت اس کا اپنا ہوتا تھا۔ شیراز جونہی سٹور بند کر کے آتا وہ کمرہ بند کئے اس کی بانہوں میں کھو جاتی۔ شکر ہے کہ وہ جن تھی انسان نہیں تھی ورنہ سارے دن کی مشقت کے بعد شیراز کے ساتھ وقت بتانا اس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا۔ وہ شیراز کو نئی چھب کے ساتھ دکھائی دیتی کبھی وہی نقوش اسے کترینہ جیسے نظر آتے اور کبھی کرینہ کی مانند شرارتی اداؤں سے اسے لُبھاتی۔ شیراز اکثر کہتا گلنار میں اتنا خوش قسمت ہوں کہ تم مجھے ایک میں ہزاروں دکھائی دیتی ہو۔ تم نے مجھے اور میرے گھر والوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ وہ سوچتی کہ پانچ سال گزرنے دو میں تمہیں شہر کا سب سے بڑا آدمی بنا دوں گی۔ شیراز کی دیوانگی ہر صبح اسے ایک نئے جذبے سے بیدار کرتی اور وہ اپنے محبوب کے گھر والوں کے لیے صبح پھر مائل بہ عنایت ہوتی۔ دن چڑھے ہی وہ اپنی ساس نندوں اور بڑے صاحب کے لیے رحمتوں کی برسات بن جاتی۔ ابھی چار مہینے ہی گزرے تھے کہ شیراز کے سٹور کے پاس ایک پرائیویٹ کالج کھل گیا لڑکے لڑکیاں اس کے سٹور پر چھوٹی موٹی چیزیں لینے آنے لگے انہی میں ایک لڑکی سمیرا بھی تھی۔ بڑے باپ کی لاڈلی مگر نالائق بیٹی۔ اسے شیراز اچھا لگا۔ وہ شیراز سے سودا خریدنے کے بہانے گھنٹوں اس کی دوکان پر بیٹھی رہتی شیراز بھی کام والوں کے حوالے دوکان کر کے اس سے میٹھی میٹھی باتیں کیے جاتا۔ اس نے اونچی شراب کا مزہ چکھ لیا تھا اور وہ سمیرا اسے اپنے لیول کی لگی۔ دل کی لگی کے لیے گلنار تھی مگر دل لگی بھی کوئی چیز ہے۔ ویسے بھی تمام دن دوکان پر رہ کر گھر کے چند گھنٹے بھی کوئی محبت ہے اور سب سے بڑی بات سمیرا کی چھب ایک ہی جیسی تھی نہ وہ ایشوریا لگتی تھی نہ دیپکا وہ صرف اور صرف سمیرا لگتی تھی۔ کالج کے یونیفارم میں لولی پاپ کھاتے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے سیدھے اس کے دل میں اُتر جاتی تھی اور وہ سارا دن اس کے ساتھ ہوتی۔ گلنار تو ماں کی پسند تھی مگر سمیرا تو اس کے اپنے دل کی چاہ تھی وہ بھی اشاروں کنائیوں میں بت اچکی تھی کہ اس کے والد کو کسی کاروباری لڑکے کی تلاش ہے۔ آج دس تاریخ تھی اس کی شادی کو پانچ ماہ ہو چکے تھے۔ آج اس نے سمیرا کے ساتھ ایک فائیو سٹار ہوٹل میں جانا تھا۔ اس نے اسٹور سے عالی درجہ کی پرفیوم کی بوتل پیک کروائی اور سمیرا کو فون کیا کہ وہ ٹھیک سات بجے اس ہوٹل میں پہنچ جائے۔ آج سمیرا کی سالگرہ تھی گلنار گھر کے ساے کام نمٹا کر بال کھولے تیار ہو کر چھت پر چلی گئی۔ اسے ماں یا باپ سے ملنا ہوتا تھا تو وہ اکثر چھت پر چلی جاتی تھی۔ ماں اور باپ پرواز کرتے آئے اور منڈیر پر بیٹھ گئے۔ آج انہیں اپنی بیٹی گلاب کی بجائے نرگس کا پھول لگ رہی تھی۔ ماں نے ملال سے اس کے بال سنوارے اور بولی بیٹا حالت بدل، آج تجھے ایک جگہ جانا ہے شرط وہی کہ تو صبر کر کے واپس آ جائے گی۔ گلنار جو کہ چند روز سے پریشان سی تھی۔ شیراز اب اس کے بدلتے رنگ دیکھ کر الجھ جاتا تھا کہتا تھا کہ لڑکیاں تو لاکھوں کا میک اپ کر کے پہلے جیسی لگتی ہیں تم کیا ہو بغیر میک اپ کے روز اپنی چھب بدل لیتی ہو۔ میں کس گلنار سے پیار کروں کترینہ سے یا ایشوریا سے۔ اس سمے اس کی آنکھوں میں سمیرا ہوتی اور گلنار کی آنکھیں جھیل میں کنول کا پھول بن جاتیں۔
اسے رات کی بات یاد آ گئی وہ اور ماں منڈیر سے اترتے ہی بہت خوبصورت اور ماڈرن لڑکیوں کی چھب میں آئیں۔ فائیوسٹار ہوٹل کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کا دل اَن دیکھے اندیشوں سے دھڑک رہا تھا۔ وہ اور اس کی ماں جب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ایک میز کی طرف بڑھیں تو دیکھا کہ شیراز والہانہ انداز میں سمیرا کا ہاتھ پکڑے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس سے عہد و پیمان کر رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں محبت کے وہ خزانے تھے جن کو وہ ہمیشہ ترستی رہی تھی۔ ہاں ستائش اس کی آنکھوں میں کئی بار نظر آئی جو اس کی خدمت کی شکر گزاریوں کی عوض تھی مگر محبت اُسے آج پہلی مرتبہ شیراز کی آنکھوں میں نظر آئی اور وہ بھی اس کے لیے نہیں وہ سُن سی ہو گئی۔ آتش جسم ہونے کے باوجود وہ آتش نہ سن سکی اس کی ماں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور تھوڑی دیر بعد وہ تینوں کوہ قاف کی طرف پرواز کر رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی کہ انسانی عورت بننا جنات بننے سے بہت زیادہ مشکل ہے۔
٭٭٭
اونچ نیچ
چھمو پانچ بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھی۔ جب اس کی دو بہنوں کی شادی ہو گئی تو اماں نے اسے کام پر ساتھ لے جانا شروع کر دیا۔ گیارہ سالہ چھمو کو بس اس قدر ہی پتہ تھا کہ ان کے محلے کی سب عورتیں صفائی کا کام کرتی تھیں اور نو بجے تک سب اپنے اپنے روٹ کی بسوں میں پھیل کر پورے شہر کا کوڑا کرکٹ صاف کرتی ہیں۔ جس علاقہ میں چھمو کی ماں کام کرتی تھی وہ شہر کا پوش علاقہ تو نہ تھا مگر زیادہ تر کاروباری لوگ ہی وہاں رہا کرتے تھے۔ کسی کا لوہے کا کارخانہ تو کسی کی پرچون کی دوکان۔ ان کی بیویاں کم تعلیم اور زیادہ رسم و رواج کی ماری ہوئی تھیں۔ چھمو کا باپ میونسپلٹی میں کام کرتا تھا۔ وہ صبح کو سڑکوں کی صفائی کرتا اور صبح صبح سڑک پر جھاڑو دے کر اُسے باقی دن کے لیے آنے جانے والی گاڑیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا تھا اور خود سارا دن یا تو حقہ گڑگڑاتا یا اپنے ساتھ کے ملازمین کے ساتھ تاش کی بازی جماتا۔ یہ چھمو کا باپ تھا مگر اس کی دو بڑی بہنوں کا باپ کوئی اور تھا اسی لیے اس کی ماں نے اپنی بڑی بیٹیوں کی شادی جلدی کر دی تھی۔ چھمو کی ماں ابھی تک اجنتا کی مورتی دکھائی دیتی تھی۔ اکثر بیگمات اسے صاحب کے گھر سے جانے کے بعد بلاتیں اور ان کے آنے پر اسے چلتا کر دیتیں۔ جب سے چھمو نے کام پر جانا شروع کیا تھا پکا دوپٹہ اوڑھا کرتی تھی کیونکہ اس کے محلہ میں اس قسم کی خرافات کی گنجائش نہیں تھی۔ ان کے محلہ کے زیادہ لوگ عیسائی تھے اور تقریباً سب لوگ ہی کام کرتے تھے۔ لڑکیاں جوانی تک ایک یا دو کپڑے اور لڑکے صرف ایک ہی کپڑا پہنتے تھے اکثر تو اس کا تکلف بھی نہیں کرتے تھے۔ ہاں سنڈے کے سنڈے چرچ جانے کے لیے خوب تکلف کیا جاتا تھا۔ گندے مندے بچے اس دن تیل سے بال چوپڑ کر آنکھوں میں سرمہ لگا کر اور لنڈے سے لایا ہوا مغربی لباس پہن کر خود پر اتراتے ہوئے چرچ جاتے یسوع کے گیت گاتے اور آتے سمے بدیسی مٹھائیاں ان کے ہاتھ میں ہوتیں جو انہیں سسٹرز نے خود اپنے گورے گورے ہاتھوں سے دی ہوتیں۔ چھمو کو اس لمحہ کا شدت سے انتظار رہتا کیونکہ گوری گوری سسٹرز اس کا ایک خواب تھیں۔ انہیں نہ چھمو کے کپڑوں سے گھِن آتی نہ اس کا سانولہ رنگ برا لگتا نہ ہی اسے گلے لگانے اور سر پر ہاتھ پھیرنے سے اجتناب ہوتا۔ اس کی ماں نسیم البتہ کافی سج دھج کر چرچ جایا کرتی اس دن وہ اپنا وہ خصوصی جوڑا زیب تن کرتی جو اس کی مالکن نے اپنا کوئی خفیہ کام کرنے کے عوض اس کو دیا ہوتا۔ وہ بھی ساس سے چھپ کر۔ نسیم دس گھروں میں پھرتی تھی اس لیے اس کے پاس محلہ کی معلومات کا وسیع خزانہ تھا۔ وہ اکرم صاحب کی بیوی کے چکر سے بھی واقف تھی اور صائمہ کی چٹھیاں بھی شکیل کو وہی پہنچاتی تھی مگر موبائل کے آنے سے اس کا یہ کام مندا ہو گیا تھا مگر پھر بھی تحفہ وغیرہ دینے کے لیے پھر بھی وہ ہی کام آتی تھی اور اِن کاموں کے عوض اس کی آمدنی میں اکثر اضافہ ہوتا رہتا تھا اور یہ آمدن خالص اس کی اپنی ہوتی تھی جس کو چرچ جاتے ہوئے وہ اپنے ہار سنگھار پر استعمال کرتی تھی۔ وہ اپنے خاوند کی نشے والی عادت سے بہت تنگ تھی۔ پہلا کماتا نہیں تھا دوسرا کما کر دیتا نہیں تھا۔ اس کی سج دھج سے لگتا تھا کہ وہ تیسرے کی تلاش میں ہے۔ چھمو کو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی وہ دو چھوٹی بہنوں کو گھر چھوڑ کر گھر گھر صفائی کے لیے جاتی تھی۔ ماں صاف صفائی کرتی وہ جلدی جلدی جھاڑ پونچھ کر فارغ ہو جاتی۔ ہاں اکثر گھروں میں باورچی خانہ سے ان ماں بیٹیوں کو دور ہی رکھا جاتا کیونکہ وہ دونوں باتھ روم کی صفائی بھی کرتی تھیں۔ حالانکہ عرصہ ہوا ٹوکری لے جانا انہوں نے چھوڑ دیا تھا، مگر ہاں گھر والوں سے اکثر آواز دبائے کان میں بات کرتے نسیم چھمو کو نظر آتی اور واپسی پر اس کے ہاتھ میں چند نوٹ بھی ہوتے جو وہ اپنے گریبان میں رکھ کر چھمو کو دو روپے والی قلفی کی رشوت دے دیتی۔ اب چھمو اپنے کام میں تاک ہو گئی تھی پاؤں میں پھرتی اور ہاتھوں میں دم آ گیا تھا۔ ماں زیادہ تر بیگمات سے گپیں ہانکتی اور وہ کام میں محو ہوتی۔ آج کل نسیم اکثر اسے جلدی گھر بھیج کر خود اِدھر اُدھر گھومتی رہتی وہ گھر جا کر روٹی بناتی بہنوں کو کھلاتی دینو کے نشے کی عادت کچھ زیادہ بڑھ گئی تھی۔ وہ روٹی کے ٹائم گھر آتا اور واپس جا کر کسی تھڑے پر سوجاتا۔ نسیم شام ڈھلے گھر آتی گنگناتی ہوئی جانے کن خیالوں میں کھوئی رہتی۔ چھمو اب اکثر اکیلے کام پر جانے لگی تھی۔ اچھا کھانے کو مل رہا تھا۔ دبلی سی چھمو ماں کی طرح خود بھی کھجراہو کی مورتی بنتی جا رہی تھی۔ ہاں مگر بیگمات اب بھی اسے باورچی خانے کی دہلیز پار کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ بیگم عقیل تو اس معاملے میں اور بھی آگے تھیں۔ ’’ اے چھمو غسل خانہ دھو لیا تو ہاتھ بھی دھو لیجو۔ عقیل صاحب کو خبر ہو گئی تو میری شامت آ جائے گی‘‘ ۔ ’تو اسی طرح ان کے بستر کو ہاتھ لگائے گی‘‘ چھمو چور سی بن جاتی۔ نہ باجی ایسے کیسے ہو سکتا ہے میں تو ہاتھ دھو کر اُٹھی تھی۔ وہ باہر نکلنے پر ہاتھ دھوتے ہوئے بڑبڑائے جاتی کام چل رہا تھا۔ ایک دن نسیم سرپر کپڑا باندھے لیٹی تھی۔ دینو صبح صبح صفائی کرنے نکل گیا تھا۔ دونوں چھوٹی بچیاں ابھی سورہی تھیں۔ چھمو جلدی کام کرنے چلی گئی تھی۔ اس کے خیال میں ابھی اسے واپس آ کر ماں کا خیال بھی رکھنا تھا۔ سب سے پہلے وہ عقیل صاحب کے گھر گئی۔ ان کا گھر سٹاپ کے پاس تھا۔ آج دروازہ خلافِ معمول عقیل صاحب نے کھولا بیگم عقیل کے ہاں دس سال کے بعد بھتیجا پیدا ہوا تھا وہ ہسپتال گئی ہیں۔ عقیل صاحب نے اس کے اندر آنے کے بعد بتایا۔ بچے بھی ساتھ ہی گئے ہیں۔ تو میں جاؤں؟ ٹھہرو میرا غسل خانہ دھو دو وہ جھاڑو لیے غسل خانہ میں گئی تو جانے کب کمرے کی کنڈی بند ہو گئی۔ عقیل صاحب نے کچھ اس طرح اس کی پذیرائی کی کہ وہ نوکر اور مالک کا فرق بھول گئی۔ اس بستر پر جس کو وہ ہاتھ دھوئے بغیر نہ چھوتی تھی اس کا تخت طاؤس بن گیا۔ عقیل صاحب نے اس کے حسن کی تعریف کے ساتھ اس کے ساتھ نبھانے کے اتنے حسین وعدے کیے کہ وہ اپنی خوشی سے عقیل صاحب کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کو تیار ہو گئی۔ کمرے میں سنائی جانے والی کہانی جب ختم ہوئی تو آدھا دن ڈھل چکا تھا اور لمبی مسافت کے بعد اسے بے تحاشہ پیاس لگی ہوئی تھی۔ وہ اُٹھی اور مور کی مانند شاداب و رقصاں کچن کی طرف جانے لگی۔ جونہی اس نے فریج سے گلاس بھر کر پانی نکالا تو ایک دم عقیل صاحب اندر آئے ’’کیا کر رہی ہو؟ تم نے فریج کو ہاتھ لگایا بیگم کو پتہ چلا تو وہ تو طوفان برپا کر دیں گی‘‘ ۔ وہ آنکھیں کھولے حیران سی عقیل صاحب کو دیکھتی رہی۔ پلٹ کر اپنا بڑا دوپٹہ اٹھایا کنڈی کھولی اور گھر کی راہ لی۔ ماں گھر میں نہیں تھی باپ اور بہنیں پریشان تھیں۔ ماں نے مذہب بدل کر تیسری شادی کر لی تھی۔ وہ تھوڑی دیر حالات کا جائزہ لیتی رہی پھر ہولے ہولے چرچ کی طرف چل دی، سسٹر مار تھا کی پناہ میں نن بن کر وہ اس اونچ نیچ سے آزاد ہو گئی تھی۔
٭٭٭
کیمیا گری
حجلۂ عروسی کے زرتار پردوں والی مسہری پر بیٹھی شمائلہ کی سیٹھ انجم سے کل ہی شادی ہوئی تھی۔ چاندی بدن شمائلہ یوں تو بہت خوبصورت نہیں تھی مگر اپنے ناز و ادا اور اپنے ابا کی دو ملوں کی مالک ہونے کے سبب اس میں سب گن آ گئے تھے۔ سیٹھ انجم کی یہ تیسری اور شمائلہ کی دوسری شادی تھی۔ سیٹھ انجم کی پہلی شادی تو اس کے سیٹھ بننے سے پہلے کی تھی جب وہ لانچ پر مال لے جایا کرتا تھا۔ اس کی دوسری شادی کاروباری شادی تھی جو اس نے برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے کے لیے کی تھی اور شہریت حاصل کرتے ہی وہ اُس شادی سے فارغ ہو گئے تھے۔ یہ تیسری شادی کیونکہ دو دلوں کا نہیں دو ملوں کا ملاپ تھا اس لیے اُمید تھی کہ کامیاب ثابت ہو گی کیونکہ سیٹھ انجم کی فیکٹری کے دھاگے کی شمائلہ کے باپ کو کپڑے کی مل میں ہمیشہ ضرورت رہتی تھی۔ اِدھر شمائلہ بھی اپنی یونیورسٹی کے زمانے کا ایک ناکام عشق بھگت چکی تھی بظاہر سمارٹ سے عدیل سے بیاہ کراسکے دو کمرے والے گھر کے روشندان سے اس کا عشق کسی چڑیا کی طرح پھُڑ سے اُڑ گیا تھا کیونکہ باپ نے غریب کلاس فیلو سے شادی کی وجہ سے صرف دعائیں اور اپنے قدموں پہ کھڑا ہونے کی وصیت ہی کی تھی۔ اردو ادب کا ماسٹر عدیل بمشکل ایک پرائیویٹ کالج میں لیکچرار کی نوکری ہی ڈھونڈ سکا تھا۔ وہی شعر جو شمائلہ کو عدیل کے ہونٹوں سے پھولوں کی طرح لگتے تھے اب پتھر کی مانند لگا کرتے تھے کیونکہ اس کی تنخواہ صرف دال روٹی دے سکتی تھی اور شمائلہ کو ویسے بھی دال روٹی کبھی پسند نہ تھی بہرحال عشق کا خاتمہ دو ماہ بعد ایک زور دار لڑائی پر ہوا اور شمائلہ اپنے باپ کے جہاز جیسے گھر میں اپنے سوٹ کیس کے ساتھ واپس آ گئی۔ ابھی گھر کے گیٹ پر وہ رکشہ سے اُتری ہی تھی کہ ایک مرسڈیز اس کے گیٹ میں داخل ہو گئی۔ سیٹھ انجم گاڑی سے اُترا چالیس سالہ انجم اپنی عمر کے مقابلہ میں کافی جوان بھی لگ رہا تھا اور ہینڈسم بھی اس کا دیہاتی پن اس کے امپورٹڈ سوٹ نے چھپا رکھا تھا باقی دولت کے آنے سے تمام شرائط خودبخود پوری ہو جاتی ہیں شمائلہ کے باپ نے اپنی پریشان بیٹی کو ایک نظر دیکھا زیر لب مسکرایا اور سیٹھ انجم سے تعارف کراتے ہوئے بولا ’’لُک شی از مائی ڈاٹر شی جسٹ ہیڈ بیڈ ایکسپیرینس بٹ شی وِل بی اوکے‘‘
(Look she is my daughter just had bad experience will be ok)
اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اندر چلا گیا۔ انجم کو وہ امیر زادی ایک ہی نظر میں تو نہیں مگر نظر کے ساتھ ساتھ دماغ پر زور دیا تو اچھی لگنے لگی دو بہن بھائی چھوٹا بھائی دماغی طور پر بھی چھوٹا۔ سب کچھ اسی بہن کا۔ شادی تو اس نے کرنی ہی تھی پھر شمائلہ کوئی خاص بری پسند نہ تھی۔ اِدھر شمائلہ کا باپ سیٹھ خادم بھی سوچ رہا تھا کہ انجم اگر نو دولتیا ہے تو کیا ہوا اس کی اپنی بھی دولت ایک پشت پہلے کی مرہون منت تھی ویسے بھی انجم کی پرانی بیوی پرانی رضائی کی مانند اس کی زمینوں پر تھی اور وہ صرف خاندانی دباؤ کی وجہ سے اسے چھوڑ نہیں رہا تھا۔ پھوپھا کی بیٹی اپنے باپ کے بارہ مربعوں کے ساتھ آئی تھی ویسے بھی عمر میں بڑی تھی۔ شمائلہ کو اس سے کیا خطرہ ہو سکتا تھا وہ انجم کو اپنے وسیع ڈرائنگ روم میں لے کر چلا گیا اور شمائلہ کو اشارہ کیا کہ وہ حلیہ درست کر کے وہاں ہی آ جائے۔ سیٹھ حاکم کی بیوی اس کے امیر ہونے سے پہلے ہی فوت ہو چکی تھی اس کے بعد اس نے بیوی کا جھنجھٹ ہی نہیں پالا پس سمندر کنارے والے بنگلے پر پارٹ ٹائم بیویوں کے ساتھ وقت گزار لیتا تھا اور وہ خواتین جو کہ اس کے دل کو بھی بہلاتی تھیں اور وقت پڑنے پر اس کے کاروباری ساتھیوں کا بھی خیال رکھتی تھیں۔ گھر میں گورنس تھی جو کہ شمائلہ اور اس کے چھوٹے بھائی کا خیال رکھتی ہاں سیٹھ خادم ہفتے کے دو دن باقاعدگی کے ساتھ اپنے بیٹے کے ساتھ گزارا کرتا تھا۔ اسے بیٹی سے بھی پیار تھا اسی لیے اس نے عدیل کے ساتھ اس کو شادی کی اجازت دے دی تھی، مگر اسے یقین تھا کہ ناز و آسائش سے پلی شمائلہ صرف چند دن ہی عدیل کے ساتھ گزار سکے گی وہ مطمئن تھا۔ اس کے نزدیک اگر کل کو اس کی بیٹی نے یہ کاروبار سنبھالنا ہے تو اسے ابھی سے اس کی تیاری کرنا چاہیے مگر بیٹی کی شاعرانہ مزاج طبیعت کو دیکھتے ہوئے اس نے سوچا کہ داماد کاروباری ہونا چاہیے۔ انجم میں کاروباری سوجھ بوجھ اور آگے بڑھنے کی صلاحیت تھی وہ اُسے کافی عرصہ سے جانتا تھا اور مطمئن تھا کہ وہ اس سے زیادہ امیر ہے اس لیے اس کے دماغی کمزور بیٹے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ چھوڑ دے گا۔ اس نے کافی منگوائی اور ساتھ ہی شمائلہ بھی پرانے محلے والا لبادہ اتارے جین اور سفید کرتی میں اپنے گھٹا جیسے بال کھولے اندر چلی آئی۔ انجم اسے دلچسپی سے دیکھنے لگا اس کی اُداس شکل اور گھٹا جیسے بالوں میں اس کی دلچسپی اتنی بڑھی کہ شمائلہ کو بھی بادل نخواستہاس میں دلچسپی لینی پڑی۔ شعروں کی جگہ ہیرے ملنے شروع ہوئے یونیورسٹی کنٹین کی کوک کی جگہ پانچ ستارہ ہوٹل میں شیشے کے جام میں مشروب بدلے اور آہستہ آہستہ شمائلہ کو محسوس ہونے لگا کہ محبت اگر کینڈل لائٹ ڈنر کی جگہ لوڈشیڈنگ میں مچھروں بھرا ڈنر دیتی ہے تو ایسی محبت سے باز رہنا ہی بہتر ہے۔ ویسے بھی محبت کا بھوت ایک رات کے مچھروں نے اُتار دیا تھا۔ وہ عدیل کو یاد کرتی تھی مگر انجم کی مرسڈیز میں غالب کی غزلیں سنتے ہوئے اسے اس طرح اداس رہنا بہت رومانٹک لگتا تھا۔ انجم اس کے دل کو شاد کرنے کے جتن کرتا اور وہ اور اُداس ہونے کی کوشش کرتی آخر ایک دن خوشی دوبالا ہو گئی جب انجم نے اسے ہیرے کی انگوٹھی پہنا کر اپنے چار کنال کے محل میں قید کر لیا وہ خوش تھی۔ ہر طرح کی آسائش اسے میسر تھی دونوں ملیں ایک ہو گئی تھیں اور ایک کے بعد دوسرا برانڈ مارکیٹ میں آ رہا تھا۔
وہ اکثر ہلکے رنگ کے جارجٹ یا شفون کے کرتے اور ساڑھیاں پہنا کرتی اور کھلے بال بھیگی بھیگی آنکھیں اسے اپنی کلاس کی زرق برق خواتین میں ممتاز کرتیں فل میک اپ میں بھی سادگی اور پرکاری کا تاثر دینا کیسے ہوتا ہے یہ گُر اُس کو آ گیا تھا۔ انجم اب کچھ کچھ سیاست میں دلچسپی لینے لگا تھا اکثر گھر پر یا دوسروں کے گھروں پر پارٹیاں ہوتیں شراب کے جام لنڈھائے جاتے پھر غالب میر اور جگجیت سنگھ کی غزلیں شمائلہ کا اُداس روپ قیامت ڈھا دیتا کیونکہ اس نے اردو ادب میں ماسٹر کیا ہوا تھا اس کے علاوہ عدیل بہت اچھا شاعر بھی تھا اس کی شمائلہ پر لکھی ڈھیروں غزلیں اسے یاد تھیں جب وہ کسی محفل میں انجم کی فرمائش پر کوئی غزل سناتی تو محفل میں ہلچل سی مچ جاتی۔
لوگ سیٹھ انجم کے گھر کی تقریبات کے دیوانے ہونے لگے۔ شمائلہ بھی اپنی ستائش کی عادی ہو گئی۔ یہ تعریف کا نشہ وہ نشہ تھا جو کہ خدا نے عورت کی مٹی میں ملایا ہے۔ ایک تو دولت دوسرے اس کے استعمال کا سلیقہ، شمائلہ دو آتشہ ہو گئی۔ دل سے کھیلنے کا کھیل اسے کھیلنا آ گیا۔ انجم ایک کائیاں انسان وہ شمائلہ سے پورا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ بڑے لوگوں کی محفلوں میں شمائلہ کے ساتھ آتا اس سے مہربانی کرتا اور یہ ظاہر کرتا کہ میری محبت کا دل ایسا ٹوٹا ہے کہ رفوگری کی ضرورت ہے۔ شمائلہ نے اس عجیب سے کھیل میں ایک دوسری طرح کی لذت محسوس کرنا شروع کر دی تھی۔ انجم کی عنایتوں کی بارش سے اگر کوئی کاروباری حریف بچ بھی جاتا تھا تو شمائلہ کی بھیگی نگاہیں قاتل ادائیں اور خوبصورت شاعری انسان کو بھاگنے کہاں دیتی تھی۔ شمائلہ بھی اس کھیل کو کھیلنے میں طاق ہو گئی تھی آخر محفلوں میں کوئی کب تک اس سے انجان بنتا۔ گرمیوں کی شام سمارٹ سی شمائلہ بال کھولے کالی یا سفید جارجٹ کی ساڑھی پہنے نازک شیمپئین کا گلاس ہونٹوں سے لگائے کوئی رومانی سا شعر گنگناتی تو دوسرے پر سحر طاری کر دیتی پھر تو ہر دل اس کے درد کا درماں کرنے پہنچ جاتا۔ شمائلہ کے دل کی رفوگری کرنے کو تیار ہوتا اور شمائلہ کو بھی ضد سی ہو جاتی جب تک وہ انسان اس کے قدموں میں نہ جھک جاتا وہ اپنے داؤ آزمائے جاتی۔ کینڈل لائٹ ڈِنر کشتی کی سیر پہاڑی مقام پر پکنک اور دوسرے ملکوں کے دورے شمائلہ دل جمع کرتی اور انجم دوست۔ شمائلہ اور انجم میں ایک طرح کا خاموش معاہدہ تھا کہ ایک دوسرے کے مفاد کا خیال بغیر کسی تکرار کے کرتے تھے۔ شام میں کینڈل لائٹ ڈِنر کسی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے افسر کے ساتھ ہے تو انجم کا باہر سے وفد آیا ہے۔ شومی تم اس کو اٹینڈ کرو اور شومی چاندنی رات میں چاند کی ڈولی میں بیٹھ کر ڈِنر اٹینڈ کرتی واپسی پر چاند میں ایک ہالے کا اور اضافہ ہو جاتا۔
دولت کے بعد دوسری منزل سیاست ہے شمائلہ کو اس کھیل میں مزا آنے لگا تھا۔ اور انجم نے چاندی تو بہت بنا لی تھی اب سونے کا محل کھڑا کرنے کے چکر میں تھا۔ آج کل ایک بہت با اثر قسم کے وزیر صاحب پر انجم کی نظر عنایت بہت زیادہ تھی۔ کئی مرتبہ گھر کی پارٹیوں میں آئے بھی تھے شمائلہ کی غزلوں کو سنا بھی تھا اور داد بھی دی تھی مگر پارٹی صدر سے ایم این اے کے ٹکٹ کی بات نہیں کر رہے تھے۔ انجم نے کافی بڑی رقم کی بھی آفر کی مگر پیسہ ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ان کا محکمہ ویسے ہی دودھ دینے والی گائے تھا۔ بس ان کا دل تو شمائلہ کی کالی آنکھوں میں اٹکا تھا۔ انجم کے لیے یہ بھی مسئلہ نہیں تھا مگر بات ٹکٹ کی تھی اگر شمائلہ کے بدلے بھی ٹکٹ نہ ملتی تو چاندی جیسی بیوی بھی ہاتھ سے جاتی اور رسوائی الگ۔
پھر رسوائی کا راستہ تو نوٹ روک سکتے تھے مگر شمائلہ کو بھی ضد سی ہو گئی تھی۔ وزیر صاحب گھر آتے شعر سنتے سر دھنتے اور واپس چلے جاتے۔ شمائلہ کا بس نہ چلتا کہ کسی طرح انھیں اپنی اس محبت کا یقین دلائے جو اسے عدیل کے علاوہ کسی سے ہوئی ہی نہیں تھی۔
ایک دن انجم کے گھر پارٹی تھی شمائلہ آئی بہار کے دنوں میں گلابی ساڑھی پہنے گلابی گلاب بالوں میں وہ لگائے بہار کا حصہ لگ رہی تھی۔ سب لوگ بہار کی آمد پر جام پر جام ٹکرا رہے تھے کہ اچانک وزیر صاحب کی طبیعت خراب ہو گئی انجم انہیں بیڈروم میں لے گیا اور شمائلہ ساتھ ہی چلی گئی۔ انجم تو شمائلہ کو کمرے میں بٹھا کر باہر آ گیا۔ تمام مہمانوں کو رخصت کیا اور دوسرے کمرے میں جا کر سو گیا۔ رات صبح میں بدل گئی کیونکہ قانون قدرت یہی ہے۔ صبح وزیر محترم نے کمرے سے برآمد ہو کر انجم کو بتایا کہ رات اس کی پارٹی لیڈر سے بات ہو گئی ہے اور کل وہ دفتر میں لیڈر سے مل کر ٹکٹ لے لے۔ یہ کہہ کر وزیر محترم تو اپنے گھر کو چل دیئے کہ بہت سے امور سلطنت ادا کرنے تھے۔ انجم نے کمرے میں دیکھا تو شمائلہ سرخ نائٹی میں بے سدھ سوئی ہوئی تھی اس کی خمار آلود آنکھیں ایک پل کو کھلیں اور انجم کو یوں لگا کہ اس کی چاندی جیسی بیوی ایک دم سونے کی بن گئی ہو اس نے ہولے سے بیوی کو کمبل اوڑھا دیا اور دروازہ بند کر کے خانساماں کو بولا بیگم صاحبہ کو ڈسٹرب مت کرنا رات دعوت میں بہت تھک گئی تھیں۔
٭٭٭
لاٹری
کالے عبائے سر پر حجاب اور آنکھوں میں شدید بے چینی یہ حلیہ تھا زینب کا یہ زینب کون تھی ہر گھر کی راز دار ہر درد کی درماں اور ہر مصیبت کا حل۔ تنگ و تاریک گلیوں میں گھنٹوں کا فاصلہ منٹوں میں ناپتی زینب کا بظاہر کوئی ذریعہ معاش نہ تھا مگر اس پُر آشوب دور میں وہ اپنے چار بچوں کو شوہر سے اچھا پال رہی تھی۔
میٹھی زبان اور خوش گفتار زینب کو کون نہیں جانتا تھا۔ ہر محلہ میں زینب کا آنا درد کا درماں سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ زینب وہ سکہ تھی جو ہر دوکان پر چلتا تھا وہ بڑے پیر صاحب کی خاص مریدنی تھی۔ گلے میں مالائیں اور ہاتھ میں دوچار کڑے زینب کو اور بھی با رعب بنائے رکھتے تھے۔ اس کے پیر صاحب شہر سے دور ایک بستی میں رہتے تھے اور زینب کی زبان ان کی تقریروں کا ورد کرتی رہتی تھی۔ گلی گلی محلہ محلہ پیر صاحب کی دھوم تھی پیٹ کا درد پیر صاحب کے حجرے کی خاک، نالائق اولاد پیر صاحب کا وظیفہ اور میاں کا معاشقہ پیر صاحب کی پھونک حتیٰ کہ اولاد کی کمی کو بھی پیر صاحب کے پیر چھونے سے ہی پیر بھاری ہونے کی نوید سنا دیتی تھی۔
زینب کا کام گھر گھر جا کر پیر صاحب کی کرامات بیان کرنا ہو گیا تھا۔ اس کی پہلی ملاقات پیر صاحب سے اُس وقت ہوئی جب اس کا شوہر ایک گاڑی تلے آ کر فوت ہو گیا تھا۔ وہ بھی پیر صاحب کا مرید تھا دہاڑی دار مزدور ہر روز اپنی کمائی سے پیر صاحب کے لنگر میں پیسے ڈالتا تھا۔ پھر پیر صاحب کو اس کی بیوی کی خبرگیری کیوں نہ بھاتی اُنھوں نے اپنی سُرمے سے کجلائی آنکھوں سے زینب کو تولا تو وہ اسے زیادہ کام کی دکھائی دی۔ زینب کا میاں تو صرف سٹہ کی پرچی والوں کو ہی پیر جی کی کرامات بتاتا تھا زینب تو دلوں کے حال پیر صاحب کو سنائے جاتی تھی۔ کس گھر میں بہو کو ساس نے تنگ کیا ہے کس کی جوان بیٹی پر جن عاشق ہے جو اس کی شادی نہیں ہونے دیتا اور کونسی بیوی اپنے شوہر کو پلو میں باندھنے کا شوق رکھتی ہے۔ زینب کو سب معلومات حاصل ہو جاتی تھیں۔ پیر صاحب نے زینب کو اپنے حجرے میں بلایا اور پھر زینب نے بچے بڑی والی کے حوالے کئے سر پر رو مال باندھا ہاتھ میں کڑے ڈالے اور چل دی۔ گھر بھر کی پیر کو آج نجمہ کی ماں نے بلایا کہ پیر صاحب سے تعویذ لادو کل عائشہ کی بھابھی کو نند بھاری لگی پرسوں غفوراں نے ساس کی سانس بند ہونے کا چلہ کروایا تو اس کے اگلے ہی دن ساس نے بہو کو ہمیشہ کی چھٹی کروانے کی خاطر پڑھا ہوا پانی منگوایا۔
چھوٹے موٹے ٹوٹکے تو زینب کو خود بھی آ گئے تھے۔ عذرا کے سر میں درد ہے تو چولہے کی خاک میں پیس کر ڈسپرین ملائی اور دو آنے کی گولی دس روپے میں عذرا کو دی۔ سلمیٰ کی ساس کے لیے تو ایک ہی نیند کی گولی کافی تھی ساس سوئی رہتی اور سلمیٰ اس کے آنے تک موبائل پر اپنے اسی کزن سے باتیں کئے جاتی جس نے رشتہ نہ مانگنے کی خاطر خود کو جھوٹا موٹا پاگل بنا لیا تھا کیونکہ سلمیٰ سے زیادہ خوبصورت اور امیر اس کے چچا کی بیٹی تھی۔ مگر آنکھ مچولی کھیلنے کو سلمیٰ بہرحال بری نہ تھی کہ اس کا رکشہ ڈرائیور شوہر صرف خرچہ دے کر ہی اپنے فرائض شوہریت ادا کرتا تھا۔
بات ہو رہی تھی زینب کی زینب میں یہ خداداد صلاحیت تھی کہ وہ ہر ایک کو دیکھ کر اس کے دکھ کا راز بتا دیا کرتی۔ جس دن پیر صاحب کے پاس جانے کا دن آتا اس دن وہ پیر صاحب کے گاہک کو ایسی ایسیکرامات سناتی کہ مرید پہلے ہی حملے میں چاروں شانے چت ہو جاتا۔ ساس کے لیے تعویذ بنانا ہے تو ہدیہ میں دو چوڑیاں کافی ہیں اور اگر نند پر جادو کروانا ہے تو کچھ ہزار میں کام چل جائے گا۔ جتنا بڑا کام اتنا ہی خرچہ۔ آخر پیر جی کے موکل مفت کام تو نہیں کرتے جنات کی تو خوراک بھی انسانوں سے زیادہ تھی۔ ایک چلہ میں ایک آدھ بکرا تو خرچ ہو ہی جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کالا کپڑا منوں گندم اور پیر جی کے طرح طرح کے نذرانے اور کام، وہ تو یوں بھی زینب کی بند مٹھی میں رہتے ارے سلمیٰ تمہاری بیٹی کی شادی جنات نے رکوائی ہوئی ہے عاشق جو ہیں اس پر۔ تم اس طرح کرو اکرم کی ماں سے بات کرو۔ اس لڑکے پر پیر صاحب کی مہربانی ہے۔ پیر صاحب نے اسے حصار میں لیا ہوا ہے۔ جھٹ بات بن جائے گی بس ذرا لڑکی کا صدقہ دینا ہے ایک ہزار کا نوٹ دے دو اور سلمیٰ بیچاری اسی خوش فہمی میں رہتی کہ اس کی سانولے رنگ اور موٹے ہونٹوں والی لڑکی پر شاید جن ہی عاشق ہے جبھی تو لڑکی رات کو اُٹھ اُٹھ کر باہر چلی جاتی ہے اور واپسی اس کی بھی اکرم کریانہ والے کی دکان پر سے ہوتی۔ ادھر اکرم کی ماں جو کہ بیٹے کا رشتہ کم آمدن کی اور زیادہ عمر کی وجہ سے نہ ہونے پر بے چین رہتی سلمیٰ کی لڑکی پر قربان جانے کو تیار تھی۔ جھٹ رشتہ ہوتا پٹ پیر صاحب کے وارے نیارے۔ ہاں اکرم کی ماں سال بعد بچہ نہ ہونے کی شکایت کرتی تو زینب جھٹ سے سلمیٰ کی بیٹی کو پیر صاحب کے پاس لے جانے کو تیار۔ ادھر اکرم دوکان پر گیا اِدھر زینب سلمیٰ کی دختر کو سہاگ والا جوڑا پہنا کر پیر صاحب کے حضور میں حاضر کر دیتی۔ جب وہ لڑکی اپنے زیورات میں سے کوئی چیز پیر صاحب کی نظر کرتی زینب چپکے سے اُٹھ کر دوسرے کمرے میں جا کر سو جاتی۔ ٹھیک ۹ ماہ بعد اکرم کی ماں اکرم کے گھر خوشخبری آنے کی مٹھائی محلے میں بانٹ رہی ہوتی۔ ہاں شاید بہو کو دوسرے بچے کے لیے بھی پھر پیر صاحب کے ہاں حاضری دینی ہوتی۔ پیر صاحب کا حجرہ جگہ ہی ایسی تھی کہ سب خواتین وہاں آ کر مراد پاتی دن میں دو گھنٹے پیر صاحب مردوں کو بھی شرفِ ملاقات دیتے تھے۔ پرچی کا نمبر انعامی بانڈ کا نمبر اور گھوڑے کا نمبر پیر صاحب کے نشانے سے بہت کم خالی جاتا تھا۔ شاید اس میں کرامات سے زیادہ قسمت کا ہاتھ تھا۔ بہرحال پیر صاحب کی بیٹھک اور زینب کے چار بچوں میں تینوں لڑکے اسکول میں پڑھ رہے تھے اور بڑی بیٹی شائستہ گھر کو اچھی طرح سنبھال رہی تھی۔ زینب معصوم تو نہیں تھی مگر اس کا حال بھی کبوتر والا تھا۔ وہ کچھ کچھ پیر صاحب کو جاننے لگی تھی۔ کیوں ساس نندوں کے جھگڑے پیر صاحب اس سے کرید کرید کر پوچھتے تھے کیونکہ پیر صاحب کو علاقے کے لونڈوں کی سب سرگرمیوں کی خبر ہوتی تھی اور پیر صاحب نے حجرے کے علاوہ ایک بنگلہ اچھی آبادی میں بنا رکھا تھا جہاں پیر صاحب کی صاحبزادیاں صاحبزادے اور پیرنی جی رہتے تھے۔ ایک بار کسی کام سے زینب وہاں ہو آئی تھی اور پیر جی کے ٹھاٹھ اس کی نظر میں تھے۔ حجرے کی آمدنی میں اضافہ اب زینب کے علاوہ دوسری مریدنیاں بھی کرتی تھیں تقریباً سارے شہر کے اکثر محلوں کے لوگ پیر صاحب کے پاس آتے تھے اب تو شہر کے پوش علاقے کے لوگ بھی کاروں میں بھر کر پیر صاحب کے پاس آنے لگے تھے۔ زینب سوچتی تھی کہ یہ امیر لوگ کونسا روگ پالتے ہیں کہ انہیں دعا دارو کے علاوہ اللہ والے کی پھونک کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیگمات تو بہرحال گاڑی سے اُتر کر جب حجرے میں جاتیں تو انہیں جاتی جوانی اور آتی سوتن کی فکر ہوتی۔ ان کے خیال میں یہ جو بال گر رہے ہیں وزن چڑھ رہا ہے یہ جلد ڈھلک رہی ہے یہ سب جادو کا کمال ہے جو میاں صاحب کی رکھیل اُن پر کروا رہی ہے اور پوش علاقوں کے مردوں کو بھی اپنی جاتی جوانی کی فکر ہی ہوتی بال تو وہ بھی کالے کروا لیتے تھے مگر کرتوت کالے کرنے میں جو مشکلات پیش آتی تھیں ان کا حل وہ پیر جی سے ڈھونڈا کرتے تھے۔
کام زور سے چل رہا تھا پورے شہر میں پیر صاحب کا ڈنکا بج رہا تھا اور پیر صاحب جن اتارنے والے پیر صاحب کے نام سے مشہور تھے۔ بے شک ان کا نام اولاد والے پیر صاحب کے طور پر بھی مشہور تھا مگر جن نکالنے میں پیر صاحب کو کمال حاصل تھا۔ اولاد تو چِلے کے بعد کبھی دوسرے اور تیسرے چِلے کی متقاضی بھی ہو جاتی مگر جنات کے لیے تو ایک ہی عمل کافی تھا۔ مڑے ہاتھوں پیروں والی لڑکی آتی اور صبح دم نکھرے چاند کی مانند چاندنی بکھیرتی جاتی۔ پیر صاحب کی شرط تھی کہ جب چلا پورا ہو جائے لڑکی کی شادی فوراً کر دی جائے کیونکہ جن کے آنے جانے کا کوئی پتہ نہیں ہوائی مخلوق ہے کبھی بھی ہوا کے جھونکے کے ساتھ آ سکتی ہے۔ زینب کو یہ کام کرتے چھ سال ہو گئے تھے لڑکے پرائمری سے ہائی اسکول میں آ گئے تھے بڑے نے میٹرک کر کے سڑک پر آلو چھولے کی ریڑھی لگا لی تھی۔ شام کو چھوٹے بھی اس کی مدد کرتے زینب کی بیٹی زلیخاں گھر میں ہوتی زینب کی اس پر کڑی نظر تھی بھائی بھی زمانہ دیکھ کر بہن کو دھیان میں رکھتے۔ وہ تمام دن گھر کا کام کرتی ریڑھی تیار کرتی اور پھر اس کے بعد کھڑکی کا پردا اُٹھا کر کھڑکی سے جھانکنے لگ جاتی۔ اس کے ہاتھ میں لذت تھی بچپن سے کھانے بنانے کی عادت آلو چھولے کی ریڑھی ایک چھوٹی موٹی دوکان میں تبدیلی ہو گئی آمدنی میں اضافہ ہو تو لڑکے نے محلے کے لڑکے شرفو کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ زلیخاں پانچ کلو چنے اُبال تو لیتی مگر ان کو اُٹھانا اس کے بس سے باہر ہوتا ایک دن شرفو چنے اُٹھانے میں اس کی مدد کر رہا تھا کہ اُس کا ہاتھ نہ جانے کہاں چھو گیا کہ زلیخاں پسینہ پسینہ ہو گئی چار گلاس پانی کے بعد بھی دل کی دھڑکن معمول پر نہ آئی تو ماں کو فکر ہوئی جب سے لڑکے کی کمائی میں برکت ہوئی تھی زینب نے باہر جانا کم کر دیا تھا۔ بہرحال بیٹی بیٹی تھی اس کی حالت دیکھ کر اسے پیر صاحب کے پاس لے گئی کورے کوزے کی مانند زلیخاں جس میں ابھی کنوئیں کا پانی نہیں گیا تھا پیر صاحب کو ایک دم بھا گئی۔ سر پر ہاتھ پھیرے پھیرتے کمر تک چلے گئے زلیخاں کو گدگدی ہوئی تو وہ پیر صاحب کا لحاظ کئے بغیر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگی پیر صاحب اس کی آنکھوں میں جھانک کر زینب سے بولے زینب تمہاری بیٹی پر تو سایہ ہے اسے تو چلہ کی ضرورت ہے۔ زینب ٹھنک گئی وہ چِلے کے ثمرات بہت دفعہ دیکھ چکی تھی اور پیر صاحب کے پورے کمالات اس پر ظاہر تھے۔ پیر صاحب آج رات ہی چلہ کاٹنے پر بضد تھے مگر زینب کی ایک ہی رٹ کہ جناب میرے پاس تو آج خدمت کے پیسے ہی نہیں۔ پیر صاحب نے بہت کہا کہ آپس کی بات ہے تم لڑکی کو گھر چھوڑ جاؤ صدقہ وغیرہ آتا رہے گا مگر زینب نہ مانی لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور گھر کی جانب چل دی۔ مگر جا کر اُس نے بیٹے کی دوکان پر سے شرفو کو بلایا اور بولی جا شرفو اپنی اماں کو بلا لا کل جمعہ ہے بعد از جمعہ زلیخاں سے تیرا نکاح ہے تجھے کوئی اعتراض تو نہیں نہ۔۔ ۔ شرفو ایک دم اس طرح ہو گیا جیسے لاٹری نکلنے کے بعد کسی غریب کی حالت ہوتی ہے۔
٭٭٭
چور لمحہ
انتہا سے بڑھی ہوئی حساسیت بھی زندگی کو عذاب بنا دیتی ہے۔ پونم کا یہی حال تھا۔ دُکھی افسانے پڑھ کر گھنٹوں رضائی میں سردیئے رونا۔ ٹی وی پر بُری خبر پڑھ کر کئی کئی دن افسردہ رہنا۔ پونم کے لیے معمول کی بات تھی۔ کالج سے آتے ہی وہ بستر میں گھس جاتی اور سردیوں کی راتیں مختلف رسالے پڑھتے ہوئے گزار دیتی۔ ٹی وی کے ڈرامے اسے سچ لگتے۔ ہیرو ہیروئن کے رومانس اسے بالکل ایسے لگتا جیسے یہی حقیقت ہے۔ اس کے والد اگر اس سے اونچی آواز میں بات کرتے تو اسے ایسے محسوس ہوتا جیسے وہ آواز اس کے کانوں کے بجائے دماغ میں لگی ہے۔ وہ ماں باپ کی تین بڑے بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اچھے کھاتے پیتے کاروباری لوگ تھے۔ دو بھائی شادی شدہ تھے اور بازار میں کاروبار کرتے تھے۔ ابا گلہ پر بیٹھا کرتے تھے چھوٹا کالج میں پڑھتا تھا۔ وہ پونم کا آئیڈیل تھا۔ ویسے بھی سارے گھر کو خوش اخلاقی اماں کی طرف سے ورثہ میں ملی تھی۔ دوکان بھائیوں کی خوش اخلاقی کی وجہ سے دن دُگنی رات چوگنی ترقی کر رہی تھی۔ گھر میں بھائیوں میں سلوک تھا اگر کوئی ان بن بھی ہوتی تو اماں کی معاملہ فہمی سے بہت سے مسائل ہو ہو جاتے ویسے بھی گھر کو جنت بنانے میں جس کنجی کی ضرورت تھی اماں وہ بنی بنائی کنجی تھیں۔ پونم کے اردگرد شانتی ہی شانتی تھی۔ جس میں اس کی حساسیت کو پناہ ملی ہوئی تھی۔ چھوٹے بھائی شہاب کے ساتھ اس کی دوستی بہت گہری تھی شہاب بھی اس کے ہر کام دوڑ دوڑ کر کیا کرتا تھا۔ رسالے لانے میں پیش پیش ریڈی میڈ سوٹ اس کی پسند کا، جوتوں کا فیشن اسے پتہ اور تو اور اچھی سہیلی کی طرح اس کی دوستوں کے جذباتی معاملات بھی اس کے علم میں تھے اور جہاں اس کی کوئی سہیلی کسی مشکل میں گرفتار ہوتی وہ پونم کی خواہش پر ان کی مدد کو تیار۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں مگر پونم کی ازلی حساسیت، ’’شہاب دیکھو نا‘‘ آج ناصرہ کی سالگرہ تھی اور سلیم نے اسے کوئی گفٹ نہیں دیا ایسے کیسے چلے گا اور شہاب پھول اور گفٹ ناصرہ کو سلیم کی طرف بھجوا دیتا۔ جب سلیم کو شکریہ کا SMS ملتا تو وہ سوچتا کہ اس کی منگیتر کتنی اچھی ہے صرف ہیپی برتھ ڈے کہنے پر ہی شکریہ کر کر کے ہلکان ہوئی جا رہی ہے۔ پونم کو رشتوں کو نبھانے کا گُر اچھی طرح سے آتا تھا۔ بھائیوں کی سالگرہ بھتیجوں کے فنکشن اور حتیٰ کہ ماں اور باپ کا جنم دن وہ سب کی خبر رکھتی۔ ہر ایک کے لیے تحفہ کارڈ اپنے ہاتھ سے بنانا اس کی ڈرائنگ بہت اچھی تھی۔ اسکول کے زمانے میں وہ رنگ برنگ کارڈ بنا کر اپنی مس، کلاس فیلوز اور اماں کو دیا کرتی تھی۔ اماں بھی اس کی ماں تھی پہلی کلاس سے لے کر کالج تک کے سارے کارڈ سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی بھائیوں کے سامنے اماں فخریہ انداز میں کارڈ کھول کر بیٹھ جاتیں اور چھوٹے بھتیجوں بھتیجیوں کے سامنے اس کے کارنامے بتاتیں۔ مگر پونم کی حساسیت، بھابھی ہسپتال گئی پونم کی بھوک بند اب جب تک ہسپتال سے خوشخبری نہیں آ جاتی پونم کا ایک پاؤں مصلے پر دوسرا گیٹ پر۔ دور سے بھائی کے ہاتھ میں مٹھائی دیکھ کر دو نفل شکرانے کے پڑھ کر بھائی سے پوچھتی کہ بیٹا یا بیٹی بھائی کا نوید سناتے ہوئے ایک ہاتھ جیب میں ہوتا دوسرا ماتھے پر بوسہ کے ساتھ پانچ ہزار کا نوٹ پونم کے ہاتھ پر آتا تو پونم کے وارے نیارے ہو جاتے۔ فطرتاً سادہ پونم دل کی بھی کھلی تھی ہر ایک پر وارنے کو تیار اپنا تن من۔ ساری ساری رات نو زائیدہ کو گود میں لیے رہتی۔ اماں کے سرکا درد تو جاتا ہی اس کے تیل لگانے سے تھا۔ ابا کے کپڑے نوکر کے ہوتے ہوئے بھی خود نکال کر دینا۔ شہاب کو وقت بہ وقت چائے کے لیے بھی پونم حاضر۔ سارے گھر کی لاڈلی پونم کے لیے نثار کا رشتہ آیا تو سب کے دل مٹھی میں آ گئے۔ بی اے پاس نثار کی انھی کے بازار میں کپڑے کی دوکان تھی۔ سارا دن چپ چاپ گلہ پر بیٹھنے والا نثار گاہکوں سے بہت خوش اخلاقی سے پیش آتا۔ نہ بازار کی سیاست میں دخل نہ کوئی دوست بس پونم کے بھائیوں سے بھی اتنی دوستی تھی کہ ہم عمر اور ہم پیشہ ہونے کے باعث کبھی بازار کبھی سیاست اور کبھی اِدھر اُدھر کی بات کر لیتے تھے۔ پونم کے بھائی کافی عرصہ سے نثار کو جانتے تھے اور بازار کے دوسرے لڑکوں کے مقابلے میں نثار کی شرافت کی دھاک تھی۔ بازار کے اکثر دوکاندار دوکان بند کر کے دل کی دوکان کھولتے تھے اور اکثر اپنے شوق پورے کر کے گھر کو لوٹا کرتے تھے۔ باپ اور بھائی کیونکہ اتنے پڑھے لکھے نہ تھے اس لیے وہ نثار کی خاموشی اور کم زبانی کو شرافت کا معیار سمجھتے تھے۔ ویسے بھی ان کو کسی چیز کی کمی نہ تھی اس لیے ان کے نزدیک شرافت ہی سب کچھ تھی۔ انھوں نے تھوڑے سے غور و خوض کے بعد اس رشتہ کے لیے ہاں کہہ دی۔ لڑکا دیکھا بھالا چلتا ہوا کاروبار اور شرافت اور کیا چاہیے تھا شکل کا بھی مناسب مگر پونم کے سامنے گہن لگا چاند۔ پونم کا حسن چاند تو شرماتا تھا۔ شہاب نے کچھ اعتراض کیا تو اماں کا جواب کہ لڑکوں کی شکل کون دیکھتا ہے ویسے بھی دب کر رہے گا اور ہماری پونم راج کرے گی۔ بہنیں بیاہی گئی ہیں اور ماں سدا کی بیمار ہے آج ہے کل نہیں اس طرح شہاب کا اعتراض دب گیا۔ پونم نے دبی زبان میں شہاب سے نثار کی تصویر لانے کی بات کی تو شہاب بولا ’’یار مجھ جیسا ہی ہے تھوڑے دنوں کی بات ہے دیکھ لینا‘‘ ۔ پونم چھوئی موئی سی ہو گئی لاکھ بھائی سے دوستی تھی مگر اپر مڈل کلاس کی لڑکی کہاں بھائی کو اپنے خوابوں کے شہزادے کے خدوخال بتاتی۔ اپنی بیماری کی وجہ بتا کر نثار کی ماں نے جلد ہی شادی کی تاریخ لے لی اور پونم اگلے پونم کے چاند کی اپنے سے دس سال بڑے نثار سے بیاہ کر ایک کنال والے مکان سے دس مرلے کے گھر میں آ گئی۔ بے شک پونم کے ماں باپ کا گھر کشادہ اور اچھا بنا ہوا تھا مگر پونم کو یہ گھر بھی برا نہ لگا آخر کو اس کا اپنا گھر تھا۔ چھوٹا سا آنگن پودوں کے بغیر اور تنگ تنگ کمرے بند کھڑکیوں والے اسے جس کمرے میں بٹھایا گیا لگتا تھا کہ اسے عجلت میں اسٹور سے حجلہ عروسی میں تبدیل کیا گیا تھا۔ لرزتی ہوئی مسہری پر ہلتے ہوئے بانس جن میں گنتی کے چند ہار لٹک رہے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کا کمرہ اور جہیز کا سامان تو اس کی نند کے پاس ہے جس کا میاں سرکاری افسر ہے اور اس سترہ گریڈ کے افسر کو صرف کموڈ والے غسل خانے میں جانے کی عادت ہے۔ اس لیے پونم کا کمرہ فی الحال ان کے زیراستعمال ہے یہ کمرہ جس میں پونم کے حجلہعروسی کا بندوبست کیا تھا۔ پہلے بڑے میاں کے استعمال میں تھا اور ان کی وفات کے بعد اسٹور بن گیا تھا۔ بہرحال سادہ دل پونم کو یہ بندوبست بھی برا نہ لگا افسانے پڑھنے کی شوقین ماں کا سبق ’’پتی ورتا‘‘ بہت اچھی طرح سے یاد کر کے آئی تھی۔ رات میں جب نثار نے اس کا گھونگھٹ اُٹھایا تو پہلی بات یہ سنائی کہ ’’چڑھاوے کا سارا زیور نندوں اور رشتے کی بھابھیوں کا ہے اس لیے کل یہ واپس کرنا ہو گا۔ پھر بن جائے گا ابھی شادی کے خرچے میں یہ مشکل تھا‘‘ ۔ پونم یونہی بولی کہ ایک بھی کافی تھا تو نثار نے یہ کہہ کر منہ بند کر دیا کہ تمہارے خاندان میں لوگ باتیں بنائیں گے اور دوسرے دن جب وہ ولیمہ کے لیے تیار ہونے لگی تو ساس کے منہ سے لوگ نکلا لوگ باتیں بنائیں گے دلہن گھر میں تیار ہونی چاہیے۔ یہ ’’باتیں بنائیں گے‘‘ اس کی ساری زندگی پر محیط ہو گیا۔ بیمار ساس کچھ اور بیمار ہو گئی۔ پونم کے حوالے سے کوئی اس کے حسن کی تعریف کرتا تو ساس فرماتی لوگ باتیں بنائیں گے کم میک اپ کیا کرو اس نے لپ اسٹک لگانی چھوڑ دی۔ کھانا پکانے لگتی تو حکم ملتا کچھ اچھا پکانا آج نند کی ساس آ رہی ہے کہیں لوگ باتیں نہ بتائیں خاندان میں شادی ہونی ہے۔ نثار اسے بازار لے جاتا بھاری زیور خرید کر دیتا وہ کرسمس کیک کی طرح سج کر شادی میں جاتی کہ لوگ باتیں بنائیں گے اگلے دن وہ زیور پھر اگلی شادی تک کے لیے دوبارہ بازار چلا جاتا۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ نثار کی شرافت اس کا احساس کمتری تھا جو کہ اس سے شادی کے بعد اور بھی زیادہ ہو گیا تھا۔ بات کم کرتا کہ اسے محفل میں بولنا نہیں آتا حالانکہ اماں اور بہنوں کے ساتھ سارے خاندان کی برائیوں میں پیش پیش ہوتا۔ گھر میں اماں کا حکم سرآنکھوں پر بہنوں کی خدمت جی جان سے مگر بیوی کی شکل میں اسے اپنی دشمن نظر آتی۔ الگ کمرے میں پیار سے بات کرنے میں بھی اسے دِقّت ہوتی وظیفہ زوجیت ادا اس طریقے سے کرتا جیسے گناہ کر رہا ہو۔ بیوی کی تعریف کرنے کی اس میں ہمت نہ سکت۔ کہیں اسے پتہ نہ چل جائے کہ وہ بہت حسین ہے۔ حالانکہ پونم کو بچپن سے پتہ تھا کہ کسی شادی میں چلی جاتی تھی لڑکے تو لڑکے ان کی مائیں اور بہنیں بھی جان بوجھ کر پونم سے بات کرنے کو مشتاق ہوتے اور اس کی اماں کی VIP خاطر بغیر کسی وجہ کے ہو جاتی۔ اسی بھاگ دوڑ میں پونم کے ہاں تین چاند کے ٹکڑے پیدا ہو گئے نسل تو ان کی نثار کی تھی مگر شکل میں وہ بالکل ماں اور ماموں پر گئے تھے بڑا تو بالکل شہاب کی کاپی تھا اسی کی طرح لمبا اور گورا۔ وہ سب کچھ بھول کر انہیں پالنے میں لگ گئی ہر بات کو چپ کے سپنے میں چھپا لیا ساس کی بیماری سولہ سال بھگتائی ہسپتالوں کے چکر لگائے نندوں کو ساس بن کر سہارہ دیا اور بچوں کی اچھی تعلیم نثار کو تو اس نے بالکل اپنے سر کا سائیں مان لیا کیونکہ اگر اس کے خوبصورت خیالات کو نثار پروان نہیں چڑھا سکتا تھا تو وہ کیسے اپنے خوابوں کے پیچھے اپنے ان تین معصوم فرشتوں کی بَلی چڑھا دیتی۔
ساس مر گئی نندیں اپنے گھر کے معاملات میں الجھ گئیں۔ اس کے بچے اسکول سے کالج میں آ گئے اس کا شوہر جو ماں کی زندگی میں اسے گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر نہیں بٹھاتا تھا اب کبھی کبھی اس کو ساتھ بٹھانے لگا وہ بھی اس شرط پر کہ وہ نقاب والی چادر لے کیونکہ بازار کے ہزاروں دوکاندار اسے جانتے تھے۔ وہ ہنس کر نقاب لے لیتی کیونکہ سورج تو بادل کے آنے کے بعد بھی اجالا کئے جاتا۔ اس کے سارے شوق ایک ایک کر کے ختم ہو گئے تھے۔ افسانے وقت کا زیاں، شاعری گناہ اور موسیقی اگر گھر سے آواز باہر نکلی تو لوگ کیا کہیں گے۔ پونم ایسی بدل گئی کہ اس کی بھابھیاں اس کا مذاق اُڑاتیں اور شہاب اپنی ماڈرن بیوی کو اس کی مثالیں دیئے جاتا۔ وہ بس مسکرا کر اسے دیکھ کر نظر دوسری طرف کر لیتی جہاں اس کی بیٹی مہوش اسی کی طرح کسی کونے میں بیٹھی بھیگی آنکھیں سب سے چھپائے کوئی ناول پڑھ رہی ہوتی۔ عید سے کچھ پہلے کی بات ہے اسے بچوں کے لیے خریداری کرنی تھی۔ عام حالات میں وہ یہ کام خود کر لیتی تھی مگر نثار اس کے ہاتھ میں کم ہی پیسے دیتا تھا اور ویسے بھی کپڑے کی خریداری تھی نثار تجربہ کار، بیٹے کو اکیڈمی جانا تھا۔ پروگرام یہ بنا کہ بیٹا اسے بازار کے سامنے اُتار کر چلا جائے گا اور نثار دوکان سے وہاں آ کر اسے بازار سے لے جائے گا۔ وہ ابھی گاڑی سے اُتر کر اپنے موبائل سے نثار کا نمبر ہی ملا رہی تھی کہ کسی گاڑی نے بہت زور سے اس کی ٹانگ پر ٹکر ماری وہ ایک دم گر گئی موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر شاید کسی نالی میں گر گیا۔ اسے بس اتنا یاد تھا کہ جب وہ گری تو اس کا سر زمین سے ٹکرایا اور گاڑی کی نمبر پلیٹ بالکل اسے سامنے آ گئی۔ آٹھ کا ہندسہ جگمگا رہا تھا اسے بس اتنا ہی یاد رہا اس کے بعد وہ چوٹ سے کم اور صدمے سے زیادہ بے ہوش ہو گئی۔ نیم بے ہوشی میں اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے بہت پیار سے اسے بانہوں میں بھر لیا ہے اور گاڑی کی سیٹ پر اسے لٹا کر سر اپنی گود میں رکھ لیا تھا۔ ڈرائیور کو گاڑی جلدی چلانے کا کہہ کر اس کے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے سنوار رہا ہے اسے سب محسوس ہو رہا تھا اسے اتنا خوبصورت احساس پہلے کبھی نہیں ہوا تھا وہ جیسے ہوا میں اُڑ رہی تھی پھر اسے لگا کہ گاڑی رُکی کسی بہت مہنگے ہسپتال کا گیٹ تھا۔ اپنے ہاتھوں سے اسے اُٹھایا اس کی چادر شاید اسی جھمیلے میں کہیں کھو گئی تھی۔ اس کے لمبے بال اس کے چہرے کے گرد ہالا کئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نے ٹانگ دیکھی زخم دیکھا اور پٹی باندھ دی ہلکی سی آواز سنائی دی کہ زخم گہرا نہیں کچھ دیر میں ہوش آ جائے گا۔ وہ با ہوش تھی مگر بے ہوش بنی رہی ان ہاتھوں کی اپنائیت کا احساس اس قدر خوبصورت تھا کہ چاہ کر بھی ہوش میں آنا نہیں چاہ رہی تھی پھر اُن ہاتھوں نے اُسے اُٹھایا اور کمرے کے بسترپر اس طرح لٹا دیا جیسے کوئی چھوٹے سے بچے کو آغوش مادر میں لٹا دیتا ہے۔ وہ آنکھیں کھول کر اس محسن کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اسے محسوس ہوا کہ اس کے ماتھے پر تتلیاں سی اُڑ رہی ہوں۔ اس کی زندگی کا پہلا بوسہ جس میں صرف پیار ہی پیار تھا کوئی ضرورت نہیں کوئی عادت نہیں اور کوئی شکایت نہیں بس پیار۔ اپنا ہونے کا احساس، اس کی آنکھیں بھیگ گئیں اس نے اپنی آنکھوں کو وا کیا اس کے سامنے اس کی آنکھوں سے بھی زیادہ بھیگی آنکھیں کچھ اجنبی اور کچھ مانوس ابھی وہ اِن آنکھوں کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی کہ ٹک ٹک اس کے کانوں میں سسٹر کی ہیل کی آواز آئی اور اس کا انہماک ٹوٹ گیا کوئی بہت حساس لہجہ میں اس کا خیال رکھنے کو کہہ رہا تھا اسے نیند کا انجیکشن لگا دیا گیا وہ پتہ نہیں کتنے گھٹے سوئی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا جو پہلی نگاہ اس کی نظر سے ٹکرائی اس کے بیٹے کی تھی بیٹی کی تھی۔ فکر مند نگاہ چھوٹے کی نگاہ شکوے کی نگاہ شہاب کی نگاہ تشکر کی نگاہ نثار کی نگاہ شک سے بھری زہر آلود نگاہ اس کی آنکھ کھلنے پر سب اس کے قریب آ گئے نثار زیادہ قریب نہیں آیا مگر بیس سال میں وہ اس کی نگاہ پہچانتی تھی۔ دور سے بولا کہ شہاب کو ہسپتال والوں نے تمہارے پرس سے نمبر تلاش کر کے بلایا ورنہ ہمیں تو پتہ ہی نہ چلتا کہ بیگم صاحبہ کہاں گھوم رہی ہیں۔
تھوڑی دیر تکاسے کچھ احساس نہ ہوا مگر اسے یہ تو پتہ تھا کہ پرس میں اس کے گھر کا نمبر نہیں تھا اور موبائل تو اسی وقت نالی میں گر گیا تھا۔ شہاب نے اسے ہاتھ تھام کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور بہنوئی اور بچوں کو گھر بھیج کر ان سے خود رکنے کا کہہ کر واپس آیا اور بولا نثار کی وجہ سے میں نے نہیں بتایا تمہیں علی یہاں چھوڑ گیا تھا۔ اسی نے مجھے فون کیا تھا۔ اسے ایک دم وہ مہربان آنکھیں وہ سکون انگیز ہونٹ یاد آ گئے۔ علی شہاب کا واحد دوست جو ان کے گھر آتا تھا غریب ماں باپ کا بیٹا جو کہ پڑھائی میں بے حد لائق اس کی شادی کے روز جب وہ گاڑی میں بیٹھ رہی تھی اسے نظر آیا بھیگی آنکھوں سے اسے الوداع بھی کہا تھا۔ بعد میں جب وہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے بڑا افسر بن گیا تو ایک دن نثار کا رویہ دیکھ کر شہاب نے اسے بتایا تھا کہ وہ پونم کو بہت پسند کرتا تھا مگر اپنی کم مائیگی کے سبب اسے بتا نہ سکا کہ اس کے ماں باپ اپنی ہیرے جیسی بیٹی کو ایک بے روزگار کے حوالے کیونکر کرتے۔ نثار کو داماد بناتے وقت اس کے اندر کا پتھر نہ دیکھ سکے اب بھی پونم نثار یا بیٹے کے ہمراہ کہیں جا رہی ہوتی ہے اور کسی گاڑی کی آٹھ کے ہند سے والی نمبر پلیٹ دیکھتی تو اسے اپنے ماتھے پر تتلیاں سی اُڑتی محسوس ہوتی ہیں۔ خوامخواہ ہی آنکھیں بھر آتی ہیں وہ کھڑکی کی طرف چہرہ کیے سوچتی ہے کہ وہ تمام زندگی اُس ’’چور لمحہ‘‘ کے سہارے گزار سکے گی؟
٭٭٭
وش کنیا
پری گل نے اپنی بڑی سی چادر کو سر پر پھیلایا ہاتھوں کی چوڑیاں اتاریں اور بیٹے کو دوسرے شہر فون کر کے بتایا کہ اس کے باپ کا انتقال ہو گیا ہے۔ بیٹا رونا چاہتا تھا ماں کو تسلی دینا چاہتا مگر وہ بہت سکون سے بولی کہ فکر نہ کرو تم اور تمہارا بھائی شہر سے لوٹ کر آؤ اور تب تک میں ساتھ والے ہمسائے کو بلا کر کچھ انتظام کر لیتی ہوں اور پریشان مت ہونا خدا کی یہی مرضی تھی۔
فون بند کر کے اس نے کمرے میں جھانکنا چارپائی پر سجاول اوندھے منہ پڑا تھا۔ لگ رہا تھا کہ اس کی جان کافی مشکل سے نکلی ہے وہ آرام سے اُٹھی ٹھنڈے پانی کا گلاس پیا اور پڑوسن کو جا کر بتایا کہ اس کے خاوند کا انتقال ہو گیا ہے۔ پڑوسن اس کے دلاسہ دینے کو ساتھ چلی آئی اور بچے کو بازار بھیج کر اپنے خاوند کو بلایا۔ اسی اثنا میں پری گل ماتھے پر کپڑا باندھے دوسرے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر کے بیٹھ گئی۔ پڑوسن کو کہا کہ بچے صبح صبح آ جائیں گے تب تک بہن تم تمام معاملات سنبھالو میں عدت میں ہوں اور نا محرم لوگوں کے سامنے نہیں جا سکتی۔
اسے سجاول سے اپنی پہلی ملاقات یاد آ گئی پارا چنار کے چھوٹے سے گاؤں میں جس رات اس نے سجاول کو دیکھا اس رات بے تحاشہ بارش ہو رہی تھی وہ اپنی دادی کے ساتھ کوٹھڑی میں دبکی بیٹھی تھی کہ رات کے اندھیرے میں ہوا سے ہلتا ہوا دروازہ کچھ زور سے بجا۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں دادی نے دروازہ کھولا تو سائے میں دو آدمی نظر آئے سجاول اور اس کے ساتھ مولوی صاحب۔ دونوں اپنی چھتریاں بند کر کے اندر آئے اور سامنے بچھی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ تیرہ سالہ پری گل چادر کے گھونگھٹسے دیکھ رہی تھی۔ لمبا تڑنگا مونچھوں والا سجاول اسے اُس جن کی مانند لگا جو درخت کو اپنے ہاتھ سے اکھاڑ سکتا ہو۔ مولوی صاحب نے دادی کو کہا کہ یہ پری گل کا رشتہ ہے لڑکا بھی تیس سالہ ہے اور ٹرک چلاتا ہے۔ گھر میں اس کی ماں کے علاوہ کوئی نہیں اور اچھا کماتا ہے کم از کم بچی بھوکی تو نہیں مرے گی۔ دادی نے ہولے سے کچھ کہا تو بولا اماں تم فکر کیوں کرتی ہے سجاول تیرا بھی خیال رکھے گا۔ دادی نے چائے بنا کر دی وہ چائے پی کر چلے گئے مگر جاتے سمے سجاول نے کچھ رقم دادی کی جھولی میں ڈال دی کہ صبح آ کر نکاح پڑھا لیں گے۔
دادی بھی کیا کرتی اس کا باپ چند دن کی پری کو ماں کے پاس چھوڑ کر شہر نوکری کرنے ایسا گیا کہ واپس ہی نہ آیا۔ اس کی ماں تو اس کی پیدائش کے وقت ہی اللہ کو پیاری ہو گئی تھی کیونکہ اس پہاڑوں میں گھرے دور افتادہ گاؤں سے کوئی بھی ہسپتال کوسوں دور تھا۔
دادی نے اور بکری نے مل کر پوتی کو پال تو لیا مگر اب دادی بکری کے مرنے کے بعد پوتی کی جوانی سے خوف زدہ تھی۔ اور پری بھی کم بخت آسمانی پری ہی لگتی تھی۔ لوگوں کی بکریاں چرا کر اور جنگلی پھل کھا کر وہ کسی کوہ قاف کی پری جیسی تھی۔ تیرہ سال کی عمر میں اس پر سولہ سالہ لڑکی والا روپ تھا۔ اسی لیے دادی نے اس سے بیس سال بڑے سجاول سے بیاہ کر سکھ کا سانس لیا تھا۔
دوسرے دن سجاول اسے اپنے گھر لے گیا وہاں سجاول کی دادی نما ماں نے اس کا استقبال کیا اور ایک دن کے بعد ہی بکریاں دوہنے اور چرانے کا کام اس کے ذمہ لگا دیا۔ رات گئے جب گھر کے کام کاج سے وہ تھک کر واپس آئی تو پتہ چلا کہ اسے تو ماں کے ساتھ سونا ہے۔ سجاول تو دوسرے کمرے میں سو رہا ہے خیر وہ چپ چاپ ماں کے ساتھ ایک ہی چارپائی پر سو گئی۔ اگلے دن سجاول اُٹھا اور ٹرک لے کر شہر چلا گیا جاتے سمے اس کی کمر پر ایک دو ہتھڑ مار کر بول گیا کہ ماں کے لیے تجھے لایا ہوں ماں کا خیال رکھے گی تو چین سے رہے گی۔ ماں بھی ایک ہوشیار عورت تھی اسے پتہ تھا چھوٹی عمر کی لڑکی ہے ڈرا کر رکھے گی تو قابو میں رہے گی۔ سارا دن گھر اور باہر کا کام کرواتی ذرا ذرا کی خطا پر چار چوٹ کی مار دیتی۔ پہاڑی عورت دل بھی پتھر کی طرح۔ مضبوط سے مضبوط چھڑی اس کی پٹائی کے لیے رکھی ہوئی تھی۔ کم بخت ایک آنکھ بند کیے سوتی اکثر رات کو اس کا پیر اپنے پیر کے ساتھ باندھ لیتی اور واویلا یہ کرتی کہ کیا کروں سجاول کی امانت ہے رکھوالی تو کرنی پڑتی ہے۔ بہو کے آتے ہی ساس نے بھینس پال لی تھی بکری تو معصوم سا جانور مگر بھینس! اس کا خیال رکھنا پورے ایک کنبہ کے خیال رکھنے کے برابر تھا۔ دادی دو دفعہ آ کر اس کا حال پوچھ گئی تھی اور اس کی شکوہ بھری آنکھیں دیکھ کر اسے صبر کی تلقین کر گئی تھی۔ ویسے بھی دو ایک مہینے سے دادی نہیں آئی تھی پتہ چلا کہ بیمار ہے پھر اطلاع آئی کہ وفات پا گئی ہے اس نے دو دن روٹی نہ کھائی اور ساس نے اُلٹے منہ نہ پوچھا۔ ہاں کام کے متعلق باز پرس کی اور دو ہتھڑ مار کر حکم دیا کہ کام پر دھیان دو دادی کونسی نوجوانی میں فوت ہوئی ہے۔ اس حد تک تو گزارا تھا مگر شامت تو تب آتی تھی جب شہر سے سجاول آتا تھا۔ اکثر ہر پھیرے پر ایک نیا لڑکا اس کے ساتھ ہوتا جسے وہ اپنا کنڈیکٹر بتایا کرتا۔ لڑکوں کی عمر چودہ پندرہ سال سے تجاوز نہ کرتی اور لڑکا بدل جاتا۔
پہلے پہل تو پری کو کچھ اندازہ نہ ہوا کہ سجاول کنڈیکٹر کے ساتھ ہی کیوں بیٹھک میں سوتا ہے اور ساس اس لڑکے کی خاطر تواضع ایسے کرتی جیسے وہ سجاول کا دوست نہ داماد ہو۔ کبھی کبھار جب سجاول اکیلا آتا تو اس کی حاضری بیٹھک میں لگتی۔ ساری ساری رات اس سے ٹانگیں دبواتا اور پاس بھی بلاتا تو اس طرح جس طرح اس پر کوئی احسان کر رہا ہو وہ بغیر گالی اور تھپڑ کے اس سے بات ہی نہ کرتا۔ صبح جب وہ سوجی آنکھیں اور داغ دار بدن لیے کمرے سے باہر آتی تو ساس زیرِ لب مسکرا کر اسے دیکھتی اور بولتی کہ اچھا ہے ناں! اس کے دوست ہی آیا کریں تیری تو اسے ضرورت بھی نہیں اور وہ چپ چاپ سجاول کے لیے ناشتہ بنائے جاتی جس میں کوئی نہ کوئی نقص چھپا ہوتا اکثر گرم چائے بد ذائقہ کہہ کر اس پر اچھال دی جاتی اور بغیر گوشت والا سالن تو اکثر ہی تین تین دن اسے کھانا پڑتا۔ سجاول کے پہنچنے پر گوشت پکتا جس کی ہڈیاں تک ساس چبا جاتی۔ اسے صرف عید کے عید گوشت نصیب ہوتا۔ اکثر وہ یہاں بھی دادی کے گھر کی طرح پہاڑوں اور کھیتوں سے چنے ساگ پر گزارا کرتی۔ مار کھا کھا کے وہ اس مار کی اس قدر عادی ہو گئی تھی جس دن اسے مار نہ پڑتی وہ دن اسے ادھورا ادھورا سا لگتا۔
ماں بیٹا اس کے سامنے بیٹھ کر دودھ مکھن کھاتے اور اسے لسی سے روٹی دیتے۔ نیا جوڑا اس کے نصیب میں ہی نہیں تھا بس ساس کی اُترن ہی پہنا کرتی تھی۔ اس کے دل کو معلوم ہی نہیں تھا کہ شوہر کی محبت کیا ہوتی ہے بلکہ کبھی کبھی جب اس کی ساس کے سر میں درد ہوتا تھا تو اسے ایک کمینی سی خوشی محسوس ہوتی تھی۔ کبھی کبھی جو اسے بیٹھک کے درشن نصیب ہوتے تھے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اس کو دو بیٹے عطا کیے تھے۔ ساس نے جھپٹ سے بچوں کو سنبھال لیا اور مزید کام اس کی جھولی میں ڈال دیے۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا دادی بیچاری میں اتنی سکت نہ تھی مگر اس نے اس خواب کو بچوں کی آنکھوں میں پرو دیا۔ خود اُنھیں لے کر اسکول جاتی اور واپس لاتی اسے سجاول سے کوئی محبت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ویسے بھی سجاول پہاڑوں کا بیٹا پتھر کی طرح سخت تھا۔ سردیوں میں وہ کانپتی رہتی اسے گرم کپڑے نہ لا کر دیتا بچے ہوئے تو خوراک کے نام پر صرف وہی آدھا کلو گھی تھا جو اس کی ساس بھینس کے دودھ سے بنا لیتی تھی۔ سب سے عجیب اس کو اس دن لگا جس دن اس کے دوسرے بچے کی پیدائش پر نیلی آنکھیں ہونے پر اس کی بے تحاشہ پٹائی ہوئی چھلے کی وجہ سے انجر پنجر سب ہل گئے تو ساس نے انکشاف کیا کہ سجاول کے چچا کی آنکھیں نیلی تھیں جو جوانی میں فوت ہو گیا تھا۔ تب اس کی خلاصی ہوئی پتھروں کے ساتھ رہ رہ کر وہ بھی پتھر ہو گئی تھی۔ بس اس کے دل سے محبت کی آبشار تب ہی پھوٹتی جب وہ اپنے دونوں بیٹوں بلاول اور بادل کو دیکھتی۔ ان کے نام بھی اس نے خود رکھے سجاول کو صرف اتنی خبر تھی کہ بچے اسکول جا رہے ہیں۔ اِک دن اچانک بیٹھے بیٹھے ساس کا بلاوا آ گیا اچھی بھلی سوئی صبح ختم اسے پھر ایک کمینی سی خوشی ہوئی کہ آج رات میں اپنے دونوں بیٹوں کو اپنی گود میں لے کر سوؤں گی۔ اگلے دن جب ماں کا کفن دفن محلہ والوں نے کر دیا تو سجاول آیا۔ ساتھ میں لاڈلا کنڈیکٹر یہ لاڈلا پرانے والے لاڈلے سے بڑا بھی تھا اور خوبرو بھی سجاول نے ماں کا ختم کرا دیا اور اسے سامان باندھنے کا حکم دیا اور اسے لے کر شہر آ گیا کیونکہ گاؤں میں اب اس کی رکھوالی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا شہر نما قصبہ تھا۔ پہلے تو چند ماہ وہ کرائے کے گھر میں رہے پھر نجانے سجاول کے پاس کہاں سے دولت آ گئی۔ بہترین مکان بنایا دو ٹرک خرید لیے اور خود بھی ڈرائیوری چھوڑ دی۔ اب اس کے ڈرائیور اس کے لیے مال لے کر جاتے۔ گھر کی بیٹھک میں اکثر عجیب عجیب سے لوگ آتے شراب چلتی مرغن کھانے اور ساقی گری کے فرائض وہی نوجوان کنڈیکٹر ادا کرتا اکثر گھر میں ایک دو لڑکے رہتے اور ان کو گھر کے اندر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ دونوں لڑکے سجاول نے بڑے شہر کے ہوسٹل میں داخل کروا دئیے تھے۔ گھر پر اس کا وجود ہونے نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کی ذمہ داری صرف سجاول کو ناشتہ دینا رہ گئی تھی اس کے ساتھ حسب معمول دوچار گالیاں اور ایک آدھ تھپڑ ضرور ملتا تھا۔ سجاول رات تک مہمان خانے میں ہوتا کئی دفعہ گھر کے اندر بھی سوجاتا وہ بھی اس لیے کہ مہمان خانہ خالی ہو تو ورنہ اس کا دل مہمان خانہ میں لگتا تھا۔ پری دادی سے سیکھی ہوئی نماز اور چند آیتیں پڑھتی رہتی یا مغرب سے کچھ پہلے فون پر بیٹوں سے بات کر لیتی اس کی تمام دن کی خوشی وہی تھی جب وہ بیٹوں سے بات کر رہی ہوتی ورنہ وہ بھی تمام دن ایک پتھر کی طرح سارا دن ادھر سے اُدھر گزار دیتی یا پھر اس سوچ میں رہتی کہ انٹر کے بعد بڑے کی شادی کر دے گی اور اس کی بیوی اس سے الگ بالکل نہ رکھے گی۔ سجاول کو دیکھ کر اسے صرف ایک ہی احساس ہوتا ’’ڈر‘‘ کا وہ اس کی گالیوں اور تھپڑوں کا جواب بھی آنسو بہا کر ہی دیتی۔ کچھ دِنوں سے سجاول کی طبیعت خراب تھی وہ مہمان خانے کی بجائے گھر میں سو رہا تھا۔ رات اکثر بے چین ہو کر اُٹھ جاتا عمر کے ساتھ جوانی کی بے اعتدالیاں رنگ لا رہی تھیں۔ ڈاکٹر نے مرغن کھانوں سے پرہیز بتایا تھا مگر کڑاہی اور دم پختسے سجاول جیسا آدمی کہاں پرہیز کرتا تھا اور دوسری لت بھی کم تو ہوئی تھی مگر بالکل ختم نہیں ہوئی تھی۔ ابھی اوائل رات ہی تھی پری گل اس کے سامنے والے کمرے میں تھی۔ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو سجاول کے کمرے سے عجیب و غریب آوازیں آئیں پہلے تو اس نے سوچا کہ ڈاکٹر کو بلا لائے پھر بچپن کی کھائی ہوئی مار اور گالیاں اسے یاد آنے لگیں اس کا منہ کڑوا ہو گیا۔ بیس پچیس منٹ تک سجاول کے کمرے سے اذیت ناک آوازیں آتی رہیں اس نے سنی اَن سنی کر دی۔ پھر جب چاروں طرف موت کا سکوت چھا گیا تو اس نے سجاول کے کمرے میں جھانکا اوندھا پڑا سجاول بغیر کسی شک کے مر چکا تھا۔ دو ٹرک آمدنی کافی تھی۔ کچھ دیر بعد لائق اور فرمانبردار بچوں نے حیات زندگی کی باگ پکڑ لینی تھی۔ اسے کس چیز کی فکر تھی ساری عمر کاوِش جو سجاول نے اس کے نس نس میں بھرا تھا آج نکل گیا تھا اس نے بچوں کو فون کرنے کے بعد وضو کیا اور سپارہ لے کر بیٹھ گئی۔ پینتالیس سالہ پری گل کو گزارنے کو بہت عمر تھی۔
٭٭٭
الگ کیوں؟
کامنی لالہ رتن پرساد کی پانچ اولادوں میں آخری تھی۔ لالہ کا دہلی کے بڑے بازار میں سونے کا کاروبار تھا۔ کشور اور کمار دونوں بیٹے باپ کے کاروبار کو آگے بڑھائے ہوئے تھے۔ دونوں کے نئی دہلی میں زیورات کے شوروم تھے۔ رکمنی اور پدمنی دونوں بہنیں بھی اپنے جیسے دھن دولت والے لوگوں میں بیاہی ہوئی تھیں۔ چھوٹی کامنی جہاں نک سک کی درست تھی وہاں پر پڑھائی میں بھی طاق تھی۔ لالہ کو اپنی اس پتری پر بہت مان تھا کالج میں گریجوایشن کے آخری سال میں وہ تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے نہ صرف دہلی میں بلکہ اکثر اوقات ملک کے دوسرے شہروں میں بھی آتی جاتی رہتی تھی۔ اس کی دلیل میں وہ کاٹ ہوتی تھی کہ اکثر اس کے کالج والے اسے فخر سے باہر بھیجا کرتے اور وہ اپنا پہلے نمبر کا کپ اُٹھائے شان سے کالج آتی۔
ماتا جی پرانے خیالات کی عورت تھیں گھر کی مثالی دیکھ بھال بہوؤں سے اچھا ویار مگر مجال ہے وہ اپنی حد سے باہر ہوں صبح صبح لالہ جی کے قدموں کو ہاتھ لگانا تینوں ساس بہوئیں صبح آرتی اُتارتے سمے اپنے اپنے پتی دیوتاؤں کو تلک لگاتیں اور پھر خود اپنے ہاتھ سے ناشتہ پروستیں۔ ہاں کامنی یا تو اُس وقت ٹریک سوٹ پہنے لان میں بھائیوں کے ساتھ اکثر سیر کر رہی ہوتی یا سامنے کے پارک میں ٹریک سوٹ میں ملبوس لمبی جوگنگ کر رہی ہوتی اگر کبھی کسی بہو نے اپنے موٹے ہونے کی شکایت کی تو ماتا جی بڑے آرام سے بہو کو گرہستی پر دھیان دینے کی نصیحت کرتی نظر آتیں مگر کامنی، اس کا تو باوا آدم ہی نرالا تھا۔ کیونکہ لالہ رتن پرساد اکثر اسے بیٹی نہیں بیٹا کہا کرتے تھے۔ اس لیے چھوٹی ہونے کے ناطے وہ بھائیوں کی حد سے زیادہ لاڈلی تھی۔ گھر میں ہر سمے میلا ہی لگا رہتا تھا۔ ماتا جی کے پاس کیونکہ دولت کی فراوانی تھی۔ سیٹھ جی گھر کی کنجیاں اور تجوری کی چابیاں ماتا جی کے تحویل میں رکھتے تھے اور ماتا جی بھی دل کی کھلی ہر تہوار منانے میں آگے۔ دل کھول کر خرچ کرتیں انہیں اپنی ناک کی بہت فکر تھی۔ ہر ماہ گھر میں شنکر مہاراج کی پوجا رکھواتیں ارد گرد اور دور دراز سے مالدار سہیلیاں آتیں گھر میں بھجن گائے جاتے اور پنڈت مہاراجوں کا دل خوش کیا جاتا۔
آج دیوالی ہے سارا گھر جگمگ کر رہا ہے کل لان میں ہولی کھیلی جا رہی ہے تو سب کو حکم ہے کہ سفید ساڑھیاں ہونی چاہئیں ورنہ گلال سے کیسے رنگ دار ہوں گی۔
کامنی کے چاروں بہن بھائیوں کی شادی پر وارے نیارے تھے۔ سکھیاں سہیلیاں سات سات دن گھر میں ٹھہریں آج بھجن ہے آج مایوں ہے مہندی ہے تو سب سے آخر میں سنگیت۔ غرض اور تو اور اس کی ماتا جی دسہرے کا تہوار بھی اس دل جمعی سے مناتیں کہ سب محلے والے دنگ رہ جاتے بھائیوں کو حکم ہوتا کہ جلوس کے ساتھ جائیں راون کو سمندر میں ڈبو کر آئیں۔
اس ماحول میں کامنی کی خواہش دھماکہ بن کر سب پر گری کہ وہ باہر سے وکالت پڑھے گی اتنا رواجوں سے گندھا ماحول اور کامنی کی خواہش ماتا جی نے تو پہلے ہی دن فرما دیا کہ بس بی اے کافی پڑھائی ہوتی ہے۔ پدمنی کا دیور ہے اپنی فیکٹری ہے کامنی کی پڑھائی ختم ہونے کا انتظار ہے اچھا جوڑ ہے فارغ کر دو۔ مگر کامنی لالہ جی کی جان جب لالہ جی کے سامنے بلک بلک کر روئی تو وہ بھی چپ سے ہو گئے ساری اولاد دھن دولت میں گم کم از کم ایک بچی کو قانون کا علم تو ہونا چاہیے ویسے بھی خاندانی وکیل جائداد اور انکم ٹیکس کے جھگڑوں میں کافی فیس بٹور کر لے جاتا ہے۔ چلو کامنی پڑھ لے گی تو ایک نقصان اگر باہر نہ بھی پریکٹس کرے تو گھر کے جھگڑے نمٹانے کو تھوڑے ذات برادری والوں پر بھی رعب پڑے گا اور باہر جانا کونسا مسئلہ ہے لونڈے بھی تو اپنی اپنی بیویوں کو گھمانے اکثر لے جاتے ہیں اور کامنی کو جہیز دان کرنا تو ہے نا پڑھے گی تو اچھا ہے نام ہو گا۔ ویسے بھی ملک ترقی کر رہا ہے شاید وکالت کر کے سیاست میں ہی آ جائے۔ دبی زبان سے بھائیوں نے بھی ساتھ دیا ماتا جی کی ایک نہ چلی اور مہینے بعد کامنی ٹکٹ ہاتھ میں تھامے ہیتھرو جانے کو تیار کھڑی تھی۔ لنڈن کی اچھی یونیورسٹی کے لاء اسکول میں اس کا داخلہ ہو گیا تھا۔ ایک ہفتہ لنڈن کی سیر کے بعد وہ لالہ جی کے کاروباری متر کے گھر سے ہاسٹل شفٹ ہو چکی تھی۔ پہلے دن اپنی کلاس میں جنید کو دیکھ کر اس کا دل ایک دم دھڑکنا بھول گیا۔ پہلی نظر کی محبت اسی کو کہتے ہیں شاید، اسے نہ اس کے مذہب کا پتہ نہ نام کا پتہ نہ خیالات کا پتہ بس اتنا پتہ تھا کہ رادھا کو کرشن جی مل گئے کوئی انسان اس قدر دلفریب بھی ہو سکتا ہے کامنی کو اندازہ ہی نہیں تھا۔ اس نے جان بوجھ کر جنید سے اپنی کلاس کا پوچھا اس کی ترنم سے بھری آواز ایک دم جنید کے کان میں رس گھول گئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا اور پتھر ہو گیا۔ نازک سی کامنی گھٹا جیسے بال کھولے اس کی طرف تک رہی تھی جھیل کی گہری آنکھوں میں جنید کی ہستی کچھ اس طرح ڈوبی کہ وہ دونوں پہلی ملاقات میں یک جان دو قالب ہو گئے پھر کہاں کا مذہب کہاں کی اونچ نیچ کہاں کی جدائی صرف وصل ہی وصل صبح آٹھ بجے وہ پہلی کلاس میں اکٹھے ہوتے اور رات آٹھ بجے اپنے اپنے ہاسٹل جانے کو الگ ہوتے۔ رات ان کی اپنی ہوتی جب سے ملاقاتیں ٹھہری تھیں یہ فیصلہ خودبخود ہو گیا تھا کہ اگر ماں باپ کی رضامندی چاہیے تو پڑھائی پر توجہ دینی ضروری ہو گی۔ بہرحال دو سال دو دن کی طرح گزر گئے اب دونوں تیسرے سال میں تھے کامنی کی ماتا کے تقاضے کچھ بڑھ گئے تھے۔ سیٹھ لالہ رتن داس کو بھی اُڑتی اُڑتی سن گن مل گئی تھی بھائی تو آ کر جنید سے مل بھی گیا تھا اور اس نے جا کر دبی زبان میں اپنی ماتا جی کو سنا دیا تھا کہ کہیں ان کی پتری مُسلی نہ جائے۔
مگر کامنی عشق کے سمندر میں ایسی غرق تھی کہ دوسرا کنارہ ملنا محال تھا۔ وہ کشن جی کی رادھا بن گئی تھی۔ سارا دن جنید کے پھیرے لیے جاتی خود اپنے ہاسٹل سے لنچ تیار کر کے لاتی اسے کھلاتی اپنی اسائنمنٹ کے بعد کافی کام اس کا بھی کر دیتی۔ جنید کو کیونکہ اپنے خرچے کے لیے کام بھی کرنا ہوتا تھا اس لیے وہ کافی کام کامنی پر ڈال کر دو گھنٹہ اپنی جاب میں اضافہ کر لیتا۔
ڈگری ہوئی تو دونوں کو لنڈن میں ہی ایک لا فرم میں جاب مل گئی فرم تو دونوں کی الگ الگ تھی مگر کام ایک ہی تھا کامنی خوشی خوشی چھٹی لے کر اپنے گھر گئی تو ماتا کا تقاضا ایک بار پھر بڑھ گیا۔ لالہ جی نے بھی لڑکے کو گھر بلایا اور کامنی کو سندیسا دیا کہ اگر کوئی اور ہندو لڑکا پسند ہے تو بات کرے مگر ابھی وہ جنید کا نام لے بھی نہ پائی تھی کہ ماتا جی نے آنے والی اتوار اس کی بہن کے دیور سے اس کی سگائی کا اعلان کر دیا اور کامنی کو اتوار سے پہلے پہلے اپنا فقط ایک بیگ اُٹھا کر لندن کی فلائٹ لینی پڑی۔
واپس آ کر اس نے اور جنید نے کورٹ میرج کے علاوہ اسلامی اصول کے مطابق مسجد میں نکاح کر لیا۔ کامنی نے لنڈن کی بڑی مسجد کے امام صاحب کے ہاتھوں اسلام قبول کیا اور اس کا اسلامی نام عائشہ رکھا گیا۔ جنید کے والد کیونکہ خود بھی اچھے وکیل تھے اور انہیں معاملے کی نزاکت کا احساس تھا انہوں نے اپنی بیگم کو مژدہ سنانے سے پہلے بتایا کہ ہندو لڑکی کے اسلام لانے کے فوائد کیا کیا ہیں۔ ماں نے سارا تمغہ اپنے سینے پر سجایا اور لوگوں کو بتایا کہ کس طرح اس کے بیٹے نے ہندو لڑکی کو اسلام کے بارے میں بتا بتا کر مسلمان کیا ہے اور لڑکی کے اسلام لانے سے ان کا بیٹا اور خاندان جنت کا خواہ مخواہ حق دار ہو گیا ہے۔ گھر پر میلاد کی محفل کرائی گئی کامنی کا نیٹ پر سب کو دیدار کرایا گیا اور پھر سہاگ کے گیتوں کے بہانے گھر میں ایک اچھی خاصی محفل موسیقی منعقد ہو گئی۔ خاندان کی لڑکیاں جنید کی بہن صنم کی سہیلیاں اور جنید کے کزن اور دوستوں نے وہ محفل کو رنگ لگایا کہ کامنی کو نیٹ پر بیٹھے بیٹھے اپنے گھر کا نقشہ سامنے آ گیا اسے لگا ہی نہیں کہ محفل کسی پاکستانی گھر میں ہو رہی ہے۔ اسے اپنے گھر نئی دہلی جیسا ماحول لاہور کی ماڈل ٹاؤن کی کوٹھی میں لگا۔ خیر دو ماہ بعد صنم کی شادی تھی۔ جنید کی امی نے صنم کے جہیز کے ساتھ ساتھ کامنی (عائشہ) کے جوڑے بھی بنوائے ہزاروں اور لاکھوں روپے خرچ کیے اور دھوم دھام سے صنم کی بارات کے ساتھ ہی جنید کا ولیمہ بھی کرنے کا پروگرام بنا۔
جنید نے ایک ماہ کی چھٹی لی اور وہ اور عائشہ لاہور کے ایئرپورٹ پر تشریف لے آئے۔ عائشہ کے لیے سب کچھ نیا نیا تھا۔ سسر نے سر پر پیار دیا اور ساس نے گلے لگایا۔ صنم جو بھابھی کے آنے کی خوشی میں تقریباً پورا مغربی لباس پہنے ہوئے تھی اس سے مل کر ایئرپورٹ سے ہی اپنے منگیتر صارم کے ساتھ کہیں چلی گئی معلوم ہوا کہ ان کا ڈیزائنر کے پاس ٹائم ہے کیونکہ صارم کے والدین کی مرضی تھی کہ صنم کا ولیمے کا جوڑ اس کی پسند کا ہو۔ بہرحال کامنی کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ اس کی ماتا جی نے تو بہوؤں سے رنگ پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی تھی اور راجستھان سے لالہ میت رائے کی دوکان سے ملتے جلتے لہنگے منگوا کر دونوں کے آگے رکھ دیے تھے اس کی کانونٹ سے پڑھی چھوٹی بھابھی جو کہ سانولی تھی کہتی رہ گئی کہ اماں یہ تیز گلابی رنگ میں میں کالی لگوں گی مگر وہ اماں ہی کیا جو مان جائیں بہوؤں کو وہ تیز گلابی رنگ پہننا پڑا۔
عائشہ نے گھر میں قدم رکھا تو اس کی دادی کی مانند ایک بزرگ خاتون نے اس کے لیے گھر کی دہلیز اور دروازے کی چوکھٹ میں تیل ڈالا۔ یہ جنید کی دادی کی خاص نوکرانی تھی۔ پتہ چلا کہ جنید کی دادی کیونکہ حیات ہیں اور ان کے ساتھ ہی رہتی ہیں اس لیے گھر کا ایک حصہ ان کے لیے مختص ہے وہ وہاں اپنی نوکرانی کے ساتھ رہتی ہیں گھر کیونکہ جنید کے دادا کا ہے جو کہ وہ دادی کے نام کر گئے تھے۔ اس لیے دادی کو کوئی ڈسٹرب نہیں کر سکتا۔ ماڈل ٹاؤن کے اس چار کنال کے گھر میں عائشہ کو ایسا لگا کہ وہ کسی برٹش دور کی رہائش گاہ میں آ گئی ہے۔ گھر گو کہ پرانا تھا مگر اس میں جدید ترامیم کی گئی تھیں۔ خاص کر اس کے اور جنید کے کمرے کو بالکل اس کے دہلی والے بنے ہوئے گھر کی طرح ہر طرح کی آسائش تھی۔ وہ دو ایک دن تو ماحول کو سمجھنے میں لگی رہی مگر دادی کے دیدار نہ ہوئے۔ ایک دن جب دادی کی نوکرانی کسی کام سے آئی تو وہ چپکے سے اس کے ساتھ دادی کو سلام کرنے چلی گئی جین کے ساتھ سوئی کے کام والی سفید کرتی میں اس کا سانولہ حسن عجب بہار دکھا رہا تھا۔ نئی نئی شادی کا سکھ کسی آئنہ کی روشنی کی طرح اُس پر منعکس ہو رہا تھا۔ وہ جب دادی کے کمرہ میں گئی تو دادی ایک تخت پر بیٹھی وظیفہ میں مشغول تھیں۔ ان کے کمرے میں ہی قالین پر چند بچے قلم اور کاپی لیے کچھ لکھنے میں مشغول تھے۔ یہ بھی چپ سے جا کر ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ دادی نے وظیفہ بند کیا اور اس کی طرف منہ کر کے بہت پیاری مسکراہٹ سے اس کو خوش آمدید کہا پھر اپنی نوکرانی فاطمہ بی بی سے اپنی الماری سے بہت ہی خوبصورت جگمگ کرتا کامدانی دوپٹہ منگوایا اور عائشہ کے سر پر اوڑھا دیا۔ وہ شکریہ کرنے لگی تو دادی بولیں کہ بیٹا یہ میرا سہاگ کا دوپٹہ ہے تمہاری ساس کو تو یہ پسند ہی نہیں آیا مگر میں نے تمہارے لیے رکھا ہوا تھا اور مبارک ہو تم نے وہ دین چنا ہے جو کہ سب سے افضل ہے۔ تم میرے پاس آیا کرو میں نے یہ علم روایتی طریقہ کے بعد اپنی محنت سے بھی حاصل کیا ہے خاص کر شرعی قوانین کا علم تم اگر اسلامی قوانین کے متعلق کچھ جاننا چاہو گی تو میں حاضر ہوں۔ کامنی حیران ہو گئی کہ ستر سالہ دادی کتنی پڑھی لکھی خاتون ہیں وہ جب بچوں کی طرف پلٹی تو دادی نے مسکرا کر کہا کہ یہ نوکروں کے بچے ہیں مگر ان کی تقدیر اللہ نے افضل بنائی ہے میں اِن کو وظیفہ کے امتحان کی تیاری کرواتی ہوں ریاضی انگریزی اور دوسرے علوم پر بچے اپنے اسکولوں میں امتحان دے کر وظیفہ لیتے ہیں صرف دو گھنٹے اگر میں اِن پر لگا دیتی ہوں تو ان کی لازوال محبت سمیٹ لیتی ہوں۔ ابھی خانساماں کے لڑکے نے وظیفہ لیا ہے اس سے پہلے صفائی والی ایگنی کی بیٹی نے لیا تھا اب وہ ڈاکٹر بن رہی ہے اور میرا ہفتہ وار چیک اپ بھی وہی کرتی ہے۔
کامنی کافی دیر دادی کے کمرے میں بیٹھی رہی پھر دوپہر کے کھانے کے وقت دوبارہ آنے کا کہہ کر واپس چلی گئی۔ جنید نے پوچھا تو بولی دادی کے پاس تھی۔ جنید مسکرایا کہ ہاں بچپن میں دادی مجھے پڑھاتی تھیں اسی لیے ماما نے ہوسٹل داخل کروا دیا تھا کہ میں ملا نہ بن جاؤں۔
گھر میں شادی کے ہنگامے شروع ہو گئے جنید کی بڑی بہن بھی شادی کی تیاریوں میں آ گئی سارا دن گھر میں ہلا گلا رہتا ہر کام میں کامنی کو شریک کیا جاتا اسے تمام شادی اپنے دہلی والے گھر جیسی لگتی اس نے پروگرام کا پوچھا تو انکشاف ہوا کہ یہاں بھی شادی چھ دن پر محیط ہو گئی یعنی میلاد، اُبٹن مایوں مہندی بارات اور ولیمہ اف یہ تو بالکل انڈیا جیسا ہے۔
پوجا اُبٹن مایوں مہندی اور سنگیت کوئی بھی رسم کم نہ مختلف وہی ہی دھوم دھام ویسے ہی پکوان اور ویسی ہی ہلہ گلہ سات دن کی شادی میلاد کے دن سفید جوڑا ابٹن کے دن پیلا، مایوں میں گلابی، مہندی پر ہرا بارات میں لال اور ولیمے میں ملٹی کلر یہ سب تو اس کے دیس میں بھی ہوتا تھا۔ طرح طرح کے کھانے کھانوں کا ضیاع وہی چہل پہل وہی گانے وہی ڈانس اسے بالکل بھی نہیں لگا کہ وہ کسی دوسرے دیس کے دوسرے گھر میں ہے۔ لاکھوں روپیہ شادی پر اڑ گیا اور ایسی کونسی چیز تھی جو کہ جہیز میں نہیں تھی۔ فریج ٹی وی ایرکنڈیشن صنم کی پسند کی گاڑی پلاٹ اور تو اور انعم نے بھی دوبارہ دوبارہ نیگ اور سمدھانے کے نام پر بہت کچھ بٹورا پتہ نہیں جنید کے والد نے یہ سب کچھ کیسے کیا جنید نے دبی زبان میں بتایا کہ ابا نے دادا کی بہت قیمتی جائداد فروخت کی ہے جس میں پھوپھی کا بھی حصہ تھا مگر حسب روایت پھوپھی حالانکہ بہت مالدار نہ تھیں ان سے یہ حصہ لکھوا لیا گیا ہے۔ کامنی سوچتی رہ گئی کہ یہ تمام خرچ کیا ضروری تھے۔ ہاں اس اثنا میں اس کی دادی سے پکی دوستی ہو گئی تھی بچپن سے باغی کامنی کی دادی کے ساتھ کچھ ایسی بنی کہ گویا جیسے وہ سہیلیاں ہوں۔ شادی کے فوراً بعد محرم آ گئے ان کی فلائٹ بارہ محرم کی تھی۔ گھر میں مجلسوں کی بھرمار ہو گئی کیونکہ جنید کی والدہ شیعہ مسلک کی تھیں اور جوش و خروش سے محرم کا تہوار منایا گیا تمام نوکروں تک کے لیے کالے کپڑے گھر میں ماتم کی فضا اور تعزیہ بنانے میں اور پھر دسہرے کے راون کی طرح تعزیہ دریا برد یا امام بارگاہ میں رکھ دیا جاتا ان کے گھر میں مندر تھا تو یہاں ایک کمرے میں امام بارگاہ واہ جی واہ گھر سے نکل کر وہ پھر ایک اپنے جیسے ماحول میں آ گئی۔ اسے کچھ الجھن سی ہو رہی تھی اس کا گریجویشن میں پسندیدہ مضمون پولیٹیکل سائنس تھا۔ اس پر اسے عبور بھی تھا۔ بٹوارے کی وجوہات اور تاریخ اس نے پڑھ رکھی تھی یہاں آ کر وہ نظریہ پاکستان اور وہ اپنی اقدار کی حفاظت خلط ملط ہوتی محسوس ہو رہی تھی اس نے واپس جا کر ایک سال چھٹی لے لی گھر پر اور اسلامک سنٹر جا کر اسلام کا مطالعہ کیا ہاں مگر پہلی فرصت میں دادی کو ایک آئی پیڈ تحفہ کے طور پر بھجوا دیا اس ایک سال میں اس کے ہاں خوبصورت سی مریم کا اضافہ ہو گیا وہ تمام دن اپنے کام میں مصروف رہتی۔ مریم کے ساتھ ہوتی ہاں مگر رات کے ایک گھنٹہ دادی سے skipe پر باتیں کرتی وہ بہت خوبصورتی سے عام زندگی میں قانون کے اطلاق کا ذکر کرتیں اور اسے سادہ اور دلنشین لہجے میں اسلام کے سادہ اصول سمجھاتی۔ انہوں نے اسے سر پر کپڑے لینے کے معنی بتائے اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے طریقے جنید اپنے فرم کا ایک بہت مقبول وکیل بن گیا اس کی فیس ہزاروں پاؤنڈ میں ہوتی تھی اسے کام کرنے کی ضرورت نہ رہی اس نے دادی کے اصولوں کے مطابق ضرورت مندوں اور غریبوں کے مقدمات لینے شروع کر دیے برائے نام فیس صرف فلاح اس کے پِتا جی اب بھی اس سے اتنا ہی پیار کرتے تھے اُنہوں نے اس کا ماہانہ وظیفہ لگا رکھا تھا۔ وہ یہ رقم بھی فلاحی کاموں میں خرچ کرتی۔ مریم اب او لیول میں آ گئی تھی اور نہ جانے اسے علی کہاں ملا مگر وہ میڈیکل کے آخری سمیسٹر میں تھا کہ مریم نے گھر میں اعلان کر دیا کہ وہ علی سے شادی کرے گی۔ علی کے ماں باپ دونوں کالج کے پروفیسر تھے۔ علی ان کی اکلوتی اولاد تھا اور وظیفہ پر میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ کامنی کو اپنا وقت یاد آ گیا تھا جب اس نے جنید کی خاطر اپنے دیس سے اپنے پریوار سے اور اپنے مذہب سے بغاوت کی تھی۔ مریم تو صرف عشق میں دیوانی تھی مگر اسے اپنے عشق کی جنوں خیزی کا اندازہ تھا وہ اب بھی جنید سے اسی محبت میں گرفتار تھی وقت نے اس طوفان پر بند ضرور باندھ دیا تھا مگر گوپی کی کرشن جی پر نثار ہونے کی عادت اب بھی وہی تھی۔ اس نے جنید سے مشورہ کیا سامان سمیٹا اور پاکستان کی راہ لی۔ دادی پانچ سال پہلے فوت ہو چکی تھی ساس نے دادی کا پورشن ان کے لیے سیٹ کر دیا۔ بڑی بہن انعم اپنے میاں کے ہمراہ ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی اور اس کا ایڈووکیٹ شوہر اس کے سسر کے ساتھ ہی چیمبر پر جاتا تھا۔ جنید کیونکہ لنڈن میں بہت سیٹ تھا اس لیے وہ اسے اپنے باپ کے چیمبر میں کوئی دلچسپی نہ تھی کامنی بھی ویلفیئر کے حوالے سے لنڈن کے ایک مخصوص حلقے میں جانی پہچانی جاتی تھی۔ پاکستان میں وہ صرف مریم کی شادی کے لیے آئے تھے۔ نوکری پیشہ پروفیسر صاحب اور ان کی بیگم مڈل کلاس فیملی کا صحیح نمونہ پیش کر رہے تھے علی ان کا چاند اور ان کی امیدوں کا واحد سہارہ تھا۔ برٹش نیشنل مریم کا حسن دیکھ کر چاند بھی شرماتا اُن کو لگا کہ ان کی تو لاٹری نکل آئی ہے۔ وکیل صاحب کی چار کنال کی کوٹھی گیراج میں لش لش کرتی دو گاڑیاں اور اوپر سے کامنی کی ساس کا رکھ رکھاؤ۔ وہ حکم چلاتی رہیں اور دونوں میاں بیوی ان کے احکام پر سر تسلیم خم کرتے گئے۔ لڑکا لنڈن رہے گا منظور وہاں ہم اس کو سیٹل کروائیں گے منظور مگر جب بات مہندی اور مایوں تک ابھری تو ایک دم کامنی کے اندر دادی کی روح آ گئی۔ رسان سے بولی اماں جی مریم مسلمان لڑکی ہے کہاں کی مہندی اور مایوں بس جمعہ کے روز بھائی صاحب اپنے چند احباب اور علی کو لے کر آ جائیے گا اسلامی اصولوں کے مطابق نکاح ہو جائے گا ہم لوگ جو کھانا رات میں کھائیں گے ہمارے ساتھ تناول کر لیجئے گا اور اپنی امانت لے جائیے گا۔ امید ہے کہ آپ لوگ ہماری بچی کو شرع کے مطابق خوش رکھیں گے۔
ساس حیران سی کھڑی اسے دیکھ رہی تھیں۔ مہمانوں سے فارغ ہو کر وہ ساس سے بولی امی آپ کے شوق میں پورے کروں گی ماسی حمیدہ اور دھوبن نجمہ کی دو جوان بیٹیاں ہیں۔ آج ہم مل کر ان کی شادی کا پلان بناتے ہیں جاہل لوگ ہیں رسم و رواج کو ماننے والے آئیے ان کی شادیاں ہم کرواتے ہیں۔ کامنی کو آج لگا کہ وہ صحیح معنوں میں کامنی سے عائشہ بن گئی ہے۔
٭٭٭
چٹھی
گھر میں چھوٹی موٹی قیامت تو اس دن ہی آ گئی تھی جس دن ثریا کی چٹھی پکڑی گئی۔ ثریا چور بنی گھر کی تیسری کوٹھری میں چھپی بیٹھی اماں کے کوسنے اور گالیاں سن رہی تھی۔ بھابھیاں ہاتھ نچا نچا کر اس کی طرف اشارے کر رہی تھیں اور چھوٹے بھتیجے بھتیجیاں یوں ڈرے پھر رہے کہ جیسے گھر میں سانپ نکل آیا ہو۔
ثریا کوئی دودھ پیتی بچی نہیں تھی اچھی خاصی چوبیس پچیس کے پیٹے میں تھی۔ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ابا کا کوئی جم کے کاروبار نہ تھا بس کبھی کریانہ کی دوکان میں نوکری تو کبھی پھل کا ٹھیلا۔ گھر بھی بس ایسا ہی تھا کہ گاؤں سے شہر آ کر ریلوے کی زمین پر احاطہ بنا کر اپنی مدد آپ کے تحت ایک کوٹھری ڈال لی تھی۔ ثریا کو یاد تھا کہ بچپن میں وہ سب بہن بھائی اسی دھول بھرے صحن میں کھیل کر جوان ہوئے تھے۔ کوٹھری میں اماں اور دالان میں دادی کھلے میں چولہا۔ سارا دن دادی اور اماں کی جو تم پزارسب سرکاری اسکول میں جاتے تھے بھائی تو کوئی دوسری اور کوئی چوتھی میں بھاگ گیا ہاں ثریا نے آٹھ جماعت تک پڑھ رکھا تھا مگر آٹھویں کے بعد جب دادی کا انتقال ہو گیا تو اسے پڑھائی سے اُٹھا لیا گیا کہ گھر میں اماں کا ہاتھ بٹانے کو کوئی نہیں تھا۔
دادی کے مرنے کے بعد چودہ سالہ بڑے بھائی نے موٹرسائیکلوں کا کام سیکھ لیا اور کچھ کمانے لگا۔ چھوٹے والا ایک جنرل سٹور پر لگ گیا۔ تیسرے نمبر والا سب سے ہوشیار تھا آٹھویں فیل اور کام میں تاک ایک پراپرٹی ڈیلر سے کام سیکھ کر اچھے پیسے کماتا تھا۔ آخری چھوٹا ابھی ابا کے ساتھ ہی ریڑھی لگاتا تھا۔ مہنگائی کا دور تھا مگر چاروں پانچوں مل کر گھر چلا رہے تھے اماں کو حکومت کا شوق چڑھا تو دونوں بڑوں کی شادی کر دی دادا کی عقل مندی کام آئی لڑکوں نے اسی احاطہ میں اپنے اپنے کمرے بنا لیے تین کمرے اور ایک کچن آرام سے بن گئے۔ ٹین کی چھتوں والے انہی کمروں میں اڑوس پڑوس کی لڑکیاں بھابھیاں بن کر آ گئیں۔ شادی پر خرچہ بھی کم ہوا بڑے والے کو تو ابا کے ساتھی ٹھیلے والے نے بیٹی دے دی کیونکہ وہ اپنی چھ جوان بیٹیوں سے تنگ تھا اور نمبر دو تو اس سے بھی اچھا رہا پہلے والے کو تو ولیمے کے نام پر چاولوں کی دیگ پکانی پڑی مگر اس نے تو دوسری گلی کے حجام کی لڑکی اماں کے آگے لا کر ڈال دی کہ اماں سلمہ کو اس کی سوتیلی ماں بہت تنگ کرتی ہے۔ اماں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ مسجد کے مولوی صاحب کو بلایا اور بیٹے کا نکاح پڑھا دیا۔ بعد میں لڑکی کے ابا کو خبر کروا دی کہ ہم نے تمہاری بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ حجام جو اپنی گھر کی روز روز لڑائی سے تنگ آیا ہوا تھا بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر چلا گیا اور اماں نے ایک تیر سے دو شکار لیے چہکتی پھر رہیں تھیں۔ یہ تو ثریا ہی جانتی تھی کہ بڑی والی کے دوسرا بچہ ہونے والا تھا اور گھر کے کام کی اماں کو دقت تھی۔
اب ثریا بھی کیا کرتی گھر کے کام کو دو دو بہویں اور کام بھی کیا تھا ایک بڑی سی دال یا سبزی کی دیگ چڑھائی اور روٹیاں اماں خود بناتی تھی۔ کس کو پراٹھا دینا ہے کون چوپڑی کھاتا ہے اور کس کو سوکھی روٹی پر ٹرخانا ہے اماں کو سب معلوم تھا۔ بچارے ابا کے حصے تو خمیری کے نام پر رات کے بچے آٹے کی روٹی ہی آتی تھی۔
ثریا پہلے پہل تو گھر میں دل لگانے کی کوشش کرتی رہی مگر فرصت ہر ایک بیماری کی جڑ کیا کرتی دن میں تو گزارا ہو ہی جاتا مگر رات میں اماں ابا کے دالان میں سوتے ہوئے بھابھیوں کے کمرے سے دبی دبی سرگوشیاں اس کے تن بدن میں آگ لگا جاتیں۔ پچھلے برس بڑی خالہ اسے امجد کے نام کی انگوٹھی پہنا گئی تھیں۔ خالہ کی گاؤں میں کچھ زمین داری تھی امجد تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ ابھی بھائیوں کے ساتھ ہی کھیتی باڑی کرتا تھا مگر کیونکہ خاندان کا واحد میٹرک پاس لڑکا تھا۔ خالہ نے مہلت لے لی کہ سرکاری نوکری کے لیے انٹرویو دے رہا ہے جس دن پکی نوکری ملی ثریا کی رخصتی ہو جائے گی۔ خالہ کو بھی یہ لالچ تھی کہ کم از کم ثریا اپنی ہے، خیال کرے گی۔ خالہ زاد سیدھی سادھی تھی اماں کی طرح ہوشیار نہ تھیں۔ اس لیے دوسری بہوئیں ان کو خاطر میں نہ لاتی تھیں۔ ثریا ویسے بھی خالہ کو پسند تھی اور وہ بھی خالہ کے آتے ہی کبھی حلوہ تو کبھی کھیر بنانے لگتی۔
جب سے امجد سے اس کی منگنی ہوئی تھی اسے خالہ اچھی لگنی شروع ہو گئی تھیں۔ امجد کو ایک آدھ بار اس نے دیکھ رکھا تھا اس کے سامنے بھی اُکھڑا اُکھڑا سا رہتا تھا۔ وہ اسے پسند تو کرتی تھی مگر پسند کو پذیرائی اس لیے نہ ملی کہ امجد کی نظر نظرِ عنایت نہ تھی۔
مگر گھر کا ماحول اسے دھیمی دھیمی آنچ پر پکا رہا تھا۔ اس نے خواتین کے رسالوں میں پناہ ڈھونڈ لی۔ رات کو جب سب سو جاتے تو وہ کوئی نہ کوئی رسالہ لے کر بیٹھ جاتی کبھی اس کے خیالوں میں امجد در آتا تو کبھی کوئی انجانی صورت۔ سرگوشیاں ختم بھی ہو جاتیں مگر اس کی کہانیاں ختم نہ ہوتیں۔ صبح وہ دیر سے سو کر اٹھتی کچھ کام دام کرتی اماں کی چار سنتی اور چھت پر چلی جاتی جہاں وہی رسالے اور ان کی جادو نگری۔ محلہ کی لائبریری سے یہ رسالے اسے کرایہ پر مل جاتے اس کی سلائی اچھی تھی محلہ والے کبھی کبھار اس سے کچھ سلائی کروا لیتے۔ غریب محلہ تھا زیادہ لوگ یہ کام خود ہی کرتے مگر جو کبھی کبھی اس کو پیسے ملتے وہ اس کی اپنی کمائی تھی جو وہ رسالوں پر اور اپنے کپڑوں پر خرچ کرتی۔ آٹھ سالہ بھتیجی بڑے شوق سے اپنے لیے ٹافی اور اس کے لیے رسالہ جنرل اسٹور سے لے آتی۔ وہ رسالہ پڑھتی اور پھر واپس بھتیجی کے ہاتھ دوکان پر بھجوا دیتی۔ آخر امجد کی نوکری تک کا وقت تو گزارنا تھا۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے اس نے مستری اختر کی بیوی کا عنابی سوٹ سیا کچھ اس میں سے کپڑا بچا اور بازو کے لیے پھولدار عنابی کپڑا گھر سے نکل آیا۔ اس نے فوراً اپنی قمیض بنا لی۔ سفید شلوار کے ساتھ وہ یہ قمیض پہنے چھوٹی موٹی قیامت دکھائی دے رہی تھی جوانی اور رنگ دونوں نے مل کر اس کے چہرے کو عنابی کر دیا تھا۔ نہا کر دھوپ بھری چھت پر گئی تو گویا چھت پر آگ ہی لگ گئی ایک شعلہ کی طرح سامنے گلی سے شاہد نے اسے دیکھا تو دوسری طرف دیکھنا بھی بھول گیا۔ اسی دم اس کی بھتیجی رسالہ لینے اس کے پاس آ گئی اس نے جھٹ ایک ٹکڑے پر لکھا جانِ من چھت پر آیا کرو ’’میرے دل میں آگ لگایا کرو‘‘ اور رسالے کے اندر رکھ دیا۔
بھابھیاں اپنے میں مگن وہ چٹھی جب اس کے ہاتھ لگی تو اس کے دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہو گئی۔ جو من دھیمی آنچ پر سُلگ رہا تھا ایک دم تیز آنچ سے جلنے لگا۔ آس کا بادل اسے سامنے گلی میں نظر آیا۔ فَٹ سے جواب میں ایک رسالے سے پڑھا ہوا شعر لکھا اور رسالہ بھتیجی کے حوالے کیا آج اسے دو روپے زیادہ ملے ادھر شاہد نے بھی دو ٹافیاں فالتو دیں اور دس روپے والا بسکٹ کا پیکٹ انعام۔ شاہد کو اُمید تو نہیں تھی مگر جب تُرت جواب آیا تو وہ بھی کھِل اُٹھا اور آٹھ سالہ شمائلہ کی وساطت سے عشق کا کھیل جاری ہو گیا۔ دن میں دو دو دفعہ سوال جاتا اور جواب آتا اور شمائلہ کی پاکٹ بھری رہنے لگی۔ ٹافیاں وغیرہ تو اب شاہد کی دوکان سے مفت مل جاتیں۔ دریچے یا چھت سے دیدار یار بھی ہو جاتا۔ ثریا کے کپڑے اُجلے اور چہرہ دمکنے لگا تھا۔ کبھی کبھار کوئی چھوٹی موٹی چیز کے بہانے وہ شاہد کی دوکان پر بھی چلی جاتی اور بات باتوں سے بڑھ کر ہاتھوں تک آ جاتی۔ یہ آنکھ مچولی جاری تھی کہ وہ چھت پر تھی شمائلہ رسالہ لے کر آئی فلمی تصویروں والا رسالہ نمبر دو بھابھی نے بیٹی کے ہاتھ سے پکڑ لیا۔ دھن سے چٹھی جھولی میں آ گری۔ چٹھی کیا گری گھر میں طوفان آ گیا اماں کو موقع ملا ابھی ابھی خبر آئی تھی کہ امجد کو پولیس میں نوکری مل گئی ہے اماں ویسے ہی اونچی ہواؤں میں تھیں مار مار کر ثریا کا بھرکس بنا دیا۔ بڑا گالیاں اور دوسرا چھری نکال کر کھڑے ہو گئے ابا نے چار دن اپنی سبزی کی دوکان بند رکھی چھوٹا اور درمیانہ اسے ایسے گھور رہے تھے کہ کھا جائیں گے۔ اس کا رسالے پڑھنا بالکل بند ہو گیا بھابھیاں اسے مزے لے لے کر ایک دوسرے کو قصے سنانے لگیں کہ اس کی چٹھی نہ ہوئی بے ہودہ فلم کی کہانی ہو گئی۔ بڑی مشکل سے شمائلہ کو پیسے دے کر شاہد کو پیغام بھجوایا کہ شہر سے بھاگ جائے اس نے کہا بھی کہ اماں کو بھیجتا ہے اس کا پیار سچا ہے مگر ثریا کو پتہ تھا کہ بھائی اور اماں پولیس والے کے آگے اس چھوٹے سے دوکاندار کو کہاں گھاس ڈالیں گے جب شاہد نے اُڑتی اُڑتی سنی کہ اس کا بھائی جو دوسرے کی بیٹی خود بھگا کر لایا تھا اس کی جان کے درپے ہے تو وہ سٹور کا سودا کر کے بھاگ گیا بعد میں سنا کہ دبئی چلا گیا ہے۔ ثریا گم سم سی ہو گئی چند برس اور بیت گئے پراپرٹی والے کا کام اور بہتر ہو گیا۔ ابا کی ٹھیلے سے بڑھ کر سبزی پھل کی دوکان ہو گئی۔ بڑے دونوں نے مل کر موٹرسائیکلوں کی ورک شاپ ڈال لی اور ہاں امجد نے پولیس میں بھرتی ہوتے ہی گاؤں کے ماسٹر صاحب کی لڑکی سے شادی رچا لی کیونکہ اسکول میں وہ اس کے ساتھ پڑھتی تھی اور پڑی لکھی لڑکی سے خالہ بھی بہت خوش تھی انہوں نے لڑکے کی پسند کا کہہ کر بہت آسانی سے بہن سے جان چھڑا لی تھی۔
کچھ دنوں سے نمبر تین والا اپنی شادی کے لیے اماں کے دوا لے ہوا بنا ہوا تھا۔ ایک بیوہ کے گھر کا سودا کروایا تھا بس بیوہ کی ایف اے پاس لڑکی دل کو بھا گئی تھی اکلوتی لڑکی اور ماں مکان کی مالک اس کا ارادہ ان کے ساتھ ہی رہنے کا تھا۔
اماں نے اس کے رشتے تو کئی دیکھے تھے، مگر بیٹوں کی کمائی پر اماں کا معیار بھی اونچا ہو گیا تھا کوئی کھاتا پیتا گھرانہ بیٹی کے لیے ڈھونڈنا چاہتی تھیں مگر بیٹی کے سفید ہوتے بالوں سے بھی خوف زدہ رہنے لگی تھیں۔ اِدھر اپنی پوتیاں اپنے پیغام چھپانے کی عمر تک آ گئی تھیں۔ نمبر تین کا تقاضا بڑھتا جا رہا تھا وہ روز اماں کو اپنے ہونے والے سسرال جانے کا حکم دے دیتا وہ ٹال مٹول کر جاتیں۔ ثریا کے ہوتے ہوئے وہ کیسے مزمل کا سہرا باندھ دیتیں۔ ابھی وہ سوچ میں تھیں کہ ہمسائی آ گئی اِدھر اُدھر کی بات کے بعد بولی ہاں وہ شاہد تھا نا جنرل اسٹور والا دبئی سے آیا ہے کیا مال کمایا ہے تیرے بیٹوں کی وجہ سے بھاگا تھا مگر اسے تو ہجرت راس آ گئی اس کی اماں اب اس کے لیے اونچے گھروں کی لڑکیاں دیکھ رہی ہے۔
پڑوسن تو اپنے گھر چل دی مگر اماں کی آنکھوں میں خواب بھر گئی۔ ثریا کو پاس بلا کر دھیرے سے بولی ثریا شاہد آیا ہوا ہے۔ دیکھ تیرے لیے کوئی چٹھی تو نہیں بھیجی اور ثریا اپنے سفید ہوتے بالوں اور بے رنگ چہرے کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگی کہ اماں کو اب خیال آیا ہے جب سارا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیا ہے۔
٭٭٭
ہمزاد
ارشد صاحب کسی بڑے سے سرکاری محکمہ میں چھوٹی سی پوسٹ پر فائز تھے پوسٹ تو چھوٹی مگر کمائی لمبی تھی۔ پچاس کے پیٹے میں ارشد صاحب اس کمائی سے خود کو جوان رکھنے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف تھے۔ ارشد صاحب کی چال ڈھال اور شوق سب جوانوں والے تھے چھیل چھبیلا حلیہ اُڑتے ہوئے بال ہر وقت سنورے ہوئے ہاتھ میں مہنگی سگریٹ اور منہ میں مہک دار گلوری۔ افسران ان سے خوش کہ محنت ارشد صاحب کی اور جیب ان کی۔ اسٹاف بھی راضی کہ چھوٹے موٹے پیسے کی ارشد صاحب کو کوئی خاص پروا نہیں تھی۔ موکل کے پیسے ارشد صاحب طے کرتے اور تن من دھن سے کام میں لگ جاتے ان کا ایک چہیتا تھا سرفراز ارشد صاحب کا دست راست گویا ارشد صاحب کی آنکھیں عمر میں ارشد صاحب سے آدھا مگر کارگزاری میں اُن سے بھی دو ہاتھ آگے۔ ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے بارہ بجے تک وہ ارشد صاحب کے پاس آ جاتا اور دونوں سرگوشیوں میں نہ جانے کیا کیا باتیں کیے جاتے بس لوگوں کو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ان دونوں کے جانفزا قہقہوں کی آواز سنائی دیتی تو دفتر کے ماحول میں جان سی پڑ جاتی۔ جس موکل کو بھی ارشد صاحب سے یا بڑے صاحب سے کام ہوتا وہ سرفراز کو ڈھونڈتا نظر آتا۔ جونہی سرفراز اسے نظر آتا اسے ہاتھ سے پکڑ کر کنٹین کی طرف لے جاتا چائے کی میز پر سود و زیاں کے قصے ہوتے واپسی پر سرفراز جیب پھلائے ارشد صاحب کی میز پر آتا اور دراز کھلتے معاملات طے ہو جاتے ارشد صاحب چھٹی سے ذرا پہلے دراز سے والٹ نکال کر ہاتھ میں فائل پکڑ کر بڑے صاحب کے کمرے میں چلے جاتے اور واپسی میں مسکراتے ہوئے برآمد ہوتے۔ کئی دفعہ لوگوں کی لگائی بجھائی کی وجہ سے ان کی پوسٹنگ ہوتے ہوتے بچی یہاں بھی سرفراز کی عقل مندی ہی کام آئی۔ دو ایک بڑے صاحب کے گھر کے پھیرے ہوٹل کی بکنگ اور بڑے صاحب کا دورہ معاملات سیٹ ہو جاتے۔ نہ جانے سرفراز اور ارشد صاحب میں کیا خوبی تھی ہر صاحب کے ساتھ سیٹ۔ گویا پانی کے بنے یہ لوگ گلاس کے سنگ گلاس پیالی میں پیالی۔ ارشد صاحب کے گھر میں دو عدد بچے تھے بیٹا تو پڑھائی کی خاطر باہر گیا ہوا تھا مگر بیس سالہ ثوبیہ سدا کی بیمار ماں کی خدمت کے لیے ساتھ ہی تھی۔ ثوبیہ نے بی اے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی اور ماں اور باپ کی خدمت کو گھر میں رہتی تھی۔
ارشد صاحب بھی اپنی طرح کے ایک ہی شخص تھے سرفراز کے ساتھ دوستی کچھ اس قدر بڑھی کہ ہر اچھی بری بات سرفراز سے ہوتی۔ وہ بھی انٹرنیٹ سے نئی نئی معلومات ارشد صاحب کے کان میں انڈیلتا جاتا ٹائپسٹ حمیدہ کلرک، آسیہ کلرک حتیٰ کہ لیڈیز باتھ روم کی مارتھا کی قوتیں اور زاویہ ارشد صاحب سے بالتفصیل بیان ہوتیں اور ارشد صاحب مزے لے لے کر سنتے کیوں آج حمیدہ کام کی بجائے آرام کر رہی ہے اور کیوں آج اتنے دن بعد گیلے بال لیے دفتر آ گئی ہے سرفراز کو سب خبر تھی حتیٰ کہ اسے یہ بھی پتہ تھا کہ مارتھا نے کس ماہ زچگی کی چھٹی لینی تھی۔ کہنے کو تو وہ غیر شادی شدہ تھا مگر گُن سارے برسوں کے بیاہے ہوئے مرد جیسے تھے حتیٰ کہ اس کو شہر کے تمام کامیاب حکما اور ڈاکٹروں کی خبر تھی جو بوڑھے کو جوان بنانے کے گُر جانتے تھے اور ارشد صاحب اکثر اس کو دفتر میں نوٹ پکڑاتے نظر آتے جن سے اگلے دن وہ نئی نئی دوائیاں ارشد صاحب کے حضور میں حاضر کر دیتا اور اگلے دن چھٹی سے ذرا پہلے ارشد صاحب سرفراز کی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر وہ دوائی آزمانے چلے جاتے خود وہ محتاط تھے مگر سرفراز ان پیش قدمیوں میں دو ہاتھ آگے تھا اس کو سب وہ ٹھکانے پتہ تھے جہاں ان کی ضرورت کا کاروبار ہوتا تھا۔ موٹی آسامی کو جھاڑا تو کوٹھی نہیں تو کوٹھا۔ خیر عیش تو دونوں کرتے مگر سرفراز ذرا کھل کے ایک تو شادی شدہ نہیں تھا دوسرا تجربے شاید بچپن سے کرتا آیا تھا اور وہ اِن پر شرمندہ بھی نہیں تھا۔ کسی الگ سے کمرے میں رہتا تھا بوتل اور دوسری خرابات کا انتظام، کمرے میں کمپیوٹر پر ہر طرح کی سی ڈی جب باہر کا پروگرام نہ ہوتا ارشد صاحب اس کے گھر ہی میں موج میلا کر لیتے۔ پھر اُس کے بعد دونوں کی باتیں اور آسمان کو چھوتے ہوئے قہقہے زمین ہلا دیتے تھے۔ پیسہ کا کوئی مسئلہ نہیں تھا نوکری فٹ تھی۔ اس لیے عیاشی بھی فٹ تھی۔ اگر کوئی شوقین افسر آ جاتا تو اس کے لیے بھی سرفراز کے پاس ہر تالے کی چابی تھی۔ کئی دفعہ تو وہ اپنی سہیلیوں کو افسران کو یہ کہہ کر پیش کر چکا تھا کہ ترقی کے بعد شادی کرے گا اور وہ لڑکیاں بھی کچھ ضرورت کی کچھ محبت کی ماری اس کی چرب زبانی کے ہاتھوں بے وقوف بن جاتی تھیں۔ ایک آدھ دفعہ اس نے ارشد صاحب کو بھی صلح ماری مگر ایک تو عمر دوسرے لحاظ وہ مسکرا کر چپ ہو گئے بس دو ایک خاص جگہیں تھیں جہاں ارشد صاحب خوش ہو کر جاتے تھے۔ سرفراز وہاں بھی ان کے ساتھ ہوتا اگر ارشد صاحب اندر خالہ کے ساتھ مصروف تو وہ باہر بھانجی کے ناز نخرے اُٹھاتا اور واپسی پر دونوں گنگناتے آتے۔ ارشد صاحب گھر آ کر ایسے بن جاتے کہ گویا مسجد کے صحن سے ہو کر آئے ہوں بیگم کا حال پوچھتے۔ بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھتے کھانا کھاتے اخبار پڑھتے ٹی وی دیکھتے اور اکثر شریف مردوں کی طرح سوجاتے۔ ثوبیہ ماں کے ساتھ سوتی اور وہ صبح اُٹھ کر تیار ہوتے اپنے شکاری لباس زیب تن کرتے اور شکار کے لیے تیار ہو جاتے سرفراز ان کی زندگی میں کچھ ایسے گھل مل گیا تھا کہ وہ اسے اپنے سے دور کرنے کو تیار نہ تھے۔ پرسوں کی بات ہے ابھی دفتر کی سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے تک بھی نہ پہنچے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی بیٹی نے بتایا کہ رات سے ماں کی طبیعت خراب تھی اب مزید بگڑ گئی ہے سرفراز کو آواز دی اور اسے موٹرسائیکل نکالنے کو کہا گھر پہنچے تو ثوبیہ دروازہ کھولے سامنے کھڑی تھی۔ گلابی آنکھیں لال ہوئی ہوئی تھیں۔ گلابی دوپٹہ میں وہ ادھ کھلا پھول لگ رہی تھی۔ سنہری بال کمر تک آ رہے تھے۔ سرفراز نے ثوبیہ کو دیکھا تو ایک دم ٹھہر گیا۔ ٹیکسی لائی گئی اماں اور ثوبیہ ارشد صاحب کے ساتھ ٹیکسی میں اور یہ پیچھے پیچھے ہسپتال روانہ ہوائے وہاں ڈاکٹر دوائیاں ادھر اُدھر سرفراز کو جتنی بار ثوبیہ نظر آئی اس کے دل میں اتنا ہی اترتی چلی گئی۔ روز ارشد صاحب کی بیگم کا حال پوچھنے کے بہانے ہسپتال کا چکر لگتا رہتا۔
ایک ہفتہ بعد بیگم گھر آ گئی تو ارشد صاحب بھی باقاعدگی سے دفتر آنے لگے۔ جمعہ کا دن تھا ارشد صاحب کا عیاشی کا موڈ تھا ہسپتال کے چکروں کا بھی اثر تھا اور ایک پارٹی سے مال بھی لمبا ملا تھا۔ وہ سرفراز کا انتظار کر رہے تھے سرفراز کمرے میں داخل ہو بجھا چہرہ رتجگا آنکھوں میں اس کا وجود جلا ہوا لگتا تھا۔ ارشد صاحب نے خیریت پوچھی تو دھیرے سے بولا سر جی دل چارہ رہا ہے اب گھر بسا ہی لوں۔ ارشد صاحب قہقہہ مار کر ہنسے ایک بے ہودہ سی گالی بکی اور اس سے پوچھا ابے کون سی رانڈ نے تجھے قابو کر لیا ہے۔ سرفراز کچھ دیر تو چپ رہا پھر آہستہ آہستہ سے بولا ارشد صاحب مجھے اپنی غلامی میں لے لیں میں آپ کی بیٹی کو خوش رکھوں گا۔ ارشد صاحب کا سر ایک دم چکرا گیا سوچ میں پڑ گئے کہ سرفراز جو کہ عورت کو بازار کی جنس سمجھنے والا بالکل ان جیسا کیا ان کی بیٹی کو وہ پیار دے پائے گا جس کی وہ حقدار ہے ان کی نظروں کے سامنے سرفراز کی زندگی کی وہ فلم ایک سیکنڈ میں گزر گئی جس میں وہ بھی شریک تھے۔
٭٭٭
کمینی ہنسی
سال کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ کیلنڈر سال تو جنوری سے شروع ہوتا ہو گا مگر میرا سال اس دن سے شروع ہوا جب میں نے تم کو پہلی بار دیکھا۔ میں سرجھکائے اسی پیڑ کے پاس بیٹھی تھی جو اکثر اب بھی مجھے اپنی طرف بلاتا اور باتیں کرتا محسوس ہوتا ہے۔ جنوری کا یہ کچھ خنک سا دن تھا اور پتوں سے چھنتی ہوئی ہلکی ہلکی دھوپ مجھے گرمانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ اکثر چھٹی والے دن میری دوپہریں اسی باغ کی آغوش میں گزرتی تھیں۔ میرے ہاتھ میں کسی انجان شاعر کا وہ مجموعۂ کلام تھا جس کو میں نے آج صبح ہی انارکلی کے پرانی کتابوں والے بازار سے لیا تھا۔ میں ان شعروں میں اپنی زندگی کے معنی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ زندگی جو تنہا ہوتے ہوئے بھی تنہا نہیں تھی۔ کسی دور دیس بسنے والے کے نام کی انگوٹھی میرے ہاتھ میں تھی اور اس کی ایک نشانی سامنے گھاس اور فٹ بال سے الجھنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ میری زندگی کا محور یہ نشانی اور میری وہ کاوش تھی جو میں زندگی کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کر رہی تھی۔ چند سال پہلے یونیورسٹی کے پہلے سال میں ہی میں نے امجد سے رشتہ جوڑ لیا تھا اور اپنے اور اس کے ماں باپ کی ناراضگی کے بعد چھ ماہ بعد یہی امجد سمیرا کو میری گود میں ڈال کر دور دیس کمانے چلا گیا تھا۔ اس بات کو بھی پانچ برس بیت گئے تھے اور سمیرا میری ذمہ داری بن کر میرے کاندھوں پر در آئی تھی۔ میں کم پڑھائی کے بعد چھوٹی سی نوکری کے لیے ایک تنگ سے فلیٹ میں اپنی محبت کی سزا بھگت رہی تھی۔ اکثر چھٹی کے دن سمیرا کو لیے لارنس آ جاتی اور وہ پیڑ جو میری اور امجد کی محبت کا امین تھا اس کے نیچے بیٹھ کر امجد کو لکھنے کے لیے اس خط کا مضمون سوچا کرتی جو میں چاہ کر بھی نہ لکھ سکتی تھی۔ امجد کا پتہ کافی عرصہ ہوا بدل چکا تھا اور نہ اس نے اپنے دل بدلنے کا بتایا تھا نہ پتہ بدلنے کا۔
وہ اچانک میرے قریب آ گیا اور ایک گمبھیر سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ’’پلیز یہ کتاب میں دیکھ سکتا ہوں کافی عرصہ سے میں اس کو ڈھونڈ رہا تھا‘‘ ۔ میں نے سراُٹھا کر دیکھا ایک بہت ہی وجیہہ شخصیت اپولو کی طرح پر وقار اور زیوس کی طرح خوبصورتی کا مالک مردانہ وجاہت کا شاہکار میرے سامنے کھڑا عمر میں مجھ سے کچھ زیادہ مگر وجاہت میں مجھ سے بہت زیادہ۔
میں ششدر سی رہ گئی وہ جو کہتے ہیں نا ایک لمحہ میں اس لمحہ کی اسیر ہو گئی۔ میں نے کم لوگ ہی اس طرح کی شخصیت کے دیکھے تھے۔ میرا پیارا خوبصورت درخت جو مجھے دنیا کی ہر شے سے زیادہ خوبصورت نظر آتا تھا وہ بھی اس سمے مجھے کچھ افسردہ اور جلا جلا سا دکھائی دیا۔ میں ایک دم گڑبڑا کے اُٹھ گئی میں نے وہ کتاب جلدی سے اُسے تھمائی۔ مجھ میں بولنے کا یارا بھی نہ تھا اور دور جاتی سمیرا کے پیچھے بھاگ گئی۔ میں نے کن انکھیوں سے دیکھا اس نے وہاں ہی بیٹھ کر کتاب دیکھنی شروع کر دی اور میں سمیرا کی انگلی پکڑے اس کے ساتھ گھر کو چل دی۔ دل کی دھڑکن ابھی تک معمول پر نہیں تھی۔ حالانکہ میں نے امجد کو یاد کرنا کب کا چھوڑ دیا تھا مگر اس لمحہ مجھے اس کی کمی بے تحاشہ محسوس ہوئی اور میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ فلیٹ کی بالکونی سے لارنس کا کچھ حصہ نظر آتا تھا۔ جھولے اور بچے۔ میں کافی دیر بھیگی آنکھوں سے ان بچوں اور جھولوں کو تکتی رہی۔
پورا ہفتہ گزر گیا۔ غمِ روزگار میں گم۔ میں بھی اس واقعے کو بھول گئی۔ مجھے یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ کتاب کس کی ہے اور کہاں ہے مگر ایک لمحہ کے لیے میرے اردگرد ایک تناور سے درخت کا مہربان احساس سرسرا رہا تھا۔ آج پھر اتوار تھا گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر میں سمیرا کو ساتھ لیے پھر باغ میں تھی آج دھوپ میں کچھ شدت تھی اور ہلکی ہلکی ہوا سے گلابوں کی کیاریاں جھومتی ہوئی دکھائی دیں۔ میں نے دور سے اس بنچ کے پاس دیکھا کوئی وہاں بیٹھا ہوا دکھائی دیا وہی تھا۔ اس کی شخصیت کوئی بھولنے والی نہ تھی۔ مگر میں ہمت کر کے اس کے قریب چلی گئی۔ ہمّت کیا کرنی تھی کوئی انجانی کشش مجھے اس کے قریب لے گئی۔ ایک دم وہ دیکھ کر مسکرایا گویا جنوری میں بہار آ گئی۔ سارے پھول ایک دم کھل گئے میرے درخت نے مجھے تنبیہ کی ’’اوں ہوں‘‘ پھر وہی وحشت؟ وہ تو میری وحشتوں کا امین تھا میرا راز دار تھا امجد کی طرف مجھے بڑھاوا دینے والا بھی وہی تھا۔ جب ہم اولڈکیمپس سے بس میں بیٹھ کر یہاں آتے تو وہ اپنے مہربان سائے میں ہمیں چھپا لیتا۔ اپنی پسند کے پھول بہار میں ہم پر برساتا اور کسی انجانے رشتے کے خواب دکھاتا شاید ہم دونوں کو دو سے ایک کرنے میں اس پیڑ کا بہت ہاتھ تھا مگر آج اس کی سرزنش کو میں نے نظرانداز کر دیا اور ایک دم اس نے مجھے دیکھا تو اس کے چہرے پر انتظار کاموسم تھا۔ بولا ’’ارے اس دن آپ کی کتاب میرے پاس تھی واپس لینے آئی ہیں‘‘ ۔ ’’نہیں میں تو بس یونہی‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ ’’میں ڈاکٹر زین‘‘ اس نے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ یہاں میں ایک معروف کالج میں اردو کا ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہوں۔ آپ کی کتاب میں نے دیکھی یہ نایاب ہے اور میرا ایک شاگرد اس پر مقالہ لکھ رہا ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ میں تو بس ایک بار پھر اس حصار میں تھی عشق کے حصار میں۔ پہلی بار میرا پیڑ میرے ساتھ تھا مگر اس بار وہ مجھے تنبیہ کر رہا تھا میرے وجدان کو للکار رہا تھا۔ مجھے الجھن میں ڈال رہا تھا۔ مگر اسی سمے مجھے ایک انسان نے اپنے حصار میں جکڑ لیا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ لمحہ جو آگہی کا لمحہ تھا مجھ پر اب وارد ہوا ہے۔ میں سرد ہوا کے ساتھ ہولے ہولے سرد ہو رہی تھی۔ میرا گرم لباس مجھے اس ٹھنڈ سے بچانے میں ناکام ہو گیا تھا جو میرے وجود میں اس کی حدت سے اتر رہی تھی۔ شاید زندگی میں دل کا اپنا ہی کوئی نظام ہوتا ہے دل کی کہانی تو آنکھیں بیان کرتی ہیں میری آنکھوں نے اس کو میرے دل کی کہانی سنادی اور ارد گرد کا موسم اچانک بہار میں ڈھل گیا۔ سمیرا دور کہیں اپنے تتلی رنگ گیند میں اُلجھی ہوئی تھی۔ میں اس بنچ پر اس کے قریب بیٹھ گئی وہ اپنی داستاں ہولے ہولے سناتا رہا پہلے تو کچھ اشعار اور پھر ان سے جڑے لمحے۔ میں وہاں کہاں تھی میں تو ایک دم اس کے وجود کا حصہ بن گئی تھی۔ پہلی نگاہ کی محبت شاید اس کو کہتے ہیں مجھے کچھ غرض نہیں تھی کہ کوئی دیکھ لے گا۔ اس کا ماضی کیا ہے ہم کہاں تک ساتھ چل پائیں گے اور سمیرا میری جان ہم دونوں کے درمیان کہاں ہو گی؟ بس عشق ہو گیا بے پرواہ اور بے پناہ۔ جنوری فروری اور فروری مارچ میں بدل گیا باغ کے نظارے ہم اور ہمارے نظارے وہ کنیر کا پیڑ دیکھتا رہا۔ ہم ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھنٹوں مغل بارہ دری کے فرشوں پر ٹہلتے رہتے تھے۔ میرا رات کو واک کرنا بہت ضروری ہو گیا۔ سمیرا کو ہمسائی کے گھر کی عادت پڑ گئی کہ اس کے بچے اور سمیرا اکٹھے اسکول جانے اور کھیلنے لگ گئے۔ میری محدود تنخواہ میرے گل رنگ کپڑوں کا بمشکل بوجھ سہارنے لگی۔ میں نے اپنی زندگی سے گزرے پانچ سال نفی کر دیے۔
لارنس کے سامنے کے گیٹ سے وہ آتا اور لائبریری کے پاس کھڑا ہو جاتا۔ میں دوسرے لارنس روڈ والے گیٹ سے آتی اور ہم دونوں مل کر مغل گارڈن کی روش پر واک کرتے۔ یا پھر بارہ دری کے بنچ پر بیٹھ کر ایک دوسرے کو محسوس کرتے۔ اس نے بتایا کہ وہ جب SOASS سے Ph.D. کر رہا تھا تو اس نے شادی لنڈن کی ایک فیملی میں کر لی تھی۔ اس کا ایک بیٹا ہے جو کہ والدہ کے پاس ہے۔ ہم دونوں نے اس کے بعد ایک دوسرے کے ماضی پر بات نہیں کی۔
ہم پھولوں پر بات کرتے شعروں پر بات کرتے محبت پر بات کرتے اور کبھی کبھی سمیرا کے مستقبل پر بات کرتے مگر اپنے مستقبل پر بات کرنے سے پہلے ہی چپ ہو جاتے۔ اکثر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ایک دوسرے کا لمس محسوس کرتے۔ ہاں میں نے اپنے پیڑ سے پہلوتہی کرنی شروع کر دی تھی۔ وہ مجھے گھورتا تھا اور کبھی ڈانٹ بھی دیتا تھا۔ زین جب اس کے نیچے بیٹھ کر میرے ہاتھ کو اپنے ہونٹوں سے لگاتا تو وہ اس زور سے لرزتا کہ مجھے کپکپی سی محسوس ہوتی۔ ہاں صرف اتوار کے دن میں اپنے پیڑ کے پاس جاتی جب سمیرا میرے ساتھ ہوتی مجھے پتہ تھا کہ وہ سمیرا کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ مجھے اس دن زین کے ساتھ ہنسنے کی اجازت مل جاتی اور میرے وہ قہقہے جو میری یونیورسٹی کے دنوں میں میری پہچان ہوا کرتے تھے اب واپس لوٹ آئے تھے۔ جون گزرا جولائی گزرا برسات آ گئی۔ میں زین کی اور وہ میرا مزاج آشنا ہو گیا تھا۔ ہم دونوں کوئی ایسی بات نہ کرتے جس سے ایک دوسرے کی دل آزاری ہوتی ہو بس لارنس کی روشنیوں کو، پتوں کو اور پھولوں کو گواہ بناتے ہم اپنے عشق میں گم۔ اب برسات کے دنوں میں ہم دونوں کبھی کبھی اپنے پیڑ کے نیچے پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے تو وہ مہربان بزرگ کی طرح پناہ تو دے دیتا مگر ٹپ ٹپ آنسو بھی بہاتا رہتا کہ میں کیوں اس کی طرح ہجر کی آگ میں جل کر لکڑی نہیں بنتی میں تو دوسرے پودوں کی طرح کھِل کر پھول بن گئی تھی۔ وہاں آنے والے اکثر جوڑے ہمیں پہچاننے لگے تھے اور گزرتے ہوئے ایک مہربان مسکراہٹ ہماری طرف اُچھال دیتے۔ زین کی شخصیت ایسی تھی کہ کوئی اسے ایک بار دیکھ کر بھول نہیں سکتا تھا اور میں اس کے ساتھ ایسے جیسے تناور درخت سے جڑی پھولوں بھری گلاب کی بیل ہر دم زین سے لپٹنے کو بے قرار۔ ہماری بے حد محبت نے بھی حد برقرار رکھی ہوئی تھی۔ شاید زین کو اس چیز کا ادراک تھا کہ اس سے محبت میں تشنگی برداشت کر لوں گی مگر اس آگ میں جلنا قبول نہیں کروں گی جو میرے ضمیر پر تازیانے کی طرح لگے اکثر اب وہ اپنے چھوٹے چھوٹے مسئلے مجھے بتانے لگا تھا۔ ایک شام اگست کی جانے کونسی تاریخ تھی کچھ بادل برس چلے تھے مگر گھنگھور گھٹا ابھی برسنے کو تیار تھی سارا باغ قدرت کے انمول دیوں سے جگمگا رہا تھا۔ ہم دونوں ابھی تُرت مراد کے مزار سے فاتحہ پڑھ کر چلتے چلتے اپنے اسی مہربان سے نامہربان درخت کے پاس آئے تھے۔ فضا میں جگنوؤں کی چمک نے ایک الوہی کیفیت پیدا کر دی تھی جیسے مندر کی منڈیر پر دیے تھرتھراتے ہوئے۔ فضا میں حبس تھا مگر مجھے اُس کی موجودگی میں حبس محسوس نہیں ہو رہا تھا اچانک میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا ’’جاناں میں ایک بات کہوں بُرا تو نہیں مانو گی‘‘ میں جو اس کی ایک آواز پر پگھل جاتی تھی بولی بولیے وہ بولا ’’تم کو امجد کا نمبر پتہ ہے‘‘ میں بولی ’’کیوں‘‘ تو ایک دم بولا کہ ’’پگلی ایک نئے رشتے بنانے کے لیے پرانے تو توڑنے پڑتے ہیں نا! وہ تم کو منجدھار میں چھوڑ گیا ہے کنارے پر لگنے کے لیے نئے سفینے تو ڈھونڈنے پڑتے ہیں‘‘ ۔ میں ایک دم لرز گئی اس حبس زدہ شام میں میرے اندر دور تک ٹھنڈک سی پھیل گئی شکر ہے اس نے مجھے انا کو توڑنے پر مجبور نہیں کیا۔ لاکھ محبت سہی مگر میں اپنے پندار سے کیسے جنگ کرتی کس طرح اسے بتاتی کہ جاناں اس کے لیے میں نے اپنی زندگی گزار دی۔ میں جو ادھوری ہونے کا کرب سہہ چکی تھی مکمل ہونے کی آس سے سرشار سی ہو گئی۔ مجھے سمیرا کی فکر نہ تھی کیونکہ جتنا میں زین کو جانتی تھی وہ سمیرا کو باپ کا پیار اس کے باپ سے بڑھ کر دیتا۔ آج مجھے پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ میرا دوست درخت ہولے ہولے گنگنا رہا تھا۔ مجھ پر بارش کے سنبھالے ہوئے قطروں کی بوچھاڑ سی پڑی۔ میں سرشار ہو کر ہولے سے بولی اس کے والدین کا تو نہیں اس کے ایک آدھ دوست سے شاید اس کا رابطہ ہو میں پتہ کروں گی۔ پھر اس نے بتایا کہ اس کی فیملی اسے دوبارہ اکٹھا ہونے کا کہہ رہی ہے اس کے سسر کا کوئی وہاں کاروبار ہے وہ وہاں بلا رہے ہیں مگر میں کتاب کے اس باب کو ہمیشہ کے لیے بند کرنا چاہتا ہوں میں اپنا ملک اپنی جڑیں اور اپنی زبان چھوڑ کر وہاں نہیں رہ سکتا اور بیٹا تو اگر میرے پاس رہا تو تم اس کی اچھی ماں ثابت ہو گی۔
اسی دن سے میرے گرمیوں کے دن ختم ہو گئے مزاج میں ستمبر کی ہلکی خنکی والی ہوا در آئی میں نے امجد کے دوستوں سے رابطہ کیا اسی اثناء میں ہم ملتے رہے اب ہم کبھی کبھی سمیرا کے ساتھ اکٹھے کھانے پر چلے جاتے اور اکثر مستقبل کی پلاننگ کرتے رہتے۔ سمیرا اس کے ساتھ بہت خوش تھی۔ وہ بھی اپنے معاملات خوبصورتی سے نمٹا رہا تھا اس کی بیوی نے پیغام دیا تھا کہ وہ لنڈن آ جائے تاکہ قانونی کار روائی پوری کی جائے۔ میرا امجد سے کسی کی وساطت سے رابطہ ہوا تھا۔ میں اس کی طرف سے کسی پیغام کے انتظار میں تھی اتنی باتوں میں دسمبر پھر آ گیا۔ دھوپ ٹھنڈی اور ہوا سرد ہونا شروع ہو گئی لارنس کے پتے اب اس زور سے تالیاں نہیں بجاتے تھے بلکہ اکثر تو اُڑتے اُڑتے اس کی پگڈنڈیوں پر اکٹھے ہو جاتے تھے۔ ہر چیز میں سنہرا پن آ گیا تھا۔ میرا درخت میری محبت کی سدا بہار تھا۔ وہ اپنے ہرے پتّے پُر غرور انداز میں دیکھ کر مسکراتا رہتا تھا۔ میں اب اس کی تھوڑی تھوڑی شکرگزار رہنے لگی تھی۔ اگر میری پہلی محبت اس کے پہلو سے اُٹھ کر گئی تھی تو دوسری محبت بھی تو اسی کے پہلو سے ملی تھی۔ وہی دسمبر کی دوپہر تھی آج ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ پہلے واک پھر لنچ اسی جاوداں پیڑ کے نیچے میں خوش تھی امجد کے دوست نے کہا تھا کہ وہ تم سے خود رابطہ کرے گا۔ ہم ابھی اس درخت کے نیچے آ کر بیٹھے ہی تھے اور سمیرا زین سے بہت گھل مل کر بات کر رہی تھی۔ میں محسوس کر رہی تھی کہ جب سے زین سمیرا کی زندگی میں آیا ہے وہ ایک بہت پراعتماد بچی ہو گئی ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک نکھار آ گیا ہے جہاں وہ پہلے مشکل سے پاس ہوتی تھی اب کلاس میں فرسٹ آنے لگی ہے۔ مجھے اس کا زین سے ملنا گھلنا اچھا لگتا تھا۔ میں نے دور سے دیکھا کہ ایک شخص ایک چھوٹی سی بچی کے ساتھ چل کر میرے پاس آ رہا ہے اس نے دور سے ہاتھ ہلایا وہ امجد تھا۔ میں سن سی ہو گئی اس اثناء میں وہ میرے قریب آ گیا۔ ’’امجد‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ اوہ تم مجھے پتہ تھا تم سنڈے کے دن مجھے یہاں ہی ملو گی۔ یہ شِزا ہے میری دوسری بیوی کی بیٹی۔ مجھے افسوس ہے میں تمہاری خواہش پوری نہیں کر سکتا اُس نے مجھے چھوڑ دیا ہے تم مجھے معاف کر دو مجھ سے بہت بڑی بھول ہو گئی تھی۔
وہ ارد گرد دیکھے بغیر اپنے گناہ کا اعتراف کر رہا تھا اور میں خالی سی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مجھے معاف کر دو دیکھو شِزا کو تمہاری ضرورت ہے میں اکیلا اسے پال نہیں سکتا۔ میں نے شِزا کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں وہی ادھوراپن تھا جو کہ میں سمیرا کی آنکھوں میں دیکھ چکی اور کچھ اپنے اور کچھ اس کی وجہ سے اُس نے زین کو قبول کیا تھا۔ وہ بیٹی تھی مجھے جھُرجھری آ گئی ’’ایک اور ادھوری عورت‘‘ مجھے لگا کہ میں کچھ غلط کرنے جا رہی ہوں۔ میں نے شِزا کا ہاتھ تھاما اور بولی امجد یہ زین صاحب ہیں سمیرا کے پرنسپل یہاں مل گئے تھے۔ زین پریشان سا کھڑا کوئی کاغذ باریک باریک ٹکڑے کر رہا تھا۔ اس نے کاغذ ہاتھ سے پھینکا امجد سے ہاتھ ملایا اور واپس چلنے کو مڑ گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ زین کی لنڈن جانے کی ٹکٹ تھی میں نے سمیرا اور شِزا کا ہاتھ تھاما آہستہ سے امجد سے بولی چلو گھر چلتے ہیں تم اپنی ہزارداستان وہاں جا کر سنانا امجد شرمندہ سا آگے چل دیا۔ میں نے پیچھے مڑ کر شکوہ بھری آنکھوں سے اپنے پیڑ کو دیکھا کم بخت نے اپنا وصف سایہ بن جانے کا وصف نہ جانے کب مجھ میں انڈیل دیا تھا اور خود ایک کمینی ہنسی سے مجھ کو تک رہا تھا۔
٭٭٭
بے جوڑ
چھماں پر حسن اور جوانی دونوں ٹوٹ کر برسے تھے۔ بیس کی عمر اور قیامت کی قامت ادائے دلبری اور دل لگی کی کونسی ادا تھی جو اس میں نہیں تھی کس چیز کی کمی تھی ابا کے دو مربع کی اکلوتی مالک اس کا باپ حاکم دین اور چچا حکم دین دو ہی تو بھائی تھے۔ دادا گاؤں میں چار مربعوں کا مالک اونچی پگڑی اور اونچے شملے والا بہت دھوم دھام سے دونوں لڑکوں کی شادیاں ساتھ والے گاؤں کے زمیندار کے گھر کی تھیں۔ دونوں بہنیں اکٹھی رہیں گی تو وراثت کے مسئلے پیدا نہیں ہوں گے۔ مگر اللہ کی مرضی حاکم دین کی بیوی رضیہ اور حکم دین کی ثریا بہنیں ہونے کے باوجود مزاج میں ایک پانی تو دوسری آگ۔ ایک جلتی تو دوسری جلاتی دونوں میں اتفاق بھی بہت تھا کیونکہ حاکم دین بڑا ہونے کے باوجود اپنی پانی جیسی بیوی میں ڈوب گیا تھا مگر ثریا کی آگ کی فطرت نے حکم دین کو صرف جلایا ہی تھا مگر وہ اکثر تن پہ لگی آگ کو کبھی کنویں کی پنہاریوں تو کبھی کھیت کی کپاس جیسی گولیوں سے بجھا لیتا تھا یکے بعد دیگرے دونوں کے گھر بیٹیاں پیدا ہو گئیں۔ رضیہ کی بیٹی چھماں اور ثریا کی سلمیٰ گورے رنگ کی چھماں سانولی رضیہ سے چند ماہ ہی چھوٹی تھی۔ دونوں کی عمریں دس سال کے قریب تھیں تو خدا نے دادا کی سن لی ثریا کے گھر بیٹا بلال پیدا ہو گیا۔ دادا نے ایک حکم کے ذریعے چھماں اور بلال کی منگنی کر دی اور اپنے حکمِ اللہ پہ لبیک کہتا ہوا چلا گیا۔
دس سال کے بلال کو چھماں بالکل نو ٹنکی کی گڑیا لگتی ویسے بھی جوانی کا حسن اپنا ہی ہوتا ہے۔ بلال کو پتہ تھا کہ وہ اس کی منگیتر ہے وہ اسے کن انکھیوں سے دیکھتا اور شرما جاتا۔ چھماں کی جوانی بھی بالے کی انتظار کی بھٹی پر تپ رہی تھی۔ ایک ڈیوڑھی کو پھلانگتے ہوئے آتے جاتے اسے دیکھ کر کبھی بالوں میں ہاتھ پھیر لیتی کبھی گال پر چٹکی کاٹ لیتی سلمیٰ اس کے یہ لچھن دیکھ کر مسکرائے جاتی اس کی منگنی چھبیس سالہ ماموں کے لڑکے سے ہوئی ہوئی تھی اور ایک سال کے بعد فصل اُٹھنے کے بعد شادی طے تھی اس لیے اسے اپنے بھائی کے ساتھ اپنی ہمجولی کی اٹھکیلیاں بری نہ لگتیں۔ دن گزر گئے سلمیٰ بیاہ کر دوسرے گاؤں چلی گئی چھماں کے دن بالے کی جوانی کے انتظار میں گزرنے لگے گاؤں میں چوہدریوں کے بچے جو صرف شادی کے انتظار میں ہوتے ہیں اُن پر جوانی کچھ جلدی آ جاتی ہے۔ پندرہ سال کی عمر میں بالادوستوں کی عنایت سے کافی تجربات حاصل کر چکا تھا ویسے بھی ثریا بالے کے لیے خوراک کا خاص خیال رکھتی تھی اسے بالے کی شکل میں چاروں مربعے اکٹھے نظر آتے تھے جوں ہی بالے کا پندھرواں لگا اس کے گھر ڈھولکی بٹھا دی گئی دونوں گھروں کے آنگن میں دیوار اُٹھ گئی یہ بھی ثریا کی خواہش تھی کہ دلہن نے بیاہ کر دوسرے گھر آنا ہے اسے وہ گھر تو ملے۔ اِدھر چھماں بالے کے آنگن میں اتری بالا اس کا اثیر ہو گیا۔ 25 سالہ چھماں بالے کو ابھی تک نو ٹنکی کی گڑیا لگتی تھی۔ سلمیٰ دو دو بچوں کی ماں بن کر چھماں سے کئی گنا بڑی لگنی شروع ہو گئی تھی۔ مگر چھماں بالے کی خوشی پا کر اور نکھر گئی تھی اسے پتہ تھا کہ بالا عمر میں چھوٹا ہے۔ اسے باندھنے کے کون سے گر ہونے چاہئیں وہ پانی فطرت ماں کی بیٹی اس کے لیے کوزہ بن گئی۔ ثریا کو گھر کا آنگن بھرا چاہیے تھا وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی نسل چلانا چاہتی تھی۔ اس نے اس کا آنگن بچوں سے پھر دیا یکے بعد دیگرے چار بچے پھر ان کو پالنے پوسنے اور سنبھالنے میں دس سال بیت گئے۔ چھماں پینتیس سال کی عمر میں پچاس کی لگنی شروع ہو گئی۔ ایک بعد ایک بچہ ماں کی بیماری ساس کی ناز برداری اور سلمیٰ کا رویہ اس کا رنگ و روپ کمھلا گیا بس ہر وقت بچوں کی دھن تینوں لڑکے شہر اسکول جاتے تھے۔ صبح ان کی خاطر گھر کے کام اناج کی ذمہ داری اور ساس سسر کی ناز برداری اماں ابا کی تیمار داری وہ اکلوتی جو تھی اور اکلوتے ہونے کے جو فرائض تھے ادا کر رہی تھی۔ مگر بالا بتیس سالہ بالا ابھی بالکل چھوکرا سا تھا۔ دس سالہ بیاہی زندگی اور گاؤں کا ماحول وہ ایک نشیلے رنگیلے گبھرو جوان میں ڈھل گیا تھا۔ چھماں جوں جوں اپنا وجود کھوتی جا رہی تھی بالے کی محبت میں سرشار ہوئی جا رہی تھی۔ بے شک بالا اُس سے عمر میں چھوٹا تھا مگر اس نے بچپن سے اس کا نام سنا تھا اور وہ نام اس کی روح سے جڑ گیا تھا۔ وہ اپنے وجود سے بے خبر اپنے عشق کی جنوں خیزیوں میں گم صرف بالے کی محبت میں گم تھی۔ تھوڑے دنوں کی بات ہے دوسرے گاؤں سے سلمیٰ کی نند گلنار آئی ہوئی تھی۔ سولہ سترہ سالہ چھمک چھلو سی گلنار کسی کالج میں فسٹ ایئر کی طالبہ تھی۔ بالے نے اسے دیکھا تو اس کے متناسب سراپے پر مر مٹا۔ سارا دن اس کی چوڑیاں ایک آنگن سے دوسرے آنگن کھنکتی رہتی اور بالا ڈیرے سے گھر کے پھیرے لگاتا رہتا۔ وہ اپنے کام میں مگن بے نیاز سی بالے کے چکروں کو بھی نہ جان سکی۔ ایک دن وہ باورچی خانہ میں کام کر رہی تھی کہ اس نے کام والی صغرا کو اناج کی کوٹھری سے اناج لانے کو کہا۔ تھوڑی دیر بعد صغرا مسکراتی ہوئی کوٹھری سے نکلی ساتھ میں گلنار اور بالا بھی۔ صغرا بولی آپ یہاں کام میں مگن ہو وہاں چھوٹے زمیندار نے گلنار بی بی کی تمام ونگیں توڑ دی ہیں۔ وہ پریشان سی اُٹھی تو ساس بولی کیا ہوا بات کا بتنگڑ نہ بنا صغرا کب تک بڑھاپا جوانی کو روک سکا ہے میرا جوان جہان بیٹا ہے ارمان ہیں کب تک رشتہ داری کے ناطے اس بے جوڑ کو نبھائے گا۔ ارے میں تو کل ہی سلمیٰ کے سسرال جا کے گلنار کا ہاتھ مانگ لیتی ہوں۔
چھماں کے تن سے ایک شعلہ سا اُٹھا۔ ارے میں نے تو اپنی جوانی کو انگاروں پہ رکھ کر بالے کی جوانی کا انتظار کیا تھا۔ جوانی اور بڑھاپے کا ساتھ بے جوڑ تھا تو بچپن اور جوانی کا ساتھ بے جوڑ نہیں تھا۔ میں اس کو چھوڑ دوں گی ابا سے کہوں گی میرے مربعے اس کو نہ دے میں خود گزارہ کر لوں گی۔
گزارے کے نام پر ایک خیال کی ایک لہر اس کا دل ہلا گئی بالا اور گلنار خوش اور میں۔۔ ۔ تنہا۔ یہ مربعے تو مجھے دوسری شادی بھی نہیں کرنے دیں گے بالے نے بیٹے مجھ سے چھین لینے ہیں اور میں اور میری بیٹی زمیندارنی سے فقیرنی بن جائیں گی۔ لیکن اس طرح کم از کم ہفتہ کی ایک رات تو میری ہو گی مگر وہاں تو پیاس ہی زندگی کا مقدر ہو گی میں پینتیس سال کی عمر میں جوگن تو نہیں بن سکتی۔ آہستہ سے اُٹھی ساس سے بولی اماں تو ٹھیک کہتی ہے میں اماں کے گھر چلی جاتی ہوں۔ درمیان کی دیوار ہٹا لے کبھی کبھی تو بالے کو بچوں کی یاد آئے گی تو کھڑکی تو نہ کھولنی پڑے گی۔
٭٭٭
ماخذ اور تشکر: کتاب ایپ
ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں