FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

پاؤلو کوئلو کے شہرۂآفاق ناول، الکیمسٹ سے متاثر ہو کر

 

چرواہا

 

 

 

                   محمد ذکی کرمانی

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

میرے عزیز

تمہاری جنوں خیزی کی آبیاری میں

ہم نے شفافیت کو پامال نہ ہونے دیا تھا

لیکن جب قافلہ آگے بڑھا تو وہی ہوا جس کا مردِ ضعیف کو خطرہ تھا

شفافیت قربان ہوئی اور تم نقصانِ عظیم کر بیٹھے، حالانکہ

تمہارے جنوں کو دیکھ کر کائنات کی قوّتیں تمہاری ہم رکاب ہونے کو تھیں

لیکن  !

صد شکر کہ آزمائش اور ابتلا

تمہاری جنوں خیزی کو متاثر نہ کر سکیں

اور

ہمارے سر بلند رہے       (م۔ ذ۔ ک)

 

 

 

 

 

پاؤلو کوئلو کی الکیمسٹ

رؤف نے مجھے تحفۃً دی

اور میں نے جانا کہ حکمت و دانائی پر کسی کی اجارہ داری نہیں

یہ ایک خوبصورت کتاب ہے جس کے

بنیادی تصوّرات فکرِ تصوّف سے مستعار ہیں

جو ممکن ہے کہ دانشِ عصر کو تسلیم نہ ہوں، لیکن اِن کی سچّائی

سے کوئی عصر کبھی انکار نہ کرسکا

جدید معاشرتی ارتقاء میں تجربہ و تجزیہ کی حیثیت بجا

لیکن مشاہدہ کے ذریعہ علامات کو پہچاننے

اور مقدّر کی تلاش میں اُن کی رہنمائی سے

انفرادی کامیابی کی ضمانت ملتی رہی ہے

اور کیا عجب کہ اجتماعی مقدّروں کے ارتقائی سفر میں بھی اُن کا کوئی رول ہو

اور آج کا انسان وہ چیز پالے

جس کے کھو جانے کا احساس تو اُسے شدید ہے

لیکن اُسے پہچان سکنے کی صلاحیت سے وہ محروم ہو گیا ہے

چرواہا اسی کتاب سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے جس میں

مماثلت اتفاقی اور تصرّفات دانستہ ہیں

 

 

محمد ذکی کرمانی

علی گڑھ

 

 

 

کتاب :  پاؤلو کوئلو کے مشہور ناول الکیمسٹ سے متاثر ہو کر لکھی گئی یہ کہانی  ایک نوجوان اندلسی چرواہے کے گِر د گھومتی اندلس کے میدانوں سے شروع ہو کر افریقی ریگستان میں پھلتی پھولتی اور اہرامِ مصر کے قریب کمال کو پہنچ کر پھر اندلس میں ختم ہوتی ہے۔

حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ استقلال کا امتحان ہیں اور اگر دل زندہ ہو اور آنکھوں پر پردے نہ پڑے ہوں تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں اور اِس معاونت اور راہنمائی کو دیکھ لینا ذرا بھی مشکل نہیں۔

تجربہ، تجزیہ اور تحلیل معاشرتی ارتقاء کے انتہائی اہم عناصر سہی، لیکن اُن پر مکمل انحصار سے ہماری مشاہداتی قوّتیں محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ فطرت سے دوستی کے بجائے اُس پر مالکانہ حقوق کے تصوّر سے علم و حکمت کے ایک بہت بڑے خزانہ سے ہم محروم ہو گئے ہیں۔

چرواہا اِس خزانہ کی تلاش کی کہانی بھی ہے اور یہ پیغام بھی کہ انسانی سرشت میں چھپے خزانہ کی کامیاب تلاش کے لئے کسی مشفق شیخ کی صحبت ضروری ہے۔

 

مصنّف:  جناب عبد العلی کا لڑکا عصر کی نماز کے بعد جب اپنے گاؤں گٹھاؤلی کی مسجد کے صحن میں یونہی تھوڑی دیر کے لئے لیٹ گیا تو لطف کی کیفیت عجیب تھی۔ ماں عائشہ بیگم نے ہر چند بلانے کی کوشش کی لیکن اُٹھ آنے کی طرف طبیعت بالکل مائل نہ تھی۔ یہ میرا پہلا روحانی تجربہ تھا جس کی لذّت آج پچاس سال گزرنے کے بعد بھی باقی ہے۔ جب اِس لذّت نے مِلّی محبت کی شکل اختیار کی تو تاریخ کے مطالعہ نے عمر کے جواں خوابوں کی خوب حوصلہ افزائی کی اور ماضی کو ایک بار پھر متحرک دیکھنے کی خواہش جوش مارنے لگی۔ اِس دوران شیخ اور نگ آباد کے شجرِ سایہ دار نے  قوّتوں، خوابوں اور تمنّاؤں کو حُسنِ شعور بھی عطا کیا اور تہذیب سے آراستہ بھی۔ IIT دہلی میں Ph.D کے لئے قیام کے دوران سائنس کے ذریعہ حصول قوّت کا داعیہ پیدا ہوا تو یہ لگا کہ اگر یہ قوّت فرد کے پاس ہو تو محض ذاتی تعیّش، اگر قوم کے پاس ہو تو توانائی اور عوامی بہبود کا ذریعہ ہو تی ہے لیکن اگر یہ اقدار سے خالی ہو جائے تو ظلم، استبداد اور بالآخر استعمار کا ذریعہ بن جاتی ہے۔مادرِ عِلمی علی گڑھ کے با صفا نوجوانوں کا وہ گروہ جو بعضوں کے نزدیک قابلِ رشک، بعضوں کے لئے حسد اور بعضوں کے لئے وجہ سکون و اطمینان تھا، وادیِ بَہار میں داخل ہونے کی نوید دے ہی رہا تھا کہ شجرِسایہ دار نئی پھوٹنے والی شاخوں کا بوجھ نہ سنبھال سکا۔ ایک مفلوج ہوئی اور دوسری مبغوض اور میرے پیر دونوں پر تھے۔۔ ۔ ۔ ۔اب پناہ گاہ کے طور پر MAAS اور CSOS کے ذریعہ نئی نسل میں سائنس کی صحت مند اور قوی روایت کے فروغ کے لئے کوشاں ہوں اور شاید یہی سفر کا آخری پڑاؤ بھی ہو۔

 

 

 

 

(۱)

 

جب وہ اپنی بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ اُس قدیم اور ویران چرچ میں آرام کی خاطر رُکا توہر طرف شام کے سائے اُتر رہے تھے۔ چرچ کی نصف چھت بہت پہلے ہی گر چکی تھی اور جہاں پہلے کبھی  مقدّس مقام ہوا کرتا تھا وہاں انجیر کا ایک بڑا درخت اپنی جگہ بنا چکا تھا۔

رات گزارنے کے لئے یہ جگہ مناسب ہے، اُس نے سوچا اور بھیڑوں کو اندر ہنکا لایا۔ چرچ کے بوسیدہ دروازہ کو ایک بڑے سے تختے سے بند کرنا بھی ضروری تھا کہ رات میں بھیڑیں باہر بھٹک سکتی تھیں۔ اِس علاقہ میں بھیڑئیے تو نہیں تھے لیکن ایک دفعہ جب ایک بھیڑ بھٹک کر باہر نکل گئی تھی تو پوری رات اُسے تلاش کرتے کرتے گزری تھی۔ جب سے وہ ذرا  محتاط ہو گیا تھا۔

لڑکے نے اپنی جیکٹ اتاری اور اُس سے زمین صاف کر کے لیٹ گیا اور ابھی جو کتاب اُس نے ختم کی تھی، سر کے نیچے رکھ لی۔ ’’آئندہ ذرا موٹی کتاب لوں گا ‘‘اُس نے سوچا۔’’ موٹی کتابیں ایک تو دیر میں ختم ہوتی ہیں، دوسرے ایک اچھے تکیے کا کام بھی دیتی ہیں۔

آنکھ کھلی تو ابھی اندھیرا تھا اور ٹوٹی ہوئی چھت سے تاروں بھرا آسمان نظر آ رہا تھا۔

’’کچھ دیر اور نیند رہتی تو اچھا ہوتا‘‘، اُس نے سوچا۔

آج بھی اُسے وہی خواب نظر آیا تھا جیسا ہفتہ بھر پہلے دیکھا تھا اور آج بھی خواب ختم      ہونے سے پہلے ہی اُس کی آنکھ کھل گئی تھی۔

وہ اُٹھ کر کھڑا ہوا اور ڈنڈی لے کر بھیڑوں کو جگانا شروع کر دیا جو شاید ابھی تک نیند میں تھیں لیکن اُس کے جاگتے ہی زیادہ تر بھیڑوں میں کچھ ہلچل پیدا ہو چکی تھی۔ اُسے محسوس ہوتا تھا کہ اُس کا وجود بھیڑوں سے ایک خاص قسم کی طلسماتی توانائی سے بندھا ہوا ہے۔ اِن  سے اُس کا رشتہ گزشتہ بیس سالوں پر محیط تھا جب سے وہ پانی اور چارہ کی تلاش میں اُنہیں ملک کے مختلف علاقوں میں لیے لیے پھرتا رہا تھا۔

’’بھیڑیں میری عادی ہو گئی ہیں۔ اُنہیں معلوم ہے کہ میں کب کیا کروں گا‘‘ دہ دِل ہی دِل میں اپنے آپ سے بولا ’’ یا شاید میں ہی اُن سے اِس قدر مانوس ہو گیا ہوں کہ اُن کے اطوار اب میرے لئے معمّہ نہیں رہے۔‘‘

سب بھیڑیں ایک ساتھ نہیں جاگی تھیں، کچھ تو ابھی تک سو رہی تھیں۔ لڑکے نے اُنہیں اپنی ڈنڈی سے ٹہوکا دے کر جگایا۔ اُس نے ہر بھیڑ کو ایک نام دے رکھا تھا اور وہی نام لے کر ہر ایک کو جگا رہا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ بھیڑیں اُس کی زبان سمجھتی ہیں۔چنانچہ اکثر اوقات وہ اُن کے درمیان بیٹھ کر کتابوں کے دلچسپ قصے اُنہیں سنایا کرتا۔ کبھی وہ اُنہیں یہ بتاتا کہ کوئی چرواہا کب تنہائی محسوس کرتا ہے اور کیا بات اُسے خوش کر دیتی ہے۔ کبھی کبھی وہ راستہ میں گزرتے ہوئے کسی واقعہ پر اپنے تاثرات کا بھی اظہار کرتا اور بھیڑوں کو اُس میں شریک کرتا۔

لیکن گزشتہ چند دنوں سے اِس کا موضوع صرف ایک ہی تھا۔ وہ اُس لڑکی کا تذکرہ بار بار کرتا جسے اُس نے گزشتہ سال دیکھا تھا اور اب اُس لڑکی کا گاؤں صرف چند روز کے فاصلہ پر تھا۔وہ ایک تاجر کی بیٹی تھی اور لڑکے کے کسی دوست نے اُسے گزشتہ سال بتایا تھا کہ تاجر ذرا شکّی مزاج ہے۔ اُون اپنے سامنے کٹوا کر خریدتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی بھیڑیں دکان پر ہی لے گیا تھا۔

 

 

 

 

(۲)

 

کیا اُون کی ضرورت ہے؟  لڑکے نے تاجر سے پوچھا۔

دکان میں بھیڑ زیادہ تھی۔ تاجر نے کہا کہ دوپہر سے پہلے فرصت نہ ہو سکے گی۔ ذرا انتظار کرنا پڑے گا۔ لڑکا دکان کی ایک سیڑھی پر بیٹھ گیا اور تھیلے سے ایک کتاب نکال کر پڑھنے لگا۔

’’چرواہے۔۔۔ پڑھنا جانتے ہیں کیا؟ ‘‘پیچھے سے ایک لڑکی کی آواز سنائی دی۔ لڑکی کے اندلسی خد و خال لہراتے سیاہ بال اور گہر ی آنکھیں کسی حد تک مورش مسلمان فاتحین کی یاد تازہ کرتی تھیں۔

’’میں کتابوں سے زیادہ اپنی بھیڑوں سے سیکھتا ہوں ‘‘ اُس نے جواب دیا تھا۔

کوئی دو گھنٹہ تک وہ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔’’ اُس کا باپ تجارت کرتا ہے اور گاؤں کی زندگی میں ہر روز ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ‘‘ لڑکی نے اُسے بتایا۔ لڑکے نے اُسے اندلس کے اُن مختلف علاقوں کے بارے میں بتایا جہاں جہاں وہ رکا اور ٹھہرا تھا۔

اب تک وہ زیادہ تر بھیڑوں سے ہی ہمکلام ہوتا تھا۔لیکن اِس تجربہ میں بڑی لذّت تھی۔

’’تم نے پڑھنا کس سے سیکھا ؟‘‘  لڑکی نے گفتگو کے دوران پوچھا۔

’’جیسے سب لوگ سیکھتے ہیں ‘‘  اُس نے کہا، ’’اسکول میں ‘‘

’’اچھا اگر تم پڑھنا جانتے ہو تو چرواہے کیوں ہو؟‘‘

جواب سے بچنے کی خاطر لڑکے نے منہ ہی منہ میں کچھ کہا۔ اُسے یقین تھا کہ لڑکی اُس کے جواب کو قطعاً نہ سمجھ پائے گی۔ لڑکا مختلف علاقوں کے واقعات اور کہانیاں سناتا رہا اور لڑکی کی چمکدار مورش آنکھیں کبھی خوف اور کبھی تعجب سے پھیلتی رہیں۔ وقت گزرتا گیا۔ لڑکے نے سوچا کہ کاش یہ دن کبھی ختم نہ ہو اور اُس کا باپ مصروف رہے۔ چاہے مجھے تین دن تک اُس کا انتظار کرنا پڑے۔ اُسے لگا کہ وہ کسی بالکل نئے تجربے سے گزر رہا ہے۔ اُس جیسا احساس آج سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔کاش وہ اُسی جگہ ہمیشہ ہمیشہ رہ سکتا۔ یہ آبنوسی بالوں والی لڑکی آنے والے دنوں کے تصور کو بالکل تبدیل کئے ڈال رہی تھی۔

لیکن تاجر کو بہر حال فرصت ملی اور وہ آیا اور لڑکے سے کہا کہ چار بھیڑوں کی اون کاٹ دے۔ رقم ادا کی اور اگلے سال آنے کے لئے کہا۔

 

 

 

(۳)

 

اور اب وہ اُس گاؤں سے صرف چار روز کے فاصلہ پرتھا۔ اپنے جذبوں میں بڑھتی ہوئی تپش تواُسے محسوس ہوہی رہی تھی لیکن اب ایک نادیدہ خوف بھی شامل ہو چلا تھا، ’’کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لڑکی اُسے بھول گئی ہو‘‘ اُس نے سوچا، جانے کتنے چرواہے اپنی اُون بیچنے کے لئے یہاں سے گزرتے ہوں گے۔

’’کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘ اُس نے ایک بھیڑ سے جیسے کہا ہو۔ اور جگہوں پر دوسری لڑکیاں بھی تو ہیں۔

لیکن اُس کا دِل جانتا تھا کہ فرق تو پڑتا ہے۔ اُسے پتہ تھا کہ چرواہے ہوں یا ماہی گیر اور فروش کار اُن کے لئے کوئی نہ کوئی جگہ ایسی ضرور ہوتی ہے جہاں پہنچ کر وہ اپنے تنہا ایّام میں گزاری تمام خوشیوں کو بھول جاتے ہیں۔

دِن نکل آیا تھا۔ چرواہے نے اپنی بھیڑوں کو سورج کی سمت چلنے کے لئے موڑ دیا۔ اُس نے سوچا کہ جانور ایک ایسا وجود ہے جسے کوئی فیصلہ کرنا ہی نہیں ہوتا۔ شاید اِسی لئے یہ بھیڑیں میرے قریب ہی رہنا پسند کرتی ہیں۔

بھیڑوں کے لئے کوئی چیز اگر اہمیت کی حامل تھی تو صرف پانی اور چارہ تھا اور لڑکے کو معلوم تھا کہ جب تک وہ اندلس کی بہترین چراگاہیں تلاش کرتا رہے گا، یہ بھیڑیں اُس کی دوست رہیں گی۔ طلوعِ آفتاب سے لے کر غروب تک پھیلا ہوا ہر دن اُن کے لئے ایک جیسا ہی تھا۔ کتابوں اور اُن کے مطالعہ سے بھیڑوں کا کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ اِس سے بھی بے پرواہ تھیں کہ کن مختلف شہروں اور مقامات سے گزرتی رہی ہیں۔ اُنہیں تو پانی اور چارہ سے مطلب تھا اور اِس کے عوض وہ اُون دینے میں خاصی مخیّر تھیں۔ جی ہاں اپنی رفاقت بھی اور کبھی کبھی اپنا گوشت بھی۔

لڑکے نے سوچا کہ اگر وہ ایک دیو ہو جائے اور ایک ایک کر کے اِن بھیڑوں کو پھاڑ ڈالے تو آدھی ختم ہو جائیں گی تب بھی سب کو معلوم نہ ہو سکے گا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ اِس حد تک مجھ پر اعتماد کرتی ہیں کہ اپنی فطری جبلّت کو کام میں لانا ہی بھول گئی ہیں اور اُنہیں ضرورت ہی کیا ہے۔ کھانے پینے کی جستجو میں ہی اُن کی جبلّت متحرک ہوتی ہے۔ تو وہ ضرورت تو میں پوری کر ہی رہا ہوں۔ لڑکا سوچتا رہا۔

اچانک وہ بڑا بد حواس سا ہو گیا۔ یہ عجیب و غریب خیالات اُس کے ذہن میں کیوں کر آ رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اُس چرچ پر آسیب کا اثر ہو گیا ہو۔ شاید اِس وجہ سے ہی وہی خواب مجھے بار بار نظر آیا تھا اور اِسی وجہ سے اپنی وفا شعار اور معصوم بھیڑوں کے تئیں اِس قسم کے خیالات ذہن میں آرہے ہیں۔ اُسے لگا کہ اُسے تھوڑا ساپانی پینا چاہیے جو گزشتہ رات کھانے سے بچ رہا تھا۔ اُس نے جیکٹ بدن پر اچھی طرح کس لی اور چلنے کی تیاری کرنے لگا کیونکہ چند گھنٹہ کے اندر سورج اپنے عروج پر ہو گا اور گرمی اتنی شدید ہو گی کہ بھیڑوں کے گلّہ کو لے کر میدانوں سے نکل پانا محال ہو جائے گا۔گرمیوں میں دن کے وقت تمام اندلس سوتا تھا۔ رات آنے تک گرمی اور یہ بھاری جیکٹ اُس کے کاندھے پر لٹکی رہی۔ وہ شکایت بھی کیسے کر سکتا تھا کہ اِس بھاری جیکٹ نے اُسے صبح کی سردی سے محفوظ بھی تو رکھا تھا۔

تبدیلی بھی شاید انسانی ضرورت ہی ہے۔ اِس کے لئے تیار ہی رہنا چاہیے۔ وہ جیکٹ کے وزن پر اِس بھری گرمی کے پس منظر میں غور کرنے لگا۔ دونوں ضروری لگے اور اُس کا دِل شکر کے جذبہ سے معمور ہوا گیا۔

جیکٹ کا وجود کسی مقصد کے لئے تھا اور اِسی طرح لڑکے کی زندگی بھی۔لڑکے کی زندگی سفر سے عبارت تھی اور گزشتہ دو سالوں میں اُس نے اندلس کے مختلف مقامات دیکھ لیے تھے اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اِس ملاقات میں گاؤں پہنچ کر وہ لڑکی کو بتائے گا کہ ایک معمولی چرواہے نے کس طرح پڑھنا سیکھا تھا۔ وہ بتائے گا کہ جب وہ سولہ سال کا تھا تو اُسے ایک مکتب میں داخل کر دیا گیا تھا۔ والدین کی تمنّا تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک راہب بنے اور ایک معمولی کسان خاندان کے لئے فخر کا باعث ہو۔

اُس کے والدین بڑی شدید محنت کرتے تھے محض پیٹ بھرنے کے لئے۔بالکل ویسے ہی جیسے بھیڑیں پانی اور چارہ کے لئے جگہ جگہ پھرتی رہتی ہیں۔ مکتب میں اُس نے لاطینی اور ہسپانوی زبان کے علاوہ دینیات بھی پڑھی تھی لیکن بچپن ہی سے اُسے دنیا دیکھنے کی شدید خواہش تھی۔ یہ خواہش اُس کے نزدیک خدا کو ماننے اور گناہ و ثواب کے عِلم سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی تھی اور ایک بار جب وہ اپنے والدین سے ملنے گیا تو ہمّت جٹا کر اپنی اِس خواہش کا اظہار بھی کر ڈالا کہ وہ پادری نہیں بننا چاہتا بلکہ سفرکر کے دنیا کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے۔

 

 

 

(۴)

 

’’بیٹے ہمارا گاؤں تو ایسی جگہ پر ہے جہاں سے دنیا بھر کے لوگ گزرتے ہیں۔ ‘‘باپ نے سمجھاتے ہوئے کہا، ’’تم یہیں رہ کر بھی دنیا دیکھ سکتے ہو۔ سب لوگ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ تم نے دیکھا ہے ناکہ دنیا بھر کے لوگ نئی نئی چیزوں کی تلاش میں یہاں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو کیا وہ بدل جاتے ہیں۔ پہاڑی کے نیچے بنے محل کو بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم سے پہلے کے لوگ آج سے بہتر تھے۔کیا زمانہ تھا۔ لمبے اور سیاہ بال اور گہری رنگت والے لوگ۔ لوگ ہوتے اصلاً سب ایک ہی جیسے ہیں،  بالکل ہماری طرح، کیا دیکھو گے تم باہر جا کر۔‘‘

’’میں اِن چھوٹے چھوٹے شہروں میں بنے ہوئے اُن کے مکانات اور محلات دیکھنا چاہتا ہوں جہاں یہ لوگ رہتے ہیں۔‘‘ لڑکے نے سمجھانے کی کوشش کی۔

’’جب یہ لوگ ہماری سرزمین کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کاش ہم ہمیشہ یہاں رہ سکتے۔‘‘باپ مسکرا کر بولا

’’میں تو در اصل اُن کی زمین اور اُن کا رہن سہن دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘بیٹے نے جواب دیا ’’بہت پیسے والے ہوتے ہیں اور سفر کے اخراجات اُن کے لئے کوئی مسلہ نہیں ہوتے۔ ‘‘ باپ نے کہا، ’’اتنا پیسہ کہاں ہے۔ہمارے پاس یہاں تو صرف بھیڑوں کے گلّہ رکھنے والے ہی سفر کر پاتے ہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے تو پھر میں ایک گلہ بان ہی بن جاتا ہوں۔‘‘

باپ خاموش ہو گیا۔ اگلے دن اُس نے بیٹے کو ایک تھیلی پکڑاتے ہوئے کہا ’’ میں نے یہ تمہارے لئے حفاظت سے رکھی تھی۔ اِس میں تین۔قدیم اندلسی طِلائی سِکّے ہیں جو مجھے ایک کھیت میں ملے تھے۔ اِن سے جانور خرید لینا اور میدانوں میں نکل جانا۔ البتہ مجھے یقین ہے کہ گھومنے پھرنے کے بعد تم اِسی نتیجہ پر پہنچو گے کہ نہ تو ہماری زمین سے بہتر کوئی زمین ہے اور نہ ہی یہاں کی عورتوں سے زیادہ خوبصورت عورتیں کہیں پائی جاتی ہیں۔‘‘

باپ نے لڑکے کو بھیگی آنکھوں اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ البتہ اُس کی آنکھوں کی وہ چمک چھپی نہ رہ سکی جو دنیا کا سفر کرنے کی اُس کی اپنی خواہش کے تصور سے پیدا ہوئی تھی۔ یہ خواہش آج بھی موجود تھی جسے وہ روٹی کپڑا اور مکان کی مسلسل جد و جہد کے نتیجہ میں سالوں پہلے دفن کر چکا تھا۔ پینے کے لئے پانی، پیٹ بھرنے کے لئے چند روٹیاں اور رات گزارنے کے لئے روز وہی ایک جگہ۔ بس اِسی کے لئے تو اُس نے اپنی اِس خواہش کا گلا برسوں پہلے گھونٹ دیا تھاجسے حاصل کرنے کے لئے آج اُس کا بیٹا سب کچھ چھوڑ رہا تھا۔

 

 

 

(۵)

 

پہلے تو اُفق پر سُرخ چھینٹے سے پڑے اور پھر یکایک روشنی پھیل گئی۔ لڑکے کو باپ کے ساتھ بات چیت یاد آ رہی تھی لیکن وہ خوش تھا کہ اُس نے بہت سے مَحلات دیکھ لئے تھے اور بہت سی عورتوں سے بھی ملا تھا۔ اُس کی کل متاع ایک جیکٹ، ایک کتاب جس کے بدلے وہ دوسری کتاب لے سکتا تھا اور بہت سی بھیڑوں کے ایک گلّہ پر مشتمل تھی لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ وہ اپنے ہر خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار تھا۔ اُس نے سوچا کہ اگر میں اندلس کے میدانوں سے اوب گیا تو تمام بھیڑوں کو بیچ کر کسی روز سمندر کی طرف نکل جاؤں گا۔

اور اگر سمندروں کو بھی چھوڑنا پڑا تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس وقت تک تو جانے کتنے شہروں کو دیکھ چکا ہوں گا اور بہت سی عورتیں بھی اور دوسری تفریحات بھی۔ اُس کے خیالات بھٹکتے رہے۔ اُبھرتے ہوئے سورج پر جب اُس کی نظر پڑی تو بے اختیار اُس کے ذہن میں ایک خیال در آیا۔ مدرسہ میں تعلیم کے دوران شاید خدا کو کبھی پہچان۔ نہ سکتا تھا۔

جب بھی اُس کا جی چاہتا کسی نئے راستہ کی طرف چل پڑتا۔حالانکہ آج وہ جس راستہ سے گزر رہا تھا اُس سے وہ متعدد بار گزر چکا تھا لیکن یہ ویران کلیسا کبھی اُس کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکا تھا۔ دنیا تو اتنی وسیع و عریض ہے کہ اُس کی سیاحت کبھی ختم ہی نہ ہو پائے گی۔ بس بھیڑوں کو ایک راستہ پر ڈالنے کی دیر تھی کہ نئی دنیاؤں اور کائنات۔ کے امکانات روشن ہو جاتے تھے، لیکن یہ بھیڑیں بھی عجیب ہیں، اُنہیں پتہ ہی نہیں کہ ہر نیا دن اُن کے لئے نئی شاہ راہ کے دروازے کھولتا رہتا ہے نہ اُنہیں یہ معلوم کہ جس چراگاہ سے وہ اپنا پیٹ بھرتی ہیں وہ نئی ہے یا پرانی اور نہ ہی یہ پتہ کہ موسم میں کیا بدل گیا ہے۔ بس اُن کی سوچ تو پانی اور گھاس تک محدود ہے۔

لیکن وہ سوچتے سوچتے چونک گیا۔ ہم انسان بھی تو ایسے ہی ہیں۔ اب میں ہی ہوں جب سے تاجر کی بیٹی سے ملا ہوں اُس کے علاوہ کسی اور عورت کا خیال دل میں آتا ہی نہیں۔ سورج پر نظر پڑی تو اُسے خیال آیا کہ دو پہر تک طارفہ پہنچ جائے گا۔ وہاں پہنچ کر ایک نئی کتاب بھی بدلے میں لے سکے گا۔ اور تازہ پانی بھی حاصل کر لے گا۔ خط بنا کر اور بال کٹا کر تاجر کی لڑکی سے ملنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔اُس وقت وہ اُن آوارہ خیالوں کو دِل میں لانے کے لئے ہرگز تیار نہ تھا کہ ممکن ہے کہ کسی روز کوئی مجھ سے زیادہ بھیڑیں رکھنے والا چرواہا وہاں آیا ہو اور اُس نے لڑکی کے باپ سے اُس کا ہاتھ مانگ لیا ہو۔

خوابوں کے حقیقت میں بدل جانے کا امکان ہی دراصل زندگی کو دلچسپ اور خوبصورتی عطا کرتا ہے، اُس نے سوچا اور آسمان میں سورج کی بڑھتی تمازت دیکھتے ہوئے اُس نے اپنی رفتار بھی بڑھا دی۔ اچانک اُسے خیال آیا کہ طارفہ میں ایک ایسی خاتون رہتی ہے جو خوابوں کی تعبیر بتایا کرتی ہے۔

 

 

 

(۶)

 

بوڑھی عورت لڑکے کو اپنے مکان کے پیچھے کے حصہ میں واقع رہائشی کمرہ میں لائی، اُس کمرہ میں ایک پردہ لٹکا ہوا تھا۔ ایک میز، دو کرسیاں اور یسوع مسیحؑ کے قلبِ مقدّس کی تصویر۔ کل تین اشیاء اُس کمرہ کی زینت تھیں۔

عورت بیٹھ گئی اور لڑکے کو بھی ٹھیک سے بیٹھنے کو کہا۔ اپنے ہاتھ میں لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور خاموشی سے کوئی منتر پڑھنے لگی۔ یہ بنجاروں جیسا کوئی منتر تھا اور لڑکے نے سڑکوں پر جاتے بنجاروں کو اکثر کچھ ایسا ہی پڑھتے سنا تھا۔بنجارے بھی چرواہوں کی طرح سفر کرتے تھے۔ بس اُن کے پاس بھیڑوں کا گلّہ نہیں ہوتا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ بنجارے رات میں سوتے نہیں، لوگوں کو بیوقوف بنا کر دھوکہ دیتے اور اپنا کام چلاتے ہیں۔بچپن میں اُس نے اکثر سنا تھا مائیں بچوں کو بنجاروں سے ڈراتیں کہ وہ اُنہیں لے کر بھاگ جائیں گے۔ لوگ کہتے تھے کہ شیطانوں سے اُنہوں نے سانٹھ گانٹھ کر رکھی ہے۔ جب اُس عورت نے لڑکے کا ہاتھ پکڑا تو وہی بچپن کا خوف اُس پر طاری ہو گیا تھا۔

لیکن اُس کے گھر میں مسیحؑ کا قلبِ مقدّس بھی تو ہے، اُس نے اپنے خوف کو کم کرنے کی کوشش کی۔ اُس نے سوچا کہ خوف سے اُس کے ہاتھ میں کپکپاہٹ پیدا ہوئی تو عورت پر اُس کا ڈر واضح ہو جائے گا جو اُسے کسی قیمت پر منظور نہ تھا۔وہ دِل ہی دِل میں دعائیں پڑھنے لگا ’بہت خوب‘ عورت ہاتھوں سے نظر ہٹاتے ہوئے بولی اور پھر خاموش ہو گئی۔

لڑکا کچھ مضطرب تھا جس کی وجہ سے اُس کا ہاتھ کانپنے لگا۔ عورت نے شاید اُسے محسوس کر لیا تھا۔ لڑکے نے بڑی تیزی سے اپنا ہاتھ کھینچا اور ذرا کبیدگی سے بولا:

’’میں تمہارے پاس اپنا ہاتھ دکھانے نہیں آیا تھا۔‘‘

وہ اُس عورت کے پاس آیا ہی کیوں، اُس نے تاسّف سے سوچا۔ اُسے خیال آیا کہ کیوں نہ اُس کی اُجرت دے کر واپس چلا جاؤں۔ میں شاید خوابوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہا ہوں۔

’’تم خوابوں کے بارے میں جاننے کے لئے آئے تھے نا۔‘‘ وہ عورت گویا ہوئی ’’خواب در اصل خدائی زبان ہوتے ہیں جن کے ذریعہ وہ بعض اوقات اپنا پیغام انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ اگر وہ ہماری زبان میں یہ پیغام رسائی کرے تو میں اُس کا مطلب بیان کر سکتی ہوں لیکن اگر وہ روح کی زبان میں بتائے تو اُس کا مطلب تو تم کو خود ہی اخذ کرنا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ بھی ہو لڑکے۔۔۔، تمہیں میری اُجرت تو دینا ہی ہو گی۔‘‘

’’ہے نا چال بازی اِس عورت کی‘‘۔۔۔۔۔۔۔ لڑکے نے سوچا  ’ چلو دیکھتے ہیں جب اُجرت دینا ہی ہے تو خواب بتا کر ہی دینا چاہیے۔یوں بھی ایسے خطرات تو ہمیں لینے ہی پڑتے ہیں۔ کبھی بھیڑیوں کا خوف اور کبھی قحط اور سوکھے کا امکان، خطرات تو زندگی سے لگے ہی ہیں اور شاید اِنہیں خدشات میں زندگی کا لطف ہے۔‘ وہ شاید یہ سوچ کر خواب بتانے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر رہا تھا۔

’’میں نے اِس سے پہلے بھی یہ خواب دیکھا تھا۔‘‘ لڑکے نے بتانا شروع کیا۔

’’میں نے دیکھا کہ میں اپنی بھیڑوں کے ساتھ ایک میدان میں ہوں کہ ایک بچہ نمودار ہوتا ہے اور بھیڑوں کے ساتھ کھیلنے لگتا ہے۔ایک بات بتا دوں کہ مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ کوئی میری بھیڑوں کو پریشان کرے کیونکہ بھیڑیں اجنبیوں سے خوف محسوس کرتی ہیں لیکن نہ جانے کیوں بچے سے یہ قطعاً نہیں ڈریں۔ میری سمجھ میں اب تک نہیں آیا کہ بھیڑیں انسانوں کی عمروں کا اندازہ کیسے کر لیتی ہیں۔

’’خواب کے بارے میں بتاؤ، ‘‘عورت ذرا تلخی سے بولی۔’’ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، ابھی کھانا بھی بنانا ہے۔ اور شاید تمہارے پاس پیسے بھی کم ہی ہیں۔

لڑکا کچھ شرمندہ سا ہو گیا۔اپنا خواب بیان کرتے ہوئے بولا۔ ’’پھر کچھ دیر تک بھیڑوں کے ساتھ وہ کھیلتا رہا۔ یکایک اُس نے میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر مصر کے قدیم اہرام میں پہنچا دیا۔

لڑکے نے تھوڑی دیر رُک کر یہ جاننا چاہا کہ کہیں مصر کے اہرام اُس عورت کے لئے کوئی اجنبی لفظ تو نہیں تھا لیکن عورت کے چہرے پر کسی قسم کے تاثر کا اظہار نہیں ہو رہا تھا۔ لڑکے نے ایک بار پھر مصری اہرام کے الفاظ ذرا زور دیتے ہوئے دہرائے اور کہنے لگا کہ ’’پھر بچے نے اُس سے کہا کہ اگر تم اِس جگہ آئے تو تم ایک خزانہ حاصل کر سکو گے۔ لیکن جیسے ہی وہ بچہ خزانہ کی جگہ کی نشاندہی کرنے جا رہا تھا، آنکھ کھل گئی‘‘اِس سے پہلے بھی خواب دیکھتے ہوئے ایسے ہی موقع پر آنکھ کھل گئی تھی۔

عورت کچھ دیر خاموش رہی۔ لڑکے کا ہاتھ دھیان سے دیکھتی رہی اور پھر بولی۔ اب میں تم سے کوئی اُجرت نہیں لوں گی، لیکن تعبیر کے عوض خزانہ ملنے پر اُس کا دسواں حصہ مجھے دینا پڑے گا۔‘‘

لڑکا کچھ سوچ کر ہنس پڑا۔۔۔۔۔۔۔ہنسی میں ایک قسم کی خوشی بھی شامل تھی۔

اُس نے سوچاکہ ’چلو خزانہ ملے نہ ملے، کم از کم اِس وقت کوئی رقم تو خرچ نہ کرنی پڑے گی۔‘

’’اچھا تعبیر تو بتاؤ‘‘  لڑکے نے کہا۔

’’پہلے وعدہ کرو بلکہ قسم کھاؤ کہ جو کچھ میں تمہیں بتاؤں گی اُس کے عوض خزانہ کا دسواں حصہ مجھے ضرور دو گے۔‘‘

لڑکے نے مسکراتے ہوئے قسم کھا کر وعدہ کر لیا۔ لیکن اُس عورت نے کہا کہ ’’قلبِِ مقدّس کی طرف دیکھتے ہوئے قسم کھاؤ۔‘‘

پھر وہ بولی کہ ’’یہ خواب ہماری دنیا کی زبان ہی میں ہے اور میں اُس کی تعبیر کر سکتی ہوں لیکن کیونکہ تعبیر خاصی مشکل ہے اِس لئے میں خزانہ کا دسواں حصہ تم سے مانگ رہی ہوں۔‘‘

سنو ! تعبیر یہ ہے کہ تم اہرامِ مصر دیکھنے جاؤ گے، جن کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتی لیکن اگر خواب میں بچے نے اُن کی نشاندہی کی ہے تو سمجھ لو کہ یہ واقعی موجود ہیں۔ تمہیں وہاں خزانہ ملے گا اور تمہاری قسمت بدل جائے گی۔

لڑکا جھنجھلا گیا۔ ’’یہ بات تو خواب سے بھی واضح ہے ‘‘۔ اُس عورت نے کون سی نئی بات بتائی لیکن یہ سوچ کر اُسے ذرا اطمینان ہوا کہ میرا کوئی پیسہ بھی تو خرچ نہیں ہوا۔

’’میں اُس کے لئے اپنا وقت برباد نہیں کروں گا۔ ‘‘لڑکے نے کہا۔

’’میں نے بتایا ناکہ خواب خاصا مشکل ہے اور بعض اوقات ہماری زندگی میں سادہ سی نظر آنے والی باتیں بھی انتہائی غیر معمولی ثابت ہوتی ہیں۔ البتہ اِس بات کو سمجھ پانا ہر خاص و عام کے لئے ممکن نہیں۔ عقل مند لوگ بھی اُن کو نہیں سمجھ پاتے۔اور میں کیونکہ اپنے آپ کو عقلمند نہیں سمجھتی۔ اِسی لئے دست شناسی کا فن سیکھ کر کام چلا رہی ہوں۔

’’اچھا، یہ بتاؤ کہ میں وہاں کیسے پہنچوں گا۔‘‘

’’میں تو صرف خوابوں کی تعبیر بتا سکتی ہوں۔ اُنہیں حقیقت میں کس طرح تبدیل کیا جائے، اِس بارے میں تو میں کچھ نہیں جانتی اور اگر اِس قابل ہوتی تو اپنی بیٹیوں کی مدد پرکیوں گزارا کرتی۔‘‘

’’اچھا، اگر میں مصر نہ جا سکا تو کیا ہو گا۔‘‘

’’ظاہر ہے کہ مجھے میرا حصہ نہ مل پائے گا اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہ ہو گا۔‘‘

’’اچھا،  تم نے بہت وقت لے لیا، اب جاؤ۔‘‘ عورت کے لہجے سے خشکی عیاں تھی۔

لڑکے کو خاصی مایوسی ہوئی اور غصّہ بھی آیا۔وہ سوچنے لگا کہ خوابوں کو اتنی سنجیدگی سے لینا ہی نہیں چاہتے۔ اُسے یاد آیا کہ ا بھی کئی کام باقی ہیں۔اچانک بھوک چمک اُٹھی تو بازار جا کر کھانا کھایا اور اُس پرانی کتاب کے بدلے دوسری کتاب حاصل کی جو پہلے کے مقابلہ کہیں زیادہ موٹی تھی۔وہیں پلازہ میں ایک بینچ پر بیٹھ کر وہ مشروب نکال کر پینے لگا۔دِن خاصا گرم تھا اور مشروب سے تازگی اور فرحت محسوس ہوئی۔ بھیڑیں شہر کے باہر یک دوست کے اصطبل میں رُکی ہوئی تھیں۔ اُس شہر میں اُس کی خاصی شناسائی تھی۔ دوستی کرنا اُس کا محبوب مشغلہ تھا اور شاید اِسی لئے سفر کرتے رہنے میں اُسے مزہ بھی آتا تھا۔ وہ نئے دوست بناتا ضرور تھا لیکن تمام تر وقت اُنہیں پر صرف کرنے کا روادار نہ تھا۔ ہر روز وہی چہرے نظر آئیں یہ اُس کو پسند نہ تھا۔ کیونکہ اِس طرح ذاتی زندگی کا لطف متاثر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ لوگ تبدیلی پسند کرتے ہیں اور اِس طرح دوستیاں بھی متاثر ہو جاتی ہیں۔ مدرسہ میں تعلیم کے دوران اُسے اِس صورتِ حال کا بخوبی تجربہ تھا۔جب کوئی دوسروں کی توقعات پر پورا نہ اتر پائے تو ظاہر ہے کہ خود بخود غصہ آنے لگتا ہے۔ دوسرے لوگ کیسے رہیں اور کیسے زندگی گزاریں، اِس پر تو ہر شخص بہت واضح رائے رکھتا ہے لیکن وہ خود کیسے رہے، یہ خیال کسی کو نہیں آتا۔

وہ سوچتا رہا اور سورج کے ذرا ڈھل جانے کا انتظار کرنے لگا کہ تھوڑی دیر میں گلّہ کو لے کر اپنی راہ لے گا۔ بس اب تاجر کی بیٹی تک پہنچنے میں تین ہی دن تو بچے تھے۔ نئی کتاب کھول کر ورق گردانی شروع کر دی۔ پہلے صفحہ پر کسی رسمِ تدفین کا تذکرہ تھا۔ اُس میں شریک لوگوں کے نام ایسے  تھے جن کا تلفّظُ خاصا مشکل تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر اُس نے کبھی کوئی کتاب لکھی تو ایک ہی ساتھ تمام ناموں کا تذکرہ کر دے گا اور ہر ایک نام کی تفصیل لکھے گا تاکہ پڑھنے والوں کے ذہن میں یہ نام اچھی طرح بیٹھ جائے اور اُسے یاد رکھنے میں دِقّت نہ ہو۔

کچھ اور پڑھ کر اُس کی دلچسپی بڑھتی گئی اور کتاب اُسے پسند آنے لگی۔تدفین کے دن برف باری ہو رہی تھی۔ اِس تذکرہ سے ٹھنڈک کا دِل خوش کن احساس پیدا ہوا۔ وہ پڑھنے میں اتنا محو تھا کہ یہ پتہ بھی نہ چل سکا کہ کب ایک ضعیف شخص اُس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔ لڑکے کو اُس کا احساس اُس وقت ہوا جب بوڑھے نے اُس سے بات چیت شروع کرنے کی کوشش کی اور پلازہ میں آتے جاتے آدمیوں کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

’’یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔‘‘

’’اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔‘‘ لڑکے نے مختصر جواب دے کر بوڑھے کو ٹالنا چاہا۔ وہ کتاب پر زیادہ توجہ دینا چاہتا تھا۔

وہ تاجر کی لڑکی کے تصوّر میں محو تھا۔ اور سوچ رہا تھا کہ تاجر کے یہاں پہنچ کر بھیڑوں کے بال لڑکی کے سامنے ہی اُتارے گا۔ لڑکی اُس کی صلاحیتوں سے متاثر ہو گی اور سوچے گی کہ اتنا مشکل کام کتنی آسانی سے کر لیتا ہے۔ وہ کئی بار اِسی منظر کو تصور میں لا چکا تھا کہ لڑکی اُس کے قریب کھڑی ہے اور بھیڑوں کے بال کاٹتے ہوئے اُسے دیکھ کر متاثر ہو رہی ہے اور جب وہ اُسے بتا تا ہے کہ اون نکالنے کے لئے بھیڑ کے بال پیچھے سے آگے کی طرف کاٹے جاتے ہیں تو لڑکی اُس کی معلومات اور طریقے کو دیکھ کر حیرت سے اُسے دیکھتی ہے۔ اُس نے کتابیں پڑھ کر کچھ مناسب کہانیاں اور واقعات بھی یاد کر لئے تھے کہ لڑکی کو ایسے بتائے گا کہ جیسے یہ واقعات خود اُس کے ساتھ گزرے ہوں۔ لڑکی تو پڑھ نہیں سکتی، اُسے حقیقت کا پتہ نہ چل سکے گا۔ وہ سوچتارہا۔

لیکن اِس دوران بوڑھا اُسے اپنی طرف متوجّہ کرنے کی مسلسل کوشش کرتا ہی رہا۔

’’ بہت تھک گیا ہوں اور پیاس بھی لگی ہے۔ ‘‘اُس نے لڑکے سے مشروب مانگا۔ لڑکے نے  بوتل بڑھاتے ہوئے سوچا کہ شاید بوڑھا اِسی طرح خاموش ہو جائے اور اُسے تنہا چھوڑ دے۔

لیکن اجنبی بوڑھا باتیں کرنا چاہتا تھا۔ پوچھا ’’ کون سی کتاب ہے۔ ‘‘لڑکا جھلّا کر اُس جگہ سے ہٹنا چاہتا تھا کہ اُسے والد کی نصیحت یاد آ گئی کہ بزرگوں اور ضعیفوں کا احترام کرنا چاہیے۔ چنانچہ اُس نے کتاب بوڑھے کی طرف بڑھا دی۔ جواب نہ دینے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ لڑکا خود ہی کتاب کے نام کے صحیح تلفّظ کے بارے میں مذبذب تھا اور دوسرے یہ کہ اگر بوڑھا اجنبی پڑھنا نہ جانتا ہو گا تو خود ہی شرمندہ ہو کر یہاں سے ہٹ جائے گا۔

’’ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ بوڑھے نے کتاب کو ایسے دیکھا، جیسے یہ کوئی عجیب و غریب چیز ہو اور کہا، ’’یہ کتاب ہے تو اہم، لیکن پڑھتے ہوئے خاصی جھلّاہٹ محسوس ہوتی ہے۔

یہ سن کر لڑکا متعجب رہ گیا۔ توقع کے بر خلاف بوڑھا نہ صرف پڑھ سکتا تھا بلکہ اُس کتاب کو پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ لڑکے نے سوچا کہ اگر اِسے پڑھ کر واقعی کوفت ہی ہونا ہے تو ابھی وقت ہے، کتاب تبدیل کی جا سکتی ہے۔

’’اِس کتاب میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جو دنیا کی کسی اور کتاب میں ہے وہی اِس میں بھی ہے۔‘‘ بوڑھے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’اِس کا مرکزی خیال یہی ہے کہ انسان مقدّر کے سامنے بے بس ہے۔اور اُس کا اختتام اِسی پر ہوا ہے کہ ہر شخص دنیا کے اِس عظیم ترین جھوٹ پر یقین رکھتا ہے۔‘‘

یہ عظیم ترین جھوٹ کیا ہے؟ لڑکے نے تعجب سے پوچھا۔

’’میں بتاتا ہوں ‘‘ بوڑھا بولا، : ’’سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ انسانی زندگی میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے جہاں حالات انسان کے قابو میں نہیں رہتے اور مقدّر اُنہیں جس راہ پر موڑ دیتا ہے و ہ اُسی پر بڑھ جاتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے جو اِس کتاب کا مرکزی تخیّل ہے۔‘‘

’’میرے ساتھ تو ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ‘‘لڑکا بولا۔ ’’وہ مجھے ایک راہب بنانا چاہتے تھے لیکن میں نے چرواہا بنّا بہتر جانا۔‘‘

’’یہ اُس سے کہیں بہتر ہے۔ ‘‘بوڑھے نے کہا۔ ’’ویسے بھی تمہیں سفر کرنا اچھا لگتا ہے۔‘‘

میں جو کچھ سوچ رہا تھا بوڑھے کو معلوم ہے۔‘‘ لڑکا دِل میں سوچنے لگا۔ بوڑھا کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ کتاب واپس کرنے کے موڈ میں نہیں۔ لڑکے نے بوڑھے کے لباس پر نظر ڈالی تو وہ اجنبی سا لگا۔ بوڑھا ایک عرب سا لگتا تھا جو اُس علاقہ میں اکثر آتے رہتے تھے۔ افریقہ محض چند گھنٹوں کی مسافت ہی پر تو تھا طارفہ سے۔ بس کشتی کے ذریعہ تنگ آبنائے پار کر کے افریقہ کی سرزمین تھی۔ اکثر و بیشتر عرب لوگ اِس علاقہ میں خرید و فروخت کے لئے آتے رہتے تھے۔ دِن میں کئی بار اجنبی الفاظ اور رسوم کے ساتھ عبادات کی ادائیگی اُن کی شناخت بن گئی تھی۔

’’کس علاقے سے آپ کا تعلق ہے؟ ‘‘لڑکے نے پوچھا۔

’’بہت سی جگہوں سے۔‘‘

’’بیک وقت کئی جگہوں سے ہونا تو سمجھ میں نہیں آتا‘‘ لڑکے نے پوچھا:  ’’چرواہا ہونے کی بنا پر میں نے بہت دور دور تک سفر کیا ہے اور بہت سے علاقوں میں گیا ہوں، لیکن میرا وطن تو ایک ہی ہے۔ ایک قدیم عالی شان قصر کے قریب آباد ایک شہر جہاں میں پیدا ہوا تھا۔

’’اچھا تو ٹھیک ہے۔ میں سیلم میں پیدا ہوا تھا۔‘‘

لڑکے کو پتہ نہ تھا کہ سیلم کہاں ہے، لیکن اُسے خوف مانع تھا کہ کہیں اُس کی لاعلمی بوڑھے پر آشکار نہ ہو جائے۔اس نے مزید نہ پوچھا۔ ایک لمحے کے لئے اُس کی نظر سامنے پلازہ پر ٹھہر گئی جہاں لوگوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری تھا۔ سب بہت مصروف لگ رہے تھے۔

’’سیلم کیسی جگہ ہے‘‘ لڑکے نے کچھ جاننا چاہا۔ شاید کچھ اِسی طرح جگہ کا اندازہ ہو سکے۔

’’جیسے اور شہر ہوتے ہیں۔‘‘ اُس سے بھی کچھ پتا نہ چل سکا۔ البتہ اُسے یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ سیلم اندلس کا کوئی شہر نہ تھا اگر ہوتا تو اُس نے کبھی نہ کبھی تو اُس کا نام سنا ہی ہوتا۔

لڑکے نے مزید جاننے کے لئے پوچھا ’’سیلم میں کیا مصروفیات ہیں آپ کی۔‘‘

’’میری کیا مصروفیات ہیں ‘‘ بوڑھا ہنسا اور کہا کہ میں سلیم کا بادشاہ ہوں۔

لوگ عجیب و غریب قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ لڑکا سوچنے لگا۔ اُن سے اچھی تو بھیڑیں ہی ہیں جو کچھ نہیں کہتیں، بس تنہا ہی رہا جائے تو بہتر ہے، بس اپنی کتابوں کے ساتھ۔ کتابوں کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ناقابلِ یقین کہانیاں اُس وقت سناتی ہیں جب سننے کو دل چاہتا ہے۔ انسانوں کا معاملہ عجیب ہے۔وہ بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں کہ گفتگو جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لڑکا سوچتا رہا۔

’’میں ملِک زیک ہوں۔‘‘ بوڑھا بولا۔ ’’کتنی بھیڑیں ہیں تمہارے پاس۔‘‘

کافی ہیں ‘‘ لڑکے نے جواباً کہا۔ اُسے لگا کہ بوڑھا اُس کے بارے میں مزید جانّنا چاہتا ہے۔

’’اچھا، یہ تو بڑا مسلہ ہے۔ اگر تمہارے پاس کافی بھیڑیں ہیں تو میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں۔‘‘ یہ سُن کر لڑکا جھنجھلا گیا۔’’ میں نے تو اُس سے کوئی مدد طلب نہیں کی تھی بلکہ مشروب اُسی نے مانگا تھا اور گفتگو کا آغاز بھی اُسی نے کیا تھا‘‘۔

لڑکا اُکھڑ ے لہجے میں گویا ہوا، ’’ مجھے آگے بڑھنا ہے، کتاب دے دیجئے۔ بھیڑیں بھی اکٹھی کرنا ہے۔‘‘

’’اگر اپنی بھیڑوں کا دسواں حصہ تم مجھے دے دو تو میں تمہیں خزانے تک پہنچنے کا طریقہ بتا سکتا ہوں۔‘‘ اچانک بوڑھے کی زبان سے نکلا۔

یہ سُن کر لڑکے کو اپنا خواب یاد آ گیا اور پوری بات سمجھ میں آ گئی۔ بوڑھی عورت نے تو اُس سے کوئی رقم نہیں لی تھی لیکن یہ بوڑھا جو ممکن ہے کہ اُس کا شوہر ہو، زیادہ سے زیادہ رقم اینٹھنا چاہتا ہے اور وہ بھی ایسی بات بتا کہ جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ہے بھی یا نہیں۔ کہیں یہ بوڑھا خانہ بدوش ہی نہ ہو۔ لڑکے نے سوچا۔

لیکن اِس سے قبل کہ لڑکا اُسے کوئی جواب دیتا بوڑھا ایک طرف کو جھکا اور ایک لکڑی کا ٹکڑا اُٹھا کر ریت پر کچھ لکھنے لگا۔ اِس دوران بوڑھے  کے سینہ سے لگی کوئی چیز اِس زور سے چمکی کہ لڑکے کی نظر کچھ دیر کے خیرہ ہو گئی۔ البتہ بوڑھے نے جوانوں کی سی پھُرتی کے ساتھ اپنے سر کی ٹوپی سے اُسے چھپا لیا اور جب چمک کا اثر کم ہوا اور لڑکا ریت کی تحریر کو پڑھنے کے قابل ہوسکا تو وہ حیرت زدہ رہ گیا۔

ریت پر لڑکے کے والد اور والدہ کا نام تحریر تھا اور اُس مدرسہ کا نام بھی جہاں اُسنے ابتداء میں تعلیم حاصل کی تھی۔ تاجر کی بیٹی کا نام بھی تحریر تھا جسے وہ بھی نہ جانتا تھا اور دوسری ایسی باتیں اُس میں تحریر تھیں جو اُس نے کسی سے نہ بتائی تھیں۔

(۷)

’’میں سیلم کا بادشاہ ہوں۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔

’’بادشاہ ہو کر آپ ایک معمولی چرواہے سے کیونکر بات کرتے ہیں۔‘‘ لڑکے نے جھجھک اور مرعوبیت کے ملے جُلے تاثر سے کہا۔

’’اِس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن میرے نزدیک سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ تم اپنے مقدّر کی گتّھی کو سلجھانے میں کامیاب ہو گئے ہو۔‘‘

لڑکے کو تو یہ بھی پتا نہ تھا کہ مقدّر کسے کہتے ہیں۔

’’یہ وہی ہے جس کے حصول کی تمنّا تمہیں ہر دم متحرّک رکھتی ہے۔ عالمِ جوانی میں ہر شخص جانتا ہے کہ اُس کا مقدر کیا ہے۔ زندگی کے اِس حصہ میں ہر چیز واضح اور ہر خواہش ممکن الحصول نظر آتی ہے۔بڑی سے بڑی خواہش اور تمنّا کا خواب دیکھنے اور اِس خواب کو تعبیر میں بدلنے کے لئے کوئی قدم اُٹھانے میں کوئی خوف مانع نہیں ہوتا۔البتہ جیسے جیسے جوانی کا یہ دور گزرنے لگتا ہے، ایک دوسری قوّت سَر اُٹھانے اور یہ باور کرانے لگتی ہے کہ اِن مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہے۔‘‘

بوڑھے کی یہ باتیں لڑکے کی سمجھ سے بالا تر تھیں لیکن اِس پُراسرار قوت میں دلچسپی لینے میں وہ یوں بھی مجبور تھا کہ جب اِس کے بارے میں وہ تاجر کی بیٹی کو بتائے گا وہ یقیناً بہت متاثّر ہو گی۔

’’بظاہر تو یہ ایک منفی قو ت ہے لیکن حقیقتاً یہ انسانی مُقدّرات کے حصول کو بروئے کار لانے میں بڑی معاون ہے۔یہ قوت مقدّر کے حصول کے لئے ہے جو روح کو جِلا دیتی خواہش کو بیدار کرتی اور اُس کی آبیاری کرتی ہے۔ دراصل اِس دنیا میں ایک بہت بڑی سچائی ہے اور وہ یہ کہ تم چاہے کوئی بھی ہو اور چاہے کچھ بھی حاصل کرنا چاہتے ہو جب تم اِس کو مقصد بنا کر اُس کے حصول کے لئے انتہائی سنجیدہ ہو جاتے ہو تو اِس کا مطلب یہ ہو جاتا ہے کہ اب تمہارا یہ مقصد اِس کائنات ہی کا ایک حصہ ہے اور اُس کی جڑیں اُس کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ با الفاظِ دیگر زمین پر اب یہ تمہارا مِشن ہے۔‘‘

’’چاہے یہ مقصد محض سفر سے ہی عبارت ہو یا تاجر کی بیٹی سے شادی تک ہی محدود کیوں نہ ہو۔‘‘

’’ہاں بالکل یہی۔ بلکہ چاہے اُس کا تعلق خزانہ کی تلاش سے ہی کیوں نہ ہو۔ دراصل ہماری اِس دنیا کی روح ایک طرف تو انسانوں کی خوشی سے نمو پاتی ہے اور دوسری طرف ناخوشی حسد اور جلن سے بھی۔مقصد کے حصول کی تمنّا کس جذبہ کی پیداوار ہے، اِس سے بحث نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اِس مقصد کے حصول میں سنجیدگی کتنی ہے۔ بس جو کچھ مقدر میں ہے اُس کے حصول کی کوشش ایک انسان کا واحد حقیقی فریضہ ہے اِس دنیا میں تمام چیزیں اِسی ایک نکتہ پر مرکوز ہیں۔‘‘ بوڑھا پھر بولا ’’ہاں !  ایک بات اور جو بڑی اہم ہے۔‘‘

’’جب تم کسی مقصد کو حاصل کرنے کی سعی کرنے لگتے ہو تو در اصل پوری کائنات اِس کوشش میں تمہارا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوتی ہے۔ یعنی یہ کائنات انسان کے لئے مسخّر کر دی گئی ہے۔‘‘

کچھ دیر تک دونوں خاموش رہے ا ور پلازہ میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھتے رہے۔ اِس سکوت کو پھر بوڑھے نے توڑا۔

’’تم بھیڑیں کیوں چَراتے ہو؟‘‘

’’مجھے گھومتے پھرتے رہنے میں مزہ آتا ہے۔‘‘

بوڑھے نے پلازہ کے کونے میں واقع ایک دکان کی کھڑکی کے سامنے کھڑے بیکری کے مالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ  ’’جب یہ بچہ تھا تو اِس کی خواہش بھی طول طویل سفر کرنے کی تھی، لیکن اُس نے سوچا کہ پہلے بیکری خرید کر کچھ رقم اکٹھا کر لے اور پھر جب وہ بوڑھا ہو جائے تو پھر کم از کم ایک ماہ کے لئے افریقہ میں قیام کرے۔‘‘اِس حقیقت کا اُس بے چارے کو علم ہی نہ ہو سکا کہ خوابوں کی تعبیر کے لئے کوئی مخصوص عمر نہیں بلکہ محض ارادے کی پختگی اور فیصلہ کی قوت درکار ہے۔‘‘

’’میرے خیال میں اُسے ایک چرواہا بننا چاہیے تھا۔‘‘ لڑکا بولا۔

’’ہاں ! اُس نے یہ سوچا تھا۔ ‘‘بوڑھا بولا ’’دراصل معاشرہ میں نان بائیوں کو چَرواہے کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ نان بائی باقاعدہ گھروں میں رہتے ہیں جب کہ چرواہوں کی راتیں جنگلوں اور میدانوں میں گزرتی ہیں۔ والدین اپنی بچیوں کی شادی کے لئے نان بائی کو چرواہے پر ترجیح دیتے ہیں۔‘‘

لڑکے کو ایک دھچکا سا لگا۔ تاجر کی بیٹی کے لئے شہر میں نان بائی ضرور ہوں گے۔اُس نے سوچا۔

بوڑھے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’لیکن اہم بات یہ ہے کہ آخر میں ایسا مرحلہ آتا ہے کہ لوگ اپنے مقدّر اور مقاصد کو بھول کر نان بائی اور چرواہوں کو ہی مقصد بنا لیتے ہیں۔‘‘

بوڑھا کتاب کے اوراق پلٹتا رہا ایک جگہ اُس کی توجہ مرکوز ہو گئی۔ لڑکے نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر دخل انداز ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ’’یہ سب کچھ آپ مجھے کیوں بتا رہے ہیں۔‘‘

کیونکہ تم اپنے مقدّر کو حاصل کرنا چاہتے ہو۔ اور اب ایسے مقام پر ہو جہاں حصولِ مقصد کی خاطر سب کچھ چھوڑا جا سکتا ہے۔

’’کیا آپ کی ملاقات کا اِس مرحلہ سے کوئی تعلق ہے۔‘‘

ملاقات ہی واحد طریقہ نہیں بلکہ ظہور کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں، ہم ایک نظم کے پابند ہیں اور ہمارے تصرّفات کی دنیا بہت وسیع ہے۔ کبھی کسی  مسلہ کے حل کی شکل میں ہم تعاون کرتے ہیں اور کبھی کسی اچھے نکتہ کی شکل میں۔ بعض دفعہ فیصلہ کن مراحل میں کسی زیادہ آسان اور سہل الحصول راستہ کی طرف رہنمائی کے ذریعہ ہم لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور بھی بہت سی چیزیں ہماری دسترس میں ہوتی ہیں جنہیں تصرّف میں لا کر اُنہیں انجام دینا ہماری ذمہ داری ہوتی ہے لیکن اکثر اوقات لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ اُن میں کس کا دخل ہے؟

’’در اصل ابتدائے حیات ہی میں لوگ یہ طے کر لیتے ہیں کہ اُنہیں کرنا کیا ہے؟اُن کی صلاحیتیں، ہمّت اور اُن کے عزائم تو آہستہ آہستہ اُبھرتے ہیں۔ اصل مسلہ تو اُن صلاحیتوں اور ہمّت کو مرتکز کرنا اور ہر ممکن قربانی کا عزم ہے۔‘‘ بوڑھے کے لہجے سے تلخی عیاں تھی ’’اور شاید اِسی بنا پر ذرا سی ناکامی پر بہت جلد وہ مایوسی کا شکار ہو کر جستجو چھوڑ دیتے ہیں، لیکن اِس دنیا میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور شاید ہوتا رہے گا۔

اِس موقع پر لڑکے نے بوڑھے سے خزانہ کے بارے میں جاننا چاہا۔

’’ہاں یہ سمجھو جیسے خزانہ پانی میں چھپا ہے، بہتے ہوئے پانی کی ایک لہر اُسے ڈھک دیتی ہے اور دوسری اُسے کھول دیتی ہے۔‘‘ بوڑھا بولا، ’’اگر تم خزانہ کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہو تو اُس کی ایک شرط ہے، وہ یہ کہ تمہیں اپنی بھیڑوں کا دسواں حصہ مجھے دینا پڑے گا۔‘‘

’’میں اُس خزانہ کا دسواں حصہ آپ کو کیوں نہ دے دوں۔‘‘

بوڑھے کے چہرے سے مایوسی عیاں تھی۔ ’’اگر تم کسی ایسی چیز کے دینے کا وعدہ کر ڈالو جو ابھی تمہاری دسترس میں بھی نہیں ہے تو اُسے حاصل کرنے کے لئے ضروری جدو جہد تم نہ کر سکو گے۔‘‘

لڑکے نے بتایا کہ ایک خانہ بدوش خاتون کو وہ پہلے ہی خزانہ کا دسواں حصہ دینے کا وعدہ کر چکا ہے۔

بوڑھے نے گہری سانس لے کر کہا ’’یہ خانہ بدوش معصوم لوگوں سے چیزیں اینٹھنے کا گُر جانتے ہیں لیکن مجھے خوشی ہے کہ تم نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اِس دنیا میں کچھ حاصل کرنے کے لئے اُس کی قیمت دینا ضروری ہوتا ہے۔‘‘ بوڑھے نے کتاب واپس کر دی اور اُٹھ کھڑا ہوا۔

کل دوپہر اِسی وقت آ جاؤ، بھیڑوں کی مطلوبہ تعداد کے ساتھ۔میں تمہیں خزانہ تک پہنچنے کا طریقہ بتا دوں گا۔‘‘ خدا حافظ۔

پلازہ کے نکّڑ تک تو بوڑھا نظر آیا اور پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

 

 

 

 

(۸)

 

لڑکے نے پھر کتاب پڑھنے کی کوشش کی تو وہ توجہ مرتکز نہ کر پایا۔ بوڑھے نے جو کچھ کہا  تھا وہ حقیقت پر مشتمل تھا جس نے اُسے بے چین اور پریشان کر دیا تھا۔بیکری سے روٹی خریدتے ہوئے خیال آیا کہ بوڑھے نے اُس نانبائی کے متعلق جو کچھ کہا ہے اگر وہ اُسے بتا دے تو کیسا رہے۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ اُس نے سوچا کہ اِس سے کوئی فرق نہ پڑے گا کیونکہ نانبائی کسی فیصلہ کن نتیجہ تک پہنچنے میں تین دن سے کم نہیں لگائے گا۔ چھوڑو۔۔۔۔۔۔۔ جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلنے دو  ورنہ نانبائی مستقل ذہنی کشمکش کا شکار ہوتا رہے گا۔ یہ سوچ کر لڑکا وہاں سے چل پڑا اور شہر میں اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے شہر کے پھاٹک تک پہنچ گیا۔ ایک چھوٹی سی عمارت اور اُس میں ایک کھڑکی۔ لوگ افریقہ جانے کے لئے وہاں سے ٹکٹ خرید رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُسے یاد آیا کہ مصر افریقہ ہی میں ہے۔

’’کیا ٹکٹ چاہیے؟‘‘ کھڑکی کے پیچھے کارندے نے لڑکے کو دیکھ کر پوچھا۔

’’ممکن ہے کل لوں۔‘‘ لڑکا کھڑکی کے سامنے سے ہٹتے ہوئے بولا۔

ایک بھیڑ بھی اگر فروخت کر دوں تو اتنی رقم تو مل ہی جائے گی کہ آبنائے کے دوسرے کنارے پر پہنچ جاؤں۔ جانے کیوں یہ خیال اُسے خوفزدہ سا کر گیا۔

’’خوابوں کی دنیا میں رہنے والے ایک اور شخص کو دیکھو، ‘‘ کھڑکی کے پیچھے بیٹھا کارندہ اپنے ماتحت سے بولا کہا۔ ’’شایداِس بے چارے کے پاس سفر کے لئے ضروری رقم نہیں ہے۔‘‘

کھڑکی کے پاس کھڑے کھڑے لڑکے کو دفعتاً اپنی بھیڑوں کا خیال آ گیا۔ گزشتہ دو سالوں میں وہ اُن کے بارے میں سب کچھ جان چکا تھا۔ اُن سے اون کیسے حاصل کی جاتی ہے۔جو بھیڑیں بچہ دینے والی ہوتی ہیں اُن کا خیال کس طرح رکھا جاتا ہے اور بھیڑیوں سے اُن کی حفاظت کیسے کی جائے، یہ سب اُسے معلوم تھا۔ اندلس میں بڑی بڑی چراگاہیں کہا ں کہاں ہیں اور یہ بھی کہ اُس کی ہر بھیڑ کتنی قیمت کی ہے۔ یہ سب وہ جانتا تھا۔

اپنے دوست کے اصطبل تک پہنچنے کے لئے اُسنے جان بوجھ کر طویل راستہ کا انتخاب کیا اور جب وہ شہر کے محل کے سامنے سے گزر رہا تھا تو تھوڑی دیر کے لئے واپسی کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے وہ دیوار کے اوپری حصہ تک پتھروں کی بنی سیڑھی سے اوپر چڑھنے لگا۔ اِس اونچے مقام سے افریقہ نظر آ رہا تھا۔ کسی نے اُسے بتایا تھا کہ یہیں سے مور مسلمانوں نے اندلس پر یورش کی تھی اور پورے ملک پر قبضہ کر لیا تھا۔

یہاں بیٹھے ہوئے اُسے پورا شہر بھی نظر آ رہا تھا۔ وہ پلازہ بھی نظر آ رہا تھا جہاں بیٹھ کر اُس نے بوڑھے کے ساتھ دیر تک گفتگو کی تھی۔ کاش کہ وہ اُس بوڑھے سے نہ ملا ہوتا۔ لڑکے نے ایک لمحہ کے لئے سوچا۔ وہ تو اِس شہر میں صرف اِس لئے آیا تھا کہ اُس بوڑھی عورت سے خواب کی تعبیر پوچھ سکے۔ وہ عورت ہو یا یہ بوڑھا اُنہیں اِس کی کوئی پرواہ نہ تھی کہ وہ ایک چرواہا ہے اور چرواہے کو اپنی بھیڑوں سے کتنا لگاؤ ہوتا ہے۔ بس وہ تو اپنی دنیا میں مگن تھے۔ بالکل تارک الدنیا لوگ۔ اُسے مختلف خیال ستاتے رہے۔ یہ بھیڑیں اُس کی اپنی ہیں۔ اُن میں کون سی لنگڑی ہے اور کون سی دو ماہ بعد بچہ دے گی اور اِس میں سب سے سست الوجود کون سی ہے۔ یہ اون کیسے دیتی ہیں اور اِنہیں ذبح کس طرح کیا جاتا ہے۔ گویا کہ یہ بھیڑیں اُس کی اپنی دنیا تھیں۔ اگر وہ اُنہیں چھوڑ دے، وہ سوچنے لگا تو اُن بھیڑوں کا کیا ہو گا؟

ہوا کی رفتار بڑھنے لگی۔ وہ اِن ہواؤں سے واقف تھا۔ یہ مشرقی بحرِ روم سے آنے والی باد روم تھیں اور مسلمان بحرِ روم کے اِسی علاقے سے گزر کر اندلس میں داخل ہوئے تھے۔ لڑکا ذہنی کشمکش سے دو چار تھا۔ ایک طرف خزانہ تھا اور دوسری طرف بھیڑیں۔ وہ یہ فیصلہ نہ کرپا رہا تھا کہ کدھر جائے۔ اِس لمحہ اُسے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ جس کے بارے میں وہ سب کچھ جانتا ہے اور سب کچھ اُس کی گرفت میں ہے، اُسے چھوڑ دے یا اُسے چھوڑ دے جس کی معلومات تو صفر تھی لیکن اُس کے حصول کی خواہش بار بار دِل میں انگڑائیاں لیتی تھی۔تاجر کی بیٹی بھی ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہو جاتی تھی، لیکن لڑکے نے سوچا کہ وہ لڑکی بھیڑوں کے مقابلے میں زیادہ اہم نہیں، کیونکہ وہ اُس کا ذمّہ دار تو ہے نہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اُسے بھول ہی چکی ہو۔ اُسے یاد آیا کہ لڑکی نے کہا تھا کہ اُس کے لئے سب دن برابر ہیں۔ خوشی کا احساس اور اُس کی پہچان ہی تو کسی دن یا لمحہ کو اہم اور یادگار بناتی ہے لیکن جب کسی کا ملنا نہ ملنا برابر ہی ٹھہرا تو کیسی خوشی اور کیسا غم۔

لڑکے کو والدین یاد آرہے تھے جنہیں چھوڑ کر اپنے وطن کی خوبصورت فَضاؤں کواُس نے خیرباد کہا تھا۔ والدین اب میرے باہر رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہی حال میرا بھی ہے۔ بھیڑیں بھی مجھے نہ پا کر عادی ہو جائیں گی۔ لڑکا سوچتا رہا۔

جہاں وہ بیٹھا تھا پلازہ بآسانی نظر آ رہا تھا۔ نانبائی کی دکان میں زندگی کی رونق بھر پور تھی اور لوگوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ جس جگہ اُس نے بوڑھے کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کی تھی۔ اُس جگہ ایک نوجوان جوڑا آ کر بیٹھ گیا تھا۔ اُن کے اظہارِ تعلق کی وارفتگی اُس کے ذہن کو مرتعش کئے بغیر نہ رہ سکی۔

’’وہ نانبائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ اپنے آپ سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن خیال کو مکمل نہ کر سکا۔ بادِ روم کی تیز روی اُس کے خیالوں کو بھی لے اُڑی اور پھر اُس کے خیالات دور تک بھٹک گئے۔

اِن ہواؤں کے بدوش محض مور مسلمان ہی نہ آئے تھے بلکہ یہ افریقی ریگستان کی مخصوص خوشبو بھی اپنے ساتھ لائی تھیں اور پردہ نشین حسیناؤں کے لمس کی خوشبو بھی اُن کے ساتھ آئی تھی۔ یہ اُن مردانِ حُر کے خوابوں اور پسینہ کی خوشبو کی بھی امین تھی جنہوں نے ارضِ نامعلوم کی جستجو، نعمتوں کی تلاش اور مہم جوئی کے شوق میں اپنی سر زمین چھوڑ دی تھی۔

ایک لمحہ کے لئے لڑکے نے سوچا کہ کاش ! اُسے بھی ایسی ہی آزادی حاصل ہوتی۔ وہ سوچنے لگا کہ اُس آزادی کے حصول میں اُس کی ذات کے علاوہ اور کوئی حائل نہ تھا۔ بس یہ چند بھیڑیں، تاجر کی بیٹی اور اندلس کے مرغزار ہی وہ چند قدم تھے جن کے اُٹھتے ہی اُس کے مقدّر کا راستہ کھلا ہوا تھا۔

اگلے دن دوپہر جب لڑکا بوڑھے سے ملنے گیا تو چھ بھیڑیں اُس کے ہمراہ تھیں۔ ’عجیب بات ہے‘، لڑکا کہنے لگا۔ میرے دوست نے ایک نیک شگون سمجھتے ہوئے سب بھیڑیں فوراً ہی خرید لیں اور کہنے لگا کہ’’ میرے دِل میں بڑی خواہش تھی کہ میں بھی ایک چرواہا بنوں۔‘‘

’’ہاں !ایسا ہی ہوتا ہے ہمیشہ۔‘‘ بوڑھا شخص کہنے لگا۔

’’اِسے اصولِ موافقت کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کوئی پہلے پہل تاش کھیلتا ہے تو اُسے اپنی جیت یقینی نظر آتی ہے اور شاید اتفاقات بھی مبتدا ء کا ساتھ دیتے ہیں۔‘‘

’’وہ کیسے‘‘

’’دراصل اِس دنیا میں ایک ایسی قوت پائی جاتی ہے جو ہمارے مقدّرات کو حقیقت بنانے میں معاونت کرتی اور کامیابی کا مزہ چکھا کر ہماری جستجو اور شوق کو مہمیز لگاتی رہتی ہے۔

اتنا کہہ کر بوڑھا بھیڑوں کی طرف متوجہ ہوا تو ایک ایسی بھیڑ کی نشاندہی کی جس کی ایک ٹانگ میں نقص تھا۔ لڑکے نے بوڑھے کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ’’لنگڑی ضرور ہے لیکن تمام بھیڑوں میں زیادہ سمجھ دار اور سب سے زیادہ اون دینے والی بھیڑ ہے۔‘‘

’’خزانہ کہاں ہے؟‘‘ لڑکے نے اصل سوال کر ڈالا۔

’’ مصر کے اہرام کے نزدیک۔‘‘

لڑکا یہ سُن کر بھونچکّا رہ گیا اور سوچنے لگا کہ اتنی سی بات تو بغیر رقم لئے اُس بوڑھی عورت نے بھی بتا دی تھی۔بوڑھا بتانے لگا کہ خزانہ تک پہنچنے  کے لئے تمہیں فال نکالنی پڑے گی۔ خدا نے ہر انسان کے لئے راستہ متعیّن کر دیا ہے۔ بس تمہیں راستہ میں بکھری ہوئی نشانیوں کو پڑھنا آنا چاہیے۔

قبل اِس کے کہ لڑکا کچھ بولتا، ایک تتلی دونوں کے درمیان اُڑنے لگی۔ اُسے یاد آیا کہ ایک بار اُس کے والد نے بتایا تھا کہ تتلی اچھا شگون  ہوتی ہے اور ایسا ہی شاید اُنہوں نے بعض دوسری چیزوں کے متعلق بتایا تھا۔ ’’بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ بوڑھے نے لڑکے خیالات کو پڑھتے ہوئے کہا، ’’تمہارے دادا نے تمہیں ٹھیک ہی سکھایا تھا، یہ سب اچھے شگون اور فالِ نیک ہیں۔

بوڑھے نے اپنے سر سے ٹوپی ہٹائی تو لڑکا دنگ رہ گیا۔ سونے کی ایک بھاری پلیٹ جس میں پیش قیمت جواہرات جڑے ہوئے تھے، اُس  کے گِرد لِپٹی ہوئی تھی۔ گزشتہ روز جو چمک اُس نے دیکھی تھی ایک دم یاد آ گئی۔

یقیناً بادشاہ ہی رہا ہو گا اور محض لٹیروں کے خوف سے یہ بہروپ اختیار کر لیا ہے۔ لڑکے نے سوچا۔

’’یہ لے لو‘‘ بوڑھے نے اپنا ہاتھ لڑکے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ جس میں سفید اور کالے پتھر نظر آرہے تھے۔ یہ وہی پتھر تھے جو بوڑھے کے سر پر رکھی ہوئی پلیٹ میں جڑے ہوئے تھے۔

سیاہ پتھر ’ہاں ‘ کے لئے اشارہ ہو گا اور سفید ’نہیں ‘ کے لئے۔ جب تم اشاروں کو سمجھ نہ پاؤ تو یہ دونوں تمہاری مدد کریں گے۔ البتہ کوشش کرنا کہ سوال واضح اور معروضی ہو۔‘‘

’’لیکن بہتر یہ ہو گا کہ تم اپنا فیصلہ خود ہی کرو۔ خزانہ اہرام میں ہے، یہ تم جانتے ہی ہو۔میں نے چھ بھیڑیں تم سے اِس لئے مانگی تھیں کہ میری کوشش کی بدولت ہی تم فیصلہ تک پہونچ سکے ہو۔‘‘

ہمیشہ یاد رکھنا کہ جو چیز بھی تمہارے سامنے آئے وہ محض ایک چیز ہے اور اِس سے آگے کچھ نہیں ہے۔شگون کی اپنی زبان ہوتی ہے اُسے ضرور یاد رکھنا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے مقصد کی تلاش کو بیچ میں نہ چھوڑنا۔ تمہاری کوشش نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔‘‘ بوڑھے نے نصیحت کے انداز میں لڑکے کو سمجھایا۔

اچھا ! اب میرا کام ختم ہوا، لیکن جانے سے قبل ایک چھوٹی سی کہانی ضرور سُن لو:

’’ایک تاجر نے اپنے بیٹے سے کہا کہ جاؤ اور سب سے عقلمند آدمی سے یہ معلوم کرو کہ دنیا میں خوشی کا راز کیا ہے۔ لڑکا کوئی چالیس روز تک بھٹکتا رہا اور آخر کار ایک پہاڑی کے اوپر واقع ایک خوبصورت محل تک اُس کی رسائی ہوئی۔ کسی نے اُسے بتایا کہ دانشمند یہاں رہتا ہے۔

توقع تھی کہ یہاں کسی بزرگ درویش سے ملاقات ہو گی لیکن امید کے برخلاف اُس نے یہاں انتہائی سرگرم کاروباری ماحول پایا۔ تاجروں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔ لوگ اِدھر اُدھر کھڑے ہو کر گفتگو میں مصروف تھے۔ کسی طرف سے ہلکی موسیقی کی دھنیں اُٹھ رہی تھیں اور ایک طرف بڑی سی میز پر انواع و اقسام کی کھانے پینے کی اشیاء بھی لگی ہوئی تھیں۔ وہ دانشمند بھی ہر آدمی سے گفتگو کرتا تھا اور اتنا مصروف تھا کہ دو گھنٹہ کے بعد ہی وہ نوجوان کی طرف متوجہ ہو سکا۔‘‘

دانشمند نے پوری توجہ سے نوجوان کی بات سنی اور کہا:کہ دیکھو فی الوقت تو میرے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ تمہیں فوراً ہی خوشی کا راز بتا سکوں۔ البتّہ تم ایسا کرو کہ ذرا یہ پورا محل گھوم پھر لو اور پھر دو گھنٹہ بعد میرے پاس آؤ۔

البتّہ اِس دوران ایک کام کرنا کہ یہ چمچہ جس میں چند قطرے تیل کے پڑے ہوئے ہیں، اپنے ساتھ رکھنا اور یہ خیال رہے کہ گھومنے کے دوران یہ تیل گرنے نہ پائے۔ نوجوان نے محل کو دیکھنے کی خاطر تمام ضروری راستے اور سیڑھیاں طے کیں اوپر چڑھائی پر بھی گیا اور نیچے بھی اُترا، لیکن اِس دوران اُس کی نظریں چمچے ہی پر مرتکز رہیں کہ مبادا۔ تیل کے قطرے گر نہ جائیں۔ دو گھنٹہ بعد جب وہ واپس آیا تو دانشمند نے اُس سے باغ کے متعلق پوچھا جسے تیار کرنے میں دس سال لگے تھے جس کی دیواریں انتہائی حسین فارسی غلافوں سے مزیّن تھیں۔دانشمند نے سوال کیا کہ کیا اُس نے لائبریری میں رکھی خوبصورت چرمی جِلدیں بھی دیکھیں ؟ نوجوان کو یہ سوچ کربڑی شرمندگی کا احساس ہوا۔ اُس کی توجہ تو محض چمچہ کے تیل پر رہی کہ کہیں وہ گر گیا تو دانشمند کے نزدیک انتہائی بے اعتبار ٹھہرے گا۔

دانشمند نے کہا کہ’’ واپس جاؤ اور اِس محل میں جو خوبصورت دنیا میں نے آباد کی ہے، اُسے اچھی طرح دیکھو، تم اُس وقت تک میرے اوپر اعتماد نہیں کر پاؤ گے جب تک کہ میرے گھر سے واقف نہ ہو۔‘‘

نوجوان کو ذرا اطمینان ہوا اور پھر اُس نے چمچہ اٹھا کر محل کا گشت شروع کر دیا، اب کی بار ہر چیز کو بغور دیکھا۔ چھت اور دیواروں پر آویزاں فن کے اعلیٰ نمونوں پر بھی نظریں پڑیں۔ باغ اور پہاڑوں کی بھی سیر کی اور جس حُسن و خوبصورتی کے ساتھ مختلف اشیاء آویزاں کی گئی تھیں اُن سے بھی محظوظ ہوا، واپس آ کر دانشمند سے اپنے تاثرات بیان کئے۔

’’لیکن تیل کے وہ قطرے کہاں جس کی حفاظت پر میں نے تمہیں مامور کیا تھا۔‘‘ دانشمند نے پوچھا۔ نوجوان کی نظر جب چمچے پر پڑی تو وہ خالی تھا اور تیل کے قطرے گر چکے تھے۔

دانشمند بولا:

میری یہ بات یاد رکھو کہ خوشی کا خزانہ اِسی میں ہے کہ تمام عجائبات کو دیکھو ضرور لیکن اِس طرح تیل کے قطرے گر نہ پائیں۔‘‘

نوجوان چرواہا کچھ نہ بولا۔ وہ بوڑھے کی بات پوری طرح سمجھ چکا تھا۔ چرواہے کو سفر تو کرنا ہی ہے لیکن بھیڑوں کو بھولنا نہیں۔

بوڑھے نے لڑکے کو غورسے دیکھا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے لڑکے کے سر کے اوپر کچھ اشارے کئے اور اپنی بھیڑوں کو لے کر چل دیا۔

 

 

 

(۹)

 

طارفہ کے بلند ترین مقام پر خاصی دور مسلمانوں کا تعمیر کردہ ایک قلعہ تھا۔ اُس کی دیواروں کے اُس پار افریقہ نظر آتا تھا۔بوڑھا بادشاہ اُسی دوپہر قلعہ کی دیوار پر بیٹھا ہوا تھا اور رومی ہوائیں اُس کے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ بھیڑیں اِدھر اُدھر چُگ رہی تھیں۔ مالک بھی نیا تھا اور جگہ بھی، اس لئے ہر آہٹ پر چونک پڑتی تھیں، لیکن یہ تبدیلی اُن کے لئے کسی اہمیت کی حامل نہ تھی، وہ تو بس چارہ اور پانی کی خوگر تھیں۔

قلعہ کی دیوار پر بیٹھے بوڑھے کی نظر ایک چھوٹے سے جہاز پر پڑی جو بندر گاہ سے نکلنے کی راہ بنا رہا تھا۔ اُس نے حسرت سے سوچا کہ لڑکے سے آئندہ کبھی ملاقات نہ ہو سکے گی۔ جیسے ابراہیم سے اپنی فیس لینے کے بعد وہ پھر کبھی نہ مل سکا۔ لیکن فرائض کی انجام دہی میں ایسا تو ہوتا ہی رہتا  ہے۔

تقدیرِ کلّی میں ضم ہو جانے والے قطب خواہشات سے ماور آ ہوتے ہیں لیکن جانے کیوں شاہ سیلم کی خواہش بار بار سر اُبھارتی کہ کسی نہ کسی طرح یہ لڑکا کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔

وہ لڑکے کے لئے غمگین تھا۔ اُسے تو میرا نام بھی یاد نہیں رہ پائے گا۔ میں نے بھی تو صرف ایک ہی بار اُسے اپنا نام بتایا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اُسے پھر ایک بار اپنا نام بتا دیتا تاکہ کہیں اگر میرا تذکرہ  ہو تو شاہ سیلم کی حیثیت سے ہو۔

اُس نے آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی اور خود ہی خجل سا ہو اُٹھا۔ میرے آقا میں جانتا ہوں کہ یہ خود نمائی تیرے نزدیک بالکل بے بنیاد ہے۔ لیکن ماضی کے ایک بادشاہ کو تھوڑی ہی دیر کے لئے صحیح، اِسے سرمایۂ افتخار بننے دے۔

 

 

 

(۱۰)

 

افریقہ بھی کتنا عجیب و غریب علاقہ ہے، لڑکے نے سوچا۔

وہ اِس وقت ایک قہوہ خانہ میں بیٹھا تھا۔ طنجر کی پتلی پتلی گلیوں میں ایسے بہت سے قہوہ خانے تھے۔ایک مجلس میں یہاں کچھ لوگ حُقہ سے تمباکو نوشی کر رہے تھے۔ جب ایک پی چکتا تو وہ حقہ کی طویل ’نے‘ دوسرے کی طرف بڑھا دیتا اور دوسرا اُس سے لطف اندوز ہونے لگتا۔ کچھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھوم رہے تھے۔ چہروں کو نقابوں میں چھپائے عورتیں بھی نظر آئیں اور بلند و بالا میناروں پر چڑھ کر عابِدوں کو ترنّم الاپتے بھی سنا اور لوگوں کو گھٹنوں کے بل جھکتے اور زمین پر سر ٹیکتے بھی دیکھا۔

’’بے دین لوگوں کی حرکتیں ہیں یہ سب۔‘‘ اُس نے سوچا

بچپن میں اُس نے چرچ میں سینٹ سانتیاگو کی ایک تصویر دیکھی تھی جس میں وہ ننگی شمشیر لئے ایک سفید گھوڑے پر سوار ہیں اور اِن بے دینوں کی سی تصویریں سینٹ کے پیروں پر جھکی ہوئی ہیں۔ لڑکا اپنے آپ کو بیمار سا اور بالکل تنہا محسوس کر رہا تھا۔ اُس نے سوچا کہ وہ تو ایسے لوگوں کے درمیان آ گیا ہے جو شاید دشمن ہیں۔

سفر کی خوشی میں اُس نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہاں کے لوگوں کی زبان سے بھی بالکل ناواقف ہے۔ یہاں سب عربی میں بولتے ہیں۔ اُس نے سوچا کہ عربی سے ناواقفیت، خزانہ کی تلاش میں دشواری اور تاخیر کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔

قہوہ خانہ کے مالک نے اُس کے پاس آ کر پوچھا تو لڑکے نے اُس مشروب کی طرف اشارہ کر دیا جو برابر والی میز پر بیٹھے شخص نے منگوایا تھا لیکن چائے کا تلخ گھونٹ اُس کے لئے اجنبی تھا، اُسے شاید کسی شربت کی ضرورت تھی۔

لیکن یہ سب اِس کے لئے ذرا بھی اہم نہ تھے۔ اُسے تو بس اِس کی فکر تھی کہ خزانہ کی تلاش کا آغاز کس طرح ہو۔ بھیڑیں بیچ کر اُس کے پاس کافی رقم موجود تھی اور لڑکے کو یہ تو معلوم ہی تھا کہ پیسہ میں جادو ہے اور جب تک جیب میں پیسہ ہے تنہائی کوئی مسلہ نہیں ہے۔ کچھ ہی دِنوں میں وہ اہرام تک پہنچ جائے گا۔اُسے یقین تھا کہ بوڑھے آدمی نے محض چھ بھیڑوں کے لئے جھوٹ نہ بولا ہو گا۔

اُسے یاد آیا، بوڑھے نے شگون اور نشانیوں کے بارے میں بتایا تھا۔

جب وہ آبنائے پار کر رہا تھا تو اُسے اُن نشانیوں کا خیال آیا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ بوڑھے کو اِن سب باتوں کی اچھی جانکاری تھی۔ اندلس کے میدانوں میں اپنی بھیڑوں کے ساتھ گھومتے اُسے بہت سی نشانیوں کا اندازہ ہو گیا تھا۔ میدان کی کیفیت اور آسمان دیکھ کر راستہ کا اندازہ کرنا اُسے آتا تھا۔ خود اُس چڑیا کو پہچانتا تھا جو اگر کہیں پائی جائے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں قریب میں سانپ موجود ہے۔ بعض جھاڑیاں اگر کہیں موجود ہیں تواِس کا مطلب یہ ہے کہ قریب میں کہیں پانی موجود ہے۔ یہ سب اُس نے بھیڑوں سے سیکھا تھا۔

جب خدا بھیڑوں کو اتنی آسانی سے راستہ دکھا دیتا ہے تو میں تو انسان ہوں۔ اِس خیال نے جیسے ایک بڑا بوجھ کم کر دیا۔ چائے کی تلخی بھی کم ہو گئی تھی۔

’’کون ہو تم؟‘‘ کسی نے اسپینی زبان میں اُس سے پوچھا۔

اپنی زبان سن کر لڑکا مستعجب ہو اُٹھا اور یہ سوچتے ہوئے کہ ابھی تو وہ شگون کے متعلق سوچ رہا تھا اور فوراً ہی ایک آدمی آ گیا : بولا:

’’تم اسپینی کیسے جانتے ہو؟‘‘

نووارد اپنے لباس سے تو کوئی مغربی لگتا تھا لیکن اُس کی رنگت بتا رہی تھی کہ وہ اِسی شہر کا باشندہ ہے، اُس کی عمر اور قد لڑکے جیسی ہی تھی۔

’’اِس علاقہ میں ہر کوئی اسپینی زبان جانتا ہے۔ اسپین یہاں سے محض دو گھنٹہ ہی کی مسافت پر تو ہے۔‘‘

’’آؤ بیٹھو ! کیوں نہ ہم لوگ کچھ پئیں۔‘‘ لڑکے نے کہا۔ مجھے یہاں کی چائے تلخ لگتی ہے۔

لڑکے نے گفتگو کے دوران نووارد سے مصر کے اہرام دیکھنے کی خواہش ظاہر کی لیکن وہ خزانہ کی بات کہتے کہتے رک گیا۔ اُس نے سوچا کہ کہیں یہ عرب بھی اہرام تک پہنچانے کے عوض خزانہ کا کوئی حصہ نہ مانگ بیٹھے۔ اُسے یاد آیا کہ بوڑھے نے بھی ایسے ہی موقع پر حصہ مانگا  تھا۔

’’اگر تم اہرام مصر تک پہنچنے میں میری رہنمائی کرو تو میں اُس کا مناسب معاوضہ ادا کروں گا۔‘‘

’’تمہیں راستہ کا کوئی اندازہ ہے۔‘‘ نووارد نے پوچھا۔

لڑکے نے محسوس کیا کہ قہوہ خانہ کا مالک اُسے بغور دیکھ رہا ہے اور اُن کے بیچ ہونے والی گفتگو کو سننے کی کوشش رہا ہے۔یہ بات لڑکے کو اچھی نہ لگی لیکن اُس وقت وہ اِس دھُن میں تھا کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اُسے اہرام تک پہنچا دے اور اِس موقع کو وہ ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا تھا۔

’’اِس کے لئے صحارا کا پورا ریگستان پار کرنا ہو گا ‘‘ نووارد نے لڑکے سے کہا: ’’یہ خاصا دقّت طلب کام ہے اور اِس کے لئے کافی رقم درکار ہو گی۔ کیا تمہارے پاس ضروری رقم ہے؟‘‘

لڑکے کو یہ سوال عجیب سا لگا، لیکن اُسے بوڑھے کی یہ بات یاد آئی تو جب تم کسی مقصد کے حصول میں واقعی لگ جاتے ہو تو کائنات کی تمام قوتیں تمہارا ساتھ دینے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔

لڑکے نے اپنا پرس کھولا اور اُس میں رکھی رقم اجنبی کو دکھائی۔ اِس دوران قہوہ خانہ کا مالک بھی اُن کے قریب آ گیا، اُس نے بھی رقم دیکھی۔ نووارد اور قہوہ خانہ کے مالک نے عربی میں ایک دوسرے سے کچھ کہا اور ایسا لگا کہ قہوہ خانہ کا مالک ناراضگی کا اظہار کر رہا ہے۔

’’آؤ یہاں سے باہر چلیں ‘‘ نووارد بولا ’’یہ ہم سے اُٹھ جانے کو کہہ رہا ہے۔‘‘

لڑکے کو اطمینان ہو گیا۔ وہ چائے کی قیمت ادا کرنے کے لئے کاؤنٹر پر گیا۔ تو قہوہ خانہ کے مالک نے اُسے پکڑ لیا اور بڑے غصہ سے کچھ کہنے لگا۔ لڑکا زیادہ تنو مند تھا اور چاہتا تو مالک کو دھکّا دے کر گرا سکتا تھا لیکن بہر حال وہ ایک بیرونی ملک میں تھا۔ اِس دوران نووارد نے مخل ہوتے ہوئے قہوہ خانہ کے مالک کو دھکّا دے کر لڑکے کو باہر کی طرف کھینچ لیا اور بولا کہ اِس کی نظر تمہارے پیسوں پر ہے، طبخر کیونکہ ساحل کا علاقہ ہے اور ایسے علاقوں پر ٹھگ اور چور ہوتے ہی ہیں۔ افریقہ کے دوسرے علاقہ اِس جیسے نہیں ہیں۔

لڑکے نے اُس نووارد پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی رقم گن کر اُسے کے حوالے کر دی۔ ویسے بھی اِس نووارد نے اجنبی دیس میں ایک خطرناک صورتِ حال میں اُس کی حفاظت کی تھی۔

’’ہم لوگ اہرام تک پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ اُس نے رقم اپنے قبضہ میں کرتے ہوئے کہا، ’’ البتہ اِس کے لئے دو اونٹوں کی ضرورت ہو گی۔

دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے طنجر کی پتلی پتلی سڑکوں پر لگے بازار میں مختلف اشیاء کو دیکھتے ہوئے مرکزی بازار میں پہنچے، جہاں ہزاروں کی بھیڑ تھی۔ یہ شاید منڈی تھی جہاں دکاندار اپنی دکانوں کے سامان خریدنے اور اِکٹھے مال کی بولیاں لگانے میں مصروف تھے۔ فروخت کے لئے اور اشیاء بھی تھیں۔ دیواروں پر لٹکی قالینوں اور تمباکو کی دکانیں بھی نظر آئیں۔

لڑکا نووارد پر نظریں جمائے رہا۔ پوری رقم بھی تو اُسی کے پاس تھی۔ اُس نے سوچا بھی کہ رقم واپس مانگ لے لیکن یہ سوچ کر کہ کہیں وہ برا نہ مان جائے، واپس نہیں مانگی۔نہ صرف یہ علاقہ اُس کے لئے نیا تھا بلکہ یہاں کے رسم و رواج اور مزاج سے بھی وہ واقف نہیں تھا۔

’’اُس پر نظر رکھنا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ اپنے آپ سے بولا۔ ویسے بھی اُسے زیر کرنا میرے لئے مشکل نہیں۔ اگر اُس نے نیت بدلی تو میرا مقابلہ نہ کر سکے گا۔

اِس دوران اُس کی نظر ایک دکان پر لٹکی ہوئی انتہائی خوبصورت تلوار پر پڑی۔ ایسی تلوار اِس سے قبل اُس نے نہ دیکھی تھی۔ اُس کی دھار  والا حصہ چاندی کا تھا اور ہینڈل پر بیش قیمت ہیرے لٹکے ہوئے تھے۔ لڑکے نے سوچا کہ مصر سے واپسی کے سفر پروہ اُسے ضرور خریدے گا۔

دکاندار سے اُس کی قیمت معلوم کرنے کے لئے جیسے ہی اُس نے اپنے ساتھی نووارد کی طرف توجہ دی تو اُسے احساس ہوا کہ تلوار دیکھنے کے دوران وہ اپنے ساتھی سے توجہ ہٹا چکا تھا، اُسے لگا جیسے اُس کا دِل بیٹھ گیا ہو، جیسے کسی نے اُس کاسینہ بھینچ دیا ہو۔ فوری طور پر اِدھر اُدھر دیکھنے کی ہمت  جٹا نہ پایا کیونکہ اُس کا اندیشہ یقین میں تبدیل ہو رہا تھا کہ شاید وہ جسے دیکھنا چاہتا تھا وہ موجود نہ ہو گا۔ ایک لمحہ کے لئے اُس نے پھر ایک اُچٹتی نظر تلوار پر ڈالی اور آخر ہمت کر کے نظر اُٹھا کر نووارد کو دیکھنے کی کوشش کی۔

چاروں طرف بازار ہی بازار تھا۔ لوگ آ جا رہے تھے، لوگوں کا شور اور اشیاء خریدنے کا ہنگامہ، اجنبی کھانوں کی خوشبو۔۔۔۔۔۔۔ اِس کے علاوہ بازار میں کچھ نہ تھا۔ اُس کا ساتھی غائب ہو چکا تھا۔

لڑکے نے خود کو سمجھانا چاہا کہ اُس کا ساتھی محض اِتّفاق سے جدا ہو گیا ہے، چنانچہ کچھ رک کر اُس کا انتظار کرنا چاہیئے۔ اِس دوران موذّن نے بلند بالا مینار پر چڑھ کر اَذان کہی۔ لڑکے نے دیکھا کہ بازار میں تمام ہی لوگ رکوع و سجودکے لئے تیار ہونے لگے تھے اور پھر کچھ دیر بعد سب نے اپنی اپنی دکانیں بند کیں اور روانہ ہو گئے۔ یہ عمل جیسے اُن کے شعور کا حصہ تھا، کسی کو کوئی حکم دینے کی ضرورت نہ تھی۔ سب کو خبر تھی کہ کیا کرنا ہے۔

سورج بھی واپسی کے سفر پر روانہ ہو رہا تھا۔ لڑکے نے اُس کو اُس وقت تک دیکھا جب تک وہ بازار کی بلند بالا سفید عمارت کے عقب میں چھپ نہ گیا۔آج صبح جب یہی سورج نکلا تھا تو وہ ایک دوسرے برِّ اعظم میں تھا۔ وہی چرواہا ساٹھ بھیڑوں کا مالک اور تاجر کی بیٹی سے ملنے کی تمنّا دِل میں بسائے، اُسے آنے والے وقت کے اندیشے نہ تھے۔ اُنہیں چراگاہوں سے گزرنا تھا جن سے وہ گزرتا تھا۔ کوئی نئی چیز ہونے والی نہ تھی۔لیکن جب یہی سورج غروب ہونے لگا تو اس کی دنیا بدل چکی تھی۔ اجنبی جگہ، اجنبی ماحول اور وہ خود بھی بالکل اجنبی، زبان بھی اجنبی کہ وہ دوسروں سے گفتگو بھی کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ اب وہ کوئی چرواہا نہیں رہ گیا تھا۔ اُس کے پاس تواب کچھ بھی نہ بچا تھا۔اتنا پیسہ بھی نہیں کہ  واپس جا کر از سرِ نو کام کا آغاز کر سکے۔

یہ سب کچھ سورج کے طلوع اور غروب کی درمیانی مدّت میں ہو گیا، لڑکا سوچ رہا تھا۔ وہ غمگین تھا اور اِس جانگسل۔ حقیقت پر غور کر رہا تھا کہ زندگی میں اتنی تیزی سے اور اِس حد تک بڑی تبدیلی اتنے کم وقت میں آ گئی تھی۔

اپنی بیکسی پر اُس نے چیخ کر رونا چاہا، اِس سے قبل کبھی وہ بھیڑوں کی موجودگی میں بھی نہ رویا تھا لیکن وہ بازار جہاں وہ کھڑا تھا اب بالکل خالی تھا اور کوئی اُسے دیکھنے والا نہ تھا۔اُس کی آنکھیں قابو میں نہ رہ سکیں اور وہ سسکنے لگا۔ وہ خدا سے شاکی تھا۔ خواب تو اُسی نے دکھایا تھا۔ کیا اُس  پر یقین کر کے اُس سے غلطی ہو ئی تھی، وہ سوچنے لگا۔

’’جب بھیڑیں میرے پاس تھیں تو مجھے کوئی غم نہ تھا بلکہ میں دوسروں کو بھی خوش رکھتا تھا۔ لوگ مجھے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے تھے‘‘ اُس نے سوچا’’ لیکن آج خوشیاں مجھ سے روٹھ گئی ہیں۔ غم اور تنہائی نے مجھے آ لیا ہے۔میں اب شاید لوگوں پر کبھی اعتماد نہ کر سکوں۔ ایک شخص نے دھوکہ دے کر اگر مجھے خزانے کے قابل نہ رکھا تو میں بھی اُن لوگوں کو چین سے نہ بیٹھنے دوں گا جو اپنے خزانے حاصل کر لیں گے۔ اب جو کچھ بھی ہے، اُسے بچا کر رکھنا ضروری ہے اب میں شاید اِس دنیا کو حاصل کرنے کے قابل نہیں رہا۔‘‘

منفی جذبات نے لڑکے کو جیسے جکڑ لیا تھا۔ تھیلا کھول کر لڑکے نے یہ دیکھنا چاہا کہ اُس کے پاس اب بچا کیا ہے۔ ممکن ہے جو سینڈوچ اُس نے جہاز میں بیٹھے ہوئے کھایا تھا، بچا ہوا کچھ پڑا ہو، لیکن تھیلے میں سوائے ایک موٹی سی کتاب، جیکٹ اور دو پتھروں کے اور کچھ نہ تھا۔

پتھروں پر نظر پڑتے ہی کچھ سوچ کر اُسے اطمینان ہوا، اُس نے سوچا کہ چھ بھیڑیں دے کر اُس نے یہ دو پتھر لیے تھے۔ اگر ضرورت پڑی تو پتھر بیچ کر وہ واپسی کا ٹکٹ تو خرید ہی سکتا ہے۔ لیکن اب اُسے ہوشیار رہنا ہو گا۔ دونوں پتھر تھیلے سے نکال کر اُس نے اپنی جیب میں رکھ لئے۔ واحد بات جو اُس نووارد اجنبی نے سچ بتائی تھی وہ یہی تھی کہ یہ ساحلی علاقہ چوروں سے بھرا ہوا ہے۔

’’اب سمجھ میں آیا کہ قہوہ خانہ کا مالک اِس قدر پریشان کیوں تھا۔ وہ شاید یہ بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ تجھے اِس نووارد پر ہرگز بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، لیکن میں بھی تو اوروں جیسا ہی ہوں۔دُنیا کو اپنی خواہش کے مطابق دیکھتا ہوں جب کہ وہ۔ اپنے حساب سے چلتی ہے۔‘‘

اُس کی اُنگلیاں پتھروں پر پھسلتی رہیں اور اُن کی حرارت اور خوبصورت سطح کا احساس دلاتی رہیں۔ اب یہی تو اُس کا سرمایہ تھا۔ محض ہاتھ کے لمس سے اُسے نشاط کا احساس ہوا۔ یہ پتھر بوڑھے شاہ سیلم کی یاد دلاتے، ’’جب تم کسی چیز کو حاصل کرنے میں لگ جاتے ہو تو پوری کائنات تمہاری معاونت کرنے لگتی ہے‘‘، بوڑھے نے ایک بار کہا تھا۔

لڑکا بوڑھے شاہ سیلم کے بیان کی حقیقت پر غور کرتا رہا۔ وہ بازار میں بالکل تنہا تھا، نہ تو اب اُس کے پاس بھیڑیں تھیں جن کی نگرانی کرتے وہ رات گزار سکتا اور نہ ہی جیب میں کچھ بچا تھا۔ لیکن یہ دونوں پتھر اِس بات کا ثبوت ضرور تھے کہ ایک بادشاہ کی اُس پر توجہ رہی ہے اور وہ اُس کا واقف حال بھی تھا۔ ’’دیکھو یہ سفید و سیاہ پتھر تمہیں نشانیاں سمجھنے میں مدد کریں گے۔‘‘اُسے شاہ سیلم کے الفاظ یاد آئے۔ لڑکے نے دونوں پتھروں کو پھر سے تھیلے میں رکھ کر ایک تجربہ کرنا چاہا۔

بوڑھے نے بتایا تھا کہ کوئی نشانی سمجھ میں نہ آئے تو بالکل واضح سوال سے اِن پتھروں کی مدد حاصل کرنا۔چنانچہ سب سے پہلا سوال تو یہی تھا کہ وہ چاہتا کیا ہے۔اِس لئے اُس نے یہ جاننا چاہا کہ بوڑھے شاہ سیلم کی دی ہوئی دعا کا اثر اب بھی ہے کہ نہیں۔

اُس نے ایک پتھر باہر نکالا۔ جو مثبت جواب کا حامل تھا۔

’’کیا مجھے خزانہ مل پائے گا۔‘‘ اُس نے دوسرا سوال پوچھا۔

لڑکے نے پتھر نکالنے کے لئے ہاتھ جیب میں ڈالا تو دونوں پتھر تھیلے میں ایک سوراخ سے باہر نکل کر نیچے گِر پڑے۔ لڑکے کو تھیلے کے سوراخ کا علم اِس سے قبل بالکل نہ تھا۔ وہ جھکا اور دونوں پتھروں کو اُٹھا کر پھر تھیلے میں رکھنا چاہا لیکن جب اُسے وہ دونوں پتھر زمین پر پڑے نظر آئے تو اُس کے ذہن میں بوڑھے شاہ سیلم کا ایک اور فقرہ یاد آ گیا۔ اُس نے کہا تھا:

’’نشانیوں کو پہچاننا سیکھو اور پھر اُن کے مطابق کام کرو۔‘‘

شاید یہ بھی ایک نشانی ہے۔ لڑکا خود ہی مسکرا اُٹھا۔ اُس نے دونوں پتھروں کو اُٹھا کر تھیلے میں ڈال لیا۔ تھیلے کے سوراخ کو بند کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ پتھروں کو جب گِرنا ہو گا تو گِر جائیں گے۔اُس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی تھی کہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے ورنہ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے مقدّر سے بھاگنے لگتا ہے۔ اُسے یاد آیا کہ میں نے خود یہ بھی تو عہد کیا تھا کہ اپنے فیصلے میں اب خود ہی کیا کروں گا۔

البتہ پتھروں کے تجربہ سے یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ بوڑھے بادشاہ کی دعاء ابھی تک پُر اثر ہے اور اِس احساس نے اُسے اور بھی پُر اعتماد کر دیا۔ اُس نے خالی پڑے پلازہ کے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ اب وہ احساسِ محرومی کا شکار نہ تھا۔ یہ جگہ نئی ضرور تھی لیکن اجنبیت کا وہ احساس اب نہیں تھا جو تھوڑی دیر قبل اُسے گرفت میں لئے ہوئے تھا۔

میری دیرینہ تمنّا بھی تو آخر یہی تھی کہ دنیا کے نئے نئے علاقے دیکھوں، اگر اہرامِ مصر نہ بھی دیکھ سکا تو کیا جتنا ابھی تک میں سفر کر چکا ہوں، کسی چرواہے نے آج تک کیا ہو گا؟ کاش اُنہیں اندازہ ہوتا کہ اندلس کے میدانوں سے محض دو گھنٹہ کی مسافت پر کیسی مختلف دنیا آباد ہے،  حالانکہ اُس کی یہ نئی دنیا اِس وقت محض ایک خالی پڑا ہوا ویران بازار تھی لیکن چند لمحے پیشتر اُسے زندگی سے بھر پور دیکھ چکا تھا، حالانکہ اُن گزشتہ لمحوں کو وہ زندگی میں کبھی بھُلا نہ سکے گا۔ اُسے وہ خوبصورت تلوار یاد آ گئی جس کی بدولت وہ لُٹ گیا تھا۔پھر دِل تھوڑا سا دُکھا بھی لیکن اُس نے سوچاکہ یہ بھی تو سچ ہے کہ ایسی تلوار اُس نے قبل اَزیں کبھی نہ دیکھی تھی۔ گزشتہ لمحات کے واقعات غور کر کے اُسے خیال آیا کہ دو چیزوں کے درمیان اُسے اب فیصلہ کر لینا چاہیے کہ کیا وہ محض ایک رہزن کا ستایاہو انسان ہے یا ایک خزانہ کا متلاشی مہم جو۔ اچانک اُس ذہن جگمگا اُٹھا، میں تو خزانہ کی مہم میں نکلا ہوا ہوں۔‘‘

 

 

 

(۱۱)

 

کسی نے اُسے گہری نیند سے اُٹھا دیا تھا۔ وہ وہیں کسی جگہ لیٹ کر سو گیا تھا۔ اب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ بازار میں زندگی واپس لوٹ رہی تھی۔

اِدھر اُدھر اپنی بھیڑوں کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن فوراً ہی یاد آ گیا کہ اب دنیا بدل گئی ہے۔ اِس احساس نے اُسے دُکھی نہیں بلکہ خوشی کے جذبہ سے مخمور کر دیا تھا۔ اپنی بھیڑوں کے لئے اب اُسے چارہ اور پانی کی جستجو کرنے کی فکر نہ تھی بلکہ وہ اُن بھیڑوں سے آزاد رہ کر خزانے  کی جستجو کر سکتا تھا۔ اُس کی جیب میں تو کوڑی بھی نہ تھی لیکن یقین کی قوت سے وہ مالامال تھا۔ گزشتہ رات تو اُس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اِس مہم میں ہر قسم کی پریشانی کا مقابلہ کرے گا۔ کتابوں میں جو کہانیاں اُس نے پڑھی تھیں، اُن کے مہم جُو کردار ہی اُس کوپسند تھے اور آج وہی اُس کے راہنما بھی بن گئے تھے۔

بازار میں اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے اُس نے دیکھا کہ دکاندار اپنی دکانیں لگانے میں مصروف ہیں۔ ایک مٹھائی کی دکان لگاتے ہوئے مالک کی مدد کے لئے لڑکا آگے بڑھا اور اُس کا سامان لگانے لگا۔ دکاندار ایک خوش مزاج آدمی تھا۔ اپنے کام میں مست۔ اُس کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ سے لڑکے کو بوڑھے شاہ سیلم کی یاد آ گئی۔ اُس نے سوچا کہ مٹھائی فروش کی اتنی محنت آخر کس کے لئے ہے ؟ کیا محض اِس لئے ہے کہ اُسے کسی طویل سفر کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی یا کسی لڑکی سے شادی کرنا ہے؟ نہیں یہ چھوٹے مقاصد اصل محرّک نہیں ہو سکتے۔ اصل مقصد تو بس یہ فیصلہ ہے کہ یہ کام انجام دینا ہے۔

تھوڑی دیر میں دکانیں لگ چکی تھیں۔ مٹھائی تیار ہونے لگی تو اوّلین۔ مٹھائی مالک نے لڑکے کو دی۔ لڑکا بھوکا تھا۔ شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اُسے خیال آیا کہ دکان لگاتے ہوئے اُس نے عربی کے ساتھ اسپینی زبان بولتے ہوئے کسی کو سنا تھا، گویا یہ دونوں زبانیں یہاں اچھی طرح سمجھی جاتی ہیں۔

کوئی زبان ایسی بھی ہے جو لفظوں سے ماور آ ہو۔ اُس نے سوچا۔ اُسے اپنی بھیڑوں کے ساتھ تو اِس زبان کا تجربہ تھا ہی لیکن اب وہ یہاں بھی اِس تجربہ سے فیض یاب ہو رہا تھا۔

لڑکا بڑی تیزی سے نئی نئی باتیں سیکھ رہا تھا۔ بہت سی باتیں ایسی تھیں جو اِس سے قبل بھی اُس کے تجربہ میں آ چکی تھیں۔ یہ حقیقتاً تو نئی نہ تھیں لیکن بس اُس نے اُن پر توجہ نہیں دی تھی۔ کوئی بات بار بار اگر تجربہ میں آتی ہے تو انسان اُس کا عادی ہو جاتا ہے اور پھر غور نہیں کرتا۔‘‘ اگر الفاظ سے ماور آ زبان تک میری دسترس ہو جائے تو پھر پوری دنیا کو سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘ اُس نے سوچا۔

وہ مطمئن بھی تھا اور پُرسکون بھی۔ کسی بات کی جلدی نہ تھی۔ سوچا کہ چلو طنجر کے گلی کوچوں ہی کو دیکھ لیا جائے۔ شاید اِسی طرح نشانیوں کو سمجھنے میں مدد ملے۔گو کہ یہ خاصا صبر آزما کام تھا لیکن بھیڑوں کے ساتھ رہتے اُسے صبر و تحمل کی عادت ہو چکی تھی۔ اِس اجنبی دنیا میں بھی اُس کی بھیڑیں اُس کی راہنما بنی ہوئی تھیں۔ یہ سوچ کر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔

بوڑھے نے کہا تھا نا ’’تمام چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے ایک جیسی ہیں۔‘‘اُسے یاد آیا۔

 

 

 

(۱۲)

 

بلّوری اشیاء کی دکان کا مالک صبح جب سو کر اُٹھا تو اُس کی ذہنی پریشانی کا وہی عالم تھا جو ہر روز شام کو ہوا کرتا تھا۔ گزشتہ تین سالوں سے وہ اِسی دکان پر بیٹھ رہا تھا، جہاں خریدار کم ہی آتے تھے۔اِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ دکان ایک تنگ پہاڑی راستے سے گزر کر ایک اونچے مقام پر واقع تھی۔ آمدنی کم ہونے کی بناء پر کئی بار اُس نے دکان بدلنے کے لئے سوچا لیکن ایک تو یہ کہ خاصے طویل عرصہ سے وہ اِس دکان پر بیٹھ رہا تھا اور دوسرے یہ کہ اُس کے پاس سوائے بِلّو ری چیزوں کی خرید و فروخت کے اور کوئی تجربہ بھی نہ تھا۔ ایک وقت تھا کہ اُس کی دکان خوب چلتی تھی۔ طرح طرح کے لوگ آتے اور مال خریدتے۔ عربی تاجر ہوں یا فرانسیسی لوگ، انگریز ماہرینِ طبقات الارض ہوں یا جرمن سپاہی، اُس کی دکان سبھی کے لئے توجہ کا مرکز تھی، خوب چل رہی تھی اور اُسے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ جلد ہی دولت مندوں میں اُس کا شمار ہونے لگے گا اور خوبصورت عورتیں اُس کی بیوی بنّے کے لئے تیار ہوں گی۔

لیکن وقت گزرا تو طنجر ہی بدل گیا۔ سیوط کا شہر جو قریب ہی میں واقع تھا، ترقی میں طنجر سے آگے نکل گیا۔طنجر کی تجارتی گہما گہمی میں کمی آتی گئی۔ وقت سے فائدہ اُٹھانے کی دوڑ میں پڑوس کے کئی دکانداروں نے جگہیں تبدیل کر لیں۔ پہاڑی پر بس اب چند ہی دکانیں رہ گئیں تھیں۔ ظاہر ہے کہ محض چند چھوٹی موٹی دکانوں کو دیکھنے کے لئے اوپر چڑھنے میں کسی کو دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔

لیکن دکاندار کرتا بھی کیا۔ وہ گزشتہ تین سال سے یہی کام کر رہا تھا۔ اب کوئی نیا کاروبار از سرِ نو شروع کرنے کی اُس میں ہمّت نہ تھی۔

صبح کا زیادہ تر وقت وہ بس لوگوں کو آتے جاتے دیکھنے میں گزارتا۔ گزشتہ کئی برسوں سے اُس کی یہی مصروفیت تھی۔ وہ لوگوں کے آنے جانے کے اوقات سے بھی اچھی طرح واقف ہو گیا تھا۔ آج اچانک دوپہر کے وقت ایک لڑکا اُس کی دکان پر آ کر رُکا۔ اپنے لباس سے تو وہ ایک عام سا آدمی لگا، لیکن دکاندار کی تجربہ کار آنکھوں نے یہ پہچاننے میں غلطی نہیں کی کہ لڑکے کی جیب خالی ہے۔ وہ کھانے کے لئے بیٹھ ہی رہا تھا کہ اُس نے سوچا کہ لڑکا ذرا آگے بڑھ جائے تو وہ کھانا شروع کرے۔

 

 

 

(۱۳)

 

دکان کے اندر کئی زبانوں میں کچھ لکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ مختلف زبانیں بولنے والے افراد اُس دکان میں آتے رہے ہوں گے۔ ذرا جھانک کر دیکھا تو اندر ایک آدمی نظر آیا۔ قریب آ کر لڑکا بولا،

’’کھڑکیوں کے شیشے دھول سے خاصے اٹے ہوئے ہیں اگر آپ کہیں تومیں اِنہیں صاف کر دوں، بلّوری ظروف جس حالت میں ہیں اُنہیں دیکھ کر خریدنے کی خواہش کس کو ہو گی۔‘‘ لڑکے نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

دکاندار نے لڑکے کو دیکھا ضرور لیکن کچھ کہا نہیں۔

’’اور اُجرت کے طور پر کچھ تھوڑا بہت کھانا چاہیے۔‘‘

دکاندار اب بھی کچھ نہ بولا۔ لڑکے نے سوچا کہ فیصلہ کرنے میں تھوڑا وقت تو لگے گا ہی۔ تھیلے میں جیکٹ ابھی تک موجود تھی لیکن اِس ریگستانی علاقے میں اِس کے استعمال کا امکان بھی نہ تھا۔ جیکٹ نکال کر اُس نے صفائی شروع کر دی۔ کوئی آدھ گھنٹہ میں اُس نے کھڑکیوں کو چمکا دیا تھا۔ اِس دوران دو گاہک بھی دکان میں آئے اور کچھ ظروف خریدے۔

صفائی مکمل کر لی تو لڑکے نے دکاندار سے کچھ کھانے کے لئے مانگا۔ ’’چلو کہیں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ دکاندار بولا۔

دکان کے دروازے پر ایک مخصوص نشان لگا کر دونوں قریب کے ایک کیفے کی طرف بڑھ گئے جہاں شاید صرف ایک ہی میز تھی۔ بیٹھتے ہوئے دکاندار زور سے ہنسا۔

’’کھانا کھانے کے لئے تمہیں صفائی کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ بھوکے کو کھانا کھلانا قرآن کا حکم ہے۔‘‘

’’اگر تم سمجھ گئے تھے کہ میں بھوکا ہوں تو پھر صفائی سے تم نے روکا کیوں نہیں ؟‘‘

’’صفائی کی واقعی ضرورت تھی۔ ظروف گندے ہو گئے تھے۔ ویسے بھی ہم دونوں کو اپنے ذہنوں سے منفی خیالات کو نکالنا بھی ضروری تھا۔‘‘

کھانا ختم کر چکے تو دکاندار نے لڑکے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:

’’آج تم نے میری دکان صاف کی۔ دو خریدار بھی آئے۔ تمہارا آنا میرے لئے فالِ نیک ثابت ہوا ہے۔ کیوں نہ تم میرے ساتھ کام کیا کرو۔‘‘

لڑکا سوچنے لگا۔ سب ہی لوگ شگون پر یقین رکھتے ہیں لیکن کسی کو اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کدھر اشارہ کر رہے ہیں۔ میں بھی تو ایک طویل عرصے تک اُن سے آشنا نہ تھا۔ بس اپنی بھیڑوں سے الفاظ کے بغیر ہمکلامی کرتا رہا تھا۔

’’کام کرو گے، کیا اِرادہ ہے؟ ‘‘ دکاندار نے پوچھا۔

’’میں آج باقی دن بھی کام کروں گا۔‘‘ لڑکے کا جواب تھا ’’میں رات بھر طلوعِ صبح تک کام کروں گا اور دکان کی ہر ہر چیز اور تمام ظروف صاف کر دوں گا۔ صِلے کے طور پر مجھے کل مصر پہنچنے کے لئے ضروری رقم درکار ہے۔‘‘

لڑکے کی بات سن کر دکاندار ہنس پڑا۔ اگر تم سال بھر بھی دکان میں کام کرتے رہو اور ظروف کی فروخت پر کمیشن بھی لیتے رہو تب بھی کسی سے کچھ رقم بطور قرض لئے بغیر تم مصر نہ جا سکوگے۔ فاصلہ بہت ہے۔ ہزاروں میل میں پھیلا ہوا ریگستان حائل ہے۔‘‘

ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ ایسا لگا جیسے پورے شہر کو نیند نے آ لیا ہے۔ بازار خاموش، لوگوں کی گفتگو بند، مینار سے آذان کی آواز بھی نہیں، جیسے امیدوں کی دنیا ختم ہو گئی۔ عزائم کو جیسے موت آ گئی ہو۔ بوڑھے بادشاہ اور مقدّر کا تذکرہ بھی بے مزہ۔ نہ خزانہ اور نہ ہی مصر کے اہرام۔ ایسا لگا کہ پوری کائنات خاموش ہو گئی ہے۔ لڑکے کی روح شاید مرجھا گئی تھی۔ کیفے پر بیٹھا لڑکا دور خلا میں گھور رہا تھا۔ بس اِسی لمحہ اُسے موت آ جائے اور ہمیشہ کے لئے ہر چیز ختم ہو جائے۔

دکاندار کے چہرے سے بے چینی عیاں تھی۔ لڑکے میں یکایک تبدیلی سے وہ پریشان ہو اُٹھا تھا۔ آج کی صبح جس خوشی سے وہ ہمکنار ہوا تھا وہ اب کافور ہو گئی۔

’’بیٹے اگر تم اپنے ملک واپس جانا چاہو تو میں ضروری رقم فراہم کر سکتا ہوں۔ ‘‘دکاندار بڑی اپنائیت سے بولا۔

لڑکے نے کوئی جواب نہ دیا۔ کھڑا ہوا، اپنا لباس درست کرتے ہوئے اُس نے تھیلا اُٹھایا اور بولا، ’’ میں آپ کی دکان میں ضرور کام کروں گا۔‘‘

اور پھر دوسری طویل خاموشی توڑتے ہوئے کہا: ’’مجھے بھیڑیں خریدنے کے لئے رقم کی ضرورت ہو گی۔‘‘

 

 

 

(۱۴)

 

دکان پر کام کرتے لڑکے کو کوئی ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ کام تو وہ کر رہا تھا لیکن اُس میں وہ لگن نہ تھی۔ اِس کام میں ابھی تک اُس کا دِل نہیں لگ پایا تھا۔ مالک دکان کے کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھا اکثر لڑکے کو ٹوکتا ’’ احتیاط سے کام کرو کہیں کوئی چیز ٹوٹ نہ جائے۔‘‘

لیکن لڑکا لگا رہا۔ ویسے بھی دکاندار بہت شریف آدمی تھا۔ نہ صرف اُس کے معاملات اچھے تھے بلکہ وہ اُجرت بھی معقول دیتا تھا اور لڑکا کچھ نہ کچھ پسِ انداز کر ہی لیتا تھا۔ اُس روز جب وہ تخمینہ لگا رہا تھا تو اُسے لگا کہ کچھ بھیڑیں خریدنے کے لئے کم از کم سال بھر کام کرنا ہو گا۔

’’کیوں نہ کچھ ایسا انتظام کریں کہ پہاڑی کے نیچے سے گزرنے والے لوگ بھی وہیں ہمارے ظروف دیکھ لیا کریں۔‘‘ لڑکے نے دکاندار کو مشورہ دیا۔

’’پہلے تو کبھی ایسا کچھ نہیں کیا۔‘‘ دکاندار بولا۔ ’’لوگ گزریں گے، اُن سے ٹکرائیں گے اور ظروف ٹوٹا کریں گے۔‘‘ دکاندار نے نقصان  کا خدشہ ظاہر کیا۔

’’میں جب بھیڑیں پالتا تھا تو یہ امکان تو بہر حال رہتا ہی تھا کہ کوئی بھیڑ کھو جائے گی یا سانپ کاٹ لے گا تو مر جائے گی۔ بھیڑ اور گلہ بان کی زندگی اِن امکانات سے خالی تو ہو ہی نہیں سکتی، زندگی شاید خطروں سے عبارت ہے۔‘‘

کچھ لوگ شاید ظروف خریدنے کے لئے دکان میں داخل ہو رہے تھے۔ گفتگو برقرار نہ رہ سکی۔ اُنہوں نے تین ظروف لئے۔ دکان اچھی چل رہی تھی۔ شاید وہ دِن پھر واپس آرہے تھے جب یہ دکان طنجر کی مشہور دکان ہوا کرتی تھی۔

’’کاروبار خاصا بڑھ گیا ہے۔‘‘ گاہک چلے گئے تو دکاندار لڑکے سے بولا، ’’ اب تو بہت اچھا چل رہا ہے اور تمہیں جلد ہی اتنی رقم تو مل ہی جائے گی کہ تم کچھ بھیڑیں خرید سکوگے، اور زیادہ بڑھانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

لیکن شگونوں کے اشاروں کو بھی تو دیکھنا ہے۔‘‘لڑکے کی زبان سے نکل گیا۔ ظاہر ہے کہ اُس نے سوچ سمجھ کر یہ بات نہیں کہی تھی۔اُسے افسوس ہوا کہ اُس کی زبان سے ایسا کیوں نکلا۔ شگون کا عِلم دکاندار کو تو ہے نہیں۔ بوڑھے بادشاہ کی بابت اُسے کیا معلوم۔

’’اِسے اصولِ موافقت کہتے ہیں۔مقدّر ہمیشہ تمہارا ساتھ دیتا ہے۔ زندگی تمہارے مقدّر کے حصول کی خواہاں ہے۔‘‘ بوڑھے بادشاہ کے الفاظ اُسے یاد آرہے تھے۔

لیکن دکاندار کے لئے لڑکے کی یہ باتیں اجنبی نہ تھیں۔ اُس نے خود ہی دیکھ لیا تھا کہ لڑکے کے آنے کے بعد اُس کی دکان دِن دونی رات چوگنی ترقی کر رہی تھی۔ اُس کی تجوری روزسکّوں سے بھر جاتی تھی۔ لڑکے کو دکان پر رکھنا اُس کے لئے فالِ نیک ثابت ہوا تھا۔ وہ اُسے زیادہ ہی رقم دیتا تھا۔ اُس نے سوچا کہ جتنی زیادہ چیزیں فروخت ہوں گی اُتنی ہی آمدنی زیادہ ہو گی۔ چنانچہ وہ لڑکے کو کچھ زیادہ ہی کمیشن دیا کرتا تھا۔ ویسے بھی اُسے معلوم تھا کہ لڑکا آخر کار بھیڑیں خرید کر اپنے پرانے پیشہ پر لوٹ جائے گا۔

’’اچھا یہ بتاؤ کہ تم اہرامِ مصر کیوں جانا چاہتے ہو۔‘‘ دکاندار نے لڑکے کی توجہ اُس کے مشورہ سے ہٹانے کی کوشش کی۔

’’میں اُن کے بارے میں اکثر سنتا رہتا ہوں۔۔۔‘‘ لڑکے نے خواب کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔ خزانہ کی جستجو ویسے بھی اُس کے لئے اب ایک ادھوری کہانی بن کر رہ گئی تھی۔ اب وہ اِس کے بارے میں کم ہی سوچنا چاہتا تھا۔

’’میرے علم میں یہاں کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو محض اہرام دیکھنے کی خاطر انتہائی خطرناک ریگستان سے گزرنے کی ہمّت کر سکے۔ دکاندار بولا، ’’اور ویسے بھی اہرام ہیں بھی کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ محض پتھروں کے ڈھیر، جنہیں تم بھی اپنے گھر کے آنگن میں بنا سکتے ہو۔‘‘

’’شاید کبھی آپ نے خوابوں میں سفر نہیں کیا۔‘‘ اتنا کہہ کروہ اُس گاہک کی طرف پلٹ گیا جو ابھی ابھی دکان میں داخل ہی ہوا تھا۔

پورے دو روز گزرنے کے بعد دکاندار نے پھر گفتگو چھیڑی۔

’’دراصل مجھے تبدیلیاں زیادہ پسند نہیں ہیں ‘‘ وہ بولا ’’ ویسے بھی ہم لوگ اُس سامنے والے حَسَن دکاندار کی طرح مالدار تو ہیں نہیں کہ کوئی چیز اگر وہ غلط بھی خرید لے تو اُس پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑتا، لیکن ایسی غلطی اگر ہم کر بیٹھیں تو اُس کے اثرات پوری زندگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔

’’ہاں یہ بات آپ کی بالکل درست ہے۔ ‘‘لڑکے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

’’تم نے نیچے وہ نمائشی بکس لگانے کی بات کیوں کہی تھی؟‘‘

’’تاکہ میں جلد از جلد بھیڑیں خریدنے کے لائق ہو سکوں۔ جب مقدّر ساتھ دے رہا ہو تو ہمیں موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہیے۔اور جس قدر بھی مدد مِل سکتی ہو، لینی چاہیے، شاید اِس کو اصولِ موافقت یا قسمتِ مبتدا کہتے ہیں۔‘‘

دکاندار چند لمحے کے لئے خاموش ہو گیا اور پھر کچھ سوچ کر بولا، ’’اللہ کے رسولؐ نے ہمیں قرآن دیا اور زندگی میں پانچ فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا۔ سب سے اہم تو خدائے واحد میں یقین ہے، دوسرا روزانہ پانچ وقت کی نما ز یں، تیسرا ماہِ رمضان میں روزہ رکھنا اور چوتھا غریبوں کی مدد۔‘‘

یہاں پہنچ کر وہ خاموش ہو گیا جیسے مزید بولنے کا اُسے یارا نہ رہا تھا۔ آواز رندھ گئی اور آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ رسولِؐ خدا  کا نام لیتے ہی اُس کی آنکھیں بھیگنے لگتی تھیں۔ وہ ایک دین دار شخص تھا اور زندگی کے معاملات میں شرعی قوانین کو بہت اہمیت دیتا تھا۔

’’آپ نے پانچواں فریضہ نہیں بتایا۔‘‘ لڑکے نے اُسے یاد دلایا۔

دو روز پہلے ہی تو تم نے کہا تھا کہ تم سفر کا خواب بھی دیکھتے ہو۔ سنو!

’’پانچواں فریضہ مکّہ معظّمہ کا سفرہے جو ہرمسلمان پر زندگی میں کم از کم ایک بار کرنا ضروری ہے۔‘‘

تمہارے اہرامِ مصر کے مقابلہ میں مکّہ تو کئی گنا زیادہ دور ہے۔ جوانی کے دنوں میں میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ بس اِتنی رقم جمع ہو جائے کہ یہ دکان کھول سکوں۔ میں سوچتا تھا کہ آہستہ آہستہ اتنی رقم اکھٹی کر لوں گا کہ کسی وقت یہ فریضہ ادا کر سکوں۔ رقم تو اکھٹا ہوئی لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو میری غیر موجودگی میں اِس دکان کی نگرانی کر سکے۔ ہر کسی کی نگرانی میں دکان دینا بھی ممکن نہیں۔ بلّوری اشیاء بڑی نازک اور قیمتی ہوتی ہیں۔

سامنے سے گزرنے والوں میں اکثر زائرینِ مکّہ ہوتے۔ تنہا بھی اور کاروان میں بھی۔ بعضوں کے ساتھ غلام بھی ہوتے اور اونٹ بھی۔ اُن میں کچھ لوگ مالدار ہوتے اور کچھ لوگ مجھ سے بھی زیادہ غریب لیکن۔۔۔۔۔

جو بھی وہاں ہو آتا اُس کی خوشی اور اطمینان کی انتہا نہ ہوتی۔ جب کوئی جانے کا ارادہ کرتا تو اپنے گھر کے دروازہ پر ایک خاص نشان آویزاں کر دیتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک جوتا ٹھیک کرنے والا غریب جوتے ٹھیک کر کر کے اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ پالتا تھا۔ حج کو گیا تو ریگستان کو عبور کرنے میں اُسے سال بھر لگ گیا لیکن جب وہ واپس آیا تو اُس کا تاثر یہ تھا کہ ریگستان میں چلنے کے دوران اُسے اتنی تھکن نہ ہوتی تھی جتنی طنجر کی گلیوں میں چمڑا خریدنے کی غرض سے جاتے ہوئے ہوتی تھی۔ دکاندار بڑے جذبے کے ساتھ یہ سب کچھ بیان کر رہا تھا۔ اُس کے چہرے سے ایک روحانی خوشی کی کیفیت عیاں تھی۔

’’تو پھر آپ اَب مکّہ کیوں نہیں جاتے؟‘‘ لڑکے کے انداز میں استعجاب پنہاں تھا۔

’’اصل میں مکّہ جانے کا تصوّر ہی میری زندگی کو حرارت بخشتا ہے۔ اِس کی تمنّا مجھے روز مرّہ کے مسائل سے جوجھنے کی قوّت عطا کرتی اور زندگی کی یکسانیت میں لطف پیدا کرتی رہتی ہے۔ ورنہ ایک جیسے دن اور رات، یہ گونگے بلّوری ظروف اور الماریاں و بے کیف رات اور دن۔ایک ہی جیسا کھانا اور پھر یہ بے ڈھنگا کیفے۔ زندگی بھلا کوئی کیسے گزار سکتا ہے۔ مقصد کے حصول کی تمنّا ہی اِس بے کیفی کو کسی قدر لطف میں بدلتی رہتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ مکّہ معظمہ کی زیارت کے بعد پھر زندگی کا جواز ہی کیا رہ جائے گا۔ کس قوّت کے بل بوتے پر اُس کی مشقّتوں کو برداشت کر سکوں گا؟‘‘

’’تم بھی بھیڑوں اور اہرام کے خواب دیکھتے ہو لیکن مجھ میں تم میں فرق ہے۔ تم اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے کوشاں ہو لیکن میں تو بس مکّہ کا خواب ہی دیکھتا ہوں۔ ہزاروں بار تصوّر میں ریگستان سے گزرنے، ہجرِ اسود تک پہنچنے، اُسے چھونے اور چومنے اور کعبہ کا طواف کرنے کی کیفیت سے گزرا ہوں۔ میں تو یہ بھی تصوّر میں لا چکا ہوں کہ جب میں کعبہ کے قریب پہنچوں گا تو میرے قریب کون لوگ ہوں گے اور میرے سامنے کون ہوں گے، اُن سے کیا باتیں ہوں گی اور اُن کے ساتھ مل کر میں کون سی عبادتیں کروں گا، لیکن بس ایک کیفیتِ بے نام، ناآسودگی کا ایک خوفِ نامعلوم۔حقیقت سے زیادہ خواب کو اور ہجرِ اسود کو دیکھنے اور چومنے سے زیادہ اُسے دیکھنے اور چومنے کی تمنّا کو مطمع نظر بنائے ہوئے ہے۔

ہر ایک کے خواب ایک ہی طرح سے پورے نہیں ہوتے۔

اُس روز دکاندار نے لڑکے کو پہاڑی کے نیچے راستہ پر شیشہ کا ایک ایسا بکس لگانے کی اجازت دے دی جس کی بدولت ہر گزرنے والا اُس دکان اور بلّوری ظروف کی طرف متوجہ ہو سکتا تھا۔

 

 

 

(۱۵)

 

دو ماہ گزر گئے۔

شیشہ کابکس لگانے سے دکان میں گاہکوں کی تعداد میں یکایک اضافہ ہو گیا۔ دکاندار مطمئن تھا اور لڑکا بھی خوش۔ لڑکے نے سوچا کہ اگر اِسی طرح دکان چلتی رہی تو بس چھ ماہ میں نہ صرف یہ کہ وہ اندلس واپس جانے کے قابل ہو جائے گا بلکہ پہلے سے دوگنی بھیڑیں اور خرید سکے گا۔ ایک سال سے بھی کم عرصہ میں اِس طرح اُس کا ریوڑ دُگنا ہو جائے گا۔یہ تجارت کامیاب تھی اور واپس جا کر اُس میں اور بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔عربوں سے تجارتی تعلقات بڑھانے کے لئے جتنی عربی زبان کی معلومات ضروری تھی وہ اُسے حاصل کر ہی چکا تھا۔ اب اُسے اُن پتھروں کا دھیان بھی نہیں تھا جو بوڑھے شاہ سیلم نے اُسے دئیے تھے۔ مصر کا سفر اُس کے لئے اب ایسا ہی تھا جیسا دکان کے مالک کے لئے شہرِ مکّہ کا سفرِ مقدّس۔ لڑکا خوش تھا اور سوچتا کہ وہ دِن جلد آئے جب وہ وطن واپس جا کر طارفہ میں ایک کامیاب شخص کی حیثیت سے داخل ہو۔

’’تمہیں حاصل کیا کرنا ہے، یہ بات ہر لمحہ واضح رکھنا۔‘‘ لڑکے کو شاہ سیلم کی بات یاد آئی۔ لڑکے کو یہ سبق ازبر تھا اور وہ ہر لمحہ اُس کے حصول کے لئے کوشاں تھا۔ اُس نے سوچا کہ ایک اجنبی شہر میں آ پڑنا، پورا مال لٹ جانا اور پھر محنت کر کے بغیر کوئی پیسہ خرچ کئے اتنا کما لینا کہ دوگنی بھیڑیں خرید ی جا سکیں۔ یہ سب بھی تو شاید خزانہ ہی ہے۔

اُسے ایک احساس تفاخر نے آ لیا۔ اِس دوران وہ بہت سی نئی باتوں سے واقف ہوا تھا۔ مثلاً بلّوری ظروف کی تجارت کیسے کی جاتی ہے۔ اشاروں کی زبان کیا ہے اور شگون کیسے سمجھے جاتے ہیں۔ یہ سب اُس کی نئی معلومات تھیں۔ ایک دن جب وہ اپنی دکان کے قریب ہی کہیں کھڑا تھا تو اُس نے ایک گاہک کو کہتے سنا کہ یہاں کوئی ایسی جگہ بھی نہیں جہا ں بیٹھ کر کوئی مشروب پی سکیں اور تھکن دور کر سکیں۔ لڑکا امکانات کو سمجھنے میں اب مہارت حاصل کرتا جا رہا تھا۔ ایک خیال اچانک اُس کے ذہن میں آیا اور اُس نے دکان کے مالک سے بات کرنے کی ٹھان لی۔

’’جو لوگ اوپر چڑھ کر آتے ہیں وہ تھک جاتے ہوں گے۔ اگر ہم اُن کے لیے چائے کا انتظام بھی کریں تو کیسا رہے؟‘‘

’’چائے پلانے والے تو بہت سے ہیں۔‘‘ دکاندار بولا۔

’’لیکن ہم یہ چائے اُنہیں خوبصورت بلّوری ظروف میں دیں گے۔یہ تجربہ بالکل نیا ہو گا اور اِس طرح نہ صرف چائے بکے گی بلکہ ظروف  خریدنے کے لیے بھی اُن کے دِل مائل ہوں گے۔ لوگ کہتے ہیں کہ خوبصورتی انسان کو بہت جلد اپنی طرف کھینچتی ہے۔‘‘

اُس وقت تو دکاندار خاموش رہا لیکن شام کو دکان بند کرنے کے بعد اُس نے لڑکے کو اپنے پاس بلایا اور ساتھ حقہ پینے کی پیشکش کی۔ حقہ کی لمبی نئے لڑکے کو شروع سے ہی عجیب سی لگتی تھی۔

’’تم اب بتاؤ تمہارے پیشِ نظر کیا ہے؟‘‘ دکاندار نے پوچھا۔

’’میں تو پہلے ہی آپ کو اپنا مقصد بتا چکا ہوں۔ مجھے اپنی بھیڑیں واپس لینی ہیں اور اِس کے لیے خاصی رقم درکار ہے۔‘‘

دکاندار نے چِلم میں کچھ کوئیلے ڈالے اور ایک لمبا کش لیا۔

’’یہ دکان میرے پاس تیس سال سے ہے۔ مجھے اچھے اور برے بلّور کی خوب شناخت ہے اور اِس تجارت میں جو کچھ ہوتا ہے میں اُس سے واقف ہوں، اِس میں کہاں اور کس طرح اُتار چڑھاؤ آتے ہیں یہ بھی میں جانتا ہوں۔ اگر ہم بلّوری ظروف میں چائے دینا شروع کر دیں گے تو تم جانتے ہو کہ ہمیں دکان بڑھانا پڑے گی اور بالآخر مجھے اپنے روز مرّہ کے معمولات بھی بدلنا پڑیں گے۔‘‘

’’یہ تو ہمارے حق میں بہتر ہی ہو گا۔۔۔۔۔ ہے نا۔۔۔۔‘‘ لڑکا بولا۔

’’تم جانتے ہو کہ میں اپنے معمولات کا عادی ہوں۔ تمہارے آنے سے قبل میں سوچتا تھا کہ ایک جگہ پڑے پڑے میں نے خاصا وقت برباد کر دیا۔ میرے بہت سے جاننے والے کہاں سے کہاں پہنچے۔ کچھ لوگ بالکل قلاش ہو گئے اور کچھ لوگوں نے خوب دولت اکٹھا کی۔ یہ سوچ کر میں پریشان ہو اُٹھتا تھا، لیکن اب دیکھیں تو میں نے کچھ برا نہیں کیا۔ دکان خوب چل رہی ہے۔ جیسی دکان میں چاہتا تھا ویسی ہی ہو گئی ہے۔ اب میں کوئی مزید تبدیلی نہیں چاہتا۔ اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نئی نئی تبدیلیوں کے ساتھ بہت سے نئے مسائل بھی تو آتے ہیں۔ اُن سے نپٹنے میں بھی مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنے معمولات کا میں خاصا عادی ہو چکا ہوں جیسا چل رہا ہے چلنے دو۔۔۔۔۔۔۔‘‘

اِس کا جواب لڑکے کے پاس نہ تھا۔ دکاندار نے گفتگو جاری رکھی۔

’’تمہارا آنا میرے لیے واقعی بڑا بابرکت ثابت ہوا ہے۔ بہت سی نئی باتیں میں نے سیکھی ہیں جنہیں میں پہلے بالکل نہ جانتا تھا۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ کسی نعمت سے صرفِ نظر ناشکری ہے اور اُس کا مرتکب ہوتے ہوئے مجھے بڑا خوف آتا ہے۔ اب تم مجھے بڑی دولت اور ایسے امکانات کی طرف کھینچ رہے ہو جن کا تصوّر میں نے اِس سے قبل نہیں کیا تھا اور کیونکہ میں نے اِن نعمتوں کو آتے اور اِن امکانات کو حقیقت میں بدلتے دیکھ لیا ہے اِس لئے اُن سے صرفِ نظر کرنا اُنہیں چھوڑ دینا میرے لئے بڑی تکلیف کا باعث ہو گا۔ تمہارے آنے سے پہلے جو میری ذہنی کیفیت تھی یہ اُس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہو گی۔ نہ جاننا تو عذابِ عظیم ہے ہی لیکن جان لینا اور پھر چھوڑ بیٹھنا عظیم تر عذاب ہے۔‘‘

یہ سُن کر لڑکے کو طارفہ کا واقعہ یاد آ گیا۔ اُس نے سوچا کہ نان بائی کو نہ بتا کر اُس نے کتنا اچھا کیا تھا۔

دونوں حقہ کے کشوں سے محظوظ ہوتے رہے، یہاں تک کہ سورج چھپنے کی تیاری کرنے لگا۔ تمام گفتگو عربی زبان میں ہو رہی تھی۔ لڑکے کو خوشی تھی کہ وہ عربی میں بات کر سکتا ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب اُس کی کُل کائنات بھیڑیں ہی تھیں اور وہ سوچتا تھا کہ اُن کی صحبت اُسے تمام ضروری معلومات مہیّا کرتی ہے لیکن اب اندازہ ہوا کہ دنیا بہت وسیع ہے۔ بھیڑیں اُسے عربی بولنا نہیں سکھا سکتی تھیں۔

بوڑھے دکاندار کے لئے اُس کا دل احترام کے جذبات سے لبریز ہو گیا’’ اور بھی جانے کتنی ایسی باتیں ہوں گی جو بھیڑوں کے ساتھ رہتے ہوئے وہ نہیں سیکھ سکتا تھا۔ اُن کی دنیا تو پانی اور چارہ تک محدود تھی۔ دوسرے یہ کہ وہ مجھے نہیں سِکھا رہی تھیں بلکہ میں اُن سے سیکھ رہا تھا۔‘‘ لڑکا سوچتا رہا۔

’’مکتوب ‘‘۔۔۔ دکاندار نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

’’اِس کا کیا مطلب ہے؟‘‘

اِس کا مطلب سمجھنے کے لئے تمہیں پیدائشی عرب ہونا چاہیے تھا۔ بوڑھا دکاندار مسکرایا۔ تمہاری زبان میں اِس کا مطلب ہوا ’’یہ لکھا جا چکا۔۔۔‘‘

چِلم میں پڑے ہوئے کوئلوں کو کریدتے ہوئے اُس نے لڑکے سے کہا کہ وہ اپنی تجویز کے مطابق بلّوری ظروف میں چائے بیچنا شروع کر سکتا ہے…… شاید بہتے دریا کے پانی کو روکنا ممکن نہ تھا۔

 

 

 

(۱۶)

 

جب وہ اوپر چڑھ کر پہاڑی پر پہنچے تو خاصے تھک چکے تھے۔اچانک اُن کی نظر ایک چائے کی دکان پر پڑی جہاں بلّوری ظروف میں تازہ چائے مل رہی تھی۔

’’چائے پینے کا یہ انداز بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اِس کا خیال بیوی کو کیوں نہیں آیا‘‘ ایک آدمی بولا، اُس نے نہ صرف چائے پی بلکہ اُس روز شام کو بعض آنے والے مہمانوں کی تواضع کے لئے اُس نے یہ بلّوری ظروف بھی خرید لئے کہ یقیناً اِن ظروف کی خوبصورتی معزّز مہمانوں کومسرورکرے گی۔دوسرے شخص کا کہنا تھا کہ بلّوری ظروف میں چائے پینے کا مزہ ہی کچھ اور ہے کیونکہ یہ ظروف چائے کی مہک کو اُڑنے نہیں دیتے۔ تیسرے نے کہا کہ یہ مشرقی لوگوں کی روایت ہے۔ وہ بلّوری ظروف کو اِس لیے استعمال کرتے ہیں کہ اُن کے اندر طلسمی خصوصیات ہوتی ہیں۔

بہت جلد یہ خبر پورے علاقے میں پھیل گئی کہ پہاڑی کے اوپر ایک ایسی دکان کھلی ہے جو ایک دم نئے انداز کی ہے۔ بہت سے لوگ اُسے دیکھنے اور چائے پینے پہاڑی پر آنے لگے۔ دیکھا دیکھی اور دکانیں بھی کھل گئیں جو بلّوری ظروف میں ہی چائے دیتی تھیں لیکن وہ کیونکہ پہاڑی کے اوپر نہ تھیں، اُس دکان کا مقابلہ نہ کر سکیں۔

کام خوب پھیل گیا۔ بڑھتے ہوئے کام کو سنبھالنے کے لئے دو اور آدمی رکھنا پڑے۔ دکاندار بلّوری ظروف کے ساتھ بڑی مقدار میں چائے بھی برامد کرتا تھا اور اب عالم یہ تھا کہ کسی کو کوئی نئی چیز کی ضرورت ہوتی تو وہ پہاڑی والی دکان سے ہی رجوع کرتے۔ عورتیں ہوں یا مرد دکان پر بھیڑ رہنے لگی تھی۔

اِس طرح اور کئی مہینے گزر گئے۔

 

 

 

(۱۷)

 

صبح پو پھٹنے سے پہلے لڑکے کی آنکھ کھل گئی۔ اِس سرزمین میں قدم رکھے آج اُسے گیارہ ماہ اور نو دن ہو رہے تھے۔

اُس نے خوبصورت سفید لینن کالباس زیبِ تن کیا۔ سرپرعمامہ باندھ کر اُسے اونٹ کی کھال سے بنے ہوئے حلقے سے سر پر جمایا۔ یہ لباس اُس نے آج ہی کے لئے تیار کرایا تھا۔ نئے سینڈل پہن کر و ہ سیڑھیوں سے آہستہ آہستہ اُتر کر خاموشی سے نیچے آ گیا۔

شہر ابھی تک سویا ہوا تھا۔ چائے کی دکان پر پہنچ کر اُس نے اپنے لیے ایک سینڈوچ تیار کیا اور چائے پی اور پھر دروازے کے پاس بیٹھ کر حقہ کے کش لینے لگا۔

خاموشی سے کش لیتا رہا۔ ذہن خالی تھا لیکن ریگستان سے آنے والی معطّر ہوا کی خوشبو نے حقہ کے لطف کو دوچند کر دیا تھا۔ حقّہ پی چکا تو  جیب میں ہاتھ ڈل کر ایک لمحہ کے لئے بیٹھا رہا۔ اُس کے پاس خاصی رقم تھی جس سے وہ ایک سو بیس بھیڑیں، واپسی کا ٹکٹ اور افریقہ سے اپنے ملک اشیا ء کی تجارت کرنے کا اجازت نامہ خرید سکتا تھا۔

اتنے میں دکاندار بھی اٹھ کر دکان کھول چکا تھا، دونوں مزید چائے پینے کے لئے بیٹھ گئے۔

’’میں آج جا رہا ہوں۔‘‘ لڑکا بمشکل بولا۔ ’’میرے پاس اتنی رقم جمع ہو چکی ہے کہ اپنی بھیڑیں واپس لے لوں اور تم بھی مکہ جانے کے لئے ضروری رقم کما چکے ہو۔۔۔۔۔۔‘‘

بوڑھا دکاندار خاموش رہا۔

’’مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا۔‘‘ لڑکے نے تھوڑی دیر رک کر کہا۔

’’تم نے میری بڑی مدد کی ہے۔‘‘ دکاندار چائے تیار کرتا رہا اور پھر لڑکے کی طرف مُڑ کر بولا۔

’’مجھے تم پر فخر ہے۔تم نے میری دکان کا منظر ہی بدل دیا ہے، لیکن میں مکّہ تو نہ جا سکوں گا اور مجھے معلوم ہے کہ تم بھی بھیڑیں نہیں خریدو گے۔‘‘

’’یہ تمہیں کیسے معلوم؟۔۔۔‘‘ لڑکے کو بے حد تعجب تھا۔

’مکتوب‘  ’’مقدّر میں یہی لکھا ہوا ہے‘‘ دکاندار نے کہا اور لڑکے کے حق میں دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دئیے۔

 

 

 

(۱۸)

 

کمرہ جا کر سامان سمیٹا اور تین تھیلوں میں باندھا۔ کمرہ سے نکلتے ہوئے اُس کی نظر کونے پر پڑی تو اپنا پرانا تھیلا نظر آیا۔ ایک عرصہ سے اُس تھیلے کا اُسے خیال بھی نہ آیا تھا۔ جیسے ہی اُس تھیلے سے اُس نے اپنی پرانی جیکٹ باہر کسی غریب راہ گیر کو دینے کے لئے نکالی تو اُس میں پڑے خوبصورت پتھر گِر پڑے۔

اُن پتھروں سے شاہ سیلم کی یاد وابستہ تھی۔ اُسے تعجب تھا کہ کتنے طویل عرصہ سے اُس نے اِن پتھروں کے متعلق غور ہی نہیں کیا تھا۔ گزشتہ تقریباً ایک سال سے وہ رات دن محض پیسہ کمانے میں مشغول رہا تھا۔ بس اتنی رقم کہ وہ اپنے ملک اسپین عزّت و وقار کے ساتھ واپس جا سکے۔

اِن دونوں پتھروں کو دیکھتے ہی اُسے بوڑھے کا یہ فقرہ یاد آیا ’’کبھی خواب دیکھنا مت چھوڑنا نشانیوں کو سمجھنا اور اُن کے مطابق عمل کرنا‘‘ دونوں پتھر ہاتھ میں اُٹھائے۔ اُسے لگا کہ بوڑھا شاہ سیلم جیسے اُس کے قریب کھڑا ہے۔سال بھر اُس نے شدید محنت کی تھی اور اب اُسے لگ رہا تھا کہ جانے کا وقت آ چکا ہے۔

جو کام چھوڑ کر آیا تھا پھر وہی کام کرنے جا رہا ہوں۔ اُس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔

بھیڑوں کی صحبت میں وہ عربی تو نہ سیکھ سکا تھا لیکن ایک بہت اہم بات اُس نے یہ سیکھی تھی کہ ایک زبان ایسی بھی ہے جسے سب سمجھ لیتے ہیں اور یہ وہی زبان تھی جو عربی جاننے سے قبل دکاندار کے ساتھ کام کرتے ہوئے اور اُس کی دکان کو نئی جہت سے روشناس کرنے کی اپنی جد و جہد کے دوران اُس نے استعمال کی تھی۔اُس زبان کے عناصرِ ترکیبی جوش و خروش، اخلاص اور محبت، مقصدیت کچھ کر گزرنے کی تمنّا اور یقین سے عبارت تھے۔ طنجر اُس کے لئے اب کوئی اجنبی شہر نہیں تھا، محض اپنی محنت سے اُس کا اپنا شہر بن گیا تھا۔ ’’شاید پوری دنیا کو اِسی طرح فتح کیا جا سکتا ہے‘‘ اُس نے سوچا۔

’’جب تم کسی چیز کو حاصل کرنے کا تہیّہ کر لیتے ہو تو یہ پوری کائنات تمہارے ساتھ تعاون کرنے لگتی ہے۔‘‘ بوڑھے شاہ سیلم کا قول اُسے یاد آیا۔

لیکن اُس نے سوچا کہ بوڑھا اُس امکان کے بارے میں کچھ بھی نہ کہہ پایا تھا کہ کوئی لٹیرا بھی نقصان پہنچا سکتا ہے اور یہ کہ اہرام تک پہنچنے کے لئے راستہ میں بڑے بڑے ریگستان حائل ہیں۔ یا ایسے لوگوں کے بارے میں بھی اُس نے کچھ نہ کہا تھا کہ خواب تو بہت سے لوگ دیکھتے ہیں لیکن اُنہیں حقیقت کا روپ دینے کا کوئی داعیہ کسی کسی میں ہوتا ہے بلکہ اُس سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ اہرام محض پتھروں کا ڈھیر ہیں اور کوئی بھی اُنہیں اپنے آنگن میں بنا سکتا ہے۔ بوڑھے نے اِس سلسلہ میں بھی کوئی رہنمائی نہیں کی تھی اور ہاں سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اگر اتنی رقم اکٹھا ہو تو کیا پہلے سے بھی بڑا ریوڑ خریدوں یا نہیں۔ اِن باتوں کا جواب شاہ سیلم کی گفتگو میں موجود نہ تھا۔ وہ سوچتا رہا۔

لڑکے نے وہ تھیلا اُٹھایا۔ اپنے سامان کے ساتھ رکھا اور نیچے اُتر آیا۔ دکاندار کسی غیر ملکی بوڑھے سے گفتگو کر رہا تھا اور دیگر خریدار چائے پینے میں محو تھے۔ صبح کے وقت عموماً کبھی بھیڑ نہیں ہوتی تھی۔جہاں وہ کھڑا تھا اُسے بوڑھے دکاندار کا چہرہ اور سر صاف نظر آرہے تھے۔ اُسے لگا کہ بوڑھے دکاندار کے بال بالکل ایسے ہی تھے جیسے بوڑھے شاہ سیلم کے تھے۔ طنجر میں پہلے دن جب و ہ لُٹ چکا تھا اور نہ کچھ کھانے کے لئے تھا اور نہ ہی رہنے کے لئے، تو مٹھائی فروش کی مسکراہٹ میں بھی شاہ سیلم کی جھلک اُسے نظر آتی تھی۔ اُسے لگا کہ جیسے بوڑھا شاہ سیلم بھی یہیں کہیں تھا۔یہ مشابہتیں بھی عجیب تھیں۔ یہ لوگ تو اُس سے کبھی نہ ملے ہوں گے۔ لیکن اُسے یاد آیا کہ گفتگو کے دوران اُس نے بتایا تھا کہ جو لوگ اپنے مقدر کو حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں اُن کی مدد کرنا اُس کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔

رخصت ہوتے ہوئے دکاندار کو خدا حافظ کہنے کی اُس میں ہمت نہ تھی۔ اُس کی آنکھیں بھیگی اور گلا رندھ۔ رہا تھا۔ اگر دکاندار اُسکے سامنے آ جاتا  تو وہ سِسک پڑتا۔ لوگوں کی موجودگی میں وہ رونا نہیں چاہتا تھا۔ اِس جگہ سے اُسکا رشتہ بڑا گہرا تھا۔یہیں رہ کر اُس نے بہت سی نئی اور قیمتی باتیں سیکھی تھیں۔ اُس کی خود اعتمادی میں اضافہ اور یہ یقین کہ دنیا اُس کی پہنچ سے دور نہیں، سب اِسی جگہ کی دین تھیں۔ یہ سب باتیں اُسے یاد آئیں گی اور رلائیں گی

’’لیکن میں تو اپنی بھیڑوں کی نگرانی کرنے جا رہا ہوں جو میرے لئے کوئی اجنبی کام نہیں ہے۔‘‘ اُس نے اپنے آپ کو سمجھاتے ہوئے سوچا لیکن اُسے لگا کہ واپس جانے کے اِس فیصلے سے اُسے کوئی خوشی نہ تھی کیونکہ یہاں کا ایک سالہ قیام اور اِس دوران انتھک جدو جہد ایک خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش سے عبارت تھی۔ وہ اِسی خواب کے لئے تو اپنے وطن کو چھوڑ کر یہاں آیا تھا اور اب یہی مقصد لمحہ بہ لمحہ اُس سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ خواب جو میں نے دیکھا تھا وہ خواب میرے لئے تھا ہی نہیں۔‘‘ اُس کے خیالات بھٹکنے لگے۔

’’کیا معلوم ‘‘ وہ پریشان ہو اُٹھا تھا۔ ’’کہیں دکاندار ہی کی بات تو ٹھیک نہیں۔ مکّہ جانا اصل نہیں بلکہ جانے کی تمنّا اصل ہے۔ وہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ دونوں پتھر اُسے بوڑھے شاہ سیلم کے وجود کا نہ صرف احساس دلاتے رہے بلکہ ایک قسم کی   قوّت اور اُس کی نسبت سے وابستگی بھی پیدا کر رہے تھے۔ چلتے ہوئے راستہ میں اُسی چائے خانہ سے گزرا جہاں اپنی آمد کے پہلے روز وہ لُٹ گیا تھا۔ آج وہاں کوئی چور اُچکّا نہ تھا۔ چائے خانہ کا وہی مالک اُس کے سامنے چائے کا ایک کپ رکھ گیا تھا۔ کیا یہ محض ایک اتّفاق ہے یا پھر کوئی شگون، کوئی نشانی، کوئی اشارہ۔۔۔۔۔۔۔؟

بھیڑوں کی دنیا میں تو کبھی بھی واپسی ممکن ہے۔ بھیڑوں کو پالنا اور اُن کی رکھوالی کرنا میں نہ تو بھولا ہوں اور نہ ہی عنقریب بھولنے کا امکان ہے، لیکن اگر یہ موقع گنوا دیا تو شاید اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع دوبارہ ہاتھ نہ آ سکے۔ بوڑھا شاہ سیلم میرے ماضی سے آگاہ تھا۔ اُس نے جو کچھ کہا تھا صحیح تھا۔ وہ یقیناً بادشاہ رہا ہو گا، انتہائی ذہین بادشاہ۔لڑکا خیالات میں غلطاں رہا۔

اندلس کی پہاڑیاں تو محض دو گھنٹہ کی مسافت پر ہیں لیکن اہرام اور اُس کے درمیان ایک ریگستانِ عظیم حائل ہے۔البتّہ سوچنے کا ایک زاویہ اور بھی ہے۔ منزل تک پہنچنے میں حائل مدّت سے دو گھنٹہ کم ہو گئی ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ دو گھنٹے پورے ایک سال پر محیط ہو گئے تھے۔

’’بھیڑوں کی دنیا میں واپس جانے کی خواہش کیوں جنم لے رہی ہے اِس کا جواب مجھے معلوم ہے۔ بھیڑوں کی دنیا کے خطرات اور امکانات مجھے معلوم ہیں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میں اُنہیں بآسانی جھیل سکتا ہوں۔ لیکن دوسری طرف میں ریگستان اور اُس کے ممکنہ رویّہ سے بالکل نابلد ہوں۔ وہ دوست ہو گا یا دشمن صحیح نہیں معلوم۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خزانہ تک پہنچنا تواُس ریگستان سے گزر کر ہی ممکن ہے۔ اگر خزانہ نہ بھی ملا تو کیا ہوا گھر وا پسی نا ممکن تو نہیں ہے۔ ضروری رقم بھی ہے اور وقت بھی میسّر ہے۔پھر کیوں نہ کوشش کر لی جائے۔‘‘

اِس خیال نے اُسے یکایک خوشی سے معمور کر دیا۔بھیڑوں کی دنیا میں واپسی تو کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ یا بلّوری ظروف کی تجارت بھی وہ کر سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دنیا میں اور نہ جانے کتنے خزانے پھیلے ہوئے ہوں، لیکن یہ بات کہ اُس نے ایک خواب دیکھا اور ایک بادشاہ سے ملا۔ یہ ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔

جب چائے خانہ سے اُٹھا تو اُس کے ذہن میں مختلف منصوبے تشکیل پا رہے تھے۔ اُسے یاد آیا کہ دکاندار کے یہاں جو شخص مال لاتا تھا وہ کسی کاروان کے ہمراہ سفر کرتا تھا جو ریگستان سے گزرتا تھا۔ اُس نے دونوں پتھروں کو داہنے ہاتھ میں تھام لیا۔ اِنہیں پتھروں کی وجہ سے آج پھر خزانہ کی جستجو انگڑائی لے رہی تھی۔

’’جب بھی کوئی اپنے مقصد کے حصول کے لئے کمر بستہ ہو جاتا ہے تو میں اُس کے بہت قریب ہوتا ہوں ‘‘ بوڑھے شاہ سیلم نے کسی جذب کے عالم میں کہا تھا۔

کیوں نہ اُسی مال لانے والے شخص سے مل کر پوچھوں کہ اہرامِ مصر کے لئے کیا واقعی ریگستان سے گزرنا پڑتا ہے۔

 

 

 

(۱۹)

 

ایک بے ترتیب سے گھر میں جو غالباً گودام رہا ہو گا اور جس کے ایک حصہ میں مویشی بھی باندھے جاتے تھے، بینچ پر ایک انگریز بیٹھا  کیمسٹری کے ایک تحقیقی رسالہ کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ یہاں دھول، جانوروں کے پیشاب اور پسینہ کی بو بُری طرح بسی ہوئی تھی۔‘‘ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسی جگہ آ کر رہنا پڑے گا۔ زندگی کے دس سال یونیورسٹی کی ملازمت اور پھر یہاں جانوروں کے اصطبل۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا عجیب ہے ‘‘اُس نے سوچا۔

لیکن یہ تو ہونا ہی تھا۔ وہ شگونوں پر بھروسہ رکھتا اور اُنہیں کی رہنمائی میں زندگی کے اہم فیصلے کرتا تھا۔ پوری علمی تحقیق اور زندگی کو اُس نے ایک ایسی زبان کی جستجو کے لیے وقف کر دیا تھا جو صحیح معنی میں کائنات کی زبان ہو۔ پہلے تو اُس نے اسپرینٹو کا مطالعہ کیا اور پھر دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب کا علم حاصل کیا اور یہاں تک کہ اب وہ الکیمی سیکھ رہا تھا۔ اسپرینٹو پر اُسے عبور تھا۔ مذاہب بھی وہ جانتا تھا لیکن ابھی تک الکیمسٹ نہ بن سکا تھا۔

متعدد بنیادی اور اہم نکتوں کو سلجھانے میں وہ کامیاب ہو گیا تھا لیکن آخر کار وہ ایک مقام پر رُک گیا تھا جہاں سے آگے جانا ممکن نظر نہ آ رہا تھا۔ اُس نے کئی بار ماہرینِ الکیمیاء سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تاکہ اُن سوالات کا حل پوچھے لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ ’’یہ الکیمسٹ بھی عجیب و غریب لوگ ہیں۔محض اپنی ذات میں مستغرق رہتے ہیں۔ جب بھی وہ کسی سے ملا تو وہ مدد کے لئے تیار نہ ہوئے تھے۔‘‘ اُس نے سوچا۔’’ممکن ہے کہ خود اُن کی جستجو میں اُنہیں ناکامی ہوئی ہو اور اِس وجہ سے وہ اپنی معلومات کو بتانے کے لئے تیار نہ ہوتے ہوں یا پھر ممکن ہے کہ سنگِ پارس کا راز جاننے کی کوششوں میں ناکامی نے اُن کا یہ مزاج بنا دیا ہو۔‘‘ اُس نے توضیح کی۔

وہ خود بھی سنگِ پارس کی ناکام تلاش میں اپنی دولت کا بڑا حصہ خرچ کر چکا تھا۔ باپ کے ترکہ میں اُسے خاصی دولت ملی تھی۔ جو دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں اور انتہائی قیمتی کتابوں کی تلاش میں اُس نے خرچ کر دی تھی۔ اِنہیں کتابوں میں کہیں اُس نے پڑھا تھا کہ ایک مشہور الکیمسٹ ایک بار یوروپ آیا تھا۔ مشہور تھا کہ اُس کی عمر دوسو سال سے بھی تجاوز کر چکی تھی اور سنگِ پارس اور آبِ حیات کی تلاش میں کامیاب ہو گیا تھا۔ انگریز اِس قصّہ کو پڑھ کر متاثر تو بہت ہوا تھا لیکن اُسے وہ ایک کہانی سے زیادہ اہمیت نہ دے سکا۔لیکن اُس کے ایک دوست نے جو ابھی عربی ریگستان کی ایک مہم سے واپس آیا تھا خود اپنا واقعہ سناتے ہوئے ایک بوڑھے عرب میں غیر معمولی اور مافوق الفطرت طاقت ہونے کا تذکرہ کیا تھا۔

’’وہ ’الفعیوم ‘کے نخلستان میں رہتا ہے۔‘‘ دوست نے اُسے بتایا، ’’لوگ کہتے ہیں کہ اُس کی عمر دو سو سال ہے اور دھات کو سونے میں بدلنے کا علم اُسے آتا ہے۔‘‘

یہ سُن کر انگریز اپنے جوش کو قابو میں نہ رکھ سکا۔ اپنی تمام مصروفیات منسوخ کیں اور ضروری کتابیں لے کر رختِ سفر باندھا اور آج وہ اِسی بدبو دار اصطبل میں قیام پذیر تھا۔

باہر کی جانب ایک کاروان سفر کی تیاری کر رہا تھا، جسے ریگستانِ صحارا کو پار کرتے ہوئے نخلستان ’الفعیوم‘ سے گزرنا تھا۔

’’اب اِس مردود الکیمسٹ کا پتہ چل ہی جائے گا‘‘ انگریز نے سوچا۔ اصطبل سے اُٹھتی ہوئی بدبو کی لہریں تھوڑی دیر میں قابلِ برداشت ہو گئی تھیں۔

اِسی اثنا میں ایک نوجوان عرب اپنا سامان سر پر اُٹھائے اندر داخل ہوا اور انگریز کو سلام کیا۔

’’کہاں جائیں گے آپ‘‘، نوجوان عرب نے پوچھا۔

’’ریگستان ‘‘ مختصر سا جواب دیتے ہوئے اُس نے اپنی توجہ پھر مطالعہ پر مرتکز کر دی۔ شاید وہ کسی قسم کی گفتگو کرنا نہ چاہتا تھا اور جو کچھ وقت درکار تھا، اُسی میں اب تک کی تمام معلومات کو تازہ کر لینا چاہتا تھا۔ یقیناً الکیمسٹ سے ملاقات ہوئی تو وہ اُس کاسخت امتحان لئے بغیر کچھ بتائے گا نہیں۔

نوجوان نے بھی ایک کتاب نکالی اور پڑھنے لگا۔ کتاب اسپینی زبان میں تھی۔ انگریز دیکھ کر ذرا مطمئن ہوا کیونکہ وہ عربی کے مقابلے اسپینی بہتر بول سکتا تھا۔ اُس نے سوچا کہ اگر یہ لڑکا بھی ’الفعیوم‘ ہی جا رہا ہو گا تو اچھا رہے گا اور خالی اوقات میں کم از کم کسی سے گفتگو تو ہو سکے گی۔

 

 

 

(۲۰)

 

لڑکا پھر اُسی کتاب کو پڑھنے لگا جس کا آغاز تدفین کے تذکرہ سے ہوتا تھا۔ عجب بات ہے۔میں دو سال سے اِس کتاب کو پڑھ رہا ہوں لیکن اِس کے پہلے باب سے آگے بڑھ ہی نہیں پایا۔ پہلے جب پڑھنا شروع کیا تھا تو بوڑھے شاہ سیلم نے آ کر دخل اندازی کی تھی اور میں توجہ مرتکز ہی نہ کر سکا تھا لیکن آج تو شاہ بھی درمیان میں نہیں ہے، پھر آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

گو کہ اُسے اپنے اِس فیصلہ پر ابھی تردّد تھا۔ البتہ وہ یہ جانتا تھا کہ کسی فیصلہ پر پہنچنا دراصل محض آغازِ کار ہی ہے۔ فیصلہ کر کے ایک شخص در اصل ایسے تیز دھارے میں کود پڑتا ہے جس کے بارے میں اُسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ اُسے کہاں لے جائے گا اور جہاں وہ آخر کار پہنچتا ہے تو وہ مقام اُسے خواب میں بھی کبھی نظر نہ آئے تھے۔

’’جب میں نے خزانہ تلاش کرنے کی ٹھانی تھی تو کیا مجھے یہ انداز تھا کہ کسی بلّوری ظروف کی دکان پربھی میری رسائی ہو گی۔‘‘ اُس نے سوچا’’ یا اب بھی اُس کاروان کے ساتھ جانے کا فیصلہ بھی میں کر بیٹھا ہوں۔ آخر میں کہاں پہنچوں گا، اِس کا تو مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں۔

قریب میں انگریز بیٹھا اپنی کتاب کے مطالعہ میں محو تھا۔ بظاہر تو اُس کا رویّہ غیر دوستانہ ہی تھا بلکہ جب لڑکا وہاں پہنچا تھا تو اُس کے رویّہ سے جھنجھلاہٹ ہی ظاہر ہوتی تھی۔ویسے اگر انگریز نے گفتگو خود ہی بند نہ کی ہوتی تو ممکن ہے کہ وہ دوست بھی بن گئے ہوتے۔

لڑکے نے کتاب بند کر دی۔ یہ سوچ کر کہ مجھ سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہو کہ لوگ مجھے انگریز جیسا ہی سمجھنے لگیں۔ اُس نے اپنی جیب سے وہ پتھر نکالے اور اُنہیں اُلٹنے پلٹنے لگا۔

اچانک وہ انگریز چلّایا۔ یہ تو یورم اور تھیومم ہیں۔

فوراً ہی لڑکے نے اُنہیں جیب میں ڈال لیا اور بولا،

’’یہ برائے فروخت نہیں ہیں ‘‘

’’یہ بہت قیمتی بھی نہیں ہیں۔‘‘ انگریز بولا۔ بہت معمولی پتھر سے بنے ہوتے ہیں اور ایسے لاکھوں کی تعداد میں زمین میں پائے جاتے ہیں۔ جنہیں اِن کی روایت کا علم ہے اُنہیں معلوم ہے کہ یہ یورم اور تھیومم  ہیں۔ لیکن تعجب ہے کہ یہاں کے لوگوں کے پاس بھی یہ ملتا ہے۔

’’ مجھے تو یہ ایک بادشاہ نے بطور تحفہ دئے تھے‘‘ لڑکا بولا۔

اجنبی کچھ نہ بولا۔ بلکہ اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر دو پتھر اُس نے بھی نکال لئے۔

’’کیا کہا تم نے، کسی بادشاہ نے دئیے تھے۔‘‘ اُس نے لڑکے سے پوچھا۔

’’تم شاید یہ سوچ رہے ہو گے کہ ایک بادشاہ مجھ جیسے ایک معمولی سے چرواہے سے کیوں کر بات کرنے لگا۔‘‘لڑکے نے گفتگو ختم کرنے کے انداز میں کہا۔

’’نہیں ایسا بالکل نہیں ہے۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جب سب ہی نے اِسے پہچاننے سے انکار کر دیا تو چرواہے نے ہی بادشاہ کو پہچانا تھا۔ چنانچہ اگر بادشاہ کسی چرواہے سے بات کرے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔‘‘

یہ سوچ کر کہ کہیں لڑکے کو پوری بات سمجھنے میں دِقّت نہ ہو وہ مزید تفصیلات بتانے لگا کہ یہ بات در اصل بائیبل میں لکھی ہے۔ اور وہیں سے مجھے یورم اور تھیومم کے بارے میں بھی معلوم ہوا تھا۔ایک زمانہ میں یہ پتھر بھی دراصل اِلٰہی تعلق کی نشانی سمجھے جاتے تھے۔ پادری اُنہیں ایک سونے کی پلیٹ میں جَڑوا کر سینے سے لگائے رکھتے۔

یہ سب باتیں سن کر گودام میں بیٹھے ہوئے اُسے پہلی بار خوشی کا احساس ہوا۔

شاید کوئی شگون ہے۔ انگریز زیرِ لب ذرا کم بلند آواز میں بولا۔

’’شگونوں کے بارے میں تمہیں کس سے معلوم ہوا‘‘ لڑکے کی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا تھا۔

’’زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ شگون ہی ہوتا ہے۔ ‘‘انگریز رسالہ بند کرتے ہوئے بولا ’’ ایک زبان ایسی ہوا کرتی تھی جسے ہر کوئی سمجھتا تھا لیکن لوگ اُسے اب بھول گئے ہیں۔ میں اور بہت سی چیزوں کے علاوہ اِس آفاقی زبان کی تلاش میں بھی ہوں۔ یہاں بھی میں اِسی لئے آیا ہوں  اب مجھے ایک ایسے شخص کی تلاش ہے جو شاید یہ زبان جانتا ہے۔ شاید وہ الکیمسٹ ہے۔‘‘

یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ گودام کا مالک عرب اندر داخل ہوا اور بولا:

آپ دونوں خاصے خوش قسمت ہیں۔ آج ہی ایک کارواں ’ الفعیوم‘ جا رہا ہے۔‘‘

’’لیکن مجھے تو مصر جانا ہے۔۔۔۔۔‘‘ لڑکا فوراً بول اُٹھا۔

’’  ’الفعیوم‘ مصر میں ہی تو ہے۔‘‘ عرب بولا، ’’تم کیسے عرب ہو اتنا بھی نہیں جانتے۔‘‘

یہ کہہ کر عرب چلا گیا۔ تو کچھ دیر بعد انگریز بولا۔

’’علامت تو اچھی ہے۔‘‘

لیکن’ قسمت‘ اور ’ اتّفاق‘ جیسے الفاظ بھی خوب ہیں۔اور میرے خیال میں یہ ضرور آفاقی زبان میں شامل رہے ہوں گے۔ اگر وقت نے ساتھ دیا تو میں اُن پر ایک ضخیم انسائیکلو پیڈیا ضرور تیار کروں گا۔‘‘

لڑکے سے وہ انگریز کہنے لگا کہ ’’میرے خیال میں یہ محض اتّفاق نہیں کہ میری تم سے ملاقات اِس حال میں ہوئی کہ یورم اور تھیومم تمہارے ہاتھ میں تھے۔‘‘ پھر کچھ سوچ کو بولا کہ کیا تم بھی الکیمسٹ کی تلاش میں ’ الفعیوم‘ جا رہے ہو۔

’’میں تو دراصل ایک خزانہ کی تلاش میں ہوں۔‘‘ لڑکے کی زبان سے نکل تو گیا لیکن فوراً ہی اُسے غلطی کا احساس ہو گیا اور اندر ہی اندر افسوس کرنے لگا کہ اُس نے خزانہ کا تذکرہ کیوں کر دیا لیکن انگریز کو شاید اِس میں کچھ دلچسپی نہ تھی۔

’’ایک اعتبار سے تو میں بھی ایک خزانہ ہی کی تلاش میں ہوں۔‘‘ وہ بولا۔

’’میں تو الکیمی کی ابجد سے بھی واقف نہیں ‘‘ لڑکا یہ کہہ ہی رہا تھا کہ گودام کے مالک کی آواز آئی جو سب کو باہر بلا رہا تھا۔

 

 

 

(۲۱)

 

’’میں سالارِ کارواں ہوں۔‘‘ ایک آواز بلند ہوئی۔وہ گہری سیاہ آنکھوں اور داڑھی والا ایک عرب تھا۔ ’’میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو میرے ساتھ اِس کارواں میں شریک ہے اُس کی موت و حیات پر میرا حکم چلے گا۔ یہ ریگستان ایک متلوّن مزاج عورت کی مانند ہے جو اکثر مردوں کو دیوانہ بنا دیتی ہے چنانچہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘

اِس کارواں میں کوئی دو سو لوگ شامل تھے اور اُن کے ساتھ تقریباً چار سو جانور بھی تھے جن میں اونٹ، گھوڑے، خچّر اور شکاری پرندے سبھی تھے۔ عورتیں اور بچے بھی تھے۔ بہت سے مردوں کے کندھوں پر بندوقیں لٹکی ہوئی تھیں اور کمر میں تلواریں اُڑسی ہوئی تھیں۔ انگریز اپنے ساتھ کئی صندوق لایا تھا جن میں کتابیں بھری ہوئی تھیں۔ چیخ پکار کیونکہ بہت تھی اِس لئے اپنی بات سب تک پہنچانے کے لئے سالار کو کئی بار اپنی بات دہرانی پڑی۔

’’سنو ! ‘‘ وہ کہہ رہا تھا : ’’یہاں ہر طرح اور مختلف مذاہب رکھنے والے افراد اِس کارواں میں شامل ہیں اور ہر ایک اپنے خدا میں یقین رکھتا ہے لیکن میں اُس خدا میں یقین رکھتا ہوں جس کا نام ’اللہ‘ ہے اور میں ’اللہ‘ کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں کہ اِس ریگستان کو کامیابی سے پار کرنے کی میں ہر ممکن کوشش کروں گا۔ ساتھ ہی ساتھ آپ لوگ اپنے اپنے خدا کی قسم کھا کر عہد کریں کہ اِس دوران کسی حال میں میرے احکام سے سرتابی نہ کریں گے۔ ریگستان میں سرتابی اور حکم عدولی کا دوسرا نام موت ہے۔‘‘

ہجوم میں بھنبھناہٹ سی ہونے لگی۔ ہر فرد خاموشی سے اپنے اپنے خداسے عہد کر رہا تھا۔ لڑکے نے دِل ہی دِل میں عیسیٰؑ مسیح کی قسم کھائی جب کہ انگریز نے کچھ بھی نہ کیا۔ بھنبھناہٹ کچھ دیر تک جاری رہی۔ یہ محض کوئی عہد نہ تھا بلکہ لوگ دعاء کر رہے تھے کہ وہ ہر مصیبت سے محفوظ رہیں۔

بگل بجا اور ہر شخص اپنی اپنی سواری پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ لڑکے اور انگریز نے بار برداری کے واسطے اونٹ خرید لئے تھے۔ یہ دونوں جب بیٹھے تو  انداز میں وہ خود اعتمادی نہ تھی جیسی عادی اونٹ سواروں میں ہوتی ہے۔ انگریز کا اونٹ بکسوں کے بوجھ سے دبا جا رہا تھا جسے دیکھ کر لڑکے کو اُس اونٹ پر ترس بھی آ رہا تھا۔

سفر کے آغازسے پہلے انگریز جس موضوع پر لڑکے سے گفتگو کر رہا تھا، وہیں سے پھر شروع کرتے ہوئے بولا، ’’اتفّاق نام کی کوئی چیز دنیا میں نہیں پائی جاتی۔‘‘ میں آج یہاں اِس لئے ہوں کہ میرے ایک دوست نے سنا تھا کہ ایک عرب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

کاروان چلنے لگا تو انگریز کی بات سنّا ممکن نہ رہا، لیکن لڑکا یہ تو جان ہی گیا کہ انگریز جو بات بتانے جا رہا تھا اُس کا تعلق واقعات کے اسباب اور وقوعوں کے درمیان کی کڑیوں سے ہے۔ مثلاً وہ بھیڑوں کا گلہ بان کیوں بنا؟اُسے بار بار خواب کیوں دکھائی دیے؟ وہ افریقہ کے اِس شہر میں کیوں آیا ؟بادشاہ سے ملا اور اُس کا مال لُٹا اور پھر اُس کی ملاقات بلّوری ظروف کے مالک دکاندار سے ہوئی وغیرہ وغیرہ۔

’’جیسے جیسے کوئی اپنے مقدّر کو حاصل کرنے کے قریب ہو تا جاتا ہے، وہ مقدّر اُس کے وجود کا جواز فراہم کرنے لگتا ہے۔ ‘‘لڑکے نے سوچا۔

کارواں کا رُخ شہر کی سمت تھا۔ صبح کے وقت سفر جاری رہا۔ جب سورج کی تمازت بہت بڑھ گئی تو سفر روک دیا گیا اور پھر بعد دوپہر سفر شروع کر دیا گیا۔ لڑکے اور انگریز کی بات چیت کم ہی ہوئی۔ انگریز زیادہ تر اپنی کتابوں میں منہمک رہا۔

کارواں خاموشی سے رواں تھا۔ لڑکا دلچسپی اور خاموشی کے ساتھ ریگستان میں جانوروں کے چلنے اور لوگوں کے سفر کا مشاہدہ کرتا رہا۔ سفر کے آغاز سے پہلے اور دورانِ سفر کتنا فرق تھا۔اُس وقت ہنگامہ تھا۔ عورتوں اور بچّوں کی آوازیں تھیں یا جانوروں کی ہنہناہٹ۔ اِسی میں تاجروں کی آپس میں بات چیت اور سفر کے راہبروں کے احکام یہ سب مل کر ایک ہنگامہ بپا کئے ہوئے تھے۔

لیکن ریگستان نے سب کچھ بدل دیا تھا۔ ہوا کی سنسناہٹ اور اونٹوں کے پیروں کی آوازوں کے سوا کوئی اور آواز نہ تھی۔ راہبروں کو چپ سی لگ گئی تھی۔

’’ریتوں کے اِس سلسلہ سے میں بار ہا گزرا ہوں۔‘‘ ایک رات کسی ساربان نے دوسرے سے کہا:

’’لیکن یہ اتنا وسیع اور بڑا ہے کہ اِس کا چھور نظر ہی نہیں آتا۔ آدمی اپنے کو بونا محسوس کرنے لگتا ہے اور خاموشی سے سفر کرتے رہنے ہی میں اپنی عافیت جانتا ہے۔

لڑکے کے وجدان نے اِس احساس کی تصدیق کی۔ کیونکہ وہ اِس سے قبل کسی ریگستان سے نہیں گزرا تھا لیکن جب بھی وہ کسی سمندر کو دیکھتا یا کہیں آگ پر نظر پڑتی تو خاموشی خود بخود طاری ہو جاتی تھی۔ عظیم وجود کی ہیبت جیسے دم بخود کر رہی ہو۔

’’میں نے بہت سی باتیں بھیڑوں سے سیکھیں اور بلّوری دکان کے مالک نے بھی میرے علم میں خاصا اِضافہ کیا۔ یہ عظیم اور وسیع و عریض ریگستان جو جانے کتنی صدیوں کو اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے، یقیناً علم و دانش کا بڑا خزانہ لیے ہوئے ہے اور میں اِس سے بھی بہت کچھ حاصل کر سکتا ہوں ‘‘۔ لڑکا سوچتا رہا۔

ہوا کی رفتار میں ذرا بھی کمی نہ آئی۔اُسے طارفہ کا وہ قلعہ یاد آ گیا جہاں وہ ایک بار بیٹھا ہوا تھا اور یہی ہوا اُس کے چہرے سے ٹکرا کر اپنے قوی وجود کا احساس دلا رہی تھی۔ اُسے یاد آیا کہ وہ کیسے اپنی بھیڑوں سے اون نکالتا تھا۔ وہ اب کسی اور کی نگرانی میں اندلس کے میدانوں میں پانی اور چارے کی تلاش میں سرگرداں ہوں گی۔

’’لیکن وہ بھیڑیں تو اب میری نہیں۔‘‘اُس نے اپنے آپ سے یہ کہا ضرور لیکن اُس کے دِل میں یادوں کی کسک نہ تھی۔‘‘ وہ تو اب اپنے نئے چرواہے کی عادی ہو گئی ہوں گی۔ مجھے تو وہ اب بھول چکی ہوں گی، اور یہ ایک طرح سے اچھا ہی ہے، بھیڑ جیسی مخلوق جس کا کام بس چلنا اور چلتے رہنا ہی ہے اُنہیں بس اُسی سے سروکار رہنا بھی چاہیے۔

یکایک یادوں کا دھارا تاجر کی لڑکی کی طرف مُڑ گیا۔ یقیناً اُس کی اب شادی ہو چکی ہو گی۔ ممکن ہے کہ اُس کے باپ نے اُسے کسی نانبائی یا کسی چرواہے کے سپرد کر دیا ہو۔ میرے علاوہ بھی تو اور بہت سے چرواہے ہوں گے جو پڑھ بھی سکتے ہوں گے اور پُر لطف کہانیاں بھی سنا سکتے ہوں گے، لیکن ساربان کی بات کو اُس کے وجدان نے کس طرح ذہن نشین کر لیا تھا اِس پر وہ بہت خوش تھا۔ اُسے لگا کہ شاید وہ اب اُس خاص زبان کو سیکھنے لگا ہے جس کے ذریعہ لوگوں کے ماضی اور حال کا بیان ممکن ہے۔ اُس کی سمجھ میں یہ بات آ رہی تھی کہ روح حیات کی آفاقی لہر میں ڈوب کر ہی وجدان کو جنم دیتی ہے اور کیونکہ اِسی لہر میں عام لوگوں کی تاریخ کے تمام اجزا ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں۔اِس لیے وجدان کے ذریعہ وہ سب معلوم ہو سکتا ہے جو اِس میں لکھا ہوتا ہے۔

’’مکتوب‘‘ لڑکے کی زبان سے نکلا اور خیال کی یہ لہر اُسے بلّوری دکاندار کی طرف لے گئی۔ ریگستان کہیں تو محض ریت تھا اور کہیں وہ پتھریلا  ہو جاتا تھا۔ جب راستہ میں کوئی چٹّان آ جاتی تو کاروان کو راستہ کاٹ کر گزرنا ہوتا۔ لیکن اگر پہاڑی زیادہ بڑی ہوتی تو پھر خاصا بڑا چکّر کاٹ کر راستہ ملتا۔ اِسی طرح اگر ریت بہت باریک ہوتا اور اونٹ اُس میں چل نہ پاتے تو بھی کوئی دوسرا ایساراستہ تلاش کیا جا تا، جہاں ریت موٹا ہو۔ بعض جگہوں پر راستہ میں خشک شدہ جھیلوں کا نمک پھیلا ہوتا۔ ایسے راستوں پر اونٹ اَڑ جاتے اور جب تک ساربان لدا ہوا سامان اُتار نہ دیتے، اونٹ آگے نہ بڑھتے۔ ساربان ایسے مواقع پر خود ہی سارا سامان ڈھوتے اور جب یہ راستہ ختم ہو جاتا تب ہی دوبارہ پھر اونٹوں پر لادتے۔ دورانِ سفر اگر راہبر بیمار ہو جاتا یا اُسے موت ہی آ جاتی تو ساربان قرعہ اندازی کے ذریعہ دوسرے راہبر کا تعیّن کرتے۔

راستہ میں رکاوٹیں بارہا آتی رہیں۔ کتنی ہی دفعہ راستہ بھی تبدیل کرنا پڑا۔لیکن کارواں اپنی منزل کی طرف گامزن رہا، منزل کا تعیّن اُس تارے کے رُخ سے کیا جاتا جو نخلستان کی سمت کا تعیّن کرتا تھا۔ جب صبح کے آسمان پر وہ تارہ چمکتا نظر آتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ وہ اُسی راستہ پر گامزن ہیں جو پانی، کھجور کے درختوں اور کسی آبادی کا پتہ دے رہا ہے۔ راستہ کے اُن تعیّنات سے انگریز کو کوئی دلچسپی نہ تھی وہ زیادہ وقت کتابیں ہی پڑھتا رہا تھا۔

کتاب تو لڑکے کے پاس بھی تھی اور اِن ابتدائی چند دنوں میں اُس نے ایک آدھ بار پڑھنے کی کوشش بھی کی لیکن اُسے منظر دیکھتے رہنے اور ریگستانی ہوا کی آوازوں کو سننے میں زیادہ دلچسپی تھی۔جب وہ اپنے اونٹ کی عادات سے واقف ہو گیا اور اُس سے ایک قسم کا رشتہ قائم ہو گیا تو پھر اُسے کتاب میں مزہ نہ آیا اور اُسے بند کر کے ایک طرف رکھ دیا۔ کتاب کے بارے میں اُسے یہ گمان تو پیدا ہو گیا تھا کہ جب بھی وہ کتاب کھولتا ہے تو کوئی نہ کوئی نئی بات اُسے معلوم ہوتی ہے لیکن راستہ اور سفر کی دلچسپیوں کے سامنے یہ اُسے محض ایک غیر ضروری بوجھ محسوس ہوئی۔

سارِبان سے اُس نے دوستی کر لی۔ رات کے وقت جب وہ آگ کے گرد قریب قریب بیٹھے تو وہ اُسے اپنی بھیڑوں کی گلہ بانی سے متعلق قصّے اور واقعات سناتا۔ ایسے ہی کسی موقعہ پر ساربان نے بھی اپنی زندگی کے بعض واقعات اُسے سنائے :

’’میں القرم کے قریب ہی رہتا تھا۔‘‘ وہ بولا ’’میرے بچے تھے، باغ تھا اور وہ سب کچھ تھا کہ جو بظاہر بہت جلد ختم ہو جانے والا نہ تھا۔ میرا گمان تھا کہ صرف موت ہی میرے حالات کو بدل سکے گی۔ایک سال جب فصل بہت اچھی تھی تو ہم لوگ فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے مکّہ گئے۔ زندگی کی یہی ایک تمنّا تھی جو ابھی تک پوری نہ ہو پائی تھی۔

ایک دن زمین بری طرح ہلنے لگی اور نیل کا پانی کناروں کو غرقاب کر گیا۔ میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا میرے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ تو معلوم تھا کہ ایسا ہوتا ہے لیکن بس اوروں کے ساتھ۔ میرے پڑوسیوں کو خوف تھا کہ اُن کا زیتون کا پورا باغ تباہ ہو گیا ہے اور میری بیوی کو اپنے بچوں کا خوفِ لاحق تھا، مجھے لگا کہ جو کچھ میرے پاس ہے سب تباہ ہو جائے گا۔‘‘

کھیت برباد ہو گئے اور باغ اُجڑ گئے۔ اب پیٹ پالنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرنا تھا۔ بس اِس کے نتیجہ میں آج میں ایک ساربان ہوں۔ البتہ اِس تباہی نے ایک اہم سبق ضرور دیا اور اللہ کا حکم سمجھنے میں بڑی مدد کی۔ اگر اپنی جائز ضروریات کو صحیح طریقے سے حاصل کرنے کا جذبہ ہو تو کسی معلوم اور نا معلوم کے خوف کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔ زندگی کی تگ و دَو میں ہم اکثراِس خوف کا شکار ہوتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ نہ چھن جائے، کہیں وہ نہ لُٹ جائے، کہیں موت کا خوف ہوتا ہے، کہیں مال و دولت کا، لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ مل جانے اور کھو جانے کا تمام قصّہ ایک ہی ہاتھ نے تحریر کر رکھا ہے۔یہ سمجھ میں آ جائے تو خوف کا عنصر ایسے غائب ہو جاتا ہے کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔‘‘ ساربان کی گفتگو کی گہرائی لڑکے کو متاثر کر رہی تھی۔

راستہ میں کبھی دوسراکاروان بھی مل جاتا، ہمیشہ ایسا ہوتا کہ ایک کی ضرورت کی چیزیں دوسرے کے پاس مل جاتیں اور ایسا لگتا جیسے پہلے سے معلوم ہو کہ آنے والے کی ضرورت کیا ہو گی۔ جیسے یہ سب کچھ شاید ایک ہی ہاتھ نے تحریر کیا تھا۔ یہ تجربے ایک غیر مرئی رشتہ کی نشاندہی کرتے اور اِس یقین کو پختہ کرتے کہ ایک عظیم تر ہاتھ ہر چیز پر سایہ فگن ہے۔ کاروان کے لوگ جب آگ کے اِرد گِرد گھیرا لگا کر بیٹھتے تو ساربان لوگ ریگستان کی زندگی سے وابستہ دلچسپ قصّے اور واقعات سناتے، بعض اوقات ممکنہ آندھیوں سے متعلق ایک دوسرے کو باخبر کرتے۔

کبھی راستہ چلتے مخصوص عمامہ پہنے کچھ پُر اسرار بَدّو لوگ ظاہر ہو جاتے، جو آنے والے کاروان کو ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنے کے لئے اُن راستوں پر معمور تھے۔ اُن کا کام ممکنہ قزّاقوں اور وحشی قبیلوں کی موجودگی سے کاروان کو باخبر کرنا تھا۔ یہ جتنی خاموشی سے ظاہر ہوتے اتنی ہی خاموشی سے واپس بھی چلے جاتے تھے۔ سیاہ لبادہ اوڑھے یہ بَدّو کچھ ایسے رہتے کہ بس اُن کی آنکھیں ہی نظر آتی تھیں۔ اِس طرح ایک رات جب انگریز اور لڑکا آگ کے گِرد بیٹھے ہوئے تھے تو ساربان آیا اور اُس نے بتایا کہ ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ بعض قبیلوں میں جنگ پھوٹ پڑی ہے۔

تھوڑی دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔ لڑکے کو محسوس ہوا کہ جیسے پوری فضا پر خوف چھا گیا ہو۔ گو کہ کسی نے کچھ کہا نہ تھا۔ کوئی بولا نہ تھا لیکن اِس پیغام کے پہنچنے کے لئے کسی لفظی وسیلہ کی ضرورت نہ تھی۔ لڑکے کو ایک بار پھر اِس آفاقی زبان کا تجربہ ہو رہا تھا جو الفاظ کی مرہون نہ تھی۔

انگریز نے پوچھا کہ کیا وہ سب خطرے میں ہیں۔

’’ریگستان میں ایک بار آپ داخل ہو جائیں تو پھر واپسی نہیں ہے۔‘‘ساربان بولا اور جب واپسی نا ممکن ہو تو عقل مندی یہ ہے کہ باقی سب فکر چھوڑ کر یہ سوچیں کہ آگے بڑھتے رہنے کا بہترین راستہ کیا ہے۔ باقی سب کچھ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ خطرہ ہے یا نہیں ہے، یہ سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ ساربان نے اپنی بات وہی پُر اسرار لفظِ ’مکتوب‘ کہہ کر ختم کی اور خاموش ہو گیا۔

ساربان جب چلا گیا تو لڑکا انگریز سے بولا کہ ’’بہتر یہ ہے کہ تم کاروان پر زیادہ توجہ دو۔ ابھی تک کا تجربہ یہی کہتا ہے کہ ہم نے نہ جانے کتنی بار راستہ تبدیل کیا ہے، لیکن سفر برابر منزل کی صحیح سمت ہی میں ہو رہا ہے اور ہم بھٹکے نہیں ہیں۔ اچھا ہو کہ تم اِس دنیا کا مطالعہ کرو اور اِسے زیادہ بہتر جاننے کی کوشش کرو۔ ‘‘انگریز لڑکے سے بولا، ’’اِس اعتبار سے کتابیں بھی دراصل کاروان ہی کی مانند ہیں۔‘‘

جانوروں اور انسانوں پر مشتمل اِس عظیم گروہ کی رفتار میں تیزی آ گئی۔ دن کے دوران تو پہلے ہی خاموشی چھائی رہتی تھی، اب راتیں بھی خاموش رہنے لگیں۔ یہ شاید سالارِ کارواں کا حکم تھا کہ بات چیت سے احتراز کیا جائے اور پھر ایک دن یہ حکم آیا کہ رات کو آگ بھی نہ جلائی جائے کہ روشنی کی وجہ سے کاروان نظر میں آ جائے۔

اب اُنہوں نے یہ کرنا شروع کیا کہ جب رات ہوتی ہے تو تمام جانوروں کو بڑے دائرے کی شکل میں پھیلا دیتے اور مسافر بیچ میں ایک ساتھ سوتے۔ اِس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ رات کی ٹھنڈک سے لوگ کسی قدر محفوظ ہو گئے۔ سالار نے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہتھیار بند محافظ بھی متعیّن کر دئے تھے۔

ایک رات انگریز کو کسی طرح نیند نہیں آ رہی تھی۔ اُس نے لڑکے کو اُٹھایا اور دونو ں تھوڑے فاصلے پر چہل قدمی کرنے لگے۔ رات پورے چاند سے منوّر تھی۔ لڑکے نے اپنی کہانی انگریز کو سنائی۔ انگریز کو کہانی کا وہ حصہ بہت دلچسپ لگا جب لڑکا بلّوری دکاندار کے یہاں کام کرتا تھا اور کس طرح اُس کی دکان ترقی کرتی چلی گئی تھی۔

’’یہ اصول ہر چیز میں کارفرما ہے۔‘‘وہ بولا، ’’الکیمی میں اُسے روحِ فطرت کہا جاتا ہے۔ جب تم کسی مقصد کے حصول میں دل و جان سے لگ جاتے ہو تو یہی وہ مرحلہ ہے جب تم اِس روح کے بہت قریب ہوتے ہو۔ یہ ایک قسم کی قوّت ہے جو ہمیشہ مثبت رول ادا کرتی ہے۔ اور یہ محض انسانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ زمین کی ہر چیز روح رکھتی ہے چاہے وہ نباتات اور جمادات ہوں یا جانور۔ یہاں تک کہ ایک خیال میں بھی روح ہوتی ہے۔ زمین ذی حیات بھی ہے اور ذی روح بھی ہے اِس لئے اُس کی ہر چیز ہر لمحہ یک کیفی تبدیلی کا شکار ہوتی رہتی ہے، کیونکہ ہم اِس روح کا ایک حصہ ہیں اِس لئے اندازہ نہیں کر پاتے کہ یہ روح ہمارے لئے کیا کر رہی ہے۔ بلّوری دکان میں کام کرتے ہوئے تم نے شاید محسوس کیا ہو کہ وہ ظروف بھی تمہاری کامیابی میں معاونت کر رہے تھے۔‘‘

لڑکا جس کی نظریں روشن چاند اور شفّاف ریت پر ٹکی ہوئی تھیں تھوڑی دیر کے لئے سوچنے لگا: کہ میں کاروان کوریگستان سے گزرتے ہوئے بڑے غور سے دیکھتا رہا ہوں۔‘‘ وہ بولا، ’’مجھے لگتا ہے جیسے کاروان اور ریگستان ایک ہی زبان بولتے ہوں اور شاید اِس بناء پر ریگستان کاروان کے لئے اپنے راستے ہموار کر دیتا ہے۔ ریگستان کاروان کے ہر ہر قدم کا امتحان لیتا اور جانچتا ہے۔وہ یہ ضرور دیکھے گا کہ ہم وقت کا خیال رکھ رہے ہیں یا نہیں۔ اگر ہم کھرے اترے تو یقیناً نخلستان تک پہنچ جائیں گے۔

’’اگر ہم میں سے کسی نے بھی محض اپنی ذاتی ہمّت کی بنیاد پر اِس کاروان کے ساتھ سفر کیا ہوتا اور یہ جاننے کی کوشش نہ کی ہوتی تو کس زبان میں یہ ترسیل رسانی ہوتی ہے تو یہ سفر کہیں زیادہ کٹھن اور مشکل ہوتا۔

دونوں تھوڑی دیر کے لئے رک گئے جیسے چاند کے حُسن نے اُنہیں مسحور کر دیا ہو۔ ’’علامتوں کا طلسم بھی عجیب ہے۔‘‘ لڑکا بولا۔

یہ راہبر ! ریگستان کی علامتوں کو کیسے پڑھتے اور کس طرح ریگستان کی روح کاروان کی روح سے کلام کرتی ہے۔ یہ سب بڑا دلچسپ ہے۔ میں تو واقعی اِن کا گرفتار ہو گیا ہوں۔

’’میں بھی اب کاروان پر زیادہ توجہ دوں گا‘‘ انگریز بولا۔

’’مجھے اب کتابیں پڑھنا چاہیے۔‘‘  لڑکے نے کہا۔

 

 

 

(۲۲)

 

یہ کتابیں بھی عجیب تھیں۔ اُن کے مرکزی کرداروں میں پارہ، نمک، اژدہے اور بادشاہ نمایاں تھے۔ لڑکے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا لیکن ایک مرکزی نکتہ جو اُن تمام کتابوں میں ہر جگہ مشترک تھا وہ یہ تھا کہ تمام چیزیں بس ایک ہی چیز کا اظہار ہیں۔

ایک کتاب میں اُس نے پڑھا کہ الکیمی کی اہم ترین کتاب محض چند سطروں پر مشتمل ہے اور زمرّد پر لکھی ہوئی ہے۔

’’اسی کو لوحِ زَمرّد کہتے ہیں۔‘‘ انگریز بولا:( لہجہ سے تفاخر نمایاں تھا کہ شاید وہ اِس میدان میں لڑکے سے زیادہ جانتا ہے کہ اُس کی راہنمائی کر سکتا ہے)۔

’’ تو پھر الکیمی کی اتنی ساری کتابوں کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ لڑکے نے پوچھا۔

’’تاکہ وہ چند سطریں سمجھی جا سکے۔‘‘ انگریز کا جواب تھا، لیکن خود اُسے اپنے اِس جواب پر جیسے یقین نہیں تھا۔

سب سے دلچسپ کتاب وہ تھی جس میں بعض مشہور ماہرینِ الکیمی کے حالات کا بیان تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں دھاتوں کے تجزیہ میں لگا دیں اور پورا وقت تجربہ گاہوں میں گزرا تھا۔ تصوّر یہ تھا کہ دھاتوں کو اگر کچھ سال تک گرم کرتے رہیں تو بالآخر اُن کی اپنی ذاتی خصوصیات نکل جاتی ہیں۔ صرف روح بچ جاتی ہے اور یہی روح دراصل اِس دنیا کی روح ہے، اِسی سے آفاقی زبان بنی ہے جو ترسیل کا ذریعہ بنتی ہے۔ زمین کی سطح پر ہر چیز کی تفہیم اُس کی مدد سے ہو سکتی ہے۔ یہ اُن کی عظیم ترین تحقیق تھی اور اُسے وہ اپنا شاہکار سمجھتے تھے۔یہ ٹھوس اور رقیق دونوں پر مشتمل تھی۔

’’کیا انسانوں اور علامتوں کو محض دیکھتے رہنے اور غور کرتے رہنے سے اِس آفاقی زبان کو جاننا ممکن نہیں۔‘‘لڑکا سنتے سنتے پوچھ بیٹھا۔

’’تمہیں تو ہر بات کو زیادہ سے زیادہ سادہ بنانے کا خبط ہے۔‘‘  انگریز لڑکے کی بات سنکر جھنجھلا گیا، ’’ الکیمی ایک سنجیدہ فن ہے اور اُسے انجام دینے کے لئے حکماء کے طریقوں کو مِن و عن اپنانا ہو گا۔

اِس گفتگو سے لڑکے کو یہ تو معلوم ہو گیا کہ الکیمی کی شاہ کار تحقیق میں رقیق اکسیر ہے اور ٹھوس سنگِ پارس۔

سنگِ پارس کی تلاش کوئی آسان کام نہیں۔‘‘ انگریز بولا ’’حکما نے اِس کی تلاش میں اپنی زندگیاں تجربہ گاہوں میں کھپا ئی ہیں۔‘‘ دھات کا تجزیہ کرنے کے لئے جو آگ جلائی جاتی ہے اُس کے بہت قریب رہنا ہوتا اور اِس میں سالہا سال لگ جاتے۔ ظاہر ہے کہ دنیا کے حُسن کی چاہت تو یہیں ختم ہو جاتی ہو گی۔ لیکن جب دھات کا تجزیہ ہو چکتا تو معلوم ہوتا خود اُن کا بھی تجزیہ ہو چکا ہے۔

لڑکے کو یاد آیا کہ بلّوری دکان میں ظروف کی صفائی کے دوران دکاندار نے کہا تھا کہ ظروف کی صفائی کے ساتھ منفی خیالات سے بھی صفائی ہو جاتی ہے۔ لڑکے کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ اگر کوئی چاہے تو روز مرّہ کی زندگی میں بھی الکیمی سیکھ سکتا ہے۔

’’ایک اور خاص بات ہے‘‘ انگریز بولا۔ سنگِ پارس میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اِس کا چھوٹا ٹکڑا دوسری دھاتوں کی بڑی مقدار میں سونے میں تبدیل کر سکتا ہے۔‘‘

یہ سن کر الکیمی میں لڑکے کی دلچسپی بڑھ گئی اور وہ سوچنے لگا کہ کچھ دن صبر کے ساتھ گزار لے تو وہ دن دور نہیں جب وہ بھی دھات کو سونے میں تبدیل کر سکے گا۔ وہ حکماء جو اُس مقام تک پہنچ چکے تھے، اُن کے بارے میں مطالعہ کا لطف دو بالا ہو گیا۔ اُن کے واقعات بڑے دلچسپ اور مسحور کن تھے۔ہر ایک اپنی تقدیر کو مکمّل اور ہر ممکن شکل میں بروئے کار لانے کے لئے کوشاں رہا، طویل اسفار، حکمائے وقت سے ملاقاتیں اور گفتگو، حکمائے الکیمی کے واقعات اِنہیں سے عبارت تھے، نا ممکنات کو ممکن کر دکھانے کے لئے۔ معجزاتی اعمال اور پھر مزید یہ کہ اُن میں سے ہر ایک کے پاس اکسیر بھی اور پارس بھی۔

لیکن لڑکے نے شاہکارِ تحقیق کو سمجھنے کی جتنی کوشش کی اتنا ہی وہ بھول بھلیّوں میں کھو گیا۔ کچھ آڑھی ترچھی لکیریں، اشاروں میں کچھ ہدایات اور سمجھ میں نہ آنے والی عبارتوں کے علاوہ کچھ پلّے نہ پڑا۔

 

 

 

(۲۳)

 

ایک رات لڑکے نے انگریز سے پوچھا کہ آخر چیزوں کو ’اِتنا گنجلک‘ بنانے کی ضرورت کیا ہے؟ لڑکے نے محسوس کیا تھا کہ انگریز پر جھنجھلاہٹ حاوی ہونے لگی ہے اور اُسے کتابوں کی کمی کا احساس بھی ہونے لگا ہے۔

’’تاکہ صرف ذمّہ دار لوگ ہی اُن چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔‘‘ وہ بولا، ’’ذرا سوچو تو کہ اگر ہر شخص سیسہ کو سونے میں بدلنے لگے تو سونے کی حیثیت تو بالکل ہی ختم ہو جائے گی۔‘‘

’’شاہکارِ تحقیق تک پہنچنے کے لئے بے پایاں اور مسلسل محنت اور گہرائی میں پہنچنے کی سکت لازمی ہے۔ اب تم مجھ ہی کو دیکھو، میں کہاں سے آیا اور کس طرح اِس ریگستان کی خاک چھان رہا ہوں، محض اُس الکیمسٹ سے ملنے کی خاطر جو اشاروں کے رموز کو حل کرنے میں میری رہنمائی کر سکے۔

’’یہ کتابیں کس زمانے کی ہیں ‘‘ لڑکے نے پوچھا۔

’’صدیوں پہلے لکھی گئی تھیں۔‘‘

’’اچھا !لیکن اُس زمانہ میں تو چھاپہ خانہ بنے ہی نہیں تھے۔لڑکے نے سمجھنے کی کوشش کی۔’’ الکیمی کوسمجھنا شاید عام آدمی کے بس کا کام نہیں تھا۔عجیب و غریب زبان، الٹی سیدھی سب لکیریں، آخر اُن کی کیا ضرورت تھی؟

انگریز نے اِس سوال کا جواب براہِ راست تو نہ دیا۔ کہنے لگا کہ گزشتہ کئی روز سے میں کاروان پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوں لیکن کوئی نئی بات  سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ ہاں ! قبائل کی آپسی جنگ کی خبروں پر گفتگو زیادہ ہونے لگی ہے۔

 

 

 

(۲۴)

 

آخر ایک دن لڑکے نے انگریز سے لی ہوئی سب کتابیں واپس کر دیں۔

’’کچھ سمجھ میں آیا؟‘‘ انگریز نے دلچسپی سے فوراً دریافت کیا۔

وہ جاننا چاہتا تھا کہ لڑکا کچھ سمجھ پایا کہ نہیں۔ ویسے بھی لوگوں میں کیونکہ جنگ کے موضوع پر زیادہ گفتگو ہوتی تھی۔ وہ کسی سے بات کر کے اِس موضوع سے اپنی توجہ بھی ہٹانا چاہتا تھا۔

ہاں !کچھ باتیں معلوم ہوئی ہیں، یہ کہ اِس دنیا کی ایک روح ہے اور جو بھی اِس روح کو سمجھ لیتا ہے وہ اشیاء کی زبان جان لیتا ہے۔ بہت سے الکیمسٹ اپنے مقدّر کے حصول کے لئے کوشاں رہے اور اِس روح تک پہنچ کر وہ اکسیر اور سنگِ پارس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‘‘

’’لیکن سب سے بڑھ کر یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ سب باتیں اتنی سادہ اور مختصر ہیں کہ واقعی زمرّد کی سطح پر تحریر کی جا سکتی ہیں۔

انگریز کو یہ سن کر بہت مایوسی ہوئی۔ سالہا سال کی تحقیق و جستجو ذہن کو جکڑ لینے اور متحیّر کر دینے والی طلسماتی علامتیں، عجیب و غریب الفاظ اور محیر العقول تجربی آلات، اُن میں سے کوئی بھی تو اُس لڑکے کو متاثر نہ کر سکا تھا۔ بہت دقیانوسی اور غیر مہذّب ہونے کی بناء پر اُس کی روح میں وہ بالیدگی ہے ہی نہیں کہ تحقیق و جستجو کے اِن نتائج سے بہر ہ مند ہو سکے۔

انگریز نے کتابیں واپس اپنے تھیلے میں حفاظت سے رکھ دیں۔

’’جاؤ تم کاروان ہی میں اپنا سر کھپاؤ۔‘‘ وہ بولا ’’مجھے تو کچھ حاصل نہ ہو سکا۔‘‘

ریگستان کے سکوت اور جانوروں کے چلنے سے اُڑنے والی دھول نے ایک بار پھر لڑکے کی توجہ مبذول کر لی۔ ’’سب کے طریقے الگ الگ ہیں۔‘‘ وہ خود سے مخاطب تھا۔‘‘  ’’جس طریقہ سے وہ کسی چیز کو سمجھ لیتا ہے ضروری نہیں کہ میں بھی اُسی طرح سمجھ سکوں ‘‘اور اِس طرح ضروری نہیں ہے کہ وہ میرے طریقہ سے کسی چیز کو سمجھ پائے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم دونوں ہی اپنی منزل کے حصول کے لئے پُر عزم اور سرگرداں ہیں اور اُس کے عزم کی بنا پرہی میرے دل میں اُس کی قدر ہے۔

 

 

 

(۲۵)

 

ابھی تک تو صرف دن کے اوقات ہی میں سفر ہوتا تھا لیکن اب کاروان نے رات دن چلنا شروع کر دیا۔ عمامہ باندھے سیاہ پوش بدّو اب اکثر ظاہر ہونے لگے اور ساربان نے جو لڑکے سے خاصا گھل مل گیا تھا لڑکے کو بتایا کہ قبیلوں میں جنگ پہلے ہی سے چھڑ چکی ہے۔ کاروان نخلستان پہنچ جائے تو بہت خوش قسمتی ہی ہو گی۔

جانور تھک رہے تھے اور مرد لوگ آپس میں کم ہی بات کرتے تھے۔ رات کے اوقات میں یہ خاموشی اب انتہائی تکلیف دہ ہوتی جا رہی تھی۔ رات میں اونٹ کے بڑبڑانے کی آواز پہلے تو محض اونٹ کی آواز تھی لیکن اب وہ کسی ممکنہ حملہ کے خطرہ کا اعلان بھی بنتی جا رہی تھی۔

لیکن ساربان کو جیسے جنگ کے خطرہ کی کوئی پرواہ تھی ہی نہیں۔

’’یہی کافی ہے کہ ہم زندہ ہیں۔‘‘ اُس نے ایک رات ایک خوشہ سے کھجور توڑ کر منہ میں رکھتے ہوئے لڑکے سے کہا، ’’رات اندھیری، نہ چاند اور نہ ہی آگ کی روشنی۔جب میں کچھ کھا رہا ہوتا ہوں تو بس اُسی کے متعلق سوچتا ہوں۔ جب سفر کر رہا ہوں تو بس اُسی پر توجہ مرکوز کرتا ہوں اور اگر کبھی جنگ میں کود پڑنا پڑے تو بس میں سوچتاہوں کہ موت کسی بھی دن آسکتی ہے۔ اِس لئے سب دن برابر ہیں۔‘‘

’’میں نہ تو ماضی میں رہتا ہوں اور نہ ہی مستقبل میں، میرے لئے تو بس حال زیادہ اہم ہے۔ اگر تم حال پر زیادہ توجہ دے سکو تو زندگی زیادہ شاداں اور فرحان گزرے گی اور یہ روز مرّہ کے واقعات معمولی سے واقعات لگیں گے۔ جیسے یہ حقیقت ہے کہ اِس ریگستان میں حیات کا عنصر موجود ہے اور آسمان میں تاروں کا وجود حقیقی ہے۔ اِسی طرح قبیلوں میں جنگوں کا سلسلہ اِس لئے ہے کہ وہ نسلِ انسانی کا ایک حصہ ہیں۔ اِس طرح سوچو تو زندگی ایک محفل، ایک جشنِ عظیم اور ایک تقریب محسوس ہو گی اور یہ سب اِس لئے کہ زندگی تو بس اُس لمحہ سے عبارت ہے جو ابھی ابھی ہم نے گزارا ہے۔‘‘

دو راتوں کے بعد لڑکا جب آرام کے لئے لیٹنے کی تیاری کر رہا تھا۔ اُس کی نظر یں اُس ستارے کو تلاش کرنے لگیں جس کی رہنمائی میں وہ ہر رات سفر کرتے تھے۔ اُسے لگا کہ اُفق جیسے کچھ نیچے آ گیا ہے، ستارے جیسے ریگستان کی سطح پر ہی نکل پڑے تھے۔

’’ہم نخلستان پہنچ رہے ہیں۔‘‘ ساربان بولا۔

’’کیوں نہ ابھی وہیں چلیں ؟‘‘ لڑکے نے پوچھا۔

’’سونابھی تو ہے۔۔۔۔‘‘

 

 

 

(۲۶)

 

سورج اوپر اُٹھنے لگا تو لڑکے کی آنکھ کھل گئی۔ گزشتہ رات جس مقام پر اُسے چھوٹے چھوٹے تارے نظر آئے تھے، وہاں کھجور کے درختوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا جو پورے ریگستان تک پھیلا ہوا تھا۔

’’ہم پہنچ چکے ہیں۔‘‘ انگریز (جو صبح سویرے اُٹھنے کا عادی تھا) کے لہجے میں جوش نمایاں تھا۔

لیکن لڑکا خاموش ہی رہا۔وہ ریگستان کے سکوت سے ہم آہنگ ہو چکا تھا۔ بس درختوں کو دیکھنے تک ہی اُس نے اکتفا کی۔ اُسے تو ابھی بہت دور آگے اہرام تک جانا تھا۔ آج کی یہ صبح اُس کی یادوں میں محفوظ ہو جانے والی تھی۔ ساربان کی بات یاد کرتے ہوئے اُس نے سوچا کہ یہی لمحہ تو اُس کا حال ہے اُسے ضائع نہ کرنا چاہیے بلکہ جس طرح ماضی کے سبق اور مستقبل کے خوابوں سے اُس نے اب تک کی زندگی کو پُر عزم بنائے رکھا ہے اُس حال سے مسرّتیں اور عزائم کشید کرنی چاہئیں۔

اُس کی حیثیت ایک خوبصورت یاد سے زیادہ نہ رہے گی۔ درختوں کا یہ خوبصورت منظر گو کہ ایک دِن یادوں کا محض ایک حصہ بننے والا ہے لیکن اِس وقت یہاں پانی، سایہ اور جنگ کے خطروں سے حفاظت سب کچھ حاصل ہے۔ کل اونٹ کی بڑبڑاہٹ میں خطرہ کا امکان تھا اور آج کھجور کے درختوں کی یہ قطار ایک معجزانہ صفت کا اظہار کر رہی ہے۔ دنیا بھی عجیب ہے۔ بیک وقت مختلف زبانیں بولتی ہے۔ لڑکا سوچتا رہا۔

 

 

 

(۲۷)

 

’’جس تیزی سے آج کل میں بدلتا رہتا ہے اُسی طرح کاروان بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔‘‘ بزرگ الکیمسٹ اُس آنے والے کاروان کو دیکھ کر سوچنے لگا۔ سینکڑوں لوگ اور جانور اِس کاروان میں آئے تھے اور نخلستان آ کر رُکے تھے۔ نو واردوں کو دیکھ کر مقامی لوگ خاصے جوش و خروش کا اظہار کر رہے تھے۔ اُڑتی ہوئی دھول نے سورج کو دھندلا کر دیا تھا۔ مقامی بچے اجنبیوں کو درمیان میں دیکھ کر کھِل اُٹھے تھے۔ بزرگ نے دیکھا کہ قبیلہ کے سردار نے سالارِ کارواں کو خوش آمدید کہا اور دیر تک اُس سے گفتگو کرتا رہا۔

لیکن بزرگ کو اِن سب باتوں سے کوئی مطلب نہ تھا۔ اُس نے ان گنت لوگوں کو آتے جاتے دیکھا تھا لیکن ریگستان جوں کا توں تھا۔ شاہ و گدا دونوں ہی یہاں کی ریت پر چلتے تھے۔ ریت کی بنتی بگڑتی بلند و وسیع پہاڑیوں کو ہوائیں یہاں سے وہاں اُڑائے لئے پھرتی تھیں لیکن ریت وہی رہی جیسی وہ بچپن سے دیکھتا آیا تھا۔تھکے ہارے کارواں جب کبھی نیلے اور کبھی پیلے آسمان تلے ہفتوں سفر کر کے سبز نخلستان میں وارد ہوتے تو اُن کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ یہ بزرگ اُن کی خوشی کو اپنے اندر بھی محسوس کرتا اور سوچتا کہ شاید ریگستان خدا نے اِسی لئے پیدا کیا ہے کہ انسان پر اُن درختوں کی اہمیت آشکارا ہو اور وہ مشکور ہوں۔

یہ سوچتے سوچتے اُس کا ذہن بعض عملی امور کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اُسے علم تھا کہ اِس کاروان کے ساتھ ایک ایسا شخص بھی آیا ہے جسے بعض راز بتانا ہیں۔ بعض علامتوں سے اُس نے یہ اندازہ لگا لیا تھا، گو کہ وہ اُس شخص کو پہچانتا نہ تھا لیکن اُسے معلوم تھا کہ اُس کی تجربہ کار آنکھیں جیسے ہی اُسے دیکھیں گی، پہچان لیں گی۔ اُس نے سوچا کہ کاش یہ نووارد بھی اُتنا ہی اہل ہو جتنا کہ اِس سے قبل والا تھا۔

’’جانے کیوں ؟‘‘اُس نے سوچا۔ ’’اِن باتوں کی ترسیل زبانی کرائی جاتی ہے اور پھر یہ کوئی ایسے راز تو ہیں نہیں ؟خدا تو اپنی مخلوقات پر اِنہیں  اِلقا ء کر تا رہتا ہے۔‘‘

بزرگ الکیمسٹ کے ذہن میں بس اتنا آ سکا کہ اِس خصوصی نظامِ ترسیل کی اصل وجہ شاید یہی ہے کہ یہ باتیں حیاتِ طاہرہ سے مشتق ہیں اور اِنہیں تصویروں اور لفظوں میں گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

تصویریں اور الفاظ انسانی ذہن کو ایسا سحر زدہ کر دیتے ہیں کہ وہ آفاقی زبان کو بالکل بھول ہی جاتا ہے۔

 

 

 

(۲۸)

 

لڑکا جو کچھ دیکھ رہا تھا وہ ناقابلِ یقین تھا۔اُسنے جغرافیہ کی کتاب میں کبھی دیکھا تھا کہ نخلستان تو بس ایک آدھ کنویں کے نزدیک کھجور کے چند درخت اور تھوڑی بہت آبادی کا نام تھا لیکن یہ نخلستان تو اسپین کے بہت سے قصبوں سے بھی کہیں بڑا تھا۔ کوئی تین سو کنویں تھے، پچاس ہزار سے بھی زیادہ کھجور کے درخت اور اُن کے درمیان رنگ برنگ کے لا تعداد خیمے پھیلے ہوئے تھے۔

’’یہ تو داستانِ الِف لیلہ کا سا منظر ہے۔‘‘ انگریز جو بزرگ الکیمسٹ سے ملنے کے لئے بے تاب ہوا جا رہا تھا، متاثر ہوتے ہوئے بولا:

نووارد اجنبیوں اور جانوروں کو دیکھ کر آبادی کے بچوں نے شوق و استعجاب کے ساتھ اُنہیں گھیر لیا تھا۔ لوگ قبیلوں میں پھوٹ پڑنے والی جنگ کی خبریں جاننا چاہتے تھے اور عورتیں تاجروں کے ساتھ لائے ہوئے کپڑے اور پتھروں کو دیکھنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لئے کوشاں تھیں۔ ریگستان کے سکوت کا تصوّر اب ایک خواب بن چکا تھا۔ لوگ بے تکان بولے جا رہے تھے۔ قہقہے اور بلند آوازیں ایسے پھوٹ پڑی تھیں جیسے کسی روحانی دنیا میں کچھ وقت گزار کر انسانوں کو اچانک اِنہیں جیسے لوگوں کے بیچ ڈال دیا گیا ہو۔ اطمینان اور خوشی اُن کے چہروں سے عیاں تھی۔

ریگستان سے گزرتے ہوئے ہر شخص انتہائی محتاط تھا لیکن ساربان نے لڑکے کو بتا دیا تھا کہ نخلستان میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ جنگ کے دِنوں میں نخلستان غیر جانب دار علاقے تسلیم کئے جاتے ہیں کیونکہ اُن کی زیادہ تر آبادی عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ریگستان میں نخلستان کہیں بھی ہوسکتے تھے لیکن قبیلوں کی آپسی جنگیں ریگستانی حصہ میں ہوتی تھیں اور نخلستانوں کو جنگ کے زمانہ میں جائے پناہ کے طور پر محفوظ رکھا جاتا تھا۔

خاصی دقّت کے بعد ہی سالارِ کارواں عام لوگوں کو ایک جگہ جمع کر سکا۔ اُسے بعض ہدایتیں دنیا تھیں۔ اوّلین بات اُس نے یہ بتائی کہ کاروان اُس وقت تک یہیں مقیم رہے گا جب تک کہ قبیلوں کی جنگ ختم نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ ہم لوگ مہمان ہیں، اِس لئے مقامی لوگوں کے ساتھ یہیں رہیں گے۔ البتّہ مقامی روایت کے مطابق مہمانوں کو رہائش کے لئے سب سے اچھی جگہ دی جائے گی۔ پھر اُس نے حکم دیا کہ تمام لوگ اور خود اُس کے محافظ بھی اپنے اپنے ہتھیار مقامی قبیلہ کے سردار کے متعیّن کردہ فرد کے حوالہ کر دیں گے اور یہاں کی روایتوں کا خیال رکھیں۔

’’اصل میں یہ جنگ کے اصول ہیں۔‘‘ سردار نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ نخلستان کے علاقوں میں فوجوں یا فوجی ٹکڑیوں کو پناہ نہیں دی جاتی۔

اِس دوران جب انگریز نے اپنے تھیلے سے ایک خوبصورت ریوالور نکال کر اُس آدمی کے حوالہ کی جو ہتھیار جمع کر رہا تھا تو لڑکے کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا۔

’’تم یہ ریوالور کیوں لائے ہو۔ ‘‘اُس نے پوچھا۔

’’لوگوں پر بھروسہ کرنے میں اِس سے بڑی مدد ملتی ہے۔‘‘ انگریز کا جواب تھا۔

لڑکے کا ذہن پھر خزانہ کے خیال میں بھٹکنے لگا۔ جیسے جیسے امید بندھتی ہے نئی نئی دقّتیں اور رکاوٹیں سامنے آ جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مبتداً کی خوش بختی کا اصول اب کارفرما نہیں رہا۔ لڑکے کو شاہ سیلم کا خیال آ رہا تھا۔ اُس نے سوچا کہ حصولِ مقصد کی جدو جہد میں ہر مقام پر اُس کے صبر و استقامت اور ہمّت کا امتحان ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ جلد بازی اور بے صبری کو اُس نے اپنا رفیقِ سفر بنا لیا تو امکان غالب ہے کہ وہ علامتیں اور نشانیاں جو خدا نے راستہ میں چھوڑ رکھی ہیں، اُنہیں پہچاننا مشکل ہو جائے۔

یہ علامتیں اُس کے راستہ میں خدا نے رکھی ہیں۔ اِس خیال نے اُس کو چونکا دیا۔ اب تک تو وہ اِنہیں شگون سمجھ کر محض اِس دنیا کی چیزیں سمجھ رہا تھا۔ بالکل ایسی ہی چیزیں جیسے کھانا پینا اور سونا یا محبت کی جستجو اور روزی کی تلاش، لیکن ابھی تک اُس کے ذہن میں یہ بات نہ آئی تھی کہ یہ نشانیاں ایک طرح سے اِلٰہی اِشارے ہیں جن کے ذریعہ اُسے راستہ و کھانا مقصود ہے۔

’’بے صبرا پن ٹھیک نہیں ‘‘ اُس نے اپنے آپ سے کہا۔ ساربان نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ جب کھانے کا وقت ہو تو کھاؤ اور جب آگے بڑھنے کا وقت ہو تو بڑھو۔

پہلے دن تو سب بشمول انگریز تھکے ہارے تھے، سو گئے۔لڑکے کو جس خیمہ میں سونے کو جگہ ملی وہ انگریز سے کافی دور تھی اور اُس کے ساتھ پانچ دوسرے ہم عمر نوجوان بھی تھے۔ یہ لوگ ریگستانی تھے اور لڑکے سے بڑے بڑے شہروں کے قصہ اور واقعات سننے میں اُنہیں بڑا لطف آیا۔

لڑکے نے اُنہیں وہ تجربات اور واقعات سنائے جب وہ چرواہا تھا۔وہ بلّوری دکان کے واقعات سنانے ہی جا رہا تھا کہ انگریز اُسے تلاش کرتا وہاں پہنچ گیا۔

’’میں تمہیں صبح سے تلاش کر رہا ہوں۔‘‘اُس نے لڑکے کے ساتھ خیمہ سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔ الکیمسٹ کی تلاش میں مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ پہلے یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کہاں رہتا ہے۔

پہلے تو اُنہوں نے خود ہی اُسے تلاش کرنے کی کوشش کی۔اُن کے خیال میں الکیمسٹ دوسرے عام لوگوں سے بالکل مختلف شخصیت کا حامل ہونا چاہیے تھا۔نہ صرف یہ کہ اُس کا رہنا، سہنا  بھی مقامی لوگوں جیسا نہیں ہو گا بلکہ ضرور وہ اپنے خیمہ میں تنور جلائے ہمہ وقت کسی تجربہ میں مصروف ہو گا۔ اِسی تصوّر کی روشنی میں اُنہوں نے خاصا تلاش کیا۔الکیمسٹ تو اُنہیں نہ ملا البتّہ اِس دوران یہ ضرور معلوم ہوا کہ نخلستان اُن کے انداز ے سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور یہاں سیکڑوں خیمے تنے ہوئے ہیں۔

’’آج تو پورا دن ہی بے کار ہو گیا۔ ‘‘  انگریز لڑکے کے ساتھ ایک کنویں کے قریب بیٹھتے ہوئے بولا۔

’’کسی سے پوچھنا پڑے گا‘‘ لڑکے نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔

انگریز نہیں چاہتا تھا کہ اُس کا مقصد کسی اور کو معلوم ہو جائے۔ چنانچہ لڑکے کی بات سن کر وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکا لیکن بعد میں وہ تیار ہو گیا اور یہ طے ہوا کہ لڑکا جو اُس کے مقابلہ میں بہتر عربی بولتا تھا، یہ کام کرے گا۔ چنانچہ لڑکے نے اُس عورت سے جو ابھی ابھی پانی بھرنے آئی، پوچھنے کا فیصلہ کر لیا۔

صبح بخیر خاتون ! یہاں نخلستان میں الکیمسٹ کہاں رہتا ہے، کیا آپ بتا سکیں گی؟

عورت نے بتایا کہ ’’ایسے کسی آدمی کے متعلق تو اُس نے سنا بھی نہیں ‘‘ اور تیزی سے آگے بڑھ گئی لیکن جانے سے پہلے اُس کے لڑکے کو اتنا ضرور بتایا کہ ’’اِس علاقے کی روایت یہ ہے کہ کوئی اجنبی شادی شدہ عورتوں سے بات نہیں کرتا۔ اِن مقامی روایتوں کا احترام کرو اور جو کوئی عورت سیاہ لباس پہنے ہو سمجھو کہ وہ شادی شدہ ہے۔‘‘

انگریز کو خاصی مایوسی ہوئی۔ لگا کہ اُس نے سفر ہی بے کار کیا تھا۔ لڑکے کو بھی دکھ تھا۔ اُس نے سوچا کہ بزرگ شاہ کی یہ بات غلط تو ہو نہیں سکتی کہ جب کوئی اپنے مقدّر کے حصول کی کوشش کرتا ہے تو دنیا کی تمام قوّتیں اُس کی معاونت کرتی ہیں۔

’’میں نے کسی الکیمسٹ کے بارے میں آج تک نہیں سنا‘‘ لڑکا بولا۔ ’’ممکن ہے کہ یہاں بھی کوئی واقف نہ ہو۔‘‘

لیکن انگریز کی آنکھوں میں یکایک چمک پیدا ہوئی اور بولا، ’’ ممکن ہے لوگ یہی نہ جانتے ہوں کہ الکیمسٹ کسے کہتے ہیں۔ چلو یہ معلوم کریں کہ یہاں کے لوگ بیماریوں کا علاج کس سے کراتے ہیں۔‘‘

کنویں سے پانی بھرنے متعدد خواتین آئیں لیکن سب ہی سیاہ لباس میں تھیں اور لڑکے کی کسی سے بات کرنے کی ہمّت نہ ہوتی۔ حالانکہ انگریز نے کئی بار اُس سے کہا کہ شاید کوئی بتا دے، لیکن اِس دوران ایک مرد نظر آیا۔

’’یہاں جب کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو آپ لوگ کس سے علاج کراتے ہیں ؟‘‘ لڑکے نے پوچھا۔ ’’بیماروں کا علاج تو بس اللہ ہی کرتا ہے۔‘‘ آدمی بولا۔ اجنبیوں کو دیکھ کر وہ ذرا جھجھک رہا تھا۔ ’’شاید آپ لوگ کسی جادو ٹونہ کرنے والے کو تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے قرآن کی بعض آیات پڑھیں اور آگے بڑھ گیا۔

اِس دوران ایک اور آدمی نظر آیا۔ وہ ذرا معمّر تھا اور ایک چھوٹی سی بالٹی لئے ہوئے تھا۔ لڑکے نے اُس سے بھی یہی سوال دہرایا۔

’’ایسے کسی آدمی کی تلاش کس لئے کر رہے ہو؟‘‘ عرب نے پوچھا۔

’’میرے ساتھی نے ایسے آدمی سے ملنے کے لئے مہینوں کا سفر کیا ہے۔‘‘  لڑکا بولا۔ عرب نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر بولا کہ’’ اگر ایسا کوئی آدمی یہاں موجود ہے تو آپ لوگ یہ سمجھ لیں کہ وہ انتہائی طاقتور انسان ہے اور اُس سے ملنا انتہائی مشکل کام ہے۔ سردارِ قبیلہ بھی اُس کی اجازت کے بغیر اُس سے ملاقات نہیں کر سکتا۔‘‘

’’جنگ ختم ہو جائے تو بہتر ہے کہ کاروان کے ساتھ چلے جاؤ اور نخلستان کے معمولات میں دخل نہ دو۔‘‘ عرب یہ کہتے ہوئے چلا گیا۔

لیکن انگریز کو یقین ہو چلا تھا کہ ایسا شخص ضرور یہیں موجود ہے۔ بالآخر ایک نوجوان عورت پانی بھرنے آئی۔ اُس کا لباس سیاہ نہ تھا اور شانے پر پانی کا برتن رکھا ہوا تھا اور سر نقاب سے ڈھکا ہوا اور چہرہ کھلا ہوا تھا۔ سوال پوچھنے کے لئے لڑکا اُس کی طرف بڑھا۔

وہ لمحہ !  جیسے وقت کی رفتار تھم گئی تھی اور روحِ کائنات سمٹ کر اُس کے اندر موجزن ہو گئی تھی۔ گہری سیاہ آنکھیں، سکوت وتبسّم کی پس و پیش سے مرصّع لب، نظر پڑی تو وہ آفاقی زبان کے اُس اہم ترین عنصر کی مکمّل گرفت میں تھاجسے دنیا کی ہر شی سمجھ لیتی ہے اور کوئی قلب اِس واردات سے بچ نہیں سکا تھا۔ محبت یعنی جذبۂ عشق جو شاید انسانیت سے پہلے پیدا ہوا تھا اور اِس ریگستان سے بھی قدیم تھا۔ دو نگاہوں کے ملنے میں پنہاں یہ کشش عجیب و غریب بھی تھی اور یکساں بھی۔کنویں کے قریب کی یہ واردات اُسی کشش کا شاخسانہ تھی۔ وہ مسکرائی اور یوں لگا کہ وہ شگون جس کا وہ عرصہ سے منتظر تھا، اُس کے سامنے تھا۔ اُس کے روئیں روئیں نے گواہی دی کہ شاید اِسی واردات کا وہ زندگی بھر سے انتظار کر رہا تھا۔ شاید یہی وہ کشش تھی جس کی تلاش نے گلہ بانی کے شوق، کتابوں کے مطالعہ کے جوش اور بلّوری ظروف کی چمک اور ریگستان کے موہ لینے والے سکوت سے ہمکنار ہوتے ہوئے بھی اُس کی روح کو بے قرار رکھا تھا۔

لفظوں سے ماور ااِس زبان کو کسی تشریح کی ضرورت نہ تھی۔ جیسے لازوال وقت کے درمیان کائنات کا سفر کسی وضاحت کا محتاج نہ تھا۔ یہ وارداتِ قلبی بھی کسی علامت کی مرہون نہ تھی۔ لڑکے نے محسوس کیا کہ اِس لمحہ وہ اپنی حیات سے وابستہ واحد عورت کے قریب کھڑا ہے اور خود وہ عورت بھی الفاظ کے وسیلہ کو بروئے کار لائے بغیر یہ گواہی دے رہی ہے کہ اُس کے جذبہ مختلف نہیں ہیں۔ یقین تو بس اِسی لمحے کو حاصل تھا اور باقی سب یا تو تھا ہی نہیں یا پھر گمان کی سر حدوں کے قریب۔ لڑکے کو یاد آیا کہ اُس کے بزرگ کہتے تھے کہ کسی سے وابستہ ہونے سے قبل وارداتِ قلبی ضروری ہے لیکن اُس نے سوچا کہ کہنے والوں کو اُس آفاقی زبان کا اندازہ تو بالکل نہ رہا ہو گا لیکن یہ زبان اگر معلوم ہو تو یہ سمجھ لینا ذرا مشکل  نہیں کہ دور دراز ریگستان میں یا کسی بڑے شہر کے عالیشان مکان میں کوئی تمہارا منتظر ہے اور اگر اچانک یہ مل جائیں اور نظریں چار ہو جائیں تو پھر ماضی اور مستقبل مدغم ہو جاتے ہیں اور تمام تر حقیقت بس اُس لمحۂ موجود میں مرتکز ہو کر اُس حیرت انگیز یقین کا اعلان کرتی ہے کہ  اِس زمین کے اوپر اور اِس آسمان کے نیچے ہر وقوعہ کا مصنّف اور خالق ایک اور صرف ایک ہی ہاتھ ہے۔ یہی جذبۂ عشق کی تخلیق کرتا ہے اور یہی ہر انسانی روح کے لئے ایک رفیقِ روح پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ عشق نہ ہو تو خواب لا یعنی اور روح بے حقیقت۔

’’مکتوب :‘‘ لڑکے کی زبان سے نکلا۔

انگریز لڑکے کا ہاتھ ہلا کر بولا۔ ’’چلو اُس سے پوچھو۔‘‘

لڑکے نے ذرا قریب ہونے کے لئے قدم اُٹھایا تو لڑکی کے ہونٹوں پر حیا آمیز تبسّم کے سائے لہرا رہے تھے۔ لڑکا بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔

’’تمہارا کیا نام ہے؟‘‘ بمشکل اُس کی زبان سے نکلا۔

’’فاطمہ‘‘ لڑکی نظریں ہٹاتے ہوئے بولی۔

’’میرے وطن میں بھی بہت سی عورتیں یہ نام رکھتی ہیں۔‘‘

’’ رسول اللہ ؐ کی بیٹی کا نام ہے۔‘‘ فاطمہ بولی۔

’’ہمارے فاتحین کے ساتھ یہ نام بھی ہر جگہ گیا۔‘‘ حسین لڑکی واضح احساسِ تفاخر کے ساتھ مسلم فاتحین کا حوالہ دے رہی تھی۔

انگریز نے پھر لڑکے کو ٹہوکا دیا تواُس نے پوچھا کہ ’’یہاں کے لوگ بیماروں کا علاج کس سے کراتے ہیں ؟‘‘

’’ہاں ! ایک آدمی ہے جو دنیا کے تمام راز جانتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔ ’’وہ ریگستان کے جنوں سے بھی بات چیت کر لیتا ہے۔‘‘

جنوں کے بارے میں خیال تھا کہ وہ بھی خدا کی بنائی ہوئی نظر نہ آنے والی مخلوق ہیں اور نیک و بد دونوں قسم کے ہوتے ہیں۔جنوب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عجیب و غریب آدمی اُس طرف رہتا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی لڑکی نے اپنے برتن میں پانی بھرا اور لیکر چلی گئی۔

انگریز کے لئے بس اِتنا ہی اشارہ کافی تھا۔ وہ الکیمسٹ کی تلاش میں فوراً ہی چل پڑا۔ لڑکا دیر تک کنویں کے کنارے بیٹھا رہا۔ لڑکی اُس کے ذہن پر چھا ئی ہوئی تھی۔ اُسے لگا کہ طارفہ میں ایک روز افریقی سمندر سے گزر کر آنے والی مشکبار ہوائیں جو اُس کے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں شاید وہ اِسی لڑکی کا لمس پا کر خوشبو سے معطّر ہو گئی تھیں۔وہ درد اور کسک بھی شاید اِسی کی دین تھا جسے وہ اُس وقت سے محسوس کرتا تھا جب اُس لڑکی کے وجود کا علم بھی اُسے نہ تھا۔ اُسے لگا کہ اِس کی تمنّا میں وہ توانائی ہے کہ دنیا کا کوئی خزانہ بھی اب اُس کی دسترس سے باہر نہیں۔

اگلے دن لڑکا پھر اُس سے ملنے کی امید میں کنویں پر آیا، لیکن وہاں انگریز کو دیکھ کر اُسے تعجب ہوا۔ انگریز ریگستان میں کسی جستجو میں مصروف تھا۔ پھر وہ لڑکے سے بولا۔

’’میں کل شام تک اُس کا منتظر رہا۔ شام کے پہلے تارے کے ساتھ ہی وہ بھی باہر آیا۔ میں نے اپنی تلاش کا مقصد اُسے بتایا تو اُس نے پوچھا کہ کیا تم نے جستہ کو سونے میں تبدیل کر لیا ہے ‘‘  تو میرے یہ کہنے پر کہ ’’میں اُس کی بابت دریافت کرنے تو آپ کے پاس آیا ہوں ‘‘اُس نے کہا کہ’’ مجھے مزید کوشش کرنا چاہیے‘‘۔ اُس نے صرف اتنا ہی کہا کہ ’’جاؤ اور کوشش کرو۔‘‘

لڑکے نے یہ سن کر کہا تو کچھ نہیں لیکن سوچتا رہا کہ بیچارہ انگریز، اتنی دِقّتیں جھیل کر محض یہی سننے کے لئے آیا تھا کہ جاؤ اِس تجربہ کو دہراؤ، حالانکہ وہ اِسے متعدّد بار کر چکا تھا۔

’’ٹھیک ہے تو پھر کوشش کرو۔‘‘ لڑکا انگریز سے بولا۔

’’ہاں !میں یہی کرنے جا رہا ہوں۔ بس اب از سرِ نو شروع کرنا ہے۔‘‘

انگریز یہ کہہ کر چل دیا تو فاطمہ آ گئی اور اپنے برتن بھرنے لگی۔

’’میں صرف ایک یہ بات بتانے کے لئے یہاں آیا ہوں۔‘‘ وہ فاطمہ سے مخاطب تھا۔ ’’میں شدّت سے تمہاری محبت میں گرفتار ہو گیا ہوں، اور کل کے چند لمحوں کو زندگی بھر کی رفاقت میں بدلنا چاہتا ہوں۔میں اپنی روایتیں بھولتا جا رہا ہوں۔ کیا تم میری بیوی بن سکتی ہو؟‘‘ لڑکی کے ہاتھ سے برتن چھوٹ گیا اور پانی بہہ گیا۔

’’میں یہاں ہر روز تمہارا منتظر رہا کروں گا۔ میں نے ریگستان کا سفر تو ایک خزانہ کی جستجو میں کیا تھا جو کہیں اہرام کے قریب موجود ہے۔یہ جنگ جس کی بناء پر ہم لوگوں کو یہاں رکنا پڑا ہے، ابھی تک میں اُس کو ایک لعنت سمجھتا رہا تھا لیکن میرے لئے تو ایک بڑی نعمت ثابت ہوئی ہے کہ اِس کے نتیجے میں تم تک میری رسائی ہو سکی۔

’’لیکن جنگ تو ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گی۔‘‘ لڑکی بولی۔

لڑکے نے سوال کے پس منظر میں اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے کھجور کے درختوں پر نظر ڈالی اور سوچا کہ وہ تو ایک چرواہا تھا، دوبارہ بھی چرواہا بن سکتا ہے۔ خزانے کے مقابلہ میں فاطمہ کہیں زیادہ اہم ہے اُس کی زندگی کے لئے۔

قبیلوں کے لوگ ہمیشہ خزانوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔‘‘ لڑکی بولی۔ شاید وہ سمجھ گئی تھی کہ لڑکا کیا سوچ رہا ہے۔ ’’اور ریگستان کی عورتیں ہمیشہ اپنے اُن مردوں پر فخر کرتی ہیں۔‘‘

اُس نے اپنا برتن دوبارہ بھرا اور چل دی۔

لڑکا اب روز فاطمہ سے ملنے وہاں جانے لگا۔ اُس نے اپنی زندگی کے ہر ورق کو اُلٹ کر اُس کے سامنے رکھ دیا۔ چرواہے کی زندگی، شاہ سیلم سے ملاقات اور بلّوری ظروف کی دکان وغیرہ کے متعلق سب کچھ اُسے بتا یا۔ پندرہ بیس منٹ روز کے لمحات، اُسے لگتا کہ یہ کبھی ختم نہ ہوں اور یہ لمحے پورے دن کو محیط ہو جائیں۔

ایک روز جب کوئی مہینہ بھر گزر گیا تو میرِ کارواں نے تمام مسافروں کی ایک میٹنگ کا اعلان کیا۔ وہ کچھ ہدایات دینا چاہتا تھا۔

’’ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں کہ جنگ کا خاتمہ کب ہو گا۔ اِس حالت میں سفر جاری رکھنا ممکن نہیں۔‘‘وہ کہنے لگا۔ یہ جنگ لمبے عرصہ ممکن ہے کہ سالوں تک جاری رہے۔ فریقین دونوں ہی طاقتور ہیں اور دونوں کے لئے جنگ کی اہمیت برابر ہی ہے۔یہ جنگ نیکی اور بدی کی جنگ نہیں ہے بلکہ غلبۂ اقتدار کے لئے ہے اور ایسی جنگیں زیادہ دیر تک چلتی ہیں۔

لوگ اپنے اپنے مقام کو واپس لوٹ گئے۔اُس روز دوپہر میں لڑکے کو فاطمہ سے ملاقات کرنا تھی۔ اُس کی آواز میں جھجھک نمایاں تھی۔

’’ملاقات کے دوسرے دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ رک رک کر بولی۔۔۔۔ ’’تم نے اظہارِ مدعا کیا تھا پھر تم نے کچھ آفاقی زبان کے بارے میں بتایا تھا اور کچھ یہ بھی کہ یہ ایک ذی روح کائنات ہے، مجھے وہ سب کچھ تو یاد نہیں لیکن اتنا جان گئی ہوں کہ میں شاید۔۔۔۔۔ میں تمہارے وجود کا ایک حصہ ہوں۔۔۔۔۔ اب میں تم سے الگ محسوس نہیں ہوتی۔‘‘

وہ جیسے خواب کی حالت میں تھا۔ آواز کے ترنّم نے اُسے مسحور سا کر دیا تھا۔ وہ ایسے ہی بولتی رَہے اور وہ سنتا رَہے۔اُسے لگا کہ درختوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی ہوا کی حسین موسیقی فاطمہ کی آواز کے سامنے کچھ نہیں، ہیچ ہے۔

’’ایسا لگتا ہے کہ میں جانے کب سے یہاں نخلستان میں تمہاری منتظر ہوں۔ نہ مجھے اپنا ماضی یاد ہے اور نہ ہی مستقبل کی پرواہ، اور نہ ہی یہ کہ ریگستانی مرد اپنی عورتوں کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں بچپن سے ایک خواب دیکھتی رہی ہوں   کہ ایک روز ریگستان سے مجھے کوئی انوکھا تحفہ ملے گا۔ مجھے یقین ہے کہ میرا تحفہ مجھے مل گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ تم ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ تم‘‘

لڑکے نے اُس کا ہاتھ تھامنا چاہا لیکن فاطمہ کا ہاتھ پانی کے جگ کو پکڑے رہا۔

’’تمہارے وہ خواب، وہ بوڑھا بادشاہ اور خزانہ اور تمہاری وہ تمام علامتیں اور نشانیاں مجھے سب عزیز ہیں، کہ اُنہیں کی بدولت تو تم ملے ہو۔ میں اب تمہارے خوابوں کا حصہ بن گئی ہوں اور شاید تمہاری حق دار بھی۔‘‘

شاید میں اِسی بناء پر یہ چاہتی ہوں کہ تم اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہو۔ جنگ کے خاتمہ کا انتظار ہو تو ہو ورنہ اپنے خوابوں کی جستجو اور اُن کی تعبیر کی تلاش میری وجہ سے ہرگز نہ روکو۔ ریت کے پہاڑ آج یہاں ہیں، کل کہیں اور لیکن ریگستان اپنی جگہ ویسا ہی رہے گا۔ یقین کرو کہ میرے جذبے بھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ لیکن قبائلی زندگی میں ہماری روایتوں کوبڑی اہمیت حاصل ہے اور ہم اپنے جذبوں کو قربان کر دیتے ہیں اور عظیم روایتوں کی پاس داری کے لئے زندگی بھر کا روگ دل کو لگا لیتے ہیں۔ فاطمہ واضح طور پر اپنے جذبات پر مذہبی تشخص کی گرفت کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔

’’مکتوب!‘‘ لڑکے کی طرف الوداعی نظر ڈالتے ہوئے بولی اور واپس جانے کے لئے مُڑی اور ایک لمحہ کے لئے اُس نے ٹھہرتے ہوئے کہا، ’’میں اگر واقعی تمہارے خوابوں کا حصہ ہوں تو تم ضرور ایک دن واپس آؤ گے مجھے یقین ہے۔‘‘  اُس کی آواز میں تھرتھراہٹ نمایاں تھی۔

لڑکی کے چلے جانے پر وہ بہت غمگین تھا اور ایک ذہنی کشمکش کا شکار بھی۔ اپنی مذہبی روایت اُس کے لئے اکثر ایک سوالیہ نشان بنی تھی لیکن فاطمہ کے الفاظ نے اُسے ایک نتیجہ پر پہنچنے میں مدد کی تھی اور اب اُس کی ہر بات اُسے عزیز لگنے لگی تھی۔اُسے وہ گلہ بان یاد آئے جنہیں اپنی بیویوں کو چھوڑ کر جاتے ہوئے کیسے کیسے سمجھانا پڑتا تھا۔ محبت اُنہیں کھینچتی تھی اور اپنوں کے ساتھ رہنے کے لئے مجبور کرتی تھی۔

اگلے روز اُس نے فاطمہ کو یہ سب بتایا تھا۔

’’یہ ریگستان اکثر ہمارے آدمیوں کو ہم سے دور لے جاتا ہے۔ بعض اوقات کبھی نہ واپس آنے کے لئے۔‘‘وہ بولی، ’’ہمیں یہ خوب معلوم ہے لیکن ہم اُس کے عادی ہیں، جو واپس نہیں آتے وہ یادوں کا حصہ بن جاتے ہیں اور اُس کے یہاں حاضر ہو جاتے ہیں جہاں ہم سب کو حاضر ہونا ہے۔‘‘

’’اور کچھ واپس بھی آتے ہیں۔ جب وہ آ جاتے ہیں تو دوسری عورتیں بھی امید سے اپنے دامن بھر کر خوش ہو جاتی ہیں۔ اُن عورتوں کی خوشیاں بڑی قابلِ رشک ہوتی ہیں۔ اب تم چلے جاؤ گے تو میں بھی تمہارے انتظار میں راہ تکوں گی، دوسری عورتوں کی طرح،  سراپا انتظار‘‘

’’سنو ! میں ایک ریگستانی عورت ہوں اور مجھے اِس پر فخر ہے کہ اپنے شوہر کو آزاد ہواؤں کی طرح آزاد، رکاوٹوں کی پرواہ نہ کرنے والا اور آزادی سے اپنی راہوں کی تعمیر کرنے والا دیکھنا چاہتی ہوں، لیکن اگر کبھی غم آ گھیرے تو میں اِس حقیقت کو اُسی طرح تسلیم کروں گی کہ یہ تو ہم سب کے ساتھ ایک دن ہونا ہی ہے۔ تم سے پھر ملنے کی تمنّا اِس زندگی کو منوّر کر کے تابانی بخشتی رہے گی۔‘‘

لڑکا انگریز کی تلاش میں چل دیا۔ وہ اُس سے فاطمہ کے متعلق باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن جب اُس نے دیکھا کہ انگریز نے اپنے خیمہ کے سامنے ایک بڑا تندور بنا لیا ہے تو اُسے بڑا تعجب ہوا۔ انگریز کی ہمت اور لگن قابلِ دید تھی۔

انگریز کی آنکھوں کی غیر معمولی چمک کو وہ محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔ اُس نے سوچا کہ انگریز کتابوں کے مطالعہ کے دوران اتنا پُر جوش نہ تھا جتنا آج اِس ریگستان میں تجربہ کے دوران ہے۔

’’یہ پہلا قدم ہے۔‘‘ انگریز بولا۔ ’’پہلے گندھک الگ کرنا ہے۔ اِس میں کامیابی کی یہ شرط ہے کہ ناکامی کا خوف بالکل نہ ہو۔ اِس سے قبل ناکامی کی وجہ یہی تھی کہ میں ناکامی کے خوف سے ڈرتا اور گھبراتا تھا۔ اب جو کام میں کر رہا ہوں وہ مجھے اِس سے قبل ہی کرنا چاہیے تھا، لیکن ٹھیک ہے جو ہو ا سو ہوا۔ میرے بیس سال ضائع نہیں ہوئے۔

وہ تندور میں لکڑیاں جھونک رہا تھا اور لڑکا اُس کے عمل کو اُس وقت تک دیکھتا رہا جب تک کہ غروبِ آفتاب کی رنگت سے سارا ریگستان گلاب زدہ نہ ہو گیا۔ اِسی منظر نے شاید اُسے ریگستان کے اندر دور تک جانے اور ریگستان کی فسوں بھری خاموشی میں اپنے بہت سے دیرینہ سوالوں پر غور و فکر کرنے کے لئے اُکسایا۔

کچھ دیر تک وہ کھجور کے درختوں کو نظروں میں چھپائے اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ ریگستانی ہوا اُس کے کانوں میں گنگناتی رہی۔ چھوٹے چھوٹے پتھر اُس کے پیروں کو اپنے وجود کا احساس دلاتے اور اِدھر اُدھر بکھری ہوئی سیپیاں یہ یقین دلاتی رہیں کہ ریگستان ایک زمانہ میں سمندر رہا ہو گا۔ تھک کر وہ ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور اُفق کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا۔ جیسے وہ اُس کے طلسم میں ڈوب جانا چاہتا ہو۔خیالوں کی رو بھٹکنے لگی۔۔۔۔ عشق کیا ہے؟ کیا یہ فراق ہے؟ یا اِس کے لئے وِصال ضروری ہے؟ لیکن فرق واضح نہ ہو سکا، لیکن فاطمہ تو ریگستانی عورت تھی۔ اُس کے بھٹکتے سوالوں کا جواب اگر کہیں مل سکتا ہے تو اِسی ریگستان میں، اُس نے سوچا۔

وہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اُسے اُوپر کی جانب کسی قسم کی حرکت کا احساس ہوا۔ سر اُٹھا یا تو عقابوں کا ایک جوڑا آسمان کی بلندی میں اُڑ رہا تھا۔

ہوا کے بہاؤ میں اُڑتے ہوئے عقابوں کو وہ دیکھتا رہا گو کہ اُن کی اُڑان میں کوئی ترتیب نہ تھی لیکن پھر بھی لڑکا اُس میں ایک معنویت محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔ اُس معنویت کو سمجھنا تو اُس کے بس سے باہر تھا لیکن دونوں پرندوں کی اُڑان کو بغور دیکھ کر کچھ سمجھنے کی کوشش کرنا اُس کی سرشت میں داخل ہو چکا تھا۔ اُس نے سوچا کہ ممکن کہ ریگستان کی یہ چڑیاں اُسے عشقِ بِلا وِصال کے معنی سمجھا سکیں۔

اچانک اُسے غنودگی نے آ لیا۔ ایسی کیفیت طاری ہو گئی جس میں دل یہ بھی کہتا تھا کہ وہ جاگا رہے اور یہ بھی کہ وہ سو جائے۔ غنودگی کی کیفیت میں وہ اپنے آپ سے بولا۔ ’’آفاقی زبان اب سمجھ میں آنے لگی ہے، اِس دنیا کی ہر چیز میرے نزدیک بامعنی ہے۔ عقابوں کی اُڑان بھی کوئی نہ کوئی پیغام دے رہی ہے۔’’جذبۂ عشق میں سرشاری بھی کتنی خوبصورت ہے۔ وہ شکر کے جذبے سے لبریز ہو اُٹھا۔جب عشق کا ادراک ہو جائے تو ہر چیز کہیں زیادہ با معنی اور ذی شعور معلوم ہونے لگتی ہے۔‘‘

اچانک ایک عقاب نے دوسرے پر جھپٹ کر حملہ کیا۔ تب ہی لڑکے کو تیزی سے غائب ہوتی ایک شبیہ نظر آئی جسمیں شمشیرِ بے نیام سے لیس ایک شہسوار فوج کی ٹکڑی نخلستان میں داخل ہو رہی تھی۔ یہ عکس فوراً ہی غائب ہو گیا لیکن لڑکے کو بری طرح جھنجھوڑ گیا۔ اُسے معلوم تھا کہ ریگستانوں میں سُراب نظر آتے رہتے ہیں۔ اُن کے بارے میں اُس نے بہت لوگوں سے پہلے سنا تھا اور اب بھی کئی بار خود ہی دیکھا چکا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ دراصل انسان کی وہ دبی ہوئی شدید خواہشیں ہوتی ہیں جو ریگستانی ریت کے اوپر بعض اوقات احاطۂ نظر میں آ جاتی ہیں … لیکن کس کی خواہش ہو گی کہ کوئی فوج اِس نخلستان پر حملہ کرے۔

اُس نے اُس کشفی عکس کو بھول کر پھر اُسی مراقبہ میں واپس آنا چاہا اور خیالوں کو مرتکز کرنے اور ریگستانی ریت اور پتھروں پر لرزاں گلابی سایوں پر غور کرنے کی کوشش کرنا چاہی لیکن دِل میں کوئی ایسی چیز بیٹھ چکی تھی کہ وہ اپنی اُس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا۔

’’علامتوں پر غور کرو‘‘ اُسے بوڑھے شاہ کا کہنا اچانک یاد آ گیا۔

لڑکے کو یاد آیا کہ جب کشفی عکس اُسے نظر آیا تھا تو اُسے لگا تھا کہ واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے۔وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور کھجور کے درختوں کی طرف واپس پلٹنے لگا۔ اُسے پھر لگا کہ اِدھر اُدھر بکھری ہوئی اشیاء اپنی زبان میں کچھ اُسے بتا رہی ہیں۔شاید یہ کہ اِس بار ریگستان محفوظ تھا اور نخلستان کو خطروں نے گھیر لیا تھا۔

ساربان درخت کی جڑ سے کمر لگائے ڈوبتے سورج کی خوبصورتی کو دیکھ رہا تھا کہ ریت کے ٹیلے کے دوسری طرف سے اُسے لڑکا آتا نظر آیا۔

’’ایک فوج آ رہی ہے۔‘‘ لڑکا اُسے دیکھتے ہی بولا۔ ‘‘ میں نے خواب دیکھا ہے۔‘‘

’’ریگستان میں آ کر آدمیوں کے قلب خواب دیکھنے لگتے ہیں۔‘‘ ساربان نے کہا۔

لڑکے نے اُسے بتایا کہ وہ اُڑتے ہوئے عقابوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک اُسے لگا کہ کائنات کی روح نے اُسے سمو لیا ہے۔

ساربان لڑکے کی بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ اُسے معلوم تھا کہ اِس زمین کی سطح پر پڑی ہوئی چیز اپنے اوپر گزرنے والے واقعات و حوادث کا ایک ریکارڈ رکھتی ہے اور کبھی بھی منکشف کر سکتی ہے۔ اُس کتاب کے کسی بھی ورق کو کھول کر دیکھا جا سکتا ہے جس طرح انسان کے ہاتھوں کی لکیریں، ماضی اور حال بیان کر سکتی ہیں اُسی طرح چڑیوں کی اُڑان بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غرضیکہ جو چیز بھی نظر آتی ہے اُس میں اُس لمحہ واقع ہونے والے  حوادثات کا عکس محفوظ ہوتا ہے، بلکہ صحیح تر بات یہ ہے کہ اشیاء یا واقعات اپنے طور پر کچھ بھی منکشف نہیں کرتیں بلکہ اصل تو وہ شخص ہے جو اُن کو دیکھ کر اُن واقعات کی تہہ کو پہنچ جاتا ہے اور کائنات اپنے راز اُگلنے لگتی ہے۔

ریگستان میں ایسے بہت سے بزرگ موجود تھے جو اپنی اِن خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے اور اِس طرح اپنے رزق کا سامان بھی کرتے تھے۔ اکثر ایسے لوگ الگ تھلگ رہتے اور زیادہ گھلنے ملنے سے گریز کرتے تھے۔ بعض بوڑھے اور عورتیں اُن سے اِسی بناء پر خوف زدہ بھی رہتے تھے۔ قبیلہ کے لوگ بھی اُن سے معلومات حاصل کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اگر پہلے ہی معلوم ہو جائے کہ ہونے والی جنگ میں آدمی کی موت واقع ہو جائے گی تو لوگ لڑنے سے کترانے لگیں گے۔ قبیلہ کے لوگ اُس جنگ کو ترجیح دیتے جس میں آنے والا کل کامیابی کے جوش سے لبریز ہو۔ مستقبل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے اور جو کچھ لکھا جا چکا ہے اُس میں انسان کی بہتری ہے۔ وہ تو حال ہی میں اور حال ہی کے لئے جیتے تھے اور یہ حال اپنے دامن میں اُن کے لئے بے شمار عجوبے رکھتا تھا اور تحیّرات سے لبریز تھا۔ دشمن کی تلوار کہاں ہے، اُس کا گھوڑا کہا ں ہے اور اُسے کیسی ضرب لگائی جائے کہ وہ اپنے کو بچا سکے۔ یہی سوالات اُن کی جستجو کا مرکز بنے رہتے تھے۔ ساربان کوئی جنگجو نہ تھا لیکن اُس نے اُن بزرگوں سے بہت سے سوالات پوچھے ضرور تھے، بہت سے صحیح نکلتے تھے اور کچھ غلط بھی۔ لیکن ایک روز اُن بزرگوں میں سب سے زیادہ معمّر شخص سے جب ساربان نے مستقبل کے متعلق سوال کیا تو اُس نے پلٹ کر یہ پوچھا کہ وہ آخر کیوں   مستقبل جاننا چاہتا ہے۔

’’تاکہ کچھ کام کر سکوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ساربان نے جواب دیا تھا۔

’’تو یہ مستقبل کہاں ہوا؟‘‘ بزرگ بولا۔

’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں مستقبل سے آگاہ ہو کر زیادہ بہتر طور پر کام کر سکوں۔‘‘

دیکھو اگر اچھا ہونے والا ہے تو اچانک ملنے والی خوشی کا لطف ہی کچھ اور ہے اور اگر کچھ برا ہونے والا ہے تو اُس کے واقع ہونے سے بہت پہلے سے ہی تمہارا وقت درد و کرب میں گزرے گا، جس کی تکلیف اُس کے اچانک رو نما ہونے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہو گی، بزرگ نے وضاحت کی تھی ’’ہر انسان مستقبل کے لئے جیتا اور اُس کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرتا ہے۔‘‘

مستقبل جاننے کی خواہش میری فطری خواہش ہے۔‘‘ ساربان بولا۔

ساربان کی یہ بات سن کر بزرگ نے زمین پر پانسے پھینکے اور زمین پر اُن کے گرنے کے انداز کو بغور دیکھ کر کچھ معنیٰ اخذ کئے۔ اُنہیں اُٹھا کر اپنے تھیلے میں رکھ لیا اور اُس روز کچھ نہ بتایا۔

’’میں پیش گوئیاں کر کے اپنے لئے رزق کماتا ہوں۔‘‘ اُس نے کہا۔ ’’میں مستقبل شناسی کا علم جانتا ہوں اور پانسوں کو اِس طرح پھینک سکتا ہوں کہ وہ وہاں تک گھُس جائیں جہاں سب کچھ لکھا ہوا ہے اور اِس طرح میں ماضی پڑھ لیتا ہوں۔جو بھلایا جا چکا ہے اُسے ظاہر کر سکتا ہوں اور آج کے حال میں جو علامتیں ہیں اُنہیں پڑھ سکتا ہوں۔

البتہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ جب مجھ سے کوئی مستقبل کے بارے میں پوچھتا ہے تو ایسا نہیں ہے کہ میں کہیں لکھے ہوئے کو پڑھ کر اُسے سناتا ہوں بلکہ در اصل میں مستقبل کے لئے کچھ اندازے لگاتا ہوں۔ دیکھو ! مستقبل تو صرف خدا کے ہاتھ میں ہے، اُسی کو معلوم ہے کہ کل کیا ہونا ہے۔ لیکن وہ کبھی کبھی اُسے کسی پر منکشف بھی کر دیتا ہے، لیکن یہ انتہائی غیر معمولی حالات ہی میں ہوتا ہے، اب تم یہ پوچھو گے کہ میں اندازہ کیسے قائم کرتا ہوں، تو سنو ! میں حال میں موجود علامتوں کو بنیاد بنا کر ہی یہ کام کرتا ہوں، در اصل حال ہی میں راز پوشیدہ ہے۔ اگر حال پر توجہ دی جائے تو اُسے بہتر کیا جا سکتا ہے اور اگر تم حال کو بہتر کر لو تو جو اُس کے بعد آنے والا ہے وہ بھی بہتر ہو جائے گا۔ مستقبل کو بھول جاؤ۔اُس کی بالکل فکر نہ کرو۔ آج کے بارے میں سوچواور اُسے صحیح تعلیم کے مطابق گزارو۔ یہ سوچتے ہوئے کہ اللہ انسانوں سے بے حد محبت کرتا ہے۔ہر دن اپنی ذات میں دائمی ہے اور ابدیت کا پیغامبر بھی۔‘‘

ساربان نے اُس سے پوچھا کہ’’ کن مخصوص حالات میں خدا اُسے مستقبل کے علم سے نوازے گا؟‘‘

’’جب بھی وہ چاہے۔اور خدا یہ شاذ و نادر ہی کرتا ہے اور جب وہ کرتا ہے تو اُس کی کوئی وجہ ہوتی ہے، وہ یہ کہ اِس مستقبل کے بارے میں یہی لکھا ہوا تھا کہ اُسے ایک دن بدل جانا ہے۔‘‘

ساربان نے سوچا کہ خدا نے لڑکے کو ہونے والے واقعہ کا ایک جز دکھا دیا ہے۔ ’’ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا نے اُس لڑکے ہی کو آخر کیوں آلۂ کار بنایا۔‘‘وہ سوچنے لگا، ’’قبیلہ کے سردار کو جا کر بتاؤ کہ فوجیں آ رہی ہیں۔‘‘ ساربان جیسے خیالات کے سمندر سے اچانک نکل آیا ہو۔

’’وہ مجھ پر ہنسیں گے۔‘‘ لڑکے میں جھجھک تھی۔

’’یہ ریگستان کے باشندے ہیں اور اِن علامتوں کو پہچانتے ہیں۔‘‘

’’تو ممکن ہے کہ اُنہیں یہ پہلے ہی معلوم ہو چکا ہو۔‘‘

’’اِن باتوں سے اُنہیں کوئی مطلب نہیں ہے۔ اُن کا ایمان ہے کہ اگر اللہ یہ چاہتا ہے کہ ہمیں یہ بات معلوم ہو جائے تو کوئی نہ کوئی آ کر اُنہیں بتا ہی دے گا۔ ایسا بارہا ہو چکا ہے۔ بس اِس بار آگاہ کرنے والے تم ہو گے۔

لڑکے کے خیال میں فاطمہ آبسی اور وہ سردارِ قبیلہ سے ملنے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا۔

 

 

 

(۲۹)

 

سردارِ قبیلہ کا سفید اور وسیع خیمہ نخلستان کے وسط میں تھا، لڑکے نے سامنے پہنچ کر کھڑے ہوئے محافظ کو بتایا کہ ’’میں سردار سے ملنا چاہتا ہوں، میں نے ریگستان میں بعض غیر معمولی علامتیں دیکھی ہیں۔‘‘

محافظ نے بات سنی لیکن کچھ جواب نہ دیا۔ البتہ وہ خیمہ کے اندر چلا گیا اور خاصی دیر تک اندر رہا۔ وہ جب باہر آیا تو ایک نوجوان عرب سفید اور سنہرے لباس پہنے اُس کے ساتھ تھا۔ لڑکے نے اُس آنے والے نوجوان عرب کو وہ سب بتایا جو اُس نے دیکھا تھا۔ اُس نے غور سے سنا اور انتظار کرنے کے لئے کہہ کر خیمہ میں غائب ہو گیا۔

رات کا اندھیرا چھانے لگا۔ کچھ تاجر اور کئی جھگڑتے ہوئے لوگ خیمہ میں داخل ہوئے جس سے نسبتاً پُر سکون ماحول میں گرمی پیدا ہو گئی۔ ایک ایک کر کے باہر جلتی ہوئی آگ بجھا دی گئی اور نخلستان بھی ریگستان کی طرح پُر حول سنّاٹے کی زد میں آ گیا، خیمے کی روشنی البتہ باقی تھی۔ تنہائی میں کھڑے کھڑے لڑکا فاطمہ کے تصوّر میں کھویا رہا۔ فاطمہ سے آخری ملاقات میں جو گفتگو ہوئی تھی اُس کو ابھی تک وہ کوئی آخری معنی نہ پہنا سکا تھا۔

گھنٹوں کے انتظار کے بعد آخر کار، محافظ نے اُسے خیمہ کے اندر جانے کی اجازت دی۔ وہ داخل ہوا تو خیمہ کی سجاوٹ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔اُس کے گمان میں بھی نہ تھا یہاں ریگستان کے بیچ ایسا خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔ فرش ایسے بیش قیمت قالینوں سے مزیّن تھا جن پر وہ آج تک نہ چل سکا تھا، خیمہ کی چھت سے سونے کے بنے شمع دان لٹک رہے تھے جن کی روشنی خیمہ کو منوّر کر رہی تھی۔ سردارانِ قبیلہ انتہائی قیمتی گدّوں پر نصف دائرے کی شکل میں بیٹھے چائے اور قہوہ سے مہمانوں کی ضیافت کر رہے تھے۔ متعدد غلام حُقّوں میں آگ کے انتظام پر معمور تھے۔ فضا  حُقّہ کے خوشبودار دھوئیں سے معطّر تھی۔

یہ کُل آٹھ سردار تھے لیکن بڑے سردار کو پہچاننے میں لڑکے کو ذرا بھی دیر نہ لگی۔ وہ درمیان میں بیٹھا اور اپنے لباسِ فاخرہ سے ممتاز تھا۔ سفید اور سنہری پوشاک میں ملبوس سردارِ قبیلہ کے برابر میں وہ جوان بیٹھا تھاجس سے لڑکا کچھ دیر قبل بات کر چکا تھا۔

’’یہ اجنبی کون ہے جو علامتوں کی بات کرتا ہے۔ ‘‘ایک سردار نے لڑکے گھورتے ہوئے پوچھا۔

’’یہ میں ہوں ‘‘ لڑکے نے جواباً کہا اور پوری بات دہرا دی۔

’’ریگستان ایک اجنبی کو یہ اشارے کیوں دینے لگا؟۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ ہم لوگ نسلوں سے یہاں رہ رہے ہیں ‘‘ دوسرے سردار نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔

’’میری آنکھیں ابھی تک اُس ریگستان کی عادی نہیں ہوئیں۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔ ’’میں وہ چیزیں یقیناً آسانی سے دیکھ سکتا ہوں جو عادی آنکھوں کو شاید نظر نہ آئیں اور شاید اِس لئے بھی کہ کائنات کی روح سے بھی میں واقف ہوں۔‘‘ وہ خود سے اپنے خیال میں مخاطب تھا۔

ــ’’نخلستان ایک غیر جانب دار علاقہ مانا جاتا ہے اُس پر کوئی بھی حملہ نہیں کرتا۔‘‘ ایک تیسرے سردار نے اظہارِ خیال کیا۔

’’میں نے جو دیکھا، وہ بتا دیا۔ اگر آپ لوگوں کو یقین نہیں ہے تو پھر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

سردار آپس میں بحث کرنے لگے۔ یہ بحث خاصی پُر جوش اور مقامی عربی میں تھی جو لڑکے کی سمجھ سے بالا تر تھی۔ لڑکے نے جاننا چاہا تو محافظ نے اُسے روک دیا۔

اُس کے دِل میں اچانک خوف کی ایک لہر آئی۔ وہ سوچنے لگا کہ اِن لوگوں کو بتا کر کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہو گئی ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ ساربان کو بتا کر اُس سے غلطی ہوئی لیکن اب پچھتانے سے کیا فائدہ۔

اچانک درمیان میں بیٹھا سردار بے خیالی میں مسکرا اُٹھا۔ لڑکے نے یہ دیکھ کر خاصی راحت محسوس کی۔ اُس سردار نے ابھی تک بحث میں حصّہ نہ لیا تھا اور ابھی تک ایک بات بھی اِس سلسلہ میں نہ کہی تھی۔ لیکن لڑکے کو آفاقی زبان کا فہم تھا۔ اُس نے محسوس کر لیا کہ خیمہ کے ماحول میں اب امن و سلامتی غالب ہے۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ یہاں آ کر اُس نے غلطی نہیں کی۔

بحث ختم ہوئی، سب لوگ خاموش ہو گئے اور سردارِ قبیل جو کچھ کہنے والا تھا، اُسے سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو گئے۔ سردار کی آواز اُبھری۔ وہ لڑکے سے مخاطب تھا۔ اُس کے انداز میں بے رُخی اور سردمہری نمایاں تھی۔

’’کوئی دو ہزار برس پہلے کا قصّہ ہے۔ ایک ملک میں ایک شخص خوابوں پر یقین رکھنے کی بناء پر ایک اندھے کنویں میں پھینک دیا گیا اور پھر اُسے بازار میں فروخت کر دیا گیا۔‘‘ بوڑھا سردار اب ایسی عربی میں بول رہا تھا جسے لڑکا سمجھ سکتا تھا۔ ہمارے تاجروں نے اُس آدمی کو خرید لیا اور اُسے مصر لے آئے۔ یہ تو ہم سب بھی جانتے ہیں کہ جو بھی خوابوں میں یقین رکھتا ہے، اُن کی تعبیر بھی جانتا ہے۔‘‘

سردار نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’جب شاہِ مصر نے خواب دیکھا کہ کچھ گائیں موٹی ہیں اور کچھ دبلی تو اُس آدمی نے مصر کو ایک قحط سے بچا لیا۔ اُس آدمی کا نام یوسف تھا اور وہ بھی تمہاری طرح ایک نئے ملک میں اجنبی تھا۔ اُس کی عمر بھی تمہاری جیسی رہی ہو گی۔‘‘

تھوڑی دیر کے لئے سردار رکا۔ اُس کی آنکھوں میں اب بھی دوستی کی چمک نہ تھی۔

’’ہم لوگ ہمیشہ روایتوں پر عمل کرتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ اُنہیں پر عمل کر کے اِس زمانے میں مصر قحط سے محفوظ رہ سکا اور اُسی کے نتیجہ میں مصر کی قوم ایک امیر ترین قوم بن گئی۔ ہماری روایتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ زندگی کیسے گزاری جائے، کائنات سے کس نہج پر تعلق قائم کیا جائے۔یہاں تک کہ بچوں کی شادیاں کس طرح کی جائیں۔ اِنہیں روایتوں سے ہم نے یہ جانا ہے کہ نخلستان ہمارے یہاں غیر جانب دار علاقے قرار دئے گئے ہیں۔ نخلستان دوست اور دشمن دونوں کے علاقوں میں ہو سکتے ہیں اور اگر معاہدہ نہ ہو اور اِس روایت پر عمل نہ کیا جائے تو ہر علاقہ غیر محفوظ ہے۔‘‘

سردار کی گفتگو کے دوران سب خاموش رہے۔

’’لیکن ہماری روایتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ ریگستان اگر کوئی پیغام دے تو اُس پر یقین کرنا چاہیے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا زیادہ عِلم اِس ریگستان کا مرہونِ منّت ہے۔‘‘

سردار نے کوئی اشارہ کیا اور سب لوگ کھڑے ہو گئے۔ تشست ختم ہو چکی تھی۔ حُقّوں کی آگ بجھا دی گئی اور محافظ تن کر کھڑے ہو گئے۔ لڑکا بھی جانے کے لئے اُٹھنے لگا تو بوڑھا سرداراُس سے پھر مخاطب ہوا۔

’’کل ہم لوگ اِس معاہدہ کو ختم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں جس کے تحت کسی کو بھی نخلستان میں ہتھیار لے کر چلنے کی اجازت نہ تھی۔ دن میں دشمن کی تلاش کی جائے اور سورج غروب ہوتے ہی مرد حضرات اپنے ہتھیار میرے پاس جمع کر دیں گے۔ دشمن کے ہر دس لوگوں کے مارے جانے پر تمہیں سونے کا ایک ٹکڑا بطور انعام ملے گا۔‘‘

’’لیکن خیال رہے کہ ہتھیار اُس وقت ہی اُٹھائے جائیں گے جب وہ حملہ آور ہوں۔ ہتھیاروں کی فطرت ایسی ہی متلوّن ہے جیسی ریگستان کی۔ اگر اُنہیں استعمال نہ کیا جائے تو اگلی بار یہ دھوکہ دے سکتے ہیں۔ یاد رکھو کہ کل دن کے ختم ہونے تک اگر کوئی ایک ہتھیار بھی استعمال نہ کیا جا سکا تو تمہارے ہی اوپر استعمال ہو گا۔‘‘

لڑکا سردار کے خیمہ سے باہر آیا تو رات کے اندھیرے پوری طرح چھا چکے تھے البتہ پورے چاند کی روشنی اُجالا کئے ہوئے تھی۔ اُس کا رُخ اپنے خیمہ کی طرف تھا جو یہاں سے کوئی بیس منٹ کی دوری پر تھا۔

جو کچھ ہو چکا تھا وہ خطرہ سے خالی نہ تھا۔ روحِ کائنات تک وہ پہنچا تو تھا لیکن یہاں تک پہنچنے کی قیمت بڑی بھاری ادا کرنی پڑ سکتی تھی۔ خود اُس کی جان بھی جا سکتی تھی۔ شرط بڑی خطرناک تھی، لیکن وہ اِن خطروں کا تو اب عادی ہو چکا تھا۔ جب اُس نے بھیڑوں کو بیچ کر مقدّر کی جستجو کا فیصلہ کیا تھا وہ بھی ایک بڑی خطرناک شرط تھی۔ اُسے ساربان کے الفاظ یاد آئے۔ اُس نے کہا تھا کہ آج اور کل میں کوئی فرق نہیں۔ موت آج آئے یا کل دونوں برابر ہی ہیں۔ یہاں دن محض اِس لئے ہے کہ یا تو دنیا کو کچھ دیا جائے یا اِس لئے کہ واپسی کا اعلان ہو جائے۔

’’مکتوب‘‘۔۔۔۔ سب کا انحصار اِس پر ہے کہ دن کے بارے میں لکھا کیا ہے۔

اُسے کوئی ملال نہ تھا۔ اُس نے سوچا کہ کل اگر موت آ گئی تو میں یہ سمجھوں گا کہ خدا میرے مستقبل کو تبدیل کرنا نہ چاہتا تھا لیکن ایسا بھی نہیں کہ میں بالکل خالی ہاتھ رہا۔ میں نے کوشش کی۔ آبنائے پار کر کے اِس علاقہ میں آیا۔ اُس دکان پر کام کر کے خاصا تجربہ حاصل کیا اور ایک ریگستان کی تنہائی اور سکوت سے واقف ہوا اور فاطمہ کی آنکھوں کی گہرائی نے بھی ایک نیا تجربہ اور بالکل نئے جذبوں اور توانائی سے آگاہ کرایا۔ اُسے یاد آیا کہ وطن کو خیر باد کہنے کے بعد اُس کا ہر دن عزم و استقامت سے بھر پور گزرا ہے۔ اگر وہ کل کو مر بھی گیا تو وہ فخریہ کہہ سکتا ہے کہ دوسرے چرواہوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ دنیا اُس نے دیکھ لی ہے اور اُن سے کہیں زیادہ تجربہ اور علم سے اُس نے اپنا دامن بھر لیا ہے۔

اچانک ایک زور دار آواز ہوئی اور ہوا کا ایک اتنا تیز جھونکا آیا کہ وہ زمین پر گِر پڑا۔ اتنی تیز ہوا کا تجربہ اُسے آج تک نہ ہوا تھا۔ پورا علاقہ گرد و غبار سے بھر گیا تھا۔ چاند بھی اِس گہرے غبار میں نظر نہ آ رہا تھا۔ اچانک اُسے ایک انتہائی سفید گھوڑا نظر آیا جو بڑے خوف ناک انداز میں ہنہناتا چراغ پاہو کر اُس کے سامنے دو پاؤں پر کھڑا تھا۔

جب گرد و غبّار ختم ہوا تو لڑکا یہ دیکھ کر خوف سے لرز گیا کہ ایک سیاہ پوش بائیں بازو پر ایک عقاب لیے گھوڑے پر سوار تھا۔ وہ ایک پگڑی باندھے، پورا چہرا ایک سیاہ عمامہ میں لپیٹے ہوئے تھا۔ صرف آنکھیں دو سوراخوں سے نظر آ رہی تھیں۔ بظاہر تو وہ ریگستانی پیغام رسانوں جیسا لگتا تھا لیکن اُن کے مقابلہ میں اُس کے وجود میں کہیں زیادہ تحکّم اور جلالت تھی۔

اجنبی شہسوار نے زِین سے لٹکی ایک بہت بڑی خمدار تلوار میان سے نکال کر سونتی تو اُس کے پھل کی چمک روشن رات میں بھی آنکھوں کو خیرہ کر گئی۔ وہ انتہائی کرخت آواز میں بولا۔

’’عقابوں کے لڑنے میں معنیٰ نکالنے کی ہمّت کس نے کی؟‘‘ اُس کی آواز اتنی بلند تھی کہ شاید نخلستان ’الفعیوم‘ کے تمام پچاس ہزار درختوں سے ٹکرا کر وہ اِس علاقے میں گونج گئی۔‘‘

’’میں نے۔ یہ میں ہوں جس نے یہ ہمّت کی ہے۔‘‘ لڑکے نے کہا۔

لڑکے کے ذہن میں اُس تصویر کے خد و خال روشن ہو گئے جو وہ بچپن سے اپنے گھر میں لٹکی ہوئی دیکھتا رہا تھا۔ سامنے کھڑا شخص بالکل ویسا ہی لگ رہا تھا۔

’’میں نے یہ ہمّت کی تھی۔‘‘ لڑکے نے دو بارا کہتے ہوئے اپنا سر خم کر لیا یہ سوچ کر کہ شاید تلوار کا وار اب ہونے ہی والا ہے۔‘‘ میں کائنات کی روح تک پہنچ کر دیکھ چکا تھا اور سوچا کہ ہزاروں جانیں محفوظ ہو جائیں گی۔

تلوار لڑکے کی گردن پہ گری تو نہیں البتہ آہستہ آہستہ نیچے آتی گئی اور اُس کی پیشانی سے آ کر لگ گئی اور خون کا ایک قطرہ نکل پڑا۔

شہسوار بالکل غیر متحرک اور لڑکا بھی جیسے زمین نے جکڑ لیا ہو۔ بھاگ جانے کا خیال تک دل میں نہ آیا۔ دل میں عجیب سی خوشی کا احساس لیے وہ کھڑا رہا۔ اُس نے سوچا کہ وقت نے کیا کیا دکھایا ہے۔ مقدّر کی جستجو میں موت کے کتنا قریب پہنچ گیا تھا اور پھر فاطمہ سے ملاقات۔ اُسے خوشی تھی کہ علامت دیکھ کر اُس نے بالکل صحیح معنیٰ سمجھ لئے تھے۔ اُس وقت دشمن روبرو تھا البتّہ اُسے موت کا خوف نہ تھا کہ اُس کے نتیجہ میں وہ اِس انجام تک پہنچ جائے گا جس تک بہر حال پہنچنا ہے اور اِسی طرح اُس کا دشمن بھی کل جب نخلستان پر حملہ آور ہو گا تو اُس کا انجام بھی تو وہی ہونے والا تھا۔

اجنبی تلوار کی نوک لڑکے کی پیشانی سے لگائے رہا : ’’تم نے چڑیوں کی اُڑان کو پڑھنے کی کوشش کیوں کی؟‘‘

میں نے اِتنا ہی پڑھا جتنا چڑیوں نے مجھے بتایا۔ وہ نخلستان کی حفاظت کرنا چاہتی تھیں۔ کل جب تم حملہ کرو گے تو تم لوگ مارے جاؤ گے کیونکہ تمہارے مقابلہ میں وہاں آدمی زیادہ ہیں۔‘‘

تلوار کی نوک کا دباؤ بدستور قائم تھا۔ ’’اللہ کی مرضی کو بدلنے والے تم کون ہوتے ہو۔‘‘

’’اللہ ہی نے فوجیوں کو پیدا کیا ہے اور وہی عقابوں کا خالق بھی ہے۔ اُسی نے مجھے چڑیوں کی زبان کا فہم عطا کیا۔ سب کچھ اُسی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔‘‘لڑکے نے ساربان کی زبان کو یاد کرتے ہوئے کہا۔

’’اجنبی نے تلوار لڑکے کی پیشانی سے ہٹائی تو اطمینان کی لہر اُس کے بدن میں دوڑ گئی لیکن اب بھی وہاں سے بھاگ جانے کی کوشش نہ کر سکا۔

’’پیش گوئی کرتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘ اجنبی نے کہا : ’’جو لکھا جا چکا اُسے بدلا نہیں جا سکتا۔‘‘

’’میں نے بس ایک فوج دیکھی تھی۔‘‘ لڑکا بولا ’’جنگ کا انجام نہیں دیکھا تھا۔‘‘

اجنبی اِس جواب سے مطمئن نظر آ رہا تھا، لیکن تلوار ہاتھ میں اُسی طرح سونتے رہا۔

’’ایک اجنبی اِس غیر علاقے میں کیا کرنے آیا ہے؟‘‘

’’میں تو وہی کر رہا ہوں جو میرے مقدّر میں لکھا ہے اور یہ ایسی چیزیں نہیں جو تمہاری سمجھ میں آ جائیں۔‘‘

شہسوار نے تلوار میان میں رکھ لی۔ لڑکے کی گھبراہٹ اطمینان میں بدل رہی تھی۔

’’میں تمہاری ہمّت کا امتحان لے رہا تھا۔‘‘اجنبی بولا۔ ’’ہمّت ہی وہ اصل صفت ہے جو روحِ عالم کی تفہیم کے لئے انتہائی ضروری ہے۔‘‘

لڑکا یہ سن کر متعجب ہو اُٹھا، کیونکہ یہ اجنبی ایسی باتیں بتا رہا تھا جو کم ہی لوگ جانتے ہیں۔

’’تم اتنا دور تک آ چکے ہو، اپنی کوششیں درمیان میں نہ چھوڑ دینا۔‘‘ اجنبی نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’ریگستان سے محبت ضرور کرو لیکن اُس کی ہر بات پر بھروسہ نہ کرو کیونکہ ریگستان ہر ایک کا امتحان لیتا ہے۔ ہر قدم پر رکاوٹیں کھڑی کر کے یہ ایک طرح سے للکارتا ہے اور جو بہک جاتے ہیں اُن کو ختم بھی کر دیتا ہے۔

’’اجنبی کی یہ باتیں سنکر لڑکے کو شاہ سلیم کی یاد آنے لگی۔

’’اگر فوج حملہ کر دے اور تمہارا سر تمہارے کاندھوں پر سلامت رہے تو مغرب بعد مجھے تلاش کرنا۔‘‘ اجنبی نے لڑکے سے کہا۔

جس ہاتھ میں ابھی تک تلوار تھی اب اُس میں چابُک تھی۔ گھوڑے نے اگلی ٹانگیں پھر بلند کیں اور نظروں سے غائب ہونے لگا۔ آنکھوں کو اندھا کر دینے والی دھول نے ایک بار پھر لڑکے کو چھپا لیا۔

’’تم رہتے کہاں ہو؟‘‘ لڑکا زور سے چلّایا۔

چابک تھامے ہاتھ جنوب کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔

لڑکے کو آج الکیمسٹ سے ملاقات کا شرف حاصل ہو چکا تھا۔

 

 

 

(۳۰)

 

اگلے دن صبح ہوئی تو کوئی دو ہزار ہتھیار بند لوگ نخلستان ’الفعیوم‘ کے درختوں کے درمیان اِدھر اُدھر پھیل چکے تھے۔دوپہر سے قبل ہی پانچ سوقبائلی نخلستان میں گھس آئے۔ یہ لوگ گھوڑوں پر سوار تھے اور شمال کی جانب سے داخل ہوئے تھے۔ بظاہر اُنکی یہ مہم پُر امن تھی لیکن سب نے اپنے لبادوں میں ہتھیار چھپا رکھے تھے۔ جب یہ لوگ مرکزی حصہ پر سفید خیمہ کے قریب پہنچے تو اچانک تلوار اور بندوقیں نکال لیں اور خیمہ پر حملہ آور ہو گئے۔

مقامی آدمی جو درختوں میں چھپ گئے تھے، اب نکل آئے اور حملہ آوروں کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور محض آدھ گھنٹہ میں بس ایک کو چھوڑ کر سب حملہ آور مار ڈالے گئے۔ بچے جو کھجور کے باغوں کی طرف پہنچا دئے گئے تھے، اُنہیں پتہ بھی نہ چلا کہ کیا ہوا۔ عورتیں خیموں کے اندر ہی رہیں اور اپنے آدمیوں کی خیریت کے لئے دعا کرتی رہیں۔ اُنہیں بھی باہر جو کچھ ہوا اُس کا پتہ نہ چل سکا۔اگر زمین پر لاشیں بکھری نہ ہوتیں تو لوگ اُسے بھی نخلستان کا ایک عام ہی دن سمجھتے۔

جس آدمی کو قتل نہیں کیا گیا تھا وہ اِس حملہ آور گروہ کا سردار تھا۔ اُسی روز دو پہر کو جب اُسے سرداروں کے سامنے پیش کیا گیا تو سب سے پہلے اُنہوں نے یہی پوچھا کہ’’ آخر اُس نے یہ روایت توڑنے کی جرات کیوں کی۔ ‘‘ اُس نے جواب میں کہا  تھا کہ ’’اُس کے لوگ طویل عرصہ سے جاری جنگ سے تھک گئے تھے۔ بھوک اور پیاس سے مر رہے تھے۔ ‘‘ میں نے سوچا کہ نخلستان پر قبضہ کر کے ہماری یہ ضروریات پوری ہو جائیں گی اور اِس طرح تازہ دم ہو کر ہم پھر جنگ میں کود پڑیں گے۔ اِس پر نخلستان کے سردار نے اُن لوگوں کی حالت پر دکھ کا اظہار تو کیا لیکن کہا کہ ’’ہمدردی کے باوجود روایت کے تقدّس کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔ حملہ آور قبیلہ کے سردار کو بغیر کسی احترام و تعظیم کے موت کا حکم سنا دیا گیا اور گولی یا تلوار کے بجائے اُسے پھانسی کا حکم ہوا۔ درخت سے لٹکی ہوئی لاش ریگستانی تیز ہواؤں کے دوش پر جھولتی رہی۔

 

 

 

(۳۱)

 

سورج غروب ہو ا اور پہلا تارہ آسمان پر نظر آیا تو لڑکا جنوب کی سمت چل پڑا۔ آخر کار وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں بس ایک خیمہ ایستادہ تھا۔ راستہ چلتے مقامی عربوں نے کہا کہ یہ جنّات کی بستی ہے لیکن لڑکا وہیں بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا۔

چاند جب کچھ اور بلند ہو گیا توالکیمسٹ اپنے گھوڑے پر سوار نمودار ہوا۔ اُس کے کاندھے پر دو مردہ عقاب لٹک رہے تھے۔

’’میں ہوں۔۔۔۔۔۔‘ ‘ لڑکا بولا۔

’’ویسے تو تمہیں اِس علاقے میں ہونا نہیں چاہیے۔ ‘‘الکیمسٹ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔’’لیکن تمہاری قسمت ہی تمہیں یہاں لے کر آئی ہے۔‘‘

’’قبیلوں کی آپسی جنگ کی وجہ سے ریگستان عبور کرنا نا ممکن ہو گیا تھا، اِس لئے مجبوراً یہاں رُکنا پڑا‘‘  لڑکے نے کہا۔

الکیمسٹ گھوڑے سے اُتر ا اور لڑکے کو اشارے سے خیمہ میں داخل ہونے کو کہا۔یہ خیمہ دوسرے خیموں کی مانند تھا۔ لڑکے نے خیمہ کے اندر تندور اور کیمیائی تجربوں کے دوسرے آلات اور ظروف دیکھنے کے لئے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی لیکن ایسی کوئی چیز نظر نہ آسکی۔ البتہ ایک طرف کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک کھانا بنانے کا اسٹوو رکھا تھا اور چند غالیچے جن پر کچھ عجیب و غریب خاکے اور نقشے پڑے ہوئے تھے۔

’’بیٹھو۔۔۔۔ پہلے کچھ پئیں گے اور پھر اِن عقابوں کا گوشت کھایا جائے گا۔‘‘ الکیمسٹ بولا۔ لڑکے کو ایسا لگا کہ عقاب وہی ہیں جو اُس نے ایک روز قبل دیکھے تھے لیکن اُس نے کہا کچھ نہیں۔الکیمسٹ نے آگ روشن کی اور تھوڑی ہی دیر میں خیمہ میں ایک نفیس اور خوش ذائقہ خوشبو پھیل گئی۔ یہ خوشبو حُقّہ کی خوشبو سے واضح طور پر مختلف تھی۔

’’تم نے مجھے کیوں بلایا ہے۔ ‘‘ لڑکے نے آخر اُس سے پوچھ ہی لیا۔

’’علامتیں ہی ایسی تھیں۔‘‘ الکیمسٹ نے جواب دیا۔

’’ہواؤں سے مجھے معلوم ہوا کہ تم آؤ گے اور تمہیں میری مدد کی ضرورت پڑے گی۔‘‘

’’ہواؤں نے میرے متعلق نہیں ایک دوسرے غیر ملکی انگریز کے لئے بتایا ہو گا۔ وہ تمہاری تلاش میں بہت دور سے سفر کرتا ہو ا آیا ہے۔‘‘

’’اُس کی ترجیحات دوسری ہیں لیکن اب وہ صحیح راستے پر ہے اور یگستان کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

’’میرے بارے میں کیا کہتے ہو۔‘‘

’’جب کوئی شخص کسی چیز کے حصول کے لئے واقعی یکسو ہو جاتا ہے تو پوری کائنات اُس کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے اُس کی مدد کرنے لگتی ہے۔‘‘الکیمسٹ کے الفاظ شاہ سیلم کے الفاظ کی باز گشت تھے۔ لڑکا سمجھ گیا کہ مقدّر کے حصول میں ایک اور شخص معاونت کے  لئے موجود ہے۔

’’تو تم مجھے تعلیم دو گے۔‘‘

’’نہیں تم تو پہلے ہی سے واقف کار ہو۔ میں تو تمہیں صرف یہ بتاؤں گا کہ تمہارا خزانہ ہے کس طرف۔‘‘

’’لیکن اب تو جنگ چل رہی ہے۔ ‘‘ لڑکے نے جتایا۔

’’ریگستان کا حال مجھے معلوم ہے۔‘‘

’’میرا خزانہ تو مجھے مل چکا ہے: ایک اونٹ ہے، بلّور کی دکان کا تجربہ ہے، کمائی ہوئی رقم ہے اور پچاس ٹکڑے سونے کے ہیں۔اپنے ملک میں تو مجھے لوگ امیر آدمی سمجھیں گے۔‘‘

’’ٹھیک ہے لیکن اُن میں سے کوئی چیز تمہیں اہرام سے تو حاصل نہیں ہوئی۔‘‘ الکیمسٹ بولا۔

’’میرے خزانے میں اب فاطمہ کا اضافہ بھی تو ہو گیا ہے جو بقیہ سب سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘

’’وہ بھی تمہیں اہرام میں تو نہیں ملی۔‘‘

پھر وہ دونوں خاموشی سے کھانا کھاتے رہے۔الکیمسٹ نے ایک بوتل کھول کر ایک خوش رنگ مشروب لڑکے کی پیالی میں اُلٹ دیا۔ ایسا خوش ذائقہ شربت لڑکے نے آج تک نہیں پیا تھا۔

’’کیا یہاں شراب نہیں پائی جاتی۔‘‘ لڑکے نے پوچھا۔

’’ہمارے یہاں یہ حرام ہے: لیکن یاد رکھو کہ اصل اہمیت اِس کی نہیں ہے کہ تمہارے منہ میں کیا جا رہا ہے بلکہ منہ سے کیا نکل رہا ہے، یہ  زیادہ اہم ہے۔‘‘

کھانے سے فارغ ہو چکے تو خیمہ کے باہر چھٹکی چاندنی میں بیٹھ گئے۔چاندنی نے تاروں کی روشنی کو ماند کر دیا تھا۔

’’کھاؤ، پیو اور شکر کرو۔ ‘‘الکیمسٹ لڑکے سے بولا۔ عمدہ کھانے اور لذیذ مشروب کا اچھا اثر اُس پر واضح تھا۔ تم ایک جنگجو کی مانند ہو جو کسی جھڑپ کی تیاری میں مصروف ہے۔ یاد رکھو تمہارا خزانہ وہیں ہو گا جہاں تمہارا دل گواہی دے گا۔ خزانہ کی جستجو کا عمل کسی قیمت پر چھوڑنا نہیں ہے ورنہ جو کچھ تم نے اب تک سیکھا ہے اُس کی معنویت ہی ختم ہو جائے گی۔ ایسا کرو کہ کل یہ اونٹ بیچ کر ایک گھوڑا خرید لو۔ اونٹ بے وفا جانور ہے۔ ہزاروں میل کا سفر کرتا رہے گا اور پتہ بھی نہ چلنے دے گا کہ تھک چکا ہے، لیکن اچانک تھکے گا اور مر جائے گا۔ گھوڑے بھی تھکتے ہیں لیکن رک رک کر، مالکوں کو اندازہ رہتا ہے کہ یہ کب تک کام دیتے رہیں گے۔ مرنے والے ہوتے ہیں تو بھی معلوم ہو جاتا ہے۔

 

 

 

(۳۲)

اگلی رات لڑکا گھوڑے پر سوار ہو کر الکیمسٹ کی قیام گاہ پہنچ گیا۔ وہ تیار تھا۔ زین کسی اور دونوں عقابوں کو اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور لڑکے سے بولا، ’’ریگستان میں جہاں زندگی موجود ہو مجھے بھی بتانا، جو لوگ ایسی نشانیوں کو پہچان سکتے ہیں وہ خزانوں کی تلاش میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔‘‘

دونوں کے گھوڑے ریتیلی زمین پر چلنے لگے۔ چاند راستہ روشن کئے ہوئے تھا۔ لڑکے نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی کے آثار پہچان نہ پاؤں۔ میں ریگستان سے اتنا کب واقف ہوں۔

وہ الکیمسٹ کو یہ بتایا چاہتا تھا لیکن ڈر سے خاموش رہا۔ چلتے چلتے وہ اُس پتھریلے مقام تک پہنچے جہاں لڑکے نے دونوں عقابوں کو آسمان میں دیکھا تھا لیکن اب وہاں گہرے سکوت اور تیز ہوا کی آواز کے سوا کچھ نہ تھا۔

’’ریگستان میں زندگی کی تلاش کیسے کروں۔‘‘ لڑکا کہنے لگا۔ ’’یہ تو معلوم ہے کہ زندگی موجود ہے لیکن اُسے کہاں دیکھوں، یہ نہیں معلوم۔‘‘

’’زندگی میں زندگی کے لئے کشش ہوتی ہے۔‘‘ یہ اصول یاد رکھو، الکیمسٹ نے جواباً کہا۔

لڑکا اشارہ پا چکا تھا۔ گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی جو کبھی ریت اور کبھی پتھر پر سرپٹ دوڑنے لگا۔ کوئی آدھ گھنٹے تک الکیمسٹ گھوڑے کے پیچھے چلتا رہا۔ اب نخلستان کے درخت اُن کی نظروں سے دور ہو چکے تھے۔ بس ماہتاب اپنی تمام تر عظمتوں کے ساتھ جگمگا رہا تھا اور ریت کے ذرّے چاند کی روشنی سے چمک رہے تھے۔اچانک گھوڑے کی رفتار کسی ظاہری وجہ کے بغیر کم ہونے لگی۔

’’یہیں کہیں زندگی موجود ہے۔‘‘لڑکے نے الکیمسٹ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ ریگستان کی زبان میں تو نہیں جانتا لیکن میرا یہ گھوڑا زندگی کی زبان سے ضرور واقف ہے، وہ سوچ رہا تھا۔

الکیمسٹ نے کچھ کہا تو نہیں لیکن دونوں گھوڑوں سے اُتر آئے اور آہستہ آہستہ پتھروں کے درمیان کچھ تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھنے  لگے۔ الکیمسٹ اچانک رک گیا اور ایک جگہ جھک کر کچھ دیکھنے لگا۔ پتھروں کے درمیان ایک سوراخ نظر آ رہا تھا۔الکیمسٹ نے اپنا ہاتھ اُس سوراخ میں ڈالا تو کاندھے تک اُس میں چلا گیا۔ سوراخ کے اندر کوئی چیز حرکت پذیر تھی۔الکیمسٹ کی آنکھیں، لڑکے نے محسوس کیا کہ مشقّت کے سبب ترچھی ہوئی جا رہی تھیں، ایسا لگا کہ سوراخ میں گھسا ہوا ہاتھ اندر کسی چیز کو بڑی محنت سے پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پھر اچانک ہی بڑی حیرت ناک سرعت سے ہاتھ باہر نکالا اور الکیمسٹ اپنے پیروں پر جھک گیا۔ سانپ کی دم اُس کے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں تھی۔

لڑکا بھی جھکا، البتہ اُس نے اپنے آپ کو الکیمسٹ سے ذرا فاصلہ پر رکھا۔ سانپ غضب ناک ہو رہا تھا اور چھوٹ جانے کی کوشش کر رہا تھا، اُس کی پھنکاروں سے ریگستان کی خاموشی پاش پاش ہو رہی تھی۔ یہ کوبرا تھا جس کا زہر چند منٹوں ہی میں آدمی کو موت کی نیند سلا سکتا تھا۔

’’کاٹ نہ لے‘‘ لڑکا بولا۔الکیمسٹ تو اپنا ہاتھ ہی سوراخ میں ڈال چکا تھا اور سانپ نے جانے کتنی بار اُسے ڈسا ہو گا لیکن وہ پُرسکون تھا۔ ’’الکیمسٹ کی عمر دو سو سال ہے۔‘‘ انگریز نے اُسے بتایا تھا۔ یہ تو اُسے معلوم ہی ہو گا کہ ریگستانی سانپوں سے کیسے نپٹنا چاہیے۔

الکیمسٹ کی ہر حرکت کو لڑکا غور سے دیکھا رہا تھا۔ گھوڑے کی زین سے اُس نے جا کر ایک بڑی سی چھری نکالی اور اُس کے پھل سے ریت میں ایک دائرہ کھینچ کر اُس میں سانپ کو چھوڑ دیا۔ سانپ فوراً ہی پُر سکون ہو گیا۔

’’فکر نہ کرو۔‘‘ الکیمسٹ بولا:’’یہ اِس دائرے سے باہر نہ جا سکے گا۔ اب مجھے اطمینان ہے کہ تم ریگستان میں زندگی کے وجود کو پہچان سکتے ہو۔‘‘

’’یہ اِتنا ہی ضروری تھا کیا؟‘‘ لڑکے نے سوال کیا۔

’’ہاں ! اِس لئے کہ اہرام کے اطراف میں ریگستان ہی ریگستان ہے۔‘‘ لڑکا اہرام کے موضوع پر گفتگو کرنے کے موڈ میں نہ تھا۔ گزشتہ شب سے دِل پر بڑا بوجھ سا تھا اور پژمردگی غالب تھی۔ یہ خیال بار بار آتا کہ خزانہ کی تلاش کا مطلب ہے فاطمہ سے جدائی اور وہ اندر سے ٹوٹ ٹوٹ جاتا۔

’’ریگستان سے باہر نکلنے تک میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ ‘‘الکیمسٹ بولا۔

’’میں تو یہیں نخلستان میں رہ جانا چاہتا ہوں۔‘‘ لڑکے نے ہمت جٹا کر جواب دیا۔ ’’مجھے فاطمہ مل گئی ہے جو کسی خزانہ سے کم نہیں ہے میرے لئے۔‘‘

’’فاطمہ ریگستان کی بیٹی ہے۔‘‘ الکیمسٹ اُسے بتا رہا تھا۔ ’’وہ جانتی ہے کہ مرد واپس آنے کے لئے ہی جایا کرتے ہیں۔اُسے تو اُس کا خزانہ یعنی تم مل گئے ہو اور اب وہ یہ توقع رکھے گی کہ تم بھی وہ خزانہ تلاش کر لو جس کی جستجو تمہیں یہاں تک لائی ہے۔

میں اگر ٹھہرنے کا فیصلہ کر لوں تو۔‘‘ لڑکا بولا۔

’’میں بتاتا ہوں کہ اِس کے بعد کیا ہو گا۔ تمہیں نخلستان کا مشیر مقرر کر دیا جائے گا۔ تمہارے پاس کافی سونا موجود ہے جس سے تم بہت سی بھیڑیں اور اونٹ خرید لو گے۔ فاطمہ سے تمہاری شادی ہو جائے گی اور سال بھر تک خوب خوش و خرّم رہو گے۔ ریگستان کو سمجھنے اور اُس سے محبت کر نے میں تم اور آگے بڑھو گے۔ یہاں کے ہر ہر درخت کے بارے میں تمہاری معلومات میں خوب اضافہ ہوتا جائے گا۔ اُن کو اُگتے بڑھتے دیکھو گے اور سمجھو گے کہ دنیا کیسے بدلتی ہے۔ ریگستان میں رہ کر نشانیوں کو سمجھنے میں تمہاری صلاحیتوں میں روز افزوں ترقی ہوتی جائے گی۔

دوسرے سال میں تمہیں کسی وقت خزانہ یاد آئے گا۔ نشانیاں تمہیں اکثر اشارے کریں گی اور اُس کے حصول کے لئے تمہیں اُکسائیں گی لیکن تم صَرفِ نظر کرو گے۔ تم اپنے تجربہ اور علم کو نخلستان اور یہاں کے مکینوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرو گے۔ قبیلے کے سردار تمہارے کردار کو سراہیں گے اور تمہارے اونٹ دولت اور قوّت میں اضافہ کرتے رہیں گے۔

’’تیسرے سال بھی نشانیاں تمہیں خزانہ اور مقدّر کی جستجو کے لئے اُکسائیں گی۔ تم رات رات بھر نخلستان میں اِدھر اُدھر گھومو گے لیکن فاطمہ ایک احساسِ جرم کا شکار رہنے لگے گی۔ اُسے یہ احساس ستانے لگے گا کہ اُس کی وجہ سے تم اپنی جستجو ختم کر بیٹھے تھے۔ تم بدستور ایک دوسرے سے محبت کرتے رہو گے۔ لیکن تمہیں کبھی یاد آئے گا کہ فاطمہ نے تو تمہیں کبھی روکا نہ تھا اور وہ روکتی بھی کیسے کہ ریگستانی عورت تو اپنے مرد کا انتظار کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ الزام فاطمہ پر نہ آئے گا۔ اکثر چلتے پھرتے تمہیں خیال آئے گا:’تم اپنی مہم جاری رکھ سکتے تھے۔ تم فاطمہ کی محبت پر بھروسہ کر سکتے تھے۔‘ کیونکہ تمہارے دل میں یہی خیال تو رہا ہو گا کہ اگر چلا گیا تو نہ معلوم واپس بھی آ سکوں گا کہ نہیں۔ یہاں پہنچ کر نشانی بتائے گی’ تمہارا خزانہ اب ہمیشہ کے لئے دفن ہو چکا۔  ‘‘

’’پھر چوتھے سال میں کسی وقت یہ نشانیاں تمہارا ساتھ چھوڑ دیں گی۔ چھوڑ یوں دیں گی کہ تم نے اُنہیں سُننا اور سمجھنا ہی بند کر دیا ہو گا۔‘‘ سردارانِ قبیلہ اِس تبدیلی کو محسوس کر لیں گے اور تمہیں کسی کام کا نہ سمجھ کر اعلیٰ عہدے سے تمہیں بر طرف کر دیا جائے گا لیکن اُس وقت تم ایک اچھے اور امیر تاجر بن چکے ہو گے۔ تمہارے پاس بہت سے اونٹ اور وافر تجارتی سامان موجود ہو گا۔ زندگی کے بقیہ ایّام تم اِس افسوس میں گزار دو گے کہ تم مقدّر کی جدوجہد جاری نہ رکھ سکے اور اب وقت گزر چکا ہے۔‘‘

اچھی طرح سمجھ لو کہ عشق حصولِ مقصد کی جد و جہد سے روکتا نہیں۔ اگر کوئی اِس جدو جہد کو چھوڑ بیٹھے تو یہ سمجھ لو کہ عشق سچا نہیں تھا۔ وہ عشق نہیں تھا جس کی زبان لفظوں کی محتاج نہیں ہے۔وہ کوئی اور جذبہ ہو گا، عشق نہیں۔‘‘

الکیمسٹ نے جو دائرہ بنایا تھا اُسے مٹا دیا اور سانپ پتھروں میں کہیں غائب ہو گیا۔ لڑکا اُس کی باتوں پر غور کئے بغیر نہ رہ سکا۔ بلّوری ظروف کا وہ تاجر، اُسے یاد آیاجسے مکّہ جانے کی شدید خواہش تھی۔ انگریز یاد آیا جو الکیمسٹ سے ملنا چاہتا تھا۔وہ اُس عورت کے متعلق سوچنے لگا جو سب کچھ ریگستان ہی سے سیکھتی اور اُس پر بھروسہ کرتی ہے اور اِس طرح اُس ریگستان پر اُس کی نظر دوڑ گئی جس کی بدولت ہی وہ اپنی محبوبہ سے مل سکا تھا۔

دونوں گھوڑوں پر سوار ہو گئے۔ اِس بار لڑکا الکیمسٹ کے پیچھے پیچھے تھا، دونوں نخلستان ہی واپس جا رہے تھے۔ تیز چلتی ہوا کے ساتھ نخلستان کی آبادی سے اُبھرنے والی آوازیں اُن کے کانوں میں ٹکرائیں تو لڑکا سوچنے لگا کہ کاش میں اِنہیں آوازوں میں فاطمہ کی آواز پہچان سکتا۔

وہ رات بھی عجیب تھی۔ کئی نئے تجربوں سے وہ گزرا تھا۔ دائرہ میں گرفتار کوبرا، عقابوں کو کندھے پر بیٹھائے عجیب و غریب شہسوار اور محبت اور خزانہ کے بارے میں اُس کے پُراِسرار خیالات، ریگستانی عورت اور مقدّر کے بارے میں اُس کی حکیمانہ باتیں جنہیں صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا تھا۔

دونوں شہسوار ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔

’’میں تمہارے ساتھ چلوں گا۔‘‘ لڑکے کی زبان سے نکلا اور جیسے اچانک اُس کے دل کو سکون سا مل گیا تھا۔

’’ٹھیک ہے ہم لوگ کل طلوعِ آفتاب سے قبل نکلیں گے۔‘‘الکیمسٹ نے مختصراً جواب دیا۔

 

 

 

(۳۳)

 

اُس رات نیند کوسوں دور رہی۔ طلوعِ صبح سے کوئی دو گھنٹہ قبل اُسنے اپنے ساتھ سونے والے ایک نو عمر کو جگایا تاکہ فاطمہ کے خیمہ تک پہنچنے میں آسانی ہو۔ اِس خدمت کے عوض بچہ کو سونے کے اتنے سکّہ دئے جو ایک بھیڑ خریدنے کے لئے کافی تھے۔

لڑکے نے اُس سے کہا کہ فاطمہ کے خیمہ میں جا کر اُسے بتائے کہ میں باہر اُس کا منتظر ہوں۔بچہ نے خوشی خوشی حکم کی تعمیل کی اور ایک بار پھر بچہ کو انعام سے نوازا گیا۔

’’اب تم جا سکتے ہو، ‘‘ لڑکے نے عرب بچے سے کہا۔جو خوش تھا کہ نخلستان کے مشیر نے اِس سے خدمت لی جس کے عوض اُسے خاصا سونا مل چکا تھا۔ حکم سُن کر وہ خوشی خوشی اپنی نیند پوری کرنے اپنے خیمہ میں واپس چلا گیا۔

فاطمہ خیمے کے داخلہ پر نظر آئی تو دونوں ذرا دور درختوں کے حصہ کی جانب بڑھ گئے۔ فاطمہ نے کہا کہ ’’اِس طرح ملنا ہماری روایت کے خلاف ہے‘‘۔ اِس کا احساس لڑکے کو بھی تھا، لیکن مجبوری یہ تھی کہ پھر کوئی اور موقع نہ تھا۔

’’میں آج باہر جا رہا ہوں۔‘‘ وہ بولا : ’’یاد رکھنا کہ میں بہت جلد واپس آ جاؤں گا۔‘ـ‘ میں شاید تمہارے بغیر بہت عرصہ تک نہ رہ سکوں۔‘‘

’’سنو ! میں تم سے بہت شدید محبت کرتا ہوں، کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’کچھ نہ کہو، ‘‘ فاطمہ نے بیچ میں لڑکے کی بات کاٹ دی۔ ’’محبت تو بس برائے محبت ہوتی ہے، اُس کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔‘‘

لیکن لڑکے نے اپنی بات جاری رکھی، ’’میں تمہیں سب کچھ بتا چکا ہوں۔ میرا خواب، بادشاہ سے ملاقات، بلّوری ظروف کی دکان پر کام، ریگستان کا سفر، قبائلی جنگوں کی بنا پر میرا یہاں رکنا اور پھرالکیمسٹ کی تلاش جیسے یہ سب ایک سلسلہ کی کڑیاں نظر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تم سے ملنے کے لئے ہی یہ سب کچھ ہوا تھا جیسے تمہیں ڈھونڈنے اور محبت کی آبیاری میں پوری کائنات میری معاون بن گئی ہو۔‘‘

جانے کب فاطمہ کا کانپتا ہوا ہاتھ لڑکے کے دونوں ہاتھوں کے درمیان قرار پا چکا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔

’’میں واپس آؤں گا، میرا انتظار کرنا۔‘‘ لڑکا بولا۔

’’آج سے پہلے ریگستان کو دیکھ کر میرے دل میں ایک انجانی سی تمنّا سر اُٹھا تی تھی۔‘‘ فاطمہ کہہ رہی تھی، ’’ لیکن اب اِس میں امید کی کرن بھی  ہو گی۔ میرے والد ایک بار ماں کو چھوڑ کر گئے لیکن وہ واپس آ گئے۔اور اب وہ جب بھی جاتے ہیں واپس آ جاتے ہیں۔‘‘

پھر وہ دونوں کچھ نہ بولے۔ درختوں کے درمیان چلتے ہوئے آہستہ آہستہ فاطمہ کے خیمہ تک واپس آ گئے اور لڑکے نے فاطمہ کو خدا حافظ کہا۔

’’جیسے تمہارے والد تمہاری والدہ کے پاس واپس آ گئے، اُسی طرح یقین کرو کہ میں بھی واپس آؤں گا۔ ‘‘فاطمہ کی خوبصورت آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہونے لگیں۔

’’تم رو رہی ہو؟۔۔۔۔۔۔‘‘

’’میں ریگستان کی عورت ضرور ہوں ‘‘ فاطمہ نے چہرا سامنے سے ہٹاتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن بہر حال ایک عورت ہوں۔‘‘

فاطمہ اپنے خیمہ میں واپس لوٹ گئی اور صبح ہو چکی تو برسوں سے جاری پانی بھرنے کا معمول اُس کے سامنے تھا۔ لیکن اب سب کچھ بدل چکا تھا۔وہ اب نخلستان سے جا چکا تھا۔ اُسے لگا کہ جو آسودگی اُسے کل تک حاصل تھی وہ اب کبھی نہ حاصل ہو سکے گی۔ نخلستان جس کی فضاؤں میں فکر و معنیٰ کی یگانگت کی جو آبیاری ہوئی وہ اپنی معنویت کھو چکا۔ یہاں کے پچاس ہزار خوبصورت درخت اور تین سو کنویں جو اِس علاقے کو فطری حسن کا عظیم خزانہ بنائے ہوئے تھے اور طویل سفر سے واپس آنے والے زائرین کے قافلوں کے لئے جائے سکون تھے، اب وہ سب کچھ نہیں رہا۔ اُس دِن سے یہ بس ایک خالی اور بے جان جگہ ہو گی کہ وہ جس کی چند روز کی رفاقت ہی میں اُسے معنیٰ اور وجود کا ادراک حاصل ہو گیا تھا، اب یہاں نہیں تھا۔ جیسے اب کچھ نہ رہا ہو، سب خالی خالی تھا۔

آج کے بعد نخلستان نہیں بلکہ ریگستان اُس کے لئے زیادہ ہم ہو جائے گا۔ وہ ہر نئے دن کا انتظار کرے گی، سوچے گی کہ وہ خزانے کی تلاش کا سفر کس تارے کو دیکھ کر طے کر رہا ہو گا۔ وہ اپنے جذبوں کی حرارت کو ہواؤں کے دوش پر بھیجے گی کہ یہ ضروراُس کے چہرے سے ٹکرا کر میری زندگی کا پیغام دیں گی اور یہ بتائیں گی کہ وہ اُس کی منتظر ہے۔ خزانے کے متلاشی ایک با ہمّت نوجوان کے لئے ایک عورت سراپا انتظار بنی ہوئی ہے۔ آج کے بعد یہ ریگستان محض اِس امید کی بناء پر اہم ہو گا کہ اُس کا آنے والا اِسی سے گزر کر واپس آئے گا۔

 

 

 

(۳۴)

 

’’جو کچھ چھوڑ آئے ہو اُس کے لئے زیادہ فکر مند نہ ہو۔‘‘ الکیمسٹ نے راستہ چلتے ہوئے لڑکے کو سمجھایا۔

’’جو کچھ پہلے لکھا جا چکا اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔‘‘

’’گھر واپسی کے خواب دیکھنا اور اُس کے تصوّر سے بے قرار رہنا انسانی کمزوری ہے اور گھر چھوڑنا اُس کے لئے درد انگیز۔‘‘ لڑکا بولا۔ وہ ریگستان کے سکوت کا پہلے سے عادی تھا۔

’’جو کچھ تم نے پایا ہے اگر وہ حقیقی ہے تو سمجھ لو کہ وہ ختم نہ ہو گا اور تم واپس آ کر اُسے حاصل کر لو گے اور اگر تم محض ایک لمحاتی جذبہ کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہو تو یہ ایک روشنی کے جھماکے کی طرح ختم ہو جائے گا اور واپسی پر کچھ نہ ملے گا۔

الکیمسٹ صوفیانہ انداز میں اظہارِ خیال کر رہا تھا لیکن لڑکے کو اندازہ تھا کہ اُس کا یہ حوالہ فاطمہ سے متعلق ہے۔ لڑکے کی مجبوری یہ تھی کہ وہ جو کچھ پیچھے چھوڑ آیا تھا اُسے بھُلا نہیں سکتا تھا۔ یہ نا ممکن تھا کہ فاطمہ اُس کے خیالوں کی گرفت سے باہر رہ سکے۔ ریگستان کی وسعت پذیری اور اُس کی لامتناہی یکسانیت خواب آور تھی۔ اور اب بھی نخلستان کے خوبصورت درخت جیسے اُس کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ وہ کنواں اور پانی بھرتے ہوئے فاطمہ- جیسے وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ انگریز جو اپنے تجربے میں مستغرق تھا اور وہ ساربان جس نے اُسے بہت سی باتیں سکھائی تھیں وہ ایسے محسوس کر رہا تھا جیسے اُن کے درمیان ہو۔ بھلا یہ سب کیسے نہ یاد آئیں گے اُن کو بھُلایا نہیں جا سکتا۔ لڑکا سوچنے لگا کہ الکیمسٹ کو شاید عشق کا تجربہ کبھی نہیں ہوا۔

الکیمسٹ کا گھوڑا آگے آگے تھا۔ عقاب اُس کے کاندھے پر سوار ریگستان کی زبان سے اچھی طرح واقف تھا۔ جب بھی یہ کہیں رُکتے تو عقاب اشارہ پا لیتا اور کسی شکار کی تلاش میں اُڑ جاتا۔ پہلے دن ایک خرگوش کا شکار لایا اور دوسرے دن دو چڑیاں۔

رات ہوئی تو وہ اپنے بستروں کو کھول کر بچھا دیتے اور ضرورت کے تحت چھپا کر آگ روشن کرتے۔ ریگستان کی راتیں سرد تھیں اور اندھیری بھی۔ چاند کے گھٹنے کے ساتھ اُس اندھیرے میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا۔ کوئی ایک ہفتہ تک وہ ایسے ہی سفر کرتے رہے، ضرورت پڑنے پرہی کوئی گفتگو کرتے اور وہ بھی زیاد ہ تر ایسی احتیاطی تدابیر سے متعلق ہوتی جو قبیلوں کی جنگ کی زد میں آنے سے محفوظ رہنے کے لئے ضروری تھیں۔ جنگ جاری رہی اور بہنے والی خون کی بو کبھی کبھی ہوا کے دوش پر اُڑتی ہو ئی اُن کے حواس کو باخبر کر دیتی کہ جنگ شاید یہیں کہیں قریب ہی ہو رہی تھی۔ لڑکے کو یہ اندازہ تھا کہ جو چیزیں نظر نہ آسکیں گی وہ علامتوں کے ذریعہ معلوم ہو جائیں گی۔

ساتویں روز الکیمسٹ نے اب تک کے معمول سے ذرا قبل ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کر لیا۔ عقاب شکار کی تلاش میں اُڑ گیا۔الکیمسٹ نے اپنی پانی کی مشکیزہ لڑکے کو پیش کی۔

’’ہمارا سفر اب خاتمہ کے قریب ہے۔‘‘الکیمسٹ کہنے لگا۔ ’’تم نے اپنی جستجو جس کامیابی سے جاری رکھی ہے وہ یقیناً قابلِ مبارک باد ہے۔‘‘

’’لیکن راستہ میں تم نے مجھے کچھ بھی نہیں سکھایا۔‘‘ لڑکے نے کہا: ’’میں سوچتا تھا کہ تم بعض خصوصی باتیں مجھے بتاؤ گے، یہ تو بالکل ایسے ہی ہوا جیسے انگریز کے ساتھ ریگستان سے گزرتے ہوئے اُس کی ڈھیر سی کتابیں میرے لئے بے کار رہیں اور میں اُن سے کچھ نہ حاصل کر سکا۔‘‘

’’جاننے اور سیکھنے کا ایک ہی طریقہ معتبر ہے۔‘‘الکیمسٹ لڑکے کو بتانے لگا۔ ’’ اور وہ ہے عمل، جو کچھ تمہارے لئے ضروری تھا وہ سفر نے تمہیں سکھا دیا ہے۔ بس اب ایک چیز باقی ہے۔‘‘

لڑکا جاننا چاہتا تھا کہ وہ چیز کیا ہے؟ لیکن الکیمسٹ کی نظر تو آسمان میں اُڑنے والے عقاب کو تلاش کر رہی تھی۔

’’تمہیں الکیمسٹ کیوں کہا جاتا ہے۔‘‘

’’اِس لئے کہ میں الکیمسٹ ہوں۔‘‘

’’لیکن دوسرے بہت سے الکیمسٹ جنہوں نے سونا بنانے کی کوشش کی اور ناکام ہوئے؟ ‘‘

’’کیونکہ اُن کا مطمع نظر صرف سونا تھا۔وہ اپنے مقدّر کی دولت یعنی اُس کے صرف ایک حصہ کو چاہتے تھے، پوری تقدیر سے انہیں دلچسپی نہ تھی۔‘‘

’’مجھے اب کیا سیکھنا باقی ہے؟‘‘ لڑکے نے پھر پوچھا۔

لیکن الکیمسٹ کی نظر آسمان میں کچھ تلاش کر تی رہی۔ تھوڑی دیر میں عقاب شکار سے واپس آ گیا۔ اُنہوں نے ایک گڑھا کھود کر اُس میں آگ جلائی تاکہ باہر سے کسی کو وہ نظر نہ آسکے۔

’’میں الکیمسٹ ہوں اِس لئے مجھے الکیمسٹ کہتے ہیں، بالکل سادہ سی بات ہے۔‘‘ وہ کھانا تیار کرتے ہوئے لڑکے سے کہنے لگا : ’’یہ عِلم میں نے اپنے دادا بزرگوار سے حاصل کیا تھا اور اُنہوں نے اپنے والد سے اور اِسی طرح یہ سلسلہ تخلیقِ کائنات سے جاری ہے۔  در اصل اُس زمانہ کا امتیاز اختصار تھا اور شاہ کارِ تخلیق محض ایک زمرّد کی سطح پر تحریر کی جا سکتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ سادگی ختم ہونے لگی تو رسالے تحریر کئے جانے لگے پھر اُن کی تشریحات ہونے لگیں اور پھر فلسیانہ مطالعات کا لمبا سلسلہ چل پڑا۔بعد کے آنے والوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ گزشتہ زمانہ کے لوگ ہمارے مقابلہ میں کم جانتے تھے۔ ہمارا عِلم اور ہمارا زمانہ زیادہ ترقی یافتہ ہیَ لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ عِلم بالکل ختم ہو گیا۔ وہ آج بھی موجود اور لوحِ زمرّد آج بھی زندہ ہے۔‘‘

’’زمرّد کی اُن لوحوں پر کیا تحریر ہوتا تھا ؟‘‘ لڑکے نے جاننا چاہا۔

الکیمسٹ نے ریت میں کچھ آڑی ترچھی لکّیریں کھینچنی شروع کر دیں۔ تکمیل کرنے میں کوئی پانچ منٹ لگے ہوں گے۔ اِس دوران لڑکا اُسے دیکھتا رہا۔ اُسے بوڑھا بادشاہ یاد آیا جس سے پلازہ کے سامنے ملاقات ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ ملاقات برسوں پہلے ہوئی تھی۔

’’لوحِ زمرّد پر یہ لکھا رہتا تھا۔ ‘‘الکیمسٹ لکھ چکا تو لڑکے سے مخاطب ہوا۔ لڑکے نے پڑھنے کی کوشش کی۔

’’یہ تو کچھ اشارے ہیں۔‘‘ اُس کے انداز میں مایوسی تھی۔

’’ایسا ہی کچھ اِس انگریز کی کتاب میں تھا۔‘‘

’’نہیں ‘‘ الکیمسٹ نے جواب میں کہا ’’یہ اُن عقابوں کی اُڑان کی مانند ہے جو تم نے اُس روز دیکھے تھے، یہ سمجھنے کے لئے محض منطق اور استدلال ہی کافی نہیں ہے۔ لوحِ زمرّد     در اصل ایک راستہ بتاتا ہے جس سے روحِ کائنات میں براہِ راست پہنچا جا سکتا ہے۔۔۔‘‘

دانا یہ سمجھتے تھے کہ یہ نظر آنے والی دنیا تو محض ایک تصویر یا ایک عکس ہے، اصل دنیا تو آخرت کے بعد یعنی جنّت کی شکل میں ہو گی۔ یہ دنیا تو ہمارے اِس یقین کو پختہ کرنے اور یہ ضمانت دینے کے لیے ہے کہ ایک اور دوسری عیبوں اور نقائص سے بالکل پاک دنیا ضرور پائی جاتی ہے۔ خدا نے یہ کائنات اِس لیے بنائی ہے کہ انسان اُس کی تخلیقات پر غور و فکر کرتا رہے اور اُس کی حکمت و دانائی، اُس کی عظمت و بزرگی اور انسانوں کے تئیں اُس کی رحمت اور اُس کی باریک بینی پر تدبّر کرے اور اِس طرح اُس کی مخلوق کو سمجھ کر خدا کو پہچانے۔ دراصل اِس غور و فکر، تدبّر اور تفقہ کا نام ہی عمل ہے اور یہی عمل کرتے ہوئے انسان کے علم میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

’’پھر کیوں نہ میں بھی لوح کو سمجھنے کی کوشش کروں ‘‘ لڑکے کی آواز میں شوق کی گونج تھی۔’’ ہاں کیوں نہیں۔۔۔‘‘ اگر تم الکیمی کی لیبوریٹری میں ہوتے تو لوح کو سمجھنے کا طریقہ جاننے کی کوشش کے لئے یہ مناسب وقت ہے لیکن تم اِس وقت ریگستان میں ہو۔ اِس میں ڈوب جاؤ تو یہ خود ہی تم کو وہ سب کچھ دے گا اور اِس دنیا کی تفہیم کرا دے گا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اِس زمین کی سطح پر جو کوئی بھی چیز موجود ہے وہ اِس دنیا کو سمجھنے میں تمہاری مدد کر سکتی ہے۔ تمہیں پورے ریگستان کو سمجھنے کی ضرورت نہیں بلکہ محض اِس کے ریت کے ایک ذرّہ پر بھی تم غور کرو تو اِس عظیم تخلیق کی حیرت ناک باریکیاں اور اُن میں پنہاں حکمتیں تمہیں ورطہ حیرت میں ڈال دیں گی۔

’’ریگستان میں کیسے ڈوبا جائے۔‘‘

اپنے دل کی بات سنو۔ اُس پر پردے نہ پڑنے دو۔ اپنی صحیح اور شفّاف حالت میں سب کچھ جانتا ہے۔ انسان بہترین ساخت میں پید کیا گیا ہے، اِس ساخت کو مسخ نہ ہونے دو۔اِس میں خدا نے اپنی روح پھونکی ہے اور اُسے بہر حال ایک دن اُسی روح سے جا کر مل جانا ہے۔

 

 

 

(۳۵)

 

ریگستان عبور کرنے میں مزید دو دن لگے، اِس دوران وہ خاموش ہی رہے۔ الکیمسٹ اب زیادہ ہی محتاط ہو گیا تھا کیونکہ اب وہ اُس علاقے کے قریب پہنچ رہے تھے جہاں شدید اور انتہائی خونی جھڑپیں ہو رہی تھیں۔ آگے بڑھتے ہوئے لڑکا اپنے دل کوسُننے کی مشق کرنے لگا۔

دل کو سننا اب اتنا آسان نہیں رہا تھا۔پہلے تو وہ جیسے ہی توجہ کرتا تو دل اپنی روداد سنانے لگتا لیکن کچھ عرصے سے ایسا نہیں رہا تھا۔ پہلے تو گھنٹوں وہ دِل کی اُداسی کی داستان سنتا رہتا تھا اور کبھی وہ ریگستان کے طلوعِ آفتاب کے منظر کو دیکھ کر اتنا جذباتی ہو جاتا کہ لڑکا بدقّت تمام اپنے آنسو چھپا پاتا تھا۔ دِل کی دھڑکن اُس وقت تیز ہو جاتی جب وہ خزانہ کے متعلق کچھ بتاتا اور جب اُس کی نظر ریگستان کے لامتناہی آسمان کے فسوں سے سحر زدہ ہو جاتی تو اُس کی دھڑکنیں دھیمی ہو جاتیں، کسی بھی موقع پر دل خاموش نہ ہوتا یہاں تک کہ اُس وقت بھی جب الکیمسٹ اور وہ خاموش سفر کر رہے تھے۔

’’دل کی آواز سننا کیوں ضروری ہے؟‘‘ لڑکے کو پوچھنے کا موقع اُس وقت ملا جب وہ لوگ آرام کرنے کے لئے ایک مقام پر رُک گئے تھے۔

’’ہاں !کیونکہ جہاں کہیں بھی تمہارا دل ہو گا وہیں تمہیں خزانہ بھی ملے گا۔‘‘

’’لیکن میرے دل میں تو اِس وقت ہیجان بپا ہے۔‘‘ لڑکے نے کہا: ’’اُس کے اپنے خواب ہیں، اپنے جذبات ہیں ایک ریگستانی عورت کے  شوق پر ہر دم پُر جوش، میں جب اُس کے بارے میں سوچتا ہوں تو کئی کئی راتوں یہ مجھے جگائے رکھتا ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ یہ تو اچھا ہے کہ تمہارا دل زندہ ہے۔ اِس کی پکار کو سنتے رہو۔‘‘

اگلے تین دن کے دوران یہ دونوں مسافر ایسے علاقوں سے گزرے جہاں بہت سے ہتھیار بند قبائل نظر آئے۔ لڑکے کے دل نے اُسے خوف کا احساس کرانا شروع کر دیا۔ جنگوں کے بہت سے واقعات اُسے یاد دلائے، ایسے آدمیوں کی کہانیاں بتائیں جو خزانوں کی جستجو میں گئے لیکن پھر واپس نہ آسکے۔ کبھی کبھی دل نے یہ خوف دلایا کہ وہ خزانے کے حصول میں کامیاب نہ ہو سکے گا یا یہ کہ یہ ممکن ہے کہ ریگستان ہی میں اُسے موت آ جائے۔ کبھی وہ لڑکے کو یہ بتاتا کہ وہ مطمئن ہے۔ عشق اور مال دونوں کی دولت اُس کے پاس ہے۔

’’میرا دل دغا باز ہے۔‘‘ لڑکے نے الکیمسٹ سے یہ بات جب کہی جب وہ اپنے گھوڑوں کو تھوڑاسا آرام دینے کے لئے رُکے تھے۔

’’یہ نہیں چاہتا کہ میں آگے بڑھوں۔‘‘

’’دل کی یہ خواہش بالکل بجا ہے۔‘‘ الکیمسٹ نے جواب دیا۔ ’’دل کو بجا طور پر یہ خوف ہے کہ تم نے اِن خوابوں کی تکمیل کے دوران جو کچھ اب تک حاصل کیا ہے اُسے کہیں کھو نہ دو۔‘‘

’’تومیں دل کو سن کر کیا کروں۔‘‘

’’اِس لئے کہ تم کبھی بھی اُس کو خاموش نہ کر سکو گے، اگر تم یہ ظاہر کرو۔کہ اُس کی طرف متوجہ نہیں ہو۔ تب بھی وہ تمہارے اندر ہی رہے گا اور تم جو کچھ بھی دنیا اور زندگی کے بارے میں سوچوگے اُس کو دہراتا رہے گا۔‘‘

’’یعنی چاہے اُس کا رویّہ غدّارانہ ہی کیوں نہ ہو میں اُسے سنتا رہوں۔‘‘

’’اصل میں بغاوت تو ایک ایسا گھونسہ ہے جو اچانک پڑتا ہے۔ اگر تم اپنے دل کو اچھی طرح جانتے ہو تو اِس طرح کے اچانک گھونسہ کا شکار نہ ہو گے۔ کیونکہ تم دل کی خواہشات اور اُس کے خوابوں سے ناواقف نہیں ہو اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اُن سے کیسے نپٹا جاتا ہے۔ دل سے تم کبھی فرار حاصل نہ کر سکو گے۔ بہتر یہی ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اُسے سنو، اِس طرح کسی اچانک لگنے والی چوٹ سے محفوظ رہو گے۔

الکیمسٹ کی نصیحت سنکر لڑکے کو قدرے اطمینان حاصل ہوا اور پھر دورانِ سفر وہ دل کی ہر قسم کی آواز کو توجہ سے سنتا رہا۔ اب اُس کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ دل کب کیا کہتا ہے۔وہ ڈراتا بھی ہے اور روکتا بھی ہے اور ورغلاتا بھی ہے اور اکساتابھی ہے وہ خوشی کا اظہار بھی کرتا ہے اور اطمینان بھی دلاتا ہے۔ اُس کے نتیجہ میں اُس کا خوف کچھ کم ہو گیا اور نخلستان واپس جانے کی خواہش میں وہ جوش بھی نہ رہا۔ ایک دوپہر اُسے لگا کہ اُس کا دل خوش ہے۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ میں تم سے جو شکایتیں کرتا رہا ہوں وہ بے وجہ نہ تھیں۔ اصل بات یہ ہے کہ میں ایک انسان کا دل ہوں اور انسانوں کے دل ایسے ہی ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے اہم ترین خوابوں کے لئے جد و جہد کرنے سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ یا تو وہ اِس کے اہل نہیں ہیں یا اُن کی جد و جہد نا کام ہو جائے گی۔ ہمیں یہ بھی خوف ہوتا کہ ممکن ہے کہ وہ لوگ جو اِس انسان کے پیارے ہیں، آئندہ کبھی اُس سے نہ مل سکیں یا یہ حسین اور قیمتی لمحات جو آج حاصل ہیں آئندہ باقی نہ رہ پائیں یا پھر یہ خوف کہ جو خزانہ مل سکتا تھا وہ ہمیشہ کے لئے کہیں گہری ریت میں دب جائے۔ جب ایسا ہوتا ہے اور ایسا اکثر و بیشتر ہوتا رہتا ہے تو وہ ہمارے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔‘‘

’’میرے دل کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ کہیں اُسے تکلیف نہ اُٹھانی پڑے۔‘‘ ایک روز اندھیری رات میں جب وہ آسمان کو دیکھ رہے تھے، لڑکے   نے الکیمسٹ کو بتایا۔

’دل کو بتاؤ‘ کے خطرہ کا خوف حقیقی خطرہ سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اپنے خوابوں کی جستجو کسی دل کو تکلیف میں مبتلا نہیں کرتی کیونکہ اُس تلاش اور جستجو کے ہر لمحہ میں انسان خدا کے روبرو ہوتا اور سرمدیت کے بحر نا پیدا کنار میں غوطہ زن ہو رہا ہوتا ہے۔‘‘

’’میری جستجوکا ہر لمحہ خدائے بزرگ سے قربت کا ذریعہ ہے۔‘‘  لڑکے نے دل کو سمجھایا۔ ’’جب جب میں اپنے مقصد کے حصول میں مصروف رہا ہوں، میری آنکھوں کو نئی روشنی اور تازگی ملتی رہی ہے اور میں اِس یقین سے سرشار رہا ہوں کہ مقصد ضرور حاصل ہو جائے گا۔ اِس جد و جہد کے دوران مجھے ایسی معلومات حاصل ہوئیں اور ایسے تجربے ہوئے ہیں کہ جنہوں نے میری زندگی کو روشنی سے معمور کر دیا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی مقصد کی جدو جہد کے طفیل ہی میں مجھے ملا ہے ورنہ ایک معمولی چرواہا۔۔۔۔ہمّت کرنا تو در کنار، سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘‘

جیسے اُس کے دل کو قرار آ گیا۔ اُس رات لڑکا گہری نیند سو یا اور جب سوکر اُٹھا تو دل نے اُسے کچھ ایسی باتیں بتائیں جن کا تعلق روحِ کائنات سے تھا۔ انسان کی خوشی کا تعلق خدائے بزرگ و برتر سے تعلق کی سطح سے ہے۔ ریگستان کا ایک حقیر ذرّہ بھی خوشی کا عظیم خزانہ اپنے اندر رکھ سکتا ہے کیونکہ یہ ذرّہ در اصل تخلیق کا لمحہ ہے اور ایسے ان گنت لمحوں کو ملا کر اربوں سال کا وہ عرصہ بنا ہے جس میں یہ کائنات تخلیق ہوئی ہے۔ ’’ ہر شخص جو زمین پر رہتا ہے اُس کے لئے ایک خزانہ ہے اور اِس انتظار میں ہے کہ کوئی اِسے تسخیر کرے۔‘‘ دل کہہ رہا تھا، ہم یعنی ہم لوگوں کے دل، اِس خزانہ کے بارے میں کم ہی گفتگو کرتے ہیں کیونکہ کم ہی لوگ اِس خزانہ کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یا تو ہم اپنے نئے خزانے بنانے کی جستجو کرتے ہیں یا پھر دوسروں کے خزانوں کو لوٹتے ہیں۔ لیکن یہ خزانہ جو اپنی فطرت کے اعتبار سے ہمارے لئے مسخّر ہے اُس کی جستجو نہیں کرتے۔ ہم صرف بچوں کو بتاتے ہیں کہ یہ کائنات خدا نے ہمارے لئے بنائی ہے اور عمر کے ساتھ یہ بھی بتانا چھوڑ دیتے ہیں اور زندگی اپنا راستہ خود ہی طے کرتی رہتی ہے۔ یہ بد قسمتی ہی تو ہے کہ جو راستہ تسخیرشدہ ہے جو مقدّر کے حصول کا ضامن بھی ہے اور خوشی کا منبع بھی، اُس پر چلنے سے ہم کتراتے ہیں۔ اکثر لوگ دنیا کو ایک رزمگاہ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اِسی طرح کا رویّہ بھی اختیار کرتے ہیں۔ اِس رویّہ کی بناء پر دنیا اُن کے لئے رزمگاہ ہی بن جاتی ہے۔‘‘

چنانچہ ہم یعنی انسانوں کے قلوب اپنے اشاروں میں نرم ترتو ہو جاتے ہیں لیکن اشارے کرنا بالکل بند نہیں کرتے گو کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اِن اشاروں پر کوئی توجہ نہ دی جائے گی۔ البتّہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ہمارے اشاروں کو سمجھنے کے نتیجے میں لوگوں کو پریشانی اُٹھانی پڑے۔

دل یہ پیغام کیوں نہیں دیتے کہ انسان اپنے خوابوں کی اتباع کرے۔‘‘لڑکے نے الکیمسٹ سے پوچھا۔

’’لیکن اِس کے نتیجہ میں دل کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ یقیناً تکلیف میں رہنا نہیں چاہے گا۔‘‘

اِس طرح لڑکا اپنے قلب کی کیفیت کا صحیح تجزیہ کرنے میں کامیاب ہو گیا اور دل سے بولا کہ وہ اُس سے اپنی گفتگو کبھی منقطع نہ کرے اور جب بھی وہ اپنے خوابوں سے بھٹکے تو اُسے فوراً آگاہ کرے۔ لڑکے نے قسم کھا کر کہا کہ جب بھی اُسے دل کی طرف سے انتباہ ہو گا وہ اُس کے پیغام پر توجہ دے گا۔

اُس رات یہ تمام باتیں لڑکے نے الکیمسٹ کو بتا دیں۔الکیمسٹ اِس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ لڑکے کا دل روحِ کائنات کے ساتھ وابستگی کے مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے۔

’’اب کیا کروں۔‘‘ لڑکے نے پوچھا۔

’’اہرامِ مصر کی سمت میں اپنا سفر جاری رکھو۔‘‘ الکیمسٹ بولا ’’اور اشاروں سے رشتہ قائم رکھو، تمہارا دل خزانے کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘

’’کیا یہی وہ ایک چیز ہے جو مجھے ابھی جاننا باقی ہے۔‘‘

’’نہیں ‘‘الکیمسٹ نے جواب دیا۔ جو بات تمہیں سمجھنا ہے وہ یہ ہے کہ خواب کی تعبیر حقیقت میں بدلنے سے پہلے روحِ کائنات ہر اُس چیز کا جو تم نے اِس راستہ میں سیکھی ہے، ایک سخت امتحان لیتی ہے۔ اِس لئے نہیں کہ یہ چیزیں نقصان رساں یا معصیت ہیں بلکہ اِس لئے کہ حقیقت پا لینے کے ساتھ ساتھ ہمیں اُن چیزوں میں مہارت بھی حاصل ہو جائے۔ یہ مرحلہ بہت ہی اہم اور انتہائی سخت ہوتا ہے اور بہت سے لوگ اِس مقام پر پہنچ کر تھک کر جستجو ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اُس مقام کوریگستانی زبان میں پیاس سے اُس وقت مر جانا کہتے ہیں جب کھجور کے درخت نظر آنے لگے ہوں۔

یاد رکھو کہ ہر جستجو کے آغاز میں مبتدا کے ساتھ خوش قسمتی بھی رہتی ہے، کامیابی انتہائی سخت اور شدید امتحان کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔‘‘

لڑکے کو اپنی زبان کا ایک مقولہ یاد آ گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’رات کا تاریک ترین لمحہ وہ ہوتا ہے جس کے فوراً بعد صبح طلوع ہونے والی ہوتی ہے۔‘‘

 

 

 

(۳۶)

 

اگلے روز ممکنہ خطرہ کی پہلی واضح علامت ظاہر ہو گئی۔ تین ہتھیار بند قبائلی آئے اور اُن لوگوں سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہے ہیں۔

’’میں تو یہاں اپنے عقاب سے شکار کھیل رہا ہوں ‘‘ الکیمسٹ نے جواب دیا۔

ایک قبائلی نے کہا کہ ہم ہتھیاروں کی تلاشی لیں گے۔ یہ سن کرالکیمسٹ اور لڑکا دونوں اپنے گھوڑوں سے نیچے اُترے۔

’’تم اتنی رقم کیوں لے جا رہے ہو؟‘‘ ایک قبائلی نے لڑکے کا تھیلا تلاش کرتے ہوئے اُس سے پوچھا۔

’’مجھے اہرام تک ایک لمبا سفر طے کرنا ہے۔‘‘ اُس نے کہا۔

الکیمسٹ کی تلاشی دوسرا قبائلی لے رہا تھا۔ اُس کے تھیلے میں اُسے شیشہ کے برتن میں ایک رقیق اور ایک پیلے رنگ کا انڈا ملا جو مرغی کے انڈے سے ذرا بڑا تھا۔

’’یہ کیا چیز ہے۔‘‘ اُس نے پوچھا۔

’’یہ سنگِ پارس اور آبِ حیات ہے۔یہ عظیم حکماء کے شاہکار ہیں۔ آبِ حیات کوئی اگر پی لے تو کبھی بیمار نہ ہو اور اُس انڈے کا ذرا سا ٹکڑا بھی دھات کو سونا بنا دے گا۔‘‘

قبائلی عرب یہ سن کر ہنس پڑا۔الکیمسٹ بھی ہنسنے لگا۔

اُن قبائلیوں نے اِن دونوں کے جواب کو کوئی اہمیت نہ دی اور دونوں کو چھوڑ دیا۔

’’یہ کیا دیوانگی ہے۔‘‘ لڑکے نے تھوڑا آگے بڑھنے کے بعد الکیمسٹ سے پوچھا۔ ’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘

’’تمہیں زندگی کا ایک بہت ہی عام سا سبق سکھانا تھا‘‘ الکیمسٹ نے جواب دیا۔ ’’تمہارے اندر کوئی بہت بڑا خزانہ موجود ہو اور تم لوگوں کو بتاؤ بھی تو لوگ یقین نہیں کریں گے۔‘‘

وہ راستہ طے کرتے رہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ لڑکے کا دل خاموش رہنے لگا۔ اُسے اب شاید ماضی یا حال کی کوئی فکر نہ تھی۔ زیادہ تر ریگستان پر ہی اُس کی توجہ مبذول رہی۔ لڑکا اور اُس کا دل اب دونوں ہی روحِ کائنات سے مستفیذ ہو رہے تھے۔ دونوں کی باہم یگانگت اب ایسی تھی کہ ایک دوسرے کو نہ تو غلط سمجھ سکتا تھا اور نہ ہی دھوکہ کھا سکتا تھا۔

کیونکہ ریگستان میں خاموشی بڑی اُکتا دینے والی ہوتی ہے اِس لئے جب بھی دل بولتا تو اُس کا مقصد لڑکے کو ہمّت اور قوّت دلانا ہوتا۔ دل نے لڑکے کو بتایا کہ اُس کی اعلیٰ ترین صفات کا اظہار اُس وقت ہوا تھا جب اُس نے بھیڑوں کو فروخت کر دینے کی ہمت کر لی تھی اور پھر بلّوری ظروف کی دکان پر اُس نے جس جوش سے محنت کی وہ بھی اُسی کا اظہار تھی۔

اِس کے علاوہ دل نے اُسے بعض ایسی چیزیں بھی بتا دیں جن کا تجربہ اِس سے قبل اُسے نہ ہوا تھا۔ مثلاً ایسے خطرات جن کا لڑکے کو پتا ہی نہ چلا۔ مثلاً ایک بار اُس نے اپنے والد کی بندوق لے لی تھی لیکن وہ کہیں رکھ کر بھول گیا تھا۔ دل نے کہا کہ یہ اِس لئے ہوا تھا کہ کہیں تم اپنے کو گولی سے زخمی نہ کر لو۔ اِس طرح ایک بار تم اپنی بھیڑوں کے ساتھ کہیں جا رہے تھے، تم اچانک بیمار ہو گئے اور تمہیں نیند آنے لگے اور پھر تھوڑی دیر میں تم خاصی دیر تک سوتے رہے۔ کافی آگے چند لٹیرے تمہارے منتظر تھے کہ تم آؤ تو تمہاری بھیڑیں لوٹ لیں اور تمہیں قتل کر دیں۔ تمہارے پہنچنے میں کیونکہ بہت تاخیر ہوئی تو وہ سمجھے شاید تم راستہ بدل کر نکل گئے ہو۔

’’کیا انسان کا دل ہمیشہ اُس کی مدد کرتا ہے۔‘‘ لڑکے نے الکیمسٹ سے پوچھا۔

’’جو اپنے مقدّرات کے حصول کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اُن کی تو یہ اکثر مدد کرتا ہے، لیکن یہ بچوں، بوڑھوں اور یہاں تک کہ مدہوش رہنے والوں کی بھی مدد کرتا ہے۔‘‘

’’اِس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اب کبھی خطرہ سے دوچار نہ ہوں گا۔‘‘

’’اِس کا مطلب صرف اِتنا ہے کہ دل ہر وہ کام کرتا ہے جو اُس کے بس میں ہے۔‘‘ الکیمسٹ نے بتایا۔

ایک دوپہر کے وقت وہ ایسے مقام سے گزرے جہاں جنگجو قبائلیوں کی ٹکڑی کا پڑاؤ تھا۔ پڑاؤ کے چاروں کونوں پر عرب لوگ خوبصورت سفید عبائیں پہنے بیٹھے خوش گپّیوں میں مصروف حقّہ سے شغل کر رہے تھے۔ کوئی بھی اُن کی طرف متوجہ نہ ہوا۔

’’کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘ جب وہ پڑاؤ سے دور چلے گئے تو لڑکا بول پڑا۔

الکیمسٹ نے ذرا سخت لہجے میں ٹوکا: ’’ٹھیک ہے اپنے دل پر بھروسہ ضرور کرو لیکن نہ بھُولو کہ یہ ریگستان ہے، جب لوگ جنگ میں ہو ں تو کوئی بھی چیز محفوظ نہیں رہتی، روح بھی چیخوں کو سنتی ہے۔‘‘

’’سب چیزیں اصل کے اعتبار سے تو ایک ہی ہیں۔‘‘لڑکا سوچ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے دو شہسوار آ گئے اور بولے کہ تم لوگ آگے نہیں جا سکتے، جنگ کے علاقے میں ہو۔‘‘ ابھی جس خطرے کا امکان الکیمسٹ نے کیا تھا وہ ظاہر ہو گیا۔

’’میں بہت دور نہیں جا رہا ہوں۔‘‘ الکیمسٹ نے ایک شہسوار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا۔ ایک لمحہ کے لئے وہ دونوں خاموش ہو گئے اور پھر اُنہیں جانے کی اجازت دے دی۔

لڑکا الکیمسٹ کے اِس عمل کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔

’’تم نے شہسوار کو اپنی آنکھوں سے مغلوب کر دیا تھا۔‘‘ لڑکے نے کہا۔

’’آنکھوں سے روحانی قوّت کا اظہار ہوتا ہے۔‘‘الکیمسٹ کا جواب تھا۔

’’کتنی سچی بات ہے یہ۔‘‘ لڑکے نے سوچا۔ پڑاؤ سے گزرتے ہوئے لڑکے نے یہ دیکھا تھا کہ ایک شخص جو خاصی دور تھا، اُن دونوں کو نظریں جمائے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اُس کا چہرہ تو لڑکا نہ دیکھا سکا تھا لیکن یہ یقین تھا کہ وہ اُنہیں دیکھ رہا ہے۔

آخر کار جب وہ اُس پہاڑی سلسلہ سے گزر چکے جو تا حدِّ نگاہ پھیلا ہوا تھا تو الکیمسٹ نے بتایا کہ اب یہاں سے اہرام محض دو دن کے فاصلے پر ہیں۔

’’اب شاید جلد ہمارے راستے جدا ہونے والے ہیں۔ لڑکا کہنے لگا : ’’تو کچھ الکیمی کے بارے میں بتا دیں۔‘‘

تم پہلے ہی جانتے ہو، یہ تو بس اِس کائنات کی روح تک پہنچ کر اُن خزانوں کو تلاش کر لینے کا نام ہے جو تمہارے لئے پہلے سے محفوظ ہیں۔‘‘

نہیں میرا یہ مطلب نہیں ہے۔ میں جَستہ کو سونے میں بدلنے کی بات کر رہا ہوں۔‘‘

الکیمسٹ پر جیسے خاموشی چھا گئی۔ ایسی خاموشی جیسی ریگستان پر چھا جاتی ہے۔اور اُس وقت تک کوئی جواب نہ دیا جب تک کہ وہ بھوک کے احساس سے مغلوب ہو کر ایک جگہ رُک نہ گئے۔

’’دنیا کی ہر چیز میں ارتقا ہوا ہے۔‘‘ اُس نے کہا  ’’دانا انسان کو یہ جاننا چاہیے کہ سونا دھاتوں میں سب سے زیادہ ارتقاء یافتہ شکل ہے۔ مجھ سے یہ نہ پوچھو کہ ایسا کیوں ہے ؟ کیونکہ میں اِس کے جواب سے واقف نہیں ہوں۔میں صرف اور صرف یہ جانتا ہوں کی ہماری روایتیں جو کہتی ہیں وہ صحیح ہے۔‘‘

’’انسان اکثر دانشمندوں کی باتوں پر توجہ نہیں دیتا۔ چنانچہ سونے کو دھاتوں میں ارتقا کی ارفع ترین شکل سمجھنے اور ارتقاء کی اعلیٰ ترین علامت سمجھنے کے بجائے انسان نے اُسے غلبہ، اقتدار اور دولت کے لئے فساد کی جڑ بنا دیا۔

’’اشیاء بہت سی الگ الگ زبانیں بولتی ہیں۔‘‘ لڑکا کہنے لگا۔ ’’ایک وقت تھا جب اونٹ کی بڑبڑاہٹ میرے لئے محض آواز تھی۔ پھر وہ خطرہ کی علامت بن گئی اور آخر میں وہ پھر محض ایک آواز ہی رہ گئی ہے۔

یہ کہہ کر وہ رک گیا۔الکیمسٹ کو یہ سب باتیں شاید معلوم تھیں۔

’’میں حقیقی حکمائے الکیمی سے واقف ہوں۔‘‘الکیمسٹ نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’اُنہوں نے اپنے آپ کو معملوں میں بند کر لیا تھا اور جیسے سونے کا ارتقاء ہوا تھا وہ اپنی ذات کے ارتقاء میں لگ گئے تھے۔ اِس عمل میں اُنہیں پارس پتھر بھی مل گیا تھا جسے اُنہوں نے انتہائی آسانی سے پہچان لیا کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ کوئی ارتقاء تنہا نہیں ہوتا بلکہ اُس کے ہمراہ ہر چیز کا ارتقاء ہوتا ہے۔

کچھ ایسے بھی تھے جو محض اتّفاق سے پارس پتھر تک پہنچے تھے۔ اُن کی بعض صلاحیتیں خدا داد تھیں جن کے نتیجہ میں دوسروں کے مقابلے میں اُن کی روحیں متعلقہ مراحل کا سامنا کرنے کے لیے زیادہ تیّار تھیں لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور اُن کا تذکرہ بے سود ہے۔

پھر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں محض سونے میں دلچسپی تھی۔ ظاہر ہے اُن پر اِس کا راز کبھی عیاں نہ ہو سکا۔ وہ لوگ یہ بھُول گئے کہ ہر دھات کا اپنا ایک مقدر ہے اور یہ اُس کے لئے لازم ہے کہ وہ اُس مقدّر تک پہنچے۔مقدّر تک پہنچنے کے عمل میں کوئی اگر رکاوٹ ڈالے گا تو وہ اپنا مقام بھی کھو دے گا اور اپنے مقدر کا حصول بھی اُس کے لئے ممکن نہ رہ پائے گا۔

الکیمسٹ کے الفاظ قہرِ خداوندی کی مانند گونج رہے تھے۔ وہ آگے بڑھا اور زمین پر پڑے ایک صدف کو اُٹھا لیا۔

’’یہ ریگستان ایک زمانہ میں سمندر تھا۔‘‘ وہ بولا۔

’’میں بھی یہ دیکھ چکا ہوں۔‘‘ لڑکے سے جواب دیا۔

الکیمسٹ نے لڑکے کو صدف کانوں پر رکھنے کے لئے کہا۔ لڑکا بچپن میں یہ اکثر کر چکا تھا اور سمندر کی لہروں کی آواز سنی تھی۔

’’یہ صد ف کبھی سمندر کے اندر رہا ہے، کیونکہ یہی اُس کا مقدّر تھا، اِس لئے سمندر کی یہ آواز اُس سے اُس وقت تک آتی رہے گی جب تک کہ یہ اپنے مقدّر کو حاصل نہ کر لے اور سمندر پھر اُس کے اوپر سے بہنے نہ لگے۔‘‘

دونوں اپنے گھوڑوں پر پھر سوار ہوئے اور اہرامِ مصر کی سمت میں چل پڑے۔

 

 

 

(۳۷)

 

غروبِ آفتاب قریب ہی تھا کہ لڑکے کو کسی خطرہ کا احساس ہوا۔ دل نے واضح علامت دی تھی۔ اُن کے چاروں طرف بلند و بالا ریت کے ڈھیر تھے۔ اُس نے سوالیہ انداز میں الکیمسٹ کی جانب دیکھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا اُس نے بھی کچھ محسوس کیا ہے، لیکن اُسے لگا کہ الکیمسٹ کو خطرے کا ذرا بھی احساس نہ تھا۔

پانچ منٹ کے بعد لڑکے کو دو شہسوار نظر آئے جو شاید اُن کے آنے ہی کا انتظار کر رہے تھے۔ اِس سے قبل کہ وہ الکیمسٹ سے کچھ کہہ سکے۔ اُن کی تعداد بڑھ کر دس ہو گئی اور پھر سو۔ تھوڑی دیر میں چاروں طرف یہی لوگ نظر آرہے تھے۔

نیلی وردی میں ملبوس قبائلی تھے اور اُن کے صافوں کو سیاہ کڑا گھیر ے ہوئے تھا۔ چہرے نیلے نقاب میں چھپے تھے۔ اُن کی صرف آنکھیں ہی نظر  آ رہی تھیں۔

خاصی دور سے بھی محسوس ہوتا تھا کہ اُن کی آنکھوں میں بلا کی چمک ہے جو ایک طرف اُن کی اندرونی طاقت کی غمّاز تھیں اور دوسری طرف موت کی پیغامبر بھی۔

 

 

 

(۳۸)

 

اُن دونوں کو قریب کے فوجی ٹھکانوں پر لے جایا گیا۔ ایک سپاہی اُنہیں دھکیلتا ہوا قبائلی سالار کے خیمہ میں لے گیا۔ سالار اپنے ذمہ داروں کے ساتھ مشاورت میں مصروف تھا۔

’’یہ جاسوس ہیں۔‘‘ ایک نے کہا۔

‘‘ہم تو محض مسافر ہیں۔‘‘ الکیمسٹ نے جواب دیا۔

’’تم لوگ کچھ دن پہلے ہمارے دشمن کے کیمپ میں تھے اور ہم نے دیکھا تھا کہ اُن کے سپاہی کے ساتھ تم بات بھی کر رہے تھے۔‘‘

’’میں تو بس ریگستان میں ہی گھومتا رہتا ہوں اور ستاروں کی چالوں کو جانتا ہوں۔‘‘ الکیمسٹ بولا۔ ’’مجھے فوجیوں کی نقل و حرکت کا کوئی علم نہیں۔ میں تو اپنے ساتھی دوست کو صرف راستہ دکھانے کی غرض سے اُس کے ساتھ ساتھ آیا ہوں۔‘‘

’’کون ہے تمہارا دوست؟‘‘ سالار نے پوچھا۔

’’ایک الکیمسٹ ہے۔‘‘ اُس نے جواب دیا۔ ’’وہ فطرت کی طاقتوں کو جانتا اور بڑی غیر معمولی قوّتوں کا مالک ہے۔‘‘

لڑکا سب بہت صبر سے سنتا رہا لیکن خوف کے مارے اُس کا برا حال تھا۔

’’یہ غیر ملکی یہاں کس لئے آیا ہے۔‘‘ ایک دوسرے آدمی نے پوچھا۔

’’تمہارے قبیلے کو دینے کے لئے اُس کے پاس خاصی بھاری موجود رقم ہے۔‘‘ اِس سے قبل کہ لڑکا کچھ بولے، الکیمسٹ نے لڑکے کا تھیلا کھول کر سونے کے سکّے سالار کے سامنے ڈال دیے۔

عرب سردار نے کچھ کہے بغیر اُنہیں قبول کر لیا۔ اِس رقم سے بہت سے ہتھیار خریدے جا سکتے تھے۔

’’الکیمسٹکسے کہتے ہیں۔‘‘ اُس نے آخری سوال کر ڈالا۔

’’یہ فطرت کو سمجھتے اور دنیا کو جانتے ہیں۔اگر یہ چاہے تو اِس پورے کیمپ کو محض ہوا کے زور پر تباہ کر سکتا ہے۔‘‘

سالار یہ سن کر ہنس دیا۔ یہ لوگ جنگ کی تباہ کاریوں سے تو واقف تھے لیکن اُنہیں معلوم تھا کہ ہوا اُنہیں موت کے گھاٹ نہیں اُتار سکتی البتّہ ریگستان کے لوگوں میں جادوگروں کا خوف بہر حال موجود تھا۔ ہر شخص کا دل ذرا تیزی سے دھڑکنے لگا۔

’’کیا یہ ایسا کر کے دکھا سکتا ہے؟‘‘ سالار نے کہا۔

’’اُسے صرف تین دن کی مہلت دی جائے۔‘‘ الکیمسٹ نے جواب دیا۔

’’یہ خود کو ہوا میں تبدیل کر کے اپنی قوّت کو ثابت کرے گا۔ اگر یہ نہ کر پائے تو ہمارے سر حاضر ہیں، آپ کے قبیلے کا اقبال بلند رہے۔‘‘

’’تم مجھے کوئی ایسی چیزکیسے پیش کر سکتے ہو جو میرے ہی قبضہ میں ہے۔‘‘ سالار غرور سے بولا’’ لیکن اُس نے تین دن کی مہلت دے دی۔‘‘

لڑکا خوف کے مارے اندر سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔الکیمسٹ اُسے سہارا دے کر خیمہ سے باہر لے آیا۔ ’’اُنہیں محسوس نہ ہو نے دو کہ تم خوف زدہ ہو۔‘‘ وہ کہنے لگا۔ ’’یہ بہادر لوگ ہیں اور بزدلوں سے نفرت کرتے ہیں۔‘‘

لیکن لڑکے کے منہ میں جیسے زبان نہ تھی۔ جب وہ کیمپ سے گزر گئے تب ہی لڑکا بولنے کے قابل ہو سکا۔ اُنہیں قید خانہ میں بند کرنے کی ضرورت نہ تھی بس اُن کے گھوڑے اُن سے لے لئے گئے تھے۔ایک بار پھر یہ احساس ہوا تھا کہ دنیا بہت سی زبانیں بولتی ہے۔ ابھی کچھ دیر قبل یہ ریگستان وسعت پذیری اور آزادی کا پیامبر تھا اور اب ایک قید خانہ بن چکا تھا۔

’’تم نے جو کچھ بھی میرے پاس تھا اُنہیں سب دے ڈالا۔‘‘ لڑکا کہنے لگا۔‘‘ اب تک یہی سب کچھ تو میں بچا سکا تھا۔‘‘

’’لیکن اگر موت آ جائے تو یہ سب آخر کس کام کا ہے۔‘‘ الکیمسٹ نے جواب دیا: ’’تمہارے پیسہ سے ہمیں تین دن کی زندگی تو مل ہی گئی۔‘‘ پیسہ سے اکثر آدمی کی زندگی بچ جاتی ہے۔‘‘

لیکن لڑکا اتنا خوفزدہ تھا کہ حکمت کی اُن باتوں پر زیادہ توجہ نہ دے سکا۔ اُسے یہ فکر لاحق تھی کہ وہ ہوا میں کیسے تبدیل ہو گا۔ اِس فن سے تو وہ بالکل بھی واقف نہ تھا۔ وہ بہر حال الکیمسٹ نہ تھا۔

الکیمسٹ نے ایک سپاہی سے تھوڑی سی چائے مانگی اور اُس کے کچھ قطرے لڑکے کی کلائی پر ڈال دئیے۔ لڑکے کو سکون اور اطمینان کی ایک لہر محسوس ہوئی۔الکیمسٹ نے بعض ایسے کلمات بھی پڑھے جو لڑکے کی سمجھ میں نہ آسکے۔

’’اتنے خوفزدہ نہ ہو۔‘‘ وہ لڑکے سے کہنے لگا۔ اُس کی آواز خاصی مشفقانہ تھی۔ ’’اِس حالت میں تم اپنے دل کی بات نہ سن سکو گے۔‘‘

لیکن میں تو بالکل بھی نہیں جانتا کہ ہوا میں کیسے تبدیل ہوا جاتا ہے۔‘‘

’’جو اپنی تقدیر کے حصول کے لئے کوشاں ہے اُسے ہر ضروری بات معلوم ہوتی ہے۔ اُس کو ناممکن بنانے والی صرف ایک چیز ہے، وہ ہے ناکامی کا ڈر۔‘‘

میں ناکامی سے تو نہیں ڈرتا لیکن مسلہ یہ ہے کہ میں تو یہ جانتا ہی نہیں کہ ہوا میں تبدیل کس طرح ہوا جاتا ہے۔

’’ لیکن تمہیں تو یہ سیکھنا ہی پڑے گا،  زندگی کا انحصار تو اِسی پر ہے۔‘‘

’’اگر نہ کر سکا تو۔‘‘

’’تو بس اپنے مقصد کے حصول کی جد و جہد کے دوران موت آ جائے گی اور یہ موت اُن لاکھوں لوگوں کی موت سے بدرجہا بہتر ہو گی جو زندگی بھر اپنے مقدّر کا شعور ہی حاصل نہیں کر پاتے۔

’’زیادہ فکرمند نہ ہو۔‘‘ جب موت کا خطرہ سامنے ہوتا ہے تو زندگی بھی اپنے امکانات کو بہت وسیع و روشن کر دیتی ہے۔‘‘

 

 

 

(۳۹)

 

ایک دن گزر گیا۔ قریب میں کہیں بڑی جنگ چل رہی تھی۔ بہت سے زخمی کیمپ میں لائے جا رہے تھے۔ مردہ سپاہیوں کی جگہوں کو پُر کیا جا رہا تھا۔ زندگی رواں دواں تھی۔ موت کچھ بھی تو تبدیل نہ کر پائی تھی۔لڑکا سوچ رہا تھا۔

’’تم کچھ دن بعد بھی مر سکتے تھے۔‘‘ ایک سپاہی نے اپنے ساتھی کی لاش دیکھ کر کہا۔’’امن قائم ہونے تک تو انتظار کرتے۔ مرنا تو ایک دن تھا ہی۔‘‘

دن کے اختتام پر لڑکا الکیمسٹ کی تلاش میں باہر نکلا جو اپنے عقابوں کو ریگستان میں کہیں لے گیا تھا۔

مجھے ابھی تک ہوا میں تبدیل ہونے کا گُر معلوم نہ ہو سکا۔‘‘ لڑکے نے وہی بات دہرائی۔

’’میں نے جو کچھ کہا ہے اُسے یاد رکھو، دنیا خدا کی قوت کا محض ایک اظہار ہے۔الکیمسٹ کا کام اُس مادّی وجود سے تعامل کے دوران روحانی اتمام حاصل کرنا ہے۔‘‘

’’تم یہاں کیا کر رہے ہو۔‘‘

’’اُن عقابوں کو چُگا رہا ہوں۔‘‘

’’اگر میں ہوا میں تبدیل نہ ہو سکا تو ہم لوگ مر جائیں گے۔‘‘ لڑکا بولا ’’عقابوں کو کھلانے پلانے کی پھر کیا ضرورت ہے۔‘‘

’’موت ممکن ہے کہ تمہیں کو آئے۔‘‘الکیمسٹ بولا ’’مجھے تو ہوا میں تبدیل ہونے کا فن پہلے ہی سے آتا ہے۔‘‘

 

 

 

(۴۰)

 

دوسرے روز لڑکا کیمپ کے قریب ہی ایک ڈھلواں چٹّان پر چڑھا۔ محافظوں نے کوئی روک ٹوک نہ کی۔ پورے کیمپ میں یہ بات پھیل چکی تھی  کہ یہ جادو گر اپنے کو ہوا میں تبدیل کر ے گا۔ اِس سے خوف مانع تھا۔ چنانچہ اُس کے قریب جانے سے وہ لوگ کتراتے تھے۔ اِس سب کے باوجود وہ ریگستان کو چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتے تھے۔

پوری دوپہر لڑکا وہیں رہا اور ریگستان کو دیکھتا اور اپنے دل کی آواز کو سنتا رہا۔ اُسے لگا کہ ریگستان اُس کے خوف کو محسوس کرتا ہے۔

دونوں کی زبان اُس وقت یکساں تھی۔

 

 

 

(۴۱)

 

تیسرے رو ز سالار نے اپنے افسروں کی میٹنگ طلب کی۔الکیمسٹ کو بھی بلایا اور بولا’’ چلیں دیکھیں کہ لڑکا کس طرح اپنے آپ کو ہوا میں تبدیل کر تا ہے۔‘‘

’’چلیں۔‘‘الکیمسٹ نے جواباً کہا۔

لڑکا اُنہیں اُس ڈھلواں چٹان پر لے گیا اور اُن سے بیٹھنے کو کہا۔

’’تھوڑی دیر لگے گی۔‘‘ لڑکا بولا۔

’’ہمیں بھی کوئی بہت جلدی نہیں ہے۔‘‘ سالار نے جواب دیا، ’’ہم لوگ ریگستانی ہیں۔‘‘

لڑکے نے سامنے اُفق پر نظر دوڑائی۔ کچھ پہاڑ نظر آئے اور ریت کے بڑے چھوٹے تودے بھی۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بھی اور اُنہیں کے درمیان کچھ پودے بھی موجود تھے جو اُس زندگی دشمن ریگستان میں یہ یقیں دلا رہے تھے کہ یہاں بھی زندگی کے امکان کو بالکل خارج نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہی ریگستان تھا جس میں وہ کئی مہینوں سے گھومتا رہا تھا لیکن اتنا وقت گزارنے کے باوجود وہ اُس کے ایک چھوٹے سے حصہ ہی سے واقف ہو سکا تھا۔ اِس چھوٹے سے حصہ میں اُسے ایک انگریز، قافلہ، قبائلی جنگ اور ایک ایسا نخلستان جس میں تین سو کنویں اور پچاس ہزار درخت تھے، سے سابقہ پڑا تھا۔

’’آج یہاں کیا لینے آئے ہو۔‘‘ لڑکے کو لگا کہ جیسے ریگستان اُس سے پوچھ رہا ہے، ’’کل تو تم خاصی دیر تک مجھے دیکھتے رہے تھے۔‘‘

’’سنو ! ایک شخص جس سے مجھے عشق ہے تم نے اُسے کہیں چھپا لیا ہے۔‘‘ لڑکے نے کہا ’’جب تمہارے ریت پر نظر ڈالتا ہوں تو میں اپنے محبوب کو بھی دیکھ رہا ہوتا ہوں۔ میں اُس کے پاس جانا چاہتا ہوں، کیا تم مجھے ہوا میں تبدیل کر کے اُس تک پہنچا سکتے ہو۔‘‘

’’عشق کیا ہے۔‘‘ ریگستان نے پوچھا۔

’’تمہاری ریت کے اوپر عقاب کی اُڑان عشق ہے۔ تم اُن کے لئے سبز میدان کی مانند ہو جہاں سے وہ اپنی غذا تلاش کر لیتے ہیں۔ وہ تمہاری چٹّانوں، ریت کے ٹیلوں اور پہاڑوں، سب سے واقف ہیں اور تم ہمیشہ اُن کے لئے فیّاض اور کشادہ دل رہتے ہو۔‘‘

’’عقاب کی چونچ تو میرے کچھ ذرّوں یعنی خود مجھے لیے رہتی ہے۔‘‘ ریگستان نے کہا’’سالہا سال سے عقاب کا یہ کھیل جاری ہے اور میں اُس کی مدد کرتا ہوں۔جو تھوڑا بہت پانی مجھ میں موجود ہے اُس سے رزق فراہم کرتا اور پھر اُسے بتاتا ہوں کہ اُس کا شکار کہاں ہے۔ عقاب کی تمام تر سر گرمی میری بدولت ہے۔ میرا پرورش کردہ وجود جب ایک روز عقاب کا شکار ہو جاتا ہے تو گویا میرے منصوبہ کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ میرے لئے اِس سے زیادہ اطمینان اور خوشی کا باعث اور کیا ہو سکتا ہے‘‘

’’لیکن اِسی مقصد کے لئے تو تم شکار کی پرورش کرتے ہو۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔

’’پہلے تم عقابوں کو رزق بہم پہنچاتے ہو۔ عقاب انسانوں کو رزق فراہم کرتے ہیں اور پھر انسان تمہارے اِس بنجر ریت کو قابلِ کاشت بناتے ہیں تاکہ عقاب اپنا شکار پھر کھیل سکے۔دنیا اِسی طرح جاری ہے۔‘‘

’’تو کیا عشق اِسی کا نام ہے۔‘‘

’’ہاں یہی عشق ہے۔ شکار کا انجذاب عقاب میں، عقاب کا انسان میں اور انسان کا ریگستان میں، یہ سب عشق ہی کی کارفرمائی ہیں۔ یہ عشق ہی ہے جو جَست کو سونے میں اور سونے کو پھر اُسی میں تبدیل کر دیتا ہے۔‘‘

’’تم جو کہہ رہے ہو وہ میری سمجھ سے بالا تر ہے۔‘‘ ریگستان نے کہا۔

’’لیکن اتنا تو تم سمجھ ہی گئے ہو گے کہ تمہاری اِسی ریت پہ رہنے والی ایک عورت میری منتظر ہے اور بس اُسی کے لئے مجھے ہوا بن کر پہنچنا ضروری ہے۔‘‘

ریگستان نے چند لمحے تک اُس کا جواب نہ دیا۔

پھراُس نے بتایا: ’’میں تمہیں اپنا ریت دے دوں گا لیکن اُسے اُڑانے کے لئے تمہیں ہوا کی مدد درکار ہو گی۔‘‘

ہوا چلنے لگی۔ قبائلی لڑکے کو دور سے بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ وہ آپس میں بات چیت کر رہے تھے جو لڑکا سمجھ نہ سکتا تھا۔

الکیمسٹ یہ دیکھ کر مسکرایا۔

ہوا چلی تو لڑکے کے چہرے کو لگی۔ ہوا نے لڑکے کی وہ باتیں سن لیں جو اُس نے ریگستان سے کہی تھیں، ویسے بھی ہوا سے کچھ چھپا نہیں ہے۔ یہ دنیا بھرمیں چلتی رہتی ہے۔ نہ تو اِس کی پیدائش ہی کی کوئی جگہ ہے اور نہ ہی موت کی۔

’’میری مدد کرو۔‘‘ لڑکا ہوا سے بولا، ’’ایک روز تم ہی تو میری محبوبہ کی آواز میرے کانوں تک لائی تھیں۔‘‘

’’تمہیں ریگستان اور ہوا کی زبان کس نے سکھائی ہے۔‘‘

’’میرے دل نے۔‘‘لڑکے نے جواب دیا۔

ہوا کے نام بہت ہیں۔اِس علاقے میں اُسے’سِردکو‘ کہتے تھے۔ نام کی وجہ شاید یہ تھی کہ ہوا سمندر کی نمی لے کر مشرق کی سمت آتی تھی۔ دور کے اِس علاقے میں جہاں سے لڑکا آیا تھا، اُس کو بادِ روم کہتے تھے کیونکہ اِس کے ساتھ ریت کے علاوہ دور حملہ آوروں کا شور و غل بھی آیا تھا، لیکن اندرونی علاقے جہاں چراگاہیں تھیں وہاں کے لوگوں کا خیال تھا کہ ہوا اندلس سے آتی ہے، لیکن اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ہوا نہ کہیں سے آتی ہے اور نہ ہی کہیں جاتی تھی۔ شاید اِسی لئے وہ ریگستان کے مقابلے زیادہ طاقتور تھی۔ ریگستان میں تو کہیں کوئی کبھی پودا لگا بھی سکتا تھا لیکن ہوا کہیں نہیں پیدا کی  جاسکتی تھی۔

’’تم ہوا نہیں بن سکتے۔‘‘ ہوا بولی، ’’ہم دو الگ الگ چیزیں ہیں۔‘‘

’’نہیں ایسا نہیں ہے۔‘‘ لڑکے نے کہا: ’’میں حکمت کے اُن رازوں کو جان چکا ہوں۔ اِسی سفر میں میں نے سیکھاہے، جو کچھ خدائے عظیم نے اِس دنیا میں پیدا کر رکھا ہے، وہ میرے اندر بھی ہے۔ مجھ میں ہوا بھی ہے اور ریگستان بھی۔ سمندر بھی میرے اندر موجزن ہے اور ستارے بھی۔ ہم سب کو اُس ایک ہی ہاتھ نے بنایا تھا اور ہم سب اُسی روح سے ذی روح ہیں۔ میں تمہاری طرح ہو جانا چاہتا ہوں تاکہ اِس دنیا کے کونے کونے میں پہنچ سکوں، ہر سمندر کو پار کر سکوں۔ ریت کے اُن تودوں کو اُڑا سکوں جو میرے خزانے کو چھپائے ہوئے ہیں اور وہ عورت جس سے مجھے محبت ہے اُس کی آواز کو اپنی لہروں کے بردوش کیے رہوں۔

’’سنو ! میں نے تمہاری وہ گفتگو جو کل تم الکیمسٹ سے کر رہے تھے پوری سنی تھی ‘‘ ہوا بولی، ’’الکیمسٹ نے تم کو بتایا تھا نا۔۔۔کہ ہر چیز کی اپنی قسمت ہوتی ہے، کوئی بھی شخص اپنے آپ کو ہوا میں تبدیل نہیں کر سکتا۔‘‘

’’تم مجھے محض چند لمحوں ہی کے لئے ہوا بنّا سکھا دو۔‘‘لڑکے نے کہا ’’اور پھر دیکھو انسانوں اور ہوا کے لئے لاتعداد امکانات پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

ہوا کے تجسّس میں اضافہ ہو گیا۔ ایسا آج تک نہ ہوا تھا، ہوا اُس کے بارے میں بات کرنے کی خواہش مند ضرور تھی لیکن یہ اُسے بالکل پتہ نہ تھا کہ انسان کو ہوا میں کیسے تبدیل کیا جائے۔

ہوا کی معلومات کم نہ تھیں۔ اُس نے ریگستان بنائے تھے، اُس نے جہازوں کو ڈبویا تھا، بڑے بڑے جنگلوں کو اُکھاڑ پھینک چکی تھی اور شہروں، بازاروں اور گلی کوچوں سے گذری تھی اور یہاں موجود عجیب و غریب موسیقی اور مختلف آوازوں نے اُس کا استقبال کیا تھا۔ اُسے لگا کہ اُس کی قوّتوں کی کوئی حد نہیں ہے لیکن اُس لڑکے کی ضرورت ہی ایسی تھی جو اِن کے علاوہ تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ ہوا جو نہیں کر پاتی وہ کام انجام دے۔

’’عشق کا مفہوم یہی ہے۔‘‘لڑکے نے کہا۔ اُسے ایسا لگا کہ ہوا اُس کی درخواست کو منظور کرنے ہی والی ہے۔

’’جب تم سے کوئی محبت کرنے لگتا ہے تو کچھ بھی ممکن ہے، جب محبت ہو جائے تو یہ پوچھنے اور سمجھنے کی فرصت ہی نہیں رہتی کہ کیا ہو رہا ہے، کیونکہ عشق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور انسان اپنے آپ کو ہوا کی مدد سے ہوا میں تبدیل کر سکتا ہے۔‘‘

ہوا ایک مغرور وجود تھی۔ لڑکا جو کچھ کہہ رہا تھا وہ اُس سے جھنجھلا رہی تھی۔ اُس نے زیادہ تیزی سے چلنا شروع کر دیا اور پوری دنیا کے گرد اپناراستہ بناتی تیزی سے چلنے لگی۔ لیکن یہ اُسے اب بھی معلوم نہ تھا کہ لڑکے کو ہوا میں کیسے تبدیل کیا جائے اور عشق سے تو وہ بالکل ہی نا بلد تھی، بس دنیا کے گرد اُڑانوں کے دوران اُس نے اکثر لوگوں کو عشق کے متعلق کچھ کہہ کر اوپر آسمان کی طرف تکتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہوا کو اپنی محدودیت اور کمزوری کے احساس نے اور بھی تند بنا دیا۔ اُس نے سوچا کہ چلو آسمان سے پوچھتے ہیں کہ لڑکے کی یہ خواہش کیسے پوری ہو۔

’’آسمان سے کیسے پوچھوں ؟ تم ہی کچھ مدد کرو۔‘‘ اُس نے لڑکے سے کہا۔

ریت کا ایک ایسا طوفان لاؤ کہ سورج اُس میں چھپ جائے۔ پھر میں خود ہی اُس سے بات کر لوں گا۔

ہوا انتہائی طوفانی انداز میں چلی اور آسمان میں ہر سمت ریت ہی ریت چھا گیا کہ کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ سورج ایک سنہری تھالی کی مانند نظر آنے لگا۔

کیمپ میں کسی کو کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ ریگستان کے لوگ اُس ہواسے جسے وہ ’سموم‘ کہتے تھے، اچھی طرح واقف تھے۔ یہ ہوا جب چلتی تو سمندری طوفان سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتی۔ فوجیوں کے گھوڑے بری طرح چیخنے لگے اور ہتھیاروں میں ریت بھر گئی۔

ڈھلوان کے اوپر جہاں قبائلی فوجی بیٹھے ہوئے تھے، ایک، کمانڈر سالار سے بولا، ’’بہتر ہے اب یہ ختم کریں۔‘‘

لڑکا اُنہیں مشکل ہی سے نظر آ رہا تھا۔ اُن سب کے چہرے نیلے کپڑے سے ڈھکے ہوئے تھے اور اُن کی آنکھوں سے خوف جھانک رہا تھا۔

’’اُسے ختم کرو۔‘‘ دوسرے کمانڈر نے کہا۔

’’میں اللہ کی بزرگی اور عظمت کا مظاہرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ سالار نے بڑے عجز کے ساتھ کہا۔

’’ایک انسان اپنے آپ کو کیسے ہوا میں تبدیل کر لیتا ہے، یہ دیکھنا چاہیے۔‘‘

لیکن اِس کے ساتھ ہی سالار نے اُن دونوں کمانڈروں کے بارے میں ایک فیصلہ کر لیا۔ جیسے ہی طوفان کا زور ٹوٹے گا، وہ دونوں کمانڈروں کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دے گا، کیونکہ صحیح معنوں میں ریگستانی آدمی اور خوف ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔

’’ہوا کہتی ہے کہ تم جانتے ہو کہ عشق کیا ہے؟‘‘ لڑکے نے سورج سے کہا، ’’اگر یہ صحیح ہے تو تمہیں بھی یہ معلوم ہو گا کہ روحِ کائنات کیا ہے؟‘‘ کیونکہ عشق اُسی کی تخلیق ہے۔

’’میں ایک مقامِ بلند پر ہوں۔‘‘ سورج کہنے لگا، ’’اور روحِ کائنات کو براہِ راست دیکھتا ہوں۔ میری روح کو وہ اکثر پیغام دیتی رہتی ہے اور ہم دونوں نے مل کر ہی پودوں کو نمو پانے اور بھیڑوں کو سایہ تلاش کرنے کی فکر دی ہے۔ میں زمین سے بہت طویل فاصلے پر ہوں لیکن عشق کی آگ میں خود ہی جھلستا ہوں۔ اگر ذرا بھی زمین کے قریب ہو جاؤں تو ہر چیز جھلس جائے، ختم ہو جائے۔ اور روحِ کائنات کا وجود بھی باقی نہ رہے، بس ہم دونوں کے وجود باہم ہی سے زندگی میں حرارت اور میرے وجود کو معنویت حاصل ہے۔

’’تو تم عشق سے واقف ہو؟‘‘ لڑکے نے پوچھا۔

’’عشق کیا میں تو روحِ کائنات سے بھی واقف ہوں۔ ہم نے کائنات کے گِرد اپنے لازوال سفر کے دوران اِس موضوع پر اُس سے بہت باتیں کی ہیں۔ وہ بولتی ہے کہ سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ ابھی تک صرف جمادات اور نباتات ہی توحید یعنی اپنے ایک ہونے پر ایمان لائے ہیں۔ لوہے کو نہ تانبہ بننے کی ضرورت ہے اور نہ تانبہ کو سونا بننے کی۔ہر ایک اپنی ذات پر اپنا وجود رکھتا ہے اور وہی عمل کر رہا ہے جو اُس کے لئے طے کر دیا گیا ہے۔‘‘

’’تم نے خاصی عقل کی باتیں کی ہیں اب تک۔۔۔۔۔۔‘‘لڑکا بولا، لیکن تم عشق کے بارے میں نہیں جانتے۔ عملِ تخلیق ابھی ختم نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو انسان ختم ہو چکے ہوتے۔تانبہ ہمیشہ تانبہ ہی رہے گا اور جست محض جست۔ یہ درست ہے کہ ہر شی کی اپنی قسمت ہے۔ لیکن ایک دن یہ قسمت بروئے کار ہو کر واقعیت کا رنگ پہنے گی۔ ہر چیز بہتر شکل میں تبدیل ہو گی اور اِس طر ح اُسے ایک نئی قسمت عطا ہو گی اور اُس دن یہ روحِ کائنات بھی توحید میں ضم ہو جائے گی۔‘‘

سورج یہ سنکر سوچنے لگا اور پہلے سے زیادہ روشنی کے ساتھ چمکنے لگا۔ ہوا جو اِس مکالمہ سے لطف اندوز ہو رہی تھی، زیادہ تیزی سے چلنے لگی لیکن بس اتنی تیز کہ لڑکے کی آنکھیں سورج کو دیکھتی رہیں۔

’’علمِ معرفت اِسی لیے آج بھی محفوظ ہے۔‘‘ لڑکے نے کہا، ’’تاکہ ہر شخص اپنے خزانہ کی تلاش کرے اور اِس طرح اپنے آگے کی زندگی کو بہتر کر لے۔ جست اُس وقت تک جست رہے گا اور اپنا عمل ادا کر تا رہے گا جب تک دنیا کو اُس کی ضرورت رہے گی۔ضرورت ختم ہونے پر وہ اپنی بہتر شکل یعنی سونے میں تبدیل ہو جائے گا۔‘‘

’’الکیمسٹ۔۔۔۔۔ یہی تو کرتے ہیں۔ وہ یہ دکھاتے ہیں کہ جب ہم اپنے کو بہتر کرنے کے لئے جدو جہد کرتے ہیں تو صرف ہم نہیں بلکہ ہمارے گِرد کی ہر چیز بہتری کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔‘‘

’’اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے یہ کیوں کہا کہ میں عشق کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘  سورج نے لڑکے سے پوچھا۔

’’اِس لئے کہ میرے نزدیک ریگستان کا جمود عشق نہیں ہے اور نہ ہی ہوا کا یوں مارے مارے پھرنا عشق ہے؟۔۔۔۔ نہ ہی یہ عشق ہے کہ میدانِ عمل کو دور فاصلہ سے تاکتے رہو جیسا تم کرتے ہو۔!! عشق تو اُس عظیم قوت کا نام ہے جو روحِ کائنات کو بھی ارتقاء پذیر رکھتی ہے۔ جب میرا پہلا سابقہ ہوا تو سوچا کہ روحِ کائنات بالکل بے عیب ہے۔ اُس میں کوئی کمی نہیں ہے لیکن بعد میں سمجھ میں آیا کہ اُس کا حال بھی دوسری مخلوقات کا سا ہے۔ اُس کے اپنے محرکات بھی ہیں اور چپقلشیں بھی۔ روحِ کائنات کی نمو تو دراصل ہم کرتے ہیں۔یہ دنیا جس میں ہم مقیم ہیں اُس کے اچھا اور برا ہونے کا انحصار ہمارے اچھے یا برے ہونے پر ہے۔بس اِسی مقام پر قوتِ عشق کار فرما ہو جاتی ہے۔عشق کی جب ابتداء ہوتی ہے تو ہم پہلے کے مقابلے میں بہتر بننے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔‘‘

’’اچھا تو مجھ سے تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ سورج نے لڑکے سے پوچھا۔

’’ہوا میں بدل جانے میں میری مدد کرو۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔

خدا کی پوری مخلوق میں مجھے سب سے زیادہ ذی عقل کہا جاتا ہے۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔ لڑکے !  مجھے نہیں معلوم کہ تمہیں ہوا میں کس طرح تبدیل کر دوں۔‘‘

’’پھر میں کس سے پوچھوں۔‘‘

سورج نے ایک لمحہ سوچا۔ ہوا کہیں قریب کھڑی یہ مکالمہ سن رہی تھی اور دنیا کے کونے کونے میں جا کر اعلان کر دینا چاہتی تھی کہ وہ سورج جس کی قوت و دانائی کے چرچے تھے وہ کمزوریوں سے ماور ا نہیں اور اُس لڑکے کے مسائل کا مداوا نہیں کر پا رہا جو کائنات کی زبان سمجھتا اور بول سکتا ہے۔‘‘

’’اُس ہاتھ سے پوچھو جس نے یہ سب کچھ لکھا ہے۔‘‘ سورج نے کچھ سوچ کر کہا۔

ہوا یہ سنکر خوشی کے مارے چیخ اُٹھی اور اِتنے زور سے چلی کہ آج تک نہ چلی تھی۔ خیمے اُکھڑ گئے اور جانور اپنے کھونٹوں سے کھل گئے۔ ڈھلوان پر لوگ اگر ایک دوسرے کو نہ تھامتے تو اُڑ گئے ہوتے۔

اور لڑکا اُس ہاتھ کی طرف متوجہ ہوا۔

پوچھنے کی کوشش کی لیکن اُس کی زبان گنگ ہو گئی تھی، جیسے کہنے کے لئے الفاظ نہ ہوں۔ اُس کے دونوں ہاتھ خود بخود اوپر اٹھنے لگے۔بولنے کا یارانہ تھا۔ اُسے لگا کہ جیسے پوری کائنات ٹھہر گئی ہے۔ زبان جیسے بولنے سے عاجز تھی۔اُسے لگا کہ جو ہاتھ سب کچھ جانتا ہے وہ ہاتھ اُس کے سر پر ہے اور اُس کے دل میں عشق کا بحرِ بیکراں ٹھاٹھیں مارنے لگا ہے۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور پھر دعا خود بخود جاری ہو گئی۔ ایسی دعاء اُس نے پہلے کبھی نہ کی تھی۔ اُس میں نہ تو الفاظ تھے اور نہ خواہشوں اور تمنّاؤں کا اظہار تھا۔ نہ اُس میں اِس پر تشکّر تھا کہ اُس کی بھیڑوں کو اپنی چراگاہیں مل گئی ہیں، نہ اُس میں بلّوری ظروف کے زیادہ سے زیادہ فروخت ہو جانے کی تمنّا تھی، اور نہ ہی اُس میں یہ دعا کہ اُس کی محبوب اُس کی واپسی تک اُس کا انتظار کرتی رہے۔ خاموشی اور سکوت کے عالم میں اُس نے دیکھا کہ ریگستان، ہوا اور سورج عظیم ہاتھ کی تحریر پر عمل کرنے اور اپنے راستوں کی تلاش میں مصروف ہیں اور لوح پر لکھے پیغام کو سمجھنے کے لئے بے تاب ہیں۔ اُس نے دیکھا کہ نشانیاں اِدھر اُدھر بکھری پڑی ہیں۔ اُسے محسوس ہوا کہ تمام مخلوقات کے جمِّ غفیر میں صرف اِنسان ہی ایسا ہے جسے اپنے مقصدِ وجود کا علم کم ہے۔اِس پورے وجود میں دانائی ہر طرف بکھری ہوئی ہے۔اُسے لگا کہ معجزہ صرف وہ ہاتھ ہی دکھا سکتا ہے جس کی تحریر یہ پوری کائنات ہے۔ سمندر کو ریگستان میں بدلنا ہو یا کسی انسان کو ہوا میں تبدیل کرنا، یہ صرف ہاتھ ہی کے بس میں ہے۔ یہ سب اِس لئے ہے کہ اُس ہاتھ ہی کو اُس کی تخلیق کی پوری اسکیم اُس کے مقاصد اور اُس میں شامل حکمتوں کا علم ہے۔ کائنات جو اُس ہاتھ کی شاہکار ہے، اُس میں کوئی تبدیلی اُس ہاتھ کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔

لڑکا کائنات کی روح تک پہنچا تو دیکھا کہ اُس نے سب کچھ روحِ واحد سے مستعار لے رکھا ہے۔ اپنے اندرون میں جھانکا تو اپنی روح بھی روحِ واحد کی کارفرما نظر آئی۔

جب میرے اندر بھی خدا ہی کی روح ہے تو معجزہ میں کیوں نہیں دکھا سکتا؟۔۔۔۔ اُس کی سوچ بے جا تو نہ تھی۔

 

 

 

(۴۲)

 

اُس روز سموم اتنی زور سے چلی کہ کبھی نہ چلی تھی۔ نسلوں بعد تک عربوں میں یہ روایت معروف رہی کہ ایک لڑکے نے ہوا میں تبدیل ہو کر ایک انتہائی طاقتور قبائلی سالار کے فوجی مستقر کو تباہ کر دیا تھا۔

جب سموم چلنی بند ہو گئی تو سب کی نظر اُس طرف اُٹھی جہاں لڑکا کھڑا ہوا تھا، لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔ وہ اُس سے خاصے فاصلے پر فوجی کیمپ سے خاصی دور کھڑا پایا گیا۔

عام لوگ انتہائی خوفزدہ تھے لیکن دو لوگ مسکرا رہے تھے۔ الکیمسٹ اِس لئے کہ اُسے ایک شاگردِ کامل مل چکا تھا اور قبائلی سالار اِس لئے کہ یہ شاگرد خدائے واحد کی قدرت اور اُس کی تخلیقی عظمت کو پا چکا تھا۔

اگلے دن قبائلی سالار نے لڑکے اور الکیمسٹ کو خدا حافظ کہا اور جہاں تک وہ لے جانا چاہیں اُن کے ساتھ جانے کے لئے ایک چھوٹی سی فوجی ٹکڑی بھی متعیّن کر دی۔

 

 

 

(۴۳)

 

وہ پورے دن چلتے رہے۔ دوپہر کا خاتمہ قریب تھا کہ وہ ایک خانقاہ کے دروازے پر کھڑے تھے۔ الکیمسٹ گھوڑے سے اترا اور محافظ پارٹی کو شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا۔

’’اب یہاں سے تم تنہا رہو گے۔‘‘ الکیمسٹ نے کہا۔ صرف تین گھنٹوں کے سفر کے بعد تم اہرام پہنچ جاؤ گے۔‘‘

’’تمہارا بہت بہت شکریہ۔‘‘ لڑکا جذباتی ہو چلا تھا، ’’تم نے مجھے کائنات کی زبان سکھائی۔‘‘

میں نے تو صرف اُس میں اضافہ کی کوشش کی جو تمہارے پاس پہلے ہی سے موجود تھا۔

الکیمسٹ نے خانقاہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہرے لباس میں ملبوس ایک سفید ریش بزرگ نے دروازہ کھولا۔الکیمسٹ نے کسی اجنبی زبان میں بزرگ سے بات کی اور دونوں اندر داخل ہو گئے۔

میں نے تھوڑی دیر کے لئے باورچی خانہ استعمال کرنے کی اجازت مانگی تھی‘‘الکیمسٹ نے مسکرا کر لڑکے کو بتایا۔ وہ خانقاہ کے پیچھے گئے جہاں باورچی خانہ واقع تھا۔الکیمسٹ نے آگ روشن کی اور اس پر ایک توا گرم ہونے کے لئے رکھ دیا۔ خانقاہ کے بزرگ نے کچھ جست الکیمسٹ کو دیا جسے اُس نے توے پر ڈالا تو تھوڑی دیر کے بعد وہ رقیق میں تبدیل ہو گیا۔الکیمسٹ نے اپنے تھیلے سے وہ پیلے رنگ کا عجیب و غریب انڈا نکالا اور بال کے برابر باریک ایک جز نکال کر اُسے موم پر لپیٹ کر اُسے اُس گرم توے میں ڈال دیا جس میں پہلے ہی پگھلا ہوا جستہ موجود تھا۔

آمیزہ کا رنگ خون جیسا لال ہو گیا۔ الکیمسٹ نے توا اُٹھا کر اُسے ٹھنڈا کرنے کے لئے ایک جگہ رکھ دیا اور اُس بزرگ سے قبائلی جنگ کے متعلق گفتگو کرنے لگا۔

’’یہ جنگیں میرے خیال میں طول پکڑیں گی۔‘‘ وہ بزرگ سے بولا۔

بزرگ بہت متاسف تھا۔ کئی قافلے راستہ ہی میں رُک گئے تھے۔ لہذا جب تک یہ جنگ ختم نہ ہو گی وہ رُکے ہی رہیں گے۔ ’’وہی ہو گا جو خدا کو منظور ہے۔‘‘ اُس نے کہا۔

’’بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔‘‘ الکیمسٹ نے جواب دیا۔

توا ٹھنڈا ہو گیا تو اُسے دیکھ کر لڑکا اور بزرگ دنگ رہ گئے۔ جستہ توے کی شکل میں جم گیا تھا اور اب یہ جستہ نہ تھا بلکہ چمکدار سونا اُن کے سامنے تھا۔

’’کیا میں بھی کسی روز اِس طریقہ سے واقف ہو جاؤں گا۔‘‘ لڑکے نے پوچھا۔

’’یہ تقدیر میری ہے تمہاری نہیں۔‘‘الکیمسٹ نے مختصر جواب دیا، ’’میرا مقصد صرف یہ بتایا تھا کہ یہ نا ممکن نہیں ہے۔‘‘

تینوں واپس خانقاہ کے گیٹ تک آئے۔ یہاں آ کر الکیمسٹ نے سونے کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔

’’یہ تمہارے لئے‘‘ ایک حصہ بزرگ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’زائرین کی خدمت کا کوئی صلہ اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں لیکن یہ میری طرف سے رکھیں۔‘‘

’’لیکن اِس خدمت پر جو خرچ ہوتا ہے یہ تو اُس سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘ سفید ریش بزرگ نے جواب دیا۔

’’ایسا مت کہو، زندگی نے سن لیا تو ممکن ہے کہ آئندہ آپ کے حصے میں کمی ہو جائے۔‘‘الکیمسٹ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی گئی تھی۔

ایک ٹکڑا لڑکے کو دیتے ہوئے بولا کہ یہ اُس مال کے عوض ہے جو تم نے سالار کو دے دیا تھا۔‘‘ لڑکا یہ کہنے ہی والا تھا کہ یہ تو اُس سے کہیں زیادہ ہے لیکن بزرگ کو جو جواب الکیمسٹ سے ملا تھا وہ اُس نے سنا تھا، چنانچہ وہ خاموش رہا۔

ایک ٹکڑا اُس نے اپنے پاس رکھا کہ یہ میرے لئے ہے۔ مجھے ابھی ریگستان سے گزرنا ہے اور جنگ بھی جاری ہے۔

چوتھا ٹکڑا اُس نے بزرگ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’ یہ لڑکے کے لئے ہے، ممکن ہے کہ اُس کو ضرورت پڑے۔‘‘

’’لیکن میں تو اپنا خزانہ تلاش کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ لڑکے نے کہا، ’’اور اب تو وہ بہت دور بھی نہیں ہے۔‘‘

’’اور مجھے یقین ہے کہ وہ خزانہ تمہیں ضرور ملے گا۔‘‘ الکیمسٹ نے کہا۔

’’تو پھر یہ کیوں دے رہے ہیں۔‘‘

’’اِس لئے کہ تم اپنی جمع شدہ رقم دو بار کھو چکے ہو۔ ایک بار تو دھوکہ باز کو اور دوسری بار سالار کو۔ ہمارے یہاں عربوں میں ایک کہاوت ہے کہ  ’ایک بار کوئی ایسا واقعہ ہو جائے تو یہ ضروری نہیں کہ دوبارہ بھی ہو‘ اگر وہ دو بار ہ ہو جائے تو تیسری بار ضرور ہوتا ہے۔ میں ذرا وہمی ہوں اور اِن کہانیوں میں یقین رکھتا ہوں۔‘‘ دونوں اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر چل پڑے۔

 

 

 

(۴۴)

 

دونوں شہسوار ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ الکیمسٹ لڑکے سے بولا۔

’’میں تمہیں خوابوں کے بارے میں ایک کہانی سناتا ہوں۔‘‘

لڑکا اپنا گھوڑا اُس کے قریب لے آیا۔

بہت دن گزرے کہ روم میں شاہ طبرس کی حکومت تھی۔ وہاں ایک اچھا اور نیک آدمی رہتا تھا جس کے دو بیٹے تھے۔ایک بیٹا فوج میں ملازم تھا اور دور سلطنت کے کسی مقام پر متعیّن تھا۔ دوسرا بیٹا ایک شاعر تھا، اُس کی شاعری کی ملک بھر میں دھوم تھی اور رومی لوگ اُس کی شاعری کے دیوانے تھے۔

ایک رات باپ نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ اُس کے پاس آیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ وقت آئے گا کہ تمہارے ایک بیٹے کے اقوال دنیا کی آئندہ نسلیں یاد رکھیں گی اور دہرایا کریں گی۔ باپ کی آنکھ کھلی تو وہ خوشی اور جذبۂ تشکّر سے مغلوب ہو کر رونے لگا کہ زندگی اُس پر کتنی مہربان تھی  اور اُسے وہ بات بتا دی جسے سُن کر ہر باپ کو جذبۂ تفاخر سے سرشار ہو جانا چاہیے۔

کچھ عرصہ بعد باپ کا ایک بچہ کو رتھ کے نیچے آنے سے روکتے ہوئے انتقال ہو گیا، کیونکہ وہ زندگی میں بڑا پارسا اور نیک رہا تھا وہ سیدھا جنّت میں داخل کر دیا گیا۔ جنّت میں اُس کی ملاقات اُسی فرشتہ سے ہوئی جو اُس کے خواب میں آیا تھا۔ وہ فرشتہ اُس سے کہنے لگا: ’’تم ایک اچھے آدمی تھے اور بڑی قابلِ رشک زندگی دنیا میں گزاری۔‘‘موت بھی انتہائی عظیم کام کرتے ہوئے آئی۔ تمہاری کوئی خواہش ہو تو بتاؤ، میں پوری کروں گا۔‘‘

’’زندگی مجھ پر بڑی مہربان تھی۔‘‘ آدمی بولا، ’’تم نے خواب میں آ کر مجھے جو کچھ بتایا تو مجھے تو انعام مل گیا۔ بھلا اِس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے کہ میرے بیٹے کے اقوال دنیا بھر میں پڑھے جائیں۔ مجھے اب اپنے لئے کچھ نہیں چاہیے، لیکن ہر باپ کو یہ دیکھ کر خوشی ہو گی کہ جن بچوں کی اُس نے پرورش کی اور تعلیم دلائی وہ اب شہرت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ اگر کبھی ہو سکے تو میں اپنے بچے کے اشعار سنّا چاہوں گا۔

فرشتہ نے آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور وہ دونوں مستقبل کی دنیا میں جا پہنچے۔ ایک بہت بڑی جگہ تھی جہاں وہ بیٹھے تھے اور ہزاروں لوگ اُن کے اِرد گرد کوئی اجنبی زبان بول رہے تھے۔

وہ آدمی خوشی سے رونے لگا۔

’’مجھے معلوم تھا کہ میرے بیٹے کے اشعار لافانی تھے۔‘‘ اُس نے روتے ہوئے فرشتہ سے کہا، ’’ذرا از راہِ کرم یہ بھی بتا دو کہ یہ لوگ میرے بیٹے کی کون سی نظم بار بار دھرا رہے ہیں۔

فرشتہ آدمی کے قریب آیا اور کمالِ شفقّت سے قریب پڑی ہوئی ایک بینچ پر اُسے بیٹھا دیا۔

’’تمہارے شاعر بیٹے کا کلام ملکِ روم میں بہت معروف تھا۔‘‘ فرشتہ کہنے لگا، ’’سب لوگ اُسے بہت چاہتے تھے اور اُس کی شاعری کو پسند کرتے تھے لیکن شاہِ طسیطس کی حکومت کے خاتمہ کے بعد لوگوں نے اُس کے کلام کو بھلا دیا۔ یہ جو تم اب سُن رہے ہو یہ تمہارے اُس بیٹے کے الفاظ ہیں جو فوج میں تھا۔

آدمی نے فرشتہ کی طرف بڑے تعجب سے دیکھا۔

’’تمہارا وہ بیٹا جسے سلطنتِ روما کے کسی دور دراز علاقے میں متعیّن کیا گیا تھا وہ فوج میں ایک بڑا سالار ہو گیا، وہ کردار کا بلند اور بڑا منصف مزاج تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ دوپہر کے وقت اُس کا ایک نوکر شدید بیمار ی میں مبتلا ہو گیا اور لگا کہ شاید وہ بچ نہ پائے گا۔ تمہارے بیٹے نے سنا تھا کہ ایک بزرگ بیماریوں کے علاج پر قدرت رکھتا ہے تو وہ اُس کی تلاش میں نکل پڑا اور کئی دن تک برابر تلاش میں سرگرداں رہا۔ اِسی تلاش کے دوران معلوم ہوا کہ اُسے جس بزرگ کی تلاش ہے وہ تو خدا کا فرستادہ ہے۔ اُس نے کئی ایسے آدمیوں سے ملاقات کی جن کا وہ کامیاب علاج کر چکے تھے۔ اُن لوگوں نے تمہارے بیٹے کو فرستادہ کی تعلیم سے آگاہ کیا۔ اُس کی تعلیم کو اُس نے قبول کر لیا۔ کچھ ہی دنوں میں وہ اُس جگہ پر پہنچ گیا جہاں وہ مریضوں کے علاج کے سلسلے میں پہنچے ہوئے تھے۔

اُس نے بتایا کہ میرا ایک غلام شدید بیماری میں مبتلا ہے۔ یہ سُن کر اُنہوں نے تمہارے بیٹے کے گھر جا کر اُس کے غلام کا علاج کرنے کا وعدہ کر لیا، لیکن تمہارا بیٹا ایمان کے نشے میں سرشار تھا اور اُسے احساس تھا کہ وہ اللہ کے نبیؐ سے ہم کلام ہو رہا ہے۔ نبی کا وعدہ سُن کر تمہارے بیٹے نے جو الفاظ کہے اُسے زمانہ نے یاد کر لیا اور یہ جو تم سُن رہے ہو اُنہیں الفاظ کا اعادہ ہے۔ جس وقت اللہ کے نبیؐ نے آنے کا وعدہ کیا تو تمہارا بیٹا جذبات سے مغلوب ہو کر محض اِتنا کہہ سکا:

’’میرے آقا میرا غریب خانہ اِس لائق تو نہیں کہ آپ وہاں تشریف لے چلیں۔ آپ تو بس ایک لفظ اُس کے لئے کہہ دیں تو میرا غلام شفا یاب ہو جائے گا۔‘‘

الکیمسٹ کہنے لگا، ’’آدمی کسی مقام پر ہو اور کچھ بھی کرتا ہو، اِس دنیا کی تاریخ رقم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن اکثر اُسے اِس کا عِلم نہیں ہوتا۔‘‘

لڑکے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اُس نے سوچا بھی نہ تھا کہ زندگی کے بارے میں سوالات ایک چرواہے کے لئے بھی اتنے اہم ہوسکتے ہیں۔

’’خدا حافظ‘‘الکیمسٹ بولا۔

’’خدا حافظ‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔

 

 

 

(۴۵)

 

لڑکا کئی گھنٹہ سفر کرتا رہا اور یہ جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ دل کی مرضی کیا ہے۔ دِل ہی اُسے بتانے والا تھا کہ خزانہ کہاں چھپا ہوا ہے۔

’’جہاں تمہارا خزانہ ہو گا وہیں تمہارا دِل بھی ہو گا۔‘‘ الکیمسٹ نے اُسے بتایا تھا۔

لیکن اُس کا دل تو کچھ اور ہی بول رہا تھا۔ بڑے فخر کے ساتھ اُس نے اُس چرواہے کی کہانی سنائی جس نے دو بار ایک خواب دیکھ کر اپنی بھیڑیں بیچ دیں اور تعبیر کی تلاش میں نکل پڑا۔ کچھ مقدّر کے بارے میں بتایا، ایسے لوگوں کے بارے میں بتایا جو دور دراز علاقوں کی تلاش میں اور خوبصورت عورتوں کی جستجو میں مارے مارے پھرے تھے اور طرح طرح کے ایسے لوگوں سے اُنہیں مقابلہ کرنا پڑا تھا جو کسی بھی طرح اپنے خیالوں کو بدلنے پر تیار نہ ہوتے تھے۔ پھر اُس نے نئی دریافتوں، کتابوں، نئی نئی تبدیلیوں اور اسفار کے بارے میں بتایا۔

راستہ چلتے وہ جب ریت کے ایک اور ٹیلے پر چڑھ ہی رہا تھا تو اُس کے دل نے سرگوشی کی۔ ’’جس جگہ تمہاری آنکھوں سے آنسو نکلنے لگیں اُس جگہ سے ذرا ہوشیار رہنا۔ وہیں میں ملوں گا اور وہیں تمہارا خزانہ بھی ہو گا۔‘‘

لڑکا ٹیلے پر آہستہ آہستہ چڑھنے لگا۔ تاروں بھرے آسمان میں ماہِ کامل کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ اُسے یاد آیا کہ نخلستان چھوڑے اُسے اب پورا ایک ماہ ہو گیا تھا۔ چاند کی روشنی ٹیلے کے نیچے سے گذر کر ایسی پرچھائیاں بنا رہی تھی جنہیں دیکھ کر آگے کسی سمندر کا گمان ہوتا تھا۔ لڑکے کو وہ رات یاد آ گئی جب ریگستان میں اُس نے وہ گھوڑا دیکھا تھا جس پر ایک شہسوار تھا اور اِس طرح الکیمسٹ سے اُس کی ملاقات ہوئی تھی۔ ریگستان چاند کی روشنی میں نہایا ہوا تھا اور اُس آدمی کے سفر کو منوّر کر دیا تھا جو اپنے خزانے کی تلاش میں محوِ خرام تھا۔

جب وہ ٹیلے کی چوٹی پر پہنچا تو دِل اچانک زور سے تڑپا۔ چاند کے نور اور ریگستان کی تابانی سے معمور اہرامِ مصر اپنی تمام تر ہیبت اور شکوہ کے ساتھ سامنے کھڑے تھے۔

لڑکا جذبۂ تشکّر سے مغلوب ہو کر سجدہ ریز ہو گیا کہ محض خدا کی مدد سے آج وہ اپنے خواب کی تعبیر کو حقیقت میں بدل سکا تھا۔ اُسی کی مدد سے وہ بادشاہ، تاجر، انگریز اور الکیمسٹ سے ملاقات کر سکا اور سب سے اہم بات یہ کہ ریگستان کی اُس عورت سے مل سکا جس نے اُسے سبق دیا تھا کہ عشق مقدّر کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔

وہ چاہتا تو اُس مقصد کے حصول کے بعد واپس نخلستان جا سکتا تھا اور فاطمہ کے ساتھ ایک عام چرواہے کی حیثیت سے زندگی گزار سکتا تھا۔ الکیمسٹ بھی تو بہر حال ریگستان ہی میں رہتا تھا اور کائنات کی زبان سمجھنے اور سونا بنانے کے فن سے واقف ہونے کے باوجود اُس نے ریگستان نہ چھوڑا تھا۔ وہ اپنا علم اور فن کسی کو دکھانے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرتا تھا۔ لڑکے نے خود سے کہا کہ مقدّر کی جستجو کے سفر کے دوران اُسے جس چیز کی ضرورت تھی وہ اُس نے سیکھ لی اور اُن تجربوں سے گزر گیا جو اُس نے شاید کبھی خوابوں ہی میں دیکھے ہوں گے۔

آج جب کہ وہ خزانہ کے اتنا قریب پہنچ چکا تھا تو اُس نے خود کو سمجھایا کہ کوئی بھی منصوبہ اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ اُس کا بنیادی مقصد حاصل نہ ہو جائے۔ اُس نے اپنے گِرد پھیلے ریت پر نظر ڈالی اور دیکھا کہ جس جگہ اُس کے تشکّر کے آنسو گرے تھے، وہاں ایک بھونرا سوراخ کر رہا ہے،  اُسے یاد آیا کہ مصر کے مقامی لوگ اُسے ایک اچھی علامت مانتے تھے۔

لڑکے نے اُس جگہ کو کھودنا شروع کر دیا۔ کھودتے ہوئے اُسے بلّوری ظروف کے مالک کی یاد آئی کہ اہرام کوئی بھی اپنے گھر میں بنا سکتا ہے۔ لڑکے نے سوچا کہ اگر وہ زندگی بھر پتھروں پر پتھر رکھتا رہے تو ایک روز اہرام ضرور ہی بن جائیں گے۔

رات پھر وہ اُس مقام کو کھودتا رہا لیکن کچھ ملا نہیں۔ اُس نے اُن صدیوں کا بوجھ اپنے اوپر محسوس کیا جن کے دوران یہ اہرام تعمیر ہوئے تھے لیکن وہ رکا نہیں اور اپنی جد و جہد جاری رکھی۔ اِس دوران اُس کا مقابلہ ہوا سے بھی تھا جو اپنے زور میں کھدے ہوئے گڑھے کو بھر دیتی اور لڑکا پھر اُسے صاف کرتا اور مزید کھودتا۔ اِس کے ہاتھ شل ہونے لگے لیکن اُس نے دل کی بات پر ہی توجہ دی جو کہہ رہا تھا کہ خزانہ وہیں ہے جہاں آنسو گریں گے۔

کھودنے کے دوران اُسے پتھر کے ایک بڑے ٹکڑے کا احساس ہوا۔ وہ اُسے نکالنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ پیچھے سے کسی کے قدموں کی آوازیں اُس کے کانوں میں پڑیں۔ کئی پرچھائیاں اُس کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ چاند اُن کے پیچھے تھا، لڑکے کو اُن کی آنکھیں اور چہرے نظر نہ آرہے تھے۔

’’یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ ایک سائے نے تحکمانہ انداز میں پوچھا۔

لڑکا ڈر گیا۔ اُسے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ خزانہ کی جگہ تو اُسے معلوم ہو گئی لیکن نہیں معلوم کہ اگلے لمحہ کیا ہو جائے گا۔

’’ہم لوگ قبائلی جنگوں سے لُٹ پِٹ گئے ہیں اور ہمیں رقم کی شدید ضرورت ہے۔‘‘ دوسرا سایہ بولا۔ ’’یہاں تم کیا چھپا رہے ہو۔‘‘

’’میں کچھ چھپا نہیں رہا ہوں۔‘‘ لڑکا بولا۔

ایک نے تو لڑکے کو پکڑ کر گڑھے سے جھٹکا دے کر اوپر کھینچ لیا اور دوسرے نے اُس کے تھیلے کی تلاشی لی اور سونے کا ٹکڑا قبضہ میں لے کر بولا۔

’’یہ تو سوناہے۔‘‘

جس عرب نے لڑکے کو پکڑ رکھا تھا اُس کے چہرے پر چاند کی روشنی پڑی تو اُس کی آنکھوں میں موت کے سائے لہرا رہے تھے۔

’’باقی سونا اِس نے شاید اندر دبایا ہے۔‘‘

اُنہوں نے لڑکے کو مزید کھودنے کے لئے کہا، لیکن ظاہر ہے کہ وہاں کچھ نہ تھا۔ سورج نکلنے لگا اور کچھ نہ ملا تو اُنہوں نے لڑکے کو مار مار کر زخمی کر دیا۔ خون رسنے لگا اور اُس کے کپڑے تار تار ہو گئے۔ اُسے لگا کہ بس موت آیا ہی چاہتی ہے۔

موت اگر آ ہی رہی ہو تو دولت کی کیا اہمیت ہے۔ کبھی کبھی پیسہ سے انسان اپنی زندگی بچا بھی لیتا ہے۔اُسے الکیمسٹ کے الفاظ یاد آرہے تھے۔ آخر کار لڑکے نے چیخ کر اُن سے کہا کہ وہ ایک خزانہ کی تلاش میں یہ کھدائی کر رہا تھا۔ حالانکہ اُس کا چہرہ زخمی تھا اور مختلف جگہوں سے خون بہہ رہا تھا لیکن اُس نے حملہ آوروں کو بتایا کہ اُس نے دو بار خواب دیکھا تھا کہ یہاں اہرام کے پاس خزانہ چھپا ہوا ہے۔

ایک آدمی جو اُس گروہ کا لیڈر لگتا تھا، اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا، ’’چھوڑو۔۔۔۔لگتا ہے اِس کے پاس اور کچھ نہیں۔ یہ سونا اِس نے کہیں سے چوری کیا ہو گا۔‘‘

لڑکا بے حد تھک گیا تھا اور زخمی تھا وہ ریت پر گر گیا۔ گروہ کے لیڈر نے اُس کے کندھے کو جنبش دی اور بولا کہ ’’ہم جا رہے ہیں۔‘‘

لیکن جانے سے پہلے وہ لڑکے کے پاس آیا اور کہنے لگا، ’’تم اتنے زخمی نہیں ہو کہ مر جاؤ، تم زندہ رہو گے اور یہ بھی سمجھ جاؤ گے کہ آدمی کو اتنا بے وقوف نہ ہونا چاہیے۔ کوئی دو سال قبل بالکل اُسی مقام پر مجھے بھی دو بار ایسے خواب نظر آئے تھے، جن میں بتایا گیا تھا کہ مجھے اسپین کے میدانوں میں پہنچ کر ایک ایسا ویران کلیسا تلاش کرنا چاہیے جس میں ایک چرواہا اپنی بھیڑوں کے ساتھ رات کو آ کر ٹھہرتا ہے۔ خواب میں تھا کہ اُس ویران کلیساکے مقامِ مقدّس کے قریب ایک انجیر کا درخت اُگا ہوا ہے۔ اگر اُس کو کھودا جائے تو اُس کی جڑوں میں خزانہ ملے گا۔ میں اب اتنا بے وقوف بھی نہ تھا کہ محض ایک خواب کو بار بار دیکھنے کی بنا پر ریگستان کے باہر جانے کی کوشش کرتا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنے ساتھیوں سمیت غائب ہو گیا۔

لڑکا لڑکھڑاتے ہوئے کھڑا ہو گیا اور ایک بار پھر اہرام کی طرف دیکھا۔ اُسے لگا کہ جیسے وہ اُس پر ہنس رہے ہیں اور وہ بھی جواب میں ہنس دیا۔ اُس کا دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔

کیونکہ اُسے معلوم ہو گیا تھا کہ خزانہ کہاں ہے۔

 

 

 

(۴۶)

جب وہ اُس ویران کلیسا میں پہنچا تو رات کا اندھیرا چھانے والا تھا۔ انجیر کا درخت مقامِ مقدس پر ابھی تک ایسا ہی کھڑا تھا اور اُس ٹوٹی ہوئی چھت میں بھی کوئی تبدیلی نہ ہوئی تھی جس سے رات کو آسمان کے تارے نظر آتے رہتے تھے۔ گزشتہ بار جب وہ یہاں آیا تھا، لڑکے کو یاد آ رہا تھا تو اُس کی بھیڑوں کا گلہ بھی اُس کے ساتھ تھا۔ اُس خواب کو چھوڑ کروہ پوری رات پُر سکون گزری تھی۔

آج کی رات وہ اپنے ساتھ بھیڑیں نہیں بلکہ ایک کدال لایا تھا۔ دیر تک بیٹھا وہ آسمان کو دیکھتا رہا۔ پیاس محسوس ہوئی تو پانی کی بوتل تھیلے سے نکالی۔ وہ رات جب وہ ریگستان میں الکیمسٹ کے ساتھ کھانا کھا کر باہر بیٹھا آسمان دیکھ رہا تھا اُسے یاد آ گئی اور اُس کے ساتھ یادوں کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ جس میں وہ نئے نئے راستے یاد آئے جن پر چل کر اُس نے ایک بالکل نئی دنیا دیکھی تھی۔اُس نے سوچا کہ خدا نے کیسے کیسے عجیب و غریب طریقوں سے خزانہ تک پہنچایا ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر بار بار نظر آنے والے خوابوں میں وہ یقین نہ رکھتا یا اُس بنجارن سے نہ ملا ہوتا، وہ بادشاہ، یا وہ لٹیرا وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طویل فہرست ہے۔ تو کیا وہ آج یہاں اُس مقام تک پہنچ سکتا تھا۔ اُس نے سوچا کہ علامتیں بالکل واضح تھیں اور شاید یہ پورا راستہ اور اِس کے تمام مراحل اُن علامتوں میں رقم تھے۔ ایسے مکمّل انتظام کر دئے گئے تھے کہ بھٹک جانے کا کوئی امکان تھا ہی نہیں۔اُس نے اپنے آپ سے کہا۔

سوچتے سوچتے اُسے گہری نیند آ گئی اور جب آنکھ کھلی تو سورج خاصا بلند ہو چکا تھا۔ اُس نے انجیر کے درخت کی بنیاد کھودنا شروع کر دی۔

’’تم کسی بوڑھے خرّانٹ جادوگر سے کم نہیں ہو۔‘‘ اُسے الکیمسٹ یاد آیا اور نظریں اُٹھا کر بولا۔ ’’پوری کہانی تمہیں معلوم تھی تم جان بوجھ کر سونے کا ایک ٹکڑا خانقاہ پر چھوڑ آئے تھے کہ مجھے واپسی کے سفر میں دقّت نہ ہو اور جب میں لُٹے پِٹے حال وہاں پہنچا تھا تو خانقاہ کا وہ سفید ریش بزرگ مجھے دیکھ کر ہنس پڑا تھا۔ ’’تم چاہتے تو مجھے اِس حال تک پہنچنے سے بچا سکتے تھے۔‘‘ اُس کی آواز میں شکایت کی آمیزش تھی۔

’’نہیں ‘‘  ایک آواز جیسے اُس کے کانوں سے ٹکرائی۔

’’اگر میں سب کچھ تمہیں بتا دیتا تو کیا تم اہرامِ مصر دیکھ پاتے۔ کتنے خوبصورت ہیں وہ، ہیں نا !۔۔۔۔۔ ‘‘ لڑکے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ کھودتا رہا۔ کوئی آدھ گھنٹہ کے بعد اُس کی کدال کسی سخت چیز سے ٹکرائی اور کوئی مزید ایک گھنٹہ کی کھدائی کے بعد ایک بڑا سا صندوق اُس کے سامنے تھا جس میں سونے کے اندلسی سکّے بھرے ہوئے تھے۔ بیش قیمت جواہرات بھی تھے۔ سونے کے بنے ہوئے نقاب جن میں سفید اور سُرخ پَر لگے ہوئے تھے اور جواہرات جڑے پتھر کے مجسّمے رکھے ہوئے تھے۔ یہ شاید کسی جنگ میں جیتا ہوا مالِ غنیمت تھاجسے نہ صرف وہ ملک بھُلا چکا تھا بلکہ فاتحین بھی اپنے بچوں کو اُس کی وصیّت کرنا بھول گئے تھے۔

لڑکے نے اپنے تھیلے سے وہی دو پتھر نکالے اور اُنہیں بھی اِس صندوق میں ڈال دیا۔ اِن پتھروں کا استعمال صرف ایک بار کیا تھا جب وہ بازار میں تھا ورنہ اُن کو استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی تھی۔ زندگی کے ہر اہم مرحلہ پر اُسے ہر طرف علامتیں بکھری نظر آئی تھیں اور وہ اُنہیں پہچاننے لگا تھا۔ یہ دونوں پتھر اُس بزرگ بادشاہ کی یادگار کے طور پر اب اُس کا قیمتی سرمایہ تھے۔بادشاہ سے ملنے کی اب کوئی امید نہ تھی۔

زندگی میں امکانات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ بہت سخی واقع ہوئی ہے اور وہ با ہمّت اور حوصلہ مند لوگ جو اپنے مقدّر کی جستجو میں لگ جاتے ہیں اُن کے لئے اُس کی سخاوت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ وہ سوچنے لگا۔ اُسے یاد آیا کہ اب طارفہ بھی تو جانا ہے جہاں وعدے کے مطابق اُس بنجارن کو اِس خزانہ کا دسواں حصہ دینا ہے۔ یہ بنجارے بھی بڑے چالاک ہوتے ہیں۔ وہ سوچنے لگا۔ شاید اِس لئے کہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر اُن کے تجربوں میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

ہوا ذرا تیز چلنے لگی۔ یہ وہی بادِ روم تھی جو افریقہ سے گزر کر آئی تھی لیکن آج اِس میں نہ تو افریقی ریگستان کی بو تھی اور نہ ہی مورمسلمانوں کے حملہ کا خوف۔ آج یہ عطر بیز تھی اور مشامِ جاں کو معطّر کر رہی تھی۔اور اِس خوشبو کو تو وہ ہزاروں کے درمیان پہچان سکتا تھا۔ یہ کسی کے لمس کی خوشبو تھی۔ اُسے لگا کہ خوشبو کا ایک مہتاب نما دور سے آ کر آہستہ آہستہ اُس کے ہونٹوں پر ٹھہر گیا۔

وہ مسکرا یا۔وہ پہلی بار ایسا کر رہی تھی۔

’’فاطمہ۔۔۔۔۔!  میں آ رہا ہوں ‘‘ وہ بولا۔

٭٭٭

تشکر: ڈاکٹر سلیمخان جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید